FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

تشہد کے بارے میں

یعقوب بن ابراہیم دورقی، عبید اللہ بن اشجعی، سفیان ثوری، ابو اسحاق، اسود بن یزید، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں سکھایا کہ جب ہم دوسری رکعت میں بیٹھیں تو یہ پڑھیں (التَّحِیَّاتُ لِلَّہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِی وَرَحْمَةُ اللَّہِ وَبَرَکَاتُہُ السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللَّہِ الصَّالِحِینَ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ) اس باب میں ابن عمر جابر ابو موسیٰ عائشہ سے روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود کی حدیث ان سے کئی اسناد سے مروی ہے یہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے تشہد کے باب میں مروی تمام احادیث سے اصح ہے اور اسی پر اکثر علماء صحابہ و تابعین کا اور بعد کے اہل علم کا عمل ہے سفیان ثوری ابن مبارک احمد اور اسحاق بھی یہی کہتے ہیں

٭٭ قتیبہ، لیث، ابو زبیر، سعید بن جبیر، طاؤس، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمیں تشہد اس طرح سکھاتے تھے جس طرح قرآن سکھاتے اور فرماتے التَّحِیَّاتُ الْمُبَارَکَاتُ سے آخر حدیث تک تمام بابرکت تعریفات اور تمام مالک وبدنی عبادات اللہ ہی کے لئے ہیں اے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر سلام اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر بھی سلام میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث ابن عباس حسن صحیح غریب ہے عبدالرحمن بن حمید رواسی نے بھی یہ حدیث ابو زبیر سے لیث بن سعد کی روایت کی مثل بیان کی ہے اور ایمن بن نابل مکی نے بھی یہ حدیث ابو زبیر سے روایت کی ہے لیکن یہ غیر محفوظ ہے امام شافعی تشہد میں اس حدیث کی طرف گئے ہیں

 

تشہد آہستہ پڑھنا

ابوسعید اشج، یونس بن بکیر، محمد بن اسحاق، عبدالرحمن بن اسود، ابن مسعود سے روایت ہے تشہد آہستہ پڑھنا سنت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حضرت ابن مسعود کی حدیث حسن غریب ہے اور اس پر اہل علم کا عمل ہے

تشہد میں کیسے بیٹھا جائے

ابوکریب، عبداللہ بن ادریس، عاصم بن کلیب، وائل بن حجر سے روایت ہے میں مدینہ آیا تو سوچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز ضرور دیکھوں گا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشہد کے لئے بیٹھے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا بایاں پاؤں بچھایا اور بایاں ہاتھ بائیں ران پر رکھا اور داہنا پاؤں کھڑا کیا امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے سفیان ابن مبارک اور اہل کوفہ کا بھی یہی قول ہے

٭٭ بندار، ابو عامر عقدی، فلیح بن سلیمان مدنی، عباس بن سہل ساعدی، فرماتے ہیں کہ ابو حمید ابو اسید سہل بن سعد اور محمد بن مسلمہ ایک جگہ جمع ہوئے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز کا تذکرہ شروع کر دیا پس ابو حمید نے فرمایا میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز کے متعلق تم سب سے زیادہ جانتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشہد کے لئے بیٹھے تو بایاں پاؤں بچھایا اور سیدھے پاؤں کی انگلیوں کو قبلہ کی طرف کیا پھر سیدھا ہاتھ دائیں گھٹنے پر اور بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر رکھا اور اپنی شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا امام ابو عیسیٰ ترمذی کہتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور یہ بعض علماء کا قول ہے کہ آخری تشہد میں سرین پر بیٹھنے  کی ابو حمید کی حدیث سے انہوں نے استدلال کیا اور کہا کہ پہلے قعدہ میں بائیں پاؤں پر بیٹھے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھے

تشہد میں اشارہ

محمود بن غیلان، یحیی بن موسی، عبدالرزاق، معمر، عبید اللہ بن عمر، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب نماز میں بیٹھتے تو دایاں ہاتھ گھٹنے پر رکھتے اور انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی کو اٹھاتے اور دعا کرتے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا بایاں پاتھ گھٹنے پر ہوتا اور اس کی انگلیاں پھیلی ہوئی ہوتیں اس باب میں عبداللہ بن زبیر نمیرہ خزاعی ابو ہریرہ ابو حمید اور وائل بن حجر سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی کہتے ہیں حدیث ابن عمر حسن غریب اور اس حدیث کو عبید اللہ بن عمر سے اس سند کے علاوہ نہیں جانتے بعض صحابہ اور تابعین کا بھی اسی پر عمل ہے وہ تشہد میں اشارہ کرنا پسند کرتے ہیں اور ہمارے اصحاب کا بھی یہی قول ہے

نماز میں سلام پھیرنا

بندار، عبدالرحمن بن مہدی، سفیان، ابو اسحاق ، ابو احوص، عبداللہ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دائیں اور بائیں سلام پھیرتے اور فرماتے السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللَّہِ یعنی تم پر سلام اور اللہ کی رحمت ہو اس باب میں سعد بن ابی وقاص ابن عمر جابر بن سمرہ براء عمار وائل بن حجر عدی بن عمیرہ اور جابر بن عبداللہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث ابن مسعود حسن صحیح ہے اور اسی پر صحابہ اور بعد کے اکثر اہل علم کا عمل ہے یہ قول سفیان ثوری ابن مبارک احمد اور اسحاق کا بھی ہے

٭٭ محمد بن یحیی نیشاپوری، عمرو بن ابو سلمہ، زہیر بن محمد، ہشام بن عروہ، عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز میں ایک سلام چہرہ کے سامنے کی طرف پھیرتے پھر تھوڑا سا دائیں طرف مائل ہو جاتے اس باب میں سہل بن سعد سے بھی روایت امام اسماعیل بخاری فرماتے ہیں کہ اہل شام زبیر بن محمد سے منکر احادیث روایت کرتے ہیں اہل عراق کی روایت اس سے بہتر ہیں امام بخاری اور امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ زبیر بن محمد بن شام گئے شاید وہ یہ نہیں ہیں جن میں اہل عراق روایت کرتے ہیں شاہد وہ کوئی اور ہیں جن کا نام تبدیل کر دیا گیا ہے بعض اہل علم نماز میں ایک سلام پھیرنے کے قائل ہیں جبکہ دو سلام پھیرنے کی روایات اصح ہیں اور اسی پر اہل علم کی اکثریت کا عمل ہے جن میں صحابہ تابعین اور بعد کے علماء شامل ہیں صحابہ کرام اور تابعین وغیرہ کی ایک جماعت فرض نماز میں ایک سلام پھیرنے کی قائل ہے امام شافعی فرماتے ہیں اگر چاہئے تو ایک سلام پھیر لے اور دو سلام پھیرنا چاہئے تو دو سلام پھیر لے

اس سلام کو حذف کرنا سنت ہے

علی بن حجر، عبداللہ بن مبارک، ہقل بن زیاد، اوزاعی، قرہ بن عبدالرحمن، زہری، ابو سلمہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ سلام کو حذف کرنا سنت ہے علی بن حجر کہتے ہیں کہ ابن مبارک فرماتے تھے اس میں مد نہ کیا کرو امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اہل علم اس کو مستحب کہتے ہیں ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا تکبیر اور سلام دونوں میں وقف کیا جائے اور ہقل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ امام اوزاعی کے کاتب تھے

سلام پھیرنے کے بعد کیا کہے ؟

احمد بن منیع، ابو معاویہ، عاصم، عبداللہ بن حارث، عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب سلام پھیرتے تو صرف اتنی دیر بیٹھتے جتنی دیر میں یہ دعا پڑھتے (اللَّہُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْکَ السَّلَامُ تَبَارَکْتَ ذَا الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ)

٭٭ ہناد، مروان بن معاویہ، ابو معاویہ عاصم سے اسی سند سے سی کی مثل روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں (تَبَارَکْتَ یَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ) اس باب میں ثوبان ابن عمر ابن عباس ابو سعید ابو ہریرہ اور مغیرہ بن شعبہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث عائشہ حسن صحیح ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سلام پھیرنے کے بعد فرماتے (لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ یُحْیِی وَیُمِیتُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ اللَّہُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ وَلَا مُعْطِی لِمَا مَنَعْتَ وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ) اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں بادشاہت اور تعریفیں اسی کے لئے ہیں وہ زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے اے اللہ جو تو عطا کرے اسے روکنے والا کوئی نہیں اور جو تو نہ دینا چاہئے وہ کوئی اور نہیں دے سکتا کسی کوشش کرنے والے کی کوشش کام نہیں آتی اور یہ بھی پڑھتے (سُبْحَانَ رَبِّکَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا یَصِفُونَ وَسَلَامٌ عَلَی الْمُرْسَلِینَ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ) (ترجمہ) آپ کا رب بڑی عظمت والا اور ان باتوں سی پاک ہے جو یہ بیان کرتے ہیں اور سلام ہو پیغمبروں پر اور تمام خوبیاں اللہ ہی کیلئے ہیں جو تمام عالم کا پروردگار ہے ۔

٭٭ احمد بن محمد بن موسی، ابن مبارک، اوزاعی، شداد ابو عمار، ابو اسماء رحبی، ثوبان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مولی حضرت ثوبان فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہوتے تو تین مرتبہ استغفار کرتے اور پھر کہتے (اللَّہُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْکَ السَّلَامُ تَبَارَکْتَ یَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ) امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث صحیح ہے اور ابو عمار کا نام شداد بن عبداللہ ہے

نماز کے بعد دونوں جانب گھومنا

قتیبہ، احوص، سماک بن حرب، قبیصہ بن ہلب، اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہماری امامت کرتے اور پھر دونوں جانب گھوم کر بیٹھتے کبھی دائیں طرف اور کبھی بائیں طرف اس باب میں عبداللہ بن مسعود انس عبداللہ بن عمر اور ابو ہریرہ سے بھی روایات مروی ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ ہلب کی حدیث حسن ہے اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے کہ جس طرف چاہے گھوم کر بیٹھے چاہے تو دائیں جانب سے یہ دونوں ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ثابت ہیں حضرت علی بن ابو طالب سے مروی ہے کہ اگر آپ کو داہنی طرف سے کوئی حاجت ہوتی تو دائیں طرف اور اگر بائیں طرف سے کوئی حاجت ہوتی تو بائیں طرف سے گھوم کر بیٹھتے

پوری نماز کی ترکیب

علی بن حجر، اسماعیل بن جعفر، یحیی بن خلاد بن رافع زرقی، رفاعہ بن رافع فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے رفاعہ کہتے ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے کہ ایک دیہاتی شخص آیا اور ہلکی نماز پڑھ کر فارغ ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سلام کیا پس نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جاؤ اور نماز پڑھو تم نے نماز نہیں پڑہی وہ شخص واپس ہوا اور دوبارہ نماز پڑھی پھر آیا اور سلام کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جا اور نماز پڑھ تو نے نماز نہیں پڑھی دو یا تین مرتبہ ایسا ہوا ہر مرتبہ وہ آتا اور سلام کرتا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسے یہی کہتے کہ جاؤ اور نماز پڑھو تم نے نماز نہیں پڑھی اس پر لوگ گھبرا گئے اور ان پر یہ بات شاق گزری کہ جس نے ہلکی نماز پڑھی گویا کہ اس نے نماز پڑھی ہی نہیں چنانچہ اس شخص نے آخر میں عرض کیا مجھے سکھائے میں تو انسان ہوں صحیح بھی کرتا ہوں اور مجھ سے غلطی بھی ہوتی ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ٹھیک ہے جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو جس طرح اللہ نے حکم دیا ہے اسی طرح وضو کرو پھر اذان دو اور اقامت کہو پھر اگر تمہیں قرآن میں سے کچھ یاد ہو تو پڑھو ورنہ اللہ کی تعریف اور اس کی بزرگی بیان کرو اور لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ پڑھو پھر رکوع کرو اور اطمینان کے ساتھ کرو پھر سیدھے کھڑے ہو جاؤ پھر اطمینان کے ساتھ سجدہ کرو پھر اطمینان کے ساتھ بیٹھو پھر کھڑے ہو جاؤ اگر تم نے ایسا کیا تو تمہاری نماز مکمل ہو گئی اور اگر اس میں کچھ کمی ہوئی تو وہ تمہاری نماز میں کمی ہو گئی رفاعہ کہتے ہیں کہ یہ چیز ہم لوگوں کے لئے پہلی چیز سے آسان تھی کہ جو کمی رہ گئی وہ تمہاری نماز میں کمی ہوئی اور پوری کی پوری نماز بے کار نہیں ہوئی اس باب میں ابو ہریرہ اور عمار بن یاسر سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حضرت رفاعہ کی حدیث حسن ہے اور یہ حدیث انہی سے کئی سندوں سے مروی ہے

٭٭ محمد بن بشار، یحیی بن سعید، عبید اللہ بن عمر، سعید بن ابو سعید، ابو ہریرہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم داخل ہوئے تو ایک آدمی اور بھی داخل ہو اور اس نے نماز پڑھی پھر آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سلام کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جواب دیا اور فرمایا واپس جاؤ اور نماز پڑھو تم نے نماز نہیں پڑھی وہ شخص واپس گیا اور اسی طرح نماز پڑھی جس طرح پہلے نماز پڑھی تھی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سلام کا جواب دیا اور اس سے فرمایا جاؤ اور نماز پڑھو تم نے نماز نہیں پڑھی یہاں تک کہ تین مرتبہ ایسا ہی کیا اس شخص نے عرض کیا اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سچا دین دیکر بھیجا ہے میں اس سے بہتر نہیں پڑھ سکتا مجھے سکھائۓ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم نماز کے لئے کھڑی ہو تو تکبیر کہو اور قرآن میں سے جو کچھ یاد ہو پڑھو پھر اطمینان کے ساتھ رکوع کرو پھر اٹھو اور اطمینان کے ساتھ بیٹھو اور پوری نماز میں اسی طرح کرو امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اس باب کو ابن نمیر نے عبداللہ بن عمر سے انہوں نے سعید مقبری کے والد کا ذکر نہیں کیا کہ وہ ابو ہریرہ سے روایت کرتے ہیں یحیی بن سعید کی روایت عبید اللہ بن عمر سے اصح ہے سعید مقبری نے ابو ہریرہ سے احادیث سنی ہیں اور وہ اپنے والد سے بحوالہ ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں اور ابو سعید مقبری کا نام کیسان ہے اور سعید مقبری کی کنیت ابو سعد ہے

٭٭ محمد بن بشار، محمد بن مثنی، یحیی بن سعید، عبدالحمید بن جعفر، محمد بن عمرو بن عطاء، ابو حمید ساعدی سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے ابو حمید کو کہتے ہوئے سنا اس وقت وہ وہ دس صحابہ میں بیٹھے ہوئے تھے جن میں ابو قتادہ ربعی بھی شامل ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز کے بارے میں تم سب سے زیادہ جانتا ہوں صحابہ نے فرمایا تم نہ حضور کی صحبت میں ہم سے پہلے آئے اور نہ ہی تمہاری رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاں زیادہ آمد ورفت تھی ابو حمید نے کہا یہ تو صحیح ہے صحابہ نے فرمایا بیان کرو ابو حمید نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو سیدھے کھڑے ہوتے اور دونوں ہاتھ کندھوں تک لے جاتے جب رکوع کرنے لگتے تو دونوں ہاتھ کندھوں تک لے جاتے اور اللَّہُ أَکْبَرُ کہہ کر رکوع کرتے اور اعتدال کے ساتھ رکوع کرتے نہ سر کو جھکاتے اور نہ اونچا کرتے اور دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھتے پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہتے اور ہاتھوں کا اٹھاتے اور معتدل کھڑے ہوتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پہنچ جاتی پھر سجدہ کے لئے زمین کی طرف جھکتے اور اللَّہُ أَکْبَرُ کہتے اور بازوؤں کو بغلوں سے علیحدہ رکھتے اور پاؤں موڑ کو اس پر اعتدال کے ساتھ بیٹھ جاتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر پہنچ جاتے پھر سجدے کے لئے سر جھکاتے اور اللَّہُ أَکْبَرُ کہتے پھر کھڑے ہو جاتے اور ہر رکعت میں اسی طرح کرتے یہاں تک کہ جب دونوں سجدوں سے اٹھتے تو تکبیر کہتے اور دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر اٹھاتے جیسے کہ نماز کے شروع میں کیا تھا پھر اسی طرح کرتے یہاں تک کہ ان کی نماز کی آخری رکعت آ جاتی چنانچہ بائیں پاؤں کو ہٹاتے اور سرین پر بیٹھ جاتے اور پھر سلام پھیر دیتے امام ابو عیسیٰ فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور إِذَا السَّجْدَتَیْنِ سے مراد یہ ہے کہ جب دو رکعتوں کے بعد کھڑے ہوتے تو رفع یدین کرتے

٭٭ محمد بن بشار، حسن بن علی حلوانی، ابو عاصم عبدالحمید بن جعفر، محمد بن عمرو بن عطاء کہتے ہیں کہ میں نے دس صحابہ جن میں ابو قتادہ بن ربعی بھی تھے کی موجودگی میں ابو حمید ساعدی سے سنا اس کے بعد یحیی بن سعید کی روایت کی مثل حدیث بیان کرتے ہیں اس حدیث میں عاصم نے عبدالحمید بن جعفر کے حوالے سے یہ الفاظ زیادہ بیان کئے ہیں کہ پھر صحابہ نے فرمایا (صَدَقْتَ) تم نے سچ کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسی طرح نماز پڑھی

فجر کی نماز میں قرات

ہناد، وکیع، مسعر، سفیان، زیادبن علاقہ اپنے چچا قطبہ بن مالک سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی فجر کی نماز میں والنخل باسقات پڑھتے ہوئے سنا اس باب میں عمرو بن حریث جابر بن سمرہ عبداللہ بن سائب ابو برزہ اور ام سلمہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث قطبہ بن مالک حسن صحیح ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نسے فجر کی نماز میں سورة واقعہ کا پڑھنا بھی مروی ہے اور یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فجر میں سات سے لے کر سو تک آیتوں کی تلاوت فرمایا کرتے تھے یہ بھی مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (إِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ) 81۔ التکویر:1) پڑھی حضرت عمر سے مروی ہے کہ انہوں نے ابو موسیٰ کو لکھا کہ فجر میں طوال مفصل پڑھا کرو امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے اور سفیان ثوری ابن مبارک اور امام شافعی کا یہی قول ہے

ظہر اور عصر میں قرات

احمد بن منیع، یزید بن ہارون، حماد بن سلمہ، سماک بن حرب، جابر بن سمرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ظہر اور عصر کی نماز میں سورة بروج اور وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ اور اسی طرح کی سورتیں پڑھا کرتے تھے اس باب میں خباب ابو سعید ابو قتادہ زید بن ثابت اور براء سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ کہتے ہیں کہ جابر بن سمرہ کی حدیث حسن صحیح ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ظہر کی نماز میں سورة الم سجدہ پڑھی اور ایک اور جگہ مروی ہے کہ ظہر کی پہلی رکعت میں تیس آیتوں کے برابر پڑھتے اور دوسری رکعت میں پندرہ آیتوں کے برابر پڑھتے تھے حضرت عمر سے مروی ہے کہ انہوں نے ابو موسیٰ کو خط لکھا کہ ظہر کی نماز میں اوساط مفصل پڑھا کرو بعض اہل علم کہتے ہیں کہ عصر کی قرات مغرب کی قرات کی طرح ہے اس میں قصار مفصل پڑھو ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا عصر کی نماز قرات میں مغرب کی نماز کے برابر رکھی جائے اور ابراہیم کہتے ہیں کہ ظہر میں عصر سے چار گنا زیادہ قرات کی جائے

مغرب میں قرات

ہناد، عبدہ، محمد بن اسحاق، زہری، عبید اللہ بن عبداللہ ابن عباس اپنی والدہ ام فضل سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی بیماری میں ہماری طرف تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سر پر پٹی باندھے ہوئے تھے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مغرب کی نماز میں سورة مرسلات پڑھی اور اس کے بعد وفات تک یہ سورت نہ پڑھی اس باب میں جبیر بن معطم ابن عمر ابو ایوب اور زید بن ثابت سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث ام فضل حسن صحیح ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مغرب کی دونوں رکعتوں میں سورہ اعراف پڑھی اور یہ بھی مروی ہے کہ مغرب میں سورہ طور پڑھی حضرت عمر سے مروی ہے کہ انہوں نے ابو موسیٰ کو لکھا کہ مغرب کی نماز میں قصار مفصل پڑھا کرو اور حضرت ابو بکر سے بھی مروی ہے کہ انہوں نے مغرب میں قصار مفصل پڑھی امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ اس پر اہل علم کا عمل ہے اور ابن مبارک احمد اور اسحاق کا قول بھی یہی ہے امام شافعی فرماتے ہیں مالک کے متعلق ذکر کیا جاتا ہے کہ وہ مغرب میں لمبی سورتوں کو مکروہ سمجھتے تھے جیسے کہ سورہ طور اور مرسلات امام شافعی فرماتے ہیں میں اسے مکروہ نہیں سمجھتا بلکہ میں مستحب سمجھتا ہوں کہ یہ سورتیں مغرب کی نماز میں پڑھی جائیں

عشاء میں قرات

عبدہ بن عبداللہ خزاعی، زیدبن حباب، ابن واقد، عبداللہ بن بریدہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عشاء کی نماز میں سورة الشمس اور اسی طرح کی سورتیں پڑھا کرتے تھے اس باب میں براء بن عازب سے بھی روایت ہے ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث بریدہ حسن ہے اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عشاء میں (وَالتِّینِ وَالزَّیْتُونِ) پڑھی حضرت عثمان بن عفان کے بارے میں مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عشاء میں اوساط مفصل پڑھتے تھے جیسے سورہ منافقون اور اسی طرح کی سورتیں صحابہ اور تابعین کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے اس سے کم اور زیادہ دونوں طرح پڑھا ہے ان کے نزدیک اس باب میں وسعت ہے اور اس میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی احادیث میں سب سے بہتر یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (وَالشَّمْسِ وَضُحَاہَا اور وَالتِّینِ وَالزَّیْتُونِ) پڑھی

٭٭ ہناد، ابو معاویہ، یحیی بن سعید انصاری، عدی بن ثابت، براء بن عازب فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عشاء کی نماز میں (وَالتِّینِ وَالزَّیْتُونِ) پڑھی یہ حدیث حسن صحیح ہے

امام کے پیچھے قرآن پڑھنا

ہناد، عبدہ بن سلیمان، محمد بن اسحاق، مکحول، محمود بن ربیع، عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فجر کی نماز پڑھی اس میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے قرات میں مشکل پیش آئی جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فارغ ہوئے تو فرمایا شاید تم امام کے پیچھے قرات کرتے ہو حضرت عبادہ کہتے ہیں ہم نے کہا ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ کی قسم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایسا نہ کیا کرو صرف سورة فاتحہ پڑھا کرو کیونکہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی اس باب میں ابو ہریرہ عائشہ انس ابو قتادہ اور عبداللہ بن عمرو سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں عبادہ کی حدیث حسن ہے اس حدیث کو زہری نے محمود بن ربیع سے انہوں نے عبادہ بن صامت سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو سورہ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی اور یہ اصح ہے اکثر صحابہ و تابعین کا قراة خلف الامام کے بارے میں اس حدیث پر عمل ہے اور مالک بن انس ابن مبارک شافعی احمد بن حنبل اور اسحاق بھی اسی کے قائل ہیں کہ قرات خلف الامام جائز ہے

اگر امام با آواز بلند پڑھے تو مقتدی قرات نہ کرے

انصاری، معن، مالک، ابن شہاب، ابن اکیمہ لیثی، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک مرتبہ جہری نماز سے فارغ ہوئے اور فرمایا کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ قرات کی ہے ایک شخص نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تب ہی تو میں کہتا ہوں کہ مجھ سے قرآن میں جھگڑا کیوں کیا جاتا ہے راوی کہتے ہیں پھر لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ جہری نمازوں میں قرات سے رک گئے اس باب میں ابن مسعود عمران بن حصین جابر بن عبداللہ سے بھی روایات مروی ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن ہے ابن اکیمہ لیثی کا نام عمارہ ہے اور انہیں عمرو بن اکیمہ بھی کہا جاتا ہے زہری کے بعض اصحابہ نے اس حدیث کو روایت کرتے ہوئے یہ الفاظ زیادہ بیان کئے ہیں کہ زہری نے کہا اس کے بعد لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو قرات کرتے ہوئے سنتے تو قرات کرنے سے باز رہتے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے قرات خلف الامام کے قائلین پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا اس لئے کہ اس حدیث کو بھی حضرت ابو ہریرہ نے روایت کیا ہے اور انہیں سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص نماز پڑھے اور اس میں سورة فاتحہ نہ پڑھے تو اس کی نماز ناقص ہے اور نامکمل ہے حضرت ابو ہریرہ سے حدیث نقل کرنے والے راوی نے کہا کہ میں کبھی کبھی امام کے پیچھے نماز پڑھتا ہوں تو ابو ہریرہ نے فرمایا دل میں پڑھ لیا کر ابو عثمان نہدی نے بھی حضرت ابو ہریرہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا مجھے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا کہ میں اعلان کروں کہ جو شخص نماز میں سورة فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی محدثین نے یہ مسلک اختیار کیا ہے کہ اگر امام زور سے قرات کرے تو پھر امام کے پیچھے مقتدی قرات نہ کرے اور انہوں نے کہا کہ سکتوں کے درمیاں پڑھ لے اہل علم کا امام کے پیچھے نماز پڑہتے ہوئے قرات کرنے کے بارے میں اختلاف ہے اکثر صحابہ و تابعین اور بعد کے اہل علم کے نزدیک امام کے پیچھے قرات کرنا جائز ہے امام مالک ابن مبارک امام شافعی امام احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے عبداللہ بن مبارک سے مروی ہے انہوں نے فرمایا میں امام کے پیچھے قرات کرتا تھا اور دوسرے لوگ بھی امام کے پیچھے قرات کرتے تھے سوائے اہل کوفہ کے لیکن جو شخص امام کے پیچھے قرات نہ کرے میں اس کی نماز کو بھی جائز سمجھتا ہوں اہل علم کی ایک جماعت نے سورہ فاتحہ کے نہ پڑھنے کے مسئلہ میں شدت سے کام لیا اور کہا کہ سورة فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی چاہے اکیلا ہو یا امام کے پیچھے ہو انہوں نے حضرت عبادہ بن صامت کی روایت سے استدلال کیا ہے اور عبادہ بن صامت نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصال کے بعد امام کے پیچھے سورة فاتحہ پڑھی اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس قول پر عمل کیا کہ سورة فاتحہ پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی امام شافعی اور اسحاق وغیرہ کا یہی قول ہے امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ قول کہ سورة فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی اکیلے نماز پڑھنے والے پر محمول ہے ان کا استدلال حضرت جابر کی حدیث سے ہے کہ انہوں نے فرمایا جس شخص نے کسی رکعت میں سورة فاتحہ نہیں پڑھی گویا کہ اس نے نماز پڑھی ہی نہیں سوائے اس کے کہ وہ امام کے پیچھے ہو امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں حضرت جابر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابی ہیں اور یہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس حدیث کی تاویل کرتے (لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ) جو فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی اس سے مراد وہ ہے جو اکیلا نماز پڑھتا ہو لیکن اس کے باوجود امام احمد بن حنبل نے یہ مسلک اختیار کیا ہے کہ امام کے پیچھے ہوتے ہوئے بھی کوئی آدمی سورہ فاتحہ نہ چھوڑے

٭٭ اسحاق بن موسیٰ انصاری، معن، مالک، ابو نعیم وہب، بن کیسان، جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں جس نے ایک رکعت بھی سورة فاتحہ کے بغیر پڑھی گویا کہ اس نے نماز ہی نہیں پڑھی سوائے اس کے کہ وہ امام کے پیچھے ہو۔

اس بارے میں کہ جب مسجد میں داخل ہو تو کیا کہے

علی بن حجر، اسماعیل بن ابراہیم، لیث، عبداللہ بن حسن، اپنی والدہ فاطمہ بنت حسین سے اور وہ اپنی دادی فاطمہ کبری سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب مسجد میں داخل ہوتے تو درود پڑھتے اور یہ دعا پڑھتے (رَبِّ اغْفِرْ لِی ذُنُوبِی وَافْتَحْ لِی أَبْوَابَ رَحْمَتِکَ) اے اللہ میری مغفرت فرما اور میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول اور جب مسجد سے باہر نکلتے تو درود شریف پڑھتے اور فرماتے (رَبِّ اغْفِرْ لِی ذُنُوبِی وَافْتَحْ لِی أَبْوَابَ فَضْلِکَ) علی بن حجر نے کہا کہ اسماعیل بن ابراہیم نے مجھ سے کہا کہ میں نے مکہ مکرمہ میں عبداللہ بن حسن سے ملاقات کی اور ان سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجد میں داخل ہوتے ہیں تو فرماتے (رَبِّ افْتَحْ لِی بَابَ رَحْمَتِکَ) اور جب مسجد سے باہر نکلتے تو فرماتے (رَبِّ افْتَحْ لِی بَابَ فَضْلِکَ) اس باب میں ابو حمید ابو اسید اور ابو ہریرہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ حدیث فاطمہ حسن ہے اور اس کی سند متصل نہیں کیونکہ فاطمہ بنت حسین فاطمہ کبری کو نہ پا سکیں اس لئے کہ حضرت فاطمہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد صرف چند ماہ تک زندہ رہیں

اس بارے میں کہ جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو دو رکعت نماز پڑھے

قتیبہ بن سعید، مالک بن انس، عامر بن عبداللہ بن زبیر، عمرو بن سلیم زرقی، ابو قتادہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھے اس باب میں حضرت جابر ابو امامہ ابو ہریرہ ابو ذر اور کعب بن مالک سے روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں ابو قتادہ کی حدیث حسن صحیح ہے محمد بن عجلان اور کئی راویوں نے اس حدیث کی مثل روایت کیا ہے سہیل بن ابو صالح نے اس حدیث کو عامر بن عبداللہ سے روایت کی ہے اور وہ عمر بن سلیم وہ جابر بن عبداللہ اور وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں یہ حدیث غیر محفوظ ہے اور صحیح حدیث ابو قتادہ کی ہے امام ترمذی کہتے ہیں ہمارے اصحاب کا اس حدیث پر عمل ہے کہ جو آدمی مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھ لے یہ اس کے لئے مستحب ہے بشرطیکہ اسے کوئی عذر نہ ہو علی بن مدینی نے کہا کہ سہل بن ابو صالح کی حدیث غلط ہے امام ترمذی کہتے ہیں کہ مجھے اس کی خبر اسحاق بن ابراہیم نے علی بن مدینی کے حوالے سے دی ہے

مقبرے اور حمام کے علاوہ پوری زمین مسجد ہے

ابن ابی عمر، ابو عمار حسین بن حریث، عبدالعزیز بن محمد، عمرو بن یحیی، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ساری زمین مسجد ہے سوائے قبرستان اور حمام کے اس باب میں حضرت علی عبداللہ بن عمر ابو ہریرہ جابر ابن عباس حذیفہ انس ابو امام اور ابو دردا سے بھی روایت ہے یہ سب فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میرے لئے تمام روئے زمین مسجد اور پاکیزہ بنا دی گئی امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں ابو سعید کی حدیث عبدالعزیز بن محمد سے وہ طریق سے مروی ہے بعض نے اس میں ابو سعید کا ذکر کیا ہے اور بعض نے نہیں اور اس حدیث میں اضطراب ہے سفیان ثوری نے عمرو بن یحیی وہ اپنے والد وہ ابو سعید سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں محمد بن اسحاق اسے عمرو بن یحیی سے اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں جبکہ ان کی اکثر روایات ابو سعید خدری کے واسطے سے مروی ہے لیکن انہوں نے ابو سعید خدری کا ذکر نہیں کیا گویا کہ سفیان ثوری کی روایت بواسطہ عمرو بن یحیی ان کے والد سے اور ان کی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی حدیث زیادہ ثابت اور اصح ہے

مسجد بنانے کی فضلیت

بندار، ابو بکر حنفی، عبدالحمید بن جعفر، محمود بن لبید، عثمان بن عفان سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص اللہ کے لئے مسجد بنائے گا اللہ تعالی جنت میں اس کے لئے اسی کی مثل گھر بنائے گا اس باب میں حضرت ابو بکر عمر علی عبداللہ بن عمر انس ابن عباس عائشہ ام حبیبہ ابو ذر عمر بن عبسہ واثلہ بن اسقع ابو ہریرہ اور جابر بن عبداللہ سے بھی روایات مروی ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث عثمان حسن صحیح ہے اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ بھی مروی ہے جس نے اللہ کے لئے چھوٹی یا بڑی مسجد بنائی اللہ تعالی اس کے لئے جنت میں گھر بنائے گا

٭٭ قتیبہ بن سعید، نوح بن قیس، عبدالرحمن، زیاد نمیری انس ہم سے روایت کی یہ حدیث قتیبہ بن سعد نے انہوں نے نوح بن قیس وہ عبدالرحمن مولی قیس سے وہ زیادہ نمیری وہ انس سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں محمود بن لیبد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ملاقات کی اور محمد بن ربیع نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زیارت کی ہے یہ مدینہ کے دو چھوٹے بچے تھے

قبر کے پاس مسجد بنانا مکروہ ہے

قتیبہ، عبدالوارث بن سعید، محمد بن جحادہ، ابو صالح، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لعنت کی قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں قبروں پر مسجدیں بنانے والوں اور چراغ جلانے والوں پر اس باب میں حضرت ابو ہریرہ اور حضرت عائشہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث ابن عباس حسن ہے

مسجد میں سونا

محمود بن غیلان، عبدالرزاق، معمر، زہری، سالم، ابن عمر سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں مسجد میں سو جایا کرتے تھے اور ہم جوان تھے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث ابن عمر حسن صحیح ہے بعض اہل علم نے مسجد میں سونے کی اجازت دی ہے ابن عباس فرماتے ہیں کہ مسجد کو سونے اور قیلولہ کرنے کی جگہ نہ بناؤ بعض اہل علم کا حضرت ابن عباس کے قول پر عمل ہے

مسجد میں خرید و فروخت گم شدہ چیزوں پوچھ گچھ اور شعر پڑھنا مکروہ ہے

قتیبہ، لیث، ابن عجلان، عمرو بن شعیب اپنے والد اور وہ ان کے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع کیا مسجد میں شعر پڑھنے خرید و فروخت کرنے اور جمعہ کے دن نماز جمعہ سے پہلے حلقہ بنا کر بیٹھنے سے اس باب میں بریدہ جابر اور انس سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں عبداللہ بن عمرو بن عاص کی حدیث حسن ہے اور عمرو بن شعیب وہ عمرو بن شعیب بن محمد بن عبداللہ بن عمرو بن عاص ہیں امام محمد بن اسماعیل بخاری فرماتے ہیں میں نے احمد اور اسحاق کو اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے سنا اور شعیب بن محمد کو عبداللہ بن عمرو سے سماع ہے امام ترمذی کہتے ہیں کہ جس نے عمرو بن شعیب کی اس حدیث میں کلام کیا اور اس کو ضعیف قرار دیا ہے اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ عمرو بن شعبی نے اپنے دادا کے صحیفہ سے روایت کرتے ہیں گویا کہ ان لوگوں کے نزدیک عمر بن شعیب کی حدیث ہمارے نزدیک ضعیف ہے علماء کی ایک جماعت نے مسجد میں خرید و فروخت کو مکروہ کہا ہے امام احمد اور اسحاق بھی اسی کے قائل ہیں بعض تابعین اس کی اجازت دیتے ہیں اور خود نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی کئی احادیث سے مسجد میں شعر کہنے کی اجازت ثابت ہے

وہ مسجد جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ہو

قتیبہ، حاتم بن اسماعیل، انیس بن ابو یحیی، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ بن خدرہ اور نبی عمرو بن عوف کے دو آدمیوں کا اس مسجد کے بارے میں اختلاف ہو گیا جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ہے خدری نے کہا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مسجد ہے اور دوسرے نے کہ وہ مسجد قبا ہے پھر وہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ یہی ہے اور اس میں بہت سے بھلائیاں ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے امام ترمذی فرماتے ہیں ابو بکر علی بن عبداللہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے یحیی بن سعید سے محمد بن ابی یحیی اسلمی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا ان میں کوئی حرج نہیں اور ان کے بھائی انیس بن ابی یحیی ان سے اثبت ہیں

مسجد قباء میں نماز پڑھنا

محمد بن علاء ابو کریب، سفیان بن وکیع، ابو اسامہ، عبدالحمید بن جعفر، ابو الابرد کہتے ہیں کہ انہوں نے اسید بن ظہیر انصاری سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مسجد قباء میں نماز پڑھنا اس طرح ہے جیسے کسی نے عمرہ ادا کی اس باب میں سہل بن حنیف سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی کہتے ہیں حدیث اسید بن ظہیر کی اس کے علاوہ بھی کوئی حدیث صحیح ہو اور ہم اس حدیث کو صرف ابو اسامہ بواسطہ عبدالحمید بن جعفر کی روایت سے جانتے ہیں اور ابو الابرد کا نام زیاد مدینی ہے

کون سی مسجد افضل ہے

انصاری، معن، مالک، قتیبہ، مالک زیدبن رباح، عبید اللہ بن ابو عبد اللہ اغر، ابو عبد اللہ اغر، ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میری اس مسجد میں ایک نماز پڑھنا کسی اور مسجد میں نماز پڑہنے سے ایک ہزار درجے بہتر ہے سوائے مسجد حرام کے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں قتیبہ نے اپنی حدیث میں عبداللہ کی بجائے زید بن رباح کا ذکر کیا ہے اور وہ ابو عبد اللہ اغر سے روایت کرتے ہیں امام ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور ابو عبد اللہ اغر کا نام سلمان ہے یہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے حضرت ابو ہریرہ کے واسطہ سے کئی اسناد سے مروی ہے اور اس باب میں حضرت علی میمونہ ابو سعید جبیر بن مطعم عبداللہ بن زبیر ابن عمر اور ابو ذر سے بھی روایات مروی ہیں

٭٭ ابن ابو عمر، سفیان بن عیینہ، عبدالملک بن عمیر، فزعہ، ابو سعیدخدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تین مسجدوں کے علاوہ کسی اور مسجد کے لئے سفر نہ کیا جائے مسجد حرام میری مسجد اور مسجد اقصی امام ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے

مسجد کی طرف جانا

محمد بن عبدالملک بن ابو شوارب، یزید بن زریع، معمر، زہری، ابو سلمہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا جب جماعت کھڑی ہو جائے تو دوڑتے ہوئے نہ آؤ بلکہ سکون کے ساتھ آؤ پس جو مل جائے پڑھ لو اور رہ جائے اسے پورا کرو اس باب میں ابو قتادہ ابی بن کعب ابو سعید زید بن ثابت جابر اور انس سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں مسجد کی طرف جانے میں علماء کا اختلاف ہے بعض حضرات کہتے ہیں کہ اگر تکبیر اولیٰ کے فوت ہو جانتے کا خوف ہو تو جلدی چلے بلکہ بعض سے دوڑ کر آنا بھی منقول ہے بعض حضرات کے نزدیک تیز چلنا مکروہ ہے ان کے نزدیک آہستہ اور وقار کے ساتھ جانا بہتر ہے یہ احمد اور اسحاق کا قول ہے ان کو بھی یہی کہنا ہے کہ اس مسئلے میں حضرت ابو ہریرہ کی حدیث پر عمل کیا جائے اسحاق کہتے ہیں کہ اگر تکبیر اولیٰ کے فوت ہو جانے کا خوف ہو تو تیز چلنے میں کوئی حرج نہیں

٭٭ حسن بن علی خلال، عبدالرزاق، معمر، زہری، سعید بن مسیب، ابو ہریرہ سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ابو سلمہ کی حدیث کے ہم معنی حدیث نقل کرتے ہیں اسی طرح عبدالرزاق سعید بن مسیب سے اور وہ ابو ہریرہ سے روایت کرتے ہیں اور یہ یزید بن زریع کی حدیث اصح ہے

٭٭ ابن ابی عمر، سفیان، زہری، سعید بن مسیب، ابو ہریرہ سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس کے مثل روایت کرتے ہیں

نماز کے انتظار میں مسجد میں بیٹھنے کی فضلیت

محمود بن غیلان، عبدالرزاق، معمر، ہمام بن منبہ ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص جب تک کسی نماز کا انتظار کرتا ہے گویا کہ وہ اس وقت تک نماز ہی میں ہے اور اس کے لئے فرشتے ہمیشہ دعائے رحمت مانگتے ہیں جب تک وہ مسجد میں بیٹھا رہے اور جب تک اسے حدث نہ ہو (اللَّہُمَّ اغْفِرْ لَہُ اللَّہُمَّ ارْحَمْہُ مَا لَمْ یُحْدِثْ) پس حضر موت کے ایک آدمی نے عرض کیا اے ابو ہریرہ حدث کیا ہے آپ نے فرمایا ہوا کا خارج ہوا خواہ آواز سے ہو یا بغیر آواز سے اس باب میں حضرت علی ابو سعید انس عبداللہ بن مسعود اور سہل بن سعد سے بھی روایت ہے

چٹائی پر نماز پڑھنے کے بارے میں

قتیبہ، ابو الاحوص، سماک بن حرب، عکرمہ، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز پڑھتے تھے چٹائی پر اس باب میں ام حبیبہ ابن عمر ابن سلیم عائشہ میمونہ ام کلثوم بنت ابو سلمہ بن عبدالاسد سے بھی روایت ہے اور بنت ابو سلمہ کا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سماع نہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث ابن عباس حسن صحیح ہے اور یہی قول ہے بعض اہل علم کا امام احمد اور اسحاق کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا چٹائی پر نماز پڑھنا ثابت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں خمرہ چھوٹی چٹائی کو کہتے ہیں

٭٭ نصر بن علی، عیسیٰ بن یونس، اعمش ابو سفیان، جابر، ابو سعید فرماتے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز پڑھی بڑی چٹائی پر اس باب میں حضرت انس مغیرہ بن شعبہ سے بھی روایت ہے ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث حضرت ابو سعید حسن ہے اور اکثر اہل علم کا اس پر عمل ہے جبکہ اہل علم کی ایک جماعت نے زمین پر نماز پڑھنے کو مستحب کہا ہے

بچھونوں پر نماز پڑھنا

ہناد، وکیع، شعبہ، ابو تیاح ضبعی، انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے خوش طبعی کرتے یہاں تک کہ میرے چھوٹے بھائی سے فرماتے اے عمیر کیا نغیر نے حضرت انس فرماتے ہیں پھر ہمارا بچھونا دھویا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس پر نماز پڑھی اس باب میں ابن عباس سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں انس کی حدیث حسن صحیح ہے اور اسی پر اکثر صحابہ اور بعد کے اہل علم کا عمل ہے کہ بچھونے یا قالین وغیرہ پر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں اور امام احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے۔ ابوتیاح کا نام یزید بن حمید ہے

باغوں میں نماز پڑھنا

محمود بن غیلان، ابو داؤد، حسن بن ابو جعفر، ابو زبیر، ابو طفیل، معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم باغ میں نماز پڑھنا پسند فرماتے تھے ابو داؤد کہتے ہیں حیطان یعنی باغ میں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث معاذ غریب ہے اور ہم اسے حسن بن ابو جعفر کی روایت کے علاوہ کسی اور سے نہیں جانتے اور حسن بن ابو جعفر کو یحیی بن سعید قطان وغیرہ نے ضعیف کہا ہے ابوزبیر کا نام محمد بن مسلم بن تدرس ہے اور ابو طفیل کا نام عامر بن واثلہ ہے

نمازی کا سترہ

قتیبہ، ہناد، ابو الاحوص، سماک بن حرب، موسیٰ بن طلحہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنے سامنے کجاوے کی پچھلی لکڑی کی طرح کوئی چیز رکھ لے تو نماز پڑھ لے اور پرواہ نہ کرے اس کی جو اس کے آگے سے گزر جائے اس باب میں ابو ہریرہ سہل بن ابو حثمہ ابن عمر سبرہ بن معبد ابو جحیفہ اور عائشہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث طلحہ حسن صحیح ہے اور اہل علم کا اسی پر عمل ہے وہ کہتے ہیں کہ امام کا سترہ اس کے پیچھے نماز پڑھنے والوں کے لئے کافی ہے

نمازی کے آگے سے گزرنا مکروہ ہے

انصاری، معن، مالک بن انس، ابو نصر، بسربن سعید کہتے ہیں کہ زید بن خالد جہنی نے ایک شخص کو ابو جہیم کے پاس بھیجا یہ بات پوچھنے کے لئے کہ انہوں نے نماز کے آگے گزرنے کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کیا سنا ہے ابوجہیم نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر نمازی کے آگے سے گزرنے والے کو یہ معلوم ہو جائے کہ اس کی سزا کی ہے تو وہ چالیس تک کھڑا رہنے کو نمازی کے سامنے سے گزرنے پر ترجیح دے ابو النضر کہتے ہیں مجھے معلوم نہیں چالیس دن فرمایا یا چالیس مہینے یا چالیس سال اس باب میں ابو سعید خدری ابو ہریرہ اور عبداللہ بن عمرو سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث ابو جہیم حسن صحیح ہے اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم میں سے کسی کو سو سال کھڑا رہنا اس سے بہتر ہے کہ وہ اپنے نمازی بھائی کے آگے سے گزرے اہل علم کا اس پر عمل ہے کہ نمازی کے آگے سے گزرنا مکروہ ہے لیکن اس سے نماز نہیں ٹوٹتی

٭٭ محمد بن عبدالملک بن ابو شوارب، یزید بن زریع، معمر، زہری، عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ، ابن عباس سے روایت ہے کہ میں فضل کے ساتھ گدھی پر سوار تھا ہم منی میں پہنچے تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے صحابہ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے ہم اترے اور صف میں مل گئے گدھی ان کے آگے پھرنے لگی اور اس سے ان کی نماز نہیں ٹوٹی اس باب میں حضرت عائشہ فضل بن عباس اور ابن عمر سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث ابن عباس حسن صحیح ہے اور صحابہ و تابعین اور بعد کے اہل علم کا اس پر عمل ہے یہ حضرات فرماتے ہیں کہ نماز کسی چیز سے نہیں ٹوٹتی سفیان ثوری اور امام شافعی کا بھی یہی قول ہے

نماز کتے گدھے اور عورت کے گزرنے کے علاوہ کسی چیز سے نہیں ٹوٹتی

احمد بن منیع، ہشیم، یونس، منصور بن زاذان، حمید بن ہلال، عبداللہ بن صامت سے روایت ہے کہ میں نے ابو ذر سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب کوئی شخص نماز پڑھے اور اس کے سامنے کجاوے کی پچھلی لکڑی کے برابر یا فرمایا درمیانی لکڑی کے برابر کوئی چیز نہ ہو تو اس کی نماز کالے کتے گدھے یا عورت کے گزرنے سے ٹوٹ جائے گی عبداللہ بن صامت کہتے ہیں میں نے ابو ذر سے پوچھا کالے اور سفید یا سرخ کی کیا قید ہے تو انہوں نے فرمایا اے بھیجتے تو نے مجھ سے ایسا ہی سوال کیا ہے جس طرح میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کالا کتا شیطان ہے اس باب میں ابو سعید حکم غفاری ابو ہریرہ اور انس سے بھی روایات مروی ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث ابو ذر حسن صحیح ہے اور بعض اہل علم کا یہی خیال ہے کہ گدھے عورت یا کالے کتے کے گزرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے امام احمد فرماتے ہیں کہ سیاہ کتے کے گزرنے سے نماز ٹوٹنے میں تو مجھے شک نہیں البتہ گدھے اور عورت کے بارے میں مجھے شک ہے امام اسحاق فرماتے ہیں کہ سوائے کالے کتے کے کسی چیز سے نماز نہیں ٹوٹتی

ایک کپڑے میں نماز پڑھنا

قتیبہ، لیث، ہشام، ابن عروہ، عمرو بن ابو سلمہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حضرت ام سلمہ کے گھر ایک کپڑے میں نماز پڑھتے دیکھا اس باب میں ابو ہریرہ جابر سلمہ بن اکوع انس عمرو بن ابو اسید ام ہانی عمار بن یاسر طلق بن علی اور عبادہ بن صامت انصاری سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث عمرو بن ابو سلمہ حسن صحیح ہے اور صحابہ و تابعین اور ان کے بعد کے اکثر علماء کا اسی پر عمل ہے کہ ایک کپڑے میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں بعض اہل علم کہتے ہیں کہ آدمی دو کپڑوں میں نماز پڑھے

قبلے کی ابتداء

ہناد، وکیع، اسرائیل، ابو اسحاق ، براء بن عازب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب مدینہ تشریف لائے تو سولہ یا سترہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیت اللہ کی طرف منہ کرنا پسند کرتے تھے اس پر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی (قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَاۗءِ ۚ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَةً تَرْضٰیھَا ۠فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ) 2۔ البقرۃ:144) لہذا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کعبہ کی طرف رخ کر لیا جسے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پسند کرتے تھے ایک آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ عصر کی نماز پڑھی پھر وہ انصاری کی ایک جماعت کے پاس سے گزرا جو رکوع میں تھے ان کا رخ بیت المقدس کی طرف تھا اسی صحابی نے کہا کہ وہ گواہی دیتا ہے کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کعبہ کی طرف منہ پھیر لیا راوی کہتے ہیں اس پر ان لوگوں نے رکوع ہی میں اپنے رخ کعبہ کی طرف پھیر لئے اس باب میں ابن عمر ابن عباس عمارہ بن اوس عمرو بن عوف مزنی اور انس سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث براء حسن صحیح ہے اسے سفیان ثوری نے بھی ابو اسحاق سے روایت کیا ہناد وکیع سے وہ سفیان سے اور وہ عبداللہ بن دینار سے نقل کرتے ہیں کہ ابن عمر نے فرمایا وہ لوگ فجر کی نماز کے رکوع میں تھے امام ترمذی کہتے ہیں یہ حدیث صحیح ہے

مشرق اور مغرب کے درمیان قبلہ ہے

محمد بن ابو معشر، ابو معشر، محمد بن بن عمر، ابو سلمہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مشرق اور مغرب کے درمیان سب قبلہ ہے

٭٭ یحیی بن موسی، محمد بن ابو معشر، ابو عیسیٰ ابو ہریرہ ہم سے روایت کی یحیی بن موسیٰ نے انہوں نے محمد بن ابو معشر سے اوپر کی روایت کی مثل ابو عیسیٰ ترمذی نے فرمایا حدیث ابو ہریرہ حضرت ابو ہریرہ سے کئی سندوں سے مروی ہے اور بعض علماء نے ابو معشر کے حافظے میں کلام کیا ہے ان کا نام نجیع مولی بن ہاشم ہے امام بخاری نے کہا ان سے روایت نہیں کرتا جبکہ کچھ حضرات ان سے روایت کرتے ہیں امام محمد بن اسماعیل بخاری نے کہا عبداللہ بن جعفر مخرمی کی عثمان بن محمد اخنسی سے جو روایت کرتے ہیں سعید مقبری سے وہ ابو ہریرہ سے وہ روایت ابو معشر کی حدیث سے قوی تر اور اصح ہے

٭٭ حسن بن بکر مروزی، معلی بن منصور، عبداللہ بن جعفر مخرمی، عثمان بن محمد اخنسی، سعید مقبری، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مشرق و مغرب کے درمیان قبلہ ہے عبداللہ بن جعفر کو مخرمی اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ مسور بن مخرمہ کی اولاد سے ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی کہتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور کئی صحابہ سے اسی طرح مروی ہے کہ مشرق و مغرب کے درمیان قبلہ ہے ان میں سے عمر بن خطاب علی بن ابو طالب اور ابن عباس بھی ہیں حضرت ابن عمر فرماتے ہیں اگر مغرب تمہارے دائیں ہاتھ اور مشرق بائیں ہاتھ کی طرف ہو تو اگر تم قبلہ کی طرف منہ کرو تو درمیان میں قبلہ ہے ابن مبارک کہتے ہیں مشرق اور مغرب کے درمیان قبلے کا حکم اہل مشرق کے لئے ان کے نزدیک اہل مرو کو بائیں طرف جھکنا چاہے

کہ جو شخص اندھیرے میں قبلہ کی طرف منہ کئے بغیر نماز پڑھ لے

محمود بن غیلان، وکیع، اشعث بن سعید سمان، عاصم بن عبید اللہ بن عبداللہ بن عامربن ربیعہ، اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا ہم ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ اندھیری رات میں سفر کر رہے تھے اور قبلہ کا رخ نہیں جانتے تھے پس ہر شخص نے اپنے سامنے کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی جب صبح ہوئی تو ہم نے اس کا ذکر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی (فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ) 2۔ البقرۃ:115) تم جس طرف بھی منہ کرو اسی طرف اللہ کا چہرہ ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں اس حدیث کی سند قوی نہیں ہم اس حدیث کو صرف اشعث سمان کی روایت سے جانتے ہیں اور اشعث بن سعید ابو الربیع سمان کی حدیث میں ضعیف قرار دیا گیا ہے اکثر اہل علم کا یہی مذہب ہے کہ اگر کوئی شخص اندھیرے میں قبلہ کی طرف منہ کئے بغیر نماز پڑھ لے پھر نماز پڑھ لینے کے بعد اسے معلوم ہو کہ اس نے قبلہ رخ ہوئے بغیر نماز پڑھی ہے تو اس کی نماز جائز ہے اور سفیان ثوری ابن مبارک احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے

اس چیز کے متعلق جس کی طرف یا جس میں نماز پڑھنا مکروہ ہے

محمود بن غیلان، مقری، یحیی بن ایوب، زیدبن جبیرہ، داؤد بن حصین، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سات مقامات پر نماز پڑھنے سے منع فرمایا بیت الخلا مذبح خانے میں قبر پر راستے میں حمام میں اونٹ باندھنے کی جگہ میں اور بیت اللہ کی چھت پر

٭٭ علی بن حجر سوید بن عبدالعزیز، زید بن جبیرہ، محمود بن غیلان داؤد ، حصین، نافع، ابن عمر ہم سے روایت کی علی بن حجر نے انہوں نے سوید بن عبدالعزیز سے انہوں نے زید بن جبیرہ سے انہوں نے داؤد بن حصین سے انہوں نے نافع سے انہوں نے ابن عمر سے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اوپر کی حدیث کی مثل اور ہم معنی اس باب میں ابو مرثد جابر اور انس سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث ابن عمر کی سند قوی نہیں زید بن جبیر کے حفظ میں کلام ہے لیث بن سعد بھی اس حدیث کو عبداللہ بن عمر عمری سے روایت کرتے ہیں وہ نافع سے وہ ابن عمر وہ عمر سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس کے مثل روایت کرتے ہیں ابن عمر کی حدیث لیث بن سعد کی حدیث سے اشبہ اور اصح ہے محدثین عبداللہ بن عمر عمری کو حافظے کی بنا پر ضعیف کہتے ہیں جن میں یحیی بن سعید قطان بھی شامل ہیں

بکریوں اور اونٹوں کے باڑے میں نماز پڑھنا

ابوکریب، یحیی بن آدم، ابو بکر بن عیاش، ہشام، ابن سیرین، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم نماز پڑھو بکریوں کے باڑے میں اور تم نماز نہ پڑھو اونٹوں کے باڑنے کی جگہ میں

٭٭ ابوکریب، یحیی بن آدم، ابو بکر بن عیاش، ابو حصین، ابو صالح، ابو ہریرہ روایت کی ہم سے ابو کریب نے انہوں نے یحیی بن آدم سے انہوں نے ابو بکر بن عیاش سے انہوں نے ابی حصین سے انہوں نے ابو صالح سے انہوں نے ابو ہریرہ سے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اوپر کی حدیث کی مثل اس باب میں جابر بن سمرہ براء سبرہ بن معبد جہنی عبداللہ بن مغفل ابن عمر اور انس سے بھی روایات مروی ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث ابو ہریرہ حسن صحیح ہے اور ہمارے اصحاب کا اسی پر عمل ہے امام احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے ابوحصین کی ابو صالح سے بواسطہ ابو ہریرہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی حدیث غریب ہے اور اسے اسرائیل نے ابو حصین سے اور انہوں نے ابو ہریرہ سے موقوف روایت کیا ہے نہ کہ مرفوع اور ابو حصین کا نام عثمان بن عاصم اسدی ہے

٭٭ محمد بن بشار، یحیی بن سعید، شعبہ، ابو تیاح ضبعی، انس بن مالک روایت کیا ہم سے محمد بن بشار نے انہوں نے یحیی بن سعید سے انہوں نے شعبہ سے انہوں نے ابو التیاح ضبعی سے انہوں نے انس سے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بکریوں کے بیٹھنے کی جگہ میں نماز پڑھتے تھے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث صحیح ہے اور ابو التیاح کا نام یزید بن حمید ہے

سواری پر نماز پڑھنا خواہ اس کا رخ جدھر بھی ہو

محمود بن غیلان، وکیع، یحیی بن آدم، سفیان، ابو زبیر، جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے ایک کام کے لئے بھیجا جب میں واپس آیا تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی سواری پر مشرق کی جانب نماز پڑھ رہے تھے اور سجدہ میں رکوع سے زیادہ جھکتے تھے اس باب میں انس ابن عمر ابو سعید اور عامر بن ربیعہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں جابر کی حدیث حسن صحیح ہے اور یہ کئی سندوں سے حضرت جابر سے مروی ہے اس پر سب سہل علم کا عمل ہے ہمیں اس مسئلے میں اختلاف کا علم نہیں یہی قول ہے علماء کا کہ نفل نماز سواری پر پڑھ لینے میں کوئی حرج نہیں خواہ قبلہ رخ ہو یا نہ ہو

سواری کی طرف نماز پڑھنا

سفیان بن وکیع، ابو خالد احمر، عبید اللہ بن عمر، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ نماز پڑھی اپنے اونٹ کی طرف یا فرمایا اپنی سواری کی طرف آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی سواری پر بھی نماز پڑھا کرتے تھے خواہ اس کا رخ کسی بھی طرف ہو امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور بعض اہل علم کا یہی قول ہے کہ اونٹ کو سترہ بنا کر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں

نماز کے لئے جماعت کھڑی ہو جائے اور کھانا حاضر ہو تو کھانا پہلے کھایا جائے

قتیبہ، سفیان بن عیینہ، زہری، انس سے روایت ہے کہ وہ اس حدیث کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک پہنچاتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر کھانا حاضر ہو اور جماعت کھڑی ہو جائے تو پہلے کھانا کھالو اس باب میں حضرت عائشہ ابن عمر مسلمہ بن اکوع اور ام سلمہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث انس حسن صحیح ہے اور اسی پر عمل ہے بعض اہل علم کا صحابہ کرام میں سے جیسے ابو بکر عمر اور ابن عمر ہیں اور امام احمد اور اسحاق بھی یہی کہتے ہیں ان دونوں حضرات کے نزدیک کھانا پہلے کھا لے اگرچہ جماعت نکل جائے جارود کہتے ہیں میں نے وکیع سے سنا وہ اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں کہ کھانا اس وقت پہلے کھایا جائے جب خراب ہونے کا خطرہ ہو امام ترمذی فرماتے ہیں کہ بعض صحابہ کرام اور دیگر فقہاء کا قول اتباع کے زیادہ لائق ہے کیونکہ ان کا مقصد یہ ہے کہ جب آدمی نماز کے لئے کھڑا ہو تو اس کی دل کسی چیز کی وجہ سے مشغول نہ ہو حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ ہم نماز کے لئے اس وقت تک کھڑے نہیں ہوتے جب تک ہمارا دل کسی اور چیز میں لگا ہوا ہو

٭٭ ابن عمر سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب شام کا کھانا سامنے رکھ دیا گیا ہو اور نماز کھڑی کا جائے تو پہلے کھانا کھالو حضرت ابن عمر نے اس حالت میں کھانا کھایا کہ آپ امام کی قرات سن رہے تھے امام ترمذی فرماتے ہیں ہم سے روایت کی ہناد نے انہوں نے عبدہ سے انہوں نے نافع سے انہوں نے ابن عمر سے

اونگھتے وقت نماز پڑھنا

ہارون بن اسحاق ہمدانی، عبدہ بن سلیمان کلابی، ہشام بن عروہ، عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی نماز پڑھ رہا ہو اور اونگھنے لگے تو چاہئے کہ وہ سو جائے یہاں تک کہ اس کی نیند جاتی رہے کیونکہ اگر تم میں سے کوئی اونگھتے ہوئے نماز پڑھے گا تو ممکن ہے کہ وہ استغفار کرنے کی نیت کرے اور اپنے آپ کو گالیاں دینے لگے اس باب میں حضرت انس اور ابو ہریرہ سے بھی روایت ہے کہ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ کی حدیث حسن صحیح ہے

جو آدمی کسی کی ملاقات کے لئے جائے وہ ان کی امامت نہ کرے

محمود بن غیلان، ہناد، وکیع، ابان بن یزید عطار، بدیل بن میسرہ عقیلی، ابو عطیہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا مالک بن حویرث ہماری نماز پڑھنے کی جگہ پر ہمارے پاس آیا کرتے اور ہمیں احادیث سناتے چنانچہ ایک اور نماز کا وقت ہو گیا تو ہم نے ان سے کہا آپ نماز پڑھائیں انہوں نے کہا تم میں سے کوئی نماز پڑھائے تاکہ میں تمہیں بتاؤں کہ میں کیوں امامت نہیں کر رہا میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے کہ جو کسی کی زیارت کے لئے جائے تو وہ ان کی امامت نہ کرے بلکہ انہیں میں سے کوئی آدمی نماز پڑھائے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور صحابہ کرام میں سے اکثر اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے یہ حضرات کہتے ہیں کہ صاحب منزل امامت کا زیادہ حقدار ہے بعض اہل علم کے نزدیک اگر صاحب منزل اجازت دے دے تو امامت کرانے میں کوئی حرج نہیں امام اسحاق کا بھی اسی حدیث پر عمل ہے انہوں نے اس بارے میں سختی سے کام لیا وہ فرماتے ہیں کہ صاحب منزل کی اجازت سے بھی نماز نہ پڑھائے اور اسی طرح اگر ان کی مسجد میں ان کی ملاقات کے لئے جائے تو بھی نماز نہ پڑھائے بلکہ انہیں میں سے کوئی شخص نماز پڑھائے

امام کا دعا کے لئے اپنے آپ کو مخصوص کرنا مکروہ ہے

علی بن حجر، اسماعیل بن عیاش، حبیب بن صالح، یزید بن شریح، ابو حی، ثوبان سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کسی شخص کے لئے حلال نہیں کہ وہ کسی کے گھر میں اجازت کے بغیر جھانکے اگر اس نے دیکھ لیا تو گویا کہ وہ اس کے گھر میں داخل ہو گیا اور کوئی شخص کسی کی امامت کرتے ہوئے ان لوگوں کو چھوڑ کر اپنے لئے دعا کو مخصوص نہ کرے اگر کسی نے ایسا کیا تو اس نے ان سے خیانت کی اور نماز میں قضائے حاجت کو روک کر کھڑا نہ ہو اس باب میں ابو ہریرہ ابو امامہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث ثوبان حسن ہے اور یہ حدیث معاویہ بن صالح سے بھی مروی ہے وہ سفر بن نسیر سے وہ یزید بن شریح سے وہ ابو امامہ سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں یزید بن شریح کی حدیث ابو حی موذن کی ثوبان سے مروی حدیث سے سند کے اعتبار سے اجود اور زیادہ مشہور ہے

وہ امام جس کو مقتدی ناپسند کریں

عبدالاعلی بن واصل کوفی، محمد بن قاسم اسدی، فضل بن دلہم، حسن سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تین آدمی پر لعنت بھیجی ہے جو شخص کسی قوم کی امامت کرائے اور وہ اسے ناپسند کرتے ہوں وہ عورت جو اس حالت میں رات گزارے کہ اس کا خاوند اس سے ناراض ہو اور وہ شخص جو (حَی عَلَی الْفَلَاحِ) سنے اور اس کا جواب نہ دے اس باب میں ابن عباس طلحہ عبداللہ بن عمرو اور ابو امامہ سے بھی روایات مروی ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ حدیث انس صحیح نہیں اس لئے کہ یہ حدیث حسن نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مرسلاً روایت کی ہے امام ترمذی کہتے ہیں کہ امام احمد نے محمد بن قاسم کے متعلق کلام کیا ہے اور وہ انہیں ضعیف کہتے ہیں اور یہ حافظ نہیں ہیں اہل علم کے ایک گروہ کے نزدیک مقتدیوں کے نہ چاہتے ہوئے بھی ان کی امامت کرنا مکروہ ہے لیکن اگر ظالم نہ ہو تو گناہ اسی پر ہو گا جو اس کی امامت کو ناپسند کرے گا امام احمد اور اسحاق اسی مسئلے میں کہتے ہیں اگر ایک یا دو یا تین آدمی نہ چاہتے ہوں تو امامت کرنے میں کوئی حرج نہیں یہاں تک کہ اکثریت اس کو ناپسند کرے

٭٭ ہناد، جریر، منصور، ہلال بن یساف، زیاد بن ابو جعد، عمرو بن حارث بن مصطلق روایت کی ہم سے ہناد نے انہوں نے جریر سے انہوں نے منصور سے انہوں نے ہلال بن یساف سے انہوں نے زیاد بن ابو جعد سے انہوں نے عمرو بن حارث بن مصطلق سے عمرو نے کہا کہ کہا جاتا تھا کہ سب سے زیادہ عذاب دو شخصوں کے لئے ہے اس عورت کے لئے جو شوہر کی نافرمانی کرے اور وہ امام جو مقتدیوں کے ناراض ہونے کے باوجود امامت کرے جرید منصور کے متعلق کہتے ہیں کہ ہم نے ان سے امام کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا اس سے مراد ظالم امام ہے پس اگر وہ سنت پر قائم ہو تو مقتدی گناہگار ہوں گے یعنی جو اس سے بیزار ہوں گے

٭٭ محمد بن اسماعیل، علی بن حسن، حسین بن واقد، ابو غالب سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تین آدمیوں کی نماز ان کے کانوں سے آگے نہیں بڑھتی بھاگا ہوا غلام جب تک واپس نہ آ جائے اور وہ عورت جو اس حالت میں رات گزارے کہ اس کا شوہر اس سے ناراض ہو اور کسی قوم کا امام جس کے مقتدی اس کو ناپسند کرتے ہوں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن غریب ہے اس طریق سے اور ابو غالب کا نام خزدر ہے

اگر امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو

قتیبہ، لیث، ابن شہاب، انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گھوڑے سے گرے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو چوٹ آ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں بیٹھ کر نماز پڑھائی چنانچہ ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اقتداء میں بیٹھ کر ہی نماز ادا کی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا بے شک امام اس لئے ہے یا فرمایا بے شک امام اس لئے بنایا گیا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو جب رکوع سے اٹھے تو تم بھی رکوع اٹھو جب وہ (سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ) کہے تو تم (رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ) کہو جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم سب بھی بیٹھ کر نماز پڑھو اس باب میں حضرت عائشہ ابو ہریرہ جابر ابن عمر اور معاویہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ فرماتے ہیں حدیث انس حسن صحیح ہے بعض صحابہ نے اس حدیث پر عمل کیا ہے ان میں سے جابر بن عبداللہ اسید بن حضیر اور ابو ہریرہ بھی ہیں امام احمد اور اسحاق بھی اسی کے قائل ہیں بعض اہل علم فرماتے ہیں کہ اگر امام بیٹھ کر پڑھائے تو مقتدی کھڑے ہو کر پڑھیں انکی نماز بیٹھ کر جائز نہیں سفیان ثوری مالک بن انس ابن مبارک اور امام شافعی کا یہی قول ہے

٭٭ محمود بن غیلان، شبابہ، شعبہ، نعیم بن ابو ہند، ابو وائل، مسروق، عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے مرض وفات میں حضرت ابو بکر کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حضرت عائشہ کی حدیث حسن صحیح غریب ہے حضرت عائشہ سے یہ حدیث بھی مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اگر امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو ام المومنین حضرت عائشہ ہی سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مرض وفات میں باہر تشریف لائے اور ابو بکر لوگوں کی امامت کر رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے پہلو میں نماز پڑھی لوگ ابو بکر کی اقتدا کر رہے تھے اور ابو بکر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اور ان سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابو بکر کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابو بکر کے پیچھے نماز پڑھی بیٹھ کر

٭٭ عبد اللہ بن ابو زیاد، شبابہ بن سوار، محمد بن طلحہ، حمید، ثابت، انس ہم سے روایت ہے کہ عبداللہ بن ابو زیاد نے ان سے شبابہ بن سوار نے ان سے محمد بن طلحہ نے ان سے حمید نے ان سے ثابت نے ان سے انس نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے مرض وفات میں ابو بکر کے پیچھے بیٹھ کر ایک ہی کپڑے میں لیٹے ہوئے نماز پڑھی امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور ایسا ہی روایت کیا ہے اس کو یحیی بن ایوب نے حمید سے انہوں نے انس سے اور روایت کیا ہے اس حدیث کو کئی لوگوں نے حمید سے انہوں نے انس سے اور اس حدیث میں ثابت کا ذکر نہیں کیا اور جس راوی نے سند میں ثابت کا ذکر کیا ہے وہ زیادہ صحیح ہے

دو رکعتوں کے بعد امام کا بھول کر کھڑے ہو جانا

احمد بن منیع، ہشیم، ابن ابو لیلی، شعبی، مغیرہ بن شعبہ شعبی سے روایت ہے کہ مغیرہ بن شعبہ نے ایک مرتبہ ہماری امامت کی اور دو رکعتوں کے بعد کھڑے ہو گئے چنانچہ لوگوں نے ان سے تسبیح کہی اور انہوں نے تسبیح کہی لوگوں سے جب نماز پوری ہوئی تو سلام پھیرا اور سجدہ سہو کیا جبکہ وہ بیٹھے ہوئے تھے پھر فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی ان کے ساتھ ایسا ہی کیا تھا جیسا انہوں نے کیا اس باب میں عقبہ بن عامر سعد اور عبداللہ بن بحینہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں مغیرہ بن شعبہ کی حدیث انہی سے کئی طریق سے مروی ہے اور بعض لوگوں نے ابن ابی لیلی کے حفظ میں کلام کیا ہے امام احمد ان کی حدیث کو حجت نہیں مانتے امام بخاری فرماتے ہیں کہ ابن ابی لیلی سچے ہیں لیکن میں ان سے روایت اس لئے نہیں کرتا کہ وہ صحیح اور ضعیف میں پہچان نہیں رکھتے ان کے علاوہ بھی جو اس طرح کا راوی ہو میں اس سے روایت نہیں کرتا یہ حدیث کئی طرق سے مغیرہ بن شعبہ سے مروی ہے اور روایت کی سفیان نے جابر سے انہوں نے مغیرہ بن شبیل سے انہوں نے قیس بن ابو حازم سے انہوں نے مغیرہ بن شعبہ سے اور جابر جعفی کو بعض اہل علم نے ضعیف کہا ہے اور یحیی بن سعید اور عبدالرحمن بن مہدی وغیرہ نے ان سے روایت کرنا چھوڑ دیا ہے اور اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ اگر کوئی شخص دو رکعتوں کے بعد کھڑ ہو جائے تو نماز پوری کرے اور سجدہ سہو کے بعض حضرات کہتے ہیں کہ سلام پھیرنے کے بعد سجدہ سہو کرے جو حضرات سلام پھیرنے سے پہلے سجدہ سہو کرنے کے قائل ہیں ان کی حدیث اصح ہے اس حدیث کو زہری نے یحیی بن سعید انصاری سے انہوں نے عبدالرحمن اعرج سے اور انہوں نے عبداللہ بحینہ سے روایت کیا ہے

٭٭ عبد اللہ بن عبدالرحمن، یزید بن ہارون، مسعودی، زیاد بن علاقہ، مغیرہ بن شعبہ نے جب وہ دو رکعت پڑھ چکے تو بیٹھنے کی بجائے کھڑے ہو گئے چنانچہ مقتدیوں نے سُبْحَانَ اللَّہِ کہا اشارہ کیا ان کی طرف کہ کھڑے ہو جاؤ جب نماز سے فارغ ہوئے تو سلام پھیرا اور دو سجدے کئے سہو کے اور پھر سلام پھیرا اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی ایسا ہی کیا امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور مغیرہ بن شعبہ ہی سے کئی طرق سے مروی ہے وہ روایت کرتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے

قعدہ اولیٰ کی مقدار

محمود بن غیلان، ابو داؤد طیالسی، شعبہ، سعد بن ابراہیم، عبید اللہ بن عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب دو رکعتیں پڑھنے پر تشہد اول میں بیٹھے تو گویا کہ وہ گرم پتھروں پر بیٹھے ہوں شعبہ کہتے ہیں پھر سعد نے اپنے ہونٹ ہلائے اور کچھ کہا پس میں نے کہا یہاں تک کہ کھڑے ہوئے تو سعد نے بھی کہا یہاں تک کہ کھڑے ہوئے امام ابو عیسیٰ ترمذی کہتے ہیں یہ حدیث حسن ہے مگر ابو عبیدہ کو اپنے والد سے سماع نہیں اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے کہ پہلا قعدہ لمبا نہ کیا جائے اور اس میں تشہد میں اضافہ نہ کیا جائے اگر اضافہ کر لیا تو سجدہ سہو کرے شعبی وغیرہ سے بھی اسی طرح مروی ہے

نماز میں اشارہ کرنا

قتیبہ، لیث بن سعد، بکیر بن عبداللہ بن اشج، ناہل صاحب عباء، ابن عمر، صہیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز پڑھ رہے تھے میں ان کے پاس سے گزرا تو سلام کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے جواب دیا اشارے سے راوی کو شک ہے کہ شاید صہیب نے یہ بھی کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انگلی سے اشارہ کر کے جواب دیا اس باب میں حضرت بلال ابو ہریرہ انس اور حضرت عائشہ سے بھی روایت ہے

٭٭ محمود بن غیلان، وکیع، ہشام بن سعد، نافع، ابن عمر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت بلال سے پوچھا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز کی حالت میں تمہارے سلام کا جواب کیسے دیا کرتے تھے انہوں نے فرمایا ہاتھ سے اشارہ کرتے تھے ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور صہیب کی حدیث حسن ہے ہم اسے لیث کیب کیر سے روایت کے علاوہ نہیں جانتے زید بن اسلم سے مروی ہے کہ ابن عمر نے فرمایا میں نے بلال سے کہا جب لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مسجد بنو عمرو بن عوف میں نماز پڑھتے ہوئے سلام کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کس طرح جواب دیتے تھے انہوں نے کہا کہ اشارہ کر دیتے تھے امام ترمذی فرماتے ہیں میرے نزدیک یہ دونوں حدیث صحیح ہیں کیونکہ صہیب اور واقعہ بلال دونوں الگ الگ ہیں اگرچہ ابن عمر ان دونوں سے روایت کرتے ہیں ہو سکتا ہے ابن عمر نے ان دونوں سے سنا ہو

مردوں کے لئے تسبیح اور عورتوں کے لئے تصفیق

ہناد، ابو معاویہ، اعمش، ابو صالح، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مردوں کے لئے تسبیح اور عورتوں کے لئے ہاتھ پر ہاتھ مارنا ہے اس باب میں حضرت علی سہیل بن سعد جابر ابو سعید اور ابن عمر سے بھی روایت ہے حضرت علی کہتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اندر آنے کی اجازت مانگتا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز پڑھ رہے ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سُبْحَانَ اللَّہِ کہتے امام ابو عیسیٰ ترمذی نے فرمایا کہ حدیث ابو ہریرہ حسن صحیح ہے اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے

نماز میں جمائی لینا مکروہ ہے

علی بن حجر، اسماعیل بن جعفر، علاء بن عبدالرحمن ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جمائی لینا نماز میں شیطان کی طرف سے ہے پس اگر تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو جہاں تک ہو سکے منہ بند کے کر کے روکنے کی کوشش کرے اس باب میں ابو سعید خدری اور عدی بن ثابت کے دادا سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ حدیث ابو ہریرہ حسن صحیح ہے اور اہل علم کی ایک جماعت نے نماز میں جمائی لینے کو مکروہ کہا ہے ابراہیم کہتے ہیں میں کھنکار کے ذریعے جمائی کو لوٹا دیتا ہوں

بیٹھ کر نماز پڑھنے کا کھڑے ہو کر نماز پڑھنے سے آدھا ثواب ہے

علی بن حجر، عیسیٰ بن یونس، حسین، عبداللہ بن بریدہ، عمران بن حصین سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بیٹھ کر نماز پڑھنے والے شخص کے بارے میں پوچھا فرمایا جو کھڑے ہو کر نماز پڑھے وہ افضل ہے جو بیٹھ کر نماز پڑھے اس کے لئے کھڑے ہو کر نماز پڑھنی والے سے نصف اجر ہے اور جو لیٹ کر نماز پڑھے اس کے لئے بیٹھ کر نماز پڑھنے والے سے آدھا ثواب ہے اس باب میں حضرت عبداللہ بن عمرو انس اور سائب سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ عمران بن حصین کی حدیث حسن صحیح ہے

٭٭ ابراہیم بن طہمان، عمران بن حصین نے فرمایا میں نے سوال کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مریض کی نماز کے بارے میں فرمایا کھڑے ہو کر نماز پڑھے اگر نہ پڑھ سکے تو بیٹھ کر اگر بیٹھ کر بھی نہ پڑھ سکے تو لیٹ کر اس حدیث کو ہناد وکیع سے ابراہیم بن طہمان سے اور وہ معلم سے اسی اسناد سے نقل کرتے ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں ہم کسی اور کو نہیں جانتے کہ اس نے حسین بن معلم سے ابراہیم بن طہمان کی روایت کی مثل روایت کی ہو ابو اسامہ اور کئی راوی حسین بن معلم سے عیسیٰ بن یونس کی مثل روایت کرتے ہیں بعض اہل علم کے نزدیک یہ حدیث نمازوں کے بارے میں ہے

٭٭ محمد بن بشار، ابن ابی عدی، اشعث بن عبدالملک، حسن سے کہ حسن نے کہا آدمی نفل نماز چاہے کھڑے ہو کر پڑھے چاہئے بیٹھ کر چاہے لیٹ کر اور مریض کی جو بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہو کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے بعض اہل علم کہتے ہیں اگر وہ بیٹھ کر نہ پڑھ سکتا ہو تو دائیں کروٹ پر لیٹ کر نماز پڑھے اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ سیدھا لیٹ کر پاؤں قبلہ کی طرف پھیلا کر نماز پڑھے اس حدیث کے متعلق سفیان ثوری کہتے ہیں کہ جو بیٹھ کر نماز پڑھے اس کے لئے کھڑے ہو کر پڑھنے والے سے آدھا ثواب ہے یہ تندرست شخص کے لئے ہے اور جو معذور ہو یا مریض ہو تو اگر وہ بیٹھ کر پڑھے تو اسے کھڑی ہو کر نماز پڑھنے والے کے برابر اجر ملے گا اور بعض احادیث کا مضمون سفیان ثوری کے اس قول کے مطابق ہے

نفل نماز بیٹھ کر پڑھنا

انصاری، معن، مالک بن انس، ابن شہاب، سائب بن یزید، مطلب بن ابو ودایہ سہمی، حفصہ فرماتی ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کبھی بھی نفل نماز بیٹھ کر پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وفات سے ایک قبل نفل نماز بیٹھ کر پڑھنے لگے اور اس میں جب کوئی سورت پڑھتے تو ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے یہاں تک کہ وہ طویل سے طویل ہوتی جاتی اس باب میں ام سلمہ اور انس بن مالک سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث حفصہ حسن صحیح ہے اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات کو بیٹھ کر نماز پڑھتے تھے جب ان کی قرات تیس یا چالیس آتیں رہ جاتیں تو کھڑے ہو کر پڑھنے لگتے پھر رکوع کرتے اور دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کرتے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیٹھ کر نماز پڑھتے اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہو کر قرات کرتے تو رکوع اور سجدہ بھی کھڑے ہو کر کرتے اور اگر بیٹھ کر قرات کرتے تو رکوع اور سجدہ بھی بیٹھ کر ہی کرتے امام احمد اور اسحاق فرماتے ہیں دونوں حدیثوں پر عمل ہے گویا کہ دونوں حدیثیں صحیح ہیں اور ان پر عمل ہے

٭٭ انصاری، معن، مالک، ابو نضر، ابو سلمہ، عائشہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیٹھ کر نماز پڑھا کرتے تھے پس قرات بھی بیٹھ کر کرتے اور جب تیس یا چالیس آیات باقی رہ جاتیں تو کھڑ ہو کر قرات شروع کر دیتے پھر رکوع و سجود کرتے اور دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کرتے امام ابو عیسیٰ ترمذی نے فرمایا یہ حدیث حسن صحیح ہے

٭٭ احمد بن منیع، ہشیم، خالد، عبداللہ بن شقیق، عائشہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نفل نماز کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کافی رات کھڑے ہو کر اور کافی رات تک بیٹھ کر نماز پڑھتے تھے اگر کھڑے ہو کر قرات فرماتے تو رکوع و سجود بھی کھڑے ہو کر کرتے اور اگر بیٹھ کر قرات فرماتے تو رکوع و سجود بھی بیٹھ کر ہی کرتے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے

نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب میں بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو نماز ہلکی کرتا ہوں

قتیبہ، مروان بن معاویہ فزاری، حمید، انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ کی قسم جب نماز کے دوران میں بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو اس خوف سے نماز ہلکی کر دیتا ہوں کہ کہیں اس کی ماں فتنے میں مبتلا نہ ہو جائے اس باب میں حضرت قتادہ ابو سعید اور ابو ہریرہ سے بھی روایات مروی ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث انس حسن صحیح ہے

جوان عورت کی نماز بغیر چادر کے قبول نہیں ہوتی

ہناد، قبیصہ، حمادبن سلمہ، قتادہ، ابن سیرین، صفیہ بنت حارث، عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جوان عورت کی نماز بغیر چادر کے قبول نہیں ہوتی اس باب میں عبداللہ بن عمرو سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث عائشہ حسن ہے اور اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ عورت جب بالغ ہو جائے اور نماز پڑھے تو ننگے بالوں سے نماز جائز نہیں ہو گی یہ امام شافعی کا قول ہے وہ فرماتے ہیں کہ عورت کے جسم سے کچھ حصہ بھی ننگا ہو تو نماز نہیں ہو گی امام شافعی فرماتے ہیں کہا گیا ہے کہ اگر اس کے پاؤں کھلے رہ جائیں تو اس صورت میں نماز ہو جائے گی

نماز میں سدل مکروہ ہے

ہناد، قبیصہ، حمادبن سلمہ، عسل بن سفیان، عطاء، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز میں سدل سے منع فرمایا اس باب میں ابو جحفیہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حضرت ابو ہریرہ کی حدیث کو ہم عطاء کی ابو ہریرہ سے مرفوع روایت کے علاوہ نہیں جانتے وہ عسل بن سفیان سے روایت کرتے ہیں اہل علم کا نماز میں سدل کے بارے میں اختلاف ہے بعض علماء کے نزدیک نماز میں سدل کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں یہ امام احمد کا قول ہے ابن مبارک کے نزدیک بھی نماز میں سدل مکروہ ہے

نماز میں کنکریاں ہٹانا مکروہ ہے

سعید بن عبدالرحمن مخزومی، سفیان بن عیینہ، زہری، ابو الاحوص، ابو ذر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی نماز کے لئے کھڑا ہو تو کنکریاں نہ ہٹائے کیونکہ رحمت اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے

٭٭ حسین بن حریث، ولیدبن مسلم، اوزاعی، یحیی بن ابو کثیر، ابو سلمہ بن عبدالرحمن، معقیب کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نماز میں کنکریاں ہٹانے کے بارے میں پوچھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر ضروری ہو تو ایک مرتبہ ہٹالو امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث صحیح ہے اس باب میں علی بن ابی طالب حذیفہ جابر بن عبداللہ حذیفہ جابر بن عبداللہ اور معقیب سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ فرماتے ہیں حدیث ابو ذر حسن ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز میں کنکریاں ہٹانے کو مکروہ کہا ہے اور فرمایا اگر ضروری ہو تو ایک مرتبہ ہٹا لے گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک مرتبہ کنکریاں ہٹانے کی اجازت دی ہے اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے

نماز میں پھونکیں مارنا مکروہ ہے

احمد بن منیع، عباد بن عوام، میمون ابو حمزہ، ابو صالح، طلحہ، ام سلمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک لڑکے کو جسے ہم افلح کہتے تھے دیکھا کہ جب وہ سجدہ کرتا ہے تو پھونک مارتا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے افلح اپنے چہرے کو خاک آلود ہونے دے احمد بن منبع فرماتے ہیں کہ عباد نماز میں پھونکنے کو مکروہ سمجھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی احمد بن منیع کہتے ہیں کہ ہم اسی قول پر عمل کرتے ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی کہتے ہیں کہ ہم اسی قول پر عمل کرتے ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی کہتے ہیں بعض حضرات نے اس حدیث کو ابو حمزہ سے روایت کیا ہے اور کہا کہ وہ لڑکا ہمارا مولی تھا اس کو رباح کہتے تھے

٭٭ احمد بن عبدہ ضبی، حماد بن زید، میمون، ابو حمزہ سے اسی اسناد سے اسی کی مثل روایت اور کہا یہ لڑکا ہمارا غلام تھا اسے رباح کہا جاتا تھا امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث ام سلمہ کی سند قوی نہیں بعض علماء میمون ابو حمزہ کو ضعیف کہتے ہیں نماز میں پھونکیں مارنے کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے بعض اہل علم کے نزدیک اگر کوئی نماز میں پھونک دے تو دوبارہ نماز پڑھے یہ سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا قول ہے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ نماز میں پھونکیں مارنا مکروہ ہے لیکن اس سے فاسد نہیں ہوتی یہ احمد اور اسحاق کا قول ہے

نماز میں کوکھ پر ہاتھ رکھنا منع ہے

ابوکریب، ابو اسامہ، ہشام بن حسان، محمد بن سیرین، ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پہلو پر ہاتھ رکھ کر نماز پڑھنے سے منع فرمایا اس باب میں ابن عمر سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث ابو ہریرہ حسن صحیح ہے بعض علماء کے نزدیک نماز میں احتصار مکروہ ہے اور احتصار کا معنی یہ ہے کوئی شخص نماز میں اپنی کوکھ پر ہاتھ رکھے بعض فقہاء پہلو پر ہاتھ رکھ کر چلنے کو بھی مکروہ کہتے ہیں روایت کیا کہ ابلیس جب چلتا ہے تو پہلو پر ہاتھ رکھ کر چلتا ہے

بال باندھ کر نماز پڑھنا مکروہ ہے

یحیی بن موسی، عبدالرزاق، ابن جریح، عمران بن موسی، سعید بن ابو سعید مقبری اپنے والد اور وہ ابو رفع سے نقل کرتے ہیں کہ وہ حسن بن علی کے پاس سے گزرے تو وہ نماز پڑھ رہے تھے جوڑا گدی پر باندھا ہوا تھا ابو رافع نے اسے کھول دیا اس حسن غصہ کے ساتھ ان کی طرف دیکھا تو انہوں نے کہا اپنی نماز پڑھتے رہو اور غصہ نہ کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے کہ یہ شیطان کا حصہ ہے اس باب میں ام سلمہ اور عبدالرحمن بن عباس سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں ابو رافع حسن ہے اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے کہ نماز میں بالوں کو باندھنا مکروہ ہے عمران بن موسیٰ قریشی مکی ہیں اور ایوب بن موسیٰ کے بھائی ہیں

نماز میں خشوع

سوید بن نصر، عبداللہ بن مبارک، لیث بن سعد، عبدربہ بن سعید، عمران بن ابو انس، عبداللہ بن نافع بن عمیاء، ربیعہ بن حارث، فضل بن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نماز دو دو رکعت ہے اور ہر دو رکعت کے بعد تشہد ہے خشوع عاجزی سکون اور دونوں ہاتھوں کو اٹھانا ہے راوی کہتے ہیں دونوں ہاتھوں کو اٹھانا اپنے رب کی طرف کہ ان کا اندرونی حصہ اپنے منہ کی طرف رہے اور پھر کہنا اے رب اے رب اور جس نے ایسا نہ وہ ایسا ہے امام ترمذی کہتے ہیں کہ ابن مبارک کے علاوہ دوسرے راوی اس حدیث میں یہ کہتے ہیں (مَنْ لَمْ یَفْعَلْ ذَلِکَ فَہِوَ خِدَاجٌ) جو اسطرح نہ کرے اس کی نماز ناقص ہے امام ترمذی کہتے ہیں میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے سنا ہے کہ شعبہ نے یہ حدیث عبد ربہ سے روایت کرتے ہوئے کئی جگہ غلطی کی ہے اور کہا روایت ہے انس بن ابو انس سے اور وہ عمران بن ابو انس ہیں دوسرا کہا روایت ہے عبداللہ بن حارث سے اور وہ دراصل عبداللہ بن نافع بن العمیاء ہیں کہ وہ روایت کرتے ہیں ربیعہ بن حارث سے تیسرے نے کہا شعبہ روایت کرتے ہیں عبداللہ بن حارث سے وہ مطلب سے وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اور دراصل روایت ہے ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب سے وہ روایت کرتے ہیں فضل بن عباس سے وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے امام محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ حدیث لیث بن سعد شعبہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے

نماز میں پنجے میں پنجہ ڈالنا مکروہ ہے

قتیبہ، لیث بن سعد، ابن عجلان، سعید مقبری، کعب بن عجرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اچھی طرح وضو کرے اور پھر مسجد کا ارادہ کر کے نکلے تو ہرگز اپنی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں نہ ڈالے اس لئے کہ وہ نماز میں ہے امام ترمذی فرماتے ہیں کہ کعب بن عجرہ کی حدیث کو کئی راویوں نے ابن عجلان سے لیث کی حدیث کی مثل نقل کیا ہے اور شریک محمد بن عجلان سے وہ اپنے والد سے وہ ابو ہریرہ سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اسی حدیث کی مثل روایت کرتے ہیں اور شریک کی حدیث غیر محفوظ ہے

نماز میں دیر تک قیام کرنا

ابن ابی عمر، سفیان بن عیینہ، ابو زبیر، جابر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا گیا کہ کون سی نماز افضل ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا لمبے قیام والی نماز اس باب میں عبداللہ حبشی اور انس بن مالک سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ جابر کی حدیث حسن صحیح ہے اور یہ حدیث کئی طرق سے جابر بن عبداللہ سے مروی ہے

رکوع اور سجدہ کی کثرت

ابوعمار، ولید بن مسلم، اوزاعی، ولید بن ہشام معیطی، معدان بن ابو طلحہ یعمری کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان سے ملاقات کی اور پوچھا مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جس سے اللہ تعالی مجھے نفع بخشے اور جنت میں داخل فرمائے حضرت ثوبان کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا سجدہ لازم پکڑو میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے جب کوئی شخص اللہ کے لئے سجدہ کرتا ہے تو اللہ تعالی اس سجدہ کے سبب اس کا درجہ بلند کرتا اور گناہ مٹا دیتا ہے معدان کہتے ہیں کہ میں نے ابو داؤد سے ملاقات کی اور ان سے بھی یہی سوال کیا جو ثوبان سے کیا تھا انہوں نے بھی یہی جواب دیا کہ سجدہ لازم پکڑو اور پھر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے وہی ارشاد سنایا جو حضرات ثوبان نے بتایا تھا اس باب میں حضرت ابو ہریرہ اور ابی فاطمہ سے بھی روایت منقول ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ حضرت ثوبان اور ابو درداء کی حدیث کثرت سجود کے بارے میں حسن صحیح ہے اس مسئلے میں اہل علم کا اختلاف ہے بعض کے نزدیک قیام طویل افضل ہے جبکہ بعض رکوع و سجود کی کثرت کو افضل قرار دیتے ہیں امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں اس سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دونوں قسم کی روایات مروی ہیں چنانچہ امام احمد بن حنبل نے اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں دیا امام اسحاق فرماتے ہیں کہ دن کو لمبا قیام اور رات کو کثرت سے رکوع و سجود افضل ہیں سوائے اس کے کہ کسی شخص نے عبادت کے لیئے رات کا کچھ حصہ مقرر کر رکھا ہو پس میرے نزدیک اس میں رکوع و سجود کی کثرت افضل ہے کیونکہ وہ وقت معینہ بھی پورا کرتا ہے اور رکوع و سجود کی کثرت سے مزید نفع بھی حاصل کرتا ہے امام ترمذی فرماتے ہیں کہ امام اسحاق نے یہ بات اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رات کی نماز اسی طرح بیان کی گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات کو لمبا قیام فرماتے لیکن دن کو طویل قیام کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کچھ منقول نہیں

سانپ اور بچھو کو نماز میں مارنا

علی بن حجر، اسماعیل بن علیہ، علی بن مبارک، یحیی بن ابو کثیر، ضمضم بن جوش، ابو ہریرہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز میں دو سیاہ چیزوں بچھو اور سانپ کو مارنے کا حکم دیا اس باب میں حضرت ابن عباس اور ابو رافع سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ فرماتے ہیں حدیث ابو ہریرہ حسن صحیح ہے بعض صحابہ کرام اور تابعین کا اسی پر عمل ہے امام احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے البتہ بعض علماء کے نزدیک نماز میں سانپ اور بچھو کو مارنا مکروہ ہے ابراہیم نے فرمایا نماز میں شغل ہے لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے

سلام سے پہلے سجدہ سہو کرنا

قتیبہ، لیث، ابن شہاب، عبدالرحمن اعرج، عبداللہ بن بحینہ اسدی، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز ظہر میں تشہد اول کی بجائے کھڑے ہو گئے جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز پوری کر چکے تو سلام سے پہلے بیٹھے ہی دو سجدے کئے اور ہر سجدے میں تکبیر کہی لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ سجدے کئے اور یہ سجدے قعدہ اولیٰ کے بدلے میں تھے جسے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھول گئے تھے اس باب میں عبدالرحمن بن عوف سے بھی روایت ہیں

٭٭ محمد بن بشار، عبدالاعلی، ابو داؤد، ہشام، یحیی بن ابو کثیر، محمد بن ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ اور سائب القاری سلام پھیرنے سے پہلے سجدہ سہو کیا کرتے تھے امام ابو عیسیٰ ترمذی کہتے ہیں اور بعض علماء کا اسی پر عمل ہے اور امام شافعی کا بھی یہی قول ہے کہ سلام پھیرنے سے پہلے سجدہ سہو کرے ان کا کہنا ہے کہ یہ حکم دوسرے احادیث کے لئے ناسخ کا درجہ رکھتا ہے اور مذکور ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا آخری فعل یہی تھا امام احمد اور اسحاق کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص دو رکعتوں کے بعد کے تشہد پر بیٹھنے کی بجائے کھڑا ہو جائے تو سجدہ سہو سلام سے پہلے کرے یعنی ابن بحینہ کی حدیث کے مطابق اور عبداللہ بن بحینہ وعبد اللہ بن مالک بن بحینہ ہیں مالک ان کے والد اور بحینہ ان کی والدہ ہیں امام ترمذی کہتے ہیں مجھے اسحاق بن منصور سے بواسطہ علی بن مدینی اسی طرح معلوم ہوا ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں علماء کا اس باری میں اختلاف ہے کہ سجدہ سہو کے بعد کیا جائے یا سلام سے پہلے بعض اہل علم کے نزدیک سلام کے بعد کیا جائے سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ سجدہ سہو سلام پھیرنے سے پہلے ہے اور یہ اکثر فقہائے حنفیہ کا قول ہے جیسے یحیی بن سعید اور ربیعہ وغیرہ امام شافعی کا بھی یہی قول ہے بعض اہل علم کا قول ہے کہ اگر نماز میں زیادتی ہو تو سلام بعد اور کمی ہو تو سلام سے پہلے سجدہ سہو کیا جائے یہ مالک بن انس کا قول ہے امام احمد فرماتے ہیں جس صورت سے کیا جائے ان کے نزدیک اگر دو رکعتوں کے بعد تشہد میں بیٹھنے کی بجائے کھڑا ہو جائے اور ابن بحینہ کی حدیث کے مطابق سجدہ سہو سلام سے پہلے کرے اور اگر ظہر کی پانچ رکعتیں پڑھ لے تو سجدہ سہو سلام کے بعد کرے اور اگر ظہر یا عصر کی نماز میں دو رکعتیں پڑھنے کے بعد سلام پھیر لیا تو سلام پھیرنے کے بعد سجدہ سہو کرے پس جو جس طرح نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی ہے اس پر عمل کیا جائے اسحاق بھی امام احمد کے قول ہی کے قائل ہیں البتہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں جہاں کوئی روایت نہیں وہاں دیکھا جائے اگر نماز میں زیادتی ہو تو سلام کے بعد اور اگر کمی ہو تو سلام سے پہلے سجدہ سہو کرے

سلام اور کلام کے بعد سجدہ سہو کرنا

اسحاق بن منصور، عبدالرحمن بن مہدی، شعبہ، حکم، ابراہیم، علقمہ، عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ظہر کی پانچ رکعتیں ادا کیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا گیا کہ کیا نماز میں اضافہ ہو گیا یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم بھول گئے ؟ پس آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سلام کے بعد دو سجدے کئے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

٭٭ ہناد، محمود بن غیلان، ابو معاویہ، اعمش، ابراہیم، علقمہ، عبداللہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے کلام کرنے کے بعد سجدہ سہو کے دو سجدے کئے۔ اس باب میں معاویہ رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

٭٭ احمد بن منیع، ہشیم، ہشام بن حسان، محمد بن سیرین، ابو ہریرہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے سلام کے بعد دونوں سجدے کئے۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اس حدیث کو ایوب اور کئی راویوں نے ابن سیرین سے روایت کیا ہے اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔ اسی پر بعض علماء کا عمل ہے کہ اگر ظہر کی نماز پانچ رکعتیں پڑھ لے تو اس کی نماز جائز ہے بشرطیکہ سجدہ سہو کرے اگرچہ چوتھی رکعت میں بھی بیٹھا ہو۔ امام شافعی، احمد اور اسحاق کا یہی قول ہے۔ بعض علماء کے نزدیک اگر ظہر کی نماز میں پانچ رکعتیں پڑھ لیں اور چوتھی رکعت میں تشہد (التحیات) کی مقدار میں بیٹھا تو نماز فاسد ہو گئی، سفیان ثوری اور بعض اہل کوفہ کا یہی قول ہے۔

سجدہ سہو میں تشہد پڑھنا

محمد بن یحیی، محمد بن عبداللہ انصاری، اشعث، ابن سیرین، خالدحذاء، ابو قلابہ، ابو مہلب، عمران بن حصین سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز پڑھائی اور اس میں بھول گئے پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو سجدے کئے اور پھر تشہد پڑھنے کی بعد سلام پھیرا امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن غریب ہے ابن سیرین ابو مہلب سے دوسری حدیث روایت کرتے ہیں محمد نے یہ حدیث خالد حذاء سے انہوں نے ابو قلابہ سے اور انہوں نے ابو مہلب سے روایت کی ہے ابومہلب کا نام عبدالرحمن بن عمرو ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کا نام معاویہ بن عمرو ہے عبدالوہاب ثقفی ہشیم اور کئی راوی خالد حذاء سے اور وہ ابو قلابہ سے یہ حدیث طویل روایت کرتے ہیں یہ حدیث عمران بن حصین کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عصر کی نماز میں تین رکعتوں کے بعد سلام پھیر لیا تو ایک شخص جسے حرباق کہتے ہیں کھڑا ہوا آخر تک اہل علم کا سجدہ سہو کے تشہد میں اختلاف ہے بعض اہل علم کے نزدیک تشہد پڑھے اور سلام پھیرے اور بعض نے کہا ہے کہ اس میں تشہد اور سلام نہیں ہے اور اگر سلام پھیرنے سے پہلے سجدے کرے تو تشہد نہ پڑھے یہ امام احمد اور اسحاق کا قول ہے دونوں فرماتے ہیں کہ جب سلام سے پہلے سجدہ سہو کیا تو تشہد نہ پڑھے

جسے نماز میں کمی یا زیادتی کا شک ہو

احمد بن منیع، اسماعیل بن ابراہیم، ہشام دستوائی، یحیی بن ابو کثیر، عیاض بن ہلال سے نقل کرتے ہیں کہ ہلال نے ابو سعید سے کہا کہ ہم میں کوئی نماز پڑہے اور یہ بھول جائے کہ اس نے کتنی پڑھی ہیں تو کیا کرے ؟ ابو سعید نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی نماز پڑہے اور یہ بھول جائے کہ اسی نے کتنی پڑھی ہیں تو اسے چاہئے کہ بیٹھے بیٹھے دو سجدے کر لے اس باب میں حضرت عثمان ابن مسعود عائشہ اور ابو ہریرہ سے بھی روایت ہے امام ابو ترمذی فرماتے ہیں حدیث ابو سعید حسن ہے اور یہ حدیث ابو سعید سے کئی سندوں سے مروی ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بھی مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر تم میں سے کوئی ایک اور دو میں شک میں پڑھ جائے تو انہیں ایک سمجھے اور اگر دو اور تین میں شک ہو تو دو سمجھے اور اس میں سلام پھیر نے سے پہلے سجدہ سہو کرے امام ترمذی فرماتے ہیں کہ ہمارے اصحاب اسی پر عمل کرتے ہیں بعض علماء کہتے ہیں کہ اگر نماز میں شک ہو جائے کہ کتنی رکعت پڑھی ہیں تو دوبارہ نماز پڑھے

٭٭ قتیبہ، لیث، ابن شہاب، ابو سلمہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا شیطان تم میں سے کسی کے پاس نماز میں آتا ہے اور اسے شک میں ڈال دیتا ہے یہاں تک کہ وہ نہیں جانتا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں اگر تم میں کوئی ایسی صورت پائے تو بیٹھے بیٹھے دو سجدے کرے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے

٭٭ "محمد بن بشار ، محمد بن خالد بن عثمہ ، ابراہیم بن سعد، محمد بن اسحاق، مکحول ، کریب ، ابن عباس ، عبدالرحمن بن عوف سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی نماز میں بھول جائے اور اسے معلوم نہ کہ اس نے دو رکعتیں پڑھی ہیں یا ایک تو وہ ایک ہی شمار کرے اور اگر دو اور تین (رکعتوں) میں شک ہو تو دو شمار کرے پھر اگر تین اور چار میں شک ہو تو تین شمار کرے اور سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کرے۔

امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور عبدالرحمن بن عوف ہی سے اس کے علاوہ بھی کئی اسناد سے مروی ہے اسے زہری ، عبیداللہ بن عتبہ سے وہ ابن عباس سے وہ عبدالرحمن بن عوف سے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں۔”

ظہر و عصر میں دو رکعتوں کے بعد سلام پھیر دینا

انصاری، معن، مالک، ایوب بن ابی عمیمہ، محمد بن سیرین، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیا تو ذوالیدین نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا کم ہو گئی یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھول گئے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم؟ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا ذوالیدین نے صحیح کہا ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا جی ہاں پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے اور باقی کی دو رکعتیں پڑھیں پھر سلام پھیرا پھر تکبیر کہہ کر سجدے میں گئے جیسے کہ وہ سجدہ کیا کرتے تھے یا اس سے طویل بھی تکبیر کہی اور اٹھے اور اس کے بعد دوسرا سجدہ بھی اسی طرح کیا جیسے پہلے کیا کرتے تھے یا اس سے طویل کیا اس باب میں عمران بن حصین ابن عمر اور ذوالیدین سے بھی روایت ہے امام ترمذی فرماتے ہیں حدیث ابو ہریرہ حسن صحیح ہے اہل علم کا اس حدیث بارے میں اختلاف ہے بعض اہل علم کا اس حدیث کے بارے میں اختلاف ہے بعض اہل کوفہ کہتے ہیں کہ اگر کلام کر لیا بھول کر یا جہالت کی وہ سے یا کسی بھی وجہ سے تو دوبارہ نماز پڑھنی ہو گی ان کا کہنا ہے کہ یہ حدیث اس حدیث سے اصح ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر روزہ دار کچھ بھول کر کھا پی لے تو قضا نہ کرے کیونکہ یہ تو اللہ کا اس کو عطا کردہ رزق ہے امام شافعی فرماتے ہیں کہ یہ حضرات روزہ دار کے عمداً اور بھول کر کھانے میں تفریق کرتے ہیں ان کی دلیل حضرت ابو ہریرہ کی حدیث ہے امام احمد حضرت ابو ہریرہ کی حدیث باب کے متعلق فرماتے ہیں کہ اگر امام نے اس گمان کے ساتھ بات کی کہ وہ نماز پڑھ چکا ہے اور بعد میں معلوم ہوا کہ نماز پوری نہیں ہوئی تو نماز کو مکمل کرے اور جو مقتدی یہ جانتے ہوئے بات کرے کہ اس کی نماز نا مکمل ہے تو وہ دوبارہ نماز پڑھے ان کا استدلال اس سے ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی موجودگی میں فرائض میں کمی بیشی ہوتی رہتی تھی پس ذوالیدین کا بات کرنا اس موقع پر ایسی نہیں تھا کہ ان کے خیال میں نماز مکمل ہو چکی تھی لیکن اس موقع پر ایسا نہیں تھا کسی کے لئے اب جائز نہیں ہے کہ وہ ایسی صورت میں باتے کرے کیونکہ فرائض میں کمی بیشی کا سوال ہی پید نہیں ہوتا امام احمد کا کلام بھی اسی کے مشابہ ہے اسحاق کا قول بھی امام احمد کی طرح ہے

جوتیاں پہن کر نماز پڑھنا

علی بن حجر، اسماعیل بن ابراہیم، سعید بن یزید، مسلمہ، فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جوتوں میں نماز پڑھتے تھے حضرت انس نے فرمایا ہاں اس باب میں عبداللہ بن مسعود عبداللہ بن ابی حبیبہ عبداللہ بن عمرو عمرو بن حریث شداد بن اوس اوس ثقفی ابو ہریرہ اور عطاء سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں انس کی حدیث حسن صحیح ہے اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے

فجر کی نماز میں دعائے قنوت پڑھنا

قتیبہ، محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، وعبہ، عمرو بن مرہ، ابن بی لیلی، براء بن عازب سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فجر اور مغرب کی نماز میں قنوت پڑھا کرتے تھے اس باب میں حضرت علی انس ابو ہریرہ ابن عباس اور حفاف بن ایماء بن رحصہ غفاری سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حضرت براء کی حدیث حسن صحیح ہے اہل علم کا فجر کی نماز میں قنوت پڑھنے میں اختلاف ہے بعض صحابہ وتابعین فجر میں دعائے قنوت پڑھنے کے قائل ہیں امام شافعی بھی اسی کے قائل ہیں امام احمد اور اسحاق کہتے ہیں کہ صبح کی نماز میں قنوت نہ پڑھی جائے البتہ جب مسلمانوں پر کوئی مصیبت نازل ہو تو امام کو چاہئے کہ وہ مسلمانوں کے لشکر کے لئے دعا کرے

قنوت کو ترک کرنا

احمد بن منیع، یزید بن ہارون، ابو مالک اسجعی، کہتے ہیں میں نے اپنے والد سے پوچھا ابا جان آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ابو بکر عمر فاروق عثمان کے پیچھے نمازیں پڑھی ہیں اور یہاں کوفہ میں حضرت علی بن ابی طالب کے پیچھے پانچ سال تک آپ نماز پڑھتے رہے حضرات قنوت پڑھا کرتے تھے انہوں نے فرمایا اے میرے بیٹے یہ نئی چیز نکلی ہے

٭٭ صالح بن عبد اللہ، ابو عوانہ، ابو مالک اشجعی سے اس کے ہم منعی حدیث امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے سفیان ثوری فرماتے ہیں کہ صبح کی نماز میں قنوت پڑھنا بھی اچھا ہے اور اگر صبح کی نماز میں قنوت نہ پڑھے تب بھی اچھا ہے البتہ انہوں نے قنوت نہ پڑھنے کو اختیار کیا ہے ابن مبارک کے نزدیک فجر میں قنوت نہیں ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں ابو مالک اشجعی کا نام سعد بن طارق بن اشیم ہے

جو چھینکے نماز میں

قتیبہ، رفاعہ بن یحیی بن عبداللہ بن رفاعہ بن رافع زرقی فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اقتدا میں نماز ادا کی مجھے نماز کے دوران چھینک آ گئی تو میں نے کہا (الْحَمْدُ لِلَّہِ حَمْدًا کَثِیرًا طَیِّبًا مُبَارَکًا فِیہِ مُبَارَکًا عَلَیْہِ کَمَا یُحِبُّ رَبُّنَا وَیَرْضَی) تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں بہت پاکیزہ تعریف اور با برکت تعریف اس کے اندر اور اوپر جیسے ہمارے رب چاہتا ہے اور پسند کرتا ہے پھر جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہوئے تو ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا نماز میں کون کلام کر رہا تھا؟ کسی نے جواب نہ دیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دوبارہ پوچھا کہ نماز میں کس نے بات کی تھی؟ پھر بھی کسی نے جواب نہیں دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تیسری مرتبہ پوچھا نماز میں کس نے بات کی تھی؟ تو رفاعہ بن رافع بن عفراء نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو نے کیا کہا تھا؟ میں نے کہا (الْحَمْدُ لِلَّہِ حَمْدًا کَثِیرًا طَیِّبًا مُبَارَکًا فِیہِ مُبَارَکًا عَلَیْہِ کَمَا یُحِبُّ رَبُّنَا وَیَرْضَی) پر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تیس سے زائد فرشتوں نے ان کلمات کو اوپر لے جانے کے لئے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کی اس باب میں حضرت انس وائل بن حجر اور عامر بن ربیعہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں رفاعہ کی حدیث حسن ہے بعض اہل علم کے نزدیک یہ حدیث نوافل کے بارے میں ہے کیونکہ کئی تابعین فرماتے ہیں کہ اگر کسی کو فرض نماز میں چھینک آ جائے تو اپنے دل میں الْحَمْدُ لِلَّہِ کہے اس سے زیادہ کی گنجائش نہیں ہے

نماز میں کلام کا منسوخ ہونا

احمد بن منیع، ہشیم، اسماعیل بن ابو خالد، حارث بن شبیل، ابو عمرو شیبانی، زید بن ارقم سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اقتداء میں نماز پڑھے ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ساتھ کھڑے ہوئے آدمی کے ساتھ بات کر لیتے تھے یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی (وَقُومُوا لِلَّہِ قَانِتِینَ) 2۔ البقرۃ:238) پس ہمیں خاموش رہنے کا حکم دیا گیا اور باتیں کرنے سے روک دیا گیا اس باب میں ابن مسعود اور معاویہ بن حکم سے بھی روایت ہے کہ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اکثر اہل علم کا اس پر عمل ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی جان بوجھ کر یا بھول کر نماز میں کلام کرے تو اسے نماز دوبارہ پڑھنی ہو گی

توبہ کی نماز

قتیبہ، ابو عوانہ، عثمان بن مغیرہ، علی بن ربیعہ، اسماء بن حکم فزاری کہتے ہیں میں نے حضرت علی سے سنا کہ جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کوئی حدیث سنتا تو وہ اللہ کے حکم سے مجھے اتنا نفع دیتی تھی جتنا وہ چاہتا تھا اور جب میں کسی صحابہ سے حدیث سنتا تو اس سے قسم لیتا اگر وہ قسم کھاتا تو میں اس کی بات کی تصدیق کرتا تھا مجھ سے ابو بکر نے بیان کیا اور سچ کہا ابو بکر نے وہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کوئی شخص ایسا نہیں کہ گناہ کا ارتکاب کرنے کے بعد طہارت حاصل کرے پھر نماز پڑھے پھر استغفار کرے اور اس پر اللہ تعالی اسے معاف نہ کرے پھر آپ نے یہ آیت پڑھی (وَالَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ ذَکَرُوا اللّٰہَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْ ۠ وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰہُ ڞ وَلَمْ یُصِرُّوْا عَلیٰ مَا فَعَلُوْا وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ) 3۔ ال عمران:135) اس باب میں میں ابن مسعود ابو دردا انس ابو معاویہ معاذ واثلہ اور ابو یسر سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حضرت علی کی حدیث حسن صحیح ہے حضرت علی کی اس حدیث کو ہم عثمان بن مغیرہ کے علاوہ کسی سند سے نہیں جانتے ان سے شعبہ اور کئی راوی نقل کرتے ہوئے ابو عوانہ کی حدیث کی طرح مرفوع کرتے ہیں سفیان ثوری اور مسعر نے بھی اسے موقوفاً نقل کیا ہے اور اس کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف مرفوع نہیں کیا اور یہ حدیث مصر سے مرفوعاً بھی مروی ہے

بچے کو نماز کا حکم کب دیا جائے

علی بن حجر، حرملہ بن عبدالعزیز بن ربیع بن سبرہ جہنی، عبدالملک بن ربیع بن سبرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب بچے سات سال کی عمر کے ہوں تو ان کو نماز سکھاؤ اور مارو ان کو نماز کے لئے ان کی عمر دس سال کے ہو اس باب میں عبداللہ بن عمر سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ فرماتے ہیں سبرہ بن معبد جنہی کی حدیث حسن صحیح ہے اور بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے امام احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے وہ فرماتے ہیں تو ان کی قضا کرے امام ابو عیسیٰ فرماتے ہیں کہ سبرہ معبد جہنی کے بیٹے ہیں اور ان کو ابن عوسجہ بھی کہا جاتا ہے

اگر تشہد کے بعد حدث ہو جائے

احمد بن محمد، ابن مبارک، عبدالرحمن بن زیاد بن انعم، عبدالرحمن بن رافع، بکر بن سوادہ، عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر کوئی شخص آخری قعدہ میں ہو اور سلام پھیرنے سے پہلے اسے حدث لاحق ہو جائے تو اس کی نماز جائز نہ ہو گئی امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں اس حدیث کی سند قوی نہیں اور اس میں اضطراب ہے بعض علماء کا اس پر عمل ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر تشہد کی مقدار کے برابر بیٹھ چکا ہو اور سلام سے پہلے حدث ہو جائے تو اس کی نماز مکمل ہو گئی بعض علماء فرماتے ہیں کہ اگر تشہد سے پہلے یا سلام سے پہلے حدث ہو جائے تو نماز دوبارہ پڑھے یہ امام شافعی کا قول ہے امام احمد فرماتے ہیں اگر تشہد نہیں پڑھا اور سلام پھیر لیا تو نماز ہو گئی کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ نماز کی تحلیل اسکا سلام ہے اور تشہد سلام سے کم اہمیت رکھتا ہے اس لیئے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دو رکعتوں سے فراغت پر کھڑے ہوتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشہد نہیں پڑھتے تھے اسحاق بن ابراہیم کہتے ہیں اگر تشہد پایا لیکن سلام نہیں پھیرا تو اس کی نماز ہو جائے گی انہوں نے حضرت ابن مسعود کی حدیث سے استدلال کیا ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں تشہد سکھایا تو فرمایا جب تم اس سے فارغ ہو جاؤ تو تم نے اپنا عمل پورا کر لیا امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں عبدالرحمن بن زیاد افریقی ہیں بعض محدثین یحیی بن سعید قطان اور احمد بن حنبل نے اسے ضعیف کہا ہے

جب بارش ہو رہی ہو تو گھروں میں نماز پڑھنا جائز ہے

ابو حفص عمرو بن علی، ابو داؤد طیالسی، زہیر بن معاویہ، ابو زبیر، جابر سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ بارش ہو گئی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو چاہے نماز پڑھ لے اپنے قیام کی جگہ میں اس باب میں ابن عمر سمرہ ابو الملیح اور عبدالرحمن بن سمرہ سے بھی روایات مروی ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں جابر کی حدیث حسن صحیح ہے اور اہل علم نے بارش اور کیچڑ میں جمعہ اور جماعت کے ترک کی اجازت دی ہے امام احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے میں نے ابو زرعہ سے سنا وہ کہتے ہیں کہ عفان بن مسلم نے عمرو بن علی سے ایک حدیث روایت کی ہے ابو زرعہ کہتے ہیں میں نے بصرہ میں ان تینوں علی بن مدینی ابن شاذ کوفی اور عمرو بن علی سے بڑھ کر کسی کو زیادہ حفظ والا نہیں دیکھا ابو ملیح بن اسامہ کا نام عامر ہے اور انہیں زید بن اسامہ بن عمیر ہذلی بھی کہا جاتا ہے

نماز کے بعد تسبیح

اسحاق بن ابراہیم بن حبیب بن شہید، علی بن حجر، عتاب بن بشیر، خصیف، مجاہد، عکرمہ، ابن عباس سے روایت ہے کہ کچھ فقرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مالدار لوگ اس طرح نماز پڑھتے ہیں جس طرح ہم نماز پڑھتے ہیں اور وہ روزہ رکھتے ہیں جس طرح ہم روزے رکھتے ہیں اور ان کے پاس مال ہے جس سے وہ غلام آزاد کرتے اور صدقہ دیتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم نماز پڑھ چکو تو سُبْحَانَ اللَّہِ تینتیس (33) مرتبہ الْحَمْدُ لِلَّہِ (33) تینتیس مرتبہ اللَّہُ أَکْبَرُ (34) چونتیس مرتبہ اور لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ دو مرتبہ پڑھا کرو ان کلمات کے پڑھنے سے تم ان لوگوں کے درجات کو پہنچ جاؤ گے جو تم سے پہلے چلے گئے اور تمہارے بعد کوئی تم سے سبقت نہیں لے سکے گا اس باب میں کعب بن عجرہ انس عبداللہ بن عمرو زید بن ثابت ابو درداء ابن عمر اور ابو ذر سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث ابن عباس حسن غریب ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دو خصلتیں ایسی ہیں کہ جو مسلمان انہیں اختیار کر لیتا ہے وہ جنت میں داخل ہو جاتا ہے ہر نماز کے بعد (33) مرتبہ سُبْحَانَ اللَّہِ (33) مرتبہ الْحَمْدُ لِلَّہِ (34) مرتبہ اللَّہُ أَکْبَرُ اور سوتے وقت دس مرتبہ سُبْحَانَ اللَّہِ دس مرتبہ الْحَمْدُ لِلَّہِ اور دس مرتبہ اللَّہُ أَکْبَرُ کہنا

کیچڑ اور بارش میں سواری پر نماز پڑھنے کے بارے میں

یحیی بن موسی، شبابہ بن سوار، عمر بن رماح، کثیر بن زیاد، عمرو بن عثمان بن یعلی بن مرہ، اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ یہ حضرات نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ سفر میں تھے کہ تنگ جگہ میں پہنچے تو نماز کا وقت آ گیا اور اوپر سے بارش برسنے لگی اور نیچے کیچڑ ہو گیا پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی سواری پر اذان دی اور اقامت کہی پھر اپنی سواری کو آگے کیا اور اشارے سے نماز پڑھتے ہوئے ان کی امامت کی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سجدے میں رکوع سے زیادہ جھکتے تھے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث غریب ہے کیونکہ صرف عمرو بن رماح بلخی نے ہی اس حدیث کو روایت کیا ہے یہ اور کسی کی روایت معلوم نہیں ہوتی اور ان سے کئی اہل علم روایت کرتے ہیں اور یہ انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بارش اور کیچڑ میں اپنی سواری پر ہی نماز پڑھی اہل علم کا اس پر عمل ہے اور امام احمد اور اسحاق کو بھی یہی قول ہے

نماز میں بہت کوشش اور تکلیف اٹھانا

قتیبہ، بشربن معاذ، ابو عوانہ، زیادبن علاقہ، مغیرہ بن شعبہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز پڑھی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاؤں پھول گئے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا گیا کیا آپ اس قدر تکلیف اٹھاتے ہیں حالانکہ آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دئیے گئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا میں شکر گذار بندہ نہ بنو اس باب میں حضرت ابو ہریرہ اور حضرت عائشہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں مغیرہ بن شعبہ کی حدیث حسن صحیح ہے

قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کا حساب ہو گا

علی بن نصربن علی، جہضمی، سہل بن حماد، ہمام، قتادہ، حسن، حریث بن قبیصہ فرماتے ہیں کہ میں مدینہ آیا تو میں نے دعا مانگی اے اللہ مجھے نیک ہمنشین عطا فرما فرماتے ہیں پھر میں ابو ہریرہ کے ساتھ بیٹھ گیا اور ان سے کہا میں نے اللہ تعالی سے اچھے ہم نشین کا سوال کیا تھا لہذا مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی احادیث سنائیے جو آپ نے سنی ہیں شاید اللہ تعالی مجھے اس سے نفع پہنچائے ابو ہریرہ نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن بندے سے سب سے پہلے جس عمل کا حساب ہو گا وہ نماز ہے اگر یہ صحیح ہوئی تو کامیاب ہو گیا اور نجات پالی اور اگر یہ صحیح نہ ہوئی تو یہ بھی نقصان اور گھاٹ میں رہا اگر فرائض میں کچھ نقص ہو گا تو اللہ تعالی فرمائے گا کہ اس کے نوافل کو دیکھو اگر ہوں تو ان سے اس کمی کو پورا کر دو پھر اس کا ہر عمل اسی طرح ہو گا اس باب میں تمیم داری سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث اس طریق سے حسن غریب ہے یہ حدیث حضرت ابو ہریرہ سے کئی سندوں سے مروی ہے حضرت احسن کے دوست حسن سے اور وہ قبیصہ بن حریث سے اس حدیث کے علاوہ بھی احادیث نقل کرتے ہیں اور مشہور قبیصہ بن حریث ہی ہے انس بن حکیم اسی کے ہم معنی ابو ہریرہ سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں

دن اور رات میں بارہ رکعتیں پڑھنے کی فضلیت

محمد بن رافع، اسحاق بن سلیمان رازی، مغیرہ بن زیاد، عطاء، عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص ہمیشہ بارہ رکعت سنت پڑھتا رہے گا اللہ تعالی جنت میں اس کے لئے ایک مکان بنائے گا چار ظہر سے پہلے دو ظہر کے بعد دو رکعتیں مغرب کے بعد دو رکعتیں عشاء کے بعد اور دو رکعتیں فجر سے پہلے اس باب میں ام حبیبہ ابو ہریرہ ابو موسیٰ اور ابن عمر سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ کی حدیث اس سند سے غریب ہے اور مغیرہ بن زیاد کے حفظ میں بعض اہل علم نے کلام کیا ہے

٭٭ محمود بن غیلان، مومل، سفیان ثوری، ابو اسحاق مسیب بن رافع، عنبسہ بن ابو سفیان، ام حبیبہ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص دن رات میں بارہ رکعتیں ادا کرے اس کے لئے جنت میں ایک گھر بنایا جائے گا چار رکعتیں ظہر سے پہلے اور دو ظہر کے بعد اور دو مغرب کے بعد اور دو رکعتیں عشاء کے بعد اور دو رکعتیں فجر کے نماز سے پہلے جو نماز ہے اول روز کی امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں عنبسہ کی ام حبیبہ سے مروی حدیث اس باب میں حسن صحیح ہے اور یہ حدیث کئی سندوں سے عنبسہ ہی سے مروی ہے

فجر کی دو سنتوں کی فضلیت

صالح بن عبد اللہ، ابو عوانہ، قتادہ، زرارہ بن اوفی، سعد بن ہشام، عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا فجر کی دو سنتیں دنیا اور جو کچھ اس میں ہے اس سے بہتر ہیں اس باب میں حضرت علی ابن عمر اور ابن عباس سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حضرت عائشہ کی حدیث حسن صحیح ہے اور امام احمد بن حنبل نے صالح بن عبداللہ ترمذی سے بھی اسے روایت کیا ہے

فجر کی سنتوں میں تخفیف کرنا

محمود بن غیلان، ابو عمار، ابو احمد زبیری، سفیان، ابو اسحاق ، مجاہد، ابن عمر سے روایت ہے کہ میں ایک ماہ تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھتا رہا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فجر کی دو سنتوں میں سورة کافرون اور اسورة اخلاص پڑھا کرتے تھے اس باب میں ابن مسعود انس ابو ہریرہ ابن عباس حفصہ اور حضرت عائشہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں ابن عمر کی حدیث حسن ہے اور ہم اسے بواسطہ سفیان ثوری ابو اسحاق سے صرف ابو احمد کی روایت سے جانتے ہیں اور لوگوں کے نزدیک معروف یہ ہے کہ اسرائیل ابو اسحاق سے روایت کرتے ہیں ابو احمد سے بھی یہ حدیث بواسطہ اسرائیل روایت کی گئی ہے اور ابو احمد زبیری ثقہ اور حافظ ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے بندار سے سنا وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو احمد زبیری سے بہتر حافظ نہیں دیکھا ان کا نام محمد بن عبداللہ بن زبیری اسدی کوفی ہے

فجر کی سنتوں کے بعد گفتگو کرنا

یوسف بن عیسی، عبداللہ بن ادریس، مالک بن انس، نضر، سلمہ، عائشہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب فجر کی سنتیں پڑھ لیتے تو اگر مجھ سے کوئی کام ہوتا تو بات کر لیتے ورنہ نماز کے لئے چلے جاتے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور علماء صحابہ وغیرہ نے طلوع فجر کے بعد فجر کی نماز پڑھنے تک ذکر اللہ اور ضروری گفتگو کے علاوہ گفتگو کرنے کو مکروہ کہا ہے امام احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے

اس بارے میں کہ طلوع فجر کے بعد دو سنتوں کے علاوہ کوئی نماز نہیں

احمد بن عبدہ الضبی، عبدالعزیز بن محمد، قدامہ بن موسی، محمد بن حصین، ابو علقمہ، یسار، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا طلوع فجر کے بعد دو سنتوں کے علاوہ کوئی نماز نہیں اس باب میں عبداللہ بن عمر اور حفصہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں ابن عمر کی حدیث غریب ہے

اس بارے میں کہ طلوع فجر کے بعد دو سنتوں کے علاوہ کوئی نماز نہیں

بشربن معاذ عقدی، عبدالواحد بن زیاد، اعمش، ابو صالح، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی فجر کی دو سنتیں پڑھ لے تو دائیں کروٹ پر لیٹ جائے اس باب میں حضرت عائشہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث ابو ہریرہ اس طریق سے حسن صحیح غریب ہے حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب صبح کی سنتیں گھر میں پڑھتے تو دائیں پہلو پر لیٹ جاتے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ مستحب جانتے ہوئے ایسا کرنا چاہئے

جب نماز کھڑی ہو جائے تو فرض نماز کے علاوہ کوئی نماز نہیں

احمد بن منیع، روح بن عبادہ، زکریا بن اسحاق، عمرو بن دینار عطاء بن یسار، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب نماز کی جماعت کھڑی ہو جائے تو فرض نماز کے علاوہ کوئی نماز نہیں اس باب میں ابن بحینہ عبداللہ بن عمر عبداللہ بن سرجس ابن عباس اور انس سے بھی روایات مروی ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث ابو ہریرہ حسن ہے اور ایوب رقاء بن عمر زیاد بن سعد اسماعیل بن مسلم محمد بن حجادہ بھی عمرو بن دینار سے وہ عطاء بن یسار سے وہ ابو ہریرہ سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اسی طرح روایت کرتے ہیں یہ حضرات اسے مرفوع نہیں کرتے ہمارے نزدیک مرفوع حدیث اصح ہے حضرت ابو ہریرہ سے یہ حدیث اس کے علاوہ بھی کئی سندوں سے مروی ہے عیاش بن عباس قتبانی مصری نے ابو سلمہ سے انہوں نے ابو ہریرہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کی ہے اس حدیث میں صحابہ وغیرہ کا عمل ہے کہ جب جماعت کھڑی ہو جائے تو کوئی شخص فرض نماز کے علاوہ کوئی نماز نہ پڑھے سفیان ثوری ابن مبارک شافعی احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے

جس کی فجر کی سنتیں چھوٹ جائیں وہ فجر کے بعد انہیں پڑھ لے

محمد بن عمرو سواق، عبدالعزیز بن محمد، سعد بن سعید، محمد بن ابراہیم اپنے دادا قیس سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نکلے تو نماز کی اقامت ہو گئی میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ فجر کی نماز پڑھی پھر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پیچھے کی جانب گھومے تو مجھے نماز پڑھتے ہوئے پایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے قیس ٹھہر جاؤ دونوں نمازیں اکٹھی پڑھو گے میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں نے فجر کی سنتیں نہیں پڑھی تھیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پھر کوئی حرج نہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں ہم محمد بن ابراہیم کی اس طرح کی روایت سعد بن سعدی کی روایت کے علاوہ نہیں جانتے سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ عطاء بن ابو رباح نے سعد بن سعید سے یہ حدیث سنی اور یہ حدیث مرسلاً مروی ہے اہل مکہ ایک جماعت کا اس حدیث پر عمل ہے کہ وہ صبح کی قضاء شدہ سنتوں کو فرضوں کے بعد طلوع آفتاب سے پہلے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے امام ترمذی فرماتے ہیں سعد بن سعید یحیی بن سعید انصاری کے بھائی ہیں اور قیس یحیی بن سعید کے دادا ہیں کہا جاتا ہے کہ وہ قیس بن عمرو ہیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ قیس بن فہد ہیں اس حدیث کی سند متصل نہیں محمد بن ابراہیم نے قیس سے کوئی حدیث نہیں سنی یعض راوی یہ حدیث سعد بن سعید سے اور وہ محمد بن ابراہیم سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قیس کو دیکھا

کہ فجر کی سنتیں اگر چھوٹ جائیں تو طلوع آفتاب کے بعد پڑھے

عقبہ بن مکرم عمی، عمرو بن عاصم، نضر بن انس، بشیر بن نہیک، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے فجر کی دو سنتیں نہ پڑھی ہوں تو وہ طلوع آفتاب کے بعد پڑھ لے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں ہم اس حدیث کو اس سند کے علاوہ نہیں جانتے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے سفیان ثوری شافعی احمد اسحاق اور ابن مبارک کا بھی یہی قول ہے امام ترمذی کہتے ہیں کہ عمرو بن عاصم کلابی کے علاوہ کوئی دوسرا راوی ہمیں معلوم نہیں جس نے ہمام سے یہ حدیث اسی سند کے ساتھ روایت کی ہو قتادہ کی حدیث مشہور ہے وہ نضر بن اوس سے وہ بشیت بن نہل سے وہ ابو ہریرہ سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے سورج نکلنے سے پہلے فجر کی ایک رکعت پالی گویا کہ اس نے فجر کی پوری نماز پالی

ظہر سے پہلے چار سنتیں پڑھنا

بندار، ابو عامر، سفیان، ابو اسحاق ، عاصم بن ضمرہ، علی سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پہلے چار رکعتیں اور ظہر کے بعد دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے اس باب میں حضرت عائشہ ام حبیبہ سے بھی روایت ہے اس باب میں حضرت عائشہ ام حبیبہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث علی حسن ہے ابو بکر عطار کہتے ہیں کہ علی بن عبداللہ یحیی بن سعید سے اور انہوں نے سفیان سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا ہم عاصم بن ضمرہ کی حدیث کی فضلیت حارث کی حدیث پر جانتے تھے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے جن میں صحابہ اور بعد کے علماء شامل ہیں کہ ظہر سے پہلے چار اور ظہر کے بعد دو رکعت سنت پڑھے سفیان ثوری ابن مبارک اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے بعض اہل علم کے نزدیک رات اور دن کی نمازیں دو دو رکعت ہے اور ہر دو رکعت کے درمیان فصل ہے امام شافعی اور امام احمد کا بھی یہی قول ہے

ظہر کے بعد دو رکعتیں پڑھنا

احمد بن منیع، اسماعیل بن ابراہیم، ایوب، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ظہر سے پہلے دو رکعتیں اور ظہر کے بعد دو رکعتیں پڑھیں اس باب میں حضرت علی اور حضرت عائشہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ فرماتے ہیں کہ ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے

٭٭ عبدالوارث عبید اللہ عتکی مروزی، عبداللہ بن مبارک، خالد حذاء، عبداللہ بن شفیق، عائشہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب کبھی ظہر سے پہلے چار رکعتیں نہ پڑھتے تو انہیں ظہر کے بعد پڑھ لیتے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن غریب ہے ہم اسے ابن مبارک کی روایت سے اسی سند سے جانتے ہیں قیس بن ربیع نے اس حدیث کو شعبہ سے انہوں نے خالد حذاء سے اسی کی مثل روایت کیا ہے ہمیں نہیں معلوم کہ اس حدیث کو شعبہ سے قیس کے علاوہ کسی اور نے روایت کیا ہو عبدالرحمن بن ابی لیلی بھی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اسی کی مثل روایت کرتے ہیں

٭٭ علی بن حجر، یزید بن ہارون، محمد بن عبداللہ بن شعیثی، عنبسہ بن ابو سفیان، ام حبیبہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص ظہر کی نماز سے پہلے چار رکعتیں اور اس کے بعد چار رکعتیں پڑھے تو اللہ تعالی اس پر دوزخ کو حرام کر دے گا امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن غریب ہے یہ حدیث اس کے علاوہ دوسری سند دے بھی مروی ہے

٭٭ ابوبکر محمد بن اسحاق بغدادی، عبداللہ بن یوسف تنیسی، قسم ابی عبدالرحمن، عنبسہ بن ابو سفیان سے روایت ہے کہ میں نے اپنی بہن ام حبیبہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس نے ظہر سے پہلے چار رکعت اور اس کے بعد چار رکعت کی حفاظت کی اللہ تعالی اس پر دوزخ کی آگ کو حرام کر دے گا امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے قاسم عبدالرحمن بن خالد بن یزید بن معاویہ کے غلام ہیں ثقہ ہیں شام کے رہنے والے ہیں اور ابو امامہ کے دوست ہیں

عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھنا

بندار محمد بن بشار، ابو عامر، سفیان، ابو اسحاق ، عاصم بن ضمرہ، علی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے اور ان کے درمیاں مقرب فرشتوں اور مسلمانوں و مومنوں میں سے ان کے متبعین پر سلام بھیج فصل کر دیتے تھے اس باب میں ابن عمرو اور عبداللہ بن عمرو سے بھی روایات مروی ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ حدیث علی حسن ہے اسحاق بن ابراہیم نے یہ اختیار کیا ہے کہ عصر کی چار سنتوں کے درمیان سلام نہ پھیرے انہوں نے اسی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ یہاں سلام سے مراد یہ ہے کہ ان کے درمیان تشہد سے فصل کرتے تھے امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک دن اور رات کی دو دو رکعتیں ہیں اور وہ ان میں فصل کرنے کو پسند کرتے ہیں

٭٭ یحیی بن موسیٰ احمد بن ابراہیم محمود بن غیلان، ابو داؤد طیالسی، محمد بن مسلم بن مہران، ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالی اس آدمی پر رحم کرے جو عصر سے پہلے چار رکعت پڑھے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن غریب ہے

مغرب کے بعد دو رکعت اور قرات

محمد بن مثنی، بدل بن محبر، عبدالملک بن معدان بن عاصم بن ابو وائل، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ میں شمار نہیں کر سکتا کہ میں نے کتنی مربتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مغرب اور فجر کی دو سنتوں میں سورہ کافرون اور سورة اخلاص پڑھتے ہوئے سنا اس باب میں حضرت ابن عمر سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں ابن مسعود کی حدیث غریب ہے ہم اس کو عبدالملک بن معدان کی عاصم سے روایت کے علاوہ نہیں جانتے

مغرب کی سنتیں گھر پر پڑھنا

احمد بن منیع، اسماعیل بن ابراہیم، ایوب، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ مغرب کے بعد دو رکعتیں گھر پڑھیں اس باب میں رافع بن خدیج اور کعب بن عجرہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث ابن عمر حسن صحیح ہے

٭٭ حسن بن علی حلوانی، عبدالرزاق، معمر، ایوب نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دس رکعتیں یاد کی ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دن اور رات میں پڑھا کرتے تھے دو رکعتیں ظہر سے پہلے اور دو رکعتیں اس کے بعد دو رکعتیں مغرب کے بعد اور دو رکعتیں عشاء کے بعد اور حضرت حفصہ نے مجھ سے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دو رکعتیں فجر سے پہلے بھی پڑھا کرتے تھے یہ حدیث حسن صحیح ہے

٭٭ حسن بن علی حلوانی، عبدالرزاق، معمر، زہری، سالم، ابن عمر ہم سے روایت کی حسن بن علی نے ان سے عبدالرزاق نے ان سے معمر نے ان سے زہری نے ان سے سالم نے ان سے ابن عمر نے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اوپر کی حدیث کی مثل امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے

مغرب کے بعد چھ رکعت نفل کے ثواب کے بارے میں

ابوکریب، محمد بن علاء ہمدانی کوفی، زیدبن حباب، عمربن ابو خشعم، یحیی بن ابو کثیر ابو سلمہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص مغرب کے بعد چھ رکعتیں نوافل پڑھے اور ان کی درمیان بری بات نہ کرے تو اسے بارہ سال تک عبادت کا ثواب ملے گا امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے متعلق مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے مغرب کی بعد بیس رکعتیں پڑھیں اللہ تعالی اس کے لئے جنت میں گھر بنا دیتا ہے امام ترمذی کہتے ہیں ابو ہریرہ کی حدیث غریب ہے ہم اس حدیث کو زید بن خباب کی عمر بن ابی خثعم سے روایت کے علاوہ نہیں جانتے میں نے امام بخاری سے سنا کہ عمر بن عبداللہ بن ابی خثعم منکر حدیث ہیں اور امام بخاری انہیں بہت ضعیف کہتے ہیں

عشاء کے بعد دو رکعت پڑھنا

ابو سلمہ یحیی بن خلف، بشر بن مفضل، خالد حذاء، عبید اللہ بن شقیق فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ظہر سے پہلے اور بعد دو رکعتیں مغرب کے بعد دو عشاء کے بعد دو اور فجر سے پہلے دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے اس باب میں علی اور ابن عمر سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن شقیق کی حضرت عائشہ سے مروی حدیث حسن صحیح ہے

رات کی نماز دو دو رکعت ہے

قتیبہ، لیث، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا رات کی نماز دو دو رکعت ہے اگر تمہیں صبح ہونے کا اندیشہ ہو تو ایک رکعت پڑھ لو اور آخر نماز کو وتر سمجھو اس باب میں عمرو بن عبسہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ ابن عمر کی حدیث صحیح ہے اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے کہ رات کی نماز دو دو رکعتیں ہیں سفیان ثوری ابن مبارک شافعی احمد اور اسحاق کا قول بھی یہی ہے

رات کی نماز کی فضلیت

قتیبہ، ابو عوانہ، ابو بشر حمید بن عبدالرحمن حمیری، ابو ہریرہ سے روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا رمضان کے روزوں کے بعد افضل ترین روزے محرم کے مہینے کے ہیں جو اللہ تعالی کا مہینہ ہے اور فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز رات کی نماز ہے اس باب میں جابر بلال اور ابو مامہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ کی حدیث حسن ہے ابو بشر کا نام جعفر بن ایاس ہے اور وہ جعفر بن ابو وحثیہ ہیں

نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رات کی نماز کی کیفیت

اسحاق بن موسیٰ انصاری، معن، مالک، سعید بن ابو سعید مقبری، ابو سلمہ، نے حضرت عائشہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رمضان میں رات کی نماز کی کیفیت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رمضان اور اس کے علاوہ (11) گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے چار رکعتیں اس طرح پڑھتے تھے کہ ان کے حسن اور ان کی تطویل کے بارے میں مت پوچھو پھر اس کے بعد چار رکعتیں پڑھتے ان کے حسن اور ان کی طوالت کے متعلق بھی نہ پوچھو اس کے بعد تین رکعتیں پڑھتے تھے حضرت عائشہ فرماتی ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے عائشہ میری آنکھیں سوتی ہیں اور میرا دل جاگتا رہتا ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے

نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رات کی نماز کی کیفیت

اسحاق بن موسیٰ انصاری، معن بن عیسی، مالک، ابن شہاب، عروہ، عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات کو گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے ان میں سے ایک کے ساتھ وتر کرتے پھر جب اس سے فارغ ہوتے تو دائیں پہلو پر لیٹ جاتے قتیبہ نے مالک سے اور انہوں نے ابن شہاب سے اسی کے مثل روایت کی ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے

٭٭ ابوکریب، وکیع، شعبہ، ابو حمرہ، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ رات کو تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے

٭٭ ہناد، ابو الاحوص، اعمش بن ابراہیم، اسود، عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات کو (9) نو رکعتیں پڑھا کرتے تھے اس باب میں ابو ہریرہ زید بن خالد اور فضل بن عباس سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ کی یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے سفیان ثوری نے اسے اعمش سے اسی کی مثل روایت کیا ہے

٭٭ محمود بن غیلان، یحیی بن آدم، سفیان، اعمش، ابو عیسیٰ ہم سے روایت کی اسی کی مثل محمد بن غیلان نے ان سے یحیی بن آدم نے ان سے سفیان نے ان سے اعمش نے امام ابو عیسیٰ ترمذی نے فرمایا کہ اکثر روایات میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رات کی نماز زیادہ سے زیادہ تیرہ رکعتیں ہیں اور کم از کم نو رکعتیں منقول ہیں

٭٭ قتیبہ، ابو عوانہ، قتادہ، زرارہ بن اوفی، سعید بن ہشام، عائشہ سے روایت ہے کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات کو نیند یا آنکھ لگ جانے کی وجہ سے نماز نہ پڑھ سکتے تو دن میں بارہ (12) رکعتیں پڑھتے امام ترمذی کہتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے

٭٭ عباس بن عبدالعظیم عنبری، عتاب بن مثنی، بہز بن حکیم، زرارہ بن اوفی نے روایت کی ہم سے عباس نے جو بیٹے ہیں عبدالعظیم عنبری کے انہوں نے کہا ہم سے بیان کیا عتاب بن مثنی نے وہ روایت کرتے ہیں بہز بن حکیم سے کہ زرارہ بن اوفی بصرہ کے قاضی تھے اور قبیلہ بنو قشیر کی امامت کرتے تھے ایک دن فجر کی نماز میں انہوں نے پڑھا (فَإِذَا نُقِرَ فِی النَّاقُورِ فَذَلِکَ یَوْمَئِذٍ) تو بے ہوش ہو کر گر پڑے اور فوت ہو گئے جن لوگوں نے انہیں ان کے گھر پہنچایا ان میں میں شامل تھا امام ابو عیسیٰ ترمذی کہتے ہیں کہ سعد بن ہشام وہ عامر انصاری کے بیٹے ہیں اور ہشام بن عامر صحابی ہیں

اللہ تعالی ہر رات آسمان دنیا پر اترتا ہے

قتیبہ، یعقوب بن عبدالرحمن اسکندرانی، سہیل بن ابو صالح، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالی ہر رات کے تہائی حصے کے گزرنے پر آسمان دنیا پر اترتا ہے اور فرماتا ہے میں بادشاہ ہوں کون مجھ سے دعا مانگتا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں ؟ کون مجھ سے سوال کرتا ہے کہ میں اسے عطا کروں کون مجھ سے مغفرت کا طلبگار ہے کہ میں اس کو بخش دوں ؟ پھر اسی طرح ارشاد فرماتا رہتا ہے یہاں تک کہ فجر روشن ہو جاتی ہے اس باب میں علی بن ابی طالب ابو سعید رفاعہ جہنی جبیر بن مطعم ابن مسعود ابو درداء اور عثمان بن ابو العاص سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ حدیث ابو ہریرہ حسن صحیح ہے اور یہ حدیث بہت سی سندوں سے حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالی جب رات کے آخری تیسرا حصہ باقی رہ جاتا ہے تو اترتا ہے اور یہ روایت اصح ہے

رات کو قرآن پڑھنا

محمود بن غیلان، یحیی بن اسحاق، حماد بن سلمہ، ثابت بنانی، عبداللہ بن رباح انصاری، ابو قتادہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابو بکر سے فرمایا میں رات کو تمہارے پاس سے گزارا تو تم قرآن پڑھ رہے تھے اور آواز بہت دھیمی تھی حضرت ابو بکر نے عرض کیا میں سناتا تھا اس کو جس سے منا جات کرتا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آواز تھوڑی سی بلند کرو پھر حضرت عمر سے فرمایا میں تمہارے پاس سے گزرا تم بھی پڑھ رہے تھے اور تمہاری آواز بہت بلند تھی حضرت عمر نے عرض کیا میں سونے والوں کو جگاتا ہوں اور شیطانوں کو بھگاتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ذرا آہستہ پڑھا کرو اس باب میں عائشہ ام ہانی سلمہ اور ابن عباس سے بھی روایات مروی ہیں

٭٭ قتیبہ، لیث بن معاویہ بن صالح، عبداللہ بن ابو قیس سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رات کو قرات کیسی تھی انہوں نے فرمایا آپ ہر طرح قرات کرتے کبھی دھیمی اور کبھی بلند آواز سے حضرت عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا الْحَمْدُ لِلَّہِ تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے دین کے کام میں وسعت رکھی امام ابو عیسیٰ ترمذی کہتے ہیں حدیث ابو قتادہ غریب ہے اسے یحیی بن اسحاق نے حماد بن سلمہ سے روایت کیا ہے جبکہ اکثر حضرات نے اس حدیث کو ثابت سے اور انہوں نے عبداللہ بن رباح سے مرسلاً روایت کیا ہے

٭٭ ابوبکر محمد بن نافع بصری، عبدالصمد بن عبدالوارث، اسماعیل بن مسلم عبدی، ابو متوکل ناجی، عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رات کو صرف ایک آیت کے ساتھ ہی قیام فرمایا امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے

نفل گھر میں پڑھنے کی فضلیت

محمد بن بشار، محمد بن جعفر، عبداللہ بن سعید بن ابو ہند، سالم ابو نضر، یسر بن سعید، زید بن ثابت کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا فرض نماز کے علاوہ تمہاری افضل ترین نماز وہ ہے جو گھر میں پڑھی جائے اس باب میں حضرت عمر بن خطاب جابر بن عبداللہ ابو سعید ابو ہریرہ ابن عمر عائشہ عبداللہ بن سعد اور زید بن خالد جہنی سے بھی روایات مروی ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں زید بن ثابت کی حدیث حسن ہے اہل علم نے اس حدیث کی روایت میں اختلاف کیا ہے موسیٰ بن عقبہ اور ابراہیم بن ابو نضر نے اسے مرفوعاً جبکہ بعض حضرات نے اسے موقوفاً روایت کیا ہے مالک نے ابو نضر سے موقوفاً روایت کی ہے اور مرفوع حدیث اصح ہے

٭٭ اسحاق بن منصور، عبداللہ بن نمیر، عبید اللہ بن عمر، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اپنے گھروں میں نماز پڑھا کرو اور انہیں قبرستان نہ بناؤ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے

 

وتر کا بیان

وتر کی فضلیت

قتیبہ، لیث بن سعد، یزید بن ابو حبیب عبداللہ بن راشد زوفی، عبید اللہ بن ابو مرہ زوفی، خارجہ بن حذافہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہماری طرف نکلے اور فرمایا اللہ تعالی نے ایک نماز سے تمہاری مد د کی ہے جو تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے وتر اسے اللہ تعالی نے تمہاری لئے عشاء اور طلوع فجر کے درمیان وقت میں مقرر فرمایا ہے اس باب میں ابو ہریرہ عبداللہ بن عمرو بریدہ اور بصرہ سے بھی روایات مروی ہیں امام ابو عیسیٰ فرماتے ہیں کہ خارجہ بن حذافہ کی حدیث غریب ہے ہم اسے یزید بن ابو حبیب کی روایت کے علاوہ نہیں جانتے بعض محدثین کو اس حدیث میں وہم ہوا ہے اور انہوں نے عبداللہ بن راشد زرقی کہا ہے اور یہ وہم ہے

وتر فرض نہیں ہے

ابوکریب، ابو بکر بن عیاش، ابو اسحاق ، عاصم بن ضمرہ، علی سے روایت ہے کہ وتر فرض نمازوں کی طرح فرض نہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو سنت ٹھہرایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بے شک اللہ تعالی طاق ہے اور وہ طاق کو پسند کرتا ہے اے اہل قرآن وتر پڑھا کرو اس باب میں ابن عمر ابن مسعود اور ابن عباس سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ حضرت علی کی حدیث حسن ہے اور روایت کی سفیان ثوری وغیرہ نے ابو اسحاق سے انہوں نے عاصم بن خمرہ سے انہوں نے حضرت علی سے کہ حضرت علی نے فرمایا وتر فرض نمازوں کی طرح فرض نہیں لیکن سنت ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے سنت بنایا

٭٭ بندار، عبدالرحمن بن مہدی، سفیان روایت کی ہم سے بندار نے انہوں نے عبدالرحمن بن مہدی انہوں نے سفیان سے اور یہ حدیث ابو بکر بن عیاش کی حدیث سے اصح ہے منصور بن معمر بھی ابو اسحاق سے ابو بکر بن عیاش کی حدیث کی مثل روایت کرتے ہیں

وتر سے پہلے سونا مکروہ ہے

ابوکریب، زکریا بن ابو زائدہ، اسرائیل، عیسیٰ بن ابو عزہ، شعبی، ابو ثور الازدی، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا کہ سونے سے پہلے وتر پڑھا کرو عیسیٰ بن ابو عزہ کہتے ہیں کہ شعبی شروع رات وتر پڑھتے پھر سوتے تھے اس باب میں حضرت ابو ذر سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حضرت ابو ہریرہ کی حدیث اس سند سے حسن غریب ہے اور ابو ثورالازدی کا نام حبیب بن ابو ملیکہ ہے اور صحابہ کرام اور بعد انکے اہل علم کی ایک جماعت نے یہ مسلک اختیار کیا ہے کہ وتر پڑھنے سے پہلے نہ سوئے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جسے یہ ڈر ہو کہ رات کے آخری حصے میں نہیں اٹھ سکے گا تو شروع میں ہی وتر پڑھ لے جسے رات کے آخری حصے میں جاگنے کی امید ہو وہ رات کے آخری حصے میں وتر پڑھے کیونکہ رات کے آخری حصے میں جب قرآن پڑھا جاتا ہے تو اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور یہ افضل ہے

٭٭ ہناد، ابو معاویہ، اعمش، ابو سفیان، جابر روایت کی ہم سے یہ حدیث ہناد نے روایت کی ہم سیابومعاویہ نے انہوں نے اعمش سے انہوں نے ابو سفیان سے انہوں نے جابر سے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے

وتر رات کے اول اور آخر دونوں وقتوں میں جائز ہے

احمد بن منیع، ابو بکر بن عیاش، ابو حصین، یحیی بن وثاب، مسروق نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وتر کے متعلق پوچھا تو فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پوری رات میں جب چاہتے وتر پڑھ لیتے کبھی رات کے شروع کبھی درمیانی حصے میں اور کبھی رات کے آخری حصے میں یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات کے آخری حصے میں وتر پڑھا کرتے تھے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں ابو حصین کا نام عثمان بن عاصم اسدی ہے اس باب میں حضرت علی جابر ابو مسعود انصاری اور ابو قتادہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حضرت عائشہ کی حدیث حسن صحیح ہے بعض اہل علم نے وتر کو آخری رات میں پڑھنے کو اختیار کیا ہے

وتر کی سات رکعات

ہناد، ابو معاویہ اعمش، عمرو بن مرہ، یحیی بن جزار، ام سلمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تیرہ رکعتیں وتر پڑھا کرتے تھے پھر جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بوڑھے اور ضعیف ہو گئے تو ساتھ رکعتیں وتر پڑھنے لگے اس باب میں حضرت عائشہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث ام سلمہ حسن ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وتر میں تیرہ گیارہ نو سات تین اور ایک رکعت پڑھا کرتے تھے اسحاق بن ابراہیم کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وتر میں تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ وتر سمیت تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے چنانچہ رات کی نماز بھی وتر کی طرف منسوب ہو گئی اس میں حضرت عائشہ سے بھی حدیث مروی ہے ان کا استدلال نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی ہے اس حدیث سے ہے کہ اے اہل قرآن وتر پڑھا کرو اس کا مقصد تہجد کی نماز ہے یعنی تہجد کو مجاز وتر کہتے ہیں اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اہل قرآن کو تہجد کا حکم دیا

وتر کی پانچ رکعات

اسحاق بن منصور، عبداللہ بن نمیر، ہشام بن عروہ، عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رات کی نماز تیرہ رکعتوں پر مشتمل تھی اس میں سے پانچ رکعتیں وتر پڑھتے تھے اور ان کے دوران نہیں بیٹھتے تھے آخری رکعت میں بیٹھتے پھر جب موذن اذان دیتا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوتے اور دو رکعتیں پڑھتے جو بہت ہلکی ہوتیں اس باب میں حضرت ابو ایوب سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حضرت عائشہ کی حدیث حسن صحیح ہے اور بعض علماء صحابہ وغیرہ نے یہی مسلک اختیار کیا ہے کہ وتر کی پانچ رکعتیں ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ان کے دوران نہ بیٹھے بلکہ صرف آخری رکعت میں بیٹھے

وتر میں تین رکعتیں ہیں

ہناد، ابو بکر بن عیاش، ابو اسحاق ، حارث، علی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تین رکعت وتر پڑھتے تھے اور ان میں قصار مفصل کی نو سورتیں پڑھتے اور ہر رکعت میں تین سورتیں جن میں آخری سورة اخلاص ہوتی تھی اس باب میں عمران بن حصین عائشہ ابن عباس ابو ایوب اور عبدالرحمن بن ابزی سے بھی روایت ہے عبدالرحمن بن ابزی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بھی روایت کرتے ہیں بعض حضرات اسے اسی طرح نقل کرتے ہوئے ابی بن کعب کا ذکر نہیں کرتے جبکہ بعض حضرت عبدالرحمن بن ابزی سے اور وہ ابی بن کعب سے نقل کرتے ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں علماء صحابہ وغیرہ کی ایک جماعت کا اسی پر عمل ہے کہ وتر میں تین رکعات پڑھی جائیں سفیان کہتے ہیں کہ اگر چاہئے تو پانچ پڑھے لیکن میرے نزدیک وتر کی تین رکعتیں پڑھنا مستحب ہے ابن مبارک اور اہل کوفہ کا بھی یہی قول ہے ہم سے روایت کی سعید بن یعقوب طالقانی نے انہوں نے حماد بن زید سے انہوں نے ہشام سے انہوں نے محمد بن سیرین سے محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ صحابہ کرام پانچ تین اور ایک رکعت وتر پڑھتے تھے اور تینوں طرح پڑھنا اچھا سمجھتے تھے

وتر میں ایک رکعت پڑھنا

قتیبہ، حماد بن زید، انس بن سیرین سے روایت ہے کہ میں نے ابن عمر سے پوچھا کیا میں فجر کی دو رکعتوں میں قرات لمبی کروں تو انہوں نے فرمایا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات کو دو دو رکعت کر کے نماز پڑھتے اور پھر آخر میں ایک رکعت وتر پڑھتے اور فجر کی دو رکعتیں اس وقت پڑھتے جب فجر کی اذان سنتے اس باب میں حضرت عائشہ جابر فضل بن عباس ابو ایوب اور ابن عباس سے بھی روایت ہے کہ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے اور بعض صحابہ اور تابعین کا اسی پر عمل ہے کہ دو رکعتوں اور تیسری رکعت کے درمیان فصل کری اور تیسری رکعت وتر کی پڑھے امام مالک شافعی احمد اور اسحاق کا یہی قول ہے

 

وتر کی نماز میں کیا پڑھے

علی بن حجر، شریک، ابو اسحاق ، سعید بن جبیر، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وتر میں سورة اعلی سورہ کافروں اور سورة اخلاص پڑھتے تھے اس باب میں حضرت علی عائشہ اور عبدالرحمن بن ابزی بھی ابی بن کعب سے روایت کرتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تیسری رکعت میں سورة اخلاص اور معوذتین بھی پڑھیں جسے صحابہ کرام اور بعد کے اہل علم کی اکثریت نے اختیار کیا ہے وہ یہی ہے کہ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ, سورة کافروں اور سورہ اخلاص تینوں میں سے ہر رکعت میں ایک سورة پڑھے

٭٭ اسحاق بن ابراہیم بن حبیب بن شہید بصری، محمد بن سلمہ حرانی، خصیف، عبدالعزیز بن جریج کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ سے سوال کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وتر میں کیا پڑھتے تھے انہوں نے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پہلی رکعت میں (سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی) اور دوسری رکعت میں (یَا أَیُّہَا الْکَافِرُونَ) اور تیسری رکعت میں (ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ) اور معوذتین پڑھتے تھے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن غریب ہے عبدالعزیز ابن جریج کے والد اور عطاء کے ساتھ ہیں ابن جریج کا نام عبدالملک بن عبدالعزیز بن جریج ہے یحیی بن سعید انصاری نے بھی یہ حدیث بواسطہ عمرو حضرت عائشہ سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتی ہیں

وتر میں قنوت پڑھنا

قتیبہ، ابو الاحوص، ابو اسحاق ، برید بن ابو مریم، ابو حورا کہتے ہیں کہ حسن بن علی نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے کچھ کلمات سکھائے تاکہ میں انہیں وتر میں پڑھا کروں اللَّہُمَّ اہْدِنِی اس باب میں حضرت علی سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے ہم اسے صرف اسی سند یعنی ابو حورا سعدی کی روایت کے علاوہ نہیں جانتیابوحورا کا نام ربیعہ بن شیبان ہے قنوت کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی روایات میں سے اس سے بہتر روایت کا ہمیں علم نہیں اہل علم کا قنوت کے بارے میں اختلاف ہے عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ پورا سال قنوت پڑھے اور ان کے نزدیک قنوت کی دعا رکوع سے پہلے پڑھنا مختار ہے یہ بعض علماء کو بھی قول ہے سفیان ثوری ابن مبارک اسحاق اور ہل کوفہ کا بھی یہی قول ہے حضرت علی سے مروی ہے کہ وہ صرف رمضان کے دوسرے پندرہ دونوں میں رکوع کے بعد قنوت پڑھتے تھے بعض اہل علم نے یہی مسلک اختیار کیا ہے امام شافعی اور احمد کا بھی یہی قول ہے

جو شخص وتر پڑھنا بھول جائے یا وتر پڑھے بغیر سو جائے

محمود بن غیلان وکیع، عبدالرحمن بن زید بن اسلم، عطاء بن یسار، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص وتر پڑھے بغیر سو جائے یا بھول جائے تو جب جاگے یا اسے یاد آ جائے تو پڑھ لے

٭٭ قتیبہ، عبداللہ بن زید بن اسلم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر کوئی وتر پڑھے بغیر سو جائے تو صبح ہونے پر پڑھے یہ حدیث پہلی حدیث سے اصح ہے امام ترمذی کہتے ہیں میں نے ابو داؤد سجزی سلیمان بن اشعث سے سنا انہوں نے فرمایا کہ میں نے امام احمد بن حنبل سے عبدالرحمن بن زید بن اسلم کے متعلق پوچھا انہوں نے کہا ان کے بھائی عبداللہ میں کچھ مضائقہ نہیں اور میں نے امام بخاری کو علی بن عبداللہ کے حوالے سے عبدالرحمن بن زید بن اسلم ثقہ ہیں بعض اہل کوفہ کا اسی حدیث پر عمل ہے وہ کہتے ہیں کہ جب یاد آئے سفیان ثوری کا بھی یہی قول ہے

٭٭ احمد بن منیع، یحیی بن زکریا بن ابو زائدہ، عبد اللہ، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا صبح ہونے سے پہلے وتر جلدی پڑھ لیا کرو امام ابو عیسیٰ ترمذی کہتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے

٭٭ حسن بن علی خلال، عبدالرزاق، معمر، یحیی بن ابو کثیر، ابو نضرہ ابو سعیدخدری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وتر صبح ہونے سے پہلے پڑھ لو

٭٭ محمود بن غیلان، عبدالرزاق، ابن جریج، سلیمان بن موسیٰ نافع، ابن عمر کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب فجر طلوع ہو جائے تو رات کی تمام نمازوں اور وتر کا وقت ختم ہو جاتا ہے لہذا فجر کے طلوع ہونے سے پہلے وتر پڑھ لیا کرو امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں سلیمان بن موسیٰ اس لفظ کو بیان کرنے میں منفرد ہیں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا صبح کی نماز کے بعد وتر نہیں یہ کئی اہل علم کا قول ہے امام شافعی احمد اور اسحاق بھی یہی کہتے ہیں کہ فجر کے بعد وتر نہیں ہیں

ایک رات میں دو وتر نہیں ہیں

ہناد، ملازم بن عمرو عبداللہ بن بدر، قیس بن طلق بن علی اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا کہ ایک رات میں دو وتر نہیں ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن غریب ہے علماء کا اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے جو رات کے شروع میں وتر پڑھے اور پھر آخری حصے میں دوبارہ پڑھے بعض علماء کہتے ہیں کہ وتر توڑ دے اور ان کے ساتھ ایک رکعت ملا کر جا چاہے پڑھ لے پھر نماز کے آخر میں وتر پڑھے اس لئے کہ ایک رات میں دو وتر نہیں ہیں یہ صحابہ اور ان کے بعد کے اہل علم اور امام اسحاق کا قول ہے بعض علماء صحابہ کا کہنا ہے کہ اگر رات کے شروع میں وتر پڑھ کر سو گیا پھر آخری حصے میں اٹھا تو جتنی چاہے نماز پڑھے وتر کو نہ توڑے انہیں اسی طرح چھوڑ دے سفیان ثوری مالک بن انس احمد اور ابن مبارک کا یہی قول ہے اور یہ زیادہ صحیح ہے اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کئی سندوں سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وتر کے بعد نماز پڑھی

٭٭ محمد بن بشار، حمادبن مسعدہ، میمون بن موسیٰ مرائی، حسن ام سلمہ فرماتی ةیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وتر کے بعد دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے حضرت ابو امامہ عائشہ اور کئی صحابہ سے بھی اسی کے مثل مروی ہے

 

سواری پر وتر پڑھنا

قتیبہ، مالک بن انس، ابو بکر بن عمر بن عبدالرحمن، سعید بن یسار سے روایت ہے کہ میں حضرت ابن عمر کے ساتھ ایک سفر میں تھا کہ ان سے پیچھے رہ گیا انہوں نے فرمایا تم کہاں تھے میں نے کہا میں وتر پڑھ رہا تھا حضرت ابن عمر نے فرمایا کیا تیرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی بہترین نمونہ نہیں میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سواری پر وتر پڑھتے ہوئے دیکھا ہے اس باب میں حضرت ابن عباس سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے بعض علماء صحابہ وغیرہ کا اسی پر عمل ہے کہ سواری پر وتر پڑھ لے امام شافعی احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے جبکہ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ سواری پر وتر نہ پڑھے پس اگر وتر پڑھنا چاہئے تو اترے اور زمین پر وتر پڑھے بعض اہل کوفہ یہی کہتے ہیں

چاشت کی نماز

ابوکریب محمد بن علاء، یونس بن بکیر، محمد بن اسحاق، موسیٰ بن فلاں بن انس، ثمامہ بن انس بن مالک، انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص چاشت کی نماز بارہ رکعت پڑھے اس کے لئے اللہ تعالی جنت میں سونے کا محل بنائے گا اس باب میں ام ہانی ابو ہریرہ نعیم بن ہمار، ابو ذر عائشہ ابو امامہ عتبہ بن عبدالسلمی ابن ابی اوفی ابو سعید زید بن ارقم اور ابن عباس سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں انس کی حدیث غریب ہے ہم اسے اس سند کے علاوہ نہیں جانتے

٭٭ ابوموسیٰ محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، عمرو بن مرہ، عبدالرحمن بن ابو لیلی فرماتے ہیں مجھے ام ہانی کے علاوہ کسی نے نہیں بتایا کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو چاشت کی نماز پڑھتے ہوئے دیکھا یہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فتح مکہ کے دن ان کے گھر میں آئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غسل کیا اور آٹھ رکعت نماز پڑھی میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس سے پہلے اتنی مختصر اور خفیف نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا اختصار کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رکوع اور سجود پوری طرح کر رہے تھے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے امام احمد کے نزدیک اس باب میں حضرت ام ہانی کی روایت اصح ہے نعیم کے بارے میں علماء میں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں نعم بن عمار اور بعض نے ابن ہمار کہا ہے انہیں ابن ہمار اور ابن ہمام بھی کہا جاتا ہے جبکہ ابن ہمار ہی ہے ابونعیم کو اس میں وہم ہو گیا ہے وہ ابن خمار کہتے ہیں انہوں نے اس میں خطا کی ہے اور پھر نعیم اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے درمیان واسطہ چھوڑ دیا ہے امام ترمذی فرماتے ہیں مجھے عبد بن حمید نے بواسطہ ابو نعیم اس کی خبر دی ہے

٭٭ ابوجعفر سمنانی، محمد بن حسین ابو مسہر، اسماعیل بن عیاش، بجیربن سعد، خالد بن معدان، جبیر، بن نفیر، ابو درداء، ابو ذر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں اللہ تعالی نے فرمایا اے بنی آدم میرے لئے دن کے شروع میں چار رکعتیں پڑھ میں تیرے دن بھر کے کاموں کو پورا کروں گا امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث غریب ہے وکیع نضر بن شمیل اور کئی آئمہ حدیث نے یہ حدیث نہاس بن قہم سے روایت کی ہے اور ہم نہاس کو اس حدیث ہی سے پہچانتے ہیں

٭٭ محمد بن عبدالاعلی بصری، یزید بن زریع، نہاس بن قہم، شداد ابی عمار، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے چاشت کی دو رکعتیں ہمیشہ پڑھیں اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے اگرچہ سمندر کی جھاگ کی طرح ہی کیوں نہ ہوں

٭٭ زیاد بن ایوب بغدادی، محمد بن ربیعہ، فضیل بن مرزوق، عطیہ عوفی ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چاشت کی نماز پڑھتے یہاں تک کہ ہم کہتے اب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسے نہیں چھوڑیں گے پھر جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چھوڑ دیتے تو ہم کہتے اب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسے نہیں پڑھیں گے

زوال کے وقت نماز پڑھنا

ابوموسیٰ محمد بن مثنی، ابو داؤد طیالسی، محمد بن مسلم بن ابو وضاح، ابو سعید مودب، عبدالکریم جزری، مجاہد، عبداللہ بن سائب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم زوال کے بعد اور ظہر سے پہلے چار رکعت پڑھا کرتے اور فرماتے یہ ایسا وقت ہے کہ اس میں آسمانوں کے دروازے کھلتے ہیں اور میں پسند کرتا ہوں کہ ایسے وقت میں میرے نیک اعمال اوپر اٹھائے جائیں اس باب میں حضرت علی اور ایوب سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ فرماتے ہیں عبداللہ بن سائب کی حدیث حسن غریب ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم زوال کے بعد چار رکعت نماز ایک ہی سلام کے ساتھ پڑھا کرتے تھے

نماز حاجت

علی بن عیسیٰ بن یزید بغدادی، عبداللہ بن بکر سہمی، عبداللہ بن منیر، عبداللہ بن ابو اوفی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جس کسی کو اللہ کی طرف کوئی حاجت یا لوگوں میں سے کسی سے کوئی کام ہو تو اسے چاہئے کہ اچھی طرح وضو کرے پھر دو رکعت نماز پڑھے پھر اللہ تعالی کی تعریف اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر درود بھیجے اور یہ پڑھے (لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ الْحَلِیمُ الْکَرِیمُ سُبْحَانَ اللَّہِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ أَسْأَلُکَ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِکَ وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِکَ وَالْغَنِیمَةَ مِنْ کُلِّ بِرٍّ وَالسَّلَامَةَ مِنْ کُلِّ إِثْمٍ لَا تَدَعْ لِی ذَنْبًا إِلَّا غَفَرْتَہُ وَلَا ہَمًّا إِلَّا فَرَّجْتَہُ وَلَا حَاجَةً ہِی لَکَ رِضًا إِلَّا قَضَیْتَہَا یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ)، اللہ کے سواء کوئی معبود نہیں وہ بردبار بزرگی والا ہے پاک ہے اللہ اور عرش عظیم کا مالک ہے تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے اے اللہ میں تجھ سے وہ چیزیں مانگتا ہوں جو تیری رحمت اور تیری بخشش کا سبب ہوتی ہیں اور میں ہر نیکی میں سے اپنا حصہ مانگتا ہوں اور ہر گناہ سے سلامتی طلب کرتا ہوں اے اللہ میرے گناہ بخشے بغیر میرے کسی غم کو دور کئے بغیر میری کسی حاجت کو جو تیرے نزدیک پسندیدہ ہو پورا کئے بغیر نہ چھوڑنا اے رحم کرنے والوں سے بہت زیادہ رحم کرنے والے ، امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث غریب ہے اس اسناد میں کلام ہے اور فائد بن عبدالرحمن ضعیف ہیں اور وہ فائد ابو الورقاء ہیں

 

استخارے کی نماز

قتیبہ، عبدالرحمن بن ابو موالی محمد بن منکدر، جابربن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمیں ہر کام میں استخارہ اس طرح سکھاتے جس طرح قرآن سکھاتے تھے فرماتے اگر تم میں سے کوئی کسی کام کا ارادہ کرتے تو دو رکعت نماز نفل پڑھے پھر یہ پڑھے (اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْتَخِیرُکَ بِعِلْمِکَ وَأَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ وَأَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیمِ فَإِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوبِ اللَّہُمَّ إِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہَذَا الْأَمْرَ خَیْرٌ لِی فِی دِینِی وَمَعِیشَتِی وَعَاقِبَةِ أَمْرِی أَوْ قَالَ فِی عَاجِلِ أَمْرِی وَآجِلِہِ فَیَسِّرْہُ لِی ثُمَّ بَارِکْ لِی فِیہِ وَإِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہَذَا الْأَمْرَ شَرٌّ لِی فِی دِینِی وَمَعِیشَتِی وَعَاقِبَةِ أَمْرِی أَوْ قَالَ فِی عَاجِلِ أَمْرِی وَآجِلِہِ فَاصْرِفْہُ عَنِّی وَاصْرِفْنِی عَنْہُ وَاقْدُرْ لِی الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ أَرْضِنِی بِہِ) اور اپنی حاجت کا نام لے یعنی لفظ ہذا الامر کی جگہ اپنی حاجت کا نام لے اس باب میں عبداللہ بن مسعود اور ابو ایوب سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں جابر کی حدیث حسن صحیح غریب ہے ہم اسے عبدالرحمن بن ابی الموالی کی روایت کے علاوہ نہیں جانتے اور وہ شیخ مدنی ہیں اور ثقہ ہیں سفیان نے ان سے حدیث روایت کی ہے اور دیگر کئی ائمہ بھی عبدالرحمن سے احادیث روایت کرتے ہیں

صلوٰة التسبیح

ابوکریب محمد بن علاء، زید بن حباب عکلی، موسیٰ بن عبیدہ، سعید بن ابو سعید، ابو رافع سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت عباس سے فرمایا چچا کیا میں آپ کے ساتھ صلہ رحمی نہ کروں ؟ کیا میں آپ کو عطیہ نہ دوں ؟ کیا میں آپ کو نفع نہ پہچاؤں ؟ انہوں نے عرض کیا ہاں کیوں نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے چچا چار رکعت پڑھئے اور ہر رکعت میں سورہ فاتحہ اور سورت سے فارغ ہونے کے بعد رکوع سے پہلے پندرہ مرتبہ اللَّہُ أَکْبَرُ الْحَمْدُ لِلَّہِ سُبْحَانَ اللَّہِ پڑھئے پھر رکوع کیجئے اور رکوع میں دس مرتبہ یہی پڑھئے پھر رکوع سے کھڑے ہو کر دس مرتبہ پھر سجدے میں دس مرتبہ اور پھر سجدے سے اٹھ کر دس مرتبہ پھر دوسرے سجدے میں دس مرتبہ اور پھر سجدے سے اٹھ رک کھڑے ہونے سے پہلے دس مرتبہ یہی کلمات پڑھئے یہ ہر رکعت میں (75) مرتبہ ہوا اور چاروں رکعتوں میں (300) تین سو مرتبہ ہوا اگر آپ کے گناہ (صغیرہ) ریت کے ٹیلے کے برابر بھی ہوں گے تو اللہ تعالی انہیں بخش دے گا حضرت عباس نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسے ہر روز کون پڑھ سکتا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر روزانہ نہ پڑھ سکو تو جمعہ کے دن بھی نہ پڑھ سکو تو مہینے میں ایک مرتبہ پڑھ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسی طرح فرماتے رہے یہاں تک کہ فرمایا تو پھر سال میں ایک مرتبہ پڑھ لو امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث ابو رافع کی حدیث سے غریب ہے

٭٭ احمد بن محمد بن موسیٰ عبداللہ بن مبارک، عکرمہ بن عمارہ، اسحاق بن عبداللہ بن ابو طلحہ، انس بن مالک کہتے ہیں کہ ام سلیم صبح کے وقت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا مجھے ایسے کلمات سکھائے جو میں اپنی نماز میں پڑھوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دس مرتبہ اللَّہُ أَکْبَرُ دس مرتبہ سُبْحَانَ اللَّہِ اور دس مرتبہ الْحَمْدُ لِلَّہِ پڑھو اور جو چاہوں مانگو اللہ تعالی فرماتا ہے ہاں ہاں اس باب میں ابن عباس عبداللہ بن عمرو فضل بن عباس اور ابو رافع سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حضرت انس کی حدیث حسن غریب ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نماز تسبیح کے بارے میں اور بھی روایات مروی ہیں لیکن ان میں اکثر صحیح نہیں ہیں ابن مبارک اور کئی علماء بھی صلوة التسبیح اور اس کی فضلیت کے بارے میں روایت کرتے ہیں

٭٭ احمد بن عبدہ املی، ابو وہب، عبداللہ بن مبارک سے تسبیح والی نماز کے متعلق تو انہوں نے فرمایا اللَّہُ أَکْبَرُ کہے اور پھر یہ پڑھے (سُبْحَانَکَ اللَّہُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالَی جَدُّکَ وَلَا إِلَہَ غَیْرُکَ) اس کے بعد (سُبْحَانَ اللَّہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ وَلَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَاللَّہُ أَکْبَرُ) پندرہ مرتبہ پڑھے پھر أَعُوذُ بِاللَّہِ مِنْ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ و بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ پڑھ کر سورہ فاتحہ اور کوئی اور سورت پڑھے پھر دس مرتبہ سُبْحَانَ اللَّہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ وَلَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَاللَّہُ أَکْبَرُ پڑھے پھر رکوع میں دس مرتبہ پھر رکوع سے کھڑے ہو کر دس مرتبہ پھر سجدے میں دس مرتبہ پھر سجدے سے اٹھ کر دس مرتبہ پھر دوسرے سجدے میں دس مرتبہ یہ پڑھے اور چار رکعتیں اسی طرح پڑھے یہ ہر رکعات میں 75 تسبیحات ہوئیں پھر ہر رکعت میں پندرہ مرتبہ سے شروع کرے پھر قرات کرے اور دس مرتبہ تسبیح کرے اور اگر رات کی نماز پڑھ رہا تو ہر دو رکعتوں کے بعد سلام پھیرنا مجھے پسند ہے اگر دن کو پڑھے تو چاہے دو رکعتوں کے بعد سلام پھیرے ابو وہب کہتے ہیں مجھے عبدالعزیز نے عبداللہ کے متعلق کہا کہ ان کا کہنا ہے کہ وہ رکوع میں پہلے تین مرتبہ سُبْحَانَ رَبِی الْعَظِیمِ اور سجدے میں پہلے تین مرتبہ سُبْحَانَ رَبِی الْأَعْلَی پڑھے اور پھر یہ تسبیحات پڑھے احمد بن عبدہ وہب بن زمعہ سے اور وہ عبدالعزیز سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عبداللہ بن مبارک سے کہا کہ اگر اس نماز میں بھول جائے تو کیا سجدہ سہو کر کے دونوں سجدوں میں بھی دس دس مرتبہ تسبیحات پڑھے کہا کہ نہیں یہ تین سو تسبیحات ہی ہیں

 

 

نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر درود کس طرح بھیجا جائے

محمود بن غیلان، ابو اسامہ، مسعر، مالک بن مغول، حکم بن عتیبہ، عبدالرحمن بن ابو لیلی کعب بن عجرہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر سلام بھیجنا تو جان لیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر درود کس طرح بھیجیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہو (اللَّہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلَی إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ وَبَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلَی إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ) محمود نے کہا کہ ابو اسامہ کہتے ہیں کہ زیادہ بتایا مجھ کو زائدہ نے ایک لفظ اعمش سے وہ روایت کرتے ہیں حکم سے وہ عبدالرحمن بن ابی لیلی سے کہ عبدالرحمن نے کہا ہم درود میں کہتے تھے (وَعَلَیْنَا مَعَہُمْ) یعنی ان کے ساتھ ہم پر بھی رحمت اور برکت نازل فرما اس باب میں حضرت علی ابو حمید ابو مسعود طلحہ ابو سعید بریدہ زید بن خارجہ اور ابو ہریرہ سے بھی روایات مروی ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کعب بن عجرہ کی حدیث حسن صحیح ہے عبدالرحمن بن ابی لیلی کی کنیت ابو عیسیٰ ہے اور ابو لیلی کا نام یسار ہے

درود کی فضلیت کے بارے میں

محمد بن بشار، محمد بن خالد بن عثمہ، موسیٰ بن یعقوب زمعی، عبداللہ بن کیسان، عبداللہ بن شداد، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قیامت کے دن میرے سب سے زیادہ نزدیک وہ لوگ ہوں گے جو مجھ پر کثرت سے درود بھیجتے ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی کہتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کرام سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجا اللہ تعالی اس پر دس مرتبہ درود بھیجتے اور اس کے حصے میں دس نیکیاں لکھ دیتے ہیں

٭٭ علی بن حجر، اسماعیل بن جعفر، علاء بن عبدالرحمن، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو مجھ پر ایک مرتبہ دردو بھیجتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالی اس پر دس مرتبہ رحمت نازل فرماتا ہے اس باب میں عبدالرحمن بن عوف عامر بن ربیعہ عمار ابو طلحہ انس ابی بن کعب سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ فرماتے ہیں حدیث ابو ہریرہ حسن صحیح ہے سفیان ثوری اور کئی علماء سے مروی ہے کہ اگر صلوة کی نسبت اللہ کی طرف ہو تو اس سے مراد رحمت ہے اور اگر درود کی نسبت فرشتوں کی طرف ہو تو اس سے مراد طلب مغفرت ہے

٭٭ ابوداؤد سلیمان بن سلم بلخی مصاحفی، نضربن شمیل، ابو قرة اسدی، سعید بن مسیب، عمر بن خطاب سے مروی ہے کہ دعا آسمان اور زمین کے درمیان اس وقت تک رکی رہتی ہے جب تک تم اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر درود نہ بھیجو امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں علاء بن عبدالرحمن یعقوب کے بیٹے اور حرقہ کے مولی ہیں اور علاء تابعین میں سے ہیں انہوں نے انس بن مالک سے احادیث سنی ہیں جبکہ عبدالرحمن یعقوب یعنی علاء کے والد بھی تابعی ہیں انہوں نے ابو ہریرہ اور ابو سعید خدری سے احادیث سنی ہیں اور یعقوب کبار تابعین میں سے ہیں اور انہوں نے عمر بن خطاب سے ملاقات کی ہے اور ان سے روایت بھی کرتے ہیں

٭٭ عباس بن عبدالعظیم عبنری، عبدالرحمن بن مہدی، مالک بن انس، علاء بن عبدالرحمن بن یعقوب سے اور وہ ان کے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب نے فرمایا ہمارے بازار میں کوئی شخص خرید و فروخت نہ کرے جب تک وہ دین میں خوب سمجھ بوجھ حاصل نہ کر لے یہ حدیث حسن غریب ہے

 

 

جمعہ کا بیان

جمعہ کے دن کے فضلیت

قتیبہ، مغیرہ بن عبدالرحمن، ابو زناد، اعرج ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سورج نکلنے والے دنوں میں بہترین دن جمعہ کا دن ہے اس میں آدم علیہ السلام کی پیدائش ہوئی اسی دن آپ جنت میں داخل کئے گئے اسی دن آپ جنت سے نکالے گئے اور قیامت بھی جمعہ کے دن ہی قائم ہو گی اس باب میں حضرت ابو لبابہ سلیمان ابو ذر سعید بن عبادہ اور اوس بن اوس سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حضرت ابو ہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے

جمعہ کے دن کی وہ ساعت جس میں دعا کی قبولیت کی امید ہے

عبد اللہ بن صباح ہاشمی بصری، عبداللہ بن عبدالمجیدحنفی، محمد بن ابی حمید، موسیٰ بن وردان، انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ مبارک گھڑی تلاش کرو جس کی جمعہ کے دن عصر اور مغرب کے درمیان ملنے کی امید ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث اس سند سے غریب ہے اور اس سند کے علاوہ بھی حضرت انس سے مروی ہے وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں محمد بن ابی حمید ضعیف ہیں انہیں بعض علماء نے حافظے میں ضعیف کہا ہے انہیں حماد بن ابی حمید بھی کہا جاتا ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے وہ ابو ابراہیم انصاری یہی ہیں جو منکر حدیث ہیں بعض صحابہ کرام اور تابعین فرماتے ہیں کہ وہ گھڑی عصر سے غروب آفتاب تک ہے امام احمد اور امام اسحاق کا یہی قول ہے امام احمد فرماتے ہیں کہ اکثر احادیث میں یہی ہے کہ وہ گھڑی جس میں دعا کی قبولیت کی امید ہے وہ عصر کی نماز کے بعد ہے اور یہ بھی امید ہے کہ وہ زوال آفتاب کے بعد ہو

٭٭ زیاد بن ایوب بغدادی، ابو عامر عقدی مثیر بن عبداللہ عمرو بن عوف مزنی نے روایت کی ہم سے زیاد بن ایوب بغدادی نے انہوں نے ابو عامر عقدی انہوں نے کثیر بن عبداللہ بن عمرو بن عوف مزنی انہوں نے اپنے باپ انہوں نے اپنے دادا اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جمعہ کے دن ایک وقت ایسا ہے کہ بندہ جب اللہ سے اس وقت میں سوال کرتا ہے تو اسے وہ چیز ضرور عطا کرتا ہے صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہ کونسا وقت ہے فرمایا نماز جمعہ کے لئے کھڑے ہونے سے فارغ ہونے تک اس باب میں ابو موسیٰ ابو ذر سلمان عبداللہ بن سلام ابو لبابہ اور سعد بن عبادہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ حدیث عمر بن عوف حسن غریب ہے

٭٭ اسحاق بن موسیٰ انصاری، معن، مالک بن انس، یزید بن عبداللہ بن ہاد، محمد بن ابراہیم، ابو سلمہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمام دنوں میں بہترین دن کہ اس میں سورج نکلتا ہے جمعہ کا دن ہے اس دن آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اور اسی دن جنت میں داخل ہوئے اور اسی دن جنت سے نکالے گئے اس میں ایک وقت ایسا ہے کہ اگر اس میں مسلمان بندہ نماز پڑھتا ہو پھر اللہ تعالی سے کسی چیز کا سوال کرے تو اللہ تعالی اسے وہ چیز ضرور عطا کر دیتا ہے حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں میں نے عبداللہ بن سلام سے ملاقات کی تو ان سے اس حدیث کا تذکرہ کیا انہوں نے فرمایا میں وہ گھڑی جانتا ہوں میں نے کہا پھر مجھے بتائیے اور بخل سے کام نہ لیجئے انہوں نے کہا عصر سے غروب آفتاب تک میں نے کہا یہ کیسے ہو سکتا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ نہیں پاتا کوئی بندہ مسلم حالت نماز میں اور عصر کے بعد تو کوئی نماز نہیں پڑھی جاتی عبداللہ بن سلام نے کہا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ نہیں فرمایا کہ جو شخص کہیں نماز کے انتظار میں بیٹھے گویا کہ وہ نماز میں ہے میں نے کہا ہاں یہ تو فرمایا ہے عبداللہ بن سلام نے کہا یہ بھی اسی طرح ہے اور اس حدیث میں طویل قصہ ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث صحیح ہے اور (أَخْبِرْنِی بِہَا وَلَا تَضْنَنْ بِہَا عَلَیَّ) کے معنی یہ ہیں کہ اس میں میرے ساتھ بخل نہ کرو الضنین بخیل کو اور الظنین اسے کہتے ہیں جس پر تہمت لگائی جائے

جمعہ کے دن غسل کرنا

احمد بن منیع، سفیان بن عیینہ، زہری، سالم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ جو شخص جمعہ کی نماز کے لئے آئے اسے غسل کر لینا چاہئے اس باب میں ابو سعید عمر جابر براء عائشہ اور ابو درداء سے بھی روایات مروی ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے یہ حدیث زہری سے بھی مروی ہے وہ عبداللہ بن عمر سے وہ اپنے والد سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہی حدیث روایت کرتے ہیں

٭٭ قتیبہ، لیث بن سعد، ابن شہاب، عبداللہ بن عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عمر ہم سے روایت کی حدیث قتیبہ نے انہوں نے لیث بن سعد انہوں نے ابن شہاب انہوں نے عبداللہ بن عبداللہ بن عمر انہوں نے عبداللہ بن عمر سے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اوپر کی حدیث کی مثل امام محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں زہری کی سالم سے مروی حدیث جس میں وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں اور عبداللہ بن عبداللہ بن عمر کی ان کے والد سے روایت دونوں حدیثیں صحیح ہیں زہری کے بعض دوست زہری سے روایت کرتے ہیں کہ مجھ سے عبداللہ بن عمر کی اولاد میں سے کسی نے ابن عمر کے حوالے سے یہ حدیث بیان کیا ہے کہ ایک مرتبہ عمر بن خطاب جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے کہ ایک صحابی داخل ہوئے حضرت عمر نے فرمایا یہ کون سا وقت ہے انہوں نے کہا میں نے اذان سنی اور صرف وضو کی زیادہ دیر تو نہیں لگائی حضرت عمر نے فرمایا یہ بھی کہ غسل کی جگہ وضو کیا جبکہ تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غسل کا حکم دیا ہے

٭٭ ابوبکر محمد بن ابان، عبدالرزاق، معمر، زہری، عبداللہ بن عبدالرحمن، عبداللہ بن صالح، لیث، یونس، زہری ہم سے بیان کی یہ حدیث محمد بن ابان نے عبدالرزاق کے حوالے سے انہوں نے معمر اور وہ زہری سے روایت کرتے ہیں عبداللہ بن عبدالرحمن نے بھی عبداللہ بن صالح انہوں نے لیث انہوں نے یونس اور انہوں نے زہری یہ حدیث روایت کی ہے اور مالک اس حدیث کو زہری سے اور وہ سالم سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا عمر جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے اور حدیث ذکر کی امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ میں نے امام بخاری سے اس کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا زہری کی سالم سے اور ان کی اپنے والد سے روایت صحیح ہے امام بخاری فرماتے ہیں کہ مالک سے بھی اسی کی مثل حدیث روایت کی گئی ہے وہ زہری سے وہ سالم سے اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں

جمعہ کے دن غسل کرنے کی فضلیت کے بارے میں

محمود بن غیلان، وکیع، سفیان، ابو جناب یحیی بن ابو حیہ، عبداللہ بن عیسی، یحیی بن حارث، ابو اشعث صنعانی، اوس بن اوس سے روایت ہے کہ مجھے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے جمعہ کے دن غسل کیا اور غسل کروایا اور مسجد جلدی گیا امام کا ابتدائی خطبہ پایا اور امام کے نزدیک ہو خطبے کو سنا اور اس دوران خاموش رہا تو اس کو ہر ہر قدم پر ایک سال تک روزے رکھنے اور تہجد پڑھنے کا اجر دیا جاتا ہے محمود نے اس حدیث میں کہا کہ وکیع نے کہا کہ اس نے غسل کی اور اپنی بیوں کو غسل کروایا ابن مبارک سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا جس نے اپنے سر کو دھویا اور غسل کیا اس باب میں ابو بکر عمران بن حصین سلمان ابو ذر ابو سعید ابن عمر اور ابو ایوب سے بھی روایت ہے کہ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ اوس بن اوس کی حدیث حسن ہے اور ابو الاشعث کا نام شراحیل بن آدہ ہے

جمعہ کے دن وضو کرنا

ابوموسیٰ محمد بن مثنی، سعید بن سفیان جحدری، شعبہ، قتادہ، حسن، سمرہ بن جندب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے جمعہ کے دن وضو کیا اس نے بہتر کیا اور جس نے غسل کیا وہ غسل زیادہ افضل ہے اس باب میں حضرت ابو ہریرہ انس اور عائشہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ سمر کی حدیث حسن ہے حضرت قتادہ کے بعض ساتھ اسے قتادہ سے وہ حسن سے اور وہ سمرہ سے روایت کرتے ہیں بعض حضرات نے قتادہ سے انہوں نے حسن سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مرسلاً روایت کیا ہے صحابہ کرام اور بعد کے اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ جمعہ کے دن غسل کیا جائے ان کے نزدیک جمعہ کے دن غسل کی جگہ وضو بھی کیا جا سکتا ہے امام شافعی کہتے ہیں کہ اس کی دلیل حضرت عمر کا حضرت عثمان کو یہ کہنا ہے کہ وضو بھی کافی ہے تمہیں معلوم ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے متعلق سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جمعہ کے دن غسل کا حکم دیا اور اگر یہ دونوں حضرات جانتے ہوتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا غسل کا حکم وجوب کے لئے ہے تو حضرت عمر حضرت عثمان سے چھپا ہو نہ ہوتا کیوں کہ وہ ہر حکم جانتے تھے لیکن اس حدیث میں اس بات پر دلالت ہے کہ جمعہ کے دن غسل کرنا افضل ہے اور واجب نہیں ہے

٭٭ ہناد، ابو معاویہ، اعمش، ابو صالح، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے اچھی طرح وضو کیا اور پھر جمعہ کے لئے آیا اور امام کے نزدیک ہو کر بیٹھا پھر خطبہ سنا اور اس دوران خاموش رہا تو اس جمعہ اور دوسرے جمعہ کے درمیان ہونے والے اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے اور مزید تین دن کے گناہ بھی بخش دئیے جائیں گے اور جو کنکریوں سے کھیلتا رہا اور اس نے لغو کام کیا

جمعہ کی نماز کے لئے جلدی جانا

اسحاق بن موسیٰ انصاری، معن، مالک، سمی، ابو صالح، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے جمعہ کے دن غسل کیا جس طرح جنابت سے غسل کی جاتا ہے اور اول وقت مسجد گیا گویا اس نے اونٹ کی قربانی پیش کی پھر جو شخص دوسری گھڑی میں گیا گویا اس نے گائے کی قربانی پیش کی جو تیسری گھڑی میں گیا گویا اس نے سینگ والے دینے کی قربانی پیش کی پھر جو چوتھی گھڑی میں گیا وہ ایسے ہے جیسے اس نے اللہ کی راہ میں مرغی ذبح کی اور جو پانچویں گھڑی میں گیا وہ اس طرح ہے جیسے کہ اس نے اللہ کی راہ میں ایک انڈا خرچ کیا اور جب امام خطبہ پڑھنے کے لئے آ جاتا ہے تو فرشتے خطبہ سننے میں مشغول ہو جاتے ہیں اس باب میں عبداللہ بن عمرو اور سمرہ بن جندب بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حضرت ابو ہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے

بغیر عذر جمعہ ترک کرنا

علی بن خشرم، عیسیٰ بن یونس، محمد بن عمرو، عبیدہ بن سفیان روایت کرتے ہیں ابو الجعد سے ابو الجعد کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص سستی کی وجہ سے تین جمعے نہ پڑھے تو اللہ تعالی اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے اس باب میں ابن عمر ابن عباس اور سمرہ سے بھی روایت ہے امام ابو ترمذی کہتے ہیں ابو جعد کی حدیث حسن ہے امام ترمذی کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد بن اسماعیل بخاری سے ابو جعد کا نام پوچھا تو انہیں ان کا نام معلوم نہیں تھا انہوں نے کہا میں ان کی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے صرف یہی روایت جانتا ہوں امام ترمذی فرماتے ہیں کہ ہم اس حدیث کو محمد بن عمرو کی روایت کے علاوہ نہیں جانتے

کتنی دور سے جمعہ میں حاضر ہو

عبد بن حمید، محمد بن مدویہ، فضل بن دکین، اسرائیل ثویر، اہل قبا میں سے ایک شخص سے روایت کرتے ہیں اور وہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم قباء سے جمعہ میں حاضر ہوں امام ابو عیسیٰ فرماتے ہیں کہ ہم اس حدیث کو اس سند کے علاوہ نہیں جانتے اس باب میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی احادیث میں سے کوئی بھی حدیث صحیح نہیں حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جعمہ اس پر واجب ہے جو رات تک اپنے گھر واپس پہنچ سکے اس حدیث کی سند ضعیف ہے یہ معارک بن عباد کی عبداللہ بن سعید مقبری کو ضعیف کہتے ہیں اہل علم کا اس میں اختلاف ہے کہ جمعہ کس پر واجب ہے بعض اہل علم کے نزدیک جمعہ اس کے لئے ضروری ہے جو رات کو گھر واپس آ سکے بعض علماء کہتے ہیں جو اذان سنے اس پر واجب امام شافعی احمد اور اسحاق کا یہی قول ہے میں نے احمد بن حسن سے سنا کہ ہم احمد بن حنبل کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو یہ مسئلہ چھڑ گیا کہ جمعہ کس پر واجب ہے لیکن امام احمد بن حنبل نے اس کے متعلق کوئی حدیث بیان نہیں کیا احمد بن حسن کہتے ہیں میں نے امام احمد بن حنبل سے کہا کہ اس مسئلے میں حضرت ابو ہریرہ کے واسطے سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حدیث منقول ہے امام احمد نے پوچھا حضور سے میں نے کہا ہاں ہم سے بیان کیا حجاج بن نضیر نے انہوں نے مبارک بن عباد انہوں نے عبداللہ بن سعدی مقبری سے انہوں نے اپنے والد اور وہ ابو ہریرہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جمعہ اس پر واجب ہے جو رات ہونے سے پہلے اپنے گھر پہنچ جائے احمد بن حسن کہتے ہیں امام احمد بن حنبل یہ سن کر غصے میں آ گئے اور فرمایا اپنے رب سے استغفار کرو امام احمد نے ایسا اس لئے کیا کہ وہ اسے حدیث نہیں سمجھتے تھے کیوں کہ اس کی سند ضعیف ہے

وقت جمعہ کے بارے میں

احمد بن منیع، سریح بن نعمان، فلیح بن سلیمان عثمان بن عبدالرحمن تیمی انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جمعہ اس وقت پڑھتے تھے جب سورج ڈھل جاتا تھا

٭٭ یحیی بن موسیٰ ابو داؤد طیالسی، فلیح بن سلیمان، عثمان بن عبدالرحمن تیمی، انس روایت کی ہم سے یحیی بن موسیٰ نے انہوں نے ابو داؤد طیالسی سے انہوں نے فلیح بن سلیمان سے انہوں ھے عثمان بن عبدالرحمن التیمی سے انہوں نے انس بن مالک سے اوپر کی حدیث کی مثل اس باب میں سلمہ بن اکوع جابر بن ازبیر بن عوام سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی کہتے ہیں حدیث انس حسن صحیح ہے اور اکثر اہل علم کا اس پر اجماع ہے کہ جمعہ کا وقت آفتاب کے ڈھل جانے پر ہوتا ہے جیسا کہ ظہر کی نماز کا وقت امام شافعی احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے بعض حضرات کہتے ہیں کہ جمعہ کی نماز آفتاب کے زوال سے پہلے پڑھ لینا بھی جائز ہے امام احمد فرماتے ہیں جو شخص جمعہ کی نماز زوال سے پہلے پڑھ لے تو اسے نماز کا لوٹانا ضروری ہے

منبر پر خطبہ پڑھنا

ابوحفص عمرو بن علی فلاس، عثمان بن عمر، یحیی بن کثیر ابو غسان عنبری، معاذ بن علاء نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھجور کے تنے کے پاس کھڑے ہو کر خطبہ دیا کرتے تھے پھر جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے منبر بنایا تو کھجور کا تنا رونے لگا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کے پاس آئے اور اسے چمٹا لیا پس وہ چپ ہو گیا اس باب میں حضرت انس جابر سہل بن سعد ابی بن کعب ابن عباس اور ام سلمہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث ابن عمر حسن غریب صحیح ہے اور معاذ بن علاء بصرہ کے رہنے والے ہیں جو ابو عمر بن علاء کے بھائی ہیں باب دونوں خطبوں کے درمیان میں بیٹھنا

٭٭ حمید بن مسعدہ بصری، خالد بن حارث، عبید اللہ بن عمر نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جمعہ کے دن خطبہ دیتے اور بیٹھ جاتے پھر کھڑے ہوتے اور خطبہ دیتے راوی کہتے ہیں جیسا آج کل لوگ کرتے ہیں اس باب میں ابن عباس جابر بن عبداللہ اور جابر بن سمرہ سے بھی روایات مروی ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ ابن عمر کی حدیث صحیح ہے اور علماء کے نزدیک یہی ہے کہ دونوں خطبوں کے درمیاں بیٹھ کر ان میں فرق کر دے

خطبہ مختصر پڑھنا

قتیبہ، ہناد، ابو الاحوص، سماک بن حرب جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھتا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز بھی درمیانی ہوتی اور خطبہ بھی متوسط اس باب میں عمار بن یاسر اور ابن ابی اوفی سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ جابر بن سمرہ کی حدیث حسن صحیح ہے

منبر پر قرآن پڑھنا

قتیبہ، سفیان بن عیینہ، عمرو بن دینار، عطاء، صفوان بن یعلی بن امیہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو منبر پر یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا (وَنَادَوْا یٰمٰلِکُ) 43۔ الزخرف:77) اس باب میں حضرت ابو ہریرہ جابر بن سمرہ سے بھی روایت ہے کہ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یعلی بن امیہ کی حدیث حسن غریب صحیح ہے اور یہ ابن عیینہ کی حدیث ہے اہل علم کی ایک جماعت اسی پر عمل پیرا ہے کہ خطبہ میں قرآن کی آیات پڑھی جائیں امام شافعی کہتے ہیں کہ اگر امام خطبہ دیتے ہوئے قرآن کی کوئی آیت نہ پڑھے تو خطبہ دوبارہ پڑھے

خطبہ دیتے وقت امام کی طرف منہ کرنا

عباد بن یعقوب کوفی، محمد بن فضل بن عطیہ، منصور، ابراہیم، علقمہ، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خطبہ کے لئے منبر پر تشریف لے جاتے تو ہم اپنے چہرے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف کر دیتے تھے اس باب میں ابن عمر سے بھی روایت ہے اور منصور کی حدیث کو ہم محمد بن فضل بن عطیہ کی روایت کے علاوہ نہیں جانتے محمد بن فضل بن عطیہ ضعیف ہیں ہمارے اصحاب کے نزدیک یہ حدیثوں کو بھلا دینے والے ہیں صحابہ کا اسی پر عمل ہے کہ امام کی طرف چہرہ کرنا مستحب ہے یہ سفیان ثوری شافعی اور احمد اور اسحاق کا قول ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ اس باب میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی کوئی حدیث ثابت نہیں ہے

امام کے خطبہ دیتے ہوئے آنے والا شخص دو رکعت پڑھے

قتیبہ، حماد بن زید، عمرو بن دینار، جابر، ابن عبداللہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص آیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے پوچھا کیا تم نے نماز پڑھی ہے اس نے کہا نہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اٹھو اور پڑھو امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے

٭٭ محمد بن ابی عمر، سفیان بن عیینہ، محمد بن عجلان، عیاض بن عبداللہ بن ابو سرح، ابو سعید خدری جمعہ کے دن مسجد میں داخل ہوئے تو مروان خطبہ دے رہا تھا انہوں نے نماز پڑھنی شروع کر دی اس پر محافظ انہیں بٹھانے کے لئے آئے لیکن آپ نہ مانے یہاں تک کہ نماز سے فارغ ہو گئے پھر جب جمعہ کی نماز سے فارغ ہو گئے تو ہم ان کے پاس آئے اور کہا اللہ تعالی آپ پر رحم کرے یہ لوگ تو آپ پر ٹوٹ پڑے تھے انہوں نے فرمایا میں انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دیکھ لینے کے بعد کبھی نہ چھوڑتا پھر واقع بیان کیا کہ ایک مرتبہ جمعہ کے دن ایک آدمی آیا میلی کچیلی صورت میں اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خطبہ دے رہے تھے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے حکم دیا اس نے دو رکعتیں پڑھیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خطبہ دیتے رہے حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ ابن عیینہ اگر امام کے خطبہ کے دوران آتے تو دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے اور اسی کا حکم دیتے تھے ابو عبدالرحمن مقری انہیں دیکھ رہے ہوتے امام ترمذی فرماتے ہیں میں نے ابن ابی عمر سے سنا کہ ابن عیینہ محمد بن عجلان ثقہ اور مامون فی الحدیث ہیں اس باب میں جابر ابو ہریرہ اور سہل بن سعد سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں ابو سعید خدری کی حدیث حسن صحیح ہے اور اسی پر بعض اہل علم کا عمل ہے امام شافعی احمد اسحاق کا بھی یہی قول ہے بعض اہل علم کہتے ہیں جب امام کے خطبہ دیتے ہوئے داخل ہو تو بیٹھ جائے اور نماز نہ پڑھے یہ سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا قول ہے اور پہلا قول زیادہ صحیح ہے

٭٭ قتیبہ، علاء بن خالد قرشی سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حسن بصری کو دیکھا کہ جب وہ مسجد میں داخل ہوئے تو امام خطبہ پڑھ رہا تھا انہوں نے دو رکعتیں پڑھیں اور پھر بیٹھے حضرت حسن نے حدیث کی پیروی میں ایسا کیا اور وہ خود حضرت جابر کی یہ حدیث روایت کرتے ہیں

جب امام خطبہ پڑھتا ہو تو کلام مکروہ ہے

قتیبہ، لیث بن سعد، عقیل، زہری، سعید بن مسیب، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر امام خطبہ دے رہا ہو تو اس دوران اگر کسی نے کہا کہ چپ رہو تو اس نے لغو بات کی اس باب میں ابن ابی اوفی اور جابر بن عبداللہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث ابو ہریرہ حسن صحیح ہے اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے کہ امام کے خطبہ کے دوران بات کرنا مکروہ ہے اگر کوئی دوسرا بات کرے تو اسے بھی اشارے سے منع کرے لیکن سلام کا جواب دینے اور چھینک کا جواب دینے کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے بعض اہل علم دونوں کی اجازت دیتے ہیں جن میں امام احمد اور اسحاق بھی شامل ہیں جبکہ بعض علماء تابعین وغیرہ اسے مکروہ سمجھتے ہیں امام شافعی کا بھی یہی قول ہے

جمعہ کے دن لوگوں کو پھلانگ کر آگے جانا مکروہ ہے

ابوکریب، رشدین بن سعد، زیان بن فائد، سہل بن معاذ بن انس جہنی، اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص جمعہ کے دن گردنیں پھلانگ کر آگے جاتا ہے اسے جہنم پر جانے کے لئے پل بنایا جائے گا اس باب میں حضرت جابر سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں سہل بن معاذ بن انس جہنی کی حدیث غریب ہے ہم اس حدیث کو رشدین بن سعد کی روایت کے علاوہ نہیں جانتے اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے کہ جمعہ کے دن گردنیں پھلانگ کر آگے جانا مکروہ ہے اس مسئلہ میں علماء نے شدت اختیار کی ہے بعض علماء رشدین بن سعد کو ضعیف قرار دیتے ہیں

امام کے خطبہ کے دوران احتباء مکروہ ہے

محمد بن حمید رازی، عباس بن محمد دوری، ابو عبدالرحمن مقری، سعید بن ابو ایوب، ابو مرحوم، سہل بن معاذ، اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جمعہ کے دن امام کے خطبہ کے دوران حبوہ سے منع فرمایا امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن ہے اور ابو مرحوم کا نام عبدالرحیم بن میمون ہے اہل علم کی ایک جماعت جمعہ کے خطبے کے دوران حبوہ کو مکروہ سمجھتی ہے جبکہ بعض حضرات جن میں حضرت عبداللہ بن عمر بھی شامل ہیں نے اس کی اجازت دی ہے امام احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے کہ خطبے کے دوران اس طرح بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں

منبر پر دعا کے لئے ہاتھ اٹھانا مکروہ ہے

احمد بن منیع، ہشیم حصین سے اور وہ حصین سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے عماروہ بن روبیہ سے بشر بن دوان کے خطبہ دیتے وقت دعا کے لئے ہاتھ اٹھا نے پر یہ سنا کہ اللہ تعالی ان دونوں چھوٹے اور نکمے ہاتھوں کو خراب کری بے شک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس سے زیادہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا اور ہشیم نے اپنی شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا امام ابو عیسیٰ ترمذی کہتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے

جمعہ کے اذان

احمد بن منیع، حمادبن خالد خیاط، ابو ذئب، زہری، سائب بن یزید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ابو بکر اور عمر کے زمانے میں اذان امام کے نکلنے پر ہوا کرتی تھی پھر نماز کی اقامت ہوتی اس کے بعد حضرت عثمان کے زمانے میں زیادہ ہوئی تیسری اذان زیادہ ہوئی (یعنی بشمول تکبیر کے) زوراء پر

امام کا منبر سے اترنے کا بعد بات کرنا

محمد بن بشار، ابو داؤد طیالسی، جریر بن حازم، ثابت، انس بن مالک سے روایت ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منبر سے اترتے تو بوقت ضرورت بات کر لیتے تھے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں اس حدیث کو ہم جریر بن حازم کی روایت کے علاوہ نہیں جانتے میں نے امام بخاری سے سنا کہ جریر بن حازم کو اس حدیث میں وہم ہو گیا ہے اور صحیح ثابت کی حضرت انس سے مروی روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا اقامت کہی جانے کے بعد ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ہاتھ سے پکڑ لیا اور باتیں کر نے لگا یہاں تک کہ بعض لوگ اونگھنے لگے امام بخاری فرماتے ہیں حدیث تو یہ ہے جبکہ جریر بن حازم کبھی کبھی وہم کر جاتے ہیں اگر وہ صدوق ہیں امام بخاری ہی کہتے ہیں کہ جریر بن حازم کو ثابت بن انس سے مروی اس حدیث میں بھی وہم ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جب اقامت ہو جائے تو اس وقت تک نہ کھڑے ہو جب تک مجھے نہ دیکھ لو امام بخاری فرماتے ہیں کہ حماد بن زید سے مروی ہے کہ وہ ثابت بنانی کے پاس تھے تو حجاج صواف نے یحیی بن ابو کثیر سے انہوں نے عبداللہ بن قتادہ سے انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت بیان کی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب نماز کی تکبیر ہو تو نماز کے لئے اس وقت تک کھڑے نہ ہو جب تک مجھے دیکھ نہ لو اس پر جریر وہم میں مبتلا ہو گئے انہیں یہ گمان ہوا کہ یہ حدیث ثابت نے انس سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کی ہے

٭٭ حسن بن علی خلال، عبدالرزاق، معمر، ثابت، انس فرماتے ہیں کہ میں نے نماز کی اقامت ہو جانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ ایک شخص سے باتیں کر رہا تھا اور وہ قبلے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے درمیان کھڑا تھا وہ باتیں کرتا رہا یہاں تک کہ میں نے بعض حضرات کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زیادہ دیر تک کھڑے رہنے کی وجہ سے اونگھتے ہوئے دیکھا امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے

جمعہ کی نماز میں قرات کے بارے میں

قتیبہ، حاتم بن اسماعیل، جعفر بن محمد بن عبید اللہ بن ابو رافع سے روایت کہ مروان حضرت ابو ہریرہ کو مدینہ میں اپنا جانشین مقرر کر کے مکہ چلا گیا حضرت ابو ہریرہ نے ہمیں جمعہ کی نماز پڑھائی اور پہلی رکعت میں سورة الجمعہ اور دوسری رکعت میں سورہ المنافقوں پڑھی عبید اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو ہریرہ سے ملاقات کی اور ان سے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ دونوں سورتیں اس لئے پڑھیں کہ حضرت علی کوفہ میں یہی پڑھتے تھے حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ دو سورتیں پڑھتے ہوئے سنا ہے اس باب میں حضرت ابن عباس نعمان بن بشیر اور ابو عنبسہ خولانی سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ ابو ہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جمعہ کی نماز میں سورة الاعلی اور سورة الغاشیہ پڑھا کرتے تھے

جمعہ کے دن فجر کی نماز میں کیا پڑھے

علی بن حجر، شریک مخول بن راشد سعید بن جبیر، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جمعہ کے دن فجر کی نماز میں سورة السجدہ اور سورة الدھر (وَہَلْ أَتَی عَلَی الْإِنْسَانِ) پڑھا کرتے تھے اس باب میں سعد ابن مسعود ابو ہریرہ سے بھی روایات مروی ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے اور اسے سفیان ثوری اور کئی حضرات نے مخول سے روایت کیا ہے

جمعہ سے پہلے اور بعد کی نماز

ابن ابو عمر، سفیان بن عیینہ، عمرو بن دینار، زہری، سالم اپنے والد اور وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ جمعہ کے بعد دو رکعت نماز پڑھتے تھے اس باب میں حضرت جابر سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے اور ابن عمر سے بواسطہ نافع بھی مروی ہے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے امام شافعی اور احمد کا بھی یہی قول ہے

٭٭ قتیبہ، لیث، نافع، ابن عمر سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے نماز جمعہ پڑھنے کے بعد گھر میں دو رکعتیں پڑھیں اور پھر فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایسا ہی کرتے تھے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے

٭٭ ابن ابو عمر، سفیان، سہیل بن ابو صالح ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص جمعہ کے بعد نماز پڑھنا چاہئے تو چار رکعت پڑھے یہ حدیث حسن صحیح ہے

٭٭ حسن بن علی، علی بن مدینی، سفیان بن عیینہ، سہیل بن ابو صالح روایت کی ہم سے حسن بن علی نے انہوں نے کہا خبر دی ہم کو علی بن مدینی نے انہوں نے سفیان بن عیینہ سے انہوں نے کہا ہم سہیل بن ابی صالح کو حدیث میں ثابت تر سمجھتے تھے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ وہ جمعہ سے پہلے اور جمعہ کے بعد چار رکعت پڑھتے تھے حضرت علی بن ابی طالب سے مروی ہے کہ انہوں نے جمعہ کے بعد پہلے دو اور پھر چار رکعت پڑھنے کا حکم دیا سفیان ثوری اور ابن مبارک حضرت عبداللہ بن مسعود کے قول پر عمل کرتے ہیں اسحاق کہتے ہیں کہ اگر جمعہ سے پہلے مسجد میں نماز پڑھے تو چار رکعت اور اگر گھر پر پڑھے تو دو رکعت پڑھے اور دلیل لائے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جمعہ کے دن گھر میں دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں جو شخص جمعہ کے بعد نماز پڑھنا چاہے تو چار رکعت پڑھے امام ابو عیسیٰ ترمذی کہتے ہیں کہ ابن عمر نے ہی یہ حدیث بیان کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جمعہ کے بعد گھر میں دو رکعتیں پڑھتے تھے اور پھر ابن عمر نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد جمعہ کی نماز کے بعد مسجد میں دو رکعت اور پھر چار رکعت نماز پڑھی

٭٭ ابن عمر، سفیان، ابن جریج، عطاء، ابن عمر جمعہ کے بعد پہلے دو رکعتیں اور اس کے بعد چار رکعتیں پڑھتے ہوئے دیکھا سعید بن عبدالرحمن مخزومی سفیان بن عیینہ سے اور وہ عمرو بن دینار سے روایت کرتے ہیں کہ عمرو نے کہا میں نے زہری سے بہتر حدیث بیان کرنے والا نہیں دیکھا اور نہ ہی دولت کو ان سے زیادہ حقیر جاننے والا دیکھا اور ان کے نزدیک دراہم اونٹ کی مینگنی کے برابر حیثیت رکھتے تھے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں میں نے ابن عمر سے بحوالہ سفیان بن عیینہ سنا کہ سفیان نے کہا کرتے تھے کہ عمرو بن دینار زہری سے بڑے تھے

جو جمعہ کی ایک رکعت کو پا سکے

نصر بن علی، سعید بن عبدالرحمن، سفیان بن عیینہ زہری، ابو سلمہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس نے نماز کی ایک رکعت پالی اس نے تمام نماز کو پالیا امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اکثر علماء صحابہ کا اسی پر عمل ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر ایک رکعت ملی تو دوسری کو اس کے ساتھ ملا لے اور اگر امام قعدہ کی حالت میں پہنچے تو چار رکعت پڑھے سفیان ثوری ابن مبارک شافعی احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے

جمعہ کے دن قیلولہ

علی بن حجر، عبدالعزیز بن ابو حازم، عبداللہ بن جعفر، ابو حازم، سہل بن سعد، روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں کھانا بھی جمعہ کے بعد کھاتے اور قیلولہ بھی جمعہ کے بعد ہی کرتے تھے اس باب میں حضرت انس بن مالک سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں سہل بن سعد کی حدیث حسن ہے

جو اونگھے جمعہ میں تو وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر دوسری جگہ بیٹھ جائے

ابوسعید الاشج، عبدہ بن سلیمان، ابو خالد الاحمر، محمد بن اسحاق نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی جمعہ کے دن اونگھے تو وہ اپنی جگہ سے ہٹ کر دوسری جگہ بیٹھ جائے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے

جمعہ کے دن سفر کرنا

احمد بن منیع، ابو معاویہ، حجاج، حکم مقسم، ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک مرتبہ عبداللہ بن رواحہ کو ایک لشکر کے ساتھ بھیجا اور اتفاق سے وہ دن جمعے کا تھا ان کے ساتھ صبح روانہ ہو گئے عبداللہ نے کہا میں پیچھے رہ جاتا ہوں تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ جمعہ پڑھ سکوں پھر ان سے جاملوں گا جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں دیکھا تو پوچھا تمہارے ساتھیوں کے ساتھ جانے سے کس چیز نے منع کیا؟ انہوں نے عرض کیا میں چاہتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھ لوں اور پھر ان سے جا ملوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر تم جو کچھ زمین میں ہے اتنا مال صدقہ بھی کر دو تو ان کے سویرے چلنے کی فضلیت تک نہیں پہنچ سکتے امام ابو عیسیٰ ترمذی کہتے ہیں اس حدیث کو اس سند کے علاوہ ہم نہیں جانتے علی بن مدنین یحیی بن سعید سے وہ شعبہ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ حکم نے مقسم سے صرف پانچ حدیثیں سنی ہیں شعبہ نے انہیں گنا یہ حدیث ان پانچ میں نہیں گویا کہ یہ حدیث حکم نے مقسم سے نہیں سنی جمعہ کے دن سفر کرنے کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اس میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ نماز کا وقت نہ ہو بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اگر صبح ہو جائے تو جمعہ کی نماز پڑھ کر سفر کے لئے روانہ ہو

 

جمعہ کے دن مسواک اور خوشبو لگانا

علی بن حسن کوفی، ابو یحیی اسماعیل بن ابراہیم تیمی، یزید بن ابو زیاد، عبدالرحمن بن ابو لیلی براء بن عازب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ جمعہ کے دن غسل کریں اور ہر ایک گھری خوشبو لگائے اور اگر نہ ہو تو پانی ہی اس کے لئے خوشبو ہے اس باب میں ابو سعید اور ایک انصاری شیخ سے بھی روایت ہے

٭٭ احمد بن منیع، ہشیم، یزید ابن ابو زیاد روایت کی ہم سے احمد بن منیع نے ان سے ہشیم نے ان سے یزید بن ابی زیاد نے اوپر کی حدیث کی مثل امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں براء کی حدیث حسن ہے اور ہشیم کی روایت اسماعیل بن ابراہیم تیمی سے بہتر ہے اسماعیل بن ابراہیم تیمی حدیث میں ضعیف ہیں


عیدین کے ابو اب

عید کی نماز کے لئے پیدل چلنا

اسماعیل بن موسی، شریک ابو اسحاق ، حارث، علی فرماتے ہیں کہ نماز عید کے لئے پیدل چلنا اور گھر سے نکلنے سے پہلے کچھ کھا لینا سنت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اسی پر اکثر اہل علم کا عمل ہے کہ عید کی نماز کے لئے پیدل نکلنا مستحب ہے اور بغیر عذر کے کسی پر سوار نہ ہو

عید کی نماز خطبہ سے پہلے پڑھنا

محمد بن مثنی، ابو اسامہ عبید اللہ، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ابو بکر اور عمر عیدین میں نماز خطبہ سے پہلے پڑھتے اور پھر خطبہ دیا کرتے تھے اس باب میں جابر اور ابن عباس سے بھی روایت ہے کہ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حضرت ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے اور اسی پر علماء صحابہ وغیرہ کا عمل ہے کہ عید کی نماز خطبہ سے پہلے پڑھی جائے کہا جاتا ہے کہ عید کی نماز سے پہلے خطبہ دینے والا پہلا شخص مروان بن حکم تھا

عیدین کی نماز میں اذان اور اقامت نہیں ہوتی

قتیبہ، ابو الاحوص، سماک بن حرب، جابر بن سمرہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ عیدین کی نماز کئی مرتبہ بغیر اذان اور تکبیر کے پڑھی اس باب میں جابر بن عبداللہ اور ابن عباس سے بھی روایت ہے کہ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں جابر بن سمرہ کی حدیث حسن صحیح ہے اور اس پر علماء صحابہ وغیرہ کا عمل ہے کہ عیدین یا کسی نفل نماز کے لئے اذان نہ دی جائے

عیدین کی نماز میں قرات

قتیبہ، ابو عوانہ، ابراہیم بن محمد بن منتشر، حبیب بن سالم، نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عیدین اور جمعہ کی نمازوں میں (بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی اور ہَلْ أَتَاکَ حَدِیثُ الْغَاشِیَةِ) پڑھتے تھے اور کبھی عید اور جمعہ کے دن ہوتی تو بھی یہی دونوں نمازوں میں پڑھتے اس باب میں ابو واقد سمرہ بن جندب اور ابن عباس سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں نعمان بن بشیر کی حدیث حسن صحیح ہے اسی طرح سفیان ثوری اور معمر بن ابراہیم بن محمد بن منتشر سیابوعوانہ کی حدیث کی مثل بیان کرتے ہیں ابن عیینہ کے متعلق اختلاف ہے کوئی ان سے بواسطہ ابراہیم بن محمد بن منتشر روایت کرتا ہے وہ اپنے والد وہ حبیب بن سالم وہ اپنے والد اور وہ نعمان بن بشیر سے روایت کرتے ہیں جبکہ حبیب بن سالم کی ان کے والد سے کوئی روایت معروف نہیں یہ نعمان بن بشیر کے مولی ہیں اور ان سے احادیث روایت کرتے ہیں اس کے علاوہ بھی ابن عیینہ سے مروی کہ وہ ابراہیم بن محمد بن منتشر سے ان حضرات کی روایت کی مثل بیان کرتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عیدین کی نمازوں میں سورة ق اور اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ پڑھتے تھے امام شافعی کا بھی یہی قول ہے

٭٭ اسحاق بن موسیٰ انصاری، معن بن عیسیٰ مالک ضمرہ بن سعید مازنی، عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ، عمر بن خطاب سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب نے ابو واقد لیثی سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عیدالفطر اور عید الاضحی میں کیا پڑھتے تھے ابو واقد نے کہا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِیدِ اور اقْتَرَبَتْ السَّاعَةُ پڑھتے تھے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے

٭٭ ہناد، ابن عیینہ، ضمرہ بن سعید روایت کی ہم سے ہناد نے ان سے ابن عیینہ نے ان سے زمرہ بن سعید نے اسی اسناد سے اوپر کی حدیث کی مثل امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں ابو واقد لیثی کا نام حارث بن عوف ہے

عیدین کی تکبیرات

مسلم بن عمرو ابو عمر حذاء مدینی، عبداللہ بن نافع بن کثیر بن عبداللہ نے اپنے والد اور وہ ان کے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عیدین کی نماز میں پہلی رکعت میں قرات سے پہلے سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں قرات سے پہلے پانچ تکبیریں کہیں اس باب میں عائشہ ابن عمر اور عبداللہ بن عمر سے بھی روایت ہے امام ابو عیشی ترمذی فرماتے ہیں کثیر کے دادا کی حدیث حسن صحیح ہے اور اس باب میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی احادیث میں احسن ہے کثیر کے داد کا نام عمر بن عوف مزنی ہے اس پر بعض اہل علم صحابہ وغیرہ کا عمل ہے اسی حدیث کی مانند حضرت ابو ہریرہ سے بھی مروی ہے کہ انہوں نے مدینہ میں اسی طرح امامت کی یہی قول ہے اہل مدینہ شافعی مالک احمد اسحاق کاہے حضرت ابن مسعود سے مروی ہے کہ انہوں نے عید کی نماز میں نو تکبیریں کہیں پانچ تکبیریں قرات سے پہلے پہلی رکعت میں اور چار دوسری رکعت میں قرات کے بعد رکوع کی تکبیر کے ساتھ کئی صحابہ سے اسی طرح مروی ہے یہ اہل کوفہ اور سفیان ثوری کا قول ہے

عیدین سے پہلے اور بعد کوئی نماز نہیں

محمود بن غیلان، ابو داؤد طیالسی، شعبہ، عدی بن ثابت، سعید بن جبیر، ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عیدالفطر کے دن گھر سے نکلے اور دو رکعتیں پڑھیں نہ اس سے پہلے کوئی نماز پڑھی اور نہ اس کے بعد اس باب میں عبداللہ بن عمر اور ابو سعید سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی کہتے ہیں ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے اور اسی پر بعض علماء صحابہ وغیرہ کا عمل ہے امام شافعی اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے جبکہ صحابہ میں سے اہل علم کی ایک جماعت عید سے پہلے اور بعد میں نماز پڑھنے کی قائل ہے لیکن پہلا قول اصح ہے

٭٭ ابوعمار حسین بن حریث، وکیع، ابان بن عبداللہ بجلی، ابو بکر بن حفص، ابن عمر بن سعد بن ابو وقاص، ابن عمر سے منقول ہے کہ وہ عید کے لئے گھر سے نکلے اور عید کی نماز سے پہلے یا بعد کوئی نماز نہیں پڑھی اور فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایسا ہی کیا ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے

عیدین کے لئے عورتوں کا نکلنا

احمد بن منیع، ہشیم، منصور، ابن زاذان، ابن سیرین، ام عطیہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عیدین کے لئے کنواری لڑکیوں جوان وپردہ دار اور حائضہ عورتوں کو نکلنے کا حکم دیتے تھے حائضہ عورتیں عیدگاہ سے باہر رہتیں اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوتیں ان میں سے ایک نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اگر کسی کے پاس چادر نہ ہو تو؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو اس کی بہن اسے اتنی چادر ادھار دے دے

٭٭ احمد بن منیع، ہشیم، ہشام بن حسان، حفصہ بنت سیرین، ام عطیہ، ابن عباس اور جابر سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ فرماتے ہیں حدیث ام عطیہ حسن صحیح ہے بعض اہل علم اسی پر عمل کرتے ہوئے عورتوں کو عیدین کے لئے جانے کی اجازت دیتے ہیں اور بعض اسے مکروہ سمجھتے ہیں ابن مبارک سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا آج کل میں عورتوں کا گھر سے نکلنا مکروہ سمجھتا ہوں لیکن اگر وہ نہ مانے تو اس کا شوہر اسے میلے کپڑوں میں بغیر زینت کے نکلنے کی اجازت دے دے اور اگر زینت کرے تو اس کے شوہر کو اسے نکلنے سے منع کر دینا چاہے حضرت عائشہ فرماتی ہیں اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عورتوں کی ان چیزوں کو دیکھتے جو انہوں نے نئی نکالی ہیں تو انہیں مسجد میں جانے سے منع فرما دیتے جس طرح بنی اسرائیل کی عورتوں کو منع کر دیا گیا سفیان ثوری سے بھی یہی مروی ہے کہ وہ عورتوں کو عیدین کے لئے نکلنا مکروہ سمجھتے تھے

نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عیدین کی نماز کے لئے ایک راستے سے جانا اور دوسرے سے آنا

عبدالاعلی بن واصل عبدالاعلی کوفی، ابو زرعہ محمد بن صلت فلیج بن سلیمان سعید بن حارث، حارث، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عیدین کی نماز کے لئے ایک راستے سے جاتے اور دوسرے سے واپس تشریف لاتے اس باب میں عبداللہ بن عمر اور ابو رافع سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث ابو ہریرہ حسن غریب ہے اسے ابوتمیلہ اور یونس بن محمد فلیح بن سلیمان سے وہ سعید بن حارث سے اور وہ جابر بن عبداللہ سے روایت کرتے ہیں اہل علم کے نزدیک اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے عید کے لئے ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا مستحب ہے امام شافعی کا بھی یہی قول ہے اور حدیث جابر گویا کہ زیادہ صحیح ہے

٭٭ حسن صباح بزار، عبدالصمدبن عبدالوارث، ثواب بن عتبہ، عبداللہ بن بریدہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عیدالفطر کے لئے اس وقت تک نہ جاتے جب تک کچھ کھا نہ لیتے جب کہ عید الاضحی میں اس وقت تک کچھ نہ کھاتے جب تک نماز نہ پڑھ لیتے اس باب میں علی اور انس سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں بریدہ بن حصیب اسلمی کی حدیث غریب ہے امام محمد بن اسماعیل بخاری فرماتے ہیں میں ثواب بن عتبہ کی اس حدیث کے علاوہ کوئی حدیث نہیں جانتا بعض اہل علم کے نزدیک یہ مستحب ہے کہ عیدالفطر کے دن نماز سے پہلے کچھ کھا لینا چاہئے اور کھجور کا کھانا مستحب ہے عید الاضحی میں نماز سے پہلے کچھ نہ کھانا مستحب ہے

٭٭ قتیبہ، ہشیم، محمد بن اسحاق حفص بن عبید اللہ بن انس، انس بن مالک سے بھی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عیدالفطر کے دن نماز کے لئے نکلنے سے پہلے کھجوریں تناول فرماتے تھے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن غریب ہے

 

سفر کا بیان

سفر میں قصر نماز پڑھنا

عبدالوہاب بن عبدالحکیم وراق بغدادی، یحیی بن سلیم، عبید اللہ نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ابو بکر اور عثمان کے ساتھ سفر کیا یہ حضرات ظہر اور عصر کی دو دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے اور ان سے پہلے یا بعد میں کوئی نماز نہ پڑھتے عبداللہ فرماتے ہیں اگر میں ان سے پہلے یا بعد میں بھی کچھ پڑھنا چاہتا تو فرض ہی کو مکمل کر لیتا اس باب میں حضرت عمر علی ابن عباس انس عمران بن حصین اور عائشہ سے روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں ابن عمر کی حدیث حسن غریب ہے ہم اسے یحیی بن سلیم کی روایت کے علاوہ کچھ نہیں جانتے وہ اس کے مثل روایت کرتے ہیں امام محمد بن اسماعیل بخاری فرماتے ہیں کہ یہ حدیث عبداللہ بن عمرو سے بھی مروی ہے وہ آل سراقہ کے ایک شخص سے اور وہ ابن عمر سے روایت کرتے ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ عطیہ عوفی ابن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سفر کے دوران نماز سے پہلے اور بعد نفل نماز پڑھا کرتے تھے اور یہ بھی صحیح ہے اور کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سفر میں قصر نماز پڑھتے اسی طرح ابو بکر عمر عثمان بھی اپنے دور خلافت کے اوائل میں قصر ہی پڑھتے اکثر علماء اور صحابہ وغیرہ کا اسی پر عمل ہے حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ وہ سفر میں پوری نماز پڑھتی تھیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور صحابہ کرام سے مروی حدیث پر ہی عمل ہے امام شافعی احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے مگر امام شافعی قصر کو سفر میں اجازت پر محمول کرتے ہیں یعنی اگر وہ نماز پوری پڑھ لے تو بھی جائز ہے

٭٭ احمد بن منیع، ہشیم، علی بن زیدبن جدعان، ابو نصر فرماتے ہیں کہ عمران بن حصین سے مسافر کی نماز کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ حج کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو رکعتیں پڑھیں اور حج کیا میں نے ابو بکر کے ساتھ تو انہوں نے دو رکعتیں پڑھیں اور حج کیا میں نے حضرت عمر کے ساتھ تو انہوں نے دو رکعتیں پڑھیں پھر حضرت عثمان کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور خلافت میں سات یا آٹھ سال حج کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی دو ہی رکعتیں پڑھیں امام ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے

٭٭ قتیبہ، سفیان بن محمد بن منکدر، ابراہیم بن میسرہ، انس بن مالک فرماتے ہیں ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ مدینہ میں ظہر کی چار رکعت ادا کی پھر ذوالحلیفہ میں عصر کی دو رکعتیں پڑھیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث صحیح ہے

٭٭ قتیبہ، ہشیم، منصور بن زاذان، ابن سیرین، ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ سے مکہ کے لئے روانہ ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو رب العالمین کے علاوہ کسی کا خوف نہ تھا اور راستے میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو رکعتیں پڑھیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث صحیح ہے

کہ کتنی مدت تک نماز میں قصر کی جائے

احمد بن منیع، ہشیم، یحیی بن ابو اسحاق حضرمی، انس بن مالک فرماتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ مدینہ سے مکہ کے لئے روانہ ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو رکعتیں پڑھیں راوی نے انس سے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کتنے دن مکہ میں قیام کیا انہوں نے فرمایا دس دن اس باب میں ابن عباس اور جابر سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث انس حسن صحیح ہے ابن عباس سے مروی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بعض اسفار میں انیس دن تک قیام کیا اور دو رکعتیں ہی پڑھتے رہے چنانچہ اگر ہمارا قیام انیس دن یا اس سے کم مدت کا ہوتا تو ہم بھی قصر ہی پڑھتے اور اگر اس سے زیادہ رہتے تو پوری نماز پڑھتے حضرت علی سے مروی ہے کہ جو دس دن قیام کرے وہ پوری نماز پڑھے ابن عمر پندرہ دن اور دوسری روایت میں بارہ دن قیام کرنے والے کے متعلق پوری نماز کا حکم دیتے تھے قتادہ اور عطاء خراسانی سعید بن مسیب سے روایت ہیں کہ جو شخص چار دن تک قیام کرے وہ چار رکعتیں ادا کرے داؤد بن ابی ہند ان سے اس کے خلاف روایت کرتے ہیں اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے سفیان ثوری اور اہل کوفہ پندرہ دن قیام کی نیت ہو تو پوری نماز پڑھے امام اوزاعی بارہ دن قیام کی نیت پر پوری نماز پڑھنے کے قائل ہیں امام شافعی مالک اور احمد کا یہ قول ہے کہ اگر چار دن رہنے کا ارادہ ہو تو پوری نماز پڑھے اسحاق کہتے ہیں کہ اس باب میں قوی ترین مذہب ابن عباس کی حدیث کاہے کیونکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد بھی اسی پر عمل پیرا ہیں کہ اگر انیس دن قیام کا ارادہ ہو تو پوری نماز پڑھے پھر اس پر علماء کا اجماع ہے کہ اگر رہنے کی مدت متعین نہ ہو تو قصر ہی پڑھنی چاہئے اگر سال گزر جائیں

٭٭ ہناد، ابو معاویہ، عاصم احول، عکرمہ، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سفر کیا اور انیس دن تک قصر نماز پڑھتے رہے ابن عباس کہتے ہیں ہم بھی اگر انیس دن سے کم قیام کریں تو قصر نماز پڑھتے ہیں اور اس سے زیادہ ٹھہریں گے تو چار رکعتیں پڑھیں گے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے

٭٭ قتیبہ، لیث بن سعد، صفوان بن سلیم، ابو بسرہ غفاری، براء بن عازب سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ اٹھارہ سفر کئے میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو زوال آفتاب کے وقت ظہر سے پہلے دو رکعتیں چھوڑتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا اس باب میں حضرت ابن عمر سے بھی روایت ہے کہ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ حدیث براء غریب ہے میں نے امام بخاری سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے لیث بن سعد کی روایت کے علاوہ اسے نہیں پہچانا انہیں ابو بسرہ غفاری کا نام معلوم نہیں لیکن انہیں اچھا سمجھتے ہیں حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سفر کے دوران نماز سے پہلے یا بعد نوافل نہیں پڑھتے تھے انہیں سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سفر میں نفل نماز پڑھتے تھے اہل علم کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے بعض صحابہ سفر میں نوافل پڑھنے کے قائل ہیں امام احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے جبکہ اہل علم کی ایک جماعت کا قول ہے کہ نماز سے پہلے یا بعد کوئی نوافل نہ پڑھے جائیں چنانچہ جو لوگ ممانعت کرتے ہیں ہیں وہ حضرات رخصت پر عمل پیرا ہیں اور جو پڑھ لے اس کے لئے بہت بڑی فضلیت ہے اور یہی اکثر اہل علم کا قول ہے کہ سفر میں نوافل پڑھے جا سکتے ہیں

٭٭ علی بن حجر، حفص بن غیاث، حجاج، عطیہ، ابن عمر فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ سفر میں ظہر کی دو رکعتیں اور اس کے بعد بھی دو رکعتیں پڑھیں امام عیسیٰ ترمذی کہتے ہیں یہ حدیث حسن ہے اس سے ابن ابی لیلی نے عطیہ سے اور نافع نے ابن عمر سے روایت کیا ہے

٭٭ محمد بن عبیدالحاربی، علی بن ہاشم، ابن ابو لیلی عطیہ، نافع، ابن عمر فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ سفر اور حصر میں نمازیں پڑھیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضر میں چار رکعت اور اس کے بعد دو رکعتیں پڑھتے اور سفر میں ظہر کی دو اور اس کے بعد بھی دو رکعتیں پڑھتے تھے پھر عصر کی دو رکعتیں پڑھتے اور ان کے بعد کچھ نہ پڑہتے جبکہ مغرب کی نماز سفر و حضر میں تین رکعت ہی ہے اس میں کوئی کمی نہیں اور یہ دن کے وتر ہیں اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دو رکعتیں پڑھتے تھے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے میں نے امام بخاری سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک ابن ابی لیلی کی کوئی روایت اس سے زیادہ پسندیدہ نہیں ہے

دو نمازوں کو جمع کرنا

قتیبہ، لیث بن سعد، یزید بن ابو حبیب، ابو طفیل، معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غزوہ تبوک کے موقع پر اگر سورج ڈھلنے سے پہلے کوچ کرتے تو ظہر کو عصر تک موخر کر دیتے اور پھر دونوں نمازیں اکٹھی پڑھتے اور اگر زوال کے بعد کوچ کرتے تو عصر میں تعجیل کرتے اور ظہر عصر کو اکٹھا پڑھ لیتے اور پھر روانہ ہوتے پھر مغرب سے پہلے کوچ کرنے کی صورت میں مغرب کو عشاء تک موخر کرتے اور مغرب کے بعد کوچ کرنے کی صورت میں عشاء میں جلدی کرتے اور مغرب ساتھ پڑھ لیتے اس باب میں علی ابن عمر انس عبداللہ بن عمرو عائشہ ابن عباس اسامہ بن زید اور جابر سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث علی بن مدنیی سے بھی مروی ہے وہ احمد بن حنبل سے اور وہ قتیبہ سے روایت کرتے ہیں معاذ کی حدیث غریب ہے کیونکہ اس کی روایت میں قتیبہ منفرد ہیں ہمیں علم نہیں کہ لیث سے ان کے علاوہ کسی اور نے بھی روایت کی ہو لیث کی یزید بن ابی حبیب سے مروی حدیث غریب ہے وہ ابو طفیل سے اور وہ معاذ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غزوہ تبوک میں ظہر عصر اور مغرب عشاء کو جمع کیا اس حدیث کو قرة بن خالد سفیان ثوری مالک اور کئی حضرات نے ابو زبیر مکی سے روایت کیا ہے امام شافعی بھی اس حدیث پر عمل کرتے ہیں اور احمد اور اسحاق کہتے ہیں کہ سفر میں دو نمازوں کو جمع کر کے ایک وقت میں پڑھ لینے میں کوئی حرج نہیں

٭٭ ہناد، عبدہ، عبید اللہ بن عمر، نافع، ابن عمر فرماتے ہیں کہ ان کے بعض اہل اقارب کی طرف سے ان سے مد د مانگی گئی جس پر انہیں جلدی جانا پڑھا انہوں نے مغرب کو شفق کے غائب ہونے تک موخر کیا اور مغرب اور عشاء اکٹھی پڑھیں پھر لوگوں کو بتایا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جلدی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی اسی طرح کیا کرتے تھے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے

نماز استسقاء

یحیی بن موسیٰ بن عبدالرزاق، معمر، زہری، عباد بن تمیم اپنے چچا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نکلے لوگوں کے ساتھ بارش کی طلب کے لئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو رکعتیں پڑہائیں جن میں بلند آواز قرات کی پھر اپنی چادر کو پلٹ کر اوڑھا دونوں ہاتھوں کو اٹھایا اور بارش کے لئے دعا مانگی دوراں حالیکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قبلہ کی طرف متوجہ تھے اس باب میں ابن عباس ابو ہریرہ انس اور ابو لحم سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی کہتے ہیں عبداللہ بن زید کی حدیث حسن صحیح ہے اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے جن میں شافعی اور احمد اسحاق بھی شامل ہیں عباد بن تمیم کے چچا کا نام عبداللہ بن زید بن عاصم مازنی ہے

٭٭ قتیبہ، لیث، خالد بن یزید، سعید بن ابو ہلال، یزید بن عبداللہ عمیر، ابو لحم کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حجاز زیت کے قریب بارش کے لئے دعا کرتے ہوئے دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے دونوں ہاتھ بلند کئے ہوئے تھے امام ابو عیسیٰ ترمذنی فرماتے ہیں قتیبہ نے بھی ابو لحم سے روایت کرتے ہوئے اسی طرح بیان کیا ہے ان کی اس حدیث کے علاوہ کسی حدیث کا ہمیں علم نہیں انکے مولی عمیر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کئی احادیث روایت کرتے ہیں اور وہ صحابی ہیں

٭٭ قتیبہ، حاتم بن اسماعیل، ہشام بن اسحاق، ابن عبداللہ بن کنانہ، ولید بن عقبہ، ابن عباس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز استسقاء کے متعلق پوچھنے کے لئے بھیجا میں انکے پاس آیا تو انہوں نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بغیر زینت کے عاجزی کے ساتھ گڑگڑاتے ہوئے نکلے یہاں تک کہ عیدگاہ پہنچے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تمہارے ان خطبوں کی طرح کوئی خطبہ نہیں پڑھا لیکن دعا، عاجزی اور تکبیر کہتے ہوئے عید کی نماز کی طرح دو رکعت نماز پڑھی امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے

٭٭ محمود بن غیلان، وکیع، سفیان، ہشام بن اسحاق بن عبداللہ بن کنانہ انہوں نے اپنے باپ سے اسی کی مثل روایت کرتے ہوئے یہ الفاظ زیادہ بیان کئے ہیں متخشعا یعنی ڈرتے ہوئے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے امام شافعی کا یہی قول ہے کہ نماز استسقاء عید کی نماز کی طرح پڑھے پہلی رکعت میں سات اور دوسری میں پانچ تکبیریں کہے یہ ابن عباس کی حدیث سے استدلال کرتے ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی کہتے ہیں کہ مالک بن انس سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا نماز استسقاء میں عید کی نماز کی طرح تکبیریں نہ کہے

سورج گرہن کی نماز

محمد بن بشار، یحیی بن سعید، سفیان، حبیب بن ابو ثابت، طاؤس، ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کسوف کی نماز پڑھی اس میں قرات کی پھر رکوع کیا پھر قرات کی پھر رکوع کیا پھر دو سجدے کئے اور دوسری رکعت بھی اسی طرح پڑھی اس باب میں علی عائشہ عبداللہ بن عمرو نعمان بن بشیر مغیرہ بن شعبہ ابو مسعود ابو بکر سمرہ ابن مسعود ابو بکر سمرہ ابن مسعود اسماء بنت ابو بکر ابن عمر قبیصہ ہلالی جابر بن عبداللہ ابو موسیٰ عبدالرحمن بن سمرہ اور ابی بن کعب سے بھی روایت ہے امام ترمذی کہتے ہیں ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز کسوف میں دو رکعتوں میں چار رکوع کئے یہ امام شافعی احمد اور اسحاق کا قول ہے نماز کسوف میں قرات کے متعلق علماء کا اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ دن کے وقت بغیر آواز قرات کرے جبکہ بعض اہل علم بلند آواز سے قرات کے قائل ہیں جیسے کہ جمعہ اور عیدین کی نماز میں پڑھا جاتا ہے امام مالک احمد اور اسحاق اسی کے قائل ہیں کہ بلند آواز سے پڑھے لیکن امام شافعی بغیر آواز سے پڑھنے کا کہتے ہیں پھر یہ دونوں حدیثیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ثابت ہیں ایک حدیث یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چار رکوع اور چار سجدے کئے دوسرے یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چار سجدوں میں چھ رکوع کئے اہل علم کے نزدیک یہ کسوف کی مقدار کے ساتھ جائز ہے یعنی اگر سورج گرہن لمبا ہو تو چھ رکوع اور چار سجدے کرنا جائز ہے لیکن اگر چار رکوع اور چار سجدے کرے اور قرات بھی لمبی کرے تو یہ بھی جائز ہے ہمارے اصحاب کے نزدیک سورج گرہن اور چاند گرہن دونوں میں نماز با جماعت پڑھی جائے

٭٭ محمد بن عبدالملک بن ابو شوارب، یزید بن زریع، معمر، زہری، عروہ، عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں سورج گرہن ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی اور قرات لمبی کی پھر لمبا رکوع کیا پھر کھڑے ہوئے اور لمبی قرات کی لیکن پہلی رکعت سے کم تھی پھر رکوع کیا اور اسے بھی لمبا کیا لیکن پہلے رکوع سے کم پھر کھڑے ہوئے اس کے بعد سجدہ کیا اور پھر دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کیا امام ابو عیسیٰ ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے امام شافعی احمد اور اسحاق بھی اسی کے قائل ہیں کہ دو رکعت میں چار رکوع اور چار سجدے کرے امام شافعی کہتے ہیں میں نماز پڑھ رہا ہو تو پہلے سورہ فاتحہ پڑھے اور پھر سورہ بقرہ کے برابر بغیر آواز کے قرات کرے پھر لمبا رکوع کرے جیسے کہ اس نے قرات کی پھر تکبیر کہہ کر سر اٹھائے اور کھڑا ہو پھر سورہ فاتحة پڑھے اور سورہ آل عمران کے برابر تلاوت کرے اس کے بعد اتنا ہی طویل رکوع کرے پھر سر اٹھاتے ہوئے (سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ) کہے پھر اچھی طرح دو سجدے کرے اور ہر سجدے میں رکوع کے برابر رکے پھر کھڑا ہو کر سورت فاتحہ پڑھے اور سو رہ نساء کے برابر قرات کرے اور اسی طرح رکوع میں بھی ٹھہرے پھر اللَّہُ أَکْبَرُ کہہ کر سر اٹھائے اور کھڑا ہو کر سورہ فاتحہ کے بعد سورہ مائدہ کے برابر قرات کرے پھر اتنا ہی طویل رکوع کرے پھر (سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ) کہہ کر سر اٹھائے اور سجدہ کرے اور اس کے بعد تشہد پڑھ کر سلام پھیری

نماز کسوف میں قرات کیسے کی جائے

محمود بن غیلان، وکیع، سفیان، اسودبن قیس، ثعلبہ بن عباد، سمرہ بن جندب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں کسوف کی نماز پڑھائی جس میں ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آواز نہیں سنی اس باب میں حضرت عائشہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ سمرہ بن جندب کی حدیث حسن صحیح غریب ہے بعض اہل علم نے قرات سریہ ہی کو اختیار کیا ہے امام شافعی کا بھی یہی قول ہے

٭٭ ابوبکر محمد بن ابان، ابراہیم بن صدقہ، سفیان بن حسین، زہری، عروہ، عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز کسوف پڑھی اور اس میں بلند آواز سے قرات کی امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے ابواسحاق فزاری بھی سفیان بن حصین سے اسی کی مثل روایت کرے ہیں اور امام مالک احمد اور اسحاق بھی اسی حدیث کے قائل ہیں

خوف کے وقت نماز پڑھنا

محمد بن عبدالملک بن ابو شوارب، یزید بن زریع، معمر، زہری، سالم سے روایت ہے کہ وہ اپنے باپ سے نقل کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز خوف میں ایک رکعت ایک گروہ کے ساتھ پڑھی جب کہ دوسرا گروہ دشمن کے مقابلے میں لڑتا رہا پھر یہ لوگ اپنی جگہ چلے گئے اور انہوں نے آ کر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اقتداء میں دوسری رکعت پڑھی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سلام پھیر دیا اور اس گروہ نے کھڑے ہو کر اپنی چھوڑی ہوئی رکعت پوری کی اس کے بعد دوسرا گروہ کھڑا ہوا اور اس نے بھی اپنی دوسری رکعت پڑھی اس باب میں جابر حذیفہ زید بن ثابت ابن عباس ابو ہریرہ ابن مسعود ابو بکرہ سہل بن ابو حثمہ اور ابو عیاش ذوقی سے بھی روایت ہے ابوعیاش کا نام زید بن ثابت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں امام مالک نماز خوف میں سہل بن ابو حثمہ ہی کی روایت پر عمل کرتے ہیں اور یہی امام شافعی کا قول ہے امام احمد کہتے ہیں کہ نماز خوف آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کئی طرح مروی ہے اور میں اس باب میں سہل بن ابو حثمہ کی حدیث سے صحیح روایت نہیں جانتا چنانچہ وہ بھی اسی طریقے کو اختیار کرتے ہیں اسحاق بن ابراہیم بھی اسی طرح کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے صلوة خوف میں کئی روایات ثابت ہیں ان سب پر عمل کرنا جائز ہے یعنی یہ بقدر خوف ہے اسحاق کہتے ہیں کہ ہم سہل بن ابی حثمہ کی حدیث کو دوسری روایات پر ترجیح نہیں دیتے ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے اسے موسیٰ بن عقبہ بھی نافع سے وہ ابن عمر سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اسی کی مثل روایت کرتے ہیں

٭٭ محمد بن بشار، یحیی بن سعید انصاری، قاسم بن محمد، صالح بن خوات بن جبیر، سہل بن ابو حثمہ نماز خوف کے متعلق فرماتے ہیں کہ امام قبلہ کی طرف منہ کر کے کھڑا ہو اور اس کے ساتھ ایک گروہ کھڑا ہو جبکہ دوسرا گروہ دشمن کے مقابل رہے اور انہی کی طرف رخ کئے رہے پھر امام پہلے گروہ کے ساتھ ایک رکعت پڑھے اور وہ لوگ دوسری رکعت خود پڑھیں اور دو سجدے کرنے کے بعد دوسری جماعت کی جگہ دشمن کے مقابل آ جائیں اور وہ جماعت آ کر امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھے اور سجدے کرے امام کی دو رکعتیں ہو جائیں گی اور جماعت کی پہلی رکعت ہو گی پھر یہ لوگ کھڑے ہو جائیں اور دوسری رکعت پڑھیں اور سجدہ کریں محمد بن بشار کہتے ہیں کہ میں نے یحیی بن سعید سے اس حدیث کے متعلق پوچھا تو انہوں نے شعبہ کے حوالے سے مجھے بتایا کہ شعبہ عبدالرحمن بن قاسم سے وہ قاسم سے وہ اپنے والد سے وہ صالح بن خوات سے وہ سہل بن ابی حثمہ سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یحیی بن سعید انصاری کی روایت کی مثل بیان کرتے ہیں پھر یحیی بن سعید نے مجھ سے کہا کہ اس حدیث کو اس کے ساتھ لکھ دو مجھے یہ حدیث اچھی طرح یاد نہیں لیکن یہ یحیی بن سعید انصاری کی حدیث ہی کی مثل ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی کہتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اسے یحیی بن سعید انصاری نے قاسم بن محمد کی روایت سے مرفوع نہیں کیا یحیی بن سعید انصاری کے ساتھی بھی اسے موقوف ہی روایت کرتے ہیں جبکہ شعبہ عبدالرحمن بن قاسم محمد کے حوالے سے اسے مرفوع روایت روایت کرتے ہیں جو نماز خوف آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ پڑھ چکا تھا امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے امام مالک شافعی احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے اور یہ کئی راویوں سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دونوں گروہوں کے ساتھ ایک ایک رکعت نماز پڑھی جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے دو ان دونوں کے لئے ایک ایک رکعت تھی

قرآن کے سجدے

سفیان بن وکیع، عبداللہ بن وہب، عمرو بن حارث، سعید بن ہلال، عمر دمشقی، ام درداء، ابو درداء فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ گیارہ سجدے کئے جن میں سورہ نجم والا سجدہ بھی شامل ہے اس باب میں علی ابن عباس ابو ہریرہ ابن مسعود زید بن ثابت اور عمرو بن عاص سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ ابو درداء کی حدیث غریب ہے ہم اسے سعید بن ابو ہلال کی عمرو دمشقی سے روایت کے علاوہ نہیں جانتے

٭٭ عبد اللہ بن عبدالرحمن، عبداللہ بن صالح، لیث بن سعد، خالد بن یزید، سعید بن ابو ہلال، عمر، ام درداء فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کے ہمراہ گیارہ سجدے کئے ان میں ایک سورہ نجم کا سجدہ ہے یہ روایت سفیان بن وکیع کی عبداللہ بن وہب سے مروی ہے حدیث سے اصح ہے

عورتوں کا مسجدوں میں جانا

نصر بن علی، عیسیٰ بن یونس، اعمش، مجاہد سے روایت ہے کہ ہم ابن عمر کے پاس تھے کہ انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا عورتوں کو رات کے وقت مسجدوں میں جانے کی اجازت دو اس پر انکے بیٹے نے کہا اللہ کی قسم ہم انکو اس کی اجازت نہیں دیں گے کیونکہ یہ اسے فساد کا حیلہ بنائیں گی ابن عمر نے فرمایا اللہ تیرے ساتھ ایسا کرے اور ویسا کرے میں تمہیں بتا رہا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اور تم کہتے ہو کہ ہم اجازت نہیں دیں اس باب میں ابو ہریرہ زید بن خالد اور زینب جو عبداللہ بن مسعود کی زوجہ ہیں سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے

مسجد میں تھوکنے کی کراہت

محمد بن بشار، یحیی بن سعید، سفیان، منصور، ربعی بن خراش، طارق بن عبداللہ محاربی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم نماز میں ہو تو اپنے دائیں طرف نہ تھوکو بلکہ اپنے بائیں طرف یا بائیں پاؤں کے نیچے تھوک دو اس باب میں ابو سعید ابن عمر انس اور ابو ہریرہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں طارق کی حدیث حسن صحیح ہے اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے اور میں نے جارود سے وکیع کے حوالے سے سنا کہ ربعی حراش نے اسلام میں کبھی جھوٹ نہیں بولا عبدالرحمن بن مہدی کہتے ہیں کہ منصور بن معمر اہل کوفہ میں اثبت ہیں

٭٭ قتیبہ، ابو عوانہ، قتادہ، انس بن مالک کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مسجدوں میں تھوکنا گناہ ہے اور اس کا کفارہ اس کو دفن کرنا ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے

سورة انشقاق اور سورہ العلق کے سجدے

قتیبہ بن سعید، سفیان بن عیینہ، ایوب بن موسی، عطاء بن میناء، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ وَ إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ میں سجدہ کیا

٭٭ قتیبہ، سفیان، یحیی بن سعید، ابو بکر بن محمد بن عمرو بن حزم، عمربن عبدالعزیز، ابو بکر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام، ابو ہریرہ اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اوپر کی حدیث کی مثل اس حدیث میں چار تابعی ایک دوسرے سے روایت کرتے ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے اور اس پر اکثر اہل علم کا عمل ہے کہ (إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ اور اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ) دونوں سورتوں میں سجدہ ہے

٭٭ ہارون بن عبداللہ بزار، عبدالصمد بن عبدالوارث، ابو ایوب، عکرمہ، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سورہ نجم میں سجدہ کیا تو مسلمانوں مشرکوں جنوں اور انسانوں سب نے سجدہ کیا اس باب میں ابن مسعود اور ابو ہریرہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ سورہ نجم میں سجدہ کیا جائے جبکہ بعض صحابہ وغیر اس بات کے قائل ہیں کہ مفصل میں کوئی سجدہ نہیں یہ مالک بن انس کا بھی قول ہے لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے اور وہ سفیان ثوری ابن مبارک شافعی احمد اور اسحاق کا بھی قول ہے

سورہ نجم میں سجدہ نہ کرے

یحیی بن موسی، وکیع، ابن ابو ذئب، یزید بن عبداللہ بن قسیط، عطاء بن یسار، زیدبن ثابت سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے سورہ نجم پڑھی لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سجدہ نہیں کیا امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں زید بن ثابت کی حدیث حسن صحیح ہے بعض اہل علم اس حدیث کے متعلق کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس لئے سجدہ نہیں کیا کہ زید نے جب پڑھا تو انہوں نے بھی سجدہ نہیں کیا ان حضرات کا کہنا ہے کہ جو شخص سجدہ کی آیت سنے اس پر سجدہ واجب ہو جاتا ہے اور اسے چھوڑنے کی اجازت نہیں وہ کہتے ہیں اگر اس حالت میں سنا کہ وضو نہیں تھا تو جب وضو کرے اس وقت سجدہ کرے سفیان ثوری اہل کوفہ اور اسحاق کا یہی قول ہے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ سجدہ اس کے لئے ہے جو کرنا چاہے اور ثواب فضلیت کی خواہش رکھتا ہو لہذا اس کا ترک کرنا بھی جائز ہے انکی دلیل حضرت زید کی مرفوع حدیث ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے سورہ نجم پڑھی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سجدہ نہیں کیا پس اگر سجدہ واجب ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم زید کو اس وقت تک نہ چھوڑتے جب تک وہ اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خود سجدہ نہ کر لیتے انکی دوسری دلیل حضرت عمر کی حدیث ہے انہوں نے منبر پر سجدہ کی آیت پڑھی اور اتر کر سجدہ کیا پھر دوسرے جمعہ کو دوبارہ وہی آیت پڑھی تو لوگ سجدے کے لئے مستعد ہو گئے اس پر حضرت عمر نے فرمایا یہ سجدہ ہم پر فرض نہیں ہے اگر ہم چاہیں تو سجدہ کریں چنانچہ نہ تو حضرت عمر نے سجدہ کیا اور نہ ہی لوگوں نے سجدہ کیا اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ یہ واجب نہیں اور امام شافعی اور احمد کا یہی قول ہے

سورہ ص میں کا سجدہ

ابن عمر، سفیان، ایوب، عکرمہ، ابن عباس سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سورہ ص میں سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ابن عباس کہتے ہیں یہ واجب سجدوں میں سے نہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اس میں علماء صحابہ وغیرہ کا اختلاف ہے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اس میں سجدہ کرے سفیان ثوری ابن مبارک شافعی احمد اور اسحاق کو بھی یہی قول ہے لیکن بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ یہ نبی کی توبہ ہے لہذا یہاں سجدہ واجب نہیں

سورة حج کا سجدہ

قتیبہ، ابن لہیعہ، مشرح بن ہاعان، عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سورہ حج کو دوسری سورتوں پر فضلیت دی گئی کیونکہ اس میں دو سجدے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو سجدہ نہ کرنا چاہئے وہ اسے نہ پڑھے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی سند قوی نہیں اس مسئلے میں اہل علم کا اختلاف ہے حضرت عمر بن خطاب اور بن عمر سے بھی مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا سورہ حج کو اس وجہ سے فضلیت حاصل ہے کہ اس میں دو سجدے ہیں ابن مبارک شافعی احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے بعض کے نزدیک اس میں ایک ہی سجدہ ہے اور یہ سفیان ثوری مالک اور اہل کوفہ کا قول ہے

قرآن کے سجدوں میں کیا پڑھے ؟

قتیبہ، محمد بن یزید بن خنیس، حسن بن محمد بن عبید اللہ بن ابو یزید، ابن جریج، حسن، عبید اللہ بن ابو یزید، ابن عباس سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں نے رات کو سوتے ہوئے خواب میں دیکھا کہ میں ایک درخت کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہوں میں نے سجدہ کیا تو درخت نے بھی سجدہ کیا پھر میں نے اس سے کہتے ہوئے سنا کہا (اللَّہُمَّ اکْتُبْ لِی بِہَا عِنْدَکَ أَجْرًا وَضَعْ عَنِّی بِہَا وِزْرًا وَاجْعَلْہَا لِی عِنْدَکَ ذُخْرًا وَتَقَبَّلْہَا مِنِّی کَمَا تَقَبَّلْتَہَا مِنْ عَبْدِکَ دَاوُدَ) اے اللہ میرے لئے اس سجدے کا ثواب لکھ اور اسکی وجہ سے میرے گناہ کم کر اور اسے اپنے پاس میری لئے ذخیرہ آخرت بنا اور اسے مجھ سے قبول فرما جیسا کہ تو نے اپنے بندے داؤد سے قبول فرمایا حسن کہتے ہیں کہ ابن جریج نے مجھے بتایا کہ تمہارے دادا نے مجھے ابن عباس کے حوالے سے کہا کہ پھر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سجدے کی آیت پڑھی اور سجدہ کیا ابن عباس کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی سجدے میں وہی دعا پڑھ رہے تھے جو اس شخص نے درخت کے متعلق بیان کی تھی اس باب میں حضرت ابو سعید سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ابن عباس کی روایت سے غریب ہے ہم اسے ان کی روایت سے اس سند کے علاوہ نہیں جانتے

٭٭ محمد بن بشار، عبدالوہاب ثقفی، خالدحذاء، ابو عالیہ، عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات کو قرآن کے سجدوں میں یہ دعا (سَجَدَ وَجْہِی لِلَّذِی خَلَقَہُ وَشَقَّ سَمْعَہُ وَبَصَرَہُ بِحَوْلِہِ وَقُوَّتِہِ) پڑھا کرتے تھے یعنی میرے چہرے نے اس ذات کو سجدہ کیا جس نے اسے بنایا اور اپنی قوت و قدرت سے اس میں کان اور آنکھ بنائی امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے

جس کا رات کو وظیفہ رہ جائے تو وہ اسے دن میں پڑھ لے

قتیبہ، ابو صفوان، یونس، ابن شہاب، سائب بن یزید عبید اللہ، عبدالرحمن بن عبدالقاری، عمر بن خطاب سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو سو گیا اور اس نے رات کو وظیفہ نہ پڑھا یا کچھ اس میں سے باقی رہ گیا ہو تو وہ فجر اور ظہر کی نماز کے درمیاں اسے پڑھ لے وہ اس کے لئے اسی طرح لکھا جائے گا جیسے کہ اس نے رات ہی کو پڑہا ہو امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور ابو صفوان کا نام عبداللہ بن سعید مکی ہے ان سے حمیدی اور کئی حضرات نے روایت کی ہے

جو شخص رکوع اور سجدے میں امام سے پہلے سر اٹھائے اس کے متعلق وعید

قتیبہ، حماد بن زید، محمد بن زیاد، حارث بصری، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص امام سے پہلے سر اٹھا لیتا ہے اسے اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ اللہ تعالی اس کے سر کو گدھے کے سر کی طرح بنا دے قتیبہ حماد کے حوالے سے کہتے ہیں کہ محمد بن زیاد نے کہا کہ ابو ہریرہ نے أَمَا یَخْشَی کا لفظ کہا ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے محمد بن زیاد بصری ثقہ ہیں اور انکی کنیت ابو حارث ہے

فرض نماز پڑھنے کے بعد لوگوں کی امامت

قتیبہ، حمادبن زید، عمرو بن دینار، جابربن عبد اللہ، معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ معاذ بن جبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھتے اور پھر اپنی قوم میں جا کر ان کی امامت کرتے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اسی پر ہمارے اصحاب شافعی احمد اور اسحاق کا عمل ہے کہ اگر کوئی شخص فرض نماز کی امامت کرے باوجودیکہ وہ فرض نماز پڑھ چکا ہو تو مقتدیوں کے لئے اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے ان کی دلیل حضرت جابر کی حدیث جس میں حضرت معاذ کا واقعہ ہے اور یہ حدیث صحیح ہے اور کئی سندوں سے جابر سے مروی ہے ابودرداء سے مروی ہے کہ ان سے اس شخص کے متعلق سوال کیا گیا جو مسجد میں داخل ہو اور عصر کی نماز پڑھی جا رہی ہو لیکن وہ ظہر کی نماز سمجھ کر ان کے ساتھ شریک ہو جائے فرمایا کہ اس کی نماز ہو گئی لیکن اہل کوفہ کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ اگر امام اور مقتدی کی نیت میں اختلاف ہے

گرمی یا سردی کی وجہ سے کپڑے پر سجدہ کی اجازت کے متعلق

احمد بن محمد بن، عبداللہ بن مبارک، خالد بن عبدالرحمن، غالب قطان، بکر بن عبداللہ مزنی، انس بن مالک سے روایت ہے کہ جب ہم نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھتے تو گرمی سے بچنے کے لئے اپنے اپنے کپڑوں پر سجدہ کرتے امام ابو عیسیٰ ترمذی کہتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اس باب میں جابر بن عبداللہ اور ابن عباس سے بھی روایت ہے وکیع نے بھی یہ حدیث معاذ بن عبدالرحمن سے روایت کی ہے۔

فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک مسجد میں بیٹھنا مستحب ہے

قتیبہ، ابو الاحوص، سماک، جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فجر کی نماز پڑھنے کے بعد اپنی جگہ پر ہی بیٹھے رہتے یہاں تک کہ سورج نکل آتا امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے

٭٭ عبد اللہ بن معاویہ جمحی، بصری، عبدالعزیز بن مسلم ابو ظلال، انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جا شخص فجر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھنے کے بعد بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرتا رہے یہاں تک کہ سورج نکل آئے پھر دو رکعتیں پڑھے اس کے لئے ایک حج اور عمرے کا ثواب ہے حضرت انس فرماتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تین مرتبہ فرمایا پورا پورا پورا امام عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن غریب ہے اور میں نے سوال کیا امام بخاری سے ابو ظلال کے متعلق تو انہوں نے کہا وہ مقارب الحدیث ہے اور ان کا نام ہلال ہے

نماز میں ادھر ادھر توجہ کرنا

محمود بن غیلان، فضل بن موسیٰ عبداللہ بن سعید بن ابو ہند، ثور بن زید، عکرمہ، ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز میں دائیں بائیں دیکھتے تھے لیکن اپنی گردن کو پیچھے کی طرف نہیں موڑتے تھے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث غریب ہے اور وکیع نے اپنی روایت میں فضل بن موسیٰ سے اختلاف کیا ہے

٭٭ محمود بن غیلان، وکیع، عبداللہ بن سعید بن ابو ہند، عکرمہ بعض اصحاب عکرمہ نے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز میں ادھر ادھر دیکھ لیتے تھے اور پھر مذکورہ بالا حدیث کے مثل نقل کرتے ہیں اس باب میں حضرت انس اور حضرت عائشہ سے بھی روایت ہے

٭٭ مسلم بن حاتم بصری، ابو حاتم، محمد بن عبداللہ انصاری، علی بن زید، سعید بن مسیب، انس سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اے میرے بیٹے نماز کے دوران ادھر ادھر دیکھنے سے پرہیز کرو کیونکہ یہ ہلاکت ہے اگر دیکھنا ضروری ہی ہو تو نفل نماز میں دیکھ لو فرض نماز میں نہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن ہے

٭٭ صالح بن عبد اللہ، ابو لاحوص، اشعث بن ابو شعثاء، مسروق، عائشہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نماز کے دوران ادھر ادھر دیکھنے کے متعلق سوال کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ شیطان کا اچک لینا ہے شیطان انسان کو نماز سے پھسلانا چاہتا ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن غریب ہے

اگر کوئی شخص امام کو سجدے میں پائے تو کیا کرے

ہشام بن یونس کوفی، محاربی، حجاج بن ارطاہ، ابو اسحاق ، ہبیرہ علی، عمرو بن مرہ روایت کرتے ہیں ابن ابی لیلی سے وہ معاذ بن جبل سے کہ کہا علی اور عمرو نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر تم میں سے کوئی نماز کے لئے آئے تو امام کسی بھی حال میں ہو تو تم اسی طرح کرو جس طرح امام کر رہا ہو امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن غریب ہے اسے اس روایت کے علاوہ کسی اور کے متصل کرنے کا ہمیں علم نہیں اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے کہ اگر کوئی شخص امام کے سجدے میں ہونے کی حالت میں آئے تو وہ بھی سجدہ کرے لیکن اگر اس کا رکوع چھوٹ جائے تو اس کے لئے سجدہ میں ملنا رکعت کے لئے کافی نہیں عبداللہ بن مبارک بھی یہی کہتے ہیں کہ امام کے ساتھ سجدہ کرے بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ شاید وہ شخص سجدے سے سر اٹھانے سے پہلے ہی بخش دیا جائے

نماز کے وقت لوگوں کا کھڑے ہو کر امام کا انتظار کرنا مکروہ ہے

احمد بن محمد، عبداللہ بن مبارک، معمر، یحیی بن ابو کثیر، عبید اللہ بن ابو قتادہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر نماز کی اقامت ہو جائے تو تم لوگ اس وقت تک کھڑے نہ ہو جب تک مجھے نکلتے ہوئے نہ دیکھ لو اس باب میں حضرت انس سے بھی روایت ہے ان کی روایت غیر محفوظ ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں ابو قتادہ کی حدیث حسن صحیح ہے علماء صحابہ کی ایک جماعت لوگوں کے کھڑے ہو کر امام کا انتظار کرنے کو مکروہ سمجھتی ہے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اگر امام کے مسجد میں ہوتے ہوئے اقامت ہو تو اس وقت کھڑے ہوں جب موذن (قَدْ قَامَتْ الصَّلَاةُ قَدْ قَامَتْ الصَّلَاةُ) کہے ابن مبارک کا بھی یہی قول ہے

دعا سے پہلے اللہ کی حمد و ثناء اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر درود بھیجنا

محمود بن غیلان، یحیی بن آدم، ابو بکر بن عیاش، عاصم زر، عبداللہ سے روایت ہے کہ میں پڑھ رہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت ابو بکر اور حضرت عمر ایک ساتھ تھے جب میں بیٹھا تو اللہ تعالی کی حمد و ثناء بیان کی پھر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر درود بھیجا پھر اپنے لئے دعا کی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مانگو کے عطا کیا جائے گا دو مرتبہ اسی طرح فرمایا اس باب میں فضالہ بن عبید سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ عبداللہ کی حدیث حسن صحیح ہے احمد بن حنبل نے یہی حدیث یحیی بن آدم سے مختصراً بیان کی ہے۔

مسجدوں میں خوشبو کرنا

محمد بن حاتم بغدادی، عامر بن صالح زبیری، ہشام بن عروہ، عائشہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے محلوں میں مسجدیں بنانے انہیں صاف ستھرا رکھنے اور ان میں خوشبو کا حکم دیا

٭٭ ہناد، عبدہ، وکیع، ہشام بن عروہ، نے اپنے والد سے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا پھر حدیث ذکر کی اوپر کی حدیث کی مثل اور یہ زیادہ صحیح ہے پہلی حدیث سے

٭٭ ابن ابو عمر، سفیان بن عیینہ، ہشام بن عروہ نے اپنے باپ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا پھر اوپر کی حدیث کی مثل ذکر کیا اور کہا سفیان نے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا اور میں مسجدیں بنانے کا یعنی قبیلوں میں

نماز رات اور دن کی دو دو رکعت ہے

محمد بن بشار، عبدالرحمن بن مہدی، شعبہ، یعلی بن عطاء، علی ازدی، ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا رات اور دن کی رکعت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی کہتے ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی کہتے ہیں شعبہ کے ساتھیوں نے اس حدیث میں اختلاف کیا ہے عبداللہ عمری نافع سے وہ ابن عمر سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اسی کی مثل روایت کرتے ہیں جبکہ ابن عمر کی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ روایت صحیح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا رات کی نماز دو دو رکعت ہے کئی ثقہ راوی عبداللہ بن عمر سے اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں لیکن وہ اس میں دن کی نماز کا ذکر نہیں کرتے عبید اللہ سے بواسطہ نافع مروی ہے کہ ابن عمر رات کو دو دو رکعتیں اور دن میں چار چار رکعتیں پڑھا کرتے تھے اہل علم کا اس میں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ دن اور رات کی نماز دو دو رکعت ہے یہ شافعی اور احمد کا قول ہے بعض کا کہنا ہے کہ صرف رات کی نماز دو دو رکعت ہے اور اگر دن میں نوافل پڑھے جائیں تو چار چار پڑھے جائیں گے جیسے کہ ظہر وغیرہ سے پہلے چار رکعتیں پڑھی جاتی ہیں سفیان ثوری ابن مبارک اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے

نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دن میں کس طرح نوافل پڑھتے تھے

محمود بن غیلان، وہب بن جریر، شعبہ، ابو اسحاق، عاصم بن ضمرہ سے روایت ہے ہم نے علی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دن کی نماز کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا تم میں اتنی سکت نہیں ہم نے کہا اگر کسی میں اتنی طاقت ہو تو؟ اس پر حضرت علی نے فرمایا جب سورج اس طرف اتنا ہوتا جتنا عصر کے وقت اس طرف ہوتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دو رکعتیں پڑھتے پھر جب سورج مشرق کی طرف اس جگہ ہوتا جہاں ظہر کے وقت مغرب کی طرف ہوتا تو چار رکعتیں پڑھتے پھر ظہر کے وقت مغرب کی طرف ہوتا تو چار رکعتیں پڑھتے پھر ظہر سے پہلے چار اور ظہر کے بعد دو رکعت پڑھتے پھر عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے اور دو رکعتوں کے درمیان ملائکہ مقربین انبیاء و رسل اور انکے پیروکار مومنین مسلمین پر سلام کے ذریعے فصل کرتے

٭٭ محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، ابو اسحاق ، عاصم بن ضمرہ، علی سے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اوپر کی حدیث کی مثل امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے اسحاق بن ابراہیم کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دن میں نوافل کے متعلق مروی احادیث میں یہ سب سے بہتر حدیث ہے ابن مبارک اس حدیث کی تضعیف کرتے تھے ہمارے نزدیک اس کے ضعف کی وجہ یہ ہے کہ اس قسم کی روایت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے صرف اس طریق سے مروی ہیں و اللہ اعلم یعنی عاصم بن ضمرہ بحوالہ علی بیان کرتے ہیں عاصں بن ضمرہ بعض محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں علی بن مدنیی یحیی بن سعید قطان کے حوالے سے کہتے ہیں کہ سفیان نے کہا ہم عاصم بن ضمرہ کی حدیث کو حارث کی حدیث کے مقابلے میں افضل سمجھتے ہیں

٭٭ محمد بن علی، خالد بن حارث، اشعث، ابن عبدالملک، محمد بن سیرین، عبداللہ بن شقیق، عائشہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی بیویوں کی چادروں میں نماز نہیں پڑھتے تھے امام ابو عیسیٰ ترمذی کہتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس میں اجازت بھی مروی ہے باب نفل نماز میں چلنا جائز ہے

نفل نماز میں چلنا جائز ہے

ابو سلمہ یحیی بن خلف، بشر بن مفضل، بردبن سنان زہری، عروہ، عائشہ سے روایت ہے کہ میں ایک مرتبہ گھر آئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گھر کا دروازہ بند کر کے نماز پڑھ رہے تھے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چل کر میرے لئے دروازہ کھولا اور پھر اپنی جگہ واپس چلے گئے حضرت عائشہ فرماتی ہیں دروازہ قبلہ کی طرف ہی تھا امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن غریب ہے

ایک رکعت میں دو سورتیں پڑھنا

محمود بن غیلان، ابو داؤد، شعبہ، اعمش، ابو وائل، عبداللہ سے اس حرف(غَیْرِ آسِنٍ أَوْ یَاسِنٍ) کے متعلق پوچھا تو عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کیا تم نے اس کے علاوہ پورا قرآن پڑھ لیا ہے ؟ اس نے کہا ہاں ابن مسعود نے فرمایا کچھ لوگ قرآن کو اس طرح پڑھتے ہیں جیسے کوئی ردی کھجوروں کو بکھیرتا ہے اور قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترتا مجھے ایسی متشابہ سورتوں کا علم ہے جنہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپس میں ملا کر پڑھتے تھے راوی کہتے ہیں ہم نے علقمہ سے کہا تو انہوں نے ابن مسعود سے ان سورتوں کے بارے میں پوچھا اس پر انہوں نے فرمایا وہ مفصل کی بیس سورتیں ہیں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر رکعت میں دو دو سورتیں ملا کر پڑھتے تھے امام ابو عیسیٰ فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے

مسجد کی طرف چلنے کی فضلیت اور قدموں کا ثواب

محمود بن غیلان، ابو داؤد، شعبہ، اعمش، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب کوئی شخص اچھی طرح وضو کر کے نماز کے لئے نکلتا ہے بشرطیکہ اسے نماز کے علاوہ کسی اور چیز نے نہ نکالا ہو یا فرمایا نہ اٹھایا ہو تو اس کے ہر قدم پر اللہ تعالی اس کا ایک درجہ بلند فرماتا اور ایک گناہ مٹاتا ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے

مغرب کے بعد گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے

محمد بن بشار، ابراہیم بن ابو وزیر، محمد بن موسیٰ سعد بن اسحاق بن کعب بن عجرہ اپنے والد اور وہ ان کے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بنو اشہل کے مسجد میں مغرب کی نماز پڑھی پس کچھ لوگ نفل پڑھنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم لوگوں کو چاہے کہ یہ نماز اپنے گھروں میں پڑھو امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث غریب ہے ہم اس روایت کے علاوہ اسے نہیں جانتے اور صحیح وہ ہے جو عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ رسول اللہ مغرب کے بعد گھر میں دو رکعت نماز پڑھا کرتے تھے حذیفہ سے بھی یہ مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مغرب کی نماز پڑھی اور پھر عشاء تک نماز پڑھنے میں مشغول رہے پس اس حدیث میں اس بات پر دلالت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مغرب کے بعد مسجد میں بھی نماز پڑھی

جب کوئی شخص مسلمان ہو تو غسل کرے

بندار، عبدالرحمن بن مہدی، سفیان، اغر بن صباح، خلیفہ بن حصین، قیس بن عاصم سے روایت ہے کہ وہ اسلام لائے تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں پانی اور بیری کے پتوں سے نہانے کا حکم دیا اس باب میں حضرت ابو ہریرہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن ہے ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے کہ اگر کوئی شخص اسلام قبول کرے تو اس کے لئے غسل کرنا اور کپڑے دھونا مستحب ہے

بیت الخلاء جاتے وقت بسم اللہ پڑھے

محمد بن حمید رازی، حکم بن بشیر بن سلمان، خلاد صفار، حکم بن عبدالنصری، ابو اسحاق ، ابو جحیفہ، علی بن ابو طالب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جنوں کی آنکھوں اور انسانوں کی شرمگاہوں کو پردہ یہ ہے کہ جب کوئی بیت الخلاء جائے تو بِسْمِ اللَّہِ پڑھ لے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے ہم اسے اس روایت کے علاوہ نہیں جانتے اور اس کی سند قوی نہیں حضرت انس سے بھی اس باب میں کچھ مروی ہے

قیامت کے دن اس امت کی نشانی وضو اور سجدوں کی وجہ سے ہو گی

ابو ولید دمشقی، ولید بن مسلم، صفوان بن عمرو، یزید بن خمیر، عبداللہ بن بسر سے روایت کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قیامت کے دن میری امت کے چہرے سجدوں کی وجہ سے اور ہاتھ پیر وضو کی وجہ سے چمک رہے ہوں گے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب یعنی عبداللہ بن بسر کی روایت سے

وضو دائیں طرف سے شروع کرنا مستحب ہے

ہناد، ابو لاحوص، اشعث بن ابو شعثاء، مسروق، عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم طہارت میں داہنی طرف سے شروع کرنا پسند کرتے تھے اسی طرح کنگھی کرتے وقت اور جوتی پہنتے وقت بھی داہنی طرف سے ہی شروع کرنا پسند کرتے تھے ابو شعثاء کا نام سلیم بن اسود محاربی ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے

وضو کے لئے کتنا پانی کافی ہے

ہناد، وکیع، شریک، عبداللہ بن عیسی، ابن جبیر، انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وضو کے لئے دو رطل پانی کافی ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث غریب ہے ہم اسکے یہ الفاظ شریک کی روایت کے علاوہ نہیں جانتے شعبہ عبداللہ بن عبداللہ بن جبر سے اور وہ انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک صاع سے وضو فرماتے اور غسل کے لئے پانچ صاع استعمال فرماتے

دودھ پیتے بچے کے پیشاب پر پانی بہانا کافی ہے

بندار، معاذ بن ہشام، قتادہ، ابو حرب بن ابو اسود، علی بن ابو طالب کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دودھ پیتے بچے کے پیشاب کے بارے میں فرمایا کہ لڑکے کے پیشاب پر پانی بہا دینا کافی ہے اور لڑکی کے پیشاب کو دھونا ضروری ہے قتادہ کہتے ہیں یہ صورت میں ہے جب تک کھانا نہ کھاتے ہوں اگر کھانا کھاتے ہوں تو پھر دونوں کا پیشاب دھویا جائے گا امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن ہے اس حدیث کو ہشام دستوائی نے قتادہ کی روایت سے مرفوع اور سعید بن ابو عروبہ نے قتادہ ہی کی روایت سے موقوف روایت کیا ہے

جنبی اگر وضو کر لے تو اس کے لئے کھانے کی اجازت ہے

ہناد، قبیصہ، حمادبن سلمہ، عطاء خراسانی، یحیی بن یعمر، عمار سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جنبی کے بارے میں فرمایا کہ اگر وہ کھانا پینا سونا چاہے تو اس طرح وضو کرے جیسے نماز کے لئے وضو کرتا ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے

نماز کی فضلیت

عبد اللہ بن ابو زیاد، عبید اللہ بن موسی، غالب، ابو بشر، ایوب بن عائذ طائی، قیس بن مسلم، طارق بن شہاب، کعب بن عجرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے فرمایا اے کعب بن عجرہ میں تجھے ان امراء سے اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں جو میرے بعد ہوں گے جو شخص ان کے دروازوں پر آ کر ان کے جھوٹ کو سچ اور ان کے ظلم میں ان کی اعانت کرے گا اس کا مجھ سے اور میرا اس سے کوئی تعلق نہیں اور وہ حوض پر نہ آ سکے گا اور جو ان کے دروازوں کے قریب آئے یا نہ آئے لیکن نہ تو اس نے انکے جھوٹ کی تصدیق کی اور نہ ہی ظلم پر انکا مددگار ہوا وہ مجھ سے اور میں اس سے وابستہ ہوں ایسا شخص میرے حوض پر آ سکے گا اے کعب بن عجرہ نماز دلیل و حجت اور روزہ مضبوط ڈھال ہے اور صدقہ گناہوں کو اس طرح ختم کر دیتا ہے جیسے کہ پانی آگ کو اے کعب بن عجرہ کوئی گوشت ایسا نہیں جو حرام مال سے پرورش پاتا ہو اور آگ کا حقدار نہ ہو امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن غریب ہے ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں اور میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس کے متعلق پوچھا وہ بھی اسے عبید اللہ بن موسیٰ کی روایت کے علاوہ نہیں جانتے اور اسے بہت غریب کہتے ہیں امام بخاری نے کہا کہ ہم سے اس حدیث کی روایت نمیر نے کی ہے اور وہ عبید اللہ بن موسیٰ سے غالب کے حوالے سے روایت کرتے ہیں

٭٭ موسیٰ بن عبدالرحمن کوفی زید بن حباب، معاویہ بن صالح، سلیم بن عامر، ابو امامہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حجة الوداع کے موقع پر خطبہ دیتے ہوئے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اپنے پروردگار اللہ رب العزت سے ڈرو پانچ نمازیں پڑھو رمضان کے روزے رکھو اپنے مالوں کی زکوٰۃ ادا کرو اپنے امراء کا حکم مانو اور اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ راوی کہتے ہیں میں نے ابو امامہ سے پوچھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ حدیث کب سنی انہوں نے فرمایا میں اس وقت بیس سال کا تھا جب میں نے یہ حدیث سنی امام ابو عیسیٰ ترمذ کہتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے

زکوٰۃ نہ دینے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول وعید

ہناد بن سری، ابو معاویہ، اعمش، معرور بن سوید، ابو ذر سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کعبہ کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے مجھے آتے دیکھا تو فرمایا رب کعبہ کی قسم وہ قیامت کے دن خسارہ پانے والے ہیں ابو ذر فرماتے ہیں میں نے سوچا کیا ہو گیا شاید میرے متعلق کوئی آیت نازل ہوئی ہے عرض کیا میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر فدا ہوں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہ کون ہیں فرمایا وہ مالدار لوگ ہیں مگر جس نے ایسے ایسے اور ایسے دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دونوں ہاتھوں سے لپ بنا کر دائیں بائیں اور اس میں  کس طرف اشارہ کیا پھر فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے جو شخص مرتے وقت اونٹ گائے وغیرہ بغیر زکوٰۃ کے چھوڑ جاتا ہے قیامت کے دن یہی جانور اس سے زیادہ طاقتور اور موٹا ہو کر آئے گا اور اس کو اپنے کھروں تلے روندتے اور سینگ مارتے ہوئے گزر جائے گا جب وہ گزر جائے گا تو پچھلا جانور لوٹ گا اور اس کے ساتھ اس طرح ہوتا رہے گا یہاں تک کہ لوگ حساب کتاب سے فارغ ہو جائیں اس باب میں حضرت ابو ہریرہ سے بھی اسی کی مثل روایت مروی ہے حضرت علی سے مروی ہے کہ زکات نہ دینے والے پر لعنت بھیجی گئی ہے قبیصہ بن ہلب اپنے والد وہ جابر بن عبداللہ اور عبداللہ بن مسعود بھی روایت کرتے ہیں امام ترمذی فرماتے ہیں حدیث ابو ذر حسن صحیح ہے ابوذر کا نام جندب بن سکن ہے انہیں ابن جنادہ بھی کہا جاتا ہے

٭٭ عبد اللہ بن منیر، عبید اللہ بن موسی، سفیان ثوری، حکیم بن دیلم، ضحاک بن مزاحم سے انہوں نے کہا کہ اکثروں یعنی مالدار سے مراد دس ہزار والے ہیں

زکوٰۃ کی ادائیگی سے کا فرض ادا ہونا

عمربن حفص شیبانی، عبید اللہ بن وہب، عمرو بن حارث، دراج، ابن حجرہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تو نے اپنے مال کی زکوٰۃ دے دی تو تو نے اپنا فرض ادا کر دیا امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن غریب ہے اور کئی سندوں سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب زکوٰۃ کا تذکرہ فرمایا تو ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا اسکے علاوہ بھی مجھ پر کچھ فرض ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں ہاں اگر تم خوشی سے صدقہ دینا چاہوں ابن حجیرہ کا نام عبدالرحمن بن حجیرہ بصری ہے

٭٭ محمد بن اسماعیل، علی بن عبدالحمید کوفی، سلمان بن مغیرہ، ثابت انس فرماتے ہیں ہماری خواہش ہوتی تھی کہ کوئی عقلمند دیہاتی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال پوچھے تو ہم بھی وہاں موجود ہوں ہم اس خیال میں تھے کہ ایک اعرابی آیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے دو زانوں ہو کر بیٹھ گیا اور کہا اے محمد آپ کا قاصد ہمارے پاس آیا اور کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ کے رسول ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں اعرابی نے کہا قسم ہے اس رب کی جس نے آسمانوں کو بلند کیا زمین کو بچھایا اور پہاڑوں کو گاڑا کیا اللہ ہی نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بھیجا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں اعرابی نے کہا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا قاصد کہتا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم پر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض بتاتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں اعرابی نے کہا اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بھیجا ہے کہ ہم پر ہر سال ایک ماہ کے روزے رکھنا فرض ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس نے سچ کہا ہے اعرابی نے کہا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا قاصد یہ بھی کہتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں کہ ہمارے اموال پر زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس نے ٹھیک کہا ہے اعرابی نے کہا اس پروردگار کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بھیجا کیا اور اس کا حکم بھی اللہ نے دیا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا قاصد یہ بھی کہتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم میں سے جو صاحب استطاعت ہو اسکے لئے بیت اللہ کا حج فرض قرار دیتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں اعرابی نے کہا اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دین حق دے کر بھیجا ہے میں اس میں سے کوئی چیز نہیں چھوڑوں گا اور نہ ہی اس سے زیادہ کروں گا پھر وہ اٹھ کر چلا گیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر اعرابی سچا ہے تو جنت میں داخل ہو گیا امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث اس سند سے حسن ہے اور اس سند کے علاوہ بھی حضرت انس سے مروی ہے میں نے امام بخاری سے سنا کہ بعض محدثین اس حدیث سے یہ حکم مستنبط کرتے ہیں کہ استاد کے سامنے پڑھنا اور پیش کرنا سماع ہی کی طرح جائز ہے ان کی دلیل اعرابی کی یہ حدیث ہے کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے بیان کیا جس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اقرار کیا

سونے اور چاندی پر زکوٰۃ

محمد بن عبدالملک بن ابو شوارب، ابو عوانہ، ابو اسحاق ، عاصم بن ضمرہ، علی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نے تم سے گھوڑوں اور غلاموں کی زکوٰۃ معاف کر دی پس تم چاندی کی زکوٰۃ ادا کرو چالیس درہموں میں ایک درہم ہے پھر مجھے ایک سو نوے درہم میں سے زکوٰۃ نہیں چاہئے ہاں اگر دو سو ہو جائیں تو ان پر پانچ درہم ہیں اس باب میں ابو بکر صدیق اور عمرو بن حزم سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث اعمش اور ابو عوانہ ابو اسحاق سے وہ حارث سے وہ عاصم بن ضمرہ سے اور وہ حضرت علی سے روایت کرتے ہیں پھر سفیان ثوری اور ابن عیینہ اور کئی راوی بھی ابو اسحاق سے وہ حارث سے اور وہ حضرت علی سے روایت کرتے ہیں امام ترمذی کہتے ہیں میں نے امام بخاری سے اس حدیث کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا میرے نزدیک دونوں صحیح ہیں ممکن ہے کہ ابو اسحاق دونوں سے روایت کرتے ہوں

اونٹ اور بکریوں کی زکوٰۃ

زیاد بن ایوب بغدادی، ابراہیم بن عبید اللہ ہروی، محمد بن کامل مروزی، عباد بن عوام سفیان بن حسین زہری، سالم اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کتاب زکوٰۃ لکھوائی لیکن ابھی اپنے عمال کو بھیج نہ پائے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات ہو گئی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے اپنی تلوار کے پاس رکھ دیا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر نے اپنی وفات تک اس پر عمل کیا پھر حضرت عمر نے اپنی وفات تک اس میں یہ تھا کہ پانچ اونٹوں میں ایک بکری ہے دس میں دو بکریاں پندرہ میں تین بکریاں بیس میں چار پچیس میں اونٹ کا ایک سال کا بچہ پینتیس سے پینتالیس تک دو سال کی اونٹنی پینتالیس سے ساٹھ تک تین سال کی اونٹنی ساٹھ سے پچھتر تک چار سال کی دو اونٹنیاں اگر اس سے زیادہ ہوں تو ایک سو بیس اونٹوں تک تین تین سال کی دو اونٹنیاں اور اگر ایک سو بیس سے بھی زیادہ ہوں تو ہر پچاس اونٹوں پر ایک تین سال کی اونٹنی اور ہر چالیس اونٹوں پر ایک دو سال کی اونٹنی زکوٰۃ واجب جب کہ چالیس بکریوں پر ایک بکری یہاں تک کہ ایک سو بیس ہو جائیں پھر ایک سو بیس سے دو سو بکریوں تک دو بکریاں دو سو سے تین سو تک تین بکریاں اور ہر سو بکریوں پر ایک بکری زکوٰۃ ہے پھر اگر اس سے زیادہ ہوں تو سو تک کوئی زکوٰۃ نہیں پھر متفرق اشخاص کی بکریاں یا اونٹ جمع نہ کئے جائیں اور اسی طرح کسی ایک شخص کی متفرق نہ کی جائیں تاکہ زکوٰۃ ادا نہ کرنی پڑے اور اگر ان میں دو شریک ہوں تو آپس میں برابر تقسیم کر لیں اور زکوٰۃ میں بوڑھا یا عیب دار جانور نہ لیا جائے زہری کہتے ہیں کہ جب زکوٰۃ لینے والا آئے تو بکریوں کو تین حصوں میں  تقسیم کرے اور وصول کرتے وقت اوسط درجے سے زکوٰۃ وصول کرے زہری نے گائے کے متعلق کچھ نہیں کہا اس باب میں ابو بکر صدقی بہز بن حکم بواسطہ والد اپنے دادا سے ابوذر اور انس سے بھی روایت ہے کہ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث ابن عمر حسن ہے اور عام فقہاء کا اس پر عمل ہے یونس بن زید اور کئی دوسرے راویوں نے اسے زہری سے بحوالہ سالم موقوفاً روایت کیا ہے اور سفیان بن حسین نے مرفوع روایت کی ہے

گائے بیل کی زکوٰۃ

محمد بن عبید محاربی ,ابوسعید اشج، عبدالسلام بن حرب خصیف، ابو عبیدہ، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تیس گائے پر ایک سال کا بچھڑا یا بچھیا ہے اور ہر چالیس گائے پر دو سال کی گائے ہے اس باب میں معاذ بن جبل سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ عبدالسلام بن حرب نے بھی خصیف سے اسی طرح روایت کی ہے اور عبدالسلام ثقہ اور حافظ ہیں شریک اس حدیث کو خصیف سے وہ ابو عبیدہ سے وہ اپنے والد سے اور وہ عبداللہ سے روایت کرتے ہیں ابو عیبدیہ بن عبداللہ نے اپنے والد سے کوئی حدیث نہیں سنی

٭٭ محمود بن غیلان، عبدالرزاق، سفیان، اعمش، ابو وائل مسروق، معاذ بن جبل، فرماتے ہیں کہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یمن بھیجا تو حکم دیا کہ تیس گائے پر ایک سال کی گائے یا بیل اور چالیس پر دو سال کی گائے زکوٰۃ لوں اور پھر ہو جوان آدمی سے ایک دینار یا اس کے برابر کپڑے لوں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن ہے بعض حضرات نے یہ حدیث سفیان سے وہ اعمش سے وہ ابو وائل سے اور وہ مسروق سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے معاذ کو یمن بھیجا تو انہیں حکم دیا زکوٰۃ لینے کا الخ یہ حدیث اصح ہے

٭٭ محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، عمرو بن مرہ ہم سے روایت کی محمد بن بشار نے انہوں نے محمد بن جعفر انہوں نے شعبہ انہوں نے عمرو بن مرہ سے وہ کہتے ہیں میں نے ابو عبیدہ سے پوچھا کہ آپ کو عبداللہ کی کچھ باتیں یاد ہیں فرمایا نہیں

زکوٰۃ میں عمدہ مال لینا مکروہ ہے

ابو کریب، وکیع، زکریا بن اسحاق مکی، یحیی بن عبداللہ بن صیفی، ابو معبد، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے معاذ کو یمن بھیجا اور فرمایا تم اہل کتاب کی ایک قوم پر سے گزرو گے لہذا تم انہیں دعوت دینا کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں اگر وہ اسے قبول کر لی تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالی نے ان پر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں اگر وہ یہ بھی قبول کر لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ نے ان کے اموال پر زکوٰۃ فرض کی ہے جو ان کے مالداروں سے لے کر غریبوں کو دی جاتی ہے اگر وہ لوگ اسے بھی قبول کر لیں تو تم ان کے بہترین مال میں سے زکوٰۃ لینے سے پرہیز کرنا اور مظلوم کی بد دعا سے بھی کیونکہ اس بد دعا اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں اس باب میں صنابحی سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے اور ابو معبد ابن عباس کے مولی ہیں انکا نام نافذ ہے

کھیتی پھلوں اور غلے کی زکوٰۃ

قتیبہ، عبدالعزیز بن محمد، عمرو بن یحیی مازنی ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پانچ سے کم اونٹوں میں زکوٰۃ نہیں اس طرح پانچ اوقیہ چاندی سے کم پر اور پانچ اوسق سے کم غلہ پر بھی زکوٰۃ نہیں اس باب میں حضرت ابو ہریرہ ابن عمر جابر اور عبداللہ بن عمر سے بھی روایات مذکور ہیں

٭٭ محمد بن بشار، عبدالرحمن بن مہدی، سفیان، شعبہ، مالک بن انس، عمرو بن یحیی، ابو سعید خدری سے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عبدالعزیز کی عمرو بن یحیی سے مروی حدیث کے مثل اور یہ انہیں سے کئی سندوں سے مروی ہے اسی پر اہل علم کا عمل ہے کہ پانچ اوسق سے کم غلے وغیرہ پر زکوٰۃ نہیں اور ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے اور پانچ اوسق تین سو صاع ہوئے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا صاع پانگ اور ایک تہائی رطل کاہے اور اہل کوفہ کا صاع آٹھ رطل کاہے اور پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکوٰۃ نہیں اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے اور پانچ اوقیہ دو سو درہم ہوئے اور پانچ اونٹوں سے کم پر زکوٰۃ نہیں ہے پھر جب پچیس اونٹ ہو جائیں تو ایک سال کی اونٹنی اور اگر اس سے کم ہوں ہر پانچ پر ایک بکری زکوٰۃ ادا کرنا ہو گی

گھوڑے اور غلام پر زکوٰۃ نہیں

محمد بن علاء ابو کریب، محمود بن غیلان، وکیع، سفیان، شفیان، شعبہ، عبداللہ بن دینار، سلیمان بن یسار، عراک بن مالک، ابو ہریرہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مسلماں پر اس کے گھوڑے اور اس کے غلام پر زکوٰۃ نہیں اس باب میں عبداللہ بن عمر سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے کہ چرنے والے گھوڑے اور خدمت کے لئے رکھے ہوئے غلاموں پر زکوٰۃ نہیں البتہ اگر تجارت کے لئے ہوں تو ان پر سال گزر جانے کے بعد ان کی قیمتوں پر زکوٰۃ ادا کی جائے

شہد کی زکوٰۃ

محمد بن یحیی نیسابوری، عمرو بن ابو سلمہ تیسی، صدقہ بن عبد اللہ، موسیٰ بن یسار، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا شہد کی دو مشکوں پر ایک مشک زکوٰۃ ہے اس باب میں حضرت ابو ہریرہ ابو سیارہ عبداللہ بن عمرو سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں ابن عمر کی حدیث میں کلام کیا گیا ہے اور اس باب میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی کوئی حدیث صحیح نہیں اسی پر اہل علم کا عمل ہے امام احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے بعض اہل علم کے نزدیک شہد پر زکوٰۃ نہیں

مال مستفاد میں زکوٰۃ نہیں جب اس پر سال نہ گزر جائے

یحیی بن موسی، ہارون بن صالح طلحی، عبدالرحمن بن زید بن اسلم، ابن عمر بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس نے مال حاصل کیا اس پر سال گزرنے سے پہلے زکوٰۃ واجب نہیں اس باب میں سراء بنت نبہان سے بھی روایت ہے

٭٭ محمد بن بشار، عبدالوہاب ثقفی، ایوب، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے زکوٰۃ کا نصاب مکمل ہونے کے بعد مال پایا اس پر اللہ کے نزدیک ایک سال مکمل ہونے سے پہلے زکوٰۃ نہیں یہ حدیث عبدالرحمن بن زید بن اسلم کی حدیث سے اصح ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں اسے ایوب عبید اللہ اور کئی حضرات بھی نافع سے اور وہ ابن عمر سے موقوفاً روایت کرتے ہیں عبدالرحمن بن زید بن اسلم ضعیف ہیں انہیں احمد بن حنبل اور علی بن مدینی اور کئی دوسرے علماء نے ضعیف کہا ہے اور یہ کثیر الغلط ہیں متعدد صحابہ کرام سے مروی ہے کہ حاصل شدہ مال پر سال گزرنے سے پہلے زکوٰۃ نہیں مالک ابن انس شافعی احمد بن حنبل اور اسحاق کا یہی قول ہے بعض اہل علم فرماتے ہیں اگر اس کے پاس ایسا مال ہو جس پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے تو اس میں بھی زکوٰۃ واجب ہو گی اور اگر اس مال کے علاوہ کوئی دوسرا مال نہ ہو جس پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہو تو اس پر سال گزرنے سے پہلے زکوٰۃ واجب نہ ہو گی اگر مال زکوٰۃ پر سال پورا ہونے سے پہلے کچھ اور مال حاصل ہو گیا تو پہلے مال کے ساتھ نئے مال کی زکوٰۃ بھی دینی پڑے گی سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے

مقروض وغیرہ کا زکوٰۃ لینا جائز ہے

قتیبہ، لیث، بکیر بن عبداللہ بن اشج، عیاض بن عبداللہ ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں ایک شخص نے پھل خریدے اسے ان میں اتنا نقصان ہوا کہ وہ مقروض ہو گیا پس نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اسے صدقہ دو لیکن لوگوں کے صدقہ دینے کے باوجود اس کا قرض ادا نہ ہو سکا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قرض خواہوں سے فرمایا جو تمہیں مل جائے لے لو اس کے علاوہ تمہارے لئے کچھ نہیں اس باب میں حضرت عائشہ جویریہ اور انس سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث ابو سعید حسن صحیح ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اہل بیت اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے غلاموں کے لئے زکوٰۃ لینا جائز نہیں

بندار، مکی ابن ابراہیم، یوسف بن یعقوب ضبعی، بہز بن حکیم اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں اگر کوئی چیز پیش کی جاتی تو پوچھتے یہ صدقہ ہے یا ہدیہ اگر کہتے کہ صدقہ ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نہ کھاتے اور اگر ہدیہ ہوتا تو کھالیتے اس باب میں سلمان ابو ہریرہ انس حسن بن علی ابو عمیرہ معرف بن واصل کے دادا رشید بن مالک میمون مہران ابن عباس عبداللہ بن عمرو ابو رافع اور عبدالرحمن بن علقمہ سے بھی روایت ہے یہ حدیث عبدالرحمن بن علقمہ بھی عبدالرحمن بن ابو عقیل سے اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں بہز بن حکیم کے دادا کا نام معاویہ بن حیدہ القشیری ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ بہز بن حکیم کی حدیث حسن غریب ہے

٭٭ محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، حکم، ابن ابو رافع، ابو رافع کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مخزوم کے ایک شخص کو زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے بھیجا انہوں نے ابو رافع سے کہا تم بھی میرے ساتھ چلو تاکہ تمہیں بھی حصہ دوں ابو رافع نے کہا میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھے بغیر نہیں جاؤں گا پس وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پوچھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا زکوٰۃ ہمارے لئے حلال نہیں اور کسی قوم کے غلام بھی انہیں میں سے ہوتے ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے ابورافع نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے غلام تھے ان کا نام اسلم ہے اور ابن ابی رافع عبید اللہ بن ابی رافع ہیں یہ علی بن ابی طالب کے کاتب ہیں

عزیز و اقارب کو زکوٰۃ دینا

قتیبہ، سفیان بن عیین، عاصم، حفصہ بنت سیرین، رباب، سلمان بن عامر کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر تم میں سے کوئی روزہ افطار کرے تو کھجور سے افطار کرے کیونکہ یہ باعث برکت ہے اور اگر کھجور نہ ہو تو پانی سے افطار کرے کیونکہ یہ پاک کرنے والا ہے پھر فرمایا مسکین کو صدقہ دینا صرف صدقہ ہے لیکن رشتہ دار کو صدقہ دینے پر دو مرتبہ صدقے کا ثواب ہے ایک صدقے کا دوسرا صلہ رحمی کا اس باب میں جابر زینب اور ابو ہریرہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث سلمان بن عامر حسن ہے رباب رائح کی والدہ اور صلیع کی بیٹی ہیں اسی طرح سفیان ثوری بھی عاصم سے وہ حفصة بنت سیرین وہ رباب وہ اپنے چچا سلمان بن عامر اور وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اسی کی مثل روایت کرتے ہیں شعبہ عاصم سے وہ حفصہ بنت سیرین سے اور وہ سلمان بن سیرین سے روایت کرتی ہیں اور وہ رباب کا ذکر نہیں کرتیں سفیان اور ابن عیینہ کی حدیث اصح ہے اسی طرح ابن عون اور ہشام بن حسان بھی حفصة بنت سیرین سے وہ رباب سے اور وہ سلمان بن عامر سے روایت کرتے ہیں

مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حق ہے

محمد بن احمد بن مدویہ، اسود بن عامر، شریک، ابو حمزہ، شعبی، فاطمہ فرماتی ہیں میں نے یا کسی اور نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے زکوٰۃ کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی کچھ حق ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سورہ بقرہ کی آیت (لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ) 2۔ البقرۃ:177) تلاوت فرمائی

٭٭ عبد اللہ بن عبدالرحمن، محمد بن طفیل، شریک، ابو حمزہ، عامر، فاطمہ بنت قیس سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی کچھ حق ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں اس حدیث کی سند قوی نہیں ابو حمزہ میمون اعور حدیث میں ضعیف ہیں بیان اور اسماعیل بن سالم اسے شعبی سے انہی کا قول روایت کرتے ہیں اور یہ زیادہ صحیح ہے

زکوٰۃ ادا کرنے کی فضلیت

قتیبہ، لیث بن سعد، سعید مقبری، سعید بن یسار، ابو ہریرہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کوئی شخص جب اپنے حلال مال میں سے زکوٰۃ دیتا ہے اور اللہ تعالی نہیں قبول کرتا مگر حلال مال کو اللہ تعالی اسے اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑتا ہے اگرچہ وہ ایک کھجور ہی کیوں نہ ہو پھر وہ رحمان کے ہاتھ میں بڑھنے لگتا ہے یہاں تک کہ پہاڑ سے بھی بڑا ہو جاتا ہے جیسے کہ کوئی شخص اپنے گھوڑے کے بچے یا گائے کے بچھڑے کی پرورش کرتا ہے اس باب میں عائشہ عدی بن حاتم عبداللہ بن ابی اوفی حارثہ بن وہب عبدالرحمن بن عوف اور بریدہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ ابو ہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے

٭٭ محمد بن اسماعیل، موسیٰ بن اسماعیل، صدقہ بن موسیٰ ثابت، انس سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کیا گیا رمضان شریف کے بعد کونسا روزہ افضل ہے فرمایا رمضان کی تعظیم کے لئے شعبان کے روزے رکھنا پوچھا گیا کونسا صدقہ افضل ہے فرمایا رمضان میں صدقہ دینا امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث غریب ہے صدقہ بن موسیٰ محدثین کے نزدیک قوی نہیں

٭٭ عقبہ بن مکرم بصری، عبداللہ بن عیسیٰ خزاز، یونس بن عبید، حسن، انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا صدقہ اللہ تعالی کے غصہ کو بجھاتا اور بری موت کو دور کرتا ہے امام ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے

٭٭ ابوکریب، محمد بن علاء، وکیع، عباد بن منصور، قاسم بن محمد، ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بے شک اللہ تعالی صدقے کو قبول کرتا ہے اور داہنے ہاتھ میں لے کر اس کی پرورش کرتا ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے کے بچے کو پالتا ہے یہاں تک کہ ایک لقمہ بڑھتے بڑھتے احد پہاڑ کے برابر ہو جاتا ہے اس کی دلیل قرآن کریم کی یہ آیت ہے (أَنَّ اللَّہَ ہُوَ یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِہِ وَیَأْخُذُ الصَّدَقَاتِ) 9۔ التوبہ:104) (یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَیُرْبِی الصَّدَقٰتِ) 2۔ البقرۃ:276) یعنی وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے صدقات لیتا سود کو مٹاتا اور صدقات کو بڑھاتا ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے حضرت عائشہ سے بھی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اسی کی مثل منقول ہے کئی اہل علم اس اور اس جیسی کئی احادیث جن میں اللہ کی صفات کا ذکر ہے جیسے کہ اللہ کا ہر رات کو دنیا کے آسمان پر اترنا وغیرہ علماء کہتے ہیں کہ ان (کے متعلق) روایات ثابت ہیں ہم ان پر ایمان لاتے ہیں اور وہم میں مبتلا نہیں ہوتے پس یہ نہیں کہا جاتا کہ کیسے اس کی کیفیت کیا ہے وغیرہ وغیرہ اسی طرح مالک بن انس سفیان بن عیینہ اور عبداللہ بن مبارک کا بھی یہی کہنا ہے کہ ان احادیث پر صفات کی کیفیت جانے بغیر ایمان لانا ضروری ہے اہل سنت والجماعت کا یہی قول ہے لیکن جہیمہ ان روایات کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تشبیہ ہے اللہ نے قرآن میں کئی جگہ اپنے ہاتھ و سماعت اور بصیرت کا ذکر کیا ہے جہمیہ ان آیات کی تاویل کرتے ہوئے ایسی تفسیر کرتے ہیں جو علماء نے نہیں کی وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے آدم کو اپنے ہاتھ سے پیدا نہیں کیا پس ان کے نزدیک ہاتھ کے معنی قوت کے ہیں اسحاق بن ابراہیم کہتے ہیں کہ تشبیہ تو اس صورت میں ہے کہ یہ کہا جائے کہ اس کا ہاتھ کسی ہاتھ جیسا یا کسی کے ہاتھ کے مثل ہے یا اس کی سماعت کسی سماعت سے مماثلت رکھتی ہے پس اگر کہا جائے کہ اس کی سماعت فلاں کی سماعت جیسی ہے تو یہ تشبیہ ہے لہذا اگر وہی کہے جو اللہ نے کہا ہے کہ ہاتھ سماعت بصر اور یہ نہ کہے کہ اس کی کیفیت کیا ہے یا اس کی سماعت فلاں کی سماعت کی طرح ہے تو یہ تشبیہ نہیں ہو سکتا اللہ کی یہ صفات اسی طرح ہیں جس طرح اللہ تعالی نے ان کے وصف میں فرما دیا کہ (لَیْسَ کَمِثْلِہِ شَیْئٌ وَہُوَ السَّمِیعُ الْبَصِیرُ) کوئی چیز اس کی مثل نہیں اور وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے

سائل کا حق

قتیبہ، لیث سعید بن ابو ہند، عبدالرحمن بن بجید اپنی دادی ام بجید سے جو ان عورت میں سے ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بیت کی تھی نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کئی مرتبہ فقیر دروازے پر آ کر کھڑا ہوتا ہے اور گھر میں اسے دینے کے لئے کوئی چیز نہیں ہوتی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر تم جلے ہوئے کھر کے علاوہ گھر میں اسے دینے کے لئے کوئی چیز نہ پاؤ تو وہی اسے دے دو اس باب میں علی حسین بن علی ابو ہریرہ اور ابو امامہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث ام بجید حسن صحیح ہے۔

تالیف قلب کے لئے زکوٰۃ دینا

حسن بن علی خلال، یحیی بن آدم، ابن مبارک، یونس، زہری، سعید بن مسیب، صفوان بن امیہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غزوہ حنین کے موقع پر مجھے کچھ مال دیا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے نزدیک ساری مخلوق سے برے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھے کچھ نہ کچھ دیتے رہے یہاں تک کہ وہ اب میرے نزدیک مخلوق میں محبوب ترین ہو گئے امام ترمذی فرماتے ہیں حسن بن علی نے بھی اسی طرح یا اس کے مثل روایت کی ہے اس باب میں ابو سعید سے بھی روایت ہے امام ترمذی کہتے ہیں کہ صفوان کی حدیث کو معمر وغیرہ زہری سے بحوالہ سعید بن مسیب بیان کرتے ہیں کہ صفوان نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے دیا. . . . . الخ گویا کہ یہ حدیث اصح اور اشبہ ہے اہل علم کا مولفة القلوب کو مال دینے کے متعلق اختلاف ہے اکثر علماء کا کہنا ہے کہ انہیں دینا ضروری نہیں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں ایک مخصوص جماعت تھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے دلوں کی مسلمانی ہونے کے لئے تالیف کرتے تھے یہاں تک کہ وہ لوگ مسلمان ہو گئے اس دور میں اس مقصد کے لئے ان کو زکوٰۃ وغیرہ نہ دی جائے یہ سفیان ثوری اور اہل کوفہ وغیرہ کا قول ہے امام احمد اور اسحاق بھی اسی کے قائل ہیں بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اس دور میں بھی اگر کچھ لوگ ایسے ہوں جن کے متعلق امام کا خیال ہو کہ ان کے دلوں کی تالیف کی جائے تو اس صورت میں انہیں دینا جائز ہے یہ امام شافعی کا قول ہے

جسے زکوٰۃ میں دیا ہوا مال وراثت میں ملے

علی بن حجر، علی بن مسہر عبداللہ بن عطاء عبداللہ بن بریدہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک عورت آئی اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں نے اپنی والدہ کو زکوٰۃ میں ایک لونڈی دی تھی اور اب میری والدہ فوت ہو گئی ہے فرمایا تمہیں تمہارا اجر مل گیا اور اسے میراث نے تمہاری طرف لوٹا دیا عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میری والدہ پر ایک ماہ کے روزے بھی قضا تھے کیا میں ان کے بدلے میں روزے رکھ لوں فرمایا ہاں رکھ لو عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس نے کبھی بھی حج نہیں کیا کیا میں اس کی طرف سے حج کر لوں فرمایا ہاں کر لو امام ابو عیسیٰ ترمذی کہتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور بریدہ کی حدیث سے اس سند کے علاوہ نہیں پہچانی جاتی عبداللہ بن عطاء محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں اکثر علماء کا اسی پر عمل ہے کہ اگر کسی شخص نے زکوٰۃ کے طور پر کوئی چیز ادا کی اور پھر وراثت میں اسے وہی مل گئی تو وہ اس کے لئے حلال ہے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ زکوٰۃ ایسی چیز ہے جسے اس نے اللہ کے لئے مخصوص کر دیا ہے لہذا اگر وہ وراثت کے ذریعے دوبارہ اس کے پاس آ جائے تو اس کا اللہ کی راہ میں خرچ کرنا واجب ہے سفیان ثوری اور زہیر بن معاویہ یہ حدیث عبداللہ بن عطاء سے روایت کرتے ہیں

صدقہ کرنے کے بعد واپس لوٹانا مکروہ ہے

ہارون بن اسحاق ہمدانی، عبدالرزاق، معمر، زہری، سالم، ابن عمر، عمر سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے ایک گھوڑا اللہ کی راہ میں سواری کے لئے دیا پھر اسے فروخت ہوتے ہوئے دیکھا تو اسے خریدنے کا ارادہ کیا تو چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اپنی صدقہ کی ہوئی چیز کو نہ لوٹاؤ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اسی پر اکثر اہل علم کا عمل ہے

میت کی طرف سے صدقہ دینا

احمد بن منیع، روح بن عبادہ، زکریا بن اسحاق، عمرو بن دینار، عکرمہ، ابن عباس سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میری ماں فوت ہو چکی ہے اگر میں اس کی طرف سے صدقہ دوں تو کیا اسے اس کا فائدہ ہو گا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں اس شخص نے عرض کیا میرے پاس ایک باغ ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گواہ رہیں میں نے یہ باغ اپنی ماں کی طرف سے صدقہ کر دیا امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن ہے اہل علم کا یہی قول ہے وہ فرماتے ہیں کہ میت کو صدقہ اور دعا کے علاوہ کوئی چیز نہیں پہنچتی بعض راوی اس حدیث کو عمرو بن دینار سے بحوالہ عکرمہ مرسلاً نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں اور مخرف کا معنی باغ ہے

 

بیوی کا خاوند کے گھر سے خرچ کرنا

ہناد، اسماعیل بن عیاش، شرحبیل بن مسلم خولانی، ابو امامہ باہلی سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حجة الوداع کے سال خطبہ دیتے ہوئے سنا کہ کوئی عورت اپنے شوہر کے گھر سے اس کی اجازت کے بغیر کوئی چیز خرچ نہ کرے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا گیا کیا کسی کو کھانا بھی نہ دے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ تو ہمارے مالوں میں سے افضل ترین ہے اس باب میں سعد بن ابی وقاص اسماء بنت ابو بکر ابو ہریرہ عبداللہ بن عمرو اور عائشہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث ابو امامہ حسن ہے

٭٭ محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، عمرو بن مرہ، ابو وائل، عائشہ روایت کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب کوئی عورت اپنے خاوند کے مال سے صدقہ دے تو اس کے لئے بھی اجر ہے اور اسکے خاوند کے لئے اس کی مثل ہے اور خاتون کے لئے بھی اس کے برابر ہے اور کسی ایک کو اجر ملنے سے کسی دوسرے کا اجر کم نہیں ہوتا شوہر کے لئے کمانے اور بیوی کے لئے خرچ کرنے کا اجر ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن ہے

٭٭ محمود بن غیلان، مومل، سفیان، منصور، ابو وائل مسروق، عائشہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب کوئی عورت اپنے شوہر کے گھر سے خوشی کے ساتھ فساد کی نیت کے بغیر صدقہ دے تو اسے اس کے شوہر کے برابر ثواب ہو گا عورت کو اچھی نیت کا ثواب ہو گا اور خزانچی کے لئے بھی اس کے برابر اجر ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور عمرو بن مرہ کی حدیث سے اصح ہے عمرو بن مرہ اپنی روایت میں مسروق کا ذکر نہیں کرتے

 

صدقہ فطر کے بارے میں

محمود بن غیلان، وکیع، سفیان، زید بن اسلم، عیاض بن عبداللہ ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں صدقہ فطر ایک صاع غلہ ایک صاع جو یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع خشک انگور یا ایک صاع پنیز سے دیا کرتے تھے پھر ہم اسی طرح صدقہ فطر ادا کرتے رہے یہاں تک کہ امیر معاویہ مدینہ آئے اور انہوں نے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا میرے خیال میں گیہوں کے دو شامی مد ایک صاع کھجور کے برابر ہیں راوی کہتے ہیں  لوگوں نے اس پر عمل شروع کر دیا لیکن میں اسی طرح دیتا رہا جس طرح پہلے دیا کرتا تھا امام ابو عیسیٰ ترمذی کہتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اسی پر بعض اہل علم کا عمل ہے کہ ہر چیز سے ایک صاع صدقہ فطر ادا کیا جائے امام شافعی احمد اور اسحاق کا یہی قول ہے بعض صحابہ وغیرہ کا کہنا ہے کہ ہر چیز کا ایک صاع لیکن گیہوں کا نصف صاع ہی ہو گا سفیان ثوری ابن مبارک اور اہل کوفہ کے نزدیک گیہوں کا نصف صاع صدقہ فطر میں دیا جائے

٭٭ عقبہ بن مکرم، سالم بن نوح، ابن جریج، عمرو بن شعیب سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکہ کی گلیوں میں ایک منادی کو بھیجا سن لو صدقہ فطر ہر مسلمان مرد عورت غلام آزاد چھوٹے اور بڑے پر واجب ہے دو مد گیہوں میں سے یا اس کے علاوہ کسی بھی غلے سے ایک صاع امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث غریب ہے حسن ہے

٭٭ قتیبہ، حماد بن زید، ایوب، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہر مسلمان مرد وعورت اور آزاد غلام پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو صدقہ فطر فرض کیا پھر لوگوں نے اسے آدھا صاع گیہوں کر دیا امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اس باب میں ابو سعید ابن عباس حارث بن عبدالرحمن بن ابو ذباب کے دادا ثعلبہ بن ابو صغیر اور عبداللہ بن عمرو سے بھی روایت ہے

٭٭ اسحاق بن موسیٰ انصاری، معن، مالک، نافع، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رمضان کا صدقہ ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو مقرر فرمایا اور اسے ہر مسلمان آزاد غلام مرد عورت پر فرض قرار دیا امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث ابن عمر حسن صحیح ہے اس حدیث کو مالک نافع سے اور وہ ابن عمر سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ابو ایوب کی حدیث کی مثل روایت کرتے ہوئے اس میں من المسلمین کا لفظ زیادہ روایت کرتے ہیں اور اسے کئی اور راوی بھی نافع سے روایت کرتے ہیں لیکن وہ من المسلمین کے الفاظ کا ذکر نہیں کرتے اس مسئلے میں اہل علم کا اختلاف ہے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اگر کسی شخص کے غلام مسلمان نہ ہوں تو ان کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا ضروری نہیں امام مالک شافعی اور احمد کا یہی قول ہے بعض اہل علم کے نزدیک اگر غلام مسلمان نہ بھی ہوں تب بھی صدقہ فطر ادا کرنا ضروری ہے اور یہ سفیان ثوری ابن مبارک اور اسحاق کا قول ہے

صدقہ فطر نماز عید سے پہلے دینے کے بارے میں

مسلم بن عمرو بن ابو عمرو، عبداللہ بن نافع، ابو زناد، موسیٰ بن عقبہ، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عیدالفطر کی نماز ادا کرنے سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم دیا کرتے تھے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے اہل علم کے نزدیک نماز کے لئے جانے سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنا مستحب ہے

وقت سے پہلے زکوٰۃ ادا کرنے کے بارے میں

عبد اللہ بن عبدالرحمن، سعید بن منصور، اسماعیل بن زکریا، حجاج بن دینار، حکم بن عتیبہ، حجیہ بن عدی، علی، عباس سے روایت ہے کہ حضرت عباس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے زکوٰۃ کے وقت سے پہلے ادا کرنے کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو اس کی اجازت دے دی

٭٭ قاسم بن دینار کوفی، اسحاق بن منصور، اسرائیل، حجاج بن دینار، حکم بن جحل حجرعدوی، علی سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت عمر سے فرمایا ہم عباس سے گزشتہ سال اس سال کی بھی زکوٰۃ لے چکے ہیں اس باب میں حضرت ابن عباس سے بھی روایت ہے تعجیل زکوٰۃ کے بارے میں اسرائیل کی حجاج بن دینار سے مروی حدیث کو اس سند کے علاوہ نہیں جانتا اور میرے نزدیک اسماعیل بن زکریا کی حجاج سے مروی حدیث اسرائیل کی حجاج سے مروی حدیث سے اصح ہے اور یہ حدیث حکم بن عتیبہ کے واسطے سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مرسلاً بھی مروی ہے اہل علم کا وقت سے پہلے زکوٰۃ کی ادائیگی میں اختلاف ہے اہل علم کی ایک جماعت کہتی ہے کہ زکوٰۃ وقت سے پہلے ادا نہ کی جائے سفیان ثوری کا بھی یہی قول ہے کہ میرے نزدیک اس میں جلدی بہتر نہیں اکثر اہل علم کے نزدیک وقت سے پہلے زکوٰۃ ادا کرنے سے زکوٰۃ ادا ہو جاتی ہے امام شافعی احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے

سوال کرنے کی ممانعت

ہناد، ابو الاحوص، بیان بن بشر، قیس بن ابو حازم، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا اگر کوئی شخص صبح نکلے اور اپنی پیٹھ پر لکڑیاں لے کر واپس ہو پھر اس میں سے صدقہ کرے اور لوگوں سے سوال کرنے سے بے نیاز ہو جائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ کوئی شخص کسی سے سوال کرے پھر اس کی مرضی وہ اسے دے یا نہ دے پس اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے اور پہلے خرچ کرو ان پر جن کی کفالت تمہارے ذمہ ہے اس باب میں حکیم بن حزام ابو سعید خدری زہیر بن عوام عطیہ سعدی عبداللہ بن مسعود مسعود بن عمرو ابن عباس ثوبان زیادہ بن حارث صدائی ان حبشی بن جنادہ قبیصہ بن مخارق سمرہ اور ابن عمر سے بھی روایات مروی ہیں امام ترمذی فرماتے ہیں حدیث ابو ہریرہ حسن صحیح ہے اور بیان کی قیس سے روایت کی وجہ سے غریب ہے

٭٭ محمود بن غیلان وکیع، سفیان، عبدالملک بن عمیر، زید بن عقبہ، سمرہ بن جندب سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سوال کرنا ایک خرابی ہے کہ آدمی اس سے اپنی آبرو کو خراب کرتا ہے یا ایک زخم ہے کہ اس سے آدمی اپنے چہرے کو زخمی کرتا ہے البتہ اگر کوئی شخص حکمران سے سوال کرے یا کسی ضروری امر میں سوال کرے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے

 

 

روزے کا بیان

رمضان کی فضلیت

ابو کریب، محمد بن علاء بن کریب، ابو بکر بن عیاش، اعمش، ابو صالح، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو شیاطین اور سرکش جنوں کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے اور دوزخ کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور پھر اس کا کوئی دروازہ نہیں کھولا جاتا پھر جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور اسکا کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا اور پکارنے والا پکارتا ہے اے خیر کے طلبگار آگے بڑھ اور اے شر کے طلبگار ٹھہر جا اور اللہ کی طرف سے بندے آگ سے آزاد کر دئیے جاتے ہیں یہ معاملہ ہر رات جاری رہتا ہے اس باب میں عبدالرحمن بن عوف ابن مسعود اور سلیمان سے بھی روایت ہے

٭٭ ہناد، عبدہ، محاربی، محمد بن عمرو، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے رمضان کے روزے رکھے اور رات ایمان کے ساتھ ثواب کے لئے قیام کیا اس کے سابقہ گناہ بخش دئیے جاتے ہیں اور جو آدمی لیلة القدر میں ایمان اور طلب ثواب کی نیت سے کھڑا ہو کر عبادت کرے اس کے گزشتہ گناہ بخش دئیے جاتے ہیں یہ حدیث صحیح ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ ابو ہریرہ کی ابو بکر بن عیاش سے مروی روایت غریب ہے ہم اسے ابو بکر بن عیاش کی روایت کے علاوہ نہیں جانتے ابو بکر بن عیاش اعمش سے وہ ابو صالح سے اور وہ ابو ہریرہ سے روایت کرتے ہیں البتہ ہم اس حدیث کو ابو بکر کی سند سے جانتے ہیں امام ترمذی کہتے ہیں میں نے امام بخاری سے اس حدیث کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا ہم سے حسن بن ربیع نے ان سے ابو الاحوص نے ان سے اعمش نے اور ان سے مجاہد نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ قول روایت کیا ہے إِذَا کَانَ الخ یعن یہی حدیث امام بخاری فرماتے ہیں یہ روایت میرے نزدیک ابو بکر بن عیاش کی روایت سے اصح ہے

رمضان کے استقبال کی نیت سے روزے نہ رکھے

ابوکریب، عبدہ بن سلیمان، محمد بن عمرو، ابو سلمہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا رمضان سے ایک یا دو دن پہلے رمضان کے استقبال کی نیت سے روزے نہ رکھو البتہ کسی کے ایسے روزے جو وہ ہمیشہ سے رکھتا آ رہا ہے ان دنوں میں آ جائیں تو ایسی صورت میں رکھ لے اور رمضان کا چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور شوال کا چاند دکھ کر افطار کرو اور اگر بادل ہو جائیں تو تیس دن پورے کرو اس باب میں بعض صحابہ سے بھی روایت ہے منصور بن معتمر ربعی بن حراش سے اور وہ بعض صحابہ سے اسی کی مثل روایت کرتے ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث ابو ہریرہ حسن صحیح ہے اور اسی پر علماء کا عمل ہے کہ رمضان سے ایک دو دن پہلے اس کی تعظیم اور استقبال کی نیت سے روزے رکھنا مکروہ ہے اور اگر کوئی ایسا دن آ جائے کہ اس میں وہ ہمیشہ روزہ رکھتا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں

٭٭ ہناد، وکیع، علی بن مبارک، یحیی بن ابو کثیر، ابو سلمہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا رمضان سے ایک یا دو دن پہلے روزے نہ رکھو لیکن اگر کوئی شخص پہلے سے روزے رکھتا ہو تو وہ رکھ سکتا ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے

شک کے دن روزہ رکھنا مکروہ ہے

ابوسعید عبداللہ بن سعید اشج، ابو خالد احمر، عمرو بن قیس، ابو اسحاق صلہ بن زفر فرماتے ہیں کہ ہم عمار بن یاسر کے پاس تھے کہ ایک بھنی ہوئی بکری لائی گئی عمار نے کہا کھاؤ پس کچھ لوگ ایک طرف ہو گئے اور کہنے لگے کہ ہم روزے سے ہیں عمار نے فرمایا جس نے شک کے دن روزہ رکھا اس نے ابو القاسم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نافرمانی کی اس باب میں ابو ہریرہ اور انس سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ فرماتے ہیں حدیث عمار حسن صحیح ہے اور اسی پر اکثر اہل علم کا عمل ہے جن میں صحابہ تابعین وغیرہ شامل ہیں سفیان ثوری مالک بن انس عبداللہ بن مبارک شافعی احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے کہ شک کے دن روزہ رکھنا مکروہ ہے بعض حضرات کہتے ہیں کہ اگر کسی نے اس دن روزہ رکھ لیا پھر اسے معلوم ہوا کہ وہ دن واقعی رمضان کا دن تھا تو وہ روزے کی قضا کرے وہ روزہ اس کے لئے کافی نہیں

رمضان کے لئے شعبان کے چاند کا خیال رکھنا چاہئے

مسلم بن حجاج، یحیی بن یحیی، ابو معاویہ، محمد بن عمرو، ابو سلمہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا رمضان کے لئے شعبان کے چاند کے دن گنتے رہو امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ ابو ہریرہ کی حدیث کو ہم ابو معاویہ کی اس سند کے علاوہ نہیں جانتے اور صحیح وہی ہے جو محمد بن عمر سے بواسطہ ابو سلمہ مروی ہے ابو سلمہ ابو ہریرہ سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا رمضان سے ایک یا دو دن پہلے روزہ نہ رکھو یحیی بن ابی کثیر سے بھی اسی طرح مروی ہے یحیی بن ابی کثیر ابو سلمہ سے اور وہ ابو ہریرہ سے محمد بن عمرو لیثی کی مثل روایت کرتے ہیں

چاند دیکھ کر روزہ رکھے اور چاند دیکھ کر افطار کرے

قتیبہ، ابو الاحوص، سماک بن حرب عکرمہ، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ رمضان سے پہلے روزہ نہ رکھو چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو اور اگر اس کے درمیان بادل حائل ہو جائیں تو تیس دن پورے کرو اس باب میں ابو ہریرہ ابو بکر اور ابن عمر سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے اور انہی سے کئی سندوں سے مروی ہے

مہینہ کبھی انتیس دن کا بھی ہوتا ہے

احمد بن منیع، ابن یحیی بن زکریا ابن ابی زیدہ، عیسیٰ بن دینار، عمرو بن حارث بن ابو ضرار، ابن مسعود سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ اکثر تیس روزے ہی رکھے انتیس کا اتفاق کم ہی ہوا اس باب میں حضرت عمر ابو ہریرہ عائشہ سعد بن ابی وقاص ابن عباس ابن عمر انس جابر ام سلمہ اور ابو بکرہ سے بھی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مہینہ کبھی انتیس دن کا بھی ہوتا ہے

٭٭ علی بن حجر، اسماعیل بن جعفر، حمید، انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی ازواج سے ایک ماہ تک نہ ملنے کی قسم کھائی اور انتیس دن تک ایک بالائی کمرے میں رہے صحابہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تو ایک ماہ کی قسم کھائی تھی آپ نے فرمایا کہ مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے

٭٭ محمد بن اسماعیل، محمد بن عکرمہ، ابن عباس سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا میں نے چاند دیکھا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں اعرابی نے کہا جی ہاں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے بلال لوگوں میں اعلان کر دو کہ وہ کل روزہ رکھیں

٭٭ ابوکریب، حسین جعفی، زائدہ، سماک بن حرب، ابو عیسیٰ ثوری، سماک بن حرب، عکرمہ ہم سے روایت کی ابو کریب نے ان سے حسین جعفی نے وہ روایت کرتے ہیں زائدہ سے وہ سماک بن حرب سے اسی کے مثل روایت کرتے ہیں امام ابو عیسیٰ فرماتے ہیں کہ ابن عباس کی حدیث میں اختلاف ہے سفیان ثوری وغیرہ سماک بن حرب سے وہ عکرمہ سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مرسلاً روایت کرتے ہیں اور سماک کے اکثر ساتھی اسے عکرمہ سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مرسلاً روایت کرتے ہیں اکثر علماء کا اسی پر عمل ہے کہ رمضان کے روزے کے لئے ایک آدمی کی گواہی کافی ہے ابن مبارک شافعی احمد کا یہی قول ہے جب کہ اسحاق دو آدمیوں کی گواہی کو معتبر سمجھتے ہیں لیکن عید کے چاند کے متعلق علماء متفق ہیں کہ اس میں دو آدمیوں کی گواہی معتبر ہو گی

 

عید کے دو مہینے ایک ساتھ کم نہیں ہوتے

ابو سلمہ یحیی بن خلف بصری، بشر بن مفضل، خالد حذاء، عبدالرحمن بن ابو بکر اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا عید کے دونوں مہینے ایک ساتھ کم نہیں ہوتے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث ابو بکر حسن ہے اور عبدالرحمن بن ابی بکر سے بحوالہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مرسلاً روایت کی گئی ہے امام احمد کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک سال میں رمضان اور ذوالحج دونوں انتیس انتیس دن کے نہیں ہوتے اگر ایک انتیس دن کے بھی ہوں تب بھی ان میں اجر ثواب تیس دن کا ہی ہوتا ہے اس میں کمی نہیں ہوتی چنانچہ اس قول کے مطابق دونوں ماہ انتیس دن کے بھی ہو سکتے ہیں

ہر شہر والوں کے لئے انہیں کے چاند دیکھنے کا اعتبار ہے

علی بن حجر، اسماعیل بن جعفر، محمد بن ابو حرملہ کریب، ام فضل بنت حارث روایت کی کریب نے کہ ام فضل بنت حارث نے مجھ کو امیر معاویہ کے پاس شام بھیجا کریب کہتے ہیں میں شام گیا اور ان کا کام پورا کیا اسی اثنا میں رمضان آ گیا پس ہم نے جمعہ کی شب چاند دیکھا پھر میں رمضان کے آخر میں مدینہ واپس آیا تو ابن عباس نے مجھ سے چاند کا ذکر کیا اور پوچھا کہ تم نے کب چاند دیکھا تھا میں نے کہا جمعہ کی شب کو ابن عباس نے فرمایا تم نے خود دیکھا تھا میں نے کہا لوگوں نے دیکھا اور روزہ رکھا امیر معاویہ نے بھی روزہ رکھا ابن عباس نے فرمایا ہم نے تو ہفتے کی رات چاند دیکھا تھا لہذا ہم تیس روزے رکھیں گے یا یہ کہ عیدالفطر کا چاند نظر آ جائے حضرت کریب کہتے ہیں میں نے کہا کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے امیر معاویہ کا چاند دیکھنا اور روزہ رکھنا کافی نہیں ؟ ابن عباس نے فرمایا نہیں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسی طرح حکم دیا ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ ابن عباس کی حدیث حسن صحیح غریب ہے اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے کہ ہر شہر والوں کے لئے انہیں کا چاند دیکھنا معتبر ہے

کس چیز سے روزہ افطار کرنا مستحب ہے

محمد بن عمر بن علی مقدمی، سعید بن عامر، شعبہ، عبدالرحمن بن صہیب، انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص کھجور پائے وہ اس سے روزہ افطار کرے اور جب کھجور نہ ہو تو وہ پانی سے افطار کرے کیونکہ پانی پاک کرنے والا ہے اس باب میں سلمان بن عامر سے بھی روایت ہے کہ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں انس کی حدیث کو سعید بن عامر مکی کے علاوہ کسی اور کے شعبہ سے اس طرح روایت کرنے کا ہمیں علم نہیں اور یہ حدیث غیر محفوظ ہے ہم اسے عبدالعزیز بن صہیب اسے انس سے روایت کرتے ہیں شعبہ کے ساتھی بھی حدیث شعبہ سے وہ عاصم احوال سے وہ حفصہ بنت سیرین سے وہ رباب سے وہ سلمان بن عامر سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں اور یہ روایت سعید بن عامر کی روایت سے اصح ہے اسی طرح یہ حضرات شعبہ بن عامر کی روایت سے اصح ہے اسی طرح یہ حضرات شعبہ سے وہ عاصم وہ حفصہ بنت سیرین اور وہ سلیمان بن عامر سے بھی روایت کرتے ہیں اور رباب کا نام ذکر نہیں کرتے پس صحیح روایت سفیان ثوری کی ہی ہے سفیان ثوری ابن عیینہ اور کئی حضرات سے وہ عاصم احوال سے وہ حفصہ بنت سیرین وہ رباب اور وہ سلیمان بن عامر اور ابن عون سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم سے ام رائح بنت صلیع سلمان بن عامر کے حوالے سے روایت کرتی ہیں رباب رائح کی والدہ ہیں

٭٭ محمود بن غیلان، وکیع، سفیان عاصم احول، ہناد، ابو معاویہ، عاصم حفصہ بنت سیرین، رباب، سلمان بن عامر ضبی سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر تم میں سے کوئی افطار کرے تو کھجور سے کرے اگر کھجور نہ ہو تو پانی سے افطار کرے کیونکہ وہ پاک کرنے والا ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے

٭٭ محمد بن رافع، عبدالرحمن، جعفر بن سلیمان، ثابت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے پہلے چند تازہ کھجوروں سے روزہ افطار کرتے اگر تازہ کھجور نہ ہوتیں تو خشک کھجوروں سے روزہ کھولتے اور اگر یہ بھی نہ ہوتیں تو پانی کے چند گھونٹ سے افطار کرتے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن غریب ہے

عید الفطر اس دن جس دن سب افطار کرین اور عید الاضحیٰ اس دن جس دن سب قربانی کریں

محمد بن اسماعیل ابراہیم بن منذر، اسحاق بن جعفر بن محمد، عبداللہ بن جعفر، عثمان بن محمد، مقبری، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا روزہ اس دن ہے جب تم سب روزہ رکھو عیدالفطر اس روز ہے جب تم سب افطار کرو اور عید الاضحی اس دن ہے جس دن تم سب قربانی کرو امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث غریب حسن ہے بعض علماء نے اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ رمضان اور عیدین میں جماعت فرض ہے اور تمام لوگوں کا اس کے لئے اہتمام ضروری ہے

جب رات سامنے آئے اور دن گزرے تو افطار کرنا چاہئے

ہارون بن اسحاق ہمدانی، عبدہ، ہشام بن عروہ، عاصم بن عمر، عمر بن خطاب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب رات آ جائے دن چلا جائے اور سورج غروب ہو جائے تو افطار کرو اس باب میں ابن ابی اوفی اور ابو سعید سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث عمر حسن صحیح ہے

جلدی روزہ کھولنا

بندار، عبدالرحمن بن مہدی، سفیان ابو حازم، ابو مصعب، مالک بن انس، ابو حازم، سہل بن سعد سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تک لوگ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے ہمیشہ بھلائی سے رہیں گے اس باب میں ابو ہریرہ ابن عباس عائشہ اور انس بن مالک سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں سہل بن سعد کی حدیث حسن صحیح ہے اور اسی کو اختیار کیا ہے علماء صحابہ وغیرہ نے کہ جلدی روزہ افطار کرنا مستحب ہے امام شافعی احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے

٭٭ اسحاق بن موسیٰ انصاری، ولید بن مسلم، اوزاعی، قرہ، زہری، ابو سلمہ ابو ہریرہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالی فرماتا ہے میرے نزدیک محبوب ترین بندہ وہ ہے جو افطار میں جلدی کرتا ہے

٭٭ عبد اللہ بن عبدالرحمن، ابو عاصم، ابو مغیرہ، اوزاعی سے اسی کی مثل روایت کی ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن غریب ہے

٭٭ ہناد، ابو معاویہ، اعمش، عمارہ بن عمیر، ابو عطیہ سے روایت ہے کہ میں اور مسروق حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا ام المومنین کے دو صحابی ایسے ہیں کہ جن میں سے ایک افطار بھی جلدی کرتے اور نماز بھی جلدی پڑھتے ہیں جب کہ دوسرے افطار اور نماز دونوں میں تاخیر کرتے ہیں حضرت عائشہ نے فرمایا افطار اور نماز میں جلدی کون کرتا ہے نے عرض کیا عبداللہ بن مسعود حضرت عائشہ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی اسی طرح کیا کرتے تھے دوسرے جو صحابی تاخیر کرتے ہیں وہ ابو موسیٰ ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے ابوعطیہ کا نام مالک بن ابو عامر ہمدانی ہے انہیں مالک بن عامر ہمدانی بھی کہا جاتا ہے اور یہی صحیح ہے

سحری میں تاخیر کرنا

یحیی بن موسی، ابو داؤد طیالسی، ہشام دستوائی، قتادہ، انس، زید بن ثابت سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ سحری کی پھر نماز کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے راوی کہتے ہیں میں نے پوچھا کہ کھانے اور نماز میں کتنا وقفہ ہو گا تو حضرت زید نے فرمایا پچاس آیتیں پڑھنے کا

٭٭ ہناد، وکیع، ہشام ہم سے روایت کی وکیع نے ہشام سے اسی حدیث کی مثل لیکن اس قرات کے الفاظ زیادہ ہیں اس باب میں حذیفہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ زید بن ثابت کی حدیث حسن صحیح ہے امام شافعی احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے کہ سحری میں تاخیر کرنا مستحب ہے

صبح صادق کی تحقیق

ہناد، ملازم بن عمرو، عبداللہ بن نعمان، قیس بن طلق بن علی، ابو طلق بن علی سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا رمضان کی شب میں کھاؤ پیو اور چڑھتی ہوئی روشنی تمہیں گھبراہٹ میں مبتلا نہ کرے پس اس پر کھانا پینا نہ چھوڑو یہاں تک کہ شفق احمر ظاہر ہو جائے اس باب میں عدی بن حاتم ابو ذر اور سمرہ سے بھی روایات اس سند سے حسن غریب ہے اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے کہ شفق احمر کے ظاہر ہونے تک روزہ دار کے لئے کھانا پینا جائز ہے اور یہ اکثر علماء کا قول ہے

٭٭ ہناد، یوسف بن عیسی، وکیع، ابو ہلال، سوادہ بن حنظلہ، سمرہ بن جندب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سحری کھانے سے بلال کی اذان اور لمبی فجر یعنی صبح کاذب کی وجہ سے باز نہ آؤ اور پھیلی ہوئی فجر یعنی صبح صادق کے ظاہر ہونے پر کھانا پینا چھوڑ دو امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن ہے

جو روزہ دار غیبت کرے اس کی برائی

ابوموسی، محمد بن مثنی، عثمان بن عمر، ابن ابی ذئب، سعید مقبری، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص جھوٹی باتیں اور ان پر عمل کرنا نہ چھوڑے اللہ تعالی کو اس سے کے کھانا پینا چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں اس باب میں حضرت انس سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے

سحری کھانے کی فضلیت

قتیبہ، ابو عوانہ، قتادہ، عبدالعزیز بن صہیب، انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سحری کھاؤ اس میں برکت ہے اس باب میں ابو ہریرہ عبداللہ بن مسعود جابر بن عبداللہ ابن عباس عمرو بن عاص عرباض بن ساریہ عتبہ بن عبد اور ابو درداء سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ حضرت انس کی حدیث حسن صحیح ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں صرف سحری کا فرق ہے

٭٭ قتیبہ، لیث، موسیٰ بن علی، ابو قیس، عمرو بن عاص سے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اور یہ حدیث حسن صحیح ہے اہل مصر کہتے ہیں کہ موسیٰ بن علی راوی کا نام اور عراق والے کہتے ہیں کہ موسیٰ بن علی اور موسیٰ علی بن رباح لحمی کے بیٹے ہیں

سفر میں روزہ رکھنا مکروہ ہے

قتیبہ، عبدالعزیز بن محمد، جعفر بن محمد، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فتح مکہ کے سال مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے روزہ رکھا یہاں تک کہ کراع الغمیم کے مقام تک پہنچے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ لوگوں نے بھی روزے رکھے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا گیا کہ لوگوں پر روزہ بھاری ہو گیا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فعل کے منتظر ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عصر کے بعد پانی کا پیالہ منگوایا اور پی لیا لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھ رہے تھے پس بعض نے روزہ افطار کر لیا اور بعض نے مکمل کیا جب یہ خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پہنچی کہ کچھ لوگوں نے پھر بھی روزہ نہیں توڑا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ لوگ نا فرمان ہیں اس باب میں کعب بن عاصم ابن عباس اور ابو ہریرہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ جابر کی حدیث حسن صحیح ہے اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیکی نہیں اہل علم کا سفر میں روزہ رکھنے کے بارے میں اختلاف ہے بعض صحابہ وغیرہ کے نزدیک سفر میں روزہ رکھنا افضل ہے یہاں تک کہ بعض حضرات کہتے ہیں کہ اگر سفر میں روزہ نہ رکھے تو دوبارہ رکھنا پڑے گا امام احمد اور اسحاق بھی سفر میں روزہ نہ رکھنے کو پسند کرتے ہیں بعض علماء صحابہ اس بات کے قائل ہیں کہ اگر قوت ہو تو روزہ رکھے اور یہی افضل ہے اور اگر نہ رکھے تب بھی بہتر ہے عبداللہ بن مبارک اور مالک بن انس کا بھی یہی قول ہے امام شافعی فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں اور اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ وہ نافرمان ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اس وقت ہے جب اس کا دل اللہ کی طرف سے دی گئی رخصت پر راضی نہ ہو لیکن جو شخص افطار کو جائز سمجھتا ہو اور اسے طاقت بھی ہو تو اس کا روزہ مجھے پسند ہے

سفر میں روزہ رکھنے کی اجازت

ہارون بن اسحاق ہمدانی، عبدہ بن سلیمان، ہشام بن عروہ، عائشہ سے روایت ہے کہ حمزہ بن عمرو اسلمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سفر میں روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا اور وہ مسلسل روزے رکھا کرتے تھے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا چاہو روزے رکھو اور چاہو نہ رکھو اس باب میں انس بن مالک ابو سعید عبداللہ بن مسعود عبداللہ بن عمرو ابو دردا اور حمزہ بن عمرو اسلمی سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ کی حمزہ بن عمرو اسلمی والی حدیث حسن صحیح ہے

٭٭ نصربن علی جہضمی، بشر بن مفضل، سعید بن یزید، ابو مسلمہ، ابو نضرہ، ابو سعید سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ رمضان میں سفر کیا کرتے تھے پس کوئی بھی برا نہ کہتا تھا روزہ رکھنے والے کے روزے کو افطار کرنے والے کے افطار کو

٭٭ نصر بن علی، یزید بن زریع، جریری، سفیان بن وکیع، عبدالاعلی، جریری ابو نضرہ، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ سفر کرتے تو ہم میں سے بعض کا روزہ ہوتا اور بعض بغیر روزے کے ہوتے پس نہ روزہ دار بغیر روزے دار پر اور نہ ہی بے روزہ روزہ دار پر غصے ہوتا بلکہ وہ جانتے تھے کہ جس میں طاقت ہو اور روزہ رکھے وہ بہتر ہے اور جو ضعیف ہونے کی وجہ سے روزہ نہ رکھے اس نے بھی اچھا کیا امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے

لڑنے والے کے لئے افطار کی اجازت

قتیبہ، ابن لہیعہ، یزید بن ابو حبیب، معمر بن ابو حییہ، ابن مسیب سے سفر میں روزہ رکھنے کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے بیان کیا کہ عمر بن خطاب فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ رمضان میں دو جنگیں لڑیں غزوہ بدر اور غزوہ فتح مکہ ان دونوں جنگوں میں ہم نے روزہ نہیں رکھا اس باب میں حضرت ابو سعید سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ ہم عمر کی حدیث کو اس سند کے علاوہ نہیں جانتے ابو سعید سے بھی یہ مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک غزوہ میں افطار کا حکم بھی دیا تھا اور حضرت عمر بن خطاب سے بھی مروی ہے کہ وہ بھی دشمن سے مقابلے کے وقت افطار کی اجازت دیتے تھے بعض اہل علم کا یہی قول ہے

حاملہ اور دودھ پلانے والی کے لئے افطار کی اجازت ہے

ابوکریب، یوسف بن عیسیٰ وکیع، ابو ہلال، عبداللہ بن کعب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لشکرنے ہمارے قبیلہ پر حملہ کیا میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھانا کھا رہے تھے فرمایا قریب ہو جاؤ اور کھاؤ میں نے کہا میں روزے سے ہوں فرمایا قریب آؤ میں تمہیں روزے کے بارے میں بتاؤں اللہ تعالی نے مسافر کے لئے آدھی نماز اور حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کے لئے روزہ معاف کر دیا ہے اللہ کی قسم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حاملہ اور دودھ پلانے والی دونوں یا ایک کا ذکر کیا مجھے اپنے اوپر افسوس ہے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ کھانا کیوں نہیں کھایا اس باب میں ابو امیہ سے بھی روایت ہے کہ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ انس بن مالک کعبی کی حدیث حسن ہے اور ہم انس بن مالک کعبی کی اس روایت کے علاوہ کوئی حدیث نہیں جانتے بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ حاملہ اور مرضعہ دونوں روزہ نہ رکھیں پھر قضا کریں اور اس کے ساتھ ہی صدقہ فطر کے برابر فقیروں کو ہر روزے کے بدلے میں کھانا بھی کھلائیں سفیان ثوری مالک شافعی اور احمد بھی یہی کہتے ہیں بعض اہل علم کہتے ہیں کہ دونوں افطاری کریں اور مسکینوں کو کھانا کھلائیں اور ان دونوں پر قضا نہیں ہے اور اگر چاہیں تو قضا کر لیں اور اس صورت میں مسکینوں کو کھانا کھلانا ضروری نہیں اسحاق کا بھی یہی قول ہے

میت کی طرف سے روزہ رکھنا

ابوسعید اشج، ابو خالد، اعمش، سلمہ بن کہیل، سعید بن جبیر، عطاء، مجاہد، ابن عباس سے روایت ہے کہ ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میری بہن فوت ہو گئی ہے اور اس کے متواتر دو مہینے کے روزے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بتاؤ اگر تمہاری بہن پر قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتی اس نے کہا ہاں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالی کا حق ادائیگی کا اس سے زیادہ مستحق ہے اس باب میں حضرت بریدہ ابن عمر اور عائشہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ فرماتے ہیں کہ ابن عباس کی حدی حسن صحیح ہے

٭٭ ابوکریب، ابو خالدالاحمر، اعمش سے اسی سند سے اسی حدیث کی مثل روایت کرتے ہیں امام محمد بن اسماعیل بخاری فرماتے ہیں کہ ابو خالد کی روایت کی مثل کئی دوسرے روایوں نے بھی حدیث بیان کیا ہے امام ترمذی فرماتے ہیں کہ ابو معاویہ اور کئی دوسرے راویوں نے یہ حدیث اعمش سے وہ مسلم بطین سے وہ سعید بن جبیر سے اور وہ ابن عباس سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں لیکن اس میں سلمہ بن کہیل عطاء اور مجاہد کے واسطے کا ذکر نہیں کرتے

روزوں کا کفارہ

قتیبہ، عبثر، اشعث، محمد، نافع، ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر کوئی فوت ہو جائے اور اس پر ایک مہینے کے روزے باقی ہوں تو اس کے بدلے ہر روزے کے مقابلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ ابن عمر کی حدیث کو ہم اس سند کے علاوہ مرفوع نہیں جانتے اور صحیح یہی ہے کہ ابن عمر پر موقوف ہے اور انہی کا قول ہے اس مسئلے میں اہل علم کا اختلاف ہے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ میت کی طرف سے روزے رکھے جائیں امام احمد اور اسحاق بھی یہی کہتے ہیں کہ اگر میت کے ذمہ نذر کے روزے ہوں تو اس کی طرف سے روزے رکھے جائیں اور اگر رمضان کے روزے ہوں تو مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے امام مالک شافعی اور سفیان کہتے ہیں کہ کوئی کسی کی طرف سے روزے نہ رکھے اشعث سوار کے بیٹے ہیں اور محمد وہ محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلی ہیں

صائم جس کو قے آ جائے

محمد بن عبید المحاربی، عبدالرحمن بن زید بن اسلم، عطاء بن یسار، ابو سعید خدری روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تین چیزوں سے روزہ نہیں ٹوٹتا حجامت قے اور احتلام امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ ابو سعید خدری کی حدیث غیر محفوظ ہے عبداللہ بن زید بن اسلم عبدالعزیز بن محمد کئی راویوں نے یہ حدیث زید بن اسلم سے مرسلاً روایت کی ہے اور ابو سعید کا ذکر نہیں کیا عبدالرحمن بن زید بن اسلم ضعیف ہیں امام تر مذی فرماتے ہیں کہ میں نے ابو داؤد سجزی سے سنا کہ انہوں نے احمد بن حنبل سے عبدالرحمن بن زید بن اسلم کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا اس کے بھائی عبداللہ بن زید میں کوئی حرج نہیں میں نے امام محمد بن اسماعیل بخاری سے سنا انہوں نے علی بن عبداللہ سے نقل کیا کہ عبداللہ بن زید بن اسلم ثقہ ہیں اور عبدالرحمن بن زید بن اسلم ضعیف ہیں امام بخاری کہتے ہیں کہ میں ان سے روایت نہیں کرتا

روزے میں عمداً قے کرنا

علی بن حجر، عیسیٰ بن یونس، ہشام بن حسان، ابن سیرین، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جسے خود بخود قے آ جائے اس پر قضا واجب نہیں اور جو جان بوجھ کر قے کرے اسے قضا روزہ رکھنا چاہئے اس باب میں ابو درداء ثوبان اور فضالہ بن عبید سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ ابو ہریرہ کی حدیث حسن غریب ہے ہم اسے ہشام کی ابن سیرین اور ان کی ابو ہریرہ سے روایت کے متعلق عیسیٰ بن یونس کی حدیث کے علاوہ نہیں جانتے امام محمد بن اسماعیل بخاری فرماتے ہیں یہ محفوظ نہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث کئی سندوں سے حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں اس کی سند صحیح نہیں ابو درداء ثوبان اور فضالہ بن عبید سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قے فرمائی اور روزہ توڑ دیا اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نفلی روزے سے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو قے آئی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کمزوری محسوس کرتے ہوئے روزہ کھول دیا بعض احادیث میں اس کی وضاحت اس طرح ہے اہل علم کا حدیث ابو ہریرہ پر عمل ہے کہ خود بخود قے پر قضا نہیں البتہ اگر جان بوجھ کر قے کرے تو قضاء ہے امام شافعی سفیان ثوری احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے

روزے میں بھول کر کھانا پینا

ابوسعید اشج، ابو خالد الاحمر، حجاج، قتادہ، ابن سیرین، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے روزے میں بھول کر کھایا پیا وہ روزہ نہ توڑے اس نے جو کچھ کھایا پیا وہ تو اللہ کی طرف سے عطا کردہ رزق ہے

٭٭ ابوسعید، ابو اسامہ، عوف، ابن سیرین، خلاس، ابو ہریرہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس حدیث کی مثل روایت کی اس باب میں ابو سعید اور ام اسحاق غنویہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے اسی پر اکثر اہل علم کا عمل ہے سفیان ثوری شافعی احمد اور اسحاق بھی یہی کہتے ہیں اسحاق فرماتے ہیں کہ اگر بھول کر کچھ کھا پی لے تب بھی قضا کرنا ہو گی لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے

قصداً روزہ توڑنا

بندار، یحیی بن سعید، عبدالرحمن بن مہدی، سفیان، حبیب بن ابو ثابت، ابو مطوس، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے رمضان میں بغیر عذر یا مرض کے روزہ افطار کیا وہ اگر ساری عمر بھی روزے رکھے تب بھی اس ایک روزے کے برابر ثواب حاصل نہیں کر سکتا امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ حدیث ابو ہریرہ کو ہم اس سند کے علاوہ نہیں جانتے میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے سنا ہے وہ فرماتے ہیں ابو المطوس کا نام یزید بن مطوس ہے اور میں ان کی اس حدیث کے علاوہ کوئی حدیث نہیں جانتا

 

 

رمضان میں روزہ توڑنے کا کفارہ

نصربن علی جہضمی، ابو عمار، سفیان بن عیینہ، زہری، حمید بن عبدالرحمن، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا اور عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں ہلاک ہو گیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہیں کس چیز نے ہلاک کیا اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں نے رمضان کے روزے کے دوران اپنی بیوی سے صحبت کر لی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم ایک غلام آزاد کر سکتے ہو اس نے عرض کیا نہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تم دو مہینے متواتر روزے رکھ سکتے ہو اس نے کہا نہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تم ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتے ہو اس نے عرض کی نہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بیٹھ جاؤ وہ بیٹھ گیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس کھجوروں کا ایک ٹوکرا لایا گیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اسے صدقہ کر دو اس شخص نے کہا مدینہ کے لوگوں میں مجھ سے زیادہ کوئی فقیر نہیں ہو گا حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تبسم فرمایا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے انیاب نظر آنے لگے پہر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جاؤ اسے اپنے گھر والوں کو کھلا دو اس باب میں ابن عمر عائشہ اور عبداللہ بن عمر سے روایت ہے امام ترمذی کہتے ہیں کہ ابو ہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے اور اسی پر علماء کا عمل ہے جو شخص جماع سے روزہ توڑ دے اور جو شخص کھانے پینے سے روزہ توڑ دے ان کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے بعض اہل علم کے نزدیک اس پر قضاء اور کفارہ دونوں واجب ہیں اور جماع اور کھانے پینے میں کوئی فرق نہیں اسحاق سفیان ثوری اور ابن مبارک کا یہی قول ہے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اس پر صرف قضاء ہے کفارہ نہیں اس لئے کہ صرف جماع پر ہی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کفارہ ادا کرنے کا حکم مروی ہے کھانے پینے میں نہیں ان علماء کے نزدیک کھانے پی نے اور جماع میں کوئی مشابہت نہیں لہذا ان دونوں کو حکم بھی ایک نہیں ہو سکتا یہ شافعی اور احمد کا قول ہے امام شافعی فرماتے ہیں اس حدیث میں اس شخص کو وہ کھجوریں اپنے اہل و عیال کو کھلانے میں کئی احتمال ہیں ایک یہ کہ کفارہ اسی پر واجب ہوتا ہے جس میں قدرت ہو اور اس شخص میں اس کی قدرت نہیں تھی پھر جب وہ ٹوکرا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو دیا تو اس نے عرض کی کہ مجھ سے زیادہ محتاج کوئی نہیں پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے حکم دیا کہ لے جاؤ اور اپنے اہل و عیال کو کھلاؤ یہ حکم اس لئے تھا کہ کفارہ کا وجوب اسی صورت میں ممکن ہے کہ اس کے پاس حاجت سے زیادہ مال ہو امام شافعی اس مسئلے میں یہ مذہب اختیار کرتے ہیں کہ ایسے آدمی پر کفارہ قرض ہو گا جب اسے طاقت ہو کفارہ ادا کر دے

روزے میں مسواک کرنا

محمد بن بشار، عبدالرحمن بن مہدی، سفیان، عاصم بن عبید اللہ، عبداللہ بن عامر بن ربیعہ، اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے متعد د بار روزے کی حالت میں مسواک کرتے دیکھا ہے اس باب میں حضرت عائشہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ حدیث عامر بن ربیعہ حسن ہے اور علماء کا اس پر عمل ہے کہ روزے میں مسواک کرنے میں کوئی حرج نہیں بعض اہل علم روزہ دار کے لئے ہر گیلی، لکڑی کو مکروہ کہتے ہیں بعض علماء نے دن کے آخری حصے میں مسواک کرنے کو مکروہ کہا ہے اسحاق اور احمد کا بھی یہی قول ہے امام شافعی کے نزدیک دن کے کسی بھی حصے میں مسواک کرنے میں کوئی حرج نہیں

روزے میں سرمہ لگانے کے بارے میں

عبدالاعلی بن واصل، حسن بن عطیہ، ابو عاتکہ، انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا اور عرض کرنے لگا کہ میری آنکھیں خراب ہو گئیں ہیں کیا میں روزے کی حالت میں سرمہ لگا سکتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں امام ترمذی فرماتے ہیں انس کی حدیث کی سند قوی نہیں اس باب میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی کوئی حدیث صحیح نہیں اور ابو عاتکہ ضعیف ہیں اہل علم کا روزے میں سرمہ لگانے میں اختلاف ہے بعض اسے مکروہ سمجھتے ہیں جن میں سفیان ثوری ابن مبارک احمد اور اسحاق شامل ہیں بعض اہل علم نے اس کی رخصت دی ہے اور یہ امام شافعی کا قول ہے

 

روزے میں بوسہ لینا

ہناد، قتیبہ، ابو الاحوص، زیاد بن علاقہ، عمرو بن میمون، عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رمضان کے مہینے میں بوسہ لیا کرتے تھے اس باب میں حضرت عمر بن خطاب حفصہ ابو سعید ام سلمہ ابن عباس انس اور ابو ہریرہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث عائشہ حسن صحیح ہے اہل علم کا روزے میں بوسہ لینے کے متعلق اختلاف ہے بعض صحابہ نے اس کی صرف بوڑھے شخص کو اجازت دی ہے اور جو ان کو اس کی اجازت نہیں دی اس لئے کہ کہیں اس کا روزہ نہ ٹوٹ جائے اور مباشرت ان حضرات کے نزدیک ممنوع ہے بعض اہل علم کہتے ہیں کہا اس سے روزے کے اجر میں کمی آ جاتی ہے لیکن روزہ نہیں ٹوٹتا ان کے نزدیک اگر روزہ دار کو اپنے نفس پر قدرت ہو تو اس کے لئے بوسہ لینا جائز ہے ورنہ نہیں تاکہ اس کا روزہ محفوظ رہے سفیان ثوری اور شافعی کا یہی قول ہے

روزہ میں بوس و کنار کرنا

ابن ابو عمر، وکیع، اسرائیل، ابو اسحاق ، ابو میسرہ، عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم روزے میں مجھ سے بوس و کنار کرتے تھے اور وہ تم سب سے زیادہ اپنی شہوت پر قابو رکھنے والے تھے

٭٭ ہناد، ابو معاویہ، اعمش، ابراہیم، علقمہ، اسود، عائشہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم روزے کی حالت میں بوسہ لیتے اور مباشرت کرتے لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تم سب سے زیادہ شہوت پر قابو پانے والے تھے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے اور ابو میسرہ کا نام عمر بن شرحبیل ہے

اس کا روزہ درست نہیں جو رات سے نیت نہ کرے

اسحاق بن منصور، ابن ابو مریم، یحیی بن ایوب، عبداللہ بن ابو بکر، ابن شہاب، سالم بن عبد اللہ، حفصہ کہتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص صبح صادق سے پہلے روزے کی نیت نہ کرے اس کا روزہ نہیں ہوتا ابو امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ حفصہ کی حدیث ہم اس سند کے علاوہ مرفوع نہیں جاتے یہ نافع سے بواسطہ ابن عمر انہی کا قول مروی ہے اور وہ اصح ہے اس حدیث کا بعض اہل علم کے نزدیک یہ معنی ہے کہ جو شخص رمضان قضاء رمضان یا نذر وغیرہ کے روزے کی نیت صبح صادق سے پہلے نہ کرے تو اس کا روزہ نہیں ہوتا لیکن نفلی روزوں میں صبح کے بعد بھی نیت کر سکتا ہے امام شافعی احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے

نفل روزہ توڑنا

قتیبہ، ابو الاحوص، سماک بن حرب، ابن ام ہانی سے روایت ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بیٹھی ہوئی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں کوئی پینے والی چیز پیش کی گئی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس میں سے پیا پھر مجھے دیا میں نے بھی پیا پھر میں نے کہا مجھ سے گناہ سرزد ہو گیا پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میرے لئے استغفار کیجئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا گناہ ہوا میں نے کہا میں روزے سے تھی اور روزہ ٹوٹ گیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تو نے قضا روزہ رکھا تھا میں نے کہا نہیں پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں اس باب میں ابو سعید اور عائشہ سے بھی روایت ہے کہ اور ام ہانی کی حدیث میں کلام ہے بعض اہل علم صحابہ وغیرہ کا اسی پر عمل ہے کہ اگر کوئی آدمی نفلی روزہ توڑے دے تو اس پر قضاء واجب نہیں البتہ اگر وہ چاہے تو قضاء کر لے سفیان ثوری احمد اسحاق اور شافعی کا یہ قول ہے

٭٭ محمود بن غیلان، ابو داؤد، شعبہ، سماک بن حرب نے ام ہانی کی اولاد نے کسی سے یہ حدیث سنی اور پھر ان میں سے افضل ترین شخص جعدہ سے ملاقات کی ام ہانی ان کی دادی ہیں پس وہ اپنی دادی سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے پاس آئے اور کچھ پینے کے لئے طلب کیا اور پیا پھر ام ہانی کو دیا تو انہوں نے بھی پیا پھر انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں تو روزے سے تھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نفلی روزہ رکھنے والا اپنے نفس کا امین ہوتا ہے اگر چاہے تو روزہ رکھے اور چاہے تو افطار کر لے شعبہ نے کہا کیا تم نے خود یہ ام ہانی سے سنا تو جعدہ نے کہا نہیں مجھے یہ واقعہ میرے گھر والوں اور ابو صالح نے سنایا ہے حماد بن سلمہ یہ حدیث سماک سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ام ہانی کے نواسے ہارون اپنی نانی ام ہانی سے روایت کرتے ہیں اور شعبہ کی روایت حسن ہے محمود بن غیلان نے ابو داؤد کے حوالے سے روایت کرتے ہیں محمود کے علاوہ دوسرے راویوں نے ابو داؤد سے شک کے ساتھ أَمِیرُ نَفْسِہِ یا أَمِینُ نَفْسِہِ کے الفاظ نقل کئے ہیں اسی کئی طرق سے شعبہ سے راوی کا یہی شک مروی ہے کہ امیر نفسہ یا أَمِینُ نَفْسِہِ ہے

٭٭ ہناد، وکیع، طلحہ بن یحیی، عائشہ بنت طلحہ، عائشہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گھر میں داخل ہوئے اور پوچھا کہ کھانے کے لئے کوئی چیز ہے میں نے عرض کیا نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں روزے سے ہوں

٭٭ محمود بن غیلان، بشربن سری، سفیان، طلحہ بن یحیی، عائشہ بنت طلحہ، عائشہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب دن میں میرے ہاں آتے تو پوچھتے کہ کچھ کھانے کے لئے ہے اگر میں کہتی نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے میں روزے سے ہوں پس ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آئے تو میں نے عرض کیا آج ہمارے ہاں کھانا ہدیے کے طور پر آیا ہے پوچھا کیا ہے میں نے کہا حیس ہے فرمایا میں نے تو صبح روزے کی نیت کر لی تھی حضرت عائشہ فرماتی ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے کھایا امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن ہے

نفل روزے کی قضا واجب ہے

احمد بن منیع، کثیر بن ہشام، جعفر بن برقان، زہری، عروہ، عائشہ سے روایت ہے کہ میں اور حفصہ روزے سے تھیں کہ ہمیں کھانا پیش کیا گیا ہمارا جی چاہا کہ ہم کھالیں پس ہم نے اس میں سے کچھ لیا پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے حفصہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھنے میں مجھ سے سبقت لے گئیں کیونکہ وہ تو اپنے باپ کی بیٹھی تھیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم دونوں روزے سے تھیں کہ کھانا آ گیا اور اسے دیکھ کر ہمارا کھانے کو جی چاہا پس ہم نے اس میں سے کھا لیا فرمایا اس روزے کے بدلے کسی دوسرے دن قضاء میں روزہ رکھو امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ صالح بن ابو اخضر اور محمد بن ابو حفصہ بھی یہ حدیث زہری سے وہ عروہ سے اور وہ حضرت عائشہ سے اس کی مثل روایت کرتے ہیں مالک بن انس معمر عبداللہ بن عمر زیاد بن سعد اور کئی حفاظ حدیث زہری سے بحوالہ عائشہ مرسلاً روایت کرتے ہیں اور اپنی روایت میں عروہ کا ذکر نہیں کرتے یہ حدیث اصح ہے اس لئے کہ جریج نے زہری سے پوچھا کہ کیا آپ سے عروہ نے عائشہ کے حوالے سے کوئی حدیث روایت کی ہے تو انہوں نے کہا میں نے اس کے متعلق عروہ سے کوئی چیز نہیں سنی البتہ سلیمان بن عبدالملک کے دور حکومت میں لوگوں سے ان حضرات کا قول سنا جنہوں نے حضرت عائشہ سے اس حدیث کے بارے میں سوال کیا تھا

٭٭ علی بن عیسیٰ بن یزید بغدادی، روح بن عبادہ، ابن جریج نے علماء صحابہ وغیرہ کی ایک جماعت اسی حدیث پر عمل پیرا ہے ان کے نزدیک نفلی روزہ توڑنے والے پر قضا واجب ہے یہ مالک بن انس کا قول ہے

شعبان اور رمضان کے روزے ملا کر رکھنا

بندار عبدالرحمن بن مہدی، سفیان، منصور، سالم بن ابو جعد، ابو سلمہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو رمضان اور شعبان کے علاوہ دو مہینے متواتر روزے رکھتے نہیں دیکھا اس باب میں حضرت عائشہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ حدیث ام سلمہ حسن ہے یہ حدیث ام سلمہ سے بھی حضرت عائشہ کے واسطے سے مروی ہے حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس ماہ کے اکثر دنوں میں روزے رکھتے بلکہ پور مہینہ روزہ رکھتے تھے

٭٭ ہناد، عبدہ، محمد بن عمرو، ابو سلمہ عائشہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کی ہے سالم بن ابو النضر اور کئی راوی بھی ابو سلمہ سے بحوالہ حضرت عائشہ محمد بن عمرو کی حدیث کی مثل روایت کرتے ہیں اس حدیث کے متعلق ابن مبارک سے مروی ہے کہ کلام عرب میں جائز ہے کہ اجب اکثر مہینے کے روزے رکھے جائیں تو کہا جائے کہ پورے مہینے کے روزے رکھے چنانچہ کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص پوری رات کھڑا رہا حالانکہ ہو سکتا ہے اس نے رات کا کھانا کھایا ہو کسی اور کام میں مشغول ہو ابن مبارک کے نزدیک ام سلمہ اور حضرت عائشہ دونوں کی حدیث ایک ہی ہیں اور اس سے مراد یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مہینے کے اکثر دونوں کے روزے رکھتے تھے

تعظیم رمضان کے لئے شعبان کے دوسرے پندرہ دنوں میں روزے رکھنا مکروہ ہے

قتیبہ، عبد العزیز بن محمد، علاء بن عبدالرحمن ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب شعبان کا مہینہ آدھا رہ جائے تو روزہ نہ رکھا کرو امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث ابو ہریرہ حسن صحیح ہے اور ہم اس حدیث کو اس سند اور ان الفاظ ہی سے جانتے ہیں بعض اہل علم کے نزدیک اس کا معنی یہ ہے کہ کوئی شخص روزے نہیں رکھ رہا تھا پھر جب شعبان کے کچھ دن باقی رہ گئے تو اس نے روزے رکھنا شروع کر دئیے اس کی مثل حضرت ابو ہریرہ سے دوسری حدیث مروی ہے اور یہ ایسا ہی ہے جیسے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ رمضان سے پہلے روزہ نہ رکھو البتہ اگر کوئی اس سے پہلے روزہ رکھنے کا عادی ہو اور یہ روزہ ان دنوں میں آ جائے پس یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کراہت اس صورت میں ہے کہ آدمی رمضان کی تعظیم استقبال کے لئے شعبان کے دوسرے پندرہ دنوں میں روزے رکھے

شعبان کی پندرھویں رات

احمد بن منیع، یزید بن ہارون، حجاج بن ارطاہ، یحیی بن ابو کثیر، عروہ، عائشہ سے روایت ہے کہ ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نہ پایا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تلاش میں نکلی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بقیع میں تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تم ڈر رہی تھی کہ اللہ اور اسکا رسول تم پر ظلم نہ کریں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں نے سمجھا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی دوسری بیوی کے پاس تشریف لے گئے ہوں گے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالی شعبان کی پندرھویں رات کو آسمان دنیا پر اترتے ہیں اور بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ تعداد میں لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں اس باب میں حضرت ابو بکر صدیق سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ ہم حدیث عائشہ کو حجاج کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں امام بخاری نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے امام بخاری کہتے ہیں کہ یحیی بن کثیر نے عروہ سے اور حجاج نے یحیی بن کثیر سے کوئی حدیث نہیں سنی

محرم کے روزوں کے بارے میں

قتیبہ، ابو عوانہ، ابو بشر، حمیدبن عبدالرحمن ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا رمضان کے بعد افضل ترین روزے اللہ تعالی کے مہینے محرم کے ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ حدیث ابو ہریرہ حسن ہے

٭٭ علی بن حجر، علی بن مسہر، عبدالرحمن بن اسحاق، نعمان بن سعد، علی سے نقل کرتے ہیں کہ کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رمضان کے علاوہ کون سے مہینے کے روزے رکھنے کا حکم فرماتے ہیں حضرت علی نے فرمایا میں نے صرف ایک آدمی کے علاوہ کسی کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کرتے ہوئے نہیں سنا میں اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر تھا اس نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھے رمضان کے علاوہ کون سے مہینے میں روزے رکھنے کا حکم دیتے ہیں فرمایا اگر رمضان کے بعد روزہ رکھنا چاہے تو محرم کے روزے رکھا کرو کیونکہ یہ اللہ کا مہینہ ہے اس میں ایک ایسا دن ہے جس میں اللہ تعالی نے ایک قوم کی توبہ قبول کی تھی اور اس دن دوسری قوم کی بھی توبہ قبول کرے گا امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن غریب ہے

جمعہ کے دن روزہ رکھنا

قاسم بن دینار، عبید اللہ بن موسی، طلق بن غنام شیبان، عاصم، زر، عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر مہینے کے ابتدائی تین دن روزہ رکھتے اور جمعہ کے دن بہت کم ایسا ہوتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم روزے سے نہ ہوں اس باب میں ابن عمر اور ابو ہریرہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث عبداللہ حسن غریب ہے اہل علم کی ایک جماعت نے جمعہ کے دن روزہ رکھنے کو مستحب کہا ہے ان کے نزدیک جمعہ کا روزہ اس صورت میں رکھنا کہ اس سے پہلے اور بعد کوئی روزہ نہ رکھے تو یہ مکروہ ہے یہ حدیث شعبہ نے عاصم سے موقوف روایت کی ہے

صرف جمعہ کے دن روزہ رکھنا مکروہ ہے

ہناد، ابو معاویہ، اعمش، ابو صالح، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں سے کوئی صرف جمعہ کا روزہ نہ رکھے بلکہ اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی روزہ رکھے اس باب میں حضرت علی جابر ضیادہ ازدی جویریہ انس اور عبداللہ بن عمرو سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ حدیث ابو ہریرہ حسن صحیح ہے اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ کوئی شخص جمعہ کا دن روزے کے لئے مخصوص کرے کہ نہ تو اس سے پہلے روزہ رکھے اور نہ ہی بعد میں تو یہ مکروہ ہے امام احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے

ہفتے کے دن روزہ رکھنا

حمید بن مسعدہ سفیان بن حبیب، ثور بن یزید، خالد بن معدان، عبداللہ بن بسر سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہفتے کے دن فرض روزوں کے علاوہ کوئی روزہ نہ رکھا کرو پس اگر کسی کو اس دن انگور کی چھال یا کسی درخت کی لکڑی کے علاوہ کچھ نہ ملے تو اسے ہی چبا لے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن ہے اور اس دن میں کراہت کو مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص روزہ رکھنے کے لئے ہفتے کا دن مخصوص نہ کرے کیونکہ یہودی اس دن کی تعظیم کرتے ہیں

پیر اور جمعرات کو روزہ رکھنا

ابوحفص، عمرو بن علی فلاس، عبداللہ بن داؤد، ثوربن یزید، خالد بن معدان، ربیعہ جرشی، عائشہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پیر اور جمعرات کو خاص طور پر روزہ رکھتے تھے اس باب میں حضرت حفصہ ابو قتادہ اور اسامہ بن زید سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ حدیث عائشہ اس سند سے حسن غریب ہے

٭٭ محمود بن غیلان، ابو احمد، معاویہ بن ہشام، سفیان، منصور، خیثمہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک مہینے ہفتہ، اتوار اور پیر کا روزہ رکھتے اور دوسرے ماہ میں منگل، بدھ اور جمعرات کا روزہ رکھتے تھے۔ امام ابو عیسیٰ تر مذی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ حدیث مبارک حسن ہے عبد الرحمن بن مہدی نے یہ حدیث سفیان سے غیر مر فوع روایت کی ہے۔

٭٭ محمد بن یحیی، ابو عاصم، محمد بن رفاعہ، سہیل بن ابی صالح، حضرت ابو ہرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ پیر اور جمعرات کو بندوں کے اعمال بارگاہ الہی میں پیش کئے جاتے ہیں۔ میں پسند کرتا ہوں کہ میرے اعمال جب اللہ تعالی کے سامنے پیش ہوں تو میں روزہ سے ہوں۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ حدیث ابو ہریرہ اس باب میں حسن غریب ہے۔

٭٭ محمود بن غیلان، ابو احمد، معاویہ بن ہشام، سفیان، منصور، خیثمہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک مہینے ہفتہ، اتوار اور پیر کا روزہ رکھتے اور دوسرے ماہ میں منگل، بدھ اور جمعرات کا روزہ رکھتے تھے۔ امام ابو عیسیٰ تر مذی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ حدیث مبارک حسن ہے عبد الرحمن بن مہدی نے یہ حدیث سفیان سے غیر مر فوع روایت کی ہے۔

٭٭ محمد بن یحیی، ابو عاصم، محمد بن رفاعہ، سہیل بن ابی صالح، حضرت ابو ہرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ پیر اور جمعرات کو بندوں کے اعمال بارگاہ الہی میں پیش کئے جاتے ہیں۔ میں پسند کرتا ہوں کہ میرے اعمال جب اللہ تعالی کے سامنے پیش ہوں تو میں روزہ سے ہوں۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ حدیث ابو ہریرہ اس باب میں حسن غریب ہے۔

 

بدھ اور جمعرات کے دن روزہ کھنا

حسین بن محمد، محمد بن مدویہ، عبید اللہ بن موسی، ہارون بن سلیمان، حضرت عبید اللہ مسلم قریشی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے یا کسی اور نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پورا سال روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا فرمایا تمہارے گھر والوں کا بھی تم پر حق ہے پھر فرمایا رمضان کے روزے رکھو پھر شوال کے (یعنی چھ روزے) اور اس کے بعد ہر بدھ اور جمعرات کو روزہ رکھ لیا کروا گر تم نے ایسا کیا تو گویا کہ تم سارے سال کے روزے بھی رکھے اور افطار بھی کیا۔ اس باب میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے بھی روایت ہے کہ۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ مسلم قرشی کی حدیث غریب ہے۔ یہ حدیث بعض حضرات ہا رون بن سلیمان سے بحوالہ مسلم بن عبید اللہ اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں

عرفہ کے دن روزہ رکھنے کی فضیلت

قتیبہ، احمد بن عبیدہ، حماد بن زید، غیلان بن جریر، عبداللہ بن معبد، حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مجھے اللہ تعالی سے امید ہے کہ عرفہ کے دن کا روزہ رکھنے سے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہ معاف فرما دے۔ دے اس باب میں حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ ابو قتادہ کی حدیث حسن ہے۔ علماء کے نزدیک یوم عرفہ کا روزہ مستحب ہے مگر میدان عرفات میں نہ ہو۔ (یعنی جب میدان عرفات میں ہوتا مستحب نہیں)

٭٭ احمد بن منیع، اسماعیل بن علیہ، ایوب، عکرمہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عرفہ کے دن روزہ نہیں رکھا پس ام فضل رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں دودھ بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پی لیا۔ اس باب میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ اور ام فضل رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی روایت ہے۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما حسن صحیح ہے۔ کیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عرفہ کے دن روزہ نہیں رکھا اسی طرح ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ عمر رضی اللہ تعالی عنہ، اور عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی عرفہ کے دن حج میں روزہ نہ رکھنا مستحب ہے تاکہ حاجی دعاؤں وغیرہ کے وقت کمزوری محسوس نہ کری بعض اہل علم نے عرفات میں عرفہ کے دن روزہ رکھا ہے۔

باب عرفات میں عرفہ کا روزہ رکھنا مکروہ ہے

احمد بن منیع، اسماعیل بن علیہ، ایوب، عکرمہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عرفہ کے دن روزہ نہیں رکھا پس ام فضل رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں دودھ بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پی لیا۔ اس باب میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ اور ام فضل رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی روایت ہے۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما حسن صحیح ہے۔ کیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عرفہ کے دن روزہ نہیں رکھا اسی طرح ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ عمر رضی اللہ تعالی عنہ، اور عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی عرفہ کے دن حج میں روزہ نہ رکھنا مستحب ہے تاکہ حاجی دعاؤں وغیرہ کے وقت کمزوری محسوس نہ کری بعض اہل علم نے عرفات میں عرفہ کے دن روزہ رکھا ہے۔

٭٭ احمد بن منیع، علی بن حجر، سفیان بن عیینہ، اسماعیل بن ابراہیم، حضرت ابن ابی نجیح اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے عرفات میں عرفہ کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ حج کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے روزہ نہیں رکھا (یعنی عرفہ کے دن) اور اسی طرح میں نے حج کیا ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ، عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ ان میں سے کسی نے بھی اس دن کا روزہ نہیں رکھا پس میں اس دن روزہ نہیں رکھتا اور نہ ہی کسی کو اس کا حکم دیتا یا اس سے منع کرتا ہوں۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن ہے ابونجیح کا نام یسار ہے اور انہوں نے ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے یہ حدیث سنی ہے۔ ابن ابی نجیح نے اس حدیث کو ابو نجیح اور ایک دوسرے راوی کے واسطہ سے بھی حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے

باب عاشورہ کے روزہ کی ترغیب

قتیبہ، احمد بن عبدہ، حماد بن زید، غیلان بن جریر، عبداللہ بن معبد، حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص یوم عاشورہ (یعنی محرم کی دس تاریخ) کا روزہ رکھے مجھے امید ہے کہ اللہ تعالی اس کے گز شتہ سال کے تمام گناہ معاف فرما دے۔ اس باب میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ، محمد بن صفیی رضی اللہ تعالی عنہ سملہ بن اکوع رضی اللہ تعالی عنہ، ہند بن اسماء رضی اللہ تعالی عنہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما ربیع بنت معوذ بن عفرا رضی اللہ تعالی عنہ، اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی روایت ہے۔ عبد الرحمن بن سلمہ خزاعی رضی اللہ تعالی عنہ اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں۔ یہ سب حضرات فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عاشورے کے روزے کی ترغیب دی۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ ابو قتادہ کی حدیث کے قائل ہیں

باب اس بارے میں کہ عاشورے کے دن روزہ نہ رکھنا بھی جائز ہے

ہارون بن اسحاق، عبدہ بن سلیمان، ہشام بن عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ قر یش زمانہ جاہلیت میں عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی یہ روزہ رکھتے چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو خود بھی روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی اس کا حکم دیا لیکن جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو صرف رمضان کے روزے فرض رہ گئے اور عاشورہ کی فرضیت ختم ہو گئی۔ پھر جس نے چاہا رکھ لیا اور جس نے چاہا چھوڑ دیا۔ اس باب میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ قیس بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ، جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ اور معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی روایت ہے۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ اہل علم کا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی حدیث پر ہی عمل ہے اور یہ حدیث صحیح ہے۔ اہل علم کے نزدیک یکم عاشورہ کا روزہ واجب نہیں البتہ جس کا جی چاہے وہ رکھے لے کیونکہ اس کی بہت فضیلت ہے

 

باب اس برے میں کہ عاشورہ کونسا دن ہے

ہناد، ابو کریب، وکیع، حاجب بن عمر، حکم بن اعرج، ابن عباس، حکم بن اعرج سے روایت ہے کہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس گیا وہ زمزم کے پاس اپنی چادر سے تکیہ لگائے بیٹھے تھے۔ میں نے کہا کہ مجھے عاشورہ کے متعلق بتایئے کہ وہ کونسا دن ہے۔ انہوں نے فرمایا جب تم محرم کا چاند دیکھو تو دن گننا شروع کر دو اور نویں دن روزہ رکھو میں نے کہا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی اسی دن روزہ رکھا کرتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا ! ہاں

٭٭ قتیبہ، عبدالوارث، یونس، حسن، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عاشورہ کا روزہ دس محرم کو رکھنے کا حکم دیا۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے۔ اہل علم کا عاشورہ کے دن میں اختلاف ہے بعض کے نزدیک نو محرم اور بعض دس محرم کو عاشورہ کا دن کہتے ہیں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے بھی مروی ہے کہ نویں اور دسویں محرم کو روزہ رکھو اور یہودیوں کی مخالفت کرو۔ امام شافعی، احمد اور اسحاق کا یہی قول ہے

باب ذوالحجہ کے پہلے عشرے میں روزہ رکھنا

ہناد، ابو معاویہ، اعمش، ابراہیم، اسود، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی اکریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ذوالحجہ کے پہلے عشرے میں روزہ رکھتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کئی راویوں نے اس طرح اعمش سے روایت کرتے کیا ہے وہ ابراہیم سے وہ سودہ سے اور وہ عائشہ سے روایت کرتے ہیں۔ سفیان ثوری وغیرہ بھی یہ حدیث منصور سے اور وہ ابراہیم سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ذوالحجہ کے پہلے عشرے میں روزے سے نہیں دیکھا گیا۔ ابو احوص، منصور سے وہ ابراہیم سے اور عروہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کرتے ہیں اور انہوں نے اس میں اسود کا ذکر نہیں کیا۔ منصور کی روایت میں علماء کا اختلاف ہے جب کہ اعمش کی روایت اصح اور اس کی سند متصل ہے۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی کہتے ہیں کہ محمد بن ربان وکیع کے حوالے سے کہتے ہیں کہ اعمش ابراہیم کی سند کے معاملے میں میں منصور سے زیادہ احفظ ہیں

باب ذوالحجہ کے پہلے عشرے میں اعمال صالحہ کی فضیلت

ہناد، ابو معاویہ، اعمش، مسلم، ابن عمر حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں میں کئے گئے اعمال صالحہ اللہ تعالی کے نزدیک تمام ایام میں کئے گئے نیک اعمال سے زیادہ محبوب ہیں۔ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اگر ان دس دنوں کے علاوہ اللہ کی راہ میں جہاد کرے تب بھی؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ! ہاں تب بھی انہی ایام کا عمل زیادہ محبوب ہے البتہ اگر کوئی شخص اپنی جان و مال دونوں چیزیں لے کر جہاد میں نکلا اور ان میں سے کسی چیز کے ساتھ تو واپس نہ ہوا (یعنی شہید ہو گیا) تو یہ افضل ہے اس باب میں ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ ابو ہریرہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ و، اور جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ حدیث ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما حسن غریب صحیح ہے۔

٭٭ ابوبکر بن نافع، مسعود بن واصل، نہاس بن قہم، قتادہ، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ کے نزدیک ذوالحج کے پہلے دس دنوں کی عبادت تمام دنوں کی عبادت سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ ان ایام میں سے (یعنی ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں میں) ایک دن کا روزہ پورے سال کے روزوں اور رات کا قیام شب قدر کے قیام کے برابر ہے۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث غریب ہے۔ ہم اس حدیث کو مسعود بن واصل کی نہاس سے روایت کے علاوہ نہیں جانتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں میں نے امام بخاری سے اس حدیث کے متعلق پوچھا تو انہیں بھی اس سند کے علاوہ کسی اور طریق کا علم نہیں تھا ان کا کہنا ہے کہ قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ، سعید بن مسیب سے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اسی طرح کی حدیث مرسلاً روایت کرتے ہیں۔

 

 

باب شوال کے چھ روزے

احمد بن منیع، ابو معاویہ، سعد بن سعید، عمر بن ثابت، حضرت ابو ایوب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے رمضان کے روزے رکھنے کے بعد شوال میں بھی چھ روزے رکھے تو یہ عمر بھر کے روزوں کی طرح ہے۔ اس باب میں حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ، ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ اور ثوبان رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی روایت ہے۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ حدیث ابو ایوب رضی اللہ تعالی عنہ حسن صحیح ہے۔ اہل علم اس حدیث کی وجہ سے شوال کے چھ روزوں کو مستحب کہتے ہیں۔ ابن مبارک رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ یہ روزے رکھنا ہر ماہ کے تین روزے رکھنے کی طرح بہتر ہے۔ مزید کہتے ہیں کہ بعض روایات میں مروی ہے کہ ان روزوں کو رمضان کے روزوں کے ساتھ ملا کر رکھے۔ ابن مبارک کے نزدیک مہینے کے شروع سے چھ روزے رکھنا مختار ہے البتہ ان کے نزدیک شوال میں متفرق ایام میں چھ روزے رکھنا بھی جائز ہے۔ یعنی ان میں تسلسل ضروری نہیں۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ عبدالعزیز بن محمد، صفوان بن سلیم سے اور وہ سعد بن سعید سے یہ حدیث عمر بن ثابت کے حوالے سے روایت کرتے ہیں وہ ابو ایوب سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ شعبہ بھی یہ حدیث روقاء بن عمر سے اور وہ سعد سے روایت کرتے ہیں۔ سعد بن سعید، یحیی بن سعید انصاری کے بھائی ہیں۔ بعض محدثین نے سعد بن سعید کے حفظ میں کلام کیا ہے۔

باب ہر مہینے میں تین روزے رکھنا

قتیبہ، ابو عوانہ، سماک بن حرب، ابو ربیع، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے تین چیزوں کا وعدہ لیا۔ ایک یہ کہ وتر پڑھے بغیر نہ سوؤں دوسرا یہ کہ ہر مہینے کے تین روزے رکھوں اور تیسرا یہ کہ چاشت کی نماز پڑھا کروں۔

٭٭ محمود بن غیلان، ابو داؤد، شعبہ، اعمش، یحیی بن سام، حضرت موسیٰ بن طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے ابو ذر رضی اللہ عنہ سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے ابو ذر اگر تم مہینے میں تین دن روزہ رکھو تو تیرہ، چودہ، اور پندرہ تاریخ کو روزہ رکھا کرو، اس باب میں ابو قتادہ رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، قرہ بن ایاس مزنی رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، ابو عقرب رضی اللہ عنہ، ابن عباس رضی اللہ عنہما، قتادہ بن ملحان رضی اللہ عنہ، عائشہ رضی اللہ عنہا، عثمان بن ابو العاص رضی اللہ عنہ، اور جریر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ ابو ذر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے بعض روایات میں ہے کہ، جو شخص ہر ماہ تین روزے رکھے وہ ایسے ہے جیسے پورا سال روزے رکھے۔

٭٭ ہناد، ابو معاویہ، عاصم، ابو عثمان، حضرت ابو ذر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہر مہینے میں تین دن روزے رکھنا پورا سال روزے رکھنے کے برابر ہے۔ اللہ تعالی نے اس کی تصدیق میں اپنی کتاب (میں) نازل فرمائی۔ مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَہُ عَشْرُ أَمْثَالِہَا۔ جو ایک نیکی کرے گا اس کے۔ لئے دس نیکیوں کا ثواب ہے ، لہذا ایک دن (ثواب میں) دس دنوں کے برابر ہوا۔ امام ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ شعبہ نے یہ حدیث ابو شمر اور ابو تیاح سے وہ عثمان اور وہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ الخ

٭٭ محمود بن غیلان، ابو داؤد، شعبہ، یزید، حضرت یزید رشک، معاذ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے کہا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر مہینے تین روزے رکھا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں میں نے عرض کیا کو نسے دنوں میں ام المومنین نے فرمایا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کچھ پرواہ نہ کرتے یعنی جب چاہتے رکھ لیتے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور یزید رشک وہ یزید ضبعی ہیں۔ یزید بن قاسم اور قاسم ہیں۔ رشک اہل بصرہ کی زبان کا لفظ ہے اس کے معنی اقسام کے ہیں (یعنی تقسیم کرنے والا)

 

باب روزہ کی فضیلت

عمران بن موسی، عبدالوارث بن سعید، علی بن زید، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بیشک تمہارا رب فرماتا ہے کہ ایک نیکی (کا ثواب) دس گنا سے سات سو گنا تک ہے اور روزہ صرف میرے لئے ہے اس کا بدلہ میں ہی دوں گا۔ روزہ آگ سے ڈھال ہے۔ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالی کے نزدیک مشک سے زیادہ بہتر ہے اور اگر تم میں کوئی جاہل کسی روزے دار سے جھگڑنے لگے تو وہ اسے کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔ اس باب میں معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ سہل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ، کعب بن عجرہ رضی اللہ تعالی عنہ، سلامہ بن قیصر رضی اللہ تعالی عنہ، اور بشیر بن خصاصیہ رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی روایت ہے۔ بشیر بن خصاصہ رضی اللہ تعالی عنہ کا نام زحم بن معبد ہے ، خصاصیہ ان کی والدہ ہیں۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔

٭٭ محمد بن بشار، ابو عامر، ہشام بن سعد، ابو حازم، سہیل بن سعد، حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جنت میں ایک دروازہ ہے جس کا نام ریان ہے اس میں سے روزہ داروں کو بلایا جائے گا پس جو روزہ دار ہو گا وہ اس میں سے داخل ہو گا اور جو اس میں سے داخل ہو گیا وہ کبھی پیاسا نہ رہے گا۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے

٭٭ قتیبہ، عبدالعزیز بن محمد بن سہل، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں ایک افطار کے وقت دوسری اس وقت جب وہ اپنے پروردگار سے ملاقات کرے گا۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے

 

شب قدر

ہارون بن اسحاق، عبدہ بن سلیمان، ہشام بن عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رمضان کے آخری دس دن اعتکاف بیٹھتے اور فرماتے شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو۔ اس باب میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ابی بن کعب، جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ، جابر بن عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ، فلتان بن عاصم رضی اللہ تعالی عنہ، انس رضی اللہ تعالی عنہ، ابو سعید، عبداللہ بن انیس رضی اللہ تعالی عنہ، ابو بکرہ رضی اللہ تعالی عنہ، ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما، بلال رضی اللہ تعالی عنہ اور عبادہ بن صامت سے بھی روایت ہے ، امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے۔ اور یجاور، کے معنی اعتکاف کرنے کے ہیں۔ اکثر روایتوں میں یہی ہے کہ شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی ہر طاق رات میں تلاش کرو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے شب قدر کے متعلق یہ بھی مروی ہے کہ وہ اکیسویں ، پچیسویں ، انتیسویں یا رمضان کی آخری رات ہے۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک واللہ اعلم اس کی حقیقت یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جس طرح کا سوال کیا جاتا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس طرح کا جواب دیا کرتے تھے۔ اگر کہا جاتا کہ ہم اسے اس رات میں تلاش کرو لیکن میرے نزدیک قوی روایت اکیسویں رات والی ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ قسم کھا کر فرمایا کرتے تھے کہ یہ ستائیسویں رات ہی ہے اور فرماتے کہ ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی علامات بتائی تھیں ہم نے اسے گن کر یاد کر لیا۔ ابو قلابہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا شب قدر آخری عشرے میں بدلتی رہتی ہے۔ ہمیں اس کی خبر عبد بن حمید نے عبدالرزاق کے حوالے سے دی۔ وہ معمر سے وہ ایوب سے اور وہ ابو قلابہ سے روایت کرتے ہیں

٭٭ واصل بن عبدالاعلی، ابو بکر بن عیاش، عاصم، حضرت زر رضی اللہ تعالی عنہ نے ابی بن کعب سے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابو منزر کو کس طرح کہا کہ شب قدر رمضان کی ستائیسویں رات ہے۔ فرمایا بے شک ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بتایا کہ وہ ایسی رات ہے کہ اس کے بعد جب صبح سورج نکلتا ہے تو اس میں شعاعیں نہیں ہوتیں ہم نے گنا اور حفظ کر لیا قسم ہے اللہ کی کہ ابن مسعود بھی جانتے تھے کہ یہ رات رمضان کی ستائیسویں رات ہی ہے لیکن تم لوگوں کو بتانا بہتر نہیں سمجھا تاکہ تم صرف اس رات پر بھروسہ نہ کرنے لگو اور دوسری راتوں میں عبادت کرنا کم نہ کر دو، امام ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

٭٭ حمید بن مسعدہ، یزید بن زریع، عیینہ بن عبدالرحمن اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ ابو بکرہ کے سامنے شب قدر کا تذکرہ کیا گیا تو انہوں نے فرمایا میں نے اس وقت سے اسے تلاش کرنا چھوڑ دیا ہے جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کے متعلق فرمایا کہ اسے رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب رمضان کے ختم ہونے میں نو راتیں باقی رہ جائیں اور اسے (یعنی لیلة القدر کو) تلاش کرو یا جب سات راتیں رہ جائیں یا جب پانچ راتیں رہ جائیں یا پھر رمضان کی آخری رات۔ راوی کہتے ہیں کہ ابو بکر رمضان کے پہلے بیس دن پورے سال کی مانند پڑھتے پھر جب آخری عشرہ شروع ہوتا تو (زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے کی) کوشش کرتے ، امام ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

٭٭ محمود بن غیلان، وکیع، سفیان، ابو اسحاق ، ہبیرہ بن یریم، علی سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے آخری عشرے میں اپنے گھر والوں کو جگایا کرتے تھے امام عیسیٰ ترمذی کہتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے

٭٭ قتیبہ، عبدالواحد بن زیاد، حسن بن عبید اللہ، ابراہیم، اسود، عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جس قدر کوشش فرماتے اتنی دوسرے دنوں میں نہ کرتے تھے ، امام ابو عیدی ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث غریب حسن صحیح ہے۔

سردیوں کے روزے

محمد بن بشار، یحیی بن سعید، سفیان، ابو اسحاق ، نمیر بن عیب، عامر بن مسعود سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ٹھنڈی نعمت (یعنی نعمت کا ثواب) سردیوں میں روزہ رکھنا ہے ، امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث مرسل ہے عامر بن مسعود نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا زمانہ نہیں پایا اور یہ ابراہیم بن عامر قرشی کے والد ہیں ان سے شعبہ اور سفیان ثوری نے روایت کی ہے

ان لوگوں کا روزہ رکھنا جو اس کی طاقت رکھتے ہیں

قتیبہ، بکر بن مضر، عمر بن حارث، بکیر، یزید، مولی، سلمہ بن اکوع فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی،”وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَةٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ” 2۔ البقرۃ:184)  (ترجمہ یعنی جب لوگوں میں روزہ رکھنے کی طاقت نہ ہو وہ اس کے بدلے میں مسکین کو کھانا کھلائیں) تو ہم میں سے جو چاہتا کہ روزہ نہ رکھے تو وہ فدیہ دے دیتا یہاں تک کہ اس کے بعد والی آیت نازل ہوئی اور اس نے اس حکم کو منسوخ کر دیا، امام ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح غر یب ہے اور یزید ابو عبید کے بیٹے اور سلمہ بن اکوع کے مولی ہیں۔

جو شخص رمضان میں کھا نا کھا کر سفر کے لئے نکلے

قتیبہ، عبداللہ بن جعفر، زید بن اسلم، محمد بن منکدر، محمد بن کعب سے روایت ہے کہ میں رمضان میں انس بن مالک کے پاس آیا تو وہ کہیں جانے کا ارادہ کر رہے تھے اور ان کی سواری تیار تھی انہوں نے سفر کا لباس پہن لیا تھا پھر انہوں نے کھانا منگوایا اور کھایا میں نے کہا کیا یہ سنت ہے ؟ انہوں نے فرمایا ہاں سنت ہے اور پھر سوار ہو گئے۔

٭٭ محمد بن اسماعیل، سعید بن ابو مریم سے وہ محمد بن جعفر سے وہ زید بن اسلم سے وہ محمد بن منکدر سے اور وہ محمد بن کعب سے روایت کرتے ہیں کہ میں انس بن مالک کے پاس آیا اور پھر اسی کی مثل روایت کرتے ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن ہے محمد بن جعفر، ابن ابی کثیر مدنی ہیں یہ ثقہ ہیں اور اسماعیل بن جعفر کے بھائی ہیں عبداللہ بن جعفر نجیح کے عبداللہ بن نجیح کے بیٹے اور علی بن مدینی کے والد ہیں۔ یحیی بن معین انہیں ضعیف کہتے ہیں۔ بعض اہل علم کا اس حدیث پر عمل ہے وہ کہتے ہیں کہ مسافر کو سفر کے لئے نکلنے سے پہلے افطار کرنا چاہیے۔ لیکن قصر نماز اس وقت تک نہ شروع کرے جب تک گاؤں یا شہر کی حد دو سے باہر نہ نکل جائے یہ اسحاق بن ابراہیم کا قول ہے۔

روزہ دار کے تحفے

احمد بن منیع، ابو معاویہ، سعد بن طریف، عمیر بن مامون، حسن بن علی سے روایت ہے کہ تیل یا خوشبو وغیرہ دینی چاہیے۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں اس حدیث کو سعد بن طریف کی روایت کے علاوہ نہیں جانتے اور سعد ضعیف ہیں۔ انہیں عمیر بن ماموم بھی کہا جاتا ہے۔

عید الفطر اور عید الا ضحی کب ہوتی ہے ؟

یحیی بن موسی، یحیی بن یمان، معمر، محمد بن منکدر، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا عیدالفطر اس دن جب سب لوگ افطار کریں (یعنی روزہ نہ رکھیں) اور عید الاضحی اس دن ہے جس دن سب لوگ قربانی کریں۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے سوال کیا کہ محمد بن منکدر نے حضرت عائشہ سے احادیث سنی ہیں انہوں نے فرمایا ہاں وہ اپنی حدیث میں کہتے ہیں کہ میں نے اسے سنا، امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث اس سند سے غریب صحیح ہے۔

ایام اعتکاف گزر جا نا

محمد بن بشار، ابن ابی عدی، حمید، طویل، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا کرتے تھے ایک مرتبہ اعتکاف نہ کر سکے تو آئندہ سال بیس دن کا اعتکاف کیا۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی کہتے ہیں یہ حدیث انس کی روایت سے حسن غریب صحیح ہے علماء کا اس معتکف (اعتکاف کرنے والا) کے بارے میں اختلاف ہے جو اسے پورا ہونے سے پہلے توڑ دے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اگر اعتکاف توڑ دے تو اس کی قضا واجب ہے ان کی دلیل یہ ہے کہ ایک دن اعتکاف کیا یہ امام مالک کا قول ہے امام شافعی وغیرہ کہتے ہیں کہ اگر یہ اعتکاف نذر یا خود اپنے اوپر واجب کیا ہوا اعتکاف نہیں تھا تو اس کی قضا واجب نہیں اور فقط نفل کی نیت سے اعتکاف میں تھا اور پھر نکل آیا تو اس پر قضا واجب نہیں البتہ اگر اس کی چاہت ہو تو قضا کرنے میں کوئی حرج نہیں امام شافعی کہتے ہیں اگر کوئی عمل واجب نہ ہو اور تم اسے ادا کرنے لگو لیکن مکمل نہ کر سکو تو اس کی قضا واجب نہیں ہاں اگر عمری یا حج میں ایسا ہو تو قضا واجب ہے اس باب میں حضرت ابو ہریرہ سے بھی روایت ہے

کیا معتکف اپنی حاجت کے لئے نکل سکتا ہے

ابومصعب، مالک بن انس، ابن شہاب، عروہ، عمرہ، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب اعتکاف میں ہوتے تو میری طرف اپنا سر مبارک جھکا دیتے اور میں اس میں کنگھی کر دیتی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حاجت انسانی کے علاوہ گھر میں تشریف نہ لا تے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اسی طرح کئی راوی مالک بن انس سے وہ ابن شہاب سے وہ عروہ سے اور وہ عمرہ سے اور وہ حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں لیث بن سعد بھی ابن شہاب سے وہ عروہ سے انہوں نے عمرہ سے اور وہ دونوں حضرت عائشہ روایت کرتے ہیں۔

٭٭ قتیبہ، لیث ہم سے بیان کی یہ حدیث قتیبہ نے انہوں لیث سے اور اسی پر علماء کا عمل ہے کہ اعتکاف کرنے والا انسانی حاجت (یعنی پاخانہ یا پیشاب) کے علاوہ اعتکاف سے نہ نکلے علماء کا اسی پر اجماع ہے کہ اعتکاف کرنے والا صرف قضائے جاجت کے لئے ہی نکل سکتا ہے اہل علم کا مریض کی عیادت جمعہ کی نماز اور جنازہ میں شرکت کیلئے معتکف کے نکلنے میں اختلاف ہے بعض صحابہ وغیرہ نے کہا کہ مریض کی عیادت بھی کرے اور جمعہ و جنازے میں بھی شریک ہو لیکن اس شرط پر کہ اعتکاف شروع کرتے وقت اس نے ان چیزوں کی نیت کی ہو سفیان ثوری اور ابن مبارک کا یہی قول ہے بعض اہل علم کے نزدیک ان میں سے کوئی عمل بھی جائز نہیں پس اگر اعتکاف کرنے والا ایسے شہر میں ہو کہ اس میں جمعہ کی نماز ہوتی ہو تو اسے اسی مسجد میں اعتکاف بیٹھنا چاہیے اس لئے کہ ان حضرات کے نزدیک معتکف کیلئے جانا مکروہ ہے اور ان کے نزدیک معتکف کیلئے جمعہ چھوڑ دینا بھی جائز نہیں اس لئے اسے ایسی جگہ اعتکاف کرنا چاہیے تاکہ اسے قضائے حاجت کے علاوہ کسی دوسری ضرورت کیلئے نکلنا نہ پڑے کیونکہ ان علماء کے نزدیک سوائے حاجت بشری کے علاوہ نکلنا اعتکاف کو توڑ دیتا ہے امام مالک اور امام شافعی کا یہی قول ہے امام احمد حضرت عائشہ کی حدیث کی وجہ سے اعتکاف کرنے والے کا جنازے یا مریض کی عیادت کیلئے نکلنا جائز نہیں سمجھتے اسحاق فرماتے ہیں کہ اگر اعتکاف کے شروع میں اس کی نیت کی ہو تو پھر عیادت مریض اور جنازے کے ساتھ جانا جائز ہے

رمضان میں رات کو نماز پڑھنا

ہناد، محمد بن فضیل، داؤد، ابن ابی ہند، ولید بن عبدالرحمن، جبیر بن نفیر، حضرت ابو ذر فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ روزے رکھے آپ نے تئیسویں رات تک ہمارے ساتھ رات کی نماز نہیں پڑھی (یعنی تراویح) پھر تیئسویں رات کو ہمیں لے کر کھڑے ہوئے یہاں تک کہ تہائی رات گزر گئی پھر چوبیسویں رات کو نماز نہ پڑھائی لیکن پچیسویں رات کو آدھی رات تک نماز (تراویح) پڑھائی ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہماری آرزو تھی کہ آپ رات بھی ہمارے ساتھ نوافل پڑھتے آپ نے فرمایا جو شخص امام کے ساتھ اس کے فارغ ہونے تک نماز میں شریک رہا اس کے لئے پوری رات کا قیام لکھ دیا گیا پھر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ستائیسویں رات تک نماز نہ پڑھائی . ستائیسویں رات کو پھر کھڑے ہوئے اور ہمارے ساتھ اپنے گھر والوں اور عورتوں کو بھی بلایا یہاں تک کہ ہمیں اندیشہ ہوا کہ فلاح کا وقت نہ نکل جائے راوی کہتے ہیں میں نے ابو ذر سے پوچھا فلاح کیا ہے تو انہوں نے فرمایا سحری امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اہل علم کا رمضان میں رات کی نماز (یعنی تراویح) کے بارے میں اختلاف ہے بعض اہل علم کے نزدیک وتر سمیت اکتالیس رکعتیں پڑھنی چاہئیں یہ اہل مدینہ کا قول ہے اور اسی پر ان کا عمل ہے اکثر اہل علم کا اس پر علم ہے جو حضرت عمر علی اور دوسرے صحابہ سے مروی ہے کہ بیس رکعات پڑہے سفیان سوری ‘ ابن مبارک شافعی کا یہی قول ہے امام شافعی فرماتے ہیں کہ میں نے اسی طرح اپنے شہر مکہ مکرمہ والوں کو بیس رکعت پڑھتے ہوئے پایا ہے امام احمد فرماتے ہیں کہ اس بارے میں مختلف روایات ہیں لہذا انہوں نے اس مسئلے میں کچھ نہیں کہا اسحاق اکتالیس رکعات کا مذہب اختیار کرتے ہیں جیسے ابی بن کعب سے مروی ہے ابن مبارک احمد اور اسحاق فرماتے ہیں کہ رمضان میں امام کے ساتھ نماز (تراو یح) پڑھی جائے امام شافعی فرماتے ہیں کہ اگر خود قاری ہو تو اکیلئے نماز پڑھے

روزہ افطار کرانے کی فضیلت

ہناد، عبدالرحیم بن سلیمان، عبدالملک، ابی سلیمان، عطاء، زید بن خالد، جہنی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس نے کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرایا اس کو بھی اتنا ہی اجر ملے گا جتنا روزہ دار کو اور روزہ دار ثواب میں کچھ کمی نہ ہو گی امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے

رمضان میں نماز شب (یعنی تراویح) کی ترغیب اور فضلیت

عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، زہری، ابو سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قیام رمضان (تراویح) کی طرف رغبت دیتے لیکن وجوب کا حکم نہ فرماتے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے جس شخص نے رمضان (کی راتوں) میں ایمان اور اخلاص کے ساتھ قیام کیا (یعنی نماز پڑھی) اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیئے گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وفات پا جانے تک اسی پر عمل رہا اسی طرح خلافت ابو بکر صدیق اور پھر خلافت عمر کے ابتدائی دور میں بھی اسی پر عمل رہا اس باب میں حضرت عائشہ سے بھی روایت ہے یہ حدیث صحیح ہے اور  زہری نے یہ حدیث بواسط عروہ حضرت عائشہ سے مرفوعاً روایت کی ہے