FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

دو لفظوں کی دوری

 

 

 

جاناں ملک

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 0

ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

 

 

 

 

دعائیں ہوں گی کبھی باریاب میرے وطن

کبھی تو آئے گا وہ انقلاب میرے وطن

 

ترے وجود سے قائم مسرتوں کی اساس

تو رخت زیست محبت کا باب میرے وطن

 

قدم قدم پہ ہمیں رہبروں نے لوٹا ہے

سفر تھا یا کہ مسلسل سراب میرے وطن

 

وہ کیا ہوا مرے اجداد کے لہو کا خراج

وہ کیا ہوئے تری نسلوں کے خواب میرے وطن

 

ہر ایک شعر کا ہر اک سخن کی خوشبو کا

ترے ہی نام کروں انتساب میرے وطن

٭٭٭

 

 

 

ڈاکٹر روتھ فاؤ کی رحلت پر ایک نظم

 

ماں تجھ کو ماٹی روتی ہے

ماں تجھ کو دریا روتے ہیں

پیڑ پرندے اور ہوائیں سکتے میں ہیں

تجھ سی نعمت

تجھ سے انساں

کم ملتے ہیں کم ہوتے ہیں

 

باہر کے زخموں کا مداوا

اندر کے ناسور کا مرہم

نفرت کی اگنی میں ماں تو

برکھا، بادل، سرد ہوا تھی

اس تاریکی کے جنگل میں

تو آشا کا

امیدوں کا ایک دیا تھی

ماں تجھ کو ماٹی روتی ہے

ماں تجھ کو دریا روتے ہیں

 

ننگے جسم کی چادر بنتے

اشکوں کی آوازیں سنتے

زخموں کی اس گہرائی تک جاتی ہو گی

ماں تو بھی تھک جاتی ہو گی

 

ماں تو نے تو عمر بتا دی۔۔۔۔۔

انسانوں کا درد بٹاتے

ماں تو نے تو عمر بتا دی

لیکن تیرا عزم۔۔۔۔

جواں تھا

بے پایاں تھا

ان کا جینا مرنا اور ہے

جن کے عزم جواں ہوتے ہیں

ماں تجھ کو دریا روتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

نظم کا کچھ بھی نام نہیں

 

شہزادے !

اے ملک سخن کے شہزادے !

دیکھو میں نے

نظم لکھی ہے

نظم کہ جیسے دل کا شہر۔۔۔۔۔

شہر کہ جس میں تم رہتے ہو

آدھے ہنس ہنس باتیں کرتے

اور آدھے گم سم رہتے ہو

تمہیں ادھوری باتیں اور ادھوری نظمیں اچھی لگتی ہیں نا۔۔۔۔۔

تم کہتے ہو بات ادھوری میں بھی اک پورا پن ہوتا ہے

خاموشی کے کتنے معنی ہوتے ہیں

کچھ باتیں ان کہی مکمل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شہزادے !

نظم ادھوری لکھ لائی ہوں

تم اس نظم کو عنواں دے دو

تم یہ نظم مکمل کر دو

لیکن تم اس گہری چپ میں ؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا اس نظم کو تم انجام نہیں دو گے

اس کو نام نہیں دو گے

٭٭٭

 

 

 

 

میں دریوزہ گر۔۔۔

 

تم نے کبھی سوچا ہے

تمہاری یہ گہرے سناٹوں میں ڈوبی خامشی اس دریوزہ گر پر کتنی بھاری پڑتی ہے

وہ باتیں جو

تمہارے مزاج معلی کی نفاستوں پہ گراں گزرتی ہیں میرے لیے کیا معنی رکھتی ہیں ؟۔

کیا

کبھی تم نے پر سکوت سمندر کے اندر بپھری ان لہروں کی آواز سنی ہے ؟ جو کسی طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہیں

میں نے سنی ہے

 

مجھ سے پوچھو

تمہاری خامشی میں لپٹے کسی طوفان کا سائرن کیا جانتے ہو تم

میں نے سنا ہے

تمہارے ہونٹوں سے گوہر نایاب کی طرح نکلا ایک ایک لفظ تمہاری یہ ٹھنڈے میٹھے چشمے جیسی باتیں اور شیریں انداز سخن صحرا میں چلتے مسافر کی طرح میرے وجود کو سیراب کرتا ہے میں جو تمہارے در کے آگے اپنا دامن پھیلائے ان نایاب موتیوں کو چننے کی چاہت میں بیٹھی رہتی ہے

جسے کبھی تو تم نامراد لوٹا دیتے ہو کبھی بہت مہرباں ہو کر کچھ خیرات

اس کے دامن میں ڈال جاتے ہو

جس کو میں تیری گلیوں کی دریوزہ گر کسی قیمتی اثاثے کی طرح

چن کے اپنی پوٹلی میں رکھ لیتی ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

بادل سے مکالمہ

 

کیسا ابر ہے جس کے برسنے کی

ہر پل امید لیئے

آنکھیں تشنہ لب رہتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کو دیکھ کے

یہ کشت بارانی بھرتی ہے

 

یہ جنموں کی پیاس ہو جیسے اس مٹی کی۔۔۔

 

ایک اک بوند اترتی مجھ سے باتیں کرتی ہے

پہلے میں بارش کو دیکھ کے خوش ہوتی تھی

اب میں اس میں بھیگ کے اس کی باتیں سنتی ہوں

٭٭٭

 

 

 

سرد مہری کا دکھ

 

آج تمہارے لہجے میں کڑواہٹ کیسی

کیسا یہ بیگانہ پن ہے

جو میری روح کو گھائل کرتا ہے

کیسا یہ طوفان ہے جو خاموشی سے

میری سمت بڑھا آتا ہے

ان دیکھے خدشات سے اپنی دھڑکنیں

سینے میں کیوں یہ اٹکتی جاتی ہیں

دوست تمہارا یہ لہجہ تو کبھی نہ تھا

 

اور تمہاری آنکھیں …..

آنکھیں جن پر رات پتنگے اپنا جیون دان کریں

ان آنکھوں کے وہی دیے کیوں بجھے بجھے سے ہیں ؟

آج تمہارے لہجے میں کڑواہٹ کیوں

کیسا یہ بیگانہ پن

تم نے میری کال سنی

اور ہیلو کہہ کر بند کر دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کال کٹی یا رشتۂ جاں تھا کٹتے کٹتے کتنے تار وہ کاٹ گئی۔۔

آج تمہارے لہجے میں ایسا کیوں ہے ؟۔۔۔۔

تنہائی کی مشکل گھڑیاں

شام سسکتی اور بلکتی کالی راتیں

سر پر آ پہنچی ہیں

جن کی باتیں اکثر تم کرتے تھے

میں نے تمہاری اِن ساحر آنکھوں میں اک خاموشی کا طوفان امڈتے دیکھا ہے

کیا تم نے مجھ سے دوری کا رستہ ڈھونڈا ہے

کیسی خاموشی ہے

مجھ کو کھائے جاتی ہے

 

اس جاں سوز خموشی کو میں کیا سمجھوں

دور تلک اک صحرا ہے ویرانی جلتی ریت ہے ننگے پاؤں

اے ملک سخن کے شہزادے

کچھ تو بولو نا

٭٭٭

 

 

 

 

 

شام ڈھلتے دیر تک چھت پر کھڑی رہتی ہوں میں

ڈوبتے سورج کو جاناں دیکھتی رہتی ہوں میں

 

کیسی کیسی الجھنوں میں اب پڑی رہتی ہوں میں

جانے کیا کیا دیکھتی اور سوچتی رہتی ہوں میں

 

کوئی زیرِ لب ہمیشہ گنگناتا ہے مجھے

میں کسی کے دل کی ہوں اور ان کہی رہتی ہوں میں

 

ایک دنیا کا سفر ہے اس کے میرے درمیاں

فاصلے ہی فاصلے ہیں ناپتی رہتی ہوں میں

 

کیسا بادل ہے لپٹ جاتا ہے مجھ سے خواب میں

کیسی بارش ہے کہ شب بھر بھیگتی رہتی ہوں میں

 

سانحہ کیا تھا تمیزِ فرحت و غم مٹ گئی

اب کوئی رُت ہو ہمیشہ ایک سی رہتی ہوں میں

 

اک ستارہ دیر تک کرتا ہے مجھ سے گفتگو

وہ نہیں سوتا سو جاناں جاگتی رہتی ہوں میں

٭٭٭

 

 

 

کٹ پرائس سیل

 

فرصت ہو تو دیکھنا آ کر

دلوں کا اک میلہ ہے یہاں پر

دل ہی دل ہیں

اس میلے میں کتنے دل ہیں

طرح طرح کے

پھولوں جیسے شیشے جیسے پتھر جیسے

اور تمہارے دل جیسے

دل جو تم کو راس آئے وہ لے جانا

اپنا دل بھی اس میلے میں رکھ چھوڑا ہے

شاید کوئی اس کا گاہک بھی آ جائے

لیکن یہ بیکار سا دل ہے

تم پر ٹوٹ کے آنے والا

دو دن بھی نہ تگنے والا

ٹوٹنے والی اور نا پائیدار اشیاء کی کیا قیمت ہے

کچھ بھی نہیں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اس میلے میں آ کر دیکھنا

دل کتنے سستے بکتے ہیں

پہناووں سے پاپوشوں سے

اور کھلونوں سے بھی سستے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کس کی کھوئی ہوئی ہنسی تھی میں

کس کے ہونٹوں پہ آ گئی تھی میں

 

کن زمانوں پہ منکشف ہوئی ہوں

کن زمانوں کی روشنی تھی میں

 

میں کسی شخص کی اداسی تھی

سرد لہجے میں بولتی تھی میں

 

دن ڈھلے لوٹتے پرندوں کو

گھر کی کھڑکی سے دیکھتی تھی میں

 

کاش اک بار دیکھ لیتے تم

راستے میں پڑی ہوئی تھی میں

 

اب جو افسردگی کی چادر ہوں

موسم گل کی اوڑھنی تھی میں

 

خود کو دریافت کرنے نکلی ہوں

یعنی خود سے کہیں خفی تھی میں

 

گنگناتا تھا شب کے پچھلے پہر

جانے کس دل کی راگنی تھی میں

 

پھر دسمبر تھا سرد راتیں تھیں

شہر سوتا تھا جاگتی تھی میں

 

اس نے جب ہاتھ ہاتھ پر رکھا

سرخ پھولوں سے بھر گئی تھی میں

 

آج دیکھا تھا آئینہ میں نے

اور پھر دیر تک ہنسی تھی میں

 

جانے کیا بات یاد آئی مجھے

ہنستے ہنستے جو رو پڑی تھی میں

 

میں نے اک شام پا لیا تھا اسے

اس سے اک رات کھو گئی تھی میں

 

جانتا کون مجھ کو میرے سوا

گھر کے اندر بھی اجنبی تھی میں

 

میری پرتیں نہیں کھلیں اب تک

دیوتاؤں کی شاعری تھی میں

 

خود سے ٹکرا گئی تھی جاناں کہیں

اپنے رستے میں آ گئی تھی میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

خود آگہی

 

کوئی میرا ہاتھ پکڑ کر کہتا ہے

دیکھو اس پربت کی اونچی چوٹی تم ہو

رستہ تم ہو اور یہ جگمگ کرتی روشنیوں کا دلکش منظر تم ہو پتھر تم ہو پانی تم ہو

دھوپ کی اجلی چادر تم ہو

سبز ہوا کا آنچل تم ہو

بارش تم ہو بادل تم ہو

اور بادل کے پیچھے تیز چمکتا شور مچاتا اور لپکتا بجلی کا وہ کوندہ تم ہو دور افق پر باتیں کرتا شوخ ستارہ تم ہو دن بھی تم ہو رات بھی تم ہو

کل بھی تم تھیں آج بھی تم ہو

 

کون یہ میرا ہاتھ پکڑ کر کہتا ہے

آئینے ہیں چاروں جانب

اپنے آپ کو پہچانو

٭٭٭

 

 

 

دن کے ساتھ اتر جاتی ہوں

شام کے پار ٹھہر جاتی ہوں

 

اس سے بچھڑنے کے اس پل کو

سوچتی ہوں تو مر جاتی ہوں

 

صحرا جتنی پیاس ہے میری

اور اک بوند سے بھر جاتی ہوں

 

میرا ہاتھ یہ پکڑے رہنا

میں خوابوں میں ڈر جاتی ہوں

 

میاں محمد میں تو اپنی

گاگر بھر کے گھر جاتی ہوں

 

اپنے آپ سے ہاتھ چھڑا کر

میں کن رستوں پر جاتی ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

آنچل کے پلو کو گانٹھ نہیں لگتی

 

آج تمہارے شہر سے واپس لوٹ رہی ہوں

لیکن کیسے۔۔۔۔۔۔

ثابت و سالم کون پلٹ کر جاتا ہے

کس دل سے آئی تھی میں

تم سے ملنا کیسا ہو گا

 

جانے کیا کچھ من میں تھا

تم سے ملوں گی اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تم سے ملوں گی اور بہت سی باتیں ہوں گی

کچھ ہونٹوں سے بہہ نکلیں گی، کچھ آنکھیں تحریر کریں گی

 

لیکن یہ سب خواب تھا میرا

 

دیکھو واپس لوٹ رہی ہوں

تار کول کی بل کھاتی یہ سانپوں جیسی سڑکیں

ہر اک موڑ تمہاری یادیں

اور ہوا میں لمس تمہارا

بھیگتی آنکھیں لے کر واپس لوٹ رہی ہوں

 

لوٹ رہی ہوں خالی آنکھ اور خالی ہاتھ۔۔۔۔۔۔

دور افق پر زرد اداسی کی چادر میں لپٹا چاند

بجلی کے تاروں پر بیٹھے کچھ خاموش پرند

اس چلتی گاڑی میں جیسے میں افسردہ جاں

ایک طرف چڑیوں کا چنبہ پیڑوں پر وہ شور مچاتا

لیکن جس کا دل بجھ جائے اس کو ان سے کیا

پونچھ رہی ہوں بھیگتی آنکھیں …….

اک اک کر کے تیری یادیں آنچل کے پلو میں باندھ رہی ہوں

لیکن گانٹھ نہیں لگتی ہے

میری پوریں ساتھ نہیں ہیں

جیسے میرے ہاتھ نہیں ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

آنکھ ٹکتی نہ تھی چہرے پہ حسین ایسا تھا

دل کی دنیا میں کوئی جلوہ نشین ایسا تھا

 

دسترس میں تھی مگر پا نہ سکا وہ مجھ کو

دل میں اک عمر سے وہ شخص مکین ایسا تھا

 

عہدو پیماں سے مکرنے کا سلیقہ تھا اسے

دیتا رہتا تھا دلیلیں وہ ذہین ایسا تھا

 

اب تو بنجر ہوا ویراں ہوا برباد ہوا

خطۂ دل کبھی شاداب زمین ایسا تھا

 

مجھ کو جاگیر سمجھتا تھا وہ اپنی جاناں

میں اسی کی ہوں اسے مجھ پہ یقین ایسا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ہر خواب کو میں یوں ہی تعبیر نہیں کرتی

یہ ریت گھروندے میں تعمیر نہیں کرتی

 

ہر رنج کو سہتی ہوں اک کرب میں رہتی ہوں

جو دل پہ گزرتی ہے تحریر نہیں کرتی

 

میں حوا کی بیٹی ہوں پر جوشِ محبت میں

پامال میں پرکھوں کی توقیر نہیں کرتی

 

تنہائی سی تنہائی وحشت سی یہ وحشت ہے

اب بات تری مجھ سے تصویر نہیں کرتی

 

میں موجِ ہوا سی ہوں منزل ہی نہیں کوئی

خود کو کسی پیماں میں زنجیر نہیں کرتی

 

جو جاں پہ گزرتی ہے کچھ کم تو نہیں جاناں

لیکن میں کبھی غم کی تشہیر نہیں کرتی

٭٭٭

 

 

 

موجود اور لا موجود کے درمیان

 

آج دل ایک کرب سے بوجھل ہے

ایسا لگتا ہے کہ جیسے

الفاظ

مقفل لبوں سے منحرف

ہونے کو مچل رہے ہیں

شاید یہ

کچھ کہنا چاہتے ہیں

کیا تم نے کبھی قفس میں

کسی پرندے کو پھڑپھڑاتے دیکھا ہے ؟

بالکل ویسے ہی میرے جذبات و احساسات

کسی انجانے خدشات میں گھرے زخمی پرند کیطرح

کہیں سینے میں

پھڑپھڑا کر رہ جاتے ہیں

 

نحیف و نزار دل کی دیواروں سے لپٹے

بے وقعت و بے مایا الفاظ

رات دن آہ و فغاں کرتے ہیں

ان کی عزا داری سے

اک ایسی سل سینے پر میں

رکھی محسوس کرتی ہوں

جو بظاہر تو لفظ ہیں۔۔۔۔۔۔۔

لیکن باطن میں تمہاری صورت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

من کے نہاں خانوں میں

چسپیدہ ہے، ،، ،، ،

سوچتی ہوں

تم سے یہ رشتہ کیسا ہے ؟

جسے نا تو میں

پیشانی پر اپنی سجا سکتی ہوں

نا ہی تیرے لمس کو جھٹک سکتی ہوں

موجود اور لا موجود کے درمیاں

ایک زنجیر سے لٹکتی ہوئی میں

اپنی سوچوں سے ہی پریشاں ہو کر میں

روز بدل دیتی ہوں ارادہ اپنا

یہی بات ہے کہ میرے

وہ احساسات و جذبات

ان سرد اور منجمد ہونٹوں تک

نہیں پہنچ پاتے

٭٭٭

 

 

 

اور مہک تھی جو اُس باغ کی گھاس میں تھی

اس کے پاؤں کی خوشبو بھی اُس باس میں تھی

 

تجھ بارش نے تن پھولوں سے بھر ڈالا

خالی شاخ تھی اور اِس رت کی آس میں تھی

 

تو نے آس دلائی مجھ کو جینے کی

میں تو سانسیں لیتی مٹی یاس میں تھی

 

یاد تو کر وہ لمحے وہ راتیں وہ دن

میں بھی تیرے ساتھ اُسی بن باس میں تھی

 

ہر پل تیرے ساتھ تھی میں کب دور رہی

میں خوشبو تھی اور تیرے احساس میں تھی

 

بارش تھی شب بھر اور بھیگ رہی تھی میں

جاناں کیسی شدت میری پیاس میں تھی

٭٭٭

 

 

 

 

لفظ پروں کی طرح ہوتے ہیں

 

تمام دن تمہارے میسیجز میرے دل کی منڈیروں پر کبوتروں کی طرح اترتے ہیں

سفید دودھیا سیاہ چشم شربتی اور سرمئی مائل جنگلی کبوتر جن کے سینے کے بال

کئی رنگوں میں دمکتے ہیں

سبز گوں نیلگوں اور تابدار تپتے ہوئے تانبے کے جیسے۔۔۔

 

میں ان کی زبان سمجھتی ہوں

غٹر غوں، غٹر غوں،

کتنی پرواز کر کے آتے ہیں

 

شام سے میں ان کے ساتھ

ایک کابک میں بند ہو جاتی ہوں

وہ میرے بازوؤں کندھوں اور میرے سر پر بیٹھ جاتے ہیں

 

مجھے صبح تک سونے نہیں دیتے

ان کے پَر سحر انگیز لفظوں کی طرح

اپنے معانی کھولتے ہیں

 

تمہیں معلوم ہے پَر لفظوں کی طرح ہوتے ہیں کھلتے ہیں معانی کی طرح

تہہ در تہہ

علامتیں

رمز نگاری

اور اشارے کنائے سب کچھ

اور یہ لفظ اپنے ساتھ نیندیں اڑا کر لے جاتے ہیں

رات میری نیندیں لے کر گلی میں

سیٹیاں مارتی ہے

اور خواب کھڑکیوں پر دستکیں دیتے ہیں

 

تم اپنی کروٹ بدلتے ہو

اور رات اپنی پوشاک

 

میں ان کے پیروں میں

موتیوں والی جھانجریں ڈالتی ہوں

یہ اپنا اپنا دانہ دنکا چگ کر

تمہاری اور اڑ جاتے ہیں

اور پھر ایک نئی ڈار اترتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہے مگر رنگ حنا ویسا نہیں

جو ترے ہونے سے تھا ویسا نہیں

 

اب بھی روشن کر کے رکھتی ہوں چراغ

اس مکاں میں طاقچہ ویسا نہیں

 

چل رہی ہوں میں شکستہ پا مگر

جو سنا تھا راستہ ویسا نہیں

 

کیوں ہے ڈھیلی تیرے ہاتھوں کی گرفت

ہمقدم ہے ہم نوا ویسا نہیں

 

صاف گو ہے تو مگر کچھ فرق ہے

جس طرح ہے آئینہ ویسا نہیں

 

چاند کی وہ چھب نہیں جاناں یہ آج

جیسا پچھلی رات تھا ویسا نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

دل کی اک اک کنی بچھاتی ہوں

رات بھر روشنی بچھاتی ہوں

 

شاید آج آئے وہ مجھے ملنے

صحن میں چاندنی بچھاتی ہوں

 

دیکھئے ڈوبتا ہوا سورج

بیٹھیے اوڑھنی بچھاتی ہوں

 

اوڑھ لیتی ہوں ہجر، بستر پر

اپنی خستہ تنی بچھاتی ہوں

 

خود تو رہتی ہوں دھوپ میں جاناں

اس پہ چھاؤں گھنی بچھاتی ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

فاصلوں پر کھڑی ہوئی محبت

 

ہمارے فاصلے کبھی ختم نہیں ہو سکتے

ہماری بنیادیں فاصلوں پر رکھی گئیں ہیں

وہ محبت کا گکھڑ پلازہ ہے اور میں

چاہتوں کی نتھیا گلی

،، ،، ،، ،، ،، ،،

ہم صرف فاصلوں سے ایک دوسرے کو دیکھ سکتے ہیں

مجھے دیکھنے کی حسرت میں

وہ کتنی منزلیں اوپر اٹھا لیکن

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

وہ میرے دکھ میں

اکثر جل کر راکھ ہوا ہے

نہ میں نیچے جا کر اس سے مل سکتی ہوں

اور نہ وہ

اپنے قدموں سے حرکت کر سکتا ہے

 

یہ معذوری

ہماری بنیادیں اٹھاتے ہوئے ساتھ ہی جنم لے چکی تھی

اور ہماری بلندیوں سے بہت بڑی ہے

 

 

اور ہوائیں تھک جاتی ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں تمہارے ہجر کی راتیں

آنکھوں پر

اور وصل کے پل انگلیوں کی پوروں پر گنتی رہی

ستارے میری پلکوں پر نئے سال کا کیلنڈر ترتیب دیتے رہے

 

میں تمہاری یاد کے چیت اور ساون

وجود کی مٹی میں بیج چکی تو

روح کی کوکھ میں پوس نے بسیرا کر لیا

زمستاں چلتا ہوا میری سانسوں تک آ گیا

 

میں موسموں کی دھمک اپنے سینے میں سنتی رہی

بادل کے گرجنے کی آواز کھڑکیوں سے ٹکراتی ہوا کی سسکیاں

 

اور سنسناتی ہوئی برفیلی ہوا کی سیٹیاں

میرے کانوں میں بجتی رہیں

 

لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں۔۔۔۔۔

میری صدائیں سوکھے ہوئے پتّوں کی طرح گلیوں میں بکھرتے رہے

تمہارے پاؤں کی چاپ سننے کے لیئے

تمہارے تلووں میں بچھنے کے لیئے

 

میری روئیدگی پپڑیاں بنتی رہتی ہے

ہواؤں کے قافلوں میں

گرد باد کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرا سفر ختم نہیں ہوتا

 

اور ہوائیں تھک جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

دیکھئیے کتنے سخن فہم، سخن ور آئے

میں نے اک پھول اٹھایا، کئی پتھر آئے

 

کر چکے ترک تعلق تو اُسے سوچنا کیا

دل سے نکلا ہے تو وہ یاد بھی کیوں کر آئے

 

پھر وہی رات ہو بادل ہوں ہوا چلتی ہو

پھر وہی چاند درختوں سے نکل کر آئے

 

راہ ہموار مقدر میں نہیں تھی شاید

پاؤں نکلا تھا ابھی گھر سے کہ پتھر آئے

 

ایک دو گام مسافت تھی تری گلیوں کی

ساری دنیا کی تھکن لاد کے ہم گھر آئے

 

جنگ جاری ہے ابھی جاگتے رہئے شب بھر

جانے کس اوٹ سے چھپ کر کوئی لشکر آئے

 

کیا کوئی غم کے گنوانے کا ہنر ہاتھ آیا

مسکراتے ہوئے جو رنج کے خوگر آئے

 

دیکھ کر جس کی جھلک جان میں جان آتی تھی

اب سر راہ اسے دیکھ کے چکر آئے

 

اِس برس پھول زیادہ نہ سہی شاخوں پر

بارشیں کم تھیں مگر رنگ برابر آئے

 

اب تو اِس نیند میں چلتے ہوئے اکتا گئیے ہم

اب تو بہتر ہے کسی موڑ پہ ٹھوکر آئے

 

غم گساروں میں، مرے چارہ گروں میں اکثر

میرے دشمن بھی کئی بھیس بدل کر آئے

 

لوگ کس خواب سے روتے ہوئے اٹھے جاناں

جانے کس قریۂ ماتم سے یہ باہر آئے

٭٭٭

 

 

 

دن کی جانب کبھی اس رات سے رستہ نکلے

باغ کی سمت بھی فٹ پاتھ سے رستہ نکلے

 

شاید اک اور ملاقات کی امید بندھے

اک سر راہ ملاقات سے رستہ نکلے

 

میں بھی اب ڈھونڈتی رہتی ہوں بہانے کیا کیا

اس سے کچھ بات کروں بات سے رستہ نکلے

 

عین ممکن ہے یہ دنیا کا ہو مرکز مری ذات

مجھ تک آئے جو سماوات سے رستہ نکلے

 

شہر کے رستے کہیں شہر میں کھو جاتے ہیں

شہر کو اب کوئی دیہات سے رستہ نکلے

 

کھل کے رو لوں تو یہ دیوار ہٹے دوری کی

ابر برسے تو یہ برسات سے رستہ نکلے

 

مجھ کو اس مات کا افسوس نہیں ہے جاناں

جیت کی سمت جو اس مات سے رستہ نکلے

٭٭٭

 

 

 

 

 

جو دھوئیں اور آگ میں تھے روشنی کے چاند تھے

عید تھے وہ بھی کسی کی وہ کسی کے چاند تھے

 

ایسا منظر تھا کہ آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں

موت کی آغوش میں جب زندگی کے چاند تھے

 

آسماں ان خستگاں کو غور سے تم دیکھنا

یہ زمیں کی شان تھے یہ مفلسی کے چاند تھے

 

کیا ہلال عید دیکھیں دل ہی جاناں بجھ گیا

عید کیسے ہو کہ یہ تو عید ہی کے چاند تھے

٭٭٭

 

 

 

 

موتیوں والا قفس

 

وہ نغمہ گر محبت کا

وہ لفظوں کا ہے ساحر

لفظ اس کے سامنے اک اِذن کے بس منتظر رہتے ہیں ہر پل

اسے تو لفظ میں حیرت، محبت چاشنی اور سحر کاری کا ہنر ہے

اور وہ جذبوں کی سچائی سے لبریز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

میں اکثر اس کی نظمیں غزلیں پڑھ کے محو ہو جاتی ہوں

کھو جاتی ہوں ماضی کے دیاروں میں

 

زمانوں کے تفاوت سے نکل کراس کے لفظوں کی کہیں پر ٹیک ہوتی ہے

کہ سر جس سے لگا کر آنے والی ساعتوں کے خواب بنتی ہوں

 

ہر اک موجود سے باہر نکل کر

دور پاکیزہ ہواؤں اور پرندوں کے نگر میں

خوشبوؤں کے ساتھ ہی تحلیل ہو جاتی ہوں اس میں

 

مجھے محسوس ہوتا ہے

میں اس کی شاعری میں سانس لیتی ہوں

کبھی خود کو میں اس کی شاعری میں

نمیدہ آنکھ سے حیران پاتی ہوں

کبھی میں اس کی ہر اک سطر کا عنوان پاتی اور کبھی خود کو نہیں پہچان پاتی ہوں

 

کبھی وہ اس طرح حیرت کدوں کے درمیاں لا کر کھڑا کرتا ہے مجھ کو کہ جیسے میں کسی آئینہ خانے میں کھڑی ہوں

مرے ہی سامنے پرتو ہیں میرے

 

کوئی حیرت سی حیرت ہے

یہ رخشِ فکر یا تختِ سبا ہے

ستارہ سا مرے ہمراہ کیا ہے

 

کبھی تو ایسے لگتا ہے وہ میرے خواب مجھ سے پہلے شاید دیکھ لیتا ہے

 

مرا کیا تھا ہوا کے دوش پر اڑتا ہوا پنچھی

نہ جانے کیوں مجھے اس موتیوں والے قفس کی قید بھاتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

تیز ہوا اور شب بھر بارش

اندر چپ اور باہر بارش

 

ایسے پہلے کب برسی تھیں

آنکھیں اور برابر بارش

 

صحرا تو پیاسے کا پیاسا

اور بھرے دریا پر بارش

 

اُس سر تال کا اور مزا تھا

کچے گھر کی چھت پر بارش

 

جھوم رہے ہیں بھیگ رہے ہیں

پیڑ پرندے منظر بارش

 

میں نے بادل کو بھیجی تھی

اک کاغذ پر لکھ کر بارش

 

میرے اشکوں سے لکھے کو

وہ پڑھتا ہے اکثر بارش

 

کون یہ دیکھے دیدۂ پرنم

اک بارش کے اندر بارش

 

یاد بہت آتے ہیں جاناں

ہاتھ میں ہاتھ اور سر پر بارش

٭٭٭

 

 

 

(ایک غزل ماضی کے جھرونکوں سے اترتی ہوئی اپنے دادا جان کی با توں اور یادوں سے ماخوذ اور مشاہدے کی جھلکیاں ۔ یہ غزل میری دوسری غزلوں سے مختلف مزاج رکھتی ہے۔ جب میں آنکھیں بند کر کے اس غزل کے اشعار پڑھتی ہوں تو ابا جان اور دادا ابو جنہیں ہم بابا کہہ کر بلاتے تھے آنکھوں کے سامنے آ کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور تاریخ اوراق الٹنا شروع کر دیتی ہے )

 

ایک محل تھا راجہ کا اک راج کماری ہوتی تھی

اُس راجہ کو اپنی پرجا جان سے پیاری ہوتی تھی

 

بابا کہتے یہ جو کھنڈر ہے سیتا رام کا مندر تھا

اُس مندر کی ایک پجارن رام دلاری ہوتی تھی

 

پشپا اور رادھا بھی دونوں میری بہنیں ہوتی تھیں

منگل داس اور میری بیٹا گہری یاری ہوتی تھی

 

ایک دیئے کی لو میں بابا میر اور غالب پڑھتے تھے

ایک انگیٹھی ہوتی تھی اور ایک الماری ہوتی تھی

 

شام ڈھلے اک لان میں سارے بیٹھ کے چائے پیتے تھے

میز ہمارا گھر کا تھا کرسی سرکاری ہوتی تھی

 

ایک کنواں میٹھے پانی کا اور اک بوڑھا برگد تھا

ایک محبت کا گہوارہ بستی ساری ہوتی تھی

 

میٹھے گیتوں کی وہ رسنا میٹھی دھن اور میٹھے بول

پورن ماشی پر آنگن میں شب بیداری ہوتی تھی

 

اب جو ملاں وعظ کرے تو خوف سا آنے لگتا ہے

موہن داس سے نعتیں سن کر رقت طاری ہوتی تھی

 

رشتوں کا احساس لہو کے اندر رچتا بستا تھا

کب ایسی نفسا نفسی اور مارا ماری ہوتی تھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایک مسافر اور دو منظر

گھر سے کالج کالج سے گھر

 

دیکھ وہ مسجد کے گنبد پر

آ کر بیٹھا ایک کبوتر

 

دروازے پر پہلی دستک

پیڑ تک آیا پہلا پتھر

 

دونوں جانب خاموشی ہے

دیواروں کے اندر باہر

 

روک رہا ہے بہتا دریا

چاٹ رہی ہے مچھلی پتھر

 

دیکھ رہی ہوں کمرے کی چھت

پھول کتابیں کاغذ بستر

 

بانٹ رہی ہے دنیا نیکی

مانگ رہا ہے ایک گداگر

 

کون یہ میرے ساتھ تھا جاناں

چونک اٹھی ہوں چپ ہونے پر

٭٭٭

 

 

 

 

 

نہ جانے کب سے چلتی آ رہی ہوں

 

 

زمانوں کی تھکی ہاری

شکستہ پا

نہ جانے کب سے

چلتی آ رہی ہوں

آ رہی ہوں تیری جانب، تیرے رستوں پر

تری پگڈنڈیوں پر پاؤں رکھتی ڈگمگاتی

تیری قربت کی گھنی چھاؤں کی متلاشی

 

اے میری آخری حسرت

اے میرے خواب بخشندہ

میں تیری گود میں سر رکھ کر سو جاؤں

صدا دیتا رہے مجھ کو زمانہ

یہ روز و شب مجھے ڈھونڈا کریں پھر

اداسی دیکھتی رہ جائے

اک روزن سے مجھ کو

 

یہی اک خواب ہے

اس خواب پر زندہ ہوں اب تک

اسی امید پر آنکھیں

نہ جانے اور کتنے رتجگے دیکھیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کبھی تو سوچنا تم ان اداس آنکھوں کا

یہ رتجگوں میں گھری محو یاس آنکھوں کا

 

میں گھر گئی تھی کہیں وحشتوں کے جنگل میں

تھا اک ہجوم مرے آس پاس آنکھوں کا

 

برہنگی ترے اندر کہیں پنپتی ہے

لباس ڈھونڈ کوئی بے لباس آنکھوں کا

 

تمہارے ہجر کا موسم ہی راس آیا مجھے

یہی تھا ایک طبیعت شناس آنکھوں کا

 

اسی کی نذر سبھی رتجگے سبھی نیندیں

اور اس کی آنکھوں کے نام اقتباس آنکھوں کا

 

پڑی رہے تری تصویر سامنے یوں ہی

یہ زر کھلا رہے آنکھوں کے پاس آنکھوں کا

 

خیال تھا کہ وہ ابر اس طرف سے گزرے گا

سو یہ بھی جاناں تھا وہم و قیاس آنکھوں کا

٭٭٭

 

 

 

 

میں ایک رات تھی

 

 

میں رات تھی سیاہ رات

ایک نقطے میں سمٹی ہوئی

آنکھ کی پتلی جیسے نقطے میں

 

میں نے ایک دن کو باہر نکالا

پھر اس دن کی بائیں پسلی سے

خود باہر نکلی

پھر مرے اندر

کتنے سورج چاند اور ستارے اپنی اپنی منزلیں طے کرنے لگے

 

میں رات ہوں کبھی نہ ختم ہونے والی رات

میں نے اپنی سیاہ پوشاک سے رنگ پیدا کیئے

پھر رنگوں سے رنگ ملتے چلے گئیے

 

میں رات ہوں۔۔۔۔

میرے ایک بازو پر صبح اور دوسرے پر شام سو رہے ہیں

 

میری چادر کے نیچے

شہر قبرستانوں کی طرح پڑے ہوئے ہیں

اذانیں ایک دوسرے سے ٹکرا کر

گنبدوں کے آس پاس

گر جاتی ہیں

 

لوگ بھنبھناتی ہوئی مکھیوں کی طرح

جاگتے اور سو جاتے ہیں

 

خود اپنا لہو گراتے اور چاٹتے ہیں

سمندر چیختے اور دریا رینگتے

دیکھتی رہتی ہوں

 

دیکھتی رہتی ہوں چپ چاپ

ان کا انت

جن سے پھر انہی کا جنم ہو گا

انت جو نئے جنم کا بیج ہے

غروب جو طلوع کے طشت کا غلاف ہے

 

میں رونے اور ہنسنے سے ماورا ہوں

کبھی کبھی ماں کی محبت میں روتے ہوئے بچے

کی آواز مجھے چونکا دیتی ہے

٭٭٭

 

 

 

پیڑ پر جانے کس کا دھیان پڑا

ایک پتھر کہیں سے آن پڑا

 

ایک ہجرت تو مجھ کو تھی درپیش

ہجر بھی اس کے درمیان پڑا

 

یہ شب تار تار میری ردا

یہ ستاروں کا سائبان پڑا

 

ایک پلڑے میں رکھ دیا تجھ کو

دوسرے میں تھا اک جہان پڑا

 

کیسی ٹھوکر لگی یہ سپنے میں

آنکھ پر کس کا یہ نشان پڑا

 

ایک مٹھی میں پھر زمیں سمٹی

ایک آنسو میں آسمان پڑا

 

زندگی یاد آ گئی مجھ کو

پھر تری سمت میرا دھیان پڑا

 

تو نے نام و نشاں دیا مجھ کو

میرا ہونا تھا بے نشان پڑا

 

گرتے رہتے ہیں اس میں شام و سحر

بھرتا رہتا ہے خاکدان پڑا

 

یہ ہے کشتی وجود کی جاناں

یہ پھٹا دل کا بادبان پڑا

٭٭٭

 

 

 

 

 

نامکمل نظم

 

لوٹ کے آؤ نظم مکمل کرتے ہیں

نظم ادھوری چھوڑ گئیے تھے

نظم کلائی تھامے مجھ کو کھینچ رہی ہے

ضد کرتی ہے اور کہتی ہے

مجھے ادھورا مت چھوڑو

 

آؤ۔۔۔

میرے ہاتھ کو پکڑو

نظم مکمل کرتے ہیں

 

نظم مکمل ہو جائے تو پوسٹ کروں اور

دنیا بھر کو ٹیگ کروں

٭٭٭

 

 

 

خاک پر رنگ آسمانی پھر کہاں

ان حسیں جھیلوں میں پانی پھر کہاں

 

پھر یہ دریا اس طرح شاید نہ ہو

موج دل میں بیکرانی پھر کہاں

 

اور تھوڑی دیر آنکھوں میں رہو

یہ ہوا، یہ شب سہانی پھر کہاں

 

پھر کبھی یکجا نہ شاید ہو سکیں

پھینک دے یہ رائیگانی پھر کہاں

 

دھڑکنیں جس کو بیاں کرتی ہیں آج

یہ محبت کی کہانی پھر کہاں

 

پھر نہ شاید کھل سکے یہ باب لُطف

یہ کرم یہ مہربانی پھر کہاں

٭٭٭

 

 

 

آگہی کا دکھ

 

آگہی کا دکھ تم کیا جانو

کس اذیت سے گزرنا پڑتا ہے

جب اس کے سانپ

گلے میں لپٹ جاتے ہیں

اور بھینچتے ہیں

سانسیں رک جاتی ہیں

 

بار بار پھنکارتے اور ڈستے ہیں

صبح و شام، رات دن

ان کا زہر رگ و پے میں اتر جاتا ہے

میرے لہو میں سرایت کرتا ہے

میں ٹوٹتی پھوٹتی رہتی ہوں

کانچ کی طرح

ریت کی طرح

کھنکھناتی ہوئی مٹی کی طرح

 

میری نس نس سے لہو بہتا ہے

شام ہی سے میرے بستر پر آسن جما لیتے ہیں

مجھے سونے نہیں دیتے

کروٹ کروٹ مجھے ڈستے ہیں

لیکن یہ سانپ میں نے خود

اپنے لہو سے پالے ہیں

اپنے وجود کے اندر

شکیب، ثروت اور سارہ نے بھی پالے تھے

انہیں بھی نیند نہیں آتی تھی

آخر کار وہ ریل کی پٹڑی پر جا کر

میٹھی نیند سو گئیے

 

شاید یہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریل کی سیٹیوں سے بہت ڈرتے ہیں

ریل کی پٹڑی کو پار نہیں کر پاتے

٭٭٭

 

 

 

میں اپنے ہاتھ میں مہتاب دیکھتی آئی

نجانے کب سے یہی خواب دیکھتی آئی

 

کوئی چراغ سا جلتا رہا ہے آئینے میں

کوئی ستارہ تہہِ آب دیکھتی آئی

 

کہاں کہاں مرے خوابوں کے استخواں پڑے تھے

کہاں کہاں دلِ بے تاب دیکھتی آئی

 

مجھے یہ موجِ رواں کم دکھائی پڑتی ہے

وہ ناؤ ہوں کہ جو گرداب دیکھتی آئی

 

اُن آنکھوں میں مجھے پھر شام کے ملے آثار

میں جن میں رنگ سحر تاب دیکھتی آئی

 

یہ دل کی بستی بھی جاناں عجیب بستی ہے

جو برف رت میں بھی سیلاب دیکھتی آئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

کانٹوں جیسی تعبیریں تھی پھولوں جیسے خواب

ہم نے چھوٹی عمروں میں بھی کیا کیا دیکھے خواب

 

مجھ کو اس ملبوس میں دیکھ کے خوش تھے سارے لوگ

اور کسی نے یہ نہیں پوچھا لڑکی! تیرے خواب؟

 

ایک جگہ پر سونے والے بھی کب یکجا تھے

اپنی اپنی نیندیں تھی اور اپنے اپنے خواب

 

میں ہوں اب اس بستی کی تعبیروں پر مامور

لوگ سنانے آ جاتے ہیں الٹے سیدھے خواب

 

ایک سکوت تھا تاریکی تھی وقت کی ٹھہری سانس

مٹی نے بارش دیکھی تھی پیڑ نے دیکھے خواب

٭٭٭

 

 

 

 

 

اسے فرصت نہیں ملتی

 

بہت مصروف رہتا ہے

اسے فرصت نہیں ملتی

بہت سے کام ہیں اس کو

کتابوں فائلوں کے جمگھٹے

دفتر کی مجبوری

 

میں کہتی ہوں

تو کہتا ہے

ذرا فرصت ملے تو بات کرتا ہوں

یہی اک حرف معذوری

نہ جانے کب سے سنتی آ رہی ہوں

 

یہی اک حرف معذوری

جو مجھ کو کاٹ کھاتا ہے

میں دن بھر سوچتی رہتی ہوں اس کو

غروب شام سے رہ دیکھتی آنکھیں

کسی زنجیر پر لٹکی ہوئ

امید کی پلکیں

کسی اک چاپ سے

دھڑکن کا رشتہ

کسی اک فون کی گھنٹی

یہی امید و نامیدی کے مابین

سحر سے شام تک کا سلسلہ ہے

 

مرا جی چاہتا ہے

ایک دن میں

بہت آہستگی سے

اس کے پہلو میں کہیں جا کر سما جاؤں

کہ آہٹ تک نہ آئے

 

پھر اس کا ہاتھ پکڑوں

اور ساری فائلوں کو ایک ٹھوکر سے گرا دوں

جدائی کی فصیلوں کو کہیں تاراج کر دوں

پھر اس کا ہاتھ پکڑوں

دور لے جاؤں

وہاں اس پار جس جا

زمیں اور آسماں ملتے ہیں باہم

 

وہاں لے جاؤں اور اس سے کہوں میں

مگر میں کیا کہوں گی

ہزاروں دل میں باتیں ہیں

جو کہنی ہیں

وہ میرے ساتھ ہو گا

ہاتھ میں جب ہاتھ ہو گا

 

سمجھ میں کچھ نہیں آتا

میں اس سے کیا کہوں گی

وہ شاید جانتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اس سے اب ملنا ملانا تو گیا

وہ تعلق والہانہ تو گیا

 

پیڑ بھی شاید نہ اب باقی رہے

آندھیوں میں آشیانہ تو گیا

 

اک ملال رائے گانی ہے فقط

وہ محبت کا زمانہ تو گیا

 

رہ گیا اشکِ رواں کا سلسلہ

آنکھ سے سپنا سہانا تو گیا

 

اب تو ہر اک بات پر جاناں ہے فکر

وہ ہنسی وہ مسکرانا تو گیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

بچھڑنے کا ارادہ کر لیا پھر

رہ غم کو ہی جادہ کر لیا پھر

 

وہی اک خواب جو پیچھے بچا تھا

اُسے بھی آدھا آدھا کر لیا پھر

 

یہی ملبوس مجھ پر پورا اترا

ترا غم ہی لبادہ کر لیا پھر

 

سرِ دل تھا کوئی شعلہ سا لرزاں

وہی شعلہ زیادہ کر لیا پھر

 

الجھتے جا رہے تھے فکر سے غم

سخن کو حرفِ سادہ کر لیا پھر

 

بہت بے تاب تھا ملنے کو مجھ سے

اسے ملنے کا وعدہ کر لیا پھر

 

کتاب دل کو چھوڑا اس نے جاناں

کہیں سے استفادہ کر لیا پھر

٭٭٭

 

 

 

 

لوہے کے جبڑے

 

تمہیں یاد ہو گا

تم نے مجھے پچھلے برس خط میں اپریل بھیجا

جو مجھ تک پہنچتے پہنچتے اگست ہو گیا

لفظ پیلے پتوں کی طرح

فرش پر بکھر گئیے

 

دسمبر کی سرد را توں میں

میں وعدوں کے آتش دان پر

بیٹھی جاگتی رہی

 

میری رگوں میں جما ہوا دسمبر

آنکھوں سے پگھل کر

بہتا رہتا ہے

 

اس برس مجھے

خط میں کچھ نہیں بھیجنا

کچھ بھی نہیں

شاید اذیتوں سے بھری

شاخوں پر

کسی وعدے کی کونپل

پھوٹ پڑے

 

موسموں کا کیا ہے کب بدل جائیں

بے اعتبار لہجوں کی طرح

وقت سب کچھ الٹ پلٹ رہا ہے

شاید تمہارے لوٹنے تک

بہت کچھ ویسا نہ رہے

جیسا تم چھوڑ گئیے تھے

 

لوہے کے جبڑے

مٹی کے ملبوس

کو تار تار کرتے جا رہے ہیں

پل جہاں سے تم پارک کے کنارے

کھڑے دکھائی دیتے تھے

وہ منظر میٹرو بس نے نگل لیا ہے

سنبل کے پیڑوں کی جگہ شاپنگ مال لے چکا ہے

اور ہاں

وہ پھولوں والی دکان

جہاں سے ہم بُکے لیتے تھے

وہاں فاسٹ فوڈ بن گیا

دل کی جگہ انتڑیوں نے لے لی ہے

 

کیا کچھ اور کیسے بدل جاتا ہے

٭٭٭

 

 

 

تیز ہوا کے جھونکے شب بھر ٹکراتے ہیں پیڑوں سے

کتنے پتے آنسو بن کر گرتے ہیں ان شاخوں سے

 

میں بھی تنہا بیٹھی تیری سوچ میں ڈوبی رہتی ہوں

تم بھی باتیں کرتے ہو گے اپنے ملنے والوں سے

 

کرنیں بستر تک آتی ہیں ٹوٹے خواب اٹھانے کو

اندر کے دکھ کب چھپتے ہیں ان کھڑکی کے پردوں سے

 

دیواروں سے اکتاؤں تو دھیان بٹانا پڑتا ہے

خوش ہوتی ہوں باتیں کر کے گلی میں کھیلتے بچوں سے

 

جانے والے جیسے جاتے ہیں ویسے کب آتے ہیں

آنکھیں ویراں ہو جاتی ہیں باتیں کرتی رستوں سے

 

الماری کے اک خانے میں یاد کسی کی رکھی اور

اس کی چابی لٹکا دی ہے آتی جاتی سانسوں سے

 

تیز ہوا سے ٹکرانے میں ایک ہنر تھا کشتی کا

لوگ تماشہ دیکھ رہے تھے بیٹھے دور کناروں سے

 

اب تو اس سے مل کر دیکھوں گی وہ کیسا لگتا ہے

پھولوں سی خوشبو آتی ہے جاناں جس کی با توں سے

٭٭٭

 

 

 

 

مائے تجھ پر واری

 

جب میں تیری کوکھ میں تھی ماں

تو نے میرے بستر اور اسکاف بنے

جانے کیا کیا خواب بنے

میرے حصے کے سپنے بھی

تو نے دیکھے

تو نے پہلی بار مجھے

چوما اور وجود کی

سبھی اذیت بھول گئی

 

مجھ کو چھاؤں میں رکھا

اور خود اوڑھی دھوپ

تو جنت کا پیڑ ہے مائے

تو رحمت چھایا

تو اس رب کا روپ

تیرے چہرے کے مصحف کو

میں بچپن سے پڑھتی آئی

عمر کے زینے چڑھتی آئی

 

میرے خوابوں کی دہلیز پہ پہرہ

دینے والی ماں

تو نے میری گڑیائیں

اور ان کے سپنے گہنے

بکسے میں اب تک رکھے ہیں

 

بیٹوں کے دکھ بھی تیرے دکھ

بیٹیوں کے دکھ بھی تیرے دکھ

ہم کب کھونٹے کی گیاں ہیں

ہم تو ہڈیوں کے کیڑے

تو صبر ایوب ہے جس نے

اپنے تن میں پالا

 

ہم قبروں تک تیرے آنسو

روگ ہیں تیرا

 

تو رحمت کا دھارا ماں

تیری یہ آغوش یہ قربت

جنت کا گہوارہ ماں

تو کعبہ ہے

تیرے گرد طواف کروں میں

تو پھولوں کی کیاری

مائے تجھ پر واری

٭٭٭

 

 

 

 

کیا چیزیں واپس ہو سکتی ہیں ؟

 

پیار کی پہلی ایک نظر وہ

اس کی حیرت

دل کی وہ اک دھڑکن جو پل بھر کو ٹھہر گئی تھی

 

شام اور ڈوبتا سورج

لیک ویو کا سبز کنارہ

جھیل کنارے بکھری یادیں

اور وہ دور افق پر ابھرا ایک ستارہ

 

دیکھ رہے ہو

دیکھ رہے ہو آج بھی ہو گا

لیکن منظر وہ نہیں ہو گا

کیا وہ واپس آ سکتا ہے

 

وہ کینٹین میں بیٹھ کے ڈھیروں باتیں کرنا

اور تمہارا شعر سنانا

میرا اس پر ہنس دینا

اور مجھے بد ذوق وہ کہنا

پھر وہ تمہارا کھو سا جانا

کیا وہ اک اک لمحہ واپس آ سکتا ہے

 

دونوں کا وہ روٹھ کے اٹھنا

پھر وہ رسم و راہ کی باتیں

چاہ کی باتیں

ملنے کا کوئی نیا بہانہ

پھر سے ماننا پھر سے منانا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا وہ واپس آ سکتا ہے

 

اک دوجے کی ایک جھلک کی خاطر

کیمپس کے باہر وہ پہروں بیٹھے رہنا

نظروں سے وہ نظریں ملنا

اور پلکیں جھک جانا

اس خاموشی میں گویائی

چاہت کا افسانہ

کیا وہ بیتے لمحے واپس ہو سکتے ہیں

 

اور وہ تیرے ہاتھ کا لمس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے ہاتھوں پر رکھے وہ پھول

جن کی خوشبو روم روم میں پھیل چکی ہے

اور وہ ستارے جو میری پیشانی پر اب تک روشن ہیں

کیا وہ واپس ہو سکتے ہیں

 

وقت کا دھارا لوٹ کے کب واپس آتا ہے

کیا کچھ واپس ہو سکتا ہے

کچھ بھی نہیں تو

 

ایک سراب ہے

اک دھوکا ہے

ایک خلا کو ایک خلا سے بھرنا شاید

نا ممکن ہے چیزیں واپس کرنا شاید

کیا کچھ واپس ہو سکتا ہے

٭٭٭

 

 

 

جانے پھر کس سوچ میں ڈوبی بیٹھ گئی

باغ تھا شام تھی سرد ہوا تھی بیٹھ گئی

 

میں نے پھر اک پھول کی جانب انگلی کی

میرے ہاتھ پہ آ کر تتلی بیٹھ گئی

 

اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر روکا تھا

میں اس صورت میں کیا کرتی بیٹھ گئی

 

رونے سے کچھ کم تو ہوا یہ دل کا غبار

بارش سے قبروں کی مٹی بیٹھ گئی

 

کس کس گھر کی تاریکی کے کام آتا

ایک دیئے پر ساری بستی بیٹھ گئی

 

سوچ رہی ہوں رات کہاں سے گزرے گی

شام سے دل میں ایک اداسی بیٹھ گئی

 

پھر دنیا کی جانب آنکھ نہیں اٹھی

دل پر ایسی بات کسی کی بیٹھ گئی

 

اب تو تیری عادت بن گئی ہے جاناں

جس گوشے میں جا کر بیٹھی بیٹھ گئی

٭٭٭

 

 

بارش کا پہلا قطرہ

 

بارش کا پہلا قطرہ اور اس کی اہمیت کو

کیا تم جانتے ہو

جب چہرے پر پڑتا ہے

پھر اس مٹی کو نم دیتا

یہ پاتال تلک جاتا ہے

شاید تم اس راحت اور احساس سے ہی ناواقف ہو

میں نے جلتی دھوپ میں عمر گزاری ہے

میں نے اس صحرا میں اپنے پاؤں جلتے دیکھے ہیں

تم اس آبلہ پائی کا دکھ کیا سمجھو

تم تک کس کس راہ سے ننگے پاؤں آنا پڑتا ہے

کتنے کانٹے کتنے آبلے

ان پاؤں سے چلتے چلتے

ہونٹوں تک آ جاتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

دنیا کو جب پہچانی تو کانپ گئی

سر سے جب گزرا پانی تو کانپ گئی

 

پاس رہا تو قربت کا احساس نہ تھا

اس نے جانے کی ٹھانی تو کانپ گئی

 

گھر سے باہر جاں لیوا سناٹا تھا

دیکھی شہر کی ویرانی تو کانپ گئی

 

پھولوں کے ملبوس میں کیسا لگتا تھا

دیکھی پیڑ کی عریانی تو کانپ گئی

 

ہجر کی شب نے جاناں کیا تحریر کیا

دیکھی اپنی پیشانی تو کانپ گئی

٭٭٭

 

 

 

 

اِدھر اِس دوسری جانب

 

تمہارا دوسری جانب یہ چہرہ

مسلسل بے رخی

بے اعتنائی

 

کہو کیا بات آخر دل میں آئی

یہ کیسی بد گمانی ہے

جو رشتوں میں دراڑیں ڈالتی ہے

جو ان سانپوں کو دل میں پالتی ہے

 

محبت کا جو قاتل ہے

کہو نا کیا خیال آیا

یہ ہم سے بے سبب ترک تعلق کا

تمہیں معلوم ہے رشتے بہت نازک سے تاروں پر کھڑے ہیں

ٹوٹ سکتے ہیں

فرازِ کوہ سے نیچے اترنا کتنا مشکل ہے

بلندی سے جہاں پر ہم کھڑے ہیں ذرا جھانکو

اِدھر اِس دوسری جانب

یہ کتنی گہری کھائی ہے

٭٭٭

 

 

 

موجود اور لا موجود کے درمیان

 

آج دل ایک کرب سے بوجھل ہے

ایسا لگتا ہے کہ جیسے

الفاظ

مقفل لبوں سے منحرف

ہونے کو مچل رہے ہیں

شاید یہ

کچھ کہنا چاہتے ہیں

کیا تم نے کبھی قفس میں

کسی پرندے کو پھڑپھڑاتے دیکھا ہے ؟

بالکل ویسے ہی میرے جذبات و احساسات

کسی انجانے خدشات میں گھرے زخمی پرند کیطرح

کہیں سینے میں

پھڑپھڑا کر رہ جاتے ہیں

نحیف و نزار دل کی دیواروں سے لپٹے

بے وقعت و بے مایا الفاظ

رات دن آہ و فغاں کرتے ہیں

ان کی عزا داری سے

اک ایسی سل سینے پر میں

رکھی محسوس کرتی ہوں

جو بظاہر تو لفظ ہیں۔۔۔۔۔۔۔

لیکن باطن میں تمہاری صورت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

من کے نہاں خانوں میں

چسپیدہ ہے، ،، ،، ،

سوچتی ہوں

تم سے یہ رشتہ کیسا ہے ؟

جسے نا تو میں

پیشانی پر اپنی سجا سکتی ہوں

نا ہی تیرے لمس کو جھٹک سکتی ہوں

موجود اور لا موجود کے درمیاں

ایک زنجیر سے لٹکتی ہوئی میں

اپنی سوچوں سے ہی پریشاں ہو کر میں

روز بدل دیتی ہوں ارادہ اپنا

یہی بات ہے کہ میرے

وہ احساسات و جذبات

ان سرد اور منجمد ہونٹوں تک

نہیں پہنچ پاتے

٭٭٭

 

 

 

 

کس کے خیال نے مجھے سونے نہیں دیا

پورا وہ ایک خواب بھی ہونے نہیں دیا

 

کتنے تھے زندگی کے یہ پر پیچ راستے

اک نقشِ پا نے راستہ کھونے نہیں دیا

 

تکیے کا ایک پھول کڑھائی سے رہ گیا

آنکھوں کو ایک خواب پرونے نہیں دیا

 

ٹوٹی کچھ اس طرح سے کہ بکھری ہوں جا بجا

پھر ٹھوکروں نے ایک جا ہونے نہیں دیا

 

بہتی ندی کے سر پہ ہواؤں کا راج تھا

جلتے ہوئے پروں کو بھگونے نہیں دیا

 

وہ آئینہ تھا اور میں پانی کی ایک بوند

مجھ کو مشامِ جاں میں سمونے نہیں دیا

 

گزری ہے یوں تو ایک قیامت مگر مجھے

جاناں بس اِک خیال نے رونے نہیں دیا

٭٭٭

 

 

 

چیزوں کے اندر جھانکنے کی کوشش

 

میں نے ایک سوکھتے پیڑ پر

نظم لکھنا شروع کی

میرے اندر پیلے پتوں کے ڈھیر لگ گئیے

میں نے ہوا پر نظم لکھی

میرے اندر شاخیں پھوٹنے لگیں

پھول میرے ہتھیلیوں سے

باہر نکل آئے

 

میں نے بارش پر نظم لکھی

میری چادر کے پلو بھیگ گئیے

جن کو سکھانے کے لئے

میں نے

دھوپ پر نظم لکھی

سورج سوا نیزے پر آ گیا

پیڑ جلنے لگے

اور پرند مرنے لگے

 

میں نے بادلوں کے لئے ہاتھ اٹھائے

پھر کشتیاں کم پڑ گئیں

لوگ ڈوبنے لگے

 

میں نے ڈوبنے والوں پر نظم لکھنا چاہی لاشیں ہی لاشیں میری چاروں جانب تیرنے لگیں

 

ہر ایک لاش کہنے لگی

پہلے مجھ پر لکھو

پہلے مجھ پر

میں نے اس شور میں

اپنی بھی چیخیں سنیں

 

پھر میرے اندر

ایک گہرے اور پراسرار سکوت نے بسیرا کر لیا

 

اب میں اس سکوت کی میزبانی کرتی ہوں

اسی کے ساتھ باتیں کرتی ہوں

سوتی اور جاگتی ہوں

دیواریں میرے لیئے

لباس بنتی رہتی ہیں

کھڑکیاں اور روشن دان میرے وجود کے گھاؤ ہیں

جس پر

ہر صبح اور ہر شام

اپنا اپنا مرہم رکھتے ہیں

اور مجھ سے کہتے ہیں ہم پر بھی نظم لکھنا جب یہ گھاؤ بھر جائیں

 

گلی میں کھیلتے بچے

کبھی کبھی

کھڑکی کے شیشے سے آنکھیں چپکا کر

اندر جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں

 

انہیں کون یہ سمجھائے

چیزوں کے اندر جھانکنے کی کوشش

شاعر بنا دیتی ہے

٭٭٭

 

 

 

کیا بتاؤں کہ نہیں ایسا نہیں ایسا تھا

وہ مرے وہم و گماں میں بھی یقیں ایسا تھا

 

دل میں رہتا تھا جھلکتا تھا مری آنکھوں سے

میرے ماتھے پہ دمکتا تھا نگیں ایسا تھا

 

آبِ آئینہ میں لرزاں تھے ستاروں کے وہ عکس

آسماں بھی مری آنکھوں میں زمیں ایسا تھا

 

رات اُس بزم میں موجود تھا وہ بھی جاناں

دور بیٹھا تھا مگر دل کے قریں ایسا تھا

٭٭٭

 

 

بھٹکتی آتمائیں

 

کیا تم نے کبھی

بھٹکی آتمائیں دیکھی ہیں ؟

جن کو اس دنیا سے چلے جانے پر بھی

سکون نہیں ملتا

میں بھی اک ایسی ہی بھٹکتی آتما ہوں

 

رستوں پر کھڑی رہتی ہوں

زمانوں کی دھند میں

کھو جا نے والوں کی تلاش میں

قریہ قریہ

ننگے پاؤں چلتی ہوئی

 

یا شاید ہم سبھی بھٹکتی آتمائیں ہیں

اپنے اصل کو ڈھونڈنے میں سرگرداں

زندگی کی حقیقتیں

جو پرت در پرت

تہہ در تہہ چھپی ہیں

ان کو کھولنے اور پانے کی جستجو میں بے چین

 

ہر روز اک نئے انداز میں

لفظوں کا کھیل رچتا ہیں

کچھ تو ان اسرار و رموز کو پا کر مکت ہو جاتی ہیں

اور کچھ

میرے جیسی اس بے ثبات جہان میں

ہاروت اور ماروت کی طرح

ہمیشہ کے لئے بھٹکتی رہتی ہیں

٭٭٭

 

 

 

تنہائی یہ رات اور بارش

پیڑ پرندے پات اور بارش

 

ہجر کے گہرے کالے بادل

یاد آئی اک بات اور بارش

 

سب کے آنگن میں یکساں ہیں

ایک خدا کی ذات اور بارش

 

کاش کبھی کوئی رستہ نکلے

تم ہو میرے ساتھ اور بارش

 

ایسا موسم پھر نہیں ہو گا

ہاتھ میں تیرا ہاتھ اور بارش

 

یاد آیا بچپن وہ کھڑکی

کاغذ قلم دوات اور بارش

 

بادل چھپ کے دیکھ رہا تھا

اس نے پکڑا ہاتھ اور بارش

٭٭٭

 

 

 

دن کے ساتھ اتر جاتی ہوں

شام کے پار ٹھہر جاتی ہوں

 

اس سے بچھڑنے کے اس پل کو

سوچتی ہوں تو مر جاتی ہوں

 

صحرا جتنی پیاس ہے میری

اور اک بوند سے بھر جاتی ہوں

 

میرا ہاتھ یہ پکڑے رہنا

میں خوابوں میں ڈر جاتی ہوں

 

میاں محمد میں تو اپنی

گاگر بھر کے گھر جاتی ہوں

 

اپنے آپ سے ہاتھ چھڑا کر

میں کن رستوں پر جاتی ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

دو لفظوں کی دوری پر چاہتوں کے موسم

 

یاد ہے اس نے مجھ سے کہا تھا

جاناں !

بیٹھو۔۔۔

آج بڑے دن بعد آئی ہو

شاید تم تو ان گلیوں کو ان رستوں کو دروازوں کو

اک مدت سے بھول چکی ہو

رشتوں کے دروازوں سے دروازے ملتے ہیں

اور دیواریں دیواروں سے

آنکھوں سے اوجھل ہونے سے

رشتے کم نہیں پڑ جاتے

اس نے کہا پھر۔۔۔

بیٹھو جاناں ! چائے پیو گی؟

آج تمہیں میں اپنے ہاتھ کی چائے لا کر دیتا ہوں

پی کر مجھے بتانا تم

کیسی ہے یہ

جانتی ہو نا ! مجھے

بھلکڑ سا ہوں میں

چیزیں اکثر رکھ کر کہیں پہ بھی

کھو جاتا ہوں

سوچوں میں گم ہو جاتا ہوں

یاد نہیں رہتا ہے اکثر

چینی ڈالی ہے یا پھیکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکن چھوڑو میری گمشدگی کی باتیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چائے پی کر بتلانا تم

اس میں میٹھا کم یا زیادہ

یا پھیکی ہے

میٹھا ڈالنا بھول گیا ہوں

یا پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کے چہرے پر آئی

اس ایک تمنا کی وہ رنگت

شادابی میں دیکھ رہی تھی

اس کی آنکھیں میرے لبوں سے

داد طلب تھیں

اس کی آنکھیں ڈھونڈ رہی تھیں جانے کیا

میری آنکھوں میں

اس نے کہا پھر

جاناں !

چائے میٹھی ہوئی تو تم جیسی ہے

پھیکی ہوئی تو مجھ جیسی

ہنستے ہنستے چائے کا پھر سپ لیا میں نے

اس کا دھیان بٹا کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پھر با توں با توں میں میں نے

اس کا کپ بھی پی ڈالا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اُس چہرے کی شادابی کے مرجھانے سے پہلے پہلے

اُس اک پھول کے کملانے سے پہلے پہلے

چاہت کے موسم کی سرحد

میٹھے پھیکے

دو لفظوں کی دوری پر ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

تیز ہوا اور بارش

 

یہ بادل جو جھوم جھوم کے مجھ سے آ کے لپٹتے ہیں

اک ایسا ساز سناتے ہیں

جن کی لے پر میرے پاؤں تھرکنے لگتے ہیں

اور اس رقص میں

سرد ہوائیں پیڑوں کی شاخوں سے مل کر جھومنے لگتی ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

اب بھی تو کیا نہیں ملے گا

گھر کا رستہ نہیں ملے گا

 

بیٹھ رہیں اس پیڑ کے نیچے

ایسا سایا نہیں ملے گا

 

دوست ہزاروں مل جائیں گے

لیکن تجھ سا نہیں ملے گا

 

اس نے شاید عشق کیا ہے

اب وہ ہنستا نہیں ملے گا

 

پھر یہ کشتی نہیں رہے گی

پھر یہ دریا نہیں ملے گا

 

پھول سے شب نم مانگ رہا ہے

ایسا پیاسا نہیں ملے گا

 

جاناں اس سے ملتے جائیں

وقت دوبارہ نہیں ملے گا

٭٭٭

 

 

 

 

ایسی نظم لکھوں میں

 

ایسا پہناوا ہو جس میں

میں خود پوری آؤں

بات جو میرے دل میں ہے

وہ لفظوں میں کب آتی ہے

دن جاتا، شب آتی ہے

ایسی نظم لکھوں میں

جس میں دن اور رات کسی اک نقطے پر رک جائیں جیسے تیری آنکھ کا ایک وہ نقطہ

جس پر زیست کی دھڑکن ہے مرکوز

جیسے وہ اک پل

جس میں آج نہ کل

ایسی نظم لکھوں میں

پیڑوں کو میں نظم سناؤں

ان کی شاخوں سے

پھولوں جیسے لفظ گریں

اور ہوا کے جھونکے ان کی خوشبو

دور وہ کہساروں کے پار جہاں پہ تم رہتے ساتھ اڑا لے جائیں

ایسی نظم لکھوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

ڈائیوورس

 

میری بہن کو سانپ نے ڈس لیا تھا

اس کے گھنے سیاہ بال را توں رات سفید ہو گئیے تھے

اس کی شکل پہچاننے میں نہیں آتی تھی

مجھے کاغذ کے سانپ سے

بہت خوف آتا ہے

٭٭٭

 

 

 

مرا بننا سنورنا اپنی جا ہے

ترا دکھ تو وگرنہ اپنی جا ہے

 

بہت برداشت ہے دیوار و در کی

کہاں اس گھر میں ورنہ اپنی جا ہے

 

میں مثل سنگ کہسار گراں ہوں

مرے اندر کا جھرنا اپنی جا ہے

 

بجا ہے چادرِ شب کی دمک بھی

ستاروں کا بکھرنا اپنی جا ہے

 

یہ دریا اپنی رو میں بہہ رہا ہے

کسی کا جینا مرنا اپنی جا ہے

 

گزرگاہ زمانہ بھی ہے لیکن

ترا دل سے گزرنا اپنی جا ہے

 

حسیں وعدے کئے تھے اس نے جاناں

انہیں ایفا نہ کرنا اپنی جا ہے

٭٭٭

ماخذ:

https: //www.facebook.com/pg/%D8%AC%D8%A7%D9%86%D8%A7%DA%BA-%D9%85%D9%84%DA%A9-%DA%A9%DB%8C-%D8%B4%D8%A7%D8%B9%D8%B1%DB%8C-445656702434255/posts/?ref=page_internal

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل