FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

مقاماتِ سلوک و تصوف

 

اردو ترجمہ  رسالہ الطالقانیہ

                میر سید علی ہمدانی

 

 

مؤلف : میر سید علی ہمدانی المعروف شاہ ہمدان رحمۃ اللہ علیہ

مترجم : علی محمد نور بخشی منہاجین

 

 

 

 

فقر اور فقراء کے فضائل

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

سراج الاغنياء في الدنيا اہل الاخرۃ ہم الفقراء ولولا الفقراء لہلک الاغنياء دولۃ الاغنياء في الدنيا لا بقاء لہا و دولۃ الفقراء في الآخرۃ لانہا يۃ لہا.

’’دنیا میں دولت مندوں کے چراغ آخرت والے فقراء ہیں۔ اگر فقراء نہ ہوتے تو دولت مند ہلاک ہوجاتے۔ دولت مندوں کا سرمایہ صرف دنیا میں رہتا ہے جس کی بقاء اور نفع بخشی کی کوئی ضمانت نہیں جبکہ اللہ والے اہل آخرت کا اصل سرمایہ (نیکیوں کی صورت میں) اخروی سامان ہے جس کی کوئی حد ہے نہ حساب‘‘۔ (یعنی نیکی اور تقویٰ کی صورت میں حاصل ہونے والا توشۂ آخرت لامحدود نفع بخشی کا ضامن ہے جبکہ دنیوی مال و دولت اس کے مقابلے میں جلد ختم ہونے والا سرمایہ ہے)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے :

لعن اللہ من اکرم غنيا لغنائہ واہان فقيرا لفقرہ لايفعل ہذا الا منافق ومن اکرم غنيہا لغنائہ واہان فقيرا لفقرہ سمي في السموت عدواللہ وعدوالانبياء.

’’اللہ پاک نے اس شخص پر لعنت کی ہے جو مالدار کی عزت اس کی دولت و ثروت کی وجہ سے کرے اور کسی فقیر کی توہین اس کی تنگ دستی کی وجہ سے کرے۔ ایسا منافق ہی کرتا ہے اور جو کسی مالدار کی عزت اس کی دولت مندی کی وجہ سے کرے اور کسی فقیر کی توہین اس کی تنگ دستی کی وجہ سے کرے تو اس کا نام آسمانوں میں اللہ کا دشمن اور انبیاء کا دشمن رکھ دیا جاتا ہے‘‘۔

حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اصحاب سے پوچھا :

اي الناس خير قالوا رجل موسر في المال يعطي حق اللہ من نفسہ ومالہ فقال عليہ السلام انعم الرجل وليس بہ قالوا ومن خيرالناس يارسول اللہ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم قال فقير يعطي جہدہ.

’’اے میرے صحابیو! کیا تم جانتے ہو لوگوں میں بہترین شخص کون ہے؟ انہوں نے عرض کیا : مال و دولت میں خوشحال شخص، اس لئے کہ وہ اپنی جان و مال سے اللہ کا حق دیتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : وہ کیا ہی اچھا شخص ہے لیکن یہاں وہ مراد نہیں تو انہوں نے عرض کیا : پھر بہترین شخص کون ہے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : وہ فقیر ہے جو اپنی محنت و مشقت دیتا ہے‘‘۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

’’قیامت کے دن بندے کو لایا جائے گا۔ اللہ اس بندے سے اسی طرح معذرت کرے گا جیسے لوگ دنیا میں ایک دوسرے سے معذرت کرتے ہیں۔ اور اللہ فرمائے گا میری عزت اور جلالت کی قسم میں نے دنیا میں تجھ سے کسی قسم کا لہو و لعب نہیں دیکھا۔ میرے ہاں تمہارے لئے جو کرامت اور فضیلت تیار ہے وہ یہ ہے کہ اے بندے ان صفوں کی طرف نکل جاؤ پس جس کو تو نے فقط میری رضا کے لئے کھلایا اور میری رضا کے لئے پہنایا، اس کھلانے اور پہنانے کا مقصد صرف میری خوشنودی تھی، تم اس کا ہاتھ پکڑ لو وہ تمہارے لئے ہے۔ اس دن لوگ پسی نے میں شرابور ہونگے پھر وہ صفیں چیرتا ہوا جائے گا اور وہ دیکھے گا اس شخص کو جس کے ساتھ اس نے ایسا سلوک کیا پس وہ شخص اس کا ہاتھ پکڑے گا اور اسے جنت میں داخل کر دے گا‘‘۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :

لقول اللہ تعالیٰ يوم القيامۃ اين صفولي من خلقي فيقول الملائکۃ من ہم ياربنا فيقول الفقراء القانعون لعطائي الراضون بقدري ادخلہم الجنۃ. (الطبقات الصوفيہ)

’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا میری مخلوق میں میرے مخلص بندے کہاں ہیں؟ تو فرشتے عرض کریں گے اے ہمارے رب وہ لوگ کون ہیں؟ اللہ فرمائے گا (میرے مخلص بندے) وہ فقراء ہیں جو میری عطا کردہ نعمتوں پر قناعت کرتے ہیں۔ میری تقدیر پر خوش ہیں (جاؤ) انہیں جنت میں داخل کر دو‘‘۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

’’فقراء نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس ایک قاصد بھیجا، اس نے عرض کیا : (یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف فقراء کا قاصد بن کر حاضر ہوں، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تجھے خوش آمدید، ان کو (بھی خوش آمدید) جن کی طرف سے تو آیا ہے، اس قوم سے میں محبت کرتا ہوں۔ اس قاصد نے کہا : فقراء کہتے ہیں کہ اغنیاء یعنی مالدار جنت لے گئے (کیونکہ) وہ حج کرتے اور ہمیں حج کی قدرت نہیں، وہ عمرہ کرتے ہیں اور ہم عمرہ پر قدرت نہیں رکھتے۔ اور جب وہ بیمار ہوتے ہیں تو وہ اپنے اموال (خدا کی راہ) میں خیرات کرتے ہیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : فقراء کو میری طرف سے یہ بات پہنچا دو کہ تم میں سے جس نے صبر کیا اور اپنا محاسبہ کیا اسے تین ایسے انعام ملیں گے جو اغنیاء کو نہیں ملیں گے۔ ان میں سے پہلا یہ ہے کہ جنت میں ایک بالا خانہ ہے، اہل جنت اس کی طرف یوں دیکھتے ہیں جیسے کہ زمین والے آسمان کے ستاروں کی طرف دیکھتے ہیں، ان میں نبی یا شہید یا مومن فقیر کے سوا کوئی داخل نہیں ہوگا۔ دوسرا یہ کہ فقراء لوگ اغنیاء سے نصف دن پہلے جنت میں داخل ہونگے اور یہ نصف دن پانچ سو سال کا ہے۔ تیسرا یہ کہ جب غنی شخص یہ کہتا ہے سبحان اللہ والحمدللہ ولاالہ الااللہ واللہ اکبر اور فقیر بھی یہی کہتا ہے تو غنی آدمی فقیر کے ثواب تک نہیں پہنچ سکتا، چاہے اس کے ساتھ وہ دس ہزار درہم خیرات بھی کرے اور باقی تمام نیک اعمال کی ادائیگی کا معاملہ بھی یہی ہے۔ قاصد فقراء کی طرف واپس آیا (اور تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے خوشخبری سنائی تو) فقراء نے کہا : ہم خوش ہو گئے ہم خوش ہو گئے‘‘۔ (قوت القلوب)

حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

رکعتان من فقير صابر في فقرہ احب الي اللہ من عبادۃ الاغنياء الي اخرالدہر.

’’صبر گذار فقیر کی دو رکعت نماز اغنیاء یعنی مالدار کے آخری زمانے (قیامت) تک کی عبادت سے اللہ کو زیادہ محبوب ہے‘‘۔

حضرت ابو سلیمان الدارانی کا فرمان ہے :

تنفس فقير دون شہوتہ خير من عبادۃ الغني الف عام.

’’شہوت کے بغیر فقیر کا سانس لینا غنی کے ایک ہزار سال کی عبادت سے بہتر ہے‘‘۔

پس یہ فقراء کی کچھ خصوصیات ہیں اور جب آپ کو غنی پر فقیر کی فضیلت کا یقین ہو گیا تو یہ بھی سمجھ لو کہ گروہ فقراء کے کچھ احوال و مقامات ہیں۔ جن کا تذکرہ حسب ذیل ہے :

 

                1۔ پہلا مقام۔۔۔ ارادہ

 

ان مقامات سلوک و تصوف میں سے پہلا مقام ’’ارادہ‘‘ ہے۔ حضرت ابو علی الدقاق رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے کہ

لايکون المريد مريدا حتي لايکتب عليہ صاحب الشمال عشرين سنۃ.

(رسالہ قشيريہ ص 203)

’’اللہ پاک کا ارادت مند اس وقت تک مرید نہیں بن سکتا جب تک کہ بائیں کندھے والا فرشتہ بیس سال تک کچھ نہ لکھ سکے‘‘۔ (مراد یہ کہ کم از کم بیس سال تک اس سے کوئی برائی سرزد نہ ہو تو وہ مخلص مرید کہلائے گا۔ چہ جائیکہ شیخ اور مرشد)

حضرت ابوبکر واسطی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ

ان يکون فيہ ثلاثۃ اشياء نومہ غلبہ واکلہ فاقۃ وکلامہ ضرورۃ.

(الرسالہ القشيريہ ص 203)

’’اس مرید میں تین چیزیں بہر صورت ہونی چاہئیں اس کی نیند پر اسے غلبہ ہو، اس کا کھانا فاقہ ہو، اس کی گفتگو ضرورت کے مطابق ہو‘‘۔

 

                2۔ دوسرا مقام۔۔۔ توبہ

 

ان میں سے دوسرا مقام ’’توبہ‘‘ ہے حضرت ذوالنون مصری کا ارشاد ہے :

توبۃ العوام من الذنوب وتوبۃ الخواص من الغفلۃ.

(الرسالۃ القشيريہ ص 95)

’’عوام کی توبہ گناہوں سے ہے جبکہ خواص کی توبہ غفلت سے ہے‘‘۔

توبہ کرنے کے بعد بندے کا ایک دفعہ پھسلنا پہلے سے ستر گنا زیادہ ناپسندیدہ ترین ہے۔

حضرت ابوالحسن نوری رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے :

التوبۃ ان يتوب من کل شئي سوي اللہ عزوجل.

(رسالہ قشيريہ ص 95)

’’توبہ اللہ کے سوا ہر چیز سے رجوع کرنا ہے‘‘۔

 

                3۔ تیسرا مقام۔۔۔ مجاہدہ

 

ان مقامات میں تیسرا مقام ’’مجاہدہ‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کی طرف وحی کی :

حذو وانذر اصحابک عن اکل الشبہات محجوبۃ عني.

’’اے داؤد آپ اپنے اصحاب کو مشتبہ چیزیں کھانے سے ڈرائیں کیونکہ ایسا کرنا مجھ سے قربت کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے‘‘۔

حضرت ابو عثمان مغربی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے :

من ظن انہ يفتح شئي من ہذالطريق ولايلزم المجاہدۃ فہو علي غلط.

(رسالہ قشيريہ ص 98)

’’جو سالک اس سلوک و تصوف کی راہ سے طریقت کے کچھ اسرار کے کھلنے کا گمان کرے اور اپنے اوپر ریاضت و مجاہدہ لازم نہ کرے وہ غلطی پر ہے‘‘۔

حضرت ابو علی روباری رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے :

الي اللہ ان يعمر المنازل الثلثۃ الاصناف الثلثۃ الدنيا باہل الغفلۃ والجنۃ باہل الطاعۃ والنار باہل الشہوۃ.

’’اللہ تعالیٰ کے ہاں تین قسم کے لوگوں کے لئے تین مقامات تیار ہیں۔ دنیا غفلت والوں کے لئے تیار ہے جنت اطاعت والوں کے لئے مخصوص ہے اور دوزخ شہوت والوں کے لئے خاص ہے‘‘۔

حضرت یحیٰ بن معاذ رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے :

من عذب نفسہ في طاعۃ اللہ قام القيامۃ وہو امن من عذاب اللہ.

’’جس سالک نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں تکلیف دی وہ قیامت کے دن ایسے کھڑا ہوگا کہ وہ اللہ کے عذاب سے محفوظ ہوگا‘‘۔

حضرت علی الدقاق کا ارشاد ہے :

من ذين ظاہرہ بالمجاہدۃ زين اللہ سرہ بالمشاہدۃ.

’’جو اپنے ظاہر کو مختلف مجاہدے سے مزین کرتا ہے تو اللہ اس کے باطن کو مشاہدے سے سجائے گا‘‘۔

 

                4۔ چوتھا مقام۔۔۔ خلوت

 

ان مقامات میں سے چوتھا مقام ’’عزلت و خلوت نشینی‘‘ ہے۔ حضر ذوالنون مصری کا فرمان ہے :

لم ارشيئا ابعث علي الاخلاص من الخلوۃ لانہ اذاخلا لم يري سوي اللہ تعالیٰ.

(طبقات الصوفيہ ص 2، رسالہ قشيريہ ص 103)

’’میں نے خلوت نشینی سے بڑھ کر اخلاص پر اکسانے والی کوئی چیز نہیں دیکھی کیونکہ جب کوئی خلوت نشین ہوتا ہے تو اللہ کے سوا کسی کو نہیں دیکھتا‘‘۔

حضرت ابوبکر ابوراق رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے :

وجدت خيرالدنيا والاخرۃ في الخلوۃ ولقلۃ وشرہما في الکثرۃ والاختلاط.

(رسالہ القشيريہ ص 103)

’’میں نے دنیا و آخرت دونوں کی بہتری خلوت نشینی اور تنہائی میں پائی اور دنیا و آخرت کی خرابی کثرت اور لوگوں سے غیر ضروری میل جول میں پائی‘‘۔

حضرت سہل بن عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے :

’’اللہ پاک سے انس و محبت کی تین علامتیں ہیں پہلی یہ کہ عام لوگوں کی صحبت سے وحشت محسوس کرے، دوسری ذکر الہٰی کی کثرت سے سرور حاصل کرے اور تیسری یہ کہ خلوت و عزلت نشین ہو کر اللہ کی طاعات و عبادات میں لذت محسوس کرے‘‘۔

حضرت وہب رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے بعض انبیاء علیہم السلام کی طرف وحی کی۔

ان احبت ان تلقائي في حظيرۃ القدس فکن مہموماً محزوناً فريدا وحيدا مستوحساً بمنزلۃ الطير الذي يطير في ارض قفر.

’’اگر تم مجھ سے بارگاہ قدس میں ملنا چاہتے ہو تو بے چین و بے قرار، غمگین، تنہا ہو جاؤ اور دنیا اور اس کی زیب و زینت سے اس طرح وحشت محسوس کرنے والا بن جاؤ جس طرح پرندہ غیر آباد زمین میں بے چین و بے قرار اڑتا پھرتا ہے‘‘۔

 

                5۔ پانچواں مقام۔۔۔ تقویٰ

 

 

ان مقامات سلوک و تصوف میں سے پانچواں مقام ’’تقوی‘‘ ہے حضرت جنید بغدادی ارشاد فرماتے ہیں۔ :

الطرق الي اللہ مسدودۃ کلہا الا طريق المتقين.

(طبقات الصوفيہ 159)

’’حاملین تقویٰ کے طریقے کے سوا اللہ تک جانے کے تمام راستے بند ہیں‘‘۔

حضرت ابو محمد الجریری فرماتے ہیں :

من لم يحکم بينہ وبين اللہ بالتقوي والمراقبہ لم يصل الي الکشف والمشاہدہ.

’’جو سالک اپنے اور اللہ کے درمیان تعلق کو تقوی اور مراقبہ کے ذریعے مستحکم و مضبوط نہیں کرتا وہ کشف اور مشاہدہ کے مقام تک نہیں پہنچ سکتا‘‘۔

ابوالقاسم النصر آبادی ارشاد فرماتے ہیں :

التقوي ان يتقي العبد ماسوي تعالیٰ.

’’تقوی یہ ہے کہ بندہ اللہ کے سوا ہر چیز سے بچا رہے‘‘۔

 

                6۔ چھٹا مقام۔۔۔ زُہد

 

ان مقامات سلوک تصوف میں سے چھٹا مقام ’’زہد‘‘ ہے۔ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

مازہد عبد في الدنيا الا اثبت اللہ الحکمۃ في قلبہ وانطق بہا لسانہ وبصر عيوب الدنيا ودواء ہا واخرج منہا سالما الي دارالسلام.

’’جب بندہ دنیا کی محبت سے بے رغبت ہو جاتا ہے تو اللہ اس کے دل میں ایسی حکمت و دانائی داخل کر دیتا ہے جس کے ذریعے اس کی زبان کو قوت گویائی عطا کرتا ہے۔ دنیا کی کمزوریوں، دنیوی بیماریوں اور علاج کی بصیرت عطا کرتا ہے‘‘۔

حضرت جعفر الخلدی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے :

الدنيا اربعۃ اشياء کلہا فناء ۃ المال والکلام والطعام والمنام. المال يطغي والکلام يلہي والمنام ينسي والطعام يقسي.

’’دنیا کی طرف چار چیزیں راغب کرتی ہیں۔ جان لیجئے چاروں بے ثبات ہیں۔ مال و دولت، بات چیت، کھانا اور نیند۔ مال و دولت انسان کو سرکش بناتی ہے، فضول بات چیت انسان کو برباد کرتی ہے۔ نیند مقصد اصلی بھلا دیتی ہے۔ کھانا انسان کے دل کو سخت کر دیتا ہے‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی کی

’’اے موسیٰ علیہ السلام آپ دنیا کی محبت کی طرف نہ جھکا کرو کیونکہ آپ اس کی کثرت کے ساتھ مجھ تک نہیں پہنچ سکتے وہ اس کی محبت سے شدید ترین ہے‘‘۔

حضرت الجلا کا فرمان ہے :

الزہد ہوالنظر الي الدنيا بعين الزوال.

’’زہد دنیا کی طرف زوال و بے ثباتی کی نظر سے دیکھنا ہے‘‘۔

حضرت الدارنی کا ارشاد ہے :

الزہد ترک مايشغلک عن اللہ.

’’وہ تمام امور جو تجھے ماسوا اللہ کی طرف مشغول کر دیں انہیں چھوڑ دینا زہد ہے‘‘۔

حضرت داؤد علیہ السلام کی طرف اللہ نے وحی کی۔

’’اے داؤد تم اس عالم سے سوال نہ کرو جسے دنیا کی محبت نے مدہوش کر رکھا ہے۔ وہ تجھے میری محبت کے راستے سے روکے گا۔ جان لیجئے یہی لوگ میری محبت کے راستے پر چلنے والے بندوں پر ڈاکے ڈالنے والے ہیں۔

 

                7۔ ساتواں مقام۔۔۔ خاموشی

 

ان مقامات سلوک و تصوف میں سے ساتواں مقام ’’خاموشی‘‘ ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

لاتکثروا الکلام بغير ذکراللہ فان الکلام بغير ذکراللہ قسوۃ القلب وان ابعدالخلق من اللہ تعالی القلب القاسي.

(ترمذي، السنن 4 : 602 رقم 2411)

’’لوگو اللہ کے ذکر کے بغیر کثرت سے فضول گفتگو نہ کیا کرو، اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اللہ کے ذکر کے بغیر لوگوں سے بات چیت کرنا قلب انسانی کو سخت کر دیتا ہے۔ یاد رکھئے خلق خدا میں اللہ سے سب سے زیادہ دور وہ شخص ہے جس کا دل سخت ہو‘‘۔

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے جب آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے زمین پر اتارا تو ان کی طرف وحی کی۔

ياآدم اقل من کلامک ترجع الي جواري.

(ديلمي، الفردوس بما ثورالخطاب 1 : 223 رقم 853)

’’اے آدم علیہ السلام لوگوں سے بات چیت بغیر ضرورت کم کیا کرو، ایسا کرنا تمہیں میری بارگاہ میں دوبارہ لوٹائے گا‘‘۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پوچھا گیا :

’’کسی ایسے عمل کی طرف ہماری رہنمائی فرمایئے جس کے کرنے سے ہم جنت میں داخل ہوں تو آپ نے فرمایا تم ہمیشہ کے لئے فضول کلام سے پرہیز کیا کرو‘‘۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے :

العبادۃ عشرۃ جزاء تسعۃ منہا فی الصمت وجزء فی الفرار من الناس.

(ديلمی، الفردوس، بماثورالخطاب 3 : 79 رقم : 4222)

’’عبادت کے دس اجزاء ہیں ان میں نو حصے خاموشی پر مشتمل ہیں اور ایک حصہ لوگوں سے دور ہو کر اللہ کی طرف متوجہ ہونے میں ہے‘‘۔

 

                8۔ آٹھواں مقام۔ ۔ ۔ خوف

 

مقامات سلوک و تصوف میں سے آٹھواں مقام ’’خوف‘‘ ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

لوتعلمون ما اعلم لضحکم قليلا ولبکيتم کثيرا.

(بخاری، الجامع الصحيح 4 : 1832، رقم 2359)

’’لوگو جو کچھ میں جانتا ہوں تم بھی جان جاتے تو تھوڑا ہنستے اور اللہ کے خوف و خشیت میں زیادہ روتے ‘‘۔

٭ حضرت عبادہ رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے :

ما وجدت للمومن في الدنيا مثلا الر جل علی خشبۃ فی البحر يقول يارب يارب لعل اللہ ينجيہ.

’’میں نے دنیا میں مومن کی مثال اس شخص کی طرح پائی جو سمندر میں لکڑی پر سوار ہو اور یارب یارب کہتا ہو تاکہ اللہ اسے سمندر کی تکلیفات سے نجات دے‘‘۔

٭ شیخ خلیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے :

علامۃ التوفيق ان تطيع اللہ وانت تخاف وعلامۃ خذلان ان تعصي اللہ وانت ترجو.

’’توفیق کی علامت یہ ہے کہ تو اللہ کی فرمانبرداری بھی کرے اور اس سے ڈرتا بھی رہے اور رسوائی کی علامت یہ ہے کہ تو اللہ کی نافرمانی بھی کرے اور اس کی رحمت کی امید بھی کرے‘‘۔

 

                9۔ نواں مقام۔ ۔ ۔ امید

 

 

مقامات سلوک و تصوف میں سے نواں مقام ’’رجاء یعنی امید‘‘ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :

اتانی جبريل فبشرنی انہ من مات من امتک لايشرک باللہ دخل الجنۃ. (متفق عليہ)

’’میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے، انہوں نے مجھے یہ خوشخبری دی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت میں سے جو اس حال میں مرے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا ہے تو وہ جنت میں داخل ہوگا‘‘۔

٭ حضرت شیخ حنیف رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے :

الرجاء ارتياح القلوب بروئيۃ کرم المحبوب.

’’محبوب حقیقی کے کرم اور نوازش کو دیکھ کر اپنے دلوں کو راحت پہنچانا امید کہلاتا ہے‘‘۔

٭ شیخ عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے :

الرجاء علی اقسام رجل عمل حسنہ ثم يرجو قبولہا ورجل عمل سيئہ ثم تاب فہو يرجوا لمغفرۃ ورجل کاذب يتماری في الذنوب ويقول ارجوالمغفرۃ. (الرسالۃ القشيريہ صفحہ 132 جلد 1)

’’امید کی کئی اقسام ہیں پہلی یہ کہ ایک شخص نیکی کرتا ہے پھر اللہ سے اس کی قبولیت کی امید رکھتا ہے۔ دوسری قِسم اس شخص کی ہے جو برائی کرتا ہے پھر توبہ کرتا ہے پھر وہ اللہ سے مغفرت کی امید رکھتا ہے۔ تیسری قسمِ امید یہ ہے کہ وہ جھوٹا شخص جو گناہوں میں بڑھتا چلا جاتا ہے اور وہ کہتا ہے میں بخشش کی امید رکھتا ہوں‘‘۔

 

                10۔ دسواں مقام۔ ۔ ۔ حزن

 

مقامات سلوک و تصوف میں سے دسواں مقام ’’حزن‘‘ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ

ان اللہ يبغض الفريحين النديحين ويحب کل قلب حزين.

(حاکم المستدرک علی الصحين 3514، 7884)

’’بے شک اللہ حد سے زیادہ ہنسنے والوں کو پسند نہیں کرتا ہے اور ہر غمگین دل کو پسند کرتا ہے‘‘۔

٭ حضرت سلیمان بن عیینہ کا ارشاد ہے :

لوان محزنا بکي علي امۃ لرحم اللہ تلک الامۃ.

’’اگر کوئی غمگین شخص کسی قوم پر روئے تو ضرور اللہ اس قوم پر رحم فرماتا ہے‘‘۔

٭ حضرت یحییٰ بن معاذ رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے :

من لم يقطع مفارقۃ الحزن لم يسلک قلبہ لسفر السماء.

’’جب تک آدمی حزن و غم سے جدائی کو ختم نہ کرے تب تک اس کا دل آسمان کے سفر پر نہیں چل سکتا‘‘۔

٭ حضرت سری سقطی کا ارشاد ہے :

وددت ان حزن کل الناس القی علی.

(قشيريہ ص 139)

’’میری یہ خواہش ہے کہ تمام لوگوں کا غم مجھ پر آ پڑے‘‘۔

 

                11۔ گیارہواں مقام۔ ۔ ۔ تواضع

 

مقامات سلوک و تصوف میں سے گیارہواں مقام ’’تواضع‘‘ ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :

الذل للمومن خير من العز والرفعۃ.

’’مومن کے لئے اختیاری ذلت، عزت و رفعت سے بہتر ہے‘‘۔

٭ حضرت ذوالنون مصری سے پوچھا گیا کہ فقرِ حقیقی کا حامل مقام صفوۃ پر کب فائز ہوتا ہے؟ تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :

اذا خلع الراحۃ وسعی بالجہود فی الطاعۃ واحب سقوط المنزلۃ واستوی عندالمحمدۃ والمذمۃ.

’’جب وہ آرام و راحت کے لباس کو اتار پھینکے اور اللہ کی اطاعت میں محنت کرے۔ اپنے مقام سے عاجزی و انکساری کے طور کرنے کو پسند کرے اس کے لئے اس کی اپنی تعریف و مذمت دونوں برابر ہوں‘‘۔

٭حضرت ابوالقاسم المنادی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے :

’’بندہ اس وقت تک خیر کے ساتھ رہتا ہے جب تک لوگ اسے پہچان نہ لیں‘‘۔

٭ حضرت یحییٰ بن معاذ رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے :۔

حب الرياسۃ نار في نفس بني آدم اذا توقد علي قلوبہم تحرق ايمانہم.

’’ریاست و سلطنت کی محبت انسان کے وجود میں وہ آگ ہے جب وہ بھڑک اٹھتی ہے تو ان کے ایمان کو بھسم کر دیتی ہے‘‘۔

 

                12۔ بارہواں مقام۔ ۔ ۔ توکل

 

مقامات سلوک و تصوف میں سے بارہواں مقام ’’توکل‘‘ ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :

لو توکلتم علی اللہ حق توکلہ لرزقتم کما يرزق الطير.

(ترمذی، السنن 4 : 513 رقم 2344)

’’(لوگو!)اگر تم قادر مطلق اللہ پر ایسا توکل کرو جیسا کہ اس پر توکل کا حق ہے تو تمہیں اس طرح رزق دیا جائے گا جس طرح پرندوں کو دیا جاتا ہے‘‘۔

٭ حضرت یحییٰ بن کثیر نے فرمایا ہے :

’’توراۃ میں اس شخص پر لعنت کی گئی ہے جو اللہ کو چھوڑ کر اپنے جیسے انسان پر بھروسہ کرتا ہے‘‘۔

٭ حضرت ابراہیم الخواص سے پوچھا گیا کہ آپ اپنے سفر کی عجیب ترین شے ہمیں بتا دیں تو آپ نے ارشاد فرمایا :

’’حضرت خضر علیہ السلام مجھ سے ملے تو انہوں نے مجھ سے صحبت کے بارے میں پوچھا مجھے ڈر سا لگا کہ میرا ان کے پاس ٹھہرنا میرے توکل کا راز کھول دے گا چنانچہ میں ان سے جدا ہو گیا‘‘۔

 

                13۔ تیرہواں مقام۔ ۔ ۔ شکر

 

مقامات سلوک و تصوف میں سے تیرہواں مقام ’’شکر‘‘ ہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے فرمایا :

الہی کيف اشکرک وشکری لک نعمۃ من عندک فاوحی اللہ تعالی اليہ الان شکرتنی.

(رسالۃ قشيريہ ص 175)

’’اے میرے رب مجھے بتا کہ میں تیرا شکر کیسے بجا لاؤں؟ حقیقت یہ ہے کہ میرا تیری بارگاہ میں شکر بجا لانا بھی تیری نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی کی کہ اب تو میرا شکر بجا لایا‘‘۔

٭ حضرت ابوعثمان رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے :

الشکر معرفۃ العجز عن الشکر.

(رسالہ قشيريہ ص 173)

’’اللہ کی بارگاہ میں شکر بجا لانے سے اپنی عاجزی و بے بسی کا اظہار کرنا حقیقت میں شکر ہے‘‘۔

٭ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے :

الشکر ان تجعل نعمۃ ربک معينا علی طاعتہ.

’’اے سالک! راہ سلوک پر شکر یہ ہے کہ تو اللہ کی نعمتوں کو اس کی اطاعت اور بندگی کے لئے معین اور مددگار بنائے‘‘۔

 

                14۔ چودہواں مقام۔ ۔ ۔ صبر

 

مقامات سلوک و تصوف میں سے چودہواں مقام ’’صبر‘‘ ہے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے :

الصبر نصف الايمان.

’’صبر آدھا ایمان ہے‘‘۔

(قضاعی، مسند الشہاب، 1 : 126 رقم : 158)

٭ اللہ تعالیٰ نے داؤد علیہ السلام کی طرف وحی کی۔

’’اے داؤد (علیہ السلام) تو میرے اخلاق کے رنگ میں رنگ جا، بے شک میں خوب برداشت کرنے والا ہوں‘‘۔

٭ حضرت ابوعثمان المغربی کا ارشاد ہے میں نے خضر علیہ السلام کو یہ کہتے ہوئے سنا :

ان تحب ان تکون من المقربين فعليک بالصبر.

’’اے سالک اگر تو اللہ کے قربت یافتہ بندوں میں شامل ہونا چاہتے ہو تو تم پر لازم ہے کہ تم صبر اختیار کرو‘‘۔

٭ حضرت ابن عطاء کا فرمان ہے :

الصبر الوقوع مع البلاء بحسن الادب.

(رسالہ قشيريہ ص 184)

’’حسن ادب کے ساتھ آزمائش و ابتلاء کا مقابلہ کرنا صبر ہے‘‘۔

 

                15۔ پندرہواں مقام۔ ۔ ۔ یقین

 

مقامات سلوک و تصوف میں سے پندرہواں مقام ’’یقین‘‘ ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :

اليقين الايمان کلہ.

(بخاری الجامع الصحيح 1 : 11 رقم 7)

’’یقین کل ایمان ہے‘‘۔

٭ حضرت ابو سعید الخراز نے فرمایا ہے :

العلم ما استعملک واليقين ماحملک.

(رسالۃ القشيريہ ص 182)

’’علم وہ ہے جو عمل پر ابھارے اور یقین وہ جو تجھے قرب الہٰی کی طرف لے جائے‘‘۔

٭ حضرت یحییٰ بن المنصور الطوسی نے فرمایا ہے :

’’فقیر چار چیزوں کا محتاج ہوتا ہے۔ (وہ) علم جو احوال درست کر دے (وہ) ذکر جو اسے بچھڑی ہوئی جگہ (یعنی قرب الٰہی) کے قریب کر دے (وہ) یقین جو غفلت کی نیند سے اٹھا دے اگر اس کے پاس یقین ہو تو وہ زندوں اور مردوں کے درمیان نہیں ہوگا‘‘۔

 

                16۔ سولہواں مقام۔ ۔ ۔ مراقبہ

 

مقامات سلوک و تصوف میں سے سولہواں مقام ’’مراقبہ‘‘ ہے :

المراقبۃ ماکرہت ان يراہ الناس منک فلاتغفلہ اذا خلوت.

’’مراقبہ یہ ہے کہ جس چیز کے متعلق تم ناپسند کرو کہ لوگ تمہیں اس میں ملوث دیکھیں تم خلوت میں بھی اس کا ارتکاب نہ کرو‘‘۔

٭ حضرت ابن عطاء رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے :

افضل الطاعات مراقبۃ الحق علی دوام الاوقات.

(رسالۃ قشيريہ ص 191)

’’سب سے بہتر اطاعت یہ ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کا تصور ہمہ وقت کرنا شروع کر دیں ‘‘۔

٭ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :

’’جو اپنے باطن کا مراقبہ کرے اس کے اعضاء و جوارح گناہوں سے محفوظ رہتے ہیں جو اس کی رعایت کرتا ہے اس کی ولایت برقرار رہتی ہے‘‘۔

٭ حضرت حارث المحاسبی کا ارشاد ہے :

اول المراقبۃ علم القلب لقرب الرب.

’’مراقبے کا پہلا درجہ اللہ کے قرب کے لئے قلب یعنی دل کا علم ہے‘‘۔

17۔ سترہواں مقام۔ ۔ ۔ عبودیت

مقامات سلوک و تصوف میں سے سترہواں مقام ’’عبودیت‘‘ ہے۔ حضرت ابراہیم الثعلبی کا ارشاد ہے :

العبوديۃ اربعۃ اشياء : الوفاء بالعہود والحفظ بالحدود والرضاء بالموجود والصبر علی المفقود.

’’عبودیت چار چیزوں سے مرکب ہے۔

وعدے کو پورا کرنا

(اللہ کے قائم کردہ) حدود کی حفاطت کرنا

موجود یعنی دستیاب نعمتوں پر خوش رہنا

مفقود یعنی گمشدہ نعمتوں پر صبر کرنا‘‘

٭ حضرت ابوعلی الدقاق کا فرمان ہے۔

انت عبد فی رقہ فان کنت اسيرا فی اسر نفسک فانت عبدنفسک وان کنت اسيرالدنيا فانت عبد دنياک.

’’تو جس کی قید میں ہے اس کا بندہ ہے اگر تو نفس کی قید کا قیدی ہے تو سمجھ لے کہ تو نفس کا بندہ ہے اگر تو دنیا کا قیدی ہے تو دنیا کا غلام ہے‘‘۔

 

                18۔ اٹھارہواں مقام۔ ۔ ۔ استقامت

 

 

ان مقامات سلوک و تصوف میں سے اٹھارہواں مقام ’’استقامت‘‘ ہے۔ حضرت محمد واسطی کا فرمان ہے :

الخصلۃ التی بہا کملت المحاسن وبفقدہا قبحت المحاسن الاستقامۃ.

’’وہ خصلت جس کی وجہ سے محاسن اخلاق مکمل ہوتے ہیں اور جس کے نہ ہونے سے محاسن نامکمل رہتے ہیں وہ استقامت ہے‘‘۔ (الرسالۃ قشیریہ ص 26)

٭ حضرت ابو علی الجرجانی نے فرمایا :

ان کنت صادقا فاطلب الاستقامۃ ولاتطلب الکرامۃ فان نفسک متحرک بالکرامۃ وربک يطلب الاستقامۃ.

(الرسالۃ القشيريہ ص 26)

’’اگر تم سچے ہو تو (رب العالمین) سے استقامت طلب کرو اور کرامت طلب نہ کرو یقیناً تیرا نفس کرامت کیلئے بے چین رہتا ہے حالانکہ تیرا پروردگار تجھ سے استقامت مانگتا ہے‘‘۔

٭ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے فاستقم کما امرت ’’پس آپ ثابت قدم رہئے جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے‘‘۔

 

                19۔ انیسواں مقام۔ ۔ ۔ اخلاص

 

مقامات سلوک و تصوف میں سے انیسواں مقام ’’اخلاص‘‘ ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

الاخلاص سرمن اسراري استودعتہ من احببتہ من عبادي.

(رسالۃ القشيريہ ص 28)

’’اخلاص میرے رازوں میں سے ایک راز ہے جو میں اپنے بندوں میں سے جسے چاہے ودیعت کرتا ہوں‘‘۔

٭ حضرت یعقوب کا ارشاد ہے :

المخلص من يکتم حسناتہ کما يکتم سياتہ.

’’مخلص وہ شخص ہے جو اپنی حسنات یعنی اچھائیوں کو بھی اسی طرح چھپاتا ہے جس طرح اپنی برائیوں کو چھپاتا ہے‘‘۔

٭ حضرت احمد بن سعیدالمروزی کا ارشاد ہے :

’’تمام امور اپنی انتہا پر جا کر دو اصل پر منتج ہوتے ہیں۔ ایک وہ عمل ہے جو اس محبوب و مطلوب حقیقی کی طرف سے تیرے لئے ہے اور دوسرا وہ عمل ہے جو تیری طرف سے اس کے لئے کیا جاتا ہے۔ جہاں تک رضا کا تعلق ہے وہ اس کے لئے کیا جاتا ہے اور اخلاص وہ عمل ہے جو تم اس محبوب حقیقی کی رضا کیلئے کرتے ہو اگر تم نے یہ کام کیا تو یقیناً تم ان دو اصل سے مزین ہوئے اور تمہاری آنکھیں دونوں جہانوں میں ٹھنڈی ہوئیں‘‘۔

٭ حضرت ابو عثمان نے فرمایا :

الاخلاص نسيان رويۃ الخلق بدوام النظر الی الخالق.

’’بندے کا ہمہ وقت اپنے خالق اور محبوب حقیقی کی طرف دیکھنے کی وجہ سے مخلوق کی طرف دیکھنے کو بھول جانا اخلاص ہے‘‘۔

 

                20۔ بیسواں مقام۔ ۔ ۔ صِدق

 

مقامات سلوک و تصوف میں سے بیسواں مقام ’’صدق‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کی طرف وحی کی۔

ياداؤدمن صدتتي في سريرتہ صدقتہ عندالمخلوق في العلانيہ.

’’اے داؤد میرے بندوں میں سے جو خلوت میں میری تصدیق کرے تو میں مخلوق میں اعلانیہ اس کی تصدیق کروں گا‘‘۔

٭ حضرت ابو الخواص رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے :

القطع الخلق عن اللہ بخصلتين اولہما انہم طلبو النوافل وضيعو الفرائض والثانيۃ انہم اخذو اعمالا بالظاہر ولم ياخذ انفسہم بالصدق.

’’دو خصلتیں ایسی ہیں جس سے مخلوق کا اللہ سے تعلق بندگی ٹوٹ جاتا ہے اس میں پہلی یہ کہ وہ نوافل کے پیچھے پڑتے ہیں اور فرائض ضائع کرتے ہیں اور دوسری یہ کہ وہ اعمال کو ظاہراً اپناتے ہیں اور صدق کو نہیں اپناتے‘‘۔

 

                21۔ اکیسواں مقام۔ ۔ ۔ حیاء

 

مقامات سلوک و تصوف میں سے اکیسواں مقام ’’حیاء‘‘ ہے۔ حضرت فضیل رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے :

خمس من علامات الشقاء القسوۃ في القلب وحمود العين والرغبۃ في الدنيا وطول الامل وقلۃ الحياء.

’’پانچ چیزیں بدبختی کی علامت ہیں دل کی سختی، آنکھوں کی خشکی، دنیا کی طرف رغبت، لمبی امیدیں، حیاء کی کمی‘‘۔

٭ حضرت جنید سے حیاء کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا :

’’اللہ کی نعمتوں کی طرف کثرت کی نظر سے دیکھنا اور اپنی بندگی و شکر گزاری کی طرف کمی کی نظر سے دیکھنا سو ان دونوں سے ایک ایسی حالت جنم لیتی ہے جسے حیاء کا نام دیا جاتا ہے‘‘۔

٭ حضرت ابوبکر الرزاق فرماتے ہیں :

انما اصلی رکعتين فالنصرف عنہا وانا بمنزلۃ من ينصرف من السرقۃ من الحياء.

’’کبھی کبھی میں دو رکعات نماز پڑھتا ہوں پھر اس سے رجوع کرتا ہوں اس طرح کہ جو شخص حیاء کی وجہ سے چوری سے رجوع کرتا ہے‘‘۔

 

                22۔ بائیسواں مقام۔ ۔ ۔ ذکر

 

مقامات سلوک و تصوف میں سے بائیسواں مقام ’’ذکر‘‘ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

لان اجلس مع قوم يذکرون اللہ بعدالصلوۃ الصبح الی ان تطلع الشمس احب الی مما طلعت عليہ الشمس.

(بيہقی السنن الکبریٰ 8 : 38)

’’میں ضرور ان لوگوں کے ساتھ بیٹھتا ہوں جو صبح کی نماز کے بعد سے سورج طلوع ہونے تک اللہ کا ذکر کرتے رہتے ہیں یہ لوگ مجھے اُن سے زیادہ محبوب ہیں جن جن پر سورج طلوع ہوتا ہے‘‘۔

٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :

مامن ذکر افضل من لاالہ الا اللہ.

’’کوئی بھی ذکر لا الہ الا اللہ (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں) سے بہتر نہیں ہے‘‘۔

٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

اذا رايتم عبدی يکثر ذکری فانا اذنت لہ فی ذالک وانا احبہ واذا رائيتم عبدی لايذکرنی فاحجبتہ عن ذالک وانا ابغضہ.

(ديلمی الفردوس بما ثورالخطاب 10 : 84)

’’اے لوگو! جب تم میرے بندے کو دیکھو جو کثرت کے ساتھ میرا ذکر کرتا رہتا ہے تو میں اس کو اس کا اذن دیتا ہوں سو میں اس سے محبت کرتا ہوں اور جب تم میرے بندے کو دیکھو جو میرا ذکر نہیں کرتا تو میں اس سے پردہ کرتا ہوں اور میں اسے ناپسند کرتا ہوں‘‘۔

٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

’’اللہ کا ذکر اتنی کثرت کے ساتھ کیا کرو کہ منافق تمہیں ریاکار کہیں‘‘۔

(بیہقی شعب الایمان 1 : 397 رقم 527)

٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :

’’میرے صحابیو! کیا میں تمہیں وہ عمل نہ بتا دوں جو اللہ کے نزدیک سب سے بہتر، پاکیزہ اور تمہارے درجات میں سب سے بلند اور اللہ کی راہ میں سونا چاندی خرچ کرنے سے بہتر ہے۔ نیز وہ اللہ کی راہ میں تمہارا کفار کی گردنیں مارنے اور ان کا تمہاری گردنیں مارنے سے بھی بہتر ہے، صحابہ کرام نے عرض کیا کیوں نہیں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اللہ کا کثرت سے ذکر کیا کرو‘‘۔ (ترمذی السنن 5 : 459 رقم 3377)

٭ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :

من احب ان يرتع فی رياض الجنۃ فليکثرو ذکراللہ.

(حسينی البيان والتعريف 1 : 45)

’’جو جنت کے باغیچوں میں سے خوب کھانا چاہے تو اسے چاہئے کہ وہ کثرت سے اللہ کا ذکر کرے‘‘۔

٭ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پوچھا گیا :

ای لاعمال افضل فقال ان تموت ولسانک رطب فی ذکراللہ.

(ہيثمی مجمع الزوائد 10 : 75)

’’اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ فضیلت والا عمل کونسا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا جب تجھے موت آئے تو تیری زباں اللہ کے ذکر سے تر ہو‘‘۔

٭ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :

اکثرالناس ايمانا يوم القيامۃ اکثرہم ذکرا فی الدنيا.

’’قیامت کے دن لوگوں میں سب سے زیادہ ایمان والا وہ ہوگا جو دنیا میں سب سے زیادہ ذکر کرنے والا ہوگا‘‘۔

٭ حضرت داؤد علیہ السلام کا فرمان ہے :

’’اے میرے معبود جب تو مجھے ذاکرین کی مجلس سے غافل لوگوں کی مجلس کی طرف جاتے ہوئے دیکھے تو میری ٹانگ توڑ دے کیونکہ وہ ذاکرین کی مجلس نعمت دینے والے اللہ کی ایک نعمت ہے‘‘۔

٭ رسالہ قشیریہ میں احمد نوری رحمۃ اللہ علیہ سے منسوب ہے کہ حضرت ذوالنون رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے :

لکل شئی عقوبہ وعقوبہ العارف عن ذکر اللہ.

’’ہر چیز کے لئے ایک سزا ہوتی ہے اور عارف کی سزا اللہ کے ذکر سے دوری ہے‘‘۔

٭ حضرت ابوبکر الجرجانی کا فرمان ہے :

الذکر منشور الولايۃ فمن وفق للذکر فقد اعطی منشور الولايۃ ومن سلب منہ الذکر فقد عزل.

(الرسالۃ قشيريہ)

’’ذکر ولایت کا دستور ہے جس کسی کو ذکر کی توفیق ہوئی تو یقیناً اسے ولایت کا منشور مل گیا اور جس سے ذکر کی توفیق سلب ہو تو وہ ولایت سے معزول ہوا‘‘۔

٭ حضرت ذوالنون کا ارشاد ہے :

من ذکراللہ ذکرا علی الحقيقہ نسی فی جنب ذکرہ کل شئی وحفظ اللہ عليہ کل شئی وکان لہ عوضا من کل شئی.

’’جو حقیقی معنوں میں اللہ کا ذکر کرے تو اس کے ذکر کے بعد وہ ہر چیز بھول جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز سے اس کی حفاظت کرتا ہے اور اس کے لئے ہر چیز سے عوض مقرر ہے‘‘۔

 

                23۔ تئیسواں مقام۔ ۔ ۔ توحید

 

مقامات سلوک و تصوف میں سے تیسواں مقام ’’توحید‘‘ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :

اتانی جبرئيل وبشرنی ان من مات من امتک لايشرک باللہ شئيا دخل الجنۃ.

’’میرے پاس جبرئیل علیہ السلام آئے اور مجھے اس بات کی خوشخبری دی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت میں جس کسی کو اس حالت میں موت آئے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا ہے تو وہ جنت میں داخل ہے‘‘۔

٭ حضرت سخی بن معاذ رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے :

ان للتوحيد نورا وان لشرک نارا وان نورالتوحيد احرق لسيات المقربين و النار الشرک حسنات المشرکين.

’’یقینا توحید کا ایک نور ہوتا ہے اور شرک کے لئے نار یعنی آگ مخصوص ہے اور بے شک توحید کا  نور مقربین کے گناہوں کو بھسم کر دیتا ہے اور شرک کی آگ مشرکین کی نیکیوں کو جلا دیتی ہے‘‘۔

٭ حضرت محمد بن رویم رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے :

التوحيد محو اثار البشريۃ وتجرد الالہيہ.

’’انسانی آثار کو ختم کر کے اخلاق الٰہی سے مزین ہونا توحید ہے‘‘۔

٭ حضرت ابوالقاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے :

التوحيد نسيان ماسوی التوحيد.

’’توحید کے سوا ہر چیز کو بھول جانا توحید ہے‘‘۔

٭ حضرت شبلی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک آدمی سے پوچھا :

ہل تدری لم تصح توحيدک قال لا قال لانہ تطلبہ بک.

’’کیا آپ جانتے ہیں آپ کی توحید کب صحیح ہوگی؟ اس نے عرض کیا نہیں آپ نے ارشاد فرمایا کیونکہ وہ اس کا تم سے تقاضا کرتا ہے‘‘۔

٭ حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے :

’’وہ توحید جو صوفیہ کا طرہ امتیاز ہے وہ یہ ہے کہ تمام فنا ہونے والی چیزوں کو چھوڑ کر بقا والی ذات سے وابستہ ہونا، نفس کے وطن سے نکلنا یعنی رزائل اخلاق کو چھوڑ کر تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب کے ذریعے مکارم اخلاق اختیار کرنا، نفس کی محبوب چیزوں سے منقطع ہونا اور معلوم و مجہول چیز کا ترک کر دینا اور حق تعالیٰ کو ان تمام کی جگہ دینا‘‘۔ (الرسالہ القشیریہ ص 300)

 

                24۔ چوبیسواں مقام۔ ۔ ۔ معرفت

 

مقامات سلوک و تصوف میں سے چوبیسواں مقام ’’معرفت‘‘ ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :

ان رعامۃ البيت اساسۃ ودعامۃ الدين المعرفۃ باللہ.

’’گھر کا تمام دارومدار اس کی بنیاد پر ہوتا ہے اور دین کا دارومدار اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے‘‘۔

٭ حضرت علی کرم اللہ وجہ نے فرمایا :

مااری ان ادخل الجنۃ ولم اکن عرفت اللہ فی الدنيا.

’’میرا نہیں خیال کہ میں جنت میں اس حالت میں داخل ہوں گا کہ میں نے دنیا میں اللہ کو نہ پہچانا‘‘۔

٭ حضرت ابوسلیمان نے فرمایا :

يفتح اللہ المعارف للفقير علی فراشہ مالا يفتح لغيرہ وہو قائم يصلی.

(رسالہ قشيريہ 316)

’’اللہ فقیر کے لئے معارف (کا دروازہ) اس کے بستر پر کھول دیتا ہے جو اس کے غیر پر نہیں کھولتا (اگرچہ) وہ نماز کی حالت میں قیام کرے‘‘۔

٭ حضرت نصربن احمد کا فرمان ہے :

المعرفت طلوع الانوار من مشاہدات الاسرار.

’’اسرار الٰہی کے مشاہدے کی وجہ سے بندہ مومن کے دل میں انوار کا طلوع ہونا معرفت ہے‘‘۔

٭ حضرت حسین بن منصور فرماتے ہیں :

علامۃ العارف ان يکون عارفا فی الدنيا والاخرۃ.

’’عارف کی علامت یہ ہے کہ وہ دنیا اور آخرت دونوں میں معرفت کا حامل ہوتا ہے‘‘۔

٭ حضرت ابوالحسن نوری فرماتے ہیں :

العارف مادام فی الدنيا يکون الفقر والفخر اذا نظر الی اللہ افتخر واذا نظر الی نفسہ افتقر. فباللہ فخرہ وبنفسہ فقرہ.

’’عارف جب تک دنیا میں رہے وہ فقر اور فخر کے درمیان ہوتا ہے جب وہ اللہ کے فضل و رحمت کی طرف دیکھتا ہے تو وہ فخر کرتا ہے۔ جب وہ اپنے آپ کی طرف دیکھتا ہے تو خود کو حاجت مند پاتا ہے‘‘۔

اس کا فخر اللہ کی نسبت سے ہے اور اس کا فقر اپنی طرف نسبت سے ہے۔

 

                25۔ پچیسواں مقام۔ ۔ ۔ محبت

 

مقامات سلوک و تصوف میں سے پچیسواں مقام ’’محبت‘‘ ہے۔ آثار میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی کی۔

’’بے شک جب میرے بندے کا دل مجھ پر خوش ہو اور میں اس میں دنیا و آخرت کی محبت نہ پاؤں تو اس کا دل زندگی سے بھر دیتا ہوں‘‘۔

٭ حضرت یحییٰ بن معاذ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

مثقال ذرۃ من الحب احب الی من عبادۃ سبعين سنۃ بلاحب.

’’محبت کا ایک ذرہ مجھے ستر سال محبت کے بغیر عبادت سے زیادہ محبوب ہے‘‘۔

٭ حضرت الذنون رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

ذہب المحبون اللہ شرفہ الدنيا والاخرۃ لان النبی صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم قال المرء مع من احب فہم مع اللہ.

’’اللہ سے محبت کرنے والے ہی اللہ کے پاس دنیا و آخرت کے شرف کے ساتھ گئے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا آدمی اسی کے ساتھ ہوتا ہے جس کے ساتھ وہ محبت کرتا ہے سو وہ اللہ کے ساتھ ہیں‘‘۔

٭ حضرت شبلی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :

سمی المحبۃ محبۃ لانہا تمحومن القلب ماسوی اللہ.

(القشيريہ 321)

’’محبت کا نام محبت اس لئے رکھا گیا ہے کیونکہ وہ انسان کے دل سے اللہ کے سوا ہر چیز کو مٹادیتا ہے‘‘۔

٭ حضرت جنید بغدادی سے محب کے اوصاف کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا :

’’محب لوگوں سے میل جول کم رکھتا ہے ہمیشہ غور و فکر کرتا ہے۔ زیادہ خلوت نشین رہتا ہے۔ ظاہراً خاموش رہتا ہے۔ جب کسی نامحرم پر نظر پڑتی ہے تو اصرار نہیں کرتا ہے۔ جب پڑھا جائے تو وہ نہیں سنتے، جب بات کی جائے تو نہیں سمجھتے۔ جب اسے کوئی مصیبت آتی ہے تو غمگین نہیں ہوتا۔ دوسرے کی تکلیف پر وہ خوش نہیں ہوتا۔ نہ وہ چاہتے ہیں اور نہ وہ متوجہ ہوتے ہیں اور نہ اسے شعور ہوتا ہے۔ بیمار ہوتا ہے تو محسوس نہیں کرتا۔ وہ اپنی خلوت میں اللہ کو دیکھتا ہے، اس سے محبت کرتا ہے، اسے کھل کر اور چھپ چھپ کر مناجات کرتا ہے۔ وہ دنیا والوں سے ان کے دنیوی معاملات میں جھگڑتا نہیں ہے۔ وہ امید کی محرومی سے ڈرتا رہتا ہے اور مطلوب کے گم ہونے سے خوف کھاتا ہے۔ اس کی عقل اللہ قدرت کا مطالعہ کر کے متحیر ہوتی ہے۔ وہ کسی مرض کے بغیر پگھلتا ہے اور درد کے بغیر ٹوٹتا ہے۔ وہ کم سوتا ہے، کم کھاتا ہے اور غمگین رہتا ہے۔ لوگوں کی الگ حالت ہوتی ہے، اس کی اپنی ایک شان ہے جب وہ خلوت میں ہوتا ہے تو اللہ سے ٹوٹ کر محبت کرتا ہے اور جب تنہا ہوتا ہے تو روتا ہے۔ سو ٹوٹ کر محبت کر نا اس کا مشغلہ اور رونا اس کا اثر ہے۔ اس کے لئے شراب محبت کے ایسے پیالے پینے کے لئے ہیں جس کی وجہ سے وہ تمام بندوں سے وحشت محسوس کرتا ہے‘‘۔

 

                26۔ چھبیسواں مقام۔ ۔ ۔ شوق

 

مقامات سلوک و تصوف میں سے چھبیسواں مقام ’’شوق‘‘ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے دعا میں فرماتے تھے :

اللہم انی اسئلک شوقا الی لقائک والنظر الی وجہک الکريم.

’’اے میرے معبود میں تجھ سے تیری ملاقات کے شوق کا اور تیرے عظمت والے چہرے کے دیدار کا سوال کرتا ہوں‘‘۔

٭ حضرت شبلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

من اشتاق الی لقاء اللہ اشتاق اليہ کل شئی.

’’جو اللہ سے ملاقات کا شوق رکھتا ہے تو ہر چیز اس سے ملاقات کا شوق رکھتی ہے‘‘۔

٭ حضرت ابوالقاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

الشوق ناراللہ اشتعلہا فی قلوب اوليائہ وتحرق مافی قلوبہم من الخواطر.

’’شوق، اللہ کی وہ آگ ہے جو اس کے اولیاء کے دلوں میں بھڑک اٹھتی ہے اور تمام شیطانی وسوسوں کو جلا دیتی ہے‘‘۔

٭ آثار میں آیا ہے اللہ تعالیٰ نے داؤد علیہ السلام کی طرف وحی کی :

’’اے داؤد علیہ الاسلام اگر میری یاد اور محبت سے پیٹھ پھیرنے والوں کو معلوم ہوتا کہ میں ان کا کیسے انتظار کرتا ہوں اور میرا کتنا شوق ہے کہ وہ نافرمانیاں چھوڑ دیں تو وہ میری طرف شوق کے غلبے سے مر جائیں اور میری محبت کی وجہ سے اپنے قرابت داروں کو چھوڑ جائیں اے داؤد یہ تو پیٹھ پھیرنے والوں کے لئے میرا انتظار ہے، تو میری طرف دوڑنے والوں کے لئے میرے انتظار کا عالم کیا ہوگا؟‘‘۔ (قشیرہ ص332)

٭ حضرت الفارسی فرماتے ہیں :

قلوب المشتاقين منور بنوراللہ تعالیٰ فاذا تحرکت اشتياقا اضاء النور بين المشرق والمغرب.

(رسالہ قشيريہ بين الماء والارض ص 331)

’’اللہ کے دیدار کا شوق رکھنے والوں کے دل اللہ کے نور سے ایسے روشن ہیں کہ جب وہ مشتاق ہو کر حرکت کرنے لگے تو وہ نور مشرق اور مغرب کے درمیان تمام موجودات کو روشن کرتا ہے‘‘۔

٭ حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ شوق کی شدت میں بارگاہ الٰہی میں یوں مناجات کرتے :

’’اے میرے معبود اگر تجھ سے محبت کرنے والے کسی ایک بندے کو تو نے نعمت دی ہے جو اس کے تیرے فراق میں بے چین دل کو سکون دے تو وہ مجھے بھی دے کیونکہ جدائی نے مجھے بہت تکلیف دی ہے۔ حضرت ابراہیم بن ادہم فرماتے ہیں۔ میں نے خواب میں دیکھا مجھے سامنے بٹھا دیا گیا ہے اور کہا اے ابراہیم کیا تم مجھ سے حیاء نہیں کرتے؟ تو مجھ سے وہ چیز مانگ رہا ہے جو تیرے دل کو سکون دے کیا کسی دوست سے ملاقات کا شوق رکھنے والے کو اپنے دوست سے ملاقات سے پہلے چین ملتا ہے؟ پس میں نے بارگاہ الٰہی میں عرض کیا اے میرے پروردگار میں دم بخود ہوں مجھے ادراک نہ تھا، تو مجھے بخش دے، مجھے سکھا دے کہ میں کیا کہوں۔ اللہ نے فرمایا تو کہہ اے میرے معبود تو مجھے اپنے فیصلے پر خوش رکھ، تیری طرف سے ملنے والی آزمائش پر مجھے صبر کی توفیق دے اور اپنی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی توفیق دے‘‘۔

 

                اختتامیہ

 

’’یہ محبت اور عرفان کے اچھے اچھے اقوال، احوال مروت اور یقین والوں کے درجات پر مشتمل وہ اشارے ہیں جو طالقان کے رہنے والے ان احباب کے لئے ہیں جو ان احوال و مقامات کے طلبگار اور رغبت رکھنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں زمانے کے حوادث سے بچائے اور میں انہیں طاعات و عبادات کو اپنے اوپر لازم کرنے، احکام شریعت محمدیہ کی مخالفت سے اجتناب کرنے، نفسانی شہوات اور پسندیدہ چیزوں سے منقطع ہونے، اپنے دستیاب اوقات کو مختلف قسم کی عبادات میں تقسیم کرنے، تکلیف اور سختی پر صبر کرنے، مباح اور جائز چیزوں سے متعلق تعلق کی ڈوری کو روکنے، شبہات والی جگہ پر جانے سے رکنے، عبادت و بندگی میں استقامت اختیار کرنے، رب العالمین کے فضل و کرم کے دروازے پر ہمیشہ دستک دینے، خدمت کی بساط پر محنت کے قدم کو جمائے رکھنے، اپنی بندگی کی طرف کمی کی نظر سے دیکھنے، آرام طلبی چھوڑنے، شوق کے ظہور کے بدلنے، حسبی تعلقات کو توڑنے اور نفسانی خواہشات کی نفی، مخلوق کے سامنے موجود چیزوں سے ناامید ہونے، بشری صفات سے تزکیہ نفس کرنے، بہیمی اوصاف کی ظلمتوں سے تصفیہ قلب کرنے، ملکوتی انوار سے روح کو روشن کرنے، اخلاق الٰہی کے رنگ میں رنگنے، باطن کے برابر اخلاص کی ترقی کرنے، اللہ کی رضا کے لئے دوسروں کو نصیحت کرنے، اللہ کی رضا کے لئے لوگوں سے محبت کرنے، اللہ ہی کی رضا کے لئے بغض رکھنے، احکام الٰہی کی تعظیم کرنے، مخلوق پر شفقت اور مہربانی کرنے، اللہ کی تقدیر یقین کرنے، خود کو امر الٰہی کے سپرد کرنے، اپنے تمام معاملات کو اللہ کے سپرد کرنے، اللہ پر حسن توکل کرنے، اللہ کے فیصلے پر خوش ہونے، سچائی اختیار کرنے، اپنے دل کو جاہ و منصب اور مال و دولت کی محبت سے پاک کرنے، دنیا کی طرف کمی اور فنا ہونے کی نظر سے دیکھنے اور حال میں دستیاب نعمت پر قناعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں۔

پس میری وصیت ان لوگوں کے لئے ہے جو نجات کے راستے پر چلنے کے خواہش مند ہیں۔ صبح و شام اللہ کے ذکر کے لئے اپنا دل فارغ رکھتا ہے اور سرمدی سعادت کے حصول کے لئے بھی اپنے دل کو فارغ رکھتا ہے اور آخرت کی نعمتوں کے حصول کے لئے محنت کرتا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ حق فرماتا ہے اور سیدھے راستے کی ہدایت دیتا ہے‘‘۔

٭٭٭

ماخذَ

http://www.minhaj.info/mag/index.php?mod=mags&month=2008-04&article=7&read=txt&lang=ur

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبی