FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

بیان القرآن

 

 

جلد ۱، منزل اول (سورۂ فاتحہ تا النساء)

تا جلد ۷

اشرف علی تھانوی

جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید

 

پہلے محض تین سورتیں دستیاب ہو سکی تھیں، جو یہاں پوسٹ کی گئی تھیں۔

یہاں محض سورۂ النساء پیش کی جا رہی ہے۔ مکمل جلدیں ڈاؤن لوڈ کے لیے دستیاب ہیں۔

جلد ۱

جلد ۷

 

 

۴۔ سورۂ النساء

 

 

بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ

 شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

 

اے لوگوں اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک جاندار سے پیدا کیا اور اس جاندار سے اس کا جوڑ پیدا کیا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں (ف ۱) اور تم خدا تعالیٰ سے ڈرو جس کے نام سے ایک دوسرے سے سوال کیا کرتے ہو اور قرابت سے بھی ڈرو بالیقین اللہ تعالیٰ تم سب کی اطلاع رکھتے ہیں۔ (ف ۲) (1)

تفسیر:

ف۱۔ اس آیت میں پیدائش کی تین صورتوں کا بیان ہے ایک تو جاندار کا بے جان سے پیدا کرنا جیسے آدم (علیہ السلام) مٹی سے پیدا ہوئے دوسرے جاندار سے بلا طریقہ توالد متعارف پیدا ہونا جس طرح حضرت حوا حضرت آدم کی پسلی سے پیدا ہوئی ہیں اور تیسرے جاندار کا جاندار سے بطریق توالد متعارف پیدا ہونا جیسا اور آدمی آدم و حوا سے اس وقت تک پیدا ہوتے آ رہے ہیں اور فی نفسہ عجیب نہ ہونے میں اور قدرت کے سامنے عجیب نہ ہونے میں تینوں صورتیں برابر ہیں۔

ف۲۔ اوپر تقویٰ کا حکم تھا اور اس کے ضمن میں مراعات حقوق انسانیہ و رحمیہ کا ارشاد تھا آگے اس تقویٰ کے مواقع کا حقوق مذکورہ میں ہیں مفصلاً ذکر فرماتے ہیں۔

 

اور جن بچوں کا باپ مر جائے ان کے مال ان ہی کو پہنچاتے رہو اور تم اچھی چیز سے بری چیز کو مت بدلو اور ان کا مال مت کھاؤ اپنے مالوں (کے رہنے ) تک بیشک یہ (ایسی کاروائی کرنا) بڑا گناہ ہے۔ (2)

اور اگر تم کو اس بات کا احتمال ہو کہ تم یتیم (لڑکیوں ) کے بارے میں انصاف نہ کر سکو گے تو اور عورتوں سے جو تم کو پسند ہوں نکاح کر لو دو دو (عورتوں سے ) اور (تین تین عورتوں سے ) اور چار چار (عورتوں سے ) (ف ۳) پس اگر تم کو احتمال اس کا ہو کہ عدل نہ رکھو گے تو پھر ایک ہی (بی بی پر بس کرو) یا جو لونڈی تمہاری ملک میں ہو (وہی سہی) اس (امر مذکور) میں زیادتی نہ ہونے کی توقع قریب تر ہے۔ (ف ۴) (3)

تفسیر:

ف۳۔ مثنی و ثلث و ربع ترکیب نحوی میں حال ہیں طاب سے اور حال قید ہوتا ہے کلام میں اور مفہوم میں بوجہ تکرار معنی کے موضوع ہیں انقسام کے لیے پس مجموعہ دونوں امروں کا مقید ہوا تقلید الحکم بہذہ الاقسام کو۔ نہ کہ اطلاق کو اور حکم فانکحوا جو عامل ہے حال میں اباحت کے لیے ہے پس اباحت مقید ہو گئی ان اقسام کے ساتھ جب یہ قید نہ ہو گی مثلاً چار سے زائد تو اباحت بھی نہ ہو گی کیونکہ جہاں قید کا کوئی فائدہ نہ ہوا احترازی ہونی ہے۔

ف۴۔ اگر عدل نہ ہو سکنے کا غالب احتمال ہو تو کئی بیبیوں سے نکاح کرنا بایں معنی ممنوع ہے کہ یہ شخص گناہ گار ہو گا نہ بایں معنی کہ نکاح صحیح نہ ہو گا نکاح یقیناً ہو جائے گا۔

 

اور تم لوگ بی بیوں کو ان کے مہر خوش دلی سے دے دیا کرو ہاں اگر وہ (بی بیاں ) خوش دلی سے چھوڑ دے تم کو اس (مہر میں ) کوئی جزو تو تم اس کو کھاؤ مزہ دار خوشگوار سمجھ کر۔ (4)

اور تم کم عقلوں کو اپنے وہ مال مت دو جن کو خدا تعالیٰ نے تمہارے لیے مایۂ زندگانی بنایا ہے اور ان مالوں میں سے ان کو کھلاتے رہو پہناتے رہو اور ان سے معقول بات کہتے رہو۔ (ف ۵) (5)

تفسیر:

ف۵۔ یعنی ان کی تسلی کرتے ہو کہ مال تمہارا ہے تمہاری خیرخواہی کی وجہ سے ابھی تمہارے ہاتھ میں نہیں دیا ذرا سمجھ جاؤ گے تو تم ہی کو دے دیا جائے گا۔

 

اور تم یتیموں کو آزما لیا کرو یہاں تک کہ جب وہ نکاح کو پہنچ جاویں (ف ۶) پھر اگر ان میں ایک گونہ تمیز دیکھو (۷) تو ان کے اموال ان کے حوالے کر دو۔ اور ان اموال کو ضرورت سے زائد اٹھا کر۔ اور اس خیال سے کہ یہ بالغ ہو جاویں گے جلدی جلدی اڑا کر مت کھا ڈالو اور جو شخص مستغنی ہو سو وہ تو اپنے کو بالکل بچائے۔ اور جو شخص حاجتمند ہو تو وہ مناسب مقدار سے کھا لے پھر جب ان کے اموال ان کے حوالے کرنے لگو تو ان پر گواہ بھی کر لیا کرو اور اللہ تعالیٰ ہی حساب لینے والے کافی ہیں۔ (۸) (6)

تفسیر:

ف۶۔ یعنی بالغ ہو جاویں کیونکہ نکاح کی پوری قابلیت بلوغ ہوتی ہے۔

ف۷۔ یعنی حفاظت و رعایت صالح مال کا سلیقہ اور انتظام ان میں پاو اور تمیز نہ ہونے کا سفہ کہتے ہیں جو مانع تفویض مال ہے خواہ سلیقہ نہ ہو خواہ سلیقہ ہو مگر اس سلیقہ سے کام نہ لینا ہو یعنی انتظام نہ کرتا ہو بلکہ مال کو اڑاتا ہو دونوں صورتوں میں مال بھی نہ دیاجائے گا۔ ف ۸۔ یتیم کے حاجت مندوں کارکن کو بقدر حوائج ضرورت یہ صرف کرنا بوجہ اپنے حق الخدمت کے جائز ہے۔

 

مردوں کے لیے بھی حصہ ہے اس چیز میں سے جس کو ماں باپ اور بہت نزدیک کے قرابت دار چھوڑ جاویں۔ اور عورتوں کے لیے بھی حصہ ہے اس چیز میں سے جس کو ماں باپ اور بہت نزدیک کے قرابت دار چھوڑ جاویں خواہ وہ چیز قلیل ہو یا کثیر ہو۔ حصۂ قطعی۔ (ف ۱) (7)

تفسیر:

ف۱۔ یہاں صرف استحقاق حصہ میراث کو اجمالا بتلایا ہے تھوڑی دور آگے حصص ورثہ کی تفصیل آتی ہے اور نزدیک کے رشتہ سے مطلب یہ ہے کہ شرع میں جو ترتیب وارثوں مقرر اور ثابت ہے اس ترتیب میں نزدیک ہو اور ظاہر ہے کہ نزدیکی دونوں جانب سے ہوتی ہے پس اس سے لازم آ گیا جو کہ رشتہ دار اقرب ہو گا وہ میراث پائے گا۔

 

اور جب (وارثوں میں ترکہ کے ) تقسیم ہونے کے وقت آ موجود ہوں رشتہ دار (دور کے ) اور یتیم اور غریب لوگ تو ان کو بھی اس (ترکہ) میں (جس قدر بالغوں کا ہے اس میں ) سے کچھ دے دو اور ان کے ساتھ خوبی سے بات کرو۔ (ف ۲) (8)

تفسیر:

ف۲۔ یہ حکم واجب نہیں مستحب ہے اور اگر ابتداء میں واجب ہوا ہو تو وجوب منسوخ ہے۔

 

اور ایسے لوگوں کو ڈرنا چاہیئے کہ اگر اپنے بعد چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ جاویں تو ان کی ان کو فکر ہو سو ان لوگوں کو چاہیے کہ خدا تعالیٰ سے ڈریں۔ اور موقع کی بات کہیں۔ (9)

بلاشبہ جو لوگ یتیموں کا مال بلا استحقاق کھاتے (برتتے ) ہیں اور کچھ نہیں اپنے شکم میں آگ بھر رہے ہیں اور عنقریب جلتی آگ میں داخل ہوں گے۔ (ف ۳) (10)

تفسیر:

ف۳۔ جس طرح مال یتیم کا خود کھانا حرام ہے اسی طرح کسی کو کھلانا یا دینا گو بطور خیر خیرات ہی کے کیوں نہ ہو نیز حرام ہے اور ہر نابالغ کا حکم یہی ہے گو یتیم نہ ہو۔

 

اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے باب میں لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصہ کے برابر اور اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں گو دو سے زیادہ ہوں تو ان (لڑکیوں ) کو دو تہائی (ملے گا اس مال کا) جو کہ (مورث) چھوڑ مرا ہے اور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اس کو نصف ملے گا (ف ۴) اور ماں باپ کے لیےیعنی دونوں میں سے ہر ایک کے لیے (میت کے ) تر کہ میں سے چھٹا چھٹا حصہ ہے اگر میت کی کچھ اولاد ہو۔ اور اگر اس میت کی کچھ اولاد نہ ہو اور اس کے ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں تو اس کی ماں کا ایک تہائی ہے اور اگر میت کے ایک سے زیادہ بھائی یا بہن ہوں تو اس کی ماں کو چھٹا حصہ ملے گا ( اور باقی باپ کو ملے گا) وصیت نکال لینے کے بعد کہ میت اس کی وصیت کر جاوے یا دین کے بعد (ف ۵) تمہارے اصول و فروع جو ہیں تم پورے طور پر یہ نہیں جان سکتے ہو کہ ان میں کونسا شخص تم کو نفع پہچانے میں نزدیک تر ہے۔ یہ حکم منجانب اللہ مقرر کر دیا گیا بالیقین اللہ تعالیٰ بڑے علم اور حکمت والے ہیں۔ (۶) (11)

تفسیر:

ف۴۔ حدیث اور اجماع اہل حق سے اس آیت کا حکم انبیاء علہیم السلام کے لیے نہیں اسی واسطے حضرت صدیق اکبر نے فدک وغیرہ کو میراث میں تقسیم نہیں فرمایا۔

ف۵۔ دونوں (یعنی وصیت اور دین) سے پہلے تجہیز و تکفین ضروری ہے اور وصیت سے مراد وہ ہے جو شرع کے موافق ہو مثلاً وارث کو وصیت میں کچھ نہ دے اور بعد تجہیز و تکفین و ادائے دیون کے جو مال بچے اس کے ایک ثلث سے زائد کی وصیت نہ کرے ورنہ وہ وصیت میراث سے مقدم نہ ہو گی اور جاننا چاہیے کہ دین اور وصیت میں دین مقدم ہے۔

ف۶۔ میراث کا مسئلہ میت کی رائے پر نہیں رکھا گیا بلکہ خود حق تعالیٰ نے سب قواعد مقرر فرما دیے۔

 

اور تم کو آدھا ملے گا اس ترکہ کا جو تمہاری بیبیاں چھوڑ جاویں اگر ان کے کچھ اولاد نہ ہو اور اگر ان بی بیوں کے کچھ اولاد ہو تو تم کو ان کے تر کہ سے چوتھائی ملے گا وصیت نکالنے کے بعد کہ وہ اس کی وصیت کر جائیں یا دین کے بعد اور ان بیبیوں کو چوتھائی ملے گا اس ترکہ کا جس کو تم چھوڑ جاؤ۔ اگر تمہارے کچھ اولاد نہ ہو۔ اور اگر تمہارے کچھ اولاد ہو تو ان کو تمہارے تر کہ سے آٹھواں حصہ ملے گا وصیت نکالنے کے بعد کہ تم اس کی وصیت کر جاؤ یا دین کے بعد۔ اور اگر کوئی میت جس کی میراث دوسروں کو ملے گی خواہ وہ (میت) مرد ہو یا عورت ایسا ہو جس کے نہ اصول ہوں نہ فروع ہو اور اس کے ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ان دونوں میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا پھر اگر یہ لوگ اس سے زیادہ ہوں تو وہ سب تہائی میں شریک ہوں گے وصیت نکالنے کے بعد جس کی وصیت کی جاوے یا دین کے بعد بشرطیکہ کسی کو ضرر نہ پہنچاوے یہ حکم کیا گیا ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے اور اللہ تعالیٰ خوب جاننے والے ہیں حلیم ہیں۔ (ف ۱) (12)

تفسیر:

ف۱۔ احکام کو بیان کر کے آگے ان کے اعتقاد و عملاً ماننے کی تاکید اور نہ ماننے پر وعید ارشاد فرماتے ہیں۔

 

یہ سب احکام مذکورہ خداوندی ضابطے ہیں۔ اور جو شخص اللہ اور رسول کی پوری اطاعت کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو ایسی بہشتوں میں داخل کر دیں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے اور یہ بڑی کامیابی ہے۔ (13)

اور جو شخص اللہ اور رسول کا کہنا نہ مانے گا اور بالکل ہی اس کے ضابطوں سے نکل جاوے گا اس کو آگ میں داخل کریں گے اس طور سے کہ وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا اور اس کو ایسی سزا ہو گی جس میں ذلت بھی ہے۔ (ف ۲) (14)

تفسیر:

ف۲۔ جاہلیت میں جیسایتامی اور مواریث کے معاملہ میں بہت سی بے اعتدالیاں تھیں جن کی اصلاح اوپر کی آیات میں مذکور ہوئی اسی طرح عورتوں کے معاملہ میں بھی طرح طرح کے رسوم قبیحہ اور بے عنوانیاں شائع تھیں آگے الرجال قوامون تک ان معاملات کی اصلاح فرماتے ہیں اور جو خطا و قصور شرعاً معتبر ہو اس پر تادیب کی اجازت دیتے ہیں۔

 

اور جو عورتیں بیحیائی کا کام کریں تمہاری بیبیوں میں سے سو تم لوگ ان عورتوں پر چار آدمی اپنوں میں سے گواہ کر لو۔ سو اگر وہ گواہی دے دیں تو تم ان کو گھروں کے اندر مقید رکھو یہاں تک کہ موت ان کا خاتمہ کر دے یا اللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی اور راہ تجویز فرما دیں۔ (ف ۳) (15)

تفسیر:

ف۳۔ وہ حکم ثانی جو بعد نازل ہوا جس کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اس طرح ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے وہ سبیل ارشاد فرما دی ہے تم لوگ سمجھ لو اور یاد کہ ناکہ خدا کے لیے سوڈرے اور کہ خدا کے لیے سنگساری کمال فی الصحاح پس اس آیت کا حکم منسوخ ہے۔

 

اور جونسے دو شخص بھی بے حیائی کا کام کریں تم میں سے تو ان دونوں کو اذیت پہنچاؤ پھر اگر وہ دونوں توبہ کر لیں اور اصلاح کر لیں تو ان دونوں سے کچھ تعرض نہ کرو۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والے ہیں رحمت والے ہیں۔ (ف ۴) (16)

تفسیر:

ف۴۔ جونسے دو شخص بھی اس میں غیر منکوحہ و منکوحہ عورت اور نکاح اور بے نکاح والا مرد سب آ گئے پس چاروں کا حکم مذکور ہو گیا۔

 

توبہ جس کا قبول کرنا اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے وہ تو ان ہی کی ہے جو حماقت سے کوئی گناہ کر بیٹھتے ہیں (ف ۵) پھر قریب ہی وقت میں توبہ کر لیتے ہیں سو ایسوں پر تو خدا تعالیٰ توجہ فرماتے ہیں۔ اور اللہ خوب جانتے ہیں حکمت والے ہیں۔ (17)

تفسیر:

ف۵۔ حماقت کی قید واقعی احترازی اور شرطی نہیں کیونکہ ہمیشہ گناہ حماقت ہی سے ہوتا ہے۔

 

اور ایسے لوگوں کی توبہ نہیں جو گناہ کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے سامنے موت ہی آ کھڑی ہوئی (ف ۱) تو کہنے لگا کہ میں اب توبہ کرتا ہوں اور نہ ان لوگوں کی جن کو حالت کفر پر موت آ جاتی ہے۔ ان لوگوں کے لیے ہم نے ایک دردناک سزا تیار کر رکھی ہے۔ (18)

تفسیر:

ف۱۔ حضور موت کا مطلب یہ ہے اس سرور عالم کی چیزیں نظر آنے لگیں۔

 

اے ایمان والو تم کو یہ بات حلال نہیں کہ عورتوں کے (مال یا جان کے ) جبرا مالک ہو جاؤ (ف ۲) اور ان عورتوں کو اس غرض سے مقید مت کرو کہ جو کچھ تم لوگوں نے ان کو دیا ہے اس میں کا کوئی حصہ وصول کر لو مگر یہ کہ وہ عورتیں کوئی صریح ناشائستہ حرکت کریں۔ اور ان عورتوں کے ساتھ خوبی کے ساتھ گزران کیا کرو اور اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ممکن ہے کہ تم ایک شے کو ناپسند کرو اور اللہ تعالیٰ اس کے اندر کوئی بڑی منفعت رکھ دے۔ (19)

تفسیر:

ف۲۔ مال کا مالک ہونا تین طرح ہے ایک یہ کہ اس عورت کا جو حق شرعی میراث میں ہے اس کو خود لے لیا جائے اس کو نہ دیا جائے اور دورے یہ کہ اس کو نکاح نہ کرنے دیا جائے یہاں تک کہ وہ یہاں ہی مر جائے پھر اس کا مال لے لیں یا وہ اپنے ہاتھ سے کچھ دے تیسری یہ کہ خاوند اس کو بے وجہ مجبور کرے کہ وہ اس کو کچھ مال دے تب یہ اس کو چھوڑے اور جان کا مالک ہونا یہ تھا کہ مردہ کی عورت کی مثل مال مردہ کے اپنی میراث سمجھتے تھے اس صورت میں جبر کی قید واقعی ہے کہ وہ ایسا کرتے تھے یہ نہیں کہ اگر عورت اگر راضی ہو تو وہ سچ مچ میراث اور ملک ہو جائے گی۔

 

اور تم بجائے ایک بی بی کے دوسری بی بی کرنا چاہو اور تم اس ایک کو انبار کا انبار مال دے چکے ہو تو تم اس میں سے کچھ بھی مت لو (ف ۳) کیا تم اس کو لیتے ہو بہتان رکھ کر اور صریح گناہ کے مرتکب ہو کر۔ (20)

تفسیر:

ف۳۔ اگر کسی کو شبہ ہو کہ حدیث میں تاکید آئی ہے کہ مہر کم مقرر کرنے کی اور اس آیت سے زیادہ کا جواز معلوم ہوتا ہے تو اس کا دفع یہ ہے کہ یہ جواز مفہوم من القرآن بمعنی صحت و نفاذ ہے۔ اور حدیث میں جواز بمعنی اباحت مطلقہ و عدم کراہت کی نفی ہے پس کچھ تعارض نہیںرہا اور حضرت عمر کا ایک واقعہ میں زیادہ مہر کے جواب کو مان لینا اس لیے تھا کہ سامعین اس کو حرام نہ سمجھنے لگیں پس اس سے کراہت کا عدم ثابت نہیں ہوتا نہ حضرت عمر پر کوئی اعتراض لازم آتا ہے۔

 

اور تم اس کو کیسے لیتے ہو حالانکہ تم باہم ایک دوسرے سے بے حجابانہ مل چکے ہو اور وہ عورتیں تم سے ایک گاڑھا قرار لے چکی ہیں۔ (21)

اور تم ان عورتوں سے نکاح مت کرو جن سے تمہارے باپ (دادا یا نانا) نے نکاح کیا ہو مگر جو بات گزر گئی (گزر گئی) بیشک یہ (عقلا بھی) بڑی بے حیائی ہے اور نہایت نفرت کی بات ہے۔ اور (شرعاً بھی) بہت برا طریقہ ہے۔ (ف ۴) (22)

تفسیر:

ف۴۔ جس عورت سے باپ نے زنا کیا ہو اس سے بیٹا نکاح نہیں کر سکتا اسی طرح جہاں جہاں نکاح سے تحریم شدید ہو جاتی ہے زنا سے بھی ہو جاتی ہے۔

 

تم پر حرام کی گئیں تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں (ف ۵) اور تمہاری بہنیں (ف ۶) اور تمہاری پھوپھیاں (ف ۷) اور تمہاری خالائیں (ف ۸) اور بھتیجیاں اور بھانجیاں (ف ۹) اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہے (یعنی انا) اور تمہاری وہ بہنیں جو دودھ پینے کی وجہ سے ہیں (۱۰) اور تمہاری بیبیوں کی مائیں (۱۱) اور تمہاری بیٹیوں کی بیٹیاں (۱۲) جو کہ تمہاری پرورش میں رہتی ہیں ان بیبیوں سے کہ جن کے ساتھ تم نے صحبت کی ہو (۱۳) اور اگر تم نے ان بیبیوں سے صحبت نہ کی ہو تو تم کو کوئی گناہ نہیں اور تمہارے ان بیٹوں کی بی بیاں جو کہ تمہاری نسل سے ہوں (ف ۱) اور یہ کہ تم دو بہنوں کو (رضاعی ہوں یا نسبی) ایک ساتھ رکھو لیکن جو پہلے ہو چکا۔ بیشک اللہ تعالیٰ بڑے بخشنے والے بڑے رحمت والے ہیں۔ (23)

تفسیر:

ف۵۔ ان میں سب اصول و فروع بواسطہ وبلاواسطہ سب ہیں۔

ف۶۔ خواہ عنی ہوں یا علاتی یا اخیافی۔

ف۷۔ اس میں باپ کی اور سب مذکر اصول کی تینوں قسم کی بہنیں آ گئیں۔

ف۸۔ اس میں ماں کی اور سب مونث اصول کی تینوں قسم کی بہنیں آ گئیں۔

ف۹۔ اس میں تینوں قسم کی بہنوں کی اولاد بواسطہ وبلاواسطہ سب آ گئیں۔

ف۰۱۔ یعنی تم سے ان کی حقیقی یا رضاعی ماں کا دودھ پیا ہے یا انہوں نے تمہاری حقیقی یا رضاعی ماں کا دودھ پیا ہے گو مختلف وقت میں پیا ہو۔

ف۱۱۔ اس میں زوجہ کے مونث اصول آ گئے۔

ف۲۱۔ اس میں زوجہ کے سب مونث فروع آ گئے۔

ف۳۱۔ یعنی کسی عورت کے ساتھ صرف نکاح کرنے سے اس کی لڑکی حرام نہیں ہوتی بلکہ جب اس عورت سے صحبت ہو جاوے تب لڑکی حرام ہو جاتی ہے۔

ف۱۔ اس میں سب مذکر فروع کی بیبیاں آ گئیں اور نسل کی قید کا مطلب یہ ہے کہ منہ بولے لے پالک جس کو متبنی کہتے ہیں اس کی بی بی حرام نہیں۔

 

اور وہ عورتیں جو کہ شوہر والیاں ہیں مگر جو کہ تمہاری مملوک ہو جاویں اللہ تعالیٰ نے ان احکام کو تم پر فرض کر دیا ہے (ف ۲) اور ان (عورتوں ) کے سوا ( اور عورتیں ) تمہارے لئے حلال کی گئیں ہیں (یعنی یہ) کہ تم ان کو اپنے مالوں کے ذریعہ سے چاہو (ف ۳) اس طرح سے کہ تم بیوی بناؤ صرف مستی ہی نکالنا نہ ہو (ف ۴) پھر جس طریق سے تم ان عورتوں سے منتفع ہوئے ہو سو ان کو ان کے مہر دو جو کچھ مقرر ہو چکے ہیں اور مقرر ہوئے بعد بھی جس پر تم باہم رضامند ہو جاؤ اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑے جاننے والے ہیں بڑے حکمت والے ہیں۔ (24)

تفسیر:

ف۲۔ یہاں تک محرمات کا بیان تھا اس کے بعد ان کے ماسوا کی حلت نکاح کا مع بعض شرائط حلت کے بیان ہے۔

ف۳۔ یعنی مہر ہونا نکاح میں ضروری ہے۔

ف۴۔ اس کے عموم میں زنا اور متعہ سب داخل ہو گیا۔

 

اور جو شخص تم میں پوری مقدرت ( اور گنجائش) نہ رکھتا ہو آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کرنے کی تو وہ اپنے آپس کی مسلمان لونڈیوں سے جو کہ تم لوگوں کی مملوکہ ہیں (نکاح کرے ) اور تمہارے ایمان کی پوری حالت اللہ ہی کو معلوم ہے تم سب آپس میں ایک دوسرے کے برابر ہو۔ سو ان سے نکاح کر لیا کرو ان کے مالکوں کی اجازت سے اور ان کو ان کے مہر قاعدہ کے موافق دے دیا کرو اس طور پر کہ وہ منکوحہ بنائی جائیں نہ تو علانیہ بدکاری کرنے والی ہوں اور نہ خفیہ آشنائی کرنے والی ہوں (ف ۵) پھر جب وہ لونڈیاں منکوحہ بنائی جائیں پھر اگر وہ بڑی بے حیائی کا کام (زنا) کریں تو ان پر اس سزا سے نصف سزا ہو گی کہ آزاد عورتوں پر ہوتی ہے (ف ۶) یہ اس شخص کے لیے ہے جو تم میں زنا کا اندیشہ رکھتا ہو۔ (ف ۷) اور تمہارا ضبط کرنا زیادہ بہتر ہے (بہ نسبت نکاح کنیز کے ) اور اللہ تعالیٰ بڑے بخشنے والے ہیں بڑے رحمت والے ہیں۔ (25)

تفسیر:

ف۵۔ لونڈی کے ساتھ نکاح کرنے میں دو شرطیں لگائیں ایک یہ کہ وہ ایسی عورت سے نکاح نہ کر سکے جس میں دو صفتیں ہوں ایک حریت دوسرے ایمان۔ دوسری قید یہ کہ وہ مسلمان لونڈی ہو۔ امام ابو حنیفہ کے نزدیک ان قیود کی رعایت اولی ہے اور اگر بلا رعایت ان قیود کے لونڈی سے نکاح کیا تو نکاح ہو جائے گا لیکن کراہت ہو گی۔

ف۶۔ وہ سزا یہ کہ ان کے پچاس درے لگائے جائیں گے۔

ف۷۔ اور جس کو یہ اندیشہ نہ ہو اس کے لیے مناسب نہیں۔

 

اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہے کہ تم سے بیان کر دے اور تم سے پہلے لوگوں کے احوال تم کو بتا دے اور تم پر توجہ فرما دے اور اللہ تعالیٰ بڑے علم والے ہیں بڑے حکمت والے ہیں۔ (26)

اور اللہ تعالیٰ کو تو تمہارے حال پر توجہ فرمانا منظور ہے اور جو لوگ کہ شہوت پرست ہیں (ف ۱) وہ یوں چاہتے ہیں کہ تم بڑی بھاری کجی میں پڑ جاؤ۔ (ف ۲) (27)

تفسیر:

ف۱۔ شہوت پرست لوگوں سے بقول ابن زید مراد فساق ہیں اور بقول ابن عباس مراد زانی ہیں یہاں شہوت پرستی کی مذمت میں شہوت مباحہ سے منقطع ہونا داخل نہیں ہے۔

ف۲۔ بڑی بھاری کجی کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ بے باکانہ حرام کا مرتکب ہونا دوسرے یہ کہ حرام کو حلال سمجھ جانا۔ اور اس کے مقابلہ میں ہلکی کجی یہ ہے کہ گناہ کو گناہ سمجھے اور اتفاقا اس کا صدور ہو جائے اس آیت میں اس میل غیر عظیم کی اجازت نہیں ہے بلکہ بیان کرنا ہے ان بد خواہوں کے حال کا وہ میل عظیم کی سعی میں ہیں۔

 

اللہ تعالیٰ کو تمہارے ساتھ تخفیف منظور ہے اور آدمی کمزور پیدا کیا گیا ہے۔ (28)

اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق طور پر مت کھاؤ لیکن کوئی تجارت ہو جو باہمی رضامندی سے ہو تو مضائقہ نہیں اور تم ایک دوسرے کو قتل بھی مت کرو بلاشبہ اللہ تعالیٰ تم پر بڑے مہربان ہیں۔ (29)

اور جو شخص ایسا فعل کرے گا اس طور پر کہ حد سے گزر جاوے اور اس طور پر کہ ظلم کرے (ف ۳) تو ہم عنقریب (ف ۴) اس کو آگ میں داخل کریں گے اور یہ (امر) خدا تعالیٰ کو آسان ہے۔ (30)

تفسیر:

ف۳۔ عدوان کا حاصل یہ ہے کہ وہ شخص مقتول واقع میں مستحق قتل نہ ہو اور اس کو قتل کیا جاوے اور ظلم کا حاصل یہ ہے کہ غیر مستحق للقتل کا قتل ہونا تین طور پر سکتا ہے ایک یہ فعلاً خطا ہوئی یعنی مثلاً گولی شکار پر چلائی اور وہ کسی آدمی کو لگ گئی۔ دوسرے یہ کہ قاضی و حاکم سے اجتہاداً خطا ہوئی تیسرے یہ کہ حقیقت حال یعنی اس کا غیر مستحق للقتل ہونا معلوم ہے پھر بھی عمداً اس کو قتل کر ڈالا پس ظلم کہنے سے پہلی دو صورتیں خارج ہو گئیں کہ ان میں یہ وعید نہیں۔

ف۴۔ یعنی بعد الموت۔

 

جن کاموں سے تم کو منع کیا جاتا ہے ان میں جو بھاری بھاری کام ہیں اگر تم ان سے بچتے رہو تو ہم تمہاری خفیف برائیاں تم سے دور فرما دیں گے اور ہم تم کو ایک معزز جگہ میں داخل کر دیں گے۔ (ف ۵) (31)

تفسیر:

ف۵۔ گناہ کبیرہ کی تعریف میں بہت اقوال ہیں جامعہ تر قول وہ ہے جس کو روح المعانی میں شیخ الاسلام بارزی سے نقل کیا ہے کہ جس گناہ پر کوئی وعید ہو یا حد ہو یا اس پر لعنت آئی ہو یا اس میں مفسدہ کسی ایسے گناہ کے برابر یا زیادہ ہو جس پر وعیدیا حد یا لعنت آئی ہو یا وہ براہ تہاون فی الدین صادر ہو وہ کبیرہ ہے اور اس کا مقابل صغیرہ ہے اور حدیثوں میں جو عدد وارد ہے اس سے مقصود حصر نہیں بلکہ مقتضائے وقت ان ہی کا ذکر ہو گا۔

 

اور تم ایسے کسی امر کی تمنا مت کیا کرو جس میں اللہ تعالیٰ نے بعضوں کو بعضوں پر فوقیت بخشی ہے (ف ۶) مردوں کے لیے ان کے اعمال کا حصہ ( ثابت) ہے اور عورتوں کے لیے ان کے اعمال کا حصہ (ثابت) ہے اور اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل کی درخواست کیا کرو بلاشبہ اللہ تعالیٰہر چیز کو خوب جانتے ہیں۔ (32)

تفسیر:

ف۶۔ جیسے مرد ہونا۔ یا مردوں کا دونا حصہ ہونا یا ان کی شہادت کا کامل ہونا وغیرہ ذالک۔

 

اور ہر ایسے مال کے لیے جس کو والدین اور رشتہ دار لوگ چھوڑ جاویں ہم نے وارث مقرر کر دیے ہیں اور جن لوگوں سے تمہارے عہد بندھے ہوئے ہیں ان کو ان کا حصہ (یعنی ایک ششم دے دو ) (ف ۷) بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر مطلع ہیں۔ (33)

تفسیر:

ف۷۔ جن دو شخصوں میں باہم اس طرح قول و قرار ہو جائے کہ ہم ایک دوسرے کے اس طرح یار و مددگار رہیں گے کہ اگر ایک شخص کے ذمہ کوئی دیت لازم آئی تو دوسرا بھی اس کا متحمل ہو اور جب وہ مرا جائے تو دوسرا اس کی میراث لے تو یہ عہد عقد موالات ہے اور ان میں سے ہر شخص مولی المولات کہلاتا ہے یہ رسم عرب میں اسلام سے پہلے بھی تھی ابتداء اسلام میں جب تک کہ اکثر مسلمان نہ ہوئے تھے اور اس وجہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے باہم انصار و مہاجرین میں عقد اخوت جس کا اثر اسی مولات کا سا تھا منعقد فرما دیا تھا اس وقت اسی رسم قدیم کے موافق حکم رہا کہ انصار و مہاجرین میں باہم میراث جاری ہوتی تھی پھر جب لوگ بکثرت مسلمان ہو گئے تو اس میں اول ترمیم وہ ہوئی جو اس آیت میں مذکور ہے یعنی چھٹا حصہ اس مولی الموالات کو اور باقی دوسرے ورثہ کو دلایا جاتا تھا پھر بعد چندے سورۃ احزاب کی آیت والوالارحام سے بالکل ہی اس مولی الموالات کا حصہ منسوخ ہو گیا۔

 

مرد حاکم ہیں عورتوں پر اس سبب سے کہ اللہ تعالیٰ نے بعضوں کو بعضوں پر فضیلت دی ہے اور اس سبب سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں سو جو عورتیں نیک ہیں اطاعت کرتی ہیں مرد کی عدم موجودگی میں بحفاظت الٰہی ٰنگہداشت کرتی ہیں اور جو عورتیں ایسی ہوں کہ تم کو ان کیبد دماغی کا احتمال ہو تو ان کو زبانی نصیحت کرو اور ان کو ان کے لیٹنے کی جگہوں میں تنہا چھوڑ دو اور ان کو مارو پھر وہ تمہاری اطاعت کرنا شروع کر دیں تو ان پر بہانا مت ڈھونڈو بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑے رفعت اور عظمت والے ہیں۔ (34)

اور اگر تم (اوپر والوں ) کو ان دونوں (میاں بیوی) میں کشاکش کا اندیشہ ہو تو تم لوگ ایک آدمی جو تصفیہ کرنے کی لیاقت رکھتا ہو مرد کے خاندان سے اور ایک آدمی جو تصفیہ کرنے کی لیاقت رکھتا ہو عورت کے خاندان سے بھیجو اگر ان دونوں آدمیوں کو اصلاح منظور ہو گی تو اللہ تعالیٰ ان (میاں بی بی) میں اتفاق فرماویں گے بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑے علم اور بڑے خبر والے ہیں۔ (35)

اور تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اختیار کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت کرو اور والدین کے ساتھ اچھا معاملہ کرو اور اہل قرابت کے ساتھ بھی اور یتیموں کے ساتھ بھی اور غریب غربا کے ساتھ بھی اور پاس والے پڑوسی کے ساتھ بھی اور دور والے پڑوسی کے ساتھ بھی اور ہم مجلس کے ساتھ بھی (ف ۱) اور راہ گیر کے ساتھ بھی اور ان کے ساتھ بھی جو تمہارے مالکانہ قبضے میں ہیں (ف ۲) بیشک اللہ تعالیٰ ایسے شخصوں سے محبت نہیں رکھتے جو اپنے کو بڑا سمجھتے ہوں شیخی کی باتیں کرتے ہوں۔ (36)

تفسیر:

ف۱۔ خواہ وہ مجلس دائمی ہو جیسے طویل سفر کی رفاقت اور کسی مباح کام میں شرکت یا عارضی ہو جیسے سفر قصیریا اتفاقی جلسہ میں شرکت۔

ف۲۔ یہ اہل حقوق اگر کافر بھی ہوں تب بھی ان کے ساتھ احسان کرے البتہ مسلمان کا حق اسلام کی وجہ سے ان سے زائد ہو گا۔

 

جو کہ بخل کرتے ہوں اور دوسرے لوگوں کو بھی بخل کی تعلیم کرتے ہوں اور وہ اس چیز کو پوشیدہ رکھتے ہوں جو اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے فضل سے دی ہیں (ف ۳) اور ہم نے ایسے ناسپاسوں کے لئے اہانت آمیز سزا تیار کر رکھی ہے۔ (37)

تفسیر:

ف۳۔ اس سے مراد یا تو مال و دولت ہے جبکہ بلا مصلحت حفاظت کے محض بخل کی وجہ سے کہ اہل حقوق توقع نہ کریں چھپا دے اور یا مراد علم دین ہے کہ یہود اخبار رسالت کو چھپایا کرتے تھے پس بخل بھی عام ہو جائے گا پس اس میں بخلاء و منکرین رسالت دونوں آ گئے۔

 

اور جو لوگ کہ اپنے مالوں کو لوگوں کے دکھانے کے لیے خرچ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر اور آخری دن پر اعتقاد نہیں رکھتے اور شیطان جس کا مصاحب ہو اس کا وہ برا مصاحب ہے۔ (ف ۴) (38)

تفسیر:

ف۴۔ اوپر کفر باللہ وبالرسول وبالقیامہ اور بخل اور ریا اور کبر کی مذمت فرمائی ہے آگے ان کے اضداد کی ترغیب دیتے ہیں پس وہ تتمہ ہے ماقبل کا۔

 

اور ان پر کیا (مصیبت نازل) ہو جاوے گی اگر وہ لوگ اللہ تعالیٰ پر اور آخری دن پر ایمان لے آویں اور اللہ نے جو ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ خرچ کرتے رہا کرے (ف ۵) اور اللہ تعالیٰ ان کو خوب جانتے ہیں۔ (39)

تفسیر:

ف۵۔ یعنی کچھ بھی ضرر نہیں ہر طرح نفع ہی ہے۔

 

بلاشبہ اللہ تعالیٰ ایک ذرہ برابر بھی ظلم نہ کریں گے اور اگر ایک نیکی ہو گی تو اس کو کئی گناہ کر دیں گے اور اپنے پاس سے اور اجر عظیم دیں گے۔ (ف ۶) (40)

تفسیر:

ف۶۔ اوپر جن امور کی ترغیب تھی آگے ان کے نہ کرنے پر ترہیب ہے۔

 

سو اس وقت بھی کیا حال ہو گا جبکہ ہم ہر ہر امت میں سے ایک ایک گواہ کو حاضر کریں گے اور آپ کو بھی ان لوگوں پر گواہی دینے کے لیے حاضر کریں گے۔ (ف ۱) (41)

تفسیر:

ف۱۔ یعنی جن لوگوں نے خدائی احکام دنیا میں نہ مانے ہوں گے ان کے مقدمہ کی پیشی کے وقت بطور سرکاری گواہ کے انبیاء علہیم السلام کے اظہارات سنے جائیں گے جو جو معاملات انبیاء انبیاء کی موجودگی میں پیش آئے تھے سب ظاہر کر دیں گے اس شہادت کے بعد ان مخالفین پر جرم ثابت ہو کر سزادی جائے گی۔

 

اس روز جن لوگوں نے کفر کیا ہو گا اور رسول کا کہنا نہ مانا ہو گا وہ اس بات کی آرزو کریں گے کہ کاش ہم زمین کے پیوند ہو جائے اور اللہ تعالیٰ سے کسی بات کا اخفا نہ کر سکیں گے۔ (42)

اے ایمان والو تم نماز کے پاس بھی ایسی حالت میں مت جاؤ (ف ۲) کہ تم نشہ میں ہو یہاں تک کہ تم سمجھنے لگو کہ منہ سے کیا کہتے ہو (ف ۳) اور حالت جنابت میں بھی باستثناء تمہارے مسافر ہونے کی حالت کے یہاں تک کہ غسل کر لو (ف ۴) اور اگر تم بیمار ہو (ف ۵) یا حالت سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی شخص استنجے سے آیا ہو یا تم نے بی بیوں سے قربت کی ہو پھر تم کو پانی نہ ملے تو تم پاک زمین سے تیمم کر لیا کرو یعنی (اس زمین پر دوبارہ ہاتھ مار کر) اپنے چہروں اور ہاتھوں پر (ہاتھ) پھیر لیا کرو (ف ۶) بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑے معاف کرنے والے بڑے بخشنے والے ہیں۔ (43)

تفسیر:

ف۲۔ یعنی ایسی حالت میں نماز مت پڑھو مطلب یہ ہے کہ ادائے نماز تو اپنے اوقات میں فرض ہے اور یہ حالت ادائے نماز کے منافی ہے پس اوقات صلوۃ میں نشہ کا استعمال مت کرو کبھی تمہارے منہ سے کوئی کلمہ خلاف نہ نکل جائے۔

ف۳۔ یہ حکم اس وقت تھا جب شراب حلال تھی پھر شراب حرام ہو گئی نہ نماز کے وقت درست ہے نہ غیر نماز کے وقت پس اس آیت کا جزو اول منسوخ ہے۔

ف۴۔ غسل عن الجنابۃ شرائط صحت نماز سے ہے اور یہ حکم یعنی جنابت کے بعد بدون غسل نماز نہ پڑھنا حالت عدم عذر میں ہے۔

ف۵۔ جس مرض میں پانی کے استعمال سے مرض کے اشتداد کا ڈر ہو اس میں تیمم درست ہے مرض میں یہ دونوں صورتیں داخل ہیں۔

ف۶۔ تیمم ہر ایسی چیز سے جائز ہے جو حنس زمین سے ہو اور جنس زمین میں وہ ہے جو آگ میں نہ جلے اور نہ گلے۔ لیکن چونا اور راکھ مستثنی ہیں ان سے تیمم جائز ہے۔

 

کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب کا ایک (بڑا) حصہ ملا ہے وہ لوگ گمراہی کو اختیار کر رہے ہیں اور یوں چاہتے ہیں کہ تم راہ سے بے راہ ہو جاؤ۔ (44)

اور اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کو خوب جانتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کافی رفیق ہے اور اللہ تعالیٰ کافی حامی ہے۔ (45)

یہ لوگ جو یہودیوں میں سے ہیں کلام کو اس کے مواقع سے دوسری طرف پھیر دیتے ہیں اور یہ کلمات کہتے ہیں سمعْناو عصیْنا اور اسْمعْ غیْرمسْمعٍ اور راعنا اس طور پر کہ اپنی زبانوں کو پھیر کر اور دین میں طعنہ زنی کی نیت سے (ف ۷) اور اگر یہ لوگ یہ کلمات کہتے سمعْناو اطعْنا (ف ۸) اور اسْمعْ اور انْظرْنا (ف ۹) تو یہ بات ان کے لیے بہتر ہوتی اور موقع کی بات تھی مگر ان کو خدا تعالیٰ نے ان کے کفر کے سبب اپنی رحمت سے دور پھینک دیا اب وہ ایمان نہ لاویں گے ہاں مگر تھوڑے سے آدمی۔ (ف ۱۰) (46)

تفسیر:

ف۷۔ نبی کے ساتھ طعن وستہزاء عین دین کے ساتھ طعن و استہزاء ہے۔

ف۸۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا۔

ف۹۔ اسمع کے معنی یہ ہیں کہ آپ سن لیجیے اور انظرنا کے معنی یہ ہیں کہ ہماری مصلحت پر نظر فرمائیے۔

ف۱۰۔ یہ لایومنون ان ہی کی نسبت فرمایا جو علم الٰہی میں کفر پر مرنے والے تھے پس نومسلموں کے ایمان لانے سے کوئی شبہ نہیں ہو سکتا اور جو ایمان لے آتا ہے اگر وہ کسی وقت میں بے ادبی و نافرمانی بھی کر چکا ہو لیکن جب اس سے باز آ گیا تو وہ کالعدم ہو گیا۔

 

اے وہ لوگو جو کتاب دیئے گئے ہو تم اس کتاب پر ایمان لاؤ جس کو ہم نے نازل فرمایا ہے ایسی حالت پر کہ وہ سچ بتلاتی ہیں اس کتاب کو جو تمہارے پاس ہے اس سے پہلے پہلے کہ ہم چہروں کو بالکل مٹا ڈالیں اور ان کو ان کی الٹی جانب کی طرح بنا دیں یا ان پر ہم ایسی لعنت کریں جیسی لعنت ان ہفتہ والوں پر کی تھی اور اللہ تعالیٰ کا حکم پورا ہو کر ہی رہتا ہے۔ (47)

بیشک اللہ تعالیٰ اس بات کو نہ بخشیں گے کہ ان کے ساتھ کسی کو شریک قرار دیا جائے اور اس کے سوائے اور جتنے گناہ ہیں جس کے لیے منظور ہو گا وہ گناہ بخش دیں گے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے وہ بڑے جرم کا مرتکب ہوا۔ (ف ۱) (48)

تفسیر:

ف۱۔ قرآن و حدیث و اجماع سے یہ مسئلہ ضروریات شرع سے ہے کہ شرک اور کفر دونوں غیر مغفور ہیں۔

 

کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنے کو مقدس بتلاتے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہیں مقدس بنا دیں اور ان پر تاگے برابر بھی ظلم نہ ہو گا۔ (49)

دیکھ تو یہ لوگ اللہ تعالیٰ پر کیسی جھوٹی تہمت لگاتے ہیں اور یہی بات صریح مجرم ہونے کے لیے کافی ہے۔ (50)

کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب کا ایک حصہ ملا ہے (پھر باوجود اس کے ) وہ بت اور شیطان کو مانتے ہیں (ف ۲) اور وہ لوگ کفار کی نسبت کہتے ہیں کہ یہ لوگ بہ نسبت مسلمانوں کے زیادہ راہ راست پر ہیں۔ (51)

تفسیر:

ف۲۔ کیونکہ مشرکین کا دین بت پرستی اور شیطان کی پیروی تھا جب ایسے دین کو اچھا بتلایا تو بت اور شیطان کی تصدیق صاف لازم آئی۔

 

یہ وہ لوگ ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے ملعون بنا دیا ہے اور خدا تعالیٰ جس کو ملعون بنا دے اس کا کوئی حامی نہ پاؤ گے۔ (52)

ہاں کیا ان کے پاس کوئی حصہ ہے سلطنت کا سو ایسی حالت میں تو اور لوگوں کو ذرا سی چیز بھی نہ دیتے۔ (53)

یا دوسرے آدمیوں سے ان چیزوں پر جلتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے فضل سے عطا فرمائی ہیں سو ہم نے (حضرت) ابراہیم (علیہ السلام) کے خاندان کو کتاب بھی دی ہے اور علم بھی دیا ہے اور ہم نے ان کو بڑی بھاری سلطنت بھی دی ہے۔ (ف ۳) (54)

تفسیر:

ف۳۔ چنانچہ بنی اسرائیل میں بہت سے انبیاء گزرے بعض انبیاء سلاطین بھی ہوئے جیسے حضرت یوسف (علیہ السلام) و حضرت داود (علیہ السلام) و حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا کثیر الازواج ہونا معلوم و مشہور ہے اور یہ سب اولاد ابراہیم میں ہیں سو جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) بھی اولاد ابراہیم سے ہیں تو آپ کو اگر یہ نعمتیں و عطیات مل گئیں تو تعجب کی کیا بات ہے۔

 

سو ان میں سے بعضے تو اس پر ایمان لائے اور بعضے تو ایسے تھے کہ اس سے روگرداں ہی رہے اور دوزخ آتش سوزاں ہی کافی ہے۔ (ف ۴) (55)

تفسیر:

ف۴۔ پس اگر آپ کی رسالت و قرآن پر بھی آپ کے زمانہ کے بعض لوگ ایمان نہ لاویں تو رنج کی بات نہیں۔

 

بلا شک جو لوگ ہماری آیات کے منکر ہوئے ہم ان کو عنقریب ایک سخت آگ میں داخل کر دیں گے جب ایک دفعہ ان کی کھال جل چکے گی تو ہم (اس پہلی کھال کی جگہ فورا) دوسری کھال پیدا کر دیں گے تاکہ عذاب ہی بھگتتے رہیں (ف ۱) بلا شک اللہ تعالیٰ زبردست ہیں حکمت والے ہیں۔ (56)

تفسیر:

ف۱۔ کیونکہ پہلی کھال میں جلنے کے بعد شبہ ہو سکتا تھا کہ شاید اس میں ادراک نہ رہے اس لیے شبہ قطع کرنے کے لیے یہ سنا دیا۔

 

اور جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے ہم ان کو عنقریب ایسے باغ میں داخل کریں گے کہ ان کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ان کے واسطے ان میں پاک صاف بی بیاں ہوں گی اور ہم ان کو نہایت گنجان سایہ میں داخل کر دیں گے۔ (ف ۲) (57)

تفسیر:

 

ف۲۔ یعنی دنیا کا سایہ نہ ہو گا کہ خود سایہ کے اندر بھی دھوپ چھنتی ہے وہ بالکل متصل ہو گا۔

بیشک تم کو اللہ تعالیٰ اس بات کا حکم دیتے ہیں کہ اہل حقوق کو ان کے حقوق پہنچا دیا کرو (ف ۳) اور یہ کہ جب لوگوں کا تصفیہ کیا کرو تو عدل سے تصفیہ کیا کرو بیشک اللہ تعالیٰ جس بات کی تم کو نصیحت کرتے ہیں وہ بات بہت اچھی ہے (ف ۴) بلا شک اللہ تعالیٰ خوب سنتے ہیں خوب دیکھتے ہیں۔ (58)

تفسیر:

ف۳۔ یہ اہل حکومت کو خطاب ہے۔

ف۴۔ وہ بات بہت اچھی ہے دنیا کے اعتبار سے بھی کہ اس میں بقاء حکومت ہے اور آخرت کے اعتبار سے بھی کہ موجب قرب و ثواب ہے۔

 

اے ایمان والو تم اللہ کا کہنا مانو اور رسول کا کہنا مانو اور تم میں جو لوگ اہل حکومت ہیں ان کا بھی پھر اگر کسی امر میں تم باہم اختلاف کرنے لگو تو تم اس امر کو اللہ تعالیٰ اور رسول کے حوالہ کر دیا کرو اگر تم اللہ تعالیٰ پر اور یوم قیامت پر ایمان رکھتے ہو یہ امور سب بہتر ہیں اور ان کا انجام خوشتر ہے۔ (59)

کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اس کتاب پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو آپ کی طرف نازل کی گئی اور اس کتاب پر بھی جو آپ سے پہلے نازل کی گئی اپنے مقدمے شیطان کے پاس لے جانا چاہتے ہیں حالانکہ ان کو یہ حکم ہوا ہے کہ اس کو نہ مانیں اور شیطانان کو بہکا کر بہت دور لے جانا چاہتا ہے۔ (60)

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اس (حکم) کی طرف جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے اور رسول کی طرف تو آپ منافقین کی یہ حالت دیکھیں گے کہ آپ سے پہلوتہی کرتے ہیں۔ (61)

پھر کیسی (جان کو بنتی) ہے جب ان پر کوئی مصیبت پڑتی ہے ان کی ( اس حرکت کی) بدولت جو کچھ وہ پہلے کر چکے تھے پھر آپ کے پاس آتے ہیں خدا کی قسمیں کھاتے ہوئے کہ ہمارا اور کچھ مقصود نہ تھا سوائے اس کے کہ کوئی بھلائی نکل آوے اور باہم موافقت ہو جاوے۔ (62)

یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے جو کچھ ان کے دلوں میں ہے تو آپ ان سے تغافل کر جایا کیجئیے اور ان کو نصیحت فرماتے رہئیے اور ان سے خاص ان کی ذات کے متعلق کافی مضمون کہہ دیجئیے۔ (ف ۱) (63)

تفسیر:

ف۱۔ ان آیتوں میں ایک قصہ کی طرف اشارہ ہے کہ ایک شخص تھا منافق بشر اس کا نام تھا اس کا کسی یہودی سے جھگڑا ہوا یہودی نے کہا چل محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے پاس ان سے فیصلہ کرا لیں منافق نے کہا کعب بن اشرف کے پاس چل یہود کا ایک سردار تھا ظاہر یہ معلوم ہوتا تھا کہ اس معاملہ میں حق یہودی ہو گا اس نے جانا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کسی کی رعایت نہ فرمائیں گے وہاں حق فیصلہ ہو گا گو میں آپ سے مذہبی مخالفت رکھتا ہوں منافق چونکہ باطل پر تھا اس نے سمجھا کہ رسول اللہ کے یہاں تو میری بات نہ چلے گی گو میں ظاہر مسلمان ہوں مگر کعب بن اشرف خود کوئی حق پرست نہیں وہاں میرا مقدمہ سرسبز ہو جائے گا پھر آخر وہ دونوں رسول اللہ ہی کے پاس مقدمہ لے کر گئے آپ نے یہودی کو غالب کیا وہ منافق راضی نہ ہوا اس یہودی سے کہا کہ چلو حضرت عمر کے پاس۔ غالباً وہ یہ سمجھا ہو گا کہ حضرت عمر کفار پر خوب سخت ہیں اس یہودی پر سختی فرما دیں گے یہود کو اطمینان تھا کہ گوسخت ہیں مگر وہ سختی حق پرستی ہی کی وجہ سے ہے۔ تو جب میں حق پر ہوں تو مجھ ہی کو غالب رکھیں گے اس لیے اس نے انکار نہیں کیا جب وہاں پہنچے تو یہودی نے ساراقصہ بیان کر دیا کہ یہ مقدمہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے اجلاس سے فیصل ہو چکا ہے مگر یہ شخص یعنی منافق اس پر راضی نہی ہے آپ نے اس منافق سے پوچھا کیا یہی بات ہے اس نے کہا ہاں حضرت نے کہا اچھا ٹھہرو آتا ہوں اور گھر سے ایک تلوار لے کر آئے اور منافق کا کام تمام کیا اور کہا جو شخص رسول اللہ کے فیصلے پر راضی نہ ہو اس کا فیصلہ یہی ہے اور عامہ مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ پھر اس منافق مقتول کے ورثاء نے حضرت عمر پر دعوی کیا اور اس منافق کے کفر قولی و فعلی کی تاویل کی اللہ نے ان آیات میں اصل حقیقت ظاہر فرما دی۔

 

اور ہم نے تمام پیغمبروں کو خاص اسی واسطے مبعوث فرمایا ہے کہ بحکم خداوندی ان کی اطاعت کی جاوے اور اگر جس وقت اپنا نقصان کر بیٹھتے تھے اس وقت آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے پھر اللہ تعالیٰ سے معافی چاہتے اور رسول بھی ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے معافی چاہتے اور ضرور اللہ تعالیٰ کو تو بہ قبول کرنے والا اور رحمت کرنے والا پاتے۔ (ف ۲) (64)

تفسیر:

ف۲۔ خلاصہ یہ ہوا کہ نفاق چھوڑ کر ایمان لے آئیں چونکہ استغفار موقوف تھا ایمان پر اس لیے ذکر اس کو مستلزم ہو گیا اس کی تصریح کی حاجت نہیں پس ایک شرط تو اس قبول توبہ کی یہ ہے اور دو شرطیں اور بھی آیت میں مذکور ہیں ایک تو حاضری خدمت نبوی دوسرے آپ کا بھی استغفار کرنا۔

 

پھر قسم ہے آپ کے رب کی یہ لوگ ایمان دار نہ ہوں گے جب تک یہ بات نہ ہو کہ ان کے آپس میں جو جھگڑا واقع ہو اس میں یہ لوگ آپ سے تصفیہ کروائیں (ف ۳) پھر اس آپ کے تصفیہ سے اپنے دلوں میں تنگی نہ پاویں اور پورا پورا تسلیم کر لیں۔ (ف ۴) (65)

تفسیر:

ف۳۔ اور آپ نہ ہوں تو آپ کی شریعت سے۔

ف۴۔ تحکیم اور عدم حرج اور تسلیم کے مراتب تین ہیں اور اعتقاد سے اور زبان سے اور عمل سے۔ اعتقاد سے یہ کہ قانون شریعت کو حق اور موضوع التحکیم جانتا ہے اور اس میں مرتبہ عقل میں ضیق نہیں اور اسی مرتبہ میں اس کو تسلیم کرتا ہوں اور زبان سے یہ کہ ان امور کا اقرار کرتا ہوں کہ حق اسی طرح ہے اور عمل سے یہ کہ مقدمہ لے بھی جاتا ہے اور طبعی ضیق بھی نہیں اور اس فیصلہ کے موافق کاروائی بھی کر لی سواول مرتبہ تصدیق و ایمان کا ہے اس کا نہ ہونا عند اللہ کفر ہے اور منافقین میں خود اسی کی کمی تھی چنانچہ تنگی کے ساتھ لفظ انکار اسیکی توضیح کے لیے ظاہر کر دیا ہے اور دوسرا مرتبہ اقرار کا ہے اس کا نہ ہونا عندالناس کفر ہے تیسرامرتبہ تقویٰ و صلاح کا ہے اس کا نہ ہونافسق ہے اور طبعی تنگی معاف ہے۔ پس آیت میں بقرینہ ذکر منافقین مرتبہ اول مراد ہے۔

 

اور ہم اگر لوگوں پر یہ بات فرض کر دیتے کہ تم خودکشی کیا کرو یا اپنے وطن سے بے وطن ہو جایا کرو تو بجز معدودے چند لوگوں کے اس حکم کو کوئی بھی نہ بجا لاتا (ف ۵) اور اگر یہ لوگ جو کچھ ان کو نصیحت کی جاتی ہے اس پر عمل کیا کرتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا اور ایمان کو زیادہ پختہ کرنے والا ہوتا۔ (66)

تفسیر:

ف۵۔ اس معدودے چند میں تمام صحابہ مومنین کاملین داخل ہیں۔

 

اور اس حالت میں ہم ان کو خاص اپنے پاس سے اجر عظیم عنایت فرماتے۔ (67)

اور ہم ان کو سیدھا رستہ بتلا دیتے۔ (ف ۶) (68)

تفسیر:

ف۶۔ اوپر اللہ و رسول کی اطاعت پر خاص مخاطبین سے وعدہ تھا آگے بطور قاعدہ کلیہ کے اللہ و رسول کی اطاعت پر عام وعدہ ہے۔

 

اور جو شخص اللہ اور رسول کا کہنا مان لے گا تو ایسے اشخاص بھی ان حضرات کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صلحاء اور یہ حضرات بہت اچھے رفیق ہیں۔ (69)

یہ فضل ہے اللہ تعالیٰ کی جانب سے اور اللہ تعالیٰ کافی جاننے والے ہیں۔ (ف ۷) (70)

تفسیر:

ف۷۔ اب احکام جہاد کا ذکر شروع ہوتا ہے یہاں سے چھ رکوع تک اسی مضمون کے متعلقات چلے گئے ہیں۔

 

اے ایمان والو اپنی تو احتیاط (ف ۸) رکھو پھر متفرق طور پر یا مجمتع طور پر نکلو۔ (71)

تفسیر:

ف۸۔ یعنی ان کے داو گھات سے بھی ہوشیار رہو اور مقاتلہ کے وقت سامان ہتھیار ڈھال تلوار سے بھی درست ہو۔

 

اور تمہارے مجمع میں بعضا بعضا شخص ایسا ہے جو ہٹتا ہے پھر اگر تم کوئی حادثہ پہنچ گیا تو کہتا ہے کہ بیشک اللہ تعالیٰ نے مجھ پر بڑا فضل کیا کہ میں لوگوں کے ساتھ (لڑائی میں ) حاضر نہیں ہوا۔ (72)

اور اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہو جاتا ہے اور ایسے طور پر کہ گویا تم میں اور اس میں کچھ تعلق ہی نہیں کہتا ہے کہ ہائے کیا خوب ہوتا ہے کہ میں بھی ان لوگوں کا شریک حال ہوتا (ف ۱) تو مجھ کو بھی بڑی کامیابی ہوتی۔ (73)

تفسیر:

ف۱۔ یعنی جہاد میں جانا۔

 

تو ہاں اس شخص کو چاہئیے کہ اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے بڑے جو آخرت کے بدلے دنیوی زندگی کو اختیار کیے ہوئے ہیں (ف ۲) اور جو شخص اللہ کی راہ میں لڑے گا پھر خواہ جان سے مارا جائے یا غالب آ جاوے تو ہم اس کو اجر عظیم دیں گے۔ (74)

تفسیر:

ف۲۔ یعنی اس شخص کو اگر فوز عظیم کا شوق ہے تو اول درست کرے ہاتھ پاوں ہلاوے مشقت جھیلے تیغ وسنان کے سامنے سینہ سپر بنے دیکھو فوز عظیم ہاتھ آتا ہے کہ نہیں۔

 

اور تمہارے پاس کیا عذر ہے کہ تم جہاد نہ کرو اللہ کی راہ میں اور کمزوروں کی خاطر سے جن میں کچھ مرد ہیں اور کچھ عورتیں ہیں اور کچھ بچے ہیں جو دعا کر رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہم کو اس بستی سے باہر نکال جس کے رہنے والے سخت ظالم ہیں اور ہمارے لیے اپنے پاس سے (غیب سے ) کسی دوست کو کھڑا کیجئیے اور ہمارے لیے اپنے پاس سے (غیب سے ) کسی حامی کو بھیجئے۔ (ف ۳) (75)

تفسیر:

ف۳۔ مکہ میں ایسے کمزور مسلمان رہ گئے تھے کہ اپنے ضعف و کم سامانی کی وجہ سے ہجرت نہ کر سکے پھر کافروں نے بھی نہ جانے دیا اور طرح طرح سے ان کو ستاتے تھے چنانچہ احادیث وتفاسیر میں بعضوں کے نام بھی آئے ہیں آخر اللہ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور بعضوں کی رہائی کا تو پہلے ہی سامان ہو گیا اور پھر مکہ معظمہ فتح ہو گیا جس سے سب کو امن اور اعزاز حاصل ہو گیا اور حضور (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے ان پر حضرت عتاب بن اسید کو عامل و حاکم مقرر فرمایا پس ولی و نصیر کا مصداق خواہ رسول اللہ کو کہا جائے اور یہی اچھا معلوم ہوتا ہے اور یا حضرت عتاب کو کہا جائے کہ انہوں نے اپنے زمانہ حکومت میں سب کو خوب آرام پہنچایا۔

 

جو لوگ پکے ایمان دار ہیں وہ تو اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور جو لوگ کافر ہیں شیطان کی راہ میں لڑتے ہیں تو تم شیطان کے ساتھیوں سے جہاد کرو واقع میں شیطانی تدبیر لچر ہوتی سے۔ (ف ۴) (76)

تفسیر:

ف۴۔ اوپر جہاد کا وجوب اور اس کے فضائل بیان کر کے اس کی ترغیب تھی آگے دوسرے طور پر اس کی ترغیب ہے یعنی جہاد میں بعض مسلمانوں کے مستعد نہ ہونے پر ان کی ایک لطف آمیز شکایت بھی ہے جس کی بنا یہ ہوئی کہ مکہ میں کفار بہت ستاتے تھے اس وقت بعض اصحاب نے جہاد کی اجازت اصرار چاہی مگر اس وقت حکم تھا عفو و صلح کا بعد ہجرت کے جب جہاد کا حکم نازل ہوا تو طبعاً بعض کو دشوار ہوا اس پر شکایت فرمائی گئی اور چونکہ بطور انکار یا اعتراض علی الحکم کے نہ تھا بلکہ محض تمنا تھی اور چندے اس حکم کے نہ آنے کی اس لیے توبیخ نہیں محض لطف آمیز شکایت ہے۔

 

کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا کہ ان کو یہ کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھوں کو تھامے رہو اور نمازوں کی پابندی رکھو اور زکوٰۃ دیتے رہو پھر جب ان پر جہاد کرنا فرض کر دیا گیا تو قصہ کیا ہوا کہ ان میں سے بعض بعض آدمی لوگوں سے ایسا ڈرنے لگے جیسا کوئی اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ ڈرنا اور یوں کہنے لگے کہ اے ہمارے پروردگار آپ نے ہم پر جہاد کیوں فرض فرما دیا ہم کو اور تھوڑی مدت مہلت دے دی ہوتی (ف ۵) آپ فرما دیجئیے کے دنیا کا تمتع محض چند روز ہے اور آخرت ہر طرح سے بہتر ہے اس شخص کے لیے جو اللہ تعالیٰ کی مخالفت سے بچے اور تم پر تاگے برابر بھی ظلم نہ کیا جائے گا۔ (77)

تفسیر:

ف۵۔ ان صاحبوں کا یہ تمنائی قول اگر زبان سے تھا تب تو اس کی توجیہ معصیت نہ ہونے کی معلوم ہو گئی اور اگر دل میں بطور حدیث النفس اور وسوسے کے تھا تو وسوسہ کا معصیت نہ ہونا قرآن و حدیث میں وارد ہے کوئی تردد ہی نہ رہا۔

 

تم چاہے کہیں بھی ہو وہاں ہی تم کو موت آ دباوے گی اگرچہ تم قلعی چونا کے قلعوں ہی میں رہو اور اگر ان کو کوئی اچھی حالت پیش آتی ہے (ف ۱) تو کہتے ہیں کہ یہ منجانب اللہ (اتفاقا) ہو گی (ف ۲) اور اگر ان کو کوئی بری حالت پیش آتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ آپ کے سبب سے ہے آپ فرما دیجئیے کہ سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے تو ان لوگوں کو کیا ہوا کہ بات سمجھنے کے پاس کو بھی نہیں نکلتے۔ (78)

تفسیر:

ف۱۔ اور ترغیب جہاد میں یہ مذکور ہوا ہے کہ وقت پر موت نہیں ٹلتی خواہ جہاد میں جاؤ یا نہ جاؤ چونکہ بعض منافقین جہاد میں جانے کو موت میں موثر اور نہ جانے کو حیات میں موثر سمجھتے تھے اور کہتے تھے پس جب کبھی جہاد میں قتل و موت واقع ہوتا تو رسول اللہ پر الزام لگاتے کہ آپ ہی کے کہنے سے جہاد میں گئے اور شکار موت ہوئے دیکھو جہاد کا موثر فی الموت ہونا ثابت ہو گیا اور اگر کبھی باوجود اسباب ظاہری کی کمی کے کفار پر فتح ہوتی اور اس سے استدلال کرتے کہ دیکھو جہاد اگر موثر فی الموت ہے تو اب وہ اثر کہا گیا تو کہتے کہ یہ محض اتفاقی بات من جانب اللہ ہے غرض کام بگڑتا تو حضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پر الزام اور سنورتا تو اتفاقی بات آگے اسی طرف اشارہ ہے۔

ف۲۔ جیسے فتح و ظفر۔

 

(اے انسان) تجھ کو جو کوئی خوشحالی پیش آتی ہے وہ محض اللہ کی جانب سے ہے اور جو کوئی بدحالی پیش آوے وہ تیرے ہی سبب سے ہے اور ہم نے آپ کو تمام لوگوں کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا ہے اور اللہ تعالیٰ گواہ کافی ہیں۔ (ف ۳) (79)

تفسیر:

ف۳۔ تمام لوگوں میں جن اور انسان دونوں آ گئے پس اس میں بیان ہے حضور (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی بعثت عامہ کا جو قرآن و حدیث میں اور جگہ بی مذکور و منصوص اور عقیدہ قطعی ہے۔

 

جس شخص نے رسول کی اطاعت کی اس نے خدا تعالیٰ کی اطاعت کی (ف ۴) اور جو شخص روگردانی کرے سو ہم نے آپ کو ان کا نگراں کر کے نہیں بھیجا۔ (80)

تفسیر:

ف۴۔ اور جس نے آپ کی نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔

 

اور یہ لوگ کہتے ہیں (کہ ہمارا کام) اطاعت کرنا ہے پھر جب آپ کے پاس سے باہر جاتے ہیں تو شب کے وقت مشورہ کرتی ہے ان میں کی ایک جماعت بر خلاف اس کے جو کچھ کہ زبان سے کہہ چکے تھے اور اللہ تعالیٰ لکھتے جاتے ہیں جو کچھ وہ را توں کو مشورے کیا کرتے ہیں سو آپ ان کی طرف التفات نہ کیجئیے اور اللہ تعالیٰ کے حوالے کیجئیے اور اللہ تعالیٰ کافی کارساز ہیں۔ (ف ۵) (81)

تفسیر:

ف۵۔ چنانچہ کبھی ان کی شرارت سے کوئی ضرر نہیں پہنچا۔

 

تو کیا پھر قرآن میں غور نہیں کرتے (ف ۶) اور اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بکثرت تفاوت پاتے۔ (۷) (82)

تفسیر:

ف۶۔ تاکہ اس کا کلام الٰہی ہونا واضح ہو جائے۔

ف۷۔ پس لامحالہ یہ غیرا للہ کا کلام نہیں بلکہ اللہ کا کلام ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ کلام اللہ کے وجوہ اعجاز میں سے اس کی فصاحت و بلاغت کا بے مثل ہونا اور اس کے اخبارات کا جن پر مطلع ہونے کا رسول اللہ کے پاس کوئی ذریعہ نہ تھا بالکل صحیح و مطابق واقع کے ہونا ہے پس معلوم ہوا کہ یہ کلام خالق تعالیٰ کا ہے۔

 

اور جب ان لوگوں کو کسی امر کی خبر پہنچتی ہے خواہ امن ہو یا خوف تو اس کو مشہور کر دیتے ہیں اور اگر یہ لوگ اس کو رسول کے اور جو ان میں سے ایسے امور کو سمجھتے ہیں ان کے حوالے پر رکھتے تو اس کو وہ حضرات تو پہچان ہی لیتے جو ان میں اس کی تحقیق کر لیا کرتے اور اگر تم لوگوں پر خدا کا فضل اور رحمت نہ ہوتی تو تم سب کے سب شیطان کے پیرو ہو جاتے بجز تھوڑے سے آدمیوں کے۔ (83)

پس آپ اللہ کی راہ میں قتال کیجئیے آپ کو بجز آپ کے ذاتی فعل کے کوئی حکم نہیں اور مسلمانوں کو ترغیب دے دیجئیے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ کافروں کے زور جنگ کو روک دیں گے اور اللہ تعالیٰ زور جنگ میں زیادہ شدید ہیں اور سخت سزا دیتے ہیں۔ (ف ۱) (84)

تفسیر:

ف۱۔ اس پیشن گوئی کا وقوع ظاہر ہے اگر خاص کفار قریش مراد ہوں جب بھی اور اگر ساری دنیا کے کفار مراد ہوں جب بھی کیونکہ چند ہی روز میں تمام سلطنتیں مسلمانوں نے فتح کر لیں۔

 

جو شخص اچھی سفارش کرے (ف ۲) اس کو اس کی وجہ سے حصہ ملے گا اور جو شخص بری سفارش کرے (ف ۳) اس کو اس کی وجہ سے حصہ ملے گا اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والے ہیں۔ (85)

تفسیر:

ف۲۔ یعنی جس کا طریق و مقصود دونوں مشروع ہوں۔

ف۳۔ یعنی جس کا طریق یا غرض غیر مشروع ہوں۔

 

اور جب تم کو کوئی (مشروع طور پر) سلام کرے تو تم اس (سلام) سے اچھے الفاظ میں سلام کرو یا ویسے ہی الفاظ کہہ دو بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر حساب لیں گے۔ (ف ۴) (86)

تفسیر:

ف۴۔ امر کے صیغہ ہے اور حسیب سے اس کا حکم ظاہر وجوب معلوم ہوتا ہے اور یہی مذہب ہے فقہاء کا۔ یہ وجوب جواب سلام کا علی الکفایہ ہے اگر جماعت میں سے ایک نے بھی جواب دے دیا تو سب کے ذمہ سے اتر جائے گا نفس جواب واجب ہے باقی ویسے ہی الفاظ یا ان سے احسن یا لغوی صورتوں میں ان سے کم یہ سب اختیار میں ہے۔

 

اللہ ایسے ہیں کہ ان کے سوا کوئی معبود ہونے کے قابل نہیں وہ ضرور تم سب کو جمع کریں گے قیامت کے دن میں اس میں کوئی شبہ نہیں اور خدا تعالیٰ سے زیادہ کس کی بات سچ ہو گی۔ (87)

پھر تم کو کیا ہوا کہ ان منافقوں کے باب میں تم دو گروہ ہو گئے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو الٹا پھیر دیا ان کے (بد) عمل کے سبب (ف ۵) کیا تم لوگ اس کا ارادہ رکھتے ہو کہ ایسے لوگوں کو ہدایت کرو جن کو اللہ تعالیٰ نے گمراہی میں ڈال رکھا ہے (ف ۶) اور جس شخص کو اللہ تعالیٰ گمراہی میں ڈال دیں اس کے لیے کوئی سبیل نہ پاؤ گے۔ (ف ۷) (88)

تفسیر:

ف۵۔ وہ بد عمل ارتداد دائر الاسلام کو باوجود قدرت کے چھوڑ دینا ہے جو کہ مثل ترک اقرار بالاسلام کے علامت کفر کی تھی اور واقع میں وہ پہلے بھی مسلمان نہ ہوئے تھے اور اسی وجہ سے ان کو منافق کہا۔

ف۶۔ مطلب یہ کہ تم گمراہ کو مومن کہتے ہو حالانکہ وہ مومن ہے جس میں ایمان ہو اور ان میں وقت تک ایمان ہے نہیں تو کیا اب ایمان پیدا کرو گے جو ان کو مومن کہہ سکو، اور یہ محال ہے۔ پس ان کا مومن و مہتدی ہونا معلق لا ملا ہے، اس لئے ان کو مومن کہنا مثل حکم بالمحال کے ہے۔

ف۷۔ پس ان لوگوں کو مومن نہ کہنا چاہئے۔

 

وہ اس تمنا میں ہیں کہ جیسے وہ کافر ہیں تم بھی کافر بن جاؤ جس میں تم ( اور وہ) ایک طرح کے ہو جاؤ سو ان میں سے کسی کو دوست مت بنانا جب تک کہ وہ اللہ کی راہ میں ہجرت نہ کریں (ف ۸) اور اگر وہ اعراض کریں تو ان کو پکڑو اور قتل کرو جس جگہ ان کو پاؤ اور نہ ان میں کسی کو دوست بناؤ اور نہ مددگار بناؤ۔ (ف ۹) (89)

تفسیر:

ف۸۔ اس وقت ہجرت کا وہ حکم تھا جواب اقرار بالشہادتین کا ہے۔

ف۹۔ مطلب یہ کہ کسی حالت میں ان سے کوئی تعلق نہ رکھو نہ امن میں دوستی نہ خوف میں استعانت بلکہ بالکل الگ تھلگ رہو۔

 

مگر جو لوگ (ایسے ہیں جو کہ) ایسے لوگوں سے جا ملتے ہیں (ف ۱۰) کہ تمہارے اور ان کے درمیان عہد ہے یا خود تمہارے پاس اس حالت سے آویں کہ ان کا دل تمہارے ساتھ اور نیز اپنی قوم کے ساتھ لڑنے سے متقبض ہو (ف ۱۱) اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کر دیتا پھر وہ تم سے لڑنے لگتے پھر اگر وہ تم سے کنارہ کش رہیں یعنی تم سے نہ لڑیں اور تم سے سلامت روی رکھیں (ف ۱۲) تو اللہ تعالیٰ نے تم کو ان پر کوئی راہ نہیں دی۔ (۱۳) (90)

تفسیر:

ف۱۰۔ یعنی ہم عہد ہو جاتے ہیں۔

ف۱۱۔ نہ تو اپنی قوم کے ساتھ ہو کر تم سے لڑیں اور نہ تمہارے ساتھ ہو کہ اپنی قوم سے لڑیں بلکہ ان سے بھی صلح رکھیں اور تم سے بھی۔

ف۱۲۔ ان سب الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ صلح سے رہیں۔

ف۱۳۔ یعنی اجازت نہیں دی۔

 

بعضے ایسے بھی تم کو ضرور ملیں گے کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ تم سے بھی بے خطر ہو کر رہیں اور اپنی قوم سے بھی بیخطر ہو کر رہیں جب کبھی ان کو شرارت کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے تو وہ اس میں جا گرتے ہیں سو یہ لوگ اگر تم سے کنارہ کش نہ ہوں اور نہ تم سے سلامت روی رکھیں اور نہ اپنے ہاتھوں کو روکیں تو تم ان کو پکڑو اور قتل کرو جہاں کہیں ان کو پاؤ اور ہم نے تم کو ان پر صاف حجت دی ہے۔ (91)

اور کسی مومن کی شان نہیں کہ وہ کسی مومن کو (ابتداء) قتل کرے لیکن غلطی سے اور جو شخص کسی مومن کو غلطی سے قتل کر دے تو اس پر ایک مسلمان غلام یا لونڈی کا آزاد کرنا ہے اور خون بہا ہے جو اس کے خاندان والوں کو حوالہ کر دیا جائے مگر یہ کہ وہ لوگ معاف کر دیں (ف ۱) اور اگر وہ ایسی قوم سے ہو تمہارے مخالف ہیں اور وہ شخص خود مومن ہے تو ایک غلام یا لونڈی مسلمان کا آزاد کرنا اور اگر وہ ایسی قوم سے ہو کہ تم میں اور ان میں معاہدہ ہو تو خونبہا ہے جو اس کے خاندان والوں کو حوالہ کر دی جائے اور ایک غلام یا لونڈی مسلمان کا آزاد کرنا پھر جس شخص کو نہ ملے تو متواتر دو ماہ کے روزے ہیں بطریق توبہ کے جو اللہ کی طرف سے (مقرر ہوئی) ہے اور اللہ تعالیٰ بڑے علم والے بڑی حکمت والے ہیں۔ (92)

تفسیر:

ف۱۔ اس آیت میں خطاء سے مراد غیر عمد ہے۔

 

اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کر ڈالے تو اس کی سزا جہنم ہے کہ ہمیشہ ہمیشہ کو اس میں رہنا ہے (ف ۲) اور اس پر اللہ تعالیٰ غضبناک ہوں گے اس کو اپنی رحمت سے دور کر دیں گے اور اس کے لیے بڑی سزا کا سامان کریں گے۔ (ف ۳) (93)

تفسیر:

ف۲۔ لیکن اللہ کا فضل ہے کہ یہ اصلی سزا جاری نہ ہو گی بلکہ ایمان کی برکت سے آخر کو نجات ہو جائے گی تمام اہل حق متفق ہیں کہ بجز کفر و شرک کے کوئی امر واجب خلود فی النار نہیں۔

ف۳۔ اور قتل مومن پر سخت وعید فرمائی ہے آگے یہ فرماتے ہیں کہ احکام شرعیہ کے جاری ہونے میں مومن کے مومن ہونے کے لیے صرف ظاہری اسلام کافی ہے جو شخص اسلام کا اظہار کرے اس کے قتل سے دستکش ہو جانا واجب ہے قرائن سے باطن کی تفتیش کرنا اور احکام اسلامیہ کے جاری کرنے میں اس کے ثبوت کا منتظر رہنا جائز نہیں۔

 

اے ایمان والو جب تم اللہ کی راہ میں سفر کیا کرو تو ہر کام کو تحقیق کر کے کیا کرو اور ایسے شخص کو جو کہ تمہارے سامنے اطاعت ظاہر کرے (ف ۴) دنیوی زندگی کے سامان کی خواہش میں یوں مت کہہ دیا کرو کہ تو مسلمان نہیں کیونکہ خدا کے پاس بہت غنیمت کے مال ہیں پہلے تم بھی ایسے ہی تھے پھر اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان کیا سو غور کرو بیشک اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی پوری خبر رکھتے ہیں۔ (ف ۵) (94)

تفسیر:

ف۴۔ جیسے کلمہ پڑھنا یا مسلمانوں کے طرز پر سلام کرنا۔

ف۵۔ یہ حکم سفر کے ساتھ خاص نہیں۔

 

برابر نہیں وہ مسلمان جو بلاکسی عذر کے گھر میں بیٹھے رہیں (ف ۶) اور وہ لوگ جو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کریں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا درجہ بہت زیادہ بنایا ہے جو اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرتے ہیں بہ نسبت (گھر میں ) بیٹھنے والوں کے اور سب سے اللہ تعالیٰ نے اچھے (گھر) کا وعدہ کر رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کو بمقابلہ (گھر میں ) بیٹھنے والوں کے بڑا اجر عظیم دیا ہے۔ (95)

تفسیر:

ف۶۔ یعنی جو جہاد میں نہ جاویں۔

 

یعنی بہت سے درجے جو خدا کی طرف سے ملیں گے اور مغفرت اور رحمت (ف ۱) اور اللہ تعالیٰ بڑے مغفرت والے بڑی رحمت والے ہیں۔ (ف ۲) (96)

تفسیر:

ف۱۔ یعنی بوجہ اعمال متعددہ کے جو مجاہد سے صادر ہوتے ہیں ثواب کے بہت سے درجے خدا تعالیٰ کی طرف سے ملیں گے اور گناہوں کی مغفرت اور رحمت بھی۔ یہ سب اجر عظیم کی تفصیل ہوئی وہ اعمال متعددہ سورۃ برات کے آخر میں مذکور ہیں۔

ف۲۔ اوپر وجوب جہاد کا ذکر تھا آگے وجوب ہجرت کا ذکر ہے۔

 

بیشک جب ایسے لوگوں کی جان فرشتے قبض کرتے ہیں جنہوں نے اپنے کو گنہگار کر رکھا تھا تو وہ ان سے کہتے ہیں کہ تم کس کام میں تھے وہ کہتے ہیں کہ ہم سرزمین میں محض مغلوب تھے وہ کہتے ہیں کہ کیا خدا تعالیٰ کی سرزمین وسیع نہ تھی تم کو ترک وطن کر کے اس میں چلا جانا چاہئیے تھا سو ان لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے اور جانے کے لیے وہ بری جگہ ہے۔ (97)

لیکن جو مغلوبین مرد اور عورتیں اور بچے قادر نہ ہوں کہ نہ کوئی تدبیر کر سکتے ہیں اور نہ راستہ سے واقف ہیں۔ (98)

سو ان کے لیے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ معاف کر دیں اور اللہ تعالیٰ بڑے معاف کرنے والے اور بڑے مغفرت کرنے والے ہیں۔ (ف ۳) (99)

تفسیر:

ف۳۔ اوپر ترک ہجرت پر وعید تھی آگے ہجرت کی ترغیب اور اس پر سعادت دارین کا وعدہ ہے۔

 

اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت کرے گا (ف ۴) تو اس کو روئے زمین پر جانے کی بہت جگہ ملے گی اور بہت گنجائش اور جو شخص اپنے گھر سے (اس نیت سے ) نکل کھڑا ہوا کہ اللہ اور رسول کی طرف ہجرت کروں گا پھر اس کو موت آ پکڑے تب بھی اس کا ثواب ثابت ہو گیا اللہ تعالیٰ کے ذمہ اور اللہ تعالیٰ بڑے مغفرت کرنے والے ہیں اور بڑے رحمت والے ہیں۔ (100)

تفسیر:

ف۴۔ ہجرت ابتدائے اسلام میں فرض تھی اور فرضیت کے ساتھ وہ ظاہر شعار لازم و موقوف علیہ ثبوت اسلام کی بھی تھی لیکن حالت عذر میں اس کی فرضیت اور شعاریت ساقط ہو جاتی تھی اور اس شعار ہونے کی وجہ سے اس کو بلا عذر ترک کرنا علامت ارتداد کی تھی۔

 

اور جب تم زمین میں سفر کرو (ف ۵) سو تم کو اس میں کوئی گناہ نہ ہو گا (بلکہ ضروری ہے ) کہ تم نماز کو کم کر دو (ف ۶) اگر تم کو یہ اندیشہ ہو کہ تم کو کافر لوگ پریشان کریں گے بلاشبہ کافر لوگ تمہارے صریح دشمن ہیں۔ (ف ۱) (101)

تفسیر:

ف۵۔ جس کی مقدار تین منزل ہو۔

ف۶۔ ظہر و عصر و عشاء کے فرض کی رکعات چار کی جگہ دو پڑھا کرو۔

ف۱۔ جو سفر تین منزل سے کم ہو اس میں نماز پوری پڑھی جاتی ہے۔

 

اور جب آپ ان میں تشریف رکھتے ہوں پھر آپ ان کو نماز پڑھانا چاہیں تو یوں چاہیے کہ ان میں سے ایک گروہ تو آپ کے ساتھ کھڑے ہو جاویں اور وہ لوگ ہتھیار لے لیں پھر جب یہ لوگ سجدہ کر چکیں تو یہ لوگ تمہارے پیچھے ہو جاویں اور دوسرا گروہ جنہوں نے ابھی نماز نہیں پڑھی،آ جاوے اور آپ کے ساتھ نماز پڑھ لیں اور یہ لوگ بھی اپنے بچاؤ کا سامان اور اپنے ہتھیار لے لیں کافر لوگ یوں چاہتے ہیں کہ اگر تم اپنے ہتھیاروں اور سامانوں سے غافل ہو جاؤ تو تم پر ایکبارگی حملہ کر بیٹھیں اور اگر تم کو بارش کی وجہ سے تکلیف ہو یا تم بیمار ہو تو تم کو اس میں کچھ گناہ نہیں کہ ہتھیار اتار رکھو اور اپنا بچاؤ لے لو بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے کافروں کیلئے سزا اہانت آمیز مہیا کر رکھی ہے۔ (ف ۲) (102)

تفسیر:

ف۲۔ صلوۃ الخوف اجماعا بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے بھی مشروع ہے جیسے آدمی سے خوف کے وقت یہ نماز مشروع ہے ایسے ہی اگر کسی شیر یا اژدہا وغیرہ کا خوف ہو اور نماز کا وقت تنگ ہو تو اس وقت بھی جائز ہے۔ عین قتال کے وقت نماز کو قضا کر دیا جائے گا۔

 

پھر جب تم اس نماز (خوف) کو ادا کر چکو تو اللہ تعالیٰ کی یاد میں لگ جاؤ کھڑے بھی اور بیٹھے بھی اور لیٹے بھی (ف ۳) پھر جب تم مطمئن ہو جاؤ تو نماز کو قاعدے کے موافق پڑھنے لگو یقیناً نماز مسلمانوں پر فرض ہے اور وقت کے ساتھ محدود ہے۔ (103)

تفسیر:

ف۳۔ یعنی ہر حالت میں حتی کہ عین قتال کے وقت بھی دل سے بھی اور احکام کے اتباع سے بھی کہ وہ بھی ذکر ہے چنانچہ قتال میں خلاف شرع کوئی کاروائی کرنا ناجائز ہے۔ غرض نماز تو ختم ہوئی ذکر ختم نہیں ہوتا نماز میں تو تخفیف ہو گئی تھی لیکن یہ بحالہ ہے۔

 

اور ہمت مت ہارو اس (مخالف) قوم کے تعاقب کرنے میں اگر تم الم رسیدہ ہو تو وہ بھی تو الم رسیدہ ہیں جیسے تم الم رسیدہ ہو اور تم اللہ تعالیٰ سے ایسی ایسی چیزوں کی امید رکھتے ہو کہ وہ لوگ امید نہیں رکھتے اور اللہ تعالیٰ بڑے علم والے ہیں بڑے حکمت والے ہیں۔ (104)

بیشک ہم نے آپ کے پاس یہ نوشتہ بھیجا ہے واقع کے موافق تاکہ آپ لوگوں کے درمیان اس کے موافق فیصلہ کریں جو کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتلا دیا ہے اور آپ ان خائنوں کی طرفداری کی بات نہ کیجئیے۔ (ف ۴) (105)

تفسیر:

ف۴۔ بنو ابیرق ایک خاندان تھا اس میں ایک شخص بشیر نام منافق تھا اس نے حضرت رفاعہ کی بخاری میں نقب دے کر کچھ آٹا اور کچھ ہتھیار جو اس میں رکھے تھے چرا لیے صبح کو پاس پڑوس میں تلاش کیا پتہ نہ چلا بعض قرائن قویہ سے بشیر پر شبہ ہوا بنو ابیرق نے جو کہ بشیر کے شریک حال تھے اپنی برات کے لیے حضرت لبید کا نام لے دیا غرض حضرت رفاعہ نے اپنے برادر زادہ حضرت قتادہ کو جناب رسول اللہ کی خدمت میں بھیج کر اس واقعہ کی اطلاع دی آپ نے وعدہ تحقیق فرمایا بنو ابیرق کو جو خبر ہوئی ایک شخص جو اسی خاندان کا تھا اسیر نام سب اس کے پاس آئے سب نے مشورہ کر کے جمع ہو کر مع بعض اہل محلہ کے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی خدمت میں جمع ہوئے اور حضرت قتادہ اور حضرت رفاعہ کی شکایت کی کہ بدون گواہوں کے ایک مسلمان اور دین دار گھرانے پر چوری کی تہمت لگاتے ہیں اور مقصود ان کا یہ تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اس مقدمہ میں ان کی طرف داری کریں آپ نے یہ تو نہیں کیا لیکن اتنا ہوا کہ حضرت قتادہ جو آپ کے پاس حاضر ہوئے تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ تم ایسے لوگوں پر بے سند کیوں الزام لگاتے ہو۔ انہوں نے اپنے چچا رفاعہ سے کہا۔ وہ اللہ پر بھروسہ کر کے خاموش ہو گئے اس پر اگلی آیتیں دو رکوع کے قریب تک نازل ہوئیں غرض چوری ثابت ہوئی اور مال برآمد ہوا اور مالک کو دے دیا گیا تو بشیر ناخوش ہو کر مرتد ہو گیا اور مکہ جا کر مشرکوں میں جا ملا اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں و من یشاقق الرسول الخ۔

 

اور آپ استغفار فرمائیے بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑے مغفرت کرنے والے بڑے رحمت کرنے والے ہیں۔ (106)

اور آپ ان لوگوں کی طرف سے کوئی جوابدہی کی بات نہ کیجئیے جو کہ اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں بلاشبہ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو نہیں چاہتے جو بڑا خیانت کرنے والا بڑا گناہ کرنے والا ہو۔ (107)

جن لوگوں کی یہ کیفیت ہے کہ عامیوں سے تو چھپاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے نہیں شرماتے حالانکہ وہ (اس وقت) ان کے پاس ہے جبکہ وہ خلاف مرضی الٰہی گفتگو کے متعلق تدبیریں کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کے سب اعمال کو اپنے احاطہ میں لیے ہوئے ہیں۔ (108)

ہاں تم ایسے ہو کہ تم نے دنیوی زندگی میں تو ان کی طرف سے جواب دہی کی باتیں کر لیں سو خدا تعالیٰ کے روبرو قیامت کے روز ان کی طرف سے کون جواب دہی کرے گا یا وہ کون شخص ہو گا جو ان کا کام بنانے والا ہو گا۔ (109)

اور جو شخص کوئی برائی کرے یا اپنی جان کا ضرر کرے پھر اللہ تعالیٰ سے معافی چاہے تو وہ اللہ تعالیٰ کو بڑی مغفرت کرنے والا بڑی رحمت والا پائے گا۔ (110)

اور جو شخص کچھ گناہ کا کام کرتا ہے تو وہ فقط اپنی ذات پر اس کا اثر پہنچاتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑے علم والے ہیں بڑے حکمت والے ہیں۔ (111)

اور جو شخص کوئی چھوٹا گناہ کرے یا بڑا گناہ پھر اس کی تہمت کسی بے گناہ پر لگائے سو اس نے تو بڑا بھاری بہتان اور صریح گناہ اپنے اوپر لاوا۔ (ف ۱) (112)

تفسیر:

ف۱۔ جیسا بشیر نے کیا کہ خود تو چوری کی اور ایک نیک بخت بزرگ آدمی لبید کے ذمہ رکھ دی۔

 

اور اگر آپ پر اللہ کو فضل اور رحمت نہ ہو تو ان لوگوں میں سے ایک گروہ نے تو آپ کو غلطی ہی میں ڈال دینے کا ارادہ کر لیا تھا (ف ۲) اور غلطی میں نہیں ڈال سکتے لیکن اپنی جانوں کو اور آپ کو ذرہ برابر ضرر نہیں پہنچا سکتے اور اللہ تعالیٰ نے آپ پر کتاب اور علم کی باتیں نازل فرمائیں اور آپ کو وہ باتیں بتلائیں ہیں جو آپ نہ جانتے تھے اور آپ پر اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے۔ (113)

تفسیر:

ف۲۔ لیکن خدا کے فضل سے ان کی رنگ آمیز با توں کا آپ پر کوئی اثر نہیں ہوا اور آئندہ بھی نہ ہو گا۔

 

عام لوگوں کی اکثر سرگوشیوں میں خیر نہیں ہوتی ہاں مگر جو لوگ ایسے ہیں کہ خیرات کی یا کسی اور نیک کام کی (ف ۳) یا لوگوں میں باہم اصلاح کر دینے کی ترغیب دیتے ہیں اور جو شخص یہ کام کرے گا حق تعالیٰ کی رضا جوئی کے واسطے سو ہم اس کو عنقریب اجر عظیم عطا فرمائیں گے۔ (114)

تفسیر:

ف۳۔ نیک کام میں جو کہ معروف کا ترجمہ ہے وہ تمام امور آ گئے جو نافع ہوں خواہ دینی ہو یا دنیوی مگر مشروع ہوں اور گو اس میں صدقہ بھی داخل تھا لیکن نفس پر شاق ہونے کی وجہ سے اس کا زیادہ اہتمام فرمایا۔

 

اور جو شخص رسول کی مخالفت کرے گا بعد اس کے کہ اس کو امر حق ظاہر ہو چکا تھا اور مسلمانوں کا رستہ چھوڑ کر دوسرے رستہ ہولے گا۔ تو ہم اس کو جو کچھ وہ کرتا ہے کرنے دیں گے اور اس کو جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بری جگہ ہے جانے کی۔ (115)

بیشک اللہ تعالیٰ (اس بات کو) نہ بخشیں گے کہ ان کے ساتھ کسی کو شریک قرار دیا جائے اور اس کے سوا اور جتنے گناہ ہیں جس کے لیے منظور ہو گا وہ گناہ بخش دیں گے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے وہ بڑی دور کی گمراہی میں جا پڑا۔ (ف ۱) (116)

تفسیر:

ف۱۔ مشرک نے حضرت صانع کی اہانت کی اس لیے ایسی ہی سزاکامستحق ہو گا بخلاف دوسرے گناہوں کے کچھ تو ضلال ہے مگر توحید کے خلاف اور اس سے بعید نہیں اس لیے قابل مغفرت قرار دیا گیا۔

 

یہ لوگ خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر صرف چند زنانی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں (ف ۲) اور صرف شیطان کی عبادت کرتے ہیں جو کہ حکم سے باہر ہے۔ (117)

تفسیر:

ف۲۔ زنانی چیزوں سے مراد بعض بت ہیں جن کے نام اور صورتیں عورتوں کی سی تھیں اور ان کو زیور وغیرہ بھی پہناتے تھے۔

 

جس کو خدا تعالیٰ نے اپنی رحمت سے دور ڈال رکھا ہے اور جس نے یوں کہا تھا کہ میں ضرور تیرے بندوں سے اپنا مقرر حصہ (اطاعت کا) لوں گا۔ (118)

اور میں ان کو گمراہ کروں گا اور میں ان کو ہوسیں دلاؤں گا اور میں ان کو تعلیم دوں گا جس میں وہ چوپایوں کے کانوں کو تراشا کریں گے اور میں ان کو تعلیم دوں گا جس سے وہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی صورت کو بگاڑا کریں گے (ف ۳) اور جو شخص خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا رفیق بناوے گا (ف ۴) وہ صریح نقصان میں واقع ہو گا۔ (119)

تفسیر:

ف۳۔ یعنی ایسے شیطان کی اطاعت کرتے ہیں جو اولاً متمرد ہے ثانیاً تمرد کی وجہ سے ملعون ہے ثالثاً انسان کا عدو ہے جیسا اس کے اقوال سے مترشح ہے۔

ف۴۔ یعنی خدا تعالیٰ کی اطاعت نہ کرے شیطان کی اطاعت کرے۔

 

شیطان ان لوگوں سے وعدے کیا کرتا ہے اور ان کو ہوسیں دلاتا ہے اور شیطان ان سے صرف جھوٹے وعدے کرتا ہے۔ (120)

ایسے لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے اور اس سے کہیں بچنے کی جگہ نہ پاویں گے۔ (121)

اور جو لوگ ایمان لے آئے اور اچھے کام کئے ہم ان کو عنقریب ایسے باغوں میں داخل کریں گے کہ ان کے نیچے نہریں جاری ہوں گی وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے خدا تعالیٰ نے (اس کا) وعدہ فرمایا ہے ( اور) سچا (وعدہ فرمایا ہے ) اور خدا تعالیٰ سے زیادہ کس کا کہنا صحیح ہو گا۔ (122)

نہ تمہاری تمناؤں سے کام چلتا ہے اور نہ اہل کتاب کی تمناؤں سے جو شخص کوئی برا کام کرے گا وہ اس کے عوض میں سزا دیا جائے گا اور اس شخص کو خدا کے سوا نہ کوئی یار ملے گا اور نہ مددگار (ملے گا)۔ (ف ۵) (123)

تفسیر:

ف۵۔ خلاصہ یہ ہوا کہ نری تمناؤں سے کام نہیں چلتا مگر مسلمان نری تمناؤں پر نہیں ہیں بلکہ کام کرتے ہیں اور دوسرے فرقے جب اسلام نہ لائے جس پر سارا کام موقوف ہے۔ تو بس نری تمناؤں پر ہوئے۔

 

اور جو شخص کوئی نیک کام کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ مومن ہو (ف ۶) سو ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان پر ذرا بھی ظلم نہ ہو گا۔ (124)

تفسیر:

ف۶۔ یہ جو مومن کی قید لگائی گئی اس کا مصداق ہر فرقہ نہیں بلکہ صرف وہ فرقہ ہے جس کا دین خدا تعالیٰ کے نزدیک مقبول ہونے میں سب سے اچھا ہو اور ایسافرقہ صرف اہل اسلام ہیں جس کی دلیل یہ ہے کہ ان میں یہ صفات ہیں اطاعت تامہ اخلاص اتباع ملت ابراہیم۔

 

اور ایسے شخص سے زیادہ اچھا کس کا دین ہو گا جو کہ اپنا رخ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکا دے (ف ۷) اور وہ مخلص بھی ہو (ف ۸) اور وہ ملت ابراہیم کا اتباع کرے۔ (ف ۹) جس میں کجی کا نام نہیں اور اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کو اپنا خالص دوست بنایا تھا۔ (ف ۱) (125)

تفسیر:

ف۷۔ یعنی فرمانبرداری اختیار کرے عقائد میں بھی اعمال میں بھی۔

ف۸۔ دل سے فرمانبرداری اختیار کی ہو خالی مصلحت سے ظاہرداری نہ ہو۔

ف۹۔ ملت ابراہیمی یعنی اسلام کا اتباع کرے۔

ف۱۔ خلیل ہونا اعلی درجہ کا تقرب و مقبولیت ہے اور حضرت جندب سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ نے مجھ کو بھی خلیل بنایا ہے جیسا ابراہیم (علیہ السلام) کو بنایا تھا۔

 

اور اللہ تعالیٰ ہی کی ملک ہے جو کچھ بھی آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ تعالیٰ تمام چیزوں کو احاطہ فرمائے ہوئے ہیں۔ (126)

اور لوگ آپ سے عورتوں کے بارے میں حکم دریافت کرتے ہیں۔ آپ فرما دیجئیے کہ اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں حکم دیتے ہیں اور وہ آیات بھی جو کہ قرآن کے اندر تم کو پڑھ کر سنائی جایا کرتی ہیں جو کہ ان یتیم عورتوں کے باب میں ہیں جن کو جو ان کا حق مقرر ہے نہیں دیتے ہو اور ان کے ساتھ نکاح کی خواہش رکھتے ہو اور کمزور بچوں کے باب میں اور اس باب میں کہ یتیموں کی کارگزاری انصاف کے ساتھ کرو اور جو نیک کام کرو گے سو بلاشبہ اللہ تعالیٰ اس کو خوب جانتے ہیں۔ (ف ۲) (127)

تفسیر:

ف۲۔ خلاصہ مطلب یہ ہوا کہ جو آیتیں اس بارے میں پہلے آ چکی ہیں جن کو تم وقتاً فوقتاً سنتے رہتے ہو وہ ان احکام کے باب میں اب بھی واجب العمل ہیں کوئی حکم جدید نہیں دیا جاتا۔

 

اور اگر کسی عورت کو اپنے شوہر سے غالب احتمال بد دماغی یا بے پرواہی کا ہو سو دونوں کو اس امر میں کوئی گناہ نہیں کہ دونوں باہم ایک خاص طور پر صلاح کر لیں اور یہ صلح بہتر ہے اور نفوس کو حرص کے ساتھ اقتران ہوتا ہے اور اگر تم اچھا برتاؤ رکھو اور احتیاط رکھو تو بلاشبہ حق تعالیٰ تمہارے اعمال کی پوری خبر رکھتے ہیں۔ (128)

اور تم سے یہ تو کبھی نہ ہو سکے گا کہ سب بیبیوں میں برابری رکھو گو تمہارا جتنا ہی جی چاہے تو تم بالکل تو ایک ہی طرف نہ ڈھل جاؤ جس سے اس کو ایسا کر دو جیسے کوئی ادھر میں لٹکی ہو (ف ۳) اور اگر اصلاح کر لو اور احتیاط رکھو تو بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑے مغفرت والے بڑے رحمت والے ہیں۔ (129)

تفسیر:

ف۳۔ یعنی نہ توا سکے حقوق ادا کیے جائیں کہ خاوند والی سمجھی جائے اور نہ اس کو طلاق دی جائے کہ بے خاوند والی کہی جائے۔

 

اور اگر دونوں میاں بیوی جدا ہو جاویں تو اللہ تعالیٰ اپنی وسعت سے ہر ایک کو بے احتیاج کر دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والے اور بڑی حکمت والے ہیں۔ (130)

اور اللہ تعالیٰ کی ملک ہیں جو چیزیں کہ آسمانوں میں ہیں اور جو چیزیں کہ زمین میں ہیں (ف ۴) اور واقعی ہم نے ان لوگوں کو بھی حکم دیا تھا جن کو تم سے پہلے کتاب ملی تھی اور تم کو بھی کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو (ف ۵) اور اگر تم ناسپاسی کرو گے (ف ۱) تو اللہ تعالیٰ کی ملک ہیں جو چیزیں کہ آسمانوں میں ہیں اور زمین میں ہیں اور اللہ تعالیٰ کسی کے حاجتمند نہیں خود اپنی ذات میں محمود ہیں۔ (131)

تفسیر:

ف۴۔ تو ایسے مالک کے احکام ماننا بہت ہی ضروری ہے۔

ف۵۔ اس کو تقویٰ کہتے ہیں جس میں تمام احکام کی موافقت داخل ہے۔

ف۱۔ یعنی مخالفت احکام کی کرو گے۔

 

اور اللہ ہی کی ملک ہیں جو چیزیں کہ آسمانوں میں ہیں اور جو چیزیں کہ زمین میں ہیں اور اللہ تعالیٰ کافی کارساز ہیں۔ (132)

اگر ان کو منظور ہو تو اے لوگوں تم سب کو فنا کر دیں اور دوسروں کو موجود کر دیں اور اللہ تعالیٰ اس پر پوری قدرت رکھتے ہیں۔ (133)

جو شخص دنیا کا معاوضہ چاہتا ہو تو اللہ تعالیٰ کے پاس تو دنیا اور آخرت دونوں کا معاوضہ ہے اور اللہ تعالیٰ بڑے سننے والے بڑے دیکھنے والے ہیں۔ (ف ۲) (134)

تفسیر:

ف۲۔ وہ سب کے اقوال اور درخواستوں کی دنیا کی ہوں یا دین کی سنتے ہیں اور سب کی نیتوں کو دیکھتے ہیں بس طالبان آخرت دنیا کو آخرت میں محروم رکھیں گے پس آخرت ہی کی نیت اور درخواست کرنا چاہیے البتہ دنیا کی حاجت مستقل طور پر مانگنا مضائقہ نہیں لیکن عبادت میں یہ قصد نہ کرے۔

 

اے ایمان والو انصاف پر خوب قائم رہنے والے اللہ کے لیے گواہی دینے والے رہو اگرچہ اپنی ہی ذات پر ہو (ف ۳) یا کہ والدین اور دوسرے رشتہ داروں کے مقابلہ میں ہو وہ شخص اگر امیر ہے تو اور غریب ہے تو دونوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو زیادہ تعلق ہے (ف ۴) سو تم خواہش نفس کا اتباع مت کرنا کبھی تم حق سے ہٹ جاؤ اور اگر تم کج بیانی کرو گے یا پہلوتہی کرو گے تو بلاشبہ اللہ تعالیٰ تمہارے سب اعمال کی پوری خبر رکھتے ہیں۔ (135)

تفسیر:

ف۳۔ اس کو اقرار کہتے ہیں۔

ف۴۔ یعنی گواہی کے وقت یہ خیال نہ کرو کہ جس کے مقابلہ میں تم گواہی دے رہے ہیں یہ امیر ہے اس کو نفع پہچانا چاہیے تاکہ اس سے بے مروتی نہ ہو یا کہ یہ غریب ہے اس کا کیسے نقصان کر دیں تم کسی کی امیری غریبی کو نہ دیکھو کیونکہ ان سے تمہارا تعلق جس قدر ہے وہ بھی اللہ کا دیا ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ کو جو تعلق ہے وہ تمہارا دیا ہوا نہیں پھر جب باوجود تعلق قوی کے اللہ نے ان کی مصلحت اس میں رکھی ہے کہ اظہار حق کیا جائے تو تم تعلق ضعیف پر ان کی ایک عارضی مصلحت کا کیوں خیال کرتے ہو۔

 

اے ایمان والو (ف ۵) تم اعتقاد رکھو اللہ کے ساتھ اور اس کے رسول کے ساتھ اور اس کتاب کے ساتھ جو اسنے اپنے رسول پر نازل فرمائی اور ان کتابوں کے ساتھ جو کہ پہلے نازل ہو چکی ہیں اور جو شخص اللہ تعالیٰ کا انکار کرے اور اس کے فرشتوں کا اور اس کی کتابوں کا اور اس کے رسولوں کا اور روز قیامت کا تو وہ شخص گمراہی میں بڑی دور جا پڑا۔ (136)

تفسیر:

ف۵۔ یعنی جو مجملاً ایمان لا کر زمرہ مومنین میں داخل ہو چکے ہیں۔

 

بلاشبہ جو جو لوگ مسلمان ہوئے پھر کافر ہو گئے پھر مسلمان ہوئے پھر کافر ہو گئے پھر کفر میں بڑھتے چلے گئے (ف ۶) اللہ تعالیٰ ایسوں کو ہرگز نہ بخشیں گے اور نہ ان کو (منزل مقصود یعنی بہشت کا) راستہ دکھلائیں گے۔ (ف ۷) (137)

تفسیر:

ف۶۔ یعنی کفر پر دم مرگ تک ثابت اور دائم رہے۔

ف۷۔ کیونکہ مغفرت اور جنت کے لیے موت علی الایمان شرط ہے۔

 

منافقین کو خوشخبری سنادیجئیے اس (امر) کی کہ ان کے واسطے بڑی دردناک سزا ہے۔ (138)

جن کی یہ حالت ہے کہ کافروں کو دوست بناتے ہیں مسلمانوں کو چھوڑ کر کیا ان کے پاس معزز رہنا چاہتے ہیں سو اعزاز تو ساراخدا کے قبضہ میں ہے۔ (ف ۱) (139)

تفسیر:

ف۱۔ چنانچہ اللہ نے جلد ہی مسلمانوں کے ہاتھوں سب کو ذلیل و خوار فرمایا۔

 

اور اللہ تعالیٰ تمہارے پاس یہ فرمان بھیج چکا ہے کہ جب احکام الٰہیہ کے ساتھ استہزأ اور کفر ہوتا ہواسنو تو ان لوگوں کے پاس مت بیٹھو جب تک کہ وہ کوئی اور بات شروع نہ کر دیں (ف ۲) کہ اس حالت میں تم بھی انہی جیسے ہو جاؤ گے (ف ۳) یقیناً اللہ تعالیٰ منافقوں کو اور کافروں کو سب کو دوزخ میں جمع کر دیں گے۔ (140)

تفسیر:

ف۲۔ یہ استہزاء کرنے والے مکہ میں مشرکین تھے اور مدینہ میں یہود تو علانیہ اور منافقین صرف غرباء و ضعفاء مسلمین کے روبرو پس جس طرح وہاں مشرکین کی مجالست ایسے وقت میں ممنوع تھی یہاں یہود اور منافقین کی مجالست سے نہی ہے۔

ف۳۔ اہل باطل کے ساتھ مجالست کی چند صورتیں ہیں اول ان کی کفریات پر رضا کے ساتھ یہ کفر ہے دوم اظہار کفریات کے وقت کراہت کے ساتھ مگر بلا عذر۔ یہ فسق ہے سوم کسی ضرورت دنیوی کے واسطے یہ مباح ہے۔ چہارم تبلیغ احکام کے لیے یہ عبادت ہے۔ پنجم اضطرار و بے اختیاری کے ساتھ اس میں معذوری ہے۔

 

وہ ایسے ہیں کہ تم پر افتاد پڑنے کے منتظر رہتے ہیں پھر اگر تمہاری فتح منجانب اللہ ہو گئی تو باتیں بناتے ہیں کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے اور اگر کافروں کو کچھ حصہ مل گیا تو باتیں بناتے ہیں کہ کیا ہم تم پر غالب نہ آنے لگے تھے اور کیا ہم نے تم کو مسلمانوں سے بچا نہیں لیا سو اللہ تعالیٰ تمہارا اور ان کا قیامت میں (عملی) فیصلہ فرما دیں گے اور (اس فیصلہ میں ) ہرگز اللہ تعالیٰ کافروں کو مسلمانوں کے مقابلہ میں غالب نہ فرما دیں گے۔ (141)

بلاشبہ منافق لوگ چالبازی کرتے ہیں اللہ سے حالانکہ اللہ تعالیٰ اس چال کی سزا ان کو دینے والے ہیں اور جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو بہت ہی کاہلی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں (ف ۴) صرف آدمیوں کو دکھلاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا ذکر بھی نہیں کرتے مگر بہت ہی مختصر۔ (ف ۵) (142)

تفسیر:

ف۴۔ جس کسل کی یہاں مذمت ہے وہ اعتقادی کسل ہے اور جو باوجود اعتقاد صحیح کے کسل ہو وہ اس سے خارج ہے پھر اگر کسی عذر سے ہو جیسے مرض و تعب و غلبہ و نوم۔ تب تو قابل ملامت بھی نہیں اور اگر بلا عذر ہو تو قابل ملامت ہے۔

ف۵۔ یعنی محض صورت نماز کی بنا لیتے ہیں جس سے نماز کا نام ہو جائے اور عجب نہیں کہ صرف اٹھنا بیٹھنا ہی ہوتا ہو۔

 

معلق ہو رہے ہیں دونوں کے درمیان میں نہ ادھر نہ ادھر (ف ۶) اور جس کو اللہ تعالیٰ گمراہی میں ڈال دیں ایسے شخص کے لیے کوئی سبیل نہ پاؤ گے۔ (ف ۷) (143)

تفسیر:

ف۶۔ ظاہر میں مومن تو کفار سے الگ اور باطن میں کافر تو مومنین سے الگ۔

ف۷۔ مطلب یہ کہ ان منافقین کے راہ پر آنے کی امید مت رکھو اس میں منافقین کی تشنیع ہے اور مومنین کی تسلی کہ ان کی شرارتوں سے رنج نہ کریں۔

 

اے ایمان والو تم مومنین کو چھوڑ کر کافروں کو (ف ۸) دوست مت بناؤ کیا تم یوں چاہتے ہو کہ اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کی حجت صریح قائم کر لو۔ (ف ۹) (144)

تفسیر:

ف۸۔ خواہ منافق ہوں خواہ مجاہر ہوں۔

ف۹۔ حجت صریح یہی کہ ہم نے جب منع کر دیا تھا تو پھر کیوں ایسا کیا۔

 

بلاشبہ منافقین دوزخ کے سب سے نیچے کے طبقہ میں جائیں گے اور تو ہرگز ان کا کوئی مددگار نہ پاوے گا۔ (ف ۱) (145)

تفسیر:

ف۱۔ اوپر منافقین کے قبائح وشنائع کا بیان مقصود تھا گو ایک مضمون کے ضمن میں ان کی سزائے جہنمیت کا بھی ذکر آ گیا تھا آگے ان کی سزا کا بیان مقصود ہے اور چونکہ بیان سزا کا اثر فی نفسہ یہ ہے کہ سلیم المزاج آدمی کو خوف پیدا ہو جاتا ہے جو سبب ہو جاتا ہے توبہ کا۔ اس لیے سزا سے تائبین کا استثناء اور ان کی جزائے نیک کا بیان بھی فرما دیا۔

 

لیکن جو لوگ توبہ کر لیں اور اصلاح کر لیں اور اللہ تعالیٰ پر وثوق رکھیں اور اپنے دین کو خالص اللہ ہی کے لیے کیا کریں تو یہ لوگ مومنین کے ساتھ ہوں گے اور مومنین کو اللہ تعالیٰ اجر عظیم عطا فرمائیں گے۔ (146)

( اور اے منافقو) اللہ تعالیٰ تم کو سزا دے کر کیا کریں گے اگر تم سپاس گزاری کرو اور ایمان لے آؤ اور اللہ تعالیٰ بڑی قدر کرنے والے خوب جاننے والے ہیں۔ (147)

اللہ تعالیٰ بری بات زبان پر لانے کو پسند نہیں کرتے بجز مظلوم کے (ف ۲) اور اللہ تعالیٰ خوب سنتے ہیں خوب جانتے ہیں۔ (ف ۳) (148)

تفسیر:

ف۲۔ یعنی مظلوم اگر اپنے ظالم کی نسبت حکایت شکایت کریں گے تو وہ گناہ نہیں۔

ف۳۔ اس میں اشارہ ہے کہ مظلوم کو خلاف واقع کہنے کی اجازت نہیں۔

 

اگر نیک کام علانیہ کرو یا اس کو خفیہ کرو یا کسی برائی کو معاف کر دو تو اللہ تعالیٰ بڑے معاف کرنے والے ہیں پوری قدرت والے ہیں۔ (149)

جو لوگ کفر کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور اس کے رسول کے ساتھ اور یوں چاہتے ہیں کہ اللہ کے اور اس کے رسول کے درمیان میں فرق رکھیں اور کہتے ہیں کہ ہم بعضوں پر تو ایمان لاتے ہیں اور بعضوں کے منکر ہیں (ف ۴) اور یوں چاہتے ہیں کہ بین بین ایک راہ تجویز کریں۔ (150)

تفسیر:

ف۴۔ اس قول اور اس عقیدے سے اللہ کے ساتھ بھی ان کار لازم آ گیا اور سب رسولوں کے ساتھ بھی کیونکہ اللہ نے ہر رسول نے سب رسولوں کو رسول کہا ہے جب بعض کا انکار ہوا تو اللہ کی اور بقیہ رسولوں کی تکذیب ہو گئی جو کہ ضد ہے تصدیق اور ایمان کی۔

 

ایسے لوگ یقیناً کافر ہیں اور کافروں کے لیے ہم نے اہانت آمیز سزا تیار کر رکھی ہے۔ (151)

اور جو لوگ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کے سب رسول پر بھی اور ان میں سے کسی میں فرق نہیں کرتے ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ ضرور ان کے ثواب دیں گے اور اللہ تعالیٰ بڑے مغفرت والے ہیں بڑے رحمت والے ہیں۔ (ف ۵) (152)

تفسیر:

ف۵۔ بعض مفسرین نے اس آیت کو یہود و نصاریٰ دونوں کی شان میں کہا ہے کیونکہ نصاریٰ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو نہیں مانتے تھے۔ لیکن سیاق وسباق میں یہود کا ذکر مقتضی اس کو ہے کہ آیت کا شان یہود میں ہونا زیادہ مہتم بالشان ہو گو طبعاً نصاریٰ بھی عموم لفظ میں داخل ہو جائیں۔

 

آپ سے اہل کتاب یہ درخوست کرتے ہیں کہ آپ ان کے پاس ایک خاص نوشتہ آسمان سے منگوا دیں سو انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے اس سے بھی بڑی بات کی درخواست کی تھی اور یوں کہا تھا کہ ہم کو اللہ تعالیٰ کو کھلم کھلا دکھلا دو جس پر ان کی اس گستاخی کے سبب ان پر کڑک بجلی آ پڑی۔ (ف ۶) پھر انہوں نے گوسالہ کو تجویز کیا تھا بعد اس کے کہ بہت سے دلائل ان کو پہنچ چکے تھے پھر ہم نے اس سے درگزر کر دیا تھا اور اور موسیٰ (علیہ السلام) کو ہم نے بڑا رعب دیا تھا۔ (153)

تفسیر:

ف۶۔ یہود نے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے براہ عناد یہ درخواست کی کہ ہم آپ سے جب بیعت کریں کہ ہمارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نوشتہ اس مضمون کا آئے کہ از جانب اللہ بنام فلاں یہودی آنکہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) رسول ہیں۔ اس طرح ہر ہر یہودی کے نام یہ خطوط ہوں اللہ نے حضور (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی تسلی فرمائی کہ یہ لوگ ہمیشہ سے ایسی جہالتیں کرتے آئے ہیں آپ دل شکستہ نہ ہوں۔

 

اور ہم نے ان لوگوں سے قول و قرار لینے کے واسطے کوہ طور کو اٹھا کر ان کے اوپر معلق کر دیا تھا اور ہم نے ان کو یہ حکم دیا تھا کہ دروازہ میں عاجزی سے داخل ہونا اور ہم نے ان کو یہ حکم دیا تھا کہ یوم ہفتہ کے بارے میں تجاوز مت کرنا اور ہم نے ان سے قول و قرار نہایت شدید لئے۔ (154)

سو (ہم نے سزا میں مبتلا کیا) ان کی عہد شکنی کی وجہ سے اور ان کے کفر کی وجہ سے احکام الٰہیہ کے ساتھ اور ان کے قتل کرنے کی وجہ سے انبیاء کو ناحق اور ان کے اس مقولہ کی وجہ سے کہ ہمارے قلوب محفوظ ہیں بلکہ ان کے کفر کے سبب ان (قلوب) پر اللہ تعالیٰ نے بند لگا دیا ہے سو ان میں ایمان نہیں مگر قدرے قلیل۔ (ف ۱) (155)

تفسیر:

ف۱۔ نقص میثاق میں سب مابعد کا مضمون داخل ہے لیکن زیادت شنیع کے لیے سب معاملات کو الگ الگ بھی بیان فرما دیا کہ اللہ کے ساتھ ان کا یہ معاملہ ہے کہ ان کے حکام کے منکر ہیں انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ یہ برتاؤ ہے کہ ان کی تکذیب سے گزر کر ان کو قتل کرتے تھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے ساتھ یہ معاملہ ہے کہ آپ کے سامنے اپنے حق پر ہونے کے مدعیہ ہیں اور یہ سب اقسام کفر کے ہیں۔

 

اور ان کے کفر کی وجہ سے اور حضرت مریم (علیہا السلام) پر ان کے بڑا بھاری بہتان دھرنے کی وجہ سے۔ (156)

اور ان کے اس کہنے کی وجہ سے کہ ہم نے مسیح عیسیٰ بن مریم کو جو کہ رسول ہیں اللہ تعالیٰ کے قتل کر دیا (ف ۲) حالانکہ انہوں نے نہ ان کو قتل کیا اور نہ ان کو سولی پر چڑھایا لیکن ان کو اشتباہ ہو گیا اور جو لوگ ان کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں وہ غلط خیال میں ہیں ان کے پاس اس پر کوئی دلیل نہیں بجز تخمینی با توں پر عمل کرنے کے اور انہوں نے ان کو یقینی بات ہے کہ قتل نہیں کیا۔ (157)

تفسیر:

ف۲۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کے نام کے ساتھ جو رسول اللہ آیا ہے یہ یہود کا قول نہیں ہے بلکہ اللہ نے بڑھا دیا ہے کہ دیکھو ایسے کی نسبت ایسا کہتے ہیں۔

 

بلکہ ان کو خدا تعالیٰ نے اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ تعالیٰ بڑے زبردست ہیں حکمت والے ہیں۔ (158)

اور کوئی شخص اہل کتاب سے نہیں رہتا مگر وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی اپنی مرنے سے پہلے ضرور تصدیق کر لیتا ہے اور قیامت کے روز وہ ان پر گواہی دیں گے۔ (ف ۳) (159)

تفسیر:

ف۳۔ اوپر یہود کی بعض شرارتیں اور کچھ سزائیں لعن وغیرہ جو کہ ازقسم امور تکوینیہ اور واقع فی الدنیا ہیں بیان فرمائی ہیں آگے بھی ان کی بعض شرارتوں کا مع ذکر بعض عقوبات واقعہ فی الدنیا از قبیل امور تشریعیہ کہ تحریم طیبات ہے اور مع ذکر عقوبت اخرویہ کہ عذاب الیم ہے۔ بیان ہے اور چونکہ اصل سزایہی ہے اس لیے ذکر یہود کے شروع پر بھی عذاب مہین کے عنوان سے اس کو فرمایا تھا پس طرفین میں ہونے سے زیادہ تاکید ہو گئی۔

 

سویہود کے ان ہی بڑے بڑے جرائم کے سبب ہم نے بہت سی پاکیزہ چیزیں جو ان کے لیے حلال تھیں ان پر حرام کر دیں (ف ۴) اور بسبب اس کے کہ وہ بہت سے آدمیوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی راہ سے مانع بن جاتے تھے۔ (160)

تفسیر:

ف۴۔ جرائم سے جو تحریم ہوئی وہ تحریم عام تھی گو جرائم سے بعض صلحاء محفوظ بھی تھے کیونکہ بہت سی حکمتوں کے اقتضاء سے عادۃ اللہ یونہی جاری ہے جیسا قرآن میں اس کی طرف اشارہ بھی ہے۔ حدیث میں بھی آیا ہے کہ بڑا مجرم وہ ہے جس کے بے ضرورت سوال کرنے سے کوئی شے سب کے لیے حرام ہو جائے یعنی زمانہ وحی میں ۔ اور شریعت محمدیہ میں جو چیزیں حرام ہیں وہ کسی مضرت جسمانی یا روحانی کی وجہ سے حرام ہیں کہ اس حیثیت سے غیر طیب ہیں۔ پس تحریم طیبات نافعہ عقوبت وسیاست ہے اور تحریم طیبات ضارہ رحمت و حفاظت ہے۔

 

اور بہ سبب اس کے کہ وہ سود لیا کرتے تھے حالانکہ ان کو اس سے ممانعت کی گئی تھی اور بسبب اس کے کہ وہ لوگوں کے مال ناحق طریقہ سے کھا جاتے تھے اور ہم نے ان لوگوں کے لیے جو ان میں سے کافر ہیں دردناک سزا کا سامان کر رکھا ہے۔ (161)

لیکن ان (یہود) میں جو لوگ علم (دین) میں پختہ ہیں اور جو (ان میں ) ایمان لے آنے والے ہیں کہ اس (کتاب) پر (بھی) ایمان لاتے ہیں جو آپ کے پاس بھیجی گئی اور اس پر بھی (ایمان رکھتے ہیں ) جو آپ سے پہلے بھیجی گئی اور جو (ان میں ) نماز کی پابندی کرنے والے ہیں اور جو ان میں زکوٰۃ دینے والے ہیں اور جو (ان میں ) اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر اعتقاد رکھنے والے ہیں سو ایسے لوگوں کو ہم ضرور (آخرت میں ) ثواب عظیم عطا فرما دیں گے۔ (ف ۱) (162)

تفسیر:

ف۱۔ مراد ان سے یہ حضرات اور ان کے امثال ہیں جیسے عبداللہ بن سلام واسید و ثعلبہ (رض) اور آیت کا یہی شان نزول ہے اور آیت میں اجر کامل کی تعلیق ان امور مذکورہ پر مقصود ہے اور نفس اجر و مطلق نجات صرف عقائد ضروریہ کی تصحیح سے وابستہ ہے۔

 

ہم نے آپ کے پاس وحی بھیجی ہے جیسے نوح کے پاس بھیجی تھی۔ اور ان کے بعد اور پیغمبروں کے پاس اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل اور اسحٰق اور یعقوب اور اولاد (یعقوب) اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کے پاس وحی بھیجی تھی اور ہم نے داؤد کو زبور دی تھی۔ (163)

اور ایسے پیغمبروں کو (صاحب وحی بنایا) جن کا حال اس کے قبل ہم آپ سے بیان کر چکے ہیں اور ایسے پیغمبروں کو جن کا حال ہم نے آپ سے بیان نہیں کیا اور موسیٰ سے اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر کلام فرمایا۔ (164)

(ان سب کو) خوشخبری دینے والے اور خوف سنانے والے پیغمبر بنا کر (اس لیے بھیجا) تاکہ لوگوں کے پاس اللہ تعالیٰ کے سامنے ان پیغمبروں کے بعد کوئی عذر باقی نہ رہے اور اللہ تعالیٰ پورے زور والے ہیں بڑی حکمت والے ہیں۔ (ف ۲) (165)

تفسیر:

ف۲۔ اللہ تعالیٰ پورے زور اور اختیار والے ہیں کہ بلا ارسال رسل بھی سزادیتے تو بوجہ اس کے کہ مالک حقیقی ہونے میں منفرد ہیں ظلم نہ ہوتا اور حقیقت میں عز کا حق کسی کو نہ تھا لیکن چونکہ بڑی حکمت والے بھی ہیں اس لیے حکمت اسی ارسال کو مقتضی ہوئی تاکہ ظاہری عذر بھی نہ رہے۔

 

لیکن اللہ تعالیٰ بذریعہ اس (کتاب) کے جس کو آپ کے پاس بھیجا ہے اور بھیجا بھی اپنے علمی کمال کے ساتھ شہادت دے رہے ہیں اور فرشتے تصدیق کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہی کی شہادت کافی ہے۔ (166)

جو لوگ منکر ہیں اور خدائی دین سے مانع ہوتے ہیں بڑی دور کی گمراہی میں جا پڑے ہیں۔ (167)

بلاشبہ جو لوگ منکر ہیں اور دوسروں کا بھی نقصان کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو کبھی نہ بخشیں گے اور نہ ان کو سوائے جہنم کی راہ کے اور کوئی راہ دکھلاویں گے۔ (168)

اس طرح پر کہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہا کریں گے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ سزا معمولی بات ہے۔ (ف ۳) (169)

تفسیر:

ف۳۔ اوپر یہود کے شبہ کا جو کہ نبوت محمدیہ کے متعلق تھا جواب اور نبوت کا اثبات مع وعید منکرین نہایت بلاغت اور وضوح سے مذکور ہو چکا آگے عام خطاب سے نبوت کا وجوب فرماتے ہیں۔

 

اے تمام لوگو تمھارے پاس یہ رسول سچی بات لے کر تمہارے پروردگار کی طرف سے تشریف لائے ہیں سو تم یقین رکھو یہ تمہارے لیے بہتر ہو گا اور اگر تم منکر رہے تو خدا تعالیٰ کی ملک ہے یہ سب جو کچھ آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے اور اللہ تعالیٰ پوری اطلاع رکھتے ہیں کامل حکمت والے ہیں۔ (ف ۱) (170)

تفسیر:

ف۱۔ اوپر یہود کو خطاب تھا آگے نصاریٰ کو ہے۔

 

اے اہل کتاب (ف ۲) تم اپنے دین میں حد سے مت نکلو اور خدا تعالیٰ کی شان میں غلط بات مت کہو (ف ۳) مسیح عیسیٰ بن مریم تو اور کچھ بھی نہیں البتہ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ایک کلمہ ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے مریم تک پہنچایا تھا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک جان ہیں سوا للہ پر اور اس کے سب رسولوں پر ایمان لاؤ اور یوں مت کہو کہ تین ہیں۔ باز آ جاؤ تمہارے لیے بہتر ہو گا۔ معبود حقیقی تو ایک ہی معبود ہے وہ صاحب اولاد ہونے سے منزہ ہے۔ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں موجودات ہیں سب اس کی ملک ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کارساز ہونے میں کافی ہیں۔ (171)

تفسیر:

ف۲۔ یعنی اے انجیل والو۔

ف۳۔ کہ نعوذ باللہ وہ صاحب اولاد ہے جیسا بعض کہتے ہیں المسیح ابن اللہ یا وہ مجموعہ آلہہ کا ایک جزو ہے جیسا کہتے تھے ان اللہ ثالث ثلثہ اور بقیہ دو جزو ایک حضرت عیسیٰ کو کہتے تھے اور ایک حضرت جبرائیل کو جیسا کہ آیت آئندہ میں ولا الملئکۃ المقربون کے بڑھانے سے معلوم ہوتا ہے اور بعض حضرت مریم (علیہا السلام) کو جیسا انخذونی وامی سے معلوم ہوتا ہے یا وہ عین مسیح ہے جیسا بعض کہتے تھے ان اللہ ہو المسیح ابن مریم غرض یہ سب عقیدے باطل ہیں۔

 

مسیح ہرگز خدا کے بندے بننے سے عار نہیں کریں گے اور نہ مقرب فرشتے اور جو شخص خدا تعالیٰ کی بندگی سے عار کرے گا اور تکبر کرے گا تو خدا تعالیٰ ضرور سب لوگوں کو اپنے پاس جمع کریں گے۔ (172)

پھر جو لوگ ایمان لائے ہوں گے اور انہوں نے اچھے کام کیے ہوں گے تو ان کو ان کا پورا ثوب دیں گے اور ان کو اپنے فضل سے اور زیادہ دیں گے اور جن لوگوں نے عار کیا ہو گا اور تکبر کیا ہو گا تو ان کو سخت دردناک سزا دیں گے اور وہ لوگ کسی غیر اللہ کو اپنا یار اور مددگار نہ پاویں گے۔ (ف ۴) (173)

تفسیر:

ف۴۔ اوپر عقائد نصاریٰ کا بطلان مع جزاء و سزاء مقرین و منکرین مذکور ہو چکا آگے خطاب عام سے ان مضامین کا اور ان مضامین کے تعلیم فرمانے والے رسول اور قرآن کا صدق اور مصدقین کی فضیلت بیان فرماتے ہیں جس طرح محاجہ یہود کے ختم پر اسی طور پر خطاب عام فرمایا تھا۔

 

اے لوگو یقیناً تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک دلیل آ چکی ہے (ف ۵) اور ہم نے تمہارے پاس ایک صاف نور بھیجا ہے۔ (ف ۶) (174)

تفسیر:

ف۵۔ وہ ذات مبارک ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی۔

ف۶۔ وہ قرآن مجید ہے۔

 

سو جو لوگ اللہ پر ایمان لائے اور انہوں نے اللہ کو مضبوط پکڑا (ف ۷) سو ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت میں داخل کریں گے اور اپنے فضل میں اور اپنے تک ان کو سیدھا رستہ بتلادیں گے۔ (ف ۸) (175)

تفسیر:

ف۷۔ یعنی اسلام کو۔

ف۸۔ حاصل یہ ہے کہ اطاعت کی برکت سے ثبات علی الاطلاعات کی توفیق حاصل ہوتی ہے۔

 

لوگ آپ سے حکم دریافت کرتے ہیں (ف ۱) آپ فرما دیجئے کہ اللہ تعالیٰ تم کو کلالہ کے باب میں حکم دیتا ہے (ف ۲) کہ اگر کوئی شخص مر جاوے جس کے اولاد نہ ہو ( اور نہ ماں باپ) اور اس کے ایک (عینی یا علاتی) بہن ہو تو اس کو اس کے تمام ترکہ کا نصف ملے گا اور وہ شخص اس (اپنی بہن) کا وارث ہو گا اگر (وہ بہن مر جاوے اور) اس کے اولاد نہ ہو ( اور والدین بھی نہ ہوں ) اور اگر بہنیں دو ہوں (یا زیادہ) تو ان کو اس کے کل ترکہ میں سے دو تہائی ملیں گے۔ اور اگر وارث چند بھائی بہن ہوں مرد اور عورت تو ایک مرد کو دو عورتوں کے حصہ کے برابر (ف ۳) اللہ تعالیٰ تم سے (دین کی باتیں ) اس لیے بیان کرتے ہیں کہ تم گمراہی میں نہ پڑو۔ اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتے ہیں۔ (176)

تفسیر:

ف۱۔ سبب اس آیت کے نزول کا استفتاء حضرت جابر (رض) کا ہے کہ اس وقت صرف ان کی بہنیں وارث تھیں رواہ النسائی۔ اور لباب میں ابن مردویہ سے حضرت عمر (رض) کا سوال کرنا بھی نقل ہے۔

ف۲۔ کلالہ یعنی جس کے نہ اولاد ہو نہ ماں باپ ہوں۔

ف۳۔ چونکہ سورت ہذا میں یہاں تک اصول و فروع کثیرہ کی تفصیل ہے اس لیے آخر میں ایک مجمل عنوان سے تمام تر تفصیل کو مکرر یاد دلا کر اپنی منت اور احسان بیان شرائع میں رعایت حکمت ان شرائع میں ذکر فرما کر سورت کو ختم فرماتے ہیں۔

٭٭٭

ماخذ: علم دین ڈاٹ کام، مکتبۂ جبرئیل

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

 

 

جلد ۱

جلد ۷