FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

احناف کی نماز

 

 

ابو الحسنین مفتی محمد عارف محمود خان قادری رضوی

 

 

نماز

اﷲ رب العزت جل مجدہ نے ارشاد فرمایا

واعتصموا بحبل اﷲ جمیعاً ولاتفرقوا (آل عمران آیت 103)

ترجمہ کنز الایمان: اور اﷲ کی رسی مضبوط تھام لو سب مل کر اور آپس میں پھٹ نہ جانا

اس کی تفسیر میں ’’حبل اﷲ‘‘ سے مراد اسلام یا بانی اسلام کی ہستی ہے اور اسلام کے بارے میں ارشاد الٰہی ہے

ان الدین عنداﷲ الاسلام (آل عمران آیت 19)

ترجمہ کنز الایمان: بے شک اﷲ کے یہاں اسلام ہی دین ہے۔

نیز بانی اسلام کے بارے میں ارشاد الٰہی ہے

لقد کان لکم فی رسول اﷲ اسوۃ حسنہ (الاحزاب آیت 21)

ترجمہ کنز الایمان: بے شک تمہیں رسول اﷲ کی پیروی بہتر ہے

ان مذکورہ ہر دو آیتوں سے معلوم ہوا کہ اسلام ہی دین حق ہے اور اس کے مدمقابل سب ادیان، ادیان باطلہ ہیں۔ ان میں خواہ یہودیت وعیسائیت ہو یا ہندومت و سکھ ہو سب باطل ہیں۔ اسی طرح اسلام کے اندر اعمال کا دارومدار بانی اسلام کی سیرت طیبہ پر ہے۔ اس کو نمونہ کاملہ قرار دیا ہے، جبکہ پہلی آیت کریمہ نے یہ بھی بتا دیا کہ اسلام ہی کو تھامے رہو اور فرقوں میں مت بٹ جاؤ۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ اسلام کا دامن تھام کر سیرت طیبہ کے مطابق عمل اختیار کرو۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کے اندر فرقوں کے بنانے کی ممانعت کے باوجود لوگوں نے فرقے تو بنا لئے۔ اب اس سلسلے میں ہماری رہنمائی کیسے ہو گی کہ اصل حقیقی اسلام پر عمل کرنے والے گروہ کا تعین ہم کیسے کریں ؟ اور گمراہ فرقوں کو ہم کیسے پہچانیں ؟ تو آیئے استاذ المحدثین، امام ابو عیسٰی ترمذی کی جامع ’’ابواب الایمان عن رسول‘‘ کے باب ’’افتراق ہذہ الامۃ‘‘ کی درج ذیل حدیث پڑھیئے

ارشاد نبوی ہے:

ستفترق امتی ثلثا و سبعین فرقۃً، کلہم فی النار الاواحدۃ

عنقریب میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی، سوائے ایک کے سب جہنمی ہوں گے

صحابہ عرض گزار ہوئے:

من ہم یارسول اﷲ

وہ نجات پانے والے لوگ کون ہوں گے یارسول اﷲﷺ

ارشاد فرمایا:

ما انا علیہ واصحابی

جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں (ترمذی ج 2 ص 92، مطبوعہ کراچی)

دوسری روایت میں ہے :

ہم الجماعۃ (ابو داؤد) وہ جماعت ہو گی

احیاء علوم الدین الغزالی میں ہے:

ہم اہل السنۃ والجماعۃ (احیاء العلوم)

وہ اہل سنت و جماعت ہوں گے

امام علی قاری حنفی مکی، شیخ عبدالحق محدث دہلوی، غوث اعظم جیلانی، مجدد الف ثانی امام زینی دحلان مکی، سید یوسف بن اسماعیل مدنی، امام شامی، امام حصکفی، امام احمد رضا حنفی رحمہم اﷲ کا اتفاق ہے کہ نجات یافتہ گروہ ’’اہل سنت جماعت‘‘ ہے اس کے سوا فرقے گمراہ، گمراہ گر اور ان میں بعض سرحد دین سے نکل کر اور ضروریات دین کا انکار کر کے کافر و مرتد ہو ہو چکے ہیں۔

اب جب یہ واضح ہو چکا ہے کہ اسلام کے تہتر فرقوں میں سے ’’اہل سنت و جماعت‘‘ ہی اہل حق اور صحیح العقیدہ راسخ مسلمان افراد ہیں، ان کے عقائد و نظریات اسلام کے مطابق ہیں اور ان کے علاوہ دیگر فرقے خوارج و روافض وغیرہما گمراہ ہیں تو اسی نجات یافتہ گروہ کے عقائد کے مطابق عقائد اپنانا لازم ہوا۔ اس تصحیح عقائد کے بعد فرائض میں سے اعظم فرض نماز ہے کہ کلمہ اسلام کے بعد اہم ترین رکن اسلام ہے۔

ابن عمر رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے۔

بنی الاسلام علی خمس، شہادۃ ان لا الہ الا اﷲ وان محمد عبدہ و رسولہ، واقام الصلوٰۃ و ایتاء الزکوٰۃ، وصوم رمضان و حج البیت من استطاع الیہ

اسلام کی نورانی عمارت کی بنیاد ارکان خمسہ پر ہے۔ (1) اﷲ کی وحدانیت اور رسول کی عبدیت و رسالت کی گواہی دینا (2) نماز قائم کرنا (3) زکوٰۃ ادا کرنا (4) رمضان کے روزے رکھنا (5) استطاعت والے پر حج بیت اﷲ کرنا (بخاری و مسلم)

یاد رہے ان میں سے کسی ایک کا انکار بھی کفر ہے اور باوجود اقرار کے اپنی شرائط کے ساتھ جب کسی پر ادائیگی فرض ہو ایک مرتبہ بے عذر ترک کبیرہ اور اس کی عادت بنانا فسق و فجور اور بربادی ایمان کا ذریعہ ہوسکتا ہے۔ ان میں سے خاص طور پر نماز ہر مومن مرد و عورت، عاقل و بالغ، آزاد و غلام، مقیم و مسافر پر پنجگانہ فرض عین ہے کہ بغیر اس کے خود ادا کئے دوسرے کی طرف سے ادائیگی نہ ہو گی اور اسے مومن و کافر کے درمیان ’’فرق‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ اس کی ادائیگی بھی ’’اسوہ حسنہ‘‘ کی روشنی میں ہو گی۔

چنانچہ خود رہبر اعظمﷺ کا فرمان ہدایت نشان ہے

صلوا کما رأیتمونی اصلی (بخاری شریف)

نماز پڑھو جیسے مجھے نماز پڑھتے دیکھو

اب قابل غور بات یہ ہے کہ خود حضور جان عالمﷺ نے نماز کی ادائیگی کیسے فرمائی تو اس سلسلے میں احادیث کریمہ اور سیرت طیبہ کی کتابیں ہمارے سامنے ہیں۔ ان سے ہمیں اندازہ ہوسکتا ہے کہ ارکان نماز کی ادائیگی کا صحیح مسنون طریقہ کون سا ہے؟ آیا وہ کون سا عمل ہے جسے حضورﷺ نے ادا کیا اور پھر ترک کر دیا۔ وہ کون سا عمل ہے جسے پہلے نہ کیا اور بعد میں اختیار کر لیا، کس عمل کے کرنے کی پہلے اجازت عطا فرمائی اور بعد میں اس کے کرنے سے سختی کے ساتھ روک دیا۔ بلکہ اعظم ارکان نماز تکبیر تحریمہ، قیام، قرأت، رکوع، سجود کی طرف تو خود قرآن عظیم نے ہماری رہنمائی کے لئے ارشادات سے ہمیں نوازا پھر یہ جھگڑے کیوں ؟ ارشاد الٰہی ’’وربک فکبر‘‘ میں تکبیر تحریمہ ’’وقوموا الی اﷲ قانتین‘‘ میں قیام اور ’’فاقراء وما تیسر من القرآن‘‘ میں قرأت ’’وارکعوا مع الراکعین‘‘ میں رکوع اور ’’واسجد واقترب‘‘ میں سجود کا بیان واضح اور صاف ترین الفاظ میں موجود ہے۔ اب رہا ان کی ادائیگی کا اصلی دائمی مسنون طریقہ جس کو منسوخ نہ کہہ سکیں جو حتمی ہو، جس پر حضورﷺ کا آخری عمر مبارک میں وصال سے پہلے تک مسلسل عمل ثابت ہو، وہ نماز کے سلسلے میں ’’اسوۂ حسنہ‘‘ ہو گا۔ اس کے لئے اکابر صحابہ کے ارشادات سے موید طریقہ نماز ہمیں احادیث کریمہ کی معتبر کتب علی الخصوص صحاح ستہ اور مولفین صحاح کے اساتذہ کرام کی کتب سے اس کا طریقہ معلوم ہوسکتا ہے۔ اس کو ہمارے ائمہ کبار علی الخصوص امام اعظم ابو حنیفہ سیدنا نعمان ابن ثابت کوفی رضی اﷲ عنہ سے واضح کر کے بیان کر دیا۔ مگر بات یہ ہے کہ دور حاضر میں ایک المیہ بقول پروفیسر محمد حسین آسی مدظلہ العالی یہ ہے، آپ اس کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں ’’ملت اسلامیہ جو اتحاد انسانیت کی علمبردار ہے خود انتشار کا شکار ہے‘‘ پھر یہ بات بھی انتہائی افسوس ناک ہے کہ جو چیزیں بالخصوص اتحاد کا سبق سکھاتی ہیں، ان کے نام سے بھی انتشار پھیلایا جاتا ہے مثلاً یہی نماز اور پھر کتنے مسلمان اس حقیقت سے آگاہ ہیں۔ نماز کے بارے میں موجودہ اختلافات محض علم و تحقیق کی بناء پر نہیں (جیسے قرون اولیٰ میں تھے) بلکہ اس میں بھی غیروں کا ہاتھ ہے۔علم و تحقیق کی بناء پر جو اختلاف کرتے تھے، وہ ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے، جیسا کہ مشہور روایت ہے کہ حضرت امام شافعی رضی اﷲ عنہ، حضرت امام اعظم رضی اﷲ عنہ کے مزار پر انوار پر حاضر ہوتے تو اپنی تحقیق کے بجائے ان کی تحقیق پر چلتے ہوئے نماز ادا کرتے تھے (اس کا ثبوت امام اعظم کی سیرت کی کئی ان کتابوں میں بھی موجود ہے جو شوافع نے لکھی ہیں ) برصغیر پاک و ہند میں موجودہ دور میں اختلافات کا آغاز انگریزوں کی آمد کے بعد ہوا اور انگریزوں کی شہ سے ہوا۔ اصل میں جس بات پر مسلمانوں کا اتفاق تھا، اسی کو نشانہ بنایا گیا تاکہ مسلمانوں کا شیرازہ بکھر جائے اور کسی بیرونی دشمن کا مقابلہ کرنے سے پہلے ایک دوسرے سے لڑ بھڑ کر کمزور ہو جائیں، کون نہیں جانتا بخاری شریف پہلے پہل اس خطے میں اس وقت آئی، جب اسلام آیا، مگر بخاری شریف کے نام پر لڑائی جنگ آزادی 1857ء سے تیس چالیس سال پہلے شروع ہوئی، انگریزوں سے پہلے بڑے بڑے صوفیا،علماء اپنے اپنے دور میں جلوہ گر رہے مگر سب نے کتاب و سنت کی اس تعبیر پر عمل کیا جسے فقہ حنفی کہا جاتا ہے۔ انگریز مداری اپنا تماشا دکھا کرواپس چلا گیا مگر جن کے ذریعہ مسلمانوں میں انتشار پھیلایا گیا تھا، وہ یہیں رہ گئے اور اب تک حق نمک ادا کر رہے ہیں، امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنا، آمین اونچی آواز سے کہنا اور رکوع و سجود میں جاتے ہوئے ہاتھ اٹھانا وغیرہ فروعی مسائل میں کتنے دکھ کی بات ہے کہ ایک دوسرے کو چیلنج کر کے مناظروں کے پوسٹرز لگا دیئے جاتے ہیں جن میں اسی قسم کی ابحاث پر زور دیا گیا ہے جبکہ ملت اسلامیہ کے از حد نازک دور ہے اور اسلام دشمن قوتوں کا ناپاک ترین منصوبہ یہی ہے کہ مسلمانوں کو ایک دوسرے سے الجھایا جائے۔

اصل بات یہ قابل غور ہے کہ آج عالمگیر سطح پر دنیا بھر کے مسلمانوں میں بالعموم اور اسکول کالج کے طلبہ میں بالخصوص یہ بات ذہن نشین کرانے کی ناپاک کوشش کی جا رہی ہے کہ جو بات ’’بخاری شریف‘‘ میں نہ ہو وہ قابل تسلیم ہی نہیں۔ اس کا صاف مطلب تو یہ ہوا کہ (معاذ اﷲ) بخاری شریف کا درجہ قرآن شریف سے بھی زیادہ ہو گیا حالانکہ امام اعظم رضی اﷲ عنہ امام بخاری کے چھٹے درجے میں امام مسلم کے ساتویں درجے میں اور امام ترمذی کے آٹھویں درجے میں استاذ ہیں اور یہ تینوں محدثین کرام صحاح ستہ میں اپنا علمی مقام دیگر تین محدثین ابن ماجہ، ابو داؤد و نسائی رحمہم اﷲ سے زیادہ رکھتے ہیں۔ اور لطف کی بات تو یہ ہے کہ خود ان تینوں مذکورہ محدثین، امام بخاری،مسلم و ترمذی نے اپنی اپنی اسناد صحیحہ کے ساتھ یہ حدیث بیان کی جس میں امام الانبیاءﷺ نے حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ارشاد فرمایا:

لوکان الایمان عند الثریا لنالہ رجل من ہٰؤلآء

یعنی اگر ایمان ثریا ستارے کے نزدیک بھی ہوتا، ان (عجمیوں ) میں ایک شخص اسے ضرور پا لیتا۔ بعض دیگر روایتوں میں ایمان کی جگہ علم اور دین کے الفاظ میں مذکور ہیں۔ بہرحال اتفاقی طور پر اس کا مصداق امام اعظم رضی اﷲ عنہ کی ہستی قرار دیئے گئے ہیں۔ آپ کی ولادت 80ھ یا 70ھ میں آپ کی وجہ سے آپ نے اولین تابعین کا زمانہ گزارا۔ لگ بھگ بیس صحابہ کرام کی زیارت سے مستفیض ہوئے۔ ان میں سے بعض سے روایات ہیں ابو موسیٰ اشعری، حضرت مولا علی و ابن مسعود وغیرہم رضی اﷲ عنہما کی وجہ سے جو کہ پہلے ہی علم کا مرکز بنا ہوا تھا اور امام اعظم کی علمی نسبت فقہی شجرہ افقہ الصحابہ بعد الخلفاء الراشدہ ابن مسعود رضی اﷲ عنہ کے ذریعے حضورﷺ تک متصل ہونے کی وجہ سے آپ کی فقاہت دیگر فقہائے امت سے ممتاز ہے۔ اس لئے کہ آپ نے فقہ امام حماد سے انہوں نے ابراہیم نخعی سے انہوں نے حضرت علقمہ واسود سے انہوں نے ابن مسعود سے اور انہوں نے براہ راست معلم کائناتﷺ سے اخذ علم کیا۔ اس کے علاوہ امام اعظم نے اپنے تلامذہ کی ایک جماعت فقہاء تیار کر کے ان کی شوریٰ بنائی اور اجتماعی طور پر ان حضرات کی رائے سے طے کردہ مسائل کا مجموعہ ’’فقہ حنفی‘‘ کہلاتا ہے۔ ان سب وجوہات کی وجہ سے ’’فقہ حنفی‘‘ کی برتری مسلّم ہے مگر کچھ ناعاقبت اندیش غیر مقلدین وہابیہ زمانہ اس اعلم العلماء امام ہمام رضی اﷲ عنہ کی فقہ حنفی کی نماز کے پیچھے لگے رہتے ہیں۔ لہذا فقیر قادری غفرلہ اس مضمون میں قسط وار فقہ حنفی کے مطابق پنجگانہ نماز، نماز جمعہ و عیدین، اور نماز جنازہ کا ثبوت امام بخاری، مسلم، ترمذی اور دیگر محدثین کی کتابوں کی روشنی میں پیش کرنے کی سعی کرے گا۔

 

تکبیر

اﷲ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا

وربک فکبر (اور اپنے رب ہی کی بڑائی بولو) (سورۂ مدثر آیت 3، پ 29، ترجمہ کنز الایمان)

اس آیت کریمہ میں رب کریم نے اپنے محبوب کریم کو تکبیر کہنے کا حکم دیا۔ اس کے تحت مفسرین کرام رحمہم اﷲ نے لکھا ہے کہ

فامرنا رسول اﷲﷺ ان نفتح الصلوٰۃ بالتکبیر

یعنی ہمیں رسول پاکﷺ نے حکم دیا ہے کہ ہم اپنی نماز تکبیر کے ساتھ شروع کریں۔ یاد رہے کہ ’’تکبیر‘‘ کا مطلب ہے خدائے بزرگ و برتر کی کبریائی کا بیان کرنا، اس کے لئے ہمیں احادیث کریمہ سے جو تعلیم ملتی ہے، اس کی روشنی میں اس کے الفاظ اور کہنے کا انداز اور اس وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھانے کا صحیح طریقہ کیا ہے، اس کی تحقیق کے لئے احادیث کریمہ کے اولین و مستند مجموعہ جات کی سرسری سیر کرتے ہیں۔

چنانچہ امام بخاری کے استاذ الاستاذ امام عبداﷲ بن محمد بن ابی شیبہ علیہ الرحمہ نے اپنی ’’مصنف‘‘ کے ’’کتاب الصلوٰۃ‘‘ جلد اول کے باب 1 ’’فی مفتاح الصلوٰۃ ماہو‘‘ مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان ص  260 پر تکبیر کے پانچ حروف کی نسبت سے احادیث خمسہ بیان کی ہیں وہ درج ذیل ہیں۔

1: حدثنا ابوبکر قال حدثنا وکیع من سفیان عن عبداﷲ بن محمد بن عقیل عن ابی الحنفیۃ عن ابیہ قال قال رسول اﷲﷺ ’’مفتاح الصلوٰۃ الطہور وتحریمہا التکبیر و تحلیلہا التسلیم‘‘

2: حدثنا ابوبکر قال حدثنا ابو الاحوص عن ابی اسحق عن ابی الاحوص قال قال عبداﷲ رضی اﷲ عنہ ’’تحریم الصلوٰۃ التکبیر و تحلیلہا التسلیم

3: حدثنا ابوبکر قال حدثنا ابن فضیل عن ابی سفیان السعدی عن ابی نضرۃ عن ابی سعیدن الخدری رضی اﷲ عنہ قال قال النبیﷺ ’’مفتاح الصلوٰۃ الطہور وتحریمہا التکبیر و تحلیلہا التسلیم‘‘

4: حدثنا ابوبکر قال حدثنا ابو خالد الاحمر عن ابن کریب عن ابیہ عن ابن عباس رضی اﷲ عنہما قال ’’مفتاح الصلوٰۃ الطہور وتحریمہا التکبیر و تحلیلہا التسلیم‘‘

5: حدثنا ابوبکر قال حدثنا بن ہارون عن حسن المعلم عن بدیل عن ابی الجوزاء عن عائشۃ رضی اﷲ عنہا قالت کان النبیﷺ یضتتح الصلوٰۃ بالتکبیر وکان یختم بالتسلیم

اب بالترتیب ان احادیث خمسہ کا با محاورہ ترجمہ ملاحظہ کیجئے

1: امام ابن ابی شیبہ سے ابوبکر نے حدیث بیان کی۔ وہ فرماتے ہیں ہم نے حضرت وکیع از سفیان از عبداﷲ بن محمد بن عقیل از ابن حنیفہ والد گرامی بیان کرتے تھے کہ انہوں نے فرمایا رسول اﷲﷺ نے فرمایا ’’نماز کی کنجی طہارت، نماز کی تحریمہ تکبیر اور نماز کی تحلیل سلام پھیرنا ہے‘‘

2: امام ابن ابی شیبہ سے ابوبکر نے از ابوالاحوص از ابو اسحق از ابوالاحوص حدیث بیان کی، کہا کہ حضرت عبداﷲ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا ’’نماز کی تحریمہ تکبیر ہے اور نماز کی تحلیل سلام کہنا ہے‘‘

3: امام ابن ابی شیبہ سے ابوبکر نے از ابن فضیل از ابی سفیان سعدی از ابونضرۃ از ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ حدیث بیان کی۔ انہوں نے کہا کہ نبی پاکﷺ نے ارشاد فرمایا ’’نماز کی کنجی طہارت ہے، اور نماز کی تحریمہ تکبیر اور اس کی تحلیل سلام پھیرنا ہے‘‘

4: امام ابن شیبہ سے ابوبکر نے از ابو خالد احمد از ابن کریب از والد کریب از ابن عباس رضی اﷲ عنہما حدیث بیان کی۔ انہوں نے فرمایا ’’نماز کی کنجی طہارت ہے، اس کی تحریمہ تکبیر اور تحلیل سلام کہنا ہے‘‘

5: امام ابن ابی شیبہ سے ابوبکر از یزید بن ہارون از حسن معلم از بریل از ابو الجوزا از ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا حدیث بیان کی۔ آپ فرماتے ہیں۔ ’’نبی پاکﷺ اپنی نماز تکبیر سے شروع کرتے اور تسلیم پر ختم کرتے تھے‘‘

تنبیہ: مذکورہ احادیث خمسہ میں سے احادیث اربعہ اس بات کی دلیل ہے کہ آنحضورﷺ اور آپ کے اصحاب نے تکبیر کو بنیادی نماز قرار دیا جبکہ آخری حدیث میں حضورﷺ کے عمل سے اس کا ثبوت مل گیا۔

اب قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس افتتاح نماز کے لئے تکبیر تحریمہ کہنے کا کیا انداز اپنایا گیا۔ اس سلسلے میں امام بخاری، مسلم اور ترمذی رحمہم اﷲ کی بیان کردہ چند روایات سے استفادہ کرتے ہیں۔

چنانچہ امیر المومنین فی الحدیث سیدنا امام ابو عبداﷲ محمد بن اسماعیل البخاری علیہ الرحمہ اپنی ’’صحیح‘‘ میں ’’کتاب الصلوٰۃ، باب الی این یرقع یدیہ جلد اول ص 102 طبع قدیمی کتب خانہ کراچی میں نقل کرتے ہیں

حدثنا ابو الیمان قال اخبرنا شعیب عن الزہری قال اخبرنی سالم بن عبداﷲ بن عمر ان عبداﷲ ابن عمر قال رایت النبیﷺ افتتح التکبیر فی الصلوٰۃ فرفع یدیہ حین یکبر حتی یجعلہما حذومنکبیہ واذا کبر للرکوع فمل مثلہ واذا قال سمع اﷲ لمن حمدہ فعل مثلہ وقال ربنا لک الحمد ولا یفعل ذالک حین یسجد ولاحین یرفع راسۃ من السجود

ابن عمر رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے حضورﷺ کو دیکھا کہ آپﷺ نے افتتاح نماز تکبیر کہہ کر کیا اور اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا اور کندھوں کے برابر کر دیا اور جب رکوع کے لئے تکبیر کہی تو پھر اسی طرح کیا اور جب سمع اﷲ لمن حمدہ کہا تو پھر اسی طرح کیا اور کہا ’’ربنا لک الحمد‘‘ اور سجدہ میں جاتے ہوئے اور سجدہ سے اٹھتے ہوئے ایسا نہ کیا۔

امام المحدثین امام مسلم بن حجاج نیشاپوری علیہ الرحمہ اپنی صحیح میں کتاب الصلوٰۃ، باب رفع الیدین حذوالمتکبین جلد اول ص 168 مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی میں یوں نقل کرتے ہیں :

حدثنی ابو الکامل الجہری قال حدثنا ابو عوانۃ عن قتادۃ عن نصر ابن عاصم عن مالک من الحویرث ان رسول اﷲﷺ کان اذا کبر رفع یدیہ حتی یعازی بہما اذنیہ واذا رکع رفع یدیہ حتی یحازی بہا اذنیہ واذا رفع راسہ من الرکوع فقال سمع اﷲ لمن حمدہ فعل مثل ذالک

وحدثنا محمد بن المثنی قال حدثنا ابن ابی عدی عن سعید عن قتادۃ بہذا الاسناد انہ رای نبیﷺ وقال حتی یحازی بہما فروغ اذنیہ

حضورﷺ نے اپنے ہاتھ دونوں کانوں کی لو تک بلند کئے۔ استاذ المحدثین امام ابوعیسٰی محمد بن عیسٰی بن سورت ترمذی علیہ الرحمہ اپنی جامع میں کتاب الصلوٰۃ، جلد اول مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی، ادب منزل پاکستان چوک کراچی ص 55، 54 پر اس سلسلے کی رہنمائی یوں کرتے ہیں

عن ابی  سعید ن الخدری رضی اﷲ عنہ قال قال رسول اﷲﷺ مفتاح الصلوٰۃ الطہور وتحریمہا التکبیر وتحلیلہا التسلیم الخ

ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا ’’نماز کی کنجی پاکی حاصل کرنا، اس کی تحریمہ اﷲ اکبر کہنا اور اس کی تحلیل سلام کہنا ہے‘‘

آگے چل کر باب فی نشر الاصابع عند التکبیر میں یوں روایت نقل کرتے ہیں

قال حدثنا قتیبہ وابو سعید الاشج قال حدثنا یحیی بن یمان عن ابی ذئب عن سعید بن سمعان من عن ابی ہریرۃ رضی اﷲ عنہ قال کان رسول اﷲﷺ اذا دکبّر للصلوٰۃ رفع نشر صابعہ

امام ترمذی از قتیبہ وابو سعید حدیث بیان کرتے ہیں وہ دونوں از یحیی بن یمان از ابی زئب از سعید بن سمعان از ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی پاکﷺ جب نماز کے لئے تکبیر کہتے تو اپنی انگلیاں عام حالت پر کھلی رکھتے۔

امام بخاری، امام مسلم و ترمذی رحمہم اﷲ کی بیان کردہ روایات سے یہ بات کھل کر سامنے آ گئی کہ طہارت نماز کے لئے کنجی کی حیثیت رکھتی ہے جبکہ ابن ابی شیبہ کی احادیث خمسہ بھی اسی بات پر دلالت کرتی ہیں۔ امام بخاری کی روایت میں ہے کہ حضورﷺ کندھوں تک ہاتھ اٹھاتے جبکہ امام مسلم کی روایت میں کانوں تک کا ذکر ہے۔ اس کی تطبیق ممکن ہے وہ یوں کہ ہاتھوں کا کاندھوں کے برابر سیدھا ہوا انگوٹھوں کا کانوں کی لو کے برابر ہونے کو مانع نہیں اور اس پر تجربہ شاہد ہے۔ البتہ ان دونوں حدیثوں میں رکوع میں جاتے اور اٹھتے ہاتھ اٹھانے (رفع یدین) کا تذکرہ ہے۔ اس کی مکمل بحث اگلے صفحات میں آ جائے گی کہ رفع یدین کا عملی ثبوت کب تک رہا اور کب نہ رہا۔ نیز امام ترمذی کی روایت سے یہ بھی پتا چلا گیا کہ حضورﷺ اپنی انگلیوں کو کھول کر تحریمہ کہتے تھے۔ احناف کا اسی پر عمل ہے۔

قیام

اب پہلے اس موضوع کو زیر بحث لاتے ہیں کہ احناف قیام میں دونوں ہاتھوں کو ناف کے نیچے کیوں باندھتے ہیں۔ اس سلسلے میں احادیث کریمہ کی روشنی میں ہمیں کیادرس ملتا ہے۔ اصل قیام تو خود دلیل قطعی نصِ  قرآن عظیم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے۔

وقومو اﷲ قانتین…

اور اﷲ کے حضور عاجزی سے کھڑے ہو جاؤ (البقرہ آیت 238)

اب مسئلہ یہ ہے کہ مطلق قیام تو امر الٰہی کے تحت فرض ہوا مگر اس میں دونوں ہاتھوں کی پوزیشن واضح نہ ہوئی کہ آیا دونوں کھلے رکھیں یا باندھیں۔ داہنا اوپر ہو یا بایاں ہاتھ اوپر ہو۔ سینے پر باندھیں یا ناف پر، یا دونوں کے بیچ میں پیٹ پر یا ناف کے نیچے تک لے جائیں۔ احوط ہمارے نزدیک زیر ناف ہاتھوں کا باندھنا ہے۔ اس طرح کے بایاں ہاتھ نیچے اور دایاں ہاتھ اس کے اوپر ہو۔ احادیث کریمہ اسی کی تائید کرتی ہیں۔ دیگر روایات جن میں اس کے خلاف طریقے بیان ہوئے ہیں ان کی فنی حیثیت ان روایات سے کم ہے جو وضع الیدین تحت السرۃ کی موید ہیں۔ چنانچہ امام بخاری کے استاد الاستاذ امام عبداﷲ بن محمد بن ابی شیبہ علیہ الرحمہ اپنی ’’مصنف‘‘ مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان میں یوں رقم طراز ہیں۔

حدثنا وکیع عن موسیٰ بن عمیر عن علقمۃ بن وائل بن حجر عن ابیہ قال رأیت النبیﷺ وضع یمینہ علیٰ شمالہ فی الصلوٰۃ تحت السرۃ

امام ابن ابی شیبہ سے حضرت وکیع از موسیٰ ابن عمیر از علقمہبن وائل بن حجر روایت بیان کرتے ہیں کہ ان کے باپ (وائل بن حجر) فرماتے ہیں کہ میں نے نبی پاک، صاحبِ لولاکﷺ کو اپنی نماز میں دایاں دست اقدس بائیں دست اقدس پر رکھتے ہوئے دیکھا۔

اس روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے محشیٔ کتاب الآثار یوں رقم طراز ہیں :

قال الحافظ قاسم بن قطلوبنا اسنادہ جید (کتاب الاثآر جلد 7 ص 34)

امام حافظ الحدیث بن قطلوبنا فرماتے ہیں۔ اس حدیث کی راویوں کی کڑی بڑی عمدہ ہے۔

امام الاولیاء، مولائے کائنات، علی المرتضیٰ، شیر خدا کرم اﷲ وجہ للاسنیٰ اس ہاتھ باندھنے کی کیفیت کے بارے میں واضح ترین لفظوں میں ارشاد فرماتے ہیں۔

ان من سنۃ الصلوٰۃ وضع الیمین علی الشمال تحت السرۃ

یعنی نماز کی سنتوں میں سے یہ بھی کہ داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر زیر ناف رکھنا (ناف کے نیچے رکھنا)

احناف کے مشہور محدث شارح بخاری علامہ بدر الدین محمود العینی علیہ الرحمہ اپنی تصنیف لطیف عمدۃ القاری بشرح صحیح بخاری میں یوں رقم طراز ہیں :

وقول علی ان من السنۃ ہذا اللفظ یدخل فی المرفوع عندہم وقال ابو عمر فی المنتقی واعلم ان الصحابی اذا اطلق اسم السنۃ فالمراد بہ سنۃ النبیﷺ

یعنی حضرت علی پاک کا یہ کہنا کہ ہاتھ زیر ناف رکھنا سنت ہے، اس سے یہ حدیث مرفوع بن جاتی ہے۔ ابو عمر کہتے ہیں جب صحابی کسی بات پر سنت کا اطلاق کرے تو اس سے مراد سنت نبوی ہوتی ہے۔

ائمہ شوافع میں سے شارح صحیح مسلم امام نووی علیہ الرحمہ رقم طراز ہیں :

واما اذا قال الصحابی امرنا بکذا اونبینا عن کذا اومن السنۃ کذا فکلہ مرفوع علی المذہب الصحیح الذی قال الجمہور من اصحاب الفنون (مقدمہ شرح صحیح مسلم مطبوعہ کراچی ص 17)

اور جب صحابی یہ فرمائے کہ ہمیں فلاں چیز کا حکم دیا گیا یا ہمارے نبی کریمﷺ سے یہ بات ثابت ہے یا فلاں چیز سنت ہے تو سب مذہب صحیح پر مرفوع حدیث کے حکم میں ہے۔ اصحاب فنون کی تحقیق یہی ہے۔

امام عینی و نووی علیہما الرحمہ کے علاوہ دیگر محققین کی بھی یہی تحقیق ہے کہ صحابی رسولﷺ جب کسی معاملے کوسنت کہے اس سے مراد سنت نبوی ہوتی ہے۔ ابن عباس رضی اﷲ عنہ بھی یہی رائے رکھتے تھے اور جمہور محدثین کی تصنیفات اس امر کی تحقیق سے مالا مال ہیں اور یہ طے شدہ امر ہے کہ اس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں بلکہ سبھی کا اتفاق ہے اور ایسی سنت نبوی جس پر دوامی  عمل ثابت ہو اور ترک نہ کیا گیا ہو، اور نہ ہی ترک کا حکم دیا گیا ہو، اس پر عمل کرنا امت کے لئے بھلائی ہی بھلائی اور برکت ہی برکت ہے۔

امام محمد بن حسن شیبانی محرر مذہب حنیفہ کتاب الآثار ص 34 مطبوعہ بیروت پر رقم طراز ہیں :

قال اخبرنا الربیع عن ابی معشر عن ابراہیم (النخعی) انہ کان یضع ہدۃ الیمنی علی یدہ الیسریٰ تحت السرۃ

امام محمد از ربیع از ابو معشر از ابراہیم نخفی بیان کرتے ہیں کہ امام ابراہیم نخعی (امام اعظم کے استاذ الاستاذم نماز میں بحالت قیام دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھتے تھے)

امام نخعی کے امام اعظم، فقیہ اضخم سیدنا نعمان بن ثابت کوفی رضی اﷲ عنہ کے استاذ الاستاذ اور اس امت کے جلیل القدر رہنما، افقہ الصحابہ بعد الخلفاء الراشدہ سیدنا عبداﷲ ابن مسعود رضی اﷲ عنہ کے تلمیذ ہیں۔ اور ابن مسعود ان کے استادتھے، ان کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار یوں کرتے تھے۔

مااخذ شیئاً و ما اعلم شیئاً الا وعقلمۃ یقرہ ویعلمہ

(تذکرہ الحفاظ ص 48)

یعنی جو کچھ میں پڑھتا اور جانتا ہوں اسے علقمہ بھی پڑھتے اور جانتے ہیں۔

ابراہیم نخعی حضرت علقمہ کے بھانجے اور لائق ترین شاگرد ہیں۔ انہیں افقہ الصحابہ کا خصوصی فیضان بواسطہ علقمہ حاصل ہے۔ ان کا عمل یقینی طور پر عمل علقمہ اور عمل علقمہ یقینی طور پر عمل ابن مسعود ہے اور ابن مسعود کا عمل یقینی طور پر عمل نبوی کی پیروی ہو گا۔

امام اعظم کی مسند کے مقدمہ میں ہے :

رضیت لامتی مارضی ابن ام عبد وکرہت الامتی ماکرہ ابن ام عبد

یعنی حضور سرور عالمﷺ فرماتے ہیں۔ میں اپنی امت کے حق میں ہر اس بات کو پسند کرتا ہوں جسے عبداﷲ ابن مسعود پسند کرے اور ہر اس بات کو ناپسند جانتا ہوں جسے ابن مسعود ناپسند جانے۔

اسی حدیث کو امام ترمذی جیسے جلیل القدر محدث نے بھی بیان کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ابن مسعود کا عمل نبی پاکﷺ کا پسند فرمودہ ہے۔ اور ان کے تلمیذ التلمیذ کا عمل دونوں ہاتھ ناف کے نیچے اس طور پر باندھنا کہ داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ کے اوپر ہوتا تھا۔

ابو مجلز سے حالت قیام میں ہاتھوں کو باندھنے کی کیفیت کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے اس طرح ارشاد فرمایا:

قال یضمع باطن کف یمینہ علی ظاہر کف شمالہ و یجعلہا اسفل من السرۃ

دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کے ظاہر پر ناف کے نیچے باندھے

(مصنف ابن شیبہ)

تہذیب التہذیب ج 12ص 227 پر ابو مجلزکو ابن عباس جیسے جلیل القدر صحابی رسول کے راویوں میں شمار کیا گیا ہے۔

علامہ علاؤ الدین علی بن عثمان متوفی 745ھ الجوہر النقی علی البیہقی ج 2ص 31 پر یوں رقم طراز ہیں :

قال ابن حزم وروینا عن ابی ہریرۃ وقال وضع الکف فی الصلوٰۃ تحت السرہ

ارشاد فرمایا ابن حزم نے کہ ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ہاتھوں کو ناف کے نیچے باندھا جائے۔

اسی مذکورہ کتاب میں مرقوم ہے

عن انس قال ثلاث من اخلاق النبوۃ تعجیل الافطار و تاخیر السحور وضع الید المینی علی الیسریٰ فی الصلوٰۃ تحت السرہ

انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ تین چیزیں اخلاق نبوت میں سے ہیں۔ افطار میں جلدی کرنا، سحری دیر سے کرنا اور نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھنا۔

الحاصل دلائل مذکورہ سے ثابت ہوا کہ آنحضورﷺ، آپ کے اجداء صحابہ اور اجداء کرامت کے نزدیک نمازی کو بحالت قیام اپنا داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھنا سنت ہے اور اسی پر عمل سنت کریمہ ہے۔ اس کے برعکس دیگر طریقے مسنون نہیں ہیں۔ اس لئے حنفیوں کا عمل اس مسنون طریقے پر جاری و ساری ہے۔

امام احمد بن حنبل رضی اﷲ عنہ اپنی مسند میں سند جیّد کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

عن علی رضی اﷲ عنہ قال ان من السنۃ فی الصلوٰۃ وضع الاکف علی الاکف تحت السرۃ

یعنی حضرت علی مرتضیٰ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے۔ آپ بیان فرماتے ہیں کہ نماز میں سنت کریمہ یہ ہے کہ ہتھیلیوں کو ناف کے نیچے رکھا جائے۔

امام دارقطنی یوں رقم طراز ہیں :

عن علی رضی اﷲ عنہ انہ کان یقول ان من سنۃ الصلوٰۃ وضع الیمین علی الشمال تحت السرۃ

یعنی حضرت علی مرتضیٰ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ نماز میں سنت کریمہ یہ ہے کہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھا جائے۔

امام ابو داؤد یوں رقم طراز ہیں :

عن ابی جحیفۃ ان علی ان علیاً رضی اﷲ عنہ قال من السنۃ وضع الکف علی الکف فی الصلوٰۃ تحت السرۃ

ابو جحیفہ سے مروی ہے کہ حضرت مولائے کائنات رضی اﷲ عنہ نے ارشاد فرمایا۔ سنت کریمہ یہ ہے کہ نماز میں ہتھیلی کو ہتھیلی پر ناف کے نیچے رکھا جائے۔

ہمارے برصغیر کے ناشرین نے سنن ابی داؤد کے نسخوں میں اس حدیث کو متناً شامل نہیں کیا البتہ حاشیہ میں اس حدیث پاک کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ حدیث پاک صرف ابن اعرابی کے نسخہ ابی داؤد میں موجود ہے۔ الغرض مذکورہ کتب ثلثہ کی روایت سے واضح معلوم ہوا کہ خلیفہ ارشد مولائے کائنات رضی اﷲ عنہ بھی اس طریقے کو سنت کریمہ قرار دے چکے ہیں۔ اور یہ قطعی بات ہے کہ صحابی رسول کا کس عمل کو سنت قرار دینا اس سے مراد سنت مصطفی ہی ہے اور کس کی سنت ہو گی تابعی ہے تو سمجھ میں آسکتا ہے اس سے مراد سنت صحابی ہو مگر جب صحابی کہہ دیا ہے تو مراد سنت رسول ہے۔

امیر المومنین فی الحدیث امام ابو عبداﷲ محمد بن اسماعیل البخاری علیہ الرحمہ اپنی ’’صحیح‘‘ کتاب الصلوٰۃ کے ’’باب الیمنی علی الیسریٰ فی الصلوٰۃ‘‘ جلد اول ص 152 مطبوعہ قدیمی کتب خانہ پر یوں رقم طراز ہیں۔

قال حدثنا عبداﷲ بن مسلمۃ، عن مالک، عن ابی حازم عن سہل بن سعد قال کان الناس یؤمرون ان یضع الرجل الید الیمنی علی ذراعہ الیسریٰ فی الصلوٰۃ قال ابو حازم لا اعلمۃ الا ینمی ذالک الی النبیﷺ قال اسماعیل و ینمیٰ ذالک ولم یقل ینمی

امام بخاری فرماتے ہیں۔ ہمیں عبداﷲ بن مسلمہ نے حدیث بیان کی از امام مالک از ابی حازم از سہل بن سعد، انہوں نے بیان کیا کہ لوگوں کو یہ حکم دیا جاتا تھا کہ ایک شخص نماز میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں کلائی پر رکھے۔ ابو حازم نے کہا کہ سہل نے اس قول کو صرف نبی کریمﷺ کی طرف منسوب کیا ہے اور اسماعیل نے کہا اس قول کو منسوب کیا جاتا ہے اور یہ نہیں کہا کہ سہل نے اس قول کو منسوب کیا ہے۔

نوٹ: اس حدیث مبارک کے رجال چاروں معتبر اور ثقہ ہیں۔ ان کی ثقاہت پر ناقدین کے تبصرے شاہد ہیں۔ غیر مقلدین اپنی من گھڑت سے ضعف ثابت کریں تو دھوکہ نہ سمجھا جائے۔

اس حدیث بخاری سے واضح ہو گیا کہ قیام میں ہاتھ باندھنا مسنون ہے۔ ابوبکر صدیق، مولا علی، امام ثوری، امام شافعی، امام احمد، اسحق وغیرہم کا مذہب یہی ہے کہ قیام میں ہاتھ باندھے جائیں گے۔ بعض فقہاء مائل ہیں اس بات کے کہ ہاتھ کھلے رکھے جائیں لیکن یہ بات پایہ تحقیق کو نہیں پہنچی۔ ایک قول یہ ہے کہ سینہ پر ہاتھ باندھنے میں زیادہ خشوع ہے کیونکہ اس میں نماز میں نور ایمان کی حفاظت ہے۔ لہذا یہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھ کر شرمگاہ کی طرف اشارہ کرنے سے افضل ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا تعظیم کے زیادہ قریب ہے اور شرمگاہ کو چھپانے اور تہبند کو پھسل کر گرنے سے محفوظ رکھنے کا سبب ہے اور یہ ایسے ہے جیسے بادشاہوں کے سامنے لوگ ادب سے کھڑے ہوتے ہیں اور سینہ پر ہاتھ باندھنے میں عورتوں سے تشبیہ ہے۔

(عمدۃ القاری ج 5، ص 408,407، شرح ابن بطال)

اب رہا مسئلہ یہ کہ سینہ پر ہاتھ باندھنے کی روایت کی توجیہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں پہلے حدیث ملاحظہ کیجئے۔

امام بیہقی علیہ الرحمہ رقم طراز ہیں :

عن وائل رضی اﷲ عنہ انہ رایٔ النبیﷺ وضع المینہ علی شمالہ ثم وضعھما علی صدرہ

حضرت وائل بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے دیکھا کہ نبی کریمﷺ نے دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا پھر دونوں ہاتھ سینے پر رکھے۔

اس حدیث کے تحت علامہ ترکمانی علیہ الرحمہ رقم طراز ہیں :

اس حدیث کی سند میں محمد بن حجر ہے ذہبی کہتے ہیں کہ وہ اپنے چچا سعید سے منکر روایات کرتا ہے، اور ایک راوی ام جبار ہے یہ غیر معروف ہے، نیز امام بیہقی نے کہا ہے اس حدیث کو مومل نے بھی یہ روایت کیا ہے صاحب الکمال نے کہا کہ اس مومل کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ اس نے اپنی کتابیں دفن کر دی تھیں اور اپنے حافظہ سے احادیث بیان کرتا تھا۔ اور اس سے بہت خطائیں ہوتی تھیں، اور میزان میں امام بخاری نے کہا یہ منکر الحدیث ہے۔ امام ابو حاتم نے کہا کہ یہ کثیر الخطاء ہے۔

امام ابو ذرعہ نے کہا کہ اس حدیث میں بہت خطا ہے۔ پھر امام بیہقی نے حضرت مولائے کائنات سے سینے پر ہاتھ باندھنے کی روایت کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ اس حدیث کی سند اور متن میں اضطراب ہے۔ پھر امام بیہقی نے روح بن مسیب کی سند سے نقل کیا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما نے سینے پر ہاتھ باندھے، اس روح کے متعلق ابن عدی نے کہا کہ یہ ثابت اور ہزیدر قاشی سے غیر محفوظ احادیث روایت کرتا ہے۔ ابن حبان نے کہا یہ موضوع احادیث روایت کرتا ہے۔ اس سے روایت کرنا جائز نہیں۔ ابن عدی عمرو فکری نے کہا کہ یہ ثقافت سے منکر احادیث روایت کرتا ہے اور یہ مسارق الحدیث ہے۔ ابو یعلیٰ موصلی نے اس کو ضعیف کہا ہے۔ پھر امام بیہقی نے ابو مجلز سے ناف کے اوپر ہاتھ باندھے کو نقل کیا ہے۔ یہ صراحتاً غلط ہے کیونکہ ابو مجلز کا مذہب ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا ہے۔ جیسا کہ ابو عمر نے سند جید کے ساتھ تمہید میں اور امام بخاری کے استاذ الاستاذ امام ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں ان کی روایت بیان کی ہے۔ ابن معین نے بھی بیہقی پر یہ اعتراض کیا ہے کہ انہوں نے بغیر سند کے ابو مجلز کی طرف سینے پر ہاتھ باندھنے والی بات منسوب کر دی ہے۔

ابن حزم نے کہا ہے کہ ہم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے یہ روایت کیا ہے کہ نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ پر ہاتھ رکھے جائیں اور سیدنا انس بن مالک نے کہا ہے کہ تین چیزیں اخلاق نبوت سے ہیں اور وہ یہ ہیں۔

(1) افطار جلدی کرنا، (2) سحری تاخیر سے کرنا، (3) نماز میں بحالت قیام اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھنا

الحاصل سینے پر ہاتھ باندھنے والی تمام روایات سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں اور ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والی احادیث کریمہ میں سے صرف ایک حدیث کی سند کو بیہقی نے ضعیف قرار دیا ہے حالانکہ یہ حدیث متعدد سندوں سے ثابت ہے اس لئے یہ حدیث راجح ہے۔ نیز فقہائے احناف نے دونوں حدیثوں پر عمل کیا ہے۔ اس طرح کہ مردوں کے حق میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والی حدیثوں پر عمل کیا ہے کہ طریقہ نبوی یہی رہا ہے اور عورتوں کے حق میں سینے پر ہاتھ باندھنے والی حدیثوں پر عمل کیا ہے کیونکہ ازواج مطہرات رضی اﷲ عنہا کا طریقہ یہی رہا ہے، اس میں یہی تطبیق ممکن و بہتر ہے اور دونوں کے حق میں یہی طریقہ ادب و تواضع کے زیادہ قریب ہے اور انسانیت کے زیادہ لائق قرار دیئے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ارشاد رب العزت جل مجدہ ہے

 واصبر لحکم ربک فانک باعیننا وسبح  بحمد ربک حین تقوم (سورۂ طور آیت ۴۸،پ ۲۷)

ترجمہ کنز الایمان: اور اے محبوب، تم اپنے رب کے حکم پر ٹھہرے رہو کہ بے شک تم ہماری نگہداشت میں ہو اور اپنے رب کی تعریف کرتے ہوئے اس کی پاکی بولو، جب تم کھڑے ہو۔

 اس آیت کریمہ کے تحت تفسیر میں مرقوم ہے وسبح بحمد ربک حین تقوم سے مراد تکبیر اولیٰ کے بعد سبحانک اللہم مراد ہے (خزائن العرفان ص ۹۴۵)

خاتم المحققین علامہ سید محمود آلوسی بغدادی علیہ الرحمہ رقم طراز ہیں :

 اخرج سعید بن منصور وغیرہ عن الضحاک انہ قال فی الآیۃ حین تقوم الی الصلوٰۃ تقول ہؤ لاء الکلمات سبحانک اللہم وبحمدک وتبارک اسمک و تعالیٰ جدک ولا الہ غیرک (روح المعانی ج ۱۴،ص ۴۰)

 سعید بن منصور وغیرہ نے حضرت ضحاک رضی اﷲ عنہ سے تخریج کی ہے کہ وہ اس آیت کریمہ کے بارے میں فرماتے تھے کہ جب تو نماز کے لئے قیام کر تو یہ کلمات تسبیح کہہ لیا کر

 سبحانک اللہم وبحمدک وتبارک اسمک وتعالیٰ جدک ولا الہ غیرک

 امام ابو عبداﷲ محمد بن احمد انصاری قرطبی علیہ الرحمہ رقم طراز ہیں :

 قال الضحاک، انہ التسبیح فی الصلوٰۃ اذا قام الیہا، الماوردی وفی ہذا التسبیح قولان احدہما وہو قولہ سبحان ربی العظیم فی الرکوع وسبحان ربی الاعلیٰ فی السجود، الثانی انہ التوجہ فی الصلوٰۃ یقول سبحانک اللہم وبحمدک وتبارک اسمک وتعالیٰ جدک ولا الہ غیرک

 قال ابن العربی انہ التسبیح الصلوٰۃ فہذا افضلہ، والآثار فی ذالک کثیرۃ اعظمہا ما ثبت عن علی ابن ابی طالب رضی اﷲ عنہ (تفسیر جامع احکام القرآن للقرطبی، ج ۱۷، ص ۸۱، طبع رشیدیہ کوئٹہ)

 امام جلیل محی السنہ ابو محمد حسین بن مسعود البغوی الشافعی المتوفی ۵۱۶ھ رقم طراز ہیں :

 وقال الضحاک والربیع اذا قمت الی الصلوٰۃ فقل سبحانک اللہم وبحمدک وتبارک اسمک وتعالیٰ جدک ولا الہ غیرک، اخبرنا ابو عثمان الضبی اخبرنا ابو محمد الجراحی حدثنا ابو العباس المجنولی حدثنا ابو عیسٰی الترمذی حدثنا الحسن بن عرفۃ ویحییٰ بن موسیٰ قال حدثنا ابو معاویۃ عن حارثۃ بن ابی الرجال عن عمرۃ عن عائشۃ رضی اﷲ عنہا قالت، کان النبیﷺ اذا افتتح الصلوٰۃ قال، سبحنک اللہم وبحمدک وتبارک اسمک وتعالیٰ جدک ولا الٰہ غیرک (تفسیر معالم التنزیل ج ۴، ص ۲۴۳، مطبوعہ ادارہ تالیفات،ملتان)

 امام قرطبی و امام بغوی علیہما الرحمہ کی عبارات کا خلاصہ یہ ہے کہ امام ضحاک اور امام ربیع فرماتے ہیں کہ آیت کریمہ میں ’’حین تقوم‘‘ سے مراد قیام نماز ہے کہ جب نمازی قیام کرے تو اس طرح تسبیح کرے

 سبحانک اللہم وبحمدک و تبارک اسمک و تعالیٰ جدک ولا الیٰ غیرک

 نیز ام المومنین سیدہ صدیقہ بنت صدیق رضی اﷲ عنہا سے بھی مروی ہے کہ حضور پر نور شفیع یوم النشورﷺ جب نماز کا آغاز فرماتے تو یہ کہتے

 سبحنک اللہم وبحمدک و تبارک اسمک و تعالیٰ جدک ولا الہ غیرک

 اور ابن عربی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ جن حضرات نے اس آیت کریمہ ’’وسبح بحمد ربک الایہ‘‘ میں نماز کی تسبیح ’’سبحانک اللہم‘‘ مراد لی ہے۔ وہ افضل مراد ہے، آثار کثیرہ اسی کی تائید کرتے ہیں۔ سب سے بڑی دلیل وہ ہے جو مولائے کائنات کرم اﷲ وجہ سے مروی ہے۔

 ماوردی کے حوالے سے بھی دو قول میں سے ایک یہی ہے کہ اس سے مراد سبحانک اللھم وبحمدک الخ ہے

 امام ابو عیسٰی محمد بن عیسٰی بن سورد ترمذی علیہ الرحمہ رقم طراز ہیں :

 عن ابی سعید ن الخدری قال کان رسول اﷲﷺ اذا قام الی الصلوٰۃ باللیل کبر ثم یقول سبحانک اللہم وبحمدک وتبارک اسمک و تعالیٰ جدک ولا الہ غیرک

دوسری جگہ رقم طراز ہیں

عن عائشۃ رضی اﷲ عنہا قالت کان النبیﷺ اذا افتح الصلوٰۃ قال سبحانک اللہم وبحمدک و تبارک اسمک و تعالیٰ جدک ولا الہ غیرک

(جامع الترمذی ج اول، ص ۵۸، مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی، کراچی)

امام ترمذی کے علاوہ علامہ علی قاری اور دیگر محدثین کرام رحمہم اﷲ نے بھی ان دونوں روایتوں کو ذکر کیا ہے جس میں واضح طور پر یہ موجود ہے کہ ابو سعید خدری اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتے ہیں کہ آنحضورﷺ جب افتتاح صلوٰۃ فرماتے سبحانک اللہم وبحمدک و تبارک اسمک و تعالیٰ جدک ولا الہ غیرک

احناف کی نماز احادیث کی روشنی قسط نمبر 5 میں ’’ثناء‘‘ کا بیان آ گیا۔ اس کے بعد ’’قرأت‘‘ کی جاتی ہے۔ اس سے قبل حنفی تعوذ اور تسمیہ پڑھتے ہیں۔ اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ قرأت قرآن سے قبل ’’تعوذ‘‘ کا حکم خدائے بزرگ و برتر نے اپنے لاریب کلام مجید میں یوں ارشاد فرمایا:

 فاذا قرأت القرآن فاستعذ باﷲ من الشیطن الرجیم

 تو جب تم قرآن پڑھو تو اﷲ کی پناہ مانگو شیطان مردود سے (النحل 98)

 تفاسیر معتبرہ میں ہے کہ تلاوت قرآن سے پہلے تعوذ پڑھنا مسنون ہے اور نماز میں امام اور تنہا پڑھنے والے کے لئے سبحانک اللہم سے فارغ ہو کر آہستہ اعوذ باﷲ پڑھنا سنت ہے۔ یاد رہے تعوذ اور تسمیہ نماز میں آہستہ پڑھنا سنت ہے۔ بخاری و مسلم میں مروی ہے کہ حضورﷺ اور شیخین کریمین رضی اﷲ عنہما نماز کی بلند قرأت ’’الحمد ﷲ رب العالمین‘‘ سے شروع کرتے تھے۔ (خلاصہ تفسیر روح المعانی و خزائن العرفان)

 امام ابو عیسٰی محمد بن عیسٰی ترمذی علیہ الرحمہ اپنی جامع کی جلد اول ص 57 مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی ادب منزل پاکستان چوک کراچی میں رقم طراز ہیں :

 عن ابی سعید نالخدری قال کان رسول اﷲﷺ اذا قام الی الصلوٰۃ باللیل کبرثمہ یقول سبحانک اللھم وبحمدک وتبارک اسمک وتعالیٰ جدک ولا الٰہ غیرک، ثم یقول اﷲ اکبر کبیراً ثم یقول اعوذ باﷲ السمیع العلیم من الشیطن الرجیم الخ

 یعنی: رسول اﷲﷺ جب نماز پڑھنے کے لئے رات کو قیام فرماتے تو اولاً سبحانک اللھم پڑھتے پھر (نوافل میں ) اﷲ اکبر کبیراً بھی کہتے پھر تعوذ پڑھتے،

 اعوذ باﷲ السمیع العلیم من الشیطٰن الرجیم

 اس حدیث پاک میں بھی قرأت سے پہلے اعوذ باﷲ پڑھنے کا ثبوت موجود ہے۔

 امام ترمذی علیہ الرحمہ اس سے اگلے باب میں رقم طراز ہیں۔

 عن ابن عباس رضی اﷲ عنہما قال کان النبیﷺ یفتتح صلوٰۃ بسم اﷲ الرحمن الرحیم

 یعنی: ابن عباس سے مروی ہے کہ نبی پاکﷺ ’’سبحانک اللھم‘‘ کے بعد اور تعوذ کے بعد افتتاح قرأت بسم اﷲ سے کرتے تھے۔

 اس کے بعد والے باب میں یوں رقم طراز ہیں۔

 عن انس قال کان رسول اﷲﷺ و ابوبکر و عمر و عثمان یفتتحون القرأۃ بالحمد ﷲ رب العالمین

 یعنی: حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲﷺ ابوبکر صدیق، عمر فاروق اور عثمان غنی رضی اﷲ عنہم اپنی قرأت کا (جہراً) آغاز الحمد رب العالمین سے کرتے تھے۔ اس کے بعد وقال ابو عیسٰی ہذا حدیث حسن صحیح کہہ کر یہ تبصرہ بھی کرتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور مزید لکھتے ہیں کہ:

 والعمل علی ہذا عند اہل العلم من اصحاب النبیﷺ والتابعین ومن بعدہم

 یعنی: اصحاب، تابعین اور تبع تابعین کا یہی عمل رہا ہے کہ اولاً تعوذ، پھر تسمیہ اور پھر اپنی قرأت کا آغاز فاتحتہ الکتاب سے کرتے تھے۔ بلکہ اس سے آگے چل کر فرماتے ہیں کہ (احناف کی طرح) امام شافعی علیہ الرحمہ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ فاتحۃ الکتاب سے آغاز ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس سے پہلے تعوذ و تسمیہ پڑھتے تھے انتہیٰ… البتہ باقاعدہ قرأت کا آغاز فاتحہ سے ہوتا تھا۔ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ امام شافعی بسم اﷲ کی جہری قرأت کے قائل ہیں، احناف اس بات کے قائل ہیں کہ نماز میں جہری یاسری قرأت ہو دونوں میں تعوذ و تسمیہ آہستہ ہی پڑھی جائیں گی کیونکہ جہراً ان کا پڑھنا سنت صحیحہ مرفوعہ سے ثابت نہیں ہے۔

٭٭٭

ماخذ:

http://tahaffuz.com/1974/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید