FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

جرمن زبان و ادب

نا معلوم

ماخذ:

۱۔اردو انسائکلو پیڈیا، کاؤنسل برائے فروغ اردو زبان، حکومتِ ہند

۲۔ویب پر ’اردو پیڈیا‘

http://urdupedia.in

 

جرمن زبان و ادب

جرمن زبان و ادب کسی زبان اور اس کے ادب کی داستان کو سماجی و تاریخی ارتقا کے وسیع تر چوکھٹے میں دیکھنا چاہیے ورنہ وہ چند ناموں ، چند عنوانوں اور ان کی تشریحوں کا ایک مجموعہ ہوکے رہ جائے گا۔  جرمن زبان کی سب سے پہلی تحریر آٹھویں صدی عیسوی میں ملتی ہے۔  گویا اس طرح اس کی تاریخ لکھتے ہوئے ہمیں پچھلے بارہ سو برس کا احاطہ کرنا پڑے گا۔  وسطی یورپ میں اس زبان و ادب کو اہم منصب حاصل رہا ہے۔  جو اس وجہ سے کسی قدر پیچیدہ نظر آتا ہے کہ جرمن زبان کی لسانی حدیں اور جرمن دیس کی سیاسی حدیں ایک نہیں رہی ہیں جیسا کہ انگریزی اور فرانسیسی کے معاملے میں ہوا۔  آج جرمن زبان جرمن ڈیموکریٹک ری پبلک، فیڈرل فی پبلک آف جرمنی اور آسٹریا میں بولی جاتی ہے اور سوئیٹزرلینڈ کی تین سرکاری زبانوں میں سے ایک ہے۔  اس کے علاوہ مشرقی یورپ (مثلاً پولینڈ اور رومانیہ ) کے بعد چھوٹے چھوٹے حصوں میں یہ عوام کی مادری زبان ہے اور الساز (فرانس) کے دولسانی صوبوں میں فرانسیسی کے ساتھ ساتھ برتی جاتی ہے۔  ان سارے دیسوں اور علاقوں نے کسی نہ کسی زمانے میں جرمن زبان کی آبیاری اور پرداخت میں حصہ لیا ہے۔  یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ قومیت کا تصور وسطی یورپ میں انیسویں صدی کے آخر آخر میں نمودار ہوا (جرمنی کے معاملے میں یہ ۱۸۷۱ء کی بات ہے ) اس سے پہلے ایک طرح کی سیاسی طوائف الملوکی پھیلی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔  چنانچہ جرمن بولنے والوں کی سرزمین ہمیں مختلف چھوٹی بڑی ریاستوں ، بادشاہتو(مثلاً پرشیا) سلطنتوں (جیسے اسٹروہینیگرین) میں بٹی ہوئی نظر آتی ہے ان ساری سیاسی اکائیوں نے جرمن زبان کی نشوونما میں اپنا حصہ ادا کیا ہے۔

 فرانس اور انگلستان کے برخلاف جرمن بولنے والے علاقوں میں پیرس اور لندن کی طرح کوئی ایسی راجدھانی نہیں رہی جہاں ایسے لسانی تہذیبی معیارات نمو پاسکیں۔  جو باقی سارے علاقے کے لیے نمونہ مانے جائیں۔  چنانچہ وی آنا، زیورچ، برلن، میونخ اور ہامبرگ ان بڑے شہروں میں سے چند ہیں جن کا اہم ادبی کردار رہا ہے۔  ان کے علاوہ بہت سے چھوٹے صوبائی مستقر ایسے ملتے ہیں جن کی ادبی حیثیت اہم ہے کیوں کہ ہر علاقہ ایک تہذیبی خود مختاری کا متمنی اور مدعی رہا ہے۔  یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ ۱۸۰۰ء کے لگ بھگ یورپ کا ادبی مستقر کوئی بڑا شہر نہیں بلکہ ’’وائی مار‘‘ کا چھوٹا سا شہر تھا جہاں گویٹے نے وہ تصنیفیں موزوں کیں جو جرمن ادب ہی کے نہیں بلکہ عالمی ادب کے شاہکاروں میں گنی جاتی ہیں۔  آج تک بھی صورتحال کچھ بدلی نہیں ہے اور جرمن دیس اور جرمنی لسانی علاقے کے سارے بڑے شہر اب بھی اہم ادبی اور تہذیبی مرکزوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔  لہٰذا اس مضمون میں جرمن سے مراد جرمن زبان ہے۔  کوئی خاص ملک یا علاقہ نہیں۔

آٹھویں صدی عیسوی میں جب شارلیمان کی سلطنت درہم برہم ہوئی تو اس کے مشرقی علاقوں میں مقامی جرمن بولیوں کے میل جول سے جرمن زبان کی تشکیل ہوئی جو لاطینی کے مقابلہ میں عوام کی زبان بن گئی۔  لاطینی کلیسا کی زبان یا علمی اور سائنسی زبان کی حیثیت سے باقی رہی۔  جرمن زبان کی یہ صورت گری کوئی آٹھ سوسال تک جاری رہی تب جا کر موجودہ جرمن کے خد و خال نمودار ہوئے۔  آج جرمن زبان بولنے والے صرف پچھلے چار سوسال کی تحریری زبان (لگ بھگ ۱۶۵۰ء) کے بعد کی زبان کو سمجھ سکتے ہیں۔  اس سے پہلے زمانے کی جرمن سمجھنے کے لیے ان کو خاص مطالعے اور کاوش کی ضرورت ہوتی ہے۔  کیوں کہ بعض ظاہری صوری مشابہتوں کے تلے گہرے لغوی اختلافات چھپے ہوئے ہیں۔

رایت کی بنیاد اور صوری و نحوی تجزیے کی بنا پر قدیم جرمن زبان کی حسب ذیل تقسیم مروج ہے :

(قدیم ہائی جرمن) ۷۵۰ء۔۱۰۵۰

(وسطی ہائی جرمن) ۱۰۵۰ء۔۱۳۵۰ء

(ابتدائی جدید جرمن) ۱۳۵۰ء۔۱۶۵۰ء

(جدید جرمن) ۱۶۵۰ء اور اس سے آگے۔

قدیم ہائی جرمن کا خاص ادبی شہ پارہ ’’ہلڈے برانڈ زلیڈ‘‘ (ہلڈے برانڈ کا گیت) مانا جاتا ہے۔  جس سے رزمیہ شاعری کی ایک مخصوص المانوی روایت کا آغاز ہوتا ہے۔  اس روایت کا سب سے اہم کارنامہ وسطی ہائی جرمن کی ’’نی بل اَن گِن لیڈ‘‘ ہے۔  یہ نظم جس کا مواد قبائلی مناقشے فراہم کرتے ہیں ، غالباً اپنی تحریری شکلوں میں بارہویں صدی کی پیداوار ہے۔  یہ نظم ادبی فیضان کا ایک مستقل مخزن بن گئی اور انیسویں صدی میں کئی تصانیف اس کی مرہون منت ہیں۔  ان میں اہم غالباً رچرڈ واگنر کی چار ناٹکی ’’دِیر رنگ دِے نی بل اَن گِن‘‘ اور فریڈرش ہبل کا سہ ناٹکی ڈرامہ سمجھے جا سکتے ہیں۔  بعد میں بدقسمتی سے یہی نظم ایک جنگ جو قوم پرستی کی بنیاد بن گئی اور بیسویں صدی کے فاشسٹوں نے اسے اپنے اغراض کے لیے خوب استعمال کیا۔  اس سورمائی رزمیہ روایت کے علاوہ اس درباری رزمیہ شاعری کا یہی ذکر ضروری ہے جو شاہ آرتھر اور اس کے راونڈٹیبل کے دلیروں کی داستان پر مشمل ہے۔  آرتھر کے اس کیلٹی افسانے کو سب سے پہلے ایک فرانسیسی مصنف کرے تیاں دَترایئے نے ادبی شکل دی تھی اور بارہویں صدی میں اس قصے نے یورپی شہر ت و مقبولیت حاصل کر لی تھی۔  اس کے جرمن ترجمانوں میں ہارنمان فان آیے (۱۱۶۰ء۔۱۲۲۱۰ء) دولفرام فان اے شِن باخ (۱۱۷۰ء تا لگ بھگ ۱۲۲۱ء) گاٹفریڈ فان اسٹراسبرگ (۱۲ویں صدی) اہم ہیں۔

لیکن ہمارے موجودہ نقطہ نظر سے اس زمانے کے ادب کا سب سے اہم حصہ وہ ہے جسے جرمن زبان میں ’’منے سانگ‘‘ کہا جاتا ہے۔  یہ ایک طرح کی رسواماتی تغزلی یا غنائی تصنیف تھی جس میں کسی اونچے طبقے کی عورت کی مدح اور ایک ایسے عشق کا اقرار ہوتا تھا جو خواہشِ وصل سے معرا ہو۔  سماجیات اور نفسیات کے ماہروں کے لیے اس صنف کو جذباتی تخلیص کی ایک مثال سمجھنا کچھ مشکل بات نہیں۔  ایک ایسے وقت جب سماج کے بہت سے تنومند افراد صلیبی جنگوں میں منہمک تھے یہ صنف درباری سوسائٹی کے لیے ایک طرح کی رسمیاتی تفریح کا سامان فراہم کرتی تھی۔  اس پر فرانس کی پروونسائی غنائیہ شاعری کی گہری چھاپ تھی۔

اس صنف کا سب سے اہم نمائندہ غالباً والٹڑ فان دیر گوگیلو ای ڈی (متوفی مابعد ۱۲۲۸ء) کو کہا جا سکتا ہے۔  اس شاعر کی نظموں میں غیر معمولی سیاسی آگاہی اور ایک تقریباً جدید معیار فکر کی آمیزش نظر آتی ہے۔  اس کے علاوہ اس کی شاعری میں پہلی دفعہ ہم کو روایاتی روش سے احتراز اور روایاتی تقاضوں اور شخصی تجربوں کے درمیان ایک توازن ملتا ہے۔  والٹر کے اکثر اشعار کو آج کل کے عہدے کے شاعر پیٹرریو مکارف نے بڑی نزاکت سے جدید جرمن میں ڈھالا ہے۔  ریومکارف کے خیال میں والٹر اسی وجہ سے آج کی دنیا کے لیے با معنی ہے کہ اس کا دور ایک ایسا دور تھا جب جاگیرداری نظام کو تاریخ کے دھارے میں اپنی ناؤ کے ڈگ مگ ہونے کا احسا س ہونے لگا تھا۔  دورِ وسطیٰ کی تہذیب کے بارے میں ہماری معلومات ان تاریخی سرگزشتوں اور قانون رسالوں پر مبنی ہیں جو ہم تک پہنچے ہیں۔  صوفیانہ نگار شات کی اہم روایت بھی، جس نے بڑے بے باک خیال پیکر تراشتے اسی دور میں شروع ہوئی۔

  ایک ہارٹ ہائنرِش سائزے اور یوہانس ٹائلر تیرہویں اور چودہویں صدی کے وہ شاعر ہیں جنہوں نے جرمن زبان میں تحریری علایم و اصطلاحات کی نشو و نما پر اثر ڈالا۔  صوفیانہ روایت کو سولہویں اور سترہویں صدی میں یوکوب بھیمے اور آنجیلس سَلے سیوز نے جاری کیا۔  ان لوگوں کی رمزیاتی یامجازیاتی (Allegorical) اور خیالی تحریروں کا انیسویں صدی کے رومانی لکھنے والوں کے ہاتھ احیا عمل میں آیا۔  چودہویں اور پندرہویں صدی کا مطالبہ یورپی نشاۃ ثانیہ اور مسلک انسانیت (Humanism)کی ان تحریکوں کے پس منظر میں دیکھنا چاہیے جو جرمنی میں بڑی حد تک مذہبی کش مکش اور رومن کلیسا اور سیکولر سیاست کی آویزش کے آوردہ معلوم ہوتے ہیں۔  اس زمانے میں شہروں کی اہمیت میں اضافہ ہوا اور بڑی جرمن یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں آیا (پراگ کی جامعہ سب سے زیادہ قدیم ۱۳۴۸ء) ہے۔  ) بلاشبہ اس عہد کا سب سے بڑا کام بائبل کا جرمن ترجمہ ہے جو مارٹن لوتھر نے اصلی یونانی اور عبرانی نسخوں سے کیا۔  جرمن زبان کے ارتقا پر اس ترجمے کا زبردست اثر پڑا۔  اسی سے گویا جرمن زبان کے جدید محاورے اور تحریروں میں بجائے لاطینی کے جرمن کے استعمال کی ابتدا ہوئی ہے اور یہ بھاشا معتبر سمجھنی جانے لگی۔

جرمن باشندوں کی تاریخ کو سمجھنے کے لیے پندرہویں صدی ایک کلیدی دور ہے۔  ۱۵۲۵ء جرمنی میں کسانوں کی بغاوت کا سال ہے۔  جس سے گویا طبقاتی کش مکش کی ابتدائی ہوتی ہے اور جس کے بڑے گہرے نتائج آگے چل کر مرتب ہوئے۔  اس بغاوت کو جرمنی میں سختیی سے کچل دیا گیا۔  بعض یورپی ممالک مثلاً فرانس میں اس بغاوت کے بعد سے تاریخ نے ایک ترقی پذیر موڑ اختیار کیا اور بات مطلق العنان بادشاہت تک پہنچی جو قومی اتحاد کا باعث بنی۔  لیکن جرمنی میں جاگیردار امیروں کی فتح نے ملک کو بے شمار چھوٹی چھوٹی خود مختار طاقتوں میں تقسیم کر دی جو قومی اتحاد اور یکساں قومی تہذیب کے راستے میں بڑی رکاوٹ ثابت ہوئیں آخر بسمارک نے پرشیا کی غیر معمولی طاقت سے فائدہ اٹھا کر ۱۸۷۱ء میں جرمنی کو سیاسی طور پر متحد کیا۔  کسانوں کی بغاوت کا زمانہ ادبی حیثیت سے بڑا زر خیز دور ثابت ہوا اس عہد میں شورش انگیز تحریروں کی بیشمار مثالیں ملتی ہیں جن کا اب بھی خاطر خواہ تجزیہ ہونا باقی ہے۔  کسانوں کی جنگ کی ناکامی ترقی پسند جرمن مصنفوں کے لیے ایک اہم موضوع بن گئی جس کا بار بار استعمال ہوا۔  چنانچہ انیسویں صدی میں گویٹے اور لاسالے اور بیسویں صدی میں گرہارٹ ہارٹپمان، فریڈرش وولف اور یاک کارسنکے نے اس تحریک سے متاثر ہو کر ڈرامے لکھے ہیں۔  لوتھر کی پروٹسٹنٹ تحریک بہت جلد اس تضاد کا ایک حصہ بن گئی۔  جو ایک طرف پوپ اور رومن کلیسا کے مفادات اور دوسری طرف جرمن ریاستوں کے علاقائی سیکولر مفادات میں پایا جاتا تھا۔  اس تضاد نے اس یورپی دھماکے کو جنم دیا جسے تیس سالہ جنگ (۱۶۱۸ء۔۱۶۴۸ء) کا نام دیا گیا ہے۔  اس لڑائی نے سارے وسطیٰ یورپ کے میدان جنگ میں تبدیل کر دیا۔  اس طرح جرمن تہذیبی ارتقا کو ایک صدی پیچھے ڈھکیل دیا گیا۔

سولہویں صدی درمیانی طبقے کی مرفہ الحالی اور نتیجتاً شہری تہذیب کی ترقی کی صدی تھی۔  اس زمانے میں عوامی قسم کے ادب کو فروغ ہوا جس کا اہم ترین نمائندہ ہانس ساخص (۱۴۹۴ء۔۱۵۷۶) تھا جو اس زمانے کے سب سے زیادہ خوش حال شہر نیوریمبرگ کا باشندہ تھا۔  اس نے کثیر تعداد میں ڈرامے تصنیف کیے ، عام پسند مختصر کہانیوں کی بھی ایک کثیر تعداد ان دنوں تصنیف کی گئی۔  اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ چھاپے کی مشین ایجاد ہو چکی تھی اور اس نے ادب کے زبانی ورثے کو تحریری ورثے میں تبدیل کرنا شروع کر دیا تھا۔  صوفیانہ روایت کی طرح اس لوک تہذیبی کی روایت کا بھی اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں بڑا کامیاب احیا عمل میں آیا۔  لوک کہانیوں کی بنیاد پر کئی شاہکار لکھے گئے جن میں سب سے مشہور گویٹے کا منظوم ڈرامہ ’’ فاوسٹ‘‘ ہے جس کی بنیاد ایک عام پسند کہانی ’’ڈاکٹر فاوسٹ کی کہانی‘‘ تھی۔

سترہویں صدی پرچوں کہ جنگ و جدل کا رنگ چڑھا ہوا تھا اس لیے اس صدی کے لکھنے والوں میں راست یا بالواسطہ اسی رنگ کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔  گرم ملسہاوزن (۱۶۲۲ء۔۱۶۷۶ء) کے ناولوں نے ہسپانوی پکار سک ناول کو ایک جرمن صنف بلڈنگز رومان کی شکل دی۔  جو فرد اور سماج کی آویزش کا مرقع پیش کرتی تھی۔  گرم ملسہاوزن کے ناولوں میں واقعیت، ترک دیا اور وسیع المشربی کی آمیزش ملتی ہے اس عہد کا ادب ترک ماورائیت اور نفس پرستی کے درمیان ایک مسلسل اہتزاز کا منظر پیش کرتا ہے۔  ا س ادب کے ان دو پہلوؤں کے نمونے ہم کو کوئی ریسن کولمان (۱۶۵۱ء۔۱۶۸۹ء)کی مذہبی (کیلین یعنی اس عقیدے پر مبنی کہ حضرت عیسیٰ کا ایک ہزارسال تک دنیا میں جسمانی طور پر راج رہے گا) تصور پرست شاعری، آندرے آس گری فیوز (۱۶۱۶ء۔۱۶۶۴ء) کے حزنیہ اشعار اور ڈراموں ’ہاف مان فان ہاف مانزوالڈ آؤ (۱۶۱۶ء۔۱۶۷۹ء) کی عاشقانہ اور سورمائی شاعری وغیرہ میں نظر آتے ہیں۔  اس ادب کے ایک بڑے حصے کا انیسویں صدی کے رومانٹک مصنفوں نے احیا کیا۔

  جرمن زبان کو جو توانائی لوتھر کے ’’بائبل‘‘ کے ترجمے سے ملی اس میں اضافہ ان لسانی انجمنوں کی وجہ سے ہوا جو جرمن کو بیرونی اثرات (زیادہ تر فرانسیسی اطالوی اور ہسپانیوی اثرات) سے پاک کرنے اور اس کی تحریری اشکال کے معیار بنانے کے لیے قائم ہوئیں۔  اس کام کو بہت سی نظریاتی اور تنقیدی تحریروں سے سہارا ملا جن میں سب سے اہم مارٹن اوپیٹز کی شعریات (Poetics)ہے۔  اوپیٹز نے اس تصنیف میں قدیم روایتی ماخذوں خصوصاً ہاریس کی ان تصنیفات کی بنیا د پر ادبی اور تنقید اصولوں کی تشکیل کی ہے جو سترہویں صدی کے لیے ایک معیاری کی حیثیت رکھتی تھیں اور جن کا زبردست اثر تھا۔  اس کتاب سے شعری نظریے کی ایک پوری روایت ہی شروع ہوئی جس میں شاعر و نقاد ان اصولوں کی جستجو کرتے تھے جن کو پیش نظر رکھ کر اچھا اور قابل قبول شعر کہا جا سکتا تھا۔  اس روایت کے دوسرے اہم نمائندے یوہان کرسٹوف گاٹشڈ (۱۷۰۰ء۔۱۷۶۶ء) یوہان یاکوب برائی ٹنگر (۱۷۰۱۱ء۔۱۷۷۶ء) اور یوہان یاکوب بودمیر (۱۶۹۸ء۔۱۷۸۳ء) سمجھے جاتے ہیں۔  اس روایت کازورانیسویں صدی کے آخری برسوں تک باقی رہا۔

جرمن ادب کے مخصوص خد و خال اپنے یورپی سیاق میں اسی وقت ابھرتے ہیں جب ہم فریڈرش گاٹلیب کلاپٹاک (۱۷۲۴ء۔۱۸۰۳ء) یاگوٹھولڈایفریم لیسنگ (۱۷۲۹-۱۷۸۱ء) اور ہائن رش ہائن نے (۱۷۹۷ء۔۱۸۵۶ء) کی درمیانی صدی کے سارے ادب کو طرز واسلوب کی بنا پر مختلف حصوں میں بانٹنے کی بجائے ، جیساکہ عام قاعدہ ہے ایک تسلسل اور اکائی کی حیثیت سے جانچا۔  اس طرح دیکھیے تو یہ ادب جاگیردار طبقے کے علیٰ الرغم، درمیانی طبقے کے عروج و نجات اور بالآخر شکست کی داستان ہے۔  جہاں فرانس میں آزادی اور مساوات کے نظریوں نے ریاست کی ترکیب میں ٹھوس شکلیں اختیار کیں وہاں جرمنی میں یہ نظریے علاقائی انتشار و طوائف الملوکی سے ٹکرا کر ٹوٹ پھوٹ گئے۔  بور ژواطبقے کی اس ناکامی کی وجہ جرمنی کی صورت حال میں ، بقول مارکس، یہ مخصوص زمانی اچنبہ پایا جاتا ہے کہ جرمن باشندے فکری طور پر تو دوسرے یورپیوں کے ہم عصر ہیں لیکن تاریخی اعتبار سے ان کے ہم عصر نہیں۔  اسی وجہ سے جرمنی میں جو انقلاب برپا ہوئے وہ ذہن انقلاب تھے اور ان کی کارفرمائی فلسفے ، ادب اور تنقید کے میدانوں میں تھی لیکن ساتھ ہی ساتھ یہی حقیقت ان کو آفاقی طور پر معنی بھی بناتی ہے کیوں کہ اگر یہ مان لیا جائے کہ خیالات مادی قوت بن سکتے ہیں تو پھر جرمن ادب کی یہ اہمیت ہے کہ اس نے موجودہ انسانی زندگی کے اہم مسائل کی صورت گری کی ہے ، وہ مسائل جو فردوسماج، تاریخٰ اور ترقی سے متعلق ہیں۔

کلاپسٹاک اور یسنگ اس ادب کے اولین نمائندے ہیں جن کی تصنیفوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی کاوش اور کوشش مطلق العنانی اور استبداد کی مردنی طاری کرنے والی بندشوں کے خلاف ہے۔  کلاپسٹاک نہ صرف اسحصال کا دشمن اور حریت کا حامی تھا بلکہ ان اولین پیشہ ور مصنفوں میں سے تھا جو جاگیر دارانہ سرپرستی پر تکیہ نہیں کرتے تھے۔  اس نے انشا کے پیشے کی تنظیم اور اس کے گروہی مفادات کے تحفظ کے مسائل پر اپنی بہت کچھ توجہ اور توانائی صرف کی۔  کلاپسٹاک ان جرمنوں میں سے تھا جنہوں نے پہلے پہل نہ صرف انقلاب فرانس کی مدح کی بلکہ اس کے بعد کے دہشت پسند دور کی مذمت بھی کی۔  اس انقلاب نے جرمن ذہن پر جو مخصوص اثر ڈالا س کے بنیادی خطوط ہم کو کلا پسٹک میں نظر آتے ہیں۔  غالباً ہولڈرلن (Holderlin ۱۷۷۰ء۔۱۸۴۳ء) اور اے آن یاول (Jean Paul)(۱۷۶۳ء۔ ۱۸۲۵ء) یہی دو ایسے لکھنے والے ہیں جنہوں نے اس ولولے کو آخر تک برقرار رکھا جو اپنے ابتدائی دنوں میں انقلابِ فرانس نے پیدا کیا تھا۔

 ہوڈرلن کی خیال پرست شاعری اور اے آنپاول کے بے حد جدید ناول ایسی چیزیں ہیں جن کی قدر حال ہی میں پہنچانی گئی ہے۔  غالباً یہ جرمنی کے مخصوص حالات کا نتیجہ تھا کہ جرمنوں نے انسانی مسائل کا حال انسانی کردار کی تربیت کو قرار دیا۔  یہ ایک مثالی قسم کا تصور ہے جس میں یہ بات یاد نہیں رکھی گئی تھی کہ اخلاقی اور ذہنی تبدیلیوں کے لیے سماجی ڈھانچے کو بدلنا ضروری ہے۔  درمیانی طبقے کے دانشوروں نے اپنے ترقی پسند تصورات کی تشہیر کے لئے تھیٹر کا انتخاب کیا۔  جیسا کہ شلّر نے بعد میں کہا یہ بات ایک اصول کے طور پر تسلیم کی گئی کہ نسلِ انسانی کی تعلیم کے عظیم الشان پروگرام میں تھیٹر کو ایک تربیتِ اخلاق کے ادارے کی حیثیت سے استعمال کیا جائے۔  یسنگ نے اس نئے بورژوا شعور کی صورت گری کرتے ہوئے بہت سے ڈرامے لکھے اس کے علاوہ اس نے ہامبرگ کے تھیٹر کی نئی تنظیم کی اور تنقیدِ جمالیات اور فن ڈرامہ نویسی پر بہت سی اہم تحریریں تصنیف کیں۔

اسی کے ساتھ ساتھ یہی وہ دور ہے جب جرمن زبان تحریری اور نظریاتی مقاصد کے لئے مستقلاً استعمال ہونے لگی اور اس کا بین الاقوامی موقف مستحکم ہو گیا۔  فلسفی لائب نیز (Leibniz)نے اپنی تحریروں میں فرانسیسی اور لاطینی استعمال کی تھی لیکن اب یہ بدیسی زبانیں متروک ہو گئیں۔  کانٹ (Kant)(۱۷۲۴ء۔۱۸۰۴ء) فشٹے Fichte (۱۷۶۲ء۔۱۸۱۴ء) شلنگ (Shelling)(۱۷۷۵ء۔۱۸۲۴ء) اور ہیگل (Hegel ۱۷۷۰ء۔ ۱۸۳۱ء) جیسے فلسفیوں کے نام اسی دور سے متعلق ہیں۔  ان لوگوں نے ان بہت سے مسائل کی دریافت اور عکاسی کی جن کو اپنی اصلی اہمیت اور روپ میں مارکس اور اینگلز تے بعد میں پیش کیا۔ صرف فریڈرش نطشے (Friedrich Nietzsche۱۸۴۴ء۔۱۹۰۰ء) اور سگنمڈ فرائیڈ (Signmund Freud ۱۸۵۶ء۔۱۹۳۹ء) کے نام ایسے ہیں جن کا علامی فکر پردہ اثر پڑا جس کا مقابلہ مارکس کے اثر سے کیا جا سکتا ہے۔  اسی زمانے میں لگ بھگ تنقید، لسانیات اور تاریخ کے میدانوں میں زبردست کام شروع ہوا۔  جس کی ابتدائی جھلکیاں یوہان گائفریڈ ہرڈر (Johann Gottfried Herder)(۱۷۴۴ء۔۱۸۰۲ء) کی تصنیفات میں نظر آتی ہیں۔  ہر ڈر پہلا نہیں تو شیکسپیئرکے ان پہلے اہم مداحوں میں سے ایک ضرور ہے۔  جنہوں نے ایک طرح کی شیکسپیئر پرستی کی روایت کو جنم دیا جس کے نتیجے میں لوڈوِگ ٹی ایک (Ludwig Tieck)اور اگست ولہلم شلیگل (August Wilhelm Schlegel)جیسے رومنٹک شاعروں کے عظیم شیکسپیئری ترجمے نمودار ہوئے۔  ان ترجموں نے شیکسپیئر کو جرمن ادبی روایت کا جزو بنانے میں مدد کی اور غالباً تاریخ میں اور کوئی مثال ایسی موجود نہیں ہے کہ کسی غیر زبان کے شاعر کوکسی ادب نے اس طرح اپنایا ہو۔

بلاشبہ اس دور کی دو سب سے اہم شخصیتیں فریڈرش شلر (Friedrich Scheller)(۱۷۵۹ء۔۱۸۰۵ء) اور یوبان وولف گانگ گویٹے (Johann Wolfgang Von Goethe)کی ہیں۔  ان کی اہمیت نہ صرف ان کی تحریروں کے اعلیٰ جو ہر بلکہ ان کی آئندہ مسلم الثبوت استادی میں مضمر ہے۔  ان دونوں کا یہ زبردست مقام اور اثڑ ایک مدت کے ان کے مشترکہ ادیبی لائحہ عمل اور تعاون کا بھی نتیجہ ہے۔  شلر کی تحریریں اپنی گہری سیاسی نوعیت کی وجہ سے اہم ہیں۔  اس کے اہم ڈراموں کے موضوعات آزادی، ریاست اور تکمیل انفرادیت ہیں۔  اس نے جمالیات پر اہم نظریاتی کتابیں بھی لکھیں جیسا کہ اوپر کہا جا چکا ہے ، اس کے عظیم تعلیم نسل انسانی کے پروگرام کا ایک حصہ بن گئیں ان تحریروں کا مقصد انسانی ذہن کی پختگی کی طرف رہنمائی کرنا تھا جو ایک آزاد زندگی کے لئے ضروری ہے۔  گویٹے کی طویل زندگی اس سارے دور کا کم و بیش احاطہ کرتی ہے جسے اکثر اوقات گویٹے کا دور کہا جاتا ہے۔  گویٹے نے تغزلی شاعری، ناول نویسی ڈرامہ و تنقید نگاری کے شاہکار تصنیف کیے۔  علاوہ ازیں وہ ایک مصور اور سائنس داں اور دنیا کی تاریخ کا غالباً آخری ہمہ گیر جینیس تھا۔  عالمی ادب کی اصطلاح میں (اور خود اسی نے یہ اصطلاح اختراع کی تھی) اس کی سب سے  اہم تصنیف ’’فاوسٹ‘‘ کا منظوم ڈرامہ ہے جسے مکمل کرنے میں اس نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ صرف کیا۔  ’’فاوسٹ‘‘ کا پہلا حصہ ۱۸۰۸ء اور اس کا دوسرا حصہ ۱۸۳۲ء میں شائع ہوا۔  بایں ہمہ گویٹے کی ادبی اہمیت خود اس کی زندگی میں اس کے ابتدائی ناول ’’نوجوان ورتھر کے کے مصائب‘‘ (۱۷۷۴ء) پر مبنی تھی۔  اس کہانی نے ، جو جاگیر دارانہ مطلق العنانی اور بورژوا عروج کی کش مکش کے دور میں ایک ناکام عشق کی داستان ہے یورپ کے تخیل کو مسخر کر لیا دور ثا n out of His Hoاور اسے تاریخ ادب جدید کی پہلی سب سے زیادہ بکنے والی کتاب سمجھنا چاہیے۔  گویٹے کا ایک اور ناول جس کے دو حصے ’’ولہلم مائٹرس لیریارے ‘‘ (Wilhelm Meisters Lehrjahre)اور ’’ولہلم مائسٹرس وانڈریارے (Wilhelm Meisters Wanderjahre)کہلاتے ہیں۔  اس جرمن نوع کی پیداوار ہے۔  جسے ’’بلڈنگر رومان‘‘ (Bildungsroman)کہتے ہیں۔  اور جو فرد کی تعلیم و تشکیل سے متعلق ہے اور جس کا موضوع سماج کی آویزش اور اشتراک و اجتماعیت کا ارتقا ہے۔

کلاپسٹاک کے برخلاف گویٹے اور شلر دونوں ہی بڑی حد تک جاگیردارانہ سرپرستی کے مرہون منت تھے لیکن درمیانی طبقے کی ترقی اور کتابیں پڑھنے والوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ ہم دیکھتے ہیں کہ لکھنے والے بھی زیادہ سے زیادہ تعداد میں آزاد و خود مکتفی ہوتے گئے ہیں۔  یہ بات ہمیں رومانی ادیبوں کے کارنامے کا تنقیدی جائزہ لیتے وقت جو انیسویں صدی کے پہلے ربع میں یورپ کی ادبی بساط پر چھائے ہوئے تھے یاد رکھنی چاہیے۔  یہ نکتہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ جرمن میں رومانیت ایک گہری ذہنی تحریک کی شکل رکھتی تھی جس کا محض بے محابا جذباتیت سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔

  اس تحریک کے بڑے بڑے لکھنے والوں نووالس (Novalis)لڈ وِگ ٹی ایک (Ludwig Tieck)ولہلم داکن ردڈر (Wilhelm Wackenroder)فریڈڑش شلیگل (Frie drich schlegel)اور اس کا بھائی اگست ولہلم شلیگل آئی۔  ٹی۔  اے ہاف مان، آشم فان ارنیم (Axhim Von Arnim)، کلیمنز برنتانو (Clemens Brentano)جوزف فان آئی شِن ارف(Josef Von Eichendorff)اور غالباً ہائن رش فان کلائسٹ (Heinrich Von Kleist)نے درمیانی طبقے میں اک فکری عینیت کے پنپنے میں مدد دی۔  جس کی ایک خصوصیت اس تضاد کا احساس تھا جو اس طبقے کی اقتصادی ترقی اور اس کی سیاسی بے بسی کے درمیان پایا جاتا تھا۔  غالباً یہی احساس ہے جس نے اس طنز کو جنم دیا جو رومانی انشا پردازوں میں اس قدر ممتاز و منفرد نظر آتا ہے۔  ہمارے نقطہ نظر سے یہ طنز واقعاتِ حیات پر ایک ذریعہ تنقید کی حیثیت رکھتا ہے۔  ایک گہرا تاریخی شعور ان لکھنے والوں کی تحریروں میں نمایاں ہے (یہ شور بھی رومانی دور کی پیداوار ہے اور اوپر ہم یہ بتا چکے ہیں کہ کسی طرح رومان پسندوں نے دور وسطیٰ اور سترہویں صدی کے ادیبوں کو پھر سے زندہ کیا تھا) لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ لوگ اس بات سے بھی واقف ہیں کہ تاریخ کی پچھلی صدیوں کو کسی مصنوعی طریقے سے زندہ نہیں کیا جا سکتا ایک بنیادی خیال جو ان کی تصنیفوں کے رگ و ریشے میں دوڑا ہوا نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان نے جنت کھو دی ہے اور وہاں دوبارہ پہنچنے کے لئے اسے تاریخ کے ارتقائی عمل سے گزرنا ضروری ہے۔  یہ اور اس طرح کے دوسرے موضوعات مثلاً بچپن کے پرسکون دو رمیں پناہ لینے کی نسلی آرزو اور انسان و فطرت کا باہمی ربط جسے تاریخ نے شکست و ریخت کر دی اہے ، ایسے موضوع ہیں جنہیں خیال پرستی کی انتہائی پرواز سمجھنا چاہیے۔

جرمن زبان کو اس زمانے میں زبردست بڑھا وا ملا۔  آرنم اور برنتانو نے بھولی بسری پرانی شاعری کے نمونے اور لوک گیت اپنی ’’ڈِس کنابن ونڈر ہارن‘‘ (۱۸۰۶ء۔۱۸۹۸ء) میں جمع کیے اور گرم بھائیوں باکوب اور ولہلم نے جو لسانیات کے ماہر تھے اپنے مشہور پریوں کے قصے شائع کئے (۱۸۱۲ء۔۱۸۲۲ء) میں اس طرح ادب کی زبانی اور تحریری روایتوں کی ایک تازہ آمیزش ہمیں اس دور میں دکھائی دیتی ہے۔  گرم بھائیوں نے اس لسانی ترقی کو اپنی نحوی نگارشات کے ذریعہ مزید تقویت پہنچائی اور ایک اہم لغت کی تیاری کی بنیادیں استوار کیں۔  مشرقی ادیبات کے مطالعے کی روایت بھی انہی دنوں شروع ہوئی۔  سرمایہ داری اور نو آبادی تسلط کے فروغ نے ایشیائی ادب سے ربط ضبط میں اضافہ کیا۔  کالیداس کی ’’شکنتلا‘‘ اور حافظ کے دیوان سے گویٹے کی پرتحسین دلچسپی کو سبھی جانتے ہیں۔  بہت سے رومانی مصنفوں کے لیے مشرق اور خصوصاً ہندوستان ایک افسانوی پیکر کا روپ رکھتا تھا۔  مشرق سے یہ دلچسپی آج تک بھی باقی ہے۔  اور ایک قدامت پسند یادِ ماضی اور خواہش قرار کی پناہ گاہ ہے۔  اس کا پرتو بیسویں صدی میں ہرمان ہسے (Hermann Hesse) (۱۸۶۲ء۔۱۸۷۷ء) کی تحریروں میں نظر آتا ہے۔  جیسا کہ اکثر کہا جاتا ہے ، اگر یہ مان لیا جائے کہ رومانی انقلاب کا علاقہ ماورائے تاریخ سے ہے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ہائن رش ہائی نے (Heinrich Heine)(۱۷۸۷ء۔۱۸۵۶ء) کا کارنامہ اس تصور کی ٹھوس نفی کی حیثیت رکھتا ہے۔  ہائی نے کی تحریروں میں تاریخ کا رومانی شعور تو اجاگر ہے لیکن ساتھ ساتھ اس کا سیاسی شعور دوسروں کے مقابلے میں بہت زیادہ گہرا ہے۔  اس کی شاعری جس میں ہجو اور بذلہ سنجی کا عنصر نمایاں ہے ، ایک تلخ لہجے میں رومانیت کے اختتام اور سیاسی و ذہنی عقیدہ پرستی کے آغاز کا اعلان ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس دور کے دانشور اپنے عصری مسائل کے ساتھ دست و گریباں ہیں۔

ہائی نے جو پیرس میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور تھا۔  اور جہاں اس کی ملاقات مارکس سے ہوئی تھی ان پہلے ادیبوں میں سے ایک ہے جنہوں نے اشتراکیت کی ضرورت کا ادراک کیا۔  اس معاملے میں جیارگ بشنر (George Buchner)اس کا ہمنوا ہے۔  بشنر بھی اپنی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے جلاوطنی پر مجبور ہوا اور قبل از وقت موت کا شکار بنا۔  انقلاب فرانس پر ایک اہم ڈراما ’’ڈانٹونس ٹاڈ‘‘ (Dantons Tod)ڈانٹون کی موت سے (۱۹۳۴ء۔۱۹۳۵ء) ایک سیاسی تھیٹر کی بنا پڑتی ہے۔  صنعتی ترقی کے مسائل اور جاگیردارانہ ریاستوں کی طرف سے جمہوری طریقوں کی مخالفت نے سماجی مسئلے کو ادبی میدان میں دھکیل دیا۔  رومانیت کے بعد کے لکھنے والوں مثلاً پلاٹن کرسچین ڈی ایٹرش (Christiam Dietrich)گرابے (Grabbe)اور نکولاولینا و (Nikolau Lenau)میں ہمیں اس صورتحال کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔

  اس کو آگے بڑھانے والے مصنف اس تحریک سے وابستہ ہیں۔  جسے نوجوان جرمنی کی تحریک کہا جاتا ہے ان میں جارج ہیرویگ (Georg Herwegu(۱۸۱۷ء۔۱۸۷۵ء) یا فردی نانڈ فرائی لی گراتھ (Ferdinand Freiligrath)۱۸۱۰ء۔۱۸۷۶ء) شامل ہیں۔  ہائی نے کی موت (۱۸۵۶ء) کے بعد کا جرمن ادب خاص طور پر جرمنی کی چھوٹی ریاستوں میں ایک شورہ پشت کردار کا حامل تھا۔  لیکن ۱۸۴۸ء کے جرمن بورژو ا جمہوری انقلاب کی ناکامی کے بعد جن مصنفوں کو عروج ہوا ان کے ہاں ہمیں کھلے سیاسی مسائل سے دلچسپی کی بڑی کمی نظر آتی ہے۔  اس انقلاب کی پشت پر جو قوتیں تھیں وہ بہر حال کسی وقت بھی زیادہ توانا نہیں تھی خصوصاً آسٹریا جیسے بڑے علاقوں میں جہاں فرانز گرل پارزر (Franz Grillparzer)(۱۷۹۱ء۔  ۱۸۷۲) کی تصنیفوں میں ہمیں کلاسیکی ڈرامے کا عروج نظر آتا ہے اور دوسری طرف یوہان نپومک نسٹرائے (Johan NEpomuk Nestroy)(۱۸۰۲۔  ۱۸۶۲ء) کے ناٹکوں میں پر مزاح عوامی کامیڈی کا فروغ دکھائی دیتا ہے۔  سویزرلینڈ اور آسٹریا ایسے علاقے ہیں جہاں ناولوں اور کہانیوں میں ایک شاعرانہ واقعیت پسندی کا رجحان ملتا ہے اس طرز کے اہم نمائندے اڈالبرٹ اسٹیف ٹر (Adalbert Stifter)(۱۸۰۵ء۔  ۱۸۶۸ء) گاڈفریڈ کلر (Gottfried Killer)(۱۸۱۹ء۔  ۱۸۹۰ء) کا نراڈ فرڈی نانڈ میئر (Conrad Ferdinand Meyer)(۱۸۲۵ء۔  ۱۸۹۸ء) تھیوڈوراسٹارم (Theodor Fontane)(۱۸۹۸ء۔  ۱۹۱۹ء) کے ناولوں میں پہنچ کر اس تحریک کو یورپی گیرائی حاصل ہوتی ہے۔  اور وہ اس قابل تبتی ہے کہ فرانسیسی اور انگریزی واقعیت پسندوں سے آنکھ ملا سکے۔

فونتا نے کے پرشیائی سوسائٹی کے بعض مرقعے ان مسائل کا عکس دکھاتے ہیں جو ایک ابھرتے ہوئے درمیانی طبقے اور ایک قدیم و قلعہ بند امرا کے طبقے کی باہمی آویزش کا نتیجہ ہیں۔  لیکن ان واقعیت پسند لکھنے والوں نے فکر کے بڑے بڑے میدانوں جن کو نظر انداز کر دیا تھا۔  آخر جب فطرت پسندتحریک (Naturalistic Movement)کو فروغ ہوا تب جا کر ادیبوں نے صنعتی تمدن کے پیدا کردہ مسائل اور مفلسی کی طرف توجہ کی۔  چنانچہ گرہارٹ ہارپٹمان (۱۸۶۲۔  ۱۹۴۶ء) کا ڈراما ’’ڈی بیبر‘‘ یعنی ’’جولاہے ‘‘ سالیشیا کے جولاہوں کے مصائب کی تصویر پیش کرتا ہے۔  ہاوپٹمان نے بعد میں تسلیم و رضا اور کنارہ کشی کا جو رویہ اختیار کیا اس سے پتہ چلتا ہے کہ بیسویں صدی کی ابتدا میں جرمن دانشور کن مسائل سے دو چار تھے۔  ان کا مسئلہ یہ تھا کہ سرمایہ داری اور اشتراکیت کے باہمی تصادم میں وہ کس فریق کا ساتھ دیں۔

پہلی جنگ عظیم سے قبل کا زمانہ متضاد طرز عمل کا زمانہ ہے۔  ایک طرف سٹیفان جیارگ (۱۸۶۸ء۔  ۱۹۳۳ء) اور اس کے حلقے کی خواص پسند کنالیت اور (۱۸۷۵ء۔  ۱۹۲۶ء) یا ہیو گوفان ہافما نستھال (۱۸۷۴ء۔  ۱۹۲۹ء) کی شاعری تھی اور دوسری طرف تھامس مان اور اس کے ہمسر بھائی ہائن رش مان (۱۸۷۱ء۔  ۱۹۵۰ء) کے ناول اکپرشنٹ گروپ کی پرزور تجرباتی شاعری اور رابرٹ مسل (۱۸۸۰ء۔  ۱۹۴۲ء) یا فرانز کا فکا (۱۸۸۳ء۔  ۱۹۲۴ء) کے ناول تھے جن سے بورژرا تہذیب کی بنیادی انسان دوستی اور مثبت روش اور اس کی سیاسی بے اعتنائی اور تذبذب یعنی اس تحریک کی طاقت اور کمزوری دونوں ظاہر ہوتے ہیں۔

دونوں عالم گیر جنگوں کا درمیانی زمانہ جسے وائی مار’’ دور کہا جاتا ہے ان رجحانوں کے کھلے ٹکراؤ کا زمانہ ہے۔  یہاں سے ادب میں ایک بڑھتی ہوئی واضح تفریق کا آغاز ہوتا ہے جس میں ایک طرف سامراجیت اور نو آبادیت ہے اور دوسری طرف وہ طاقتور مزدور تحریکیں جو روس کے اکتوبر والے انقلاب کے بعد بہت قوی ہو چلی ہیں۔  مستند لکھنے والے اب بھی درمیانی طبقے سے ابھرتے ہیں لیکن انہیں روم بروز اس دور تضاد میں اپنے مقام کے تعین کا مسئلہ در پیش ہے۔

اس سیاق میں برٹالٹ بریخت (۱۸۹۸ء۔  ۱۹۵۶ء) کی تصنیفات غیر معمولی اہمیت اختیار کر لیتی ہیں بریخت کے ڈراموں ، اشعار اور تنقیدوں میں ذہنی اور سیاسی وابستگی نمایاں ہے۔  جرمنی میں جمہوریت کی شکست اور فاشسٹی عناصر کے عروج نے تقریباً سارے اہم لکھنے والوں کو جلا وطنی سے دوچار کر دیا۔  اکسپرشنسٹ اور انسان دوست مفکر جو ہانس بیشر نے سوویت روس کا رخ کیا۔  نطیم آسٹرین ناول نگار ہر مان بروش (۱۸۸۶ء۔  ۱۹۵۱ء) تھامس مان اور بہت سے دوسرے لکھنے والوں نے ممالک متحدہ امریکہ میں پناہ لی مارکسی ناول نگار آنا سیگھرس (پیدائش ۱۹۰۰ء) نے میکسیکو کی راہ لی اور غالباً اکسپر شنسٹ مصنف گاٹفریڈین (۱۸۸۶ء۔  ۱۹۵۶ء) کے سوا جرمنی میں کوئی قابل ذکر دانشور اس دور میں باقی نہیں رہا۔  گاٹفریڈین نے کچھ دن فاشسٹوں کا ساتھ دینے کی کوشش کی اور پھر ایک ایسی ذہنی گوشہ نشینی اختیار کر لی جسے ہجرت کی ایک شکل کہنا چاہئے۔  اس زمانے کے بہت سے فاشزم کے مخالفوں نے جو ترک وطن نہیں کر سکتے تھے یا نہیں کرنا چاہتے تھے۔  اسی ذہنی ہجرت کا وطیرہ احتیار کیا۔  جلا وطنی جرمنی کی ادبی تاریخ میں کوئی نئی چیز نہیں تھی جب سے ہائی نے اور مارکس نے جلا وطنی کو کسی جرمن ریاست میں بود و باش اختیار کرنے پر ترجیح دی تھی۔  اس وقت سے ہجرت جرمن دانشوروں کی سوانح حیات کی ایک امتیازی صفت بن چکی تھی۔  بعض لکھنے والوں پر اس جلا وطنی نے مثبت اثر ڈالا۔  چنانچہ تھامس مان جس نے پہلی جنگ عظیم سے پہلے قوم پر ستانہ رویہ اختیار کیا تھا بہت جلد مخالف فاشسٹی نقطہ نظر سے وابستہ ہو گیا۔

۱۹۳۳ء کے بعد کا سارا اہم جرمن ادب جلا وطنی کی پیداوار ہے اور ان مسائل کو منعکس کرتا ہے جو فاشزم نے پیدا کر دیے تھے۔  اس کی مثالیں ہم کو بریخت کے ناٹکوں اور نظموں اور تھامس مان کے ناول ’’ڈاکٹر فاوسٹس (جس سے فاوسٹ کے اہم موضوع کی تجدید ہوتی ہے ) میں ملتی ہیں۔  جس طرح انیسویں صدی کی اہمیت علاوہ اور باتوں کے بہت کچھ اس صدی کی عینیت پرست تحریروں اور مارکسس اور اینگلز کی تصنیفوں پر مبنی ہے اسی طرح وائی مار دور کی اہمیت اس بات پر بھی قائم ہے کہ اس عہد میں فلسفیانہ مباحث میں اہم اضافے ہوئے جارج لوکاکنس، والٹرینجا امن اور رارنسٹ بلوخ جیسے فلسفیوں نے ادبی بحثوں میں حصہ لے کر ان کے وسیع تر سماجی مفہوم کی طرف رہ نمائی کی۔  دوسری جنگ عظیم کے بعد کا جرمن ادب ایک نیا منظر پیش کرتا ہے۔  جس میں ایک طرف مغرب کی فیڈرل ری پبلک آف جرمنی اور اس کا سرمایہ دارانہ نظام ہے اور دوسری طرف مشرق کی جرمن ڈیموکریٹک ری پبلک اور اس کا اشتراکی نظام ان کے علاوہ بحال شدہ غیر جابندار آسٹریا اور سوئزر لینڈ، جرمنی کی ذہنی حیات کے احیا میں دونوں جرمنیوں کے شریک ہیں جنگ کے دوران کی ذہنی علیحدگی کے سبب لڑائی کے بعد کی نسل کے لیے ایک طرف اپنے ہم عصر یورپیوں کو جا لینا ضروری تھا۔  اور دوسری طرف اپنی اس فراموش شدہ روایت سے رشتے جوڑنا تھا۔  جسے جلا وطن جرمن دانشوروں نے پردیس میں زندہ رکھا تھا۔  اس بازیافت کی پیش رفت میں جن لوگوں نے حصہ لیا ان میں مسلک انسانیت کے نمائندے (تھامس اور رہائن رش مان، ایلیاس کینتی، بروش) مارکسی مصنفین (بریخت، اناسیگرس، جو ہانس بیشر اور فلسفی مثلاً ارنسٹ بلوخ، والٹربنجامن، جیارگ لوکاکس) اور وائی مار عہد کے تجربہ پسند لکھنے والے شامل ہیں۔  جنگ کے بعد کی ابتدائی تحریریں جنگ کی ہولناکیوں کے تلخ مرقعوں پر مشتمل ہیں۔  جیسے وولغگانگ بوشرت کی تحریریں آہستہ

آہستہ ان کی جگہ فاشسٹی ماضی کو مغربی سیاست کے سیاق میں دیکھنے اور سمجھنے کی پرعزم کوششوں نے لے لی۔  اس کی وجہ سے مصنفوں کی ایک سیاسی تقریق عمل میں آئی جس نے گیونتر گراس اور ہائن رش بول جیسے آزاد خیالوں (Liberats)کو ہانس میگنس انزنس برگر، پیٹریو مکارف مارٹن والزر، اور پیٹروائس جیسے بائیں بازو کے میلانات رکھنے والوں سے علیحدہ کر دیا۔  مزدور طبقے کی توانا زندگی نے (میکس فان دیرگیوں ، وائی مار روایت کے ایک اہم حصے کو زندہ رکھا۔

٭٭٭

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید