FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

اردو زبان میں جمالیات شناسی اور اُس میں شکیل الرحمان کا حصّہ

 

 

 

 

               اسیم کاویانی

 

 

 

 

کس کے فروغِ حسن سے جھمکے ہے سب میں نور!

 

انسان صدیوں سے حسن سے وابستہ اس طرح کے سوالوں کے حل ڈھونڈنے کے لیے سرگرداں رہا ہے کہ حسن کیا ہے؟ یہ کیوں کر وجود میں آتا ہے؟ یہ نظارے میں ہوتا ہے یا ناظر میں ؟ یہ موضوعی ہے یا معروضی وغیرہ۔

غالب نے بھی غالباً ایسے ہی سوالات کے ہجوم میں یہ اشعار کہے تھے :

یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں ؟

غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے؟

شکنِ زلف عنبریں کیوں ہے؟

نگہِ چشم سرمہ سا کیا ہے؟

سبزہ و گُل کہاں سے آئے ہیں ؟

ابر کیا چیز ہے؟ ہوا کیا ہے؟

حسن یا جمال کی تفہیم میں سب سے پہلے یونانی فلاسفہ کے افکار ملتے ہیں ، جن میں کہا گیا ہے کہ حسن اور نیکی ایک ہی چیز کے دو نام ہیں ، اورحسن کو روحانی اضطراب کی تسکین اور زندگی کے ارتقا کے لیے ضروری سمجھا گیا ہے۔ بقول مجنوں گورکھپوری ’یہودیوں کے مطرب پیغمبر نے تو یہ تک کہا ہے کہ ’صیہون یعنی کمالِ حسن سے خدا جلوہ گر ہوا ہے۔ ‘

سنتیانا کا قول مشہور ہے کہ ’حُسن دراصل ہماری مسّرت کی معروضی شکل ہے، گویا حسن ہمارے احساسات کی ایک صورت ہے۔ غالب نے بھی ایک جگہ کچھ اسی طرح کی بات کہی ہے:  ع  ہے خیالِ حسن میں حسنِ عمل کا سا خیال! اور ایک دوسری جگہ کہا ہے:

مستیِ بادِ صبا سے ہے یہ عرضِ سبزہ

ریزۂ شیشۂ مَے، جوہرِ تیغِ کہسار

غرض ہر زمانے میں حکما، فلاسفہ، ماہرین نفسیات، ادبا اور شعرا نے اپنے اپنے طور پر حسن کے راز ہائے سربستہ کی گِرہ کشائی کی کوشش کی ہے۔ حسن اور حسن کی افادیت کو سمجھنے ہی کا نام ’جمالیات‘ ہے۔ فی زمانہ اردو ادب میں جمالیات شناسی کے تعلق سے شکیل الرحمان کا نام اہم مانا جاتا ہے۔

شکیل الرحمان نے اپنے ادبی سفر کا آغاز تنقید نگاری سے کیا تھا، اور اُن کا پہلا مضمون ’اردو ادب میں فساد‘ نیاز فتح پوری کے مشہور جریدے ’نگار‘ میں جون 1951ء میں شائع ہوا تھا۔ اُن کی جمالیات شناسی کا سلسلہ ’غالب کی جمالیات‘ نامی کتاب سے شروع ہوا اور پھر اُنھوں نے ’جمالیات‘ ہی کے اِرد گرد اپنی نوشت و خواند کی دنیا آباد کر ڈالی۔ اب عالم یہ ہے کہ اُن کا نام ’بابائے جمالیات‘ کے سابقے کے بِنا نظر نہیں آتا۔ چوں کہ ایسا بھرم  بھی پیدا ہو گیا ہے کہ جمالیات کو اردو میں صحیح طور پر اُنھوں ہی نے متعارف کرایا ہے اور اگر پہلے کچھ لکھا بھی گیا تھا تو وہ برائے نام یا غیر اہم تھا۔ اس لیے یہاں اُن کی جمالیات شناسی پر نظر ڈالنے سے پہلے یہ دیکھ لینا بہتر ہو گا کہ اُن سے قبل اردو زبان میں جمالیات شناسی کا پس منظر کیا تھا؟ اسی مقصد سے اس مضمون کی ابتدائی حصّے میں اردو زبان میں جمالیات کے موضوع کو روشناس کرانے والی کتابوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ کوشش کی گئی ہے کہ ان کتابوں کے سلسلے میں ضروری معلومات فراہم کرنے کے ساتھ کتاب کے مصنف ؍مؤلف؍ مترجم کے پیش نظر رہا جمالیاتی نقطۂ نظر بھی اختصار سے پیش کر دیا جائے۔ مضمون کے دوسرے حصّے میں شکیل صاحب کی سوانح حیات کا پس منظر واضح کرتے ہوئے اُن کی ہندستانی جمالیات اور اردو ادبا کے جمالیاتی رجحانات پر لکھی گئی کتابوں پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔

 

1

 

اردو زبان کی تاریخ کھنگالیں تو جمالیات کی جھلکیاں تقریباً سوا چار سو برس قبل کی ابراہیم عادل شاہ کی ’کتابِ نورس‘ (بزبانِ دکھنی) میں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ اگرچہ اس کا موضوع موسیقی ہے اور یہ راگ راگنیوں کی تصریحات کا مجموعہ ہے، لیکن اِن راگ راگنیوں کے علوئے تخیل اور حسنِ تشبیہات کی بنا پر اس کتاب کی شعری اور ادبی اہمیت بھی مسلّم ہے۔

کوئی ایک صدی قبل مولانا عبدالماجد دریابادی نے اردو میں نفسیات کی غالباً اولین کتاب ’فلسفۂ جذبات‘ (مسلم پرنٹنگ پریس لکھنؤ۔ اڈیشن 1914ء) کے نام سے لکھی تھی۔ اس کا باب سُوم ’حظ و الم‘ سے متعلق ہے اور ان احساسا ت کا جمالیات سے تعلق ظاہر ہے۔ کتاب میں لذت و الم یا کرب و انبساط کے محرکات، اُن کے پنپنے، تبدیل ہونے اور منتقل ہونے کی نفسیاتی توجیہات دیکھی جا سکتی ہیں۔

حیرت تو اس پر ہوتی ہے کہ حالی اور شبلی کے ہم عصر مرزا رُسوا نے بیسویں صدی کے ربع اوّل میں اپنے تنقیدی مراسلات میں جو ’معیار‘ (لکھنؤ) اور بعد ازاں ’زمانہ‘ (کانپور) میں شائع ہوئے تھے، جمالیات پر بڑی کارآمد بحث کی ہے۔ یہاں اُن کے ایسے مُراسلات کے چند اجزا سمیٹنے کی کوشش کرتا ہوں :

رقم طراز ہیں کہ ’حسن تناسب و توازن کا نام ہے لیکن یہ شے یا عناصر کے اجزا ہی میں نہیں ہوتا بلکہ ناظر کی شخصیت اور عناصر کے درمیان بھی ہوتا ہے گویا حسن ایک Relationshipہے جو ایک طرف مشہود کے اجزا اور دوسری طرف شاہد و مشہود میں اپنی سطح پر قائم ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے حسن بہ یک وقت خارجی بھی ہے اور داخلی بھی۔ وہ بذات خود بھی حسین ہے اور اسے حسین بنانے میں دیکھنے والے کے اندازِ نظر کا بھی دخل ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہماری حسِّ جمال تکمیل کے احساس سے آسودہ ہوتی ہے اور تکمیل کا احساس توازن اور تناسب سے پیدا ہوتا ہے۔ حسِّ جمال کی آسودگی ارتکازِ توجہ کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اِس کے علاوہ اُن کی ’قبض و بسط‘ کی تشریح، حو اس خمسہ کے درمیان دیگر حواسوں کا اشارہ اور تخیّل کی دو اقسام (ابتدائی و ثانوی) کی بحثیں آج بھی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں اور ہمیں مرزا کی فکر و نظر کی گہرائی اور ذہانت کا احساس کراتی ہیں۔ ڈاکٹر محمد حسن نے ان مراسلات کو اپنے دیباچے، تعلیقات اور حواشی کے ساتھ ادارۂ تصنیف (علی گڑھ) سے 1961ء میں کتابی صورت میں شائع کر دیا تھا۔

مرزا رُسوا کے یہاں علم النفس کی روشنی میں محاسن شاعری کے تجزیے کی بحث میں جمالیات ایک ضمنی موضوع تھا البتہ بنیادی طور پر جمالیات کے بعض پہلوؤں پر معنی خیز بحث 1930ء میں چھپی کتاب ’رس یعنی فلسفۂ انبساط‘ میں ملتی ہے، اگرچہ اس کتاب کا تذکرہ کہیں نہیں ملتا۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، سنسکرت لفظ ’رس‘ کو اردو کے حظ، انبساط  یا لذّت کا مترادف گردانا گیا ہے، جب کہ ’رس‘ کا لفظ زیادہ معنوی وسعت کا حامل ہے۔ اس کے مصنف پنڈت مولوی حبیب الرحمان شاستری فاضلِ الہیات اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں سنسکرت کے لکچرر تھے۔ اُنھوں نے مسّرت وانبساط کے سرِّنہاں کی تلاش و تحقیق سے استنباط کر کے وحدت الوجود کا پیغام بھی پہنچانے کی کوشش کی ہے، اور سنسکرت ادبیات کے حوالوں کے ساتھ صوفیائے اکرام اور بائبل کی آیات کو مثالوں میں اس حسنِ نیت کے ساتھ پیش کیا ہے کہ ’مختلف فرقے ایک دوسرے کی تہذیب و شائستگی اور دماغی و ذہنی خوبیوں سے آشنا ہو کر باہم شیر و شکر ہو جائیں۔ ‘

مصنف نے لکھا ہے کہ ہر انسان کے دل میں جذبات و خیالات کا سمندر موج زن ہوتا ہے۔ اُنھیں میں فطری اور لطیف جذبات یا حسّیاتِ باطنی (رجحان یا ذوق کی حالت میں ) مضمر ہوتے ہیں ، جو کسی (فنونِ لطیفہ وغیرہ کے) تجربے یا مشاہدے کے ذریعے ہمیں ایک خاص حظ و انبساط پہنچاتے ہیں۔ ان جذبات کے حظ و انبساط کے اسباب میں مصنف نے محرک (Excitant) کی دو صورتوں : (1) محرکِ اساسی (Basic Cause)، (2) محرکِ مہیج (Inflaming cause) کی نشان دہی کی ہے، جن کے ذریعے سے پیدا ہوئے اثر اور ادراک سے ہم محظوظ ہوتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’ادراکِ پیہم یا تاثر کی ضرورت صرف رس سے لطف اندوز ہونے کے لیے نہیں ہے بلکہ کمال انسانی کے انتہائی مدارج پر پہنچنے کا راز بھی اِن دو صفتوں میں مضمر ہے۔ ‘ اُنھوں نے اس سلسلے میں پیدا ہونے والے اِن سوالات پر کہ کیا محرک و معاونینِ محرک ’رس‘ کے اجزائے ترکیبی میں شامل ہیں؟ ’وہ علّتِ مادّی ہیں یا علّتِ مظہرہ (ظاہر کرنے، علم کرانے والے) ہیں ؟ دل چسپ بحث کی ہے اور یہ نتیجہ پیش کیا ہے کہ’ رس‘ علّتِ مادی اور علّتِ مظہرہ نہ ہونے کے باوجود اس اعتبار سے ایک نرالی علت ہے کہ وہ محرکات کے جذبۂ لطیف کے ساتھ اپنے وجود کو متجلی کر دینے سے رس (حظ، انبساط) کی صورت میں ظہور پذیر ہوتی ہے۔

ویسے ہماری زبان کو جمالیات سے متعارف کرانے کا کریڈٹ مجنوں گورکھپوری کے کتابچے ’تاریخ جمالیات‘ (یعنی ’فلسفۂ حسن پر مختصر تاریخی تبصرہ) کو دیا جاتا ہے۔ مجنوں کا مقالہ 1931ء میں اُن ہی کے جریدے ’ایوان‘ میں دو قسطوں میں ، بعد ازاں 1935 ء میں کتابچے کی صورت میں شائع ہوا تھا۔ اس کا دوسرا اڈیشن دو ابواب کے اضافے کے ساتھ (کُل102صفحات) انجمن ترقی اردو (ہند) نے 1959ء میں شائع کیا تھا۔ اضافے میں کروچے کا فلسفۂ جمال شامل ہے۔ جس کا کہنا تھا کہ فنون لطیفہ کا اظہار انسان کی نجات کا بہترین ذریعہ ہے۔ مجنوں کے کتابچے میں یونان و روم سے لے کر جدلیاتی مادیت کے تناظر میں جمالیات تک کا تذکرہ مجمل طور پر موجود ہے۔ اُنھوں نے اپنے مقدمے میں لکھا ہے کہ ’جمالیات‘ کی اصطلاح Aestheticsکا پوری طرح احاطہ نہیں کرتی، جیسا کہ اسے حسیات +ذوقیات+وجدانیات پر محیط ہونا چاہیے، اسی طرح لفظ ’حسن‘ کی وسعت کو کسی ایک تعریف میں سمویا نہیں جا سکتا۔ مجنوں نے حسن کو انسان کی اصلی فطرت بتایا ہے اور لکھا ہے کہ زندگی کی بقا، فروغ اور مسرت کا نظم حسن ہی پر منحصر ہے۔ اسی لیے Natural Selection کے عمل نے بھی حسن کی بقا کو ملحوظ رکھا ہے۔ جو انواع صفحۂ ہستی سے نابود ہو گئیں ، وہ نہ صرف موجودہ انواع کے مقابلے میں کم چست و چالاک تھیں بلکہ بھدّی اور کریہہ بھی تھیں۔

مجنوں کے مقالے سے لکھنے والوں کو ایک نیا موضوع ہاتھ آگیا۔ وقفے وقفے سے جمالیات کی تشریح و تعارف میں کئی اور کتابچے شائع ہوئے۔ مثلاً محمد صادق چینوٹوی کا کتابچہ ’حسن کار‘ (قصر الادب، آگرہ۔ 1933ء) ریاض الحسن کا ’فلسفۂ جمال‘ (ہندستانی اکاڈمی، الہٰ آباد۔ 1935ئ) ابوالنظر رضوی کی ’نفسیاتِ جمال‘ (1946-47ئ) وغیرہ، لیکن ان کتابچوں کو فلسفۂ جمالیات کے سمجھنے اور سمجھانے کی طالب علمانہ کوششوں سے زیادہ اور کچھ نہیں کہا جا سکتا، جو چنداں قابل التفات نہیں۔

1960ء میں ضیا پبلشنگ ہاؤس، لکھنؤ سے محمد مظفر حسین کا اہم مقالہ ’فنون لطیفہ اور جمالیات (فن، فنکار اور عمل)‘ منظر عام پر آیا تھا۔ ساڑھے تین سو سے زائد صفحات کا یہ مقالہ سات ضمنی عنوانات پر قائم ہے اور اس میں فلسفۂ جمالیات کی گتھیوں کو سلجھانے کی سنجیدہ کوشش کی گئی ہے۔ مصنف کی نظر میں ’حسن‘ ہر جگہ تناسب، ہم آہنگی، رِدم (تواتر) اور سیمٹری (Symmetry) سے مربوط ہے، اور جمالیاتی قدر کی بنا ہی پر ہم سکون، مسرت، طمانیت اور لطف سے ہم کنار ہوتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ جمالیات کا بنیادی تعلق احساس سے ہے اور وہی جمالیاتی تجربوں کا باب الداخلہ ہے، لیکن کیوں اور کیسے کی بحث نے اسے فلسفے کا موضوع بنا دیا ہے۔

اُن کے پیش کردہ مباحث کے چند نتائج یہ ہیں کہ

٭حسن کو مجرّد بالذات نہیں سمجھا جا سکتا۔

٭جمالیاتی قدروں کی اصل تو ہئیتیں ہی ہیں ، مگر فن کار کا احساس اور تخیل ان کو متعین یا متشکل کرنے میں دخیل ہوتا ہے۔

٭ ہر فنکار کا تصورِ حسن اُس کا انفرادی عمل ہے اور یہ اُس کی اُفتادِ طبع، مقام اور ماحول کے اعتبار سے مختلف ہوسکتا ہے۔

٭ آخر میں اُنھوں نے جمالیات کی تفہیم میں معاونت کرنے والی آٹھ دس قدریں بھی متعین کی ہیں۔ اُنھوں نے ان سوالات سے بھی بحث کی ہے کہ جمالیاتی ردِّ عمل کی نوعیت کیا ہے؟ اس کے مشتملات اور محتویات کیا ہیں ؟ ان جذبات کو اُبھارنے والی قدروں کے عوارض و خصوصیات کیا ہیں ؟ نیز کیا انسان اپنے فن کے اظہار میں اپنے ذاتی معروض و عوارض سے اپنے ادراک و فہم کو منزّہ رکھ سکتا ہے؟ اگر نہیں تو اُس کا نتیجۂ فن کتنا اصلی ہو گا اور کتنا ادراک و فہم پر مبنی!

یہ مقالہ دراصل محفلِ احباب میں سنانے کے لیے مصنف کے مختلف اوقات میں لکھے گئے مضامین کا مجموعہ تھا، جنھیں نظر ثانی کے بنا شائع کر دیا گیا تھا، اس لیے متعدد جگہوں پر غیر ضروری تفصیل اور تکرار اور کہیں کہیں ربط و تسلسل کی کمی کھٹکتی ہے، بہرکیف یہ مقالہ اردو میں جمالیات فہمی کے ارتقائی سفر کی ایک اہم کڑی کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

نصیر احمد ناصر کی اہم ترین تالیف ’تاریخِ جمالیات‘ دو جلدوں میں بالترتیب 1962ء اور1963ء میں منظر عام پر آئی تھی۔ مجلسِ ترقیِ ادب لاہور کی مطبوعہ تقریباً ساڑھے گیارہ سو سے زائد صفحات پر مشتمل اس کتاب میں مؤلف نے انتہائی عرق ریزی اور سلیقے سے فلسفۂ جمالیات کی تصریحات اور تشریحات میں دنیا بھر کے چنندہ مفکرین کے بکھرے ہوئے افکار کا خلاصہ پیش کر دیا ہے۔ مؤلف نے جمالیات جیسے ’اجنبی موضوع‘ (سابقہ حوالوں کی روشنی میں اتنا اجنبی بھی نہیں ! اسیم) کی اردو میں تاریخ لکھنے کے اپنے ہمت و حوصلے کو ’چیتے کے جگر، شاہین کی نظر اور پروانے کے سوزو جنوں ‘ سے تعبیر کیا ہے۔ اِن شاعرانہ فخر و مباہات کے باوجود اس کتاب کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

مؤلف نے کتاب کی تمہید میں لکھا ہے کہ جمالیات فلسفے کا ایک شعبہ ہونے کے باوجود ایک مستقل حیثیت اختیار کر چکا ہے اور جرمنی نے Aesthetic(جمالیات) کی اصطلاح کو پہلی بار مروّجہ مفہوم میں استعمال کر کے اسے مستقل مضمون کا درجہ عطا کر دیا ہے۔ ’ اب اس کی وسعت و گیرائی کُل زندگی پر محیط ہے اور علم کا کوئی گوشہ بھی اس کے حلقۂ اثر سے باہر نہیں ، لیکن اگر اس کے وسعتِ موضوع کے حدود کی حکیمانہ انداز میں تعیین کرنا چاہیں تو ہمیں اسے حسن و فن کے عوالم تک ہی محدود کرنا پڑے گا۔ ‘

جیسا کہ دیکھا گیا ہے پاکستانی مصنفین عموماً اسلامی اور اقبالی اثرات سے مغلوب ملتے ہیں۔ یہاں بھی کتاب الہٰی ’قرآن‘ کو جمالیات کا خزانہ اور تجلّیات قرآنی سے متمتع ہونے کی بِنا پر اقبال کو ایک عظیم مفسِّر جمالیات قرار دیا گیا ہے اور ان کی تفصیل میں بالترتیب تقریباً ستّر اور ساٹھ صفحات مختص کیے گئے ہیں۔ جبکہ دنیا بھر کے مفکرین جمالیات کے لیے ایک، دو، چار صفحات سے لے کر زیادہ سے زیادہ تیس صفحات وائٹ ہیڈ کے لیے نظر آتے ہیں۔ جمالیاتی نقطۂ نظر سے روسیوں کو اس بنا پر ’حسن کور‘ (beauty blind) قرار دیا گیا ہے کہ جو قوم خدا کی منکر ہو، وہ نیکی بدی اور پاکیزگی و طہارت کی قدروں سے کس طرح آشنا ہوسکتی ہے! مؤلف نے مانا ہے کہ ’ایشیا تہذیب انسانی کا منبع اور ثقافت کا بانی ہے اور اسی نے دنیا کو علم و فن سے روشناس کرایا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اُنھوں نے ’حسن و عشق کے رفیع ترین مقامات تک پہنچ جانے والے ایشیا کی تصوف اور بھگتی میں گم شدگی‘ کا قلق بھی جتایا ہے اور ہمیں قلق ہے کہ مؤلف نے ایشیا کے عظیم جمالیاتی ورثے کو شاملِ کتاب نہ کر کے کور چشمی کا ثبوت دیا ہے۔ مؤلف نے جہاں قرآن کی جمالیات کے ساتھ ’اس کی فصاحت و بلاغت، حکمت و رفعت کی بعید از موضوع تفصیلات میں جوشِ عقیدت کا ثبوت دیا ہے، وہیں جوشِ محبت میں اقبال کی تحسینِ جمالیات کا پہلو اُن کے محاسنِ شاعری پر ایک طویل تاثراتی مقالے میں ڈھل گیا ہے۔ کاش اس علمی کتاب کو اُنھوں نے اپنے ذاتی تاثرات اور مذہبی جذبات سے الگ رکھا ہوتا!

مؤلف کا یہ میلانِ طبع مقدمۂ کتاب میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ رقم طراز ہیں کہ ’حسن چونکہ فطرت و کائنات کا جوہر ہے، لہذا یہ ایک ازلی و ادبی حقیقت ہے۔ اس اعتبار سے یہی ایک قائم بالذات شے ہے‘، اور باقی سب عرض ہی عرض ہے۔ ‘ اور جمالیات کے معروضی اور موضوعی نظریوں کا خلاصہ یوں ہے کہ جن لوگوں کے نزدیک یہ کائنات ’موجود بالذات‘ ہے، وہ حسن کی معروضی حیثیت کو تسلیم کرتے ہیں اور جن کے نزدیک یہ کائنات ’موجود فی الذہن‘ ہے ، وہ اس کی موضوعی حیثیت کے قائل ہیں۔ تصوّریت کے اس مکتبِ فکر کے قائل کہتے ہیں کہ حسن کی ایک صورت تو ہے لیکن وہ موضوعی ہے۔ وہ اگر عرض ہے تو ایسا عرض ہے جس کا تعلق صرف ہمارے ذہن سے ہے، لہذا حسن بھی ہمارے تصور و تخیل اور جذبہ و خواہش ہی کی تخلیق ہے اور اس طرح یہ بھی کائنات کی طرح موجود فی الذات نہیں ، موجود فی الذہن ہے۔ مؤلف کا ماننا ہے کہ ’تصوّریت‘ کے اثر و نفوذ نے فلسفۂ جمالیات پر جو اپنا قبضہ و تسلط جمایا ہے، اُس سے نجات دلائی جا سکتی ہے تو صرف ’قرآن حکیم کے اُصولِ وحدتِ جمال‘ سے۔ بہر طور مصنف کے ان قابلِ بحث معروضات کے باوجود دنیا کے نام ور مفکرین کے نظریہ ہاے جمالیات کے بنیادی نکات سمجھنے کے لیے اس کتاب کی اہمیت مسلّم ہے۔

مجلسِ ترقیِ ادب لاہور ہی سے 1963ء میں میاں محمد شریف کی قابلِ مطالعہ کتاب ’جمالیات کے تین نظریے‘ شائع ہوئی تھی۔ جو تین تفصیلی مقالوں (’ارسطو کا نظریۂ المیہ، کروچے کا نظریۂ حسن و اظہار، اور’ حسن معروضی ہے یا موضوعی!‘) اور دو ضمیموں پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں متعلقہ موضوعات کے فکری مباحث کا تفصیلی تجزیہ موجود ہے اور غالباً اس معیار اور وضاحت کے ساتھ ان موضوعات پر اُس وقت تک اردو میں نہیں لکھا گیا تھا۔

اگرچہ ہندستانی جمالیات کی تحقیق و تلاش میں شکیل الرحمان کا کام بڑی اہمیت کا حامل ہے، لیکن قاضی عبدالستار اپنی تالیف ’جمالیات اور ہندستانی جمالیات‘ کے ذریعے 1977ء ہی میں اس کی نیو کا پتھر رکھ چکے تھے۔ قاضی صاحب نے بہت سلجھے ہوئے پیرائے میں اس موضوع پر بحث کی ہے اور اختصار کے ساتھ بنیادی باتوں کااحصار کیا ہے۔

قاضی صاحب کے بقول جمالیات کے سارے رموز اب بھی سلجھ نہیں پائے ہیں۔ ایک عرصے تک تو پوری طرح یہ بھی نہ طے ہوسکا کہ یہ نفسیات کا مسئلہ ہے یا فلسفے کا یا سائنس کا؟ یہ اگر نظّارہ ہے تو ناظر کی نظر کا کرشمہ ہے اور نفسیات کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ اگر جمالیاتی پیکر ہے اور انسانی احساسِ جمال کو متحرک کرتا ہے تو یہ فلسفے کا مسئلہ بن جاتا ہے کہ وہ اسے دوسرے محرکات ذہنی سے ممیز کرے۔ ۔ ۔ ۔ اسے حل کرنے میں ماہرین نفسیات اس لیے سپر انداز ہو گئے کہ احساس جمال کی سطح مختلف لوگوں میں مختلف ہے اور یہ بدلتا بھی رہتا ہے، اس لیے جمالیاتی معیار کی تعیّنِ قدر کا پیمانہ طے کرنا ممکن نہیں ، سائنس کے لیے پیکرِ جمال کے عناصرِ ترکیبی کو جُدا جُدا کر کے تجزیہ کرنا ممکن نہ ہوا۔ آخر میں وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جمالیات کو سمجھانے میں فلسفے ہی سے زیادہ کامیابی حاصل ہوئی ہے۔

وہ رقم طراز ہیں کہ قرون وسطا میں جمالیات کا مطالعہ مختلف علوم (مثلاً مابعدالطبیعات وغیرہ) کی ضمنی صورتوں میں ہوتا رہا تھا۔ ایک علاحدہ علم کے طور پر جمالیات کا ظہور شعریات اور دوسرے فنون کے ارتقا کے بعد ہوا۔ شعریات کا مطالعہ رس اور لفظیات کی موشگافی پر منحصر ہوتا ہے، جب کہ جمالیات کی توجہ آرٹ (فنون لطیفہ) کے بنیادی عناصر پر مرکوز ہوتی ہے۔ قاضی صاحب کے لفظوں میں جمالیات شعریات کی ترقی یافتہ اور مہذب ترین صورت ہے۔ ہندستانی جمالیات بھی بنیادی طور پر فنون لطیفہ پر محیط رہی ہے، جس میں فن تعمیر، فن موسیقی اور فن شاعری شامل ہیں۔ فن مصوری اور فن سنگ تراشی کو ہمارے عالموں نے فن تعمیر ہی کے اجزا مانا ہے۔ قاضی صاحب نے اپنی کتاب میں ڈرامے، فن تعمیر اور فن موسیقی پر  بحث کی ہے، ضمناً نورس، آرٹ اور علامت کی جمالیاتی قدروں کا بھی تذکرہ کیا ہے، اور واضح کیا ہے کہ اس سچائی کے باوجود کہ احساسِ جمال ہی آرٹ کی تخلیق کا موجب ہوتا ہے، وہ محض فنونِ لطیفہ تک محدود نہیں بلکہ اُن کے باہر بھی موجیں مار ر ہا ہے۔

ظاہر ہے کہ حسن و جمال کے معنوی ابہام پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔ اس سلسلے میں اُنھوں نے برک کے’ نظریۂ جلال‘ کا بھی ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ عظیم و جلیل وہ اشیا ہوتی ہیں جن کو ہماری نگاہ آسانی کی ساتھ گرفت میں نہیں لے پاتی، مثلاً خدا، جنت، قیامت وغیرہ۔ ان کا خیال خوف و تحیر بھی پیدا کرتا ہے جو کہ جمالیاتی اثر کے برعکس ہے۔ جون ڈینس نے اپنے کچھ احساسات کے اظہار کے لیے ’ہولناک مسرت‘ اور ’مسرت بار خوف‘ کی ترکیبیں وضع کی تھیں اور اٹھارھویں صدی کے مفکروں نے جمالیاتی دائرے میں اگر عظمت و جلال کو مرکزِ فکر بنانا شروع کیا تھا تو اُنیسویں صدی کے مفکرینِ جمالیات نے اس میں نہ صرف ہیبت و جلال اور طنزو مزاح کو قبول کر لیا بلکہ نفی ِ جمال کی علامت ’بدصورتی‘ تک کو اظہاریت کی سطح پر اس دلیل کے ساتھ شامل کر لیا کہ ’بدصورتی وجود ہی نہیں رکھتی، اِس لیے کہ جن اشیا کو ہم بدصورت سمجھتے ہیں ، اُن کا حسن دشواری سے منکشف ہوتا ہے، وہ پیچیدہ ہوتی ہیں یا پھر اُن کی قدرِ جمال کی سطح مختلف ہوتی ہے۔ ‘ جمالیات کی اس طرح کی معنوی توسیع و توضیح نے اس کے افہام میں مدد کم کی، اِبہام کو زیادہ بڑھایا ہے۔

اس کے باوجود قاضی صاحب کے پیش کردہ مبحث کی تائید سوستانی ماہر جمالیات کروساز (Jean Pierre de Crusaz) کے یہاں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ اُس کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم کسی المیے یا تکلیف دہ شے سے حظ اس سبب سے حاصل کرتے ہیں کہ اُس کا تعلق حسن سے ہوتا ہے۔ حسین اشیا کی ہلاکت و بربادی کے نظارے سے ساز نہیں سوز حاصل ہوتا ہے اور سوز چوں کہ روح سے شقاوت و قساوت کو دور کر دیتا ہے، اس لیے قلب کا حسن نکھر آتا ہے، جو روح میں اہتزاز پیدا کرتا ہے۔ پس ’المیہ‘ چونکہ قلب میں کتھارسس یا عبرت کے ذریعے حسن اور لطافت پیدا کرنے کا بھی وسیلہ ہے اس لیے یہ جمالیات کا ایک ضروری عنصر ثابت ہوا۔

قاضی صاحب نے ابتدائی پندرہ صفحات میں جمالیات کی مبادیات، تفہیم اور جمالیاتی فکر و تحقیق کی ارتقائی کڑیوں کا خلاصہ کوزے میں دریا کی طرح سمودیا ہے، اسی طرح متعلقہ موضوع ہندستانی جمالیات میں بھی اختصار میں جامعیت کا پہلو دیکھا جا سکتا ہے۔

اب آئیے شکیل الرحمان صاحب کے حالات زندگی پر نظر کرتے چلیں :

 

2

 

رباب نغمہ نوازاست و نے ترانہ فروش

 

شکیل الرحمان کا ذہنی سانچا فکشن کے لیے بڑی مناسبت رکھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اُنھوں نے اپنی خودنوشت سوانح ’آشرم‘ میں افسانے کا سا افسوں جگا رکھا ہے۔ زندگی کی چھے دہائیوں کے سردو گرم جھیل کر وہ اپنے ماضی کی یادوں کو سمیٹنے کے لیے موتی ہاری کے ریلوے اسٹیشن پر اُترتے ہیں۔ رکشے میں بیٹھ کر وہ اپنے دیارِ طفلی کے مختلف نشانات : ڈاک بنگلا، موتی جھیل، پنچ مندر اور مینا بازار سے گزرتے ہوئے بالآخر اُجاڑ اور ویران، خستہ و شکستہ حویلی ’محمد جان منزل‘ کا پھاٹک کھول کر اُس میں داخل ہوتے ہیں۔ وہ حویلی کے در و دیوار، صحن و دالان، سقف و محراب میں اپنی یادوں کے برش سے مٹے ہوئے رنگ و روغن اُجالتے اور نقش و نگار اُبھارتے ہوئے زینہ بہ زینہ قدم اُٹھاتے ہوئے اپنی عمر رفتہ کے کرداروں کو اپنے زورِ تخیل سے کچھ اس طرح اُن کی جگہ آباد کرتے چلے جاتے ہیں کہ قاری کے سا منے اُن کی سوانح عمری ایک البم کا سا نظارہ پیش کرنے لگتی ہے۔

ریاست بہار کے ضلع ’چمپارن‘ (’موتی ہاری‘ جس کا ایک شہر ہے) کی وجہ تسمیہ کے بارے میں اُنھوں نے لکھا ہے کہ گوتم بدھ جب کپل وستو سے چلے تو اس مقام پر بھی رُکے تھے اور کسی نے اُنھیں چمپا کا پھول پیش کیا تھا۔ اُسی وقت سارا علاقہ چمپا کے مہکتے پھولوں سے لَد گیا تھا، تب ہی سے اس مقام کا نام ’چمپا+رن‘ (یعنی ’چمپا کے پھولوں کا جنگل‘ ) موسوم ہو گیا۔ اسی ضلع کے ایک زمین دار لیلا پرشاد نے کبھی مشرف بہ اسلام ہو کر عبدالرحمان نام اختیار کر لیا تھا، اُن کے فرزند خان بہادر مولوی محمد جان کی دوسری اہلیہ سے 1931ء میں شکیل الرحمان کا جنم ہوا۔ مولوی محمد جان ایک متمول زمین دار ہونے کے ساتھ اپنے ضلع کے ایک معروف سرکاری وکیل اور پبلک پراسیکیوٹر تھے اور قوم پرست بھی۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر راجندر پرشاد اور ڈاکٹر سید محمود وغیرہ ان کے ملاقاتیوں میں سے تھے۔ شکیل الرحمان نے آسودگی اور آسائش کے گہوارے میں پرورش پائی۔ دودھ، دہی، گھی، چاول، سلامی، نذرانہ، ہر چیز وافر طور پر دستیاب تھی۔ لیلا پرشاد کے اقربا نے اپنا دھرم نہیں چھوڑا تھا۔ اس طرح ’محمد جان منزل‘ دو مختلف المذہب رشتے داروں کے مشترکہ کنبے یا مولانا وحید الدین سلیم کی اصطلاح میں ’ہند المانی کلچر‘ کی دل کش مثال بن گئی تھی۔

یہاں اِکٹھے ہولی دیوالی، عید بقر عید، دسہرہ شبرات کے تہوار منائے جاتے تھے۔ موقع بموقع رت جگے ہوتے اور میلاد شریف، داستان گوئی، قصّہ خوانی اور گیت سنگیت کی محفلیں جمتی تھی۔ مشاعرے اور ڈرامے ہوتے تھے۔ مختلف موسموں میں بھوجپوری میں سوہر، ہولی میں پھگوا، محرم میں داہا اور جب چھاجوں مینہ برستا تو ویاس کے بول بھی گونجا کرتے تھے۔ ننھا شکیل ماسٹر قادر سے وائلن بجانا بھی سیکھا کرتا تھا۔ غرض کہ وہ ایسا دور تھا، بقول غالب ؔ   ع   رباب نغمہ نوازاست و نے ترانہ فروش!

حویلی کے آنگن میں ایک کنواں تھا، مشہور تھا کہ اُس میں ایک جن ہے۔ ایک ہار سنگھار کا پیڑ بھی تھا جس کا پودا ننھے شکیل کی امّی نے لگایا تھا، اُس میں پھول آئے، تب اُس کی امّی کا انتقال ہو گیا، اُس وقت شکیل کی عمر تین چار سال ہی کی تھی۔ اس کے دل میں یہ حسرت رہ گئی کہ وہ اپنی امّی کا دامن اُن کے من پسند پھولوں سے نہ بھرسکا۔ غالباً تحتِ شعور میں بسی اُسی کسک کا اثر ہے کہ شکیل الرحمان نے گُل چیں کے دامن کی طرح گلشنِ جمالیات کے رنگا رنگ خوش نما پھولوں کو چُن چُن کے لوگوں میں حسن و جمال کی سوغات لُٹانے کو اپنا معمول بنا لیا۔

شکیل الرحمان اپنے بچپن ہی سے تخیل پسند تھے، کبھی فریبِ نظر Hallucinationکا شکار بھی ہو جاتے تھے۔ اپنی ذات اور کتابوں (غیر درسی) سے اُن کا لگاؤ نرگیسیت کی حد تک تھا۔ اُن کے والد وقتاً فوقتاً افرادِ خاندان کے ساتھ جھیلوں ، پہاڑوں اور سبزہ زاروں کی سیر کو نکل جاتے تھے۔ اس طرح شمیمِ گلشن، نسیمِ صحرا، شعاعِ خورشید، موجِ دریا سے شکیل کو شروع ہی سے فطری لگاؤ ہو گیا تھا۔ خود اُن کے والد کی ملکیت  میں دو باغ بھی شامل تھے۔ فلابیر کے بارے میں مشہور ہے کہ ایک بار اُس نے کم عمر موپاساں کو ایک پیڑ کے پاس بٹھا دیا تھا تاکہ وہ ایک مقررہ وقت میں پیڑ پر مضمون لکھ کر بتائے۔ شکیل کے والد نے بھی ایک بار اُنھیں باغ میں اپنی تصویروں والی قاعدے کی کتاب میں رنگوں اور پھلوں کے نام رٹتے دیکھا تھا تو متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا ’اِس قاعدے میں کھنچی آم اور سنترے کی تصویروں کو اِس باغ کے درختوں میں لگے آم اور سنتروں سے کیا نسبت! اِسی طرح کتاب میں مختلف رنگوں کے نام رٹنے کی بجائے، باغ میں سرخ، زرد اور سفید پھولوں سے لدی ڈالیوں پر نظرکیا کرو۔ اُس دن اُنھوں نے محسوس کیا کہ واقعی قاعدے کے ٹیڑھے میڑھے حرفوں کی اللہ میاں کی کتاب فطرت کے سامنے کوئی  حقیقت نہیں۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے وہ کتابِ فطرت کو ورق بہ ورق اُلٹ کر حسن و جمال کے لامتناہی نظّاروں کا مشاہدہ کر رہے ہیں اور طبیعت ہے کہ سیر ہونے کا نام نہیں لیتی! اُن کے والد کا ایک مشغلہ یہ بھی تھا کہ وہ چڑی ماروں سے اُن کے پرندوں کے پنجرے خرید کر اُن پرندوں کو آزاد کر دیا کرتے تھے۔ اپنے والد کے اس مشغلے نے اُن کی نفسیات کو آزاد و کُشادہ فضا کا گرویدہ بنا دیا۔ یہاں پر خلیل جبران کی کہی ہوئی یہ بات یاد آتی ہے کہ ’لوگ مجھ سے کہتے ہیں کہ ہاتھ میں ہو تو ایک چڑیا بھی بہت ہے اور درخت پر ہو تو دس بھی کچھ نہیں ، اور میں لوگوں سے کہتا ہوں کہ درخت پر ہو تو ایک بھی چڑیا اچھی اور ہاتھ میں ہوں تو دس بھی ہیچ ہیں۔ ‘ شکیل کے دل پسند مشغلوں میں سے ایک زمین پر لیٹ کر بے کراں آسماں کو تکنا اور بادلوں کی بنتی بگڑتی شکلوں کو دیکھنا تھا، گویا آسماں کی بے کرانی ہی ایک حدِّ نگاہ تھی جو اُن کے فکر و نظر کی پرواز کی متحمل ہوسکتی تھی۔ شکیل کی والدہ کی وفات کے بعد اُن کے والد بھی زیادہ نہیں جیے اور شکیل کی پرورش اُن کے خالو اور ممانی کے ہاتھوں ہوئی۔

1941ء میں شکیل کے ایک اسکولی ساتھی امام نے اُنھیں ایک انگریزی کتاب میں عورتوں کی عریاں تصویریں دکھائی تھیں۔ گیارہ برس کی عمر میں حسین و جواں جسموں کے پیچ و خم نے اُن کے جسم میں سنسناہٹ پیدا کر دی تھی اور جب اُن کی عمر کا میٹھا برس رہا ہو گا وہ اپنی حویلی کی ایک لڑکی کو اس طرح چاہنے لگے تھے جیسے وہ اُن کی جنم جنم کی ساتھی ہو، لیکن وہ عمر میں اُن سے بڑی تھی اور کسی اور سے منسوب ہو چکی تھی۔ تقسیمِ وطن کے بعد وہ اُن سے کبھی نہیں ملی، یادگار کے طور پر اُس کا دیا ہوا ایک سبز سوئیٹر اُن کے پاس رہ گیا تھا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اپنے وجود کے آشرم میں ’محمد جان منزل‘ کے زینے چڑھتے ہوئے چھت کی جانب بڑھتے اُن کے قدموں کو کسی کے پازیب کی جھنکار روک دیتی ہے، اور کوئی بھٹکی ہوئی یاد ایک پیکر جمیل میں ڈھل کر اُن سے یوں لپٹ جاتی ہے، جیسے جنم جنم کی پیاسی ہو، ممکن ہے یہ انام حسینہ وہی ہو جو 1947ء میں جُدا ہوئی تھی!

جب 1953ء میں اُنھوں نے پٹنا یونی ورسٹی میں داخلہ لیا تھا تو اُن ہی دنوں گنگا کے گھاٹ پر اُنھوں نے چند قدموں کے فاصلے پر دو جوان و حسیں عورتوں کو جل پریوں کی مانند سطح دریا سے نکلتے دیکھا تھا۔ جب اپنے بھیگے ہوئے کپڑے اُتار کر اُن گل ناروں نے زعفرانی ساریاں لپیٹیں تو اُن کے حسنِ ملیح کی عریانی کا نظارہ بھی اُن کے دل و دماغ پر نقش ہو کر رہ گیا تھا۔ لیکن اُن کی زندگی کا صنف لطیف سے سب سے گہرا اور نہ بھُلایا جانے والا سابقہ اُس دلآویز خدوخال، روشن چہرے، پُراسرار آنکھوں اور شیریں مسکراہٹ والی چالیس سال پُر کشش خاتون کا تھا، جس نے پٹنا  یونی ورسٹی کے ایک ریستوراں میں بائیس تئیس برس کے شکیل کا دل پہلی ہی ملاقات میں رام کر لیا تھا۔ وہ ایک متمول، مطالعے کی شوقین، تعلیم یافتہ (فزکس میں ایم ایس سی) خاتون تھی اور بوجوہ اپنے خاوند سے علاحدہ رہتی تھی۔ شکیل الرحمان نے اُس کی صحبتوں میں مسمیرزم ، Possession اور سیکس پر اس کے وسیع مطالعے سے مستفید ہونے کا اقرار کیا ہے۔ ایک دن وہ شہر چھوڑ کر چلی گئی، لیکن اُ ن کی یاد نگری میں آج تک بسی ہوئی ہے۔

شکیل الرحمان نے 1953ء میں پٹنا یونی ورسٹی سے ایم اے کیا۔ اردو زبان و داب میں فرسٹ کلاس پوزیشن ملی اور طلائی تمغا بھی۔ اسی برس وہ رانچی میں شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ کہتے ہیں کہ اچھی بیوی بارہ ماسی بیل کی طرح ہوتی ہے۔ عصمت شکیل نے یقیناً ان کی زندگی کو بہار ساماں بنائے رکھا ہے۔ اُنھوں نے 1954-55ء میں مختصر سا کڑا وقت بھی جھیلا۔ یہ وہ وقت تھا جب زمین داری کے خاتمے کا اعلان ہو گیا تھا اور اُن کے والد کا سرمایہ بھی اُٹھ چکا تھا۔ تقسیمِ ہند کے وقت وہ اپنی کانگریس سے قربت کی بنا پر وہاں کے مسلم لیگی ذہنیت رکھنے والے طبقے میں ناپسندیدہ بن گئے تھے۔ اب ترقی پسندانہ نظریات اور کمیونزم سے اُن کی وابستگی ریاست میں اُن کے ملازمت کے حصول میں رُکاوٹ بن گئی۔ بقول اُن کی اہلیہ کے ’’بیکاری، پریشانی، محرومی، ناکامی، دوڑ دھوپ، دہلی، رانچی، موتی ہاری، پٹنا، صاحب گنج، دہلی میں اِدھر اُدھر ٹھوکریں کھاتے رہے۔ ‘‘ آخر 1954ء میں بھدرک کالج (اُڑیسا) میں لکچرر شپ کی ملازمت ملی اور جب 1956ء میں سری نگر (کشمیر) میں مستقل ملازمت مل گئی تو اُن کی کشتیِ عمر روانی سے چلنے لگی، ہوا بھی موافق ہو گئی اور دھارا بھی۔

جنّت نظیر کشمیر میں اُنھوں نے اپنی زندگی کے بہترین 32برس گزارے اور کامرانی کی منزلیں طے کرتے ہوئے ڈی لٹ ہوئے، پروفیسر ہوئے۔ تین تین یونی ورسٹیوں کے وائس چانسلر مقرر ہوئے۔ دربھنگا سے پارلیمانی الیکشن جیت کر پارلیمنٹ میں پہنچے اور چندر شیکھر کی وزارت میں مختصر مدّت کے لیے وزیر صحت اور خاندانی بہبود کا قلم دان بھی سنبھالا۔ ۔ ۔ اس سب کے باوجود اردو ادب میں شکیل الرحمان کی شناخت ماہرِ جمالیات کی حیثیت سے قائم ہے۔ اکثر لکھنے والوں نے اُن کی جمالیات شناسی کا فرمائشی یا تاثراتی جائز ہ لیا ہے۔ کوشش کروں گا کہ میرا اندازِ نظر معروضی اور حقیقت پسندانہ ہو۔

عالم تمام حلقۂ دامِ جمال ہے:

شکیل الرحمان فطری طور پر ایک رومانی ذہن کے مالک ہیں اور جیسا کہ اُنھوں نے خود لکھا ہے کہ ’بچپن کے احساسات بڑے گہرے ہوتے ہیں۔ اُنھیں یتیمی اور ممتا کی تلاش نے (جمالیاتی!) علامتوں کی جانب متوجہ کیا اور اُن میں گُم ہونے پر آمادہ کیا۔ ‘ اور ’اس گم شدگی سے خود اپنے وجود کے اندر اُنھوں نے چراغاں کر لیا‘

وہ لکھتے ہیں کہ ’زندگی کرتے ہوئے وِجدان سے بڑا  اور کوئی معلم مجھے نہیں ملا۔ ‘ دوسری طرف وہ ایک زبردست قوتِ تخیل کے مالک نظر آتے ہیں۔ آئن اسٹائن نے لکھا ہے کہ ’تخیل علم سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ علم محدود ہوتا ہے، جب کہ تخیل عالم پر محیط ہوتا ہے۔ ‘ شاید اسی لیے شکیل الرحمان نے اس بات کو اپنا اصولِ زندگی بنا لیا ہے کہ ’حدِّ ادراک سے بھی آگے آنکھوں کا سفر جاری رہے تو نئی نئی منزلیں روشن ہوتی جاتی ہیں۔ ‘ جب تفکر پر تخیل غالب ہو اور علم پر وجدان تو ایک فرد کی رومانیت اسے جمالیات سے قریب کر دیتی ہے۔

اُنھوں نے لکھا ہے : ’وہ لوگ کتنے بھولے اور معصوم ہیں ، جو سمجھتے ہیں کہ اللہ کی دل چسپی صرف مذہب اور مذہبی اُمور سے ہے۔ ‘ پھر کائنات کے حسن سے متحیر اور از خود رفتہ ہو کر لکھتے ہیں : ’اللہ کی تخلیق اتنی مکمل ہے کہ اس کی تعریف کرتے ہوئے اکثر خالق کو بھول جاتا ہوں۔ ‘ ایک زمانے میں خلیل جبران نے بھی اِس سے ملتے جلتے الفاظ کہے تھے کہ ’حسن کے بغیر نہ علم کوئی چیز ہے نہ دین!‘

اُنھوں نے برسوں سے جمالیات کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے اور فنونِ لطیفہ بشمولِ شعرو ادب کی جمالیاتی تشریح و توضیح میں تقریباً بیس کتابیں لکھ چکے ہیں۔ *مبادی جمالیات اور جمالیات کی بابت اُن کے نسبتاً سلجھے ہوئے خیالات کا یکجا اظہار اُن کے ایک مضمون ’جمالیات‘ (مشمولہ ’ادب اور جمالیات‘) میں ملتا ہے۔ اس اصطلاح کی پیچیدگی کے بارے میں اُن کی چند عبارتوں پر مشتمل اقتباس ذیل میں درج کر رہا ہوں :

’’منطق پر اظہار خیال کرتے ہوئے ہیگل نے کہا تھا کہ پہلے ہی بتا دینا کہ منطق کیا ہے، ممکن نہیں۔ جب تک ہم اس کی پوری وضاحت کر کے اس کے خدوخال نہیں اُبھاریں گے اور مکمل آگاہی حاصل نہیں کریں گے، اس وقت تک اس بات کا علم ممکن نہیں کہ منطق کیا ہے! جمالیات کے تعلق سے بھی یہی بات کہی جا سکتی ہے۔ ۔ ۔ جمالیات کی کوئی ایک تعریف نہیں ہوسکتی۔ اس کی مختلف تشریحوں سے اس کے ایک سے زیادہ پہلوؤں کو سمجھا جا سکتا ہے۔ ‘۔ ۔ ۔ جمالیات کو ایک سائنس یا ایک ایسا علم کہ جس کے حدود مقرر ہوں سمجھنا غلط ہے۔ یہ اصطلاح ایک ایسا نقطہ یا بندو ہے کہ جس میں سارے مظاہر سمٹ آتے ہیں۔

جمالیات صرف کروچے، ہیگل، کانٹ، با م گارٹن، ینگ، شلر، وائٹ ہیڈ، برک اور ہیوم وغیرہ کے تصورات اور خیالات کا نام نہیں۔ اگرچہ یہ اور ایسے نہ جانے کتنے علما نے جمالیات کی گرہیں کھولی ہیں اور بصیرتیں عطا کی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ لیکن جب فنون لطیفہ کے جوہروں کی پہچان کا معاملہ پیش نظر ہوتا ہے تو قاری یا ناقد کی اپنی جمالیاتی بصیرت ہی فن کاروں کی جمالیات سے تخلیقی رشتہ قائم کرتی ہے۔ ‘‘          (’ادب اور جمالیات‘ ، مطبوعہ 2011ء)

جب وہ بھدرک (اُڑیسا) میں لکچرر تھے، تب روحانیات، میٹافزکس اور ہندستانی کلچر کے موضوعات کی طرف اُن کا رجحان ہو گیا تھا۔ خاص طور پر ہندستانی کلچر اور جمالیات سے اُنھیں کافی دل چسپی رہی۔ آگے چل کر اُنھوں نے فنون لطیفہ کے مطالعے اور آثار قدیمہ کے مشاہدے کے نتائج کو 1994ء میں ’ہندستانی جمالیات‘ کے نام سے تین جلدوں میں پیش کیا۔ اسی کتاب کا بنیادی مواد ترتیب میں تبدیلی اور کمی و بیشی کے بعد قومی اردو کونسل کے زیر اہتمام 2001ء میں ’ہندستان کا نظام جمال (بدھ جمالیات سے جمالیات غالب تک)‘ کے عنوان سے منظرِ عام پر آیا۔ اردو زبان میں ہندستانی تہذیب اور فنون لطیفہ کی جمالیاتی نقطۂ نظر سے تاریخ کسی نے نہیں لکھی تھی اس لیے یہ کتاب بعض تحفظات کے ساتھ قابل قدر کہی جا سکتی ہے۔

ذیل میں ہندستانی تہذیب اور فنون لطیفہ کے اُن چند بنیادی نکات کو درج کر رہا ہوں ، جن سے شکیل الرحمان کا ذہنی انسلاک ہندستان کے نظام جمال کی تاریخ مرتب کرنے میں محرک رہا ہے۔ ذیل کی عبارتیں اُن ہی کی کتاب میں بکھری ہوئی ہیں۔ میں نے بس اُنھیں کہیں کہیں مربوط کر دیا ہے:

’ہندستانی تہذیب کے پہلے عنوان کی تلاش ممکن ہی نہیں۔ یہ انادی (ابتدا کے بغیر ) ہے۔ یوں بھی مشرقی شعریات میں عدم کا تصور بہت اہم ہے۔ ہم اسی میں سے آتے ہیں۔ اسی میں زندگی بسرہوتی ہے، اور اسی میں چلے جاتے ہیں۔ کہتے ہیں ’اوم‘ وہ اوّلین آہنگ ہے، جس سے یہ کائنات خلق ہوئی اور اُسی سے اس کا ارتقا ہوا اور سارے سُر بھی اسی آہنگ سے نکلے۔

ہندستانی تہذیب میں یوگ وششٹھ کا یہ تصور سب سے اہم رہا ہے کہ مختلف عہد یا زمانوں میں نکلے تمام راستے مختلف و متضاد ہو کر بھی ایک ہی عظیم تر سچائی یا حقیقت کی طرف لے جاتے ہیں۔

اُسطور سراب یا وہم نہیں ہے، اس لیے کہ قدیم انسان کی ذہنی اور روحانی تاریخ ان میں جذب ہے اور ان میں انسانی فطرت کے اجتماعی شعور کا اظہار ہوا ہے۔ ہندستانی اساطیر، مابعد الطبیعات اور جمالیات میں رس کی اصطلاح کی معنویت بہت پھیلی ہوئی ہے۔ رس کوئی فلسفیانہ اصطلاح نہیں ہے بلکہ یہ جمالیاتی تجربوں کے باطنی حسن کا اعلامیہ ہے۔ رس جلال و جمال اور اُن کی وحدت کا احساس و شعور ہے اور ہندستانی فنون لطیفہ میں جلال و جمال کی وحدت کی بنیادی اہمیت ہے۔ رس کے بعد بھاؤ، آہنگ اور النکار کا خاص مقام ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہندستانی جمالیات میں علامت (Motifs) کی بھی خاص اہمیت ہے جس میں کسی نہ کسی وسیع تر حقیقت کا سرِ نہاں ملتا ہے۔

برِّصغیر میں تخلیقی آرٹ کا رشتہ اپنی مٹی اور تہذیب سے بہت گہرا رہا ہے۔ قدیم فنِ تعمیر، فن مجسمہ سازی، فنّ مصوری اور فن موسیقی وغیرہ دھرتی سے اپنے گہرے تعلق کی خبر دیتے ہیں۔ ہندستانی جمالیات مادّی تجربوں کی نہ جانے کتنی جہتوں سے آشنا کرتی ہے۔ مختلف نسلوں اور قوموں کے اختلاط و اشتراک نے ان جمالیاتی تجربوں کو وسعت بھی بخشی اور تنوع بھی۔ اس بات نے اُسے تہ دار اور پیچیدہ بنایا ہے اور عظیم بھی۔

یہاں انسان کے جسم کو مٹی کے برتن سے تعبیر کیا گیا ہے ، جسے آگ میں پکا کر پختہ کرنا ضروری ہے۔ یوگ کا قدیم تصور یہ رہا ہے کہ یوگ کی آگ ہی سے اس برتن میں پختگی پیدا ہوسکتی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندستانی فنکار کا شعور غیر معمولی اور نامساعد حالات میں زیادہ بیدار و متحرک رہا ہے۔ اس کے علاوہ ہندو دھرم بھی فن کار کی اظہار کی آزادی میں کبھی مانع نہیں آیا۔

ہندستانی تہذیب میں تین باتیں سب سے اہم مانی گئی ہیں۔ ستیم، شیوم، سندرم (صدق، خیراورحسن ) ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کئی مکاتبِ فکر حسن کے ساتھ افادیت اور صداقت کے قائل ہیں۔ ہندستانی جمالیات میں فنون لطیفہ کی انتہائی بلند و ماورائی سطح پر مسرت و لذت کا حصول وہ مقام ہے جسے ’ آنند‘ کہا گیا ہے۔ ‘

شکیل الرحمان نے ہندستانی فنونِ لطیفہ کی قدامت اُن کی جمالیاتی قدروں کی چھان بین اور تشریح کے لیے اُن سے وابستہ متھ، کتھاؤں ، روایتوں ، مذہبی گرنتھوں اور علم الاصنام سب ہی سے مد د لی ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ بہت سے مقامات ایسے ہیں جہاں تک ہماری پہنچ اساطیر ہی کے ذریعے ہو پاتی ہے، اور کہیں کہیں کوئی اُسطور حقیقت نما بن کر راہ روشن بھی کر دیتا ہے۔ مثلاً چنڈوگیہ اُپنشد میں جب شویتا کیتو نے کہا کہ اُسے برگد کے بیج کے اندر کچھ نظر نہیں آ رہا ہے تو اوالکا نے جواب دیا تھا کہ ’جہاں تجھے کچھ نظر نہیں آ رہا ہے، وہاں ایک عظیم الشان پیڑ ہے۔ ‘ لیکن بیشتر اُن کے یہاں علمی طریقۂ کار کا فقدان اور عقائد و روایات پر دارومدار نظر آتا ہے۔ شیو کے پہلے رقص سے کائنات کا وجود میں آنا۔ اوم، چکر اور لنگ کی دھارمک کتھائیں ، ناگ سے متعلق توہمات اور کہانیاں اسی طرح تریمورتی (برہما، شیو اور وشنو) کی لیلاؤں کو تشریحات کا ذریعہ بنانا، کسی مائتھالوجی کی کتاب میں مناسب ہوتا، یہاں نہیں جچتا۔ مثلاً:

’’جب فنکار کا لاشعوری عمل خوابوں کی کیفیتوں کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے۔ ۔ ۔ فنکار سمندر پر لیٹے ہوئے یا سوئے ہوئے شیو سے قریب تر ہو جاتا ہے اور وہ سچائیوں یا حقیقتوں کی نئی تخلیق کرتا ہے۔ ‘‘

(’ہندستانی جمالیات‘، اڈیشن: 2012ء، ص : 143)

’’شیو، شکتی کے تحرّک سے بیدار ہوتے ہیں تو اپنے رقص کے پہلے آہنگ سے کائنات کی تخلیق کرتے ہیں۔ دوسرے آہنگ سے کائنات کے حسن و جمال کا شعور عطا کرتے ہیں۔ تیسرے آہنگ سے کائنات کے عناصر بکھیر دیتے ہیں۔ چوتھے آہنگ سے کائنات اور اس کے تمام عناصر کو اپنے وجود میں سمیٹ لیتے ہیں۔ کائنات اُن کے وجود کا حصّہ نظر آتی ہے اور پانچویں آہنگ سے ہر شے کو آزاد کر دیتے ہیں۔ ہر شے اپنی اعلا منزل پر آ جاتی ہے اور وجود کا سچا شعور حاصل ہوتا ہے۔ غور فرمائیے ہندستانی جمالیات میں تجربوں کی سطح کتنی بلند ہے۔     (ایضاً، ص : 144)

یہ سچی حقیقی اور تجرباتی سطح واقعی اتنی بلند ہے کہ کوئی کیا کھا کے غور فرمائے گا! کسی ملک کی تہذیبی شناخت میں مر وّجہ اساطیر و روایات کے تذکرے کو تو گوارا کیا جا سکتا ہے، لیکن یہاں ان واہموں کو تجرباتی اور حقیقی قرار دے کر جمالیاتی تشریح کا طریقِ کار بنایا گیا ہے۔ یہ دیو مالائی طرز کسی کوہِ قاف یا اندر کی سبھا کے گلفام اور سبز پری کی کہانی سنانے کے لیے تو زیب دے سکتا ہے۔ تاریخ کے طور پر پیش کی گئی کتاب میں نہیں۔

شکیل صاحب فرماتے ہیں کہ کوئی فکر جمالیاتی تب بنتی ہے جب ہم اُس کے زیر اثر مغلوب ہو کر اپنے آپ کو بھول جائیں۔ اُنھوں نے یہ تاثر بھی قائم کرنے کی کوشش کی ہے کہ جمالیاتی تجربہ کسی تاویل یا توجیہ سے ماورا ایک اچھوتی قدر ہے۔ بس یہ بتانے کی زحمت نہیں کی کہ ایسے عالم میں کوئی جمالیات اور مہملات کے درمیان حدِّ فاصل کہاں قائم کرے!

ہم بلیک کے اس مصرعے سے محظوظ ہوتے رہے ہیں کہ ’ایک کلی کے کھلنے میں ایک رات صرف ہوتی ہے، مگر اس کی تخلیق میں ہزاروں سال صرف ہوتے ہیں۔ ‘ اسی طرح خلیل جبران کا یہ فلسفہ بھی ذہن کو اپیل کرتا رہا ہے کہ ’موتی سیپ میں سمندر کا نظارہ ہے اور ہیرا، کوئلے میں امتدادِ زمانہ کا ظہور!‘ اس لیے کہ ان میں سائنٹفک حقیقتوں کا بیان مستور ہے، لیکن دیومالا کا بڑا حصّہ اوہام پر مشتمل ہوتا ہے اور وہ ہمارے علم سے قبل کے جہل کی یادگار ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈرامے، رس، بھاؤ وغیرہ کے سلسلے میں اگرچہ شکیل صاحب نے قابل قدر معلومات اِکٹھا کی ہیں ، لیکن میں یہ بات کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ڈاکٹر صفدر آہ مرحوم 1962ء میں چھپی اپنی کتاب ’ہندستانی ڈراما‘ (پبلی کیشنز  ڈیویزن، دہلی) میں اِن عنوانات پر زیادہ علمی باریکیوں کے ساتھ تفصیل سے روشنی ڈال چکے ہیں۔ شکیل صاحب کے نیم افسانوی انداز کے بجائے اُن کے یہاں سائنٹفک پیرایۂ اظہار ملتا ہے اور کتاب کا حسنِ ترتیب بھی مثالی ہے۔ شکیل صاحب اپنی تحریر میں علمی تجزیے سے استخراج نتائج کی بجائے عموماً ظنّی و تاثراتی پیرایہ اپناتے ملتے ہیں۔ اُن کے مزعومات دلائل کی بجائے جذبات پر انحصار کرتے ہیں اور عبارات طولِ لاطائل اور تکرارِ مطالب سے گراں بار نظر آتی ہیں ، اسی باعث ذیل کے اقتباس میں پچاس فی صد الفاظ کا زیاں دیکھا جا سکتا ہے اور اس طرح کی اور مثالیں بھی پیش کی جا سکتی ہیں :

جپ جی کے لفظوں میں جو طلسم ہے اس سے خود الفاظ سیّال ہو کر بہنے لگتے ہیں۔ جو اِن لفظوں کے جادو سے ذرا بھی آشنا ہوتے ہیں ان کے دلوں تک پہنچتے ہیں۔ اس طلسم کی وہی کیفیت ہے، جو صوفیوں کے سلسلے میں ہے۔ وہ لمحے یاد آ جاتے ہیں جن میں الفاظ گم ہو جاتے ہیں۔ لفظوں کا طلسمی آہنگ ہی موجود ہوتا ہے۔ یہ طلسمی آہنگ اپنے لفظوں سے بہت آگے ہو جاتا ہے اور موجوں کی مانند اُن کے دلوں کو چھونے لگتا ہے، جو اِن لفظوں کی پراسراریت اور اس کے طلسم کو تھوڑا بھی سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ فرد ہی پر اس بات کا انحصار ہے کہ وہ اس طلسمی آہنگ کو کتنی دیر محسو س کرتا ہے اور کتنی شدت سے محسوس کرتا ہے اور اپنے تحت الشعور میں کتنی گہرائیوں تک لے جاتا ہے۔ ‘‘ (’ہندستان کا نظام جمال‘، جلد سوم، ص: 344)

اُن کی کتاب میں جمالیات سے کہیں زیادہ تاریخ، تہذیب و ثقافت کے مطالعے کی روداد ہے۔ جس کی تفہیم میں اُنھوں نے حجریات، بشریات، آر کی ٹیکچر، فائن آرٹس اور اُن سے کہیں زیادہ فلاسفی، مائتھالوجی، فوک ٹیلس اور وِچ کرافٹس سے مدد لی ہے۔ ایسی متضاد رنگ تفاصیل کے ساتھ جب تخیل آمیزی بھی شامل ہو جائے تو کہیں کہیں غبارِ وہم کو بیاباں اور گدازِ قطرہ کو بحرِ بیکراں ثابت کر دینا کیا مشکل ہے!

شکیل الرحمان کی اساطیر پسندی اور تخیلی مزاج کے دو عمدہ نمونے ان کی ’اساطیر کی جمالیات‘ اور ’ایک علامت کا سفر‘ کتابچوں میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ اول الذکر میں اساطیر کی بنیاد و پیدائش اور تہذیب انسانی پر اُس کے وسیع اثرات کی تاریخ، روایات، دیومالا، اور گرنتھوں کی مددسے پیش کی گئی ہے اور ثانی الذکر میں عورت اور درخت کی مماثلتوں کو روایات اور اساطیر کے حوالوں سے واضح کر کے بتایا گیا ہے کہ عورت اور درخت دونوں تخلیق کی علامت ہیں۔ اس طرح عورت کا حُسن درخت میں ہے اور درخت کا عورت میں۔ عورت کی کوکھ، اُس کی محبت و شفقت، ایثار، اُس کی رحمتوں کا سایہ، اُس کی تخلیقی قوت، تقدیس یہ سب درخت کی علامت میں جذب ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ عورت اور درخت کی یہ ازلی مشابہتیں قائل کرنے والی ہیں۔

ممکن ہے تہذیبی جمالیات اور فنون لطیفہ کے اساطیر ی آغاز کی تشریح میں روایات اور دیومالا اور افسانوی اسلوب کا لامحالہ در آنا مجبوری ہو اور قصد و ارادے سے بھی گفتگو عقل و درایت کی مددسے آگے نہ بڑھائی جا سکے۔ بقول اقبال ؔ   ؎

انداز گفتگو نے دھوکے دیے ہیں ورنہ

نغمہ ہے بوئے بلبل، بُو پھول کی چہک ہے

لیکن اُنھوں نے اردو ادب میں تنقیدی نقطۂ نظر سے بھی جو کچھ لکھا ہے اُسے جمالیاتی تنقید کے ایک نئے زمرے میں متعارف کرانا پسند کیا ہے۔ دیکھا جائے تو ’جمالیاتی تنقید‘ کا مرکّب بجائے خود کسی معمے سے کم نہیں۔ اس لیے کہ جمالیاتی مقام پر کوئی امر وسیلۂ نقد بن سکتا ہے نہ خود تنقید کے دائرے میں آسکتا ہے۔ بہرکیف شکیل صاحب کی ادب میں جمالیاتی عناصر کی تلاش اب جمالیاتی تنقید کے نام سے معروف ہو چکی ہے۔ چونکہ اُن کے خیال میں محض موضوعات اور خارجی حقیقتوں کا بیان آرٹ نہیں ہوسکتا، اس لیے حقیقت نگاری، فطرت نگاری یا تحلیلِ نفسی کے ذریعے ادب کی سماجی تشریح کے وہ قائل نہیں ہیں۔ اُن کی جمالیات کے سرے حسبِ سابق بیشتر اُسطور سے ملے ہوتے ہیں۔ اگرچہ اس میں ایک دل کشی ہے ، پر ساتھ ہی اسرار و ابہام بھی شامل ہے۔ بالخصوص اُن کے زاویۂ نگاہ کے جمالیاتی و تاثراتی نتائج اکثر ہمیں حقیقت کی بجائے مجاز اور تصویر کی بجائے تصور سے متعارف کراتے ہیں ، وہ بھی اُن کے ایسے تصورِ ذہنی سے جو خیام کی نگاہوں کی طرح صراحی کے پیچ و خم میں بھی عاشق زار کے حلیے کا دیدار کرتی ہے۔

ای کوزہ چومن عاشقِ زاری بودست

در بند سرِ زلفِ نگاری بودست

ایں دستہ کہ در گردنِ او می بینی

دستی ست کہ در گردنِ یاری بودست

(یہ صراحی کبھی میری ہی طرح عاشق زار، کسی حسین کی زلف کی گرفتار رہی ہے۔ یہ دستہ جو تو اس صراحی کی گردن میں دیکھتا ہے، دراصل ہاتھ ہے، جو کسی معشوق کے گلے کا ہار رہا ہے۔ )

آیندہ سطور میں مَیں اُن کے جمالیاتی لزوم کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اُن کے نقدِ ادب کے سرمایے کا سرسری جائزہ لینے کی کوشش کروں گا۔

 

نگاہِ شوق میں جلوے سمائے ہیں کیا کیا!

 

اُنھوں نے خسرو کی کثیر جہتی (وسط ایشیائی+ترکی+عربی+عجمی) شخصیت کو جلوۂ صد رنگ قرار دیا ہے ، جو اپنی روایات کی اعلا قدروں اور اپنے ہند عجمی خدوخال کے ساتھ ہندستان کے رنگ و آہنگ میں ڈھل گئی ہے۔ خسرو نے سات سلاطین کا زمانہ دیکھا تھا۔ وہ اُن سلاطین کی مداح سرائی اور وقائع نویسی کرتے کرتے بے اختیار اس ملک کی دھرتی، موسموں ، وحوش و طیور، تہذیب و تمدن اور اشیا و مظاہر کی تعریف میں رطب اللسان ہو جاتے ہیں۔ موضوع سے یہ بھٹکاؤ جو شبلی کی مورخانہ نگاہ میں نقص تھا، شکیل الرحمان نے اسی میں خسرو کی جمالیات کا رمز پایا ہے۔ اُن کی یہ بات بھی قائل کرتی ہے کہ انسان دوستی، تصوف اور ہمہ مشربی کے مسلک نے بھی خسرو کے احساسِ جمال کو توانا اور صحت مند روایات کا حامل بنایا تھا۔

غالب اور اقبال پر بھی اُنھوں نے کافی لکھا ہے۔ جمالیاتی نقطۂ نظر سے اُنھوں نے یہ بنیادی نکات پیش کیے ہیں کہ غالب کی شاعری میں فینتاسی کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور اُس کی آبیاری میں اُن کے مزاج کی داستان پسندی کا بڑا حصّہ ہے۔ اس کے علاوہ وہ اپنی شاعری میں رنگ، آہنگ اور رقص کے دلدادہ اور حسّی لذّتوں کے ترجمان نظر آتے ہیں۔ اقبال کی جمالیات میں اُنھوں نے ’روشنی‘ کو مرکزی حیثیت دی ہے ، اور اُن کے اشعار میں سے روشنی اور اُس کے تلازمات کی متعدد مثالیں فراہم کر کے اپنے نقطۂ نظر سے تفہیم اقبال کی راہ روشن کی ہے۔ یہ دونوں ہی مقالے کم از کم اتنا تو ثابت کر ہی دیتے ہیں کہ غالب اور اقبال کے افکار شعری کو سمجھنے کے لیے داستان اور روشنی کے تلازموں پر بھی غور کیا جا سکتا ہے۔ لیکن غالب و اقبال کی فکری وسعتوں کی تفہیم میں اس طرح کے جمالیاتی اشارے بہت دور تک ساتھ نہیں دے سکتے۔ غالب ہی کے لفظوں میں کہوں تو یہ ’طبعِ بلبل و شغلِ سمندر‘ کا سا معاملہ ہے۔

اُنھوں نے بارہ ماسے کی صنف کو یک کرداری تمثیل بتایا ہے۔ جس میں عورت کی جذباتی اور نفسیاتی کیفیتیں موسم کے جمال و جلال کی تبدیلیوں سے ہم آہنگ نظر آتی ہیں۔ ان تبدیلیوں کے ساتھ عشق و اُلفت، اور ہجر و وصل کے جنسی جذبات میں بہت سے رس سموئے ہوئے ملتے ہیں۔ مثلاً عیش  و عشرت کا شررنگار رس، وصل و اختلاط کا رتی رس، جدائی کی اذیت کا شوک رس، تجسّس کاوس مایا رس وغیرہ۔ بارہ ماسے کی مخاطب عموماً سکھی ہوتی ہے، اور کچھ اس طرح کہ سکھی خود پریمیکا کا آئینہ بنی نظر آتی ہے۔ شکیل صاحب نے یہ بات بھی واضح کی ہے کہ بھگتی شعرا کے یہاں بارہ ماسے میں فرد کی روح عورت ہے اور اللہ محبوب ہے۔ مجموعی طور پر بارہ ماسے پر اُن کا جمالیاتی مطالعہ سراہنے کے لائق ہے۔

قلی قطب شاہ کو شکیل الرحمان نے شررنگاررس کا سب سے بڑا شاعر بتایا ہے اور بجا طور پر لکھا ہے کہ قلی قطب شاہ وہ پہلا فیمینسٹ شاعر ہے، جس نے اپنی شاعری میں عورت کو مرکزی حیثیت دی ہے اور اُس کے یہاں عرب کے دور جاہلی کے شعرا کا سا کھرا اور سچّا جنسی تجربوں کا بیان ملتا ہے اور عورت کے روایتی اور معروضی تصور سے اعراض۔ تاریخ بھی شاہد ہے کہ قلی قطب شاہ کی شاہی دسترس اور آزاد فطرت نے اُس کے لیے جنسی جذبات کے بے محابانہ اور صحت مندانہ تجربوں کے اظہار و عمل کی راہ سہل بنا رکھی تھی۔

اردو کی کلاسیکی مثنویوں پر داستانی غلبے کا ذکر کرتے ہوئے اُنھوں نے ان مثنویوں کے داستانی عناصر، عشق و دغا، جادو ٹونا، چھل فریب، مہم و مجادلہ، دیو پری اور توتا مینا کے طلسمِ ہوش رُبا کی تفصیلات کا طومار کئی صفحات پر پیش کیا ہے۔ ان میں غالباً کچھ ہی باتوں کا سررشتہ کھینچ تان کر جمالیات سے جوڑا جا سکے۔

فراق نے اپنی شاعری میں کسی حد تک اور ’روپ‘ کی رباعیوں میں بڑی حد تک عشق و محبت اور وصل و مہجوری کی جنسی و جذباتی کیفیتوں کو دل آویز ڈھنگ سے پیش کیا ہے۔ ہندی الفاظ کے رچاؤ، معشوق ہندی کے حسن و جمال اور شام و شب کی خواب ناک فضا کے پس منظر نے بھی اُن کے بیان کو پُر کیف بنایا ہے، اور وہ یقیناً  شررنگا رس کے بھی ایک اچھے شاعر ہیں۔ شکیل صاحب نے نہ صرف اُنھیں شررنگا ررس کا سب سے بڑا شاعر ( !) قرار دیا ہے بلکہ اُن کے صوفیانہ حسنِ ظن نے فراق کے یہاں حسنِ زن میں بھی الوہیت کا نظارہ کیا ہے!

واقعہ یہ ہے کہ فراق کی شاعری کا نمایاں اور حاوی پہلو کیفیت آفرینی ہے، جو اُن کے کلام میں جاری و ساری ملتی ہے۔ ان کیفیات و احساسات کا کچھ ہی حصّہ شررنگا رس سے اور بڑا حصّہ انسانی فطرت اور کائنات کے دیگر علائق سے استوار ملتا ہے۔ فراق خود یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ    ؎

ترا وصال بڑی چیز ہے مگر اے دوست

وصال کو میری دنیائے آرزو نہ بنا

اس کے علاوہ خالص حُسن نسوانی کی واضح مثالوں (ہنگامِ وصال پینگ لیتا ہوا جسم، کولھے بھرے بھرے، سینے کا اُبھار، دیکھے کوئی پنڈلی کا گداز اور تناؤ) کے ہوتے ہوئے اُنھیں الوہی حسن سے جوڑنا بھی قائل نہیں کرتا۔ طرفہ تماشا یہ کہ حافظؔ کے سلسلے میں عام روش سے ہٹ کر اُن کی یہ دل چسپ اور جرأت مندانہ رائے ملتی ہے کہ حافظ کی شاعری میں ساری مستی شراب کی سی ہے‘ اور حافظ کے حسنِ نسوانی سے متعلق اشعار ہر عہد میں اپنا erotic رشتہ قائم کرنے کے اہل رہے ہیں ، اُنھیں یارانِ طریقت نے عشقِ حقیقی سے جوڑنے کی کوشش کیوں کی!

اخترالایمان کی رومانیت کی شناخت اُن کے لہجے کے حزن و افسردگی، یاسیت اور احساسِ شکست میں ڈھونڈنی مشکل نہیں اور ان جذبات کا ماضی سے تعلق اُنھیں ایک خوابوں کی سی کیفیت دے دیتا ہے۔ ان کی شاعری ایسے ہی احساسات کی پیکر تراشی سے عبارت ہے۔ مجموعی طور پر اُن کے یہاں زندگی اور قدرت کے حسن کے اظہار سے زیادہ زندگی اور قدرت کے حسن سے انسان کے فاصلے اور فقدان کے کرب کا اظہار ہے۔ اب اسے جمالیات کی معنوی وسعت کا کرشمہ ہی کہیے کہ اس میں حسنِ قدرت سے انسان کی قربت کا لطف ہی نہیں بلکہ فاصلے کا کرب بھی شامل ہے!

مولانا آزاد کی جمالیات میں ’ترجمان القرآن‘ اور ’غبارِ خاطر‘ اُن کی مرکزِ نگاہ رہی ہے۔ ’غبارِ خاطر‘ میں مولانا کے دل کش اسلوب اور اُن کے رومانی مزاج و شعور کی مدح و توصیف میں سیکڑوں صفحات لکھے جا چکے ہیں۔ اسی طرح ’جمالیات، قرآن حکیم کی روشنی میں ‘ ایک مستقل کتاب نصیر احمد ناصر کی 1958ء میں آ چکی ہے۔ یوں بھی قرآن کی فصاحت و بلاغت، اُس کے اسلوب کے اعجاز اور عناصرِ جمال پر ہر دور میں گفتگو ہوتی رہی ہے۔ مختصر یہ کہ شکیل صاحب کی ’ابوالکلام‘ ہماری معلومات میں کوئی اضافہ نہیں کرتی، البتہ اُس میں شامل حکومت ہند کی شائع کردہ کتاب ’آثار ابوالکلام‘ پر اُن کا مضمون ہمیں بتاتا ہے کہ وزیر تعلیم بن جانے کے بعد بھی مولانا آزاد کو مسلمانوں کے مسائل کی کتنی فکر رہا کرتی تھی۔ مولانا کے ذاتی رقعات اور سرکاری ریکارڈ کی مدد سے مرتب کردہ اس کم معروف کتاب کو اردو قارئین سے متعارف کرانے کی بِنا پربس اُ س مضمون کی ایک اہمیت ہے۔

پریم چند کے جن نسوانی کرداروں میں اپنے حسن کے تعلق سے خود پسندی اور تملق نمایاں ہے یا جن کے رویّوں میں انحراف اور سرکشی ملتی ہے شکیل صاحب نے اُن کا عمدہ نفسیاتی تجزیہ پیش کیا ہے، اگرچہ وہ چنندہ کردار پریم چند کے نسوانی کرداروں کی نمائندہ حیثیت نہیں طے کرتے۔ پریم چند پر لکھی اُن کی کتاب میں شامل مضمون ’تیسرا آدمی‘ ضرور ایک نیا مضمون ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ ناول، افسانے اور شاعری میں بھی میں دل کشی کا گہرا رنگ یہی تیسرا آدمی بھرتا ہے۔ یہ ہمیں کہیں رقیب، کہیں رفیق، کہیں راہ بر، اور کہیں راہ کھوٹی کرنے والا نظر آتا ہے اور فکشن میں اسرار، تجسّس اور دل چسپی پیدا کرتا جاتا ہے۔

منٹو کے افسانوں میں ہمیں عورت کی نفسیات، مرد و زن کے جبلی تقاضوں ، تقسیم ہند اور فرقہ واریت کے المیوں،  انسانی فطرت پر معاش و ماحول کے اثرات اور اس کے پست و بلند کی مرقع نگاری نظر آتی ہے۔ منٹو اپنی حقیقت نگاری میں کسی نظریے یا تعصب سے وابستہ نہیں ملتا۔ وہ بُروں اور بُرائیوں تک کے ذکر میں کہیں نفرت و اکراہ یا کوئی مذہبی زاویہ یا تادیب و اصلاح کا پہلو نہیں لاتا۔ منٹو کے یہاں سماج کے رد کردہ لوگوں سے ہمدردی اور انسان دوستی کا جذبہ اُس کے فن کی شناخت بن گیا ہے۔ شکیل الرحمان نے ’منٹو شناسی‘ میں اُس کے پندرہ افسانوں اور کرداروں (بُو، کھول دو، سوگندھی، ٹوبہ ٹیک سنگھ وغیرہ) کے نفسیاتی تجزیے سے  منٹو فہمی کو ایک دل چسپ رُخ دینے کی کوشش کی ہے، لیکن جہاں اُن کے اسلوب پر داستانی و جذباتی رنگ غالب ہے، وہیں اپنے ہر مضمون کو ایک نئی مذہبی تمثیل کے حوالے کر کے اُنھوں نے بات کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا ہے۔ موذیل اور بابو گوپی ناتھ جیسے کرداروں کی فطرت کی گہرائیاں سمجھانے میں وہ اکثر اتنی گہرائیوں میں چلے گئے ہیں کہ ہماری احتیاطیں اُن کا ساتھ دینے سے انکار کر دیتی ہیں۔ مثلاً

اردو کا قاری ’ہتک‘ کی ویشیا سوگندھی کے down to earthکردار سے بخوبی واقف ہے۔ ایک رات کوئی سیٹھ اُسے زد کرتے ہوئے ’اُونھ‘ کہہ کر اپنی کار میں آگے بڑھ گیا تھا۔ چونکہ ویشیا کی قدر و قیمت اسی میں ہے کہ وہ بِکاؤ بنی رہے، اس لیے سوگندھی کے احساسِ ذلّت اور غم و غصے کو منٹو نے بڑی خوبی سے پیش کیا ہے، لیکن اس کی جمالیاتی تفہیم میں ہمیں گوتم بدھ کی وہ حکایت سنائی جاتی ہے، جس میں کسی شخص نے بدھ سے استفسار کیا تھا کہ کیا وہ اُسے ازلی سچائی بتا سکتے ہیں ؟ بدھ نے اُسے جواب دیا تھا کہ وہ اسے ازلی سچائی بتانے کا وعدہ تو نہیں کرتے، لیکن اس کی پیاس کو اور بڑھا دیں گے اور اس پیاس کی تکلیف اس کے وجود کو مقدس بنا دے گی، شکیل صاحب اس شردھا لو کی پیاس کو سوگندھی اور سوگندھی سے اردو کے قاری تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ جبکہ واقعہ یہ ہے کہ اگر وہ سیٹھ اشارے سے بُلا لیتا تو وہ اُس کے ساتھ چل پڑتی اور اگر مادھو حوالدار اُسے جھانسے کی جگہ کھولی کا کرایہ، خرچہ دے دیا کرتا تو وہ اُس کی رکھیل بنی رہتی۔ اپنی ’ہتک‘ سے جھلائی سوگندھی جب مادھو کو ذلیل کر کے اپنی بھڑاس نکالتی ہے تو افسانے کا قاری اپنی پوری ہم دردی اور  طرف داری کے ساتھ سوگندھی کا شریک بن جاتا ہے اور یہی منٹو کا منشا تھا۔ رہا افسانے کے آخر میں سوگندھی کے من کا خلا اور سونے پن کا احساس تو وہ سوگندھی ہو یا مہاتما وِدُور ہر انسان ایسے تجربوں سے گزرتا ہے۔ شکیل صاحب نے اسی طرح منٹو کے کئی کرداروں میں حضرت عیسا، حضرت موسا، مہاتما بدھ، سنت کبیر اور زین مذہب کی تمثیلوں سے عارفانہ نِکات پیدا کیے ہیں اور کہیں کہیں تل کا تاڑ تک بنا دیا ہے۔ اگر سعادت حسن کو جیتے جی ان باتوں کا احساس ہو جاتا تو وہ بندۂ عاصی منٹو کو یہ بشارت دینا نہ بھولتا کہ  ع   تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا!

منٹو کے یہاں اُس کے اب تک دستیاب 268 افسانوں (مع افسانچوں ) میں سے آٹھ دس میں عورت کی چھاتیوں کی خوبصورتی کا ذکر کوئی پندرہ بیس سطروں میں آیا ہے۔ ع  لذیذ بود حکایت دراز تر گفتم! کے مصداق شکیل صاحب نے چھاتیوں کے حسن کے ذکرِ جمیل میں مزے لے لے کر کئی صفحوں میں اپنے وسیع مطالعے کا کمال دکھایا ہے۔ جس میں ’ریتو سمہار‘ کے حوالے سے نوجوان لڑکیوں کا جاڑوں کی صبحوں میں بستر سے اُٹھ کر اپنے جسم اور چھاتیوں پر ناخن اور دانتوں کے نشانات دیکھ کر مُسکرانا بھی شامل ہے اور ’کمار سمبھو‘ میں اُوما کا اپنی ناف تک بڑھتے ہوئے شیو کے ہاتھ کو روکنا بھی! یہ تفصیلات دلچسپ ہیں ، اب یہ ایک الگ بات ہے کہ ابھی اردو قارئین کا مذاقِ نظر اتنا بلند نہیں ہوا کہ وہ منٹو کے یہاں عریانیت (بہت کم سہی) میں بھی شکیل الرحمان کی نظروں سے روحانیت کا جلوہ کرسکیں جس کا انھوں نے اپنی کتاب میں اظہار کیا ہے۔

اُن کا نظریۂ فن یہ رہا ہے کہ ’جمالیات فنونِ لطیفہ کی روح ہے۔ ۔ ۔ ہر اچھی اور بڑی تخلیق بنیادی طور پر جمالیاتی ہوتی ہے۔ معاشرتی، معاشی یا نفسیاتی نہیں ہوتی، اگرچہ یہ عوامل اس کے محرک ضرور ہوتے ہیں۔ (ہندستانی جمالیات) کسی نے کہا ہے کہ نورِ جمال مشتاق دلوں میں زیادہ درخشاں ہوتا ہے بہ نسبت مشاہدہ کرنے والی آنکھوں کے۔ اُن کی جمالیات شناسی کے سفر میں بھی کئی مقام ایسے ملتے ہیں کہ بے اختیار یہ شعر یاد آ جاتا ہے:

میرے مذاقِ شوق کا اس میں بھرا ہے رنگ

میں خود کو دیکھتا ہوں کہ تصویرِ یار کو

واقعہ یہ ہے کہ منٹو اور پریم چند کے افسانوی کرداروں کے تجزیوں اور اخترالایمان ، فراق، غالب اور میر وغیرہ کے ذہنی رویوں کو سمجھنے سمجھانے کے لیے انھوں نے نفسیات ہی سے قابل قدر نتائج اخذ کیے ہیں۔ اُن کے یہاں جمالیات کی گردان تو ہر جگہ موجود ملتی ہے، لیکن وہ جہاں قلی قطب شاہ، فراق، میر اور حافظ کے جمالیاتی طبائع کا انسلاک کسی حد تک اُن کے فن سے واضح کر پائے ہیں ، وہیں کئی فنکاروں کے یہاں اُن کی جمالیاتی تشریحات (آہنگ، آرکی ٹائپس، فینتاسی، سیمٹری وغیرہ) الگ سے دھری اور آرائشی نظر آتی ہیں یا پھر کئی فنکاروں کے یہاں بینِ سطور میں اُصولی رجحان یا شعریات کا احوال ہمیں اُن کی جمالیات کے حوالے سے ملتا ہے یا کہیں یہ جمالیات علم الاصنام کے دھندلکوں میں لپٹی ہوئی ملتی ہے۔

پریم چند اور منٹو کے سروکارِ فن پر غور کیجیے تو پریم کا قلم ہل کی کانٹی اور منٹو کا قلم جاروب یا اُستر ا نظر آتا ہے۔ پریم دھرتی سے جڑے انسانوں کے دُکھ درد اور اُن کی زندگی کے پست و بلند کو واشگاف کرنا چاہتے ہیں اور منٹو سماج کی گندگی کو مٹا دینا چاہتا ہے۔ وہ سماجی حقائق کو بغیر کسی ملمع کے اور عزت مآبوں کو بغیر کسی آرائش کے بلکہ اُن کا مونڈن کر کے پیش کرتا ہے، لیکن ہمارے کچھ نقادوں کو اُنھیں حقیقت پسندانہ طریقے سے قبول کرنے میں raw-dealکا احساس ہوتا ہے، اس لیے وہ اُن کی آرائشِ جمال سے ہنوز فارغ نہیں نظر آتے۔

بہرکیف تصوف کی جمالیات ہو یا کلاسیکی مثنویوں کی، اساطیر کی جمالیات ہو یا داستان امیر حمزہ کی اپنے نِکاتِ جمال کی ترسیل سے کہیں زیادہ شکیل الرحمان اپنے وسعتِ مطالعہ کا نقش قائم کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ اُن کی کتابیں عقل و وجدان اور فکرو تخیل کا سنگم ہیں ، نیم علمی ، نیم افسانوی۔

اُنھوں نے لکھا ہے کہ مولانا روم کی حکایتیں اور کہانیاں اُن کے شعورِ مسعود (blissful consciousness) کی ترجمان ہیں اور اس شعورِ مسعود کی بنیاد محبت ہے نہ کہ مذہب! اُنھوں نے ’کبیر کے نغموں پر گفتگو‘ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ کبیر کے یہاں انسان دوستی کے علاوہ پریم لیلا کا رنگ بھی چوکھا گہرا ہے۔ اُنھوں نے ’مثنوی چراغِ دیر‘ میں غالب کے تحیّرِ باطنی اور کشادگیِ فکر کا جلوہ کیا بھی ہے اور دکھایا بھی ہے۔ انھوں نے امیر خسروکے مسلک صلح کُل اور گنگا جمنی کردار اور دارا شکوہ کے صوفیانہ ذہن و ہندوی مزاج کو وقت کی طنابیں کھینچ کر بڑی خوبصورتی کے ساتھ صفحۂ قرطاس پر پیش کر دیا ہے۔ اُن کی مذکورہ تحریروں میں خاص طور پر اور دیگر تحریروں میں جا بجا انسان دوستی یا اُخوتِ انسانی کا پیغام جاری وساری ملتا ہے۔ میرے خیال میں اِن تحریروں کی اہمیت ’ہندستانی جمالیات‘ سے کہیں زیادہ اس لیے ہے کہ ان کی دانش و بینش کی مدد سے ہم مستقبل کی دید و دریافت کی جستجو کرسکتے ہیں ، جب کہ ماضی میں سفر کرنا (ہندستانی جمالیات) کہیں نہیں پہنچاتا۔

معترضہ طور پر عرض ہے کہ شکیل الرحمان کی جمالیات نگاری سے قبل جمالیات کے تعارف و تشریح اور مغربی مفکرین کی جمالیات شناسی پر اردو میں کتابیں آ چکی تھیں۔ اُن کتابوں میں مولانا عبدالماجد کے یہاں ثقالت و غرابت، محمد مظفر حسین کے یہاں بے ربطی و ژولیدگی، پنڈت مولوی حبیب الرحمان شاستری کے یہاں قدیمی پیرایۂ اظہار، مرزا رُسوا کے یہاں دقّت پسندی اور مجنوں گورکھپوری کے یہاں مواد کی کم مایگی کو دیکھتے ہوئے کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ بابائے جمالیات ایک کتاب نصابی طرز کی جمالیات اور متعلقاتِ جمالیات کی عام فہم تشریح میں تحریر فرما دیتے! لیکن اس مشکل سے وہ یہ کہہ کر پہلے ہی پِنڈ چھُڑا چکے ہیں کہ جمالیات کا ایک سائنس یا علم کی طرح احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ گویا   ؎

شعر می گویم بہ از قند و نبات

من ندانم فاعلاتن فاعلات!

مولانا روم

اگرچہ ’منطق کی تفہیم کے لیے منطق کے خدوخال اُبھارنے‘ کے فرمودۂ ہیگل کی پیروی میں شکیل الرحمان زندگی بھر جمالیات کے خدوخال اُبھارتے رہے، لیکن مجھ جیسے اوسط فہم قاری کا ذہن اُن کے کسی طے شدہ نظریۂ جمال کی تہ تک نہیں پہنچ سکا۔ نہ ہی شکیل صاحب کے بنائے دھندلکاتی خدوخال جمالیات کا کوئی پیکر تشکیل کرسکے۔ بہ ایں ہمہ کتنے ہی اساتینِ ادب کے فن و فکر کی جمالیاتی تفہیم کی قابل قدر کوششوں کے لیے بابا سائیں (شکیل الرحمان اب اسی لقب سے مخاطب کیا جانا پسند کرتے ہیں۔ ) کا مقام ادب میں محفوظ ہے۔ اُنھوں نے اپنی تحریروں میں حسن و جمال کا پُر لطف داستاں در داستاں سلسلہ دراز کر کے اردو ادب کو ایک انداز دل رُبائی اور طرح داری بخشی ہے جسے اردو زبان بھُلا نہ پائے گی۔ اُن کی زندگی آج بھی   ع   دامانِ باغباں و کفِ گل فروش ہے۔

 

نوٹ:

*سہ ماہی ’ادبی محاذ‘ (کٹک) کے ’شکیل الرحمان نمبر‘ بابت (جنوری تا مارچ 2013ء) کے آخری دو صفحوں پر اُن کی تیس سے زائد کتابوں کی فہرست دی گئی ہے۔ اگر ہم غور کریں کہ ’ہندستانی جمالیات‘ کی تین جلدیں ’ہندستان کا نظام جمال۔ ۔ ۔ ‘ ہی کی نقشِ ثانی ہیں۔ اسی طرح مصوری، موسیقی اور خطاطی کی جمالیات اُن کتابوں کے ذیلی موضوعات میں شامل ہیں ، اس کے علاوہ اُن کی ایک کتاب ’ادب اور جمالیات‘ (مطبوعہ 2011ء) جس کا نام اس فہرست میں شامل نہیں ، شکیل الرحمان کی آٹھ کتابوں (جو دراصل کتابچے ہیں ) کا بنیادی مواد حشو و  زوائد کے بِنا اور دو کتابوں کا جزوی و منتخب مواد سموئے ہوئے ہے تو بحیثیت مجموعی اُن کے جمالیاتی ادب کا سرمایہ تقریباً بیس کتابوں پر مشتمل ٹھہرتا ہے۔

٭٭٭

مصنف کے تشکر کے ساتھ کہ انہوں نے اس کی فائلیں فراہم کیں

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید