FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

ترمذی

جلد اول

امام ترمذیؒ

 

 

 

حالات زندگی امام ترمذی

نام و نسب، وطن

امام ترمذی کا نسب مختلف کتب میں مختلف آیا ہے آپ بوغی میں پیدا ہوئے جو ترمذ کے قریب دریائے جیجول کے کنارے واقع ہے اور اس کے گرد فصیل ہے جیسے پرانے لاہور اور ملتان میں یہ حفاظت شہر کے لئے ہوتی ہے۔

(١)  محمد بن عیسیٰ بن سورۃ بن موسیٰ بن ضحاک                                                      (مختلف کتب)

(٢)  محمد بن عیسیٰ بن سورۃ بن شداد                                                                                 (سمعانی)

(٣)  محمد بن عیسیٰ بن سورۃ بن شداد بن عیسیٰ                                                       (ابن کثیر)

(٤)  محمد بن عیسیٰ بن سورۃ بن موسیٰ بن ضحاک اور ایک روایت میں ابن سکن   (ابن حضر)

(٥)  محمد بن عیسیٰ بن سورۃ (المختصر فی اخبار البشبر) لیکن سودۃ بالدال غلط ہے

سن ولادت،کنیت

٣٠٩ھ بعض نے کچھ بعض نے کچھ کہا ہے معلوم ہوتا ہے ولادت کے سن میں اختلاف ہے آپ کے والد ماجد کا نام تمام روایات میں عیسیٰ ہے لہٰذا آپ کی کنیت ابن عیسیٰ رکھنی چاہئے تھی اس کے بر عکس آپ نے ابو عیسیٰ رکھ لی اور اس پر اعتراضات ہوئے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو والدہ کے بطن سے پیدا ہوئے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:(ذلک عیسیٰ ابن مریم)(مریم:٣٤)(قالت انی یکون لی ولد ولم یمسسنی بشر ولم اک بغیا قال کذالک اللہ یفعل مایشاء)(آل عمران ٤٧) اور یہ کنیت رکھنا صحیح نہیں لگتا۔حضرت مغیرہ بن شعبہ نے یہ کنیت رکھی تو حضرت عمر نے ڈانٹا۔حضرت مغیرہ نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو اس کا علم تھا بلکہ ایک روایت ہے کہ خود آپ نے یہ کنیت حضرت مغیرہ کی رکھی اور مبارکپوری نے "تحفۃ الاحوذی”میں کہا ہے کہ کوئی مرفوع متصل صریح حدیث نہی کی نہیں ہے حضرت عمر کی زجر و تنبیہ اثر کا حکم رکھتی ہے اور ایسے بڑے جلیل القدر محدث کو نہی کا علم نہ ہونا بعید من الفہم ہے کہ انہوں نے باب کی حدیث بیان کر کے قال ابو عیسیٰ ہزاروں دفعہ کہا ہے

تعلیم

آپ نے اپنی تعلیم کا آغاز ٢٢٠ھ اور ٢٣٥ کے قریب کیا قطعیت کی کوئی روایت نہیں کی ہے۔ آپ کے شیوخ کی تعداد جو کتب میں آئی ہے وہ ٢٢١ کے لگ بھگ ہے۔ آج کل کے لوگوں کو ایسی باتیں عجیب لگتی ہیں لیکن اس زمانے میں لوگوں کو حدیث حاصل کرنے کا اتنا شوق تھا کہ جس کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ہیچمدان عرض کرتا ہے کہ مجھے یہ بیان کرتے اور لکھتے ہوئے پہلی جماعت سے لیکر دورہ حدیث تک کے اساتذہ کے گننے کا خیال ہوا تو ان کی تعداد(٣٠) کے لگ بھگ ہے اور اگر ان افراد یا حضرات کو بھی شمار کیا جائے جن سے کچھ نہ کچھ سیکھا تو یہ تعداد چالیس تک جا پہنچتی ہے۔

امام مسلم سے آپ کی ملاقات ہوئی لیکن ان کے حوالے سے ایک روایت اپنی کتاب میں لائے اور ایسے ہی امام ابو داؤد سے ایک روایت لائے۔

امام بخاری سے استفادہ اور افادہ

سب سے زیادہ آپ نے الامام المحدث حضرت محمد بن اسمعیل بخاری پر علم اور فن میں ایک طویل مدت ان کے ساتھ گزار کر تعلیم حاصل کی اور استفادہ کیا اور اس کے بعد امام عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی(٢٥٥ھ)اور ابو زرواعہ رازی سے اس کے بعد کتاب العلل،رجال اور تاریخ میں جو اسخراج کیا اس کا اکثر امام بخاری اور دوسرے حضرات نے مطالعہ کیا اور اس کی تحسین کی۔ امام بخاری سے تو اتنے قریب ہوئے اور رہے کہ ان سے بحث و مباحثہ اور مناظرہ کرتے اور اس میں دونوں کو فائدہ ہوا۔ امام بخاری نے اپنے استفادہ کا یوں ذکر کیا کہ امام ترمذی سے فرمایا”ما انتفعت بک اکثر مما انتفعت بی” کہ میں نے جناب سے اتنا نفع حاصل کیا کہ اتنا جناب نے مجھ سے نہیں کیا۔کیسے اور کتنے عظیم لوگ تھے کہ اپنے شاگردوں کے سامنے ان سے نفع حاصل کرنے کا تذکرہ فرماتے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ تقریر کے لفظ لفظ اور نکات کو سمجھنے والے سامنے بیٹھے ہوں تو مقرر کو اتنا شرح صدر ہوتا ہے کہ نکات ایک دم اور اچانک منجانب اللہ ذہن میں آتے ہیں اور اگر غبی یا کند ذہن سامعین ہوں تو مقرر کو آمد نہیں ہوتی بلکہ بڑی مشکل سے آورد سے وقت پورا کرتا ہے۔ امام ترمذی نے جن احادیث کا سماع امام بخاری سے کر کے اپنی جامع ترمذی میں کیا یہاں ان کا ذکر طول کا باعث ہو گا ان کی تعداد ١١٤ ہے۔

غیر معمولی حافظہ

اللہ تعالیٰ نے آپ کو غیر معمولی حافظہ عطاء فرمایا تھا احادیث کے دو جزو آپ کے پاس سفر میں تھے اثناء سفر میں آپ کو علم ہوا کہ قافلے میں وہ وہ شیخ بھی ہیں کہ جن سے وہ جزو پہنچے ہیں۔خیال کیا کہ ان کو سنا کر ان کی توثیق کراؤں مستفر پر آئے تو دیکھا تو لکھے ہوئے دونوں جزو غائب تھے ان کی جگہ سفید کاغذ لے کر حاضر ہو گئے اور سنانے لگے شیخ کی نظر پڑ گئی کہ اوراق سادہ ہیں اور کہا کہ اما تستحی منی؟”کیا تمہیں مجھ سے شرم نہیں آتی۔ اس پر امام ترمذی نے پورا واقعہ سنایا اور عرض کیا کہ جناب مجھے کچھ اور احادیث سنائیں میں آپ کو مجرد ایک دفعہ سننے پر سنا دوں گا اس پر شیخ نے چالیس احادیث سنائیں سننے کے بعد امام ترمذی نے من وعن ان احادیث کو شیخ کو سنا دیا شیخ یہ دیکھ کر بہت حیران ہوئے اور فرمایا کہ "ما رایت مثلک "میں نے آپ جیسا نہیں دیکھا۔ ایک واقعہ احقر نے اپنے استاد حضرت مفتی محمد عبداللہ ڈیروی سے ملتان خیرالمدارس ترمذی پڑھتے ہوئے سنا کہ آخر عمر میں آپ رقت قلبی اور خشیت الہی سے گریہ و زاری کرتے ہوئے نابینا ہو گئے۔ ایک دفعہ سفر حج کو گئے تو ایک جگہ جا کر اونٹنی پر بیٹھے بیٹھے سر نیچاکر لیا۔ احباب کے سوال پر کہ ایسا کیوں کیا تو فرمایا کہ یہاں ایک درخت تھا جس کا ٹہنہ یا شاخیں سر کو لگتی تھیں انہوں نے فرمایا کہ یہاں تو کوئی درخت نہیں اس پر فرمایا کہ اردگرد سے تحقیق کرو اگر یہاں درخت نہیں تھا تو میں سوء حفظ کا شکار ہو گیا ہوں اور اب مجھے روایت حدیث کو ترک کرنا پڑے گا۔ تحقیق کی تو لوگوں نے کہا کہ درخت تھا لیکن ہم نے اسے مسافروں کی راحت کے لئے اکھیڑ دیا اس پر آپ نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوا اس زمانے میں محدثین کے حافظے اور دماغ کمپیوٹر یا ریڈار یا آج کل کی زبان میں "آٹومیٹک "(خبر دار کرنے کا آلہ) تھے کہ خطرے پر اس کی بتی از خود سرخ ہو جاتی تھی۔

 

 

جامع ترمذی کا مقام

بلاشبہ جامع ترمذی "صحاح ستہ”میں شامل ہے لیکن اس پر بحث ہوتی ہے کہ اس کا درجہ کس نمبر پر ہے کئی حضرات کہتے ہیں کہ صحیحین (بخاری، مسلم) سنن ابی داؤد،سنن نسائی کے بعد ہے لیکن اکثر کا خیال ہے کہ صحیحین کے بعد اس کا مقام ہے تبھی تو اس کو جامع کہتے ہیں جو بیک وقت جامع اور سنن ہے۔

جامع ایسی کتاب حدیث کو کہتے ہیں جس میں حدیث کے تمام موضوعات کا لحاظ رکھا گیا ہو اور سنن جو فقہی ترتیب پر ہو ترمذی میں دونوں باتوں کا لحاظ رکھا گیا ہے

اگر بعض چیزوں یا اعتراضات کو چھوڑ کر دیکھا جائے تو جامع ترمذی کے فوائد صحاح ستہ کتب سے زائد ہیں اسی لئے ہمارے مدارس عربیہ میں اکثر روایت یہ رہی کہ شیخ الحدیث بخاری اور ترمذی دونوں پڑھاتا ہے۔ ایک بڑی بات جو امام ترمذی نے اہتمام سے کی ہے وہ یہ ہے کہ حدیث بیان کرنے کے بعد صحابہ اور ائمہ مجتہدین کا مسلک بیان کرتے ہیں کہ اس حدیث پر کن کن حدیث بیان حضرات کا عمل رہا ہے۔

اور حدیث کا مقام صحیح ،حسن ،مشہور،غریب،اور ضعیف وغیرہ بھی بیان کرتے ہیں اور ایک مسئلہ پر باب میں جو حدیث بیان کرتے ہیں اس کا متعلقہ حصہ ہی بیان کرتے ہیں ساری حدیث نہیں بیان کرتے اور مخالف و موافق دونوں طرح کی احادیث بیان کرتے ہیں اور ایک سب سے بڑا اہتمام جس کو کسی محدث نے نہیں چھیڑا وہ یہ کہ "فی الباب "کہہ کر اس باب میں جتنے صحابہ سے روایت کا ذکر کرتے ہیں اور بعد میں آنے والوں نے "فی الباب "کی احادیث کو تلاش کر کے جمع کیا ہے۔

شروح ترمذی

جامع ترمذی کی جتنی شرحیں لکھی گئی ہیں اتنی شاید کسی کتاب کی نہیں۔گزشتہ چالیس سال میں تو جس بڑے جامعہ یا دارالعلوم میں کسی شیخ نے ترمذی پڑھائی اس کی شرح اکثر و بیشتر نے لکھی اور شائع کی اسی بات سے اس کتاب کے مہتم بالشان ہونے کا پتہ چلتا ہے۔

وفات

امام ترمذ ی کی وفات میں بھی اختلاف ہے جیسا کہ ولادت میں لیکن مشہور ٢٧٩ھ ہے اس کو مد نظر رکھ کر علامہ انور شاہ کاشمیری نے ایک شعر ان کی تعریف کے ساتھ ایک مصرع میں ان کی ولادت وفات کے مشہور قول کو لیا ہے۔

الترمذی محمد ذوزین  عطر وفاۃ فی عین

امام ترمذی عمدہ خصلت کے عطر تھے "عطر”سے وفات (٢٧٩)۔ اور "عین”سے عمر نکالی ہے۔”ع”کے عد د (٧٠) ہیں "

٭٭٭

 

 

فیصلوں کا بیان

اختلاف کی صورت میں راستہ کتنا بڑا بنایا جائے

ابوکریب، وکیع، مثنی بن سعید، قتادہ، بشر بن نہیک، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا راستہ سات گز چوڑا بناؤ۔

٭٭ محمد بن بشار، یحیی بن سعید، مثنی بن سعید، قتادہ، بشیر بن کعب، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر تم لوگوں میں راستے کی وجہ سے اختلاف ہو جائے تو راستہ سات گز چوڑا بناؤ۔ یہ حدیث وکیع کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے اس باب میں ابن عباس سے بھی حدیث منقول ہے بشیر بن کعب کی حضرت ابو ہریرہ سے منقول حدیث حسن صحیح ہے اس حدیث کو بعض محدثین قتادہ سے وہ بشیر نہیک سے اور وہ ابو ہریرہ سے نقل کرتے ہیں یہ حدیث غیر محفوظ ہے۔

والدین کی جدائی کے وقت بچے کو اختیار دیا جائے

نصر بن علی، سفیان، زیاد بن سعید، ہلال ابن ابی میمونہ، ابی میمونہ، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک بچے کو اختیار دیا چاہے تو باپ کے ساتھ رہے اور چاہے تو ماں کے پاس۔ اس باب میں عبداللہ بن عمرو اور عبدالحمید بن جعفر کے دادا سے بھی احادیث منقول ہیں حدیث ابو ہریرہ حسن صحیح ہے ابو میمونہ کا نام سلیم ہے صحابہ کرام اور دیگر علماء کا اسی پر عمل ہے وہ کہتے ہیں کہ بچے کو اختیار دیا جائے کہ چاہے تو ماں کے ساتھ رہے اور چاہے تو باپ کے ساتھ رہے۔ یعنی جب ماں باپ میں کوئی جھگڑا وغیرہ ہو جائے۔ امام احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے امام احمد، اسحاق فرماتے ہیں کہ جب تک بچہ چھوٹا ہے اس کی ماں زیادہ مستحق ہے اور جب اس کی عمر سات سال ہو جائے تو اسے اختیار دیا جائے کہ ماں باپ میں سے جس کے پاس چاہے رہے۔ ہلال بن ابی میمونہ، علی بن اسامہ کے بیٹے اور مدنی ہیں ان سے یحیی بن ابی کثیر، مالک بن انس، اور فلیح بن سلیمان احادیث نقل کرتے ہیں۔

باپ اپنے بیٹے کے مال میں سے جو چاہے لے سکتا ہے

احمد بن منیع، یحیی بن زکریا، ابن ابی زائدہ، عمارہ بن عمیر، حضرت عائشہ سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہارا سب سے بہترین مال وہ ہے جو تم اپنی کمائی سے کھاتے ہو اور تمہاری اولاد بھی تمہاری کمائی ہی میں داخل ہے اس باب میں جابر اور عبداللہ بن عمرو سے بھی احادیث منقول ہیں یہ حدیث حسن ہے۔ بعض محدثین نے اسے عمارہ بن عمیر سے وہ اپنی والدہ سے اور وہ حضرت عائشہ سے نقل کرتی ہیں اکثر نے ان کی پھوپھی کے واسطہ سے حضرت عائشہ سے نقل کیا ہے بعض صحابہ کرام اور دیگر اہل علم کا اسی پر عمل ہے وہ فرماتے ہیں کہ والد کو اپنے بیٹے کے مال پر پورا حق ہے جتنا چاہے لے سکتا ہے بعض علماء فرماتے ہیں کہ والد بیٹے کے مال میں سے صرف ضرورت کے وقت ہی لے سکتا ہے۔

کسی شخص کی کوئی چیز توڑی جائے تو؟

محمود بن غیلان، ابو داؤد حفری، سفیان، حمید، حضرت انس سے روایت ہے کہ ازواج مطہرات میں کسی نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں کچھ کھانا ایک پیالے میں ڈال کر بطور ہدیہ بھیجا۔ حضرت عائشہ نے اس پر اپنا ہاتھ مارا تو وہ گر گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کھانے کے بدلے کھانا اور پیالے کے بدلے پیالہ دینا چاہیے یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

کسی شخص کی کوئی چیز توڑی جائے تو؟

علی بن حجر، سوید بن عبدالعزیز، حمید، حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک پیالہ کسی سے مستعار لیا تو وہ گم ہو گیا پس آپ ضامن ہوئے اس کے یعنی عوض ایک پیالہ انہیں دیا یہ حدیث غیر محفوظ ہے میرے نزدیک سوید وہی حدیثیں مراد لیتے ہیں جو سفیان ثوری نقل کرتے ہیں اور سفیان ثوری کی حدیث زیادہ صحیح ہے۔

مرد و عورت کب بالغ ہوتے ہیں

محمد بن وزیر، اسحاق بن یوسف، سفیان، عبید اللہ بن عمر، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ ایک لشکر میں مجھے رسول اللہ کی خدمت میں پیش کیا گیا اس وقت میری عمر چودہ سال تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے اجازت نہیں دی۔ پھر آئندہ سال دوبارہ لشکر کی تیاری کے موقع پر پیش کیا گیا جب کہ میری عمر پندرہ سال تھی اس مرتبہ آپ نے مجھے اجازت دیدی نافع کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث عمر بن عبدالعزیز کے سامنے بیان کی تو انہوں نے فرمایا یہ بالغ اور نابالغ کے درمیان حد ہے پھر اپنے عاملوں کو لکھا کہ پندرہ سال کی عمر والوں کو مال غنیمت میں سے حصہ دیا جائے۔

٭٭ ابن ابی عمر، سفیان بن عیینہ، عبید اللہ بن عمر، نافع، ابن عمر سے وہ عبید اللہ بن عمر سے وہ نافع سے وہ عبداللہ بن عمر سے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اسی کے مثل حدیث نقل کرتے ہیں اور اس حدیث میں عمر بن عبدالعزیز کے اپنے عاملوں کو حکم دینے کا تذکرہ نہیں کرتے ابن عیینہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث عمر بن عبدالعزیز کے سامنے بیان کی تو انہوں نے فرمایا یا جہاد میں لڑنے والوں اور بچوں کے درمیان حد ہے یہ حدیث حسن صحیح ہے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ امام شافعی، ثوری، ابن مبارک، احمد اور اسحاق بھی یہی کہتے ہیں کہ جب لڑکا پندرہ سال کا ہو جائے تو اس کا حکم مردوں کا ہو گا اور اگر پندرہ سال سے پہلے بالغ ہو جائے (یعنی احتلام آئے) تو اس کا حکم بھی مردوں ہی کا ہو گا۔ امام احمد، اسحاق فرماتے ہیں کہ بالغ ہونے کی تین علامات ہیں۔ پندرہ سال کا ہو جانا یا احتلام ہو جانا اگر یہ دونوں معلوم نہ ہو سکیں تو زیر ناف بالوں کا آنا۔

جو شخص اپنے والد کی بیوی سے نکاح کرے

ابوسعید، حفص بن غیاث، اشعث، عدی بن ثابت، ابو بردہ بن نیار حضرت براء سے روایت ہے کہ میرے ماموں ابو بردہ بن نیار میرے پاس سے گزرے تو ان کے ہاتھ میں ایک نیزہ تھا میں نے پوچھا کہاں جا رہے ہو انہوں نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے ایک ایسے آدمی کا سر لانے کا حکم دیا جس نے اپنے باپ کی بیوی سے شادی کر لی ہے۔ اس باب میں قرہ سے بھی حدیث منقول ہے حدیث براء حسن غریب ہے محمد بن اسحاق بھی یہ حدیث عدی بن ثابت سے اور وہ براء سے نقل کرتے ہیں اشعث بھی یہ حدیث عدی سے وہ یزید بن براء سے اور وہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں اس کے علاوہ بھی اشعث، عدی سے وہ یزید بن براء سے اور وہ اپنے ماموں سے مرفوعاً نقل کرتے ہیں۔

دو آدمیوں کا اپنے کھیتوں کو پانی دینے سے متعلق جن میں سے ایک کا کھیت اونچا اور دوسرے کا کھیت پست ہو

قتیبہ، لیث، ابن شہاب، عروہ، عبداللہ بن زبیر، خاصم، زبیر کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن زبیر نے انہیں بتایا کہ ایک انصاری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس حضرت زبیر سے پتھریلی زمین کی ان نالیوں کے بارے میں جھگڑا کیا جن کے ذریعے کھجوروں کو پانی دیا جاتا تھا۔ انصاری نے کہا پانی چلتا چھوڑ دیا جائے زبیر نے انکار کیا پس وہ دونوں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں پیش ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا کہ اے زبیر تم اپنے کھیتوں کو پانی پلا کر اپنے پڑوسی کے کھیتوں میں چھوڑ دیا کرو اس پر انصاری غصہ میں آ گئے اور کہنے لگے یہ آپ کے پھوپھی زاد بھائی ہیں اس لیے آپ نے ان کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا۔ آپ نے فرمایا اے زبیر تم اپنے کھیتوں کو پانی دے کر پانی روک لو۔ یہاں تک کہ منڈیر تک واپس چلا جائے حضرت زبیر فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم یہ آیت اس مسئلے میں نازل ہوئی (فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّیٰ یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ) 4۔ النساء:65) یہ حدیث حسن صحیح ہے اس حدیث کو شعیب بن ابی حمزہ، زہری سے وہ عروہ بن زبیر سے اور وہ عبداللہ بن زبیر سے نقل کرتے ہیں لیکن اس میں عبداللہ بن زبیر کا تذکرہ نہیں کرتے عبداللہ بن وہب بھی اس حدیث کو لیث سے وہ یونس سے وہ زہری سے وہ عروہ سے اور وہ عبداللہ بن زبیر سے اسی کے حدیث نقل کرتے ہیں۔

جو شخص موت کے وقت اپنے غلام اور لونڈیوں کو آزاد کر دے اور ان کے علاوہ اس کے پاس کوئی مال نہ ہو

قتیبہ، حماد بن زید، ایوب، ابی قلابہ، ابی مہلب، حضرت عمران بن حصین سے روایت ہے کہ ایک انصاری نے اپنی موت کے وقت اپنے چھ غلاموں کو آزاد کر دیا اور اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی مال نہیں تھا۔ یہ خبر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک پہنچی تو آپ نے ان کے متعلق سخت الفاظ کہے اور پھر غلاموں کو بلا کر انہیں حصوں میں تقسیم کر کے سب کے درمیان قرعہ ڈالا اس کے بعد دو کو آزاد کر دیا اور چار کو غلام رہنے دیا اس باب میں حضرت ابو ہریرہ سے بھی حدیث منقول ہے حضرت عمران بن حصین کی حدیث حسن صحیح ہے اور عمران بن حصین سے کئی سندوں سے منقول ہے بعض علماء کا اسی پر عمل ہے امام مالک، شافعی، احمد، اور اسحاق بھی ایسے معاملات میں قرعہ ڈالنے کو جائز کہتے ہیں بعض علماء فرماتے ہیں قرعہ ڈالنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ایسی صورت میں ہر غلام کا دو تہائی کے لیے کام وغیرہ کر کے پوری کر لے ابو مہلب کا نام عبدالرحمن بن عرمو ہے انہیں معاویہ بن عمرو بھی کہا جاتا ہے۔

اگر کسی کا کوئی رشتہ دار غلام میں آ جائے

عبد اللہ بن معاویہ، حماد بن سلمہ، قتادہ، حسن، حضرت سمرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا اگر کوئی شخص اپنے کسی محرم رشتہ دار کا مالک ہو جائے تو وہ غلام آزاد ہو جاتا ہے اس حدیث کو ہم صرف حماد بن سلیم ہی کی روایت سے جانتے ہیں بعض راوی یہ حدیث قتادہ سے وہ حسن سے اور وہ عمر سے اسی طرح کی حدیث نقل کرتے ہیں۔

٭٭ عقبہ بن مکرم، بصری، محمد بن بکر سانی، حماد بن سلمہ، قتادہ، عاصم، حسن، حضرت سمرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص اپنے محرم رشتہ دار کی غلامی میں آ جائے وہ آزاد ہے اس حدیث میں صرف محمد بن بکر نے عاصم احول کا واسطہ ذکر کیا ہے بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے بواسطہ ابن عمر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی ہے آپ نے فرمایا جو شخص اپنے محرم رشتہ دار کی غلامی میں آ جائے وہ آزاد ہو جائے گا ضمرہ بن ربیعہ نے اسی حدیث کو سفیان ثوری سے وہ عبداللہ بن دینار سے اور وہ ابن عمر سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں اسی حدیث میں ضمرہ بن ربیعہ کا کوئی متابع نہیں۔ محدثین کے نزدیک اس حدیث میں غلطی ہوئی ہے۔

کسی کی زمین میں بغیر اجازت کھیتی باڑی کرنا

قتیبہ، شریک بن عبد اللہ، ابو اسحاق، عطاء، حضرت رافع بن خدیج سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر کسی نے کسی دوسرے کی زمین میں اس کی اجازت کے بغیر کسی چیز کا کاشت کی تو اس کے لیے اس کی کھیتی میں سے کچھ نہیں البتہ بونے والا اپنا خرچ جو اس نے اس پر کیا ہے وہ لے سکتا ہے لیکن کھیتی زمین والے کی ہی ہو گی۔ یہ حدیث حسن غریب ہے ہم اسی ابو اسحاق کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں ابو اسحاق شریک بن عبداللہ سے نقل کرتے ہیں بعض علماء کا اسی پر عمل ہے امام احمد، اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے میں نے امام بخاری سے اس حدیث کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا یہ حدیث حسن ہے میں اسے شریک بن عبداللہ کی روایت سے جانتا ہوں امام بخاری کہتے ہیں کہ معقل بن مالک بصری ہم سے بیان کرتے ہیں انہوں نے یہ حدیث عقبہ بن اصم سے انہوں نے عطاء سے انہوں نے رافع بن خدیج سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس کے ہم معنی حدیث بیان کی۔

اولاد کو ہبہ کرتے وقت برابری قائم رکھنا

نصر بن علی، سعید بن عبدالرحمن، سفیان، زہری، حمید بن عبدالرحمن، حضرت نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ ان کے والد نے اپنے ایک بیٹے کو ایک غلام دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو گواہ بنانے کے لیے حاضر ہوئے آپ نے فرمایا کیا تم نے ہر بیٹے کو اس طرح غلام دیا ہے جس طرح اسے دیا ہے تو عرض کی نہیں آپ نے فرمایا پھر اس کو واپس کر لو۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور نعمان بن بشیر سے کئی سندوں سے منقول ہے بعض علماء اولاد کے درمیان برابری کو مستحب کہتے ہیں بعض تو یہاں تک کہتے ہیں کہ چومنے میں بھی برابری کرنی چاہیے۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ ہبہ اور عطیہ میں بیٹوں اور بیٹیوں سب کو برابر، برابر، دینا چاہے لیکن بعض اہل علم کے نزدیک لڑکوں کو دوگنا اور لڑکیوں کو ایک گنا دینا برابر ہے جیسے کہ میراث کی تقسیم میں کہا جاتا ہے۔ امام احمد اور اسحاق کا یہی قول ہے۔

شفعہ کے بارے میں

علی بن حجر، اسماعیل، سعید، قتادہ، حسن، حضرت سمرہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مکان کا پڑوسی مکان کا زیادہ حقدار ہے اس باب میں حضرت شرید، ابو رافع، اور انس سے بھی احادیث منقول ہیں حدیث سمرہ حسن صحیح ہے اس حدیث کو عیسیٰ بن یونس، سعید بن ابی عروبہ سے وہ انس سے وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس کے مثل حدیث نقل کرتے ہیں پھر سعید بن ابی عروبہ قتادہ سے وہ حسن سے وہ سمرہ سے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں اہل علم کے نزدیک حسن کی سمرہ سے روایت صحیح ہے حضرت انس سے قتادہ کی روایت ہمیں صرف عیسیٰ بن یونس سے معلوم ہے حضرت عمرو بن ثرید کی اس باب میں منقول حدیث حسن ہے وہ اپنے والد سے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں ابراہیم بن میرہ بھی عمرو بن شیرید سے ابو رافع سے یہ حدیث مرفوعاً نقل کرتے ہیں میں نے امام بخاری سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک یہ دونوں حدیثیں صحیح ہیں۔

غائب کے لیے شفعہ

قتیبہ، خالد بن عبداللہ واسطی، عبدالملک بن ابی سلیمان، عطاء، حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، ہمسایہ اپنے شفعہ کا زیادہ حقدار ہے لہذا اگر وہ غائب ہو تو اس کا انتظار کیا جائے جب کہ دونوں کے آنے جانے کا راستہ ایک ہی ہو۔ یہ حدیث غریب ہے ہم اسے عبدالملک بن ابی سلیمان کی سند کے علاوہ نہیں جانتے۔ عبدالملک بن سلیمان اس حدیث کو عطاء سے اور وہ جابر سے نقل کرتے ہیں شعبہ نے اس حدیث کے سبب عبدالملک بن ابی سلیمان کے بارے میں کلام کیا ہے۔ لیکن وہ محدثین کے نزدیک ثقہ اور مامون ہیں شعبہ کے علاوہ کسی کے ان پر اعتراض کا ہمیں علم نہیں وکیع بھی شعبہ سے اور وہ عبدالملک سے ہی حدیث نقل کرتے ہیں ابن مبارک سے منقول ہے کہ سفیان ثوری کہتے تھے کہ عبدالملک بن سلیمان علم کے ترازو ہیں اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی غائب ہو تب بھی وہ اپنے شفعہ کا مستحق ہے لہذا وہ آنے کے بعد اسے طلب کر سکتا ہے اگرچہ طویل مدت ہی کیوں نہ گزر چکی ہو۔

جب حدود مقرر ہو جائیں اور راستے الگ الگ ہو جائیں تو حق شفعہ نہیں

عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، زہری، ابی سلمہ، حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب حدود مقرر ہو جائیں اور ہر حصے کا الگ الگ راستہ ہو جائے تو پھر شفعہ باقی نہیں رہتا، یہ حدیث حسن صحیح ہے بعض راوی اس حدیث کو ابو سلمہ سے مرسلاً بھی نقل کرتے ہیں عمر بن خطاب، عثمان بن عفان اور بعض صحابہ کا اسی پر عمل ہے بعض فقہاء تابعین جیسے عمر بن عبدالعزیز، یحیی بن سعید انصاری، ربیعہ بن ابی عبدالرحمن، مالک بن انس، شافعی، احمد اور اسحاق اور اہل مدینہ کا یہی قول ہے کہ شفعہ صرف شریک کے لیے پڑوسی اگر شریک نہ ہو تو اسے حق شفعہ حاصل نہیں ہو گا۔ بعض صحابہ کرام اور دیگر علماء فرماتے ہیں کہ پڑوسی کو حق شفعہ حاصل ہے ان کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مکان کا پڑوسی مکان کا زیادہ حق رکھتا ہے دوسری مرتبہ ارشاد فرمایا۔ ہمسایہ نزدیک ہونے کی وجہ سے شفعہ کا زیادہ حق رکھتا ہے سفیان ثوری، ابن مبارک اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے۔

ہر شریک شفعہ کا حق رکھتا ہے

یوسف بن عیسی، فضل بن موسی، ابی حمزہ، عبدالعزیز بن رفیع، ابن ابی ملیکہ، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہر شریک شفیع ہے اور شفعہ ہر چیز میں ہے۔ ہم کو نہیں معلوم کہ ابو حمزہ سکری کے علاوہ کسی اور نے اس کے مثل حدیث نقل کی ہو کئی راوی یہ حدیث عبدالعزیز بن رفیع سے وہ ابن ابی ملیکہ سے اور وہ نبی کریم سے مرسلاً نقل کرتے ہیں یہ زیادہ صحیح ہے۔

٭٭ ہناد، ابو بکر بن عیاش، عبدالعزیز بن رفیع، ابن ابی ملیکہ سے انہوں نے نبی سے اس کے ہم معنی اور اس کے مثل اور اس میں ابن عباس کا ذکر نہیں کیا۔ یہ حدیث ابو حمزہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے ابو حمزہ ثقہ ہیں ممکن ہے کہ اس میں کسی اور سے خطاء ہوئی ہو۔

٭٭ ہناد، ابو احوص، عبدالعزیز، رفیع، ابن ابی ملیکہ سے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ابی بکر عیاش کی حدیث کی مانند اکثر اہل علم کہتے ہیں کہ شفعہ صرف مکان اور زمین میں ہوتا ہے ہر چیز میں نہیں لیکن بعض اہل علم کہتے ہیں کہ شفعہ ہر چیز میں ہے پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔

گری پڑی چیز اور گم شدہ اونٹ یا بکری

حسن بن علی، یزید بن ہارون، عبداللہ بن نمیر، سفیان، سلمہ بن کہیل، حضرت سوید بن غفلہ سے روایت ہے کہ میں زید بن صوحان اور سلیمان بن ربیعہ کے ساتھ سفر میں نکلا تو ایک کوڑا پڑا ہوا پایا۔ ابن نمیر اپنی حدیث میں کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک کوڑا گرا ہوا پایا تو اسے اٹھا لیا اور دونوں ساتھیوں نے کہا کہ رہنے دو نہ اٹھاؤ میں نے کہا کہ نہیں میں اسے درندوں کی خوراک بننے کے لیے نہیں چھوڑوں گا اپنے کام میں لاؤں گا پھر میں ابی بن کعب کے پاس آیا اور ان سے قصہ بیان کیا انہوں نے فرمایا تم نے اچھا کیا مجھے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں سو دینار کی ایک تھیلی ملی تھی تو آپ نے حکم دیا کہ میں ایک سال تک اس کا اعلان اور تشہیر کروں میں نے اسی طرح کیا لیکن کوئی نہیں آیا پھر میں دوبارہ حاضر ہوا فرمایا ایک سال اور اسی طرح کرو میں پھر ایک سال تک اعلان کرتا رہا لیکن کسی نے بھی اپنی ملکیت ظاہر نہیں کی پھر تیسری مرتبہ بھی آپ نے یہی حکم دیا اور فرمایا کہ اس کے بعد ان کو گن لو اور تھیلی اور باندھنے والی رسی کو ذہن نشین رکھو پھر اگر تم سے کوئی انہیں طلب کرنے کے لیے آئے اور نشانیاں بتا دے تو اسے دے دو ورنہ استعمال کرو۔

٭٭ قتیبہ، اسماعیل بن جعفر، ربیعہ بن ابی عبدالرحمن، یزید، حضرت زید بن خالد جہنی سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم سے لقطہ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا ایک سال تک اس کا اعلان اور تشہیر کرو اور پھر اس کی تھیلی وغیرہ اور رسی کو ذہن نشین کر کے خرچ کر لو اور پھر اس کے بعد اگر اس کا مالک آ جائے تو اسے دے دو اس نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اگر کسی کی گم شدہ بکری ملے تو اس کا کیا حکم ہے آپ نے فرمایا اسے پکڑ لو۔ وہ تمہاری یا تمہارے بھائی کی ورنہ اسے کوئی بھیڑیا کھا جائے گا اس نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اگر کسی کا گمشدہ اونٹ ملے تو اس کا کیا حکم ہے اس پر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غصہ میں آ گئے یہاں تک کہ آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا۔ پھر آپ نے فرمایا تمہارا اس سے کیا کام ہے اسکے پاس چلنے کے لیے پاؤں بھی ہیں اور ساتھ میں پانی کا ذخیرہ بھی یہاں تک کہ اس کا مالک اس کو پالے۔ اس باب میں ابی بن کعب عبداللہ بن عمر، جارود بن معلی، عیاض بن حماد اور جریر بن عبداللہ سے بھی روایات منقول ہیں حدیث زید بن خالد حسن صحیح ہے اور ان سے متعدد اسناد سے مروی ہے منبعث کے مولی یزید کی حدیث بھی کئی سندوں سے انہی سے منقول ہے بعض علماء صحابہ وغیرہ اس پر عمل کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ گری پڑی ہوئی چیز کی ایک سال تک تشہیر کرنے کے بعد اسے استعمال کرنا جائز ہے امام شافعی، احمد، اور اسحاق کا یہی قول ہے بعض اہل علم فرماتے ہیں کہ ایک سال تک اس تشہیر کے بعد ھی اگر اس کا مالک نہ پہنچے تو اسے صدقہ کر دے سفیان ثوری، ابن مبارک، اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر وہ غنی ہو تو اس کا ایسی چیز کو استعمال کرنا جائز نہیں۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ اگرچہ وہ غنی ہی ہو پھر بھی وہ گری پڑی ہوئی چیز کو استعمال کر سکتا ہے۔ ان کی دلیل ابی بن کعب کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں حضرت ابی بن کعب کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں حضرت ابی بن کعب نے ایک تھیلی جس میں سو دینار تھے پائی تو نبی کریم نے انہیں حکم دیا کہ ایک سال تک تشہیر کریں پھر نفع اٹھائیں اور حضرت ابی بن کعب، مالدار تھے اور دولت مند صحابہ کرام میں سے تھے انہیں  نبی کریم نے تشہیر کا حکم دیا پھر مالک کے نہ ملنے پر استعمال کا حکم دیا اگر گم شدہ چیز حلال نہ ہوتی، تو حضرت علی کے لیے بھی حلال نہ ہوتی کیونکہ آپ نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں ایک دینار پایا اس کی تشہیر کی پھر جب کوئی پہچاننے والا نہ ملا تو آپ نے انہیں استعمال کرنے کا حکم دیا حالانکہ حضرت علی کے لیے صدقہ جائز نہیں بعض اہل علم نے بلا تشہیر گم شدہ چیز کو استعمال کرنے کی اجازت دی ہے جب کہ وہ گم شدہ چیز قلیل ہو بعض فرماتے ہیں کہ گم شدہ چیز دینار سے کم ہو تو ایک ہفتہ تک تشہیر کرے۔ اسحاق بن ابراہیم کا یہی قول ہے۔

٭٭ محمد بن بشار، ابو بکر، ضحاک بن عثمان، سالم، ابو نضر حضرت زید بن خالد جہنی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے لقطہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا ایک سال تک اس کی تشہیر کرو اور اگر کوئی پہچان لے تو اسے دے دو ورنہ اس کی تعداد تھیلی اور رسی وغیرہ کو ذہن نشین کر کے اسے استعمال کر لو تاکہ اگر اس کا مالک آ جائے تو اسے دے سکو۔ یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ اس باب میں یہ حدیث سب سے زیادہ صحیح ہے بعض صحابہ کرام اور دیگر علماء اسی پر عمل کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ ایک سال تک تشہیر کرنے کے بعد لقطہ کو استعمال کرنا جائز ہے امام شافعی، احمد، اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے۔

وقف کے بارے میں

علی بن حجر، اسماعیل بن ابراہیم، ابن عون، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ حضرت عمر کو خیبر میں کچھ زمین ملی تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھے خیبر میں ایسا مال ملا ہے کہ اس سے زیادہ کوئی چیز نہیں ملی۔ اس کے بارے میں آپ کا کیا حکم ہے فرمایا اگر چاہو تو اس کی اصل اپنے پاس رہنے دو اور اس کے نفع کو صدقہ کر دو۔ پس حضرت عمر نے وہ زمین صدقہ کر دی اس طرح کہ نہ بیچی جا سکتی اور نہ ہبہ کی جا سکتی تھی اور نہ ہی وراثت میں دی جا سکتی تھی، اس سے فقراء، اقربا غلاموں کو آزاد کرنے اللہ کی راہ اور مہمانوں وغیرہ پر خرچ کیا جاتا اس کے متولی پر اس کا استعمال کرنا جائز تھا بشرطیکہ عرف کے مطابق ہو اسی طرح وہ اپنے کسی دوست وغیرہ کو بھی کھلا سکتا تھا راوی کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث ابن سیرین کے سامنے بیان کی انہوں نے فرمایا اسے مال اکٹھا کرنے کا ذریعہ بنائے ابن عوف فرماتے ہیں ایک دوسرے آدمی نے مجھ سے بیان کیا کہ اس نے ایک سرخ چمڑے کے ٹکڑے پر غیر شامل کے الفاظ پڑھے یہ حدیث حسن صحیح ہے اسماعیل فرماتے ہیں کہ میں نے ابن عبید اللہ بن عمر کے پاس پڑھا اس میں یہی الفاظ تھے بعض صحابہ اور دیگر علماء کے نزدیک اسی پر عمل ہے ہم زمین وغیرہ کو وقف کرنے میں متقدمین حضرات میں کوئی اختلاف نہیں پاتے۔

 

 

 

قیامت کا بیان

باب

ہناد، ابو معاویة، داؤدبن ابی ہند، عزرة، حمیدبن عبدالرحمن حمیری، سعد بن ہشام، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ فرماتی ہیں کہ ہمارے ہاں ایک باریک پردہ تھا جس پر تصویریں بنی ہوئی تھیں میں نے اسے اپنے دروازے پر ڈال دیا جب آپ نے دیکھا تو فرمایا اسے اتار دو کیونکہ یہ مجھے دنیا کی یاد دلاتا ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہمارے ہاں ایک پرانی روئی دار چادر تھی اس پر ریشم کے نشانات بنے ہوئے تھے ہم اسے اوڑھا کرتے تھے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے

باب

ہناد، عبدة، ہشام بن عروة، عروة، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس تکیے پر لیٹا کرتے تھے وہ چمڑے کا تھا اور اس میں کھجور کے پتے بھرے ہوئے تھے یہ حسن صحیح ہے

٭٭ محمد بن بشار، یحیی بن سعید، سفیان، ابو اسحاق ، ابو میسرة، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم نے ایک بکری ذبح کی تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا کہ اس میں سے کیا باقی ہے میں نے عرض کیا صرف ایک بازو بچا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو پھر دستی کے سوا پورا گوشت باقی ہے یہ حدیث صحیح ہے اور ابو میسرہ ہمدانی کا نام عمر بن شرجیل ہے

٭٭ ہارون بن اسحاق ہمدانی، ہشام بن عروة، عروة، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہم آل محمد ایک ایک مہینہ گھر میں چولہا نہیں جلا سکتے تھے اس دوران ہماری خوراک پانی اور کھجور ہوتا تھا اور یہ حدیث صحیح ہے

٭٭ ہناد، ابو معاویة، ہشام بن عروة، عروة، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات ہوئی تو ہمارے پاس کچھ جو تھے چنانچہ ہم اس میں سے اتنی مدت کھاتے رہے جتنی اللہ کی چاہت تھی پھر میں نے اپنی لونڈی سے کہا کہ اس کا وزن کرو اس نے وزن کیا تو وہ بہت جلد ختم ہو گئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اگر ہم اسے اسی طرح چھوڑ دیتے اور وزن نہ کرتے تو اس سے مدت دراز تک کھاتے رہتے یہ حدیث صحیح ہے اور شطر کے معنی ہیں کہ کچھ جو تھے

٭٭ عبد اللہ بن عبدالرحمن، روح بن اسلم ابو حاتم بصری، حماد بن سلمة، ثابت، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں اللہ کی راہ میں اتنا ڈرایا گیا جتنا کسی دوسرے کو نہیں ڈرایا گیا پھر مجھے اتنی تکالیف پہنچائی گئیں جتنی کسی دوسرے کو نہیں پہنچائی گئیں نیز مجھ پر تیس دن اور تیس راتیں ایسی گزری ہیں کہ میرے اور بلال کے پاس اتنا کھانا بھی نہیں تھا جسے کوئی جگر والا کھائے مگر اتنی چیز جسے بلال کی بغل چھپا لیتی یہ حدیث حسن صحیح ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت بلال مکہ مکرمہ سے تشریف لے گئے تو حضرت بلال کے پاس صرف اتنا کھانا تھا جسے انہوں نے اپنی بغل کے نیچے دبایا ہوا تھا

٭٭ ہناد، یونس بن بکیر، محمد بن اسحاق، یزید بن زیاد، محمد بن کعب قرظی، حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ سخت سردی کے دنوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گھر سے نکلا چنانچہ میں نے ایک بدبودار چمڑا لیا اور اسے درمیان سے کاٹ کر اپنی گردن میں ڈال لیا اور اپنی کمر کھجور کی ٹہنی سے باندھ لی اس وقت مجھے بہت سخت بھوک لگ رہی تھی اگر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گھر میں کچھ ہوتا تو میں کھا لیتا چنانچہ میں کوئی چیز تلاش کر رہا تھا کہ ایک یہودی کو دیکھا جو اپنے باغ میں تھا میں نے دیوار کے سوارخ میں سے جھانکا تو وہ اپنی چرخی سے پانی دے رہا تھا اس نے مجھ سے کہا کیا ہے دیہاتی ایک کھجور کے بدلے ایک ڈول پانی کھینچو گے میں نے کہا ہاں دروازہ کھولو میں اندر گیا تو اس نے مجھے ڈول دیا میں نے پانی نکالنا شروع کیا وہ مجھے ہر ڈول نکالنے پر ایک کھجور دے دیتا یہاں تک کہ میری مٹھی بھر گئی تو میں نے کہا بس پھر میں کھجوریں کھائیں پھر پانی پیا اور مسجد آیا تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو وہیں پایا یہ حدیث حسن غریب ہے

٭٭ ابوحفص عمرو بن علی، محمد بن جعفر، شعبة، عباس جریری، ابو عثمان نہدی، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگوں (یعنی اصحاب صفہ) کو بھوک لگی تو رسول اللہ نے ہمیں ایک ایک کھجور دی۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

٭٭ ہناد، عبدة، ہشام بن عروة، عروة، وہب بن کیسان، حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں جنگ کے لیے بھیجا۔ اس وقت ہمارے قافلے کی تعداد تین سو تھی۔ سب نے اپنا اپنا توشہ خود اٹھایا ہوا تھا۔ یعنی کم تھا۔ پھر وہ ختم ہونے لگا تو ہم میں سے ہر آدمی کے حصے میں ایک دن کے لیے ایک ہی کھجور آتی۔ ان سے کہا گیا کہ ایک کھجور سے ایک آدمی کا کیا بنتا ہو گا۔ فرمایا جب وہ ایک ملنا بھی بند ہو گئی تو ہمیں اس کی قدر ہوئی۔ پھر ہم لوگ سمندر کے کنارے پہنچے تو دیکھا کہ سمندر نے ایک مچھلی کو پھینک دیا ہے یعنی وہ کنارے لگی ہوئی چنانچہ ہم نے اس میں سے اٹھارہ دن تک خوب سیر ہو کر کھایا۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

٭٭ ہناد، یونس بن بکیر، محمد بن اسحاق، یزید بن زیاد، محمد بن کعب قرظی، حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ مصعب بن عمیر داخل ہوئے۔ انکے بدن پر صرف ایک چادر تھی جس پر پوستین کے پیوند لگے ہوئے تھے۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں دیکھا تو رونے لگے کہ مصعب کل کس نازونعم میں تھے اور آج ان کا کیا حال ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم سے پوچھا کہ کل اگر تم لوگوں کو اتنی آسودگی میسر ہو جائے کہ صبح ایک جوڑا ہو اور شام کو ایک جوڑا۔ پھر انواع واقسام کے کھانے کی پلیٹیں تمہارے آگے یکے بعد دیگرے لائی جاتی ہوں نیز تم لوگ اپنے گھروں میں کعبہ کے غلاف کی طرح پردے ڈالنے لگو تو تم لوگوں کا کیا حال ہو گا؟ عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس دن ہم آج کے مقابلے میں بہت اچھے ہوں گے کیونکہ محنت ومشقت کی ضرورت نہ ہونے کی وجہ سے عبادت کے لیے فارغ ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں ! بلکہ تم لوگ آج اس سے بہتر ہو۔ یہ حدیث حسن غریب ہے اور یزید بن زیادی مدینی ہیں۔ مالک بن انس اور دوسرے علماء نے ان سے روایات لی ہیں۔ یزید بن زیاد دمشقی جو زہری سے روایت کرتے ہیں ان سے وکیع اور مروان بن معاویہ نے روایت کی ہے۔ یزید بن زیاد کوفی سے سفیان، شعبہ ابن عیینہ اور کئی آئمہ حدیث احادیث نقل کرتے ہیں۔

٭٭ ہناد، یونس بن بکیر، عمربن ذر، مجاہد، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اصحاب صفہ مسلمانوں کے مہمان تھے۔ کیونکہ ان کا کوئی گھر نہیں تھا اور نہ ہی انکے پاس مال تھا۔ اس پروردگار کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں میں بھوک کی شدت کی وجہ سے اپنا کلیجہ زمین پر ٹیک دیا کرتا تھا اور اپنے پیٹ پر پتھر باندھا کرتا تھا۔ ایک دن میں راستہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ ابو بکر وہاں سے گزرے تو میں نے ان سے صرف اس لیے ایک آیت کی تفسیر پوچھی کہ وہ مجھے ساتھ لے جائے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ پھر عمر گزرے تو ان سے بھی اسی طرح سوال کیا وہ بھی چلے گئے اور مجھے ساتھ نہیں لے گئے۔ پھر ابو قاسم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا گزر ہوا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھے دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا ابو ہریرہ ! میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھے لے کر اپنے گھر تشریف لے گئے۔ پھر میں نے اجازت چاہی تو مجھے بھی داخل ہونے کی اجازت دی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دودھ کا پیالہ پیش کیا گیا تو پوچھا کہ یہ کہاں سے آیا ہے ؟ عرض کیا گیا فلاں نے ہدیے میں بھیجا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ سے مخاطب ہوئے اور حکم دیا کہ اہل سفہ کو بلا لاؤ۔ کیونکہ وہ لوگ مسلمانوں کے مہمان ہیں اور ان کا کوئی گھر بار نہیں۔ چنانچہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس کوئی صدقہ وغیرہ آتا تو اسے انہی کے پاس بھیج دیا کرتے اور اگر ہدیہ آتا تو انہیں بھی اپنے ساتھ شریک کرتے۔ حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں مجھے یہ چیز ناگوار گزری کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک پیالہ دودھ کے لیے مجھے اصحاب صفہ کو بلانے کا حکم دے رہے ہیں۔ انکے لیے اس ایک پیالہ دودھ کی بھلا کیا حیثیت ہے۔ پھر مجھے حکم دیں گے کہ اس پیالے کو لے کر باری باری سب کو پلاؤ۔ لہذا میرے لئے تو کچھ بھی نہیں بچے گا۔ جبکہ مجھے امید تھی کہ میں اس سے بقدر کفایت پی سکوں گا اور وہ تھا بھی اتنا ہی۔ لیکن چونکہ اطاعت ضروری تھی لہذا چار و ناچار انہیں بلا کر لایا۔ پھر جب وہ لوگ (اصحاب صفہ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں پہنچے اور اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے ابو ہریرہ ! یہ پیالہ پکڑو اور ان کو دیتے جاؤ۔ ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ میں نے پیالہ لے کر ایک کو دیا انہوں نے سیر ہو کر دوسرے کو دیا یہاں تک کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس پہنچ گیا۔ حالانکہ تمام افراد سیر ہو چکے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پیالہ اپنے دستِ مبارک میں رکھا پھر سر اٹھا کر مسکرائے اور فرمایا ابو ہریرہ پیو۔ میں نے پیا۔ پھر فرمایا پیو۔ یہاں تک کہ میں پیتا رہا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہی فرماتے رہے کہ پیو۔ آخر میں نے عرض کیا اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دین حق کے ساتھ بھیجا اب اسے پینے کی گنجائش نہیں۔ پھر آپ نے پیالہ لیا اور اللہ کی تعریف بیان کرنے کے بعد بِسْمِ اللَّہِ پڑھی اور خود بھی پیا۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

٭٭ محمد بن حمید رازی، عبدالعزیز بن عبداللہ قرشی، یحیی بکاء، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے ڈکار لی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اپنی ڈکار کو ہم سے دور رکھو کیونکہ دنیا میں زیادہ پیٹ بھر کر کھانے والے قیامت کے دن سب سے زیادہ بھوکے رہیں گے۔ یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ اس باب میں حضرت ابو جحیفہ سے بھی روایت ہے

٭٭  قتیبہ ، ابو عوانہ، قتادہ، ابو بردہ، حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے سے فرمایا اے بیٹے ! اگر تم ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ (یعنی عہد نبوی میں) دیکھتے اور کبھی بارش ہو جاتی تو تم کہتے ہمارے جسم کی بو بھیڑ کی بو کی طرح ہے۔ یہ حدیث صحیح ہے۔ اور حدیث کا مطلب یہ ہے کہ صحابہ کرام کے کپڑے چونکہ اونی ہوتے تھے۔ اس لیے جب بارش ہوتی تو ان سے بھیڑ کی سی بو آنے لگتی۔

٭٭ عباس دوری، عبداللہ بن یزید مقری، سعید بن ابی ایوب، ابو مرحوم عبدالرحیم بن میمون، سہل بن حضرت معاذ بن انس جہنی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس نے تواضع کے پیش نظر (نفیس و قیمتی) لباس ترک کیا حالانکہ وہ اس پر قدرت رکھتا ہے تو قیامت کے دن اللہ تعالی اسے مخلوق کے سامنے بلائے گا اور اسے اختیار دے گا کہ اہل ایمان کے لباسوں میں سے جسے چاہے پہن لے۔

٭٭ محمد بن حمید رازی، زافر بن سلیمان، اسرائیل، شبیب بن بشیر، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نفقہ پورے کا پورا اللہ کی راہ میں شمار ہوتا ہے۔ ہاں البتہ جو عمارت وغیرہ پر خرچ کیا جاتا ہے اس میں خیر نہیں۔ یہ حدیث غریب ہے۔ محمد بن حمید نے (راوی کا نام) شبیب بن بشیر (یاء کے ساتھ) بیان کیا ہے۔ جبکہ صحیح نام (بغیر یاء کے) شبیب بن بشر ہے۔

٭٭ علی بن حجر ، شریک ، اسحاق ، حارثہ بن مضرب کہتے ہیں کہ خباب کی عیادت کیلئے گئے انہوں نے سات داغ دلوائے تھے چنانچہ انہوں نے فرمایا کہ میرا مرض طویل ہو گیا ہے اگر میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو موت کی تمنا کرنے کی ممانعت کرتے ہوئے نہ سنا ہوتا تو یقیناً میں موت کی آرزو کرتا۔ نیز فرمایا (حضرت خباب نے) ہر آدمی کو نفقے پر اجر دیا جاتا ہے مگر یہ کہ وہ مٹی پر خرچ کرے (یعنی اس پر کوئی اجر نہیں) یہ حدیث صحیح ہے۔

٭٭ جارود ، فضل بن موسیٰ ، سفیان ثوری ، ابو حمزہ ، حضرت سے روایت ہے کہ ہر تعمیر تمہارے لئے وبال کا باعث ہے پوچھا گیا جس کے بغیر گزارہ نہ ہو اس کا کیا حکم ہے انہوں نے فرمایا نہ گناہ اور نہ ہی ثواب

٭٭ محمود بن غیلان، ابو احمد زبیری، خالد بن طہمان ابو علاء، حضرت حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک سائل نے ابن عباس سے سوال کیا تو انہوں نے اس سے پوچھا کہ کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ اس نے عرض کیا ہاں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تم گواہی دیتے ہو کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ کے رسول ہیں۔ اس نے کہا ہاں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تم رمضان کے روزے رکھتے ہو؟ اس نے کہا ہاں پھر فرمایا کہ تم نے مجھ سے کچھ مانگا ہے اور سائل کا بھی حق ہے لہذا مجھ پر فرض ہے کہ میں تمہیں کچھ نہ کچھ دوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے کپڑا عطا فرمایا اور فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص کسی مسلمان کو کپڑا پہنائے وہ اللہ تعالی کی حفاظت میں ہوتا ہے جب تک کہ پہننے والے پر اس کپڑے کا ایک ٹکڑا بھی باقی ہے۔ یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔

٭٭ محمد بن بشار، عبدالوہاب ثقفی و محمد بن جعفر و ابن ابی عدی و یحیی بن سعید، عوف بن ابی جمیلة، زرارة بن اوفی، حضرت عبداللہ بن سلام سے روایت ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ طیبہ تشریف لائے تو لوگ دوڑتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف آئے اور مشہور ہو گیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لے آئے۔ میں بھی لوگوں کے ساتھ آیا تاکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھوں۔ جب میری نظر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چہرہ انور پر پڑی تو میں بے اختیار یہ کہنے پر مجبور ہو گیا کہ یہ کسی جھوٹے آدمی کا چہرہ نہیں ہو سکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس موقع پر پہلی مرتبہ یہ بات فرمائی کہ اے لوگو سلام کو رواج دو، لوگوں کو کھانا کھلاؤ اور رات کو جب لوگ سو جائیں تو نماز پڑھا کرو سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو گے۔ یہ حدیث صحیح ہے۔

٭٭ اسحاق بن موسیٰ انصاری، محمد بن معن مدینی غفاری، ان کے والد، سعید مقبری، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کھانے والا شکر گزار، صبر کرنے والے روزہ دار کے برابر ہے (یعنی ثواب میں)۔ یہ حدیث حسن غریب۔

٭٭ ہناد، عبدة، ہشام بن عروة، موسیٰ بن عقبة، عبداللہ بن عمرو اودی، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا میں تم لوگوں کو ایسے شخص کے متعلق نہ بتاؤں جس پر دوزخ کی آگ حرام اور وہ آگ پر حرام ہے ؟ یہ وہ شخص ہے جو اقرباء کے لیے سہولت اور آسانی پیدا کرتا ہے۔ یہ حدیث حسن غریب ہے۔

٭٭ ہناد، وکیع، شعبة، حکم، ابراہیم، حضرت اسود بن یزید کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گھر میں داخل ہوتے تو کیا کرتے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا گھر کے کام کاج کرتے اور جب نماز کا وقت ہو جاتا تو اٹھ کھڑے ہوتے اور نماز پڑھتے۔ یہ حدیث صحیح ہے۔

٭٭ سوید بن نصر، عبد اللہ، محمد بن عجلان، حضرت عمرو بن شعیب بواسطہ والد اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قیامت کے دن متکبرین چیونٹیوں کی طرح آدمیوں کی صورت میں اٹھائے جائیں گے ہر طرف سے انہیں ذلت ڈھانپ لے گی پھر وہ لوگ جہنم کے ایک قید خانے کی طرف دھکیلے جائیں گے جس کا نام بولس ہے۔ ان پر آگ چھا جائے گی اور انہیں دوزخیوں کی پیپ پلائی جائے جو سڑا ہوا بدبو دار کیچڑ ہے۔ یہ حدیث حسن ہے۔

٭٭ ہناد، ابو الاحوص، عطاء بن سائب، سائب، حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک آدمی اپنے لباس میں تکبر کرتے ہوئے نکلا تو اللہ تعالی نے زمین کو حکم دیا تو زمین نے اسے پکڑ لیا۔ پس وہ اب زمین میں قیامت تک دھنستا چلا جائے گا۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں۔ یہ حدیث صحیح ہے۔

٭٭ سوید ، عبداللہ ، محمد بن عجلان، حضرت عمرو بن شعیب بواسطہ والد اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قیامت کے دن متکبرین چیونٹیوں کی طرح آدمیوں کی صورت میں اٹھائے جائیں گے ہر طرف سے ذلت انہیں ڈھانپ لے گی پھر وہ لوگ جہنم کے ایک قید خانے کی طرف دھکیلے جائیں گے جس کا نام بولس ہے ان پر آگ چھا جائے گی اور انہیں دوزخیوں کی پیپ پلائی جائے گی جو سڑا ہوا بدبو دار کیچڑ ہے۔ یہ حدیث حسن ہے۔

٭٭ عبد بن حمیدوعباس بن محمد دوری، عبد اللہ بن یزید، سعید بن ابی ایوب، ابو مرحوم عبدالرحیم بن میمون، سہل بن حضرت معاذ بن انس رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص غصے کو پی جائے حالانکہ وہ جاری کرنے پر قادر ہے۔ اللہ تعالی اسے لوگوں کے سامنے بلائے گا اور اختیار دے گا کہ جس حور کو چاہے پسند کرے۔ یہ حدیث حسن غریب ہے۔

٭٭ سلمة بن شبیب، عبداللہ بن ابراہیم غفاری مدینی، ان کے والد، ابو بکر بن منکدر، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تین نیکیاں ایسی ہیں کہ جو انہیں اختیار کرے گا اللہ تعالی قیامت کے دن اسے اپنی حفاظ میں رکھے گا اور جنت میں داخل کرے گا۔ ضعیف پر نرمی کرنا، والدین کے ساتھ شفقت سے پیش آنا اور غلام پر احسان کرنا۔ یہ حدیث غریب ہے۔

 

 

 

طہارت جو مروی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے

طہارت کی فضلیت کا بیان

اسحاق بن موسیٰ انصاری، معن بن عیسی، مالک بن انس، قتیبہ، مالک، سہیل بن ابی صالح، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب مسلمان بندہ یا مومن بندہ وضو کرتا ہے اور اپنے چہرہ کو دھوتا ہے تو پانی یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ اس کی تمام خطائیں دھل جاتی ہیں جن کا ارتکاب اس نے آنکھوں سے کیا تھا اور جب وہ اپنے دونوں ہاتھ دھوتا ہے تو اس کی تمام خطائیں پانی یا پانی کے آخری قطرہ کے ساتھ دھل جاتی ہیں جو اس کے ہاتھوں سے ہوئی تھیں یہاں تک کہ وہ گناہوں سے پاک ہو کر نکلتا ہے ابو عیسیٰ کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اسے مالک سہیل سے وہ اپنی اولاد سے اور وہ ابو ہریرہ سے نقل کرتے ہیں سہیل کے والد ابو صالح سمان کا نام ذکوان ہے اور حضرت ابو ہریرہ کے نام میں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ ان کا نام عبد شمس ہے اور بعض کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر ہے محمد بن اسماعیل بخاری نے بھی اسی طرح کہا ہے اور یہی صحیح ہے اور اس باب میں عثمان ثوبان صنابحی عمرو بن عبسہ سلیمان اور عبداللہ بن عمر سے بھی احادیث مذکور ہیں اور صنابحی جو حضرت ابو بکر سے روایت کرتے ہیں ان کہ ان کا سماع نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ثابت نہیں ان کا نام عبدالرحمن بن عسیلہ اور کینت ابو عبد اللہ ہے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے شرف ملاقات کے لئے سفر کیا وہ سفر میں تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات ہو گئی انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بہت سی حدیثیں روایت کی ہیں صنابح بن اعسر احمس ہیں وہ صحابی ہیں ان کو بھی صنابحی کہا جاتا ہے ان سے صرف ایک ہی حدیث مروی ہے انہوں نے کہا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ میں تمہاری کثرت پر دوسری امتوں پر فخر کرنے والا ہوں پس میرے بعد آپس میں قتال نہ کرنا۔

بے شک طہارت نماز کی کنجی ہے

قتیبہ، ہناد، محمود بن غیلان، وکیع، سفیان، محمد بن بشار، عبدالرحمن، سفیان، عبداللہ بن محمد بن عقیل، محمد بن حنفیہ، علی سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نماز کی کنجی طہارت ہے اس کی تحریم تکبیر اور اس کی تحلیل سلام ہے ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث اس باب میں صحیح اور احسن ہے عبداللہ بن محمد بن عقیل سچے ہیں بعض محدثین نے ان کے حافظے پر اعتراض کیا ہے اور میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو فرماتے ہوئے سنا کہ امام احمد بن حنبل اور اسحاق بن ابراہیم اور حمیدی عبداللہ بن محمد بن عقیل کی روایت سے حجت پکڑتے تھے محمد بن اسماعیل نے ان کو مقارب الحدیث کہا ہے اور اس باب میں حضرت جابر اور ابو سعید سے بھی روایات منقول ہیں۔

بیت الخلاء میں داخل ہوتے وقت کیا کہے

قتیبہ، ہناد، وکیع، شعبہ، عبدالعزیز بن صہیب، انس بن مالک سے روایت کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب بیت الخلاء میں داخل ہوتے تو فرماتے (اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُبِکَ) اے اللہ میں تیری پناہ میں آتا ہوں شعبہ کہتے ہیں کہ ایک اور مرتبہ فرمایا (أَعُوذُ بِکَ مِنْ الْخُبْثِ وَالْخَبِیثِ أَوْ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ) میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں شر سے اور اہل شر سے یا فرمایا ناپاک جنوں سے اور ناپاک جنوں کی عورتوں سے اس باب میں حضرت علی زید بن ارقم جابر اور ابن مسعود سے بھی روایات مروی ہیں ابو عیسیٰ فرماتے ہیں حدیث انس اس باب میں اصح اور احسن ہے اور زید بن ارقم کی روایت میں اضطراب ہے ہشام دستوائی اور سعید بن ابی عروبہ قتادہ سے روایت کرتے ہیں سعید نے کہا وہ قاسم بن عوف شیبانی سے اور وہ زید بن ارقم سے روایت کرتے ہیں ہشام نے کہا وہ قتادہ سے اور وہ زید بن ارقم سے روایت کرتے ہیں اس حدیث کو شعبہ اور معمر نے قتادہ سے اور انہوں نے نضر بن انس سے روایت کیا ہے شعبہ کہتے ہیں کہ زید بن ارقم سے روایت ہے کہ معمر کہتے ہیں کہ روایت ہے نضر بن انس سے وہ روایت کرتے ہیں اپنے باپ سے ابو عیسیٰ کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا محمد بن اسماعیل بخاری سے اس کے متعلق تو انہوں نے کہا کہ احتمال ہے کہ قتادہ نے دونوں سے اکٹھے نقل کیا ہو یعنی قاسم اور نضر سے۔

٭٭ احمد بن عبدة ضبی، حماد بن زید، عبدالعزیز بن صہیب، انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیت الخلاء جاتے تو فرماتے (اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ الْخُبْثِ وَالْخَبَائِثِ) اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں ناپاکی اور برے کاموں سے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

بیت الخلاء سے نکلتے وقت کیا کہے

محمد بن اسماعیل، مالک بن اسماعیل، اسرائیل، یوسف بن ابو بردہ، عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب بیت الخلاء سے نکلتے تو فرماتے (غُفْرَانَکَ) اے اللہ میں تیری بخشش چاہتا ہوں ابو عیسیٰ کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن غریب ہے ہم اسے اسرائیل کی روایت کے علاوہ نہیں جانتے اسرائیل یوسف بن ابی بردہ سے روایت کرتے ہیں ابو بردہ بن ابی موسیٰ کا نام عامر بن عبداللہ بن قیس اشعری ہے اور اس باب میں حضرت عائشہ کی حدیث کے علاوہ اور کوئی حدیث معلوم نہیں ہوئی

قضائے حاجت اور پیشاب کے وقت قبلہ رخ ہونے کی مخالفت کے بارے میں

سعید بن عبدالرحمن مخزومی، سفیان بن عیینہ، زہری، عطاء بن یزید لیثی، ابو ایوب انصاری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم قضائے حاجت یا پیشاب کے لئے جاؤ تو قبلہ رخ نہ کرو اور نہ پشت بلکہ مشرق یا مغرب کی طرف رخ کیا کرو ابو ایوب کہتے ہیں کہ جب ہم شام گئے تو ہم نے دیکھا کہ بیت الخلاء قبلہ رخ بنے ہوئے ہیں لہذا ہم رخ پھیر لیتے اور اللہ سے مغفرت طلب کرتے اس باب میں عبداللہ بن حارث اور معقل بن ابی ہثیم جنہیں ابو ہریرہ ابو امامہ اور سہل بن حنیف سے بھی روایات منقول ہیں ابو عیسیٰ ترمذی کہتے ہیں کہ ابو ایوب کی حدیث اس باب میں احسن اور اصح ہے اور ابو ایوب کا نام خالد بن زید ہے اور زہری کا نام محمد بن مسلم بن عبید اللہ بن شہاب الزہری ہے اور انکی کنیت ابو بکر ہے اور ابو الولید مکی نے کہا کہ ابو عبد اللہ شافعی نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو یہ فرمایا کہ قبلہ کی طرف پیشاب یا قضائے حاجت کے وقت اور نہ پیٹھ کرو اور اس طرف سے مراد جنگل ہے جبکہ اس مقصد کے لئے بنائے گئے بیت الخلاء میں قبلہ رخ ہونے کی اجازت ہے اسحاق کہتے ہیں کہ خواہ صحرا ہو یا بیت الخلاء قبلہ کی طرف پیٹھ کرنا تو جائز ہے لیکن قبلہ کی طرف رخ کرنا جائز نہیں ہے۔

قبلہ کی طرف رخ کرنے میں رخصت

محمد بن بشار، محمد بن مثنی، وہب بن جریر، محمد بن اسحاق، ابان بن صالح، مجاہد، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ منع کیا ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبلہ کی طرف رخ کر کے پیشاب کرنے سے پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وفات سے ایک سال قبل آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو قبلہ کی طرف رخ کرتے ہوئے دیکھا اس باب میں حضرت عائشہ ابو قتادہ اور عمار سے بھی احادیث نقل کی گئی ہیں ابو عیسیٰ نے فرمایا حدیث جابر اس باب میں حسن غریب ہے اس حدیث کو ابن لہیعہ نے ابو زبیر سے انہوں نے جابر سے انہوں نے ابو قتادہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا قبلہ کی طرف رخ کر کے پیشاب کرتے ہوئے دیکھا ہمیں اس کی خبر قتیبہ نے دی وہ اسے ابن الہیہ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں جابر کی حدیث ابن لہیعہ کی حدیث سے اصح ہے ابن لہیعہ محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں اور یحیی بن سعید قطان وغیرہ نے انہیں ضعیف کہا ہے

٭٭ ہناد، عبدہ، عبید اللہ بن عمر، محمد بن یحیی بن حبان، واسع بن حبان، ابن عمر سے روایت ہے کہ میں ایک دن حضرت حفصہ کے مکان پر چڑھا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو قضائے حاجت کے لئے بیٹھے ہوئے دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا رخ شام اور پشت قبلے کی طرف تھی یہ حدیث حسن صحیح ہے .

کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی ممانعت

علی بن حجر، شریک، مقدام بن شریح، عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اگر تم میں سے کوئی کہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہو کر پیشاب کرتے تھے تو اس کی تصدیق نہ کرو کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمیشہ بیٹھ کر پیشاب کرتے تھے اس باب میں عمر اور بریدہ سے بھی روایت منقول ہے ابو عیسیٰ کہتے ہیں کہ حدیث عائشہ اس باب میں احسن اور اصح ہے حضرت عمر کی حدیث عبدالکریم بن ابی المخارق سے وہ نافع سے وہ ابن عمر سے اور ابن عمر حضرت عمر سے روایت کرتے ہیں کہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کھڑے ہو کر پیشاب کرتے دیکھا تو فرمایا اے عمر کھڑے ہو کر پیشاب نہ کر پھر میں نے کبھی کھڑے ہو کر پیشاب نہیں کیا اس حدیث کو عبدالکریم بن ابو المخارق نے مرفوعاً روایت کیا ہے اور وہ محدثین کے نزدیک ضعیف ہے ایوب سختیانی نے اسے ضعیف قرار دیا اور اس کے بارے میں کلام کیا ہے عبید اللہ نافع سے اور وہ ابن عمر سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے فرمایا جب سے مسلمان ہوا میں نے کبھی کھڑے ہو کر پیشاب نہیں کیا یہ حدیث عبدالکریم کی حدیث سے اصح ہے بریدہ کی حدیث غیر محفوظ ہے اس باب میں پیشاب کرنے کی ممانعت تادیبا حرام نہیں حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ کھڑے ہو کر پیشاب کرنا ظلم ہے۔

کھڑے ہو کر پیشاب کر نے کی رخصت

ہناد، وکیع، اعمش، ابو وائل سے روایت ہے کہ حضرت حذیفہ نے فرمایا نبی ایک قوم کے ڈھیر پر آئے اور اس پر کھڑے ہو کر پیشاب کیا پھر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے وضو کا پانی لایا اور پیچھے ہٹنے لگا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے بلا لیا یہاں تک کہ میں ان کے پیچھے پہنچ گیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو کیا اور موزوں پر مسح کیا ابو عیسیٰ نے کہا کہ منصور اور عبیدہ نے ابو وائل اور حذیفہ کے واسطے سے اعمش ہی کی طرح روایت نقل کی ہے اس کے علاوہ حماد بن ابی سلیمان اور عاصم بن بہدلہ ابو وائل سے وہ مغیرہ بن شعبہ سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں ابو وائل کی حدیث حذیفہ سے اصح ہے اور اہل علم کی ایک جماعت نے کھڑے ہو کر پیشاب کرنے میں رخصت دی ہے

قضائے حاجت کے وقت پردہ کرنا

قتیبہ، عبدالسلام بن حرب، اعمش، انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب قضائے حاجت کا ارادہ فرماتے تو اس وقت تک کپڑا نہ اٹھاتے جب تک زمین کے قریب نہ ہو جاتے ابو عیسیٰ نے فرمایا اس حدیث کو اسی طرح روایت کیا ہے محمد بن ربیعہ نے اعمش سے انہوں نے انس سے پھر وکیع اور حماد نے اعمش سے روایت کیا ہے کہ اعمش نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن عمر کہا کرتے تھے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قضائے حاجت کا ارادہ کرتے تو اس وقت تک کپڑا نہ اٹھاتے جب تک زمین کے قریب نہ ہو جاتے یہ دونوں حدیثیں مرسل ہیں کہا جاتا ہے کہ اعمش نے انس بن مالک یا کسی بھی صحابی سے حدیث نہیں اور انہوں نے انس بن مالک کو نماز پڑھتے دیکھا ہے اور انکی نماز کی حکایت بیان کی اور اعمش کا نام سلیمان بن مہران ہے اور انکی کنیت ابو محمد کاہلی ہے اور وہ بنی کاہل کے مولی ہیں اعمش کہتے ہیں کہ میرے باپ کو بچپن میں لایا گیا تھا اپنے شہر سے اور حضرت مسروق نے ان کو وارث بنایا۔

 

داہنے ہاتھ سے استنجا کرنے کی کراہت

محمد بن ابی عمر مکی، سفیان بن عیینہ، معمر، یحیی بن ابی کثیر، عبداللہ بن ابی قتادہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آلہ تناسل کو دائیں ہاتھ سے چھونے سے منع فرمایا اس باب میں حضرت عائشہ سلمان ابو ہریرہ اور سہل بن حنیف سے بھی احادیث مروی ہیں ابو عیسیٰ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور ابو قتادہ کا نام حارث بن ربعی ہے اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ دائیں ہاتھ سے استنجاء کرنا مکروہ ہے۔

پتھروں سے استنجا کر نا

ہناد، ابو معاویہ، اعمش، ابراہیم، عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں کہ سلمان فارسی سے کہا گیا تمہارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تمہیں ہر بات سکھائی یہاں تک کہ قضائے حاجت کا طریقہ بھی بتایا سلمان نے کہا ہاں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں قضائے حاجت کے وقت قبلہ رخ ہونے سے منع کیا داہنے ہاتھ سے استنجاء کرنے تین ڈھیلوں سے کم کے ساتھ استنجاء کرنے اور گوبر اور ہڈی سے استنجاء کرنے سے بھی منع فرمایا اس باب میں عائشہ خزیمہ بن ثابت جابر اور خلاد بن سائب سے بھی احادیث مروی ہیں خلاد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ابو عیسیٰ فرماتے ہیں کہ سلمان کی حدیث حسن صحیح ہے اکثر اہل علم اور صحابہ کا یہی قول ہے کہ اگر پیشاب یا پاخانہ کا اثر پانی کے بغیر ختم ہو جائے تو پتھروں سے ہی استنجاء کافی ہے ثوری ابن مبارک امام شافعی احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے۔

دو پتھروں سے استنجا کر نا

ہناد، قتیبہ، وکیع، اسرائیل، ابو اسحاق ، عبیدہ، عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قضائے حاجت کے لئے نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میرے لئے تین ڈھیلے تلاش کرو حضرت عبداللہ کہتے ہیں میں دو پتھر اور ایک گوبر کا ٹکڑا لیکر حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ڈھیلے لے لئے اور گوبر کا ٹکڑا پھینک دیا اور فرمایا کہ یہ ناپاک ہے ابو عیسیٰ کہتے ہیں کہ قیس بن ربیع نے اس حدیث کو اسی طرح روایت کیا ہے ابواسحاق سے انہوں نے ابو عبیدہ سے انہوں نے عبداللہ سے حدیث اسرائیل کی طرح معمر اور عمار بن زریق بھی ابو اسحاق سے وہ علقمہ سے اور وہ عبداللہ سے یہی حدیث نقل کرتے ہیں زہیر ابو اسحاق سے وہ عبدالرحمن بن یزید سے اور وہ عبداللہ سے اسے نقل کرتے ہیں اور اس روایت میں اضطراب ہے ابو عیسیٰ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عبدالرحمن سے سوال کیا کہ ابو اسحاق کی ان روایات میں سے کونسی روایت صحیح ہے تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا اور میں نے سوال کیا محمد بن اسماعیل سے انہوں نے بھی کوئی فیصلہ نہیں دیا شاید امام بخاری کے نزدیک زہیر کی حدیث اصح ہے جو مروی ہے ابو اسحاق سے وہ روایت کرتے ہیں عبدالرحمن بن اسود سے وہ اپنے والد سے اور وہ عبداللہ سے اور اس حدیث کو امام بخاری نے اپنی کتاب میں بھی نقل کیا ہے امام ترمذی کہتے ہیں اس باب میں میرے نزدیک اسرائیل اور قیس کی روایت زیادہ اصح ہے جو مروی ہے ابواسحاق سے وہ روایت کرتے ہیں ابو عبیدہ سے اور وہ عبداللہ سے روایت کرتے ہیں اس لئے کہ اسرائیل ابو اسحاق کی روایت میں دوسرے راویوں کی نسبت بہت اثبت ہیں اور زیادہ یاد رکھنے والے ہیں قیس بن ربیع نے انکی متابعت کی ہے میں نے ابو موسیٰ محمد بن مثنی سے سنا وہ کہتے تھے میں نے عبدالرحمن بن مہدی سے سنا وہ کہتے تھے کہ مجھ سے سفیان ثوری کی ابو اسحاق سے منقول جو احادیث چھوٹ گئیں انکی وجہ یہ ہے کہ میں نے اسرائیل پر بھروسہ کیا کیونکہ وہ انہیں پورا پورا بیان کرتے تھے ابو عیسیٰ نے کہا زہیر کی روایت ابو اسحاق سے زیادہ قوی نہیں اس لئے کہ زہیر کا ان سے سماع آخر وقت میں ہوا میں نے احمد بن حسن سے سنا وہ کہتے تھے کہ احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ جب تم زائدہ اور زہیر کی حدیث سنو تو کسی دوسرے سے سننے کی ضرورت نہیں مگر یہ کہ وہ حدیث ابو اسحاق کا نام عمرو بن عبداللہ ہے ابو عبیدہ بن عبداللہ بن مسعود نے اپنے والد سے کوئی حدیث نہیں سنی اور ابو عبیدہ کا نام ہم نہیں جانتے روایت کی ہم سے محمد بن بشار نے انہوں نے محمد بن جعفر سے انہوں نے شعبہ سے انہوں نے عمرو بن مرہ سے کہ عمرو نے ابو عبید اللہ بن عبداللہ بن مسعود سے پوچھا کیا تمہیں عبداللہ بن مسعود سے سنی ہوئی کچھ باتیں یاد ہیں تو انہوں نے فرمایا نہیں۔

جن سے استنجا کرنا مکروہ ہے

ہناد، حفص بن غیاث، داؤد بن ابو ہند، شعبی، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم گوبر اور ہڈی سے استنجاء نہ کرو اس لئے کہ وہ تمہارے بھائی جنوں کی غذا ہے اس باب میں ابو ہریرہ سلیمان جابر اور ابن عمر سے بھی احادیث مروی ہیں۔

پانی سے استنجا کرنا

قتیبہ محمد بن عبدالملک بن ابی شوارب، ابو عوانہ، قتادہ، معاذہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اپنے شوہروں کو پانی سے استنجاء کرنے کا کہو کیونکہ مجھے ان سے (کہتے ہوئے) شرم آتی ہے اس لئے کہ تحقیق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایسا ہی کیا کرتے تھے اس باب میں جریر بن عبداللہ البجلی انس اور ابو ہریرہ سے بھی احادیث مذکور ہیں ابو عیسیٰ کہتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اس پر اہل علم کا عمل ہے کہ وہ پانی سے استنجاء کرنا بھی کافی ہے لیکن پانی کے استعمال کو مستحب اور افضل سمجھتے ہیں سفیان ثوری ابن مالک امام شافعی احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے۔

اس بارے میں نبی کا قضائے حاجت کے وقت تو دور تشریف لے جانا

محمد بن بشار، عبدالوہاب ثقفی، محمد بن عمرو، ابی سلمہ، مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک سفر میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھا پس نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قضائے حاجت کے لئے گئے اور بہت دور گئے اس باب میں عبدالرحمن بن ابی قراد، ابو قتادہ، جابر اور یحیی بن عبید سے بھی روایت ہے یحیی اپنے والد ابو موسیٰ ابن عباس اور بلال بن حارث سے روایت کرتے ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پیشاب کرنے کے لئے جگہ دور ڈھونڈتے تھے جس طرح پڑاؤ کے لئے جگہ تلاش کرتے ابو سلمہ کا نام عبداللہ بن عبدالرحمن بن عوف زہری ہے۔

غسل خانے میں پیشاب کرنا مکروہ ہے

علی بن حجر، احمد بن محمد بن موسی، عبداللہ بن مبارک، معمر، اشعث، حسن، عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غسل خانے میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا اور فرمایا کہ عموماً وسوسہ اسی سے ہوتا ہے اس باب میں ایک اور صحابی سے بھی روایت ہے ابو عیسیٰ نے کہا یہ حدیث غریب ہے اور اشعث بن عبداللہ کے علاوہ کسی اور طریق سے اس کے مرفوع ہونے کا ہمیں علم نہیں انہیں اشعث اعمی کہا جاتا ہے بعض اہل علم غسل خانے میں پیشاب کرنے کو مکروہ سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اکثر وسواس اسی سے ہوتے ہیں اور بعض اہل علم جن میں ابن سیرین بھی ہیں اسکی اجازت دیتے ہیں ان سے کہا گیا کہ اکثر وسواس اس سے ہوتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا ہمارا رب اللہ ہے اس کا کوئی شریک نہیں ابن مبارک نے کہا کہ غسل خانے میں پیشاب کرنا جائز ہے بشرطیکہ اس پر پانی بہا دیا جائے ابو عیسیٰ نے کہا ہم سے یہ حدیث احمد بن عبدہ آملی نے بیان کی انہوں نے حبان سے اور انہوں نے عبداللہ بن مبارک سے۔

مسواک کے بارے میں

ابوکریب، عبدہ بن سلیمان، محمد بن عمرو، ابو سلمہ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر مجھے اپنی امت پر مشقت کا خیال نہ ہوتا تو میں ضرور انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا ابو عیسیٰ نے فرمایا یہ حدیث محمد بن اسحاق نے محمد بن ابراہیم سے روایت کی ہے انہوں نے ابو سلمہ سے انہوں نے زید بن خالد سے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کی ہے حدیث ابو سلمہ کی ابو ہریرہ سے اور زید بن خالد کی منقول حدیث نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دونوں ہی میرے نزدیک صحیح ہیں اس لئے کہ یہ حدیث ابو ہریرہ کے واسطے سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کئی سندوں سے مروی ہے امام محمد بن اسماعیل بخاری کے خیال میں حدیث ابو سلمہ زید بن خالد کی روایت سے زیادہ صحیح ہے اور اس باب میں ابو بکر صدیق علی عائشہ ابن عباس حذیفہ زید بن خالد انس عبداللہ بن عمرو ابو امامہ ابو ایوب تمام بن عباس عبداللہ بن حنظلہ ام سلمہ واثلہ اور ابو موسیٰ سے بھی روایات منقول ہیں۔

٭٭ ہناد، عبدہ، محمد بن اسحاق، محمد بن ابراہیم، ابی سلمہ، زید بن خالد جہنی سے روایت ہے کہ خالد جہنی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر مجھے اپنی امت پر مشقت کا خیال نہ ہوتا تو میں ان کو ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا اور میں رات کے تہائی حصہ تک عشاء کی نماز کے مؤخر کرتا ابو سلمہ کہتے ہیں جب زید نماز کے لئے مسجد میں آتے تو مسواک انکے کان پر ایسے ہوتی جیسے کاتب کا قلم کان پر ہوتا ہے اور اس وقت تک نماز نہ پڑھتے جب تک مسواک نہ کر لیتے پھر اسے اسی جگہ رکھ لیتے امام ابو عیسیٰ ترمذی نے فرمایا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

نیند سے بیداری پر ہاتھ دھونے سے پہلے پانی کے برتن میں نہ ڈالے جائیں

ابوولید، احمد بن بکار دمشقی، بسر بن ارطاۃ، ولید بن مسلم، اوزاعی، زہری، سعید بن مسیب، سلمہ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی رات کی نیند سے بیدار ہو تو آپ نے ہاتھ کو دو یا تین مرتبہ دھونے سے پہلے برتن میں نہ ڈالے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کے ہاتھ نے رات کہاں گذاری ہے اس باب میں ابن عمر جابر اور عائشہ صدیقہ سے بھی روایات منقول ہیں ابو عیسیٰ فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے امام شافعی نے فرمایا میں ہر نیند سے بیدار ہونے والے کے لئے پسند کرتا ہوں کہ وہ ہاتھ دھونے سے پہلے وضو کے پانی میں نہ ڈالے اور اگر وہ وضو کے پانی میں ہاتھ دھونے سے پہلے ڈالے گا تو یہ مکروہ ہے اور پانی ناپاک نہیں ہو گا بشرطیکہ اس کے ہاتھوں کے ساتھ نجاست نہ لگی ہو اور امام احمد بن حنبل نے فرمایا جب کوئی رات کو بیدار ہو اور ہاتھ پانی میں دھونے سے پہلے ڈال دے تو اس پانی کا بہا دینا بہتر ہے اسحاق نے کہا کہ جب بھی بیدار ہو رات ہو یا دن ہاتھ دھونے سے پہلے برتن میں نہ ڈالے۔

 

 

روزوں کے متعلق ابو اب

باب ہمیشہ روزہ رکھنا

قتیبہ، احمد بن عبدہ، حماد بن زید، غیلان بن جریر، عبداللہ بن معبد، حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو ہمیشہ روزہ رکھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس نے نہ روزہ رکھا اور نہ افطار کیا راوی کو شک ہے کہ (لَا صَامَ وَلَا أَفْطَرَ) یا (لَمْ یَصُمْ وَلَمْ یُفْطِرْ) فرمایا (یعنی دونوں کے ایک ہی ہیں) اس باب میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ عبداللہ بن شخیر رضی اللہ تعالی عنہ عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ اور ابو موسیٰ رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی روایت ہے۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ حدیث ابو قتادہ حسن ہے اہل علم کی ایک جماعت نے ہمیشہ روزہ رکھنے کو مکروہ کہا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیشہ روزہ رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ عیدالفطر، عید الاضحی اور ایام تشر یق میں بھی روزے رکھے پس جو شخص ان دنوں میں روزے نہ رکھے وہ کراہت کے حکم سے خارج ہے۔ مالک بن انس سے اسی طرح مروی ہے اور امام شافعی رضی اللہ تعالی عنہ کا بھی یہی قول ہے امام احمد اور اسحاق رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ان پانچ دنوں کے علاوہ روزہ چھوڑنا واجب نہیں جن میں روزے رکھنے سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا عیدالفطر، عید الاضحی اور ایام تشریق۔

باب پے درپے روزے رکھنا

قتیبہ، حماد بن زید، ایوب، عبداللہ بن شقیق، عائشہ، حضرت عبداللہ بن شقیق رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے روزوں کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ جب آپ روزے رکھنا شروع کرتے تو ہم سو چتے کہ اب آپ مستقل روزے رکھیں گے۔ پھر جب افطار کرتے تو ہم سوچتے کہ اب آپ روزے نہیں رکھیں گے۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رمضان کے علاوہ پورا مہینہ کبھی روزے نہیں رکھے۔ اس باب میں حضرت کے انس رضی اللہ تعالی عنہ اور ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے بھی روایت حسن صحیح ہے۔

٭٭ علی بن حجر، اسماعیل بن جعفر، محمد، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ان سے کسی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے روزوں کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی مہینے میں روزے رکھنا شروع کرتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پورا مہینہ روزے رکھیں گے اور جب کسی مہینے میں افطار کرتے (یعنی روزہ نہ رکھتے) تو ایسا معلوم ہوتا کہ اس مہینے میں روزے نہیں رکھیں گے پھر اگر ہم چاہتے کہ آپ کو رات میں نماز پڑھتا دیکھیں تو ہم ایسا ہی پاتے تھے اور اگر سوتے دیکھنا تو سو رہے ہیں۔

٭٭ ہناد، وکیع، مسعر، سفیان، حبیب بن ابی ثابت ابن عباس، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا افضل ترین روزے میرے بھائی داؤد علیہ السلام کے روزے تھے کہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے اور جب دشمن کے مقابل آتے تو کبھی فرار کا راستہ اختیار نہ کرتے۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ ابو عباس ایک نابینا شاعر ہیں ان کا نام سائب بن فروخ ہے۔ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ افضل ترین کیا جائے اور کہا جاتا ہے کہ یہ شدید ترین روزے ہیں

٭٭ قتیبہ، عبدالعزیز، محمد، عمر ابن یحیی، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو دن روزے رکھنے سے منع فرمایا ایک عیدالفطر اور دوسرا عید الاضحی کے دن اس باب میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ علی رضی اللہ تعالی عنہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ ابو ہریرہ عقبہ بن عامر اور انس رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی روایت حسن صحیح ہے اور اس پر اہل علم کا عمل ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں۔ عمرو بن یحیی، ابن عمارہ بن ابو حسن مازنی مدنی ہیں اور یہ ثقہ ہیں اس سے سفیان ثوری شعبہ اور مالک بن انس روایت کرتے ہیں

٭٭ محمد بن عبدالملک بن ابی شوارب، یزید بن زریع، معمر، زہری، ابو عبید، حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے مولی ابو عبید فرماتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو عید الاضحی کے موقع پر دیکھا کہ انہوں نے خطبے سے پہلے نماز پڑھائی اور پھر فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ان دو دنوں میں روزہ رکھنے سے منع کرتے ہوئے سنا۔ عیدالفطر کو روزہ سے اس لئے منع کرتے تھے کہ وہ روزہ کھولنے اور مسلمانوں کی عید کا دن ہے اور عید الاضحی میں اس لئے کہ تم اپنی قربانی کا گوشت کھا سکو۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ ابو عبید کا نام سعد ہے انہیں مولی عبدالرحمن بن ازہر بھی کہا جاتا ہے۔ عبدالرحمن بن ازہر، عبدالرحمن بن عوف کے چچا زاد بھائی ہیں

باب ایام تشر یق میں روزہ رکھنا حرام ہے

ہناد، وکیع، موسیٰ بن علی، حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا عرفہ کا دن اور عید الاضحی کا دن اور ایام تشریق (یعنی ذی الحجہ کی گیارہویں ، تیرہویں تاریخ) ہم مسلمانوں کے عید اور کھانے پینے کے دن ہیں۔ اس باب میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سعد، ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ جابر نبیشہ رضی اللہ تعالی عنہ، بشر بن سحیمہ رضی اللہ تعالی عنہ، عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ تعالی عنہ، انس رضی اللہ تعالی عنہ حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ تعالی عنہ، کعب بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ، عائشہ عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی روایت ہے۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ عقبہ بن عا مر رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔ اہل علم کا اس عمل ہے کہ ایام تشریق میں روزے رکھنا مکروہ ہے لیکن صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ کی ایک جماعت اور بعض صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ (متمتع) کے لئے اگر اس کے پاس قربانی کے لئے جانور نہ ہو تو روزہ رکھنے کی اجازت دیتے ہیں بشرطیکہ اس نے پہلے دس دنوں میں روزے نہ رکھے ہوں۔ امام شافعی رضی اللہ تعالی عنہ، مالک رضی اللہ تعالی عنہ، احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں کہ اہل عراق موسیٰ بن علی بن رباح اور اہل مصر موسیٰ بن علی کہتے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں کہ میں نے قتیبہ کو لیث بن سعد کے حوالے سے کہتے ہوئے سنا ہے کہ موسیٰ بن علی کہا کرتے تھے کہ میں اپنے باپ کے نام کی تصغیر کرنے والے کو کبھی معاف نہیں کروں گا

باب پچھنے لگا مکروہ ہے

محمد بن رافع، محمود بن غیلان، یحیی بن موسی، عبدالرازق، معمر، یحیی بن کثیر، ابراہیم بن عبد اللہ، سائب بن یزید، حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پچھنے لگانے اور لگوانے والا دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا۔ اس باب میں حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ، شداد بن اوس رضی اللہ تعالی عنہ ثوبان رضی اللہ تعالی عنہ، اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ، عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ معقل بن یسار رضی اللہ تعالی عنہ (انہیں معقل بن سنان بھی کہا جاتا ہے) ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما ابو موسیٰ اور بلال رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی روایت ہے۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ رافع بن خدیج کی حدیث حسن صحیح ہے۔ امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ اس باب میں زیادہ صحیح رافع بن خدیج کی حدیث ہے۔ علی بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں مذکور ہے کہ انہوں نے کہا ثوبان رضی اللہ تعالی عنہ اور شداد بن اوس کی حدیث اس باب میں اصح ہے۔ اس لئے کہ یحیی بن ابو کثیر ابو قلابہ سے دونوں حدیثیں روایت کرتے ہیں۔ ثوبان کی بھی اور شداد بن اوس کی بھی۔ علماء صحابہ کی ایک جماعت اور ان کے علاوہ بھی کئی حضرات روزے دار کے لئے پچھنے لگوانے کو مکروہ سمجھتے ہیں یہاں تک کہ بعض صحابہ جیسے کہ ابو موسیٰ اشعری ابن عمر رات کو پچھنے لگوایا کرتے تھے۔ ابن مبارک بھی اسی کے قائل ہیں۔ عبدالرحمن بن مہدی پچھنا لگوانے والے روزہ دار کے متعلق قضا کا حکم دیتے ہیں۔ اسحاق بن منصور کہتے ہیں کہ احمد بن حنبل اور اسحاق بن ابراہیم بھی اسی کے قائل ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں حسن بن محمد زعفرانی نے مجھے بتایا کہ امام شافعی کا کہنا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روزے کی حالت میں پچھنے لگوانا مروی ہے اور یہ بھی مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پچھنے لگانے والے اور پچھنے لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا۔ پس مجھے علم نہیں کہ ان میں سے کونسی روزیت ثابت ہے۔ لہذا اگر روزہ دار اس سے اجتناب کرے تو میرے نزدیک بہتر ہے اور اگر پچھنے لگوائے تو میرے خیال میں اس کا روزہ نہیں ٹوٹتا۔ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ امام شافعی کا یہ قول بغداد کاہے اور مصر آنے کے بعد وہ پچھنے لگوانے کی اجازت کی طرف مائل ہو گئے تھے اور ان کے نزدیک پچھنے لگوانے میں کوئی حرج نہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حجة الوداع کے موقع پر روزے اور احرام کی حالت میں پچھنے لگوائے

باب روزہ دار کو پچھنے لگا نے کی اجازت

بشر بن ہلال، عبدالوارث، سعید، ایوب، عکرمہ، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے روزے اور احرام کی حالت میں پچھنے لگوائے۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ حدیث صحیح ہے۔ وہیب نے اسی طرح عبدالوارث کی مثل بیان کیا ہے۔ اسماعیل بن ابراہیم نے بواسطہ ایوب عکرمہ سے مرسل روایت نقل کی ہے۔ اس روایت میں انہوں نے حضرت ابن عباس کا ذکر نہیں کیا۔

٭٭ ابوموسی، محمد بن مثنی، محمد بن عبد اللہ، حبیب بن شہید، میمون بن مہران، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے روزے کی حالت میں پچھنے لگوائے امام ابو عیسیٰ تر مذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے

٭٭ احمد بن منیع، عبداللہ بن ادریس، یزید بن ابی زیاد، مقسم، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکہ اور مد ینہ کے درمیان احرام اور روزے کی حالت میں پچھنے لگائے۔ اس باب میں ابو سعید رضی اللہ عنہ، جابر رضی اللہ عنہ اور انس رضی اللہ سے بھی روایت ہے۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے۔ علماء صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین کا اسی حدیث پر عمل ہے اور وہ روزہ دار کے لئے پچھنے لگانے میں کچھ حرج نہیں سمجھتے۔ سفیان ثوری مالک بن انس اور امام شافعی کا یہی قول ہے۔

روزوں میں وصال کی کر اہت کے متعلق

نصر بن علی، جہضمی، بشر بن مفضل، خالد بن حارث، سعید بن ابی عروبہ، قتادہ، انس، حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا روزہ پر روزہ اس طرح نہ رکھو کہ بیچ میں کچھ نہ کھاؤ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تو وصال ہی کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں تمہاری طرح نہیں ہوں میرا رب مجھے کھلاتا بھی ہے اور پلارا بھی ہے۔ اس باب میں حضرت علی، ابو ہریرہ، عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا ابن عمر، جابر، ابو سعید اور بشیر بن خصاصیہ سے بھی روایت ہے۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہی کہ انس کی حدیث حسن صحیح ہے اور اسی پر علماء کا عمل ہے کہ روزے میں وصال مکروہ ہے۔ عبداللہ بن زبیر سے مروی ہے وہ وصال کرتے تھے یعنی درمیان میں افطار نہیں کرتے تھے۔

 

 

صبح تک حالت جنابت میں رہتے ہوئے روزے کی نیت کر نا

قتیبہ، لیث، ابن شہاب، ابو بکر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا اور ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا (ازواج مطہرات) فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حالت جنابت میں صبح ہو جایا کرتی تھی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم علیہ السلام غسل کرتے اور روزہ رکھتے۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور ام سلمہ رضی اللہ تعالی کی حدیث حسن صحیح ہے۔ اکثر علماء، صحابہ وغیرہ کا اسی پر عمل ہے۔ سفیان، شافعی، احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے۔ بعض تابعین کہتے ہیں کہ اگر حالت جنابت میں صبح ہو جائے تو روزہ قضا کرے لیکن پہلا قول صحیح ہے

روزہ دار کو دعوت قبول کرنا

ازہر بن مروان، محمد بن سواء، سعید بن ابی عروبہ، ایوب، محمد بن سیرین، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر تم میں سے کسی کو کھانے کی دعوت کی جائے تو وہ اسے قبول کرے پھر اگر وہ روزے سے ہو تو دعا کرے

٭٭ نصر بن علی، سفیان بن عیینہ، ابو زناد، اعرج، ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر تم میں سے کسی کو کھانے کی دعوت دی جائے تو وہ کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ اس باب میں دونوں حدیثیں جو حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہیں حسن صحیح ہیں

 

 

عورت کا شو ہر کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ رکھنا مکروہ ہے

قتیبہ، نصر بن علی، سفیان بن عیینہ، ابو زناد، اعرج، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کوئی عورت اپنے شوہر کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر رمضان کے علاوہ کوئی دوسرا (یعنی نفلی) روزہ نہ رکھے۔ اس باب میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور ابو سعد سے بھی روایت ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے اور اس حدیث کو ابو زناد نے روایت کیا ہے۔ موسیٰ بن ابو عثمان سے وہ اپنے والد سے اور وہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں۔

رمضان کی قضاء میں تاخیر

قتیبہ، ابو عوانہ، اسماعیل، عبد اللہ، حضرت عائشہ سے روایت ہے میں اپنے رمضان کے قضا روزے شعبان میں رکھتی تھی یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات ہو گئی۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث صحیح ہے۔ اس حدیث کو یحیی بن سعید انصاری نے ابو سلمہ سے اور وہ حضرت عائشہ سے اس کی مثل روایت کرتے ہیں۔

روزہ دار کا ثواب جب لوگ اس کے سامنے کھانا کھائیں

علی بن حجر، شریک، حبیب بن زید، ابو لیلی اپنی مولاہ سے نقل کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر کسی روزہ دار کے سامنے کھایا پیا جائے تو فرشتے اس کی مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ شعبہ یہ حدیث حبیب بن زید سے وہ اپنی دادی ام عمارہ سے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس کے مثل روایت کرتے ہیں۔

 محمود بن غیلان، ابو داؤد، شعبہ، حبیب بن زید، ام عمارہ بنت کعب انصاریہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے گھر تشریف لائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں کھانا پیش کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اگر کسی روزہ دار کے سامنے کھایا جائے تو ان کے کھانے سے فارغ ہونے سے یا فرمایا ان کے سیر ہو جانے تک فرشتے روزہ دار کے لئے مغفرت کی دعا کرتے رہتے ہیں۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح اور شریک کی روایت سے صح ہے۔

ر

٭٭ محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، حبیب بن زید سے وہ اپنی مولاة (لیلی) سے ، وہ ام عمارہ بن کعب سے اسی کی مثل روایت کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کی مثل لیکن اس میں (حَتَّی یَفْرُغُوا أَوْ یَشْبَعُوا) کے الفاظ کا ذکر نہیں۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ ام عمارہ، حبیب بن زید انصاری کی دادی ہیں .

حائضہ روزوں کی قضا کرے نماز کی نہیں

علی بن حجر، علی بن مسہر، عبیدہ، ابراہیم، اسود، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں ایام حیض سے پاک ہوتیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمیں روزوں کی قضاء کا حکم دیا کرتے تھے اور جب کہ نماز کی قضا کا حکم نہیں دیتے تھے۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن ہے اور معاویہ سے بھی بواسطہ عائشہ مروی ہے۔ اہل علم کا اس مسئلے میں اتفاق ہے کہ حائضہ صرف روزوں کی قضا کرے اور نماز کی قضا نہ کرے۔ امام ترمذی کہتے ہیں عبیدہ وہ عبیدہ بن معتب ضبی کوفی ہیں ان کی کنیت ابو عبدالکریم ہے

 

 

ناک میں پانی ڈالنے میں مبالغہ کرنا مکروہ ہے

عبدالوہاب، ابو عمار، یحیی بن سلیم، اسماعیل بن کثیر، عاصم بن لقیط بن صبرہ، عاصم بن لقیط بن صبرہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھے وضو کا طریقہ بتایئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اچھی طرح وضو کرو انگلیوں کا خلال کرو اور اگر روزے سے نہ ہو تو ناک میں میں بھی اچھی طرح پانی ڈالو۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ علماء نے روزے کی حالت میں ناک میں دوا ڈالنے کو مکروہ کہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے یہ حدیث ان کے اس قول کی تائید کرتی ہے۔

جو شخص کسی کا مہمان ہو تو میزبان کی اجارت کے بغیر (نفلی) روزہ نہ رکھے

بشر بن معاذ، بصری، ایوب بن واقد، ہشام بن عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص کسی کے ہاں مہماں بن کر جائے تو وہ ان کی اجازت کے بغیر روزہ نہ رکھے۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث منکر ہے ، ہم اسے کسی ثقہ راوی کی ہشام بن عروہ سے روایت کے متعلق نہیں جانتے۔ موسیٰ بن داؤد، ابو بکر مدنی سے وہ ہشام بن عروہ سے وہ اپنے والد سے وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اسی کی مثل روایت کرتے ہیں۔ یہ حدیث بھی ضعیف ہے کیونکہ محدثین کے نزدیک ابو بکر ضعیف ہیں۔ ابو بکر مدنی جو جابر بن عبداللہ سے روایت کرتے ہیں ان کا نام فضل بن مبشر ہے اور وہ ان سے زیادہ ثقہ اور پرانے ہیں۔

 

 

اعتکاف

محمود بن غیلان، عبدالرزاق، معمر، زہری، سعید بن مسیب، ابو ہریرہ، عروہ، عائشہ سے نقل کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی وفات تک رمضان کے آخری دس دن اعتکاف کیا کرتے تھے۔ اس باب میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ، ابو لیلی، ابو سعید رضی اللہ عنہ انس رضی اللہ عنہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ ابو ہریرہ اور عائشہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔

٭٭ ہناد، ابو معاویہ، یحیی بن سعید، عمرہ، عائشہ کی حدیث حسن صحیح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب اعتکاف کا ارادہ کرتے تو فجر کی نماز کے بعد ہی اپنی اعتکاف گاہ میں داخل ہو جایا کرتے تھے۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث یحیی بن سعید سے بھی مروی ہے وہ عمرہ سے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مرسلاً روایت کرتے ہیں۔ مالک اور کئی راوی بھی اس حدیث کو یحیی بن سعید سے مرسلاً روایت کرتے ہیں۔ اوزاعی اور سفیان ثوری بھی یحیی بن سعید سے وہ عمرہ سے اور وہ حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں۔ بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے وہ کہتے ہیں کہ اعتکاف کا ارادہ ہو تو فجر کے بعد اعتکاف گاہ میں داخل ہو جائے ، امام احمد بن حنبل اور اسحاق بن ابراہیم کا بھی یہی قول ہے ، بعض اہل عمل کہتے ہیں کہ جس روز اعتکاف کرنا ہو اس رات کو سورج غروب ہونے سے پہلے اسے اپنی اعتکاف گاہ میں بیٹھنا چاہیے۔ سفیان ثوری اور مالک بن انس کا یہی قول ہے۔

 

 

طلاق اور لعان کا بیان

عورت اپنی سوکن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے

قتیبہ، سفیان بن عیینہ، زہری، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ وہ اس حدیث کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک پہنچاتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کوئی عورت اپنی سوکن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے تاکہ وہ اٹھائے جو اس کے برتن میں ہے۔ اس باب میں حضرت ام سلمہ سے بھی روایت ہے حدیث ابو ہریرہ حسن صحیح ہے۔

پاگل کی طلاق

محمد بن عبدالاعلی، مروان بن معاویہ، عجلان، عکرمہ بن خالد، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا معتوہ کی طلاق کے علاوہ ہر طلاق واقع ہو جاتی ہے اس حدیث کو ہم صرف عطاء بن عجلان کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں اور وہ ضعیف ہیں اور حدیثیں بھول جاتے ہیں علماء کا اسی پر عمل ہے کہ دیوانے کی طلاق واقع نہیں ہوتی مگر وہ دیوانہ جسے کبھی کبھی ہوش آ جاتا ہو اور وہ اسی حالت میں طلاق دے تو طلاق ہو جائے گی۔

٭٭ "قتیبہ، یعلی بن شبیب، ہشام بن عروہ، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ زمانہ جاہلیت میں کوئی شخص اپنی بیوی کو جتنی بار چاہتا طلاقیں دے دیتا اور پھر عدت کے دوران رجوع کر لیتا تو اس کی بیوی رہتی، اگرچہ اس نے سو بار یا اس سے زیادہ مرتبہ طلاقیں ہی کیوں نہ دی ہوتیں یہاں تک کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا خدا کی قسم میں تمہیں کبھی طلاق نہ دوں گا تاکہ تو مجھ سے جدا نہ ہو جائے لیکن اس کے باوجود تجھ سے کبھی نہیں ملوں گا اس نے پوچھا وہ کیسے ؟ اس نے کہا وہ اس طرح کہ میں تجھے طلاق دے دوں گا اور پھر جب تمہاری عدت پوری ہونے والی ہو گی تو میں رجوع کر لوں گا وہ عورت حضرت عائشہ کے پاس آئی اور انہیں بتایا تو وہ خاموش رہیں یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے اور انہیں یہ واقعہ سنایا گیا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی خاموش رہے پھر یہ آیت نازل ہوئی (اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ ۠ فَاِمْسَاکٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍ) 2۔ البقرۃ:229) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اس کے بعد لوگوں نے طلاق کا حساب رکھنا شروع کر دیا جو طلاق دے چکے تھے انہوں نے بھی اور جنہوں نے نہیں دی تھی انہوں نے بھی۔

ابوکریب ، محمد بن علاء ، عبداللہ بن ادریس سے وہ ہشام بن عروہ سے اور وہ اپنے والد سے اسی کے ہم معنی حدیث نقل کرتے ہیں لیکن اس میں حضرت عائشہ کا ذکر نہیں کرتے۔ یہ حدیث یعلی بن شعیب کی حدیث سے اصح ہے۔”

وہ حاملہ جو خاوند کی وفات کے بعد جنے

احمد بن منیع، حسین بن محمد، شیبان، منصور، ابراہیم، اسود، ابو سنابل بن بعلک سے روایت ہے کہ سبیعہ کے ہاں ان کے شوہر کی وفات کے تئیس یا پچیس دن بعد ولادت ہوئی پھر جب وہ نفاس سے پاک ہوئیں تو نکاح کے لیے زینت اختیار کی لیکن لوگوں نے اس پر اعتراض کیا جب یہ واقعہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا اس کی عدت پوری چکی ہے اگر وہ نکاح کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

٭٭ احمد بن منیع، حسن بن موسی، شیبان، منصور، ام سلمہ، ابو سنابل کی حدیث اس سند سے مشہور اور غریب ہے ہمیں اسود کی ابو سنابل سے اس حدیث کے علاوہ کسی روایت کا علم نہیں۔ میں نے امام بخاری سے سنا کہ مجھے علم نہیں کہ ابو سنابل نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد زندہ رہے ہوں اکثر علماء کا اسی پر عمل ہے کہ حاملہ عورت کا خاوند اگر فوت ہو جائے تو وہ ولادت کے بعد نکاح کر سکتی ہے اگرچہ اس کی عدت کے دن پورے نہ ہوئے ہوں۔ سفیان ثوری، احمد، شافعی، اسحاق کا یہ قول ہے بعض علماء اور دیگر اہل علم سے منقول ہے کہ وہ زیادہ تاخیر والی عدت گزارے لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے کہ حاملہ عورت کی عدت ولادت سے پوری ہو جاتی ہے۔

٭٭ قتیبہ، لیث، یحیی بن سعید، سلیمان بن یسار، ابو ہریرہ، ابن عباس، ابی سلمہ، عبدالرحمن، ابو سلمہ، حضرت سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ ابو ہریرہ ابن عباس اور ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے آپس میں اس عورت کا تذکرہ کیا جو حاملہ ہو اور اس کا شوہر فوت ہو جائے ابن عباس نے کہا کہ اس کی عدت دو عدتوں میں سے زیادہ عدت ہو گی یعنی ولادت یا عدت کے دنوں میں سے جس میں زیادہ دن ہوں گے وہی اس کی عدت ہے۔ ابو سلمہ نے کہا کہ اس کی عدت ولادت تک ہے جب پیدائش ہو گئی تو وہ حلال ہو گئی حضرت ابو ہریرہ نے کہا کہ میں بھی اپنے بھتیجے ابو سلمہ کے ساتھ ہوں پھر انہوں نے ام سلمہ کے پاس کسی شخص کو یہ مسئلہ پوچھنے کے لیے بھیجا انہوں نے فرمایا سبیعہ اسلمی کے ہاں ان کے شوہر کی وفات کے چند دن بعد ولادت ہوئی تھی انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں نکاح کرنے کی اجازت دی یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

جس کا خاوند فوت ہو جائے اس کی عدت

انصاری، عیسی، مالک بن انس، عبداللہ بن ابی بکر، بن محمد بن عمر، حمید بن نافع سے روایت ہے کہ زینب بنت ابو سلمہ نے انہیں ان تین حدیثوں کے متعلق بتایا حمید فرماتے ہیں کہ حضرت زینب نے فرمایا میں ام المومنین ام حبیبہ کے والد حضرت ابو سفیان کی وفات پر ان کی خدمت میں حاضر ہوئی انہوں نے خوشبو منگوائی جس میں خلوق ایک خوشبو کی زردی تھی یا کچھ اور تھا انہوں نے وہ خوشبو ایک لڑکی کو لگائی اور پھر اپنے رخساروں پر ملی اور فرمایا اللہ کی قسم مجھے خوشبو کی ضرورت نہیں لیکن میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ نے فرمایا اللہ اور قیامت پر ایمان رکھنے والی کسی عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے صرف خاوند پر چار ماہ دس دن سوگ منائے زینب بنت ابو سلمہ فرماتی ہیں زینب بن حجش کی وفات پر میں ان کے پاس گئی انہوں نے بھی خوشبو منگوا کر لگائی پھر فرمایا اللہ کی قسم مجھے خوشبو کی ضرورت نہیں لیکن میں نے رسول اللہ سے سنا کہ کسی مومنہ عورت کے لیے میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منانا جائز نہیں صرف اپنے خاوند پر چار ماہ دس دن سوگ منائے زینب کہتی ہیں کہ میں نے اپنی والدہ حضرت ام سلمہ سے سنا وہ فرماتی ہیں کہ ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میری لڑکی کا شوہر فوت ہو گیا ہے اور اس کی آنکھیں دکھتی ہیں کیا ہم اسے سرمہ لگاسکتے ہیں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو یا تین مرتبہ فرمایا نہیں۔ پھر فرمایا یہ چار ماہ دس دن ہیں اور زمانہ جاہلیت میں تم ایک سال گزارنے پر اونٹ کی مینگنیاں پھینکتی تھیں اس باب میں فریعہ بنت مالک بن سنان (جو ابو سعید خدری کی بہن ہیں) اور حفصہ بنت عمر سے بھی روایت ہے حدیث زینب حسن صحیح ہے صحابہ کرام اور دیگر اہل علم کا اس پر عمل ہے کہ جس کا شوہر فوت ہو جائے وہ خوشبو اور زیبائش سے پرہیز کرے۔ سفیان ثوری، مالک، شافعی، احمد، اسحاق کا یہی قول ہے۔

جس آدمی نے اپنی بیوی سے اظہار کیا اور کفارہ ادا کرنے سے پہلے صحبت کر لی

ابوسعید، عبداللہ بن ادریس، محمد بن اسحاق، محمد بن عمر، سلیمان بن یسار، حضرت سلمہ بن صخر بیاضی سے نقل کرتے ہیں کہ جو شخص ظہارہ کفارہ ادا کرنے سے پہلے جماع کرے اس پر ایک کفارہ ہے یہ حدیث حسن غریب ہے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے سفیان، ثوری، مالک، شافعی، احمد، اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے بعض اہل علم کے نزدیک ایسے شخص پر دو کفارہ واجب ہیں۔ عبدالرحمن بن مہدی کا بھی یہی قول ہے۔

٭٭ ابوعمار، حسین بن حریث، فضل بن موسی، معمر، حکم بن ابان، عکرمہ، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ ایک شخص اپنی بیوی سے ظہار کرنے کے بعد اس سے صحبت کر بیٹھا پھر وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں نے اپنی بیوی سے ظہار کیا تھا اور کفارہ ادا کرنے سے پہلے اس سے صحبت کر لی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تم پر رحم کرے تمہیں کس چیز نے اس پر مجبور کیا وہ کہنے لگا میں نے چاند کی روشنی میں اس کی پازیب دیکھ لی تھی نبی نے فرمایا اب اللہ کا حکم (کفارہ ادا) پورا کرنے سے پہلے اس کے پاس نہ جانا یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

کفارہ ظہار کے بارے میں

اسحاق بن منصور، ہارون بن اسماعیل، علی بن مبارک، یحیی بن ابی کثیر، حضرت ابو سلمہ اور محمد بن عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ قبیلہ بنوبیاضہ کے ایک شخص سلمان بن صخر انصاری نے اپنی بیوی سے کہا کہ رمضان گزار نے تک تم مجھ پر میری ماں کی پشت کی طرح ہو لیکن ابھی آدھا رمضان ہی گزرا تھا کہ بیوی سے رات کو صحبت کر لی، اور پھر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اسکا تذکرہ شروع کیا نبی نے فرمایا ایک غلام آزاد کرو اس نے عرض کیا میں نہیں کر سکتا آپ نے فرمایا پھر دو مہینے کے متواتر روزے رکھو اس نے عرض کیا مجھ میں اتنی قوت نہیں آپ نے فرمایا پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ اس نے عرض کیا میرے پاس اس کی بھی قوت نہیں نبی نے فروہ بن عمر کو حکم دیا کہ اسے یہ ٹوکرا دے دو اس میں پندرہ یا سولہ صاع ہوتے ہیں جو ساٹھ آدمیوں کے لیے کافی ہوتے ہیں یہ حدیث حسن اور سلمان بن صخر کو سلمہ بن صخر بیاضی بھی کہا جاتا ہے اہل علم کا ظہار کفارے کے متعلق اسی حدیث پر عمل ہے۔

ایلاء عورت کے پاس نہ جانے کی قسم کھانا

حسین بن قزعة، مسلمہ بن علقمہ، داؤد، عامر، مسروق، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی بیویوں سے ایلاء اور انہیں اپنے اوپر حرام کر لیا، پھر آپ نے قسم کا کفارہ ادا کیا اور جس چیز کو حرام کیا تھا اسے حلال کیا اس باب میں حضرت ابو موسیٰ اور انس سے بھی روایت ہے مسلمہ بن عقیل کی داؤد سے منقول حدیث علی بن مسہر وغیرہ داؤد سے منقول حدیث نقل کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایلاء کیا الخ۔ اس حدیث میں مسروق کے عائشہ سے نقل کرنے کا ذکر نہیں اور یہ حدیث مسلمہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔ ایلاء کی تعریف یہ ہے کہ کوئی شخص قسم کھائے کہ وہ چار مہینے یا اس سے زیادہ تک اپنی بیوی کے قریب بھی نہیں جائے گا پھر چار مہینے گزر جانے کے بعد عورت کے قریب نہ جائے تو کیا حکم ہے ؟ اہل علم کا اس بارے میں اختلاف ہے بعض علماء اور تابعین فرماتے ہیں کہ چار ماہ گزر جانے پر تو وہ ٹھہر جائے یا تو رجوع کرے یا طلاق دے۔ امام مالک بن انس، شافعی، احمد، اسحاق کا یہی قول ہے بعض علماء اور دوسرے علماء فرماتے ہیں کہ چار ماہ گزر نے پر ایک طلاق بائن خود بخود ہو جائے گی، سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے۔

لعان

ہناد، عبدہ بن سلیمان، عبدالملک بن ابی سلیمان، حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ مصعب بن زبیر کی امارت کے زمانے میں مجھ سے لعان کرنے والے میاں بیوی کے متعلق پوچھا گیا کہ کیا ان دونوں کے درمیان تفریق کر دی جائے یا نہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ میں کیا کہوں ، پس میں اٹھا اور عبداللہ بن عمر کے گھر کی طرف چل دیا۔ وہاں پہنچ کر اجازت مانگی تو مجھے کہا گیا کہ وہ اس وقت قیلولہ کر رہے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر نے میری گفتگو سن لی اور فرمایا ابن جبیر آ جاؤ یقیناً تم کسی کام کے لیے ہی آئے ہو گے کہتے ہیں کہ میں اندر داخل ہوا تو وہ اونٹ پر ڈالنے والی چادر بچھا کر آرام کر رہے تھے میں نے کہا اے ابو عبدالرحمن کیا لعان کرنے والوں کے درمیان تفریق کر دی جائے آپ نے فرمایا سُبْحَانَ اللَّہِ ہاں فلاں بن فلاں نے یہ مسئلہ سب سے پہلے پوچھا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ اگر ہم میں سے کوئی اپنی بیوی کو زنا کرتے دیکھے تو کیا کرے ؟ اگر وہ کچھ کہے تو بھی بہت بڑی بات ہے اور اگر خاموش رہے تو ایسے معاملے میں خاموش رہنا بہت مشکل ہے۔ عبداللہ بن عمر نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت خاموش رہے اور اسے کوئی جواب نہ دیا کچھ عرصہ بعد وہ پھر حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس چیز کے متعلق میں نے آپ سے پوچھا تھا اسی میں مبتلا ہو گیا ہوں اس پر سورہ نور کی آیات نازل ہوئیں (وَالَّذِینَ یَرْمُونَ أَزْوَاجَہُمْ وَلَمْ یَکُنْ لَہُمْ شُہَدَائُ إِلَّا أَنْفُسُہُمْ حَتَّی خَتَمَ الْآیَاتِ) آپ نے اسی آدمی کو بلایا اور اس کے سامنے آیات پڑھیں اور اسے وعظ و نصیحت فرمائی اور کہا دنیا کی تکلیف آخر کے عذاب کے مقابلے میں کچھ نہیں اس نے عرض کیا نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ رسول بنا کر بھیجا میں نے اس پر تہمت نہیں لگائی پھر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہی آیات عورت کے سامنے پڑھی اور اسے بھی اسی طرح سمجھایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب کے مقابلے میں بہت آسان ہے اس نے عرض کیا نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ رسول بنا کر بھیجا ہے یہ شخص سچا نہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مرد سے گواہی شروع کی اس نے چار بار اللہ کی قسم کے ساتھ گواہی دی کہ وہ سچا ہے اور پانچویں مرتبہ یہ کہا کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس پر اللہ کی لعنت پھر عورت نے اسی طرح کہا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دونوں کے درمیان تفریق کر دی۔ اس باب میں حضرت سہل بن سعد، ابن عباس، حذیفہ، ابن مسعود سے بھی روایت ہے حضرت ابن عمر کی حدیث حسن صحیح اور اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔

٭٭ قتیبہ، مالک بن انس، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے لعان کیا تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان دونوں کو الگ کر دیا اور بچے کو ماں کے حوالہ کر دیا یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔

شوہر فوت ہو جائے تو عورت عدت کہاں گزارے

انصاری، مالک، حضرت سعد بن اسحاق بن کعب بن عجرہ اپنی پھوپھی زینب بنت کعب بن عجرہ سے نقل کرتے ہیں کہ ابو سعید کی بہن فریعہ بنت مالک بن سنان نے انہیں بتایا کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ میرے خاوند اپنے غلاموں کو ڈھونڈنے کے لیے نکلے تھے جب وہ قدوم (ایک جگہ کا نام) پر پہنچے تو وہ انہیں مل گئے لیکن انہوں نے میرے شوہر کو قتل کر دیا کیا میں اپنے رشتہ داروں کے پاس بنو خدرہ چلی جاؤں کیونکہ میرے خاوند نے میرے لیے نہ مکان چھوڑا ہے اور نہ ہی نان نفقہ وغیرہ رسول اللہ نے فرمایا ہاں چلی جاؤ۔ وہ فرماتی ہیں کہ میں واپس لوٹی تو ابھی حجرے یا مسجد ہی میں تھی کہ آپ نے مجھے بلایا یا کسی کو حکم دیا کہ مجھے بلائے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم نے کیا کہا تھا؟ میں نے اپنے شوہر کا سارا قصہ دوبارہ بیان کر دیا آپ نے فرمایا تم اپنے گھر ٹھہری رہو یہاں تک کہ عدت پوری ہو جائے حضرت فریعہ فرماتی ہیں کہ پھر میں نے اس کے گھر چار ماہ دس دن عدت گزاری۔ پھر جب حضرت عثمان خلیفہ ہوئے تو انہوں نے آدمی بھیج کر مجھ سے اس مسئلہ کے بارے میں پوچھا تو میں نے آپ کو خبر دی پس حضرت عثمان نے اسی پر عمل کیا اور اسی کے مطابق فیصلہ فرمایا کہ عورت جس گھر میں ہو اسی میں اپنی عدت پوری کرے۔

٭٭ محمد بن بشار، یحیی بن سعید، سعد بن اسحاق بن کعب بن عجرہ سے اسی کے مثل حدیث نقل ہے یہ حدیث حسن صحیح اور اس پر اکثر علماء صحابہ وغیرہ کا عمل ہے کہ جس عورت کا شوہر فوت ہو جائے وہ اسی گھر میں عدت پوری کرے اور اپنے شوہر کے گھر سے منتقل نہ ہو بعض صحابہ کرام اور دیگر اہل علم فرماتے ہیں کہ عورت جہاں چاہے عدت گذار سکتی ہے اگرچہ اپنے خاوند کے گھر عدت نہ گزارے پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔

 

 

خرید و فروخت کا بیان

شبہات کو ترک کرنا

قتیبہ بن سعید، حماد بن زید، مجالد، شعبی، حضرت نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا کہ حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی اور ان کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں جن سے اکثر لوگ ناواقف ہیں کہ آیا وہ حلال چیزوں سے ہیں یا حرام چیزوں سے جس نے ان کو چھوڑا اس نے اپنا دین اور اپنی عزت محفوظ کر لی اور جو ان چیزوں میں مبتلا ہو گیا وہ حرام کام میں پڑنے کے قریب ہے جیسے کوئی چرواہا اپنے جانوروں کو سرحد کے قریب چراتا ہے تو ڈر ہوتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ حدود پار کر جائے جان لو کہ ہر بادشاہ کی حدود ہوتی ہیں اور اللہ کی حدود اس کی حرام کی ہوئی چیزیں ہیں۔

شبہات کو ترک کرنا

ہناد، وکیع، زکریا بن ابی زائدہ، شعبی، نعمان بن بشیر سے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اسی کے ہم معنی یہ حدیث حسن صحیح ہے کئی راوی یہ حدیث شعبی کے واسطے سے نعمان بن بشیر سے بھی روایت کرتے ہیں۔

 

 

سود کھانا

قتیبہ، ابو عوانہ، سماک بن حرب، عبدالرحمن بن حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سود کھانے والے کھلانے والے ، اس کے گواہوں اور لکھنے والوں پر لعنت بھیجی ہے اس باب میں حضرت عمر، علی، اور جابر سے بھی روایت ہے یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

جھوٹ اور جھوٹی گواہی دینے کی مذمت

محمد بن عبدالاعلی، خالد بن حارث، شعبہ، عبید اللہ بن ابی بکر، حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے کبیرہ گناہوں کے متعلق ارشاد فرمایا اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، والدین کو ناراض کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا، اور جھوٹ بولنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے اس باب میں حضرت ابو بکرہ اور ایمن بن خریم، ابن عمر سے بھی روایات منقول ہیں حدیث انس حسن صحیح غریب ہے۔

اس بارے میں کہ تاجروں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا تجار کا خطاب دینا

ہناد، ابو بکر بن عیاش، عاصم، ابی وائل، حضرت قیس بن ابی غرزہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہماری طرف نکلے لوگ ہمیں سماسرہ (یعنی دلال) کہا کرتے تھے آپ نے فرمایا اے تاجروں کی جماعت خرید و فروخت میں شیطان اور گناہ دونوں موجود ہوتے ہیں لہذا تم لوگ اپنی خرید و فروخت کے صدقے کو ساتھ ملا دیا کرو اس باب میں براء بن عازب اور رفاعہ سے بھی روایت ہے حدیث قیس بن ابی غرزہ حسن صحیح ہے اس حدیث کو منصور، اعمش، حبیب بن ثابت اور کئی راوی بھی ابو وائل سے اور وہ قیس بن ابی غرزہ سے نقل کرتے ہیں ان کی کوئی اور حدیث ہمارے نزدیک معروف نہیں۔

٭٭ ہناد، ابو معاویہ، اعمش، شقیق بن سلمہ، قیس بن ابی غرزة سے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اسی کے ہم معنی حدیث روایت کی ہے یہ حدیث صحیح ہے۔

٭٭ ہناد، قبیصہ، سفیان، ابی حمزہ، حضرت ابو سعید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا سچا اور امانت دار تاجر قیامت کے دن انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہو گا۔

٭٭  سوید، ابن مبارک، سفیان، ابی حمزہ سے اسی سند سے اسی کے مثل نقل کرتے ہیں ہم اس حدیث کو صرف اسی سند سے پہچانتے ہیں یعنی ثوری کی ابو حمزہ سے روایت سے۔ ابو حمزہ کا نام عبداللہ بن جابر ہے یہ بصری شیخ ہیں۔

٭٭ ابو سلمہ یحیی بن خلف، بشر بن مفضل، عبداللہ بن عثمان بن خثیم، اسماعیل بن عبید بن رفاعہ اپنے والد اور وہ ان کے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ عیدگاہ کی طرف نکلے تو دیکھا کہ لوگ خرید و فروخت کر رہے ہیں آپ نے فرمایا اے تاجر وہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف متوجہ ہوئے اپنی گردنیں اٹھا لیں اور آپ کی طرف دیکھنے لگے فرمایا تاجر قیامت کے دن نافرمان اٹھائے جائیں گے البتہ جو اللہ سے ڈرے نیکی کرے اور سچ بولے۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اسماعیل بن عبید کو اسماعیل بن عبید اللہ بن رفاعہ بھی کہا جاتا ہے۔

سود پر جھوٹی قسم کھانا

محمود بن غیلان، ابو داؤد، شعبہ، علی بن مدرک، حضرت ابو ذر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تین آدمی ایسے ہیں کہ اللہ قیامت کے دن ان کی طرف نظر رحمت نہیں فرمائے گا اور نہ ہی انہیں پاک کرے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہ کون لوگ ہیں ؟ وہ تو برباد اور خسارے میں رہ گئے فرمایا ایک احسان جتلانے والا دوسرا تکبر کی وجہ سے شلوار تہبند وغیرہ ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا اور تیسرا جھوٹی قسم کے ساتھ مال بیچنے والا اس باب میں حضرت ابن مسعود، ابو ہریرہ، ابو امامہ بن ثعلبہ، عمران بن حصین اور معقل بن یسار سے بھی روایت مروی ہے حدیث ابو ذر حسن صحیح ہے۔

 

 

زکوٰۃ کا بیان

مسلمانوں پر جزیہ نہیں

یحیی بن کثم، جریر، قابوس بن ابو ظبیان، ابن عباس سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایک جگہ دو قبلے والوں کا رہنا ٹھیک نہیں اور مسلمانوں پر جزیہ نہیں

٭٭ ابوکریب، جریر، قابوس روایت کی ہم سیابوکریب نے انہوں نے جریر سے انہوں نے قابوس سے اسی اسناد سے اوپر کی مثل اس باب میں سعی دبن زید اور حرب بن عبید اللہ ثقفی کے دادا سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حضر ابن عباس کی حدیث قابوس بن ابو ظبیان سے اور وہ اپنے والد سے مرسلاً روایت کرتے ہیں اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ اگر کوئی نصرانی اسلام قبول کر لے تو اس سے جزیہ معاف ہو جائے گا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ قول کہ مسلمانوں پر جزیہ عشور نہیں اس سے مراد جزیہ ہی ہے اس حدیث سے اس کی تفسیر ہوتی ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا عشور یہود و نصاریٰ کے لئے ہے مسلمانوں کے لئے نہیں

زیور کی زکوٰۃ

ہناد ابو معاویہ، اعمش، ابو وائل، عمرو بن حارث بن مصطلق، ابن اخی زینب عبد اللہ، زینب کی بیوی زینب فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا اے عورتو صدقہ کرو اگرچہ اپنے زیورات ہی سے دو اس لئے کہ قیامت کے دن تم میں سے اکثر جہنم میں جائیں گی

٭٭ محمود بن غیلان، ابو داؤد، شعبہ، اعمش، ابو وائل، عمرو بن حارث بن اخی زینب، عبداللہ روایت کی ہم سے محمود بن غیلان نے انہوں نے ابو داؤد سے انہوں نے شعبہ سے انہوں نے اعمش سے کہ ابو وائل عمرو بن حارث جو عبداللہ کی بیوی زینب کے بھتیجے ہیں زینب سے اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اسی کے مثل روایت کرتے ہیں اور یہ ابو معاویہ کی حدیث سے اصح ہے ابومعاویہ کو حدیث میں وہم ہو گیا ہے پس وہ کہتے ہیں عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ إِبْنِ أَخِی زَیْنَبَ جب کہ صحیح یہ ہے َمْرِو  بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ سے بھی مروی ہے وہ اپنے والد اور ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زیور میں زکوٰۃ تجویز کی اس کی سند میں کلام ہے اہل علم کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے بعض علماء صحابہ تابعین کہتے ہیں کہ زیور میں زکوٰۃ ہے جو سونے اور چاندی کا ہو سفیان ثوری عبداللہ بن مبارک بھی یہی کہتے ہیں بعض صحابہ جیسے عائشہ ابن عمر جابر بن عبداللہ اور انس بن مالک کہتے ہیں کہ زیور میں زکوٰۃ نہیں اور اسی طرح بعض فقہاء و تابعین سے بھی مروی ہے اور مالک بن انس شافعی احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے

٭٭ قتیبہ، ابن لہیعہ، عمرو بن شعیب، اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ دو عورتیں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں ان کے ہاتھوں میں دو سونے کے کنگن تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تم ان کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو انہوں نے کہا نہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تم چاہتی ہو کہ اللہ تعالی تمہیں آگے کے کنگن پہنائے عرض کرنے لگیں نہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کی زکوٰۃ ادا کیا کرو امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں اس حدیث کو مثنی بن صباح نے بھی عمرو بن شعیب سے اسی کی مثل روایت کیا ہے مثنی بن صباح اور ابن لہعیہ دونوں ضعیف ہیں اور اس باب میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی کوئی حدیث صحیح نہیں

سبزیوں کی زکوٰۃ

علی بن خشرم، عیسیٰ بن یونس، حسن، محمد بن عبدالرحمن بن عبید، عیسیٰ بن طلحہ، معاذ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو لکھا کہ سبزیوں یعنی ترکاریوں وغیرہ کی زکوٰۃ کا کیا حکم ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ان میں کچھ نہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں اس حدیث کی سند صحیح نہیں اس باب میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی کوئی حدیث صحیح نہیں اور یہ روایت موسیٰ بن طلحہ سے مرسلاً مروی ہے وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ سبزیوں پر کوئی زکوٰۃ نہیں امام ترمذی فرماتے ہیں حسن وہ ابن عمارہ ہیں اور وہ محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں شعبہ وغیرہ نے اسے ضعیف قرار دیا اور عبداللہ بن مبارک نے ان سے روایت لینا چھوڑ دیا

نہری زمین کی کھیتی پر زکوٰۃ

ابوموسیٰ انصاری عاصم بن عبدالعزیز، حارث بن عبدالرحمن بن ابو ذباب سلیمان بن یسار، بسر بن سعید، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو کھیتی بارش کے پانی یا چشموں کے پانی سے سیراب کی جائے اس کا دسواں حصہ اور جسے جانوروں سے پانی دیا جائے اس کا بیسواں حصہ زکوٰۃ ادا کی جائے گی اس باب میں انس بن مالک ابن عمر اور جابر سے بھی روایت ہے اما ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث بکیر بن عبداللہ بن اشیخ سلیمان بن سیار اور بسر بن سعید بھی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مرسلاً روایت کرتے ہیں اس باب میں ابن عمر کی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی حدیث صحیح ہے اور اسی پر اکثر فقہاء کا عمل ہے

٭٭ احمد بن حسن، سعید بن ابو مریم، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، سالم، اپنے والد اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بارش اور چشموں سے سیراب ہونے والی زمین یا عشری زمین میں دسواں حصہ مقرر فرمایا اور جس زمین کو ڈول وغیرہ سے پانی دیا جائے ان میں بیسواں حصہ مقرر فرمایا امام ابو عیسیٰ کہتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے

یتیم کے مال کی زکوٰۃ

محمد بن اسماعیل، ابراہیم بن موسی، سلید بن مسلم، مثنی بن صباح، عمرو بن شعیب اپنے والد اور وہ ان کے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک مرتبہ خطبہ میں فرمایا جو کسی مالدار یتیم کا والی ہو تو اسے چاہئے کہ اس مال سے تجارت کرتا رہے اور یوں ہی نہ چھوڑ دے ایسا نہ ہو کہ زکوٰۃ دیتے دیتے اس کا مال ختم ہو جائے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث اسی سند سے مروی ہے اور اس کی اسناد میں کلام ہے اس لئے کہ مثنی بن صباح ضعیف ہیں بعض راوی یہ حدیث عمرہ بن شعیب سے روایت کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب نے خطبہ پڑھا الخ اور پھر یہ حدیث بیان کرتے ہیں اہل علم کا اس بارے میں اختلاف ہے کئی صحابہ کرام کے نزدیک یتیم کے مال پر زکوٰۃ ہے ان صحابہ کرام میں حضرت عمر علی، عائشہ اور ابن عمر شامل ہیں امام شافعی احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے اہل علم کی ایک جماعت کے نزدیک یتیم کے مال میں زکوٰۃ نہیں سفیان ثوری اور عبداللہ بن مبارک کا بھی یہی قول ہے عمرو بن شعیب عمر بن شعیب بن محمد بن عبداللہ بن عمرو بن عاصی ہیں شعیب نے اپنے دادا عبداللہ بن عمرو سے احادیث سنی ہیں یحیی بن سعید نے عمرو بن شعیب کی حدیث میں کلام کیا ہے اور فرمایا وہ ہمارے نزدیک ضعیف ہیں جس نے بھی انہیں ضعیف کہا ہے اس کے نزدیک ضعف کی وجہ یہ ہے کہ عمرو بن شعیب اپنے دادا عبداللہ بن عمرو کے صحیفہ سے روایت کرتے ہیں لیکن اکثر علماء محدثین عمرو بن شعیب کی حدیث کو حجت تسلیم کرتے ہیں جن میں احمد اور اسحاق بھی شامل ہیں

حیوان کے زخمی کرنے پر کوئی دیت نہیں اور دفن شدہ خزانے پر پانچواں حصہ ہے

قتیبہ، لیث بن سعد، ابن شہاب، سعید بن مسیب، ابو سلمہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا حیوان کے کسی کو زخمی کرنے پر اور کسی کے کنوئیں یا کان میں گر کر زخمی یا ہلاک ہونے پر کوئی دیت نہیں اور دفن شدہ خزانے پر پانچواں حصہ ہے اس باب میں انس بن مالک عبداللہ بن عمرو عبادہ بن صامت عمرو بن عوف مزنی اور جابر سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے

غلہ وغیرہ کا اندازہ کرنا

محمود بن غیلان، ابو داؤد، طیالسی، شعبہ، حبیب بن عبدالرحمن، عبدالرحمن بن مسعود بن نیار سے نقل کرتے ہیں کہ سہل بن ابی حثمہ ہماری مجلس میں تشریف لائے اور ہمیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم کسی چیز کا اندازہ لگا لو تو اسے لے لو اور تیسرا حصہ چھوڑ دو اگر تیسرا حصہ نہ چھوڑو تو چوتھا حصہ چھوڑ دو اس باب میں عائشہ و عتاب بن اسید اور ابن عباس سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ اکثر اہل علم کا عمل سہل بن ابی حثمہ کی حدیث پر ہی ہے امام احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے خرص یعنی تخمینہ سے مراد یہ ہے کہ جب ایسی کھجور اور انگور وغیرہ کا پھل پک جائے جن میں زکوٰۃ ہے تو حکمران ایک تخمینہ لگانے والے کو بھیجتا ہے تاکہ معلوم کر سکے کہ اس سے کتنی مقدار میں پھل وغیرہ اترے گا اس اندازہ لگانے والے کو خارص کہتے ہیں خارص اندازہ لگانے کے بعد انہیں اس کا عشر بتا دیتا ہے کہ پھلوں کے اترنے پر اتنی زکوٰۃ ادا کرنا پھر وزن کرنے کے بعد مالک کو اختیار دیتا ہے کہ وہ جو چاہیں کریں پھر جب پھل پک جائے تو اس سے اس کا عشر لے لے بعض علماء نے اس کی یہی تفسیر کی ہے امام مالک شافعی احمد اور اسحاق بھی یہی کہتے ہیں

٭٭ ابو عمرو، مسلم بن عمرو، حذاء مدنی، عبداللہ بن نافع، محمد بن صالح تمار، ابن شہاب سعید بن مسیب، عتاب بن اسید فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خارص کو لوگوں کے پھلوں اور انگوروں کا اندازہ کرنے کے لئے بھیجا کرتے تھے اور ایسی اسناد سے یہ بھی مروی ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انگوروں کی زکوٰۃ کے متعلق فرمایا کہ انگوروں کا اندازہ بھی اسی طرح لگایا جائے جس طرح کھجوروں کا اندازہ لگایا جاتا ہے پھر خشک ہونے کی صورت میں زکوٰۃ دی جائے جس طرح کھجوروں کی زکوٰۃ خشک کھجوروں سے دی جاتی ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن غریب ہے ابن جریج نے اسے ابن شہاب سے وہ عروہ سے اور وہ عائشہ سے روایت کرتے ہیں امام ترمذی فرماتے ہیں میں نے امام محمد بن اسماعیل بخاری سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ابن جریج کی حدیث غیر محفوظ ہے اور سعید بن مسیب کی عتاب بن اسید سے روایت اصح ہے۔

انصاف کے ساتھ زکوٰۃ لینے والا عامل

احمد بن منیع، یزید بن ہارون، یزید بن عیاض، عاصم بن عمر بن قتادہ، محمد بن اسماعیل، احمد بن خالد، محمد بن اسحاق، عاصم بن عمر، قتادہ، محمود بن لبید، رافع بن خدیج سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے انصاف کے ساتھ زکوٰۃ لینے والا عامل اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے غازی کی طرح ہے یہاں تک کہ وہ گھر لوٹ آئے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں رافع بن خدیج کی حدیث حسن ہے اور یزید بن عیاض محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں جب کہ محمد بن اسحاق کی روایت اصح ہے

زکوٰۃ لینے میں زیادتی کرنا

قتیبہ، لیث، یزید، ابو حبیب، سعد بن سنان، انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا زکوٰۃ لینے میں زیادتی کرنے والا زکوٰۃ نہ دینے والے کی طرح ہے اس باب میں ابن عمر ام سلمہ اور ابو ہریرہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث اس سند سے غریب ہے اس لئے کہ احمد بن حنبل نے سعد بن سنان کے متعلق کلام کیا ہے لیث بن سعد سے بھی ایسی ہی روایت ہے وہ یزید بن ابی حبیب سے وہ سعد بن سنان سے اور وہ انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے سنا کہ صحیح نام سنان بن سعد ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمانا کہ زکوٰۃ میں زیادتی کرنے والا زکوٰۃ نہ دینے والے کی طرح ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس پر اتنا ہی گناہ ہے جتنا گناہ زکوٰۃ نہ دینے والے پر ہے

زکوٰۃ لینے والے کو راضی کرنا

علی بن حجر، محمد بن یزید، مجالد، شعبی، جریر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تمہارے پاس زکوٰۃ کا عامل آئے تو اسے اس وقت تک جدا نہ کرو جب وہ تم سے خوش نہ ہو جائے

٭٭ ابوعمار، سفیان، داؤد، شعبی، جریر انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اوپر کی حدیث کی مثل امام ترمذی فرماتے ہیں داؤد کی شعبی سے مروی حدیث مجالد کی حدیث سے اصح ہے اور مجالد کو بعض اہل علم نے ضعیف قرار دیا ہے اور وہ بہت غلطیاں کرنے والے ہیں

زکوٰۃ مال داروں سے لے کر فقرا میں دی جائے

علی بن سعید، کندی، حفص بن غیاث، اشعث، عون بن ابو جحیفہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ ہمارے پاس نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا عامل زکوٰۃ آیا اور اس نے مالداروں سے زکوٰۃ وصول کرنے کے بعد ہمارے غریبوں میں تقسیم کر دی ایک میں یتیم بچہ تھا پس مجھے بھی اس میں سے ایک اونٹنی دی اس باب میں حضرت ابن عباس سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ ابن جحیفہ کی حدیث حسن غریب ہے

کس کو زکوٰۃ لینا جائز ہے

قتیبہ، علی بن حجر، قتیبہ، شریک، علی، شریک، حکیم بن جبیر، محمد بن عبدالرحمن بن یزید، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے سوال کیا اس حال میں کہ اس کے پاس اتنا مال ہے جو اسے سخی کر دے وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس سوال کی وجہ سے اس کا منہ چہلا ہو گا راوی کو شک ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خموش فرمایا خدوش یا کدوح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کفایت کے بقدر مال کتنا ہوتا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پچاس درہم یا اتنی قیمت کا سونا اس باب میں عبداللہ بن عمرو سے بھی روایت ہے کہ امام بوعیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ حدیث ابن مسعود حسن ہے شعبہ نے حکیم بن جبیر پر اس حدیث کی وجہ سے کلام کیا ہے

٭٭ محمود بن غیلان، یحیی بن آدم سفیان، حکیم، بن جبیر سے اس حدیث کو روایت کرتے ہیں اس پر شعبہ کے ساتھ عبداللہ بن عثمان نے سفیان سے کہا کاش کہ شعبہ کے علاوہ کسی اور نے یہ حدیث روایت کی ہوتی سفیان نے کہا حکیم کو کیا ہے ؟ کیا شعبہ ان سے روایت نہیں کرتے انہوں نے کہا ہاں سفیان نے کہا میں نے زبید کو بھی محمد بن عبدالرحمن بن یزید کے حوالے سے یہی بات کہتے ہوئے سنا ہے اس پر ہمارے بعض علماء کا عمل ہے اور یہی ثوری عبداللہ بن مبارک احمد اور اسحاق کا قول ہے کہ اگر کسی کے پاس پچاس درہم ہوں تو اس کے لئے زکوٰۃ لینا جائز نہیں لیکن بعض اہل علم حکیم بن جبیر کی حدیث کو حجت تسلیم نہیں کرتے وہ کہتے ہیں کہ اگر کسی کے ہاں پچاس یا اس سے زیادہ درہم بھی ہوں تو بھی اس کے لئے زکوٰۃ لینا جائز ہے بشرطیکہ وہ محتاج ہو اور یہ امام شافعی اور دوسری علماء فقہاء کا قول ہے

 

 

کس کے لئے زکوٰۃ لینا جائز نہیں

محمد بن بشار، ابو داؤد طیالسی، سفیان، محمود بن غیلان، عبدالرزاق، سفیان، سعد بن ابراہیم، ریحان بن یزید، عبداللہ بن عمرو روایت کرتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کسی غنی اور تندرست آدمی کو زکوٰۃ لینا جائز نہیں اس باب میں حضرت ابو ہریرہ حبشی بن جنادہ اور قبیصہ بن مخارق سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن ہے اس حدیث کو شعبہ نے بھی سعد بن ابراہیم کے حوالے سے غیر مرفوع روایت کیا ہے اس حدیث کے علاوہ بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی ہے کہ امیر اور تندرست آدمی کے لئے مانگنا جائز نہیں لیکن اگر کوئی شخص تندرست ہونے کے باوجود محتاج ہو اور اس کے پاس کچھ نہ ہو تو اس صورت میں اسے زکوٰۃ دینے والے کی زکوٰۃ اہل علم کے نزدیک ادا ہو جائے گی بعض اہل علم کے نزدیک اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ ایسے شخص کو سوال کرنا جائز نہیں

٭٭ علی بن سعید کندی، عبدالرحیم بن سلیمان، مجالد، عامر، حبشی بن جنادہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حجة الوداع کے موقع پر عرفات میں کھڑے تھے کہ ایک اعرابی آیا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی چادر کا کونہ پکڑ لیا پھر سوال کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے کچھ دیا تو وہ چلا گیا اور اسی وقت سوال کرنا حرام ہوا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا امیر اور تندرست آدمی کے لئے سوال کرنا جائز نہیں ہاں اگر کوئی فقیر یا سخت حاجت مند ہو تو اس کے لئے جائز ہے اور جو آدمی مال بڑھانے کے لئے لوگوں سے سوال کرتا ہے قیامت کے دن اس کے چہرے پر خراشیں ہوں گی ایسا شخص جہنم کے گرم پتھروں سے بھنا ہوا گوشت کھاتا ہے جو چاہے کم کھائے اور جو چاہے زیادہ کھائے محمود بن غیلان یحیی بن آدم سے اور وہ عبدالرحیم بن سلیمان سے اسی کی مثل روایت کرتے ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث اس سند سے غریب ہے

 

 

حج کا بیان

قارن صرف ایک طواف کرے

خلاد بن اسلم، عبدالعزیز بن محمد، عبید اللہ بن عمر، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس نے حج اور عمرہ کا (اکٹھا) احرام باندھا اسے حلال ہونے کے لئے ایک طواف اور ایک سعی ہی کافی ہے۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ دراوردی اس حدیث کو ان الفاظ سے روایت کرنے میں منفرد ہیں کئی راوی یہ حدیث ابن عمر سے غیر مرفوع روایت کرتے ہیں اور یہ اصح ہے

مہاجر حج کے بعد تین دن تک مکہ میں رہے

احمد بن منیع، سفیان بن عیینہ، عبدالرحمن بن حمید، یزید، علاء بن حصری مرفوعاً نقل کرتے ہیں کہ مہاجر حج کے افعال ادا کر چکنے کے بعد تین دن مکہ مکرمہ میں قیام کرے ، امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اس سند سے اسی طرح کئی راوی اسے مرفوعاً روایت کرتے ہیں۔

حج اور عمرے سے واپسی پر کیا کہے

علی بن حجر، اسماعیل بن ابراہیم، ایوب، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی جہاد، حج یا عمرہ سے واپس تشریف لے جاتے تو جب کسی بلند مقام یا ٹیلے پر چڑھتے تو تین مرتبہ تکبیر کہتے اور پڑھتے (لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ) اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اس کی بادشاہی اور تمام تعریفیں اسی کے لئے ہیں وہ ہر چیز پر قادر ہے ، ہم لوٹنے والے توبہ کرنے والے عبادت کرنے والے اپنے رب کے لئے پھرنے والے اور اپنے رب کی حمد وثنا بیان کرنے والے ہیں ، اللہ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا۔ اپنے بندے کی مد د کی اور مخالف لشکروں کو اکیلے شکست دی) باب میں حضرت براء رضی اللہ تعالی عنہ انس اور جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی روایت ہے ، امام ترمذی فرماتے ہیں کہ ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے۔

محرم جو احرام میں مر جائے

ابن ابی عمر، سفیان بن عیینہ، عمرو بن دینار، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ ہم ایک سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دیکھا کہ ایک آدمی اپنے اونٹ سے گرا اور اس کی گردن ٹوٹ گئی اور وہ مر گیا وہ احرام باندھے ہوئے تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اسے بیری کے پتوں اور پانی سے غسل دو، انہی کپڑوں میں اسے دفن کرو اور اس کا سر مت ڈھانپو۔ قیامت کے دن یہ اسی حالت میں احرام باندھے ہوئے یا تلبیہ کہتے ہوئے اٹھایا جائے گا۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے سفیان ثوری شافعی، احمد اور اسحاق کا یہی قول ہے۔ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ محرم کے مرنے سے اس کا احرام ختم ہو جاتا ہے لہذا اس کے ساتھ بھی غیر محرم کی طرح معاملہ کیا جائے گا۔

محرم اگر آنکھوں کی تکلیف میں مبتلا ہو جائے تو صبر (ایلوے) کا لیپ کرے

ابن ابی عمر، سفیان بن عیینہ، ایوب بن موسی، نبیہ بن وہب فرماتے ہیں کہ عمر بن عبید اللہ بن معمر کی احرام کی حالت میں آنکھیں دکھنے لگیں ،۔ انہوں نے ابان بن عثمان سے پوچھا (کہ کیا کروں) تو انہوں نے فرمایا اس پر صبر کا لیپ کرو، میں نے حضرت عثمان بن عفان کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہوئے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس پر مصبر (ایلوے) کا لیپ کرو۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ محرم کے دوا استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اس میں خوشبو نہ ہو۔

اگر محرم احرام کی حالت میں سر منڈ ادے تو کیا حکم ہے

ابن ابی عمر، سفیان بن عیینہ، ایوب، ابن ابی نجیح، اعرج، عبدالکریم، حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حدیبیہ میں مکہ مکرمہ داخل ہونے سے پہلے ان کے پاس سے گزرے جبکہ وہ احرام کی حالت میں ہنڈیا کے نیچے آگ سلگا رہے تھے اور جوئیں گر کر ان کے منہ پر پڑ رہی تھیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا یہ جوئیں تمہیں اذیت دیتی ہیں ؟ عرض کیا ہاں ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سر منڈا لو اور ایک فرق (تین صاع) کھانا چھ مسکینوں کو کھلا دو۔ یا پھر تین دن روزہ رکھو یا ایک جانور ذبح کرو۔ ابن ابی نجیح کہتے ہیں یا ایک بکری ذبح کرو امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اسی پر علماء صحابہ و تابعین کا عمل ہے کہ محرم جب سر منڈوائے یا ایسا کپڑا پہن لے جو احرام میں نہیں پہننا چاہیے تھا یا خوشبو لگائے تو اس پر کفارہ ہو گا جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے مروی ہے۔

چرواہوں کو اجازت ہے کہ ایک دن رمی کریں اور ایک دن چھوڑیں

ابن ابی عمر، سفیان، عبداللہ بن ابی بکر، محمد بن عمر، ابو البداح بن عدی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چرواہوں کو ایک دن کنکریاں مارنے اور ایک دن چھوڑنے کی رخصت دی۔ امام ابو عیسیٰ فرماتے ہیں کہ ابن عیینہ نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے مالک بن انس بھی عبید اللہ بن ابو بکر سے وہ اپنے والد سے اور ابو البداع بن عاصم بن عدی سے ان کے والد کے حوالے سے روایت کرتے ہیں کہ مالک کی روایت اصح ہے۔ اہل علم کی ایک جماعت چرواہوں کو ایک دن کنکریاں مارنے اور ایک دن چھوڑ دینے کی اجازت دیتی ہے امام شافعی کا بھی یہی قول ہے۔

٭٭ حسن بن علی، خلال، عبدالرزاق، ابو البداح بن عاصم بن عدی اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اونٹ چرانے والوں کو منی میں رات نہ رہنے کی اجازت دی وہ اس طرح کہ قربانی کے دن کنکریاں ماریں پھر دو دن کی رمی پہلے دن کرے اور پھر اسی دن رمی کے لیے آ جائے جس دن وہاں سے کوچ کیا جاتا ہے یہ حدیث حسن صحیح ہے اور یہ ابن عیینہ کی عبداللہ بن ابو بکر سے مروی روایت سے اصح ہے۔

باب

عبدالوارث بن عبدالصمد، عبدالوارث، سلیم بن حیان، مروان، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ، حجة الوداع کے موقع پر یمن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ نے پوچھا تم نے کس نیت سے احرام باندھا ہے پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر میرے پاس ہدی نہ ہوتی تو میں احرام کھول دیتا۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔

باب

عبدالوارث بن عبدالصمد، ابن عبدالوارث، محمد بن اسحاق، حار ث، حضرت علی سے روایت ہے کہ میں نے رسول سے حج اکبر کے بارے میں پوچھا آپ نے فرمایا وہ قربانی کا دن ہے (یعنی دس ذوالحجہ)

باب

ابن ابی عمر، سفیان، ابو اسحاق ، حارث، حضرت علی غیر مرفوع حدیث روایت کرتے ہیں کہ حج اکبر کا دن قربانی کا دن ہے۔ یہ حدیث پہلی حدیث سے اصح ہے اور ابن عیینہ کی موقوف روایت محمد بن اسحاق کی مرفوع روایت سے اصح ہے کئی حفاظ حدیث ابو اسحاق سے وہ حارث سے اور وہ حضرت علی سے اسی طرح موقوفاً روایت کرتے ہیں۔

باب

قتیبہ، جریر، عطاء بن سائب، ابن عبید بن عمیر اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ ابن عمر دونوں رکنوں (حجر اسود اور رکن یمانی) پر ٹھہرا کرتے تھے میں نے کہا ابو عبدالرحمن آپ دونوں رکنوں پر ٹھہرتے ہیں جب کہ میں نے کسی صحابی کو ایسا کرتے ہوئے نہیں دیکھا ابن عمر نے فرمایا میں کیوں نہ ٹھہروں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا کہ ان کو چھونے سے گناہوں کا کفارہ ادا ہوتا ہے میں نے یہ بھی سنا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جس نے اس گھر کا سات مرتبہ طواف کیا اور اس کی حفاظت کی تو یہ ایک غلام آزاد کرنے کی مثل ہے میں نے یہ بھی سنا کہ آپ نے فرمایا کہ جب کوئی شخص طواف میں ایک قدم رکھتا ہے اور ایک قدم اٹھاتا ہے تو اس کا ایک گناہ معاف اور ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے امام عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ حماد بن زید بھی عطاء بن سائب سے وہ عبید بن عمیر سے اور وہ ابن عمر سے اسی کی مثل روایت کرتے ہیں لیکن ابن عبید کے والد کا ذکر نہیں کرتے یہ حدیث حسن ہے۔

باب

قتیبہ، جریر، عطاء بن سائب، طاؤس، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بیت اللہ کا طواف نماز ہی کی طرح ہے سن لو تم اس میں گفتگو کر لیتے ہو لہذا جو اس میں بات کرے وہ نیکی کی ہی بات کرے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ ابن طاؤس وغیرہ طاؤس سے اور وہ ابن عباس سے یہ حدیث موقوفاً روایت کرتے ہیں ہم اس حدیث کو عطاء بن سائب کی روایت کے علاوہ مرفوع نہیں جانتے۔ اکثر علماء کا اس پر رد عمل ہے وہ کہتے ہیں کہ طواف میں باتیں نہ کرنا مستحب ہے لیکن ضرورت کے وقت یا علم کی باتیں یا اللہ کا ذکر کرنے کی اجازت ہے۔

باب

قتیبہ، جریر، ابن خثیم، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حجر اسود کے بارے میں فرمایا اللہ کی قسم اللہ قیامت کے دن اس کو اس حالت میں اٹھائے گا کہ اس کی دو آنکھیں ہوں گی جن سے دیکھے گا اور زبان ہو گی جس سے بات کرے گا اور جس نے اسے حق کے ساتھ چوما اس کے متعلق گواہی دے گا امام عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے۔

باب

ہناد، وکیع، حماد بن سلمہ، فرقد، سعید بن جبیر، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم احرام کی حالت میں بغیر خوشبو زیتون کا تیل استعمال کرتے تھے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ مقنت کے معنی خوشبودار کے ہیں یہ حدیث غریب ہے ہم اس حدیث کو فرقد سبخی کی سعید بن جبیر سے روایت سے ہی جانتے ہیں یحیی بن سید نے فرقد سبخی میں کلام کیا ہے لیکن لوگ ان سے روایت کرتے ہیں۔

باب

ابوکریب، خلاد بن زید، زہیر بن معاویہ، ہشام بن عروہ اپنے والد حضرت عروہ سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ زم زم کا پانی اپنے ساتھ لے جایا کرتی تھیں اور فرماتیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی اسے لے جایا کرتے تھے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن غریب ہے ہم اس حدیث کو صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

باب

احمد بن منیع، محمد بن وزیر، اسحاق بن یوسف، سفیان، عبدالعزیز بن رفیع کہتے ہیں کہ میں نے انس سے کہا کہ مجھے ایسی حدیث سنائیں جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آٹھویں ذی الحجہ کو ظہر کی نماز کہاں پڑھی؟ حضرت انس نے فرمایا منی میں۔ میں نے کہا کہ جس دن آپ روانہ ہوئے اس دن عصر کی نماز کہاں پڑھی؟ فرمایا وادی بطحی میں۔ پھر حضرت انس نے فرمایا تم اسی طرح کرو جس طرح تمہارے امیر کرتے ہیں۔ (یعنی وہاں نماز پڑھو جہاں تمہارے حج کے امیر نماز پڑھتے ہیں)۔

 

 

جنازوں کا بیان

بیماری کا ثواب

ہناد، ابو معاویہ، اعمش، ابراہیم، اسود، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مومن کو کوئی کانٹا نہیں چبھتا یا اسے بڑی تکلیف نہیں پہنچتی مگر اللہ اس کی وجہ سے اس کا ایک درجہ بلند کرتا ہے اور اس کی ایک غلطی معاف کرتا ہے اس باب میں حضرت سعد بن ابی وقاص، ابو عبیدہ بن جراح، ابو ہریرہ، ابو امامہ، ابو سعید، انس، عبداللہ بن عمرو، اسد کرز، جابر، عبدالرحمن بن ازہر، ابو موسیٰ سے بھی روایات مروی ہیں۔ امام عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ حدیث عائشہ حسن صحیح ہے۔

٭٭ سفیان بن وکیع، ابی اسامہ، ابن زید، محمد بن عمرو بن عطاء بن یسار، حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مومن کو کوئی زخم، غم، یا رنج حتی کہ اگر کوئی پریشانی بھی ہو جاتی ہے تو اللہ تعالی اس کے بدلے میں اس کے مومن گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ امام عیسیٰ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس باب میں حسن ہے۔ میں نے جارود سے سنا انہوں نے وکیع کا قول نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا میں نے اس روایت کے علاوہ کسی روایت میں نہیں سنا کہ پریشانی یا فکر سے بھی گناہ مٹ جاتے ہیں۔ بعض راوی یہ حدیث عطاء بن یسار سے اور وہ ابو ہریرہ سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں۔

مریض کی عیادت

حمید بن مسعدہ، یزید بن زریع، خالد، ابو قلابہ، ابی اسماء، حضرت ثوبان سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو وہ اتنی دیر جنت میں میوے چنتا رہتا ہے۔ اس باب میں حضرت علی، ابو موسی، براء، ابو ہریرہ، انس اور جابر سے بھی روایت ہے۔ امام عیسیٰ فرماتے ہیں کہ ثوبان کے حدیث حسن ہے۔ ابو غفار اور عاصم احول یہ حدیث ابو قلابہ سے وہ ابو الاشعث سے وہ ابو اسماء سے وہ ثوبان سے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اسی کی مثل روایت کرتے ہیں۔ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ جو یہ حدیث ابو اشعث سے اور وہ ابو اسماء سے روایت کرتے ہیں اس حدیث کی روایت اصح ہے امام بخاری فرماتے ہیں کہ ابو قلابہ کی احادیث (براہ راست) ابو اسماء سے مروی ہے۔ لیکن میرے نزدیک یہ حدیث ابو قلابہ نے بواسطہ ابو اشعث، ابو اسماء سے روایت کی ہے۔

٭٭ محمد بن وزیر، یزید بن ہارون، عاصم، ابو قلابہ ہم سے روایت کی محمد بن وزیر واسطی نے انہوں نے یزید بن ہارون سے انہوں نے عاصم احول سے انہوں نے ابو قلابہ سے انہوں نے ابو الاشعث سے انہوں نے ابو اسماء سے انہوں نے ثوبان سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اسی حدیث کی مثل اور اس میں یہ الفاظ زیادہ نقل کیے۔ قِیلَ مَا خُرْفَةُ الْجَنَّةِ جنت کیا ہے ؟ فرمایا اس کے پھل۔

٭٭ احمد بن عبدہ، ضبی، حماد بن زید، ایوب، ابو قلابہ، اسماء، ثوبان ہم سے روایت کی احمد بن عبدہ ضبی نے انہوں نے حماد بن زید سے انہوں نے ایوب سے انہوں نے ابو قلابہ سے انہوں نے اسماء سے انہوں نے ثوبان سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے خالد کی حدیث کی مثل اور اس میں ابو الاشعث کا ذکر نہیں کیا بعض راوی یہ حدیث حماد بن زید سے بھی غیر مرفوع روایت کرتے ہیں۔

٭٭ احمد بن منیع، حسن بن محمد، اسرائیل، ثویر اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت علی نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا چلو حسین کی عیادت کے لیے چلیں ہم نے ان کے پاس حضرت ابو موسیٰ کو پایا تو حضرت علی نے پوچھا اے ابو موسیٰ بیمار پرسی کے لیے آئے ہو یا ملاقات کے لیے ؟ عیادت کے لیے۔ حضرت علی نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا کہ جب کوئی مسلمان کسی مسلمان کی صبح کے وقت عیادت کرتا ہے تو ستر ہزار فرشتے شام تک اس کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں اور اگر شام تک اس کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں کہ اگر شام کو عیادت کرے تو صبح تک۔ اور اس کے لیے جنت میں ایک باغ ہو گا۔ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب حسن ہے۔ حضرت علی سے یہ حدیث کئی سندوں سے مروی ہے بعض راوی یہ حدیث موقوفاً روایت کرتے ہیں ابو فاختہ کا نام سعید بن علاقہ ہے۔

موت کی تمنا کرنے کی ممانعت

محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، ابو اسحاق ، حضرت حارثہ بن مضرب سے روایت ہے کہ میں خباب کے پاس حاضر ہوا انہوں نے اپنے پیٹ میں داغ لگوایا تھا۔ وہ فرمانے لگے مجھے معلوم نہیں کہ صحابہ کرام میں سے کسی نے اتنی تکلیف اٹھائی ہو جتنی میں نے اٹھائی ہے میرے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں ایک درہم بھی نہ ہوتا تھا۔ اور اب میرے گھر کے ایک کونے میں چالیس ہزار درہم پڑے ہوئے ہیں۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں موت کی تمنا سے منع نہ کیا ہوتا تو میں موت کی تمنا کرتا۔ اس باب میں حضرت ابو ہریرہ، انس، اور جابر سے بھی روایت ہے امام ترمذی فرماتے ہیں کہ حدیث خباب حسن صحیح ہے۔ حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں سے کوئی کسی تکلیف کے باعث جو اسے پہنچی ہو موت کی تمنا نہ کرے۔ بلکہ یہ کہے۔ (اللَّہُمَّ أَحْیِنِی مَا کَانَتْ الْحَیَاةُ خَیْرًا لِی وَتَوَفَّنِی إِذَا کَانَتْ الْوَفَاةُ خَیْرًا لِی) اے اللہ اگر میرے لیے زندگی بہتر ہو تو مجھے زندہ رکھ اور اگر موت بہتر ہو تو موت دے دے۔

٭٭ علی بن حجر، اسماعیل بن ابراہیم سے وہ عبدالعزیز بن صہیب سے وہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہی حدیث روایت کرتے ہیں امام عیسیٰ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

 

 

 

نکاح کا بیان

پھوپھی، خالہ، بھانجی، بھتیجی ایک شخص کے نکاح میں جمع نہ ہوں

حسن بن علی، یزید بن ہارون، ابن ابی ہندنا، عامر، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھوپھی کی موجودگی میں اس کی بھتیجی اور بھتیجی کی موجودگی میں اس کی پھوپھی اور پھر خالہ کی موجودگی میں اس کی بھانجی اور بھانجی کی موجودگی میں اس کی خالہ سے نکاح کرنے سے منع فرمایا۔ حضرت ابن عباس، اور ابو ہریرہ کی حدیثیں حسن صحیح ہیں۔ عام علماء کا اس پر عمل ہے اس میں ہمیں کوئی اختلاف معلوم نہیں کہ کسی مرد کے لیے خالہ اور بھانجی یا پھوپھی اور بھانجی کو ایک نکاح میں جمع کرنا حلال نہیں۔ اگر کسی عورت کو اس کی پھوپھی یا خالہ پر نکاح میں لایا جائے تو دوسرا نکاح فسخ ہو جائے گا۔ عام علماء یہی فرماتے ہیں۔ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ امام بخاری سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بھی کہا کہ یہ بھی صحیح ہے اور شعبہ، حضرت ابو ہریرہ سے ایک شخص کے واسطے سے بھی روایت کرتے ہیں۔

عقد نکاح کے وقت شرائط

یوسف بن عیسی، وکیع، عبدالحمید بن جعفر، یزید بن ابی حبیب، مرثد بن عبد اللہ، ابی الخیر، حضرت عقبہ بن عامر جہنی سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا شرائط میں سے وفا کے سب سے زیادہ لائق وہ شرط ہے جس کے بدلے تم نے شرمگاہوں کو حلال کیا۔

٭٭ ابوموسی، محمد بن مثنی، یحیی بن سعید، عبدالحمید بن جعفر اس کی مثل حدیث نقل کرتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے بعض اہل علم صحابہ کا اسی پر عمل ہے جن میں عمر بن خطاب بھی شامل ہیں وہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی عورت سے اس شرط پر نکاح کرے کہ وہ اسے اس کے شہر سے باہر نہیں لے جائے گا تو اسے اس شرط کو پورا کرنا چاہیے ، بعض علماء، شافعی، احمد، اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے۔ حضرت علی سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا اللہ تعالی کی شرط ہر شرط پر مقدم ہے گویا کہ ان کے نزدیک شوہر کا اپنی بیوی کو اس شرط کے باوجود شہر سے دوسرے شہر لے جانا صحیح ہے بعض اہل علم کا بھی قول ہے سفیان ثوری اور بعض اہل کوفہ کا بھی یہ قول ہے۔

اسلام لاتے وقت دس بیویاں ہوں تو کیا حکم ہے

ہناد، سعید بن ابی معمر، زہری، سالم بن عبد اللہ، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ غیلان بن سلمہ، مسلمان ہوئے تو ان کے نکاح میں دس بیویاں تھیں وہ بھی ان کے ساتھ ہی مسلمان ہو گئیں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا کہ ان میں سے چار کا انتخاب کر لیں معمر بھی زہری سے وہ سالم سے اور وہ اپنے والد سے اسی طرح روایت کرتے ہیں میں نے امام بخاری سے سنا کہ یہ حدیث غیر محفوظ ہے اور وہ صحیح ہے جو شعیب بن حمزہ وغیرہ زہری سے اور وہ محمد بن سوید ثقفی سے نقل کرتے ہیں کہ غیلان بن سلمہ اسلام لائے تو ان کی دس بیویاں تھیں امام بخاری کہتے ہیں کہ زہری کی سالم اور ان کی ان کے والد سے منقول یہ حدیث بھی صحیح ہے بنوثقیف کے ایک شخص نے اپنی بیویوں کو طلاق دی تو حضرت عمر نے اسے حکم دیا کہ تم ان سے رجوع کرو وگر نہ میں تمہاری قبر کو بھی ابو رغال کی قبر کی طرح رجم کروں گا۔ اس باب میں غیلان ہی کی حدیث پر اہل علم کا عمل ہے۔ جن میں امام شافعی، احمد، اور اسحاق بھی شامل ہیں۔

نومسلم کے نکاح میں دو بہنیں ہوں تو کیا حکم ہے

قتیبہ، لہیعہ، ابو وہب جیشانی، ابن روز دیلمی سے نقل کرتے ہیں کہ ان کے والد نے فرمایا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں مسلمان ہو گیا ہوں اور میرے نکاح میں دو بہنیں ہیں آپ نے فرمایا ان دونوں میں سے جس کو چاہو اپنے لیے منتخب کر لو، یہ حدیث حسن غریب ہے ابو وہب جیشانی، کا نام دیلم بن ہوشع ہے۔

وہ شخص جو حاملہ لونڈی خریدے

عمر بن حفص شیبانی، عبداللہ بن وہب، یحیی بن ایوب، ربیعہ بن سلیم، بسر بن عبید اللہ، حضرت رویفع بن ثابت سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنا پانی، دوسرے کی اولاد کو نہ پلائے یعنی جو عورت کسی اور سے حاملہ ہو (لونڈی) اور اس نے اسے خریدا تو اس سے صحبت نہ کرے۔ یہ حدیث حسن ہے اور کئی سندوں سے رویفع بن ثابت ہی سے منقول ہے اہل علم کا اسی پر عمل ہے وہ فرماتے ہیں کہ کوئی شخص کسی باندی کو حاملہ ہوتے ہوئے خریدے تو بچہ پیدا ہونے تک اس سے جماع نہ کرے۔ اس باب میں ابو درداء، عرباض بن ساریہ، اور ابو سعید سے بھی روایت ہے۔

اگر شادی شدہ لونڈی قیدی بن کر آئے تو اس سے جماع کیا جائے یا نہیں

احمد بن منیع، ہشیم، عثمان، ابی خلیل، حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ہم نے جنگ اوطاس کے موقع پر کچھ ایسی عورتیں قید کیں جو شادی شدہ تھیں اور ان کے شوہر بھی اپنی اپنی قوم میں موجود تھے پس نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس کا تذکرہ کیا گیا تو یہ آیت نازل ہو (وَّالْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَاۗءِ اِلَّا مَامَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ ۚ) 4۔ النساء:24)  یہ حدیث حسن ہے۔ ثوری، عثمان بتی بھی ابو خلیل سے اور وہ ابو سعید سے اسی حدیث کی مثل بیان کرتے ہیں ابو خلیل کا نام صالح بن مریم ہے۔

٭٭ ہمام، قتادہ، صالح، ابی خلیل، ابی علقمہ، ابی سعید سے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ہم سے روایت کی یہ عبد بن حمید نے انہوں نے حبان بن ہلال سے انہوں نے ہمام سے۔

زنا کی اجرت حرام ہے

قتیبہ، لیث، ابن شہاب، ابی بکر بن عبدالرحمن، حضرت ابو مسعود انصاری سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے کتے کی قیمت، زانیہ کی اجرت، کاہن کی مٹھائی کھانے سے منع فرمایا ہے اس باب میں حضرت رافع بن خدیج، ابو جحیفہ، ابو ہریرہ، ابن عباس سے بھی روایت ہے ، ابو مسعود کی حدیث حسن صحیح ہے۔

کسی کے پیغام نکاح پر پیغام نہ بھیجا جائے

احمد بن منیع، قتیبہ، سفیان، زہری، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ قتیبہ نے کہا ابو ہریرہ اس حدیث کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک پہنچاتے تھے اور احمد نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کوئی شخص اپنے بھائی کی بیچی ہوئی چیز پر وہی چیز اس سے کم قیمت میں فروخت نہ کرے اور نہ ہی اپنے بھائی کے پیغام نکاح پر پیغام بھیجے۔ اس باب میں حضرت سمرہ اور ابن عمر سے بھی روایت ہے امام ترمذی فرماتے ہیں کہ حدیث ابو ہریرہ حسن صحیح ہے مالک بن انس فرماتے ہیں کہ پیغام نکاح پر پیغام دینے کی ممانعت سے یہ مراد ہے کہ اگر کسی نے نکاح کا پیغام دیا اور عورت اس پر راضی بھی ہو گئی تو کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اس کے پاس پیغام بھیجے۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیغام سے وہ راضی ہو گئی اور اس کی طرف مائل ہو گئی تو اب کوئی دوسرا اس کی طرف نکاح کا پیغام نہ بھیجے لیکن اس کی رضامندی اور میلان سے پہلے پیغام نکاح بھیجنے میں کوئی حرج نہیں اس کی دلیل حضرت فاطمہ بنت قیس والی روایت ہے کہ انہوں نے بارگاہ نبوی میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ابو جہم بن حذیفہ اور معاویہ بن سفیان نے مجھے نکاح کا پیغام بھیجا ہے آپ نے فرمایا ابو جہم تو ایسا شخص ہے کہ عورتوں کو بہت مارتا ہے اور معاویہ مفلس ہے ان کے پاس کچھ بھی نہیں لہذا تم اسامہ سے نکاح کر لو ہمارے نزدیک اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ حضرت فاطمہ بنت قیس نے ان دونوں میں سے کسی ایک کے ساتھ رضامندی کا اظہار نہیں کیا کیونکہ اگر انہوں نے آپ کو بتایا ہوتا کہ وہ کسی ایک کے ساتھ راضی ہیں تو آپ کبھی انہیں اسامہ سے شادی کا مشورہ نہ دیتے۔

٭٭ محمود بن غیلان، ابو داؤد، شعبہ، ابو بکر بن ابو جہم نقل کرتے ہیں کہ میں اور ابو سلمہ بن عبدالرحمن، فاطمہ بنت قیس کے پاس گئے تو انہوں نے بتایا کہ ان کے شوہر نے انہیں تین طلاقیں دے دی ہیں اور ان کے لیے نہ رہائش کا بندوبست کیا ہے نہ نان نفقہ کا۔ البتہ اس نے اپنے چچا زاد بھائی کے پاس دس قفیز غلہ رکھوایا ہے جس میں سے پانچ جو کے اور پانچ گیہوں کے ہیں فاطمہ بنت قیس فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور سارا ماجرا سنایا آپ نے فرمایا انہوں نے ٹھیک کیا اور مجھے حکم دیا کہ میں ام شریک کے ہاں عدت گزاروں لیکن پھر آپ نے فرمایا ام شریک کے ہاں تو مہاجرین کا آنا جانا ہے تم ابن مکتوم کے گھر عدت گزارو۔ کیونکہ اگر وہاں تمہیں کپڑے وغیرہ اتارنے پڑ جائیں تو تمہیں دیکھنے والا کوئی نہیں پھر جب تمہاری عدت پوری ہو جائے اور کوئی نکاح پیغام بھیجے تو میرے پاس آنا فاطمہ بنت قیس فرماتی ہیں کہ جب میری عدت پوری ہوئی تو ابو جہم، اور معاویہ نے مجھے نکاح کا پیغام بھیجا میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا معاویہ کے پاس تو مال نہیں ہے اور ابو جہم عورتوں کے معاملے میں بہت سخت ہے فاطمہ بنت قیس فرماتی ہیں کہ اس کے بعد مجھے اسامہ بن زید نے پیغام نکاح بھیجا اور اس کے بعد مجھ سے نکاح کیا اللہ نے مجھے حضرت اسامہ کے سبب سے برکت عطاء فرمائی یہ حدیث حسن ہے سفیان ثوری بھی ابو بکر بن جہم سے اسی کے مثل نقل کرتے ہیں اور اس میں یہ اضافہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے فرمایا کہ اسامہ سے نکاح کر لو۔

٭٭ محمود بن غیلان، وکیع، سفیان، ابی بکر بیان کی یہ بات محمود بن غیلان نے انہوں نے وکیع سے انہوں نے سفیان سے انہوں نے ابی بکر بن ابی جہم سے۔

عزل کے بارے میں

محمد بن عبدالملک بن ابی شوارب، یزید بن زریع، معمر، یحیی بن ابی کثیر، محمد بن عبدالرحمن بن ثوبان، حضرت جابر سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ہم عزل کیا کرتے تھے لیکن یہود کے خیال میں یہ زندہ درگور کرنے کی چھوٹی قسم ہے آپ نے فرمایا یہود جھوٹ بولتے ہیں اس لیے کہ اللہ تعالی جب کسی کو پیدا کرنا چاہتا ہے تو اسے کوئی چیز بھی روک نہیں سکتی۔ اس باب میں حضرت عمر، براء، ابو ہریرہ، ابو سعید سے بھی روایت ہے۔

٭٭ قتیبہ، ابن عمر، سفیان، ابن عیینہ، عمر بن دینار، عطاء، حضرت جابر سے روایت ہے کہ ہم قرآن کے نازل ہونے کے زمانے میں عزل کیا کرتے تھے حدیث جابر حسن صحیح ہے۔ یہ حدیث جابر ہی سے کئی سندوں سے منقول ہے بعض صحابہ کرام، اور علماء نے عزل کی اجازت دی ہے مالک بن انس فرماتے ہیں کہ آزاد عورت سے اجازت لے کر عزل کیا جائے اور لونڈی سے عزل کے لیے اجازت ضروری نہیں۔ امام ابو حنیفہ کا بھی یہی قول ہے۔

عزل کی کراہت

ابن ابی عمر، قتیبہ، سفیان، ابن عیینہ، ابن ابی نجیح، مجاہد، قزعة، حضرت ابو سعید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے عزل کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا تم میں سے کوئی ایسا کیوں کرتا ہے ابن عمر اپنی حدیث میں یہ الفاظ زیادہ بیان کرتے ہیں کہ آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ تم میں سے کوئی ایسا نہ کرے دونوں راوی کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نفس نے پیدا ہونا ہے اللہ اسے ضرور پیدا کرے گا اس باب میں حضرت جابر سے بھی روایت ہے۔ حدیث ابو سعید، حسن صحیح ہے اور ابو سعید ہی سے کئی سندوں سے منقول ہے۔ صحابہ کرام اور دوسرے علماء کی ایک جماعت نے عزل کو ناپسند کیا ہے۔

کنواری اور بیوہ کے لیے رات کی تقسیم

ابو سلمہ، یحیی بن خلف، بشر بن مفضل، خالد، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ اگر تم چاہو تو میں یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا لیکن انس نے یہی فرمایا کہ سنت یہ ہے کہ جب پہلی بیوی پر کنواری لڑکی سے نکاح کرتے تو اس کے پاس سات راتیں گزارے اور اگر بیوی کے ہوتے ہوئے کسی بیوہ پر نکاح کرے تو اس کے پاس تین راتیں گزارے ، اس باب میں حضرت ام سلمہ سے بھی روایت ہے حدیث انس حسن صحیح ہے اس حدیث کو محمد بن اسحاق، ایوب، ابو قلابہ، انس سے مرفوعاً بھی روایت ہے۔ بعض حضرات نے اسے غیر مرفوع روایت کیا ہے۔ بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ہوتے ہوئے کنواری لڑکی سے نکاح کرتے تو اس کے پاس سات راتیں گزارے اور اگر بیوی کے ہوتے ہوئے کسی بیوہ پر نکاح کرے تو اس کے پاس تین دن گزارے۔

سوکنوں کے درمیان باری مقرر کرنا

ابن ابی عمر، بشر بن سری، حماد بن سلمہ، ایوب، ابی قلابہ، عبداللہ بن یزید، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیویوں کے درمیان راتیں برابر تقسیم کرتے اور فرماتے اے اللہ یہ تقسیم تو میرے اختیار میں ہے پس تو جس چیز پر قدرت رکھتا ہے میں اس پر قادر نہیں تو مجھے ایسی چیز پر ملامت نہ کرے۔ حدیث عائشہ کئی راویوں نے حماد بن سلمہ سے انہوں نے ایوب سے انہوں نے ابو قلابہ سے انہوں نے عبداللہ بن یزید سے انہوں نے ابو قلابہ سے انہوں نے عبداللہ بن یزید سے اور انہوں نے حضرت عائشہ سے اسی طرح مرفوعاً نقل کی ہے کہ آپ اپنی ازواج مطہرات میں برابر تقسیم کرتے تھے۔ یہ حدیث حماد بن سلمہ کی حدیث سے اصح ہے۔ آپ کا یہ قول کہ مجھے ملامت نہ کر، بعض اہل علم اس کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ اس سے مراد محبت و الفت ہے۔

٭٭ محمد بن بشار، عبدالرحمن، ابن مہدی، ہمام، قتادہ، نضر بن انس، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر کسی شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان کے درمیان انصاف اور عدل نہ کرتا ہو تو وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس کے بدن کا آدھا حصہ مفلوج ہو گا یہ حدیث ہمام بن یحیی، قتادہ سے مرفوعاً نقل کرتے ہیں کہ ایسا کیا جاتا تھا، ہمیں یہ حدیث مرفوعاً صرف ہمام کی روایت سے معلوم ہے۔

مشرک میاں بیوی میں سے ایک مسلمان ہو جائے تو؟

احمد بن منیع، ہناد، ابو معاویہ، حجاج، عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی صاحبزادی حضرت زینب کو دوبارہ ابو عباس بن ربیع کے نکاح میں دیا اور نیا مہر مقرر کیا، اس حدیث کی سند میں کلام ہے اہل علم کا اس پر عمل ہے کہ اگر بیوی شوہر سے پہلے اسلام لے آئے اور اس کے بعد عورت کی عدت کے ہی دوران شوہر بھی مسلمان ہو جائے تو اس مدت میں وہی شوہر اپنی بیوی کا زیادہ مستحق ہے امام مالک بن انس، اوزاعی، شافعی، احمد، اسحاق، کا یہی قول ہے۔

٭٭ ہناد، یونس بن بکیر، محمد بن اسحاق، داؤد حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی صاحبزادی حضرت زینب کو چھ سال بعد پہلے نکاح کے ساتھ ابو العاص کی طرف لوٹایا اور دوبارہ نکاح نہیں کیا، اس حدیث کی سند میں کوئی حرج نہیں لیکن متن حدیث کو ہم نہیں پہچانتے۔ شاید یہ داؤد بن حصین کے حفظ کی وجہ سے ہے۔

٭٭ یوسف بن عیسی، وکیع، اسرائیل، سماک بن حرب، عکرمہ، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں ایک شخص مسلمان ہو کر آیا پھر اس کی بیوی بھی اسلام لے آئی تو اس نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ میرے ساتھ ہی مسلمان ہوئی ہے ، پس نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس عورت کو اسی شخص کو دیدیا، یہ حدیث صحیح ہے میں نے عبد بن حمید سے انہوں نے یزید بن ہارون سے سنا کہ وہ یہی حدیث محمد بن اسحاق سے نقل کرتے تھے ، اور حجاج کی روایت جو مروی ہے بسند عمرو بن شعیب، عن ابیہ، عن جدہ کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی صاحبزادی کو نئے مہر اور نکاح کے ساتھ ابو العاص بن ربیع کی طرف لوٹا دیا۔ یزید بن ہارون کہتے ہیں کہ ابن عباس کی حدیث سند کے اعتبار سے زیادہ بہتر ہے اور عمل عمرو بن شعیب کی حدیث پر ہے۔

وہ شخص جو نکاح کے بعد مہر مقرر کرنے سے پہلے فوت ہو جائے تو؟

محمود بن غیلان، یزید بن حباب، سفیان، منصور، ابراہیم، علقمہ، حضرت ابن مسعود سے روایت ہے کہ ان سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو نکاح کرنے کے بعد مہر مقرر کرنے اور صحبت کرنے سے پہلے فوت ہو جائے ابن مسعود نے فرمایا ایسی عورت کا مہر اس کے خاندان کی عورتوں کے برابر ہو گا نہ کم ہو گا اور نہ زیادہ، وہ عورت عدت گزارے گی اور اسے خاوند کے مال سے وراثت بھی ملے گی، اس پر معقل بن سنان، کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ رسول اللہ نے بروع بنت واشق کے متعلق ایسا ہی فیصلہ فرمایا تھا جیسا کہ آپ نے فیصلہ کیا ہے اس پر حضرت عبداللہ بن مسعود بن بہت خوش ہوئے اس باب میں حضرت جراح سے بھی روایت ہے۔

٭٭ حسن بن علی، یزید بن ہارون، عبدالرزاق، سفیان، منصور سے اسی کی مثل نقل ہے حدیث ابن مسعود حسن صحیح ہے اور انہی سے کئی سندوں سے مروی ہے بعض صحابہ اور دیگر علماء کا اسی پر عمل ہے سفیان ثوری، احمد، اور اسحاق، کا یہی قول ہے بعض بعض صحابہ کرام اور دیگر علماء کا اسی پر عمل ہے انہوں نے فرمایا جب کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرے اور مہر مقرر نہ کیا جائے تو جماع سے پہلے فوت ہونے کی صورت میں اس عورت کا میراث میں تو حصہ ہے لیکن مہر مقرر نہ کیا جائے تو جماع سے پہلے فوت ہونے کی صورت میں میراث میں تو حصہ ہے لیں مہر نہیں البتہ عدت گزارے گی، امام شافعی کا بھی یہی قول ہے۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ اگر بروع بنت واشق، والی حدیث ثابت بھی ہو جائے تو بھی حجت وہی بات ہو گئی، جو نبی کریم سے مروی ہے امام شافعی سے مروی ہے کہ وہ مصر میں گئے تو انہوں نے اپنے قول سے رجوع کر لیا تھا اور بروع بنت واشق کی حدیث پر عمل کرنے لگے تھے۔

 

 

 

رضاعت کا بیان

نسب سے حرام رشتے رضاعت سے بھی حرام ہوتے ہیں

احمد بن منیع، اسماعیل بن ابراہیم، علی بن زید، سعید بن مسیب، حضرت علی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے جو رشتے نسب سے حرام کیے ہیں وہی رشتے رضاعت سے بھی حرام کیے ہیں اس باب میں حضرت عائشہ، ابن عباس، ام حبیبہ سے بھی روایت ہے۔ یہ حدیث صحیح ہے۔

٭٭ بندار، یحیی بن سعید، مالک بن انس، اسحاق بن موسی، مالک، عبداللہ بن دینار، سلیمان بن یسار، عروہ بن زبیر، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالی نے رضاعت سے بھی وہی رشتے حرام کیے ہیں جو ولادت سے حرام کیے ہیں۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے صحابہ کرام اور دیگر اہل علم کا اسی پر عمل ہے اس مسئلہ میں علماء کا اتفاق ہے۔

ماں اور اس کے بچوں یا بھائیوں کو الگ الگ بیچنا منع ہے

عمر بن حفص، عبداللہ بن وہب، عبد اللہ، ابی عبدالرحمن، حضرت ابو ایوب سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا جو شخص کسی ماں اور اس کے بچوں کو جدا کرے گا۔ اللہ قیامت کے دن اسے اس کے محبوب لوگوں سے جدا کر دے گا۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

٭٭ حسین بن علی، عبدالرحمن، ابی ایوب، حضرت علی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے دو غلام دئیے۔ وہ دونوں آپس میں بھائی تھے میں نے ایک بیچ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے فرمایا اے علی تمہارا ایک غلام کیا ہوا، حضرت علی کہتے ہیں کہ میں نے واقعہ سنایا تو آپ نے فرمایا اسے واپس لے آؤ (دو مرتبہ فرمایا) یہ حدیث حسن غریب ہے۔ بعض صحابہ کرام اور دیگر علماء نے ان قیدیوں کو جو سرزمین اسلام میں پیدا ہوئے جدا کرنے کی اجازت دی ہے۔ پہلا قول زیادہ صحیح ہے ابراہیم سے منقول ہے کہ انہوں نے ماں بیٹے کو جدا کر دیا تو لوگوں نے ان پر اعتراض کیا اس پر انہوں نے کہا میں نے اس کی والدہ سے پوچھ لیا تھا وہ اس پر رضامند تھی۔

غلام خریدنا پھر نفع کے بعد عیب پر مطلع ہونا

محمد بن مثنی، عثمان بن عمر، ابو عامر، ابن ابی ذئب، مخلد بن خفاف، عروہ، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فیصلہ فرمایا کہ ہر چیز کا نفع اسی کے لیے ہے جو اس کا ضامن ہو۔ یہ حدیث حسن ہے اور کئی سندوں سے منقول ہے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔

٭٭ ابو سلمہ، یحیی بن خلف، عمر بن علی، ہشام بن عروہ، عائشہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فیصلہ فرمایا کہ ہر چیز کا نفع اسی کے لیے ہے جو اس کا ضامن ہے۔ یہ حدیث ہشام بن عروہ کی روایت سے صحیح غریب ہے۔ امام بخاری نے عمر بن علی کی روایت سے اسے غریب کہا ہے یہ حدیث مسلم بن خالد زنجی بھی ہشام بن عروہ سے روایت کرتے ہیں جریر نے بھی اس حدیث کو ہشام سے روایت کیا۔ کہا گیا ہے کہ جریر کی روایت میں تدلیس ہے اس لیے کہ جریر نے ہشام سے یہ حدیث نہیں سنی۔ اس حدیث کی تفسیر یہ ہے کہ ایک شخص نے غلام خریدا اور اس سے نفع اٹھایا بعد میں پتہ چلا کہ اس میں کوئی عیب ہے تو اسے واپس کر دیا اس صورت میں اس نے جو کچھ غلام کے ذریعے کمایا وہ اسی کا ہو گا کیونکہ اگر وہ غلام ہلاک ہو جاتا تو خسارہ خریدنے والے ہی کا تھا۔ اس قسم کے دوسرے مسائل کا یہی حکم ہے کہ نفع اسی کا ہو گا جو ضامن ہو گا۔

 

 

راہ گزرنے والے کے لیے راستے کے پھل کھانے کی اجازت

محمد بن عبدالملک، ابی شوارب، یحیی بن سلیم، عبداللہ بن عمر، نافع، حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کوئی شخص کسی باغ میں داخل ہو تو وہ اس سے کھا سکتا ہے لیکن کپڑے وغیرہ میں جمع کر کے نہ لے جائے اس باب میں عبداللہ بن عمرو، عباد بن شرحبیل، رافع بن عمرو، ابو لحم کے مولی عمیر اور ابو ہریرہ سے بھی روایات منقول ہیں حضرت ابن عمر کی حدیث غریب ہے ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں بعض علماء اس کی اجازت دیتے ہیں لیکن بعض علماء نے قیمت ادا کیے بغیر پھل کھانے کو مکروہ کہا ہے۔

٭٭ قتیبہ، لیث، ابن عجلان، حضرت عمر بن شعیب اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے درختوں پر لگی ہوئی کھجوروں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر کوئی ضرورت مند جمع کیے بغیر کھا لے تو کوئی حرج نہیں یہ حدیث حسن ہے۔

٭٭ ابوعمار، حسین بن حریث، فضل بن موسی، صالح بن جبیر، حضرت رافع بن عمرو سے روایت ہے کہ میں انصار کے کھجوروں کے درختوں پر پتھر مار رہا تھا کہ وہ مجھے پکڑ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس لے گئے آپ نے فرمایا رافع کیوں ان کے کھجور کے درختوں کو پتھر مار رہے تھے ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھوک کی وجہ سے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پتھر نہ مارو جو گری ہوئی ہوں وہ کھا لیا کرو۔ اللہ تعالی تمہیں سیر کرے اور آسودہ کرے یہ حدیث حسن غریب ہے

 

 

خرید و فروخت میں استثناء کی ممانعت

زیاد بن ایوب، عباد بن عوام، سفیان بن حسین، یونس، ابن عبید، عطاء، حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بیع، محاقلہ مذابنہ مخابرہ اور غیر معلوم چیز کی استثناء سے منع فرمایا۔ یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے یعنی یونس بن عبید، عطاء سے اور وہ جابر سے روایت کرتے ہیں۔

غلے کو اپنی ملکیت میں لینے سے پہلے فروخت کرنا منع ہے

قتیبہ، حماد بن زید، عمرو بن دینار، طاؤس، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص غلہ خریدی وہ اسے قبضہ کرنے سے پہلے نہ بیچے۔ اس باب میں حضرت جابر، ابن عمر سے بھی روایت ہے۔ حضرت ابن عباس کی یہ حدیث حسن صحیح ہے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ کسی چیز پر قبضہ کرنے سے پہلے اسے بیچنا جائز نہیں۔ بعض اہل علماء کا مسلک یہ ہے کہ جو چیزیں تولی یا وزن نہیں کی جاتیں اور نہ ہی کھانے پینے میں استعمال ہوتی ہیں ان کا قبضہ سے پہلے فروخت کرنا جائز ہے۔ اہل علم کے نزدیک صرف غلے میں سختی ہے امام احمد اور اسحاق کا یہی قول ہے۔

اس بارے میں کہ اپنے بھائی کی بیع پر بیع کرنا منع ہے

قتیبہ، لیث، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کوئی شخص دوسرے کی فروخت کی ہوئی چیز پر وہی چیز اس سے کم قیمت میں نہ بیچے اور کسی عورت کے کسی کے ساتھ نکاح پر راضی ہونے کے بعد کوئی اسے نکاح کا پیغام نہ بھیجے۔ اس باب میں حضرت ابو ہریرہ اور سمرہ سے بھی روایات منقول ہیں حدیث ابن عمر حسن صحیح ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا کوئی شخص اپنے بھائی کی لگائی ہوئی قیمت پر قیمت نہ لگائے بعض اہل علم کے نزدیک اس حدیث میں بیع سے قیمت لگانا مراد ہے۔

شراب بیچنے کی ممانعت

حمید بن مسعدہ، معتمر بن سلیمان، یحیی بن عباد، انس، حضرت ابو طلحہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں نے ان یتیموں کے لیے شراب خریدی تھی جو میری کفالت میں ہیں آپ نے فرمایا شراب بہا دو اور برتن کو توڑ ڈالو۔ اس باب میں جابر، عائشہ، ابو سعید، ابن مسعود، ابن عمر، اور انس رضوان اللہ علہیم اجمعین سے بھی احادیث منقول ہیں۔ حضرت ابو طلحہ کی حدیث ثوری، سدی سے وہ یحیی بن عباد سے اور وہ انس سے نقل کرتے ہیں کہ ابو طلحہ ان کے نزدیک تھے یہ حدیث لیث کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔

٭٭ محمد بن بشار، یحیی بن سعید، سفیان، سدی، یحیی بن عباد، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کیا گیا کہ کیا شراب سے سرکہ بنا لیا جائے آپ نے فرمایا نہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

٭٭ عبد اللہ بن منیر، عاصم، شبیب بن بشر، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شراب سے متعلق دس آدمیوں پر لعنت بھیجی ہے۔ (1) نکالنے والے (2) شراب نکلوانے والے (3) پینے والے (4) پلانے والے (5) لے جانے والے (6) جس کی طرف لے جائی جا رہی ہے (7) فروخت کرنے والے (8) شراب کی قیمت کھانے والے (9) خریدنے والے (10) جس کے لیے خرید گئی ہوئی اس پر۔ یہ حدیث انس کی روایت ہے غریب ہے حضرت ابن مسعود، ابن عباس، ابن عمر سے بھی اس کے مثل منقول ہے یہ حضرات نبی سے روایت کرتے ہیں۔

 

 

جانوروں کا ان کے مالکوں کی اجازت کے بغیر دودھ نکالنا

ابو سلمہ، یحیی بن خلف، عبدالاعلی، سعید، قتادہ، حسن، حضرت سمرہ بن جندب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں سے کوئی مویشیوں پر گزرے تو اگر ان کا مالک موجود ہوا اور وہ اجازت بھی دے دے تو اس کا دودھ نکال کر پی لے اور اگر وہاں کوئی نہ ہو تو تین مرتبہ آواز دے اگر جواب آئے تو اس سے اجازت لے اگر جواب نہ دے تو دودھ نکال کر پی لے لیکن ساتھ نہ لے جائے۔ اس باب میں حضرت ابن عمر اور ابو سعید سے بھی روایت ہے حدیث سمرہ حسن غریب ہے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے امام احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے علی بن مدینی فرماتے ہیں کہ حسن کا سمرہ سے سماع صحیح ہے بعض محدثین نے سمرہ سے حسن کی روایت میں کلام کیا ہے اور فرمایا کہ وہ سمرہ کے صحیفہ سے روایت کرتے ہیں۔

جانوروں کی کھال اور بتوں کو فروخت کرنا

قتیبہ، لیث، یزید، ابی حبیب، عطاء، ابی رباح، حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فتح مکہ کے سال نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ نے فرمایا اللہ اور اس کے رسول نے شراب، مردار، خنزیر اور بت فروخت کرنے سے منع کیا ہے پس آپ سے عرض کیا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، مردار کی چربی کا کیا حکم ہے ؟ کیونکہ اس سے کشتیوں کو ملا جاتا ہے اور چمڑوں پر بطور تیل استعمال کی جاتی ہے اور لوگ اس سے چراغ جلاتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں یہ بھی حرام ہے پھر آپ نے ارشاد فرمایا یہودیوں پر اللہ کی مار ہو۔ اللہ نے ان پر چربی حرام کی تو انہوں نے اس کو پگھلا کر بیچ دیا اور اس کی قیمت کھا لی۔ اس باب میں حضرت عمر اور ابن عباس سے بھی روایات منقول ہیں۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔

 

 

کوئی چیز ہبہ کر کے واپس لینا ممنوع ہے

احمد بن عبدہ، عبدالوہاب، ایوب، عکرمہ، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا صفات ذمیمہ کا اپنانا ہمارے (مسلمانوں کے) شایان شان نہیں۔ ہبہ کی ہوئی چیز واپس لینے والے ایسے کتے کی طرح ہے جو اپنی قے کو چاٹ لے۔

٭٭ اس باب میں ابن عمر سے بھی مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کسی چیز کے لیے جائز نہیں کہ کوئی چیز کسی کو دینے کے بعد واپس لے البتہ واپس لے سکتا ہے۔ محمد بن بشار، ابن ابی عدی، حسین، عمرو بن شعیب، ابن عمر، ابن عباس سے وہ حسین معلم سے وہ عمر بن شعیب سے وہ طاؤس سے نقل کرتے ہیں اور وہ ابن عمر اور ابن عباس سے نقل کرتے ہیں یہ دونوں حضرات اس حدیث کو مرفوع نقل کرتے ہیں۔ حضرت ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے بعض صحابہ و دیگر علماء کا اسی پر عمل ہے کہ اگر کسی نے کوئی چیز اپنے کسی محرم رشتہ دار کو عطیہ دی اسے واپس لوٹانے کا کوئی حق نہیں لیکن اگر غیر محرم رشتہ دار کو دی ہو تو وہ واپس لینا جائز ہے بشرطیکہ اس کے بدلے کوئی چیز نہ لے چکا ہو۔ اسحاق کا بھی یہی قول ہے امام شافعی فرماتے ہیں کہ والد کے علاوہ کسی کا کوئی چیز واپس لینا جائز نہیں وہ اپنے قول پر حجت کے طور پر حدیث باب ہی پیش کرتے ہیں یعنی حدیث ابن عمر۔

بیع عرایا اور اس کی اجازت

ہناد، عبدہ، محمد بن اسحاق، نافع، ابن عمر، حضرت زید بن ثابت سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بیع محاقلہ اور مذابنہ سے منع فرمایا لیکن عرایا (محتاج لوگ جنہیں درختوں کے پھل عاریةً دیے گئے ہوں) والوں کو اندازہ کے مطابق فروخت کرنے کی اجازت دی۔ اس باب میں ابو ہریرہ اور جابر سے بھی احادیث منقول ہیں حضرت زید بن ثابت کی حدیث کو محمد بن اسحاق بھی ایسے ہی نقل کرتے ہیں ایوب، عبید اللہ بن عمر اور مالک بن انس نے بواسطہ نافع، حضرت ابن عمر سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا۔ اس اسناد سے بواسطہ ابن عمر، حضرت زید بن ثابت سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پانچ وسق سے کم میں عرایا کی اجازت دی ہے یہ روایت محمد بن اسحاق کی روایت سے زیادہ صحیح ہے۔

٭٭ ابوکریب، زید بن، مالک، داؤد بن حصین حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اہل عرایا کو پانچ وسق سے کم پھل اندازے سے بیچنے کی اجازت دی یا اسی طرح فرمایا۔

٭٭ قتیبہ، مالک، داؤد بن حصین سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عرایا پانچ وسق یا اس سے کم مقدار میں بیچنے کی اجازت دی۔

٭٭ قتیبہ، حماد بن زید، ایوب، نافع، ابن عمر، حضرت زید بن ثابت سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عرایا کو اندازے کے ساتھ بیچنے کی اجازت دی یہ حدیث حضرت ابو ہریرہ، کی حدیث حسن صحیح ہے۔ بعض اہل علم، شافعی، احمد، اور اسحاق اسی پر عمل کرتے ہیں۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ عرایا محاقلہ اور مزابنہ کی بیوع کی ممانعت سے متثنی ہیں ان کی دلیل حضرت زید، ابو ہریرہ کی حدیثیں ہیں۔ امام شافعی، احمد، اسحاق فرماتے ہیں کہ عرایا کے لیے پانچ وسق سے کم پھلوں کو بیچنا جائز ہے۔ بعض اہل علم اس کی تفسیر یہ کرتے ہیں کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف سے ان کے لیے آسانی اور وسعت کے لیے تھا۔ کیونکہ انہوں نے شکایت کی تھی کہ ہم تازہ پھل خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے مگر یہ کہ پر انی کھجوروں سے خریدیں۔ نبی کریم نے انہیں پانچ وسق کم خریدنے کی اجازت دیدی تاکہ وہ تازہ پھل کھا سکیں۔

٭٭ حسن بن علی، ابو اسامہ، ولید بن کثیر، بنوحارثہ کے مولی بن بشیر بن یسار سے نقل کرتے ہیں کہ رافع بن خدیج، اور سہل بن ابی حثمہ نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بیع مزابنہ یعنی درختوں سے اتری ہوئی کھجور کے عوض درختوں پر لگی ہوئی کھجور خریدنے سے منع فرمایا لیکن اصحاب عرایا کو اس کی اجازت دی اور تازہ انگور کو خشک انگور کے عوض اور تمام پھلوں کو اندازے سے بیچنے سے منع فرمایا یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔

دلالی میں قیمت زیادہ لگانا حرام ہے

قتیبہ، احمد بن منیع، سفیان، زہری، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آپس میں نجش نہ کرو۔ قتیبہ کہتے ہیں کہ وہ اس حدیث کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک پہنچاتے ہیں اس باب میں ابن عمر اور انس سے بھی روایات منقول ہیں حضرت ابو ہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ نجش حرام ہے نجش یہ ہے کہ کوئی ماہر تجارت آئے اور خریدار کی موجودگی میں تاجر کے پاس آ کر سامان کی اصل قیمت سے زیادہ قیمت لگائے اور مقصد خریدنا نہ ہو بلکہ محض خریدار کو دھوکہ دینا چاہتا ہو یہ دھوکہ کی ایک قسم ہے۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی نجش کرے تو وہ اپنے اس فعل کے سبب گناہ گار ہو گا لیکن بیع جائز ہے کیونکہ بیچنے والے نے نجش نہیں کیا۔

تولتے وقت جھکاؤ

ہناد، محمود بن غیلان، وکیع، سفیان، سماک بن حرب، سوید بن قیس سے روایت ہے کہ میں اور مخرفہ عبدی ہجر کے مقام پر کپڑا بیچنے کے لیے لائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے پاس تشریف لائے اور ایک پاجامے کا سودا کیا میرے پاس ایک تولنے والا تھا جو اجرت پر تولتا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تولو اور جھکاؤ کے ساتھ تولو۔ اس باب میں حضرت جابر اور ابو ہریرہ سے بھی روایات منقول ہیں۔ حضر سوید کی حدیث حسن صحیح ہے علماء وزن میں جھکاؤ کو پسند کرتے ہیں شعبہ نے یہ حدیث سماک سے اور وہ ابو صفوان سے نقل کرتے ہوئے پوری حدیث بیان کرتے ہیں۔

 

 

 

پینے کے ابو اب

ہر نشہ آور چیز حرام ہے

عبید بن اسباط بن محمد قرشی، ابو سعید اشج، عبداللہ بن ادریس، محمد بن عمرو، ابن سلمہ، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اس باب میں حضرت عمر، علی، ابن مسعود، ابو سعید، ابو موسیٰ اشج عصری، دیلم، عائشہ، میمونہ، ابن عباس، قیس بن سعد، نعمان بن بشیر، معاویہ، عبداللہ بن مغفل، ام سلمہ، بریدہ، ابو ہریرہ، وائل بن حجر اور قرة مزنی سے بھی احادیث منقول ہیں۔ یہ حدیث حسن ہے۔ اور ابو سلمہ سے بھی بواسطہ ابو ہریرہ اسی طرح کی حدیث مرفوعاً منقول ہے دونوں روایتیں صحیح ہیں کئی افراد نے بواسطہ محمد بن عمر، ابو سلمہ، اور ابو ہریرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس کے ہم معنی حدیث روایات کی بواسطہ ابو سلمہ، اور ابن عمر بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول ہے۔

جس چیز کی بہت سی مقدار نشہ دے اس کا تھوڑا سا استعمال بھی حرام ہے

قتیبہ، اسماعیل بن جعفر، علی بن حجر، اسماعیل بن جعفر، داؤد بن بکر بن ابو فرات، محمد بن منکدر، حضرت جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس چیز کی مقدار نشہ دیتی ہے اس کی تھوڑی مقدار استعمال کرنا بھی حرام ہے۔ اس باب میں حضرت سعد، عائشہ، عبداللہ بن عمرو، ابن عمر اور خوات بن جبیر سے بھی احادیث منقول ہیں یہ حدیث جابر کی روایت حسن غریب ہے۔

٭٭ محمد بن بشار، عبدالاعلی بن عبدالاعلی بن ہشام ببن حسان، مہدی بن میمون، عبداللہ بن معاویہ، مہدی بن میمون ابو عثمان انصاری، قاسم بن محمد بن، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہر نشہ آور چیز حرام ہے جس سے ایک فرق (تین صاع پیمانہ) نشہ لائے۔ اس کا ایک چلو بھی پینا حرام ہے۔ عبداللہ یا محمد میں سے کسی نے اپنی حدیث میں حسوہ کے الفاظ نقل کیے ہیں یعنی ایک گھونٹ پینا بھی حرام ہے یہ حدیث حسن ہے اسے لیث بن ابی سلیم اور ربیع بن صبیح ابو عثمان انصاری سے مہدی بن میمون کی حدیث کے مثل نقل کرتے ہیں ابو عثمان انصاری کا نام عمرو بن سالم ہے انہیں عمر بن سالم بھی کہا گیا ہے۔

مٹکوں میں نبیذ بنانا

احمد بن منیع، ابن علیہ، یزید بن ہارون، سلیمان تیمی، حضرت طاؤس، ابن عمر کہتے ہیں کہ ایک شخص ابن عمر کے پاس حاضر ہوا اور پوچھا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مٹکوں کی نبیذ سے منع فرمایا۔ آپ نے فرمایا ہاں۔ طاؤس نے کہا اللہ کی قسم میں نے ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے یہ سنا ہے۔ اس باب میں حضرت ابن ابی اوفی، ابو سعید، سوید، عائشہ، ابن زبیر اور ابن عباس سے بھی احادیث منقول ہیں۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

کدو کے خول ، سبز روغنی گھڑے اور لکڑی (کھجور کی) کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت

ابوموسیٰ محمد بن مثنی، ابو داؤد طیالسی، شعبہ، حضرت عمرو بن مرہ، زاذان سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے ابن عمر سے ان برتنوں کے متعلق پوچھا جن کے استعمال سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا اور کہا کہ ہمیں اپنی زبان میں ان برتنوں کے متعلق بتا کر ہماری زبان میں اس کی وضاحت کیجیے۔ ابن عمر نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خنتمہ یعنی مٹکے (دبا) یعنی کدو کے خول اور نقیر سے منع فرمایا ہے اور یہ کھجور کی چھال سے بنایا جاتا ہے اور (مزفت) یعنی رال کے روغنی برتن میں نبیذ بنانے سے منع فرمایا ہے اور حکم دیا کہ مشکیزوں میں نبیذ بنائی جائے۔ اس باب میں حضرت عمر، علی، ابن عباس، ابو سعید، اور ابو ہریرہ، عبدالرحمن بن یعمر، سمرہ، انس، عائشہ، عمران بن حصین، عائز بن عمرو، حکم غفاری، اور میمونہ، رضوان اللہ علیھم اجمعین سے بھی احادیث منقول ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

برتنوں میں نبیذ بنانے کی اجازت

محمد بن بشار، حسین بن علی، محمود بن غیلان، ابو عاصم، سفیان، علقمہ بن مرثد، حضرت سلیمان بن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہیں (چند) برتنوں میں نبیذ بنانے سے منع کیا تھا۔ بے شک برتن نہ تو کسی چیز کو حلال کرتا ہے اور نہ حرام اور ہر نشہ والی چیز حرام ہے۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

٭٭ محمود بن غیلان، ابو داؤد جفری، سفیان، منصور، سالم بن ابو جعد، حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (مخصوص) برتنوں (میں نبیذ بنانے) سے منع فرمایا۔ پس انصار نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں عرض کیا کہ ہمارے پاس اور برتن نہیں ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو پھر میں اس سے منع نہیں کرتا۔ اس باب میں حضرت ابن مسعود، ابو ہریرہ، ابو سعید، عبداللہ بن عمر سے بھی احادیث منقول ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

مشک میں نبیذ بنانا

محمد بن مثنی، عبدالوہاب، ثقفی، یونس بن عبید حسن بصری، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے مشک میں نبیذ بنایا کرتے تھے اور اس کا منہ باندھ دیتے تھے جبکہ اس کے نیچے بھی ایک چھوٹا منہ تھا۔ ہم اگر صبح بھگوتے تو شام کو آپ پی لیتے اور اگر شام کو نبیذ بناتے تو آپ صبح کو پیا کرتے تھے۔ اس باب میں حضرت جابر، ابو سعید، ابن عباس سے بھی احادیث منقول ہیں یہ حدیث حسن غریب ہے ہم اسے یونس بن عبید کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ یہ حدیث حضرت عائشہ سے اور سند سے بھی منقول ہے۔

 

 

دانے جن سے شراب بنتی ہے

محمد بن یحیی، محمد بن یوسف، اسرائیل، ابراہیم بن مہاجر، عامر شعبی، حضرت نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بے شک گندم سے شراب ہے ، جو سے شراب ہے۔ کھجور سے شراب ہے اور انگور سے شراب ہے اور شہد سے شراب ہے۔ اس باب میں حضرت ابو ہریرہ سے بھی روایت ہے۔ یہ حدیث غریب ہے۔

 ٭٭ حسن بن علی خلال، یحیی بن آدم، اسرائیل، ابو حیان تیمی شعبی، ابن عمر، عمر روایت کی یحیی بن آدم نے اسرائیل سے اسی حدیث کی مثل ہے اور روایت کی یہ حدیث ابی حیان تیمی نے شعبی سے انہوں نے ابن عمر سے انہوں نے عمر سے حضرت عمر نے فرمایا بے شک گندم سے شراب بنتی ہے پھر یہ حدیث ذکر کی۔

٭٭ احمد بن منیع، عبداللہ بن ادریس، ابو حیان تیمی، شعبی، ابن عمر، عمر بن خطاب ہم کو خبر دی اس روایت کی احمد بن منیع نے انہوں نے روایت کی عبداللہ بن ادریس سے انہوں نے ابو حیان تیمی سے انہوں نے شعبی سے انہوں نے ابن عمر سے انہوں نے عمر بن خطاب سے کہ شراب گندم سے بھی ہوتی ہے اور یہ ابراہیم کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے علی بن مدینی کہتے ہیں کہ ابراہیم بن مہاجر، یحیی بن سعید کے نزدیک قوی نہیں۔

٭٭ احمد بن محمد، عبداللہ بن مبارک، اوزاعی، عکرمہ بن عمار، ابو کثیر سحیمی، حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا شراب ان دو درختوں سے ہے یعنی کھجور اور انگور سے۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے ابو کثیر سحیمی، عنبری ہیں اور ان کا نام عبدالرحمن بن غفیلہ ہے۔

 

 

کچی پکی کھجوروں کو ملا کر نبیذ بنانا

قتیبہ، لیث بن سعد، عطاء بن ابو رباح، حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کچی پکی کھجوریں ملا کر نبیذ بنانے سے منع فرمایا ہے۔ یہ حدیث صحیح ہے۔

٭٭ سفیان بن وکیع، جریر، سلیمان تیمی، ابو نضرہ، حضرت ابو سعید کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کچی اور پکی کھجوریں ملا کر نیز انگور اور کھجوروں کو ملا کر نبیذ بنانے اور مٹکوں میں نبیذ تیار کرنے سے منع فرمایا۔ اس باب میں حضرت انس، جابر، ابو قتادہ، ابن عباس، ام سلمہ اور معبد بن کعب سے بھی احادیث منقول ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

سونے اور چاندی کے برتنوں میں کھانے پینے کی ممانعت

محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، حکم، ابن ابی لیلی بیان کرتے ہیں کہ حضرت حذیفہ نے پانی مانگا تو ایک شخص چاندی کے برتن میں پانی لے کر حاضر ہوا انہوں نے اسے پھینک دیا اور فرمایا میں نے اسے منع کیا تھا لیکن یہ باز نہیں آیا۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چاندی کے برتنوں میں پینے سے منع فرمایا اور اسی طرح ریشم اور دیباج کا لباس پہننے سے منع فرمایا۔ یہ تم لوگوں کے لیے آخرت میں ہے اور ان لوگوں (یعنی کفار) کے لیے دنیا میں۔ اس باب میں حضرت ام سلمہ، براء، اور عائشہ سے بھی احادیث منقول ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

 

 

کھڑے ہو کر پینے کی ممانعت

محمد بن بشار، ابن ابو عدی، سعید، قتادہ، حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کھڑے ہو کر پانی پینے سے منع فرمایا تو آپ سے پوچھا گیا کہ کھانے کا کیا حکم؟ تو آپ نے فرمایا وہ تو اس سے بھی زیادہ سخت ہے (یعنی کھڑے ہو کر کھانا بھی منع ہے) یہ حدیث صحیح ہے۔

٭٭ حمید بن مسعدہ، خالد بن حارث، سعید، قتادہ، ابو مسلم جذمی، حضرت جارود بن علاء فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کھڑے ہو کر پانی پینے سے منع فرمایا ہے اس باب میں حضرت ابو سعید، ابو ہریرہ، اور انس سے بھی احادیث منقول ہیں یہ حدیث غریب ہے۔ اس حدیث کو کئی راوی سعید سے وہ قتادہ سے وہ ابو مسلم سے وہ جارود سے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کسی مسلمان کی گری ہوئی چیز اٹھا لینا دوزخ میں جلنے کا سبب ہے۔ (بشرطیکہ) اسے پہنچانے کی نیت نہ ہو) جارود بن معلی کو ابن علاء بھی کہتے ہیں لیکن صحیح ابن معلی ہے۔

کھڑے ہو کر پینے کی اجازت

ابوسائب سلم بن جنادہ بن سلم کوفی، حفص بن غیاث، عبید اللہ بن عمر، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں چلتے پھرتے اور کھڑے ہو کر کھایا پیا کرتے تھے۔ یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ یعنی عبید اللہ بن عمر کی نافع سے اور ان کی ابن عمر سے روایت سے عمران بن مدیر بھی یہ حدیث ابو بزری سے اور وہ ابن عمر سے نقل کرتے ہیں ابو بزری کا نام یزید بن عطارد ہے۔

٭٭ احمد بن منیع، ہشیم، عاصم احول، مغیرہ، شعبی، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زمزم کا پانی کھڑے ہو کر پیا اس باب میں علی، سعید، عبداللہ بن عمر سے بھی احادیث منقول ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

٭٭ قتیبہ، محمد بن جعفر، حسین معلم، حضرت عمر بن شعیب اپنے والد اور وہ ان کے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کھڑے ہو اور بیٹھ کر (دونوں طرح) پیتے ہوئے دیکھا ہے یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

برتن میں سانس لینا

قتیبہ، یوسف بن حماد، عبد الوارث بن سعید، ابو عصام، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پانی پیتے ہوئے تین مرتبہ سانس لیتے اور فرماتے یہ زیادہ سیراب کرنے والا خوشگوار ہے یہ حدیث حسن غریب ہے ہشام دستوائی سے ابو عصام سے اور وہ انس سے نقل کرتے ہیں کہ عزرہ بن ثابت، ثمامہ سے اور وہ انس سے نقل کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم برتن میں پانی پیتے وقت تین سانس لیا کرتے تھے۔

٭٭ بندار، عبدالرحمن بن مہدی، عزرہ بن ثابت انصاری، ثمامہ بن انس، انس بن مالک ہم سے روایت کی بندار نے انہوں نے عبدالرحمن بن مہدی سے انہوں نے عزرہ بن ثابت انصاری سے انہوں نے ثمامہ بن انس بن مالک سے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم برتن میں پانی پیتے وقت تین مرتبہ سانس لیا کرتے تھے یہ حدیث صحیح ہے۔

٭٭ ابوکریب، وکیع، یزید بن سنان جزری، ابن عطاء بن ابی رباح، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اونٹ کی طرح ایک سانس میں نہ پیو بلکہ دو اور تین سانسوں میں پیو اور پیتے وقت بِسْمِ اللَّہِ پڑھو اور پینے کے بعد اللہ کی حمد وثناء بیان کرو۔ یہ حدیث غریب ہے یزید بن سنان جزری کی کنیت ابو فروہ رہاوی ہے۔

 

 

 

طہارت جو مروی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے

کوئی نماز بغیر طہارت کے قبول نہیں ہوتی

قتیبہ بن سعید، ابو عوانہ, سماک بن حرب، ہناد، اسرائیل، سماک، مصعب بن سعد، ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ کوئی نماز بغیر طہارت کے قبول نہیں ہوتی اور نہ کوئی خیانت سے قبول ہوتا ہے ہناد نے اپنی حدیث میں (بِغَیرِ طُھُورٍ) کی جگہ اور (بطُھُورٍ) کے الفاظ نقل کئے ہیں ابو عیسیٰ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس باب میں زیادہ صحیح اور احسن ہے اس باب میں ابو ملیح سے ان کے والد کے واسطے سے اور ابو ہریرہ اور انس سے بھی روایات منقول ہیں ابو ملیح بن اسامہ کا نام عامر ہے ان کو زید بن اسامہ بن عمیر الہذلی بھی کہا جاتا ہے .

وضو کر تے وقت بسم اللہ پڑھنا

نصر بن علی، بشر بن معاذ عقدی، بشر بن مفضل، عبدالرحمن بن حرملہ، ابی ثقال مری، رباح بن عبدالرحمن بن ابی سفیان بن حویطب سے اور وہ اپنی دادی سے روایت کرتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا جو شخص وضو کی ابتداء میں اللہ کا نام نہ لے اس کا وضو ہی نہیں ہوتا اس باب میں حضرت عائشہ ابو ہریرہ ابو سعید خدری سہل بن سعد اور انس بھی روایات منقول ہیں ابو عیسیٰ کہتے ہیں امام احمد نے فرمایا کہ میں نے اس باب میں عمدہ سند کی کوئی حدیث نہیں پائی اسحاق نے کہا کہ اگر جان بوجھ کر تسمیہ چھوڑ دے تو وضو دوبارہ کرنا پڑے گا اور اگر بھول کر یا حدیث کی تاویل کر کے چھوڑ دے تو وضو ہو جائے گا محمد بن اسماعیل بخاری نے کہا کہ اس باب میں رباح بن عبدالرحمن اپنی دادی سے اور وہ اپنے باپ سے روایت کرتی ہیں اور ان کے والد سعید بن زید بن عمرو بن نفیل ہیں ابو ثقال المری کا نام ثمامہ بن حصین ہے اور رباح بن عبدالرحمن ابو بکر بن حویطب ہیں ان میں سے بعض راویوں نے اس حدیث کا ابو بکر بن حویطب سے روایت کر کے اسے انکے دادا کی طرف منسوب کیا ہے۔

کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا

قتیبہ بن سعید، حماد بن زید، جریر، منصور، ہلال بن یساف، سلمہ بن قیس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم وضو کرو تو ناک صاف کرو اور جب استنجاء کے لیے پتھر استعمال کرو تو طاق عدد میں لو اس باب میں حضرت عثمان لقیط بن صبرہ ابن عباس مقدام بن معدیکرب وائل بن حجر ابو ہریرہ سے بھی روایات مذکور ہیں ابو عیسیٰ کہتے ہیں حدیث سلمہ بن قیس حسن صحیح ہے اہل علم نے کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کے بارے میں اختلاف کیا ہے ایک گروہ کے نزدیک وضو میں ان دونوں کو چھوڑنے سے نماز دوبارہ پڑھنی ہو گی اور انہوں نے وضو اور جنابت میں اس حکم کو یکساں قرار دیا ہے ابن ابی لیلی عبداللہ بن مبارک احمد اور اسحاق بھی یہی کہتے ہیں امام احمد نے فرمایا کلی کرنے سے ناک میں پانی ڈالنے کی زیادہ تاکید ہے ابو عیسیٰ نے فرمایا کہ ایک گروہ نے کہا کہ جنابت میں اعادہ کرے وضو میں نہ کرے سفیان ثوری اور بعض اہل کوفہ کو یہی قول ہے اور ایک گروہ کے نزدیک نہ وضو میں اعادہ کرے اور نہ غسل جنابت میں کرے اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت ہیں لہذا جو ان دونوں کو وضو اور غسل جنابت میں چھوڑ دے تو اس پر اعادہ نہیں ہے امام مالک اور امام شافعی کا یہی قول ہے۔

کلی کرنا اور ایک ہاتھ سے ناک میں پانی ڈالنا

یحیی بن موسی، ابراہیم بن موسی، خالد، عمرو بن یحیی، عبداللہ بن زید سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا ایک ہی چلو سے کلی کرتے اور ناک میں پانی ڈالتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تین مرتبہ ایسا کیا اس باب میں عبداللہ بن عباس بھی حدیث نقل کرتے ہیں ابو عیسیٰ فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن زید کی حدیث حسن غریب ہے یہ حدیث عمرو بن یحیی سے مالک ابن عیینہ اور کئی دوسرے راویوں نے نقل کی ہے لیکن اس میں یہ ذکر نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک ہی چلو سے ناک میں بھی پانی ڈالا اور کلی بھی کی اسے صرف خالد بن عبداللہ نے ذکر کیا ہے خالد محدثین کے نزدیک ثقہ اور حافظ ہیں بعض اہل علم نے کہا ہے کہ کلی اور ناک میں پانی ڈالنے کے لئے ایک ہی چلو کافی ہے اور بعض اہل علم نے کہا ہے کہ دونوں نے کہا ہے کہ دونوں کے لئے الگ پانی لینا مستحب ہے امام شافعی فرماتے ہیں کہ اگر دونوں ایک ہی چلو سے کرے تو جائز ہے اور اگر الگ الگ چلو سے کرے تو یہ ہمارے نزدیک پسندیدہ ہے۔

داڑھی کا خلا ل

ابن ابی عمر، سفیان بن عیینہ، عبدالکریم بن ابی مخارق ابی امیہ، حسان بن بلال سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا عمار بن یاسر کو وضو کرتے ہوئے انہوں نے ڈاڑھی کا خلال کیا تو ان سے کہا گیا یا (حسان) نے کہا کیا آپ ڈاڑھی کا خلال کرتے ہیں ؟ حضرت عمار نے کہا کون سی چیز میرے لئے مانع ہے جبکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اپنی ڈاڑھی کا خلال کرتے ہوئے دیکھا ہے۔

٭٭ ابن ابی عمر، سفیان، سعید بن ابی عروبہ، قتادہ، حسان بن بلال، عمار سے وہ سعید بن ابی عروہ سے وہ قتادہ سے وہ حسان بن بلال سے وہ عمار سے اور عمار نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اسی طرح حدیث نقل کرتے ہیں اس باب میں عائشہ ام سلمہ انس بن ابی اوفی اور ابو ایوب سے بھی روایات مذکور ہیں ابو عیسیٰ نے کہا میں نے اسحاق بن منصور سے انہوں نے احمد بن حنبل سے سنا انہوں نے ابن عیینہ نے کہا عبدالکریم نے حسان بن بلال سے ، حدیث تخلیل، نہیں سنی۔

٭٭ یحیی بن موسی، عبدالرزاق، اسرائیل، عامر بن شقیق، ابی وائل، عثمان بن عفان سے یہ حدیث روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے ڈاڑھی کا خلال کیا کرتے تھے ابو عیسیٰ کہتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں اس باب میں سب سے زیادہ صحیح حدیث عامر بن شقیق کی ہے جو مروی ہے ابو وائل کے واسطہ سے حضرت عثمان سے اکثر صحابہ اور تابعین کا یہی قول ہے کہ ڈاڑھی کا خلال کیا جائے امام شافعی کا بھی یہی قول ہے امام احمد فرماتے ہیں کہ اگر خلال کرنا بھول جائے تو وضو جائز ہے امام اسحاق نے کہا کہ اگر بھول کر چھوڑ دے یا تاویل سے تو جائز ہے اور جان بو جھ کر چھوڑا تو دوبارہ کرے۔

 

 

سر کا مسح آگے سے پیچھے کی جانب کرنا

اسحاق بن موسیٰ انصاری، معن، مالک بن انس، عمرو بن یحیی عبداللہ بن زید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سر کا مسح کیا اپنے ہاتھوں سے تو دونوں ہاتھ آگے سے پیچھے لے گئے اور پھر پیچھے لے گئے اپنی گدی تک پھر لوٹ کر وہیں تک لائے جہاں سے شروع کیا تھا پھر دونوں پاؤں اس باب میں معاویہ مقدام بن معدیکرب اور عائشہ سے بھی احادیث مروی ہیں ابو عیسیٰ کہتے ہیں اس باب میں عبداللہ بن زید کی حدیث صحیح اور احسن ہے امام شافعی احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے۔

 

سر کا مسح پچھلے حصہ سے شروع کرنا

قتیبہ بن سعید، بشر بن مفضل، عبداللہ بن محمد بن عقیل، ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو مرتبہ سر کا مسح کیا ایک مرتبہ پچھلی طرف سے شروع کیا اور دوسری مرتبہ سامنے سے پھر دونوں کانوں کا اندر اور باہر سے مسح کیا امام ابو عیسیٰ فرماتے ہیں یہ حدیث حسن ہے اور عبداللہ بن زید کی حدیث اس سے اصح اور اجود ہے بعض اہل کوفہ جن میں وکیع بن جراح بھی ہیں اس حدیث پر عمل کرتے ہیں۔

سر کو مسح ایک مرتبہ کرنا

قتیبہ، بکر بن مضر، ابن عجلان، عبداللہ بن محمد بن عقیل، ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو وضو کرتے ہوئے دیکھا وہ کہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سر کا آگے اور پیچھے سے مسح کیا اور دونوں کنپٹیوں اور کانوں کا ایک بار مسح کیا اس باب میں حضرت علی اور طلحہ بن مصرف بن عمرو کے دادا سے بھی روایت ہے ابو عیسیٰ نے فرمایا ربیع کی روایت کردہ حدیث حسن صحیح ہے اور اس کے علاوہ بھی بہت سی سندوں سے منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسح ایک ہی مرتبہ کیا اور اکثر اہل علم کا اس پر عمل ہے جن میں صحابہ اور دوسرے بعد کے علماء بھی شامل ہیں جعفر بن محمد سے سوال کیا سر کے مسح کے بارے میں کیا کافی ہوتا ہے سر کا مسح ایک مرتبہ تو انہوں نے کہا اللہ کی قسم کافی ہوتا ہے۔

سر کے مسح کے لئے نیا پانی لینا

علی بن خشرم، عبداللہ بن وہب، عمرو بن حارث، حبان بن واسع، عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو وضو کرتے ہوئے دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سر کا مسح کیا اس پانی کے علاوہ جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دونوں ہاتھوں سے بچا تھا ابو عیسیٰ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اس ابن لہیعہ نے حبان بن واسع سے انہوں نے اپنے باپ سے انہوں نے عبداللہ بن زید سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو کرتے ہوئے ہاتھوں سے بچے ہوئے پانی سے مسح فرمایا اور عمر بن حارح کی حبان سے روایت اصح ہے اس لئے کہ یہ حدیث اس کے علاوہ کئی طرح سے عبداللہ بن زید اور دوسرے راویوں سے نقل کی گئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سر کے مسح کے لئے نیا پانی لیا اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ سر کے مسح کے لئے نیا پانی لیا جائے۔

کان کے باہر اور اندر کا مسح

ہناد، عبداللہ بن ادریس، ابن عجلان، زید بن اسلم، عطاء بن یسار، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سر اور کانوں کا اندر اور باہر کا مسح فرمایا اس باب میں ربیع سے بھی روایت منقول ہے امام عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے اور اکثر اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ کانوں کے اندر اور باہر کا مسح کیا جائے۔

دونوں کان سر کے حکم میں داخل ہیں

قتیبہ، حماد بن زید، سنان بن ربیعہ، شہر بن  حوشب، ابی امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو کیا تو اپنا چہرہ اور دونوں ہاتھ تین تین مرتبہ دھوئے پھر سر کا مسح کیا اور فرمایا کان سر میں داخل ہیں ابو عیسیٰ کہتے ہیں کہ قتیبہ حماد کے حوالے سے کہتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ یہ قول نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کاہے یا ابو امامہ کا اس باب میں حضرت انس سے بھی روایت منقول ہے امام ترمذی نے کہا اس حدیث کی سند زیادہ قوی نہیں صحابہ اور تابعین میں سے اکثر اہل علم کا یہی قول ہے کہ کان سر میں داخل ہیں سفیان ثوری ابن مبارک امام شافعی امام احمد اسحاق کا بھی یہی قول ہے اور بعض اہل علم کے نزدیک کانوں کو سامنے کا حصہ چہرے میں اور پیچھے کا حصہ سر میں داخل ہے اسحاق کہتے ہیں مجھے یہ بات پسند ہے کہ کانوں کے اگلے حصے کا مسح چہرے کے ساتھ اور پچھلے کا مسح سر کے ساتھ کیا جائے

انگلیوں کا خلال کر نا

قتیبہ، ہناد، وکیع، سفیان، ابی ہاشم، عاصم بن لقیط بن صبرہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم وضو کرو تو انگلیوں کا خلال کرو اس باب میں ابن عباس مستورد اور ابو ایوب سے بھی احادیث مذکور ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اہل علم کا اسی پر علم ہے کہ وضو میں پاؤں کی انگلیوں کا خلال کیا جائے امام احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے اسحاق فرماتے ہیں کہ ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں کا خلال کیا جائے ابو ہاشم کا نام اسماعیل بن کثیر ہے۔

٭٭ ابراہیم بن سعید، سعد بن عبدالحمید بن جعفر، عبدالرحمن بن ابی زناد، موسیٰ بن عقبہ، صالح مولی توامہ، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم وضو کرو تو ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں کا خلال کیا کرو امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن غریب ہے۔

٭٭ قتیبہ، ابن لہیعہ، یزید بن عمرو، ابی عبدالرحمن حبلی، مستورد بن شداد فہری فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وضو کرتے تو اپنے پیروں کی انگلیوں کا ہاتھ کی چھنگلیا سے خلال کرتے ابو عیسیٰ کہتے ہیں یہ حدیث غریب ہے اس کو ہم ابن لہیعہ کی سند کے علاوہ کسی اور سند سے نہیں جانتے۔

ہلاکت ہے ان ایڑیوں کے لئے جو خشک وہ جائیں

قتیبہ، عبدالعزیز بن محمد، سہیل بن ابی صالح، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سوکھی رہ جانے والی ایڑیوں کے لئے ہلاکت ہے دوزخ سے اس باب میں عبداللہ بن عمرو، عائشہ، جابر بن عبد اللہ، عبداللہ بن حارث، معیقیب، خالد بن ولید، شرحبیل بن حسنہ، عمرو بن عاص اور یزید بن ابو سفیان سے بھی روایات منقول ہیں ابو عیسیٰ فرماتے ہیں کہ حدیث ابو ہریرہ حسن صحیح ہے اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہلاکت ہے ایڑیوں اور پاؤں کے تلووں کی دوزخ سے اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ پیروں پر موزے اور جرابیں نہ ہوں تو مسح کرنا جائز نہیں ہے۔

وضو میں ایک ایک مرتبہ اعضاء کو دھونا

ابو کریب، ہناد، قتیبہ، وکیع، سفیان، محمد بن بشار، یحیی بن سعید، سفیان، زید بن اسلم، عطاء بن یسار، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک بار وضو کیا اس باب میں عمر جابر بریدہ ابی رافع اور ابن الفاکہ سے بھی احادیث منقول ہیں ابو عیسیٰ کہتے ہیں ابن عباس کی حدیث اس باب میں صحیح اور احسن حدیث ہے اس حدیث کو رشدین بن سعد وغیرہ نے ضحاک بن شرحبیل سے انہوں نے زید بن اسلم سے انہوں نے اپنے باپ سے انہوں نے عمر بن خطاب سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک ایک مرتبہ وضو کیا۔ یہ روایت ضعیف ہے اور صحیح روایت ابن عجلان ہشام بن سعد سے سفیان ثوری اور عبدالعزیز نے زید بن اسلم سے انہوں نے عطاء بن یسار سے انہوں نے ابن عباس سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کی ہے۔

اعضائے وضو کو دو دو مرتبہ دھونا

ابو کریب، محمد بن رافع، زید بن حباب، عبدالرحمن بن ثاقب بن ثوبان، عبداللہ بن مفضل، عبدالرحمن بن ہرمز اعرج، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو دو مرتبہ وضو میں اعضاء کو دھویا امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن غریب ہے ہم اس کو ابن ثوبان کے علاوہ کسی سند سے نہیں جانتے اور ابن ثوبان نے اسے عبداللہ بن فضل سے نقل کیا ہے یہ سند حسن صحیح ہے اس باب میں حضرت جابر سے بھی روایت ہے اور حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تین تین مرتبہ وضو کے اعضاء کو دھویا۔

وضو کے اعضاء کو تین تین مرتبہ دھونا

محمد بن بشار، عبدالرحمن بن مہدی، سفیان، ابو اسحاق، ابو حیہ، علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اعضائے وضو کو تین تین مرتبہ دھویا اس باب میں حضرت عثمان ربیع ابن عمر عائشہ ابی امامہ ابو رافع عبداللہ بن عمرو معاویہ ابو ہریرہ جابر عبداللہ بن زید اور ابی بن کعب سے بھی روایات منقول ہیں ابو عیسیٰ کہتے ہیں اس باب میں علی کی حدیث احسن اصح حدیث ہے اور عموماً اہل علم کا اس پر عمل ہے کہ اعضائے وضو کا ایک ایک مرتبہ دھونا کافی ہے دو دو مرتبہ بہتر ہے تین تین مرتبہ زیادہ افضل ہے اس سے زائد نہیں یہاں تک کہ ابن مبارک کہتے ہیں کہ ڈر ہے کہ تین مرتبہ سے زیادہ دھونے سے گنہگار ہو جائے امام احمد اور اسحاق کہتے ہیں کہ تین مرتبہ سے زیادہ وہی دھوئے گا جو وہم میں مبتلا ہو۔

اعضائے وضو کو ایک دو اور تین مرتبہ دھونا

اسماعیل بن موسیٰ فزاری، شریک، ثابت بن ابی صفیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے ابو جعفر سے پوچھا کیا جابر نے آپ سے یہ حدیث بیان کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک ایک دو دو اور تین تین مرتبہ وضو کے اعضاء کو دھویا تو انہوں نے کہا ہاں ابو عیسیٰ کہتے ہیں یہ حدیث وکیع نے بھی ثابت بن ابو صفیہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک ایک مرتبہ اعضائے وضو کو دھویا تو انہوں نے کہا ہاں ہم سے یہ حدیث قتیبہ اور ہناد نے بیان کی اور کہا کہ یہ حدیث ہم سے وکیع نے ثابت کے حوالہ سے بیان کی ہے اور یہ شریک کی حدیث سے اصح ہے اس لئے کہ یہ کئی طرق سے مروی ہے اور ثابت کی حدیث بھی وکیع کی روایت کے مثل ہے شریک کثیر الغلط ہیں اور ثابت بن ابی صفیہ وہ ابو حمزہ ثمالی ہیں۔

وضو میں بعض اعضاء دو مرتبہ اور بعض تین مرتبہ دھونا

محمد بن ابی عمر، سفیان بن عیینہ، عمرو بن یحیی، عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو کرتے ہوئے اپنے چہرے کو تین مرتبہ اور اپنے ہاتھوں کو دو مرتبہ دھویا پھر سر کا مسح کیا اور دونوں پاؤں دھوئے ابو عیسیٰ نے فرمایا یہ حدیث حسن صحیح ہے اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا بعض اعضاء کو دو مرتبہ دھونا اور بعض اعضاء کو تین مرتبہ دھونا کئی احادیث میں مذکور ہے بعض اہل علم نے اس کی اجازت دی ہے کہ اگر کوئی شخص وضو کرتے ہوئے بعض اعضاء کو تین مرتبہ اور بعض کو دو مرتبہ اور بعض کو ایک مرتبہ دھوئے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وضو

قتیبہ، ہناد , ابو الاحوص، ابو اسحاق ، ابو حیہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا کہ آپ نے دونوں ہاتھوں کو اچھی طرح دھویا پھر تین مرتبہ کلی کی پھر تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالا اور تین مرتبہ منہ دھویا پھر دونوں ہاتھ تین مرتبہ کہنیوں تک دھوئے پھر ایک مرتبہ سر کا مسح کیا اور دونوں پاؤں ٹخنوں تک دھوئے اس کے بعد کھڑے ہو کر وضو کا بچا ہوا پانی پیا اور فرمایا کہ میں تمہیں دکھانا چاہتا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کس طرح وضو کیا کرتے تھے اس باب میں حضرت عبداللہ بن زید ابن عباس عبداللہ بن عمرو عائشہ ربیع اور عبداللہ بن انیس سے بھی روایات منقول ہیں۔

قتیبہ، ہناد، ابو الاحوص، ابو اسحاق، عبدخیر، علی کے حوالے سے ابو حیہ کی حدیث کی مثل ذکر کیا ہے لیکن عبدخیر نے یہ بھی کہا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وضو سے فارغ ہوئے تو بچا ہوا پانی چلو میں لے کر پیا ابو عیسیٰ کہتے ہیں حضرت علی کی حدیث ابو اسحاق ہمدانی نے ابو حیہ کے واسطے سے اور عبدخیر اور حارث سے بلاواسطہ روایت کی ہے زائدہ بن قدامہ اور دوسرے کئی راویوں نے خالد بن علقمہ سے انہوں نے عبدخیر سے اور انہوں نے حضرت علی سے وضو کی طویل حدیث بیان کیا ہے اور یہ حدیث حسن صحیح ہے شعبہ نے اس حدیث کو خالد بن علقمہ سے روایت کرتے ہوئے ان کے نام اور ان کے والد کے نام میں غلطی کرتے ہوئے مالک بن عرفطہ کہا ابو عوانہ سے بھی روایت منقول ہے وہ خالد بن علمقہ سے وہ عبدخیر سے اور وہ حضرت علی سے نقل کرتے ہیں اور ابو عوانہ سے ایک اور طریق سے بھی مالک بن عرفطہ سے شعبہ کی روایت کی مثل روایت کی گئی ہے اور صحیح خالد بن علمقہ ہے۔

وضو کے بعد ازار پر پانی چھڑکنا

نصر بن علی، احمد بن ابی عبید اللہ سلیمی بصری، ابو قتیبہ سلم بن قتیبہ، حسن بن علی ہاشمی، عبدالرحمن، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میرے پاس جبرائیل امین آئے اور کہا اے محمد جب تم وضو کرو تو پانی چھڑک لیا کرو امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث غریب ہے میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے سنا کہ حسن بن علی ہاشمی منکر حدیث ہے اور اس باب میں حکم بن سفیان ابن عباس زید بن حارثہ اور ابو سعید سے بھی روایات منقول ہیں بعض نے سفیان بن حکم یا حکم بن سفیان کہا اور اس حدیث میں اختلاف کیا ہے۔

وضو مکمل کر نے کے بارے میں

علی بن حجر، اسماعیل بن جعفر، علاء بن عبدالرحمن، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا میں تمہیں وہ کام نہ بتاؤں جس سے اللہ تعالی گناہوں کو مٹاتا ہے اور درجات کو بلند کرتا ہے انہوں نے عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وضو کو تکلیفوں میں پورا کرنا اور مسجدوں کی طرف بار بار جانا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظا کرنا یہی رباط ہے۔ (یعنی سرحدات کی حفاظت کرنے کے مترادف ہے ،)

٭٭ قتیبہ، عبدالعزیز بن محمد بن علاء ہم سے قتبیہ نے روایت کی علاء سے قتیبہ اپنی حدیث میں (فَذَلِکُمْ الرِّبَاطُ فَذَلِکُمْ الرِّبَاطُ فَذَلِکُمْ الرِّبَاطُ) تین مرتبہ کہتے ہیں اس باب میں حضرت علی ابن عباس عبداللہ بن عمرو عبیدہ جنہیں عبیدہ بن عمرو کہا جاتا ہے عائشہ عبدالرحمن بن عائشہ اور انس سے بھی احادیث حسن صحیح ہے علاء بن عبدالرحمن ابن یعقوب جہنی ہیں اور محدیث کے نزدیک ثقہ ہیں۔

وضو کے بعد رومال استعمال کر نا

سفیان بن وکیع، عبداللہ بن وہب، زید بن حباب، ابو معاذ، زہری، عروہ، عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ایک کپڑا تھا جس سے وضو کے بعد اعضاء خشک کرتے تھے اور اس باب میں معاذ بن جبل سے بھی روایت ہے۔

٭٭ قتیبہ، رشدین بن سعد، عبدالرحمن بن زیاد بن انعم، عتبہ بن حمید، عبادہ بن نسبی، عبدالرحمن بن غنم، معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وضو کرتے تو اپنا چہرہ کپڑے کے کنارے سے پونچھتے ابو عیسیٰ فرماتے ہیں یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند ضعیف ہے اور رشدین بن سعد اور عبدالرحمن بن زیاد بن انعم افریقی دونوں ضعیف ہیں ابو عیسیٰ نے کہا کہ حضرت عیسیٰ نے کہا کہ حضرت عائشہ کی حدیث بھی قوی نہیں اور اس باب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول کوئی حدیث بھی صحیح نہیں اور ابو معاذ کو لوگ سلیمان بن ارقم کہتے ہیں وہ محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں صحابہ و تابعین میں سے بعض اہل علم نے وضو کے بعد کپڑے سے اعضاء کو خشک کرنے کی اجازت دی ہے اور جو اس کو مکروہ سمجھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ کہا جاتا ہے کہ وضو کا پانی تولا جاتا ہے اور یہ بات حضرت سعید بن مسیب اور امام زہری سے مروی ہے محمد بن حمید ہم سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم سے جریر نے روایت کرتے ہوئے کہا کہ مجھ سے علی بن مجاہد نے مجھ سے سن کر بیان کیا انہوں نے ثعلبہ سے انہوں نے زہری سے کہ زہری نے کہا کہ میں وضو کے بعد کپڑے سے اعضاء کو پونچھنا مکروہ سمجھتا ہوں اس لئے کہ وضو کا وزن کیا جاتا ہے۔

وضو کے بعد کیا پڑھا جائے

جعفر بن محمد بن عمران ثعلبی کوفی، زید بن حباب، معاویہ بن صالح، ربیعہ بن یزید دمشقی، ابی ادریس خولانی، ابی عثمان، عمر بن خطاب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو وضو کرے اور اچھی طرح وضو کرے پھر کہے (أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ اللَّہُمَّ اجْعَلْنِی مِنْ التَّوَّابِینَ وَاجْعَلْنِی مِنْ الْمُتَطَہِّرِینَ۔) ترجمہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کے بندے اور رسول ہیں اے اللہ مجھے توبہ کرنے والوں اور طہارت حاصل کرنے والوں میں سے بنا دے ، تو اس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دئیے جاتے ہیں جس دروازے سے چاہے داخل ہو اس باب میں حضرت انس اور عقبہ بن عامر سے بھی روایات منقول ہیں ابو عیسیٰ کہتے ہیں زید بن حباب کی اس حدیث سے عمر کی حدیث میں اختلاف کیا گیا ہے عبداللہ بن صالح وغیرہ نے یہ حدیث معاویہ بن صالح سے وہ ربیع بن یزید سے وہ ابو ادریس سے وہ عمر سے نقل کرتے ہیں اس حدیث کی اسناد میں اضطراب ہے اس باب میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سند صحیح سے کوئی زیادہ روایتیں منقول نہیں محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ وضو کے بعد کئی قسم کے اذکار احادیث سے ثابت ہیں۔

ایک مد سے وضو کرنے کے بارے میں

احمد بن منیع، علی بن حجر، اسماعیل بن علی، ابی ریحانہ، سفینہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وضو کرتے تھے ایک مد سے اور غسل کرتے تھے ایک صاع سے اس باب میں عائشہ جابر اور انس بن مالک روایت کردہ حدیث حسن صحیح ہے اور ابو ریحانہ کا نام عبداللہ بن مطر ہے بعض اہل علم نے ایسا ہی کہا کہ وضو کرے ایک مد سے اور غسل کرے ایک صاع سے امام شافعی احمد اور اسحاق نے فرمایا کہ اس حدیث کا مطلب مقداد کا متعین کرنا نہیں کہ اس سے زیادہ کم جائز نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس قدر کفایت کرتا ہے۔

وضو میں اسراف مکروہ ہے

محمد بن بشار، ابو داؤد، خارجہ بن مصعب، یونس بن عبید، حسن، عتی بن ضمرہ سعدی، ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وضو کے لئے ایک شیطان ہے اس کو ولہان کہا جاتا ہے پس تم پانی کے وسوسے سے بچو اس باب میں عبداللہ بن عمرو اور عبداللہ بن مغفل سے بھی روایت ہے ابو عیسیٰ فرماتے ہیں کہ ابی بن کعب کی حدیث غریب ہے اس کی اسناد محدثین کے نزدیک قوی نہیں اس لئے کہ ہم خارجہ کے علاوہ کسی اور کو نہیں جانتے کہ اس نے اسے سند کے ساتھ نقل کیا ہو یہ حدیث حسن بصری سے بھی کئی سندوں سے منقول ہے اس باب میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی کوئی حدیث نہیں اور خارجہ ہمارے اصحاب کے نزدیک قوی نہیں انہیں ابن مبارک ضعیف کہتے ہیں۔

ہر نماز کے لئے وضو کرنا

محمد بن حمید رازی، سلمہ بن فضل، محمد بن اسحاق، حمید، انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر نماز کے لئے وضو کیا کرتے تھے خواہ باوضو ہوں یا بے وضو حمیس کہتے ہیں میں نے انس سے پوچھا تم کس طرح کرتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا ہم ایک ہی وضو کیا کرتے تھے امام ابو عیسیٰ ترمذی نے کہا حضرت انس سے عمرو بن عامر کی روایت مشہور ہے بعض علماء ہر نماز کے لئے وضو کو مستحب جانتے ہیں واجب قرار نہیں دیتے۔

٭٭ محمد بن بشار، یحیی بن سعید، عبدالرحمن بن مہدی، سفیان بن سعید، عمرو بن عامر انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے سنا انس بن مالک سے وہ فرماتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وضو کرتے تھے ہر نماز کے لئے پس میں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کس طرح کیا کرتے ؟ انہوں نے فرمایا ہم کئی نماز ایک ہی وضو سے پڑھ لیا کرتے تھے جب تک کہ ہم بے وضو نہ ہو جائیں ابو عیسیٰ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

٭٭ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے با وضو ہوتے ہوئے وضو کیا اس کے لئے اللہ تعالی دس نیکیاں لکھ دیتے ہیں اس حدیث کو افریقی نے ابو غطیف سے انہوں نے ابن عمر سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کیا ہے ہم سے اس حدیث کو حسین بن حریث مروی سے روایت کیا ہے اور یہ اسناد ضعیف ہے علی فرماتے ہیں کہ یحیی بن سعید قطان نے کہا کہ ہشام بن عروہ سے اس حدیث کو ذکر کیا گیا تو انہوں نے فرمایا یہ مشرقی اسناد ہے۔

کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھنا

محمد بن بشار، عبدالرحمن بن مہدی، سفیان، علقمہ بن مرثد، سلیمان بن بریدہ، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر نماز کے لئے وضو کیا کرتے جب مکہ فتح ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھیں اور موزوں پر مسح کیا حضرت عمر نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہ کام کیا ہے جو پہلے نہیں کرتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نے قصداً ایسا کیا ہے ابو عیسیٰ کہتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اسے علی بن قادم نے بھی سفیان ثوری سے نقل کیا ہے اور اس میں یہ اضافہ کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک ایک مرتبہ وضو کیا سفیان ثوری نے بھی یہ حدیث محارب بن دثار سے انہوں نے سلیمان بن بریدہ سے نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہر نماز کے لئے وضو کرتے تھے اور اسے وکیع سفیان سے وہ محارب سے وہ سلیمان بن بریدہ سے اور وہ اپنے والد سے بھی نقل کرتے ہیں عبدالرحمن مہدی وغیرہ سفیان سے وہ محارب بن دثار سے وہ سلیمان بن بریدہ سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مرسلاً روایت کرتے ہیں یہ وکیع کی حدیث سے اصح ہے اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھی جا سکتی ہیں جب تک وضو نہ ٹوٹے بعض اہل علم نے کہا ہر نماز کے لئے وضو مستحب ہے افریقی سے روایت کیا جاتا ہے وہ ابو غطیف سے وہ ابن عمر سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے با وضو ہونے کے باوجود وضو کیا اللہ تعالی اس کے بدلے میں دس نیکیاں لکھ دیتے ہیں یہ سند ضعیف ہے اور اس باب میں حضرت جابر سے بھی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ظہر اور عصر کی نماز ایک وضو سے ادا فرمائی ہے۔

مرد اور عورت کا ایک برتن میں وضو کر نا

ابن ابی عمر، سفیان بن عیینہ، عمرو بن دینار، ابی شعثاء، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے حضرت میمونہ نے بیان کیا میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک ہی برتن میں غسل جنابت کیا کرتے تھے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور یہی تمام فقہاء کا قول ہے کہ مرد اور عورت کے ایک ہی برتن سے غسل کرنے میں کوئی حرج نہیں اس باب میں حضرت علی عائشہ ام ہانی ام صبیہ ام سلمہ اور ابن عمر سے بھی روایات ہیں اور ابو شعثاء کا نام جابر بن زید ہے۔

عورت کے وضو سے بچے ہوئے پانی کے استعمال کی کراہت کے بارے میں

محمود بن غیلان، وکیع، سفیان، سلیمان تیمی، ابی حاجب، قبیلہ بنی غفار کے ایک شخص سے روایت ہے کہ منع کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عورت کی طہارت سے بچے ہوئے پانی کے استعمال سے اس باب میں عبداللہ بن سرجس سے بھی روایت ہے ابو عیسیٰ فرماتے ہیں عورت کے بچے ہوئے پانی کے استعمال کو بعض فقہاء نے مکروہ کہا ہے ان میں احمد اور اسحاق بھی شامل ہیں ان دونوں کے نزدیک جو پانی عورت کی طہارت سے بچا ہو اس سے وضو مکروہ ہے اس کے جھوٹے میں کوئی حرج نہیں۔

٭٭ محمد بن بشار، محمود بن غیلان، ابو داؤد، شعبہ، عاصم، حکم بن عمرو غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مرد کو عورت کے وضو سے بچے ہوئے پانی سے وضو کرنے سے منع فرمایا یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کے جھوٹے سے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن ہے ابو حاجب کا نام سوادہ بن عاصم ہے محمد بن بشار اسی حدیث میں کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عورت کے بچے ہوئے پانی سے وضو کرنے سے منع فرمایا اور اس میں محمد بن بشار شک نہیں کرتے۔

جنبی عورت کے نہائے ہوئے پانی کے بقیہ سے وضو کا جواز

قتیبہ، ابو الاحوص، سماک بن حرب، عکرمہ، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ازواج مطہرات میں سے کسی نے ایک بڑے برتن سے غسل کیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے وضو کرنے کا ارادہ کیا تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حالت جنابت سے تھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پانی جنبی نہیں ہوتا امام ابو عیسیٰ فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے سفیان ثوری امام مالک اور امام شافعی کا بھی یہی قول ہے۔

پانی کو کوئی چیز نا پاک نہیں کر تی

ہناد، حسن علی بن خلال، ابو اسامہ، ولید بن کثیر، محمد بن کعب، عبید اللہ بن رافع بن خدیج، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا ہم بضاعہ کنویں سے وضو کریں یہ وہ کنواں تھا جس میں حیض کے کپڑے کتوں کا گوشت اور بدبو دار چیزیں ڈالی جاتی تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پانی پاک ہے اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی امام ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے ابو اسامہ نے اس حدیث کو بہت اچھی طرح روایت کیا ہے ابو سعید کی بیربضاعہ کی حدیث کسی نے بھی ابو اسامہ سے بہتر روایت نہیں کی یہ حدیث ابو سعید خدری سے کئی طرق سے منقول ہے اس باب میں حضرت ابن عباس اور عائشہ سے بھی احادیث مذکور ہیں۔

اسی کے متعلق دوسرا باب

ہناد، عبدہ، محمد بن اسحاق، محمد بن جعفر بن زبیر، عبید اللہ بن عبداللہ بن عمر، ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے میدانوں اور جنگلوں کے پانی کے بارے میں سوال کیا گیا جس پر درندے اور چوپائے بار بار آتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب پانی دو قلوں کی مقدار میں ہو تو ناپاک نہیں ہوتا محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ قلہ مٹکے کو کہتے ہیں اور قلہ وہ بھی ہے جس میں پانی بھرا جاتا ہے ابو عیسیٰ کہتے ہیں یہی قول ہے شافع احمد اور اسحاق کا انہوں نے کہا جب پانی دو مٹکوں کے برابر ہو تو وہ اس وقت تک ناپاک نہیں ہو جب تک اس کی بو یا ذائقہ تبدیل نہ ہو اور انہوں نے کہا کہ قلتین پانچ مشکوں کے برابر ہوتا ہے۔

رکے ہوئے پانی میں پیشاب کرنا مکروہ ہے

محمود بن غیلان، عبدالرزاق، معمر، ہمام بن منبہ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں سے کوئی رکے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے کہ پھر اسی سے وضو کرے ابو عیسیٰ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اس باب میں حضرت جابر سے بھی روایت منقول ہے۔

دریا کا پانی پاک ہونا

قتیبہ، مالک، انصاری، معن، مالک، صفوان بن سلیم، سعید بن سلمہ سے روایت کرتے ہیں جو اولاد ہیں ابن ازرق کی تحقیق مغیرہ بن ابی بردہ نے کہ وہ عبد دار کی اولاد سے ہیں خبر دی ان کو کہ سنا انہوں نے حضرت ابو ہریرہ سے وہ فرماتے ہیں کہ سوال کیا ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم دریا میں سفر کرتے ہیں ہمارے پاس تھوڑا سا پانی ہوتا ہے اگر ہم اس سے وضو کریں تو پیاسے رہ جائیں کیا ہم سمندر کے پانی سے وضو کر لیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کا پانی پاک اور اس کا مردہ حلال ہے اس باب میں حضرت جابر اور فراسی سے بھی روایت ہے ابو عیسیٰ کہتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اکثر فقہاء صحابہ جن میں سے حضرت ابو بکر، عمر فاروق اور ابن عباس بھی ہیں ان کا قول یہی ہے کہ دریا کے پانی سے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں اور بعض صحابہ کرام نے دریا اور سمندر کے پانی سے وضو کرنے کو مکروہ جانا ہے ان صحابہ میں حضرت عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عمرو بھی شامل ہیں۔

 

 

پیشاب سے بہت زیادہ احتیاط کرنا

ہناد، قتیبہ، ابو کریب، وکیع، اعمش، مجاہد، طاؤس، ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دو قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے اور عذاب کی وجہ کوئی بڑا جرم نہیں ان میں سے ایک پیشاب کرتے وقت احتیاط نہیں کرتا تھا جب کہ دوسرا چغل خوری کرتا تھا اس باب میں حضرت زید بن ثابت ابو بکر ابو ہریرہ ابو موسیٰ اور عبدالرحمن بن حسنہ سے بھی احادیث مذکور ہیں ابو عیسیٰ کہتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے منصور نے یہ حدیث مجاہد سے انہوں نے ابن عباس سے نقل کی ہے لیکن اس میں طاؤس کا ذکر نہیں کیا جبکہ اعمش کی روایت میں سنا وکیع سے وہ کہتے تھے کہ ابراہیم کی اسناد میں اعمش منصور سے احفظ ہیں۔

شیر خوار بچہ جب تک کھانا نہ کھائے اس کے پیشاب پر پانی چھڑکنا کافی ہے

قتیبہ، احمد بن منیع، سفیان بن عیینہ، زہری، عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ، ام قیس بنت محصن کہتی ہیں میں اپنے بیٹے کو لے کر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس گئی اس نے ابھی تک کھانا کھانا شروع نہیں کیا تھا تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جسم مبارک پر پیشاب کر دیا پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پانی منگوایا اور اس پر چھڑک دیا اس باب میں حضرت علی عائشہ زینب لبابہ بنت حارث ابو سمح عبداللہ بن عمر ابو لیلی اور ابن عباس سے بھی روایات منقول ہیں ابو عیسیٰ فرماتے ہیں کہ کئی صحابہ و تابعین اور ان کے بعد کے فقہاء جن میں امام احمد اور اسحاق بھی ہیں ان کا قول ہے کہ لڑکے کے پیشاب پر پانی بہایا جائے اور لڑکی کے پیشاب کو دھویا جائے اور یہ اس صورت میں ہے کہ دونوں ابھی کھانا نہ کھاتے ہوں اگر کھانا کھانے لگیں تو دونوں کے پیشاب کو دھویا جائے گا۔

جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے ان کے پیشاب

حسن بن محمد زعفرانی، عفان بن مسلم، حماد بن سلمہ، حمید، قتادہ، ثابت، انس سے روایت ہے کہ قبیلہ عرینہ کے کچھ لوگ مدینہ آئے انہیں مدینہ منورہ کی آب و ہوا موافق نہیں آئی چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں زکوٰۃ کے اونٹوں میں بھیج دیا اور فرمایا ان کے دودھ اور پیشاب پیو لیکن انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چروا ہے کو قتل کر دیا اور اونٹوں کو ہانک کر لے گئے اور خود اسلام سے مرتد ہو گئے جب انہیں پکڑ کر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمت سے کاٹنے کا حکم دیا اور ان کو ریگستان میں ڈال دیا گیا حضرت انس فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ان میں سے ہر ایک خاک چاٹ رہا تھا یہاں تک کہ سب مر گئے اور کبھی حماد نے کہا اس روایت میں ، یکُدُّ الاَرضُ، کی بجائے۔ یَکدُمُ الاَرضَ، اور ان دونوں کے معنی ایک ہی ہیں امام ابو عیسیٰ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور حضرت انس سے کئی سندوں سے منقول ہے اکثر اہل علم کا بھی یہی قول ہے کہ حلال جانوروں کے پیشاب میں کوئی حرج نہیں۔

٭٭ فضل بن سہل اعرج، یحیی بن غیلان، یزید بن زریع، سلیمان تیمی، انس بن مالک نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی آنکھوں میں سلائیاں اس لئے پھروائی تھیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چرواہوں کے آنکھوں میں سلائیاں پھیریں تھیں ابو عیسیٰ فرماتے ہیں یہ حدیث غریب ہے ہم نہیں جانتے کہ یحیی بن غیلان کے علاوہ کسی اور نے یزید بن زریع سے روایت کی ہو اور یہ آنکھوں میں سلاخیں پھروانا قرآنی حکم، وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ ، کے مطابق تھا محمد بن سیرین سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ فعل حدود کے نازل ہونے سے پہلے کاہے۔

ہوا کے خارج ہونے سے وضو کا ٹوٹ جانا

قتیبہ، ہناد، وکیع، شعبہ، سہیل بن ابو صالح، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وضو نہیں جب تک آواز نہ ہو یا ریح نہ نکلے امام ابو عیسیٰ ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

٭٭ قتیبہ، عبدالعزیز بن محمد، سہیل بن ابو صالح، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی مسجد میں ہو اور اسے اپنی سرینوں میں سے ہوا کا شبہ ہو تو جب تک آواز نہ سنے یا بو نہ آئے مسجد سے باہر نہ نکلے۔

 ٭٭ محمود بن غیلان، عبدالرزاق، معمر، ہمام بن منبہ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو حدث ہو جائے تو اللہ تعالی اس وقت تک اس کی نماز قبول نہیں فرماتا جب تک وضو نہ کر لے ابو عیسیٰ کہتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اس باب میں عبداللہ بن زید علی بن طلق عائشہ ابن عباس اور ابو سعید سے بھی روایات مذکور ہیں ابو عیسیٰ کہتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور یہ علماء کا قول ہے کہ وضو اس وقت تک واجب نہیں ہوتا جب تک حدث نہ ہو اور وہ آواز نہ سنے یا بو نہ آئے ابن مبارک کہتے ہیں اگر شک ہو تو وضو واجب نہیں ہوتا یہاں تک کہ اس حد تک یقین ہو جائے کہ اس پر قسم کھا سکے اور کہا ہے کہ جب عورت کے قبل سے ریح نکلے تو بھی اس پر وضو واجب ہے یہی قول ہے امام شافعی اور اسحاق کا۔

نیند کے بعد وضو

اسماعیل بن موسی، ہناد، محمد بن عبید المحاربی، عبدالسلام بن حرب، ابی خالد دالانی، قتادہ، ابو عالیہ، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجد میں سوئے ہوئے تھے یہاں تک کہ خراٹے لینے لگے یا فرمایا لمبے لمبے سانس لینے لگے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے اور نماز پڑھنے لگے میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تو سو گئے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وضو اس پر واجب ہوتا ہے جو لیٹ کر سوئے اس لئے کہ لیٹ جانے سے جوڑ ڈھیلے پڑ جاتے ہیں ابو عیسیٰ کہتے ہیں کہ ابو خالد کا نام یزید بن عبدالرحمن ہے اور اس باب میں حضرت عائشہ اور ابن مسعود اور ابو ہریرہ سے بھی روایات منقول ہے۔

٭٭ محمد بن بشار، یحیی بن سعید، شعبہ، قتادہ، انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ کو نیند آ جایا کرتی تھی پھر اٹھ کر نماز پڑھ لیتے اور وضو نہ کرتے امام ابو عیسیٰ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے صالح بن عبداللہ کہتے ہیں میں نے ابن مبارک سے اس آدمی کے متعلق پوچھا جو تکیہ لگا کر سوتا ہے فرمایا اس پر وضو نہیں سعید بن عروبہ نے قتادہ کے واسطہ سے حضرت ابن عباس سے حدیث روایت کی ہے اس میں ابو عالیہ کا ذکر نہیں اور نہ ہی اسے مرفوعاً روایت کیا ہے نیند سے وضو کے واجب ہونے کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے اکثر علماء جن میں ابن مبارک سفیان ثوری اور امام احمد شامل ہیں کا قول یہ ہے کہ اگر بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر سوئے تو وضو واجب نہیں ہوتا یہاں تک کہ لیٹ کر سوئے بعض اہل علم کے نزدیک اگر اس کی عقل پر نیند غالب ہو جائے تو وضو واجب ہے اسحاق کا یہی قول ہے امام شافعی فرماتے ہیں کہ اگر کوئی بیٹھ کر سوتے ہوئے خواب دیکھے یا نیند کے غلبے کی وجہ سے سرین اپنی جگہ سے ہٹ جائے تو اس پر وضو واجب ہے۔

آگ سے پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا

ابن ابی عمر، سفیان بن عیینہ، محمد بن عمر، ابو سلمہ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وضو واجب ہو جاتا ہے آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے چاہے وہ پنیر کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو ابن عباس نے ابو ہریرہ سے پوچھا کیا ہم تیل اور گرم پانی کے استعمال کے بعد بھی وضو کیا کریں حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا بھتیجے جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول حدیث سنو تو اس کے لئے مثالیں نہ دو اس باب میں ام حبیبہ ام سلمہ زید بن ثابت ابو طلحہ ابو ایوب اور ابو موسیٰ سے بھی روایات منقول ہیں ابو عیسیٰ فرماتے ہیں کہ بعض اہل علم کے نزدیک آگ پر پکی ہوئی چیر کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور اکثر علماء صحابہ تابعین اور تبع تابعین کے نزدیک آگ سے پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔

٭٭ ابن ابی عمر، سفیان بن عیینہ، عبداللہ بن محمد بن عقیل، جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے باہر نکلے اور میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھا پھر ایک انصاری عورت کے گھر داخل ہوئے اس عورت نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے ایک بکری ذبح کی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کھانا کھایا پھر وہ کھجوروں کا ایک تھال لے آئی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے بھی کھجوریں کھائیں پھر وضو کیا ظہر کی نماز ادا کی پھر واپس آئے تو وہ عورت اسی بکری کا کچھ بچا ہوا گوشت لائی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کھایا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عصر کی نماز ادا کی وضو نہیں کیا اس باب میں حضرت ابو بکر صدیق سے بھی روایت ہے لیکن ان کی حدیث اسناد کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے اس لئے کہ حسام بن مصک نے ابن سیرین سے انہوں نے ابن عباس سے انہوں نے ابو بکر صدیق سے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کیا ہے جبکہ صحیح یہ ہے کہ ابن عباس نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں حفاظ حدیث نے اسی طرح روایت کی ہے اور یہ روایت ابن سیرین سے کئی طرح سے مروی ہے وہ ابن عباس سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نقل کرتے ہیں عطاء بن یسار عکرمہ محمد بن عمرو بن عطار علی بن عبداللہ بن عباس اور کئی حضرات ابن عباس سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ حدیث نقل کرتے ہوئے اس میں ابو بکر کا ذکر نہیں کرتے اور یہی زیادہ صحیح ہے اس باب میں حضرت ابو ہریرہ ابن مسعود ابو رافع ام حکم عمرو و بن امیہ ام عامر سوید بن نعمان اور ام سلمہ سے بھی روایات منقول ہیں ابو عیسیٰ کہتے ہیں صحابہ تابعین اور تبع تابعین میں سے اکثر اہل علم کا اس پر عمل ہے جیسا کہ سفیان ابن مبارک شافعی اور اسحاق ان سب کے نزدیک آگ پر پکے ہوئے کھانے سے وضو واجب نہیں ہوتا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا آخری عمل ہے یہ حدیث پہلی حدیث کو منسوخ کرتی ہے جس میں آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو کرنا واجب ہے۔

اونٹ کا گوشت کھانے پر وضو

ہناد، ابو معاویہ، اعمش بن عبداللہ بن عبد اللہ، عبدالرحمن بن ابی لیلی، براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کے متعلق پوچھا گیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس سے وضو کیا کرو پھر بکری کے گوشت کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس سے وضو کی ضرورت نہیں اس باب میں جابر بن سمرہ اور اسید بن حضیر سے بھی روایات نقل کی گئی ہیں ابو عیسیٰ فرماتے ہیں یہ حدیث حجاج بن ارطاہ نے عبداللہ بن عبداللہ سے انہوں نے عبدالرحمن بن ابو لیلی سے انہوں نے اسید بن حضیر سے نقل کی ہے عبدالرحمن بن ابو لیلی کی براء بن عازب سے نقل کردہ حدیث صحیح ہے یہ احمد اور اسحاق کا قول ہے عبیدہ ضبی عبداللہ بن عبداللہ رازی سے وہ عبدالرحمن بن ابو لیلی سے وہ ذوالغرہ سے یہی حدیث نقل کرتے ہیں حماد بن مسلمہ نے اس حدیث کو حجاج بن ارطاہ کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے غلطی کی ہے انہوں نے کہا کہ عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابو لیلی سے وہ اپنے والد سے اور وہ اسید بن حضیر سے نقل کرتے ہیں جبکہ صحیح یہ ہے کہ عبداللہ بن عبداللہ عبدالرحمن بن ابو لیلی سے اور وہ براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں اسحاق کہتے ہیں اس باب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول دو روایات زیادہ صحیح ہیں ایک براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی اور دوسری جابر بن سمرہ کی۔

 

ذکر چھونے سے وضو ہے

اسحاق بن منصور، یحیی بن سعید قطان، ہشام بن عروہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خبر دی مجھ کو میرے والد نے بسرہ بنت صفوان سے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو اپنے ذکر کو چھوئے وہ نماز نہ پڑھے جب تک وضو نہ کرے اس باب میں ام حبیبہ ابو ایوب ابو ہریرہ اروی بنت انیس عائشہ جابر زید بن خالد اور عبداللہ بن عمر سے بھی روایات منقول ہیں ابو عیسیٰ کہتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اس کی مثل کئی حضرات نے ہشام بن عروہ سے روایت کیا ہے ہشام بن عروہ اپنے والد سے اور وہ بسرہ سے روایت کرتے ہیں ابو اسامہ اور کئی لوگوں نے یہ روایت ہشام بن عروہ سے انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے مروان سے انہوں نے بسرہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کی ہے ہم سے اسے اسحاق بن منصور نے انہوں نے ابو اسامہ کے حوالہ سے بیان کیا ہے ابو زناد نے بھی یہ حدیث عروہ سے روایت کی ہے ہم سے یہ حدیث علی بن حجر نے بیان کی ہے عبدالرحمن بن ابو الزناد بھی اپنے والد سے وہ عروہ سے وہ بسرہ سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اسی طرح نقل کرتے ہیں صحابہ و تابعین میں سے اکثر کا یہی قول ہے اور تابعین میں سے اکثر کا قول ہے جن میں اوزاعی شافعی اور احمد اور اسحاق بھی ہیں محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ اس باب میں صحیح حدیث بسرہ کی ہے اور ابو زرعہ کا قول یہ ہے کہ اس باب میں صحیح حدیث ام حبیبہ کی حدیث ہے وہ روایت کی ہے علاء بن حارث نے مکحول سے انہوں نے عنبسہ بن ابی سفیان سے انہوں نے ام حبیبہ سے لیکن امام بخاری نے فرمایا کہ مکحول کو عنبسہ بن ابی سفیان سے سماع نہیں اور مکحول نے روایت کی ہے کسی شخص کے واسطے سے عنبسہ سے اس حدیث کے علاوہ گویا کہ امام بخاری کے نزدیک یہ حدیث صحیح نہیں۔

ذکر چھونے سے وضو نہ کر نا

ہناد، ملازم بن عمر، عبداللہ بن بدر، قیس بن طلق بن علی حنفی سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ ایک ٹکڑا ہے اس کے بدن کا اور راوی کو شک ہے کہ (مُضْغَةٌ) فرمایا یا (بَضْعَةٌ) جبکہ دونوں کے معنی ایک ہی ہیں اس باب میں ابو امامہ سے بھی روایت ہے ابو عیسیٰ کہتے ہیں کئی صحابہ اور بعض تابعین سے روایت ہے کہ وہ عضو خاص کو چھونے سے وضو کے واجب قرار نہیں دیتے تھے یہ قول اہل کوفہ اور ابن مبارک کاہے اور یہ حدیث اس باب میں احادیث میں سب سے زیادہ اچھی ہے اسے ایوب بن عتبہ اور محمد بن جابر بن قیس بن طلق سے اور وہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں بعض محدثین محمد بن جابر اور ایوب بن عتبہ پر اعتراض کرتے اور ملازم بن عمرو کی عبداللہ بن بدر سے منقول حدیث صحیح اور احسن ہے۔

بوسہ سے وضو نہیں ٹوٹتا

قتیبہ، ہناد، ابو کریب، احمد بن منیع، محمود بن غیلان، ابو عمار، وکیع، اعمش، حبیب بن ابی بن ثابت، عروہ، عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی کسی بیوی کا بوسہ لیا پھر نکلے نماز کے لئے اور وضو نہیں کیا عروہ کہتے ہیں میں نے کہا (عائشہ رضی اللہ عنہا) سے وہ آپ کے علاوہ کون ہو سکتی ہیں تو آپ ہنسنے لگیں ابو عیسیٰ کہتے ہیں اس طرح کی روایات کئی صحابہ اور تابعین سے منقول ہیں اور سفیان ثوری اور اہل کوفہ یہی کہتے ہیں کہ بوسہ لینے سے وضو نہیں ٹوٹتا اور مالک بن انس اوزاعی شافعی احمد اور اسحاق نے کہا ہے کہ بوسہ لینے سے وضو ٹوٹتا ہے اور یہی قول ہے کئی صحابہ اور تابعین کا ہمارے اصحاب نے اس سے متعلق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول حضرت عائشہ کی حدیث پر اس لئے عمل نہیں کیا کہ سند میں ضعیف ہونے کی وجہ سے ان کے نزدیک صحیح نہیں ہے امام ترمذی کہتے ہیں میں نے ابو بکر عطار بصری کو علی بن مدینی کا تذکرہ کرتے ہوئے سنا کہ وہ کہتے تھے اس حدیث کو یحیی بن سعید قطان نے ضعیف قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ نہ ہونے کے برابر ہے اور کہتے ہیں کہ میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو بھی اس حدیث کو ضعیف کہتے ہوئے سنا اور فرماتے ہیں کہ حبیب بن ابو ثابت نے عروہ سے کوئی حدیث نہیں سنی ابراہیم تیمی نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کا بوسہ لیا اور وضو نہیں کیا یہ حدیث بھی صحیح نہیں ابراہیم تیمی کا حضرت عائشہ صدیقہ سے سماع ثابت نہیں اس باب میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول کوئی بھی حدیث صحیح نہیں۔

قے اور نکسیر سے وضو کا حکم ہے

ابوعبیدہ بن ابی سفر، اسحاق بن منصور، ابو عبیدہ، اسحاق، عبدالصمد بن عبدالوارث، حسین، یحیی بن ابی کثیر، عبدالرحمن بن عمر اوزاعی، یعیش بن ولید مخزومی، معدان بن ابی طلحہ، ابی درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قے کی اور وضو کیا پھر جب میری ملاقات ثوبان سے دمشق کی مسجد میں ہوئی اور میں نے ان سے اس کا ذکر کیا انہوں نے کہا سچ کہا ابو درداء نے اس لئے کہ میں نے خود حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وضو کے لئے پانی ڈالا تھا اور اسحاق بن منصور نے معدان بن طلحہ کہا ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی کہتے ہیں اکثر صحابہ و تابعین سے مروی ہے وضو کرنا قے اور نکسیر سے اور سفیان ثوری ابن مبارک اور احمد اسحاق کا یہی قول ہے اور بعض اہل علم نے کہا جن میں امام مالک اور امام شافعی بھی ہیں کہ قے اور نکسیر سے وضو نہیں ٹوٹتا حسن بن معلم نے اس حدیث کا بہت اچھا کہا ہے اور حسین کی روایت کردہ حدیث اس باب میں زیادہ صحیح ہے اور معمر نے یہ حدیث روایت کی یحیی بن کثیر سے اور اس میں غلطی کی ہے وہ کہتے ہیں یحیی بن ولید سے وہ خالد بن معدان سے وہ ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے اس سند میں اوزاعی کا ذکر نہیں کیا اور کہا کہ خالد بن معدان سے روایت ہے جبکہ معدان بن ابو طلحہ صحیح ہے۔

نبیذ سے وضو

ہناد، شریک، ابی فزارہ، ابی زید، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھ سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سوال کیا کہ تمہارے توشہ دان میں کیا ہے میں نے عرض کیا نبیذ ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ کھجور بھی پاک ہے اور پانی بھی پاک ہے ابن مسعود فرماتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے وضو کیا ابو عیسیٰ کہتے ہیں یہ حدیث مروی ہے ابوزید سے وہ روایت کرتے ہیں عبداللہ سے وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اور ابو زید محدثین کے نزدیک مجہول ہیں اس حدیث کے علاوہ ان کی کسی روایت کا ہمیں علم نہیں بعض اہل علم کے نزدیک نبیذ سے وضو کرنا جائز ہے جبکہ بعض اہل علم اسے ناجائز قرار دیتے ہیں جیسے امام شافعی اور اسحاق کہتے ہیں کہ اگر کسی شخص کے پاس پانی نہ ہو تو میرے نزدیک بہتر یہ ہے کہ نبیذ سے وضو کر کے پھر تیمم کرے ابو عیسیٰ کہتے ہیں کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ نبیذ سے وضو جائز ہے ان کا قول قرآن کے بہت مطابق ہے اس لئے کہ قرآن میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے (فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَیَمَّمُوا صَعِیدًا طَیِّبًا) یعنی جب تمہیں پانی نہ ملے پاک مٹی سے تیمم کرو۔

 

 

دودھ پی کر کلی کرنا

قتیبہ لیث، عقیل، زہری، عبید اللہ، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دودھ پیا پھر پانی منگوایا اور کلی کی اور فرمایا اس میں چکنائی ہوتی ہے اس باب میں سہل بن سعد اور ام سلمہ سے بھی روایات مذکور ہیں ابو عیسیٰ نے کہا ہے کہ دودھ پی کر کلی کرنا ضروری ہے اور ہمارے نزدیک یہ مستحب ہے اور بعض اہل علم کے نزدیک دودھ پی کر کلی کرنا ضروری نہیں۔

بغیر وضو سلام کو جواب دینا مکروہ ہے

نصر بن علی، محمد بن بشار، ابو احمد، سفیان، ضحاک بن عثمان، نافع، ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے سلام کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پیشاب کر رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے جواب نہیں دیا ابو عیسیٰ کہتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور ہمارے نزدیک سلام کرنا اور وقت مکروہ ہے جب وہ قضائے حاجت کے لئے بیٹھا ہوا ہو بعض اہل علم نے اس حدیث کے یہی معنی لئے ہیں اس باب میں یہ احسن حدیث ہے اور اس باب میں مہاجر بن قنفذ عبداللہ بن حنظلہ علقمہ بن فغوا جابر اور براء سے بھی روایت ہے۔

کتے کا جھوٹا

سوار بن عبداللہ عنبری، معتمر بن سلیمان، ایوب، محمد بن سیرین، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر کتا کسی برتن میں منہ ڈال دے تو اس برتن کو سات مرتبہ دھویا جائے پہلی یا آخری مرتبہ مٹی سے مل کر اور اگر بلی کسی برتن میں منہ ڈال دے تو اسے ایک مربتہ دھویا جائے ابو عیسیٰ کہتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور یہی کہتے ہیں شافعی احمد اور اسحاق اور یہ حدیث کئی سندوں سے ابو ہریرہ سے اسی طرح منقول ہے وہ اسے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں لیکن اس میں بھی بلی کے جوٹھے سے ایک مرتبہ دھونے کا ذکر نہیں اور اس باب میں عبداللہ بن مغفل سے بھی حدیث نقل کی گئی ہے۔

بلی کا جھوٹا

اسحاق بن موسیٰ انصاری، معن، مالک بن انس، اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ، حمیدہ، عبید بن رفاعہ، کبشہ، کعب بن مالک، ابن ابی قتادہ کے بیٹے کی منکوحہ کبشہ بنت کعب بن مالک سے روایت ہے کہ وہ کہتی ہیں کہ ابو قتادہ میرے پاس آئے میں نے ان کے لئے وضو کا پانی بھرا پس آئی ایک بلی آئی اور پانی پینے لگی ابو قتادہ نے برتن کو جھکا دیا یہاں تک کہ اس نے خوب پانی پی لیا کبشہ کہتی ہیں دیکھا مجھے ابو قتادہ نے اپنی طرف دیکھتے ہوئے تو کہا اے بھتیجی کیا تمہیں اس پر تعجب ہے ؟ میں نے کہا ہاں پھر انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ ناپاک نہیں ہے یہ تو تمہارے گرد پھرنے والی ہے الطَّوَّافِینَ فرمایا یا الطَّوَّافَاتِ راوی کا اس میں شک ہے اس باب میں عائشہ اور ابو ہریرہ سے بھی روایت ہے ابو عیسیٰ کہتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور یہی قول اکثر علماء کاہے صحابہ و تابعین سے اور شافعی احمد اور اسحاق کا ان سب کے نزدیک بلی کے جوٹھے میں کوئی حرج نہیں یہ اس باب کی احسن حدیث ہے امام مالک نے اسحاق بن عبداللہ بن ابو طلحہ سے منقول اسی حدیث کو بہت اچھا نقل کی ہے اور ان کے علاوہ کسی نے بھی اس حدیث کو مکمل روایت نہیں کیا۔

موزوں پر مسح کر نا

ہناد، وکیع، اعمش، ابراہیم، ہمام بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ جریر بن عبداللہ نے پیشاب کرنے کے بعد وضو کیا اور موزوں پر مسح کیا ان سے کہا گیا کہ آپ ایسا کرتے ہیں انہوں نے فرمایا میں ایسا کیوں نہ کروں جبکہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس طرح کرتے دیکھا ہے راوی کہتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت جریر کی حدیث کو اس لئے پسند کرتے تھے کہ وہ سورہ مائدہ نازل ہونے کے بعد اسلام لائے اس باب میں عمر علی حذیفہ مغیرہ بلال سعد ابو ایوب سلیمان بریدہ عمرو بن امیہ انس سہل بن سعد یعلی بن مرہ عبادہ بن صامت اسامہ بن شریک ابو امامہ جابر اور اسامہ بن زید سے بھی روایات منقول ہیں ابو عیسیٰ فرماتے ہیں حدیث جریر حسن صحیح ہے شہر بن حوشب کہتے ہیں میں نے جریر بن عبداللہ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا انہوں نے موزوں پر مسح کیا میں نے ان سے کہا اس بارے میں تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو فرمایا اور موزوں پر مسح کیا میں نے ان سے کہا کیا مائدہ کے نازل ہونے سے پہلے یا نازل ہونے کے بعد انہوں نے جواب دیا میں مائدہ کے نزول کے بعد ہی اسلام قبول کیا ہم سے اسے قتیبہ نے انہوں نے خالد بن زیاد ترمذی سے انہوں نے مقاتل بن حیان سے انہوں نے شہر بن حوشب سے انہوں نے جریر سے نقل کیا ہے جبکہ باقی حضرات نے اسے ابراہیم بن ادھم سے انہوں نے مقاتل بن حیان سے انہوں نے شہر بن حوشب سے اور انہوں نے جریر سے نقل کیا ہے اور یہ حدیث تفسیر ہے قرآن کی اس لئے کہ بعض لوگوں نے موزوں پر مسح کا انکار کیا ہے اور تاویل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا موزوں پر مسح کرنا سورہ مائدہ سے پہلے تھا اور ذکر کیا جریر نے اپنی روایت میں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو موزوں پر مسح کرتے ہوئے نزول مائدہ کے بعد دیکھا۔

مسافر اور مقیم کے لئے مسح کرنا

قتیبہ، ابو عوانہ، سعید بن مسروق، ابراہیم تیمی، عمرو بن میمون، ابی عبداللہ جدلی، خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے موزوں پر مسح کے متعلق پوچھا گیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مسافر کے لئے تین دن اور رات جبکہ مقیم کے لئے ایک دن رات کی مدت ہے ابو عبد اللہ جدلی کا نام عبد بن عبد ہے ابو عیسیٰ کہتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اس باب میں حضرت علی ابو بکرہ ابو ہریرہ صفوان بن عسال عوف بن مالک ابن عمر اور جریر (رضی اللہ عنہم) سے روایات منقول ہیں۔

٭٭ ہناد، ابو الاحوص، عاصم بن ابی نجود، زر بن حبیش، صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں حکم دیا کرتے تھے کہ اگر ہم سفر میں ہوں تو تین دن تین رات تک موزے نہ اتاریں مگر جنابت کے سبب سے اور نہ اتاریں ہم پیشاب پاخانہ یا نیند کے سبب سے ابو عیسیٰ فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور روایت کی حکم بن عتیبہ اور حماد نے ابراہیم نخعی سے انہوں نے ابو عبد اللہ جدلی سے انہوں نے خزیمہ بن ثابت سے یہ صحیح نہیں ہے علی بن مدینی یحیی کے واسطے سے شعبہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ ابراہیم نخعی نے مسح کی حدیث ابو عبد اللہ جدلی سے نہیں سنی زائدہ منصور سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم ابراہیم تیمی کے حجرے میں تھے ہمارے ساتھ ابراہیم نخعی بھی تھے ابراہیم تیمی نے ہم سے موزوں پر مسح کے بارے میں حدیث بیان کی وہ عمرو بن میمون سے وہ ابو عبد اللہ جدلی سے وہ خزیمہ بن ثابت سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہی حدیث نقل کرتے ہیں محمد بن اسماعیل بخاری فرماتے ہیں کہ اس باب میں صفوان بن عسال کی حدیث احسن ہے ابو عیسیٰ فرماتے ہیں یہی قول ہے صحابہ اور تابعین کا اور جو بعد اس کے تھے فقہاء کا جن میں سفیان ثوری ابن مبارک شافعی احمد اور اسحاق کہتے ہیں مقیم ایک دن ایک رات جبکہ مسافر تین دن اور تین رات تک مسح کر سکتا ہے بعض اہل علم کے نزدیک مسح کے لئے کوئی مدت متعین نہیں یہ قول مالک بن انس کاہے لیکن مدت کا تعین صحیح ہے۔

موزوں کے اوپر اور نیچے مسح کرنا

ابوولید دمشقی، ولید بن مسلم، ثور بن یزید، رجاء بن حیوۃ، مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے موزے کے اوپر اور نیچے مسح کیا ابو عیسیٰ فرماتے ہیں کہ کئی صحابہ اور تابعین کا قول ہے اور یہی کہتے ہیں مالک شافعی اور اسحاق اور یہ حدیث معلول ہے اسے ثور بن یزید سے ولید بن مسلم کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کیا اور پوچھا میں نے اس حدیث کے متعلق ابو زرعہ اور امام محمد بن اسماعیل بخاری سے ان دونوں نے جواب دیا یہ صحیح نہیں ہے اس لئے کہ ابن مبارک روایت کرتے ہیں ثور سے اور وہ روایت کرتے ہیں رجاء سے کہ رجاء نے کہا مجھے یہ حدیث حضرت مغیرہ کے کاتب سے پہنچی ہے اور یہ مرسل ہے کیونکہ انہوں نے مغیرہ کا ذکر نہیں کیا۔

موزوں کے اوپر مسح کرنا

علی بن حجر، عبدالرحمن بن ابی زناد، عروہ بن زبیر، مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو موزوں کے اوپر مسح کرتے ہوئے دیکھا ابو عیسیٰ فرماتے ہیں حدیث مغیرہ حسن ہے اسے عبدالرحمن بن ابو الزناد اپنے والد سے وہ عروہ سے اور وہ مغیرہ سے روایت کرتے ہیں اور ہم نہیں جانتے کسی کو کہ ذکر کی ہو عروہ کی روایت مغیرہ سے موزوں پر مسح کرنے کے بارے میں سوائے عبدالرحمن کے اور یہی قول کئی اہل علم اور سفیان ثوری اور احمد کاہے امام محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ مالک عبدالرحمن بن ابو زناد کو ضعیف سمجھتے تھے۔

جوربین اور نعلین پر مسح کرنے کے بارے میں

ہناد، محمود بن غیلان وکیع، سفیان، ابی قیس، ہذیل بن شرحبیل، مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو کیا اور جوربین اور نعلین پر مسح کیا ابو عیسیٰ فرماتے ہی کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور یہ اہل علم کا قول ہے اور اسی طرح کہا ہے سفیان ثوری ابن مبارک شافعی احمد اور اسحاق نے وہ کہتے ہیں کہ جوربین پر مسح کرنا جائز ہے اگرچہ ان پر چمڑا چڑھا ہوا نہ ہو بشرطیکہ وہ ثخینین ہوں اس باب میں ابو موسیٰ سے بھی روایت منقول ہے۔

٭٭ محمد بن بشار، یحیی بن سعید قطان، سلیمان تیمی، بکر بن عبداللہ مزنی، حسن، ابن مغیرہ بن شعبہ سے روایت ہے کہ اپنے والد سے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو کیا اور موزوں اور عمامہ پر مسح فرمایا بکر نے کہا میں نے ابن مغیرہ سے سنا اور ذکر کیا محمد بن بشار نے اس حدیث میں دوسری جگہ کہ مسح کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پیشانی اور عمامے پر یہ حدیث مغیرہ بن شعبہ سے کئی سندوں سے منقول ہے بعض اس میں پیشانی اور عمامے کا ذکر کرتے ہیں اور بعض پیشانی کا ذکر نہیں کرتے احمد بن حسن کہتے ہیں میں نے امام احمد بن حنبل سے سنا کہ میں نے یحیی بن سعید قطان جیسا شخص نہیں دیکھا اور اس باب میں عمرو بن امیہ سلمان ثوبان ابو امامہ سے بھی روایات منقول ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی کہتے ہیں حدیث مغیرہ بن شعبہ حسن صحیح ہے اور یہ کئی اہل علم کا قول ہے جن میں صحابہ بھی شامل ہیں یہ اوزاعی امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق کا بھی قول ہے ان سب کے نزدیک عمامہ پر مسح کرنا جائز ہے۔

٭٭ قتیبہ بن سعید، بشر بن مغفل عبدالرحمن بن اسحاق، ابی عبیدہ بن محمد بن عمار بن یاسر، جابر بن عبد اللہ، روایت کی ہم سے قتیبہ بن سعید نے ان سے بشر بن مغفل نے ان سے عبدالرحمن بن اسحاق نے ان سے عبیدہ بن محمد بن عمار بن یاسر روایت کرتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ سے موزوں پر مسح کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیا اے بھیجتے یہ سنت ہے پھر میں نے عمامہ پر مسح کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا بالوں کو چھونا ضروری ہے اکثر اہل علم جن میں صحابہ و تابعین شامل ہیں کے نزدیک عمامہ پر مسح کے ساتھ سر کا بھی مسح کیا جائے اور یہی قول ہے سفیان ثوری مالک بن انس ابن مبارک اور شافعی کا۔

٭٭ ہناد، علی بن مسہر، اعمش، حکم، عبدالرحمن، بن ابی لیلی، کعب بن عجرہ، بلال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے موزوں اور عمامہ پر مسح فرمایا۔

غسل جنابت کے بارے میں

ہناد، وکیع، اعمش، سالم بن ابی جعد، کریب، ابن عباس رضی اللہ عنہ اپنی خالہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے غسل کے لئے پانی رکھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غسل جنابت کیا اور برتن کو بائیں ہاتھ میں پکڑا کر دائیں ہاتھ پر پانی ڈالا اور دونوں ہاتھ دھوئے پھر ہاتھ پانی میں ڈالا اور ستر پر پانی بہایا پھر اپنے ہاتھ کو دیوار یا زمین پر ملا پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور منہ اور دونوں ہاتھ دھوئے اور تین بار سر پر پانی بہایا پھر سارے جسم پر پانی بہایا پھر اس جگہ سے ہٹ کر پاؤں دھوئے ابو عیسیٰ فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اس باب میں ام سلمہ جابر ابو سعید جبیر بن مطعم اور ابو ہریرہ سے بھی روایات منقول ہیں۔

٭٭ ابن عمر، سفیان، ہشام بن عروہ، عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب غسل جنابت کا ارادہ فرماتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو برتن میں ڈالنے سے پہلے دھو لیتے پھر استنجاء کرتے اور وضو کرتے جس طرح نماز کے لئے وضو کیا جاتا ہے پھر سر کے بالوں پر پانی ڈالتے اور پھر اپنے دونوں ہاتھوں سے سر پر تین مرتبہ پانی ڈالتے ابو عیسیٰ فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اس کو اہل علم نے اختیار کیا ہے کہ غسل جنابت میں پہلے وضو کرے جس طرح نماز کے لئے وضو کیا جاتا ہے پھر تین مرتبہ سر پر پانی بہائے پھر پورے بدن پر پانی بہائے پھر پاؤں دھوئے اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر کسی نے وضو نہیں کیا اور پورے بدن پر پانی بہایا تو غسل ہو گیا یہی قول ہے شافعی احمد اسحاق کا۔

٭٭ ابن ابی عمر، سفیان، ایوب بن موسی، مقبری، عبداللہ بن رافع، ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں ایسی عورت ہوں کہ مضبوط باندھتی ہوں اپنے سر کی چوٹی کیا میں غسل جنابت کے لئے اسے کھولا کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں تین مرتبہ سر پر پانی ڈال لینا تیرے لئے کافی ہے پھر سارے بدن پر پانی بہاؤ پھر تم پاک ہو جاؤ گی یا فرمایا اب تم پاک ہو گئی امام ابو عیسیٰ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اس پر اہل علم کا عمل ہے کہ اگر عورت غسل جنابت کرے تو سر پر پانی بہا دینا کافی ہے اور بالوں کو کھولنا ضروری نہیں۔

ہر بال کے نیچے جنابت ہوتی ہے

نصر بن علی، حارث بن وجیہ، مالک بن دینار، محمد بن شیرین، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہر بال کے نیچے جنابت ہوتی ہے لہذا بالوں کو دھوؤ اور جسم کو صاف کرو اس باب میں حضرت علی اور انس سے بھی روایت ہے ابو عیسیٰ نے فرمایا حارث بن وجیہ کی حدیث غریب ہے ہم اسے ان کی روایت کے علاوہ نہیں جانتے اور حارث قوی نہیں ان سے کئی آئمہ روایت کرتے ہیں اور انہوں نے یہ حدیث روایت کی ہے مالک بن دینار سے ان کو حارث بن وجیہ اور کبھی ابن وجیہ بھی کہتے ہیں۔

غسل کے بعد وضو کے بارے میں

اسماعیل بن موسی، شریک، ابو اسحاق ، اسود، عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غسل کے بعد وضو نہیں کرتے تھے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں اکثر صحابہ و تابعین کا یہی قول ہے کہ غسل کے بعد وضو نہ کرے۔

جب دو شرمگاہیں آپس میں مل جائیں تو غسل واجب ہوتا ہے

ابوموسی، محمد بن مثنی، ولید بن مسلم، اوزاعی، عبدالرحمن بن قاسم، عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اگر دو شرم گاہیں آپس میں مل جائیں تو غسل واجب ہو جاتا ہے میں نے اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ فعل کیا اس کے بعد ہم دونوں نے غسل کیا اور اس باب میں حضرت ابو ہریرہ عبداللہ بن عمر اور رافع بن خدیج سے بھی روایات منقول ہیں۔

٭٭ ہناد، وکیع، سفیان، علی بن زید، سعید بن مسیب، عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب ختنے کی جگہ تجاوز کر جائے ختنے کی جگہ سے تو غسل واجب ہو جاتا ہے ابو عیسیٰ کہتے ہیں حدیث عائشہ حسن صحیح ہے اور حضرت عائشہ کے واسطے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کئی طرق سے منقول ہے کہ اگر ختنے کی جگہ ختنے کی جگہ سے تجاوز کر جائے غسل واجب ہو جاتا ہے اور صحابہ کرام جن میں حضرت ابو بکر حضرت عمر حضرت عثمان حضرت علی اور عائشہ شامل ہیں کا یہی قول ہے اور فقہاء و تابعین اور ان کے بعد کے علماء سفیان ثوری احمد اور اسحاق کا قول ہے کہ جب دو شرمگاہیں آپس میں مل جائیں تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔

اس بارے میں کہ منی نکلنے سے غسل فرض ہوتا ہے

احمد بن منیع، عبداللہ بن مبارک، یونس بن یزید، زہری، سہل بن سعد، ابی بن کعب روایت ہے کہ ابتدائے اسلام میں غسل اسی وقت فرض ہوتا تھا جب منی نکلے یہ رخصت کے طور پر تھا پھر اس سے منع کر دیا گیا احمد بن منیع ابن مبارک سے وہ معمر سے اور وہ زہری سے اسی اسناد سے اسی حدیث کی مثل روایت نقل کرتے ہیں ابو عیسیٰ کہتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور غسل کے واجب ہونے کے لئے انزال کا ہونا ضروری تھا ابتدائے اسلام میں پھر منسوخ ہو گیا اسی طرح کئی صحابہ نے روایت کی جن میں ابی بن کعب اور رافع بن خدیج بھی شامل ہیں اکثر اہل علم کا اس پر عمل ہے کہ اگر کوئی آدمی اپنی بیوی سے جماع کرے تو دونوں پر غسل واجب ہو جائے گا اگرچہ انزال نہ ہو۔

٭٭ علی بن حجر، شریک، ابی حجاف، عکرمہ، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ احتلام میں منی نکلنے سے غسل واجب ہو جاتا ہے ابو عیسیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے سنا جا رود سے انہوں نے سنا وکیع سے وہ کہتے تھے کہ ہم نے یہ حدیث شریک کے علاوہ کسی کے پاس نہیں پائی اس باب میں عثمان بن عفان علی بن ابی طالب زبیر طلحہ ابو ایوب اور ابو سعید بھی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خروج منی سے غسل واجب ہوتا ہے اور ابو الجحاف کا نام داؤد بن ابو عوف ہے سفیان ثوری سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہمیں ابو الجحاف نے خبر دی اور وہ پسندیدہ آدمی تھے۔

آدمی نیند سے بیداد ہو اور وہ اپنے کپڑوں میں تری دیکھے اور احتلام کا خیال نہ ہو تو

احمد بن منیع، حماد بن خالد خیاط، عبداللہ بن عمر، عبید اللہ بن عمر، عمر، قاسم بن محمد، عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس آدمی کے متعلق پوچھا گیا جو نیند سے بیدار ہو اور وہ اپنے کپڑے گیلے پائے لیکن اسے احتلام یاد نہ ہو تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا غسل کرے پوچھا گیا اس آدمی کے متعلق جسے احتلام تو یاد ہو لیکن اس نے اپنے کپڑوں میں تری نہیں پائی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس پر غسل نہیں ام سلمہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اگر عورت ایسا دیکھے تو کیا وہ بھی غسل کرے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں عورتیں مردوں ہی کی طرح ہیں ابو عیسیٰ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث عبداللہ بن عمر نے عبید اللہ بن عمر سے روایت کی ہے کہ جب ایک آدمی کپڑوں میں تری پائے اور احتلام یاد نہ ہو اور یحیی بن سعید نے عبداللہ کو حفظ حدیث کے سلسلہ میں ضعیف قرار دیا ہے اور یہ صحابہ اور تابعین میں سے اکثر علماء کا قول ہے کہ جب آدمی نیند سے بیدار ہو اور کپڑوں میں تری پائے تو غسل کرے یہی قول ہے احمد اور سفیان ثوری کا تابعین میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ غسل اس صورت میں واجب ہوتا ہے جب تری منی کی ہو اور یہی قول ہے امام شافعی اور اسحاق کا اگر احتلام تو یاد ہے لیکن کپڑوں پر تری نہ پائے تو تمام اہل علم کے نزدیک غسل کرنا واجب نہیں ہے۔

منی اور مذی کے بارے میں

محمد بن عمر سواق بلخی، ہشیم، یزید بن ابی زیاد، محمود بن غیلان، حسین جعفی، زائدہ، یزید بن ابی زیاد، عبدالرحمن بن ابی لیلی، علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے سوال کیا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مذی کے بارے میں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مذی سے وضو اور منی سے غسل واجب ہوتا ہے اس باب میں مقداد بن اسود اور ابی بن کعب سے بھی روایات منقول ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی کہتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے مذی سے وضو اور منی سے غسل کا واجب ہونا حضرت علی کے واسطے سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کئی سندوں سے مروی ہے اور یہی صحابہ و تابعین میں سے اکثر اہل علم کا قول ہے امام شافعی امام احمد اور امام اسحاق کا بھی یہی قول ہے۔

مذی کپڑے پر لگ جائے

ہناد، عبدہ، محمد بن اسحاق، سعید بن عبید، ابن سباق، سہل بن حنیف سے روایت ہے کہ مجھے مذی سے سختی اور تکلیف پہنچتی تھی اس لئے میں بار بار غسل کرتا تھا پس میں نے اس کا ذکر رسول الہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کیا اور اس کا حکم پوچھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس سے وضو کرنا ہی کافی ہے میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اگر وہ کپڑوں پر لگ جائے تو کیا حکم ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پانی کا ایک چلو لے کر اس جگہ چھڑک دو جہاں پر وہ لگی ہو ابو عیسیٰ فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور ہمیں علم نہیں کہ محمد بن اسحاق کے علاوہ بھی اس طرح کی کوئی حدیث کسی نے روایت کی ہو اور اختلاف کیا ہے اہل علم نے مذی کے بارے میں کہ اگر مذی کپڑوں کو لگ جائے تو بعض اہل علم کے نزدیک اس کا دھونا ضروری ہے یہی قول امام شافعی اور اسحاق کاہے اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اس پر پانی کے چھینٹے مار دینا ہی کافی ہے اور امام احمد فرماتے ہیں کہ مجھے امید ہے کہ پانی چھڑکنا ہی کافی ہو گا۔

منی جب کپڑے پر لگ جائے

ہناد، ابو معاویہ، اعمش، ابراہیم، ہمام بن حارث سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک مہمان آیا آپ نے اسے زرد چادر دینے کا حکم دیا پھر وہ سویا اور اسے احتلام ہو گیا اس نے شرم محسوس کی کہ چادر کو ان کے پاس بھیجے کہ اس میں منی لگی ہو اس نے چادر کو پانی میں ڈبو دیا اور پھر بھیج دیا پس فرمایا حضرت عائشہ نے ہماری چادر کیوں خراب کر دی اس کے لئے کافی تھا کہ اپنی انگلیوں سے اسے کھرچ دیتا میں نے اکثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کپڑوں سے اپنی انگلیوں سے منی کھرچی ہے ابو عیسیٰ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور یہ کئی فقہاء جن میں سفیان ثوری احمد اور اسحاق شامل ہیں کا قول ہے کہ جب منی کپڑے کو لگ جائے تو کھرچ دینا کافی ہے دھونا ضروری نہیں اور ایسا ہی روایت کیا ہے منصور نے ابراہیم سے انہوں نے ہمام بن حارث سے انہوں نے حضرت عائشہ سے اعمش کی روایت کی مثل جو ابھی گزری ہے اور ابو معشر سے مروی ہے یہ حدیث وہ روایت کرتے ہیں ابراہیم سے وہ اسود سے وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اور اعمش کی حدیث زیادہ صحیح ہے۔

٭٭ احمد بن منیع، ابو معاویہ، عمرو بن میمون بن مہران، سلیمان بن یسار، عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کپڑوں سے منی کو دھویا ابو عیسیٰ کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور حضرت عائشہ کی روایت کردہ یہ حدیث کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کپڑوں سے منی دھوئی اس حدیث کے مخالف نہیں ہے جس میں کھرچنے کا ذکر ہے اگرچہ کھرچنا بھی کافی ہے لیکن مستحب یہ ہے کہ کپڑے پر منی کا اثر نہ ہو حضرت ابن عباس فرماتے ہیں منی ناک کی ریزش کی طرح ہے اسے اپنے کپڑے سے دور کر دے اگرچہ اذخر گھاس سے ہو۔

جنبی کا بغیر غسل کئے سونا

ہناد، ابو بکر بن عیاش، اعمش، ابی اسحاق اسود، عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سو جایا کرتے تھے حالت جنب میں اور پانی کو ہاتھ بھی نہ لگاتے تھے ، ہناد، وکیع، سفیان، ابو اسحاق، ابو عیسیٰ سعید بن مسیب، اسود، عائشہ، نے روایت کی ہم سے انہوں نے وکیع سے انہوں نے سفیان سے انہوں نے ابی اسحاق سے اوپر کی روایت کی مثل ابو عیسیٰ فرماتے ہیں یہ قول سعید بن مسیب وغیرہ کاہے اور اکثر لوگوں سے مروی ہے وہ اسود کے واسطے سے حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سونے سے پہلے وضو کیا کرتے تھے اور یہ حدیث زیادہ صحیح ہے ابواسحاق کی حدیث سے جو انہوں نے اسود سے روایت کی ہے اور یہ حدیث ابو اسحاق سے شعبہ سفیان ثوری اور کئی حضرات نے روایت کی ہے ان کے نزدیک ابو اسحاق کی حدیث سے روایت میں غلطی ہوئی ہے۔

جنبی سونے کا ارادہ کرے تو وضو کرے

محمد بن مثنی یحیی بن سعید، عبید اللہ بن عمر، نافع، ابن عمر، عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کیا کہ کیا ہم میں سے کوئی جنبیہ ہوتے ہوئے سو سکتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں اگر وضو کر لے اس باب میں حضرت عمار عائشہ جابر ابو سعید اور ام سلمہ سے بھی احادیث مذکور ہیں امام ابو عیسیٰ فرماتے ہیں اس باب میں حضرت عمر کی حدیث اصح اور احسن ہے اور اکثر صحابہ تابعین سفیان ثوری ابن مبارک شافعی احمد اسحاق کا بھی یہی قول ہے کہ جنبی آدمی جب سونے کا ارادہ کرے تو سونے سے پہلے وضو کر لے۔

جنبی سے مصافحہ

اسحاق بن مصنور، یحیی بن سعید قطان، حمید، بکر بن عبداللہ مزنی، ابی رافع، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے ملاقات کی اور وہ جنبی تھے ابو ہریرہ کہتے ہیں میں آنکھ بچا کر نکل گیا پھر غسل کیا اور آیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو کہاں تھا یا فرمایا تم کہاں چلے گئے تھے ؟ میں نے عرض کیا میں جنبی تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مومن کبھی ناپاک نہیں ہوتا ابو عیسیٰ فرماتے ہیں حدیث ابو ہریرہ حسن صحیح ہے اور کئی اہل علم جنبی سے مصافحہ کرنے کی اجازت دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جنبی اور حائضہ کے پسینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔

عورت جو خواب میں مرد کی طرح دیکھے

ابن ابی عمر، سفیان بن عیینہ، ہشام بن عروہ، زینب بنت ابی، سلمہ، ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام سلمہ بنت ملحان نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ تعالی حق سے نہیں شرماتا کیا عورت پر بھی غسل ہے جب وہ خواب میں وہ چیز دیکھے جسے مرد دیکھتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں اگر وہ منی کو دیکھے تو غسل کرے حضرت ام سلمہ کہتی ہیں میں نے کہا اے ام سلیم تم نے عورتوں کو رسوا کر دیا ابو عیسیٰ فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اکثر فقہاء کا یہی قول ہے کہ اگر عورت خواب میں اسی طرح دیکھے جیسے مرد دیکھتا ہے اور منی خارج ہو جائے تو اس پر غسل واجب ہے اور یہی کہتے ہیں سفیان ثوری اور امام شافعی اس باب میں ام سلیم خولہ عائشہ اور انس سے بھی روایات منقول ہیں۔

مرد کا غسل کے بعد عورت کے جسم سے گرمی حاصل کرنا

ہناد، وکیع، حریث، شعبی، مسروق، عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اکثر غسل جنابت کے بعد میرے پاس تشریف لاتے اور میرے جسم سے گرمی حاصل کرتے تو میں ان کو اپنے ساتھ چمٹا لیتی حالانکہ میں نے غسل نہیں کیا ہوتا تھا امام ابو عیسیٰ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی سند میں کوئی مضائقہ نہیں اور یہی کئی صحابہ اور تابعین کا قول ہے کہ مرد جب غسل کرے تو بیوی کے بدن سے گرمی حاصل کرنے اور اس کے ساتھ سونے میں کوئی حرج نہیں ہے اگرچہ اسکی بیوی نے غسل نہ کیا ہو امام شافعی سفیان ثوری احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے۔

پانی نہ ملنے کی صورت میں جنبی تیمم کرے

محمد بن بشار، محمود بن غیلان، ابو احمد، زبیری، سفیان، خالد حذاء، ابو قلابہ، عمرو بن بجدان، ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ پاک مٹی مسلمان کا طہور ہے اگرچہ نہ ملے پانی دس سال تک پھر اگر پانی مل جائے تو اسے اپنے جسم سے لگائے کیونکہ یہ اس کے لئے بہتر ہے محمود نے اپنی روایت میں (إِنَّ الصَّعِیدَ الطَّیِّبَ طَہُورُ الْمُسْلِمِ) کے الفاظ بیان کئے ہیں اس باب میں روایات مذکور ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کئی راویوں نے اسے خالد حذاء انہوں نے ابو قلابہ انہوں نے عمرو بن بجدان اور انہوں نے ابو ذر سے اسی طرح بیان کیا ہے یہ حدیث ایوب نے ابو قلابہ انہوں نے بنی عامر کے ایک شخص اور انہوں نے ابو ذر سے نقل کی ہے اور اس شخص کا نام نہیں لیا اور یہ حدیث حسن صحیح ہے تمام فقہاء کا یہی قول ہے کہ اگر جنبی اور حائضہ کو پانی نہ ملے تو تیمم کر لیں اور نماز پڑھیں ابن مسعود جنبی کے لئے تیمم کو جائز نہیں سمجھتے اگرچہ پانی نہ ملتا ہو ان سے یہ بھی روایت ہے کہ انہوں نے اس قول سے رجوع کر لیا اور فرمایا کہ اگر پانی نہ ملے تو تیمم کر لے اور یہی قول ہے سفیان ثوری مالک شافعی احمد اور اسحاق کا۔

 

 

مستحاضہ کے بارے میں

ہناد، وکیع، عبدہ، ابو معاویہ، ہشام بن عروہ، عائشہ سے روایت ہے کہ فاطمہ بنت حبیش نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں ایسی عورت ہوں کہ جب استحاضہ آتا ہے تو پاک نہیں ہوتی کیا میں نماز چھوڑ دوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں یہ رگ ہوتی ہے حیض نہیں ہوتا جب حیض کے دن آئیں تو نماز چھوڑ دو اور جب دن پورے ہو جائیں تو خون دھو لو اور نماز پڑھو ابو معاویہ اپنی حدیث میں کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہر نماز کے لئے وضو کرو یہاں تک کہ وہی وقت آ جائے اس باب میں حضرت ام سلمہ سے بھی حدیث مروی ہے امام ابو عیسیٰ فرماتے ہیں کہ حدیث عائشہ حسن صحیح ہے اور یہ قول ہے کئی صحابہ اور تابعین اور سفیان ثوری مالک ابن مبارک اور شافعی کا کہ جب مستحاضہ کے حیض کے دن گزر جائیں تو غسل کر لے اور ہر نماز کے لئے وضو کرے۔

مستحاضہ ہر نماز کے لئے وضو کرے

قتیبہ، شریک، ابی یقظان، عدی بن ثابت، بواسطہ اپنے والد اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مستحاضہ کے بارے میں فرمایا کہ وہ ایام حیض میں نماز کو چھوڑ دے پھر غسل کرے اور ہر نماز کے لئے وضو کرے اور روزے رکھے اور نماز پڑھے۔

٭٭ علی بن حجر، شریک، شریک اس کے ہم معنی حدیث نقل کرتے ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی نے فرمایا اس حدیث میں شریک ابو یقظان سے حدیث بیان کرنے میں منفرد ہیں میں نے سوال کیا محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے متعلق اور میں نے کہا کہ عدی بن ثابت اپنے والد سے اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں عدی کے دادا کا کیا نام ہے اور نہیں جانتے تھے امام بخاری اس کا نام پھر میں نے یحیی بن معین کا قول ذکر کیا کہ ان کا نام دینار تھا تو امام بخاری نے اس کو قابل اعتماد نہیں سمجھا اور کہا ہے احمد اور اسحاق نے استحاضہ کے بارے میں کہ اگر ہر نماز کے لئے غسل کر لے تو یہ احتیاطا بہت اچھا ہے اور اگر صرف وضو کر لے تو بھی کافی ہے اور اگر ایک غسل سے دو نمازیں پڑھ لے تب بھی کافی ہے۔

مستحاضہ ایک غسل سے دو نمازیں پڑھ لیا کرے

محمد بن بشار، ابو عامر قعدی، زہیر بن محمد، عبداللہ بن محمد بن عقیل، ابراہیم بن محمد بن طلحہ، عمران بن طلحہ سے وہ اپنی والدہ حمنہ بنت حجش سے روایت کرتے ہیں کہ میں مستحاضہ ہوتی تھی اور خون استحاضہ بہت شدت اور زور سے آتا تھا میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے فتوی پوچھنے کے لئے اور خبر دینے کے لئے آئی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو میں نے اپنی بہن زینب بن جحش کے گھر میں پایا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھے استحاضہ بہت شدت کے ساتھ آتا ہے میرے لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا کیا حکم ہے پس تحقیق اس نے مجھے نماز اور روزہ سے روک دیا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نے تمہیں کرسف رکھنے کا طریقہ بتایا ہے یہ خون کو روکتی ہے وہ کہنے لگیں وہ اس سے زیادہ ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا لنگوٹ باندھ لو انہوں نے کہا وہ اس سے بھی زیادہ ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا لنگوٹ میں کپڑا رکھ لو انہوں نے عرض کیا وہ تو اس سے بھی زیادہ ہے میں تو بہت خون بہاتی ہوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں تمہیں دو چیزوں کا حکم دیتا ہوں ان میں سے کسی ایک پر چلنا کافی ہے اور اگر دونوں کو کر سکو تو تم بہتر جانتی ہو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ شیطان کی طرف سے ایک ٹھوکر ہے پس چھ یا سات دن اپنے آپ کو حائضہ سمجھو علم الہی میں اور پھر غسل کر لو پھر جب دیکھو کہ پاک ہو گئی ہو تو تئیس یا چوبیس دن رات تک نماز پڑھو اور روزے رکھو یہ تمہارے لئے کافی ہے پھر اسی طرح کرتی رہو جیسے حیض والی عورتیں کرتی ہیں اور حیض کی مدت گزار کر طہر پر پاک ہوتی ہیں اور اگر تم ظہر کو مؤخر اور عصر کو جلدی سے پڑھ سکو تو غسل کر کے دونوں نمازیں پاک ہو کر پڑھو پھر مغرب میں تاخیر اور عشاء میں تعجیل کرو اور پاک ہونے پر غسل کرو اور دونوں نمازیں اکٹھی پڑھ لو پس اس طرح فجر کے لئے بھی غسل کرو اور نماز پڑھو اور اسی طرح کرتی رہو اور روزے بھی رکھو بشرطیکہ تم اس پر قادر ہو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ان دونوں باتوں میں سے یہ مجھے زیادہ پسند ہے ابو عیسیٰ فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اسے عبید اللہ بن عمرو الرقی ابن جریج اور شریک نے عبداللہ بن محمد عقیل سے انہوں نے ابراہیم بن محمد بن طلحہ سے انہوں نے اپنے چچا عمران سے اور انہوں نے اپنی والدہ حمنہ سے روایت کیا ہے جبکہ ابن جریج انہیں عمر بن طلحہ کہتے ہیں اور صحیح عمران بن طلحہ ہی ہے میں نے سوال کیا محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں تو انہوں نے کہا یہ حدیث حسن ہے احمد بن حنبل نے بھی اسے حسن کہا ہے احمد اور اسحاق نے مستحاضہ کے متعلق کہا ہے کہ اگر وہ جانتی ہو اپنے حیض کی ابتداء اور انتہا تو اس کا حکم فاطمہ بن حبیش کی حدیث کے مطابق ہو گا اور اگر ایسی مستحاضہ ہے جس کے حیض کے دن معروف ہیں تو وہ اپنے مخصوص ایام میں نماز چھوڑ دے اور پھر غسل کرے اور ہر نماز کے لئے وضو کرے اور نماز پڑھے اور اگر خون مستقل جاری ہو اور اس کے ایام پہلے سے معروف نہ ہوں اور نہ ہی وہ خون کی رنگت سے فرق کر سکتی ہو تو اس کا حکم بھی حمنہ بنت حجش کی حدیث کے مطابق ہو گا امام شافعی فرماتے ہیں کہ جب مستحاضہ کو ہمیشہ خون آنے لگے تو خون کے شروع ہی میں پندرہ دن کی نماز ترک کر دے اگر پندرہ دن یا اس سے پہلے پاک ہو گئی تو وہی اس کے حیض کی مدت ہے اگر خون پندرہ دن سے آگے بڑھ جائے تو چودہ دن کی نماز قضا کرے اور ایک دن کی نماز چھوڑ دے کیونکہ حیض کی کم سے کم مدت یہی ہے ابو عیسیٰ فرماتے ہیں کہ حیض کی کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ مدت میں اختلاف ہے بعض اہل علم کے نزدیک کم سے کم مدت تین دن جبکہ زیادہ سے زیادہ مدت دس دن ہے یہ قول سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا بھی ہے ابن مبارک کا بھی اسی پر عمل ہے جبکہ ان سے اس کے خلاف بھی منقول ہے بعض اہل علم جن میں عطاء بن رباح بھی ہیں کہتے ہیں کہ کم سے کم مدت حیض ایک دن رات اور زیادہ سے زیادہ پندرہ دن ہے یہی قول ہے امام مالک شافعی احمد اسحاق اوزاعی اور ابو عبیدہ کا۔

٭٭ قتیبہ, ابن شہاب، ابن عروہ، عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام حبیبہ بنت جحش رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا کہ مجھے حیض آتا ہے اور پھر میں پاک نہیں ہوتی کیا میں نماز چھوڑ دیا کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں یہ تو ایک رگ ہے تم غسل کرو اور نماز پڑھو پھر وہ ہر نماز کے لئے نہایا کرتی تھیں قتیبہ کہتے ہیں کہ لیث نے کہا ابن شہاب نے اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ام حبیبہ کو ہر نماز کے وقت غسل کرنے کا حکم دیا بلکہ یہ ان کی اپنی طرف سے تھا امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث زہری نے عمرو سے اور وہ حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں کہ ام حبیبہ نے پوچھا آخر حدیث تک بعض اہل علم کا قول ہے کہ مستحاضہ ہر نماز کے لئے غسل کر لیا کرے اور اوزاعی نے بھی یہ حدیث زہری سے انہوں نے عروہ سے اور عمرہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے۔

حائضہ عورت نمازوں کی قضا نہ کرے

قتیبہ، حماد بن زید، ایوب، ابو قلابہ، معاذہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے حضرت عائشہ سے سوال کیا کہ کیا ہم ایام حیض کے دنوں کی نمازیں قضا کیا کریں ؟ انہوں نے فرمایا کیا تم حروریہ ہو؟ ہم میں سے کسی کو حیض آتا تو اسے قضاء کا حکم نہیں ہوتا تھا امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور حضرت عائشہ سے کئی سندوں سے منقول ہے کہ حائضہ نماز کی قضاء نہ کرے اور یہی قول ہے تمام فقہاء کا اس میں کسی کا اختلاف نہیں کہ حائضہ عورت پر روزوں کی قضاء ہے نمازوں کی قضاء نہیں۔

جنبی اور حائضہ قرآن نہ پڑھے

علی بن حجر، حسن بن عرفہ، اسماعیل بن عیاش، موسیٰ بن عقبہ، نافع، ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا حائضہ اور جنبی قرآن میں سے کچھ نہ پڑھیں اس باب میں حضرت علی سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں ہم ابن عمر کی حدیث کو اسماعیل بن عباس مویس بن عقبہ اور نافع کے واسطے سے پہچانتے ہیں جس میں حضرت ابن عمر بیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جنبی اور حائضہ قرآن نہ پڑھیں اور یہی قول ہے اکثر صحابہ اور تابعین اور بعد کے فقہاء سفیان ثوری ابن مبارک امام شافعی احمد اور اسحاق کا وہ کہتے ہیں کہ حائضہ اور جنبی قرآن سے نہ پڑھیں مگر ایک آیت کا ٹکڑا یا حرف وغیرہ اور رخصت دی جنبی اور حائضہ کو سُبْحَانَ اللَّہِ اور لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ پڑھنے کی امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ اسماعیل بن عیاش اہل حجاز اور اہل عراق سے منکر احادیث روایت کرتا ہے گویا کہ امام بخاری نے اسماعیل بن عیاش کی ان روایات کو جو انہوں نے اکیلے اہل عراق اور اہل حجاز سے روایت کی ہیں ضعیف قرار دیا ہے اور امام بخاری نے کہا کہ اسعمیل بن عیاش کی وہی روایات صحیح ہیں جو انہوں نے اہل شام سے روایت کی ہیں امام احمد بن حنبل نے فرمایا اسماعیل بن عیاش بقیہ سے بہتر ہے بقیہ ثقہ راویوں سے منکر حدیث روایت کرتا ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی نے فرمایا کہ احمد بن حنبل کا یہ قول مجھ سے احمد بن حسن نے بیان کیا۔

حائضہ عورت سے مباشرت

بندار، عبدالرحمن بن مہدی، سفیان، منصور، ابراہیم، اسود، عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب میں حائضہ ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھے تہبند باندھنے کا حکم دیتے اور پھر بوس و کنار کرتے میرے ساتھ اس باب میں ام سلمہ اور میمونہ سے بھی روایات منقول ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث عائشہ حسن صحیح ہے اور اکثر صحابہ و تابعین کا یہی قول ہے اور امام شافعی امام احمد اور امام اسحاق بھی یہی کہتے ہیں۔

جنبی اور حائضہ کے ساتھ کھانا اور ان کے جھوٹا

عباس عنبری، محمد بن عبدالاعلی عبدالرحمن، بن مہدی، معاویہ بن صالح، علاءبن حارث، حرام بن معاویہ، عبداللہ بن سعد فرماتے ہیں میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے حائضہ کے ساتھ کھانا کھانے کے بارے میں سوال کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کے ساتھ کھانا کھا لیا کرو اس باب میں حضرت عائشہ اور حضرت انس سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث عبداللہ بن سعد حسن غریب ہے اور یہ تمام علماء کا قول ہے کہ حائضہ کے ساتھ کھانے پینے میں کوئی حرج نہیں جبکہ اس کے وجود سے بچے ہوئے پانی میں اختلاف ہے بعض کے نزدیک اس کی اجازت ہے اور بعض اسے مکروہ کہتے ہیں۔

حائضہ کوئی چیز مسجد سے لے سکتی ہے

قتیبہ، عبیدہ بن حمید، اعمش، ثابت بن عبید، قاسم بن محمد، عائشہ فرمایا مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسجد سے بوریا لانے کا حکم دیا کہتی ہیں میں نے کہا میں حائضہ ہوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہارا حیض تمہارے ہاتھ میں تو نہیں اس باب میں ابن عمر اور ابو ہریرہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث عائشہ حسن صحیح ہے اور یہی قول ہے تمام اہل علم کا ہمیں اس میں اختلاف کا علم نہیں کہ حائضہ کے مسجد میں سے کوئی چیز لینے میں کوئی حرج نہیں۔

حائضہ سے صحبت کی حرمت

بندار، یحیی بن سعید، عبدالرحمن بن مہدی، بہز بن اسد، حماد بن سلمہ، حکیم اثرم، ابی تمیمہ ہجیمی، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے صحبت کی حائضہ سے یا وہ عورت کے پیچھے سے آیا یا کسی کاہن کے پاس گیا پس تحقیق اس نے انکار کیا اس کا جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہوا امام ابو عیسیٰ فرماتے ہیں ہم اس حدیث کو حکیم الاثرم کی روایت کے علاوہ نہیں جانتے جو انہوں نے ابو تمیمہ الھجیمی  سے اور انہوں نے ابو ہریرہ سے روایت کی ہے اس حدیث کا معنی اہل علم کے نزدیک سختی اور وعید کے ساتھ جماع کرے وہ ایک دینار صدقہ کرے اگر یہ کفر ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کفارے کا حکم نہ دیتے امام محمد بن اسماعیل بخاری نے اس حدیث کو سند کی رو سے ضعیف قرار دیا ہے اور ابو تمیمہ الھجیمی کا نام ظریف بن مجاہد ہے۔

حائضہ سے صحبت کا کفارہ

علی بن حجر، شریک، خصیف، مقسم، ابن عباس سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس شخص کے بارے میں جو اپنی بیوی سے ایام حیض میں جماع کر لے فرمایا آدھا دینار صدقہ کرے۔

٭٭ حسین بن حریث، فضل بن موسی، ابی حمزہ سکری، عبدالکریم، مقسم، ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر خون سرخ رنگ کا ہو تو ایک اور اگر زرد رنگ کا ہو تو نصف دینار صدقہ کرے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ کفارے کی حدیث حضرت ابن عباس سے مرفوع و موقوف دونوں طرح مروی ہے اور یہ قول ہے بعض اہل علم کا اور امام احمد اور امام اسحاق کا بھی یہی قول ہے ابن مبارک کہتے ہیں کہ استغفار کرے اس پر کفارہ نہیں بعض تابعین جیسے سعید بن جبیر اور ابراہیم سے بھی ابن مبارک کے قول کی طرح منقول ہے۔

کپڑے سے حیض کا خون دھونے کے بارے میں

ابن ابی عمر، سفیان، ہشام بن عروہ، فاطمہ بنت منذر، اسماء بنت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت نے اس کپڑے کے بارے میں جسے میں حیض کا خون لگ گیا ہو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اسے کھرچو پھر انگلیوں سے رگڑ کر پانی بہا دو اور اسی کپڑے میں نماز پڑھو اس باب میں حضرت ابو ہریرہ ام قیس بنت محصن سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں خون لگا ہو اور اس کو دھونے سے پہلے اگر کوئی شخص اس کپڑے میں نماز پڑھ لے تو بعض تابعین میں سے اہل علم کے نزدیک اگر خون ایک درہم کی مقدار میں تھا تو نماز لوٹانی پڑے گی اور یہ قول ہے سفیان ثوری اور ابن مبارک کا جبکہ تابعین میں سے بعض اہل علم کے نزدیک نماز لوٹانا ضروری نہیں یہ امام احمد اور امام اسحاق کا قول ہے امام شافعی کے نزدیک کپڑے کو دھونا واجب ہے اگرچہ اس پر خون ایک درہم کی مقدار سے کم ہی ہو۔

عورتوں کے نفاس کی مدت

نصر بن علی، شجاع بن ولید، بدر، علی بن عبدالاعلی، ابی سہل، مستہ الازدیہ، ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ فرماتی ہیں کہ نفساء (وہ عورتیں جن کو نفاس کا خون آتا ہو) چالیس روز تک بیٹھی رہتی تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں اور ہم ملتے تھے اپنے منہ پر جھائیوں کی وجہ سے بٹنا امام ابو عیسیٰ کہتے ہیں اس حدیث کو ہم ابو سہل کی روایت کے علاوہ کسی اور کی روایت سے نہیں جانتے وہ روایت کرتے ہیں مستہ الزدیہ سے اور وہ ام سلمہ سے نقل کرتی ہیں ابو سہل کا نام کثیر بن زیاد ہے امام محمد بن اسماعیل بخاری نے کہا علی بن عبدالاعلی اور ابو سہل ثقہ ہیں وہ بھی اس روایت کو ابو سہل کے علاوہ کسی کی روایت سے نہیں جانتے تمام اہل علم کا صحابہ و تابعین اور تبع تابعین میں سے اس بات پر اجماع ہے کہ نفاس والی عورتیں چالیس دن تک نماز چھوڑ دیں اگر اس سے پہلے طہارت حاصل ہو جائے تو غسل کر کے نماز پڑھیں اگر چالیس دن کے بعد بھی خون نظر آئے تو اکثر علماء کے نزدیک نماز نہ چھوڑیں اکثر فقہاء کا یہی قول ہے اور سفیان ثوری ابن مبارک شافعی احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے اور حسن بصری کہتے ہیں کہ اگر خون بند نہ ہو تو پچاس دن تک نماز نہ پڑھے عطاء بن رباح اور شعبی کے نزدیک اگر خون بند نہ ہو تو ساٹھ دن تک نماز نہ پڑھے۔

کئی بیویوں سے صحبت کے بعد آخر میں ایک ہی غسل کرنا

بندار، محمد بن بشار، ابو احمد، سفیان، معمر، قتادہ، انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی سب بیویوں سے صحبت کرتے اور آخر میں ایک غسل کر لیتے اس باب میں ابو رافع سے بھی روایت ہے ابو عیسیٰ فرماتے ہیں حدیث انس صحیح ہے اور یہ کئی اہل علم کا قول ہے جن میں حسن بصری بھی شامل ہیں کہ اگر وضو کئے بغیر دوبارہ صحبت کر لے تو کوئی حرج نہیں محمد بن یوسف بھی اسے سفیان سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ابو عروہ سے روایت ہے انہوں نے ابو خطاب سے انہوں نے انس سے ابو عروہ کا نام معمر بن راشد اور ابو خطاب کا نام قتادہ بن دِعامہ ہے۔

اگر دوبارہ صحبت کا ارادہ کرے تو وضو کر لے

ہناد، حفص بن غیاث، عاصم احول، ابو متوکل، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر تم میں سے کوئی صحبت کرے اپنی بیوی سے اور پھر دوبارہ صحبت کرنے کا ارادہ ہو تو دونوں کے درمیان وضو کر لے اس باب میں حضرت عمر سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں ابو سعید کی حدیث حسن صحیح ہے اور عمر بن خطاب کا بھی یہی قول ہے اور یہی قول کئی اہل علم کاہے کہ اگر کوئی اپنی بیوی سے صحبت کرے اور پھر دوبارہ صحبت کرنے کا ارادہ ہو تو اس سے پہلے وضو کرے ابو المتوکل کا نام علی بن داؤد اور ابو سعید خدری کا نام سعد بن مالک بن سنان ہے۔

اگر نماز کی اقامت ہو جائے اور کسی کو تقاضہ حاجت ہو تو پہلے بیت الخلاء جائے

ہناد بن سری، ابو معاویہ، ہشام بن عروہ رضی اللہ عنہ سے وہ عبداللہ بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ عروہ نے کہا کہ تکبیر ہوئی نماز کی تو عبداللہ بن ارقم نے ایک شخص کا ہاتھ پکڑا اور اسے آگے بڑھا دیا جبکہ عبداللہ قوم کے امام تھے اور کہا عبداللہ نے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب نماز کی اقامت ہو اور کسی کو قضائے حاجت ہو تو پہلے بیت الخلاء جائے اس باب میں حضرت عائشہ ابو ہریرہ ثوبان اور ابو امامہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث عبداللہ بن ارقم حسن صحیح ہے اسی طرح روایت کیا ہے مالک بن انس یحیی بن سعید قطان اور کئی حفاظ حدیث نے ہشام بن عروہ سے وہ روایت کرتے ہیں اپنے باپ سے انہوں نے ایک شخص سے انہوں نے عبداللہ بن ارقم سے اور یہی قول ہے کئی صحابہ اور تابعین کا احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے کہ اگر پیشاب یا پاخانہ کی حاجت ہو تو نماز کے لئے کھڑا نہ ہو اور ان دونوں نے کہا کہ اگر نماز شروع کرنے کے بعد قضائے حاجت ہو تو نماز توڑے بعض اہل علم کے نزدیک جب تک نماز میں خلل نہ ہو پیشاب و پاخانہ کی حاجت کے باوجود نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔

گرد راہ دھونے کے بارے میں

ابو رجاء قتیبہ، مالک بن انس، محمد بن عمارہ، محمد بن ابراہیم، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ، کی ام ولد سے روایت ہے کہ میں نے ام سلمہ سے عرض کیا میں ایسی عورت ہوں کہ اپنا دامن لمبا رکھتی ہوں اور ناپاک جگہوں سے گزرتی ہوں پس فرمایا ام سلمہ نے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پاک کر دیتا ہے اس کو اس کے بعد کا راستہ اس حدیث کو روایت کیا عبداللہ بن مبارک نے مالک بن انس سے انہوں نے محمد بن عمارہ سے انہوں نے محمد بن ابراہیم سے انہوں نے ہود بن عبدالرحمن بن عوف کی ام ولد سے انہوں نے ام سلمہ سے اور وہ ایک وہم ہے کیونکہ روایت کرتی ہیں ام سلمہ سے اور یہی صحیح ہے اس باب میں عبداللہ بن مسعود سے بھی حدیث منقول ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھتے تھے اور گندے راستوں میں سے گزرنے پر وضو نہیں کرتے تھے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ کئی اہل علم کا قول ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص ناپاک جگہ سے گزرے تو اس کے لئے پاؤں کا دھونا ضروری نہیں لیکن اگر نجاست تر ہو تو نجاست کی جگہ دھو لے۔

تیمم کے بارے میں

ابوحفص عمرو بن علی فلاس، یزید بن زریع، سعید، قتادہ، عروہ، سعید بن عبدالرحمن بن ابزی، عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو چہرے اور ہتھیلیوں کے تیمم کا حکم دیا اس باب میں حضرت عائشہ ابن عباس سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی کہتے ہیں عمار کی حدیث حسن صحیح ہے اور ان سے یہ حدیث کئی سندوں سے مروی ہے یہ قول کئی اہل علم صحابہ جن میں حضرت علی حضرت عمار اور ابن عباس شامل ہیں اور کئی تابعین جیسے شعبی اور مکحول ان حضرات کا قول ہے کہ تیمم ایک مرتبہ ہاتھ مارنا ہے چہرے اور ہتھیلیوں کے لئے اور یہی قول ہے امام احمد اور اسحاق کا بعض اہل علم کے نزدیک تیمم دو ضربیں ہیں ایک چہرے کے لئے اور ایک کہنیوں سمیت ہاتھوں کے لئے ان علماء میں ابن عمر جابر ابراہیم اور حسن شامل ہیں یہی قول ہے امام سفیان ثوری امام مالک ابن مبارک اور امام شافعی کا بھی تیمم کے بارے میں یہی بات عمار سے بھی منقول ہے کہ انہوں نے کہا تیمم منہ اور ہتھیلیوں پر ہے یہ عمار سے کئی سندوں سے منقول ہے ان سے یہ بھی منقول ہے کہ انہوں نے کہا ہم نے بغلوں اور شانوں تک نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تیمم کیا بعض اہل علم نے حضرت عمار سے منقول حدیث جس میں منہ اور ہتھیلیوں کا ذکر ہے کو ضعیف کہا ہے اس لئے کہ شانوں اور بغلوں تک کی روایت بھی انہی سے منقول ہے اسحاق بن ابراہیم نے کہا کہ عمار کی منہ اور ہتھیلیوں پر تیمم والی حدیث صحیح ہے اور ان کی دوسری حدیث کہ ہم نے حضور کے ساتھ شانوں اور بغلوں تک تیمم کیا کچھ مخالف نہیں منہ اور ہتھیلیوں والی حدیث کے۔

٭٭ یحیی بن موسی، سعید بن سلیمان، ہشیم، محمد قرشی، داؤد بن حصین، عکرمہ، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابن عباس سے تیمم کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ اللہ نے اپنی کتاب میں وضو کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا (فَاغْسِلُوا وُجُوہَکُمْ وَأَیْدِیَکُمْ إِلَی الْمَرَافِقِ) اپنے چہروں اور ہاتھوں کو دھوؤ اور تیمم کے بارے میں فرمایا (فَامْسَحُوا بِوُجُوہِکُمْ وَأَیْدِیکُمْ) پس تم مسح کرو اپنے چہروں کا اور ہاتھوں کا اور فرمایا چوری کرنے والے مرد اور عورت کے ہاتھ کاٹو ہاتھوں کے کاٹنے میں کلائیوں تک کاٹنا سنت ہے لہذا تیمم بھی چہرے اور ہاتھوں کاہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث ہیں یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے باب اگر کوئی شخص جنبی نہ ہو تو ہر حالت میں قرآن پڑھ سکتا ہے۔

٭٭ ابوسعید عبداللہ بن سعید اشج، حفص بن غیاث، عقبہ بن خالد، اعمش، ابن ابی لیلی، عمرو بن مرہ، عبداللہ بن سلمہ، علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمیں ہر حالت میں قرآن پڑھایا کرتے تھے سوائے اس کے کہ حالت جنابت میں ہوں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ حدیث علی حسن صحیح ہے اور یہ صحابہ تابعین میں سے کئی اہل علم کا قول ہے ان حضرات نے کہا ہے کہ بے وضو شخص کے لئے قرآن پڑھنا جائز ہے لیکن قرآن پاک میں اس وقت تک نہ پڑھے جب تک وضو نہ کر لے یہی قول ہے امام شافعی امام سفیان ثوری امام احمد امام اسحاق کا۔

وہ زمین جس میں پیشاب کیا گیا ہو

ابن ابی عمر، سعید بن عبدالرحمن مخزومی، سفیان بن عیینہ، زہری، سعید بن مسیب، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایک اعرابی مسجد میں داخل ہوا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اس شخص نے نماز پڑھی جب نماز سے فارغ ہوا تو اس نے کہا اے اللہ رحم کر مجھ پر اور محمد پر اور ہمارے ساتھ کسی دوسرے پر رحم نہ کر پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا تم نے تنگ کر دیا ہے بڑی وسیع چیز کو تھوڑی ہی دیر میں اس نے مسجد میں پیشاب کر دیا اور لوگ اس کی طرف دوڑے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس پر پانی کا ایک ڈول بہا دو اور راوی کو شک ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ، سَجْلًا، فرمایا یا، دَلْوًا، پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہیں آسانی کے لئے بھیجا گیا ہے تنگی اور سختی کے لئے نہیں سعید بن عبدالرحمن نے کہا کہ سفیان اور یحیی بن سعید بھی انس بن مالک سے اس کی مثل روایت نقل کرتے ہیں اور اس باب میں عبداللہ بن مسعود ابن عباس اور واثقہ بن اسقع سے بھی روایات مروی ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی نے فرمایا یہ حدیث حسن صحیح ہے اور بعض اہل علم کا اس پر عمل ہے احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے یونس نے یہ حدیث زہری سے انہوں نے عبید اللہ بن عبداللہ سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ بھی روایت نقل کی ہے۔

 

 

 

نماز کا بیان

نماز کے ابو اب جو مروی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نماز کے اوقات جو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی ہیں

ہناد بن سری، عبدالرحمن، بن ابی زناد، عبدالرحمن حارث بن عیاش بن ابی ربیعہ، حکیم بن حکیم، ابن عباد، نافع بن جبیر بن مطعم، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میری دو مرتبہ امامت کی جبرائیل نے بیت اللہ کے پاس پہلی مرتبہ ظہر کی نماز میں جب کہ ہر چیز کا سایہ جوتی کے تسمہ کے برابر تھا پھر عصر کی نماز میں جب کہ ہر چیز کا سایہ اس کی مثل ہو گیا پھر مغرب کی نماز میں جب کہ سورج غروب ہو گیا اور روزہ دار نے روزہ افطار کیا پھر عشاء کی نماز میں جب شفق غائب ہو گئی اور فجر کی نماز اس وقت جب صبح صادق ظاہر ہوئی اور جس وقت روزہ دار کے لئے کھانا حرام ہو جاتا ہے اور دوسری مرتبہ ظہر کی نماز اس وقت جب ہر چیز کا سایہ اس کی مثل ہو جاتا ہے جس وقت کل عصر پڑھی تھی پھر عصر کی نماز ہر چیز کا سایہ دگنا ہونے پر پھر مغرب پہلے دن کے وقت پر اور پھر عشاء رات گزر جانے پر پھر صبح کی نماز اس وقت جب زمین روشن ہو گئی پھر جبرائیل نے میری طرف متوجہ ہو کر کہا اے محمد یہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پہلے انبیاء کا وقت ہے اور ان دونوں کے درمیان وقت اس باب میں حضرت ابو ہریرہ ابو موسیٰ ابو مسعود ابو سعید جابر عمرو بن حزم براء اور انس سے بھی روایات مروی ہیں۔

٭٭  احمد بن محمد بن موسی، عبداللہ بن مبارک، حسن بن علی بن حسین، وہب بن کیسان، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میری امامت کی جبرائیل نے پھر ذکر کی حدیث ابن عباس کی حدیث کی مثل اور اس میں ذکر نہیں کیا وقت عصر کا دوسری دن حدیث جابر اوقات کے ابو اب میں مروی ہے عطاء بن ابی رباح سے اور عمرو بن دینار اور ابو الزبیر سے انہوں نے روایت کی جابر بن عبداللہ سے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے وہب بن کیسان کی طرح جو مروی ہے حضرت جابر سے انہوں نے روایت کیا اس کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے امام ابو عیسیٰ ترمذی کہتے ہیں حدیث ابن عباس احسن ہے اور محمد بن اسماعیل بخاری نے فرمایا اوقات نماز کے بارے میں احادیث میں سے اصح حدیث حضرت جابر کی حدیث ہے۔

٭٭ ہناد، محمد بن فضیل، اعمش، ابی صالح، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہر نماز کا ایک وقت اول ہے ایک وقت آخر ظہر کی نماز کا اول وقت سورج کا ڈھلنا ہے اور آخری وقت جب عصر کا وقت داخل ہو جائے اور عصر کا اول وقت جب یہ وقت شروع ہوئے اور آخری وقت جب سورج زرد ہو جائے مغرب کا اول وقت غروب آفتاب اور آخری وقت شفق کا غائب ہونا اور عشاء کا اول وقت شفق کے غائب ہونے پر اور آخری وقت آدمی رات تک ہے اور فجر کا اول وقت صبح صادق کے طلوع ہونے پر اور آخری وقت سورج کے طلوع ہونے تک ہے اس باب میں عبداللہ بن عمر سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے سنا ہے امام بخاری سے وہ فرماتے ہیں کہ اعمش کی مجاہد سے نقل کی گئی مواقیت حدیث محمد بن فصیل کی اعمش سے منقول حدیث سے اصح ہے اور محمد بن فضیل کی حدیث میں محمد بن فضیل سے خطا ہوئی ہے۔

٭٭ ہناد، ابو اسامہ، ابو اسحاق فزاری، اعمش، مجاہد ہم سے روایت کی ہناد نے کہا ان سے کہا ابو اسامہ نے ابو اسحاق فزاری نے انس سے اعمش نے اور ان سے مجاہد نے یہ حدیث بیان کی ہے انہوں نے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ نماز کے لئے اول وقت اور آخر وقت ہے اور پھر محمد بن فضیل کی اعمش سے مروی حدیث کی مثل بیان کرتے ہیں یعنی اسی کے ہم معنی۔

٭٭ احمد بن منیع، حسن بن صباح بزار، احمد بن محمد بن موسی، اسحاق بن یوسف ازرق، سفیان، علقمہ بن مرثد، سلیمان بن بریدہ سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا اور اس نے نمازوں کے اوقات کے بارے میں سوال کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہمارے ساتھ رہو اگر اللہ چاہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا بلال کا انہوں نے اقامت کہی صبح صادق کے طلوع ہونے پر پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا ان کو تو انہوں نے تکبیر کہی زوال آفتاب کے وقت اور ظہر کی نماز پڑھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھر انہیں حکم دیا انہوں نے تکبیر کہی اور عصر کی نماز پڑھی اس وقت سورج بلندی پر چمکتا تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب سورج غروب ہو گیا تو مغرب کا حکم دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عشاء کا حکم دیا تو انہوں نے اقامت کہی جب شفق غائب ہو گیا پھر دوسرے دن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا اور فجر خوب روشنی میں پڑھی پھر حکم دیا ظہر کا تو انہوں نے اقامت کہی جب سورج کا وقت پہلے دن سے مؤخر تھا پھر مغرب کا حکم دیا تو اسے شفق کے غائب ہونے سے کچھ پہلے پڑھا پھر عشاء کا حکم دیا تو اس کی اقامت کہی جب تہائی رات گزری پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہاں ہے نمازوں کے اوقات پوچھنے والا اس نے کہا میں حاضر ہوں فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نمازوں کے اوقات ان دونوں کے درمیان ہیں ابو عیسیٰ نے کہا یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے اور اس حدیث کو شعبہ نے علقمہ بن مرثد سے بھی روایت کیا ہے۔

فجر کی نماز اندھیرے میں پڑھنے کے بارے میں

قتیبہ، مالک بن انس، انصاری، معن، مالک، یحیی بن سعید، عمرہ، عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب فجر کی نماز پڑھ لیتے تو عورتیں واپس آتیں عورتیں اپنی چادروں میں لپٹی ہوئی گزرتی تھیں اور اندھیرے کی وجہ سے پہچانی نہیں جاتی تھیں قتیبہ نے کہا ہے (مُتَلَفِّفَاتٍ) کی جگہ (مُتَلَفِّعَاتٍ) اس باب میں حضرت عمر انس اور قیلہ بنت مخرمہ سے بھی روایات مذکور ہیں امام ابو عیسیٰ فرماتے ہیں حدیث عائشہ حسن صحیح ہے اور اس کو کئی صحابہ نے اختیار کیا ہے جن میں ابو بکر عمر اور تابعین میں سے اہل علم شامل ہیں اور یہی قول ہے امام شافعی اور احمد اور اسحاق کو وہ کہتے ہیں کہ فجر کی نماز تاریکی میں پڑھنا مستحب ہے۔

فجر کی نماز روشنی میں پڑھنا

ہناد، عبدہ، محمد بن اسحاق، عاصم بن عمر بن قتادہ، محمود بن لبید، رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ فجر کی نماز روشنی میں پڑھو کیونکہ اس میں زیادہ ثواب ہے اس باب میں ابو برزہ جابر بلال سے بھی روایات مذکور ہیں اور روایت کیا ہے اس حدیث کو شعبہ اور ثوری نے محمد بن اسحاق اور محمد بن عجلان نے بھی اس حدیث کو عاصم بن عمر بن قتادہ سے روایت کیا ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں رافع خدیج کی حدیث حسن صحیح ہے اکثر اہل علم صحابہ و تابعین میں سے کہتے ہیں کہ فجر کی نماز روشنی میں پڑھی جائے اور یہی قول ہے سفیان ثوری کا امام شافعی اور امام احمد فرماتے ہیں کہ اسفار کا معنی یہ ہے کہ فجر واضح ہو جائے اور اس میں شک نہ رہے اس میں اسفار کے معنی یہ نہیں ہے کہ دیر سے نماز پڑھی جائے۔

ظہر میں تعجیل کے بارے میں

ہناد، وکیع، سفیان، حکیم بن جبیر، ابراہیم، اسود، عائشہ سے روایت ہے کہ میں نے ظہر کی نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے زیادہ جلدی کرنے والا نہیں دیکھا اور نہ ہی ابو بکر وعمر سے اس باب میں جابر بن عبداللہ خباب ابو برزہ ابن مسعود زید بن ثابت انس اور جابر بن سمرہ سے بھی روایات مذکور ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث عائشہ حسن ہے صحابہ و تابعین میں سے اہل علم نے اس حدیث کو اختیار کیا ہے علی کہتے ہیں کہ یحیی بن سعید نے کہا کلام کیا ہے شعبہ نے حکم بن جبیر کے بارے میں ان کی ابن مسعود کی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی حدیث (مَنْ سَأَلَ النَّاسَ وَلَہُ مَا یُغْنِیہِ) جس میں لوگوں سے سوال کیا اور اس کے پاس اتنا تھا کہ اس کے لئے کافی ہو آخر حدیث تک یحیی کہتے ہیں کہ ان سے سفیان اور زائدہ روایت کرتے ہیں اور یحیی کے نزدیک ان کی حدیث میں کوئی حرج نہیں محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں روایت کیا گیا ہے حکیم بن جبیر سے وہ روایت کرتے ہیں سعد بن جبیر سے انہوں نے عائشہ سے وہ روایت کرتی ہیں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ظہر کی تعجیل میں۔

٭٭ حسن بن علی حلوانی، عبدالرزاق، معمر، زہری، انس بن مالک کی کہ خبر دی ان کو عبدالرزاق نے انہیں معمر نے اور انہیں زہری نے انہوں نے کہا مجھے خبر دی انس بن مالک نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ظہر کی نماز پڑھی جب سورج ڈھل گیا یہ حدیث صحیح ہے۔

 

 

سخت گرمی میں ظہر کی نماز دیر سے پڑھنا

قتیبہ، لیث، ابن شہاب، سعید بن مسیب، ابو سلمہ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب گرمی زیادہ ہو تو نماز کو ٹھنڈے وقت میں ادا کرو اس لئے کہ گرمی کی شدت جہنم کے جوش سے ہے اس باب میں ابو سعید ابو ذر ابن عمر مغیرہ اور قاسم بن صفوان سے بھی روایت ہے قاسم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں اور ابو موسیٰ ابن عباس اور انس سے بھی روایات مذکور ہیں اس باب میں حضرت عمر سے بھی روایت ہے لیکن وہ صحیح نہیں ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث ابو ہریرہ حسن صحیح ہے اہل علم کی ایک جماعت نے شدید گرمی میں ظہر کی نماز میں تاخیر کو اختیار کیا ہے یہی قول ہے ابن مبارک احمد اور اسحاق کا امام شافعی کے نزدیک ظہر میں تاخیر اس وقت کی جائے جب لوگ دور سے آتے ہوں لیکن اکیلا نمازی اور وہ شخص جو اپنی قوم میں نماز پڑھتا ہو اس کے لئے بہتر ہے کہ سخت گرمی میں بھی نماز میں تاخیر نہ کرے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں جن لوگوں نے شدید گرمی میں تاخیر ظہر کا مذہب اختیار کیا ہے وہ اتباع کے لئے بہتر ہے اور امام شافعی کا یہ قول کہ اس کی اجازت اس کے لئے ہے جو دور سے آتا ہو تاکہ لوگوں پر مشقت نہ ہو حضرت ابو ذر کی حدیث اس کے خلاف دلالت کرتی ہے حضرت ابو ذر فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ سفر میں تھے کہ بلال نے اذان دی ظہر کی نماز کے لئے پس نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے بلال ٹھنڈا ہونے دو پھر انہوں نے ٹھنڈا ہونے دیا اگر امام شافعی کے قول کے مطابق بات ہوتی تو ایسے وقت میں ٹھنڈا کرنے کا کیا مطلب کیونکہ سفر میں سب اکٹھے تھے دور سے آنے کی حاجت نہیں تھی۔

٭٭ محمود بن غیلان، ابو داؤد، شعبہ، مہاجر، ابو الحسن، زید بن وہب، ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک سفر میں ہمارے ساتھ تھے حضرت بلال بھی ان کے ساتھ تھے انہوں نے اقامت کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ٹھنڈا ہونے دو پھر ارادہ کیا کہ اقامت کہیں پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ظہر کی نماز پڑھی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا گرمی کی شدت جہنم کے جوش سے ہے پس تم ظہر کی نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھو ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

عصر کی نماز جلدی پڑھنا

قتیبہ، لیث، ابن شہاب، عروہ، عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عصر کی نماز پڑھی جبکہ سورج ان کے آنگن میں تھا اور سایہ ان کے آنگن کے اوپر نہیں چڑھا تھا اس باب میں حضرت انس ابو اروی، جابر، رافع بن خدیج سے بھی احادیث مذکور ہیں اور رافع بن خدیج سے بھی احادیث مذکور ہیں اور رافع سے عصر کی نماز میں تاخیر کی روایت بھی نقل کی گئی ہے لیکن وہ صحیح نہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی کہتے ہیں حدیث عائشہ حسن صحیح ہے صحابہ میں سے بعض اہل علم جیسے کہ حضرت عمر عبداللہ بن مسعود عائشہ انس اور کئی تابعین نے عصر کی نماز میں تعجیل کو اختیار کیا ہے اور تاخیر کو مکروہ سمجھا ہے اور یہی قول ہے عبداللہ بن مبارک شافعی احمد اور اسحاق کا۔

٭٭ علی بن حجر، اسماعیل بن جعفر، علاء بن عبدالرحمن، انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ بصرہ میں انس بن مالک کے پاس ان کے گھر گئے جبکہ وہ نماز ظہر پڑھ چکے تھے اور ان کا گھر مسجد کے ساتھ تھا حضرت انس نے کہا کہ اٹھو اور عصر کی نماز پڑھو علاء بن عبدالرحمن کہتے ہیں ہم کھڑے ہوئے اور عصر کی نماز ادا کی جب ہم فارغ ہوئے تو انس نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یہ تو منافق کی نماز ہے کہ سورج کو بیٹھا دیکھتا رہے یہاں تک کہ جب وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان ہو جائے تو وہ اٹھے اور چار چونچیں مارے اور اللہ کا ذکر بہت کم کرے ابو عیسیٰ فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

عصر کی نماز میں تاخیر کے بارے میں

علی بن حجر، اسماعیل بن علیہ، ایوب، ابن ابی ملیکہ، ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تم لوگوں سے جلدی کرتے ظہر میں اور تم عصر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جلدی کرتے ہو ابو عیسیٰ ترمذی نے فرمایا تحقیق روایت کیا ہے اس حدیث کو ابن جریج اور ابن ملیکہ سے اور وہ ام سلمہ سے اسی طرح کی حدیث روایت کرتے ہیں۔

مغرب کے وقت کے بارے میں

قتیبہ، حاتم بن اسماعیل، یزید بن ابو عبید، سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مغرب کی نماز ادا کرتے جب سورج ڈوب کر پردوں کے پیچھے چھپ جاتا اس باب میں حضرت جابر زید بن خالد انس رافع بن خدیج ابو ایوب ام حبیبہ اور عباس بن عبدالمطلب سے بھی روایات منقول ہیں حضرت عباس کی حدیث موقوفاً بھی روایت کی گئی ہے اور وہ اصح ہے ابو عیسیٰ کہتے ہیں کہ حدیث سلمہ بن الاکوع حسن صحیح ہے صحابہ اور تابعین میں سے اکثر اہل علم کا یہ قول ہے کہ مغرب کی نماز میں تعجیل کرنی چاہئے اور اس میں تاخیر مکروہ ہے بعض اہل علم کے نزدیک مغرب کے لیے ایک ہی وقت ہے ان کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی حدیث جبرائیل ہے ابن مبارک اور شافعی کا بھی یہی قول ہے۔

عشاء کی نماز کا وقت

محمد بن عبدالملک بن ابو شوارب، ابو عوانہ، ابو بشر، بشیر بن ثابت، حبیب بن سالم نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں سب سے بہتر جانتا ہوں اس نماز کے وقت متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسے پڑھتے تھے تیسری تاریخ کے چاند کے غروب ہونے کے وقت۔

٭٭ ابوبکر محمد بن ابان، عبدالرحمن بن مہدی، ابو عوانہ سے اسی اسناد کی مثل روایت کی ابو عیسیٰ نے فرمایا اس حدیث کو روایت کیا ہشیم نے ابی بشر سے انہوں نے حبیب بن سالم سے وہ روایت کرتے ہیں نعمان بن بشیر سے اور اس روایت کو ہشیم نے ذکر نہیں کیا بشیر بن ثابت کا اور ابو عوانہ کی حدیث زیادہ صحیح ہے ہمارے نزدیک اس لئے کہ یزید بن ہارون نے بھی روایت کیا ہے شعبہ سے انہوں نے ابو بشر سے ابو عوانہ کی روایت کی مثل۔

عشاء کی نماز میں تاخیر

ہناد، عبدہ، عبید اللہ بن عمر، سعید مقبری، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر مجھے اپنی امت پر گراں گزرنے کا خیال نہ ہوتا تو میں انہیں حکم دیتا تہائی رات یا آدھی رات تک عشاء میں تاخیر کرنے کا اس باب میں جابر بن سمرہ جابر بن عبداللہ ابو برزہ ابن عباس ابو سعید خدری زید بن خالد اور ابن عمر سے بھی روایات مذکور ہیں ابو عیسیٰ ترمذی نے کہا حدیث حضرت ابو ہریرہ حسن صحیح ہے اور صحابہ و تابعین میں سے اکثر کا اہل علم نے اس کو اختیار کیا ہے کہ عشاء کی نماز میں تاخیر کرنی چاہئے اور یہی قول ہے امام احمد اور اسحاق کا۔

عشاء سے پہلے سونا اور بعد میں باتیں کرنا مکروہ ہے

احمد بن منیع، ہشیم، عوف، احمد، عباد بن عبادہ، اسماعیل بن علیہ، عوف، سیار بن سلامہ، ابو برزہ روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عشاء سے پہلے سونے اور عشاء کے بعد باتیں کرنا مکروہ سمجھتے تھے اس باب میں حضرت عائشہ عبداللہ بن مسعود اور ان سے بھی روایات مذکور ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی نے کہا حدیث برزہ حسن صحیح ہے اکثر اہل علم نے عشاء سے پہلے سونے کو مکروہ سمجھا ہے جبکہ بعض اہل علم نے اس کی اجازت دی ہے اور کہا عبداللہ بن مبارک نے کہ اکثر احادیث سے کراہت ثابت ہے اور بعض علماء نے رمضان میں عشاء سے پہلے سونے کی رخصت دی ہے۔

عشاء کے بعد گفتگو

احمد بن منیع، ابو معاویہ، اعمش، ابراہیم، علقمہ، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ابو بکر کے ساتھ باتیں کرتے تھے مسلمانوں کے امور کے بارے میں اور میں بھی اس کے ساتھ ہوتا تھا اس باب میں عبداللہ بن عمر اور اوس بن حذیفہ اور عمران بن حصین سے بھی روایات منقول ہیں ابو عیسیٰ کہتے ہیں حدیث عمر حسن ہے یہ حدیث حسن بن عبید اللہ نے بھی ابراہیم سے انہوں نے علقمہ سے انہوں نے بنو جعفر کے ایک آدمی سے جسے قیس یا ابن قیس کہا جاتا ہے انہوں نے عمر سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کی ہے یہ حدیث ایک طویل قصے میں ہے عشاء کے بعد باتیں کرنے کے بارے میں صحابہ و تابعین اور تبع تابعین میں سے اہل علم کا اختلاف ہے بعض اہل علم کے نزدیک عشاء کے بعد باتیں کرنا مکروہ جب کہ بعض اہل علم نے رخصت دی ہے اس شرط کے ساتھ کہ باتیں کرنا علم یا ضروری حاجتوں کے متعلق ہوں اور اکثر احادیث میں اس کی رخصت ہے اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نماز کے منتظر یا مسافر کے علاوہ کسی کو بھی عشاء کے بعد باتیں نہیں کرنی چاہئے۔

وقت کی فضلیت

ابوعمار، حسین بن حریث، فضل بن موسی، عبداللہ بن عمر عمری، قاسم بن غنام اپنی چچی ام فروہ سے روایت کرتے ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بیعت کی تھی وہ کہتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کیا گیا کہ کون سا عمل افضل ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نماز کا اول وقت میں پڑھنا۔

٭٭ احمد بن منیع، یعقوب بن ولید مدنی، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اول وقت میں نماز پڑھنے میں اللہ تعالی کی رضا ہے اور آخر وقت میں اللہ کی طرف سے بخشش ہے اس باب میں حضرت علی ابن عمر اور ابن مسعود سے بھی روایات مذکور ہیں۔

٭٭ قتیبہ، عبداللہ بن وہب، سعید بن عبداللہ جہنی، محمد بن عمر بن علی بن ابی طالب، علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے کہا اے علی تین چیزوں میں تاخیر نہ کرو نماز میں جب اس کا وقت ہو جائے جنازہ میں جب حاضر ہو اور بیوہ عورت کے نکاح میں جب اس کا ہم پلہ رشتہ مل جائے امام ابو عیسیٰ ترمذی نے کہا کہ ام فروہ کی حدیث عبداللہ بن عمر العمری کے سوا کسی نے روایت نہیں کی اور وہ محدثین کے نزدیک قول نہیں محدثین اس حدیث کو ضعیف سمجھتے ہیں۔

٭٭ قتیبہ، مروان بن معاویہ فزاری، ابی یعفور، ولید عیزار، ابی عمرو شیبانی، نے کہا کہ ایک آدمی نے ابن مسعود سے پوچھا کون سا عمل افضل ہے فرمایا میں نے یہی سوال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کیا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نماز کو پڑھنا مستحب اوقات میں میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کے علاوہ کیا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا والدین کی خدمت کرنا میں نے کہا اور کیا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جہاد کرنا اللہ کے راستے میں ابو عیسیٰ کہتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے مسعودی شعبہ شیبان اور کئی لوگوں نے ولید بن عیزار سے اس حدیث کو روایت کیا ہے۔

٭٭ قتیبہ، لیث، خالد بن یزید، سعید بن ابی ہلال، اسحاق بن عمر، عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کبھی آخر وقت میں نماز نہیں پڑھی مگر دو دفعہ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وفات پائی امام ابو عیسیٰ فرماتے ہیں یہ حدیث غریب ہے اس کی سند متصل نہیں امام شافعی کے نزدیک نماز کے لئے اول وقت افضل ہے جو چیزیں اس کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں ان میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ابو بکر اور عمر کا عمل ہے کیونکہ وہ لوگ افضل چیز کو اختیار کرتے تھے اور اس کو کبھی ترک نہیں کرتے تھے اور وہ ہمیشہ اول وقت میں نماز پڑھتے تھے یہ حدیث ابو ولید مکی نے بواسطہ امام شافعی ہمیں بیان کی ہے۔

عصر کی نماز بھول جانا

قتیبہ، لیث، نافع، ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس کی عصر کی نماز فوت ہو گئی تو گویا لٹ گیا اس کا گھر اور مال اس باب میں حضرت بریدہ اور نوفل بن معاویہ سے بھی روایت ہے ابو عیسیٰ فرماتے ہیں حدیث ابن عمر حسن صحیح ہے اور اس کو روایت کیا ہے زہری نے بھی سالم سے وہ روایت کرتے ہیں اپنے باپ سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں۔

جلدی نماز پڑھنا جب امام تاخیر کرے

محمد بن موسیٰ بصری، جعفر بن سلیمان ضبعی، ابی عمران جونی عبداللہ بن صامت، ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اے ابو ذر میرے بعد ایسے افراد آئیں گے جو نمازوں کو فوت کریں گے پس تو اپنی نماز مستحب وقت میں پڑھ لے اگر تو نے وقت پر نماز پڑھ لی تو امام کے ساتھ تمہاری نماز نقل ہو جائے گی ورنہ تو نے اپنی نماز کو تو محفوظ کر لیا اس باب میں عبداللہ بن مسعود اور عبادہ بن صامت سے بھی روایت مروی ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث ابو ذر حسن ہے اور یہی قول ہے اکثر اہل علم کا کہ وہ مستحب سمجھتے ہیں کہ آدمی نماز پڑھ لے مستحب وقت پر جب امام تاخیر کرے اور پھر امام کے ساتھ نماز پڑھ لے اکثر اہل علم کے نزدیک پہلی نماز ہی فرض ہو جائے گی ابو عمران الجونی کا نام عبدالملک بن حبیب ہے۔

سونے کے سبب نماز چھوٹ جانا

قتیبہ، حماد بن زید، ثابت بنانی، عبداللہ بن رباح انصاری، ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نماز کے وقت سو جانے کا ذکر کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سونے والے پر قصور نہیں بلکہ قصور تو جاگتے ہوئے جب تم میں سے کوئی شخص نماز کو بھول جائے یا وہ سو جائے تو نماز پڑھے جب اس کو یاد آ جائے اس باب میں ابن مسعود ابو مریم عمران بن حصین جبیر بن مطعم ابو جحیفہ عمرو بن امیہ الضمری اور ذومخبر جو (نجاشی کا بھتیجہ) سے روایات منقول ہیں ابو امام ابو عیسیٰ فرماتے ہیں حدیث ابو قتادہ حسن ہے اور اہل علم کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ جو آدمی نماز کے وقت سویا رہ جائے یا بھول جائے نماز تو جب اسے یاد آئے یا جاگے تو وہ وقت اوقات مکروہ جیسے طلوع آفتاب اور غروب آفتاب میں سے ہو بعض اہل علم کے نزدیک اگرچہ مکروہ اوقات ہی ہوں جب بھی آدمی اٹھے یا اسے یاد آئے تو اسی وقت نماز پڑھ لے اور یہ قول ہے امام احمد اسحاق شافعی اور امام مالک کا اور بعض اہل علم نے کہا ہے کہ نماز نہ پڑھے جب تک سورج طلوع یا غروب نہ ہو جائے۔

وہ شخص جو نماز بھول جائے

قتیبہ، بشربن معاذ، ابو عوانہ، قتادہ، انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو نماز ادا کرنا بھول جائے تو پڑھ لے جب اسے یاد آئے اس باب میں حضرت سمرہ اور ابو قتادہ سے بھی روایت کیا گیا حضرت علی سے انہوں نے اس شخص کے بارے میں کہا جو نماز بھول جائے کہ وہ نماز پڑھ لے جب اسے یاد آئے چاہے وقت ہو یا نہ ہو اور یہی قول ہے امام احمد اور اسحاق کا ابو بکر سے مروی ہے کہ عصر کے وقت سو گئے پھر سورج ڈوبنے کے وقت جاگے تو اس وقت تک نماز نہ پڑھی جب تک سورج غروب نہ ہو گیا بعض اہل کوفہ کا یہی مسلک ہے لیکن ہمارے اصحاب نے حضرت علی کے قول کو اختیار کیا ہے کہ نماز پڑھ لے جب اسے یاد آ جائے چاہے وقت ہو یا نہ ہو۔

وہ شخص جس کی بہت سی نمازیں فوت ہو جائیں تو کس نماز سے ابتدا کرے

ہناد، ہشیم، ابو زبیر، نافع، جبیر بن مطعم، ابو عبیدہ بن عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ عبداللہ نے فرمایا کہ مشرکوں نے غزوہ خندق کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو روک دیا چار نمازوں سے یہاں تک کہ رات گزر گئی جتنی اللہ نے چاہی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا بلال کو انہوں نے اذان دی پھر تکبیر کہی اور ظہر پڑھی پھر تکبیر کہی اور عشاء کی نماز پڑھی اس باب میں ابو سعید اور جابر سے بھی روایت ہے ابو عیسیٰ فرماتے ہیں کہ عبداللہ کی حدیث کی سند میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن ابو عبیدہ نے عبداللہ سے نہیں سنا اور بعض اہل علم نے اس کو اختیار کیا ہے کہ فوت شدہ نمازوں کے لئے ہر نماز کے لئے تکبیر کہی جائے اور اگر ہر نماز کے لئے تکبیر نہ بھی کہے تب بھی جائز ہے اور امام شافعی کا بھی یہی قول ہے۔

٭٭ محمد بن بشار، معاذ بن ہشام، یحیی بن ابی کثیر ابو سلمہ بن عبدالرحمن جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے خندق کے دن کفار کو گالیاں دیتے ہوئے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں نماز عصر ادا نہیں کر سکا یہاں تک کہ سورج ڈوب رہا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ کی قسم میں نے بھی نہیں پڑھی راوی نے کہا پھر ہم بطحان میں اترے پھر وضو کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اور وضو کیا ہم نے بھی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عصر کی نماز پڑھی اس وقت سورج ڈوب چکا تھا پھر اس کے بعد مغرب کی نماز پڑھی یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

عصر کی نماز وسطی ہونا

ہناد، عبدہ، سعید، قتادہ، حسن، سمرہ بن جندب سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صلوة وسطی کے بارے میں فرمایا کہ وہ نماز عصر ہے۔

٭٭ محمود بن غیلان، ابو داؤد طیالیسی، ابو نضر، محمد بن طلحہ بن مصرف، زبید، مرہ ہمدانی، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا صلوة وسطی عصر کی نماز ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث صحیح ہے اس باب میں حضرت علی عائشہ حفصہ ابو ہریرہ اور ابو ہاشم بن عقبہ سے بھی روایات مذکور ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی نے کہا کہ محمد بن اسماعیل بخاری نے فرمایا کہ علی بن عبداللہ نے کہا حسن کی سمرہ سے مروی حدیث حسن ہے اور انہوں نے ان سے سنا ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی نے کہا کہ صلوة وسطی کے بارے میں حدیث سمرہ حسن ہے اور یہ صحابہ کرام میں سے اکثر علماء کا قول ہے اور زید بن ثابت اور عائشہ نے کہا کہ صلوة وسطی نماز ظہر ہے اور کہا ابن عباس نے اور ابن عمر نے کہا نماز وسطی صبح کی نماز ہے۔

٭٭ ابوموسیٰ محمد بن مثنی، قریش بن انس، حبیب بن شہید سے روایت ہے کہ مجھ سے محمد بن سیرین نے کہا کہ حسن سے عقیقہ کی حدیث کے متعلق پوچھو کہ انہوں نے کس سے سنی ہے میں نے ان سے سوال کیا تو انہوں نے کہا میں نے اس کو سمرہ بن جندب سے سنا ہے ابو عیسیٰ فرماتے ہیں کہ خبر دی مجھے امام محمد بن اسماعیل بخاری نے اس حدیث کے متعلق انہوں نے روایت کی علی بن عبداللہ سے انہوں نے قریش بن انس سے اس حدیث کو روایت کیا ہے امام بخاری کہتے ہیں علی نے کہا کہ حسن کا سمرہ سے سماع صحیح ہے اور اس حدیث کو وہ بطور حجت پیش کرتے ہیں۔

عصر اور فجر کے بعد نماز پڑھنا مکروہ ہے

احمد بن منیع، ہشیم منصور، قتادہ، ابو عالیہ، ابن عباس سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کئی صحابیوں سے سنا جن میں عمر بن خطاب بھی ہیں جو میرے لئے ان سب میں محبوب ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا فجر کے بعد نماز پڑھنے سے یہاں تک کہ سورج طلوع ہو جائے اور عصر کے بعد یہاں تک کہ سورج غروب ہو جائے اس باب میں حضرت علی ابن مسعود ابو سعید عقبہ بن عامر ابو ہریرہ ابن عمر سمرہ بن جندب سلمہ بن الاکوع زید بن ثابت عبداللہ بن عمر معاذ بن عفراء اور صنابحی عائشہ کعب بن مرہ ابو امامہ عمرو بن عبسہ یفلی بن امیہ اور معاویہ سے بھی روایات منقول ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ ابن عباس کی حضرت عمر سے مروی روایت حسن صحیح ہے اور اکثر فقہاء صحابہ اور ان کے بعد کے علماء کا یہی قول ہے کہ فجر کے بعد طلوع آفتاب تک اور عصر کے بعد غروب آفتاب تک نماز پڑھنا مکروہ ہے جہاں تک فوت شدہ نمازوں کا تعلق ہے ان کی ادائیگی میں کوئی حرج نہیں اور کہا علی بن مدینی نے کہ یحیی بن سعید کہتے ہیں کہ شعبہ نے کہا کہ قتادہ نے ابو العالیہ سے صرف تین چیزیں سنی ہیں حدیث عمر کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فجر کے بعد طلوع آفتاب تک اور عصر کے بعد غروب آفتاب تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا اور حدیث ابن عباس کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کسی کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ میرے بارے میں کہے کہ میں یونس بن متّی سے بہتر ہوں اور حدیث علی کہ قاضی تین قسم کے ہیں۔

عصر کے بعد نماز پڑھنا

قتیبہ، جریر، عطاء بن سائب، سعید بن جبیر، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو رکعتیں پڑھیں عصر کے بعد اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس کچھ مال آ گیا تھا جس میں مشغولیت کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ظہر کی دو رکعتیں ادا نہ کر سکے پس ان (دو رکعتوں کو) عصر کے بعد پڑھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کبھی ایسا نہیں کیا اس باب میں حضرت عائشہ ام سلمہ میمونہ اور ابو موسیٰ سے بھی روایات مروی ہیں ابو عیسیٰ کہتے ہیں حدیث ابن عباس حسن ہے کئی حضرات نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے یہ اس روایت کے خلاف ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا عصر کے بعد غروب آفتاب تک نماز پڑھنے سے اور حدیث ابن عباس اصح ہے اس لئے کہ انہوں نے فرمایا کہ پھر دوبارہ نہیں پڑھیں اور زید بن ثابت سے بھی ابن عباس کی روایت کی مثل منقول ہے اور اس باب میں حضرت عائشہ سے کئی روایات مروی ہیں ان سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عصر کے بعد ان کے پاس اس طرح کبھی داخل نہیں ہوئے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو رکعتیں نہ پڑھی ہوں اور ان سے ام سلمہ کے واسطے سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عصر کے بعد غروب آفتاب تک نماز پڑھنے سے منع کیا اور فجر کے بعد طلوع آفتاب تک اور اکثر اہل علم کا اس پر اجماع ہے کہ عصر کے بعد غروب آفتاب تک اور فجر کے بعد طلوع آفتاب تک نماز ادا کرنا مکروہ ہے لیکن ان دونوں اوقات میں مکہ میں طواف کے بعد نماز پڑھنا نماز نہ پڑھنے کے حکم سے مستثنی ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس بارے میں رخصت نقل کی گئی ہے اور اہل علم کی ایک جماعت جن میں صحابہ اور ان کے بعد کے علماء شامل ہیں کا بھی یہی قول ہے اور امام شافعی احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے جب کہ صحابہ اور ان کے بعد کے اہل علم کی ایک جماعت نے طواف کے نوافل کو بھی ان اوقات میں مکروہ سمجھا ہے اور سفیان ثوری مالک بن انس اور بعض اہل کوفہ کا بھی یہی قول ہے۔

 

مغرب سے پہلے نماز پڑھنا

ہناد، وکیع، کہمس بن حسن عبداللہ بن بریدہ، عبداللہ بن مغفل سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے جو چاہے اس باب میں عبداللہ بن زبیر سے بھی روایات ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث عبداللہ بن مغفل حسن صحیح ہے اور اختلاف کیا ہے صحابہ کرام نے مغرب سے پہلے نماز پڑھنے کے بارے میں بعض صحابہ کے نزدیک مغرب سے پہلے اذان و اقامت کے درمیان نماز پڑھنا جائز نہیں اور کئی صحابہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مغرب سے پہلے اذان و اقامت کے درمیان دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے امام احمد اور اسحاق کے نزدیک اگر پڑھ لے تو بہتر ہے اور یہ ان دونوں کے نزدیک مستحب ہے۔

اس شخص کے بارے میں جو غروب آفتاب سے پہلے عصر کی ایک رکعت پڑھ سکتا ہے

اسحاق بن موسیٰ انصاری، معن مالک، انس زید بن اسلم، عطاء بن یسار، بسر بن سعید، اعرج، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے پالی صبح کی ایک رکعت سورج نکلنے سے پہلے تو اس نے فجر کی نماز پالی اور جس نے عصر کی ایک رکعت پا لی سورج غروب ہونے سے پہلے اس نے نماز عصر کو پا لیا اس باب میں حضرت عائشہ سے بھی روایت ہے ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث ابو ہریرہ حسن صحیح ہے اور یہی قول ہمارے اصحاب شافعی احمد اور اسحاق کاہے اور ان کے نزدیک اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ یہ حکم صاحب عذر کے لئے مثلاً کوئی شخص سو گیا ہو یا بھول گیا ہو نماز کو اور اس وقت بیدار ہوا یا اسے یاد آیا نماز فجر یا عصر ابھی ادا کرنی ہے جب سورج طلوع یا غروب ہو رہا تھا۔

 

دو نمازوں کا ایک وقت میں جمع کرنا

ہناد، ابو معاویہ اعمش، حبیب ابن ابی ثابت، سعید بن جبیر، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ظہر اور عصر اور مغرب و عشاء کی نمازوں کو ملا کر پڑھا مدینہ منورہ میں بغیر کسی خوف اور بارش کے ابن عباس سے سوال کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایسا کیوں کیا تو انہوں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چاہا کہ امت پر تکلیف نہ ہو اس باب میں حضرت ابو ہریرہ سے بھی روایت ہے ابو عیسیٰ کہتے ہیں حدیث ابن عباس کئی سندوں سے ان سے مروی ہے اسے روایت کیا ہے جابر بن زید سعید بن جبیر عبداللہ بن شقیق عقیلی نے اور ابن عباس سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس کے خلاف بھی مروی ہے۔

٭٭ ابو سلمہ یحیی بن خلف بصری، معتمر بن سلیمان، حنش، عکرمہ، ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے جمع کیا دو نمازوں کو ایک وقت میں بغیر عذر کے ابو اب کبائر میں سے ایک باب میں داخل ہوا امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حنش ابو علی رھبی بن قیس ہیں اور وہ محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں اور امام احمد بن حنبل نے بھی ان کو ضعیف کہا ہے اہل علم کا اس پر عمل ہے کہ دو نمازوں کو ایک وقت میں جمع کرنا صرف سفر یا عرفات میں جائز ہے بعض اہل علم تابعین میں سے مریض کے لئے جمع بین الصلواتین کی اجازت دیتے ہیں اور احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے امام شافعی کے نزدیک دو نمازوں کو ایک وقت میں جمع کرنا مریض کے لئے بھی جائز نہیں۔

اذان کی ابتداء

سعید بن یحیی بن سعید اموی، محمد بن اسحاق، محمد بن ابراہیم تیمی، محمد بن عبداللہ بن زید نے اپنے باپ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ جب صبح ہوئی تو ہم آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس پھر ہم نے ان کو اس خواب کی خبر دی فرمایا یہ خواب سچا ہے بلال کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ اس لئے کہ وہ تم سے بلند آواز والے ہیں اور انہیں وہ سکھاؤ جو تمہیں کہا گیا ہے اور وہ اس کو بلند آواز سے کہیں راوی کہتے ہیں جب حضرت عمر بن خطاب نے حضرت بلال کی اذان سنی تو اپنی چادر کھینچے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہتے تھے اے اللہ کے رسول اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سچا دین دے کر بھیجا ہے میں نے بھی اسی طرح کا خواب دیکھا ہے جس طرح بلال نے کہا فرمایا تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں یہی بات زیادہ مضبوط ہو گئی اس باب میں ابن عمر سے بھی روایت ہے ابو عیسیٰ فرماتے ہیں عبداللہ بن زید کی حدیث حسن صحیح ہے اور اس حدیث کو ابراہیم بن سعد نے بھی روایت کیا ہے وہ روایت کرتے ہیں محمد بن اسحاق سے طویل اور مکمل حدیث اور اقامت کے کلمات ایک ایک مرتبہ عبداللہ بن زید ابن عبدربہ ہیں ان کو ابن عبدرب بھی کہا جاتا ہے ہمیں ان کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی احادیث میں اذان کی اس روایت کے علاوہ کسی روایت کے صحیح ہونے کا علم نہیں اور عبداللہ بن زید بن عاصم مازنی نے بھی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے احادیث روایت کی ہیں اور عبداللہ بن عاصم مازنی عباد بن تمیم کے چچا ہیں۔

٭٭ ابوبکر بن ابی نصر، حجاج بن محمد ابن جریج نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ مسلمان جب مدینہ میں آئے وہ اکٹھے ہوتے اور اوقات نماز کا اندازہ کرتے تھے ان میں سے کوئی بھی آواز نہیں لگاتا تھا ایک دن انہوں نے آپس میں مشورہ کیا بعض نے کہا ایک ناقوس بنایا جائےو نصاریٰ کے ناقوس کی طرح بعض نے کہا ایک قرآن بناؤ یہودیوں کے قرآن کی طرح حضرت عمر نے کہا کہ کیوں نہیں بھیجتے تم ایک آدمی کو کہ وہ پکارے نماز کے لئے اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے بلال کھڑے ہو جاؤ اور نماز کے لئے پکارو امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حضرت ابن عمر کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے۔

اذان میں ترجیع

بشر بن معاذ، ابراہیم بن عبدالعزیز بن عبدالملک بن ابی محذورہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں بٹھایا اور اذان کا ایک ایک حرف سکھایا ابراہیم نے کہا کہ ہماری اذان کی طرح بشر کہتے ہیں میں نے ان سے کہا دوبارہ کہتے تو انہوں نے بیان کی اذان ترجیع کے ساتھ ابو عیسیٰ فرماتے ہیں اذان کے بارے میں ابو مخذورہ کی حدیث صحیح ہے اور یہ ان سے کئی سندوں سے مروی ہے مکہ مکرمہ میں اسی پر عمل کیا جاتا ہے امام شافعی کا بھی یہی قول ہے۔

٭٭ ابوموسی، محمد بن مثنی عفان، ہمام عامر، عبداللہ بن محیریز، ابو محذورہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو اذان میں انیس اور تکبیر میں سترہ کلمات سکھائے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور حضرت ابو محذورہ کا نام سمرہ بن مغیرہ ہے بعض اہل علم کا اذان کے بارے میں یہی مذہب ہے ابو محذورہ سے تکبیر کا ایک ایک مرتبہ کہنا بھی مروی ہے۔

تکبیر ایک ایک بار

قتیبہ عبدالوہاب ثقی، یزید بن زریع، خالد حذاء، ابو قلابہ انس بن مالک سے روایت ہے کہ بلال کو حکم دیا گیا کہ ازان دو دو مرتبہ اور ایک اقامت ایک ایک مرتبہ کہے اس باب میں ابن عمر سے بھی حدیث مروی ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث انس حسن صحیح ہے اور یہ صحابہ و تابعین میں سے بعض اہل علم کا قول ہے اور امام مالک شافعی احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے۔

اقامت دو دو بار کہے

ابوسعید اشج عقبہ بن خالد ابن ابی لیلی، عمرو بن مرہ، عبدالرحمن بن ابی لیلی عبداللہ بن زید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اذان اور اقامت دو دو مرتبہ کہی جاتی تھی امام ابو عیسیٰ کہتے ہیں حدیث عبداللہ بن زید کو روایت کیا ہے وکیع نے اعمش سے انہوں نے عمرو بن مروہ سے اور انہوں نے عبدالرحمن بن ابی لیلی سے کہ عبداللہ بن زید نے اذان کے بارے میں خواب دیکھا شعبہ عمرو بن مروہ سے اور وہ عبدالرحمن بن ابی لیلی سے روایت کرتے ہیں کہ صحابہ نے ہم سے بیان کیا کہ عبداللہ بن زید نے اذان کو خواب میں دیکھا یہ اصح ہے ابن ابی لیلی کی حدیث سے اور عبدالرحمن بن ابی لیلی کو عبداللہ بن زید سے سماع نہیں بعض اہل علم کا قول ہے کہ اذان اور اقامت دونوں دو دو مرتبہ ہیں اور سفیان ثوری ابن مبارک اہل کوفہ کا بھی یہی قول ہے۔

 

اذان کے کلمات ٹھہر ٹھہر کر ادا کرنا

احمد بن حسن معلی بن اسد، عبدالمنعم، یحیی بن مسلم، حسن عطاء، جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بلال سے فرمایا اے بلال جب تم اذان کہو تو ٹھہر ٹھہر کر اذان کہو اور جب اقامت کہو تو جلدی جلدی کہو اور اذان اور تکبیر میں اتنا ٹھہرو کہ کھانے والا کھانے سے اور پینے والا پینے سے قضائے حاجت کو جانے والا اپنی حاجت سے فارغ ہو جائے اور تم نہ کھڑے ہوا کرو جب تک مجھے دیکھ نہ لو۔

٭٭ عبد بن حمید، یونس بن محمد، عبدالمنعم، جابر ہم سے عبد بن حمید نے روایت کیا ان سے یونس بن محمد نے اور ان سے عبد منعم نے اسی کی مثل روایت کیا ابو عیسیٰ کہتے ہیں ہم جابر کی اس حدیث کو عبد منعم کی سند کے علاوہ نہیں جانتے اور یہ سند مجہول ہے۔

اذان دیتے ہوئے کان میں انگلی ڈالنا

محمود بن غیلان، عبدالرزاق، سفیان ثوری، عون بن ابی جحیفہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے دیکھا بلال کو اذان دیتے ہوئے اور وہ اپنا منہ پھیرتے تھے ادھر ادھر اور ان کی دو انگلیاں ان کے دونوں کانوں میں تھیں جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے سرخ خیمے میں تھے راوی نے کہا میرا خیال ہے کہ وہ چمڑے کا تھا پھر بلال عصا لیکر نکلے اور اسے میدان میں گاڑ دیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی طرف نماز پڑھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارد گرد کتے اور گدھے چل پھر رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جسم پر سرحُلّہ تھا گویا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پنڈلیوں کی چمک دیکھ رہا ہوں سفیان کہتے ہیں میرے خیال میں وہ یمنی چادر کا ہو گا امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں ابو جحفیہ کی حدیث حسن صحیح ہے اور اس پر اہل علم کا عمل ہے کہ وہ موذن کے لئے اذان کے دوران انگلیوں کو ڈالنے کو مستحب کہتے ہیں بعض اہل علم نے کہا کہ اقامت کہتے ہوئے بھی انگلیاں کانوں میں ڈالے یہ اوزاعی کا قول ہے ابو جحیفہ کا نام وہب سوائی ہے۔

فجر کی اذان میں تثویب کے بارے میں

احمد بن منیع، ابو احمد زبیری، ابو اسرائیل، حکم، عبدالرحمن بن ابی لیلی، بلال سے روایت کرتے ہیں کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نہ تم تثویب کرو نمازوں میں مگر فجر کی نماز میں اس باب میں ابو محذورہ سے بھی روایت ہے ابو عیسیٰ فرماتے ہیں حدیث بلال کو ہم ابو اسرائیل ملائی کی روایت کے علاوہ نہیں جانتے اور ابو اسرائیل نے یہ حدیث حکم بن عتیبہ سے نہیں سنی امام ترمذی کہتے ہیں کہ انہوں نے حسن بن عمارہ سے اور انہوں نے حکم بن عتیبہ سے کیا ہے اور ابو اسرائیل کا نام اسماعیل بن ابو اسحاق ہے اور یہ محدثین کے نزدیک قوی نہیں اور اختلاف کیا اہل علم نے تثویب کی تفسیر میں بعض اہل علم کے نزدیک تثویب یہ ہے کہ فجر کی اذان میں (الصَّلَاةُ خَیْرٌ مِنْ النَّوْمِ) کہے یہ ابن مبارک اور احمد کا قول ہے اور اسحاق نے اس کے علاوہ کہا ہے وہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد یہ نیا طریقہ نکالا ہے کہ اگر لوگ اذان دینے کے بعد تاخیر کریں تو موذن اذان اور اقامت کے درمیان (قَدْ قَامَتْ الصَّلَاةُ حَی عَلَی الصَّلَاةِ حَی عَلَی الْفَلَاحِ) کے الفاظ کہے یہ تثویب جس کو اسحاق نے بیان کیا ہے اہل علم کے نزدیک مکروہ ہے اور یہ وہ کام ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد لوگوں نے نکالا ہے تثویب کے متعلق ابن مبارک اور احمد کی تفسیر کہ یہ فجر کی اذان میں (الصَّلَاةُ خَیْرٌ مِنْ النَّوْمِ) کے الفاظ کہنا ہے یہی قول صحیح ہے اور اسے تثویب بھی کہا جاتا ہے اسی کو اہل علم نے اختیار کیا ہے عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ وہ کہتے تھے فجر کی اذان میں (الصَّلَاةُ خَیْرٌ مِنْ النَّوْمِ) اور مجاہد سے مروی ہے کہ میں داخل ہوا مسجد میں عبداللہ بن عمر کے ساتھ اس میں اذان ہو چکی تھی اور ہم نے ارادہ کیا کہ ہم نماز ادا کریں پس موذن نے تثویب کہی تو عبداللہ بن عمر مسجد سے نکل آئے اور فرمایا نکل چلو اس بدعتی کے پاس سے اور وہاں نماز ادا نہیں کی مکروہ سمجھتے تھے عبداللہ بن عمر اس تثویب کو جو لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد شروع کی تھی۔

اذان کہنے والا ہی تکبیر کہے

ہناد، عبدہ، عبدالرحمن بن زیاد بن انعم، زیادبن نعیم حضرمی، زیادبن حارث صدائی سے روایت ہے کہ مجھے حکم دیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہ میں اذان دوں فجر کی میں نے اذان دی پھر جب حضرت بلال نے اقامت کا ارادہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہارا بھائی صدائی نے اذان دی ہے اور جو اذان دے وہی تکبیر کہے اس باب میں ابن عمر سے بھی روایت ہے اما بو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں ہم حدیث زیاد کو افریقی کی روایت کے علاوہ نہیں جانتے اور محدثین کے نزدیک افریقی ضعیف ہیں اور یحیی بن سعید قطان وغیرہ نے انہیں ضعیف کہا ہے امام احمد کا قول ہے کہ میں نے افریقی کی روایت نہیں لکھتا امام ترمذی فرماتے ہیں میں نے دیکھا محمد بن اسماعیل بخاری کو وہ افریقی کو قوی کہا کرتے تھے اور وہ کہتے کہ ان کی حدیث صحت کے قریب ہے اور اکثر اہل علم کا اس پر عمل ہے کہ جو اذان دے وہی تکبیر کہے۔

بے وضو اذان دنیا مکروہ ہے

علی بن حجر، ولید بن مسلم، معاویہ بن یحیی، زہری، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہ اذان دے مگر با وضو آدمی (یعنی جس آدمی کا وضو ہو)۔

٭٭ یحیی بن موسی، عبداللہ بن وہب، یونس، ابن شہاب سے نقل کرتے ہیں حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا جس آدمی کا وضو نہ ہو وہ اذان نہ دے امام ابو عیسیٰ فرماتے ہیں یہ حدیث پہلی حدیث سے اصح ہے اور ابو ہریرہ کی حدیث کو مرفوع نہیں کہا وہب بن منبہ نے اور یہ ولید بن مسلم کی روایت اصح ہے اور زہری نے نہیں سنی کوئی حدیث ابو ہریرہ سے اور اختلاف ہے اہل علم کا بے وضو اذان دینے کے بارے میں بعض اہل علم کے نزدیک مکروہ ہے اور یہ امام شافعی اور اسحاق کا قول ہے اور رخصت دی ہے بعض اہل علم نے اس کی یہ سفیان ثوری ابن مبارک اور امام احمد کا قول ہے۔

امام اقامت کا زیادہ حق رکھتا ہے

یحیی بن موسی، عبدالرزاق، اسرائیل، سماک بن حرب، جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے موذن تاخیر کرتے اقامت میں یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھ نہ لیتے جب انہیں دیکھتے تو نماز کے لئے اقامت کہتے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث جابر بن سمرہ حسن ہے اور حدیث سماک کو اس روایت کے علاوہ ہم نہیں جانتے بعض اہل علم نے اس طرح کہا ہے کہ موذن کو اذان کا اور امام کو اقامت کا زیادہ اختیار ہے۔

رات کو اذان دینا

قتیبہ، لیث، ابن شہاب، سالم سے روایت ہے کہ انہوں نے روایت کیا اپنے باپ سے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بلال تو رات کو ہی اذان دے دیتے ہیں پس تم لوگ کھایا پیا کرو یہاں تک کہ تم ابن ام مکتوم کی اذان سنو اس باب میں حضرت ابن مسعود عائشہ انیسہ ابو ذر اور سمرہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی نے فرمایا حدیث ابن عمر حسن صحیح ہے اور اختلاف کیا ہے اہل علم نے رات کو اذان دینے کے بارے میں بعض اہل علم کے نزدیک اگر موذن نے رات کو اذان دے دی تو کافی ہے اور اس کا لوٹانا ضروری نہیں ابن مبارک شافعی احمد اور اسحاق کا یہی قول ہے بعض علماء کے نزدیک اگر رات کو اذان دے تو دوبارہ اذان دینا ضروری ہے اور یہ قول سفیان ثوری کاہے حماد بن سلمہ نے ایوب سے وہ نافع سے اور انہوں نے ابن عمر سے روایت کیا ہے کہ حضرت بلال نے رات کو اذان دی تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو حکم دیا کہ نداء لگائیں کہ بندو وقت اذان سے غافل ہو گیا امام عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غیر محفوظ ہو اور صحیح وہی ہے جو عبداللہ بن عمرو وغیرہ نے نافع سے انہوں نے ابن عمر سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ بلال تو رات کو ہی اذان دے دیتے ہیں لہذا تم لوگ ابن ام مکتوم کی اذان تک کھاتے پیتے رہو اور عبدالعزیز بن رواد نے روایت کیا نافع سے کہ حضرت عمر کے موذن نے اذان دی رات کو تو حضرت عمر نے اسے حکم دیا کہ وہ دوبارہ اذان دے صحیح نہیں ہے اس لئے کہ نافع کی حضرت عمر سے ملاقات نہیں ہوئی شاید حماد بن سلمہ نے ارادہ کیا ہو اس حدیث کا اور صحیح روایت عبید اللہ بن عمر کی ہے اور اکثر راویوں نے اس کا ذکر کیا ہے نافع سے انہوں نے ابن عمر سے اور زہری سے انہوں نے سالم سے اور وہ ابن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بلال رات کو اذان دیتے ہیں امام ابو عیسیٰ فرماتے ہیں کہ اگر حماد کی روایت صحیح ہوتی تو اس روایت کے کوئی معنی نہ ہوتے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ بلال اذان رات کو ہی دے دیتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس حدیث میں انہیں آئندہ کے لئے حکم دیا ہے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم انہیں طلوع فجر سے پہلے دوبارہ اذان دینے کا حکم دیا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ نہ فرماتے کہ بلال رات کو ہی اذان دے دیتے ہیں اور کہا علی بن مدینی نے ایوب سے مروی حماد بن سلمہ کی حدیث جس نے روایت کیا ہے ایوب نے نافع سے انہوں نے ابن عمر سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے وہ غیر محفوظ ہے اور اس میں حماد بن سلمہ نے خطاء کی ہے۔

 

اذان کے بعد مسجد سے باہر نکلنا مکروہ ہے

ہناد، وکیع، سفیان، ابراہیم بن مہاجر، ابو شعثاء سے روایت ہے کہ ایک آدمی مسجد سے باہر نکلا عصر کی اذان کے بعد تو ابو ہریرہ نے فرمایا کہ اس شخص نے ابو القاسم کی نافرمانی کی ابو عیسیٰ کہتے ہیں اس باب میں حضرت عثمان سے بھی روایت ہے اور حدیث ابو ہریرہ حسن صحیح ہے اور صحابہ و تابعین کا اسی پر عمل ہے کہ اذان کے بعد مسجد سے کوئی شخص بغیر عذر کے نہ نکلے یعنی وضو نہ ہو یا کوئی ضروری کام ہو اور روایت کیا گیا ہے ابراہیم نخعی سے کہ وہ کہتے ہیں کہ مسجد سے نکلنا جائز ہے جب تک اقامت شروع نہ ہو امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں اور ہمارے نزدیک یہ اس کے لئے ہے جو باہر نکلنے کے لئے کوئی عذر رکھتا ہو اور ابو شعثاء کا نام سلیم بن اسود ہے اور وہ حدیث بھی اشعث بن ابی شعثاء نے اپنے والد سے روایت کی ہے۔

سفر میں اذان

محمود بن غیلان، وکیع، سفیان، خالد حذاء، ابو قلابہ، مالک بن حویرث سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں اپنے چچا زاد بھائی کے ساتھ حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جب تم سفر کرو تو اذان کہو اور اقامت کہو اور تم میں سے بڑا امامت کرے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اکثر اہل علم کا اس پر علم ہے کہ سفر میں اذان دی جائے اور بعض اہل علم نے کہا ہے کہ اقامت ہی کافی ہے اذان تو اس کے لئے کہ جو لوگوں کو جمع کرنے کا ارادہ کرے اور پہلا قول اصح ہے اور امام احمد اور اسحاق بھی یہی کہتے ہیں۔

اذان کی فضیلت

محمد بن حمید رازی، ابو تمیلہ، حمزہ، جابر، مجاہد، ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے اذان دی سات برس تک ثواب کی نیت سے اس کے لئے دوزخ سے برات لکھ دی گئی امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں اس باب میں ابن مسعود ثوبان معاویہ انس اور ابو سعید سے بھی روایت ہے ابن عباس کی حدیث غریب ہے ابو تمیلہ کا نام یحیی بن واضح اور ابو حمزہ سکری کا نام محمد بن میمون ہے جابر بن یزید جعفی محدثین نے ضعیف کہا ہے یحیی بن سعید اور عبدالرحمن بن مہدی نے ان سے روایات لینا ترک کر دیا ہے امام ابو عیسیٰ فرماتے ہیں میں نے سنا جارود سے وہ کہتے ہیں میں نے وکیع سے اور انہوں نے کہا اگر جابر جعفی نہ ہوتے تو اہل کوفہ حدیث کے بغیر رہ جاتے اور اگر حماد نہ ہوتے تو فقہ کے بغیر رہ جاتے۔

امام ضامن ہے اور موذن امانت دار ہے

ہناد، ابو الاحوص، ابو معاویہ، اعمش، ابو صالح، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے امام ضامن ہے اور موذن امانت دار ہے اللہ آئمہ کو ہدایت پر رکھ اور مؤذنوں کی مغفرت فرما ابو عیسیٰ فرماتیہیں اس باب میں عائشہ سہل بن سعد اور عقبہ بن عامر سے بھی روایات منقول ہیں ابو ہریرہ کی حدیث سفیان ثوری حفص بن غیاث اور کئی حضرات نے اعمش سے روایت کی ہے انہوں نے روایت کی ابو صالح سے وہ روایت کرتے ہیں ابو ہریرہ سے وہ روایت کرتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اور روایت کی اسباط بن محمد بن اعمش سے انہوں نے کہا کہ یہ حدیث مجھے ابو صالح سے انہیں ابو ہریرہ سے اور نہیں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پہنچی ہے اور نافع بن سلیمان نے روایت کیا ہے اس روایت کو محمد بن صالح سے انہوں نے اپنے باپ سے انہوں نے حضرت عائشہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ابو عیسیٰ کہتے ہیں میں نے ابو زرعہ سے سنا وہ کہتے ہیں کہ ابو صالح کی ابو ہریرہ سے مروی حدیث اصح ہے اور ابو صالح کی حضرت عائشہ سے مروی حدیث سے ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں میں نے محمد بن اسعمیل بخاری سے سنا وہ کہتے ہیں کہ ابو صالح کی عائشہ سے مروی حدیث اصح ہے علی بن مدینی سے مذکور ہے کہ ابو صالح کی ابو ہریرہ سے مروی حدیث ثابت نہیں ہے ابو صالح کی حضرت عائشہ سے مروی حدیث بھی ثابت نہیں ہے۔

جب موذن اذان دے تو سننے والا کیا کہے

اسحاق بن موسیٰ انصاری، معن، مالک، قتیبہ، مالک، زہری، عطاء بن یزید لیثی، ابو سعید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم سنو اذان تو اسی طرح کہو جس طرح کہتا ہے موذن اس باب میں ابو رافع ابو ہریرہ ام حبیبہ عبداللہ بن عمر عبداللہ بن ربیعہ عائشہ معاذ بن انس اور معاویہ سے بھی روایات مروی ہیں ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ ابو سعید کی حدیث حسن صحیح ہے اور اسی طرح روایت کیا ہے معمر اور کئی راویوں نے اس حدیث کی مثل زہری سے وہ روایت کرتے ہیں سعید بن مسیب سے وہ روایت کرتے ہیں ابو ہریرہ سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں اور مالک کی روایت اصح ہے۔

موذن کا اذان پر اجرت لینا مکروہ ہے

ہناد، ابو زبید، اشعث، حسن، عثمان بن ابو عاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آخری وصیت مجھے یہ تھی کہ میں ایسا موذن مقرر کروں جو اذان پر اجرت نہ لے امام ابو عیسیٰ فرماتے ہیں حدیث عثمان حسن ہے اور اس پر عمل سے اہل علم کا کہ موذن کے لئے اذان پر اجرت لیں مکروہ ہے اور مستحب ہے موذن کے لئے کہ وہ اذان دے آخرت کے ثواب کے لئے۔

جب موذن اذان دے تو سننے والا کیا دعا پڑھے

قتیبہ، لیث، حکیم بن عبداللہ بن قیس، عامر بن سعد، سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص موذن کی اذان سننے کے بعد یہ کہے میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور بلا شبہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں میں راضی ہوں اللہ کے رب ہونے پر اسلام کے دین ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے رسول ہونے پر تو اللہ تعالی اس کے گناہ معاف کر دیتا ہے ابو عیسیٰ فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے اور اس حدیث کو ہم نہیں جانتے مگر لیث بن سعید کی حکیم بن عبداللہ بن قیس کی روایت سے۔

اسی سے متعلق

محمد بن سہل بن عسکر بغدادی، اور ابراہیم بن یعقوب، علی بن عیاش، شعیب بن ابی حمزہ، محمد بن منکدر، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جس نے اذان سننے کے بعد کہا (اللَّہُمَّ رَبَّ ہَذِہِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِیلَةَ وَالْفَضِیلَةَ وَابْعَثْہُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِی وَعَدْتَہُ) اے اللہ اس کامل دعا اور کھڑی ہونے والی نماز کے رب محمد کو وسیلہ اور بزرگی عطاء فرما اور ان کو مقام محمود عطاء فرما جس کو تو نے ان سے وعدہ فرمایا ہے تو قیامت کے دن اس کے لئے بہی میری شفاعت واجب ہو جائے گی امام ابو عیسیٰ فرماتے ہیں حدیث جابر حسن غریب ہے محمد بن منکدر کی روایت سے ہم نہیں جانتے کہ اس روایت کو شعیب بن ابو حمزہ کے علاوہ کسی اور نے بھی روایت کیا ہو۔

اذان اور اقامت کے درمیان کی جانے والی دعا رد نہیں جاتی

محمود، وکیع، عبدالرزاق، ابو احمد، ابو نعیم، سفیان، زید عمی، ابو ایاس معاویہ بن قرہ، انس بن مالک سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اذان اور اقامت کے درمیان دعا رد نہیں ہوتی امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث انس حسن ہے اور روایت کیا ہے اس حدیث کی مثل اسحاق ہمدانی نے برید بن مریم کے واسطہ سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے۔

اللہ نے اپنے بندوں پر کتنی نمازیں فرض کی ہیں

محمد بن یحیی، عبدالرزاق، معمر، زہری، انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر شب معراج میں پچاس نمازیں فرض کی گئیں پھر کمی کی گئی ان میں یہاں تک کہ پانچ رہ گئیں پھر آواز دی گئی اے محمد ہمارے قول میں تبدیلی نہیں ہوتی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے ان پانچ کے بدلے میں پچاس کا ثواب ہے اس باب میں عبادہ بن صامت طلحہ بن عبید اللہ ابو قتادہ ابو زر مالک بن صعصعہ اور ابو سعید خدری سے بھی روایات مذکور ہیں امام ابو عیسیٰ فرماتے ہیں حدیث انس حسن صحیح غریب ہے۔

 

پانچ نمازوں کی فضیلت

علی بن حجر، اسماعیل بن جعفر، علاء بن عبدالرحمن، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پانچ نمازیں اور ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک ان کے درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہے جب تک کبیرہ گناہوں کو مرتکب نہ ہو اس باب میں جابر انس اسیدی سے بھی روایت ہے ابو عیسیٰ فرماتے ہیں حدیث ابو ہریرہ حسن صحیح ہے۔

جماعت کی فضیلت

ہناد، عبدہ، عبید اللہ بن عمر، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جماعت کے ساتھ نماز اکیلے نماز پڑھنے سے ستائیس درجے زیادہ افضل ہے اس باب میں عبداللہ بن مسعود ابی بن کعب معاذ بن جبل ابو سعید ابو ہریرہ اور انس بن مالک سے بھی روایات منقول ہیں امام ابو عیسیٰ فرماتے ہیں حدیث ابن عمر حسن صحیح ہے اور اسی طرح روایت کیا ہے نافع نے ابن عمر سے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہ جماعت کی نماز منفرد کی نماز سے ستائیس درجے زیادہ فضیلت رکھتی ہے اکثر راویوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پچیس درجے کا قول نقل کیا ہے سوائے ابن عمر کے کہ انہوں نے ستائیس درجے کہا ہے۔

٭٭ اسحاق بن موسیٰ انصاری، معن، مالک، ابن شہاب، سعید بن مسیب، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جماعت سے نماز ادا کرنے والے آدمی کی نماز اس کے لئے اکیلے پڑھنے سے پچیس درجے زیادہ فضیلت رکھتی ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

 

جو شخص اذان سنے اور اس کا جواب نہ دے

ہناد، وکیع، جعفر بن برقان، یزید بن اصم، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نے ارادہ کیا کہ اپنے جوانوں کو لکڑیوں کا ڈھیر جمع کرنے کا حکم دوں پھر میں نماز کا حکم دوں اور نماز کے لئے اقامت کہی جائے پھر میں آگ لگا دوں ان لوگوں کے گھروں کو جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے اس باب میں ابن مسعود ابو درداء ابن عباس معاذ بن انس جابر سے بھی روایات مروی ہیں ابو عیسیٰ فرماتے ہیں ابو ہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے اور کئی صحابہ سے مروی ہے کہ جو شخص اذان سنے اور اس کا جواب نہ دے تو اس کی نماز نہیں بعض اہل علم کا قول ہے کہ یہ تاکید سختی اور تنبیہ کے معنی میں ہے اور کسی شخص کے لئے جماعت کو ترک کرنے کی اجازت نہیں الا یہ کہ اس کو کوئی عذر ہو مجاہد نے کہا کہ سوال کیا گیا ابن عباس سے ایسے شخص کے متعلق جو دن میں روزے رکھتا ہو اور رات بھر نماز پڑھتا ہو لیکن جمعہ میں حاضر ہوتا اور نہ جماعت میں فرمایا وہ جہنمی ہے ہم سے روایت کیا اسے حماد نے انہوں نے محاربی سے اور وہ لیث سے اور وہ مجاہد سے روایت کرتے ہیں اور اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ وہ شخص جمعہ اور جماعت میں نہ حاضر ہوتا ہو قصداً یا تکبر کی وجہ سے یا جماعت کو حقیر سمجھ کر (وہ جہنمی ہے)

وہ شخص جو اکیلا نماز پڑھ چکا ہو پھر جماعت پائے

احمد بن منیع، ہشیم، یعلی بن عطاء، جابر بن یزید بن اسود سے روایت کرتے ہیں وہ اپنے والد سے کہ میں حاضر ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ حج میں پس میں نے نماز پڑھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ صبح کی مسجد خیف میں جب نماز ختم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہماری طرف متوجہ ہوئے دیکھا دو آدمیوں کو کہا انہوں نے با جماعت نماز نہیں پڑھی تھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا انہیں میرے پاس لاؤ پس انہیں لایا گیا اس حالت میں کہ ان کی رگیں خوف سے پھڑک رہیں تھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا تمہیں ہمارے ساتھ کس چیز نے نماز پڑھنے سے روکا انہوں نے کہا ہم نے اپنی منزلوں میں نماز ادا کر لی تھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایسا نہ کیا کرو اگر تم اپنی منزلوں میں نماز پڑھ لو اور پھر مسجد میں آؤ تو جماعت کے ساتھ نماز پڑھو وہ تمہارے لئے نقل ہو گئی اس باب میں محجن اور یزید بن عامر سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ فرماتے ہیں یزید بن اسود کی حدیث حسن صحیح ہے اور یہ کئی علماء کا قول بھی ہے اور یہی کہتے ہیں سفیان ثوری شافعی احمد اور اسحاق کہ اگر کوئی شخص اکیلا نماز پڑھ چکا ہو پھر جماعت پا لے تو تمام نمازیں جماعت میں لوٹا سکتا ہے اگر مغرب کی نماز اکیلے پڑھی پھر جماعت مل گئی تو یہ حضرات کہتے ہیں کہ وہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھے اور اس میں ایک رکعت ملا کر اسے جفت کر دے اور جو نماز اس نے اکیلے پڑھی ہو گی وہی فرض ہو گی۔

اس مسجد میں دوسری جماعت جس میں ایک مرتبہ جماعت ہو چکی ہو

ہناد، عبدہ، سعید بن ابو عروبہ، سلیمان ناجی، ابو متوکل، ابو سعید سے روایت ہے کہ ایک آدمی آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نماز پڑھ لینے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کون تجارت کرے گا اس آدمی کے ساتھ ایک شخص کھڑا ہو اور اس نے اس کے ساتھ نماز پڑھی لی اس باب میں ابو امامہ ابو موسیٰ اور حکم بن عمیر سے بھی روایات مروی ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی نے کہا کہ ابو سعید کی حدیث حسن ہے اور صحابہ و تابعین میں سے کئی اہل علم کا یہ قول ہے کہ جس مسجد میں جماعت ہو چکی ہو اس میں دوبارہ جماعت کرنے میں کوئی حرج نہیں اور یہی کہتے ہیں احمد اور اسحاق بھی اور بعض اہل علم کے نزدیک وہ نماز پڑھیں اکیلے اکیلے یہ قول سفیان ثوری ابن مبارک امام مالک اور امام شافعی کاہے ان مسلک یہ ہے کہ وہ الگ الگ نماز پڑھیں۔

عشاء اور فجر کی نماز با جماعت پڑھنے کی فضلیت

محمود بن غیلان، بشر بن سری، سفیان، عثمان بن حکیم، عبدالرحمن بن ابو عمرہ، عثمان بن عفان سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو حاضر ہوا عشاء کی نماز کے لئے اس کے لئے نصف رات کے قیام کا ثواب ہے اور جس نے صبح اور عشاء کی نماز با جماعت پڑھی اس کے لئے پوری رات کے قیام کا اجر ہے اس باب میں ابن عمر ابو ہریرہ انس عمارہ بن روبیہ جندب ابی بن کعب ابو موسیٰ بریدہ سے بھی روایات مروی ہیں۔

٭٭ محمد بن بشار، یزید بن ہارون، داؤد ابو ہند، حسن، جندب بن سفیان سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے نماز پڑھی صبح کی وہ اللہ کی پناہ میں ہے پس تم اللہ کی پناہ نہ توڑو امام ابو عیسیٰ ترمذی نے کہا حدیث عثمان حسن صحیح ہے اور اس حدیث کو روایت کیا ہے عبدالرحمن بن ابی عمرہ نے حضرت عثمان سے موقوفاً اور کئی سندوں سے حضرت عثمان سے بھی مروی ہے۔

٭٭ عباس عنبری، یحیی بن کثیر، ابو غسان عبری، اسماعیل کحال، عبداللہ بن اوس خزاعی، بریدہ اسلمی سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اندھیروں میں مسجد کی طرف چلنے والوں کو قیامت کے دن کامل نور کی خوشخبری دو۔

پہلی صف کی فضیلت

قتیبہ، عبدالعزیز بن محمد، سہیل بن ابو صالح، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مردوں کی صفوں میں سے سب سے بہتر پہلی صف اور سب سے بری آخری صف ہے جبکہ عورتوں کی صفوں میں بہتریں صف آخری اور سب سے بری پہلے صف ہے اس باب میں جابر ابن عباس اور ابو سعید عائشہ عرباض بن ساریہ اور انس سے بھی روایات مروی ہیں ابو عیسیٰ فرماتے ہیں حدیث ابو ہریرہ حسن صحیح ہے۔

٭٭ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور مروی ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پہلی صف کے لئے تین مرتبہ اور دوسری صف کے لئے ایک مرتبہ استغفار کرتے تھے فرمایا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہا اذان دینے اور پہلے صف میں نماز پڑھنے کا کتنا اجر ہے پھر وہ اسے قرعہ اندازی کے بغیر نہ پائیں تو ضرور وہ قرعہ اندازی کریں یہ حدیث ہم سے روایت کی اسحاق بن موسیٰ انصاری نے ان سے معن نے ان سے مالک نے اور روایت کی ہم سے قتیبہ نے انہوں نے بھی روایت کی مالک سے انہوں نے سمی سے انہوں نے ابو صالح سے انہوں نے ابو ہریرہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اوپر کی حدیث کی طرح۔

صفوں کو سیدھا کرنا

قتیبہ، ابو عوانہ، سماک بن حرب، نعمان بن بشیر، کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہماری صفوں کو درست فرمایا کرتے تھے ایک مرتبہ نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص کو دیکھا اس کا سینہ صف سے آگے بڑھا ہوا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اپنی صفوں کو سیدھا کرو ورنہ اللہ تعالی پھوٹ ڈال دے گا تمہارے دلوں میں اس باب میں حضرت جابر ابن سمرہ براء جابر بن عبداللہ انس ابو ہریرہ اور حضرت عائشہ سے بھی روایات مروی ہیں ابو عیسیٰ فرماتے ہیں کہ نعمان بن بشیر کی مروی حدیث حسن صحیح ہے اور مروی ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ صفوں کو سیدھا کرنا نماز کو پورا کرنے میں شامل ہے اور مروی ہے حضرت عمر سے کہ وہ ایک آدمی کو صفیں سیدھی کرنے کے لئے مقرر کرتے تھے اور اس وقت تک تکبیر نہ کہتے جب تک انہیں بتا نہ دیا جاتا کہ صفیں سیدھی ہو گئی ہیں مروی ہے حضرت علی اور عثمان سے کہ وہ دونوں بھی یہی کام کرتے اور فرمایا کرتے برابر ہو جاؤ اور حضرت علی فرمایا اے فلاں آگے ہو جاؤ اے فلاں پیچھے ہو جاؤ۔

نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم میں سے عقلمند اور ہوشیار میرے قریب رہا کریں

نصر بن علی جہضمی، یزید بن زریع، خالد حذاء، ابو معشر، ابراہیم، علقمہ، عبداللہ سے روایت ہے کہ فرمایا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میرے قریب تم میں سے عقلمند اور سمجھدار لوگ کھڑے ہوں پھر جو ان کے قریب ہوں پھر وہ جو ان کے قریب ہو اور نہ تم اختلاف کرو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں تاکہ تمہارے دلوں میں پھوٹ نہ پڑھ جائے اور باز رہو بازاروں میں شور وغل سے اس باب میں ابی بن کعب ابن مسعود ابو سعید براء اور انس سے بھی روایات مروی ہیں امام ترمذی فرماتے ہیں عبداللہ بن مسعود کی حدیث حسن غریب ہے اور مروی ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مہاجرین اور انصار کا اپنے قریب رہنا پسند تھا تاکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے محفوظ رکھیں اور خالد الخداء خالد بن مہران ہیں ان کی کنیت ابو المنازل ہے میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے سنا کہ خالد حذاء نے کبھی جوتا نہیں بنایا وہ ایک جوتے بنانے والے کے پاس بیٹھا کرتے تھے اس لئے اسی نسبت سے مشہور ہو گئے اور ابو معشر کا نام زیاد بن کلیب ہے۔

ستونوں کے درمیان صف بنانا مکروہ ہے

ہناد، وکیع، سفیان، یحیی بن ہانی بن عروہ مرادی، عبدالحمید بن محمود کہتے ہیں ہم نے امراء میں سے امیر کے پیچھے نماز پڑھی پس ہمیں مجبور کیا لوگوں نے نماز پڑھی دو ستونوں کے درمیان اور جب ہم نماز پڑھ چکے تو فرمایا انس بن مالک نے ہم اس سے پرہیز کرتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں اس باب میں قرہ بن ایاس مزنی سے بھی روایت ہے ابو عیسیٰ فرماتے ہیں حدیث انس حسن صحیح ہے اور مکروہ سمجھتے ہیں بعض اہل علم ستونوں کے درمیان صف بنانے کو اور یہ احمد اور اسحاق کا قول ہے بعض اہل علم نے اس کی اجازت دی ہے۔

صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنا

ہناد، ابو الاحوص، حصین، ہلال بن یساف کہتے ہیں کہ زیاد بن ابی الجعد نے میرا ہاتھ پکڑا رقہ کے مقام پر اور مجھے اپنے ساتھ ایک شیخ کے پاس لے گئے انہیں وابصہ بن معبد کہا جاتا ہے ان کا تعلق قبیلہ بنی اسد سے تھا مجھ سے زیاد نے کہا مجھے روایت بیان کی اس شیخ نے کہ ایک آدمی نے نماز پڑھی صف کے پیچھے اکیلے تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے حکم دیا کہ وہ نماز کو لوٹائے اور اس بات کو شیخ سن رہے تھے اس باب میں علی بن شیبان اور ابن عباس سے بھی احادیث مروی ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں وابصہ کی حدیث حسن ہے اور مکروہ کہا اہل علم کی ایک جماعت نے کہ کوئی شخص صف کے پیچھے اکیلا نماز پڑھے اور وہ کہتے ہیں کہ اگر اس نے صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھی تو اسے نماز دوبارہ پڑھنی ہو گی اور یہ قول ہے احمد اور اسحاق کا اور اہل علم کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ اس کی نماز ہو جائے گی اور یہ قول ہے سفیان ثوری ابن مبارک اور امام شافعی کا اہل کوفہ میں سے بھی علماء کی ایک جماعت وابصہ بن معبد کی روایت پر عمل کرتی ہے وہ کہتے ہیں کہ جس آدمی نے صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھی ہو تو وہ نماز دوبارہ پڑھے ان میں حماد بن ابی سلیمان ابن ابی لیلی اور وکیع شامل ہیں اور روایت کی ہے حدیث حصین کئی لوگوں نے ہلال بن ابو یساف سے ابو الحفص کی روایت کی طرح روایت ہے زیاد بن ابو الجعد سے کہ مروی ہے وابصہ سے اور حصین کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ہلال نے وابصہ کا زمانہ پایا ہے محدثین اس بارے میں اختلاف کرتے ہیں بعض کے نزدیک عمرو بن مرہ کی ہلال بن یساف سے مروی حدیث اصح ہے جو ہلال عمرو بن راشد سے اور وہ وابصہ سے روایت کرتے ہیں اور بعض محدثین کا کہنا ہے کہ حصین کی ہلال بن یساف سے مروی حدیث اصح ہے جو وہ زیاد بن ابی جعد اسے اور وہ وابصہ بن معبد سے روایت کرتے ہیں ابو عیسیٰ ترمذی کہتے ہیں میرے نزدیک یہ حدیث عمرو بن مرہ کی حدیث سے اصح ہے کیونکہ ہلال بن یساف سے اسی سند سے کئی احادیث مروی ہیں کہ وہ زیادہ بن جعد سے اور وہ وابصة بن معبد سے روایت کرتے ہیں محمد بن بشار سے روایت ہے کہ وہ محمد بن جعفر سے وہ شعبہ سے وہ عمرو بن مروہ سے وہ زیاد بن ابی جعد سے اور وہ وابصہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ بیان کیا ہم سے محمد بن بشار نے ان سے محمد بن جعفر نے ان سے شعبہ نے ان سے عمرو بن مرہ نے ان سے ہلال بن یساف نے ان سے عمرو بن راشد نے ان سے وابصہ بن معبد نے کہ ایک شخص نے صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھی تو اس کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم دیا ابو عیسیٰ فرماتے ہیں میں نے جارود سے سنا انہوں نے کہا میں نے سنا وکیع سے وہ کہتے تھے کہ جب کوئی صف کے پیچھے اکیلا نماز پڑھے تو پھر دوبارہ نماز پڑھے۔

وہ شخص جس کے ساتھ نماز پڑھنے والا ایک ہی آدمی ہو

قتیبہ، داؤد بن عبدالرحمن عطار، عمرو بن دینار، کریب، مولی بن عباس، ابن عباس کہتے ہیں کہ میں نے ایک رات نماز پڑھی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بائیں طرف کھڑا ہو گیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میرا سر داہنی طرف سے پکڑ کر مجھے اپنی دائیں طرف کر دیا اس باب میں انس سے بھی روایت ہے ابو عیسیٰ فرماتے ہیں حدیث ابن عباس حسن صحیح ہے صحابہ کرام اور بعد کے اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ اگر امام کے ساتھ ایک ہی شخص ہو تو اسے امام کے ساتھ دائیں جانب کھڑا ہونا چاہئے۔

وہ شخص جس کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے دو آدمی ہوں

بندار محمد بن بشار، محمد بن ابو عدی، اسماعیل بن مسلم، حسن، سمرہ بن جندب کہتے ہیں کہ ہمیں حکم دیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہ جب ہم تین آدمی ہوں تو ہم میں سے ایک آگے بڑھے اس باب میں ابن مسعود اور جابر سے بھی روایت ہے ابو عیسیٰ کہتے ہیں حدیث سمرہ غریب ہے اور اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ جب تین آدمی ہوں تو دو امام کے پیچھے کھڑے ہوں اور مروی ہے ابن مسعود سے کہ انہوں نے علقمہ اور اسود کی امامت کی تو ایک کو دائیں اور دوسرے کو بائیں جانب کھڑا کیا اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کی اور بعض لوگوں نے اسماعیل بن مسلم کے حافظے پر اعتراض کیا ہے کہ ان کا حافظہ اچھا نہیں

وہ شخص جو مردوں اور عورتوں کی امامت کرے

اسحاق انصاری، معن، مالک، اسحاق عبداللہ بن ابو طلحہ، انس بن مالک سے روایت ہے کہ ان کی دادی ملیکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اپنے پکائے ہوئے کھانے سے دعوت کی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس میں سے کھایا پھر فرمایا کھڑے ہو جاؤ تاکہ ہم تمہارے ساتھ نماز پڑھیں انس نے کہا میں کھڑا ہو اور میں نے اپنی چٹائی اٹھائی جو زیادہ استعمال ہونے کی وجہ سے سیاہ ہو چکی تھی میں نے اس پر پانی چھڑکا اور اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑی ہوئے میں نے اور یتیم نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے صف بنائی جبکہ بڑھیا ہمارے پیچھے کھڑی ہو گئیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز پڑھائی دو رکعت پھر ہماری طرف متوجہ ابو عیسیٰ فرماتے ہیں حدیث انس صحیح ہے اور اس پر عمل ہے اہل علم کا کہ اگر امام کے ساتھ ایک ہی آدمی اور عورت ہو تو آدمی امام کے دائیں جانب اور عورت پیچھے کھڑی ہو جائے بعض علماء اس حدیث سے صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنے کے جواز پر استدلال کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ بچے کی نماز ہی نہیں لہذا انس نے تنہا کھڑے ہو کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے نماز پڑھی لیکن یہ صحیح نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں یتیم کے ساتھ کھڑا کیا تھا اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یتیم کی نماز کو صحیح نہ سمجھتے تو انہیں انس کے ساتھ کھڑا نہ کرتے بلکہ انس کو اپنے دائیں طرف کھڑا کرتے اور روایت کی ہے موسیٰ بن انس نے انس سے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو دائیں جانب کھڑا کیا اور اس حدیث میں اس بات پر بھی دلالت ہے کہ یہ نفل نماز تھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے برکت کے ارادے سے ایسا کیا

امامت کا کون زیادہ حقدار ہے

ہناد، ابو معاویہ، اعمش، محمود بن غیلان، ابو معاویہ، ابن نمیر، اعمش، اسمیعل بن رجاء زبیدی، اوس بن ضمعج، ابو مسعود بن انصاری سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قول کی امامت ان میں بہترین قرآن پڑھنے والا کرے اگر قرات میں برابر ہوں تو جو سنت کے متعلق زیادہ علم رکھتا ہو اگر اس میں بھی برابر ہوں تو جس نے پہلے ہجرت کی ہو اگر ہجرت میں بھی برابر ہوں تو جو زیادہ عمر رسیدہ ہو وہ امامت کرے اور کسی کی اجازت کے بغیر اس کی امامت کی جگہ پر امامت نہ کی جائے اور کوئی شخص گھر والے کی اجازت کے بغیر اس کی مسند پر نہ بیٹھے محمود نے اپنی حدیث میں (اَکْبَرُہُمْ سِنًّا) کی جگہ (أَقْدَمُہُمْ سِنًّا) کے الفاظ کہے ہیں اور اس باب میں ابو سعید انس بن مالک مالک بن حویرث اور عمرو بن ابی سلمہ سے بھی روایات مروی ہیں ابو عیسیٰ فرماتے ہیں حدیث ابو مسعود حسن صحیح ہے اور اہل علم کا اس پر عمل ہے کہ جو قرات میں افضل اور سنت سے زیادہ واقفیت رکھتا ہو وہ امامت کا زیادہ مستحق ہے بعض حضرات نے کہا ہے کہ اگر اس نے کسی اور کو امامت کی اجازت دے دی تو اس کے لئے اس میں کوئی حرج نہیں اور بعض نے اسے مکروہ کہا ہے وہ کہتے ہیں کہ گھر والے کا نماز پڑھنا سنت ہے امام احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا قول کہ کوئی شخص آپ نے غلبہ کی جگہ پر ماموم نہ بنایا جائے اور نہ کوئی شخص کسی کے گھر میں اس کی با عزت جگہ پر اس کی اجازت کے بغیر بیٹھے لیکن اگر کوئی اس کی اجازت دے تو مجھے امید ہے کہ یہ ان تمام باتوں کی اجازت ہو گی اور ان کے نزدیک صاحب خانہ کی اجازت سے نماز پڑھانے میں کوئی حرج نہیں

اس اگر کوئی امامت کرے تو قرات میں تخفیف کرے

قتیبہ، مغیرہ بن عبدالرحمن، ابو زناد، اعرج، ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی امامت کرے تو تخفیف کرے کیونکہ ان میں چھوٹے ضعیف اور مریض بھی ہوتے ہیں اور جب اکیلا نماز پڑھے تو جیسے چاہے پڑھے اس باب میں عدی بن حاتم انس جابر بن سمرہ مالک بن عبداللہ ابو واقد عثمان بن ابو العاص ابو مسعود جابر بن عبداللہ اور ابن عباس سے بھی روایات مروی ہیں ابو عیسیٰ کہتے ہیں حدیث ابو ہریرہ حسن صحیح ہے اور یہی قول ہے اکثر اہل علم کا کہ امام کو چاہے کہ نماز کو طویل نہ کرے کمزور بوڑھے مریض کی تکلیف کے خوف سیابوزناد کا نام ذکوان ہے اور اعرج عبدالرحمن بن ہرمزالمدنیی ہیں ان کی کنیت ابو داؤد ہے

٭٭ قتیبہ، ابو عوانہ، قتادہ، انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تمام لوگوں سے ہلکی اور مکمل نماز پڑھنے والے تھے یہ حدیث حسن صحیح ہے

نماز کی تحریم و تحلیل

سفیان بن وکیع، محمد بن فضیل ابو سفیان، ابو نضرہ، ابو سعید سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز کی کنجی طہارت ہے اس کی تحریم تکبیر اور اس کی تحلیل سلام ہے اور اس آدمی کی نماز نہیں ہوتی جس نے سورة فاتحہ اور اس کے بعد کوئی سورہ نہ پڑھی فرض نماز ہو یا اس کے علاوہ اس باب میں حضرت علی اور عائشہ سے بھی روایت ہے اور حضرت علی بن ابی طالب کی حدیث اسناد کے اعتبار سے حضرت ابو سعید کی حدیث سے بہت بہتر اور اصح ہے ہم نے یہ حدیث کتاب الوضو میں بیان کی ہے اور اسی پر صحابہ اور بعد کے اہل علم کا عمل ہے اور سفیان ثوری ابن مبارک شافعی اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے کہ نماز کی تحریم تکبیر ہے اور تکبیر کے بغیر آدمی نماز میں داخل نہیں ہوتا امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ میں نے سنا ابو بکر محمد بن ابان سے وہ کہتے تھے میں نے سنا عبدالرحمن بن مہدی سے وہ کہتے تھے اگر کوئی آدمی اللہ کے نوے ناموں کو ذکر کرے نماز شروع کرے اور تکبیر نہ کہے تو اس کی نماز جائز نہیں اور اگر سلام پھیرنے سے پہلے کسی کا وضو ٹوٹ جائے تو میں حکم کرتا ہوں کہ وضو کرے پھر واپس آئے اپنی جگہ پر اور سلام پھیرے اور اس کی نماز اپنے حال پر ہے اور ابو نضرہ کا نام منذر بن مالک بن قطعہ ہے

تکبیر کے وقت انگلیوں کا کھلا رکھنا

قتیبہ، ابو سعید اشج، یحیی بن یمان، ابن ابی ذئب، سعید بن سمعان، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب تکبیر کہتے نماز کے لئے تو اپنی انگلیاں سیدھی رکھتے امام ترمذی کہتے ہیں حضرت ابو ہریرہ کی حدیث کو کئی راویوں نے ابن ابی ذئب سے انہوں نے سعید بن سمعان سے اور انہوں نے ابو ہریرہ سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب نماز شروع کرتے تو ہاتھوں کی انگلیوں کو اوپر لے جاتے سیدھا کر کے یہ روایت اصح ہے یحیی بن یمان کی روایت سے اور اس حدیث میں ابن یمان نے خطا کی ہے

٭٭ عبد اللہ بن عبدالرحمن، عبید اللہ بن عبدالمجید حنفی، ابن ابی ذئب، سعید بن سمعان سے روایت ہے کہ میں نے ابو ہریرہ سے سنا وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب نماز پڑھتے تو انگلیوں کو سیدھا کر کے دونوں ہاتھ اٹھاتے ابو عیسیٰ کہتے ہیں کہ عبداللہ یحیی بن یمان کی حدیث سے اس حدیث کو اصح سمجھتے تھے وہ کہتے تھے کہ یحیی بن یمان کی حدیث میں خطا ہے

 

تکبیر کی فضلیت کے بارے میں

عقبہ بن مکرم، نصر بن علی، سلم بن قتیبہ، طعمہ بن عمرو، حبیب بن ابو ثابت، انس بن مالک سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جس نے چالیس دن تک تکبیر اولیٰ کے ساتھ خالص اللہ کی رضا کے لئے باجماعت نماز پڑھی اس کی دو چیزوں سے نجات لکھ دی جاتی ہے جہنم سے نجات اور نفاق سے نجات امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حضرت انس سے مرفوعاً بھی مروی ہے ہم نہیں جانتے کہ اس حدیث کو روایت کیا ہے اسماعیل بن عیاش نے عمارہ بن غزیہ سے انہوں نے انس بن مالک سے انہوں نے عمر بن خطاب سے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس کی مثل اور یہ حدیث غیر محفوظ اور مرسل ہے کیونکہ عمارہ بن غزیہ نے انس بن مالک کو نہیں پایا

نماز شروع کرتے وقت کیا پڑھے

محمد بن موسیٰ بصری، جعفر بن سلیمان ضبعی، علی بن علی رفاعی، ابو متوکل، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے رات کو تو تکیبر کہتے پھر فرماتے (سُبْحَانَکَ اللَّہُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالَی جَدُّکَ وَلَا إِلَہَ غَیْرُکَ) اے اللہ تیری ذات پاک ہے اور سب تعریفیں تیرے لئے ہیں اور تیرا نام برکت والا اور تیری شان بلند وبرتر ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں پھر فرماتے اللَّہُ أَکْبَرُ کبیرا پھر فرماتے (أَعُوذُ بِاللَّہِ السَّمِیعِ الْعَلِیمِ مِنْ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ مِنْ ہَمْزِہِ وَنَفْخِہِ وَنَفْثِہِ) اس باب میں حضرت علی عبداللہ بن مسعود عائشہ جابر جبیر بن مطعم اور ابن عمر سے بھی روایات مروی ہیں ابو عیسیٰ فرماتے ہیں حدیث ابو سعید اس باب میں مشہور ترین حدیث ہے اور علماء کی ایک جماعت کا اسی پر عمل ہے جبکہ اکثر اہل علم کے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ دعا بھی منقول ہے (سُبْحَانَکَ اللَّہُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالَی جَدُّکَ وَلَا إِلَہَ غَیْرُکَ) اور اسی طرح مروی ہے عمر بن خطاب اور ابن مسعود سے اور اکثر تابعین اور ان کے علاوہ اہل علم کا یہی عمل ہے ابوسعید کی حدیث کی سند پر کلام کیا گیا ہے اور یحیی بن سعید اور علی بن علی نے بھی ابو سعید کی حدیث پر کلام کیا ہے اور امام احمد کا قول ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں

٭٭ حسن بن عرفہ، یحیی بن موسی، ابو معاویہ، حارثہ بن ابو رجال، عمرہ، عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب نماز شروع کرتے تو یہ پڑھتے (سُبْحَانَکَ اللَّہُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالَی جَدُّکَ وَلَا إِلَہَ غَیْرُکَ) امام ابو عیسیٰ ترمذی کہتے ہیں اس حدیث کو ہم اس سند کے علاوہ نہیں جانتے اور حارثہ کا حافظ قوی نہیں تھا اور ابو رجال کا نام محمد بن عبدالرحمن ہے

 

 

بسم اللہ کو زور سے نہ پڑھنا

احمد بن منیع، اسماعیل بن ابراہیم، سعیدجریری، قیس بن عبایہ، ابن عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کے بیٹے کہتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے نماز میں (بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ) پڑھتے ہوئے سنا تو کہا اے بیٹے یہ تو نئی چیز ہے نئی چیزوں سے بچو ابن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے صحابہ میں سے کسی کو بھی بدعات پیدا کرنے کا اپنے والد سے زیادہ دشمن نہیں دیکھا اور کہا ان کے والد نے میں نے نماز پڑھی ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ابو بکر اور عمر کے ساتھ میں نے ان میں سے کسی ایک کو بھی (بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ) بلند آواز سے پڑھتے ہوئے نہیں سنا پس تم نہ کہو اور جب تم نماز پڑھو تو (الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ) سے شروع کرو امام ترمذی فرماتے ہیں عبداللہ بن مغفل کی حدیث حسن ہے اور اس پر اکثر اہل عمل جن میں ابو بکر عمر عثمان علی وغیرہ اور تابعین کا عمل ہے اور یہی قول ہے سفیان ثوری ابن مبارک احمد اور اسحاق کا کہ (بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ) کو اونچی آواز سے نہ پڑھتے بلکہ وہ فرماتے ہیں کہ (بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ) آہستہ پڑھے

٭٭ احمد بن عبدہ، معتمربن سلیمان، اسماعیل بن حماد، ابو خالد، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی نماز (بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ) سے شروع فرماتے تھے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی سند قوی نہیں بعض اہل علم کا صحابہ میں سے اسی پر عمل ہے جن میں ابو ہریرہ ابن عمر ابن عباس اور ابن زبیر شامل ہیں اور صحابہ کے بعد تابعین میں سے بعض اہل علم کہتے کہ (بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ) بلند آواز سے پڑھے اور امام شافعی اور اسمٰعیل بن حماد بن سلیمان اور ابو خالد الوالبی کوفی ان کا نام ہرمز ہے ان کا بھی یہی قول ہے

الحمد للہ رب العالمین سے قرات شروع کی جائے

قتیبہ، ابو عوانہ، قتادہ، انس روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ابو بکر عمر اور عثمان قرات شروع کرتے تھے (اَلْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ) سے ابو عیسیٰ فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور صحابہ تابعین اور بعد کے اہل علم کا اس پر علم تھا وہ قرات کو (اَلْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ) سے شروع کرتے تھے امام شافعی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ابو بکر عمر اور عثمان قرات (اَلْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ) سے شروع کرتے تھے اور دوسری سورت سے سورة فاتحہ کو پہلے پڑھتے تھے یہ مطلب نہیں کہ وہ بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ بالکل نہیں پڑھتے تھے امام شافعی کا مسلک یہ ہے کہ بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ سے ابتداء کی جائے اور جہری نمازوں میں بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ جہرا پڑھی جائے اور سری نمازوں میں آہستہ پڑھی جائے

سورت فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہو تی

محمد بن یحیٰ ابن ابی عمر، علی بن حجر، سفیان، زہری، محمود بن ربیع، عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کی نماز نہیں جس نے سورة فاتحہ نہیں پڑھی اس باب میں ابو ہریرہ عائشہ انس ابو قتادہ اور عبداللہ بن عمر سے بھی روایات مروی ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث عبادہ حسن صحیح ہے اور صحابہ میں سے اکثر اہل علم کا اس پر عمل ہے ان میں حضرت عمر بن خطاب جابر بن عبداللہ عمران بن حصین وغیرہ بھی شامل ہیں یہ کہتے ہیں کہ کوئی نماز نہیں سورہ فاتحہ کے بغیر اور ابن مبارک شافعی احمد اور اسحاق بھی یہی کہتے ہیں

آمین کہنا

بندار محمد بن بشار، یحیی بن سعید، عبدالرحمن بن مہدی، سفیان، سلمہ بن کہیل، حجر بن عنبس، وائل بن حجر فرماتے ہیں کہ میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (غَیْرِالْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّینَ) پڑھا اور آواز کو کھینچ کر آمین کہا اس باب میں حضرت علی اور ابو ہریرہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث وائل بن حجر حسن ہے اور کئی صحابہ و تابعین اور بعد کے فقہاء کا یہی نظریہ ہے کہ آمین بلند آواز سے کہی جائے آہستہ نہ کہی جائے امام شافعی احمد اور اسحاق کا یہی قول ہے شعبہ نے اس حدیث کو بواسطہ سلمہ بن کہیل حجر ابو عبنس اور علقمہ بن وائل حضرت وائل بن حجر سے روایت کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّینَ) پڑھ کر آمین آہستہ کہی ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ میں نے امام بخاری سے سنا وہ فرماتے تھے سفیان کی حدیث شعبہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے شعبہ نے کئی جگہ خطا کی ہے حضرت ابو عنبس کہا جبکہ وہ حجر بن عنبس ہیں جن کی کنیت ابو السکن ہے شعبہ نے سند میں علقمہ بن وائل کا ذکر کیا حالانکہ علقمہ نہیں بلکہ حضرت بن عنبس نے وائل بن حجر سے روایت کیا تیسری خطا یہ کہ انہوں نے کہا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آہستہ آمین کہی حالانکہ وہاں بلند آواز سے آمین کہنے کے الفاظ ہیں امام ترمذی فرماتے ہیں کہ میں نے ابو زرعہ سے اس حدیث کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ سفیان کی حدیث اصح ہے امام ترمذی کہتے ہیں کہ علاء بن صالح اسدی نے مسلم بن کہیل سے سفیان کی حدیث کے مثل روایت کی ہے امام ترمذی فرماتے ہیں کہ ہم سے ابو بکر محمد بن ابان نے انہوں نے عبداللہ بن نمیر سے انہوں نے علاء بن صالح اسدی انہوں نے مسلم بن کہیل سے انہوں نے حجر بن عنبس سے انہوں نے وائل بن حجر سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سفیان کی حدیث میں مانند نقل کی ہے جو سفیان سلمہ بن کہیل سے بیان کرتے ہیں

آمین کی فضلیت

ابوکریب محمد بن علاء، زید بن حباب، مالک بن انس، زہری، سعید بن مسیب، ابو سلمہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے برابر ہو جائے اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی نے فرمایا حدیث ابو ہریرہ حسن ہے

نماز میں دو مرتبہ خاموشی اختیار کرنا

ابو موسیٰ محمد بن مثنی، عبدالاعلی، سعید، قتادہ، حسن، سمرہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دو سکتے یاد کئے ہیں اس پر عمران بن حصین نے اس کا انکار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں تو ایک ہی سکتہ یاد ہے پھر ہم نے ابی بن کعب کو مدینہ لکھا تو انہوں نے جواب دیا کہ سمرہ کو صحیح یاد ہے سعید نے کہا ہم نے قتادہ سے پوچھا کہ دو سکتے کیا ہیں تو آپ نے فرمایا جب نماز شروع کرتے اور جب قرات سے فارغ ہوتے پھر بعد میں فرمایا جب (وَلَا الضَّالِّینَ) پڑھتے راوی کہتے ہیں انہیں یہ قرات سے فارغ ہونے کے بعد والا سکتہ بہت پسند آیا تھا یہاں تک کہ سانس ٹھہر جائے اس باب میں حضرت ابو ہریرہ سے بھی روایت ہے کہ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث سمرہ حسن ہے اور یہ کئی اہل علم کا قول ہے کہ نماز شروع کرنے کے بعد تھوڑی دیر خاموش رہنا اور قرات سے فارغ ہونے کے تھوڑی دیر سکوت کرنا مستحب ہے یہ احمد اسحاق اور ہمارے اصحاب کا قول ہے

نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا جائے

قتیبہ، ابو الاحوص، سماک بن حرب، قبیصہ بن ہلب سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہماری امامت کرتے اور اپنا بایاں ہاتھ دائیں ہاتھ سے پکڑتے تھے اس باب میں وائل بن حجر غطیف بن حارث ابن عباس ابن مسعود اور سہل بن سہل سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی کہتے ہیں کہ ہلب کی مروی حدیث حسن ہے اس پر عمل ہے صحابہ و تابعین اور ان کے بعد کے اہل علم کا کہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا جائے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ ہاتھ کو ناف کے اوپر باندھے اور بعض کہتے ہیں کہ ناف کے نیچے باندھے اور یہ سب جائز ہے ان کے نزدیک اور ہلب کا نام یزید بن قنافہ طائی ہے

رکوع اور سجدہ کرتے ہوئے تکبیر کہنا

قتیبہ، ابو الاحوص، ابو اسحاق ، عبدالرحمن بن اسود، علقمہ، اسود، عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تکبیر کہتے تھے جب بھی جھکتے اٹھتے کھڑے ہوتے یا بیٹھتے اور ابو بکر عمر بھی اسی طرح کیا کرتے تھے اس باب میں حضرت ابو ہریرہ حضرت انس حضرت ابن عمر ابو مالک اشعری ابو موسیٰ عمران بن حصین وائل بن حجر اور ابن عباس سے بھی روایات مروی ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث عبداللہ بن مسعود حسن صحیح ہے اور اسی پر عمل ہے صحابہ کرام کا ان میں سے ابو بکر عمر اور عثمان اور حضرت علی وغیرہ بھی ہیں یہی قول ہے تابعین عام فقہاء اور علماء کا

٭٭ عبد اللہ بن منیر، ابن جریج، زہری، ابو بکر بن عبدالرحمن، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تکبیر کہتے تھے جھکتے وقت امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور یہی قول ہے صحابہ تابعین اور بعد کے اہل علم کا کہ آدمی رکوع اور سجدے میں جاتے وقت تکبیر کہے

رکوع کرتے وقت دونوں ہاتھ اٹھانا

قتیبہ، ابن ابی عمر، سفیان بن عیینہ، زہری، سالم، ابن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز شروع کرتے تو دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے پھر رکوع میں جاتے ہوئے اور رکوع سے اٹھتے ہوئے بھی اسی طرح کرتے ابن عمر نے اپنی حدیث میں (وَکَانَ لَا یَرْفَعُ بَیْنَ السَّجْدَتَیْنِ) کے الفاظ کا اضافہ کیا ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں فضل بن صباح بغدادی سفیان بن عیینہ سے اور وہ زہری سے اسی سند سے ابن عمر کی روایت کے مثل روایت کرتے ہیں اس باب میں حضرت عمر علی وائل بن حجر مالک بن حویرث انس ابو ہریرہ ابو حمید ابو اسید سہل بن سعید محمد بن سلمہ ابو قتادہ ابو موسیٰ اشعری جابر اور عمیر لیثی سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی کہتے ہیں حدیث ابن عمر حسن صحیح ہے اور صحابہ میں سے اہل علم جن میں ابن عمر جابر بن عبداللہ ابو ہریرہ انس ابن عباس عبداللہ بن زبیر اور تابعین میں سے حسن بصری عطاء طاؤس مجاہد نافع سالم بن عبداللہ سعید بن جبیر اور آئمہ کرام میں سے عبداللہ بن مبارک امام شافعی امام احمد امام اسحاق ان سب کا یہی قول ہے اور عبداللہ بن مبارک کا کہنا ہے کہ جو شخص ہاتھ اٹھاتا ہے اس کی حدیث ثابت ہے جسے زہری نے بواسطہ سالم ان کے والد سے روایت کیا اور ابن مسعود کی یہ حدیث ثابت نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صرف پہلی مرتبہ رفع یدین کیا

٭٭ احمد بن عبدہ املی وہب بن زمعہ، سفیان بن عبدالملک، عبداللہ بن مبارک ہم سے بیان کیا اسی مثل احمد بن عبد آملی نے ہم سے بیان کیا وہب بن زمعہ نے ان سے سفیان بن عبدالملک نے اور ان سے عبداللہ بن مبارک نے

٭٭ ہناد، وکیع، سفیان، عاصم، ابن کلیب، عبدالرحمن بن اسود، علقمہ نے فرمایا کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز پڑھ کر نہ دکھاؤں پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز پڑھی اور تکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع یدین نہیں کہا اس باب میں براء بن عازب سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث ابن مسعود حسن ہے اور یہی قول ہے صحابہ و تابعین میں سے اہل علم کا اور سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا بھی یہی قول ہے

 

رکوع میں دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھنا

احمد بن منیع، ابو بکر بن عیاش، ابو حصین، ابو عبدالرحمن سلمی کہتے ہیں کہ ہم سے عمر بن خطاب نے فرمایا تمہارے لئے گھٹنوں کو پکڑنا سنت ہے لہذا تم گھٹنوں کو پکڑو اس باب میں حضرت سعد بن انس ابو حمید ابو اسید سہل بن سعد محمد بن مسلمہ اور ابو مسعود سے بھی روایت ہے امام ترمذی فرماتے ہیں حدیث عمر حسن صحیح ہے اور اسی پر صحابہ تابعین اور بعد کے اہل علم کا عمل ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں البتہ ابن مسعود اور ان کے بعض اصحاب کے متعلق ہے کہ وہ تطبیق کرتے تھے تطبیق اہل علم کے نزدیک منسوخ ہو چکی ہے حضرت سعد بن ابی وقاص فرماتے ہیں کہ ہم تطبیق کیا کرتے تھے پھر اس سے روک دیا گیا اور یہ حکم دیا گیا کہ ہم ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھیں

٭٭ قتیبہ، ابو عوانہ، ابو یعفور، مصعب بن سعد، ہم سے روایت کی قتیبہ نے وہ ابو عوانہ سے وہ ابو یعفور سے وہ مصعب بن سعد سے اپنے والد سعد بن ابی وقاص سے اسی طرح روایت کرتے ہیں

رکوع میں دونوں ہاتھوں کو پسلیوں سے دور رکھنا

محمد بن بشار بندار، ابو عامر عقدی، فلیح بن سلیمان، عباس بن سہل، ابو حمید، ابو اسید، سہل بن سعد، محمد بن مسلمہ، فرماتے ہیں کہ ابو حمید ابو اسید سہل بن سعد اور محمد بن مسلمہ ایک جگہ جمع ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز کا تذکرہ شروع کیا ابو حمید نے کہا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز کو تم سب سے زیادہ جانتا ہوں بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رکوع میں اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھا گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو پکڑا ہوا ہے اور نہیں کمان کی تانت کی طرح کس کر رکھتے اور پسلیوں سے علیحدہ رکھتے اس باب میں حضرت انس سے بھی حدیث مروی ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ حدیث انس صحیح ہے اور اہل علم کا اس پر عمل ہے کہ آدمی رکوع وسجود میں اپنے ہاتھوں کو پسلیوں سے جدا رکھے

رکوع اور سجود میں تسبیح

علی بن حجر، عیسیٰ بن یونس، ابن ابی ذئب، ابن مسعود سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی رکوع کرے تو تین مرتبہ (سُبْحَانَ رَبِّی الْعَظِیمِ) پڑھے تو اس کا رکوع مکمل ہو گیا اور یہ اس کی کم سے کم مقدار ہے اور جب سجدہ کرے تو تین مرتبہ (سُبْحَانَ رَبِّی الْأَعْلَی) کہے اس کا سجدہ پورا ہو گیا اور یہ اس کی کم از کم مقدار ہے اس باب میں حذیفہ اور عقبہ بن عامر سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں ابن مسعود کی حدیث کی سند متصل نہیں ہے اس لئے کہ عون بن عبداللہ بن عتبہ کی حضرت ابن مسعود سے ملاقات ثابت نہیں ہے اور اس پر اہل علم کا عمل ہے کہ رکوع اور سجدے میں کم از کم تین تسبیحات پڑھنا مستحب ہے اور ابن مبارک سے مروی ہے کہ امام کے لئے کم از کم پانی مرتبہ تسبیحات پڑھنا مستحب ہے تاکہ نمازی تین تسبیحات پڑھ سکیں اور اسی طرح کہا ہے اسحاق بن ابراہیم نے بھی

رکوع اور سجدے میں تلاوت قرآن ممنوع ہے

اسحاق بن موسیٰ انصاری، معن، مالک، قتیبہ، مالک، نافع، ابراہیم بن عبداللہ بن حنین، علی بن ابو طالب سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ریشمی کپڑے اور زرد رنگ کے کپڑے اور سونے کی انگوٹھی پہننے اور رکوع میں قرآن پڑھنے سے منع فرمایا اس باب میں ابن عباس سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث حضرت علی حسن صحیح ہے اور صحابہ و تابعین میں سے اہل علم کا یہی قول ہے کہ وہ رکوع اور سجدے میں قرآن پڑھنے کو مکروہ سمجھتے تھے

وہ شخص جو رکوع اور سجود میں اپنی کمر سیدھی نہ کرے

احمد بن منیع، ابو معاویہ، اعمش، عمارہ بن عمیر، ابو معمر، ابو مسعود انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کی نماز نہیں ہوتی جو رکوع اور سجود میں اپنی کمر کو سیدھا نہیں کرتا اس باب میں حضرت علی بن شیبان انس ابو ہریرہ اور رفاعہ زرقی سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ حدیث ابو مسعود انصاری حسن صحیح ہے اور اس پر صحابہ اور بعد کے اہل علم کا عمل ہے کہ آدمی رکوع اور سجدہ میں کمر کو سیدھا رکھے امام شافعی احمد اور اسحاق کہتے ہیں کہ جو آدمی رکوع اور سجود میں اپنی کمر کو سیدھی نہیں کرتا اس کی نماز فاسد ہو جاتی ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس قول کی بنا پر کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص نماز میں رکوع اور سجدے میں اپنی کمر سیدھی نہیں کرتا اس کی نماز نہیں ہوتی اور ابو معمر کا نام عبداللہ بن سخبرہ ہے اور ابو مسعود انصاری بدری کا نام عقبہ بن عمرو ہے

رکوع اور سجود میں تسبیح

محمود بن غیلان، ابو داؤد، شعبہ، اعمش، سعید بن عبیدہ، مستورد، صلہ بن زفر، حذیفہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّی الْعَظِیمِ اور سجود میں سُبْحَانَ رَبِّی الْأَعْلَی کہتے اور جب کسی رحمت کی آیت پر پہنچتے تو ٹھہرتے اور اللہ تعالی سے مانگتے اور جب عذاب کی آیت پر پہنچتے تو وقف کرتے اور عذاب سے پناہ مانگتے امام ابو عیسیٰ ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اس کے مثل حدیث محمد بن بشار نے عبدالرحمن بن مہدی سے اور انہوں نے شعبہ سے روایت کی ہے

٭٭ اسحاق بن موسیٰ انصاری، معن، مالک، سمی، ابو صالح، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب امام (سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ) کہے تو تم (رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ) کہو کیونکہ جس کا قول فرشتوں کے قول کے موافق ہو گیا اس کے تمام سابقہ گناہ معاف کر دئیے گئے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور صحابہ و تابعین میں سے بعض اہل علم کا اس پر عمل ہے کہ امام (سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ) کہے تو مقتدی (رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ) کہیں اور امام احمد کا بھی یہی قول ہے ابن سیرین فرماتے ہیں کہ مقتدی بھی امام کی طرح ہی کہے (سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ) اور امام شافعی اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے

سجدے میں گھٹنے ہاتھوں سے پہلے رکھے جائیں

سلمہ بن شبیب، عبداللہ بن منیر، احمد، ابراہیم دورقی، حسن بن علی حلوانی، یزید بن ہارون، شریک، عاصم بن کلیب، وائل بن حجر سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سجدہ میں جاتے ہوئے گھٹنے ہاتھوں سے پہلے رکھتے اور جب اٹھتے تو ہاتھ گھٹنوں سے پہلے اٹھاتے حسن بن علی نے اپنی روایت میں یزید بن ہارون کے یہ الفاظ زیادہ نقل کئے ہیں کہ شریک نے عاصم بن کلیب سے صرف یہی حدیث روایت کی ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث غریب حسن ہے اس کو شریک کے علاوہ کسی دوسرے نے روایت نہیں کیا اور اکثر اہل علم کا اس حدیث پر عمل ہے کہ گھٹنوں کو ہاتھوں سے پہلے رکھا جائے اور سجدہ سے اٹھتے وقت ہاتھ گھٹنوں سے پہلے اٹھائے ہمام نے یہ حدیث عاصم سے مرسل روایت کی اور اس میں وائل بن حجر کا ذکر نہیں کیا

٭٭ قتیبہ، عبداللہ بن نافع، محمد بن عبداللہ حسن، ابو زناد، اعرج، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تم سے کوئی نماز میں اونٹ کی طرح بیٹھنے کا ارادہ کرتا ہے ؟ امام ابو عیسی ترمذی فرماتے ہیں حدیث ابو ہریرہ غریب ہے ہم اسے ابو زناد کی سند کے علاوہ نہیں جانتے اس حدیث کو عبداللہ بن سعید مقبری نے اپنے والد سے روایت کیا انہوں نے ابو ہریرہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کیا ہے یحیی بن سعید قطان وغیرہ عبداللہ بن سعید مقبری کو ضعیف کہتے ہیں

سجدہ پیشانی اور ناک پر کیا جاتا ہے

بندار، ابو عامر، فلیح بن سلیمان، عباس بن سہل، ابو حمید ساعدی سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب سجدہ کرتے تو ناک اور پیشانی کو زمین پر جما کر رکھتے بازوؤں کو پہلوؤں سے جدا رکھتے اور ہتھیلیوں کو کندھوں کو برابر رکھتے تھے اس باب میں حضرت ابن عباس وائل بن حجر اور ابو سعید سے بھی روایت ہے ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث ابی حمید حسن صحیح ہے اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے کہ سجدہ ناک اور پیشانی پر کیا جائے اگر کوئی صرف پیشانی پر کرے یعنی ناک کو زمین پر نہ رکھے تو بعض اہل علم کے نزدیک یہ جائز اور بعض دوسرے اہل علم کے قول ہے کہ ناک زمین پر رکھنا ضروری ہے صرف پیشانی پر سجدہ کرنا کافی نہیں

سجدہ کیا جائے تو چہرہ کہاں رکھا جائے

قتیبہ، حفص بن غیاث، حجاج، ابو اسحاق ، کہتے ہیں میں نے حضرت براء بن عازب سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سجدہ میں چہرہ کہاں رکھتے تھے انہوں نے فرمایا دونوں ہتھیلیوں کے درمیان اس باب میں وائل بن حجر اور حمید سے بھی روایت ہے براء بن عازب کی حدیث حسن غریب ہے اور اس کو بعض علماء نے اختیار کیا ہے ہاتھ کانوں کے قریب رہیں

سجدہ سات اعضاء پر ہوتا ہے

قتیبہ، بکر بن مضر، ابن ہاد، محمد بن ابراہیم، عامر بن ابو وقاص، عباس بن عبدالمطلب سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب بندہ سجدہ کرتا ہے تو اس کے ساتھ اس کے ساتھ اعضاء بھی سجدہ کرتے ہیں چہرہ دونوں ہاتھ دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں اس باب میں حضرت ابن عباس ابو ہریرہ جابر اور ابو سعید سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی نے کہا حدیث عباس حسن صحیح ہے اور اہل علم کا اس پر عمل ہے

٭٭ قتیبہ، حماد بن زید، عمرو بن دینار، طاؤس، ابن عباس سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حکم دیا گیا سات اعضاء پر سجدہ کرنے کا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بال اور کپڑے سمیٹنے سے منع کیا گیا امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے

سجدے میں اعضا کو الگ الگ رکھنا

ابوکریب، ابو خالد الاحمر، داؤد بن قیس، عبید اللہ بن اقرم خزاعی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ نمرہ کے مقام پر قاع میں تھا کہ کچھ سوار گزرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے نماز پڑھ رہے تھے جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سجدہ کرتے تھے میں ان کے بغلوں کی سفیدی کو دیکھتا اس باب میں ابن عباس ابن بحینہ جابر احمد بن جز میمونہ ابو حمید ابو اسید ابو مسعود سہل بن سعید محمد بن مسلمہ براء بن عازب عدی بن عمیرہ اور حضرت عائشہ سے بھی روایات مروی ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں عبداللہ بن اقرم کی حدیث حسن ہے ہم اسے داؤد بن قیس کے علاوہ کسی اور روایت سے نہیں جانتے اور نہ ہی ہم عبداللہ بن اقرم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس کے علاوہ کوئی روایت جانتے ہیں اور اسی پر عمل ہے اہل علم کا احمد بن جز صحابی ہیں اور ان سے ایک حدیث منقول ہے اور عبداللہ بن خزاعی اسی حدیث کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں

سجدے میں اعتدال

ہناد، ابو معاویہ، اعمش، ابو سفیان، جابر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو اعتدال کے ساتھ کرے اور بازوؤں کو کتے کی طرح نہ بچھائے اس باب میں عبدالرحمن بن شبل براء انس ابو حمید اور حضرت عائشہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث جابر حسن صحیح ہے اور اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ سجدہ میں اعتدال کرے اور درندوں کی طرح ہاتھ بچھانے کو یہ حضرات مکروہ جانتے ہیں

٭٭ محمود بن غیلان، ابو داؤد، شعبہ، قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے انس سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سجدہ میں اعتدال کرو تم میں سے کوئی بھی نماز میں اپنے پاؤں کو کتے کی طرح نہ پھیلائے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے

سجدے میں دونوں ہاتھ زمین پر رکھنا اور پاؤں کھڑے رکھنا

عبد اللہ بن عبدالرحمن، معلی بن اسد، وہیب، محمد بن عجلان، محمد بن ابراہیم، عامربن سعد، اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا ہاتھوں کو زمین پر رکھنے اور پاؤں کو کھڑا رکھنے کا عبداللہ نے کہ معلی نے حماد بن مسعدہ سے انہوں نے محمد بن عجلان سے انہوں نے محمد بن ابراہیم سے اور انہوں نے عامر بن سعد سے اسی حدیث کی مثل روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں دونوں ہاتھ زمین پر رکھنے کا حکم دیا اس حدیث میں انہوں نے عامر بن سعد کے باپ سکا ذکر نہیں کیا امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ یحیی بن سعید قطان اور کئی حضرت محمد بن عجلان سے وہ محمد بن ابراہیم سے اور وہ عامر بن سعد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا ہاتھوں کو زمین پر رکھنے اور پاؤں کو کھڑا رکھنے کا یہ حدیث مرسل ہے اور وہیب کی حدیث سے اصح ہے اسی پر اہل علم کا اجماع ہے اور اہل علم نے اس کو پسند کیا ہے

جب رکوع یا سجدے سے اٹھے تو کمر سیدھی کرے

احمد بن محمد بن موسی، ابن مبارک، شعبہ، حکم، عبدالرحمن بن ابی لیلی، براء بن عازب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز کے دوران جب رکوع کرتے یا رکوع سے سر اٹھاتے اور جب سجدہ کرتے یا سجدے سے سر اٹھاتے تقریبا ایک دوسرے کے برابر ہوتے اس باب میں حضرت انس سے بھی روایت ہے محمد بن بشار نے محمد بن جعفر سے اور وہ شعبہ سے اسی حدیث کی مثل روایت کرتے ہیں امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ حدیث براء بن عازب حسن صحیح ہے

رکوع و سجود امام سے پہلے کرنا مکروہ ہے

عبدالرحمن مہدی، سفیان، ابو اسحاق ، عبداللہ بن یزید سے روایت ہے کہ ہم سے روایت کی براء نے فرمایا براء نے کہ جب تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے نماز پڑھتے جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رکوع سے سر اٹھاتے تو ہم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کمر کو نہ جھکاتا جب تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سجدے میں نہ چلے جاتے پھر ہم سجدہ کرتے اس باب میں حضرت انس معاویہ ابن مسعود صاحب الجیوش اور ابو ہریرہ سے بھی روایت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں حدیث براء حسن صحیح ہے اور اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ مقتدی امام کے ہر فعل میں تابعداری کریں اور اس وقت تک رکوع میں نہ جائیں جب تک امام نہ چلا جائے اور وقت رکوع سے سر نہ اٹھائیں جب تک امام کھڑا نہ ہو جائے اور ہمیں اس مسلک میں علماء کے درمیان اختلاف کا علم نہیں

 

سجدوں کے درمیان اقعاء مکروہ ہے

عبد اللہ بن عبدالرحمن، عبید اللہ بن موسی، اسرائیل، ابو اسحاق ، حارث، علی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے فرمایا اے علی میں تمہارے لئے وہ پسند کرتا ہوں جو اپنے لئے پسند کرتا ہوں اور تمہارے لئے اس چیز کو برا سمجھتا ہوں جس چیز کو اپنے لئے برا سمجھتا ہوں تم اقعاء نہ کرو دونوں سجدوں کے درمیان امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں اس حدیث کو ہمیں ابو اسحاق کے علاوہ کسی اور کے حضرت علی سے روایت کرنے کا علم نہیں ابو اسحاق حارث اعور کو ضعیف کہا ہے اور اکثر اہل علم اقعاء کو مکروہ سمجھتے ہیں اس باب میں حضرت عائشہ انس اور ابو ہریرہ سے بھی روایت ہے

اقعاء کی اجازت

یحیی بن موسی، عبدالرزاق، ابن جریج، ابو زبیر، طاؤس سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے ابن عباس سے دونوں پاؤں پر اقعاء کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا یہ سنت ہے ہم نے کہا ہم اسے آدمی پر ظلم سمجھتے ہیں تو فرمایا بلکہ یہ تمہارے نبی کی سنت ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے بعض اہل علم صحابہ میں سے اسی حدیث پر عمل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اقعاء میں کوئی حرج نہیں یہ اہل مکہ میں سے بعض علماء و فقہاء کا قول ہے اور اکثر اہل علم سجدوں کے درمیان اقعاء کو مکروہ سمجھتے ہیں

اس بارے میں کہ دونوں سجدوں کے درمیان کیا پڑھے

سلمہ بن شبیب، زید بن حباب، کامل ابو علاء، حبیب بن ابو ثابت، سعید بن جبیر، ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سجدوں کے درمیان یہ دعا پڑھتے تھے (اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی وَارْحَمْنِی وَاجْبُرْنِی وَاہْدِنِی وَارْزُقْنِی)

٭٭ حسن بن علی خلال، یزید بن ہارون، زید بن حباب، کامل ابو علاء سے اسی کی مثل روایت کی ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے اور یہ اسی طرح مروی ہے حضرت علی سے بھی اور امام شافعی احمد اور اسحاق کا یہی قول ہے کہ یہ دعا فرائض و نوافل تمام نمازوں میں پڑھنا جائز ہے اور بعض راوی حضرات نے یہ حدیث ابو العلاء کامل سے مرسل روایت کی ہے

سجدے میں سہارا لینا

قتیبہ، لیث، ابن عجلان، سمی، ابو صالح، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ صحابہ نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے شکایت کی کہ انہیں سجدے کی حالت میں اعضاء کو علیحدہ علیحدہ رکھنے میں تکلیف ہوتی ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اپنے گھٹنوں سے مد د لے لیا کرو امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں ہم اس حدیث کو ابو صالح کی روایت سے اس سند کے علاوہ نہیں جانتے اور ابو صالح ابو ہریرہ سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سیابوالعجلان سے روایت کرتے ہیں لیکن لیث اسے اسی سند سیابوالعجلان سے روایت کرتے سفیان بن عیینہ اور کئی حضرات مسمی سے وہ نعمان بن ابو عیاش سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اسی حدیث کے مثل روایت کرتے ہیں اور ان کی روایت لیث کی روایت سے اصح ہے

سجدے سے کیسے اٹھا جائے

علی بن حجر، ہشیم، خالد حذاء، ابو قلابہ، مالک بن حویرث لیثی سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز کے دوران طاق رکعات میں اس وقت تک کھڑے نہ ہوتے جب تک اچھی طرح بیٹھ نہ جاتے امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں مالک بن حویرث کی حدیث حسن صحیح ہے اور بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے اور ہمارے رفقاء بھی اس کے قائل ہیں

٭٭ یحیی بن موسی، ابو معاویہ، خالد بن ایاس، خالد بن الیاس، صالح، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نماز میں دونوں پاؤں کی انگلیوں پر زور دے کر کھڑے ہو جاتے تھے امام ابو عیسیٰ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ کی حدیث پر ہی اہل علم کا عمل ہے کہ پاؤں کی انگلیوں پر زور دے کر کھڑا ہو جائے اور وہ اسی کو پسند کرتے تھے خالد بن ایاس محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں اور انہیں خالد بن الیاس بھی کہا جاتا ہے صالح مولی تو امہ سے مراد صالح بن ابو صالح ہے اور ابو صالح کا نام نبہان مدنی ہے