FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

 

گستاخی معاف

 

 

 

 

محمد بشیر مالیرکوٹلوی

 

 

 

 

 

 

 

 

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

 

ہماری تیسری آنکھ

 

’’گستاخی معاف‘‘ آپ کے ہاتھوں تک پہونچ گئی۔ میں یہ بات آپ پر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میری یہ کتاب میری ایک خراب عادت کا نتیجہ ہے۔ خراب عادت یہ کہ میں جب کسی افسانے کا مطالعہ کرتا ہوں تو میری تیسری آنکھ اپنے آپ کھل جاتی ہے۔ یہ تیسری آنکھ جو حاضر بھی ہوتی ہے غائب بھی، کسی افسانوی تخلیق کو دیکھتی ہے تو اس کا ایکس رے مشین کی طرح اندر تک جائزہ لیتی ہے۔ اُس کے نشیب و فراز ناپتی ہے۔ اُس کا بیلینس دیکھتی ہے، پرکھتی ہے اور فیصلہ سنا دیتی ہے۔ تیسری آنکھ یہ تمیز بھی نہیں کرتی کہ افسانہ کسی استاد کا ہے یا کسی نئے افسانہ نگار کی کاوش ہے۔ اپنا کام کرتی رہتی ہے۔ میں اپنی اس تیسری آنکھ کی فطرت سے اور سچ بولنے والی زبان کے آگے مجبور و بے بس ہوں۔ انہیں کی وجہ سے مجھے اکثر و بیشتر ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دور حاضر کا ہر چھوٹا بڑا افسانہ نگار خود کو منٹو بیدی سے کم نہیں سمجھتا ہے، ہم تیسری آنکھ کی بولی بولے نہیں کہ وہ سیخ پا ہو جاتا ہے۔ کیا کریں اس تیسری آنکھ کی وجہ سے ہم اپنے شہر کی ناپسندیدہ ہستی بن کر رہ گئے۔ اب کسی ادبی و شعری محفل میں جاتے ہوئے گھبراہٹ ہونے لگی ہے۔ اس لئے ہمیں گوشہ نشینی اختیار کرنا پڑی ہے۔ ایک طرح سے تو اچھا ہی ہوا کہ شہر کی گلیوں کی بے وجہ آوارگی، چائے اور سبزی کی دوکانوں پر بیٹھ کر وقت ضائع کرنے سے بچ گئے۔ ریٹائیرمینٹ کے بعد اب ہمارا وقت صرف اور صرف ادب کے لئے ہی وقف ہے۔ ان دنوں ہم افسانے بھی بہت کم لکھنے لگے ہیں۔ اگر کوئی موضوع ہمارے دل کو چھو جائے، ہم اُسے تخلیقی لباس پہنانے لگیں تو یہ کم بخت تیسری آنکھ، ہم سے ہمارا قلم چھین لیتی ہے۔ اس کا معیار اونچا ہو گیا عام اور سستے موضوع کو چھونے نہیں دیتی۔ فوراً ہمیں ہمارا مقام یاد دلا دیتی ہے۔

۲۰۱۲ء کے اوائل میں ایک دن ہمارے بہت ہی عزیز نوجوان دوست ڈاکٹر اسلم جمشید پوری کا فون آیا۔ بولے بشیر بھائی اس سال ہم میرٹھ میں منٹو فیسٹیول کرنے جا رہے ہیں۔ آپ منٹو کے کسی افسانے کا تجزیہ کر کے رکھیں۔ ایک تو منٹو ہمارے روحانی استاد ٹھہرے، دوسرے تجزیہ۔۔ ۔۔ ۔۔؟ ہم نے کہا بھائی ہم ٹھہرے آدھے ادھورے فکشن نگار تجزیہ کرنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ جواب ملا آپ تجزیہ کر سکتے ہیں، آپ کو کرنا ہے اور فون کٹ گیا۔ در اصل کچھ لوگ اتنے پیارے ہوتے ہیں کہ وہ ہماری کمزوری بن جاتے ہیں۔ جیسے یہ نیلی آنکھوں والا بچہ ہماری کمزوری بنا ہوا ہے۔ کیا کرتے اسلم کا حکم ٹال نہیں سکتے تھے جیسے تیسے تجزیہ لکھ مارا۔ کام مشکل تھا مگر ہم کر گذرے۔ دوران تقریب یونیورسٹی میں ہم نے منٹو کے ایک غیر معروف افسانے ’’پھوجا حرام دا‘‘ کا تجزیہ سنا ڈالا۔ تقریب میں موجود ادباء، نقاد حضرات اور دانشوروں نے ہمارے تجزیے پہ پسندیدگی کا اظہار کیا۔ ہماری حوصلہ افزائی ہوئی اور اس کے بعد ہم نے تنقید کا با قاعدہ سفر شروع کر دیا۔ ایک دن استاد منٹو کے افسانے موذیل کا مطالعہ کیا۔ تیسری آنکھ کے مجبور کرنے پر ہم نے دوسری بار پھر مطالعہ کیا۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ ’موذیل‘ استاد کا مقبول ترین افسانہ قرار دیا گیا ہے۔ استاد منٹو نے تو موذیل لکھ کر تھوڑا ہی کمایا ہو گا، نقادوں نے موذیل کی تعریف میں مضامین لکھ لکھ کر لاکھوں بٹور لئے ہوں گے۔ بہر حال ہم نے اپنی تیسری آنکھ کھول کر موذیل پڑھا اور ایک بھرپور تجزیہ لکھ مارا۔ تجزیہ کافی طویل ہو گیا۔ اُن دنوں ہماری آپا ڈاکٹر نگار عظیم ہمارے یہاں آئی ہوئی تھیں۔ ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ ہماری آپا منٹو کی زبردست فین ہیں۔ آپ نے منٹو پر ڈاکٹریٹ کی ہے، زبردست منٹو شناس واقع ہوئی ہیں۔ منٹو کو اگر کوئی برا کہہ دے تو سر محفل بھڑ جاتی ہیں اور سامنے والے کو مونہہ کی کھانی پڑتی ہے۔ آپا کی موجودگی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے، ڈرتے ڈرتے موذیل کا وہی تجزیہ اُن کو سنا ڈالا۔ نگار آپا نے بڑے صبر کے ساتھ پورا ایک گھنٹہ قربان کر کے ہمارا وہ تجزیہ سُنا۔ نہ وہ ناراض ہوئیں نہ زیادہ خوش بس اتنا کہا کہ بشیر بھائی آپ نے بڑی محنت کی ہے۔ وہ تجزیہ ہم نے سہ ماہی فکر و تحقیق نئی دہلی کو برائے اشاعت بھیج دیا۔ فکر و تحقیق کے اکتوبر دسمبر ۲۰۱۴ء کے شمارے میں ہمارا وہ تجزیہ چھپا۔ مدیر نے ہمیں ناقد اور افسانہ نگار کے نام سے اپنے اداریہ میں یاد کیا۔ خطوط کا زمانہ تو بعید ہوا، البتہ فون بہت آئے۔ تحقیق کے طالب علموں نے تجزیے کو بہت پسند کیا۔ تو صاحبو!۔۔ ۔۔ ۔۔ اس طرح ہماری تیسری آنکھ اور ہمارے اسلم بھائی نے ہمیں نقاد بنا دیا جس کے نتیجہ میں ہماری کتاب ’’ہم قلم‘‘ منظر عام پر آئی جس میں ہم نے اپنے ۱۲ ہم عصر افسانہ نگار دوستون کے فن پر مضامین قلم بند کئے۔ برا ہو اس تیسری آنکھ کا۔ اُن میں سے زیادہ تر افسانہ نگار ہم سے خفا ہو گئے۔ سچ بہت کڑوی چیز ہوا کرتی ہے۔

موذیل کے کامیاب تجزیے کے بعد ہمیں ہماری یہ تیسری آنکھ اچھی لگنے لگی اس کی مدد سے ہم نے استاد کا ہی ’’بو‘‘، ’’ٹھنڈا گوشت‘‘، ’’گوپی ناتھ‘‘ اور ’’شہید ساز‘‘ پڑھے اور تجزیاتی مضامین لکھے۔ اسی دوران ہمارے ایک دیرینہ دوست، جو بدقسمتی سے اب ہمارا ماضی بن گئے کا آوازہ ہم تک پہونچا کہ میاں اب تو وہ بہت بڑے استاد بن گئے جو منٹو کے افسانوں میں کیڑے نکال رہے ہیں۔ مجھے خوشی ہوئی، کسی طرح سے سہی لوگ ہمیں یاد تو رکھتے ہیں۔ بہر حال میں نے اپنا کام جاری رکھا۔ اسی بیچ ہمارے سامنے لاجونتی کھڑی ہو گئی بولی بیدی کے ساتھ ساتھ سب نے مان لیا کہ مجھے اغوا کیا گیا تھا۔ میں مغویہ تھی آخر کوئی تو بتائے مجھے اغوا کس نے کیا۔ میری تیسری آنکھ پھڑکنے لگی۔ لاجونتی ٹھیک کہتی ہے میں نے اُس سے تھوڑی مہلت مانگی۔ بیدی کا افسانہ لاجونتی پڑھا۔ پھر وارث علوی مرحوم کی کتاب راجندر سنگھ بیدی ایک مطالعہ دیکھی۔ میرا سر گھوم گیا۔ لاجونتی کا شوہر سندر لال، مہاجر نہیں تھا، وہ پاکستان سے ہجرت کر کے نہیں آیا تھا کہ کوئی مسلمان اُس سے خوبصورت اور جوان لاجونتی کو چھین لیتا۔ سندر لال تو مقامی تھا اپنے قصبہ کا با رسوخ آدمی تھا۔ ایک سوسائٹی کا سیکریٹری چنا گیا۔ اُس کی سفارش پر لوگوں کو راشن کے ڈپو مل جاتے تھے۔ تقسیم کے وقت وہ گاؤں میں تھا۔ لاجونتی اغوا ہوئی تو کیسے۔۔ ۔۔ ۔۔؟ ظاہر ہے اُس وقت ہندو عورتوں کو مسلمان اغوا کرتے تھے۔ ہندوستان سے پاکستان جانے والے مسلمان تو اپنا قیمتی سامان اُٹھانے سے قاصر تھے۔ اُن کی تو زندگی بھی غیر یقینی تھی کہ وہ پاکستان جا پائیں گے یا راستے میں ہی قتل کر دئیے جائیں گے۔ تو جناب لاجونتی کو کس نے اغوا کیا۔۔ ۔۔ ۔۔؟ وہ پاکستان کیسے اور کیوں گئی۔ اس کا جواب ہم نے اپنے سینئر اور بیدی پہ ڈاکٹریٹ کرنے والوں سے پوچھا۔ مگر بے سود، وارث علوی بیدی بھگت تھے انہوں نے اپنی کتاب کے ۱۲ صفحات لاجونتی کی نذر کر دئیے۔ اردو کے موٹے موٹے الفاظ، غیر ملکی بڑے بڑے نام، یا کہانی ڈھانچے کے سوا ہمیں تعریفیں ہی پڑھنے کو ملیں۔ آخر ہم نے لاجونتی سے معافی مانگ لی۔ احمد ندیم قاسمی کا افسانہ ’’بین‘‘، قاضی عبدالستار کا ’’پیتل کا گھنٹہ‘‘، عصمت کا ’’لحاف‘‘ اور کرشن چندر کا ’’مہا لکشمی کا پل‘‘ ہم نے اپنائے ان پر تجزیے کئے۔ ’’پیتل کا گھنٹہ‘‘ ہمیں بھائی ظفر ہاشمی ایڈیٹر ’’گلبن‘‘ لکھنو سے ملا۔ اُس پہ تجزیہ گلبن میں ہی شائع ہوا۔

اب آپ کا یہ سوال کہ ’’ گستاخی معاف‘‘ کی تخلیق کی کیا ضرورت تھی، تو بھائی بات یہ ہے کہ ہمارے نقاد حضرات نے افسانوی ادب پہ لکھتے ہوئے اپنی علمیت کا رعب اور مردہ افسانہ نگاروں کی تعریفوں کے سوا کچھ نہیں کیا۔ کسی فن کی تشخیص، صحیح طور پر وہی انسان کر سکتا ہے جو اُس فن سے مکمل واقفیت رکھتا ہو۔ میں تو افسانے کا چھوٹا سا طالب علم ہوں آپ بتائیں ہمارے نقادوں میں سے کون سا نقاد ایسا تھا یا ہے جو کامیاب افسانہ نگار بھی مانا گیا ہو۔ کسی بڑے افسانہ نگار نے کبھی تنقید کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔ ۔۔ ۔۔؟ کتابوں کی گنتی چاہے کتنی بھی ہو آپ بڑے نقاد نہیں بن سکتے اردو افسانے کی یہ بدقسمتی ہے کہ نہ تو اس کو کوئی علم عروض کی طرح پیمانہ یا میٹر ملا نہ کوئی بہتر نقاد ملا جو افسانے کے تمام رموز سے آشنا ہوتا، میں ایک معمولی سا کچے پکے افسانے لکھنے والا ادیب ہوں۔ مجھے میرے صوبہ پنجاب نے ابھی تک افسانہ نگار تسلیم نہیں کیا۔

اپنی تیسری آنکھ سے میں نے ان شاہکار افسانوں کے بہت سے کمزور نکات پر روشنی ڈالی ہے۔ افسانوں کے جو پہلو قابل تعریف تھے اُن کی واقعی تعریف بھی کی ہے۔ مجھ سے پہلے بھی ان افسانوں پہ تجزیے ہو چکے ہیں۔ ہو بھی رہے ہیں۔ ان نکات پر غور کیوں نہیں ہوا۔ شہ رگ کٹنے کے بعد بھی معجزاتی طور پر ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ کا ایشر سنگھ دس منٹ تک بولتا رہا۔ جب کہ وہ خود کہہ رہا ہے ماں یا میرا گلا چرا ہے۔ خون اُڑ اُڑ کر اُس کی مونچھوں پر گرتا ہے۔ استاد منٹو کو کسی نے نہیں بتایا کہ جب انسان کی شہ رگ کٹ جاتی ہے تو وہ بول نہیں سکتا۔ بے ہوش ہونے لگتا ہے۔ ہم نے افسانہ پڑھ کر ڈاکٹر اسلم حبیب صاحب سے دریافت کیا۔ ایک اور سرجن نے اس بات کو تسلیم کیا کہ شہ رگ کٹنے کے بعد آدمی بول نہیں سکتا۔ استاد منٹو خود لکھتے ہیں۔ خون ایشر سنگھ کے گلے سے اُڑ اُڑ کر مونچھوں پر گر رہا تھا۔ ذرا گلے کا احاطہ کریں۔ چھاتی کی ہڈی سے ٹھوڑی تک مان کر چلیں اور شہ رگ کی جگہ بھی وہی ہے اگر استاد لفظ گلے کی جگہ گردن استعمال کرتے تو بات اور تھی۔ ہم مانتے ہیں کہ گستاخی ہے کہ اتنے بڑے افسانہ نگار کے بہت عظیم افسانے کے بارے میں ہم بات کر رہے۔ نقاد حضرات نے تو اس افسانے کو دنیا کے دس عظیم افسانوں میں گردانا ہے جب کہ باقی نو افسانوں کے نہ تو وہ حضرات نام جانتے تھے نہ انہوں نے پڑھے تھے۔

ہماری محبوب زبان اردو دنیا کی بڑی زبانوں میں شمار ہوتی ہے۔ افسوس کہ ہماری زبان کا کوئی ادیب عالمی منظر نامے پہ نظر نہیں آتا۔ سوا سو کروڑ کے اس ملک کے ہم باشندے ہیں۔ ایسی ہمارے اندر کون سی کمی ہے کہ ہمارے کھلاڑی اولمپک سے، ہماری فلمیں آسکر سے اور ہمارا ادب نوبل پرائز سے دور رہتا ہے۔ ہمارے اندر ٹیلینٹ کی کمی ہے۔۔ ۔۔ ۔۔؟ ہمارے اندر جذبے نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔؟ ہمارے اندر وہ سب کچھ ہے جو دوسرے ممالک کے لوگوں میں ہے۔

’’گستاخی معاف‘‘ کو لے کر اپنے کتابوں والے ریک یا الماری میں مت سجا کر رکھیں اس کا مطالعہ کریں۔ تعریف کی بجائے اگر برائی ہی کریں تو مجھے خوشی ہو گی اس لئے کہ آپ نے میرے لئے وقت قربان کیا۔ ان گستاخیوں کے بارے میں میں آپ کی آراء کا منتظر رہوں گا۔

 

منتظر کرم

محمد بشیر مالیرکوٹلوی

۲۹؍ستمبر۲۰۱۶

 

 

 

 

سعادت حسن منٹو

 

 

بُو

 

برسات کے یہی دن تھے۔ کھڑکی کے باہر پیپل کے پتّے اسی طرح نہا رہے تھے۔ ساگوان کے اس اسپرنگوں والے پلنگ پر جو اب کھڑکی کے پاس سے ذرا دھر کو سرکا دیا گیا تھا، ایک گھاٹن لونڈیا رندھیر کے ساتھ چمٹی ہوئی تھی۔

کھڑکی کے باہر پپل کے پتّے رات کے دودھیا لے اندھیرے میں جھمکوں کی طرح تھرتھرا رہے تھے اور نہا رہے تھے اور وہ گھاٹن لونڈیا رندھیر کے ساتھ کپکپاہٹ بن کر چمٹی ہوئی تھی۔

شام کے قریب دن بھر ایک انگریزی اخبار کی تمام خبریں اور اشتہار پڑھنے کے بعد جب وہ بالکنی میں ذرا تفریح کی خاطر آ کھڑا ہوا تھا تو اس نے اس گھاٹن لڑکی کو جو غالباً ساتھ والے رسیّوں کے کارخانے میں کام کرتی تھی اور بارش سے بچنے کے لیے املی کے درخت کے نیچے کھڑی تھی، کھانس کھنکار کر اپنی طرف متوجہ کیا تھا اور آخر ہاتھ کے اشارے سے اسے اوپر بلا لیا تھا۔

وہ کئی دنوں سے شدید قسم کی تنہائی محسوس کر رہا تھا۔ جنگ کے باعث بمبئی کی قریب قریب تمام کرسچین چھوکریاں جو پہلے سَستے داموں مِل جاتی تھیں۔ عورتوں کی اگزالری فورس میں بھرتی ہو گئی تھیں۔ ان میں سے بعض نے فورٹ کے علاقے میں ڈانسنگ اسکول کھول لیے تھے جہاں صرف فوجی گوروں کو جانے کی اجازت تھی۔۔ ۔۔ ۔۔ رندھیر بہت اداس ہو گیا تھا۔ اس کی اداسی کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ کرسچین چھوکر یاں نایاب ہو گئی تھیں، دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ رندھیر جو فوجی گوروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ مہذّب، تعلیم یافتہ، صحت مند اور خوبصورت تھا، صرف اس لیے اس پر فورٹ کے اکثر قحبہ خانوں کے دروازے بند کر دیے گئے تھے کہ اس کی چمڑی سفید نہیں تھی۔

جنگ سے پہلے رندھیر ناگپاڑہ اور تاج ہوٹل کے گردو نواح کی کئی کرسچین لڑکیوں سے جسمانی ملاقات کر چکا تھا۔ اُسے اچھی طرح معلوم تھا کہ ایسی ملاقات کے آداب سے وہ ان کرسچین لونڈوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ واقفیت رکھتا ہے جن سے یہ لڑکیاں فیشن کے طور پر رومانس لڑاتی ہیں اور بعد میں کسی چغد سے شادی کر لیتی ہیں۔

رندھیر نے محض دل ہی دل میں ہیزل سے اس کی تازہ تازہ پیدا شدہ رعونت کا بدلہ لینے کی خاطر اس گھاٹن لڑکی کو اشارے سے اوپر بلایا تھا۔ ہیزل اس کے فلیٹ کے نیچے رہتی تھی اور ہر روز صبح کو وردی پہن کر اور اپنے کٹے ہوئے بالوں پر خاکی رنگ کی ٹوپی ترچھے زاویے پر جما کر باہر نکلتی تھی اور اس انداز سے چلتی تھی گویا فٹ پاتھ پر تمام جانے والے اس کے قدموں کے آگے ٹاٹ کی طرح بچھتے چلے جائیں گے۔

رندھیر نے سوچا تھا کہ آخر وہ کیوں ان کرسچین چھوکریوں کی طرف اتنا راغب ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنے جسم کی تمام قابل نمائش چیزوں کی اچھی طرح نمائش کرتی ہیں۔ کسی قسم کی جھجک محسوس کئے بغیر اپنے ایّام کی بے ترتیبی کا ذکر کر دیتی ہیں۔ اپنے پرانے معاشقوں کا حال سُناتی ہیں۔ جب ڈانس کی دھُن سنتی ہیں تو ٹانگیں تھر کانا شروع کر دیتی ہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ یہ سب ٹھیک ہے لیکن کوئی عورت بھی ان تمام خوبیوں کی حامل ہو سکتی ہے۔

رندھیر نے جب گھاٹن لڑکی کو اشارے سے اوپر بلایا تو اسے ہرگز ہرگز یقین نہیں تھا کہ وہ اس کو اپنے ساتھ سلا سکے گا لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد جب اس نے اس کے بھیگے ہوئے کپڑے دیکھ کر یہ خیال کیا تھا، کہیں ایسا نہ ہو، بیچاری کو نمونیہ ہو جائے تو رندھیر نے اس سے کہا تھا کہ ’’یہ کپڑے اتار دو، سردی لگ جائے گی۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

وہ اس کا مطلب سمجھ گئی تھی کیونکہ اس کی آنکھوں میں شرم کے لال ڈورے تیر گئے تھے مگر بعد میں جب رندھیر نے اسے اپنی سفید دھوتی نکال کر دی تو اس نے کچھ دیر سوچ کر اپنا کاشٹا کھولا جس کا میل بھیگنے کے باعث اور زیادہ اُبھر آیا تھا۔۔ ۔۔ ۔۔ کاشٹا کھول کر اس نے ایک طرف رکھ دیا اور جلدی سے سفید دھوتی اپنی رانوں پر ڈال لی۔ پھر اس نے اپنی پھنسی پھنسی چولی اتار نے کی کوشش شروع کی جس کے دونوں کناروں کو ملا کر اس نے ایک گانٹھ دے رکھی تھی۔ یہ گانٹھ اس کے تندرست سینے کے ننھے مگر میلے گڑھے میں جذب سی ہو گئی تھی۔

دیر تک وہ اپنے گھسے ہوئے ناخنوں کی مدد سے چولی کی گرہ کھولنے کی کوشش کرتی رہی جو بارش کے پانی سے بہت زیادہ مضبوط ہو گئی تھی۔ جب تھک کر ہار گئی تو اس نے مرہٹی زبان میں رندھیر سے کچھ کہا جس کا مطلب تھا۔ ’’میں کیا کروں، نہیں کھلتی۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

رندھیر اس کے پاس بیٹھ گیا اور گرہ کھولنے لگا۔ تھک ہار کر اس نے ایک ہاتھ میں چولی کا ایک سرا پکڑا، دوسرے ہاتھ میں دوسرا اور زور سے کھینچا۔ گرہ ایک دم پھسلی، رندھیر کے ہاتھ زور میں ادھر ادھر ہٹے اور دو دھڑکتی ہوئی چھاتیاں نمودار ہوئیں۔ رندھیر نے ایک لحظے کے لیے خیال کیا کہ اس کے اپنے ہاتھوں نے اس گھاٹن لڑکی کے سینے پر نرم نرم گندھی ہوئی مٹی کو چابکدست کمہار کی طرح دو پیالوں کی شکل دے دی ہے۔

اس کی صحت مند چھاتیوں میں وہی گدراہٹ، وہی جاذبیت، وہی طراوت، وہی گرم گرم ٹھنڈک تھی جو کمہار کے ہاتھوں سے نکلے ہوئے تازہ تازہ کچّے برتنوں میں ہوتی ہے۔

مٹمیلے رنگ کی ان جوان چھاتیوں میں جو بالکل بے داغ تھیں، ایک عجیب قسم کی چمک محلول تھی، سیاہی مائل گندمی رنگ کے نیچے دھندلی روشنی کی ایک تہہ سی تھی جس نے یہ عجیب و غریب چمک پیدا کر دی تھی جو چمک ہونے کے باوجود چمک نہیں تھی۔ اس کے سینے پر چھاتیوں کے یہ اُبھار دئیے معلوم ہوتے تھے جو تالاب کے گدلے پانی کے اندر جل رہے ہوں۔

برسات کے یہی دن تھے۔ کھڑکی کے باہر پیپل کے پتّے کپکپا رہے تھے۔ اس گھاٹن لڑکی کے دونوں کپڑے جو پانی سے شرابور ہو چکے تھے، ایک غلیظ ڈھیری کی شکل میں فرش پر پڑے تھے اور وہ رندھیر سے چمٹی ہوئی تھی۔ اس کے ننگے اور میلے بدن کی گرمی رندھیر کے جسم میں وہ کیفیت پیدا کر رہی تھی جو سخت سردیوں میں نائیوں کے غلیظ مگر گرم حمام میں نہاتے وقت محسوس ہوا کرتی ہے۔

ساری رات وہ رندھیر کے ساتھ چمٹی رہی۔ دونوں گویا ایک دوسرے میں مدغم ہو گئے تھے۔ انھوں نے بمشکل ایک دو باتیں کی ہوں گی کیونکہ جو کچھ انھیں کہنا سننا تھا، سانسوں، ہونٹوں اور ہاتھوں سے طے ہوتا رہا تھا۔ رندھیر کے ہاتھ ساری رات اس کی چھاتیوں پر ہوائی لمس کی طرح پھرتے رہے۔ چھوٹی چھوٹی چوچیاں اور وہ موٹے موٹے مسام جوان کے ارد گرد ایک کالے دائرے کی شکل میں پھیلے ہوئے تھے۔ اس ہوائی لمس سے جاگ اُٹھتے اور اس گھاٹن لڑکی کے سارے جسم میں ایسا ارتعاش پیدا ہو جاتا کہ رندھیر خود بھی ایک لحظے کے لیے کپکپا اُٹھتا۔

ایسی کپکپاہٹوں سے رندھیر کا سینکڑوں مرتبہ تعارف ہو چکا تھا۔ وہ اس کی لذت سے اچھی طرح آشنا تھا۔ کئی لڑکیوں کے نرم اور سخت سینوں کے ساتھ اپنا سینہ ملا کر وہ ایسی راتیں گزار چکا تھا۔ وہ ایسی لڑکیوں کے ساتھ بھی رہ چکا تھا جو بالکل الھڑ تھیں اور اس کے ساتھ لپٹ کر گھر کی وہ تمام باتیں سُنا دیا کرتی تھیں جو کسی غیر کو نہیں سُنانا چاہئیں۔ وہ ایسی لڑکیوں سے بھی جسمانی رشتہ قائم کر چکا تھا جو ساری مشقت خود کرتی تھیں اور اسے کوئی تکلیف نہیں دیتی تھیں مگر یہ گھاٹن لڑکی جو املی کے درخت کے نیچے بھیگی ہوئی کھڑی تھی اور جس کو اس نے اشارے سے اوپر بلا لیا تھا، بہت ہی مختلف تھی۔

ساری رات رندھیر کو اس کے بدن سے عجیب و غریب قسم کی بُو آتی رہی۔ اس بُو کو جو بیک وقت خوشبو اور بدبو تھی، وہ تمام رات پیتا رہا تھا۔ اس کی بغلوں سے، اس کی چھاتیوں سے، اس کے بالوں سے، اس کے پیٹ سے، ہر جگہ سے یہ بُو جو بدبو بھی تھی اور خوشبو بھی، رندھیر کے ہر سانس میں موجود تھی۔ تمام رات وہ سوچتا رہا تھا کہ یہ گھاٹن لڑکی بالکل قریب ہونے پر بھی ہرگز اتنی زیادہ قریب نہ ہوتی، اگر اس کے ننگے بدن سے یہ بُو نہ اُڑتی۔۔ ۔۔ ۔۔ یہ بُو جو اس کے دل و دماغ کی ہر سلوٹ میں رنگ گئی تھی، اس کے تمام پرانے اور نئے خیالوں میں رچ گئی تھی۔

اس بوُ نے اس لڑکی کو اور رندھیر کو ایک رات کے لیے آپس میں حل کر دیا تھا۔ دونوں ایک دوسرے کے اندر داخل ہو گئے تھے، عمیق ترین گہرائیوں میں اتر گئے تھے جہاں پہنچ کر وہ ایک خالص انسانی لذّت میں تبدیل ہو گئے تھے، ایسی لذّت جو لمحاتی ہونے کے باوجود دائمی تھی، جو مائل پرواز کے باوجود ساکن اور جامد تھی۔۔ ۔۔ ۔۔ وہ دونوں ایک ایسا پنچھی بن گئے تھے جو آسمان کی نیلا ہٹوں میں اڑتا اڑتا متحرک دکھائی دیتا ہے۔

بُو کو جو اس گھاٹن لڑکی کے ہر مسام سے باہر نکلی تھی، رندھیر اچھی طرح سمجھتا تھا حالانکہ وہ اس کا تجزیہ نہیں کر سکتا تھا۔ جس طرح بعض اوقات مٹّی پر پانی چھڑکنے سے سوندھی سوندھی باس پیدا ہو تی ہے، لیکن نہیں، وہ بُو کچھ اور ہی قسم کی تھی۔ اس میں لونڈر اور عطر کا مصنوعی پن نہیں تھا۔ وہ بالکل اصلی تھی۔۔ ۔۔ ۔۔ عورت اور مرد کے باہمی تعلقات کی طرح اصلی اور ازلی۔

رندھیر کو پسینے کی بُو سے سخت نفرت تھی۔ وہ نہانے کے بعد عام طور پر اپنی بغلوں وغیرہ میں خوشبو دار پوڈر لگا تا تھا یا کوئی ایسی دوا استعمال کرتا تھا جس سے پسینے کی بُو دب جائے لیکن حیرت ہے کہ اس نے کئی بار، ہاں کئی بار اس گھاٹن لڑکی کی بالوں بھری بغلوں کو چوما اور اسے بالکل گھِن نہ آئی بلکہ اسے عجیب طرح کی لذّت محسوس ہوئی۔ اس کی بغلوں کے نرم نرم بال پسینے کے باعث گیلے ہو رہے تھے۔ ان سے بھی وہی بُو نکلی جو غایت درجہ قابل فہم ہونے کے باوجود ناقابل فہم تھی۔ رندھیر کو ایسا لگا تھا کہ وہ اس بُو کو جانتا ہے، پہچانتا ہے، اس کا مطلب بھی سمجھتا ہے لیکن کسی اور کو یہ مطلب سمجھا نہیں سکتا۔

برسات کے یہی دن تھے۔۔ ۔۔ ۔۔ اسی کھڑکی کے باہر جب اس نے دیکھا تھا تو پیپل کے پتے لرز لرز کر نہا رہے تھے، ہوا میں سر سراہٹیں اور پھڑپھڑاہٹیں گھلی ہوئی تھیں۔ اندھیرا تھا مگر اس میں دبی ہوئی دھندلی سی روشنی بھی سموئی ہوئی تھی جیسے بارش کے قطروں کے ساتھ لگ کرتا روں کی تھوڑی تھوڑی روشنی اتر آئی ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ برسات کے یہی دن تھے جب رندھیر کے اسی کمرے میں ساگوان کا صرف ایک پلنگ ہوتا تھا مگر اب اس کے ساتھ ہی ایک دوسرا بھی پڑا تھا اور کونے میں ایک نئی ڈریسنگ ٹیبل بھی موجود تھی۔ دن یہی برسات کے تھے، موسم بھی بالکل ایسا ہی تھا، بارش کے قطروں کے ساتھ تاروں کی تھوڑی تھوڑی روشنی اُتر رہی تھی مگر فضامیں حنا کے عطر کی تیز خوشبو بسی ہوئی تھی۔

دوسرا پلنگ خالی تھا۔ اس پلنگ پر جس پر رندھیر اوندھے منہ لیٹا کھڑکی کے باہر پیپل کے لرزتے ہوئے پتّوں پر بارش کے قطروں کا رقص دیکھ رہا تھا، ایک گوری چٹّی لڑکی اپنے سَتر کو ننگے جسم سے چھپانے کی ناکام کوشش کرتے کرتے غالباً سو گئی تھی۔۔ ۔۔ ۔۔ اس کی لال ریشمی شلوار اور دوسرے پلنگ پر پڑی تھی۔ اس کے گہرے سُرخ ازاربند کا ایک پھندنا نیچے لٹک رہا تھا۔ اس پلنگ پر اس کے دوسرے اُترے ہوئے کپڑے بھی پڑے تھے۔ اس کی سنہرے پھولوں والی قمیص، انگیا، جانگیا اور دوپٹہ۔۔ ۔۔ ۔۔ سب کا رنگ سُرخ تھا، بے حد سُرخ، یہ سب کپڑے حنا کے عطر کی تیز خوشبو میں بسے ہوئے تھے۔

لڑکی کے سیاہ بالوں میں مقیش کے ذرّے گرد کی طرح جمے ہوئے تھے۔ چہرے پر غازے، سُرخی اور مقیش کے ان ذرّات نے مل جُل کر ایک عجیب و غریب رنگ پیدا کر دیا تھا، بے جان سا، اُڑا اُڑا اور اس کے گورے سینے پر انگیا کے کچّے رنگ نے جا بجا لال لال دھبّے ڈال دیے تھے۔

چھاتیاں دودھ کی طرح سفید تھیں جس میں تھوڑی تھوڑی نیلاہٹ بھی ہوتی ہے۔ بغلوں کے بال منڈے ہوئے تھے جس کے باعث وہاں سُرمئی غبار سا پیدا ہو گیا تھا۔ رندھیر کئی بار اس لڑکی کی طرف دیکھ کر سوچ چکا تھا۔

کیا ایسا نہیں لگتا جیسے میں نے ابھی ابھی کیلیں اکھیڑ کر اسے لکڑی کے بند بکس میں سے نکالا ہے، کتابوں اور چینی کے برتنوں کی طرح کیونکہ جس طرح کتابوں پر داب کے نشان ہوتے ہیں اور چینی کے برتنوں پر ہلتے جلنے سے خراشیں آ جاتی ہیں، ٹھیک اسی طرح اس لڑکی کے بدن پر کئی جگہ ایسے نشان تھے۔

جب رندھیر نے اس کی تنگ اور چُست انگیا کی ڈوریاں کھولی تھیں تو پیٹھ پر اور سامنے سینے کے نرم نرم گوشت پر جھرّیاں سی بنی ہوئی تھیں اور کمر کے اردگرد کس کر بندھے ازار بند کا نشان۔۔ ۔۔ ۔۔ وزنی اور نوکیلے جڑاؤ نکلیس سے اس کے سینے پر کئی جگہ خراشیں پیدا ہو گئی تھیں جیسے ناخنوں سے بڑے زور کے ساتھ کھجایا گیا ہو۔ برسات کے وہی دن تھے۔ پیپل کی نرم نرم کومل پتیوں پر بارش کے قطرے گرنے سے ویسی ہی آواز پیدا ہو رہی تھی جیسی کہ رندھیر اس روز تمام رات سنتا رہا۔ موسم بہت خوش گوار تھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی لیکن اس میں حنا کے عطر کی تیز خوشبو گھلی ہوئی تھی۔

رندھیر کے ہاتھ بہت دیر تک اس گوری چٹی لڑکی کے کچّے دودھ ایسے سفید سینے پر ہوائی لمس کی طرح پھرتے رہے۔ اس کی انگلیوں نے اس گورے گورے جسم میں کئی ارتعاش دوڑتے ہوئے محسوس کیے۔ اس نرم نرم جسم کے کئی گوشوں میں اسے سمٹی ہوئی کپکپاہٹوں کا بھی پتہ چلا۔ جب اس نے اپنا سینہ اس کے سینے کے ساتھ ملایا تو رندھیر کے جسم کے ہر مسام نے اس لڑکی کے چھیڑے ہوئے تاروں کی آواز سُنی۔۔ ۔۔ ۔۔ لیکن وہ پکار کہاں تھی، وہ پکار جو اس نے گھاٹن لڑکی کے جسم کی بُو میں سونگھی تھی، وہ پکار جو دودھ کے پیاسے بچّے کے رونے سے کہیں زیادہ قابل فہم تھی، وہ پکار جو صوتی حدود سے نکل کر بے آواز ہو گئی تھی۔

رندھیر سلاخوں والی کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔ اس کے بہت قریب پیپل کے پتّے لرز رہے تھے مگر وہ ان کی لرزشوں کے اس پار دُور بہت دُور دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا، جہان اسے مٹمیلے بادلوں میں ایک عجیب قسم کی دھُندلی روشنی گھلی ہوئی دکھائی دیتی تھی، جیسے اس گھاٹن لڑکی کے سینے میں اسے نظر آئی تھی، ایسی روشنی جو راز کی بات کی طرح چھپی ہوئی مگر ظاہر تھی۔

رندھیر کے پہلو میں ایک گوری چٹّی لڑکی جس کا جسم دودھ اور گھی ملے آٹے کی طرح ملائم تھا، لیٹی تھی۔ اس کے سوئے ہوئے جسم سے حنا کے عطر کی خوشبو آ رہی تھی۔ جو اب تھکی تھکی معلوم ہوتی تھی۔ رندھیر کو یہ دم توڑتی اور حالتِ نزع کو پہنچی ہوئی خوشبو بہت ناگوار معلوم ہوئی۔ اس میں کچھ کھٹاس سی تھی، ایک عجیب قسم کی کھٹاس جو بدہضمی کی ڈکاروں میں ہوتی ہے، اداس، بے رنگ، بے کیف۔

رندھیر نے اپنے پہلو میں لیٹی ہوئی لڑکی کی طرف دیکھا۔ جس طرح پھٹے ہوئے دودھ میں سفید سفید بے جان پھٹکیاں بے رنگ پانی میں ساکن ہوتی ہیں، اسی طرح لڑکی کی نسوانیت اس کے وجود میں ٹھہری ہوئی تھی، سفید سفید دھبّوں کی صورت میں۔ اصل میں رندھیر کے دل و دماغ میں وہ بُو بسی ہوئی تھی جو اس گھاٹن لڑکی کے جسم سے بغیر کسی بیرونی کوشش کے باہر نکلی تھی۔ وہ بُو جو حنا کے عطر سے کہیں زیادہ ہلکی پھلکی اور دور رس تھی، جس میں سونگھے جانے کا اضطراب نہیں تھا، جو خود بخود ناک کے رستے داخل ہو کر اپنی صحیح منزل پر پہنچ گئی تھی۔

رندھیر نے آخری کوشش کرتے ہوئے اس لڑکی کے دودھیالے جسم پر ہاتھ پھیرا مگر اسے کوئی کپکپاہٹ محسوس نہ ہوئی۔ اس کی نئی نویلی بیوی جو فرسٹ کلاس مجسریٹ کی لڑکی تھی، جس نے بی اے تک تعلیم پائی تھی اور جو اپنے کالج میں سینکڑوں لڑکوں کے دل کی دھڑکن تھی، رندھیر کی نبض تیز نہ کر سکی۔۔ ۔۔ ۔۔ وہ حنا کی مرتی ہوئی خوشبو میں اس بُو کی جستجو کرتا رہا جو برسات کے انہی دنوں میں جب کھڑکی کے باہر پیپل کے پتّے بارش میں نہا رہے تھے، اسے گھاٹن لڑکی کے میلے جسم سے آئی تھی۔

٭٭٭

 

 

 

تجزیہ

 

سعادت حسن منٹو کا افسانہ ’’بُو‘‘ ۱۹۴۵ء میں ’’ادبِ لطیف‘‘ جس کے مدیر احمد ندیم قاسمی تھے میں شائع ہوا تھا۔ افسانہ چھپتے ہی ہفتہ وار ’’خیام‘‘ نے بُو کے خلاف آواز اُٹھائی ملاحظہ فرمائیں۔

’’گندگی پھیلانے والے ان ادیبوں کو حکومت نے کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔‘‘

روزانہ پربھات لاہور نے مطالبہ ہی کر ڈالا۔

’’سعادت حسن منٹو اور پریس مالکوں کو فوری گرفتار کیا جائے، کیونکہ یہ اخلاقی گندگی پھیلا رہے ہیں۔‘‘

’’اَخّوت‘‘ لاہور نے تو یہاں تک لکھ دیا۔

’’ادب لطیف کو ادب کثیف کہا جائے۔۔ ۔۔ ۔۔ کوک شاسترانہ خیالات رکھنے والے سعادت حسن منٹو اور پریس مالکوں کو فوری گرفتار کیا جائے۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

اس اخباری واویلے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ’’ادب لطیف‘‘ کے دفتر پر چھاپہ پڑا رسالے کی کاپیاں۔۔ ۔۔ ۔۔ جتنی دفتر میں موجود تھیں سب ضبط کر لی گئیں اور سرکار نے زیر دفعہ ۲۹۲ برکت علی مالک پریس، مدیر احمد ندیم قاسمی اور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو پر مقدمہ دائر کر دیا۔ منٹو اُن دنوں بمبئی میں تھے۔ ۲ مئی ۱۹۴۵ء کو استاد منٹو احمد ندیم قاسمی مدیر کو عدالت کی طرف سے بری کر دیا گیا۔

ایسی باتیں پڑھ کر رشک آتا ہے اُس دور پر۔ ادب زندگی سے کس قدر جڑا ہوا تھا۔ کس قدر قریب تھا اچھا ادب برا ادب انسانی زندگی پہ اثر انداز ہوتا تھا۔ کس قدر غور سے پڑھا جاتا تھا اُس دور کے ادیبوں کے لوگ افسانے پڑھتے تھے اور چرچا بھی کرتے تھے۔ اخبارات افسانوں پر اپنے تاثرات شائع کرتے تھے مدیران اخبارات کس قدر حسّاس تھے اور کس قدر ذمہ دار بھی، فحش لٹریچر چھپنے پر اس کا نوٹس لیتے تھے جس کی وجہ سے حکو مت ملزمین پر مقدمات دائر کر دیتی تھی۔ اگر دور حاضر کا اُس دور سے موازنہ کیا جائے تو آج کے لوگ بے حس ہو گئے۔ آپ کچھ بھی لکھتے رہیے۔ کوئی کچھ نہیں کہتا۔

کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نیتا ہو یا ابھی نیتا، کسی پہ بھی اُنگلی اُٹھا لیں کرپشن کا کارواں، رواں دواں رہتا ہے۔ فحش نگاری سے مذہبی منافرت پھیلانا کہیں بدتر کام ہے۔ آئے دن لوگ خاص طور پر نیتا لوگ مذہبی منافرت سے لبریز بیان دیتے ہیں اور لکھتے ہیں۔ مقدمہ تو دور کی بات، حکومت اُنہیں پوچھتی تک نہیں کہ وہ ایسا کیوں بولتے ہیں۔ کیوں لکھتے ہیں بات زیادہ طول پکڑ جائے تو نیتا معافی مانگ لیتا ہے۔ اُن کی معافی پر سرکار مہر لگائی دیتی ہے۔ معاملہ ختم ہو جاتا ہے۔

’’بُو‘‘ منٹو کے منتخب افسانوں میں سے ایک ہے۔ منٹو کا شاید پہلا افسانہ ہے کہ جس میں صرف دو مکالمے ہیں۔ نمبر ایک تو یہ کہ رندھیر، گھاٹن لڑکی سے کہتا ہے۔

’’یہ کپڑے اتار دو، سردی لگ جائے گی۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘ دوسرا گھاٹن لڑکی جب چولی کی گانٹھ نہیں کھول پاتی تو کہتی ہے۔

’’میں کیا کروں۔۔ ۔۔ ۔۔؟ کھلتی ہی نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ !‘‘

باقی سارا افسانہ استاد کا بیان کردہ ہے۔ یعنی راوی استاد خود ہیں۔ یہ افسانہ جنسی نفسیات پر مشتمل ہے۔ آدمی جس چیز کا عادی ہو جائے اُس کا غلام ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ تو عام بات ہے کہ کسی کو کوئی لَت پڑ جائے تو آسانی سے نہیں چھٹتی۔ جیسے نشے کی لَت، عورت بازی اور جوئے کی لت وغیرہ وغیرہ جو آدمی کی عادت میں شامل ہو جاتی ہیں۔ موپاساں کا ایک افسانہ اسی نفسیات پر مبنی ہے۔ سیکس کا سیدھا تعلق دماغ سے ہے۔ یہ افسانہ اس موضوع پہ ہے۔ ایک لڑکا اور لڑکی آپس میں ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے ہیں۔ دونوں بہت اَلّھڑ ہیں۔ دونوں پہلی رات کے بارے میں لوگوں سے بہت سی باتیں سنتے رہتے ہیں۔ اُن کے ذہن میں سہاگ رات کی عجیب و غریب تصویر کھینچ جاتی ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ اُن کو اتنی لذت ملے گی کہ فرشتے اُتر کر اُن کو لوریاں دیں گے۔ دونوں کی شادی ہو جاتی ہے ماہ غسل کے لئے لڑکا ایک بہترین ہوٹل میں کمرہ بک کرواتا ہے۔ سجے ہوئے کمرے میں دونوں ہم بستر ہو جاتے ہیں اور لپٹ جاتے ہیں، دلہن کہتی ہے۔

’’کیا یہی ہماری پہلی رات تھی جس کے لئے ہم دونوں نے اتنے شیریں خواب دیکھے تھے؟ ۔۔ ۔‘‘

دولہا کو یہ بات کھا جاتی ہے وہ سوچتا ہے کہ اُس میں کچھ کمی رہ گئی اور یہ سیدھا اُس کی مردانگی پر حملہ ہے۔ غصّے اور جھنجھلاہٹ میں اس بات کا اُس پر اس قدر اثر ہوتا ہے کہ اُس کی مردانگی ہی ختم ہو جاتی ہے۔ وہ حجرہ عروسی سے نکل کر اپنی ناکام زندگی کسی دریا کے سپرد کرنے نکل جاتا ہے۔ راستے میں دولہا کو ایک ویشیا ملتی ہے۔ جو گاہک کی تلاش میں ہے وہ اُسے اشارہ کرتی ہے لڑکا غصّہ میں محض عورت ذات سے انتقام لینے کی غرض سے تیار ہو جاتا ہے۔ ویشیا اُسے اپنے گھر لے جاتی ہے ویشیا کے غلیظ گھر میں دولہا وہ کام کرنے میں انتہائی کامیاب رہتا ہے جو ہوٹل کے بہترین کمرے میں ٹھیک سے نہ کر سکا تھا۔ وہاں سے فارغ ہو کر وہ بھاگا ہوٹل جاتا ہے۔ اب اُس کی بیوی کو وہ شیریں خواب دیکھنے کی خواہش نہیں رہتی۔ جس کا اُسے گِلہ تھا۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہو جاتا ہے۔

میرے خیال میں موپاساں کے اسی افسانے سے استاد منٹو کو تحریک ملی وہ اس نفسیاتی نقطہ سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے افسانہ ’’بُو‘‘ تخلیق کر ڈالا۔ آئیے استاد کے افسانہ ’’بُو‘‘ کا جائزہ لیں کہ انہوں نے اس جنسی نفسیات کو اپنے افسانے میں کیسے ڈھالا۔۔ ۔۔ ۔؟ رندھیر اس افسانے کا بڑا کردار ہے جو طبیعتاً عیّاش ہے وہ عیسا ئی لڑکیوں کا شیدائی ہے۔ بمبئی کی عیسائی لڑکیاں یا تو اگزالری فورس میں بھرتی ہو گئیں یا کچھ نے ڈانسنگ اسکول کھول لیئے تھے۔ وہ اپنے آپ کو سخت اکیلا محسوس کر رہا تھا۔ اُسے بارش سے بچنے کے لئے املی کے درخت کے نیچے کھڑی ایک گھاٹن لڑکی نظر آتی ہے۔ جو رسّیوں کے کارخانے میں کام کرتی ہے۔ رندھیر اُسے اپنے چوبارے میں بلاتا ہے۔ لڑکی بلا حیل و حجت چلی آتی ہے رندھیر، بھیگی ہوئی لڑکی کو کپڑے اتارنے کے لئے کہتا ہے، اور اُسے سفید دھوتی پہننے کے لئے دے دیتا ہے۔ لڑکی سے چولی کی گانٹھ نہیں کھلتی۔ رندھیر گانٹھ کھول کر اُس کے صحت مند پستانوں پر ہاتھ پھیرتا ہے اور بے قابو ہو جاتا ہے۔ پستانوں کی تعریف میں استاد منٹو نے قاری کو انگیخت کیا ہے۔ رندھیر کے چھیڑنے پر وہ اُس سے چمٹ جاتی ہے۔ رندھیر کو ساری رات لڑکے کے بدن سے عجیب و غریب قسم کی بو آتی رہتی ہے اس بو کو جو بیک وقت خوشبو اور بدبو تھی۔ وہ تمام رات پیتا رہا۔ گھاٹن کی بغلوں کو چومتا رہا استاد گھاٹن کی بُو پر مزید زور دے کر لکھتے ہیں کہ اس بُو نے اس لڑکی اور رندھیر کو ایک رات میں آپس میں حل کر دیا تھا۔ باقی جملے بھی قاری کے جذبات کو بھڑکانے والے ہیں۔ مثلاً:

’’رندھیر کے ہاتھ ساری رات اُس کی چھاتیوں پر ہوائی لمس کی طرح پھرتے رہے۔۔ ۔۔‘‘

’’چھوٹی چھوٹی چوچیاں اور موٹے موٹے مسام کے اِردگرد ایک کالے دائرے کی شکل میں پھیلے ہوئے تھے۔ ہوائی لمس سے جاگ اُٹھے وغیرہ۔‘‘

اور یہ کہ ایک دوسرے کے اندر داخل ہو گئے، عمیق ترین گہرائیوں میں غرق ہو گئے۔ یہاں پہونچ کر وہ ایک خاص انسانی لذّت میں تبدیل ہو گئے تھے۔ میں سمجھتا ہوں اگر یہ شہوت انگیز جملے (اِن کے علاوہ اور بھی بہت ہیں۔) افسانے میں شامل نہ ہوئے تو افسانے کی خوبصورتی میں ہر گز کمی نہ آتی۔ موضوع اور افسانے کا حسن دونوں برقرار ہی رہتے۔

رندھیر خود نفاست پسند تھا۔ بغلوں میں پسینے کی بو سے بچنے کے لئے پاؤڈر لگاتا اور کوئی دوا بھی استعمال کرتا تھا، تا کہ پسینے کی بو دبی رہے۔ گھاٹن لڑکی کی بغلوں کی بُو سے اُسے نفرت نہیں ہوتی بلکہ وہ بغلوں کو چومتا رہتا ہے۔ افسانے کے دوسرے حصّے میں۔ کچّے دودھ کی طرح سفید پستانوں والی اُس کی دلہن گوری چٹّی لڑکی اپنے ستر کو ننگے جسم سے چھپانے کی ناکام کوشش کرتے کرتے دوسرے پلنگ پر سوئی پڑی ہے۔ اُس کی بغلیں منڈی ہوئی ہیں اور عطرِ حنا کی خوشبو کمرے میں پھیلی ہوئی ہے۔ دلہن ایسی ہے جیسے ابھی ابھی بند صندوق سے نکالی گئی ہو۔ دلہن بی اے پاس ہے۔ جس پر کالج کے سینکڑوں لڑکے مرتے تھے۔ رندھیر کے دماغ میں گھاٹن لڑکی کی بُو سمائی ہوئی تھی۔ رندھیر نے انتہائی کوشش کی مگر وہ سہاگ رات منانے کے لئے جسمانی طور پر کامیاب نہ ہو سکا۔ دلہن کا جسم اور خوشبو رندھیر کی نبضیں تیز نہ کر سکے۔ رندھیر دلہن میں گھاٹن کی بُو تلاش کرتا رہا۔ بہر حال منٹو نے ظاہر کیا ہے کہ رندھیر عارضی طور پر نامرد ہو گیا تھا۔

در اصل افسانہ دو طرح سے تخلیق ہوتا ہے ایک تو یہ کہا ہمارے ساتھ کوئی واقعہ گذرے کوئی سچائی ہمارے سامنے ہو اُس سچائی کو ہم اپنے اسلوب سے افسانے کا لباس پہنا دیں، کچھ کمی و بیشی کر کے، وہ افسانہ زندگی کے عین قریب ہو گا اور قابل یقین بھی۔ دوسری طرح افسانہ بنایا جاتا ہے۔ جو محض ہماری تصّوراتی مشقّت ہوتی ہے۔ مثلاً ہم نے ٹھان لیا کہ ہمیں بے وفائی پر افسانہ تخلیق کرنا ہے۔ پہلے ہم طے کریں گے کہ بے وفائی محبوبہ کی ہو۔ دوست کی ہو یا کسی دوسرے رشتے کی۔ ہم زیادہ تر محبوبہ کی محبوب سے بے وفائی کا ہی موضوع لیتے ہیں۔ خاتون افسانہ نگار مردوں کی بے وفائی کی طرف راغب ہوتی ہے۔ بہر حال ہم واقعہ کھڑا کریں گے اُس کی کڑیاں ملائیں گے واقعہ کے مطابق کردار کھڑے کریں گے۔ اس قسم کے افسانوں میں مشقت (ذہنی) زیادہ ہوتی ہے۔ ہمارا فوکس ساری توجہ ہمارے موضوع یعنی بے وفائی پر رہتی ہے اور کہیں کہیں کمزوری رہ جاتی ہے۔ چاہے کتنا بھی دھیان دیں۔ ہم اختتام تک افسانے کے تھیم کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ میرے خیال میں استاد نے بو کی تخلیق دوسری طرح ہی کی ہو گی۔ اُستاد نے ایک ہی نظریہ ایک جنسی نفسیاتی نقطہ پیش کرنا تھا۔ آغاز سے وہ ایک تھیم لے کر چلے تھے کہ آدمی جس چیز کا عادی ہو جاتا ہے اُس کا غلام بن کر رہ جاتا ہے۔ خاص طور پر جنسی معاملہ میں۔ استاد کی فکر پر یہی بات سوار رہی کہ رندھیر کے دماغ میں گھاٹن کی بو رچ بس گئی تھی۔ وہ اُسی کو پسند کرتا تھا۔ وہ بُو ہی اس کے لئے جنسی اشتعال کی وجہ بنتی تھی۔ چلیئے ہم مان لیتے ہیں۔ مگر تھوڑی سی جنسی نفسیات تو ہم بھی جانتے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ رندھیر گھاٹن کی بو کا غلام تھا۔ مگر جناب وہ گھاٹن کی بُو کا شاید غلام تبھی ہو سکتا ہے جب وہ بار بار گھاٹن سے جنسی ملاقات کر چکا ہو۔ مثال کے طور پر ایک آدمی پہلی بار شراب پیتا ہے کیا وہ ایک بار شراب پینے سے شراب کا عادی ہو جائے گا؟ شراب کا عادی وہ دس بیس بار پینے سے ہی ہو گا۔ ایک بار پینے سے عادی نہیں ہو سکتا۔ جب وہ عادی ہو جائے گا تو شراب کے بغیر زندگی اس کے لئے سزا لگنے لگے گی۔ نشہ کوئی بھی لے لیجئے صرف ایک بار میں انسان کی عادت نہیں بنتا۔ نشے کے علاوہ آپ کسی بھی طرح کی عادت پہ غور کر لیں۔ فطری طور پر انسان عادی اسی چیز کا ہوتا ہے جسے بار بار استعمال کرے۔ کسی کو بے حد تیکھی مرچ کھانے کی عادت ہو کم مرچ والے کھانے اُس کو پھیکے ہی لگیں گے۔ کیا کوئی آدمی ایک بار تیکھی مرچ کھانے کے بعد ہی اُس کا عادی ہو جاتا ہے؟ ایسا میرا سوچنا ہے کہ ایک بار میں کوئی عمل آدمی کی عادت نہیں بن جاتا۔ بُو میں استاد منٹو نے رندھیر کو گھاٹن سے ایک بار جنسی ملاقات کے سلسلہ میں ملایا ہے اور ایک ہی بار میں وہ گھاٹن کی بو کا عادی ہو گیا۔ گھاٹن کی بُو ہے تو رندھیر مرد ہے بُو نہیں تو وہ مرد ہی نہیں۔ یہ بات ایک طرح ممکن ہو بھی سکتی ہے کہ اگر رندھیر ایک کنوارہ لڑکا ہوتا ٹین ایج اُس نے کبھی عورت کا مزہ نہ چکھا ہوتا۔ اُس کی خواہشات میں ہی عورت کا احساس ہوتا۔ وہ پہلی بار گھاٹن سے جنسی فعل کرتا۔ پہلی بار میں وہ اُس پہ مر مٹتا۔ وہ اُس کے خوابوں میں بس جاتی۔ تب اُس کی بُو کو وہ اپنی زندگی کا حصّہ مان لیتا وہ سوچتا۔ بُو ہے تو عورت کی لذّت ہے بُو نہیں تو عورت نہیں اُس حالت میں رندھیر کے حواس پر بُو چھا سکتی تھی۔ کیونکہ عورت کی شناخت اُس کے لئے بُو بن جاتی۔ مگر یہاں تو رندھیر عیّاش ترین آدمی ہے بقول اُستاد کہ وہ عورتوں کا رسیا تھا یعنی پلے بوائے تھا۔

آئیے اِس کے دوسرے پہلو پہ بھی غور کریں۔ رندھیر جیسا کہ اُستاد نے دکھایا ہے کہ وہ انتہائی نفاست پسند تھا۔ اُس کو پسینے کی بو سے سخت نفرت تھی وہ نہانے کے بعد اپنی بغلوں میں پاؤڈر لگاتا تھا اور کوئی ایسی دوائی بھی استعمال کرتا تھا جس سے پسینے کی بدبو دب جائے۔ اس بات پہ مجھے اپنا ایک قریبی دوست یاد آ گیا جو طبیعتاً بہت عیّاش واقع ہوا تھا۔ ایک دن اُس نے اپنی بیتی رات کی سچائی مجھے بتائی۔ کہ رات فلاں بندہ ایک انتہائی خوبصورت عورت میرے پاس لایا۔ میں عورت کو دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ چانس بھی اچھا تھا رات گھر پہ کوئی نہ تھا۔ میں عورت کو بیڈ روم میں لے گیا۔ کیا خوبصورت جسم تھا اُس کا، بیان سے باہر ہے، چاہتے ہوئے بھی میں اُس عورت سے جنسی فعل نہ کر سکا اور بیرنگ ہی بیڈ روم سے واپس آ گیا۔ میرے پوچھنے پر اُس نے بتایا کہ عورت بلا کی حسین تھی جب اُس نے کپڑے اُتارے اُس کی بغلوں اور جانگھوں سے بدبو کے بھبھوکے نکلے جو ناقابل برداشت تھے۔ میرا موڈ خراب ہو گیا کوشش کے باوجود میں تیار نہ ہو سکا۔ یہ بالکل سچا واقعہ ہے۔ در اصل میرا وہ دوست جیسا کہ اُستاد منٹو نے رندھیر کے بارے میں بیان کیا ہے، انتہائی نفاست پسند واقع ہوا تھا۔ دھول مٹّی گندگی سے اُسے چڑ تھی۔ وہ نہانے کے بعد بغلوں میں پاؤڈر لگاتا تھا۔ خوشبو کا رسیا تھا جیسا کہ ’بُو‘ کا کردار رندھیر ہے۔ سو ایک نفسیاتی پہلو یہ بھی ہے جس پہ غور کیا جا سکتا ہے اگر رندھیر نفاست پسند تھا تو گندی گھاٹن لڑکی کو کمرے سے نکال باہر کرتا۔ یا پھر میرے دوست کی طرح وہ جنسی فعل کے لئے تیار ہی نہ ہو پاتا۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ ایسی حالت میں ایسا بھی ممکن تھا۔ کیونکہ استاد نے رندھیر کو انتہائی نفاست پسند دکھایا ہے اور خود ہی لکھا ہے۔

حیرت ہے کہ رندھیر نے کئی بار اس گھاٹن لڑکی کی بالوں بھری بغلوں کو چوما۔ اسے بالکل گھن نہیں آئی۔ آپ اندازہ لگائیں کہ کارخانے میں کام کرنے والی گھاٹن لڑکی جو جھونپڑ پٹی میں ہی رہتی ہو گی جو شاید ہفتہ میں ایک بار ہی نہاتی ہو گی۔

استاد نے موسم بارش کا اور سرد دکھایا ہے۔ بمبئی میں برسات شاید مئی کے پہلے ہفتہ میں شروع ہو جاتی ہے۔ یہ بہتر تھا کہ رندھیر کو نفاست پسند دکھا کر ایک انپڑھ جاہل اور بوالہوس نوجوان دکھایا ہوتا اس بات کو شدّت سے ابھارا ہوتا کہ اُسے عورت کی سخت طلب تھی۔ ایسے آدمی کے لئے اپنی آگ بجھانے تک مطلب ہوتا ہے۔ وہ گندگی اور بدبو کی پرواہ نہیں کرتا۔ بہر حال استاد نے ’بُو‘ کی نفسیات کو بڑی کامیابی سے پیش کیا ہے افسانہ لازوال اس لئے بھی بن گیا کہ اس کی اشاعت پہ فوری مقدمہ درج ہو گیا اور ’بُو‘ کی زبردست پبلسٹی ہو گئی۔ بس منٹو کا بُو دنیا کے دس بہترین افسانوں میں شامل کر دیا گیا۔ کسی نے لکھ دیا باقی مضمون نقاد حضرات پچھلے چھپے ہوئے معاملات کو دیکھ کر لکھ لیتے ہیں لکیر کے فقیر اسی کو کہتے ہیں۔ کوئی افسانے کی پرتوں کو کھول کر بھی دیکھتا ہے کہ یہ کیا تھا اور کیوں تھا۔

آئیے اب بُو کے کرداروں کی بات کریں۔ افسانہ تین کرداروں پہ کھڑا ہے۔ رندھیر، گھاٹن لڑکی اور رندھیر کی نئی نویلی دلہن، جو محض ناکام سہاگ رات کے بعد آرام کی نیند سوتی ہوئی ہی دکھائی دیتی ہے۔ رندھیر بس رندھیر ہے۔ جو شاید تنہا ایک چوبارے میں رہتا ہے اُس کے آگے پیچھے کوئی نہیں وہ کیا کرتا ہے اُس کا سٹیٹس Status کیا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم ہاں استاد نے اتنا ضرور بتا دیا کہ فوجی گوروں کے مقابلہ میں رندھیر مہذّب، تعلیم یافتہ، صحت مند اور خوبصورت تھا۔ ہندوستانی ہونے کے ناطے اُس پر قحبہ خانوں کے دروازے بند تھے۔ بس وہ چوبارے میں ہی رہتا ہے اُسی چوبارے میں اُس نے گھاٹن لڑکی کے ساتھ رات گذاری جو انتہائی کامیاب کوشش رہی۔ اُسی کمرے میں رندھیر نے اپنی سہاگ رات گذاری۔ اُس چوبارے کے ساتھ کنبہ کے باقی افراد رہائش پذیر تھے یا نہیں۔ کھانا رندھیر کہاں کھاتا تھا۔۔ ۔۔؟ کیا اُس کی گھریلو دنیا محض یہی ایک کمرہ تھی۔۔ ۔۔ ۔۔؟

رندھیر کی دلہن ۱۹۴۵ء میں بی۔ اے پاس تھی۔ جو فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کی لڑکی تھی۔ جو اتنی حسین تھی کہ کالج کے سینکڑوں لڑکے اُس پر مرتے تھے۔ استاد۔۔ ۔۔ ۔۔ ! مجسٹریٹ کیا احمق تھا۔ جس نے اپنی اتنی پڑھی لکھی اور انتہائی خوبصورت لڑکی رندھیر کو سونپ دی۔ جس کے آگے پیچھے کچھ نہیں تھا نہ اُس کا کوئی فیملی بیگ گراؤنڈ تھا۔ نہ تو بہت بڑا بزنس میں تھا۔ نہ بڑا آفیسر تھا۔ بس استاد نے یوں موڈ میں آ کر رشتہ جوڑ دیا۔ وہ خالق جو ٹھہرے، رندھیر کی شناخت استاد نے صرف یہ دی ہے کہ وہ اچھا پَلے بوائے تھا۔ لڑکیوں سے خاص طور پر عیسائی لڑکیوں سے جنسی ملاقاتیں کرتا تھا۔ افسانہ تخلیق کرتے ہوئے استاد بس بُو کا جنسی فلسفہ پیش کرنے میں محو رہے یا پھر گھاٹن لڑکی کے صحت مند پستانون کی شان میں جذبات بھڑکانے والے جملے سجاتے رہے۔ کرداروں کا تعارف مکمل نہ دے سکے۔ اب گھاٹن لڑکی کی تکرار پورے افسانے میں ہے حالانکہ وہ رندھیر کے برابر کا کردار ہے۔ آپ اگر اُس کے آگے پیچھے کچھ نہیں دے رہے۔ کم سے کم اُس کو کوئی نام تو دے دیں بسنتی، کانتا، چُٹکی، سلونی کچھ بھی۔ تا کہ اُس کا ذکر اُس کے نام سے ہو قاری سمجھ سکے۔ اُس کا افسانے میں ۱۵ بار ذکر ہے ہر بار گھاٹن لڑکی ہی لکھا ہے۔ ایسی کیا وجہ تھی کہ استاد اُس کو نام نہیں دے سکے افسانے کی یہ کون سی تکنیک ہے کہ میں کرداروں کو نام نہ دیا جائے شاید استاد نے اُس بے چاری کو انسان نہیں سمجھا۔ بار بار گھاٹن لڑکی لکھنا افسانے کی خوبصورتی نہیں سمجھا جاتا۔

مجھے تو یہ افسانہ کم ڈرامہ زیادہ لگا جس کے محض دو سین بنائے گئے۔ ایک گھاٹن لڑکی کے ساتھ کامیاب رات گذارنا۔ دوسرا سین ناکام رات، ننگی اور بے خود سوئی ہوئی دلہن اور نامرد رندھیر، تکنیکی لحاظ سے یہ افسانہ ہی ہے۔ ڈرامے کا شائبہ تک نہیں۔ دو تو مکالمے ہیں۔ مائیو بھی نہیں کہہ سکتے مانا یہ ڈرامہ نہیں، میری بات پر غور کر لیں۔ مان لیجئے استاد منٹو اس ڈرامے کے ڈائیریکٹر تھے اور وہ ’’بو‘‘ کے کرداروں کو حکم دیتے رہے۔ مثلاً گھاٹن لڑکی کو حکم ملا کہ بارش میں املی کے درخت کے نیچے کھڑی ہو جاؤ۔ ایک اجنبی نوجوان جو عیّاش طبع ہے تمہیں اشارہ کرے گا اشارہ پاتے ہی تم اُس کے چوبارے میں جہاں وہ تنہا رہتا ہے، چلی جانا بغیر سوچے سمجھے۔ شاید وہ بھی اکیلی ہی ہو گی رندھیر کی طرح اُس کے بھی آگے پیچھے کوئی پوچھنے والا نہیں تھا کہ اُس نے رات کہاں گذاری اور کیوں؟ اُسے سخت آرڈر تھا کہ لڑکا تمہیں کپڑے اتارنے کو بولے گا تم کوئی حجت کیئے بغیر کپڑے اُتار کر اُس سے چمٹ جانا ہے اور ساری رات چمٹے رہنا ہے۔

دوسرے سین میں سرخ و سپید جسم کی مالک انتہائی حسین لڑکی جو رندھیر کی دلہن ہے۔ رندھیر سہاگ رات منانے میں سخت ناکام رہا ہے۔ لڑکی کو حکم تھا کہ وہ شوہر کی نامردی، جو ایک لڑکی کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ ہوتا ہے کہ قبول کرے اور عورت کی فطرت کے خلاف، بے فکری کی نیند سو جائے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی لڑکی کے ساتھ اس سے بڑھ کر ٹریجڈی ہو سکتی ہے کہ اُس پرسہاگ رات کو راز کھلے کہ اُس کا پتی نامرد ہے۔ لڑکی گریجویٹ ہے۔ کالج گرل تھی۔ سینکٹروں لڑکوں کی پسندیدہ تھی اوپر سے مجسٹریٹ کی بیٹی یہ اشارے بتاتے ہیں کہ لڑکی بہت بولڈ تھی۔ اگر وہ بولڈ تھی تو وہ آرام سے لڑکے کی نامردی قبول نہیں کرے گی، وہ ہنگامہ کرے گی، رندھیر کا مونہہ نوچ لے گی اور کہے گی کہ حرامی جب تجھے معلوم تھا کہ تو عورت کے قابل نہیں تو تو نے شادی کیوں کی۔۔ ۔۔ ۔۔؟ ذرا غور کیجئے کہ یہ حادثہ کسی لڑکی کی زندگی کے لئے نارمل بات نہیں کہ اُس کا شوہر نامرد ہے۔ وہ اگر بزدل بھی ہے۔ انتہائی شریف لڑکی ہے۔ تو بھی عورت کی فطرت کے مطابق وہ بے فکری کی نیند سوتی نہیں رہے گی۔ اپنے مقدر پہ آنسو بہاتی رہے گی کیونکہ عورت کا ماں بننا اُس کی زندگی کا مقصد ہوتا ہے زندگی کا حاصل ہوتا ہے۔ رندھیر کی دلہن کو اتنے بڑے المیے کے بعد استاد نے بے فکری کی گہری نیند سلا دیا۔ ہمیں ایک جنسی فلسفے کا سبق دینا تھا کہ جو مرد کسی بُو کا عادی ہو جاتا ہے وہ اسی بو سے چارج ہوتا ہے۔ خوشبو اُس کے لئے رحمت نہیں زحمت بن جاتی ہے۔ یہ سبق انہوں نے ہمیں کامیابی سے دیا۔

باقی دیگر اور باتیں بھی ہیں جو کھٹکتی ہیں۔ پیپل کے پتوں کا بار بار ذکر ہے۔ پتّے نہا رہے تھے۔ پتّے تھرتھرارہے تھے۔ پتّے کپکپا رہے تھے۔ پتے لرز لرز کر نہا رہے تھے۔ پیپل کے پتوں کا استاد نے بار بار بلا وجہ کیوں ذکر کیا۔۔ ۔۔ ۔۔؟ کیا پیپل کے پتّے یہاں کوئی علامت کے طور پر استعمال کئے ہیں استاد نے؟ ۔۔ ۔۔ علامت، تجرید اور تمثیل سے ہمیں کوفت ہوتی ہے ہم انہیں سمجھنے کے لئے ذہنی مشقت نہیں کر سکتے اگر پیل کے پتوں کا ذکر محض ہمیں بہلانے کی غرض سے کیا ہے تو بہتر۔ زمان و مکان کی بات کریں وہ یہ کہ گھاٹن کے ساتھ کامیاب رات رندھیر برسات کے موسم میں مناتا ہے۔ اسی طرح کا موسم اُس کی ناکام سہاگ رات کا ہے۔ کیا شادی اسی موسم میں ہوئی یا پھر ایک سال بعد ہوئی وہ بھی برسات میں۔ رندھیر گھاٹن لڑکی کو کہتا ہے کہ کپڑے اتار دو، سردی لگ جائے گی۔ برسات بمبئی میں شاید اپریل کے آخری دنوں یا مئی کے پہلے دنوں میں آتی ہے۔ وہاں سردی نہیں ہوتی۔

’’بُو‘‘ پڑھنے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ استاد منٹو نے مرد کی ایک نفسیات پیش کرنے کی آڑ میں بلاوجہ افسانے کو ہاٹ بنا دیا۔ عورت کے پستانوں پہ تو استاد مست ہو جاتے تھے۔ ایسے ایسے جملے استعمال کرتے خواہ مخواہ جی پھسلتا تھا۔

افسانہ ’بُو‘ تخلیق ہوئے تقریباً ستر سال ہو گئے۔ فحاشی کے حوالے سے اگر دور حاضر سے استاد کے زمانہ کا مقابلہ کریں تو بلاشبہ ہمارے دور میں فحاشی بڑھی ہے۔ انٹرنیٹ، یو ٹیوب، ٹی۔ وی اور فلموں میں کیا کچھ ہونے لگا ہے یہ سب بتانے کی ضرورت نہیں۔ دور حاضر کو ہم فحاشی کا دور کہہ سکتے ہیں۔ فحاشی کے اس دور میں بھی اردو ادب پاکیزہ ہے۔ آج کل کوئی استاد منٹو کی طرح ننگے جملے استعمال کرتا ہے؟ استاد اُس وقت ایسے فحش جملے، فحش کہہ لیں یا جنسی جذبات بھڑکانے والے کہہ لیں۔ لکھتے تھے جب نوجوان طبقہ کوک شاستر اپنے بڑوں سے چھپ کر چوری چوری دیکھتا تھا اس میں کوئی شک نہیں کہ منٹو استاد نے زندگی کی گہرائیوں کو قریب سے دیکھا، پرکھا اور برتا۔ وہ ادب برائے زندگی کے حامی رہے۔ مگر اخلاق بھی کوئی چیز ہے اُس کی قدروں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ وہ عوام میں بہت مقبول تھے کیونکہ وہ سب سے الگ تھلگ تھے، ہٹ کر تھے۔ جو بات کوئی نہیں کرتا تھا وہ بلا جھجک کہہ دیتے تھے۔ اپنی اس بے باکی، بولڈ پن کی وجہ سے انہوں نے بہت تکلیفیں اُٹھائیں۔ اخلاق اور شرافت کے ٹھیکیداروں نے اُنہیں عدالت کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔ عدالتوں نے اُنہیں سزائیں دیں۔ کوئی تو بات تھی نا، قانون ایسے ہی تو کسی کو سزا نہیں دیتا۔ افسانہ تخلیق کر کے اُن کو اندازہ ہو جاتا تھا کہ اس تخلیق پہ ہنگامہ ہو گا اُن کو انجام بھگتنا پڑے گا، اس کے باوجود استاد قلم سے سمجھوتہ نہیں کر پاتے تھے۔ بہر حال ’’بُو‘‘ ایک بہترین افسانہ ہے جس میں مرد کی ایک جنسی نفسیات کا اعادہ کیا گیا ہے اور بڑی خوبصورتی سے۔

٭٭٭

 

 

 

سعادت حسن منٹو

 

ٹھنڈا گوشت

 

ایشر سنگھ جونہی ہوٹل کے کمرے میں داخل ہوا، کلونت کور پلنگ پر سے اُٹھی۔ اپنی تیز تیز آنکھوں سے اس کی طرف گھور کے دیکھا اور دروازے کی چٹخنی بند کر دی۔ رات کے بارہ بج رہے تھے، شہر کا مضافات ایک عجیب پُر اسرار خاموشی میں غرق تھا۔

کلونت کور پلنگ پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئی۔ ایشر سنگھ جو غالباً اپنے پراگندہ خیالات کے اُلجھے ہوئے دھاگے کھول رہا تھا، ہاتھ میں کرپان لیے ایک کونے میں کھڑا تھا۔ چند لمحات اسی طرح خاموشی میں گزر گئے۔ کلونت کور کو تھوڑی دیر کے بعد اپنا آسن پسند نہ آیا۔ اور وہ دونوں ٹانگیں پلنگ سے نیچے لٹکا کر ہلانے لگی۔ ایشر سنگھ پھر بھی کچھ نہ بولا۔

کلونت کور بھرے بھرے ہاتھ پیروں والی عورت تھی۔ چوڑے چکلے کولھے تھل تھل کرنے والے گوشت سے بھر پور، کچھ بہت ہی زیادہ اوپر کو اُٹھا ہوا سینہ، تیز آنکھیں، بالائی ہونٹ پر بالوں کا سُرمئی غبار۔ ٹھوڑی کی ساخت سے پتہ چلتا تھا کہ بڑے دھڑ لّے کی عورت ہے۔

ایشر سنگھ سر نیوڑھائے ایک کونے میں چپ چاپ کھڑا تھا۔ سر پر اُس کی کس کر باندھی ہوئی پگڑی ڈھیلی ہو رہی تھی۔ اس کے ہاتھ جو کرپان تھامے ہوئے، تھوڑے تھوڑے لرزاں تھے مگر اس کے قدو قامت اور خدو خال سے پتہ چلتا تھا کہ وہ کلونت کور جیسی عورت کے لیے موزوں ترین مرد ہے۔

چند اور لمحات جب اسی طرح خاموشی میں گزر گئے تو کلونت کور چھلک پڑی لیکن تیز تیز آنکھوں کو نچا کر وہ صرف اس قدر کہہ سکی۔

’’ایشر سیاں۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

ایشر سنگھ نے گردن اُٹھا کر کلونت کور کی طرف دیکھا مگر اس کی نگاہوں کی گولیوں کی تاب نہ لا کر منہ دوسری طرف موڑ لیا۔

کلونت کور چلّائی۔

’’ایشر سیاں۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘لیکن فوراً ہی آواز بھیج لی اور پلنگ پر سے اُٹھ کر اس کی جانب جاتے ہوئے بولی۔

’’کہاں رہے تم اتنے دن؟ ۔۔ ۔‘‘

ایشر سنگھ نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری۔

’’مجھے معلوم نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

کلونت کور بھنّا گئی۔

’’یہ بھی کوئی ماں یا جواب ہے !۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

ایشر سنگھ نے کرپان ایک طرف پھینک دی اور پلنگ پر لیٹ گیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ کئی دنوں کا بیمار ہے۔ کلونت کور نے پلنگ کی طرف دیکھا جو اب ایشر سنگھ سے لبا لب بھرا تھا۔ اس کے دل میں ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو گیا۔ چنانچہ اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر اس نے بڑے پیار سے پوچھا۔

’’جانی کیا ہوا ہے تمہیں؟ ۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

ایشر سنگھ چھت کی طرف دیکھ رہا تھا، اُس نے نگاہیں ہٹا کر کلونت کور کے مانوس چہرے کو ٹٹولنا شروع کیا۔

’’کلونت!۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔‘‘اس کی آواز میں درد تھا۔

کلونت کور ساری سمٹ کر اپنے بالائی ہونٹ میں آ گئی۔

’’ہاں جانی‘‘ کہہ کر وہ اس کو دانتوں سے کاٹنے لگی۔

ایشر سنگھ نے پگڑی اتار دی۔ کلونت کور کی طرف سہارا لینے والی نگاہوں سے دیکھا، اس کے گوشت بھر کے کولھے پر زور سے دھپّہ مارا اور سر کو جھٹکا دے کر اپنے آپ سے کہا۔

’’یہ کڑی یا دماغ ہی خراب ہے۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

جھٹکا دینے سے اس کے کیس کھل گئے۔ کلونت کور انگلیوں سے ان میں کنگھی کرنے لگی۔ ایسا کرتے ہوئے اس نے بڑے پیار سے پوچھا۔

’’ایشر سیاں، کہاں رہے تم اتنے دن۔۔ ۔۔ ۔۔؟‘‘

’’برے کی ماں کے گھر۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘ایشر سنگھ نے کلونت کور کو گھور کر دیکھا اور دفعتاً دونوں ہاتھوں سے اس کے اُبھرے ہوئے سینے کو مسلنے لگا۔

’’قسم واہگورو کی، بڑی جاندار عورت ہو۔‘‘

کلونت کور نے ایک ادا کے ساتھ ایشر سنگھ کے ہاتھ ایک طرف جھٹک دیے اور پوچھا۔

’’تمہیں میری قسم، بتاؤ، کہاں رہے۔۔ ۔۔ ۔۔ شہر گئے تھے؟‘‘

ایشر سنگھ نے ایک ہی لپیٹ میں اپنے بالوں کا جوڑا بناتے ہوئے جواب دیا۔

’’نہیں۔‘‘

کلونت کور چڑ گئی۔

’’نہیں تم ضرور شہر گئے تھے۔۔ ۔۔ ۔۔ اور تم نے بہت سا روپیہ لُوٹا ہے جو تم مجھ سے چھپا رہے ہو۔‘‘

’’وہ اپنے باپ کا تخم نہ ہو جو تم سے جھوٹ بولے۔۔ ۔۔ ۔‘‘

کلونت کور تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہو گئی لیکن فوراً ہی بھڑک اُٹھی۔

’’لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا، اس رات تمھیں ہوا کیا۔۔ ۔۔ ۔۔؟ اچھے بھلے میرے ساتھ لیٹے تھے، مجھے تم نے وہ تمام گہنے پہنا رکھے تھے جو شہر سے لُوٹ کے لائے تھے۔ میری بھپّیاں لے رہے تھے، پھر جانے ایک دم تمھیں کیا ہوا، اُٹھے اور کپڑے پہن کر نکل گئے۔

ایشر سنگھ کا رنگ زرد ہو گیا۔ کلونت کور نے یہ تبدیلی دیکھتے ہی کہا۔

’’دیکھا کیسے رنگ پیلا پڑ گیا ۔۔ ۔۔ ۔۔ ایشر سیاں، قسم واہگورو کی، ضرور کچھ دال میں کالا ہے؟ ۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

’’تیری جان کی قسم، کچھ بھی نہیں۔‘‘

ایشر سنگھ کی آواز بے جان تھی۔ کلونت کور کا شبہ اور زیادہ مضبوط ہو گیا۔ بالائی ہونٹ بھینچ کر اس نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔

’’ایشر سیاں، کیا بات ہے، تم وہ نہیں ہو جو آج سے آٹھ روز پہلے تھے؟‘‘

ایشر سنگھ ایک دم اُٹھ بیٹھا جیسے کسی نے اُس پر حملہ کیا ہو، کلونت کور کو اپنے تنو مند بازوؤں میں سمیٹ کر اس نے پوری قوّت کے ساتھ اسے بھنبھوڑنا شروع کر دیا۔

’’جانی، میں وہی ہوں۔۔ ۔۔ ۔ گھُٹ گھُٹ پاجھپیاں، تیری نکلے ہڈاں دی گرمی۔۔ ۔۔‘‘

کلونت کور نے کوئی مزاحمت نہ کی، لیکن وہ شکایت کرتی رہی۔

’’تمھیں اس رات ہو کیا گیا تھا؟‘‘

’’برے کی ماں کو وہ ہو گیا تھا۔‘‘

’’بتاؤ گے نہیں؟‘‘

’’کوئی بات ہو تو بتاؤں۔‘‘

’’مجھے اپنے ہاتھوں سے جلاؤ اگر جھوٹ بولو۔‘‘

ایشر سنگھ نے اپنے بازو اس کی گردن میں ڈال دیے اور ہونٹ اس کے ہونٹوں میں گاڑ دیے۔ مونچھوں کے بال کلونت کور کے نتھنوں میں گھُسے تو اُسے چھینک آ گئی۔۔ ۔۔ ۔ دونوں ہنسنے لگے۔

ایشر سنگھ نے اپنی صدری اُتار دی اور کلونت کور کو شہوت بھری نظروں سے دیکھ کر کہا۔

’’آ جاؤ !۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ایک بازی تاش کی ہو جائے !۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

کلونت کور کے بالائی ہونٹ پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں پھوٹ آئیں۔ ایک ادا کے ساتھ اس نے اپنی آنکھوں کی پتلیاں گھمائیں اور کہا۔

’’چل دفان ہو۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

ایشر سنگھ نے اُس کے بھرے ہوئے کولھے پر زور سے چٹکی بھری۔ کلونت کور تڑپ کر ایک طرف ہٹ گئی۔

’’نہ کر ایشر سیاں، میرے درد ہوتا ہے۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

ایشر سنگھ نے آگے بڑھ کر کلونت کور کا بالائی ہونٹ اپنے دانتوں تلے دبا لیا اور کچکچانے لگا۔ کلونت کور بالکل پگھل گئی۔ ایشر سنگھ نے اپنا کرتہ اُتار کے پھینک دیا اور کہا۔

’’لو، پھر ہو جائے تُرپ چال۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

کلونت کور کا بالائی ہونٹ کپکپانے لگا، ایشر سنگھ نے دونوں ہاتھوں سے کلونت کور کی قمیص کا گھیرا پکڑا اور جس طرح بکرے کی کھال اُتارتے ہیں، اُسی طرح اس کو اُتار کر ایک طرف رکھ دیا۔ پھر اُس نے گھور کے اس کے ننگے بدن کو دیکھا اور زور سے اس کے بازو پر چٹکی بھرتے ہوئے کہا۔

’’کلونت، قسم واہگورو کی، بڑی کراری عورت ہے تو۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

کلونت کور اپنے بازو پر اُبھرتے ہوئے لال دھبّے کو دیکھنے لگی۔

’’بڑا ظالم ہے تو ایشر سیاں؟‘‘

ایشر سنگھ اپنی گھنی کالی مونچھوں میں مسکرایا۔

’’ہونے دے آج ظلم؟‘‘ اور یہ کہہ کر اس نے مزید ظلم ڈھانے شروع کیے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

کلونت کور کا بالائی ہونٹ دانتوں تلے کچکچایا، کان کی لووں کو کاٹا، اُبھرے ہوئے سینے کو بھنبھوڑا، بھرے ہوئے کولھوں پر آواز پیدا کرنے والے چانٹے مارے، گالوں کے منہ بھر بھر کے بوسے لیے، چُوس چُوس کر اُس کا سارا سینہ تھوکوں سے لتھیڑ دیا۔ کلونت کور تیز آنچ پر چڑھی ہوئی ہانڈی کی طرح اُبلنے لگی لیکن ایشر سنگھ ان تمام حیلوں کے باوجود خود میں حرارت پیدا نہ کر سکا۔ جتنے گُر اور جتنے داؤ اُسے یاد تھے، سب کے سب اس نے پٹ جانے والے پہلوان کی طرح استعمال کر دیے، پر کوئی کارگر نہ ہوا۔ کلونت کور نے جس کے بدن کے سارے تار تن کر خود بخود بج رہے تھے، غیر ضروری چھیڑ چھاڑ سے تنگ آ کر کہا۔

’’ایشر سیاں، کافی پھینٹ چکا ہے، اب پتّا پھینک!‘‘

یہ سنتے ہی ایشر سنگھ کے ہاتھ سے جیتے تاش کی ساری گڈی نیچے پھسل گئی۔ ہانپتا ہوا وہ کلونت کور کے پہلو میں لیٹ گیا اور اُس کے ماتھے پر سرد پسینے کے لیپ ہونے لگے۔ کلونت کور نے اسے گرمانے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہی۔ اب تک سب کچھ مُنہ سے کہے بغیر ہوتا رہا تھا کہ جب کلونت کور کے منتظر بہ عمل اعضا کو سخت نا اُمیدی ہوئی تو وہ جھلّا کر پلنگ سے نیچے اُتر گئی۔ سامنے کھونٹی پر چادر پڑی تھی، اس کو اُتار کر اس نے جلدی جلدی اوڑھ کر اور نتھنے پھُلا کر، بپھرے ہوئے لہجے میں کہا۔

’’ایشر سیاں وہ کون حرامزادی ہے جس کے پاس تُو اتنے دن رہ کر آیا ہے اور جس نے تجھے نچوڑ ڈالا ہے؟‘‘

ایشر سنگھ پلنگ پر لیٹا ہانپتا رہا اور اس نے کوئی جواب نہ دیا۔

کلونت کور غصّے سے اُبلنے لگی۔

’’میں پوچھتی ہوں، کون ہے وہ چڈّو۔۔ ۔۔ ۔۔ کون ہے وہ الفتی۔۔ ۔۔ ۔۔ کون ہے وہ چور پتّا۔۔ ۔۔ ۔۔؟‘‘

ایشر سنگھ نے تھکے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔

’’کوئی بھی نہیں کلونت!۔۔ ۔۔ ۔۔ کوئی بھی نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

کلونت کور نے اپنے بھرے ہوئے کولھوں پر ہاتھ رکھ کر ایک عزم کے ساتھ کہا۔

’’ایشر سیاں، میں آج جھوٹ سچ جان کے رہوں گی۔۔ ۔۔ ۔۔ کھاؤ واہگورو جی کی قسم۔۔ ۔۔ ۔۔ کیا اس کی تہہ میں کوئی عورت نہیں؟‘‘

ایشر سنگھ نے کچھ کہنا چاہا مگر کلونت کور نے اس کی اجازت نہ دی۔

’’قسم کھانے سے پہلے سوچ لے کہ میں بھی سردار نہال سنگھ کی بیٹی ہوں۔۔ ۔۔ ۔۔ تکّا بوٹی کر دوں گی، اگر تُو جھوٹ بولا۔۔ ۔۔ ۔۔ لے اب کھاؤ واہگورو جی کی قسم۔۔ ۔۔ ۔۔ کیا اس کی تہہ میں کوئی عورت نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔؟‘‘

ایشر سنگھ نے بڑے دکھ کے ساتھ اثبات میں سر ہلا دیا۔ کلونت کور بالکل ویرانی ہو گئی۔ اس نے لپک کر کونے میں سے کرپان اُٹھائی، میان کو کیلے کے چھلکے کی طرح اتار کر ایک طرف پھینکا اور ایشر سنگھ پر وار کر دیا۔

آن کی آن لہو کے فّوارے پھوٹ پڑے۔ کلونت کور کی اس سے بھی تسلّی نہ ہوئی تو اس نے وحشی بلّیوں کی طرح ایشر سنگھ کے کیس نوچنے شروع کر دئیے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اپنی نا معلوم سوت کو موٹی موٹی گالیاں دیتی رہی۔ ایشر سنگھ نے تھوڑی دیر کے بعد نقاہت بھری التجا کی۔

’’جانے دے اب کلونت، جانے دے۔۔ ۔۔ ۔۔ !‘‘ اس کی آواز میں بلا کا درد تھا۔ کلونت کور پیچھے ہٹ گئی۔

خون ایشر سنگھ کے گلے سے اُڑ اُڑ کر اس کی مونچھوں پر گر رہا تھا۔ اس نے اپنے لرزاں ہونٹ کھولے اور کلونت کور کی طرف شکریے اور گِلے کی ملی جلی نگاہوں سے دیکھا۔

’’میری جان !۔۔ ۔۔ ۔۔ تم نے بہت جلدی کی۔۔ ۔۔ ۔۔ لیکن جو ہوا، ٹھیک ہے۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

کلونت کور کا حسد پھر بھڑکا۔

’’مگر وہ کون ہے تمھاری ماں؟ ۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

لہو ایشر سنگھ کی زبان تک پہنچ گیا۔ جب اس نے اس کا ذائقہ چکھا تو اس کے بدن میں جھُرجھُری سی دوڑ گئی۔

’’اور میں۔۔ ۔۔ ۔۔ اور میں۔۔ ۔۔ ۔۔ بھینی یا چھ آدمیوں کو قتل کر چکا ہوں۔۔ ۔۔ ۔۔ اسی کرپان سے۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

کلونت کور کے دماغ میں صرف دوسری عورت تھی۔

’’میں پوچھتی ہوں، کون ہے وہ حرامزادی؟‘‘

ایشر سنگھ کی آنکھیں دھُندلا رہی تھیں۔ ایک ہلکی سی چمک ان میں پیدا ہوئی اور اس نے کلونت کور سے کہا۔

’’گالی نہ دے اُس بھڑوی کو۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

کلونت چلّائی۔

’’میں پوچھتی ہوں، وہ ہے کون؟ ۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

ایشر سنگھ کے گلے میں آواز رُندھ گئی۔

’’بتاتا ہوں۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘ یہ کہہ کر اُس نے اپنی گردن پر ہاتھ پھیرا اور اس پر اپنا جیتا جیتا خون دیکھ کر مُسکرایا۔

’’انسان ماں یا بھی ایک عجیب چیز ہے۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

کلونت کور اس کے جواب کی منتظر تھی۔

’’ایشر سیاں، تو مطلب کی بات کر۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

ایشر سنگھ کی مسکراہٹ اس کی بھری مونچھوں میں اور زیادہ پھیل گئی۔

’’مطلب ہی کی بات کر رہا ہوں۔۔ ۔۔ ۔۔ گلا چِرا ہے ماں یا میرا۔۔ ۔۔ ۔۔ اب دھیرے دھیرے ہی ساری بات بتاؤں گا۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

اور جب وہ بات بتانے لگا تو اس کے ماتھے پر ٹھنڈے پسینے کے لیپ ہونے لگے۔

’’کلونت میری جان!۔۔ ۔۔ ۔۔ میں تمھیں نہیں بتا سکتا، میرے ساتھ کیا ہوا۔۔ ۔؟ انسان کڑی یا بھی ایک عجیب چیز ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ شہر میں لُوٹ مچی تو سب کی طرح میں نے بھی اس میں حصّہ ڈالا۔۔ ۔۔ ۔۔ گہنے پائے اور روپے پیسے جو بھی ہاتھ لگے، وہ میں نے تمھیں دے دیے۔۔ ۔۔ ۔۔ لیکن ایک بات تمھیں نہ بتائی۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

ایشر سنگھ نے گھاؤ میں درد محسوس کیا اور کراہنے لگا۔ کلونت کور نے اس کی طرف توجہ نہ دی اور بڑی بے رحمی سے پوچھا۔

’’کون سی بات؟ ۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

ایشر سنگھ نے مونچھوں پر جمے ہوئے لہو کو پھونک کے ذریعے سے اڑاتے ہوئے کہا۔

’’جس مکان پر۔۔ ۔۔ ۔۔ میں نے دھاوا بولا۔۔ ۔۔ ۔۔ اس میں سات۔۔ ۔۔ ۔۔ اس میں سات آدمی تھے۔۔ ۔۔ ۔۔ چھ میں نے۔۔ ۔۔ ۔۔ قتل کر دیے۔۔ ۔۔ ۔۔ اسی کرپان سے جس سے تو نے مجھے۔۔ ۔۔ ۔۔ چھوڑ اسے۔۔ ۔۔ ۔۔ سُن۔۔ ۔۔ ۔۔ ایک لڑکی تھی بہت ہی سُندر۔۔ ۔۔ ۔۔ اس کو اُٹھا کر میں اپنے ساتھ لے آیا۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

کلونت کور خاموش سنتی رہی۔ ایشر سنگھ نے ایک بار پھر پھونک مار کے مونچھوں پر سے لہو اُڑایا۔

’’کلونت جانی، میں تم سے کیا کہوں، کتنی سُندر تھی۔۔ ۔۔ ۔۔ میں اسے بھی مار ڈالتا، پر میں نے کہا، نہیں ایشر سیاں، کلونت کور کے تو ہر روز مزے لیتا ہوں، یہ میوہ بھی چکھ دیکھ۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

کلونت کور نے صرف اس قدر کہا۔

’’ہوں۔۔ ۔۔ ۔۔ !‘‘

’’۔۔ ۔۔ ۔۔ اور میں اسے کندھے پر ڈال کر چل دیا۔۔ ۔۔ ۔۔ راستے میں۔۔ ۔۔ ۔۔ کیا کہہ رہا تھا میں۔۔ ۔۔ ۔۔؟ ہاں راستے۔۔ ۔۔ ۔۔ نہر کی پٹڑی کے پاس تھوہر کی جھاڑیوں تلے میں نے اسے لٹا دیا۔۔ ۔۔ ۔۔ پہلے سوچا کہ پھینٹوں، لیکن پھر خیال آیا کہ نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘ یہ کہتے کہتے ایشر سنگھ کی زبان سوکھ گئی۔

کلونت کور نے تھوک نِگل کر اپنا حلق تر کیا اور پوچھا۔

’’پھر کیا ہوا؟‘‘

ایشر سنگھ کے حلق سے بمشکل یہ الفاظ نکلے۔

’’میں نے۔۔ ۔۔ ۔۔ میں نے پتّا پھینکا۔۔ ۔۔ ۔۔ لیکن۔۔ ۔۔ ۔۔ لیکن۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘ اس کی آواز ڈوب گئی۔

کلونت کور نے اسے جھنجھوڑا۔

’’پھر کیا ہوا؟‘‘

ایشر سنگھ نے اپنی بند ہوتی ہوئی آنکھیں کھولیں اور کلونت کور کے جسم کی طرف دیکھا جس کی بوٹی بوٹی تھرک رہی تھی۔

’’وہ۔۔ ۔۔ ۔۔ وہ مری ہوئی تھی۔۔ ۔۔ ۔۔ لاش تھی۔۔ ۔۔ ۔۔ بالکل ٹھنڈا گوشت۔۔ ۔۔ ۔۔ جانی، مجھے اپنا ہاتھ دے۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

کلونت کور نے اپنا ہاتھ ایشر سنگھ کے ہاتھ پر رکھا جو برف سے بھی زیادہ ٹھنڈا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

تجزیہ

 

سعادت حسن منٹو کا افسانہ ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ انتہائی مقبول و معروف شاہکار ہے۔ اردو افسانے سے تھوڑا بہت شغف رکھنے والے بھی ٹھنڈا گوشت کے بارے میں بخوبی جانتے ہیں کہ یہ افسانہ منٹو کی لازوال تخلیق ہے۔ در اصل منٹو زندگی کی گہرائیوں میں اتر کر نایاب موتیوں کو ڈھونڈھ کر لایا کرتے تھے۔ زندگی کی انتہائی ذاتی، انتہائی پوشیدہ سچائیوں کے کپڑے پھاڑ کر سماج کے سامنے ننگا کیا کرتے تھے۔ میرا خیال ہے استاد جب افسانے تخلیق کیا کرتے ہوں گے اُن کا ذہن ایک آزاد پرندے کی طرح کسی بندش کے بغیر اپنی مرضی جدھر چاہے پرواز کرتا ہو گا اُن پر جب تخلیق کا وجد سوار ہوتا ہو گا۔ وہ اپنی ذہنی دنیا کے ڈکٹیٹر بن جاتے ہوں گے۔ بے خوف، نڈر، بہادر، مست مولا، کسی بھی انجام سے بے پرواہ اور دبنگ ایسے انسان کو کہاں کسی خاص دائرے میں قید کیا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی انسان اپنے کسی کام کے نتیجہ میں، بڑی سے بڑی مشکلات کا سامنا کرتا ہے۔ مالی اور ذہنی نقصان جھیلتا ہے اگر وہ اپنے فعل کو غلط سمجھتا ہے تو دو بارہ اُسے دہرانے کی بات سوچتا بھی نہیں۔ بلکہ آئندہ کے لئے توبہ کر لیتا ہے۔ استاد نے اپنی ایک کے بعد ایک تخلیق کے نتیجہ میں تکالیف برداشت کیں۔ مگر سچائی اور خود داری کا دامن نہیں چھوڑا۔ توبہ نہیں کی، اپنے کام کو غلط نہیں سمجھا۔ سماج کو اپنی نظر سے جس شکل میں دیکھا ویسا ہی پیش کیا چاہے وہ کتنی ہی گھناؤنی تھی۔ استاد اپنی تخلیقات کے حوالے سے حقیقت اور اظہار حقیقت میں کوئی فرق نہیں رکھتے تھے۔ ایک جگہ منٹو فرماتے ہیں کہ وہ صرف عکاس ہیں آئینے پر برے چہرے والوں کو غصّہ آیا ہی کرتا ہے۔

افسانہ بو کی طرح ٹھنڈا گوشت بھی ایک جنسی نفسیات پر مبنی ہے جو انسانی فطرت کی ایک مونہہ بولتی سچائی ہے۔ ماضی بعید میں ہم نے کسی سے ایک سچا واقعہ سنا تھا۔

کہ ایک نوجوان کی شادی ہوئی۔ رہائشی مکان چھوٹا تھا، بڑی مشکل سے دولہا دلہن کو سہاگ رات منانے کے لئے ایک کمرہ دے دیا گیا۔ دولہا بے خوف ہو کر زندگی کے لطف میں غرق ہو گیا۔ اُس خاص عمل کے دوران کسی ضرورت کے تحت لڑکے کے باپ نے صحن کی بتی جلا دی۔ کھڑکی کھلی تھی روشنی فوری کمرے میں آئی تو دولہا میاں ایک دم چونک پڑے ان کے ذہن پر اچانک خوف کا بھاری پتّھر گرا، اور وہ عارضی نامردی کا شکار ہو گئے۔ انہیں شفا یاب ہونے میں کئی برس لگ گئے سیکس کا تعلق براہِ راست دماغ سے ہوا کرتا ہے۔ ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ میں بھی اسی طرح ایک خوفناک سچائی اچانک ایشر سنگھ کے انتہائی سامنے آتی ہے اور وہ نفسیاتی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے جسے ہم عارضی نامردی کا نام دیتے ہیں۔ جو بلاشبہ قابل علاج ہے۔ آئیے افسانہ ٹھنڈا گوشت کے خد و خال کے بارے میں بات کریں۔

افسانے میں دو کردار ہیں ایشر سنگھ اور اُس کی داشتہ کلونت کور کچھ نقادوں نے کلونت کور کو ایشر سنگھ کی بیوی قرار دیا ہے۔ استاد منٹو نے یہ مسئلہ پہلے ہی جملے میں حل کر دیا تھا۔ ایشر سنگھ کلونت کور کو ہوٹل میں ملتا ہے رات بارہ بجے کا وقت ہے اگر کلونت کور ایشر کی بیوی ہوتی تو استاد ان کا گھر دکھاتے کہ وہ گھر میں مل رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ٹھنڈا گوشت ۱۹۴۸ء میں تخلیق ہوا جہاں تک میں سمجھتا ہوں اُس دور میں ایسا کلچر نہیں تھا کہ میاں بیوی گھر کی بجائے ہوٹل میں رات بسر کرتے ہوں ایشر سنگھ رئیس آدمی ہوتا، تو بھی ہم مان لیتے کہ تفریح کی غرض سے میاں بیوی ہوٹل میں ملے۔ آگے چل کر استاد منٹو نے صاف کر دیا کہ ایشر سنگھ کلونت کور سے آٹھ دن بعد ملا تھا۔ جس سے ظاہر ہوا کہ وہ دونوں کبھی کبھی ملتے تھے وہ بھی ہوٹل میں۔ ظاہر ہے کلونت کور ایشر سنگھ کی محبوبہ ہی تھی۔

بہر حال دونوں کردار کنوارے ہیں جسمانی طور پر دونوں مضبوط، دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم، ہفتہ پہلے دونوں آپس میں ملے تھے، اُس دن جنسی ملاقات کے لئے تیار تھے کہ عین وقت پر ایشر سنگھ کلونت کور کو تشنہ چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ عورت سب کچھ برداشت کر سکتی ہے اپنے مرد کی لاتعلّقی برداشت نہیں کر سکتی۔ فطری طور پر عورت شکی مزاج کی ہوتی ہے مرد کی ذرا سی بے توجہی سے عورت کے دماغ میں فوراً یہ بات گھر کر جاتی ہے کہ اُس کے عاشق کے اور اُس کے درمیان کوئی دوسری ہے۔ یہاں بھی یہی ہوا آٹھ دن پہلے ایشر سنگھ کا اُسے تشنہ کام چھوڑنا۔ اُسے یقین ہو گیا کہ اُن کے درمیان کوئی ہے۔ اُس رات کی بے رُخی کا کلونت کور ایشر سنگھ سے جواب مانگتی ہے۔

’’ایشر سیاں۔۔ ۔۔ ۔۔ کہاں تھے تم اتنے دن۔۔ ۔۔ ۔۔ !؟‘‘

’’ایشر سنگھ جواب دیتا ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ مجھے معلوم نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ !؟‘‘

کلونت کور بھنّا جاتی ہے اور کہتی ہے۔

’’یہ بھی کوئی جواب ہوا۔۔ ۔۔ ۔۔ ماں یا۔۔ ۔۔ ۔۔ !!‘‘

یہ الفاظ ماں یا، بھینی یا اور کڑی یا پنجابی زبان کی گندی گالیاں ہیں جو امرتسر علاقہ کے لوگوں کا تکیہ کلام ہے۔ اگر ان کی تشریح کی جائے تو جملے شرمسار ہو اُٹھیں۔ میں خود استاد منٹو کے شہر میں چار سال رہا ہوں۔ دفتری امور کے سلسلے میں مجھے دیہاتوں میں بھی جانا پڑتا تھا۔ ماں یا بھینی یا کی گالی میں نے کسی عورت کے مونہہ سے نہیں سُنی۔ البتہ مرد آپس میں بات چیت کرتے ہوئے، یہاں تک گھروں میں بیٹھ کر بھی ان گالیوں کو بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ دوسروں کو بھی دیتے ہیں، اپنے آپ کو بھی ملاحظہ فرمائیں:

’’او میں ماں یا گھر گیا سی۔۔ ۔ اوتھے بھینی یا کوئی نئیں سی۔۔ ۔۔ ۔۔ !‘‘

(اور میں ماں یا گھر گیا تھا۔ وہاں بھینی یا کوئی تھا ہی نہیں۔ )

یہ روٹین کی اور سہواً گالیاں ہیں جن کا سامنے والا کوئی نوٹس نہیں لیتا۔ اُستاد نے کرداروں کی خوبصورتی اور حقیقی رنگ بھرنے کے لئے ان کا استعمال کیا ہے۔ یہ گالیاں امرتسر ضلع سے ہی تعلّق رکھتی ہیں۔ شاید لاہور جس کا فاصلہ کچھ زیادہ نہیں، میں یہ گالیاں عام نہیں۔ ان کی وضاحت اگر بریکٹ میں دی جاتی تو قاری کو سمجھنے میں سہولیت ہوتی۔ پتہ نہیں کیوں استاد سمجھتے تھے کہ یہ گالیاں، تامل ناڈو، بنگال بہار کے قارئین بھی سمجھ جائیں گے۔ یا اُن کو اندازہ نہ تھا کہ وہ ایک دن پوری دنیائے ادب پر آسیب کی طرح چھا جائیں گے۔ ان کے علاوہ پنجابی کے کئی دوسرے الفاظ بھی استاد اپنے کرداروں سے کہلوا دیتے تھے۔ جو عام فہم نہیں تھے۔ یہ اُن کا اپنا اسلوب تھا کہ کردار کے مونہہ میں اُس کی اپنی زبان ہی رکھتے تھے۔ جو کردار کی خوبصورتی بڑھا دیتی ہے۔ جو ایک اچھے فن کی علامت ہے۔

بہر حال ایشر سنگھ سے کوئی صحیح جواب نہیں بن پاتا۔ وہ بڑا پریشان ہے۔ وہ کلونت کور کو پیار بھرے انداز سے بلاتا ہے۔ کلونت کور پگھل جاتی ہے۔ اُس کا پیار اُمڈ آتا ہے۔ مگر وہ اپنے سوال پر اڑی رہتی ہے۔ اس بار اس کا سوال کرنے والا انداز محبت بھرا ہوتا ہے۔ محبت عورت کی کمزوری ہے۔ جب ایشر سنگھ کلونت کے سوال کا جواب نہیں دے پاتا تو وہ معاملہ ٹالنے کی غرض سے چھیڑ چھاڑ شروع کر دیتا ہے۔

کلونت کور نرم تو ہو جاتی ہے مگر اُس کا سوال وہی رہتا ہے جیسے

’’ایشر سیاں۔۔ ۔۔ ۔۔ کہاں رہے تم اتنے دن۔۔ ۔۔ ۔۔ !؟‘‘

ایشر جواب دیتا ہے۔

’’برے کی ماں کے گھر۔۔ ۔۔ ۔۔ !‘‘

ایسے مکالمے پنجاب میں اکثر سننے کو ملتے ہیں۔ ایشر سنگھ کلونت کے اُس سوال سے بچنے کے لئے اُس کا سینہ مسلنا شروع کر دیتا ہے۔ مگر وہ بڑی کانٹے دار اور اڑیل زنانی تھی۔ ایشر اُس کی تعریف بھی کرتا ہے۔ مگر اُس کا سوال جوں کی توں قائم رہتا ہے۔

’’تمہیں میری قسم۔۔ ۔۔ ۔۔ بتاؤ۔۔ ۔۔ ۔۔ !۔۔ ۔۔ ۔ کہاں رہے۔۔ ۔۔ ۔۔؟ ۔۔ ۔ شہر گئے تھے۔۔ ۔۔ ۔؟‘‘

یہ مکالمہ اپنی سمجھ سے باہر ہے۔ استاد نے پہلے ہی جملے میں بتا دیا کہ دونوں ہوٹل کے کمرے میں ملتے ہیں۔ ظاہر ہے ایسے ہوٹل جن کے کمرے رہائش کیلئے کرایہ پر ملتے ہوں وہ شہروں میں ہی ہوتے ہیں۔ کسی گاؤں میں ہوٹل اینڈ ریسٹورینٹ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ وہ بھی اُس دور میں جس دور میں افسانہ سانس لے رہا ہے۔ شروعاتی جملوں میں استاد واضح کر رہے ہیں۔

’’شہر کا مضافات ایک عجیب پُر اسرار خاموشی میں غرق تھا۔‘‘

یہ جملہ خود اپنے اندر ایک بڑا ثبوت ہے کہ اُس وقت کلونت اور ایشر شہر میں موجود تھے، پھر کلونت کا یہ سوال کہ شہر گئے تھے۔۔ ۔۔؟ بے معنی سا لگتا ہے۔ ممکن ہے نقاد حضرات۔۔ ۔۔ ۔ اِس بے معنی جملے سے جو شہر میں بیٹھ کر ایشر سے پوچھتی ہے کہ شہر گئے تھے۔۔ ۔۔ ۔۔؟ سے بھی کوئی جمالیاتی پہلو نکال لیں۔ کسی استعارے کی نشاندہی کر دیں۔ ایشر سنگھ کہتا ہے کہ وہ شہر نہیں گیا۔ کلونت کور کو شک ہے کہ شہر سے بہت سا روپیہ لوٹ کر وہ کسی دوسری عورت سے جڑ گیا ہے۔ ایشر یقین دلاتا ہے مگر کلونت نہیں مانتی پھر وہ ایک نقطے پر آن کھڑی ہوتی ہے۔

’’آٹھ دن پہلے تم میرے ساتھ لیٹے میری بپھیاں لے رہے تھے۔ تم ایک دم اُٹھے اور کپڑے پہن کر چل دئیے۔۔ ۔۔ ۔۔ ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ !‘‘

ایشر سنگھ یقین دلاتا ہے۔

’’تیری جان کی قسم کچھ بھی نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ !!‘‘ ایشر اُسے بازوؤں میں لے لیتا ہے۔

بڑے جوش کے ساتھ جپھیاں ڈالتا ہے یعنی بازوؤں میں کستا ہے۔ ٹاپک بدلنے کی کوشش کرتا ہے مگر کلونت کور اُس سے سوالات کرتی رہتی ہے۔

’’کیا ہوا تھا۔۔ ۔۔ ۔۔ !؟ تمہیں اُس رات۔۔ ۔۔ ۔ !؟‘‘

ایشر سنگھ جواب دیتا ہے۔

’’کوئی بات ہو تو۔۔ ۔۔ ۔۔ بتاؤں۔۔ ۔۔ ۔۔ !‘‘

وہ اُسے بازوؤں میں لے کر بھنبھوڑتا ہے۔ اُس کے ہونٹوں میں ہونٹ گاڑ دیتا ہے وہ سوچتا ہے عورت ذات ہے جذبات میں بہہ کر سوال کرنا چھوڑ دے گی۔ دفعتاً ایشر سنگھ اُسے دعوت دیتا ہے۔

’’آ جاؤ تاش کی ایک بازی ہو جائے۔۔ ۔۔ ۔۔ !‘‘

یہاں ایک جملہ بہت اچھا لگا کہ کلونت کور ہانڈی کی طرح پکنے لگی ہے۔ کلونت کور جب انتہائی گرم ہو کر نقطۂ عروج پر پہونچ جاتی ہے تو اُس سے برداشت نہیں ہوتا وہ کہہ اُٹھتی ہے۔

’’ایشر سیاں کافی پھینٹ چکا۔۔ ۔۔ ۔۔ اب پتّہ پھینک۔۔ ۔۔ ۔۔ !‘‘

کرداروں کی اس کیفیت میں اگر اظہار کرتا۔ تو یوں تحریر کرتا۔

’’بس کرو۔۔ ۔۔ !اب کتنا ترساؤ گئے۔۔ ۔۔ ۔۔؟ مر جاؤں گی میں۔۔ ۔۔ ۔۔ !‘‘

اظہار وہی ہے قاری کے ذہن میں بات مکمل ہو جاتی ہے۔ تھوڑا فحاشی سے ہٹ کر اخلاق کے دائرے میں بھی رہنا ضروری ہے۔ پتّہ پھینکنے کی علامت، فحاشی ہی سمجھی جائے گی۔ میرا مطلب یہ نہیں کہ خدا نہ خواستہ میں استاد سے بہتر لکھتا۔ میرے کہنے کا مطلب یہ کہ بات کو یوں بھی نبھایا جا سکتا تھا معاملہ ادب کا جو ٹھہرا۔ مگر استاد کو تو ٹھنڈا گوشت ہاٹ بنانا تھا۔ تاکہ لوگ شور مچائیں۔ استاد خود بھی شرافت سے بیان کر سکتے تھے بہر حال ایشر سنگھ کے ماتھے پر سرد پسینے کے لیپ ہونے لگے۔ ایشر کے ہاتھ سے جیسے تاش کی ساری گڈی نیچے پھسل گئی۔ کلونت کور اُسے گرمانے کی بہت کوشش کرتی ہے مگر ناکام رہتی ہے۔ اب اُس کا شک پختہ یقین میں بدل جاتا ہے۔ وہ پلنگ سے اتر کر چادر اوڑھ لیتی ہے اور بپھرے ہوئے لہجے میں سوال کرتی ہے۔

’’ایشر سنگھ۔۔ ۔۔ ۔۔ !!۔۔ ۔۔ وہ کون حرام زادی ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ !؟ جس نے تجھے نچوڑ کر رکھ دیا۔‘‘ ایشر خاموش رہتا ہے کلونت کے سوال کا تیکھا پن بڑھ جاتا ہے۔ وہ یقین دلاتا ہے۔

’’کوئی بھی نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ !‘‘ کلونت کور غصّہ سے تن جاتی ہے۔ کہتی ہے۔

’’واہ گرو کی قسم کھا کر بتا۔۔ ۔۔ ۔۔ اس کی تہہ میں کوئی عورت نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔!!؟‘‘

ایشر سنگھ سفاک قاتل اور لٹیرا تھا بدمعاش تھا مگر محبوبہ کے سامنے اس قدر نرم ہو جاتا ہے کہ جھوٹ نہیں بول پاتا اور ہاں میں گردن ہلا دیتا ہے۔ کلونت کور زخمی ناگن کی طرح پھنکارتی ہوئی لپک کر تلوار اُٹھا لیتی ہے اور ایشر سنگھ پر وار کر دیتی ہے اور جنگلی بلّی کی طرح اُس کے بال نوچنے لگتی ہے۔ یہاں ایک بات ناقابل یقین سامنے آتی ہے جس کی طرف آپ کی توجہ دلانا چاہوں گا۔ کلونت کور تلوار کا وار کرتی ہے۔ استاد منٹو لکھتے ہیں کہ خون ایشر سنگھ کے گلے سے اُڑ اُڑ کر اُس کی مونچھوں پر گر رہا تھا۔ ظاہر ہے کلونت کور نے وار ایشر کے گلے پر کیا۔ آگے استاد نے بالکل واضح کر دیا، ایشر سنگھ کا یہ مکالمہ ملاحظہ فرمائیں۔

’’گلا چرا ہے ماں یا میرا!۔۔ ۔۔ ۔۔ اب دھیرے دھیرے ہی ساری بات بتاؤں۔۔ ۔ !‘‘

اس مکالمے سے تصویر بالکل واضح ہو گئی کہ کلونت کور نے تلوار کا وار گلے پر ہی کیا تھا۔ غصّہ سے پاگل ہو رہی ایک جاندار عورت کا وار کمزور نہیں ہو سکتا۔ عورت کی نفسیات ہے کہ حسد کی آگ میں وہ اندھی ہو جاتی ہے۔ عورت اپنے محبوب یا شوہر کو کسی دوسری عورت سے شیئر نہیں کر سکتی۔ کلونت کور بھی اسی کیفیت میں وار کرتی ہے جو کمزور نہیں ہو سکتا اور پھر استاد نے خود لکھا ہے کہ خون ایشر سنگھ کے گلے سے اُڑ اُڑ کر اُس کی مونچھوں پر گر رہا تھا۔ اس سے بھی ظاہر ہو جاتا ہے کہ کلونت کور کا وار بھر پور تھا۔ میرا سوال یہ ہے کہ ایسے بھر پور وار سے کیا شہ رگ کٹنے سے بچ سکتی ہے۔۔ ۔۔ ۔۔؟ انسان کی شہ رگ تو گلے کی چمڑی کے تقریباً قریب ہی ہوتی ہے۔ ایک دوست ڈاکٹر نے بتایا کہ شہ رگ تو گلے میں رسی ڈال کر کھینچنے سے بھی کٹ جاتی ہے یہاں تو کلونت کور کے بھر پور وار سے ایشر سنگھ کا گلا چر گیا تھا۔ خون کے فوارے پھوٹ پڑے تھے ایسے میں شہ رگ کا بچنا نا ممکن ہے۔ بلاشبہ ایشر سنگھ کی شہ رگ کٹ گئی ہو گی۔ ہماری شہ رگ کا تعلق براہِ راست دماغ سے ہوتا ہے۔ شہ رگ کٹتے ہی انسان پہ بے ہوشی طاری ہونے لگتی ہے۔ وہ ایک دو الفاظ سے زیادہ نہیں بول سکتا۔ استاد منٹو نے ایشر سنگھ کا گلا چرنے کے کم سے کم دس منٹ بعد تک اُسے با ہوش رکھا۔ آپ خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دونوں کرداروں کی حرکات و سکنات اور مکالموں کی ادائیگی نے تقریباً دس منٹ تو لیے ہی ہوں گے۔ افسانہ بہر حال انسانوں کی سر گذشت ہے۔ زندگی کا عکس ہوتا ہے افسانہ، انسانوں کی آپ بیتی ہوتا ہے۔ اسے کیا ہم استاد کا دکھایا ہوا معجزہ سمجھیں کہ شہ رگ کٹ جانے کے پندرہ منٹ بعد تک ایشر سنگھ ہوش میں رہتا ہے اور بڑے آرام سے رک رک کر کلونت کور کو آپ بیتی بیان کرتا ہے۔ کہ وہ کس طرح اُس خوبصورت لڑکی کو اُٹھا لاتا ہے۔ پتّا پھینکنے پر اُسے معلوم ہوتا ہے کہ لڑکی مردہ ہے۔ منٹو کے کئی دوسرے افسانوں کے مطالعہ سے بھی یہ بات سامنے آتی ہے کہ استاد کسی جنسی مسئلے یا کسی حادثے کو پیش کرنا چاہتے تھے اُن کا فوکس اُس کے تھیم پر زیادہ بنا رہتا تھا۔ وہ جلد سے جلد اختتام پر پہونچ کر اپنا اظہار مکمل کرنے میں کوشاں رہتے تھے۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر توجہ نہیں دیتے تھے۔ دوسرے اُن کے اندر خود اعتمادی کوٹ کوٹ کر بھری تھی، جو سوچ لیا وہی تخلیق کر لیا۔ جیسے ہم کہانی کے مشاہدات کی مضبوطی کی غرض سے حسب ضرورت کسی ماہر سے دریافت کر لیتے ہیں میرا اندازہ ہے استاد ایسا نہیں کرتے ہوں گے اس عمل کو شاید وہ تضحیک سمجھتے ہوں گے۔ اگر استاد گلا چرنے، شہ رگ کٹ جانے کی کیفیت کے بارے میں کسی ڈاکٹر سے رجوع کر لیتے تو شاید افسانے کی شکل ہی کچھ اور ہوتی۔ ایشر سنگھ چرے گلے کے ساتھ حقیقت بیان نہیں کر سکتا تھا۔ کیونکہ اُس کی شہ رگ کٹ چکی ہوتی ہے۔ جس انسان کی شہ رگ کٹ جائے وہ بولا نہیں کرتا۔

بہرحال یہ تو میرا خیال ہے۔ ممکن ہے یہ خام خیالی ہو۔ اس کا فیصلہ تو میڈیکل سائنس ہی کر سکتی ہے۔ آئیے اب افسانے کی طرف لوٹیں تا کہ اس کے دوسرے پہلوؤں پر نظر ڈالی جائے۔ ایشر سنگھ درد میں ڈوب کر نقاہت سے بولتا ہے۔

’’جانے دے کلونت اب جانے دے۔۔ ۔۔ ۔۔ ! میری جان۔۔ ۔۔ ۔۔ تم نے بہت جلدی کر دی۔۔ ۔۔ ۔۔ !‘‘

کلونت کور پھر سوال کرتی ہے۔

’’مگر وہ ہے کون۔۔ ۔۔ ۔۔؟ ۔۔ ۔۔ ۔۔ تمہاری ماں۔۔ ۔۔ ۔۔ !؟‘‘

ایشر سنگھ کا گلا چر جاتا ہے وہ ٹھہر ٹھہر کر کلونت کور کو بتاتا ہے۔

’’میں نے۔۔ ۔۔ ۔۔ اسی کرپان سے۔۔ ۔۔ ۔۔ چھ قتل کر دئیے جس مکان پر میں نے دھاوا بولا وہاں سات آدمی تھے۔ ایک لڑکی تھی۔ بہت ہی سُندر۔۔ ۔۔ ۔۔ اُس کو اُٹھا کر میں اپنے ساتھ لے آیا۔ کلونت جانی میں کیا بتاؤں کہ وہ کتنی حسین تھی۔۔ ۔۔ ۔۔ میں اُسے بھی مار ڈالتا۔ مگر میں نے سوچا کہ کلونت کور کے مزے تو روز لیتا ہوں یہ میوہ بھی چکھ کر دیکھوں۔ اُسے کندھے پر ڈال کر میں چل دیا، نہر کی پٹڑی کے پاس تھوہر کی جھاڑیوں تلے میں نے اُسے لٹا دیا۔ میں نے پتّا پھینکا لیکن۔۔ ۔۔ ۔۔ !‘‘ اُس کی آواز ڈوب گئی۔ کلونت کور نے اُسے جھنجھوڑا۔

’’پھر کیا ہوا۔۔ ۔۔ ۔۔ !؟‘‘

ایشر سنگھ کی بند ہوتی ہوئی آنکھیں کھلیں اور وہ بولا۔

’’وہ مری ہوئی تھی۔۔ ۔۔ ۔۔ لاش تھی۔۔ ۔۔ ۔۔ بالکل ٹھنڈا گوشت۔۔ ۔۔ ۔۔ !!‘‘

ایشر سنگھ کلونت کور کو ٹوٹ کر چاہتا ہے۔ اپنے آخری لمحات میں وہ کہتا ہے۔

’’جانی۔۔ ۔۔ ۔۔ ! اپنا ہاتھ دے۔۔ ۔۔ ۔۔ !!‘‘

ظاہر ہے ایشر سنگھ کو اپنے آخری وقت میں نہ خدا یاد رہتا ہے نہ کوئی سگا سمبندھی۔ وہ کلونت کور سے اُس کا لمس مانگتا ہے۔ یہی اُس کی آخری خواہش بن کر رہ جاتی ہے۔ کلونت اپنا ہاتھ ایشر کے ہاتھ پر رکھ دیتی ہے ہاتھ جو برف سے زیادہ ٹھنڈا ہو چکا تھا۔

یہاں یہ بات کھٹکتی ہے کہ ایشر سنگھ کی طرح کلونت کور بھی اُسے بیحد چاہتی ہے۔ جب اُس کے سوالوں کا جواب مل جاتا ہے۔ معاملہ صاف ہو جاتا ہے۔ ایشر کہتا ہے جانی اپنا ہاتھ دے۔ محبوب خون میں لت پت ہے، وہ جان کنی کے عالم میں ہے، کلونت کو احساس ہی نہیں ہوتا؟ کہ اُس نے اپنے محبوب کو مار ڈالا، زخمی کر دیا جیسے وہ کہتا ہے کہ اُس کی گردن چِری ہے۔ اُس عورت پہ کوئی اثر نہیں ہوتا، نہ وہ پچھتاتی ہے کہ یہ اُس نے بے وقوفی کی، بلا وجہ کے شک میں کیا کر ڈالا؟ نہ روتی ہے نہ چلّاتی ہے۔ عورت کی فطرت کے خلاف اُس پہ اُس ناحق قتل کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اُسے تو اپنے بال نوچ ڈالنے چاہئے تھے۔ چھاتی پیٹ لینی چاہئے تھی۔ وہ روتی بین کرتی کہ اُس نے یہ کیا کر ڈالا۔۔ ۔۔ ۔۔ !؟ استاد نے چونکہ جو بات کہنی تھی وہ کہہ ڈالی اور جلدی سے دوکان بند کر ڈالی کہ کام ختم ہو گیا استاد نے محسوس ہی نہیں کیا کہ اُس نے کردار کا قتل کر ڈالا اور وہ بھی ناحق۔ افسانے میں بے جا فحش جملے نہیں سجائے گئے جس کی وجہ سے قاری میں ہیجان پیدا ہوتا یا استاد خود جنسی چٹخارے لیتے ہوئے نظر آتے۔ اگر کوئی گالی یا ننگے جملے ہیں بھی تو حسب ضرورت ہیں۔ شاید اُن کے بغیر ٹھنڈا گوشت میں خوبصورتی نہ آتی۔ ایک ایسا آدمی جو ادب میں دلچسپی نہ رکھتا ہو اور افسانے کے رموز نہ جانتا ہو۔ اُس کو واقعی ٹھنڈا گوشت فحش ہی لگے گا۔ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ استاد منٹو حقیقت اور اظہار حقیقت میں فرق نہیں رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ کچھ جملے ہمیں ننگے لگتے ہیں۔

افسانہ ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ صرف دو کرداروں پر مبنی ہے۔ ہوٹل کے کمرے میں شروع ہوتا ہے وہیں پہ ختم ہو جاتا ہے۔ جب مسلم لڑکی دہشت کے مارے ایشر سنگھ کے کندھے پر جان دے دیتی ہے اور ایشر سنگھ اپنی خواہش کے مطابق اُس سے جنسی رشتہ جوڑنے جاتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ اُس کی تپتی ہوئی شہوانی خواہشات کے سامنے ٹھنڈے گوشت کا لوتھڑا پڑا ہے۔ اس حادثے کا ایشر پر اس قدر گہرا اثر ہوتا ہے کہ وہ نفسیاتی طور پر نامرد ہو جاتا ہے۔ اسے عارضی نامردی بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس سے ایک پہلو یہ بھی ابھر کر آتا ہے کہ ایشر سنگھ انتہائی حسّاس قسم کا آدمی تھا اگر کوئی بے حِس، جاہل، بد دماغ اور پیشہ ور کریمینل ہوتا تو شاید اُس پہ مردہ جسم کو دیکھ کر ایسی کیفیت طاری نہ ہوتی وہ کہہ دیتا۔ مر گئی سالی چھوڑو۔۔ ۔۔ ۔۔ ! اس سے ظاہر ہے کہ وقتی طور پر ایشر سنگھ قاتل اور ظالم بن گیا تھا۔ بنیادی طور پر وہ ایک حسّاس آدمی تھا اور اُس کے اندر تھوڑی بہت اچھائی کی رمق باقی تھی۔ اگر ایشر سنگھ لاش کے ساتھ ہی جنسی فعل کر گذرتا تو افسانہ بالکل بے معنی ہو کر رہ جاتا، حیرانی کی بات نہیں لاشوں سے بد فعلی کی مثالیں موجود ہیں۔ جنسی بھوک کے ہاتھوں آدمی اندھا ہو جاتا ہے۔ جانوروں تک سے اپنی تسکین حاصل کر لیتا ہے دور حاضر میں تو بہو، بیٹی تک کے رشتوں کو بالائے طاق رکھ دیتا ہے۔ ایشر سنگھ کی اچھائی ایک جگہ اور جھانکتی نظر آتی ہے۔ ایک جگہ ایشر کلونت سے کہتا ہے۔

’’گالی نہ دے اُس بھڑوی کو۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

کیا ایشر سنگھ اُس مردہ عورت کو گالی دینا پسند نہیں کر رہا تھا۔ ممکن ہے اُس مردہ لڑکی کے مرنے پر ایشر کے اندر رحم بھر گیا ہو کہ وہ اُس پر ترس کھانے لگا ہو۔ یا پچھتا رہا ہو کہ اُس کی جان بھی گئی اور وہ اسے چکھ بھی نہ سکا۔ بات یہ بھی ہے کہ چھ قتل کرنے والے کو کیسا پچھتاوا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔؟ ایشر سنگھ حساس انسان تھا۔ وہ وقتی طور پر قاتل بنا۔ استاد منٹو کا مقصد ایک جنسی مسئلے کا اظہار تھا جو انہوں نے ’ٹھنڈا گوشت‘ میں پیش کیا۔ وہ یہ کہ مرد جنسی عمل کے لئے، اپنی جنسی خواہشات کی تکمیل کے لئے تیار ہوا اور اچانک کوئی دلخراش واقعہ اُسے چونکا دے اُس کے اعصاب کو جھنجھوڑ دے۔ وہ اپنا بیش قیمت خزانہ یعنی مردانگی کھو دیتا ہے۔ وقتی طور پر یا ہمیشہ کے لئے مرد کی یہ نفسیات استاد نے ایک انتہائی کڑوی سچائی کی شکل میں پیش کی ہے۔ افسانہ ’’بو‘‘ کی طرح ٹھنڈا گوشت کو زیادہ پھیلایا نہیں نہ ہی مقامات یا منظر کشی کے چکر میں پڑے بس دو تین کریکٹرز کھڑے کیئے ایک کمرے میں ہی افسانہ مکمل کر دیا۔ جبکہ اُن کا زمانہ طویل افسانوں کا زمانہ تھا قاری کے پاس وقت بھی تھا اور مطالعہ کا رواج بھی تھا یا کہہ لیجئے کہ مطالعہ تفریح کا سامان تھا۔ افسانہ ’’بُو‘‘ میں گھاٹن لڑکی، رندھیر دونوں ہی محو عمل ہیں تیسری کردار اُس کی بیوی جو سوئی ہوئی ہے۔ مقام ایک چوبارہ جو رندھیر کا رہائشی کمرہ ہے۔ وہاں بھی مسئلہ ایک جنسی نفسیات کا اظہار ہے۔ ٹھنڈا گوشت میں ایشر سنگھ، کلونت کور، مقام ایک ہوٹل کا کمرہ اور بس۔ جو بات استاد نے کہنا تھی وہ کہہ گئے۔ ایشر سنگھ کیا ہے اُس کا ذریعہ معاش اُس کی بیک گراؤنڈ کیا تھی۔ وہ کیا تھا، کیوں تھا۔ کچھ نہیں بس ایشر سنگھ تھا۔ ہٹا کتّا، طاقتور، جنسی طور پر مضبوط اور دلیر۔ استاد نے جتنا کام اُس سے لینا تھا یعنی جنس کے معاملے میں اُس کردار کو پیش کرنا تھا اُس کا وہی پہلو پیش کر دیا۔ کلونت کور اُس کی معشوق ہے۔ جو رات کے بارہ بجے اُس سے ہوٹل میں جنسی ملاقات کی غرض سے موجود ہے۔ ظاہر ہے وہ شادی شدہ بھی نہیں تھی۔ کیونکہ کسی مکالمے سے شائبہ نہیں ہوتا کہ وہ شادی شدہ تھی۔

سوال یہ اُٹھتا ہے کہ کلونت کور کے آگے پیچھے کوئی تھا ہی نہیں؟ جبکہ وہ خود ایک مکالمے میں کہتی ہے کہ میں بھی نہال سنگھ کی بیٹی ہوں۔۔ ۔۔ ۔۔ تکا بوٹی کر دوں گی۔ اگر کلونت کور ایک ایسے آدمی کی بیٹی ہے جو جابر ہے۔ ٹکا بوٹی کرنے میں یقین رکھتا ہے تو وہ رات کے بارہ بجے کے بعد تک اپنے عاشق کے ساتھ ہوٹل کے کمرے میں رنگ رلیاں منانے کیسے آ سکتی ہے۔ کیا وہ کردار زندگی سے جڑا ہوا نہیں تھا۔ جس دور میں یہ دونوں کردار سانس لے رہے ہیں وہ دور بڑا حسّاس دور تھا۔ جوان اور خوبصورت لڑکی کا گھر سے نکلنا وہ بھی رات کے بارہ بجے پھر واپس اپنے باپ نہال سنگھ کے گھر لوٹنا کیسے ممکن تھا جبکہ قتل و غارت گیری کا بازار گرم تھا اور ایشر سنگھ ایسی ہی واردات میں ملوث تھا۔ جو اُس دور میں موجود تھے جو جانتے ہیں کہ وہ کس قدر ہولناک ماحول تھا۔ رات کو لڑکیاں گھر سے اکیلی نکلا کرتی تھیں یا نہیں۔ اُستاد منٹو بس جنسی نفسیات کے اظہار کی سوچتے رہے کہ کس طرح یہ مسئلہ پیش کیا جائے ان باتوں کی طرف انہوں نے دھیان ہی نہیں دیا۔ افسانہ تو شاہکار تھا ہی کچھ مقدمہ کی پبلسٹی نے اسے شاہکار بنا دیا۔ جیسے ہمارے دور میں کسی فلم کو ہٹ بنانے کے لئے عوامی سطح پر اُس کی مخالفت کروا دی جاتی ہے۔ مقدمات دائر کرا دئیے جاتے ہیں۔ فلم کمائی کر لیتی ہے تو معاملہ دبا دیا جاتا ہے۔ اسے پبلسٹی سٹنٹ کا نام دیا جاتا ہے۔ اُس دور میں یہ سٹنٹ ممکن نہ تھا یہ تو اس ترقی یافتہ دور ہی کی دین ہے۔

بہر حال بات اظہار کی ہو رہی تھی۔ اسی طرح استاد نے بُو میں ایک مختلف جنسی نفسیات کو پیش کرنا تھا۔ رندھیر اور گھاٹن لڑکی سے کام لیا اور جنسی مسئلہ پیش کر دیا۔ رندھیر کون ہے کیا ہے۔ اس کی بیک گراؤنڈ کیا ہے۔ اُس کی ملکیت ایک چوبارہ ہے۔ وہ عیاش آدمی ہے۔ فرسٹ کلاس مجسٹریٹ اُس کو اپنی بیٹی دے دیتا ہے جو خوبصورت ہے۔ مجسٹریٹ رندھیر میں کیا قابلیت دیکھتا ہے اُس شخص میں وہ کیا دیکھتا ہے یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ گھاٹن لڑکی بھی کلونت کور کی طرح رندھیر کے چوبارے کے نیچے کھڑی بارش میں بھیگ رہی ہے۔ رندھیر اُسے اشارہ کرتا ہے، وہ اوپر آ جاتی ہے اور بلا تامل، اپنا سب کچھ رندھیر کو سونپ دیتی ہے۔ بلکہ اُس سے چمٹ جاتی ہے جیسے دیرینہ شناسائی تھی۔ رات بھر رندھیر کے ساتھ رہتی ہے۔ چاہے وہ غریب ہے۔ جھگی جھونپڑی میں رہتی ہے اُس کو کسی کا ڈر نہیں تھا؟ اُس کے آگے پیچھے کوئی پوچھنے والا نہیں تھا کہ وہ رات بھر کہاں تھی۔۔ ۔؟ کیا کوئی بھی لڑکی کسی بھی آدمی کے اشارے سے اُس کے پاس چلی جاتی ہے بغیر جان پہچان کے بغیر بات کیئے وہ اُس آدمی سے چمٹ جاتی ہے؟ فحاشی کے جرم پہ ’’بُو‘‘ پر بھی مقدمہ چلا۔ بہر حال دونوں افسانوں میں کچھ مماثلت ہے، کچھ باتیں غیر فطری اور عجب لگتی ہیں۔

یہ بات میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ استاد منٹو کی سب سے بڑی تعریف یہ ہے، جس سے ہم نے بھی سبق لیا کہ وہ کرداروں کے عین مطابق اُن کے مونہہ میں مکالمے رکھتے تھے۔ یعنی اُن کے مونہہ میں اُن کی فطری زبان رکھتے تھے۔ جس سے کردار جی اُٹھتے تھے۔ یہ بات میں بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ استاد اپنے کرداروں سے بہت پیار کرتے تھے۔ اپنے کرداروں کو پر کشش بنانے کے لئے اُن کے مونہہ میں اُن کی اپنی زبان رکھتے تھے۔ آج کل میرے بہت سے افسانہ نگار دوست کردار چاہے کسی بھی خطّے کا ہو کوئی بھی اُس کا کلچر ہو، بولی ہو۔ اُس کے مونہہ میں اپنی زبان رکھ دیتے ہیں اور کہتے ہیں مکالمہ عام فہم ہونا چاہئے میں مانتا ہوں کہ کہانی عام فہم زبان میں ہونی چاہئے، آپ کی تخلیق کو سمجھنے کے لئے قاری کو ڈکشنری کا سہارا لینا نہ پڑے کیونکہ ہم غالب ؔو میرؔ کے دور میں تو سانس لے نہیں رہے کہ ثقیل زبان بھی اُس دور میں عام فہم تھی۔ معاف کیجئے اگر آپ بمبئی کے کسی بھائی (غنڈے) سے علی گڑھ کی شائیستہ زبان بلوائیں گے تو کردار مسخ ہو جائے گا۔ آپ لکھ تو دیں گے وہ بولتا ہوا غیر قدرتی لگے گا۔ بقول پال صاحب کہ کردار کے مونہہ میں اُس کی اپنی زبان نہ رکھیں تو کردار مر جاتا ہے۔ یقیناً یہ درست ہے۔ اگر مقامی زبان عام فہم نہ ہو تو بریکٹ میں ترجمہ دے دیں مگر کردار سے اُس کی اپنی زبان نہیں چھیننی چاہئے۔ ’ٹھنڈا گوشت‘ میں استاد منٹو نے یہ الفاظ استعمال کیئے ہیں جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں۔ ماں یا، بھینی یا، کڑی یا، چڈو، ہانڈی، بھڑوی اور جھپیاں۔ ان الفاظ کے معنی کو تحقیق کے طالب علم اکثر ڈکشنریوں میں تلاش کرتے ہیں۔ ان کے معنی تو کوئی امرتسر کا پنجابی باشندہ ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ اگر استاد اس کا بریکٹ میں ترجمہ دے دیتے تو دنیا کے کسی بھی کونے میں ان الفاظ سے لطف لیا جا سکتا تھا۔ وہ اپنے افسانوں میں پنجابی کے الفاظ خاص کر گالیاں استعمال کرتے تھے۔ شاید وہ یہ جانتے ہی نہیں تھے کہ وہ ایک دن دنیا کے گلوب پر ادب کی روشنی بن کر پھیل جائیں گے۔ اُن کے افسانے پنجاب تک ہی محدود نہ رہیں گے۔

’’ٹھنڈا گوشت‘‘ ۱۹۴۹ء میں ’’جاوید‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ افسانے کو حکومت نے ملعون و مطعون قرار دے دیا۔ ۲۹۲ کے تحت مقدمہ چلا۔ استاد نے ذہنی، جسمانی اور مالی تکلیفیں اُٹھائیں۔ جولائی ۱۹۵۰ء  کو سیشن کورٹ نے سزا دی۔ ۱۹۵۲ء میں ہائی کورٹ سے فیصلہ ہوا۔ جرمانہ ۳۰۰ روپے ہوا۔ استاد خود لکھتے ہیں کہ ٹھنڈا گوشت کی مقدمہ بازی نے اُن کا بھرکس نکال دیا۔ وہ تکلیفیں اُٹھاتے رہے۔ مگر تخلیق کے معاملہ میں انہوں نے سمجھوتے نہیں کئے۔ اپنے تخلیقی عمل کو کبھی غلط تصّور نہیں کیا۔ منٹو سچائی کا ایک فرشتہ تھے، جو سماج اور قانون کے بندھنوں سے ہمیشہ آزاد رہے۔ وہ خود رو اور خوددار تھے۔ منٹو بلاشبہ اعلیٰ پایہ کے فن کار تھے۔ اُن کے افکار کو کوئی پا بہ زنجیر کر نہ پایا۔ اُن کی طبیعت اُن کی سوچ ہمیشہ آزاد رہی۔

٭٭٭

 

 

 

سعادت حسن منٹو

 

 

پھوجا حرام دا

 

ٹی ہاؤس میں حرامیوں کی باتیں شروع ہوئیں، تو یہ سلسلہ بہت دیر تک جاری رہا۔ ہر ایک نے کم از کم ایک حرامی کے متعلق اپنے تاثرات بیان کئے، جس سے اس کو اپنی زندگی سے واسطہ پڑ چکا تھا۔ کوئی جالندھر کا تھا، کوئی لدھیانے کا اور کوئی لاہور کا۔ مگر سب کے سب اسکول یا کالج کی زندگی سے متعلق تھے۔ مہر فیروز صاحب سب سے آخر میں بولے۔ آپ نے کہا۔

’’امرتسر میں شاید ہی کوئی ایسا آدمی ہو، جو پھوجے حرام دے کے نام سے ناواقف ہو۔ یوں تو اس شہر میں اور بھی کئی حرام زادے تھے، مگر اس کے پلّے کے نہیں تھے۔ وہ نمبر ایک حرام زادہ تھا۔ اسکول میں اس نے تمام ماسٹروں کا ناک میں دم کر رکھا تھا۔ ہیڈ ماسٹر جنہیں دیکھتے ہی بڑے بڑے شیطان لڑکوں کا پیشاب خطا ہو جاتا، پھوجے سے بہت گھبراتے تھے، اس لئے کہ اس پر ان کے مشہور بید کا کوئی اثر ہی نہیں ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تنگ آ کر انہوں نے اس کو مارنا چھوڑا دیا تھا۔

یہ دسویں جماعت کی بات ہے۔ ایک دن یار لوگوں نے اس سے کہا۔

’’دیکھو پھوجے !۔۔ ۔۔ ۔۔ اگر تم کپڑے اتار کر ننگ دھڑنگ اسکول کا ایک چکّر لگاؤ تو ہم تمہیں ایک روپیہ دیں گے۔‘‘پھوجے نے روپیہ لے کر کان میں اُڑسا۔ کپڑے اُتار کر بستے میں باندھے اور سب کے سامنے چلنا شروع کر دیا۔ جس کلاس کے سامنے سے گزرتا، وہ زعفران زار بن جاتا۔ چلتے چلتے ہیڈ ماسٹر کے دفتر کے پاس پہنچ گیا۔ پٹّی اٹھائی اور غڑاپ سے اندر، معلوم نہیں کیا ہوا، ہیڈ ماسٹر صاحب سخت بوکھلائے ہوئے باہر نکلے اور چپراسی کو بُلا کر اس سے کہا۔

’’جاؤ، بھاگ کے جاؤ پھوجے حرامدے کے گھر جاؤ، وہاں سے کپڑے لاؤ اس کے لئے۔ کہتا ہے میں مسجد کے سقاوے میں نہا رہا تھا کہ میرے کپڑے کوئی چور اٹھا کر لے گیا۔‘‘

دینیات کے ماسٹر مولوی پوٹیٹو تھے۔ معلوم نہیں، انہیں پوٹیٹو کس رعایت سے کہتے تھے، کیونکہ آلوؤں کے تو داڑھی نہیں ہوتی۔ ان سے پھوجا ذرا دبتا تھا، مگر ایک دن ایسا آیا کہ انجمن کے ممبروں کے سامنے مولوی صاحب نے غلطی سے اس سے ایک آیت کا ترجمہ پوچھ لیا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ خاموش رہتا، مگر پھوجا حرامدا کیسے پہچانا جاتا۔ جو منہ میں آیا، اول جول بک دیا۔ مولوی پوٹیٹو کے پسینے چھوٹ گئے۔ ممبر باہر نکلے تو انہوں نے غصّے سے تھرتھر کانپتے ہوئے اپنا عصا اٹھایا اور پھوجے کو وہ چار چوٹ کی مار دی کہ بلبلا اٹھا، مگر بڑے ادب سے کہتا رہا۔

’’مولوی صاحب!۔۔ ۔۔ ۔۔ میرا قصور نہیں، مجھے کلمہ ٹھیک سے نہیں آتا اور آپ نے ایک پوری آیت کا مطلب پوچھ لیا۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘ مارنے سے بھی مولوی پوٹیٹو صاحب کا جی ہلکا نہ ہوا، چنانچہ وہ پھوجے کے باپ کے پاس گئے اور اس سے شکایت کی۔ پھوجے کے باپ نے اُن کی باتیں سنیں اور بڑے رحم ناک لہجے میں کہا۔

’’مولوی صاحب!۔۔ ۔۔ ۔۔ میں خود اس سے عاجز آ گیا ہوں۔۔ ۔۔ ۔۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کی اصلاح کیسے ہو سکتی ہے۔ ابھی کل کی بات ہے، میں پاخانے گیا تو اس نے باہر سے کنڈی چڑھا دی۔ میں بہت گرجا، بے شمار گالیاں دیں، مگر اس نے کہا۔ اٹھنّی دینے کا وعدہ کرتے ہو تو دروازہ کھلے گا، اور دیکھو، اگر وعدہ کر کے پھر گئے تو دوسری مرتبہ کنڈی میں تالا بھی ہو گا۔ ناچار اٹھنّی دینی پڑی۔ اب بتائیے، میں ایسے نابکار لڑکے کا کیا کروں۔۔‘‘

اللہ ہی بہتر جانتا تھا کہ اس کا کیا ہو گا، پڑھتا وڑھتا خاک بھی نہیں تھا۔ انٹرینس کے امتحان ہوتے تو سب کو یقین تھا کہ بہت بُری طرح فیل ہو گا، مگر نتیجہ نکلا تو کلاس میں اس کے سب سے زیادہ نمبر تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ کالج میں داخل ہو، مگر باپ کی خواہش تھی کہ کوئی ہنر سیکھے۔ چنانچہ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ دو برس تک آوارہ پھرتا رہا۔ اس دوران اس نے جو حرام زدگیاں کیں، ان کی فہرست بہت لمبی ہے۔ تنگ آ کر اس کے باپ نے بالآخر اسے کالج میں داخل کروا دیا۔ پہلے ہی دن اس نے یہ شرارت کی کہ میتھے میٹکس کے پروفیسر کی سائیکل اٹھا کر درخت کی سب سے اونچی ٹہنی پر لٹکا دی۔ سب حیران کہ سائیکل وہاں پہنچی کیونکر، مگر وہ لڑکے جو سکول میں پھوجے کے ساتھ پڑھتے تھے، اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ کارستانی اس کے سوا کسی کی نہیں ہو سکتی، چنانچہ اس ایک ہی شرارت سے اس کا پورے کالج سے تعارف ہو گیا۔ اسکول میں اس کی سرگرمیوں کا میدان محدود تھا۔ مگر کالج میں بہت وسیع ہو گیا۔ پڑھائی میں، کھیلوں میں، مشاعروں میں اور مباحثوں میں ہر جگہ پھوجے کا نام روشن تھا اور تھوڑے دن میں اتنا روشن ہوا کہ سارے شہر میں اس کے گُنڈپنے کی دھاک بیٹھ گئی۔ بڑے بڑے جگادری بدمعاشوں کے کان کاٹنے لگا۔ ناٹا قد مگر بدن کسرتی تھا، اس کی بھیڈو ٹکّر بہت مشہور تھی۔ ایسے زور سے مدّ مقابل کے سینے میں یا پیٹ میں اپنے سر سے ٹکّر مارتا کہ اس کے سارے وجود میں زلزلہ سا آ جاتا۔

ایف اے کے دوسرے سال میں اس نے تفریحاً پرنسپل کی نئی موٹر کے پٹرول ٹینک میں چار آنے کی شکر ڈال دی، جس نے کاربن بن کر سارے انجن کو غارت کر دیا۔ پرنسپل کو کسی نہ کسی طریقے سے معلوم ہو گیا کہ خطرناک شرارت پھوجے کی ہے، مگر حیرت ہے کہ انہوں نے اس کو معاف کر دیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ پھوجے کو ان کے بہت سے راز معلوم تھے، ویسے وہ قسمیں کھاتا تھا کہ اس نے ان کو دھمکی وغیرہ بالکل نہیں دی تھی کہ انہوں نے سزا دی، تو وہ انہیں فاش کر دے گا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب کانگریس کا بہت زور تھا۔ انگریزوں کے خلاف کھلم کھلا جلسے ہوتے تھے۔ حکومت کا تختہ الٹنے کی کئی ناکام سازشیں ہو چکی تھیں۔ گرفتاریوں کی بھرمار تھی، سب جیل باغیوں سے پُر تھے، آئے دن ریل کی پٹڑیاں اکھاڑی جاتی تھیں، خطوں کے بھبکوں میں آتش گیر مادہ ڈالا جاتا تھا۔ بم بنائے جا رہے تھے۔ پستول برآمد ہوتے تھے۔ غرض کہ ایک ہنگامہ برپا تھا اور اس میں سکول اور کالجوں کے طالب علم بھی شامل تھے۔ پھوجا سیاسی آدمی بالکل نہیں تھا، میرا خیال ہے اس کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ مہاتما گاندھی کون ہے، لیکن جب اچانک ایک روز اسے پولیس نے گرفتار کیا اور وہ بھی ایک سازش کے سلسلے میں تو سب کو بڑی حیرت ہوئی۔

اس سے پہلے کئی سازشیں پکڑی  جا چکی تھیں۔ سانڈرس کے قتل کے سلسلے میں بھگت سنگھ اور دت کو پھانسی بھی ہو چکی تھی، اس لئے یہ معاملہ بھی کچھ سنگین ہی معلوم ہوتا تھا۔ الزام یہ تھا کہ مختلف کالجوں کے لڑکوں نے مل کر ایک خفیہ جماعت بنائی تھی، جس کا مقصد ملکِ معظّم کی سلطنت کا تختہ الٹنا تھا۔ ان میں سے کچھ لڑکوں نے کالج کی لیبارٹری سے پکرک ایسڈ چرایا تھا جو بم بنانے کے کام آتا ہے۔ پھوجے کے بارے میں شبہ تھا کہ وہ ان کا سرغنہ ہے اور اس کو تمام خفیہ باتوں کا علم ہے۔ اس کے ساتھ کالج کے دو اور لڑکے بھی پکڑے گئے تھے۔ ان میں سے ایک مشہور بیرسٹر کا لڑکا تھا اور دوسرا رئیس زادہ۔ ان کا ڈاکٹری معائنہ کرا لیا گیا تھا، اس لئے پولیس کی مار پیٹ سے بچ گئے، مگر شامت غریب پھوجے کی آئی۔ تھانے میں اس کو الٹا لٹکا کے پیٹا گیا۔ برف کی سلوں پر کھڑا کیا گیا۔ غرض کہ ہر قسم کی اذیت اسے پہنچائی گئی کہ راز کی باتیں اُگل دے، مگر وہ بھی ایک کتّے کی ہڈی تھا، ٹس سے مس نہ ہوا، بلکہ یہاں بھی کم بخت اپنی شرارتوں سے باز نہ آیا۔ ایک مرتبہ جب وہ مار برداشت نہ کر سکا تو اس نے تھانے دار سے ہاتھ روک لینے کی درخواست کی اور وعدہ کیا کہ وہ سب کچھ بتا دے گا، بالکل نڈھال تھا، اس لئے اس نے گرم گرم دودھ اور جلیبیاں مانگیں طبیعت قدرے بحال ہوئی، تو تھانیدار نے قلم کاغذ سنبھالا اور اس سے کہا۔

’’لو بھئی اب بتاؤ۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘ پھوجے نے اپنے مار کھائے ہوئے اعضاء کا جائزہ انگڑائی لے کر لیا اور جواب دیا۔

’’اب کیا بتاؤں، طاقت آ گئی ہے، چڑھا لو پھر مجھے اپنی ٹکٹکی پر۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

ایسے اور بھی کئی قصّے ہیں جو مجھے یاد نہیں رہے، مگر بہت پُر لطف تھے۔ ملک حفیظ جو ہمارا ہم جماعت تھا، اس کی زبان سے آپ سنتے، تو اور ہی مزا آتا۔

ایک دن پولیس کے دو سپاہی پھوجے کو عدالت میں پیش کرنے کے لئے جا رہے تھے۔ ضلع کچہری میں اس کی نظر ملک حفیظ پر پڑی، جو معلوم نہیں کس کام سے وہاں آیا تھا۔ اس کو دیکھتے ہی پکارا۔

’’السلام علیکم ملک صاحب!۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

ملک صاحب چونکے۔ پھوجا ہتھکڑیوں میں ان کے سامنے کھڑا مسکرا رہا تھا۔

’’ملک صاحب!۔۔ ۔۔ ۔۔ بہت اداس ہو گیا ہوں، جی چاہتا ہے، آپ بھی آ جائیں میرے پاس۔ بس میرا نام لے دینا کافی ہے۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

ملک حفیظ نے جب یہ سُنا تو اس کی روح قبض ہو گئی۔ پھوجے نے اس کو ڈھارس دی۔

’’گھبرائیں نہیں ملک!۔۔ ۔۔ ۔۔ میں تو مذاق کر رہا ہوں۔ ویسے میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتاؤ کہ وہ کس لائق تھا۔ ملک حفیظ گھبرا رہا تھا، کنّی کترا کے بھاگنے ہی والا تھا کہ پھوجے نے کہا۔

’’بھئی اور تم ہم سے کچھ نہیں ہو سکتا۔ کہو تو تمہارے بدبو دار کنویں کی گار نکلوا دیں۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

ملک حفیظ ہی آپ کو بتا سکتا ہے کہ پھوجے کو اس کنویں سے کتنی نفرت تھی۔ اس کنویں سے ایسی بساند آتی تھی جیسے مرے ہوئے چوہے سے۔ معلوم نہیں لوگ اسے صاف کیوں نہیں کراتے تھے۔

ایک ہفتے بعد جیسا کہ ملک حفیظ کا بیان ہے، وہ باہر نہانے کے لئے نکلا، تو کیا دیکھتا ہے کہ دو تین آدمی ٹوٹے کنویں کی گندگی نکالنے میں مصروف ہیں۔ بہت حیران ہوا کہ ماجرا کیا ہے، انہیں بلایا کس نے ہے۔ پڑوسیوں کا یہ خیال تھا کہ بڑے ملک صاحب کو بیٹھے بیٹھے خیال آ گیا ہو گا کہ چلو کنویں کی صفائی ہو جائے، یہ لوگ بھی کیا یاد کریں گے، لیکن جب انہیں معلوم ہوا کہ چھوٹے ملک کو اس بارے میں کچھ علم نہیں اور یہ کہ بڑے تو شکار پر گئے ہیں تو انہیں بھی حیرت ہوئی۔ پولیس کے بے وردی سپاہی دیکھے تو معلوم ہوا کہ پھوجے کی نشان ہی پر وہ کنویں سے بم نکال رہے ہیں۔ بہت دیر تک گندگی نکلتی رہی۔ پانی صاف شفاف ہو گیا، مگر بم کیا، ایک چھوٹا سا پٹاخا بھی برآمد نہ ہوا۔ پولیس بہت بھنّائی پھوجے سے باز پُرس ہوئی۔ اس نے مُسکراکر تھانے دار سے کہا۔

’’بھولے بادشاہو!۔۔ ۔۔ ۔۔ ہمیں تو اپنے یار کا کنواں صاف کرانا تھا، سو کرا لیا۔۔۔۔۔۔‘‘

بڑی معصوم شرارت تھی، مگر پولیس نے اسے وہ مارا، وہ مارا کہ مار مار کر ادھ موا کر دیا اور ایک دن یہ خبر آئی کہ پھوجا سلطانی گواہ بن گیا ہے۔ اس نے وعدہ کر لیا ہے کہ سب کچھ بک دے گا۔

کہتے ہیں اس پر بڑی لعن طعن ہوئی۔ اس کے دوست ملک حفیظ نے بھی، جو حکومت سے بہت ڈرتا تھا، اس کو بہت گالیاں دیں کہ پھوجا ڈر کے مارے غّدار بن گیا ہے۔ معلوم نہیں اب کِس کِس کو پھنسوائے گا۔ بات اصل یہ تھی کہ وہ مار کھا کھا کر تھک گیا تھا۔ جیل میں اس سے کسی کو ملنے بھی نہیں دیا جاتا تھا، مرغّن غذائیں کھانے کو دی جاتیں، مگر سونے نہیں دیا جاتا تھا۔ کم بخت کو نیند بہت پیاری تھی، اس لئے تنگ آ کر اس نے سچّے دل سے وعدہ کر لیا کہ بم بنانے کی سازش کے جملہ حالات بتا دے گا، یوں تو وہ جیل ہی میں تھا، مگر اس پر کوئی سختی نہ تھی۔ کئی دن تو اس نے آرام کیا، اس کا بند بند ڈھیلا ہو چکا تھا۔ اچھی خوراک ملی، بدن پر مالشیں ہوئیں، تو وہ بیان لکھوانے کے قابل ہو گیا۔ صبح لسّی کے دو گلاس پی کر وہ اپنی داستان شروع کر دیتا۔ تھوڑی دیر بعد ناشتہ آتا۔ اس سے فارغ ہو کر وہ پندرہ بیس منٹ آرام کرتا اور کڑی سے کڑی ملا کر اپنا بیان جاری رکھتا۔ آپ محمد حسین اسٹینو گرافر سے پوچھئے جس نے اس کا بیان ٹائپ کیا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ پھوجے حرامدے نے پورا ایک مہینہ لیا اور وہ سارا جال کھول کے رکھ دیا، جو سازشوں نے ملک کے ایک کونے سے اُس کونے تک بچھایا تھا یا بچھانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ اس نے سینکڑوں آدمیوں کے نام لئے۔ ایسی ہزاروں جگہوں کا پتہ بتایا، جہاں سازشی لوگ چھپ کر ملتے تھے اور حکومت کا تختہ الٹنے کی ترکیبیں سوچتے تھے۔ یہ بیان، محمد حسین اسٹینو گرافر کہتا ہے، فل اسکیپ کے ڈھائی سو صفحات پر پھیلا ہوا تھا۔ جب یہ ختم ہوا تو پولیس نے اسے سامنے رکھ کر پلان بنایا۔ چنانچہ فوراً نئی گرفتاریاں عمل میں آئیں اور ایک بار پھر پھوجے کی ماں بہن پُنی جانے لگی۔ اخباروں نے بھی دبی زبان میں پھوجے کے خلاف کافی زہر اُگلا، اس لئے اس کی غداری کی ہر جگہ مذمّت ہوتی تھی۔ وہ جیل تھا، جہاں اس کی خوب خاطر تواضع ہو رہی تھی۔ یہ بڑی طرّے والی کلف لگی پگڑی سر پر باندھے، دو گھوڑے کی بوسکی کی قمیص اور چالیس ہزار لٹھّے کی گھیر دار شلوار پہنے وہ جیل میں یوں ٹہلتا تھا جیسے کوئی افسر معائنہ کر رہا ہے۔ جب ساری گرفتاریاں عمل میں آ گئیں اور پولیس نے اپنی کارروائی مکمل کر لی تو سازش کا یہ معرکہ انگیز کیس عدالت میں پیش ہوا۔ لوگوں کی بھیڑ جمع ہو گئی۔ پولیس کی حفاظت میں جب پھوجا نمودار ہوا تو غصّے سے بھرے ہوئے نعرے بلند ہوئے۔ ’’پھوجا حرامدا مردہ بار، پھوجا غدار مردہ باد‘‘

ہجوم مشتعل تھا۔ خطرہ تھا کہ پھوجے پر نہ ٹوٹ پڑے، اس لئے پولیس کو لاٹھی چارج کرنا پڑا، جس کے باعث کئی آدمی زخمی ہو گئے۔ عدالت میں مقدمہ پیش ہوا۔ پھوجے سے جب یہ پوچھا گیا کہ وہ اس بیان کے متعلق کیا کہنا چاہتا ہے جو اس نے پولیس کو دیا تھا تو اس نے اپنی ل اعلمی کا اظہار کیا۔

’’جناب!۔۔ ۔۔ ۔۔ میں نے تو کوئی بیان و بیان نہیں دیا۔ ان لوگوں نے ایک پلندہ سا تیار کیا تھا جس پر میرے دستخط کروا لئے تھے۔ یہ سُن کر انسپکٹر پولیس کی، بقول پھوجے کے ’’بھمبیری بھول گئی‘‘۔ اور جب یہ خبر اخباروں میں چھپی تو سب چکرا گئے کہ پھوجے نے یہ کیا نیا چکّر چلایا ہے۔

چکّر نیا ہی تھا، کیونکہ عدالت میں اس نے ایک نیا ہی بیان لکھوانا شروع کیا، جو پہلے بیان سے بالکل مختلف تھا۔ یہ قریب قریب پندرہ دن جاری رہا۔ جب ختم ہوا، تو فل سکیپ کے ۱۵۸ صفحے کالے ہو چکے تھے۔ پھوجے کا کہنا ہے کہ اس بیان سے جو عمارت پولیس نے کھڑی کی تھی۔ اس کی ایک ایک اینٹ اکھاڑ کے رکھ دی۔ سارا کیس چوپٹ ہو گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس سازش میں جتنے گرفتار ہوئے تھے، ان میں سے اکثر بری ہو گئے۔ دو تین کو تین تین برس کی اور چار پانچ کو چھ چھ مہینے کی سزا ہوئی۔ جو سُن رہے تھے، ان میں سے ایک نے پوچھا۔ ’’اور پھوجے کو؟‘‘

مہر فیروز نے کہا۔

’’ پھوجے کو کیا ہونا تھا، وہ تو وعدہ معاف سلطانی گواہ تھا۔‘‘

سب نے پھوجے کی حیرت انگیز ذہانت کو سراہا کہ اس نے پولیس کو کس صفائی سے غچّا دیا۔ ایک نے جس کے دل و دماغ کو اس کی شخصیت نے بہت متاثر کیا تھا۔

مہر فیروز سے پوچھا۔ ’’آج کل کہاں ہوتا ہے؟‘‘

’’یہیں لاہور میں، آڑھت کی دکان کرتا ہے۔‘‘ اتنے میں بَیرا بل لے کر آیا اور پلیٹ مہر فیروز کے سامنے رکھ دی۔ کیونکہ چائے وغیرہ کا آرڈر اسی نے دیا تھا۔ پھوجے کی شخصیت سے متاثر شدہ صاحب نے بِل دیکھا اور ان کا آگے بڑھنے والا ہاتھ رُک گیا۔ کیونکہ رقم زیادہ تھی۔ چنانچہ ایسے ہی مہر فیروز سے مخاطب ہوئے۔

’’آپ کے اس پھوجے حرامدے سے کبھی ملنا چاہئے۔‘‘

’’آپ اُس سے مل چکے ہیں یہ خاکسار ہی پھوجا حرامدا ہے۔۔ ۔۔‘‘

بِل آپ ادا کر دیجئے۔ السّلام علیکم۔‘‘ یہ کہہ کر وہ تیزی سے باہر نکل گیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

تجزیہ

 

فطری طور پر ادیب کے اِردگرد ہونے والی تبدیلیاں اُس پر عام انسان سے زیادہ گہرا اثر چھوڑتی ہیں۔ زمانے کی سرد و گرم ہوائیں ہی اُس کی فکر کو نئی نئی جہتوں سے روشناس کرواتی ہیں اسی لئے ادیب کو وقت کا نبّاض کہا گیا ہے۔ بلاشبہ وہ اپنے دور کو لکھتا ہے۔ وہ اپنے دور کا مورخ بھی کہلاتا ہے۔ منشی پریم چند کو ہی لے لیجئے انہوں نے جبر و ظلم کے ماحول میں آنکھیں کھولیں۔ شعور جاگا تو انہوں نے اپنے دور کی عکاسی کی اپنے دور کے رنج و الم کو صفحہ قرطاس کی نذر کیا کسان و مزدور کی محرومیوں سے پردہ اُٹھایا۔ اُن کی حیات میں وقت نے کروٹ لی، سرخ انقلاب کا رنگ پھیلا، ظلم کے خلاف مظلوم کی آواز اُٹھائی گئی اس کار خیر میں ادباء کی ایک جماعت شامل ہو گئی یعنی ترقی پسند تحریک کا انعقاد ہوا۔ بیدی، منٹو، کرشن چندر، عصمت، قاسمی اور بہت سے نام جنہوں نے غریب مزدور، مظلوم کسانوں پچھڑے ہوئے، دبے ہوئے طبقوں کے جذبات کی عکاسی کی۔ ان سب ناموں میں سے ایک نام سعادت حسن منٹو کا ہے جس کا مزاج باقی ادیبوں سے ہٹ کر تھا۔ منٹو خود دار، بے باک اور آزاد قسم کا ادیب تھا۔ وہ اپنے مزاج کے مطابق کسی حصار میں قید ہونا پسند نہیں کرتا تھا۔ وہ خود رو انسان تھا، کسی ازم میں شامل ہونا اُسے پسند نہ تھا۔ جو جی میں آیا لکھ دیا تخلیق کے معاملہ میں وہ کسی بندش کو پسند نہیں کرتا تھا۔ اُس کا کہنا تھا منٹو تو منٹو ہی ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ اُس کے افسانوں، اُس کے کرداروں اور موضوعات کا جائزہ لیں تو میں سمجھتا ہوں منٹو سے بڑا کوئی ترقی پسند تھا ہی نہیں۔ ظلم کے خلاف احتجاج کرنا، سماج کو آئینہ دکھانا، پسماندہ طبقوں کا دکھ، درد محسوس کرنا اُس کا شیوہ تھا۔ منٹو نے کبھی سمجھوتے نہیں کیئے۔ سفید پوش طبقہ اُس سے ہمیشہ ناخوش رہا مگر اُس نے پرواہ نہیں کی۔ اُسے عدالتوں میں گھسیٹا گیا مگر اُس نے اپنے احتجاج کا جھنڈا بلند رکھا۔ اس عظیم فنکار کے بارے میں جتنا لکھیں کم ہے۔

بقول سجاد ظہیر کے منٹو کے چند افسانے ہمارے ادب کے بہترین افسانوں میں شمار کیئے جا سکتے ہیں۔ مجھے معاف فرمائیں تو میں یہاں یہ بات کہتا چلوں کہ ہمارے سامنے منٹو کے افسانوں کا انتخاب ہی آیا ہے۔ مثلاً ٹھنڈا گوشت، موذیل، ٹوبہ ٹیک سنگھ، کھول دو، بلاؤز، گوپی ناتھ اور جانکی وغیرہ۔ کچھ ایسے افسانے بھی پائے گئے ہیں جو واقعی منفرد اور بہترین تھے پھر بھی، جانے کیوں وہ انتخاب کے دائرے میں نہیں آ سکے ان میں سے ایک افسانہ ’’پھوجا حرام دا‘‘ ہے یہ افسانہ دائرہ انتخاب سے شاید اس لیے باہر رہ گیا ہو کہ اس کا عنوان پنجابی زبان کا ہے، منٹو کے اس افسانے میں پنجابی زبان کے کئی الفاظ ہیں جن کا لطف وہی قاری اُٹھا سکتا ہے جو پنجابی زبان کی واقفیت رکھتا ہو اس بات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ منٹو کو اپنی مقامی زبان سے ا زحد پیار تھا۔ عنوان ’’پھوجا حرام دا‘‘ کو ہی لے لیں، ماضی بعید میں پنجاب میں بچوں کے نام ایسے ہی رکھے جاتے تھے۔ ایسے نام تقریباً سبھی مذاہب کے لوگوں میں پائے جاتے تھے۔ لفظ پھوجا، فوج سے منسوب ہے۔ اگر یہ اردو زبان میں ہوتا تو ظاہر ہے فوجا، ف سے ہوتا پنجابی لہجہ میں ف، پھ میں فرق نہیں رکھا جاتا۔ اسی طرح ز۔ ج، گ۔ غ اور ش۔ س وغیرہ حروف میں بڑی فراخ دلی سے فرق مٹا دیا جاتا ہے۔ یعنی فوجا کی بجائے پھوجا۔ دوسرا حصّہ حرامدا ہے۔ اردو میں لفظ حرامی ہے مقامی زبان میں حرام کا یا حرام زادہ کہا جا سکتا ہے مگر پنجابی میں حرام دا۔ دا بمعنی کا۔ تینوں قومیں لفظ پھوجے کا استعمال اس طرح کرتی ہیں، سکھوں میں پھوجا سنگھ، مسلمانوں میں پھوجے خان اور ہندوؤں میں پھوجے رام یا پھوجا رام۔ یہاں فیروز سے بگڑ کر پھوجا بنا دیا گیا جس کی گرہ اختتام پر کھلتی ہے۔ اس کے علاوہ افسانے میں بھیڈو ٹکر، گار، گنڈ پنا اور بھنبھیری گھومنا وغیرہ پنجابی زبان کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جو واقعی مناسب ہیں اور مزہ دیتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ منٹو کامیاب اور مقبول افسانہ نگار شاید اس لئے بھی تھا کہ وہ اپنے کرداروں کے مونہہ میں خالص اُن کی اپنی زبان رکھ دیتا تھا۔ کبھی اپنی زبان کرداروں کے مونہہ میں زبردستی نہیں پھنساتا تھا۔ اس افسانے میں چونکہ راوی ایک پنجابی ہے اسی لئے اُس کا لہجہ پنجابی ہے اور اُس کے ادا کئے ہوئے پنجابی الفاظ مزہ دیتے ہیں۔ حقیقتاً منٹو کو پنجابی زبان اور کلچر سے پیار تھا۔ پچھلے سال مجھے علی گڑھ سے کسی شخص کا فون آیا وہ ہمارے بہت ہی سینئر علی امام نقوی صاحب کا حوالہ دے کر بات کر رہے تھے۔ وہ سعادت حسن منٹو پہ ریسرچ کر رہے تھے۔ وہ پریشان تھے کہ منٹو نے ٹھنڈا گوشت میں الفاظ مایا اور بھینی یا استعمال کئے ہیں۔ یہ کیا ہیں، میری ہنسی چھوٹ گئی، میں نے تفصیل سے اور بلا جھجک اُن صاحب کو بتایا کہ یہ دونوں الفاظ در اصل پنجابی گالیاں ہیں۔ ماں بہن کی گندی گالیاں جو خاص طور پر پنجاب کے علاقہ دوآبہ یعنی جالندھر اور امرتسر کے لوگوں کا تکیہ کلام ہے۔ نقوی صاحب نے ان الفاظ کا معنی بتانے کے لئے ایک پنجابی کا انتخاب بہترین کیا۔ شاید آپ مجھ سے اتفاق کریں کہ منٹو کو اچھی طرح سمجھنا ہے تو پنجابی زبان اور کلچر کو سمجھئے، ویسے تو بیدی اور دوسرے ادیبوں نے بھی منٹو کی طرح اس بات کو ملحوظ خاطر رکھا ہے کہ اپنے تخلیق کردہ کرداروں کو اپنی زبان میں ہی مکالمے کہلوائے ہیں۔ دوسروں کے مقابلہ میں منٹو نے اس بات کو شدّت سے محسوس کیا کہ اُسے احساس تھا کہ اگر اُس نے کرداروں کو اپنی زبان دے دی تو وہ زخمی ہو جائیں گے بلکہ مر ہی جائیں گے۔ مثال کے طور پر ٹوبہ ٹیک سنگھ کے درشن سنگھ کی یہ پگلی زبان ملاحظہ فرمائیں ’’اوپڑ دی گڑ گڑ دی انیکس دی بے دھیانہ، مُنگ دی دال، دی وال آف دی لالٹین‘‘

یہ زبان ایک پنجابی پاگل کی ہی ہو سکتی تھی۔ با شعور آدمی ایسا بے معنی جملہ ادا کر ہی نہیں سکتا۔ انہیں وجوہات سے انہوں نے درشن سنگھ کے کردار کو زندہ کر دیا۔ آپ منٹو کے افسانے پڑھ کر محسوس کریں گے کہ جیسے اُس کے کردار زندہ ہیں اور ہمارے ارد گرد پھیلے ہوئے ہیں اور اپنی حرکات میں مشغول ہیں۔

’’پھوجا حرام دا‘‘ منٹو کا ایک منفرد افسانہ ہے جو دلچسپی سے بھر پور ہے میرا دعویٰ ہے کہ دوران مطالعہ آپ اپنی ہنسی نہیں روک سکتے۔ منٹو کے افسانوں میں شاید یہ واحد افسانہ ہے جو تفریحی اور مزاحیہ ہے جو منٹو کے اپنے مزاج سے تھوڑا بہت ہٹ کر ہے۔ گنجے فرشتے تلخ ترش اور شیریں اور لاؤڈ سپیکر میں انہوں نے مزاح پیدا کیا ہے۔ مگر پھوجا حرام دا کی بات ہی کچھ اور ہے۔ آئیے ملاحظہ فرمائیں۔

پھوجا حرام دا اُس دور کی کہانی ہے جب کانگریس کا بہت زور تھا۔ کہانی کا آغاز لاہور کے ایک ٹی ہاؤس میں ہوتا ہے جہاں مختلف لوگ بیٹھے گپیں مار رہے ہیں اور چائے کا مزہ لے رہے ہیں۔ بات چیت کا موضوع حرامیوں کا ہے۔ یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس افسانے میں حرامی سے مُراد نطفۂ نا تحقیق ہرگز نہیں بلکہ انتہائی شریر، سرکش اور غنڈے لڑکوں سے ہے۔ جیسے اردو میں ہم چھوٹے بچوں کو جو شریر ہوں۔ پیار سے بدمعاش کہہ دیتے ہیں۔ ویسے ہی پنجابی میں لفظ حرام دا ایسے ہی بچوں کو کہہ دیا جاتا ہے۔ بہر حال لوگ چائے خانے میں بیٹھے چائے کا مزہ لے رہے تھے اور حرامیوں کے قصّے سن اور سُنا رہے تھے۔ وہاں موجود ہر ایک شخص کم از کم ایک حرامی کا قصّہ ضرور بیان کر رہا تھا۔ کسی حرامی کا تعلق جالندھر سے، کسی کا لدھیانہ سے اور کسی کا لاہور سے تھا۔ سبھی لڑکے اسکول کالجوں کے طالب علم ہی تھے۔ مہر فیروز صاحب جو ٹی ہاؤس میں حرامیوں کے قصّے سن رہے ہیں ایک قصّہ خود بھی چھیڑ دیتے ہیں۔

امرتسر میں شاید ہی کوئی ایسا آدمی ہو جو ’’پھوجے حرام دے‘‘ کے نام سے نا واقف ہو۔ یوں تو شہر میں کئی حرام دے تھے مگر اُس کے پلّے کے نہیں تھے وہ ایک نمبر کا حرام دا تھا۔ فیروز صاحب نے مزید بتایا کہ اُن کے اسکول کے ہیڈ ماسٹر بڑا ہی سخت تھا اُس کی بید سے بچے ڈرتے تھے مگر ہیڈ ماسٹر، پھوجے حرام دے سے ڈرتا تھا۔ کیونکہ پھوجے کو ہیڈ ماسٹر کی بید کا کوئی خوف نہ تھا وہ خوب پٹ کر بھی ہیڈ ماسٹر کو دیکھ کر مسکرا دیتا دسویں کلاس کا واقعہ سناتے ہوئے فیروز صاحب کہنے لگے۔ ایک دن یار لوگوں نے پھوجے سے کہا کہ اگر تم کپڑے اُتار کر ننگ دھڑنگ اسکول کا چکر لگا دو، تو ہم تمہیں ایک روپیہ دیں گے (اُن دنوں ایک روپے کی قیمت بہت تھی) پھوجے نے روپیہ لے کر کان میں اَڑس لیا کپڑے اتار کر بستے میں باندھ لیئے اور ننگا ہو کر سارے اسکول کا چکر لگا کر، ہیڈ ماسٹر کے دفتر میں داخل ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد ہیڈ ماسٹر گھبرایا ہوا دفتر سے نکلا اور چپراسی کو بلا کر بولا۔

’’جاؤ۔۔ ۔۔ ۔۔ بھاگ کے جاؤ۔۔ ۔۔ ۔۔ پھوجے حرام دے کے گھر۔۔ ۔۔ ۔۔ وہاں سے اُس کے کپڑے اٹھا لاؤ۔۔ ۔۔ ۔۔ وہ کہتا ہے کہ وہ مسجد کے سقاوے میں نہا رہا تھا کہ چور اُس کے کپڑے اُٹھا کر لے گئے۔۔ ۔۔ ۔۔ !!‘‘

یہاں منٹو نے یہ بات واضح کی ہے کہ پھوجا حرام دا بدمعاش ہونے کے ساتھ ذہین بھی بہت تھا۔ ظاہر ہے کہ جو بچہ بلا کا شریر ہو گا وہ ذہین بھی ضرور ہو گا۔ دیکھیے ایک روپیہ کی خاطر پھوجے نے کس چالاکی سے اپنی شرارت کو اپنی مجبوری ثابت کر دیا اور ہیڈ ماسٹر کی ہمدردی حاصل کر لی۔ دوسرا قصّہ فیروز صاحب نے دینیات کے مولوی پوٹیٹو کا بیان کیا ہے۔ یہاں منٹو نے اچھا مزاج پیدا کیا ہے مولوی صاحب کو عجیب و غریب نام دے دیا پوٹیٹو یعنی آلو، افسانے میں مولوی صاحب کا جغرافیہ تو ظاہر نہیں کیا مگر لفظ پوٹیٹو، مولوی صاحب کا پستہ قد اور گول مٹول ہونا ظاہر کرتا ہے۔ فیروز صاحب نے قصّہ یوں بیان کیا کہ معلوم نہیں مولوی کو پوٹیٹو کس رعایت سے کہتے تھے کیونکہ آلوؤں کے تو داڑھی ہوتی ہی نہیں۔ اُستادوں میں سے مولوی پوٹیٹو سے ہی پھوجا حرام دا دبتا تھا۔ ایک دن مولوی صاحب نے سکول کی منیجینگ کمیٹی کی انسپیکشن کے دوران پھوجے حرام دے سے ایک آیت کا مطلب پوچھ لیا۔ پھوجے نے جو مونہہ میں آیا اول جلول بک دیا۔ انتظامیہ کے سامنے مولوی صاحب کے پسینے چھوٹ گئے۔ بعد میں انہوں نے پھوجے کی جم کر پٹائی کی۔ پھوجا پٹتا رہا اور ادب سے کہتا رہا کہ اُس کا قصور نہیں اُسے کلمہ تو ٹھیک سے آتا نہیں آپ نے آیت کا ترجمہ پوچھ لیا۔ مولوی پوٹیٹو نے پٹائی پہ ہی بس نہیں کی بلکہ پھوجے حرام دے کے باپ کے پاس شکایت لے کر پہونچے۔ باپ جو پہلے ہی پھوجے حرام دے کی حرکتوں سے پریشان تھا۔ مولوی پوٹیٹو کو رحم ناک لہجہ میں بتانے لگا۔ یہاں فیروز صاحب نے پھوجے کا ایک اور دلچسپ قصّہ پیوست کر دیا۔ باپ مولوی صاحب سے کہنے لگا کہ مولوی صاحب میں تو خود اس سے عاجز آ گیا ہوں سمجھ میں نہیں آتا اس کی اصلاح کیسے کروں ابھی کل کی بات ہے۔ میں پاخانے گیا تو پھوجے نے باہر سے کنڈی چڑھا دی میں بہت گرجا، بہت گالیاں دیں مگر اُس نے کہا۔

’’اَٹھنی دینے کا وعدہ کرو تو دروازہ کھلے گا۔ اگر وعدہ کر کے مکرو گے تو اگلی بار کنڈی میں تالہ بھی ہو گا۔‘‘

چار و ناچار مجھے اُسے اٹھنّی دنیا ہی پڑی۔ اب بتائیے مولوی صاحب میں ایسے نابکار لڑکے کا کیا کروں۔ فیروز صاحب نے قصّہ جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ پھوجا پڑھتا وڑھتا تو تھا ہی نہیں انٹرنیس کے امتحانات ہوئے تو پھوجا حرام دا سب سے زیادہ نمبر لے گیا۔ وہ کالج جانا چاہتا تھا۔ باپ چاہتا تھا کہ وہ کوئی اچھا ساہنر سیکھ لے۔ دونوں اپنی اپنی جگہ اَڑے رہے نتیجہ یہ رہا کہ پھوجا دو سال آوارہ گھومتا رہا اور بڑے زور و شور سے حرام زدگیاں کرتا رہا۔ تنگ آ کر باپ نے کالج میں داخلہ کروا دیا۔ پہلے ہی دن پھوجے کی شرارت نے اُسے کالج میں مشہور کر دیا، ہوا یہ کہ پھوجے نے میتھے میٹکس کے پروفیسر کی سائیکل اُٹھا کر کالج کے ایک درخت کی سب سے اونچی ٹہنی پر لٹکا دی۔ دیکھتے ہی دیکھتے پھوجے کا نام اتنا روشن ہوا کہ پھوجے کے گنڈ پنے (بدمعاشی) کی دھاک پورے شہر میں بیٹھ گئی۔ فیروز صاحب نے قصّہ جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ پھوجے کا قد تو ناٹا تھا مگر بدن کسرتی تھا۔ اُس کی بھیڈو ٹکر (مینڈھا ٹکر) بہت مشہور تھی ایک دن پرنسپل کی نئی موٹر کے پٹرول ٹینک میں پھوجے نے شکر ڈال دی۔ پھوجا سیاسی آدمی نہیں تھا۔ اُسے تو گاندھی جی کا نام بھی معلوم نہ ہو گا ایک دن پولیس نے اُسے کسی سازش کے سلسلہ میں دھر لیا الزام یہ تھا کہ کالج کی لیبارٹری سے ایک ایسا ایسڈ چوری ہو گیا جس کی مدد سے بم بنایا جاتا تھا۔ کالج کے لڑکوں کی ایک خفیہ جماعت یہ کام کر رہی تھی جس کا سرغنہ پھوجا حرام دا بتایا گیا جس کو تمام خفیہ باتوں کا علم تھا۔ پھوجے کو تھانے میں اُلٹا لٹکا کر خوب پیٹا گیا برف کی سیلیوں پر کھڑا کیا گیا۔ پھوجا ٹس سے مس نہ ہوا اور تھانے میں بھی اپنے حرامی پن سے باز نہ آیا۔ ایک دن مار کھا کھا کر پھوجا نڈھال ہو گیا۔ بولا ٹھیک ہے میں سب کچھ ٹھیک ٹھیک بتاتا ہوں، پہلے دودھ جلیبی کھلاؤ، دودھ جلیبی کھلا کر تھانیدار نے قلم سنبھالا۔ پھوجے نے اپنے اعضاء کا جائزہ لیا اور بھرپور انگڑائی لی۔ تھانیدار بولا۔

’’لو بھئی !۔۔ ۔۔ ۔۔ اب بتاؤ۔۔ ۔۔ ۔۔ !!‘‘ پھوجا مسکرایا۔

’’اب کیا بتاؤں اب طاقت آ گئی، چڑھا لو اپنی ٹکٹکی پر۔۔ ۔۔ ۔۔ !‘‘ ایسے اور بہت سے قصّے ہیں جیسے ملک حفیظ کا۔ ملک حفیظ پھوجے کا کلاس فیلو تھا۔ نہایت شریف اور ڈرپوک ایک دن پھوجے کے ہتھکڑیاں لگی ہوئی تھیں۔ پولیس والے ساتھ تھے کہ کچہری میں ملک حفیظ سے سامنا ہو گیا وہ کنّی کاٹ کر جانے لگا تو پھوجے نے اُسے گھیر لیا اور سلام کیا۔ ملک حفیظ گھبرا گیا۔ پھوجا کہنے لگا۔

’’یار حفیظ تم بھی جیل میں آ جاؤ۔۔ ۔۔ ۔ یار میرا دل نہیں لگتا۔۔ ۔۔ ۔۔ پھوجے کا نام لینا ہی کافی ہے۔ سیدھے اندر آ جاؤ گے۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘ وہ گھبرا گیا تو پھوجا بولا۔

’’یار میں تو مذاق کر رہا تھا۔۔ ۔۔ ۔۔ ہاں اگر میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتانا۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘ حفیظ ملک جانے ہی والا تھا کہ پھوجا بولا۔

’’ملک۔۔ ۔۔ ۔۔ بھئی اور تو ہم کچھ کر نہیں سکتے کہو تو تمہارے وہ بدبو دار کنویں کی گار (گندگی) نکلوا دیں گے۔ ہفتے بعد حفیظ ملک نے دیکھا ایک دن صبح سویرے کچھ کارندے پولیس والوں کی نگرانی میں کنویں سے گندگی نکال رہے تھے۔ ساتھ میں پولیس والے تھے۔ وہ سب پھوجے حرام دے کی نشاندہی پر کنویں سے بم نکال رہے تھے۔ کنویں کا پانی شفاف ہو گیا۔ پر بم تو کیا ایک چھوٹا پٹاخہ بھی نہیں ملا پولیس بہت بھنّائی۔ پھوجے سے باز پرس ہوئی اُس نے مسکرا کر تھانیدار سے کہا۔

’’او بھولے بادشاہو۔۔ ۔۔ ۔۔ !ہمیں تو یار کا کنواں صاف کروانا تھا۔۔ ۔۔ ۔۔ سو۔۔ ۔۔ کروا لیا۔۔ ۔۔ ۔۔ !!‘‘

پولیس نے غصّہ میں آ کر پھوجے حرام دے کو وہ مارا وہ مارا کہ وہ ادھ مرا ہو گیا۔

تھوڑا خاموش ہو کر فیروز صاحب نے کہنا شروع کیا۔

ایک دن خبر آئی کہ پھوجا سلطانی گواہ بن گیا۔ اس نے وعدہ کر لیا کہ وہ سرکار کو سب کچھ بتا دے گا۔ پھوجا اب سرکاری گواہ تھا۔ اُس کی پٹائی ایک دم بند ہو گئی پہلے کچھ دن تو اُس نے خوب آرام کیا جب وہ بیان دینے کے قابل ہوا تو صبح دو گلاس لَسّی پی کر بیان لکھوانے بیٹھ جاتا اور محمد حسین اسٹینو گرافر ٹائپ کرتا رہتا۔ محمد حسین کا کہنا تھا کہ پھوجے نے ملک میں پھیلے ہوئے سازشوں کے جال کو کھول کر رکھ دیا۔ پورا ایک مہینہ لگا بیان لکھوانے میں۔ بیان فل اسکیپ کے ڈھائی سو صفحے پر مشتمل تھا جب بیان ختم ہوا تو ہزاروں جگہوں پر چھاپے پڑے ملک کے کونے کونے سے لوگ پکڑ لئے گئے۔ ایک بار پھر لوگوں نے پھوجے کی ماں بہن پُنی (چھانی) اخباروں نے دبی زبان میں پھوجے کے خلاف کافی زہر اُگلا۔ سلطانی گواہ بن کر پھوجے حرامدے کے مزے آ گئے۔ اچھا کھانا بہتر پہننا وہ جیل میں یوں ٹہلتا جیسے کوئی آفیسر جیل کی انسپکیشن کے لئے آیا ہو۔ جب ساری کاروائی مکمل ہوئی تو پھوجے حرام دے کو عدالت میں لایا گیا۔ لوگوں کی بھیڑ اکٹھی ہو گئی۔ چاروں طرف نعرے لگے۔

’’پھوجا حرام دا مردہ باد۔۔ ۔۔ ۔۔ پھوجا حرام دا۔۔ ۔۔ ۔۔ مردہ باد۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘ ہجوم مشتعل تھا ڈر تھا کہ پھوجے پر ٹوٹ نہ پڑے۔ مجبوراً پولیس کو لاٹھی چارج کرنا پڑا، بہت سے لوگ زخمی ہوئے۔ عدالت نے جب پھوجے سے پوچھا کہ وہ اس بیان کے بارے میں کیا کہنا چاہتا ہے تو پھوجا بولا۔

’’جناب میں نے کوئی بیان ویان نہیں دیا ان لوگوں نے ایک پلندہ سا تیار کیا تھا جس پر میرے دستخط لے لئے۔۔ ۔۔ ۔۔ !‘‘

یہ سن کر انسپکٹر کی بھنبھیری بھول گئی (یعنی انسپکٹر چکرا گیا) اخباروں میں یہ خبر چھپی تو سب چکرا گئے کہ یہ پھوجے حرامدے کا کیا نیا چکر ہے؟

پھوجے نے عدالت کے سامنے ایک نیا بیان لکھوانا شروع کیا جو پندرہ دن میں مکمل ہوا۔ سارا کیس چوپٹ ہو گیا۔ زیادہ لوگ بَری ہو گئے۔

کسی نے پوچھا۔

’’اور پھوجے حرام دے کا کیا ہوا۔۔ ۔۔ ۔۔ !؟‘‘

مہر فیروز ہنسے اور بولے۔

’’پھوجے کا کیا ہوتا۔۔ ۔۔ ۔۔؟ وہ تو سلطانی گواہ تھا۔۔ ۔۔ ۔۔ !!‘‘

اگر یہ کوئی عام قصّہ یا واقعہ سناتا تو اصولاً بات یہاں پر ختم ہو جانا چاہئے تھی چونکہ یہ افسانہ تھا اور وہ بھی منٹو کا تخلیق کردہ یہ اینٹی کلائمیکس کیسے ہو سکتا تھا۔۔ ۔؟ آ گے دیکھئے۔

پھوجے کے کردار سے بہت متاثر ہوئے ایک نے فیروز صاحب سے پوچھا۔

’’آج کل پھوجا کہاں ہوتا ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ !؟‘‘

فیروز صاحب نے جواب دیا۔

’’یہیں ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ !لاہور میں آڑھت کی دکان کرتا ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ !!‘‘

اتنے میں بیرا بل لے کر آ گیا اُس نے بل کی پلیٹ مہر فیروز کے سامنے رکھ دی کیونکہ چائے وغیرہ کا آرڈر اُنہوں نے ہی دیا تھا۔ پھوجے حرام دے کا قصّہ سننے والے ایک صاحب نے بل دیکھا، اُس کا آگے بڑھاتا ہوا۔ ہاتھ وہیں رُک گیا کہ رقم زیادہ تھی۔ بل سے ہاتھ کھینچ کر وہ بولا۔

’’آپ کے پھوجے حرام دے سے کبھی ملنا چاہئے۔۔ ۔۔ ۔۔ !!‘‘

مہر فیروز اُٹھے اور بولے۔

’’آپ اُسے مل چکے ہیں یہ خاکسار ہی پھوجا حرام دا ہے۔ یہ بل آپ ادا کر دیجئے۔۔ ۔۔ ۔ السلام و علیکم۔۔ ۔۔ ۔۔ !!‘‘

یہ کہہ وہ تیزی سے ٹی ہاؤس سے نکل گئے۔

اختتام پر منٹو نے انسان کی ایک اہم نفسیات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ انسان عمر کے کسی حصّے میں چلا جائے۔ اُس کی فطرت نہیں بدلتی۔ افسانے میں مہر فیروز صاحب جو بظاہر ایک سنجیدہ اور معزز آدمی نظر آتے ہیں۔ خود چائے کا بل ادا کرنے کی بجائے، دوسرے آدمی کو جو قصّہ دلچسپی سے سن رہا تھا یہ کہہ کہ تیزی سے نکل جاتے ہیں کہ وہ بل ادا کر دیں۔۔ ۔۔ گویا یہ مہر فیروز صاحب المعروف پھوجا حرامدا کا آخری حرامی پن تھا۔۔ ۔۔ ۔۔

٭٭٭

 

 

 

سعادت حسن منٹو

 

شہید ساز

 

میں گجرات کا ٹھیاواڑ کا رہنے والا ہوں۔ ذات کا بنیا ہوں۔ پچھلے برس جب تقسیم ہندوستان پر ٹنٹا ہوا تو میں بالکل بے کار تھا۔ معاف کیجئے گا۔ میں نے لفظ ٹنٹا استعمال کیا۔ مگر اس کا کوئی حرج نہیں۔ اس لئے کہ اردو زبان میں باہر کے الفاظ آنے ہی چاہئیں۔ چاہے وہ گجراتی ہی کیوں نہ ہوں۔

جی ہاں، میں بالکل بے کار تھا۔ لیکن کوکین کا تھوڑا سا کاروبار چل رہا تھا جس سے کچھ آمدن کی صورت ہو ہی جاتی تھی۔ جب بٹوارہ ہوا اور اِدھر کے آدمی اُدھر اور اُدھر کے اِدھر ہزاروں کی تعداد میں آنے جانے لگے تو میں نے سوچا چلو پاکستان چلیں۔ کوکین کا نہ سہی کوئی اور کاروبار شروع کر دوں گا۔ چنانچہ وہاں سے چل پڑا اور راستے میں مختلف قسم کے چھوٹے چھوٹے دھندے کرتا پاکستان پہنچ گیا۔

میں تو چلا ہی اس نیت سے تھا کہ کوئی موٹا کاروبار کروں گا۔ چنانچہ پاکستان پہنچتے ہی میں نے حالات کو اچھی طرح جانچا اور الاٹمنٹوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ مسکہ پالش مجھے آتا ہی تھا۔ چکنی چپڑی باتیں کیں، ایک دو آدمیوں سے یارانہ گانٹھا اور ایک چھوٹا سا مکان الاٹ کرا لیا۔ اس سے کافی منافع ہوا تو میں مختلف شہروں میں پھر کر مکان اور دکانیں الاٹ کرانے کا دھندا کرنے لگا۔

کام کوئی بھی ہو انسان کو محنت کرنا پڑتی ہے۔ مجھے بھی چنانچہ الاٹ منٹوں کے سلسلے میں کافی تگ و دو کرنا پڑی۔ کسی کے مسکہ لگایا، کسی کی مٹھی گرم، کسی کو کھانے کی دعوت دی، کسی کو ناچ رنگ کی، غرض کہ بے شمار بکھیڑے تھے۔ دن بھر خاک چھانتا، بڑی بڑی کوٹھیوں کے پھیرے کرتا اور شہر کا چپہ چپہ دیکھ کر اچھا سا مکان تلاش کرتا جس کے الاٹ کرانے سے زیادہ منافع ہو۔

انسان کی محنت کبھی خالی نہیں جاتی، چنانچہ ایک برس کے اندر اندر میں نے لاکھوں روپے پیدا کر لیے۔ اب خدا کا دیا سب کچھ تھا۔ رہنے کو بہترین کوٹھی، بینک میں بے اندازہ مال پانی۔۔ ۔۔ ۔۔ معاف کیجئے گا۔ میں کاٹھیاواڑ گجرات کا روز مرہ استعمال کرگیا۔ مگر کوئی مضائقہ نہیں، اردو زبان میں باہر کے الفاظ بھی شامل ہونے چاہئیں۔۔ ۔۔ ۔۔ جی ہاں، اللہ کا دیا سب کچھ تھا۔ رہنے کو بہترین کوٹھی، نوکر چاکر، پیکارڈ موٹر، بینک میں ڈھائی لاکھ روپے، کارخانے اور دکانیں الگ۔۔ ۔۔ ۔۔ یہ سب کچھ تھا لیکن میرے دل کا چین جانے کہاں اڑ گیا۔ یوں تو کوکین کا دھندا کرتے ہوئے بھی دل پر کبھی کبھی بوجھ محسوس ہوتا تھا لیکن اب تو جیسے دل رہا ہی نہیں تھا۔ یا پھر یوں کہئے کہ بوجھ اتنا آن پڑا کہ دل اس کے نیچے دب گیا۔ پر یہ بوجھ کس بات کا تھا؟

آدمی ذہین ہوں، دماغ میں کوئی سوال پیدا ہو جائے تو میں اس کا جواب ڈھونڈ ہی نکالتا ہوں۔ ٹھنڈے دل سے (حالانکہ دل کا کچھ پتا ہی نہیں تھا) میں نے غور کرنا شروع کیا کہ اس گڑ بڑ گھوٹالے کی وجہ کیا ہے؟

عورت؟ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ہو سکتی ہے۔ میری اپنی تو کوئی تھی نہیں، جو تھی وہ کاٹھیاواڑ گجرات ہی میں اللہ کو پیاری ہو گئی تھی۔ لیکن دوسروں کی عورتیں موجود تھیں۔ مثال کے طور پر اپنے مالی ہی کی تھی۔ اپنا اپنا ٹیسٹ ہے۔ سچ پوچھئے تو عورت جوان ہونی چاہئے اور یہ ضروری نہیں کہ پڑھی لکھی ہو، ڈانس جانتی ہو۔ اپن کو تو ساری جوان عورتیں چلتی ہیں۔ (کاٹھیاواڑ گجرات کا محاورہ ہے جس کا اردو میں نعم البدل موجود نہیں )

آدمی ذہین ہوں۔ کوئی مسئلہ سامنے آ جائے تو اس کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہوں۔ کارخانے چل رہے تھے۔ دکانیں بھی چل رہی تھیں۔ روپیہ اپنے آپ پیدا ہو رہا تھا۔ میں نے الگ تھلگ ہو کر سوچنا شروع کیا اور بہت دیر کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ دل کی گڑبڑ صرف اس لیے ہے کہ میں نے کوئی نیک کام نہیں کیا۔

کاٹھیاواڑ گجرات میں تو بیسیوں نیک کام کیے تھے۔ مثال کے طور پر جب میرا دوست پانڈورنگ مرگیا تو میں نے اس کی رانڈ کو اپنے گھر میں ڈال لیا۔ اور دو برس تک اس کو دھندا کرنے سے روکے رکھا۔ ونائک کی لکڑی کی ٹانگ ٹوٹ گئی تو اسے نئی خرید دی۔ تقریباً چالیس روپے اس پر اٹھ گئے تھے۔ جمنا بائی کو گرمی ہو گئی۔ سالی کو (معاف کیجئے گا) کچھ پتا ہی نہیں تھا۔ میں اسے ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ چھ مہینے برابر اس کا علاج کراتا رہا۔۔ ۔۔ ۔۔ لیکن پاکستان آ کر میں نے کوئی نیک کام نہیں کیا تھا اور دل کی گڑبڑ کی وجہ یہی تھی ورنہ اور سب ٹھیک تھا۔

میں نے سوچا کیا کروں؟ ۔۔ ۔۔ ۔۔ خیرات دینے کا خیال آیا۔ لیکن ایک روز شہر میں گھوما تو دیکھا کہ قریب قریب پر شخص بھکاری ہے۔ کوئی بھوکا ہے، کوئی ننگا۔ کس کس کا پیٹ بھروں، کس کس کا انگ ڈھانکوں؟ سوچا ایک لنگر خانہ کھول دوں۔ لیکن ایک لنگر خانے سے کیا ہوتا اور پھر اناج کہاں سے لاتا۔ بلیک مارکیٹ سے خریدنے کا خیال پیدا ہوا تو یہ سوال بھی ساتھ ہی پیدا ہو گیا کہ ایک طرف گناہ کر کے دوسری طرف کار ثواب کا مطلب ہی کیا ہے؟

گھنٹوں بیٹھ بیٹھ کر میں نے لوگوں کے دکھ درد سنے۔ سچ پوچھئے تو ہر شخص دکھی تھا۔ وہ بھی جو دکانوں کے تھڑوں پر سوتے ہیں اور وہ بھی جو اونچی اونچی حویلیوں میں رہتے ہیں۔ پیدل چلنے والے کو یہ دکھ تھا کہ اس کے پاس کام کا کوئی جوتا نہیں۔ موٹر میں بیٹھنے والے کو یہ دکھ تھا کہ اس کے پاس کار کا نیا ماڈل نہیں۔ ہر شخص کی شکایت اپنی اپنی جگہ درست تھی۔ ہر شخص کی حاجت اپنی اپنی جگہ معقول تھی۔

میں نے غالب کی ایک غزل اللہ بخشے شولا پور کی امینہ بائی چتلے کر سے سنی تھی۔ ایک شعر یاد رہ گیا ہے۔ ؎ کس کی حاجت روا کرے کوئی۔۔ ۔۔ ۔۔ معاف کیجئے گا یہ اس کا دوسرا مصرعہ ہے اور ہو سکتا ہے پہلا ہی ہو۔

جی ہاں، میں کس کس کی حاجت روا کرتا جب سو میں سے سو ہی حاجت مند تھے۔ میں نے پھر یہ بھی سوچا کہ خیرات دینا کوئی اچھا کام نہیں۔ ممکن ہے آپ مجھ سے اتفاق نہ کریں۔ لیکن میں نے مہاجرین کے کیمپوں میں جا جا کر جب حالات کا اچھی طرح جائزہ لیا تو مجھے معلوم ہوا کہ خیرات نے بہت سے مہاجرین کو بالکل ہی نکما بنا دیا ہے۔ دن بھر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ تاش کھیل رہے ہیں۔ جگار ہو رہی ہے (معاف کیجئے گا، جگار کا مطلب ہے جوا یعنی قمار بازی) گالیاں بک رہے ہیں اور فوگٹ یعنی مفت کی روٹیاں توڑ رہے ہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ایسے لوگ بھلا پاکستان کو مضبوط بنانے میں کیا مدد دے سکتے ہیں۔ چنانچہ میں اس نتیجے پر پہنچا کہ بھیک دینا ہرگز ہرگز نیکی کا کام نہیں۔ لیکن پھر نیکی کے کام کے لیے اور کون سا رستہ ہے؟

کیمپوں میں دھڑا دھڑ آدمی مر رہے تھے۔ کبھی ہیضہ پھوٹتا تھا کبھی پلیگ۔ ہسپتالوں میں تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی۔ مجھے بہت ترس آیا۔ قریب تھا کہ ایک ہسپتال بنوا دوں مگر سوچتے پر ارادہ ترک کر دیا۔ پوری اسکیم تیار کر چکا تھا۔ عمارت کے لیے ٹنڈر طلب کرتا۔ داخلے کی فیسوں کا روپیہ جمع ہو جاتا۔ اپنی ہی ایک کمپنی کھڑی کر دیتا اور ٹنڈر اس کے نام نکال دیتا۔ خیال تھا ایک لاکھ روپے عمارت پر صرف کر دوں گا۔ ظاہر ہے کہ ستر ہزار روپے میں بلڈنگ کھڑی کر دیتا اور پورے تیس ہزار روپے بچا لیتا۔ مگر یہ ہماری اسکیم دھری کی دھری رہ گئی۔ جب میں نے سوچا کہ اگر مرنے والوں کو بچا لیا گیا تو یہ جو زائد آبادی ہے وہ کیسے کم ہو گی۔

غور کیا جائے تو یہ سارا لفڑا ہی فالتو آبادی کا ہے۔ لفڑا کا مطلب ہے جھگڑا، وہ جھگڑا جس میں فضیحتا بھی ہو لیکن اس سے بھی اس لفظ کی پوری معنویت میں بیان نہیں کر سکا۔

جی ہاں، غور کیا جائے تو یہ سارا لفڑا ہی اس فالتو آبادی کا ہے۔ اب لوگ بڑھتے جائیں گے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ زمینیں بھی ساتھ ساتھ بڑھتی جائیں گی۔ آسمان بھی پھیلتا جائے گا۔ بارشیں زیادہ ہوں گی۔ اناج زیادہ اگے گا۔ اس لیے میں اس نتیجے پر پہنچا۔۔ ۔۔ ۔۔ کہ ہسپتال بنانا ہرگز ہرگز نیک کام نہیں۔

پھر سوچا کہ مسجد بنوا دوں لیکن اللہ بخشے شولا پور کی امینہ بائی چتلے کر کا گایا ہوا ایک شعر یاد آ گیا ؎نام منجور ہے تو فیج کے اسباب بنا۔۔ ۔۔ ۔۔ وہ منظور کو منجور اور فیض کو فیج کہا کرتی تھی۔ نام منظور ہے تو فیض کے اسباب بنا۔ پل بنا چاہ مسجد و تالاب بنا۔

کس کم بخت کو نام و نمود کی خواہش ہے۔ وہ جو نام اچھالنے کے لیے پل بناتے ہیں نیکی کا کام کیا کرتے ہیں؟ ۔۔ ۔۔ ۔۔ خاک! میں نے کہا نہیں یہ مسجد بنوانے کا خیال بالکل غلط ہے۔ بہت سی الگ الگ مسجدوں کا ہونا بھی قوم کے حق میں ہرگز مفید نہیں ہو سکتا، اس لیے یہ عوام بٹ جاتے ہیں۔

تھک ہار کر میں حج کی تیاریاں کر رہا تھا کہ اللہ میاں نے مجھے خود ہی ایک راستہ بتا دیا۔ شہر میں ایک جلسہ ہوا۔ جب ختم ہوا تو لوگوں میں بد نظمی پھیل گئی۔ اتنی بھگدڑ مچی کہ تیس آدمی ہلاک ہو گئے۔ اس حادثے کی خبر دوسرے روز اخباروں میں چھپی تو معلوم ہوا کہ وہ ہلاک نہیں بلکہ شہید ہوئے تھے۔

میں نے سوچنا شروع کیا۔ سوچنے کے علاوہ میں کئی مولویوں سے ملا۔ معلوم ہوا کہ وہ لوگ جو اچانک حادثوں کا شکار ہوتے ہیں انھیں شہادت کا رتبہ ملتا ہے یعنی وہ رتبہ جس سے بڑا کوئی اور رتبہ ہی نہیں۔ میں نے سوچا کہ اگر لوگ مرنے کی بجائے شہید ہوا کریں تو کتنا اچھا ہے۔ وہ جو عام موت مرتے ہیں ظاہر ہے کہ ان کی موت بالکل اکارت جاتی ہے۔ اگر وہ شہید ہو جاتے تو کوئی بات بنتی۔

میں نے ایک باریک بات پر اور غور کرنا شروع کیا۔

چاروں طرف جدھر دیکھو خستہ حال انسان تھے۔ چہرے زرد، فکر و تردد اور غم روز گار کے بوجھ تلے پسے ہوئے۔ دھنسی ہوئی آنکھیں، بے جان چال، کپڑے تار تار، ریل گاڑی کے کنڈم مال کی طرح یا تو کسی ٹوٹے پھوٹے جھونپڑے میں پڑے ہیں یا بازاروں میں بے مالک مویشیوں کی طرح منہ اٹھائے بے مطلب گھوم رہے ہیں۔ کیوں جی رہے ہیں۔ کس کے لیے جی رہے ہیں اور کیسے جی رہے ہیں۔ اس کا کچھ پتا ہی نہیں۔ کوئی وبا پھیلی۔ ہزاروں مر گئے اور کچھ نہیں تو بھوک اور پیاس ہی سے گھل گھل مرے۔ سردیوں میں اکڑ گئے۔ گرمیوں میں سوکھ گئے۔ کسی کی موت پر کسی نے دو آنسو بہا دیے۔ اکثریت کی موت خشک ہی رہی۔

زندگی سمجھ میں نہ آئی، ٹھیک ہے۔ اس سے حظ نہ اٹھایا، یہ بھی ٹھیک ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ وہ کس کا شعر ہے اللہ بخشے شولا پور کی امینہ بائی چتلے کر کیا درد بھری آواز میں گایا کرتی تھی ؎مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے۔ میرا مطلب ہے اگر مرنے کے بعد بھی زندگی نہ سدھری تو لعنت ہے سسری پر۔

میں نے سوچا کیوں نہ یہ بیچارے، یہ قسمت کے مارے، در در کے ٹھکرائے ہوئے انسان، جو اس دنیا میں ہر اچھی چیز کے لیے ترستے ہیں۔ اس دنیا میں ایسا رتبہ حاصل کریں کہ وہ جو یہاں ان کی طرف نگاہ اٹھانا پسند نہیں کرتے وہاں ان کو دیکھیں اور رشک کریں۔ اس کی ایک صورت تھی کہ وہ عام موت نہ مریں بلکہ شہید ہوں۔

اب سوال یہ تھا کہ یہ لوگ شہید ہونے کے لیے راضی ہوں گے؟ میں نے سوچا، کیوں نہیں، وہ کون مسلمان ہے جس میں ذوق شہادت نہیں۔ مسلمانوں کی دیکھا دیکھی تو ہندوؤں اور سکھوں میں بھی یہ رتبہ پیدا کر دیا گیا ہے۔ لیکن مجھے سخت نا امیدی ہوئی جب میں نے ایک مریل سے آدمی سے پوچھا۔

’’کیا تم شہید ہونا چاہتے ہو؟ ۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

تو اس نے جواب دیا۔

’’نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

سمجھ میں نہ آیا کہ وہ شخص جی کر کیا کرے گا۔ میں نے اسے بہت سمجھایا کہ دیکھو بڑے میاں، زیادہ سے زیادہ تم ڈیڑھ مہینہ اور جیو گے۔ چلنے کی تم میں سکت نہیں، کھانستے کھانستے غوطے میں جاتے ہو تو ایسا لگتا ہے کہ بس دم نکل گیا۔ پھوٹی کوڑی تک تمھارے پاس نہیں۔ زندگی بھر تم نے سکھ نہیں دیکھا۔ مستقبل کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پھر اور جی کر کیا کرو گے۔ فوج میں تم بھرتی نہیں ہو سکتے۔ اس لیے محاذ پر اپنے وطن کی خاطر لڑتے لڑتے جان دینے کا خیال بھی عبث ہے۔ اس لیے کیا یہ بہتر نہیں کہ تم کوشش کر کے یہیں بازار میں یا ڈیرے میں، جہاں تم رات کو سوتے ہو، اپنی شہادت کا بندو بست کر لو۔ اس نے پوچھا۔

’’یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ ۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

میں نے جواب دیا۔

’’سامنے کیلے کا چھلکا پڑا ہے۔ فرض کر لیا جائے کہ تم اس پر سے پھسل جاؤ۔۔ ۔۔ ۔۔ ظاہر ہے کہ تم مر جاؤ گے اور شہادت کا رتبہ پاؤ گے۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘ پر یہ بات اس کی سمجھ میں نہ آئی، کہنے لگا۔

’’میں کیوں آنکھوں دیکھے کیلے کے چھلکے پر پاؤں دھرنے لگا۔۔ ۔۔ ۔۔ کیا مجھے اپنی جان عزیز نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

’’اللہ اللہ کیا جان تھی۔۔ ۔۔ ۔۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ۔۔ ۔۔ ۔۔ جھریوں کی گٹھڑی۔۔۔۔۔۔!!!‘‘

مجھے بہت افسوس ہوا اور اس وقت اور بھی زیادہ ہوا جب میں نے سنا کہ وہ کم بخت جو بڑی آسانی سے شہادت کا رتبہ اختیار کر سکتا تھا خیراتی ہسپتال میں لوہے کی چارپائی پر کھانستا کھنکارتا مرگیا۔

ایک بڑھیا تھی، منہ میں دانت نہ پیٹ میں آنت، آخری سانس لے رہی تھی۔ مجھے بہت ترس آیا۔ ساری عمر غریب کی مفلسی اور رنج و غم میں گزری تھی۔ میں اسے اٹھا کر ریل کے پاٹے پر لے گیا۔ (معاف کیجئے گا ہمارے یہاں پٹڑی کو پاٹا کہتے ہیں ) لیکن جناب جونہی اس نے ٹرین کی آواز سنی ہوش میں آ گئی اور کوک بھرے کھلونے کی طرح اُٹھ کر بھاگ گئی۔

میرا دل ٹوٹ گیا، لیکن پھر بھی میں نے ہمت نہ ہاری۔ بیٹے کا بیٹا اپنی دھن کا پکا ہوتا ہے۔ نیکی کا جو صاف اور سیدھا راستہ مجھے نظر آیا تھا میں نے اس کو اپنی آنکھ سے اوجھل نہ ہونے دیا۔

مغلوں کے وقت کا ایک بہت بڑا احاطہ خالی پڑا تھا۔ اس میں ایک سو اکاون چھوٹے چھوٹے کمرے تھے، بہت ہی خستہ حالت میں، میری تجربہ کار آنکھوں نے اندازہ لگا لیا کہ پہلی ہی بڑی بارش میں سب کی چھتیں ڈھے جائیں گی۔ چنانچہ میں نے اس احاطے کو ساڑھے دس ہزار روپے میں خرید لیا اور اس میں ایک ہزار مفلوک الحال آدمی بسا دئیے۔ دو مہینے کا کرایہ وصول کیا ایک روپیہ ماہوار کے حساب سے۔ تیسرے مہینے جیسا کہ میرا اندازہ تھا پہلی ہی بڑی بارش میں سب کمروں کی چھتیں نیچے آ رہیں اور سات سو آدمی جن میں بچے بوڑھے سبھی شامل تھے شہید ہو گئے۔

وہ جو میرے دل پر بوجھ سا تھا کسی قدر ہلکا ہو گیا۔ آبادی میں سے سات سو آدمی کم بھی ہو گئے اور انھیں شہادت کا رتبہ بھی مل گیا۔ ادھر کا پلڑا بھاری ہی رہا۔

جب سے میں یہی کام کر رہا ہوں۔ ہر روز حسب توفیق دو تین آدمیوں کو جام شہادت پلا دیتا ہوں۔ جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں کام کوئی بھی ہو انسان کو محنت کرنا پڑتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک آدمی کو جس کا وجود چھکڑے کے پانچویں پہیے کی طرح بے معنی اور بیکار تھا، جام شہادت پلانے کے لیے مجھے پورے دس دن جگہ جگہ کیلے کے چھلکے گرانے پڑے، لیکن موت کی طرح جہاں تک میں سمجھتا ہوں شہادت کا بھی ایک دن مقرر ہے۔ دسویں روز جا کر وہ پتھریلے فرش پر کیلے کے چھلکے پر سے پھسلا اور شہید ہوا۔

آج کل میں ایک بہت بڑی عمارت بنوا رہا ہوں۔ ٹھیکہ میری ہی کمپنی کے پاس ہے۔ دو لاکھ کا ہے۔ اس میں سے پچھتّر ہزار تو میں صاف اپنی جیب میں ڈال لوں گا۔ بیمہ بھی کرا لیا ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ جب تیسری منزل کھڑی کی جائے گی تو ساری بلڈنگ اڑا اڑا دھڑام گر پڑے گی، کیونکہ مصالحہ ہی میں نے ایسا لگوایا ہے۔ اس وقت تین سو مزدور کام پر لگے ہوں گے۔ خدا کے گھر سے مجھے پوری پوری امید ہے کہ یہ سب کے سب شہید ہو جائیں گے۔ لیکن اگر کوئی بچ گیا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ پرلے درجے کا گنہگار ہے جس کی شہادت اللہ تبارک تعالیٰ کو منظور نہیں تھی۔

٭٭٭

 

 

 

 

تجزیہ

 

افسانہ شہید ساز کا شمار سعادت حسن منٹو کے بہترین افسانوں میں ہوتا ہے۔ شہید ساز کی کہانی کچھ اس طرح سے ہے ملاحظہ ہو:

اس افسانے میں راوی خود اس کا بنیادی کردار ہے جو گجرات کا رہنے والا ہے ذات کا بنیا ہے ہندوستان میں اُس کا کوکین کا دھندہ ہے وہ پاکستان چلا جاتا ہے یہ سوچ کر کہ وہاں جا کر وہ کوئی موٹا کاروبار کرے گا۔ پاکستان جا کر وہ مہاجرین کی جائیدادوں کی الاٹمینٹوں کا کام شروع کر لیتا ہے آفیسروں کو مسکا لگانا خوشامد کرنا، پارٹیاں کھلانا اُسے خوب آتا تھا۔ وہ پہلے ایک چھوٹا سا مکان الاٹ کروا لیتا ہے اُس سے اچھا خاصا فائدہ اُٹھا کر۔ وہ شہر میں گھوم پھر کر اچھے مکان تلاش کرتا ہے اور اُن کو اپنے نام کروا کر بیچ دیتا ہے اور منافع کماتا ہے اُس کے پاس رہنے کے لئے کوٹھی، نوکر چاکر، گاڑی، بینک بیلینس، کارخانے اور دوکانیں سب کچھ ہیں مگر اُسے سکون نہیں ملتا وہ سوچتا ہے کہ وہ ہندوستان میں تھا تو کوئی نیک کام بھی کر لیتا تھا پاکستان آ کر تو اُس نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ پیسہ ہی کمایا۔ بقول اُس کے اللہ کا دیا سب کچھ تھا رہنے کو بہترین کوٹھی، نوکر چاکر، پیکارڈ موٹر، بینک میں ڈھائی لاکھ روپے، کارخانے اور دوکانیں الگ۔ یہ سب کچھ تھا مگر اُس کے دل کو سکون نہیں تھا۔ سکون کے لئے عورت چاہئے۔ عورت تو ہندوستان میں مر گئی۔ چلو دوسروں کی عورتیں ہیں۔ وہ اس نتیجے پر پہونچتا ہے کہ کوئی نیک کام کیا جائے۔ کاٹھیاواڑ گجرات میں وہ کبھی کسی بیوہ کی مدد کر دیتا تھا۔ کسی لنگڑے کو لکڑی کی ٹانگ لگوا دیتا تھا کسی بیمار کا علاج کروا دیتا۔ اُس نے سوچا کہ بہت لوگ کیمپوں میں بیمار پڑے ہیں کیوں نہ وہ اسپتال بنا دے۔ وہ ارادہ کرتا ہے۔ پھر سوچتا ہے کہ اسپتال بن گیا تو لوگ کم تعداد میں مریں گے۔ ملک کی آبادی بڑھے گی جو ملک اور قوم کے لئے ایک مسئلہ ہے۔ وہ اسپتال بنانے کا خیال چھوڑ دیتا ہے۔ پھر سوچتا ہے چلو ایک مسجد بنوا دیتا ہوں لوگ عبادت کریں گے۔ یہ بھی نیک کام ہے۔ پھر یہ سوچ کر مسجد بنانے کا خیال بھی چھوڑ دیتا ہے کہ زیادہ مسجدیں بنیں گی تو قوم بٹ جائے گی۔ وہ حج جانے کے لئے ارادہ بنا لیتا ہے کہ ایک دن اخبار میں خبر پڑھتا ہے کہ ایک جلسہ میں بھگدڑ مچ گئی۔ تیس شہید ہو گئے۔ وہ پریشان رہتا ہے اور ایک مولوی سے پوچھتا ہے۔ مولوی اُس کو بتاتا ہے کہ کوئی شخص اگر اچانک کسی حادثے کا شکار ہو جائے تو وہ شہید کا رتبہ پا لیتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ لوگ ایسے ہی مر جاتے ہیں اگر ان کو شہید کا رتبہ دلایا جائے تو یہ بھی نیک کام ہوا۔ وہ سوچتا ہے کہ وہ تو حج کی تیاریاں کر رہا تھا کہ اللہ میاں نے اُسے خود ہی ایک راستہ بتا دیا۔ اب سوال یہ تھا کہ شہید ہونے کے لئے کس کو تیار کیا جائے۔ اُس نے ایک مریل آدمی سے پوچھا کہ کیا تم شہید ہونا چاہتے ہو تو اس نے جواب دیا۔

’’نہیں‘‘ اُس نے مریل آدمی کو سمجھایا کہ وہ زیادہ دن جی نہ سکے گا۔ پھوٹی کوڑی اس کے پاس نہیں۔ فوج میں بھرتی وہ ہو نہیں سکتا۔ بہتر ہے شہید ہو جائے مریل آدمی پوچھتا ہے وہ کیسے کہ وہ کیلے کا چھلکا پھینکے گا وہ اُس پر پھسل کر مر جائے اور شہادت کا رتبہ پا لے۔ آدمی صاف انکار کر دیتا ہے کہتا ہے کہ وہ جان بوجھ کر کیوں پھسلے۔ تھوڑے دنوں بعد وہ مرگیا مگر شہید نہ ہوا۔ ایک بڑھیا تھی آخری سانسیں لے رہی تھی وہ اُسے اُٹھا کر ریل کی پٹری پر لے گیا ٹرین کی آواز سن کر وہ ہوش میں آ گئی اور اُٹھ کر بھاگ گئی۔ وہ بڑا دل برداشتہ ہوا۔ لیکن اُس نے ہمت نہ ہاری۔ اُسے مغلوں کے زمانے کا ایک احاطہ مل گیا۔ جسے اُس نے دس ہزار روپے میں خرید لیا۔ اُس احاطے میں ایک سو اکیاون چھوٹے چھوٹے کمرے تھے۔ ان کمروں میں اُس نے ایک ہزار کرایہ دار بسا لئے۔ اُس کی تجربہ کار آنکھوں نے اندازہ لگا لیا کہ پہلی ہی بارش میں چھتیں گر جائیں گے۔ تین مہینے بعد چھتیں نیچے آ رہیں اور سات سو آدمی جن میں بچے بوڑھے سبھی شامل تھے، شہید ہو گئے۔ اُسے بڑا اطمینان ہوا، ملک کی آبادی میں سات سو آدمی کم ہو گئے۔ دوسرے اُن سب کو شہادت کا رتبہ مل گیا۔ بقول بنیا صاحب کہ وہ ہر روز دو تین آدمیوں کو جام شہادت پِلا دیتے ہیں۔ فی الحال وہ ایک بلڈنگ بنوا رہے ہیں جس میں تین سو مزدور کام پر لگیں گے۔ ناقص میٹریل کی وجہ سے بلڈنگ گر جائے گی۔ مزدور دب جائیں گے یعنی شہادت پالیں گے۔ اگر کوئی بچ گیا، تو سمجھو اُس کی شہادت اللہ کو منظور نہیں۔

اگر کوئی شخص کسی واردات کی پلاننگ کرتا ہے اور سات سو آدمیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے اُسے ہم کیا کہیں گے۔۔ ۔۔ ۔؟ شہید ساز کا مرکزی کردار جان بوجھ کر سوچی سمجھی سکیم کے تحت اسی نیت سے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ مریں، اپنے احاطہ میں کرایہ دار بھر لیتا ہے۔ تقریباً ایک ہزار لُٹے کھُٹے اور غریب لوگ سستا کرایہ دیکھ کر آ جاتے ہیں۔ عین اندازے کے مطابق چھتیں گرتی ہیں اور سات سو آدمی جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ اس سے بڑا آتنک وادی کون ہو سکتا ہے۔ سات سو آدمیوں جن میں بچے بوڑھے اور نوجوان تھے، کو موت کی نیند سلا کر مرکزی کردار بنیا مطمئن ہے کہ اُس نے اپنے ملک کی آبادی کم کرنے میں مدد کی ہے۔

کیا ملک کو آتنک وادیوں اور نکسلیوں کا مرہون منت ہونا چاہئے۔۔ ۔۔ ۔۔؟ اور اُن کو دیش بھگت مان لینا چاہئے؟ ۔۔ ۔۔ ۔۔ کہ وہ آبادی کم کرنے میں ملک کی مدد فرما رہے ہیں۔

بہر حال آئیے ہم شہید ساز کے دوسرے پہلوؤں پر بھی غور کریں۔ ہمیں پہلی بار معلوم ہوا کہ مسلمانوں میں بھی بنیا ذات ہے ورنہ ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ بنیا اور مسلمان دو متضاد قومیں ہیں۔ بنیا غیر مسلم ہی ہوتا ہے۔ شاید ہماری معلومات ناقص تھی۔ ممکن ہے جیسا استاد منٹو نے دکھایا ہے کہ گجرات میں مسلمان بنیے ہوا کرتے ہیں۔ ہم نے کسی مسلمان کے نام کے آگے گُپتا یا گویل لکھا نہیں دیکھا۔ اس افسانے میں حسب روایت استاد منٹو خود راوی نہیں بلکہ مرکزی کردار جس کو منٹو نے کوئی نام نہیں دیا وہی آپ بیتی بیان کرتا ہے۔ نام دے دیتے تو افسانے کے آغاز میں ہی واضح ہو جاتا کہ وہ مسلمان ہے اور بنیا بھی۔ تقسیم وطن کے دنوں میں وہ پاکستان چلا جاتا ہے اس ارادے سے کہ وہ پاکستان میں موٹا کاروبار کرے گا، کوئی اچھا بیوپاری تو یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ قتل و غارت لوٹ کھسوٹ کے ماحول میں آدمی کیا موٹا کاروبار کر سکتا ہے۔۔ ۔۔ ۔۔؟ ہندوستان پاکستان سے ہزاروں لوگوں نے اِدھر سے اُدھر ہجرت کی لوگ دونوں ملکوں میں اپنی جائیداد یں چھوڑ کر ہجرت کر گئے۔ ایسی چھوڑی ہوئی جائیدادوں کو ’’ایویکیو‘‘ جائیداد کا نام دیا گیا ان کے انتظام کے لئے دونوں طرف کسٹوڈین نامی محکمے بنائے گئے۔ مان لیجئے کہ اگر کوئی مسلمان ہندوستان میں اپنی ایک لاکھ کی جائیداد چھوڑ کر پاکستان چلا گیا اور اُس نے وہاں جا کر حکومت سے اپنی جائیداد کے کلیم کا مطالبہ کیا تو کسٹوڈین اُس سے چھوڑی ہوئی جائیداد کے پکّے ثبوت مانگتا تھا۔ تسّلی بخش ثبوت دیکھ کر اُس کی جائیداد کا اُس کو معاوضہ ملتا تھا۔ بہت سے لوگ تو تقسیم کے بہت بعد دوسرے ملک سے اپنی جائیدادوں اور مکانوں کے ثبوت حاصل کرنے آئے۔ حکومتیں آپس میں ثبوتوں کو تصدیق کرتی تھیں۔ شہید ساز میں استاد منٹو کا مرکزی کردار افسروں کو خوش کر کے کلیم حاصل کرتا گیا۔ وہ شہر میں گھوم پھر کر ایسے مکانات دیکھ لیتا جو مہاجرین کے ہوتے اور اپنے نام کروا لیتا۔ ایک آدھ معاملے میں بے ضابطگی تو مانی جا سکتی ہے مگر کسٹوڈین کے آفیسر جس کو چاہتے تھے یوں ہی جائیداد الاٹ کر دیتے تھے۔ یہ ممکن نہیں تھا، میں سمجھتا ہوں یہ مشاہدات کی کمی ہے شاید یہ استاد کا خیالی پلاؤ تھا۔ کسٹوڈین دوسرے ملک کے محکمہ مال کا ریکارڈ اور رجسٹری وغیرہ دیکھ کر ہی کلیم دیتا تھا۔ مانا کہ استاد نے بنیے کے بیٹے کو امیر ترین شخص بنانا تھا کسی اور ذریعہ سے بنا دیتے۔ بہت سا روپیہ کما کر بنئے کے دل کا سکون ختم ہو جاتا ہے۔ وہ ہندوستان میں تھا تو کبھی کسی بیوہ کی مدد کر دیتا کسی لنگڑے کو نقلی ٹانگ لگوا دیتا، کسی مریض کا علاج کروا دیتا، جب سے وہ پاکستان آیا تھا۔ اُس نے کوئی نیک کام نہیں کیا تھا۔ وہ کیمپوں میں بیمار لوگوں کو دیکھ کر سوچتا ہے کہ وہ ایک اسپتال بنا دے پھر سوچتا ہے۔ اسپتال بنا تو ملک کی آبادی کم نہ ہو گی۔ یہ خیال ترک کر کے وہ سوچتا ہے کہ چلو مسجد بنوا دیں۔ پھر سوچتا ہے جتنی زیادہ مسجدیں ہوں گی اتنی ہی قوم حصّوں میں بٹے گی۔ وہ حج کرنے کا ارادہ بنا لیتا ہے۔ در ایں اثناء ایک حادثہ ہوتا ہے ایک جلسے میں بھگدڑ کے دوران تیس آدمی مارے جاتے ہیں اخبار لکھتا ہے کہ تیس آدمی شہید ہو گئے۔ وہ ایک مولوی سے تصدیق کی غرض سے پوچھتا ہے کہ اس طرح لوگ شہید ہو سکتے ہیں۔ مولوی جواب دیتا ہے کہ اگر کوئی شخص اچانک کسی حادثے کا شکار ہو جائے تو اُسے مرنے کے بعد شہادت کا رتبہ ملتا ہے۔ جو آدمی مولویوں سے شرعی معاملوں کے سلسلہ میں مشورہ لیتا ہے۔ وہاں وہ مولوی سے یہ نہیں پوچھ سکا کہ آخر وہ ایسا کون سا نیک کام کر لے کہ جس سے اُسے سکون حاصل ہو۔ جب وہ لوگوں کو شہید بنانے یعنی شہید سازی کا عمل شروع کرتا ہے اُس وقت بھی مولوی سے دریافت نہیں کرتا کہ اُس کے جال میں پھنس کر لوگ شہید کا مرتبہ تو پالیں گے اُس کو ثواب ملے گا یا اس کام کے بدلے عذاب۔ اُس کا فعل کیا کہلائے گا اُس فعل کی کیا شکل ہو گی۔۔ ۔۔ ۔۔ !؟

شہادت کا رتبہ دلانے کو نیک کام سمجھ کر وہ جان بوجھ کر سات سو غریبوں کو مروا دیتا ہے۔ وہ اپنے اس فعل پہ مطمئن ہوتا ہے کہ وہ بڑا نیک کام کر رہا ہے۔ سوال یہ اُٹھتا ہے کہ ہزار کرایہ داروں میں سے کوئی ایک آدمی بھی عقلمند نہیں تھا جو یہ سمجھ سکتا کہ چھتیں اس قدر بوسیدہ ہیں کہ جان جانے کا خطرہ ہے۔ کیا اُن کو شہید ہونے کا شوق تھا۔ جب بنیے کا بیٹا سمجھ سکتا ہے کہ اس برسات میں چھتیں گریں گی تو وہ ہزار آدمی کیوں نہ سمجھ سکے۔ بنیے کا بیٹا محسوس ہی نہیں کر سکا کہ مرنے والوں کی موت کا ذمہ دار وہ خود ہے جب کمرے گرے تو ظاہر ہے مالک مکان بھی حادثہ کی جگہ پہونچا ہی ہو گا اتنی بڑی تعداد میں لاشیں تو اُس نے بھی دیکھی ہی نہیں ہوں گی۔ دس لاشیں دیکھ کر آدمی کا برا حال ہو جاتا ہے۔ بنیے کے دل پر کیا گذری جب اُس نے بقول استاد کے کہ سات سو لوگ مرے دیکھے۔ لاشوں کا ڈھیر لگ گیا ہو گا۔ بنیے تو بنیادی طور پر دل کے کمزور ہوتے ہیں اتنی بڑی تعداد میں لاشیں دیکھ کر اُس پر کوئی اثر نہ ہوا؟ حکومت نے یہ جاننے کی بھی کوشش نہ کی کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ مرے تو کیوں۔۔ ۔۔ ۔۔؟ سات سو لوگوں کا مرنا کوئی چھوٹا حادثہ نہیں ہوتا۔ استاد سو پچاس آدمی مروا دیتے تو بہتر تھا۔ معاملہ یہیں نہیں رُکا بلکہ بنیا روزانہ دو تین آدمیوں کو جامِ شہادت پلا دیتا ہے۔ بنیا مزید کام بڑھا دیتا ہے وہ یہ کہ اُس کی پلاننگ ایک تین منزلہ بلڈنگ بنانے کی ہے گھٹیا میٹریل لگا کر۔ وہ بلڈنگ بنتے بنتے گرے گی اور تین سو مزدور شہید ہو جائیں گے۔ شہید سازی کی حد ہو گئی۔ یہ افسانہ تخلیق کر کے منٹو نے کیا کہنا چاہا ہے؟ انہوں نے یہ افسانہ لکھ کر کیا (Message) دیا ہے۔ ملک و سماج کے تئیں بھی ادیب کے کچھ فرائض ہوتے ہیں۔ مانا کہ منٹو سماج اور ملک سے باغی تھے۔ سر پھرے، خود سر، شدّت پسند قلم کار تھے۔ پر صاحب اُن مدیران کو کیا ہو گیا تھ جو ایسے افسانے لکھوا کر فوراً معاوضہ پیش کرتے تھے۔ کیا وہ بھی یہی پیغام دینا چاہتے تھے کہ دیش کی آبادی کم کرنے کے لئے ایک وقت میں تین سو یا سات سو لوگ مار دیئے جائیں۔ دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ وہ شہادت کے جام پی لیں گے۔ کم سے کم آج کا افسانہ نگار ایسے منفی اثرات چھوڑنے والے موضوعات نہیں اپناتا خواہ یہ نک چڑھے نقاد اسے گنتی میں رکھیں یا نہ رکھیں۔ آج کا مدیر بھی ایسے افسانے شائع نہیں کرے گا۔ ملک اور قوم کے علاوہ یہ انسانیت کے تقاضوں کے بھی خلاف ہے۔ کہ اتنی بڑی تعداد میں معصوم انسانوں کو شہید کر دو۔ شہید ہونے والا تو شہید ہو جائے گا آپ کو تو قاتل بنا جائے گا۔

استاد کو روپیوں کی ضرورت ہوتی تو رسائل کے دفاتر میں پدھار تے اور کاغذ قلم لے کر وہیں بیٹھ کر افسانہ تخلیق کرتے، افسانے کا معاوضہ لے کر بغیر گنے جیب میں رکھ لیتے اور چل دیتے۔ ایسا کمرشیل ادیب ملک قوم یا انسانیت کے تقاضوں کو کیا سمجھے گا؟ اور کیوں؟ آخر دیش بھگتی یا انسانی بھلائی کے موضوعات وہ کہاں سے لاتا اور کب تک اُسے تو ہر روز معاوضہ چاہئے تھا اور معاوضہ کے لئے اُسے لکھنا پڑتا تھا۔ ایسا کمرشیل رائٹر قابل معافی ہی ہے مگر ان لوگوں کا کیا کیا جائے جو اُس کو افسانہ نگاری کا ولی قرار دے دیتے ہیں۔ اُن کے بارے لکھ دیتے ہیں کہ منٹو جیسا نہ پیدا ہوا ہے نہ ہو گا۔ ویسے بھی استاد منٹو سماج اور قوم کا ستایا ہوا انسان تھا۔ مقدموں کی وجہ سے وہ چڑ بھی گیا تھا ممکن ہے شہید ساز انہوں نے چِڑ کر لکھا ہو۔

میرے نزدیک ہر واقعہ پر افسانہ تخلیق نہیں ہوا کرتا اگر آپ کے سامنے کوئی عجیب و غریب واقعہ یا حادثہ آیا ہے تو اُس کو اپنی کسوٹی پر پرکھ لیں کہ اس کا موضوع کیا ہے اس پر افسانہ لکھنا درست ہے یا نہیں۔ یہ افسانہ کوئی مثبت پیغام دے گا یا منفی؟ یہ موضوع کرائم کو بڑھاوا دینے والا تو نہیں۔ ملک کے مفاد میں ہے؟ انسانی جذبوں کو زخمی تو نہیں کرتا؟ اگر آپ کے ذہن کی کسوٹی پر موضوع کھرا اُترتا ہے پھر اُس پر محنت کیجئے۔ ہر موضوع جو سامنے آ جائے اُس پر افسانہ لکھنا اچھا نہیں۔ استاد منٹو نے آخر اس موضوع کو کیوں اپنایا۔۔ ۔۔؟ شاید استاد نے یہ خبر پڑھ لی ہو کہ کسی جلسے کی بھیڑ میں بھگدڑ مچی اور تیس آدمی شہید ہو گئے انہوں نے سوچا ہو گا کہ کتنے ہی لوگ ایسے ہی مر جاتے ہیں۔ یہ لوگ تو اچھے رہے جو شہیدی کو مرتبہ پا گئے۔ اگر کوئی ایسے ہی مرنے والوں کو شہادت کا جام پلائے یہ بھی بھلا کام ہے۔ اسی نظریہ پہ افسانہ تخلیق کر کے معاوضہ پا لیا ہو گا۔ مدیر تو اُس وقت یہی دیکھتے تھے کہ افسانہ منٹو کا ہے چھاپ دو۔ آج کا افسانہ محض سوچی ہوئی، فکری بات نہیں۔ ہمارے افسانے میں سچائی چھپی ہوئی ہوتی ہے اسی لئے آج کے افسانے میں بیان کیا ہوا ماجرا قابل یقین ہوتا ہے۔ بعید از قیاس نہیں۔ گپ نہیں کہ سات سو آدمیوں کو مرنے کا سامان مہیا کر دیا۔ ’’شہید ساز‘‘عنوان آدھے افسانے میں ہی گرہ کھول دیتا ہے۔ کہانی پن کی کمزوری نظر آ جاتی ہے۔ کلائمکس تو سپاٹ ہے بلکہ اس افسانے کو اینٹی کلائمیکس کہہ لیں تو بہتر۔ دیکھ لیجئے۔

کردار کا فعل تو جاری ہی ہے ابھی تو وہ دوسری بڑی واردات کی پلاننگ کر رہا ہے کہ وہ ایک تین منزلہ بلڈنگ بنائے گا گھٹیا میٹریل سے بلڈنگ گرے گی اور وہ تین سو انسانوں کو، تین سو مزدوروں کو لقمہ اجل بنا دے گا۔ اُس نے ابھی تو اگلا قدم سوچا ہی تھا کہ استاد نے افسانہ ختم کر دیا۔ افسانہ تو وہیں ختم ہو جاتا ہے جب مغلوں کے زمانے کے احاطے کے کمرے گرتے ہیں اور سات سو آدمی جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ جملہ بھی اختتام ظاہر کرتا ہے۔

’’سب کمروں کی چھتیں نیچے آ رہیں اور سات سو آدمی جن میں بچے بوڑھے سبھی شامل تھے شہید ہو گئے۔‘‘

افسانہ وہیں ختم ہو جانا چاہئے تھا کیوں کہ بنیے کا مقصد پورا ہو گیا وہ سات سو آدمیوں کو شہید کا مرتبہ دلا دیتا ہے۔ بھئی شہید سازی کا کام مکمل ہو جاتا ہے، بنیے کے بیٹے کو سکون مل جاتا ہے بات ختم۔ بنیوں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ چوہیا کو بھی نہیں مار سکتے۔ گھر میں سانپ نکل آئے تو کہتے ہیں کسی آدمی کو بلاؤ تا کہ سانپ کو مارا جائے۔ استاد منٹو کے افسانے کا بنیا تو دلیر اور سفّاک ہے جو سینکڑوں کو مار کر بھی گھبراتا نہیں بلکہ مزید پلاننگ کرنا شروع کر دیتا ہے۔

یاد رکھیئے۔۔ ۔۔ ۔۔ ! ادیب قوموں کی سوچ بدل دیا کرتے ہیں۔ ادیب کو بہت سنبھل کر ادب تخلیق کرنا چاہئے۔ اُس کی ذرا سی لغزش نقصان دیہہ ثابت ہو سکتی ہے۔

اگر یہ کہا جائے کہ اُستاد نے ایک کرپشن سے پردہ اُٹھایا ہے یہ بھی درست نہیں۔ اسے کرپشن بھی نہیں کہہ سکتے بنیا لوگوں کو روپے کی خاطر شہید نہیں بناتا۔ یہ بھی ایک سوال ہے۔

دوسرے یہ کہ ملک اور قوم کے تئیں بھی ادیب کا کوئی فرض بنتا ہے۔ مذہب اور انسانیت کے بھی کچھ تقاضے ہوا کرتے ہیں اُن کو بھی مدّ نظر رکھنا چاہئے۔ یہ نہیں کہ جو بات سوچ لی غلط صحیح اُسی کو بنیاد بنا کر ادب تخلیق کر دیا۔ آخر ہمیں جواب دینا ہے اپنے ہمعصر قارئین کو، آنے والی نسلوں کو۔

’’کیا اس افسانے کو علامتی سمجھ لیا جائے۔۔ ۔۔ ۔۔؟‘‘

یا منٹو استاد نے احتجاج کے طور پر یہ افسانہ لکھا تھا۔ اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے جو بھی آپ کو مناسب لگے استاد تو اپنا کام کر کے چلے اور کب کے منوں مٹّی کے نیچے  جا چکے۔

٭٭٭

 

 

 

 

سعادت حسن منٹو

 

گوپی ناتھ

 

بابو گوپی ناتھ سے میری ملاقات سن چالیس میں ہوئی۔ ان دنوں میں بمبئی کا ایک ہفتہ وار پرچہ ایڈٹ کیا کرتا تھا۔ دفتر میں عبدالرحیم سینڈو ایک ناٹے قد کے آدمی کے ساتھ داخل ہوا۔ میں اس وقت لیڈر لکھ رہا تھا۔ سینڈو نے اپنے مخصوص انداز میں بآوازِ بلند مجھے آداب کیا اور اپنے ساتھی سے متعارف کرایا۔

’’منٹو صاحب!۔۔ ۔۔ ۔۔ بابو گوپی ناتھ سے ملئے۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

میں نے اٹھ کر اس سے ہاتھ ملایا۔ سینڈو نے حسبِ عادت میری تعریفوں کے پُل باندھنے شروع کر دئیے۔

’’بابو گوپی ناتھ !تم ہندوستان کے نمبر ون رائٹر سے ہاتھ ملا رہے ہو۔ لکھتا ہے تو دھڑن تختہ ہو جاتا ہے۔ لوگوں کا ایسی ایسی کنٹی نیوٹی ملاتا ہے کہ طبیعت صاف ہو جاتی ہے۔ پچھلے دنوں وہ کیا چٹکلہ لکھا تھا آپ نے منٹو صاحب، مس خورشید نے کار خریدی، اللہ بڑا کار ساز ہے۔ کیوں بابو گوپی ناتھ۔ ہے یا اینٹی کی پینی پو؟‘‘

عبدالرحیم سینڈو کے باتیں کرنے کا انداز بالکل نرالا تھا۔ کنٹی نیوٹی، دھڑن تختہ اور اینٹی کی پینی پو ایسے الفاظ اس کی اپنی اختراع تھے جن کو وہ گفتگو میں بے تکلف استعمال کرتا تھا۔ میرا تعارف کرانے کے بعد وہ بابو گوپی ناتھ کی طرف متوجہ ہوا۔ جو بہت مرعوب نظر آتا تھا۔

’’آپ ہیں بابو گوپی ناتھ، بڑے خانہ خراب، لاہور سے جھک مارتے مارتے بمبے تشریف لائے ہیں۔ ساتھ کشمیر کی ایک کبوتری ہے۔‘‘

بابو گوپی ناتھ مسکرایا۔

عبدالرحیم سینڈو نے تعارف کو ناکافی سمجھ کر کہا۔

’’نمبر ون بے وقوف ہو سکتا ہے تو وہ آپ ہیں۔ لوگ ان کے مَسکا لگا کر روپیہ بٹورتے ہیں۔ میں صرف باتیں کر کے ان سے ہر روز پولیس پٹر کے دو پیکٹ وصول کرتا ہون بس منٹو صاحب یہ سمجھ لیجئے کہ بڑے انٹی فلو جسٹیس قسم کے آدمی ہیں۔ آپ آج شام کو ان کے فلیٹ پر ضرور تشریف لائیے۔‘‘

بابو گوپی ناتھ نے جو خدا معلوم کیا سوچ رہا تھا چونک کر کہا۔

’’ہاں ہاں ضرور تشریف لائیے منٹو صاحب۔‘‘

پھر سینڈو سے پوچھا۔

’’کیوں سینڈو کیا آپ کچھ اس کا شغل کرتے ہیں۔‘‘

عبدالرحیم سینڈو نے زور کا قہقہہ لگایا۔

’’اجی ہر قسم کا شغل کرتے ہیں۔ تو منٹو صاحب آج شام کو ضرور آئیے گا۔ میں نے بھی پینی شروع کر دی ہے۔ اس لئے کہ مفت ملتی ہے۔‘‘

سینڈو نے مجھے فلیٹ کا پتہ لکھا دیا۔ جہاں میں حسبِ وعدہ شام کو چھ بجے کے قریب پہنچ گیا۔ تین کمرے کا صاف ستھرا فلیٹ تھا۔ جس میں بالکل نیا فرنیچر سجا ہوا تھا۔ سینڈو اور بابو گوپی ناتھ کے علاوہ بیٹھنے والے کمرے میں دو مرد اور دو عورتیں موجود تھیں جن سے سینڈو نے مجھے متعارف کرایا۔

ایک تھا غفار سائیں، تہمد پوش، پنجاب کا ٹھیٹ سائیں، گلے میں موٹے موٹے دانوں کی مالا، سینڈو نے اس کے بارے میں کہا۔

’’آپ بابو گوپی ناتھ کے لیگل ایڈوائزر ہیں۔ میرا مطلب سمجھ جائیے آپ۔ ہر آدمی جس کی ناک بہتی ہو یا جس کے منہ میں سے لعاب نکلتا ہو۔ پنجاب میں خدا پہنچا ہوا درویش بن جاتا ہے۔ یہ بھی بس پہنچے ہوئے ہیں یا پہنچنے والے ہیں۔ لاہور سے بابو گوپی ناتھ کے ساتھ آئے ہیں، کیونکہ انہیں وہاں کوئی اور بیوقوف ملنے کی امید نہیں تھی۔ یہاں آپ بابو صاحب سے کریون اے کے سگریٹ اور سکاچ وسکی کے پیگ پی کر دعا کرتے رہتے ہیں کہ انجام نیک ہو۔‘‘

غفار سائیں یہ سن کر مسکراتا رہا۔

دوسرے مرد کا نام تھا غلام علی۔ لمبا تڑنگا جوان، کسرتی بدن، منہ پر چیچک کے داغ، اس کے متعلق سینڈو نے کہا۔

’’یہ میرا شاگرد ہے۔ اپنے استاد کے نقشِ قدم پر چل رہا ہے۔ لاہور کی ایک نامی طوائف کی کنواری لڑکی اس پر عاشق ہو گئی۔ بڑی بڑی کنبٹی نیوٹلیاں ملائی گئیں اس کو پھانسنے کے لئے مگر اس نے کہ ڈو اور ڈائی۔ میں لنگوٹ کا پکا رہوں گا۔ ایک تکئے میں بات چیت کرتے ہوئے بابو گوپی ناتھ سے ملاقات ہو گئی۔ بس اس دن سے ان کے ساتھ چمٹا ہوا ہے۔ ہر روز کریون اے کا ڈبہ اور کھانا پینا مقرر ہے۔‘‘

یہ سن کر غلام علی بھی مسکراتا رہا۔

گول چہرے والی ایک سرخ و سفید عورت تھی۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی سمجھ گیا تھا کہ یہ وہی کشمیر کی کبوتری ہے جس کے متعلق سینڈو نے دفتر میں ذکر کیا تھا۔ بہت صاف ستھری عورت تھی۔ بال چھوٹے تھے۔ ایسا لگتا تھا کٹے ہوئے ہیں، مگر در حقیقت ایسا نہیں تھا۔ آنکھیں شفاف اور چمکیلی تھیں۔ چہرے کے خطوط سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ بے حد الہڑ اور نا تجربہ کار ہے۔ سینڈو نے اس سے تعارف کراتے ہوئے کہا۔

’’زینت بیگم، بابو صاحب پیار سے زینو کہتے ہیں۔ ایک بڑی خرانٹ نائلہ کشمیر سے یہ سیب توڑ کر لاہور لے آئی۔ بابو گوپی ناتھ کو اپنی سی آئی ڈی سے پتہ چلا اور ایک رات لے اُڑے۔ مقدمے بازی ہوئی۔ تقریباً دو مہینے تک پولیس عیش کرتی رہی۔ آخر بابو صاحب نے مقدمہ جیت لیا اور اسے یہاں لے آئے۔۔ ۔۔ ۔۔ دھڑن تختہ!‘‘

اب گہرے سانولے رنگ کی عورت باقی رہ گئی تھی، جو خاموش بیٹھی سگریٹ پی رہی تھی۔ آنکھیں سرخ تھیں جن سے کافی بے حیائی مترشح تھی۔ بابو گوپی ناتھ نے اس کی طرف اشارہ کیا اور سینڈو سے کہا۔

’اس کے متعلق بھی کچھ ہو جائے۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

سینڈو نے عورت کی ران پر ہاتھ مارا اور کہا۔

’’جناب یہ ہے مٹن پٹوٹی، فِل فِل فوٹی، مسز عبدالرحیم سینڈو عرف سردار بیگم۔۔ ۔۔ آپ بھی لاہور کی پیداوار ہیں۔ سن چھتیس میں مجھ سے عشق ہوا۔ دو برسوں میں میرا دھڑن تختہ کر کے رکھ دیا۔ میں لاہور چھوڑ کر بھاگا۔ بابو گوپی ناتھ نے اسے یہاں بلوا لیا ہے تاکہ میرا دل لگا رہے۔ اس کو بھی ایک ڈبہ کریوں اے کا راشن میں ملتا ہے۔ ہر روز شام کو ڈھائی روپے کا مارفیا کا انجیکشن لیتی ہے۔ رنگ کالا ہے مگر ویسے بڑی ٹٹ فور ٹیٹ قسم کی عورت ہے۔‘‘

سردار نے ایک ادا سے صرف اتنا کہا۔

’’بکواس نہ کر۔۔ ۔۔ ۔۔ اس ادا میں پیشہ ور عورت کی بناوٹ تھی۔‘‘

سب سے متعارف کرانے کے بعد سینڈو نے حسبِ عادت میری تعریفوں کے پُل باندھنے شروع کر دئیے۔ میں نے کہا۔

’’چھوڑو یار۔۔ ۔۔ ۔۔ آؤ کچھ باتیں کریں۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

سینڈو چلایا۔

’’بوائے۔۔ ۔ وسکی اینڈ سوڈا۔۔ ۔۔ ۔۔ بابو گوپی ناتھ ! لگاؤ ایک سبزے کو۔۔ ۔‘‘

بابو گوپی ناتھ نے جیب میں ہاتھ ڈال کر سو سو کے نوٹوں کا ایک پلندا نکالا اور ایک نوٹ سینڈو کے حوالے کر دیا۔

سینڈو نے نوٹ لے کر اس کی طرف غور سے دیکھا اور کھڑ کھڑا کر کہا۔

’’ او گوڈ۔۔ ۔۔ اور میرے رب العالمین۔۔ ۔۔ ۔۔ وہ دن کب آئے گا جب میں بھی لب لگا کر یوں نوٹ نکالا کروں گا۔۔ ۔۔ ۔ جاؤ بھئی غلام علی دو بوتلیں جانی واکر سٹل سٹرانگ کی لے آؤ۔۔ ۔‘‘

بوتلیں آئیں تو سب نے پینا شروع کی۔ یہ شغل دو تین گھنٹے تک جاری رہا۔ اس دوران میں سب سے زیادہ باتیں حسبِ معمول عبدالرحیم نے کیں۔ پہلا گلاس ایک ہی سانس میں ختم کر کے وہ چلایا۔

’’دھڑن تختہ منٹو صاحب وسکی ہو تو ایسی حلق سے اُتر کر پیٹ میں انقلاب زندہ باد لکھتی چلی گئی ہے۔ جیو بابو گوپی ناتھ جیو۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

بابو گوپی ناتھ بے چارہ خاموش رہا۔ کبھی کبھی البتہ وہ سینڈو کی ہاں میں ہاں ملا دیتا تھا۔ میں نے سوچا اس شخص کی اپنی رائے کوئی نہیں ہے۔ دوسرا جو بھی کہے مان لیتا ہے۔ ضعیف الاعتقادی کا ثبوت غفار سائیں موجود تھا جسے وہ بقول سینڈو اپنا لیگل ایڈوائزر بنا کر لایا تھا۔ سینڈو کا اس لئے اصل یہ مطلب تھا کہ بابو گوپی ناتھ کو اس سے عقیدت تھی۔ یوں بھی مجھے دوران گفتگو میں معلوم ہوا کہ لاہور میں اس کا اکثر وقت فقیروں اور درویشوں کی صحبت میں کٹتا تھا۔ یہ چیز میں نے خاص طور پر نوٹ کی کہ وہ کھویا کھویا سا تھا۔ جیسے کچھ سوچ رہا ہے۔ میں نے چنانچہ اس سے ایک بار کہا۔

’’بابو گوپی ناتھ کیا سوچ رہے ہیں آپ۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

وہ چونک پڑا۔

’’جی میں۔۔ ۔۔ ۔۔ میں۔۔ ۔۔ ۔۔ کچھ نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘ یہ کہہ کر وہ مسکرایا اور زینت کی طرف ایک عاشقانہ نگاہ ڈالی۔

’’ان حسینوں کے متعلق سوچ رہا ہوں۔۔ ۔۔ ۔۔ اور ہمیں کیا سوچ ہو گی۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

سینڈو نے کہا۔

’’بڑے خانہ خراب ہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ لاہور کی کوئی ایسی طوائف نہیں جس کے ساتھ بابو صاحب کی کنٹی نیوٹی نہ رہ چکی ہو۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

بابو گوپی ناتھ نے یہ سن کر بڑے بھونڈے انکسار کے ساتھ کہا۔

’’اب کمر میں وہ دم نہیں منٹو صاحب۔۔ ۔۔ ۔۔ !‘‘

اس کے بعد واہیات گفتگو شروع ہو گئی۔ لاہور کی طوائفوں کے سب گھرانے گنے گئے۔ کون ڈیرہ دار تھی؟ کون نٹنی تھی؟ کون کس کی نوچی تھی؟ نتھنی اتارنے کا بابو گوپی ناتھ نے کیا دیا تھا وغیرہ وغیرہ۔ یہ گفتگو سردار، سینڈو، غفار سائیں اور غلام علی کے درمیان ہوتی رہی، ٹھیٹ لاہور کے کوٹھوں کی زبان میں۔ مطلب تو میں سمجھتا رہا، مگر بعض اصطلاحیں سمجھ نہ آئیں۔

زینت بالکل خاموش بیٹھی رہی۔ کبھی کبھی کسی بات پر مسکرا دیتی۔ مگر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اسے اس گفتگو سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ہلکی وسکی کا ایک گلاس بھی پیا بغیر کسی دلچسپی کے۔ سگریٹ بھی پیتی تھی تو معلوم ہوتا تھا، اسے تمباکو اور اس کے دھوئیں سے کوئی رغبت نہیں، لیکن لطف یہ ہے کہ سب سے زیادہ سگریٹ اسی نے پئے۔ بابو گوپی ناتھ سے اسے محبت تھی؟ اس کا پتہ مجھے کسی بات سے نہ ملا۔ اتنا البتہ ظاہر تھا کہ بابو گوپی ناتھ کو اس کا کافی خیال تھا۔ کیونکہ زینت کی آسائش کے لئے ہر سامان مہیّا تھا۔ لیکن ایک بات مجھے محسوس ہوئی کہ ان دونوں میں کچھ عجیب سا کھنچاؤ تھا۔ میرا مطلب ہے، وہ دونوں ایک دوسرے کے قریب ہونے کے بجائے کچھ ہٹے ہوئے سے معلوم ہوتے تھے۔ آٹھ بجے کے قریب سردار ڈاکٹر مجید کے ہاں چلی گئی کیونکہ اسے مورفیا کا انجیکشن لینا تھا۔ غفار سائیں تین پیگ پینے کے بعد اپنی تسبیح اٹھا کر قالین پر سو گیا۔ غلام علی کو ہوٹل سے کھانا لینے کے لئے بھیج دیا گیا۔ سینڈو نے اپنی دلچسپ بکواس جب کچھ عرصے کے لئے بند کی تو بابو گوپی ناتھ نے جو اب نشے میں تھا، زینت کی طرف وہی عاشقانہ نگاہ ڈال کر کہا۔

’’منٹو صاحب!۔۔ ۔۔ ۔۔ میری زینت کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

میں نے سوچا کیا کہوں؟ زینت کی طرف دیکھا تو وہ جھینپ گئی۔ میں نے ایسے ہی کہہ دیا۔

’’بڑا نیک خیال ہے۔‘‘

بابو گوپی ناتھ خوش ہو گیا۔

’’منٹو صاحب !۔۔ ۔۔ ۔۔ ہے بھی بڑی نیک لوگ، خدا کی قسم نہ زیور کا شوق ہے نہ کسی اور چیز کا، میں نے کئی بار کہا۔ جانِ من مکان بنوا دوں؟ ۔۔ ۔۔ ۔۔ جواب کیا دیا، معلوم ہے آپ کو؟ کیا کروں گی مکان لے کر، میرا کون ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ منٹو صاحب موٹر کتنے میں آ جائے گی۔۔ ۔‘‘

میں نے کہا۔

’’مجھے معلوم نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

بابو گوپی ناتھ نے تعجب سے کہا۔

’’کیا بات کرتے ہیں منٹو صاحب!۔۔ ۔۔ ۔۔ آپ کو اور کاروں کی قیمت معلوم نہ ہو۔ کل چلئے میرے ساتھ، زینو کے لئے ایک موٹر لیں گے۔ میں نے اب دیکھا ہے کہ بمبئے میں موٹر ہونی ہی چاہئے۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

زینت کا چہرہ ردِ عمل سے خالی رہا۔

بابو گوپی ناتھ کا نشہ تھوڑی دیر کے بعد بہت تیز ہو گیا۔ ہمہ تن جذباتی ہو کر اس نے مجھ سے کہا۔

’’منٹو صاحب آپ بڑے لائق آدمی ہیں۔ میں تو بالکل گدھا ہوں۔ لیکن آپ مجھے بتائیے۔ میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں۔ کل باتوں باتوں میں سینڈو نے آپ کا ذکر کیا۔ میں نے اسی وقت ٹیکسی منگوائی اور اس سے کہا۔ مجھے لے چلو منٹو صاحب کے پاس۔ مجھ سے کوئی گستاخی ہو گئی ہو تو معاف کر دیجئے۔ بہت گنہگار آدمی ہوں۔ وسکی منگاؤں آپ کے لئے اور۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

میں نے کہا۔

’’نہیں نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ بہت پی چکے ہیں۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

وہ اور زیادہ جذباتی ہو گیا۔

’’اور پیجئے منٹو صاحب۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘ یہ کہہ کر جیب سے سو سو کے نوٹوں کا پلندا نکالا اور ایک نوٹ جُدا کرنے لگا۔ لیکن میں نے سب نوٹ اس کے ہاتھ سے لئے اور واپس اس کی جیب میں ٹھونس دئیے۔

’’سو روپے کا ایک نوٹ آپ نے غلام علی کو دیا تھا، اس کا کیا ہوا؟ ۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

مجھے در اصل کچھ ہمدردی ہو گئی تھی بابو گوپی ناتھ سے۔ کتنے آدمی اس غریب کے ساتھ جونک کی طرح چمٹے ہوئے تھے۔ میرا خیال تھا بابو گوپی ناتھ بالکل گدھا ہے۔ لیکن وہ میرا اشارہ سمجھ گیا اور مسکراکر کہنے لگا۔

’’منٹو صاحب اس نوٹ میں سے جو کچھ باقی بچا وہ یا تو غلام علی کی جیب سے گر پڑے گا یا۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

بابو گوپی ناتھ نے پورا جملہ بھی ادا نہیں کیا تھا کہ غلام علی نے کمرے میں داخل ہو کر بڑے دکھ کے ساتھ یہ اطلاع دی کہ ہوٹل میں کسی حرامزادے نے اس کی جیب سے سارے روپے نکال لئے۔ بابو گوپی ناتھ میری طرف دیکھ کر مسکرایا۔ پھر سو روپے کا ایک نوٹ جیب سے نکالا اور غلام علی کو دے کر کہا۔

’’جلدی کھانا لے آؤ۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

پانچ چھ ملاقاتوں کے بعد مجھے بابو گوپی ناتھ کی صحیح شخصیت کا علم ہوا۔ پوری طرح تو خیر انسان کسی کو بھی نہیں جان سکتا۔ لیکن مجھے اس کے بہت سے حالات معلوم ہوئے جو بے حد دلچسپ تھے۔

پہلے تو میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ میرا یہ خیال کہ وہ پر لے درجے کا چُغد ہے، غلط ثابت ہوا۔ اس کو اس امر کا پورا احساس تھا کی سینڈو، غلام علی، سردار وغیرہ جو اس کے مصائب بنے ہوئے تھے، مطلبی انسان ہیں۔ وہ ان سے جھڑکیاں گالیاں سب سنتا تھا لیکن غصّے کا اظہار نہیں کرتا تھا۔ اس نے مجھ سے کہا۔

’’منٹو صاحب میں نے آج تک کسی کا مشورہ رد نہیں کیا۔ جب بھی مجھے کوئی رائے دیتا ہے میں کہتا ہوں سبحان اللہ۔ وہ مجھے بے وقوف سمجھتے ہیں۔ لیکن میں انہیں عقلمند سمجھتا ہوں اس لئے ان میں کم از کم اتنی عقل تو تھی جو مجھ میں ایسی بے وقوفی کو شناخت کر لیا جن سے ان کا اُلّو سیدھا ہو سکتا ہے۔ بات در اصل یہ ہے کہ میں شروع سے فقیروں اور کنجروں کی صحبت میں رہا ہوں۔ مجھے ان سے کچھ محبت سی ہو گئی ہے۔ میں ان کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میں نے سوچ رکھا ہے، جب میری دولت بالکل ختم ہو جائے گی تو کسی تکئے میں جا کر بیٹھوں گا۔ رنڈی کا کوٹھا اور پیر کا مزار، بس یہ دو جگہیں ہیں جہاں میرے دل کو سکون ملتا ہے۔ رنڈی کا کوٹھا تو چھوٹ جائے گا اس لئے کہ جیب خالی ہونے والی ہے لیکن ہندوستان میں ہزاروں پیر ہیں۔ کسی ایک کے مزار پر چلا جاؤں گا۔‘‘

میں نے اس سے پوچھا۔

’’رنڈی کے کوٹھے اور تکئے آپ کو کیوں پسند ہیں؟‘‘

کچھ دیر سوچ کر اس نے جواب دیا۔

’’اس لئے کہ ان دونوں جگہوں پر فرش سے لے کر چھت تک دھوکا ہوتا ہے۔ جو آدمی خود کو دھوکا دینا چاہے، اس کے لئے ان سے اچھا مقام اور کیا ہو سکتا ہے۔

میں نے ایک اور سوال کیا۔

’’آپ کو طوائفوں کا گانا سننے کا شوق ہے۔ کیا آپ موسیقی کی سمجھ رکھتے ہیں۔‘‘

اس نے جواب دیا۔

’’بالکل نہیں۔ اور یہ اچھا ہے کیوں کہ میں کن سُری سے کن سُری طوائف کے ہاں جا کر بھی اپنا سُر ملا سکتا ہوں۔ منٹو صاحب مجھے گانے سے کوئی دلچسی نہیں۔ لیکن جیب میں سے دس یا سو روپے کا نوٹ نکال کر گانے والی کو دکھانے میں بہت مزا آتا ہے۔ نوٹ نکالا اور اسے دکھایا۔ وہ اسے لینے کے لئے ایک ادا سے اُٹھی، پاس آئی تو نوٹ جراب میں اڑس لیا۔ اس نے جھک کر اسے باہر نکالا تو ہم خوش ہو گئے۔ ایسی بہت فضول فضول سی باتیں ہیں جو ہم ایسے تماش بینوں کو پسند ہیں۔ ورنہ کون نہیں جانتا کے کوٹھے پر ماں باپ اپنی اولاد سے پیشہ کراتے ہیں اور مقبروں اور تکیوں میں انسان اپنے خدا سے۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

بابو گوپی ناتھ کا شجرۂ نسب تو میں نہیں جانتا۔ لیکن اتنا معلوم ہوا کہ وہ ایک بہت بڑے کنجوس بنئے کا بیٹا ہے۔ باپ کے مرنے پر اسے دس لاکھ روپے کی جائیداد ملی جو اس نے اپنی خواہش کے مطابق اڑانا شروع کر دی۔ بمبئے آتے وقت وہ اپنے ساتھ پچاس ہزار روپے لایا تھا۔ اس زمانے میں سب چیزیں سستی تھیں۔ لیکن پھر بھی ہر روز تقریباً سو سوا سو روپے خرچ ہو جاتے تھے۔

زینو کے لئے اس نے فیئٹ موٹر خریدی۔ یاد نہیں رہا۔ لیکن شاید تین ہزار روپے میں آئی تھی۔ ایک ڈرائیور رکھا۔ لیکن وہ بھی لفنگے ٹائپ کا۔۔ ۔۔ ۔۔ بابو گوپی ناتھ کو کچھ ایسے ہی آدمی پسند تھے۔

ہماری ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھ گیا۔ بابو گوپی ناتھ سے مجھے تو صرف دلچسپی تھی لیکن اسے مجھ سے کچھ عقیدت ہو گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ دوسروں کی بہ نسبت میرا بہت زیادہ احترام کرتا تھا۔

ایک روز شام کے قریب جب میں فلیٹ پر گیا، مجھے وہاں شفیق کو دیکھ کر سخت حیرانی ہوئی۔ محمد شفیق طوسی کہوں تو شاید آپ سمجھ لیں کہ میری مراد کس آدمی سے ہے۔ یوں شفیق کافی مشہور آدمی ہے۔ کچھ اپنی جدّت طراز گائکی کے باعث اور کچھ اپنی بذلہ سنج طبیعت کی بدولت، لیکن اس کی زندگی کا ایک حصّہ اکثریت سے پوشیدہ ہے۔ بہت کم آدمی جانتے ہیں کہ تین سگی بہنوں کو یکے بعد دیگرے تین تین چار چار سال کے وقفے کے بعد داشتہ بنانے سے پہلے اس کا تعلق ان کی ماں سے بھی تھا۔ یہ بھی بہت کم مشہور ہے کہ اس کو اپنی پہلی بیوی جو تھوڑے ہی عرصے میں مر گئی تھی، اس لئے پسند نہیں تھی کہ اس میں طوائفوں کے غمزے اور عشوے نہیں تھے۔ لیکن یہ تو خیر ہر آدمی جو شفیق طوسی سے تھوڑی بہت واقفیت بھی رکھتا ہے، جانتا ہے کہ چالیس برس (یہ اس زمانے کی عمر ہے) کی عمر میں سینکڑوں طوائفوں نے اسے رکھا۔ اچھے سے اچھا کپڑا پہنا، عمدہ سے عمدہ کھانا کھایا، نفیس سے نفیس موٹر رکھی، مگر اس نے اپنی گرہ سے کسی طوائف پر ایک دمڑی بھی خرچ نہ کی۔

عورتوں کے لئے، خاص طور پر جو کہ پیشہ ور ہو، اس کی بذلہ سنج طبیعت، جس میں میراثیوں کے مزاح کی جھلک تھی، بہت ہی جاذبِ نظر تھی۔ وہ کوشش کئے بغیر ان کو اپنی طرف کھینچ لیتا تھا۔

میں نے جب اسے ہنس ہنس کر زینت سے باتیں کرتے دیکھا تو مجھے اس لئے حیرت نہ ہوئی کہ وہ ایسا کیوں کر رہا ہے۔ میں نے صرف یہ سوچا کہ وہ دفعتہً یہاں پہنچا کیسے؟ ایک سینڈو اسے جانتا تھا۔ مگر ان کی بول چال تو ایک عرصے سے بند تھی۔ لیکن بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ سینڈو ہی اسے لایا تھا۔ ان دونوں میں صلح صفائی ہو گئی تھی۔

بابو گوپی ناتھ ایک طرف بیٹھا حقّہ پی رہا تھا۔ میں نے شاید اس سے پہلے ذکر نہیں کیا، وہ سگریٹ بالکل نہیں پیتا تھا۔ محمد شفیق طوسی میراثیوں کے لطیفے سنا رہا تھا۔ جس میں زینت کسی قدر کم اور سردار بہت زیادہ دلچسپی لے رہی تھی۔ شفیق نے مجھے دیکھا اور کہا۔

’’بسم اللہ۔۔ ۔۔ ۔۔ بسم اللہ کیا آپ کا گزر بھی اس وادی میں ہوتا ہے۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

سینڈو نے کہا۔

’’تشریف لے آئیے عزرائیل صاحب یہاں۔۔ ۔۔ ۔۔ دھڑن تختہ۔۔ ۔۔ ۔۔ !‘‘

میں اس کا مطلب سمجھ گیا۔

تھوڑی دیر گپ بازی ہوتی رہی۔ میں نے نوٹ کیا کہ زینت اور محمد شفیق طوسی کی نگاہیں آپس میں ٹکرا کر کچھ اس انداز سے دیکھ رہی تھیں، جیسے خلیفے اکھاڑے کے باہر بیٹھ کر اپنے پٹھوں کے داؤ پیچ کو دیکھتے ہیں۔

اس دوران میں مَیں بھی زینت سے کافی بے تکلف ہو گیا تھا۔ وہ مجھے بھائی کہتی تھی جس پر مجھے اعتراض نہیں تھا۔ اچھی ملنسار طبیعت کی عورت ہی کم گو، سادہ لوح، صاف ستھری۔

شفیق سے مجھے اس کی نگاہ بازی پسند نہیں آئی تھی۔ اوّل تو اس میں بھونڈا پن تھا۔ اس کے علاوہ کچھ یوں کہئے کہ اس بات کا بھی اس میں دخل تھا کہ وہ مجھے بھائی کہتی تھی۔ شفیق اور سینڈو اٹھ کر باہر گئے تو میں نے شاید بڑی بے رحمی کے ساتھ اس سے نگاہ بازی کے متعلق استفسار کیا کیونکہ فوراً اس کی آنکھوں میں یہ موٹے موٹے آنسو آ گئے اور روتی ہوئی وہ دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ بابو گوپی ناتھ جو ایک کونے میں بیٹھا حقّہ پی رہا تھا۔ اٹھ کر تیزی سے اس کے پیچھے چلا گیا۔ سردار نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اس سے کچھ کہا، لیکن میں مطلب نہ سمجھا۔ تھوڑی دیر کے بعد بابو گوپی ناتھ کمرے سے باہر نکلا اور ’’آئیے منٹو صاحب‘‘ کہہ کر مجھے اپنے ساتھ اندر لے گیا۔

زینت پلنگ پر بیٹھی تھی۔ میں اندر داخل ہوا تو وہ دونوں ہاتھوں سے منہ ڈھانپ کر لیٹ گئی۔ میں اور بابو گوپی ناتھ دونوں پلنگ کے پاس کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ بابو گوپی ناتھ نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ کہنا شروع کیا۔

’’منٹو صاحب مجھے اس عورت سے بہت محبت ہے۔ دو برس سے یہ میرے پاس ہے۔ میں حضرت غوثِ اعظم جیلانی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس نے مجھے کبھی شکایت کا موقعہ نہیں دیا۔ اس کی دوسری بہنیں، میرا مطلب ہے اس پیشے کی دوسری عورتیں، دونوں ہاتھوں سے مجھے لوٹ کر کھاتی رہیں۔ مگراس نے کبھی ایک زائد پیسہ مجھ سے نہیں لیا۔ میں اگر کسی دوسری عورت کے ہاں ہفتوں پڑا رہا تو اس غریب نے اپنا کوئی زیور گروی رکھ کر گزارہ کیا۔ میں جیسا کہ آپ سے ایک دفعہ کہہ چکا ہوں، بہت جلد اس دنیا سے کنارہ کش ہونے والا ہوں۔ میری دولت اب کچھ دن کی مہمان ہے میں نہیں چاہتا اس کی زندگی خراب ہو۔ میں نے لاہور میں اس کو بہت سمجھایا کہ تم دوسری طوائفوں کی طرف دیکھو۔ جو کچھ وہ کرتی ہیں سیکھو۔ میں آج دولت مند ہوں، کل مجھے بھکاری ہونا ہے۔ تم لوگوں کی زندگی میں صرف ایک دولت مند کافی نہیں۔ میرے بعد تم کسی اور کو نہیں پھانسو گی تو کام نہیں چلے گا۔ لیکن منٹو صاحب اس نے میری ایک نہ سُنی۔ سارا دن شریف زادیوں کی طرح گھر میں بیٹھی رہتی ہے۔ میں نے غفار سائیں سے مشورہ کیا۔ اس نے کہا بمبئی لے جاؤ اسے معلوم تھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔ بمبئی میں اس کی دو جاننے والی طوائفیں ایکٹریس بنی ہیں۔ لیکن میں نے سوچا بمبئی ٹھیک ہے۔ دو مہینے ہو گئے ہیں اسے یہاں لائے ہوئے۔ سردار کو لاہور سے بلایا ہے کہ اس کو سب گُر سکھائے۔ غفار سائیں سے بھی یہ بہت کچھ سیکھ سکتی ہے۔ یہاں مجھے کوئی نہیں جانتا۔ اس کو یہ خیال تھا کہ بابو تمہاری بے عزتی ہو گی۔ میں نے کہا تم چھوڑو اس کو، بمبئی بہت بڑا شہر ہے۔ لاکھوں رئیس ہیں۔ میں نے تمہیں موٹر لے دی۔ کوئی اچھا آدمی تلاش کر لو۔ منٹو صاحب میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں، میری خواہش ہے کہ اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائے۔ میں اس کے نام آج ہی بنک میں دس ہزار روپیہ جمع کرانے کو تیار ہوں۔ مگر مجھے معلوم ہے دس دن کے اندر اندر یہ باہر بیٹھی ہو گی، سردار اس کی ایک ایک پائی اپنی جیب میں ڈال لے گی۔ آپ بھی اسے سمجھائیے کہ چالاک بننے کی کوشش کرے۔ جب سے موٹر خریدی ہے، سردار اسے ہر روز شام کو اپولو بندر لے جاتی ہے۔ لیکن ابھی تک کامیابی نہیں ہوئی۔ سینڈو آج بڑی مشکلوں سے محمد شفیق کو یہاں لایا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے اس کے متعلق؟

میں نے اپنا خیال ظاہر کرنا مناسب خیال نہ کیا۔ لیکن بابو گوپی ناتھ نے خود ہی کہا۔

’’اچھا کھاتا پیتا آدمی معلوم ہوتا ہے اور خوبصورت بھی ہے۔ کیوں زینو جانی !۔۔ ۔۔ ۔۔ پسند ہے تمہیں؟‘‘

زینو خاموش رہی۔

بابو گوپی ناتھ سے جب مجھے زینت کو بمبئی لانے کی غرض و غایت معلوم ہوئی تو میرا دماغ چکرا گیا۔ مجھے یقین نہ آیا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن بعد میں مشاہدے نے میری حیرت دُور کر دی۔ بابو گوپی ناتھ کی دلی آرزو تھی کہ زینت بمبئی میں کسی اچھے مالدار آدمی کی داشتہ بن جائے یا ایسے طریقے سیکھ جائے، جس سے وہ مختلف آدمیوں سے روپیہ وصول کرتے رہنے میں کامیاب ہو جائے۔ زینت سے اگر چھٹکارہ ہی حاصل کرنا ہوتا تو یہ کوئی اتنی مشکل چیز نہیں تھی۔ بابو گوپی ناتھ ایک ہی دن میں یہ کام کر سکتا تھا۔ چونکہ اس کی نیّت نیک تھی، اس لئے اس نے زینت کے مستقبل کے لئے ہر ممکن کوشش کی۔ اس کو ایکٹریس بنانے کے لئے اس نے کئی جعلی ڈائریکٹروں کی دعوتیں کیں۔ گھر میں ٹیلی فون لگوا دیا۔ اونٹ کسی کروٹ نہ بیٹھا۔

محمد شفیق طوسی تقریباً ڈیڑھ مہینہ آتا رہا۔ کئی راتیں بھی اس نے زینت کے ساتھ بسر کیں لیکن وہ ایسا آدمی نہیں تھا جو کسی عورت کا سہارا بن سکے۔ بابو گوپی ناتھ نے ایک روز افسوس اور رنج کے ساتھ کہا۔

’’شفیق صاحب تو خالی خولی جنٹلمین ہی نکلے۔ ٹھصّہ دیکھئے لیکن بے چاری زینت سے چار چادریں چھ تکئے کے غلاف اور دو سو روپے نقد ہتھیا کر لے گئے۔ سنا ہے آج کل ایک لڑکی الماس سے عشق لڑا رہے ہیں۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

یہ درست تھا۔ الماس نذیر جان پٹیالے والی کی سب سے چھوٹی اور آخری لڑکی تھی۔ اس سے پہلے تین بہنیں داشتہ رہ چکی تھیں۔ دو سو روپے جو اس نے زینت سے لئے تھے، مجھے معلوم ہے الماس پر خرچ ہوئے تھے۔ بہنوں کے ساتھ لڑ جھگڑ کر الماس نے زہر کھا لیا تھا۔

محمد شفیق طوسی نے جب آنا جانا بند کر دیا تو زینت نے کئی بار مجھے ٹیلی فون کیا اور کہا اسے ڈھونڈ کر میرے پاس لائیے۔ میں نے اسے تلاش کیا لیکن کسی کو اس کا پتہ ہی نہیں تھا کہ وہ کہاں رہتا ہے۔ ایک روز اتفاقیہ ریڈیو اسٹیشن پر ملاقات ہوئی۔ سخت پریشانی کے عالم میں تھا۔ جب میں نے اس سے کہا کہ تمہیں زینت بلاتی ہے تو اس نے جواب دیا۔

’’مجھے یہ پیغام اور ذریعوں سے بھی مل چکا ہے۔ افسوس ہے آجکل مجھے بالکل فرصت نہیں۔ زینت بہت اچھی عورت ہے لیکن افسوس ہے کہ بے حد شریف ہے۔ ایسی عورتوں سے جو بیویوں جیسی لگیں مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

شفیق سے جب مایوسی پائی تو زینت نے سردار کے ساتھ پھر اپولو بندر جانا شروع کیا۔ پندرہ دن میں بڑی مشکلوں سے کئی گیلن پٹرول پھونکنے کے بعد سردار نے دو آدمی پھانسے۔ ان سے زینت کو چار سو روپے ملے۔ بابو گوپی ناتھ نے سمجھا کہ حالات امید افزا ہیں۔ کیونکہ ان میں سے ایک نے جو ریشمی کپڑوں کی مل کا مالک تھا، کہا کہ میں تم سے شادی کروں گا۔ ایک مہینہ گزر گیا۔ لیکن یہ آدمی پھر زینت کے پاس نہ آیا۔

ایک روز میں جانے کس کام سے ہار بنی روڈ پر جا رہا تھا کہ مجھے فٹ پاتھ کے پاس زینت کی موٹر کھڑی نظر آئی۔ پچھلی نشست پر محمد یسیٰن بیٹھا تھا، نگینہ ہوٹل کا مالک، میں نے اس سے پوچھا۔

’’یہ موٹر تم نے کہاں سے لی؟‘‘

یسیٰن مسکرایا۔

’’تم جانتے ہو موٹر والی کو؟‘‘

میں نے کہا۔

’’جانتا ہوں۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

’’تو بس سمجھ لو میرے پاس کیسے آئی۔ اچھی لڑکی ہے یار۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘ یٰسین نے مجھے آنکھ ماری۔ میں مسکرا دیا۔

اس کے چوتھے روز بابو گوپی ناتھ ٹیکسی پر میرے دفتر میں آیا۔ اس سے مجھے معلوم ہوا کہ زینت سے یسیٰن کی ملاقات کیسے ہوئی۔ ایک شام اپولو بندر سے ایک آدمی لے کر سردار اور زینت نگینہ ہوٹل گئیں۔ وہ آدمی تو کسی بات پر جھگڑ کر چلا گیا۔ لیکن ہوٹل کے مالک سے زینت کی دوستی ہو گئی۔

بابو گوپی ناتھ مطمئن تھا کیونکہ دس پندرہ روز کی دوستی کے دوران یسیٰن نے زینت کو چھ بہت ہی عمدہ اور قیمتی ساڑھیاں لے دیں تھیں۔ بابو گوپی ناتھ اب یہ سوچ رہا تھا کچھ دن اور گزر جائیں، زینت اور یسیٰن کی دوستی اور مضبوط ہو جائے تو لاہور واپس چلا جائے، مگر ایسا نہ ہوا۔

نگینہ ہوٹل میں ایک کرسچین عورت نے کمرہ کرائے پر لیا۔ اس کی جوان لڑکی میوریل سے یسیٰن کی آنکھ لڑ گئی۔ چنانچہ زینت بے چاری ہوٹل میں بیٹھی رہتی اور یسیٰن اس کی موٹر میں صبح شام اس لڑکی کو گھماتا رہتا۔ بابو گوپی ناتھ کو اس کا علم ہونے پر بہت دکھ ہوا۔ اس نے مجھ سے کہا۔

’’منٹو صاحب یہ کیسے لوگ ہیں۔ بھئی دل اچاٹ ہو گیا ہے، تو صاف کہہ دو لیکن زینت بھی عجیب ہے اچھی طرح معلوم ہے کیا ہو رہا ہے، مگر منہ سے اتنا بھی نہیں کہتی۔ میاں اگر تم نے اس کرسٹان چھوکری سے عشق لڑانا ہے تو اپنی موٹر کا بندوبست کرو۔ میری موٹر کیوں استعمال کرتے ہو۔ میں کیا کروں منٹو صاحب بڑی شریف اور نیک بخت عورت ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ تھوڑی سی چالاک تو بننا چاہئے۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

یسیٰن سے تعلق قطع ہونے پر زینت نے کوئی صدمہ محسوس نہ کیا۔

بہت دنوں تک کوئی نئی بات وقوع پذیر نہ ہوئی۔ ایک دن ٹیلی فون کیا تو معلوم ہوا بابو گوپی ناتھ، غلام علی اور غفارسائیں کے ساتھ لاہور چلا گیا ہے۔ روپے کا بندوبست کرنے کیونکہ پچاس ہزار ختم ہو چکے تھے۔ جاتے وقت وہ زینت سے کہہ گیا تھا کہ اسے لاہور میں زیادہ دن لگیں گے۔ کیونکہ اسے چند مکان فروخت کرنے پڑیں گے۔

سردار کو مورفیا کے ٹیکوں کی ضرورت تھی۔ سینڈو کو پولسن مکھن کی، چنانچہ دونوں نے متحدہ کوشش کی اور ہر روز دو تین آدمی پھانس کر لے آتے۔ زینت سے کہا گیا کہ بابو گوپی ناتھ واپس نہیں آئے گا اس لئے اسے اپنی فکر کرنی چاہئے۔ سو سوا سو روپے ہو جاتے جن میں سے آدھے زینت کو ملتے باقی سینڈو اور سردار دبا لیتے۔

میں نے ایک دن زینت سے کہا۔

’’یہ تم کیا کر رہی ہو۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

اس نے بڑے الہڑ پن سے کہا۔

’’مجھے کچھ معلوم نہیں ہے بھائی جان یہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں مان لیتی ہوں۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

جی چاہا تھا کہ دیر تک پاس بیٹھ کر سمجھاؤں کہ جو کچھ تم کر رہی ہو، ٹھیک نہیں۔ سینڈو اور سردار اپنا الّو سیدھا کرنے کے لئے تمہیں بیچ بھی ڈالیں گے۔ مگر میں نے کچھ نہ کہا۔ زینت اُکتا دینے والی حد تک بے سمجھ، بے امنگ اور بے جان عورت تھی۔ اس کم بخت کو اپنی زندگی کی کچھ قدر و قیمت ہی معلوم نہیں تھی۔ جسم بیچتی، مگر اس میں بیچنے والوں کا کوئی انداز تو ہوتا۔ واللہ مجھے بہت کوفت ہوتی تھی اسے دیکھ کر۔ سگریٹ سے، شراب سے، کھانے سے گھر سے، ٹیلی فون سے حتّی کہ اس صوفے سے بھی جس پر وہ اکثر لیٹی رہتی تھی اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔

بابو گوپی ناتھ پورے ایک مہینے کے بعد لوٹا، ماہم گیا تو وہاں فلیٹ میں کوئی اور ہی تھا۔ سینڈو اور سردار کے مشورے سے زینت نے باندرہ میں ایک بنگلے کا بالائی حصّہ کرائے پر لے لیا تھا۔ بابو گوپی ناتھ میرے پاس آیا تو میں نے اسے پورا پتہ بتا دیا۔

اس نے مجھ سے زینت کے متعلق پوچھا۔ جو کچھ مجھے معلوم تھا میں نے کہہ دیا۔ لیکن یہ نہ کہا کہ سینڈو اور سردار اس سے پیشہ کرا رہے ہیں۔

بابو گوپی ناتھ اب کی دس ہزار روپیہ اپنے ساتھ لایا تھا جو اس نے بڑی مشکلوں سے حاصل کیا تھا۔ غلام علی اور غفار سائیں کو وہ لاہور ہی چھوڑ آیا تھا۔ ٹیکسی نیچے کھڑی کی۔ بابو گوپی ناتھ نے اصرار کیا کہ میں بھی اس کے ساتھ چلوں۔

تقریباً ایک گھنٹے میں ہم باندرہ پہنچ گئے۔ پالی ہل پر ٹیکسی چڑھ رہی تھی کہ سامنے تنگ سڑک پر سینڈو دکھائی دیا۔ بابو گوپی ناتھ نے زور سے پکارا۔

’’سینڈو۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

سینڈو نے جب بابو گوپی ناتھ کو دیکھا تو اس کے منہ سے صرف اس قدر نکلا۔

’’دھڑن تختہ۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

بابو گوپی ناتھ نے اس سے کہا۔

’’آؤ ٹیکسی میں بیٹھ جاؤ اور ساتھ چلو۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

لیکن سینڈو نے کہا۔

’’ٹیکسی ایک طرف کھڑی کیجئے۔ مجھ آپ سے کچھ پرائیویٹ باتیں کرنی ہیں۔‘‘

ٹیکسی ایک طرف کھڑی کی گئی۔ بابو گوپی ناتھ باہر نکلا تو سینڈو اسے کچھ دور لے گیا۔ دیر تک ان میں باتیں ہوتی رہیں۔ جب ختم ہوئیں تو بابو گوپی ناتھ اکیلا ٹیکسی کی طرف آیا۔ ڈرائیور سے اس نے کہا۔

’’واپس لے چلو۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

بابو گوپی ناتھ خوش تھا۔ ہم داور کے پاس پہنچے تو اس نے کہا۔

’’منٹو صاحب زینو کی شادی ہونے والی ہے۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

میں نے حیرت سے پوچھا۔

’’کس سے؟‘‘

بابو گوپی ناتھ نے جواب دیا۔

’’حیدر آباد سندھ کا ایک دولت مند زمیندار ہے۔ خدا کرے دونوں خوش رہیں۔ یہ بھی اچھا ہے جو عین وقت پر آ پہنچا۔ جو روپے میرے پاس ہیں ان سے زینو کا جہیز بن جائے گا۔ کیوں کیا خیال ہے آپ کا۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

میرے دماغ میں اس وقت کوئی خیال نہیں تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ یہ حیدر آباد سندھ کا دولت مند زمیندار کون ہے؟ سینڈو اور سردار کی کوئی جعلسازی تو نہیں۔ لیکن بعد میں اس کی تصدیق ہو گئی کہ وہ حقیقتاً حیدر آباد کا متمول زمیندار ہے جو حیدر آباد سندھ ہی کے ایک میوزک ٹیچر کی معرفت زینت سے متعارف ہوا۔ یہ میوزک ٹیچر زینت کو گانا سکھانے کی بے سُود کوشش کیا کرتا تھا۔ ایک روز یہ اپنے مربّی غلام حسین (یہ اس حیدر آباد سندھ کے رئیس کا نام تھا۔) کو ساتھ لے کر آیا۔ زینت نے خوب خاطر مدارات کی۔ غلام حسین کی پر زور فرمائش پر اس نے غالب کی غزل ؎’نکتہ چیں ہے غمِ دل اس کو سنائے نہ بنے‘ گا کر سنائی۔ غلام حسین سو جان سے اس پر فریفتہ ہو گیا۔ اس کا ذکر میوزک ٹیچر نے زینت سے کیا۔ سردار اور سینڈو نے مل کر معاملہ پکا کر دیا اور شادی طے ہو گئی۔

بابو گوپی ناتھ خوش تھا۔ ایک دفعہ سینڈو کے دوست کی حیثیت سے وہ زینت کے ہاں گیا۔ غلام حسین سے اس کی ملاقات ہوئی۔ اس سے مل کر بابو گوپی ناتھ کی خوشی دونی ہو گئی۔ مجھ سے اس نے کہا۔

’’منٹو صاحب خوبصورت، جوان اور بڑا لائق آدمی ہے۔ میں نے یہاں آتے ہوئے داتا گنج بخش کے حضور جا کر دعا مانگی تھی جو قبول ہوئی۔ بھگوان کرے دونوں خوش رہیں۔

بابو گوپی ناتھ نے بڑے خلوص اور بڑی توجہ سے زینت کی شادی کا انتظام کیا۔ دو ہزار کے زیور اور دو ہزار کے کپڑے بنوا دئیے اور پا نچ ہزار نقد دئیے۔ محمد شفیق طوسی، محمد یسیٰن پروپرائٹر نگینہ ہوٹل، سینڈو، میوزک ٹیچر، میں اور گوپی ناتھ شادی میں شامل تھے۔ دلہن کی طرف سے سینڈو وکیل تھا۔

ایجاب و قبول ہوا تو سینڈو نے آہستہ سے کہا۔

’’دھڑن تختہ۔۔ ۔۔ ۔۔ !‘‘

غلام حسین میرج کا نیلا سوٹ پہنے تھا۔ سب نے اس کو مبارک بار دی جو اس نے خندہ پیشانی سے قبول کی۔ کافی وجیہہ آدمی تھا۔ بابو گوپی ناتھ اس کے مقابلے میں چھوٹی سی بٹیر معلوم ہوتا تھا۔

شادی کی دعوتوں پر خورد نوش کا جو سامان بھی ہوتا ہے، تھا۔ بابو گوپی ناتھ سب کے ہاتھ دھلوانے کے لئے آیا تو اس نے مجھ سے بچوں کے سے انداز سے کہا۔

’’منٹو صاحب ذرا اندر جائیے اور دیکھئے زینو دولہن کے لباس میں کیسی لگتی ہے۔‘‘

میں پردہ ہٹا کر اندر داخل ہوا۔ زینت سُرخ زربفت کا شلوار کرتہ پہنے تھی۔ دوپٹہ بھی اسی رنگ کا تھا جس پر گوٹ لگی تھی۔ چہرے پر ہلکا ہلکا میک اپ تھا۔ حالانکہ مجھے ہونٹوں پر لپ اسٹک کی سرخی بہت بُری معلوم ہوتی ہے۔ مگر زینت کے ہونٹ سجے ہوئے تھے۔ اس نے شرما کر مجھے آداب کیا تو بہت پیاری لگی۔ لیکن جب میں نے دوسرے کونے میں مسہری دیکھی جس پر پھول ہی پھول تھے تو مجھے بے اختیار ہنسی آ گئی۔ میں نے زینت سے کہا۔

’’یہ کیا مسخرہ پن ہے۔‘‘

زینت نے میری طرف بالکل معصوم کبوتری کی طرح دیکھا۔

’’آپ مذاق کرتے ہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ بھائی جان۔‘‘

اس نے یہ کہا اور آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئے۔

مجھے ابھی غلطی کا احساس بھی نہ ہوا تھا کہ بابو گوپی ناتھ اندر داخل ہوا بڑے پیار کے ساتھ اس نے اپنے رومال کے ساتھ زینت کے آنسو پونچھے اور بڑے دُکھ کے ساتھ مجھ سے کہا۔

’’منٹو صاحب میں سمجھا تھا آپ بڑے سمجھ دار اور لائق ہیں۔ زینو کا مذاق اڑانے سے پہلے آپ نے کچھ سوچ لیا ہوتا۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

بابو گوپی ناتھ کے لہجے میں وہ عقیدت جو اسے مجھ سے تھی، زخمی نظر آئی۔ لیکن پیشتر اس کے کہ میں اس سے معافی مانگوں اس نے زینت کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بڑے خلوص کے ساتھ کہا۔

’’خدا تمہیں خوش رکھے۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

یہ کہہ کر بابو گوپی ناتھ نے بھیگی ہوئی آنکھوں سے میری طرف دیکھا۔ ان میں ملامت تھی، بہت ہی دُکھ بھری ملامت اور چلا گیا۔

٭٭٭

 

 

 

تجزیہ

 

ترقی پسند تحریک کے بعد ہمارے دو بڑوں نے شاید مغرب کے زیر اثر گذرتے ہوئے وقت پر دو عدد سنگِ میل کھڑے کر دئیے۔ ایک سنگ میل کو دور جدیدیت کا نام دیا گیا۔ دوسرے کو مابعد از جدیدیت، جدیدیت ۱۹۶۰ء سے ۱۹۸۰ء تک اور ۱۹۸۰ء کے بعد سے مابعد از جدیدیت جاری و ساری ہے۔ تیسرا بڑا کوئی ابھی تک پیدا نہیں ہوا یا یوں کہئے کہ پیدا ہونے نہیں دیا گیا اس لئے اردو ادب پچھلے ۳۶ سالوں سے مابعد از جدیدیت میں ہی قید ہے تیسرا سنگ میل جانے کب قائم ہو گا۔۔ ۔۔ ۔۔؟ کون کرے گا۔۔ ۔۔ ۔۔؟ ادب تو یوں ہی وقت کے ساتھ ساتھ اپنے نئے نئے رنگوں کے ساتھ رواں دواں رہے گا۔ دور جدید نے جہاں افسانے کے بال و پر منتشر کیئے یعنی اچھے بھلے قصّوں کو اپنے تخلیقی اسلوب سے علامتوں، تمثیلوں اور تجرید کی خاردار جھاڑیوں میں الجھا دیا۔ قاری اُسے سلجھاتے سلجھاتے اکتا گیا اور اُس نے احتجاج کے طور پر افسانے سے فاصلہ بنانا شروع کر دیا۔ جہاں افسانے میں جدیدیت والوں نے تبدیلیاں کیں وہاں یہ دعوٰے کیا گیا کہ جدیدیت کے دور میں افسانہ میں افسانہ نگار کی اپنی Involvation ہوئی۔ جدیدیت سے پہلے افسانہ نگار محض تماشائی تھا، افسانے سے دور رہ کر بیان کرتا تھا دور جدیدیت میں افسانہ نگار افسانے میں خود شامل ہو گیا اپنے کرداروں کے دکھ سکھ جھیلنے لگا۔ نقادوں نے آنکھیں موند کر بار بار اس بات کو دہرایا۔ افسانہ گوپی ناتھ پڑھ کر نقادوں کا یہ دعوٰے کھوکھلا نظر آیا۔ استاد منٹو دور جدیدیت شروع ہونے سے پانچ سال قبل دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے تھے۔ اگر وہ دور جدیدیت میں سانس لے بھی لیتے تو اس کو کبھی نہ مانتے وہ فطری طور پر آزاد اور خود دار انسان تھے۔ جو شخص ترقی پسند تحریک سے الگ تھلگ رہا وہ دور جدیدیت کو کب مانتا۔ انہوں نے اپنی مختصر سی زندگی میں بہت سے تجربات کئے  Involvationکا تجربہ تو وہ گوپی ناتھ میں کر چکے تھے جس کا دعوٰے پانچ سال بعد کیا گیا۔ گوپی ناتھ ایک اندازے کے مطابق ۱۹۵۰ء میں تخلیق ہوا ہو گا۔ اس افسانے میں منٹو ایک کردار کے طور پر افسانے میں شامل ہیں انہوں نے اپنے کرداروں کے دکھ سکھ کو محسوس کیا۔ اُن کی مشکلات کو سمجھا یعنی اس افسانے میں افسانہ نگار کی Involvation بھر پور ہے یہاں وہ بات غلط ثابت ہو جاتی ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ Involvation دور جدیدیت کی دین ہے۔ گوپی ناتھ کے مطالعہ کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ منٹو جب بمبئی میں تھے تو گوپی ناتھ جیسا کردار اُن کے مشاہدے میں ضرور آیا ہو گا افسانے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سچائیوں کے اردگرد بنا ہوا ہے۔ اگر یہ موضوع محض تصّوراتی مان لیا جائے تو اتنا سمجھ میں آتا ہے کہ جیسے ماں باپ اپنی اولاد کے لئے فکر مند ہوتے ہیں کہ اُن کی اولاد پیروں پر کھڑی ہو جائے۔ کچھ بن جائے اس کے لئے وہ پیسہ بھی خرچ کرتے ہیں بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ کیونکہ وہ اپنی اولاد سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ گوپی ناتھ میں اس خواہش کا دوسرا زاویہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ ایک عاشق اپنی محبوبہ سے بے حد محبت کرتا ہے وہ کوشاں ہے کہ اُس کی محبوبہ کا کوئی رئیس آدمی ہاتھ تھام لے تا کہ اُس کا مستقبل محفوظ ہو جائے کیونکہ گوپی ناتھ کی دولت ختم ہونے والی ہے وہ کنگال ہو کر کسی مزار پر بیٹھنے والا ہے۔ اپنے اس مشن میں وہ دولت لٹا رہا ہے اور مختلف لوگوں کی مدد بھی لے رہا ہے۔ منٹو نے گوپی ناتھ کی محبت کا ایک مختلف پہلو اجاگر کیا ہے۔ محبت کا یہ جذبہ یہ ایثار کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملتے۔ گوپی ناتھ میں اس کی طوالت کے علاوہ یہ بات بھی کھٹکتی ہے کہ افسانے میں کرداروں کی بھرمار ہے۔ قاری کو یہ یاد رکھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کون سا کردار کیا ہے اس کا دوسرے کردار سے کیا تعلق ہے۔ افسانے کا زمانہ دیکھا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس افسانے کا دور طویل افسانوں کا دور تھا جس میں آنندی جیسے افسانے تخلیق ہوئے۔

اُس دور میں قاری کے پاس مطالعے کے لئے وقت تھا اور ادب محض تفریح کا سامان نہیں بنا تھا۔ عوام اچھے برے ادب کا اثر قبول کرتے تھے۔ تازہ تخلیقات سامنے آتے ہی لوگ مباحثے کیا کرتے تھے۔ تبھی تو اُس دور میں غیر اخلاقی اور بے حیائی والے (بولڈ) افسانوں پر مقدمات دائر ہوئے جن کی وجہ سے استاد منٹو کو مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ بہر حال گوپی ناتھ اُن کا ایک مشہور افسانہ ہے جس پر شاید بہت کچھ لکھا  جا چکا۔ اظہار خیال کا مجھے بھی حق ہے آئیے گوپی ناتھ سے ملاقات کریں۔

بابو گوپی ناتھ لاہور کے ایک کنجوس بنئے کا اکلوتا لڑکا ہے جس کے باپ کے مرنے کے بعد ۱۹۴۰ء میں دس لاکھ روپے کی جائیداد مل جاتی ہے۔ گوپی ناتھ فطری طور پر عورت اور شراب کا رسیا ہے۔ جو زیادہ تر کوٹھوں پر پڑے رہنا پسند کرتا ہے۔ گوپی ناتھ کو بازار حسن ہیرا منڈی کے ایک کوٹھے پر زینت نام کی ایک کشمیری لڑکی ملتی ہے جو بلا کی حسین ہے اور نہایت ہی سیدھی سادھی بھولی بھالی ہے۔ زینت کو گراہک پھنسانا یا اُسے لوٹنا یعنی کوٹھے والیوں کے داؤ پیچ نہیں آتے۔ وہ بالکل گھریلو قسم کی عورت ہے۔ گوپی ناتھ کو اس کی خوبصورتی اور بھولا پن پسند آ جاتا ہے وہ اکثر اُس کے پاس آنے لگتا ہے۔ گوپی ناتھ زینت کو پیار سے زینی کہتا ہے۔ زینت بھی گوپی ناتھ سے محبت کرنے لگتی ہے وہ گوپی ناتھ کی ہو کر رہ جاتی ہے۔ جب گوپی ناتھ ہفتوں دوسرے کوٹھوں پر پڑا رہتا ہے تو وہ دوسرے آدمی کا مونہہ دیکھنا پسند نہیں کرتی اور اپنا زیور بیچ کر کھاتی ہے۔ گوپی ناتھ اُسے بہت سمجھاتا ہے کہ اُس نے کوٹھوں پر رہنا ہے اُسے کوٹھوں والیوں کے انداز سیکھ لینے چاہئیں اُس کی طرح کسی دوسرے مالدار آدمی کو پھنسا کر اپنا کام چلانا چاہئے۔ زینت پر کسی بات کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ گوپی ناتھ اُسے سمجھاتا ہے کہ ایک دن اُس کی دولت ختم ہو جائے گی۔ وہ دنیا سے کنارہ کشی کر لے گا کسی مزار پر جا بیٹھے گا بہتر ہے وہ کسی اور کی ہو جائے مگر زینت گوپی ناتھ سے ہی محبت کرتی ہے۔ ایک دن گوپی ناتھ زینت کو کوٹھے سے بھگا لے جاتا ہے۔ کوٹھے کی خرانٹ عورت گوپی ناتھ پر مقدمہ دائر کر دیتی ہے۔ گوپی ناتھ مقدمہ جیت جاتا ہے اور وہ زینت کو بمبئی لے آتا ہے اُن دنوں بمبئی کے بارے میں مشہور تھا کہ وہاں طوائفیں کامیاب ایکٹریس بن جاتی ہیں اپنی مدد کے لئے گوپی ناتھ اپنے ساتھ عبد الرحیم سینڈو اور غفار سائیں جو اُس کا ایڈوائیزر ہے کو ساتھ لے آتا ہے۔ بمبئی میں اُس کو ایک کالے رنگ کی منجھی ہوئی ویشیا سردار مل جاتی ہے اور ایک نوکر غلام علی بھی گروپ میں شامل ہو جاتا ہے۔ زینت میں ایک دو فلم ڈائیریکٹر دلچسپی لیتے ہیں اور گوپی ناتھ کو دھوکا دے کر چلے جاتے ہیں۔ گوپی ناتھ کو زینت کے مستقبل کی فکر ہے کہ اُسے کوئی مناسب سہارا مل جائے۔ وہ پچاس ہزار کی رقم لے کر آیا تھا جو برابر خرچ ہو رہی تھی۔ اس بیچ عبد الرحیم سینڈو گوپی ناتھ کو منٹو سے ملواتا ہے اور رات کو ڈنر پر مدعو کرتا ہے۔ منٹو بڑا رائٹر ہے جو ایک ہفتہ وار اخبار کا ایڈیٹر بھی ہے۔ یہاں سے افسانے میں منٹو داخل ہوتے ہیں۔ گوپی ناتھ منٹو سے کہتا ہے منٹو صاحب زینت کے لئے ایک موٹر خرید لیتے ہیں کیونکہ بمبئی میں موٹر کا ہونا ضروری ہے۔ دوسرے دن ایک موٹر خرید لی جاتی ہے زینت سردار کو لے کر روزانہ اپولو بندر جاتی ہے تا کہ کوئی رئیس آدمی پھانس لیا جائے۔ زینت کو محمد شفیق طوسی نام کا آدمی ملتا ہے جو عیاش طبع ہے۔ منٹو اُسے جانتا ہے تھوڑے دن زینت کے ساتھ رہ کر وہ غائب ہو جاتا ہے ایک دن وہ منٹو کو مل جاتا ہے تو بتاتا ہے کہ اُسے زینت پسند نہیں آئی وہ گھریلو قسم کی عورتوں کو پسند نہیں کرتا۔ پھر ایک ہوٹل کا مالک یٰسین احمد زینت سے جڑ جاتا ہے۔ وہ بھی دھوکا دیتا ہے۔ انہی چکروں میں بابو گوپی ناتھ کے پیسے ختم ہو جاتے ہیں۔ وہ غفار سائیں کو لے کر لاہور روپوں کا انتظام کرنے چلا جاتا ہے۔ گوپی ناتھ کی غیر حاضری میں سردار اور سینڈو زینت سے پیشہ کروانے لگتے ہیں۔ زینت کو کہہ دیتے ہیں کہ اب گوپی ناتھ نہیں آئے گا۔ منٹو کو یہ بات بُری لگتی ہے وہ زینت کو سمجھاتا ہے۔ زینت کہتی ہے۔ بھائی جان یہ لوگ جو کہتے ہیں میں مان لیتی ہوں! گوپی ناتھ رقم کا انتظام کر کے بمبئی لوٹتا ہے اور منٹو کی مدد سے زینت کو ڈھونڈھ لیتا ہے۔ عبدالرحیم سینڈو گوپی ناتھ کو بتاتا ہے کہ زینت سندھ حیدر آباد کے ایک رئیس زمیندار کو پسند آ گئی ہے۔ جو اس سے شادی کرنے کو تیار ہے گوپی ناتھ دس ہزار کی رقم لے کر بمبئی لوٹا ہے وہ سوچتا ہے کہ وہ تمام رقم زینت کی شادی پر خرچ کر دے گا۔ دولہا غلام حسین خوبصورت اور وجیہہ آدمی تھا۔ شادی کی دعوت کے بعد گوپی ناتھ سب کے ہاتھ دھلواتا ہے اور منٹو سے کہتا ہے، منٹو صاحب۔۔ ۔۔ ۔۔ ! ذرا اندر جا کر دیکھئے تو، زینو دلہن کے لباس میں کیسی لگتی ہے۔ منٹو دلہن کے کمرے میں جاتا ہے اور مسہری پر بکھرے ہوئے پھول دیکھ کر کہتا ہے۔ یہ کیا مسخرہ پن ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ !؟ زینت منٹو کی طرف دیکھتی ہے اُس کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ وہ کہتی ہے آپ مذاق کر رہے ہیں بھائی جان۔ بابو گوپی ناتھ کمرے میں داخل ہوتا ہے اور کہتا ہے۔ منٹو صاحب زینو کا مذاق اُڑانے سے پہلے سوچ لیا ہوتا۔۔ ۔۔ ۔۔ ! منٹو لکھتے ہیں۔ گوپی ناتھ کے لہجے میں وہ عقیدت جو اُسے مجھ سے تھی زخمی نظر آئی۔۔ ۔۔ ۔۔ بابو گوپی ناتھ نے زینت کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بڑے خلوص کے ساتھ کہا۔ خدا تمہیں خوش رکھے۔۔ ۔۔ ۔۔ !

منٹو بابو گوپی ناتھ کے ایک نیک مشن کا قصّہ سنا رہے ہیں کہ وہ اپنی محبوبہ کا مستقبل سنوارنے کی غرض سے اُس کی شادی کروا دیتا ہے گو، گوپی ناتھ کو کئی مسائل کا مایوسیوں کا سامنا کرنا پڑا آخر وہ کامیاب ہو جاتا ہے۔ افسانہ بڑے آرام سے چلا اور ختم ہو گیا۔ بڑا ہی سپاٹ، اینٹی کلائمیکس افسانہ ہے نہ کہانی میں کوئی ٹوسٹ ہے نہ کوئی چونکا دینے والی بات نہ تجسّس، طوالت بھی بلا وجہ، گوپی ناتھ کے بمبئی میں روپے ختم ہو گئے وہ پنجاب آتا ہے رقم کا انتظام کر کے پھر واپس آ جاتا ہے۔ اس سے اُس کی لگن اور چاہت کا اظہار تو ہوتا ہے۔ وہ پہلی بار ایک لاکھ لے کر بمبئی آ سکتا تھا۔ دس لاکھ کی جائیداد کا مالک تھا۔ سینڈو اور سردار انتہائی کمینے اور خرانٹ لوگ دکھائے ہیں۔ وہی زینت کے لئے رشتہ تلاش کر لیتے ہیں۔ جبکہ زینت اور گوپی ناتھ تو اُن کے کھانے پینے اور شراب کا ذریعہ تھے۔ افسانے میں منٹو کا اپنا کردار ذیلی ہے۔ تجربے کے طور پر منٹو نے خود کو ہیلپنگ کریکٹر کے طور پر کھڑا کیا ہے۔ زینت کی شادی ہوتی ہے۔ شادی میں سارے کرداروں کو اس طرح اکٹھا کر دیا جاتا ہے جیسے ڈرامہ ختم ہونے پر سٹیج پر تمام کلاکار آ جاتے ہیں۔ مثلاً محمد شفیق طوسی، محمد یٰسین پروپرائیٹر نگینہ ہوٹل، عبدالرحیم سینڈو، میوزک ٹیچر، غلام علی، منٹو اور گوپی ناتھ وغیرہ۔

اگر گوپی ناتھ کو منٹو کے دوسرے شاہکار افسانوں، کھول دو، ٹھنڈا گوشت یا پھاہا کے مقابلے میں رکھا جائے تو گوپی ناتھ کا کلائمیکس بہت کمزور نظر آئے گا۔ مثلاً کھول دو میں یہ کلائمیکس کس قدر زور دار تھا۔

سکینہ کے مردہ جسم میں جنبش ہوئی اُس نے بے جان ہاتھوں سے ازار بند کھولا اور شلوار نیچے سرکا دی۔ ٹھنڈا گوشت کا کلائمیکس کہ ایشر سنگھ کے حلق سے بمشکل یہ الفاظ نکلے، وہ مری ہوئی تھی۔۔ ۔۔ ۔۔ لاش تھی اور پھاہا میں۔ نرملا نے پھاہے پر پھونک ماری اور اُسے ننھے سے ابھار پر جما دیا۔ اب ان تینوں کے اختتام کے مقابلہ میں گوپی ناتھ کا اختتام دیکھ کر آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کیسا ہے۔ گوپی ناتھ کے مطالعے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ واقعی گوپی ناتھ اور زینت اُن کی زندگی میں آئے ہوں گے۔ اُستاد کا مسہری کے پھول دیکھ کر والہانہ کہنا یہ کیا مسخرہ پن ہے۔۔ ۔۔ ۔۔؟ ایسی باتیں منٹو ہی کیا کرتے تھے وہ اس بات کی پرواہ نہیں کرتے تھے کہ اُن کی اس بات کا سامنے والے پر کیا اثر ہوا ہو گا، بس جو جی میں آیا کہہ دیا۔ یہ اُن کی ذاتی زندگی کا عکس نظر آیا۔ کیوں وہ اگر کسی آدمی کو پسند نہیں کرتے تھے کہہ دیتے تھے کہ آپ سے مل کر مجھے کوئی خوشی نہیں ہوئی۔ سامنے والا سر پیٹ لیتا۔ گوپی ناتھ میں بابو گوپی ناتھ کا بہت زور دار کردار ہے جو اپنے اعمال سے قاری کو اپنا گرویدہ بنا لیتا ہے۔ اختتام پر گوپی ناتھ کا زینت کے سر پر ہاتھ پھیر کر دعا دینا اُس کو مہان بنا گیا۔ دلہن کے سر پر ہاتھ پھیر کر بزرگ دعا دیا کرتے ہیں۔ بزرگ کی حیثیت سے گوپی ناتھ نے زینت کی شادی کا انتظام کیا۔ خرچہ کیا۔

بابو گوپی ناتھ کے کچھ مکالمے منٹو نے اچھے تخلیق کئے ہیں۔

’’بابو صاحب سے کریون۔ اے کے سگریٹ اور سکاچ وہسکی کے پیگ پی کر دعا کرتے ہیں کہ انجام نیک ہو۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

’’رنڈی کے کوٹھے پر ماں باپ اپنی اولاد سے پیشہ کراتے ہیں اور مقبروں اور تکیوں میں انسان اپنے خدا سے۔۔ ۔۔ ۔۔ !‘‘

’’اس لئے کہ ان دونوں جگہوں (رنڈی کے کوٹھے اور تکیئے) فرش سے لے کر چھت تک دھوکا ہی دھوکا ہوتا ہے۔ جو آدمی خود کو دھوکا دینا چاہے اس سے اور اچھا مقام کیا ہو سکتا ہے۔ عبدالرحیم سینڈو کے خود ساختہ الفاظ مثلاً اینٹی کی پینی پو، کنٹی نیوٹی، دھڑن تختہ، مٹن پٹوتی، فِل فِل فوٹی وغیرہ، مناسب استعمال کئے گئے ہیں جو مزاح پیدا کرتے ہیں۔ کل ملا کر منٹو کا یہ بہترین افسانہ ہے۔ بھلے بے جا طویل ہے مگر استاد منٹو کے ہاں کہانی پن بہت مضبوط ہوتا ہے کیا مجال قاری افسانہ پورا پڑھے بغیر افسانے سے الگ ہو جائے۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں