FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

حصّہ چہارم۔ IV

 

 

قومیت اور اقلیتی زبانیں — قانونی سروکار

 

 

 

 

 

 

 

لسانی اقلیتیں اور ذریعۂ تعلیم۔ ۔ قانونی مضمرات

 

فالی ایس۔ نریمان

 

جب انگریز یہاں آئے ، حالات کو دیکھا اور ہندوستان کو 1774 میں فتح کیا تب بنگال کے پہلے گورنر جنرل وارن ہیٹ لنگز نے احکام جاری کیے کہ انگریزوں کو چاہیے کہ جس قدر ہو سکے ہندوستانی زبانوں اور ہندوستانی کلچر سے واقف ہو جائیں تاکہ وہ مشرق اور مشرقیت سے مانوس ہوں۔

انگریزوں کی اس پالیسی نے کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج کی بنیاد ڈالی جہاں عربی، فارسی اور سنسکرت زبانیں سکھائی جاتی تھیں اور یہاں طالب علم ہندی کے علاوہ مسلم لا اور برٹش لا بھی پڑھتے تھے۔

یہ پالیسی اگلے پچاس سال یعنی 1830 تک قائم رہی۔ اس کے بعد اسے الٹ دیا گیا۔ میکالے کی بدنام تعلیمی پالیسی نے ، جو 1835 کے موسم بہار میں ترتیب دی گئی تھی، پچھلے نصاب کو مکمل طور پر بدل دیا جس کے نتائج برطانیہ اور ہندوستان دونوں ملکوں کے لیے مضر ثابت ہوئے۔

میکالے کی تعلیمی پالیسی نے ہندوستانیوں کو انگریزی زبان ہو کہ علم و ادب اس سے تو آراستہ نہیں کیا لیکن انگریزی جاننے والے چند پیشہ ور اہلکاروں کو تیار کیا جو نہ تو اپنی ذمّے داریوں کو نبھا سکتے تھے نہ اقتدار کو سنبھال سکتے تھے۔

’اہلکاروں کے لیے تعلیم ’ انیسویں صدی کے ہندوستان میں انگریزوں کی تعلیمی پالیسی کے بارے میں نہرو نے انھیں الفاظ کا استعمال کیا تھا۔ برطانیہ کی اس پالیسی کے بارے میں  ’پنچ ’ رسالے کے ایڈیٹر Malcolm Muggeridqs نے 1964 میں بی۔ بی۔ سی۔ کی نشریات میں کہا کہ یہ سب سے برا کام ہوا۔ اسی کے نتیجے میں ہم لوگوں کو ہندوستان چھوڑنا پڑا۔ مگر اس نے اپنے اس بیان میں مزاح پیدا کرتے ہوئے مزید کہا:  ’ ’کیا یہ غصے سے بھرا ہوا وہ بے روزگار گریجویٹ نہیں جس نے اوکسفرڈ ڈکشنری سے گالیاں چن چن کر ہمارے خلاف استعمال کیں اور ہمیں ہندوستان باہر کیا؟ ’ ’

آزادی کے ایک اور اہم حمایتی سی۔ ایف۔ انڈریوز نے بھی اسی طرح کے احساسات کا مختلف انداز میں ذکر کیا تھا۔ اس نے اپنے نجی خط میں اس وقت کے وائسرائے (لارڈ منٹو) کے معتمد کو لکھا تھا:

’ ’انگریزی زبان نے اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود تعلیم کے میدان میں انصاف کیا ہے۔ بڑا ہی اعلیٰ سیاسی انصاف۔ اس نے ہندوستان کو ایک جغرافیائی علاقہ ہی نہیں بلکہ ایک سیاسی حیثیت بخشی ہے۔ اس نے ہندوستانی قوم اور ملک کے فروغ کے امکانات ہی پیدا نہیں کیے بلکہ انھیں جنم دیا ہے۔ انگریزوں کی تاریخ اور سیاسی نظریات نے ہندوستانی قوم کو سیاسیات کے موضوع سے قریب کیا اور ساتھ میں قومیت کا تصور بخشا۔  ’ ’

 

آئین، مذہب اور زبان

انگریزوں نے جب 1947 میں ہندوستان چھوڑا تو ہنگامی طور پر وہ امیدیں اور امکانات، افراتفری کے حالات میں ہی پورے ہوئے کہ یہ ملک انڈین نیشن بن گیا۔ اب ہندوستان کو اپنا دستور آپ بنانا تھا۔ اس پس منظر میں ہمارے منتخبہ اسمبلی کے ارکان کو وہ دستاویز بنانی تھی جسے آئین کہا گیا۔ ہماری اسمبلی کے سارے نمائندے انگریزی میں ماہر تھے۔

1950 کا ہندوستانی دستور دنیا کا طویل ترین دستور ہے۔  ’ ’طویل، تفصیلی اور کٹر پن کا حامل بھی۔  ’ ’ یہ مختصر اور نپا تلا ریمارک تھا سر ایوار جنسنگس کا جو کامن ویلتھ اسمبلیوں کے دستور کی تاریخ  پر ماہرانہ نظر رکھتے تھے۔ ہمارے دستور کی طوالت کا ملک کے طول و عرض سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ ملک کے چپے چپے کے عوام، جو مختلف زبانیں بولتے ہیں ، مختلف عقائد کے ماننے والے ہیں ، ان سب کی خواہشات کا احترام کرنا تھا اور ایک کٹر اور ملوکیت پسند سماج کو جدید آئین سے روشناس کرانا تھا۔

ہندوستان لسانی اور مذہبی اساس پر تکثیریت کا سماج ہے۔ ہندو ازم کے مختلف ذات پات کے عقیدوں کے علاوہ ایک اہم مذہب اسلام ہے جو 650 سے اس کے پیغمبر کی رحلت کے چند برس بعد عرب تاجروں کے مغربی سمندری ساحل ملابار میں بس جانے کی وجہ سے ہندوستانی سرزمین سے وابستہ ہے۔ ملابار کے اس علاقے میں ، جو اب کیرالا کی ریاست میں ہے ، ان عربوں کی جو نسلیں بس گئی ہیں وہ ہندوستانی کلچر کا حصہ بن گئیں اور وہ لوگ مقامی زبان ایسے ہی بولتے ہیں جیسے ان کے ہندو بھائی بولتے ہیں۔ وہ قرآن بھی پڑھتے ہیں۔ قرون وسطیٰ میں زبردستی مذہب کی تبدیلی نے وسط ایشیا میں اقلیتوں کی مذہبی شناخت کو بڑا تباہ کیا تھا۔ لیکن ہندوستان میں ایسا نہیں ہوا (حال حال تک تو ایسا نہیں ہوا)۔

ہندوستان میں مذہب کا مطلب صرف عقیدے کا قبول کرنا نہیں ہے بلکہ اس میں مختلف عبادت گاہوں کا تصور بھی شامل ہے۔ مندر، گردوارے ، مساجد، کلیسا اور سنو گاگس (Synagogues)۔ اس میں بت اور دیویاں بھی شامل ہیں جنھیں نذرانہ دیا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ نہانے کے مقامات، قبرستان، مزارات اور اوقاف کی جائیدادیں بھی اس فہرست میں آتی ہیں۔ عقیدے ، عبادت، رسوم اور مذاہب کو ماننے والوں کے سیکولر اعمال ان سب کو دستور میں جگہ دینی تھی۔ انھیں بنیادی حقوق کے عنوان سے دستور میں شامل کیا گیا تاکہ مقتنہ اور انتظامیہ ان میں مداخلت نہ کر سکے۔

اسمبلی کے نمائندے جب 13 دسمبر 1946 کو پہلی بار ملے تو اسی نشست میں جواہر لال نہرو نے Objective Resolution کی تحریک پیش کی۔ اس تحریک میں اقلیتوں کو، پست اقوام کو اور غیر متمدن قبیلوں کو تحفظات دیے گئے۔ اس تحریک کو ہمارے دستور ساز اجداد نے من و عن قبول کر لیا۔

آئین کی دفعہ 30(1) کے تحت تمام اقلیتوں کو، چا ہے وہ لسانی ہوں یا مذہبی،اپنے اپنے تعلیمی اداروں کو چلانے کی اجازت دی گئی۔ حکومت پر پابندی لگائی گئی کہ وہ کسی تعلیمی ادارے کے ساتھ اس بنیاد پر ناروا سلوک نہ کرے کہ وہ کسی مذہبی یا لسانی اقلیت کے زیر انتظام چلایا جا رہا ہے (دفعہ 30(2)) جب 1978 میں دستور میں ترمیم کے ذریعے جائداد حاصل کرنے اور اس پر قابض رہنے کی دفعہ کو خارج کر دیا گیا تو اس سے اقلیتی جائدادوں کو مستثنیٰ رکھا۔ ان کی جائداد عوامی مفاد میں لازماً حاصل کرنے کی نوبت آئے تو حکومت پر پابندی لگائی گئی کہ وہ اس جائداد کی قیمت ادا کرے۔ یہ قیمت کسی عدالت کے ذریعے مقرر ہو گی اور اس مقدار میں ہو گی کہ آئین کی دفعہ 30(1) کے مطابق صاحب جائداد کی حق تلفی نہ ہو گی۔

باوجود ان حقوق کی دستوری ضمانت کے عام سیاسی حالات میں اقلیتوں کے حقوق کا پورا تحفظ نہیں ہوتا۔ اسی لیے عدالتوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ہندوستان کی عدالتوں نے اقلیتوں کے مقدموں کا فیصلہ کرتے ہوئے اکثر حکومت مخالف رجحان کی ترجمانی کی ہے۔

جب سے آئین کا نفاذ عمل میں آیا ہے (1997 تک) ہر اس موقع پر جب کہ کسی اقلیتی طبقے کے کسی مدعی نے سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کیا کہ اس کے حقوق (اکثر تعلیمی اور مذہبی) پامال ہوئے ہیں تو عدالت نے اس کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ اس کا سبب وہ فٹ نوٹ ہیں جو کیرولین پراڈکٹس کیس میں یونائٹڈ اسٹیٹس سپریم کورٹ نے دیے (فٹ نوٹس 303-4یو ایس 144 صفحہ 152 پر)۔

کئی مُنصفوں کے فٹ نوٹس پڑھے نہیں جاتے۔ لیکن سپریم کورٹ کے فوٹ نوٹس کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ امریکہ کے دستور کی تاریخ میں سب سے زیادہ معروف فٹ نوٹس 1938 کے ایک فیصلے میں لکھے گئے۔ سپریم کورٹ کے جج نے کہا discrete and insular minorities (5) ایک ملک میں جہاں اقلیتیں بستی ہیں انھیں عدالت کے خاص تحفظ کی ضرورت ہے۔ جج کا مقصد یہ تھا کہ وہ اقلیتی فرقہ جسے اپنے ملک کی جمہوریت پر بھروسہ تھا اکثریتی فرقے کی خصوصیت کی وجہ سے اپنے آئینی حقوق حاصل نہ کر سکا اس کے لیے ضروری ہے کہ عدالتیں خصوصی تحفظ فراہم کریں۔

 

سپریم کورٹ کی کارکردگی

ہندوستان کی اقلیتوں کو ہر موقع پر سپریم کورٹ کے فیصلوں نے تحفظ دیا ہے۔ 1974 کے ایک اہم مقدمے میں ہمارے عظیم سپوت جسٹس کھنہ نے ، جو خود اکثریتی فرقے کے نمائندہ ہیں ، ایسے نوٹس قلم بند کیے جو اقلیتوں کے تحفظ کے لیے ضروری ہیں۔

’ ’مہذب قومیں اپنا جو دستور بناتی ہیں اور جو قوانین نافذ کرتی ہیں ان میں عام طور پر اقلیتوں کے تحفظات کی دفعات موجود ہوتی ہیں۔ حقیقت میں یہ تہذیب کی نشانی ہے۔ یہ ہمدردی اور اس طرح کا انصاف اقلیتوں کو احساس دلاتا ہے کہ وہ اپنے ملک میں محفوظ ہیں۔ ان پر کوئی جبر نہیں ہے اور نہ ہی ان کے ساتھ کوئی ناروا سلوک کیا جا سکتا ہے  ’ ’ یہ واضح الفاظ St. Xavier College کے مقدمے میں کوئی پچیس سال قبل کہے گئے تھے۔

لیکن صد افسوس کہ وہ دور گذر چکا ہے اور جج بھی بدل گئے ہیں۔ بڑے دکھ کی بات یہ ہے کہ سیاست کی ہوا ہماری عدالتوں میں بھی داخل ہو گئی ہے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ آج کل کے جج اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کی طرف کم ہی مائل ہیں۔ یہ حالات مجھے بے چین کر دیتے ہیں۔ عدالتوں کے اندر اور ان کے باہر خود جج کی زبان سے یہ کہا گیا ہے کہ بہت سے اقلیتی اداروں نے دستور کی دفعہ 30 میں دی گئی مراعات کا غلط فائدہ اٹھایا ہے۔ اکثر ایسا ہوا ہے لیکن اس کا علاج 1959 ہی میں بتا دیا گیا تھا۔ کیرالا کے ایک تعلیمی ادارے کے مقدمے میں فیصلہ صادر کرتے ہوئے چیف جسٹس ایس۔ آر۔ داس نے (خود وہ بڑے پکے ہندو تھے لیکن ساتھ ہی پکے آزاد خیال نیشنلسٹ بھی تھے ) کہا کہ دفعہ 30 کے اندر مراعات کا غلط فائدہ نہ اٹھا سکنے کی مدافعت موجود ہے۔

اس دفعہ میں کہا گیا ہے کہ اقلیتوں کو حق ہے کہ وہ اپنے تعلیمی ادارے قائم کر سکیں اور انھیں چلائیں۔ انھیں حق ہے کہ وہ ان اداروں کا انتظامیہ سنبھالیں لیکن بد  نارو انتظامی نہ ہونے پائے۔ جب وہ بد انتظامی پر اُتر آتے ہیں تو عام قوانین کے تحت ان سے باز پُرس کی جا سکتی ہے۔ بد انتظامی کا الزام لگا کر اقلیتوں کے حقوق کو بڑی تیزی سے پامال کیا جا رہا ہے ، خاص طور پر ریاستی مقننہ کے ہاتھوں اور ریاستی حکومتوں کے ہاتھوں۔ اس پر عدالتوں کی ٹھیک سے نگرانی نہیں ہے۔ 1959 میں کیرالا کے تعلیمی ادارے کے مقدمے میں جو واضح فیصلہ سپریم کورٹ نے دیا تھا وہ چیف جسٹس ایس۔ آر۔ داس کا تھا۔ کئی برسوں بعد آج بھی ان کے الفاظ کانوں میں گونجتے ہیں :

’ ’اپنی مرضی کے تعلیمی ادارے قائم کرنے کے حق کا مطلب ہے کہ حقیقی ادارے قائم کیے جائیں جو موثر طور پر اس طبقے کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہوں اور ان اسکالروں کی تمنا پوری ہوتی ہو جو ان اداروں سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ریاست کے لیے ضروری نہیں کہ ان حقوق کو بنیادی حقوق کے برابر سمجھے اور انھیں تسلیم کرے لیکن ان تعلیمی اداروں کو جو کہ اقلیتیں اپنے افراد کی بہبود اور ان کے تعلیمی معیار کو فروغ دینے کے لیے قائم کرتی ہیں ، انھیں تسلیم کرنے سے انکار کا مطلب ہے کہ اقلیتیں اپنے آئینی حقوق سے دست بردار ہو جائیں۔ یہ سراسر ان حقوق کی خلاف ورزی ہے جو انھیں آئین کی دفعہ 30(1) میں دیے گئے ہیں۔  ’ ’

لیکن ایک ایسے فیصلے میں جو سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ،یہ بے ساختہ اظہار لوگوں نے کم سے کم یاد رکھا ہے۔

ایسے فیصلے جو ہمہ وقتی اہمیت کے حامل ہوں اور جنھیں سپریم کورٹ کی بڑی بنچ کے اراکین نے صادر کیا ہو یعنی سات یا نو ججوں نے مل کر جن کا فیصلہ جاری کیا ہو، ان کا حوالہ حال ہی میں (1997 میں ) دیا گیا ہے تاکہ گیارہ ججوں کی فل بنچ اس پر دوبارہ غور کر سکے۔ اس گیارہ ججوں کی بنچ کو یہ فیصلہ کرنا تھا کہ اقلیتوں کے تعلیمی اور مذہبی اداروں کے ساتھ آخر کیا سلوک ہونا چاہیے۔ لیکن اس بنچ کے ججوں کی رائیں بٹی ہوئی تھیں۔ اہم بات تو یہ تھی کہ اس موضوع کو گیارہ ججوں کی بنچ کے سامنے لایا گیا۔ یہ اپنے آپ میں بڑا ہی نازک اور نزاعی مسئلہ تھا۔

تقسیم کے وقت جب ایک علاحدہ ملک ہندوستان کو توڑ کر بنایا جا رہا تھا تو اس کے بارے میں جناح نے کہا تھا کہ ہندوستان میں ہندو مسلمانوں پر حاوی ہے۔ افسوس کہ  ’ہندوستان ٹائمس ’ میں رفیق زکریا کا ایک مضمون چھپا ہے جس کے مطابق ہندوستان میں رہنے والے مسلمان محسوس کرتے ہیں کہ وہ ہندوؤں کے اقتدار میں جی رہے ہیں اور یہ کیفیت مستقل رہنے والی ہے۔

ہندوستان کی تقسیم سے قبل گیارہ ریاستوں کے منجملہ جہاں شاہی یا منصب داری تھی، پانچ ریاستیں ایسی تھیں جن میں مسلمانوں کو سیاسی اقتدار حاصل تھا۔ مرکز میں ان کی حیثیت فیصلہ کن تھی۔ تقسیم کے بعد انھیں تین حصوں میں بانٹا گیا۔ پاکستانی مسلمان، ہندوستانی مسلمان، بنگلہ دیشی مسلمان۔ ان کا آپس میں بہت کم ربط تھا۔  ’ ’ہندوؤں کے اقتدار سے انھیں نکالنا تو کجا ان کا دو تہائی حصہ ہندوؤں کے مستقل اقتدار میں آگیا ’ ’ (یہ جناح کا افسوس ناک بیان تھا) بنگلہ دیش میں سیاست ہمیشہ تنازعات کا شکار رہی اور وقتاً فوقتاً اس پر ملٹری کا غلبہ رہا اور پاکستان میں نہ تو جمہوریت ہے اور نہ ہی بنیادی حقوق عوام کو حاصل ہیں۔

تعلیم کا فقدان تمام مسائل کی جڑ ہے۔ وہاں غربت کے مسائل ہیں ، آبادی کی کثرت کے مسائل ہیں اور ان سب سے بڑھ کر تعصب اور عدم رواداری ہے جو ہمارے معاشرے کی، تہذیب کی دھجیاں اڑاتی ہے۔ اگر دوسری جنگ کے بعد جمہوریتوں نے اپنے قدم مضبوطی سے جمائے ہیں تو بعض جگہوں پر آمریت اور انارکی بھی قائم ہوئی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انھوں نے آزادی تو حاصل کر لی لیکن تعلیم سے بے بہرہ رہے۔

تعلیم کی ضرورت اور اسے حاصل کرنے کے حقوق کی اہمیت پر مجلس اقوام عالم اٹھ کھڑی ہوئی۔ معاشی، سماجی اور کلچرل حقوق سے متعلق دفعہ 13 کی منظوری میں ہندوستان بھی شامل ہے۔ نومبر۔ دسمبر 1999 میں متعلقہ کمیٹی کی جو میٹنگ ہوئی، جس میں یہ اہم دفعہ (13) شامل ہے ، اس کا متن ہے :

’ ’تعلیم حاصل کرنا انسانی حقوق کا لازمی جز ہے۔ اس کے بغیر دوسرے حقوق حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ یہ ایک ایسا پہیا ہے جس کی مدد سے بالغ اور نابالغ معاشی اور سماجی جدوجہد میں آگے بڑھ سکتے ہیں ، اپنی غربت دور کر سکتے ہیں اور اپنی قوم کے مسائل میں حصہ لے سکتے ہیں۔ تعلیم کی بدولت خواتین کو با اقتدار بنایا جا سکتا ہے ، بچوں اور مزدوروں کو استحصال سے بچایا جا سکتا ہے۔ جنسی استحصال پر روک لگائی جا سکتی ہے ، انسانی حقوق اور جمہوریت کو فروغ دیا جا سکتا ہے ، ماحولیات کا تحفظ ہو سکتا ہے اور بڑھتی ہوئی آبادی کو روکا جا سکتا ہے۔ اب تو حکومتیں محسوس کرنے لگی ہیں کہ یہ ایک سرمایہ ہے جس کی سب سے زیادہ اہمیت ہے۔ لیکن تعلیم کی اہمیت صرف عملی نہیں ہے۔ ایک پڑھا لکھا، روشن خیال اور فعال ذہن بڑی آزادی کے ساتھ دور و نزدیک گھوم پھر سکتا ہے۔ یہ مسرت اور سرشاری ہے ، انسانی وجود کا بہترین انعام۔  ’ ’

دوسرے الفاظ میں علم خوشحالی کی ضمانت ہے اور اگر ہم مقصدی تعلیم میں اپنا پیسہ لگائیں تو حکومت کے بیشتر مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔ حکومتیں منتخبہ ہوں ، یا اگر نہ بھی ہوں۔

 

تعلیم حاصل کرنے کا حق

ایک عظیم ماہر تعلیم ڈاکٹر رادھا کرشنن نے تصدیق کی کہ:  ’ ’کسی بھی حکومت کا بڑا اور اہم کام پبلک اسکولوں کا قیام ہے۔  ’ ’ تبھی سپریم کورٹ نے موہنی جین کیس میں (1992) کہا : ’ ’تعلیم پانے کا حق زندہ رہنے کے حق میں پوشیدہ ہے۔  ’ ’ اس کے بعد پانچ ججوں پر مشتمل بنچ نے انّی کرشنن (1993) کے مقدمے میں وضاحت کی کہ اس حق کو دستور کے چوتھے باب Directive Principles کی روشنی میں دیکھنا چاہیے کہ ابتدائی تعلیم پانے کا حق جینے کے حق کا ایک حصہ ہے لہٰذا یہ ایک بنیادی حق بنتا ہے گو اس میں اعلیٰ تعلیم شامل نہیں ہے۔

ابتدائی تعلیم کسی بھی گروہ کے لیے اسی زبان میں فراہم کی جائے جو وہ اپنے گھروں میں بولتے ہیں۔ علاقائی زبان کو ایسے مقامات پر تسلیم کرنا جہاں عام طور پر اردو بولی جاتی ہو، تعلیم کے فروغ میں بڑی مشکلات پیدا کرتا ہے۔ مثال کے طور پر شمالی ہند میں جہاں ہندی ذریعۂ تعلیم ہے ، سنسکرت کو تیسری جماعت میں ماڈرن ہندوستانی زبان کے طور پڑھایا جانا۔ (انگریزی کو چھٹی جماعت سے متعارف کروایا جاتا ہے ) مسلمانوں کے لیے بہت کم گنجائش رہ جاتی ہے (خاص طور پر یو۔ پی۔ میں ) کہ وہ اپنے بچوں کی دماغی صلاحیتوں کو بڑھائیں کیوں کہ وہ اپنے بچوں کو انگریزی ذریعۂ تعلیم کے اسکولوں میں پڑھانے کی استطاعت نہیں رکھتے اس لیے یہ لازم ہے کہ حکومت کے ان اسکولوں میں جو اردو بولنے والے علاقوں میں قائم ہیں ، اردو ذریعۂ تعلیم کم از کم پانچویں جماعت تک ہو۔ ہندی کو تیسری جماعت سے شروع کیا جا سکتا ہے تاکہ بچے اپنے ملک کی سرکاری زبان سے واقف ہو سکیں۔ انگریزی کو اعلیٰ جماعتوں میں پڑھایا جا سکتا ہے۔ اس کے بغیر بہت سے مسلمان کم تعلیم یافتہ ہوں گے اور پیچھے رہ جائیں گے۔ یہ ہماری قومی یکجہتی کے حق میں نہیں ہے جس کی سفارش ہمارا آئین کرتا ہے۔

یہ کہہ چکنے کے بعد میرے لیے ضروری ہے کہ ایک اہم نکتے کی طرف توجہ دلاؤں۔ مدرسے ہمارے برصغیر میں ہر طرف موجود ہیں۔ لارڈ ہسٹنگس اور ویلزلی کے زمانے میں اٹھارویں صدی میں ان کو بڑھاوا دیا گیا تھا۔ اب وہ اس لیے بدنام ہیں کہ اکثر مدرسوں میں صرف قرآن ہی نہیں پڑھایا جاتا بلکہ یہاں نفرت اور تشدد کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔

نفرت نے کسی بیماری کا علاج نہیں کیا ہے۔ جو بے اعتباری گزشتہ چند برسوں میں بڑھتی رہی ہے ، ہمارے بہت سے ہندو بھائی یقین کرتے ہیں کہ اس ملک کے بہت سے مسلمان قومی احساس نہیں رکھتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ صحیح نہیں ہے۔ یہ ایک بے بنیاد افواہ ہے۔ لیکن ہمیں یہ ثابت کرنا ہے کہ جو لوگ یہ افواہیں پھیلاتے ہیں وہ جھوٹے ہیں۔ مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ وہ ان لوگوں کے سامنے اپنا امیج بہتر بنائیں جو کٹر خیالات کے نہیں ہیں بلکہ صحیح سوچنے والے آزاد خیال ہندو ہیں۔

اس غلط اصطلاح کا استعمال ترک کر دینا چاہیے۔ یہ ہمارے ملک کی دو بڑی قوموں کے درمیان اعتماد پیدا کرنے میں رکاوٹ ہے۔ میں نے چند سال قبل ٹائمس آف انڈیا میں ایک مضمون پڑھا تھا۔ یہ تھائی لینڈ کے سولک سیواراکسا کا ایک انٹرویو تھا جو امن کمیٹی کی میٹنگ میں شرکت کے لیے امریکہ جا رہا تھا۔ وہ امن کا ایک اہم فعال کارکن تھا جسے تھائی ملٹری کے ڈائرکٹروں نے پریشان کر رکھا تھا اور اسے شہر بدر کر دیا گیا تھا۔ اس سے جب پوچھا گیا کہ کیا دنیا کے تمام بڑے مذاہب کی از سرنو تفہیم ضروری ہے تو اس کا جواب بڑی شدت سے ہاں میں تھا۔

اس سے دوسرا سوال یہ پوچھا گیا کہ بُدھ از م کی عبادت کے طریقوں میں اس قدر تفاوت کیوں ہے ؟

اس کا جواب اہم تھا اور ہم سب کے لیے لمحۂ فکریہ۔

’ ’میں فرق کرتا ہوں اس بدھ ازم میں جس کا پہلا بڑا حرف  ’B ’ سے شروع ہوتا ہے اور اس بدھ ازم میں جس کا پہلا حرف چھوٹی  ’b ’ سے شروع ہوتا ہے۔ سری لنکا میں اول الذکر بدھ ازم ہے جہاں ریاست بدھ ازم کا طاقت کے وسیلے کے طور پر استعمال کرتی ہے لہٰذا وہاں ایسے بدھسٹ مانک بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ٹامل لوگوں کا صفایا کر دینا چاہیے۔ تھائی کے بدھسٹ بھی حق پر نہیں ہیں۔ بعض تھائی بدھسٹوں سے مانکس نے سمجھوتہ کر لیا ہے اور وہ موٹر کاریں رکھتے ہیں اور دوسری آسائش کی اشیا بھی۔ بدھسٹ ملکوں میں عام رویہ یہ ہے کہ سب کچھ چلتا ہے جو صحیح نہیں ہے۔ میں ایسے بدھ ازم کے حق میں ہوں جو چھوٹی  ’b ’ سے شروع ہوتا ہے ، عدم تشدد کا پرچار کرتا ہے اور مصائب کے اسباب پر قابو پانے کی تلقین کرتا ہے۔  ’ ’

اگر میری رسائی دستور بنانے والے اجداد کے ذہن تک ہو سکتی اور مذہب کے حوالے سے ان کے ذہن میں اقلیتوں کا جو تصور تھا اس کا میں اندازہ کر سکتا تو جب انھوں نے 1947 میں دستور بناتے ہوئے مینارٹیز کے لیے بڑا حرف  ’M ’ استعمال کیا تھا، میں اس بات پر زور دیتا کہ ان کے لیے چھوٹا  ’m ’ استعمال کیا جائے تاکہ ہمارے اس وسیع و عریض ملک میں چھوٹے  ’m ’ کے ساتھ ان کی حیثیت میں فرق آ جاتا اور انھیں زیادہ مراعات حاصل ہوتیں۔

آج جب آپ سیاسی منظر نامے پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں تو اس بات کو نہ بھولیں کہ اقلیتیں چھوٹے  ’m ’ کے ساتھ اپنا نصب العین رکھتی ہیں۔ اس کے ذریعے آپ اکثریت کو اپنے ساتھ لے کر چل سکتے ہیں اور میں ان کے ہندو بھائیوں سے یہ کہوں گا کہ اقلیتوں کو چھوٹے  ’m ’ کے ساتھ لے چلنے میں انھیں بھی بار محسوس نہ ہو گا۔ تصادم کی نوبت اس وقت آتی ہے جب ان دونوں میں سے کوئی ایک گروہ بڑے  ’M ’ پر زور دینا چاہتا ہے۔

1984 میں نیوزی لینڈ کی ایک کانفرنس میں اس وقت کے انسانی حقوق کے کمشنر (جسٹس جان وَلاّس) نے کہا:  ’ ’اقلیتوں کا مطالبہ اکثر واجبی ہوتا ہے اگر وہ اکثریت کو اپنے ساتھ لے کر چلیں  ’ ’ یہ ان کے تجربے کا نچوڑ تھا محض انسانی حقوق کی چیخ پکار نہیں تھی۔

دلیل اور رواداری ایک طرف انھیں پا لینا دوسری طرف۔

تکثیریت ہندوستان کی سب سے بڑی کمزوری ہے اور یہی اس کی بڑی طاقت بھی ہے۔

تب ہمیں نہیں بھولنا چاہیے ، عوام کو بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ عظیم نظریات، اہم الفاظ جیسے مذہب، اکثریت، اقلیت یہ سب آپس میں گھل مل سکتے ہیں ، اگر عوام، ہمارے ذرائع ابلاغ بہ شمول پریس، بڑے (Capital) حروف کو نظرانداز کرتے ہوئے چھوٹے حروف مذہب کے لیے استعمال کریں۔ اکثریت کے لیے چھوٹا   ’m ’ اور اقلیت کے لیے بھی چھوٹا  ’m ’ استعمال کریں۔ یہی طریقہ ہمارے مل جل کر اور خوشی خوشی سے رہنے کا ہے۔ اسی ملک میں ہم رہتے ہیں ، اسی سے محبت کرتے ہیں۔ ہندوستان۔

 

اردو میں ہندوستانیت ہے

یو۔ پی۔ جیسی ریاست میں مسلمانوں کی سب سے بڑی اکیلی اقلیت، اردو کو اپنی زبان کی حیثیت سے قائم رکھنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ ناروا داری کی اس سے زیادہ خراب مثال اور کیا ہو سکتی ہے۔

1982 میں اردو کے بارے میں سرکاری زبان کا آرڈیننس جاری کیا گیا۔ اس میں احکام صادر ہوئے کہ یہاں اردو دوسری سرکاری زبان ہو گی۔ اسی وقت سے یو۔ پی۔ میں اردو عدالتی مقدمات میں پھنس گئی۔ کوئی بیس سال گزر چکے لیکن ان احکامات کی تعمیل نہ ہو سکی۔ ججوں نے اپنے ہاتھ کھینچ لیے اور ہر بار مقدمہ ملتوی ہوتا رہا باوجود جسٹس برجیش کمار (جو بعد میں سپریم کورٹ کے جج بنے ) کے فیصلے کے ان الفاظ کے کہ اتر پردیش میں اردو بولنے والوں کی آبادی دستور کی دفعہ 347 کی شرائط کو پورا کرتی ہے۔ اس پر ہندی سمیلن کی اپیل سپریم کورٹ میں بغیر شنوائی کے ابھی تک پڑی ہوئی ہے۔ حالاں کہ جسٹس برجیش کمار کے فیصلے پر کوئی التوائی احکامات بھی جاری نہیں ہوئے۔ یو۔ پی۔ میں ایک کروڑ بیس لاکھ آبادی اردو بولنے والوں کی ہے اور یہ اس ریاست میں ہندی کے بعد دوسری بڑی زبان کا درجہ رکھتی ہے۔ ان تمام حقائق کے باوجود اس ریاست میں اردو کو دوسری زبان کا درجہ نہیں دیا گیا۔

یہ ساری باتیں عدالتوں کی کارروائیوں میں غیر معمولی تاخیر کو ظاہر کرتی ہیں لیکن عبرتناک بات یہ ہے کہ ریاست کے اکثریتی طبقے میں رواداری کے جذبات کا فقدان ہے۔ اس سے تاریخ کا یہ سبق ملتا ہے کہ اس ملک میں ہو کہ بیرونی ممالک میں کسی ایک طبقے کے افراد کی ناروا داری دوسرے طبقے کے افراد میں بھی نارواداری کو جنم دیتی ہے۔

اردو کے دوسری سرکاری زبان بننے میں جتنی تاخیر ہو گی اتنے عرصے تک مسلمانوں میں اردو بولنے والوں کی کمی ہوتی جائے گی۔ اس طرح سے تھوڑی سی لاپروائی کی وجہ سے ہندوستان کی ایک اہم زبان کی، جیسا کہ ہمارے اعداد و شمار سے ظاہر ہے ، تباہی ہو گی۔

جس اہم بات کو دہرایا جانا چاہیے اور جس پر اصرار بھی کیا جانا چاہیے وہ یہ ہے کہ اردو ہندوستان ہی کی ایک زبان ہے۔ لوگ جانتے ہیں لیکن یاددہانی کرنا نہیں چاہتے۔ یہ ہندوستان ہی کی زبان رہے گی۔ یہ لفظ زبان اردو ئے معلی سے حاصل کیا ہوا ہے۔ ایک  ’قابل وقعت کیمپ ’کی زبان، وہ کیمپ جو دلی پر حکومت کرنے والے سلطان کا ہے۔

اردو اور ہندی دونوں کا ایک ہی منبع رہا ہے۔ وہ ہے دلی اور اس کے اطراف و اکناف بولی جانے والی کھڑی بولی۔ دلی کی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا اور انگریزوں نے اس پر قبضہ کر لیا تو سر سید احمد خاں (1817-98) نے اردو زبان کا احیا کیا اور یہ مسلمانوں کی زبان کہلائی جانے لگی۔ یہیں سے ماڈرن اردو زبان کا آغاز ہوا۔

کسی بھی زبان کو مذہب سے خلط ملط نہیں کرنا چاہیے۔ جیسا کہ ڈاکٹر سموئل جانس نے کہا تھا:  ’زبانیں قوم کا شجرہ ہوتی ہیں  ’۔ ہندی، اردو اور وہ زبانیں جو آٹھویں ضمیمے میں درج ہیں (اور ہاں انگریزی بھی جسے ہم سب استعمال کرتے ہیں ) ہندوستانی عوام کا شجرہ ہیں۔

ہندوستان کے اس یکجہت اور تونگر کلچر کے (جیسا کہ پنڈت نہرو نے اپنی کتاب ڈسکوری آف انڈیا میں لکھا ہے ) ہم نمائندے ہیں اور ہم مقروض ہیں ہندوستان کی اس شاعری کے جس نے فارسی شاعری سے اپنے آپ کو مالامال کیا تو ساتھ میں کلاسیکل سنسکرت کی شعریات سے بھی تحریک حاصل کی اور جو مرہون منت ہے ان تراجم کی جو مغل حکمرانوں کے زمانے میں مسلمان شاعروں نے وسیع پیمانے پر کیے۔ اردو شاعری کی تاریخ زیادہ تر اردو غزل کی کہانی ہے جو صرف شاعروں ہی کی نہیں بلکہ مختلف عقائد رکھنے والے ان سامعین کی محبوب صنف ہے جو زیادہ تر برصغیر کے شمالی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں بہ شمول پاکستان۔ کسی نے کہا ہے :  ’ ’اردو غزل ہندوستان کو تاج محل کے بعد مسلمانوں کا بڑا تحفہ ہے۔  ’ ’

حال ہی میں میرے ایک دوست نے بمبئی سے میرے لیے منتخب شاعری کا ایک گلدستہ بھیجا جسے میں نے بہت ہی پر کشش پایا۔ خیالات کا اظہار عالمانہ اور وجد آور ہے۔ ان چیزوں کا ترجمہ بہت مشکل ہے۔ سماج پر طنز کرنے والے ایک استاد شاعر کا شعر بھی اس میں شامل ہے۔ اکبر الہٰ آبادی نے اپنی مزاحیہ اور طنزیہ ناقابل تقلید شاعری سے ملّاؤں کی ریاکاری کو آشکار کیا ہے اور ہماری مغربی تہذیب کے خبطی پن کو نشانہ بنایا ہے کہتے ہیں :

ہوئے اس قدر مہذب کبھی گھر کا منہ نہ دیکھا

کٹی عمر ہوٹلوں میں مرے ہسپتال جا کر

٭٭٭

 

 

 

 

اکیسویں صدی میں اقلیتوں کا موقف

 

سولی جے۔ سوراب جی

 

اقلیتوں کا تحفظ کسی بھی ملک کے تہذیب یافتہ ہونے کی تصدیق ہے۔ پریسیڈنٹ وڈرو ولسن کا 1919 میں دیا ہوا بیان خاصہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس نے کہا تھا کہ دنیا کے امن کو کسی اور بات سے اتنا خدشہ نہیں ہے جتنا کہ اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک سے پیش آنے سے ہے۔ اس کا ثبوت موجودہ دور کے واقعات سے ملتا ہے۔ مہاتما گاندھی کے مطابق کسی ملک کا دعویٰ کہ وہ مہذب ہے اس کے اس سلوک سے ثابت ہوتا ہے جو وہ اپنی اقلیتوں کے ساتھ روا رکھتا ہے۔ لارڈ ایکشن نے ایک اور وصف کا اضافہ کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ کسی ملک میں اس کی اقلیتیں اپنے آپ کو کس قدر محفوظ سمجھتی ہیں یہ اس ملک کی حقیقی آزادی کا ثبوت ہے۔

میں اس میں ایک اور صفت کا اضافہ کرنا چاہوں گا۔ کسی ملک میں اقلیتوں کو کس حد تک ان کے اپنے کلچر میں جینے کی خود اختیاری حاصل ہے ، یہ اس ملک کی تہذیب کی صحیح عکاسی ہے۔

اقلیتوں کے لیے اہم مسئلہ ان کا مذہب ہے۔ ان کے تعلیمی ادارے ، ان کی زبان اور ان کا کلچر۔ ان اہم متعلقات کو ہمارے اجداد نے پہلے ہی بھانپ لیا تھا اسی لیے آئین کے تیسرے باب میں بنیادی حقوق کے عنوان سے دفعات 25,26,29 اور 30 شامل کی گئیں۔

سب سے پہلے مجھے ان بنیادی اصولوں کا جواز پیش کرنا چاہیے جو اقلیتوں کے حقوق اور ان کے تحفظ کے بارے میں ہیں۔

لیگ آف نیشن میں شامل ہوتے ہی البانیہ نے اپنے ملک میں اقلیتوں کی صورت حال سے متعلق ایک اعلانیے پر دستخط کیے۔ اس اعلانیے کی دفعہ 4 کا پہلا پیراگراف یوں ہے :  ’ ’البانیہ کے تمام باشندے قانون کی نظر میں ایک ہیں اور انھیں یکساں سیاسی و سماجی مراعات حاصل ہیں۔ کسی کونسل، زبان یا مذہب کی بنیاد پر ترجیح نہیں دی جائے گی۔  ’ ’ اس کے تھوڑے ہی دنوں بعد البانی حکومت نے تمام خانگی اسکولوں کو بند کرا دیا اور حکومت کے مدارس میں تمام البانی باشندوں کے لیے تعلیم لازمی قرار دی گئی۔

انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کے سامنے البانیہ کی حکومت کا استدلال تھا کہ ملک میں تمام خانگی اسکولوں کو بند کرنے سے اکثریت ہو کہ اقلیت، سب کو یکساں تعلیمی مواقع حاصل ہوں گے اور اس طرح اقلیتوں کے حقوق کے ساتھ کوئی نا انصافی نہیں ہو گی۔ عدالت نے اس استدلال کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ اقلیتوں اور اکثریتی طبقے میں اس طرح مساوات قائم نہیں ہو سکتی کیوں کہ اقلیتوں کو ان کے اپنے ادارے قائم کرنے سے محروم کر دیا گیا ہے لہٰذا اس قانون کو منسوخ کر دیا جائے ، اس سے اقلیتوں کے حقوق مجروح ہوتے ہوں۔ عدالت نے اس بات پر زور دیا کہ قانون میں یکسانیت کے علاوہ حقیقی زندگی میں یکسانیت ہونی چاہیے جس کے لیے ضروری ہے کہ اقلیتوں کے ساتھ سلوک میں تبدیلی ہو تاکہ سماج میں ایک توازن قائم رہے۔ مساوات کا مطلب سچ مچ، حقیقی اور کھرا ہو جس میں اقلیتوں کے حقوق سلب نہ ہوں۔

ہماری سپریم کورٹ نے سینٹ ایگسویر کالج کے مقدمے میں نادر فیصلہ صادر کرتے ہوئے انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کے استدلال کو قبول کیا۔

اسی طرح کا رویہ انسانی حقوق کمیشن نے اپنایا اور بین الاقوامی معاہدہ کمیٹی کی دفعہ 40 کو 1966 کے سیاسی اور سماجی حقوق (ICCPR) کے تحت قبول کیا۔ اپنے عمومی ریمارکس میں جو اقلیتوں کے حقوق سے متعلق ہیں اور جو ICCPR کی دفعہ 27 میں ، شامل ہیں کمیشن نے زور دیا کہ اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت صرف حکمراں پارٹی تک محدود نہ ہو بلکہ اس کے تمام ارکان پر اس کی ذمّے داری ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت ایک ایسا مثبت قدم اٹھائے کہ اقلیتی طبقے کے ارکان اپنی زبان اور اپنے کلچر کو فروغ دے سکیں اور اپنے دوسرے ہم مذہبوں کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار سکیں۔

یہ ایک افسوس ناک بات ہے کہ عام لوگوں کی بحثوں میں اور عدالتی یا قانونی معاملات میں اس اہم اصول کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ ایک تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ اقلیتیں خود غرض ہوتی ہیں اور مراعات کی تلاش میں رہتی ہیں جب کہ انھیں صرف اس بات کا تیقن چاہیے کہ جو کچھ تحفظات انھیں دستور نے دیے ہیں ان پر ایمانداری سے عمل ہو گا۔

 

مذہب اور زبان

آئین کی دفعہ 25میں مذہبی آزادی کا جو تیقن دیا گیا ہے وہ صرف شہریوں تک محدود نہیں ہے بلکہ ملک کے ہر باشندے پر لاگو ہوتا ہے۔ اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونا ہی اس میں شامل نہیں ہے بلکہ اس کی تبلیغ اور تشہیر کا بھی حق ہے۔ پابندی یہ ہے کہ اس سے عوامی اخلاق یا صحت متاثر نہ ہو اور نہ ہی نقص امن کا خدشہ ہو۔ سپریم کورٹ نے ریواینڈ سئینس لاس بنام ریاست مدھیہ پردیش کے مقدمے میں ایک غیر ضروری پابندی  ’تشہیر ’ کی اصطلاح پر لگا دی ہے۔ فیصلہ یہ دیا گیا کہ تشہیر سے مراد یہ نہیں کہ کسی کو یہ حق پہنچتا ہو کہ وہ دوسرے کا مذہب بدلے۔ حیرت ناک بات یہ ہے کہ فیصلے میں کانسٹی ٹیونٹ اسمبلی کے ان مباحث کا ذکر ہی نہیں کیا گیا جو مقدمے کی سماعت کے دوران پیش کیے گئے تھے اور جن پر فیصلے کا انحصار ہو سکتا تھا۔

ICCPR کی دفعہ 18 مذہب کی آزادی کو ان الفاظ میں قبول کرتی ہے :  ’ ’ہر شخص کو اپنے ضمیر، اپنے عقیدے اور اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے کی آزادی حاصل ہے۔ اس میں یہ آزادی بھی شامل ہے کہ کوئی بھی شخص اپنی مرضی سے کسی بھی عقیدے یا کسی بھی مذہب کا پیرو ہو سکتا ہے ، انفرادی یا اجتماعی طور پر، تنہا یا قوم کے ساتھ وہ کہیں بھی عبادت کر سکتا ہے اور اپنے مذہب کی تعلیمات کی تشہیر بھی کر سکتا ہے۔  ’ ’

انسانی حقوق کی کمیٹی نے مذہبی آزادی سے متعلق اپنے عمومی ریمارکس اس طرح سے کیے ہیں :

’ ’وہ آزادی جو اپنے مذہبی عقائد، عبادات کے طریقوں ،مذہبی احکام کی پابندی اور مذہبی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی آزادی سے عبادت ہے۔ اس طرح یہ اعمال کے ایک وسیع دائرے کا احاطہ کرتی ہے۔ عبادت کا تصور ان رسومات اور تقاریب سے بھی عبارت ہے جن کا اظہار اعمال سے ہوتا ہے۔ اس میں عبادت کے لیے عمارتوں کی تعمیر بھی شامل ہے۔ عبادات کی اشیا، ان کی علامتوں کو متشکل کرنا، تعطیل منانا یا اعتکاف میں بیٹھنا کچھ غذاؤں کا استعمال یا ان پر پابندی، خاص طرح کا لباس زیب تن کرنا یا سر پر کپڑا ڈالنا، مختلف رسومات میں حصہ لینا، اپنے حلقے کی خاص زبان استعمال کرنا، یہ سب اس میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ مذہب کی تبلیغ یا عقیدے کا پرچار بھی اس آزادی کا حصہ ہیں۔ مزید اپنے مذہبی پیر، مرشد یا اس طرح کے کسی قائد کو چننا بھی ان حقوق میں سے ایک ہے۔ ساتھ ساتھ سمینار منعقد کرنا، اجتماع کرنا، اسکول چلانا اور مذہبی لٹریچر شائع کرنا یہ بھی اس طرح کی آزادی میں شمار ہوتا ہے۔  ’ ’

کمیٹی نے مزید یہ محسوس کیا کہ مذہب پر قائم رہنے یا مذہبی عقیدہ قبول کرنے میں آزادی بھی شامل ہے کہ کوئی شخص اپنی مرضی سے چا ہے تو اپنے موجودہ مذہب یا عقیدے کو کسی دوسرے مذہب یا عقیدے سے تبدیل کر لے یعنی وہ اپنا مذہب بدل سکتا ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ اس میں نقص امن کا خطرہ نہ ہو، عوامی صحت یا ان کے اخلاق متاثر نہ ہوتے ہوں۔ کسی کے مذہب کو بدلنے میں کسی طرح کا دھوکہ نہ دیا جائے اور نہ ہی تشدد کا استعمال ہو۔

چند کلمات یہاں کلچر اور کلچر کی خود مختاری کے بارے میں برمحل ہوں گے۔ آئین کی دفعہ 29 اس بات کی ضمانت دیتی ہے کہ ملک کا کوئی شہری خواہ کسی طبقے یا علاقے کا ہو، اس کی کوئی بھی مادری زبان ہو، اس کا کوئی رسم الخط ہو، ان سب کے تحفظ کا اسے حق ہے۔ کلچر کی کوئی جامع تعریف نہیں کی گئی ہے۔ تاہم یہ کسی خاص طریقۂ کار یا مخصوص رسومات تک محدود نہیں ہے۔ ایک مخصوص غذا یا کوئی خاص لباس اس کی پہچان نہیں ہے۔ کلچر کا عمومی مطلب ہو گا اس طبقے کی زبان، اس کا مذہب، عقیدہ، روایت، تاریخ، رسوم اور تقاریب۔ ہر کلچر کی اپنی اقدار ہوتی ہیں۔ اس کا ایک وقار ہوتا ہے۔ ان کا تحفظ کرنا اور انھیں بچائے رکھنا صحیح عمل ہے۔

میری نظر میں کلچر کے تحفظ کا حق اس کی خودمختاری میں پوشیدہ ہے۔ خود مختاری کا مفہوم کیا ہے ؟ اس کا مطلب ہے کسی بھی فرد کو یہ حق ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق زندگی کی قدروں کو اپنائے اور زندگی اپنی مرضی سے گزارے۔ ہو سکتا ہے ایک خود مختار کلچر کی بعض کیفیات میں دوسرے طبقے کے لوگ بھی حصہ لیں اور ان سے محظوظ ہوں۔ بہ ہر صورت کلچر کی حفاظت اس طبقے کا حق ہے جس کی وہ نمائندگی کرتا ہے۔ وہ اس کا ورثہ ہے ، اس کی روایت ہے۔ اپنے کلچر کی نمائندگی میں کسی بھی شخص کو حق ہے کہ وہ اپنے تعلیمی ادارے یا پیشہ ورانہ سینٹر قائم کرے۔ اقلیتوں کی اہم پہچان ان کی مادری زبان ہوتی ہے۔ اس میں تعلیم حاصل کرنے اور اس کو ترسیل کا ذریعہ بنانے کا ان کا اپنا حق ہے۔

 

تعلیم اور زبان

کلچرل خود مختاری کے اکھنڈ معنی یہ ہوں گے کہ کسی خارجی دباؤ کے بغیر مساوات کو اور کلچرل تشخص کو محفوظ رکھا جائے اور اسے فروغ دیا جائے۔ اصولاً کلچرل شناخت کو قائم رکھنے کا یہ ایک آفاقی اور اخلاقی حق ہے۔ مختلف طبقات میں ہم آہنگی اور آپسی ربط کو قائم رکھنے کے لیے کلچرل خود مختاری کا ہونا ضروری ہے۔ زبان اور مذہب کے تصادم کے جو اندیشے ہیں ، اس کی مدد سے ان پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ کلچرل خود مختاری کو ٹھیک سے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے سے اختلافی گروہوں میں نہ صرف ہم آہنگی پیدا ہو سکتی ہے بلکہ ان میں تصادم کے جو عناصر ہیں ، ان کو معدوم کیا جا سکتا ہے۔ کلچرل خود مختاری کی رو سے اقلیتوں کو اپنے ذرائع ابلاغ رکھنے اور ترسیل کے ذرائع کے استعمال کا پورا حق ہوتا ہے۔ مساوات کی بنیاد پر حکومت کے ذرائع ابلاغ تک بھی ان کی رسائی ممکن ہے۔ اس میں ان کے وہ حقوق بھی شامل ہیں جن کی بدولت وہ اپنے تعلیمی اور پیشہ ورانہ ادارے قائم کر سکتے ہیں اور انھیں اس بات کا حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کریں اور یہی ان کی شناخت کا ایسا اہم عنصر ہے جس کی بدولت وہ دوسرے طبقے کے افراد سے میل جول بڑھا سکتے ہیں۔

ریاستی سطح پر ترسیل کے لیے ایک سے زائد سرکاری زبانوں کے استعمال کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے حکومت پر لازم ہے کہ علاقائی زبانیں ہوں یا اقلیتی زبانیں ، ان کو فروغ دینے کے لیے ضروری سہولتیں فراہم کرے۔ اقلیتوں کو اپنے کلچر کے بارے میں تعلیم دی جائے اور دوسرے طبقات کے کلچر کے بارے میں بھی انھیں معلومات فراہم کی جائیں چا ہے وہ اقلیتی کلچر ہو کہ اکثریتی۔

 

بین الاقوامی قوانین اور زبان

ایسے اشخاص جو کسی خاص طبقے ، مذہب یا نسل سے تعلق رکھتے ہوں اور جو لسانی اقلیتوں کے نمائندہ ہوں ، ان کے حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ نے ایک تاریخی اعلامیہ جاری کیا تھا۔ اسے 18 دسمبر 1992 کے دن جنرل اسمبلی نے بہ اتفاق آرا منظور کر لیا۔ اس کی رو سے ملک میں مکمل مساوات قائم کرنے کے لیے حکومت کو چاہیے کہ ایسے سازگار حالات پیدا کرے کہ کسی بھی اقلیتی فرقے کے لوگ اپنے کردار، اپنے کلچر، اپنے مذہب، اپنی زبان، اپنی روایات اور اپنی رسومات کا کھل کر اظہار کر سکیں۔ اس اعلامیے کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ اس کی دفعہ 404 حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ تعلیم کے میدان میں ایسے اقدامات کرے کہ تاریخ کی، روایت کی، زبان کی اور اقلیتوں کے کلچر کی ان کے اپنے علاقوں میں حفاظت ہو۔ اقلیتوں کے نمائندوں کو ایسی ضروری سہولتیں حاصل ہوں کہ وہ پورے معاشرے کے حالات سے واقف ہو سکیں۔ اس اعلامیے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ بیشتر ملکوں میں اقلیتوں کے کلچر، ان کی تاریخ، ان کی روایتیں اور ان کے رسومات اکثریت کی خصومت کا شکار، اور ان عوامل کے زیر اثر رہے جو لکیر کے فقیر ہونے کی نمائندگی کرتے ہیں۔

اس بات پر غیر ضروری زور نہیں دیا جا سکتا کہ حلیفانہ اور حریفانہ جذبات دونوں کا متضاد ہونا ضروری ہے اور یہ کہ ان کا انجام تصادم اور تباہی ہے۔ بہت سے افراد کی ایک سے زائد وفاداریاں اور وابستگیاں ہوتی ہیں جنھیں یکجا کیا جا سکتا ہے۔ اکثریت کو چاہیے کہ وہ اقلیتوں کے مسائل سے واقف رہے اور ان کے کلچرل حقوق سے ہمدردی برتے۔ اس کے بدلے میں اقلیتوں کو بھی چاہیے کہ وہ اکثریتی فرقے کی رسومات اور ان کی روایتوں کو عزت کی نظر سے دیکھیں۔ اقلیتوں کی خود مختاری کا یہ مطلب نہیں کہ اکثریتی فرقے کے قوانین اور ان کے طور طریقوں کو پامال کرنے کا ان کے پاس لائسنس ہے۔

دستوری تحفظات اور علاقائی اور بین الاقوامی اعلامیوں کی اقلیتوں کے حقوق منوانے کے لیے شدید ضرورت ہے تاکہ ان کے مسلمہ حقوق کی حفاظت ہو اور وہ پروان چڑھیں۔ تاہم اقلیتوں کے حقیقی تحفظات کی ضمانت اکثریتی اور اقلیتی فرقوں کے لوگ اپنے رویے سے دے سکتے ہیں اور یہ ان کے ذہنی رویوں سے واضح ہو سکتا ہے۔ اکثریتی فرقے کے ذہن میں یہ بات واضح ہونا چاہیے کہ وہ اقلیتوں کے ساتھ جو رواداری برت رہے ہیں وہ کوئی خیرات نہیں ہے بلکہ یہ ان کے وہ حقوق ہیں جو مساوات کے اصولوں سے جڑے ہوئے ہیں اور ان کا مقصد یہ ہے کہ اقلیتیں بھی اکثریتی فرقے کے افراد کے برابر سہولتیں حاصل کریں لیکن یہ نہ ہو کہ ان کی وجہ سے اکثریتی فرقے میں اقلیتی فرقے کے افراد کے لیے نفرت کے جذبات جنم لیں۔

آخر میں ہمارا تجزیہ یہ ہے کہ اقلیتوں کے مسائل کا حل ہمارے عوام کے دماغوں اور دلوں میں ہے۔ یہ ہماری روایت کا حصہ ہے ،ہماری قوت برداشت اور صبر و تحمل کی روایت کا حصّہ۔ ہمارا یہ کیتھولک نظریہ کہ ہم سب اس عظیم کرۂ ارض کے بسنے والے ہیں جس کے ساحل سے کسی کو واپس نہیں لوٹایا گیا۔

٭٭٭

 

 

 

اقلیتی زبانوں کے قانونی پہلو

 

یو گیش تیاگی

 

تمہید

کلچر میں اختلافات کو قبول کرنا عالمی سماج کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر یورپ کی مرکزیت سے چھٹکارا پانے کے بعد سے مستقل کورٹ آف انٹرنیشنل جسٹس (PCIJ) کے قوانین کے نفاد بیسویں صدی کی ابتدا سے لے کر روم کے فوجداری کورٹ (Rome Statute of the International Criminal Court-ICC) بیسویں صدی کے آخری دور تک جو قوانین جاری ہوئے وہ بین اقوامی تہذیب کا عکس پیش کرتے ہیں۔ (1)اس طرز فکر پر، جو ہر گروہ کے وقار کی اہمیت پر زور دیتی ہے ، بھروسہ کیا جانا چاہیے۔ یہ مشکل ہے کہ ہر اس گروہ کا وقار قائم رکھا جائے جو ایک مخصوص لسانی تشخص رکھتا ہو جب تک کہ اس گروہ کی زبان کو فروغ نہ دیا جائے۔ لسانی حقوق اس طرح سے انسانی حقوق کے برابر ہیں۔ اس کے علاوہ انسانوں کو اس وقت تک بڑھاوا دینا ممکن نہیں جب تک کہ ان کی اجتماعی ضرورتوں کو پروان نہ چڑھایا جائے۔ ان کے اظہار کے طریقے اور ترسیل کے ذرائع بھی ان میں شامل ہیں۔ ان تمام ذرائع کو فروغ دینے کا حق اسی وقت ادا ہو سکتا ہے جب ان کی زبان کے فروغ کا حق انھیں ملے۔

اس بحث کے کم از کم چار روشن پہلو ایسے ہیں جن پر ہمیں توجہ دینی چاہیے۔ اقلیتی زبانوں کا تصور، اقلیتی زبانوں کے بارے میں ملکی قوانین ،اقلیتی زبانوں سے متعلق عالمی اقوام کا قانونی موقف اور اقلیتی زبانوں کے فروغ کے بارے میں بین الاقوامی طرز فکر خاص طور پر اردو کے لیے۔

 

اقلیتی زبانوں کا تصور

کسی ریاست میں اقلیتی گروہ کی موجودگی ریاست کے فیصلے پر منحصر نہیں ہوتی بلکہ اس پر معروضی نقطۂ نظر سے فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ (2)اگر کسی گروہ کی شناخت زبان اور کلچر دونوں سے ہوتی ہے تو ہندوستان میں ایسے 91 گروہ ہیں۔ دستور میں لسانی اقلیت کی اصطلاح کی کوئی وضاحت نہیں ہے۔ تاہم دفعات 29 اور 30 کے مطابق لسانی اقلیتیں وہ ہیں جن کے افراد اجتماعی طور پر ہندوستان کے کسی خاص علاقے میں بستے ہوں یا اس کے کسی حصے میں ہوں اور ان کی اپنی مخصوص زبان ہو اور اس کا مخصوص رسم الخط ہو۔ اقلیتی زبان کا کسی ایسے گروہ سے تعلق ہونا ضروری نہیں ہے جسے دستور کے آٹھویں ضمیمے میں شامل کیا گیا ہے۔ (3) لسانی اقلیت کا مطلب یہ ہے کہ ایسا گروہ جو کسی ریاست یا مرکزی حکومت کے علاقے میں ، جسے یونین ٹریٹری (UT) کہتے ہیں ، بستا ہے اور جس کی مادری زبان ریاست کی یا UT کی سرکاری زبان سے مختلف ہے۔ لہٰذا ہندی بھی اس ریاست میں اقلیتی زبان ہے جس کی سرکاری زبان کوئی اور ہے۔ جیسے انڈمان نکوبار جزیرے ، آندھرا پردیش، اروناچل پردیش، آسام، دادر اور ناگر حویلی، دمن اور دیو، گووا، گجرات، جموں اور کشمیر، کرناٹک، کیرالا، لکش دیپ، مہاراشٹر، منی پور، میگھالیہ، میزورم، ناگالینڈ، اڑیسہ، پانڈیچری، پنجاب، سکم، تریپورہ، تامل ناڈو اور ویسٹ بنگال۔

سپریم کورٹ کے مطابق  ’لسانی اقلیت ’ کی اصطلاح کا مطلب ہے سارے ملک میں ہی نہیں بلکہ کسی ریاست (بہ شمول UT) میں بھی ایسی زبان بولنے والوں کا گروہ جو تعداد کے اعتبار سے اقلیت میں ہے۔ (4)اس کے علاوہ پوری ریاست کا حوالہ ہونا ضروری ہے۔ کسی مخصوص علاقے کی نمائندگی نہ کی جائے۔ (5)اس فارمولے کی پیچیدگی کی وضاحت اس طرح ہو سکتی ہے کہ پنجابی ریاست پنجاب میں اکثریت کی زبان ہے اور چندی گڑھ اس کا دارالخلافہ ہے اور پنجاب میں ہندی بولنے والے لوگ پنجابی بھی بولتے ہیں۔ یہی سبب تھا کہ سپریم کورٹ نے DAV کالج جالندھر بنام ریاست پنجاب میں فیصلہ دیا کہ آریہ سماج پنجاب میں ایک لسانی اقلیت ہے۔ عدالت کی نظر میں اقلیت اس لیے اقلیت کہلاتی ہے کہ اس کی زبان اور زبان کا رسم الخط اکثریت کی زبان سے مختلف ہے۔ (6) یہی بی۔ آر۔ امبیڈکر کے خیالات کی ترجمانی،بازگشت ہے جنھوں نے تحفظ دینا چاہا تھا کلچر کو، زبان اور رسم الخط کو، صرف اقلیتوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ثقافتی اعتبار سے وسیع تر اصطلاحی معنوں میں یہ استعمال ہوتا ہے۔ (7)

کسی بھی ریاست میں انگریزی کے اقتدار میں ہونے کے باوجود انگریزی کسی بھی ریاست کی اکثریتی زبان نہیں ہے اس طرح سماج میں اس کا اقلیتی موقف امتیازی طور پر واضح ہے۔ لہٰذا ایک معنوں میں ہندوستان کی ساری زبانیں اقلیتی زبانیں ہیں۔ ان میں کوئی ایک سو چودہ (114) زبانوں کی شناخت ہو سکتی ہے اور کئی اور زبانیں ہیں جن کی شناخت نہیں ہو سکتی۔ سب سے اہم عنصر جو ایک اقلیتی زبان کو، جیسے انگریزی ہے ، دوسری اقلیتی زبان سے ممتاز کرتا ہے جیسے اردو، وہ عنصر ہے زبان کے مقتدر ہونے کا۔ ہندوستان میں لاگو قوانین کے پیش نظر اس استدلال میں زیادہ وزن نہیں ہے لیکن بین الاقوامی قوانین میں اسے ہر طرح تسلیم کر لیا گیا ہے۔ (8)لہٰذا اقلیتی زبانوں کے تصور کے ساتھ یہ دونوں عناصر ہمارے پیش نظر رہیں۔ زبان بولنے والوں کی تعداد اور زبان کا مقتدر ہونا۔

بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کمیشن کے نظریے کے مطابق لسانی اقلیت سے مراد ہے کسی زبان کے بولنے والوں کی تعداد کا کسی ملک یا اس کی کسی ریاست میں اقلیت میں ہونا۔ (9)اقوام متحدہ کی پانچ سرکاری زبانیں ہیں۔ عربی، چینی، انگریزی، فرانسیسی، اسپانش اور روسی۔ اگر چہ کہ چینی زبان کا استعمال اقوام متحدہ کے تمام اداروں میں نہیں ہوتا۔ ان تمام زبانوں میں انگریزی ہی کثرت سے استعمال ہونے والی زبان ہے۔ ماضی کے نوآبادیاتی دور کی مقتدر زبان انگریزی رہی ہے۔ آج یہ زبان سوپرپاور (عظیم طاقت) کی زبان ہے اور یہی انٹرنٹ کی بھی مرکزی زبان ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ انگریزی کو نئی نسل ترجیحی زبان قرار دیتی ہے اور اب یہ عالمیائی (globalisation) سطح پر استعمال ہوتی ہے۔ اس کا اثر یہ بھی ہے کہ دوسری تمام زبانیں اقلیتی زبانیں ہو گئی ہیں۔ خود انگریزی بھی اکثر ممالک میں اقلیتی زبان ہے۔ افغانستان سے لے کر یوراگوے تک دنیا کی دوسری تمام زبانیں بھی ایک مفہوم میں اقلیتی زبانیں ہی ہیں۔ واضح طور پر اردو بھی اقلیتی زبانوں کے خاندان میں ایک اقلیتی زبان ہے۔ حقیقت میں کسی زبان کے اقلیتی ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں سوچتے ہوئے زبان کے اقتدار کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔

بعض اقلیتی زبانیں خطرے سے دوچار ہیں۔ کوئی زبان خطرے میں کب پڑتی ہے اس کے منہاجات کو یونسکو نے چھ زمروں میں تقسیم کیا ہے۔

.1        بڑا خطرہ اس زبان کو ہے جس کے بولنے والے بچوں کی تعداد مسلسل گھٹتی جا رہی ہو۔

.2        جس زبان کے نو مشق نو بالغ ہوں۔

.3        زیادہ خطرہ اس زبان کو ہے جس کے بولنے والے درمیانی عمر کے یا عمر رسیدہ لوگ ہیں۔

.4        قریب المرگ زبان وہ ہے جس کے بولنے والوں میں صرف چند عمر رسیدہ لوگ رہ گئے ہوں۔

.5        شاید اب یہ زبان مر چکی ہے۔

.6        زبان حقیقتاً متروک ہو چکی ہے۔ اس کا کوئی بولنے والا زندہ نہیں ہے۔

بنیادی طور پر کسی بھی گروہ کی وہ زبان جس کے بچے اسے سیکھتے نہ ہوں یا کم از کم ان کی ایک قابل لحاظ تعداد اسے سیکھتی نہ ہو (کوئی 30 فی صد) ایسی زبان کو یقیناً خطرہ لاحق ہے۔ اگر اس زبان کے بولنے والوں کے بچوں کی اکثریت دوسری زبان کی طرف مائل ہو گئی ہے تو اس کا مطلب ہے مزید بچے اس زبان سے منحرف ہوتے جائیں گے۔ یہاں تک کہ اس زبان کا بولنے والا کوئی بچہ باقی نہ رہے گا۔ آخرکار ایسی زبان متروک ہو جائے گی کیوں کہ اس زبان کا آخری بولنے والا بھی رحلت کر جائے گا۔ (10)

مزید یہ بات بھی اہم ہے کہ یونیسکو کے مطابق برصغیر (ہندوستان) میں چند ہی زبانوں کے متروک ہو جانے کا خطرہ ہے۔ سبب یہ ہے کہ یہاں کی آبادی کے اکثر لوگ دو یا دو سے زائد زبانیں بولتے ہیں۔ (11)جن زبانوں کو خطرہ ہے وہ قبائلی زبانیں ہیں کیوں کہ یہ نسبتاً بہت کم بولی جاتی ہیں۔ ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ہماری آبادی کے کتنے لوگ ایسے ہوں گے جو ان خطرات سے واقف ہوں گے۔ اور پھر قانون کا کیا رول ہونا چاہیے ؟ پالیسی ساز، تعلیمی ادارے اور وہ تمام شخصیتیں جو اقلیتی زبانوں کا خیال رکھتی ہیں انھیں کیا کرنا چاہیے۔ ہم قانون کو جھنجھوڑ سکتے ہیں اس لیے کہ قانون ہی دیگر عوامل کو حرکت میں لا سکتا ہے۔

 

دیسی قوانین کی ذمّے داریاں

ہندوستان کے کلچر میں جو تفاوت ہے بہ شمول لسانی تفرقوں کے ، اس سے بڑی دلکش صورت حال بنتی ہے۔ اقلیتی زبانوں کی وجہ سے اکثریتی زبان کو خطرہ لاحق ہونے کے باوجود ایک صحت مند رجحان کا بتدریج اضافہ ہو رہا ہے اور وہ ہے ذو لسانیت اور ہمہ لسانیت کی مقبولیت کا رجحان۔ (12) تعلیم، ہجرت، شہری زندگی کے رجحان اور گلوبلائزیشن نے اس کو مزید تقویت دی ہے۔

ہندوستان کے شہری اس بات سے پوری طرح آگاہ ہیں کہ ان کی آزادی کی شناخت جو قائم ہوتی ہے اس میں ان کی شخصیت کا کیا حصہ ہے۔ اور یہ کہ لسانی اقلیتوں کو جو قانونی تحفظات دیے گئے ہیں ان سے ان کا وہ خوف بھی دور ہوتا ہے جو کلچر اور زبان کو لے کر ایک دوسرے میں جذب ہو جانے کے امکانات پیدا کر سکتا ہے۔ چوں کہ لسانی اقلیتیں ہندوستان میں دور دور تک پھیلے ہوئے لسانی تفاوت کا فطری مظہر ہیں اس لیے ضروری ہے کہ ان کے حقوق کی صاف صاف وضاحت کی جائے اور قانون کے ذریعے انھیں تحفظات فراہم کیے جائیں۔

ہندوستان میں لسانی اقلیتوں کو جو قانونی تحفظ حاصل ہے اس کے تین ذرائع ہیں۔ دستور، وہ لائحۂ عمل جو وقتاً فوقتاً آپس میں ترتیب دیا جاتا ہے اور عدالتوں کے فیصلے۔ (13)تینوں ذرائع وضاحت کے لائق ہیں۔

نمائندہ اسمبلی کے مباحث (14)ظاہر کرتے ہیں کہ دستور بنانے والوں نے بڑی سنجیدگی سے لسانی اقلیتوں کے حقوق پر غور کیا گو ان کے اپنے مختلف نظریات تھے۔ اسمبلی کے بعض ممبران چاہتے تھے کہ لسانی اقلیتوں کا موقف بہت مضبوط ہو۔ ان کے نظریات کی نمائندگی کرتے ہوئے زیڈ۔ ایچ۔ لاری نے کہا کہ اقلیتوں کو ان کے ہر علاقے میں اور ہر معاملے میں تحفظ دیا جائے۔ زبان کے معاملے میں ، رسم الخط کے معاملے میں اور کلچر کے معاملے میں۔ کسی قانون کے نفاذ کی ضرورت نہیں ہے ورنہ ان قوانین کی شدت کی وجہ سے خصوصیتیں برتی جائیں گی۔ اس کے برخلاف چند دوسرے ممبر یہ چاہتے تھے کہ اقلیتوں کے حقوق کو سماج کے دیگر مفادات کے تابع کیا جائے۔ لوک ناتھ مصرا نے اپنا خیال ظاہر کرتے ہوئے ترمیم پیش کی:  ’ ’ہمارے ملک کے روحانی ورثے اور کلچرل یکجہتی کو نقصان پہنچائے بغیر جسے حکومت بھی تسلیم کرتی ہے ، اس کی حفاظت کرتی ہے اور اسے پروان چڑھاتی ہے ، کسی بھی طبقے کا کوئی بھی شخص جو ہندوستان کے کسی بھی علاقے میں بستا ہو اور جو اپنی خاص زبان، رسم الخط اور کلچر رکھنے کا دعویٰ کرتا ہو وہ ان کی حفاظت کرنے میں آزاد ہے۔  ’ ’ (15) لسانی اقلیتوں کے حقوق کے دائرے کو وسیع کرنے کے لیے کے۔ ٹی۔ شاہ نے تجویز پیش کی:  ’ ’کسی بھی طبقے کا کوئی شہری جو ہندوستان کے کسی بھی علاقے میں بستا ہو اور جو اپنی خاص زبان، رسم الخط اور کلچر رکھنے کا دعویٰ کرتا ہو اسے حق ہے کہ وہ ان کی حفاظت کرے اور انھیں پروان چڑھائے۔  ’ ’ (16)دامودر سروپ سنگھ نے مشورہ دیا:  ’ ’چونکہ اقلیتیں ، مذہب اور قوم کی بنیاد پر ایک سیکولر ریاست میں تسلیم نہیں کی جاتیں اس لیے صرف وہ اقلیتیں جو زبان کی بنیاد پر بنتی ہیں انھیں تسلیم کیا جائے۔  ’ ’یہ ساری ترمیمات رد کر دی گئیں۔ آخر میں امبیڈکر نے لسانی اقلیتوں کے بارے میں ایک وسیع تر دائرے میں مسودہ بنانے میں کامیابی حاصل کی اور اسے بنیادی حقوق کا درجہ دیا۔ نتیجے میں لسانی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ میں ایک ایسا دستور وجود میں آیا جس کے بطن ہی سے 29,30,347,350,350A اور 350B کی دفعات برآمد ہوئیں اور اقلیتوں کے تحفظات 23 اور 226 کی دفعات سے ملحق ہوئے۔

دفعہ 29 لسانی اقلیتوں کو اپنی زبان، اپنے رسم الخط اور اپنے کلچر کی حفاظت کا حق دیتی ہے۔ دفعہ 30 کے تحت یہ اقلیتیں اپنے تعلیمی ادارے قائم کر سکتی ہیں اور ان کا انتظامیہ چلا سکتی ہیں۔ یہ دونوں دفعات دو مختلف حقوق عطا کرتی ہیں۔ اس کا امکان ہے کہ کسی ایک مرحلے پر ان دونوں کا اشتراک ہو۔ مزید دفعہ 30(1) سے اس کا تصادم ہوتا ہے۔ (17)دفعات 29 اور 30  اقلیتوں اور ان کے اداروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک دوسرے کی معاون و مددگار ہیں۔ احمدآباد سینٹ ایگسویر کالج سوسائٹی بنام اسٹیٹ آف گجرات (18)میں سپریم کورٹ نے دفعات 29 اور 30 کی غائت کی وضاحت کی اور کہا کہ یہ دونوں دفعات چار مختلف حقوق کو جنم دیتی ہیں۔ کسی بھی طبقے کا باشندہ، جو ہندوستان کا شہری ہے ، وہ اپنی زبان، اپنا رسم الخط اور اپنا کلچر، خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہبی اقلیت سے ہو، ان سے وابستہ ہو سکتا ہے۔ وہ اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کر سکتا ہے اور انھیں چلا سکتا ہے۔ حکومت کے اسکولوں کو لے کر ان اداروں سے تخصیص نہ برتی جائے اور کسی بھی شہری کو مذہب، ذات پات، نسل یا زبان کی بنیاد پر حکومت یا حکومت کی مدد سے چلائے جانے والے اسکول میں داخلے سے روکا نہ جائے۔ ایک مقدمے میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا:(19)   ’ ’دستور کی دفعہ 19 میں بنیادی آزادی کا جو تعین کیا گیا ہے اس کے برخلاف دفعہ 30(1) میں جو اعلان ہے وہ اٹوٹ ہے اور اس پر قابل قبول یا غیر قابل قبول ہونے کی پابندی عائد نہیں کی گئی ہے۔ دفعات 29 اور 30 کے ذریعے جو حقوق عطا کیے گئے ہیں انھیں جسٹس کھنہ کی رائے پڑھ کر ٹھیک سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ان حقوق میں کسی طرح کی اُلٹ پھیر کی گنجائش نہیں ہے۔ (20)ہندوستان کے دستور کا جو بنیادی ڈھانچہ ہے اس کے پیش کرنے والوں کی رائے معتبر اور قطعی ہے۔  ’ ’ اسی طرح یہ بات بھی نوٹ کرنے کے لائق ہے کہ سپریم کورٹ نے بھی یہی رائے دی کہ اقلیتی طبقہ اپنی زبان، رسم الخط اور کلچر کو اپنے تعلیمی اداروں کے ذریعے موثر طریقے سے محفوظ کر سکتا ہے۔ (21) یہ رائے ان اداروں کی اہمیت کو بڑھا دیتی ہے جو اقلیتی اداروں کی زبان کے استعمال کو پروان چڑھاتے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ حکومت ایسے اداروں کو امداد پہنچائے۔

دستور کی دفعہ 347 میں گنجائش ہے کہ صدر جمہوریہ کسی بھی زبان کو سرکاری طور پر تسلیم کرنے کی ہدایت دے سکتے ہیں۔ دفعہ 350 کے مطابق کوئی بھی شخص عرضی داخل کرنے کا مستحق ہے کہ اس کے ساتھ زبان کے بارے میں نا انصافی ہو رہی ہے۔ یہ عرضداشت حکومت کے کسی بھی کارندے کے خلاف، خواہ وہ کسی ریاست کا ہو یا مرکز کا، دی جا سکتی ہے۔ یہ درخواست کسی بھی زبان میں دی جا سکتی ہے جو ریاست یا کسی مرکزی علاقے میں بولی جاتی ہو۔ دفعہ 350A کے تحت گنجائش ہے کہ ابتدائی مرحلے میں بچوں کو ان کی مادری زبان میں تعلیم دی جائے۔ (22) قانون کی خلاف ورزی ہو گی اگر دفعہ 29(1) اور دفعہ 350(A) کے تحت حکومت کسی لسانی اقلیت کو مجبور کرے کہ ابتدائی مرحلے میں علاقائی زبان پڑھائی جائے۔ یعنی وہ زبان جو ان کی اپنی زبان سے مختلف ہو سوائے اس کے کہ انھیں اپنے اختیار کے استعمال کی اجازت دی گئی ہو۔ (23) اسی طرح کے تحفظات کالج کی سطح پر بھی موجود ہیں۔ ڈی۔ اے۔ وی۔ کالج بھٹنڈا بنام اسٹیٹ آف پنجاب (24) میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ پٹیالہ کی پنجاب یونی ورسٹی کو اختیار ہے کہ وہ پنجابی کو ذریعۂ تعلیم بنائے لیکن اسے یہ اختیار نہیں کہ بہ استثنا دیگر زبانیں صرف پنجابی ہی کو ذریعۂ تعلیم بنائے اور نہ ہی یونی ورسٹی اپنے ملحقہ کالجوں پر، جو لسانی یا مذہبی اقلیتیں یا ان طبقات کے بعض شہری چلاتے ہوں ، ان پر یہ شرط عائد کر سکتی ہے کہ طالب علم گرو مکھی رسم الخط میں امتحانات لکھیں۔ ان اقلیتوں کو اختیار ہو گا کہ وہ اپنی زبان، اپنے رسم الخط اور اپنے کلچر کی حفاظت کریں۔ انگلش میڈیم ایس۔ پی۔ اے۔ بنام اسٹیٹ آف کرناٹک (25)کے مقدمے میں سپریم کورٹ نے کہا کہ دفعہ 350A کا مقصد خاص طور پر اقلیتوں کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے جو ریاستوں کی تنظیم جدید کے نتیجے میں وجود میں آئی ہیں۔

آئین کی دفعہ 350B ان اداروں کی بنیاد مضبوط کرنے کے لیے شامل کی گئی ہے جو لسانی اقلیتوں کے کمشنر کے دائرۂ اختیار میں آتے ہیں۔ (26) Commissioner for Linguistic Minorities (CLM) کا آفس 30 جولائی 1947 سے قائم ہے۔ دفعہ 350B کے مطابق CLM کا فرض ہے کہ وہ دستور کے تحت قائم کیے ہوئے تمام لسانی اقلیتوں کے مفادات کے تحفظ کی تحقیقات کرے اور صدر کو ان تمام معاملات کی وقفے وقفے سے رپورٹ پیش کرے جن پر صدر نے رپورٹ طلب کی ہو۔ ان رپورٹوں کو صدر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پیش کرے گا اور حکومت کے متعلقہ محکموں کو روانہ کرے گا۔ (27)

چوں کہ ریاستوں کی اولین ذمّے داری ہے کہ لسانی اقلیتوں کے تحفظات کو عمل میں لائیں اس لیے وہ ایسی اسکیمیں بنا سکتی ہیں جو اقلیتی زبانوں کو پروان چڑھائیں۔ ساتھ میں اس بات کا بھی خیال رہے کہ زبانوں سے متعلق ان کی بنائی ہوئی پالیسی بنیادی حقوق سے مطابقت رکھے۔ ہندی ہت رکھشک سمیتی بنام یونین آف انڈیا(28)کے مقدمے میں سپریم کورٹ نے یہ وضاحت کی کہ سوائے دستوری حدود کے اسے اختیار نہ ہو گا کہ حکومت کی بنائی ہوئی لسانی پالیسیوں اور ان کی عمل آوری میں مداخلت کرے۔

اگر سمیتی ایسی پالیسی بنائے جس کے ذریعے ابتدائی سطح پر ہندی یا کوئی دوسری علاقائی زبان میڈیم کا ذریعہ ہو گی تو ایسی پالیسی غیر دستوری قرار دی جائے گی۔

نیشنل کمیشن فار مینارٹی ایکٹ 1992 اور اس کی 1995 کی ترمیمات کو ان مظلوموں کا سہارا قرار دیا جا سکتا ہے جن کے لسانی حقوق کو پامال کیا گیا۔ انسانی حقوق کے تحفظات کا ایکٹ 1993 بھی یہی منصب ادا کرتا ہے۔ 1993 کے ایکٹ کے مطابق انسانی حقوق کے تحفظات کا کمیشن (NHRC)  اس بات کا ذمّے دار ہے کہ وہ ہندوستان میں آباد اقوام کے معاملات کی دیکھ ریکھ کرے۔ اقوام عالم کے معاہدات دفعہ 27 کے تحت ہندوستان کی سرزمین پر اقلیتوں کے سماجی اور سیاسی حقوق کی پاسداری کرتے ہیں۔ ابھی تک کمیشن کو ان تحفظات کی خلاف ورزی کی کوئی رپورٹ وصول نہیں ہوئی۔ اس کی بڑی وجہ یہ نہیں کہ ان تحفظات کی خلاف ورزی نہیں ہوئی ہے بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ عوام کو ان تحفظات کا علم نہیں ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے جگدیو سنگھ سدھانتی بنام پرتا پ سنگھ دولتا (29)میں یہ فیصلہ دیا ہے کہ شہریوں کو اپنی زبان کے حقوق کا تحفظ حاصل ہے تو اس میں زبان کے تحفظ کے لیے احتجاج کرنا بھی شامل ہے۔ دستور کے تحت لسانی اقلیتوں کے لیے یہ ایک تحفہ ہے جو دفعہ 32 نے عطا کیا لیکن یہ بدنصیبی ہے کہ احتجاج کے طریقۂ کار نے دستور کو کوئی ایسی تقویت نہیں پہنچائی جس سے اقلیتی حقوق میں استحکام آ سکتا۔

 

اقوام عالم کی قانونی ذمّے داریاں

اقلیتی زبانوں کے حقوق سے متعلق بین الاقوامی قانون کی تاریخ پہلی عالمی جنگ کے بعد سے شروع ہوتی ہے۔ پریسیڈنٹ وڈرو ولسن کے چودہ نکاتی پروگرام نے اقوام کو خود اختیاری کی ترغیب دی۔ یہ نوآبادیاتی نظام کے حکمرانوں کے لیے مایوسی کا پیام تھا۔ پیرس کانفرنس 1919-20 کے موقع پر اقلیتی حقوق بہ شمول لسانی حقوق کے تحفظات کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس کانفرنس کی بڑی کامیابی یہ تھی کہ اس میں زبان کو امتیازات کا بنیادی سبب تسلیم کیا گیا اور بیس سال بعد سان فرانسسکو میں اس کی توثیق ہوئی۔ پیرس کانفرنس کے مندوبین نے اس بات سے اتفاق کیا کہ اقلیتوں کے تحفظ کا اہتمام لیگ آف نیشن کے معاہدات کے تحت نہ ہو گا بلکہ اقلیتوں کے معاہدات اور اعلان ناموں سے ہو گا۔ پیرس کانفرنس کو اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کی طمانیت حاصل کرنے کے لیے 16 وسطی اور مشرقی یورپین ممالک کی منظوری کی ضرورت تھی۔ اس میں لیگ آف نیشن نے پانچ یورپی مشرق وسطیٰ کے ممالک کو بہ شمول البانیہ اور عراق شامل کیا اس شرط پر کہ یہ ممالک اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کے اعلامیے جاری کریں گے۔ اقلیتوں کے بہت سے معاہدات ناروا امتیازی سلوک کے کم سے کم منفی حقوق اور ان کی زبانوں کو پروان چڑھانے کے مثبت حقوق سے متعلق تھے۔ بعض اقلیتی معاہدات میں ذمّے داری عائد کی گئی کہ حکومت کے اسکولوں کے ابتدائی درجات ہی میں بچوں کی مادری زبان میں ذریعۂ تعلیم کا انتظام کیا جائے گا۔

ایک مفسّر نے کہا:  ’ ’ان اعلامیوں اور معاہدات میں لسانی اقلیتوں کے لیے ایسے تحفظات فراہم کیے گئے ہیں جو پہلے کبھی نہیں کیے گئے  ’ ’۔ (30)انجام کار نتیجہ یہ نکلا کہ سیاسی اور قانونی سطح پر پہلی بار سرگرم کوشش کی گئی اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظات کے لیے اقوام عالم نے تمام تر ذمّے داری قبول کی۔ (31) اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سب سے زیادہ طاقت ور تنظیم کونسل آف لیگ آف نیشن نے ذمّے داری قبول کی اور ساتھ دینے والوں میں سب سے زیادہ قابل احترام انصاف کا ادارہ PCIJ شامل ہوا۔ مثال کے طور پر PCIJ نے البانیہ کی لسانی اقلیت کی درخواست پر لبیک کہتے ہوئے البانیہ کے اقلیتی اسکول کے کیس میں اپنی رائے دی (32)اس میں کورٹ نے دو نکات پیش کیے : دوسرے ممالک کی اقلیتوں کے اراکین کے ساتھ مکمل مساوات کا اصول اور دوسرا اصول اقلیتوں کے کردار اور ان کی مخصوص روایتوں کا تحفظ۔ اگر چہ کہ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ میں انٹرنیشنل مشنری کا رول کچھ حد تک موثر رہا لیکن یہ جنگ کے دوران کے سیاسی حلیفوں میں قائم نہ رہ سکا۔ (33) نتیجے میں انٹرنیشنل اقلیتوں کی زبان کے تحفظ کی ذمّے داری کی کہانی لوگ تقریباً بھول بھال گئے۔

اس کا مماثل ہم عصر شاید اقوام متحدہ کا منشور ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ جو دستاویزات اقلیتی حقوق کی محافظ ہیں وہ یہ ہیں : انٹرنیشنل بل آف رائٹس، مذہب اور ذات پات کے بارے میں اقوام متحدہ کا اعلامیہ، لسانی اور مذہبی اقلیتوں کے بارے میں تعلیم میں امتیاز برتنے کے خلاف یونیسکو کا کنونشن، قبائلی اور مقامی آبادی کے تعلیمی مسائل کے بارے میں  انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کا کنونشن اور دیگر انٹرنیشنل اور علاقائی معاملات اور ایسے رسومات یا طریقۂ کار جو اقوام عالم کے مختلف اداروں نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اختیار کیے۔

اقوام متحدہ کے منشور کی دفعہ (3) میں یہ وضاحت ہے کہ اقوام متحدہ ممالک کے درمیان مختلف میدانوں میں بلا کسی امتیاز اتفاق و اتحاد پیدا کرے گا۔ زبان ان چار عوامل میں سے ایک ہے جن کے سلسلے میں امتیازی سلوک اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ منشور کی دفعات ب 13(1) ، (ج) 55 اور (ج) 76 بھی  ’زبان ’ کا حوالہ دیتی ہیں کہ اس کو وجہ امتیاز نہیں بنایا جا سکتا۔

منشور میں کسی کے ساتھ ناروا سلوک کی بھی ممانعت ہے۔ اس کے علاوہ حکومتوں کو متنبہ کیا گیا کہ قومی سطح پر اقلیتوں کے جو لسانی حقوق ہیں ان کا تحفظ کیا جائے۔ اس منشور کا مسودہ بنانے والوں نے اس کام کی مزید ذمّے داری انسانی حقوق سے متعلق مسودہ تیار کرنے والوں کو سونپ دی۔

یو۔ این۔ کے منشور کی دفعہ 1 کی طرح عالمی انسانی حقوق (UDHR) کے اعلامیے کی دفعہ 2 میں بھی ناروا سلوک کے بارے میں درج ہے لیکن اس کی تفصیلات بڑی طویل ہیں اور وہ زبان کی حفاظت سے متعلق ہیں۔ UDHR میں زبان سے متعلق ایک ہی حوالہ ہے۔ حیرت ہے کہ زبان سے متعلق وضاحت کرنے میں UDHR نے اتنی کنجوسی کی ہے۔ ناروا سلوک کے خلاف تو لکھا گیا ہے لیکن زبان کی حفاظت کے بارے میں عالمی سطح پر بڑی احتیاط برتی گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹریٹ اور دیگر کئی مالک کی حکومتوں نے (مثال کے طور پر ڈنمارک، فرانس، سوویت یونین، یو۔ کے۔ اور یوگوسلاویہ) زبان کے تحفظ کے بارے میں دفعات شامل کرنے پر زور دیا کہ اقلیتیں اپنی زبانیں استعمال کریں اور اپنے مدرسے چلائیں اور دیگر کلچرل ادارے قائم کریں (34) لیکن بعض دوسرے ممالک خاص طور پر امریکہ نے درمیانی راستہ اختیار کرنے کے لیے کہا۔ بعض دوسروں نے کہا کہ ناروا سلوک کے خلاف جو دفعات شامل ہیں ان کی موجودگی میں اقلیتوں کے تحفظ کے بارے میں مزید دفعات کا شامل کرنا ضروری نہیں۔ چند دیگر ممالک نے کہا کہ اقلیتوں کے تحفظات کے بارے میں دفعات کا شامل کیا جانا نہ صرف غیر ضروری ہے بلکہ مناسب بھی نہیں ہے۔ بعض ممالک نے توضیح پیش کی کہ اس سے اقلیتوں میں علاحدگی پسندی کا رجحان پیدا ہو سکتا ہے اور یہ خود ان کے لیے مضر ہے کہ انھیں قومی دھارے میں شریک ہونے کی ترغیب نہیں ہوتی۔ افریقہ کے ممالک نے محسوس کیا کہ لسانی حقوق کے تحفظات اقلیتوں کے عمومی حقوق میں مداخلت کے برابر ہیں اور وہ لوگ قومی دھارے کی سیاست اور معاشی مرکزیت سے دور ہو جائیں گے۔ ان نظریات پر زور دیتے ہوئے چین، ہندوستان اور یو۔ کے۔ نے مشورہ دیا کہ اقلیتوں سے متعلق دفعات کو منشور سے خارج کر دیا جائے۔ ایلنار روزولٹ (امریکہ) اس وقت کی انسانی حقوق یونین کمیشن کی چیر پرسن نے اس نظریے کی تائید کی۔ (35)اس کے نتیجے میں لسانی حقوق کے تحفظات کو باقاعدہ طور پر تسلیم نہ کیا گیا اور UDHR سے خارج کر دیا گیا۔ (36) تاہم UDHR میں بہت سی گنجائشیں ایسی رکھی گئیں جن کی بدولت لسانی حقوق کا تحفظ ممکن ہو سکا۔ ان میں دفعہ 10 (منصفانہ تحقیقات کا حق)، 18 (ضمیر، نظریہ اور عقیدے کی آزادی)، 19 (آزادانہ اظہار رائے کا حق)، 26 (تعلیم حاصل کرنے کا حق)۔

معاشیات، سماجیات اور کلچرل حقوق (ICESCR) کی دفعہ (2) 2 عمومی ناروا سلوک سے متعلق ہے۔ یونین کا منشور UDHR کے تحت زبان کی بنیاد پر امتیازی سلوک پر تحدید عائد کرتا ہے۔ یہ فرد کے حقوق سے متعلق ہے۔ یہ واضح الفاظ میں تیقن نہیں دیتا کہ ہم اپنی زبان کے استعمال میں آزاد ہیں اور اس طرح لسانی حقوق کی بہت کم پیروی ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ لسانی حقوق کے بارے میں جو طمانیت دی گئی ہے وہ UDHR میں ICESCR میں اور انٹرنیشنل معاہدات میں جو سماجی اور سیاسی حقوق سے ICCPR سے متعلق ہیں ،شامل ہے۔ دیگر طمانیتوں میں دفعہ 27 بھی شامل ہے۔ اس کے مطابق ان ممالک میں جہاں نسلی، مذہبی اور لسانی اقلیتیں موجود ہیں ان سے متعلقہ افراد کے ساتھ قوم کے دوسرے افراد میل ملاپ میں یا ان رسومات میں جو زبان اور عقیدے سے متعلق ہوں کوئی امتیاز نہیں برتیں گے۔

ICCPR کی دفعہ 27 کا ترقی پذیر مفہوم پیش کرتے ہوئے انسان حقوق کی کمیٹی (HRC) نے کہا: کسی مخصوص لسانی اقلیت کے افراد کے حقوق، خود ان کے درمیان زبان کے استعمال میں عوام میں ہو یا خواص میں ، ان زبانوں کے مقابلے میں جنھیں ICCPR معاہدے کے تحت تحفظ دیا گیا ہو امتیازی مقام رکھتے ہیں۔ خاص طور پر عمومی حقوق کے مقابلے میں ، جن کے اظہار کی آزادی دستور کی دفعہ 19 میں دی گئی ہے ، اس کے مقابلے میں انھیں امتیاز ملنا چاہیے۔ آخرالذکر حقوق تمام شہریوں کے لیے ہیں خواہ وہ اقلیتوں کے زمرے میں آتے ہوں کہ نہ ہوں۔ (37)

HRC نے اس بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ:  ’ ’اگرچہ کہ دفعہ 27 منفی اصطلاح میں استعمال کی گئی ہے لیکن بہ ہر حال اس کے مطابق اقلیتی حقوق مسلمہ ہیں۔ یہ ایسا حق ہے کہ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے نتیجے میں کسی بھی حکومت پر لازم ہے کہ اس حق کے وجود کو تسلیم کرے اور اس بات کی ضمانت دے کہ نہ تو اس سے انکار کیا جائے ، نہ ہی اس کی خلاف ورزی ہو گی۔ اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اس تحفظ کی ذمّے داری صرف حکومت کے نمائندے پر نہیں ہے بلکہ مقننہ، عدالت اور انتظامیہ پر بھی یہ لاگو ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ ملک کا کوئی دوسرا فرد بھی اس میں مداخلت نہیں کر سکتا۔ (38)

چنانچہ مرکزی حکومت ہو کہ ریاستیں یا مرکزی حکومت کے تحت علاقے ان سب پر لازم ہے کہ وہ نہ صرف اقلیتوں کی زبانوں کی حفاظت کریں اور انھیں پروان چڑھائیں بلکہ اس بات کا خیال رکھیں کہ حکومت کے اندر یا حکومت کے باہر کا کوئی بھی شخص ان کی خلاف ورزی نہ کرے۔ (39) HRC کو ساری سہولتیں حاصل ہیں ، اس کا قانونی حق بھی ہے اور فرض کہ وہ اس کا محاسبہ کرے کہ آیا حکومت نے اس کی پابندی کی ہے یا نہیں۔ اگر حکومت اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ میں اپنی ذمّے داری سے عہدہ برآ نہیں ہوئی ہے تو حکومت پر اعتراضات اور نکتہ چینی ہو سکتی ہے۔ یہ کم نہیں کہ ہندوستان ICCPR کی توجہ کا مرکز بنے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب وہ اس کی عائد کی ہوئی ذمہ داریوں سے بہ حسن و خوبی سبکدوش ہو۔ جولائی 1927 میں HRC نے ہندوستان کے تیسرے معیار کی رپورٹ کا جائزہ لیا اور اس بات پر اپنی خوشنودی کا اظہار کیا کہ ہندوستان نے اقلیتی کمیشن قائم کیا ہے۔ (40)تاہم اگر HRC نے دفعہ 27 کی تعمیل میں ہندوستان کی طرف سے کسی غلطی کی نشاندہی نہیں کی ہے تو یہ کوئی مکمل ثبوت نہیں ہے کہ ہندوستان نے اپنے سارے فرائض پورے کر لیے۔ بہ ہر صورت ذمّے داریوں کا سلسلہ قائم رہنے کا مطلب ہے کہ ان کی تعمیل کا سلسلہ بھی باقی رہے گا۔

ICCPR کی دفعہ 27 نے یو۔ این۔ کو تحریک دلائی کہ وہ اقلیتی حقوق کے بارے میں صحیح معلومات حاصل کرے ، اس کے لیے اپنے تحقیقی ادارے قائم کرے اور ان کے حقوق کے معیارات قائم کرے۔ ان اداروں کی کاوشوں کی بدولت اقوام عالم کی توجہ لسانی حقوق کو بنیادی حقوق تسلیم کرنے کی طرف مائل ہوئی۔

پہلے تو دفعہ 27 سے تحریک حاصل کی۔ پھر اقلیتوں کے حقوق کی تشریح کی اور اس کے بعد یو۔ این۔ نے اعلامیہ جاری کیا تو وہ کسی بھی طبقے ، نسل مذہب اور زبان سے تعلق رکھنے والے اقلیتی طبقے کے حقوق سے متعلق تھا۔ اس کی دفعہ (1) 1 میں درج ہے :

’ ’ریاستیں اقلیتوں کے اس تشخص کا تحفظ کریں گی جو ان کے فرقے ، نسل، کلچر، مذہب اور زبان سے متعلق ہے۔ یہ ان کے اپنے علاقوں کے اندر ہو گا اور حکومتیں ان کے تشخص کو پروان چڑھانے کے مواقع فراہم کریں گی۔  ’ ’

اعلامیے کی دفعہ 2 اقلیتوں کے مزید حقوق کی وضاحت کرتی ہے۔ ان میں شامل ہیں :

’ ’لوگ جو مختلف طبقات، نسلوں ، مذہبوں اور لسانی اقلیتوں کے نمائندے ہیں … انھیں حق ہے کہ وہ اپنے کلچر سے لطف اندوز ہوں۔ اپنے مذہب کی پیروی اور تبلیغ کریں اور اپنی زبان استعمال کریں خواہ اپنے گروہ میں خواہ پبلک میں آزادی کے ساتھ اور بغیر کسی مداخلت یا امتیاز کے۔  ’ ’

ان حقوق کی تعمیل کے لیے ریاستیں مناسب قوانین بنا سکتی ہیں اور دوسرے ایسے اقدامات ہیں جن میں اعلامیہ کی دفعہ 4 شامل ہے۔

.2        ریاستیں ایسے موافق حالات پیدا کرنے کے اقدامات کریں کہ اقلیتی افراد اپنے طرز عمل کا مکمل اظہار کر سکیں اور اپنے کلچر، اپنی زبان، اپنے مذہب، اپنی روایتوں اور اپنے رسومات (سوائے ان رسومات کے جو عالم اقوام یا قومی مفاد کے منافی ہیں ) کو پروان چڑھا سکیں۔ (41)

.3        ریاستیں ایسے ممکنہ اور مناسب اقدامات کریں جن سے اقلیتوں کے افراد کو ضروری سہولتیں حاصل ہوں تاکہ وہ اپنی مادری زبان سیکھ سکیں یا تعلیم اپنی مادری زبان میں حاصل کر سکیں۔

.4        ریاستیں جہاں تک ہو سکے تعلیم کے میدان میں مناسب اقدامات کریں تاکہ اقلیتوں کو  اپنی تاریخ، اپنی روایات، اپنی زبان اور اپنے مقامی کلچر پر عبور حاصل ہو۔ اقلیتوں سے متعلق افراد کو وہ مناسب سہولتیں بھی حاصل ہوں جن کی مدد سے انھیں اپنی سوسائٹی کے بارے میں معلومات حاصل ہوں۔

اعلامیہ کی دفعہ 5 چند اور باتوں کے علاوہ مندرجہ ذیل رہبرانہ خطوط فراہم کرتی ہے۔

قومی پالسیاں اور پروگرام اس طرح ترتیب دیے جائیں گے کہ ان میں لسانی اقلیتوں کی فلاح و بہبود کا خیال رکھا جائے گا۔

دفعہ 23 کے ذریعے آئی۔ ایل۔ او۔ (انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن) آزاد اور جمہوری ممالک میں جو قبائل اور نیم قبائلی طبقے بستے ہیں (معاہدہ،کنونشن نمبر 107 1957, ) ان کے لیے ان اقدامات کو ضروری قرار دیا گیا جو مادری زبان کی یا اس زبان کی جو اس گروہ کے لوگ عام طور پر استعمال کرتے ہیں حفاظت کریں ، خاص طور پر اسکولوں میں۔ (42) چوں کہ ہندوستان نے اس کنونشن کی 29 ستمبر 1958 کو توثیق کی ہے اس لیے اس کا احترام اس پر لازمی ہے۔ دفعہ 23 ہندوستان کے قبائلی علاقوں کے کثیر افراد کے لیے کافی اہمیت رکھتی ہے۔ ان کی بعض زبانوں کی شناخت نہیں کی جا سکتی اور یہ خطرے میں پڑی ہوئی زبانیں ہیں۔ ایک اہم اور طاقت ور عوامی تحریک کے نتیجے میں 1980 میں 170 عالمی قبائل کا کنونشن منعقد کیا گیا (1989 کا کنونشن نمبر 169) جس میں مقامی اور قبائلی عوام کی زبانوں کے حقوق کو تسلیم کیا گیا۔ (43)ہندوستان نے ابھی تک کنونشن نمبر 169 کی توثیق نہیں کی لیکن یہ کنونشن نمبر 107 کا پابند ہے۔ 170 کے پاس ایسی باقاعدہ تنظیمیں موجود ہیں جن کی بدولت وہ اپنے معاہدات کی نگرانی موثر طریقے پر کر سکتا ہے۔

علاقائی سطح پر اقلیتی حقوق سے متعلق جس ادارے کو نمایاں حیثیت حاصل ہے وہ ہے ہائی کمشنر کا آفس۔ اس کا پورا نام ہے Office of the High Commissioner for National Minorities for Security and Cooperation in Europe (OSCE) ہائی کمشنر کا آفس 1992 میں ذات پات کے تناؤ سے متعلق قراردادوں کو حاصل کرنے اور ان کی شناخت قائم کرنے کے لیے قائم کیا گیا ورنہ اس طرح کے علاقوں میں امن کے استحکام کو خطرہ تھا اور مختلف ریاستوں کے OSCE سے دوستانہ تعلقات بھی متاثر ہو سکتے تھے۔ ہائی کمشنر نے اس مقصد کے لیے جن ذرائع کو استعمال کیا ان میں وہ سفارشیں بھی شامل ہیں جو OSCE کے ساتھ ہیں اور جو اقلیتوں کے مسائل کے حل سے متعلق ہیں۔ (44)بہرحال لسانی اقلیتوں کے بارے میں علاقائی اور لسانی اقلیتوں کا منشور (The European Charter) بہت ہی سلیقہ مندانہ اور مکمل ہے۔ (45) چوں کہ یورپ کے کلچرل ورثے کو خطرہ لاحق ہے اس لیے یہ منشور علاقائی اور اقلیتی زبانوں کا تحفظ چاہتا ہے اور انھیں پروان چڑھانے کی کوشش میں ہے۔ اس کا اصل مقصد کلچر ہے۔ یہ علاقائی اور لسانی اقلیتوں کا محافظ ہے۔ (46) غیر علاقائی زبانیں (47) اور وہ سرکاری زبانیں جن کا استعمال کم ہوتا ہے۔ اس کے دائرۂ عمل میں وہ زبانیں آتی ہیں جو ریاست کے اندر روایتی ہیں۔ لیکن وہ زبانیں اس کے دائرۂ عمل میں نہیں آتی ہیں جو حالیہ دور میں لوگوں کے ہجرت کرنے سے استعمال میں ہیں۔ جہاں تک ممکن ہو علاقائی اور اقلیتی زبانیں تعلیم میں اور ذرائع ابلاغ میں استعمال کی جائیں تاکہ ان کا استعمال عدلیہ اور انتظامیہ میں بھی ہو۔ اسی طرح سماجی، معاشی اور سرحدی علاقوں میں بھی ان کا استعمال ضروری ہے تاکہ آپسی تعلقات بڑھیں۔

یورپین چارٹر کو بناتے ہوئے ممالک کے اقتدار اعلیٰ اور ان کے سرحدی علاقوں کے اصول پیش نظر رکھے گئے۔ سرکاری زبان اور علاقائی یا اقلیتی زبانوں کے تصادم کا کوئی موقع آنے نہیں دیا گیا۔ آخرالذکر زبانوں کے فروغ کی وجہ سے اوّل الذکر کو پس پشت نہیں ڈالا جا سکتا۔ ہر زبان کو اپنا صحیح مقام عطا کرنے کے لیے اور بین کلچرل فضا کو بناے رکھنے کے لیے ایک سوچا سمجھا فیصلہ کیا   پصور:ن:گیا۔ ہر ریاست کی کلچرل اور سماجی حقیقتوں پر غور کیا گیا۔ یورپین چارٹر نے یورپی زبانوں کی کوئی ایسی فہرست نہیں بنائی جو علاقائی یا اقلیتی زبانوں کی فہرست سے مطابقت رکھتی ہو۔ لیکن دفعہ 1 میں ان کی اصطلاحوں کا مفہوم پیش کیا گیا ہے۔ یورپین چارٹر میں شامل زبانوں کو وسیع تر معنوں میں استعمال کیا گیا ہے ، سماجی، سیاسی اور معاشی۔  ’a la Carte ’ کی اصطلاح یا اس کے اصول اپناتے ہوئے ہر زبان کے تحفظ اور اس پر ہونے والے خرچ کا حساب  لگاتے ہوئے ان کے حدود متعین کر دیے گئے ہیں۔

یورپین چارٹر نے معاہدے کے فریقین میں سے ایک کو لیتے ہوئے خود مختار ایکسپرٹ اراکین کی کمیٹی بنانے کی گنجائش رکھی ہے۔ ان افراد کی فہرست میں سے جو نہایت دیانتدار مانے جاتے ہوں ، یورپ کی کونسل کے منسٹروں کی کمیٹی ایک ایک فرد کو منتخب کرتی ہے اور ان کا تعلق چارٹر میں شامل حکومتوں سے ہوتا ہے۔ یہ اراکین مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھتے ہیں اور ان میں ماہر قانون، ماہر لسانیات، تاریخ داں اور اقلیتوں کی زبان کے مسائل سے واقف ماہرین شامل ہوتے ہیں۔ یہ کمیٹی ریاستوں سے وصول ہوئی رپورٹوں اور ایسوسی ایشن کی دیگر تفصیلات اور ان مختلف اداروں سے (جنھیں حکومت قائم کرتی ہے ) آئی ہوئی معلومات کی جانچ کرتی ہے اور اپنا رد عمل پیش کرتی ہے۔

اگر چہ کہ یورپین چارٹر کا اطلاق ان ریاستوں پر نہیں ہوتا جو غیر یورپی ہیں لیکن دفعہ 7 کے اصول ان تمام ریاستوں پر لاگو ہوتے ہیں جہاں اقلیتی زبانوں کا وجود ہے۔

.1        علاقائی اور اقلیتی زبانوں کو اس بنیاد پر تسلیم کرنا کہ وہ کلچرل ورثہ ہیں۔

.2        ان تمام جغرافیائی علاقوں کی توقیر جہاں علاقائی یا اقلیتی زبانوں کا وجود ہے۔

.3        ان زبانوں کے فروغ کے لیے مصمم ارادہ اور عمل۔

.4        ان زبانوں کے اپنے طبقے کے اندر یا پبلک میں استعمال کرنے ، بولنے ، لکھنے پڑھنے کی سہولتیں اور ان کی پذیرائی۔

.5        ایسے مواقع فراہم کرنا جن سے ان زبانوں کی پڑھائی کا ہر مرحلے پر انتظام ہو سکے

.6        قوم میں ایک دوسرے سے تبادلۂ خیال کے مواقع فراہم کرنا۔

.7        ان زبانوں سے متعلق کسی بھی قسم کے غیر منصفانہ رویے اور طرز عمل پر احتساب۔ ایسا عمل جس سے اس زبان کے بولنے والوں کی دل شکنی ہوتی ہو یا تضحیک ہوتی ہو یا کوئی خطرہ لاحق ہو، اس پر پابندی۔

.8        ان لسانی گروہوں کے تمام ممالک کے درمیان ایک سمجھوتے اور مفاہمت کی فضا پیدا کرنا اور ہم آہنگی کو فروغ دینا۔

 

بین الاقوامی رسائی

یہ مناسب لگتا ہے کہ ہم اس مسئلے پر دیسی اور بین الاقوامی طرز فکر اختیار کریں۔ ان زبانوں کے تحفظ اور فروغ کے بارے میں ، جو ایک سے زائد ممالک میں بولی جاتی ہیں پھر بھی کسی بھی وقت مجروح ہو سکتی ہیں اور اس کا سبب ان کا اقلیتی زبان ہونا ہے۔ لاکھوں کروڑوں اردو بولنے والے لوگ اس وقت دنیا میں موجود ہیں خاص طور پر بنگلہ دیش، ہندوستان، ماریشس، پاکستان اور جنوبی افریقہ۔

ان علاقوں میں اردو کی بقا اور اردو کے فروغ کے لیے ہمیں چاہیے کہ زبان کے تحفظ کی اسکیموں پر غور کریں کیوں کہ اب یہاں یہ زبان ایسے خطرات سے گزر رہی ہے کہ اس کی بقا کے لالے پڑ گئے ہیں۔ یہ اسکیمیں یونیسکو کی بنائی ہوئی ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان ابھی تک یونیسکو کے وراثتی دائرۂ کار میں نہیں آئے ہیں کہ ان اسکیموں کے تحت ان کا کوئی حق بنے لیکن کارل گیڈلی جیسے بعض ماہر لسانیات سمجھتے ہیں کہ ان دونوں ممالک کو ان اسکیموں کے دائرۂ کار میں لانا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔ انڈین نیشنل کمیشن کے توسط سے یونیسکو تک رسائی ممکن ہے۔ خود ہندوستان ایسے موثر اداروں کے قیام کے لیے پہل کر سکتا ہے جو اقلیتی زبانوں کے فروغ کے لیے کام کریں۔ اس علاقے میں سارک ممالک کی مرکزی حیثیت ہے جو اردو کے فروغ میں معاون ہو سکتی ہے۔ علاقائی زبانوں کی ترویج کے علاوہ ایسی پہل (غیر سرکاری ہی کیوں نہ ہو) سرحد کے اس پار کے علاقوں میں کلچرل، دانشورانہ اور جذباتی رشتوں کو مضبوط کر سکتی ہے اور ان کا احیا بھی ہو سکتا ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ اگر امن کو ان علاقوں میں مستحکم کرنا ہے تو زبان کو مرکزی حیثیت دینا ہو گا۔ (48)اردو دیس کی زبان ہے۔ اس پر مصارف بھی نہ ہوں گے یہ ایک موثر ذریعہ ہو گا ٹریک II ڈپلومیسی کا ، برصغیر ہندوستان میں جونیو کلیر پاور کا ایک ملک ہے۔

 

یونیسکو کی اس وارننگ کو نظر انداز کرنا عقل مندی نہیں کہ دنیا کی کوئی 6 ہزار زبانیں مستقبل قریب میں نیست و نابود ہونے والی ہیں۔ ان میں کی بعض زبانیں ہندوستانی ہیں۔ اقلیتی زبان کا تصور کسی بھی لسانی اقلیت کی کمزوری کو آشکار کرتا ہے۔ لسانی اکثریت کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ اگر ایک مقام پر اکثریت میں ہے تو کسی دوسرے مقام پر وہ اقلیت میں ہے۔ قومی اور بین الاقوامی دونوں قوانین کا موقف یہ ہے کہ اکثریتی زبان کے فروغ کا انحصار اقلیتی زبان کے فروغ کے ساتھ ساتھ ہے۔ اقلیتی زبان کی ترویج سے اکثریتی زبان کو بھی فروغ حاصل ہوتا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ایشیا کی کئی زبانوں کی بدولت انگریزی زبان اتنی بڑی زبان ہو سکی۔ لہٰذا دونوں فرقوں کے حق میں یہ مناسب ہے کہ ایک دوسرے کا احترام کریں۔ یہ صرف عام عقل کی بات نہیں ہے بلکہ ایک قانونی ذمّے داری کا مسئلہ بھی ہے۔ اقلیتی زبانوں کا تحفظ اور ان کا فروغ آئینی تحفظات کے تحت بہ ظاہر مناسب معلوم ہوتا ہے۔ تاہم بعض نکتہ چیں اسے کافی نہیں سمجھتے۔ (49)بعض لسانی فاشزم سے خوف زدہ ہیں (50)اور بعض اتر پردیش ساہتیہ سمیلن(51) کے اکتا دینے والے مقدمے سے مایوس ہو گئے ہیں۔ ہندوستان کی آئینی اسکیم کی پیچیدگیوں کو ناقدین نظر انداز کر جاتے ہیں۔ درحقیقت انھیں اس پر فخر کرنا چاہیے کہ فرانس اور کویت جیسے ممالک میں اقلیتوں کا کوئی وجود ہی نہیں ہے جبکہ ہندوستان میں نہ صرف یہ کہ مذہبی اور لسانی اقلیتیں موجود ہیں بلکہ انھیں آئینی تحفظات ، بنیادی حقوق کی حیثیت سے حاصل ہیں۔ سپریم کورٹ نے ان تحفظات کو استحکام بخشا ہے۔ کیرالا کے ایک مقدمے میں اس نے فیصلہ دیا کہ کوئی ایک فرد بھی اپنے اقلیتی تعلیمی ادارے قائم کر سکتا ہے اور چلا سکتا ہے۔ (52) اس سے اقلیتی اداروں کے تحفظات کی عدالتی توثیق ہوتی ہے۔ اس طرح کی آزادانہ پالیسی کے پیش نظر اقلیتی تصور کے کسی بھی مباحثے کو آپسی اتفاق اور محبت سے حل کرنا چاہیے۔ اختلافات کو دور کرنے کے لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ ایک متبادل میکانزم ایجاد کیا جائے تاکہ لسانی مسائل کا حل نکل آئے۔

اگرچہ کہ اردو ایک اقلیتی زبان ہے ، یہ صرف ایک اقلیتی قوم کی زبان نہیں۔ یہ ان کثیر لوگوں کی بھی زبان ہے جو اقلیت کہے جاتے ہیں۔ یہ صرف ہندوستان ہی کی زبان نہیں ہے۔ یہ بین الاقوامی زبان ہے۔ اس کے بولنے والے اور اس کے مدح خواں سرحد کے باہر بھی ہیں۔ یہ زبان ہندوستان کے دانشورانہ اور تخلیقی اثاثے کی نمائندہ ہے اور سیکولر رجحانات کی امانتدار۔ اس میں ہمارے مغربی پڑوسیوں سے دشمنی کو کم کرنے کی بھی موثر صلاحیت ہے۔ یہ سچ ہے کہ اس کا موجودہ موقف اس کی تاریخی اہمیت کی برابری نہیں کر سکتا لیکن اس کے لیے صرف حکومتیں ہی ذمّے دار نہیں ہیں۔ ملک کے سرمایہ دارانہ معاشرے کا استحصالی خلقیہ، علم حاصل کرنے کا گرا ہوا فی صد، مارکٹ کے طاقت ور ہتھکنڈے اور مغرب کا بڑھتا ہوا اثر ان سب نے چھوٹی زبانوں کی موت لازمی کر دی ہے۔ اردو مستثنیٰ نہیں ہو سکتی۔ تاہم حکومتوں کی لاپروائی آسانی سے درگذر نہیں کی جا سکتی۔ یہی بات دیگر کئی زبانوں کے بارے میں بھی صادق آتی ہے۔

ہماری ان کوششوں کو جو زبان کی حفاظت اور فروغ کے لیے ہیں انھیں بڑھاوا دینے اور موثر بنانے کے لیے یہ مناسب ہو گا کہ لسانی اقلیتوں کے بارے میں سارے ملک کے اعداد و شمار حاصل کیے جائیں۔ ملک کے حالیہ اعداد و شمار کے پیش نظر ایسا کرنا بہت ممکن ہے۔ یہ اعداد و شمار ملک کے لیے اور بین الاقوامی اداروں کے لیے بہ شمول CLM اور اقلیتوں کے ورکنگ گروپس کے لیے کارآمد ثابت ہوں گے اور ان کی مدد سے ان اداروں کے کام کرنے کی صلاحیت بڑھے گی اور پروگرام بنانے اور تدابیر سوچنے میں یہ ثمر آور ہوں گے۔ یہ اعداد و شمار قومی بین الاقوامی اور علاقائی اداروں کے لیے لسانی اقلیتوں کے مسائل حل کرنے میں بہت ہی مددگار ثابت ہوں گے۔ پالیسی بنانے والوں ، ذرائع ابلاغ اور عوام کو ہی نہیں بلکہ خود لسانی اقلیتوں کو ان سے مدد ملے گی۔ اسی طرح کے فوائد جنوبی ایشیا میں اردو والوں کو حاصل ہوں گے اگر متعلقہ اعداد و شمار حاصل کیے جائیں۔

اقوام متحدہ کے کئی اداروں اور متعلقہ ایجنسیوں نے اقلیتوں کے مسائل پر غور کیا ہے۔ ان پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو اس بات کا پتہ چلے گا کہ وہ خاص طور پر اقلیتوں کی ذات پات اور ان کے مذہبی مسائل میں الجھے رہے ، لیکن لسانی مسائل پر دھیان نہیں دیا۔ قوم میں ذات پات اور مذہبی اور لسانی اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں جو اعلامیہ جاری کیا گیا ہے اس کے تحت ایک مشترکہ پروگرام بنا کر اس پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے تاکہ اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری ہو سکے۔ جنرل اسمبلی ریاستوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ دو طرفہ یا ہمہ جہتی کاوشوں میں لگی رہیں تاکہ اقلیتوں کے حقوق کا ان کے اپنے ملک میں تحفظ ہو اور یہ اعلامیے کے مطابق ہو۔ جنوبی ایشیا میں اردو کے بہی خواہوں اور مددگاروں کو چاہیے کہ سارک کنونشن جیسی سہولتیں پیدا کریں جن سے اقلیتوں کی زبانوں کا تحفظ ہو، اور انھیں فروغ ملے۔

٭٭٭

حواشی

 

  1. For an elaboration of the inter-civilizational approach, see Onuma Yasuaki, ’Toward an Intercivilisatinal Approach to Human Rights ’, in Joanne R. Bauer and Daniel A. Bell, eds. , The East Asian Challenge for Human Rights, Cambridge: Cambridge University Press, 1999, pp. 103-23.
  2. United Nations Human Rights Committee General Comment No. 23, which deals with the rights of minorities under Article 27 of the International Covenant on Civil and Political Rights. See UN Doc. HRI/GEN/1/Rev.5 (26 April 2001). para. 5.2.

.3        آئین کی (21ویں ترمیم)1967 Act of (اکہترویں ترمیم) Act of 1992 (92ویں ترمیم) Act of 2003 VIII (آٹھویں ) ضمیمے میں جن 22 زبانوں کی شناخت کی گئی ہے وہ ہیں : ملیالم، منی پوری، مراٹھی، آسامی، بنگالی، بوڈو، گجراتی، ہندی، کنڑی، کشمیری، کونکنی، میتھلی، سندھی، نیپالی، اوریہ، پنجابی، سنسکرت، منتھالی، ٹامل، تلگو اور اردو۔

مطالبہ ہے کہ بھوتی زبان کو بھی آٹھویں ضمیمے میں شامل کیا جائے۔ استدلال یہ ہے کہ بعض زبانیں صرف 150 سال پرانی ہیں جب کہ بھوتی ہمالیہ کے باشندوں کی 1300 سال پرانی زبان ہے۔ اس مطالبے کی حمایت میں ہمالہ کی بدھسٹ کلچرل ایسوسی ایشن دہلی نے (NGO) ایک کانفرنس 27 جنوری 2001 کو منعقد کی۔

  1. D.A.V. College, Jullunder v. State of Punjab, AIR 1971 SC 1737, p. 1742.
  2. Reference on the Education Bill, AIR 1958 SC 956.
  3. AIR 1971 SC 1737.
  4. Constituent Assembly Debates, Vol. VII, No. 22, p. 922.
  5. See Francesco Capotorti, Study on the Rights of Persons Belonging to Ethnic, Religious and Linguistic Minorities, UN Doc. E/CN.4/Sub.2/ 384 (1978).
  6. See John Ballantyne and Elizabeth Davidson, and Gordon Meintyre v. Canada, Communication Nos. 359/1989 and 385/1989, Report of the Human Rights Committee, General Assembly Official Records, forty-eighth session (1993), suppl. 40, UN Doc. A/48/40, vol. II, Annex XII P. pp. 91-103.
  7. Wurm, Stephen A. (ed.), Atlas of the World ’s Languages in Danger of Disappearing, Paris UNESCO, 1996, pp. 1-2.
  8. Ibid., p.2.

.12     1991 کے اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان کے 19.44 فیصد باشندے ذولسانی ہیں۔ یہ اعداد حوصلہ افزا ہیں۔

  1. For a background, see Ram Singh, ’Problems of Linguistic Minorities: Constitutional Safeguards and Legal Solutions ’, in Tahir Mahmood (ed.), Minorities and State at the Indian Law: An Anthology, New Delhi: Institute of Objective Studies, 1991, pp. 121-33.
  2. Constituent Assembly Debates, vol. VII, no. 21, p. 893.
  3. Ibid., p. 892.
  4. Ibid., Vol. VII, No. 22, p. 896.
  5. Rev. Father W. Proost and Others v. State of Bihar, AIR 1969 SC 465, at pp. 468-9.
  6. AIR 1974 SC 1389, at p. 1394.
  7. 1963 (3) SCR 837.
  8. The Ahmedabad St. Xaviers College Society, at p. 1414.
  9. Reference on the Education Bill, AIR 1958 SC 956.

.22     دفعہ 350A یوں ہے۔ حکومت میں جس کسی کو مقامی معاملات میں اقتدار حاصل ہے ، اس پر لازم ہے کہ لسانی اقلیتوں کے بچوں کو تعلیم کے ابتدائی مراحل میں ان کی اپنی مادری زبان میں پڑھانے کا معقول انتظام کرے۔ صدر کسی بھی ریاست کو احکامات جاری کر سکتے ہیں جو انھیں مناسب لگیں تاکہ تعلیمی سہولتوں سے ٹھیک استفادہ کیا جا سکے۔

  1. English Medium S.P.A. v. State of Karnataka, AIR 1994 SC 1702.
  2. AIR 1971 SC 1731.
  3. AIR 1994 SC 1702.

.26     1950 کے ابتدائی دور ہی میں لسانی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظات مرکزی اہمیت اختیار کر گئے جب کہ ریاستوں کی تنظیم جدید عمل میں آ رہی تھی۔ جس کی اساس زبان ہی تھی۔ ریاستوں کی تنظیم جدید کے کمیشن (SRC) کا قیام 1953 میں عمل میں آیا تاکہ ریاستوں کی تنظیم جدید پر غور کیا جا سکے۔ دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ زبان ایک اہم وجہ ٹھہری اور سب سے زیادہ اسی بات پر غور کیا گیا کہ ایک ایسی ایجنسی قائم کی جائے جو زبانوں کے تحفظ کا خیال رکھے۔ نتیجے میں دستور کی ترمیم عمل میں آئی۔ ایکٹ 1956 میں دفعہ 350B کو شامل کرتے ہوئے لسانی اقلیتوں کے تحفظ کے لیے ایک اسپشل کمشنر کا تقرر عمل میں لایا گیا۔ اس عہدے کو لسانی اقلیتوں کے کمشنر کا نام دیا گیا۔

.27     CLM کے احکامات کی تفصیلات جاننے کے لیے ، ان کی تعمیل اور ان سے متعلق دوسری چیزیں دیکھیے۔

  1. AIR 1990 SC 851.
  2. Jagdev Singh Sidhanti v. Pratap Singh Daulta, 1964 (6) SCR 750.
  3. Gromacki, Joseph P., "The Protection of Language Rights in International Human Rights Law: A Proposed Draft Declaration of Linguistic Rights ’, Virginia Journal of International Law, Vol. 32 (1992), p. 521.
  4. Brownlie, Ian, Principles of Public International Law, Oxford University Press, 1973, p. 549.

.32     لیگ آف نیشن میں مشروط داخلے کے مطابق البانیہ نے ایک اعلامیہ 2 اکتوبر 1921 میں جاری کیا۔ اس اعلامیے کے تحت البانیہ میں اقلیتوں کو تحفظ دیا گیا۔ اس حق کے ساتھ کہ اقلیتیں اپنے اسکول اور دوسرے تعلیمی ادارے قائم کر سکتی ہیں اور انھیں چلا سکتی ہیں اور یہ کہ انھیں اپنی زبان کے استعمال کا حق ہے۔ 1931 میں البانیہ کے اسکولوں سے مذہبی تعلیم کو خارج کر دیا گیا۔ دو سال بعد خانگی اسکولوں کو بھی موقوف کر دیا گیا۔ اس کی وجہ سے بہت سی عرض داشتیں کونسل آف لیگ میں داخل کی گئیں جس نے PC1J سے مشاورتی رپورٹ طلب کی۔ PC1J کے سامنے دو اہم مسائل تھے۔ آیا اعلامیے کا قانونی نفاذ ممکن ہے ؟ دوسری بات یہ کہ آیا خانگی اسکولوں کو، جن میں اقلیتوں کے اسکول بھی شامل ہیں ، موقوف کرنے سے اعلامیے کا قانونی جواز متاثر ہوتا ہے ؟PC1J نے دونوں کا مثبت جواب دیا اور عمومی اصول بنائے کہ کس طرح اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا جا سکتا ہے۔ البانیہ نے مناسب سمجھا کہ وہ اپنے دیسی قوانین میں تبدیلی لائے اور اقلیتوں کے خانگی اسکول قائم رہیں۔ دیکھیں PC1J کی A/B سرید64 اور سریذ C سلسلہ نشان 76۔

  1. Brownlie, p. 550.
  2. Cf. Sohn, Louis B., ’The Rights of Minorities ’, in Louis Henkin, ed., The International Bill of Rights, New York: Columbia University Press, 1981, p. 272.
  3. Ibid., p. 471.
  4. Gromacki, above n. 30.
  5. UN Doc. A/2929 (1 July 1955), para. 185.
  6. General Comment No. 23, para. 6.1
  7. Asbjorn Eide (UN Doc. E/CN4/Sub.2/AC.5/2001/2, 2 April 2001, paras. 28 and 69) and Soli Sorabjee (UN Doc. E/CN4/Sub.2/2001/22, 22 June 2001, para. 18) point out the possibility of violation of minority rights by non-state actors.

پیراگراف 18 اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ اقلیتی حقوق کی خلاف ورزی ان لوگوں کی طرف سے ممکن ہے جو حکومت کے کارندے نہیں ہیں۔

  1. See UN Doc. CCPR/C/79/Add.81 (4 August 1997)
  2. For details of Article 1 and also those of other provisions of the Declaration, see Asbjorn Eide, Commentary to the Declaration on the Rights of Persons Belonging to National or Ethnic, Religious and Linguistic Minorities, UN Doc. E/CN.4/ Sub.2/AC.5/2001/2 (2 April 2001).

.42     کنونشن نمبر 107 کی دفعہ 23  یوں ہے :

.I         متعلقہ آبادی سے تعلق رکھنے والے بچوں کو ان کی مادری زبان میں لکھنا پڑھنا سکھایا جائے گا۔ یہ اگر ممکن نہ ہو تو اس زبان میں جو ان کے طبقے کی اکثریت کی زبان ہے۔

.II        اس بات کی گنجائش رکھی جائے گی کہ بچے آہستہ آہستہ اپنی مادری زبان سے علاقائی اور نیشنل زبان کی طرف آئیں گے یا پھر کسی ایک سرکاری زبان کی طرف مائل ہوں گے۔

.III      جہاں تک ممکن ہو مناسب اقدامات کیے جائیں گے تاکہ مادری زبان یا علاقائی زبان کا تحفظ ہو۔

.43     کنونشن 169 کی دفعہ 28 یوں ہے :

.I         بچے جو اپنے علاقے سے تعلق رکھتے ہیں ، جہاں تک ممکن ہو انھیں ان کی ہی زبان میں پڑھنا لکھنا سکھایا جائے گا یا پھر اس زبان میں جو اس طبقے میں عام طور پر بولی جاتی ہو۔ اگر یہ ممکن نہیں ہے تو متعلقہ ارباب اس طبقے کے لوگوں سے مشورہ کریں گے تاکہ ان مقاصد کا حصول ہو سکے۔

.II        ضروری اقدامات کیے جائیں گے تاکہ ان لوگوں کو وہ سہولتیں حاصل ہوں جن کی بدولت انھیں قومی زبان یا ملک کی کسی ایک سرکاری زبان میں مہارت حاصل ہو۔

.III      ایسے اقدامات کیے جائیں کہ ملکی،علاقائی زبان کا تحفظ ہو ،اسے فروغ دیا جائے اور لوگ اس میں مہارت حاصل کریں۔

  1. for details, visit http://www.osce.org/hcnm.

.45     Standing Conference of local and Regional Authorities of Europe نے جو مواد پیش کیا اس پر یورپین چارٹر نے 25 جون 1992 کومنسٹرس آف کونسل آف یورپ کا ایک کنونشن طلب کیا۔ 5 نومبر1992 کو اسٹراس برگ میں دستخطی مہم چلائی گئی۔ یکم مارچ 1998 سے چارٹر کو قبول کر لیا گیا۔ 17 فروری 2005 میں 17 ممالک (آرمینیا، آسٹریا، کریشیا، سپرس، ڈنمارک، فن لینڈ، جرمنی، ہنگری، نیدرلینڈ، ناروے ، سلوواکیہ، اسپین، سویڈن اور برطانیہ نے اس کی توثیق کی۔ بعد میں مزید 13 ملکوں نے اس پر دستخط کیے۔

.46     یورپین چارٹر کی وضاحت کے مطابق علاقائی اور اقلیتی زبانیں وہ ہیں جو قدیم سے استعمال میں آ رہی ہیں اور ایک مخصوص علاقے میں بولی جاتی ہیں۔ ایک مقررہ گروپ کے لوگ جو تعداد میں دوسروں سے کم ہوتے ہیں اس زبان کو بولتے ہیں۔ یہ سرکاری زبان سے مختلف ہوتی ہے۔ اس میں سرکاری زبان کی بولیاں استعمال ہوتی ہیں نہ ہی یہ مہاجروں کی زبان ہوتی ہے۔

.47      ’غیر قبائلی زبانوں  ’ کا مطلب ہے جو ملک کے باشندے تو استعمال کرتے ہیں لیکن وہ دوسرے لوگوں کی زبانوں سے مختلف ہوتی ہے۔ اگرچہ کہ اس کا استعمال روایتی ہے اور ریاست ہی میں بولی جاتی ہے لیکن اس کی شناخت کسی خاص علاقے سے نہیں کی جا سکتی۔ دیکھیں :

For details, visit http://conventions.coe.int/treaty/EN/cadreprincipal.htm.

  1. Oommen, T.K., ’New Directions for South Asia ’, The Hindu, 4 February 2002, p. 8.
  2. Ansari, Iqbal A., ’Inadequacy of Constitutional Protection of Minority Language in India ’, in Sanghasen Singh (ed.), Language Problem in India, New Delhi: Institute of Objective Studies, 1997, pp. 149-59.
  3. Bari, Syed Abdul, ’Urdu: A Victim of Linguistic Fascism ’, in Singh, pp. 134-

.51     جب اتر پردیش حکومت نے اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ عطا کیا تو مخالف پارٹی نے اس کے خلاف مقدمہ دائر کیا۔ دیکھیں :

for some reflections, see Danial Latifi,  ’The Struggle for Urdu in UP ’, The Indian Advocate, Vol. XXIX (1999-2000), pp. 44-50.

  1. Times of India, 1 February 2002, p. 4.

٭٭٭

 

 

دہلی کی اردو کانفرنس ضمیمہ۔ I

 

(کانفرنس کے شرکا مندرجہ ذیل امور پر متفقہ رائے ہوئے )

(Statement of Consensus)

 

.1        چوں کہ شیڈول کی تمام آٹھ زبانیں بہ شمول ہندی اپنی ریاستوں کے باہر اقلیتی زبان کا درجہ رکھتی ہیں ، وہ اپنی ریاست کی پرنسپل زبانیں ہیں۔ تمام ریاستوں اور ان کے اضلاع میں لوگوں کی بڑھتی ہوئی ہجرت کی وجہ سے ان علاقوں کا موقف ہمہ لسانی ہو گیا ہے اس لیے اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ اقلیتی زبانوں سے متعلق ایک واضح نیشنل پالیسی ہر سطح پر تشکیل دی جائے جو زبان کی نوعیت اور حیثیت کے اعتبار سے دستور کے مطابق ہو۔

.2        اردو (سندھی کے ساتھ) ایک منفرد زبان ہے کہ یہ سارے ہندوستان میں بولی جاتی ہے لیکن کسی بھی علاقے کی اکثریتی زبان نہیں ہے۔ قومی سطح پر اردو کا مطالبہ اپنے لیے خاص توجہ چاہتا ہے لیکن ریاستی سطح پر اس کا مسئلہ وہی ہے جو دوسری اقلیتی زبانوں کا ہے۔ اسی لیے اسے ایک متحدہ پالیسی کے تحت حل کیا جا سکتا ہے جو قومی مزاج کے سانچے میں پوری طرح سے اترے اور تمام ریاستوں کے لیے قابل قبول ہو اور وہ لسانی اقلیتوں کا ایک نیشنل کوڈ بن سکے۔

.3        موجودہ صورت حال میں کئی زبانوں کا ادعا ہے کہ وہ ہندی علاقوں میں لاکھوں عوام کی مادری زبانیں ہیں۔ وہ اپنا حق مانگ رہی ہیں لیکن انھیں یہ حق نہیں دیا گیا ہے۔ اب انھیں تسلیم کیا جائے اور انھیں تعلیم کے معاملے میں آٹھویں شیڈول کی زبانوں کے ساتھ شامل کیا جائے۔

.4        عوامی پالیسیوں کو آنکا جائے اور اردو کے موقف کو متعین کیا جائے۔ موجودہ سہولتوں کی جانچ ہو تاکہ اردو ذریعۂ تعلیم بنے اور اسے پرائمری سطح سے ثانوی سطح تک پڑھانے کا مستقل انتظام ہو تا کہ اردو کو تعلیم کے سیکولر نصاب میں اپنا جائز مقام حاصل ہو۔

.5        کسی بھی گروہ یا علاقے کی تعلیمی پستی کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے جدید تعلیم سے متعارف کروایا جائے اور ہندوستانی حالات میں اس کی تمام تر ذمّے داری حکومت پر ہے۔ ریاستی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ لسانی تعلیمی نظام کے سانچے میں رہتے ہوئے ہر اس زبان کو، جو مطالبہ کرے کہ وہ ہندوستان کے ایک مخصوص علاقے میں رہنے والوں کی زبان ہے ،ضروری سہولتیں فراہم کریں۔

.6        خاص طور پر ان تمام لوگوں کے لیے جو اردو کے اپنی مادری زبان ہونے کا اعلان کرتے ہیں ، اردو کو پرائمری سطح پر مادری زبان کی حیثیت سے ان اسکولوں کے نصاب میں شامل کیا جائے جو حکومت کے ہیں یا حکومت کی امداد سے چلائے جاتے ہیں اور وہ بھی جو بورڈ آف ایجوکیشن کے تسلیم کردہ ہیں۔

پرائمری تعلیم کو عام سطح پر فروغ دینے کے لیے اردو میڈیم کے پرائمری اسکول ان علاقوں میں کھولے جانے چاہئیں جہاں اردو بولنے والوں کی اکثریت ہو چا ہے وہ دیہات ہو کہ شہر اور یہ قومی اصولوں کے مطابق ہو کہ ہر تین سو اردو بولنے والے خاندانوں میں ایک اسکول ہو۔ اگر اردو بولنے والے دور دور تک پھیلے ہوئے ہیں تو ان فاصلوں کا لحاظ کرتے ہوئے مناسب مرکزی مقام پر پرائمری اسکول کھولا جائے۔

علاقائی یا ریاست کی مقتدر زبان کو اردو میڈیم اسکول کی تیسری جماعت سے متعارف کیا جانا چاہیے۔

ثانوی تعلیم کے لیے سارے بچوں کا ایک کامن میڈیم ہو جو چھٹی جماعت سے متعارف کیا جائے۔ یہ علاقائی زبان میں ہو یا پھر ریاست کی مقتدر زبان میں۔ اردو بولنے والے طلبہ کو چھٹی جماعت سے دسویں تک اردو لازمی زبان کے طور پر پڑھائی جائے اور یہ سہ لسانی فارمولے کے تحت ہو۔ اس کے ساتھ ہندی یا ریاست کی پرنسپل زبان دوسری لازمی زبان قرار دی جائے۔ لیکن اردو کو چھٹی جماعت سے غیر اردو داں طالب علموں کے لیے دوسری زبان کی حیثیت سے اختیاری مضمون میں شامل کیا جائے۔

غیر ہندی ریاستوں میں اردو کو زبان اول قرار دیا جائے تو اس کا متبادل اردو ہندی کا مخلوط کورس بھی ہو۔

ثانوی جماعتوں میں طالب علموں کو اختیار رہے کہ وہ انگریزی یا کوئی کلاسیکل زبان تیسری زبان کی حیثیت سے پڑھ سکیں۔

کانفرنس تسلیم کرتی ہے کہ سنسکرت بڑی اور اہم زبان کی حیثیت سے ایک ورثہ ہے لیکن اسے نہیں چاہیے کہ کسی کی مادری زبان کو اس کے تعلیمی نظام سے باہر کرے۔

.7        کوئی بھی مذہبی تعلیم حکومت کے اخراجات سے ہو، یہ بڑی نامناسب بات ہے ، یہ غیر دستوری بھی ہے۔ لہٰذا مدرسوں کا نظام تعلیم جو بہت ہی کم مسلمان بچوں کو اسلام کی بنیادی تعلیم دے سکتا ہے اور ایسے مذہبی علما کو پیدا کر سکتا ہے جو قوم کے محدود مفادات پورے کر سکتے ہیں اور مذہبی اسکالرشپ کا سلسلہ جاری رکھ سکتے ہیں اس نظام کو قوم کے مطالبات پر چھوڑ دینا چاہیے۔ حالاں کہ مدرسوں کا نظام تعلیم مسلمانوں میں بہت ہی محدود علمی گنجائش فراہم کرتا ہے۔

.8        ابتدائی لازمی تعلیم کے لیے حد عمر 14 سے بڑھا کر 15 سال کر دینا چاہیے۔ یہ ثانوی تعلیم کے امتحانات دینے کی اقل ترین عمر ہے۔

حال میں دستور کی ترمیم کے ذریعے تعلیم کو بنیادی حق قرار دیا گیا ہے۔ اس میں ایسی قانونی دفعات کا اضافہ ہونا چاہیے جن سے پرائمری تعلیم، تعلیم میں یکسانیت اور ایسے قومی اصولوں کا نفاذ ہو جو پرائمری اور ثانوی اسکولوں کے قیام کو منظوری دے اور اردو والوں کے مطالبے پر اسکول کے مقام کا تعین کرے۔

اس کے علاوہ دفعہ 350A جو مادری ذریعۂ تعلیم سے متعلق ہے ، اس میں بھی ترمیم کی جائے اور مادری ذریعۂ تعلیم کو لازمی قرار دیا جائے۔

دفعہ 347 کے ذریعے لسانی اقلیتوں کو جو خاص مراعات دی گئی ہیں اور اس غرض کے لیے جو ضروری آبادی "Substantial population” کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے ، اس کی وضاحت ہونی چاہیے substantial کا مطلب "negligible” نہیں ہے۔ اور کسی صورت میں بھی ہر انتظامی مرحلے پر ضروری سہولتیں ان تمام لسانی اقلیتوں کو پہنچائی جانی چاہئیں جہاں 5 فیصد عوام ہی اس زبان کو کیوں نہ بولتے ہوں۔

لسانی اقلیتوں کے کمشنر کو (CLM) دستوری اختیار دینے کے باوجود وہ اپنے اختیارات استعمال کرنے سے قاصر ہے اور ریاستی حکومتیں اس کی ضرورت کی معلومات بھی اسے مہیا نہیں کرتیں۔ اگرچہ کہ CLM کی رپورٹیں پارلیمنٹ کے ٹیبل پر پیش کی جاتی ہیں لیکن نہ ان پر بحث ہوتی ہے اور نہ ہی ان پر کوئی توجہ دی جاتی ہے کیوں کہ وہ صحیح اطلاعات سے عاری ہوتی ہیں۔ کانفرنس کی تجویز ہے کہ اس عہدے کو برخاست کیا جائے اور اس کی جگہ نیشنل کمیشن برائے لسانی اقلیتیں قائم کیا جائے اور جسے جزوی طور پر عدلیہ کے اختیارات بھی سونپے جائیں۔

.9        جمہوریت کی بقا ایک ایسی سوسائٹی میں جہاں قوموں کی کثرت ہو، ایسی ہی صورت میں ممکن ہو سکتی ہے کہ اقلیتوں کی زبان اور ثقافت کا وجود باقی رہے۔ اردو ایک اعلیٰ زبان ہے۔ ہماری مخلوط ثقافت کی علامت اور سیکولر اقدار کو لاد کر چلنے والی گاڑی ہے ، یہ خاص توجہ کی مستحق ہے۔

اردو کو خود اپنی جائے پیدائش میں متروک ہونے سے بچایا جائے کیوں کہ بیرون ملک اس کا بول بالا ہے۔ اس کے احیا کے لیے ایک ایسی قومی تحریک کی ضرورت ہے جسے مضبوط قومی سیاسی ارادے کی پشت پناہی حاصل ہو۔ یہ وقت کا تقاضا ہے۔ ایسی تحریک جو اقلیتوں کے تعلیمی اور ثقافتی حقوق کے لیے جدوجہد کرے اور ملک کی ساری ریاستوں میں کرے۔ مزید جیسا کہ اوپر کہا گیا ہے ان تمام علاقوں میں نیشنل کوڈ کو نافذ کرے۔

کانفرنس عوام سے اپیل کرتی ہے کہ وہ اس تحریک کا ساتھ دیں چا ہے ان کی سیاسی اور لسانی طرف داریاں کسی بھی گروہ کے ساتھ وابستہ ہوں۔

اطہر فاروقی

سکریٹری ، ذاکر حسین اسٹڈی سرکل

٭٭٭

 

 

 

ضمیمہ۔ II — کانگریس صدر محترمہ سونیا گاندھی کا کانفرنس کے اختتامی اجلاس سے خطاب

 

خواتین و حضرات!

ڈاکٹر ذاکر حسین مرحوم کے 105ویں یوم ولادت کی تقریب میں شریک ہونا میرے لیے باعث مسرت ہے۔ اردو تعلیم کے خصوصی حوالے سے منعقد ہونے والی اس کانفرنس کے ذریعے اس عظیم ماہر تعلیم اور انسان دوست کو نہایت موزوں طریقے سے خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے جس نے عوامی زندگی کو ایک غیر معمولی تابانی بخشی اور ہندوستان کی عظیم الشان تہذیب و ثقافت کو بام عروج پر پہنچایا۔

مجھے دنیا کے مختلف خطوں سے آئے ہوئے مقتدر اسکالرز اور دانشوروں کی اس کہکشاں میں آکر بے حد فخر کا احساس ہو رہا ہے۔ ان علماء اور دانشوروں نے اپنی علمی فتوحات میں ہندوستانی نیشنلزم کے فروغ و ارتقا کے سفر میں اردو زبان کے فیصلہ کن اثرات کا معروضی تجزیہ کیا ہے۔ حضرات! آپ جس اجتماع میں رونق افروز ہیں یہ آزادی کے بعد دہلی میں اردو کے تعلق سے اپنی نوعیت کا ہر اعتبار سے عظیم ترین اور منفرد اجتماع ہے۔ اس کانفرنس کے ذریعے منتظمین نے اردو زبان کو قومی فکر کا ایک جزو لاینفک بنانے کی کامیاب سعی کی ہے۔ اسی لیے اس کانفرنس کا انعقاد ہمارے عظیم قومی تعلیمی مقاصد کے حصول کی راہ میں سنگ میل ثابت ہو گا۔

گزشتہ سو برسوں میں اردو اور انڈین نیشنل کانگریس ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم رہے ہیں۔ جس طرح ہندوستان کے مجموعی مگر جدید قومی مزاج کی تشکیل کانگریس نے کی ہے اسی طرح جدید ہندوستانی زبانوں کے لسانی مزاج اور جدید ہندوستانی ثقافت کی تشکیل میں اردو کا فیصلہ کن رول رہا ہے۔ اردو نے جس تیزی کے ساتھ ترقی کر کے ایک ایسی زبان کی حیثیت اختیار کر لی جو سترہویں صدی میں ہندوستان کی لنگوا فرینکا بن گئی، اور جس کے پاس اس وقت عظیم ادب کا مہتم بالشّان ذخیرہ بھی تھا، اردو کی ان خوبیوں کو اپنی تشکیل کے دور میں دوسری زبانوں خصوصاً ہندی نے بھی اختیار کرنے کی کوشش کی اور اردو کی ہموار کردہ لنگوا فرینکا (رابطے کی زبان) کی راہ پر چل کر ہی ہندی آزادی کے بعد خود کو جنوب کی ریاستوں میں توسیع پذیر کر سکی۔ اردو نے ، جو ادبی زبان کے طور پر جنوب میں ابتدا ہی میں اپنی حیثیت تسلیم کرا چکی تھی اور جس کے لسانی اثرات وہاں کے معاشرے میں اس طرح سرایت کر گئے کہ مقامی زبانوں کے اثرات فیصلہ کن انداز میں اثر انداز ہوئے تو اسی کا یہ نتیجہ ہوا کہ جب اردو جیسی ہی لسانی ساخت کی زبان ہندی نے جنوب میں اپنے پیر جمانے شروع کیے تو اردو کی وہاں پہلے سے موجود مہتم بالشّان ادبی روایت نے اس کی بہت مدد کی۔

تاریخی اعتبار سے اردو اور ہندی دونوں بہنیں ہیں اور تہذیبی و سیاسی نشاۃ الثانیہ لانے میں ایک دوسرے کی ہم قدم رہی ہیں۔ امیر خسرو کے وقیع کارنامے اور ہمارے عہد میں پریم چند کی تخلیقات اردو ہندی کی مشترکہ ادبی میراث ہیں۔ اردو اور ہندی کی مخلوط شکل جسے ہم ہندوستانی کہتے ہیں ، اس کے بارے میں انڈین نیشنل کانگریس نے جدوجہد آزادی کی ابتدا میں ہی یہ طے کر لیا تھا کہ یہ اردو اور ہندی دونوں رسوم خط میں آزاد ہندوستان کی قومی زبان ہو گی۔

’انقلاب زندہ باد ’ کا نعرہ اس  ’ہندوستانی ’ کی ہی دین ہے جس کی بازگشت ہمارے اس قومی شعور کا حصہ ہے جس نے جدوجہد آزادی میں ہم سب کو متحد کیے رکھا۔ گاندھی جی نے  ’ہندوستانی ’ کو آزادی کے بعد قومی زبان بنانے کی تجویز پیش کی جو آج ہندوستان کی قومی زبان نہ ہونے کے باوجود بھی ملک کے بیشتر گھروں اور گلیوں میں بولی جانے والی زبان ہے۔

آزادی کے بعد انڈین نیشنل کانگریس نے ملک کی دیگر اہم زبانوں کے ساتھ اردو کو بھی ہندوستانی آئین کے آٹھویں جدول میں (قومی زبان کی حیثیت سے ) شامل کیا۔ اردو ملک کے مختلف حصوں میں رہنے والے لاکھوں لوگوں کی زبان تھی۔ اس زبان کی شیرینی، لطافت اور حسن کی کشش ان لوگوں کو بھی اپنی طرف کھینچتی ہے جنھیں یہ شرف حاصل نہیں ہوا کہ (وہ پیدائشی طور پر) اردو مادری زبان والے کہلائیں۔ یہ بہت اہم ہے کہ اردو دوست حضرات اسے کسی ایک فرقے یا مذہب سے جوڑ کر محدود نہ کریں۔ اردو بھائی چارے اور امداد باہمی کی طاقت ور ترین علامت ہے ، یہ ارتباط اور اتحاد کی زبان ہے۔

یہ کسی ایک خطے یا فرقے کی زبان نہیں ہے۔ یہ ہندوستان کی مشترکہ وراثت کا لازمی حصہ ہے۔ یہ بات البتہ افسوس ناک ہے کہ کچھ فسطائی طاقتیں زبان کی سیاست کو مسلسل ہوا دیتی رہی ہیں اور اس سازش کے تحت اردو پر غیر ملکی زبان کا ٹھپہ لگانے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں جب کہ یہ ایک تسلیم شدہ تاریخی حقیقت ہے کہ اردو دہلی کے اسی خطے میں پیدا ہوئی اور پروان چڑھی جہاں ہم آج یہ تاریخی کانفرنس کر رہے ہیں۔ اردو دشمن عناصر کی اس سازش کو ناکام کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جو اردو کو غیر ملکی زبان بنا دینا چاہتے ہیں ، ہم ان کے ارادوں اور اردو کے خلاف ان کی منظم سازشوں سے واقف اور باخبر رہیں۔ اردو کے خلاف سازشیں کرنے والی فسطائی طاقتیں اردو کو ہندی کی ایک شیلی (طرز) قرار دے کر اس کے خود مختار وجود کو ختم کر کے اسے ہندی میں ضم کرنے یعنی ہندی کی غلام بنانے کی کوششوں میں ایک صدی سے زیادہ عرصے سے مصروف ہیں۔ اس سازش کے پس پردہ ان فرقہ پرست اور فسطائی طاقتوں کا مقصد شمالی ہند کے ان خطوں میں ، جہاں ہندی بھی بولی جانے لگی ہے اور جہاں اردو پیدا ہوئی، وہاں اردو کے اس آئینی حق کو غصب کرنا ہے جو اسے دوسری سرکاری زبان کی حیثیت سے ملنا ہی چاہیے۔ خصوصاً اتر پردیش میں جہاں اردو بولنے والوں کی اکثریت ہے۔

یہ امر بھی بے حد افسوس ناک ہے کہ مختلف فرقوں میں نفرت کا بیج بونے والی فسطائی اور اردو دشمن قوتیں آج اقتدار پر قابض ہونے میں کامیاب ہو گئی ہیں اور سیاسی و مذہبی منافرت اور اساس پرستی کو ہوا دے رہی ہیں۔ اسطرح کی حرکتیں ہمارے عظیم ملک کے ماتھے پر بدنما داغ ہیں۔ اردو کا مسئلہ انسانیت کے پر امن تصور سے ، تمام انسانوں کی باہمی زندگی کے تصور سے وابستہ ہے جو تمام مذاہب کی روح بھی ہے۔ اردو کا مستقبل اور ہماری سیکولر روایات ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔

آج اردو کے سیاق و سباق میں سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسے اسکولوں میں نصاب کی سطح پر زیادہ سے زیادہ طلبہ اختیار کریں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب قومی تعلیمی پالیسی کے سہ لسانی فارمولے میں مادری زبان کے خانے میں اردو کو وہی حیثیت ملے جو دوسری زبانوں کو ملتی ہے۔ اس کے لیے نصاب کی تیاری کی سطح پر اردو میں مسلسل کام کرنا ہو گا تاکہ اردو نصاب ایسا دلکش معیاری اور بامعنی ہو کہ طلبہ اردو کو نہ صرف اختیار کریں بلکہ اس کا مطالعہ بھی جاری رکھیں۔

نصاب کی سطح پر اب بی جے پی کی سازشوں کی سب سے بڑی آماجگاہ این سی ای آر ٹی سے ہوشیار رہنے کی شدید ضرورت اردو والوں کو ہے۔ این سی ای آر ٹی کے ذریعے بی جے پی تاریخ کی تحریر نو اپنے فسطائی ایجنڈے کے مطابق کرنا چاہتی ہے۔ این سی ای آر ٹی کی حیثیت وزارت تعلیم میں نصاب سے متعلق مشاورتی سطح کے ادارے کی ہے۔ وزارت تعلیم کو راجیو گاندھی نے وزارت فروغ انسانی وسائل جیسا خوبصورت نام دیا تھا مگر اب یہ وزارت انسانی وسائل کو وحشی وسائل میں تبدیل کرنے کی وزارت بن چکی ہے جو ہندوستان کے کثیر ثقافتی مزاج کے خلاف گہری سازشوں میں مصروف ہے ، جو تمام زبانوں کو ہندوتوا کے ایجنڈے کے مطابق مٹا دینا چاہتی ہے ، جو زبان کے نام پر ہندوتوا قوتوں کے لیے اقتدار کے حصول کو سہل بنا کر ہندوستان کے مشترکہ سیکولر کلچر اور اس کے خلقیے کو فنا کر دینے کے درپے ہے۔

وزارت ترقی انسانی وسائل کے فسطائی رویوں کا خصوصی ہدف دینی مدرسے بھی ہیں اور ان کی نام نہاد جدید کاری کے پس پشت اور انٹرنل سیکورٹی کے نام پر بی جے پی کا مقصد دینی مدارس کو ان کے مقدس مقاصد سے ہٹا کر ان کے حصول کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنا ہے۔ اردو کو فنا کرنا بی جے پی کے مقاصد میں سر فہرست ہے۔

یہ صحیح ہے کہ دینی مدارس کی جدید کاری ہونی چاہیے اور راجیو گاندھی نے اس اسکیم کی بنیاد اس وقت رکھی جب وزارت تعلیم کو وزارت ترقی انسانی وسائل میں تبدیل کیا جا رہا تھا، اور مدرسوں کی جدید کاری کی اسکیم کو مضبوط سائنٹفک بنیادیں فراہم کیں۔ دینی مدارس از خود وقت سے ہم قدم ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مگر ثقافت کے خود ساختہ ٹھیکے دار اس امر کو فراموش کر دیتے ہیں کہ دینی مدارس اردو کی تعلیم کے مراکز صرف اس وجہ سے بن گئے ہیں کہ سیکولر نصاب تعلیم میں اردو تعلیم کے لیے گنجائشیں مفقود ہیں جب کہ اردو کو سیکولر نصاب تعلیم کا لازمی جز ہونا چاہیے۔ پرائمری سے سیکنڈری سطح تک اردو تعلیم کا نظم حکومت کی سب سے اہم ذمے داری ہے اور اردو والوں کو اس کا مطالبہ پوری شدت سے حکومت سے کرنا چاہیے۔ آئین کی 93ویں ترمیم کے بعد اردو والوں کو اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے کا حق ان کے بنیادی حق کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے اور اس کا نفاذ فوراً کیا جانا چاہیے۔ مذہبی اقلیتوں کو اپنے مذہب کی تعلیم کے لیے مذہبی درس گاہیں کھولنے اور چلانے کا حق ہے مگر ہندوستان میں اردو اور اسلام ہر حال میں دو الگ الگ چیزیں ہیں۔

اسی مقصد کے پیش نظر کانگریس نے اردو زبان و تعلیم کے احیا کے لیے بنیادی نوعیت کے کام کیے ہیں تاکہ اس زندہ زبان اور اس کی عظیم وراثت کے فروغ اور تسلسل میں ہر ہندوستانی شہری شریک ہو سکے۔ جن صوبوں میں کانگریس کی سرکاریں ہیں وہاں پرائمری سے سیکنڈری سطح تک  اردو تعلیم کے فروغ کے لیے خصوصی اقدام کیے جا رہے ہیں۔ مجھے پختہ یقین ہے کہ اس تاریخی کانفرنس میں آپ کے مباحث مستقبل کے پالیسی سازوں کے لیے فیصلہ کن حیثیت کے حامل ہوں گے۔ دہلی اردو کا منبع ہے اور ہندوستان میں اس کا مسکن بھی۔ اردو نے ہندوستان کی طرح ہی ہر اختلاط سے خود کو وقیع کیا ہے :

کارواں بستے گئے ، ہندوستان بنتا گیا

مجھے توقع ہے کہ اس تاریخی کانفرنس کے انعقاد اور دہلی شہر میں قیام کے دوران آپ کا یہ یقین اور مضبوط ہوا ہو گا کہ اردو کے اثرات نے ہندوستان کی اس مشترکہ تہذیب کو مخصوص انفرادیت بخشی ہے جو بالخصوص حسن اور وسیع القلبی سے عبارت ہے

٭٭٭

 

 

 

بین الاقوامی اردو کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں  دہلی کی وزیر اعلا محترمہ شیلا دکشت کی تقریر

 

ڈاکٹر ذاکر حسین اسٹڈی سرکل کے سرپرست عزت مآب خورشید عالم خاں صاحب، جموں و کشمیر کے وزیر اعلا ڈاکٹر فاروق عبداللہ، ذاکر حسین اسٹڈی سرکل کے صدر جناب سلمان خورشید صاحب، موڈرن ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے صدر جناب مختارالامین صاحب، ہندوستان میں کونارڈ ایڈ نیوز فاؤنڈیشن کے نمائندے پروفیسر ڈبلیو گرٹ کویک، دہلی پبلک اسکول سوسائٹی کے چیئرمین جناب نریندر کمار، ڈاکٹر ذاکر حسین اسٹڈی سرکل کے سکریٹری اور اس بین الاقوامی کانفرنس کے کنوینر ڈاکٹر اطہر فاروقی اور خواتین و حضرات!

سب سے پہلے میں اس کانفرنس کے منتظمین کو مبارک باد پیش کرتی ہوں جنھوں نے  ’اکیسویں صدی کی ہندوستانی جمہوریت میں اقلیتوں کی تعلیم اور ان کے مسائل کا مطالعہ — اردو زبان کے خصوصی حوالے سے  ’ کے عنوان سے اس بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ یہ موضوع  ’ہندوستانی قوم ’ کے اس تصور اور اس کے فروغ سے وابستہ ہے جس کے زیر اثر ذاکر حسین نے اپنی پوری زندگی تعلیم کے لیے وقف کر دی اور ہندوستان کی قومی تعلیمی پالیسی کی تشکیل کے لیے اپنے ہم خیال قوم پرستوں کے ساتھ مل کر ایک اردو میڈیم یونی ورسٹی کی بنیاد ڈالی جسے ہم آج جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نام سے جانتے ہیں مگر افسوس کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کا اردو یونی ورسٹی کا کردار باقی نہ رہ سکا۔ اس بین الاقوامی کانفرنس کا موضوع پرائمری سے ثانوی سطح تک اسکولوں میں اردو کی تعلیم ہے۔ اس کانفرنس کے مرکز میں اردو لسانی اقلیت کے عمومی تعلیمی مسائل بھی ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اردو لسانی اقلیت ہندوستان کی تعلیمی اور اقتصادی اعتبار سے سب سے زیادہ پسماندہ اقلیت ہے اور موجودہ حالات کے تناظر میں ان کے مسائل پر غور و فکر کرنے کی شدید ضرورت ہے۔

آج کا یہ عظیم الشان علمی اجتماع اس امر کا ثبوت ہے کہ اردو لسانی اقلیت کے مسائل پر سنجیدہ بحث و تمحیص کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے اور اردو والوں کی لیڈر شپ جذباتی نعروں سے باہر آ گئی ہے۔

مجھے پوری امید ہے کہ یہ تاریخی کانفرنس اردو زبان کو سیکولر نصاب تعلیم کا لازمی جز بنا کر اسے قومی نصاب کا حصہ بنانے کی فضا ہموار کرے گی۔ اس کانفرنس کے منتظمین سے تعاون کرنے میں مجھے فخر کا احساس ہو رہا ہے کیوں کہ یہ بین الاقوامی کانفرنس زبانوں کی قومی پالیسی سے متعلق اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنا چاہتی ہے جو جنگ  آزادی کے دوران ہمارے قومی رہ نماؤں نے دیکھا تھا مگر فسطائی قوتوں نے اسے شرمندۂ تعبیر نہ ہونے دیا۔

ڈاکٹر ذاکر حسین آزاد ہندوستان کے تعلیمی نظام کے پالیسی سازوں میں اہم مقام کے حامل ہیں۔ انھوں نے آزادی کے بعد اردو کو ملک کی تعمیر و ترقی کا ذریعہ بنانے کی پوری کوشش اس طرح سے کی کہ یہ زبان شمالی ہند میں آئینی طور پر علاقائی زبان کا وہ درجہ حاصل کر لے جو اسے آزاد ہندوستان میں آئینی طور پر پہلے ہی دن مل جانا چاہیے تھا۔ بلاشبہ شمالی ہند اردو کا علاقہ ہے اور یہاں کی تمام علاقائی زبانوں سے جس طرح اردو نے کسب فیض کیا ہے اس کی دوسری کوئی مثال نہیں ملتی۔ آزادی کے بعد جب ہندی نے اپنے مستقبل کے لائحۂ عمل کا تعین اور اپنی لسانی تشکیل کا کام شروع کیا تو نہ صرف یہ کہ اس نے اردو کے ماڈل کو اختیار کیا بلکہ اردو کی ہموار کردہ زمین پر ہی شمالی ہند میں ہندی پروان چڑھ سکی۔ مگر جو ہندی سنسکرت سے بہت زیادہ قریب ہو گئی اس کا عوام سے رابطہ قائم نہ ہو سکا اور آج سرکاری ہندی سے عوام خاصے نالاں ہیں۔ 1952 میں ڈاکٹر ذاکر حسین نے اس وقت کے صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرساد کی توجہ اردو کے مسائل کی طرف دلائی۔ ڈاکٹر راجندر پرساد خود بھی گاندھی جی اور ذاکر حسین کے ساتھ تمام ہندوستانی زبانوں کے یکساں فروغ کے حامی تھے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین نے 1952 میں اردو کو اس کا جائز مقام دلانے کے لیے بائیس لاکھ لوگوں کا دستخط شدہ میمورنڈم صدر جمہوریہ ہند کو پیش کیا جس میں آئین ہند کی دفعہ 347 کے تحت اردو زبان کو شمالی ہند کی علاقائی زبان قرار دے کر اسے سرکاری طور پر اتر پردیش کی ایسی زبان تسلیم کرنے کی درخواست کی گئی تھی جس میں سرکاری کام ہونے کا سلسلہ منقطع نہ ہو۔ یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ آزادی سے پہلے شمالی ہند کے سرکاری دفاتر، عدالتوں اور قومی زندگی میں تمام کام صرف اردو میں ہوتے تھے۔ بعد میں علاقائی زبان کے اس درجے کے لیے  ’دوسری سرکاری زبان ’ کی اصطلاح استعمال کی جانے لگی۔ ذاکر صاحب نے اردو کے لیے علاقائی زبان کا مطالبہ کر کے اردو کے لیے قومی زبان کے طور پر شمالی ہند میں ہندی کے مساوی حقوق کا مطالبہ ہی کیا تھا۔ ہندوستانی جمہوریت کے سفر کے تسلسل کے ساتھ ہی ذاکر صاحب بھی ایک روز اس جمہوریہ کے صدر بن گئے۔ صدر جمہوریہ کے طور پر ذاکر صاحب کا انتخاب اس بات کا ثبوت تھا کہ ملک نے اردو کے تئیں ذاکر صاحب کے خیالات اور ان کے مطالبات کو نظریاتی طور پر منظور کر لیا مگر ذاکر صاحب کی تحریک جس تسلسل کا مطالبہ کرتی تھی خود اردو والے اسے قائم نہ رکھ پائے۔ امید ہے کہ یہ کانفرنس اردو تحریک کے منقطع سلسلوں کو جوڑ کر اردو کو قومی زندگی، قومی تعلیمی نصاب میں قومی زبان کی حیثیت سے شامل کرنے کے لیے منظّم کوششیں کرے گی۔ اردو کے لیے بار بار دوسری سرکاری زبان کا لفظ استعمال ہونے سے بڑی غلط فہمی پھیلی ہے۔ دراصل ہندوستانی آئین نے آٹھویں جدول میں شامل تمام زبانوں کو مساوی حیثیت کی قومی زبانیں تسلیم کیا ہے جن میں اردو بھی شامل ہے۔ کسی ایک زبان کے لیے قومی زبان کا لفظ آئین میں استعمال نہیں ہوا ہے۔ البتہ دفتری ضرورت کے تحت ہندی کو سرکاری زبان Official Language of the Union کا درجہ دیا گیا ہے اور صوبوں کو یہ آزادی ہے کہ وہ اپنی علاقائی زبانوں کو سرکاری کام کاج کے لیے استعمال کریں۔ شمالی ہند میں سرکاری استعمال کی زبان کے طور پر اردو کی مہتم بالشان روایت ہے اس لیے شمال کے تمام صوبوں میں سرکاری کام اردو اور ہندی میں ہونا چاہیے اسی لیے دہلی حکومت نے سرکاری کام کاج میں اردو کو ہمیشہ ترجیح دی ہے اور اب تو باقاعدہ پنجابی کے ساتھ اردو دہلی کی دوسری سرکاری زبان ہے ، مگر قومی راجدھانی ہونے کی وجہ سے دہلی میں سرکاری کام کاج کے کلچر پر انگریزی کا خاصہ غلبہ ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ مجھے پوری امید ہے کہ یہ کانفرنس عملی زندگی اور تعلیمی نظام میں اردو کی شمولیت کے لیے ہر سطح پر سنجیدہ کوشش کرے گی اور اس کا سب سے زیادہ اثر دہلی میں پڑے گا جہاں اردو تعلیم کا نظام سب سے زیادہ مضبوط ہے۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ اس کانفرنس کے کنوینر ڈاکٹر اطہر فاروقی نہ صرف اردو کے حقوق کے لیے عوامی رائے عامہ ہموار کر رہے ہیں بلکہ اسے قانونی حیثیت دلانے کے لیے بھی مثبت کوششیں کر رہے ہیں اور فاروقی صاحب کے ایما پر آئین پر نظر ثانی کرنے والے کمیشن نے اردو کے حقوق کے لیے زیادہ موثر اقدام تجویز کیے ہیں۔ آئین پر نظر ثانی کرنے والا کمیشن فاروقی صاحب کی درخواست پر خصوصاً دفعہ 347 کی ایسی تشریح کرنا چاہتا ہے کہ تمام ریاستوں میں گرام پنچایت سے لے کر صوبائی سطح تک ہر اس جگہ اردو میں بھی سرکاری کام ہو جہاں اردوداں آبادی پانچ فیصد یا اس سے زیادہ ہے۔ ظاہر ہے کہ جب اردو میں کام ہونے لگے گا تو اس کی تعلیم کے مواقع بھی بڑھیں گے۔

1956 میں لسانی بنیادوں پر ریاستوں کی تشکیل جدید کے بعد ہندوستان کے لسانی نقشے میں غیر معمولی نوعیت کی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ اگر چہ ریاستوں کی تنظیم نو کا مقصد بہتر انتظامی ڈھانچہ فراہم کرنا تھا مگر شمالی ہند میں یہ مقصد حاصل نہ کیا جا سکا کیوں کہ ریاستوں کی تشکیل جدید کے وقت اتر پردیش کی تنظیم نو ضروری تھی جو بہ وجوہ نہ ہو سکی۔ مگر حال ہی میں اتراکھنڈ، جھارکھنڈ وغیرہ کی تشکیل کے ساتھ شمالی ہند میں ایک نئے انتظامی ڈھانچے کی ابتدا ہو گئی ہے۔ امید ہے کہ آئندہ یہ نظام اور بہتر ہو گا خواہ اس کے لیے کچھ اور صوبوں کی تشکیل کیوں نہ کرنی پڑے۔ لسانی طور پر شمالی ہند کی کئی اور زبانوں مثلاً اودھی، برج، میتھلی، مَکھئی، بھوج پوری وغیرہ کو مستقل بالذات زبانوں کے طور پر آئین کے آٹھویں جدول میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔

مگر میں یہ ضرور عرض کرنا چاہوں گی کہ اب ہمارا معاشرتی ڈھانچہ تیزی سے بدل رہا ہے۔ اب زندگی میں زبانوں کا رول بھی ماضی سے مختلف ہو گا اور بڑے شہروں میں پیدا ہونے والی نئی نسل کے لیے مادری زبان کی تعریف بھی بدل جائے گی۔

کاش آج ڈاکٹر ذاکر حسین اور پنڈت نہرو زندہ ہوتے تو وہ یقیناً متعدد وردھا اسکیموں کی ضرورت محسوس کرتے۔ آزادی کے بعد ہماری تعلیمی پالیسی میں کافی تبدیلی آئی جو ناگزیر تھی۔ آج ہمارا تعلیمی نظام دنیا کے کسی بھی خوش حال ملک سے کمتر نہیں۔ ہندوستان کا انفارمیشن ٹکنالوجی کے میدان میں بھی اہم رول ہے۔ موجودہ عالمی تناظر میں اردو کے ساتھ ساتھ سبھی ہندوستانی زبانوں کو ماضی سے الگ ایک نئے قسم کا کردار ادا کرنا ہو گا۔ مگر میں یہ ضرور کہوں گی کہ صرف کمپیوٹر سے نہ اردو کا موڈرنائزیشن ہو سکتا ہے اور نہ مدرسوں کا۔ کمپیوٹر ایک علم ہی نہیں ایک انداز فکر ہے جو آپ کے ذہن کو نئی جولان گاہیں تلاش کرنے کی طرف راغب کرتا ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنے میں کوئی تکلف نہیں ہونا چاہیے کہ کمپیوٹر کے نظام کا خلقیہ مکمل طور پر انگریزی ہے اور کمپیوٹر میں ڈی ٹی پی آپریٹنگ کی کوئی حیثیت نہیں اس لیے جب تک ہندوستانی زبانوں اور خصوصاً اردو نظام تعلیم کا قالب پوری طرح تبدیل نہ ہو، کمپیوٹرائزیشن کی تمام سرکاری اسکیمیں بے سود ہیں۔ میں ایک وزیر اعلا کی حیثیت سے اسکالروں کی محفل میں ایسی کوئی بات نہیں کہنا چاہتی جسے سرکاری ضرورت کے تحت اعداد و شمار کی بازیگری کہا جائے۔ ابھی میں باہر امریکی پروفیسر باربرامٹکاف سے بات کر رہی تھی۔ دینی مدرسوں اور مسلم معاشرے کے بارے میں ان کا علم کسی بھی ہندوستانی اسکالر سے زیادہ ہے۔ انھوں نے بھی اس امر سے اتفاق کیا کہ جب تک سیکولر نظام تعلیم میں اردو نہ ہو، مدرسوں کی جدید کاری قطعی بے سود ہے۔ کمپیوٹر کے بارے میں بھی پروفیسر باربرا نے بڑے پتے کی بات کہی کہ کمپیوٹر مشین ہے اور کوئی مشین اس ذہن کو جدید نہیں کر سکتی جو ہمارے دینی مدارس میں پروان چڑھتا ہے۔ اسی لیے دہلی حکومت کا تمام تر زور اردو ذریعۂ تعلیم کو جدید اور بہتر کرنے میں ہے اور اسی لیے دہلی کے سرکاری اسکولوں میں اردو میڈیم اسکولوں کی صورت حال سب سے بہتر ہے۔ لیکن اردو کے متعلق خصوصاً ڈاکٹر ذاکر حسین کے حوالے سے بعض ایسے سوالات بھی ہیں جو قومی تعلیمی پالیسی میں جگہ پانے سے قبل جواب کے متلاشی ہیں۔ اردو زبان سے جڑے ہوئے کچھ دوسرے مسائل بھی ہیں جو کچھ حد تک ہماری خارجہ پالیسی کو بے حد مثبت انداز میں متاثر کر سکتے تھے۔ چوں کہ اردو مغربی ایشیا، مغربی یورپ اور امریکہ کے کئی ممالک میں جہاں برصغیر سے بہت سے لوگ ہجرت کر کے جا چکے ہیں واحد لنگوا فرینکا ہے اور ہندوستان میں اردو کی مضبوط بنیاد پاکستان کے ساتھ ہماری خارجہ پالیسی کا اہم حصہ ہو سکتی ہے اس لیے اگر ہم ہندوستان میں اردو کے مسائل کی فہرست بنائیں تو درج ذیل مسائل سر فہرست رہیں گے۔

پہلا مسئلہ آئین کے آرٹیکل 350 الف کے تحت بچے کو مادری زبان میں تعلیم دینے سے  متعلق ہے۔ اردو بولنے والے لوگ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے بچوں کو اپنی مادری زبان میں پرائمری تعلیم حاصل کرنے سے محروم کر دیا گیا ہے۔ اصولاً بچے کی مادری زبان کو ذریعۂ تعلیم ہونا چاہیے اور مادری زبان وہ ہے جو بچے کی ماں بولتی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ زبان آئین کے آٹھویں شیڈول میں شامل بھی ہو۔ مگر شمالی ہند اور خصوصاً اتر پردیش میں یہ زیادتی کی گئی کہ اردو جو آٹھویں جدول میں شامل بھی ہے اور جس کی لسانی اور مستحکم ادبی روایت پر ہی آزادی کے بعد ہندی نے خود کو فروغ دیا، اسے نظام تعلیم اور انتظامیہ سے بالکل خارج کر دیا گیا۔ سہ لسانی فارمولے میں یوپی اور شمالی ہند کی دیگر ریاستوں نے جدید ہندوستانی زبان کے خانے میں سنسکرت کو رکھ کر اردو اور سنسکرت دونوں کے ساتھ سخت ناانصافی کی۔ جس کے نتیجے میں اب شمالی ہند میں اردو والوں کی تین نسلیں اردو سے بالکل ناواقف اور اس کی اس عظیم روایت سے بے بہرہ بھی ہیں جس نے ہندوستان کی متحدہ قومیت کی تشکیل و تعمیر میں سب سے طاقتور عنصر کا کام کیا۔

اس کانفرنس کو اس مسئلے پر غور کرنا چاہیے کہ کس طرح اردو مادری زبان والوں کو نہ صرف اردو میڈیم سے تعلق حاصل کرنے کا حق ملے بلکہ زبان اول اور لازمی زبان کے طور پر بھی اردو تعلیم کا نظم ممکن ہو سکے۔ جن کی مادری زبان اردو نہیں ہے ان کے لیے شمالی ہند میں اردو ہندی کا لازمی کورس ہونا چاہیے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بچوں کو لازمی طور پر ان کی مادری زبان میں تعلیم فراہم کرانے کی ذمے داری ریاست کی ہے۔ آئین ہند کی 93ویں ترمیم کے مطابق چودہ سال کے ان تمام بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم اردو میں دی جائے گی، جن کی مادری زبان اردو ہے۔ 14 برس تک کی یہ تعلیم لازماً اسکول کے نظام کے ذریعے دی جانی چاہیے۔ سرکاری اسکولوں میں بہتر نظم و ضبط کی کمی نے اوپن اسکول جیسے سسٹم کو جنم دیا جو آخرش اقتصادی طور پر خوش حال گھرانوں کے ان بچوں کے لیے زیادہ سودمند ثابت ہوا جو پرائیویٹ اور مہنگے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کی سکت تو رکھتے ہیں مگر کسی وجہ سے ڈراپ آؤٹ ہو جاتے ہیں۔ اس لیے مجھے اس بارے میں کوئی خوش فہمی نہیں کہ نیشنل اوپن اسکول اردو تعلیم کی صورت حال کو بہتر کر پائے گا۔ اردو تعلیم کے نظام کو ہر حال میں ریاست کے زیر انتظام اسکولوں میں ہی بہتر کرنا ہو گا۔ پرائیویٹ اسکول خواہ وہ انگریزی میڈیم کے ہی کیوں نہ ہوں ، بہ مشکل تمام دس فیصد بچوں کو داخلہ دے پاتے ہیں اور اچھے پرائیویٹ اسکولوں میں جانے والے بچوں کا تناسب کسی بھی طرح ایک فی صد سے زیادہ نہیں۔ ان میں اردو لسانی اقلیت کے بچے تو چند ہی ہوتے ہیں۔ اس لیے مجھے امید ہے کہ یہ کانفرنس اردو تعلیم کے متعلق خلط مبحث کے اس سلسلے کو منقطع کرے گی جو سیاسی حالات اور اردو والوں کے منفعل رویے کے سبب مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ پیچیدہ ہو گیا ہے۔ سیدھی بات یہ ہے کہ اردو والوں کے بچوں کو بھی دوسرے بچوں کی طرح تعلیم ملنی چاہیے ، اور ان کی مادری زبان میں ملنی چاہیے اور اس کا انتظام ریاست کو کرنا چاہیے جو اس کی ایسی ذمے داری ہے جس سے کوئی مفر ممکن نہیں۔

میں اردو بولنے والوں سے وقتاً فوقتاً کہتی رہی ہوں کہ وہ اردو تعلیم کی حقیقی صورت حال کا جائزہ لیں اور ادب و ثقافت کی بحثوں سے نکل کر اس امر پر غور کریں کہ جب اردو زبان ہی زندہ نہ رہے گی تو ادب کی بحثیں کون کرے گا اور اچھا ادب بھی ان حالات میں تخلیق نہیں ہو گا۔ آج پھر اس پلیٹ فارم سے یہ درخواست کرتی ہوں کہ اردو والے اپنی تعلیمی حیثیت کا سنجیدگی سے جائزہ لیں اور اردو تعلیم کو قومی تعلیم کے تناظر میں دیکھنے کے لیے عمومی تعلیم کے ماہرین سے مشورہ کریں۔ مجھے خوشی ہے کہ اس کانفرنس کے منتظمین نے آزادی کے بعد پہلی مرتبہ عمومی تعلیم کے ماہرین کو دعوت دے کر اردو کو تعلیم کی قومی پالیسی سازی میں شامل کرنے کی تاریخی کوشش بہت سلیقے سے اور موثر انداز میں کی ہے۔ آج بہت تیزی سے تمام چیزیں بدل رہی ہیں اور آنے والے وقت میں تبدیلی کی یہ رفتار اور تیز ہو گی۔

گلوبلائزیشن موجودہ دور کی ایسی سچائی ہے جسے ہم سب کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے مستقبل کا لائحہ عمل اس طرح تیار کرنا ہو گا کہ ہماری افادیت معاشرے میں باقی رہے۔ اردو والوں کے لیے یہ چیلنج اور بھی بڑا ہے مگر انھیں اس سے بہرحال خود ہی نبرد آزما ہونا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ آج ہندوستان کی قومی سیاست فسطائی قوتوں کے ہاتھوں میں ہے مگر ہندوستان جیسے تکثیریت کے حامل معاشرے میں فسطائیت دیر تک چل نہیں سکتی۔ ہندوستان جیسا وسیع و عریض اور ترقی پذیر ملک کسی ایک کو زیادہ اہمیت دے کر دوسرے کو نظرانداز کر ہی نہیں سکتا۔ جب تک اردو کو قومی مرکزی دھارے میں شامل نہیں کیا جاتا تب تک کسی ہندوستانی زبان کا مسئلہ حل نہیں ہو گا، یہ یاد رکھنے کی ضرورت آج پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ ویسے بھی اب گلوبلائزیشن اور اقتصادی کھلے پن کے دور میں زبانوں کے نام پر سیاست کرنے کی ویسی گنجائش فطری طور پر نہیں ہے جس نے انیسویں صدی کے آخر سے بیسویں صدی کے آخر تک فسطائی قوتوں کے لیے زمین ہموار تھی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ عہد میں ادب کنارے ہو گیا ہے اور تعلیم کے مقصد میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ قدیم تعلیمی پالیسیاں بھی تیزی سے اپنی افادیت کھوتی جا رہی ہیں۔ اس صورت حال میں ہر زبان کے بولنے والوں کو تبدیل شدہ حالات کے مطابق اپنی زبان کے فروغ کے لیے اپنی کوششوں کا از سر نو جائزہ لینا اور ان کی افادیت کو مد نظر رکھ کر پالیسی بنانے میں ان کا استعمال کرنا چاہیے۔ میں نے اس تاریخی سمینار کے زریں موقعے کو اس پس منظر میں دیکھا اور مجھے بے حد خوشی ہے کہ اس سمینار کے منتظمین کی نظر ہندوستان کے حالات میں رونما ہونے والی اقتصادی تبدیلیوں پر گہری ہے اور انھوں نے کمال ہنرمندی سے اردو ادب کے بجائے وسیع تر سماجی تناظر میں اردو تعلیم کی بات کی۔ اس نئی صورت حال میں اردو تعلیم کے تئیں میرے خیالات بالکل واضح ہیں کہ اردو کو قومی زبان کے طور پر قومی تعلیمی نظام میں مساوی حیثیت سے شامل کرنا ہو گا جو اس کانفرنس کا ایک نکاتی مقصد ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

حصّہ پنجم۔ V

 

ہندوستان میں اردو: اردو اہل قلم کی نظر میں

 

 

 

 

اردو کی تعلیم اور ہماری نئی نسلیں

 

ارتقا شیخ

 

اردو کی تعلیم کی دو صورتیں ہیں : پہلی یہ کہ طلبہ اردو کو بہ طور میڈیم اختیار کریں اور دوسری یہ کہ اردو کو ایک مضمون کے طور پر پڑھایا جائے۔ تعلیم کے ماہرین کا یہ عام خیال ہے کہ بچے کی ذہنی نشوونما کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کی ابتدائی تعلیم اس کی مادری زبان میں ہو۔ اس سے تعلیمی عمل میں اس کی دل چسپی بھی قائم رہے گی اور ابتدائی مرحلے پر ہی کوئی نئی زبان سیکھنے کی مشقت اس میں جو بددلی پیدا کر سکتی ہے ، اس سے وہ محفوظ رہے گا۔ اصولی طور پر یہ ایک ایسی سچائی ہے جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ نصاب کو مسلسل اَپ ڈیٹ کیا جاتا رہے۔ مگر ہندوستان کی حد تک افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ گزشتہ پچپن برسوں میں اردو میڈیم کے نصاب کو اس لیے اَپ ڈیٹ نہیں کیا گیا کیوں کہ نئے علوم کی اصطلاح سازی اور پرانی اصطلاحوں کو، جو ناقابل حد تک عربی اور فارسی زدہ تھیں ، نئے لسانی اور سماجی منظر نامے کے پیش نظر از سر نو ترجمہ نہیں کیا گیا۔ نتیجتاً آج بھی دارالترجمے کی ایسی اصطلاحیں ہندوستان میں اردو میڈیم کی کتابوں کا حصہ ہیں جن میں سے کئی کا تلفظ طلبہ تو کیا اساتذہ بھی نہیں کر سکتے۔ پھر نصاب سازی کے عدم تسلسل کی وجہ سے ہمارے یہاں مختلف علوم کے وہ اساتذہ ہی ناپید ہو گئے جو نئی اصطلاحیں وضع کر سکتے اور نیا نصاب تیار کرنا جن کے دائرۂ اہلیت میں ہوتا۔

لیکن موجودہ زمانے نے ہندوستان سے باہر ایک اور صورت حال بھی پیدا کی ہے۔ ایسے ہزاروں بچے ہیں جن کی مادری زبان روایتی طور پر اردو ہے لیکن ان کے خاندان بہتر معاش کے لیے دنیا کے دور دراز خطوں میں جا بسے ہیں جہاں اردو میڈیم سے انھیں تعلیم دلانا بہ حالات موجودہ خاصا مشکل کام ہے۔ اتنا مشکل کہ فی الحال اسے ناممکنات کے درجے میں بھی رکھا جا سکتا ہے۔ لیکن ان بچوں کے والدین اپنی تہذیبی شناخت کے تسلسل کے لیے یہ ضروری خیال کرتے ہیں کہ ان کے بچے اردو سے ناواقف نہ رہیں۔ ایسے بچوں کو اردو بہ طور ایک اختیاری مضمون پڑھانے کا نظم کیا جا سکتا ہے۔

بیشتر مغربی ممالک میں ، جہاں اردو زبان والے جا بسے ہیں ، جمہوری نظام قائم ہے اور وہاں کی منتخب حکومتیں خواہ وہ کسی بھی سیاسی پارٹی کی نمائندگی کرتی ہوں ، لسانی اور تہذیبی معاملات میں زیادہ تنگ نظر نہیں ہیں لہٰذا جہاں جہاں اردو والوں نے مطالبہ کیا ہے وہاں وہاں بیشتر صورتوں میں ان کی نئی نسلوں کے لیے سرکاری اسکولوں میں اردو تعلیم کا نظم کیا بھی گیا ہے۔ مغرب میں برطانیہ کے علاوہ امریکہ دوسرا بڑا ملک ہے جہاں ایسے لوگ بڑی تعداد میں آباد ہیں جن کی مادری زبان اردو رہی ہے۔ ان ملکوں میں ان کے بچوں کے لیے اردو تعلیم کی سہولتیں تھوڑی بہت فراہم کر بھی دی گئی ہیں۔ دو اسکینڈی نیوین ممالک ناروے اور ڈنمارک میں بھی اردو والے خاصی تعداد میں جا بسے ہیں ، اور وہاں کی حکومتوں نے اردو کے حوالے سے خاص فراخدلی بھی دکھائی ہے۔ کسی بھی سرکاری اسکول میں جہاں اردو پڑھنے کے خواہش مند طلبہ موجود ہوں ، اردو کلاس کا انتظام کر دیا جاتا ہے۔ ان ممالک میں اردو والے اپنے بچوں کو نجی طور پر بھی اردو پڑھانے کا انتظام کرتے ہیں اور بہت سی جگہوں پر شبینہ کلاسیں بھی چلائی جاتی ہیں۔

ظاہر ہے کہ مذکورہ ملکوں میں اردو بہ طور ایک زبان کے ہی پڑھائی جا سکتی ہے ، اردو میڈیم کے ذریعے تعلیم عملاً مشکل بھی ہے اور وہاں کے مخصوص حالات میں خود اردو والے بھی اپنے بچوں کے لیے اس سہولت کے طلب گار نہیں ہیں۔ اس کی وجہ صاف ہے ، جو بچے غیر ممالک میں پیدا ہوئے ، وہیں کے لسانی ماحول میں انھوں نے آنکھیں کھولیں ، ان کے لیے متعلقہ ملک کی عام زبان ہی مادری زبان کی قائم مقام ہے اور اسی زبان کے میڈیم سے وہ ابتدائی سے اعلا مدارج تک کے تعلیمی مراحل بہتر طور پر طے کر سکتے ہیں۔

تو پھر انھیں اردو کیوں پڑھائی جائے ؟ اس سوال کا ایک جواب تو یہ ہے کہ اس طرح ان کے والدین، اردو جن کی متاع عزیز ہے ، اپنی نفسیاتی تسکین کا سامان کرتے ہیں کہ جس ثقافتی روایت کے وہ امین رہے ہیں اسے اپنی نئی نسلوں تک منتقل کر رہے ہیں لیکن اس سوال کا ایک دوسرا جواب بھی ہے جو شاید زیادہ بامعنی ہے۔ اردو برصغیر میں ایک تہذیبی شناخت کی حامل رہی ہے جس کا سب سے طاقت ور عنصر غیر منقسم ہندوستان میں ہر سطح پر اردو تعلیم کا نظم تھا جس میں اردو ذریعۂ تعلیم اور اردو کا مطالعہ پہلی اور دوسری زبان کے طور پر شامل تھا۔ اس تہذیبی شناخت کی تشکیل و ترویج میں ہمارے بزرگوں کا خون جگر صرف ہوا ہے۔ ثقافتی اور عملی سطح پر ان بزرگوں میں صوفی سنت بھی ہیں ، علما فضلا بھی اور ادبا اور شعرا بھی۔ اگر ہماری نئی نسلیں اردو سے نابلد رہ جاتی ہیں تو وہ اس عظیم علمی، ادبی، فکری سرمایے سے محروم ہو جائیں گی جس نے ہمیں ذہنی تونگری بھی عطا کی ہے اور جذباتی سطح پر بھی ثروت مند بنایا ہے۔ یہ معمولی محرومی نہیں ہو گی اور اگر خدا نا کردہ یہ ہماری نئی نسلوں کا مقدر ٹھہرتی ہے تو ہم انھیں اپنا وارث کہنے میں حق بجانب نہ ہوں گے۔ لہٰذا اس صورت میں بھی جب اردو کو بہ طور ذریعۂ تعلیم اختیار کرنا ممکن نہ ہو، یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے بچوں کو اردو بہ طور زبان پڑھائیں اور ان میں اس زبان کی اتنی استعداد ضرور پیدا کر دیں کہ وہ جب چاہیں حسب استطاعت اس زبان کے علمی نہ سہی کم از کم ادبی خزانے سے استفادہ کر سکیں۔

مغربی ممالک کے علاوہ اردو بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد سعودی عرب اور خلیجی ممالک میں بھی جا بسی ہے جہاں کی زبان عربی ہے۔ عربی بھی ایک غیر ملکی زبان ہے لیکن انگریزی کے برعکس اردو والوں کے لیے کوئی اجنبی زبان نہیں۔ عربی کے سینکڑوں الفاظ اردو میں مستعمل ہیں اور یہ اردو روزمرّہ کا حصہ بن چکے ہیں۔ اردو بولنے والے مسلمانوں کے لیے عربی سے قربت کا ایک بڑا وسیلہ قرآن پاک بھی ہے جو ہر مسلم گھرانے کے بچے ابتدا ہی میں پڑھ لیتے ہیں۔ پھر ہندوستان اور پاکستان میں سینکڑوں دینی مدارس ہیں ، عربی زبان کا مطالعہ جن کے تعلیمی نصاب کا لازمی حصہ ہے۔ سعودی عرب کی حد تک اس تصویر کا ایک اور پہلو بھی ہے جسے ہم معکوسی پہلو بھی کہہ سکتے ہیں۔ ان تارکین وطن کے علاوہ جو وہاں جا بسے ہیں ، ہر سال حج کے دنوں میں ہندوستان اور پاکستان کے لاکھوں زائرین زیارت حرمین شریفین کے لیے مکّے اور مدینے جاتے ہیں ، لگ بھگ ایک مہینے وہاں قیام کرتے ہیں اور واپسی کے وقت بہت سے تحفے تحائف بھی مقامی تاجروں سے ، جو زیادہ تر عرب ہوتے ہیں ، خریدتے ہیں۔ اپنے لاکھوں خریداروں سے بہتر معاملات کے لیے عرب دکاندار کوشش کرتے ہیں کہ وہ انھی کی زبان میں ان سے بات کریں اس لیے تھوڑی بہت اردو کی شدھ بدھ پیدا کر لینا ان کے لیے ایک کاروباری تقاضا ہے۔ ایّام حج کے علاوہ بھی سال بھر تک ہندوستانی اور پاکستان زائرین ان مقدس مقامات کی زیارت کے لیے وہاں جاتے رہتے ہیں اس لیے اردو وہاں بول چال کی ایک ثانوی زبان کی حیثیت اختیار کرتی جا رہی ہے۔

عمّان، دُبئی اور دوحہ میں بھی اچھا خاصا اردو کا ماحول پیدا ہو گیا ہے اور شعری اور ادبی سرگرمیاں بھی جاری ہیں۔ اردو کے بہت سے شاعروں اور ادیبوں نے ان ریاستوں کو اپنا مستقر بنا لیا ہے۔ تینوں جگہ سالانہ عالمی مشاعرے منعقد ہوتے ہیں اور دُبئی کی بزم ادب ہر سال ہندوستان اور پاکستان کے ادیبوں کو بڑے بڑے ایوارڈ بھی دیتی ہے۔ لیکن اس صورت حال کا ایک افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ وہاں ہم اہل اردو قدرے تن آسانی اور خود اطمینانی میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ شعری بزم آرائیاں اور ادبی انجمن سازیاں اپنی جگہ، ان کی معنویت اور افادیت بھی مسلم لیکن اس گہما گہمی میں اصل مسئلے کو پس پشت ڈال دینا مناسب نہیں اور اصل مسئلہ نئی نسلوں کے لیے اردو کے تدریسی نظم کا ہے جس کی طرف تا حال اتنی توجہ نہیں کی گئی جتنی کی جانی چاہیے۔

یورپی ممالک ہوں ، عرب ممالک ہوں جہاں اردو ایک نو وارد زبان ہے یا ہندوستان اور پاکستان جو اردو کا اصل وطن ہے ، بنیادی اہمیت اردو تعلیم کے معقول نظم کی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان میں زیادہ زور اردو ذریعۂ تعلیم کے فروغ اور استحکام پر دینے کی ضرورت ہے اور بیرون ممالک میں جہاں جہاں بھی اردو والے جا بسے ہیں ،وہاں یہ انتظام ہونا چاہیے کہ ان کے بچے اردو کو ایک زبان کے طور پر پڑھیں اور اس میں اتنی استعداد بہم پہنچائیں کہ اس زبان میں موجود ادبی سرمایے سے ، جس میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے ، مستفیض ہو سکیں۔ اگر ایسا ہو سکا تو ہم کہہ سکیں گے کہ ہمارے تئیں ہماری زبان کی، اس زبان کے پروردہ شعر و ادب کی اور اس زبان کی ترجمان اور پاسبان تہذیب کی جو ذمّے داری تھی اسے پورا کرنے میں ہم کامیاب رہے ہیں اور اگر خدا نخواستہ ہماری غفلت اور بے عملی سے ایسا نہ ہو سکا تو اپنی زبان کے تئیں ہمارے تمام دعوے بے اساس ٹھہریں گے۔

وقت کبھی کسی کی خاطر رکا نہیں اور جو وقت ہمیں ملا ہے اس کی تیز رفتاری کی تو کوئی حد ہی نہیں۔ اس لیے ہمیں اپنی زبان کی بقا اور اپنے تہذیبی تشخص کی برقراری کے لیے جو کرنا ہے وہ بلا تاخیر کر گزرنا چاہیے۔ وقت آگے نکل گیا تو ہم اسے واپس نہ لا سکیں گے۔ زبان زد عام شعر ہے مگر اس موقعے پر بے ساختہ میری زبان پر آ رہا ہے :

اٹھّو وگر نہ حشر نہیں ہو گا پھر کبھی

دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا

٭٭٭

 

 

 

ڈاکٹر ذاکر حسین اور اردو تعلیم کا ایجنڈا

 

ڈاکٹر محمد شاہد حسین

 

ڈاکٹر ذاکر حسین کے حوالے سے  ’اردو تعلیم کے ایجنڈے کا تعین ’ خاصا دلچسپ اور بحث طلب موضوع ہے۔ اس موضوع میں ایک مخصوص زاویہ یہ بھی مضمر ہے کہ ہندی مسلمان تبدیل شدہ حالات میں اردو کے ساتھ اپنے رشتوں پر ازسرنو غور کرنا چاہتا ہے اور تخصیص کے ساتھ یہ موضوع شمالی ہند خصوصاً اتر پردیش اور بہار میں اردو کے مستقبل سے وابستہ ہے۔ یہ مقالہ بھی اسی زاویے تک محدود اور اسی کی جزئیات کو محیط ہے۔

اتر پردیش جو اردو کا اہم ترین صوبہ ہے اور جسے وا گذار کرانے کے لیے 1952 میں ڈاکٹر ذاکر حسین نے عوامی جدوجہد کا آغاز کیا تھا، آج بھی اردو کے حقوق کے لیے عوامی تحریک کا مطالبہ کرتا ہے۔ 1959 میں ذاکر صاحب اردو کے دوسرے گہوارے بہار کے گورنر بنے جو نہ صرف اردو آبادی کا اہم ترین صوبہ ہے بلکہ جہاں آہستہ روی سے ہی سہی، مگر اردو نے اپنے آئینی حقوق کی جدوجہد میں کسی حد تک کامیابی بھی حاصل کی ہے۔

کہتے ہیں کہ تاریخ اپنی تمام تر اچھائیوں اور خوبیوں کے باوجود اکثر بے وقت کا راگ ہوتی ہے ، مگر تاریخ ایک ناگزیر حقیقت کا نام بھی ہے اور اکثر بے وقت کی راگنی سے بالاتر ہو کر حقیقت سے آنکھیں چار کرنے کا حوصلہ بھی قوموں کو تاریخ ہی دیتی ہے۔ ذاکر صاحب کے حوالے سے ہم آج فروغ اردو کے ذیل میں تاریخ سے یہ کام لے سکتے ہیں کہ اردو والے ماضی کے آسیب سے اپنا پیچھا چھڑا لیں۔ تاریخ کے اس عمل کی اہمیت کا اندازہ ذاکر صاحب کو بھی تھا ورنہ 1952 کی اردو تحریک شروع ہی نہ ہوئی ہوتی۔

تقسیم کے بعد شمالی ہند خصوصاً اتر پردیش میں اردو لسانی اقلیت کی تاریخ دو انتہاؤں کی داستان ہے : ایک پسپائی کی انتہا تو دوسری شدت پسندی کی۔ من حیث القوم اردو والوں نے تقسیم کے بعد ان صوبوں میں جس غیر متوقع پسپائی کا مظاہرہ کیا اس کے نتیجے میں اردو والوں ہی کے ایک مختصر گروہ کی طرف سے نظریاتی شدت پسندی کا مظاہرہ لازمی تھا۔ پسپائی کا ماحول اگر عام نہ ہوتا تو اس نظریاتی شدت پسندی کی شاید صحیح توضیح کی جا سکتی تھی۔ مگر ایسا نہ ہوا اور نظریاتی شدت پسندی نے عوامی انفعالیت کی تمام تر ذمّے داری اردو لسانی اقلیت کے ان رہنماؤں کے سر منڈھ دی جو کانگریس کے قریب تھے۔

میں تقسیم کی تاریخ اور اس کے اسباب کی کسی تفصیل میں جانے کا خواہاں نہیں مگر ایک امر کی طرف اشارہ لازمی ہے کہ تقسیم کے بعد اردو لسانی اقلیت کے ہندوستان میں رہ جانے والے قومی حیثیت کے دو رہنماؤں میں ایک ذاکر صاحب تھے جن کی خاموشی نے خود ان کے لیے حالات خاصے خراب کیے۔ دوسرے مولانا آزادؔ تھے جن کی مقبولیت کا اہم ترین راز ان کی بے باکی بھی تھی۔ یہاں مولانا آزادؔ اور ذاکر صاحب کا موازنہ کسی بھی طرح مقصود نہیں ، مگر تاریخ کی اس سفاکی کو کیا کہیے کہ تقسیم کے بعد یہی دو قومی رہنما ہندوستان میں موجود تھے جن میں خالص تعلیمی فراست کے مرد میدان ذاکر صاحب کی زندگی کا اختتام ایسے قومی سیاسی رہنما کے طور پر ہوا جس سے مسلمانوں کو شکایتیں تھیں اور ہیں۔ دوسری طرف سیاسی طور پر کہیں زیادہ زیرک مولانا آزادؔ قومی سیاست کے مشاق شناور کی طرح وزارت تعلیم کا قلم دان سنبھالنے کے باوجود اپنی مسلم دوستی کی شبیہ برقرار نہ رکھ پائے۔ ایسا کیوں ہوا اس سوال کا جواب آسان نہیں۔ ایک سامنے کی تاویل ہے مگر اس سے بات اور الجھ جاتی ہے۔ مولانا نے خود کو کبھی بھی صرف اور صرف مسلمانوں کا لیڈر تصور نہیں کیا اور نہ ہی مسلمانوں نے انھیں اس کا موقع دیا۔ ان کی یہ امیج آج بھی برقرار ہے۔ مگر مولانا کے بعد جن مسلمانوں نے خود کو ہندوستان کے قومی تناظر میں سیاست داں کے طور پر رکھنا چاہا ان کو نہ تو ہندوؤں نے قومی رہ نما تصور کیا اور نہ ہی مسلمانوں نے انھیں قومی یا مسلمان لیڈر کے طور پر قبول کیا۔ کم و بیش یہی حال خالص مسلم سیاست کرنے والوں کا ہوا۔ اس معمے کا جواب شاید ہندوستانی ذہن کے مزید مطالعے میں مضمر ہے۔

اردو کے سیاق و سباق میں بھی یہ بات دل چسپ ہے کہ آزادی کے بعد مولانا نے کبھی اردو کا سوال اس طرح نہیں اٹھایا جو اس مسئلے کو اس کی فلسفیانہ اساس یعنی ہندی۔ اردو تنازعے کی روشنی میں دیکھنے کی طرف اردو والوں کو راغب کرتا۔ آج ہندی مسلمانوں کو مولانا سے اردو کے باب میں کوئی شکوہ بھی نہیں۔ دوسری طرف ذاکر صاحب نے اردو کے لیے اتر پردیش کی علاقائی زبان کا مطالبہ کر کے ایک طرح سے مگرمچھ کے منہ میں ہاتھ ڈال دیا تھا کیوں کہ یہیں اولاً ہندی کی بساط سیاست بچھی تھی جس نے آخرش آر ایس ایس جیسی فسطائی ہندو تنظیموں کو جنم دیا۔ ہمیں یہ بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ بی جے پی کی شمالی ہند کی قیادت اردو مخالف تحریک ہی کے ذریعے سیاسی منظر نامے پر نمایاں ہوئی۔ اردو مخالف اس تحریک کو آر ایس ایس نے نہایت شاطرانہ طریقے سے ہندی نیشنلزم یا انگریزی ہٹاؤ تحریک کا نام بھی دیا تھا مگر اس کا واحد مقصد صرف اور صرف اردو کو فنا کرنا تھا۔ انگریزی سے تو ہندی نہ کل مقابلہ کر سکتی تھی نہ آج کر سکتی ہے۔ یہاں یہ یاد دلانا بھی ضروری ہے کہ اردو مخالف تحریک میں مرلی منوہر جوشی اور ملائم سنگھ یادو ایک دوسرے کے ہم قدم تھے۔ (تفصیل کے لیے آلوک رائے کی کتاب Hindi Nationalism: Orient Longman 2001دیکھیں )۔

صدر جمہوریہ کے طور پر ذاکر صاحب کے لیے اردو کی حمایت ایک مشکل امر تھا۔ فرض کیجیے کسی مقدمے میں پیش ہونے والا کوئی وکیل اگر جج بن جائے تو وہ اپنے سابق موکل کے حق میں کیا صرف اس لیے فیصلہ دے گا کہ ماضی میں وہ اس کا وکیل تھا؟ اردو کا پورا مسئلہ سیاسی تھا اور ہے۔ ذاکر صاحب نے اس سوال کو سیاسی سوال کے طور پر ہی اٹھایا تھا۔ ہمدردان اردو کے لیے ضروری تھا کہ وہ ذاکر صاحب کے گورنر بن جانے کے بعد اس سیاسی سوال کو عوامی تحریک کے ذریعے آگے بڑھاتے۔ مگر اردو لسانی اقلیت نے بحیثیت مجموعی وہ حوصلہ دکھایا ہی نہیں جو ایسی لیڈرشپ پیدا کر سکتا کہ مسئلہ سیاسی قوت کے ساتھ آگے بڑھتا اور پھر حل بھی ہو جاتا۔

ذاکر صاحب نے انجمن ترقی اردو ہند کے پلیٹ فارم سے 1952 میں اردو کو آئین کی دفعہ 347 کے تحت اتر پردیش کی علاقائی زبان قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ ذاکر صاحب اس وقت مسلم یونی ورسٹی کے شیخ الجامعہ تھے۔ یہ مسئلہ یعنی 1952 میں مسلم یونی ورسٹی کے شیخ الجامعہ کا آئین کی دفعہ 347 کے تحت اردو کو اتر پردیش کی علاقائی زبان قرار دینے کا مطالبہ تقسیم کے بعد رونما ہونے والے حالات کے پس منظر میں بے حد پیچیدہ معاملہ تھا۔ ایک لابی بہ شمول مذہب اور ہندو شناخت ہندی کو عرصۂ دراز سے اس سیاسی مسئلے میں شامل کرنا چاہتی تھی جو اسے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچا سکے۔ شمال کی دیگر تمام زبانوں کو اس نئی زبان ہندی ہی کی شکل قرار دے کر ایک منظم  سیاسی تحریک کے ذریعے شمالی ہند کی برہمن لابی اپنے اس مقصد میں تقسیم ہند کی وجہ سے پوری طرح کامیاب ہو گئی۔ اقتدار اس کے پاس آ جانے کے بعد سوال صرف یہ باقی تھا کہ برہمنوں میں اقتدار رہے کس کے پاس۔ کانگریس کے اندر اقتدار کی کش مکش نہرو بنام غیر نہرو میں جاری تھی۔ مولانا آزادؔ اور ذاکر صاحب نہرو کے ہم نوا تھے۔ ذاکر صاحب کا شیخ الجامعہ بن کر علی گڑھ جانا اور اردو کو اتر پردیش کی دوسری علاقائی زبان قرار دینے کی تحریک چلانا یقیناً کانگریس کی اندرونی سیاست کا نتیجہ تھا مگر یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ اپنے وزرائے اعلا پر نہرو کا ایسا دبدبہ نہ تھا جو بعد میں اندرا گاندھی نے قائم کیا۔ خصوصاً یوپی کے وزیر اعلا اور اس صوبے کے متعدد وزرا تک، نہرو کے مشورے کو درخور اعتنا تصور نہ کرتے تھے۔ ایسے میں اردو کی تباہی کے معاملے میں مرکزی حکومت کے سربراہ کے طور پر نہرو خود کو شمالی ہند کے صوبائی وزرائے اعلا کے سامنے بے بس تصور کرتے تھے۔

اس امر میں شک کی گنجائش نہیں کہ ذاکر صاحب کی تحریک کانگریس اور نہرو کے ایما پر شروع کی گئی تھی مگر اردو والے صرف ذاکر صاحب کے ہاتھوں کسی کرشمے کی امید میں بیٹھے رہے۔ اردو لسانی اقلیت نے جب اس تحریک کے لیے خود ہاتھ پاؤں نہیں ہلائے تو نہ صرف مرکز نے اردو والوں کی مدد کرنے سے خود کو قاصر پایا بلکہ ذاکر صاحب نے بھی خود کو اردو اور مسلمانوں کی اس طرح خدمت سے معذور تصور کیا جس راہ پر چل کر وہ ان کے مسائل کے حل کے لیے پیش رفت کرنا چاہتے تھے۔ دوسری طرف علی گڑھ میں ذاکر صاحب کے خلاف فتنہ پردازیاں شروع ہو گئیں اور اسی وقت سب سے حوصلہ شکن سانحہ یہ ہوا کہ مولانا آزادؔ انتقال کر گئے۔ خود ذاکر صاحب کی صحت بھی جواب دے گئی تھی۔ لہٰذا انھوں نے بہار کے گورنر کا عہدہ قبول کر لیا جو اس وقت کے حالات کا منطقی نتیجہ تھا۔ اس دور کے حالات کی غمازی ذاکر صاحب کے اس خطبۂ الوداعی میں موجود ہے جو انھوں نے مسلم یونی ورسٹی کو خیرباد کہتے ہوئے دیا تھا۔ ان حالات میں ذاکر صاحب نے جو کیا اس سے زیادہ اردو اور مسلمانوں کے لیے کوئی بھی سیاست داں شاید نہیں کر سکتا تھا۔ بہار کے گورنر کے طور پر انھوں نے خدا بخش لائبریری کو ایسا تحفظ فراہم کرایا کہ وہ آج مشرقی دنیا کا اہم ترین کتب خانہ ہے مگر حالات کو مجموعی تناظر میں دیکھنے کی فہم سے عاری ہندی مسلمان اس وقت سے آج تک ان حالات کا صحیح تجزیہ کر ہی نہیں پائے جن میں اردو تباہ ہوئی۔

اتر پردیش اور شمال کی دیگر ریاستوں میں اردو کی حالت آج بھی وہی ہے جو 1947 میں تھی بلکہ مزید بدتر ہوئی ہے۔ آئین کی دفعہ 350A جو مادری زبان میں پرائمری تعلیم کی ہدایت صوبوں کو دیتی ہے Special Directives کے تحت آتی ہے جسے ماننے کے لیے صوبے مجبور نہیں۔ دفعہ 345 کے تحت دوسری سرکاری زبان کا درجہ بہار میں ثابت کر چکا ہے کہ اس کی حیثیت کچھ کم ایک ہزار مترجمین کے تقرر سے زیادہ کچھ نہیں۔ اگر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد دوسری سرکاری زبان کا درجہ اردو کو اتر پردیش میں مل بھی جائے تو اس سے ہو گا کیا؟ آئین کی دفعہ 347 جس کی ذاکر صاحب کی تحریک کے سیاق و سباق میں بے حد اہمیت ہے پہلے اپنی کسی قابل عمل تشریح کے لیے ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں قانونی لڑائی ، اور پھر اس کے نفاذ کے لیے عوامی تحریک کے ذریعے کوششوں کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ آئین کے طریق کار پر نظر ثانی کرنے والے کمیشن (Commission to review the working of the Constitution) جسے عرف عام میں جسٹس ونکٹ چلیا کمیشن بھی کہا جاتا ہے ، نے آئین کی دفعہ 347 کی قابل عمل توضیح کر کے اس میں ترمیم کی سفارش کی ہے۔ آئین کے طریق کار پر نظر ثانی کرنے والے کمیشن نے آئین کی دفعہ 347 میں لفظ قابل ذکر آبادی Substantial proportion کی توضیح کا اہم ترین کام ڈاکٹر اطہر فاروقی کی درخواست پر کیا۔ ڈاکٹر اطہر فاروقی نے 25 اپریل 2000 کو کمیشن کے چیئرمین کے سامنے خود پیش ہو کر اس سلسلے میں پہلے انھیں اپنے دلائل سے قائل کیا اور پھر تحریری میمورینڈم دیا جس کا متن ماہ نامہ مسلم انڈیا کے فروری 2002 کے شمارے میں صفحہ 65 پر شائع ہوا ہے جسے ترجمے میں درآنے والی اغلاط کے خوف سے من و عن نقل کیا جاتا ہے :

"…Article 347 of the Constitution (states)

347: "Special provision relating to language spoken by a section of the population of a state: On a demand being made in that behalf the President may, if he is satisfied that a substantial proportion of the population of a state desire to use of any language spoken by them to be recognized by that state, direct that such language shall also be officially recognized throughout that State or any part thereof for such purpose as he may specify”.

The Gujral Committee had called a large number of experts who expressed different views and finally left the matter in confusion. I feel that the opinion expressed by Justice S.M. Sikri, former CJI, that the term substantial proportion did not signify any particular percentage and it should be enough to avoid the "de minimis principle” …His approach to the Constitution provisions should have been endorsed by the Gujral Committee which it failed to do.

…This (phrase) has been invoked… to challenge and obstruct beneficial legislation passed by the elected representatives of the people… Although the provision in term applies only to the President of India, nevertheless the provision has been ingeniously expanded and invoked to control the powers of Constitutional entities other than the President, (e.g. the elected Legislatures) preventing them from granting relief to linguistic minorities. Hence an explanation should be added to the Article 347 that "substantial” means "not negligible”

…This will conduce of the satisfaction of the minorities and to the peace and tranquility of the nation.”

ایک اور بات کا ذکر بھی اس اہم کمیشن کے سلسلے میں ضروری ہے کہ اس کمیشن نے ڈاکٹر اطہر فاروقی ہی کے ایک دوسرے میمورینڈم پر بھی اپنی سفارشات پیش کر کے آئین میں ترمیم کی تجویز پیش کی ہے جو اردو ذریعۂ تعلیم اور اردو کے فروغ کے سیاق و سباق میں اہم ہو گی۔ دوسرا میمورینڈم 16 اگست 2001 کو دیا گیا اور اس کا متن بھی مسلم انڈیا میں فروری 2002 کے شمارے میں صفحہ 65 پر شائع ہوا ہے جو درج ذیل ہے :

.1         ’ ’اردو کے مسئلے کو دیگر ہندوستانی زبانوں کے مسائل کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے کیوں کہ ہندی بولنے والے بھی ان صوبوں میں لسانی اقلیت ہیں جہاں دوسری زبانوں کے بولنے والوں کی اکثریت ہے۔ اس ذیل میں میرے معروضات درج ذیل ہیں : ]آئین کی 93 ویں ترمیم کے مطابق[ بچے کی 14 برس تک کی مفت تعلیم اس کی مادری زبان میں ہونی چاہیے۔ اس ذیل میں اپنے تاریخی فیصلے میں سپریم کورٹ نے مادری زبان کو ذریعۂ تعلیم بنائے جانے کے سلسلے میں کوئی رائے نہیں دی ہے اور یہ صاف نہیں ہے کہ 14 برس تک مفت اور لازمی تعلیمی کا ذریعہ کیا ہو گا۔ یہ سوال اس لیے زیادہ اہم ہے کہ بالعموم ریاستیں ان زبانوں میں تعلیم کا انتظام سرکاری اسکولوں میں کرتی ہیں جو زبان ریاست کی اکثریت بولتی ہے مگر اس صورت میں ہر صوبے میں لسانی اقلیتیں ]خصوصاً اردو لسانی اقلیت[ مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے کے حق سے محروم ہو جائیں گی۔

.2        آئین کی دفعہ 350A جو ریاستوں کو مادری زبان میں تعلیم کی ہدایت دیتی ہے Special Directives کی مبہم شق کے ذیل میں آتی ہے جسے ماننے کے لیے ریاستیں مجبور نہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ مادری زبان میں تعلیم کے حق کو آئین کے تیسرے حصے (Part III) میں بنیادی حق (Fundamental Right) کے طور پر شامل کیا جائے۔

.3        لسانی اقلیتوں کا کمیشن آئینی حیثیت کے باوجود ایک بے بس ادارہ ہے جس کی آواز پر کوئی کان نہیں دھرتا۔ صوبائی حکومتیں لسانی اقلیتوں کے کمیشن کو لسانی اقلیتوں کے متعلق اپنی ریاستوں کے ضروری اعداد و شمار تک بھیجنے کی زحمت نہیں کرتیں حالاں کہ یہ اعداد و شمار بھی صرف کاغذی خانہ پُری کے ذیل میں آتے ہیں کیوں کہ لسانی اقلیتوں کے تئیں ریاستی حکومتیں خصوصاً شمالی ہند میں بے حد سوتیلا رویہ اختیار کرتی ہیں۔ لسانی اقلیتوں کی رپورٹ حالاں کہ پارلیمنٹ میں پیش کی جاتی ہے مگر اس پر نہ تو کبھی بحث ہوئی اور نہ ہی اس کی سفارشات کو عملی جامہ پہنانے کے بارے میں کبھی سوچا گیا ’ ’ (اطہر فاروقی)۔

ان حالات میں سوال یہ ہے کہ معاصر ہندوستان میں اردو کا ایجنڈا ہو کیا اور اسے کس طرح ترتیب دیا جائے ؟

ذاکر صاحب ہوں یا گاندھی جی، زبان و تعلیم سے متعلق ان کے فارمولے اب از   ٭٭شورکار رفتہ ہو چکے ہیں اور گلوبلائزیشن اور انفارمیشن ٹکنالوجی کے اس دور میں اگر گاندھی جی کی ہندوستانی بھی قومی زبان ہوتی تو اس کا حشر بھی کچھ اچھا نہ ہوتا۔ ہم سیاسی نعرے لگاتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ اکابرین کے نظریات کی اہمیت ان نظریات کی روح میں ہوتی ہے ان کے لفظی انطباق میں نہیں۔ یقیناً وردھا اسکیم کی اب کوئی اہمیت نہیں۔ خود ذاکر صاحب اگر حیات ہوتے تو وہ وردھا اسکیم کا نئے زمانے سے ہم آہنگ قالب مرتب کرتے۔ اسی طرح اردو کے معاملے میں سر سید کے نظریات کی روح کے زیر اثر وہ کہتے کہ اردو کو لازمی مضمون کے طور پر زبان اول کی حیثیت سے تہذیب و تشخص کے تحفظ کا وسیلہ بنا کر انگریزی ذریعۂ تعلیم کو اختیار کیا جائے۔

لہٰذا اکیسویں صدی میں اردو تعلیم کے ایجنڈے کے سیاق و سباق میں کہا جا سکتا ہے کہ جن طلبہ کو انگریزی کے ذریعے تعلیم حاصل کرنے کی سہولت ہے وہ ضرور انگریزی میڈیم میں جائیں مگر جو انگریزی میڈیم میں نہیں جا سکتے انھیں آئین کی 93ویں ترمیم کے مطابق از سلیمان ندویؒ14 برس تک تعلیم مادری زبان میں دی جائے۔ مگر اردو کے سیاق و سباق میں ہمیں اس امر کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اردو کا نصاب کسی بھی دوسری ہندوستانی زبان کے نصاب سے کمتر درجے کا نصاب ہے یوں اردو میڈیم خود اردو والوں کے درمیان علاقائی زبانوں کے مقابلے میں بھی ترجیح حاصل نہیں کر پاتا۔

اردو کا نصاب این سی ای آر ٹی اور ایس سی آر ٹی سمیت بیش تر اداروں میں انگریزی اور علاقائی زبانوں سے ترجمہ ہوتا ہے اور ترجمے کی زبان انتہائی مہمل ہوتی ہے۔ اس طرح اردو میڈیم کے اساتذہ بھی علاقائی زبانوں کے ٹیچرس ٹریننگ کالجوں میں B.Ed. وغیرہ کرتے ہیں اور اردو میڈیم سے تعلیم دینے کے اہل نہیں ہوتے۔ میرے ان معروضات کا یہ مطلب قطعی نہیں کہ ان حد بندیوں کی وجہ سے اردو میڈیم کو خیرباد کہہ دیا جائے مگر یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ اردو تعلیم کا پورا نظام ایک نئے قالب کا طالب ہے جس کی اہلیت عملاً اردو دنیا میں سر دست مفقود نظر آتی ہے ، نعروں کی بات البتہ دیگر ہے۔

چنانچہ اردو لسانی اقلیت اور ہمدردان اردو کا سرکار سے یہ مطالبہ ہونا چاہیے کہ تمام سرکاری اسکولوں میں ، بشمول سینٹرل اسکول، سروودیہ ودیا لیوں ، اردو میڈیم سے بھی تعلیم کا انتظام ہو کہ یہ اردو والوں کا آئینی حق ہے اور دیگر اسکولوں میں گیارہویں درجے سے اردو کے لیے بطور اختیاری مضمون مگر پہلی اور لازمی زبان کے طور پر پڑھنے کی سہولیات فراہم ہوں۔

٭٭٭

 

 

 

ہندوستان میں اردو کا مستقبل اس کی تعلیم سے وابستہ ہے

 

ثروت اقبال (لندن)

 

ہندوستان جیسے کثیر لسانی معاشرے میں کسی بھی ہندوستانی زبان کے مستقبل کے بارے میں اب کوئی پیش گوئی کرنا مشکل ہے۔ ایک بات البتہ طے ہے کہ آنے والے دنوں میں چھوٹی زبانوں کے لیے ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ خطرات لاحق ہوں گے۔ آزادی کے بعد شمالی ہند میں اردو کے علاوہ تمام علاقائی زبانیں سیاسی حالات کے سبب جب باضابطہ ہندی میں ضم کر دی گئیں اور آئین کی دفعہ 351 کے تحت وہ ’ہندوستانی ’ بھی جسے آزاد ہندوستان کی سرکاری زبان ہونا تھا ہندی کی غلام (السوب) قرار پائی تو یہ طے ہو گیا کہ اب ہندوستان میں کسی کمزور زبان کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔

آزادی کے بعد ہندوستان میں اردو کے باقی رہ جانے کا سبب اس کے سوا کچھ نہیں کہ 1947 میں یہ زبان اس ہندی سے کہیں زیادہ طاقت ور تھی جسے مستقبل میں ہندوستان کی اس نام نہاد وحدت کی زبان تصور کیا گیا جو واقعتاً موجود تھی ہی نہیں۔

ہندوستان کے معاشرے میں ذات پات کی تقسیم اتنی شدید ہے کہ یہاں مغرب کے طرز پر نہ تو نیشن اسٹیٹ کا تصور ممکن ہے اور نہ ہی مغربی وطنیت کی طرح کا ہندوستانی نیشنلزم۔ حکومت اور خاص طور پر برسر اقتدار ہندو برہمنوں کو خوش کرنے کے لیے  ’نیشن اسٹیٹ ’ اور ہندوستانی نیشنلزم کی گردان سرکاری مسلمان البتہ پوری بے شرمی سے کرتے ہیں۔

جہاں تک برطانیہ میں آباد ہندو پاکستان کے اردو داں حضرات کا تعلق ہے تو برطانیہ میں آباد پرانی نسل نے تو اردو ادب کے فروغ کی حد تک اردو سے اپنا تعلق قائم رکھا ہے مگر زبان کے کثیر الجہات فروغ کے لیے برطانیہ کے اردو والوں نے بھی کچھ نہیں کیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندوستان میں بھی آزادی کے بعد اردو ادب کے فروغ کو اردو زبان کا فروغ تصور کر لیا گیا جب کہ دونوں مختلف باتیں ہیں۔ اردو زبان کا فروغ اردو کی باقاعدہ تعلیم کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے اور زبان کی ہمہ جہت ترقی کی عدم موجودگی میں ہندوستان کی اردو میں عظیم ادب کی تخلیق کا سلسلہ کسی طرح باقی نہ رہ سکے گا۔

برطانیہ میں اردو کے فروغ کا بہت کچھ تعلق ہندوستان میں اردو کے فروغ سے اس لیے ہے کہ یہاں ہندو پاکستان کی اردو آبادی کی نئی نسلیں بہتر معاشی امکانات اور تعلیم کے حصول کے لیے نقل مکانی کر رہی ہیں۔ اس لیے ہندوستان میں اردو کے حوالے سے اردو آبادی کے جو مسائل ہیں ان ہی کی کارفرمائی برطانیہ کی اردو آبادی کے رویوں میں آسانی سے شناخت کی جا سکتی ہے۔ زبان کے مسائل سے عدم واقفیت، ثقافت اور اردو تعلیم کو ہم معنی تصور کر لینا اور اردو تعلیم کے لیے وقت کی ضرورت کے مطابق لائحۂ عمل مرتب نہ کرنا یہ رجحانات ہندوستان اور برطانیہ کے اردو والوں میں مشترک ہیں۔

ہر چند کہ ہندوستان کے آئین کے مطابق اردو ہندوستان کی 18 قومی زبانوں میں سے ایک ہے مگر خود اردو والوں کا رویہ ایسا ہے جسے دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ انھیں اس بات کا یقین ہے کہ ان کی زبان ایک قومی زبان ہے۔ اردو سے متعلق ان کے مطالبات اقلیتی زبانوں کے لیے مغربی ممالک میں کیے جانے والے مطالبات سے کافی مشابہ ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو لوگ خصوصاً مغربی اسکالر ہندوستان میں اردو تعلیم کی صورت حال پر لکھ رہے ہیں وہ اس کا موازنہ برطانیہ میں ایک اقلیتی زبان کے طور پر اردو کی صورت حال سے کرتے ہیں جب کہ برطانیہ کی طرح ہندوستان میں اردو غیر ملکی زبان نہیں ہے۔ معروف برطانوی اسکالر رالف رسل نے 1999 میں ہندوستان میں اردو کی صورت حال پر ایک اہم مضمون لکھا جس کی خاصی شہرت ہوئی۔ اس مضمون میں جناب رسل نے ہندوستان میں اردو کی ترقی کے لیے اس طرح کے رضاکارانہ طریقے اختیار کرنے کا مشورہ دیا جس طرح برطانیہ میں آباد یہودی یا گجراتی اپنی زبانوں کے تحفظ کے لیے کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سوچ (approach) اور اس کی بنیاد پر وضع کیا جانے والا لائحۂ عمل ہندوستان میں اردو کی بقا کے لیے سودمند نہیں ہو سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اردو ہندوستان اور ہندوستان کے شہریوں کی ایسی زبان ہے جو یہیں پیدا ہوئی ہے۔ ہندوستان میں یہ ایسے تارکین وطن کی زبان نہیں جو ان کے ساتھ آئی ہو جب کہ برطانیہ میں آباد تارکین وطن اپنے ساتھ اپنی زبانیں لے کر آئے تھے۔

آزادی کے بعد اردو کے ساتھ ہندوستان میں جو سلوک ہوا اس کے سیاسی پہلو پر مزید بحث و تمحیص سے کچھ فائدہ نہیں ہو گا البتہ ایک بات دہرانے کی شدید ضرورت ہے کہ تقسیم کے پہلے اور بعد کے سیاسی حالات کے نتیجے میں اردو نہ صرف مسلمانوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے بلکہ خود مسلمانوں کے متوسط اور خوش حال طبقات نے بھی اسے صرف اپنی مذہبی ضرورتوں تک محدود کر دیا ہے۔ دوسری طرف اردو کو مسلمانوں کی مذہبی شناخت کا اہم عنصر تصور کر لیے جانے کے بعد آزادی کے بعد سے اپنی شناخت کی تلاش میں سرگرداں اعلا ذات کے ہندوؤں نے اس کی تعلیم کو ترک کر دیا ہے۔ تقسیم کے سانحے سے دوچار ہونے والے ان پنجابی حضرات نے بھی اردو کو خیرباد کہہ دیا، تقسیم سے پہلے اردو جن کی زندگی کا جزو لاینفک تھی۔

تقسیم ہند کے بعد ہندوستان میں زبانوں کا مجموعی منظرنامہ تبدیل ہوا۔ ایک طرف تو تقسیم سے پہلے اردو پڑھنے والے پنجاب کے ہندوؤں نے اردو کو خیرباد کہا تو دوسری طرف انھوں نے ہندی کو اپنی تہذیب کی شناخت کے طور پر اختیار کرتے ہوئے پنجابی کو بھی اس لیے خیرباد کہا کہ اقتدار پر قابض ہونے کے لیے جس ہندو نیشنلزم کے نعرے کی ضرورت تھی، اس میں پنجابی زبان بھی فٹ نہیں بیٹھتی تھی۔ ہندی کو عام ہندو کی زبان کے طور پر ہندو شناخت کا اہم عنصر بنانے کی آر ایس ایس کی مسلسل اور منظم اور فسطائی کوششوں نے بھی شمالی ہند کے لسانی منظر نامے کو خاصہ متاثر کیا۔

ہندوستان میں اردو ادب کی بقا و ترویج اور ترقی کے لیے کوششیں تو کی گئی ہیں مگر شمالی ہند میں جہاں اردو داں آبادی کی اکثریت ہے اردو میڈیم یا ایک اختیاری مضمون کے طور پر اردو تعلیم کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے اردو کا موجودہ سرمایہ اگلی نسلوں میں منتقل نہیں ہو سکے گا۔ شمالی ہندوستان میں جن بچوں کی مادری زبان اردو ہے وہ تقریباً سب کے سب مسلمان گھرانوں سے آتے ہیں۔ لہٰذا اردو کا ایک مذہبی اقلیت کے ساتھ نتھی ہو جانا یقینی امر ہے۔ ہر چند کہ شمالی ہندوستان کے مسلمانوں پر یہ جائز الزام ہے کہ انھوں نے آزادی کے بعد سیکولر نظام میں اردو کی شمولیت اور زبان کے طور پر اردو کے تحفظ کے لیے اس طرح کوشش نہیں کی جس طرح علی گڑھ، ندوے اور دارالعلوم دیوبند کے تحفظ کے لیے کی۔ اول الذکر یعنی علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی مسلمانوں کی تعلیمی کم اور سیاسی وراثت زیادہ تھی جب کہ دیوبند اور ندوۃ العلماء سے خالص مذہبی تصور وابستہ تھا۔

شمالی ہندوستان کے مسلمانوں پر عائد کیا جانے والا یہ الزام بھی بالکل درست ہے کہ عملاً اردو کا تحفظ ایک ایسی زبان کے طور پر جو زندگی کی کثیر جہات کا احاطہ کرتی ہے ، ان کی ترجیحی فہرست سے خارج تھا۔ مگر یہ بھی صحیح ہے کہ اردو کے حوالے سے شمالی ہند کی اردوداں آبادی کے ذہنوں میں ایک انتشار ضرور رہا ہے جس کے سبب انھوں نے اردو رسم خط کی تبدیلی کی ہر تحریک کی سخت مخالفت کر کے اردو کو بچا لیا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آج اردو بھی ہندی کی شیلی بن چکی ہوتی۔

سید شہاب الدین کا ایک مضمون بعنوان  ’اردو زبان تعلیم اور مسلمان: ایک تثلیث بے کلیسا ’ جو ماہ نامہ ’ اردو دنیا ’ نئی دہلی کے فروری 2001 کے شمارے میں شائع ہوا ہے ، اس میں سید شہاب الدین نے متعدد ایسی اہم باتیں کہی ہیں جو ہندوستان میں اردو تعلیم کے احیا کا ایجنڈا ہو سکتی ہیں۔ میں نے اپنے کئی دلائل کی بنیاد سید شہاب الدین کے اس مضمون پر رکھی ہے۔

آزادی کے بعد شمالی ہند میں  ’اردو کے وکیلوں  ’ کی نظریاتی اساس بہت کمزور تھی۔ ان میں اکثر حکومت کے اشارے پر کام کر رہے تھے۔ اردو کے حقوق کا مطالبہ کرنے کی صرف خبریں اخباروں میں چھپوا کر اردو لیڈرشپ تصور کر لیتی تھی کہ فرض کفایہ ادا ہو گیا۔ تقسیم کے نتیجے میں پروان چڑھنے والی مسلم مخالف ذہنیت نے اردو والوں کے ذہن میں یہ بات بھی بٹھا دی تھی کہ اردو میں جو ہندو اہل قلم موجود ہیں انھیں ہی اردو کے محاذ پر آگے رکھا جائے تاکہ اردو پر عام ہندوؤں کا مزید عتاب نہ آئے۔ اس رویے نے اردو کے مقدمے کو بالکل ہی کمزور کر دیا۔ غیر مسلم اردو داں حضرات اردو اہل قلم تو ہو سکتے تھے مگر انھیں تبدیل شدہ سیاسی حالات میں اردو سے کوئی جذباتی وابستگی نہیں تھی اور اس میں کوئی تعجب کی بات بھی نہیں ہے۔ اردو میں موجود ہندو اہل قلم حضرات نے تقسیم سے قبل اردو اس لیے پڑھی تھی کہ یہ نظام تعلیم کا لازمی حصہ تھی مگر تقسیم کے بعد اردو کا پورا مسئلہ ہی جب سیاسی ہو گیا اور فرقہ واریت کو فروغ ملا تو اردو کے ساتھ ہندو اہل قلم حضرات کو کوئی ذہنی ہمدردی نہیں رہ گئی مگر چونکہ وہ زندہ صرف اردو اہل قلم کے طور پر رہ سکتے تھے یوں وہ اردو میں لکھتے رہے مگر ان کی وابستگی فطری طور پر عام ہندو ذہنیت کی عکاس رہی۔ سامنے کی اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے شمالی ہند کے اردو والے تیار نہیں تھے۔ اس لیے جب بھی اردوداں آبادی کو اسکولوں میں باقاعدہ اردو تعلیم کا نظم کرنے کے بجائے کھلونوں سے بہلایا گیا تو نہ تو اردو کی مسلم لیڈرشپ نے اور نہ ہی غیر مسلم اردو اشراف نے ، جن کی اکثریت یونی ورسٹیوں سے وابستہ تھی، ایسے لچر دلائل کی تردید کی۔ مثلاً کبھی اردو کو غزل گائکی اور غزل شنوائی اور کبھی فلموں کی زبان کے حوالے سے تو کبھی ہندی لپی میں اردو لکھنے کی بات کہہ کر یہ کہا گیا کہ ہندوستان میں اردو ترقی کر رہی ہے مگر کبھی ان احمقانہ دلائل کی مخالفت اردو والوں نے نہیں کی۔

ہندوستان میں اردو کی ترقی و ترویج کے لیے سرکاری اور نیم سرکاری ادارے بھی ہیں مگر انھوں نے بھی کوئی قابل ذکر کارنامہ انجام نہیں دیا ہے۔ اس سلسلے میں رالف رسل نے اپنے مقالے میں (جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے ) اس طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے :

’ ’مجھے بخوبی اندازہ ہے کہ انجمن ترقی اردو (ہند) اور ترقی اردو بورڈ جیسے اداروں کے ناکارہ پن اور بے عملی کے سبب پیدا شدہ بے اطمینانی عام طور پر لوگوں کو ایسے اداروں سے پوری طرح مایوس کر دیتی ہے اور نتیجتاً ایسی انجمنیں وجود میں آنے لگتی ہیں جو کسی بھی طرح سے سرکاری امداد یا تعاون قبول کرنے سے اپنے آپ کو الگ کر لیتی ہیں۔ ہندوستان میں اردو کے موجودہ حالات میں یہ بے اطمینانی مبارک ہے کیوں کہ حقیقتاً ایسی خود مختار انجمنوں کی آج بے حد ضرورت ہے۔  ’ ’

مگر رسل صاحب یہ بات بھول گئے کہ ہندوستان میں جو ناکارہ پن اور بے عملی سرکاری اور نیم سرکاری اردو اداروں کی سرشت میں ہے ، اس پر محض تنقید کرنے سے اب کام نہیں چلے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو والے ان اداروں کے خلاف طاقت ور اور منظم محاذ بنائیں ، عدالتی چارہ جوئی کریں کیوں کہ ہندوستان جیسے غریب اور پسماندہ ملک میں وہاں کی اقتصادی طور پر پس ماندہ ترین اردو لسانی اور مسلم مذہبی اقلیت اپنی مادری زبان، جو قومی زبان ہے ، کا تحفظ یہودیوں کی طرح رضاکارانہ طور پر نہیں کر سکتی ہے۔ برطانیہ کی یہودی کمیونٹی مالی طور پر بڑی مستحکم ہے جس کے عمومی اقتصادی حالات ہندوستان کی مسلم قوم سے ہزار درجہ بہتر ہیں۔ مسلمان تو ہندوستان میں ویسے بھی معاشی بدحالی کا شکار ہیں۔ ان کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ اردو تعلیم کی جزوی ذمّے داری بھی رضاکارانہ طور پر پوری کر سکیں۔

اردو تعلیم کے نظم کا ہر سطح پر مطالبہ ہمیں سرکاری اسکولوں کے نظام میں ہی کرنا ہو گا اور دوسرے شہریوں اور ٹیکس دہندہ کے طور پر اردو والوں کے اس حق کو حکومت کو تسلیم کرنا ہو گا۔ اردو کا تحفظ دینی مدارس کے ذریعے بھی نہیں ہو سکتا اور ہونا بھی نہیں چاہیے۔ دینی مدارس مذہبی ادارے ہیں اور ہندوستانی شہری کے طور پر مسلمانوں کو ان کے قیام اور نظم کا حق حاصل ہے مگر اسلام اور اردو ایک ہی سکے کے دو رخ نہیں ہیں۔ اردو تمام ہندوستانی مسلمانوں کی مادری زبان بھی نہیں ہے۔ جس روز حکومت اسکولوں میں اردو تعلیم کے نظم کا معقول انتظام کر دے گی اسی دن اردو کے متعلق فروعی بحثوں کو لگام مل جائے گی اور اردو ہندوستان کی دیگر قومی زبانوں کی طرح ترقی کی طرف گامزن ہو سکے گی۔ مگر اردو کا سوال سیاسی سوال ہے اور جمہوریت میں اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے کا بھی ایک طریقہ ہے۔ یہ بات اردو والوں کو ہر وقت یاد رکھنا ہو گی اور اس حقیقت کے تئیں انھیں اسکولوں کی سطح پر اردو تعلیم کے نظم کے لیے کوئی موثر لائحۂ عمل مرتب کرنا ہو گا۔

٭٭٭

 

 

اردو تعلیم: تکرار کے متقاضی چند نکات

 

انور پاشا

 

گزشتہ چند برسوں میں اردو دنیا کی توجہ پرائمری سے ثانوی درجات تک کی اردو تعلیم کی صورت حال (بہ حیثیت میڈیم اور بہ حیثیت ایک اختیاری مضمون) کا جائزہ لینے کی طرف منعطف ہوئی ہے اور سنجیدگی سے اس سوال پر غور کیا گیا ہے کہ پرائمری سے ثانوی درجات تک اردو تعلیم کس حد تک ممکن ہے۔ آزادی کے بعد اردو کے لیے حالات اس درجہ خراب تھے ، خصوصاً شمالی ہند میں کہ حکومت کے ذریعے اردو تعلیم کا نظم ختم کر دیے جانے کے بعد اس موضوع پر ہمارے اکابرین نے مصلحتاً توجہ نہیں دی یوں اس سیاق و سباق میں سامنے کے حقائق بھی گرد آلود ہو گئے اور اردو تعلیم کے متعلق ہر تحریر خلط مبحث کا آئینہ بن گئی کہ صحیح حقائق کسی کو معلوم ہی نہ تھے۔ اب جب کہ اردو تعلیم کا ایجنڈا متعین کرنے کی بات ہے تو میں چند سامنے کی باتوں کو دہرانا چاہتا ہوں جن کی تکرار بھی اب بازیافت کی اہمیت رکھتی ہے کہ یہ نکات اس طرح پہلے کبھی اردو والوں کے سامنے نہیں آئے۔

تعلیم آئینی طور پر ریاستوں کے اختیار کا معاملہ ہے اور مرکزی حکومت اس سلسلے میں ریاستوں پر زیادہ دباؤ نہیں ڈال سکتی مگر اعلیٰ تعلیم چوں کہ اب Concurrent List میں بھی ہے اس لیے مرکزی حکومت اگر چا ہے تو اعلیٰ تعلیم کی سطح پر ریاستوں میں ، کچھ حد تک اپنی پسند کے تعلیمی نظام کو تھوڑی کوشش کر کے رائج کر سکتی ہے۔ زبانوں کے معاملے میں بھی مرکزی حکومت ریاستوں کو آئین کے مطابق بعض ہدایات دے سکتی ہے مگر ریاستیں انھیں ماننے کے لیے مجبور نہیں۔

اردو تعلیم کا ایجنڈا ہمیں درج ذیل سطحوں پر متعین کرنا ہو گا:

(الف)   پرائمری تعلیم                    (ب)    سیکنڈری سطح کی تعلیم

(پ)    سینئر سیکنڈری سطح کی تعلیم     (ت)    یونی ورسٹی سطح کی تعلیم

اردو تعلیم کے معاملے میں خصوصاً درج ذیل نکات کو ہمیں زیر غور لانا ہو گا۔

(الف)   پرائمری تعلیم کا میڈیم کیا ہو اور کیا ہندوستان گیر سطح پر اردو میڈیم سے پرائمری تعلیم کا نظم ممکن ہے ؟

(ب)    پرائمری کے بعد یعنی سیکنڈری اور سینئر سیکنڈری سطح پر نظام تعلیم میں اردو کی حیثیت کیا ہو؟

(پ)    ہمیں ہر حال میں یہ ملحوظ رکھنا ہو گا کہ اردو ذریعۂ تعلیم اور ایک اختیاری مضمون کے طور پر اردو کی تعلیم یہ دونوں بالکل الگ موضوعات ہیں۔

(ت)    ایک اختیاری مضمون کے طور پر کسی بھی زبان کی تعلیم یا اسے اختیار کرنے کا معاملہ سہ لسانی فارمولے کے تحت چھٹی جماعت سے دسویں جماعت تک کا معاملہ ہے۔ گیارہویں جماعت میں طالب علم بالعموم اپنے آئندہ کیریر کا تعین کر لیتا ہے اور انگریزی میڈیم کے بورڈوں بالخصوص CBSE اور ICSE میں ہیومینیٹیز (Humanities) کے علاوہ سائنس اور کامرس گروپ کے طلبہ کے لیے دو سے زیادہ زبانیں پڑھنا عملاً ممکن نہیں البتہ صوبائی بورڈوں خصوصاً یوپی اور بہار کے سینئر سکنڈری (انٹرمیڈیٹ) سطح کے بورڈوں میں بارہویں درجے تک تین زبانوں کا مطالعہ لازمی ہے اور اردو آبادی کے بچوں کی اکثریت ان ہی بورڈوں کے ذریعے شریک امتحان ہوتی ہے۔ CBSE اور ICSE بورڈ کے اسکولوں میں اردو مادری زبان والے طلبہ کا تناسب نہیں کے برابر ہے۔ صرف اعلیٰ متوسط طبقے کے چند طلبہ کچھ بڑے شہروں کے انگریزی میڈیم اسکولوں میں داخلہ پا جاتے ہیں ، 2002 میں ان دونوں بورڈوں میں انگریزی میڈیم سے امتحان دینے والے طلبہ کی تعداد دو ہزار سے بھی کم تھی۔ دہلی کے چوں کہ تمام سرکاری اسکول CBSE سے ملحق ہیں یوں یہاں کے اردو میڈیم کے طلبہ بھی CBSE بورڈ سے شریک امتحان ہوتے ہیں مگر دہلی کے اردو میڈیم اسکولوں کی حالت زار بہار کے عام ہندی میڈیم اسکول سے مختلف نہیں۔

سہ لسانی فارمولے سے متعلق سب سے زیادہ خلط مبحث اس امر سے پھیلا کہ لوگوں کو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ اس کا نفاذ صرف چھٹی جماعت سے دسویں جماعت تک ہو سکتا ہے اور پرائمری تعلیم سے اس کا کچھ تعلق نہیں۔

یہ صحیح ہے کہ آئین ہند (دفعہ 350 Aکے تحت) مادری زبان میں پرائمری تعلیم کی ہدایت دیتا ہے مگر آئین میں اس امر کو بنیادی حق (Fundamental Right) نہ مان کر Special Directives کے تحت رکھا گیا ہے ، جس کی حیثیت ایک ایسی مبہم سفارش کی ہے جس کا نہ تو مطلب ہی کسی کو معلوم ہے اور نہ ہی ریاستی حکومتیں اسے ماننے کے لیے مجبور ہیں۔

اب آئیے ایک نظر زبانوں کے اس نظام پر ڈالیں جو آئین کے مطابق تعلیم میں اپنا رول ادا کرتا ہے :

آئین ہند کے آٹھویں شیڈول میں اٹھارہ زبانوں کو جگہ دی گئی ہے۔ یہ تمام علاقائی زبانیں ہیں جن میں اردو بھی شامل ہے مگر اردو کے لیے کوئی علاقہ مختص نہیں کیا گیا۔ آئین ہند کسی زبان کو قومی زبان تسلیم نہیں کرتا۔ اس منطق کے پیچھے ہمارے آئین سازوں کا مطمح نظریہ تھا کہ کسی ایک زبان کو قومی زبان تسلیم کرنا باقی زبانوں کے ساتھ ناانصافی ہو گی۔ ہندی کی دستوری حیثیت بھی قومی زبان کی نہیں بلکہ محض Official Language of the Union کی ہے۔ البتہ سرکاری مسلمان ہندوؤں کی خوشامد میں پوری بے شرمی کے ساتھ ہندی کے قومی زبان National Language  ہونے کا جھوٹ بول کر عام لوگوں کے درمیان گمراہی پھیلاتے ہیں۔ ابتدائً پندرہ برسوں کے لیے انگریزی کو مرکزی حکومت کے کام کاج اور بین الصوبائی مراسلت کی زبان کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا اور بعدہٗ فسطائی ہندی قوتوں کے خطرناک عزائم کے پیش نظر جنوبی ہند میں ہندی مخالف تحریک کے نتیجے میں 1965 میں انگریزی کو مستقل طور پر Associate Additional Official Language تسلیم کر لیا گیا۔ حوالے کے لیے دیکھیے : Paul R. Brass: The politics of Urdu since Independence, New Delhi: Cambridge University Press in association of Foundation Books, (Reprint 1995), p 165.) مرکزی حکومت کے بیش تر کام آج بھی انگریزی میں ہی ہوتے ہیں۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس صرف انگریزی میں کام کرتے ہیں۔

اردو تعلیم کے نظام کی تباہی خصوصاً شمال کی ریاستوں میں ہوئی جہاں اردو بولنے والوں کی اکثریت آباد ہے۔ ان ریاستوں نے پرائمری تعلیم کا ذریعہ متفقہ طور پر صرف اور صرف ہندی کو تسلیم کیا یوں اردو میڈیم سے ابتدائی تعلیم کا نظم ان ریاستوں میں ختم ہو گیا۔ اردو آبادی کی اکثریت پہلے نمبر پر اتر پردیش اور دوسرے نمبر پر بہار میں آباد ہے۔ اتر پردیش میں صرف ہندی کو پرائمری تا سینئر سیکنڈری (انٹر میڈیٹ) تک تعلیم کا میڈیم بنانے اور پرائمری سطح سے اردو کو بالکل ہی خارج کر دیے جانے کے نتیجے میں ثانوی سطح پر ایک اختیاری مضمون کے طور پر بھی اردو کی تعلیم کی راہیں مسدود ہو گئیں۔ آج ثانوی سطح پر ایک اختیاری مضمون کے طور پر اردو تعلیم کا انتظام صرف ان چند ہائی اسکولوں یا انٹرمیڈیٹ کالجوں میں ہے جن کا نظم اقلیتی اداروں کے طور پر مسلمانوں کے پاس ہے۔ عملاً کسی بھی سطح پر اردو تعلیم ] ذریعۂ تعلیم اور اختیاری مضمون کے طور پر اردو کی تعلیم[ کا نظم اتر پردیش میں اب بحال ہونا ناممکن معلوم ہوتا ہے کہ 55 برسوں کے اس عرصے میں تین نسلیں اردو رسم خط سے مکمل طور پر ناواقف ہو گئی ہیں اور اب کوشش کے باوجود اردو کی تعلیم دینے والے اساتذہ نہیں ملتے۔ اسی لیے اتر پردیش حکومت نے کاغذوں پر جن اسکولوں کو پرائمری سطح پر اردو میڈیم دکھایا ہے وہ بھی عملاً ہندی میڈیم ہی کے اسکول ہیں۔ ان میں سے اکثر ایمرجنسی میں بہو گنا اسکیم کے تحت شروع کیے گئے تھے۔

بہار میں اردو تعلیم کا معاملہ قدرے غنیمت ہے کیوں کہ وہاں دینی مدارس کا نیٹ ورک مضبوط ہے اور مدارس کی ڈگریاں اسکولوں کے مساوی تسلیم شدہ ہیں مگر اردو کی سیکولر اور نصابی تعلیم کے لیے دینی مدارس پر تکیہ کرنا بڑی بھول ہو گی۔

اردو تعلیم کی بہتر صورت حال کے سلسلے میں بالعموم جنوب کی ریاستوں اور خصوصاً مہاراشٹر کا نام لیا جاتا ہے جہاں اردو آبادی کا صرف 25 فی صد حصہ آباد ہے جب کہ کل اردو آبادی کا 75 فی صد حصہ تو شمال کی ریاستوں میں ہے۔ اس لیے مہاراشٹر یا جنوب کی کسی ریاست میں اردو تعلیم کی بہتر صورت حال ہندوستان کے مجموعی تناظر میں کسی امید کا استعارہ نہیں۔

جہاں تک انگریزی میڈیم نظام تعلیم میں ایک اختیاری مضمون کے طور پر اردو کی تعلیم کا تعلق ہے تو وہ مجموعی منظر

٭٭ابہقعتانامے پر کسی طرح اثر انداز نہیں ہو سکتی کیوں کہ انگریزی میڈیم اسکول اول تو مٹھی بھر ہیں اور اردو والوں کے مجموعی معاشی حالات ایسے نہیں کہ وہ انگریزی میڈیم اسکولوں میں اپنے بچوں کو تعلیم دلوا سکیں لیکن جہاں اردو والے اپنے بچوں کو اچھے انگریزی میڈیم سے تعلیم دلوا سکتے ہیں وہاں انھیں کوشش کرنا چاہیے کہ پرائمری کے بعد ان کا بچہ زبان اول کے طور پر سہ لسانی فارمولے کی سفارشات کے مطابق اپنی مادری زبان کا مطالعہ کرے۔ بالعموم انگریزی میڈیم اسکول اس صورت میں اردو تعلیم کا نظم کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں جب اردو پڑھنے کے خواہاں بچوں کی قابل لحاظ تعداد موجود ہو مگر ظاہر ہے کہ اس سہولت کے لیے وہ والدین سے اضافی فیس وصول کرتے ہیں۔ بڑی مشکل یہ ہے کہ ہم نے مٹھی بھر بڑے شہروں کو ہی پورا ہندوستان تصور کر لیا ہے جب کہ حقیقت ظاہر ہے کہ اس سے مختلف ہے۔ اس صورت میں سوال یہ ہے کہ اردو والوں کے لیے تعلیم کا ایجنڈا کیا ہو؟ میری ناقص رائے میں :

اوّل اردو میڈیم پرائمری اسکول کے قیام کے لیے گرام پنچایت سے لے کر ہر اس سطح تک کوشش کرنا چاہیے جہاں قومی ضابطے کے مطابق اردو آبادی اسکول کھولنے کی شرط پوری کرتی ہو۔ قومی ضابطے کے مطابق ہر اس علاقے میں ایک پرائمری اسکول کھولا جا سکتا ہے جہاں توقع ہو کہ 300 بچے دستیاب ہوں گے۔ بالعموم ایک یا ایک سے زیادہ گانووں یا محلوں کے لیے 300 بچوں کی فراہمی پر ایک پرائمری اسکول کھولا جاتا ہے۔ یوں جہاں اردو مادری زبان والے 300 بچے موجود ہوں وہاں اردو میڈیم پرائمری اسکول کھولنے کے لیے دباؤ ڈالا جا سکتا ہے اور اس میں حکومت کو کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔

سہ لسانی فارمولے میں زبان اول کے طور پر اردو تعلیم کی تدریس کے نظم کے لیے اردو والوں کو کوشش کرنا چاہیے۔ سہ لسانی فارمولے میں زبان اوّل کا کالم مادری زبان کے لیے مختص ہے مگر خود اردو والوں نے کبھی اس طرح سنجیدہ کوشش نہیں کی۔

ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ جمہوریت میں عوام کے مطالبے پر حکومت صرف وہی کچھ فوراً دے سکتی ہے جس کی قانونی گنجائش موجود ہو۔ اردو لسانی اقلیت کے بچوں کے لیے اردو میڈیم پرائمری اسکول اور ثانوی سطح پر زبان اوّل کے طور پر اردو زبان کی تعلیم کا نظم حکومت فوراً اور بغیر کسی قانونی پیچیدگی کے کر سکتی ہے۔ سچ بات یہ ہے کہ اردو والوں کے ذہن اردو تعلیم کے مسائل پر کبھی صاف نہیں رہے اور بالعموم یونی ورسٹی سطح پر اردو ادب کی تعلیم ہمارے یہاں موضوع بحث رہی جب کہ ہم یہ بھول گئے کہ اگر پرائمری اور سکنڈری سطح پر اردو زبان کی تعلیم کا معقول نظم نہ ہو تو یونی ورسٹی میں اردو ادب کی تعلیم کسی کام کی نہیں۔ میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی کی بات نہیں کرنا چاہتا جو واقعتاً عام مسلمانوں کو گمراہ کرنے اور نئے سرکاری مسلمان تراشنے اور پرانے سرکاری مسلمانوں کو نوازنے کی غرض سے قائم کی گئی ہے اور اس مقصد کو تن دہی سے پورا بھی کر رہی ہے۔

اردو تعلیم کا مسئلہ — خواہ مرکزی ہو یا ریاستی دونوں کی ہی  —   اردو کش پالیسیوں کی پیداوار ہے اور دونوں ہی سطحوں پر حکومتیں منصوبہ بند طریقے سے اردو مخالف لائحۂ عمل پر پوری قوت سے کمربستہ رہی ہیں۔ یہ امر بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ جمہوری نظام میں عوام کو اپنے جمہوری و آئینی حقوق کے تئیں بیدار رہنے اور جدوجہد کرنے کا پورا حق ہے اور اس سلسلے میں کسی قسم کی کوتاہی یا غفلت خود جمہوریت کی بقا کے لیے خطرہ پیدا کر سکتی ہے لہٰذا اس حقیقت کے اعتراف کے باوجود کہ تعلیم اور بالخصوص ابتدائی و ثانوی سطح کی تعلیم کے نظم کی ذمے داری آئینی اعتبار سے حکومت کی ہے اور مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے کے حق کے لیے اردو والوں کا حکومت سے توقعات رکھنا اور اس کے لیے جمہوری طریقوں سے جدوجہد کرنا اپنی جگہ صد فی صد درست ہے لیکن اقتدار کے ایوانوں میں فسطائی قوتوں کی بالا دستی اور بی جے پی کے برسر اقتدار آنے کے بعد عوام اور بالخصوص اقلیتوں کو وقت رہتے یہ باور کر لینا چاہیے کہ اگر انھیں تعلیم و ترقی کی دوڑ میں شامل رہنا ہے اور اپنی لسانی و تہذیبی شناخت کو بھی باقی رکھنا ہے تو حکومت پر تکیہ کرنے کی بجائے انھیں کمیونٹی (Community) کی سطح پر ایسے اقدام بھی کرنے پڑیں گے جن کے ذریعے وہ حصول تعلیم اور تہذیبی شناخت کا تحفظ کرتے ہوئے قومی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں اور قومی دولت میں اپنا حصہ بھی وصول کر سکیں۔ دنیا میں بہت سی ایسی زبانیں اور ایسے تہذیبی گروہ موجود ہیں جو بغیر کسی حکومتی امداد اور سرپرستی کے باد مخالف کی تیز ترین آندھیوں میں بھی اپنی بقا و شناخت کی شمع کو روشن رکھنے میں کامیاب ہیں۔ اس سیاق و سباق میں یہودیوں کی مثال سامنے ہے۔ اس لیے جتنی جلدی ممکن ہو اس حقیقت کا اعتراف کر لیا جائے تو بہتر ہے کہ اب صرف حکومت پر تکیہ کرنے کی بجائے اپنے وسائل کو بھی بروئے کار لانا اتنا ہی ضروری ہے جتنا حکومت سے اپنے جمہوری حقوق کا مطالبہ کرنا۔

دینی مدارس کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں جنھیں مسلمانوں نے مقدور بھر معاونت کر کے اپنی مذہبی ضرورتوں کے لیے زندہ رکھا۔ اردو تعلیم کے فروغ کے لیے دینی مدارس کے موجودہ نظام کو اس وقت تک کے لیے مزید مستحکم بنایا جا سکتا ہے جب تک اسکولوں میں اردو تعلیم کا انتظام نہ ہو جائے تاکہ ان میں رائج اردو زبان و ادب کی تعلیم اور اردو رسم خط کو تقویت و معیار عطا کیا جا سکے مگر اس موضوع پر ہمارا ذہن صاف ہونا چاہیے کہ دینی مدارس کے ذریعے اردو کی اعلیٰ و ارفع اقدار کو قائم رکھنا ممکن ہی نہیں کیوں کہ مدارس مذہبی سوال سے جڑے ہوئے ہیں اور اس کا انھیں پورا حق ہے۔ اردو کا مستقبل اس کی تعلیم کے اس نظام میں مضمر ہے جو اسکولوں میں دی جاتی ہے۔ اردو والوں کو اردو کے نام پر حکومت کے قائم شدہ اداروں کے پُر فریب نعروں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت آج سب سے زیادہ ہے۔ بی جے پی نے اقتدار میں آنے کے بعد مرکزی حکومت کے اردو اداروں کے ذریعے اردو والوں کو جس دل فریب انداز میں خود کشی کی طرف مائل کرنا شروع کیا ہے اس کی کوئی مثال ہمیں ماضی میں اس لیے نہیں ملتی کہ اس سے پہلے مسلمانوں کو کانگریس اپنا زر خرید غلام تصور کرتی تھی مگر چوں کہ بی جے پی اس امر سے واقف ہے کہ مسلمان اسے اپنی تہذیب و ثقافت کا سب سے بڑا دشمن تصور کرتے ہیں ، یوں اردو کے تئیں اس کا رویہ بے حد شاطرانہ ہے۔ ویسے بھی بی جے پی کی سیاسی قوت اس میں مضمر ہے کہ اس کی اردو اور اقلیت دشمن جماعت کی امیج قائم رہے یوں یہ بات بہ آسانی کہی جا سکتی ہے کہ اگر بی جے پی کی موجودہ برسر اقتدار حکومت اردو اور دینی مدارس کے لیے کچھ کر رہی ہے تو وہ اس کے اپنے خیال میں کوئی ایسا عمل ہے جو اردو کے لیے واقعتاً نقصان دہ ہو گا۔ یہ بھی طے ہے کہ بی جے پی آر ایس ایس کو بھی اس امر پر مطمئن کر چکی ہو گی کہ اردو کے لیے اس کے تمام اقدام آخرش اردو کو فنا کرنے میں معاون ہوں گے۔

اب اردو والوں کو یہ بھی فیصلہ کر لینا چاہیے کہ اردو محض ہماری تہذیبی شناخت کی زبان کی حیثیت سے باقی رہے گی یا روزگار کے حوالے سے بھی اس سے توقعات وابستہ رکھنی جائز ہیں۔ اس ضمن میں یہ بات ذہن نشین رکھنے کی ہے کہ گزشتہ نصف صدی کے تجربات یہ بتاتے ہیں کہ حکومت کی اردو کش پالیسیوں کے نتیجے میں اب رفتہ رفتہ اردو کو ذریعۂ روزگار بنانے کی سعی و توقعات گھاٹے کا سودا ہی ثابت نہیں ہو رہی ہیں بلکہ اردو والوں کی پسماندگی اور اردو کے معاملے پر ان کے ذہنی انتشار کا سبب بھی بن رہی ہیں۔ ایسی صورت میں جتنی جلد ممکن ہو دو ٹوک فیصلہ کر لیا جانا چاہیے تاکہ گومگو اور تذبذب کی کیفیت سے نجات حاصل کر کے اردو تعلیم سے متعلق مستقبل کا لائحہ عمل طے کیا جا سکے۔ منطقی طور پر ایک بات صاف ہے کہ جب تک شمالی ہند اور خصوصاً یوپی میں ابتدائی اور ثانوی سطح پر اردو تعلیم کی عمارت کھڑی نہ ہو تب تک اردو کی اعلیٰ تعلیم کسی بھی حیثیت سے عملاً ممکن نہیں ، نعروں کی بات دوسری ہے جس سے سرکاری مسلمانوں کا بھلا ہوتا رہتا ہے۔

اردوداں آبادی کی عمومی پسماندگی کے پیش نظر میڈیا اور انفارمیشن ٹکنالوجی کے نعروں کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی غور و فکر اور تحقیق کی اشد ضرورت ہے کہ اردو زبان، اردو تعلیم اور اردو رسم خط کے فروغ اور مقبولیت میں ان وسائل کا استعمال کیا واقعی ممکن ہے ؟ جس اردو داں آبادی کی اکثریت ہندوستان کی کسی بھی زبان میں حرف شناس ہونے تک کی اقتصادی سکت نہیں رکھتی اور جن کے پاس دو وقت کی روٹی نہیں ، میڈیا اور انفارمیشن ٹکنالوجی کے حسین نعروں سے بھلا ان کا کیا بھلا ہو گا؟ اب رہا سوال اردو والوں میں موجود متوسط طبقے کا تو وہ مجموعی اردو آبادی کا ایک فی صد سے بھی بہت کم ہے یوں اس کے اقتصادی حالات کی بنیاد پر تمام اردو آبادی کے لیے کوئی لائحۂ عمل وضع کرنا اعلیٰ درجے کی حماقت کے سوا کچھ نہیں۔

سب سے اہم بات جو ذہن نشین رکھنے کی ہے وہ یہ کہ اردو کے مسائل خالص سیاسی نوعیت کے مسائل ہیں لہٰذا سیاسی منظر نامے پر اثر انداز ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا اردو تعلیم کے لائحۂ عمل کا تعین۔ سیاسی طور پر اردو والے جتنے طاقت ور اور منظم ہوں گے ، اردو تعلیم اور اردو زبان کے فروغ کے امکانات بھی اتنے ہی روشن ہوں گے۔

٭٭٭

 

 

 

ہندوستان میں اردو تعلیم: مسائل اور امکانات

 

صابر ارشاد عثمانی

 

اس عنوان کے تحت میں جو کچھ عرض کروں گا وہ میرے اس مطالعے کا ماحصل ہے جو میں بالخصوص ہندوستان سے شائع ہونے والے انگریزی رسائل و جرائد سے کرتا رہا ہوں۔ معلومہ حقائق کی روشنی میں کچھ تجاویز بھی پیش کرنے کی جسارت میں نے کی ہے۔

ہندوستان میں اردو تعلیم کی پسماندگی کا آغاز آزادی کا سورج طلوع ہونے کے ساتھ ہی ہو گیا تھا۔ یہ صحیح ہے کہ ہندوستان میں اردو تعلیم کی مایوس کن صورت حال کو بعض حلقوں نے ہندوستان کے خلاف پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کیا اور کچھ نے مزید بے بنیاد غلط فہمیوں کو ہوا دی، مگر یہ بھی درست ہے کہ اردو مخالف قوتوں نے آزادی کے بعد سے اردو کو نصاب تعلیم سے خارج کرنے کی مسلسل اور مربوط کوششوں کا آغاز کر دیا تھا۔

ہندوستان میں قومی سطح پر اردو کو سب سے زیادہ نقصان خود اردو والوں ، بالخصوص اردو کے نام نہاد دانشوروں کی، جن میں اکثریت یونی ورسٹیوں میں برسر کار اردو اساتذہ کی تھی، اردو تعلیم کی طرف سے مجرمانہ غفلت اور عدم دلچسپی نے پہنچایا۔ آزادی کے بعد سے ہی ہندوستان سے باہر ہندوستان کی نمائندگی یونی ورسٹیوں میں بر سر کار اردو اساتذہ کرتے تھے مگر ان میں سے اکثر کی علمی صلاحیتیں مشکوک تھیں ، اور غالباً ان کا تقرر ہی اس مقصد سے کیا گیا تھا کہ بھاری بھرکم عہدوں پر مامور ان حضرات کو شو ونڈو (Show Window) کے طور پر استعمال تو کیا جائے مگر واقعتاً یہ اتنے کم صلاحیت ہوں کہ اردو تعلیم کے فروغ کے لیے کچھ نہ کر سکیں اور حکومت کو اردو ختم کرنے میں آسانی ہو۔ اس پالیسی کا نتیجہ یہ ہوا کہ حکومت سے متعلق اردو کے تمام کام ان ہی لوگوں کے سپرد ہوئے۔ مشاورتی کمیٹیوں میں ان ہی کا تقرر کیا گیا، اردو تعلیم سے متعلق تمام امور مثلاً نصاب سازی کا تمام کام یا اردو زبان کے فروغ کے لیے پالیسی سازی کی تمام ذمے داری بھی ان ہی کے کاندھوں پر اس یقین کے ساتھ ڈال دی گئی کہ وہ اس کا بوجھ نہ اٹھا سکیں اور حکومت اپنی ذمے داری سے صاف بچ نکلے۔ ہوا بھی یہی۔ آزادی کے 55 برسوں کے بعد ابتدائی اور ثانوی سطح پر ہندوستان کی شمالی ریاستوں میں ، جہاں ملک کے اردوداں عوام کی تقریباً 75 فیصد آبادی ہے ، اردو تعلیم کی صورت حال اس حد تک ابتر ہو چکی ہے کہ اب وہاں اردو تعلیم کا احیا عملاً ممکن نظر نہیں آتا، زبانی جمع خرچ کی بات اور ہے۔ عملاً اسکولوں کے نصاب سے آزادی کے فوراً بعد اردو مکمل طور پر خارج کر دی گئی۔ کاغذی خانہ پری کے لیے 1975 کے آس پاس اردو کا جو نصاب تیار کیا گیا، وہ نئی نسل کے اندر کوئی کشش پیدا نہ کر سکا۔ ویسے بھی 1975 تک اردو والوں کی دو نسلیں اردو زبان سے مکمل طور پر ناواقف، اردو تعلیم سے بے بہرہ اور اردو تعلیم کے امور سے جذباتی طور پر لاتعلق سماجی منظر نامے پر نمایاں ہو چکی تھیں۔ 1975 کے آس پاس اگر کسی بچے نے اردو کو اختیاری مضمون کے طور پر پڑھنا بھی چاہا تو اس نے اردو تعلیم کی اس مجموعی ابتر صورت حال کے پیش نظر کچھ ہی روز بعد اردو کو خیرباد کہہ کر کوئی اور مضمون لے لیا اور انتظامیہ یہ دعویٰ کرنے کی اہل ہو گئی کہ جہاں اردو تعلیم کی سہولت موجود ہے ، وہاں بھی اردو والوں کے بچے اردو پڑھنا نہیں چاہتے۔ اردو کے ان نام نہاد دانشوروں نے حکومت کو اردو تعلیم کا نظم قائم کرنے کی بجائے ثقافت کو فروغ دینے کے لیے اردو اکادمیوں کے قیام کا مشورہ مختلف طریقوں سے دیا اور آخرش گجرال کمیٹی رپورٹ میں اس احمقانہ سفارش کو شامل کرا کر کئی ریاستوں میں اردو اکادمیاں قائم کرا دی گئیں اور اکادمیوں کا دائرۂ کار اس احتیاط کے ساتھ طے کیا گیا کہ اکادمیاں کسی طور بھی اردو کے احیا میں معاون نہ ہو سکیں۔

ہندوستان میں اردو تعلیم بھی عمومی تعلیم کی طرح کسی ریاست کے ایجوکیشن ایکٹ میں موجود ضابطوں کے مطابق اور ریاستی وزارت تعلیم کے تحت کام کرنے والے تعلیمی اداروں (مثلاً پرائمری اسکول، جونیر ہائی اسکول اور ہائی اسکول نیز انٹر میڈیٹ کالجوں ) کے تحت دی جا سکتی ہے۔ تکنیکی طور پر تعلیم کا نظم ریاستی وزارت تعلیم کے سوا کوئی اور وزارت نہیں کر سکتی۔ اردو اکادمیاں اگر چاہیں بھی تو اسکولی تعلیم میں اردو کے لیے کوئی گنجایش نہیں نکال سکتیں کہ یہ ان کے دائرۂ اختیار سے باہر کا معاملہ ہے۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ ہندوستان میں پرائمری اور ثانوی سطح کی تعلیم ریاستی حکومتوں کا اختیار (State Subject) ہے ، صرف اعلیٰ تعلیم میں کچھ حد تک ریاستی اور مرکزی اشتراک ممکن ہے یعنی اعلیٰ تعلیم Concurrent List پر ہے۔ مرکزی حکومت براہ راست یا اس کا کوئی ادارہ پرائمری یا ثانوی سطح تک کی تعلیم میں کوئی مداخلت نہیں کر سکتا۔ یونی ورسٹی سطح کے اردو اساتذہ، جن کے لیے (نام نہاد) اردو دانشوروں کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے ، حکومت کی مشاورتی کمیٹیوں میں شامل رہتے ہوئے بھی اردو تعلیم کے لیے کوئی مثبت پالیسی وضع نہیں کر سکے کہ وہ اس کے اہل ہی نہیں تھے۔ نتیجہ یہ ہے کہ 1991 میں مردم شماری کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اردو والوں کی آبادی بھلے ہی پانچویں نمبر پر چار کروڑ تیس لاکھ ہے ، مگر اردو کو ملنے والی حکومت کی کل گرانٹ اس سنسکرت سے بھی کم ہے جس کے بولنے والوں کی آبادی ملک بھر میں ایک ہزار سے زیادہ نہیں مگر ہندو اکثریت کو خوش کرنے کے لیے جس کی عظمت کے قصیدے سرکاری مسلمان پوری بے شرمی سے پڑھتے ہیں۔ اردو کے ساتھ پالیسی کی سطح کی اتنی بد معاملگی صرف یونی ورسٹی کے اردو اساتذہ اور ان مسلم رہ نماؤں کی کم فہمی اور بے عملی کی وجہ سے ممکن ہو سکی جو تقسیم کے نتیجے میں اردو کے خود ساختہ ٹھیکے دار تو بن گئے تھے مگر نفسیاتی سطح پر ہندو اکثریت سے خوف زدہ اور اردو کو تقسیم کی ذمے دار زبان سمجھتے تھے۔

بہرحال گزشتہ چند برسوں میں اردو والوں کی توجہ اردو تعلیم کی صورت حال کی طرف مبذول ہوئی ہے اور کچھ حلقوں نے پرائمری اور ثانوی درجات میں اردو تعلیم کے امکانات بہتر کرنے کا لائحۂ عمل متعین کرنے کے طریقوں پر غور کرنا شروع کر دیا ہے۔ ان امکانات کی نشان دہی کے لیے پرائمری، سیکنڈری، سینیر سیکنڈری اور اعلیٰ سطح کی تعلیم کے مسائل پر غور و خوض کرنا ہو گا اور اس کے بعد ہی کوئی حکمت عملی اختیار کی جا سکتی ہے۔ اس سلسلے میں درج ذیل نکات خصوصیت کے حامل ہیں :

٭        اردو والوں کے بچوں کی تعلیم کے لیے کیا اردو ذریعۂ تعلیم فراہم کرنا ممکن ہے ؟ اگر ہاں تو ملک گیر سطح پر پھیلی ہوئی اردو آبادی کو اردو میڈیم پرائمری اسکول فراہم کرنے کی کیا صورت ہو؟

٭        بالفرض ہندوستان بھر میں اردو بولنے والوں کے بیشتر بچے ابتدائی سطح پر اردو میڈیم سے پڑھتے ہیں تو کیا سیکنڈری سطح پر بھی یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے ؟ یا پھر علاقائی زبان کو ترجیح دینی چاہیے ؟ جنوبی ہند کی ریاستوں میں اردو والوں کے لیے یہ مسئلہ اور بھی پیچیدہ ہے کہ وہاں ثانوی سطح پر اردو کی حیثیت کیا ہو؟ بچے اردو لازمی مضمون کی حیثیت سے پڑھیں یا اختیاری مضمون کے طور پر؟

٭        سہ لسانی فارمولے کا نفاذ چھٹے درجے سے دسویں درجے تک ہوتا ہے۔ سینیر سیکنڈری یا انٹرمیڈیٹ سطح پر طالب علم کو اپنا کیریر بنانے کے لیے سائنس، کامرس، آرٹ یا ایگریکلچر گروپ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ اس سطح پر ہیومنیٹیز (Humanities Stream) کے علاوہ دو زبانوں سے زیادہ زبانیں پڑھنا عملاً ممکن نہیں رہتا۔ اس لیے اردو زبان کی تعلیم خصوصاً سائنس کامرس اور ایگریکلچر گروپ کے طالب علموں کے لیے دسویں درجے کے بعد شمالی ہند میں بھی ممکن نہیں۔ اس طرح نتیجہ یہ نکلا کہ سہ لسانی فارمولے کا نفاذ نہ تو پرائمری سطح پر ہے اور نہ ہی دسویں کے بعد۔ یعنی سہ لسانی فارمولے کے نفاذ کا معاملہ صرف پانچ برس ایک اختیاری زبان کے طور پر اردو پڑھنے کا معاملہ تھا جس کے لیے بھی نہ تو حکومت تیار تھی اور نہ اردو والوں کے ذہن اس مسئلے پر خوف سے عاری رہے۔

ہندوستان اپنے آئین 350A کے تحت مادری زبان میں پرائمری تعلیم کی ہدایت کرتا ہے لیکن اس ہدایت پر عمل نہیں کیا جا رہا ہے۔ ہندوستان کے آئین کے آٹھویں شیڈول میں ابتدائً 14 زبانیں درج کی گئی تھیں۔ آج ان زبانوں کی تعداد 18 ہے۔ اس فہرست میں چند اور زبانوں کی شمولیت متوقع ہے کیوں کہ وہ زبانیں جنھیں سرکاری طور پر ہندی کی شکل قرار دے دیا گیا تھا، اپنی الگ پہچان منوانے کے لیے اپنا وجود تسلیم کرانے کی مسلسل جدوجہد کر رہی ہیں۔ برج، اودھی، بھوج پوری، مگھئی اور میتھلی ایسی ہی زبانیں ہیں جو اپنی علاحدہ شناخت پر مُصر ہیں اور سر دست جنھیں قانوناً ہندی کا اسلوب تسلیم کیا جاتا ہے۔ آئینی طور پر ان کی علاحدہ حیثیت اور شناخت کا مسئلہ ہندوستان کی لسانی پیچیدگیوں کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔ ایسی ہی پیچیدگی کی مثالیں آئین ہند سے بھی دی جا سکتی ہیں۔ مثلاً آئین ہند کسی ایک زبان کو قومی زبان تسلیم نہیں کرتا، ہندی کی حیثیت مرکزی حکومت کی سرکاری زبان (Official Language of the Union) کی ہے ، انگریزی زبان سرکاری کام کاج کے لیے (Associate) زبان ہے۔ اردو زبان آئین کے آٹھویں شیڈول میں قومی زبان کے طور پر شامل تو ہے مگر اردو کو ان علاقوں میں بھی کوئی حیثیت نہیں دی گئی جہاں وہ پیدا ہوئی اور پھلی پھولی، ایسے تمام علاقوں کو ہندی علاقہ قرار دے کر اردو کو اُس جموں و کشمیر پر تھوپ دیا گیا، جہاں اردو بولنے والے شاید ایک دو فیصد بھی نہیں تھے ، وغیرہ وغیرہ۔ حکومت کی اس فسطائی پالیسی کے سبب آج اردو صرف اور صرف مسلمانوں کی زبان بن کر رہ گئی ہے۔

اردو کے حوالے سے تعلیم کا مسئلہ ان ہی ریاستوں میں سب سے زیادہ سنگین ہے جنھیں ہندی کی ریاستیں قرار دے دیا گیا ہے اور سرکاری طور پر پرائمری سے ثانوی سطح تک تعلیم کا ذریعہ صرف ہندی کو تسلیم کیا گیا ہے۔ نتیجتاً اردو میڈیم سے ابتدائی تعلیم، ماضی کا قصہ ہو کر رہ گئی۔ اتر پردیش میں اردو بولنے والے سب سے زیادہ آباد ہیں۔ یہاں ان کی تعداد تقریباً 3 کروڑ نفوس پر مشتمل ہے ، دوسرا نمبر بہار کا آتا ہے۔ اتر پردیش میں ابتدائی سے ثانوی سطح تک تعلیم کا ذریعہ صرف اور صرف ہندی ہے۔ ایک امتیازی مضمون کے طور پر اردو پڑھنے کے امکانات آزادی کے فوراً بعد ختم کر دیے گئے تھے۔ اتر پردیش میں اردو تعلیم کا کوئی معقول انتظام اب ممکن نظر نہیں آتا کیوں کہ آزادی کے بعد 55 برسوں میں 3 نسلیں اردو رسم خط سے ناواقف ہو کر رہ گئی ہیں۔ اب تو کوشش کے بعد بھی اردو جاننے والے اساتذہ وہاں نہیں ملیں گے۔

بہار میں اردو تعلیم کا معاملہ اس سے مختلف ہے کیوں کہ وہاں دینی مدرسے خاصی تعداد میں ہیں۔ وہاں کے مدرسہ بورڈ کی ڈگریاں حکومت سے تسلیم شدہ ہیں اور مدرسوں میں پڑھنے والے بچے جب چاہیں سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم کے لیے داخلہ لے سکتے ہیں۔ ایک بات ضمناً یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ مدرسوں میں عام طور پر غریب مسلمان تعلیم حاصل کرتا ہے یا پھر مذہبی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے نچلا مسلم طبقہ۔ اردو کی اصل تباہی ان علاقوں میں ہوئی جہاں عام اردو والوں نے اپنے اشرافیہ طبقے پر بھروسہ کر لیا جب کہ اشرافیہ مسلمان طبقہ ہندو اکثریت کے خوف سے اردو کو خیرباد کہنے کا فیصلہ کر چکا تھا۔ اردو تعلیم کی بہتر صورت حال کا حوالہ دینے کے لیے یہ اردو اشراف جنوب کی ریاستوں اور خصوصاً مہاراشٹر اور آندھرا پردیش کا نام لے کر فرض کفایہ ادا کر دیتے ہیں جب کہ اردو والوں کی مجموعی آبادی کا 75 فیصد حصہ تو شمال کی ریاستوں میں آباد ہے۔ اس لیے جنوبی ہندوستان میں اردو تعلیم کا بہتر انتظام ہندوستان کے مجموعی تناظر میں کوئی معنی نہیں رکھتا۔

اب رہا سوال انگریزی میڈیم کے پرائیویٹ اسکولوں میں اردو تعلیم کے انتظام کا۔ اول تو کم علاقے ایسے ہیں جہاں اردو بولنے والوں کے معاشی حالات اتنے اچھے ہیں کہ وہ انگریزی میڈیم کے مہنگے اسکولوں میں اپنے بچوں کو بھیج سکیں ، لیکن جن علاقوں میں ایسا ہے بھی تو اختیاری مضمون کے طور پر اردو تعلیم کی سہولیات وہیں پر مہیا ہو سکتی ہیں جہاں بچوں کے والدین خاصی بڑی تعداد میں جمع ہو کر اسکول سے اردو پڑھانے کے انتظام کا مطالبہ کریں۔ ظاہر ہے کہ اس کے لیے اسکول اردو پڑھنے والے بچوں سے اضافی فیس بھی لے سکتے ہیں کیوں کہ بیشتر انگریزی میڈیم اسکولوں کا مقصد تعلیم کا کاروبار کرنا ہے ، منافع کمانے کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔

تبدیل شدہ حالات میں اردو میڈیم پرائمری اسکولوں کے قیام کے لیے اردو والوں کو مجموعی طریقے سے ، ہر انتظامی سطح پر اپنے مطالبات منوانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ خواہ وہ گرام پنچایت ہو یا ضلع پریشد، جہاں کہیں بھی ضابطے کے مطابق 300 نفوس پر مشتمل اردو آبادی اسکول کھولنے کی شرط (National norm) پوری کرتی ہے ، وہاں اردو اسکولوں کے اجرا کا مطالبہ کر کے اردو والوں کو اپنا حق حاصل کرنا چاہیے۔

سہ لسانی فارمولے میں زبان اول اور لازمی زبان کے طور پر اردو پڑھنے کا مطالبہ اور اس کو منوانے کی کوشش سب سے زیادہ منظم طور پر کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ ہندوستان میں سرکاری اسکولوں کا نیٹ ورک سب سے بڑا اور سب سے سستا ہے۔ اردو داں طلبہ کی اکثریت سرکاری اسکولوں ہی میں تعلیم حاصل کرتی ہے۔ ان میں عام اردو والا بھی تعلیم حاصل کر سکتا ہے۔ اگر سرکاری اسکولوں میں سہ لسانی فارمولے کا نفاذ مؤثر  طور پر ہو جاتا ہے تو اردو سیکھنے اور پڑھنے کے بیش تر مسائل حل ہو جائیں گے۔ ویسے بھی اردو لسانی اقلیت کے بچوں کے لیے اردو میڈیم پرائمری اسکول اور ثانوی سطح پر زبان اول کے طور پر اردو زبان کی تعلیم کا انتظام حکومت کے دائرۂ اختیار میں ہے اور وہ جب چا ہے یہ انتظامات کر سکتی ہے۔ اس میں کوئی قانونی پیچیدگی بھی نہیں ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ حکومت خود بہ خود یہ اقدام کیوں کرے گی؟ جمہوری طرز حکومت میں جب تک کوئی فرقہ اپنے حقوق کی طرف توجہ نہیں دلائے گا، اس کے مسائل کون دیکھے گا؟ کون ان کو حل کرنے کے اقدام کرے گا؟ جمہوری نظام میں عوام کو اپنے جمہوری اور آئینی حقوق کے لیے مطالبات کرنے اور جدوجہد کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے۔ اگر اردو والے خود ہی اپنے حقوق کو نہ پہچانیں ، انھیں حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں تو پھر ان کے لیے یہ کام کون کرے اور کیوں کرے ؟ یہ بات درست ہے کہ ابتدائی اور ثانوی سطح کی تعلیم فراہم کرنا ریاستی حکومتوں کی ذمے داری ہے ، اس سے مادری زبان میں تعلیم فراہم کرنے کی توقع کرنا بھی اپنی جگہ درست ہے لیکن حکومت کے کردار بدلتی سیاست کے تابع ہوتے ہیں۔ اگر ہمیں تعلیمی ترقی کی راہیں ہموار کرنی ہیں تو دو سطحوں پر کام کرنا ہو گا۔ اوّلاً اپنی سیاسی قوت سے اردو والوں کو یہ احساس حکومت کو کرانا ہو گا کہ اردو والے کتنی تعداد میں ہیں ، اپنے حقوق کے تئیں کتنے بیدار اور منظم ہیں اور اگر ان کے مطالبات منظور نہیں کیے گئے تو ووٹ کا استعمال بڑے سود و زیاں کا سبب بن سکتا ہے۔ یہ راستہ خاصا دشوار طلب اس لیے ہے کہ سیاسی شعور کی بیداری میں دوسرے عوامل بھی کارفرما ہوتے ہیں اور کسی ایک مسئلے پر عوامی Consensus حاصل کر لینا کافی دشوار کام ہے ، لیکن اردو تعلیم کے مسائل کے پیش نظر اردو آبادی کے تناظر میں یہ ناممکن نہیں ہے اور اس سمت میں کامیاب کوششیں کی جا سکتی ہیں۔

دوسرا مرحلہ عملی سطح پر کام کرنے کا ہے۔ سرکاری اقدام پر پوری توجہ کرنے کے ساتھ ساتھ ضرورت اس بات کی ہے کہ کمیونٹی کی سطح پر بھی اردو کے تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں ، جن لوگوں کے پاس وسائل ہیں وہ اپنی آمدنی کا کچھ حصہ اردو تعلیم کے رفاہی کام پر خرچ کریں اور اپنے اپنے علاقوں میں اردو کے لیے تعلیمی مہم شروع کریں۔ دینی ضرورتوں کے لیے مسلمان مدرسے قائم کر سکتے ہیں ، انھیں کامیابی سے چلا سکتے ہیں تو دنیاوی ضرورتوں کے لیے اسکول قائم کیوں نہیں کر سکتے ؟ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اسلام نے بنیادی معاملات اور متعلقہ فرائض کی ادائیگی کو بھی اتنی ہی اہمیت دی ہے جتنی عبادات کو۔ اسی فہم کے ساتھ اگر مسلمان اپنے تعلیمی معاملات میں تبدیلی لانے کے بارے میں غور کریں تو مجھے یقین ہے کہ یہ ایک انقلابی سوچ ثابت ہو گی اور اس کے بے حد مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔

ہندوستانی آئین میں ترمیم ایک عام بات ہو چکی ہے۔ پچاس برسوں میں اس میں 93 ترمیمات کی جاچکی ہیں جب کہ متحدہ ریاستہاے امریکہ میں دو سو سے زائد برسوں میں معدودے چند ترمیمات ہوئی ہیں۔

تعلیم ہر بچے کا پیدائشی حق ہے۔ اس کے لیے کسی آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں۔ لیکن 55 برسوں میں بھی ہندوستان اور پاکستان میں بچوں کی اکثریت کو معقول اور یکساں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع حاصل نہیں ہیں۔ لڑکیوں کے معاملے میں تو حالات اور بھی زیادہ خراب ہیں۔ ہندوستان میں برسر اقتدار حکمرانوں کا مقصد ہر بچے کو تعلیم یافتہ کرانا نہیں بلکہ محض خانہ پری ہے۔ ہر دو ممالک میں وہ وسائل جو جموں و کشمیر تنازعے کے پیش نظر استعمال کیے جا رہے ہیں ، اگر انھیں تعلیم پر خرچ کیا جائے تو خواندگی کی سطح صد فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔  ’انگریزی ہٹاؤ ’ اور  ’مادری زبان میں تعلیم ’ ایک خفیف سی تبدیلی کے ساتھ ایک ہی ذہنیت کے ساتھ اشراف کے دیے ہوئے نعرے ہیں۔

آخر میں میں پھر یہ عرض کروں گا کہ ہندوستان میں اردو والوں کے مسائل بڑی حد تک سیاسی نوعیت کے ہیں۔ لہٰذا سیاسی منظر نامے پر اثر انداز ہونا، اردو والوں کے لیے بے حد ضروری ہے۔ اردو والوں کو یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ وہ ہندوستان میں مساوی حقوق کے حامل شہری ہیں اور ٹیکس دہندہ کے طور پر سرکاری اسکولوں میں اردو تعلیم حاصل کرنا ان کے بچوں کا آئینی حق ہے۔ یہ آئینی حق کسی بھی طرح کسی دوسرے لسانی گروہ یا مذہبی فرقے سے کم تر درجے کا نہیں۔

٭٭٭

 

 

 

اردو تعلیم کے فروغ کے ادارے : چند معروضات

 

ڈاکٹر مظہر مہدی

 

ہندوستان میں اردو تعلیم کے فروغ کے تئیں اردو لسانی اقلیت کے رویے میں خصوصاً شمالی ہند میں خاصی بیداری آئی ہے اور فکر کی سطح کی دھند تیزی سے چھٹتی جا رہی ہے۔ یہ تسلیم کر لیا گیا ہے کہ مادری زبان کے طور پر اردو بولنے والی شمالی ہند کی تمام آبادی اپنے بچوں کو اردو میڈیم سے تعلیم دلوانے کی خواہش مند نہیں اور اگر ان کے پاس وسائل ہوں تو وہ اپنے بچوں کو انگریزی میڈیم تعلیم کے اداروں میں بھیجیں گے۔ اپنے بچوں کے لیے ذریعۂ تعلیم اختیار کرنے کے معاملے میں اردو لسانی اقلیت کے درمیان موجود چھوٹے سے متوسط طبقے کی ترجیح کے علاوہ بازار کا دباؤ بھی ہے جو تبدیل شدہ منظر نامے میں اب صرف انگریزی کو قبول کر رہا ہے اور ہندوستان کا کوئی بھی وہ شہری جو اپنے بچوں کی تعلیم کے انگریزی میڈیم میں ہونے والے اخراجات برداشت کر سکتا ہے وہ لازماً انگریزی میڈیم کا انتخاب کرتا ہے۔ اس میں بہ شمول دوسرے لسانی گروپوں کے شمالی ہند کے ہندی مادری زبان والوں کا متوسط طبقہ بھی شامل ہے۔

یہ تو ہوئی بات فکر کی سطح پر، اب عملی معاملہ یہ ہے کہ اردو میڈیم شمالی ہند کے اس خطے کے اکثر صوبوں میں موجود ہی نہیں جہاں ہندوستان کی اردو لسانی اقلیت کی 85 فی صد آبادی ہے اور شمالی ہند میں بھی اردو والوں کی سب سے زیادہ آبادی تقریباً دو کروڑ اتر پردیش میں ہے جہاں عملاً اردو میڈیم تعلیم کا نہ تو نظم ہے اور نہ ہی صوبے میں تعلیم کے مجموعی ڈھانچے میں اردو میڈیم طلبہ کے لیے کوئی گنجائش ہے۔ مہاراشٹر اور جنوبی ہند کے بعض صوبوں یا مغربی بنگال میں اردو میڈیم تعلیم کا نظم اس وجہ سے موجود ہے کہ وہاں کی صوبائی حکومتیں ثانوی سطح تک کی تعلیم کے لیے مادری زبانوں کے اداروں کو ترجیح دیتی ہیں خواہ وہ مادری زبانیں صوبے کی اکثریت کی زبان سے مختلف ہوں ؛ مگر ان تمام صوبوں میں خواہ اردو میڈیم تعلیم کے حالات کتنے ہی آئیڈیل کیوں نہ ہوں ، وہ اردو تعلیم کی اس مجموعی بدترین صورت حال کو اس وقت تک بہتر نہ کر سکیں گے جب تک کہ اتر پردیش میں خصوصاً ثانوی سطح تک اردو میڈیم تعلیم کا نظم نہ ہو جائے جس کی آئندہ بیس پچیس برسوں میں کوئی توقع نہیں۔ ممکن ہے سیاسی دباؤ میں بیس پچیس برسوں بعد اتر پردیش میں ثانوی سطح تک اردو میڈیم تعلیم کے آئینی حق کا صوبائی حکومت نفاذ کرنے کے لیے تیار ہو جائے مگر تب تک صوبے میں اردو کی ڈگری رکھنے والے اساتذہ نہ ملیں گے۔ یوپی سے اسکول کی سطح پر اردو کی ہر طرح کی تعلیم خواہ وہ میڈیم ہو یا اختیاری مضمون کے طور پر اردو کی تدریس کا معاملہ، ہر طرح کے نظم کو 1947 ہی میں ختم کر دیا گیا تھا۔ یوں اگر پچیس برس بعد اتر پردیش میں دوسرے صوبوں سے اردو اساتذہ کی تقرری شروع بھی ہوئی تو بھی اس کو عملی شکل اختیار کرنے میں تیس برس اور لگ جائیں گے اس طرح اتر پردیش میں  ’اصولی سطح ’ پر بھی اردو میڈیم کی منزل ابھی پچاس برس دور ہے۔

مندرجہ بالا مباحث کی تلخیص یوں ہے :

.1        اتر پردیش کے علاوہ جن صوبوں میں اردو میڈیم کی تعلیم پرائمری سطح تک موجود ہے اور جو لوگ (کمزور) معاشی حالات کے سبب اسے اختیار کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے اس میڈیم کو اور بہتر بنایا جائے۔

.2        جہاں اردو میڈیم تعلیم کا نظم موجود نہیں مثلاً اتر پردیش وہاں ثانوی سطح تک اس کے نظم کے لیے جمہوری طریقے سے کوششیں کی جائیں تاکہ وہ لوگ جو معاشی پسماندگی کے سبب اتر پردیش میں گزشتہ 55 برسوں سے اپنے بچوں کو ہندی میڈیم سے مجبوراً پڑھا رہے ہیں وہ آئندہ آئین کی دفعہ 350A کے تحت اپنے بچوں کو اردو میڈیم سے تعلیم دلانے کا دستوری حق استعمال کر سکیں۔

.3        جو لوگ (خصوصاً مڈل کلاس) اپنے بچوں کو انگریزی میڈیم سے تعلیم دلانے کے خواہاں ہیں وہ بھی اپنے بچوں کو ایک اختیاری مضمون کے طور پر اردو پڑھا سکیں۔ ہندوستان کے تعلیمی نظام میں درجہ چھے سے بارہویں کلاس تک سہ لسانی فارمولے کے تحت ہر بچے کے لیے تین زبانوں کا مطالعہ لازمی ہے۔ اتر پردیش اور شمال کی دیگر ریاستوں میں سنسکرت کی تعلیم ہندی کے نصاب کا حصہ ہے یوں اگر اردو مادری زبان والے بچے کے لیے تیسری زبان کے طور پر اردو کے مطالعے کی گنجائش نکل آئے تو یہ صورت اردو داں آبادی کے متوسط طبقے کو قبول ہو گی پھر سہ لسانی فارمولے کی شکل یوں ہو گی۔

.1        پہلی زبان  —   ہندی( جس میں سنسکرت کی لازمی تعلیم بھی شامل ہے۔ پہلے اتر پردیش میں چھٹے درجے سے سنسکرت کی لازمی تعلیم دی جاتی تھی اب تیسرے درجے سے سنسکرت کا مطالعہ ایک لازمی زبان کے طور پر کرنا ہوتا ہے۔ )

.2        دوسری زبان — انگریزی

.3        تیسری زبان  —   اردو

اردو تعلیم کے منظر نامے پر مندرجہ بالا صورت حال پر اردو لسانی اقلیت کے درمیان استصواب ہو چکا ہے بس ابہام اگر ابھی بھی ہے تو اس پر کہ اردو تعلیم کے نظم کے لیے کن اداروں پر دباؤ ڈالا جائے۔ یہ ابہام اور الجھاؤ دراصل اردو سے متعلق آزادی کے بعد بے سمت مباحث کا نتیجہ ہے۔ اردو کی تعلیم بھی دیگر زبانوں کی تعلیم کی طرح صوبائی اور مرکزی حکومتوں کے طے شدہ ادارے ہی دے سکتے ہیں۔ ان کی تفصیل سے قبل میں اس ذیل میں راہ پا گئی سب سے بڑی غلط فہمی کو دور کرنا ضروری تصور کرتا ہوں۔

اردو والوں میں جانے یہ غلط فہمی کیسے پھیل گئی کہ صوبائی اردو اکادمیاں یا اردو سے متعلق حکومت کے دیگر مشاورتی ادارے اردو تعلیم کا نظم کر سکتے تھے مگر وہ ایسا نہیں کر رہے۔ اردو اکادمیوں کا کام اردو ادب اور ثقافت کا فروغ ہے اور بالعموم اکثر صوبوں میں اردو اکادمیاں وزارت ثقافت کے تحت کام کرتی ہیں جو تکنیکی طور پر بالکل درست ہے۔ بعض صوبوں میں کسی تکنیکی مجبوری سے اردو اکادمیاں وزارت تعلیم اور کہیں کہیں استثنائی صورت میں براہ راست سکریٹری تعلیم کے تحت بھی کام کرتی ہیں مگر ایسا محض صوبائی حکومت کے ڈھانچے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ تکنیکی طور پر کوئی اردو اکادمی اردو تعلیم کا نظم نہیں کر سکتی۔ بعض صوبوں میں دوسری سرکاری زبان کا درجہ بھی اردو بل میں مندرج مخصوص مقاصد کے لیے اردو کے استعمال کی راہ تو ہموار کر سکتا ہے مگر اس کا بھی اردو تعلیم کے فروغ سے کچھ خاص سروکار نہیں۔ سرکاری استعمال کی زبانوں کے لیے صوبائی اور مرکزی حکومتوں میں مختلف ادارے برسر کار ہوتے ہیں جن میں Official Languages Division اس ذیل میں مشہور محکمہ ہے جو مرکزی حکومت کی سطح پر محکمۂ وزارت داخلہ کے تحت کام کرتا ہے اور  ’یونین کی سرکاری زبان ’ کی حیثیت سے دفتری امور میں ہندی کے فروغ کے لیے ذمے دار ہے۔ ہندی کے علاوہ دیگر زبانوں کے عمومی فروغ کے لیے مرکزی سطح پر وزارت تعلیم میں ڈائرکٹر لینگویجز اور جوائنٹ سکریٹری لینگویجز مرکزی حکومت کے زیر انتظام تمام زبانوں کے عمومی فروغ کے لیے چلنے والے اداروں کے نظم و نسق کی ذمے داری سنبھالتے ہیں مگر ظاہر ہے کہ ان میں سے کوئی بھی ادارہ کسی بھی زبان کی تعلیم کے لیے قانوناً کچھ نہیں کر سکتا۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پرائمری سے ثانوی سطح تک کی تعلیم صوبائی حکومتوں کے کلی اختیار (State list) کا معاملہ ہے جس میں کسی قسم کی مداخلت کی مجاز مرکزی حکومت نہیں ہو سکتی۔ باہمی اتفاق سے اعلا تعلیم البتہ صوبائی اور مرکزی حکومتوں کے مشترکہ ایجنڈے کا حصہ ہو سکتی ہے کہ یہ Concurrent List پر ہے مگر عملاً ایسا کوئی ادارہ نہیں جس پر اردو کی حد تک Concurrent List کا اطلاق ہو سکے۔ مرکزی یونی ورسٹیاں براہ راست وزارت تعلیم کے زیر انتظام ہیں اور صوبائی یونی ورسٹیوں میں ضابطے یو جی سی کے طے کردہ ہوتے ہیں مگر اختیار تمام صوبائی حکومتوں کا ہوتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یونی ورسٹیوں میں اردو ادب کی تعلیم کسی بھی طرح اردو زبان کے عمومی فروغ میں معاون نہیں ہو سکتی۔

پرائمری اور ثانوی سطح پر مرکزی حکومت اردو تعلیم کی حد تک بہت محدود رول کیندریہ ودیالیوں کی حد تک ادا کر سکتی تھی جو مرکزی حکومت کے ملازمین کے بچوں کے لیے قائم کیے جاتے ہیں مگر مرکزی حکومت کے ملازمین میں اردوداں ملازمین کی تعداد تقریباً نہیں کے برابر ہونے کی وجہ سے نہ تو حکومت نے کبھی اردو کو کیندریہ ودیالیہ میں تعلیم کا ذریعہ بنانے یا ایک اختیاری مضمون کے طور پر نصاب میں شامل کرنے پر غور کیا اور نہ ہی اردو مشاورتی کمیٹیوں نے کبھی اس سلسلے میں کوئی مشورہ حکومت کو دیا۔ نودیہ ودیالیوں میں اردو تعلیم کے نظم کی بات ضرور کی گئی مگر یہ سمجھے بغیر کہ وہاں کیا ممکن ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں بھی عملاً کچھ نہیں ہوا لیکن اگر ہوتا بھی تو اس کا فیض اردو لسانی اقلیت تک تقریباً نہیں کے برابر ہی پہنچتا۔

ہمیں یہ بات بار بار دہرانا ہو گی کہ اردو تعلیم کا معاملہ معاشی سطح پر دوسری زبانوں کی تعلیم سے مختلف نہیں ہے اور جس طرح دیگر زبانوں کے بولنے والوں میں مختلف معاشی طبقات ہیں اسی طرح اردو لسانی اقلیت بھی معاشی سطح پر طبقات میں تقسیم ہے اور اردوداں آبادی میں اکثریت معاشی طور پر پسماندہ لوگوں کی ہے جنھیں دیگر ہندوستانیوں کی طرح ہندوستان کے عام تعلیمی نظام میں اپنی زبان کو پرائمری سطح پر ذریعۂ تعلیم کے طور پر اور چھٹے درجے سے سہ لسانی فارمولے میں پہلی اور لازمی زبان کے طور پر اختیار کرنے کا دستوری حق تسلیم کیا جانا چاہیے بھلے ہی اس کے عمل درآمد میں کچھ دیر ہو۔

ثقافت کے ادارے ، ادب اور ثقافت کے فروغ کے لیے قائم شدہ ادارے ، زبانوں کے عمومی فروغ کے لیے قائم مشاورتی ادارے ، اردو تعلیم کے فروغ میں کسی طرح معاون نہیں ہو سکتے ، اس بات کو ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی یاد رکھنا اور دہرانا ضروری ہے کہ اردو والے بھی اس ملک کے ایسے ہی ٹیکس دہندہ ہیں جیسے دوسری لسانی اقلیتوں یا شمالی ہند میں ہندی لسانی اکثریت کے لوگ۔ اردو والوں کو آزادی کے بعد اردو لیڈرشپ نے جس طرح کے جذباتی نعروں میں الجھایا اس میں ان کے یکساں حقوق کے حامل شہری ہونے اور اردو والوں کے لیے ایک ایسی لسانی اقلیت کے حقوق کا عکس دھندلا گیا جس میں ان کے لیے اردو تعلیم کے حقوق کا مطالبہ ایسے ہی کیا جاتا جیسے ہندی والے گجرات اور جنوبی ہند کی ان ریاستوں میں کرتے ہیں جہاں وہ لسانی اقلیت ہیں۔ مختصراً میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اردو تعلیم کے مسئلے کو ہندوستان میں پالیسی سازی کے موجودہ نظام میں دوسری زبانوں کے مساوی رکھ کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اردو کا مسئلہ نہ تو این سی ای آر ٹی جیسے نصاب سے متعلق مشاورتی ادارے میں اردو نصاب سازی کا مسئلہ ہے اور نہ ہی اس کا کچھ تعلق دینی مدارس کی جدیدکاری یا وہاں اردو ادب کی درس و تدریس سے ہے۔ دینی مدارس کی جدید کاری کا معاملہ نہایت پیچیدہ اور ایسی دَل دَل کی طرح ہے جس میں کم از کم حکومت کے تو ہر ادارے کا دھنس جانا طے ہے۔ اگر کوئی ادارہ ایسا کرے گا تو جلد نہ سہی، بہ دیر سہی، اس کے لیے ناقابل تصور مشکلات کا آغاز ہو جائے گا کہ کسی فرقے کی مذہبی تعلیم سے متعلق حکومت کا کوئی ادارہ پالیسی سازی کر کے وہاں فنڈنگ نہیں کر سکتا۔ اگر ایک بار دینی مدارس کے تعلق سے کچھ رقم جدید کاری کے نام پر دینی مدارس پر خرچ ہونا شروع ہو گئی تو پھر عوامی ٹیکس کا برسر اقتدار جماعتیں اپنے مفادات اور مذہبی منافرت پھیلانے کے لیے غلط استعمال کریں گی۔ بہت پہلے پنڈت نہرو نے سومناتھ مندر کی تعمیر نو کے لیے سرکاری فنڈ سے اخراجات پر اسی لیے اعتراض کیا تھا کہ ایسا کرنا غیر آئینی ہے اور بعد میں مندر کی تعمیر نو کا کام عوامی پیسے ہی سے ہوا۔ حکومت کے چند ٹکوں سے دینی مدارس کی جدید کاری آئندہ عوام کے ٹیکس کے اربوں روپے کی مندروں نیز فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والے اداروں پر خرچ کی راہ ہموار کرے گی۔ ہندوستان میں عوام کے ٹیکس کا پیسہ کسی بھی مذہب کی کسی بھی طرح کی تبلیغ کے لیے حکومت کے ذریعے خرچ نہیں کیا جا سکتا، آئین کی دفعہ 28 اس سلسلے میں بالکل صاف ہے۔ آئین کی دفعہ 29 اور 30 اسی لیے مذہبی اقلیتوں کو اپنے وسائل سے اپنی زبان و ثقافت اور رسم خط کے تحفظ نیز اپنے ادارے قائم کرنے اور ان کے نظم کا حق تفویض کرتی ہیں۔ دینی مدارس کی جدیدکاری ہونا چاہیے ، اس کا مسلمانوں کو بہ خوبی احساس ہے اور وہ یہ کام کر بھی رہے ہیں مگر اس سے حکومت کے اداروں خصوصاً اردو اداروں کو دور ہی رہنا چاہیے۔ ویسے بھی مذہبی اداروں میں اگر اردو ادب پڑھایا بھی جائے گا تو اس کی شکل کچھ اور ہی ہو گی اور اردو ادب کی تدریس کا یونی ورسٹیوں میں رائج تصور اور یونی ورسٹیوں کا مرتب شدہ نصاب دینی مدارس کے لیے ناقابل قبول ہو گا۔ مجھے نہ صرف شک ہے بلکہ یقین ہے کہ مدارس میں حکومتی اداروں کا دخل در معقولات ایسی مصیبتوں کا پیش خیمہ بنے گا جس کا تریاق کسی حکیم کے پاس نہ ہو گا۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی تکلف نہیں کہ موجودہ حکومت کی مدارس کی جدید کاری اور اردو کے فروغ کی تمام اسکیمیں آر ایس ایس کے اس مخفی ایجنڈے کا حصہ ہیں جو اردو لسانی اقلیت اور اردو زبان و ثقافت کو اس ملک سے فنا کر دینا چاہتا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اپنے معمولی مفادات کے لیے اردو اشراف موجودہ فسطائی حکومت کی اردو سے متعلق اس سازش کی طرف سے آنکھیں بند کر لینا چاہتا ہے جو اردو کے فروغ کے نام پر کی جا رہی ہے۔

٭٭٭

 

 

انجمن ترقی اردو ہند، دہلی اور جاوید رحمانی کے تشکر کے ساتھ جن کے ذریعے فائل کا حصول ہوا

ان پیج سے تبدیلی، پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید