FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

اے بہارِ باغِ زہرا بلگرامی یاسمن

 

 

               ڈاکٹر محمد حسین مُشاہدؔ رضوی

 

 

 

 

 

کشورِ ہندوستان میں اسلام و ایمان، علم و فضل اور شعر و ادب کی ترویج و بقا میں صوبۂ اتر پردیش بڑا ہی زرخیز واقع ہوا ہے۔  اس صوبے کی علمی خدمات اظہر من الشمس ہیں۔ یہاں سے علوم و فنون کی وہ ندیاں رواں دواں ہوئیں کہ گلشنِ معرفت و روحانیت آج تک سر سبز و شاداب ہے،  اس خطے کو شیرازِ ہند بھی کہا جاتا ہے۔  ریاستِ اتر پردیش کے مختلف اضلاع اور شہروں میں بڑے بڑے علما و صلحا، فقہا و صوفیہ اور مشائخِ عظام نے اپنا مسکن بنا کر تزکیۂ باطن اور اصلاح و تذکیر کے کارہائے نمایاں انجام دیے۔  جون پور، لکھنؤ، الٰہ آباد، چریاکوٹ، کاکوری، سندیلہ، موہان، خیرآباد، بریلی، مبارک پور، کچھوچھہ، لاہر پور، بلگرام وغیرہ نہ جانے ایسے کتنے شہر ہیں جہاں علوم و فنون میں یگانہ، درس و تدریس میں مشّاق، شعر و ادب میں ممتاز اور تصنیف و تالیف میں منفرد ہستیاں جلوہ گر ہوئیں اور ان کی علمی یادگاریں آج بھی اہلِ علم و دانش اور تشنگانِ علم و فن کو سیراب کر رہی ہیں۔

بلگرام اسی ریاست کے ضلع ہردوئی کی بہ ظاہر ایک چھوٹی سی بستی کا نام ہے۔  مگر اس کی شہرت اکنافِ عالم میں پھیلی ہوئی ہے۔  یہ بستی دینی و علمی، روحانی و عرفانی، شعری و ادبی اور جغرافیائی لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے۔ بادشاہ شمس الدین التمش کے دورِ حکومت میں مسلمانوں کے قدم اس سرزمین پر پہنچے اور یہاں اسلامی شان و شوکت اور تہذیب و تمدن کا چرچا ہوا۔ ساتویں صدی ہجری میں یہاں قدم رنجہ فرمانے والے مسلمانوں میں ساداتِ زیدیہ کا بھی ایک خاندان تھا۔ جس میں جید علما، اولیا، صوفیہ، شعرا، ادبا، حکما اور فقہا گذرے ہیں۔ جنھوں نے بلگرام شریف کی سرزمین کوایسا تقدس عطا کیا کہ یہ اسلامی علوم و فنون کا گنجینہ، تزکیۂ نفس و طہارتِ قلبی کا مرکز، شعر و ادب اور علم و فن کا گہوارہ بن گئی۔

فاتح بلگرام حضرت سید محمد صغرا نور اللہ مرقدہٗ (م ۶۲۷ھ) نے اس شہر کو فتح کیا اور یہیں فروکش ہو گئے۔  بلگرام کی فتح، اس کے تاریخی پس منظر، جغرافیائی محل وقوع اور بلگرام کی وجہِ تسمیہ کو سمجھنے کے لیے اس مقام پر ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ یافتہ مشہور ادیب و شاعر شرفِ ملت حضرت سید محمد اشرف میاں قادری برکاتی (انکم ٹیکس کمشنر، دہلی) کی عبارتِ ذیل کو پیش کرنا غیر مناسب نہ ہو گا۔ موصوف اپنی کتاب ’’یادِ حسنؔ‘‘ میں رقم طراز ہیں  :

’’بلگرام ہندوستان کے صوبۂ اودھ کا مشہور و معروف مردم خیز قصبہ ہے۔  آج کل ہردوئی کے توابع میں ہے۔  اس کا طول البلد ایک سو سولہ درجے اور پندرہ دقیقے اور عرض البلد چھبیس درجے پچپن دقیقے،  سمتِ قبلہ پچپن دقیقے،  مغرب سے شمال کی جانب مسافتِ بلگرام اور مکۂ مکرمہ کے درمیان پینتیس درجے ترپن دقیقے اور فرسخوں کے اعتبار سے فاصلۂ بلگرام اور بلدالحرام کے درمیان سات سو نواسی فرسخ ہے۔  اس کا نام پہلے وہاں کے راجا کے نام پر سری نگر تھا۔ حضرت شاہ حمزہ صاحب ’’فص الکلمات‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اس وقت تک بھی یہ نام عوام اور ہندوؤں کی زبان پر جاری تھا۔ حضرت جدی صاحب البرکات قدس سرہٗ نے بھی اپنے ہندی دوہے میں فرمایا ہے    ؎

ہم باسے سری نگر کے،  آئے بسے سب چھور

مارہرے سے نگر موں جہاں ساہ نہیں چور

ہم پورب کے پوربیا جات نہ بوجھے کوئے

جات پات سو بوجھیے جو دُھر پورب کا ہوئے

ہمارے حضرت جد اعلا سید محمد صغرا نے بعدِ فتح، بلگرام کو مرکزِ دائرۂ اسلام بنا کر اس کا نام سری نگر سے بدل کر بلگرام رکھ دیا(فص مآثر) اور پھر یہی مشہور ہو گیا، یہاں تک کہ اب کو ئی سر نگر نہیں کہتا۔

فقیر کہتا ہے شاید اس نام سے موسوم اس لیے کیا گیا ہے کہ بعد کے لوگوں کو یہ نام شوکت و قوتِ اسلام کی یاد دلاتا رہے کہ وہ مقام جو ’’بیل‘‘ ایسے دیوِ لعین کا ’’گرام‘‘ و جائے قیام تھا۔ آج بفضلہٖ تعالیٰ و بحولہٖ و قوتہٖ جل جلالہٗ نزہت کدۂ شعائرِ اسلام ہے۔  اس لیے کہ یہ نام مرکب ہے دو لفظوں سے ایک بیل، دوسرا گرام بہ معنی مقام و شہر و آبادی … اور بیل ایک دیو ملعون کانام تھا جسے اس زمانے کے جوگی اور ساحرجو بلگرام میں بہت رہتے تھے،  کوہستانِ کشمیر سے پوجا پاٹ اور جادو سیکھنے کے ذریعے سے تسخیر کر کے اپنی مدد اور اعانت کے لیے یہاں لائے اور اسے یہاں رکھا تھا۔ یہ شیطان لعین ایسا زبردست تھا کہ دور دور تک اپنے مخالف کو نہ رہنے دیتا اور سوائے اپنی پوجا کے کسی کی پوجا نہ ہونے دیتا۔ اگر کوئی اسے نہ پوجتا تو اسے آزار و اذیت پہنچاتا۔ حضرت خواجہ عماد الدین بلگرامی قدس سرہٗ نے حضرت سید محمد صغرا کے بلگرام فتح کرنے سے چند سال پہلے اپنی قوتِ باطنی اور زورِ روحانی سے بحول و قوتِ الٰہی اس دیوِ لعین کو خاک کر ڈالا۔ جب یہ خبر راجا بلگرام کو پہنچی، اس نے چاہا کہ حضرت خواجہ پر فوج کشی کرے۔  اس کے مشیروں نے سمجھایا کہ ہم نے اپنی پوتھیوں میں دیکھا ہے کہ ایک زمانہ میں اس سرزمین پر مسلمان چھا جائیں گے اور جو ان سے مقابلہ کرے گا وہ بجز ذلت و ناکامی اور کچھ نتیجہ نہ پائے گا۔ لہٰذا ان درویش سے تعرض کرنا نہ چاہیے جو ایسے زبردست ہیں کہ جس بیل دیو ملعون کے بل بوتے پر ہم کودتے تھے،  اسے انھوں نے ایک دم میں نابود کر ڈالا۔ تیری کیا طاقت ہے جو ان سے مقابلہ کرسکے گا۔ آخر راجا نے فوج کشی سے باز آ کر ایک جوگی کو جو سحرِ ساحری میں طاق تھا، حضرت کے مقابلہ میں بھیجا۔ حضرت کے سامنے اس نے کچھ سحر کے شعبدے دکھائے جنہیں حضرت نے بحول و قوتِ الٰہی دفع کر دیا۔ آخر وہ جوگی مشرف بہ اسلام ہو کر راجا کے پاس واپس گیا اور اپنے سحر کی بے اثری اور حضرت کے زورِ باطن اور دینِ اسلام کی بزرگی و قوت بیان کر کے راجا کو دعوتِ اسلام دی۔ اس سے راجا غصہ ہو کر بولا: تو پرانا رفیق ہے ورنہ میں تجھے مروا ڈالتا۔ اس نے کہا تیری کیا طاقت ہے جو مجھے مروا ڈالے۔  میں نے ایسے برگزیدۂ حق کا ہاتھ پکڑا ہے کہ تیرے ایسے ہزاروں اس کے سامنے خس برابر ہیں۔ اور وہاں سے آ کر حضرت خواجہ صاحب سے اس راجا مغرور کے تعصبِ کفر کا حال بیان کر کے اس کے قلع قمع کے لیے عرض کیا۔ حضرت خواجہ صاحب نے فرمایا: اس بیل دیوِ لعین کو مار ڈالنا تو فقیر کے ہاتھ سے مقدر تھا جو واقع ہوا اور اس کافر راجا کا استیصال بھی کچھ دشوار نہیں۔ مگر تقدیرِ الٰہی یوں جاری ہو چکا ہے کہ ولایت سے ایک سید مسلمانانِ اہلِ عرب کی فوج کے ساتھ آ کر راہِ حق میں جہاد کرے گا اور ان کافروں کو ان کے مقرِ اصلی جہنم پہنچائے گا۔ چناں چہ تھوڑے ہی عرصے کے بعد حضرت سید محمد صغرا نے آ کر بلگرام فتح فرمایا اور اسلام آباد کر دیا( نظم اللآ لی)۔

جہاں سے بڑے بڑے اکابر اولیا و علما و فضلا و کملا مثل حضرت سید شاہ بڈھ بلگرامی و حضرت سید میر عبدالواحد بلگرامی،صاحبِ سبع سنابل و حضرت طیب و حضرت سیدالعارفین شاہ لدھا بلگرامی و علامہ سید عبدالجلیل بلگرامی و حضرت حسان الہند مولانا غلام علی آزادؔ اور حضرت علامۂ زماں سید مرتضیٰ بلگرامی زبیدی یمنی، صاحبِ تاج العروس شرحِ قاموس وغیرہم اجلۂ اکابر نام دار اٹھے،  جن کے فضائل و کمالات علمی و عملی آج بھی چہار دانگِ عالم میں مشہور و معروف ہیں۔‘‘

بلگرام شریف کی عظمت و رفعت پر ہر دور کے علما و فضلا اور دانشوروں نے خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ ساداتِ مارہرہ مطہرہ کے مورثِ اعلا مشہور بزرگ حضرت سید میر عبدالجلیل بلگرامی قدس سرہٗ( م ۱۷۲۵ئ)’’ امواج الخیال‘‘ میں بلگرام کی تعریف میں یوں رطب اللسان ہیں   ؎

 

سبحان اللہ چہ بلگرامے

کوثر مَے آفتاب جامے

 

خاکش گلِ نوبہار عشق است

آبش مَے بے خمار عشق است

 

از عشق سرشت ایزدِ پاک

از روزِ ازل خمیرِ ایں خاک

 

حضرت میر عبدالجلیل بلگرامی قدس سرہٗ کے فرزندِ ارجمند حضرت میر سید محمد شاعرؔ بلگرامی علیہ الرحمہ بلگرام کی مدحت میں یوں گویا ہیں    ؎

 

سیرِ باید کرد یاراں، نوبہارِ بلگرام

بر زمرد ناز دارد سبزہ زارِ بلگرام

 

ہر نفَس عطرِ گلستانِ یمن بُو می کند

خوش دماغاں از نسیمِ مشک بارِ بلگرام

 

اہلِ معنی کسبِ انوارِ سعادت می کنند

از سوادِ اعظمِ دولت مدارِ بلگرام

 

یادِ ہندوستاں کجا از خاطرِ طوطی رَوَد

می کند شاعرؔ بجا وصفِ دیارِ بلگرام

 

علاوہ ازیں مجدِ د اعظم اعلا حضرت امام احمد رضا محدثِ بریلوی قدس سرہٗ(م ۱۳۴۰ھ/ ۱۹۲۱ء) بلگرام شریف کی مقدس خاک کے لیے یوں اپنا نذرانۂ خلوص و عقیدت پیش کرتے ہیں    ؎

 

اللہ اللہ! عز و شان و احترامِ بلگرام

عبدِ واحد کے سبب جنت ہے نامِ بلگرام

 

روزِ عرس آوارگانِ دشتِ غربت کے لیے

من و سلویٰ ہیں مگر خُبز و اَدامِ بلگرام

 

آسماں عینک لگا کر مہر و مہ کی دیکھ لے

جلوۂ انوارِ حق ہے صبح و شامِ بلگرام

 

تھا ’’بما استحببت بلدہٖ‘‘ کا پاسخ بالکرام

مرکزِ دینِ مبیں ٹھہرا یہ نامِ بلگرام

 

یادگار اب تک ہیں اس گل کی بہارِ فیض کے

خندہ ہائے گل رُخاں و لالہ فامِ بلگرام

 

لائی ہے اس آفتابِ دیں کی تحویلِ جلیل

ساغرِ مارہرہ میں صہبائے جامِ بلگرام

 

مغل بادشاہ اکبر کے عہد سے بلگرام شریف کی مذہبی و دینی اور علمی و ادبی خدمات کا پوری دنیا میں طوطی بول رہا ہے۔  یہاں کے علما و صلحا، فقہا و صوفیہ، حکما و کملا اور شعرا و ادبا کی خدماتِ جلیلہ کا ایک جہاں معترف ہے۔  انھیں بلند پایا شخصیات میں ایک قد آور اور مایۂ ناز نام حضرت حسان الہند علامہ سید میر غلام علی آزادؔ چشتی واسطی بلگرامی قدس سرہٗ کا بھی ہے۔  جو حضرت سید نوح حسینی بلگرامی کے جلیل القدر فرزند ہیں۔ آپ نسباً حسینی، اصلاً واسطی، مذہباً حنفی، مشرباً چشتی اور مولداً و منشأً بلگرامی ہیں۔ آپ کی ولادتِ باسعادت ۲۵؍ صفر المظفر ۱۱۱۶ھ / ۱۷۰۴ء بروز اتوار کو بلگرام شریف میں فاتح بلگرام حضرت سید محمد صغرا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مقدس خانوادہ میں ہوئی۔حضرت علامہ سید میر غلام علی آزادؔ بلگرامی نور اللہ مرقدہٗ نے اسی مقدس دیار میں جید علما و اولیا کی آغوش میں تعلیم و تربیت حاصل کی۔

اپنے عہد کے مشہور و معروف اور قابل استاذ، عالمِ جلیل حضرت علامہ سید طفیل محمد ابن شکر اللہ حسینی اترولوی ثم بلگرامی علیہم الرحمہ(م ۱۱۵۱ھ) سے علامہ آزادؔ بلگرامی نے درسیات کی جملہ منقولات و معقولات کی کتابیں پڑھیں۔ اور اپنے جدِ مادری حضرت علامہ سید عبدالجلیل ابن سید میر احمد حسینی واسطی بلگرامی علیہم الرحمہ( م ۱۷۲۵ء)سے لغت و سیرتِ نبوی (صلی اللہ علیہ و سلم) احادیثِ طیبہ کی اسناد اور عربی و فارسی کے اشعار کا درس لیا۔ آپ سے حدیث’’المسلسل بالأ و لیۃ‘‘ اور حدیث ’’الأ سود ین التمر والماء‘‘سماعت کی اور عروض و قوافی اور کچھ دیگر ادبی علوم و فنون اپنے ماموں محترم حضرت سید محمد ابن سید عبدالجلیل بلگرامی سے حاصل کیے۔

۱۱۵۱ھ میں حجِ بیت اللہ اور زیارتِ روضۂ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے مکۂ مکرمہ اور مدینۂ طیبہ تشریف لے گئے۔  مدینۂ طیبہ میں حضرت شیخ محمد حیات سندی مدنی قدس سرہٗ (م ۱۱۶۳ھ) سے بخاری شریف کا درس لیا اور صحاحِ ستّہ کی اجازت لی۔ علاوہ ازیں حضرت شیخ عبدالوہاب طنطا وی قدس سرہٗ کی فیض بخش صحبت بھی آپ کو میسر آئی۔ اِن سے علامہ آزادؔ بلگرامی نے فنِ حدیث اور  اصولِ حدیث کی باریکیاں اور دقائق سے متعلق بھرپور استفادہ کیا۔ جب آپ نے حضرت طنطاوی قدس سرہٗ کی بارگاہ میں اپنا تخلص’’ آزادؔ‘‘ پیش کیا تو حضرت نے اظہارِ مسرت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’اَنتَ مَن عتقاء اللہ تعالیٰ‘‘ یعنی آپ اللہ تعالیٰ کے آزاد کردہ خاص بندوں میں سے ہیں۔( نزہۃ الخواطر ج۶، ص ۲۰۴، بہ حوالہ مآثرالکرام ص ۴۱، مطبوعہ بریلی شریف)

مدینۂ طیبہ کے بعد آپ طائف تشریف لے گئے اور حضرت سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی مزارِ مقدس کی زیارت سے شاد کام ہوئے،  یہاں قیام کیا اور خوب خوب روحانی و عرفانی فیوض و سعادت سے بہر و ر ہوئے۔ علامہ آزادؔ نے اس مقام پر جو اشعار پیش فرمائے ان میں سے دو شعر نشانِ خاطر کریں    ؎

 

اے صبا رو بہ مزارِ پسرِ عمِ نبی

خاک آں روضہ کم از عنبر تر نشناسی

 

کردہ ام خوب تماشا چمنِ طائف را

نرسد ہیچ گلِ او بہ گلِ عباسی

 

علامہ آزادؔ طائف سے جمادی الاولیٰ ۱۱۵۲ھ میں سورت کے راستے ہندوستان واپس آئے۔  جہاں سے دکن کی طرف روانہ ہوئے۔  جب آپ دکن تشریف لائے تو نظام آصف جاہ حیدرآبادی نے آپ کا شان دار استقبال کیا اور اپنے ہم راہ دیارِ دکن کے مختلف مقامات کی سیر کرائی۔ بالآخر ۱۱۶۹ھ میں آپ اورنگ آباد شہر آئے اور یہاں ’’روضہ‘‘ نامی علاقے میں قیام کیا جسے اب ’’خلدآباد‘‘ کہا جاتا ہے۔  یہاں پہنچ کر آپ نے دنیا و مافیہا سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور تصنیف و تالیف میں مصروف ہو گئے۔  (روضہ )خلدآباد شریف میں آپ نے سلطان المشائخ محبوبِ الٰہی حضرت نظام الدین اولیا قدس سرہٗ( م ۷۲۵ھ) کے خلیفہ صاحبِ فواد الفواد حضرت مولانا نجم الدین امیر حسن علا سنجرقدس سرہٗ ( ۷۳۷ھ) کی مزارِ پاک کے احاطہ واقع ’’سولی بھنجن، خلدآباد شریف‘‘ میں مستقل سکونت اختیار کر لی، حتیٰ کہ آپ نے اپنی آخری آرام گاہ کے لیے یہیں پر ایک قطعۂ اراضی بھی خرید لی اور اس کا نام ’’عاقبت خانہ‘‘ رکھا۔ ۲۴؍ ذی قعدہ ۱۲۰۰ھ / ۱۷۸۵ء کو اپنے مالکِ حقیقی سے جا ملے۔  آپ کی تدفین اسی مذکورہ زمین میں ہوئی جسے آپ نے خرید کر اس کے گرد چہار دیواری اٹھوائی تھی۔ آپ کا مزارِ پُر انوار آج بھی سولی بھنجن، خلدآباد شریف، ضلع اورنگ آباد(مہاراشٹر) میں ایک نہایت پُر فضا اور پُرسکون مقام پر مرجعِ خلائق ہے۔  لوگ بتاتے ہیں کہ علامہ آزادؔ بلگرامی نے یہاں پر ایک مسجد بھی تعمیر کروائی تھی جو آج بھی موجود ہے۔  آپ کا مزار جس احاطے میں ہے اس میں حضرت مولانا نجم الدین امیرحسن علا سنجر قدس سرہٗ مدفون ہیں آپ کے بازو میں آپ کی کتابیں دفن کی گئی ہیں۔ حضرت امیر حسن قدس سرہٗ کی مزار ِ اقدس کی چوکھٹ پر شکر رکھی جاتی ہے اور پھر اٹھا لی جاتی ہے اسے کند ذہن اور لکنت زدہ کو استعمال کرانے سے بے شمار فوائد و ثمرات حاصل ہوتے ہیں۔

حضرت علامہ سید میر غلام علی آزادؔ بلگرامی قدس سرہٗ کے مزار شریف کے سرہانے یہ عبارت نقش ہے:

 

ہو الحئی القیوم

حسان الہند غلام علی آزادؔ حسینی واسطی بلگرامی

’’آہ غلام علی آزادؔ‘‘

وفات : ۲۴؍ ذی قعدہ ۱۲۰۰ھ

 

حضرت علامہ غلام علی آزادؔ بلگرامی قدس سرہٗ کی مزارِ پُر انوار سے متعلق بیش تر مورخین اور علما و مشائخ یہی کہا کرتے تھے کہ آپ کا مزار علاقۂ دکن میں کہیں واقع ہے،  حتمی طور پر لوگ اس بات سے نابلد تھے کہ آپ کی آخری آرام گاہ ’’ سولی بھنجن، خلدآباد شریف‘‘ میں ہے۔  ۱۹۶۷ء میں شہزادۂ خاندانِ برکات حضور سید العلماء سیدآلِ مصطفی سیدؔ میاں مارہروی قدس سرہٗ مالیگاؤں تشریف لائے،  یہاں سے آپ جالنہ اپنے تبلیغی و دعوتی دورے پر گئے۔  جالنہ سے واپسی پر اورنگ آباد اور خلدآباد زیارت کے لیے آئے،  جب آپ نے علامہ آزادؔ بلگرامی قدس سرہٗ کے مزارِ پاک کی زیارت کی اور تربتِ خاکی پر لگی ہوئی تختی کو ملاحظہ کیا تو رونے لگے اور حاضرین کو بتایا کہ یہ ہمارے خاندان کی ایک جلیل القدر ہستی ’’حضور حسان الہند علامہ سید میر غلام علی آزادؔحسینی واسطی بلگرامی ‘‘ کا مزارِ پاک ہے۔  حضور سید العلماء نے جب اس بات کی تصدیق و توثیق کی تو اس موقع پر مجاہدِ سنیت حافظ تجمل حسین رضوی حشمتی علیہ الرحمہ ( م ۱۹۸۴ئ) بھی وہاں موجود تھے۔ اس واقعہ کے بعد سے مالیگاؤں کے خوش عقیدہ مسلمان علامہ آزادؔ بلگرامی کے آستانے پر جا کر خصوصاً فیوض حاصل کیا کرتے ہیں۔ کیوں کہ آپ کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ آپ مستجاب الدعوات تھے اور آپ کی مزار پر دعائیں بھی قبول ہوتی ہیں، خود راقم کو بھی اس کا کئی مرتبہ تجربہ ہو چکا ہے۔

یوں تو ہر سال حضرت مولانا نجم الدین امیر حسن علا سنجر قدس سرہٗ کا عرس منعقد ہوتا ہی تھا، اور حضرت علامہ آزادؔ بلگرامی کی سالانہ فاتحہ وہاں کے مجاور حضرات کر لیا کرتے تھے۔ لیکن حضرت حسان الہند قدس سرہٗ کے عرس کی علاحدہ سے کوئی محفل یا تقریب نہیں ہوتی تھی۔اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے باضابطہ آپ کے عرسِ مقدس کی تقریبات کا آغاز آل انڈیا سنی جمعیۃ العلماء شاخ مالیگاؤں کی سرپرستی میں مجلسِ برکاتِ رضا مالیگاؤں کے عقیدت مند اراکین نے ۲۰۰۱ء سے کیا۔ تب سے ہرسال شرعی اصولوں کی مکمل پاس داری کے ساتھ آپ کا عرس نہایت تزک و احتشام اور نظم و ضبط کے ساتھ منایا جاتا ہے۔  عرس میں علمائے اہل سنت کے نورانی و عرفانی خطابات، نعت خوانی، صلاۃ و سلام، شجرہ خوانی دعا اور لنگر وغیرہ کا انتظام مالیگاؤں کے احباب ہی کیا کرتے ہیں۔ عرس میں شرکت کرنے والے زائرین بھی زیادہ تر مالیگاؤں کے ہی ہوتے ہیں ویسے اِدھر چند سالوں سے اورنگ آباد، بھیونڈی، ناسک، دھولیہ اور جل گاؤں وغیرہ شہروں سے بھی اہلِ عقیدت و محبت کی ایک اچھی خاصی تعداد جمع ہو جاتی ہے۔  عرس کے تمام تر انتظامات آل انڈیا سنی جمعیۃ العلماء شاخ مالیگاؤں کی سرپرستی میں مجلسِ برکاتِ رضا کے اراکین کرتے ہیں۔

جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ علامہ آزادؔ بلگرامی قدس سرہٗ نے خلدآباد میں جب مستقل سکونت اختیار کر لی تو تصنیف و تالیف کے کاموں میں مسلسل جٹے رہے۔  دراصل آپ کو تحقیق و تفحص، تصنیف و تالیف اور شعر و ادب سے بے انتہا لگاؤ تھا۔ آپ کو عربی و فارسی نظم و نثر پر عالمانہ و فاضلانہ دست رَس حاصل تھی۔ نظم نگاری پر تو آپ کوایسا ملکۂ کامل حاصل تھا کہ ایک دن بل کہ دن کے ایک حصے میں پورا پورا قصیدہ ارقام فرما دیتے تھے،  آپ کی زود گوئی اور زود نویسی سے آپ کے معاصر علما و حکما اور شعرا و ادبا متحیر رہا کرتے تھے۔  آپ کے نعتیہ قصائد میں جذبات و خیالات کی سچائی و صداقت کے جوہر پنہاں ہیں، عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم میں بے پناہ وارفتگی و شیفتگی کو دیکھتے ہوئے ایک جہان نے آپ کو ’’حسان الہند‘‘ جیسے عظیم المرتبت لقب سے نوازا ہے۔

علامہ آزادؔ بلگرامی کی عربی و فارسی کتب میں درج ذیل شعری و نثری اثاثے اپنی اہمیت اور عظمت کے اعتبار سے بلند پایا ہیں۔ جن کے مطالعہ سے آپ کی گراں قدر علمی شخصیت کا کماحقہٗ عرفان کیا جا سکتا ہے۔

(۱) ضوء الداری شرح صحیح البخاری

(۲) سبحۃ المرجان فی آثارِ ہندوستان

(۳) تسلیۃ الفواد فی قصائدِ آزاد – عربی

(۴) شفاء العلیل فی المؤاخذات علی المتنبی

(۵) غزلان الہند

(۶) سرو آزاد

(۷) یدِ بیضا

(۸) خزانۂ عامرہ

(۹) سند العادات فی حسن خاتمۃ السادات

(۱۰) مظہر البرکات

(۱۱) مرأۃ الجمال

(۱۲) دیوانِ شعرِ فارسی

(۱۳) سبعہ سیارہ

(۱۴) مآثر الکرام تاریخِ بلگرام

(۱۵) روضۃ الاولیاء

درج بالا کتب میں ’’روضۃ الاولیاء‘‘ فارسی زبان میں ہے،  جس میں علامہ سید میر غلام علی آزادؔ بلگرامی قدس سرہٗ نے اپنی آخری آرام گاہ خلدآباد شریف میں آسودۂ خاک مشائخِ سلسلۂ چشتیہ کا تذکرۂ خیر فرمایا ہے۔  یہ کتاب خلدآباد کے اولیائے کرام کے حالات و واقعات پر ایک مستند مآخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔  اس سرزمین کی تاریخ و تذکرہ پر لکھی گئی جملہ کتابوں میں ’’روضۃ الاولیاء‘‘ کے حوالے جات ضرور ملتے ہیں۔ یہ کتاب فارسی زبان میں ہے،  یوں تو اس کے اردو میں کئی تراجم منصۂ شہود پر آ چکے ہیں، جن میں اولیت مولوی عبدالمجید صاحب خلدآبادی کے ترجمے کو حاصل ہے، نیز پروفیسر نثار احمد فاروقی اور امان اللہ قادری نے بھی ’’روضۃ الاولیاء‘‘ کا اردو ترجمہ کیا ہے۔

اول الذکر ترجمہ کی تفہیم فی زمانہ عوام تو عوام خواص کے لیے بھی مشکل ہے اور پروفیسر نثار فاروقی اور امان اللہ قادری کے تراجم بھی اپنے اندر ویسی جامعیت اور مزاج نہیں رکھتے ہیں جیسا کہ اصل کتاب میں ہے۔  لہٰذا آل انڈیا سنی جمعیۃ العلماء شاخ مالیگاؤں کے اراکین بالخصوص ناصرِ سنیت صدیقِ مکرم الحاج قاری محمد ہارون رضوی حفظہٗ اللہ تعالیٰ نے اس امر کی شدید ضرورت کو محسوس کیا کہ ’’روضۃ الاولیاء‘‘ جیسی  نایاب کتاب کا ایک ایسا ترجمہ منظر عام پر آئے جو آج کی رائج، سلیس و شستہ اور با محاورہ زبان میں ہو۔ اس کے لیے انھوں نے جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے فاضل حضرت مولانا مفتی محمد صابر رضا مصباحی( سابق استاذ جامعہ حنفیہ سنیہ، مالیگاؤں ) کو تیار کیا۔ اہلِ علم و دانش بہ خوبی جانتے ہیں کہ ترجمہ نگاری کتنا مشکل ترین اور سنگلاخ فن ہے،  کسی نئی کتاب کی تصنیف و تالیف اتنا دقت طلب کام نہیں ہے جتنا کہ کسی کتاب کو دوسری زبان میں منتقل کرنا۔

پیشِ نظر کتاب کے مترجم جواں سال عالم و مفتی محمد صابر رضا مصباحی کئی خوبیوں کے مالک ہیں، عربی اورفارسی پر اردو ہی کی طرح مہارت رکھتے ہیں۔ اس کتاب سے قبل بھی آپ کی کئی تصانیف منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔ مفتی موصوف نے مالیگاؤں کے احباب کے پیہم اصرار اور پذیرائی پر ’’روضۃ الاولیاء ‘‘ کے اردو ترجمے کا بیڑا اٹھایا اور اس میں بے طرح کام یاب رہے۔ ’’ روضۃ الاولیاء‘‘ کے دیگر اردو تراجم میں اپنی نوعیت کا یہ معیاری اور خوش اسلوب ترجمہ ہے جس سے خواص کے ساتھ ساتھ عوام بھی بہ آسانی استفادہ کرسکتے ہیں۔ مولانا مفتی محمد صابر رضا مصباحی نے اس ترجمہ کے ذریعہ ایک بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے جسے اہل عقیدت و محبت رہتی دنیا تک یاد رکھیں گے۔  ناچیز مترجم اور ناشر دونوں ہی کو اس علمی کام کی اشاعت و طباعت پر صمیمِ قلب سے ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہے اور دعا گو ہے اللہ عزوجل ہمیں خلوص و للہیت کے ساتھ اپنے دینِ متین کی سچی خدمت کا جذبہ نصیب فرمائے ( آمین بجاہ الحبیب الامین صلی اللہ علیہ و آلہٖ و اصحٰبہٖ و بارک و سلم)

٭٭٭

 

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید