FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

ہندوستان میں اردو سیاست کی تفہیم نو

 

جلد دوم

 

اطہر فاروقی

 

 

 

 

 

انجمن ترقی اردو(ہند)، نئی دہلی

سلسلۂ مطبوعات انجمن ترقی اردو (ہند) ۱۵۹۶

©  اطہر فاروقی

 

HINDUSTAN MEIN URDU SIASAT  KI TAFHEEM-E-NAU

By : Athar Farooqui

2010

I S B N :   81-7160-154-5

Anjuman Taraqqi Urdu (Hind)

Urdu Ghar : 212, Rouse Avenue, New Delhi-110002

Contact : 23237210, 23236299, Fax : 23239547

E-mail : urduadabndli@bol.net.in, anjuman.urdughar@gmail.com

 

 

 

 

حصّہ سوم۔ III

 

اردو اور سماجی موقف

 

 

 

 

 

ہندوستان میں اردو زبان، اردو کی تعلیم اور ہندوستانی مسلمان

ایک تثلیث بے کلیسا

 

سید شہاب الدین

 

’اردو دنیا ’ کے دسمبر 2000 کے شمارے میں پروفیسر چودھری محمد نعیم کا مضمون  ’ہندوستان میں اردو: چند معروضات ’ (ترجمہ پروفیسر اے۔ آر۔ فتیحی) ہندوستان میں اردو کی حیثیت اور اس کے مستقبل کے ا مکانات کے بارے میں کئی ایسے دلچسپ سوالات اٹھاتا ہے جو مزید بحث و تمحیص کا مطالبہ کرتے ہیں۔

 

اردو تعلیم کا ابہام

میں اپنی بات کا آغاز اس معروضے سے کرنا چاہتا ہوں کہ  ’اردو تعلیم ’ کے لفظ میں غیر معمولی شاعرانہ ابہام ہے اور اپنے مضمون میں نعیم صاحب بھی اس ابہام کے حصاروں کو توڑنے میں ناکام رہے ہیں۔ اول تو ہندوستان میں اردو کی تعلیم اور اردو کے ذریعے تعلیم کو جو دو بالکل مختلف موضوعات ہیں ، انھیں اردو کی عمومی صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے اردو تعلیم کی اصطلاح میں مدغم کر دیا جاتا ہے۔ دوم، اردو زبان کو درپیش مسائل میں اردو کے تعلیمی مسائل کی حدبندی معاملات کے صحیح تجزیے کے لیے بہت ضروری ہے۔ ان حدود کا لحاظ کیے بغیر جو نتائج برآمد کیے جائیں گے وہ گمراہ کن ہی ہو سکتے ہیں۔ جہاں تک اردو تعلیم کے موضوع کا سوال ہے تو اس میں  ’ایک لازمی اختیاری مضمون کے طور پر اردو زبان کا مطالعہ ’ یا  ’غیر لازمی مگر اختیاری مضمون ’ اور  ’اردو ذریعۂ تعلیم ’ تین ایسے ذیلی مگر مستقل بالذات موضوعات ہیں جو علاحدہ علاحدہ تجزیے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ زبان کے طور پر اردو کو شامل نصاب کرنے کا معاملہ اسکول کالج اور یونیورسٹی تمام سطحوں پر تجزیے کا متقاضی ہے جب کہ کم از کم پرائمری سطح پر اردو ذریعۂ تعلیم کی صورت حال کا تجزیہ ہماری خصوصی توجہ چاہتا ہے اس لیے کہ پرائمری تعلیم کے بعد تعلیمی نظام میں زبانوں کے انتخاب کا معاملہ اور ذریعۂ تعلیم کا معاملہ بڑی حد تک طالب علموں کی اس لسانی استعداد پر انحصار کرتا ہے جس کی بنیاد پرائمری تعلیم ہی کے زمانے میں استوار ہوتی ہے۔

 

اردو اور مسلمانان ہند کا رشتہ

کسی بھی سطح پر ہندوستان میں اردو کی صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے ہر مصنف کا ذہن اردو اور مسلمانوں کے رشتے کی طرف ضرور متوجہ ہوتا ہے خواہ وہ اسے اپنے تجزیے میں نوک قلم پر پوری طرح نہ لائے۔ اس رویے سے موضوع ابہام کا شکار ہو جاتا ہے۔ اردو اور مسلمانوں کے تعلق سے ادھورے مباحث بھی اردو کے عمومی مسائل کو مزید الجھاتے رہے ہیں۔ پروفیسر نعیم کا مذکورہ مضمون بھی اس کلّیے سے مستثنیٰ نہیں اور معاصر ہندوستان میں مسلمانوں سے اردو کے رشتے کا انھوں نے جس طرح تجزیہ کیا ہے اس سے اردو زبان اور تعلیم دونوں کا معاصر منظرنامہ اور دھندلا گیا ہے۔

یہ تسلیم کہ مذہب اور زبانیں ایک سکّے کے دو رُخ نہیں مگر ہندوستان میں اس حقیقت کو کیا کہیے کہ اردو کو اپنی مادری زبان درج کرانے والے لوگوں میں 99.9 فیصد مسلمان ہیں اور اب اردو اور کم از کم شمالی ہندوستان کے مسلمانوں کی مذہبی شناخت کے دائرے ایک دوسرے میں اس طرح مدغم ہوئے ہیں کہ انھیں علاحدہ کرنا ممکن نہیں۔ اس اتفاق کو بھی کیا کہیے کہ 1991 کی مردم شماری میں اردو کو اپنی مادری زبان درج کرانے والی آبادی تو ہندی مسلمانوں کا 61.2 فیصد ہے لیکن اردو کو اپنی مادری زبان درج کرانے والا شاید ہی کوئی غیر مسلم ہو۔ اردو اس طرح اب صرف مسلمانوں کی زبان بن کر رہ گئی ہے گو یہ تمام ہندوستانی مسلمانوں کی مادری زبان نہیں ہے بلکہ ان کا صرف 55 فیصد اس زمرے میں شامل ہے۔

 

مسلمانوں کے تعلیمی ادارے

اردو کے سیاق و سباق میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایک لازمی یا اختیاری زبان کے طور پر ’ اردو کی تعلیم ’ اور ’ اردو کے ذریعے تعلیم ’ یہ دو ایسے موضوعات ہیں جنھیں ان تعلیمی اداروں کے نظام سے بالکل الگ کر کے دیکھنا چاہیے جو آئین کی دفعہ 30 کے تحت مذہبی اقلیتیں قائم کر سکتی ہیں۔ مسلمانوں نے بھی ایسے ادارے قائم کیے ہیں جن کا احتساب کم از کم اتر پردیش کی سطح پر جناب احمد رشید شیروانی اور بیگم نصرت شیروانی مسلسل کرتے رہتے ہیں۔ یہ تخصیص اس لیے بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں کے ایسے تمام تعلیمی ادارے ضروری نہیں کہ اردو کی تعلیم یا اردو کے ذریعے تعلیم کا نظم کرتے ہی ہوں۔ ان علاقوں تک میں جہاں اردو لسانی اقلیت کی قابل لحاظ آبادی ہے ، مسلمانوں کے مندرجہ بالا نہج کے ادارے بالعموم اردو میڈیم سے تعلیم کا نظم نہیں کر پاتے۔ مثلاً اتر پردیش میں مسلمانوں کے کسی بھی ادارے میں اردو میڈیم سے ہائی اسکول اور انٹرمیڈیٹ کا امتحان دینے کا نظم اس لیے نہیں ہے کیوں کہ وہاں کا واحد  ’بورڈ آف ہائی اسکول اور انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن اتر پردیش، الٰہ آباد ’ اردو میڈیم سے امتحان دینے کی اجازت ہی نہیں دیتا ہے جب کہ وہاں ہائی اسکول اور انٹرمیڈیٹ  کے امتحانات ہندی اور انگریزی میڈیم سے دیے جا سکتے ہیں۔ ان اداروں میں لازمی مضمون تو درکنار ایک اختیاری مضمون کے طور پر بھی اردو تعلیم کا نظم اس علاقے کے عمومی تعلیمی حالات، سرکاری سطح پر منظور شدہ نصاب میں اردو کی گنجائش اور والدین کی ترجیح پر منحصر ہے اور آخرالذکر کے بارے میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ وہ بڑھ نہیں رہی گھٹ رہی ہے۔ اسی لیے اردو کے سیاق و سباق میں یہ کسی طرح مناسب نہیں کہ ایک ہی علاقے کے مسلم تعلیمی اداروں کا تقابل کیا جائے یا اس علاقے کے ایسے اداروں کا تقابلی جائزہ لیا جائے جن کا نظم حکومت غیر مسلموں کے ہاتھوں میں ہے اور اردو لسانی اقلیت کے بچے وہاں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ تجزیے کا یہ طریق کار اپنے آپ میں گمراہ کن ہے۔ اردو لسانی اقلیت کے لیے سماجی اور معاشی سطح پر جو پیچیدگیاں ہیں ان کا تجزیہ واقعی آسان نہیں۔

مجھے تعجب ہے کہ اپنے مضمون کی اولین اشاعت کے وقت پروفیسر نعیم نے جناب فیروز بخت احمد اور ان کے ادارے فرینڈس فار ایجوکیشن کے اعداد و شمار کیوں کر نقل کیے کیوں کہ ان کا استناد مشکوک اور اردو تعلیم کے تناظر میں ان کے تجزیے کا طریق کار درست نہیں۔ البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ اگر ایک ہی تعلیمی سال کے سیکنڈری یا سینئر سیکنڈری سطح کے بورڈ کے نتائج کے اعداد و شمار دستیاب ہوں تو ان میں اردو لسانی اقلیت کے ان بچوں کا تناسب معلوم کیا جائے جنھوں نے اردو میڈیم سے امتحان دیا ہو۔ ایسا کرتے وقت ہمیں اس امر سے قطع نظر کر لینا چاہیے کہ ان میں پاس / فیل ہونے والوں کا تناسب کیا ہے ؟ اور ان میں سے کتنوں کا تعلق ان گھرانوں سے ہے جو پہلی بار تعلیم کے دائرے میں شریک ہو رہے ہیں ؟ مگر یہ کام جس معیار کے تجزیے کا طالب ہے فیروز بخت احمد صاحب اس کے متحمل نہیں ہو سکے :

[میرا ذہن اس معاملے میں بالکل صاف ہے کہ اب بالعموم ثانوی سطح پر اردو کو ذریعۂ تعلیم بنانا مشکل ہے لیکن کم از کم یہ تو کوشش کی جائے کہ اردو داں بچے ثانوی سطح پر اردو بحیثیت زبان اول پڑھیں اور ثانوی تعلیم ختم کرنے تک اتنی استعداد یا دلچسپی پیدا کر لیں کہ اردو اس نئی کھیپ کے سہارے جی سکے۔ میں اردو میڈیم ہائی اسکولوں کے یکسر خلاف نہیں ہوں۔ کم از کم ہر اردو اکثریتی ضلعے میں ایک سرکاری اردو میڈیم اسکول ہونا چاہیے تاکہ وہ یونیورسٹی سطح کے ادبی اردو کورسوں کے لیے طلبہ مہیا کر سکے اور اعلا مدارس کے طلبہ کا آدان پردان کر سکے۔ ]

 

اردو آبادی کے اعداد و شمار

عمومی تجزیے کی حد تک مجھے اس پر بھی تعجب ہے کہ پروفیسر نعیم نے بھی سہل پسندی سے کام لیتے ہوئے 1981 کی مردم شماری کے اعداد و شمار نقل کیے جب کہ 2000 میں ، جب انھوں نے اپنے مضمون کے اردو قالب کی اشاعت کے لیے اس پر نظرثانی کی تو 2001 کی مردم شماری کا کام شروع ہو چکا تھا اور 1991 کی مردم شماری کے اعداد و شمار کو منظر عام پر آئے ہوئے تو عرصہ ہو گیا۔ یوں مجھے یہ کہنے میں تکلف نہیں کہ 1991 کی مردم شماری کی بنیاد پر اردو لسانی اقلیت کی تعداد کے تناسب سے کیا گیا ہر تجزیہ آج ساقط المیعاد ہونے کی وجہ سے ناقص کے ذیل میں آئے گا۔

ایک سطح پر میں پروفیسر نعیم کے ان عمومی اصولوں سے اتفاق کرتا ہوں جو انھوں نے ہندوستان میں اردو کی موجودہ حیثیت کا تعین کرنے کے لیے منطبق کرنے کا عندیہ دیا ہے مگر ان میں کئی جگہ تضاد بھی ہے۔ پروفیسر نعیم کتب کی اشاعت کو زبان کی حیثیت سے اردو کی ترقی اور زوال کا ثبوت ماننے کے لیے تیار نہیں مگر از خود اپنے مضمون کے بڑے حصے میں انھوں نے اسی زاویے سے فیصلے صادر کیے ہیں اور حکم لگایا ہے۔ میں خود کتب کی اشاعت کو اردو کی صورت حال کے جائزے میں فیصلہ کن عنصر نہیں مانتا کیوں کہ ہندوستان میں اردو کا مستقبل دراصل ان لوگوں پر منحصر ہے جو مہارت کے ساتھ اس زبان کو بول لکھ اور پڑھ سکتے ہیں خواہ وہ کتابیں اور رسالے خرید نہ سکیں۔ مردم شماری کے اعداد و شمار ہمیں صرف ان لوگوں کی تعداد بتاتے ہیں جو اردو کو اپنی مادری زبان کے طور پر درج کراتے ہیں۔ ان میں یقیناً ناخواندہ لوگوں کی اکثریت ہے یا پھر ان کی جو کسی سطح پر اسکول تو گئے مگر اسکول میں اردو تعلیم کی سہولت دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے اس زبان کو لکھنے اور پڑھنے میں مہارت حاصل نہ کر سکے۔ یہی منطق اس سوال کا جواز فراہم کرتی ہے کہ آبادی کے فطری اضافے کے ساتھ اردو کو اپنی مادری زبان لکھانے والوں کی تعداد میں تو اضافہ ہو رہا ہے مگر اردو کے نصابی مواد کی اشاعت روز بروز گھٹ رہی ہے۔

 

اردو کا علمی عروج

اصولاً تو چودھری محمد نعیم کی یہ بات ٹھیک ہے کہ جب تک پاکستان میں اردو زندہ ہے ہمیں اردو کے عمومی مستقبل کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں مگر ہندوستان میں اردو کی بقا کا معاملہ مختلف ہے اور پاکستان میں اس کے زندہ رہنے اور ترقی کرنے سے ہندوستان میں اس کی بقا و ترقی کے امکانات کا کچھ تعلق نہیں۔ ہندوستان میں اردو کے مستقبل کا تعلق ہندوستان کے مخصوص معاشرتی تناظر سے ہے اور پاکستان، خلیجی ممالک، امریکہ یا برطانیہ کہیں بھی اردو کی ترقی ہندوستان میں اردو کے حالات کو بدل نہیں سکتی اس لیے بین الاقوامی سطح پر اگر اردو ترقی بھی کرے تب بھی ہندوستان میں اردو والوں کی نئی نسلوں کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ آزادی کے بعد اردو تعلیم کا نظام فنا ہونے کے بعد نئی نسلیں اردو اور اس کے عظیم ادبی اور علمی سرمایے دونوں ہی سے محروم ہوتی جا رہی ہیں۔

ہندوستان میں اردو زبان اور اردو تعلیم کے مستقبل کے امکانات کا جائزہ لینے میں ان کتابوں کی اشاعت کی بھی چنداں اہمیت نہیں جنھیں لائبریری آف کانگریس واشنگٹن ڈی سی خریدتی ہے اور جن پر پروفیسر نعیم نے اپنی ایک اہم دلیل کی بنیاد رکھی ہے۔ ان کتابوں کی تعداد اشاعت میں اضافہ ہندوستان میں اردو زبان و تعلیم کے مسائل کو حل کرنے میں ذرّہ بھر بھی معاون نہیں ہو سکتا۔ ویسے اکثر اردو کتابوں کی اشاعت اردو زبان کے منظر نامے کو متاثر نہیں کرتی۔ پھر ان کتابوں کی اشاعت کے پس پشت جو سرکار کی علامتی سرپرستی کی پالیسی کارفرما ہے وہی تو بڑی حد تک اردو کے زوال کی ذمے دار ہے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ جتنے  ’ٹائیٹلز ’ حکومت کے مطابق ہر سال بازار میں آتے ہیں وہ واقعی اتنی تعداد میں شائع بھی ہوتے ہوں جتنی تعداد ان کتب پر درج ہوتی ہے۔ اکثر صورتوں میں سرکاری تعاون سے شائع ہونے والی کتابوں کی سو پچاس کاپیاں ہی شائع ہوتی ہیں یوں ان کتابوں کو Ghost publications کہا جا سکتا ہے۔ ویسے اس امر پر میں اور نعیم صاحب دونوں ہی متفق ہیں کہ معیار سے موضوعات کے تنوع تک اردو میں معیاری کتب کا فقدان ہے اور ہندوستان اور پاکستان میں شائع ہونے والی کتب کے موازنے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستان میں غالب رجحان شاعری، افسانے اور ادب تک محدود ہے اور ہیومنیٹیز، سوشل سائنس اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں شاذ ہی کتب شائع ہوتی ہیں۔

 

اشاعت کتب

اردو کتب کی اشاعت کے مجموعی تعلق سے پروفیسر نعیم نے جو سوالات اٹھائے ہیں ان کا قطعی جواب بھی کسی کے پاس نہیں مگر اس سے شاید ہی کسی کو انکار ہو کہ اردو کی تعلیم کے مناسب نظم کا فقدان اردو کے ہر مسئلے کی جڑ ہے اور تعلیم کی سہولیات موجود نہ ہونے کی وجہ سے اردو والوں کی نئی نسل کے لوگ اب اسے ایک ایسی زبان کے طور پر اختیار کرنے پر مجبور ہیں جسے وہ صرف بول سکتے ہیں ، پڑھ اور لکھ نہیں سکتے۔ تحریری زبان کے فقدان کا مسئلہ اتنا شدید ہے کہ جماعت اسلامی کو اپنی کتابیں شمالی ہند کے مسلمانوں کی نئی نسل کے لیے ہندی میں شائع کرنی پڑتی ہیں کیوں کہ اب ہندی ہی واحد زبان ہے جس کے ذریعے مذہبی جماعتیں اپنی بات پُر اثر طریقے سے نئی نسل تک پہنچا سکتی ہیں۔ خود نعیم صاحب کو بھی مذہبی جماعتوں کے وسائل ترسیل سے دلچسپی ہے اور اپنے تجسس کا اظہار انھوں نے واضح لفظوں میں کیا بھی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مذہبی جماعتوں کے ذرائع ترسیل کے طور پر اردو کا کردار ہمارے ماہرین کی فکر کا ایک جز ضرور ہے۔

 

رسم خط کا سوال

اردو والوں پر مختلف طریقوں سے ہمیشہ ہی شدید دبا اس بات کے لیے ڈالا جاتا ہے کہ وہ اس کا رسم خط تبدیل کر کے اسے دیوناگری میں لکھنا شروع کر دیں۔ میں نعیم صاحب کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے تبدیلی رسم خط کی تحریک کی حمایت نہیں کی۔ ہندی اور اردو کا معاملہ یہ ہے کہ دوسری بہت سی زبانوں کی طرح ان کے ابتدائی سر چشموں میں یکسانیت کے باوجود اب اردو-ہندی دو بالکل مختلف زبانیں ہیں ، بھلے ہی دونو ں میں اکثر یکساں سماجی ماحول کی عکاسی ہوتی ہے۔ اردو کا معاملہ اب ہندی کے ساتھ بولی جانے والی زبان کے مشترکہ عناصر تک محدود نہیں ، نہ ہی اردو کا مستقبل ممبئی کی فلموں کی زبان تک محدود ہے۔ اردو کا معاملہ ایک ایسی قومی زبان کی حیثیت کا معاملہ ہے جو ہندی سے مختلف ہے۔ ایسے دلائل بالعموم وہ لوگ دیتے ہیں جو کسی نہ کسی طرح اردو کو ہندی میں مدغم کرنے کے خواہش مند ہیں اور چاہتے ہیں کہ اردو والے اردو کی حیثیت ہندی کی شیلی کے طور پر قبول کر لیں۔ ارد وکے ساتھ ہندی والوں کے اس رویّے کا ایک سبب ہندی کو اقتدار کے حصول کے لیے استعمال کرنا ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ سو برسوں سے ہندی کو اقتدار کے وسیلے کے طور پر استعمال کیا بھی جاتا رہا ہے ، اس میں کسی کو شک نہیں۔ رسم خط تبدیل کرنے کی یہ دلیل ہندی والے کسی دوسری ہندوستانی زبان کے لوگوں کو دینے کی جرأت نہیں کر سکتے۔ دراوڑ لسانی خاندان کی زبانوں مثلاً تمل، تیلگو، ملیالم اور کنڑ کی تو بات ہی چھوڑیے ، اپنا رسم خط چھوڑ کر دیوناگری رسم خط اختیار کرنے کی تجویز تو بنگلہ، پنجابی، مراٹھی، گجراتی اور اسمی کو بھی دینے کا حوصلہ ہندی والوں میں نہیں۔ اپنے رسم خط کو ترک کرنے کا دباؤ صرف اور صرف اردو پر بڑھایا جا سکتا ہے جو اردو کی لسانی شناخت کو فنا کر کے ہندی میں مدغم کرنے کے لیے ضروری ہے۔ اگر اردو والے اردو کو اس کی اصل حیثیت اور شناخت کے ساتھ زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو انھیں اس طرح کے ہر دباؤ کے سامنے مسلسل سینہ سپر رہنا ہو گا۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اردو کے متعدد اہل قلم بھی اپنے مفادات کے حصول کے لیے اکثر اردو کو دیوناگری لپی میں لکھے جانے کی تحریک میں شامل رہے ہیں مگر ابھی ایسے لوگو ں کی تعداد کم ہی ہے۔

[یہ بے انتہا افسوس کی بات ہے کہ اردو اشرافیہ اپنے بعض سیاسی مفادات کے حصول کی غرض سے کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر اردو درس و تدریس اور تحقیق کے انتظامات کے لیے کوشاں رہا مگر اس نے کبھی پرائمری تا سکنڈری سطح پر کسی بھی حیثیت سے اردو کی تعلیم کے نظم کے لیے حکومت پر دباؤ نہیں ڈالا۔ حکومت کے لیے یہ صورت حال نعمت غیر مترقبہ تھی جسے اردو کی جڑوں کو سُکھا کر مصنوعی پھول پتّیوں کی اردو بیل سے سیکولرزم کی عمارت سجانے میں کبھی کوئی تکلف نہیں رہا۔ اردو بولنے والے اردو کے لیے حکومت کے نمائشی کاموں سے گمراہ ہوتے رہے اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے پرائمری اور سیکنڈری سطح پر اردو تعلیم کی راہ ہموار کرنے کے لیے ضروری دباؤ ڈالنا تو درکنار اس کی بات بھی کبھی نہیں اٹھائی۔ حکومت بہ خوشی یونیورسٹی سطح کی تعلیم کے لیے آسانیاں دیتی رہی اور ابھی بھی مزید مراعات دے سکتی ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہمارے یہاں یونیورسٹی سطح کی تعلیم پاکستان سے بہتر ہو جائے یا تمام دنیا سے بہتر ہو جائے مگر ایسی تمام مثالیں سیاسی بازی گری کے سوا کسی اور زمرے میں نہیں آسکتیں۔ یونیورسٹی سطح پر اردو کی تعلیم کی سہولتوں کی بات کرنا یا سرکاری اردو اداروں کی کارکردگی اور ان کے تئیں حکومت کی فراخ دلی کا ڈھنڈورا پیٹنے کا مقصد اردو والوں کی توجہ اردو کی تعلیم کے دو نکاتی مگر بنیادی ایجنڈے سے ہٹانے کے سوا کچھ اور نہیں۔ اور اردو تحریک نیز اردو والوں نے اسے دوچار ہزار ملازمتوں کے سوال تک محدود کر کے چھوڑ دیا۔ ]

 

حکومت کی تعلیمی ذمے داری

اب یہ کہنے سے بھی کام نہیں چلے گا کہ اپنے بچوں کو اردو کی تعلیم دلانے کے لیے اردو والے خود انتظام کریں اور رضاکارانہ طور پر ایسے اداروں کا قیام عمل میں لائیں جو اُن کے بچوں کو اردو کی تعلیم دے سکیں۔ ہمارے جیسے ترقی پذیر مگر غریب ملک اور پس ماندہ معاشرے میں عوام کو تعلیم کی سہولیات فراہم کرنے کا کام حکومت کا ہے اور سپریم کورٹ کے ایک معرکۃ الآرا فیصلے کے بعد تو اب ہماری حکومت اس بات کے لیے پابند ہے کہ وہ ہر بچے کے لیے 14 برس کی عمر تک لازمی تعلیم کا نظم آئین کے Directive Principle of State Policy کے تحت مگر بطور بنیادی حق کرے۔ پھر کوئی وجہ نہیں کہ اردو والے اپنے بچوں کو ریاستی نظام کے تحت ان کی مادری زبان میں ابتدائی تعلیم دلانے اور اس کے علاوہ مادری زبان بحیثیت ایک لازمی مضمون کے پڑھنے کے حق سے محروم رہیں۔ یہ مسئلہ ہر ریاست کی اقلیتی زبانوں کو درپیش ہے مگر سندھی اور اردو کے سوا تمام قومی زبانیں اپنے مخصوص علاقوں میں ، جہاں ان زبانوں کے بولنے والوں کی اکثریت ہے ، نہ صرف یہ کہ مقتدر زبانیں سمجھی جاتی ہیں بلکہ حکومتی اور انتظامی معاملات میں بھی فیصلہ کن حد تک دخیل ہوتی ہیں۔ بے چاری اردو اور سندھی ایسی زبانیں ہیں جن کا کوئی گھر دُوار نہیں ہے۔ وہ اپنے وطن میں بھی بے وطن ہیں۔ ثانوی سطح پر دوسری یا تیسری زبان کے طور پر اردو کی تعلیم کسی طالب علم میں یہ صلاحیت پیدا نہیں کر سکتی کہ وہ یونیورسٹی کی سطح پر اردو ادب کا مطالعہ کر سکے۔ نہ اردو مادری زبان والے بچوں کے ذہن کی تخلیقی صلاحیت کو جلا دے سکتی ہے۔ یونیورسٹی کی سطح پر اردو تعلیم کی کم معیاری اور کم صلاحیت، یونیورسٹی کے اردو اساتذہ، جن کے لیے اب  ’جہلا کی چوتھی نسل ’ کی اصطلاح عام ہو چکی ہے ، حکومت کی اسی پالیسی کا نتیجہ ہیں۔ بہرحال یونیورسٹی سطح پر اردو کی تعلیم اردو کو زندہ رکھنے میں اپنی حدود کے اندر ہی معاون ہو سکتی ہے۔ موجودہ صورت میں یونیورسٹی کی تعلیم اردو تعلیم کے فروغ میں بُری طرح حارج ہو گئی ہے۔ اگر بنیاد مضبوط ہو تو اس پر عمارت آج نہیں تو کل بن ہی جائے گی اور اردو کی بنیاد ابتدائی تا ثانوی سطح تک کا نظام تعلیم ہے۔

موجودہ حالات میں اردو کے فروغ کے لیے اس وقت سوال اعلا معیاری ادب کا ہے ہی نہیں اور نہ ہی تحقیق و تنقید اور مستند ادبی تاریخ کا ہے۔ یہ بھی ہوں تو اچھا ہے مگر اردو میں بی۔ اے آنرز اور ایم۔ اے پاس لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہمارے کسی کام نہ آئے گا اور نہ اردو میں پی ایچ ڈی کرنے والے اردو کے تباہ شدہ نظام تعلیم کو بحال کر سکیں گے۔

اردو کے تمام تعلیمی مسائل کا حل یہی ہے کہ پرائمری سطح پر اردو ذریعۂ تعلیم ہو اور اس کے بعد اردو ہائی اسکول میں مادری زبان یعنی پہلی اور لازمی زبان کی حیثیت سے پڑھائی جائے مگر یہی وہ حل ہے جس کے بارے میں ارباب اقتدار سوچنا ہی نہیں چاہتے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جن لوگوں کی مادری زبان اردو ہے اور جنھیں خود تمام تعلیمی اصولوں اور حکومت کے وضع کردہ ضابطوں کے مطابق اس زبان کو پہلی زبان کے طور پر پڑھنے کا حق ملنا چاہیے ، انھیں یہ حق دوسری زبان کے طور پر بھی خصوصاً اتر پردیش اور عموماً شمالی ہند کے ان دیگر علاقوں میں نہیں مل سکا ہے جہاں اردو مادری زبان والوں کی اکثریت رہتی ہے۔ یہ ایسا زہر ہے جس کا تریاق کسی حکیم کے پاس نہیں۔ ]اور اب تو صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ سنسکرت دوسری زبان کی جگہ لے لیتی ہے اور اردو سہ لسانی فارمولے سے یکسر خارج ہو جاتی ہے۔ ]

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اس وقت اردو کے تعلیمی نظام پر جو لوگ لکھ رہے ہیں ان میں سے اکثر کا ذہن اس موضوع پر صاف نہیں ہے۔ اردو والوں کو ابتدائی سطح پر ذریعۂ تعلیم اور ثانوی سطح پر فقط تعلیم کا حق مانگنا چاہیے اور یہ حق جمہوری طریقوں سے لڑ کر لینا چاہیے۔ شمال کی ریاستوں میں عرصے سے ریاست کی اکثریتی زبان کے سوا تمام دوسری اقلیتی زبانوں کو Marginalize کرنے کی ایک مہم چل رہی ہے۔ مثلاً دہلی میں ہندی، سنسکرت، انگریزی اگر ابتدائی سطح پر رائج کی گئیں تو اردو یا پنجابی کے لیے یا یہاں کے تامل اور بنگلہ بولنے والوں کے لیے کوئی جگہ ہی نہیں رہ جائے گی۔

جنوبی ہندوستان میں غیر ہندی اقلیتوں کا معاملہ اور بھی نازک ہے۔ وہاں مقامی زبان، ہندی اور انگریزی کے بعد کوئی جگہ نہیں بچتی۔ اس لیے ہمیں ان ریاستوں میں ہندی کی جگہ ہندی-اردو مشترکہ کورس کے لیے جدوجہد کرنی ہو گی جو اسکول کی سطح تک بہت مشکل نہیں ہے۔

آج جب ہماری نئی پود اردو سے ناآشنا ہوتی جا رہی ہے تو پھر اردو کتابیں اخبارات کون پڑھے گا؟ مقتدر زبان، زندگی کے ہر پہلو پر، روزگار پر، تجارت پر، حکومت پر غالب آ جاتی ہے اور پھر ہر شخص جس کا تعلق لسانی اقلیت سے ہوتا ہے وہ اپنی خیر اسی میں سمجھتا ہے کہ اس کی زبان Ethnic Language یا گھر کی زبان یا مجلسی زبان بن کر رہ جائے لیکن وہ یہ نہیں سمجھتا کہ بعد میں آنے والی نسلوں کا Culture Assimilation یہ ہو جائے گا کہ ان کو اپنی زبان سے اتنی بھی دلچسپی نہیں رہے گی۔

مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اردو کے ہمدردوں نے کبھی اس بنیادی مسئلے پر غور نہیں کیا اور صرف حکومت کے مختلف محکموں سے سہولتیں مانگتے رہے یا فرضی اخبارات کے لیے اشتہارات۔ ابتدائی تعلیم کے ذریعے اور سہ لسانی فارمولے میں مادری زبان کی جگہ پر کبھی زور دیا ہی نہیں گیا۔

ایک نئے دور کا آغاز ہے ، ہر بچے کو پڑھنے کا موقع ملے گا۔ ضرورت ہے کہ اردو بولنے والے بچوں کی ابتدائی تعلیم اردو کے ذریعے ہو اور کم از کم دسویں تک، اور ممکن ہو تو بارہویں تک ان کو اردو بحیثیت لازمی زبان کے پڑھنے کا بلا شرط موقع ملے۔ ضرورت اور اوّلین ضرورت اگر کسی بات کی ہے تو وہ یہی ہے کہ اردو مادری زبان والے طلبہ کو بغیر کسی عددی شرط کے آئین کی ہدایت کے مطابق اردو میں پرائمری تعلیم اور ثانوی سطح پر سہ لسانی فارمولے میں پہلی اور لازمی زبان کے طور پر اردو پڑھنے کا موقع ملے۔ مگر ان زبانوں کو جو ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں لسانی اقلیت کی حیثیت رکھتی ہیں اور جن میں اردو اپنی آبادی کے اعتبار سے سب سے زیادہ ہے ، ابھی ان کا حق ملنا باقی ہے اور جب تک ہر ریاست میں لسانی اقلیت کو تعلیمی نظام، انتظامی امور، سرکاری عوامی ذرائع ترسیل میں یکساں بنیادوں پر تسلیم نہیں کیا جائے گا تب تک ہمارا جمہوری نظام صحیح معنوں میں جمہوری کہلانے کا حق دار نہ بن سکے گا۔

٭٭٭

 

 

ہندوستان میں اردو تعلیم   —   ایک جائزہ

 

اطہر فاروقی

 

یہ مضمون غالباً اردو تعلیم پر اپنی نوعیت کا پہلا مضمون ہے جس کے لیے اعداد و شمار جمع کرنے کی غرض سے راقم الحروف نے بہار، مغربی بنگال، آندھراپردیش، اتر پردیش اور مہاراشٹر میں فیلڈ ورک اور سروے کیا۔ اردو زبان یا تعلیم سے متعلق کوئی مستند معلومات اب تک دستیاب نہیں ہے۔

اس مضمون کے لیے جب راقم الحروف نے فیلڈ ورک شروع کیا اس سے قبل ہی وہ اتر پردیش میں اردو تعلیم کے اعداد و شمار جمع کر چکا تھا۔ اس مضمون میں دیے گئے ڈراپ آؤٹ کے لیے پانچ صوبوں کے پانچ پانچ اسکولوں کا سیمپل سروے کیا گیا ہے اور دیگر اعداد و شمار بھی اسی سیمپل سروے کی بنیاد پر دیے گئے ہیں۔ البتہ نتائج تک رسائی کے لیے راقم الحروف نے ہر صوبے کے بہت سے اسکولوں ، استادوں ، طلبہ اور ان کے والدین سے لیے گئے ذاتی انٹرویوز کو بھی بنیاد بنایا ہے۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی تکلف نہیں کہ میرے وسائل چوں کہ بہت محدود تھے اس لیے اردو تعلیم کے متعلق تمام امور کا احاطہ نہیں کر پایا۔ ساتھ ہی مجھے یہ کہنے میں بھی کوئی تکلف نہیں کہ اردو تعلیم کے نام پر اب تک جو مضامین اردو یا انگریزی میں تحریر کیے گئے ہیں ان کا حقیقتاً اردو تعلیم سے کچھ زیادہ تعلق نہیں ہے۔ اردو تعلیم کے مسئلے پر انگریزی میں لکھے گئے مضامین میں تو تھیوری کی اصطلاحات کے ذریعے مضمون نگار حضرات نے عجیب و غریب کرتب بازی کی ہے۔ اس طرح کے مضامین کا ایک منفی نتیجہ یہ نکلا کہ اس سمت میں مطالعے کی راہیں مسدود ہو کر رہ گئیں اور اس راہ میں قدم رکھنے والے اسکالر گمراہی کا شکار ہوئے۔

ہندوستان میں اس وقت اردو تعلیم کی عمومی صورت حال یہ ہے کہ اسکولوں میں اردو اختیاری مضمون کی حیثیت سے یا تو چھٹی جماعت سے پڑھائی جاتی ہے یا پھر پہلی جماعت سے دسویں بارہویں تک۔ اتر پردیش میں کہیں کہیں اردو اختیاری مضمون کی حیثیت سے چھٹے درجے سے آٹھویں درجے تک بھی پڑھائی جاتی ہے۔ ہندوستان میں تیسری قسم ایسے اسکولوں کی ہے جن میں پہلی سے دسویں جماعت تک ذریعۂ تعلیم اردو ہی ہے۔ ان اسکولوں میں علاقائی زبان کہیں تیسری اور کہیں چوتھی جماعت سے ایک اضافی (Additional) زبان کے طور پر پڑھائی جاتی ہے۔ انگریزی کی حیثیت تقریباً سبھی جگہ کم از کم آٹھویں درجے تک ایک لازمی مضمون کی ہے۔ جب کہ شمال کی ریاستوں میں بالعموم بارھویں درجے تک ہندی لازمی زبان کے طور پر پڑھائی جاتی ہے جس میں ایک لازمی جز سنسکرت کا ہوتا ہے ، مزید برآں کم از کم آٹھویں درجے تک سنسکرت کا مطالعہ ایک علاحدہ مضمون کے طور پر بھی لازمی ہے۔

عموماً اردو ذریعۂ تعلیم کے اسکولوں میں بھی سائنس اور حساب جیسے مضامین زیادہ تر انگریزی یا پھر ہندی اور کچھ صوبوں میں علاقائی زبانوں کے ذریعے پڑھائے جاتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر یہ کہا جا سکتا ہے کہ جن صوبوں میں اردو ذریعۂ تعلیم کا نظم موجود ہے وہاں بھی صرف سوشل سائنسز کے مضامین کے درس کا ذریعہ اردو ہے۔ کچھ صوبوں میں پرائیویٹ پبلشروں نے سائنس اور ٹکنالوجی کی اردو کتب شائع کی ہیں۔ مہاراشٹر میں بعض ناشرین کاپی رائٹ ایکٹ کو بالائے طاق رکھ کر پاکستانی کتابیں آف سیٹ پر بہ جنسہٖ شائع کر رہے ہیں۔ ماضی میں سابق ریاست حیدرآباد میں اردو ذریعۂ تعلیم کا تجربہ کام یابی کے ساتھ کیا جاچکا تھا۔ اس سلسلے میں حیدرآباد کے معروف ادارے دار الترجمہ نے تقریباً ہر مضمون کی کتب کی تیاری اور سائنسی اصطلاحات کا ترجمہ کرنے کا تاریخی کارنامہ انجام دیا تھا۔ تقسیم ہند کے بعد حیدرآباد ایک سیاسی تنازعے کا عنوان بن گیا اور اردو ذریعۂ تعلیم بھی اپنی سابقہ رفعتوں کو باقی نہ رکھ سکا۔ مگر اردو ذریعۂ تعلیم کے کچھ ڈگری کالج آندھراپردیش میں آج بھی موجود ہیں ، یہ الگ بات ہے کہ ان میں اردو کی حیثیت صرف ذریعۂ امتحان تک محدود ہے کیوں کہ نصاب کی بیش تر کتابیں انگریزی اور علاقائی زبانوں میں ہیں مگر پھر بھی اردو مادری زبان والے کچھ طلبہ علاقائی زبان کنّڑ کے مقابلے میں اردو کو امتحان کا ذریعہ بناتے ہیں۔

مہاراشٹر کے علاوہ جنوبی ہند کے تقریباً تمام صوبوں میں اردو ذریعۂ تعلیم روبہ زوال نظر آتا ہے۔ ہر صوبے میں اوسط یا کم آمدنی والے طبقات کے لوگ ہی اپنے بچوں کو اردو کے ذریعے تعلیم دلاتے ہیں مگر اعلا سطح پر اردو ذریعۂ تعلیم کی سہولت نہ ہونے کے علاوہ ان کو اور بھی کئی تکنیکی دشواریاں در پیش ہیں جن پر قابو پانا اب تک ممکن نہیں ہو سکا ہے۔ اس لیے اردو ذریعۂ تعلیم اختیار کرنے والے طلبہ کی اکثریت ثانوی سطح سے آگے تعلیم کا تسلسل برقرار نہیں رکھ پاتی۔ سب سے بڑی دشواری یہ ہے کہ اردو ذریعۂ تعلیم کو زیادہ سے زیادہ سیکنڈری سطح تک ہی اختیار کیا جا سکتا ہے نتیجتاً یونی ورسٹی کی سطح پر اردو ذریعۂ تعلیم کے طلبہ علاقائی اور انگریزی ذریعۂ تعلیم کے طلبہ سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اگر وہ سیکنڈری درجات تک علاقائی زبان کو ذریعۂ تعلیم کی حیثیت سے اختیار کرتے ہیں تو اردو ہاتھ سے جاتی ہے اور اگر اردو ذریعۂ تعلیم کو ترجیح دیتے ہیں تو دیگر زبانوں خصوصاً انگریزی طلبہ سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔

جنوب کے صوبوں میں اردو کے مستقبل کو لے کر کئی قسم کے نئے خدشات حال ہی میں پیدا ہو گئے ہیں۔ خصوصاً کرناٹک میں دوردرشن کی خبروں کو لے کر اٹھنے والے تنازعے (1995)نے یہ ثابت کیا کہ علاقائی زبان سے جو ثقافتی رشتے وابستہ ہیں انھیں نظرانداز کرنا خطرناک ہو گا۔ ایک بات طے ہے کہ ہر صوبے میں اردو کے ذریعے سیکولر تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی تعداد تیزی کے ساتھ اور مسلسل کم ہو رہی ہے۔

اردو زبان اور تعلیم دونوں کی سب سے زیادہ عبرت انگیز حالت اردو کے روایتی مرکز اتر پردیش میں ہے۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے دوہائی اسکولوں کے سوا، جہاں اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی ذریعۂ تعلیم کا Option بھی موجود ہے ، اردو ذریعۂ تعلیم کا کوئی ایک بھی پرائمری یا جونیر ہائی اسکول اس صوبے میں موجود (Operational)  نہیں ہے۔ اسی لیے وہاں 1947 کے بعد پیدا ہونے والی نسل نہ صرف اردو سے نابلد ہے بلکہ آج اس کے لیے اردو کوئی جذباتی مسئلہ نہیں ہے۔

گزشتہ ایک دہے میں ملک بھر میں ہر جگہ پرائیویٹ اسکولوں کی جو یلغار ہوئی ہے ، اس نے بھی اتر پردیش میں تعلیم کے میدان میں کئی تکنیکی الجھنیں پیدا کی ہیں۔ اتر پردیش میں ان پرائیویٹ اسکولوں میں سے پچاس سے ساٹھ فی صد اسکول رجسٹرڈ ہی نہیں ہیں مگر متوسط اور نچلا متوسط طبقہ اپنے بچوں کو انھی اسکولوں میں بھیجنے پر مجبور ہے کیوں کہ ان اسکولوں میں داخلہ آسانی سے مل جاتا ہے۔ ایسے تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کی نظر صرف تجارتی پہلو پر ہی مرکوز رہتی ہے اور ان کا سارا نظام اسی محور کے گرد طواف کرتا ہے۔ یہ غیر تسلیم شدہ تعلیمی ادارے پانچویں یا آٹھویں جماعت تک طلبہ کو اپنے یہاں داخل تو کر لیتے ہیں مگر تعلیمی سال کی ابتدا ہی میں پانچویں جماعت کے بچوں کے نام کسی ڈھنگ سے سرکاری پرائمری اسکولوں میں درج کرا دیتے ہیں جہاں سے بچّہ امتحان دے کر سرٹیفکٹ حاصل کرنے کا مجاز اور پھر کسی بھی ہائی اسکول یا انٹر کالج میں چھٹی جماعت میں داخلے کا اہل ہو جاتا ہے۔ کچھ برس پہلے تک اتر پردیش میں صرف جونیئر ہائی اسکول بورڈ کا امتحان ہی اردو کے ذریعے دیا جا سکتا تھا۔ ہائی اسکول یا انٹر میڈیٹ کے سائنس اور کامرس گروپ کے طلبہ اردو کو ایک اختیاری مضمون کی حیثیت سے اختیار کرنا چاہیں تو اس کے لیے انھیں انگریزی کو ترک کرنا پڑتا ہے۔ موجودہ سماجی نظام میں انگریزی چھوڑ کر اردو اختیار کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اردو کو اختیاری مضمون کے طور پر پڑھنے کا انتظام بھی اتر پردیش کے معدودے چند ہائی اسکولوں اور انٹر کالجوں میں موجود ہے۔ ایگریکلچر گروپ کے طلبہ تو انگریزی چھوڑ کر اختیاری مضمون کے طور پر بھی ہائی اسکول یا انٹر میڈیٹ کی سطح پر اردو کا مطالعہ نہیں کر سکتے۔ اتر پردیش میں تعلیمی نظام کو دانستہ طور پر اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ خواہش کے باوجود بھی کوئی طالب علم اردو نہیں پڑھ سکتا۔

جیسا کہ اوپر کہا گیا، اتر پردیش کے بیش تر جونیئر ہائی اسکول رجسٹرڈ بھی نہیں کرائے گئے ہیں۔ ایسے ادارے اپنے طلبہ کو جونیئر ہائی اسکول کے امتحان میں پرائیویٹ طالب علم کے طور پر شامل کراتے ہیں۔ جو لوگ اتر پردیش کی پرائمری یا جونیئر ہائی اسکول سطح کے نظام تعلیم سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ جونیئر ہائی اسکول بورڈ کے ذریعے امتحان دینے والے طالب علموں کا نتیجہ ان کی طرف سے ادا کیے گئے نذرانے کے مطابق ہی حاصل ہوتا ہے یعنی جتنا گڑ اتنا میٹھا۔

اتر پردیش میں مندرجہ بالا قسم کے جونیئر ہائی اسکولوں کی تعداد میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے اداروں کا نتیجہ یعنی شریک امتحان متعلمین کی کام یابی کا تناسب صد فی صد ہوتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ بیش تر طالب علم اوّل درجے میں پاس ہوتے ہیں۔ کچھ برس قبل یوپی میں جونیئر ہائی اسکول بورڈ کا نظام شکست کر دیا گیا مگر جب تک یہ نظام جاری تھا تب تک بھی اردو کے ذریعے امتحان دینے والے طلبہ کی تعداد نہیں کے برابر ہی ہوتی تھی۔ اتنے بڑے صوبے میں جونیئر ہائی اسکول بورڈ کا امتحان اردو کے ذریعے دینے والے طلبہ کی تعداد پانچ سو سے بھی کم ہوتی تھی اور اردو ذریعۂ تعلیم کے ان طالب علموں کی تعداد کا ایک بڑا حصّہ بھی انھی کاروباری تعلیمی اداروں کے ذریعے پرائیویٹ طالب علم کے طور پر امتحان دیتا تھا۔

اتر پردیش کا ذکر تو بس یوں ہی  ’مقطع میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات ’ کے طور پر آگیا ہے کیوں کہ حقیقی سطح پر وہاں اردو تعلیم کا کوئی انتظام ہی نہیں ہے۔ مگر ارد و داں آبادی کے اردو زبان و تعلیم کے تئیں رویّوں کو سمجھنے کے لیے اتر پردیش کی فیصلہ کن سیاسی قوّت کے پیش نظر وہاں کے تعلیمی نظام کا تجزیہ ضروری ہے۔

ہندوستان میں اردو نظام تعلیم کے مطالعے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ یہ مطالعہ اردو داں آبادی کے اقتصادی حالات کو پیش نظر رکھ کر کیا جائے۔ اس مضمون میں راقم الحروف نے اس پہلو پر تفصیلی اظہار خیال نہیں کیا کیوں کہ میں اسے صرف اردو تعلیم تک محدود رکھنا چاہتا تھا۔ البتہ اپنے بعض دیگر مضامین میں اس سیاق و سباق میں اپنا نظریہ تفصیل سے پیش کیا ہے مگر اس مضمون میں میں نے اردو نظام تعلیم کا مطالعہ کرنے اور ضروری معلومات فراہم کرنے کی جو کوشش کی ہے اس میں مسلم تعلیم کے بعض متعلق لوازمات کو بھی جزوی طور پر شامل کر لیا ہے تاکہ یہ مضمون نہ صرف متذکرہ بالا بلکہ باقی ماندہ صوبوں کے تعلق سے بھی اردو تعلیم کے سیاق و سباق میں عموماً سود مند ثابت ہو سکے۔ مثلاً سہ لسانی فارمولے کو نافذ کرنے کی راہ میں حائل دشواریوں اور اردو تعلیم پر اس کے اثرات کا تفصیلی جائزہ لیا ہے اور بتایا ہے کہ سہ لسانی فارمولے سے اردو کی شمولیت کے امکانات کو معدوم کرنے کی غرض سے کچھ صوبوں میں کیا چالیں چلی گئیں۔

 

سہ لسانی فارمولا اور اردو

جنوری 1950 میں آئین ہند کے نفاذ سے بھی پہلے یہ سوال ہندوستان کے ماہرین تعلیم کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا کہ کس طرح ہر بچے کو ضرورت کے لائق درج ذیل زبانیں سکھا دی جائیں :

.1         مادری زبان

.2         صوبے کی سرکاری زبان ، نیز لسانی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو دوسری جدید ہندوستانی زبانیں

.3        مرکزی حکومت کی سرکاری زبان اور مستقبل میں مختلف صوبوں کے مابین رابطے کی زبان کے طور پر ہندی

.4         انگریزی۔

درج بالا زبانوں کی تدریس کے سلسلے میں ہمارے نظریہ ساز ماہرین تعلیم کو ابتدا ہی سے پانچ طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا:

(الف)رابطے کی زبان کے طور پر خصوصاً جنوبی ہند کی ریاستوں میں ہندی کی حد درجہ مخالفت، جو بعد میں اس قدر شدّت اختیار کر گئی کہ جب ہندی کو واحد سرکاری زبان (Official Language of the Union)کا درجہ دینے کا موقع آیا تو لوگ خود سوزی پر اتر آئے اور تقریباً 500 لوگوں نے صرف تمل ناڈو ہی میں خود کو نذر آتش کر لیا۔

(ب)    شمالی ہند کی سیاست کے مقتدر قوم پرست طبقے کی یہ شدید خواہش کہ اردو داں لسانی اقلیت کو آہستہ آہستہ ہندی داں اکثریت میں ضم کر لیا جائے۔

(ج)      اسکولوں میں جانے والے تمام بچوں کو ان کی مادری زبان کی تعلیم، اور مادری زبان کے ذریعے تعلیم دینے کی راہ میں حائل حکومت کی مالی دشواریاں

(د)       تمام طالب علموں کو سنسکرت پڑھانے کا احیا پرستوں کا اصرار۔

(ہ)       ثانوی سطح پر ذریعۂ تعلیم کا مسئلہ۔

ان تمام حالات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ثانوی سطح پر تعلیم کے لیے سینٹرل ایڈوائزی بورڈ آف ایجوکیشن (CABE)نے 1949 میں سہ لسانی فارمولا ترتیب دیا تھا جس کو اگست 1961 میں تمام صوبوں کے وزرائے اعلا نے از سر نو مرتب کیا۔ اصل فارمولا بالکل سہل تھا: مادری زبان، کوئی ایک جدید ہندوستانی زبان اور انگریزی۔ ساتھ میں ان لوگوں کے لیے ثانوی زبان کے طور پر ہندی کی تعلیم جن کی مادری زبان ہندی نہ ہو۔ اس فارمولے کی توثیق ستمبر 1961 میں نیشنل انٹگریشن کاؤنسل نے بھی کر دی تھی اور 1968 میں اسے تعلیم کی قومی پالیسی (National Policy on Education) میں بھی شامل کر لیا گیا۔

تقسیم کے بعد اردو داں آبادی کے بیش تر لسا ہ جنسہ:  ہند کا رشتہ:علاقے ، مثلاً دہلی، اتر پردیش، بہار، بمبئی (اب مہاراشٹر) حیدرآباد(اب آندھرا پردیش) اور میسور (اب کرناٹک)، شامل تو ہندوستان ہی میں رہے لیکن اردو کی شناخت پاکستان کے ساتھ جوڑنے کی تحریک کے سبب اس زبان کے خلاف، اپنے ہی وطن میں ، سخت دشمنی کی فضا پیدا ہو گئی۔ قومی رہنماؤں نے اور مرکزی حکومت نے بھی لسانی اقلیتوں کے آئینی حقوق کے تحفظ کے لیے ہر طرح کی کوششیں تو کیں لیکن شمالی ہند میں اردو اور ہندی کے مابین دشمنانہ رشتوں کی روایت چوں کہ قدیم اور مستحکم تھی، اور اردوداں لوگو ں کی اکثریت بھی اسی علاقے میں آباد ہے جہاں اردو ہندی تنازعے نے جنم لیا، یوں اردو والوں کو ہر طرح کی جارحیت کا سامنا کرنا پڑا اور خصوصاً شمالی ہند کی ریاستوں میں اردو کو مناسب حمایت نہ ملی۔ حکومت کے ذریعے اردو میڈیم اسکول نہ کھولنے اور ہندی میڈیم اسکولوں میں ایک اختیاری مضمون کے طور پر اردو تعلیم دینے والے اساتذہ کی عدم موجودگی کا عذر لنگ یہ دیا گیا کہ ایک مخصوص تعداد میں اردو آبادی یا اردو پڑھنے کے خواہاں طالب علم چوں کہ موجود نہیں اور حکومت کو مالی دشواریوں کا سامنا ہے اس لیے آئینی ضمانت کے باوجود اردو تعلیم کا نظم ممکن نہیں۔ انتظامی سطح پر تعداد کی یہ شرائط 10/40 کا فارمولا کہلاتی تھیں یعنی پرائمری اسکول میں اگر چالیس بچوں کی ایک کلاس میں دس بچے اردو مادری زبان والے ہوں گے تبھی ان کو ایک اختیاری مضمون کے طور پر اردو پڑھنے کے لیے اردو ٹیچر فراہم کیا جائے گا۔ ان شرائط پر نہ صرف یہ کہ سختی سے عمل کیا جاتا تھا بلکہ ان کے نفاذ میں ہر ممکن بے ایمانی بھی کی جاتی تھی۔ سب سے خراب بات یہ تھی کہ اردو کے علاوہ اور کسی لسانی اقلیت کو اپنے بچوں کی مادری زبان کی تعلیم کے سلسلے میں ان بے تکے اور بددیانتی پر مبنی قوانین سے سابقہ نہیں پڑا۔ اس اردو کش پالیسی کے نتیجے میں اسکولوں کے نظام تعلیم سے اردو، خصوصاً اتر پردیش اور بہار میں ، باہر کر دی گئی۔ معاملہ اگر واقعی وسائل کی قلت کا ہو تا اور حکومت کی نیت ٹھیک ہوتی تو یہ کیا جا سکتا تھا کہ ایک علاقے میں ایک مخصوص دوری پر رہنے والے تمام اردوداں بچوں کو ایک ہی اسکول میں مرتکز کر دیا جائے مگر مقصد چوں کہ اردو تعلیم کے شیرازے کو منتشر کرنا تھا یوں اس پالیسی کا نفاذ اس طرح کیا گیا کہ آہستہ آہستہ اردو بولنے والے بچے اردو اکثریتی علاقوں میں بھی اپنی مادری زبان کے مطالعے سے محروم ہو کر زبان سے بالکل ہی ناواقف ہو گئے۔ خصوصاً شمالی ہند میں اردو پڑھنے کے خواہاں طلبہ کو مجبوراً مدارس کی پناہ لینی پڑی اور جنھوں نے حکومت کے ذریعے چلائے جانے والے اسکولوں میں داخلہ لیا ان کے سامنے ہندی اور سنسکرت زبانیں پڑھنے کے سوا چارہ نہ تھاجس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آزادی کے بعد سے لے کر اب تک کم از کم چار نسلیں اپنی مادری زبان کی تعلیم حاصل کرنے کے حق سے محروم ہو گئیں۔ آزاد ہندوستان میں اردو لسانی اقلیت کا یہ سب سے بڑا المیہ ہے۔

1972 میں اردو کے فروغ کے لیے ایک کمیٹی بنائی گئی تھی جو عام اصطلاح میں گجرال کمیٹی کہلاتی ہے۔ اس کمیٹی کی رپورٹ 1975 میں سامنے آئی۔ جس میں اردو آبادی والے صوبوں میں سہ لسانی فارمولے کے نامکمل اور ناقص نفاذ کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کمیٹی نے درج ذیل فارمولے کے نفاذ کی سفارش کی تھی۔

شمالی ہند کے صوبوں میں 1975 میں نافذ فارمولا

فارمولا جس کی سفارش کی گئی

.1 ہندی .1 ہندی (اس میں مشترکہ کورس کے طور پر سنسکرت کے ایک حصے کی شمولیت کی بھی تجویز رکھی گئی)
.2 انگریزی .2 اردو یا کوئی اور جدید ہندوستانی زبان (ہندی کو چھوڑ کر)
.3 ایک جدید ہندوستانی زبان (مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ اس زمرے میں سنسکرت کو بھی شامل کیا گیا) .3 انگریزی یا کوئی جدید یورپی زبان (ترجیحاً جنوبی ہندوستان کی کوئی ایک زبان)

 

غیر ہندی صوبوں میں عام طور سے نافذ فارمولا

فارمولا جس کی سفارش کی گئی

.1 ہندی .1 علاقائی زبان
.2 انگریزی .2 ہندی
.3 علاقائی زبان .3 اردو یا کوئی جدید ہندوستانی (۱- اور ۲- کو چھوڑ کر)
.4 انگریزی یا کوئی جدید یورپی زبان

 

غیر ہندی ریاستیں متبادل کے طور پر درج ذیل فارمولا بھی اختیار کر سکتی تھیں ، جو آندھرا پردیش میں اردو داں آبادی کے لیے اختیار کیا گیا ہے :

1۔        اردو اور ہندی (مشترکہ کورس)

2۔        علاقائی زبان، اور

3۔        انگریزی یا کوئی اور جدید یورپی زبان

اس طرح گجرال کمیٹی کے ذریعے تجویز کیے گئے فارمولے نے مادری زبان کی بجائے ریاست کی پہلی زبان کو اولین ترجیح دے کر اردو سمیت صوبے کی تمام اقلیتی زبانوں کو ثانوی درجہ دے دیا۔ ایسا کرنے سے ہندی علاقوں میں ہندی کی بالا دستی قائم ہو گئی اور دوسری قومی زبانوں خصوصاً اردو کے مقابلے میں ہندی کے مفادات کو زبردست فروغ حاصل ہوا۔ اس سے اردو کو یوں زیادہ نقصان پہنچا کیوں کہ یہ کسی بھی ریاست کی پہلی زبان نہیں تھی اور نہ ہے۔ جموں و کشمیر میں اردو سرکاری زبان ضرور تھی اور ہے مگر وہاں اسے یہ درجہ خالص سیاسی مقاصد کے تحت مقامی زبانوں کو نظر انداز کر کے دیا گیا۔ جموں و کشمیر میں اردو ایک بہت چھوٹی آبادی کی مادری زبان ہے۔ گجرال کمیٹی نے ثانوی زبان کی حیثیت سے سنسکرت کو، جو ایک کلاسیکی زبان ہے ، جدید ہندوستانی زبانوں کی فہرست میں بھی شامل رکھا۔ اس کی وجہ سے بھی ہندی والوں نینر تمام غیر اردو داں لوگوں کے لیے اختیاری زبان کے طور پر اردو پڑھنا نا ممکن ہو گیا۔ سوئم یہ کہ اس فارمولے میں کلاسیکی زبانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ گجرال کمیٹی کی سفارشات میں ہندی زبان والی ریاستوں کے لیے سہ لسانی فارمولے کی تبدیل شدہ مجوزہ شکل کے مطابق ہندی اور سنسکرت کے مشترکہ کورس کی سفارش کی گئی، اور غیر ہندی صوبوں کے لیے اردو اور ہندی کے مشترکہ کورس کی۔ لیکن یہ فارمولا سوائے گجرات اور مہاراشٹر کے کسی ایسے مشترک کورس کی تجویز نہ رکھ سکا جس کے مطابق غیر ہندی ریاستوں میں اُس ریاست کی پہلی زبان اور ہندی کا مشترکہ کورس پڑھایا جاتا اور طالب علموں پر سے چار زبانیں پڑھنے کا بوجھ کم ہو کر تین زبانوں تک محدود رہ جاتا۔

اس طرح گجرال کمیٹی کی سفارشات کے سبب اردو بولنے والے بچوں کو اپنی مادری زبان میں لیاقت حاصل کرنے کے آئینی حق کے حصول کی خواہش کبھی نہ پوری ہوتی نظر آئی۔ یہ بات دیگر ہے کہ اس کمیٹی کی سفارشات کا نفاذ ہوا ہی نہیں۔ گجرال کمیٹی کے نام پر کوئی پچیس برسوں تک مسلم سیاست کر کے جب اندر کمار گجرال خود وزیر اعظم بنے تو انھیں اپنے دور اقتدار میں اس رپورٹ کی یاد کبھی نہیں آئی۔

سہ لسانی فارمولے میں ایک اور بھٹکاؤ کو نرسمہا راؤ کی حکومت کے دوران اس وقت راہ ملی جب دوسری زبان کے طور پر شمالی ہند میں جنوبی ہند کی زبانیں پڑھانے کی پالیسی وضع کی گئی۔ اس منصوبے پر حالاں کہ مستقلاً عمل نہ ہو سکا مگر اس کے سبب بھی ہندی صوبوں میں ہندی کے طالب علموں کے لیے اردو یا دوسری اقلیتی زبانیں پڑھنے کے مواقع محدود تر ہو گئے۔

ذاکر حسین اسٹڈی سرکل کی جانب سے اقلیتوں اور ان کی زبانوں پر منعقد ہونے والی چار روزہ بین الاقوامی کانفرنس (8-11 فروری 2002) میں خصوصاً اردو تعلیم کی تدریس سے متعلق آپس میں الجھے ہوئے ان تمام پہلوؤں پر غور و فکر کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ تمام اقلیتی زبانوں کے ساتھ مساویانہ اور مبنی بر انصاف سلوک کر کے ایک قومی فریم ورک کی اس طرح تشکیل کی جائے کہ اپنی اسکولی تعلیم کے دوران اردو کو پہلی زبان کے طور پر پڑھنے کے اردو مادری زبان والے ہر بچے کے آئینی حق کا تحفظ ہو سکے۔ کانفرنس کے مطالبات میں یہ واضح کیا گیا کہ پرائمری سطح پر اقلیتوں کی مادری زبان ہی ان کے بچوں کا ذریعۂ تعلیم اور ذریعۂ امتحان ہو۔

صوبائی سطح پر اقلیتی زبانوں کے مسائل کا ایک ایسا ہمہ گیر حل پیش کر کے جس سے تمام صوبوں میں اردو آبادی کو درپیش مسائل بھی حل ہو جائیں ، کانفرنس نے لسانی پالیسی کی ملک گیر بحث میں ایک اہم کارنامہ انجام دیا۔ سہ لسانی فارمولے کی درج ذیل صورت بھی اس کانفرنس کے مباحث کے بعد تجویز کی گئی:

پہلی زبان:مادری زبان (غیر مشروط) لیکن ضرورت پڑنے پر لسانی اقلیتوں کے بچوں کی تعلیم کے لیے ایک ایسے نظام کی تشکیل جس میں لسانی اقلیتوں کے بچوں کی افقی شمولیت ممکن ہو۔ ضرورت پڑنے پر کلاس میں الگ سیکشن کا قیام بھی ان بچوں کے لیے کیا جائے۔

دوسری زبان:      وہ زبان جو صوبے میں بولی جاتی ہو۔ صوبے کی اکثریتی زبان یا پہلی زبان کی تعلیم تمام لسانی اقلیتوں پر لازم ہو۔

تیسری زبان:       انگریزی، ہندی، سنسکرت، عربی یا فارسی۔

چونکہ اردو اور ہندی لسانی اعتبار سے بہنوں جیسی زبانیں ہیں ، اور کئی قومی زبانوں کا رسم خط دیوناگری ہے اس لیے کانفرنس نے یہ سفارش کی کہ غیر ہندی صوبوں میں آباد اردو لسانی اقلیت کے بچوں کے لیے اردو ہندی کا ایک مشترک کورس تیار کیا جائے جسے پہلی اختیاری زبان کے کورس کے طور پر متعارف کرایا جا سکے۔ مہاراشٹر اور گجرات جیسے غیر ہندی علاقوں میں اسی طرز پر صوبائی زبان اور ہندی کا مشترکہ کورس تیار کرنے کے بارے میں بھی غور کیا جا سکتا ہے۔

رجحان یہ ہے کہ پرائمری تعلیم کے دوران بچوں پر زبانوں کا بوجھ اس طرح مستقل بڑھایا جا رہا ہے کہ انھیں مادری زبان کے علاوہ  انگریزی اور سنسکرت زبانیں بیک وقت سکھائی جا رہی ہیں۔ اس صورت میں لسانی اقلیتوں کے بچوں کو پانچ برس کی تعلیمی مدت میں چار زبانیں سیکھنی پڑ جائیں گی۔ اس بوجھ کو کم کرنے میں ہندی اور سنسکرت کے ایک ہی مشترکہ کورس کو پڑھانے سے بھی مدد ملے گی۔ کانفرنس نے اس بات پر بھی زور دیا کہ قومی پالیسی کے معیار کے مطابق اردو میڈیم اسکول شہری محلوں اور گاؤوں میں کھولے جائیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو اس کانفرنس نے تعلیمی نفسیات، ملک کی لسانی تکثیریت اور وفاقی سیاست (federal politics)کو نظر میں رکھتے ہوئے زبان کے سوال پر قابل عمل تجاویز پیش کیں۔ سوال اب ان تجاویز کے نفاذ کا ہے یعنی مرحلہ عمل کا ہے جو اردو والوں کی مخلصانہ کوششوں کے بغیر ممکن نہیں۔ جمہوریت میں حقوق کی بحالی کا راستہ صرف موثر سیاسی لائحۂ عمل تیار کرنے اور اس پر عمل درآمد میں مضمر ہے۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اردو تعلیم کا مسئلہ اردو آبادی کی پہلی ترجیح کب بنتا ہے اور کب ان کا سیاسی لائحۂ عمل نہ صرف حکومت کو اس پر مجبور کرتا ہے کہ سہ لسانی فارمولے کا صحیح نفاذ ہو اور ان کے بچوں کو اردو تعلیم کے حصول کے مواقع میسر آئیں بلکہ دیکھنا یہ بھی ہے کہ خود اپنے اداروں میں اردو والے کب سہ لسانی فارمولے کا نفاذ کرتے ہیں۔

جن صوبوں میں اردو کے نظام تعلیم کے بارے میں ضروری معلومات فراہم کرانا اور جائزہ لینا ہے اب ان کا الگ الگ ذکر کرتا ہوں :

اتر پردیش:

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اتر پردیش کی اردو آبادی تقریباً دو کروڑ ہے جب کہ بہار میں یہ آبادی اس کی نصف یعنی ایک کروڑ ہے۔ بہار میں اس وقت اردو ذریعۂ تعلیم کے تقریباً اسی ہائی اسکولوں میں سے پندرہ سرکاری ہیں اور پینسٹھ مسلم انتظامیہ کے تحت اقلیتی اداروں کے طور پر چل رہے ہیں جن کا جواز آئین ہند کی دفعہ 29 میں موجود ہے۔ دیگر اسکولوں میں بھی اردو ذریعۂ تعلیم کے کچھ سیکشنز (Sections) موجود ہیں یا پھر ہر طالب علم کو اصولاً یہ حق حاصل ہے کہ وہ میٹرک بورڈ کے امتحان کے پرچوں کے جواب اردو میں لکھ سکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت بہار میں تقریباً پچیس ہزار طلبہ میٹرک بورڈ کا امتحان اردو کے ذریعے دیتے ہیں۔ اتر پردیش میں ہائی اسکول بورڈ کا امتحان اردو کے ذریعے شاید آزادی کے بعد کسی نے نہیں دیا۔ البتّہ جونیئر ہائی اسکول کا امتحان اردو کے ذریعے دینے کا انتظام (Provision) موجود تھا مگر اردو کے ذریعے جونیئر ہائی اسکول ، امتحان دینے والے طلبہ کی تعداد تقریباً صفر رہتی تھی۔ یہ تعداد 1989 میں پانچ سو سے بھی کم تھی (اغلب یہی ہے کہ بعد میں اس تعداد میں مزید کمی واقع ہوئی ہو گی۔ ) بہار میں یہ تعداد اُس وقت تقریباً چالیس ہزار تھی۔ اتر پردیش کے مسلم اکثریتی علاقو ں میں اردو داں حضرات اپنے بچّوں کو بہ خوشی جونیئر ہائی اسکول کا امتحان ہندی کے ذریعے دلاتے تھے ، اسی لیے اتر پردیش میں اقلیتی اداروں کا ذریعۂ تعلیم بھی ہندی ہی ہے۔ بدایوں میں صرف ایک برائے نام اردو میڈیم جونیئر ہائی اسکول ہے۔ وہاں سے 1987 میں صرف تین طالبات جونیئر ہائی اسکول بورڈ کے امتحان میں شامل ہوئی تھیں۔ 1988  میں یہ تعداد گھٹ کر دو رہ گئی اور پھر بالکل معدوم ہو گئی۔ مراد آباد کے گرلز جونیئر ہائی اسکولوں میں سے صرف دو اسکولوں میں اردو کے ذریعے تعلیم دی جاتی ہے۔ مسلم جونیئر ہائی اسکول کے منتظمین کا کہنا ہے کہ بیش تر لوگوں نے ، پہلے جن کے بچّے اردو ذریعۂ تعلیم کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے تھے ، اپنی ترجیحات تبدیل کر کے اپنے بچوں کو ہندی ذریعۂ تعلیم میں منتقل کر دیا۔

دراصل جسے اردو ذریعۂ تعلیم کہا جاتا ہے ، اتر پردیش کے عام اردو داں حضرات تو دور خود اساتذہ کے ذہن میں اس کا انتہائی مجہول تصوّر ہے۔ جو اسکول اردو کے ذریعے جونیئر اسکول کے امتحان دلاتے تھے وہ ہندی کی نصابی کتب ہی کے ذریعے درس دیتے تھے اور اردو کی تعلیم آج بھی صرف ایک اختیاری مضمون کی ہے۔ اتر پردیش میں نہ تو اردو ذریعۂ تعلیم کی کتب موجود ہیں اور نہ ہی اردو کے ذریعے دیگر مضامین کا درس دینے کی صلاحیت رکھنے والے اساتذہ۔ اردو کے ذریعے دیگر مضامین اور خود اردو زبان و ادب کا درس تو دور، اتر پردیش میں اب اردو رسم الخط جاننے والے اساتذہ تک کا ملنا مشکل ہے۔ اتر پردیش میں پرائمری سطح کے کچھ اردو ذریعۂ تعلیم کے بلدیاتی اسکول چلائے ضرور جاتے ہیں (جن میں اردو اساتذہ کی تقرری بہو گنا اسکیم کے تحت کی گئی تھی) مگر ان میں بھی اردو کی حیثیت بس ایک اختیاری مضمون کی ہوتی ہے۔ بہو گنا اسکیم کے تحت بھرتی ہونے اور اردو کے اساتذہ کہلانے والے اکثر اساتذہ کو اردو سے فطری طور پر کوئی دل چسپی نہیں۔ ان کی اکثریت کبھی اسکول نہیں آتی بلکہ اپنے ذاتی کاروبار میں مصروف رہتی ہے اور مہینے میں ایک آدھ بار اسکولوں کا چکّر لگا لیتی ہے۔ اردو ذریعۂ تعلیم کے اسکول کہلانے والے پرائمری درجات کے ان اداروں میں ہفتے واری چھٹی جمعے کو ہوتی ہے۔ بہو گنا اسکیم کے تحت بھرتی ہونے والے اساتذہ میں ننانوے فی صد سے بھی زیادہ کا مذہب اسلام ہی ہے۔

آندھرا پردیش:

حیدرآباد اردو کا تاریخی مرکز رہا ہے۔ اردو کو اعلا تعلیم کا ذریعہ بنانے کا فخر بھی اسی شہر فرخندہ بنیاد کو حاصل ہے۔ یہاں آزادی سے پہلے میڈیکل سائنس اور انجینیرنگ تک کی تعلیم کا ذریعہ اردو تھی۔ صوبوں کی تشکیل نو میں حیدرآباد کو آندھراپردیش میں شامل کر دیا گیا۔

حیدرآباد میں اب وہ نسل اپنی عمر کے آخری پڑاؤ پر ہے جس کے لیے اردو ایک مخصوص تہذیب اور اقدار کی علامت تھی۔ اردو کے زوال کا ایک اہم مگر عمومی نکتہ یہ ہے کہ اتر پردیش وغیرہ میں تو اردو کو ہر سطح پر 1947 کے بعد ہی ختم کر دیا گیا تھا مگر دوسرے صوبوں میں یہ عمل آہستہ آہستہ ہوا۔ اسی لیے اتر پردیش میں تو اردو کے زوال کا تجزیہ آسان ہے لیکن آندھرا پردیش جیسے صوبوں میں پیچیدہ اور مشکل ترین ہے۔

آندھرا پردیش میں اردو ذریعۂ تعلیم اور ایک اختیاری مضمون کی حیثیت سے اردو تعلیم کی محدود سہولتیں میسّر ہیں۔ اردو ذریعۂ تعلیم کے زیادہ تر طالب علم مسلم انتظامیہ کے تحت چلائے جا رہے تعلیمی اداروں کا رخ کرتے ہیں جو پرائمری سے ڈگری کالج کی سطح تک موجود ہیں۔ مگر حیدرآباد میں چند کانونٹ اسکول ایسے بھی ہیں جہاں اردو ایک اختیاری مضمون کی حیثیت سے پڑھائی جاتی ہے اور پانچویں درجے تک اردو کو ایک اختیاری مضمون کی حیثیت سے پڑھنے والے طلبہ اردو کے حرف شناس ہو جاتے ہیں۔

حیدرآباد میں بھی اردو ذریعۂ تعلیم کے طلبہ کا نوّے فی صد سے زیادہ حصّہ دیگر صوبوں کی طرح نچلے متوسّط طبقے سے آتا ہے۔ ان میں سے کچھ بچے قرآن مجید وغیرہ کی تعلیم گھر پر ہی حاصل کر چکے ہوتے ہیں۔ کچھ بچّے ایسے بھی ہیں جو صبح اردو ذریعۂ تعلیم کے اسکولوں میں جاتے ہیں اور شام کو دینی مدارس و مکاتب میں قرآن و حدیث کا درس لیتے ہیں۔ آندھرا پردیش میں حکومت کی طرف سے اردو تعلیم کے راستے میں زیادہ دشواریاں حائل نہیں ہیں مگر مجموعی حالات ایسے ہیں کہ انھیں زیادہ حوصلہ افزا بھی نہیں کہا جا سکتا۔ حیدرآباد میں اردو ذریعۂ تعلیم کے ڈراپ آوٹ کا تناسب اس طرح ہے :

پہلے درجے سے پانچویں درجے تک:    چالیس فی صد

پہلے درجے سے آٹھویں درجے تک :    91 سے لے کر 93 فی صد

آندھرا پردیش کے نصاب میں NCERT کی اردو کتب زیادہ مقبول نہیں ہیں۔ اردو اکادمی اور دوسرے سرکاری اداروں کی کتابیں ہی (جو گراں تو نہیں ہوتیں مگر عموماً آدھا تعلیمی سال گزر جانے کے بعد ہی بازار میں آتی ہیں ) طالب علم استعمال کرتے ہیں۔

حیدرآباد کی اردو آبادی اقتصادی طور پر پس ماندہ ہے اور اس طبقے کے لوگوں کے لیے اپنے بچّوں کی تعلیم پر زیادہ خرچ کرنا ممکن نہیں۔ ڈراپ آوٹ کے اس بے حد مایوس کن تناسب کا اہم سبب اقتصادی حالات ہی ہیں۔

آندھرا پردیش میں کالج کی سطح پر اردو ذریعۂ تعلیم کے طالب علم دوسری زبانوں (علاقائی یا انگریزی) کی کتابیں ہی استعمال کرتے ہیں مگر امتحان میں جوابات اردو میں لکھتے ہیں۔ خصوصاً سائنس، کامرس اور تکنیکی نصاب میں انگریزی اصطلاحات کا استعمال بڑی تعداد میں ہوتا ہے۔ دارالترجمے کی نصف صدی پرانی اصطلاحات کا اگر کچھ حصہ مستعمل بھی ہے تو وہ بھی ہر لمحے بدلتی ہوئی تیز رفتار زندگی سے ہم آہنگ نہ ہونے کے سبب آہستہ روی سے ماضی کا حصّہ بنتا جا رہا ہے۔ صرف آرٹس گروپ کے کچھ مضامین کی کتابیں اردو ذریعۂ تعلیم کے اعلا درجات میں مستعمل ہیں۔

مہاراشٹر:

مہاراشٹر ہندوستان کا واحد صوبہ ہے جہاں اردو کے ذریعے تعلیم حاصل کرنے کی راہ میں سب سے کم رکاوٹیں حائل ہیں۔ اس کا سبب وہاں کی رضاکار تنظیموں کی مساعی ہیں۔ صوبائی حکومت کا رویّہ بھی  اردو تعلیم کی راہ میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کرتا۔ کیوں کہ زیادہ تر اسکول اور وہ کالج جہاں اردو تعلیم کا نظم موجود ہے ، مسلمانوں کا تاجر طبقہ چلاتا ہے اس لیے بد انتظامی بھی کم ہے۔ اسکولوں کے رجسٹریشن کے بارے میں مہاراشٹر حکومت کا رویّہ بھی مناسب ہی ہے۔ صرف بمبئی شہر میں اردو ذریعۂ تعلیم کے ہائی اسکولوں کی تعداد 124 ہے جب کہ پورے مہاراشٹر میں یہ تعداد (124+106) 230  ہے۔ پرائمری سطح پر بھی اردو تعلیم کا نظم اطمینان بخش ہے اور دوسری زبانوں کے سرکاری اسکولوں کے مقابلے میں اردو کے سرکاری اسکولوں کی حالت نسبتاً بہتر ہے۔ بمبئی میونسپل کارپوریشن کے ذریعے چلائے جانے والے اردو اور دوسری زبانوں کے ذریعۂ تعلیم کے پرائمری اسکولوں کے مندرجہ ذیل تقابلی مطالعے سے بھی اس امر کی تصدیق ہوتی ہے۔ یہ اعداد و شمار 1990 کے تعلیمی سال تک کی معلومات پر مشتمل ہیں۔

اسکول : اردو میڈیم پرائمری اسکولوں کی تعداد:   230

مراٹھی میڈیم پرائمری اسکولوں کی تعداد:           569

ہندی میڈیم پرائمری اسکولوں کی تعداد: 185

طلبہ:     اردو ذریعۂ تعلیم کے طلبہ کی تعداد:       1,22,475

مراٹھی ذریعۂ تعلیم کے طلبہ کی تعداد :   3,72,335

ہندی ذریعۂ تعلیم کے طلبہ کی تعداد:      1,26,911

اساتذہ:اردو ذریعۂ تعلیم کے اساتذہ کی تعداد:        2,727

مراٹھی ذریعۂ تعلیم کے اساتذہ کی تعداد: 9,316

ہندی ذریعہ تعلیم کے اساتذہ کی تعداد:   2592

اردو ٹیچرز ٹریننگ کالجوں کی تعداد:      2

اردو ٹیچرز ٹریننگ کالجوں میں طلبہ کی تعداد:       312

اردو ٹیچرز ٹریننگ کالجوں میں اساتذہ کی تعداد:     30

اردو ذریعۂ تعلیم کے بیشتر پرائیویٹ تعلیمی ادارے مختلف ٹرسٹ چلاتے ہیں اور ان میں تمام مضامین کی تعلیم اردو کے ذریعے ہی دی جاتی ہے۔

مہاراشٹر میں اردو تعلیم سے متعلق ایک اہم بات یہ ہے کہ یہاں مسلمانوں کا متوسط طبقہ بھی اپنے بچّوں کے لیے اردو کی تعلیم ہی کو پسند کرتا ہے جب کہ دوسرے صوبوں میں یہ طبقہ انگریزی ذریعۂ تعلیم کی طرف جا رہا ہے اور نچلا متوسط طبقہ اردو کی طرف۔ مہاراشٹر میں متوسّط طبقے کے مسلمانوں کے اس رویّے کا بڑا سبب مہاراشٹر، خصوصاً بمبئی میں تجارتی رجحان کی بالا دستی ہے۔ مہاراشٹر کے اچھے انگریزی اسکولوں میں بھی کافی اسکول ایسے ہیں جہاں اردو ایک اختیاری مضمون کی حیثیت سے پڑھی جا سکتی ہے مگر ان اسکولوں کا حال ہر جگہ تقریباً ایک ہی جیسا ہے۔ طلبہ اور اساتذہ دونوں ہی اس زبان کے تئیں دل چسپی کا اظہار کم کرتے ہیں۔

مہاراشٹر میں اردو داں طبقے کے لیے ایک آسانی اور ہے (جو دیگر کسی صوبے میں نہیں ہے ) کہ وہاں کسی بھی اسکول یا جونیئر کالج میں اردو کا مطالعہ ایک مضمون کے طور پر کیا جا سکتا ہے۔ کسی اسکول میں اگر اردو کے طالب علم یا اساتذہ کافی نہ ہوں تو اردو پڑھنے میں دل چسپی رکھنے والے طلبہ اپنے طور پر اردو پڑھ کر دوسرے مضامین کے ساتھ ریگولر طالب علم کے طور پر امتحان میں بھی شریک ہو سکتے ہیں۔

مہاراشٹر میں نصابی کتابوں کی تیاری کا کام ٹیکسٹ بک بیورو کرتا ہے اور یہ کتابیں مراٹھی سے ترجمہ کر کے شائع کی جاتی ہیں یعنی مراٹھی اور اردو کا نصاب ایک جیسا ہے۔ کچھ دوسرے اشاعت گھر بھی اردو کی کتابیں شائع کرتے ہیں۔

بہار:

بہار ہندوستان کا ایسا صوبہ ہے جہاں اردو کی حالت خاصی اطمینان بخش ہے اور چوں کہ اردو کی حالت بہتر ہے اس لیے اردو ذریعۂ تعلیم کی حالت بھی ٹھیک ٹھاک ہے۔ بہار میں اردو کی ترقّی کی بڑی وجہ نچلے طبقے کا اردو سے گہرا جذباتی تعلق اور دینی مدارس میں ان کے بچّوں کو دی جانے والی مذہبی تعلیم ہے۔ بہار میں چوں کہ کوئی علاقائی زبان اتنی طاقتور نہیں ہے کہ وہ مذہبی تعلیم کے حصول کا جزوی ذریعہ بھی بن سکے اس لیے وہاں سارا مذہبی لٹریچر اردو میں ہی ہے۔

بہار میں کم سے کم پچاس ہزار طلبہ ہر سال جونیئر ہائی اسکول بورڈ کا امتحان اردو کے ذریعے دیتے ہیں۔ بہار میں 123 ایسے کالج ہیں جن میں اردو تعلیم کا نظم ہے اور پچاس ہائی اسکول اردو کے ذریعے تعلیم دینے کو فوقیت دیتے ہیں۔ بہار کے اردو جاننے والے طبقے میں انگریزی کے ذریعے تعلیم حاصل کرنے کا رجحان کم ہے کیوں کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد پس ماندہ اور نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ بہار میں اردو کی ترقی میں اہم رول وہاں کے مدارس نے انجام دیا ہے۔ بہار حکومت نے مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کی اسناد کو بہار میں دوسرے رجسٹرڈ اداروں اور یونیورسٹیوں کی ڈگریوں کے مساوی تسلیم کر لیا ہے۔ گزشتہ برسوں میں ان مدرسوں نے تکنیکی تعلیم کے درس کا نظم بھی شروع کیا ہے لیکن یہ ابھی ابتدائی سطح تک محدود ہے۔ بہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ہندوستان کے تعلیم سے متعلق اداروں میں بدعنوانی و  بد اعتدالی کے لیے بدنام ہے۔ اگر صوبائی حکومت اس کے نظام میں اصلاح کر سکے تو بہار کے نظام تعلیم میں انقلابی تبدیلیاں ممکن ہیں۔

بہار میں نصاب کی تیاری کا کام راج بھاشا وبھاگ کرتا ہے لیکن وہاں نصابی کتابوں کی حصولیابی بہت مشکل ہوتی ہے۔ سب سے آخر میں بازار میں آنے والی کتابیں اردو ہی کی ہوتی ہیں۔ NCERT کی کتابوں کی حصول یابی بہار میں تقریباً ناممکن ہے۔ اس لیے وہاں راج بھاشا وبھاگ کی کتابوں کا رواج عام ہے۔ مجموعی طور پر بہار میں اردو تعلیم کی حالت مایوس کن تو نہیں ہے لیکن بد نظمی کا شکار ضرور ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ اردو ذریعۂ تعلیم کو اپنانے والا طبقہ اردو آبادی کا پس ماندہ اور نچلا متوسّط طبقہ ہی زیادہ ہے۔

مغربی بنگال:

اردو مادری زبان کے ذریعے تعلیم کے سب سے زیادہ امکانات مغربی بنگال میں ہیں۔ وہاں ابتدائی تعلیم کے متعلق حکومت کی اصولی پالیسی یہ ہے کہ یہ تعلیم صرف مادری زبان میں ہو گی۔ اسی مقصد کے پیش نظر سرکاری اداروں میں تعلیم مادری زبان میں دی جاتی ہے اور اقلیتی فرقوں کے اداروں کو بھی وہاں اس بنیاد پر رجسٹر کیا جاتا ہے۔

مغربی بنگال میں اردو ذریعۂ تعلیم کے اسکولوں کا سب سے بڑا مسئلہ اردو طلبہ کی موجود تعداد کی مناسبت سے اردو اسکولوں کی کمی ہے۔ کئی جگہوں پر تو دس سے بیس ہزار کی آبادی والے علاقوں کے لیے بھی ایک ہی اردو میڈیم اسکول ہے۔ سرکار کی پالیسی کی بڑی خرابی یہ ہے کہ وہ اقلیتوں کے لیے اسکولوں کے رجسٹریشن کی بنیاد آبادی کی تعداد کو نہیں بناتی اور تمام اقلیتی فرقوں کو ایک ہی تناسب میں پرائمری اسکولوں کی سہولت دیتی ہے۔ اس کا فائدہ عیسائی اور دوسرے چھوٹے اقلیتی فرقوں کو بہت زیادہ ہوتا ہے اور اردو والوں کا اقلیتی فرقہ نہ صرف گھاٹے میں رہتا ہے بلکہ ان کے اور دوسری اقلیتوں کے درمیان ترقی اور تنزل کا فرق بہت تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔

مغربی بنگال کی حکومت پانچوں درجے تک بغیر قیمت نصابی کتابیں مہیا کراتی ہے لیکن وہاں بھی اردو کتابیں تعلیمی سال کے آخر میں ہی طلبہ کو مل پاتی ہیں اور نتیجتاً طلبہ کو یہ کتابیں بازار سے خریدنا پڑتی ہیں۔

مغربی بنگال میں سب سے بڑا مسئلہ اردو اقلیتی فرقے کے تعلیمی اداروں کے لیے وسائل کا فقدان ہے۔ زیادہ تر ادارے اچھی حالت میں نہیں ہیں۔ سرسیّد گروپ آف اسکولز، حسین شاہ روڈ کے کچھ اسکول دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ ایک ہی کیمپس میں پہلے ایک کمرہ اسکول کا اور پھر دوسرا کمرہ کسی کی رہائش گاہ اور فوراً ہی تیسرا کمرہ پھر اسکول کا۔ اس کے بعد کسی خاندان کی رہائش گاہ، ایسی حالت میں وہاں اردو اسکول چل رہے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

ہندوستان میں اردو کا موقف  —   ایک غیر ملکی کے تاثرات

 

کرسٹینا اوسٹرہیلڈ

 

ہندوستان میں اردو تعلیم ایک ایسا موضوع ہے جس سے مجھے ہمیشہ دلچسپی رہی لیکن میں نے کبھی سنجیدگی سے اس جانب توجہ نہیں کی۔ میری تحقیق کا اصل میدان اردو ادب اور خصوصیت سے گزشتہ دو صدیوں کا نثری ادب ہے۔ اگرچہ کہ میرا تجربہ یونی ورسٹی کی سطح پر جرمن طلبا کو ربع صدی تک اردو کی تعلیم دینا رہا ہے لیکن یہ ہندوستانی طلبا کو تحتانوی، وسطانوی اور فوقانوی درجوں تک تعلیم دینے سے مختلف ہے۔ مزید یہ کہ ہندوستان میں اردو تعلیم کے ارتقا کا بھی میں نے باقاعدگی سے جائزہ نہیں لیا۔ لہٰذا میں یہاں اپنے چند سرسری مشاہدات و تاثرات پیش کر سکتی ہوں۔

ہندوستان میں اردو کی ناگفتہ بہہ صورت حال، خصوصیت سے اردو تعلیم کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ دستور ہند کی دفعہ 345 ، 347 اور 350 کی رو سے اقلیتوں کی زبانوں کو دی گئی رعایتوں کے باوجود شمالی ہند کی ریاستی حکومتوں نے اس بات کی کوشش کی کہ اردو بولنے والوں کو دستور میں دیے گئے تحفظات سے کوئی بھی فائدہ نہ پہنچے۔ حکومت ہند نے خود بھی اپنے قانون کو نافذ کرنے سے گریز کیا۔ 16 جولائی 1956 کو حکومت کے جاری کردہ پریس نوٹ میں کرپلانی کمیٹی رپورٹ کے تحت مندرجہ ذیل سفارشات پیش کی گئیں۔

ان علاقوں میں جہاں اردو رائج ہے حسب ذیل سہولتیں فراہم کی جائیں۔

.1        ان تمام طلبا کے لیے جن کے والدین یا سرپرستوں نے اپنی مادری زبان اردو ہونے کا اقرار کیا ہے ، ان کی تعلیم اور امتحانات کی زبان تحتانوی سطح پر اردو ہو گی۔

.2        اساتذہ کو مناسب تربیت دی جائے۔ اردو میں مناسب درسی کتابوں کا انتظام ہو۔

.3        ثانوی سطح پر بھی اردو کو ذریعۂ تعلیم بنانے کی سہولت فراہم کی جائے۔

.4        اردو میں پیش کی جانے والی تمام دستاویزوں کو، عدالتوں میں ہوں کہ دفاتر میں ، کسی دوسری زبان میں ترجمہ کیے بغیر، کسی دوسرے رسم الخط میں ڈھالے بغیر قبول کیا جائے اور اردو میں پیش کی جانے والی عرضیوں اور درخواستوں کو بھی قبول کیا جائے۔

.5        ان تمام علاقوں میں جہاں اردو رائج ہے اور جن کی نشان دہی کی گئی ہے وہاں اہم قوانین، اصول و ضوابط اور عوامی اطلاعات کو اردو میں جاری کیا جائے۔ (1)

گوپال براس نے اقلیتوں اور اقلیتی کلچر کے بارے میں کرپلانی کمیٹی کی سفارشات کو دستور کی دفعہ 29 اور 30 کے خلاف قرار دیا (2)لیکن کم و بیش یہی پانچ نکات آج بھی اردو بولنے والوں کے مطالبات کی ترجمانی کرتے ہیں اور اس کا واضح ثبوت ہیں کہ اردو کی جانب سرکاری بغض و عناد ابھی بھی قائم ہے۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان سفارشات کے نفاذ سے منحرف ہونے کا مقصد یہ ہے کہ اردو والوں کو، لسانی اقلیتوں کو دیے گئے حقوق سے محروم کر دیا جائے۔ اور اس بات کی تشہیر کی جائے کہ یہ اقلیتیں نہیں بلکہ آبادی کے چند فی صد اشخاص ہیں (3) 1947 میں پال براس نے اُتر پردیش کے تعلق سے یہ نتیجہ اخذ کیا:  ’ ’دراصل اتر پردیش کی حکومت اور انتظامیہ کی پالیسی مستقل طور پر ان تین خصوصیات کی حامل رہی ہے : اردو بولنے والی اقلیت کی اہمیت اور اس کے رُتبے کو گھٹا کر پیش کیا جائے ، حکومت ہند اور بین ریاستی کمیٹیوں کی وضع کردہ پالیسیوں کے رہنمایانہ اصولوں سے قصداً انحراف کیا جائے اور خود ریاست نے جو سہولتیں اور مراعات اردو بولنے والوں کو دی ہیں ان سے مستقلاً اور متواتر رو گردانی کی جائے۔  ’ ’

شکایتوں اور الزامات کی فہرست میں اضافہ کرتے رہنے سے کچھ حاصل ہونے کا نہیں۔ اس بات کا سب کو علم ہے کہ سرکار کی عدم توجہ اور امتیازی برتاؤ نے بالآخر اردو بولنے والوں کے حوصلے پست کر دیے۔ ایسی صورت میں وہ اپنے بچوں کو اردو میں تعلیم دلانے سے رہے۔ حوصلے کی کمی نے اردو والوں کے مواقع مزید گھٹا دیے۔ اردو سے ان کی دلچسپی کم ہوتی گئی۔ اخیر میں اردو کو ہندوستانی مسلمانوں کی زبان قرار دیا گیا۔ لیکن وہ کون مسلمان ہیں جو اردو پڑھتے ہیں اور اردو میں اپنے بچوں کو تعلیم دلاتے ہیں ؟ ہمیں یہ بات نہیں بھولنا چاہیے کہ ہندوستان میں کئی ایسے مسلمان ہیں جن کی مادری زبان اردو کے علاوہ کوئی اور زبان بھی ہے۔ ان میں ایسے کتنے ہیں جنھوں نے اردو کو دوسری یا تیسری زبان کے طور پر اختیار کیا ہے۔ کیا ان کے اعداد و شمار دستیاب ہیں ؟

اتر پردیش، بہار اور شمال کی دوسری ریاستوں میں ابتدائی اردو تعلیم کی اصل صورت حال کیا ہے ؟ جنوبی ہند میں اس کی صورت حال کیا ہے ؟ ضرورت ہے کہ مسائل کے حل کے لیے صحیح اعداد و شمار جمع کیے جائیں۔ اطہر فاروقی نے اپنے مضمون  ’ ’ہندوستان میں اردو تعلیم  —  چار نمائندہ ریاستیں  ’ ’ (4)

میں چند معلومات فراہم کی ہیں لیکن اردو تعلیم کی موجودہ صورت حال کی صحیح عکاسی کے لیے یہ اعداد و شمار ناکافی ہیں۔ اس بات کی جانچ کی بھی ضرورت ہے کہ آیا اردو تعلیم کے مطالبات، اردو تعلیم کو دی گئی سہولتوں سے بڑھ کر ہیں ؟

گزشتہ چند دہوں میں ہندوستانی مسلمانوں سے متعلق تحقیقی مطالعے نے اس قوم کی اکھنڈتا کو متاثر کر دیا ہے اور اس کے سماجی، نسلی اور ثقافتی اختلافات پر روشنی ڈالی ہے۔ کیا اسی طرح کی تحقیق مختلف مسلم گروہوں کے اس رویے سے متعلق جو اردو زبان سے انھوں نے روا رکھا ہے ، کی گئی ہے ؟ مہاراشٹرا میں اردو کی بہتر تعلیم کا جو ذکر مختلف لوگوں نے کیا ہے اس کی تشریح کس طرح کی جائے ؟ اطہر فاروقی کا کہنا ہے کہ مہاراشٹر میں مسلمانوں کا متوسط طبقہ اپنے بچوں کے لیے اردو ذریعۂ تعلیم کو ترجیح دیتا ہے۔ اس کی وضاحت وہ اس طرح کرتے ہیں :  ’ ’مہاراشٹر میں عموماً اور ممبئی میں خصوصاً مسلمانوں کا تعلق تاجر طبقے سے ہے۔  ’ ’اس سے کیا مطلب نکلتا ہے ؟ تاجر طبقہ دوسرے طبقوں کے مقابلے میں اردو سے زیادہ دلچسپی کیوں رکھتا ہے ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ کم و بیش یہ طبقہ اپنا روزگار آپ فراہم کر لیتا ہے اور اس لیے وہ سرکاری اداروں اور سول سروسز پر انحصار نہیں کرتا؟ یا اس سے محض مسلمانوں کی بہتر معاشی حالت کی عکاسی ہوتی ہے ؟

 

اردو کی افادیت

موجودہ حالات میں میرے نزدیک سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ عوامی سطح پر اردو ایک زندہ زبان کی صورت اپنا مقام قائم رکھ سکے گی اور اپنی بازیافت کر سکے گی یا صرف ایک مخصوص کلچر کی علامت، ایک مذہبی زبان اور کسی حد تک ادبی مباحثوں کی زبان تک ہی محدود ہو کر رہ جائے گی؟ جہاں تک مجھے معلوم ہے ہندوستان کی تین ریاستوں میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کی حیثیت دی گئی ہے۔ اردو صحافت کی ہمیشہ یہ شکایت رہی ہے کہ حکومت کے اعلانات کا کوئی عملی فائدہ نہیں ہے۔ حالیہ عرصے میں آندھرا پردیش کے تیرہ ضلعوں میں اردو کو دوسری سرکاری زبان قرار دیا گیا۔ یہ بڑا حوصلہ افزا اعلان ہے۔ ان اقدامات کے نتائج مثبت ہوں تو مجھے بڑی مسرت ہو گی کیوں کہ اردو جب تک بعض علاقوں کے سرکاری معاملات میں اور وہاں کے تجارتی اغراض میں استعمال نہیں ہو گی زندہ زبان کی حیثیت سے اس کا کوئی مستقبل مجھے نظر نہیں آتا۔

اب یہاں ایک گھن چکر سا دکھائی دیتا ہے۔ 1946 کے بعد مرکزی علاقے میں ارباب اقتدار نے بہت ہی منظم طریقے سے اردو کو کم تر درجے کی زبان بنا دیا اور اسی کے ساتھ ساتھ بہت سے اردو والوں نے خود بھی دوسری زبانوں (ہندی، انگریزی) کو سرکاری مراسلت، تعلیم، تجارت و دیگر معاملات میں کاروباری مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ (ضمناً عرض کر دوں کہ ہندوستانی جامعات کے جن اردو پڑھانے والے اساتذہ سے میری ملاقات ہوئی ان میں سے کسی کی بھی اولاد اردو لکھنا پڑھنا نہیں جانتی)۔ شمس الرحمٰن فاروقی نے بڑے جارحانہ انداز میں کہا ہے : اگرچہ کہ مسلمانوں کا تشخص اردو سے وابستہ ہے لیکن انفرادی طور پر وہ اردو کے تحفظ کے لیے کچھ نہیں کر سکتے۔ (5) ایسی حالت میں مراعات، اکادمیاں ، سرکاری وظیفے اردو کی حالت میں بہتری نہیں لا سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی تنہا مسلمان کی جدوجہد نہیں کے برابر ہے۔ اس معاملے میں خاص طور پر دانشوروں نے بے حد مایوس کن کردار ادا کیا۔ نہ صرف یہ کہ اپنے بچوں کو اردو نہیں پڑھائی بلکہ اپنی بے عملی کے بعض احمقانہ جواز پیش کیے۔ نتیجتاً یہ معاملہ اور بھی سنگین ہو گیا۔ (6) چودھری محمد نعیم نے ایک توجیہہ پیش کی جو اکثر بیان کی جاتی ہے۔  ’ ’مضافات کو چھوڑیے شہر میں بھی تمھارے والدین اردو ذریعۂ تعلیم کا ایک بھی تحتانوی یا ثانوی اسکول نہیں پا سکتے۔ اگر پالیں تو وہ اس خستہ حالت میں ہو گا کہ وہ تمھیں اس میں داخلہ دلوانا پسند نہ کریں گے۔  ’ ’

شدید مسابقتی سماج میں ، جیسی کہ اب ہندوستان کی صورت حال ہے ، والدین کا اپنی اولاد کے مستقبل اور ان کے روزگار کے مواقع کے بارے میں فکر مند ہونا لازمی ہے۔ اس میں کوئی قباحت بھی نہیں لیکن اگر آپ اپنی علاحدہ ثقافتی شناخت، اردو کے توسط سے قائم رکھنا چاہتے ہیں تو زائد ذمّے داریاں بھی نبھانا پڑیں گی۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ اردو سرکاری کاروبار میں استعمال ہو تو اس مقصد کے لیے ایسے افراد ضروری ہیں جو اردو زبان میں مہارت رکھتے ہوں۔ کیا کوئی ایسا طبقہ موجود ہے یا پھر اسے ازسر نو تیار کیا جائے گا؟ اس بارے میں دو رائیں نہیں ہو سکتیں کہ اردو میں ابتدائی تعلیم، اردو کے تعلیمی فروغ اور اردو بہ حیثیت ایک رائج زبان یہ سب اولین شرطیں ہوں گی جن کی قبولیت پر اردو کی ترقی کا دارومدار ہے۔ کیا والدین پر فرض نہیں کہ اپنے بچوں کو ایسے اسکولوں میں بھجوائیں جہاں اردو ذریعۂ تعلیم ہو یا کم از کم جہاں اردو کو زبان اول کی حیثیت سے پڑھایا جاتا ہو؟لیکن متوسط طبقے کے کتنے لوگ ایسا کرنے پر راضی ہو سکتے ہیں ؟

میں چودھری نعیم کے اس خیال سے پوری طرح متفق ہوں کہ ہندوستانی جامعات کا نصاب ان مسائل کو حل کرنے میں قطعی مددگار نہیں ہے۔ اس نصاب میں پوری توجہ ادب پر (یہاں بھی موجودہ دور کے مصنفین اور ان کے کام کو نظر انداز کیا گیا ہے ) دی گئی ہے۔ اردو زبان کے مروجہ تقاضوں اور عمرانیاتی ادب پر عصری مباحث کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ یہ تصور کہ اردو بنیادی طور پر یا خصوصی طور پر ایک ادبی زبان ہے ، یہ عشقیہ شاعری کی زبان ہے یا اس سے اردو کو درس و تدریس کے ضمن میں نقصان پہنچے گا۔ اردو کو کم درجے کی زبان سمجھا جائے گا۔ اگر چہ یہ بھی سچ ہے کہ اردو میں بھی اس شہرت کی بنا پر کچھ نفع بخش پروگرام کیے جا سکتے ہیں۔ خاص طور پر غزلیات اور قوالی کی مدد سے۔ یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ اردو کی اسی ثقافت اور اسی طرح کے تفریحی پروگراموں نے اسے کسی حد تک زندہ رکھا ہے۔

ادھر کئی ادیبوں نے اس خیال کا اظہار کیا کہ مدرسوں کی تعلیم کی بدولت اردو لکھنے پڑھنے والے نوجوانوں کا ایک نیا طبقہ ابھر آیا ہے۔ لیکن سچ پوچھیے تو مدرسوں کے نصاب میں اردو زبان و ادب کو کیا جگہ دی جاتی ہے ؟ چوں کہ اردو ذریعۂ تعلیم ہونے کے سبب یہاں طلبا کم از کم اردو کی بنیادی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ ویسے میری معلومات مدرسوں کی تعلیم کے بارے میں محدود ہیں اس لیے میں مزید تبصرہ کرنا پسند نہ کروں گی۔ لیکن میں نے یونی ورسٹی کے اساتذہ سے سن رکھا ہے کہ مدرسوں کی تعلیم سے فارغ ہو کر نکلنے والے طلبا اردو کے ادبی ورثے سے اور عصری ادب سے ناواقف ہوتے ہیں۔ قمرالدین نے مذہبی تعلیمی اداروں کا جو جائزہ لیا ہے ، اس میں اس حقیقت کا اعتراف موجود ہے – سائنس اور عمرانیات سے متعلق ترقی یافتہ جدید لٹریچر سے عام طور پر مدرسوں کے طلبا ناواقف ہی رہتے ہیں۔

کئی مدرسوں نے یہ کوشش بھی کی کہ نصاب میں جدید علوم کو شامل کیا جائے۔ مدرسوں کے بارے میں بجائے اس کے کہ تحقیر آمیز تبصرے کیے جائیں بہتر ہو گا کہ ایک ایک مدرسے کا قریب سے جائزہ لیا جائے تاکہ ایک صحیح تصویر ہمارے سامنے آ سکے۔ حالیہ عرصے میں جو مشاہداتی مطالعے کیے جا رہے ہیں ان کی مدد سے اصل حقیقتیں واضح ہو سکتی ہیں۔ اعداد و شمار بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کم از کم بعض مدرسوں سے فارغ نئی نسل کے نوجوان اردو زبان پر مناسب دسترس رکھتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ باہمی مشاورت سے اور اس خلیج کو جو نظریات کی، سیاسی اقتدار و مفادات حاصلہ کی اور منصب کی برتری کی بنائی ہوئی ہے ، پاٹنے سے اس تعطل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

یہ مطالعہ بھی دلچسپ ہو گا کہ ان دو گروہوں یعنی مدرسوں کے طلبا اور جدید طرز تعلیم کے طلبا کبھی یکجا ہو کر اپنی صلاحیتوں کا مشترک طور پر جائزہ لیں۔ یہ دونوں مل کر اردو ادب اور اردو کلچر میں شاید ایک نئی جان ڈال سکتے ہیں۔ کیا کبھی ماڈرن دانشوروں اور مدرسوں کے تعلیم یافتہ لوگوں کے درمیان کوئی مکالمہ ہوا ہے (آپسی حملوں اور جذباتی بحثوں کے علاوہ)؟ اگر ایسا نہیں ہوا تو کیوں ؟ کیا نچلے متوسط طبقے یا پسماندہ اردو والوں نے اپنی آواز یا اپنے نظریات اور مفادات کے اظہار کے لیے اپنا پریس قائم کیا؟ کیا اونچے طبقے کا مسلم سماج ان اردو والوں کو دوسرے درجے کا تصور کرتے ہوئے نظرانداز نہیں کرتا، اس حقیقت کے باوجود کہ ان کا سماجی پس منظر اور ان کے دائرۂ کار کی وسعت اردو کو ایک زندہ زبان بنانے کا آخری موقع فراہم کر سکتی ہے۔ اس کے برخلاف مذہبی تعلیم سے اردو کو مربوط کرنا جیسا کہ مدرسوں میں کیا جاتا ہے اردو کے فروغ کو مزید محدود کر دینا ہے۔ اردو ایک ایسی زبان ہے جسے اکثر ہندوستانی مسلمان اپنی علامتی شناخت اور تشخص کا وسیلہ سمجھتے ہیں۔ یہ مذہب سے زیادہ ان کے کلچر کی شناخت ہے۔ ان تمام محلوں میں جہاں کہیں مطالبہ ہو اعلیٰ درجے کے اردو میڈیم اسکول یا اردو ذریعۂ تعلیم کے سرکاری اسکول قائم کیے جائیں اور اگر ایسا کیا جا سکے تو ان مدرسوں کے چیلنج کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس طرح کا طرز عمل مدرسوں میں بہتر تعلیم مہیا کرنے کا محرک ثابت ہو۔

آگے کا راستہ

اگر ہمارا مقصد یہ ہے کہ اردو کے استعمال کا احیا ہو تو ہمیں اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے مختلف جہتوں میں کام کرنا پڑے گا۔ مندرجہ ذیل تجاویز ملکی اور غیر ملکی دانشوروں نے بارہا پیش کی ہیں اور میں نے جن اقدامات کو اہمیت کا حامل سمجھا انھیں یکجا کرنے کی کوشش کی ہے۔

 

اردو کو رائج زبان بنانے اور اسے بحال کرنے کے ممکنہ اقدامات

جن لوگوں کی مادری زبان اردو ہے ، دستور کی دفعہ 350A (الف) کے تحت ان کے بچوں کو اردو ذریعۂ تعلیم کی سہولت، ایسے طلبا کو اردو زبان اوّل کی حیثیت سے سکھانے کے انتظامات، مردم شماری کی رپورٹ میں زبان کا صحیح اندراج، لازمی ماڈرن زبان کی حیثیت سے سنسکرت کا سہ لسانی فارمولے سے اخراج (حکومت کی ذمّے داری)۔

٭        ایسے طلبا جن کی مادری زبان اردو کے بجائے اور کوئی ہو ان کے لیے اردو کو اختیاری زبان کے طور پر پڑھانے کا انتظام (ریاست کی ذمّے داری)

٭        تعلیم و تدریس کے علاوہ انتظامیہ، تجارت وغیرہ میں عہدے داروں اور اردو بولنے والوں کو اردو کے استعمال کا حق۔ اسی طرح اردو کے تعلیم یافتہ افراد کے لیے روزگار کے مواقع کی فراہمی (ریاست، افراد، تجارتی اداروں وغیرہ کی ذمّے داری)۔

٭        اردو بولنے والے والدین کے ایسے بچے کو، جنھوں نے اردو کے بجائے دوسری زبانوں میں تعلیم پائی ہو، خانگی طور پر اردو تعلیم کا انتظام۔

یہ بات قابل غور ہے کہ اگر سہ لسانی فارمولے سے سنسکرت کو خارج بھی کر دیا جائے تو ان ریاستوں میں جہاں ریاستی زبان ہندی نہیں ہے اور سہ لسانی فارمولا بھی قابل عمل نہیں ہے کیا کیا جائے۔ مثال کے طور پر کرناٹک میں ایک طالب علم کو عملاً اردو، کنڑی، ہندی اور انگریزی سیکھنا پڑتی ہے۔ وہاب عندلیب نے یہ تجویز پیش کی کہ طلبا کے لیے ساتویں جماعت سے اردو اور ہندی کی مشترکہ جماعتیں قائم کی جائیں اردو طلبا کے لیے ہندی اور ہندی کے طالب علموں کے لیے اردو سیکھنا آسان ہے۔ 1947 سے قبل متوازی تعلیم کی روایت رہی ہے۔ کسی بھی طالب علم کے لیے ہندی یا اردو رسم الخط اور زائد ذخیرۂ الفاظ اور بول چال کے لہجہ و انداز سے واقف ہونے کے لیے تھوڑی زائد کوشش کرنا ہو گی۔ ہندی کے ذریعۂ اردو سکھانے والی جو نصابی کتابیں ہیں میں نے دیکھی ہیں۔ ان میں کم سن بچوں کی تعلیم پر زور دیا گیا ہے اور یہ طریقۂ کار بالغوں اور بڑی عمر کے بچوں کے لیے مجموعی طور پر مناسب ہے۔ کسی قدر یہ بات ان درسی کتابوں کے لیے بھی صحیح ہے جو قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے فاصلاتی تعلیم کے لیے شائع کی ہیں۔ مجموعی اعتبار سے اردو اور ہندی کی مشترکہ تعلیم (کم از کم ابتدائی درجوں میں ) بہت سے مسائل کو شاید آسانی سے حل کر سکتی ہے۔ دونوں زبانوں کی گرامر ایک ہی ہے۔ یہ بات نسبتاً آسان ہے کہ ایک طالب علم دونوں رسم الخط سے واقف ہو جائے۔ (ترجیحاً یکے بعد دیگرے )۔ حتیٰ کہ ہمارے جرمن زبان کے طلبا جو اردو اور ہندی سے قطعی ناواقف ہوتے ہیں وہ بھی چار سے چھ ہفتوں میں رسم الخط پر عبور حاصل کر لیتے ہیں۔

اگر سرکاری اسکولوں میں اردو تعلیم کی سہولت میں آسانی بھی ہو جیسا اتر پردیش میں ہے تو کیا والدین اپنے بچوں کو وہاں بھیجیں گے ؟ کیا وہ انگریزی یا ہندی ذریعۂ تعلیم کے اسکول کو ترجیح نہیں دیں گے ؟ ایس ایس دسنوی نے اردو کے بجائے انگریزی یا علاقائی زبان اختیار کرنے کا ایک سبب روزگار کے مواقع بتایا ہے۔ پھر کیوں مہاراشٹر کی صورت حال مختلف ہے جب کہ بقول اطہر فاروقی اردو ذریعۂ تعلیم کے اسکولوں میں سارے مضامین اردو میں پڑھائے جاتے ہیں۔ مجھے یہ بھی جاننے کا اشتیاق ہے کہ اتر پردیش اور بہار میں اردو طلبا کی تعداد میں اتنا زیادہ تفاوت کیوں ہے ؟ ایک سبب ریاستی حکومت کا اختلافی رویہ ہو سکتا ہے لیکن بہار میں غریب مسلمان طبقے کی اسلام سے وابستگی اتر پردیش کے مقابلے میں زیادہ کیوں ہے ؟ یا پھر دوسری وجوہات بھی ہو سکتی ہیں۔ اتر پردیش میں کم مسلمان اپنے بچوں کو دینی مدارس بھیجتے ہیں۔ اردو ذریعۂ تعلیم نہ ہونے کا بھی ایک سبب ہے۔ سائنسی اصطلاحات کی عدم موجودگی ایک اور سبب ہے۔ اطہر فاروقی نے بھی اس حقیقت کو بیان کیا ہے اگر چہ کہ اس مضمون میں انھوں نے عثمانیہ یونی ورسٹی کی جانب سے مرتبہ لغات اور فرہنگوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ حیدرآباد میں وضع کی گئی اصطلاحیں شاید از کار رفتہ ہو چکی ہیں لیکن ہندوستان اور پاکستان میں فرہنگیں تیار کی گئی ہیں اور خود این۔ سی۔ ای۔ آر۔ ٹی۔ (NCERT) سے مختلف مصنفین کی کتابیں بہ شمول سائنس کی درسی کتب اردو میں شائع کی گئی ہیں۔ ترقی اردو بورڈ کی جانب سے جو کتابیں الگ سے تالیف ہوئی ہیں ان کا ذکر بھی ایس ایس دسنوی نے اپنے مذکورہ بالا مضمون میں کیا ہے۔ اس طرح تمام مضامین کی تعلیم اردو میں ممکن ہے شرط یہ ہے کہ سیاست دانوں اور والدین کی رضامندی حاصل ہو۔ اس بات کا علم بھی ضروری ہے کہ آیا یہ کتابیں استعمال میں بھی آ سکتی ہیں یا نہیں۔ اردو کی کتابوں اور تاریخی کتابوں کے بارے میں کہنا یہ ہے کہ دوسری زبانوں (ہندی اور انگریزی) سے ترجمہ شدہ کتابوں سے اندیشہ ہو سکتا ہے کہ ان میں مذہبی عصبیت شامل ہو، انھیں رد کیا جا سکتا ہے لیکن ریاضی اور سائنس کی کتابوں کے بارے میں اس طرح کے اعتراض کی گنجائش نہیں ہو سکتی۔

ضرورت کی کتابوں کی دستیابی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن اگر چند دولت و ثروت والے اور صاحب رسوخ اس معاملے میں دلچسپی لیں تو یہ مسئلہ بھی حل ہو سکتا ہے۔ سائنس کی اعلیٰ تعلیم کے لیے انگریزی کو برتری حاصل ہے لیکن غیر انگریزی داں اداروں کے لیے یہ فائدہ مند نہ ہو گا۔ جرمنی میں آج بھی سائنس کی اعلیٰ تعلیم کے لیے انگریزی ذریعۂ تعلیم پر بحث جاری ہے۔ سائنسی مطبوعات کے علاوہ بین الاقوامی کانفرنسوں اور سیمیناروں میں انگریزی ہی استعمال ہوتی ہے۔ اس طرح یہ مسئلہ صرف اردو دانوں تک ہی محدود نہیں ہے۔ بہر حال سائنس کی تعلیم ابتدائی درجوں میں طالب علم کی مادری زبان میں ہو تو بہتر نتائج کے امکانات ہیں۔ مجموعی طور پر ایس ایس دسنوی کے تجویز کردہ لائحۂ عمل (ساتویں جماعت تک اردو ذریعۂ تعلیم اور تیسری جماعت سے علاقائی زبان کی تعلیم ایک مضمون کی طرح، بارہویں جماعت تک اردو کو زبان اول کے طور پر پڑھایا جائے لیکن آٹھویں سے بارہویں جماعت تک تعلیم علاقائی زبان میں ہو) مجھے قابل عمل معلوم ہوتا ہے   —   اردو میں فاصلاتی تعلیم کا کیا حال ہے۔ کیا اس کورس میں داخلہ لینے والوں اور امتحانات پاس کرنے والوں کے اعداد و شمار دستیاب ہیں؟

 

انگریزی کا جنون

اسکولوں اور کالجوں کی ہر سطح پر انگریزی کو ذریعۂ تعلیم بنانے کا اصل سبب تعلیم، انتظامیہ اور تجارت کے اونچے حلقوں میں انگریزی کا تسلط ہے۔ انگریزی کے اسی بہتر موقف کی وجہ سے دیگر زبانوں میں تعلیم پانے کو دوسرے درجے کا سمجھا جاتا ہے۔ مزید بدنصیبی یہ کہ انگریزی ذریعۂ تعلیم کے مقابلے میں دوسری زبانوں میں تعلیم کا معیار کم تر ہے۔ متعلقہ زبانوں کی داخلی کمزوری اس کا سبب نہیں ہے بلکہ یہ عدم توجہ اور حقارت کا نتیجہ ہے۔

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر انگریزی کو پہلی جماعت سے تمام اسکولوں میں ذریعۂ تعلیم بنا دیا جائے تو کیا کم تر درجے کے طبقوں کا سماجی، سیاسی، معاشی رتبہ بلند ہو سکے گا۔ ان اسکولوں میں مجموعی صورت حال کی بہتری کی تنہا ضامن انگریزی نہیں ہو سکتی۔ کیا غیر انگریزی ماحول سے آئے ہوئے طلبا سمجھ پائیں گے کہ اسکول میں انھیں کیا پڑھایا جا رہا ہے ؟ کیا وہ اعلیٰ صلاحیتوں والے ہم جماعتوں کی ہمسری کر سکیں گے یا پھر ابتدا ہی سے ناکامی ان کا مقدر ہو گی؟ کیا وہ لڑکے جو انگریزی کے تربیت یافتہ ہیں ، آگے چل کر اپنے تمام امور انگریزی ہی میں انجام دیں گے ؟ کیا وہ کسی ہندوستان کی زبان میں ڈھنگ سے بات چیت نہ کرنے پر فخر کریں گے ؟ کم از کم میرا مشاہدہ تو یہی ہے۔ ادیبوں ، صحافیوں وغیرہ کو چھوڑ کر  ’انگریزی جاننے والے  ’ ہندوستان کی دوسری زبانوں کو استعمال کرتے ہوئے ان کے ذریعے اپنا روزگار کما لیتے ہیں۔

اس مسئلے کا کیا حل ہو سکتا ہے ؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ہندوستانی طلبا کی اس طرح تربیت کی جائے کہ وہ بیک وقت انگریزی اور کسی ایک ہندوستانی زبان پر یکساں عبور حاصل کر سکیں ؟ کیا یہ مقصد چند مضامین کو انگریزی میں اور چند دیگر مضامین کو مادری زبان میں پڑھانے سے حاصل ہو سکتا ہے ؟ یا صرف انگریزی ابتدائی دو یا تین درجے تک بہ حیثیت مضمون پڑھائی جائے ؟ اردو کے تعلق سے اس مسئلے کی اہمیت دوسری زبانوں کی بہ نسبت کہیں زیادہ ہے اس لیے کہ اسے بہ حیثیت ایک رائج زبان باقی رہنا ہے۔ اردو کو محض ایک مضمون تک محدود کرنے اور انگریزی کو ذریعۂ تعلیم بنانے سے مجھے یہ خدشہ ہے کہ ایک قلیل مدت میں یہ زبان اپنے بولنے والوں سے محروم ہو جائے گی۔ یہاں تک کہ یہ طریقۂ کار اردو کو ایک ایسی مردہ زبان میں تبدیل کر سکتا ہے جو محض تدریسی اہمیت کی حامل ہو گی۔

ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ اردو میں مختلف جماعتوں کے لیے اعلیٰ تعلیمی معیار کے اقدامات کر لیے جائیں گے۔ تب ایک اور مسئلہ باقی رہ جاتا ہے : وہ کون لوگ ہوں گے جو ابتدائی سطح پر تعلیم و ترسیل، روزگار اور کاروبار میں اردو کو اپنانا چاہیں گے ؟ کیا وہ محض ایسے لوگ ہوں گے جو دیگر زبانوں میں تعلیم حاصل کرنے کی سکت نہیں رکھتے یا وہ جو اپنے مذہبی تشخص کی بنا پر اردو سے چمٹے رہتے ہیں۔ ہندوستان میں اردو ذریعۂ تعلیم کے مطالبے کی کیا اصلیت ہے ؟ کیا ہندوستان میں رائج زبان کی حیثیت سے اردو کی تجدید ممکن ہے یا یہ کہ وہ اپنی ڈگر سے ہٹ گئی ہے اور اب واپس نہیں ہو سکتی؟ اعلیٰ طبقے کے کتنے والدین ہیں جو اپنے بچوں کو اردو کی تعلیم دلانا چاہتے ہیں ؟ اور مسلم متوسط طبقے کا کیا حال ہے ؟ اردو کے مفاد کے لیے کام کرنے والے ان ہی دو طبقوں سے آتے ہیں جب کہ اردو کی بنیادیں اعلیٰ طبقے سے قائم ہیں۔ ان دو گروہوں کے درمیان ترسیل کا فقدان میرے خیال سے اردو تعلیم کے فروغ کی راہ میں بڑی رکاوٹوں میں سے ایک ہے۔

کیا ہمیں اردو تعلیم کی موجودہ صورت حال کو من و عن قبول کر لینا چاہیے ؟ ہرگز نہیں ! اردو ذریعۂ تعلیم کا معیار ہر سطح پر بلند ہونا چاہیے۔ یہ معیار اعلیٰ صلاحیتوں سے بہرہ ور اساتذہ کو، جن میں پڑھانے کی لگن ہو، حاصل کیا جانا چاہیے۔ پڑھانے کے لیے استعمال کی جانے والی چیزیں بھی اسی اعلیٰ معیار کی ہوں جیسی کہ دوسری زبان والے استعمال کرتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے ، میں محسوس کرتی ہوں کہ اردو تعلیم کا معیار اسی سطح کا ہوتا ہے جس سطح کا وہ گروہ ہوتا ہے جس کی ضروریات یہ پورا کرتی ہے۔ جب تک اردو کی تعلیم دینے کا اختیار (ابتدائی سطح پر) ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جن کی طرف ایک ماڈرن تعلیم سے آراستہ شخص تحقیر کی نظر سے دیکھتا ہے تو موجودہ صورت حال کا بہتر ہونا ممکن نہیں۔

جو مواد دہلی پبلک اسکول کی تین شاخوں سے مجھے وصول ہوا ہے اُس سے پتہ چلتا ہے کہ غیر مسلموں نے بڑی تعداد میں اردو کو تیسری زبان کی حیثیت سے اختیار کیا ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ موجودہ مایوس کن صورت حال کے باوجود اردو کا وقار قائم ہے جس کے اسباب اس کا اعلیٰ ادب اور نفیس کلچر ہیں۔ حال ہی میں ہندی کے شاعر وشنو کھرے نے ہمارے ادارے میں تقریر کرتے ہوئے اسی خیال کا اظہار کیا۔ ہمیں قبول ہو کہ نہ ہو اردو کا مستقبل جن عوامل سے وابستہ ہے وہ ہیں اس کا ادب، تاریخ اور ذرائع ابلاغ بہ نسبت انتظامی امور، تجارت اور ماڈرن تعلیم کے۔ تاریخ اور ادب کے مطالعے کے لیے فصیح زبان کا استعمال اولین شرط ہے۔ اس بات پر بارہا زور دیا جا چکا ہے کہ کالج اور یونی ورسٹی کی سطح پر اردو کی تدریس کے لیے بنیادی طور پر زبان پر عبور ضروری ہے۔ ایک ایسی حکمت عملی اختیار کی جائے کہ مندرجہ ذیل امور کو ترقی دی جا سکے۔

.1        ہائی اسکول اور اعلیٰ درجوں میں اردو طالب علموں کو اس وقت تک داخلہ نہ دیا جائے جب تک انھوں نے ابتدائی اور ثانوی جماعتوں میں اردو زبان کے نصاب میں کامیابی حاصل نہ کی ہو اور یہ کہ وہ اردو دانی کے ساتھ ساتھ اردو رسم الخط میں لکھنا پڑھنا جانتے نہ ہوں۔

.2        ایم۔ اے۔ اور پی ایچ۔ ڈی کے لیے طلبا کا سخت ترین امتحان لیا جائے تاکہ ان ڈگریوں کا معیار قائم رہ سکے۔ اگر اردو کو کلاسیکی لٹریچر اور ذرائع ابلاغ تک محدود بھی کر دیا جائے تو ان دونوں میدانوں میں خاطر خواہ پڑھے لکھے ماہرین کو حاصل کیا جانا چاہیے۔

آخر میں اردو والوں کے رویے کے بارے میں جو ہندی والوں کے ساتھ ہے میں اختصار سے کچھ کہنا چاہوں گی۔

ہندی، اردو کی متبادل رائج زبان ہو جانے کے سبب اردو والے احساس کمتری کا شکار ہو گئے ہیں جس کا توڑ ان کے احساس برتری میں اس اساس پر ہے کہ اردو ادب کا ورثہ، اس کے کلچر کی نفاست اور شائستگی اعلیٰ معیار کے ہیں۔ اس رویے سے اردو والوں کو مستقبل میں کوئی فائدہ ہونے والا نہیں ہے۔ بد ہئیتی، الفاظ کی بے ترتیبی اور بلند بانگ دعوے ، بے قاعدگیاں ، قواعد سے انحراف یہ سارے نقائص اردو اور ہندی دونوں زبانوں کی تقریر و تحریر میں ہیں اور عصری ہندی ادب میں ایسا بہت کچھ ہے جس کا اردو عصری ادب سے مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ جب تک اردو بولنے والوں کا اعلیٰ طبقہ اپنے سے نچلے طبقے اور ہندی زبان والوں کی جانب معاندانہ رویہ رکھے گا اسے نقصان اٹھانا پڑے گا یہاں تک کہ اردو کے وجود کو باقی رکھنے کے امکانات ختم ہو جائیں گے۔ آپس میں حریفانہ رویے کے بجائے اردو ہندی کے ادیبوں اور دانشوروں کے درمیان باہمی اتحاد و ربط قائم ہونا چاہیے۔ (میں اس بات سے بہ خوبی واقف ہوں کہ خود اردو ادیبوں اور دانشوروں کے درمیان مفاہمت اور باہمی اتحاد سے زیادہ رقابت ہے )۔ با مقصد میل جول کی اور اتحاد کی بعض مثالیں بھی موجود ہیں۔ ہندی سے اردو میں تراجم کا اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ لہٰذا میں اردو تصانیف کے ہندی میں تراجم یا انھیں دیوناگری رسم الخط میں لکھنے کی حامی ہوں۔ شخصی طور پر ہندوستان میں اردو رسم الخط کے ترک کیے جانے کا مجھے بے حد ملال ہو گا۔ ایسا ہونے سے اگلی نسلوں کو اپنے ثقافتی ورثے سے منقطع ہونا پڑے گا اور نتیجے میں اردو ایک مردہ زبان بن جائے گی۔ کم از کم ہندوستان میں۔

٭٭٭

References

 

  1. Kriplani Committee Report, p. 80.
  2. Brass, Paul R., Language, Religion and Politics in North India, Cambridge
  3. Ibid., p. 206.
  4. Economic and Political Weekly, 2 April 1994, pp. 782-5.
  5. See Urdu Dunya, October 2001, p. 62.
  6. Quoted from an interview by Ather Farouqui in: Annual of Urdu Studies, No. 10, 1995, p. 165

٭٭٭

 

 

 

بنیادی تعلیم کی وردھا اسکیم اور اردو ذریعۂ تعلیم

 

 

کیرن گرافن شاورن

 

تعلیم تمام سرپرستوں اور گھر کے بزرگوں کا مسئلہ رہی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے دنیاوی معاملات سے واقف ہوں اور معاشی اعتبار سے خوش حال رہیں ، انھیں سماجی اقدار کا بھی پاس رہے۔ ایسا ہی رویّہ اس راجا کا تھا جس نے پنچ تنتر کی مشہور کہانیاں لکھوائیں۔ راجا اپنے لڑکوں کی نااہلی اور بری عادتوں سے عاجز آ چکا تھا۔ اس نے اپنے لڑکوں کو ایک رشی کے حوالے کیا۔ رشی نے ان لڑکوں کو چھ ماہ تک پنچ تنتر کی کہانیاں سنائیں اور انھیں سدھار لیا۔

روایتی تعلیم کسی بھی طبقاتی سوسائٹی میں لوگوں کی متنوع ضرورتوں کو پورا کرتی ہے۔ تجارت پیشہ لوگ نمبروں کی گنتی اور حساب کتاب میں لگے رہتے ہیں۔ مذہبی علماء مقدس کتابیں اور ان کی تفاسیر پڑھتے ہیں۔ رئیس اور امرا سمجھتے ہیں کہ کتابی علم ان کے لیے کسر شان ہے۔ وہ دوسروں کو مامور کرتے ہیں کہ ان کے پڑھنے لکھنے کا کام کریں۔

آج ہم یقین رکھتے ہیں کہ ہر بچے کو اسکول جانے کا مساوی موقع ملے تاکہ وہ لکھنا پڑھنا سیکھے اور دنیا کے بڑھتے ہوئے پیچیدہ مسائل کا سامنا کرے۔ ترقی پانے کے لیے علم کی جادوئی حیثیت ہے۔ اخلاقی ذہنی اور معاشی محاذوں پر۔ ہندوستان پر برطانوی حکومت کے دور میں تعلیمی نظام ان لوگوں کے ہاتھ میں تھا جو اعلیٰ تعلیم کی افادیت سے واقف اور لبرل خیالات کے حامل تھے۔ انھوں نے سوچا: متوسط طبقے کو تعلیم دی جائے تو وہ  ’ ’ہمارے اور لاکھوں عوام کے درمیان، جن پر ہم حکومت کرتے ہیں ، ترسیل کا کام انجام دیں گے  ’ ’ یہ متوسط طبقہ انگریزی سے واقف تھا۔ آزادی کی تحریک کے آخری زمانے ہی میں تعلیم کے عمومی موقف اور تعلیم کو ہندوستان سے مربوط کرنے کے موضوعات پر وردھا کانفرنس میں گفتگو ہوئی۔ وردھا ہندوستان کے وسط میں واقع ہے۔

میں نے وردھا تعلیمی اسکیم 1937 کے موضوع کو اپنے مضمون کے لیے منتخب کیا۔ اس سے مجھے ایک ایسا موقع حاصل ہو گا کہ میں اس شخصیت کو قریب سے دیکھ سکوں جو اس موضوع اور مواد کو تشکیل دینے کی ذمّے دار ہے۔ وہ اس اسکیم کے صدر بھی تھے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین ان گنے چنے سیاست دانوں میں سے ہیں جو جدید تعلیمی فلسفے کی تاریخ سے کما حقہ واقف تھے۔ اس سے انھیں گہری دلچسپی تھی۔ تعلیمی نظام سے متعلق ان کا پہلا اور شخصی تجربہ ہندوستان میں جامعہ ملیہ کے قیام کا تھا۔ یہ بہت کامیاب ثابت ہوا۔

ذاکر حسین نے 1920 میں علی گڑھ یونی ورسٹی سے اپنی تعلیم مکمل کی۔ اسی سال انھوں نے ہندوستان کی تحریک آزادی میں عوام کی بڑی تعداد کو زور و شور سے حصہ لیتے ہوئے دیکھا۔ وہ ان میں شامل ہو گئے جو نوآبادیاتی تعلیمی نظام کا بائی کاٹ کر رہے تھے۔ وہ جامعہ کے اولین طالب علموں میں سے ایک تھے۔ اس کے دو برس بعد ہی آزادی کی تحریک دھیمی پڑ گئی تو ان کے ایک دوست نے انھیں جرمنی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے آمادہ کیا۔

ان کی برلن کی سرگرمیوں کی تفصیل اس شخص کے لیے دلچسپی کا باعث ہو گی جو نہ صرف برلن کے بارے میں جانتا ہے بلکہ جس نے کم از کم دو سال جامعہ میں تعلیم پائی ہو۔ یہاں ذاکر حسین کے لیے پہلے جرمن زبان سیکھنا ضروری تھا۔ انھوں نے ہندوستان کو بھیجی ہوئی ایک رپورٹ میں یہ بات کھل کر بتائی کہ کسی بھی طالب علم کو ابتدا سے یونی ورسٹی کی سطح تک اس کی مادری زبان میں تعلیم دینا ضروری ہے۔ اس دوران انھوں نے فریڈرک ولہیم (Fredrick Wilheiam) یونی ورسٹی میں (جو آج ہم بولٹ یونی ورسٹی Humboldt University کہلاتی ہے ، معاشیات کی تعلیم کے لیے ورنر سومبرٹ (Werner Sombart) کے زیر نگرانی داخلہ لیا۔ سومبرٹ اپنے وقت کے مشہور ماہر معاشیات تھے جنھوں نے کارل مارکس کے کام کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے سرمایہ داری کی تاریخ (History of Capitalism youth in Berlin)لکھی۔ سومبرٹ کے لڑکے (جو ابھی حیات ہے ) نے اپنی یادداشت میں لکھا کہ کس طرح ان کے باپ کام کے دنوں میں آدھے گھنٹے کے لیے بچوں کے ہال میں آتے تاکہ انھیں پریوں کی کہانیاں سنا سکیں۔ رابن سن کروسو، یونان کی قدیم حکایتیں (Nibelongen) ہومر، اور گوئٹے کا ماوسٹ اس طرح کہانیاں سنانا اس زمانے کے بورژوا کلچر میں تعلیم کی روایت تھی۔

پچھلی صدی کی دو دہائیوں تک برلن اپنی اعلیٰ ثقافت، زوال آمادہ ذہانت پذیر زندگی، عزت و ناموس کے عدم تحفظ، غربت، اقدار کی گمشدگی اور فاشزم کی شروعات کے لیے جانا جاتا تھا۔ جنگ عظیم نے جرمن سماج پر بڑے گہرے داغ چھوڑے۔ ان داغوں اور افراط زر کی شدت نے لاکھوں عوام کو بے روزگار اور بھوکا رکھا۔ وہ تینوں طالب علم محمد مجیب، عابد حسین اور ذاکر حسین، جن کی ملاقات برلن میں ہوئی تھی، ان حالات کی لپیٹ میں آگئے۔ محمد مجیب اور عابد حسین ایک ماہر تعلیم ولیم شوونر (William Sehwner)، جو ابتدائی تعلیم سے متعلق ایک رسالے کے مدیر بھی تھے ، کے گھر مقیم تھے۔ ان کے داماد الفرڈ ایہرین (Alfred Ehrentreich) بھی شوونر کی طرح ماہر تعلیم اور ایک ٹیچر تھے۔ انھوں نے ان دونوں جوانوں کو George Kerschensteiner اور Equard Spranger جیسے مصنفوں سے ملایا اور اس وقت اصلاحی تحریکوں سے روشناس کروایا۔ ذاکر حسین نے بھی چند ایک سے ملاقات کی جب کہ عابد حسین نے Spranger کی زیر نگرانی تعلیمی فلسفے پر مقالہ لکھا۔

Spranger اور Kerschensteinerجرمن اسکول کی اصلاحی تحریک کے نمائندے تھے۔ اس میں خاص طور پر ابتدائی اور پیشہ ورانہ تعلیم کو بڑی اہمیت تھی۔ چھوٹے بچے اور بڑھتی ہوئی عمر کے نابالغ لڑکے ماہرین نفسیات اور ٹیچروں کی توجہ کے مرکز تھے۔ انسان کی ذہنی اور اخلاقی تربیت میں بچوں کی ابتدائی زندگی کے مراحل بڑی اہمیت کے حامل سمجھے جانے لگے۔ ایک مفروضہ تھا کہ انسان کی زندگی میں اس کے ابتدائی دس سال کی بڑی اہمیت ہے اور اسی لیے اسکول کی تعلیم کے دوران اسے بڑی اہمیت دی جانی چاہیے۔ اس مفروضے سے گریز ضروری تھا لیکن اس میں عجلت نقصان دہ ثابت ہو سکتی تھی۔ روایتی تعلیم کا طریقۂ کار، جس میں قوانین و ضوابط کی پابندی تھی اور ذہانت کو فروغ دینے کے ذرائع کو بدل کر ایسے طریقوں کو رائج کرنے کی ضرورت تھی جس میں اسکول کا مطلب تھا، بچوں کے لیے کھیل کود، ذہنی اور جسمانی تندرستی، تقاریب، تعلیمی تفریح، پکوان، تھیٹر اور ڈرامہ، موسیقی اور دست کاری۔

بچوں کے لیے ضروری ہے کہ غیر ملکی زبانوں اور کتابوں کے مطالعے کے بل بوتے پر دنیا میں قدم رکھنے سے قبل اپنے فطری ماحول اور اپنے تہذیبی ورثے کا احاطہ کریں۔ طرح طرح کی پیشہ ورانہ مہارتوں کو حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ مختلف پیشہ ورانہ اسکولوں میں بچے تعلیم پائیں Spranger نے اس مقصد کیلئے ایک نئے طرز کے اسکول کی بنیاد ڈالی۔ یہ اسکول Berufschule کہلایا جس کے معنی جرمن زبان میں  ’پیشہ ورانہ ٹریننگ ’ ہے ( 16 تا 18 سال کی عمر کے لیے۔ )

جرمنی کے دوران قیام ذاکر حسین کی ملاقات Gerda Philipsborn سے بھی ہوئی۔ یہ ایک بڑے ہی مالدار یہودی گھرانے کی بیٹی تھی۔ اس خاتون نے ان تینوں ہندوستانیوں کو ایک اور سوشیل حلقے سے متعارف کروایا۔ گرڈا 1933 میں جامعہ کے اسٹاف میں بھی شامل رہی۔ وہ چند برسوں تک پری اسکول (Pre-School) تعلیم سے بھی وابستہ تھی۔ مجیب کے کہنے کے مطابق ذاکر حسین کے اوقات کار میں اس کو پورا دخل تھا (مجیب 1971، ص69) 1939 کے جنگ کے ابتدائی زمانے میں برطانوی حکومت نے اسے نظربند کر دیا۔ 1942 میں کینسر کے مرض سے اس کا انتقال ہوا (جامعہ کی اناث کا اقامت خانہ اسی کے نام سے موسوم ہے )۔

برلن نے ذاکر حسین کے ذہن پر چند موثر اور انمٹ نقوش چھوڑے۔ تینوں دوستوں نے 1925 میں فیصلہ کیا کہ وہ ہندوستان لوٹ جائیں گے اور ایک ساتھ مل کر خود کو جامعہ کے پروجکٹ کیلئے وقف کر دیں گے۔ ایک بات غور طلب ہے کہ تعلیمی نظام اور اس کے فلسفے کا علم حاصل کرنا ایک بات ہے اور اسے رو بہ عمل لانا دوسری بات۔ جامعہ کے حالات بہت خراب ہو چکے تھے اور ان تینوں کی واپسی کے وقت نوبت جامعہ پر تالے پڑنے کی تھی۔ قریب تھا کہ جامعہ کا سیاسی کردار معدوم ہو جائے۔ ایسے وقت میں اسے ایک تجرباتی اسکول کا کردار اختیار کرنا پڑا۔ مجیب کے مطابق جامعہ کا عملہ تو دیانتدار تھا لیکن عملے کے ارکان میں تجربے کی کمی تھی۔ سرمائے کی کمی کے علاوہ تدریسی صلاحیتوں کا بھی فقدان تھا۔ اب جامعہ نے روایت اور ثقافت کے خلاف محاذ آرائی کے بجائے ایک نیا منصوبہ بنایا۔ مجیب کے الفاظ میں یہ اسکول مسلم روایت اور کلچر کی نمائندگی کرتا تھا۔ یہ نہ تو اکثریت کے میلان کے خلاف تھا نہ ہی مذہبی انتہا پسندی کا شکار ہوا۔ سیاسی شخصیتوں کے ذریعے اس نے اپنے اسلامی کردار کو نمایاں کیا۔ یہ مسلمہ اقدار سے ذرا الگ تھا لیکن منحرف بھی نہیں تھا۔ ذاکر حسین نے مصوری اور ڈرامے کی حوصلہ افزائی کی اور تحتانیہ کی سطح پر مخلوط تعلیم کو متعارف کروایا۔

ان ابتدائی برسوں میں جامعہ کی کامیابی یا ناکامی میرا موضوع نہیں ہے۔ اس بات کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے کہ بغیر کسی کارکرد معاشی، سیاسی اور سماجی طاقت کی حمایت کے دیر پا اتحاد ممکن نہیں ہے اور ایسی صورت میں کوئی بھی اصلاحی تنظیم محض خیالی رہ جاتی ہے۔ جرمنی میں Kerschensleiner کی اصلاحی تحریک بے اثر ثابت ہوئی۔ معروضی طرز فکر بھی نازی دور میں کام نہ کر سکی۔ ہندوستانی تعلیمی نظام کئی رکاوٹوں کا شکار تھا۔ صرف اساتذہ کی کمی اور مالیہ کا نہ ہونا اس کے اسباب نہ تھے۔

برطانوی حکومت نے ابتدائی تعلیم کے لیے علاقائی اسکول (Vernacular School) کی اصطلاح استعمال کی۔ ان اسکولوں میں تعلیم مقامی زبانوں میں دی جاتی تھی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ شمالی ہند کے علاقوں کی مقامی زبان کون سی تھی؟ ہندی، اردو یا ہندوستانی؟ جس دور میں جامعہ کا آغاز ہوا تھا اس وقت ہندی اور اردو کا تنازع زوروں پر تھا۔ اردو نہ صرف ذریعۂ تعلیم تھی بلکہ تہذیب و ثقافت کا حصہ تھی۔ جامعہ ہی نے سب سے پہلے اساتذہ کی تربیت کی شروعات کی جب کہ بیسویں صدی کی ابتدا میں مسلم لیگ اور اردو پریس دونوں ہی اردو میڈیم اسکولوں اور مذہبی تعلیم کی کمی کا رونا روتے تھے۔ ابتدائی تعلیم کا شعبہ اس طبقے کے ہاتھوں میں تھا جو اردو کا بدترین مخالف رہا۔ محکمۂ تعلیم کے کئی عہدیدار بہ شمول انسپکٹرز اردو بول نہیں سکتے تھے۔ نصابی کتابیں قواعد اور محاوروں کی غلطیوں سے بھری ہوتی تھیں۔ حکومت اتر پردیش نے اقدام کرتے ہوئے مسلمانوں کے لیے مکتب قائم کیے جو ضلع بورڈ کے تحت کام کرتے تھے۔ مکتبہ کی نصابی کتابوں کی کمیٹی نصابی کتابیں فراہم کرتی رہی۔ جنرل رپورٹ ان پبلک انسٹرکشن 1930 میں حوالہ ہے کہ بیالیس انگریزی میڈیم اسکولوں نے اپنا ذریعۂ تعلیم مقامی زبانوں میں بدل لیا۔ اس نے مقامی زبان کی وضاحت اس طرح کی کہ یہ اکثر جگہوں پر ہندی ہے نہ اردو لیکن یہ ہندی اور اردو کا مکسچر ہے جس میں انگریزی کے الفاظ اور محاورے کثرت سے شامل ہیں (جنرل رپورٹ 1930 صفحہ 15)۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ٹیچروں کو یونی ورسٹی میں انگریزی پڑھائی گئی تھی اور وہ ہندی یا اردو کی بگڑی ہوئی زبان ہی استعمال کر سکتے تھے۔

اس وقت جب کہ قومی تعلیمی کانفرنس وردھا میں (22-23 مارچ 1937) منعقد ہوئی، مندوبین جذبات سے مغلوب تھے۔ ذریعۂ تعلیم کانفرنس کا موضوع تھا لیکن مندوبین کی فہرست میں ذاکر حسین، محمد مجیب اور عابد حسین کے نام بڑی ردّ و قدح کے بعد شامل کیے گئے۔ گاندھی نے اس کانفرنس کا منصوبہ تیار کیا تھا اور گجرات کی مارواڑی تعلیمی سوسائٹی نے اس کے انعقاد کا اہتمام کیا تھا۔ گاندھی کی تعلیمی اسکیم کا مرکزی خیال یہ تھا کہ تکلی (چرخہ) کو برقرار رکھا جائے۔ اسے تمام پیشوں کے ساتھ شامل کیا جائے۔ سوت کی تیاری، اون اور سلک کی بافندی، کشیدہ کاری، خیاطی، کاغذ کی تیاری وغیرہ (ایجوکیشن ری کنسٹرکشن Education Reconstruction 1938) مقصد یہ تھا کہ دیہی کارخانوں کو ایک اور مضبوط بنیاد کا سہارا ملے اور ماہرانہ صلاحیتوں کو جلا بخشی جائے اور انھیں متعلقہ پیشوں سے مربوط کیا جا سکے۔ (بعد میں انھوں نے اسے دیہی دستکاری کے ذریعے اورل نیشنل ایجوکیشن کا نام دیا)۔

 

نئی تعلیم کا آغاز

تجربہ کار ماہر تعلیم ذاکر حسین نے اسکول کے خود مکتفی ہونے کے نظریے کو مسترد کر دیا کیوں کہ وہ منصوبہ کار گر نہیں تھا اور یہ کہ Kerschensteiner ورک اسکول سے میل نہیں کھاتا تھا۔ انھوں نے انتباہ دیا کہ اس میں بچہ مزدوری کے استحصال کا خطرہ ہے۔ باوجود یکہ ذاکر حسین اپنے نظریات کی بدولت اقلیت میں آ گئے تھے۔ انھیں وردھا اسکیم یا نئی تعلیم کا مسودہ تیار کرنے کا کام سونپا گیا۔ وہ اس کمیٹی کے چیرمین بھی تھے جس نے نئی تعلیم کے نصاب کا مسودہ تیار کیا تھا۔

نئی تعلیمی اسکیم کو چند غلط فہمیوں اور کم فہمی کی وجہ سے شدید مخالفانہ احتجاج کا سامنا کرنا پڑا۔ مسلم لیگ کو شبہ تھا کہ مسلمان بچوں سے امتیاز برتا جا رہا ہے۔ بنیادی تعلیم غیر اسلامی ہے۔ ذاکر حسین نے اس کا جواب دیا: اس اسکیم میں بچہ مزدوری کو متعارف کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ اسکیم یہ نہیں چاہتی کہ بے روزگاری بڑھے۔ مخلوط تعلیم لازمی نہیں ہو گی۔ وردھا اسکیم صرف تحتانوی جماعتوں تک محدود رہے گی۔ تحتانوی اور بنیادی تعلیم بچوں کے لیے مقصدی ہے تاکہ وہ اپنے کلچر اور مذہب کی جڑوں سے مضبوطی سے جڑے رہیں۔

ویسے وردھا اسکیم کے نصاب میں مذہب شامل نہیں تھا۔ اسے عملاً خارج کر دیا گیا۔ چوں کہ ہندوستان کے عوام مختلف عقیدوں میں بٹے ہوئے ہیں اس لیے کسی خاص مذہب کی تعلیم تحتانوی مدارس میں ممکن نہیں تھی۔ مدرسے کے ایک استاد سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ تمام مذاہب کی تعلیم مساوی طور پر بچوں کو دے۔ انھوں نے یہ تجویز پیش کی کہ ریاست نجی طور پر ہر مذہبی طبقے کے لیے ٹیوشن کا انتظام کروائے۔ طبقاتی تعلیم وسطانوی سطح پر مناسب ہے۔ اس عمر میں لڑکا اس قابل ہوتا ہے کہ وہ ادب، تاریخ، مذہب اور زبان جیسے مضامین سیکھ سکتا ہے۔ یہ مضامین ملک کی ثقافت سے قریبی تعلق رکھتے ہیں (ذاکر حسین 1933)۔

اس کے بعد انھوں نے  ’کام ’ اور  ’مہارت ’ میں جو فرق ہے اس کی وضاحت کی۔ ایک چور بھی مہارت حاصل کر سکتا ہے۔ ایسی مہارت تعلیم کا مقصد نہیں ہے۔ کام علم عطا کر سکتا ہے اگر اپنی ذات سے بلند ہو کر اعلیٰ اقدار کی پاسداری کرے۔ کسی کام کو شروع کرنے کی صلاحیت، تخلیقیت، احساس ذمہ داری اور باہمی امداد۔

دس سال بعد انھوں نے محسوس کیا کہ انھیں ٹھیک سے سمجھا نہیں گیا۔  ’ورک اسکول ’ ناکام ثابت ہوا۔ ہندوستانی تعلیمی نظام کے ساتھ وہ آگے نہ بڑھ سکا۔

جھنجھلاہٹ کا دوسرا سبب زبان کا مسئلہ تھا۔ وردھا اسکیم نے ہر جگہ ذریعۂ تعلیم کے لیے مادری زبان کی منظوری دی لیکن شمالی ہند کے عوام کی مادری زبان کیا تھی۔۔۔۔ ہندی، ہندوستانی یا اردو؟

’انڈو آرین لینگویجس ’ کے مصنف کولن ماسکا (Colin Masica) نے اردو ہندی کے رشتوں کے بارے میں کہا  ’زبان کا ڈائلما کیا ہے  ’۔  ’اثث میں بے ربطی ’ (Masica 1991 (thereltimate anomaly) (Masica 1991 P. 27) سوشیو کلچرل معنوں میں انھیں مختلف زبانوں میں شمار کیا جائے گا جب کہ اردو اور  ’جدید معیاری ’ ہندی لسانی معنوں میں بولیاں بھی نہیں ہیں۔ انھوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ ان دونوں زبانوں کا ادبی اسلوب مختلف ہے لیکن ایک ہی زبان کی ضمنی بولیاں ہیں (Masica 1991 p. 27)۔ ایم کے اے بیگ نے اپنی کتاب Sociolinguistic Perspective of Hindi and Urdu in India (Beg 1996) میں اشوک کیلکر کے اس ماڈل کو پیش کیا جو ان دو زبانوں سے متعلق ہے (Kelkar 1967 P. 67

اس ماڈل کے مطابق اردو اور ہندی کا مشترک ماخذ لسان ہے جو ایک مثلث کے مانند ہے جہاں سے اس کی شاخیں مختلف سمتوں میں بٹ گئی ہیں۔ جیسے جیسے یہ بول چال سے گزرتی ہوئی مخصوص محاوراتی زبانوں کی حیثیت اختیار کرتی جاتی ہیں ان کی مشابہت میں فرق آنے لگتا ہے۔ ان دونوں کا تحریری اسلوب دونوں کے فرق کو واضح کرتا ہے اور اسلوب کلچر کا نمائندہ ہوتا ہے۔ ماسکا نے قطعی طور پر یہ بات کہی ہے کہ چا ہے ان دونوں زبانوں میں کتنی ہی لسانی بے تعلقی کیوں نہ ہو دو مختلف زبانوں کی حیثیت سے ان کی شناخت ان کا کلچر ہے۔ (Masica, 1991 P. 30)

 

زبان پر سیاست کا رنگ

سماجی اور سیاسی قوتوں کی رسہ کشی کے نتیجے میں دونوں زبانوں کے درمیان فاصلہ بڑھتا گیا۔ جب کسی سے پوچھا گیا کہ وہ کون سی زبان بولتا ہے تو ہندو نے کہا وہ ہندی بولتا ہے اور مسلمان نے کہا وہ اردو بولتا ہے (تب اعداد و شمار کے مطابق کوئی کیسے کہے کہ کتنے لوگ سچ مچ اردو بولتے ہیں ؟) ہندی اور اردو صرف زبانیں نہیں ہیں بلکہ وہ ایک سیاسی پروگرام ہیں۔

آزادی کی تحریک کے آخری دہے میں ہندوستانی مسلمان  ’ایک واضح سیاسی حیثیت ’ اختیار کر گئے۔ (مجیب 1967 ص 23) جن کی قومی شناخت کے بارے میں کہا گیا کہ خطرے میں ہے۔ زبان کو لے کر  ’نئی تعلیم ’ پر جو بحث ہوئی تھی وہ سیاست کا جز بن گئی۔ اردو زبان بھی علاحدہ مسلم علاقے کے مطالبے کا حصہ بن گئی۔ ایک مسلم ریاست کو بھی قومی زبان کی ضرورت تھی۔ مسلم ریاست جب حاصل ہو گئی تو اس نے زبان کو بدیسی ملک میں کھینچ لیا۔ اس طرح اردو بولنے والے جو پیچھے رہ گئے تھے ان کا حق مارا گیا۔ اردو جو شمالی ہندوستان کے مشترک کلچر کا اثاثہ تھی وہ پاکستان ہجرت کر گئی۔

انھی حالات میں بااثر ہندو سیاست دانوں اور تنظیم پرستوں نے ہندی زبان کا ہندوستانی قومی زبان کی حیثیت سے پروپگنڈہ کیا۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے سنسکرت جیسی عالمانہ زبان سے الفاظ حاصل کیے تاکہ بھارت کی قومی زبان کو تقدیس عطا ہو۔ دستور ساز اسمبلی نے مباحث کے بعد اس زبان کو ہندوستان کی قومی زبان کی حیثیت سے قبول کیا تو اس نے کامیابی حاصل کی۔ اس طرح نام اور کردار کو لے کر قوم اور زبان سے متعلق جو بحث ہوئی وہ قومی زبان کا فیصلہ ہونے پر ختم ہوئی۔ اگر چہ کہ یہ صحیح فیصلہ نہیں تھا کیوں کہ دستور کی دفعہ 351 کے مطابق ہندوستانی کو مستقبل میں ترقی پا کر سرکاری زبان کی حیثیت سے موقع دیا جانا چاہیے تھا۔ اگر کہا جائے تو ہندوستانی کے نام میں پچاس فی صد الفاظ اردو کے ہیں۔ اس کے عملی نتائج کیا تھے ؟

فرقہ پرستی کے لمبے ہاتھوں کو روکنے اور امن قائم رکھنے کے لیے ہندوستانی اور سیکولرزم دونوں اصطلاحیں سمجھوتے کی علامت ہیں ، ایک ایسا سمجھوتہ جو امن کے لیے فرقہ وارانہ رویے کو میلوں دور کر دیتا ہے۔ لیکن اس دوران اتر پردیش کی حکومت نے صرف ہندی کو سرکاری زبان بنا دیا۔ ہندی کو نام نہاد ہندی بیلٹ میں ہر بچے کی مادری زبان قرار دیا۔ ہندی ہی ذریعۂ تعلیم قرار دی گئی اور یہی زبان امتحان کے لیے مقرر کی گئی۔ اردو کو جو اس بیلٹ میں کثرت سے بولی جاتی تھی، اس حق سے محروم کر دیا گیا۔ اسے علاقائی زبان بھی قرار نہیں دیا گیا بلکہ اقلیتی زبان کے زمرے میں رکھا گیا۔ ایک زبان جس کا کوئی علاقہ نہ ہو اس کی مثال ایسی روح کی ہے جس کا کوئی جسم نہ ہو (سلمان خورشید) اقلیتی زبان اردو کے بولنے والے یا تو اسے اپنے گھروں میں سیکھیں یا مدرسوں میں یا پھر اسکولوں میں اختیاری مضمون کے طور پر حالاں کہ دستور کی دفعہ (الف)350 کے مطابق ہر ریاست اور لوکل باڈی کو چاہیے کہ اپنی ریاست کے اندر ہر بچے کو جو اقلیتی زبان کے طبقے کا ہو اسے اپنی مادری زبان میں تعلیم دینے کی مناسب سہولتیں فراہم کرے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔

بین الاقوامی سطح پر ذریعۂ تعلیم کے سوال پر اور اقلیتی زبان سے امتیاز برتنے کے بارے میں بڑی توجہ دی گئی۔ اس کا سبب جبری یا اختیاری طور پر کثیر تعداد میں لوگوں کی نقل مکانی تھی۔ نویں دہے کی ابتدا میں صرف برلن نے 30,000 (تیس ہزار) بوسنیا کے باشندوں کو، جو بلقان کی جنگ سے بھاگے تھے ، پناہ دی۔ دوسرے ممالک سے آکر بسنے والوں کا کوئی حساب نہیں ہے۔ ہزاروں روسی، پولیش، اطالوی، ہندوستانی اور سیاہ فام باشندے وہاں بسے ہوئے ہیں۔ ترکی سے باہر سب سے زیادہ ترک قوم کے لوگ برلن میں ہیں۔ اپنے گھروں میں وہ اپنی مادری زبان ہی بولتے ہیں لیکن بڑھتا ہوا رجحان باڑھے بسانے کا ہے۔ کئی بچے جو ابتدائی تعلیم کیلئے مدرسوں میں شریک ہوتے ہیں جرمنی نہیں بولتے۔ فرانس میں اس طرح کی اقلیت تونیسا، مراکو، سیاہ فام وغیرہ باشندوں کی ہے۔

پچاس سال قبل یونیسکو نے فیصلہ کیا تھا کہ ابتدائی تعلیم بچوں کو ان کی مادری زبان میں دی جائے۔ یہ واضح ہے کہ دیگر ممالک سے آنے والی نسلی اقلیتیں بے بسی کے عالم میں دن گزارتی ہیں کیوں کہ اسکولوں میں کوئی ایسا ٹیچر نہیں ملتا جو اُن کی زبان بولتا ہو۔ ہم امتیازات کی بات کرتے ہیں — امتیاز کی کئی جڑیں ہیں۔ صرف زبان ہی نہیں۔ کم سماجی مرتبہ، کلچر کا اختلاف، جلد کی رنگت، جنس یہ سب ان میں شامل ہیں۔ دوسری طرف وہ لوگ جو نقل مکانی کرتے ہیں اور اپنے ملکوں کو واپس جانا نہیں چاہتے (سوائے چھٹیوں کے ) انھیں چاہیے کہ اپنے میزبان ملک کی معیشت اور ثقافت میں گھل مل جائیں۔ یہی تو وہ ملک ہے جسے انھوں نے اپنا نیا وطن بنا لیا ہے۔ انھیں اسی ملک کی زبان سیکھنا چاہیے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پھر وہ زندگی کے شب و روز میں شامل نہیں ہو سکتے۔

ہندوستان میں اردو کا معاملہ مختلف ہے۔ یہاں ہجرت امتیاز کا سبب نہیں ہے۔ یہ مختلف زبانوں کا ملک ہے اور سیاسی اختلافات بھی ہیں۔ ڈاوڈ کورسن نے ، جس نے امتیازات کے اسباب کا مطالعہ کیا ہے ، اس بات پر زور دیا کہ زبان کا اختلاف تعلیم کی ناکامی کا سبب نہیں ہے۔  ’ ’زبان کی قوت کمزور پڑ جاتی ہے جب اسے طاقت ور اداروں اور تنظیم کاروں سے جدا کر دیا جاتا ہے۔۔۔ بے شک یہ ثابت ہے کہ اقلیتوں کے ساتھ غیر منصفانہ برتاؤ اور ان سے دوری برتنے کا رویہ تعلیم کی ناکامی کے اہم اسباب ہیں۔ زبان نہیں  ’ ’ (کورسن 1993 ص۔ 122) طاقت کے استعمال کا یہ غیر منصفانہ رویہ ہی شمالی ہند کے اردو بولنے والوں سے امتیاز برتنے کا ذمّے دار ہے۔

ذاکر حسین ان طاقتوں سے آگاہ تھے جو آزادی کے بعد ان کی زبان کی قسمت کا فیصلہ کرنے والے تھے۔ جن لوگوں نے دعویٰ کیا کہ اردو ان کی زبان ہے ، اُن لوگوں کے اسکول کے نصاب میں اردو کو شامل کرنے کیلئے ذاکر حسین نے ایک پُر زور تحریک چلائی اور مطالبہ کیا کہ اردو کو علاقائی زبان تسلیم کیا جائے۔ انھوں نے اسکی تائید میں بیس لاکھ دستخط حاصل کیے۔ لیکن کچھ حاصل نہ ہوا۔

اس کے بعد سے پچاس سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا۔ وہ زبان جس نے شمالی ہندوستان میں جنم لیا اور جس نے ہمیں اعلیٰ ادب دیا وہ اب باہر کے ممالک میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ یورپ اور امریکہ میں اس زبان کو طالب علم شوق سے پڑھتے ہیں۔ اس کی شاعری انٹرنیشنل ریڈیو پروگراموں میں گائی اور سنائی جاتی ہے۔ نام نہاد ہندی (= اردو)فلموں کی جگہ جگہ شہرت ہے۔ یہ ہندوستان اور پاکستان سے باہر ان دونوں ملکوں کے باشندوں کی عوامی زبان ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اردو دنیا کے نقشے سے معدوم نہیں ہو گی کیوں کہ لوگ اس زبان کی اہمیت سے واقف ہیں اور اس کے ادب کی قدر کرتے ہیں۔

یہ اہم اور ضروری ہے کہ ہندوستانی ریاست اور اس کے حاکموں کو یاد دلایا جائے ، خاص طور پر اُتر پردیش اور بہار والوں کو کہ ہندوستانی دستور میں ان کے فرائض کیا ہیں۔ لیکن صرف اتنا کافی نہ ہو گا۔ اردو کے پرستاروں کو اس بات کا انتظار نہیں کرنا چاہیے کہ حکومت کے کارندے اپنے فرائض انجام دیں بلکہ انھیں سرگرمی سے اُن عوامل کی تلاش کرنا چاہیے جو اُن کی حمایت کر سکتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ میں ہوں کہ سیاسی جماعتوں میں ، یونی ورسٹیوں میں یا اسکولوں میں۔ جب تک اردو زبان کے بولنے والے اپنے ادبی ورثے ، اپنی مادری زبان اور معیاری تعلیم کی قدر نہ کریں ، جب تک وہ غیر موافق حالات سے نبرد آزما نہ ہوں اور تعصب کا مقابلہ نہ کریں ، جب تک وہ اپنی زبان نہ بولیں ، لکھیں پڑھیں نہیں ، کوئی بھی کچھ کرنے کے لیے آمادہ نہ ہو گا۔

سونی پڑی ہوئی ہے مدت سے دل کی بستی

آ اک نیا شوالہ اس دیس میں بنا دیں

محمد اقبال

٭٭٭

 

Biobliography

 

Ali, B. Sheikh, Zakir Husain: Life and Times, New Delhi: Vikas Publishing House, 1991.

Beg, M.K.A., Sociolinguistic Perspective of Hindi and Urdu in India, New Delhi: Bahri Publishers, 1996.

Corson, David, Language, Minority education and gender: Linking social justice and power, Clevedon: Multilingual Matters, 1993.

Educational Reconstruction, A collection of Gandhi ’s articles on the Wardha Sceme along with a summary of the proceedings of the All India National Educational Conference held at Wardha, 1937, Wardha: India Bulletin, August, 1938.

Hasan, Mushirul, India ’s Muslims since Independence, New Delhi: Oxford University Pres, 1997.

Husain, Zakir, Education and National Development, New Delhi, 1993.

Kelkar, Asok, Studies in Hindi-Urdu, I. Introduction and Word Phonology, Poona: Deccan College, 1968.

Masica, Colin P., The Indo-Aryan Languages, Cambridge: Cambridge University Press, 1991.

Mathur, V.S. (ed.), Zakir Husain. Educationist and Teacher, New Delhi: Arya Book Depot, 1969.

Mujeeb, Mohammad, The Indian Muslims, London: Allen & Unwin, 1967.

_________. Dr. Zakir Husain. A Biography, New Delhi: National Book Trust, 1971. Narang, gopi Chand, Urdu Language and Literature. Critical Perspectives, New Delhi: Sterling PUblishing House, 1991.

Noorani, A.G., President Zakir Husain, New Delhi: Popular Prakashan, 1972.

Oesterheld, Joachim, Zakir Husain. Begegnungen and Erfahrungen bei der Suche nach moderner Bildung fiir ein freies Indien. In: Akteure des Wandels, P. Heidrich (ed.), Berlin, 2001, pp. 105-30.

٭٭٭

 

 

ہندوستان میں اردو کی موجودہ صورت حال  اور اس کا مستقبل

 

حسن عبداللہ

 

اردو زبان کا مقام و مرتبہ ہندوستان کی تمام زبانوں سے مختلف ہے۔ (1)اور اس کے اسباب بھی مختلف ہیں۔ اس کے با وصف ہندوستان کی تمام زبانوں بشمول سرکاری ہندی کا خلقیہ ایک دوسرے سے مختلف ہے (2)صرف معقولیت پسندانہ حکمت عملی، جو کسی دوسری زبان کے خلاف امتیازانہ رویے سے بلند ہو، معاشرے اور زبان کی ترقی کی ضامن ہو سکتی ہے۔

پھر بھی تیزی سے سکڑتی دنیا میں جہاں ترسیل اور باہمی افہام و تفہیم تیزی سے جاری و ساری ہے ، متعدد طبعی عوامل معرض وجود میں آ رہے ہیں اور وقت کا فی اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے ، آج باہمی میل جول اور افہام و تفہیم کے لیے کسی زبان کو آفاقی سطح کی حامل ہونا ضروری ہے۔ اور ہندوستان میں انگریزی کو یہی کردار ادا کرنا ہے۔ (اس تعلق سے تفصیلی بحث بعد میں کی جائے گی۔ ) ساتھ ہی ساتھ مادری اور علاقائی زبانیں جن سے بچوں کو گھروں اور کھیل کے میدانوں میں سابقہ پڑتا ہے ، بول چال اور فہم و ادراک کا بہترین ذریعہ ہو سکتی ہیں۔ اسی لیے بچوں کو ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دی جانی چاہیے۔ (3)علاوہ ازیں مادری اور علاقائی زبانوں کا ارتباط معاشرے میں مثبت رجحان کا ضامن ہو سکتا ہے۔ وسیع تناظر میں باہمی میل جول کا ذریعہ ہو سکتا ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ مادری زبان میں تعلیم اور رسل و رسائل کے میدان میں ترقی یافتہ انگریزی زبان کے بیچ تقابلی ربط کیسے ہو؟

یہ مقالہ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ میں نے پہلے حصے میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ فی زمانہ اردو کا مقام کیا ہے اور کیا ہونا چاہیے۔ یہاں یہ طے کرنا مشکل نہ ہو گا کہ موجودہ حالات میں اردو کے تعلق سے کس قسم کا لائحۂ عمل اختیار کرنا چاہیے۔ پہلا حصہ یقیناً اہم اور قابل غور ہے۔ دوسرے حصے میں میں نے منطقی دلائل پیش کیے ہیں اور ساتھ ہی چند ٹھوس اور لچکدار مشورے لسانی پالیسی کے تعلق سے دینے کی کوشش کی ہے :

پس منظر:

چند بنیادی سوالات اٹھانے سے پہلے مجھے اعتراف کرنے دیں کہ جس طرز و روش کی میں نے وکالت کی ہے وہ رجعت پسندوں کے رد عمل کے مفاد میں نہیں ہے۔ اور یہ آسان بھی نہیں ہے کہ عوام کو بہری طرزو روش پر قائل کیا جائے۔ عوام کو اس طرز و روش کی افادیت کا قائل بنانا بھی ایک چیلنج سے کم نہیں ہے۔ رجعت پسندوں کو بھی مویّد بنانا مشکل ہے۔ موضوع سے مطابقت رکھنے والے چند سوالات یہ ہیں۔

٭        زبان کا کردار کیا ہونا چاہیے۔

٭        آیا ہندوستان کی مختلف زبانوں کی نشوونما میں تضادات ہیں۔

٭        آیا زبان اردو دور حاضر کے تقاضوں کو پورا کر سکتی ہے۔

٭        وہ کون سے حالات ہیں جو زبان سے متعلق اثر انداز ہوتے ہیں۔

٭        مذکورہ بالا سوالات پر آزمائشی جوابات کس امر کا اظہار کرتے ہیں۔

زبان کا کردار کیا ہونا چاہیے :

زبان ترسیل کا ذریعہ ہے۔ پھر بھی عالمی شائستگی میں ترقی اور اختلافات اس کی راہ میں ہیں۔ ترسیل کے مختلف پہلو ہیں۔

٭        ماضی پر نظر (ماضی کی کھوج)۔

٭        حالیہ معاملتیں اور مستقبل کی پیش بندی۔

٭        معاشرے کے مختلف گوشوں میں باہمی ربط۔

 

ماضی کی کھوج

پیچیدگیوں کا حامل انسانی دماغ اپنی تسلی کے لیے متعدد واقعات کو اپنے اندر سمونے کا جویا ہوتا ہے۔ بے شک انسانی شناخت کا سوال کثیر پہلویت کا حامل ہے۔ تشخص کی تلاش میں معاشرے اور تاریخ سے رجوع کرنا ضروری ہے۔ (4)معاشرے اور تاریخ کے ذریعے تشخص کی جڑوں کی تلاش، انفرادی شناخت۔ ماضی سے آگہی کا یہ عمل بنی نوع انسانی کے تسلسل کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔ اور چوں کہ معاشرے کا ارتقا ایک سست رو عمل ہے ، ماضی، حال اور مستقبل سے ربط ضروری ہے۔ ماضی کے معاشرتی حالات پر معقول قدردانی اور شناخت کی عدم موجودگی، مادری زبان میں ہو تو، کھوئی ہوئی جڑیں فرد پر تباہ کن نفسیاتی اثرات مرتب کر کے فرد کو غیر شائستہ، توہم پرست، اور بے معنی عبادات کی طرف مائل کر دیتی ہیں۔ صرف ماضی سے ربط کے سبب ہم اپنی اصل سے جڑے رہ سکتے ہیں۔ تاریخ کے مطالعے اور معاشرے کے ارتقا سے جانکاری فرد کو اس کے مقام سے آگاہ رکھتی ہے۔ مادری زبان کے وسیلے سے معاشرے اور عوام سے آگہی نہ حاصل کی جائے تو، نوع انسانی کی شناخت ہی ناممکن ہو جاتی ہے۔ معاشرے کے ارتقا کے لیے یہ شناخت ضروری ہے۔ اور فرد کی ہمہ رخی ترقی اسی میں مضمر ہے۔

اس طرح مادری زبان کی اہمیت کے ضمن میں اس سے زیادہ کیا کہا جائے۔ ایسے شخص سے بحث کی چنداں ضرورت نہیں جو زبان کی ترقی کے تعلق سے مذکورہ بالا امور سے اختلاف کرے۔

 

حالیہ معاملتیں اور مستقبل کی پیش بندی

گزشتہ چند صدیاں ہمہ گیر ترقیوں اور دھماکو خیز معلومات کی شاہد ہیں۔ بطور خاص گزشتہ صدی میں پیداوار اور حصول علم کی ترقی تیز تر ہوئی ہے۔ ایسے میں انگریزی زبان، مطابقت آمیز الفاظ کی کثرت کے ساتھ زمانے کی رفتار سے ہم آہنگ ہو چکی ہے۔ لہٰذا تاریخی وجوہات کی بنا پر متعدد زبانوں کو بشمول اردو پیچھے چھوڑ دیا گیا۔ اور آج یہ آسان نہیں لگتا کہ اردو گزرے وقت کی پابجائی کر سکے۔ ان ہی وجوہ کی بنا پر ہندوستانی معاشرے کے لیے انگریزی پر عبور ضروری ہے۔ دنیا کی حالیہ پیچیدگیوں کو سمجھنے کے لیے بھی انگریزی سے واقفیت ضروری ہے۔ سائنس یا کسی اعلیٰ تعلیم کا حامل طالب علم زبان انگریزی پر عبور کو بطور سند پیش کر سکتا ہے۔ انگریزی اب دانشوروں کی زبان شمار ہونے لگی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اردو زبان کے سمینار بھی اکثر اوقات انگریزی زبان میں منعقد کیے جا رہے ہیں۔ انگریزی جاننے کی یہی ضرورت زبان کے تعلق سے لوگوں کو مخمصے میں ڈال رہی ہے۔ یہ خیال سراسر غلط ہے کہ عوام کو باور کرایا جائے کہ پہلے ہی دن سے انگریزی تعلیم فائدہ مند ہے۔ درحقیقت یہ نقصان دہ ہے کیوں کہ تحتانوی سطح سے انگریزی تعلیم بچے میں سمجھ بوجھ کی صلاحیت کے بجائے یادداشت بڑھانے کا باعث ہوتی ہے۔ سمجھ بوجھ میں ترقی کی کوشش زبان کی ترقی کے ساتھ ہونی چاہیے۔ بچے کی دنیا سادہ اور مختصر ہوتی ہے۔ لہٰذا تحتانوی سطح سے ہی انگریزی تعلیم غیر ضروری ہے۔ یقیناً اس مرحلے سے انگریزی تعلیم نہ دی جائے تو بچہ اپنی مادری زبان میں بہت کچھ سمجھ سکتا ہے۔ اس لیے تحتانوی سطح سے مادری زبان میں تعلیم ضروری ہے۔

 

معاشرے کے مختلف گوشوں میں باہم دیگر اثر اندازی

وہ جو معاشرے کی مطابقانہ ترقی سے دلچسپی رکھتے ہیں ، انھیں سماج کے پچھڑے طبقے سے رابطہ رکھنا ضروری ہے۔ اس ضمن میں مادری زبان میں ہی ترسیل خیالات واحد راستہ ہے۔ کیوں کہ وہ جب انگریزی سیکھتے ہیں ، تب بھی اپنے خیالات کی ترجمانی انگریزی میں بہ آسانی نہیں کر سکتے۔ کیوں کہ یہ پچھڑے لوگ تعداد میں زیادہ ہوتے ہیں اس لیے ان سے مادری زبان میں بات چیت ضروری ہوتی ہے۔ برسبیل تذکرہ، ترسیل خیالات کا عمل کسی زبان کو مالامال کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے کیوں کہ کسی زبان کی ترقی کے لیے اس زبان کے بولنے والوں کی کثرت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جنھوں نے اعلیٰ انگریزی تعلیم حاصل کی ہے انھیں ترسیل خیالات کے لیے اردو اور دوسری زبانوں کا سہارا لینا ضروری ہوتا ہے۔ اور ہمیں اسی وقت کامیابی حاصل ہوتی ہے جب کہ ہم وسیع پیمانے پر ترسیل خیالات کے قابل ہوتے ہیں۔

آج ہندوستان میں زبان کے استعمال کی اس ضرورت کو محسوس کر لیا جائے تو پھر ایک ایسے شخص کے لیے جس کی مادری زبان اردو ہے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ کم از کم دو زبانوں پر قادر رہے اردو اور انگریزی۔ مزید ہر شخص کے لیے ضروری ہے وہ اس علاقے کی زبان سیکھے جہاں وہ رہتا ہو۔

 

آیا ہندوستان کی مختلف زبانوں کی نشوونما میں تضادات ہیں ؟

اس کا جواب زبان کی صلاحیت اور اس کے کردار پر منحصر ہے۔ محولہ بالا خیال میں مختلف زبانوں کی ترقی میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ دراصل زبانوں کی ترقی باہمی عزت افزائی میں مضمر ہے۔ صرف مفاہمت کی صورت میں پچھڑی زبانوں کی ترقی ممکن ہے۔ حتیٰ کہ ترقی یافتہ زبانیں بھی پچھڑی زبانوں سے مالامال ہوتی ہیں۔ زبانیں تو صرف سائنس یا مخصوص مضامین سے متعلق نہیں ہوتیں بلکہ یہ مختلف معاشروں کا احاطہ کیے ہوئے ہوتی ہیں (آخر کیوں انگریزی لغت میں کئی ہندوستانی الفاظ داخل کیے گئے ؟) وہی لوگ جو زبانوں کی ترقی میں تضادات ٹٹولتے ہیں اور جو زبانوں کے بیچ خلیج کو پاٹنے میں دلچسپی نہیں رکھتے ، اور وہ جو مختلف طبقات کے درمیان باہمی ربط پیدا کرتے ہوئے زبانوں کا ارتقا نہیں چاہتے انھیں مختلف زبانوں کے ارتباط میں کوئی خوبی نظر نہ آئے گی۔

 

آیا زبان اردو دور حاضر کے تقاضوں کو پورا کر سکتی ہے ؟

اس کا جواب ہاں بھی ہے اور نہیں بھی۔ تجدیدی طور پر اگر جواب اثبات میں ہو کیوں کہ آج بھی زبان اردو جاننے اور اردو مادری زبان والوں کی قابل لحاظ تعداد ہے۔ اور اگر ضروری سرمایہ لگایا جائے اور یہ لوگ اپنے تمام مقاصد کے لیے صرف مادری زبان استعمال کرنے لگیں بجز ان حالات میں جب کہ غیر اردو داں عوام سے سابقہ ہو، تب ہی اردو حالیہ تقاضوں کو پورا کرنے کے قابل ہو سکتی ہے۔ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسی کوشش بھی محض سطحی اور فرضی ہے۔ لہٰذا اوپر اٹھائے گئے سوال کا جواب وسیع تر تناظر میں صرف نفی پر منتج ہو سکتا ہے۔ مذکورہ خیال کی رو سے زبان اردو موجودہ دور کے تقاضوں کو پورا نہیں کر سکتی۔ چنانچہ انگریزی ہی عملی میدان میں ترقی یافتہ مقام پر فائز ہو سکتی ہے کیوں کہ سائنس اور صنعت و حرفت کے میدان کافی ترقی کر چکے ہیں اور ان حالات میں مسابقتی اظہار خیال سے اردو زبان محروم رہی۔ لہٰذا اردو موجودہ تقاضوں کو پورا نہیں کر سکتی، یہ قطعاً کوئی بہتان نہیں ہے۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ جس دور میں سائنسی ترقی عروج پر تھی، زبان اردو سرکاری سرپرستی سے محروم تھی۔ لہٰذا اردو پیچھے رہ گئی۔ موجودہ حالات میں نہ یہ عملاً ممکن ہے اور نہ دانش مندی ہو گی کہ اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش کی جائے جس میں اردو کسی جدید زبان کا، جیسے انگریزی، مقابلہ کر سکے۔

وہ کون سے حالات ہیں جو زبان سے متعلق اثر انداز ہو سکتے ہیں

مذکورہ بالا ترش بیانی کے بعد، ضروری ہے کہ حسب ذیل امور اردو کے موجودہ موقف کو سمجھنے کے لیے بیان کیے جائیں۔

٭        اردو داں ہندوستانی دانش وروں کی بنیاد۔

٭        سماجی، معاشی اور تعلیمی میدانوں میں اردو داں طبقے کا پس منظر۔

٭        اردو جاننے والوں کا جغرافیائی پھیلاؤ۔

 

مشاہیر کا کردار اور اثر اندازی

تمام معاملات میں مشاہیر کا تسلط ہے۔ حصول علم کے میدان میں اس طبقے نے رجعت پسندانہ رویہ اپنایا ہوا ہے ، جس سے زبان کا مسئلہ جڑا ہے۔ مجموعی طور پر مشاہیر اور دانش وروں کا طبقہ ذریعۂ تعلیم کے سوال پر معقولیت پسندانہ رویہ نہیں اپنائے ہوئے ہے۔ یہی رویہ فی زمانہ اردو کی کسمپرسی کا افسوس ناک پہلو ہے۔ مشاہیر کے بچے اگر مادری زبان اردو میں تعلیم حاصل کرتے تو اردو آج اس حال میں نہ ہوتی۔

مشاہیر کا اثر اس قدر بڑھ چکا ہے کہ فی زمانہ لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ تحتانوی سطح سے انگریزی میں تعلیم مضرت رساں ہے۔ اور بطور خاص ان کے سرپرستوں کے لیے بے فائدہ ہے۔ تحتانوی سطح سے مادری زبان میں تعلیم کی اہمیت کے تعلق سے کہا جا چکا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مشاہیر نے تحتانوی سطح سے انگریزی ذریعۂ تعلیم کو اس لیے اپنایا ہے کہ عام بچے مسابقت کے میدان میں قدم نہ رکھ سکیں۔ عام بچوں کو ان کے والدین یہ باتیں سمجھا نہیں سکتے۔ یہ بھی مشاہیر کے تسلط کا ایک زائد ثبوت ہو سکتا ہے۔

حالات اب یہ ہیں کہ آج معیاری اردو مدارس کا فقدان ہے۔ خاص طور پر شمال میں اور یہاں کے مشاہیر انگریزی مدرسوں کا رخ کرتے ہیں۔ یہ بھی اردو زبان کی ابتر حالت کا ثبوت ہے۔ عوامی مسائل اور اردو کے تعلق سے مشاہیر کی بے حسی اور روگردانی ظاہر ہو چکی ہے۔ برسبیل تذکرہ موجودہ روش بتاتی ہے کہ انگریزی تعلیم کو مہنگا اور عوام کے لیے ناقابل حصول بنا دیا گیا ہے۔

 

اردو داں ہندوستانی دانشوروں کی بنیاد

ہندوستانی دانشور طبقے نے انگریزی کو اب گویا اپنی مادری زبان بنایا ہوا ہے ، اور اپنی مادری زبان کو یکسر بھلا دیا ہے۔ ہندوستانی دانشوروں نے ہندوستانی زبانوں میں لکھنا کم کر دیا ہے۔ کس حد تک کم کر دیا ہے اس کے میرے پاس اعداد وشمار نہیں ہیں خصوصاً زبان اردو کی حد تک۔ ویسے تین سال پہلے میں نے ایک اردو ماہنامے سے تعلق قائم کیا تھا۔ اس رسالے میں پابندی سے سماجی، معاشی، بین الاقوامی، سائنس اور ادب سے متعلق مضامین شایع ہوتے تھے۔ ان تمام میں طبع زاد مضامین کی کمی دیکھنے میں آتی تھی اور تراجم بھی غیر معیاری ہوتے تھے۔ ویسے معیار سے شایع ہونے والے چند رسالے ہیں جو خاص اردو میں لکھے ہوئے مواد کے حامل ہوتے ہیں۔ اور یہ رسالے بڑی سنجیدگی سے خاص موضوعات پر مضامین شایع کرتے ہیں۔ کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ اردو دانشوروں کی تعداد سکڑتی جا رہی ہے۔ جب تک کثیر تعداد میں اردو دانشور اردو زبان میں نہ لکھیں (جیسا کہ جے۔ وی۔ نارلیکر، جو مشہور ماہر فلکیات ہے ، اور مراٹھی زبان میں بچوں کے لیے سائنس پر مضامین لکھتا ہے ) کوئی زبان ترقی نہیں کر سکتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مخصوص مضامین پر ماہر طالب علم ترجمے کے میدان میں قدم رکھیں۔

حالات کچھ امید افزا نہیں ہیں کیوں کہ مشاہدے میں آیا ہے کہ اردو مدارس کی تعداد گھٹتی جا رہی ہے۔ حتیٰ کہ ایسے مقامات جیسے اوکھلا یا جامعہ نگر دہلی جہاں اردو مادری زبان کے حامل عوام کی کثیر تعداد موجود ہے ، تمام نئے مدارس میں انگریزی ذریعۂ تعلیم کے طور پر پڑھائی جا رہی ہے اردو کو بطور ایک زبان شامل گیا گیا ہے۔

 

سماجی، معاشی اور تعلیمی میدانوں میں اردو داں طبقے کا پس منظر

اردو مادری زبان میں پڑھنے والے طلبا کی تعداد کثرت سے سماج کے نچلے طبقے کی ہوتی ہے۔ مشاہیر اور متوسط طبقے کے لوگ اس زبان کو معنی خیز تناظر میں برتنے سے قاصر ہیں۔ پھر بھی اشاعت کے میدان میں متعدد اردو اخبارات اور معیار سے نکلنے والے رسالے موجود ہیں۔ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اردو قارئین کی کمی نہیں ہے۔ کم از کم عام سطح پر۔ (ویسے آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو اردو قارئین کی تعداد گھٹتی جا رہی ہے۔ ) اس کا مطلب یہ ہوا کہ اردو کی ترقی کے امکانات موجود ہیں بشرطیکہ اردوداں طبقہ اپنے بچوں کو مادری زبان میں تعلیم بہم پہنچائے۔

اردو داں طبقے کی سماجی، تعلیمی اور معاشی پسماندگی صاف طور سے دیکھی جا رہی ہے۔ منجملہ دیگر وجوہ کے ایک وجہ اوپر بیان ہو چکی ہے کہ اردو میں مطالعے کے لیے مواد خاطر خواہ نہیں ہے تا حال اردو داں طبقے نے کسی ایسے مواد کی طلب نہیں کی جس کے ذریعے عالمی مسائل سے جانکاری کے دروازے کھلیں اور ذہنی افق میں وسعت پیدا ہو۔ علاوہ ازیں اردو رسائل کو معیاری اشتہارات دستیاب نہیں ہیں۔ یہ امر اردوداں طبقے کی معاشی پستی کا مظہر ہے۔ حالت یہ ہے کہ ایسے اخبار بھی جن کی اشاعت ایک لاکھ سے زیادہ ہے اشتہارات حاصل کرنے سے محروم ہیں۔ پھر بھی ان تمام وجوہ کے با وصف عالمی سطح پر جدید علم کے حصول سے غفلت موجودہ حالات کا سبب ہے۔

 

اردو جاننے والوں کا جغرافیائی پھیلاؤ

برصغیر ہند میں اردو داں طبقہ کسی مخصوص قطعہ سے وابستہ نہیں ہے۔ یہ صورت حال اردو کو وسعت دینے میں مانع ہے۔ ویسے یہ عمومی خیال عوام پر صادق نہیں آتا۔ ویسے اس خصوص میں حتمی رائے تفصیلی اعداد و شمار کے بعد ہی دی جا سکتی ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ لسانی پالیسی اور حکمت عملی میں حکام کا رویہ اہمیت کا حامل ہے۔ کئی صورتوں میں سہ لسانی فارمولہ ضروری لگتا ہے۔ اور ان علاقوں میں جہاں ہندی علاقائی زبان نہیں ہے (اسکرپٹ کے بارے میں اگر نچلی جماعتو ں میں اردو اور ہندی کو ایک ہی سمجھا جاتا ہے۔ ) کوئی طالب علم چار زبانیں بھی سیکھنا چا ہے گا۔ اور ایسے مقامات جہاں اردو مادری زبان والوں کی مناسب تعداد ہے ، خالص اردو ذریعۂ تعلیم کے مدرسے کھولے جائیں اور جہاں اردو مادری زبان کے حامل بچوں کی کمی ہے ، وہاں کم از کم اردو کو بحیثیت ایک مضمون پڑھانے کا انتظام کروایا جائے۔ لیکن یہ بھی مشکل لگتا ہے کیوں کہ اردوداں طبقہ مشاہیر کے اس بیان کے چنگل میں پھنس چکا ہے کہ انگریزی تعلیم ہی فائدہ مند ہے۔ زبان کے تعلق سے اس قسم کا خیال قابل استرداد ہے۔

عوام کو اگر قائل کرایا جائے کہ تحتانوی سطح سے مادری زبان میں تعلیم اہمیت کی حامل ہے ، اردوداں طبقے کی جغرافیائی وسعت بڑھے گی اور اردو موجودہ لغت زدہ مقام سے ابھرے گی جیسا کہ آج کل سمجھا جا رہا ہے۔ ویسے علم کے تاجر حکام اپنی اس ذمّے داری سے دستبردار ہو چکے ہیں کہ تعلیم مادری زبان میں دی جائے۔ اس کے کم ہی امکانات ہیں کہ اس امر کا احساس پیدا ہو گا۔

مذکورہ بالا امور پر عارضی جوابات کس امر کی دلالت کرتے ہیں :

مذکورہ بحث اس بات کی دلالت کرتی ہے کہ مندرجہ ذیل امور پر ترجیحی انداز میں غور کیا جائے۔

٭        تحتانوی سطح سے مادری زبان میں تعلیم۔

٭        اردو مادری زبان کے طلبا کو اعلیٰ جماعتوں میں اردو بحیثیت زبان پڑھانے کا انتظام۔

٭        معقولیت پسندانہ پالیسی کے حصول کے لیے جدوجہد۔

٭        طلبا کو ہندوستان کی تمام زبانوں میں مواد کی فراہمی۔

٭        ہمہ رخی اقدامات۔

٭        سماجی تحریک۔

 

تحتانوی سطح سے مادری زبان میں تعلیم

بنیادی تعلیم اگر اردو میں دی جائے تو اردو کی ترقی میں کوئی امر مانع نہ ہو گا۔ ہندوستان میں کسی ہندوستانی زبان کی ترقی اور بقا کے لیے ، اس زبان کے پڑھے لکھے لوگوں کی کافی تعداد ضروری ہے۔ اس کا حصول اس وقت تک ممکن نہیں جب تک بچوں کو مادری زبان میں تعلیم نہ دی جائے۔ اس اہمیت کا اعتراف سماجی، نفسیاتی ذرائع سے واضح ہے۔ تحتانوی سطح سے مادری زبان میں تعلیم لازمی قرار دی جائے۔

 

اردو مادری زبان کے طلبا کو اعلیٰ جماعتوں میں اردو بحیثیت زبان پڑھانے کا انتظام

گو اردو کو اعلیٰ تعلیمی سطح پر بحیثیت مضمون پڑھائے جانے کی ضرورت ہے ، پھر بھی ابتدا ہی سے اردو کو بحیثیت مادری زبان پڑھانے کی سخت ضرورت ہے۔ اعلیٰ سطح پر طلبا یہ زبان بخوبی سمجھ سکتے ہیں گو اس کی انھیں رسمی تعلیم نہ دی گئی ہو۔ پھر بھی اردو کو ہندی کے ذریعے سے پڑھانا اور اردو پڑھانا دو مختلف صورتیں نہیں ہیں۔ یہ دونوں صورتیں اردو مادری زبان والوں کے لیے ان کے مزاج اور رویے کے تحت ہم آہنگ ہیں۔

 

معقولیت پسندانہ پالیسی کے حصول کے لیے جدوجہد

متعلقہ حکام کو جب تک صحیح تعلیمی پالیسی اپنانے پر راغب نہ کیا جائے ، مذکورہ بالا مسائل میں کامیابی کی کوئی امید نہیں ہے۔ جہاں اردو کی ترقی کی ضرورت ہے وہاں سہ لسانی یا چو لسانی فارمولا اپنایا جائے۔ دوسری تین زبانیں جو سیکھنی ہوتی ہیں وہ ہیں علاقائی زبان، انگریزی اور ہندی (اختیاری)۔ حتیٰ کہ مبینہ سرکاری مدد سے (جو نجی اداروں کے زیر اثر ہیں۔ ) انھیں بھی عقلیت پسندانہ لسانی پالیسی پر قائل کرانے کی ضرورت ہے۔ ورنہ عوام کو اس پالیسی کی افادیت پر قائل کرانا مشکل ہو جائے گا۔ پھر بھی جیسا کہ اوپر کہا گیا ہے ، مشاہیر اس عقلیت پسندانہ پالیسی کو قبول نہ کریں گے کیوں کہ یہی تو ان کی سازش ہے کہ حالات جوں کے توں برقرار رہیں۔

 

طلبا کو ہندوستان کی تمام زبانوں میں مواد کی فراہمی

پہلے بھی کہا جا چکا ہے کہ انگریزی اعلیٰ سطح پر تعلیم کا ذریعہ ہو۔ اس اعلیٰ علمی مواد کا اردو یا کسی زبان میں ترجمہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ اور جیسا کہ بنیادی تعلیم مادری زبان میں ہونی چاہیے ، یہ بھی ضروری ہے کہ عام مطالعے کا مواد بھی دیگر ہندوستانی زبانوں میں مہیا کیا جائے۔ (اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ دیگر ہندوستانی زبانوں کے عام مواد کی فراہمی کے سبب علاقائی، مذہبی یا دیگر تعصبات از خود ختم ہو جائیں گے۔ یوں بھی عام علمی مواد کو حاصل کرنے والوں کی تعداد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والوں سے زیادہ ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے طلبا انگریزی کو ہندوستان کی دیگر تمام زبانوں پر ترجیح دیتے ہیں حالاں کہ وہ اپنی مادری زبان بخوبی جانتے ہیں۔

عام مطالعے کے مواد کا مطلب یہ نہیں کہ یہی ضروری ہے۔ ایک رسالے کی مثال جو اوپر دی گئی ہے۔ جس میں معاشرہ، معاشیات، بین الاقوامی امور سائنس اور ادب جیسے اہم مضامین شائع ہوتے ہیں ، عام مطالعے کے مواد کے زمرے میں آ سکتے ہیں۔ سائنس اور دیگر اعلیٰ اور پیچیدہ مضامین کے حامل مضامین ہمارے عام مطالعے کے مواد سے خارج سمجھے جائیں۔ یہ ضمنی امور ہیں۔ طلبا جب عام مطالعے کے مواد سے مستفید ہوں گے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کریں گے اور مادری زبان میں حصول علم کا مرحلہ عمل میں آئے گا، باقی تمام علوم ان کے لیے آسان ہوں گے۔

 

ہمہ رخی اقدامات

معاشرے کے مخصوص و ممتاز طبقات تک پہنچنے کے لیے ہمیں ایک علاحدہ حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ اپنے مقصد کے حصول کے لیے خواہ غیر تعلیم یافتہ بزرگ ہی کیوں نہ ہوں ، ہمیں ان تک پہنچنا چاہیے اور سماج کے کسی بھی طبقے کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ عوام کی علمی استعداد کے مطابق انھیں علمی مواد فراہم کیا جانا چاہیے۔ خاطر خواہ نتائج کے رجائیت پسندانہ خیال کے لیے یہ بہتر ہو گا کہ ہمارا اقدام مہذبانہ ہو۔ جتنے بھی لوگ ہمارے ساتھ شامل ہوں گے اتنا ہی اچھا ہو گا۔

 

سماجی تحریک

ہم ہمیشہ بحث کر سکتے ہیں کہ کیا کیا جانا چاہیے ، مگر یہ سوال اس حقیقت پسندانہ سوال سے بہتر نہیں ہے کہ  ’وہ کس طرح کیا جا سکتا ہے ؟ ’ دوسرے سوال کے جواب کے لیے اہم انجمنوں اور فعال تحریکوں کو سمجھنا ہو گا تب ہی ہمیں اپنی کوشش میں کامیابی ہو گی۔

معاشرہ گویا ایک مربوط اکائی ہے۔ سماج سے کٹ کر سماجی مظاہر کا مفہوم حاصل نہیں ہو سکتا۔ سماج کے مختلف طبقات میں باہمی ربط ظاہری یا باطنی کافی توانا ہوتا ہے۔ اسے نظر انداز نہ کیا جائے۔ سماجی تحریک باہمی میل جول سے معرض وجود میں آتی ہے۔ طبعی اور سماجی تحریکوں میں صرف اتنا فرق ہے کہ سماجی تحریک میں نہایت پیچیدہ اور غیر متوقع سوچ کے عوامل شامل ہوتے ہیں۔ ورنہ یہاں بھی اصول حرکت مساوی طور پر جائز ہے۔ اصحاب فہم کی شمولیت معاشرتی مسائل کے حل کے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں ہے۔

مذکورہ بالا دو فقروں میں بتائے گئے مشاہدات کے مفہوم کا لحاظ رکھا جائے ، تب سماجی تحریک کو مبالغہ آمیز اہمیت دینے کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی۔ ظاہری یا باطنی طور پر سماجی مسائل کو اعتدال پسندی سے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ عوام دوست تحریکوں کو پہلے اجتماعی اقدام پر آمادہ ہونا ہو گا، اس کے بعد حصول مقصد کے لیے پر زور تحریک چلانی ہو گی، اور اس کے لیے عوام کی تائید ضروری ہو گی۔ ایسی تحریکوں کو زبان اور تعلیم سے متعلقہ بلند مقاصد کو عوام کے سامنے رکھنا ہو گا کیوں کہ زبان اور تعلیم کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ محض مقصد برآری کے پرزوں سے زیادہ ہیں۔

سماجی تحریکوں کو عوام کے سامنے امن، روٹی روزی، صحت کے مسائل، زبان اور تعلیم کے علاوہ رکھنے ہوں گے ، کیوں کہ جدوجہد کے ماحول میں خالی پیٹ انسان سے توقع نہیں کی جا سکتی کہ سیکھنے سکھانے کے عمل میں حصہ لے سکے۔ اجمالاً کہا جا سکتا ہے کہ یہ عوام ہی ہیں جو حالات میں سدھار لا سکتے ہیں۔

یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ حکام نے متوسط طبقے کو اپنے ساتھ لے لیا ہے اور مذکورہ مسائل کے خلاف ردّ عمل کا رویہ اپنایا ہوا ہے۔ اور عام طور سے دیگر مسائل کے تعلق سے بھی۔ پھر بھی بشمول متوسط طبقہ، عوامی تعلیم کا کام عقلیت پسندانہ پالیسی کے حصول کے لیے اہم ہو گا۔

قصہ کوتاہ، مادری زبان میں حصول تعلیم کے لیے جدوجہد میں دیگر زبان داں طبقے سے ہاتھ ملانا ہو گا۔ اور کوشش اس امر پر مرکوز ہونی چاہیے کہ با مقصد مواد مثلاً کتب، ریڈیو، ٹی۔ وی وغیرہ ہندوستان کی تمام زبانوں میں مہیا کیے جائیں۔ پھر بھی کروڑوں بدقسمت ہندوستانیوں تک علم پہنچانے کا مسئلہ نچلی سطح پر ہی رہے گا۔

 

تجاویز

مختلف مسائل پر روشنی ڈالنے کے بعد زبان سے متعلق عقلیت پسندانہ پالیسی سے متعلق چند مشورے دینا ضروری سمجھتا ہوں۔

گزارش ہے کہ سہ لسانی فارمولے میں ترمیم کی جائے۔ دستور ہند کے آٹھویں جدول میں مندرج اٹھارہ زبانوں کے منجملہ کم از کم بارہ زبانیں یعنی ہندی، اردو، بنگالی، مراٹھی، اڑیہ، پنجابی، تلگو، آسامی، ٹامل، ملیالم، کنڑا اور گجراتی تحتانوی سطح سے بنیادی ذریعۂ تعلیم کے طور پر پڑھائی جا سکتی ہیں۔ عقلیت پسندانہ لسانی پالیسی کے سلسلے میں یہ میرا ذاتی مشورہ ہے۔ اس ضمن میں کسی کمی  بیشی پر مصالحت نہیں ہو سکتی۔ دیگر پہلو اس بنیادی مقصد کے تفصیلی یا منطقی نتائج کے حامل ہیں۔

آٹھویں جدول میں بتلائی گئی چھ زبانوں یعنی کونکنی، کشمیری، منی پوری، نیپالی، سنسکرت اور سندھی کے تعلق سے میں کوئی رائے بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ پھر بھی میرے خیال میں سوائے سنسکرت کے بقایا دوسری زبانیں جو دستور ہند کے آٹھویں جدول میں مذکور ہیں ، ان میں بنیادی تعلیم دی جا سکتی ہے۔ درحقیقت علاقائی زبانیں جیسے راجستھانی، مگدھی وغیرہ جو کہ بولیاں ہیں یا سورنا بندی کہی جاتی ہیں ، دستور کے آٹھویں جدول میں شامل نہیں ہیں۔ انھیں بھی آٹھویں جدول میں شامل کیا جانا چاہیے اور تحصیل علم کا ذریعہ بنانا چاہیے۔ کم ترقی یافتہ زبانیں علاقائی زبانوں کی رہنمائی کر سکتی ہیں۔

 

لسانی پالیسی بشمول سہ لسانی فارمولہ اس طرح ہونی چاہیے

٭        مادری زبان، علاقائی زبان (ذریعہ تعلیم کم از کم پانچویں جماعت تک)۔

٭        علاقائی زبان،  مادری زبان (کم از کم بطور زبان تیسری جماعت سے دسویں تک)۔

٭        انگریزی ( سوم سے ششم تک بطور زبان شروع کی جا سکتی ہے )۔

٭        ذو لسانی اصطلاحی اصول (چھٹی جماعت سے گریجویشن تک)۔

٭        ہندی کے لیے خصوصی مقام ہو جو کہ دفتری زبان ہے۔

 

مادری زبان، علاقائی زبان کے ذریعے ابتدائی تعلیم

تمام مسائل کی روح اس امر میں پوشیدہ ہے کہ تحتانوی سطح پر تعلیم یا تو مادری زبان میں دی جائے یا علاقائی زبان میں کیوں کہ طالب علم ان میں سے ایک یا دونوں زبانوں پر بہت جلد اور آسانی سے مہارت حاصل کر لیتا ہے۔ فوقیت مادری زبان کو دی جانی چاہیے۔ پھر بھی علاقائی زبان کو ذریعۂ تعلیم بنانا چاہیے اور مادری زبان بطور مضمون پڑھائی جانی چاہیے۔ ایسے مقامات پر جہاں مادری زبان میں تعلیم کا انتظام آسان نہ ہو علاقائی زبان مادری زبان کا متبادل ہو سکتی ہے کیوں کہ بچے اپنے اطراف کے ماحول کے دوسرے بچوں سے گھل مل جاتے ہیں جن کی مادری زبان علاقائی زبان ہوتی ہے۔

تحتانوی سطح پر دیگر زبانوں میں تعلیم بچے کے ذہن میں حصول علم کی روش میں مصنوعی گوشے پیدا کرتی ہے۔ کیوں کہ اس صورت میں اسے اجنبی زبان سے جوجھنا پڑتا ہے۔ اس طرح بچوں کا وقت برباد ہوتا ہے ورنہ یہی وقت صحیح سمت میں لگ جائے تو بچے بہ آسانی دنیا کے ماحول کو سمجھ پاتے ہیں۔ اسی لیے ایسا بچہ جس کی تعلیم پہلے ہی دن سے انگریزی زبان میں ہوتی ہے بجاے راست طور سے سمجھ بوجھ حاصل کرنے کے حافظے کے گورکھ دھندے میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔ چنانچہ آئندہ زندگی میں جب کہ وہ انگریزی میں ماہر بھی ہو جاتا ہے ، تب بھی یادداشت کے چنگل سے آزاد نہیں ہو پاتا۔ اور جلد چیزوں کو صحیح معنوں میں نہیں سمجھ پاتا۔

غیر سرکاری مدارس کو بھی معقولیت پسندانہ لسانی پالیسی اپنانی چاہیے تاکہ طلبا تحتانوی درجے سے ہی اجنبی زبان سیکھنے کے نقصان سے محفوظ رہ سکیں۔ اور اگر غیر سرکاری مدارس انگریزی ہی میں تعلیم دیتے رہیں گے تو نقصان کی صورت میں طلبا کے سرپرستوں کو قائل کرانا مشکل ہو گا کہ مادری زبان یا علاقائی زبان میں تعلیم نقصان دہ ہے۔ دوسرا نقصان یہ ہے کہ خالص انگریزی کے سبب ترقی یافتہ طبقہ سماج سے کٹ کر رہ جائے گا اور آئندہ زندگی میں انگریزی کا فارغ التحصیل اپنے خیالات کو ہندوستانی زبان میں ظاہر کرنے سے قاصر رہے گا۔

دوسری خامی یہ ہے کہ سماج کے پچھڑے ہوئے طبقے سے تعلق رکھنے والا بچہ ابتدا ہی سے اکثر انگریزی تعلیم حاصل کرتا ہے تو اس کے لیے یہ ماحول اجنبی ہو جائے گا۔ ایسے بچوں کے کم وسائل  والدین انھیں بہتر تربیت بہم پہنچانے سے قاصر ہوں گے۔ ایسے والدین اپنے بچوں کو اگر ٹیوشن بھی دلوائیں گے تب بھی یہ بچے اونچی سوسائٹی کے بچوں کے ماحول سے مانوس نہیں ہو سکتے۔ اور ایسے بچوں کے والدین انگریزی داں والدین کا نعم البدل نہیں ہو پائیں گے۔

مادری زبان میں تعلیم کے افادی پہلو کے سلسلے میں دوسری بحث یہ ہو سکتی ہے کہ اس سے بچہ اپنی تہذیبی جڑوں سے جڑا رہتا ہے۔ ورنہ وہ بے سمتی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اپنی تہذیب سے دوری اسے اپنی شناخت سے محروم کر دیتی ہے۔

 

علاقائی، مادری زبان بحیثیت مضمون

حالات کی مناسبت سے بچوں کو مادری زبان یا علاقائی زبان میں تعلیم دی جانی چاہیے اور بشمول انگریزی دوسری زبانوں سے واقفیت کروائی جانی چاہیے۔ انگریزی کے علاوہ کوئی دیگر زبان بہ حیثیت لسان پڑھائی جائے۔ یہاں میں یہ مشورہ دینا چاہوں گا کہ زبان کے تعلق سے نصاب میں تبدیلی لائی جائے۔ بے شک پہلی ذمّے داری زبان کی تعلیم ہو گی۔ فی زمانہ زبان کے نصاب میں صرف ادب پڑھایا جا رہا ہے۔ اس طریقے کو بدلنا ہو گا۔ حالیہ معلوماتی ترقی کے ماحول کا لحاظ کرتے ہوئے ، ضروری ہے کہ بچے کو ایسی تعلیم دی جائے جس کے ذریعے وہ اپنے اطراف پھیلے ہوئے ماحول کو سمجھ سکے۔ ادب جو کہ روزمرہ زندگی کی تگ و دوسے دور ہوتا ہے ، زیادہ سے زیادہ اسے لسانی نصاب کا محدود حصہ بنایا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے صرف ادب سے دلچسپی رکھنے والے ہی اس صورت میں ادب کا انتخاب کریں گے۔ لیکن مدرسے کی سطح پر زبان کے نصاب پر اس کو فوقیت نہ دی جائے۔

زبان سے متعلق نصاب کا مواد ایسا ہو کہ اس سے بچہ ذخیرۂ الفاظ بڑھا سکے۔ ایسے الفاظ کا ذخیرہ جو روزمرہ زندگی میں کام آسکے تاکہ وہ حقیقی معنوں میں ہمہ لسانی قابلیت پا سکے۔ بعد میں ایسا طالب علم اگر بحیثیت معلم یا صحافی عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے ، ایسی صورت میں مادری زبان یا علاقائی زبان سے واقفیت حالات کا سامنا کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے اور تبدیل شدہ لسانی نصاب طالب علموں کو اپنی طرف راغب کرے گا اور اپنے ہم وطنوں سے بے تکلفانہ میل جول بڑھانے میں مدد گار ثابت ہو گا۔

نصابی مواد کے تعلق سے یہ جو مشورہ دیا گیا ہے بوقت ضرورت وہ درس گاہ کی ان جماعتوں کو، جو زبان پڑھتی پڑھاتی ہیں ایک دوسرے میں ضم بھی کر سکے گا۔ ایسے ادارے جو زبان کی تشہیر کا دم بھرتے ہیں انھیں میدان عمل میں لانے کے لیے ضروری دباؤ ڈالنا ہو گا۔ یہاں تک کہ (تحتانوی اور دینی) مدارس میں ، جو عموماً شمالی ہند میں ہیں ، جہاں اردو مادری زبان کے حامل بچے قابل لحاظ تعداد میں ہیں ، مادری زبان میں حصول علم کی تحریک چلائی جائے اور ممکن ہو تو ان کے لیے مخصوص نصاب مرتب کیا جائے۔

 

ذریعۂ تعلیم کی انگریزی میں منتقلی

مادری زبان یا علاقائی زبان سے انگریزی میں ذریعۂ تعلیم کی طرف منتقلی ہونی چاہیے اس لیے کہ ترقی یافتہ علوم کے مواد کا ہندوستانی زبانوں میں فقدان ہے۔ جدید علم تیزی سے ترقی کرتا جا رہا ہے۔ تاریخی اور موجودہ حقائق کی رو سے انگریزی مقتدر زبان ہے۔ آج امریکہ کی تانا شاہی زوروں پر ہے۔ ہندوستان برطانیہ کی کالونی تھا۔ انگریزی دیگر ترقی یافتہ زبانوں سے آگے بڑھ چکی ہے۔ علاوہ ازیں انگریزی چوں کہ دیگر ترقی یافتہ زبانوں پر سبقت حاصل کر چکی ہے اس لیے دیگر زبانوں کے بجائے انگریزی کی طرف مائل ہونا فائدہ مند ہے۔

ان حالات میں ماننا پڑے گا کہ تحتانوی سطح پر مادری زبان اور اعلیٰ تعلیم کے لیے انگریزی زبان موزوں ہے۔ اور مسابقت کے تناظر میں ایک زبان سے دوسری زبان کی طرف منتقلی ضروری ہے کہ مختلف زبانوں کے مواد جو لسانی پالیسی سے متعلق ہیں موزونیت کے ساتھ جوڑے جائیں۔ بادی النظر میں یہ اس لیے کہ اعلیٰ تعلیم انگریزی میں دی جاتی ہے اور علاوہ ازیں انگریزی دانشوروں کی زبان ہے۔ انگریزی تیسری یا چھٹی جماعت سے پڑھائی جانی چاہیے یا حالات کے مطابق کسی بھی سطح سے۔ جنھوں نے انگریزی میں حصول علم دیر سے شروع کیا ہے ، ان کے لیے گزرے وقت کی خلیج کو پاٹنے کے لیے مخصوص نصاب ترتیب دیا جانا چاہیے۔

ذریعۂ تعلیم میں تبدیلی مختلف صورتوں میں مختلف ہوتی ہے اور یہ زبان اور مضامین کی تعلیم پر منحصر ہے۔ ایک سرے سے ذریعۂ تعلیم میں تبدیلی چھٹی جماعت سے ہو گی۔ جب کہ دوسرے سرے پر یہ تبدیلی گریجویشن سطح پر ہو گی۔ کسی بھی صورت میں کم از کم پانچویں جماعت تک ذریعۂ تعلیم مادری زبان یا علاقائی زبان ہونی چاہیے اور یونی ورسٹی کی سطح پر انگریزی ذریعۂ تعلیم کی ضرورت ہے۔

 

ذو لسانی اصطلاح کا اصول

چھٹی جماعت سے گریجویشن تک ذولسانی اصطلاح کی ضرورت ہے۔ ذولسانی اصطلاح سے میرا مطلب یہ ہے کہ طالب علم انگریزی، مادری زبان یا علاقائی زبان میں اس اصطلاح سے واقف ہو اگرچہ کہ ذریعۂ تعلیم سے صرف نظر بھی کیوں نہ کیا جائے۔ اس کے لیے نصاب، انگریزی میں ہو کہ مادری زبان یا علاقائی زبان میں اس کی جدید تنظیم ہونی چاہیے۔

اور اس ذولسانی اصطلاح کے اصول کو گریجویشن کی سطح تک جاری رکھنا چاہیے۔ یا کم از کم اسے اختیاری مضمون بنایا جائے۔ گریجویشن کی سطح تک یہ کوئی مسئلہ نہ ہو گا کیوں کہ اگر کوئی استاد کسی مخصوص زبان میں اپنے طالب علم کی رہنمائی سے قاصر بھی ہے تو تب وہ طالب علم اپنی مدد آپ کر سکتا ہے۔ ذو لسانی پالیسی ہندوستانی زبانوں کی ترقی کی ضامن ہو گی۔ اس اصطلاح سے عدم واقفیت اور خاص طور پر علاقائی زبان میں اس اصطلاح کا عدم وجود عوام کو اپنی تحریروں میں اس کے استعمال سے باز رکھتا ہے۔

 

ہندی جو سرکاری زبان ہے

سرکاری زبان ہندی ملک میں رابطے کی زبان کا منصب بہ خوبی ادا کر سکتی ہے کیوں کہ انگریزی زبان بطور زبان بین الاقوامی سطح پر ناگزیر رہی اور اب بھی ہے۔ تاہم عقلیت پسندانہ لسانی پالیسی کے تحت ہندی کو آٹھویں شیڈول میں دوسری گیارہ زبانوں کے ساتھ مساوی درجہ دیا گیا۔ یہ اور بات ہے کہ بہت کم لوگ اس زبان کا استعمال کرتے ہیں ، آٹھویں شیڈول میں مذکورہ زبانیں ہندوستان کی دیگر زبانوں کے ہم پلہ نہیں ہو سکتیں۔ دیگر زبانوں مثلاً پالی، فارسی اور عربی کے ساتھ سنسکرت کو کلاسک زبان شمار کیا جائے۔ لیکن ان میں سے کسی کو بھی مدرسے کی سطح پر نہ پڑھایا جائے۔

سرکاری زبان ہندی کا کوئی مخصوص مقام نہیں ہے کم از کم لسانی پالیسی کے تحت اگر حکام کی یہی خواہش ہے تو پھر انھیں ہندی کی اعلیٰ سطحی ترقی پر توجہ دینی ہو گی تاکہ ہندی دیگر ترقی یافتہ زبانوں جیسے انگریزی کا متبادل بن سکے۔ پھر بھی مجھے اس کی افادیت میں شبہ ہے۔ غیر ہندی مقامات کے عوام کے علاوہ ہندی داں عوام کو بھی انگریزی میں گفتگو کی ضرورت پیش آتی ہے جب کہ موضوع کسی خاص نوعیت کا حامل ہو اور ترقی یافتہ ٹکنالوجی سے متعلق ہو۔

بحیثیت تیسری زبان ہندی کی تعلیم بغیر خصوصی محنت کے ، اعتماد کے ساتھ ہندی میں کسی کو اظہار خیال کے قابل نہیں بنا سکتی خاص طور پر ایسے موقعوں پر جب مخصوص ذخیرۂ الفاظ کی ضرورت پیش آئے۔ اور آج یہی صورت حال ہے۔ مزید برآں ، اس لیے کہ کوئی بھی شخص اسی زبان میں بات کرنے کو ترجیح دیتا ہے جس میں وہ ماہر ہوتا ہے ، بطور تیسری زبان سیکھی ہوئی ہندی ایسے مرحلوں پر فطری انتخاب نہیں ہو سکتی۔ ہندی سے کم سابقہ پڑتے رہنے کی وجہ سے کوئی بھی شخص ہندی میں مہارت حاصل نہیں کر سکتا۔

آزادی کے بعد اور خاص طور پر دنیا میں بڑھتے ہوئے گلوبلائزیشن کے باعث اب سرکاری ہندی کو ممتاز مقام نہیں دیا جا سکتا۔ لہٰذا اب اسے دیگر زبانوں کے ساتھ مساوی درجے پر ہی رہنا ہو گا۔ تاہم ہندی کثیر عوام کی مادری زبان ہونے اور اردو کے ہندی سے مماثلت رکھنے کے سبب، (رسم الخط کے بھیانک فرق کے باوجود) ہندی نہ صرف ترقی کرے گی بلکہ ہندوستان کی دیگر زبانوں پر سبقت لے جائے گی۔

سرکار نے ماضی میں اگر ہندی کے نفاذ کے تعلق سے صحیح پالیسی اپنائی ہوتی تو ہندی سرکاری زبان کی حیثیت سے اپنا منصب ادا کرتی۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ اپنا منصب جاری رکھ سکتی تھی۔ شاید کچھ حد تک اب اس کا امکان نہیں کہ ہندی ایک موثر سرکاری زبان بن سکے۔ مثال کے طور پر جب سرکاری اثاثہ جات فروخت کیے جا رہے ہوں تو سرکاری زبان کہاں استعمال ہو گی۔ درحقیقت ہندی کی تشہیر میں امتیازی طرز عمل اپنایا گیا ہے اس سے ایک قسم کے تعصب کا گمان ہوتا ہے۔ نچلے طبقے کے عوام کو ذیلی سطح کی ہندی میں پڑھایا جاتا ہے اور اونچے گھرانے کے بچوں کو انگریزی زبان میں بہتر تعلیم دی جاتی ہے۔

یہ زبان کا قصور نہیں ہے بلکہ تعلیم کے نفاذ کا نقص ہے۔ ہندی اس درجہ ترقی یافتہ نہ ہو سکی جس طرح جاپانی، روسی اور چینی زبانوں نے ترقی کی۔ ہم نے کبھی عقلیت پسندانہ لسانی پالیسی اختیار نہیں کی۔ نتیجتاً ہماری تمام زبانوں کو نقصان پہنچا۔ یہ علاحدہ بحث ہے کہ زیادہ یا کم۔ ہندی کو ممتاز مقام دینے کی کوشش آج کے ماحول میں معقول نہ ہو گی۔ دنیا میں علم کے تیز رفتاری سے پھیلاؤ کے سبب صرف بین الاقوامی زبان ہی سرکاری زبان بن سکتی ہے۔ یا ملک کے تعلیم یافتہ عوام کے رابطے کی غیر سرکاری زبان بن سکتی ہے۔

 

قصہ مختصر

آبادی کے لحاظ سے دنیا میں ہندوستان کا دوسرا وسیع مقام ہے۔ اتنا وسیع کہ دستور کے آٹھویں جدول میں مندرج بارہ زبانوں کی موثر طور سے تشہیر کر سکے۔ اور یہ تشہیر مساویانہ بنیاد پر ہو۔ ابتدائی تعلیم مادری زبان یا علاقائی زبان میں ہو، اگر ہمیں ترقی یافتہ قوم بننے میں دلچسپی ہے۔ کثیر لسانی ہندوستانی جو اپنی مادری زبان میں ماہر ہیں سماج کا اثاثہ ہو سکتے ہیں ، اور لازماً ہندوستانی تعلیمی نظام میں خیرسگالی رشتے قائم کر سکتے ہیں۔ عقلیت پسندانہ لسانی پالیسی کے سبب مثبت اثرات دائمی ہو سکتے ہیں۔

ہم لوگ گلوبلائزیشن کی دنیا میں جی رہے ہیں۔ ہمیں اس سے فرار نہیں اور ہمیں فرار کی کوشش بھی نہیں کرنی چاہیے ، ایسے وقت بھی نہیں جب کہ ہم گلوبلائزیشن کے نقصانات کے خلاف جدوجہد کر رہے ہوں۔ جہاں تک زبان کے مسئلے کا تعلق ہے ، دیکھا گیا ہے کہ تقریباً تمام لوگ جو ترقی یافتہ شعبوں میں مصروف ہیں انگریزی سیکھتے ہیں ، اگر چہ یہ ان کی مادری زبان نہیں ہے ، تاکہ وقت کا ساتھ دے سکیں۔

انگریزی کو ایک خاص سبقت حاصل ہے کیوں کہ یہ نہ صرف سابقہ استعماری طاقتوں کی زبان ہے بلکہ موجودہ حاکموں کی بھی زبان ہے۔ بین الاقوامی سطح پر تعلیم یافتہ اقلیتوں کی زبان ہے۔ مزید یہ کہ ہر جدید حکمت اور ترقی پذیر معلومات کی اشاعت میں پیش پیش رہتی ہے۔

زبان ترسیل و ابلاغ کا ذریعہ ہوتی ہے۔ بہ نفسہ یہ نہ تو ترقی پسند ہے اور نہ رجعت پسند۔ (مثال کے طور پر کارل مارکس ایک انقلابی تھا اور ہٹلر ایک فاشسٹ لیکن دونوں نے جرمن زبان کو استعمال کیا تھا) اگر ہمیں تعلیم یافتہ قائدین میں شمار ہونا ہے تو ہمیں لازماً انگریزی سیکھنی ہو گی۔ اور اگر ہم بہ حیثیت ایک قوم ترقی کرنا چاہتے ہیں اور اپنے ماضی کے ورثے کا تحفظ تو ہمیں چاہیے کہ اپنی مادری زبان میں مہارت حاصل کریں۔ یہ ہماری تہذیب کا اصل جوہر ہے۔ جہاں تک اردو زبان کا تعلق ہے ہر شخص کو چاہیے کہ اسے سیکھے۔ محض کسی جذبے کے تحت نہیں بلکہ اردو شاعری سے لطف اٹھانے کے لیے اور ہر دور کے اس عظیم شاعر کے مطالعے کے لیے جس کا نام غالبؔ ہے :

ہے کہاں تمنّا کا دوسرا قدم یا رب

ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا

٭٭٭

 

References

.1        There is much truth in the assertion that…mainly because of communal hostility of the Hindu revivalists and the resultant discrimination against Urdu, particularly in north India…Urdu has (suffered), Ather Farouqui, The question of Urdu ’s survival ’, Mainstream, 27 December 2003, pp. 79-82.

یہ بات بالکل سچی ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات ہی کی وجہ سے ہندو احیا پرستی کو بڑھاوا ملا اور جس کی وجہ سے اردو کے ساتھ امتیاز برتا گیا خاص طور پر شمالی ہند میں۔ اس طرح اردو کو نقصان پہنچا۔ اطہر فاروقی  ’اردو کی بقا کا سوال ’ Mainstream 27 دسمبر2003ص79تا86۔

  1. Gundara, Jagdish S., ’Linguistic Diversity in Global Multicultural Civil Politics: The Case of Urdu in India ’, Social Scientist, Delhi, Vol. 32, Nos 5-6, May-June 2003, pp. 38-56.
  2. Farouqui, Ather, ’Urdu Education in India ’, Economic and Political Weekly, 12 January 2002, p. 106.
  3. Singh, Yogendra, ’The Significance of Culture in the Understanding of Social Change in Comtemporary India ’, in Cultural Change in India: Identity & Globalization, Jaipur and New Delhi: Rawat Publications, 2000, pp. 25-39.

٭٭٭

 

کتابیات

 

King, Christopher R.,  ’One language, two scripts, the Hindi Movement in Nineteenth-Century North India ’, New Delhi: Oxford University Press, 1994.

’Learning: The Treasure Within ’: Report to UNESCO of the International Commission on Education for the Twenty-first Century, UNESCO Publishing, 1996.

Brass, Pal R., Language, Religion and Politics in North India, Cambridge: Cambridge University Press, 1974.

Brass, Paul R., The Politics of India since Independence, Cambridge: Cambridge University Press, second Indian edition, 1994.

Russell, Ralph, How Not to Write the History of Urdu Literature & Other Essays, Delhi: Oxford University Press, 1999.

٭٭٭

 

 

 

 

اردو کے ساتھ جینا، اردو کے بغیر جینا

 

جے۔ ایس۔ گاندھی

 

اردو کے تعلق سے میری فکر بنیادی نوعیت کی ہے۔ اردو میرا اولین ذریعۂ تعلیم تھی۔ میں جب بھی اس زبان کے بارے میں سوچتا ہوں تو اپنی شخصی زندگی کے نقطۂ نظر سے سوچتا ہوں۔ ان لوگوں کے خلاف برا بھلا کہنا نہیں چاہتا جو اس زبان کو سیاسی رنگ دیتے ہیں۔ اردو کو فرقہ وارانہ رنگ دینے یا ملک کی تعلیمی پالیسی میں اردو کو جگہ دینے یا نہ دینے کی بات بھی چھیڑنا نہیں چاہتا۔ اپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہم کس طرح اپنی قومی زندگی میں اس زبان کو پروان چڑھا سکتے ہیں۔ اس موقع پر مجھے اپنے ذاتی تجربات یاد آتے ہیں۔ ساری باتیں میرے ذہن کے نہاں خانے سے بالکل فطری انداز سے باہر آ رہی ہیں اور مجھے یوں لگتا ہے جیسے ان کے اظہار میں ذہنی طور پر میں کسی کشمکش کا شکار نہیں ہوں۔

I

میرے والد کی عمر تقریباً نوے برس ہے۔ وہ امرتسر میں رہتے ہیں۔ سال میں دو مرتبہ  چند دن وہ میرے ساتھ گزارنے کے لیے دہلی آتے ہیں۔ جب ان کے آنے کی تاریخ مقرر ہو جاتی ہے تو میں اپنے اخبار والے کو کہہ دیتا ہوں کہ میرے انگریزی اخباروں کے ساتھ اردو روزنامہ بھی لا دیا کرے۔ اخبار والے کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کیا کرے۔ وہ صرف  ’راشٹریہ سہارا’ اور  ’قومی آواز ’ لا سکتا ہے۔ اس کی مشکل یہ ہے کہ صرف ایک ہفتے کے لیے اخبارات نہیں لا سکتا جب کہ میرے والد دہلی میں مشکل سے ایک ہفتے کے قیام کے لیے آتے ہیں۔ جب وہ ان اخبارات کو پڑھتے ہیں تو ان کی تشفی نہیں ہوتی۔ وہ کہتے ہیں کہ ان اخبارات کا حلیہ ہی بدلا ہوا ہے۔ اشتہارات کی بھرمار ہے۔ میں اپنے والد کے انداز فکر کی داد دیتا ہوں لیکن ہماری سماجی اور ثقافتی زندگی کی تیز رفتار تبدیلیوں کو بھی محسوس کرتا ہوں۔

II

میں دوسری جماعت کا طالب علم ہوں۔ ہاتھ میں اردو املا کی تختی لیے کھڑا ہوں۔ ہمارے اردو کے استاد جو ایک سردار جی تھے ، ہر لڑکے کی تختی پر نظر ڈالتے ہوئے گزر رہے ہیں۔ ان کے چہرے سے پسندیدگی یا ناپسندیدگی کی کیفیت عیاں ہے۔ اگر کسی بچے نے کوئی فاش غلطی کی ہے تو وہ اس کی طرف غصے سے دیکھتے ہیں۔ بچہ ہاتھ بڑھاتا ہے۔ سردار جی بید کی چھڑی سے اسے سزا دیتے ہیں۔ وہ ایک ہلکی سی سسکی بھرتا ہے۔ پھر اپنی تختی کو سنبھال لیتا ہے۔ منظر بدلتا ہے۔ ایک دوسرا لڑکا جس کا نام شرما تھا وہ ہمیشہ صحیح لکھتا تھا۔ اس کی خطاطی بھی اچھی تھی۔ ماسٹر جی کبھی کبھی اس کو شاباشی دیتے تھے۔ اس کے برخلاف میرا ایک قریبی دوست احمد تھا۔ وہ میری ہی طرح بد خط تھا۔

III

ابھی 1996 کی بات ہے۔ میں ایک ملّا جی کی تقریر سن رہا ہوں۔ وہ مسلمانوں کے مسائل اور ہندوستان میں ان کی شہریت کے موقف پر تقریر کر رہے تھے :  ’ ’ہم نے اپنے آپ کو ہندوستان سے وابستہ کیا اور آج ہم اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ ہمیں احساس ہوتا ہے کہ اس ملک میں ہم دوسرے شہریوں کی طرح سر اٹھا کر کھڑے نہیں رہ سکتے۔ ہم اپنی زبان نہیں سیکھ سکتے۔ اردو جو ہماری زبان ہے اس کا جنازہ نکل رہا ہے۔۔۔  ’ ’ ملا کی تقریر جاری ہے۔ ان کے آخری الفاظ میرے بہرے کانوں سے ٹکراتے ہیں۔ میں اندر سے بے چینی محسوس کرتا ہوں۔  ’کیا اردو صرف مسلمانوں کی زبان ہے ؟، میں خود سے سوال کرتا ہوں۔  ’کیا یہ میری زبان نہیں ہے ؟ ’ میں نے اس کی تعلیم حاصل کی ہے۔ کیا جگجیت سنگھ کی گائی ہوئی غزلیں اس کے مسلمان دوستوں نے پڑھ کر اسے سنائی نہیں تھیں ؟ کیا قرآن اردو میں نازل ہوا؟ نہیں ایسا نہیں ہے …! تو پھر اردو مسلمانوں کی زبان کیسے ہوئی؟

IV

1966 میں میری ملاقات دہلی یونی ورسٹی کیمپس میں رمضانی (فرضی نام) سے ہوئی۔ میں ان دنوں دہلی اسکول آف اکنامکس کا طالب علم تھا۔ اپنی کلاسز کے بعد بھی کیمپس میں ٹھہرا رہتا۔ میں اور رمضانی ٹہلتے ہوئے یونی ورسٹی کے علاقے میں نکل جایا کرتے۔ ہم مختلف موضوعات پر بات کرتے جن میں ہندوستانی سماج اور قومی یکجہتی پر بڑی بے تعصبی کے ساتھ بحث ہوتی۔ رمضانی کی زبان میں ہلکی سی لکنت تھی۔ بعض حروف کی ادائیگی وہ الگ طریقے سے کرتا۔ مثلاً اسے "K” کبھی ٹھیک سے بولنا نہ آیا۔ اس کی زبان سے "T” کی آواز نکلتی۔ اس کا خیال تھا کہ ہندوستانی سماج میں وہ کامیاب زندگی نہ گزار سکے گا۔ اسے اپنی بہنوں کی شادی کرنی تھی۔ دوران گفتگو ہم لوگ اکثر ہندوؤں ، مسلمانوں اور سکھوں کے درمیان میل جول اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کے خیالی منصوبے بناتے۔ یونی ورسٹی چھوڑنے کے بعد میں اس سے پھر کبھی نہیں ملا۔ بعد میں ایک دوست نے بتایا کہ وہ کسی عرب ملک میں عربی کے استاد کی حیثیت سے کام کر رہا ہے۔ اس دوران وہ ہندوستان آیا بھی ہو گا لیکن میری اس سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔

V

1960 میرے عنفوان شباب کا زمانہ تھا۔ میں شملہ میں تھا اور آئی۔ اے۔ ایس۔ امتحان کی تیاری کے بارے میں سوچ رہا تھا گو میرا دل کہیں اور تھا۔ مجھے ان دنوں ادبی شخصیتوں سے ربط پیدا کرنے کا بہت شوق تھا۔ شملہ میں میرے چار سال کے قیام کے دوران کئی مشاعرے ہوئے۔ ان مشاعروں میں اکثر شعرا غیر مسلم ہوتے تھے۔ ان علاقوں میں شاید مسلم شعرا تھے ہی نہیں۔ ان شاعروں کی اردو زبان بڑی سلیس تھی جس پر فارسی کا اثر بہت کم تھا۔ خواتین شعرا بھی اپنا کلام سناتی تھیں۔

VI

1993 میں میری ملاقات ایک قدیم مسلم دوست سے ہوئی۔ ہم گذرے دنوں کی باتیں بہت دیر تک کرتے رہے۔ میں نے بلا ارادہ اردو الفاظ استعمال کرنا شروع کر دیے۔ میرے دوست نے ناگواری کا اظہار کیا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ میں سیدھی سادی ہندی میں گفتگو کروں۔ میں نے پوچھا کیوں تو اس نے کہا کہ اردو الفاظ استعمال کرنے سے تصنع کا اظہار ہوتا ہے۔ مجھے اس بات سے تکلیف پہنچی۔

VII

مجھے ایک دوست نے یوم اردو کی تقاریب میں مدعو کیا تاکہ میں اردو زبان سے متعلق اپنے خیالات شرکائے محفل کے سامنے بیان کروں۔ جب مجھ سے تقریر کرنے کے لیے کہا گیا تو میں نے بتایا کہ کس طرح میں اردو بولنے والوں کے درمیان پلا بڑھا۔ میں نے اس بات پر فخر کا اظہار کیا کہ اردو کے کئی نامور ادیبوں سے میری جان پہچان رہی ہے۔ میری تقریر کے بعد صدر جلسہ نے اردو سے میری محبت کو سراہا۔ ان کی تعریف سے مجھے شرمندگی سی ہوئی کیوں کہ میں کوئی بڑا ادیب نہیں ہوں۔ مجھے اس لیے بھی خفت ہوئی کہ موصوف نے میری تعریف اس لیے کی کہ میں اردو بول سکتا ہوں۔ اس وقت میں سوچنے لگا کہ اگر میں کوشش بھی کروں تو اردو سے ناطہ توڑ نہیں سکتا۔ اردو سے میرا ذہنی اور جذباتی لگاؤ ہے۔ میرا ابتدائی ذریعۂ تعلیم اردو تھی۔ ایک ایسی بات کے لیے میری تعریف کی جا رہی ہے جو دراصل میری پہچان ہے۔

VIII

میں اپریل 2000 میں ایک مہینے کے لیے تحقیقی کام کے سلسلے میں پیرس جا رہا تھا۔ اس سے قبل بھی میں بیرونی سفر پر جا چکا تھا لیکن اس دفعہ میں کچھ پریشان سا تھا۔ میں نے سوچا شاید یہ میری عمر کا تقاضہ ہے۔ میرا جانا ضروری تھا۔ تمام تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں۔ میں اپنی یونی ورسٹی کی لائبریری میں گیا اور اپنی پسند کی کتابیں تلاش کرنے لگا۔ ساری کتابیں دیکھی بھالی لگیں۔ بعض بڑی ہی نظریہ پرست۔ آنے والے دنوں کی اکتاہٹ کا مجھے احساس تھا۔ غیر ارادی طور پر میری نظر اردو کے چند مزاح نگاروں کی تخلیقات پر پڑی جیسے کرشن چندر اور دوسرے۔ میں نے مجتبیٰ حسین کی کتاب  ’تکلف برطرف ’ اٹھا لی۔ پیرس میں مجھے دن بھر کے کام کی تکان کے بعد  ’تکلف برطرف ’ کے مطالعے سے بڑا سکون ملا۔ روح کو فرحت حاصل ہوتی تھی۔ میں سونے سے قبل ایک آدھ باب پڑھتا۔ میں احتیاط برتتا اور چند ہی صفحات پڑھ کر سو جاتا کہ کہیں چھوٹی سی کتاب جلد ہی ختم نہ ہو جائے۔

IX

ابھی  ’جب کہ میں اپنا یہ مختصر مضمون ختم کرنے کو ہوں  ’ میرے ایک واقف کار نے میرے گاؤں سے میرے بچپن کے ایک دوست کا خط لا کر دیا۔ میں کئی برسوں سے اپنے اس دوست کی تلاش میں تھا۔ 1950 کی دہائی میں ہم دونوں جدا ہوئے تھے۔ ہم نے ایک ساتھ میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا۔ اس کا خاندان کسی قریب کے شہر میں منتقل ہو چکا تھا۔ خط کے پہنچنے سے قبل تک میں نے برسوں سے اس سے ربط قائم کرنے کی کوشش کی تھی۔ میرے دوست کا خط اردو میں تھا۔ اس کی طرز تحریر سے اس کا ناک نقشہ، اس کے خط و خال اور اس کی پوری شخصیت میری نظروں میں گھوم گئی۔ میرا دوست مجھے اردو ہی میں خط لکھ سکتا تھا۔ یہی تو وہ رابطے کی زبان ہے جو ہم دونوں نے ایک ساتھ سیکھی تھی۔

 

توضیح، تفریق اور مشاہدہ

مندرجہ بالا واقعات کو پیش کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ گزشتہ پچاس سال میں جو فضا بنی ہے اس کے حقیقی اسباب بیان کیے جائیں یا ان واقعات کو دہرا کر کسی کے احساسات کو مجروح کیا جائے۔ ایسا بھی نہیں کہ ان واقعات کو ارادتاً منتخب کیا گیا ہے بلکہ جب میں نے غور کرنا چاہا کہ ہماری زندگی میں اردو کا کیا مقام ہے تو یہ ساری باتیں غیر ارادی طور پر میرے ذہن کے گوشوں پر ابھر آئیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ تمام لوگ جو میرے ساتھ تعلیم پائے ہوئے اور ہم عمر ہیں میرے ان مشاہدات اور تجربات کو فضول اور بے کار نہیں سمجھیں گے۔ تب بھی انھیں یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ پوچھیں ان واقعات کے اعادہ کرنے کا مقصد کیا ہے۔

(الف)   اوّل یہ کہ میری زندگی کے یہ واقعات جو مجھے یاد آئے وہ ہم سب کی روزمرہ زندگی میں اردو کے زوال کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ اس زوال کا جائزہ لینا ہو یا اس کی توضیح کرنی ہو تو ضروری نہیں کہ گزشتہ پچاس سال میں ہمارے لیڈروں نے جو بے تکے اور غیر متعلق فیصلے کیے ہیں انھیں سامنے لایا جائے یا ان سے متعلق دستاویزات کا ذخیرہ عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔ اس کے برخلاف کوئی بھی شخص اس روایت کو اپنا کے جو مستند ہے صحیح نتیجے پر پہنچ سکتا ہے۔ وہ جو قدیم روایت ہے اس روایت کے مطابق ہم اپنے بزرگوں اور ان لوگوں سے جو تقسیم کے وقت اپنی جوانی کو پہنچ چکے تھے ، ان سے پتہ لگا سکتے ہیں۔ اس طرح کہ پنجاب میں جو میرے یا میرے والد کے ہم عصر ہیں انھیں اردو کی شہرت اور اس کے حسن کے بارے میں بہت کچھ یاد ہے۔ اردو کی تحریروں ، اس کی شاعری، اس کے فکشن اور یہاں تک کہ اس کے سمپوزیم (جن کا اکثر انعقاد ہوتا تھا) سے ان کا فطری اور بے ساختہ لگاؤ تھا (1)یہ حیرت کی بات ہے اور اس پر زور دینے کی ضرورت ہے کہ عام مسلمان ہی نہیں بلکہ ان کے قائدین اور وہ لوگ بھی جو بلا جھجک اپنے آپ کو اسکالروں اور اردو کے محافظین میں شامل کرتے ہیں وہ مسلسل یہ دعوے کرتے ہیں کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان ہے۔

(ب)    موجودہ دور میں جو افسوس ناک واقعات سامنے آئے ہیں ان میں کا ایک سوہان روح واقعہ یہ ہے کہ اردو کو مسلمانوں کی زبان کہا گیا ہے۔ چند مسلم اور غیر مسلم لیڈروں نے کئی عوامل کو یکجا کر کے ایک غیر معقول سیاسی پالیسی چلائی ہے۔ ان عوامل میں ہندوستانی حکومت کی لسانی پالیسی سر فہرست ہے۔ اس رویے نے کئی مغالطے پیدا کیے ہیں اور حقیقت کی پردہ پوشی کی ہے۔ انصاف کا تقاضہ تو یہ تھا کہ  ’ہندی ’ کی جگہ  ’ہندوستانی ’ کو ہندوستان کی عوامی زبان قرار دیا جاتا۔ اس بات کے دستاویزی شواہد موجود ہیں کہ ہمارے چند قومی قائدین پر، جن میں جواہر لال نہرو بھی شامل ہیں ، بعض شدّت پسند ہندوؤں نے دباؤ ڈالا تاکہ وہ ہندی کے حق میں ووٹ دے کر اسے ملک کی قومی زبان بنائیں۔ (2)آنے والے دنوں نے ثابت کر دیا کہ یہ ایک نامناسب اور غیر حقیقت پسندانہ فیصلہ تھا جو سیاسی نقطۂ نظر سے بھی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوا۔ اس فیصلے کو جب رو بہ عمل لایا گیا تو اس کے خلاف جو شدید احتجاج ہوا (خاص طور پر جنوبی ہند میں ) وہ تاریخ کا ایک باب ہے۔ اس فیصلے کو قائم رکھتے ہوئے یو۔ پی۔ جیسی ریاستوں نے بڑی شدت اور بے حیائی کے ساتھ اردو کو تیسری ماڈرن زبان کا درجہ دینے سے انکار کر دیا۔ (3)ان واقعات نے مولویوں اور سیاسی موقع پرستوں کے لیے مسلمان ہوں کہ ہندو نامناسب شعلہ بیانی اور نازیبا نعرہ بازی کے لیے موقع فراہم کیا اور سماجی اور سیاسی فضا کو مکدر بنا دیا۔

(ج)      اردو زبان میں مخلوط قوم کے تصور کی جو قوت ہے اسے ضائع نہ ہونے دینا ایک منطقی اور عقلی ضرورت ہے۔ (4)اس کی تعریف کے لیے ضروری ہے کہ ہم ماضی کے ان اوراق کو الٹیں جن میں زبان کے وجود میں آنے اور اس کے فروغ کی داستان لکھی گئی ہے۔ مغل لشکر کے درمیان گفت شنید کے لیے اس زبان نے عربی، فارسی اور ترکی جیسی قدیم زبانوں ہی سے نہیں بلکہ کئی علاقائی اور مقامی زبانوں سے استفادہ کیا۔ مختلف لسانی روایتوں نے ، جن میں جنوبی ہند کی روایتیں بھی شامل ہیں ، اس کا ساتھ دیا۔ اردو زبان کے پھیلاؤ سے تلگو اور کنڑی جیسی زبانیں بھی مالامال ہوئیں۔ پنجاب اور پنجابیوں سے جو زبان وابستہ ہے وہ پنجابی ہے۔ اس میں بھی اردو کے الفاظ کا ذخیرہ ہے۔ مخلوط لسانی کلچر کے وسیع تناظر کی تعریف کے لیے قرون وسطیٰ کی شاعری (خاص طور پر بھجن، گیت، قوالی) جس میں عربی اور فارسی زبان کے الفاظ کی کثرت ہے اور جو انڈیا کی ماڈرن زبانوں کی بنیاد ہیں۔ ان کی تاریخ کا جاننا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر  ’جاپ صاحب ’ جس کے مولف سکھوں کے چھٹے گرو گوبند سنگھ ہیں ، اس میں نہ صرف عربی اور فارسی لغات کا کثرت سے استعمال ہوا ہے بلکہ سنسکرت، برج، اودھی وغیرہ بھی اس میں شامل ہیں۔ اس تالیف میں خدا کی حمد اور مناجات ہے اور اس کی صفات بیان کی گئی ہیں۔

(د)       ہندوستان کے اس شاندار کلچر کی ایک اور مثال پیش کرنا چاہوں گا جو مخلوط لسانی کلچر ہے۔ اس کا بے ساختہ استعمال کثرت سے سکھوں کی مذہبی کتاب  ’آدی گرنتھ ’ میں کیا گیا ہے۔ جسے قرون وسطیٰ میں ترتیب دیا گیا تھا۔ (5)یہ حماقت ہو گی بلکہ خودکشی کے مترادف ہو گا اگر قومی یکجہتی کے ہندوستان کے اس مخلوط کلچر کو جو پچھلی چند صدیوں کی دین ہے اس طرح نظرانداز کر دیا جائے۔ یہ تو کسی بھی قوم میں آپسی خیالات کی ترسیل کے علاوہ بین قومی خیالات کی ترسیل کا ذریعہ ہے۔ اس طویل گفتگو سے میرا مقصد اسی سوال کا جواب تلاش کرنا ہے کہ کیا کوئی ایسی صورت ہے کہ اردو کو بچایا جا سکے اور اسے فروغ دیا جائے کیوں کہ یہ مختلف قوموں کے درمیان ترسیل کا ذریعہ اور سرچشمہ ہے۔ (6)

 

حال اور مستقبل کے مسائل کا حل

اب مجھے مختصراً چند اہم مسائل پر گفتگو کرنے دیجیے جو ایک مناسب لسانی پالیسی سے متعلق ہیں اور جنھیں چند اسکالر تجویز کرنے والے ہیں۔ میں یہ ضروری نہیں سمجھتا کہ اس موضوع پر چھوٹے چھوٹے اختلافات کا ذکر کروں۔ میں صرف ان محرکات پر روشنی ڈالوں گا جو میرے نزدیک وسیع تناظر میں مباحثے کے لائق ہیں۔ اور کیوں ؟ بلا جھجک میں یہ بھی کہوں کہ میں اس ترغیب سے پرہیز کروں گا جو حکومت کی پالیسی کا تنقیدی نشانہ ہے اور جس سے لیڈر، سیاسی پارٹیاں اور نظریہ ساز وابستہ ہیں   —   میرا پہلا سوال ہے کیوں ؟

جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے اردو زبان کا مخلوط کیرکٹر پہلے سے آزمودہ ہے۔ اسی لیے اسے نظرانداز نہیں کرنا ہے بلکہ اسے قومی یکجہتی سے جوڑنا ہے۔ اردو کے چاہنے والے بھی یہی کریں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ مختلف اقوام کو ان کے نسلی امتیازات کے باوجود اس زبان کے عوامی ورثے سے باندھا جا سکتا ہے اور اس زبان کی ہر دل عزیزی پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک احمقانہ بات ہو گی اگر کوئی یہ سوچے کہ اردو زبان کے فروغ سے ایک مخصوص قوم کا فائدہ ہو گا۔ یہ بات بھی ذہن نشین ہو کہ وہ لوگ جو قومی یکجہتی کے بڑے بڑے نعرے لگاتے ہیں وہ اگر اس زبان کو نظرانداز کر دیں یا اس کی اجتماعی قوت کو سلب کرنا چاہیں تو یہ قومی خودکشی کے مترادف ہو گا۔ اس کے ایک سے زیادہ اسباب ہیں۔

کیا مسلم دانشوروں اور لیڈروں کا بار بار یہ کہنا کہ صرف ریاست کی اعانت ہی اردو کو بچا سکتی ہے کچھ بے ہنگم سا نہیں لگتا؟ انھوں نے ہمیشہ حکومت پر تنقید کی ہے کہ حکومت نے اردو سے بے رخی برتی ہے۔ یا پھر ان اداروں کو ضروری مالی امداد نہیں دی جنھیں اردو پڑھانے کی ذمّے داری سونپی گئی۔ جو بات ان کے دھیان میں نہ آسکی وہ سب سے اہم بات ہے اور وہ یہ کہ اردو کی بقا اور اس کے فروغ کے لیے یہ ضروری ہے کہ غیر مسلموں کی مرضی اور ان کی حمایت حاصل کی جائے۔ اس کی اس لیے بھی ضرورت ہے کہ بیسیوں برس گزر جانے کے بعد بھی ملک میں یہی فضا قائم ہے۔ (7)

یہ نہایت اہم ہے کہ اردو کے فروغ کی کسی بھی کوشش میں غیر مسلم اردو اسکالروں اور لیڈروں کو شامل کیا جائے۔ ان کے بغیر اردو کی ترقی ممکن نہیں۔

اردو کو مسلمانوں کے ساتھ جوڑے رکھنے اور ان کی شناخت کو اس زبان سے وابستہ رکھنے کا نتیجہ منفی نکلے گا۔ مسلمانوں اور ہندوؤں کی کثیر تعداد کے درمیان میل جول اور ہم آہنگی پیدا کیے بغیر ہم لوگ اطمینان کی سانس لے سکیں گے یہ ایک خیال خام ہے۔ یہ ضروری ہے کہ اردو زبان کے فروغ کے لیے مسلم اور غیر مسلم اقوام کی مشترکہ کوشش ہو۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ اردو کے تحفظ اور فروغ کے لیے گزشتہ چند دہوں میں صرف مسلمان اور ان کے لیڈر پیش پیش رہے ہیں   —   اس صورت حال کے لیے دونوں طرف کی لیڈرشپ ذمّے دار ہے۔ اس کا فطری اور متوقع نتیجہ یہی نکلا کہ غیر مسلم لیڈروں نے اردو کے مسئلے سے اپنے ہاتھ اٹھا لیے۔ گزشتہ کئی برسوں سے یہی اصرار رہا کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے۔ (8)اس تصور نے ایک ایسا ہیولا کھڑا کر دیا جسے ہم سب دیکھ رہے ہیں۔

اردو ایجنڈے کو صرف مسلمانوں اور ان کے لیڈروں نے پیش کیا۔ اس طرز عمل نے شاید خود مسلمان قوم میں دراڑ پیدا کی۔ کبھی کبھی اردو اسکالروں کے شخصی اختلافات کا بھی بھانڈا پھوٹا۔ (9) ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے انھوں نے ایسے ہتھکنڈے استعمال کیے کہ اردو کی تعمیر نو کا سہرا انھیں کے سر باندھا جائے۔

 

اردو کی صحت اور اس کی بقا کے لیے ایک جوشاندہ

میں اپنے اس مضمون کو چند مشوروں اور رہنمایانہ خطوط پر ختم کرنا چاہتا ہوں تاکہ اگر ان بے ترتیب خیالات سے کوئی کارآمد بات نکل سکتی ہے تو اس پر عمل کیا جائے۔

اگر ہمیں اردو کی صحت، اس کے فروغ اور اس کی بحالی سے دلچسپی ہے تو — اولین اور اہم شرط یہ ہے کہ مجاہدانہ نعرے لگانے کی بجائے ان تمام تحریکوں کو جنھیں اردو کے فروغ سے دلچسپی ہے باہم مربوط کیا جائے۔ وہ تمام اسکالر جو اردو کو نظرانداز کیے جانے کے شاکی ہیں اور جن کا کہنا ہے کہ حکومت کے مخالف رویے اور بیرونی سماج کے عناصر کی بے رخی نے مل کر مشترکہ طور پر اس زبان کو نقصان پہنچایا ہے ، مجھے معاف کریں ، اس طرح کے کسی بھی اعلان جہاد کا الٹا اثر ہو گا اور ان تمام طاقتوں کو متحد ہو کر پوری قوت کے ساتھ اردو کے خلاف کام کرنے کا ایک اور موقع ملے گا جیسا کہ گزشتہ پچاس سال سے ہوتا آرہا ہے۔

لہٰذا ان تمام قوتوں ، گروہوں اور افراد کو جو اردو کا بھلا چاہتی ہیں اور مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان موجود ہیں انھیں یکجا کرنا پڑے گا، پھر ایسا قدم اٹھایا جائے اور ایسی پالیسیاں ترتیب دی جائیں جو اردو کے فروغ کے لیے مناسب ہوں۔ اس سے پہلے بھی کہا جا چکا ہے ، جو کردار غیر مسلم اس کام کو آگے بڑھانے میں ادا کر سکتے تھے اسے ابھی تک بڑی لاپروائی سے نظرانداز کیا گیا ہے۔ ان تمام لوگوں کی نیک تمنائیں جو ابھی تک اس دائرے سے خارج نہیں ہوئے ہیں اور جو ابھی تک اردو زبان اور کلچر کا لحاظ رکھتے ہیں ، ان سب کی ہمدردیاں حاصل کی جائیں اور ایک ایسا ماحول بنایا جائے کہ یہ سب مل کر ایک ساتھ حکومت پر دباؤ ڈال سکیں اور اسے مجبور کریں کہ اردو کو یو۔ پی۔ ، بہار، اور پنجاب جیسی ریاستوں کے انتظامیہ میں جگہ دی جائے۔

اس منطق کو آگے بڑھاتے ہوئے کوئی بھی شخص مطالبہ کر سکتا ہے کہ اردو کے فروغ کے لیے ریاست کے جو امدادی ادارے ہیں ، ان کے انتظامیہ میں غیر مسلم اسکالروں اور پالیسی سازوں کو شامل کیا جائے تاکہ اردو کے اس کاز کو پچھلے برسوں میں جو نقصان پہنچا ہے اس کی تلافی کی جا سکے۔

اردو بولنے والے والدین جو کوششیں اپنے بچوں کو اردو پڑھانے کی کرتے ہیں ان کے علاوہ مدرسوں کو بھی چاہیے کہ وہ خود اپنے طور پر بھی اسی طرح کا مثبت اور موثر رول ادا کریں۔ اس کے لیے ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ چند سربرآوردہ اور معتبر لوگ، جن کی سیکولر تعلیم سے وابستگی، ہے ، وہ بھی ان مدرسوں کے انتظامی معاملات میں دلچسپی لیں اور انھیں آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہوں۔ اس طرح بہی خواہوں کا رول ادا کرتے ہوئے وہ دیگر اداروں بہ شمول صنعت و حرفت اور شعبۂ تعلیم سے متعلق جو وزارتیں مختلف ریاستوں میں کام کر رہی ہیں ، ان سے بھی ربط قائم کر سکتے ہیں اور ضروری تعاون حاصل کیا جا سکتا ہے۔ (10)

خلاصہ یہ کہ جہاں کہیں اردو کا ماحول ہے اور جہاں بھی پرائمری سطح پر اردو پڑھائی جا سکتی ہے ، مقصد برآری کے لیے ایک چومکھا ماحول تیار کرنا ہو گا۔ مختلف گروہوں کے دانشوروں کی ہمدردیاں حاصل کرنا ہوں گی۔ جہاں کہیں گنجائش ہو حکومت کے چند ضوابط کو بھی قبول کرنے سے گریز نہ کیا جائے۔ اس مطالبے کو قانونی جواز فراہم کرنے کے لیے ایسی ریسرچ کی بھی ضرورت ہے جو قانون سے متعلق ہو۔

 

اختتامیہ

اکیسویں صدی کی شروعات ہے اور میں اس بات سے مطمئن ہوں کہ مسلمان قوم کے ذہین نوجوانوں میں اردو کو فروغ دینے اور اسے ایک کار کرد زبان بنانے کی ایک لگن اور امنگ ہے۔ ان اسکالروں میں اطہر فاروقی کا نام بھی آتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا پس منظر ترقی پسندی ہے اور ایک معقول نظریے کے حامل ہیں۔ وہ صرف اقلیتی زبانوں ہی میں نہیں بلکہ تمام لسانی اور مذہبی گروہوں کے درمیان رابطہ قائم کرنا چاہتے ہیں تاکہ حکومت کی بنائی ہوئی تعلیمی پالیسی کی رسمی وضع قطع کے ذریعہ ثانوی تعلیم کی سطح تک لسانی درجہ قائم کیا جا سکے۔ ہمیں یہ بھولنا نہیں چاہیے کہ آٹھویں ضمیمے میں درج تمام زبانوں کا موقف اقلیتی زبانو ں کا ہے سوائے اس ریاست کے جہاں کوئی اقلیتی زبان علاقائی زبان کہلاتی ہے اور چوں کہ ہر ریاست اور اس کے اضلاع میں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں اور لوگ تیزی سے نقل مقام کرتے رہتے ہیں اس لیے اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ دستور کی دفعات پیش نظر رکھتے ہوئے اقلیتی زبانوں سے متعلق ایک واضح قومی پالیسی بنائی جائے۔ دستور کی حالیہ ترمیم (2002 کی 86ویں ترمیم) جس کے ذریعے تعلیم کو بنیادی حق قرار دیا گیا ہے ، اس میں ایسی قانونی دفعات کا اضافہ ہونا چاہیے جن میں پرائمری سطح پر ذریعۂ تعلیم، پرائمری اور سکنڈری اسکولوں کے لیے قومی اصول، تعلیم میں سب کے لیے یکسانیت اور برابری اور ضرورت کے لحاظ سے اسکول کے مقام کا تعین شامل ہوں۔ ابتدائی لازمی تعلیم کے لیے عمر کی حد کو بڑھا کر 14 سے 15 سال کر دینا چاہیے جو ثانوی کلاس کا امتحان دینے کی کم سے کم عمر ہے۔ اردو کو خاص طور پر پرائمری نصاب میں ذریعۂ تعلیم کی حیثیت سے ان لوگوں کے لیے جن کی مادری زبان اردو ہے ، تمام گورنمنٹ اور اس کے امدادی یا ملحق یا بورڈ آف ایجوکیشن کے مسلمہ اسکولوں میں لازمی قرار دینا چاہیے۔

حوصلے کی یہ باتیں بڑی اچھی لگتی ہیں لیکن حکومت میں جن لوگوں کی اکثریت ہے یا جن کے ہاتھ میں حکومت ہے ، اُن کی منفی صلاحیتوں کو کم درجے کا سمجھنا نہیں چاہیے۔ وہ بڑے سلیقے سے ملک میں اقلیتی اداروں کا خاتمہ کر رہے ہیں۔ جیسا کہ کانفرنس میں اشارہ دیا گیا ہے (11)ایک خاموش اور غیر مختتم سازش کا سلسلہ جاری ہے جو اپنا کام کر رہی ہے (12)ان تمام امکانات کا بڑی بصیرت اور ژرف بینی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

اس سے قبل بھی یہ بات کہی جا چکی ہے کہ ایک ایسے فورم کے قیام کی ضرورت ہے جس کا کینوس وسیع ہو۔ (13)جو دستور میں تمام ریاستوں کو دیے گئے یکساں تحفظ اور یکساں فروغ کے تیقن پر عمل در آمد کرا سکے۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ ان زبانوں کے مسائل جو اقلیتی زبانوں کے نام سے منسوب ہیں ان کے حقوق کی خلاف ورزی دستوری حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں شامل ہو جائے گی۔ ان میں اردو بھی شامل ہے۔ بار بار مختلف قوانین کا حوالہ دینے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ بہتر ہوتا کہ حکومت پر مقدمہ دائر کیا جاتا کہ دستور کی خلاف ورزی کی گئی ہے اور اقلیتی قوموں کے کلچر کو پامال کیا گیا ہے۔ اگر ہمارے قانون داں ، جب کہ ہم سمجھتے ہیں ، قانون سے بہ خوبی واقف ہیں اور صداقت پسند بھی تو ان حضرات کو دستور کی عطا کی ہوئی ضمانتوں تک پہنچنا ہو گا اور اردو زبان کا تحفظ کرنا ہو گا۔

چند اور مسائل ہیں جن پر اس مرحلے پر گفتگو کی ضرورت ہے۔

.1        اردو کے سلسلے میں کوئی تعمیری کام اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کے لیے واضح تعلیمی پالیسی نہ بنائی جائے اور اس پر عمل نہ کیا جائے۔ خاص طور پر حکومت کی سطح پر۔ ہمارے دستور میں صاف صاف کہا گیا ہے کہ اسکول کی سطح پر ایک بچے کی تعلیم کا ذریعہ اس کی مادری زبان ہو جس کا اعلان اس کے والدین کریں گے (14)اس کے لیے اسکول کے ذمّے دار پریشان نہ ہوں کہ ہندی یا انگریزی کو ثانوی اور اعلیٰ ثانوی جماعتوں میں اردو کے ساتھ کیوں کر رکھا جائے۔ اس کا انتخاب ماں باپ کریں گے نہ کہ اسکول کے ذمّے دار۔

.2        یہ بات بھی اہم ہے کہ مدرسے جو اردو تعلیم کے مراکز ہیں انھیں چاہیے کہ قوم کے کلچر اور تہذیبی ورثے پر زور دیں۔ انھیں حکومت کی امداد کی سیاست سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت مدرسوں کو ماڈرن بنانے کی اسکیم سے دست بردار ہو جائے۔ (15)اس بات کا دستاویزی ثبوت موجود ہے کہ ان اداروں کو چلانے کے لیے ان کے مالکان اور منتظمین کے پاس وافر مقدار میں سرمایہ موجود ہے۔ تاہم اس طرح کے الزامات سے بچنے کے لیے کہ وہ دہشت گردوں کی پناہ گاہ ہیں ، ان اداروں پر لازم ہے کہ تمام قوموں کے لیڈروں اور دانشوروں کو یکجا کر کے ایسی تنظیمیں بنائیں جو وقتاً فوقتاً ان اداروں کا معائنہ کریں اور وہاں تعلیم پانے والے لڑکوں کو مفید مشورے دیں۔ لیکن اس کی پہل اداروں کے منتظمین کو کرنا ہو گی۔ حکومت نے ، خاص طور پر بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) کے دور حکومت میں ، مدرسوں اور اردو کو ہم معنی قرار دیا۔ انتظامی معاملات میں بھی اسی نظریے کو اپنانا بڑی شرم کی بات ہے اور یہی ہوا۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو نے جو MHRD کے تحت پوری طرح سے آر۔ ایس۔ ایس۔ کی آلۂ کار تھی، فیصلہ کیا کہ وہ ماڈرنزم اور سیکولرزم کے نام پر مدرسوں کے انتظامیہ کو اپنے ہاتھ میں لے گی۔ ایک طویل مدت سے یہ بی جے پی کا ایجنڈہ تھا کیوں کہ مدرسوں میں اردو، عربی اور فارسی لازمی زبان کے طور پر پڑھائی جاتی ہیں۔ یہ بات توعیاں ہے کہ نہ تو مسلم اقلیتی تعلیمی ادارے اور نہ ہی ماڈرن پروگرام اردو تنظیموں کے دائرہ اختیار میں نہ کبھی پہلے تھا اور نہ اب ہے۔

.3        مسلم قوم کے لیڈروں کو چاہیے کہ تھوڑا وقت نکالیں اور غور کریں کہ مدرسوں میں جو تعلیم ہوتی ہے کیا وہ اسی طرح موثر اور مربوط ہے جس طرح کی تعلیم کہ سیکولر اسکولوں میں مسلمان بچوں کو دی جاتی ہے۔ خیال رہے کہ اس طرح کی تعلیم کے پیچھے بچوں کا وقت ضائع نہ ہونے پائے تاکہ وہ اپنی پیشہ ورانہ زندگی سے مناسب وقت پر وابستہ ہو سکیں۔

.4        جہاں تک حکومت کا تعلق ہے ، اسے اپنی اس ذمّے داری کو محسوس بھی کرنا چاہیے اور پورا بھی کرنا چاہیے کہ اردو بولنے والے بچوں کو اردو میڈیم کے ذریعے ہی پڑھایا جائے اور انھیں سیکولر تعلیم دی جائے بالکل اسی طرح جس طرح دوسری زبانوں میں دی جاتی ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب حکومت تنگ نظری کو خیرباد کہے ورنہ یہی تصور قائم رہے گا کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے۔ سارا کھیل تماشا حکومت کی طرف سے ہے جو مدرسوں کے اعداد و شمار کے ڈھول بجاتی جا رہی ہے جو خود اسی کے فراہم کردہ ہیں۔ یعنی کوئی پانچ لاکھ مدرسے کام کر رہے ہیں اور ان میں کوئی پانچ کروڑ طلبا شریک ہیں۔ جزوقتی اور شام میں چلائے جانے والے مدرسے ان میں شامل نہیں ہیں۔ (16)اب یہ اہم ہے کہ ہم ان پانچ کروڑ طلبا کی قسمت کے بارے میں سوچیں جو ان مدرسوں میں تعلیم پا کر نکلنے والے ہیں۔ وہ کون سا پیشہ اختیار کریں گے ؟ ان میں کے کتنے کروڑ مسجدوں کے پیش امام یا مولوی بنیں گے ؟ کتنے ایسے ہوں گے جو متبادل روزگار کی تلاش میں سرگرداں رہیں گے۔ یہ مسلمانوں اور مدرسوں کے بارے میں ایک گندہ مذاق ہے جب حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ سالانہ دو کروڑ روپے ان مدرسوں کو جدید بنانے کے پروگرام پر خرچ کر رہی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ مذہبی اداروں کو حکومت کی طرف سے امداد غیر دستوری ہے۔ اور پھر یہ بات کسی کی سمجھ میں آنے والی نہیں کہ دو کروڑ سالانہ کی امداد سے پانچ لاکھ مدرسوں اور پچاس کروڑ طالب علموں کو ماڈرنزم کی تعلیم کس طرح دی جا رہی ہے۔

.5        اس سے حکومت کی کرتب بازی کھل کر ہمارے سامنے آتی ہے۔ ایک طرف مسلمانوں کو مدرسوں کو چلانے کی خود اختیاری سونپی گئی ہے کہ وہ اپنے مذہبی اداروں اور مدرسوں کو جو مالیہ کے بارے میں خود مکتفی ہیں اپنی مرضی سے چلائیں۔ دوسری طرف جن لاکھوں اور کروڑوں بچوں کی تربیت ان اداروں میں ہو رہی ہے انھیں بازار میں روزگار نہیں مل سکتا کہ ان میں کوئی ٹکنکل صلاحیت نہیں ہے۔ مدرسوں کی تعلیم ہندوستانی مسلمانوں میں کسی طرح کی ماڈرن یا سماجی تبدیلی نہیں لا سکتی۔ مزید حکومت کی امداد ان مدرسوں کو طفیلی بنا دیتی ہے (17)کیوں کہ ان کے سربراہ وہ لوگ ہیں جو حکومت سے امداد حاصل کرنے کے کوشاں ہیں اور اپنی زبان یا مسلم قوم کے مفاد کے لیے کسی بھی طرح کی مفاہمت کے لیے آمادہ۔

٭٭٭

 

نوٹس

 

 وضاحت:

میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میں نے اپنی تعلیم کے دوران اردو کی کوئی ڈگری یا ڈپلوما حاصل نہیں کیا۔ چوتھی جماعت تک اردو میرا ذریعۂ تعلیم رہی ہے۔ اس کے بعد میٹرک تک میرا اختیاری مضمون۔ اس کے علاوہ میں اردو فکشن اور شاعری پڑھتا رہا ہوں۔ اپنی دوسری مصروفیات کو متاثر کیے بغیر یہ میرے معمول کی زندگی کا حصہ رہی ہے ، اس لیے نہیں کہ اس سے میری شان و شوکت بڑھے گی یا مجھے کوئی اعزاز عطا ہو گا۔ اس لیے بھی نہیں کہ میرے تہذیبی رویے میں بلندی آئے گی۔ یہ میرے روزمرہ کا معمول تھا۔ میرے دوست احباب، کی طرح یہ بھی میری ہی تھی۔ ہم ایک ساتھ پڑھتے رہے۔

ان میں ایک مشہور شخص رہا ہے۔ پورن سنگھ ہنرؔ جس نے اپنا شعری مجموعہ نکالا۔ عنوان تھا  ’آہنگ غزل ’ ادبی حلقے میں اس کا استقبال ہوا۔ ہنرؔ صاحب اسکول میں میرے ٹیچر تھے۔ اس مجموعے کی اشاعت کے بعد انھیں  ’استاد شاعر ’ کا لقب دیا گیا۔ اب وہ نہیں رہے۔

.1        ماضی میں سمپوزیم جیسے پروگراموں کا اہم رول رہا ہے۔ ان کا اثر ہماری قومی زندگی اور ہمارے مذاہب پر پڑا اور ان میں ہم آہنگی پیدا ہوئی۔

.2        Narang Harish, Language Policy and Planning in 21st Century India,  ’First Dr Zakir Hussain Memorial Lecture ’, Dr Zakir Hussain Study Circle, Jamia Nagar, New Delhi, 1998.

پروفیسر ہریش نارنگ ہمیں بتاتے ہیں کہ شروعات میں اس کا فیصلہ کانگریس پارٹی نے کیا تھا۔ اسے بعد میں ہندوستان کے دستور میں شامل کیا گیا۔ دفعہ 343(1) کے مطابق مرکزی حکومت کی سرکاری زبان ہندی ہو گی اور اس کا رسم الخط دیوناگری ہو گا۔

.3        یہ اس قدر بے ڈھنگے پن سے کیا گیا کہ اس طرح کے خود سرائیہ انتظامی فیصلے کی کوئی دوسری مثال شاید ہی ملے۔ طالب علموں کو ماڈرن زبان کی حیثیت سے اردو کی جگہ سنسکرت پڑھنے کو کہا گیا۔

.4        درحقیقت یہ زیادہ قابل عمل ہے۔

.5        اس کی خاص اہمیت اس لیے ہے کہ مختلف مذاہب جیسے عیسائیت، اسلام، یہودیت اور ہندو ازم کی کتابیں لکھی گئیں تو انھیں مقدس مانا گیا اور ان کی شناخت ان سے متعلقہ اقوام سے کی گئی۔ ان سب کے مقابلے میں  ’آدی گرنتھ ’ جو سکھوں کے مذہب کی کتاب ہے ، اس میں اس دور میں استعمال ہونے والی اکثر زبانیں شامل ہیں۔ صرف ہندوستان کی ہی نہیں بلکہ ایشیا اور وسط ایشیا کی زبانیں بھی جیسے پشتو، عربی، فارسی وغیرہ۔

.6        اس کے امکانات پہلے سے موجود ہیں جس کا سبب چاروں طرف پھیلی ہوئی وہ مقبولیت ہے جو اردو زبان کی مختلف اصناف یا اداروں کو حاصل ہے جیسے غزلیں اور مشاعرہ۔

.7        کانسٹی ٹیوشن سے میری مراد اردو زبان کے ووٹ دینے والے ہیں۔

.8        مسلم اور غیر مسلم دونوں طرف کے قائدین۔

.9        یہ اختلافات اس بات سے متعلق ہیں کہ آیا اردو زبان کی بعض کلاسیکل کتابیں دیوناگری رسم الخط میں لکھی جائیں یا نہیں (فاروقی بہ نام رالف رسل) یا پھر (دوبارہ ان ہی مصنفوں کے درمیان) آیا مدرسے اردو کے فروغ کے لیے فائدہ مند ہو سکتے ہیں یا نہیں۔ ان اختلافات نے 6 جنوری 1999 کے Economic and Political Weekly میں جگہ پائی ہے اور 1992 کے سالنامہ Main Stream میں بھی چھپے ہیں۔ ان کے علاوہ سید شہاب الدین (ایڈیٹر کے نام خطوط 6 تا 13 مارچ 1999 کے Economic and Political Weekly صفحہ 566 )نے لکھا ہے :  ’ ’ہندی بیلٹ (Belt) میں اردو کا گلا گھونٹنے کے باوجود وہ اگر زندہ ہے تو اس کا سبب مکتبوں اور مدرسوں میں اس کا استعمال ہے۔  ’ ’ اس صورت حال کے پیش نظر میں یہ نہیں چاہوں گا کہ اردو کو مدرسوں سے خارج کر دیا جائے جب کہ میرے پاس اس کا کوئی بدل نہیں ہے۔

.10     مدرسوں کے انتظامیہ میں غیر مسلم دانشوروں کو شامل کرنے کے بارے میں مبالغے سے کام نہیں لیا جا سکتا۔

.11     The Conference on Minorities, Education and Language in 21st Century Indian Democracy—the case of Urdu with Special Reference to Dr Zakir Hussain, Late President of India, 8-11 February 2002.

.12     سہولت بخش عوامل پر غور کرتے ہوئے یہ بات ذہن میں رکھی جانی چاہیے کہ ریاست اپنی پالیسی بنانے یا ہندوستانی ریاست کے ایجنڈے کی وضاحت کرنے میں خود مختار ہے۔ ان اختیارات کی بدولت اقلیتی زبان اردو کے فروغ یا تحفظ کے لیے جو دستوری پابندی ہے اسے اگر حکومت خاطر میں نہیں لاتی ہے تو کچھ فرق نہیں پڑتا۔

.13     فورم سے وسیع تر اردو زبان کے تحفظ کے لیے۔

.14     جیسا کہ اطہر فاروقی نے کہا ہے :  ’ ’دستور میں دیے گئے حقوق کی رو سے دفعہ 350A کے تحت اردو زبان کو پرائمری سطح پر دوسری زبانوں کے ساتھ ذریعۂ تعلیم کی حیثیت دی جائے اور ثانوی سطح پر زبان اوّل کا موقع ان لوگوں کے لیے فراہم ہو جو دعویٰ کریں کہ یہ ان کی مادری زبان ہے   —   یہ سوال صرف اردو زبان کی بقا کا نہیں ہے بلکہ اقلیتی حقوق اور خود اقلیتوں کی بقا کا سوال ہے۔  ’ ’ اطہر فاروقی: The question of Urdu ’s Survival Mainstream, 27 Dec. 2003 P. 27.

.15     Such a point of view also emerged as a part of the Statement of Consensus, at the Conference on Minorities, Education and Language in 21st Century Indian Democracy—the case of Urdu with Special Reference to Dr Zakir Hussain, the Late President of India, 8-11 February 2002.

مذہبی تعلیم کو حکومت کی امداد نامناسب اور غیر قانونی ہے۔ لہٰذا مدرسوں کا نظام جو مسلمانوں کے محدود طلبا کو تعلیم دے سکتا ہے وہ بھی مذہبی عقائد سے متعلق ہے اور ایسے ملّا پیدا کرتا ہے جن کی طلب قوم کو ہوتی ہے اور مذہبی عالموں کے سلسلے کو قائم رکھتا ہے۔ ایسی صورت میں اس مسئلے کو قوم کی ضرورت اور ان کی مرضی کے مطابق چھوڑا جا سکتا ہے۔

.16     Cited by Arjumand Ara in  ’Madrasas and Making of Muslim Identity in India ’, in Economic and Political Weekly, 3 January 2003, p. 34.

.17     Bikramjit De,  ’Abuse of Urdu ’, Economic and Political Weekly, Vol. XXXIX, No. 48, pp. 5085-8.

٭٭٭