FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

ماضی کی مقتدر زبانوں کی بقا کے لیے حکمتِ عملی

 

(اردو زبان کے خصوصی حوالے سے )

 

تھیوڈور پی۔ رائٹ جونیر

 

1947 کے بعد شمالی ہندوستان میں اردو زبان کی زوال پذیری (1) چنداں تعجب خیز نہیں ہے۔ یہ زبان بھی ان سابقہ مقتدر اشراف (2)  کی زبانوں میں سے ایک ہے جن کے ہاتھ سے خاندان در خاندان چلنے والی مختلف النسل شاہی حکومتوں کے زوال اور /یا استعماری نظام کے خاتمے کے سبب، اقتدار جاتا رہا۔ اس مضمون میں ایک درجن ایسی ہی زبانوں کا تجزیہ پیش کر کے میں ان کا مقابلہ اردو زبان سے کروں گا۔ میرے اس مطالعے میں چھے وہ زبانیں شامل ہیں جن کا مکمل زوال ہو گیا ہے یا  جو مر چکی ہیں۔ یہ زبانیں ہیں : چین میں ’منچو‘ زبان، مصر میں ’کوپٹِک‘ برٹش آئلز میں ’گیلِک‘ اور ’لیٹن‘ پیرو میں ’کویچوا‘ اسپین میں ’عربی‘ اور مشرقی یورپ میں ’جرمن‘۔ دوسری چھے زبانیں جو میرے اس مطالعے کا حصہ ہیں ، وہ زبانیں ہیں جو نہ صرف زندہ رہیں اور خوب پھلی پھولیں بلکہ سامراج کے خاتمے کے بعد انھوں نے دوسری زبانوں پر برتری اور غلبہ بھی حاصل کیا۔ ان کی تفصیل یوں ہے : اینگلو سیکسن زبان نارمن فرینچ پر غالب آئی، اسپینش اور پورچگیز نے امیرِنڈین ]امریکن +انڈین یعنی دیسی امریکی[ زبانوں پر تسلط جمایا، ساؤتھ افریقہ میں ایفریکانز اور کناڈا میں فرینچ نے انگریزی زبان کے ساتھ ساتھ ان ممالک کی دوسری اہم ترین زبانوں کی حیثیت حاصل کی اور فلسطین/ اسرائیل اور اسپین کے کیٹلان کے علاقوں میں عبرانی زبان نے عربی اور جِڈش زبان پر برتری حاصل کی۔ وہ زبانیں جو زندہ رہیں اور پھلی پھولیں ، عام طور سے بڑے پیمانے پر نو آبادکاری اور  /یا تبدیلیِ مذہب کے سبب اپنے مخصوص علاقوں کا حِصّہ بنی تھیں ، وہ خالصتاً غالب فوجی زعما کی زبانیں نہیں تھیں۔ مثال کے طور پر اردو زبان آج پاکستان (اور کشمیر) کی نہ صرف سرکاری زبان ہے بلکہ عام رابطے کی زبان بھی ہے۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں بہت سے عرب، ایرانی، افغان اور ترک آباد بھی ہوئے اور ان علاقوں کے آبائی باشندوں کی اکثریت اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام کے حلقے میں شامل بھی ہو گئی۔ اس کے مقابلے میں شمالی ہندوستان اور بنگلہ دیش کو پیش کیا جا سکتا ہے جہاں ماضی بعید میں اوّل الذکر علاقے یعنی شمالی ہند میں ہندو اکثریت کو مسلمان نہیں بنایا جا سکا اور آخرالذکر علاقے کے لوگوں نے اسلام تو قبول کر لیا لیکن اردو زبان کو تسلیم نہیں کیا اور 1971 تک (مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے تک) وہ صرف مقتدر طبقے کا وسیلہ ٔ   اظہار رہی۔(3) ان دونوں ہی علاقوں (شمالی ہند اور بنگلہ دیش) میں اردو سرکاری زبان نہیں ہے۔ البتہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ ان مثالوں کی مختلف خصوصیات ان نتائج کو متاثر کرتی ہیں جو آئندہ سطور میں اردو کی بقا کے حوالے سے اخذ کیے جائیں گے۔

لیکن سب سے پہلے اس سوال پر غور کر لیا جائے کہ مذکورہ زبان کوئی دیسی زبان ہے یا بدیسی۔ اس ضمن میں کسی بھی شخص کو یہ خیال ضرور آئے گا کہ وطن/قوم پرستی کے اس دور میں ایک غیر ملکی زبان کے مقابلے میں دیسی زبان لوگوں کو زیادہ قبول ہو گی اور اپنی حیثیت منوانے میں اس کا دعوا بھی مضبوط ہو گا۔ چین میں منچو جس طرح غیر ملکی زبان تھی، اردو اُس طرح شمالی ہند کے ان حملہ آور ترک منگولوں کی زبان نہیں تھی جنھوں نے دلّی سلطنت کی بنیاد ڈالی بلکہ قواعد کی رو سے یہ زبان برج بھاشا اور ہندوی یا ہندوستانی کے امتزاج سے جنمی۔ ہندوی جو ہند آریائی خاندان سے تعلق رکھنے والی ایسی بولی تھی جس کو مغلوب اکثریتی ہندو رعایا بولتی تھی، اور اسے بدیسی عربی فارسی رسمِ خط میں اور عربی فارسی کے ذخیرۂ الفاظ کے بہ کثرت استعمال کے ساتھ لکھا جاتا تھا۔ (4) بول چال کی سطح پر اردو اور ہندی، دونوں ہی زبانوں کو ان کے بولنے والے آسانی سے سمجھتے ہیں لیکن تحریری سطح پر دونوں گروہوں کے لیے ایک دوسرے کی زبانیں بالکل ناقابلِ فہم ہیں۔ (5) یہ عین ممکن ہے کہ اردو کی قبولیت میں سدِ راہ اس کا ذخیرۂ الفاظ نہیں بلکہ اس کا رسمِ خط ہو۔

 

فتح مندی اور محکومی کے تعلق سے

اس ضمن میں حملہ آوروں کے ذریعے اردو کو گلے لگانا یا اختیار کر لینا ویسا ہی ہے جیسا کہ 1066 عیسوی میں فرانس میں کِنگ وِلیم کے زمانے میں  نارمن فرینچ پر مڈل انگلش کا مکمل تسلط ہو گیا تھا۔ (6) اس سے تقریباً ڈیڑھ سو برس پہلے 911)عیسوی میں ) جب ناروے کے باشندے فرانس پر حملہ آور ہوئے تو مسیحیت کے فروغ کے پیشِ نظر انھوں نے اپنی غیر تحریری جرمنِک زبان کے بجائے فرینچ کو فوری طور پر تسلیم کر لیا۔ زیادہ طویل عرصے کو محیط انگلینڈ پر حکومت (1066-1415) کے دوران انھوں نے اپنی اینگلوسیکسن رعایا کی زبان کو اختیار کیا لیکن اس زبان میں انھوں نے فرینچ کے ذخیرۂ الفاظ کو شامل کر دیا۔ اس خلافِ قاعدہ صورتِ حالات کا جواز یہ ہے کہ نارمن لوگ تعداد میں بہت ہی قلیل تھے، بین النسل شادیاں بہت ہوتی تھیں اور محکوموں کے ساتھ ترسیلی روابط کے لیے بھی ان کی زبان کو جاننا ضروری تھا اس لیے مفتوحین کی زبان کو اختیار کرنا لازمی تھا۔ یہاں اس بات کی یاد دہانی ضروری ہے کہ شمالی ہندوستان کے حالات کے برخلاف مذکورہ حوالوں میں حاکم و محکوم دونوں قومیں مذہباً کیتھولک عیسائی تھیں۔

اس کے مقابلے میں مورِش اسپین کے عرب حکمرانوں (711-1492) کی زبان نے عیسائی رعایا کی رومانس زبان (بگڑی لاطینی زبان) سے نہ تو کبھی میل ہی کھایا اور نہ ہی عیسائی رعایا کی اکثریت نے اسلام  قبول کیا۔ (7) اسپین میں عربی زبان گو کہ اُس زمانے کی اسپینش کے مقابلے میں زیادہ ترقی یافتہ زبان تھی تاہم وہ اسپین کی دوبارہ فتح کے بعد زندہ نہ رہ سکی اور 1492 میں گرینیڈا (غرناطہ) کی شکست کے ساتھ مسلمانوں کا سیاسی غلبہ بھی ختم ہو گیا۔ عربوں کے تسلط کے خاتمے کے نتیجے میں مسیحیت اختیار کرنے سے انکار کرنے والے مسلمانوں کو اسپین سے نکال باہر کیا گیا۔ بقیہ کو جبراً عیسائی بنا دیا گیا اور غیر عیسائیوں کے خاتمے کا اہتمام کرنے کے لیے قائم شدہ کیتھولک عدالتوں نے نہ صرف ارکانِ اسلام کی عمل پیرائی پر سخت پابندی عائد کر دی بلکہ عربی زبان بولنا بھی قابلِ گرفت ٹھہرا اور 1609 میں (8) عربی بولنے والے ‘Moriscos'(افریقی نژاد مراقشی عرب) کو بھی ملک بدر کر دیا گیا۔ اسپینی زبان کے ذخیرۂ الفاظ میں شامل فقط چند عربی الفاظ اُس دور کی باقیات ہیں۔ تاریخِ اسلام میں اندالوس (اُندلس) کے زیاں (9)  کی اس ہولناک نظیر سے ہندوستانی اور خصوصاً حیدرآبادی مسلمان اردو کے سیاق میں ، بخوبی واقف ہیں۔

نارمن انگلینڈ پر رعایا کی اینگلو سیکسن زبان کے تسلط اور شمالی ہند میں ترکی زبان پر ہندوستانی اردو کے تسلط کے وقوعوں کے برعکس ایک حیرت انگیز واقعہ آئرلینڈ میں گیلک زبان کے احیا کی ناکامی کا بھی ہے۔ 1921 میں گریٹ برٹین سے آزادی حاصل کر لینے کے بعد آئرش حکومت نے اس قدیمی دیسی زبان کے احیا کے لیے ہر قسم کی سہولتیں اور مراعات دیں لیکن ناکامی ہی ہاتھ لگی۔(10) برٹش پروٹسٹینٹ کے دورِ حکمرانی میں آئرلینڈ کی گیلک زبان اور رومن کیتھولک چرچ، دونوں پر ڈھائی سو سال کی سخت پابندی  نے آخرالذکر یعنی مذہبی عقیدے پر تو کوئی اثر نہیں ڈالا لیکن اوّل الذکر یعنی گیلک زبان کو بالکل کمزور کر دیا۔ 1911 کی مردم شماری کے اعداد بتاتے ہیں کہ صرف 18 فی صد آئرش لوگ ہی اپنی تاریخی مادری زبان سے واقف تھے اور ان کی تعداد بھی تیزی سے گھٹ رہی تھی۔ ان میں بھی بہت ہی کم تعداد  ایسے لوگوں کی تھی جو یک لسانی تھے اور صرف اپنی مادری زبان ہی میں بات کر سکتے تھے۔ شمالی آئرلینڈ میں پریزبیٹیرین (Presbyterian) چرچ کو ماننے والے اسکاٹ باشندوں کی نوآباد کاری کے سبب وہاں انگریزی بولنے والے پروٹیسٹنٹ اکثریت میں آ گئے تو آزادی کے وقت 1921 میں آئرلینڈ تقریباً اسی طرح دو حصوں میں تقسیم ہو گیا جس طرح ایک نسل کے بعد برٹش انڈیا کی تقسیم عمل میں آئی۔ اُس وقت تک عام لوگوں کے ذہنوں میں گیلک زبان اس طرح سے غریبی، ناخواندگی اور دیہی پس ماندگی کے ساتھ وابستہ ہو چکی تھی کہ گزشتہ صدی کے آخر تک اس کے احیا کے لیے کی جانے والی تمام کوششیں اور آئرش دانش وروں کے درمیان قوم پرستی کی تحریکیں بھی اس رجحان کے رخ کو نہ موڑ سکیں۔ اسکاٹ لینڈ اور ویلز کی مانند یہاں بھی محکوموں نے حاکموں کی زبان کو بہ حالتِ مجبوری اختیار تو کیا لیکن اپنے نسلی تشخص کو برقرار رکھا۔ اسکاٹ لینڈ کے نشیبی حصوّں  (Lowland) میں انگریز ایک عرصے سے در اندازی کرتے آئے تھے اسی لیے 1707 میں دونوں ممالک نے رضاکارانہ طور پر یونین بنا لینا منظور کر لیا۔

قدیم مصر کی زبان کوپٹک (Coptic)تھی جس نے مقدونی 323-30)ق م) اور رومن تسلط 30-640) ق م) کے دوران یونانی اور رومن اثرات تو قبول کیے لیکن وہ عوامی زبان کی حیثیت سے صرف اسی وقت تک مروّج رہی جب تک کہ عربوں نے مصر پر قبضہ نہ کر لیا۔ عربوں کے تسلط کے بعد یہ زبان آہستہ آہستہ محدود ہوتی گئی یہاں تک کہ عیسائی اقلیت تک نے بھی عربی اختیار کر لی اور کوپٹک صرف کوپٹک چرچ کی مذہبی زبان بن کر رہ گئی، بالکل اسی طرح جس طرح  ویٹِکن II کے دور (1962) سے پہلے تک لیٹن (لاطینی) زبان کیتھولک چرچ کی زبان تھی۔ (11)

ماضی کی ایک مقتدر زبان کے سریع زوال کا ایک اور نمونہ منچو زبان ہے جو چینی سلطنت (1644-1912) کے بدیسی چِنگ خاندان، اس کے علمبرداروں اور فوجیوں کی مادری زبان تھی۔ اوّلیں چینی انقلاب کے نتیجے میں جب شہنشاہیت کا خاتمہ ہو گیا اور چین ایک جمہوری ریاست میں تبدیل ہوا تو مقتدر اور امیر منچو سورما،جنگی صلاحیتوں کے سوا جنھیں کوئی دوسرا ہنر نہ آتا تھا، بہت تیزی سے زوال پذیر ہوئے اور انتہائی عسرت میں دن بسر کرنے والے مفلوک الحال (خصوصی طور پر رکشا کھینچنے والے ) طبقے میں تبدیل ہو گئے۔ اپنے تئیں متعصبانہ سلوک سے بچنے کے لیے وہ اکثر اپنی اصلیت کو چھپاتے اور اس کی جگہ ہان چینی کنّیت اختیار کرتے۔ (12) اس مثال کو پڑھ کر حیدرآباد کے ملازمت پیشہ اردو بولنے والوں کا خیال قاری کے ذہن میں ایک بار ضرور کوندے گا۔(13) چین کی کومِنتانگ یانیشنلسٹ حکومت (1927-49) نے لسانی اقلیتوں کے تئیں انضمام کی کھلی پالیسی اختیار کی۔ 1920 کے دہے میں ہان چینی اتنی بڑی تعداد میں شمال مشرقی چین میں آکر بس گئے کہ مقامی منچو آبادی اپنی ہی مادرِ وطن منچوریا میں ان کے سیلاب میں بہہ سی گئی۔ آئندہ دنوں میں جاپان کی طرف آخری منچو خاندان کے ایک بچے پوپیو کی نام نہاد’ منچو کوؤ‘ سلطنت (1922-45) قائم کرنے کی کوشش بھی منچو زبان کے احیا میں میں ناکام ہو گئی۔ چین کی کمیونسٹ حکومت نے، جس نے منچوریا سمیت چین کے مرکزی علاقے پر 1950 تک قبضہ کر لیا تھا،عوامی جمہوریہ کی سات فی صد غیر ہان چینی تمام اقلیتی زبانوں کے لیے وقتاً فوقتاً زیادہ فراخ دلی کے ساتھ نرم اور سازگار پالیسیاں اختیار کیں۔ اس پالیسی کے تحت پوری ریاست میں پس ماندہ اور بکھری ہوئی اقلیتوں کی زبانوں اور تہذیبوں کو جو تحفظات عطا کیے گئے ان کا موازنہ ہندوستان میں درج فہرست قبائل کو مفوّضہ حقوق اور تحفظات سے کیا جا سکتا ہے۔ (14) اس پالیسی کے نفاذ کے بعد نتائج اس صورت میں سامنے آئے کہ اسّی کے دہے میں اپنی مادری زبان منچو بتانے والوں کی تعداد میں بے شمار اضافہ ہوا کیوں کہ بہت سے وہ لوگ جن کا انضمام عمل میں آ چکا تھا، اپنے نہاں خانوں سے ظاہر ہونے لگے اور انھوں نے اپنے منچو اساس ہونے کا اعلان کرنا شروع کر دیا۔ چین میں یہ سماجی عمل ریاست ہائے متّحدہ امریکا میں 1960 کے بعد شروع ہونے والی نیٹیو امریکی نسلی ادّعائیت کے احیا کی مستحکم تحریک کی یاد دلاتا ہے جہاں نسلی ادّعائیت ایسے ہی مثبت اقدامات کا نتیجہ تھی۔ دونوں ہی ملکوں کے حالات زبان کے احیا کے حوالے سے مایوس کن رہے کیوں کہ ان کے بولنے والوں کی قلیل تعداد اور بڑی تعداد میں بین النسل شادیوں نے ان زبانوں کے فروغ کی راہیں مسدود کر دیں۔ (15) چینی رعایا کے سامنے مقتدر منچو خاندان کی عد دی اور تہذیبی کمتری نے بالآخر ان کی زبان کو فنا کر دیا۔

فوجی برتری لیکن تہذیبی کمتری کے سبب زوال کے اصول کی یورپی مثال کے طور پر جرمن زبان کو پیش کیا جا سکتا ہے جو رومن ایمپائر کے خاتمے کے بعد لیٹن زبان کا مقابلہ نہ کر سکی۔ پانچویں دی عیسوی میں جب جرمن بربر قوم رومن سرحدوں میں داخل ہو گئی اور اس نے ان سابقہ رومن صوبوں میں اپنی قبائلی حکومتیں قائم کر لیں جہاں کے تمام باشندے لاطینی زبانیں بولتے تھے (فرانس میں فرینک زبان، اسپین میں وِزی گوتھس، اٹلی میں لومبارڈز، برٹین میں اینگلو سیکسن)، تو بہت جلد ہی جرمن زبانیں ، لاطینی خاندان کی رومن زبانوں یعنی فرینچ، اسپینش اور اٹیلین (اطالوی) زبانوں کے ہاتھوں شکست کھا گئیں۔ صرف برطانیہ اس کلّیے سے مستثنیٰ رہا کیوں کہ اغلب یہ ہے کہ یہاں کے آبائی سیلٹک لوگ، سیکسن، ڈینز، اور نارویجین لوگوں کے حملوں اور برطانیہ میں نوآبادکاری کے سبب یا تو مغلوب ہو گئے ہوں گے یا پھر برٹش آئلز کی سیلٹک حدود (ویلز،اسکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ) کی جانب دھکیل دیے گئے ہوں گے۔ (16) وہاں بھی بالآخر انگریز فتح یاب ہوئے۔ برِّاعظم یورپ میں ، لیکن رومن حدود سے باہر، کئی جرمن بولیاں مشرقی یورپی ممالک میں اختیار کر لی گئیں کیوں کہ جرمنوں کی برتری اور ہابسبرگ اور ہوہین زولرن سلطنتوں کے سلاوِک علاقوں تک پھیلاؤ کے سبب جرمن زبان ممتاز زبان کے طور پر ابھر آئی اور اس کی یہ حیثیت پہلی جنگِ عظیم کے بعد ان سلطنتوں کے زوال اور دوسری جنگِ عظیم کے بعد ان علاقوں سے جرمن اقلیتوں کی بے دخلی تک برقرار رہی۔ (17)

 

انضمام اور حقِ انتخاب  (Assimilation and Choice)

میرے مطالعے کا دوسرا حصہ یوروپی نوآبادیاتی زبانوں کے اس انجام سے متعلق ہے جو دوسری جنگِ عظیم کے بعد دور دراز ممالک میں استعماری نظام کے خاتمے کے سبب ظہور پذیر ہوا۔ تاریخ کے یورپی ذرائع کے مطابق یہاں کے لوگوں کے لیے ایک عبرت انگیز مثال بحرِ روم کے نشیب میں واقع یونانی نو آبادیوں میں سے یونانی زبان کے غائب ہو جانے کی ہے۔ (18)بعد کی کولونیل زبانوں میں سب سے زیادہ فائدہ انگریزی زبان نے اٹھایا ہے کیوں کہ ابتدا میں انگلینڈ کو اقتصادی برتری حاصل تھی جو بعد میں امریکہ کو حاصل ہو گئی۔ اس کے علاوہ انگریزوں کی قائم کردہ اور نتیجتاً انگریزی زبان والی سلطنتوں مثلاً کناڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے سبب بھی انگریزی کے حالات سب زبانوں سے بہتر رہے۔ (19) ان تینوں ہی ممالک میں یورپی لوگ بڑی تیزی سے آباد ہوئے اور قدیم دیسی لوگوں کی کل تعداد سے زیادہ پھیل گئے۔ البتہ ساؤتھ افریقہ میں انگریزی کا مستقبل مشکوک ہے کیوں کہ ایفریکانز اور ایک درجن سے زیادہ بنٹو (Bantu)  زبانیں عددی اعتبار سے انگریزی پر بھاری پڑ سکتی ہیں۔ (20) ہندوستان میں بھی، جہاں انگریزی زبان گنتی کے اینگلو انڈین اور عیسائیوں یا عیسائی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے کچھ ممتاز لوگوں کی مادری زبان ہے،(21) یہ عرصہ پہلے اردو زبان کے ساتھ ساتھ لنگوفرینکا کی حیثیت حاصل کر چکی ہے اور ہندوستان اور پاکستان کے از حد مختلف العناصر لوگوں کے لیے اردو کے بجائے انگریزی ہی اب بین الاقوامی رابطے کی زبان بن گئی ہے۔ (22)

لیٹن امریکا کے کری اول (Creoles) نسل کے لوگوں نے 1820 کے دہے کی آمد تک اپنے علاقے سے اسپین اور پرتگال کے اقتدار کو اکھاڑ پھینکا تھا، لیکن انھوں نے اسپینش زبان کو (اور برازیل میں پرتگالی کو) سرکاری کام کاج کی زبان کے طور پر اختیار کیے رکھا اور رفتہ رفتہ یہ زبانیں آبادی کے بڑے حصے کے لیے رابطے کی حقیقی زبانیں بھی بن گئیں۔(23) میکسکو اور پیرو میں امیر انڈین امریکن انڈین یا دیسی امریکن تہذیب کے تئیں علامتی تعظیم یا اس تہذیب کے احترام کے باوجود ان ممالک کی بیش تر آبادی کے Mestizoisation یا اسپینی تہذیب کی بالا دستی کی سب سے بڑی علامت ان کا اسپینش زبان کو اختیار کرنا ہے۔ (24)

یہ بات بالکل درست ہے کہ لیٹن امریکا میں قومیت یا شہریت کی شرائط میں کسی مخصوص زبان سے وابستگی لازمی نہیں ہے۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ تک میں ، جہاں 1819 اور 1858 میں فلوریڈا اور جنوب مغربی علاقے کے امریکہ میں انضمام کے بعد اسپینش بولنے والے بہت ہی قلیل تعداد میں رہ گئے تھے، موجودہ حالات میں ایک پرامن فتحِ نو(reconquista)  (25) کے ذریعے اسپینش واپس آ رہی ہے، خصوصاً میکسکو، کیوبا اور وسطی امریکہ کے لوگوں کے قانونی اور غیر قانونی طریقوں سے امریکہ میں داخلے کے سبب ایسا پہو رہا ہے۔ (پیورٹوریکو،جہاں سے اسپینی تارکینِ وطن بڑی تعداد میں داخل ہوتے ہیں ، 1898 سے امریکہ کے قبضے میں ہے، اس کے باوجود وہ 1950 کے دہے سے مستقل نیویارک میں داخل ہو رہے ہیں۔) امریکہ نے بھی 1965 کے بعد(26) جبری تہذیبی اور لسانی انضمام کے بجائے کثیر اور ذو لسانی تعلیم کی پالیسی پر عمل پیرا ہونا شروع کر دیا ہے۔ لیکن کچھ ثبوت اس کے بھی ملے ہیں کہ آبائی ممالک کے سفر کی سہولتوں اور دو زبانوں کی لازمی تعلیم کے باوجود ہسپانکس (لیٹنوز)، یعنی 1880-1920 کے درمیانی عرصے میں آنے والے یورپی تارکین کی دوسری نسل کے لوگ، انگریزی کی جانب مائل ہو رہے ہیں کیوں کہ اسی صورت میں امریکی سماج میں ان کو نوکریاں اور بہتر ملازمتیں مل سکتی ہیں۔ (27)

فرینچ نے البتہ ویسے اچھے دن نہیں دیکھے ہیں جو انگریزی اور اسپینش نے دیکھے ہیں اور یہ زبان افریقہ اور ہیٹی کی مفلوک الحال اکثریت کے درمیان تھوڑے سے اشراف کی آفیشیل زبان ہونے تک محدود رہی ہے اور ویتنام میں بھی بڑی تیزی کے ساتھ فنا ہوئی۔ الجیریا کے فرانسیسی نوآباد کار حکمراں (جو Piednoirsکہلاتے تھے ) الجیریا کے باشندوں کے ذریعے ایک طویل اور خونیں جنگِ آزادی کے بعد 1964 میں ملک سے باہر کھدیڑ دیے گئے یا پھر وہ خود ہی بھاگ نکلے۔ (28) یہاں 1970 اور 80 کے دہوں میں وقوع پذیر ہونے والے اسلامی احیا اور خانہ جنگی کو بعض دانش ور اس فرانس نواز دیسی اشرافیہ کے خلاف احتجاج سے تعبیر کرتے ہیں جن کی بالا دستی ابھی تک قائم ہے۔ (29) 1763 میں جب برطانوی استعماری قوتوں نے کناڈا میں فرینچ نوآباد کاروں سے اقتدار چھینا تو وہاں فرینچ بولنے والے نوآباد کار خاصی بڑی تعداد میں تھے۔ انگریزوں کی بالا دستی کے بعد یہ کالونیاں برقرار رہیں چنانچہ کناڈا وہ واحد ملک ہے جہاں فرینچ زبان کی بقا مضبوط جغرافیائی بنیادوں کی مرہونِ منت ہے۔ چنانچہ 1774 کا کیوبیک ایکٹ، جس کی رو سے فرینچ کو رعایا، قانون اور چرچ کی زبان تسلیم کیا گیا، ایک دانش مندانہ اقدام تھا۔ برٹش، امریکن اور غیر فرانسیسی لوگوں کے کناڈا میں مسلسل رہائش پذیر ہونے کے سبب آج فرینچ بولنے والوں کی تعداد اقلیت کے روپ میں 28 فی صد تک محدود ہو کر رہ گئی ہے تاہم اس طرح کناڈا آج باضابطہ طور پر ذو لسانی ریاست ہے۔ (30) انگریزی داں اکثریت کی اس رعایت کے باوجود بیسویں صدی کے نصف آخر میں علاحدگی پسندی اور علاحدہ کیوبیک کی خاصی مضبوط تحریک نے جنم لیا جس کے سبب آزادی کے سوال پر ریفرینڈم (رائے شماری) میں اس تحریک نے تقریباً دو بار فوقیت حاصل کر لی ہے۔

انڈونیشیا جیسے حالات کے برخلاف ڈچ ایسٹ انڈیز کمپنی نے ساؤتھ افریقہ میں اپنے پیچھے نوآباد کاروں کا ایک الگ گروہ چھوڑا جو افریکانز بولنے والے بوئرس (Boers) پر مشتمل تھا۔ کناڈا کے فرانسیسیوں اور شمالی ہند کے مسلمانوں کی مانند ان لوگوں کو بھی انگریزوں نے (دو بار، 1815 اور 1902 میں ) زیر کیا۔ لیکن دو اسباب سے یہ اپنے سیاسی اختیارات واپس چھین لینے میں کامیاب ہو گئے۔ اوّل یہ کہ برٹش کیپ پرووِنس (British Cape Province)کے بوئر ساؤتھ افریقہ میں آ آ کر بستے رہے اور دوم یہ کہ انھوں نے یونین آف ساؤتھ افریقہ (1910) کی اس یورپی آبادی میں اکثریت حاصل کی جس کو حقِ رائے دہی عطا کیا گیا تھا۔ اس طرح انھوں نے افریکانز زبان کو اگر سب سے اہم نہیں تو کم از کم ذو لسانی ملک کی ایسی زبان ضرور بنا دیا جس کی اہمیت 1994 میں نسلی تعصب (Apartheid) کے خاتمے تک برقرار رہی۔ (31) آج کی صورتِ حال یہ ہے کہ افریکانز گیارہ سرکاری زبانوں میں سے ایک ہے اور اس پر بھی وہ انگریزی کے ہاتھوں تیزی سے مات کھا رہی ہے جس کا بنیادی سبب بین الاقوامی تجارت میں انگریزی زبان کی مسلمہ افادیت ہے۔ شومیِ قسمت سے جن علاقوں میں آج افریکانز کی بقا ممکن ہے وہ سیاہ فام کیپ اور ملاٹو قوموں ، یعنی ڈچ قوم کے سابق غلاموں کے علاقے ہیں جن کی مادری زبان افریکانز ہے اور مذہباً بھی وہ کالوِنسٹ (Calvinist) عیسائی ہیں۔ اس صورتِ حال کے مماثل شمالی ہند کے غیر اشراف طبقے کے ہندو نو مسلموں کے آئندگان کو پیش کیا جا سکتا ہے جو آج اردو زبان اور اسلامی بنیاد پرستی کا سرچشمہ ہیں۔(32)

ایک سامراجی زبان کے مخدوش ہو جانے کی تازہ ترین مثال روسی زبان کی ہے جو اگر دیارِ غیر میں نہیں تو کم از کم اپنی ہی جغرافیائی حدود میں ، 1991 میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد اپنے وجود کے خطرے سے دوچار ہوئی ہے۔ بالٹک، کاکیشیا اور وسطی ایشیا کی سرحدی ریاستوں کی آزادی کے بعد سابقہ مقتدر روسی زبان بولنے والوں کی خاصی تعداد اقلیتوں کے روپ میں ان آزاد ممالک میں بے یار و مد دگار رہ گئی ہے۔ (33) ان اقلیتوں کو خصوصاً وسطی ایشیا میں جن اسباب سے تحفظ ملا ہوا ہے وہ ان کی تکنیکی/ انتظامی صلاحیتوں اور ان علاقوں میں سابقہ کمیونسٹوں /موجودہ قوم پرست اشراف کے ذریعے روسی زبان کو دوسری زبان کے طور پر وسیلۂ   اظہار بنائے رکھنے کا نتیجہ ہے۔ (34)

 

اردو کے لیے تجاویز

سوال یہ ہے کہ زبانوں کے زوال سے متعلق ان واقعات کے کسی حد تک افسوس انگیز بیان کے بعد، ان زبانوں کی بقا، تحفظ اور بازیابی کی مثالوں سے اردو کے لیے کیا سبق حاصل کیا جا سکتا ہے ؟ لسانیات کے ممتاز امریکی طالبِ علم جوشوافِش مین اپنے مطالعے Reversing Language Shift: Theoretical and Empirical Foundations of Assistance to Threatened Languages(زبان کی صورتِ حال میں تبدیلی کی تدابیر: خطرات سے دوچار زبانوں کی معاونت کی نظریاتی اور علمی بنیادیں ) (35) میں مدلل تجزیہ پیش کرتے ہوئے ’کامیابی سے ہم کنار، تین ذخائر‘ کا ذکر کرتا ہے ۔۔ اسپین میں کیٹلان، کناڈا میں فرینچ اور فلسطین /اسرائیل میں جدید عبرانی۔ ان میں سے کسی کا بھی کوئی خاص مقابلہ اگر پاکستان نہیں تو کم از کم شمالی ہند کی صورتِ حال سے بھی نہیں کیا جا سکتا۔ مذکورہ تینوں میں سے اوّل الذکر دو یعنی کیٹلان اور فرینچ زبانوں کو ایسے قوی گروہ بولتے تھے جو اپنے اپنے علاقوں میں اس زمانے میں اکثریتی حیثیت رکھتے تھے، جب انھیں مرکزی حکومتوں اور بالا دست دیسی اشراف کے جانب دارانہ رویّوں کا نشانہ بننا پڑا تھا تب بھی انھوں نے اپنی زبان کی برتری کو برقرار رکھا۔ تیسری زبان یعنی عبرانی کے معاملے میں یہ ہوا کہ یہودیوں کو فلسطین سے 1900 سال قبل ملک بدر کر دیا گیا تھا اور یہاں تک کہ مملکتِ دوم کے گزشتہ آخری عہد 161) قبل مسیح سے سنہ 70 عیسوی تک) میں یہاں عام بول چال کی زبان آرامی/ آرامائک ]سامی زبانوں کی شمالی شاخ کی زبان[ تھی۔ عبرانی زبان بالکل ویسے ہی مذہبی رسومات کی زبان بن کر رہ گئی تھی جیسی آج جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے عربی زبان ہے۔ (36)

عیسائیوں کے سامی مخالف رویّوں کے ردِّ  عمل میں یورپی یہودیوں میں پیدا ہونے والے صیہونی جذبات، عثمانیہ عہد کے اواخر میں فلسطینی علاقوں میں ان کی باز آبادکاری اور اس کو برطانیہ کی حمایت کی کہانی کو اپنے مقالے میں فِش مین نے یقیناً تعریفی انداز میں اس بات کا ذکر کیے بغیر پیش کیا ہے کہ فلسطینی عربوں کو 1948 کے بعد کے دور میں کیا قیمت چکانی پڑی۔ البتہ وہ جڈش زبان کے زوال پر ماتم کناں ہے جو تمام آشکینازیوں ]وسطی یا مشرقی یورپ کے یہودی جو بیبلون کے بجائے یہودیت کی فلسطینی روایت کے امین ہیں [ کی جرمنک مادری زبان ہے۔ جڈش نہ صرف مشرقی یورپ میں ہالوکاسٹ ]نازی جرمنوں کے ہاتھوں یہودیوں کا قتلِ عام، جس میں 1941-45 کے دوران چھ ملین سے زیادہ یہودی مارے گئے [ کے بعد زوال پذیر ہوئی بلکہ امریکا اور اسرائیل میں بھی عبرانی اس کی جگہ لے چکی ہے — مشرقی یورپ میں دوسری زبان کے طور پر اور اسرائیل و امریکہ میں باضابطہ سرکاری زبان کے طور پر۔۔  رسوماتی عبرانی زبان کو مقامی رنگ میں ڈھالنے اور عصرِ حاضر سے ہم آہنگ کرنے کے لیے بے حد کوششیں کرنی پڑی ہیں۔

عبرانی کی اس مثال کی اردو کے احوال پر تطبیق اس لیے مشکل ہے کہ صیہونیوں نے شمالی ہند کے مسلم حکمرانوں کی طرح علاقائی زبان کے حق میں اپنی مادری زبان کو چھوڑ ضرور دیا لیکن انھوں نے اس علاقائی زبان کو ایک بالکل دوسرے رسمِ خط میں لکھا، علاقائی رسم خط میں نہیں۔ عبرانی اور عربی دونوں سامی خاندان کی زبانیں ہیں اور اس سے شاید کہیں زیادہ مختلف ہیں جتنی کہ اردو اور ہندی زبانیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ نظریاتی سطح پر زبانوں کی ان دو دو جوڑیوں کے درمیان مشترکہ بنیادوں کو تلاش کرنا خاصا آسان ہو گا،بہ نسبت جڈش و عربی زبان اور ترک منگول اور ہندوی زبانوں میں مشترکہ عناصر کی تلاش کے۔ لیکن دونوں ہی صورتوں میں سیاست اور نظریاتی نظام رخنہ انداز ہوتے ہیں۔ صیہونیوں کی پالیسی ویسی ہی تھی جیسے 1947 میں پاکستان جانے والے مہاجروں نے اپنی شدت پسندی میں اردو کو عربی کا قائم مقام بنا کر دیسی مسلمانوں پر لاد دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بنگالی مسلمانوں پر اردو کو منڈھنے کی کوششوں سے پاکستان کے دونوں بازوؤں کے درمیان فساد شروع ہو گیا جو بالآخر 1971 میں پاکستان کی تقسیم کا سبب بنا۔ (37) جہاں تک ہندوستان میں اردو کی صورتِ حال کا تعلق ہے تو یہ بڑے شرم کی بات ہے کہ ’ہندوستانی‘ کو قومی زبان کی حیثیت سے دو رسومِ خط میں لکھی جانے والی نہرو اور گاندھی کی ترجیح کو دستور ساز اسمبلی میں ایک ووٹ سے شکست ملی۔ (38)سوال یہ ہے کہ کیا کبھی ایسا ممکن ہو سکے گا کہ اردو والے دراوڑی اور غیر ہندی زبانوں کی جماعتوں کے اشتراک سے کسی دن آئین میں ترمیم کرا کے اس فیصلے کو ہی الٹ دیں ؟تخیل کی پرواز کو میں یہیں لگام دیتا ہوں کیوں کہ 1948 سے پہلے فلسطین میں یہودیوں کو عبرانیت  کا حِصّہ بنانے کے عمل کی جو تفصیلات فش مین نے دی ہیں وہ اردو کے حامیوں کے لیے بہت سبق آموز ہیں :

(1)      فلسطین میں عبرانی زبان کے احیا اور اس کو مقامی رنگ میں ڈھالنے کا کام ترکی سلطنت یا برطانوی حکمرانوں کی مد د کے بغیر ہوا۔ اس حوالے سے برطانوی اردو معلّم رالف رسل کا یہ مشورہ قابلِ غور ہے کہ اردو والوں کو خود کفیل ہو کر اور اپنے ہی وسائل کے بھروسے پر اپنی زبان کی حفاظت خود ہی کرنی ہو گی۔(39)فلسطین میں ابتداء ً رہائش اختیار کرنے والے یہودیوں (Aliyah) کے پاس اس طرح سے بے پایاں مالی وسائل ہرگز نہیں تھے جس طرح دوسری جنگِ عظیم کے بعد اسرائیلی ریاست کو اس مقصد سے بہم رہے کہ وہ ان کی مد د سے سیفارڈک (Sephardic)، ہندوستانی، روسی اور اتھوپین یہودیوں کو عبرانی سکھائے۔ (40)

(2)      زبان کی صورتِ حال کو الٹنے کے کام میں ضرورت مکمل رضاکاروں کی ہوتی ہے۔ شمالی ہندوستان میں ایسا کرنا کیوں کر ممکن ہو سکتا ہے جب کہ یہ خدشہ پوری طرح موجود ہے کہ ایسے اقدامات کرنے سے ہندو پرست قوّتیں مسلمانوں کے سروں پر ایک اور الزام یہ منڈھ دیں گی کہ اردو کی حمایت کر کے وہ ایک اور پاکستان کی تعمیر کر رہے ہیں ؟ فِش مین کو اقرار ہے کہ زبان کے احیا کا منطقی نتیجہ خود مختاری یا آزادی کے مطالبے کے جلو میں ہجرت یا علاحدہ ریاست کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ (41) اردو کے حامیوں کو اس تحریک کی اساس ہندوستانی قومی تفاخر (گاندھی اور نہرو کے ) پر رکھنی ہو گی اور سبھی ہندوستانیوں کے لیے لسانی تکثیریت کے فوائد پر زور دینا ہو گا۔ اس تحریک میں عربی رسمِ خط سے واقفیت کی ضرورت کے لیے یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ عرب مشرقِ وسطیٰ اور خصوصاً خلیجی ممالک میں تجارتی روابط کے لیے اس زبان کا علم ایک مفید وسیلہ ثابت ہو گا۔ (42)

(3)      اپنے مطالعے میں شامل زبانوں کے حالات کے حوالے سے فِش مین اس بات پر بار بار خصوصی زور دیتا ہے کہ زبان کی صورتِ حال میں تبدیلی کا اطلاق بین نسلی ہونا چاہیے اور یہ ان چھوٹے بچوں اور ان کے خاندان کے افراد کے درمیان شروع ہو جو ابھی اسکول جانے کی عمر کو نہیں پہنچے ہیں۔ اپنے تجزیے میں وہ سات نکاتی (واقعتاً 9 نکاتی) مدارج بیان کرتا ہے جن کی رو سے مخصوص تدابیر اختیار کر کے زبان کا احیا ممکن ہے۔ (43) ان نکات کی تطبیق بین نسلی فرق یا انتشار کی شدت میں کمی بیشی کے مطابق ہو گی:

(i)       زبان کی تشکیلِ نو (عوامی زبان بنانے کا عمل) اور بالغوں کے ذریعے اس سے کسبِ فیض۔ (ان میں سے اوّل الذکر اردو کے حوالے سے غیر ضروری ہے لیکن آخرالذکر صورت میں تعلیم یافتہ حضرات اردو سیکھنے کے عمل سے گزر سکتے ہیں ، خواہ وہ ایسا دیوناگری رسمِ خط میں اردو پڑھ کر ہی کیوں نہ کریں )۔

(ii)      متعلقہ زبان کو وسیلہ ٔ اظہار بنایا جائے، خصوصاً متعلقہ لسانی گروہ کے بزرگوں کے ساتھ ثقافتی ترسیل کا عمل اختیار کر کے۔

(iii)  بین نسلی اور گھر، خاندان اور پڑوس کے اعتبار سے گھنی آبادی والے علاقے جو مادری زبان میں ترسیل کے بنیاد گزار ہیں۔

(iv) بچّوں اور بالغوں کو خواندہ بنانے کے لیے اسکولوں کی فراہمی۔ یہ اسکول لازمی تعلیم کے متبادل نہ سمجھے جائیں۔

(v)      ریاست کی فراہم کردہ لازمی تعلیم کے بجائے کمیونٹی اپنے تعلیمی ادارے قائم کرے جن کے نصاب اور عملے پر اس کا تقریباً مکمل اختیار ہو۔ (کیتھولک عیسائیوں نے، بے حد مفلوک الحالی کے دور میں 19 ویں صدی میں امریکہ میں ایسا ہی کیا تھا۔ تعلّم کا کام بیش تر صورتوں میں راہبائیں (Nuns) انجام دیتی تھیں۔) (44)

(vi)     پبلک اسکول ]پرائیوٹ تعلیم کے ادارے [ اردو کی کچھ نہ کچھ تعلیم فراہم ضرور کرتے ہیں لیکن نصاب اور عملے پر کنٹرول غیر مسلموں کا ہوتا ہے۔

(vii) مقامی اور علاقائی سطح پر (یعنی پاس پڑوس کے باہر) عملی طور پر اردو زبان کا استعمال۔ (ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں انگریزی زبان کے علاوہ دیگر زبانوں کا عملی استعمال ممکن نہیں ہے لیکن کیوبیک میں فرینچ کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ ) (45)

(viii)مقامی/ علاقائی عوامی ترسیل اور سرکاری ملازمتوں میں متعلقہ زبان کا استعمال۔ (میرا خیال تھا کہ 1947 کے بعد اردو زبان اپنی اس حیثیت سے محروم ہو گئی ہے لیکن بنگلور میں اردو میں خبروں کی نشریات کے حوالے سے ہونے والے فسادات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو میں کچھ ریڈیو پروگرام نشر ضرور ہوتے ہیں۔) (46)

(ix)     زبان کی تعلیم (ذریعۂ تعلیم کے طور پر) فراہم کی جائے، عملی سطح پر،عوامی ترسیل کے لیے اور ملک گیر سطح پر سرکاری کام کاج میں اس کا استعمال ہو۔ (1948 سے قبل جامعہ عثمانیہ حیدرآباد میں اس کا انتظام تھا اور جامعہ ملیہ اسلامیہ اور کچھ کالجوں میں بھی اردو ذریعۂ تعلیم موجود تھا لیکن سرکاری امداد یافتہ اداروں میں اکثریت غیر مسلم طلبہ کی ہوتی تھی۔)

شمالی ہند میں ان نکات کے نفاذ کے لیے کوئی اقدام کیا بھی کیسے جا سکتا ہے جبکہ سرکاری اسکول اکثریتی فرقے کی زبان ۔۔ موجودہ صورت میں سنسکرت آمیز ہندی میں ۔۔ اور تعصب آلودہ نصابی کتب کے ذریعے تعلیم دیتے ہیں۔(47) ابتداء ً  مشرقی یورپ میں اور پھر فلسطین میں صیہونیوں نے ذاتی طور پر ابتدائی اور ثانوی اسکول قائم کیے تھے۔ ہندوستانی مسلمانوں نے بے شمار مکتب کھول رکھے ہیں لیکن جہاں تک مجھے معلوم ہے ان میں قرآن عربی زبان میں حفظ کرایا جاتا ہے، اردو میں نہیں۔ (48) ممبئی میں قائم انجمن ]اسلام[ کے اسکولوں کے سوا (اردو میڈیم کے ) دوسرے اسکولوں کا معیار خراب بتایا جاتا ہے اور وہ مین اسٹریم معاشی عمل کی مسابقت میں حصہ لینے کے لیے طلبہ کو تیار بھی نہیں کرتے۔ (49) اس صورتِ حال کا مقابلہ اگر امریکہ میں آباد یہودیوں سے کیا جائے تو صورت یہ سامنے آتی ہے کہ امریکی یہودی اپنے بچّوں کو سرکاری اسکولوں میں تعلیم دلاتے ہیں جو انگریزی میڈیم میں فراہم ہے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اپنے اسکول بھی کھولتے ہیں۔ ان میں اسکول سے چھٹی کے بعد یا ہفتے کی چھٹیوں میں تدریس ہوتی ہے۔ یہ اسکول اکثر صورتوں میں علاقے کے سنے گاگ ]یہودیوں کی عبادت گاہ[ سے ملحق ہوتے ہیں اور ان میں عبرانی زبان کی تعلیم کے ساتھ ساتھ عیسائیوں کے پھیلائے ہوئے تعصبات کا تدارک بھی کیا جاتا ہے۔ (50) گزشتہ صدی کے اوائل میں یہ تعلیم جڈش زبان کے ذریعے دی جاتی تھی لیکن اب کچھ رجعت پسند خاسیدیم ]قدیم یہودی فرقہ جو 2-3 صدی قبل مسیح میں فلسطین میں آباد تھا[ کو چھوڑ کر اب بیش تر لوگ عبرانی اختیار کر چکے ہیں۔ جڈش کسی حد تک سنیما سمیت دیگر تفریحی ذرائع کے وسیلے سے امریکہ کی عوامی تہذیب کا حصہ بھی بن گئی لیکن وہاں یہودیوں کی نمائندگی اتنی ہی غیر متناسب ہوتی ہے جتنی ہندوستانی سنیما میں مسلمانوں کی۔ (51) لکھنؤ کی نوابی تہذیب اور موسیقی حالانکہ مسلم نوجوانوں کے لیے آج بالکل لایعنی شے بن چکی ہے لیکن غیر مسلموں کی اکثریت کے نزدیک یہ آج بھی اردو کا سب سے بڑا اثاثہ ہے۔ (52)

(4)      اردو زبان کو، بلکہ وسیع تناظر میں اگر دیکھا جائے تو اسلامی اقدار اور تہذیب کی بقا کو سب سے بڑا خطرہ ہندی سے نہیں بلکہ انگریزی زبان سے لاحق ہے۔ (53) کیونکہ یہاں (ہندوستان میں ) اردو بولنے والے مسلمانوں اور ہندی بولنے والے ہندوؤں کا ایک اہم مفاد مشترک ہے، اور یہ مفاد اپنی تہذیب کے تحفظ کا مفاد ہے۔ میں یہاں ’انگریزی ہٹاؤ‘ (54) مہم کی حمایت میں انگریزی زبان کے اخراج کی بات نہیں کر رہا ہوں کیونکہ ایسا کرنے سے ہندوستانی لوگ عالمی منڈی سے کٹ جائیں گے۔ میرا مقصد یہاں ہندوستان کی ان دونوں قسم کی تہذیب و ثقافت (ہندو، مسلم)کے تحفظ سے ہے۔  سیٹلائٹ ٹیلی ویژن، سنیما اور ویڈیو کے توسل سے امریکہ کے تشد

د آمیز اور فحش پاپولر کلچر کی یلغار سے محفوظ رکھنے سے ہے۔ (55)

٭٭٭

 

حواشی

 

.1        پال براس، Religion and Politics in North India،کیمبرج  یونیورسٹی پریس، 1974، باب 4، ‘Urdu and Muslim Grievances in North India, 1947-71’، ص ص 182-217۔ ایم این وینکٹا چلیّا،  ‘Language and Politics: Status of Urdu in India’، مطبوعہEconomic and Political Weekly، 26 جون 1999،ص ص 1659-1660۔

.2         لفظ ‘elite’ کا استعمال یہاں آر۔ اے۔ شرمر ہارن  (R.A. Schermerhorn)کی تعریف کے مطابق کیا گیا ہے جس نے طبقاتی نظام کو تعداد اور طاقت کے اصول  (size and power)کے مطابق سماج،  بالا دست اکثریت یاdominant majority  ( اس کے پاس طاقت اور تعداد دونوں ہیں )، اشراف  یا elite   (طاقت ہے، تعداد نہیں )، رعایا  یا mass subjects (تعداد ہے، طاقت نہیں ) اور اقلیت یا  minority ( نہ طاقت ہے  اور نہ ہی تعداد) میں منقسم ہے۔   Comparative Ethnic Relations: a Framework for Theory and Research، نیو یارک: رینڈم ہاؤس، 1970، ص 13۔

.3        ہندوستان میں ہندوؤں کو تبدیلیِ مذہب کے لیے آمادہ نہ کرنے کا سبب جزیے کی وصولی بند ہو جانے کا خوف تھا۔ بہ حوالہ خلیق احمد نظامی، Some Aspects of Religion and Politics in India during the 13th Century، بمبئی : ایشیا پبلشنگ، 1961، ص ص 312-325۔ بنگال میں اردو کے اشرافیہ اقلیتی کر دار کے لیے حوالہ:رونق جہاں ،  Pakistan: Failure in National Integration، نیو یارک: کولمبیا یونیورسٹی پریس، 1972، ص ص 13, 37۔

.4        یوسف حسین، Glimpses of Medieval Indian Culture، بمبئی:ایشیا پبلشنگ، 1959،باب 4، ‘The Origin and Growth of the Urdu Language?’۔ مظفر عالم اپنے مضمون ‘The Pursuit of Persian: Language in Mughal Politics’، مطبوعہ  Journal of Asian Studies, 32, 2 (1998)، ص ص 317-349  میں یاد دہانی کراتے ہیں کہ اکبر سے میکالے تک کے عہد میں انتظامیہ اور شاعری کی زبان کی حیثیت سے فارسی زبان، ہندوی زبان پر غالب آ گئی۔

.5         اطہر فاروقی ‘Future Prospects of Urdu in India’،مطبوعہ Mainstream سالنامہ 1992، ص 103۔ لیکن عمر خالدی کا خیال ہے کہ ہندوستانی مذہبِ اسلام  اور ثقافتی ورثے کے تحفظ کے لیے رسمِ خط کا تحفظ لازمی ہے۔ اپنے بیان کے استدلال میں وہ مصطفیٰ ٭ کمال اتاترک کے عہد میں ترکی اور سوویت سینٹرل ایشیا کی مثال دیتے ہوئے 1920 میں لیٹن اور 1930 میں سایری لِک(Cyrillic) رسومِ خط کا بھی حوالہ دیتے ہیں۔’Language and the Future of Muslim Identity in India’،مطبوعہ Journal of the Institute of Muslim Minority Affairs, VII, 2 ،  (جولائی 1986) ص ص 395-403۔

.6        این۔ ایف۔بلیک،  A History of the English Language، نیو یارک: نیو یارک یونیورسٹی پریس، 1996۔

.7        انور جی۔ چیجنئے، Islam and the West: the Moriscos، البانی: اسٹیٹ یونیورسٹی آف نیو یارک پریس، 1983، ص 43۔

.8        نری چارلس لی، The Moriscos of Spain: their Conversion and Expulsion، نیو یارک: گرین ووڈ، 1968۔

.9        اکبر ایس۔ احمدDiscovering Islam، لندن: رولیج اینڈ کیگان پال، 1988، ص ص 158-171۔

.10     ڈبلیو۔ پی۔ لاک ووڈ، Languages of the British Isles Past and Present، لندن: آندرے  ڈیوش، 1975،  ‘Irish Celtic’، ص ص 76-79۔  آئرفلیتھ واٹسن،  ‘The Irish language and television: national identity, preservation, restoration and minority rights’، مطبوعہBritish Journal of Sociology, Vol. 47, No. 2، (جون  1996 )، ص ص 255-273۔

.11     ایڈورڈ  واکن، A Lonely Minority: the Modern Story of Egypt’s Copts، نیو یارک: مورو  اینڈ کمپنی،1963۔

.12     پامیلا کائل کروسلے،The Manchus، اوکسفرڈ: بلیک ول، 1997، باب7،  ‘The Manchus in the Twentieth Century’، ص ص 189-201۔  پامیلا کائل کروسلے، Orphan Warriors, Three Manchu Generations and the End of the Qing World، پرنسٹن: پرنسٹن یونیورسٹی پریس، 1990، ‘Conclusion’  ص ص.215-228۔

.13    عمر خالدی، Indian Muslims Since Independence، نئی دہلی: وکاس، 1995،  ‘Muslims in the Tertiary Sector’، ص ص 74-77۔

.14     جان ٹیفیل ڈریئر، China’s 40 Millions; Minority, Nationalities, and National Integration in the People’s Republic of China، کیمبرج: ہارورڈ یونیورسٹی پریس1976۔

.15     جوشوا  فش مین کی کتاب  Reversing Language Shiftمیں شامل مضمون ‘The Current State of Navajo’  ، کلیو ڈن: ملٹی لنگول میٹرس  لمٹیڈ، 1991، ص ص 188-190۔

.16     مائیکل ہیچر، Internal Colonialism: The Celtic Fringe and British National Development 1536-1966، برکلے : یونیورسٹی ا ٓف کیلی فورنیا پریس، 1975۔

.17     پیٹر شنیڈر، ‘Is Anyone German Here? A Journey into Silesia’، مطبوعہNew York Times، سیکشن VI، ص 28ff  (15اپریل 1990)۔

.18     وی۔ایل۔ مینِج ‘The Islamization of Anatolia’  اور پیٹر ہارڈی ‘Modern European and Muslim Explanations of Conversion to Islam in South Asia …’،  مشمولہ Conversion to Islam ، مرتبہ نہیمیا لیوزوئن، نیو یارک: ہومز اینڈ مائیر، 1979، ص ص 52-99۔

.19     فش مین نے اپنی کتاب Reversing Language Shift میں ان منتشر آبادیوں اور خانہ بدوش قبیلوں کی زبانوں کی بقا کی مایوس کن صورتِ حال کی مثالیں دی ہیں جو آسٹریلیا میں تکنیکی اعتبار سے ترقی یافتہ نو آباد کاروں کے سبب خطرات سے دوچار  ہوئیں۔ (باب 9، ‘Prospects for Reversing Language Shift in Australia: Evidence from its Aboriginal and Immigrant Languages and New Zealand’،  باب 8، ‘Maori: the Native Language of New Zealand’)

.20     تھیوڈور پی۔ رائٹ جونیر اور تھیوڈر پی۔ وینٹر، ‘Identity and Rights of Former Ruling Elite Minorities: North Indian Muslims and White Afrikaners of South Africa’،  یہ مقالہ  برسٹل، انگلینڈ  میں  16-19ستمبر 1999 کے دوران منعقدہ ایک کانفرنس  ‘Nationalism, Identity, Minority Rights’میں پیش کیا گیا۔

.21     آر۔ اے۔ شرمرہارن  اپنی کتاب  Ethnic Plurality in India ،  ٹکسن، ایریزونا : یونیورسٹی آف ایریزونا، 1978، کے باب 9، ‘Anglo-Indians’، کے ص 212  پر 1961 کی مردم شماری کے حوالے سے بتاتا ہے کہ اس وقت صرف 223,781  ہندوستانیوں کی مادری زبان انگریزی تھی۔

.22     پال براس، Ethnicity and Nationalism, Theory and Comparison، نئی دہلی : سیج، 1991، ص ص 120-307۔ جمیل جالبی، Pakistan: the Identity of Culture، کراچی: رایل بُک کمپنی، 1984،  باب 8، ‘A Common Culture and a Common Language’،  ص ص 174-177۔

.23     فلپ میسن،  Patterns of Dominance، لندن : اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس، 1971،  باب 11، ‘Spanish America’، ص 245۔

.24     فرینکوا  بوریکوڈ کی کتاب  Ethnicity: Theory and Experience میں شامل باب’Indian, Mestizo and Cholo as Symbols in the Peruvian System of Stratification’،مرتبہ  ناتھن گلیزر اور ڈینیل موئنہان، کیمبرج : ہارورڈ یونیورسٹی پریس، 1975، ص ص 350-387۔

.25     جیمس فالوز، ‘Immigration; How it’s affecting us’،مطبوعہ Atlantic Monthly، (نومبر 1983) ص ص 45-106۔

.26     ڈائنا ریوچ، ‘Politicization and the Schools: the Case of Bilingual Education’، مشمولہ Taking Sides; Clashing Views on Controversial Issues in Race and Ethnicity، مرتبہ رچرڈ سی۔ مونک، گلفورڈ کینٹ: ڈشکِن، ،( 1985 کے ایڈیشن کی اشاعتِ نو)، ص ص 126-144۔  ناتھن گلیزر نے ابتداء ً  Affirmative Discrimination  (نیو یارک : بیسک بُکس، 1975) کی مخالفت کی تھی لیکن اب  We Are All Multiculturalists Now (کیمبرج: ہارورڈ یونیورسٹی پریس)  کے ذریعے کثیر ثقافتی نظریے کا معترف ہو چکا ہے۔

.27     رچرڈ  روڈریگوئز، Hunger of Money, the  Education of Richard Rodriguez، بوسٹن: گوڈائن 1982۔

.28     ڈیوڈ گورڈن،  The Passing of French Algeria، لندن: اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس، 1966 میں لکھتا ہے کہ پیڈنوارز(Piednoirs) کے ہجرت کر جانے کے باوجود یہاں کی آدھی آبادی فرانسیسی زبان بولتی تھی۔

.29     عبدالحمید منصوری کا پی۔ایچ۔ڈی۔ کا تحقیقی مقالہ ‘Algeria between Tradition and Modernity: the Question of Language’ ، گریجویٹ اسکول آف پبلک افیئرز، اسٹیٹ یونیورسٹی آف نیو یارک ایٹ البانی، 1991۔

.30     کینتھ میک روبرٹس، ‘The Rise of Quebecois Identity’  مشمولہ  The Mobilization of Collective Identity; Comparative Perspectives،مرتبہ جیفرے راس اور بیکر کوٹریل، لانہم، ایم ڈی: یونیورسٹی پریس آف امریکہ، 1980، ص ص 225-255۔

.31     (i) جمہوریہ کی سرکاری زبانیں ہیں ۔۔ Sepedi, Sesotho, Setswana, siSwati,Tshivenda, Xitsonga, Afrikaans, English, isiNdebele, isiXhosa   اور  isiZulu۔

(ii)      تاریخی اسباب سے مقامی زبانوں کے قلیل استعمال اور کمزور حیثیت کے پیشِ نظر حکومت کو چاہیے کہ ان کے لیے عملی اور مثبت اقدام کرے تاکہ ان کی حیثیت بھی مستحکم ہو اور ان کا استعمال بھی بڑھے۔

(iii)     قومی (مرکزی) حکومت اور صوبائی حکومتیں انتظامی ضرورتوں کے سبب عملی ضرورتوں ، علاقائی صورتِ حال، اخراجات اور آبادی کی ضرورتوں اور ترجیحات کو نظر میں رکھ کر کسی مخصوص زبان کا استعمال ضرور کریں لیکن قومی حکومت اور ہر ایک صوبائی حکومت کو بہر صورت کم از کم دو زبانوں کو سرکاری زبان کے طور پر اختیار کرنا چاہیے۔

(iv)     تمام سرکاری زبانوں کے ساتھ مساوات اور انصاف کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔

(v)      ایک ‘Pan South African Language Board  کے ذریعے ان زبانوں کی ترویج و  فروغ کے لیے حالات سازگار کیے جائیں۔ تمام سرکاری زبانوں ۔۔ خوئی، ناما اور سان ۔۔ اور ساؤتھ افریقہ کی ان تمام زبانوں کو جو عام طور سے یہاں کے سبھی فرقے بولتے ہیں ۔۔ بشمول ہندی، گجراتی، تمل، تیلگو اور اردو۔ اور عربی، عبرانی، سنسکرت اور دیگر زبانیں جو ساؤتھ افریقہ میں مذہبی ضرورتوں کے سبب مستعمل ہیں۔ Constitution of the Republic of South Africa،  1996،  بابl، Founding Provisions، ص ص 6-7۔ زبانوں سے کہیں زیادہ مشکل مطالبے متبادل علامتوں کے لیے کیے جار ہے ہیں ، مثلاً مقامات کے نام میں تبدیلی، یادگاریں قایم کرنے، پرچم اور قومی ترانے وغیرہ سے متعلق مطالبات۔ چارلس ملان،’Symbolic unity: the role of cultural symbols in nation-building’، مشمولہ Democratic Nation-Building in South Africa، مرتبہ نک روڈی اور ایان لیبن برگ، پریٹوریا: ایچ۔ ایس۔آر۔سی۔ پبلشرز، 1994، ص ص 182-189۔

.32     آزادی کے بعد کے ہندوستان میں اردو زبان کی مانند، افریکانز بھی ساؤتھ افریقہ کے کسی صوبے میں اکثریتی حیثیت نہیں رکھتی لیکن افریکانز بولنے والے ‘Cape Colored’ کو ملا کر  ویسٹرن کیپ  پروونس میں افریکانز بولنے والوں کی تعداد 62فی صد تک پہنچ جاتی ہے۔ پوٹشیفسٹروم(Potchefstroom)  میں نومبر 1998 کو  پی۔ ملڈر کے ساتھ ایک انٹرویو۔ ملٹن ایسمین کی کتاب Ethnic Politics، اِتھاکا: کورنیل یونیورسٹی پریس1994، باب 4،South Africa: Multiple Cleavages?، ص ص 75-110 بھی ملاحظہ ہو۔

.33     اسٹیون ارلینگر، ‘Baltic Identity: Russians Wonder if They  Belong’، مطبوعہNew York Times، 22 نومبر  1992۔

.34     انارا تابیشالیوا، The Challenge of Regional Cooperation in Central Asia، واشنگٹن : یو۔ ایس۔ انسٹی ٹیوٹ آف پیس، 1999، میں بتاتی ہیں کہ ازبیکستان، ترکمانستان اور تاجکستان میں عام رابطے کی زبان کے طور پر روسی زبان کمزور پڑی ہے اور انگریزی کو بڑھاوا ملا ہے۔ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ ازبیکستان اور ترکمانستان میں ازبیک اور ترکی زبانوں کے لیے سائری لک رسمِ خط کو ترک کر کے لیٹن رسمِ خط اور تاجکستان میں عربی رسمِ خط اختیار کر لیا گیا ہے۔ ص ص 14-15

.35     جوشوا  فش اے۔ مین، Reversing Language Shift، باب 10، ص ص 287-336۔

.36     جیک فیل مین، The Revival of a Classical Tongue; Eliezer Ban Yehuda and the Modern Hebrew Language،  دی ہیگ : موٹون، 1973۔

.37     لیکن پاکستان کے دونوں حصوں میں جا کر آباد ہونے والے مہاجروں کی تعداد ان یہودیوں کے مقابلے میں بہت کم تھی جو اسرائیل کے قیام سے پہلے یا بعد میں فلسطین میں جا وآباد ہوئے۔

.38     کیرین ڈٹمیر اپنے مضمون’The Hindi-Urdu Controversy and the Constituent Assembly’، مطبوعہ  Indian Journal of Politics, VI, 1، ( جنوری۔جون  1972)، ص ص 13-22، میں واضح کرتی ہیں کہ آئین ساز اسمبلی میں آخری ووٹنگ ہندسوں کے استعمال کے بارے میں ہوئی۔  ہندوستانی کے حق میں نہرو کا موقف 1947 میں کانگریس کے اندر  ہونے والی رائے شماری میں 63-32 کے تناسب سے شکست ہوا۔*

.39     رالف رسل، ‘Urdu in India since Independence’، مطبوعہEconomic and Political Weekly، (2-8، 9-15 جنوری 1999)، ص ص 44-48

.40     فش مین اور فیل مین نے عبرانی زبان کے احیا کے لیے ابتدائی صیہونیوں کی شدید  نظریاتی وابستگی کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے جس کے لیے وہ اپنی مادری زبان جڈش کو بھی قربان کرنے کو تیار ہو گئے تھے۔

.41     ظاہر ہے کہ اکثریتی زبان کے معاملے میں یہ صورتِ حال پیدا نہیں ہو گی۔ مثال کے طور پر پاکستان میں پنجابی یا انیسویں صدی کے شمالی ہند میں ہندی زبان جس کے احیا کی کوششیں یا تو ایک غیر ملکی نو آبادیاتی زبان کے یا پھر عوامی رابطے کی زبان کی مخالفت میں ہوئیں۔ ایسی صورتِ حال میں نظریہ ساز لیڈر عموماً ریاستی ذرائع یا قوت کا استعمال کر کے اقلیتوں پر اپنی زبان تھوپنے کے متمنی ہوتے ہیں۔

.42     لیکن خلیجی ممالک میں کام کرنے والے بیشتر مزدور مغربی ساحل یعنی گجرات اور کیرل سے آتے ہیں۔ سعودی عرب مسلم برادران ہی کو ترجیح دیتا ہے۔

.43     فش مین  Reversing Language Shift، ص 395۔

.44     ناتھن گلیزر اور ڈینیل موئنہان، Beyond the Melting Pot، کیمبرج: دی ایم۔آئی۔ٹی۔ پریس، 1963، ‘The Irish: The Roman Catholic Church’، ص ص 234-238، لیکن ان کلیسائی اسکولوں میں تعلیم کا وسیلہ آئرلینڈ کی مانند،انگریزی زبان ہی تھی۔ لیکن یہودیوں کے کُل وقتی یا یک روزہ جز وقتی اسکولوں میں عبرانی یا جڈش زبان میں تعلیم کا نظم تھا اور یہودی حضرات اکثر صورتوں میں انھی اداروں میں پڑھتے تھے۔

.45     کیوبیک میں فرانسیسی بولنے والی سیاسی قوتوں نے بساط الٹ دی ہے اور اب انگریزی بولنے والوں کو یہ شکایت ہے کہ ان کی زبان کے ساتھ تعصب برتا جا رہا ہے۔  ایسمین، Ethnic Politics، باب 6، ‘Canada-Quebec’، ص ص 147-175۔

.46     ‘Asghar Ali Engineer on Bangalore Disturbances, Oct.’94’، مطبوعہ Muslim India #145، (جنوری 1995)، ص 30۔

.47     سوزین ہیبر رُڈولف اور لائڈ رُڈولف، ‘Rethinking Secularism: Genesis and Implication of the Textbook Controversy, 1977-79’، مشمولہ لائڈ رُڈولف کی مرتبہ کتاب’Cultural Policy in India’  دہلی: چانکیہ پبلی کیشنز، 1984، ص ص 13-41۔

.48     محمد اخلاق احمدTraditional Education among Muslims، دہلی: بی۔آر۔ پبلشنگ، 1985۔ کلدیپ کور، Madrasa Education in India، چنڈی گڑھ: سینٹر فار ریسرچ اِن رورل اینڈ انڈسٹریل ڈیولپمنٹ، 1990، بابX، ‘Survey of Madrasas and Maktabs’، ص ص 251-276۔

.49     احمد رشید شیروانی، ‘Educational Backwardness of Muslims in India’،مطبوعہ   The Nation، 26دسمبر 1992، ص 7، اور ‘Raising Performance Levels of Students in Selective (Muslim) Schools in India’، مطبوعہ  Journal of the Institute of Muslim Minority Affairs, III, 2 (Winter 1981)، ص ص 99-103۔ شیروانی کے اپنے مثالی اسکول کے بارے میں جانکاری کے لیے دیکھیں :  مارکوس فرانڈا،’Education for Young Muslims: the Crescent School of Old Delhi’,، رپورٹ نمبر 23،  (ہنوور این۔ایچ۔: امریکن یونیورسٹیز فیلڈ اسٹاف)، 1979۔

.50     ایبرام سچر اپنی کتاب A History of the Jews، نیویارک: نوف، 1967، ص ص 400-401، میں یہودیوں کے ان اضافی اسکولوں کو فرقے کے تشخص کی تعمیر میں کوئی خاص معاون قرار نہیں دیتا کیوں کہ بیشتر یہودی اپنے بچوں کو  ان پبلک اسکولوں میں بھیجتے ہیں جو یورپی اسکولوں کی بہ نسبت زیادہ سیکولر (غیر عیسائی) ہیں۔ لوئی فنکیل سٹین اپنی کتابThe Jews; Their History, Customs and Religion، نیویارک: ہارپر َرو، 1966، میں اعلیٰ تعلیم اورییشیوا (مسلم مدرسوں کی مانند) قایم کرنے کے تئیں یہودیوں کی مساعی کی ستائش کرتا ہے۔ ان پیشواؤں میں ابتداء ً ربیّ ]یہودیوں کے مذہبی رہنما[ بنانے کی تربیت دی جاتی تھی لیکن بعد میں یہی ادارہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد انگریزی میڈیم کی ایک ممتاز دانش گاہ، برانڈیز یونیورسٹی کے قیام کا سبب بنا۔ اس یونیورسٹی کو ہندوستان میں مسلمانوں کے ادارے، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مماثل قرار دیا جا سکتا ہے۔

.51     ولیم سیفائر، ‘On Language: Enough already’،  What am I, Chopped Liver ‘Two Yiddishisms that made their way into English without pause’،مطبوعہ New York Times، سنڈے میگزین سیکشن،تاریخ نا معلوم، لیکن 1992 کے بعد کی اشاعت)۔ تھیوڈور پی۔ رائٹ جونیر ‘Muslim Mobility in India through Peripheral Occupations: Sports, Music, Cinema and Smuggling’, مطبوعہ Asie du Sud: Traditions et Changements، مرتبہ  مارک گیبریو اور ایلس تھارنر، پیرس: Editions du Centre National de la Recherche Scientifique, Collection des Colloques Internationaux، 1979، ص ص 271-278۔

.52 ـ   ’’۔۔۔بمبئی میں بننے والی ہندی،اردو فلموں کی بے پناہ کامیابی۔۔۔حقیقت یہ ہے کہ بیشتر فلموں میں اردو زبان ہی استعمال ہوتی ہے لیکن تجارت کی غرض سے اور سینسر بورڈ کی سند حاصل کرنے میں آسانی کے لیے حکمتِ عملی کے طور پران فلموں کو ہندی فلمیں کہا جاتا ہے۔ اس طرح نظریاتی سطح پر ’ہندی‘ میں اتنی وسعت پیدا کر دی گئی ہے کہ اس میں ’اردو‘  بھی شامل ہو جائے۔ ‘‘  خواجہ احمد عبّاس، ‘Cinema and National Integration’،مطبوعہ Mainstream، 15مارچ 1986، ص ص 18-21۔ اکبر ایس۔ احمد’Bombay Films: The Cinema as Metaphor for Indian Society and Politics’، مطبوعہModern Asian Studies, 26, 2 (1992)، ص ص 289-320 : ’’فلموں کی زبان کو ہی لے لیں جو ہندی اور اردو کا  ملواں روپ ہے۔ یہ زبان اتنے وسیع علاقے کے لوگوں کے درمیان رابطے کی زبان ہے جس میں پورا  بّرِ اعظم سما جائے۔۔۔۔‘‘

.53     فش مین، Reversing Language Shif، ص 315  میں اس بات کا ذکر ہے کہ عربی کو نظر انداز کرنے کی غرض سے اسرائیل میں انگریزی کا چلن بے پناہ بڑھا ہے۔

.54     سیلما کے۔ سونتاگ، ‘The Political Saliency of Language in Bihar and Uttar Pradesh’، مطبوعہJournal of Commonwealth & Comparative Politics, 34, 2، (جوییشیلائی 1996 )، ص ص 8-12۔

.55     تھیوڈور پی۔ رائٹ جونیر، ‘Asian Values vs. Post-Modernity; the Media and Human Rights in South Asia’، یہ مقالہ ستمبر 1998 میں  پراگ میں منعقدہ  14th European Conference on Modern South Asia میں  پڑھا گیا۔  فیضان مصطفیٰ، ‘Information Superhighway, Cultural Invasion and Muslim Umma’، یہ مقالہ نومبر 1997  میں بروک پورٹ، نیو یارک میں منعقدہ   26th Annual Convention of the Association of Muslim Social Scientists میں پڑھا گیا۔

٭٭٭

 

 

 

حصّہ دوم۔ II

 

اردو اور شناخت کی سیاست

 

 

 

 

مدرسے اور مسلم تشخص کی تشکیل

 

ارجمند آرا

 

انگریزی روزنامے ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ نئی دہلی کی 17 اگست 2003 کی اشاعت میں شائع شدہ ایک خبر کے مطابق میرٹھ (یوپی) سے کوئی بیس کلومیٹر کی دوری پر واقع بسالہ گاؤں میں ایک مدرسے کے طلبہ نے یومِ جمہوریہ کے موقعے پر اپنے مدرسے پر پاکستانی پرچم لہرایا اور اسامہ بن لادن کے حق میں نعرے لگائے۔ مگر اگلے ہی مہینے ہندی روزنامہ ’’نو بھارت ٹائمز‘‘ میں 30 ستمبر 2003 کو ایک اور خبر شائع ہوئی جس کے مطابق اُس وقت کے فروغِ انسانی وسائل کے وزیر مرلی منوہر جوشی نے وشو ہندو پریشد کے صدر اشوک سنگھل اور ایسے دیگر لوگوں کو چیلنج کیا جو مدرسوں کو شک و شبہے کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ مرلی منوہر جوشی نے مطالبہ کیا کہ آر ایس ایس اور وشو ہندو پریشد جیسی تنظیموں کے لوگ اگر مدرسوں کو دہشت گردی کے کیمپ سمجھتے ہیں تو وہ اس کا ثبوت پیش کریں۔

مدرسوں کی سرگرمیوں پر لاتعداد رپورٹیں ، ان کے حق میں یا پھر مخالفت میں ، ہر طرح کے اخبارات و جرائد میں مسلسل شائع ہوتی رہتی ہیں۔ 1998-2004 کے درمیان، جب مرکز میں بی جے پی برسرِ اقتدار تھی، اُس وقت ایک طرف جہاں لال کرشن اڈوانی جیسا اقلیت دشمن وزیرِ داخلہ مدرسوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے حق میں تھا تو دوسری جانب اس کا نظریاتی بھائی مرلی منوہر جوشی دینی مدارس کی تعریف میں رطب اللسان تھا۔ اپنے بیانات میں وہ بار بار یہ بات کہتا تھا کہ مدرسے علم و تعلیم کے مراکز ہیں اور خواندگی اور تعلیم کے فروغ کے قومی مقاصد کے حصول میں مثبت کر دار نباہتے ہیں۔

ہم اگر ان دونوں لیڈروں کے بہ ظاہر متضاد نظریات کا بہ غور جائزہ لیں تو منطقی طور پر یہ ہمیں ایک ہی دھاگے سے بندھے ہوئے نظر آئیں گے۔ ایسے تضادات کی موجودگی ہمارے موجودہ سیاسی اور معاشی نظام کا خاص وصف ہے۔ ہندوستان ایسے جمہوری نظام کو جہاں نام نہاد عوامی نمائندے حکومت کرتے ہیں ، مختلف گروہوں کے بازار سے تشبیہ دی جا سکتی ہے جن کے مسابقتی رشتوں میں توازن اور ہمواری ہی حکومت کے تسلسل کی ضامن ہوتی ہے۔ عوام کا استحصال کرنے والی ان باہم متضاد قوتوں کا اپنی بقا کے لیے اتنا اصطفائیت پسند (electric) ہونا ضروری ہے کہ وہ مختلف سماجی گروہوں کے شعلہ بیاں بالائی طبقے کو اپنے نظام کا حصہ بنا کر عوام کو فریب میں مبتلا رکھ سکیں۔ اسی دھوکے میں عوام اہل اقتدار کے مفادات کو ہی اپنی فلاح کا ضامن سمجھ بیٹھتے ہیں جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ معاشرے کے تمام پس ماندہ اور پائمال طبقات کسی بھی صورت میں متحد ہو کر استحصالی قوتوں کے خلاف صف آرا نہیں ہو پاتے۔ اس طرح کے استحصال آمادہ نظام میں یہ حکمتِ عملی اختیار کی جاتی ہے کہ پہلے کچھ مقبولِ عام مطالبات،مسائل کو اچھالا جاتا ہے اور پھر کچھ لیڈروں اور بالائی طبقے کو ان مسائل کی نمائندگی کرنے کے لیے سیاسی نظام کا حصہ بنا کر عوام کی تشفی کر دی جاتی ہے۔ اس عمل میں الگ الگ مخصوص تشخص رکھنے والے فرقوں کی ایک مخصوص سانچے میں ڈھلی ہوئی (stereotypical) تصویر کی تشہیر کر کے انھیں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر متذکرہ بالا بیانات میں آر ایس ایس اور بی جے پی کے لیڈروں کا مقصد مسلمانوں کو ایک خاص امیج کے حامل ملک دشمن طبقے کے طور پر پیش کرنا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ مسلمانوں کے ایک علاحدہ اقلیتی طبقے کی امیج کو زندہ رکھا جائے، تاکہ اس ’دشمن‘ کو واضح طور پر پہچانا جا سکے۔ مذکورہ بیانات میں یہ کام مرلی منوہر جوشی نے کیا۔ بی جے پی کے دورِ اقتدار میں اگر مدرسوں کے دفاع میں بیانات دیے گئے تو اسے مذکورہ بالا حکمتِ عملی کی روشنی میں دیکھا جانا چاہیے کیونکہ اقلیتوں کو اقلیت ہی بنائے رکھنے سے سنگھ پریوار کے ہندوتوا کی توسیع کے ایجنڈے کو تقویت مل سکتی ہے۔

بھاجپا کی سربراہی میں بننے والی ہندوستان کی این۔ڈی۔اے۔ حکومت کے مدرسوں کے بارے میں اس دوغلے موقف پر مزید بحث کی گنجائش نہیں ، لیکن اس حکومت کے ایک اور دوغلے رویّے کا ضمنّا تذکرہ ضروری ہے تاکہ سنگھ پریوار کی مذکورہ حکمتِ عملی کو سمجھنے میں مزید مد د مل سکے۔ اس حکومت کی کشمیر پالیسی بھی اس کی اقلیتی پالیسی ہی کی طرح دوغلی تھی۔ جس کے مطابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی تو اپنے دور حکومت میں کشمیر کے لیے نسبتاً زیادہ خود مختاری کے حق میں اکثر بیان دیتا رہتا تھا لیکن اس کا نائب، یعنی لال کرشن اڈوانی آئینِ ہند کے آرٹیکل 370 کو، جو جموں و کشمیر کے علاقے کو خصوصی درجہ دیتا ہے، رد کرنے کا راگ الاپتا رہتا تھا جو آر ایس ایس کا آفیشیل موقف ہے۔ مدرسوں ، اقلیتوں اور کشمیر کے حوالے سے بھاجپا کے موقف پر مزید اظہارِ رائے کے بغیر میں اس ضمنی موضوع پر مزید بحث و تمحیص کے بجائے اصل موضوع کی طرف آتے ہوئے اپنی بات یہاں سے شروع کرنا چاہتی ہوں کہ ہندوستان میں چلنے والے مدارس اپنی خصوصیات اور مقاصد کے اعتبار سے مختلف النوع ہیں ، اور مدرسوں کے بارے میں گفتگو شروع کرتے وقت اس حقیقت کو ذہن نشین رکھنا ضروری ہے۔

11 ستمبر 2001 (جب امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ ٹاور پر دہشت گردانہ حملے ہوئے ) کے بعد امریکہ نے جیسے ہی ’اسلامی دہشت گردی‘ کو اس کا ذمے دار ٹھہرایا، دینی مدرسوں کی جانب دنیا کی نظریں لگ گئیں اور یہ جاننے کی کوشش کی جانے لگی کہ خصوصاً پاکستان اور افغانستان میں واقع مدرسے مذہبی شدت پسندی کی تبلیغ اور عالم گیر دہشت گردی کے کیمپوں کی حمایت میں کس حد تک ملوث ہیں۔ اس صورتِ حال میں ہندوستان کے مدرسے بھی شکوک و شبہات کے گھیرے میں آئے۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ مدرسوں کے نظام کو سمجھے بغیر اس قسم کے الزامات پر کوئی رائے قائم کرنا گمراہ کن ہو گا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہمارے ملک میں پانچ لاکھ کل وقتی مدرسے ملک گیر پیمانے پر چل رہے تھے جن میں تقریباً پانچ کروڑ طلبہ زیرِ تعلیم تھے۔ اس فہرست میں جز وقتی اور شبینہ مدارس شامل نہیں تھے۔ (ماہ نامہ ’اردو دنیا‘ جولائی 2003، ص 7)۔ گزشتہ پانچ برس میں اس تعداد میں یقیناً اضافہ ہوا ہو گا مگر بجائے خود یہ اتنی بڑی تعداد ہے کہ مدرسوں پر لگائے جانے والے مذکورہ الزامات تشویش کا باعث بنتے ہیں۔ گو یہ بات درست ہے کہ ہندوستان کے دینی مدرسوں کو افغانستان اور پاکستان کے مدرسوں کی مانند دہشت گردی کے اڈّے نہیں سمجھا جاتا لیکن ان کے بارے میں بے اطمینانی کا عمومی ماحول پایا جاتا ہے اور بہت سے لوگ یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ یا تو ان مدارس کے بنیادی ڈھانچے میں اصلاحات کی جائیں ، یا ان پر سخت پابندیاں عائد ہوں ، بہ صورتِ دیگر انھیں بند کر دیا جائے۔ اخباروں میں مسلمانوں سے متعلق شائع ہونے والی اکثر خبروں اور مضامین کے ساتھ مدرسوں کے بچوں کی جو تصویریں شائع ہوتی ہیں ان میں وہ پتلی رحل پر کلامِ پاک اور سیپارے رکھے اپنا سبق ازبر کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسی بیش تر تحریروں میں ان بچوں کو ایسے تنگ نظر مذہبی انتہا پسندوں کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو اشارہ ملتے ہی گویا انسانی بم میں تبدیل ہو جائیں گے۔ مدرسے کے اکثر طلبہ کی یہ تصویر کشی یقیناً درست نہیں ہے، لیکن یہ خیال عام ہے کہ مدرسے والوں کا ذہنی افق عموماً وسیع نہیں ہوتا اور وہ ہر جدید شے کے مخالف ہوتے ہیں ، اور یہ زیادہ غلط بھی نہیں ہے۔ تعلیم یافتہ مسلمان اس وقت عجیب بے چینی محسوس کرتے ہیں جب وہ کرتے پائجامے میں ملبوس، ٹوپی لگائے چھوٹی ڈاڑھیوں والے نوجوان طالبِ علموں کو گروہ کی صورت میں مسجد یا مکتب سے نکلتے ہوئے یا کسی مسلمان بھائی کے گھر دعوت کھانے کے لیے جاتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ یہ بے چینی غالباً مسلمانوں کی عمومی تعلیمی پس ماندگی کے سبب ہوتی ہے، لیکن جدید تعلیم یافتہ طبقے کا یہ ردِ عمل کسی ترقی پسندانہ اقدام کے لیے کوئی رہ نمائی نہیں کرتا۔ مسلمانوں کی تعلیمی اور سماجی ترقی کے خواہاں لوگوں کو بدلتے ہوئے عمومی سماجی تناظر میں ایسے بہت سے سوالوں کے جواب تلاش کرنے ہوں گے جو مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی کے بنیادی مسئلے کو سمجھنے میں مد د کریں۔ اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے جو سوال ہمارے ذہنوں میں سب سے پہلے پیدا ہوں گے وہ کچھ اس قسم کے ہوں گے :  کیا حالات ہیں جن کے سبب اتنی بڑی تعداد میں مدرسے وجود میں آئے ؟ ان کی تاریخ اور بقا کی سماجیات کیا ہے ؟ اس کے کیا اسباب ہیں کہ موجودہ ترقی یافتہ سماج میں بھی عہدِ وسطا کے اس ادارے کو مسلمانوں میں غیر معمولی مقبولیت حاصل ہے ؟ عام لوگوں کی بہ نسبت مدرسوں سے وابستہ لوگوں کی مجموعی پس ماندگی اور تعلیم یافتہ مسلم معاشرے سے کٹ جانے کے اسباب کیا ہیں ؟ اس افسوسناک صورتِ حال کے لیے سماجی، سیاسی اور اقتصادی حالات کس حد تک ذمے دار ہیں ؟ یہ اور اس قسم کے بہت سے سوال ہم میں سے بہت سے لوگوں کو پریشان کرتے ہوں گے، خصوصاً ایسے دور میں جب ملک کے مختلف خطوں میں ہر طرح کے مذہبی جنون کو ہوا دے کر فضا کو مسلسل مسموم کیا جا رہا ہے، ایک ایسے مسلمان کے لیے جو تکثیری معاشرے میں ایک جدید ہندوستانی شہری کے طور پر زندہ رہنا چاہتا ہے، یہ صورتِ حال بڑی دشوار گزار ہے۔ اس مضمون میں مذکورہ تمام سوالوں کو ذہن میں رکھ کر خصوصاً ہندوستان میں نظامِ مدارس کو تاریخی تناظر میں سمجھنے اور موجودہ دور میں ان کی افادیت کے تجزیے کی کوشش کی گئی ہے۔

 

ابتدائی دور کے مدارس

عہدِ وسطا میں مسلمانوں کے درمیان کوئی باقاعدہ نظامِ تعلیم رائج نہ تھا۔ صوفی، علما، مشائخ، مصلحین، امرا و رؤسا اپنی خانقاہوں اور ڈیوڑھیوں ہی کو تعلیم و تربیت کے لیے استعمال کرتے تھے۔ ذاتی نوعیت کے ان مدرسوں میں عموماً کوئی فیس نہیں لی جاتی تھی (سید مناظر احسن گیلانی، ’ہندوستان میں مسلمانوں کا نظامِ تعلیم و تربیت ، ندوۃ المصنفین، جامع مسجد دہلی، 1987،ص 35) مدرسوں کے قیام کے تاریخی شواہد فراہم کرتے ہوئے قمرالدین لکھتے ہیں کہ عہدِ سلطنت میں مسلم حکمرانوں اور امرا نے بہت سے مدرسے اور مکتب قائم کیے (’ہندوستان کی دینی درس گاہیں ‘، ہمدرد ایجوکیشن سوسائٹی کا کل ہند سروے، دہلی 1996، ص 34)مسجدوں اور خانقاہوں میں مکتب لازماً چلائے جاتے تھے جہاں طالبِ علموں کو قرآن اور دینی ارکان کی تعلیم دی جاتی تھی۔ امرا کے بچوں کی تربیت کا اہتمام ان کے گھروں میں کیا جاتا تھا۔ مدرسے کے لغوی معنی درس گاہ کے ہیں ، یعنی وہ جگہ جہاں تعلیم دی جائے۔ اصلاً اس لفظ سے کوئی مذہبی یا غیر مذہبی مفہوم مترشح نہیں ہوتا۔ ابتدا میں چوں کہ مذہبی اور دنیاوی تعلیم کے الگ الگ اداروں کا کوئی تصور نہیں تھا اس لیے مدارس میں تفسیر، حدیث اور فقہ کی تعلیم کے ساتھ ساتھ فلسفہ، عروض، قواعد، ریاضی، منطق، تاریخ اور جغرافیہ کی بھی تعلیم دی جاتی تھی۔ اگر کسی طالبِ علم کو کسی مخصوص علم (مثلاً طبِ یونانی) میں مہارت حاصل کرنی ہوتی تو پھر وہ ماہرین سے رجوع کرتا تھا۔ رموزِ سیاست اور سپہ گری جیسے فنون کی تعلیم امرا اور رؤسا تک محدود تھی۔ یہ طرزِ تعلیم ہندوستان میں مسلم حکمرانوں اور مسلم طرز معاشرت کے استحکام کے ساتھ ساتھ فروغ پاتا رہا۔ اکبر پہلا بادشاہ تھا جس نے تعلیم کا ایک علاحدہ محکمہ قائم کیا جہاں ہندو اور مسلمان ایک ہی مدرسے میں پڑھتے تھے، البتہ ان کو الگ الگ نصاب کے انتخاب کی آزادی تھی۔ (سلامت اللہ، ’ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیم‘، مکتبۂ جامعہ، نئی دہلی 1990، ص 31)۔ ہندو اشراف بھی۔۔ جن میں اکثریت برہمنوں اور کایستھوں کی تھی۔۔ اپنے بچوں کو اسلامی تعلیم کے لیے مدرسوں میں داخل کرانے میں کوئی مضائقہ نہ سمجھتے تھے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ عام لوگوں کی تعلیم پر کبھی کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اُس وقت کا سماجی ڈھانچہ ہی اس قسم کا تھا کہ اس میں عوام کی تعلیم پر غور کرنے کا خیال کسی کے ذہن میں آہی نہیں سکتا تھا۔ مسلم اشراف کو اپنے ہم پلّہ ہندو اشراف کی طرح (بلکہ اگر درست لفظ استعمال کیا جائے تو برہمن کی طرح، جو خود کو علم و دانش کے متولی اور امین سمجھتے تھے ) عام مسلمانوں کی تعلیم و تربیت سے کبھی کوئی سروکار نہیں رہا۔ مثال کے طور پر علی گڑھ تحریک کو پیش کیا جا سکتا ہے جو سر سید کی قیادت میں انیسویں صدی کے اواخر میں شروع ہوئی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام پر منتج ہوئی۔ یہ ایک ایسی تحریک تھی جس کا بنیادی تصور مسلم اشراف کو جدید (انگریزی) تعلیم بہم پہنچانا تھا تاکہ وہ اقتدار کے بدلے ہوئے نظام میں شراکت دار ہو سکیں۔ اس تحریک کے ’روشن خیال‘ دانش وروں کے نزدیک عورتوں اور نیچی ذات کے لوگوں کی تعلیم کا سوال کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔ اپنی کئی تحریروں میں سر سیّد احمد خاں نے واضح الفاظ میں عورتوں کی تعلیم کی مخالفت کی ہے۔ ان کے خیال میں عورتوں کو جدید تعلیم دینا ’نا مبارک‘ بات نہیں تھی۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اگر سماج میں مردوں کے حالات درست ہو جائیں تو عورتوں کی حالت از خود درست ہو جائے گی۔ اسی لیے ان کا خیال تھا کہ تمام تر کوششیں صرف مردوں کے تعلیمی اور سماجی حالات کو بہتر بنانے میں صرف کی جانی چاہئیں۔ جنوری 1884 میں گورداس پور (پنجاب) کی عورتوں کی ایک اپیل کے جواب میں انھوں نے کہا کہ:’ ’لڑکوں کی تعلیم پر کوشش کرنا لڑکیوں کی تعلیم کی جڑ ہے۔ پس جو خدمت میں تمھارے لڑکوں کے لیے کرتا ہوں ، درحقیقت وہ لڑکوں لڑکیوں دونوں کے لیے ہے۔ ‘‘ (خطباتِ سر سیّد، جلد اوّل، لاہور، 1972،ص 465-66)۔ دکن میں 1891 میں منعقد ہونے والی محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے چھٹے اجلاس میں ایسے ہی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سر سید نے کہا تھا: ’’جب مرد لائق ہو جاتے ہیں تو عورتیں بھی لائق ہو جاتی ہیں۔ جب تک مرد لائق نہ ہوں ، عورتیں بھی لائق نہیں ہو سکتیں۔ یہی سبب ہے کہ ہم کچھ عورتوں کی تعلیم کا خیال نہیں کرتے، اسی کوشش (لڑکوں کی تعلیم) کو لڑکیوں کی تعلیم کا بھی ذریعہ سمجھتے ہیں۔‘‘ (خطباتِ سر سید، جلد دوم، لاہور، ص 223-24)۔سر سید نے کانگریس کے اس مطالبے کی بھی مخالفت کی کہ متعہدہ عہدوں (Covenanted Posts) پر مقابلہ جاتی امتحانات جو صرف برطانیہ میں منعقد ہوتے تھے، ہندوستان میں بھی منعقد کرائے جائیں۔ سر سید نے اس مطالبے کی مخالفت اس لیے کی کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ اس سے نچلی ذاتوں اور طبقوں کے لوگ ان اعلا عہدوں پر منتخب ہو سکتے ہیں اور ان کا تقرر ’ہندوستان کی شریف قوموں ‘ کو ناگوارِ خاطر ہو گا۔ (مکمل مجموعہ لیکچرز و اسپیچز، لاہور، 1900، ص ص 350-52)۔ ان حوالہ جات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سر سید کا تعلیمی نظریہ عملاً اور اصولاً دونوں ہی سطحوں پر اشرافیہ مسلم طبقات کی تعلیمی فلاح تک محدود تھا۔ تعلیم یافتہ مسلم اشراف جس قسم کے نظامِ تعلیم کو فروغ دینا چاہتے تھے اس کا مقصد دراصل فیوڈل سماج کا تحفظ کرنا تھا۔

سماج کے کمزور طبقات کے تئیں مسلم اشراف کے معاندانہ رویّے نے مسلمانوں میں طبقاتی فرق کو مزید بڑھایا اور علما، قاضیوں ، مولویوں اور حکیموں کے الگ الگ طبقات الگ الگ ذاتوں کی مانند مستقل حیثیت اختیار کر گئے۔ یہ لوگ چوں کہ مسلمانوں کے اعلا طبقے سے تعلق رکھتے تھے اس لیے ذات پات میں یقین رکھنے والے ہندوؤں کی طرح معاشرتی تفریق ان کے بھی شعور کا حصہ تھی۔ حالاں کہ مسلمانوں میں طبقاتی فرق پیشے کی بنیاد پر قائم ہے اور اسلام میں ذات پات  اور چھوت چھات کے لیے کوئی گنجائش نہیں پھر بھی مقامی تہذیبی اثرات سے اور مذکورہ طرزِ تعلیم اختیار کرنے کے سبب ہندوستان میں مسلمانوں میں ذات پات کو خوب فروغ حاصل ہوا اور پورا مسلم سماج دو طبقوں میں تقسیم ہو گیا۔۔ شریف اور رذیل (قمرالدین، ہندوستان کی دینی درس گاہیں ، دہلی 1996، ص 35)۔ مسلمانوں میں تقسیمِ ہندوستان تک یہ غیر تحریر شدہ قانون نافذ تھا کہ رذیلوں میں سے کوئی بھی شخص — مثلاً نائی،قصائی، بڑھئی، لوہار، جُلاہا وغیرہ۔۔ کسی مسجد کا امام یا شہر کا قاضی نہیں بن سکتا تھا۔ قاضیوں کی حد تک یہ روایت اب بھی قائم ہے۔ اس پس منظر میں اگر دیکھا جائے تو مسلمانوں کا تعلیمی نظام اپنے خلقیے میں ہندوؤں میں مروّج تعلیمی نظام سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھا جہاں پاٹھ شالاؤں اور گرو کُلوں میں صرف برہمن اور دُوِج ہی داخل ہونے کے مجاز تھے۔ ہندو اور مسلم دونوں فرقوں کے نظام ہائے تعلیم صرف اعلا طبقات کے لیے ہی دستیاب تھے۔

چونکہ انگریزوں کی حکومت میں مغرب سے آنے والے افکار و تصورات کا اثر معاشرے پر پڑنا ناگزیر تھا اس لیے مسلمانوں کے نظامِ تعلیم میں بھی تبدیلیاں آئیں ، البتہ جدید تعلیم کی تمام برکتیں اعلا طبقات ہی تک محدود رہیں۔ ہر سماجی نظام کی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ حاشیے پر جینے والے لوگ مقتدر طبقے کی تہذیب کو تحسین کی نظروں سے دیکھتے اور اسے اختیار کرنا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے صاحبِ اقتدار طبقے کی تہذیبوں کی توسیع اور غلبے کا عمل مسلسل جاری رہتا ہے۔ ماہرینِ سماجیات بھی مختلف سماجی گروہوں کے طرزِ زندگی کے مطالعات و مشاہدات کے ذریعے یہ ثابت کر چکے ہیں کہ کم ترقی یافتہ طبقے ہمیشہ آگے بڑھنے اور برسرِ اقتدار طبقے کی تہذیب و ثقافت کو اختیار کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ ہندوستان میں مسلم حکمرانوں کے زوال سے پہلے تک غیر مسلموں کے اعلا طبقات، بالخصوص کایستھ، مسلمانوں کے طرز معاشرت کو اختیار کرنا مستحسن تصور کرتے تھے اور مسلمانوں کے طرز تعلیم کو فخر و مباہات کے ساتھ اختیار کیا جاتا تھا۔ اُس زمانے میں اسلامیات کے غیر مسلم علما کے ہونے کی مثالیں بھی عام طور پر اس لیے مل جائیں گی کیوں کہ یہ علما اپنے تہذیبی رویوں میں اعلا مسلم طبقے سے قطعی مختلف نہ ہوتے تھے۔

 

برطانوی حکومت کے اثرات

برطانوی راج قائم ہوا تو ہندوستانی معاشرے میں زبردست تبدیلیاں آنا شروع ہو گئیں۔ تعلیمی نظام اس وجہ سے کچھ زیادہ ہی متاثر ہوا کہ برطانوی حاکموں نے اپنے مفادات کے پیش نظر عوامی تعلیم کی طرف توجہ کی۔ لیکن جیسے ہی جدید یا مغربی تعلیم کا نفاذ ہونا شروع ہوا ’نئی تہذیب‘ اور نئی تعلیم کے خلاف ایک زبردست تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا (گیلانی، ص ص 302-3/17-18) جن لوگوں کو بدلتے وقت کے ساتھ بدلنا منظور نہ تھا انھوں نے بہاؤ کے خلاف تیرنے کی کوشش کی۔ روایتی تعلیمی ادارے اور مدرسے بھی اس نئی تہذیب اور نئی تعلیم کے خلاف تھے اور آہستہ آہستہ ان میں سے کئی ادارے ایک طرح سے سامراجی حکومت کے خلاف مدافعت کی علامت بن گئے۔ انگریزوں کے خلاف ان کی یہ مدافعت اور مخالفت بعد میں تحریکِ آزادی میں مدرسوں کی شمولیت پر منتج ہوئی۔ دیوبند تحریک، وہابی تحریک اور خلافت تحریک کا مطالعہ اس پس منظر میں کیا جانا چاہیے۔ لیکن دینی مدرسوں کے ذریعے انگریزوں کی مخالفت کا ایک اور نتیجہ یہ بھی سامنے آیا کہ مشرقی تہذیب اور تعلیم کی حمایت کرتے کرتے وہ اپنے مقاصد اور نظریات میں مزید شدت پسند ہو گئے اور انھوں نے ہر قسم کے مغربی علوم کے دروازے اپنے اوپر بند کر لیے۔ اس طرح آہستہ آہستہ ان کے نصابات معاصر معاشرے کی ضرورتوں کے مطابق نہ رہے۔

تبدیل شدہ سیاسی حالات کے سبب مغربی تعلیم کا فروغ لازمی تھا۔ مغربی تعلیم اور طرزِ زندگی کو خصوصاً ان لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا جو برطانوی راج کے نئے ملازمتی شعبوں میں شامل ہونے کے خواہاں تھے۔ ان نئی تبدیلیوں کے ساتھ وطن پرستی اور وفاداری کے سوال بھی اٹھائے جانے لگے تھے اور یہ بھی سوال تھا کہ نئے حالات میں کون سا راستہ اختیار کیا جائے۔ ہندوستان میں کسی بھی مذہبی فرقے میں اس سوال پر اتفاقِ رائے نہ تھا۔ کچھ لوگ اپنے روایتی نظامِ تعلیم اور عہدِ وسطا کی اقدار سے وابستہ رہے تو کچھ لوگ نئی تعلیم اور مغرب کے حامی ہو گئے۔ آخرالذکر لوگوں میں بیش تر آسودہ حال اور اعلا طبقے کے لوگ شامل تھے۔ مثلاً سر سید احمد خاں جدید مغربی تعلیم کے ایک زبردست حامی کے طور پر میدان میں آئے۔ وہ یہ مانتے تھے کہ سائنسی علوم کا حصول ترقی کا زینہ ہے اور سائنسی علوم تک رسائی صرف انگریزی زبان کے ذریعے ہو سکتی ہے۔

سماج میں ایک بڑی تبدیلی بھی آ رہی تھی۔ انصاف و مساوات کے نئے پیمانوں کے طفیل عام لوگوں کے لیے بھی نئی تعلیم کی راہیں کھلنے کے امکانات بڑھ گئے تھے۔ بیداری کی یہ نئی لہر آنے کے سبب عام لوگ بھی بہتر طرز زندگی اختیار کرنے کی توقع کرنے لگے۔ نسبتاً پسماندہ اور غیر تعلیم یافتہ مسلم عوام نے یہ توقع اپنے بچوں کو تعلیم کے لیے دینی مدرسوں میں بھیج کر پوری کی جن کو وہ علم و دانش کے اعلا ترین مراکز خیال کرتے تھے۔ اس صورتِ حال نے اُن عام مسلمانوں کے طرز فکر پر نمایاں اثر ڈالا جن کے حالات بصورتِ دیگر اپنے ہم پلہ ہندو بھائیوں سے قطعی مختلف نہ تھے۔ اس نئی تعلیمی تبدیلی کے سبب مذہب اور مذہبی تشخص کے لیے بھی ایک بیداری پیدا ہونے لگی۔ بنگال اور شمالی ہند میں نشاۃ ثانیہ کا طلوع ہونا تہذیبی اور مذہبی شناخت کی اسی بیداری کی لہر کا نتیجہ تھا۔ شناخت کے لیے بیداری کی اس لہر نے اتنا زور پکڑا کہ وہ لوگ بھی جو جدید نقطۂ نظر رکھتے تھے اور سائنس کی تعلیم کے حامی تھے، مذہبی اور سیکولر تعلیم کو یکجا کرنے کی وکالت کرنے لگے تھے (سلامت اللہ، ’ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیم‘، مکتبہ جامعہ، نئی دہلی، 1990، ص 55۔)

اشرافیہ کا یہ طریقِ واردات عام ہے کہ وہ تمام شعبہ ہائے زندگی پر حاوی رہنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کلّیے کے مطابق مسلم اشراف نے نظامِ مدارس کے ساتھ ساتھ نئی تعلیم کی درسگاہوں پر بھی اپنی گرفت مضبوط کی۔ روایتی تعلیم کے عالموں اور مبلّغوں کی صورت میں ، جہاں ایک طرف انھوں نے اپنے دینی بھائیوں پر گرفت مضبوط رکھی وہیں دوسری طرف اپنے بچوں کو اعلا تعلیم کے لیے ولایت بھیجنے کا بھی کوئی موقع انھوں نے نہیں گنوایا۔ مثال کے طور پر اردو کے مشہور شاعر اکبر الہٰ آبادی، جنھوں نے مغربی تہذیب کی مخالفت میں اکثر غیر معقولیت کی حد تک سخت موقف اختیار کیا اور اپنے بیٹے کو اعلا تعلیم کے لیے اس برطانوی کلچر کے حوالے کر دیا، اپنی شاعری میں وہ جس کے شدید مخالف تھے۔

جدید تعلیم کے رجحان کو فروغ ملنے کے بعد عمومی صورتِ حال کچھ یوں بنی کہ اعلا طبقے کے اکثر مسلمان تو نئی تعلیم کی طرف راغب ہوئے اور نچلے طبقات کے مسلمانوں نے مدرسوں کا رخ کیا۔ ان میں سے بیش تر چوں کہ نیم خواندہ یا ناخواندہ گھرانوں سے آتے تھے اس لیے عربی اور فارسی کا نصابِ تعلیم ان کے لیے ایک مسئلہ بن گیا۔ ان کی تعلیم کا بیش تر وقت ان زبانوں کو سیکھنے میں صرف ہو جاتا تھا اور اکثر صورتوں میں وہ ان میں درک حاصل نہیں کر پاتے تھے۔ اس وجہ سے دینی مدارس کا معیارِ تعلیم بتدریج زوال کی سمت بڑھنے لگا۔ یہی وہ دور تھا جب مغل حکومت کا زوال بھی اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہا تھا اور فارسی زبان مقتدر طبقے کی زبان کے طور پر اپنی حیثیت کھو رہی تھی اور اس کی جگہ اردو چلن میں آ چکی تھی۔ لیکن ابھی وہ وقت نہیں آیا تھا کہ جب دینی مدارس کے نصاب کے اردو ترجمے کے بارے میں غور کیا جاتا۔ نئے تعلیم یافتہ طبقے کو اس کا ذرا بھی احساس نہ ہوا کہ عربی فارسی کے چلن سے باہر ہونے کے سبب تعلیمی معیار کتنی تیزی سے گر رہا ہے، اور اگر انھیں احساس ہو بھی جاتا تو بھی اس کو بچانے کے لیے شاید وہ کچھ بھی نہ کر پاتے۔

نئے سیاسی نظام میں جب سیاست کے روایتی ڈھرے چرمرائے تو مسلم اشراف کو مسلم عوام پر سے اپنے اقتدار کی ڈور پھسلتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔ صورتِ حال کو قابو میں رکھنے کے لیے لازم تھا کہ کوئی موثر حربہ استعمال کیا جائے۔ مذہب ایک ایسا حربہ تھا جس کا استعمال وہ مسلم عوام پر اپنا رسوخ قائم رکھنے اور ساتھ ہی مغربی اثرات کو دور رکھنے کے لیے کر سکتے تھے۔ بہ صورتِ دیگر اس بات کا قوی امکان تھا کہ آئندہ دنوں میں عام مسلمان تک نئی تعلیم کی رسائی ان کے سماجی نظام کو زیر و زبر کر دے۔ وہابی اور دیوبند تحریکوں سے لے کر (جن کا مقصد مسلم حکمرانی کی عظمتِ رفتہ کے احیاء کے لیے جدوجہد کرنا تھا) علی گڑھ تحریک اور تحریکِ خلافت تک، سبھی نے عوام کی سیاسی بے چینی اور اقتصادی بدحالی کا فائدہ اٹھا کر اپنے اپنے رسوخ کو بڑھانے کی کوششیں کیں۔ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ان تحریکات نے مسلمانوں کی علاحدہ قومی شناخت یا مذہبی تشخص پر سب سے زیادہ زور دیا کیوں کہ یہی وہ شعبہ تھا جو اُن کے مقاصد کے حصول کی راہ ہموار کرتا تھا۔

 

مسلم تشخص کی تشکیل اور مذہبی تنظیمیں

اس طرح وقت کے ساتھ مسلمانوں میں جو نظامِ تعلیم مروج ہوا وہ دراصل زمیں داری نظام کا ایک ضمنی نتیجہ تھا۔ اصولاً ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آزادی کے بعد ہندوستان میں جمہوریت اور روشن خیالی کی نئی اقدار کے ساتھ یہ تعلیمی نظام آہستہ آہستہ کمزور ہو کر زوال پذیر ہو جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ دوسری جانب جماعتِ اسلامی جیسی تنظیموں نے، جن کا ایک مقصد مذہب کے نام پر جاگیرداروں کے حقوق کی نمائندگی اور تحفظ بھی تھا، مسلم عوام کے سیاسی اور مذہبی معاملات پر حاوی ہونے کی کوششیں شروع کر دیں۔ مذہب کے لبادے میں جماعتِ اسلامی نے آمرانہ طرزِ حکومت کی کھل کر حمایت کی۔ جیسے جیسے آزادی، یعنی جمہوریت کی منزل قریب آ رہی تھی ویسے ویسے مسلمانوں کی مذہبی سیاسی تنظیمیں مذہب کی آڑ میں جاگیردارانہ نظام کی بقا کے لیے سرگرم ہو رہی تھیں۔ پاکستان کے قیام کی راہ ہموار کرنے میں اس قسم کی کوششوں کے عمل دخل کا مطالعہ دل چسپی سے خالی نہیں ہو گا۔ یہ مذہبی جماعتیں جاگیرداری نظام کی بقا کے لیے جاگیرداروں کے ساتھ کس قسم کی سازشوں میں مصروف تھیں ، اس کا ایک دستاویزی ثبوت جماعتِ اسلامی کے بانی مودودی کا درجِ ذیل بیان ہے جو اس کی کتاب ’’رسائل و مسائل‘‘ میں موجود ہے :

’’بلاشبہ اسلامی قانون انفرادی حقِ ملکیت کو تسلیم کرتا ہے۔ قومی ملکیت کی اسکیم کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر یہ کہاں درست ہے کہ کوئی پارلیمنٹ ایک حکم کے ذریعے سے اراضی اور دیگر ذرائع پیداوار پر سے افراد کے نجی حقوق کو ساقط کر کے ان پر اجتماعی حقوق  قائم کر دے ؟ زمین کی ملکیت اور جاگیروں کے بارے میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ زمینی جائیداد اور جاگیر کی کوئی حد مقرر نہیں کی جا سکتی۔ اگر پیداوار کے دیگر ذرائع مثلاً ملوں اور فیکٹریوں کی بات کی جائے، تو ان کے قومیانے کا تصور ہی اسلام کے بنیادی نظریے کے یکسر خلاف ہے۔ ‘‘ (بحوالہ کے ایم اشرف،An Overview of Muslim Politics in India  مانک پبلی کیشنز، نئی دہلی 2001، ص 143)

مذہب کے نام پر اس قسم کے پروپیگنڈے نے ناخواندہ عوام کو خاموش کر دیا، یہی سبب ہے، برِصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان میں ، جسے مذہبی تنظیموں کی حمایت حاصل تھی، جمہوریت اپنے قدم کبھی نہ جما سکی اور سارا سیاسی نظام جاگیرداروں اور فوج کے ہاتھ میں چلا گیا، بلکہ فوج پر بھی جاگیرداروں ہی کا تسلط قائم رہا۔ یہ تاریخی حقیقت بھی جاگیرداروں اور جماعت اسلامی جیسی تنظیموں کے باہمی تعلق کی عکاس ہے۔

اس دوران رفتہ رفتہ مدرسوں کا تعلیمی نظام پھیلتا رہا، ساتھ ہی مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی پیش عملی نے بھی مسلم تشخص کی تشکیل میں فعال کر دار ادا کیا۔ آزادی کے بعد کے اس اہم دور میں ، جب تمام معاشرہ نظامِ کہنہ کو خیرباد کہہ کر نئی اقدار کی تعمیر کے عمل سے گزر رہا تھا، مسلمانوں کی امیج ایک روایتی، بنیاد پرست اور اپنے ہی خول میں بند رہنے والے فرقے کے طور پر بن رہی تھی۔ ایسے ماحول میں مذہبی تعلیم مفاد پرست مذہبی رہنماؤں کا ہتھیار بن گئی اور انھوں نے اسلام کی صرف ایسی تعلیمات کی تبلیغ کو فروغ دیا جو انھیں اپنے مفاد میں سب سے بہتر نظر آئیں — ی٭مثلاً یہ کہ عام لوگ ائمہ اور علما کے اختیارات کے بارے میں کسی قسم کے سوال نہ اٹھائیں اور مذہبی معاملوں میں عقلیت پسندی کو راہ نہ دی جائے۔ علما نے حقوقِ عباد کے مقابلے میں دینی ارکان کی پابندی پر مصلحتاً زیادہ زور دیا اور ہر مذہبی فریضے کی ادائیگی کے بدلے میں عالمِ بالا میں بے شمار ثواب ملنے کے خواب دکھائے تاکہ دنیا اور اس کے معاملات پس منظر میں چلے جائیں ، اور ان مسائل اور ان کے اسباب پر غور کرنے کا عام لوگوں کو موقع نہ ملے۔ نیم تعلیم یافتہ عوام کے لیے ایسی بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں درج طریقوں کے مطابق مذہب پر عمل پیرا ہونے کی ہدایت کی گئی ہے۔ تبلیغی جماعت نے از خود یہ ذمے داری لے لی کہ وہ ’’تبلیغی نصاب‘‘ کی مد د سے ناخواندہ اور بے علم مسلمانوں کے درمیان مذہب کے اس تصور کا پیغام عام کرے گی جس پر تبلیغی جماعت کے عمائدین نے اصرار کیا ہے۔ جماعت کے تبلیغی نصاب میں نماز، روزہ، حج جیسے فرائض کے فضائل بیان کرنے کے علاوہ تبلیغ کے فوائد بھی بیان کیے گئے ہیں جن میں بہت سے جھوٹے سچّے اور من گھڑت قصوں کی مد د سے ایک مبینہ سچّے  مذہب پر چلنے کی راہ دکھائی گئی ہے۔ قرآن کا حوالہ دے کر تبلیغی جماعت کے لوگ یہ تو تبلیغ کرتے ہیں کہ جو لوگ ایمان والے ہیں اور جنھوں نے عملِ صالح کیا، اُن کو اللہ زمین پر اقتدار بخشے گا، ان کو حیاتِ طیّبہ دے گا (مولانا وحید الدین خاں ، تبلیغی تحریک، نئی دہلی 1994،ص 21) لیکن اس مبینہ اقتدار کی نوعیت کیا ہو گی اس پر وہ خاموش ہیں۔ تبلیغی جماعت کے مبلغین کا تقاضا اپنے پیروکاروں سے یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی لوحِ تقدیر پر مکمل یقین رکھیں یعنی اپنے آپ کو پوری طرح سے تقدیر کے حوالے کر دیں ، اور بدحالی اور غریبی میں بھی صبر و قناعت سے کام لیں کیوں کہ صبر کرنے والوں کو مرنے کے بعد بہتر زندگی ملے گی—بالواسطہ اس پیغام کا یہ مطلب ہوا کہ تقدیر چوں کہ پہلے ہی لکھی جا چکی ہے، اس لیے حالات کو بدلنے یا بہتر بنانے کی ساری تدبیریں بیکار ہی ہوں گی،تقدیر کو چپ چاپ تسلیم کر لینا چاہیے۔ دنیا سے بے رخی، عالمِ بالا کی بہتر زندگی اور صبر و قناعت کی تلقین و تعلیم میں غریبوں کے لیے بڑی کشش ہوتی ہے کیوں کہ یہ خیال ہی ان کے لیے باعثِ تسکین ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد ہی سہی، کبھی تو ان کے دن پھریں گے۔ انھیں یقین ہوتا ہے کہ صبر و قناعت کی وجہ سے خدا انھیں زیادہ عزیز رکھتا ہے اس لیے معاشی بدحالی کے تدارک کی طرف ان کا دھیان نہیں جاتا۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان میں اسلام کا الگ رنگ ہے تو اس سے مراد تقدیر پرست مسلمانوں کے اسلام سے ہوتی ہے (کیوں کہ عرب دنیا کے صاحبِ ثروت لوگوں کا اسلام تو یکسر مختلف ہے جس میں ہر طرف امارت اور وسائل کی فراوانی آنکھوں کو خیرہ کرتی ہے۔ ) اس طرح تقدیر پرستی کا یہ طرزِ فکر عام لوگوں کو بدلتے ہوئے حالات کے مطابق نئے راستے دکھانے کے بجائے حاشیے پر دھکیلتا رہتا ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی سماجی اور تعلیمی پس ماندگی اسلام کے اسی ہندوستانی برانڈ کا ایک براہِ راست نتیجہ بھی کہی جا سکتی ہے۔

انگریزوں کے لائے ہوئے نئے تعلیمی نظام اور مسلم تعلیمی نظام میں بہ ظاہر جو کشاکش نظر آتی ہے اس کا سارا فائدہ زمیں داری نظام کے پروردہ مسلمانوں کے اعلا طبقے کو پہنچا ہے۔ اس طبقے نے ایک طرف تو مسلمانوں پر اجارہ داری قائم رکھی اور دوسری طرف نئے حالات کے مطابق خود کو ڈھال کر شریکِ اقتدار ہونے میں بھی کامیاب ہوئے۔

 

دینی  مدارس اور ترقی

جاگیردار اشراف نے روایتی تعلیم کی آبیاری غریبوں کے لیے ضرور کی لیکن اس طرح کہ اس پر ان کی گرفت بھی مضبوط رہے۔ غالباً اس کا ایک سبب یہ تھا کہ جاگیرداروں کے اقتدار کی بقا دراصل ایک ایسے نظام کی بقا میں مضمر تھی جس میں جاگیردارانہ اقدار قائم و دائم رہ سکیں۔ پس ماندہ مسلمانوں کو جاگیردارانہ اقدار کے پروردہ مسلم رہ نماؤں نے بار بار یہ یقین دلایا کہ ان کا سب سے زیادہ قیمتی سرمایہ، یعنی اسلام خطرے میں ہے۔ اس لیے عام مسلمانوں کا ایک نکاتی ایجنڈا یہ رہا کہ وہ روایتی تعلیمی نظام (یعنی مدارس) کی ہر طرح سے حفاظت کریں اور اسے ختم نہ ہونے دیں کیوں کہ ان کے خیال میں مدرسوں کی بقا میں ہی دراصل اسلام کی حفاظت مضمر تھی۔ آج بھی یہ تصور مسلمانوں کے درمیان عام طور پر رائج ہے کہ مدرسے ہی دراصل وہ ادارے ہیں جنھوں نے اسلام کو بچانے میں سب سے اہم کر دار ادا کیا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ بیچارہ مسلمان جو مدرسوں کو اسلام کا محافظ سمجھتا ہے اس کا ذہن اس سامنے کی حقیقت کو نہ دیکھ سکا کہ وہ اکثر حضرات جنھوں نے انھیں مدرسوں کے نظام تعلیم کی طرف راغب کیا، خود اپنے بچوں کو انگریزی تعلیم کے پرائیویٹ اسکولوں ، یعنی مہنگے پبلک اسکولوں اور عیسائیوں کے ذریعے چلائے جانے والے کانونٹوں میں بھیج رہے ہیں۔ ان میں سے اکثر اعلا تعلیم کے لیے یورپ اور امریکہ تک جاتے ہیں۔ مسلم عوام کی عمومی سیاسی کم فہمی اور تعلیمی پس ماندگی کے سبب یہ روایتی تعلیمی نظام آج بھی اسی طرح سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے جس طرح یہ آزادی سے پہلے تھا۔ تبدیلی صرف اتنی واقع ہوئی ہے کہ اب ہندوستان میں یہ نظام جن لوگوں کے ہاتھ میں ہے ان میں ایسے بھی لوگ مل جائیں گے جنھوں نے سینٹ اسٹیونز کالج اور دہلی پبلک اسکول جیسے مثالی اداروں میں تعلیم پائی لیکن اپنا حلقۂ اثر بڑھانے کے لیے غریبوں کی اسلام سے وابستگی کو اپنا مقصد بنایا (چند برس پہلے میری ملاقات جمعیۃ العلمائے ہند کے صدر دفتر، دہلی میں سینٹ اسٹیونز کالج کے سابق طالبِ علم سے ہوئی جو اب وہاں ایک اہم عہدے پر فائز ہیں۔ یقیناً اس کیریئر کے سبب انھیں جلد یا بہ دیر کوئی نہ کوئی قائدانہ رول بھی مل جائے گا اور کم از کم سماج میں ایک منفرد معزز مقام تو مل ہی گیا)۔ علماء اور مولویوں کے خاندانوں میں مذہب سے باہر شادی کرنے کی بھی مثالیں مل جائیں گی۔ ہر سیاسی پارٹی بہ مع بھارتیہ جنتا پارٹی کے مفاد کے لیے مسجد کے اماموں کی سیاست کرنے والے مولانا جمیل الیاسی کے صاحبزادے صہیب الیاسی کی مثال بالکل سامنے کی مثال ہے۔ وہ معروف ٹی وی اینکر ہے، انگریزی تعلیم یافتہ ہے، اور اس نے ایک غیر مسلم خاتون سے شادی بھی کی جس کی موت کے بعد وہ آج تک اس شک کے دائرے سے باہر نہیں کہ اس نے اپنی بیوی کو قتل کیا۔ یہ طرزِ زندگی ہندوستان کے بڑے شہروں میں رہنے والے اعلا متوسط طبقے کے بعض ہندو یا مسلمان لوگوں سے کس طرح مختلف ہے ؟

جملۂ معترضہ برطرف۔ اس طرح مدرسوں کا ارتقا ایسے اداروں کی صورت میں ہوا ہے جہاں عموماً وہ غریب مسلمان بچے پڑھتے ہیں جن کے لیے کسی اور ذریعے سے تعلیم حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ مدرسوں کے تمام اخراجات، طلبہ کے کھانے پینے اور رہائش کے انتظامات مسلمانوں کے دیے ہوئے عطیات اور زکوٰۃ سے کیے جاتے ہیں لیکن نظام کچھ ایسا بن گیا ہے کہ طلبہ کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کے سوا کسی اور قسم کی سہولتیں انھیں فراہم نہیں کی جاتیں اور اس طرح مدارس کی آمدنی کا زیادہ حصہ مہتممین ڈکار جاتے ہیں۔ علم کے حصول کے لیے دوسری سہولتوں سے محروم ان طالبِ علموں کو تین سو برس سے بھی زیادہ قدیم درسِ نظامی پڑھایا جاتا ہے جس کے سبب طالبِ علم عصرِ حاضر کے علوم سے نابلد رہتے ہیں اور نتیجتاً آج کی ضرورتوں اور چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہو پاتے۔ نہایت دقیق اور از کار رفتہ عربی اور فارسی نصاب کی کتابوں سے طالبِ علموں کو شاید ہی کوئی دل چسپی ہو۔

تعلیمی اور سماجی طور پر پس ماندہ طبقات سے آنے والے بہت سے طالبِ علموں کے لیے مدرسے کی تعلیم مذہبی مدرس کے طور پر روزگار کی ضمانت بن جاتی ہے۔ قصبوں اور دیہاتوں کی مسجدوں میں موذن، امام اور مدرّس کے طور پر انھیں کام مل جاتا ہے۔ یہ نظام سیکڑوں برس سے اسی طرح جاری و ساری ہے۔ چھوٹے چھوٹے مدرسے آج بھی جگہ جگہ کھل رہے ہیں اور ان میں مدرسوں کے فارغین کو روزگار بھی مل جاتا ہے۔ اس کا لامحالہ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اپنے آپ میں مطمئن پس ماندہ مسلمان اپنے حقوق کے لیے سرکار سے کوئی مطالبہ نہیں کرتے اور ان کا ایک بڑا حصہ حکومت کی اس توجہ سے محروم ہے جو دوسرے پس ماندہ طبقات کو حاصل ہے۔ اسلام جو اپنے ماننے والوں سے جدوجہد اور حرکت کا مطالبہ کرتا ہے، مسلم معاشرے میں ہر طرح کی بے عملی کا استعارہ بن کر رہ گیا ہے تو اس کی وجہ وہی تعلیم ہے جو صبر و قناعت اور استغنا کے نام پر مسلمان کو دی جاتی رہی ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہندوستان کی سرزمین پر جمہوری نظامِ حکومت کے استحکام کے ساتھ مدارس کے اس روایتی نظام کی اہمیت آہستہ آہستہ کم ہو جاتی اور نئی تعلیم کے دروازے سب طبقات کے لیے کھل جاتے لیکن کئی وجوہ سے ایسا نہ ہو سکا۔ نام نہاد جمہوری حکومتوں نے مسلمانوں کی فلاح کے معاملات میں بے حسی کی پالیسی اختیار کی اور اس طرح اکثر مسلمان تعلیمی اور معاشی طور پر پس ماندگی میں جیتے رہے۔ جاگیرداروں کے شدید احتجاج کے باوجود آزاد ہندوستان میں جس سیاسی عزم کے ساتھ زمیں داری کا خاتمہ کیا گیا تھا اگر اُسی عزم کے ساتھ مسلمانوں کے درمیان نئی تعلیم کو متعارف کرانے کا کوئی منصوبہ بنایا جاتا تو شاید حالات مختلف ہوتے۔ حکومت کی بے حسی کا نتیجہ یہ ہوا کہ زمیں داری کے خاتمے کے باوجود مسلمانوں کے سماجی ڈھانچے میں اور اس طرز معاشرت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی جس پر مذہب اور مذہبی اداروں کی اجارہ داری تھی۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ نیا جمہوری سیاسی نظام ایک ایسی موثر متبادل تعلیمی پالیسی تیار کرتا جس میں مسلمانوں میں نئی تعلیم بھی مروج ہوتی اور عام مسلمان بھی یہ محسوس نہ کرتے کہ ان کی مذہبی شناخت معدوم ہو رہی ہے۔ یہ کام ان کی تہذیبی شناخت کی حفاظت کے اقدام کر کے کیا جا سکتا تھا۔

تاریخی حالات بھی کچھ اس طرح کے رہے ہیں کہ تقریباً تمام ہندوستان کے مسلمان اردو زبان کو اپنی تہذیبی اور مذہبی شناخت کی ایک اہم علامت مانتے ہیں۔ اردو مسلمانوں تک کن حالات میں محدود ہو گئی اور صرف انھی کی شناخت کیسے بن گئی، یہ ایک علاحدہ اور پیچیدہ بحث ہے جس میں پڑنے کی گنجائش اس مضمون میں نہیں ہے۔ لیکن یہ بتانا ضروری ہے کہ آزادی ملنے کے ساتھ ہی تقسیمِ ہندوستان اور قیامِ پاکستان کے سبب تمام سرکاری اسکولوں سے اردو زبان کی تعلیم کا نظم بہ یک جنبش قلم اس لیے ختم کر دیا گیا تھا کیوں کہ اردو پاکستان کی سرکاری زبان بن گئی تھی۔ مسلمانوں کے خلاف ماحول اس طرح سے بنا کہ جمہوری نظام نافذ ہونے کے باوجود مسلمان عملی طور پر دویم درجے کے شہری بن گئے اور ان کو اکثریتی تعصب کے عتاب کا نشانہ بننا پڑا۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ اس حقیقت کو بھلا کر کہ اردو مسلمانوں اور ہندوؤں کی مشترکہ تہذیبی وراثت ہے اور جد و جہدِ آزادی میں اس زبان کے ادب، صحافت اور اس کے بولنے والوں کا نمایاں کر دار رہا ہے، اردو کو اور اس کو اپنی زبان کہنے والے مسلمانوں کو ہندوستان کی نئی جمہوری حکومت نے یہ سزا دی کہ اس زبان کے تعلیمی نظم کا یکسر خاتمہ کر دیا۔ آئندہ برسوں میں مسلمان اسی خوف میں جیتے رہے کہ آہستہ آہستہ ان کی تہذیبی اور مذہبی شناخت بھی ختم کر دی جائے گی۔ اسکولوں میں جو نظام تعلیم رائج ہوا، ایک تو وہ کافی حد تک فرقہ وارانہ خطوط پر مرتب کیا گیا تھا، دوسرے اس میں سے اردو کو جس طرح خارج کیا گیا اس کے سبب مسلمانوں کے یہ خدشات بے جا نہ تھے کہ اس تعلیمی نظام میں ان کے بچے اپنی شناخت کھو بیٹھیں گے۔ سیکولر جمہوری حکومت کی ذمے داری تھی کہ مذہبی اور تہذیبی شناخت ختم ہونے کے اس خوف کو دور کرنے کے لیے پرائمری سطح پر اردو زبان والوں کے لیے اردو کو ذریعۂ تعلیم رکھا جاتا مگر اس مطالبے اور اس کے نفاذ کے لیے جس سیاسی بصیرت کی ضرورت تھی وہ ہندوستان کے مسلم سیاسی رہ نماؤں میں موجود نہ تھی۔ اس بے یقینی کے ماحول میں ، اور سرکار کے معاندانہ رویے کے ردِّ عمل میں دینی مدارس کے نظام کو نئی قوت اور توانائی ملی۔

اس پس منظر کو سمجھے بغیر مدرسوں کو تنگ نظر اور کٹّر ادارے کہہ دینا اس حقیقت کے باوجود مسئلے کا بڑا سہل پسندانہ تجزیہ ہو گا کہ دینی مدارس تنگ نظر اور کٹّر ہی نہیں ہیں بلکہ اب ان کے فارغین دہشت گردانہ سرگرمیوں میں بھی ملوث ہیں۔ مدرسوں کی صحیح صورت حال کا اندازہ کرنے سے ان کے ساختیاتی ڈھانچے کو سمجھنے میں بھی مد د ملے گی۔ مثال کے طور پر مکتب کو لیجیے جہاں بچے کو قرآن پڑھانے کے ساتھ مذہبی ارکان کی بھی تربیت دی جاتی ہے۔ مکتب تقریباً ہر محلّے کی مسجدوں میں کل وقتی یا جز وقتی طور پر چلائے جاتے ہیں اور ان میں پڑھنے والے طالبِ علم بھی ہر طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ عموماً اسکول میں کلاسیں کرنے کے بعد ہی طلبہ جز وقتی مکتبوں میں مذہب کی تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں۔ اصطلاحی دینی مدرسوں کا نمبر اس کے بعد آتا ہے، جہاں کل وقتی مذہبی تعلیم دی جاتی ہے۔ اصطلاحی دینی مدارس کا ایک علاحدہ اور مستقل بالذّات نظامِ تعلیم ہے۔ گاؤوں ، قصبوں اور شہروں سبھی جگہ مدرسے قائم ہیں جو رہائشی اور غیر رہائشی دونوں طرح کے ہوتے ہیں۔ ان کے اخراجات زیادہ تر زکوٰۃ اور عطیات پر منحصر ہوتے ہیں۔ رہائشی مدرسوں میں عموماً بے حد غریب طبقات کے بچے آتے ہیں اور اس طرح یہ مدرسے غریب بچوں کی پرورش کا ذریعہ بھی بن جاتے ہیں۔ بہت سے یتیم خانے بھی اپنے یہاں اسی طرح کی مذہبی تعلیم کا اہتمام کرتے ہیں۔

مذہبی تعلیم کے اعلا ترین ادارے وہ ہیں جن کو ہم مذہبی دانش گاہوں سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ تمام مسالک کے لوگوں نے ضرورت کے مطابق وقتاً فوقتاً اپنے یہ ادارے قائم کیے اور اب یہی دارالعلوم مذہبی اور نظریاتی دانشوری کے اعلا ترین مراکز ہیں۔ ان بڑے مراکز سے مذہب کی اعلا تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو چھوٹے مدرسوں میں ، اور چھوٹے مدرسوں کے فارغین کو مکتبوں اور مسجدوں میں تعلیم و تعلّم اور مذہبی ارکان ادا کرانے کی ذمے داریاں مل جاتی ہیں اور ان کے روزگار کا مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔ اس طرح مدرسوں کا یہ نظام امداد باہمی کے اصول پر چلتا ہے اور خاصا مضبوط ہے۔ انحصارِ باہمی کے سبب یہ نظام مسلسل وسعت پذیر ہو رہا ہے، یہ اپنے آپ میں ایک ایسا معاشی نظام بھی ہے جس کے گرد اگر دبہت سے لوگوں کے معاشی مفادات طواف کرتے ہیں۔

مدرسوں کی تعداد میں اضافے کا ایک لازمی نتیجہ مذہبی شدت پسندی میں اضافے کی صورت میں بھی سامنے آتا ہے۔ یہاں اس جانب توجہ دلانا مطلوب ہے کہ اگر علماء اور مسلم رہ نما غور کرتے اور اپنے سماج میں تبدیلی لانا اور اسے ترقی یافتہ بنانا ان کا مقصود ہوتا تو وہ زکوٰۃ اور وقف کے پیسے سے مذہب کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم کے ادارے قائم کرنے ،کرانے کی طرف بھی توجہ دیتے۔ لیکن وہ ایسا نہیں کرتے کیوں کہ اس سے وہ نظام درہم برہم ہو جائے گا جس پر ان کی اپنی بقا کا انحصار ہے۔ ایک جدید ریاست میں دینی مدارس کی نہج اور طرز کے ادارے عوام کی ترقی میں رکاوٹ بنتے ہیں لیکن حکومت کی طرف سے ان پر کسی قسم کی پابندی بھی نہیں لگائی جا سکتی۔ ویسے بھی مفاد پرست عناصر انھیں ہوا دیتے ہیں ، اور ان عناصر کی اپنی طاقت ہوتی ہے جس کو سیاسی جماعتیں نظر انداز نہیں کر سکتیں۔

ایک مسئلہ اور بھی ہے۔ مدرسوں میں پڑھنے والے طالب علم اب عموماً ناخواندہ یا معمولی تعلیم یافتہ گھرانوں سے آتے ہیں ، اور معاشی طور پر مسلمانوں کے سب سے زیادہ پس ماندہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی تعلیم و تربیت اس نہج پر نہیں ہوتی کہ یہ اپنے نظامِ تعلیم کا ازخود تنقیدی جائزہ لے سکیں۔ ان مدارس میں نئے مضامین اور نئے نظریات کی تدریس بھی نہیں ہوتی، تعلیم کا طریق کار بھی فرسودہ ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کئی صدیوں سے نصاب نہیں بدلا گیا ہے، اس لیے یہاں طالبِ علموں کی ذہنی تربیت صرف ہدایات سننے اور ان پر مشینی طریقے سے عمل کرنے تک محدود ہو جاتی ہے۔ سخت نظم و ضبط میں جکڑے ان طالبِ علموں کو مخصوص موضوعات سے ہٹ کر کتابیں پڑھنے کی اجازت نہیں ہوتی اور نصاب کے طور پر وہاں جو کتابیں پڑھائی جاتی ہیں وہ اسلام کے اس زاویے کو پیش کرتی ہیں جو صرف ملّائیت کی توسیع میں معاون ہو سکے۔ ادب کے مطالعے، کھیل کود اور ٹیلی ویژن جیسی چیزوں پر پابندی کے سبب دینی مدارس کے فارغین زندگی کے متنوع پہلوؤں سے واقف ہی نہیں ہو پاتے۔ ایک شہری کے طور پر مخصوص حالات میں کس طرح اپنا ردِّعمل ظاہر کریں اور ان حالات کو کس طرح سمجھنے کی کوشش کریں جو ہندوستان جیسے تکثیریتی معاشرے کے پروردہ ہیں ، یہ اور اسی قسم کے سوالات سے نبرد آزما ہونا ان کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر دنیا کے کسی بھی کونے میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف تو وہ اپنا جذباتی ردِّ عمل ظاہر کرتے ہیں لیکن غیر مسلم پائمال طبقے پر ہونے والے مظالم پر وہ خاموش رہتے ہیں ، جب کہ مہذب معاشرے میں اتنی تو توقع کی ہی جاتی ہے کہ آپ انسانیت کو مقدم سمجھیں اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانے میں مذہبی بنیادوں پر تفریق نہ کریں۔اگر مسلمان صرف مسلمانوں پر ہونے والے ظلم پر ردِّ عمل کریں گے تو ہندوستان میں وہ بالکل تنہا ہو جائیں گے۔ جب ان پر کوئی برا وقت پڑے گا (جو اکثر پڑتا ہے ) تو ان کی حمایت کے لیے بھی کوئی آگے نہیں آئے گا۔ حالاں کہ مسلمانوں کے اس احمقانہ بلکہ فرقہ وارانہ رویے کے باوجود کہ انھیں مسلم مسائل سے ہی سروکار ہوتا ہے، جب بھی ان پر کوئی مشکل آئی ہندوستان کے تمام مذہبی فرقوں کے انصاف پسند لوگ آگے آئے۔

اس نہج پر دی جانے والی تربیت کا طالب علموں پر جس طرح کا اثر پڑتا ہے اس کے سبب کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ سیاست کے داؤ پیچوں سے لاعلم یہ سادہ ذہن طالب علم ان مفاد پرست سیاسی عناصر کے شکار ہو جاتے ہیں جن کا تعلق عموماً اعلا طبقے سے ہوتا ہے۔ مذہب کے نام پر ان کو گروہ بند کر لینا آسان ہوتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر اس سیاق و سباق میں اسامہ بن لادن، محمد عطا اور عمر شیخ جیسے لوگوں کی مثال دی جا سکتی ہے جنھوں نے مذہب کو ہتھیار بنا کر اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا اور مدرسے کے طالب علموں کو رضا کاروں اور فدائین کے طور پر بھرتی کرنے کی پالیسی اختیار کی۔ القاعدہ جیسی تنظیموں کے اکثر معروف لیڈر مغربی ممالک کے سیکولر تعلیم کے اداروں کے فارغین ہیں جو ابتدا میں امریکی مفادات کی خدمت بھی انجام دے چکے ہیں۔

مسلمانوں کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ان کے حقیقی مسائل کی طرف کوئی بھی توجہ دینے کو تیار نہیں ہے —یہ مسائل دراصل ان کے تعلیمی اور اقتصادی مسائل ہیں۔ اس سلسلے میں بے حسی کا جو عام ماحول پایا جاتا ہے اس کی ایک بڑی وجہ مسلمانوں کا یہ مزاج بھی ہے کہ مساوی حقوق کے حامل شہری کے طور پر وہ اپنے حقوق کا مطالبہ نہیں کرتے اور اس کے بجائے اس مایوسانہ ردِّ عمل میں کہ حکومت ان کے لیے کوئی سہولت کبھی فراہم نہیں کرے گی، وہ مدارس کے فروغ اور تحفظ کی بات کرتے ہیں۔ قومی سطح پر سیاسی جماعتیں بھی مسلمانوں کی فکر میں تبدیلی لانے کی کوئی مثبت کوشش نہیں کرتیں۔ مسلمانوں میں تعلیم کی عمومی پسماندگی تو ان سیاسی جماعتوں کے لیے نعمتِ غیر مترقبہ ہے، اسی لیے وہ مسلمانوں کے ساتھ صرف سیاسی آنکھ مچولی کھیلتی ہیں۔ حمایت اور مخالفت کے تمام رشتے ووٹ بنک کی سیاست کے مطابق بنتے اور بگڑتے ہیں ، اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ ووٹ بنک کی سیاست نے آج جو راستہ اختیار کیا ہے اس میں ہمارا موجودہ سماجی و سیاسی ڈھانچہ مسلمانوں کو مزید پس ماندگی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ ورنہ ایسا کیوں ہوتا کہ کانگریس جیسی سیاسی جماعتیں ، جو خود کو اقلیتوں کے حقوق کی محافظ سمجھتی ہیں اور سنگھ پریوار کی فرقہ پرست سیاست کی مذمت کرتی ہیں ، عملی طور پر اقلیتوں کے مفاد میں کوئی ایسا بامعنی قدم نہیں اٹھاتیں جس سے اقلیتوں کا واقعی بھلا ہو؟ تقریباً پچاس سال تک ہندوستان پر حکومت کرنے کے باوجود کانگریس نے مسلمانوں کے تعلیمی مسائل پر توجہ دینے کی ذرا بھی زحمت کیوں نہیں کی؟ تعلیم کے میدان میں مسلمانوں کی ترقی کی رفتار کا گراف دوسرے فرقوں سے بہت زیادہ دھیما کیوں ہے ؟ وقتاً فوقتاً سامنے آنے والی سروے رپورٹیں آخر یہ کیوں بتاتی ہیں کہ ملازمتوں کے شعبوں میں مسلمانوں کی تعداد لگاتار گھٹ رہی ہے۔ مسلم علاقوں میں سرکاری اسکولوں کی تعداد ناکافی کیوں ہے ؟ کیا یہ صورت حال مسلمانوں کی اسی ناز برادری کا نتیجہ ہے جو کانگریس (سنگھ پریوار کے مطابق) مسلمانوں کو خوش کرنے کے لیے کرتی رہی ہے ؟ یا اسے آپ محض بے اعتنائی کہیں گے یا پھر سوچا سمجھا تعصب؟ یہ بات سب مانتے ہیں پس ماندہ طبقات کی فلاح کے لیے مثبت امتیازی اقدام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ سوال یہی ہے کہ مسلمانوں کی تعلیمی اور اقتصادی پس ماندگی دور کرنے کے لیے کتنی اور کون سی بامعنی اسکیمیں جاری کی گئیں ؟

حقیقت یہ ہے کہ کانگریس میں کسی دور میں کالی بھیڑوں کی کمی نہیں رہی۔ ہٹلر کے ان مداحوں اور فرقہ پرستوں کو کانگریس میں رہ کر اپنے تعصب کا زہر پھیلانے کا موقع اس وجہ سے حاصل رہا کہ کانگریس کی لیڈرشپ نے ہمیشہ ایک مجرمانہ خاموشی اختیار کر کے ان کو شہ دی۔ تعصب پرست لیڈر مسلمانوں کے خلاف متعصّبانہ رویے کا یہ جواز دیتے ہیں کہ مسلمانوں نے دو قومی نظریے کو فروغ دیا اور وہ ملک کی تقسیم کے ذمے دار ہیں۔ اس الزام کو اس لیے قبول نہیں کیا جا سکتا کہ ایک تو تقسیم کا معاملہ اتنا سیدھا نہیں کہ کسی ایک فرقے پر اس کی ساری ذمے داری ڈال دی جائے، دوسرے ان سیاسی لیڈروں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہندوستان بہرحال ایک سیکولر جمہوریت ہے، مذہبی ریاست نہیں۔ ملک کو سچ مچ سیکولر اور جدید ریاست بنانے کی کوششیں اگر کی جاتیں اور آئینی ہدایات کے مطابق کمزور طبقوں کو مضبوط بنایا جاتا تو آج حالات اتنے ابتر نہ ہوتے جتنے وہ ہو چکے ہیں۔ لیکن ووٹ بنک کی سیاست نے معاشرے میں اپنی جڑیں اس طرح مضبوط کر لی ہیں کہ اس کے سبب بہت سے طبقات کی ترقی کی راہیں مسدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ آج کا سیاسی ڈھانچہ، جس میں مسلمان مسلسل پس ماندگی کی طرف جا رہا ہے، دراصل کانگریسی حکمرانوں کی پالیسیوں ہی کا نتیجہ ہے۔

مثال کے طور پر مدرسوں کی جدید کاری کی معروف اسکیم کو پیش کیا جا سکتا ہے جس کی بنیاد راجیو گاندھی کی وزارتِ عظمہ کے دور میں پڑی تھی اور جس کا سیاسی فائدہ مرلی منوہر جوشی نے این۔ ڈی۔ اے۔ کے دورِ حکومت میں فروغِ انسانی وسائل کے وزیر کی حیثیت سے اٹھانے کی کوشش کی تھی۔ مدرسوں میں جدید کاری کی یہ اسکیم کبھی نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی کیونکہ مدارس کا بنیادی مقصد جدید طرزِ تعلیم کی فراہمی ہرگز نہیں ہے۔ ان کا رول مذہبی معاملات کے دائرے سے باہر نہیں ہے، اور اسی لیے مدارس جدید تعلیم کے اسکولوں کا متبادل نہیں ہو سکتے۔ مدرسوں کے لیے معمولی رقم مختص کر کے حکومت مسلمانوں کے ایک بڑے مسئلے کے تئیں اپنی ذمے داریوں سے دامن بچا رہی ہے۔ مدارس کی جدید کاری کا جو ڈھنڈورا وہ پیٹتی ہے وہ نہ تو حکومت ہی کو کوئی فائدہ پہنچاتا ہے اور نہ ہی مسلمان اس سے خوش ہیں کیوں کہ اس قسم کی سرکاری اسکیموں کو وہ اپنے مذہبی معاملات میں مداخلت سے تعبیر کرتے ہیں۔ نتیجتاً ان رقوم کا بھی وہی حشر ہوتا ہے جو دوسری فلاحی اسکیموں کا — یعنی اسکیم چلانے والے سرکاری افسر اور رضاکار تنظیموں کے ذمے دار مل کر انھیں ڈکار جاتے ہیں اور معمولی رقم ہی متعلقہ مقاصد پر خرچ کی جاتی ہے۔

ان حالات میں ایک مذہبی فرقے کے طور پر مسلمانوں کو یہ سوچنا ہو گا کہ آج کے دور میں ان کی ضرورت صرف روایتی دینی مدرسے نہیں ہیں بلکہ انھیں اس جدید تعلیم کی سخت ضرورت ہے جسے اختیار کر کے دوسری قومیں ترقی کی راہوں پر آگے بڑھ رہی ہیں۔ پیچھے کی طرف دیکھتے رہنے یا جدید تعلیمی نظام کے چند نقائص کی نشان دہی کر کے اسے چھوڑ دینے سے ان کا کچھ بھلا نہ ہو گا۔ مسلمانوں کے پڑھے لکھے طبقے اور بالخصوص روشن خیال نوجوان طبقے کو اس ضمن میں فعال کر دار نباہنا ہو گا۔ سیاسی شعور کا ثبوت دیتے ہوئے انھیں کمیونٹی اسکولوں کے قیام کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے اور اس کے لیے تمام وسائل کی خبر رکھتے ہوئے سرکاری انتظامیہ کو متوجہ کرنا اور اس پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ مسلمانوں کو جدید تعلیم فراہم کرانے کی ضرورتوں پر سنجیدگی سے توجہ دے۔

اس ضمن میں ایک حکمت عملی یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مسلمان سیاسی اکائی کے طور پر سیاسی جماعتوں کو اپنی قوت کا احساس کرائیں اور حکومت سے تعلیمی سہولتوں کا مطالبہ کریں۔ اس طرح گو آہستہ ہی سہی، لیکن یہ سہولتیں مہیا ہو جائیں گی۔ نئے اور موجودہ نظام سے بھرپور استفادے کے لیے عہدِ وسطیٰ کے گرد طواف کرنے والے اپنے طرزِ فکر سے نجات حاصل کرنا آج مسلمانوں کی اولین ضرورت ہے۔ تعلیم ہی نہیں ، زندگی کے تمام تر شعبوں میں وہ اپنے اسی رویے کے سبب پچھڑے ہوئے ہیں کہ ان کا ماضی انھیں حال میں جینے ہی نہیں دیتا۔ ماضی میں وہ خواہ کچھ رہے ہوں مگر حال میں وہ حکمراں نہیں بلکہ تعلیمی، سماجی اور اقتصادی طور پر ہندوستان کا سب سے پسماندہ طبقہ ہیں۔

٭٭٭

 

کتابیات

 

.1        سید مناظر احسن گیلانی، ’ہندوستان میں مسلمانوں کا نظامِ تعلیم و تربیت‘، ندوۃ المصنفین، جامع مسجد دہلی، 1987

.2        قمرالدین، ’ہندوستان کی دینی درس گاہیں ‘، ہمدرد ایجوکیشن سوسائٹی کا کل ہند سروے، دہلی 1996

.3        سلامت اللہ، ’ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیم‘، مکتبۂ جامعہ، نئی دہلی 1990

.4        خطبات سر سیّد، جلد اوّل و دوئم، لاہور، 1972

.5        کے ایم اشرف، An Overview of Muslim Politics in India مانک پبلی کیشنز، نئی دہلی 2001

.6        مولانا وحید الدین خاں ، تبلیغی تحریک، نئی دہلی 1994

٭٭٭

 

 

 

تعصب زدگی اور اردو کشی کا بیانیہ

انیتا دیسائی کے ناول ’اِن کسٹڈی‘ کے حوالے سے

 

آمنہ یقین

 

ہندوستان میں اردو کا مسئلہ بڑا پیچیدہ ہے۔ اس کو تاریخی، سیاسی اور نظریاتی سطح پر دیکھا جانا چاہیے تاکہ ان قوتوں کا ادراک حاصل ہو جنھوں نے اس کو فرقہ وارانہ زبان قرار دے دیا ہے کہ یہ صرف مسلمانوں کی زبان ہے جس سے قومی دھارے سے الگ ایک شناخت پیدا ہوتی ہے۔ میں اس موضوع کو ادب کے حوالے سے جانچنے کی کوشش کروں گی خاص طور سے اردو پر انیتا دیسائی کے لکھے ہوئے ہندوستانی انگریزی ناول(1)  ’’اِن کسٹڈی‘‘ کے حوالے سے۔ 1984 میں ’اِن کسٹڈی‘ کو بوکر انعام کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔ ہم اس ناول کو مابعد تقسیم ہند تعصب زدگی اور اردو کشی کا ادبی بیانیہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اتفاق سے اس کتاب کا سن اشاعت وہی ہے جو اردو کے قد آور، غنائیت سے بھرپور شاعر فیضؔ احمد فیض کی وفات کا سال ہے۔ فیضؔ نے اپنی مسحور کن شاعری سے لاکھوں عوام کے دل جیتے تھے اور انھیں اپنے پیارے وطن لوٹنے کا ایک خواب بھی دیا تھا۔ اس کی شاعری نے دل شکستہ محبِ وطن کو امید دلائی تھی جو اس کی نظم ’’صبح آزادی‘’ میں ہمیں ملتی ہے : وصال دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی(2)

یہ بھی خوب ہے کہ فیضؔ نے شاعری کی روایتی ہئیتوں کو استعمال کر کے اس میں کامیابی کے ساتھ جدید موضوعات کو برتا اور اردو شاعری کو ایک نیا موڑ دیا، جب کہ انیتا دیسائی جدید بیانیہ کے ذریعے ہمیں روایت سے مربوط احساس کی طرف لے جاتی ہے۔ دیسائی کا اردو زبان کے تعلق سے یہ تصور ہے کہ یہ جاگیر دارانہ نظام کی پروردہ ہے۔ اس خیال کو اس نے اپنے ایک گزشتہ ناول ’کلیر لائٹ آف ڈے ‘(3)میں بھی پیش کیا ہے۔ دیسائی کا اردو کے بارے میں یہ خیال کہ یہ گزشتہ ہندوستان کا ایک نمونہ ہے اور یہ کہ یہ فرقہ وارانہ وراثت رکھتی ہے، اس کی کہانی کے اہم حصے ہیں۔ اس کے کہانی کہنے کے طریقوں میں یہ بھی ہے کہ وہ تہذیبی یادوں کا سہارا لیتی ہے چنانچہ اردو کے موضوع کے ساتھ تقسیم اور اس کی یادوں کا جڑ جانا ایک لازمی امر ہے۔

دیسائی کی کتاب کا ہیرو، دیون جو ہندی کا لکچر ر ہے، جب مشہور اردو شاعر نورؔ شاہ جہاں آبادی سے انٹرویو کرنے اپنے صدر شعبہ تیر ویدی کو ایک ہفتے کی چھٹی کی درخواست پیش کرتا ہے تو اسے تیرویدی کا غصّے اور تعصب سے بھرپور جواب ملتا ہے : ’’میں تمھارا تبادلہ تمھارے اردو کے محبوب شعبے میں کر دیتا ہوں ، مجھے اپنے شعبے میں مسلمانوں کے چمچے نہیں چاہئیں جو میرے لڑکوں کو اپنی مسلمان اور اردو دوستی سے تباہ کریں۔ میں پرنسپل صاحب سے تمھاری شکایت کروں گا اور آر۔ایس۔ایس۔ کو بھی مطلع کر دوں گا کہ تم ایک غدّار ہو۔‘‘ کتاب خوف و ہراس اور بے اعتمادی و نفرت کے کلچر کو پیش کرتی ہے جس میں زبان مذہبی تشخص اور وطن سے وفاداری کی علامت بن جاتی ہے۔ تیرویدی کی یہ زہر فشانی بابری مسجد کے گرائے جانے سے بہت پہلے کی ہے جو آئندہ کی گھنٹی ہے۔ اس کا آر۔ایس۔ایس۔ (راشٹریہ سیوک سنگھ) کا حوالہ موجودہ ہندوستانی سیاست کی صورت حال کا نقیب ہے جس میں ممبئی کے فسادات، گجرات کی تباہی اور کشمیر کے مسلسل مسائل آتے ہیں۔

اپنی عمدہ کتاب ’دی آئڈیا آف انڈیا‘ میں سنیل کھلنانی (4)نے بتایا ہے کہ تقسیم کی یادیں برِصغیر کے لوگوں کے لیے اتنی قریبی اور گہری ہیں کہ موجودہ سیاست کی ناکامیابیاں اسی کی وجہ سے ہیں۔ بھارت بن تو گیا لیکن تقسیم کی نہایت تکلیف دہ حقیقت اس کے ساتھ رہی جس کی وجہ سے اس ملک کی ایکتا بری طرح متاثر ہوتی رہی۔ کھلنانی کے لیے بھارت کا تصور بالآخر سیاسی ہے کیوں کہ بقول ان کے 1947 کے بعد ہندوستان کی تاریخ جمہوری اقدار میں یقین رکھنے کی ہے جو پارٹی سیاست کے ذریعے وقوع پذیر ہوتی ہے۔ ماضی میں ہندوستانی عوام کانگریس کی کرشماتی کشش سے متاثر رہے ہیں لیکن حالیہ عرصے میں مقامی، ذات پات کی اور فرقہ واریت کی سیاست نے اس کی جگہ لے لی ہے۔ اس طرح ایک ترقی پذیر جدید ملک خاص طور سے ہندو، مسلم کے ٹوٹے ہوئے زخمی رشتے کی بنا پر طبقاتی اور نسلی گروہ بندیوں میں پھنس گیا ہے۔

اس مضمون کا مطمحِ نظریہ ہے کہ دیسائی نے اپنے متن میں کس طرح کی تمدنی یادوں کو جمع کیا ہے اور ان کو ہندوستانی سیاست کے اصل تناظر میں کس طرح دیکھا ہے اور یہ بھی کہ کیوں کر زبان کے مسئلے پر اس سے روشنی پڑتی ہے۔ ایک کامیاب ادیب ہونے کے ناطے اور بین الاقوامی اشاعتی مارکٹ کے لیے لکھتے ہوئے انھیں ایک سچے ہندوستان کو پیش کرنے کا حق حاصل ہے۔ وہ اس طرح کی مصنف نہیں ہیں جو ہمیں دیومالائی کہانیاں سنا کر ایک عظیم ہندوستانی ناول پیش کرنے کا دعویٰ کرے۔ اس کے مشکل حالات سے گزرنے والے انفرادی کر داروں کی تشکیل اور تشخص نہایت چابک دستی سے کسی قلمی تصویر کی طرح کیا گیا ہے جو قاری کو اپنے داخلی ارتکاز، بالراست کلام اور علامات کے ذریعے متوجہ کرتے ہیں۔

اردو زبان کی کہانی اس نے ایک شہری کے نقطۂ نظر سے کہی ہے جو دلّی کا رہنے والا ہے اور جس کی قبل از تقسیم کی تہذیبی یادیں اردو کے حوالے سے ہیں نہ کہ اس کی طرح جس کی یہ مادری زبان نہیں۔ اسپین میں ماگدا کوسٹا کو انٹرویو دیتے ہوئے انیتا دیسائی نے ’ان کسٹڈی‘ میں اردو کے انحطاط کے بارے میں یوں کہا تھا:

’’میں نے اس میں اردو کے شاعروں کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ دلی میں رہتے ہوئے میں ہمیشہ اردو شاعری کے ماحول میں رہی ہوں۔ یہ لوگ شعر کی قرأت پڑھ کے نہیں بلکہ حافظے سے کرتے ہیں۔ یہ بڑی حد تک شمالی ہند کی روایت ہے۔ گو کہ اردو شاعری کا یہاں چسکا ہے لیکن اس حقیقت کو کیا کیا جائے کہ زیادہ تر مسلمان یہ دیش چھوڑ کر اب پاکستان چلے گئے ہیں جس کی وجہ سے بیشتر اردو کے اسکول اور یونی ورسٹیاں بند ہو چکے ہیں ، اب اردو کوئی نہیں پڑھتا، اس کی تعلیم ختم ہو چکی ہے، اس کا صرف ایک مصنوعی وجود رہ گیا ہے۔ جب اسکولوں اور کالجوں میں اردو پڑھنے کوئی نہیں جائے گا تو پھر ان شاعروں کے قاری کون ہوں گے ؟ انھیں کون سنے گا؟‘‘(5)

اعجاز احمد اردو زبان اور ادب کی تاریخ 1947 سے 1965 تک سمیٹتے ہوئے کہتے ہیں کہ اردو لکھنے والے طبقے کے ٹوٹنے اور تشکیل پانے کی تین وجوہات ہیں جنھوں نے تقسیم کے بعد اردو کے بارے میں لوگوں کے خیالات کو بدلا ہے۔۔ ایک تو نئی سرحدوں کو پار کر کے مہاجرین کی نئی بستیاں جو مذہب کی بنیاد پر قائم ہوئیں ، دوسرا اردو کے ساتھ مذہبی بنیادوں پر تعصب اور اس کا پاکستان میں قومی زبان بنایا جانا ہے جس کی وجہ سے ہندوستان میں اس کے ’اقلیتی حق‘ اور مسلمانوں کی ضرورت کے مقام کو دھکا پہنچا۔ آخر میں پارلیمنٹ میں ہندی کو ہندوستانی کے مقابل سرکاری زبان کا درجہ دے دیا جانا ہے۔ احمد کے خیال میں ہندوستانی کا رابطے کی زبان نہ بننا بہت بڑا نقصان تھا کیوں کہ ہندی اور اردو کے درمیان یہی ایک زندہ رابطہ تھی چنانچہ دھیرے دھیرے دونوں زبانوں کے درمیان نمایاں فرق پیدا ہو گیا خصوصاً لکھی جانے والی زبان میں۔(6)

احمد کی نظر میں سیاسی مملکت اور مہذب جماعت، دو حقیقی صورتیں ہیں جو تقسیم کے بعد ہندو پاک میں اردو ادب کے پیدا کرنے کا ذریعہ ہیں۔ پس نوآبادیاتی دور میں خاص طور پر یو۔پی۔ کے علاقے میں جہاں اردو مادری زبان والوں کو دوسری زبانوں کی طرح سے سرکاری سرپرستی نہیں ملی اور اسے نظرانداز کر دیا گیا جس کی وجہ سے اقلیتی اردوداں طبقے کو زبان کی بقا سے مایوسی محسوس ہوئی۔ اردو صرف مسلمانوں کی زبان کی حیثیت سے ایک فرقہ وارانہ کر دار کی حامل زبان قرار دی گئی۔راشد بنارسی کے ان اشعار میں علاحدگی پسندی کا نقشہ پیش کیا گیا ہے :

بہت سمجھے تھے ہم اس دور کی فرقہ پرستی کو

زباں بھی آج شیخ و برہمن ہے، ہم نہیں سمجھے

اگر اردو پہ بھی الزام ہے باہر سے آنے کا

تو پھر ہندوستاں کس کا وطن ہے، ہم نہیں سمجھے

بنارسی نے اپنے ایک انٹرویو میں کریسٹی فرلی سے اپنی شخصی رائے کا اظہار ان لفظوں میں کیا تھا: (7)’’وہ اس زبان کی روح کو ختم کر کے اسے بے جان بنا دیں گے۔ آپ اردو لکھیں گے اور وہ اسے ہندی کہیں گے۔ دیکھیے کس طرح اردو کو ختم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ فلموں کو ہی لیجیے زبان ساری اردو استعمال کرتے ہیں لیکن اس کو سرٹیفیکٹ ہندی کا ملتا ہے۔ ‘‘ (8)

دیسائی، احمد اور بنارسی میں دلچسپ باتیں مشترک ہیں۔ دیسائی کا قنوطی رویّہ اردو کے زوال کی وجہ مسلم مہاجرت کو قرار دیتا ہے۔ احمد مہاجرت کو اردو لکھنے والوں کے دو گروہوں میں بٹ جانے سے تعبیر کرتے ہیں جب کہ بنارسی اردو کو مہاجروں کی زبان کہتے ہیں۔ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ اردو مادری زبان ہونے کے سبب جو جذباتی مایوسی بنارسی کو ہے اس سے دیون بھی متاثر ہے۔ وہ دیسائی کے ناول میں اردو کا پاسبان ہے۔ تاہم اردو فکشن کی نزاکتوں کو انگریزی کے حوالے سے سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان کی تاریخیت بیان کریں۔ جو تبدیلیاں ہندوستان کی تقسیم سے قبل اور تقسیم کے بعد اردو میں آئیں اور جو نظریاتی تصورات ہندوستانی انگریزی میں ابھرے ان کا ایک جائزہ۔

1990 کے اوائل میں لکھتے ہوئے اعجاز احمد نے خیال ظاہر کیا کہ انگریزی ادب کی تعلیم نے انگریزی بولنے والے ہندوستانیوں کی ایسی تعداد پیدا کی جو اپنے کو نمائندہ قومی برتری رکھنے والے سمجھنے لگے۔ انھیں محسوس ہوا کہ وہ آپس میں بہتر تبادلۂ خیال کر سکتے ہیں اور گئے گزرے عوام کے مقابلے میں ذہانت کی باتیں کر سکتے ہیں۔(9)سچ پوچھیے تو دیسائی اور احمد دونوں اسی زمرے سے تعلق رکھتے ہیں کیوں کہ یہ دونوں مابعد نوآبادیاتی نظام میں سیکولر انگریزی ماحول سے وابستہ ہیں لیکن ساتھ میں یہ اعلیٰ انگریزی بولنے والے اوسط طبقے سے بھی تعلق رکھتے ہیں اس لیے انھیں حکمرانوں کا ساجھے دار بھی قرار دیا گیا اور ان کا تعلق اس طبقے سے بتایا گیا جونو آبادیاتی نظام میں علم و ادب سے وابستہ ہو کر ہندوستانیوں کی ایک نئی جماعت کھڑی کرتا ہے۔ (10)اس مقالے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ لسانی مسابقتوں کی بنیاد پر ہندوستانیوں کے بارے میں کوئی مستند مِتھ کھڑی کی جائے بلکہ اس قدر کو تنقیدی نظر سے دیکھا جائے جسے انیتا دیسائی نے اپنے ناول میں پہلے ہی سے موجود ہندی۔ اردو کے فرقہ وارانہ مباحث میں مداخلت کرتے ہوئے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

 

زبان

قومی زبان کی پیچیدگی کا موضوع عالمانہ بحث کا حصہ رہا ہے، تاریخ اور سماجیات دونوں شعبوں میں انیسویں صدی کے ہندوستان میں ہندوستانی اردو اور ہندی کو لے کر جو متنازع بحثیں ہوتی رہی ہیں ان پر کئی محققوں نے توجہ دلائی۔ (11)ان لسانی اختلافات کا مطالعہ بینی ڈِکٹ انڈرسن (Benedict Anderson) کے بیان کی روشنی میں کیا جا سکتا ہے۔ اس نے کہا کہ ایک امکانی متحدہ قوم مشترکہ زبان کی بدولت مخلوط سرمایہ داری میں ساتھ ہو سکتی ہے۔ (12)لیکن تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ہمہ لسانی قومیں آسانی کے ساتھ اپنے گروہی اختلافات کو دور نہیں کر سکتیں۔

اردو نے اپنا مقام وسط اٹھارویں صدی عیسوی یا ذرا دیر سے پیدا کیا۔ یہ وہی وقت تھا جب کہ برطانوی حکومت نے فارسی زبان کو دربار سے خارج کرتے ہوئے اس کی جگہ انگریزی کو لادا۔ عام طور پر شمالی اور مشرقی ہندوستان میں بنگالی اور اردو کا چلن انتظامیہ اور عدلیہ کے نچلے درجے تک رہا جب کہ شمالی ریاست پنجاب میں برطانوی حکومت نے انگریزی اور اردو کو سرکاری زبانوں کے طور پر لاگو کیا۔ (13)غیر رسمی طور پر انھوں نے ہندوستانی اردو کو شمالی ہند میں عوامی زبان قرار دیا جب کہ 4 ستمبر 1837 کو گورنر جنرل اِن کونسل نے علاقائی زبانوں کو تسلیم کرنے کا اعلانیہ جاری کیا۔ اردو کو بہار، یونائٹڈ پراونس، اودھ اور پنجاب میں سرکاری زبان تسلیم کیا گیا جب کہ جنوب میں اسے حیدرآباد کے نظام کی سرپرستی حاصل رہی۔ جدید فکر کے رہبر سر سید احمد خاں نے اپنی قوم میں ثقافتی تبدیلی لانے کی کوشش کی۔ ان کی شخصیت با اثر تھی۔ انھوں نے اردو کے کاز کے لیے مداخلت کرتے ہوئے نوآبادیاتی نظام کے حاکموں سے نمائندگی کی لیکن انھیں 1881 میں بہار میں اور 1900 میں یو پی میں ناکامی ہوئی۔ اس لیے کہ ان مقامات کے اوسط طبقے کے ہندوؤں نے سر سید کی تحریک کے خلاف احتجاجی جلوس منظم کیے۔ (14)فرانسس رابن سن کے مطابق انگریز حکومت کی ہندوؤں کو تائید کی وجہ سے یہ تحریک ناکام ہوئی۔ 1900 میں ہندوؤں کے ایک وفد نے حکومت سے نمائندگی کرتے ہوئے تجویز پیش کی کہ فارسی رسم الخط کو دیوناگری رسم الخط سے بدل دیا جائے۔ یہ تحریک مسلمانوں کی علاحدگی کا بڑا سبب بنی۔(15)

تاریخی اعتبار سے اردو کے زوال کی ابتدا جیوتی رابندرا داس کی ہندی تحریک کی اٹھان سے شروع ہوتی ہے جس نے ہندوستان کی تقسیم سے قبل دیگر لسانی اداروں سے مل کر قومی تحریک شروع کی تھی۔ (16)اس نے زور دے کر بتایا کہ 1882 کے بعد ہندی کی تحریکیں شمالی ہند میں تمام تحتانوی اور وسطانوی مدارس میں ہندی پڑھانے پر اصرار کرتی رہیں۔ شمال مغربی ریاستوں میں اس تحریک کا گہرا اثر پڑا اور اس سے اردو کو شدید نقصان پہنچا۔ پبلک کی نمائندگی میں بار بار یہی استدلال پیش کیا گیا کہ اردو غیر ملکی زبان ہے۔ ایک درخواست میں ، جس پر پانچ سو گریجویٹس اور انڈر گریجویٹس نے دستخط کیے تھے، نمائندگی کی گئی اور اعلان کیا گیا کہ اردو غیر ملکی زبان ہے اور نئی نئی شروع کی گئی ہے۔ ایک دوسری درخواست میں کہا گیا کہ یہ باہر سے لائی ہوئی اور حکمرانوں کی طرف سے لادی گئی زبان ہے۔ (17)داس گپتا کی نظر میں یوپی میں زبان کا جھگڑا ماضی کے اس دور کی یاد داشتوں کی دین ہے جس میں ہندو اور مسلمان قوموں کے قائدین نے، جو ثقافت اور سیاست کے نمائندے تھے، ان جھگڑوں کو شروع کیا تھا۔ (18)

داس گپتا نے اپنی تحقیق میں اس بات پر زور دیا کہ زبان کو ادل بدل کرنے میں جن سماجی اثرات نے کام کیا ہے اور جن کی کلیدی اہمیت ہے وہ برطانوی نو آبادیاتی نظام سے شروع ہو کر مابعد نو آبادیاتی نظام اور مابعد تقسیم ملک اور جدید پاکستان و ہندوستان تک پہنچتے ہیں۔ ان کے زبان و ادب کی دو جداگانہ تاریخیں ہیں۔ اس کے خیال میں ایک ہمہ لسانی روایتی سماج میں فیصلہ کرنے کا اختیار چند افراد کے ہاتھ میں ہوتا ہے جو اعلیٰ طبقے کے نمائندہ ہوتے ہیں اور عام لوگ ان سے وفاداری برتتے ہیں۔ ہندوستانی قومیت کے ابتدائی دور میں خود قائدین میں عام زبان قومی زبان اور سرکاری زبان میں تفریق کرنے کا امتیاز نہیں تھا۔ (19)

ڈاوِڈ لیلی ویلڈ کے لیے بھی زبان کی،اردو ہو کہ ہندی، نباتیاتی تاریخ کی بنیاد پر جانچ کی سماجی اہمیت ہے بہ نسبت اس کے کہ تجریدی رویے کے پیش نظر یہ کہا جائے کہ کون بول رہا یا کون سن رہا ہے یا یہ کہ کون سا موضوع کس لسانی کوڈ سے متعلق ہے۔ (20)اس کا مشورہ ہے کہ اس کوڈ کو سمجھنے کی کوشش میں شاید ہم ایک عجیب و غریب نتیجے پر پہنچ جائیں جو بڑی نزاکت کے ساتھ ہمارے شعور کو ایسا توازن عطا کرے جو طاقت، مسابقت اور استحصال کے عوامل کو سمجھنے میں ہماری مد د کرے۔ اس تھیوری کی صداقت کو جانچنے کے لیے لیلی ویلڈ نے گاندھی جی کے اس کارنامے کا جائزہ لیا جس کے ذریعے انھوں نے قوم کے شعور کو ایک متحدہ زبان کے توسط سے زندہ رکھنے کی کوشش کی۔ ایسی کوشش فرد کے انفرادی تشخص کو قائم رکھتے ہوئے مختلف مذاہب کے لسانی اختلافات کی خلیج کو پاٹ سکتی ہے۔ یہی اس کا استدلال تھا:

’’1916 میں اس بات پر بحث کی جا سکتی تھی کہ ہندی زبان ہندو ہے اور اردو زبان مسلمان ہے۔ اس وقت ایسے اسباب تھے اور ایسے حالات بھی کہ زبان اور مذہب کے بارے میں اس طرح سوچا جا سکتا تھا۔ یہ گاندھی کی زندگی کا سب سے اہم پراجکٹ تھا اور 1920 کے بعد انڈین نیشنل کانگریس کا ایک اصول کہ قومی زبان اس امتیاز پر قابو پا لے جو ہندی اور اردو میں برتا جا رہا تھا اور ان کی جگہ ہندوستانی قائم ہو‘‘۔ (21)

تاریخی اعتبار سے انڈین نیشنل کانگریس نے 1934 میں ہندوستانی کو سرکاری زبان کی حیثیت سے تسلیم کیا جسے گاندھی نے ہندی۔ اردو کے خاردار مسئلے پر قابو پانا کہا۔ اس غیر جانبدارانہ حل کی ناکامی کا سبب رسم الخط بنا۔سنیل کھلنانی کے خیال میں آزادی کے بعد نہرو کی وہ امید کہ ہندوستان کی ریاستیں متحدہ لسانی بنیاد پر قائم رہیں جنھیں حکومت ہمہ لسانی انتظامیہ کی نہج پر قائم کرے گی۔ (22)نہرو کی حکومت نے ہندی والوں کے اس دباؤ کا مقابلہ کیا جو پوری قوم کے لیے ایک مرکزی زبان چاہتا تھا لیکن اسے سمجھوتہ کرنا پڑا جو تقسیم ملک کے بعد (1950) دستور میں اس صورت پیش ہوا کہ اگلے پندرہ سال تک انگریزی کو سرکاری زبان کے طور پر استعمال کیا جائے گا، ہندی اپنے دیوناگری رسم الخط کے ساتھ مرکز کی سرکاری زبان ہو گی۔ اس کے ساتھ دوسری علاقائی زبانیں بھی تسلیم کی گئیں۔ لیکن انجام کار اس تکثیریت میں تبدیلی لانی پڑی اور اس مطالبے کو قبول کرنا پڑا جس کی رو سے لسانی ریاستوں کا قیام عمل میں آیا۔

1963 میں سرکاری زبان کے ترمیمی ایکٹ نے ہندی کو سرکاری زبان کی حیثیت عطا کی اور اسے فوقیت دی۔ (23)انگریزی کو دوسری زبان یا اضافی سرکاری زبان کا موقف ملا۔ 1967 کے ترمیمی بل کے ذریعے سہ لسانی فارمولے کو قبول کر لیا گیا جو ایک تاریخی اہمیت کا واقعہ ہے۔ اس کی سفارشات کے مطابق وسطانوی جماعتوں میں زبان کی پڑھائی یوں ہو گی: (الف) علاقائی زبان اور مادری زبان جب کہ مادری زبان علاقائی زبان سے مختلف ہو گی۔ (ب) ہندی یا ہندی بولنے والے علاقوں میں علاقائی زبان (ج) انگریزی یا دیگر یورپی زبان۔ (24)

موجودہ ہندوستان میں جہاں تک اردو کا تعلق ہے، زبان سے متعلق ماضی کے اختلافات نے اس پر برا اثر چھوڑا ہے خاص طور پر جہاں کہیں مذہبی عقیدے نے لوگوں کو باور کرایا کہ مسلمان=اردو=پاکستان، اور ہندو=ہندی=ہندوستان۔ یوپی میں اردو کا مسئلہ مسلمانوں کے مسئلے کے طور پر سیماب وشی اختیار کر گیا اور حال ہی میں جو تنازع ابھرا وہ اردو والوں کی مادری زبان کے اعداد و شمار سے متعلق تھا کہ صحیح گنتی ہوئی کہ نہیں۔ ایک وقت یوپی کو اردو کے اعلا طبقے کا گہوارہ سمجھا جاتا تھا اور اسے مرکزیت حاصل تھی لیکن اب صورتِ حال کلیتہً مختلف ہے۔ علاقائی سطح پر اردو کی نمائندگی سرکاری طور پر ڈاکٹر ذا کر حسین اور دیگر سات اردو بولنے والوں کے وفد نے اس وقت کے تعلیمات کے منسٹر (سمپورنانند) کے سامنے 1952 میں پیش ہو کر کی تھی کہ کس طرح اردو کو اس ریاست میں نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ اس کے بعد 1954 میں قومی سطح پر صدر جمہوریہ ہند کے سامنے شکایت پیش کی گئی اور 15 فروری 1954 کو دستور کی دفعہ 347 کے تحت درخواست دی گئی کہ اردو کو یوپی، بہار، پنجاب اور دہلی کی ریاستوں کی علاقائی زبان کی حیثیت سے تسلیم کیا جائے۔ چیف منسٹر سمپورنانند نے 1958 میں اسمبلی میں بیان دیا کہ اردو کو یو پی کی علاقائی زبان کے طور پر تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔

تاہم یہ سیاسی حربے کسی بھی طرح مسئلے کو حل کرنے میں معاون ثابت نہ ہو سکے۔ اطہر فاروقی کے کہنے کے مطابق اتر پردیش میں اردو مادری زبان والوں کی حالت اتنی بگڑی کہ اب یہاں ایک بھی پرائمری یا جونیر ہائی اسکول اردو میڈیم کا نہیں ہے۔ صرف دو اردو میڈیم اسکول ایسے ہیں جنھیں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی چلاتی ہے۔ (25)فاروقی کا کہنا ہے کہ یوپی میں سہ لسانی فارمولا بری طرح سے ناکام ہو چکا ہے اور یہاں اقلیتی زبان کے کسی بھی طبقے کی ضرورت پوری نہیں کرتا۔ وہ اس فارمولے کو اس بنیاد پر دفع کر دیتے ہیں کہ یہ صرف اردو والوں کو دکھانے کے لیے ہے۔ فاروقی بے حد نالاں ہیں کہ شمالی ہند کے وزرائے اعلا نے اپنی من مانی تاویلات پیش کرتے ہوئے صرف ہندی کو علاقائی زبان، سنسکرت کو ماڈرن زبان اور انگریزی کو بدیشی زبان قرار دیا۔ اس طرح کے شرارت آمیز یا خبیثانہ رویے کی وجہ سے شمالی ہند میں اردو زبان کی اقلیتیں شدید طور پر متاثر ہوئیں خاص طور پر اعداد و شمار حاصل کرنے کے موقعوں پر یہ مان لیا گیا کہ اس علاقے کے ہر شخص کی زبان ہندی ہے۔ (26)

زویا حسن نے اندازہ لگایا تھا کہ یوپی میں ہندی اردو کا تنازع ایک قطعی ایجنڈے کے مطابق کام کر رہا ہے۔ سیاسی دباؤ کے تحت اس ایجنڈے کا ایک ذیلی موضوع بھی ہے۔ یہ موضوع ریاست میں ثقافتی تشخص کا متبادل قومی تصور پیش کرتا ہے۔ (27)زویا حسن  کاا دعا ہے کہ حکومت کی پالیسی نے اردو کو مسلم اقلیتی معاملہ قرار دیا ہے اور اس عہد کی نفی کی ہے۔ لسانی تکثیریت کو بہانہ بنا کر مذہب اور زبان کو الگ کیا ہے۔ لسانی فرقہ واریت کے سیاق و سباق میں موجود اس خلیج کو مزید وسعت ہندی کے اس سرکاری پروگرام نے دی جس کے ذریعے سنسکرت کو بڑھاوا دینے کی خاطر زبان اور مذہب کو یکجا کیا گیا۔ (28)

حال کے واقعات بتاتے ہیں کہ تعلیمی میدان میں فرقہ وارانہ ذہنیت کو داخل کیا گیا ہے۔ خصوصیت سے تاریخ کی نصابی کتب جن کے وسطانوی سطح پر استعمال کی سفارش NCERT نے کی ہے۔ اس موضوع کو انگریزی صحافت نے ہندوستان اور ہندوستان کے باہر نمایاں طور پر پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر آر۔یم۔ پال کے مطابق پہلے جو Scientific Humanist رہبرانہ اصول نصابی کتابوں کے لیے 1994 میں بنائے گئے تھے NCERT نے ان سے انحراف کیا ہے اور ہمارے بزرگوں کے بنائے ہوئے بعض اصولوں کو حکومت کی ایما پر اور اپنی خود مختاری کو ٹھیس پہنچاتے ہوئے نصاب سے خارج کر دیا ہے۔ (29)ان کا کہنا ہے کہ اس کے بعد NCERT چاہتی تھی کہ موجودہ نصابی کتابوں کو نئی نصابی کتب سے، جو اسی حکومت کی پالیسی کے مطابق ہوں ، بدل دیا جائے۔ اس طرح سے بی جے پی کا ہندو سیاسی ایجنڈہ ہندوستان کے تاریخ دانوں اور ماہرینِ تعلیم کے کام میں مداخلت کرنے لگا تھا۔ یہ طریقۂ کار ہندوستانی جمہوریت میں بگاڑ پیدا کرنے والا ہے اور سیاسی مداخلت کے ذریعے ماضی کو بدلنے کی یہ کوشش تشویشناک ہے۔ اس سے فرقہ وارانہ ہے ذہنیت کو، جو پہلے سے تباہی مچائے ہوئے ہے، مزید ہوا دی جاتی۔ اس میں کیا شک ہے کہ علم و ادب کے معاملات میں مذہبی خطوط پر اُلٹ پھیر زبان کے اختلافات میں غیر معمولی شدت پیدا کرتی ہے اور ہندوستان میں مذہبی اور نسلی اتحاد کی تعمیر میں رخنے ڈالنے والی ہے۔

 

ادب

’’اِنکسٹڈی‘‘ میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے وہ اردو کے زوال اور پستی کے بارے میں ہے۔ ناول کا اینٹی ہیرو دیون ہندی کا ایک لکچر ر ہے۔ وہ اردو کی روایتی شاعری کا دیوانہ ہے۔ یہ دیوانگی اسے اپنے بچپن سے ہے کیوں کہ اردو مادری زبان والوں سے اس کا ساتھ رہا ہے۔ وہ لکھنؤ میں پیدا ہوا اور اس نے دہلی میں تعلیم پائی۔ وہ ایک غریب رنڈوے کا بیٹا ہے۔ اسے میرپور کے لالہ رام کالج میں لکچرار کی نوکری ملی ہے۔ اس کی یہ نوکری اس کی پسند نہیں ہے۔ معاشی حالات کی مجبوری تھی کہ اسے اس نوکری کو قبول کرنا پڑا۔ شمالی ہند میں ہندی زبان کا چلن تھا۔ یہ نوکری اسے مل گئی۔ اردو سے اس کو ذہنی لگاؤ تھا لیکن ہندی اس کی معاشی ضروریات کو پورا کرتی تھی: ’’میں صرف ایک ٹیچر ہوں  …  اور مجھے اپنے خاندان کی کفالت کے لیے پڑھانا پڑتا ہے  …  لیکن شاعری  …  اردو  …  مجھے ان کی خدمت کرنی ہے تاکہ ان کے تئیں میں اپنی قدر شناسی کا اظہار کر سکوں۔‘‘(43) دیون اپنے آپ کو اپنی فیملی میں محبوس محسوس کرتا ہے۔ اور جب اسے اپنے پسندیدہ مقام پر واپس ہونے کا موقع ملتا ہے تو وہ بلا جھجھک اور بغیر سوچے سمجھے اس پر عمل کرتا ہے۔ موقع فراہم کرنے والا اس کے بچپن کا دوست مراد ہے۔ وہ مراد کے مشورے پر عمل کرتا ہے۔

فیصلہ کرتے ہوئے وہ وقتی طور پر اپنے آپ کو آزاد محسوس کرتا ہے اور میرپور جیسے چھوٹے قصبے سے باہر نکل جانے کو ترجیح دیتا ہے۔ یہ مقام تو اس کے لیے ایک ریگستان جیسا ہے جو اس کے اور اس شہر کے درمیان حائل ہے جہاں اس کی دوستی کے بیش بہا خزانے خوشیاں اور اس کی تقدیر اس کا انتظار کر رہے ہیں (ص۔24)

شمال میں میرپور کا مسطح علاقہ سمندر سے کوئی ایک ہزار میل دور ہے۔ یہاں مسلمانوں کا وہ طبقہ جو اشراف کہلاتا ہے، بسا ہوا ہے۔ یہاں ایک نواب رہتا تھا جسے لوگ بھول بھال گئے ہیں۔ 1857 کی پہلی جنگ آزادی کے موقع پر اس نوابی خاندان کا بانی بھاگ کر یہاں آیا تھا اور اس نے میرپور میں ایک مسجد بنائی تھی اور شکرانہ بجا لایا تھا کہ خدا نے اس کی جان بچائی ہے۔ کہانی بیان کرنے والا ہم سے کہتا ہے کہ مسجد کی تاریخ حالات کے غبار میں مسخ ہو کر رہ گئی اور اب صرف میرپور کا نام باقی رہ گیا۔ مسجد میں چند سنگ مرمر اور چند سنگ سرخ باقی رہ گئے ہیں اور اس کے ملبے پر ماڈرنٹی کی تہیں جم گئی ہیں۔ لیکن قصہ گو کہتا ہے کہ مسجد کو عبادت کے لیے ابھی بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ میرپور کے ثقافتی ورثے کو بیان کرتے ہوئے وہ رقمطراز ہے :

’’مندروں کی بہتات ہے لیکن ان کی کوئی تاریخ نہیں ہے۔ میرپور میں ایک شخص بھی ایسا نہیں ہے جو ہمیں بتا سکے کہ انھیں کس نے تعمیر کیا اور کب تعمیر کیا۔‘‘ (ص۔20)

یہاں اس بات کا اعادہ کیا جا سکتا ہے کہ دیسائی نے میرپور کے جغرافیائی نقشے کا ایک دلچسپ مرقع کھینچا ہے۔ اب ایک مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے کہ جدید دور سے قطع نظر میرپور بے وجود  شہری نوابوں کا قائم کردہ ہے جو ہندو ورثے کے عہد رفتہ کی غیر یقینی صورتِ حال سے میل نہیں کھاتا: وہی عہد رفتہ جہاں غریبوں کی جھونپڑیاں ، بیوپاریوں کے اسٹال، ٹوٹے پھوٹے میز یا تخت، دوبارہ تعمیر شدہ یا مرمّت کیے ہوئے لیکن اپنی اصلیت میں برقرار (ص۔20) یہ بات ایسی بھی نہیں ہے کہ انیتا دیسائی فرقہ واریت سے کوئی ناتا جوڑ رہی ہیں بلکہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اس عقیدے کے وقت کا کوئی تعین نہیں ہے اور اسلام کی نمو بعد کی ہے۔ اس طرح بیانیہ میں تکرار مجبوری ہے۔ اس چھوٹے سے قصبے کا پورٹریٹ اردو کے بیانیے میں نقش ثانی بن کر پھیل گیا ہے اور اگر مجھے ایڈورڈ سعید کا محاورہ مستعار لینا ہو تو کہوں ‘Structure of attitude and references’ (بناوٹوں کا رویہ اور حوالہ) ]اردو میں کوئی متبادل محاورہ ہو تو مجھے نہیں معلوم[ دیکھیے حوالہ (30)۔ قصّہ گو ہم سے کہتی ہیں کہ میرپور کے باشندے واقف تھے کہ ہندو اور مسلمان کن محلوں میں بستے ہیں۔ دونوں قوموں کو ایک دوسرے کا پاس و لحاظ تھا۔ بگاڑ اس وقت پیدا ہوتا جب مسلمانوں کے محرم اور ہندوؤں کی ہولی دونوں تہواروں کا موسم ایک ہوتا۔ رسومات پوری کرتے ہوئے دونوں کا سامنا ہوتا تو پاس و لحاظ کا توازن بگڑ جاتا اور پولیس کے حفاظتی دستوں کی موجودگی کے باوجود خون خرابہ ہوتا:

’’تصادم  …  تھوڑے تھوڑے وقفے سے خنجر چمکتے  …  لاٹھیاں لہرائیں اور خون بہا۔ کچھ عرصے تک ہیجانی کیفیت رہی  …  اخباروں میں  …  ہندی اور اردو دونوں میں  …  بڑی احتیاط سے خبریں چھپتی رہیں  …  ہندوستان کے سیکولرزم پر اداریے لکھے گئے  …  پھر راتوں رات کیفیت بدلی …  خبروں میں کم احتیاط برتی جانے لگی …  ان میں الزامات اور دھمکیاں چھپنے لگیں۔‘‘ (ص۔21)

ہندی اور اردو کے اخباروں میں اشتعال انگیز باتیں چھپیں اور نسلی امتیازات اور علاقائی اختلافات کا بیان غلط انداز سے کیا گیا۔ اس طرح کی باتیں تفرقے کے رجحانات کو بڑھاوا دیتی ہیں اور پہلے سے موجود علاحدگی پسندانہ رویّے کو تقویت پہنچاتی ہیں۔ میرپور کے اس ہندو مسلم تنازع میں دیون کا کوئی رول نہیں ہے لیکن وہ اس تناؤ کا حصّہ بن جاتا ہے جو ہندو۔ ہندی اور مسلمان۔ اردو کے نام پر کارفرما ہے۔

دیسائی اپنی کہانی وہاں سے شروع کرتی ہیں جب دو دوست، جن کی نفسیات اور طبیعتیں ایک دوسرے سے نہیں ملتیں ، بغیر کسی طے شدہ پروگرام کے ایک جگہ مل جاتے ہیں۔ ایک دیون ہے اور دوسرا اس کا مسلمان دوست مراد۔ مراد ایک بگڑا ہوا دولت مند سگریٹ اور سنیما کا شوقین ہے (ص۔11)۔ کہانی علامتی طور پر ماہِ مارچ کے ابتدائی دور میں ، جو بہار کا موسم ہے، شروع ہوتی ہے۔ روایتی طور پر یہ کونپلوں کے پھوٹنے اور امیدوں کے برگ و بار لانے کا موسم ہے۔ دونوں دوستوں کی گفتگو دیون کی یونی ورسٹی کے گراونڈ میں ہوتی ہے۔ مراد جو بدلتی ہوئی ہواؤں جیسی طبیعت کا حامل ہے، وہ دھول پھیلاتا اور سوکھے پتوں پر سے پھلانگتا ہوا (ص۔10) اپنے ساتھ تبدیلی کی امیدیں لیے آتا ہے۔ اس نے دلّی سے میرپور تک سفر کیا ہے تاکہ دیون کو اپنے نئے پراجکٹ میں شامل کرے اور اسے اپنے ساتھ دہلی لے جائے۔ مراد جس کی شہرت ایک معروف اردو جریدے ’آواز‘ کے ایڈیٹر کی ہے، دیون کو دعوت دیتا ہے کہ وہ دہلی کے مشہور شاعر نورؔ شاہ جہاں آبادی کا انٹرویو لے تاکہ وہ اسے اپنے خاص نمبر میں شائع کرے۔

دیون الجھن میں پڑ گیا کہ آیا وہ اس ہیرو کا انٹرویو لے یا اپنی شاعرانہ تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرے اور اپنی تخلیقات ’آواز‘ کے خاص نمبر میں چھپوائے۔ لیکن مراد اس کی اس تجویز کو رد کر دیتا ہے اور اسے الزام دیتا ہے کہ وہ مراد کی مادری زبان اردو کو دھوکا دے رہا ہے اور اپنی ماہرانہ خدمات اس کی بڑی حریف ہندی زبان کو دے رہا ہے۔ یہ الزام پوری کتاب میں دیون کا پیچھا ان لمحات میں کرتا ہے جب وہ اردو کا کام کرنا چاہتا ہے۔ مراد اپنے کو اعلا کر دار کا حامل سمجھتا ہے اس لیے کہ دیون کی طرح اس نے ہندی کے آگے سرِ تسلیم خم نہیں کیا ہے۔ ایڈیٹر کی حیثیت سے وہ اردو کی زندگی بھر خدمت کرتا آیا ہے اور باوجود اپنے جریدے کی کم ہوتی ہوئی خریداری کے اس نے اس قیمتی ورثے کی حفاظت کی ہے۔ طباعت کے بڑھتے ہوئے اخراجات کو بھی وہ جھیل رہا ہے۔ اردو کے بارے میں مراد کا نقطۂ نظر اس کے پُر وقار ماضی کی دین ہے اور یہ ارادہ کہ اردو کا کھویا ہوا کلچر واپس لائے گا، وہ کلچر جو ماڈرن شہروں کے ادبی ماحول میں پھولا پھلا تھا تاکہ وہ موجودہ بے نام شہری زندگی کی نذر نہ ہو جائے۔ وہ اپنی خواہش کا اظہار ان الفاظ میں کرتا ہے :

’’اردو ادب کے شاندار ماضی کو زندہ رکھو، کسی بھی قیمت پر۔ اگر ہم اسے زندہ نہ رکھ سکے تو یہ اس دور میں کیسے زندہ رہے گا …  گھاس کھانے والا جانور …  ہندی؟ وہ کھیتی باڑی کرنے والوں کی زبان۔ اپنے دانتوں میں ماچس کی تیلی سے خلال کرتے ہوئے اس نے کہا۔ وہ زبان جو مولی گاجر کی طرح اگائی گئی۔ وہ پھولے پھلے گی، جب کہ شاہوں کے دور کی درباری زبان اردو اب شہر کے گلی کوچوں اور کچرے کی کنڈیوں میں مضمحل ہو کر پڑی رہے گی‘‘۔ (ص۔15)

کہا جاتا ہے کہ اردو دہلی کے قطب مینار کے مرکز کی بلندیوں سے نکلی اور چاندنی چوک کے بازار کی بھول بھلیوں میں داخل ہوئی۔ علامتی طور پر مراد کا کر دار جیسا کہ اس کے چہرے سے عیاں ہے، دانہ دار ہے جیسا کہ اس کی چہیتی اردو کا ہے جسے اب کسی شہنشاہ کی یا کسی نواب کی سرپرستی حاصل نہیں ہے اور اردو سے اس کی محبت کا سبب ہندی سے اس کی نفرت ہے۔ تاہم ہندی سے اس کا بغض اسے فرقہ واریت کی طرف نہیں لے جاتا۔ ’اِن کسٹڈی‘ میں وہ دیون سے کہتا ہے :

’’نورؔ اس موضوع کا ستارہ ہے۔ اس کے مرکز سے نکلتی ہوئی روشنی دنیا کے چپے چپے میں پھیلی ہے۔ جہاں کہیں اس کی شاعری پہنچی ہے۔ ایران، عراق، ملیشیا، روس، سویڈن …  کیا تم جانتے ہو۔ ہم نے ان کا نام نوبل پرائز کمیٹی کو بھیجا ہے ؟ میں چاہتا ہوں کہ نورؔ پر مکمل فیچر بنے  …  نورؔ اپنے بڑھاپے میں  …  رحلت سے قبل کا نورؔ۔۔۔ معدوم ہونے سے قبل جیسے اندھیرے میں کوئی دم دار تارہ چمکتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم ایسا فیچر بناؤ۔‘‘ (ص۔17)

یہاں دیسائی کا اشارہ عوام کے مسائل سے واقف جس مشہور شاعر کی طرف ہے، قیاساً وہ فیض ؔ ہیں۔ انقلابی اور ترقی پسند جنھیں 1962 میں لینن انعام دیا گیا۔ کلاسیکی اردو کی نغمگی کو فیضؔ نے بڑی ہی خوبصورتی سے اردو کے جدید اسلوب میں ڈھالا ہے۔ دیسائی کے بیان میں شیرینی ہے، فیضؔ کی شاعری کے ایسے ایسے استعارے اور تلازمے ہیں جن کی وضاحت ناممکن ہے لیکن وہ فیضؔ کی طرح سماج میں تبدیلی کا کوئی پیام نہیں دیتیں۔ فیضؔ کا سیاسی ایجنڈہ عاشق و معشوق کی کلاسیکل امیجری کو کُلّی طور پر بدل دیتا ہے۔ دونوں کی علاحدگی استعاراتی زبان میں ایک ریگستان کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور جہاں نسیم سحری نئی امیدیں لے آتی ہے۔

نیشن (قوم) فیضؔ کے لیے ناقابل حصول معشوقہ ہے اور وہ اس کے پرستار۔ نسیم سحری کے جھونکوں میں انقلاب کی جھلک اور مہک ہے جب کہ جدائی کا غم معشوق اور اس کے پرستار شاعر کے درمیان ہمیشہ کی طرح باقی ہے۔ (31)فیضؔ کے لیے شاعر میدان جنگ میں کھڑے سپاہی کی طرح ہے جس نے پہلے نو آبادیت کے خلاف لکھا اور پھر مابعد نوآبادیت کے پس ماندہ عوام کو ایسی امیدیں دلائیں جن کا وجود نہیں تھا۔ (32)کہانی میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ فیضؔ جو نورؔ کا ایک ہم عصر ہے وہ بیروت میں ہے۔ کہانی کا یہ حوالہ زندگی کی حقیقت کا انکشاف ہے اور ایک زندہ لیجنڈ کے وجود کا دیسائی کی طرف سے اعتراف (ص۔97)۔ نورؔ کی شخصیت کا خاکہ فیضؔ کی شاعری کے انقلابی رجحانات کے مطابق ہے۔ دیون کے لیے اردو کا شاعر جو اپنے وطن سے باہر ہے وہ اردو کے کاز کے لیے کسی گم شدہ شخص کی طرح ہے۔ اس کی نظر میں ایک ایسا شخص جو ملک کے اندر ہے وہی اردو کے کاز کے لیے کام کر سکتا ہے۔ لیکن جب قسمت مداخلت کرتی ہے اور مراد کی شکل میں نمودار ہوتی ہے تو وہ جوکھم مول لیتا ہے اور میرپور سے دلی کا سفر کرتا ہے تاکہ اپنی محبوب اردو کو دوبارہ حاصل کر لے۔

دیسائی کے قصّے میں اردو کے احیا کے لیے نورؔ کی حیثیت کلیدی ہے نام نورؔ کی کر دار نگاری میں وہ قدامت پرست ہیں۔ قارئین کی توقع کے برخلاف نور ؔ ماضی کے استعاروں سے نکلنا نہیں چاہتا اور نوابی زندگی سے رشتہ قائم رکھنا چاہتا ہے۔ اس کی زندگی میں ترقی پسند نظریات سے کوئی ہم آہنگی نہیں ہے۔ وہ اپنے کبوتروں میں مست ہے۔ الکوحل اور چکنی غذاؤں سے اس کے جسم کی چربی بڑھ گئی ہے۔ وہ جس گھر میں رہتا ہے وہ گرد سے اٹا ہے۔ اس کی دو بیویاں ہیں۔ مہمان نوازی کا شوق ہے۔ شاعری میں اس پر بائرن اور شیلی کے اثرات ہیں۔ ان انگریزی شاعروں کے غمزدہ رومانس اور اردو کی ماضی پرستی کی جھلک دیسائی کے ناول Clear Light of Day میں راجا کے کر دار سے عیاں ہے۔ ان ایّام میں جن کا سلسلہ تقسیم کے دور تک ہے راجا دق کا مریض ہے۔ یہ بیان ملاحظہ ہو:

’’اس کی حالت ناقابل بیان حد تک رومانٹک ہے۔ بِم (Bim) نے اس کی تیمار داری کرتے ہوئے اور اس کے چہرے کو اسپنج سے صاف کرتے ہوئے محسوس کیا۔۔۔ اس وزنی جسم کو اٹھاتے ہوئے لگ رہا تھا کہ وہ گوشت و خون کا لوتھڑا ہے۔ دلّی اس وقت شعلوں کی لپیٹ میں ہے۔ اسے بائرن ہی کی طرح امید تھی کہ وہ مصیبت زدہ لوگوں کی مد د کے لیے پہنچ جائے گا۔ بائرن ہی کی طرح بیمار اور بستر مرگ پر۔‘‘(33)

اسی طرح نورؔ بھی مصیبت اٹھانے کے لیے آمادہ ہے۔ اس کا بیمار جسم اردو کے شکستہ آئینے کی طرح ہے۔ لیکن راجا کے برخلاف وہ تقسیم کے شعلوں سے نبرد آزما نہیں ہے۔ اس کا دکھ دوسرا ہے۔ اس کا یہ دکھ اس کی جھوٹی انا میں جذب ہو گیا ہے۔ دیون مادی دنیا کی بے ہنگم صداقتوں میں پھنس گیا ہے۔ نورؔ اور فیضؔ کے برخلاف اس کی شاعری کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے بدلتے ہوئے وقت کے حصار میں۔ (34)

کسٹوڈین کے مفوضہ امور کو انجام دیتے ہوئے دیون اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو ان زندہ شاعروں کی نذر کر دیتا ہے جو  لیجنڈ بن گئے ہیں۔ لیکن کسٹوڈین کی حیثیت سے اپنے فرائض سے عہدہ برآ ہوتے ہوئے اسے بہت سی مشکلات کو دور کرنا ہے جن میں بعض کا پہلے سے اندازہ ہے اور بعض کا نہیں۔ اس کی پہلی ترجیح یہ ہے کہ وہ شاعر سے ربط پیدا کرے اور انٹرویو کے لیے اس کی رضامندی حاصل کرے۔ شاعر سے قریب ہوتے ہوئے وہ اپنے آپ کو نورؔ کی خانگی زندگی کی جزئیات میں الجھا ہوا پاتا ہے۔ اب وہ ایک ایسے ماحول میں داخل ہو گیا ہے جس سے چھٹکارا اس کے بس میں نہیں ہے۔ اپنی توقع کے برخلاف وہ اپنی زندگی کو نورؔ کی دونوں بیویوں کے رحم و کرم پر منحصر پاتا ہے۔ خود اپنی نجی زندگی میں اس کو بالا دستی حاصل تھی۔ بلا سوچے سمجھے مراد ہدایات دیتا رہتا ہے اور دیون کو مختلف کام انجام دینے کی ذمے داری سپرد کرتا ہے۔ ان کاموں میں یہ بھی شامل ہے کہ نورؔ کی شاعری کا آڈیو ریکارڈ اس طرح بنایا جائے کہ شاعر کو ابدیت حاصل ہو۔ ابتدا میں تو اسے اس بات سے اتفاق نہیں تھا کہ نورؔ کی شاعری کو ریکارڈ کرتے ہوئے خود اسے ایک چھوٹے درجے کا شاعر بنا دیا جائے۔ (ص۔91) لیکن مراد اس کی قصباتی ذہنیت پر نکتہ چینی کرتا ہے اور اسے یقین دلاتا ہے کہ نورؔ شاہ جہاں پوری کی شاعری ریکارڈ ہو کر عالمی شہرت حاصل کرے گی باوجودیکہ دیون نے کبھی کوئی ریڈیو خریدا تھا نہ استعمال کیا تھا۔ مراد طنز کے ساتھ وضاحت کرتا ہے کہ: ’’یہ دور الیکٹرانک کا دور ہے۔ کیا تم نے سنا ہے ؟ اس کی خبر میرپور تک پہنچی ہے کہ نہیں ؟‘‘ (ص۔ 92) مراد مسلسل ماڈرنٹی کی تبدیلی کا ذکر دیون سے کرتا ہے اور دیون اس کی باتوں پر مشکوک ہوتے ہوئے بھی اپنے دوست کی لفاظی کے آگے سر جھکا دیتا ہے  …  اور ناول کے اختتام تک پہنچتے پہنچتے، جب کہ واقعات ابتر ہو چکے ہیں ،ان کی دوستی کسی کھوئی ہوئی رسم کی علامت بن جاتی ہے۔

دیون کی، غیر متوقع طور پر لالہ رام لال کالج کے اردو شعبے کے ایک شخص سے دوستی ہو جاتی ہے۔ وہ ٹیپ ریکارڈر خریدنے کے لیے دیون کی مد د کالج کے فنڈ سے کرتا ہے۔ ہندی کے لکچر ر کی حیثیت سے دیون کی غربت اس کے کالج کی گرتی ہوئی حالت کے مماثل ہوتی ہے۔ اردو شعبے کا صدر عابد صدیقی ہے۔ اردو کا دوسرا کسٹوڈین عابد صدیقی بھی چھوٹا آدمی کہلاتا ہے۔ اس کا جوان مسخ ہوتا ہوا چہرہ سفید بالوں کی وجہ سے وقت سے پہلے بوڑھا لگتا ہے۔ یہ بھی اس ڈسپلن کی تباہی کا ایک مظہر ہے (ص۔96)۔ لالہ رام لال کالج میں اردو شعبہ اس لیے قائم ہو سکا کہ یہاں کے نوابی خاندان کے ایک وارث نے 1857 کے غدر کے بعد دہلی سے ہجرت کرتے ہوئے ایک بڑا عطیہ کالج کو دیا تھا (ص۔96)۔ معدوم ہوتے ہوئے کلچر کی نمائندگی کرنے والا صدیقی ایک خستہ حویلی میں رہتے ہوئے نہ صرف اردو کی زوال آمادگی بلکہ جدید ہندوستان کے تمام مسلمانوں کی حالت زار کا نمائندہ ہے۔ صدیقی کا طرز زندگی مسلمانوں کے عمومی حالات کا آئینہ ہے۔

اس کی حویلی کو بلڈرس نے زمیں بوس کر دیا اور اس سے نکل کر پھیلتی ہوئی گرد سارے میرپور پر چھا گئی۔

صدیقی نے جانتے بوجھتے اپنا مکان دہلی کے تاجر کو فروخت کیا تھا جس کا پلان تھا کہ وہ گراؤنڈ فلور پر دکانیں بنائے گا، اوپر فلیٹ کی تعمیر کرے گا، عقب میں سنیما گھر اور سب سے اوپر آفس۔۔۔پھر ایسے مکالمے اور چوں کہ مجھے روپیہ چاہیے۔۔۔ تم میری کمزوری سے واقف ہو۔۔۔ آفر اتنا اچھا تھا کہ میں انکار نہیں کر سکتا تھا، (ص۔198)۔ نتیجہ یہ نکلا کہ خود اس نے بھی جدید مصنوعات کی خاطر اردو کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ایک دوسرے نقطۂ نظر سے یہ اس بات کی تصدیق ہے کہ صدیقی کے طبقے کے لوگ کسی طرح اردو کے کسٹوڈین نہیں ہیں کیوں کہ قومی سطح پر ان کی کوئی آواز نہیں ہے کہ سنی جائے۔ وہ اپنے گھر میں رہتے ہوئے بھی بے گھر ہیں اور اس قابل نہیں کہ اس بیمار زبان کا مداوا کر سکیں۔ خود اسے بار بار احساس دلایا جاتا ہے کہ اس کی پوزیشن باہر کے آدمی کی ہے۔ یہ جب ہوتا ہے جب وہ نورؔ اور اس کے حلقے میں گھرا ہوتا ہے۔ نورؔ کہتا ہے :

’’وہ میرے لیے بولنے آیا ہے  …  میرے لفظ اس کے حلق سے نکلیں گے۔ سنو اور مجھے بتاؤ کہ کیا میری شاعری زندہ رہنے کی حقدار ہے یا پھر یہ راستے سے ہٹ جائے  …  وہ چارہ جسے کھیتی باڑی کرنے والے مزدور چباتے ہیں۔ ہندی؟ …  نورؔ اسے اس ہنگامے میں شامل کرنا چاہتا تھا تاکہ گزرتے وقت کے تصور کو زبان کی سیاست میں دوبارہ ضم کر دے  …  وہ جانتے تھے کہ اسے ٹھہرنا نہیں چاہیے تھا …  اس طرح کی باتیں سننے کے لیے  …  وہ ایک ہندو …  اور ہندی زبان کا استاد۔ اس نے ہمیشہ اپنے کو زبان کی سیاست سے پرے رکھا (ص۔54-55)۔

اس موقع پر دیسائی نے عمداً زبان کو مذہب اور سیاست سے جوڑا۔ انجام کار ناول ہمیں بتاتا ہے کہ مادری زبان اردو کا بولنے والا دیون معاشی طور پر اپنی زبانِ اوّل کی وجہ سے بے بس ہو گیا ہے۔ اردو اس نے اپنے بچپن میں لکھنؤ میں رہتے ہوئے پڑھی تھی۔ اس کا باپ جو ایک ٹیچر تھا، اور اردو شاعری کا دلدادہ، اس نے اپنے بیٹے کو اردو پڑھائی تھی۔ یہ اس کے لیے کچھ اچھا نہیں ہوا کہ باپ کے مرنے کے بعد ماں نے دہلی کی سکونت اختیار کر لی۔ ’’میں نزدیک کے ہندی اسکول میں بھیجا گیا تھا جناب۔‘‘ جب وہ پہلی بار نورؔ شاہ جہاں آبادی سے ملا تو اس نے یہی کہا۔ ’’میں نے اپنی ڈگری ہندی میں حاصل کی جناب اور اب میں لالہ رام لال کالج میرپور میں عارضی لکچرار ہوں۔ یہی میرا وسیلۂ معاش ہے جناب۔ میں شادی شدہ اور فیملی والا آدمی ہوں ‘‘ (ص۔43)آزادی کے بعد ہندوستان میں اردو سے دیون کا پیار اور ہندی میں اس کی ملازمت، اس تضاد کی بنا پر وہ اکثر مشکل محسوس کرتا ہے کہ دونوں سے کس طرح نباہ کرے۔ نورؔ اس پر کھلے الفاظ میں حملہ کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے :

’’ان کانگریس والوں نے ہمارے اوپر ہندی کو زبردستی لاد دیا ہے۔ تم ان کے غلام ہو۔ تم ایک جاسوس ہو سکتے ہو جس کا خود تمھیں بھی علم نہ ہو۔ یونی ورسٹیوں میں بھیجے جا رہے ہو تاکہ اردو کا بچا کھچا بھی برباد کر دو …  شکاری کی طرح اس کا پیچھا کرو اور اسے مار ڈالو۔ تم شاید یہاں اس لیے بھیجے گئے ہو کہ مجھے اذیت پہنچاؤ۔ یہ کہنے کے لیے کہ اردو پستی کی کس سطح تک پہنچ گئی ہے۔ ‘‘ (ص 43-44)

دیون اردو کلچر کے حاشیہ نشیں کی حیثیت اختیار کر گیا ہے کیوں کہ وہ اعلیٰ طبقے کا نمائندہ نہیں ہے۔ اس نے پڑھانے کے لیے ایسی زبان کا انتخاب کیا ہے جو اسے ملازمت دیتی ہے اور معاشی خوشحالی کی طرف لے جاتی ہے۔ اردو ایسا نہیں کر سکتی۔ غیر متوقع طور پر وہ نورؔ کا انٹرویو لینے آگیا ہے۔ عارضی طور پر اسے اپنے حصار سے باہر نکلنے کا موقع ملا ہے۔ لیکن یہ آزادی خطرے سے خالی نہیں ہے۔

اس خطرے کا احساس دیون کے دہلی تک بس کے پہلے ہی سفر کے بارے میں پڑھتے ہوئے قاری کو ہوتا ہے اور اس کے قطعی ہونے کا جب پتہ چلتا ہے جب بین ریاستی ٹرمنل کے بس اسٹاپ پر، جو دہلی کے رِنگ روڈ پر واقع ہے اور جہاں چائے خانہ ہے ‘ بس رکی ہوئی ہے اور وہ چائے کی پیالی ختم کر چکا ہے۔

… اس نے مری ہوئی مکھی کو چائے کی پیالی میں دیکھا۔ اس نے چائے خانے کے مالک کی گندگی اور بے حسی پر ایک گہری سانس لی۔ حفظانِ صحت کا یہ گھٹیا معیار۔ پھر اسے ٹائفائڈ اور ہیضے کا خطرہ محسوس ہوا۔ یہ ایک بد شگونی تھی جسے وہ گلاس کی تہہ میں اپنی انگلیوں کے بیچ سہارے ہوئے تھا۔ اس میں کوئی زخمی کتا، فتح یاب کوّا …  مردہ مکھّی …  موت …  جب اس کی آنکھ مکھّی کی آنکھ کی چمکتی ہوئی پتلی کے مقابل ہوئی تو چائے میں ڈوبی ہوئی مکھّی اپنی چمکیلی آنکھ کے عدسے میں اسے بغیر پلک جھپکائے گھورنے لگی۔ (ص۔29)

ایک علامتی انداز میں کتے، کوّے اور مکھی کا ذکر کرتے ہوئے اس بد شگونی کو پیش کرنے والا ہمہ داں یہ بتانا چاہتا ہے کہ دیون کا سفر شروع ہونے سے قبل ہی اختتام کو پہنچ گیا ہے کیوں کہ وہ زبان جس کی وہ حفاظت کرنا چاہتا ہے وہ کبھی کی مر چکی۔

دیون نے مراد کی غیر معتبر امداد سے جو سکنڈ ہینڈ ٹیپ ریکارڈر خریدا تھا اسے چیکو کے بھروسے پر رہنا تھا۔ چیکو، وہ ٹکنیشین لڑکا جو ریکارڈنگ کے لیے اس کی مد د پر مامور تھا۔ ٹیپ ریکارڈر تو ماڈرنٹی کی پہچان ہے اور ڈیزائن کے مطابق کام کرتا ہے لہٰذا وہ روایت کی آواز یا ماقبل جدید ہندوستان کو ریکارڈ کرنے سے انکار کر دے گا۔ ترقی پذیری کا ساتھ دینے کی چیکو کی نا اہلی بھی ایک استعار ہ ہے جو ہندوستان میں زبان کے ساتھ ہونے والی ناانصافی اور عدم مساوات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ریکارڈنگ میں جو ناکامی ہوئی ہے وہ اردو کی غیر کارکر دگی کی غماز ہے۔ یہ مکمل ناکامی ہے۔ "Fiasco” سے بہتر کوئی اور لفظ نہیں ہے۔ یقین نہ کرتے ہوئے دیون نے پہلے ٹیپ کو نکال دیا، دوسرا لگایا گیا اور پھر تیسرا اور چوتھا بھی (ص۔173)

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ناول میں ایک متبادل صورت نورؔ کی دوسری بیوی کی شاعری میں ڈھونڈی گئی ہے۔ لیکن اسے دیون نے رد کر دیا ہے کیوں کہ وہ اس عورت میں ایک سانپ دیکھتا ہے۔ ایک نقلی شخصیت جس نے اپنے شوہر کے شعر چرائے ہیں۔ اس کے علاوہ امتیاز بیگم کا کر دار دیون کے لیے ایک مسئلہ ہے کیوں کہ وہ نقلی شخصیت رکھنے کے علاوہ ایک سفاک درباری عورت کی طرح ہے جو جدیدیت کے دور سے قبل کے ترقی پسند شاعر کی اپنی پسند کی دوسری بیوی ہے۔ وہ اپنے مسودات دیون کو دیتی ہے تاکہ ان کا تنقیدی جائزہ لیا جا سکے وہ بڑی مایوسی کے ساتھ کسی ایسے سرپرست کی تلاش میں ہے جو اسکے جوہر کو تسلیم کرے گا اور جس کی اعانت سے وہ کم از کم اوسط طبقے کے اردو دانوں میں متعارف ہو گی۔ جس لہجے میں وہ دیون سے بات کرتی ہے وہ مسابقتانہ ہے :

’’ریکارڈنگ کوئی راز نہیں۔ اسے مجھ سے چھپانے کی تمھاری جو بھی وجوہات ہوں ، نورؔ صاحب مجھ سے پوشیدہ نہیں رکھ سکتے۔ کیا مجھے اس قابل نہیں سمجھا گیا کہ نورؔ صاحب کی شاعری کو اگلی نسلوں میں قبولیت کا درجہ دلانے میں معاون ہو سکوں ؟ کیا صفیہ بیگم مجھ سے زیادہ عقلمند اور قابل ہے کیوں کہ اس نے نورؔ صاحب کے ساتھ زیادہ زندگی گذاری ہے۔ میں تم سے کہنا چاہتی ہوں کہ تم نے اپنے کمتر ذہن کی وجہ سے میری ذہانت پر شبہ کیا ہے  …  تم نے سوچا میں ایک طوائف ہوں جو نورؔ صاحب کی آنکھوں کو اپنے رقص کی وجہ سے چکا چوند کر گئی اور طوائفوں کے طویلے سے نکل کر ایک ممتاز و مشہور شاعر کے گھر پناہ لے لی۔ برائے مہربانی یاد رکھو کہ نورؔ صاحب کی شہرت اور تمھاری قدر و منزلت اپنی جگہ مگر میں ایک ایسی عورت ہوں جس نے علم تو حاصل نہیں کیا لیکن ساری عزت و شہرت اپنے بل بوتے پر حاصل کی ہے۔۔۔جب تم اٹھ کر میرے گانے کے دوران محفل سے چلے گئے تو کیا اس ڈر سے نہیں کہ شاید میں نورؔ صاحب یا ان جیسے دوسرے مرد شاعروں کے کلام کو گہن لگا دوں گی جنھیں تم عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہو؟ کیا یہ تمھارے لیے ناقابلِ برداشت نہیں تھا کہ ایک عورت ان کا مقابلہ کر رہی ہے بلکہ انھیں نیچا دکھا رہی ہے۔ ‘‘ (ص۔195)

اس چیلنج کا جواب دیون کے پاس یہ تھا کہ وہ اس کے مسودات کو رد کرے اور اس کے دعوے کو جھوٹا کہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اردو کسی عورت کی شاعری کی ماڈرنٹی کو قبول نہیں کر سکتی۔ وہ اس میدان میں پہلی عورت نہیں ہے چنانچہ دیون اس کی شاعری کو بیکار پلندہ قرار دیتا ہے۔

اردو کے بارے میں اعجاز احمد کا نقطۂ نظر اردو کے معروف فکشن رائٹر انتظار حسین کے بالکل برخلاف ہے۔ جن کا کہنا ہے کہ اردو کا روایتی ورثہ اس کی تبدیلی مقام میں پوشیدہ ہے۔ انتظار حسین کے مطابق اس زبان کو کسی ایک علاقے سے منسوب نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ یہ فطرتاً ہائی برڈ ہے اور کسی بھی علاقے میں ڈھالی جا سکتی ہے۔ (35)دیسائی کی اردو گرما کے موسم میں دھوپ کی شدت سے پگھل جاتی ہے اور بہار کی امید افزا شروعات کا انتظار نہیں کرتی۔(36)

 

اختتامیہ

دیسائی کے مرکزی کر دار دیون، مراد اور نورؔ سارے کے سارے اردو کی ماضی کی روایات کے مارے ہوئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اسے اس کا پچھلا وقار حاصل ہو۔ ان کی قبل از جدیدیت کی کلچرل یاد داشت انھیں جدید انڈسٹریل قدروں کو رد کرنے کی تلقین کرتی ہے۔ اپنے ناول میں دیسائی نے اردو کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ ماضی کے ورثے سے وداع لینا چاہتا ہے۔ ان کی علامتیں موجودہ فرقہ وارانہ کشیدگی کو پیش نظر رکھتے ہوئے استعمال ہوئی ہیں اور ہندو۔۔ ہندی یا مسلمان — اردو کے تفرقے کو مٹا نہیں سکیں باوجودیکہ انھوں نے ناول میں اس کی مخالفت کی ہے۔ اردو کا کسٹوڈین دیون استعاراتی ریگستان کی خلیج کو پاٹ نہ سکا جو ایک چھوٹے قصبے میرپور اور ہندوستان کے دار الخلافہ دہلی کے درمیان حائل ہے اس لیے کہ نورؔ کے حواریوں کے الفاظ میں اردو شاید مر چکی ہے 1947 میں (ص۔56) اور دہلی آگے بڑھ چکا ہے۔

٭٭٭

حوالے

 

.1        Desai, Anita, In Custody, England: Penguin Books, 1985. All subsequent reference are taken from this edition and direct quotations cited will give page numbers in the text.

.2        Hasan, Khalid (ed.), The Unicorn and the Dancing Girl: poems of Faiz Ahmad Faiz, trans. Daud Kamal, London: Independent, 1988, p. 36.

.3        اس میں اردو شاعری سے راجا کا لگاؤ پیش کیا گیا ہے۔

.4        Khilnani, Sunil, The Idea of India, London: Penguin, 1998, pp. 200-02.

.5        http://www.umiacs.umd.edu/usevs/sawweb/sawnet/bo oks/desai_interview.html

.6        Ahmad, Aijaz, Lineages of the Present: political essays, New Delhi: Tulika, 1996, pp. 201-02

.7       کرسٹوفرلی کا حوالہ ہے۔ ’’لاٹھی سے اسے مارو تب بھی وہ مرنے کا نہیں۔‘‘

.8Ibid., p. 339.

.9        Ahmad, Aijaz, In Theory: classes, nations, literatures, London, New York: Verso, 1992, p. 278. See chapter 7 "Indian Literature”: notes toward the definition of a category’, pp. 243-86.

.10     See Gauri Viswanathan, Masks of Conquest: literary study and British rule in India, London: Faber &Faber, 1989.

.11     ان بحثوں کا خلاصہ بعض مونگرافس میں بھی ظاہر ہوا ہے۔ جیسے Shackle اور Rupert

.12     See Benedict Anderson, Imagined Communities: reflections on the origin and spread of nationalism, rev. edn, London: Verso, 1991, and also Homi K. Bhabha (ed.), Nation and Narration, London: Routledge, 1990.

.13     Bose, Sugata and Ayesha Jalal, Modern South Asia: history, culture, political economy, London: Routledge, 1998, pp. 84-5.

.14     Shacle and Snell, 1990, p. 8.

.15     Robinson, Francis, Separatism Among Indian Muslims: the politics of the United Provinces’ Muslims 1860-1923, Cambridge: Cambridge University Press, 1993, pp. 133-74.

.16     Das Gupta, Jyotirindra, Language Conflict and National Development: Group Politics and National Language Policy in India, Berkeley, London: University of California Press, 1970.

.17     Ibid., p. 103.

.18     شمال مغربی ریاستوں میں ہندی کی درخواستوں میں اضافہ ہوتا رہا لیکن اردو کی ایک ہی درخواست داخل ہوئی۔ اس پر بھی دستخط کرنے والوں کی تعداد بہت کم تھی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انیسویں صدی میں کس طرح زبان سے متعلق درخواستیں فرقہ وارانہ ذہنیت کی نمائندہ تھیں اور زبان و مذہب کو لے کر کس طرح کی تقسیم کے در پے تھیں۔ زبان کے مسئلے پر درخواستیں دینے کا کلچر تقسیم کے بعد بھی قائم رہا۔ مرحوم ڈاکٹر ذا کر حسین نے بیس لاکھ پچیس ہزار دستخط اردو بولنے والوں کے حاصل کیے تھے اور صدر جمہوریہ سے درخواست کی تھی کہ آئین کی دفعہ 347 کے تحت اردو کا تحفظ کیا جائے۔ یوپی میں اردو کاز کے لیے جو مہم چلائی گئی اور اس میں سیاست دانوں کا جو رول تھا اسے جاننے کے لیے دیکھیں ’’یو پی میں اردو‘‘ دانیال لطیفی۔ Nation and the World 1999 pp 44-6

.19     Das Gupta, 1970, p. 36.

.20     Lelyveld, David, ‘The fate of Hindustani: colonial knowledge and the project of a national language’ in Orientalism and the Postcolonial Predicament: perspectives on South Asia, eds, Carole Breckenridge and Peter van der Veer, Philadelphia: University of Pennsylvania 1993, pp. 189-214, p. 192.

.21     Ibid., p. 192.

.22     Khilnani, 1998, p. 175.

.23     King, 1994, pp. 4-7.

.24     Das Gupta, 1970, p. 243.

.25     Farouqui, Ather, ‘Urdu education in India: four representative states’, Economic and Political Weekly, 2 April 1994, pp. 782-5, p. 782.

.26     Ibid., p. 783.

.27     Hasan, Zoya, Quest for Power: oppositional movements and post-Congress politics in Uttar Pradesh, Delhi: Oxford University Press, 1998, p. 187.

.28     Ibid, pp. 187-8. Also see Christophe Jaffrelot ‘The Sangh Parivar between Sanskritisation and Social Engineering’ in The BJP and the Compulsion of Politics in India,  eds, Thomas Blom Hansen & Christopher Jaffrelot, Delhi: Oxford University Press, 1998, pp. 22-71.

.29     Pal, R.M., ‘Objectionable Nonsense’, Mainstrea, 22 December 2001, p. 39.

.30     ایڈورڈ سعید نے ریمنڈ ولیم کے محاورے Structure of Feeling کو مستعار لیتے ہوئے اس میں ترمیم کی ہے اور Structures of Attitude and reference کے الفاظ میں استعمال کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ محل وقوع کے جغرافیائی حوالے ہمیں ثقافت، زبان و ادب، تاریخ اور نسلوں کے ارتقا میں ملتے ہیں۔ کبھی اشاروں کنایوں میں اور کبھی غور و فکر سے تیار کردہ مرقعوں میں۔ یہ ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے۔ وہ بھی نہیں جو کسی سلطنت کے لیے تیار کیے جائیں ۔۔ میرا خیال ہے کہ اس طرح کی مثالیں ہر اس کام میں موجود ہوتی ہیں جس کا منبع طاقت ہو اور مخاطب ایک ’’دوسرا‘‘ (the other) ہو۔ جیسا کہ ہندوستان میں اردو کا معاملہ ہے اور ہندوستانی تاریخ میں مسائل سے گھرے ہوئے اسلام کا ہے۔

.31     Narang, Gopi Chand, Urdu Language and Literature: critical perspectives, New Delhi: Sterling, 1991. See the chapter on Faiz Ahmad Faiz which discusses in detail aspects of tradition and innovation in his poetry.

.32     Hasan, 1988, p. 74.

.33     Desai, 1980, p. 69.

.34     فیضؔ کی یہ ابتدائی نظم انھیں شاعر منوا لیتی ہے۔ فیضؔ کی ترقی پسند شاعری کا تفصیلی مطالعہ کرنا ہو تو کارلو کیولا کی تصنیف ’’اردو شاعری۔۔ ترقی پسند رجحانات‘‘ پڑھیں۔

.35     Husain, Intizar, ‘Urdu ka tehzibi mizaj’ (Urdu’s cultural etiquette), Annual of Urdu Studies, 15:2, 2000, pp. 372-6, p. 375.

.36     دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ناول کو فلم میں بدلنے کی بات نو سال بعد ہوئی۔ بمبئی کے ڈائرکٹر اسمٰعیل مرچنٹ، جو عالمی سطح پر مشہور ہیں اور آئی وَری پراڈکشن گروپ کے کامیاب شراکت دار، انھوں نے یہ بیڑا اٹھایا۔ اردو میں اس کی اسکرپٹ دوبارہ شاہ رُخ حسین نے انیتا دیسائی کے تعاون سے لکھی: قصّے کے بیان کرنے میں اہم تبدیلی لائی گئی جو جبر و استبداد کا مظہر تھا۔ اردو کے بارے میں انگریزی بیانیہ کا انداز اور قصّے کی برجستہ تبدیلی …  اردو کا قصّہ اردو زبان میں  …  اردو کے بارے میں مرچنٹ کے سوچنے کا ڈھنگ دیسائی کی سوچ سے بالکل مختلف ہے کیوں کہ وہ یہ باور نہیں کرتے کہ اردو باقی نہیں رہے گی۔ اس قصّے کو فلم میں تبدیل کرنا ان کے اس یقین کا پکا ثبوت ہے۔

٭٭٭

 

 

 

آزاد ہندوستان میں اردو کا مقدر

 

ڈانیلا بریڈی

 

لسانی اور سیاسی مسائل ایک دوسرے سے مربوط ہوتے ہیں اور (1)جیسا کہ پال براس نے بڑی مہارت سے ثابت کیا ہے (2)آزاد ہندوستان میں زبان اور سیاست کے رشتوں نے مسلمانوں کے لیے اردو کے مقدر کو ڈانواں ڈول کر دیا ہے۔ نیشنلسٹ مسلمانوں کا، جن میں ڈاکٹر ذا کر حسین شامل ہیں ، اس سے گہرا تعلق رہا۔ انھوں نے مقدور بھر کوشش کی کہ اس خوب صورت زبان کو ہندوستانی قومیت کی شناخت کی قربان گاہ سے بچایا جائے۔ لیکن یہ سوال ایسا بھی نہیں کہ اس کا حل آسانی سے دریافت کیا جا سکے، خاص طور پر ایک ایسے سماج میں جو فرقہ واریت میں گھرا ہوا ہے اور جس میں تحمل اور قوت برداشت کا فقدان ہے۔ سچ پوچھیے تو آج بھی مسلمانوں کی اتنی بڑی اقلیت کو قومی دھارے سے جوڑنے اور ملک میں یکجہتی قائم کرنے کے لیے اردو زبان کی بنیادی اہمیت ہے۔ لہٰذا ہمارے لیے ضروری ہے کہ ماضی میں جھانکیں اور مسلمان قوم، ہندوستانی قومی شناخت اور اردو کے درمیان جو رشتہ تھا اس کی اصل دریافت کریں۔

جنوبی ایشیا میں سماج اور زبان کی پیچیدگیاں خاصی ہیں۔ ہندوستانی سماج مختلف گروہوں اور ذات پات کے طبقات میں بٹا ہوا ہے۔ ان کے کلچر بھی الگ الگ ہیں۔ ہندوستان میں ایسے گروہ بھی بہ کثرت ہیں جو علاحدہ علاحدہ علاقوں میں نہیں رہتے لیکن ایک زبان یا ایک بولی استعمال نہیں کرتے اور نہ ہی ان کا آپس میں ترسیل کا کوئی ذریعہ ہے (3)۔اس کے علاوہ ہندوستان کی تاریخ میں علم و ادب کے مسائل ہمیشہ مذہب کے زیرِ اثر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر چاروں وید الگ الگ برہمنوں کے گروپس کے ترتیب دیے ہوئے ہیں اور وہ بھی انھیں افراد کے لیے جو ان کے اپنے گرد پیش سے وابستہ تھے اور جو اپنی زبان لکھ پڑھ سکتے تھے۔ اس طرح مذہبی اختلافات زبان و ادب کی تبدیلی کا سبب بنے۔ پالی زبان برہمنوں کے خلاف بدھسٹوں کی بغاوت کا سبب بنی۔ پرا کرت جین مت کی زبان تھی۔ اس کی اور بھی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ کسی بھی زبان کا ادبی لہجہ عام بول چال کے لہجے سے مختلف ہوتا ہے اور اس سے مانوس ہونے کے لیے کسی بھی شخص کو چند برس صرف کرنے پڑتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ موجودہ دور کی ابتدا ہی میں شمالی ہندوستان کے بعض علاقوں میں زبان کی زمرہ بندی اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ حکومت اپنے انتظامی معاملات اور دستاویزات کی تیاری میں فارسی زبان کا استعمال کرتی تھی۔ برہمنوں نے سنسکرت کو اپنی رسومات کے لیے استعمال کیا۔ اودھی اساطیر اور فلسفیانہ شاعری کی زبان ٹھہری۔ برج بھاشا جذبات اور موسیقی سے بھرے گیتوں کے لیے استعمال ہوتی رہی۔ اردو کا استعمال بازاروں اور ملٹری کیمپسوں میں ہوا کرتا۔ ساتھ میں تجارت پیشہ اور مصنوعات کے کاریگر بھی یہی زبان بولتے رہے اور آپس میں مخصوص کوڈ کے الفاظ کا استعمال کیا تاکہ ان کی باتیں راز میں رہیں۔ زبان کے استعمال کی یہ صورت حال تھی تو بہت کم لوگ اس بات کے اہل تھے کہ اپنے قومی مسائل کو خود اپنے طور پر حل کریں۔ عام لوگ اپنی بول چال اور بازاری زبان ہی تک محدود تھے اور اگر ان میں کے چند لوگ لکھے پڑھے ہوتے تو اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ یہ لوگ عدالتی دستاویزات یا مذہبی عبارتوں کو بغیر کسی ماہر شخص کی مد د کے پڑھ سکتے ہیں۔ مختلف زبانوں کے اپنے اپنے ماہرین تھے اور یہ مہارت ان کی روزی کا ذریعہ تھی (4)

انیسویں صدی سے قبل ادب میں اور مصنوعات کی تیاری میں استعمال ہونے والی خاص علاقائی زبانوں کی جگہ انگریزی نے لے لی اور بعض ماڈرن علاقائی زبانیں بھی استعمال میں آنے لگیں۔ تاہم ان زبانوں کی زمرہ بندی کی گئی۔ ہندی اور اردو بہ حیثیت ادبی زبانوں کے ایک دوسرے سے مختلف ٹھہریں۔ اس کا سبب وہ اصطلاحیں ہیں جو سنسکرت، فارسی اور عربی جیسی کلاسیکی زبانوں سے لی گئی ہیں۔ سنسکرت زبان سے لیے ہوئے الفاظ ناگری اسکرپٹ میں لکھے گئے جب کہ عربی اور فارسی زبانوں سے لیے ہوئے الفاظ عربی اسکرپٹ میں۔تلفظ اور لہجے نے بھی مشکلات پیدا کر دیں۔ اردو زبان کے تلفظ میں فارسی صوتیات کا استعمال ہوا جب کہ ہندی نے ناک سے نکلنے والی اور پس خمیدہ صوتیات پر زور دیا۔ عملاً ان زبانوں کے بولنے والے ان ہی اصولوں کو برتتے ہیں جو ان کی اپنی اپنی زبانوں کی خصوصیات ہیں۔ اس لیے ہندی اور اردو میں جو تبدیلی آئی وہ بتدریج رہی ہے یا سیال۔ تاہم ہندوستان کی مستند کی نصات دنیا کی دوسری زبانوں کے مقابلے میں بڑی محدود رہی ہے اس لیے کہ حروف تہجی کا استعمال یا تو صحیح نہیں ہوتا یا ذات پات اور امیر و غریب کی تفریق کی بنیادوں پر ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ دو دو زبانیں جانتے ہیں۔ وہ اپنے گھروں میں اپنی بولی استعمال کرتے ہیں اور گھر سے باہر ادبی زبان بولتے ہیں۔

آج کی لسانی صورت حال بہ نسبت چند صدیوں قبل کے کم پیچیدہ ہے اگرچہ کہ کلیتاً زبان کے اختلافات مغربی ممالک کے صنعتی سماج کے مقابلے میں یہاں زیادہ ہیں۔ زبان سے متعلق حکومت کی پالیسی کو اسی لسانی پس منظر میں دیکھنا چاہیے اور اسی طرح قومی شناخت کو بھی انھی حالات سے جوڑنا چاہیے۔

سیاسی اتار چڑھاؤ کا انحصار کئی عناصر کے باہمی ٹکراؤ پر ہوتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ ایسے اداروں کی تنظیم کی جائے جن کی مد د سے انسانوں اور معاشی ذرائع کی نقل و حمل عمل میں آئے۔ کسی بھی ملک کی سیاسی یکجہتی ہو کہ معاشی خوش حالی اسی طریقۂ عمل سے ترقی کی سمت گامزن ہوتی ہے۔ سیاسی یکجہتی ایسے عمل کی طرف اشارہ کرتی ہے جو مختلف سماجی سرگرمیوں کو ایک سیاسی تنظیم میں متحد کر دیتا ہے۔ (5)قوم کی تعمیر اور ترقی کا یہ عمل کئی عوامل کے ایک ساتھ موجود ہونے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس میں سیاست کی کارکردگی اور اس کی تبلیغ و ترسیل کی اشد ضرورت ہے۔ چوں کہ زبان ترسیل کا سب سے اہم ذریعہ ہے اس لیے یہ ایک اہم اور اعلیٰ مرتبے کا سماجی عنصر بھی ہے خاص طور پر ان حاکموں کے لیے جو چاہتے ہیں کہ قومی یکجہتی کو فروغ دیں۔ زبان اور سیاست کے درمیان اختلاط ڈرامائی صورت حال اختیار کر سکتا ہے کیوں کہ زبانوں کی کثرت نے ایک نہایت پیچیدہ صورت حال کو جنم دیا ہے۔ نو آبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد انگریزی کی جگہ کسی ہندوستانی زبان کو قومی زبان کا منصب دینے کی کوشش نے حالات کو بری طرح بگاڑ دیا۔

 

آزادی کے قبل کا ڈائلما

آزادی کے قبل کے دور میں بھی، جب عوام میں سیاسی ہلچل مچی ہوئی تھی، لسانی مسائل اٹھائے گئے تھے۔ خاص طور پر اردو۔ ہندی کا سوال اہم تھا۔ جب قومی شناخت کا مسئلہ سامنے آیا تو اردو کو ہندو مسلم کلچر کی علامت قرار دیا گیا۔ مسلم لیگ نے اسے قومی زبان بنانے پر اصرار کیا۔(6)ویسے اردو ہندوستانی مسلمانوں کے لیے کسی خاص اہمیت کی حامل نہیں تھی۔ وہ تو مغل کلچر کی نمائندہ تھی۔ بنیادی طور پر وہ صرف مسلمانوں کی زبان نہیں تھی بلکہ ایک مخلوط کلچر کی زبان تھی۔ کشمیر، پنجاب، یوپی، بہار اور بنگال کے لاکھوں غیر مسلم اس زبان کے بولنے والے تھے۔

آزادی کے بعد ہندوستانی قومی تحریک کو احساس ہوا کہ انگریزی کی جگہ ایک قومی زبان کو دی جائے لیکن اسے یقین نہیں تھا کہ جو لوگ اس مسئلے کا حل چاہتے ہیں وہ اتفاق رائے کے ساتھ ہندی کو قبول کر لیں گے۔ قومی قائدین کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی کہ ہندی کو جو ہندی۔ ہندوستانی یا صرف ہندوستانی کہا جاتا ہے اسے قبول کر لیا جائے اور اسے برصغیر میں مقبول کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے گاندھی جی کی 1925 میں پیش کی گئی اس تجویز کی تائید کی جو گاندھی جی نے انڈین نیشنل کانگریس میں ہندوستان میں قومی زبان کے سلسلے میں منظور کروائی تھی۔ (7)ان واقعات اور ان کے بعد آنے والے واقعات کو پوری طرح سمجھنے کے لیے اور ان کی سیاسی اہمیت سے واقف ہونے کے لیے ہمیں ایک قدم پیچھے جانا ہو گا۔ یہ دیکھنا ضروری ہو گا کہ ہندی اردو اختلافات کی تاریخ کیا بیان کرتی ہے۔ اس تاریخی دور اس دور کے اختلافات کے مطالعے سے ہمیں مد د ملے گی کہ تشخص کے تصور نے کن حالات میں جنم لیا۔

جس اختلافی رائے میں شدت ہے اس کے مطابق اردو اور ہندی دو مختلف زبانیں ہیں۔ اسے قبول کر لینا چاہیے (8)باوجودے کہ بہت سے لوگ اس پر یقین کرتے ہیں کہ دراصل یہ ایک ہی زبان ہے جو شمالی ہند میں عام طور پر بولی جاتی ہے۔ بعض لوگ اسے ہندی، بعض اردو اور بعض ہندوستانی کہتے ہیں۔ کرسٹوفرکنگ اور الوک رائے کا کہنا ہے کہ اس زبان کو ہندوستان کے تاریخی حالات نے مخصوص اغراض کے تحت دو زبانوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک نے سنسکرت کا سہارا لیا اور دوسری فارسی، عربی کی طرف ملتفت ہوئی۔ رائے نے اس دور کی بھی نشان دہی کر دی جب ان دونوں کی علاحدگی ہوئی۔ وہ انیسویں صدی کا آخری دور تھا۔ وہ یہ نہیں بتانا چاہتے کہ اس دور تک جنوبی ایشیا کی دو طاقتور قوموں میں ایک معصوم اتحاد تھا۔ انھیں صرف اتنا ہی کہنا ہے کہ اس دور تک ان دونوں قوموں کے درمیان زبان کی کوئی تفریق نہیں تھی۔ برطانیہ کی غلط فہمیوں اور فورٹ ولیم کی نظریہ پرستی نے ابھی تک زبان کو متاثر نہیں کیا تھا۔ یہ وہ زبان تھی جو شمالی ہند کی تمام زبانوں کی آمیزش لیے ہوئے تھی اور اس نے صرف سنسکرت، فارسی اور عربی جیسی کلاسیکی زبانوں ہی سے نہیں بلکہ نئی پھلنے پھولنے والی پرا کرت جیسی زبانوں سے بھی اکتساب کیا۔ (9)اس دور تک تو یہ ایک ہی زبان تھی چاہے آپ اسے دیوناگری رسم الخط میں لکھیں یا عربی و فارسی رسم الخط میں۔ افسوس کہ برطانیہ کو جس مسئلے کا سامنا کرنا پڑا وہ یہ تھا کہ دونوں میں سے کس زبان کو وہ شمالی ہند کی زبان قرار دے اور ان میں سے کس کا انتخاب کرے۔ ابتدا میں مسلمانوں نے اردو میں مذہبی فرقہ واریت کا رنگ ہونے سے انکار کیا لیکن 1870 سے ہندوؤں نے یہ ادعاپیش کیا کہ وہ زبان جس میں فارسی اور عربی کی آمیزش ہے وہ ان کی زبان نہیں ہو سکتی۔(10)

 

جدید زبانوں کا رجحان

ماڈرن ہندی کو بنانے میں دو تنظیموں نے کلیدی کر دار ادا کیا: بنارس کی ناگری پر چارنی سبھا اور الہ آباد کی ہندی ساہتیہ سمیلن۔ اول الذکر کا قیام 1893 میں عمل میں آیا اور اس نے ناگری کر دار کو اپنایا۔ آخرالذکر کا نظریہ واضح طور پر سیاسی تھا۔ 1910 میں اس کا پہلا کنونشن بنارس میں منعقد ہوا تو مدن موہن مالویہ نے اس کی صدارت کی۔ ایجنڈے کے دو اہم موضوع تھے۔ تعلیم اور اس سے حاصل ہونے والے سماجی فوائد اور انتظامیہ کی زبان۔ انتظامیہ کی زبان کا معاملہ براہِ راست سیاست سے وابستہ تھا اور اگلے دس برس میں اسے اپنی اہمیت حاصل کرنا تھی۔ یہ برطانیہ کی تعلیمی پالیسی کا شاخسانہ تھا جس نے انیسویں صدی کے وسط تک پہنچتے پہنچتے دو مختلف رجحانات کو جنم دیا۔ ایک ناگری حروف تہجی کے حق میں تھا جو سنسکرت کا علاقہ تھا دوسرا فارسی۔ عربی رسم الخط کے حق میں تھا جس میں زیادہ تر اپنے اپنے پیشوں سے وابستہ شہری مسلمان تھے۔ وہ جو ناگری کے حق میں تھے وہ اونچی ذات کے ہندو تھے اور وہ جو فارسی۔ عربی رسم الخط کے حق میں تھے وہ مسلمان تھے جنھوں نے نوآبادیاتی نظام میں اپنی شان و شوکت برقرار رکھی تھی۔ 1879 میں حکومت نے احکام جاری کیے کہ ملازمت میں دس روپے سے زیادہ تنخواہ پانے والوں کے لیے لازمی ہے کہ وہ ناگری حروف تہجی سے واقف ہوں۔ انھیں تعلیم یافتہ لوگوں کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ ان کا حوصلہ 1900 میں جاری کیے گئے میکڈونل کے آرڈیننس سے اور بڑھا جس میں ناگری رسم الخط کی سفارش کی گئی تھی۔ ان کی بدنصیبی کہ گورنر جنرل نے وائس گورنر کے احکامات میں ترمیم کی اور سرکاری حکم نامے میں فارسی اور ناگری رسم الخط کی جگہ ہندی اور اردو کے الفاظ استعمال کیے۔ ان احکامات نے مسئلے کو سنگین بنا دیا جو آگے چل کر مستقل تصادم کی علامت بن گیا۔

یہاں تک تو یہ مسئلہ سمجھ میں آتا ہے۔ ناگری حروف کو استعمال کرتے ہوئے اونچا مقام حاصل کرنے والوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس رسم الخط کو مسلمہ قرار دیا جائے اور انتظامی امور میں اسے استعمال کیا جائے۔ مسئلے کا دوسرا رخ یہ تھا کہ جو پہلے سے امیر زادے تھے انھوں نے اپنا موقف محفوظ کر لینا چاہا۔ انجام کار حکومت نے انھیں چند رعایتیں دیں اور تعلیم میں جو غیر موزوں عنصر داخل کیا گیا تھا اسے خارج کر دیا۔ اس کا ایک غیر متوقع نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ایسی زبان جس کی اساس سیکولر ہے، جو دونوں قوموں کی مخلوط زبان کی حیثیت سے ایک شمول زبان ہے اور جس کی جڑیں یقیناً اس زمین میں پیوست ہیں ، اب وہ ایک مخصوص مذہب کی علامت بن گئی۔

یہ تبدیلیاں ہوتی رہیں کیوں کہ دونوں فریقین نے اپنے اپنے حریف کو دیگر (The Other)  کا لقب دیا تاکہ اپنے مطالبے کو حق بہ جانب قرار دیا جا سکے اور اپنے موافقین کی تعداد میں اضافہ کیا جا سکے۔ فریقین مجبور ہیں کہ جو تنازع بیچ میں ہے اس سے فاصلہ قائم رکھا جائے۔ تنازع ہے زبان کا۔ اس لیے کسی ایسی علامت یا اجتماعی تخیل کی تخلیق کی ضرورت ہے جو بلا شرکت غیرے  اپنے کلچر کی حمایت کرے۔ یہ اختلافی رجحان 1930 سے ہی بار آور ہونے لگا اور اسی دور سے مسلمانوں نے اردو کے دفاع کے لیے اپنی کمر کس لی تھی۔ خیالات میں عدم یکسانیت کے باوجود ا کے قائدین علاحدگی پسند تھے اور شدت سے اپنا نقطۂ نظر منوانا چاہتے تھے۔ کئی مسلمان شاعر و ادیب، جو اسلامی مملکت کے خواب دیکھ رہے تھے، انھوں نے اسے تاریخی منزلت عطا کی اور پاکستان کے قیام کی تحریک کو ایسے چلایا جیسے صلیبی جنگیں لڑی جا رہی ہوں۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے کلچر میں جو اختلافات ہیں ، انھوں نے ان کی فہرست تیار کی۔ ماضی میں ہندوستان اور دوسرے ممالک میں مسلمانوں کی جو امتیازی خصوصیات تھیں ان کی شان و شوکت بیان کی اور پین اسلامزم (Pan Islamism) پر فخر جتایا۔ انھوں نے جناح کی شان میں قصیدے گائے اور انھیں مسلمان قوم کا نگہبان اور اسلام کی علامت قرار دیا۔ (11)

علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے بارے میں جناح نے کسی وقت کہا تھا کہ یہ مسلمانوں کے اسلحہ کا خزانہ ہے۔ 1930 کے اختتام پر جب مسلم طلبا کا آل انڈیا فیڈریشن قائم ہوا تو یہ یونیورسٹی سچ مچ ہتھیاروں کا خزانہ بن گئی۔ AIMS نے اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں معیاری جریدے شائع کیے۔ پاکستان کے نظریے پر باقاعدہ پمفلٹ تقسیم کروائے۔ مسلم لیگ کے قائدین کو طلبا کی میٹنگوں میں مخاطب کرنے کے لیے مدعو کیا اور اس طرح سر سید کی جائے پناہ کو مضبوط قلعے میں تبدیل کر دیا۔ اس کے بعد علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے طلبا نے لیگ کے اراکین کا کر دار ادا کیا۔ انھوں نے دیہاتوں کا دورہ کیا اور عوام کو بتایا کہ کس طرح کانگریس کی پراونشیل حکومت نے ہندی کا ترانہ وندے ماترم اردو والوں کی تضحیک کے لیے عام کیا (یہ ترانہ ہندو نیشنلزم کی علامت اور اس کے احیا کا داعی ہے ) اور اس طرح مسلمانوں کو حکومت کے انتظامیہ میں حصہ لینے سے باز رکھا ہے۔ (12)

ان ہی دنوں اردو کے روزناموں نے مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانے اور علاحدگی پسند دانشوروں ، سیاست دانوں کے فکری رجحانات کو عام کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ علی گڑھ سے ’اردوئے معلّی‘، لاہور سے ’زمیندار‘، کلکتہ سے ’الہلال‘ اور دہلی سے ’ہمدرد‘ جیسے جرائد کی اشاعت اردو صحافت میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ خلافت تحریک کے وقت یہ اپنی بلندی کی انتہا کو پہنچ چکے تھے۔ اس کے بعد ان جریدوں نے دانشورانہ اور سیاسی مباحث کے ذریعے عام مسلمانوں کے ذہن کو بدلنے میں اہم کر دار ادا کیا۔ ان میں اختلافی رائیں پیش کی گئیں۔ ایک طرف ابوالکلام آزادؔ کا ’الہلال‘ تھا جو متحدہ قومیت کی بات کرتا تھا تو دوسری طرف ظفر علی خاں کا ’زمیندار‘ دو قومی نظریے کا حامل تھا۔ (13)

1947 میں تقسیم ہند کے بعد پیش آنے والے بھیانک واقعات نے اردو کی شناخت کو عملاً مسلمان قوم سے وابستہ کر دیا۔ علاحدگی پسند مسلمانوں نے اس شناخت کو اپنا لیا اور اسے تحریک پاکستان کے فروغ کا وسیلہ قرار دیا۔ ’ایک قومی‘ نظریے کے حامیوں نے، جو کانگریس سے وابستہ تھے، اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ (14)اس وقت ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں کے لیے قومی زبان کا مسئلہ بنیادی طور پر مذہبی نوعیت اختیار کر گیا۔ لسانی مملکت میں قومی زبان کے مسئلے سے متعلق جو پیچیدگیاں سامنے آئیں ان کا ٹھیک سے جائزہ نہیں لیا گیا۔ اس کا تذکرہ قائدین کی آزادی سے قبل کی تقریروں میں ہوتا رہا۔ اس وقت قائدین عام زبان، قومی زبان اور سرکاری زبان میں کوئی تفریق نہیں کرتے تھے بلکہ ان اصطلاحوں کا استعمال من مانے انداز میں کرتے رہے تھے۔ آزادی کے بعد ان کے فرق کو ملحوظ رکھنے کی شدید ضرورت محسوس ہوئی۔ پھر انتظامیہ کی زبان اور حاکم و محکوم کے درمیان ترسیل کی زبان کو سرکاری زبان کہا جانے لگا جب کہ وہ زبان جو پورے علاقے میں بولی جاتی تھی وہ عام زبان کہلائی۔ یہ فطری بات ہے کہ وہ زبان جو کسی بھی علاقے کی اکثریت استعمال کرتی ہے اسے اس گروہ کی حمایت حاصل ہوتی ہے اور وہی قومی زبان بھی کہلاتی ہے۔ ایک بار اس امتیاز کی وضاحت ہو جائے تو پھر ایک ایسی سوسائٹی میں جہاں مختلف سیاسی نظریے کارفرما ہوں سرکاری زبان اور عام زبان میں تفریق ہو گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایک سے زائد زبانوں کو قومی زبان تسلیم کر لیا جائے گو ان سب کو سرکاری زبان کا درجہ نہ دیا جائے۔

 

سرکاری زبان بہ نام عام بول چال کی زبان

جب زبان کے مسائل پر عوام کا رد عمل سامنے آنے لگا اور قائدین کو ان مسائل کا سامنا کرنا پڑا تو انھوں نے عوامی زبان کے بارے میں تو خاموشی اختیار کی لیکن سرکاری زبان پر بحث کو جاری رکھا۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ کسی بھی کثیر لسانی علاقے میں اس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ قومی سطح پر کسی ایک ہی زبان کو سرکاری زبان کے طور پر قبول کیا جا سکتا ہے۔ اس کے برخلاف یہ سمجھنا کہ کوئی بھی ایک زبان سارے علاقے کے عوام میں بولی اور سمجھی جائے گی، صحیح نہ ہو گا۔

آزاد ہندوستان میں زبان کے پیچیدہ حالات کے درمیان اردو کو مسلمانوں کی زبان قرار دے دیا گیا ہے۔ اگر سیکولر ذہن کے لوگ اس نظریے کو رد نہ کریں تو اردو کا مستقبل نہ صرف غیر یقینی بلکہ تاریک ہو گا کیوں کہ اردو کسی ایک خاص علاقے کی زبان نہیں ہے۔

جہاں تک زبان کا تعلق ہے ہندوستان کا دستور پندرہ زبانوں کو تسلیم کرتا ہے۔ (15)ان پندرہ زبانوں میں اکیلی ہندی سرکاری زبان کا درجہ رکھتی ہے لیکن یہ صرف تیس فی صد آبادی کی زبان ہے۔ اسی لیے اس کے خلاف شدید احتجاج خاص طور پر جنوبی اور مشرقی ہند میں جاری ہے۔ اس کے باوجود ہندی اس لیے قائم ہے کہ اسے حکومت کی حمایت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ بعض رضاکارانہ تنظیمیں جو ادبی ناموں سے قائم کی گئی ہیں اس کے باقاعدہ قیام اور فروغ میں حصہ لے رہی ہیں۔

ان رضاکارانہ تنظیموں کے مضبوط مراکز اتر پردیش میں قائم ہیں جہاں سے اعلیٰ طبقے کے ہندو اس زبان کا پرچار کرتے ہیں۔ ان تنظیموں کے اراکین ہندی کے فروغ کی شناخت سنسکرت سے اس لیے کرتے ہیں کہ اس پر غیرملکی زبان کے  اثرات نہ پڑیں یعنی اردو کے الفاظ اور اس کا اسلوب اسے متاثر نہ کرے۔ اردو کے ایک اسکالر نے اس بارے میں کیا خوب کہا ہے : ’’اردو کو ہندی کی ایک شاخ کہا گیا۔ اسے غیر ملکی زبان قرار دیا گیا۔ یہ مسلمانوں کی زبان ہے جو فرقہ واریت اور نفرت پھیلانے والی ہے اور ہندوستانی قومی یکجہتی کی دشمن ہے۔ یہ ساری باتیں ایک ہی سانس میں کہی جاتی ہیں تاکہ اس زبان کو دفن کر دیا جائے۔ ‘‘ (16)یہ کوئی اتفاق نہیں ہے۔ سچ یہ ہے کہ ہندی تحریک کے بعض اہم اراکین ہندو کٹّر پسند اداروں کے حامی ہیں۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہندی اور اردو زبانوں کے درمیان حریفانہ رجحانات ہندو مسلم فرقہ وارانہ رویّے کے آئینہ دار ہیں۔

انیسویں صدی کے دور ہی سے شمالی ہند اور خاص طور پر یوپی، ہندی کلچر اور ہندی زبان کے احیا کے مراکز رہے ہیں اور یہ مسلمانوں کی مخالفت کرتے آئے ہیں۔ ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ ان علاقوں میں مسلمانوں کے ایسے اہم ادارے بھی قائم ہیں جن کے قائدین قومی تحریک سے وابستہ رہے۔ یہاں ہندوؤں اور مسلمانوں کی ادبی تنظیموں میں حریفانہ معرکے بھی ہوئے۔ ان کی یادیں بڑی تلخ ہیں اور اب بھی اختلافات کو ہوا دیتی رہتی ہیں۔ اس سے قومی یکجہتی کے دھارے میں مسلمانوں کی شمولیت متاثر ہوتی ہے۔ مزید خطرہ اس رویّے سے ہے جو زبانوں کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ نہیں ہونے دیتا بلکہ سنسکرت کو ہندی کے لیے اور فارسی کو اردو کے لیے قبول کرتا ہے۔ اس رویّے کے نتیجے میں دونوں زبانوں کے بیچ جو خلیج بنا دی گئی ہے وہ گہری ہوتی جا رہی ہے اور ادبی زبان اور عام بول چال کی زبان بالترتیب اعلیٰ طبقے اور ادنیٰ طبقے کے لیے ترسیل کی زبانیں ہو کر رہ گئی ہیں۔(17)

قومی قائدین بہ شمول گاندھی جی، نہرو اور آزادؔ نے اس خلیج کو پاٹنے کی کوشش کی۔ انھوں نے ہندی اور ہندوستانی کو ایک ہی زبان قرار دے کر اس نظریے کو عام کرنا چاہا کیوں کہ شمالی ہند میں اردو اور ہندی دونوں زبانیں سمجھی جاتی ہیں اور دونوں کا کلچر ہندوستانی ہے۔ نہرو جو شخصی طور پر اردو شاعری اور نثر کے دلدادہ تھے اور آنند نارائن ملّاؔ، سجاد ظہیر، جوشؔ ملیح آبادی، فراقؔ گورکھپوری اور فیض احمد فیضؔ جیسے شاعروں اور ادیبوں کے مدّاح تھے، وہ ہندوستانی زبان کے حامی تھے۔ اس معاملے میں انھوں نے گاندھی جی کا اتباع کیا اور اردو ہندی کے اختلاف کے دہکتے شعلوں پر پانی ڈالا۔ انھوں نے قومی یک جہتی کی راہ پر مسلمانوں کے لیے رکاوٹ پیدا کرنے والے روڑوں کو نکال پھینکنا چاہا تھا۔ نہرو یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ ہندی ایک بار سرکاری زبان ہو جائے تو یہ اردو کی حلیف بن سکتی ہے لیکن ہندی تحریک کے جنونی میر اور غالب کی زبان کو کچلنے کے در پے تھے۔ (18) انھوں نے ہندوستانی کی حمایت میں ٹنڈن،پنت، گوبند، داس، سمپورنانند، کملا پتی ترپاٹھی، روی شنکر اور کے ایم منشی کے سامنے یہ سوال رکھا کیوں کہ یہ لوگ کانگریس میں ہندو نیشنلزم کے کٹر نمائندے تھے جو مسلمانوں کے کسی بھی ورثے کو موجود دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ انھوں نے سوچا ہندوستانی زبان محض اردو کا بدلا ہوا روپ ہے جو مسلمانوں کی شناخت اور پاکستان تحریک کی زبان ہے۔ (19)

مسلمانوں نے ہندی کو ہندوستان کی سرکاری زبان بنانے کی مخالفت نہیں کی۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ اردو کو ان مقامات پر دوسری علاقائی زبان کی حیثیت دی جائے جہاں پر یہ مسلمانوں اور ہندوؤں دونوں کی زبان ہے۔ ہندو قوم پرستوں جیسے یوپی ہندی ساہتیہ سمیلن کے اراکین اس تجویز سے ہرگز سمجھوتا کرنا نہیں چاہتے تھے اور انھوں نے نہرو سے اختلاف کرتے ہوئے اردو زبان یا اس کے رسم الخط کو شامل کرنے کے نظریے کو قطعی طور پر رد کر دیا۔ (20)

اس طرح سے ہندوستانی کی جگہ ہندی کو سرکاری زبان کی حیثیت سے تسلیم کر لیا گیا۔ یو۔پی۔ کے بورڈ آف ہائی اسکول اور انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن نے احکام جاری کیے کہ 1953 سے ہائی اسکول کے امتحانات صرف ناگری زبان میں لکھے جائیں گے۔ 1957 میں کانگریس ورکنگ کمیٹی نے سفارش کی کہ ہائی اسکول اور یونی ورسٹی کی سطح پر ہندی لازمی قرار دی جائے۔ اس درمیان اردو کے خلاف محاذ کھڑا کر دیا گیا اور جارحانہ کار روائی کرتے ہوئے اضلاع میں اس کے خلاف پروپگنڈہ کیا گیا جیسے کہ یہ دشمن ہے۔ یو۔پی۔ اور بہار کی حکومتوں نے اردو میڈیم اسکولوں کو امداد دینی بند کر دی اور نوجوان نسل کو اس زبان کے سیکھنے سے محروم کر دیا۔

نہرو نے کانگریس کے زیر اثر ریاستوں میں اس رویّے کو افسوس ناک قرار دیا۔ وہ جانتے تھے کہ یہ رویہ یقینی طور پر اردو والوں کے حق میں نا انصافی کا ہے اور یہ قومی یکجہتی کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گا لیکن وہ اپنے ساتھیوں کے خلاف کوئی کار روائی بھی نہ کر سکتے تھے کیوں کہ ان کے لیے ایسی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ وہ چپ ہو گئے۔ (21)

انڈین نیشنل کانگریس میں جو مسلمان اراکین تھے، جیسے ذا کر حسین جو سیکولر ذہن کے ایک دانشور تھے اور مخلوط نیشنلزم کے حامی تھے۔ 1920 سے وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے روح رواں تھے۔ جس قدر سیاسی حالات انھیں اجازت دے سکتے تھے انھوں نے اردو کی مدافعت میں اپنی مقدور بھر کوشش کی۔ 1930 کے آخری دور میں کانگریس نے جب تعلیم پر واردھا کمیٹی قائم کی تو انھیں اس کا صدر بنایا۔ جو رپورٹ انھوں نے پیش کی وہ مسلمانوں کے خیال میں ہندو احیا پرستی کی موافقت میں تھی۔ وہ ایک کٹّر نیشنلسٹ تھے اور انھوں نے اپنی ساری کاوشوں ، امیدوں اور آرزوؤں کو ہندوستان کو نوآبادیاتی نظام کے چنگل سے چھڑانے کے لیے وقف کر دیا تھا۔ ان کے سارے خیالات قومی یکجہتی کے محور پر گردش کرتے رہے۔ انھوں نے تقسیم کی شدت سے مخالفت کی۔ ایسے وقت میں جب کہ فرقہ وارانہ انتشار اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا نومبر 1946 میں انھوں نے نہرو اور جناح کو ایک پلیٹ فارم پر مدعو کیا اور یہ کہہ کر وارننگ دی: امن کے گہوارے میں آگ لگی ہوئی ہے۔ خدا کے لیے ایک ساتھ مل کر نفرت کی اس آگ کو بجھاؤ۔ یہ وقت یہ کھوجنے کا نہیں کہ آگ کس نے لگائی اور اس کے اسباب کیا ہیں۔ اسے بجھا ڈالو۔ خدا کے لیے اس ملک کی تہذیب یافتہ زندگی کی بنیادوں کو اس طرح تباہ نہ ہونے دو۔ (22)

قومیت اور سیکولرزم دونوں محاذوں پر انھوں نے آزاد ہندوستان کے مسلمانوں کی یکجہتی کی ضرورت پر زور دیا لیکن ساتھ ہی مسلم اقلیت کے اپنے کلچرل ورثے کے تحفظ کے حق پر بھی زور دیا۔ ذا کر حسین نے اس بات کی نفی کی تھی کہ ایک کلچر دوسرے کلچر کے مقابلے میں ارفع ہوتا ہے انھوں نے ان کی یکسانی یا بے ربط فروغ کی کوششوں سے انکار کیا۔ وہ ہر کلچر کو تسلیم کرتے تھے۔ انھوں نے اس رواداری کی تلقین کی جس کے زیر سایہ کسی بھی کلچر کو پنپنے کا موقع ملے۔ ذا کر صاحب سوچتے تھے کہ رنگارنگی اور تکثیریت سے ایک مخلوط کلچر اور آزاد سوسائٹی کا قیام عمل میں آ سکتا ہے۔ ایک ایسی سوسائٹی جو تمام مذاہب، تمام ذاتوں ، تمام طبقات، مختلف زبانوں اور رہن سہن کے الگ الگ طور و طریق کو اپنے دامن میں جگہ دے۔ وہ سارے سماج کی خوشحالی کی ضامن بھی ہو سکتی ہے۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے ان کا خیال تھا کہ ہندوستانی مسلمان اپنے وطن سے اتنی ہی محبت کرتے ہیں جتنی کہ دوسرے باشندے لیکن وہ اپنے کلچر کی شناخت کو مکمل طور پر کھونا نہیں چاہتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اچھے مسلمان اچھے ہندوستانی ثابت ہوں۔ (23)

 

مسلمانوں کا وِژن

اردو کی بقا اور اس کے فروغ کے لیے آزاد ہندوستان میں ذا کر حسین نے جو بھی کام کیا ہے اس کے پیچھے ایک خاص وِژن ہے۔ اس کا تجزیہ اس نقطۂ نظر سے کیا جانا چاہیے کہ ایک جمہوریت میں جہاں مختلف کلچر پنپ رہے ہوں وہاں مسلمان اپنے آپ کو کس طرح قومی دھارے میں شامل کریں۔ ذا کر صاحب انجمن ترقی اردو (ہند) کے 1948 تا 1956 صدر رہے جب کہ وہ انھی دنوں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے۔ اس عہدے پر حکومت نے ان کا تقرر نہیں کیا تھا بلکہ وہ یونی ورسٹی کورٹ سے منتخب ہوئے تھے اس، امید پر کہ علی گڑھ بھی جامعہ کی طرح قومی یکجہتی کی طرف راغب ہو گا۔ انھوں نے مسلمانوں کے احساسات کی ترجمانی کرتے ہوئے 1950 میں دستخطوں کی ایک مہم چلائی جس کے ذریعے ہندوستان کے دستور کی دفعہ 347 کے تحت اردو کو یوپی کی دوسری سرکاری زبان بنانے کا مطالبہ کیا۔ دفعہ 347 (کسی بھی ریاست کے ایک طبقے کے بولنے والوں کی زبان سے متعلق خاص دفعہ) کا کہنا ہے : اگر کسی ریاست کے عوام کا ایک قابل لحاظ فی صد خواہش کرے کہ ان کی بول چال کی زبان کو تسلیم کیا جائے تو تب صدر جمہوریہ اس مطالبے سے مطمئن ہونے پر فرمان جاری کرے کہ اس زبان کو ساری ریاست میں یا کسی مخصوص علاقے میں سرکاری زبان کی حیثیت سے اس مقصد کے لیے تسلیم کیا جائے جس کی نشاندہی صدر کرے گا۔ ان کی اس دستخطی مہم نے نمایاں کامیابی حاصل کی۔ صدر جمہوریہ سے ایک وفد نے ملاقات کی۔ ذا کر صاحب نے خود اس وفد کی نمائندگی کی اور اس وقت کے صدر ڈاکٹر راجندر پرشاد سے 15 فروری 1954 کو ملے لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ شاید اس کے بعد کے اعداد و شمار کی رپورٹ میں اردو بولنے والوں کی مادری زبان ہندی لکھائی گئی تھی۔ (24)

علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے وائس چانسلر کی حیثیت سے ذا کر صاحب نے بہت سے مثبت اقدامات کیے اور حکومت کو یہ تیقن دیا کہ علی گڑھ میں تبدیلی آئی ہے اور یہ قومی دھارے میں مکمل طور پر شامل ہو گیا ہے۔ اب انڈین کلچر کو اس علاقے کی دین انوکھی ہو گی لیکن ان کے اس کارنامے کو عمومی پذیرائی نہیں ملی۔ بعض لوگوں نے یہ خبر پھیلائی کہ ذا کر حسین صاحب حکومت کے ایجنٹ بن گئے ہیں اور حکومت نے انھیں علی گڑھ کی شدّھی کرنے کے لیے یہاں بھیجا ہے اور جب علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے آئین میں ترمیم کا وقت آیا تو قوم نے احتجاج کیا کہ یونی ورسٹی اپنی اقلیتی شناخت کھو دے گی۔ اردو پریس نے مسلمانوں کے جذبات کو دو نکات پر ابھارا۔ مذہبی تعلیم یونی ورسٹی میں لازمی قرار نہیں دی گئی ہے اور یونی ورسٹی کورٹ کی ممبرشپ غیر مسلموں کے لیے کھلی رکھی گئی ہے۔ اردو پریس نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ قرارداد کے خلاف اس طرح کا احتجاج ہندوؤں کے اس شبہ کو تقویت پہنچائے گا کہ علی گڑھ کے لوگ ملک کے وفادار نہیں ہیں۔ اس طرح مولانا آزادؔ اور ذاکر حسین صاحب کی کاوشوں پر پانی پھر گیا۔ وہ تو یہ چاہتے تھے کہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے کر دار کو برقرار رکھا جائے۔ مسلم لڑکے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں اور سماج کے ایسے نمائندے بنیں کہ سوشیل تبدیلی لا سکیں۔ یہی ان کا اصل مقصد تھا۔

اختلافات کے حل کی کوئی صورت نہ نکل سکی تو ذا کر صاحب نے ستمبر 1956 میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا جسے قبول کر لیا گیا۔ اس کے بعد وہ ہندوستان کے ایک وفد میں نمائندہ بن کر یونیسکو گئے (یہ منصب ان کے عالمانہ مزاج کے لیے بہت موزوں تھا) 6 جولائی 1957 کو انھوں نے بہار کے گورنر کے عہدے کا چارج لیا۔ ان کے فرائض میں دلّی کے کلچرل ایمبیسڈر کا رول بھی شامل تھا۔ اسے نبھاتے ہوئے انھوں نے اپنی تقریروں میں ہندی کے الفاظ کا کثرت سے استعمال کیا۔ اس پر اردو پریس نے بھی شدید ناراضگی کا اظہار کیا۔ وہ تو ایسے الفاظ استعمال کرنا چاہتے تھے جو سب کی سمجھ میں آسانی سے آ جائیں لیکن جس طرح سیاسی ہتھکنڈوں نے ہندوستانی علاقوں کی تقسیم کی تھی اسی طرح زبان عوام کو دو مختلف کیمپوں میں تقسیم کر رہی تھی۔

ذا کر حسین صاحب نے اردو سے متعلق 27 نومبر 1959 کو اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں تقریر کرتے ہوئے اپنا موقف واضح کر دیا۔ انھوں نے کہا:

’’میرا خیال ہے کہ یہ زبان نئی زندگی کے لیے پیامبرانہ بلاغت رکھتی ہے اور ہم ہندوستانی اپنے ملک کی آزاد فضا میں اس کی آرزو کرتے ہیں۔۔۔ ایک خواہش جو کئی اختلافی عوامل کو جوڑ کر عوامی کلچر میں تبدیل کرنے کی ہے، جیسا کہ گنگا اور جمنا مل کر ایک طاقت ور دھارے میں بہتے ہیں۔۔۔ اردو کسی ایک قوم یا مذہب کی زبان نہیں ہے۔ اسے حکومت نے لاگو نہیں کیا یا اسے کسی خاص مقصد کے لیے مصنوعی طور پر اختراع نہیں کیا گیا۔ یہ لوگوں کی زبان ہے۔ عام لوگوں کی زبان۔۔۔ فقیروں اور سادھوؤں کی زبان جن کے دل محبت سے معمور تھے اور وہ عام لوگوں تک اپنے دل کی بات پہنچانے کے لیے بے چین تھے۔ اس طرح اردو چاہت اور پیار کی زبان ہے۔ تحمل اور برداشت کی زبان۔ خلوصِ دل سے تبادلۂ خیال کرنے کی زبان۔۔۔ اردو کسی مخصوص علاقے تک محدود نہیں ہے۔ اس کے بولنے اور سمجھنے والے سارے ہندوستان میں پھیلے ہوئے ہیں۔ قومی یکجہتی کے احساسات کو بیدار کرنے والی یہ سب سے زیادہ موثر زبان ہے۔۔۔ وہ زبان جس میں آریہ سماج کا پورا ادب موجود ہے۔ اس کا بھرپور استعمال عیسائیوں نے اپنے مذہبی اغراض کے لیے کیا۔ ایسی زبان کو مسلمانوں کی زبان کہنا، اس کی جانب تنگ نظری سے دیکھنا نہ تو ایمانداری ہے اور نہ ہی عقل مندی۔۔۔۔ ‘‘(25)

افسوس کہ ان خیالات کا اثر ہندو اور مسلمان احیا پرستوں پر الٹا ہی پڑا۔ آزادی کے بعد اردو کا تحفظ سیاسی مسئلہ بن گیا۔ ہندی۔ اردو کا سوال باوجودے کہ اردو محبت سے جڑی ہوئی زبان تھی اور دور دور تک ہندی کے علاقوں میں اردو بولنے والوں کی ملازمتیں لگی ہوئی تھیں یہ ایک مذہبی کلچر کی زبان بن گئی اور اس کے اطراف ایک قوم کی سیاست پھیلا دی گئی۔ اردو مسلمانوں کی شناخت کی طاقتور علامت کی حیثیت سے ہندو نیشنلسٹ احیا پرستوں کے حملے کا نشانہ بن گئی۔ شمالی ہندوستان کے اردو بولنے والوں نے ان ہی شہریوں کو اس زبان کی تعلیم دی جو اشراف کہلاتے تھے (26)درحقیقت اردو کو رد کرنا اس ہندوستانی ثقافت کو مسترد کرنے کے برابر ہے جو مسلمانوں کی دین ہے اور ایسا کرنا ہندوستانی کلچر کو کلیتاً ہندو کلچر بنانا ہے۔

 

زبان جو زیر زمیں ہو گئی

اردو کی بے پناہ تخلیقی اہمیت اور اس کے فروغ کو آزادی کے بعد کچل دیا گیا۔ اسے انتظامیہ سے خارج کر دیا گیا۔ یہ یوپی اور بہار کی چند عدالتوں اور چند علاقوں تک محدود رہی چوں کہ حکومت کی چند اکادمیوں سے ابھی بھی مالی امداد جاری تھی۔ ارباب اقتدار ان دونوں زبانوں کی، جو کسی وقت ایک تھیں ، بڑھتی ہوئی خلیج سے پریشان رہے اور انھوں نے دوہری پالیسی اختیار کی۔ نچلے متوسط طبقے کے ان لوگوں کے لیے جن کا روزگار اردو سے بندھا ہوا تھا چند ایسے ادارے قائم کر دیے جہاں سے انھیں اسکالر شپ اور وظیفے دیے گئے اور ادبی تخلیقات کی اشاعت کے لیے مالی امداد جاری کی گئی۔

دوسری بات جس کی زیادہ اہمیت ہے وہ یہ ہے کہ ذریعۂ تعلیم کی حیثیت سے اردو اپنا مقام تقریباً کھو بیٹھی۔اب یہ عوام کی ترسیل کی زبان نہیں رہی بلکہ خانگی زبان تک محدود ہو گئی۔ یہ صرف اسی حد تک عوامی رہ سکی جس حد تک کہ اردو کی کتابوں کی اشاعت ہے۔ ایک شہری اور بورژوا ماحول میں جہاں سماجی حالات اور کلچر تیزی سے زوال پذیر ہیں اور جہاں اسکول اور روزگار فراہم کرنے والے ادارے فیصلہ کن ثابت ہوتے ہیں وہاں ایک ادبی اشاعت جو ایک خاندان کے لسانی کلچر کی نمائندہ ہوتی ہے کوئی اہم کر دار ادا نہیں کر سکتی۔ وہ صرف ایک حلقے تک محدود ہو جاتی ہے۔

بنیادی مسئلہ اعداد و شمار کا نہیں ہے کیوں کہ جو لوگ اپنی مادری زبان اردو ظاہر کرتے ہیں ان کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ اردو بولنے والے تقریباً 99.9 فی صد ناخواندہ ہیں اور جو لوگ تعلیم حاصل کرنے کے موقف میں ہیں انھیں اپنی مادری زبان میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ اردو لٹریچر اور کلچر سے عام طور پر نئی نسل نابلد رہ جاتی ہے تو یہی اس کا بنیادی سبب ہے۔ یہ ایک طرح کے خوف کو جنم دیتا ہے کہ کلچر کا قتل کیا جا رہا ہے اور یہی خوف قومی یکجہتی کی مساوات یا عدم مساوات کی تصدیق کرتا ہے۔ ہندی بولنے والی ریاستوں میں سہ لسانی فارمولا، جس کا مقصد یہ ہے کہ کوئی بھی بچہ پرائمری سطح پر قومی زبان کے ساتھ ساتھ دوسری اہم زبانوں سے مانوس ہو جائے، بے راہ روی کے راستے پر چل پڑا ہے۔ چیف منسٹروں نے سنسکرت کو ماڈرن زبان میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا اور عملاً اردو کو ہندوستانی تعلیمی نظام سے خارج کر دیا۔ وہ ماں باپ جو اپنے بچوں کو مادری زبان کی تعلیم دلانا چاہتے ہیں انھیں اپنے بچوں کو سوائے مذہبی مدرسوں میں شریک کرانے کے اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ وہ تمام اسکول اور کالج جو کسی بھی سطح کے ہوں اور کسی بھی ریاست میں چلائے جاتے ہوں اور جہاں اردو بولنے والوں کی اکثریت ہو وہ بھی اپنے بچوں کو اردو میڈیم کے ذریعے تعلیم دینے سے قاصر ہیں۔ (27)

بھارت سیوا ٹرسٹ، نئی دہلی کی رپورٹس سے جو مواد ہمیں حاصل ہوا اس کے مطابق جو اقلیتی تعلیمی ادارے مسلمانوں نے دستور کی دفعہ 30 کے تحت قائم کیے ان کا معیار بہت ہی پست ہے خاص طور پر یو۔پی۔ اور بہار میں (28)جو ٹوٹی پھوٹی اردو مذہب کے مرشد پڑھاتے ہیں وہ سرکاری زبان کا معیار بن گئی ہے اور اس طرح اردو ورثے کا برس ہا برس کا بیش بہا مخلوط سرمایہ ضائع ہوا ہے۔ نئی اردو نے اردو بولنے والے غیر مسلموں کو بیگانہ بنا دیا اور ساتھ ہی بزرگوں کو بھی اس سے بد ظن کر دیا۔ ’سرکاری‘ اردو بولنے والوں کی نئی نسل جو اپنے کو ذہین سمجھتی ہے اسی طرح کے نااہل اسکالروں پر مشتمل ہے جو اپنے ماضی کے کلچر میں لوٹ جاتے ہیں اور خطرناک کٹر مسلم پرست بن جاتے ہیں۔ (29)

 

تعلیمی معیار کا تنزل

آزاد ہندوستان میں اردو کی تعلیم اس معیار کی نہیں کہ وہ ایسے قارئین پیدا کرے جو معیاری اخبارات کا مطالعہ کر سکیں۔ نتیجتاً پست معیار کا اردو پریس آزادی کے بعد مسلمانوں کی حسیت کو بڑھاوا دینے میں تعمیری رول ادا کرنے میں ناکام رہا۔ قوم میں اتنا حوصلہ نہ آیا کہ وہ آزاد ہند کے وسیع تر سماج کے چیلنجوں کا مقابلہ کر سکے۔ یہ ایک ایسا خبیث دائرہ ہے جس کا توڑنا ناممکن معلوم ہوتا ہے کیوں کہ اردو صحافت اپنے قارئین میں فرقہ پرستی اور جذباتیت کے رجحانات کو پروان چڑھاتی ہے۔ شمالی ہند کی بعض ریاستوں ، خاص طور پر اتر پردیش میں مسلمانوں کی نئی نسل بہت ہی کم اردو سے آشنا ہے۔ نچلے طبقے کے نیم تعلیم یافتہ مسلمان، جو تقسیم کے بعد یہیں پر رہ گئے، بہت کم اردو لکھنے پڑھنے سے واقف تھے۔ اردو کے اخبارات پڑھنے والے یہی لوگ تھے۔ اردو اخباروں نے، جو اکثر سیاست دانوں سے وابستہ تھے، سیاسی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے مسلمانوں کے ذہنوں کو متاثر کیا۔ اس کے علاوہ اردو اخباروں کا عملہ بھی ایسے ہی لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ چند خطاط اور دوچار سب ایڈیٹر جو کام چلاؤ اردو۔ ہندی سے واقف ہوتے ہیں اور جنھیں انگریزی نہیں آتی اس لیے کہ یہ مدرسوں کے پڑھے ہوئے ہوتے ہیں اور انھیں بہت ہی قلیل تنخواہ دی جاتی ہے۔ خوشی کی بات ہے کہ ان لسانی علاقوں میں اردو صحافت کی صورت حال بہتر ہے جہاں مسلمان اس علاقے کے کلچر میں حصہ لیتے ہیں اور جہاں جذباتیت سے زیادہ علم و عقل کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ (30)

انڈین نیشنل ببلوگرافی پر ایک نظر ڈالیں تو اردو اخبارات کی کثرت کا اندازہ ہوتا ہے لیکن ان کا ٹھیک سے جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ جرائد شاعری، افسانے، تنقید اور اسلامی لٹریچر سے زیادہ متعلق ہیں (تفاسیر، تراجم، فقہ، تصوف اور فرقہ واریت وغیرہ۔) موجودہ واقعات، سیاسیات، معاشیات، تاریخ اور عمرانیات جیسے موضوعات اردو والوں کے نزدیک غیراہم ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ (31)سائنس اور ٹکنالوجی سے متعلق اردو میں کتابیں ہوتی ہی نہیں۔ اس میں حیرت کی کوئی بات اس لیے نہیں ہے کہ اردو تعلیم کا مطلب اردو کو ایک مضمون کی حیثیت سے پڑھنا ہے۔ حیدرآباد جو اردو کلچر کا دوسرا مشہور مرکز رہا ہے، اس کی عثمانیہ یونی ورسٹی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں اردو کو اعلیٰ تعلیم کا ذریعہ بنایا گیا تھا۔ آزادی سے قبل انجینئرنگ اور میڈیکل سائنس (طب) کی تعلیم بھی اردو زبان میں دی گئی۔ اب وہاں اردو کی نصابی کتابیں بھی مشکل سے دستیاب ہیں۔ آندھرا پردیش میں یہ گنجائش ہے کہ طلبا دوسری زبانوں کی کتابیں (علاقائی یا انگریزی) پڑھ سکتے ہیں اور امتحانات میں اپنے جوابات اردو میں لکھ سکتے ہیں۔ اردو کا یہ موقف کالج کی سطح تک ہے۔ انگریزی کے الفاظ کثرت سے استعمال کیے جاتے ہیں۔ خاص طور پر سائنس کا مرس اور تکنیکی موضوعات پر۔ بہار میں اردو کی مقبولیت کا بڑا سبب یہ ہے کہ وہاں کے غریب مسلمان مذہب اسلام سے زیادہ جڑے ہوئے ہیں۔ اب یہاں مدرسوں میں بھی ٹیکنیکل تعلیم کا آغاز ہو چکا ہے۔ پھر بھی نصاب کی کتابیں مشکل ہی سے دستیاب ہیں۔ تعلیمی معیار بہت پست ہے لیکن اسے نظرانداز کر دیا جاتا ہے کیوں کہ نچلے اور اوسط طبقے کے مسلمان بچے ہی اردو میڈیم اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ مہاراشٹر کی ایک بہترین استثنائی صورت ہے تو اس کا سبب مسلمانوں کے کئی ٹرسٹ اور کئی رضاکارانہ تنظیمی ادارے ہیں۔ نجی اداروں اور سرکردہ مسلمان تاجروں کے زیر انتظام جو اسکول اور کالج ہیں وہ بڑی عمدگی سے چلائے جاتے ہیں۔ یہاں اردو کے اساتذہ بڑے معتبر اور تعلیم یافتہ ہوتے ہیں اور کلاسیں بھی باقاعدگی سے وقت پر ہوتی ہیں۔ ابتدا میں نصابی کتابیں مراٹھی ٹکسٹ بک بیورو تیار کرتا ہے اس کے بعد ان کا اردو میں ترجمہ کروایا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے مراٹھی، ہندی یا اردو کورس کی کتابوں کا متن ایک ہی ہوتا ہے۔ (32)  تعلیمی مراحل سے لے کر عملی زندگی کے امور تک اردو کو جو مقام حاصل ہے وہ دیگر ترقیاتی معاملات میں کوئی رکاوٹ نہیں بنتا اور نہ ہی اس کا علاقائی شناخت سے تصادم ہے جیسا کہ شمالی ہند کا معاملہ ہے۔

یہ ساری باتیں اس خیال کو تقویت پہنچاتی ہیں کہ اردو۔ہندی کا مسئلہ عملی طور پر کھلے ذہن اور قومی یکجہتی کے نظریے کو پیش نظر رکھتے ہوئے حل کیا جا سکتا ہے۔ وہ نظریات،جنھیں ذا کر حسین جیسے دور اندیش قائدین نے اپنایا تھا، انھیں اپنانے کی ضرورت ہے۔ تب اردو کم از کم ہندی کے اس سیاسی کھیل کا مقابلہ کر سکتی ہے جس میں حروفِ تہجی کے نام پر غریب مسلم عوام کو الجھایا گیا اور مسلمانوں کی نئی نسل کو ان کے کلچر سے محروم رکھا گیا۔

دستور کی دفعہ 350 A (مادری زبان میں پرائمری سطح پر تعلیم کی سہولت) کے تحت ایسا کیا جا سکتا ہے۔ دفعہ ہے : ’’ہر ریاستی حکومت اور لوکل ا تھارٹی پر لازم ہے کہ وہ اپنے علاقے کی لسانی اقلیتوں کے بچوں کے لیے پرائمری سطح پر ان کی مادری زبان میں تعلیم کا انتظام کرے اور جب صدر جمہوریہ محسوس کرے کہ ان سہولتوں کی فراہمی ضروری ہے تو وہ کسی بھی ریاست کو ان کی پا بجائی کے احکامات دے سکتا ہے۔ ‘‘ اردو کے دانشور اور سیاست داں مثالیں پیش کرتے ہوئے یہ ثابت کریں کہ ان کی مادری زبان کو ہندوستانی کلچر اور سوسائٹی میں اہم رول ادا کرنا ہے۔ خود رحمی یا دوسروں کو الزام دینے سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ اگر مسلمان اپنے بچوں کو حافظ بنا سکتے ہیں تو وہ انھیں اردو بھی سکھا سکتے ہیں۔ انھیں پرائمری تعلیم کے لیے ہمیشہ تیار رہنا چاہیے اور وہ ان کی مادری زبان میں ہو۔ افسوس کہ ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ خاص طور پر نام نہاد ہندی علاقوں میں ذا کر حسین کی کوششوں کے باوجود اردو کو علاقائی زبان کا موقف نہ ملا۔ ہندی کے سرکاری پیروکاروں نے اردو بولنے والے علاقوں کو جو نقصان پہنچایا اس کا سدِّ باب آج تک نہ ہو سکا۔

اردو کو بچانے کے لیے ضروری ہے کہ ان متعصب ذہنوں سے جو یہ سمجھتے ہیں کہ اردو کی تعلیم سے ہندوستانی قومی شناخت کو خطرہ ہے یہ خیال نکال دیا جائے کہ قومی شناخت برہمن اور سنسکرت رواج کے مطابق ہندو شناخت ہی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ ان فرقہ پرست مسلمانوں کا مقابلہ کیا جائے جو ارباب حکومت سے گفت و شنید میں اردو زبان کو آلۂ کار بنا کر ریاست کا استحصال کرنا چاہتے ہیں۔ آزاد ہندوستان میں اردو کی سماجی اور سرکاری حیثیت کو صرف مسلمانوں سے منسلک نہ کیا جائے اور یہ نہ کہا جائے کہ مسلمانوں کے حقوق صرف اسی سے وابستہ ہیں۔ یہ سچ ہے کہ اردو مسلم اقلیت کی اہم زبان ہے لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ تاریخی اعتبار سے اردو صرف مسلمانوں کی باجگزار زبان نہیں ہے۔ اردو کو لازمی طور پر ہندوستانی تہذیب کا ایک حصہ سمجھنا ہے اور سیکولر ہندوستان میں ، جو ایک مخلوط کلچر کا نمائندہ ہے، اردو کو قبول کرنا حق بہ حق دار رسید کے مصداق ہو گا۔

٭٭٭

 

 

References

 

  1. Corsetti, R., (a cura di), Lingua e politica, Roma: Officina, 1976, p.7.
  2. Brass, P., Language, Religion and Politics in North India, Cambridge: Cambridge University Press, 1974, pp. 119-276.
  3. Gumperz, John J., ‘Sociolinguistics in South Asia’, in Thomas Sebeok (ed.), Current Trends in Linguistics, Vol.5: Linguistics in South Asia, The Hague, Paris: Mouton, 1969, p. 598.
  4. Ibid., pp. 601-2.
  5. See David Easton, A System Analysis of Political Life, New York: Wiley, 1965, p. 185.
  6. Das Gupta, Jyotirindra, ‘Official Language Problems and Policies in South Asia’, in Thomas Sebeok, Current Trends in Linguistics, Vol. 5, Linguistics in South Asia, The Hague, Paris: Mouton, 1969, p. 579.
  7. See the resolution quoted in M.P. Desai, The Hindi Prachar Movement, Ahmedabad: Navajivan Publishing House, 1957, p. 14.
  8. Russell, R., ‘Some Notes on Hindi and Urdu’, The Annual of Urdu Studies, No. 11, 1996, p. 204.
  9. King, Christopher, One Language, Two Scripts, Bombay: Oxford University Press, 1994; Rai, Alok, ‘Making a Difference’, The Annual of Urdu Studies, No. 10, 1995, p. 141.
  10. Gorekar, N.S., Glimpses of Urdu Literature, Bombay: Jaico Publishers, 1961, p. xiv.
  11. Ur-rahman, Mahmud, jang-i Azadi ke Urdu Shuara, Islamabad: Qaum Idarah bara-yi Tanqiq-i Tarikh o Saqafat, 1986, p. 37; Abida Riasat Rizvi, Auraq-ilzarrin, The Leaves of Gold, Karachi: Begam Daulat Khanam Hidayatullah: Milne ke pate, Pakistan Ridars Gild, 1976, p. 340.
  12. Hasan, Mushirul, India Partitioned-The Other Face of Freedom, New Delhi: Roli International, 1995, p. 22.
  13. See Ali Jawad Zaidi, A History of Urdu Literature, New Delhi: South Asia Books, 1993, ch. XX, passim.
  14. For a definition of these ideas see the relevant chapters of Aziz Ahmad, Islamic Modernism in India and Pakistan, London: Oxford University Press, 1967.
  15. In Z.A. Ahmad (ed.), National Language for India, Allahabad: Kitabistan, 1941, there is a selection of these speeches and writings.
  16. Husain, S. Ehtisam, ‘Multilingual aspect’, seminar, July 1960, p. 23. For an excellent statement of the Hindi-Urdu question see A. Ahmad, Studies in Islamic Culture in the Indian Environment, London: Oxford University Press, 1964, pp. 239-62.
  17. Das Gupta, J., art. quoted, pp. 586-9.
  18. 1 August 1953, Letters, Vol. 3, p. 350.
  19. Das Gupta, J., Language Conflict and National Development: Group Politics and National Language Politics, Berkeley: University of California Press, 1970, pp. 131-2.
  20. Hasan, Mushirul, "Legacy of a Divided Nation: India’s Muslims Since Independence, Boulder: Westview Press, 1997, pp. 157-8.
  21. Ibid., p. 159.
  22. Quoted in B. Sheik Ali, A Great Teacher, Life and Work of Dr Zakir Husain, Mysore: Prasaranga, 1997, p. 9.
  23. Zakir Husain, Ta’limi Khubat, Delhi: Maktaba-yi Jami’ah, 1955, pp. 240-8.
  24. Latifi, Danial, ‘Urdu in UP’, Nation and the World, 16 August 1999, p. 44.
  25. Quoted in Sheik Ali, pp. 96-7.
  26. For a study on caste-like Indo-Muslim social groups see Imtiaz Ahmad (ed.), Caste and Social Stratification among Muslims, Delhi: Manohar, 1973.
  27. Shahabuddin, Syed, Letter to the Editor, The Annual of Urdu Studies No. 14, 1999, p. 348.
  28. Naim, C.M., ‘Urdu in India’, in Idem., Ambiguities of Heritage-Fictions and Polemics, Karachi: City Press, 1999, p. 98.
  29. Latifi, Danial, ‘Urdu in UP’, Nation and the World, 16 August 1999, pp. 44-5.
  30. Farouqui, Ather, ‘The emerging dilemma of the Urdu press in India: a viewpoint’, South Asia, Vol: XVIII, No. 2 (1995), pp. 91-103.
  31. Naim, ‘Urdu in India’, p. 99.
  32. Farouqui, Ather, ‘Urdu Education in India: From Representatives States’, Economic and Political Weekly, 2 April 1994, p. 784-5.

٭٭٭

 

 

 

 

معاصر ہندوستان میں زبان، قوم اور حکومت کے درمیان اردو

 

کیلی پمبرٹن

 

ہندوستان میں اردو ملک کے سماجی ڈھانچے سے جڑی ہوئی ہے۔ اسے ایک با اثر اور با اختیار زبان کی حیثیت سے قائم رہنا ہے۔ یہ بھی ہندی کی طرح مختلف مذہبی، طبقاتی، قبائلی، لسانی، تہذیبی اور علاقائی فرقوں کے درمیان ترسیل اور رابطے کی زبان ہے۔ سیاسی کشمکش کی وجہ سے اس کی شناخت میں مسلمانوں کی زبان کی حیثیت سے اضافہ ہوا ہے باوجودیکہ ہندوستانی قوانین کے مطابق کسی بھی زبان کو مذہب سے جوڑنا نہیں چاہیے۔ اردو کے حامیوں کا ایقان ہے کہ یہ صرف مسلمانوں ہی کی نہیں بلکہ ہندوؤں ، عیسائیوں ، سکھوں اور دوسروں کی بھی زبان ہے۔ اردو کی ایک مذہبی فرقے سے شناخت اسے ایک محدود زبان کی حیثیت دے دیتی ہے۔ پاکستان اس کوشش میں لگا ہے کہ اردو کو جلد سے جلد اپنے ایجنڈے سے خارج کر دے۔ (1)

نہ صرف مرکزی اور صوبائی ریاستوں کی پالیسیوں نے بلکہ ہندو احیا پرستوں نے اور ان گروہوں نے جو دانشوروں اور عمائدین کے زیر اثر ہیں ، اپنے رویے سے ظاہر کر دیا ہے کہ ہندوستان میں اردو تعلیم کو جگہ نہ دی جائے۔ ان میں اردو بولنے والے عمائدین اور شرفا بھی ہیں جو علاحدگی پسند رجحانات کو ہوا دیتے ہیں۔ ان حالات کے باوجود بعض اداروں اور اقتدار کے مراکز سے اردو کے رابطے کی بدولت یہ اب بھی قائم ہے۔ اسے قومی، علاقائی اور دیہی سطح پر ایک زندہ اور با وقار زبان کا درجہ دے کر قائم رکھا جا سکتا ہے اس لیے کہ اس میں ہمہ گیر ترسیل کا ذریعہ بننے کی عمدہ خصوصیات ہیں۔

 

تقسیم کے بعد اردو سیاست

اردو کی اہمیت اور مستقبل میں اسے ایک مقتدر زبان بنانے کے امکانات کا جائزہ لیتے ہوئے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ ماضی میں کی گئی کوششیں کیوں ناکام ہوئیں۔ ایک ظاہری سبب تو یہ ہے کہ اردو کے تحفظ کی ذمّے داری ریاستی اور مرکزی ایجنسیوں اور کمیشنوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دی گئی تھی۔ اگر ہم موجودہ سیاست دانوں کے الفاظ کا جائزہ لیں جو اردو کو مسلمانوں اور ان کی تہذیب سے جوڑتے ہیں تو یہ بات آسانی سے سمجھ میں آئے گی کہ اقلیتوں کے تحفظ کی ذمّے داری بڑی حد تک مرکزی اور ریاستی حکومتوں پر ہے۔ یہی اقلیتوں کے مفادات کی ذمّے دار ہیں اور شروع ہی سے مسلم دانشوروں ، پریس والوں ، رضاکار تنظیموں ، بہی خواہوں ، مذہبی اداروں اور دیگر گروہوں پر بھی یہی ذمّے داری آتی ہے۔ ان میں گجرال کمیٹی بھی شامل ہے۔ اس کمیٹی کی رپورٹ نے، جو 1975 میں پیش ہوئی تھی، اردو کے کاز کو بڑھاوا دینا چاہا۔ بہ شمول دوسری تجاویز کے یہ بھی ایک تجویز پیش کی گئی کہ کسی بھی دیہات یا بلدی وارڈ میں جہاں اردو بولنے والوں کی آبادی دس فی صد سے زائد ہے وہاں اردو ذریعۂ تعلیم کے پرائمری مدارس کھولے جائیں۔ انھیں سہ لسانی فارمولے کے تحت چلایا جائے (ہندی اور انگریزی کے ساتھ) اور اس فارمولے میں اردو لازماً شامل کی جائے۔ اسے مقامی سطح پر سرکاری مراسلت کی زبان کے طور پر استعمال کیا جائے اور دیگر عوامی سہولتیں بھی فراہم کی جائیں۔ (Brass 1990:158-9)

بدنصیبی یہ کہ رپورٹ کی سفارشات پر کبھی عمل نہیں ہوا۔ جنتا دل حکومت کا اردو سے عناد، جگ جیون رام، جو رپورٹ کی پیش کش کے وقت وزیر زراعت و آبپاشی تھے (2)ان کے اور ان جیسے کابینی وزرا کے اعتراضات، دوسرے ممبران پارلیمنٹ کی مسلمانوں اور اردو بولنے والوں کو سہولتیں دیے جانے کی مخالفت اور خود آئی۔کے۔ گجرال کا وزارتِ عظمیٰ کے عہدے تک پہنچنے پر سفارشات کو رو بہ عمل لانے سے بے بسی کا اظہار کمیٹی کی ناکامی کا سبب بنے (Brass 1990: 158, Russel: 44; datifi 2001:533)

ان واضح تغیرات سے ہٹ کر اردو کو مسلمانوں سے جوڑنے اور ہندی۔اردو کے ٹکراؤ کو فرقہ واریت کے مفہوم میں ڈھالنے والے (پیش رو انیسویں صدی کے ہندو دانشور اردو کو ہندی کی ماتحت بنانا چاہتے تھے اور اس مقصد سے انھوں نے اردو میں زیادہ سے زیادہ الفاظ سنسکرت کے شامل کیے ) وہ عناصر ہیں جو اس صورت حال کے ذمہ دار ہیں۔ (Das Gupta 19970: 84.5)

اردو کے کاز کو آگے بڑھانے کے بجائے گجرال کمیٹی نے اسے ہندی سے علاحدہ ایک مختلف زبان قرار دیا اور اسے اسی سلوک کا مستحق سمجھا۔ اس سے قبل یہ تصور سر سید احمد خاں جیسے دانشوروں اور علی گڑھ تحریک کے دور کی نسلوں نے پروان چڑھایا تھا۔ انھوں نے ہندی دانشوروں کی ہندی کو فروغ دینے کی کاوشوں کو مسلمانوں کو زیر کرنے کا ایک دانستہ عمل ٹھہرایا (Das Gupta: 1970-85-91) دراصل یہ اردو کے ساتھ دہرے پن کا برتاؤ تھا۔ اسے مسلم اقلیتی طبقے سے وابستہ کرتے ہوئے قیاساً اور عملاً اردو مخالف طاقتوں کا ہدف اور تحفظ کا محتاج بنایا گیا اور اسے ہندی سے منصوبہ بند تقابل کے ذریعے کم تر بتاتے ہوئے اس کا رتبہ گھٹا دیا گیا۔ یہ سب کچھ سرکاری کمیشنوں ، رضاکار تنظیموں اور مختلف دانشوروں کی نمایاں کوششوں کے علاوہ تھا۔ اور یہ سب کچھ اردو پریس کی اسے ایک با اثر اور اہم زبان قرار دیتے ہوئے مرکزی اور ریاستی سطحوں پر تسلیم کرنے اور نیک نیتی سے اس پر عمل کرنے کی لگاتار کوششوں کے باوجود ہوا۔ (3)

آزادی کے بعد لسانی پالیسیوں کو جس طرح لاگو کیا گیا اس سے وہ پیچیدگیاں ابھر آئیں جو برطانوی راج کے زمانے میں لسانی تشخص کے عنوان سے اپنائی گئی تھیں ، حالاں کہ ہندوستانی قومیت میں ماقبل سامراجی حکمرانوں سے آزاد ہو کر خود مختار ہونے کا جذبہ تقویت پا چکا تھا۔ یہ ایک ایسا تصور ہے جو ہندوستانی قوم کی درجہ بندی کرتے ہوئے اسے اس طرح ترتیب دیتا ہے کہ جس میں متعینہ عناصر ایک اکائی میں تبدیل ہو کر مقررہ حدود میں موجود ہوتے ہیں۔ مثلاً اقلیتی اور اکثریتی طبقوں کا مذہب، ان کا قبیلہ یا زبان کی بنیاد پر تعین اور جب اعداد و شمار کی رپورٹیں سیاسی مقاصد کی حمایت یا مخالفت میں استعمال کی جاتی ہیں تو ان کی درجہ بندی ہوتی ہے۔ تب وہ قومی ریاستی اور مقامی سطحوں پر سرکاری اور انتظامی معاملات میں لسانی اختلافات کو بڑھاوا دیتی ہیں۔

ہندوستان میں قومی یکجہتی۔ تشریح: یہ ایک کوشش ہے جو قوم یا ریاست سے شروع کی جاتی ہے اور ان وفاداریوں کو فروغ دیتی ہے جو گروہی (مثلاً مذہبی، نسلی، طبقاتی) سے ماورا لے جاتی ہیں اور انھیں ایک قوم میں تبدیل کر دیتی ہیں (Brass 1974:4-5) کبھی کبھی یہ علاقائی زبانوں اور مختلف بولیوں کو تحلیل کرتی ہوئی ایک زبان میں منتقل ہو جاتی ہیں۔ ہندی(4)۔ اس اثر کو گھٹانے والے دو مفروضے بھی ہیں۔ ایک علاقائی زبانوں کے تشخص کی گنجائش فراہم کرتا ہے اور مرکزی حکومت کے اس تصور کو بھی تقویت پہنچاتا ہے جو ’کثرت میں وحدت‘ کے قومی نعرے پر مبنی ہے۔ دوسرا یہ کہ آئین کی رو سے ملک میں انگریزی کا استعمال پندرہ برس تک ہی ہونا تھا لیکن پارلیمنٹ کو اختیار ہے کہ سرکاری مقاصد کے حصول کے لیے اسے مزید جاری رکھے۔ (دستورِ ہند۔ حصّہ XVII باب I دفعہ 343) لہٰذا مرکز اور ریاست کی مختلف پالیسیوں کے ذریعے انتظامی اور کاروبار کی سطح پر انگریزی زبان کی اہمیت کو برقرار رکھا گیا ہے۔ (5)

اگرچہ کہ علاقائی اور قومی سطح کے سیاست داں دونوں ہی ہندی اور انگریزی میں مہارت حاصل کرنے کی حمایت کرتے ہیں لیکن دراصل ہندی نہیں بلکہ یہ انگریزی ہے جو پارتھا گھوش (ڈائرکٹر انڈین کونسل آف سوشیل سائنس ریسرچ، نئی دہلی) کے الفاظ میں ’’دنیا کے لیے کھڑکیاں کھول دیتی ہے ‘‘ کیوں کہ انگریزی میں مہارت ہی ملک اور بیرون ملک اشرافیہ اور اشرافیہ کے اداروں میں ملازمت کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ انگریزی داں اور غیر انگریزی دانوں کے درمیان جو سماجی اور معاشی تفاوت ہے وہ اس تفاوت کے مقابلے میں زیادہ ہے جو دوسری مسلمہ ہندوستانی زبانیں بولنے والوں کے درمیان ہے۔ اس تبصرے کا مقصد ہندوستانی زبانوں کے درمیان آویزش کی شدت کو کم کر کے دکھانا نہیں ہے بلکہ اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ انگریزی کی بڑھتی ہوئی اہمیت کے سبب قومی سطح پر علاقائی زبانوں کو تسلیم کیے جانے کا جھگڑا لیت و لعل میں پڑ گیا ہے۔ انگریزی داں اور غیر انگریزی داں کی نمایاں تقسیم کے علاوہ علاقائی زبانیں خصوصاً وہ جنھیں ریاست کی سرکاری زبانوں کا درجہ حاصل ہو چکا ہے وہ معاندانہ تہذیبی تشخص کا شکار ہو چکی ہیں۔ اشرافیہ طبقے سے وابستگی کی وجہ سے انگریزی کی بڑھتی ہوئی اہمیت اور علاقائی زبانوں کے درمیان ابھرتی ہوئی رقابت کی وجہ سے یا پھر تقسیم کے بعد علاقائی اور ہندی زبانوں کے درمیان تعاون کی وجہ سے اردو کا زوال ہوا۔۔ کم از کم نظم و نسق کی سطح پر اور ابتدائی تعلیم کے درجوں کی سطح پر یہ گھٹتی ہی گئی۔

 

سہ لسانی پالیسی کی ناکامیاں

علاقائی زبانوں کی تعلیم میں گنجائش فراہم کرنے کی جو اہم کوششیں کی گئیں ان میں سہ لسانی فارمولا بھی ہے۔ اس کی سفارش یونین ایجوکیشن کمیشن نے کی اور بعد میں سیکنڈری ایجوکیشن کمیشن نے اوّل الذکر کے ساتھ 1950 میں میٹنگ کرتے ہوئے متفقہ طور پر اس کی سفارش کی۔ اس فارمولے کا نفاذ 1960 کے اواخر میں عمل میں آیا۔ (6)اس کے واضح مقاصد میں ایک مقصد قومی لسانی یکجہتی کو فروغ دینا تھا۔ بہر حال اس فارمولے کے تحت سرکاری زبان کا اعلامیہ قبول کر لیا گیا۔ ہندی کو دیوناگری رسم الخط میں وسطانوی تعلیم کے لیے اور انگریزی زبان کو شمال کی ہندی ریاستوں میں اور ساتھ میں ایک عصری ہندوستانی زبان بھی (7)لیکن اس کے بعد یہ موضوع اختلافات اور تنازعات کا شکار ہو گیا۔ غیر ہندی ریاستوں میں علاقائی زبان یا منتخبہ زبان کی رعایت رکھی گئی۔ (8)یوپی اور بہار کی ریاستی حکومتوں نے عصری ہندوستانی زبان کے بجائے سنسکرت کو نصاب میں داخل کیا۔ گو سنسکرت ایک لازمی مضمون کی حیثیت سے قبول کی جا چکی تھی۔ اس کے علاوہ لسانی فارمولے کے نفاذ کے سلسلے میں شمالی ہند کی ریاستوں میں ثانوی تعلیم کے طلبہ کے لیے یہ اہم زبان بن گئی۔ (Brass: 1974:210-11, 214-15) غیر ہندی ریاستوں میں اردو کی حیثیت تیسرے مقام (جہاں کہیں بھی اس کا انتظام رہا) پر رہی اور علاقائی زبان میں تعلیم کی وجہ سے اسے نظرانداز کر دیا گیا۔

یہ بھی صحیح ہے کہ سہ لسانی فارمولا ہر ریاست میں کسی نہ کسی بدلی ہوئی شکل میں موجود ہے۔ اور اسی سبب اس فارمولے کے نفاذ میں پیچیدگیاں اور مشکلات پیدا ہو گئی ہیں۔ بہ قول اطہر فاروقی اس پیچیدگی کی وجہ سے یہ فارمولا (ریاستی سطح پر مختلف تشریحات کے ساتھ) اردو تعلیم کی سہولتوں کو ختم کرنے کا بڑا سبب بنا۔ اس کے ذریعے ساتویں دہائی کے بعد ہندی زبان کو فروغ حاصل ہوا (9) شمالی ہند کو ہندی کا بلیٹ قرار دیا گیا اور ان علاقوں کے باشندوں کی مادری زبان ہندی قرار دی گئی۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مردم شماری میں دھاندلیاں کی گئیں (Farooqui 1994: 783, Latifi 1999:1321)۔ غرض یہ کہ شمال میں تحتانوی درجوں میں اردو تعلیم کے حق کو عملاً نظرانداز کیا گیا۔ یہ سب سنسکرت کو شامل کرنے کی خاطر کیا گیا۔ وہ زبان جسے سارے ہندوستان کی ایک فیصد آبادی بھی نہیں بولتی ثانوی اور اعلیٰ ثانوی اسکول نصاب میں جگہ پاگئی۔ ان حالات کے خلاف علاقائی زبانوں کے حامیوں کا ردّ عمل فوری اور بعض صورتوں میں (Farouqui 1994:783 Shahabuddin 2001:15) جارحانہ رہا۔ ساتویں دہائی کے درمیان مغربی بنگال اور جنوب (خصوصاً ٹامل ناڈو) میں ہندی کو (آئین میں موجود اور 1963 کی سرکاری زبان کی قرارداد میں مکر ر پیش کی گئی دفعات کی بنا پر) سرکاری زبان کے طور پر نافذ کرنے کے خلاف احتجاج اور فسادات ہوئے۔ مرکزی حکومت کے احکامات کو نظرانداز کیا گیا۔ یہ خیال پیدا ہوا کہ ہندی، علاقائی زبانوں کو پس پشت ڈال کر، انھیں پامال کرتی ہوئی آگے بڑھے گی۔ ان حالات میں اردو بری طرح متاثر ہوئی۔ جنوب میں ہوئے احتجاج کے پیش نظر تحتانوی اور ثانوی درجوں میں اردو کی تعلیم زیادہ تر منسوخ کر دی گئی (Ramaswamy 1999:347, Farooqui 1994:783) یا اس درجہ کمزور کر دی گئی جیسے اسے دکھاوے کے طور پر باقی رکھا گیا ہو۔ جہاں کہیں علاقائی یا مرکزی سطح پر مالی امداد دی گئی وہاں بھی قومی اور علاقائی سطحوں پر بہ حیثیت زبان اس کی اہمیت اور وقعت تیزی سے کم ہوئی۔ سوائے جموں اور کشمیر کے جہاں وہ سرکاری زبان کی حیثیت سے برقرار رہی (Farooqui 1994:783) غرض یہ کہ قومی لسانی یکجہتی کو بڑھاوا دینے کے ارادے سے سہ لسانی فارمولے کو نافذ تو کیا گیا لیکن اس پالیسی کو رو بہ عمل لانے کے لیے جو اختیارات ریاستی حکومتوں کو سونپے گئے ان کی وجہ سے آپسی اختلافات بڑھے اور ان میں شدت آئی۔

اس کے باوجود اردو کو سرکاری طور پر تسلیم کرانے کی کوششیں جاری رہیں۔ حال میں یوپی اور بہار میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کی حیثیت سے منوا لینا اردو والوں کی ایک بڑی کامیابی قرار دیا گیا لیکن ان ریاستوں میں بھی اردو کی تعلیم دیگر ریاستوں کی طرح مایوس کن ہے۔ اردو زبان میں پرائمری اور ثانوی تعلیم کی سہولتوں کا فقدان ہے یا یہ ناکافی ہیں۔ اس پر بڑے ہنگامے برپا ہو چکے ہیں۔ ان درجات میں اردو تعلیم کی صورت حال اس طرح ہے : ایک تو یہ کہ اردو بہ حیثیت لازمی مضمون، اردو بہ حیثیت غیر لازمی مضمون اور اردو بہ حیثیت ذریعۂ تعلیم، ان تینوں میں کوئی تفریق نہیں رکھی گئی جب کہ ہر ایک کے لیے مختلف لائحۂ عمل کی ضرورت ہے۔ (10) (Shahabuddin 2001:12, 2002:19) دوسرے یہ کہ جہاں کہیں بھی اردو ذریعۂ تعلیم کے اسکول ہیں وہاں اساتذہ کی صلاحیتیں غیر تشفی بخش ہیں اور وہ اردو ذریعۂ تعلیم کے صحیح مفہوم سے بھی واقف نہیں ہیں (مطلب یہ کہ اردو زبان میں تمام مضامین کی تعلیم دی جائے یا نہ دی جائے یا یہ کہ اردو کو صرف بہ حیثیت ایک مضمون پڑھایا جائے ) (Russell 1999:46, Farooqui 1994:784) اس کے علاوہ انگریزی کے مقابلے میں اردو کو اختیاری مضمون کی حیثیت دی گئی تاکہ طلبہ مالی منفعت کے پیش نظر انگریزی کا انتخاب کریں۔ متبادل کے طور پر، جیسا کہ یوپی میں ہے، جونیر ہائی اسکول کے امتحانات اردو میں لکھنے کی سہولت دی گئی ہے لیکن اس کے بجائے اکثر طلبا ہندی کو منتخب کرتے ہیں۔ (11)چوتھی بات یہ کہ جیسا کہ یوپی میں کئی نجی اسکول غیر مسلمہ ہیں یا پھر جزوی طور پر مسلمہ ہیں۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کے سبب دو طرز عمل اختیار کیے جا سکتے ہیں۔ ایک میں غیر مسلمہ اسکول کے طلبہ مسلمہ ہائی اسکول کے امتحانات میں بہ حیثیت نجی طلبہ شریک ہو سکتے ہیں اور دوسرے میں غیر مسلمہ اردو میڈیم اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کے والدین مسلمہ اسکولوں سے اپنے بچوں کے لیے نتائج خرید سکتے ہیں۔ (Farooqui 1994:783, 784)۔

اطہر فاروقی بتاتے ہیں کہ آندھرا پردیش میں اردو ذریعۂ تعلیم کے طلبا میں تعلیم منقطع کرنے والوں کی بڑی تعداد کا سبب ان کے معاشی حالات ہیں اگرچہ بہار میں اردو تعلیم پر غربت کا ایسا اثر نہیں۔ اس صورت حال کو وہ ’’غریب مسلم طبقے کی اسلام سے گہری وابستگی‘‘ قرار دیتے ہیں جب کہ ان مسلمانوں کے لیے مذہبی ادارے اور دینی مدارس نعمت کی طرح ہیں جو ریاست میں اردو تعلیم کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ اس بات کو مدّ نظر رکھنا چاہیے کہ دینی مدارس میں انتظامیہ کی بدتر صورت حال ہونے کے باوجود ریاست بہار ان اداروں کی اسناد کو مسلمہ قرار دیتی ہے۔ بہار میں یہی بات اردو تعلیم کے غیر معیاری ہونے کے باوجود اس کی مقبولیت کا باعث ہوئی۔ حکومت بہار کا مدارس کی اردو استاد کو مسلمہ قرار دینے کا ایک مفید نتیجہ یہ نکلا کہ ریاست میں ملازمتوں کے مواقع زیادہ نکل آئے جب کہ ایک اندازے کے مطابق دیہی علاقوں میں خواندگی کا تناسب قومی اوسط کے مقابلے میں 98 فی صد گرا ہوا ہے۔ (12)

اردو تعلیمی معیار کی ترقی کے امکانات شمالی ہند کی بہ نسبت جنوب میں حوصلہ افزا ہیں۔ اس کے اسباب یقیناً معاشی ہیں۔ مہاراشٹر میں مسلمانوں کی بہتر حالت (مذہبی اور لسانی حیثیتوں کے ربط کو ملحوظ رکھتے ہوئے ) کا سبب اطہر فاروقی خود ریاست کی خوش حالی اور بیوپاریوں کا موجود ہونا بتاتے ہیں۔ گزشتہ پندرہ سال سے بنگلور سے شائع ہونے والا انگریزی ماہنامہ ’اسلامک وائس‘ اردو تعلیم کو نظر انداز کیے جانے کے نظریے سے قطعی اختلاف کرتا ہے۔ ایک حالیہ ادارے میں بتایا گیا کہ مہاراشٹر میں اردو ذریعۂ تعلیم کے اسکولوں کا وسیع پیمانے پر انتظام ہے۔ ’اسلامک وائس‘ کے ایک جائزے کے مطابق گزشتہ تین سال سے اردو میڈیم سے فارغ التحصیل مسلم طلبا مہاراشٹر کی دسویں جماعت کے امتحانات میں امتیازی کامیابی حاصل کرتے آئے ہیں۔ اطہر فاروقی کے اس الزام پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر امتحانات کے نتائج جھوٹے اور جعلی ہیں تو یہ کیسے ممکن ہوا؟ یہ سچ ہے کہ مہاراشٹر میں اعلا درجے کے اردو اسکول موجود ہیں اور ان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ امر تعجب خیز ہے کہ مسلم طلبا کے ساتھ امتیاز برتے جانے کا الزام کیوں بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ جنوب میں کم از کم مسابقتی امتحانات کے معاملے میں ایسا ہو رہا ہے۔ (13)

متذکرہ صورت حال کے اسباب میں ایک یہ بھی ہے کہ مجموعی اعتبار سے جنوبی ہند کے مسلمان شمالی ہند کے مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ خوش حال ہیں اور وہ اردو سے اپنی وابستگی کو زیادہ موثر طریقے سے پیش کرنے لگے ہیں (خورشید 1998) اور اردو کی افادیت کے دفاع اور اس کے فروغ میں جٹے ہوئے ہیں۔ صرف اس لیے نہیں کہ یہ مسلمانوں کے بولنے کی زبان ہے بلکہ ہندوستان میں بسنے والے مختلف فرقوں اور طبقات کی زبان ہے۔ گو تقسیم کے بعد اردو کا بڑی حد تک زوال ہوا لیکن ساتھ میں اس کے نفاذ اور فروغ کی نئی راہیں بھی کھل گئیں۔ اس کی ایک مثال دلی اسکول بلند شہر کی ایک برانچ کی ہے۔ اس کے اغراض و مقاصد کے مطابق ایسے طالب علموں کو جو پس ماندہ سماج کے نمائندہ ہیں اردو کو تیسری زبان کے طور پر سیکھنے کا موقع دیا گیا ہے (نارنگ۔ پیش لفظ 1-3)

شمال میں ، خصوصاً اتر پردیش میں ، جو اردو ہندی علاقائی مسابقت کا مرکز ہے، وہاں اردو کے حامیوں کی شعلہ بیانی امید کی کرن کو مدھم کر دیتی ہے (14)اردو، ہندی اور علاقائی زبانوں میں جو مماثلتیں ہیں انھیں پیش کرنے کے بجائے یہ شعلہ بیانی ان میں موجود اختلافات کو ابھارتی ہے۔ اس میں ہندی احیا پرستوں اور اردو شرفا کے شدت پسندانہ رویے بھی شامل ہیں۔ بجائے اس کے کہ ان زبانوں کی مماثلتوں کو تلاش کیا جائے ان کے اختلافات کو اچھالا جاتا ہے۔ کہا تو یہ جانا چاہیے کہ اردو زبان ہندوؤں ، سکھوں اور عیسائیوں سب کی زبان ہے۔ ان سب کے ثقافتی ورثے کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس کے برخلاف اردو کے بہی خواہوں اور بد خواہوں دونوں نے اس کی علاحدہ خصوصیات کا ذکر کیا اور حکومت کی ایجنسیوں سے اس کے لیے خاص مراعات کا مطالبہ یہ کہتے ہوئے کیا کہ یہ ایک پس ماندہ اقلیتی طبقے کی زبان ہے۔ اس استدلال نے ہندو احیا پرستوں کے لیے اہم موقع فراہم کیا اور وہ کہنے لگے کہ حکومت اقلیتوں کی پرورش کرنا چاہتی ہے (خاص طور پر مسلم اقلیت کی جس نے اس طرح کی نکتہ چینی کا موقع دیا۔)موثر طریقہ تو یہ تھا کہ اس بات پر زور دیا جاتا کہ ہندوستان کو اردو کیا کچھ نہیں دے سکتی۔ بجائے اس کے اردو کی حامی تنظیمیں اردو کی مظلومیت کا رونا روتی رہیں۔ حکومت کو اردو سے بے تعلقی کا الزام دیا جانا چاہیے تھا۔ دراصل اردو بولنے والے خود مسائل کو حل کرنے کے لیے آگے بڑھ سکتے ہیں اور اردو زبان کو عوام کی نظروں میں ایک فعال، اہم اور ایک با وقار زبان کی حیثیت سے پیش کر سکتے ہیں۔

 

اردو کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے چند تجاویز

اردو کی تاریخ،اس کے ارتقا،اس کی مقبولیت اور سیاست میں اس کا عمل دخل، ان تمام باتوں سے واقف اہلِ علم نے اس کی بہتری کے لیے چند عملی تجاویز پیش کی ہیں۔ بعض اہم تجاویز کو یہاں سلسلہ وار پیش کیا جاتا ہے۔ رالف رسل، چودھری محمد نعیم اور دانیال لطیفی نے ایسی تجاویز پیش کی ہیں کہ ان پر عمل کر کے اردو کے حمایتی اسے محدود اور تنگدلانہ تصورات سے نکال کر مثبت، با عمل اور بنیادی حقیقتوں سے آشنا کر سکتے ہیں اور فروغ دے سکتے ہیں۔ پہلی تجویز یہ ہے کہ اردو کی مظلومیت کا لبادہ اتار دیں۔ ان تینوں مصنفوں نے جس بات پر زور دیا ہے وہ یہ ہے کہ اردو والے سرکاری پالیسیوں کی ناکامی پر غیر ضروری توجہ نہ دیں۔ اس کے بجائے اردو کے شہ پاروں کی اشاعت پر زور دیں۔ اس کے لیے جو عملی طریقۂ کار اختیار کیا جائے اس میں ایسے اداروں کو شامل کیا جائے جو حکومت کی مالی امداد سے بے نیاز ہوں۔ مثال دی گئی ہے کہ یوپی کے سکندرآباد میں قائم غیر سرکاری ادارہ مولانا آزاد ریسرچ اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے نام سے کام کر رہا ہے۔ یہ ادارے ادب عالیہ سے اندر سبھا، داستانِ امیر حمزہ اور گل بکاؤلی جیسے کلاسیکل شہ پاروں کو منتخب کر سکتے ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ اہم شاعری کے مجموعوں اور ترقی پسند تحریک سے وابستہ اہم ادیبوں کی تحریروں کو بھی شائع کرنے کا پروگرام بنا سکتے ہیں۔ اس ادارے کا قیام 1989 میں دہلی میں عمل میں آیا تھا۔ اس کے علاوہ ایسے ادارے جو حکومت سے تعاون حاصل کرتے ہیں وہ بھی اپنا منصب ادا کر سکتے ہیں۔ نئے امکانات اسی وقت سامنے لائے جا سکتے ہیں جب اس طرح کے اداروں کا بنیادی مقصد نئی اسکیمیں بنانا اور انھیں رو بہ عمل لانا ہو۔ مارچ 2001 کے اخیر تک اس فاؤنڈیشن نے بیس ریاستوں میں پچپن غیر سرکاری تنظیموں کو چالیس سو نو کروڑ روپے کی مالی امداد منظور کی (15) اس کے علاوہ اطہر فاروقی نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ دہلی میں قائم سردار پٹیل سینئر سیکنڈری (پبلک) ہندی اسکول کی طرح پرائمری درجوں میں اردو کیلئے بھی ماڈل اسکول قائم کرے۔ انکا خیال ہے کہ اس طریقۂ کار سے انگریزی داں طبقے سے کمتری کے احساس سے بھی طلبا کو نجات ملے گی اور انھیں انگریزی داں طبقے سے متاثر ہوئے بغیر تیزی سے علم حاصل کرنے کا موقع بھی ملے گا۔ (16)

ہندوستان میں اردو تعلیم اور اس کے فروغ کے سلسلے میں مدرسوں کا کر دار ایک ایسا موضوع ہے جس پر گرما گرم بحثیں ہوتی رہتی ہیں۔ ان کا تعلق اسلام سے ہے اس پر بھی نکتہ چینی ہوتی ہے۔ بہ قول اطہر فاروقی شمالی ہند میں بڑی حد تک مدرسے ہی اردو کے محافظ رہے ہیں۔ اکثر والدین اپنے بچوں کو ان ہی اداروں میں شریک کراتے ہیں۔ (17) 9/11 کے بعد سے اسلام اور اسلام سے وابستہ کسی بھی عمل کو شک کی نظر سے دیکھا جانے لگا ہے۔ بنیاد پرستوں نے اسے ایک ایسی فصیل بنا دیا ہے جو مذہبی تخصیص، پسماندہ ذہنیت، علاحدگی پسندی اور نسلی تنافر کی حفاظت کرتی ہے۔ اکثر یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ وہ بچے جو مدرسوں میں پڑھتے ہیں جدید علوم سے ناواقف ہوتے ہیں اور ملاؤں اور مولویوں کی بنیاد پرستی کے خاص ٹارگٹ بن جاتے ہیں۔ ان مدرسوں کے خلاف سیکولر مسلمان بھی وہی احساسات رکھتے ہیں جو غیرمسلم اور بی جے پی کے ارکان رکھتے ہیں۔ یہ طرز عمل نہ صرف گمراہ کن اور لاعلمی پر مبنی ہے بلکہ خطرناک بھی ہے کیوں کہ اسلام سے متعلق ہر معاملے میں پہلے ہی سے ڈوبتی ہوئی کشتی میں یہ مزید چھید کر دینے کے مماثل ہے۔ بلاشبہ ہندوستان اور ساتھ ساتھ پاکستان میں مدرسوں کی تعلیم اصلاحی مسائل کا احاطہ کرتی ہے۔ ادھر حال میں شائع ہونے والی تحریروں میں مدرسوں کی زعفرانیت اور ان کی اصلاح میں قومی کونسل برائے فروغ اردو کی ناکامی کو بحث کا موضوع بنایا گیا ہے۔ مزید یہ کہ مدرسوں کی تعلیم کے حامیوں نے حکومت کی سرپرستی میں مدرسوں کے نصاب میں تبدیلی لا کر نئے سیکولر مضامین کی شمولیت کی کوششوں کو اسلام اور مسلمانوں کے لیے خطرہ قرار دیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ یہ ساری کوششیں مسلم مذہبی اسکالرز (علماء) کے اختیارات کو گھٹانے کے لیے ہیں۔ ان حالات کے کسی بھی اصلاحی عمل کے خلاف مزاحمت، ہندوستان اور پاکستان کے علماء کے لیے سیاسی بحث کا موضوع بن گئی ہے۔ (18) یوں تو مدرسوں کی تعلیم کبھی بھی مکمل جمود کا شکار نہیں رہی اس لیے کہ اس کی دیرینہ تاریخ بڑی روشن ہے اور یہ ماقبل نو آبادیاتی دور (مغلیہ حکمرانوں کے دوران) دریں نظامیہ سے شروع ہوتی ہے۔ حالیہ عرصے میں بعض جدید علوم کو ان اداروں نے اپنے نصاب میں مجبوراً اس ضمانت کے ساتھ شامل کر لیا کہ نصاب کی مذہبی شناخت قایم رہے گی۔ (19)مثال کے طور پر دارالعلوم دیوبند کے طلبا مذہبی مضامین کے ساتھ صحافت، کمپیوٹر ٹکنالوجی اور انگریزی ادب کی تعلیم بہ حیثیت اختیاری مضامین لے سکتے ہیں۔ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں پرائمری درجوں سے ہی اسلامی علوم کے ساتھ انگریزی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ پوسٹ گریجویٹ سطح پر مذاہب کے تقابلی مطالعے کا کورس بھی شامل ہے۔ (20)

یہ الزام کہ مدرسوں کی تعلیم جدید سائنسی تعلیم کے منافی ہے کسی حد تک صداقت پر مبنی ہے۔ اس کے پس پشت سیاسی مذہبی اور طبقاتی مفادات کارفرما ہیں (Zaman 2004:79-81, Ara 2004)۔ اس کے برخلاف دیوبند اور ندوہ جیسے مدرسوں نے جو موقف اختیار کیا ہے اسے عوام کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے اور اگر اس کا محاکمہ کیا جائے تو ظاہر ہو گا کہ یہ منافرت ندوہ کی بیّن تعلیمی پالیسی کے خلاف ہے جو یہ چاہتی ہے کہ اسلام کے بنیادی عقائد کو تغیر پذیر علوم سے ہم آہنگ کیا جائے۔ دیوبند کی ویب سائٹ کے ایک عنوان (تعلیمی نظام) کے ساتھ اس کا ایک ضمنی عنوان ’’ایک شبہ کا ازالہ‘‘ بھی موجود ہے۔ اس حصے میں اس بات کی وضاحت کی کوشش کی گئی ہے کہ مدرسے کا بنیادی اصول یہ ہے کہ قدیم مذہبی علوم کے ساتھ صلاحیت اور ذہانت کو پروان چڑھانا بھی ایک ذمّے داری ہے۔ اس ذمّے داری کا احساس اور وقتاً فوقتاً اس کی تجدید بھی لازمی ہے (یہاں اس سے مراد تجزیاتی اور تنقیدی فکر کی صلاحیت ہے )۔ یہ دونوں صلاحیتیں مصنف (جس کا نام نہیں دیا گیا ہے ) کی سوچ کے مطابق جدید علوم کی بہتر تفہیم کے لیے بنیاد فراہم کر سکتی ہیں۔(21) تجربات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ طبقاتی افضلیت مدرسے سے فارغ، اشرافیہ کے لیے موجودہ علوم کے مطالعے کے وسیع امکانات فراہم کرتی ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ بہت سے اشرافیہ جنھوں نے دینی مدارس میں تعلیم پائی یا ان مدرسوں میں پڑھایا ہے سیکولر تعلیم حاصل کرنے کے لائق بن سکے۔ بعض وقت یہ تعلیم یورپ اور امریکہ میں بھی حاصل کی گئی۔ (Ara 2004:36-7, Zaman 2002:83) اس کے برعکس غریب مسلمانوں کو ایسے مواقع حاصل نہ ہو سکے کیوں کہ ان کے لیے مدرسوں کی تعلیم ہی متبادل نعمت ثابت ہوئی۔ ان حالات کی روشنی میں دینی مدرسوں کے نظام میں غریب مسلمانوں کے لیے بہتر تعلیم کے نہ ہونے کا الزام بے بنیاد لگتا ہے۔ دراصل کئی پیچیدہ سماجی، سیاسی اور معاشی اسباب ہیں جو مسلمانوں کو علاحدگی پسند بناتے ہیں اور انھیں حاشیے پر ڈال کر چند تنگ نظرانہ مفادات کا ٹارگٹ بناتے ہیں۔ (22)

سیکولر تعلیم بذات خود مذہبی انتہا پسندی اور دنیا سے بیگانگی جیسے احساسات سے درگزر کرنے کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ مدرسوں کی تعلیم پر الزام ہے کہ یہ عصری دنیا سے منافرت کو فروغ دیتی ہے۔ برخلاف اس کے دینی مدرسوں کا سروکار مسلمانوں سے بہ حیثیت مسلمان ہی نہیں بلکہ آج کی دنیا کے بدلتے ہوئے حالات سے نبٹنے کی ضرورت سے بھی ہے۔ ان اداروں میں جو زبان مستعمل ہے وہ مذہبی علوم اور جدید علوم دونوں کے بدلتے ہوئے مزاج کی غماز ہے (واقعات تو یہ بتاتے ہیں کہ اسلام میں اس طرح کی اصلاح اور تجدید کی روایت ہے۔ )کیا یہ محض ایک بیان ہے یا اصل پالیسی ہے جس پر دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العلماء کے اساتذہ کار بند ہیں۔ مدرسوں کے بارے میں ان اداروں کا کلیدی موقف یہ ہے کہ جدید سائنس پڑھاتے ہوئے یہ مسلمانوں کی ذہانت کو بڑھا کر انھیں اسلامی عقیدے کو ٹھیک سے سمجھنے اور شریعت کے مطابق زندگی گزارنے کی تلقین کریں (چاہے کتنی ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے )۔ سیکولر اذہان جس بات کو نظرانداز یا رد کرتے ہیں وہ دراصل عقیدہ ہے لیکن یہی تو دراصل انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ والدین اپنے بچوں کو محض اردو پڑھنے کے لیے دینی مدارس میں نہیں بھیجتے بلکہ اسلامی عقیدے کو مضبوط کرنا ان کا مقصد ہوتا ہے۔ اسلام میں کوئی مرکزی اقتدار نہیں۔ اسلامی شریعت پر ایمان مسلمانوں کو عالمی سطح پر متحد رکھتا ہے (نظریاتی سطح پر ہی سہی)۔ مسلمانوں کی تعلیمی اصلاح، دینی مدارس کا وجود، طرزِ حیات کے پیمانے ان سب پر موثر گفتگو شریعت کے وسیلے ہی سے ہو سکتی ہے۔ اس طرح سے مدرسوں کے مستقبل کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ جو لوگ ہندوستان میں اردو کے تحفظ اور فروغ کے خواہش مند ہیں انھیں چاہیے کہ وہ دینی مدرسوں سے اپنے کو وابستہ رکھیں۔ نام نہاد مذہبی اور نام نہاد سیکولر گروہوں کے مقاصد ایک طرفہ نہ ہوں تو بہتر ہے۔

اردو تعلیم کے لیے دینی مدارس سے وابستگی کے علاوہ۔۔ وہ مطبوعات جو چاہے خود مختار اداروں کی ہوں یا حکومت کی ایما پر شائع کی گئی ہوں یا غیر ادبی تحریریں جیسے سائنس کے موضوعات پر کتابیں (انگریزی سے ترجمہ کی ہوئی) اردو کے فروغ میں اہم خدمات انجام دیتی ہیں۔ کمپیوٹر سافٹ ویر استعمال کرتے ہوئے اس طرح کی کتابیں خط نستعلیق میں چھاپی جائیں تو پڑھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں تبلیغی جماعت اور جماعت اسلامی کی تصانیف اور اردو پڑھنے والوں کی قوت خرید پر نظر کرتے ہوئے، نیز ان تنظیموں کے اراکین کی عادتوں کا جائزہ لینے کے بعد سی۔ایم۔ نعیم نے ایک اندازہ قائم کیا اور ان کا مشورہ ہے کہ اردو کی مطبوعات کو کسی طرح قارئین تک پہنچانے کا انتظام کیا جائے۔ ایک اہم نکتہ قابلِ غور یہ بھی ہے کہ ہندی بولنے والوں اور ان کے ساتھ ساتھ جو اردو رسم خط سے واقف ہیں ان کے لیے بھی کتابیں انگریزی، دیوناگری حروفِ تہجی میں شائع کروا کر ان تک پہنچائی جائیں۔ اردو کے حامیوں کا ایک طبقہ اردو کتابوں کو دیوناگری رسم خط میں شائع کرنے کا مخالف ہے لیکن اردو کو محض فارسی رسم خط میں پیش کرنے سے قارئین کا ایک بڑا حصہ اردو سے دور ہو جائے گا۔ اس طرح کی مطبوعات جن میں دعاؤں کے کتابچوں کی کثیر تعداد بھی شامل ہے پورے ہندوستان میں اولیاء کی درگاہوں میں فروخت ہوتی ہیں۔ یہ اکثر مذہبی نوعیت کی ہوتی ہیں۔ خط و کتابت پر، پکوان سے متعلق اور قصہ کہانیوں کی کتابیں اس نوعیت کی نہیں ہوتیں۔ اردو کی ایسی مطبوعات رومن اور دیوناگری رسم خط میں اور علاقائی زبانوں جیسے پنجابی، بنگالی اور گجراتی میں بھی شائع ہوتی ہیں۔ ان کتابوں کی مقبولیت کے بارے میں کتب فروش اور قارئین لوگوں کو بتاتے ہیں۔ خود میں نے دہلی، اجمیر اور بہار کی درگاہوں میں آنے والے زائرین اور مذہبی رہنماؤں کے انٹرویو لے کر اس بارے میں واقفیت حاصل کی ہے۔ عقیدت مندوں میں یہ کتابیں کثرت سے فروخت ہوتی ہیں۔

مشرق وسطیٰ کے ممالک خاص طور پر عرب ملکوں جیسے عمان، متحدہ عرب امارات اور جنوب ایشیا میں اردو بولنے اور سمجھنے والے اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں۔ یہ لوگ اردو پڑھنا لکھنا بھی جانتے ہیں۔ (23)ان مقامات پر اردو کتابوں کی اشاعت سودمند ثابت ہو گی۔ چند غیر مسلم بھی آج کل عربی زبان سیکھنے کی طرف مائل ہیں۔ اب یہ زبان مسلمانوں کے علاوہ ہندوؤں ، عیسائیوں اور جنوب ایشیا سے آنے والوں کے درمیان ترسیل کی زبان بن چکی ہے۔ شہاب الدین کا خیال ہے کہ اردو کی ترقی یا زوال کو اردو میں شائع ہونے والی کتابوں سے نہیں جانچا جا سکتا۔ ایسا کرنا اسے پڑھنے لکھنے والوں کی حد تک محدود کر دیتا ہے اور ان لوگوں کو نظرانداز کر دیتا ہے جو اردو پڑھ لکھ نہیں سکتے لیکن اردو بولتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اردو کتابوں کی اشاعت اور فروخت، اردو پڑھنے لکھنے والے، اردو بولنے اور سمجھنے والے اور اردو کے حامی۔۔ ہندوستان ہو کہ بیرون ہند یہ سب اردو کی اہمیت جتلانے والے ہیں۔ اردو کے وقار میں اضافہ کرتے ہیں۔ ان سب کا وجود اس کے فروغ کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ تعلیم میں اور سرکاری نظم و نسق میں اس کا استعمال۔ (24)

ایک آخری لیکن شاید نہایت بنیادی امر آج کے دور میں ہندوستان میں اردو کے مقام کا تعین اور اس کی معنویت کے مسئلے طے کرنا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اردو سے دراصل کیا مراد ہے ؟ یہ پیچیدہ سوال اردو کی تعریف متعین کرنے کا ہے جو کسی حد تک مسئلے کی اصلیت تک پہنچتا ہے۔ اسکے ساتھ ہی اس کے خلاف دلائل ایسے مسائل کھڑے کر دیتے ہیں جو ہندی کو سنسکرت آمیز بنانے کی مسلسل کوششوں کے سلسلے میں پیدا ہوئے۔ ادھر اردو کی شناخت کے نظریے نے اس مسئلے کو اور بھی گنجلک بنا دیا (مثال کے طور پر اسکول کے ابتدائی قاعدوں کی چھپائی کے بارے میں کوئی متفقہ رائے حاصل نہ ہو سکی۔ اس کی تلاش نے وضاحت کے بجائے اسے اور بھی پیچیدہ بنا دیا۔ آیا عمومی زبان یا کلاسیکل یا نیو کلاسیکل کس فارم میں ابتدائی قاعدوں کو چھاپا جانا چاہیے۔ تینوں کو بہ یک وقت استعمال کیا جائے یا نہ کیا جائے ) ایک دبستان فکر کے مطابق ہندی اور اردو لسانی تفاوت کے ساتھ دو مختلف زبانیں ہیں۔ دوسرے مکتبۂ فکر کا خیال ہے کہ (مصنوعی) اردو میں عربی اور فارسی کے الفاظ شامل ہیں جب کہ ہندی میں سنسکرت الفاظ ہیں۔ بہترین مثال وہ زبان ہے جسے ہندوستانی کا نام دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر پریم چند کی ہندوستانی میں لکھی ہوئی تحریریں دونوں رسم خط میں ہیں۔ یہ ہندی اور اردو دونوں زبانوں میں قبول کی جاتی ہیں (Shapiro and Schiffman 1981:1)۔ آخرالذکر مکتبۂ خیال کا تعلق اس نظریے سے ہے جو ہندوستان کو ایک مخلوط کلچر کا ملک سمجھتا ہے۔ لیکن یہ سب کا خیال نہیں ہے۔ ہندو احیا پرستوں کے مطابق اس طرح کا اشتراک اردو کیلئے کسی مخصوص یا علاحدہ سلوک کی نفی کرتا ہے، مرکز اور ریاست دونوں کی سطح پر۔ یوپی جیسی حکومت نے اردو کو ریاست کی اقلیتی زبان قرار دیا لیکن خود اردو بولنے والوں کو کسی ایک اقلیتی زبان کا گروہ نہیں مانا گیا نہ ہی کسی اقلیتی کلچر یا مذہبی فرقے کا (Brass 1974: 204, 215-16)۔ مخلوط کلچر کے بارے میں مہاتما گاندھی کے نظریات سے سب ہی واقف ہیں۔ وہ ڈاکٹر راجندر پرشاد کے ساتھ اردو اور ہندی کی بنیادی مماثلت کے نظریے کے حامی رہے اور ہندوستانی پرچارنی سبھا کے قیام کے توسط سے اس مماثلت کو نمایاں کرنے کی کوشش بھی کی۔ اس کا ایک مقصد ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ہندوستانی کو بطور رابطے کی زبان فروغ دینا تھا۔ بدقسمتی سے ان کی کوششوں کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابتدا ہی میں ہندی اور اردو کی دو گروہوں میں تقسیم ہو گئی تھی۔ اسی کے ساتھ ساتھ اردو کی مناسب صراحت نہ ہونے کی وجہ سے اردو کا نقصان ہوا جیسا کہ بعض دیگر زبانوں کا ہوا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہ زبانیں اور ان کے بولنے والے لوگ ایک ہی نظام کے حامل قرار دیے گئے جب کہ یہ بات حقیقت سے کوسوں دور ہے۔

ماہر لسانیات میچل شاپیرو (Machael Shapero) اور ہیرالڈ شف مین (Herald Schiffman) نے اس کے برعکس یہ تصور پیش کیا کہ تمام جنوبی ایشیائی زبانیں سماجی طور پر مستحکم ہوتی ہیں (مستحکم متن رکھتی ہیں ) گو ساخت میں مختلف ہوتی ہیں جس کی بنا پر مقامی بول چال اور زبان کا جداگانہ تصور ان کی اہم پہچان ہے (Shapiro and Schiffman 1981:2-4,12)۔ مردم شماری کے طریق کار کے مسائل اور ان سے زیادہ زبانوں کی لسانی اور خاندانی تقسیم اس پیچیدگی کی مظہر ہے۔ مثال کے طور پر ’مادری زبان‘ کے مفہوم کو لیجیے، سامراجی دور اور مابعد آزادی کے دور کو لیجیے۔ اس اصطلاح کا مفہوم مختلف ادوار میں مختلف رہا ہے۔ اکثر ہندوستانیوں کے لیے مادری زبان اور سرکاری زبان کے مطالب مختلف ہیں۔ اس کے نتیجے میں مردم شماری کی رپورٹیں تیار کرنے میں نقائص درآئے۔ بدترین صورت یہ ہوئی کہ ہندی کی جانب داری میں ان میں عمداً  …  … بود کی گئی (Brass 1974:193) کئی مقامات پر ان بولیوں اور زبانوں میں تنوع ہے۔ کئی بولیاں ایک دوسرے میں گڈمڈ ہو گئی ہیں۔ ہندوستان میں کسی بھی مقام پر (اور پاکستان میں بھی) اردو اپنا کوئی مربوط اور معین نظام نہیں رکھتی۔ مقامی اور علاقائی سطح پر کئی رنگ اختیار کرتی ہے : بہار میں ، مگھیائی، بھوج پوری، میتھلی کے اثرات ہیں ، پنجاب میں پنجابی کے اور راجستھان میں راجستھانی بولیوں کی آمیزش ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ مقامی اور علاقائی سطح پر اردو اپنی ادبی حیثیت میں نہیں بلکہ روزمرہ کی بول چال کی زبان کے طور پر رائج ہے۔ اس میں تنوع اور لچک ہے۔ اس کے برخلاف حکومت کی پالیسی کے مطابق زبان کا ایک خاص مفہوم ہے۔ ’خالص زبان‘۔ اسی وجہ سے عمومی قومی زبان اور سرکاری زبان میں امتیازات ہیں اور یہ غیر واضح ہیں۔ نتیجتاً دستور میں ایسی دفعات شامل کی گئیں جو سہ لسانی فارمولے کے نام پر یوپی میں سرکاری زبان (ترمیمی) ایکٹ 1989 (25)کا حصہ ہیں۔ یہ روزمرہ زندگی میں بڑی پیچیدگی پیدا کرتی ہیں۔ اگر ہندوستان میں قومی سطح پر اردو کو کوئی مقام دینا ہو تو زبانوں کی تشکیل اور پالیسیوں کی ان پیچیدگیوں کو مدّ نظر رکھنا ہو گا۔

اس طرح کی مراعات کسی طرح کی سماجی یا سیاسی تفریق کا سبب نہیں بننی چاہئیں جیسا کہ جیوتندرداس گپتا کا خیال ہے، سماجی امتیازات کو سیاسی نہیں بنانا چاہیے۔ اس طرح کی تفریق سیاسی نظام میں اندرونی رکاوٹ پیدا کرتی ہے۔ مراد یہ ہے کہ ایک حلقے میں گروہی اختلافات (جیسا کہ ہندی، اردو اور علاقائی زبانوں کے قومی سطح پر مقام کے بارے میں ) حقیقتاً دوسرے علاقے میں اتفاق پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ (Das Gupta 1970:2-3)۔ ہندوستانی شعور میں اردو کے مزاج کو داخل کرنے کے لیے ایک طریقۂ کار یہ بھی ہے کہ اس کا امیج بدلا جائے۔ جیسا کہ رابرٹ آلٹر نے بتایا، زبان کی لسانی تشکیل، اس کا معیار، ذخیرۂ الفاظ، معنی و مفہوم ہی اس کے قومیانے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ اس میں نظریاتی تقلیب کی صلاحیت بھی ضروری ہے (26) (Ramaswamy 1991:341)۔ سابق صدر ڈاکٹر ذا کر حسین نے اردو کو ہندوستان کے تمام عقائد، مذاہب اور لسانی گروہوں کے درمیان رابطے کی زبان کی حیثیت سے قائم رکھنے کی اہمیت کو جتایا تھا۔ انھوں نے اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا تھا۔ اردو کی مقبولیت اور ساتھ ہی اس کے سیاسی مضمرات کا جائزہ لیتے ہوئے اس کی ریاستی، علاقائی اور قومی اداروں کی سطح پر عمل آوری کے لیے خیال ظاہر کرنا اس مقالے کے دائرے سے باہر ہے لیکن یہاں جو بحث کی گئی ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ زبان کے تصور کا نئے سرے سے جائزہ لیا جائے تاکہ جو منفی تصورات اردو کے حامیوں سے وابستہ کیے گئے ہیں ان کا ایک رخا پن دور ہو۔ اس ضمن میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس تصور کو ذہن سے خارج کر دیا جائے کہ اردو مسلمانوں کی یا غیر ملکی زبان ہے۔ عوامی اور ادارہ جاتی سطح پر اردو کی اہمیت (بالی وڈ کی ہندی فلموں میں رابطے کی زبان کی حیثیت سے جس طرح اردو کی اہمیت واضح ہے ) اور ہندوستان کی ثقافتی اور ادبی زندگی میں اس نے جو منصب ادا کیا ہے اس کا پرچار ہونا چاہیے۔ سید شہاب الدین کی تجویز کے مطابق ہندی اور اردو کا ایک مشترک نصاب ہونا چاہیے۔ یہ نصاب غیر ہندی داں ریاستوں میں موثر ثابت ہو سکتا ہے، شاید ہندی بولنے والی ریاستوں میں نہ ہو۔ (27)اردو کی حمایت یا مخالفت میں سیاسی بحث کو ختم کر دینا چاہیے اور یہ رویہ اردو کے فروغ کے لیے ہونے والی مثبت تجاویز کا حصہ بنے۔ ممکن ہے بڑے اور اہم کام کے پیش نظر یہ باتیں چھوٹی لگیں لیکن ان کی اپنی اہمیت ہے اور یہ کہ ان کاموں کو مکمل طور پر مرکزی اور ریاستی ایجنسیوں کو نہیں سونپ دینا چاہیے اور نہ ہی یہ مسلمانوں کے حوالے ہوں اس کے جو نتائج برآمد ہوں گے ان کا فائدہ انھیں ہو گا جو ہندوستانی ثقافت کی دین کو عزیز رکھتے ہیں۔

٭٭٭

 

نوٹس

اس مقالے کو ’21ویں صدی میں ہندوستان میں اردو تعلیم — ڈاکٹر ذاکر حسین کے خاص حوالے سے ‘ کے لیے لکھا گیا تھا جو فروری 2002 دہلی میں منعقد ہوا تھا۔ اس کے بعد میں نے سید شہاب الدین، اطہر فاروقی اور میگی رون کن کے بیانات سے اس میں ردّ و بدل اور ترمیم کی ہے۔ ان حضرات کی مشکور ہوں اور مقالے کی غلطیوں اور اس سے پیدا ہونے والی کسی بھی طرح کی غلط فہمیوں کے لیے میں کلیتاً ذمّے دار ہوں۔

.1        میں سید شہاب الدین کی مشکور ہوں کہ انھوں نے اس نکتے کی طرف توجہ دلائی۔

.2        جگجیون رام جو 1970-4 اور 1977-9 میں وزیر دفاع تھے، وہ سیاست میں انیسویں صدی کی تیسری دہائی میں شیڈول کاسٹ کے نمائندے کی حیثیت سے داخل ہوئے۔ 1977 میں وہ کانگریس پارٹی سے علاحدہ ہو کر مخالف پارٹی جنتا میں شریک ہوئے۔

.3        اردو کے ساتھ جو ناانصافی ہوئی اس کی تفصیل جاننے کے لیے مسعود حسین خاں کی کتاب: اردو کا المیہ۔ علی گڑھ: مکتبہ جامعہ لمیٹڈ 1973 ملاحظہ کریں۔

.4        اس کی طرف اطہر فاروقی نے بھی توجہ دلائی ہے۔ ’اردو زبان اور تعلیم‘ اِکنامک اینڈ پولٹیکل ویکلی 37 نمبر 25 (22-8جنون 2002):2406۔

.5        طارق رحمٰن کے مقالے ’زبان کی پالیسی کے اثرات علاقائی زبانوں پر‘ سے اس صورت حال کی مزید وضاحت ہو گی۔ باوجود ریاستی سرکاری پالیسیوں میں تبدیلی لانے کے علاقائی زبانوں پر وہی اثرات پڑے۔ پاکستان میں علاقائی زبانوں کو اردو زبان کے تابع کیا گیا۔ یہی حکومت کی پالیسی تھی اسے قومی یکجہتی کے پروگرام میں شامل کیا گیا یا کسی زبانی ہمدردی کے بغیر یہی صورت حال ہندوستان کی رہی۔ پاکستان کی طرح ہندوستان میں بھی انگریزی کو ایک طرح سے قومی زبان کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کا سبب وہ مشکلات ہیں جو اقلیتی یا علاقائی زبانوں کو قومی زبان بنانے میں حکومت کو درپیش ہیں۔ ملاحظہ کریں طارق رحمٰن کی تصنیف ’زبان اور سیاست پاکستان میں ‘ کراچی۔ اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس 1996۔ ان مباحث پر پاکستان میں پیدا ہوئے حالات پر ان کی حالیہ تصنیف میں مزید روشنی ڈالی گئی ہے۔ ’زبان، نظریات اور پاکستان کے مسلمان اور شمالی ہند میں زبان کی تربیت‘ کراچی۔ اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس 2002۔

.6        لوک سبھا نے جب ہندی کو سرکاری زبان بنانے کا فیصلہ کر لیا تو ریاستوں کے چیف منسٹروں کی کانفرنس میں غیر ہندی داں ریاستوں کی طرف سے شدید مخالفت ہوئی اور سہ لسانی فارمولے کو قبول کرتے ہوئے اس مسئلے پر سمجھوتہ کر لیا گیا۔

.7        دہلی کے لیے یہی الفاظ استعمال کیے گئے۔

.8        غیر ہندی ریاستوں میں آندھرا پردیش، کیرالا، اور جزیرہ انڈمان و نکوبار میں اردو کو سرکاری زبان کے طور پر قبول کیا جا سکتا ہے۔ یہ فارمولا اتنا آسان نہیں ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے۔ اس پر بڑے مغالطے ہیں۔ ان میں ترمیم بھی کی گئی ہے خاص طور پر تحتانوی، وسطانوی اور فوقانوی اسکولوں کی سطح کو لے کر۔ اس کی تفصیلات حکومت کی ویب سائٹ پر پیش کی گئیں ہیں جسے کونسل برائے فروغ انسانی وسائل نے تیار کیا ہے۔ ریاستی سطح پر بھی معلومات کے لیے ویب سائٹ تیار کی گئی تھی لیکن اب یہ دستیاب نہیں ہے۔

.9        تعلیم کے محکمے کی جانب سے ’تعلیم پر قومی پالیسی‘ (1948) کی ذیلی سرخی ’ہندی کی تعلیم‘ کے تحت ہندی کی تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا ہے، ان ریاستوں میں جو غیر ہندی داں ہیں ان میں ٹامل ناڈو، تریپورہ اور کرائیکل (پانڈیچری) علاقے شامل نہیں ہیں۔ ویب سائٹ ملاحظہ ہو۔

.10     اردو تعلیم سے جو غفلت برتی گئی ہے اور جو نکتہ چینی اس پر کی گئی ہے میں بھی ویسی ہی نکتہ چینی کروں گی۔۔ ’اردو کی تعلیم‘ ’اردو زبان کے ذریعے تعلیم‘ ’اردو کے بارے میں تعلیم‘ اطہر فاروقی کی تصنیف ’اردو زبان اور تعلیم‘ بھی دیکھیں۔ اکنامِک اور پولٹیکل ویکلی 37، نمبر 25 (22-8 جون 2002) 2407۔

.11     سید شہاب الدین نے کہا کہ موجودہ احکام کی کوئی حقیقت نہیں کیوں کہ ان کی تعمیل نہیں ہوتی۔ ان کے مطابق بورڈ آف ہائی اسکول اور اتر پردیش میں انٹرمیڈیٹ تعلیم جو ریاست میں ایک ہی بورڈ کے تحت ہے کسی کو اردو میں امتحان لکھنے کی اجازت نہیں دیتا۔ طالب علم انگریزی یا ہندی کو قبول کرے۔ ان کی تحریر دیکھیں ’اردو زبان تعلیم اور مسلمان۔ ‘اردو دنیا ص 12-13۔ ’اردو ہندوستان میں ‘ ’مین اسٹریم‘ 40، نمبر 28 (29جون 2002) ص۔19

.12     Mushirul Hasan, ‘Muslims in Free Fall: Myths of Appeasement’, <http:/www.indian-express.com/columnists.mush/20010207.htm> (11 December 2001). This article is no longer available online, but print copies are still extant.  یہ مضمون آن لائن پر دستیاب نہیں ہے لیکن نقل حاصل کی جا سکتی ہے۔

.13     Editorial, ‘Karnataka Regresses, Maharashtra Excels, Islamic Voice, November 1999. <http://www.islamicvoice.com/ november.99/editorial.htm> (11 December 2001) This article is no longer available online, but print copies are still extant. یہ مضمون آن لائن پر دستیاب نہیں ہے لیکن نقل حاصل کی جا سکتی ہے۔

.14     Tariq Rahman offers additional perspectives on recent improvements in Urdu’s status in north India. See his book, Language, Ideology, and Power, pp. 256-7. اس کتاب میں طارق رحمٰن مزید مواد پیش کرتے ہیں۔

.15     Ministry of Social Justice and Empowerment, ‘Schemes for Welfare of Minorities’, <http://www.socialjustice.nic.in/ obcs/ minority.htmmaulana> (11 December 2001).

.16     Ather Farouqui, ‘Urdu Education in India’, Economic and Political Weekly 29, No. 14 (1994), p. 106.

.17     See Ather Farouqui, ‘Urdu Language and Education’, Op. cit., p. 2407.

.18     Muhammad Qasim Zaman, The Ulama in Contemporary Islam: Custodians of Change (Princeton and Oxford: Princeton University Press 2002), pp. 79-81.

.19     Ibid., pp.81-3

.20     This information is readily available on the following websites: <http:// www.darululoom-deoband.com> (10 April 2005); <http://www.nadwatululama.org/> (10 April 2005). For a more comprehensive look at the changes occurring in the dini madaris system of education, changes which refute the accusations of its detractors that it is a stagnant and exclusivist system of education, see M. Shoyeb Ansari, Education in Dini Madaris: An Opinion Survey of Curriculum, Method of Teaching, and Evaluation in Dini Madaris (New Delhi: Institute of Objective Studies, 1997). See also the following recent articles attesting to the state of education in the dini madaris today and the backlash against madrasas: Muzaffar Alam, ‘Modernization of madrasas in India,’ The Hindu, 23 April 2002, available online at <http://www.hinduonnet.com/ thehindu/op/2002/04/23/stories/ 2002042300050100.htm>, and Yoginder Sikand, ‘The Indian State and the Madrasa’, in Akhbar: a Window on south Asia, No. 2, 2001.

ویب سائٹ پر معلومات موجود ہیں۔ دینی مدرسوں کے تعلیمی طریقۂ کار میں جو تبدیلیاں لائی گئی ہیں ان کی تفصیل اور ان پر لگائے گئے مختلف الزامات کی تردید ایم شعیب انصاری کی کتاب ’دینی مدارس میں تعلیم‘ (نئی دہلی 1997) میں دیکھیں۔ اسی موضوع پر مزید مضامین انگریزی حوالے میں دیے گئے ہیں۔ چوں کہ اس میں انگریزی الفاظ کے ساتھ تفصیل موجود ہے اس لیے انھیں اردو میں منتقل کرنا غیر ضروری ہے۔

.21     See ‘The System of Education: the Removal of a Doubt’, <http://www.darululoom-deoband.com> (10 April 2005) and ‘Introduction: Aims and Objects,’ http://www.nadwatululama.org/> (10 April 2005).

.22     Arjumand Ara demonstrates how this is similarly the case for poor and marginalized Hindus in India. See her article ‘Madrasas and the Making of Muslim Identity in India’, Economic and Political Weekly 3 (3 January 2004): 34, p. 37. ارجمند آرا بتاتی ہیں کہ یہی صورتِ حال ہندوستان میں غریب و نادار ہندوؤں کی ہے۔

.23     See data on ‘Middle East Countries at a Glance’, <http://www.mideastweb. org/ countries.htm> and the US Department of State’s statistics on the United Arab Emirates <http://www.state.gov/r/pa/ei/bgn/5444.htm>.

.24     A more nuanced perspective on the implications of ideology for language acquisition in India and Pakistan is given in Tariq Rahman, Language, Ideology, and Power, pp. 239-43, 279-80, 529ff.

.25     This act sought to accommodate Urdu for official purposes, including the entertainment of petitions and submission of replies to these, the publication of important government rules, regulations, and notifications, and the issuance of government circulars of public importance.

اس ایکٹ کے ذریعے سرکاری کاموں میں اردو کے لیے گنجائش فراہم کی گئی ہے۔ درخواستوں کو قبول کرنا اور ان کا جواب دینا، اہم سرکاری قوانین کی اشاعت جن میں نوٹیفکیشن اور عوامی اہمیت کی اطلاعات بھی شامل ہیں۔

.26     For an assessment of language ideology, see Bambi B. Schieffelin, Kathryn A. Woolard, and Paul V. Kroskrity, eds, Language Ideologies: Practice and Theory, New York and Oxford: Oxford University Press, 1998.

.27     E-mail communication with Syed Shahabuddin, 8 April 2002.

 

Bibliography

Books and Articles

Ansari, M. Shoyeb, Education in Dini Madaris: An Opinion Survey of Curriculum, Method of Teaching, and Evaluation in Dini Madaris, New Delhi: Institute of Objective Studies, 1997.

Ara, Arjumand, ‘Madrasas and Making of Muslim Identity in India’, Economic and Political Weekly (3 January 2004): 34

Brass, Paul R., Language, Religion and Politics in North India, London: Cambridge University Press, 1974.

_____. The Politics of India since Independence, Cambridge: Cambridge University Press, 1990.

Das Gupta, Jyotindra, Language Conflict and National Development: Group Politics and National Language Policy in India, Berkeley, Los Angeles, and London: University of California Press, 1970.

Datta, Asis, ‘Agenda for Urdu Education in the 21st Century with Special Reference to Dr. Zakir Husain’, lecture delivered at the Second Dr. Zakir Husain Memorial Lecture, New Delhi, 3 May 1998.

De, Bikramjit, ‘Abuse of Urdu’, Economic and Political Weekly 37, No. 25 (27 November 2004): 5085-8.

Farouqui, Ather, ‘Urdu Education in India: Four Representative States’, Economic and Political Weekly 29, No. 14 (1994): 782-5.

_____. ‘Urdu Language and Education’, Economic and Political Weekly 37, No. 25 (22-8 June 2002): 2406-7.

Ghosh, Partha, ‘Language Policy and National Integration: the Indian Experience’, Ethnic Studies Report 14, No. 1 (January 1996): 49-72.

Khan, Mas’ud Husain, Urdu ka Ilmiya, Aligarh: Maktaba Jami’a Limited, 1973.

Khurshid, Salman, ‘Urdu: Mind the Language, Please’, The Nation, Lahore (13 May 1998).

Latifi, Danial, ‘Preserving Urdu through Self-Help’, Iconomic and Political Weekly, 29 May 1999: 1321-2.

______. ‘Urdu in UP’, Economic and Political Weekly 36, No. 7 (17 February 2001): 533-5.

Naim, C.M., ‘Urdu in India: Some Observations’, in Ambiguities of Heritage: Fictions and Polemics, Karachi: City Press, 1999.

Narang, Harish, ‘Language Policy and Planning in 21st Century India’, address delivered at the First Dr. Zakir Husain Memorial Lecture, 8 February 1998.

Rahman, Tariq, Language and Politics in Pakistan, Karachi: Oxford University Press, 1996.

Ramaswamy, Sumathi, ‘Sanskrit for the Nation’, Modern Asian Studies 33 (1999): 339-81.

Russell, Ralph, ‘Urdu in India since Independence’, Economic and Political Weekly 34, Nos 1, 2, (9 January 1999): 44-8.

Schieffelin, Bambi B., Kathryn A. Woolard, and Paul V. Kroskrity, eds, Language Ideologies: Practice and Theory, New York and Oxford: Oxford University Press, 1998.

Shahabuddin, Syed, ‘Urdu Zaban, ta’lim, aur Musulman: ek taslis-i be-kalisa’, Urdu Duniya, February 2001: 12-16, Reprinted as ‘Urdu in India, Education, and Muslims-a Trinity without a Church,’ Mainstream 40, No. 28 (29 June 2002): 19-23.

Shapiro, Michael C. and Harold F. Schiffman, Language and Society in South Asia, Dordrecht, the Netherlands: Foris Publications, 1981.

Zaman, Muhammad Qasim, The Ulama in Contemporary Islam: Custodians of Change, Princeton and Oxford: Princeton University Press, 2002.

 

ONLINE ARTICLES

 

Alam, Muzaffar, ‘Modernisation of madrasas in India’, The Hindu, 23 April 2002. <http://www.hinduonnet.com /thehindu/op/2002/04/23/stories/2002042300050100.htm> (11 April 2002).

Department of Education, government of India, ‘Teaching of Hindi’, in ‘National Policy on Education’, http://www. education.nic.in/htmlweb/natpolhtm (11 April 2005).

Dar ul-Uloom Deoband, ‘The system of Education,’ http:www. darululoomdeoband.com (10 April 2005).

Dar ul-Uloom Nadwat ul-‘Ulama, ‘Introduction,’ http://www.nadwatululama.org/ (10 April 2005)

Editorial, ‘Karnataka Regresses, Maharashtra Excels’, Islamic Voice, November 1999. http://www.islamicvoice.com/ november.99/editorial.htm (9 April 2005)

Government of India, Ministry of Human Resource Development with National Informatics Centre, ‘Statewise Position of the Implementation of the Three Language Formula, With Particular Reference to Urdu’, http://shikshanic.nic.in/cd50years/u/47/3Y/ 473Y0Q01.htm (21 October 2002). (Link no longer available).

______. ‘UP’ in ‘Introduction’, http://shikshanic.nic.in/ cd50years/u/47/3x/473x0f01. htm (21 October 2002). (Link no longer available).

Government of India, Ministry of Social Justice and Empowerment, ‘Schemes for Welfare of Minorities’, http://www.socialjustice.nic.in/obcs/ minority.htm#maulana (11 December 2001).

Hasan, Mushirul, ‘Muslims in Free Fall: Mythis of Appeasement’, http://www.indian-express.com/ columnists.mush/20010207.html (11 December 2001).

Mid East Web, ‘Middle East Countries at a Glance’, http://www.mideastweb.org/countries.htm (9 April 2005)

Sikand, Yoginder, ‘The Indian State and the Madrasa, ‘Akhbar: a Window on South Asia, No. 2, 2001, http://www.ercwilcom.net/~indowindow/akhbar/200102/edu.htm (10 November 2002). (Link no longer available)

US Department of State, Bureau of Near Eastern Affairs, ‘Background Note: United Arab Emirates’, http://ww.state.gov/r/pa/ei/bgn/5444.htm (1 November 2002).

٭٭٭

 

٭٭٭

انجمن ترقی اردو ہند، دہلی اور جاوید رحمانی کے تشکر کے ساتھ جن کے ذریعے فائل کا حصول ہوا

ان پیج سے تبدیلی، پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید