FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ٍ

فہرست مضامین

جنگِ آزادی 1857ء

اجو جنگِ آزادیِ ہند کی ڈیڑھ سو ویں سالگرہ پر باہتمام اقبال اکادمی، حیدر آباد میں ۲۰۰۷ء میں منعقد ہوا


 

 

سخن ہائے گفتنی

پہلی جنگ آزادی کے 150 برسوں کی تکمیل پر ملک میں آزادی کا جشن منایا جا رہا ہے۔ اس کے مختلف پروگراموں کے لیے حکومتِ ہند  نے کروڑ ہا روپئے مختص کئے۔ ملک کی آزادی کی خاطر جدو جہد کرنے والوں اور جان کی بازی لگانے  والوں کو یاد بھی کیا جا رہا ہے اور جس انداز سے یاد کیا جا رہا ہے اس سے مسلم نوجوان، طلباء اور بچے یہی تاثر لے رہے ہیں کہ انگریزی سامراج کے خلاف آزادی کی لڑائی لڑنے والوں میں مولانا ابوالکلام آزاد کے علاوہ بس ایک دو مسلمان تھے۔ ایسا تاثر لینے پر نوخیز نسل مجبور ہے کہ کسی اور مسلمان کا نام آتا ہی نہیں جس نے انگریزی سامراج کے خلاف سخت جدو جہد کی ہے۔ مصیبتیں جھیلی ہیں اور جان کی بازی لگا دی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انگریزی سامراج کے خلاف لڑائی چھیڑنے والے مسلمان، مصیبتیں اٹھانے والے مسلمان، قید و بند کی زندگی کاٹنے والے مسلمان اور جان پر کھیل جانے والے مسلمان رہے ہیں۔ ان کی تعداد اور تناسب اتنا زیادہ ہے کہ مسلمان فخر کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اس ملک کے لیے سب سے زیادہ خون مسلمانوں نے ہی دیا ہے۔

مسلمانوں کے اتنے زبردست رول کو نظرانداز کرنے کی دانستہ یا نا دانستہ کوشش ہو رہی ہے۔ عہد وسطیٰ کی تاریخ آج ہمارے مدارس اور جامعات میں اس لیے نہیں پڑھائی جاتی ہے کہ وہ فرقہ پرستوں کے حلق سے نہیں اترتی۔ اقبالؔ نے کہا تھا کہ کسی قوم کی تاریخ اس کا اجتماعی حافظہ ہوتی ہے۔ اگر کسی قوم کو اس کی تاریخ سے محروم کر دیا جائے تو وہ اپنی جڑ سے کٹ جاتی ہے۔ اہل ملک اور خصوصاً مسلمانوں کے سامنے اس داستانِ حریت کے مختلف پہلوؤں کو پیش کرنے کے لیے کل ہند مجلس تعمیر ملت نے اس سمینار کے انعقاد کا فیصلہ کیا تاکہ تاریخ  آزادی میں مسلمانوں کی جدو جہد کو نہ صرف یاد کیا جائے بلکہ باقی رکھا جائے۔ ابنائے وطن کو معلوم ہو کہ اس ملک کو آزاد کروانے میں اپنا خون بہانے اور اپنے مال و متاع کی قربانی کرنے میں مسلمان کسی سے پیچھے نہیں بلکہ آگے ہیں اور مسلمانوں کی نئی نسل اس احساس کمتری سے آزاد ہو کہ ہمارے اسلاف نے اس ملک کے لیے کچھ نہیں کیا۔ اس سے ان کے اندر خود اعتمادی کا جذبہ  پیدا ہو گا۔ اور اپنے اجداد کے سرفروشانہ کارناموں پر ان کا سر فخر سے اونچا ہو گا۔

 پہلی  جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء کی عظیم جدو جہد کی یاد مناتے ہوئے ہمیں بعض اہم روشن مثبت پہلوؤں کو پیش نظر رکھنا چاہیے تاکہ محض ماضی کے ایک ورثہ کے طور پر نہیں بلکہ مستقبل میں اپنے ملک کی تعمیر و ترقی میں اس جدو جہد کی عظیم روایات کو فروغ دے سکیں۔

یہ جدو جہد بلا لحاظ مذہب و ملت سارے عوام کی ایک مشترکہ جدو جہد تھی۔ نہ صرف ہندوستانی سپاہیوں نے بلکہ عوام نے بیرونی اقتدار کے خلاف جس جوش و خروش کا مظاہر ہ کیا۔ ایثار و  قربانی، بہادری اور جانبازی کا ثبوت دیا اس میں مذہبی تعصبات اور فرقہ وارانہ اختلافات کا کوئی دخل نہ تھا۔ ہر چند بہادر شاہ ظفر کی شخصیت ایک کمزور حکمراں کی تھی لیکن نہ صرف عوام نے بلکہ چھوٹی ریاستوں اور صوبوں کے حکمرانوں نے بہادر  شاہ ظفرؔ کے ساتھ جس یگانگت اور وفاداری کا اظہار کیا۔ وہ ہماری تاریخ کا ایک تابناک باب ہے۔ چاہے وہ رانی لکشمی بائی ہوں یا پیشوا نانا صاحب اور ان کے سپہ سالار عظیم اللہ خا ن ہوں۔

۱۸۵۷ ء کے گہرے اور وسیع اثرات کے رد عمل کے طور پر ابھرنے والی تعلیمی،  سماجی، ادبی اور سیاسی تحریکات میں نمایاں طور پر کارفرما ہیں۔ یہ بھی اس جدو جہد کے مثبت پہلو ہیں۔ بدقسمتی سے برطانوی سامراج اس اتحاد اور یکجہتی کو توڑنے کی سازشوں میں مصروف رہا اور اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی رہا۔ یہ ایک المیہ ہے کہ افتراق و اختلاف کی کیفیات بہ انداز دیگر ہمارے ملک میں موجود ہیں۔ یہ جدو جہد ہمیں اس بات کا درس دیتی ہے کہ ملک کی مختلف اکائیاں اپنی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے مذہبی تنگ نظریوں اور فرقہ وارانہ تعصبات سے بالا تر ہو کر مشترکہ جدو جہد کے اس روشن ورثہ کو نہ صرف حفاظت کریں بلکہ ہندوستانی معاشرہ کی ترقی کو صحیح سمت عطا کریں۔

اس  سمینار کے موقع پر اسلامک ہیرٹیج فاؤنڈیشن نے سالار جنگ میوزیم کے تعاون سے ایک نمائش ترتیب دی ہے۔ جس میں جدو جہد آزادی کے مختلف مراحل کو پیش کیا گیا ہے۔ جناب عمر علی خان صاحب کارگذار صدر اسلامک ہیرٹیج فاؤنڈیشن اور ڈاکٹر صفی اللہ نے نمائش کا پورا خاکہ مرتب کیا ہے۔ نمائش اپنی نوعیت میں منفرد ہے۔ تقریباً 150  پینل آویزاں کئے جا رہے ہیں جن پر مجاہدین آزادی کی تصاویر اور ان کی کار گذاریوں کے اہم پہلوؤں کو اجاگر کیا جا رہا ہے۔ اس نمائش میں تاریخی کتابیں اور سکے بھی رکھے گئے ہیں۔ 1857ء کے انقلاب آزادی کو کچلنے کے لیے انگریزوں نے جو کاروائیاں کیں  ان کے مناظر بھی پیش کئے گئے ہیں۔

میں آخر میں صدر انتظامی کمیٹی جناب غلام یزدانی سینئر ایڈوکیٹ،نائب صدر جناب صفی اللہ اور جوائنٹ کنوینر وہاج الدین صدیقی کا شکر گزار ہوں کہ ان کے گراں قدر تعاون سے ان  تقاریب کٍا انعقاد عمل میں لایا جا سکا۔ نا سپاس گذاری ہو گی اگر میں جناب علی اختر، جناب مصطفی قاسمی اور سراج الدین اعجاز کا شکریہ ادا نہ کروں۔ صبر آزما مراحل میں ان رفقاء نے اپنا دست تعاون دراز کیا۔

محمد ضیاء الدین نیر ؔ

نائب صدر ا قبال اکیڈیمی

٭٭٭

 

سمینار کمیٹی

جناب غلام یزدانی صاحب

صدر

ڈاکٹر  صفی اللہ

نائب صدر

جناب محمد ضیاء الدین نیر

کنوینر

جناب وہاج الدین صدیقی

نائب کنوینر

جناب محمد ظہیر الدین

ارکان

جناب عمر علی خان

جناب علی اختر

جناب سراج الدین اعجاز

جناب فاضل حسین پرویز

جناب میر ایوب علی خان

جناب عمر فاروق

جناب عمر شفیق

جناب مظہر لطیفی

جناب سید متین الدین قادری

٭٭٭

               غلام یزدانی

خطبۂ استقبالیہ

  ساری تعریف خدائے بزرگ و برتر کے لیے جس نے ہمیں یہ حوصلہ بخشا کہ ہم پہلی جنگ آزادی ہند کے ۱۵۰ سال کی تکمیل پر ایک کل ہند سیمینار بعنوان ‘‘۱۸۵۷ء پیام آج کے ہندوستان کے نام، کا انعقاد عمل میں لا سکیں۔

معزز خواتین و حضرات : آج کا یہ تاریخی سیمینار ایک اہم موضوع پر سیر حاصل گفتگو کرنے جا رہا ہے۔ ہمارے مادرِ وطن ہندوستان کی آزادی اور غیر ملکی اقتدار سے نجات حاصل کرنے کی تحریک اور جدو جہد میں علماءِ دین،سرفروش مجاہدین اور صاحبِ غیر ت مسلمانوں کا  قائدانہ اور سرفروشانہ کردار رہا ہے۔ گو اس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے۔ تا ہم یہ ایک حقیقت ہے کہ اس ملک کی تاریخ سازی اور حصول آزادی میں مسلمانوں نے ایک عہد  ساز کردار ادا کیا ہے اور ہند کے نگار خانے کو  اپنے آئینہ دل سے سجایا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلام نے آزادی کو  ایک نعمت قرار دیا ہے۔ اور غلامی کو  فکرو عمل کے لیے بد ترین لعنت۔

یہی وہ تصور رہا ہے جس نے جد و جہد آزادی کے دور میں دینی درس گاہوں کے علماء کو ، خانقاہوں کے مشائخین کو ، خلوص سے خاک نشینوں کو ، بزمِ سخن سے اردو شاعروں کو  اور گھر کی چار دیواریوں سے مسلمان خواتین کو  اس معرکۂ جہاد میں لا کھڑا کیا۔ ان مجاہدین کے جذبۂ آزادی کی ترجمانی اردو کے  مشہور شاعر اختر شیرانی نے یوں کی ہے   ؂

عشق و آزادی بہارِ زیست کا سامان ہے

عشق میری جان آزادی میرا ایمان ہے

عشق پر کر دوں فدا میں اپنی ساری زندگی

لیکن آزادی پہ میرا عشق بھی قربان ہے

معزز حاضرین !

ہندوستانی مسلمانوں کی حب الوطنی کا روشن ترین مظہر ان کی وہ جدو  جہد ہے جو انہوں نے اپنے وطن عزیز کو  غیر ملکی تسلط سے آزاد کرانے کے لیے کی ہے۔ حصولِ آزادی کی جدو جہد کو  عام طور پر انڈین نیشنل کانگریس کے قیام کے ساتھ وابستہ کیا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کی ابتداء اٹھارویں صد ی کے نصفِ اول میں ہو چکی تھی۔ چونکہ تحریکِ آزادی میں مسلمانوں کا قائدانہ کردار رہا ہے اور انہوں نے ہی سب سے پہلے آزادی کی شمع روشن کی ہے۔ اس لحاظ سے ضرور ت اس  بات کی ہے کہ آزادی کی ڈیڑھ سو سالہ سالگرہ کے اس موقع پر اہلِ ملک اور خود مسلمانوں کی نئی نسل کو  آزادی کی صحیح اور حقیقت پسندانہ  تاریخ سے روشناس کیا  جائے۔

محترم سامعین کرام! آج جب کہ ہم آزاد ہیں اور آزادی کی نعمتوں سے بہر مند ہو رہے ہیں کچھ لوگ منافرت کا زہر پھیلا کر قومی یکجہتی کی فضاء کو  مسموم کرنے کی منظم کوششیں کر رہے ہیں اور کچھ تنگ نظر اور مفاد پرست عناصر ایک سونچی سمجھی سازش کے تحت مسلمانوں کے کارناموں کو  فراموش کر کے ان کے خلاف طرح طرح کی غلط فہمیاں پید ا کرتے رہتے ہیں۔ اس سیمینار کی یہ کوشش رہے گی کہ جدو جہد آزادی میں مسلمانوں کے قائدانہ کردار پر نہ صرف روشنی ڈالے گا بلکہ مسلمانوں کو  اپنے اسلاف کی تاریخ سے واقف کروانا اور ہندوستان کے سبھی فرقوں میں مذہبی رواداری اور پیار و محبت کے جذبات کو  فروغ دینا نیز ہندوستان کی بقاء اور ترقی کے لیے کوشش کرنا بھی ہے۔

معزز حاضرین! ان چند گزارشات کے ساتھ میں ایک بار پھر تمام معزز حاضرین کا جو دور دراز مقامات سے اس کل ہند سیمینار میں شرکت کی غرض سے تشریف لائے ہیں دلی خیر مقدم کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ سمینار کے نتائج سے ہم سب کو  حقائق جاننے کا موقع ملے۔

آخر میں سمینار،نمائش اور جلسۂ عام کے انعقاد کے سلسلے میں شب و روز کی گئی محنت پر انتظامی کمیٹی کو  مبارک باد دیتا ہوں۔ نامور دانشوروں اور مقالہ نگاروں کے مسلسل ربط، تبادلۂ خیال، خط و کتابت، نمائش کے لیے میٹریل کی فراہمی اور اس کی ترتیب اور دیگر ضروری انتظامات کے لیے کمیٹی کی کاوشیں قابل تعریف ہیں۔ بجا طور پر یہ اصحاب ہم سب کی ہمت افزائی اور تعاون کی مستحق ہیں۔

میں جناب محمد عبد الرحیم قریشی صدر کل ہند مجلس تعمیرِ ملت،مولانا سلیمان سکندر و نائب صدر کل ہند مجلس تعمیرِ ملت،کنوینر جناب محمد ضیاء الدین نیر، ڈاکٹر صفی اللہ، جناب وہاج الدین صدیقی، جناب فاضل پرویز کی خدمات کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں کہ انہوں نے دامے، درمے، سخنے انتظامی کمیٹی کے منصوبوں کو  عملی جامہ پہنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ آج آپ نے اختتامی تقریب میں شرکت کی اب یہ ارادہ کر کے اٹھیں کہ اپنے حلقہ کے تمام احباب خصوصاً طلباء کو  ترغیب دیں کہ وہ سیمینار س میں پیش ہونے والے مقالوں سے استفادہ کریں۔ میں آخر میں آپ تمام کا مشکور ہوں کہ کچھ دیر کے لیے میری یہ سمع خراشی برداشت کی۔

***

 

               محمد عبدالرحیم قریشی

۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے چند اہم پہلو

انگریزوں کے تسلط سے ملک کو  آزاد کرانے کی سرفروشانہ کوششوں کا آغاز کہاں سے ہوا  اور کیسے ہوا؟ اس بارے میں کئی نقاط نظر پائے جاتے ہیں۔ اگر حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کی کوششوں کو  شمار نہ کیا جائے کیونکہ ان کے ذہن میں دہلی کے مغلیہ تخت کو  مرہٹوں کے تسلط اور اثر سے آزاد کرانے کا خیال غالب تھا اور یہی بات احمد شاہ ابدالی کو  ہندوستان پر حملہ کے لئے دعوت دینے کی بڑی وجہ تھی تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ انگریزوں کے خلاف جدو جہد اور ملک سے ان کو  نکال باہر کرنے کی تحریک کا آغاز اس وقت ہوا جبکہ بنگال کے صوبیدار نواب علی وردی خاں نے جنہیں ڈاکٹر تارا چند  اللہ وردی خاں کو لکھتے ہیں ‘اپنے نواسہ سراج الدولہ کو  جانشین بنانے کے بعد وصیت کی تھی کہ

‘‘ مغربی قوتوں کی اس قوت کو  ہمیشہ پیش نظر رکھنا جو انہیں ہندوستان میں حاصل ہے اگر میری عمر کا پیمانہ لبریز نہ ہو چکا  ہوتا تو تمہارے لئے اس اندیشہ کو  ہمیشہ کے لیے ختم کر دیتا۔ اس کام کی تکمیل تیرے ذمہ ہے میرے چراغ۔ دکن میں ان کی سیاسی سرگرمیو ں سے سبق حاصل کرو۔ ایک ہی وقت میں تینوں قوتوں کو  تباہ کرنے کی کوشش نہ کرنا۔ سب سے پہلے انگریزوں کو  قوت کو  توڑنا۔ سنو بیٹا۔ انہیں سپاہی رکھنے اور قلعہ تعمیر کرنے کی اجازت نہ دینا اگر ایسا ہوا تو بنگال تمہارا نہیں۔ ‘‘

سراج الدولہ نے اس وصیت پر عمل کرنا شروع کر دیا تھا،مگر میر جعفر ، درلبھ رام، جگت سیٹھ ، امین چند اور خود سراج الدولہ کی خالہ مہر النساء (گھسیٹی بی) کی انگریزوں سے ساز باز اور غداری کے نتیجہ میں سراج الدولہ کو  1757ء  میں انگریزوں سے شکست کھانی پڑی۔ اس کے وفادار سپاہی اور ولی میر مدن شہید اور راجہ موہن لال کی بہادری بھی کا م نہ آئی اور انگریزوں کا راج عملاً ہندوستان کے سب سے زرخیز وسائل اور آمدنی والے صوبہ بنگال پر قائم ہو گیا جو آج کے بنگلہ دیش اور ہمارے ملک کے مغربی بنگال ، آسام ، بہار اور اڑیسہ پر محیط تھا۔

اس جنگ پلاسی کے بعد انگریزوں نے اپنی ریشہ دوانیوں کو  اور مختلف بہانوں سے سر زمین ہند کے علاقوں کو  ہتھیانے کی کوششوں کو  تیز کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی اس بیرونی قوت کے خلاف اہل ہند کی کوششیں بھی ملک کے مختلف حصوں میں جاری رہیں۔ حکمرانوں میسور کے حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے انگریزوں کو  جنوبی ہند میں قدم جمانے سے روکے رکھٍا اور کئی بار ان کو  شکستیں دیں،مگر 1799 سری رنگا پٹنم میں ٹیپو سلطان کی شہادت نے ایک طرف ملک کے ایسے حکمران کو  موت کی نیند سلا دیا جنہوں نے انگریزوں کے خلاف سارے ہندوستانیوں، مرہٹوں کو، نظام کو  اور دوسروں کو  متحد کرنے اور ان کو  آگاہ کرنے کی کوشش کی تھی کہ آپسی خلفشار کے نتیجہ میں سارا ملک اور سارے عوام انگریزوں کے غلام بن جائیں گے اور دوسری طرف جنوبی ہند میں انگریزوں کے خلاف مزاحمت ختم ہو گئی اور ان کا تسلط قائم ہو گیا۔ مرہٹوں نے کئی مرتبہ انگریزوں سے ہاتھ ملایا اور جب دو  دو ہاتھ کرنے کی کوشش کی تو باجی راؤ پیشوا نے ہتھیار  ڈالدیے اور ہولکر اور بھونسلے کی شکست سے مرہٹوں کی رہی سہی قوت بھی ٹوٹ گئی۔ عوامی سطح پر جنگ پلاسی کے بعد مزاحمت اور انگریزوں کے ساتھ پنجہ  آزمائی کا ایک سلسلہ ملتا ہے۔ جس میں ہندو بھی ہیں اور مسلمان بھی، مسلمانوں میں علماء بھی ہیں اور عوام بھی۔ پہاڑی قبائل اور سپاہیوں کی تحریک  (1733ء) فقیروں کے مجنون شاہ کی قیادت میں انگریزوں پر حملے (1776ء) یہ سلسلہ 1822 ء تک جاری رہا اور فقیر مسلح ہو کر کرم شاہ ،چراغ علی شاہ، مومن شاہ وغیرہ کی قیادت میں انگریزوں کے لئے درد سر بنے رہے ، فرائضی تحریک جس کو  حاجی شریعت اللہ نے (1781) میں شروع کیا تھا 1860 تک جاری رہی یہ بنیادی طور پر کسانوں کی تحریک تھی جس کی بہت  بڑی اکثریت مسلم کسانوں پر مشتمل تھی۔ اس سے متاثر تیتو نظام کی (1831ء) کی تحریک ہے۔ جس کو کھیت مزدوری اور چھوٹے کسانوں سے قوت ملی تھی۔ 1831 کا سال اس اعتبار سے انگریزوں کے لئے خوش آئند رہا کہ حضرت سید احمد رائے بریلوی جنہوں نے بہار سے لے کر سرحد تک مسلمانوں انگریزوں کے خلاف جہاد کا جذبہ بیدار کرنے کی کوشش کی تھی جنہوں نے ہندو راجاؤں کو  انگریزوں کے خلاف اپنی تحرک سے ملانے کی کوشش کی تھی وہ بالا کوٹ  کے معرکہ میں شہید ہوئے جس سے اس تحریک کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا۔ علمائے صادق پور کی داستان سرفروشی و قربانی (۱۷۳۵ ء تا  ۱۸۳۵ ء) بھی ناقابل فراموش ہے۔

اس عرصہ میں انگریزی فوجوں کے دیسی سپاہیوں کی بغاوت کے کئی واقعات ہوئے۔ پٹنہ(1764ء)ویلور (1808ء) بارکپور (1824ء) فیرو ز پور (1849ء) بارکپور (مارچ/ 1857منگل پانڈے)ان سب مزاحمتوں کے باوجود انگریز یکے بعد دوسرے ہندوستانی کے علاقوں سے قابض ہوتے اور راج قائم کرتے رہے۔ (1800ء میں نظام نے ایک معاہدہ کے ذریعہ اپنی خود مختاری کا سودا کر لیا۔ برار کے گورنر مہی پت رام ،دولت آباد ،ھارود اور بدنا پور کے قلعہ داروں کی مخالفت بھی نظام حیدرآباد کو  اپنی آزادی و خودمختاری سے دستبردار ہونے سے نے روک سکی۔ راجہ راؤ ، رنبھا نمبالکر اور نورالامر ا کو شہر بدر کر دیا گیا، شہزادہ مبارز الدولہ کی کوششوں کا چراغ 1856ء میں ان کے انتقال پر بجھ گیا۔

 

۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی اہمیت

۱۸۵۷ء سے پہلے تقریباً سارے ملک پر انگریزوں کا عملاً تسلط قائم ہو چکا تھا۔ سندھ سے پنجاب تک ، دکن سے وسط ہند تک ، دہلی سے مشرق میں سارے علاقوں میں راج انگریزوں ہی کا تھا ، جو بھی ہندو  راجہ یا مسلم نواب تھے وہ سب انگریزوں کی بالا دستی قبول کر چکے تھے۔ اس کے باوجود ایسٹ انڈیا کمپنی کے حکومت کرنے کا حق کو  ہندوستانی عوام نے تسلیم نہیں کیا تھا اور کمپنی بھی جانتی تھی کہ وہ خود حکمران ہونے کا اعلان اور دعویٰ نہیں کر سکتی،ایسا اعلان اس کے مفاد کو  شدید نقصان پہنچائے گا ، اس کا اصل مقصد تو زیادہ سے زیادہ محصول وصول کر کے انگلینڈ میں کمپنی کے حصہ داروں کی اور خود کی اپنی تجوریوں کو  بھرا تھا ، زیادہ زیادہ علاقہ پر قبضہ حاصل کرنے کا مقصد بھی پیسہ بٹورنا تھا۔ کمپنی مغل تخت سے اپنی وابستگی کا اظہار کرتی رہی اور یہ ظاہر کرتی رہی کہ دہلی کے مغل بادشاہوں سے ملے اختیارات کو  وہ استعمال کر رہی ہے۔ سکوں پر مغل بادشاہوں کے نام بھی کندہ کرتی رہی۔ بلا شبہ کمپنی کے عہدیداروں کو  یہ بھی احساس تھا کہ اگر وہ خود کو  ہندوستان کا حکمران قرار دیتی ہے تو ایسی بغاوت ہو گی کہ اس کا مقابلہ کرنا دشوار ہو جائے گا۔ دہلی میں مغل بادشاہ کو اپنا وظیفہ خوار بنا دینے کے باوجود وہ دہلی کو  اپنی عملداری میں شامل کرنے سے گریز کرتے رہے کیونکہ وہ تخت مغلیہ سے ہندوستانیوں کی ، مسلمانوں اور ہندوؤں کی وابستگی کے گہرے احساسات کو  محسوس کرتے تھے۔ ہندوستانیوں میں بھی انگریزوں کو  ملک سے نکال باہر کرنے کی آرزو موجود تھی۔ اسی آرزو نے اس جنگ کے لئے جذبہ ابھارا جس کو  انگریز  سپاہیوں کی بغاوت یا MUTINY (غدر) قرار دیتے رہے اور ہندوستانیوں کی طرف سے جس کو  جنگ آزادی کا نام دیا جاتا رہا۔ پچھلی ایک صدی کے دوران ہوئی مزاحمتوں RESISTANCES) ) میں ایسا نہیں ہوا کہ دہلی مرکز تباہ و برباد ہو۔ یہ تمام مزاحمتیں اور جنگیں علاقائی نوعیت رکھتی تھیں۔ اور ان سے نکلی چنگاریاں دوسرے ہندوستانیوں کے دلوں میں اُٹھ کھڑے ہوئے اور انگریزوں سے لوہا لینے کے آگ نہیں بھڑکا سکیں۔ دہلی کی حیثیت یہ تھی کہ اس کو  ہندوستان کا حکمران مانا اور سمجھا جاتا تھا جو دہلی پر حکومت کرتا تھا۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کا مرکز دہلی تھا، انگریزوں کے خلاف ابل پڑے لاوے کی چنگاریوں نے کئی علاقوں اور کئی انگریزی چھاونیوں میں انگریزوں کے خلاف آگ بھڑکا دی۔ اس لئے اگر ۱۸۵۷ء کو  ملک کو پہلی جنگ آزادی کہا جاتا ہے تو غلط نہیں ہے۔

میرٹھ چھاونی کے سپاہیوں کی بغاوت

۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کا نقطہ آغاز  10 / مئی کو  انگریزوں کی میرٹھ چھاونی کے دیسی سپاہیوں کی بغاوت ہے۔ انہوں نے انگریز افسروں کے خلاف ہتھیار سنبھال لئے ، ان کو  موت کے گھاٹ اُتار دیا اور ’ چلو دلی ‘ کے نعرے کے ساتھ دہلی روانہ ہوئے۔ دہلی پہنچ کر انہوں نے مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو  اپنا اور سارے ہندوستان کا شہنشاہ قرار دیا۔ (۸۲) سالہ بہادر شاہ ظفر نے ان کو  صاف گوئی کے ساتھ کہ دیا کہ ان کے پاس اسلحہ گولہ و بارود کا ذخیرہ نہیں ہے جو دیا جا سکے ان کے پاس کوئی خزانہ نہیں ہے کہ ان کو  تنخواہیں دی جا سکیں اور اخراجات برداشت کئے جا سکیں۔ میرٹھ کے ان سپاہیوں نے خود اعتمادی کا مظاہرہ کیا کہ وہ اسلحہ و گولہ بارود انگریزوں کے اسلحہ قانون پر قبضہ کر کے حاصل کر لیں گے اور اپنے اخراجات کی تکمیل کے لئے کمپنی کے خزانوں کو  نشانہ بنائیں گے۔ میرٹھ کے یہ سپاہی جن کی بھاری اکثریت برہمنوں اور اعلی ذات کے ہندوؤں پر مشتمل تھی ضعیف العمر ، بے فوج و سپاہ ، بہادر شاہ ظفر کو  جس کے پاس نہ خزانہ تھا اور نہ مال و دولت شہنشاہ ہند بتانے پر مصر رہے۔ کیوں۔ ؟ یہ سوال آج کے حالات میں جبکہ ہندوستان کی تاریخ کو  ہندو مسلم کشمکش و  آویزش کی تاریخ کے طور پر پیش کر کے فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے اور مسلمانوں کے رول و کردار کو  نفرت انگیز انداز میں عوام اور بالخصوص نوخیز دنو جوان نسل کے سامنے رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے بڑی اہمیت رکھتا ہے مسلمانوں کے خلاف بعض و عناد کے جذبات کو  ہوا دے کر ہمارے وطن ہندوستان کو  ہندو راشٹر بنانے کے لئے کوشاں اصحاب تاریخ کی حقیقتوں سے آنکھیں چرانے کی بجائے ان سے عبرت اور مستقبل کے تعمیر کے لئے بصیرتیں حاصل کریں۔ انگریزوں کی فوجی چھاونیوں میں جن سپاہیوں نے بغاوت کی ان میں برہمنوں کی تعداد اتنی تھی کہ گورنر جنرل لارڈ کیننگ اور دوسرے افسر یہ سمجھتے تھے کہ یہ آگ برہمنوں کی بھیڑ کائی ہوئی ہے۔

Canning ….. wrote to the Secretary of state for India that he had no doubt that the ‘ rebellion’ had been fomented by Brahmans on religious pretences and by others for political motives’

(Kaye and Malleson, History of Indian Mutiny, vol I (P 452-53)

ان سب نے بہادر شاہ ظفر کو  ہندوستان کا شہنشاہ اس لئے گردانا مغل تخت کے وارث اور بابر کے جانشین ہی کو  ہندوستان کے عوام چاہے  ہندو ہوں کہ مسلمان قبول کر سکتے تھے،کسی اور کو  اس حیثیت میں قبول نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ اس لئے تھا کہ  مغلوں نے عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کی تھی،مذہب کے کسی فرق کے بغیر رعایا کی عام بھلائی کو  پیش نظر رکھا  جاتا،مغلوں کے دور حکومت میں ہندوستان کو   سونے کی چڑیا کہا جانے لگا اور اس خوشحالی کے دور سے سب کو  فائدہ پہنچا اور سب نے استفادہ کیا اس لیے ہندو مغلوں کے دست بازو بن گئے،اور نگ زیب نے جن فوجوں کو  شیواجی کے خلاف روانہ کیا ان کے سپہ سالار ہندو راجپوت تھے۔ تاریخ کی یہ  حقیقتیں،اس دور کی حقیقی کہانی بیان کر تی ہیں اور مغلوں کے ہندوؤں پر ظلم و ستم کی گھڑی ہوئی کہانیوں کے جھوٹ کو  واضح کرتی ہے۔ ورنہ یہ ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ ہتھیاروں سے لیس ہندو سپاہی دہلی پر  قبضہ کر لیں اور بابر کے وارث مغل تاجدار کی  شہنشاہیت کو  مضبوط بنانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائیں۔

 

ہندوؤں اور مسلمانوں کی مشترکہ جدو جہد

یوں تو جنگ پلاسی  (۱۷۵۷ء) ہی سے انگریزوں کے خلاف جنگوں، لڑائیوں اور چھاپہ مار کار روائیوں میں ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملائے کھڑے نظر آتے ہیں،چاہے جنگ ہو یا تحریک، مسلمان نے شروع کی ہو کہ ہندو نے۔ آج اس پہلو کو   واضح کرنے اور ابھارنے کی ضرورت ہے۔ اس پہلو کو اس  بری طرح نظر انداز کر دیا گیا ہے کہ ان دونوں ہندوستانی فرقوں کے درمیان اشتراک و اتحاد نظروں سے غائب ہو گیا ہے۔ سراج  الدولہ کے ساتھ ان کے وفادار سپہ سالار موہن لال کشمیری اور ان کی ہند فوج کا بہت کم ذکر ملتا ہے۔ ٹیپو سلطان کے ساتھ وفاداری کے ساتھ لڑنے والوں میں ہندو فوجی عہدیدار حتی کہ چند مرہٹہ سردار، مرہٹہ سپاہپوں کے ساتھ شامل تھے۔ ٹیپو سلطان شہید کا جب جنازہ اٹھایا گیا تو راستوں پر ہندو عورتیں آ کر ماتم و سینہ کوبی کرنے لگیں، جس سے ان کے ہندوؤں میں بھی مقبول ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ ا ن واقعات کو  نظر انداز کرنے کے بجائے واضح طور پر  پیش کیا جائے تاکہ ملک میں دونوں فرقوں کے درمیان اعتماد اور بھروسہ کی کیفیت، جس کو  ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، مضبوط ہو۔

۱۸۵۷ء  کی جدو جہد میں یہ  پہلو بہت نمایاں نظر آتا ہے، میرٹھ کے  ہندو سپاہیوں کا ساتھ دہلی کے مسلمانوں نے دیا اور ان کی ایک بڑی تعداد انگریزوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی۔ نانا صاحب پیشوا کے کارناموں کا ذکر عظیم اللہ خان کی کوششوں کے تذکرہ کے بغیر نامکمل رہے گا۔ جھانسی کی رانی لکشمی بائی کی سرفروشی کی داستان ان کے مسلمان سرداران فوج و توپچیوں کی داستان سرفروشی بھی ہے۔ تاتیا ٹوپے نے جن کا اصل نام رامچندر پانڈورنگ تھا، مرہٹوں کی چھاپہ مار لڑائیوں میں  مہارت کی یادگار تازہ کر دی، انگریزوں کے خلاف بغاوت کی آگ بھڑکانا، ان کی چھاونیوں اور فوجی مقامات پر اچانک حملہ کرنا اور پھر برق رفتاری کے ساتھ دوسرے مقام کو  روانہ ہو جانا اور  دو بدو لڑائی سے بچنے کی کوشش کرنا یہ ان کی حکمت عملی رہی ہے۔ انہوں نے انگریزوں کی بھاری افواج کی وسطی ہند اور راجپوتانہ مسلسل پریشان کیا۔ فیروز شاہ نے منڈا سور میں اپنا جھنڈا بلند کیا اور انہوں نے بھی وسطی ہند میں انگریزی فوج کو  مصروف  پیکار رکھا،پھر رہیل کھنڈ اور اودھ میں نمودار ہوے اور بالآخر راجپوتانہ پہنچے اور تاتیا ٹوپے کے ساتھ مل گئے۔ ان دونوں کی چھاپہ مار کاروائیوں کو  تاتیا ٹوپے کے بے وفا ساتھیوں کی غداری سے نقصان پہنچا۔ ۱۸۵۷ء کے بارے میں ڈاکٹر تارا چند کا یہ بھی حقیقت افروز ہے :

ہندوستان کی صورتحال کے بحیثیت مجموعی جائزہ سے  اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں رہتا کہ اس میں (۱۸۵۷ء  کی جنگ آزادی میں) سپاہی اور عوام، دونوں شریک تھے اور دونوں نے مل کر بیرونی حکمرانوں کا تختہ اٹھنے کی کوشش کی۔ عام خیال کے برعکس اور حکمرانوں کی امیدوں اور توقعات کے خلاف مسلمانوں اور ہندوؤں نے مل کر جنگ کی۔ اگرچہ کہ بعض مقامات پر بعض فرقہ وارانہ اختلافات تھے تاہم بحیثیت مجموعی دونوں کاندھے سے کاندھا ملا کر لڑے اور ایک دوسرے کی بھرپور مدد کی۔ بہادر شاہ نے بقر عید کے موقع پر دہلی میں گائے کی قربانی پر پابندی لگا دی اور خان بہادر خان نے روہیل کھنڈ کے مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کو بھڑکانے کی انگریزوں کی کوششوں کو ناکام بنا دیا۔  (انگریزوں سے) باغی لیڈروں کی بڑی تعداد نے بہادر شاہ کو جائز طور پر ہندوستان کا شہنشاہ تسلیم کیا۔ ۔ ۔  جہاں جہاد یا مقدس جنگ کٍا اعلان کیا گیا وہاں بطور خاص بتا دیا گیا یہ عیسائی حکمرانوں کے خلاف ہے، (ڈاکٹر تارا چند، ہندوستان میں سپاہیوں کی تحریک آزادی کی تاریخ (انگریزی) حکومت ہند(حکومت معتمد، بار دوم ۱۹۹۲ء جلد ۲، صفحات ۶۹،۹۷)

مسلمان، انگریزوں کے غیض و غضب کا نشانہ

۱۸۷۵ء کی جدو جہد آزادی پر بالآخر انگریزوں نے قابو پا لیا۔ دہلی میں ستمبر کے مہینہ میں انگریزی فوجیں داخل ہو گئیں ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی انگریزوں نے کامیابی حاصل کی۔ یہ لڑائی تو دونوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں نے شروع کی اور دونوں ہی انگریزوں سے  لڑتے رہے مگر انگریزوں نے اپنے سفاکانہ اور غارت گردانہ جذبہ انتقام کا نشانہ صرف مسلمانوں کو بنایا۔ سارا دہلی مسلمانوں سے خالی کرا دیا گیا، جن خاندانوں کے افراد نے اگر لڑائی میں کچھ بھی حصہ لیا تھا اور انگریزوں کے خلاف کوئی ہلکی سی کاروائی بھی کی تو ان کی حویلیاں اور گھر کھدوا دئیے گئے۔ ان کی جائیدادیں ضبط کر لی گئیں۔ ان کو پھانسیوں پر لٹکایا گیا۔ جلاوطن کر دیا گیا، طرح طرح کے ظلم توڑے گئے، اس سلسلہ میں سر لیال (Lyall) کا یہ اعتراف قابل ذکر ہے :

انگریز خوفناک طریقہ پر مسلمانوں کو اپنا حقیقی دشمن جان کر ان پر پلٹ پڑے ان کو خطرناک رقیب سمجھا اس لیے بغاوت (۱۸۵۷ء) کا ناکامی کا نتیجہ ان کے (مسلمانوں کے) لیے ہندوؤں کی بہ نسبت زیادہ تباہ کن نکلا۔ مسلمانوں نے ہندوؤں پر برتری کا باقی ماندہ وقار بھی تقریباً کھو دیا۔ اس وقت سے وہ بیرونی حکمرانوں کے لیے قابل بھروسہ نہ رہے اور اس دور سے شہری (Civil) اور فوجی خدمات کے اعلیٰ و کم تر عہدوں میں ان کی عددی اکثریت گھٹنے لگی۔ (سر الفریڈ، سر لیال ۱۸۸۴ء)

۱۸۵۷ء کے بعد لارڈ میو (Mayo)کے گورنر جنرل بننے تک ہندوؤں پر برطانوی حکومت، مسلمانوں کے خلاف اور ان کے برعکس بڑی مہربان رہی اور ہندو نوازی حکومت کی پالیسی بن گئی۔ ۱۸۵۷ء کے واقعات میں  ہندوؤں کے رول اور انگریزوں کے خلاف ان کو بغاوتوں کو نظر انداز کر دیا گیا۔ یہ قصور ان کا معاف کر دیا گیا۔ مسلمانوں کو ہر اعتبار سے پیچھے ڈھکیلنے، ان کو مفلس و قلاش بنانے اور ہندوستانی سماج میں ان کو بے وقار بنانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ انگریزوں نے ۱۸۵۷ء کے بعد پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو، کی اس پالیسی پر تیزی کے ساتھ انگریزوں نے عمل کرنا شروع کر دیا۔ ۱۸۵۷ء کی جدو جہد کے دوران مسلمانوں نے سرفروشی کی تاریخ بنائی اور اس کے بعد انگریزوں نے ان ہی کا سب سے زیادہ خون بہایا، ان کو پھانسیوں پر لٹکایا، ان کی بستیاں اجاڑ دیں، جائیدادیں ضبط کر لیں۔ سارا غصہ مسلمانوں پر اتارا، ان کی ان قربانیوں کا مطالعہ بھی، جس پر توجہ نہیں دی گئی، اہمیت رکھتا ہے۔

 

               خلیق احمد نظامی

 ۱۸۵۷ء۔  ایک مطالعہ

۱۸۵۷ء  ہندوستان کی سیاسی اور ثقافتی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے قدیم و جدید کے درمیان یہی وہ منزل ہے جہاں سے ماضی کے نقوش بھی پڑھے جا سکتے ہیں اور مستقبل کے امکانات کا جائز ہ بھی لیا جا سکتا ہے۔ مغلیہ سلطنت جس کے دامن میں ایک ایسی تہذیب نے پرورش پائی تھی جو رنگ و نسل اور مذہب و ملت کے سارے امتیازات سے بالاتر ہو کر ایک عرصہ تک ہندوستان کی سیاسی وحدت کی ضامن رہی تھی،یہاں پہنچ کر دم تو ڑ دیتی ہے۔ اور اس کے ساتھ تاریخ کا ایک دور ختم ہو جاتا ہے۔

پرا نا سماجی نظام اور پرانے نظریات وقت کے نئے تقاضوں کے سامنے سرنگوں ہو جاتے ہیں اور نئی سماجی قوتیں صرف فکر و نظر کے سانچے ہی توڑنے پر اکتفا نہیں کرتیں بلکہ زندگی کے سارے محور بدل دیتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ۱۸۵۷ء  میں صرف ایک سیاسی نظام ہی کا جنازہ نہیں نکلتا بلکہ ہندی قرونِ وسطی کا  سارا تہذیبی سرمایہ نیست و نابود ہو جاتا ہے۔ دہلی جو صدیوں تک علم و ہنر کا مرکز اور تہذیب  و تمدن کا گہوارہ رہی تھی اس طرح تباہ  و برباد ہو جاتی ہے کہ دیکھنے والے بے اختیار پکار اُٹھتے ہیں   ؂

مٹ گئے تیرے مٹانے کے نشاں بھی اب تو

اے فلک !اس سے زیادہ نہ مٹانا ہرگز

اس سیاسی اور تمدنی بربادی کی داستان مورخین نے مختلف نقط ہائے نظر سے ترتیب دی ہے، بعض نے اس کا مطالعہ محض سپاہیوں کے ہنگامہ کی حیثیت سے کیا ہے بعض نے پوری تحریک میں صرف چند رجعت پسند عناصر کی سرگرمی دیکھی ہے اور کچھ مصنفین نے اس کو ایک ڈوبتے ہوئے جاگیردارانہ نظام کے سنبھالنے کی کوشش سے تعبیر کیا ہے۔ یہ اور اس طرح کی تمام تعبیریں حقیقت کے صرف ایک پہلو کو سامنے لاتی ہیں اس لئے جزوی طور پر صحیح لیکن کلی طور پر غلط ہیں۔

دنیا کی کسی تحریک کا بھی بے  تعصبی سے مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ اس میں حصہ لینے والے سب لوگوں کے مقاصد اور مطمح ہائے نظر ایک نہیں ہوتے۔ فرانس میں جب cahiers   کے ذریعہ فرانسیسی باشندوں کی شکایت اور مطالبات کا پتہ لگانے کی جستجو کی گئی تو معلوم ہوا کہ جہاں کچھ لوگ مطلق العنان شخصی حکومت سے نالاں تھے،وہاں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جن کو صرف یہ شکایت تھی کہ ان کے محلہ میں روشنی کا کوئی معقول انتظام نہ تھا۔

تاریخ عالم شاہد ہے کہ کسی محکم سیاسی نظام کو توڑنے کے لئے جو تحریک بھی اٹھتی ہے اُسے اپنی منزل تک پہنچنے کے لئے کتنی ہی پُر پیچ وادیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ کبھی وقتی جذبات اور عارضی مصالح،بنیادی مقاصد اور حقیقی نصب العین کو شکست دیتے ہوئے نظر آئے ہیں،کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ تحریک ان ہاتھوں میں چلی جاتی ہے اپنے افکار کی پستی اور کردار کی درماندگی کی بنا پر قیادت کی اہلیت نہیں رکھتے لیکن بایں ہمہ تحریک کے مقصد د منہاج کا نقش معاصرین کے ذہنوں میں قائم ہو جاتا ہے وہی اس کی نوعیت کو  متعین کرتا ہے اور اسی سے اس کی کامیابی  یا ناکامی کا اندازہ لگا یا  جاتا ہے۔ انقلاب فرانس کا مقصد شہنشاہیت کا استیصال اور ایک ایسے نظام کی تشکیل تھا جس کی عمارت حریت،اخوت اور مساوات کی محکم بنیادوں پر قائم ہو،لیکن کیا انقلاب فرانس کی تاریخ میں صرف یہی مرکزی نقطۂ نظر ہمیشہ اور ہر طبقہ کا رہا ہے ؟۔ ۔ ۔

مورخوں نے تسلیم کیا ہے کہ انقلاب کے دوران میں بار ہٍا ایسے عناصر برسراقتدار آئے جو تحریک کی قیادت کی اہلیت نہ رکھتے تھے لیکن اس کے باوجود تحریک کا دھارا scumred scumwhite کو  اپنی سطح پر لئے اپنے مقصد کی جانب بڑھتا رہا۔

۱۸۵۷ء  میں سپاہیوں کی بغاوت بھی ہوئی اور رجعت پسند عناصر نے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے جد و جہد بھی کی لیکن مجموعی حیثیت سے تحریک کی نوعیت غیرملکی اقتدار کے خلاف قومی تحریک ہی کی رہی اور اس کا احساس انگلستان کے بعض معاصر صحافیوں اور مدبروں کو بھی تھا۔ لارڈ سالسبری نے ایوان عام میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ کیسے تسلیم کر لیا جائے کہ اتنی وسیع اور زبردست تحریک صرف کا رتوسوں کی وجہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ لندن کے ایک اخبار نے اسی زمانہ میں لکھا تھا :

      ‘‘اگر بے اطمینانی صرف سپاہیوں تک ہی محدود ہے اور عام لوگ ہمارے ساتھ ہیں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ حکومتِ ہند کیوں باربار انگریز ی فوجیں طلب کرتی ہے اور تار پر تاریکیوں کھڑکا تی ہے ؟ اگر لوگ حکومت کے ساتھ ہیں جیسا کہ وزیر اور کمپنی کے ڈائرکٹر بیان کرتے ہیں تو انہیں وہیں سے اتنے آدمی مل سکتے ہیں کہ وہ اُن سے دس فوجیں کھڑی کر لیں۔

انگریز نے اپنا تسلط قائم کر لینے کے بعد جس بہیمت  اور بربریت کے ساتھ ہندوستانیوں کو سزائیں دی تھیں اور ہزاروں بے گناہ انسانوں کو محض انتقامی جذبے کے ماتحت موت کے گھاٹ اتارا تھا اُس سے ملک میں خوف اور دہشت کی ایک عام کیفیت پیدا ہو گئی۔ ہندوستانیوں میں اتنی ہمت تک نہ تھی کہ تحریک کی نوعیت کے متعلق ایک حرف بھی نوک زباں پرلا سکیں۔ انگریز نے تحریک کو ‘‘غدر‘‘ کہا تو وہ خود بھی اسے ‘‘غدر‘‘ کہنے لگے۔

جوں جو ں دلوں سے خوف کے پردے ہٹے،تحریک کی صحیح نوعیت کا احساس بھی بیدار ہونے لگٍا  اور اسی کے ساتھ ساتھ زاویۂ نگاہ میں تبدیلی بھی پیدا ہونے لگی ‘‘غدر‘‘ سے ‘‘رست خیز بیجا‘‘ ہوا،اور رستخیز بے جا‘‘ سے ‘‘ ہنگامہ ۱۸۵۷ء  ‘‘ اور آزادی کے بعد‘‘ آزادی کی پہلی جنگ ‘‘ یا ‘‘قومی تحریک ‘‘۔ گو یہ سب الفاظ بدلتی ہوئی سیاسی فضا کی آئینہ دار ہیں،لیکن یہ شبہ ذہن میں پیدا نہیں ہونا چاہیے کہ معاصرین ۵۷ء کے ہنگامہ کو ‘‘قومی تحریک ‘‘یا‘‘ آزادی کی  جد و جہد‘‘ سے تعبیر نہیں کرتے تھے۔ صحیح ہے کہ قومیت کا موجودہ تصور اس دور میں نہ تھا،لیکن انگریزوں کے خلاف پورے ہندوستان کے ایک ہونے کا تصور ’غدر‘ سے بہت پہلے ہندوستانی ذہن میں کام کرنے لگا تھا۔ سید احمد  شہیدؓ نے ہندو راؤ کو  جو خط لکھا تھا اُس میں ‘‘بیگانوں ‘‘کے ہندوستان پر قابض ہو جانے کی شکایت تھی ! گویا وہ ایک ہی گھر کے آدمی کو مشترکہ دشمن کے خلاف اشتراکِ عمل کی دعوت دے رہے تھے۔ رسالۂ اسباب بغاوت ہند میں گو مصلحت وقت نے بعض مقامات پر سر سید کا قلم پکڑ لیا ہے لیکن پھر بھی اُنہوں نے تحریک کی نوعیت کو واضح کرنے میں سر مو کوتاہی نہیں کی۔ اُن کا ایک طرف یہ لکھنا کہ۔ ۔ ۔

بہت سی باتیں ایک مدتِ دراز سے لوگوں کے دل میں جمع ہوتی جاتی تھیں اور بہت بڑا میگزین جمع ہو گیا تھا صرف اس کے شتابے میں آگ لگانی باقی تھی۔

کہ سال گزشتہ میں فوج کی بغاوت نے اس میں آگ لگا دی ‘‘

اور دوسری طرف یہ کہنا کہ۔

‘‘سب لوگ تسلیم کرتے چلے آئے ہیں کہ واسطے اسلوبی اور خوبی اور پائداری گورنمنٹ کے مداخلت رعایا کی حکومت ملک میں واجبات میں سے ہے۔ ۔ ۔ اور یہ بات نہیں حاصل ہوتی جب تک کہ مداخلت رعایا کی حکومت ملک میں نہ ہو۔ ۔ ۔ پس یہی ایک بات ہی جو جڑ ہے تمام ہندوستان کے فساد کی اور جتنی باتیں اور جمع ہوتی گئیں وہ سب اُس کی شاخیں ہیں ‘‘

صاف ظاہر کرتا ہے کہ وہ تحریک کی عوامی حیثیت کے پورے طور پر معترف تھے۔ خود انگریزوں نے اس تحریک کو دبانے کے لیے جو طریقۂ کار اختیار کیا تھا اور جس طرح ہندوستانیوں کو سزائیں محض یہ حقیقت کہ ۱۸۵۷ء  کے ہنگامہ دارو گیر سے گزرنے  والوں کو  ‘‘مجاہدین فی سبیل اللہ ‘‘ اور شہداء راہ خدا ‘‘کا درجہ دیا گیا تھا۔ ہندوستانیوں کی تحریک سے گہری وابستگی کو سمجھنے کے لیے بس کرتی ہے  !

۱۸۵۷ء  کی تحریک میں سکھوں اور پارسیوں کے علاوہ ہر مذہب و ملت کے لوگوں نے حصہ لیا تھا۔ تحریک کی ہمہ گیری کا عالم یہ تھا کہ تین ہفتوں کے اندر اندر سارے ملک میں ہنگامے شروع ہو گئے تھے۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہندوستان کے بعض علاقے تحریک سے علیحدہ رہے اور بعض نے انگریزوں کا ساتھ دیا لیکن اس سے تحریک کی نوعیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ کسی بھی قومی تحریک یا جنگ آزادی میں تمام علاقوں اور تمام طبقات نے شرکت نہیں کی ہے۔ انقلابِ فرانس کے وقت ملک میں ایک ایسا طبقہ موجود تھا جو شہنشاہیت کو قائم رکھنا چاہتا تھا اور اس کی موافقت میں کا م کر رہا تھا۔ اسی طرح امریکہ کی جنگ آزادی میں بہت سے لوگ تاج برطانیہ کے مدد گار رہے تھے۔

یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ۵۷ء  کی تحریک عوامی ہوتے ہوئے بھی ناکام کیوں رہی اس سلسلہ میں تاریخ انقلاب کا ایک راز فراموش نہیں کرنا چاہے۔ انقلابی جذبات کے بیدار ہونے کے لئے جہاں یہ ضروری ہے کہ عوام کے دل میں کسی نظام کے خلاف شدید بے چینی ہو وہاں اس کامیابی کے لئے از بس لازمی ہے کہ مستقبل کی تعمیر کا ایک واضح خاکہ ذہن میں ہو۔ ۱۸۵۷ء  میں انگریزوں کے خلاف شدید نفرت اور برطانوی طریق کا رسے سخت بیزاری ضرور نظر آتی ہے لیکن کسی ایک شخص کے ذہن میں بھی تشکیل جدید کا نقشہ نہیں ملتا !یہی نہیں بلکہ اُس وقت جتنی بھی طاقتیں میدان میں سرگرم عمل تھیں ان میں سے کوئی بھی ایک کُل ہند نظام کا بوجھ سنبھالنے کی صلاحیت نہ رکھتی تھی۔ یہ ایسی محرومی تھی جس نے ساری تحریک کی روح کو مضمحل کر دیا تھا۔ اور ہر فوجی مہم کسی مقصد تک رہبری کرنے کے بجائے وقتی ہنگامہ آرائی میں ختم ہو جاتی تھی۔ جمہوریت اور خود اختیاری کے افکار ابھی سیاسی شعور میں داخل نہیں ہوئے تھے اس لئے سیاسی زندگی کی تعمیر نو کا سوال بے معنی تھا۔ شخصی حکومت کا تصور اس طرح رگ و ریشہ میں پیوست ہو چکا تھا کہ ہر مقام پر لوگ۔ ۔ ۔ بہادر شاہ ‘‘ ایک ‘‘نانا صاحب ‘‘ ایک ‘‘ رانی لکشمی بائی ‘‘ ایک ‘‘ برجیس قدر‘‘ کی تلاش کرتے تھے۔ اور چاہتے کہ ان ہی کے سہارے کوئی ایسا نظام تشکیل پا جائے جو اُن کے مصائب کا علاج اور اُن کے درد کا مداوا بن سکے مغل بادشاہ ہندوستان کا تو سوال کیا،لال قلعہ کو بھی قابو میں رکھنے کی صلاحیت نہ رکھتا تھا ۔ مرہٹوں کی اجتماعی طاقت کا عرصہ ہوا خاتمہ ہو چکا تھا۔ روہیلوں کے چند سردار جواس وقت مختلف مقامات پر اپنی طاقت کا استحکام کر رہے تھے،مقامی طور پر مدافعت اور کار  برآری کی صلاحیت تو رکھتے تھے،لیکن ایک وسیع علاقہ پر حکومت کرنے کے لئے جس دور اندیشی،تدبر اور انتظامی صلاحیت کی ضرورت تھی اس کا دور تک کہیں پتہ نہ تھا۔ پھر اس شخصی عقید ت کے نازک رشتوں کو بھی توڑنے کے لئے کتنے ہی عنا صر کا م کر رہے تھے۔ دہلی میں بخت خاں کو نہ صرف مغل شہزادوں کا تعاون حاصل نہ ہو سکا بلکہ اس کا اثر توڑنے کے لئے یہ  پروپیگنڈ ا کیا گیا کہ شیر شاہ کی طرح اس کا اقتدار بھی مغلیہ خاندان کے لئے مہلک ثابت ہو گا لکھنؤ میں حضرت محل کے ذہن میں یہ بات بٹھائی گئی کہ اگر احمد اللہ شاہ کی مدد سے اقتدار قائم ہوا تو سنیوں کا غلبہ ہو جائے گا اسی طرح روہیلوں کے علاقوں میں ہندو زمینداروں کو روہیلہ سرداروں سے برگشتہ کیا گیا۔ لارنس نے سکھوں کو بہادر شاہ سے بد ظن کر کے دہلی کے ساتھ سکھوں کے اشتراک عمل کے امکانات کو ختم کر دیا۔ ان تمام کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باوجود اگر ۱۸۵۷ء  کا ہندوستان بہترین صلاحیتیوں کو یکجا کر دیتا تو  یقیناً غلامی کی زنجیریں اتنی آسانی سے نہ پہنا ئی جا سکتیں تھیں۔

۱۸۵۷ء کی تحریک غیرملکی اقتدار کے خلاف جنگ کی ابتداء بھی تھی اور ایک منزل بھی۔ یہ سمجھ لینا صحیح نہ ہو گا کہ اس سے قبل انگریزوں کے خلاف نفرت کے جذبات کا اظہار نہیں ہوا تھا۔ ہندوستانیوں کا ذہن غیر ملکی تسلط کے خلاف پورے طور پر تیار ہو چکا تھا۔ یہ سیاسی شعور اور بیداری شاہ ولی اللہ دہلوی ؓ (م ۱۷۶۲ء   ۱۱۷۶ھ) اور ان کے گھرانے کی پیدا کی ہوئی تھی۔ شاہ صاحب ؓ نے اپنی تصانیف میں ملوکیت اور شہنشا ہیت کے خلاف جگہ جگہ آواز اٹھائی تھی اور سیاسی نظام کی اصلاح کے لیے صرف اعلیٰ طبقوں،امراء و حکام ہی کو متوجہ نہیں کیا تھا،بلکہ عوام کو بھی مخاطب کیا تھا،ان کی تحریک کا سب سے زیادہ ترقی پسند پہلو یہ تھا کہ وہ سیاسی نظام کا انحصار ’’عوام ‘‘ پر سمجھتے تھے اور ان میں یہ احساس پیدا کرنا چاہتے تھے کہ اگر وہ تیار ہو جائیں تو سارے مصائب کا علاج ممکن ہے ان کے جانشینوں نے ان کی تحریک کو  آگے بڑھا یٍا اور ان کے پیدا کئے ہوئے سیاسی د ستور کی روشنی میں ملک کی رہبری کی۔ شاہ عبدالعزیز صاحبؒ (م۱۸۲۴ء)  ۱۲۳۹ ھ) نے ایک فتوی میں کہا تھا۔

یہاں روسائے  نصاریٰ  کا حکم بلا دغدغہ اور بے دھڑک جاری ہے اور ان کا حکم جاری اور نافذ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ملک داری اور ہندو بست رعایا،خراج و باج،مال تجارت پر ٹیکس،ڈاکوؤں اور چوروں کو سزائیں،مقدمات کے تصفیے،جرائم کی سزائیں،وغیرہ (ان تمام معاملات میں) یہ لوگ بطور خود حاکم اور مختار مطلق ہیں۔ ہندوستانیوں کو اُن کے بارے میں کوئی دخل نہیں بیشک نماز جمعہ،عیدین،اذان،ذبیحہ گا ؤ جیسے اسلام کے چند احکام میں وہ رکاوٹ نہیں ڈالتے،لیکن جو چیز ان سب کی جڑاور بنیاد ہے وہ قطعاً ً بے حقیقت اور پامال ہے چنانچہ بے تکلف مسجدوں کو مسمار کر دیتے ہیں عوام کی شہری آزادی ختم ہو چکی ہے۔ انتہا یہ کہ وہ کوئی مسلمان یا غیر مسلم اُن کی اجازت کے بغیر اس شہر یٍا  اس کے اطراف و جوانب میں نہیں آ سکتا۔ عام مسافروں یا تاجروں کو شہر میں آنے جانے کی اجازت دینا بھی ملکی مفاد یا عوام کی شہری آزادی کی بنا پر نہیں بلکہ خود اپنے نفع کی خاطر ہے۔ اس کے بالمقابل خاص خاص  اور ممتاز اور نمایاں حضرات مثلاً شجاع الملک اور ولایتی بیگم ان کی اجازت کے بغیر اس ملک میں داخل نہیں ہو سکتے۔ دہلی سے کلکتہ تک انہی کی عملداری ہے۔ بیشک کچھ دائیں بائیں مثلاً حیدر آبا د لکھنو۔ رام پور میں چونکہ وہاں کے فرماں رواؤں نے اطاعت قبول کر لی ہے براہ راست) نصاری ٰ کے احکام جاری نہیں ہوتے۔ شاہ عبدالغریز صاحب  ؒ نے ہندوستان کو  ‘‘دار الحرب ‘‘ قرار دے کر،غیرملکی اقتدار کے خلاف سب سے پہلا اور سب سے زیادہ موثر قدم اُٹھایا تھا۔ اس فتوے کی اہمیت کو وہ لوگ سمجھ سکتے ہیں جو دارالحرب ‘‘ کے صحیح مفہوم کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی سیاست پر خاندان ولی اللہی کے ا اثرات  کا بھی صحیح علم رکھتے ہوں۔ سید احمد شہیدؒ مولانا اسمعیل شہیدؒ وغیرہ نے اپنے سیاسی فکر میں انگریزی اقتدار کو جو درجہ دیا تھا اُس کی بنیاد یہی فتویٰ تھا سید احمد شہیدؒ کی تحریک جس کو  مصلحتاً ً بعض ممتاز اشخاص نے سکھوں کے خلاف تحریک کا رنگ دے دیا تھا، حقیقتاً انگریزوں ہی کے خلاف سب سے زیادہ منظم کوشش تھی۔ اُن کا مقصد اولیں یہی تھا کہ انگریزوں کو ہندوستان سے نکال دیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ایسے مقام پر طاقت کا استحکام ضروری تھا جہاں سے انگریزوں کے خلاف جنگ کی تنظیم کرنے میں مدد ملے۔ اگر سرحد اور پنجاب میں وہ اپنی طاقت کے استحکام میں کامیاب ہو جاتے تو ہندوستان میں برطانوی سامراج کے قدم اتنی آسانی سے نہیں جم سکتے تھے۔ ان کی تحریک کی نوعیت اور اُن کے مقاصد کا انداز ہ اس خط سے لگا یا جا سکتا ہے جو انہوں نے راجہ ہندو راؤ کو لکھا تھا:

‘‘جناب کو خوب معلوم ہے کہ پردیسی سمندر پار کے رہنے والے دنیا جہان کے تاجدار اور یہ سودا بیچنے والے سلطنت کے مالک بن گئے ہیں بڑے بڑے امیروں کی امارت اور بڑے بڑے اہل حکومت کی حکومت اور ان کی عزت و حرمت کو انہوں نے خاک میں ملا دیا ہے جو حکومت و سیاست کے مرد میدان تھے وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اس لئے مجبوراً چند غریب و بے سر و سامان کمر ہمت باندھ کر کھڑے ہو گئے اور محض اللہ کے دین کی خدمت کے لیے اپنے گھروں سے نکل آۓ۔ یہ اللہ کے بندی ہرگز دنیا دار اور جاہ طلب نہیں ہیں محض اللہ کے دین کی خدمت کے لئے اٹھے ہیں مال و دولت کی ان کو ذرہ برابر طمع نہیں۔ جس وقت ہندوستان ان غیر ملکیوں سے خالی ہو گا اور ہماری کوششیں بار آور ہو گئیں حکومت کے عہدے اور منصب ان لوگوں کو ملیں گے جن کو ان کی طلب ہو گی۔

سید صاحب کے عزیز ترین مرید اور دست راست مولانا شاہ محمد  اسمعیل  شہیدؒ نے اُن کی سیاسی فکر کو منصب اِمامت میں اور زیادہ واضح طور پر پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ ملوکیت سب سے بڑی لعنت ہے۔

سلاطین و ملوک کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

ان کو  جڑ سے اکھاڑ پھینکنا،عین انتظام ہے اور ان کو فنا کر دینا عینِ اسلام ہے ہر صاحبِ اقتدار کی اطاعت کرنا حکم شریعت نہیں ہے مسلمانو ں کی تنظیمی صلاحیت عسکری قابلیت معاملہ فہمی اور تدبر کا جو کچھ بچا کچا سرمایہ رہ گیا تھا اس کو سید احمد شہیدؒ نے بہترین طریقہ پر استعمال کیا۔ وقتی طور پر ان کو ناکامی ضرور ہوئی لیکن ان کی تحریک نے سر فروشی  کا جو جذبہ پیدا کر دیا تھا وہ ایک عرصہ تک قلب و جگر میں شعلہ کی طرح بھڑکتا رہا۔

جلے جل کر بجھے بھی چشم صورت بیں میں پروانے

   فروزاں کر گئے وہ نام لیکن شمع سوزاں کا

حقیقت یہ ہے کہ سید احمد شہیدؒ اور ان کے رفقاء کار کے خون سے آزادی کا پودا ہندوستان میں سینچا گیا۔ انگریزوں نے ان کی تحریک کی نوعیت کو خوب سمجھ لیا تھا اور وہ اس جذبہ سے بھی بے خبر نہ تھے جو جماعتِ مجاہدین کے قلب و جگر کو گرمائے ہوئے تھا۔ چنانچہ انہوں نے ایک طرف تو وہابی کا لقب دے کراس مکتبِ خیال کے لوگوں کو ختم کیا اور دوسری طرف کوشش کر کے اس تحریک کو اس طرح پیش کیا اور کرایا جس سے متاخرین کو ایسا محسوس ہونے لگا گویا اس کا رخ مح۔ ض سکھوں کی طرف تھا۔ حد یہ ہے کہ جماعت مجاہدین کے ایک رکن مولوی محمد جعفر تھا نیسری نے تواریخِ عجیبہ میں ان کے مکتوبات کو مسخ کیا اور نصاریٰ  نکوہیدہ خصال ‘‘کی جگہ سکھاں نکوہیدہ خصال ‘‘کر دیا اور کفار فرنگ بر ہندوستان تسلط یافتہ ‘‘کو‘‘ کفار دراز  مویاں کہ بر ملک پنجاب تسلط یافتہ میں تبدیل کر دیا۔ مولانا غلام رسول مہر نے جس کا وش سے ان تمام لفظی اور معنوی تحریفات کو بے نقاب کیا ہے اس کو اس دور کی سب سے زیادہ قابل قدر تحقیقات میں شمار کرنا چاہے ۔

سید احمد شہید ؒ نے بالا کوٹ سے کلکتہ تک اپنا نظام پھیلا دیا تھا۔ جو شخص ایک بار بھی ان کی تحریک میں شامل ہو گیا اس کا پورا خاندان عمر بھر جہاد کی تمنا کرتا رہا۔ ہزاروں انسانوں کے دل میں آزادی کی لگن پیدا ہو گئی۔

سید صاحبؒ کی تحریک نے مسلمانوں میں جو روح پھونک دی تھی اس کے مظاہرے ان کی شہادت کے بعد ایک عرصہ تک ہوتے رہے۔ جنگ بالاکوٹ کے چودہ پندرہ سال بعد سر سید احمد خان نے لکھا تھا۔ اس واقعہ (یعنی شہادت کے چودہ پندرہ بر س گزرے ہیں اور یہ طریقہ آخر الزماں میں بنیاد ڈالا ہوا آنحضرت ﷺ کا ہے  اب تک اس سنت کی پیروی عبا د اللہ نے ہاتھ سے نہیں دی۔ اور ہر سال مجاہدین اوطان مختلفہ سے بہ نیت جہاد اسی نواح کی طرف راہی ہوا کرتے ہیں اور اس امر نیک کا ثواب آپ کی روح مطہر کو  پہنچتا رہتا ہے۔

سید صاحب کی شہادت کے بعد لوگوں میں عام طور پر یہ خیال پیدا ہو گیا تھا کہ : اللہ تعالیٰ نے ان کو  موجودہ کمزور نسلوں سے اٹھا لیا ہے اور جب ہندوستان کے مسلمان یک جان ہو کر انگریز کافروں کے خلاف جہاد شروع کریں گے تو امام صاحب ظاہر ہو کر فتح کی طرف ہماری رہنمائی کریں گے۔ چنانچہ ۱۸۵۷ء کی تحریک میں عملا ً حصہ لینے والے بہت سے افراد سید احمد شہید کے افکار و نظریات سے متاثر معلوم ہوتے ہیں۔ ۳؂بخت خان کے متعلق ہمارا خیال ہے کہ وہ بھی جماعت مجاہدین ہی سے متعلق تھے۔ بہادر شاہ کے مقدمہ کے دوران میں ان کو  وہابی العقیدہ بتایا گیا تھا۔ ۴؂ کوئی شخص بھی جس نے ہنٹر کی کتاب‘‘ ہمارے ہندوستانی مسلمان پڑھی ہے اس سے انکار نہیں کرے گا کہ وہابی کا لفظ اس زمانہ میں سید صاحب اور ان کے ہم خیال علماء کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اور بقول ہنٹر ‘‘ وہابی‘‘ اور غدار ہم معنی الفاظ تھے ۵؂ بخت خان نے علماء سے جس نوع کے تعلقات رکھے،ا س سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سید صاحب کی تحریک سے متاثر تھے  جس وقت وہ تحریک میں حصہ لینے کے لیے دہلی پہنچے تھے سو  علما ان کے ہمراہ تھے۔ دوران ہنگامہ میں وہابی علماء کی ایک جماعت ٹونک سے ان کے پا س آئی تھی۔ اس کے علاوہ جے پور، بھوپال، ہانسی حصار اور آگرہ سے بھی کافی علماء کھچ کھچ کر ان کے گرد جمع ہو گئے تھے۔ ان علماء پر بخت خان کو  اس قدر اعتماد تھا کہ تخلیہ کے ان مخصوص مشوروں میں جن میں سوائے ان کے اور بادشاہ کے کوئی تیسرا شخص نہ ہوتا تھا ان علماء کو  شریک کر لیا جاتا تھا۔ مولوی ذکاء اللہ دہلوی کا بیان ہے کہ دہلی میں جہاد کے فتوے کو  جو اہمیت اور چرچا حاصل ہوا  وہ بخت خان کے دہلی آنے کے بعد ہوا۔

مولانا لیاقت علی الہ آبادی بھی اسی مکتبِ خیال کے مجاہد معلوم ہوتے ہیں۔ ان کے شائع کئے ہوئے دو اشتہارات کا مضمون ملاحظہ فرمائیے ایک ایک حرف سید صاحب کے اندازِ فکر کی ترجمانی کرتا ہوا نظر آئے گا۔ ایک اشتہار میں تو ستائیس اشعار اس جہاد یہ نظم میں سے نقل کئیے گئے ہیں جو سید صاحب کے مجاہدین میدانِ جنگ میں پڑھا کرتے تھے۔ مولانا عنایت علی صادق پوری جن کی کوششوں سے مروان میں ر جمنٹ  ۵۵ نے بغاوت کی تھی، سید صاحب کے خلیفہ اور جماعت مجاہدین کے سر گرم کارکن تھے۔

مولانا عبد الجلیل شہید علی گڈھیؒ جنہوں نے  علی گڈھ میں فرنگی قوت سے دلیرانہ مقابلہ کیا۔ سید صاحب کے خلفاء میں سے تھے۔ ان چیدہ شخصیتوں کے علاوہ ۱۸۵۷ء کے ہنگامہ میں حصہ لینے والے اور بہت سے اشخاص سید صاحب کی جماعت یا ان کے مکتبِ خیال سے تعلق رکھتے تھے۔ اور غالباًاسی بنا پر بعض لوگوں نے ۱۸۵۷ء کے ہنگامہ کو مسلمانوں کی تحریک قرار دیا تھا۔ ہر چند کہ مجاہدین نے اس ہنگامہ میں بری سرگرمی دکھائی لیکن وہ اس کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں نہ لے سکے۔ اس کے د و سبب تھے، اول تو یہ کہ بالا کوٹ کی ناکامی نے کسی بڑے پیمانے پر تنظیم کا حوصلہ ختم کر دیا تھا۔ دوسرے یہ کہ تحریک مجاہدین کی مذہبی نوعیت کے باعث ہندوستان کے تمام طبقات اور مختلف مذاہب کے لوگ ان کی قیادت پر غالباًمتفق نہیں ہو سکتے تھے۔ چنانچہ انفرادی طور پر مقامی حالات کے پیش نظر اس مکتبِ خیال کے لوگوں نے بہت  نمایاں حصہ لیا اور غیر ملکی تسلط کے خلاف جدو جہد میں کسی سے پیچھے نہیں رہے، لیکن تحریک کی قیادت اپنے ہاتھوں میں نہ لے سکے۔

دنیا کے بیشتر انقلاب کسی اہم حادثہ یا سانحہ سے شروع نہیں ہوئے۔ عموماً یہ ہوا ہے کہ خاموش سطح کے نیچے آتشیں مادہ جمع ہوتا رہا ہے اور پھر کسی معمولی سے واقعہ نے جو بہ حالات دیگر سطح آب پر تموج بھی پیدا نہیں کر سکتا تھا،ساری فضا میں طوفان بر پا کر دیا ہے۔ فرانس اور امریکہ کے انقلابات کی ابتداء معمولی معمولی واقعات سے ہوئی۔ لیکن تھوڑی ہی مدت میں تمام بیتاب عناصر اوپر آگئے اور ساری فضا پر چھا گئے۔ یہی صورت ۱۸۵۷ء میں پیش آئی۔ کارتوسوں کا تو صرف ایک بہانہ تھا جس نے سو سال کی بے چینی کو متحرک کر دیا، ورنہ انگریزوں کے خلاف ایک عرصہ سے جذبات میں شدید ہیجان برپا تھا۔

بعض مصنفین نے ۱۸۵۷ء کے ہنگامہ کو منظم سازش کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ کریک روفت ولسن(Crocroft Wilson) کا یہ خیال تھا کہ ہندوستان کی چھاؤنیوں اور فوجی مقامات پر بیک وقت بغاوت کی تیاری بہت پہلے سے تھی لیکن تاریخی شواہد اس خیال کی تائید نہیں کرتے۔ ہنگامہ بالکل اتفاقیہ شروع ہوا،اور چونکہ بے چینی کے جراثیم پہلے سے ہر جگہ موجود تھے اس لیے جہاں بھی اس ہنگامہ کی خبر پہنچی وہاں آگ لگتی چلی گئی۔

بعض مورخین نے چپاتیوں کی تقسیم کو غیر ضروری اہمیت دی ہے اور اس کو اسبابِ بغاوت میں شمار کیا ہے۔ تھورن ہل (Thornhill)کے اس بیان نے کہ ویلور کی بغاوت سے قبل بھی مدراس میں چپاتیاں تقسیم ہوئی تھیں ۱؂۔ اس نظریہ کو تقویت پہنچائی ہے۔ ملک بھر میں چپاتیوں کی تقسیم حیرت انگیز ضرور ہے،لیکن ۱۸۵۷ء کی تحریک کا اس سے کوئی خاص تعلق اب تک ثابت نہیں ہو سکا۔ حکیم احسن اللہ نے اپنے بیان میں بتایا تھا کہ چپاتیوں کی تقسیم پر قلعہ معلی میں بھی سب لوگ تعجب میں پڑ گئے تھے اور کوئی ان کا مقصد نہ سمجھ سکا تھا۱؂

پھر ایک خیال یہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ بہادر شاہ اور باغی سپاہیوں نے بیرونی طاقتوں سے ساز باز کر لیا تھا۔ یہ الزام بھی ثبوت کا محتاج رہا۔ ایسا ضرور ہوا کہ ایک اعلان جو شاہ ایران کی طرف منسوب تھا جامع مسجد پر چسپاں کیا گیا تھا۔ ا سکے علاوہ اور سب بیانات کی صحت مشتبہ ہے۔ مقدمہ میں کہا گیا تھا کہ بہادر شاہ نے اپنے سفیر ایران بھیجے تھے۔ لیکن یہ ثابت نہ ہو سکا۔ مکند لال نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ مرزا سلیمان شکوہ کے پوتے مرزا حیدر وغیرہ لکھنؤ آئے تھے اور انہوں نے بہادر شاہ اور شاہ ایران کے درمیان تعلقات قائم کرانے کے سلسلہ میں گفتگو کی بھی تھی۔ بعض مورخوں نے ایران میں برطانوی سفیر مرے ؔ (Murray) کا خط نقل کیا ہے جس میں اس ایک ایرانی عہدہ کا بیان نقل کیا ہے کہ شمالی ہندوستان کے والیان ریاست کو بغاوت پر آمادہ کرنے کے لیے ایران سے خطوط بھیجے گئے تھے۔ ان تمام بیانات کے باوجود ۱۸۵۷ء کے ہنگامہ میں کسی بیرونی طاقت کی نمایاں مداخلت کا ثبوت نہیں ملتا۔

۱۸۵۷ ء کی تحریک نہ کسی بیرونی طاقت کی مداخلت سے پیدا ہوئی نہ اس  کے پیچھے کوئی منظم سازش تھی۔ یہ بالکل قدرتی اظہار تھا اس گہری نفرت اور بے چینی کا جو انگریزوں کے خلاف ایک عرصہ سے دلوں میں جمع ہو رہی تھی۔ سپاہیوں نے پیش قدمی اس لیے کی کہ وہ انگریزوں کے غیر منصفانہ برتاؤ سے عاجز ہو چکے تھے اور فوجی قانون کے ماتحت ہوتے ہوئے وہ زیادہ عرصہ تک ان نا انصافیوں کو برداشت بھی نہیں کر سکتے تھے۔ ۱۸۰۶ء سے جب سر جارج بارلو (Sir George Barlow) نے سپاہیوں کے تلک لگانے، داڑھی رکھنے اور صافہ باندھنے پر اعتراض کئے تھے،متواتر فوج کے ساتھ ایسا برتاؤ ہو رہا تھا جس سے ان کے جذبات میں اشتعال پیدا ہونا لازمی تھا۔ ہندوؤں میں بحری سفر کے خلاف مدتوں سے ایک نفرت چلی آتی تھی، انگریزوں نے نہ ان کے جذبات کو سمجھا نہ ان کا احترام کیا۔ ذات پات کے جذبات کو بھی اسی طرح نظر انداز کیا گیا۔ سردار بہادر ہدایت علی نے بتایا تھا کہ کابل میں ہندو سپاہی نہ اشنان کر سکتے تھے نہ انہیں ہندوؤں کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا بنتا تھا۔ علاوہ ازیں مختلف اوقات میں جو وعدے فوج سے کیے گئے تھے،ان کو نہ صرف یہ کہ پورا نہیں کیا گیا بلکہ ان کے خلاف عمل کیا گیا۔ اس سے سپاہیوں میں بددلی پھیل گئی ۲؂ پھر ہندوستانی اور انگریز سپاہیوں کی تنخواہوں اور معیار زندگی میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ اور اس فرق نے وہ احساس کمتری پیدا کر دیا تھا جو نہ صرف بے چینی بلکہ ارتکابِ جرم کا ہمیشہ سب سے بڑا محرک ہوتا ہے۔

ہندوستان میں انگریزوں کی فوج ۳۱۵۵۲۰۔ اشخاص پر مشتمل تھی۔ اس  پر ۹۸۰۲۲۳۵ پونڈ خرچ آتا تھا۔ اس میں سے ۱۱۰ ۵۶۶۸ پونڈ یورپین فوج پر خرچ ہوتا تھا اور یہ ا س صورت میں جب کہ ان کی کل تعداد ۵۱۳۱۶ سے زیادہ نہ تھی ایک ہندوستانی پیادہ کو سات روپیہ ماہانہ اور سوار کو ستائیس روپیہ ماہانہ تنخواہ ملتی تھی۔ سوار کو اپنا گھوڑا رکھنا پڑتا تھا اس قلیل تنخواہ سے بھی کٹ کٹا کر بعض اوقات ایک سپاہی کو ڈیڑھ روپیہ ماہانہ اور بعض صورتوں میں صرف چند آنوں سے زیادہ نہ ملتے تھے ان حالات میں فوجیوں کی بددلی اور بے چینی کا اندازہ کچھ مشکل نہیں ہے۔

علاوہ ازیں انگریزوں نے عیسائیت کو پھیلانے کے لیے جو حربے اور طریقے اختیار کئے تھے ان سے ہندوستانیوں میں زبردست بدگمانی پھیل گئی تھی۔ بلکہ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی بعض ایسی تجاویز جن کا مقصد مذہبی مداخلت سے زیادہ سماجی اصلاح تھا،وہ بھی ہدفِ ملامت بن گئیں۔ عیسائی مبلغ اسکولوں میں، بازاروں میں، شفا خانوں میں جیل خانوں میں غرض جس جگہ موقع ملتا،تبلیغ کرنے لگتے تھے۔ ان کے طریقہ کار سے معلوم ہوتا تھا کہ حکومت کی اعانت ان کو حاصل تھی۔ بعض اضلاع میں پادریوں کے ساتھ تھانے کے چپراسی جاتے تھے۔ اور یہ پادری غیر مذہب کے مقدس لوگوں کو اور مقدس مقاموں کو بہت برائی اور ہتک سے یاد کرتے تھے جس سے سننے والوں کو نہایت رنج اور دلی تکلیف پہنچتی تھی۔ گورنمنٹ اسکولوں میں انجیل کی لازمی تعلیم دی جاتی تھی۔ جیل خانوں میں قیدیوں کو عیسائیت کی طرف راغب کیا جاتا تھا۔ سر سید احمد خان نے لکھا ہے :

۱۸۵۷ ء کی قحط سالی میں جو یتیم لڑکے عیسائی کیے گئے وہ تمام اضلاع ممالک مغربی و شمالی میں ارادۂ گورنمنٹ کے ایک نمونہ گنے جاتے تھے کہ ہندوستان کو اس طرح پُر مفلس اور محتاج کر کر اپنے مذہب میں لے آئیں گے۔ میں سچ کہتا ہوں کہ جب سرکار آنربل ایسٹ انڈیا کمپنی کوئی ملک فتح کرتی تھی ہندوستان کی رعایا کو کمال رنج ہوتا تھا۔

بعض قوانین کا صاف مقصد یہ تھا کہ عیسائیت قبول کر لینے والوں کی مدد کی  جائے۔ مثلاً ۱۸۵۰ء کے Ad XXI) کے مطابق مذہب تبدیل کر دینے کے بعد بھی ایک شخص موروثی جائداد میں حقدار رہتا تھا۔ ان حالات میں جب پادری ای ایڈمنڈ نے وہ خط جاری کیا جس میں کہا گیا تھا ک اب تمام ہندوستان میں ایک عملداری ہو گئی، تار برقی سے سب جگہ کی خبر ایک ہو گئی،ریلوے سڑک سے سب جگہ کی آمد و رفت ایک ہو گئی، مذہب بھی ایک چاہیے، اس لیے مناسب ہے کہ تم لوگ بھی عیسائی ایک مذہب ہو جاؤ‘‘ ہندوستانیوں میں ایک آگ سی لگ گئی۔

پھر انگریزوں نے بعض ریاستوں کے الحاق میں جس کھلی بے انصافی اور ظلم کو روا رکھا تھا اس سے اضطراب اور بے چینی کے شعلے ہر جگہ بھڑکنے لگے۔ صحیح ہے کہ بعض ریاستیں، انتظامی معاملات میں کوئی خاص صلاحیت نہیں رکھتی تھیں،اور ان کو ختم کر کے انگریزوں نے حقیقتاً  ایک ایسے نظام پر ضرب کاری لگائی جس کی افادیت ختم ہو چکی تھی  لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ محلات شاہی کے ساتھ ہزاروں خاندان پر ورش پاتے تھے، اور ہر ریاست کی اقتصادی زندگی میں نوابوں اور راجاؤں کو ایک خاص اہمیت حاصل ہو گئی تھی جب ا ن ریاستوں کا الحاق ہوا تو ہزاروں متعلقین بے سہار ا رہ گئے۔ اودھ کے الحا ق کے بعد انگریزوں سے نفرت جس حد کو پہنچ گئی تھی اس کے متعلق ٹریو لیان کا بیان ہے کہ : سقوں نے انگریزوں کے لیے پانی بھرنا چھوڑ دیا،آیائیں اجازت لیے بغیر نوکری سے رخصت ہو گئیں،باورچی اور ہر کارے آقاؤں سے گستاخی اور بدتمیزی سے پیش آنے لگے۔

اقتصادی بدحالی اور ابتر ی نے انگریز کے خلاف شعلوں کی لپک کو بڑھا دیا۔ مصحفی (۱۲۴۰ھ۔ ۱۸۲۴ء) نے مدتوں پہلے کہا تھا؂

ہندوستاں کی دولت و حشمت جو کچھ کہ تھی**  کافر فرنگیوں نے بتدریج کھینچ لی۔

سر سید نے بتایا ہے کہ لوگ اس قدر نادار و محتاج ہو چکے تھے کہ صرف آنہ ڈیڑھ آنے یومیہ پر فوج میں ملازمت کے لیے آمادہ ہو جاتے تھے۔ ایک طرف ریاستوں کے الحاق سے ہزار ہا ہندوستانی بے روزگار ہو گئے، اور بدحال کر دیا گیا۔ انگلستان کی تیار شدہ چیزوں کے لئیے ایک منڈی درکار تھی، اس کے لیے ہندوستان کی مقامی صنعتوں کو عمداً ختم کیا گیا۔ سر سید نے لکھا ہے۔ :

اہلِ حرفہ کا روزگار بسبب جاری اور رائج ہونے اشیائے تجارت ولایت کے بالکل جاتا رہا تھا۔ یہاں تک کہ ہندوستان میں کوئی سونے بنانے والے اور دیا سلائی بنانے والے کو بھی نہیں پوچھتا تھا۔ جو لاہوں کا تار تو بالکل ٹوٹ گیا تھا۔

۱۸۵۷ء کی تحریک مختلف منزلوں سے گزری،مختلف طبقات نے اس میں حصہ لیا اور مختلف عناصر مختلف اوقات میں بروئے کار آتے رہے۔ ان میں کچھ عناصر ترقی پسند تھے اور بعض قوتیں رجعت پسند،روساء میں رانی لکشمی بائی، نانا صاحب، ناہر سنگھ، حضرت محل، نواب علی بہادر، نواب تفضل حسین، خان بہادر خان، نواب محمود خان، وغیرہ وہ شخصیتیں تھیں جن کے عزم،مقصد کی سچائی اور مسلسل جدو جہد سے تحریک میں جان پیدا ہوئی،بلند حوصلگی اور انفرادی صلاحیتوں میں یہ لوگ بہت سے انگریزوں سے یقیناً بدرجہا بہتر تھے صحیح ہے کہ ان میں سے بعض کو انگریزوں سے ذاتی شکایتیں بھی تھیں اور جاگیردارانہ نظام کو قائم رکھنا چاہتے تھے،لیکن جہاں تک تحریک میں حصہ لینے اور سرگرمی دکھانے کا تعلق تھا ان کا خلوصِ نیت کسی سے کم نہ تھا۔ ملازمت پیشہ طبقہ میں تائیا ٹوپی، عظیم اللہ خان، بخت خان، وزیر خان، وغیرہ آخری وقت تک انگریزوں سے لڑتے رہے۔ ان میں جوش عمل بھی تھا اور انتظامی صلاحیتیں بھی تھیں۔ حالات نے جہاں تک مساعدت کی انہوں نے پوری دلیری کے ساتھ غیر ملکی طاقتوں کا مقابلہ کیا۔ مسلمان علماء و ًا داول نالے سے ہوتئکیل: اعجاز بیددمشائخ جن میں مولانا احمد شاہ حاجی امداد اللہؒ،مولانا فضل حق خیرآبادی، مولانا عبد القادر لدھیانوی ؒ وغیرہم شامل تھے،اپنے خلوص اور سرفروشانہ جذبات میں یقیناً بے مثال تھے۔ ان کی انگریز دشمنی میں ذاتی رنجشوں کا کوئی حصہ نہ تھا۔ ان میں حب الوطنی کا جذبہ، غیر ملکی اقتدار سے نفرت اور انگریز کی مشنری کوششوں کا شدید رد عمل کام کر رہا تھا۔ اگر تحریک کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ جہاں تک عوام میں بے چینی پیدا کرنے کا تعلق تھا اس کی زیادہ تر ذمہ داری ان ہی علماء پر تھی۔ مولوی احمد اللہ شاہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ: ان کی تقریروں میں ہزاروں آدمی ہندو اور مسلمان جمع ہو جاتے تھے۔ چنانچہ آگرہ کی تقریروں میں دس دس ہزار کا مجمع ہوتا تھا۔ ان کی ہر دل عزیز ی کی یہ حالت تھی کہ پولیس نے (ایک موقع پر مجسٹریٹ کے حکم پر) انہیں گرفتار کرنے سے انکار کر دیا۔

ان مختلف طبقات کی کوششوں اور حالات کا علیحدہ علیحدہ جائزہ لینا ضرور ی ہے تاکہ تحریک میں ان کی شرکت کی نوعیت واضح ہو جائے۔

سب سے پہلے بہادر شاہ شاہی خاندان اور قلعہ معلیٰ کے حالات پر نظر ڈالیے یوں تو مدت سے،سلطنت شاہ عالم،از دہلی تا پالم کا نقشہ تھا۔ اور بقول شاہ ولی اللہ دہلی کی حکومت ‘‘ لعب صبیان ‘‘ بن چکی تھی،لیکن ۱۸۰۳ء میں جب لارڈ لیک کی فوجیں دہلی میں داخل ہو گئیں تو مغل بادشاہ کی حیثیت کمپنی کے ایک ملازم سے زیادہ نہ رہی۔ انگریزوں نے بادشاہ کو ہٹانے میں عجلت سے کام نہیں لیا کیوں کہ اس کے نام کے سہارے اپنا  اقتدار قائم کرنے میں مدد ملتی تھی۔ ۲؂ لیکن بہر نوع کوشش یہی رہی کہ بادشاہ کے اختیار ات کا دائرہ اتنا محدود کر دیا جائے کہ وہ لاشے محض ہو جائے۔ بہادر شاہ ۱۸۳۷ء میں تخت پر بیٹھا۔ ۱۸۵۷ء میں اس کی عمر ۸۲ سال سے متجاوز تھی۔ نا مساعد حالات،پیرانہ سالی اور ذاتی مشاغل کی نوعیت نے اس کو عضو معطل بنا دیا تھا۔ ممکن ہے کہ سر سید نے اس کی نٍا اہلیت ثابت کرنے میں مبالغہ سے کام لے کر یہ لکھ دیا ہو کہ:۔

دلی کے معزول بادشاہ کا یہ حال تھا کہ اس سے کہا جاتا کہ پرستان میں جنوں کا بادشاہ آپ کا تابعدار ہے تو وہ اس کو سچ سمجھتا اور ایک چھوڑ دس فرمان لکھ دیتا،دلی کا معزول بادشاہ کہا کرتا تھا کہ میں مکھی اور مچھر بن کر اڑ جاتا ہوں اور لوگوں کی اور ملکوں کی خبر لے آتا ہوں اور اس بات کو وہ اپنے خیال میں سچ سمجھتا تھا اور درباریوں سے تصدیق چاہتا تھا اور سب تصدیق کرتے تھے۔ ایسے مالیخولیا والے آدمی۔

لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بابر اور اکبر کے جانشین میں جس سیاسی بصیرت، معاملہ فہمی،تفرس اور تدبر کی ضرورت تھی، وہ اس میں نام کو نہ تھا،جہاں تک ذاتی کردار کا تعلق تھا وہ اپنے بعض پیشتروں سے بہتر تھا۔ لیکن ذاتی کردار کی یہ چند خوبیاں ایک سلطنت کا بوجھ نہیں سنبھال سکتی تھیں مذہبی معاملات میں بہادر شاہ کو خاصی دلچسپی تھی اور دوسرے مذاہب کے ساتھ رواداری سے پیش آتا تھا۔ حالانکہ سر سید نے لکھا ہے کہ ‘‘ دہلی میں ایک بڑا گروہ مولویوں اور ان کے تابعین کا ایسا تھا کہ وہ مذہب کی روسے معزول بادشاہ دلی کو بہت برا اور بدعتی سمجھتے تھے۔ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ دلی کی جن مسجدوں میں بادشاہ کا قبض و دخل اور اہتمام ہے ان مسجدوں میں نماز درست نہیں۔ چنانچہ وہ لوگ جامع مسجد میں بھی نماز نہیں پڑھتے تھے اور غدر سے بہت قبل کے چھپے ہوئے فتوے اس معاملہ میں موجود ہیں۔

ادبی اعتبار سے بہادر بادشاہ کا عہد خاص اہمیت رکھتا تھا۔ اس کی ادبی دلچسپیوں سے قلعہ معلیٰ شعر و سخن کا مرکز بن گیا  تھا اس کے زمانہ میں دہلی بقول اپیر ہندوستان کا ویمر تھی اور غالب یہاں کا گوئٹے تھا۔

بہادر شاہ کی زندگی جن حالات سے گزرتی تھی اس کا کچھ اندازہ احسن الاخبار وغیرہ سے لگایا جا سکتا ہے۔ بادشاہ کو یک لاکھ روپیہ ماہانہ پنشن ملتی تھی لیکن اخراجات اس سے کہیں زیادہ تھے۔ چنانچہ ہر وقت مالی پریشانی رہتی تھیں اور ساہو کاروں اور امراء سے روپیہ قرض لینا پڑتا تھا۔ میر حامد علی خان،حافظ محمد داؤد خان، لالہ زور آور چند وغیرہ سے بہادر شاہ کے روپیہ قرض لینے کا ذکر متعدد جگہ آیا ہے۔

اور وصولی کے لیے ان لوگوں کے تقاضوں سے بادشاہ کی وقعت لوگوں کی نظر میں کم ہوتی تھی اور طرح طرح کے نامناسب حالات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ا یک مرتبہ نواب حامد علی خان نے عدالت دیوانی میں دعویٰ دائر کرنے کا ارادہ کیا تھا اور بہادر شاہ کو انہیں بلا کر رقم کی ادائیگی کی طرف سے اطمینان دلانا پڑا تھا۔ ان مالی پریشانیوں کے باعث اکثر قلعہ معلیٰ کی ملازمتیں فروخت کی جاتی تھیں۔ نواب حامد علی خان کو مختاری کا عہدہ اس شرط پر پیش کیا گیا تھا کہ وہ دس ہزار روپیہ نذرانہ کے طور پر پیش کریں۔

۲۶جون  ۱۸۴۶ء کے احسن الاخبار کی اطلاع ہے :

 سالگ رام۔ ۔ ۔  کی عرضی نظر فیض انور سے گزری۔ اس میں مذکور تھا کہ اگر مجھے آغا حیدر ناظر کی جگہ عہدہ نظارت پر مقر کر دیا جائے تو میں دس ہزار روپیہ نذرانہ پیش کروں گا۔ حکم ہوا کہ جب ہم آغا حیدر ناظر کا تمام روپیہ جو ہمارے ذمہ ہے اد ا کریں گے تو اس کے بعد دیکھا جائے گا۔

۳۱ جولائی کو آغا حیدر کے داماد حسین مرزا کی عرضی کے جواب میں حکم شاہی ہوتا ہے : تمہیں عہدۂ نظارت سے اس وقت سرفراز کیا جا سکتا ہے جب کہ سات  ۷ ہزار روپیہ نذرانہ پیش کرو اور مرحوم آغا حیدر کے نذرانے کے دعوے سے دست برداری لکھ دو۔

جب قلعہ معلیٰ میں ‘‘ نذرانوں ‘‘ کے نام سے رشوتوں کا بازار گرم تھا تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جہاں جہاں بھی قلعہ کے اثرات پہنچے ہوں گے وہاں بدنظمی، ابتری اور افراتفری کا کیا عالم ہو گا۔

بہادر شاہ کی کثیر اولا د تھی، اس کی تربیت میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لی گئی تھی۔ شہزادے ایک دوسرے سے بر سر پیکار رہتے تھے ۱؂ سلاطین کی کثیر تعداد قلعہ میں بھوکی مرتی تھی ۳؂ ان کی زبوں حالی کی درد ناک داستانیں اخبارات میں کثرت سے درج ہیں۔ پروفیسر اسپیر نے اپنی کتاب Twilight of the Mughuls میں ان کے حالات بہ تفصیل بیان کیے ہیں جب یہ شہزادے تنخواہ میں اضافہ کا مطالبہ کرتے تھے تو کمپنی کا حکم ہوتا تھا کہ ‘‘ اگر سلاطین کا گزارہ مقررہ تنخواہ سے نہیں ہوتا تو اوقات بسری کے لیے انہیں کہیں ملازمت اختیار کر لینی چاہیے۔ ۵؂ مجبور ہو کر وہ قرض لیتے تھے اور بعد کو قرض خواہ عدالتی کارروائیاں کرتے تھے بیشتر شہزادے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر  بادشاہ کے مفاد کو نظر انداز کر سکتے تھے۔ ان کو آسانی سے خرید اجا سکتا تھا۔ کون کہہ سکتا ہے کہ انگریزوں کی طاقت اس قدر جلد قائم ہو جاتی اگر شہزادے اس طرح سازشوں میں گرفتار نہ ہوتے ! جس خاندان میں مرزا الٰہی بخش جیسی ننگ ملک وننگ خاندان افراد موجود ہوں اس کے مستقبل سے کس کو امید ہو سکتی ہے۔ بخت خان کو انہی شہزادوں کی ریشہ دوانیوں اور مسلسل سازشوں کے باعث نہایت ہی صبر آزما اور حوصلہ شکن حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ عبد اللطیف کے روزنامچہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے انتہائی تحمل اور بردباری سے نامساعد حالات کا مقابلہ کیا۔ لیکن ایک موقع پر اس کا پیمانہ صبر چھلک گیا۔ بعض مصنفین نے لکھا ہے کہ آخر میں اس درجہ پریشان ہو گیا تھا کہ اس نے بادشاہ سے کہہ دیا تھا کہ اگر کوئی شہزادہ شہر کو لوٹے گا تو میں اس کی ٹانگ کٹوا دوں گا۔

۱۸۵۷ء کی تحریک میں بادشاہ اور مغلیہ خاندان کا حصہ کیا تھا؟ انہوں نے کہاں تک تحریک کو آگے بڑھانے میں مدد دی تھی؟ بہادر شاہ کے متعلق یہ تسلیم کرنے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے کہ وہ ایک انقلابی تحریک کی رہنمائی کی قطعاً صلاحیت نہ رکھتا تھا۔ اس نے ۱۸۵۷ء کی تحریک میں جو کچھ بھی حصہ لیا تھا وہ حالات کی مجبوری کی بنا پر تھا۔ کسی شورش انگیز مقصد کی بنا پر نہیں تھا۔ اس کی ملکہ زینت محل کے متعلق انگریزوں سے ساز باز کا شبہ تھا۔ شہزادے الگ سازشوں کے جال پھیلا رہے تھے۔ اور ان کی سازشوں ہی کی بنا پر بعد کو بہادر شاہ کی گرفتاری ہوئی۔ مغل شہزادوں کے ساتھ جو بھی ہمدردی پیدا ہوتی ہے وہ ان ے حسرت ناک انجام اور ہڈ سن کے ظالمانہ برتاؤ کی وجہ سے ہے، ورنہ تحریک کے دوران میں ان کا طرز عمل کسی طرح بھی قابل ستائش نہیں تھا۔ مغل شہزادوں میں اگر کوئی شخص تحریک کی اصل روح سے متاثر نظر آتا ہے و ہ فیروز شاہ ہے جس کی سرگرمی جوشِ عمل اور استقامت نے تحریک کو وہ قوت بہم پہنچائی جس کے سہارے سخت سے سخت منزلیں طے کی جا سکتی تھیں۔

جہاں تک امراء کا تعلق ہے،ان میں بیشتر ایسے تھے جو ذاتی مفاد اور منفعت کی خاطر بڑے سے بڑے مفاد کو قربان کر سکتے تھے ان کو نہ ملک سے محبت تھی،نہ بہادر شاہ سے ذاتی اقتدار کو بڑھانے کی خاطر وہ دربار سے تعلق رکھتے تھے۔ سر سید نے صحیح لکھا ہے کہ لوگ‘‘ اس کے منہ پر اس کی خوشامد کرتے تھے اور پیٹھ پیچھے ہنستے تھے ۱؂، حکیم احسن اللہ خان،نواب احمد علی خان وغیرہ جو دربار کے عمائدین میں سے تھے عوام کی نظر میں اس بنا پر معتبر نہ رہے تھے کہ دشمنوں سے مل جانے کا ان پر شبہ تھا۔ جاسوسوں کے خطوط سے پتہ چلتا ہے کہ بعض امراء نہایت ہی شرم ناک سازشوں میں مبتلا تھے۔ دربار کی ساری خبریں انگریزوں کو انہیں کے ذریعہ پہنچتی تھیں۔ بعض امراء ایسے بھی تھے جن کے پاس دولت کی فراوانی تھی، لیکن جب تحریک کے دوران میں روپیہ کی ضرورت پڑی تو ایک امیر بھی ایسا نہ تھا جس نے روپیہ سے مدد کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہو۔ دہلی کی فتح کے بعد جب انگریزوں نے ان امراء کے گھروں کو کھدوایا تھا تو لاکھوں روپیے کے زیورات اور جواہر برآمد ہوئے تھے ۱؂ لیکن جب بھی بہادر شاہ یا بخت خان وغیرہ نے مصارف جنگ کے لیے ان سے روپیہ قرض طلب کیا تو انہوں نے نہ سرف اپنی بے زری کا اظہار کیا بلکہ لڑنے پر آمادہ ہو گئے۔ نواب فخر الدولہ امیں الدین خان بہادر نے جس طرح ناراضگی کا اظہار کیا تھا ا ُ س کی تفصیل عبد اللطیف نے دی ہے۔ اس وقت امراء میں گو اٹھارویں صدی کی سی گروہ بندی نہیں رہی تھی، لیکن ہر شخص حصولَِ مقصد کے لیے خود ایک پارٹی بنا ہوا تھا اور دوسروں کی تذلیل و تشہیر کوا پنا فرض سمجھتا تھا۔

اس وقت سب سے زیادہ صحت مند عنا صر جنہوں نے تحریک میں حصہ لیا وہ تھے جنہوں نے دہلی کی مسموم فضا میں پرورش نہیں پائی تھی۔ اور یہاں کے اثرات سے کسی حد تک محفوظ رہے تھے۔ بخت خان روہیلوں کی ضرب المثل تنظیمی صلاحیتوں کا مظہر تھا اس میں مقصد کا خلوص بھی تھا اور عسکری تنظیم کا جذبہ بھی۔ اس نے دہلی میں بدنظمی اور ابتری کو روکنے کی پوری کوشش کی۔ اگر مغل شہزادے اس کے ساتھ تعاون کر جاتے،یا آخر میں بہادر شاہ اس کے مشورہ پر عمل کر لیتا تو بہت سے واقعات کا رخ بدل جاتا۔

والیانِ ریاست میں رانی لکشمی بائی اور بیگم حضرت محل کی شخصیتیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ رانی لکشمی بائی نے مردانہ لباس پہن کر فوجوں ک قیادت کی۔ اس کی حیرت افروز شجاعت نے تحریک میں چار چاند لگا دیے او وہ آخری دم تک انگریزوں کا مقابلہ کرتی رہی۔ حضرت محل کے متعلق مولانا شرر کا بیان ہے کہ لوگ اس کی مستعدی اور نیک نفسی کی تعریف کرتے تھے۔ ا ودھ کی آزادی کے لیے اس نے اپنی جان کی بازی لگا دی تھی آخر وقت تک قیصر باغ میں بیٹھی تحریک کی تنظیم کرتی رہی۔ جب پانی سر سے اونچا ہو گیا تو قیصر باغ کو چھوڑ کر نیپال کا رخ کیا۔ ‘

روہیلہ ؔ سرداروں میں خان بہادر خان اور نواب محمود خان نے بھی بڑی جوانمردی سے تحریک میں حصہ لیا۔ ۱۸۵۷ء میں خان بہادر خان کی عمر ستر سال سے زیادہ تھی۔ انہوں نے بریلی کا نظم و نسق اپنے ہاتھ میں لیا اور انگریزوں کے خلاف اپنی طاقت کا استحکام کیا۔ محمود خان نے ضلع بجنور میں انگریزوں کا مقابلہ کیا،ا ور بجنور،دھام پور، نگینہ اور آدم ور پر قبضہ کر لیا۔ بہادر شاہ نے ان کو امیر الدولہ،ضیاء الملک مظفر جنگ کے خطابات دیے تھے۔ اور ان کی خدمات کو سراہا تھا،اول الذکر کو بریلی میں پھانسی دی گئی اور موخر الذکر کو حبس دوام بہ عبور دریائے شور کی سزا ملی،لیکن ابھی انڈیمان کو روانہ ہوئے تھے کہ قید حیات ہی سے رہا ہو گئے۔

دہلی کی ایجنٹی کے ماتحت سات ریاستیں تھیں۔ : جھجر،فرخ نگر، بلبھ گڑھ، بہادر گڑھ، دوجانہ، پاتودی اور لوہارو،ان ریاستوں نے اپنے حالات اور مصلحتوں کے ماتحت تحریک میں حصہ لیا اور دہلی کی حکومت سے تعلقات قائم کر لیے۔ نواب عبد الرحمن خان والی جھجر اور اس کے خسر عبد الصمد خان نے کافی سر گرمی دکھائی۔ عبد الصمد خان نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فیصلہ کیا تھا اور برابر انگریزوں سے لڑتا رہا۔ راجہ ناہر سنگھ والی بلبھ گڑھ نے بہادر شاہ کے  ساتھ تعاون کیا تھا اور برابر دربار سے خط و کتابت رہتی تھی،۱۸۵۷ء کے ہنگامہ کے بعد انگریزوں نے جھجر، فرخ نگر، بلبھ گڑھ کی ریاستیں ضبط کر لیں اور ان کے والیوں کو پھانسی کی سزا دے دی۔ غالب ایک خط میں علاء الدین احمد خان علائی کو لکھتے ہیں۔

‘‘قصہ کوتاہ قلعہ اور جھجر اور بہادر گڑھ اور بلب گڑھ اور فرخ نگر کم و بیش تیس لاکھ روپیے کی ریاستیں مٹ گئیں۔ شہر کی عمارتیں خاک میں مل گئیں۔ ہنر مند آدمی یہاں کیوں پایا جائے۔

۱۸۵۷ ء کی تحریک کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ ہندو اور مسلمان دونوں نے دوش بدوش یہ جنگ لڑی تھی۔ اور ہندو مسلم سوال کسی نوعیت اور کسی شکل میں بھی لوگوں کے سامنے نہیں تھا۔ محض یہ واقعہ کہ تحریک کے آغاز میں ہی ہندو اور مسلمان سب کی نظریں بہاد ر شاہ کی طرف اٹھ گئیں تھیں۔ تحریک کی ہمہ گیر نوعیت کی طرف ا شارہ کرتا ہے۔ بہادر شاہ کی ذاتی نٍا اہلیت تسلیم لیکن اس کی حیثیت ایک علامت اور ایک نشانی کی تھی۔ وہ ڈوبتا ہوا سورج سہی لیکن وہ ایک ایسی صبح کی شام تھا جس میں ہندوستان نے اپنے سیاسی وقار اور تمدنی عظمت کے نادر جلوے دیکھے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ تمام وہ طاقتیں تک جو کچھ عرصہ سے سلطنت مغلیہ کے مد مقابل آ گئی تھیں۔ بہادر شاہ کے گرد جمع ہو گئیں۔ مرہٹے ایک مدت سے مغلوں سے بر سر پیکار تھے، لیکن ۱۸۵۷ء میں پیشوا نے بہادر شاہ کو تسلیم کرنے میں مطلقاً کوئی عذر نہیں کیا۔ نانا صاحب کے خاص مشیروں میں عظیم اللہ خان رہا۔ رانی جھانسی نے مسلمان تو پچی ملازم رکھے۔ احمد اللہ شاہ نے ہندو اور مسلمان دونوں کے مشترکہ اجتماعات میں تقریریں کیں۔ بہادر شاہ نے بعض نہایت اہم کام مثلاً ٹکسال کی نگرانی،پولیس کا کام ہندوؤں کے سپر دکیا اور انہوں نے بادشاہ کے ساتھ پورا تعاون کیا۔

ہندوؤں اور مسلمانوں کے اس اتحاد عمل سے انگریزوں کو بڑی تشویش پید ا ہو گئی تھی انہیں اپنی ناکامی کے آثار اگر کسی چیز میں نظر آتے تھے تو وہ صرف ہندوستان کے مختلف طبقوں اور مذاہب کے لوگوں میں اشتراک عمل اور اتحاد میں،غیر متحد ہندوستان تو ریت کی دیوار کی طرح گرایا جا سکتا تھا،لیکن متحدہ ہندوستان انگریزوں کے لیے کوہ گراں کی مانند تھا۔ چنانچہ تحریک کے دوران میں پوری کوشش کی گئی کہ کسی طرح اس اتحاد کو ختم کیا جائے۔ تحریک کے بعد تو انگریز کی حکمتِ عملی کی ساری عمات اسی پر تعمیر ہوئی تھی کہ ‘‘لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ ہنگامہ کے دوران میں بقرعید آئی اور انگریزوں نے اس موقع کو ہندوؤں اور مسلمانوں کو لڑانے کے لیے استعمال کر نے کی کوشش کی۔ تعجب کی بات ہے کہ اس سازش کے جال اس طرح پھیلائے گئے کہ مولانا احمد سعید مجددیؒ جو بڑے نیک دل، عالی حوصلہ اور مرنجاں مرنج شیخ وقت تھے،اس سازش سے غیر محسوس طریقہ پر متاثر ہو گئے بہادر شاہ نے جب ان کو مفتی صدر الدین آزردہ کے ذریعہ صورت حال سے آگاہ کیا تو وہ فوراً اپنی ضمنی تحریک سے دست کش ہو گئے۔ بریلی میں خان بہادر خان اور وہاں کے ہندو زمیندار وں میں نفاق ڈالنے کے لیے بھی یہی تدبیر اختیار کی گئی لیکن کامیاب نہ ہو سکی۔ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل خط مطالعہ کے قابل ہے :

‘‘ من جانب جارج کوپر صاحب سیکریٹری چیف کمشنر اودھ

بخدمت جی ایف ایڈمنسٹن صاحب سیکریٹری حکومت ہند لکھنؤ،یکم دسمبر ۱۸۵۷ء

جناب عالی:

یہ سلسلہ مکتوب چیف کمشنر گورنر جنرل بہادر مورخہ ۱۴ ستمبر جس میں انہوں نے پچاس ہزار روپیے کی رقم بریلی کی ہندو آبادی کو مسلمان باغیوں کے خلاف آمادۂ پیکار کرنے پر صرف کرنے کی اجازت دی ہے مجھے کپتان گوں کے خط مورخہ ۱۴ کا اقتباس پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے جس سے حضور والا کی یہ علم ہو گا کہ یہ کوشش ناکام رہی اور اس کو ترک کر دیا گیا اور اس پر کوئی رقم صرف نہیں ہوئی۔

آ پ کا خادم

جارج کوپر

سیکریٹری چیف کمشنر۔ عالم باغ کیمپ یکم دسمبر ۱۸۵۷ء

پھر سکھوں کو بہادر شاہ سے بد ظن کر نے کے لیے لارنس نے پنجاب میں یہ شہرت دی کہ بہادر شاہ کی طرف سے اعلان کر ایا گیا ہے کہ جو شخص بھی ایک سکھ کا سر کاٹ کر لائے گا اس کو پانچ روپیہ انعام دیا جائے گا۔ عبد اللطیف نے بتایا ہے کہ سکھوں کا ایک وفد اس سلسلہ میں بہادر شاہ سے آ کر ملا اور اس بات کی شکایت کی۔ بہادر شاہ نے جواب دیا :

‘‘ازما جز مہربانی نیا یدو نظر عاطفت براہل ہرکیش باید‘‘

۱۸۵۷ء کے ہنگامہ کے بعد انگریزوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے تعلقات خراب کرانے کے لیے منظم کوششیں شروع کر دیں۔ اور سیاست،سماج، زبان اور ادب کا کوئی گوشہ ایسا نہ چھوڑا جہاں یہ زہر نہ پھیلا یا گیا ہو۔ سر ہنری ایل نے (جس کی تاریخ ہند کی آٹھ جلدیں گزشتہ پچھتر سال سے ہماری ساری چھوٹی بڑی تاریخوں کا ماحذر ہی ہیں۔) حکومت کو لکھا کہ اگر اس کی مرتب کی ہوئی تاریخ ہند شائع کر دی گئی تو ہندوستان میں ساری قومی تحریکیں خود بخود سرد پڑ جائیں گی۔ چنانچہ ہند و مسلم اختلافات کو تا حد طوفان پہنچانے کے لیے یہ کتاب شائع کر دی گئی۔

۱۸۵۷ء کی تحریک کی ناکامی کے مختلف اسباب کی بنا پر ہوئی جہاں تک انفرادی اور شخصی صلاحیتوں کا تعلق تھا،ہندوستان میں شجاعت وتہور کی کوئی کمی نہ تھی۔ رانی لکشمی بائی،بخت خان، حضر ت محل، تاتیا ٹوپی، خان بہادر خان،احمد اللہ شاہ، کنور سنگھ  وغیرہ برطانوی نمائندوں کینگ، لارنس،روز، نکلسن، اور ٹرم وغیرہ۔ کسی حیثیت سے کم نہ تھے۔ لیکن ایک فرق بہت بڑا تھا۔ ہندوستان میں یہ صلاحیتیں منتشر اور متفرق طور پر کام کر رہی تھیں۔ ۱؂ اور انگریزوں میں وہ سب متحدہ مقصد کی چاکری میں لگا دی گئی تھیں ہندوستانی سپاہیوں میں مقصد کا اتحاد بالکل مفقود تھا۔ مختلف طبقات مختلف مقاصد کے لیے لڑ رہے تھے۔ بر خلاف اس کے ہر برطانوی سپاہی صرف،ملکہ معظمہ، کے لیے لڑ رہا تھا۔ ان کے مقاصد ایک تھے اور طریقۂ کار میں بھی زیادہ فرق نہ تھا۔

ہندوستان کی ایک بڑی بد نصیبی یہ تھی کہ پوری تحریک کو کسی ایک مرکزی تنظیم کے ماتحت نہ لایا جا سکا۔ مقامی اور انفرادی کوششوں نے ملک میں ابتری تو پیدا کر دی لیکن اس ابتری کو غیر ملکی اقتدار کے خلاف ایک منظم کوشش کے طور پر استعمال کرنا ممکن نہ ہوا۔ چار ماہ کی مدت میں دہلی میں کوئی ایسا نظام ترتیب نہ دیا جا سکا جو ایک کل ہند نظام کو اپنے اندر جذ ب کر لینے میں کامیاب ہو جاتا۔

اس بدنظمی کا ایک  بڑا سبب یہ تھا کہ تقریباً ً دو صدیوں سے ملک میں انتشار و ابتری کا دور دورہ تھا۔ جاٹ گردی، مرہٹہ گردی، نادر گردی، اور نہ معلوم کن کن آفتوں نے سماجی زندگی کا توازن بگاڑ کر سیاسی نظام کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیا تھا۔ انگریزوں کے مقابلہ کے لیے جس اعلیٰ ضبط و نظم کی ضرورت تھی اس کا دور دور تک پتہ نہ تھا۔ جماعت مجاہدین کے ایک رکن محمد اسمعیل خان کہا کرتے تھے کہ ‘‘ ہنگامہ میں حصہ لینے والوں کی حیثیت ایک غیر منظم بھیڑ کی سی تھی۔ کہیں کوئی افواہ اڑتی تو لوگ سراسیمہ وار بھاگنے لگتے۔ پھر سرداروں میں سخت رقابت تھی۔ ہر سردار کی کوشش یہ تھی کہ دوسرے کو گرا کر خود آگے بڑ ھ جائے خصوصاً یورپیوں کی بد لگامی حد سے بڑھی ہوئی تھی ابتدائی دور کی معمولی وقتی کامیابیوں نے ان میں سے اس درجہ غرور پیدا کر دیا تھا کہ کہتے تھے : جہ کے موڑ پر پنہی رکھ دیے وہی بادشاہ ہو جیے (یعنی جس کے سر پر جو تار رکھ دیں گے وہی بادشاہ ہو جائے گا۔

پھر اقتصادی اعتبار سے بھی یہ حقیقت فراموش نہیں کی جا سکتی کہ ہندوستانی سپاہی جو بہادر شاہ کے گرد جمع ہو گئے تھے، انہیں سخت ترین مالی دشواریاں پیش آ رہی تھیں۔ آئے دن فوج کی ضروری اخراجات کے لیے روپیہ قرض لینے کی ضرورت پڑتی تھی ایسی صورت میں کوئی فوج بھی بے فکری کے ساتھ کام نہیں کر سکتی تھی،منشی جیون لال نے اپنے روزنامچہ میں بہادر شاہ اور مولوی فضل حق کی گفتگو نقل کی ہے۔  بہادر شاہ نے جب مولوی صاحب کو حکم دیا کہ : اپنی افواج کو لڑانے کے لیے لے جاؤ اور انگریزوں کے خلاف لڑاؤ تو انہوں نے کہا: افسوس تو اسی بات کا ہے کہ سپاہی ان کا کہا نہیں مانتے جوا ن کی تنخواہ دینے کے ذمہ دار نہیں ہیں۔

علاوہ ازیں انگریزوں کے ہاتھ میں وہ علاقے تھے جو معاشی اعتبار سے سب سے زیادہ خوشحال تھے۔ اور جن کو ہندوستان کی اقتصادی شہ رگ کہا جا سکتا تھا۔ شمالی ہندوستان کے وہ علاقے جہاں انگریزوں کے خلاف جذبات سب سے زیادہ شدید تھے وہ تھے جہاں کے معاشی حالات ابتر ہو چکے تھے۔ مسلسل سیاسی بدنظمی،بیرونی حملوں اور اندرونی سازشوں نے ان علاقوں کو اتنا بے جان کر دیا تھا کہ وہ کسی جنگ کے مصارف کو برداشت ہی نہیں کر سکتے تھے۔

ناکامی کے اور بہت سے اسباب کی بھی نشان دہی کی  جا سکتی ہے لیکن اس تما م تجزیہ کے باوجود اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اگر ۱۸۵۷ ء کا ہندوستان وقتی طور پر انگریزوں کے خلاف کامیاب بھی ہو جاتا تو اپنی آزادی کو  برقرار نہیں رکھ سکتا تھا ۔  انقلاب اور سائنس کی نئی ایجادات نے انسانی زندگی کو بالکل بدل دیا تھا لیکن ہندوستانی ابھی تک قدیم طرز تمدن کا خستہ لبادہ اوڑھے بیٹھے تھے اور قدامت  پسندی نے ان کے قدموں کو جکڑ لیا تھا ایسی صورت میں ۱۸۵۷ء کی تحریک کی کامیابی غلامی زنجیروں کو صرف ڈھیلا کر سکتی تھی توڑ نہیں سکتی تھی۔

فتح دہلی کے بعد انگریزوں نے سارے ملک کو انتقامی آگ کے شعلوں میں ڈال دیا۔ اور قتل و غارت گری کا وہ ہنگامہ برپا کیا جس کی مثال انیسویں صدی کی تاریخ میں تلاش سے بھی نہیں ملتی۔ ہزاروں معصوم اور بے گناہ انسان ۱؂ اس ظلم اور بربریت کا شکار ہو گئے۔

شمالی ہندوستان میں بے شمار گاؤں ایسے تھے جہاں درختوں سے لٹکی ہوئی نعشوں کے گرد کوے اور چیلیں منڈلاتی ہوئی نظر آت تھیں۔ بازاروں کا عالم یہ تھا کہ :

گھروں سے کھینچ کے کشتیوں پہ کشتی ڈالتے ہیں

نہ گور ہے نہ کفن ہے نہ رونے والے ہیں

 یوں تو ہندو اور مسلمان کوئی بھی انگریز کی چیرہ دستی سے نہ بچ سکا،لیکن مسلمانوں پر خاص طور سے عتاب نازل ہوا۔ اس کا بڑا سبب یہ تھا کہ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ پورا ہنگامہ صرف مسلمانوں کا پید ا کیا ہوا تھا ۱؂۔ چنانچہ ہزاروں مسلمان معمولی معمولی شبہات پر تہ تیغ کر دیئے گئے۔ ہزاروں مسلمان گھرانے نانِ شبینہ کو محتاج ہو گئے اور سینکڑوں شریف خاندان بے کس اور مفلسی کے عالم میں دربدر مارے پھرنے لگے۔ سر سید جنہوں نے اس موج خون کو مسلمانوں کے سر سے گزرتا ہوا دیکھا تھا،لکھتے ہیں :

‘‘ میں اس وقت ہرگز نہیں سمجھا تھا کہ قوم پھر پنپے گی اور کچھ عزت پائے گی اور جو حال اس وقت قوم کا تھا وہ مجھ سے دیکھا نہیں جاتا تھا۔ چند روز میں اسی خیال اور اسی غم میں رہا۔ آپ یقین کیجئے کہ اس غم نے مجھے بڈھا کر دیا اور میرے بال سفید کر دیے ۲؂

سب سے زیادہ عبرت ناک دہلی کی تباہی تھی ۳؂ وہ صرف ایک ہنگامی تحریک کا ہی مرکز نہ تھی، بلکہ ایک تمدن کی آخری نشانی تھی وہاں کی ہر ایک چیز اپنی تاریخ رکھتی تھی۔ انگریزوں نے اس کی تباہی و بربادی میں کوئی کسر اٹھا کر نہ رکھی۔ چوک سعد اللہ خان، اردو با زار،خانم کا بازار، بلاقی بیگم کا کوچہ، خان دوراں کی حویلی، دریا گنج کی گھاٹی، گلیوں کا بازار، پنجابی کٹرا، دھوبی کٹرا، رام گنج، سعادت خان کا کٹر ا، رام جی داس گودام والے کے مکانات، کے علاوہ شاہی درس گاہ، دار البقاء، اکبر آبادی مسجد، اور نگ آبادی مسجد، چوبی، مسجد کو اس طرح مسمار کیا کہ نام و نشاں تک باقی نہ چھوڑا۔ غالب نے اسی زمانہ میں ایک خط میں لکھا تھا :

مسجد جامع سے راج گھاٹ دروازہ تک بے مبالغہ صحرا لق و دق ہے۔ اینٹوں کے جو ڈھیر پڑے ہیں وہ اگر اٹھ جائیں و ہو کا مکان ہو جائے۔

انگریزوں نے جس سفاکی اور بے دردی کے ساتھ خون بہایا تھا اس سے دلوں پر خوف وہ راس طاری ہو گیا ۱؂ اور کسی کو اس قیامتِ صغریٰ کی داستان مرتب کر نے کی جرأت نہ ہوئی۔ لیکن غم جب حد سے بڑھ جاتا ہے تو، سرائیں شیشہ فروبند، پر عمل نہیں ہو سکتا۔ کچھ لوگوں نے مذہبی عنوانات پر لکھ کر اپنے غم کو بھلانے کی کوشش کی، کچھ لوگوں نے گل و بلبل کی زبان سے آہ و زاری کی، کچھ لوگوں نے زیادہ جرأت سے کام لیا تو ڈائریاں اور روزنامچے مرتب کر دیے لیکن انگریز کے جبر و تشدد سے خوف کی جو اَنمٹ کیفیت  پیدا ہو گئی تھی اس کے آثار یہاں بھی نمایاں رہے اور تحریک کے جرأت مندانہ تجزیہ کی ہمت تو کیا، اپنے جذبات کے اظہار تک کی جرأت نہ ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دور کی شاعری ہو یا مذہبی تصانیف،تاریخی کتابیں ہوں یا تذکرے، قنوطیت اور ذہنی مرعوبیت کی گہری گھٹائیں چھائی ہوئی نظر آتی ہیں۔ بخت خان کو جو اس تحریک کی سب سے زیادہ ممتاز شخصیتوں میں تھا،کسی تذکرہ نویس نے، بدبخت، کہا ہے کسی نے، کمبخت، اور کسی نے گھس کھدا، داستانِ غدر میں بخت خان کی یہ تصویر:

دیکھتا کیا ہوں کہ ایک پوربیا فربہ اندام،پستہ قد، ادھیڑ، سر پرا یک انگوچھا لپٹا  ہوا، چند یا کھلی، عقب حمام کے چبوترہ کی طرف سے دربار میں آیا اور بادشاہ کو سلام کر کے پاس چلا آیا۔ میرے بہنوئی نے روکا بھی کہ ہیں ہیں کہاں چلے آتے ہو، مگر وہ کب سنتا تھا۔ پاس آ کر بادشاہ کا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگا۔ سنو بڑھو ہم نے تمہیں بادشاہ کیا۔ یہ بات سن کر مجھے تاب نہ رہی اور مارے غصہ کے کانپنے لگا۔ اور ہاتھ زور سے اس کے سینہ پر رکھ کر دھکا دیا اور کہا کہ او بے ادب،بے تمیز بادشاہوں کے دربار میں اس طرح گستاخی کرتے ہیں۔ وہ اس دھکا دینے سے دو تین قدم پیچھے ہٹ گیا اور گرتے گرتے سنبھلا اور اس نے تلوار کے قبضہ پر ہاتھ ڈالا، میں نے بھی تلوار کھینچ لی۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ وہ بدبخت جرنیل بخت خان یہی ہے۔

جس ذہنی مرعوبیت کی آئینہ دار ہے اس نے اس دور کے بیشتر تذکروں کی تاریخی اہمیت اور افادیت کو کم کر دیا ہے اور حقیقی جذبات،وقتی مصلحتوں کے بوجھ میں اس طرح دب گئے ہیں کہ ان میں ‘‘ کافور و کفن، کی بو تو سونگھی جا سکتی ہے لیکن دل کی بے چین دھڑکنیں نہیں سنی جا سکتیں۔

معاصر تذکروں اور سالوں میں سر سید کا رسالہ اسباب بغاوت ہند، غالب کا دس سبق، اور معین الدین اور منشی جیون لال کے روز نامچے اور ظہیر الدین کی کتاب داستان غدر خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

سر  سیدؔ نے جس وقت اپنا رسالہ لکھا تھا اس وقت غدر کے اسباب کے تجزیہ کا تو ذکر کیا اس کے واقعات کے متعلق بھی کسی کو لکھنے کی ہمت نہ ہوتی تھی۔ سر سید نے وقت کی تمام مصلحتوں کو یہ جواب دے کر :

اس موضوع پر قلم اٹھا لیا۔ سر سید نے ہنگامہ کے زمانہ میں انگریزوں کی بہت ہمدردی کی تھی اس لیے ان پر باغی ہونے کا الزام لگانا تو آسان نہ تھا، لیکن پھر بھی انگلستان کے بعض حلقوں میں ان کی اس کوشش کو اچھا نہیں سمجھا گیا۔ انگریزوں پر اس وقت انتقام کا خون ایسا سو ار تھا کہ وہ کسی عنوان ایک ہندوستانی سے ہنگامہ کے اسباب و علل کے متعلق سننے پر آمادہ نہ تھے۔ سر سید نے نہایت صفائی لیکن انتہائی تدبر سے یہ رسالہ ترتیب دیا اور بعض نہایت ہی تلخ حقیقتوں کو اپنی انگریز دوستی کا سہار ا لے کر پیش کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی ہندوستانی نے اس گہرائی اور محنت سے تحریک کا جائزہ نہیں لیا۔ انہوں نے تصویر کے کتنے ہی رخ بے نقاب کیے ہیں اور بڑی جرأت کے ساتھ اسباب غدر کی طرف توجہ دلائی ہے۔

غالب کے دستنبو میں ذہنی مرعوبیت اور خوشامد کا پہلو غالب ہے۔ گہری نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ سکہ کے اشعار لکھنے اور دربار بہادر شاہی میں حاضری کا داغ دھونے کی خواہش اس کی محرک ہے۔ ان کے خطوط میں ہنگامے سے متعلق حقیقی جذبات ملتے ہیں اور بعض میں یقیناً سوز دل کی بو آتی ہے لیکن دستنبو میں وہ انگریز کی زبان سے بولے ہیں اور مصلحت کے قلم سے انہوں نے لکھا ہے۔

٭٭٭

 

               مولانا ابو الکلام آزاد

1857۔ کئی فسانے۔ ۔ ۔ ایک حقیقت

(ایس این سین کی کتاب اٹھارہ سو ستاون (1857)پہلی جنگ آزادی کی صد سالہ برسی کے موقع پر شائع ہوئی تھی۔ یہ کتاب حکومتِ ہند کی ایما پر لکھی گئی تھی۔ مولانا ابو الکلام آزاد نے جو اس وقت وزیر تعلیم تھے اس کتاب کا مقدمہ تحریر کیا تھا۔ یہ مقدمہ (1857) کی جد و  جہد کا ایک اہم جز ہے)

آج سے تقریباً پانچ سال قبل انڈین ہسٹار یکل ریکارڈس کمیشن (Indian Historical Records commission) کے سالانہ اجلاس میں، میں نے 1857 کی  جسے عام طور پر سپاہیوں کی بغاوت کا نام دیا جاتا ہے، کی ازسرِ نو تاریخ لکھے جانے پر زور دیا تھا۔ اگر ہم ان میں سے صرف مشہور تاریخ دانوں کی کتابوں کو ہی لیں تو ان کی تعداد بھی کافی زیادہ ہے۔ اس کے باوجود مجھے محسوس ہوا کہ ابھی تک اس عظیم جد و جہد کی کوئی معروضی تاریخ نہیں لکھی گئی ہے۔ جتنی بھی کتابیں لکھی گئی ہیں وہ سب انگریزوں کے نقطہ نگاہ کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہیں۔

ایک عرصے تک اس عظیم جد و جہد کی مقصدیت کو لے کر پورے ہندوستان میں اور باہر بھی عجیب طرح کا تنازعہ بنا رہا۔ اس موضوع پر جتنی بھی کتابیں لکھی گئی ہیں ان سب میں اسے قانون کے مطابق ہی اس وقت کی حکومت کے خلاف ہندوستانی فوج کی بغاوت کا نام دیا گیا ہے۔ انہوں نے یہ تو مانا کہ کچھ ہندوستانی رجواڑوں نے بھی بغاوت کا ساتھ دیا لیکن یہ ایسی حکومتیں تھیں جنہیں لارڈ ڈلہوزی کے ذریعہ قبضہ کیے جانے کی وجہ سے شکایتیں پیدا ہو گئی تھیں۔ ایسے مورخین کا کہنا ہے کہ برٹش حکومت جو اس وقت ملکہ کی قانونی اور جائز حکومت تھی، اس نے بغاوت کو فرو کر دیا اور دوبارہ قانون کی حکومت قائم کر دی۔

اس موضوع پر جتنی بھی کتابیں لکھی گئی ہیں ان سب میں 1857 کے واقعات کو اسی طریقے سے بیان کیا گیا ہے اور اسے کسی دوسرے نقطہ نگاہ سے سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ تاہم یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا جائز حق صرف اتنا ہی تھا کہ وہ مغل شہنشاہ کے دیوان یا ایجنٹ کی حیثیت سے بنگال،بہادر اور اڑیسہ کی مال گزاری وصول کر ے۔ اس کے بعد سے کمپنی نے جن علاقوں کو حاصل کیا وہ فوج کی فتح کی وجہ سے، لیکن کہیں بھی کمپنی نے شہنشاہ کی ملکیت اور علاقائیت کے اختیار کو چیلنج نہیں کیا اور جب فوج نے کمپنی کے ان حقوق کو ماننے سے انکار کر دیا تو اس نے شہنشاہ سے اس بات کے لیے اپیل کی۔ اس لیے یہ بحث کا موضوع بن سکتا ہے کہ کیا ہندوستانی افواج کی بغاوت کو ملک کی مستحکم حکومت کے خلاف بغاوت یا غداری کا نام دیا جا سکتا ہے ؟ یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ جہاں زیادہ تر مصنفین نے ہندوستانی عوام اور خواص کے ذریعہ یوروپین مرد عورت اور بچوں پر کئے گئے مظالم کو بہت تفصیل سے بیان کیا ہے، وہاں بہت کم لوگوں نے اتنی ہی تفصیل سے ہندوستانیوں پر کیے گئے انگریزوں کے مظالم کو بیان کیا ہے۔ میرا اپنا خیال ہے کہ بیسویں صدی کی ابتداء میں اس بغاوت کے سلسلہ میں تین جلدوں پر مشتمل جو تاریخ لکھی گئی،اس کا ذکر ضروری ہے۔ یہ تاریخ بھی مکمل طور پر انہیں دستاویزوں پر مشتمل ہے جو امپیریل ریکارڈس ڈیپارٹمنٹ کے آرکائیوز میں موجود تھی اور جسے اب نیشنل آرکائیوز آف انڈیا کا نام دیا گیا ہے اور یہ ایک عام بات ہو گئی ہے کہ پچاس سال کے بعد سبھی سرکاری دستاویزوں کو ریسر چ اسکالر کو دکھایا جاتا ہے۔ یہ بات بھی یونائٹیڈ برٹین کے اس فیصلے کے بعد رائج ہوئی جو نپولین سے جنگ کے بعد برٹش حکومت نے کیا تھا اور یورپ کے دوسرے ممالک نے بھی یہی رویہ اختیار کیا۔ 1907 میں ہندوستانی بغاوت کے پچاس سال پورے ہوئے اور شاید اس وقت کی حکومت نے محسوس کیا کہ 1857 کی تاریخ سرکاری دستاویزوں کو لے کر لکھی جائے جوا ب ریسرچ کے لیے سبھی کو حاصل ہونے والی تھی۔

یہ تاریخ بھی اگر چہ آفیشیل ریکارڈ پر مبنی ہے اور اسی طرح سے ا س جد و جہد کو بیان کر تی ہے جس طرح انگریزی مصنفین کی لکھی ہوئی کتابیں۔ اس کتاب کی اشاعت میں صرف ایک نیا پہلو سامنے آیا ہے۔ مصنف نے واضح طور پر اظہار کیا ہے کہ جہاں تک اودھ کا تعلق تھا یہاں کی جنگ میں قومی سطح پر بغاوت کے آثار پائے جاتے تھے۔ حال ہی میں کمپنی نے ایک ہندوستانی بادشاہ سے بہت کچھ چھینا تھا اور عوام اس حملے کے زبردست مخالف ہو گئے تھے۔

اور اس لیے وہ کمپنی کے خلاف بغاوت کرنے کو اپنا جائز حق سمجھتے تھے کیوں کہ کمپنی نے اودھ کے ساتھ نا انصافی کی تھی۔ تاہم اودھ کی بغاوت میں قومی پیمانے پر بغاوت کی چنگاری کا پایا جانا کوئی نیا انکشاف نہیں تھا کیوں کہ لارڈ کیننگ نے بھی اپنے سرکاری مراسلوں میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اودھ کی جدو جہد ایک طرح سے قومی پیمانے کی  مزاحمت تھی۔ اس لیے کتاب ہٰذا کے مصنف کو ان باتوں کو دہرانے میں کوئی قباحت نہیں ہوئی،جس کا اعتراف خود لارڈکیننگ پہلے کر چکا تھا۔ مصنف نے یہ بھی کہا ہے کہ شاید اودھ کے تعلق داروں کے ساتھ اودھ پر قبضے کے بعد جو رحم دلی دکھائی گئی تھی غالباًوہ اسی حقیقت کے اعتراف میں تھی۔

جیسا کہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں میں نے محسوس کیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ 1857کی تحریک کی ایک نئی اور معروضی تاریخ لکھی جائے۔ 1954 کے موسم خزاں میں میرا ذہن اس موضوع کی طرف دوبارہ متوجہ ہوا اور میں نے محسوس کیا کہ بغاوت کے صد سالہ جشن کے دوران ہی وہ مناسب موقع ہو گا جب اس کی نئی اور عالمانہ تاریخ لکھی جائے۔ بغاوت کی پہلی چنگاری 10مئی 1857  وہ نیک ساعت ہو گی جب اس جدو جہد کی مکمل اور جامع تاریخ شائع کی جائے۔

یہ سوال اکثر کیا جاتا ہے کہ اس بغاوت کے لیے کون لوگ ذمہ دار تھے۔ اس طرح کا مشورہ دیا گیا ہے کہ کچھ ایسے لوگ تھے جنہوں نے مل کر منصوبہ بنایا اور ایسی اسکیم وضع کی جس کے تحت اس تحریک کی ابتدا ہونی تھی۔ میں ا س بات کا اعتراف ضروری سمجھتا ہوں کہ اس پہلو پر مجھے شک ہے کیوں کہ غدر کے زمانے میں اور اس کے بعد بھی برٹش حکومت نے اس بات کی بہت زیادہ تفتیش کی تھی کہ اس بغاوت کے اسباب کیا تھے۔ لارڈ سیلس بری نے ہاؤس آف کا منس میں یہ بیان دیا تھا کہ اس بات کو قبول کرنے کے لیے قطعی تیار نہیں کہ اتنے وسیع پیمانے پر پھیلی اتنی طاقت ور تحریک صرف چربی ملی گولی کو لے کر پیدا ہوئی تھی۔ انہیں یقین تھا کہ جو کچھ سطح پر نظر آتا ہے اس کے پس پشت کچھ اور بھی باتیں تھیں۔ حکومت ہند اور پنجاب کی حکومت نے بھی اس سوال کا مطالعہ کرنے کے لیے بہت سے کمیشن بنائے۔ اس زمانے میں پھیلی سبھی افواہوں کا بغور مطالعہ کیا گیا۔ ایک کہانی یہ بھی مشہور ہوئی تھی کہ چپاتیوں کے اندر رکھ کر اطلاعات بھیجی گئیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی ایک پیشن گوئی تھی کہ ہندوستان میں برٹش حکومت کا خاتمہ جون 1875 میں پلاسی کی جنگ کے سو سال پورا ہونے پر ہو جائے گا۔ بہت زیادہ تفتیش اور جانچ پڑتال کے بعد بھی اس کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ یہ بغاوت پہلے سے منصوبہ بند تھی اور یہ کہ فوج اور ہندوستانی عوام اس سازش میں مشترکہ طور پر شامل تھے کہ وہ کمپنی کی حکومت کو اکھاڑ پھینکیں۔ میرا یہی خیال ایک زمانے سے تھا اور بعد میں اس سلسلہ میں جو بھی ریسرچ کی گئی اس سے کوئی نئی حقیقت ایسی سامنے نہیں آئی جس سے میرے خیالات میں کوئی تبدیلی ہو سکے۔

بہادر شاہ ظفر مقدمے میں اس بات کی کوشش کی گئی کہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ وہ پہلے سے سوچی سمجھی سازش میں شامل تھے۔ جو بھی گواہیاں پیش کی گئیں،ان سے وہ برٹش حکمراں بھی مطمئن نہیں ہو سکے جو مقدمہ چلا رہے تھے اور اس طرح کی افواہوں کو ہر ذی شعور آدمی صرف افواہ سمجھنے پر مجبور ہے،بلکہ مقدمے کے دوران بھی سرف یہی بات سامنے آئی کہ تحریک سے نہ صرف خود بہادر شاہ بلکہ انگریز بھی حیرت میں پڑ گئے تھے۔

اس صدی کے ابتدائی سالوں میں کچھ ہندوستانیوں نے بھی اس جدو جہد کے بارے میں لکھا ہے۔ لیکن اگر سچ بات کہنی ہو تو ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ جو بھی کتابیں انہوں نے لکھی ہیں، وہ تاریخ نہیں ہیں بلکہ سیاسی پروپیگنڈہ ہیں۔ ان کے مصنفین نے اس جدو جہد کو ہندوستان کی آزادی کی منصوبہ بند جنگ کا نام دیا ہے جسے ہندوستانی امراء نے برٹش حکومت کے خلاف چلایا تھا۔ انہوں نے چند افراد کو اس بغاوت کو منظم کرنے کا بھی ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ یہ کہا گیا کہ نانا صاحب جو پیشوا باجی راؤ کا جانشین تھا، اس نے تمام ہندوستانی فوجی تنظیموں سے تعلقات استوار کر کے اس کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس کے ثبوت میں انہوں نے یہ کہا ہے کہ نانا صاحب لکھنؤ اور انبالہ مارچ اور اپریل 1857 میں گئے تھے اور اس کے بعد مئی 1857 میں اس جدو جہد کا آغاز ہوا۔ صرف اتنی سی بات کو اس با ت کے لیے وافر ثبوت نہیں مانا جا سکتا۔

اس طرح کے خیالات کس قدر بے بنیاد اور افواہ پر مبنی ہیں، یہ ا س وقت واضح ہو جاتا ہے جب اس طرح کے مورخین اودھ کے وزیر علی نقوی خان کو اس جنگ کے لیے خاص سازش کرنے والا بتاتے ہیں۔ جس کسی نے بھی  اودھ کی تاریخ کا  مطالعہ کیا ہے وہ اسے حد سے زیادہ مضحکہ خیز سمجھے گا کیوں کہ علی نقوی خاں ایسٹ انڈیا کمپنی کے پٹھو تھے۔ یہ وہی شخص تھا جس پر انگریزوں نے اعتماد کر کے انہیں واجد علی شاہ کو اس بات کے لیے تیار کرنے کو کہا تھا کہ وہ اپنی حکومت کو اپنی مرضی سے انگریزوں کے سپر د کر دیں۔ بلکہ برٹش ریزیڈنٹ جنرل آوٹ رام نے علی نقی خاں سے یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ اپنے مشن میں کامیاب ہو گئے تو انہیں بہت زیادہ انعام و اکرام سے نوازا جائے گا۔ علی نقی خان اپنے اس منصوبے کے لیے اس طرح سے جی توڑ کر کوشش کر رہے تھے کہ واجد علی شاہ کی ماں کو خوف پیدا ہوا کہ اس طرح کسی بہانے سے وہ تخت حاصل کر لے گا۔ ا سلیے انہوں نے حکومت کی مہر کو فوری طور پر اپنے قبضے میں کر لیا اور زنان خانہ میں اسے رکھا اور یہ حکم جاری کر دیا کہ ان کی اجازت کے بغیر یہ کہیں نہیں جا سکتی۔ یہ ساری باتیں لکھنؤ کے عوام کو معلوم تھیں اور اسی لیے وہ علی نقوی خاں کو غدار کی حیثیت سے دیکھتے تھے۔ اس لیے یہ کہنا کہ ایسا شخص بغاوت کے پس پردہ سب سے بڑا سازشی تھا، بالکل ہی غلط ہو جاتا ہے۔

یہ بھی کہا گیا کہ منشی عظیم اللہ خان اور رنگو باپوجی دونوں نے مل کر اس بغاوت کا منصوبہ بنایا تھا۔ عظیم اللہ خان،نانا صاحب کا ایجنٹ تھا اور نانا صاحب نے اپنے مقدمے کی پیروی کے لیے انہیں لندن بھیجا تھا تاکہ وہ ان کے لیے وہ پنشن حاصل کر سکے جو باجی راؤ کو دی جا رہی تھی۔ ہندوستان واپس آنے سے پہلے وہ ترکی گئے جہاں کریمیا کی جنگ میں ان کی ملاقات عمر پاشا سے ہوئی۔ اسی طرح رنگو باپوجی بھی ڈلہوزی کے فیصلے کے خلاف، جس کے مطابق ستارہ کو برٹش حکومت میں شامل کر لیا گیا تھا،اپیل کرنے کے لیے گئے ہوئے تھے۔

صرف اتنی سی بات کو، کہ وہ الگ الگ مقاصد کے تحت لندن گئے تھے،یہ مان لیا گیا ہے کہ ان دونوں نے مل کر وہاں اس طرح کی سازش رچی۔ یہاں یہ بات بالکل صاف ہونی چاہیے کہ اس طرح کی قیاس آرائیوں کو شہادت نہیں مانا جا سکتا۔ اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ان باتوں پر انہوں نے لندن میں کوئی بات بھی کی تو اس سے نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ اس بغاوت کے وہی محرک تھے، جب تک کہ ہندوستان میں بعد میں ہونے والے واقعات کا سلسلہ ان سے نہ مل جائے۔ ایسے رشتوں کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ کسی ریکارڈ یا گواہی کی عدم موجودگی میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس بغاوت کے لیے انہوں نے کوئی سازش رچی تھی۔ کانپور کے نزدیک بٹھور پر قبضہ ہونے کے بعد انگریزوں نے نانا صاحب کے سبھی کاغذات اپنے قبضہ میں کر لیے تھے، ان کاغذات میں ایک خط عمر پاشا کے نام بھی تھا جو انہیں کبھی نہیں بھیجا گیا۔ اس خط میں انہیں اطلاع دی گئی تھی کہ ہندوستانی فوجیوں نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کر دی ہے۔ نہ تو اس خط میں اور نہ عظیم اللہ خان کے دوسرے کاغذات میں ایسا کوئی اشارہ ملتا ہے جس میں یہ کہا گیا ہو کہ انہوں نے اس بغاوت کے لیے کوئی ساز ش کی تھی۔

جو بھی ثبوت موجو دہیں ان سے ہم اس نتیجہ پر پہنچنے کے لیے مجبور ہیں کہ 1857 کی بغاوت نہ تو کسی منصوبہ بند سازش کا نتیجہ تھی اور نہ ہی اس کے پیچھے کوئی سازشی دماغ کا م کر رہا تھا۔ جو کچھ بھی ہو ا وہ صرف اتنا کہ کمپنی کی سو سالہ حکومت کے دوران ہندوستانی عوام اس سے ناراض ہو چکے تھے کیوں کہ کمپنی نے شروع میں یہ عمل دخل نواب یا شہنشاہ کے نا م پر دینا شروع کیا اور بہت دنوں تک ہندوستانیوں کو یہ محسوس ہی نہیں ہو سکا کہ غیر ملکی لوگوں نے یہاں کا اقتدار حاصل کر لیا ہے۔ اور جب انہیں یہ احساس ہوا کہ خود اپنے ملک میں انہیں غلام بنا لیا گیا ہے تو ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ وہ اسکے خلاف آواز اٹھا سکیں۔

اگر یہ پوچھا جائے کہ اس بغاوت کے پھیلنے میں سو سال کی مد ت کیوں لگی ؟تو اس کا جواب مندرجہ ذیل حقائق میں مل جائے گا۔ ہندوستان میں برٹش طاقت کے فروغ جیسی کوئی دوسری مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ یہ کسی ایک ملک کے ذریعہ کسی دوسرے ملک پر فوری طور پر فتح پاکر قابض ہونے کا معاملہ نہیں ہے بلکہ کسی ملک میں دھیرے دھیرے داخل ہونے کی کہانی ہے جس میں خود ملک کے عوام نے حملہ آوروں کی مدد کی۔ یہ حقیقت بھی کہ انگریزوں نے فتح برٹش تاج کے نام پر نہیں حاصل کی اور اس وجہ سے وہ اپنے اصل مقصد پر پردہ ڈالنے میں کامیاب ہو گئے۔ اگر برطانیہ کی حکومت نے شروع سے ہی ہندوستانی معاملات میں دخل اندازی کی ہوتی تو ہندوستانیوں کو یہ احساس ہو جاتا کہ ایک غیر ملکی طاقت مل میں داخل ہو رہی ہے۔ چونکہ یہ ایک تجارتی کمپنی تھی، اس لیے لو گوں نے اسے اصل حکمراں نہیں سمجھا۔ اسی لیے کمپنی ایجنٹس نے اپنا معاملہ اس طرح طے کیا جس طرح کوئی اور غیر ملکی حکمراں کے ایجنٹس نہیں کر سکتے تھے۔ برٹش تخت کا کوئی بھی ایجنٹ مغل دربار کے شہزادوں اور بٍا اثر لوگوں کے اشارے پر کام کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتا۔ کمپنی کے ایجنٹ کو اس طرح کی کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ وہ چھوٹے سے چھوٹے اہلِ کاروں کے سامنے بھی اسی طرح جھک جاتے جیسے ہندوستانی تجارت پیشہ لوگوں کے سامنے۔ انہوں نے رشوت بھی دی اور بہت سی بدعنوانیاں بھی کیں۔ اور انہیں کبھی  یہ خوف نہیں ہوا کہ ان کا بادشاہ انہیں اس کام کے لیے سزا دے گا۔

یہ بھی نوٹ کرنے کی بات ہے کہ کمپنی نے کبھی کوئی مداخلت اپنے نام سے نہیں کی۔ اس نے ہمیشہ اپنے مفاد کو آگے رکھنے کے لیے کسی مقامی سردار کا سہار ا لیا۔ اس طرح کمپنی نے جنوب میں کرناٹک کے نواب کے دعوے کی حمایت کرتے ہوئے اپنی طاقت بڑھائی۔ اسی طرح بنگال میں اس نے مرشدآباد کے نواب ناظم کے نام اور حکم کے تحت اپنے اختیارات وسیع کیے ۔ حد تو یہ ہے کہ جب بنگال کی اصل حکمرانی اس کے ہاتھ آئی تو بھی اس نے اپنے کو خود مختار حکمراں نہیں سمجھا۔ لارڈ کلائیو نے شہنشاہ سے درخواست کی کہ اسے دیوانی کے اختیارات دے دیئے جائیں اور کئی دہائیوں تک کمپنی نے شہنشاہ کے ایجنٹ کی حیثیت سے کام کیا۔ یہی نہیں بلکہ کمپنی نے دوسرے صوبے کے گورنروں اور صوبے داروں کے قوانین کی بھی اتباع کی۔ صوبوں میں گورنروں کی اپنی مہر ہوا کرتی تھی لیکن انہوں نے خود کو ہمیشہ مغل شہنشاہ کا خادم ہی بتایا۔ گورنر اور صوبے دار دلی میں شہنشاہ کی آمد کے منتظر رہتے اور جب وہ لوگوں کے سامنے آتا تو جھک کر ان کی تعظیم کرتے، اسے ہدیہ اور تحائف پیش کرتے اور پھر بعد میں شہنشاہ سے خلعت حاصل کرتے۔ گورنر جنرل نے بھی اسی طرح شہنشاہ کی تعظیم کی اور 101 اشرفیوں کی نذر پیش کی۔ اس کے جواب میں شہنشاہ نے انہیں خلعت اور خطاب سے نوازا اور یہ خطاب گورنر جنرل ہمیشہ سارے دستاویزوں میں استعمال کرتا۔ اس طرح ملک میں شہنشاہ کی بادشاہت کا بھرم قائم رکھا گیا۔ لوگوں کو بہت بعد میں یہ احساس ہوا کہ خود کمپنی دھیرے دھیرے اس ملک پر بٍا اختیار حکمراں ہوتی جا رہی ہے۔

یہ سلسلہ 19ویں صدی کی دوہائیوں تک چلتا رہا۔ اس وقت تک کمپنی کی حکومت دریائے ستلج تک وسیع ہو چکی تھی۔ تب اس وقت کے گورنر جنرل لارڈ ہٹٹنگز کو یہ خیال ہو ا کہ اب وقت آ گیا ہے کہوہ خود اپنی طاقت کا مظاہرہ کرے اور دھیرے دھیرے شہنشاہ سے اپنا رشتہ منقطع کر لے۔ اس سلسلہ میں اس نے پہلی چال یہ چلی کہ جب کبھی وہ شہنشاہ کے سامنے آئے تو اسے بیٹھنے کی اجازت ملے اور اس کو نذرانے کی روایت سے مستثنیٰ کیا جائے۔ شہنشاہ نے اس کی ا ن دونوں درخواستوں کو مسترد کر دیا اور کچھ وقتوں تک گورنر جنرل نے کوئی اصرار بھی نہیں کیا۔

پھر کمپنی نے شہنشاہ کی طاقت گھٹانے کے لیے چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو دلی سے آزاد ہونے کے لیے اکسایا۔ اس سلسلہ میں حیدرآباد کے نظام سے پہل کی گئی۔ اس سے درخواست کی گئی کہ وہ اپنی خود مختار بادشاہت کا اعلان کر دے۔ نظام اس سے متفق نہیں ہوئے۔ لیکن انگریزوں کو ایسا ایک سہار ا اودھ کے نواب وزیر سے مل گیا۔ اودھ نے فوری طور پر بادشاہ کے زیر اثر صوبے سے آزاد ہونے کا اعلان کر دیا اور پھر شہنشاہ سے ساری وفاداری منقطع کر لی۔

1835 تک کمپنی نے اپنے کو خود اتنا مضبوط کر لیا کہ اس نے پہلی بار اپنے سکے ڈھالے جس میں بادشاہ کا نام نہیں دیا گیا۔ بہت سے لوگوں کو اس سے صدمہ ہوا۔ تب انہیں احساس ہوا کہ شہنشاہ کے ایجنٹ یا تجارت سے نکل کر کمپنی خود ہندوستان کے ایک وسیع علاقے کی مالک بن بیٹھی ہے۔ 1835 میں ہی ایک فیصلہ اور ہوا کہ عدالتوں کی زبان فارسی کے بجائے انگریزی کر دی جائے۔ ان سب عوامل سے لوگوں میں یہ احساس ہوا کہ اب کمپنی کے رتبے میں تبدیلی آ گئی ہے۔ اس احساس سے لوگوں کے دماغ پریشان ہو گئے۔ اور پریشانی صرف عوام کو ہی نہیں بلکہ مسلح افواج کے لوگوں کو بھی لاحق ہو گئی۔

انیسویں صدی کی تیسری دہائی میں حالات کا اندازہ ہمیں اس مطالعے سے ہو سکتا ہے جسے ایک معروف برٹش شہری نے اس زمانے میں پیش کیا تھا۔ عزت مآب فریڈرک جان شور، سر جان شور کے لڑکے تھے اور مختلف حیثیتوں سے بنگال پریزیڈنسی کے شمال مغربی خطے میں پولیس مال گزاری اور عدلیہ میں کام کر چکے تھے۔ اس نے انڈین گزٹ میں گمنام طریقے سے بہت سے مضامین لکھے۔ یہ انڈین گزٹ کلکتہ سے نکلنے والا ایک روزنامہ تھا اور اس نے 1837 میں ان مضامین کو جمع کر کے، انڈین افیرز، پر نوٹس کے نام سے ایک کتاب شائع کی۔ اس کتاب کے پڑھنے سے اس زمانے میں ہندوستانیوں کے ذہن کی مکمل عکاسی ہو جاتی ہے۔ اس نے بار بار اس بات کو دہرایا کہ گرچہ ظاہری طور پر ہر طرف امن وامان قائم ہے لیکن یہ حالات اس ڈائنا مائٹ کی طرح ہیں جن میں ذرا سی چنگاری سے ہر طرف آگ کے شعلے نظر آنے لگیں گے۔ یہ وہی بڑھتی ہوئی بے چینی تھی جو 1837 کی بغاوت کی شکل میں تبدیل ہوئی۔

اس بے چینی کو دو عوامل کی وجہ سے بغاوت میں تبدیل ہونے میں کوئی وقت نہیں لگا۔ ایک تو وہ نئی پالیسی تھی جسے مسٹر تھامسن شمالی مغربی صوبے کے  لیفٹینٹ گورنر (بعد میں آگرہ اور اودھ) نے وضع کیا تھا۔ شروع میں کمپنی نے اس پالیسی کی حمایت کی تھی کہ زمین داروں کا ایک ایسا طبقہ پیدا کیا جائے جو ہمیشہ سرکار کا حمایتی رہے۔ تھامسن کا خیال اس سے جدا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ بڑے بڑے امراء اور زمینداروں کا وجود کمپنی کے لیے کبھی بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔ ا س کا خیال تھا کہ اس لیے ایک طبقے کی حیثیت سے زمینداروں کو ختم کیا جانا چاہیے اور سرکار کو چاہیے کہ وہ رعایا سے خود اپنا تعلق قائم کرے۔ اس نئی پالیسی کے نتیجہ میں کمپنی نے ہر حیلہ اور بہانے سے کام لیا کہ کسی طرح امراء اور زمینداروں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کر دیا جائے،خاص طور سے یہ کہہ کر کہ وہ خود سرکار کے تحت کا شکار ہیں۔

سب سے زیادہ فیصلہ کن وہ دوسری پالیسی تھی جسے ڈلہوزی نے وضع کیا تھا اور جس میں رفتہ رفتہ ایک کے بعد ایک ہندو ستانی ریاستوں کو برٹش علاقے میں شامل کیا جا رہا تھا۔ اس میں ہندوستان، امراء کے آخری دور سے گزر رہا تھا۔ امراء اور زمینداروں کے تحت لوگوں کی وفاداری صرف اپنے امیر یا زمینداروں سے ہوتی۔ اس  وقت ملک یا قوم سے وفاداری کا کوئی تصور نہیں تھا۔ جب لوگوں نے دیکھا کہ ایک کے بعد ایک ہندوستانی ریاستوں کو انگریزوں کا باجت گزار بنایا جا رہا ہے اور رفتہ رفتہ زمینداری کے نظام کو ختم کیا جا رہا ہے تو اس سے بھی انہیں بہت دھکا لگا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ اب کمپنی اپنے اصل رنگ میں سامنے آ رہی ہے اور وہ دھیرے دھیرے ہندوستانی سماجی اور سیاسی نظام کو تبدیل کرتی جا رہی ہے۔ یہ بے چینی اپنے عروج کو اس وقت پہنچی جب اودھ کمپنی نے قبضہ کر لیا۔ اودھ ایک ایسا صوبہ تھا جو ستر سالوں سے کمپنی کا حلیف تھا۔ اس پورے عرصے میں اودھ نے کبھی بھی برٹش مفاد کے خلاف کوئی کام نہیں کیا۔ اس کے باوجود جب کمپنی نے بادشاہ کو تخت چھوڑنے کے لیے مجبور کیا اور سلطنت پر اپنا قبضہ کر لیا تو لوگوں کو بہت زیادہ صدمہ پہنچا۔

اودھ کی شکست کا سب سے بڑا اثر آبادی کے اسی علاقے پر پڑا کیوں کہ بنگال آرمی کے زیادہ تر فوجی اسی علاقے سے بھرتی کیے جاتے تھے۔ انہوں نے کمپنی کی ہر طرح سے وفاداری کے ساتھ خدمت کی تھی اور ملک کے وسیع علاقے میں اس کی حکومت قائم کرنے میں معاون رہے تھے۔ انہیں بھی اچانک احساس ہوا کہ ان کی خدمات کی بدولت کمپنی کو جو اختیار حاصل ہوا ہے اس کا استعمال انہوں نے خود ان کے بادشاہ کو ختم کر نے میں کیا ہے۔ میرے دل میں ذرا بھی اس بات کے لیے شک نہیں ہے کہ 1856 میں جب اودھ پر قبضہ کیا گیا اسی وقت سے فوجیوں میں اور خصوصاً بنگال آرمی میں بغاوت کا موڈ پیدا ہو گیا تھا اور یہیں سے لوگوں نے سوچنا شروع کیا کہ اب کمپنی کی حکومت کو اکھاڑ پھینکنے کا وقت آ گیا ہے۔ بغاوت کے دوران لارنس اور دوسروں نے عام سپاہی کے خیالات کو جاننے کی کوشش کی اور اس نظریے کی حمایت میں بہت سے شواہد موجود ہیں۔ چربی ملی گولیوں کی فراہمی سے فوج میں کوئی نئی بے چینی نہیں پیدا ہوئی لیکن اس نے یہ موقع ضرور فراہم کر دیا کہ دبی ہوئی چنگاری شعلہ بن کر سامنے آ گئی۔

ابتدا میں ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستانیوں کے جذبات کا بہت لحاظ کرتی تھی۔ اس نے ہندوستانی احساسات کا پورا لحاظ رکھا اور اونچی ذات کے لوگوں کے ساتھ بہت اچھا رویہ روا رکھا۔ گورنر جنرل کونسل کے ممبران کی ایک روایت یہ رہی کہ وہ امراء کا اپنے دروازے تک آ کر استقبال کرتے، واپسی میں انہیں رخصت کرنے بھی جاتے اور ایسا ہر اس شخص کے ساتھ کیا جاتا جس کا سماج میں کوئی مرتبہ ہوتا۔ جیسے جیسے وہ طاقت ور ہوتی گئی، اس نے ہندوستانی جذبات کا خیال رکھنا چھوڑ دیا۔ نئے نئے قوانین وضع کیے گئے اور اس بات کا کوئی خیال نہیں کیا گیا کہ اس پر ہندوستانیوں کا تاثر کیا ہو گا۔ تاہم اس بات کا اعتراف کرنا ضروری ہے کہ اس نے اس طرح کی حرکت اپنی لاعلمی کی وجہ سے کی نہ کہ کسی تحقیر آمیز جذبے سے۔ سارے معاملات کا نظم گورنر جنرل ایک کونسل کی مدد سے کرتے جس کے سبھی ممبران صرف انگریز ہوتے۔ شاید کونسل میں کسی ہندوستانی کو شامل کیے جانے کا خیال ہی خود کونسل کے لیے بہت حیرت انگیز ہوتا اور کوئی ایسا نمائندہ ادارہ بھی نہیں تھا جس سے حکمراں رعایا کے تاثرات کو سمجھ سکتے۔ اس طرح لوگوں کے خیالات سے واقف ہونے کا ا س کے پاس کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ کمپنی اور اس کی رعایا کے درمیان خلیج بڑھتی ہی گئی۔

1857 کے واقعات کے ضمن میں مختلف بیانات پڑھنے کے بعد چند نتائج آسانی سے اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ یہ سوال خود بخود ہی پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ بغاوت صرف قومیت کے احساس  کی وجہ سے پھیلی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس میں حصہ لینے والے لوگ قومیت کے جذبے سے سرشار تھے لیکن یہ اتنا زیادہ نہیں تھا کہ جس سے کوئی بغاوت پھیل سکتی۔ حب الوطنی کے جذبے کو لوگوں کے مذہبی جذبات بھڑکا کر تقویت پہنچائی گئی اور لوگ اٹھ کھڑے ہوئے۔ چربی ملی گولی کی تشہیر اس کی ایک مثال ہے۔ دوسرے طریقوں سے بھی سپاہیوں کے مذہبی جذبات کو مشتعل کیا گیا۔ ا س کے بعد ہی وہ اپنے غیر ملکی آقاؤں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔

جہاں تک چربی ملی گولی کا سوال ہے،فورٹ ولیم میں ملی دستاویزات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کمپنی کے خلاف یہ الزام انصاف پر مبنی تھا لیکن ا س کے علاوہ مذہبی مداخلت کے دوسرے الزامات بے بنیاد تھے۔ یہ افواہ بھی بہت آسانی سے پھیلائی گئی کہ کمپنی نے ستی کی رسم کو اس لئے ممنوع قرار دیا کہ وہ ہندو مذہب سے نفرت کرتی تھی۔ اس الزام کی کوئی بنیاد نہیں تھی۔ ستی کی رسم کو اس لیے ممنوع قرار دیا گیا کہ حکمراں طبقہ اور ہندوستان کے روشن خیال لوگوں کو بھی، جن کی قیادت راجہ رام موہن رائے کر رہے تھے،یہ احساس ہوا کہ یہ ایک غیر انسانی فعل ہے۔ کوئی بھی مہذب حکومت اسے برداشت نہیں کر سکتی تھی کہ انسانوں کو زندہ جلا دیا جائے۔ اب چونکہ اس جدو جہد کا جوش ختم ہو گیا ہے تو کوئی بھی ہندوستانی اس بات کو وافر جواز نہیں سمجھے گا کہ ستی پر لگائی جانے والی پابند ی کمپنی کے خلاف بغاوت کا پیش خیمہ تھی۔

اسی طرح یہ الزام بھی بے بنیاد تھا کہ کمپنی گائے کی ہڈیوں کا سرمہ بنا کر آٹے میں ملا رہی ہے تاکہ ہندو سپاہیوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچے، کوئی بھی با شعور آدمی آج اس الزام کو نہیں مانے گا۔ لیکن جس وقت یہ افواہ پھیلائی گئی تو بہت سے فوجیوں کو اس پر یقین ہو گیا اور فوجیوں کی بغاوت میں اس نے فلیتے کا کام کیا۔

ایسٹ انڈیا کمپنی نے فیصلہ کیا کہ ہندوستانیوں کو مغربی تعلیم دی جائے اور اس کے لیے انہوں نے بہت سے اسکول اور کالج کھول دیئے۔ یہ کام بھی روشن خیال ہندوستانیوں کی مانگ کی وجہ سے کیا گیا تھا۔ تاہم عام لوگوں نے اس قدم کو بھی یہ سمجھا کہ یہ ہندوستانیوں کو عیسائیت قبول کرانے کے لئے کیا گیا ہے۔ ان تعلیم گاہوں کے اساتذہ کو کالا پادری کا نام دیا گیا اور انہیں سماج میں حقارت کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ لیکن آج کوئی آدمی یہ قبول نہیں کرے گا کہ ان تعلیمی اداروں کی بدولت بغاوت پھیلی۔

اب 1857 کے واقعات کو پڑھتے ہوئے میں اس نتیجے پر پہنچنے پر مجبور ہوں کہ اس وقت ہندوستانیوں کا قومی کردار بہت پست ہو چکا تھا۔ بغاوت کی قیادت کرنے والے کبھی ایک دوسرے کے ہمنوا نہیں ہو سکے۔ وہ آپس میں رقابت کا جذبہ رکھتے اور ایک دوسرے کے خلاف ہمیشہ سازش کرتے رہتے۔ انہیں کبھی یہ خیال نہیں پیدا ہوا کہ ان کی نٍا اتفاقی کا بر ٍا اثر اس کام پر بھی پڑے گا۔ حقیقت تو یہ ہے لوگوں کی ایک دوسرے سے حسد اور سازش ہی ہندوستانیوں کی شکست کا سب سے بڑا سبب بنے گا۔

اس جد و جہد کے آخری دور میں بخت خان نے دلی کی کمان سنبھالی، وہ بہت ایماندار آدمی تھا اور وہ فتح حاصل کرنے کے لیے بے چین بھی تھا، جب کہ دوسرے فوجی سربراہوں نے اس کی شکست کا سامان مہیا کیا اور جب وہ لڑنے کے لیے آگے بڑھا تو ان لوگوں نے اسے کوئی تعاون نہیں دیا۔ یہی حالات لکھنؤ میں بھی تھے۔ ہندوستانی فوجیوں نے ریزیڈنسی کا محاصر ہ کر لیا تھا۔ لیکن سپاہیوں نے محسوس کر لیا کہ اگر ایک بار وہ اس پر قبضہ کر لیتے ہیں تو پھر حکومت یا اودھ کی ملکہ کو ان کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی۔ اس لیے ان کی خدمات اسی وقت تک درکار ہیں جب تک یہ جنگ چلتی رہے۔ اسی لیے سپاہیوں نے کبھی  فیصلہ کن فتح پانے کی کوشش نہیں کی۔

اس کے برخلاف انگریزوں نے ملکہ عالیہ کے تئیں پوری وفاداری سے لڑائی کی اور انہوں نے محسوس کیا کہ یہ ایک قومی سانحہ ہے اور انہیں اپنی زندگی اور فتح کے لیے جی توڑ کوشش کرنی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ سوائے چند استثنائی صورت کے جن میں سب سے نمائندہ شخصیت احمد اللہ اور تانتیا ٹوپے کی تھی، زیادہ تر قائدین، جنہوں نے اس جدو جہد میں حصہ لیا، صرف اپنے ذاتی مفاد کی خاطر آگے آئے۔ وہ انگریزوں کے خلاف اس وقت تک کھڑے نہیں ہوئے جب تک کہ ان کے ذاتی مفاد پر ضرب نہیں پڑی۔ حد تو یہ ہے کہ بغاوت شروع ہونے کے بعد بھی نانا صاحب نے یہ اعلان کیا کہ اگر ڈلہوزی اپنا فیصلہ بدل دے اور ان کی مانگوں کو مان لے تو وہ اس سے معاہدہ کر سکتے ہیں۔ جھانسی کی رانی کو بھی اسی طرح کی ذاتی شکایت تھی، لیکن یہ اور بات ہے کہ جب ایک بار وہ جنگ میں کود پڑیں تو پھر پیچھے نہیں ہٹیں اور اپنے مقصد کے حصول کے لیے اپنی جان کی قربانی دے دی۔

جب بغاوت کے قائدین کی یہ حالت ہو تو آسانی سے یہ اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ عوام کی کیا حالت رہی ہو گی۔ وہ اکثر تماشائی بنے رہے اور اس وقت جو زیادہ طاقت ور دکھائی دیتا اس کا ساتھ دینے لگتے۔ ان کے ا س رویے کا اندازہ صرف اس بات چیت سے لگایا جا سکتا ہے کہ تانتیا ٹوپے کا کیا حشر ہوا؟ جب اسے شکست فاش ہوئی تو اس نے عہد کیا کہ وہ مدھیہ پردیش میں نرمدا کے پار اپنی جدو جہد جاری رکھے گا۔ اسے یقین تھا کہ اگر وہ ایک بار مرا ٹھا حلقے میں پہنچ گیا تو لوگ اس کی مدد کریں گے۔ ماورائی طاقت اور چالاکی سے کام لیتے ہوئے اس نے اپنے تعاقب میں آنے والوں کو چکمہ دیتے ہوئے نرمدا کو پار کر لیا۔ لیکن وہاں جانے کے بعد اس نے دیکھا کہ کسی گاؤں میں بھی لوگ اسے پناہ دینے کے لیے تیار نہیں۔ ہر شخص اس کے خلاف تھا او آخر کار اسے پناہ لینے کے لیے جنگل کا رخ کرنا پڑا۔ یہاں بھی اس کے ایک خاص دوست نے نیند کی حالت میں اسے دھوکے سے پکڑ وا دیا۔

اب اس عظیم جدو جہد کے دوران جو قتل و غارت گری ہوئی اس کے بارے میں چند الفاظ، انگریز مصنفین نے اکثر ہندوستانی سپاہیوں اور ان کے قائدین کے ذریعہ جو غیر انسانی فعل کئے گئے ان کے بارے میں بہت تفصیل سے اور بڑھا چڑھا کر لکھا ہے۔ تاہم نہایت افسوس کے ساتھ اس بات کا اعتراف کرنا پڑ رہا ہے کہ ان میں بے بعض الزامات بے بنیاد نہیں تھے۔ یورپین عورتوں اور بچوں کا دلی،کانپور، اور لکھنؤ میں قتل عام کا دفاع کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ گرچہ نانا صاحب کو اس بات کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا کہ اس نے جنرل وہیلر سے جو وعدہ کیا تھا، وہ اسے  پورا نہیں کر سکا۔ کیوں کہ اس کا فوجیوں پر کوئی اختیار باقی نہیں رہا تھا جنہوں نے سارے معاملات کو  اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا۔ خود انگریز مورخین نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ جب اس نے ایک بچے کی لاش کو پانی میں تیرتا ہوا دیکھا تو اسے بہت صدمہ ہوا۔ چاہے کچھ بھی ہو وہ ہندوستانی فوجی جو اسے اپنا قائد سمجھتے تھے انہوں نے ہی یہ گھناؤنا جرم کیا تھا۔ اسی طرح سے یہ ان قیدیوں کی بھی ذمہ داری تھی جنہیں جنرل ہیو یلاک کے اس جگہ پر پہنچنے سے پہلے ہی قتل کر دیا گیا تھا۔ کہاجاتا ہے کہ اس نے یہ قتل اس بدلے کے جذبے سے کرایا تھا جو انگریزوں نے ہندوستانیوں کے ساتھ الٰہ آباد میں کیا تھا تا ہم ایک غلطی کے سبب دوسری غلطی کے کئے جانے کا کوئی جوا ز نہیں ہے۔ نانا صاحب کو یقیناً ان بے چارے قیدیوں کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔

اگر اس طرح کے گھناؤنے کاموں سے ہندوستانیوں کا ریکارڈ بدنما ہو گیا تو انگریزوں نے بھی کوئی اچھا سلوک نہیں روا رکھا۔ انگریز مورخین نے عام طور پر برٹش افواج کے ان بہیمانہ مظالم کو نظر ا نداز کیا ہے۔ لیکن کچھ نے اس پر نفریں اور دکھ کا اظہار ضرور کیا ہے جو بدلے کے جذبے سے ہندوستانیوں پر کئے گئے تھے۔ خود ہڈسن کا نام خون کا پیاسا پڑ گیا تھا۔ نیل اس بات پر فخر کیا کرتا تھا کہ نام نہاد مقدموں کے نام پر اس نے سینکڑوں ہندوستانیوں کو پھانسی کے تختے پر چڑھایا۔ الٰہ آباد کے آس پاس کوئی ایسا درخت نہیں بچا تھا جس سے کسی ہندوستانی کی لاش نہ لٹکائی گئی ہو۔ ہو سکتا ہے کہ انگریزوں کو غصہ زیادہ آ گیا ہو۔ لیکن یہی بات ہندوستانی بھی اپنے بارے میں کہا کرتے تھے۔ اگر بہت سے ہندوستانیوں کی اس حرکت کا کوئی جواز نہیں پیش کیا جا سکتا تو یہی بات انگریزوں کے ساتھ بھی صادق آتی تھی۔ مسلمان امراء کو سور کی کھالوں میں زندہ سی دیا جاتا۔ اور پھر زبردستی ان کے گلے میں سور کا گوشت ڈال دیا جاتا۔ ہندوؤں کو لٹکتی تلواروں کے تلے گائے کا گوشت کھانے پر مجبور کیا گیا۔ زخمی قیدیوں کو زندہ جلا دیا گیا۔ انگریز سپاہی گاؤں میں نکل جاتے اور گاؤں والوں کو پکڑ کر لاتے اور انہیں اتنی اذیت دیتے کہ آخر کار وہ مر جاتے۔ کوئی بھی ملک یا کوئی بھی شخص اس قدر نفرت انگیز پر تشدد کام نہیں کر سکتا۔ اس کے بعد بھی وہ اپنے کو مہذب ہونے کا دعویٰ کرے۔

1857 کی بغاوت کے سلسلہ میں مبہم کہانیوں کے پس منظر میں دو باتیں صاف ابھر کر سامنے آتی ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ اس عرصے میں ہندو اور مسلمانوں کے درمیان بہت خاص یگانگت یا اشتراک دیکھنے کو ملتی ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ اس پورے عرصہ میں مغل تاج کے تئیں ہر شخص نے اپنی گہری وفاداری دکھائی۔

غدر کی شروعات 10 مئی 1857 کو ہوئی اور یہ سلسلہ تقریباً  دو سال تک چلتا رہا۔ ا س دوران دونوں طرف کے سپاہیوں نے بہت سے شاندار اور بہت سے کالے کرتوت کئے۔ بہت زیادہ بہادری کی مثالیں بھی ملتی ہیں اور اسی طرح ناقابل یقین تشدد کے بھی واقعات ملتے ہیں۔ اس دوران ہمیں کہیں بھی کوئی ایک مثال نہیں ملتی جب فرقہ وارانہ بنیاد پر کوئی تشدد ہوا ہو۔ سبھی ہندوستانی، چاہے مسلم ہوں یا ہندو، چیزوں کو ایک ہی نظریے سے دیکھتے اور اسی نظریے سے واقعات پرتاثر ظاہر کرتے۔

فرقہ وارانہ جذبات سے یہ بے گانگی،لیڈروں کی کسی خاص کوشش کا نتیجہ نہیں تھی۔ ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ 1857  کے دوران کسی نے بھی ہندو مسلم اتحاد کے لیے کوشش کی ہو۔ صدیوں کی ایک مشترکہ زندگی کے سبب ہندوؤں اور مسلمانوں میں اٹوٹ دوستانہ رشتے قائم تھے۔ اس لیے کسی خاص سبب کے لیے اتحاد کی اپیل کی جانے کی نہ کوئی ضرورت تھی اور نہ کوئی موقع تھا۔ اور اسی لیے آسانی سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ برٹش حکومت سے قبل ہندوستان میں ہندو مسلم کوئی مسئلہ نہیں تھا۔

حد تو یہ ہے کہ 1857ء سے پہلے انگریز وں نے پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو،کی  پالیسی اختیار کر رکھی تھی۔ یہ بھی صحیح ہے کہ خود برطانیہ کے تاج نے ہندوستانی حکومت کی باگ ڈور نہیں سنبھالی تھی لیکن سو سال قبل پلاسی کی جنگ کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی زبردست طاقت بن گئی تھی۔ ان سو سالوں کے دوران برٹش افسران نے ہندوستانی سماج کے مختلف عناصر کے اختلافات کو بہت زیادہ ہوا دی تھی۔ کمپنی کے ڈائرکٹرس جو مراسلے بھیجتے اس میں اس بات پر بار بار زور دیا جاتا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان فرق کیا جانا چاہیے۔ وہ محسوس کرتے کہ مسلمانوں اور ان کی وفاداری پر کبھی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔

ٹاڈ نے Annals of Rajasthan اور ایلیٹ نے ہسٹری آف انڈیا کے تعارف میں صاف صاف لکھا ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوؤں اور مسلمانوں کے فرق کو بار بار زور دے کر اجاگر کرتی۔ لیکن یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے اعلیٰ عہدوں کے افسران ہی ہوتے اور وہ بہت حقارت سے ان ہندو مورخین کی طرف دیکھتے، مسلم بادشاہوں کی تعریف کرتے۔ انہیں اس بات پرحیرت ہوتی کہ ہندو مورخ مسلم بادشاہوں کے انصاف اور غیر تعصبانہ رویے کی بار بار تعریف کیوں کرتے ہیں۔

ٹاڈ کے Annals میں ایسے بہت سے مواد ملتے ہیں جن میں عہد وسطیٰ کی تاریخ کو یہ رنگ دینے کی کوشش کی گئی جس سے ہندوؤں اور مسلمانوں میں آپس میں پھوٹ پڑ جائے۔ جہاں کسی واقعہ کے بارے میں دو طرح کا تذکرہ ملتا وہاں صرف اسی واقعہ کو ریکارڈ کیا جاتا جس سے آپسی اتحاد میں پھوٹ پڑ جائے۔ تاہم 1857ء کے واقعات یہ ثابت کرتے ہیں کہ ان کی اس زہر افشانی کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ عام زندگی میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان وہ بھائی چارگی اور ہمدردی کا جذبہ ملتا ہے جس نے سو سالوں کے تفرقہ ڈالنے کی اس کوشش کو ناکام کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ 1857 کی جد و جہد نے قومی جدو جہد کا رخ اختیار کر لیا، جس میں کبھی فرقہ وارانہ علاحدگی نہیں پیدا ہوئی۔ آزادی کی اس جدو جہد میں ہندو اور مسلمان کندھے کندھا ملا کر لڑتے رہے۔ اور ان کی مشترکہ کوشش یہ تھی کہ وہ کسی صورت برٹش غلامی کا جوا اپنے کندھوں سے اتار پھینکیں۔

اتحاد کا یہ جذبہ نہ صرف ہندوستانی سپاہیوں میں، بلکہ عام شہریوں کی زندگی میں بھی ملتا ہے۔ کوئی ایک بھی واقعہ مذہب کی بنیاد پر فساد کا نہیں ملتا۔ گرچہ برٹش افسروں نے ہندوستانی فوجیوں کے آپس کے اختلافات کو اجاگر کر کے انہیں کمزور کر دینے کی برابر کوشش کی۔

ہندوستانیوں نے 1857 کی جدو جہد مشترکہ طور پر کی۔ پھر یہ کیسے ہو گیا کہ کچھ دہائیوں کے بعد ہندوستانی قومیت کی راہ میں فرقہ وارانہ اختلافات ایک روڑا بن گئے ؟یہ ہندوستانی تاریخ کا ایک المیہ ہے کہ یہ مسئلہ روز بروز اتنا گمبھیر ہوتا گیا کہ آخر کار اس سے  چھٹکار ا پانے کے لیے ملک کی تقسیم فرقہ وارانہ بنیاد پر کرنی پڑی۔

اس کا صرف ایک جواب دیا جا سکتا ہے کہ اس فرقہ وارانہ اختلافات کی بنیاد انگریزوں ک اس پالیسی کی وجہ سے پڑی جو 1857ء کے بعد انہوں نے وضع کی تھی، انہوں نے دیکھا تھا کہ ا س عظیم جدو جہد کے دوران سبھی نے مل کر پورے اتحاد کے ساتھ جنگ کی ہے۔ انگریزوں کو احساس ہوا کہ اب اس ملک میں ان کی حکومت صرف اس اتحاد کو توڑنے سے ہی قائم رہ سکتی ہے۔ اور یہ نتیجہ لازمی طور پر ان مراسلوں سے بھی نکلتا ہے جو اس وقت انگریزوں نے بھیجے۔ یہ فوج کی تنظیم نو میں بھی ملتا ہے جو غدر کو فرو کرنے کے بعد انگریزوں نے کی۔ انہوں نے نہ صرف جنگجوؤں اور غیر جنگجو قوموں کے درمیان تقسیم کی، بلکہ فوج کو بھی اس طرح منظم کیا کہ  ہندو اور مسلمان دونوں ایک دوسرے کی کاٹ میں لگے رہیں۔ ایسے اقدام کئے گئے جس سے مستقبل میں ہندو اور مسلمان متحد نہ ہو سکیں۔ عوام  کے لیے بھی ایسی پالیسی اختیار کی گئی جس سے ہندو مسلمانوں کے خلاف اور مسلمان ہندوؤں کے خلاف ہو جائیں۔ ان اختلافات کو اجاگر کرنے کا جب بھی کوئی موقع ملا، ان سے بھرپور فائدہ اٹھا یا گیا۔ فوج میں اس پالیسی کو کیسے لاگو کیا گیا اس کی پوری وضاحت لارڈ برٹش کی سوانح میں مل جاتی ہے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس جدو جہد کے دوران ہندو اور مسلمان بلا کسی شک وشبہہ کے دلی یا بہادر شاہ کی طرف دیکھ رہے تھے، اور اس معاملے میں سبھی ہم خیال تھے کہ صرف بہادر شاہ کو ہی یہ حق حاصل ہے کہ وہ ہندوستان کا شہنشاہ ہو سکے۔ تاہم یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ جب یہ جدو جہد شروع ہوئی تو فوج میں اکثریت ہندوؤں کی تھی اور جب 10مئی کو انہوں نے میرٹھ میں بغاوت کی تو ان کی پہلی آواز نکلی، دلی چلو، اور یہ آواز کسی بحث مباحثے کے بعد نہیں بلکہ اپنے آپ فوجیوں کے منہ سے نکلی تھی۔ جب کینٹ میں یہ بغاوت پھیلی تو وہاں بھی یہی آواز بلند ہوئی اور حد تو یہ ہے کہ اگر فوجی دلی نہ پہنچ سکے تو وہ مغل شہنشاہ کی وفاداری کا دم بھرتے رہے۔

کانپور میں بغاوت کے دوران نانا صاحب نے اہم رول ادا کیا، لیکن اس وقت بھی وہ اپنے کو پیشوا ہی کہتے رہے۔ مراٹھا اور مغلوں کے درمیان پرانی جنگ کو بالکل بھلا دیا گیا تھا، اور نانا صاحب ہمیشہ اپنے کو صوبیدار یا گورنر کہتے رہے۔ صرف شہنشاہ کے نام پر ہی سکے ڈھالے جاتے اور ہر فرمان اسی کے نام پر جاری ہوتا۔ نانا صاحب کے اس طرح کے کچھ فرما ن حیدرآباد دکن کے آر کائیوز میں رکھے ہوئے ہیں۔ اور ان میں سے ہر حکم نامہ دلی کے شہنشاہ کے نام پر ہی جاری کیا گیا۔ اور مغل دربار کی روایت کے مطابق سبھی پر تاریخ سنہ ہجری اور اس کے بعد سمت میں دی گئی ہے۔

ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ 1857 میں بہادر شاہ کی حیثیت صرف ایک کٹھ پتلی کی تھی۔ ان کی حکومت لال قلعہ کے اندر تک ہی محدود تھی، دلی شہر ان کی حکمرانی سے باہر تھا۔ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے ہر مہینہ ملنے والے ایک لاکھ روپے کے وظیفہ پر گزارہ کر رہے تھے۔ نہ صرف وہ بلکہ ان کے پیش رو بھی صرف نام کے حکمراں تھے۔ ان کے پاس نہ تو خزانہ تھا اور نہ فوج، اور نہ ہی ان کا کوئی اختیار ہوتا، ان کے حق میں صرف ایک ہی بات تھی کہ وہ اکبر اور شاہجہاں کے جانشین تھے۔

ہندوستان کے عوام اور فوجیوں نے بہادر شاہ سے جو وفاداری دکھائی وہ ان کی شخصیت کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لیے کہ وہ عظیم مغل حکمرانوں کے جانشین تھے۔ مغل حکومت کی عظمت نے ہندوستانی عوام کے ذہنوں کو اس طرح متاثر کیا تھا کہ جب یہ سوال پیدا ہوا کہ انگریزوں سے اختیار کون حاصل کرے گا تو ہندو اور مسلمان دونوں نے مل کر مشترکہ طور پر بہادر شاہ کا نام لیا۔

اس سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ حکومت جس کی بنیاد بابر نے رکھی اور جسے اکبر نے مستحکم کیا اس کی جڑیں بہت گہرائی تک ہندوستانی دل و دماغ میں پھیل چکی تھیں۔ ہندوستانیوں نے مغل بادشاہ بطور علامت ہی استعمال کئے جانے کے لائق رہ گئے۔ وہ اس قدر کمزور تھے کہ سپاہیوں پر اور نہ اپنے امراء پر کوئی قابو رکھ سکتے تھے۔ ان کی ان شخصی کمزوریوں کے باوجود ہندوستانیوں کو ان کا کوئی متبادل نظر نہیں آیا۔ آخر تک فوجی اور ہندوستانی دونوں بہادر شاہ کو اصل حکمراں سمجھتے رہے۔ ستمبر1857ء میں جب انگریزوں نے دلی پر قبضہ کیا تو بخت خان نے بہادر شاہ سے درخواست کی کہ وہ شہر چھوڑ دیں اور شہر کے باہر کہیں فوجوں کو جمع کریں۔ اس نے بہادر شاہ سے کہا کہ ابھی مکمل شکست نہیں ہوئی ہے۔ رو ہیل کھنڈا اور اودھ اب بھی ہمارے قبضے میں ہیں۔ لیکن بہادر شاہ اس موقعے سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے۔ ا س کے برخلاف انگریزوں نے سازشی الٰہی بخش کو اپنے ساتھ ملا لیا تھا جس نے بہادر شاہ کو سمجھایا کہ وہ دلی میں ہی رہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں قید کر لیا گیا اور پھر پورے ملک میں یہ شورش پھیل گئی۔

نئی دہلی ۹ فبروری ۱۹۵۷                                    مولانا ابوالکلام آزاد

                                    وزیر تعلیم                                                             حکومت ہند

٭٭٭

 

               مولانا غلام رسول مہر

جنگ آزادی کے اسباب

تھیوفلس مٹکاف

تھیوفلس مٹکاف نے بھی میرزان معین الدین حسن خاں اور منشی جیون لال کے روزنامچوں کا انگریزی ترجمہ شائع کرتے وقت جنگ آزادی کے اسباب پر بحث کی تھی۔ اس بحث کا خلاصہ یہ ہے :

۱۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ ایک خاص طبقے کی سازش تھی، جسے غیر دانشمند طریق پر نا فرما نی کے لیے مجبور کر دیا گیا۔

۲۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ ایک قومی تحریک تھی،جس کا مدعا یہ تھا کہ ملک کو اجنبیوں کے تسلّط سے آزاد کرایا جائے اور اس کی جگہ اسلامی حکومت قائم کی جائے۔

۳۔ بعض کا خیال ہے کہ لارڈ ڈلہوزی کی پالیسی اس کا حقیقی سبب تھی، یعنی الحاق کی پالیسی جس میں اودھ کا الحاق بھی شامل تھا۔

۴۔ کیئی نے آوٹرم کا بیان درج کیا ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے الحاق اودھ سے بہت پہلے بغاوت کی تحریک جاری کر دی تھی۔

۵۔ بعض مصنفین نے یہ خیال پیدا کر دیا ہے کہ سپاہ کو قدیم حکمران خاندانوں کے کارندوں نے گمراہ کر دیا تھا۔

۶۔ ایک مصنف کا خیال ہے کہ بغاوت در بار ایران کے یک شاہی فرمان سے پیدا شدہ مذہبی جوش کی بناء پر شروع ہوئی۔

۷۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ خالص اسلامی تحریک تھی، بعض کے نزدیک ہندو اور مسلمان دونوں اس میں یکساں شامل تھے۔

ان میں سے بعض اسباب یقیناً درست ہیں اور بعض بالکل بے سروپا ہیں۔ مثلاً اسے خالص اسلامی تحریک قرار دینا، اس لیے کہ اس کے کار فرماؤں اور کارکنوں میں ہندو اور مسلمان دونوں کی شرکت کسی ثبوت کی محتاج نہیں۔

ضروری نکتہ

اسباب پر غور و فکر سے پیشتر یہ جان لینا ضروری ہے کہ ان کے درجات و مراتب ہوتے ہیں۔ بعض اسباب کی حیثیت بنیادی اور اساسی ہوتی ہے اور بعض کی اضافی و تائیدی۔ پھر آخری۔ قسم کے اسباب میں بھی بعض ایسے ہوتے ہیں، جن سے بنیادی اسباب کو تقویت پہنچتی ہے اور ان کی شدّت و وسعت میں اضافہ ہوتا ہے۔ بعض فوری اشتعال اور ناگہانی برہمنی کا باعث بن جاتے ہیں اور ان کی وجہ سے ہنگامہ شروع ہو جاتا ہے۔

ہمارا فرض ہے کہ تمام اسباب کو ان کے اصل مقام پر رکھ کر غور کریں۔ اسی طرح حقیقت حالی واشگاف اور برہنہ صورت میں ہمارے سامنے آئے گی اور ہم صحیح واضح اور روشن نتیجے تک پہنچ سکیں گے۔

حقیقت حال

جنگِ آزادی کا بنیادی اور اساسی سبب ایک اور صرف ایک تھا اور وہ یہ کہ انگریزی حکومت اجنبیوں کی حکومت تھی۔ ابتداء میں انھیں مختلف دیسی حکمرانوں کے کارندے، ایجنٹ اور مختار سمجھ کر قبول کیا گیا۔ جب معلوم ہوا کہ انھوں نے حراّفی اور عیاری سے سب کچھ سنبھال لیا تو ان کے خلاف ہمہ گیر نفرت کی لہر دوڑ گئی کوئی بھی غیرت مند محبِ وطن اجنبی تسلط کو بہ طیبِ خاطر برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ میر جعفر یا اس جیسے دوسرے آدمیوں کو قابلِ توجہ نہیں سمجھا جا سکتا۔

آپ سر سیّد کے الفاظ میں کہہ سکتے ہیں کہ قوم نے غیروں کی حکومت اٹھا دینے کے لیے اقدام کیا تھیوفلس مٹکاف کی تعبیر کے مطابق سمجھ سکتے ہیں ‘‘ یہ ایک قومی تحریک تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ ملک کو غیروں کے تسلط سے نجات دلائی جائے۔ ‘‘

باقی رہے دوسرے اسباب جن کا ذکر سر سید نے کیا ہے یا جن کا ذکر ۱۸۵۷ء کے متعلق عام کتابوں میں ملتا ہے تو وہ سب اصل بنیادی سبب کے لیے تقویت و استحکام کے باعث بنے۔ مثلاً اہلِ وطن کی عادت کے خلاف قاعدے اور ضابطے جاری کرنا، ان کے حالات سے بے خبر رہنا ضروری امور سے بے پروائی اختیار کرنا، عیسائیت کی تبلیغ کے لیے حکام کا سرگرمی دکھانا یا مختلف ریاستوں اور علاقوں کے الحاق پر مُصر ہونا یا اس قسم کے دوسرے امور ظاہر ہے کہ یہ سب باتیں انگریزوں کے اجنبی اور بیگانہ ہونے کی قاطع اور دل خراش دلیلیں تھیں، جن کے باعث اجنبیت زیادہ سے زیادہ نا قابلِ برداشت بنی۔ چربی والے کارتوسوں سے فوری اشتعال پیدا ہوا اور ملک کے طول و عرض میں آگ لگ گئی۔

اب ہم بنیادی سبب پر نہیں بلکہ تائیدی و اضافی اسباب میں سے بعض یر اجمالاً گفتگو کریں گے۔

ویلزلی اور ڈلہوزی

۱۸۵۷ء سے پیشتر دو گورنر جنرل ایسے آئے، جنھیں جوش غصب و الحاق میں خاص شہرت حاصل ہے : ایک ویلزلی اور دوسرا ڈلہوزی ویلزلی کے عہد میں بھی انگریزی حکومت بہت پھیلی اور متعدد علاقے انگریزوں کے قبضے میں آئے، نیز ان کے تسلط کا دائرہ وسیع ہوتے ہوتے دہلی اور آگرہ تک پہنچ گیا۔ لیکن یہ تصرفات اس وجہ سے ہمہ گیر ناراضی پیدا کرنے کے موجب نہ بنے کہ اوّل ویلزلی کا طریقہ ذرا محتاط تھا۔ مثلاً اُس نے میسور کی سلطنت ختم کی، تاہم اُس کی تقسیم کے وقت جہاں ایک حصہ خود سنبھالا وہاں کچھ علاقے نظام اور مرہٹوں کو دے دیے اور قدیم ہندو حکمران خاندان کی ریاست بھی قائم کر دی۔ اسی طرح مرہٹوں کو نقصان ضرور پہنچایا، لیکن ان کی ریاستیں بہ دستور قائم رکھیں۔ مغل بادشاہ یقیناً انگریزوں کا وظیفہ خوار بن گیا، لیکن انتظام کی ظاہری وضع و ہیئت ایسی تھی کہ معلوم ہو، انگریز محض بادشاہ کے مختار کی حیثیت میں کام کرہے ہیں، جیسے اس سے پیشتر سندھیا کر چکا تھا اور قدیم شاہی آداب و رسوم ٹھیک ٹھیک پورے ہوتے تھے۔

ڈلہوزی آیا تو اس نے جھاڑو اٹھا لی اور ہر علاقے کو کوڑے کرکٹ کی طرح سمیٹ کر انگریزی اقتدار کے ٹوکرے میں ڈالنے کا فیصلہ کر لیا۔ کارکردگی یا مختاری کے پردے بھی آہستہ آہستہ بیچ میں سے اٹھ گئے اور انگریزی اجنبیت بالکل بے نقاب ہو گئی، لہذا ناراضی کے بارود خانے میں آگ لگ گئی۔

الحاق کی پالیسی

اس سلسلے میں سب سے پہلے الحاق کی پالیسی آتی ہے جو انگریزوں کی اجنبیت و بیگانگی کا کھلا ہوا ثبوت تھی اور جس کی وجہ سے مختلف ذی اثر خاندانوں کے افراد انگریزوں کے خلاف زبردست تحریک چلانے کے لئے آمادہ ہوئے :

۱۔ ہارڈنگ نے سِکھوں کی حکومت کا صرف ایک حِصّہ چھینا تھا۔ اور کشمیر کو گلاب سنگھ کے ہاتھ فروخت کیا تھا۔ ڈلہوزی نے پورا پنجاب لے لیا اور دلیپ سنگھ کو معزول کر کے فتح گڑھ (یو پی) پہنچا یا۔ اس نے عیسائیت قبول کر لی، شاید اس لئے کہ تخت حکومت حاصل کرنا سہل ہو جائے گا۔ لیکن عیسائیت اسے انگریزوں کے قریب تر نہ لاسکی اور آخری دور میں اس کے ساتھ جو بد سلوکیا ں ہوئیں ، وہ بڑی ہی درد انگیز اور عبرت افزا تھیں۔

۲۔ ستارہ کی چھوٹی سی ریاست سیواجی کے خاندان کے لیے رکھی گئی تھی۔ معاہدہ یہ ہوا تھا کہ وہ دواماً قائم رہے گی۔ اپریل ۱۸۴۸ء میں ستارا کے راجا نے وفات پائی۔ اس کے اولاد نہ تھی، لیکن ہندو دھرم کے رواج کے مطابق اس نے ایک لڑکے کو متبنّٰی  بنا لیا تھا۔ ڈلہوزی نے متبنیٰ کو راجا بنانا منظور نہ کیا اور ریاست ضبط کر لی۔

۳۔  ۱۸۵۳ء میں رگھو جی بھونسلا والیِ ناگ پور فوت ہوا۔ اس کے بھی کوئی اولاد نہ تھی اور غالباًاس خیال سے اس نے کسی کو متبنیٰ بھی نہ بنایا تھا کہ عوام اسے اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم سمجھ لیں گے۔ تاہم ملک کے رواج اور ہندو دھرم کے مطابق اس کی بیوہ متبنیٰ تجویز کر سکتی تھی۔ ڈلہوزی نے وہ ریاست بھی بے تکلف سنبھال لی۔ پھر محلات کا سارا اسباب انتہائی بے دردی سے بر سرِ عام نیلام کرایا یہاں تک کہ ایک رانی بد سلوکی پر خفگی کے جوش میں پورے محل کو آگ لگوا دینے کے لئے تیار ہو گئی تھی۔ اسی طرح جھانسی، سنبھل پور، تنجور، کرناٹک وغیرہ ریاستیں ضبط کر لی گئیں۔

باجی راؤ ثانی پیشوا

باجی راؤ ثانی آخری پیشوا  ۱۸۱۷ء کی جنگ میں شکست کھا کر مسند سے دست بردار ہوا تھا اور آٹھ لاکھ روپے سالانہ کی پینشن لے کرٹھور میں آ بیٹھا تھا، جو کان پور کے نزدیک ایک مشہور مقام ہے۔ ۲۸/ جنوری ۱۸۵۱ء کو وہ ۷۷ سال کی عمر میں لا ولد فوت ہوا۔ اس نے تین بچوں کو متبنیٰ بنایا تھا : اور ڈھونڈوپنت نانا دوم پنڈورنگ راؤ اور سوم گنگا دھر راؤ۔ پنڈورنگ راؤ فوت ہو گیا تو اس کے بیٹے سداشیوپنت کو اس کی جگہ مل گئی۔ باجی راؤ نے اپنی وصیت میں صاف صاف لکھ دیا تھا کہ میرے دو بیٹے ہیں اور ایک پوتا اور میرے بعد ڈھونڈ وپنت نانا مکھ پر دھان کی حیثیت میں میرا وارث ہو گا اور اسی کو پشیواؤں کی گدی کا مالک سمجھا جائے۔

باجی راؤ کی پنشن نانا کو ملنی چاہئے تھی۔ پوری نہ ملتی تو کم از کم اس کا ایک حصہ ملنا لازم تھا۔ لیکن ڈلہوزی نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ باجی راؤ چوتیس سال میں بہت کچھ جمع کر گیا ہے، اسی پر قناعت کی جائے حالانکہ باجی راؤ کے ساتھ معاہدے میں ایسی کوئی شرط نہ تھی، جسے کھینچ تان کر بھی ثابت کیا  جا سکے کہ پنشن اسے صرف مدت العمر ملے گی۔ ڈھونڈو پنت نے پنشن کے لیے یہاں بھی کوشش کی، ولایت بھی اپنے وکیل بھیجے تاہم جو فیصلہ ہو چکا تھا، اس میں رد و بدل نہ ہوا۔

وہ تمام لوگ جن کی ریاستیں چھنی تھیں ، نیز ان کے متوسلین جن کی تعداد ہزاروں تک پہنچی تھی، کسی حالت میں بھی انگریزوں کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے تھے بلکہ سخت سے سخت دشمن بن گئے، اس لئے کہ انھیں انگریزوں کی اجنبیت، بیگانگی، موقع پرستی اور بے دردی کا براہِ راست تجربہ ہو چکا تھا۔

اودھ

سب سے آخر میں اودھ کا معاملہ آتا ہے۔ انگریزوں نے پہلے وہاں دو عملی کی کیفیت پیدا کی، یعنی فوج کا انتظام ۷۶ لاکھ روپے سالانہ کے عوض میں خود سنبھال لیا اور باقی انتظام والیانِ اودھ کے قبضے میں رہنے دیا۔ ویلزلی نے جب دیکھا کہ اودھ میں بے قاعدہ لشکر بڑی تعداد میں موجود ہے تو اس کے دل میں وسوسہ پیدا ہوا کہ اگر کسی وقت نپولین ہندوستان کی سرحد پر پہنچ گیا یا زمان شاہ درّانی جیسا کوئی من چلا افغان فوج لے کر آ گیا اور اودھ کا بے قاعدہ لشکر اس کا معاون بن گیا تو انگریزی تسلط کا گھروندا تباہ ہو جائے گا۔ چنانچہ اس نے والی اودھ کے روبرو یہ تجویز پیش کر دی کہ بے قاعدہ لشکر کو ختم کر دیا جائے، اس کی جگہ بھی انگریزی فوج رکھی جائے اور پچاس لاکھ روپے سالانہ کا مزید خرچ برداشت کیا جائے۔ جب اس غریب نے کہا کہ اتنا روپیہ کہا سے دوں گا تو کہہ دیا کہ علاقہ دے دیا جائے۔ چنانچہ کچھ ضلعے لے لئے، جن کی آمدنی ایک سال میں دُگنی ہو گئی۔

واضح رہے کہ یہ گرانقدر رقم سوا کروڑ روپے (۷۶ لاکھ + ۵۰ لاکھ) اس غرض سے والیِ اودھ کے ذمے نہ ڈالی گئی تھی کہ ملک کا انتظام اچھا رہے مقصود صرف یہ تھا کہ ہندوستان میں انگریزی اقتدار ایک موہوم خطرے سے محفوظ ہو جائے۔ گویا فائدہ صرف انگریزوں کا مطلوب تھا، لیکن اس کا خرچ والیِ اودھ سے وصول کیا گیا اور بے دست وپا بھی اسی کو بنایا گیا۔

بادشاہی کا ڈھونگ

نواب سعادت علی خاں نے اپنی جز رسی سے بہت بڑی رقم جمع کر لی تھی، اس زمانے میں مختلف علاقوں کو مستاجری پر لینے کا دستور تھا۔ کہا جاتا ہے کہ نواب سعادت علی خاں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے تمام مقبوضات متاجری پر لے لینے کی غرض سے روپیہ جمع کیا تھا۔ وہ بے چارا چل بسا اور غازی الدین حیدر کا زمانہ آیا تو اس روپے کی بربادی کے لئے نیا ذریعہ مہیا کر دیا گیا۔

اس کی کیفیت یہ ہے کہ مارکوئیس ہیٹنگز نے اکبر شاہ ثانی  بادشاہِ دہلی سے ملاقات کرنی چاہی، لیکن شرط یہ عائد کی کہ نذر نہ دوں گا۔ بادشاہ نے ملنے سے انکار کر دیا۔ اب اس انکار پر غور کیا جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ صورت حال کے متعلق بادشاہ کے تصورات کس درجہ غلط اور محمل تھے، لیکن اس زمانے میں نذر شاہی آداب کا لازمہ سمجھی جاتی تھی۔ ہیٹنگز نے بادشاہ سے ملاقات نہ کی اور غازی الدین حیدر کو بادشاہ بنا دینے کی تجویز پختہ کر لی۔ مقصود یہ تھا کہ اکبر شاہ کو بتایا جائے۔ انگریز بادشاہی کے جتنے بُت چاہیں قائم کر سکتے ہیں۔

غازی الدین حیدر نے بادشاہی کا سامان فراہم کرنے کے لئے روپیہ اندھا دھند برباد کر دیا اسے یہ خیال نہ آیا کہ جب ایک ایک بات کے لئے ریزیڈنٹ سے منظوری لینی پڑتی ہے تو بادشاہی ہوئی یا نوابی، فرق کیا پڑتا ہے ؟ لیکن اس زمانے میں ہر شخص ظواہر پر جان دیتا تھا اور معنویت سے کسی کو کوئی سروکار نہ تھا، ہنری لارنس نے بالکل درست لکھا تھا کہ:

نواب غازی الدین حیدر کو بادشاہی کا لقب اختیار کرنے کے لئے اُکسایا گیا۔ لارڈ ہینگٹز چاہتا تھا کہ اس طرح دہلی اور اودھ کے خاندانوں میں رقابت کے جذبات برا نگیختہ کر دے۔

ہیٹنگز تو جو چاہتا تھا، اس سے بحث نہیں، لیکن ا ن خاندانوں کو اس رقابت سے کیا فائدہ پہنچتا تھا، جو انگریزوں کے ہاتھ میں کھلونے بنے ہوئے تھے ؟ وہ صرف نام و نمود اور الفاظ و خطابات پر مرتے تھے، یہ خیال کسی کو نہ تھا کہ اپنی حیثیت بدلنے اور انگریزوں کے قبض و تصرف سے نجات پانے کی کوشش کی جائے۔

 

الحاق

جو کچھ ہم نے بیان کیا، اُسے اودھ سے انگریزوں کے سلوک کی پوری داستان نہیں کہا جا سکتا بلکہ یہ اس کے بع۔ ض اجزاء کا سرسری خلاصہ ہے، جو صرف یہ بتانے کی غرض سے پیش کیا گیا ہے کہ اودھ جیسا بھی تھا، اسے انگریزوں نے خود بنا یا تھا۔ اس کا روپیہ مختلف حیلوں بہانوں سے کھایا۔ اس کے انتظام کو مسلسل بگڑنے دیا، حالانکہ جس طرح وہ فوج کا کاروبار بار بار سنبھالتے رہے، اسی طرح انتظامی کاروبار بھی سنبھال کر درست کر سکتے تھے۔ یہ انہوں نے کیا۔

پھر واجد علی شاہ سے پیشتر کئی حکمران ایسے گزر چکے تھے جو ایک لمحہ کے لئے بھی مسندِ حکومت پر بیٹھنے کے اہل نہ تھے۔ مثلاً خود غازی الدین حیدر،جسے بادشاہ بنایا گیا یا اس کا بیٹا نصیر الدین حیدر، لیکن اس وقت تک روپیہ انگریزوں کو مل رہا تھا، اس لئے کوئی سوال نہ اٹھا یا گیا۔ جب باقی ہندوستان صاف ہو گیا اور صرف اودھ رہ گیا تو پردہ اٹھا دیا گیا اور اس کا الحاق کر لیا گیا حالانکہ واجد علی شاہ اچھا تھا یا بُرا لیکن نصیر الدین حیدر یقیناً بہتر تھا۔

اچھا فرض کر لیجئے کہ اودھ کا الحاق وہاں کے عوام کی بہتری کے لئے عمل میں آیا تھا، لیکن الحاق سے انہیں کیا فائدہ پہنچا؟ کیا ان کی اقتصادی حالت بہتر ہوئی؟ کیا عوام  و خواص کے درمیان توازن کی کوئی صورت نکالی گئی؟ کیا ملک کی دولت اہل ملک کی فلاح کے لئے استعمال ہونے لگی؟ ہر سوال کا جوان نفی میں ہے اور ۱۸۵۶ء سے انگریزوں کے آخری دور تک نفی ہی میں رہا۔ بس اتنا ہوا کہ شاہی نظام کی جگہ انگریزی نظام جاری ہو گیا۔ انگریزی نظام زیادہ گراں اور مصیبت خیز تھا، اس لئے کہ انگریز بڑی بڑی تنخواہیں لیتے تھے۔ اس سے اور جو مصیبتیں پیدا ہوئیں ، ان کی ایک جھلک آئندہ سطور میں پیش کی جائے گی۔

الحاق کے نتائج

الحاق کا ایک پہلو یہ تھا کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں چھوٹے یا بڑے علاقوں کی حکومت تھی، وہ بے تعلق ہو گئے یا جنہیں بڑی بڑی  پنشین ملتی تھیں، انہیں جواب مل گیا۔ لیکن ہر مقام کی حکومت کا ایک مستقل نظام تھا، جو ہزاروں خاندانوں کی پرورش کا ذریعہ تھا۔ الحاق نے یہ پورا سلسلہ درہم برہم کر ڈالا۔

پھر ہر جگہ سینکڑوں ہزاروں لوگوں کو جاگیریں ملی ہوئی تھیں۔ اصل نظام ٹوٹا تو جاگیریں بھی ضغطے میں پڑ گئیں۔ انگریزوں نے انہیں برقرار رکھنے کے لئے سندوں کا مطالبہ کیا۔ یقیناً سب کے پاس سندیں اور وثیقے نہ تھے، وہ کام کرتے تھے اور جاگیروں پر قبضہ جمائے بیٹھے تھے نہ کسی نے ان کے حق تصرف کو باطل قرار دیا تھا اور نہ انہیں باقاعدہ سند حاصل کرنے کی ضرورت پیش آئی تھی۔ گویا الحاق میں ہزاروں خاندان بتلائے مصائب ہوئے اور ان سب کے دل میں یہی احساس پیدا ہو سکتا تھا کہ اجنبی اور بیگانہ حکومت نے ان کے ساتھ بے دردی کا یہ سلوک ردا رکھا۔ ؂

احاطہ بمبئی اور انعام کمیشن

مرہٹوں کی سلطنت انگریزوں نے ۱۸۱۷ء میں سنبھالی تھی۔ اس میں بہت سے افراد اور خاندانوں کو جاگیریں یا زمینیں ملی ہوئی تھیں،جن پر کوئی مالیہ عائد نہ تھا۔ عہدیداروں کو عموماً مشاہروں کی جگہ معافیوں ہی کی شکل میں زمینیں دے دی گئی تھیں۔ اصطلاح میں انہیں ‘‘انعام‘‘ کہا جاتا تھا۔ مدت تک ان کے متعلق جھگڑا جاری رہا۔ پھر ایک ‘‘انعام کمیشن‘‘ مقرر کیا گیا۔ اس کمیشن نے چھتیس ہزار جاگیروں سے تصدیقی سندیں طلب کیں اور ان میں سے کم و بیش اکیس ہزار ضبط کر لی گئیں۔

غور فرمایئے کہ اس سے کیا نتیجہ برآمد ہو سکتا تھا؟ کیا یہ کہ انگریز بہت اچھے حکمراں اور بڑے قانونی لوگ ہیں ؟ ہرگز نہیں۔ عام لوگوں پر صرف یہ  اثر پڑ سکتا تھا کہ یہ حکمراں اصل و نسل، وضع قطع، رنگ ڈھنگ، تہذیب و تمدن اور طریق بود  و ماند ہی کے اعتبار سے اجنبی نہیں، بلکہ طریق ملک داری کے لحاظ سے بھی انہوں نے اپنی اجنبیت اور بیگانگی کو زیادہ سے زیادہ دل آزاد، مصیبت خیز اور حقوق بر انداز شکل میں نمایاں کر دیا ہے۔

انگریزی عدالتیں

انگریزوں نے جو عدالتیں قائم کی تھیں، وہ بھی ان کی حکومت کے دوسرے اداروں کی طرح عوام کے لیے حد درجہ مصیبت اور پریشانی کا باعث بن گئیں۔ مثلاً کسی شخص کا مالیہ بروقت ادا     نہ ہو سکا اور اس کا مقدمہ عدالت میں پہنچ گیا۔ جج نے اس امر سے کوئی سروکار نہ رکھا کہ ادا نہ  ہونے کی وجہ کیا تھی یا وہ کس حد تک جائز یا معقول تھی، چپ چاپ ڈگری دے دی۔ انگریزوں کی سرپرستی میں سود خور مہاجنوں اور ساہوکاروں کو پنپنے کا خوب موقع مل گیا تھا۔ وہ معمولی رقمیں قرض پر دیتے اور عوام کی ناواقفی سے فائدہ اٹھا کر سود در سود کے ذریعے سے بڑی رقمیں بنا لیتے پھر عدالت میں مقدمے دائر ہو جاتے اور وہاں سے من مانے فیصلے کرا لیتے۔ نہ حاکموں کو عوام کی پریشان حالیوں سے آگاہی اور اتنا شعور کہ اندازہ کر لیں، ساہوکار کا اصل قرضہ کتنا تھا اور اس میں سود کتنا شامل ہوا، نیز اس کی تفصیل کیا تھی۔ فیصلے کے ساتھ ہی مقروض کی جائیداد فروخت کرنے کا حکم صادر ہو جاتا۔

کئی نے بنگال کے ایک مقدمہ  کا حوالہ دیا ہے جس میں چار روپے کی ڈگری کے عوض ایک جاگیر کی نیلامی کا حکم دیا گیا تھا۔

سوال یہ نہیں کہ حق و انصاف کا تقاضا کیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ آیا چار  روپے یا اسی قسم کی دوسری معمولی رقم کے لیے جاگیروں کی نیلامی کے احکام صادر کرنا ایسی عدالتوں کے لیے زیبا سمجھا جا سکتا تھا جو اہل ملک کے درمیان بخشش انصاف کے لیے معرض وجود میں آئی تھیں ؟ ایسے طریقے وہی عدالتیں اختیار کر سکتی تھیں، جن میں ہمدردی، خویشی اور حق و انصاف کا کوئی احساس نہ تھا اور وہ محض افراد کے اعتبار سے نہیں۔ بلکہ ہر لحاظ سے اجنبی و بیگانہ تھیں۔

عیسائیت کی تبلیغ

اپنے مذہب کی تبلیغ گناہ نہیں، لیکن اس کے حدود اور اصول ہیں۔ جنہیں ہر وقت پیش نظر رکھنا چاہئے۔ جب انگریزی حکومت کی بنیادیں مستحکم ہو گئیں تو مسیحی پادریوں نے حد درجہ غیر مناسب طریقے اختیار کر لیے۔ وہ بحثوں اور مناظروں میں اشتعال انگریز الفاظ استعمال کرتے۔ انگریز حاکم ہر ممکن ذریعے سے پادریوں کو تقویت پہنچاتے۔ نتیجہ یہی  ہو سکتا تھا کہ پادریوں کو نظام حکومت کا لاینفک جزو سمجھا جاتا۔ سر سید مرحوم فرماتے ہیں۔

۱۔ پادریوں نے جو کتابیں چھاپیں، ان میں دوسرے مذاہب کے مقدس لوگوں کی نسبت رنجیدہ الفاظ مضامین درج ہوتے۔

۲۔ وعظ اور کتھا کا عام دستور پہلے سے یہ چلا آتا تھا کہ تمام لوگ اپنے اپنے مکانوں یا عبادت گاہوں میں کہتے۔ پادریوں نے خود غیر مذاہب کے مجمعوں، میلوں اور تیرتھوں میں جانا شروع کیا۔ گویا جس اصول پر مسلمان ابتدائے حکومت سے قائم رہے تھے، پادریوں نے انہیں بالکل نظر انداز کر دیا۔

۳۔  بعض ضلعوں میں پادری تھانوں کے چپراسی ساتھ لے جاتے اور وعظ میں انجیل کے بیان پر اکتفا نہ کرتے، بلکہ دوسرے مذاہب کے مقدس لوگوں اور مقدس مقامات کو بہت برائی اور ہتک سے یاد کرتے۔

۴۔ اسی طرح انہوں نے مشنری اسکول جاری کیے اور جو طالب علم عیسائی مذہب کے مطابق عقائد کٍا اظہار کرتے۔ انہیں انعام دیئے جاتے۔

پادری ایڈمنڈ

۱۸۵۵ء میں پادری ایڈمنڈ نے کلکتہ سے ایک طویل خط  ملک  کے تعلیم یافتہ آدمیوں، خصوصاً معزز سرکاری ملازموں کے پاس جس کا مضمون یہ تھا کہ اب ہندوستان میں ایک عملداری ہو گئی۔ تار برقی سے سب جگہ کی خبر ایک ہو گئی۔ ریلوے سڑک سے سب جگہ کی آمد و رفت ایک ہو گئی۔ مذہب بھی ایک چاہئے، اس لیے مناسب ہے تم لوگ بھی عیسائی ایک مذہب ہو جاؤ۔ ‘‘

ان تمام  باتوں کا نتیجہ اس کے سوا کیا ہو سکتا تھا کہ لوگوں کو یقین ہو جاتا، اب حکومت نے عیسائیت کو فروغ دینے اور سابقہ مذاہب کو مٹا ڈالنے کا پختہ ارادہ کر لیا ہے۔

 

پادری فنڈر

اس ضمن میں پادری فنڈر کا ذکر ضروری ہے جو ۱۸۵۴ء میں یہاں آیا تھا اور آتے ہی اسلام پر اعتراضات کا لامتناہی سلسلہ جاری کر دیا تھا۔ اسے عربی اور فارسی سے خوب واقفیت تھی۔ اسلامی علوم کی کتابیں بھی دیکھ چکا تھا۔ سادہ لوح علماء جنہیں عیسائیت سے چنداں واقفیت نہ تھی،  فنڈر کے اعتراضات کا جواب نہیں دے سکتے تھے۔

آخر مولانا رحمت اللہ کیرانوی اور ڈاکٹر وزیر خان نے بہ مقام آگرہ فنڈر سے مناظرہ کیا۔ موضوع مناظرہ یہ تھا کہ توریت و انجیل میں تحریف ہوئی یا نہیں ہوئی۔ فنڈر نے شکست کھائی اور وہ واپس چلا گیا۔ تاہم یہ حقیقت پھر ایک مرتبہ واضح ہو گئی کہ پادریوں کو دور دراز کے سفر کر کے یہاں آنے اور لوگوں کے عقائد بگاڑنے کی کوشش کرنے کا حوصلہ کیوں ہوا؟ صرف اس لیے کہ یہاں انگریزوں کی حکومت قائم ہو چکی تھی، لہذا لوگوں کے دلوں میں یہ بات پختہ ہو گئی کہ جب تک انگریزوں کا اقتدار باقی ہے اس مصیبت سے نجات نہیں ہو سکے گی۔ انہیں یہی فیصلہ کرنا پڑا کہ جس سر چشمے سے یہ مصیبت ابل کر ملک میں پھیلی، اسے جلد سے جلد بند کر دینا چاہئے۔

اسکول اور کالج

پھر ابتدا میں مدرسوں اور کالجوں کے اندر تعلیم کا طریقہ دوسرا تھا۔ وہ تمام السنہ و علوم پڑھائے جاتے تھے، جن کا پہلے رواج تھا مثلاً عربی، فارسی، سنسکرت، فقہ، حدیث، ہندو دھرم کی کتابیں وغیرہ۔ ان کے ساتھ انگریزی بھی پڑھائی جاتی تھی۔ بعد ازاں عربی اور فارسی کی تعلیم بہت کم ہو گئی، فقہ حدیث اور دوسری مذہبی کتابیں بند کر دی گئیں، اردو اور انگریزی کا زور ہوا۔

مذہبی علوم کی تعلیم ختم ہونے پر تشویش تھی ہی، اچانک حکومت نے اشتہار دے دیا کہ جو شخص سرکاری اسکولوں اور کالجوں کا تعلیم یافتہ ہو گا یا فلاں فلاں علوم اور زبان انگریزی میں امتحان دے کر سند حاصل کرے گا، اسے دوسروں مقابلے میں ملازمت کے لیے ترجیح دی جائے گی۔

اس طرح تعلیم کے متعلق سو ءِ ظن پیدا ہوا۔ حکومت کی نیت کا سوال خارج از بحث ہے لیکن جس طریق پر پے درپے یہ سب کچھ پیش آیا، اس سے لوگوں کو یہی یقین ہو سکتا تھا کہ اب آہستہ آہستہ سب کو عیسائی بنا لیا جائے گا۔ ہم جانتے ہیں کہ اس عہد کے انگریز عموماً مذہب کے پابند نہ تھے، اس لیے ان کے طور طریقے سراسر خلاف مذہب اور خلاف اخلاق تھے، لیکن ایسے لوگوں میں یہ خواہش  ضرور ہوتی ہے کہ انہیں ہر لحاظ سے مذہب کے شیدائی سمجھائے۔ چنانچہ وہ پادریوں کی حوصلہ افزائی میں بڑے ہی سرگرم تھے اور خود بھی سب پر عیسائیت کی برتری واضح کرنے ے لیے مضطرب رہتے تھے۔ بہ حیثیت مجموعی حکومت۔ یقینی طور پر غیر جانبدارانہ تھی، جانبدار ہی تھی۔

جیل خانوں میں نئے طریقے

ابتدا میں قیدیوں کو خوراک کے لیے پیسے مل جاتے تھے اور وہ اپنی خواہش کے مطابق کھانا پکا لیتے تھے یا چند آدمی مل کر کھانے کٍا انتظام کر لیتے تھے۔ پھر اچانک حکومت کو  خیال  میں غالباًیہ بات آئی کہ اس طرح قیدیوں کا وقت ضائع ہوتا ہے اور جتنی محنت انہیں کرنی چاہئے وہ نہیں کرتے، لہذا حکم دے دیا گیا کہ سب کے لیے ایک جگہ کھانا پکے گا۔ اب سوال پیدا ہوا کہ اونچی جاتیوں کے آدمی پنچ جاتیوں کے آدمیوں کا پکایا ہوا کھانا کیوں کر کھائیں ؟ اس طریقے کو بھی مذہب میں مداخلت کا ذریعہ سمجھا گیا۔ اور یہی اثر قبول کیا گیا کہ حکومت ہندوؤں کی ذات پات کو برباد کر کے عیسائیت کے لیے راستہ ہموار کرنا چاہتی ہے۔

اسی طرح پہلے قیدی، اپنے پاس لوٹے رکھ سکتے تھے۔ پھر حکومت نے سوچا کہ پیتل اور تانبے کے یہ برتن بعض اوقات خطرناک مقاصد کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں لہذا انہیں بند کر کے مٹی کے برتن دیئے گئے، جنہیں ہندو قطعاً استعمال نہیں کر سکتے تھے، ان کی وجہ سے آرہ اور مظفر پور (بہار) میں بڑے ہنگامے بپا ہوئے۔

تبدیل مذہب اور جدی جائیداد

۱۸۵۰ ء میں ایک قانون منظور ہوا کہ جو شخص مذہب تبدیل کر لے، وہ جدی جائداد میں سے اپنا حصہ پانے کا حق دار رہے گا۔ ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں نے اس قانون کو اپنے مذاہب کے خلاف اور عیسائیت کی حوصلہ افزائی کا موجب سمجھا۔ ہندو اس وقت تک شدت سے اس امر کے پابند تھے کہ غیر مذہب کا کوئی شخص ہندو ہو ہی نہیں سکتا۔ آریا سماج جس نے ہندوؤں کے لیے بھی تبلیغ کا دروازہ کھولا، پیدا ہی نہ ہوئی تھی۔ مسلمانوں کا عقیدہ بھی یہی تھا کہ اگر غیر مذہب کا کوئی آدمی مسلمان ہو جائے تو اس کے لیے مورثوں کے مترو کے میں سے، جو پہلے مذہب پر قائم ہوں، حصہ لینا ممنوع ہے۔

دوسرے لفظوں میں اس قانون سے نہ تو ہندو فائدہ اٹھا سکتے تھے اور نہ نومسلم، صرف نو عیسائی فائدہ اٹھا سکتے تھے، لہذا سب کو یقین ہو گیا کہ یہ قانون لوگوں کو عیسائی بنانے کی سرکاری مہم کا ایک حصہ ہے۔

بیوگان کی شادی

۱۸۵۶ء میں بیوگان کی شادی کا قانون منظور ہوا۔ لاریب یہ قانون صرف ایک خوفناک مجلسی مرض کے ازالہ کی غرض سے تجویز ہوا تھا، لیکن ہندوؤں نے اسے اپنے مخصوص مراسم میں مداخلت  کا ذریعہ سمجھا اور سر سید کے قول کے مطابق وہ اسے :

باعث اپنی ہتک اور عزت اور بربادی خاندان کا جانتے تھے اور یوں بدگمانی کرتے تھے کہ یہ ایکٹ اس مراد سے جاری ہوا ہے کہ ہندو کی بیواؤں خود مختار ہو جائیں اور جو چاہیں سو کرنے لگیں۔ ‘‘

حکومت کی بے خبری

یہ بھی ایک اہم حقیقت ہے کہ حکومت اور حکام عوام کے حالات سے بالکل بے خبر اور ناواقف تھے۔ دیسی حکمرانوں کو ہر چھوٹی بڑی بات کا خود خیال رہتا تھا، اس لیے کہ وہ طبعاً تمام حالات سے آگاہ تھے۔ جانتے تھے کہ تکلیفیں کیا کیا ہیں ؟ انہیں کن کن ذرائع سے کام لے کر دور کیا جا سکتا ہے ؟ انگریز اس قسم کے احساسات  سے کاملاً بے بہرہ  تھے۔ کیوں ؟ اس لیے کہ وہ اجنبی تھے۔ انہیں صرف یہ چاہئے تھا کہ روپیہ زیادہ سے زیادہ مقدار میں ملے اور اسے انگلستان پہنچا دیں، خواہ تجارت کے ذریعے سے ملے یا  مشاہروں اور پنشنوں کے ذریعے سے یا خام مال ارزاں نرخ پر انگلستان بھیج کر وہاں کے کارخانوں میں مصنوعات تیار کر کے دس دس بیس بیس گنا قیمت لی جائے۔ سر سید نے بالکل درست لکھا ہے کہ جب تک ایک قوم دوسری قوم میں مل جل کر اور محبت و اخلاص پیدا کر کے ہم وطنوں کے طور پر نہ رہے باہم ارتباط اور اختلاط کیوں کر پیدا ہو سکتا ہے ؟ انگریز میل جول سے سخت متنفر تھے۔ لہذا ان کی اجنبیت کا احساس کیوں کر زائل ہو سکتا تھا؟

حکام کی روش

پھر انگریز اپنے آپ کو حکمران ہونے کی حیثیت میں بہت اونچے درجے کے انسان سمجھتے تھے اور عوام کے ساتھ محبت، اخلاص اور ہمدردی کا برتاؤ کرنا ان کے نزدیک آداب حکمرانی کے خلاف تھا۔ زبان اجنبی طریق بود و ماند اجنبی، لباس اجنبی، برتاؤ اجنبیوں کا سامان میں خویشی کہاں سے پیدا ہوتی؟ پھر وہ بے حد نازک مزاج تھے۔ ملنے جلنے والوں کو کوئی ایسی بات کہنے کی ہمت نہ پڑتی تھی، جو ان کے مزاج کے خلاف ہوتی۔ خوشامد کی بنا پر غلط بیانیاں کی جاتی تھیں۔ ان حالات میں انگریز حاکم حقیقی حالات سے آگاہ کیوں کر ہوتے ؟ وہ ہندوستانیوں کو بے وقعت بھی سمجھتے تھے اور ان کی عزت قطعاً نہیں کرتے تھے،  حالانکہ یہاں کے لوگ رزق سے بھی زیادہ عزت کے بھوکے تھے۔ سر سید نے بالکل بجا فرمایا کہ بے عزتی دل دکھاتی ہے، ظاہرہ نقصان پہنچائے بغیر دشمنی پیدا کرتی ہے اور اس کا زخم ایسا گہرا ہوتا ہے، جو کبھی نہیں بھرتا۔

مسلمانوں کی ذکاوت حِس

یہ طریقے اور یہ اوضاع عموماً سب کے لیے ناخوشگوار تھے، مگر مسلمانوں کو ان کی وجہ سے بہت رنج پہنچتا تھا، اس لیے کہ وہ :

صدہا سال سے ہندوستان میں با عزت چلے آتے تھے ان کی طبیعت اور جبلت میں ایک غیرت ہے۔ دل میں لالچ روپے کا بہت کم ہے۔ کسی لالچ سے عزت کا جانا نہیں چاہتے۔ بہت تجربہ ہوا  ہو گا کہ اور قوم میں جو باتیں بغیر رنج کے اٹھا لیتے ہیں، مسلمانوں کو اس سے بھی ادنی بات کا  اٹھانا نہایت مشکل ہوتا ہے۔ ہم نے مانا کہ مسلمانوں میں خصلتیں بہت بری سہی، مگر مجبوری ہے۔ خدا نے جو طبیعت بنائی ہے، وہ بدلی نہیں جاتی۔ اس میں مسلمانوں کی بدبختی سہی مگر کوئی قصور نہیں۔

حکومت  بنگال کا اشتہار

ان میں سے بعض باتیں عوام میں خاص ناراضی کا باعث بنی تھیں، اس لیے حکومت بنگال کو فارسی زبان میں ایک اشتہار شائع کرنا پڑا اور اس زمانے میں زیادہ تر فارسی زبان ہی استعمال کی جاتی تھی۔ اس اشتہار میں چار باتوں کا ذکر تھا۔ ان کے باب میں حکومت کی تصریحات خلاصتہً درج کی جاتی ہیں :

 ۱۔ پادریوں نے جو رسالے چھاپے یا جو خط بھیجے، سمجھ لیا گیا وہ سب کچھ حکومت کے ایما سے ہوا، حالانکہ حکومت کو اس بارے میں کوئی اطلاع و آگاہی نہیں اور وہ کسی شخص کو کسی مذہب کی طرف ترغیب دینے کی روداد نہیں ہو سکتی۔

۲۔ مشہور ہے کہ حکومت تغزیہ داری، ختنہ اور پردے کو موقوف کرنا چاہتی ہے اور شرع و شاستر کے قوانین موقوف کر دینے کی خواہاں ہے۔ یہ محض افترا ہے۔

۳۔ بعض جیل خانوں کے سپرنٹنڈنٹوں نے حکومت کی اطلاع و آگاہی کے بغیر قیدیوں سے کھانے پینے کے برتن لے لیے۔ جب حکومت کو معلوم ہوا کہ اس طرح قیدیوں کے مذہب کو نقصان پہنچے گا تو فوراً تار کے ذریعے سے یہ حکم موقوف کر دیاگیا۔

۴۔ اسکولوں کے قیام اور زبان انگریزی کی تعلیم کو دین و مذہب کی تخریب سے کوئی علاقہ نہیں۔ اس کا مدعا محض یہ ہے کہ لوگ تعلیم حاصل کریں، ان کی  معاشی حالت بہتر ہو اور ترقی پائیں۔

اس اشتہار سے بھی ظاہر ہے کہ کس طرح مختلف لوگ گوناگوں پریشانیوں میں مبتلا ہو گئے تھے۔ غور سے دیکھا جائے تو یہ سب کچھ انگریزوں کی اپنی روش کا طبعی نتیجہ تھا۔

انگریز اور افلاس ملک

پھر انگریزوں کی وجہ سے ملک میں افلاس بڑھا۔ سر سید فرماتے ہیں :

جب افغانستان سرکار نے فتح کیا۔ لوگوں کو بڑا غم ہوا۔ جب گوالیار فتح ہوا۔ پنجاب فتح ہوا، اودھ لیا گیا، لوگوں کو کمال رنج ہوا۔ کیوں ہوا؟ اس لیے کہ ان کے پاس کی ہندوستانی عملداریوں سے ہندوستانیوں کو بہت آسودگی تھی۔ نوکریاں اکثر ہاتھ آتی تھیں۔ ہر قسم کی ہندوستانی اشیاء کی تجارت بہ کثرت تھی۔ ان عملداریوں کے خراب ہونے سے زیادہ افلاس و محتاجی ہوتی تھی۔

یہ ان اسباب کی سرسری کیفیت ہے، جن سے عوام میں رنج و  ناراضی بڑھی۔ بنیادی سبب وہی تھا، جس کا ذکر ہم نے پہلے کرچکے ہیں، یعنی اجنبیوں کی غلامی۔ باقی تمام اسباب اس میں اضافے کا موجب بنتے رہے یا کہہ لیجئے کہ وہ انگریزوں کی اجنبیت کو تازہ رکھنے اور اسے زیادہ سے زیادہ رنج افزا بنانے کا باعث ہوئے۔ ان عوام میں فوجی بھی بہ طور افراد شریک تھے۔

ڈاکٹر سین کا بیان

آخر میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر سین نے اپنی کتاب میں جو کچھ بیان کیا ہے اسے بھی اجمالاً یہاں پیش کر دیا جائے، جو بڑی حد تک مذکورہ بالا بیانات کا مصدق ہے۔

۱۔ چربی والے کارتوس

۲۔ سپاہیوں میں ان کارتوسوں کے علاوہ بھی بے چینی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ ہم نے انگریزوں کے لیے ملکوں پر ملک فتح کیے۔ پورا ہندوستان ان کے قبضے میں دے دیا۔ نتیجہ کیا نکلا؟ ہمارے عوام کو لوٹا گیا، ہمارے حکمرانوں اور امیروں کے درمیان گرا دیئے گئے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمارے مذہب پر ناقابل تصور حملے شروع ہو گئے۔

۳۔ مالیے میں اضافہ، دوسو کی جگہ تین سو چار سو کی جگہ پانچ سو۔

۴۔ چوکیدارہ دگنا، تگنا بلکہ دس گنا

۵۔ معززین اور اہل علم کے وسائل روزگار ختم ہو گئے۔ لاکھوں ضروریات زندگی سے محروم ہوئے۔

۶۔ جب کوئی شخص روزگار کی تلاش میں ایک ضلع سے دوسرے ضلع میں جاتا تھا تو اس سے دو پیسے فی کس سڑک کا ٹیکس لیا جاتا تھا اور ہر چھکڑا چار آنے سے آٹھ آنے تک دینے کے لیے مجبور ہوتا تھا۔ ٹیکس ادا کرنے والے ہی سڑک پر جٍا  آ سکتے تھے۔

۷۔ انگریزوں کے دل میں یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ وہ نسلی اور ثقافتی اعتبار سے بلند ہیں۔ مغرب نے تہذیب میں اونچا درجہ حاصل کر لیا ہے اور مشرق پس ماندہ رہ گیا ہے۔

۸۔ انگریز اصلاح کے جوش میں عوام کے جذبات سے بے پروائی برت رہے تھے۔

۹۔ سپاہیوں کے مذہبی جذبات انگریزوں کے نزدیک قطعاً مستحق توجہ نہیں تھے جیسا کہ ویلور اور جنگ برما والے واقعات سے ظاہر ہے۔

۱۰۔ ستی کو منسوخ کر دیا گیا۔ یہ مذہب میں مداخلت تھی۔

۱۱۔ بیرونی ملکوں میں سپاہیوں کو بھیجا جاتا تھا تو ذات پات کا مسئلہ پیدا ہو جاتا تھا۔  ایک ہندو سپاہی کابل میں قید ہو گیا۔ وہ پانسو روپئے دینے کے وعدے پر رہا ہوا۔ فیروز پور پہنچا تو اسے صرف نصف رقم دی گئی۔ نصف اس کے ایک دوست نے ادا کی۔

۱۲۔ پادریوں کی تبلیغی سرگرمیاں۔

۱۳۔ مدراس میں مسیحیت کی تبلیغ اور جیلوں میں عام تعلیم کے علاوہ مسیحیت کی تعلیم۔

۱۴۔  ریل کے ڈبوں میں ذات پات کی حفاظت کا کچھ انتظام نہ تھا۔

۱۵۔ ہندو بیوہ عورتوں کی شادی کا مسئلہ

۱۶۔ تبدیل مذہب کے سلسلہ میں میراث کے حقوق کی حفاظت کا مسئلہ۔ اس قانون سے صرف عیسائیت ہونے والے فائدہ اٹھا سکتے تھے۔ مسلمان ہونے والے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے تھے۔ اس لیے کہ مسلمان غیر مسلم کی میراث سے حصہ لے ہی نہیں سکتا تھا اور ہندو دھرم میں تبلیغ تھی ہی نہیں کہ ہندو اس سے مستفید ہو سکتے۔

۱۷۔ فوجیوں کے لیے بھتہ۔ پہلی جنگ افغانستان میں جنرل پولک لے دریائے سندھ کو عبور کرتے ہی بھتہ دیا۔ اس کے بعد بار بار مزاحمت۔

۱۸۔ سپاہیوں کو بدل بدل کر دور دور بھیجا جانے لگا۔ ان کی تنخواہ اتنی نہ تھی کہ بال بچوں کو ساتھ لے لیتے یا دو جگہ خرچ لاتے۔

۱۹۔ پے درپے وعدہ شکنیاں۔ مثلاً مدراس کے گورنر نے وہاں کی فوج بمبئی بھیجی تو وعدہ کیا کہ فوجیوں کو وہ تمام فوائد حاصل ہونگے جو برما جاتے وقت ہوتے تھے لیکن وہ لوگ بمبئی  پہنچے تو معلوم ہوا گورنر جنرل نے مدارس کے گورنر کا وعدہ رد کر دیا گیا۔ بالکل یہی صورت حال جنرل چارلس پینئر کے وعدہ کے سلسلے میں ڈلہوزی نے پیدا کی۔ جس پرنپیئر کو استعفیٰ دینا پڑا۔

سپاہ کا خرچ

یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ۱۸۵۷ء میں سپاہ کی کل تعداد تین لاکھ پندرہ ہزار اور پانسو بیس تھی اور اس پر اٹھانوے لاکھ دو ہزار دو سو پینتیس پونڈ خرچ ہوتے تھے۔

گویا یوروپینوں  یعنی فرنگیوں کا خرچ فی کس بہ طور اوسط ۴ء۱۱۰ پونڈ اور دیسیوں کافی کس ۶ء۱۳  پونڈ بنتا تھا۔ مانا کہ فرنگی حکمران تھے۔ یہ بھی مانا کہ ان کا معیار قدرے بلند تھا، لیکن کیا بارہ اور ایک سو دس کی نسبت کسی بھی نقطہ نگاہ سے قابل اطمینان سمجھی جا سکتی ہے ؟

٭٭٭

 

               شہر دہلی کا ذرہ ذرہ خاک     تشنہ خوں ہے ہر مسلمان کا

1857 ء کی خونچکاں داستاں غالب کے مکاتیب کی روشنی میں

سرزمین  ہند و پاک میں انگریزوں کی حکمرانی کا سنگ بنیاد پلاسی کے میدان میں رکھا گیا۔ بعد ازاں قریباً نوے برس میں یہ اجنبی حکومت پورے ملک پر مسلط ہو گئی اور مزید سو برس تک عنان فرمانروائی اسی کے ہاتھ میں رہی۔ اس عہد کا ایک نہایت اہم واقعہ 1857 ء کا وہ ہنگامۂ خونین تھا جسے اہل وطن ابتدا ہی سے جنگ آزادی قرار دیتے رہے۔ لیکن خود انگریزوں نے اسے ‘‘غدر‘‘ کا نام دیا۔ یہی نام مدت تک تاریخ کی درسی کتابوں میں استعمال ہوتا رہا۔

مرزا غالب نے اپنی فارسی اور اردو تصانیف نظم و نثر میں اس واقعے پر جو کچھ لکھا اگر اسے الگ کتاب کی شکل میں مرتب کیا جائے تو یقین ہے کہ ایک ضخیم جلد تیار ہو جائے۔ فارسی نثر کی ایک کتاب جس کا نام ‘‘دستنبو‘‘ ہے صرف اسی واقعہ سے متعلق ہے۔ لیکن میں آج جو نقشہ آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں، وہ محض مرزا کے مکاتیب سے جستہ جستہ اقتباسات لے کر تیار کیا ہے۔

تمہید کے طور پر عرض کر دینا چاہئے کہ اس ہنگامے کا آغاز 11/ مئی 1857 ء کو پیر کے دن ہوا تھا۔ چار  مہینے اور چار دن انگریز شہر سے بے دخل رہے۔ 14/ ستمبر 1857ء کو وہ دوبارہ دہلی میں داخل ہوئے۔ 18/ ستمبر کو شہر مکمل طور پر ان کے قبضے میں آ گیا۔ مرزا اس پوری مدت میں ایک دن کے لیے بھی باہر نہ نکلے۔ ان کا مکان بلی ماراں میں تھا جہاں شریک خانی حکیموں کے مکانات تھے۔ اس خاندان کے بعض افراد سرکار پٹیالہ میں ملازم تھے۔ جب انگریزی فوج دوبارہ دہلی میں داخل ہوئی تو اہل شہر گھر بار چھوڑ کر دہلی دروازے ترکمان دروازے اور اجمیری دروازے سے باہر نکل گئے۔ بلی ماراں کے دروازے پر والیٔ پٹیالہ نے شریف خانی خاندان کی حفاظت کے لیے اپنا پہرہ بٹھا دیا تھا۔ اس طرح مرزا کی حفاظت کا بھی بندوبست ہو گیا اور انہیں گھر بار چھوڑ کر باہر نہ نکلنا پڑا۔

مرزا کے مکاتیب میں اس واقعے کے متعلق سب سے پہلی تحریر نومبر 1857 ء کی ہے جب کہ انگریز شہر پر قابض ہو چکے تھے۔ حکیم غلام نجف کو لکھتے ہیں :

‘‘میاں حقیقت حال اس سے زیادہ نہیں کہ اب تک جیتا ہوں۔ بھاگ نہیں گیا۔ نکالا نہیں گیا۔ کسی محکمے میں اب تک بلایا نہیں گیا۔ معرض باز پرس میں نہیں آیا۔ آئندہ دیکھئے کیا ہوتا ہے۔ ‘‘

پھر 9/ جنوری 1857ء کو تحریر فرماتے ہیں :

‘‘جو دم ہے غنیمت ہے۔ اس وقت تک مع عیال و اطفال جیتا ہوں۔ بعد گھڑی بھر کے کیا ہو کچھ معلوم نہیں۔ قلم ہاتھ میں لیئے بہت کچھ لکھنے کو جی چاہتا ہے۔ مگر لکھ نہیں سکتا۔ اگر مل بیٹھنا قسمت میں ہے تو کہہ لیں گے ورنہ انا لللہ وانا الیہ راجعون۔ ‘‘

یہ اگرچہ چند فقرے ہیں جن میں کچھ نہیں لکھا گیا۔ لیکن لفظ لفظ بتا رہا ہے کہ اس وقت حالات کتنے نازک تھے اور بے یقینی کس پیمانہ پر پہنچی ہوئی تھی۔

یہ ہنگامہ درحقیقت ایک خوفناک زلزلہ تھا جس نے سب کچھ تہہ و بالا کر ڈالا۔ جس ماحول میں مرزا نے اپنی زندگی کے ساٹھ برس گزارے تھے اس کی بساط لپیٹی جاچکی تھی اور اس کی جگہ بالکل نیا ماحول پیدا ہو گیا تھا۔ مرزا کے دل پر اس وسیع اور ہمہ گیر انقلاب کا اتنا گہرا اثر تھا کہ وہ 1857ء کے پیشتر کے  دور اور بعد دور کو دو الگ الگ عالم سمجھنے لگے تھے۔ یا کہنا چاہئے کہ ہندوؤں کے طریق تعبیر کے مطابق ان کے نزدیک ایک جنم ختم ہو گیا تھا، اور دوسرا جنم وجود میں آ گیا تھا۔ اپنے عزیز ہندو شاگرد ہر گوپال تفتہ کو تحریر فرماتے ہیں :

‘‘صاحب۔ تم جانتے ہو کہ یہ کیا معاملہ ہے اور کیا واقعہ ہوا۔ وہ ایک جنم تھا  جس میں ہم تم باہم دوست تھے، اور طرح طرح کے ہم میں تم میں معاملات مہر و محبت در پیش آئے۔ شعر کہے۔ دیوان لکھے اس زمانے میں ایک بزرگ تھے اور ہمارے تمہارے دلی دوست تھے۔ منشی نبی بخش ان کا نام اور حقیر ان کا تخلص۔ نہ وہ زمانہ رہا نہ وہ اشخاص۔ نہ وہ معاملات نہ وہ اختلاط نہ و انبساط۔ بعد چند مدت کے پھر دوسرا جنم ہم کو ملا۔ اگرچہ صورت اس جنم کی بعینہ مثل پہلے جنم کے ہے۔ یعنی ایک خط میں نے منشی صاحب کو بھیجا۔ اس کا جواب آیا۔ ایک خط تمہارا کہ تم بھی موسوم یہ منشی ہر گوپال و متخلص بہ تفتہ ہو، آیا اور میں جس شہر میں رہتا ہوں اس کا نام دلی اور اس محلے کا نام بلی ماراں کا محلہ۔ لیکن ایک دوست اس جنم کے دوستوں سے نہیں پایا جاتا۔ ‘‘

میں عرض کر چکا ہوں کہ انگریزی فوج کے داخلے کے ساتھ ہی اہل شہر باہر نکل گئے تھے۔ اور پورا شہر بے چراغ ہو چکا تھا۔ انگریزوں نے اس کے بعد عام داروگیر کا سلسلہ شروع کر دیا۔ مرزا فرماتے ہیں : ‘‘مبالغہ نہ جاننا امیر غریب سب نکل گئے جو رہ گئے وہ نکالے گئے۔ جاگیردار پنشن دار، دولت مند، اہل حرفہ کوئی بھی نہیں۔ مفصل لکھتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ ملازمان قلعہ پر شدت ہے۔ باز پرس اور دارو لیر میں مبتلا ہیں۔ ‘‘

‘‘اپنے مکان میں بیٹھا ہوں۔ دروازے سے باہر نہیں نکل سکتا۔ سوار ہونا اور کہیں جانا تو بڑی بات ہے۔ رہا یہ کہ کوئی میرے پاس آوے۔ شہر میں ہے کون جو آوے ؟ گھر کے گھر بے چراغ پڑے ہیں۔ مجرم سیاست پائے جاتے ہیں۔ جرنیلی بندوبست (یعنی مارشل لا) یاز دہم مئی سے  آج تک یعنی پنجشنبہ پنجم دسمبر 1857ء تک بدستور ہے۔ کچھ نیک و بد کا حال مجھ کو نہیں معلوم۔ ‘‘

مرزا کے ایک شاگرد، منشی شیو نارائن  آرامؔ نے آگرے سے ایک اخبار نکالا تھا۔ مرزا سے استدعا کی کہ اس کے لیے خریدار بہم پہنچائیے۔ جواب میں فرماتے ہیں :

‘‘یہاں آدمی کہاں ہیں کہ اخبار کے خریدار ہوں۔ مہاجن لوگ جو یہاں بستے ہیں وہ یہ ڈھونڈتے پھرتے ہیں کہ گیہوں کہاں سستے ہیں۔ بہت سخی ہو گئے تو جنس پوری دے دیں گے۔ کاغذ (یعنی اخبار) روپیہ مہینے کا کیوں مول لیں گے۔ ‘‘

میر مہدی مجروح نے اسی زمانے میں ایک غزل بھیجی اس کے مقطع کا آخری مصرع یہ تھا:

‘‘میاں یہ اہل دہلی کی زبان ہے ‘‘

اس مصرع نے مرزا کے ساز درد کا ہر تار ہلا دیا۔ فرماتے ہیں :

‘‘اے میر مہدی۔ تجھے شرم نہیں آتی ‘‘میاں یہ اہل دہلی کی زبان ہے۔ ‘‘

‘‘اے، اب اہل دہلی ہند ہیں یا اہل حرفہ ہیں۔ خاکی ہیں یا پنجابی ہیں یا گورے ہیں ان میں سے تو کسی کی تعریف کرتا ہے۔ ۔ ۔  اے  بندۂ خدا اردو  بازار نہ رہا۔ اردو کہاں ؟ دلی کہاں واللہ اب شہر نہیں ہے۔ کیمپ ہے۔ چھاؤنی ہے نہ قلعہ نہ شہر نہ بازار نہ نہر۔ ‘‘

نواب علاؤ الدین خان کو لکھتے ہیں :

‘‘میری جان۔ یہ وہ دلی نہیں جس میں تم پیدا ہوئے۔ ۔ ۔  ایک کیمپ ہے۔ مسلمان اہل حرفہ یا حکام کے شاگرد پیشہ، باقہ سراسر ہنود۔ ‘‘

جنگ آزادی میں اگرچہ ہندوؤں اور مسلمانوں نے یکساں حصہ لیا تھا لیکن انگریزوں کی نظروں میں اصل مجرم صرف مسلمان تھے۔ چنانچہ وہی زیادہ تر دارو گیر کے ہدف بنے۔ انہیں کو بالعموم پھانسیاں ملیں۔ انہیں کی جائیدادیں ضبط ہوئیں۔ شہر سے باہر نکلنے میں بھی ہندو اور مسلمان برابر تھے۔ لیکن ہندوؤں کو بہت جلد گھروں میں آباد ہونے کی اجازت مل گئی۔ مسلمان بدستور باہر پڑے رہے۔ یا جن کو کسی دوسرے شہر میں ٹھکانا نظر آیا، وہاں چلے گئے۔ مرزا لکھتے ہیں :

‘‘واللہ ڈھونڈھے کو مسلمان اس شہر میں نہیں ملتا۔ کیا امیر، کیا غریب کیا اہل حرفہ، اگر کچھ ہیں تو باہر  کے ہیں۔ ہندو البتہ کچھ کچھ آباد ہو گئے ہیں۔

ایک اور خط میں لکھتے ہیں۔

‘‘ابھی دیکھا چاہئے مسلمانوں کی آبادی کا حکم ہوتا ہے یا نہیں۔ ‘‘

مدت تک مسلمانوں کو شہر میں آباد ہونے کا حکم نہ ملا۔ تو ان میں سے بعض نے شہر کے باہر ہی جگہ جگہ عارضی مکان بنانے شروع کر دیئے۔ اس پر حکم ہوا کہ سب مکان ڈھا دیئے جائیں اور اعلان کر دیا جائے کہ آئندہ کوئی مکان نہ بنائے۔ مرزا لکھتے ہیں :

‘‘کل سے یہ حکم نکلا ہے کہ یہ لوگ شہر سے باہر مکان و کان کیوں بناتے ہیں۔ جو مکان بن چکے ہیں انہیں گروا دو۔ آئندہ کو ممانعت کا حکم سنا دو۔ آج تک یہ صورت ہے  دیکھیئے۔ شہر کے بسنے کی کونسی مہورت ہے۔ جو رہتے ہیں وہ بھی خارج کئے جاتے ہیں یا جو باہر پڑے ہیں وہ شہر میں آتے ہیں۔ الملک لللہ والحکم لللہ۔ ‘‘

قلعۂ نامبارک سے قطع نظر کر کے اہل شہر کو گنتا ہوں۔ مظفر الدولہ، میر ناصر الدین، مرزا عاشور بیگ، میرا بھانجا، اس کا بیٹا احمد مرزا، انیس بیس برس کا بچہ، مصطفیٰ خان ابن اعظم الدولہ اس کے دو بیٹے  ارتضیٰ خان اور مرتضیٰ خان، قاضی فیض اللہ۔ کیا میں ان کو اپنے عزیزوں کے برابر نہیں جانتا تھا؟ اے لو بھول گیا حکیم رضی الدین خان، میر احمد حسین میکش، اللہ اللہ۔ ان  کو کہاں سے لاؤں۔ غم فراق: حسین مرزا یوسف مرزا میر سرفراز حسین میرن صاحب خدا ان کو جیتا رکھے۔ کاش یہ ہوتا کہ جہاں ہوتے خوش ہوتے۔ گھر ان کے بے چراغ وہ خود آوارہ۔ سجاد اور اکبر کے حال کا جب تصور کرتا ہوں، کلیجہ ٹکڑے ٹکڑے  ہوتا ہے۔ ان اموات کے غم اور زندوں کے فراق میں عالم میری نظر میں تیرہ ہوتا ہے۔ یہاں اغنیا و امرا کے اولاد و ازدواج بھیک  مانگتے پھریں اور میں دیکھوں۔ ‘‘

مرزا کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ وہ واقعہ پیش آ جاتا تو ان کے دل میں جنگ آزادی کے بعد کا دورہ مصائب تازہ ہو جاتا۔ ان کے شاگرد مرزا تفتہ نے اپنی کتاب ‘‘سنبلستان‘‘ چھپوائی۔ اس کی لکھائی چھپائی اچھی نہ تھی۔ مرزا نے اس واقعے کو بیگمات قلعہ کی مصیبتوں اور، بدحالیوں پر آنسو بہانے کا بہانہ بنا لیا۔ فرماتے ہیں :

‘‘اجی مرزا تفتہ تم نے اپنا روپیہ بھی کھویا اور اپنی فکر کو اور میری اصلاح کو بھی ڈبویا۔ ہائے کیا بری کاپی ہے۔ اس کاپی کی مثال جب تم پہ کھلتی کہ تم یہاں ہوتے اور بیگمات قلعہ کو پھرتے چلتے دیکھتے۔ صورت ماہ دو ہفتہ کی سی اور کپڑے م یلے پائنچے لیر لیر۔ جوتی ٹوٹی۔ یہ مبالغہ نہیں۔ ‘‘ اس وقت کے انگریزوں کی دماغی حالت کٍا اندازہ صرف اس واقعہ سے ہو سکے گا کہ انہوں نے جامع مسجد کو اپنے قبضہ میں لے لیا تھا۔ اور اس کے دروازوں پر ایک سکھ بٹالین کا پہرہ بٹھا دیا تھا۔ ایک مرتبہ یہ تجویز  بھی  پیش ہوئی تھی کہ اسے گرجا بنا لیا جائے۔ جنگ آزادی سے قریباً پانچ برس بعد مسجد واگزار ہوئی۔

مرزا نے ایک عجیب عبرت افزا واقعہ لکھا ہے۔ جن مسلمانوں کی جائیدادیں ضبط ہوئی تھیں ان میں ایک حافظ محمد بخش تھے جن کا عرف ‘‘مموں ‘‘ تھا۔ بعد میں وہ بے قصور ثابت ہوئے اور جائیداد کی بحالی کا حکم مل گیا۔ انہوں نے کچہری میں درخواست دی کہ میری جائیداد پر قبضہ دلایا جائے۔ انگریز حاکم نے نام پوچھا۔ عرض کیا محمد بخش۔ چونکہ درخواست میں عرف بھی درج تھا اس لیے حاکم پوچھا ‘‘مموں ‘‘ کون ہے ؟ عرض کیا  کہ نام میرا محمد بخش ہے۔ لوگ مجھے ‘‘مموں،مموں ‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ صاحب نے سن کر فرمایا:

‘‘یہ کچھ بات نہیں۔ حافظ محمد بخش بھی تم۔ حافظ مموں بھی تم۔ سارا جہاں بھی تم جو دنیا میں ہے وہ بھی تم۔ ہم مکان کس کو دیں ؟ مسل داخل دفتر ہوئی۔ میاں اپنے گھر چلے آئے۔ ‘‘

آخر میں جنگ کے متعلق مرزا کا ایک قطعہ لکھتا ہوں جو انہوں نے اپنے ایک دوست کو خط ہی میں لکھا تھا۔ یہ ان کے مکاتیب میں چھپ گیا اور دیوان میں شامل نہ ہو سکا:

بسکہ فعال ما یزید ہے آج

ہر سلح شور انگلستان کا

گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے

زہرہ ہوتا ہے آب انساں کا

چوک جس کو کہیں وہ مقتل ہے

گھر نمونہ بنا ہے زنداں کا

شہر دہلی کا ذرہ ذرۂ خاک

تشنہ خون ہے ہر مسلماں کا

کوئی واں سے نہ آ سکے یاں تک

 آدمی واں نہ جا سکے یاں کا

میں نے مانا کہ مل گئے پھر کیا

وہی رونا تن و دل و جاں کا

گاہ جل کر کیا کئے شکوہ

سوزش داغ ہائے پنہاں کا

گاہ روکر کہا کئے باہم

ماجرا دیدہ ہائے گریاں کا

اس طرح کے وصال سے یا رب

کیا مٹے دل سے داغ ہجراں کا

 

               ہارون خان شروانی

جنگِ آزادیِ ہند ۱۸۵۷ء  کے متعلق ایک اہم دستاویز

حقیقت یہ ہے کہ اس جنگ کی  تاریخ پر انگریزی حکومت نے کچھ ایسا پردہ ڈالا کہ اس کی صورت مسخ ہو کر رہ گئی، اور جو سختیاں اور مظالم اس زمانے کے حکام نے نہتے ہندوستانیوں پر کئے ان کی وجہ سے وہ کچھ ایسے مرعوب ہو کر رہ گئے کہ ان کے خلاف آواز بلند کرنا تو کیا ان کا ذکر کرنا بھی ناممکن ہو گیا۔ یہ مرعوبیت فطری تھی۔ اتر بھارت کا کون سا ایسا شہر یا قصبہ ہو گا۔ جہاں جگہ جگہ نیم اور پیپل کے درختوں پر پھانسیاں نہ لٹکا دی گئی ہوں اور جہاں محض شبہ پر یا جھوٹے سچے لزام پر لوگوں کو موت کے گھاٹ نہ اتارا گیا ہو۔ بعض قصبوں  میں تو اس وقت تک وہ درخت دکھائے جاتے ہیں جہاں لوگوں کو  پھانسیاں دی گئی تھیں۔ دہلی میں وہ خونی دروازہ جواب تک اسی نام سے موسوم ہے آج بھی اس سانحے کی یاد تازہ کرتا ہے۔ جب ہوڈسن نے تیموری سلطنت کے ولی عہد مرزا مغل بیگ اور   ان کے دو بھائیوں کو محض شبہ پر یکے بعد دیگرے گولی کا نشانہ بنایا اور ان کے کٹے ہوئے سروں کو ایک خوان میں خوان پوش سے ڈھک کر اکبر اور عالمگیر کے جانشین بوڑھے، بہادر شاہ، کے سامنے بطور تحفہ بھجوایا، اور چند روز بعد حکومت نے خود اس پیر مرد کو رنگون جلاوطن کر دیا جہاں وہ نہایت غربت اور افلاس کی حالت  میں وفات پا گئے۔

یہ وہ فضا تھی جو نام نہاد غدر کے بعد پورے ملک پر چھائی ہوئی تھی۔ ملک کے ایسے صوبوں اور ریاستوں میں جہاں کی فوج نے بغاوت نہیں کی تھی۔ جیسے جنوبی ہند، وہاں بھی سرکشی اور بغاوت  نہیں کی تھی۔ جیسے جنوبی ہند، وہاں بھی سرکشی اور بغاوت کے آثار نہایت تندہی اور توانائی کے ساتھ پیدا ہو گئے تھے۔  ایک سماج، ایک معاشرہ، ختم ہو رہا تھا تو دوسرا اپنے لیے توپ و تفنگ کے زور سے جگہ پیدا کر رہا تھا اور موجودہ سماج ہر جگہ اس کا مقابلہ کر رہا تھا۔ بہت سے ایسے با ثروت لوگ تھے جنہوں نے بغاوت فرو ہونے کے بعد ایک غیر قوم کے ماتحت رہنا پسند نہیں کیا اور اپنے گھروں کو خیر باد کہہ گئے۔ انگریزوں نے ہندوستان کی حکومت تیموری خاندان کے ایک فرمانروا سے چھینی تھی جس کے باؤٹے کے نیچے کیا ہندو کیا مسلمان سب جمع ہو گئے تھے۔ مگر اس کا مذہب اسلام تھا، اور انگریزوں کے دماغوں میں مسلمانوں کے خلاف خاص طور پر کچھ ایسا زہر بھر گیا تھا ہ ہر کلمہ گو کہ مشتبہ نظروں سے دیکھا جاتا تھا اور ذرا سی بات اس کی گردن میں پھانسی کا پھندا ڈال دیا جاتا تھا۔ ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ کسی عیسائی کو نصاریٰ کہنے پر یا کسی کے یہاں سے کوئی بندوق یا تفنگچہ نکلنے پر پھانسی کی سزا ملی ہو۔

علی گڑھ تحریک کے بانی سید احمد خان نے اسی فضا میں رسالۂ اسباب بغاوت ہند، لکھا۔ ملک پر انگریزوں  کا دوبارہ تسلط ہو گیا تھا اور وہ دل کھول کر ہر کس و ناکس سے پچھلے واقعات کا بدلہ لے رہے تھے۔ ان کے خلاف یا ان کی کسی پالیسی کی تنقید میں ایک لفظ بھی منہ سے یا قلم سے نکالنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ جب سید احمد خان نے یہ کتاب اپنے دوستوں کو دکھائی تو ان میں سے بعض نے (جن میں سے ایک رام چند منصف مرادآباد بھی تھے) ان سے کہا کہ تم آگ سے کھیل رہے ہو اور مناسب ہے کہ اسے چھپوانے کے خیال سے باز آؤ۔ مگر سید نے ایک نہ مان۔ اور اس کا ایک نسخہ لارڈ کیننگ گورنر جنرل ہند کو اور ایک نسخہ پارلیمنٹ کے ممبروں کے پاس بھیج دیا۔ گو اس کی اشاعت محض خانگی تھی اور انگریزی میں اس کا ترجمہ ۱۸۷۳ء سے پہلے نہیں کیا گیا۔ تاہم سرکاری حلقوں میں اس کی بڑی شہرت ہوئی اور وائسرائے کی کونسل کے ممبر سرسیل بیڈن (Sir Cecil Beadon)نے کونسل میں ایک زبردست تقریر کی جس میں انہوں نے کہا کہ سید سے اس کتاب کے متعلق حکومت  با ضابطہ باز پرس کرے اور اگر انہیں خاطی قرار دیا جائے تو انہیں کیفر کردار کو پہنچایا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر خود وائسرائے نے سید احمد خان کو حق پسندی کی تائید نہ کی ہوتی تو ممکن ہے کہ سید احمد خان سخت سے سخت سزا کے مستوجب قرار دیئے جاتے۔

رسالہ ‘‘ اسباب بغاوت ہند‘‘ کیا ہے۔،برطانوی حکومت کی پالیسی پر ایک عام تبصرہ اور نکتہ چینی۔ اس میں ان الزاموں کا ضرور بطور خاص جواب دیا گیا ہے جو انگلستان کے اخبار اور انگریزی پبلک ہندی مسلمانوں پر لگا رہی تھی۔ لیکن جو جذبہ پورے رسالے میں کار فرما ہے وہ یہ ہے کہ  تاوقتیکہ کوئی ایسا طریقہ نہ نکلے کہ ہندوستانیوں کے حقیقی خیالات و جذبات سرکار کے کانوں تک پہنچیں اس وقت تک ملک کے سوچنے سمجھنے والے طبقے میں لازماً بے چینی پیدا ہو گی اور اس کی آگ ضرور بھڑک اٹھے گی۔

اس وقت تک ۱۸۵۷ء کی عظیم الشان اور ہمہ گیر تحریک کے لیے غدر کا نام اختراع نہیں کیا گیا تھا بلکہ جو لوگ اس بھونچال میں ہو کر گزرے تھے وہ اسے سرکشی یا بغاوت ہی کہتے تھے۔ وہ زمانہ نہیں آیا تھا کہ اس تحریک کو محض چند فوجیوں کے غدر پر محمول کیا جائے۔ سید احمد خاں پہلے تو یہ دریافت کرتے ہیں کہ سرکشی یا بغاوت کیا ہے اور پھر خود ہی جواب دیتے ہیں کہ اس سے مراد گورنمنٹ کا مقابلہ کرنا یا مخالفوں کے شریک ہونا، یا مخالفانہ ادارے سے حم نہ ماننا اور نہ بجا لانا یا نڈر ہو کر حکومت کے حقوق اور حدود کو توڑنا اس کے بعد وہ سرکشی کی شکل بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘‘عام سرکشی کا باعث کوئی ایسی عام بات ہو سکتی ہے کہ جو سب کی طبیعتوں کے مخالف ہو یا متعدد باتیں ہوں یا کسی نے کسی گروہ کی طبیعت کو پھیر دیا ہو اور پھر رفتہ رفتہ سرکشی عام ہو گئی ہو۔ ‘‘

جن واقعات کی ۱۰/ مئی ۱۸۵۷ ء سے ابتداء ہوئی ان کے اسباب کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ‘‘بلاشبہ (انگریزی) پارلیمنٹ میں ہندوستانی کی مداخلت غیر ممکن اور بے فائدہ محض تھی۔ مگر لیجسلیٹیو کونسل میں مداخلت نہ رکھنے کی کوئی وجہ نہ تھی۔ یہی ایک بات ہے جو جڑ ہے تمام ہندوستان کے فساد کی اور جتنی باتیں جمع ہوتی گئیں وہ سب اس کی شاخیں ہیں۔ وہ اپنے مخصوص انداز میں ۱۸۵۸ء کی رائج الوقت زبان میں لکھتے ہیں کہ ‘‘واسطے اسلوبی اور خوبی اور پائیداری گورنمنٹ کے مداخلت رعایا کی ملک میں واجبات سے ہے۔ علی الخصوص ہماری حکومت کو جو غیر ملک کی رہنے والی تھی اور مذہب اور رواج اور راہ و رسم اس ملک سے متخلف تھے۔ ‘‘

آج کے زمانے میں جب سیاسیات کا علم نہایت تیزی سے ہمارے ملک میں پھیل رہا ہے اور اعلیٰ و ادنیٰ نسب دو عظیم الشان انتخابوں سے دوچار ہو چکے ہیں اور جب خود ہماری سرکار کی پالیسی یہ ہے کہ ملک کی بہبود عام رائے کی مطابقت ہی میں مضمر ہے، ہمیں ان خیالات سے کچھ زیادہ اچنبھا نہیں ہوتا۔ مگر ہم اپنے آپ کو ۱۸۷۵ء کی فضاء میں لے جائیں اور سوچیں کہ یہ اور اس طرح کی بیسیوں باتیں ایک ایسے سرکاری ملازم کے قلم سے نکلی ہیں جو انگریزی زان سے بالکل نابلد ہے اور جس کے ہم مذہبوں سے اس زمانے کی بدیشی حکومت انتہا سے زیادہ بدظن ہے تو ہمیں اس چالیس سالہ ادھیڑ شخص کی فراست اور دور اندیشی کا اندازہ ہو گا۔ سید احمد خان نے حکومت کی گویا دکھتی رگ پکڑ لی تھی اور اس ملک میں پہلی مرتبہ یہ اصول پیش کیا تھا کہ اگر ملک پر حکومت کرنا ہے تو سرکار کو لازم ہے کہ رعایا کے قائم مقاموں کو حکومتی کونسل میں جگہ دے۔ یہ محض اتفاقی واقعہ نہیں کہ رعایا کے قائم مقاموں کو حکومتی کونسل میں جگہ دے۔ یہ محض اتفاقی واقعہ نہیں  کہ اس رسالے کے چھپنے سے صرف تین سال کے اندر برطانوی پارلیمنٹ نے ۱۸۶۱ء  کا انڈین کونسلز ایکٹ منظور کیا جس کے ذریعہ سے گویا حکومتی مندر کا دروازہ سیاسی اچھوتوں کے لیے کھل گیا۔ محض تین چار غیر سرکاری ہندوستانیوں کی وائسرائے کی کونسل میں نامزدگی ہمیں مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے۔ مگر یہ تبدیلی آئندہ کے عظیم الشان انقلاب کی حامل تھی۔ سید احمد خان ہندوستانیوں کو انگریزی اعلیٰ حکام کے دوش بدوش دیکھنے سے بہت مسرور ہوتے ہیں اور وکٹوریہ اسکول غازی پور کے افتتاحی جلسے کے موقع پر اس زمانے کے اعتبار سے یہ عجیب و غریب بات کہہ جاتے ہیں :

‘‘چند ہندوستانیوں کا لیجسلیٹیو کونسل میں داخل ہونا ہندوستانیوں کی ترقی کا فروغ ہے۔ میری اس پیشین گوئی کو یاد رکھو کہ وہ دن  دور نہیں کہ ہر ضلع میں سے ایک شخص کا کونسل میں داخل ہونا ضروری ہو گا۔ وہ دن آوے گا کہ تم خود قانون بناؤ گے اور خود ہی اس پر عمل کرو گے۔ ۔ ۔   صرف ایک چیز چاہئے، یعنی تربیت و لیاقت۔ پس تم دیکھو گے کہ ہندوستانیوں کو علوم و فنون اور تربیت اور لیاقت کی کس قدر ضرورت ہے۔ ‘‘

ہر شخص  جس نے ہندوستان کی آزادی کی تاریخ سرسری طور پر بھی دیکھی ہے وہ اس سے واقف ہو گا کہ انڈین نیشنل کانگریس کے بانیوں میں ایلن آکٹے وین ہوم (Allan Octavian Hunme) کا کتنا اونچا رتبہ ہے بلکہ بہت سوں کا تو یہ خیال ہے کہ وہ اس کے گویا بانی مبانی تھے۔ ہیوم نے صاحبزادہ آفتاب احمد خان سے (جو کئی سال بعد وزیر ہند کی کونسل کے ممبر ہوئے) ۱۸۸۷ء میں کہا تھا کہ سب سے پہلی چیز جس نے نیشنل کانگریس کی قسم کی تحریک کے جاری کرنے کا خیال میرے دل میں پیدا کیا وہ سر سید کی کتاب ‘‘اسباب بغاوت ہند‘‘ تھی ہم میں سے بہت سے ایسے ہوں گے جنھوں نے اس رسالے کا نام بھی بڑی مشکل سے سنا ہو گا اور بہت سے ایسے بھی ہوں گے جنہوں نے سید کی تعلیمات کو مسخ شدہ صورت میں دیکھا ہو گا۔ مگر ان کا رسالہ ‘‘اسبابِ بغاوت ہند‘‘ اس اعتبار سے خاص توجہ اور فکر کا محتاج ہے کہ وہ ایک نہایت خطرناک ماحول میں لکھا گیا اور اس میں بعض اس قسم کے خیالات کٍا اظہار کیا گیا ہے جو اس زمانے کے بہت سے    ہندوستانیوں کی سوجھ بوجھ  سے بالاتر تھے گو رسالے کا حجم صرف ستر صفحے کا ہے۔ لیکن اس کا اثر نہ صرف حکومت ہند پر بلکہ عام رائے پر بھی پڑا۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس کی وجہ سے ہندوستان کی تاریخ کا ایک ورق پلٹ گیا تو مبالغہ آمیزی نہ ہو گی اور ہندوستان کی آزادی کی تاریخ میں اس رسالہ اور اس مصنف سید احمد خان کا جو مقام ہے اسے کسی طرح سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

٭٭٭

 

               محمد ضیاء الدین نیر

۱۸۵۷ء اور سر سید

۱۸۵۷ء کے ہنگامہ کے وقت  سر سید بجنور کے سب جج تھے۔ جہاں انہوں نے کئی انگریز مردوں اور عورتوں کی جانیں بچائیں۔ بجنور کے ہندوؤں اور مسلمانوں کی درخواست پر ہنگامے کے وقت انگریزوں نے انہیں ضلع کا حاکم مقرر کیا۔ مگر وہ ابھی انتظامی مسائل کو سلجھانے بھی نہ پائے تھے کہ ہنگامہ کا ریلا آ گیا۔ جس میں خود ان کی جان خطرے میں پڑی گئی۔ بڑی مشکل سے بدن کے کپڑوں سے میرٹھ پہنچے اور بیمار ہو گئے۔ خاندان دہلی میں تھا۔ خاندان کے بیشتر افراد تو مارے گئے اور بہت سے دلی سے نکل گئے۔ سر سید کی والدہ اور خالہ اپنے ایک قدیم ملازم کے گھر میں پناہ گزیں تھیں۔ سر سید بڑی مشکل سے انہیں میرٹھ لے آئے۔ مگر والدہ صدموں کی تاب نہ لا سکیں اور میرٹھ اور مسلمانوں کی تباہی نے سر سید کو اس قدر غمزدہ اور بد دل کر دیا کہ وہ ہندوستان کو ہمیشہ کے لیئے چھوڑ دیتے اور ہجرت کے منصوبہ بناتے مگر پھر خیال آیا کہ اہل وطن کا ایسی حالت میں ساتھ نہ دینا خود غرضی ہو گی۔ بجنور میں سر سید نے انگریزوں کی جان بچانے کے سلسلہ میں جو نمایاں کام انجام دیا تھا اس کے صلہ میں حکومت نے تعلقہ جہاں آباد جس کی آمدنی تقریباً ایک لاکھ ماہانہ تھی انہیں بطور جاگیر دینا چاہا مگر سر سید نے یہ انعام قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ انگریزی حکومت نے انہیں ترقی دے کر مراد آباد کا صدر الصدور مقرر کیا۔

ایک عرصہ تک انگریزی حکومت کی ملازمت نے سر سید کو انگریز حکام کے مزاج اور رجحان سے بخوبی واقف کر دیا تھا۔ اصل وطن اور بالخصوص مسلمان کے جذبات اور خیالات کا بھی پورا علم تھا اور وہ ہر وقت اس فکر میں رہتے تھے کہ دونوں فریقوں کی ذہنیتوں کے اس فرق کو مٹائیں تاکہ مسلمانوں کے لیے عزت اور امن کی زندگی ممکن ہو سکے۔ غرض ملک کے حالات کا پوری  سنجیدگی اور ٹھنڈے دماغ سے جائزہ لینے کے بعد انہوں نے اپنی راہ متعین کر لی۔

سر سید کی تصنیف ‘‘اسباب بغاوت ہند‘‘ کو بجا طور پر ان  کا پہلا عظیم کارنامہ کہا جا سکتا ہے۔ اس کتاب میں سر سید نے نہایت مدلل، معقول اور غیر جذباتی انداز میں انگریز حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کا تجربہ پیش کیا۔ صاف صاف بتلایا کہ انگریزوں نے ہندوستانیوں اور خصوصاً  مسلمانوں کے جذبات اور  احساسات کو سمجھنے میں کہاں کہاں غلطیاں کیں اور ایسے قانون بنائے جو ان کے لیے کسی طرح قابل قبول نہ تھے۔ حاکموں نے اپنے مسلم ماتحتوں اور  محکوموں کے ساتھ کیسا غیر ہمدردانہ اور غیر انسانی رویہ اختیار کیا اور ناقابل تردید دلیلوں سے ثابت کر دیا کہ مسلمانوں کو حکومت کا باغی سمجھنا انگریزوں کی کھلی نٍا انصافی اور غلط فیصلے کا نتیجہ ہے۔

آج کے دور میں حکومت پر تنقید کرنا اور حکمرانوں کی غلطیاں گنانا بہت آسان بات ہے۔ مگر اس زمانہ میں یہ کام اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ سر سید نے عواقب اور نتائج کی پرواہ کئے بغیر یہ کام کر دکھایا۔ صرف ان کا خلوص اور صداقت پسندی تھی جو انہوں نے جوکھم مول لیا۔ سر سید سچے دل سے چاہتے تھے کہ انگریز حکام صداقت کے آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھیں اس کتاب کی تصنیف سے ان کا مقصد کوئی ہنگامہ آرائی نہیں تھا۔ اسی لیئے انہوں نے اس کتاب کی عام اشاعت نہ کی اور اس کی چند جلدیں چھپوا کر صرف ہندوستان اور انگلستان کے اعلیٰ انگریز عہدیداروں میں تقسیم کیں۔ اس کتاب کا رد عمل مختلف لوگوں پر مختلف رہا۔ انگلستان کے انگریز جو ہندوستان کے حالات سے بالکل ہی بے بہرہ تھے اس پر بڑے چراغ پا ہوئے۔ چنانچہ برطانوی وزیر خارجہ مسٹر سیل بیڈن نے اسے ایک بہت ہی باغیانہ تصنیف قرار دیتے ہوئے حکومت سے سفارش کی کہ مصنف کو سخت سزا دی جائے۔ مگر ہندوستان اور انگلستان کے انصاف پسند انگریزوں نے سر سید کی دلیلوں کو تسلیم کیا اور اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ہندوستان مسلمانوں کے بارے میں انگریز حکام کے رویہ میں جو تبدیلیاں ہوئیں ان کی وجہ سے سر سید کی یہ تصنیف تھی۔

سر سید نے اپنی آنکھوں سے اس تباہی کا مشاہدہ کیا تھا۔ ۱۸۵۷ء کے انقلاب کے بعد مسلمانوں پر آئی۔ مصیبتوں کے پہاڑ تھے کہ ان کے سروں پر ٹوٹ پڑے تھے۔ انگریز مسلمانوں کو ہی اصلی مجرم تصور کرتا تھا۔ انہیں سے اس نے حکومت چھینی تھی۔ انگریزوں میں مسلمانوں کے مذہبی تعصب کی بھی شہرت تھی پھر ۱۸۵۷ء کے ڈرامہ میں بہادر شاہ کی مرکزی حیثیت نے انگریزی کے اس خیال کو اور بھی تقویت بخشی تھی کہ مسلمان اپنا کھویا ہوا اقتدار دوبارہ حاصل کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کو کچلنا انگریزی حکمت عملی کا لازمی جز بن گیا۔ سر سید کو یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ کس طرح انگریز کے اس خیال اور رویہ کو بدلنے کی سعی کرنی چاہئے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر صحیح صحیح واقعات حکومت کے سامنے رکھ دیئے جائیں اور ان اسباب کی طرف حکومت کو توجہ دلائی جائے جن سے  ۱۸۵۷ء کے واقعات رونما ہوئے تو یہ ایک بڑی قومی خدمت ہو گی مگر یہ کام آسان نہ تھا۔ حالیؔ کے الفاظ میں ‘‘زمانہ نہایت نازک تھا۔ خیالات ظاہر کرنے کی آزادی مطلق نہ تھی۔ مارشل لاء کا دور دورہ تھا اور حاکموں کی زبان ہی قانون تھی۔ ‘‘  مگر سر سید ایک با ہمت انسان تھے۔ انہوں نے خطرات کی پرواہ نہ کی۔

سر سید کے خیال کے مطابق ان واقعات کا بنیادی سبب یہ تھا کہ حکومت رعایا کے حال سے واقف نہ تھی۔ نہ اسے ان کے احساسات کا پتہ تھا اور نہ ان کی تکالیف کا علم۔ حکومت کے مشوروں میں کوئی ہندوستانی شریک نہ کیا جاتا تھا۔ پھر حکومت  نے بعض ایسی غلطیاں کیں جن کا خمیازہ مسلمانوں کو بھگتنا پڑا۔ اس میں سر سید نے فوج کی بد انتظامی اور بے اہتمامی کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ عیسائی مبلغوں نے جس جوش و خروش سے اپنا کام ہندوستان میں جاری کیا اس نے بہت بددلی پیدا کی۔ حکومت نے ان کی مدد اپنا فرض سمجھا اور مبلغوں نے حکومت کی مشنری کو اپنے خیالات کی ترویج کے لیے استعمال کیا۔ ممکن نہ تھا کہ اس سے بے اطمینانی اور بے چینی نہ پھیلے۔ سر سید نے انگریزوں کی سختی اور ملازمتوں  میں مسلمانوں کے تناسب کی کمی پر خصوصیت سے روشنی ڈالی ہے۔ معاشی حالات کا بھی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ زمینداریوں کے نیلام اور بندوبست نے بے چینی پھیلانے میں مدد دی۔ سر سید نے ہندوستانیوں کی توہین، حکام کی سخت مزاجی اور بدزبانی اور حاکم و محکوم میں محبت کے فقدان کا ذکر کرتے ہیں اور شکایت کرتے ہیں کہ باوجود ایک سو سالہ تعلق کے انگریزوں اور ہندوستان کے باشندوں میں کوئی رابطہ پیدا نہ ہو سکا۔ جو سلوک میرٹھ میں سپاہیوں کے ساتھ روا رکھا گیا اس پر بھی سر سید نے نکتہ چینی کی۔ ان کے خیال میں میرٹھ میں ضرورت سے زیادہ سختی اور اس سے دوسرے سپاہیوں میں بدگمانی پھیلنے   اور نازک حالات پیدا  ہونے پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ اور مسلمانوں کی طرف سے انگریزوں کے دلوں میں جو خیال بیٹھ چکا تھا اس کی تردید کی ہے۔ انہوں نے انگریزوں کو اس بات کی دعوت دی کہ بجائے اس تشدد کی پالیسی کے جو انہوں نے اختیار کر رکھی تھی وہ بے چینی کے اسباب کو دور کریں۔ اس میں ان بھی بھلا ہو گٍا اور ہندوستان کا بھی۔ انگریزوں نے اس رسالہ سے بہت کچھ سیکھا اور قانون ساز کونسل میں جس کی تشکیل اس کے شائع  ہونے کے کچھ ہی دن بعد ہوئی ہندوستانیوں کو پہلی مرتبہ شامل ہونے کا موقع  دیا گیا۔ ۱۸۵۷ء کے بعد سر سید اس نتیجہ پر پہنچے کہ مسلمان جن خطرات اور خدشات سے دوچار ہیں وہ بہ تفصیل ذیل ہیں۔

۱۔ اقتصادی زبوں حالی۔ ۲۔ تعلیمی درماندگی۔ ۳۔ بے یقینی و لا دینی۔ ۴۔ مایوسی۔ ۵۔ غیر قوموں کے مقابلہ میں احساس کمتری کا تصور۔ ۶۔ اکثر و بیشتر عورتوں کی جہالت اور اس کے پیدا شدہ نتائج۔ ۷۔ خود فراموشی۔ زندگی کے حقائق سے فرار کرنے کی عادت اور اپنی عظمت کے تصور کا فقدان۔

سر سید نے جب بہ نظر غائر ان کوائف کا مطالعہ کیا تو انہیں معلوم ہوا کہ بنیادی چیز تعلیمی زبوں حالی اور ثقافتی پستی ہے۔ یہ نہیں کہ وہ تعلیم مغرب کے خواہ مخواہ گرویدہ و شیدا تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ مغربی تعلیم سے مسلح ہو کر مغربی تہذیب  کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو اسی ثقافت کے مخصوص ہتھیاروں سے کام لے کر روک دینا  چاہتے تھے۔ چنانچہ سر سید نے تعلیمی زبوں حالی  کو تمام خرابیوں کی جڑ تصور کر کے اس مسئلہ کو بنیادی اہمیت دی اور علیگڑھ کالج کی  بنیاد ڈالی اور تمام عمر اسی کی ترقی کے لیے لگے رہے اور اس کے عمدہ نتائج انہوں نے خود اپنی زندگی میں دیکھے۔

٭٭ ٭٭

 

بہادر شاہ کی لڑکی

بہادر شاہ کی ایک صاحبزادی احمدی بیگم کے شوہر مرزا منجھو جو غدر میں کام آئے بڑے دبدبے کے آدمی تھے۔ ان کی سرکار بنی ہوئی تھی۔ بیسیوں آدمی ان کے دسترخوان پر بیٹھتے تھے۔ دروازہ پر نالکی پالکی موجود تھی۔ جب مرزا مارے گئے اور شہر کی حالت بگڑی تو بڑی بیگم یعنی احمدی بیگم نے اپنا اور بہو بیٹیوں کا تمام زیور  خانم کے بازار والی حویلی میں گاڑنے کا ارادہ کیا۔ دو پتیلیاں زیور سے بھری تھیں ہزاروں کا مال تھا۔ شہر کی کیفیت لمحہ بہ لمحہ ردی ہو رہی تھی۔ عین شب برأت کے روز یہ سب شہزادیاں نکل کھڑی ہوئیں۔

احمد ی بیگم کی ضعیفی میرا بچپن تھا۔ انہوں نے سو برس کے قریب عمر پائی۔ آخری دنوں میں وہ باہر  نکلنے کے قابل نہ رہیں۔ اور بہت سخت تکلیفیں اٹھا کر یہ شہزادی دنیا سے اس طرح رخصت ہوئی کہ کفن بھی وقت سے میسر نہ ہوا۔

فالج نے بالکل بے کار کر دیا تھا۔ چل پھر نہ سکیں تھیں اور کئی دموں کا گذارا اس ایک دم کی محنت پر تھا۔ میری عمر بارہ تیرہ بس کی ہو گی کہ میری والدہ مرحومہ نے احمدی بیگم کا پتہ دے کر مجھے ایک روپیہ دیا کہ دے آؤ۔ میں گیا اور مرزا شیشہ والے کے گھر پر جا کر جو بندریا والے مشہور تھے۔ اس لیے کہ ان کے ہاں بندریا پلی ہوئی تھی۔ ان کا گھر پوچھا۔ اس وقت تو خیال بھی نہ ہوا۔ مگر آج جب دھیان آتا ہے تو اس گھر اور گھر والوں کی تصویر آنکھ کے سامنے پھر جاتی ہے۔ شہزادی کے گھر میں کھانے کے واسطے مٹی کے ٹوٹے برتن تھے اور سردی کے موسم میں بادشاہ کی یہ اولاد دبکی اور سکڑی بیٹھی تھی۔

احمدی بیگم اس روپیہ کو دیکھ کر جس قدر خوش ہوئیں اور جو دعائیں ان کے دل سے نکلیں ان کٍا اظہار مشکل ہے۔ اس وقت ہنستا ہوا گیا اور ہنستا ہوا آیا۔ مگر آج جب احمدی بیگم کی اس جھنگار  چارپائی کا خیال آتا ہے تو تڑپ جاتا ہوں۔

(دلی کی آخری بہار۔ علامہ راشد الخیری۔ ص ۱۱)

٭٭٭

 

               بہادر شاہ ظفرؔ

غزل

بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی

جیسے اب ہے تری محفل کبھی  ایسی تو نہ تھی

چشمِ قاتل مری دشمن تھی ہمیشہ لیکن

جیسی اب ہو گئی قاتل کبھی ایسی تو نہ تھی

پائے کوباں کوئی زنداں میں نیا ہے مجنوں

آئی آواز سلاسل کبھی ایسی تو نہ تھی

لے گیا چھین کے کون آج ترا  صبر و قرار

بے قراری تجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی

کیا سبب تو جو بگڑتا ہے ظفرؔ سے ہر بار

تیری خو حور شمائل کبھی ایسی تو نہ تھی

٭٭٭

 

سوال نامہ

س۔ جنگِ آزادی 1857ء  کا آغاز کب ہوا؟

ج۔ 9 مئی 1857ء  کو۔

س۔ 9 مئی 1857ء کو ہفتہ کا کون سا دن تھا؟

ج۔ ہفتہ

س۔ جنگِ آزادی کا آغاز کس شہر سے ہوا؟

ج۔ میرٹھ چھاونی سے۔

س۔ کس مغل تاجدار کو بادشاہ بنانے کا اعلان کیا گیا؟

ج۔ بہادر شاہ ظفر کو۔

س۔ بہادر شاہ ظفر کو کس تاریخ کو بادشاہ بنانے کٍا اعلان کیا گیا؟

ج۔ 11/ مئی 1857ء کو بروز پیر۔

س۔ بہادر شاہ ظفر کی فوج کا سپہ سالار کس کو مقرر کیا گیا؟

ج۔ مرزا مغل (بہادر شاہ ظفر کا صاحبزادہ)

س۔ بریلی سے جنگِ آزادی کا کونسا جرنیل ۱۲ ہزار کی افواج لے کر دہلی پہنچا؟

ج۔ جرنل بخت خاں۔

س۔ ‘‘میرے پاس تنخواہ دینے کے لیے نہ خزانہ ہے نہ ملک جہاں سے روپیہ حاصل ہو۔ نہ فوج ہے جس سے تمہاری مدد کر سکوں۔ میں تو نام کا بادشاہ ہوں۔ بہتر ہے تم لوگ مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔ ‘‘  یہ الفاظ کس کے ہیں ؟

ج۔ بہادر شاہ ظفر کے۔

س۔ بہادر شاہ ظفر نے یہ الفاظ کس موقع پر کہے ؟

ج۔ جب بخت خان بریلی سے افواج لے کر دہلی پہنچا اور بہادر شاہ سے فوج کی کمان سنبھالنے کی درخواست کی۔

س۔ بہادر شاہ کے اس سمدھی کا نام بتائیے جس نے لال قلعہ کے مشرق میں دریائے جمنا پر کشتیوں کا پل کٹوا دیا؟

ج۔ مرزا الٰہی بخش۔

س۔ انگریز فوج کس تاریخ کو دلی شہر میں داخل ہوئی؟

ج۔ ۲۰/ستمبر ۱۸۵۷ء کو۔

س۔ انگریز فوج کی قیادت کون کر رہا تھا؟

ج۔ جنرل ہوڈسن

س۔ جنگ آزادی کب ختم ہوئی؟

ج۔ ۲۰/نومبر ۱۸۵۷ء کو

س۔ جنگ آزادی کے دوران بہادر شاہ نے کتنے عرصے حکمرانی کی؟

ج۔ سوا چار ماہ

س۔ مرزا الٰہی بخش کی مخبری سے کن دو شہزادوں کو جرنل ہوڈسن نے گرفتار کر لیا۔

ج۔ شہزادہ خضر سلطان اور شہزادہ عبدالباقر

س۔ بہادر شاہ ظفر کا مقدمہ کب شروع ہوا؟

ج۔ ۲۷۔ جنوری ۱۸۵۸ء کو

س۔ بہادر شاہ ظفر کو کتنا عرصہ نظر بند رکھا گیا؟

ج۔ تقریباً چار ماہ

س۔ بہادر شاہ ظفر کا مقدمہ کتنے دن جاری رہا؟

ج۔ ۲۱  روز تک

س۔ بہادر شاہ ظفر کے مقدمہ کا فیصلہ کب سنایا گیا؟

ج۔ ۱۶  فروری ۱۸۵۸ء کو

س۔ بہادر شاہ کے اس معتمدِ خاص کا کیا نام تھا؟ جس نے بادشاہ کے خلاف گواہی دی اور کہا بادشاہ (بہادر شاہ ظفر) شاہ ایران سے بھی ساز کر رہا تھا؟

ج۔ مکنہ لال۔

س۔ بہادر شاہ  ظفر کے مقدمے میں سرکاری وکیل کا کیا نام تھا؟

ج۔ ایف۔ جے ہیریٹ

س۔ بہادرشاہ ظفر کو دہلی سے کلکتہ کب بھیجا گیا؟

ج۔ ۱۷  اکتوبر ۱۸۵۸ء کو جمعہ کے دن۔

س۔    کر رحم غریبی پہ میری گردشِ ایام

            بدعہدیِ دوراں نہ کر اتنا مجھے بدنام

یہ شعر کس کا ہے ؟

ج۔ بہادر شاہ ظفر کا۔

 س۔ بہادر شاہ نے یہ شعر کب کہا؟

ج۔ ۶  نومبر ۱۸۵۸ء  کو

س۔ بہادر شاہ ظفر کے کورٹ گزٹ کا کیا نام تھا؟

ج۔ سراج الاخبار۔

س۔ بہادر شاہ ظفر کی بیٹی کا نام بتایئے جس کا عقد دہلی کے ایک باورچی سے ہوا ؟

ج۔ ربیعہ بیگم۔

س۔ بہادر شاہ ظفر کا یومِ وفات کیا ہے ؟

ج۔ ۷ نومبر ۱۸۶۲ء بروز جمعہ (۱۴ جمادی الاولیٰ ۱۲۷۹ھ)

س۔ بہادر شاہ ظفر کا مزار کہاں ہے ؟

ج۔ رنگون (برما) میں۔

س۔ بہادر شاہ ظفر کے مزار کا سراغ کس نے لگا یا ؟

ج۔ عبدالسلام نامی ایک شخص نے۔

س۔ بہادر شاہ ظفر کے اُس پوتے کا نام بتایئے جو اُس کے مزار کی مجاوری کرتا تھا ؟

ج۔ سکندر بخت۔

س۔ بہادر شاہ ظفر کے مزار کو پہلی بار سلامی کس نے دی ؟

ج۔ سبھاش چندر بوس کی آزاد ہند افواج نے۔

س۔ بہادر شاہ ظفر کے اُس چچیرے بھائی کا نام بتائیے جس نے ریاست اندور سے جنگِ آزادی کا آغاز کیا ؟

ج۔ شہزادہ فیروز شاہ۔

س۔ جنگِ آزادی کی افواج لکھنؤ(اودھ) کب پہنچیں ؟

ج۔ ۲۳ جون ۱۸۵۷ء کو۔

س۔ اُس وقت لکھنؤ کا چیف کمشنر کون تھا ؟

ج۔ سرہنری لارنس۔

س۔ مجاہدین نے بیگم حضرت محل سے کس کی مسند نشینی کی درخواست کی ؟

ج۔ رمضان علی مرزا برجیس قدر (جس کی عمر ۱۱ برس تھی)

س۔ واجد علی شاہ اور بیگم حضرت محل کا آپس میں کیا تعلق تھا ؟

ج۔ حضرت محل واجد علی شاہ کی بیوی تھی۔

س۔ مرزا برجیس قدر نے تخت نشینی کے بعد کیا کہلوایا ہے ؟

ج۔ نواب وزیر۔

س۔ برجیس قدر کی مسند نشینی کی تحریک کس نے پیش کی اور اس کی تائید کس نے کی ؟

ج۔ تحریک احمد حسین نے اور تائید نواب ممّو خان نے۔

س۔ برجیس قدر نے سب سے پہلا فرمان کیا جاری کیا ؟

ج۔ ‘‘ اب کوئی شہر نہ لُوٹے ورنہ سزا پائے گا ‘‘۔

س۔ بیگم حضرت محل نے کس کو اپنا سفیر بنا کر بہادر شاہ کے پاس دہلی بھیجا ؟

ج۔ عباس مرزا کو۔

س۔ بیگم حضرت محل کی فوج کا سپہ سالار کون تھا ؟

ج۔ جنرل حسام الدولہ۔

س۔ بیگم حضرت محل نے لکھنؤ میں شکست کے بعد باقی عمر کہاں گزاری ؟

ج۔ کھٹمنڈو (نیپال) میں۔

س۔ بیگم حضرت محل کا انتقال کب ہوا ؟

ج۔ اپریل ۱۸۷۹ء کو۔ مزار ایران میں ہے۔

س۔ ۵ جون ۱۸۵۷ءکو نجیب آباد میں جنگِ آزادی کے بعد کس نے اپنی فرما نروائی کا اعلان کیا ؟

ج۔ محمود خان نے۔

س۔ جنگِ آزادی کا نقشہ کس مجاہد آزادی نے تیار کیا تھا ؟

ج۔ عظیم اللہ خان نے۔

س۔ عظیم اللہ خان کے نقشے کے مطابق جنگِ آزادی کا آغاز کب ہونا تھا ؟

ج۔ ۳۱ مئی ۱۸۵۷ء کو۔

س۔ عظیم اللہ خان کہاں پیدا ہوئے ؟

ج۔ کانپور میں۔

س۔ کانپور میں جنگِ آزادی کا علم کب بلند ہوا؟

ج۔ ۴ جون ۱۸۵۷ء کو۔

س۔ نانا راؤ (کان پور) کو جنگِ آزادی میں شمولیت کی ترغیب کس نے دی؟

ج۔ عظیم اللہ خان نے۔

س۔ عظیم اللہ خان کی وفات کب اور کہاں ہوئی؟

ج۔ ۱۸۵۹ء میں نیپال میں۔

س۔ فیض آباد میں جنگِ آزادی کا علم کب بلند ہوا ؟

ج۔ ۷ جون ۱۸۵۷ء کو۔

س۔ علم بلند کرنے والے مجاہد آزادی کا نام کیا تھا ؟

ج۔ مولانا احمد اللہ شاہ (اصل نام سید احمد علی خان)

س۔ معرکۂ بیلی گارد کب ہوا ؟

ج۔ ۳۱ جولائی ۱۸۵۷ء کو۔

س۔ بیلی گارو کیا تھی ؟

ج۔ یہ ریذیڈنسی عمارت تھی جہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کا نمائندہ رہتا تھا۔

س۔ معر کۂ بیلی گارو میں مجاہدین کی قیادت کون کرہا تھا ؟

ج۔ مولانا احمد اللہ شاہ۔

س۔ معرکۂ بیلی گارد میں احمد اللہ شاہ کے علاوہ کون شریک تھا ؟

ج۔ عظیم اللہ خان اور بیگم حضرت محل۔

س۔ ۲۰ اپریل ۱۸۵۸ء کو کس مجاہد آزادی کی زندہ گرفتاری پر پچاس ہزار روپے کا انعام کا اعلان ہوا ؟

ج۔ مولوی احمد اللہ شاہ۔

س۔ مولانا احمد اللہ شاہ کی وفات کب ہوئی ؟

ج۔ ۵ جون ۱۸۵۸ء کو۔

س۔ مولانا احمد اللہ شاہ کو کس نے شہید کیا ؟

ج۔ پایاں کے راجہ جگن ناتھ نے۔

س۔ مولانا احمد اللہ شاہ کا مزار کہاں ہے ؟

ج۔ شاہ جہاں پور کے گنج نامی گاؤں میں۔

س۔ روہیل کھنڈ کے اُس مجاہدِ آزادی کا نام بتائیے جس نے کمانڈر انچیف ہند کو لن کیمبل کو دوبار شکست دی ؟

ج۔ مولانا احمد اللہ شاہ۔

س۔ بریلی میں علمِ آزادی کب بلند ہوا؟

ج۔ ۳۱ مئی ۱۸۵۷ء کو۔

س۔ علم آزادی بلند کرنے والے مجاہدِ آزادی کون تھے ؟

ج۔ جرنل بخت خان۔

س۔ جنگِ آزادی کے آغاز پر بخت خان انگریز فوج کا ملازم تھا۔ کس حیثیت سے ؟

ج۔ صوبیدار۔

س۔ بخت خان کے اس ساتھی کا نام بتائیے جو بریلی کا مجسٹریٹ بھی رہ چکا تھا ؟

ج۔ خان بہادر خاں۔

س۔ جنگِ آزادی میں ناکام ہونے کے بعد بخت خان کہاں چلے گئے ؟

ج۔ نیپال۔

س۔ بخت خاں کی وفات کب ہوئی ؟

ج۔ ۱۳ مئی ۱۸۵۹ء کو نیپال میں۔

س۔ گو گیرہ ضلع ساہیوال میں جنگِ آزادی کا آغاز کرنے والے مجاہد کون تھے ؟

ج۔ احمد خاں کھرل۔

س۔ احمد خاں کھرل نے اپنی تحریک کا آغاز کب اور کہاں سے کیا ؟

ج۔ ۱۷ ستمبر ۱۸۵۷ء کو گوگیرہ سے۔

س۔ احمد خاں کھرل کی وفات کب ہوئی ؟

ج۔ ۲۱ جنوی ۱۸۵۸ء کو۔

س۔ جنگِ آزادی کے آغاز پر جامع مسجد دہلی سے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ کس عالمِ دین نے دیا؟

ج۔ مولانا فضل الحق خیر آبادی نے۔

س۔ مولانا فضل الحق خیر آبادی کی مشہور تصانیف کونسی ہیں ؟

ج۔ تاریخ فتنہ ہندوستان، رسالہ تحقیق الاجسام، رسالہ تحقیق الکلی الطیق، رسالہ الہیات، حاشیہ تلخیص الشفا، حاشیہ افق المبین،

س۔ مولانا فضل حق خیر آبادی کا انتقال کب اور کہاں ہوا؟

ج۔ ۱۹ اگست ۱۸۶۱ء کو انڈیمان میں اور وہیں دفن ہوئے۔

س۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے جنگِ آزادی میں کیا اہم کردار کیا ؟

ج۔ آپ نے تھانہ بھون ضلع مظفر گڑھ (یو۔ پی) میں انگریزوں کے خلاف جہاد کیا۔

س۔ مری کے اس مجاہد آزادی کا نام بتائیے جس نے مری کے پہاڑوں میں انگریزوں کے خلاف علم آزادی بلند کیا ؟

ج۔ باز خان۔ جن کا تعلق قبیلہ ڈھنڈ سے تھا۔

س۔ ۱۸۵۷ء میں دہلی اردو اخبار کے مالک کا نام بتائیے جن کو گولی مار کر شہید کر دیا گیا ؟

ج۔ مولوی محمد باقر (مولانا محمد حسین آزاد کے والد)

س۔ جنگِ آزادی کے حوالے سے ٹوانہ خاندان کے کس شخص نے انگریزوں کی مدد کی ؟

ج۔ فتح شیر ٹوانہ۔

س۔ اُس انگریز جرنیل کا نام بتائیے جس نے مرزا غلام احمد کو وفاداری کے صلے میں قادیان کے حقوق ملکیت دیئے ؟

ج۔ جنرل نکلسن۔

س۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کب ختم ہوئی ؟

ج۔ اگسٹ ۱۸۵۸ء کو۔ حکومت برطانیہ کے حکم سے۔

س۔ جنگ کے وقت ہندوستان کا وائسرائے کون تھا ؟

ج۔ لارڈ کیننگ۔

س۔ لارڈ کیننگ کا عہدہ کب ختم ہوا؟

ج۔ ۱۸۶۴ء میں۔

س۔ لارڈ کیننگ کے بعد نیا وائسرائے کون بنا؟

ج۔ سرجان لارنس۔

س۔ ہندوستان کے لئے بورڈ آف ڈائریکٹر ز اور بورڈ آف کنٹرول کی بجائے وزیر ہند کے تقرر کا قانون برطانوی پارلیمنٹ نے  کب منظور کیا ؟

ج۔ ۱۸۵۸ء میں۔

س۔ پہلا انڈین کونسل ایکٹ کب نافذ ہوا؟

ج۔ ۱۸۶۱ء میں۔

س۔ اس ایکٹ کا بنیادی مقصد کیا تھا ؟

ج۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی جگہ تاجِ برطانیہ نے براہِ راست ہندوستان کا نظم ونسق سنبھال لیا۔

س۔ پہلی بار ہندوستانیوں کو امورِ حکومت میں حصہ لینے کا موقع کب ملا؟

ج۔ انڈین ایکٹ ۱۸۶۱ء کی رو سے۔

س۔ محمڈن لٹریری سوسائٹی آف کلکتہ کب قائم ہوئی ؟

ج۔ ۱۸۶۳ء میں۔

س۔ اس سوسائٹی کے بانی کون تھے ؟

ج۔ نواب عبدالطیف۔

س۔ نواب عبدالطیف اُس وقت کس عہدے پر فائز تھے ؟

ج۔ آپ کلکتہ مدرسہ میں عربی کے پروفیسر تھے۔

س۔ نواب عبدالطیف نے یہ سوسائٹی کس بات سے متاثر ہو کر بنائی ؟

ج۔ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی سے متاثر ہو کر۔

س۔ برٹش انڈیا ایسوسی ایشن کا قیام کب عمل میں آیا؟

ج۔ مئی ۱۸۶۶ء میں علی گڑھ میں۔

س۔ برٹش انڈیا ایسوسی ایشن کے پہلے صدر اور سیکرٹر ی کون تھے ؟

ج۔ صدر: راجہ جے کشن داس اور

سیکرٹری : سر سید احمد خان۔

س۔ ہندوؤں نے یہ مطالبہ کب کیا کہ اردو کی جگہ ہندی زبان اور فارسی کی جگہ دیوناگری رسم الخط کو سرکاری حیثیت دی جائے ؟

ج۔ ۱۸۶۷ء

س۔ وائسرائے سرجان لارنس کا عہدۂ تقرر کب ختم ہوا؟

ج۔ ۱۸۶۹ء میں۔

س۔ سر جان لارنس کی جگہ نیا وائسرائے کون تھا ؟

ج۔ لارڈ میو۔

س۔ لارڈمیو کب تک ہندوستان کے وائسرائے رہے ؟

ج۔ ۱۸۶۹ء تا ۱۸۷۲ء

س۔ لارڈ میو کے بعد ہندوستان کا وائسرائے کون بنا ؟

ج۔ لارڈ مارکویس آف رپن۔

٭٭٭٭

اقبال اکادمی اورناشر کے شکریے اور اجازت سے

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید