FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

مضطر افتخاری کی کچھ منتخب غزلیں

 

 

مضطر افتخاری

 

 

 

 

 

حمدیہ قطعے

 

ہر ایک دل میں مکیں لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ

ہے اس کا سب کو یقیں لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ

نکل کے دیکھ ذرا پردۂ گماں سے تو

فلک سے تا بہ زمیں لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ

٭٭٭

 

 

صدائے حور و ملک لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ

زمیں سے عرش تلک لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ

ہر ایک شکل میں موجود ہے وہی مضطر

ہے سب میں اس کی جھلک لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ

٭٭٭

 

 

 

 

نعتیہ قطعے

 

وجہِ زمیں زمن ہے صل علیٰ محمدؐ

ہر شمع انجمن ہے صل علیٰ محمدؐ

فضلِ خدا سے مضطرؔ ہر صبح و شام میرے

زیبِ لب و دہن ہے صل علیٰ محمدؐ

٭٭٭

 

 

یا مظہر العجائب صل علیٰ محمدؐ

تریاقِ ہر مصائب صل علیٰ محمدؐ

پیشانیِ ازل پہ چمکا جو نورِ اوّل

ہر شکل اس کی صائب صل علیٰ محمدؐ

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

حمد باری تعالیٰ

 

عاشقی، دیوانگی تیرے لئے

دشت گردی بھی مری تیرے لئے

خواہشِ عقبیٰ نہ دینا کی طلب

میری ساری بندگی تیرے لئے

عرش تیرا، فرش تیرا، سب ترے

چاند سورج چاندنی تیرے لئے

خاک چھانوں دشت یا صحرا کی میں

میری یہ آوارگی تیرے لئے

ذکر تیرا، لب ترے، میں بھی ترا

اور میری زندگی تیرے لئے

ذہن میرا ہر گھڑی تیری طرف

اے خدا یہ بے خودی تیرے لئے

درد تیرا، ٹیس تیری، دل ترا

دل کی شوریدہ سری تیرے لئے

خامہ و قرطاس تیرے اے خدا

اور ذوقِ شاعری تیرے لئے

عشق لیلیٰ، عشق مجنوں، عشق تُو

ہر ادائے دلبری تیرے لئے

کیوں نہ مضطرؔ ہو ثنا خواں ہر گھڑی

اس کی ساری زندگی تیرے لئے

٭٭٭

 

 

 

 

بیاں انساں سے یا رب وصف ہو کیا تیری قدرت کا

احاطہ کر نہیں سکتا کوئی تیری عنایت کا

ترے اک لفظ کُن سے ہو گئیں مخلوق سب ظاہر

الٰہی کون سمجھے گا کرشمہ تیری قدرت کا

یہاں بھی تو، وہاں بھی تو، عیاں بھی تو، نہاں بھی تو

عجب طرفہ تماشہ ہے خدایا تیری وحدت کا

فلک پر چاند، سورج، کہکشاں، انجم کی تابانی

کرشمہ سب کے سب ہیں آسماں پر تیری صنعت کا

تو ہی غالب، تو ہی قادر، تو ہی حاوی، تو ہی ناصر

جہاں میں بول بالا ہر طرف ہے تیری قدرت کا

مدد تیری نہیں ہوتی، تو منزل بھی نہیں ملتی

ہماری کامیابی تو ہے، صدقہ تیری رحمت کا

کہاں مضطرؔ سا عاجز اور کہاں مدح و ثنا تیری

بیاں ممکن نہیں یا رب تری توقیر و عظمت کا

٭٭٭

 

 

 

 

 

مدحت شہ کونینؐ

 

 

کس کے وَرُودِ پاک کا یہ تذکرہ ہوا

وردِ زباں ہر ایک کے صل علیٰ ہوا

وہ نور جو تھا عرش پہ احمد بنا ہوا

فرشِ زمیں پہ اس کا لقب مصطفیٰ ہوا

دیکھی جھلک جو آدمِ خاکی میں نور کی

حکم خدا سے سجدۂ نوری روا ہوا

سب ہی جھکے ہوئے تھے وہاں اس کے روبرو

الا لعین کے تھا نہ کوئی سر اٹھا ہوا

شاخیں شجر کی جھک گئیں گویا ہوا حجر

ہر کوئی دم بخود ہوا، حیرت زدہ ہوا

فاراں پہ گونجی ہے جو صدا لا الہٰ کی

ہر سمت دینِ حق کا عجب معجزہ ہوا

لات و منات گر پڑے شیطاں ہوا خجل

عالم میں لا الہٰ کا عجب غلغُلہ ہوا

آؤ بجھائیں تشنگی اے تشنگانِ دید

ہے پردۂ شبیہ حقیقت اٹھا ہوا

کیوں جائے آستاں پہ کسی غیر کے بھلا

مضطرؔ کا سر نبی کے ہے در پر جھکا ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

مولا مُو پے بھی ہو وہ کرم کی نظر

جس سے سر شار ہیں سارے جن و بشر

ساری سکھیاں کرے مُو پے طعنہ زنی

اب تو رنگ دو پیا مُوری سادی چُنر

اپنی نعلین کا دے دو صدقہ مُو ہے

بھر دو بھر دو موری تم یہ خالی گگر

پریت کی راہ سیّاں ہے اک پل صراط

بہنّیاں گہہ لو موری اے پیا آن کر

موری میلی چُنر دیکھ سکھیاں ہنسے

رنگ دو اپنے ہی رنگ مایہ موری چُنر

میں تو جیسی بھی ہوں، پیا تہُری تو ہوں

چھوڑ کر تُہرا چرنن میں جاؤں کدھر

تُہری نگری ما اس کی سما دھی بَد ہے

راکھو مضطرؔ کو بھی اپنی زیرِ نظر

٭٭٭

 

 

 

 

غزلیات

 

نہ قاتلوں کی کمی ہے نہ مقتلوں کی ہے

یہاں تو بات ہمارے ہی حوصلوں کی ہے

ابھی ابھی، ابھی بہہ جائے گا مکاں میرا

سمجھ رہا ہوں میں نیت جو بادلوں کی ہے

چمک دمک سے ہے خیرہ نگاہ ہر اک کی

صدا بھی ہوش رُبا تیرے پائلوں کی ہے

عجیب تر ہے کرشمہ تری نگاہوں کا

جدھر بھی دیکھئے اک بھیڑ گھائلوں کی ہے

امیر لوگ ہیں انساں، تو ہم بھی انساں ہیں

ہمیں بھی آرزو اطلس کی مخملوں کی ہے

اگر نقاب اٹھا دیں گے وہ تو کیا ہو گا

ابھی سے آنکھ چکا چوند منچلوں کی ہے

کہاں نجات بھلا اضطراب سے مضطرؔ

ہمارے سامنے کثرت جو مسئلوں کی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

سب آدمی ہیں لیکن، ہے فرق آدمی میں

کوئی ہے روشنی میں کوئی ہے تیرگی میں

اخلاق کی حدوں سے جو کل گذر گیا تھا

مشغول اب وہی ہے اصلاحِ زندگی میں

روتے کو ہے ہنساتی، ہنستے کو ہے رُلاتی

ہر طرح کے ہیں نغمے شاعر کی بانسری میں

پہلے پہل تو مجھ کو تھی نا گوارِ خاطر

لطف آ رہا ہے لیکن اب ان کی دشمنی میں

رہتا ہے رات دن اک احساسِ اضطرابی

آتا نہیں ہے جب تک اخلاص بندگی میں

جلتا رہا نشیمن کچھ بھی نہ کر سکے ہم

ایسا بھی اک زمانہ آیا تھا زندگی میں

ہر معرکہ میں مضطرؔ ہمت بلند رکھنا

ہونا نہ مبتلا تم احساسِ کمتری میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

قسمت سنور گئی ہے کہ کچھ گل کھلا ہے آج

کترا کے جو نکلتا تھا ہنس کر ملا ہے آج

مخفی تھا جو کہ گنج میں ظاہر وہی ہوا

مدّت کے بعد ’میم‘ کا عقدہ کھلا ہے آج

ممکن نہیں فرار مکافات سے عزیز

جو کچھ ملا ہے تجھ کو، وہ کل کا صلہ ہے آج

تشنہ لبی کا حال کسی کو سنائیں کیا

شکوہ کسی کا ہے، نہ کسی کا گلہ ہے آج

منصف سے اب فضول ہے انصاف کی امید

مضطرؔ ترے خلاف ہی ہر فیصلہ ہے آج

٭٭٭

 

 

 

شامِ غم اور اپنی یہ تنہائیاں

اس خرابے میں یادوں کی پروائیاں

زندگی زندگی کو ترسنے لگی

یوں اجل سے ہوئی ہیں شناسائیاں

کتنے عشاق ڈوبے ہیں اس جھیل میں

ان کی آنکھوں میں کتنی ہیں گہرائیاں

اب زمانے میں ہے ان کا چرچا بہت

کام آ ہی گئیں میری رسوائیاں

ان کی زلفِ دو تا یاد جب آ گئی

مجھ کو ڈسنے لگیں میری تنہائیاں

میں ہوں مضطرؔ جہاں میں غریب الوطن

مجھ سے روٹھی ہیں خود میری پرچھائیاں

٭٭٭

 

کہیں جب بھی شرحِ حکایات ہو گی

مرا ذکر ہو گا، تری بات ہو گی

گلے شکوے محفوظ رہنے دے اے دل

کبھی تو ہماری ملاقات ہو گی

تڑپ، دردِ غم، انتظار اور آنسو

مرے واسطے تیری سوغات ہو گی

محبت کی راہوں پہ چلتے ہی رہنا

تری ان سے بیشک ملاقات ہو گی

زمیں ہو، فلک ہو کہ بزم جہاں ہو

جہاں بھی سنو گے مری بات ہو گی

محبت کی بازی میں دل کو لگا دو

یہی نا! کہ مضطرؔ تری مات ہو گی

٭٭٭

 

 

 

شکوہ مجھے ہے تجھ سے نہ کوئی گلہ مجھے

تو مل گیا تو مل گیا ہر مدعا مجھے

کشتی بھنور میں ڈوبے گی کیسے بھلا مری

جب دے رہی ہے موجِ بلا حوصلہ مجھے

بہکے قدم نہ میرے نہ حیران میں ہوا

منزل بلا رہی تھی جو دے کر صدا مجھے

دامن بھرا ہے کانٹوں سے فصلِ بہار میں

بدلا چمن پرستی کا اچھا ملا مجھے

پھونکا گیا ہے میرا نشیمن بہار میں

راس آئی فصلِ گل کی نہ اب کے فضا مجھے

ہوتا ہے جب کوئی بھی مصیبت کا سامنا

ایسے میں ڈھانپ لیتی ہے ماں کی دعا مجھے

مضطرؔ کیسے سناؤں میں حالِ غمِ فراق

درد آشنا ملا نہ، کوئی ہم نوا مجھے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

رخِ جمیل سے پردا ذرا ہٹا دینا

کلیم و طور کا منظر ہمیں دکھا دینا

نشاط و عیش کی دولت ذرا لٹا دینا

نگاہِ مست سے صہبا مجھے پلا دینا

سوا تمہارے مرے دل میں کوئی بھی نہ رہے

خیال اپنا مرے دل میں یوں بسا دینا

کبھی جو ذوق میں میرے کوئی کمی دیکھو

دبی ہے آگ جو دل میں اُسے ہوا دینا

جہاں جہاں بھی نظر آئے نقشِ پا ان کا

جبینِ شوق کو سجدوں سے تم سجا دینا

ملا کسی سے، نہ کچھ بھی ملے گا اے مضطرؔ

میں چاہتا ہوں اسی در پہ پھر صدا دینا

٭٭٭

 

 

 

 

ایک ہی جذبہ ہے بس شمع میں پروانے میں

لطف ملتا ہے اگر ان کو تو جل جانے میں

دیکھنا ہو جو تجھے جذبۂ ایثار کبھی

دیکھ تو شمع میں، جلتے ہوئے پروانے میں

عشق میں دونوں کا جل جانا مقدر ٹھہرا

جذبۂ عشق کی معراج ہے مٹ جانے میں

خون سے ہم نے گلستاں کو سینچا تھا مگر

فصلِ گل آئی تو رہنا پڑا ویرانے میں

اپنے اسلاف کی عظمت کو بچائے رکھنا

تذکرہ ہو گا ترا اپنے میں، بیگانے میں

بات جب عشق و محبت کی چلے گی مضطرؔ

ذکر آئے گا مرا بھی ترے افسانے میں

٭٭٭

 

 

 

 

میں رات بھر تڑپتا ہوں ان کو خبر نہیں

شاید کہ میری آہ میں اے دل اثر نہیں

ہوتی ہے راہ دل کو، اگر دل سے اے خدا

پھر بات کیا ہے درد، اِدھر ہے اُدھر نہیں

جب تک بشر عیاں ہے رہتا ہے وہ نہاں

مٹتی ہے جب خودی تو سمجھ لو بشر نہیں

ہوتی ہے صبح و شام تو یوں روز ہم نشیں

لیکن غمِ فراق کی ہوتی سحر نہیں

منزل ہے دور، راہ کٹھن، ہے نہ زادِ راہ

تنہا نکل پڑا ہوں کوئی ہم سفر نہیں

در پر ترے یہ سوچ کر سر کو جھکا دیا

اب میرا سر نہیں کہ ترا سنگ در نہیں

کترا رہے ہیں آپ سے مضطرؔ سب آج کیوں

دامن میں شاید آپ کے لعل و گہر نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

آتشِ الفتِ محبوب میں جلتے رہنا

شمع کی طرح سرِ بزم پگھلتے رہنا

کام رہبر کا ہے منزل پہ رکے یا نہ رکے

میں تو رہرو ہوں مرا کام ہے چلتے رہنا

ایک دن آ کے قدم چومے گی منزل خود ہی

شرط ہے جانبِ منزل یوں ہی چلتے رہنا

وقت کے ہاتھ جو روپوش تجھے ہونا پڑے

اشک بن کر مگر آنکھوں سے نکلتے رہنا

کہیں بزدل نہ سمجھ لیں تمہیں دنیا والے

کھا کے ٹھوکر بہر اک گام سنبھلتے رہنا

مجھ کو بے چین کئے دیتی ہے شوخی تیری

لمحہ لمحہ ترے تیور کا بدلتے رہنا

عشق کی آگ نہ پانی سے بجھے گی مضطرؔ

ہے عبث آنکھ سے آنسو کا نکلتے رہنا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

ہر دل میں محبت کی اک شمع جلا دیں گے

ہم نام ہی نفرت کا دنیا سے مٹا دیں گے

نفرت کا، عداوت کا ہر نقش مٹا دیں گے

الفت کا حسیں منظر آنکھوں میں سجا دیں گے

طوفاں ہو، تلاطم ہو یا موج اٹھائے سر

ہم ڈوبتی کشتی کو ساحل سے لگا دیں گے

پتھر کے جگر والے رو دیں گے یہ دعویٰ ہے

ہم قصّۂ غم اپنا جب ان کو سنا دیں گے

کھو جائیں گے کچھ ایسے ہم ان کے تصّور میں

ان کو بھی بھلا دیں گے خود کو بھی بھلا دیں گے

دنیا میں ہیں اے مضطرؔ جو لوگ جفا پیشہ

چہرے سے نقاب ان کے اک روز اٹھا دیں گے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کاشی تری گلی میں کعبہ تری گلی میں

پوجا تری گلی میں سجدہ تری گلی میں

دنیا تری گلی میں عقبیٰ تری گلی میں

سب کچھ ہمیں ملا ہے آقا تری گلی میں

مسجد ہو یا کہ کعبہ، گرجا ہو یا شوالہ

ملتا ہے سب کا جا کر رستہ تری گلی میں

دنیا کوئی سمیٹے، عقبیٰ کوئی سنوارے

بکتا ہے ہر طرح کا سودا تری گلی میں

مندر ہو یا کہ مسجد سب میں ہے تیرا جلوہ

کس بات کا ہے پھر یہ جھگڑا تری گلی میں

روتا ہوا تھا آیا، جاتا ہے اب رُلا کر

ہے اس طرح سے آنا جانا تری گلی میں

ہے اس کی یہ تمنا مر جائے وہ یہیں پر

مضطرؔ لگا چکا ہے ڈیرہ تری گلی میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ہے بپا حشر جو ہنگام سے پہلے پہلے

بس کہ ہشیار ہو انجام سے پہلے پہلے

جسم کی پاکی سے افضل ہے طہارت دل کی

دل کو کر پاک، ہر اک کام سے پہلے پہلے

آ کے دنیا میں گنوا بیٹھا ہے عقبیٰ ناداں

کر لے تیاریاں فرجام سے پہلے پہلے

چار سو چھایا ہے ویسا ہی اندھیرا یارو

تیرگی جیسے تھی اسلام سے پہلے پہلے

وہ تغافل ہی برتتے ہیں ہر اک دم مجھ سے

یہ سزا کم نہیں الزام سے پہلے پہلے

اب جو بد ظن نظر آتے ہیں جہاں میں مجھ سے

آشنا تھے وہ مرے نام سے پہلے پہلے

ہے حقیقت اسے بھولا نہیں کہتے مضطرؔ

گھر پلٹ آئے اگر شام سے پہلے پہلے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جتنا مسلو گے مجھے اور نکھر جاؤں گا

’’میں تو خوشبو ہوں فضاؤں میں بکھر جاؤں گا‘‘

اپنی ہستی میں مجھے پائے گا اے جان وفا

سانس کی راہ ترے دل میں اتر جاؤں گا

اپنی نظروں سے گراؤ نہ خدارا مجھ کو

دے گا طعنہ یہ زمانہ میں جدھر جاؤں گا

مری ہمت کو، شجاعت کو پرکھنے والو

دشت تو دشت ہے دریا سے گذر جاؤں گا

نَحْنُ اَقرب ہی پتہ جبکہ تمہارا ہے حضور

ڈھونڈنے پھر میں بھلا تم کو کدھر جاؤں گا

اب تمہارے ہی سنورنے پہ ہے قسمت موقوف

تم سنور جاؤ اگر میں بھی نکھر جاؤں گا

راہ کے کانٹے کو پلکوں سے چنوں گا مضطرؔ

جو بھی کٹھنائی ہو میں سینہ سپر جاؤں گا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

زندگی دی ہے تو جینے کی ادا بھی دیتے

درد جب تم نے دیا ہے تو دوا بھی دیتے

مار کر آنکھوں سے ہونٹوں سے جلا بھی دیتے

اپنا اعجاز مسیحائی دکھا بھی دیتے

میں نے ہر حال میں اللہ پہ بھروسہ رکھا

ورنہ تم نام و نشاں میرا مٹا بھی دیتے

ختم کرنے کے لئے دیرو حرم کا قصّہ

آپ پردہ ذرا چہرے سے ہٹا بھی دیتے

اے تخیّل کے شبستان میں رہنے والو

روشنی کا ہمیں پیغام سنا بھی دیتے

ہم کو معلوم ہے فطرت میں تمہاری ہے جفا

کاش بھولے سے کبھی دادِ وفا بھی دیتے

کھو گیا خود ہی گیا ڈھونڈنے جو بھی تم کو

اس میں کیا راز ہے مضطرؔ کو بتا بھی دیتے

٭٭٭

 

 

 

 

 

محبت کے ماروں کو سجدہ روا ہے

جھکاتے ہیں سر کو جہاں نقش پا ہے

جگر میرا چھلنی ہوا ہے تو کیا ہے

کہاں دل کا ارمان پورا ہوا ہے

رہے تیرا چہرہ نظر کے مقابل

یہی آرزو ہے، یہی مدعا ہے

ستم پر ستم کر نہ اُف بھی کروں گا

کہ دردِ جگر کی یہی بس دوا ہے

تیرے در پہ آ کے خودی مٹ گئی جب

بلا شک یہی در تو دار الشفا ہے

حقیقت میں اس کے سوا جب نہیں کچھ

وہ خود جا رہا ہے وہ خود آ رہا ہے

تڑپتا ہے مضطرؔ محبت میں ان کی

ترے حق میں بہتر یہی اک سزا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

بیتاب ہو رہا ہوں دل میں تمہیں بسا کے

جاؤ نہ اب خدا را دردِ جگر بڑھا کے

تقدیر میں مری جب کوئی دیا نہیں ہے

دنیا کروں گا روشن دل کو جلا جلا کے

وہ سامنے ہمارے موجود ہر گھڑی ہے

چاہو تو دیکھو لو تم ہستی ذرا مٹا کے

قائم ہے زندگی جب زخموں کی تازگی سے

دردِ جگر بڑھا دو نشتر چبھا چبھا کے

تم کو نہیں توقع مجھ سے اگر وفا کی

ثابت قدم رہوں گا دیکھو تو آزما کے

نکلے گا اب نہ منہ سے لفظِ اَنا ہمارے

بہکے نگے ہم نہ ہرگز دیکھو کبھی پلا کے

مرشد نے جو دیا ہے تجھ کو علوم رُشدی

نامحرموں سے مضطرؔ رکھنا چھپا چھپا کے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جانِ من، جانِ جگر، جانِ وفا ہو جائے گا

رفتہ رفتہ بت سے وہ کافر خدا ہو جائے گا

عشقِ مرشد میں اگر اے دل فنا ہو جائے گا

خود بخود تو واقفِ رازِ بقا ہو جائے گا

جب ہمارا اور ان کا سامنا ہو جائے گا

حق و ناحق کا اسی دن فیصلہ ہو جائے گا

بڑھ کے تیرا درد جب حد سے سوا ہو جائے گا

خود مسیحا، خود ہی مرہم، خود دوا ہو جائے گا

ڈھونڈنا اُس کو اگر ہے، تو خود ہی ہو جا لاپتہ

لاپتہ ہوتے ہی تو اس کا پتہ ہو جائے گا

عشقِ مرشد میں بنا لے دل کو تو روشن چراغ

بن کے پروانہ جہاں تجھ پہ فدا ہو جائے گا

خواہشاتِ نفس سے مضطرؔ اگر منہ موڑ لے

سب سے اعلیٰ مرتبہ بیشک ترا ہو جائے گا

٭٭٭

 

 

 

 

 

عبث پیار کرتے ہو تم زندگی سے

وفا اس نے کی ہے کبھی بھی کسی سے ؟

کوئی دلبری سے کوئی دل لگی سے

ہزاروں ہیں گھائل تری خوش روی سے

طلب کچھ بھی رکھتا نہیں منصفی سے

وطن پر میں مرتا ہوں اپنی خوشی سے

ملے گا نہ دنیا میں مجھ سا کوئی بھی

کبھی مل کے دیکھو کسی آدمی سے

ہو خلوت کہ جلوت کھرا بولنا تم

نہ مرعوب ہونا کسی آدمی سے

تڑپنے کا میرے سبب جان لو گے

کبھی دل لگا کر تو دیکھو کسی سے

کرم تجھ پہ کیفؔ الاشر کا ہے مضطرؔ

کہ پہچان تیری ہوئی شاعری سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اپنے احساس کو سینے میں دبائے رکھئے

مسکراہٹ بھی مگر لب پہ سجائے رکھئے

پیار کا دیپ سرِ راہ جلائے رکھئے

اپنے دشمن کو بھی سینے سے لگائے رکھئے

پھر کڑی دھوپ میں چھاؤں کی ضرورت ہو گی

اپنے آنگن میں کوئی پیڑ لگائے رکھئے

کب چراغوں کو بجھا دے یہ ہوائے سرکش

اپنے ہاتھوں کو ہی دیوار بنائے رکھئے

تذکرہ یوں تو ہوا کرتا ہے، سب کا ہو گا

اپنے کردار کی عظمت کو بچائے رکھئے

میری میخواری کا رہ جائے بھرم اے ساقی

خالی ساغرہی سہی آگے بڑھائے رکھئے

عہد نو میں ہے اگر جینا تو سن لیں مضطرؔ

اپنے چہرے پہ کوئی چہرہ لگائے رکھئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

بدل دے قسمت جو ہر کسی کی، کہیں سے ایسی نظر تو لاؤ

مٹا دے ہر دل سے جو کدورت، ہے کوئی ایسا بشر تو لاؤ

غزل کے گیسو سنور بھی جائے، ہر ایک مصرعہ مہک بھی اٹھّے

جو چاہو ایسا تو پہلے ہمدم، سخن میں اپنے اثر تو لاؤ

چمن کے سوکھے شجر پہ جس سے، خوشی کے برگ و ثمر بھی آئیں

تمام اہلِ چمن بھی چہکیں، تم ایسا خود میں ہنر تو لاؤ

وطن میں گھر گھر جلیں گے چولہے، ملے گی ہر اک بشر کو روٹی

یہ مژدہ اب تو سناؤ یارو، کہیں سے ایسی خبر تو لاؤ

خوشی کا سورج ہو جس میں روشن، طرب کا ہو چاند جس کی رونق

جہان ہستی میں تم بھی اپنے، وہ شام اور وہ سحر تو لاؤ

چمن چمن دشت و کوہ صحرا، تلاش کرنے سے فائدہ کیا

دکھا دے تم کو جو اس کی صورت، وہ دیدۂ حق نگر تو لاؤ

عبث تم اس کے لئے ہو مضطر، وہ مضطرب ہو گا خود ہی مضطرؔ

ہے شرط بس نالہ و فغاں میں تم اپنے پہلے اثر تو لاؤ

٭٭٭

 

 

 

 

سرور و وجد کے دریا میں ڈال دے مجھ کو

جو ڈوبنے میں لگوں تو اچھال دے مجھ کو

ہر ایک دل میں رہوں بعدِ مرگ زندہ میں

خلوص و مہر کے سانچے میں ڈھال دے مجھ کو

میانِ میکدہ ساقی یہ کام تیرا ہے

جو لڑکھڑاؤں تو بڑھ کے سنبھال دے مجھ کو

بھٹک رہی ہے نظر اب سلگتے منظر میں

حسین رُت کے تو بانہوں میں ڈال دے مجھ کو

یہی نصیب ہے شاید، مجھے ملال نہیں

میں چبھ رہا ہوں تو دل سے نکال دے مجھ کو

وہی روایتی حبس دوام میں ہوں گھرا

انا کے خول سے باہر نکال دے مجھ کو

سوال کر یہی مضطرؔ تو دینے والے سے

نگاہِ دور بیں، روحِ جلال دے مجھ کو

٭٭٭

 

 

 

 

 

صحنِ چمن کو جب گل و گلزار دیکھنا

اپنے لہو کا معجزہ اے یار دیکھنا

ہے دیکھنا اگر مرے مرشد کا مرتبہ

میری نظر سے تم ذرا اے یار دیکھنا

زاہد تجھے ملے نہ اگر یار کا پتہ

دل کو بنا کے آئینہ ہر بار دیکھنا

بندے کی بندگی میں گذاری تمام عمر

اب میرے سر کو تم بھی سرِ دار دیکھنا

جب علم ہے کہ یار کا کوئی مکاں نہیں

بیکار ہی تو ہے در و دیوار دیکھنا

ساحل نظر سے دور بھنور سامنے ہو جب

مرشد کے ہاتھ میں مرے پتوار دیکھنا

مضطرؔ چڑھانا اپنے نئے حوصلوں پہ رنگ

اونچی عمارتوں کی جو دیوار دیکھنا

٭٭٭

 

 

 

 

 

تیرا پیکر جو میں آنکھوں میں بسا لیتا ہوں

ڈوبتی ناؤ کو ساحل سے لگا لیتا ہوں

درد بھی درد سے بے چین نہ ہو گا کیسے

درد کو درد سے اشعار بنا لیتا ہوں

شبِ تیرہ میں بہر حال میں تسکیں کے لئے

تیری یادوں کے دیئے دل میں جلا لیتا ہوں

جب بھی ہوتا ہے مرا سامنا تجھ سے اے دوست

ہنس کے جبراً میں ترے غم کو چھپا لیتا ہوں

کیوں نہ ہو گوشہ نشینی مری خاطر رحمت

شر سے احباب کے میں خود کو بچا لیتا ہوں

نئی تہذیب کے فیضان سے محروم سہی

گاہے گاہے میں بزرگوں کی دعا لیتا ہوں

سخت جانی پہ مری، ان کو ہے حیرت مضطرؔ

کیسے ہر غم کو میں سینے میں چھپا لیتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

دل کو جلا کے بزم کو روشن کیا کریں

لازم ہے دشمنوں کے بھی حق میں دعا کریں

ہر حادثہ کو پہلے تو دہشت کا نام دیں

پھر شوق سے اُسے مری سازش کہاں کریں

بس اپنے عزم کی ہے یہ رودادِ مختصر

بڑھ جائیں جب کبھی تو نہ پیچھے ہٹا کریں

جو جھوٹ کو بھی سچ کی طرح بولتے رہے

ہم ان منافقین پہ کیا تبصرہ کریں

بن کے ضیائے قلب وہ آئیں گے شام کو

ہے شرط آپ دیدۂ دل کو تو وا کریں

وہ تو امیرِ شہر ہیں، اُن کو ہے اختیار

مضطر کو شاد، شاد کو مضطرؔ کہا کریں

خنجر بدست کوئی ہے مضطرؔ تو کیا ہوا

ہیں با وفا تو آپ نہ شکوہ کیا کریں

٭٭٭

 

 

 

بدلی تری نظر تو بدلنا پڑا مجھے

تیرے ہی رنگ میں خود کو بھی رنگنا پڑا مجھے

ممکن نہیں ہے پانی میں رہ کر مگر سے بیر

سمجھوتہ اس لحاظ سے کرنا پڑا مجھے

میں جانتا تھا وعدۂ فردا ہے اک فریب

وعدے پر تیرے پھر بھی بہلنا پڑا مجھے

سوزِ غم فراق کی اللہ رے یہ تپش

اپنی لگائی آگ میں جلنا پڑا مجھے

اپنی ہی دید کا میں طلب گار جب ہوا

پھر آدمی کی شکل میں ڈھلنا پڑا مجھے

ہنسنے کا گو مآل ہے میری نگاہ میں

مضطرؔ پھر اس کے بعد بھی بننا پڑا مجھے

٭٭٭

 

 

 

 

آؤں گا یاد جب میں رویا کرو گے تم

اشکوں سے اپنا دامن بھگویا کرو گے تم

ناکامیوں کا ہو گا جو احساس کچھ تمہیں

کشتی کو ساحلوں پر ڈبویا کرو گے تم

سرگوشیاں ہمارے خوں کے چھینٹے کر یں گے جب

گھبرا کے آستیں کو دھویا کرو گے تم

احساس ہو گا تم کو حقیقت کا جس گھڑی

شرمندگی سے آپ ہی رویا کرو گے تم

میری خموشیاں تمہیں ڈسنے لگیں گی جب

ہرگز کبھی نہ چین سے سویا کرو گے تم

دل میں بڑھے گی جب بھی تعصّب کی گرمیاں

الفت کا بیج پیار سے بویا کرو گے تم

مضطرؔ کی بے گناہی سے پردہ اٹھے گا جب

خود اپنی بے وفائی پہ رویا کرو گے تم

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

عجیب شخص ہے کہہ کر مکر بھی جاتا ہے

بلند عزم ہے لیکن وہ ڈر بھی جاتا ہے

نکالتا ہے ہزاروں وہ خامیاں لیکن

دبی زبان سے تعریف کر بھی جاتا ہے

جواب کیا کوئی لائے ہمارے قاتل کا

وہ قتل کرتا ہے بچ کر گذر بھی جاتا ہے

خبر نہیں ہے یہ شاید تماش بینوں کو

اِدھر کا شعلہ بھڑک کر اُدھر بھی جاتا ہے

خودی کی موت ہے ہر روز ہاتھ پھیلانا

کہ بار بار دعا سے اثر بھی جاتا ہے

خودی کا نشّہ کہاں دائمی ہے اے مضطرؔ

یہ عمر بڑھتی ہے جب خود اتر بھی جاتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

یوں نفرتوں کے بیج وہ چپکے سے بو گئے

جتنے شریک حال تھے سب دور ہو گئے

اس شہر بے حسی میں جو احساس کی طلب

ہم ڈھونڈنے کو نکلے تو خود آپ کھو گئے

محفل میں ان کے سامنے جب آئینہ رکھا

دھبّے تمام آبِ تبسّم سے دھو گئے

احساس جرم تھا کہ ندامت کی تھی سزا

جب بات کھل گئی تو تہہِ خاک ہو گئے

شاید کہ ان کے بغض وحسد کی یہ دین ہے

ڈوبے وہ خود بھی اور سبھی کو ڈبو گئے

کیا فائدہ ہوا ارنی کہہ کے اے کلیمؐ

اس نے نقاب اٹھائی تو بے ہوش ہو گئے

الفت بھری زمین پہ یہ نفرتوں کی فصل

مضطرؔ وہ کون لوگ تھے جو بیج بو گئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

تقلیدِ غیر میں سبھی بے باک ہو گئے

کیا شوق ہے کہ عاریِ پوشاک ہو گئے

صحرائے درد و کرب سے ہجرت نہ کر سکا

رنج و الم ہی زیست کے املاک ہو گئے

رونے کی دھن سمائی ہے آنکھوں میں اس طرح

خوشیاں قریب آئیں تو نمناک ہو گئے

بچے بھی اپنے دانتوں میں کرنے لگے خلال

اس مفلسی میں وہ بھی تو چالاک ہو گئے

کب ہو گا وصل یار کا مضطرؔ کہو ذرا

اب تو فراقِ یار میں ہم خاک ہو گئے

٭٭٭

 

 

 

 

زباں سے لفظوں کے شعلے اگل رہا ہو گا

حسد کی آگ میں ہر پل وہ جل رہا ہو گا

غم و الم کی تپش میں پگھل رہا ہو گا

وہ ایک شخص جو کروٹ بدل رہا ہو گا

وہ باتیں کرتا ہو جب نرم نرم لہجے میں

سمجھ لے ! تجھ سے کوئی چال چل رہا ہو گا

بچھڑ کے مجھ سے مرا یار اپنی خلوت میں

یقین ہے ! کفِ افسوس مل رہا ہو گا

تپاں تپاں دلِ مہجور ہو گا فرقت میں

تو چشمِ نم سے سمندر ابل رہا ہو گا

محرِّک آپ کے شعر و سخن کا اے مضطرؔ

کوئی حسیں، کوئی جانِ غزل رہا ہو گا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

تڑپ رہا تھا جسے حالِ دل سنانے کو

اسی نے لوٹ لیا زیست کے خزانے کو

جو راز دفن تھا مدّت سے میرے سینے میں

اُسی کی آج خبر ہو گئی زمانے کو

بدل سکو تو بدل دو یہ کرب کا منظر

نہیں تو لوٹ چلو اپنے آشیانے کو

چلے بھی آؤ کہ اب شام ڈھلنے والی ہے

سجا چکا ہوں میں اپنے غریب خانے کو

مری نگاہ میں جس کی نہیں کوئی اوقات

اڑے ہیں مجھ سے وہی آنکھ اب لڑانے کو

ردا یہ خاک کی اوڑھے ہوئے ہو کیوں مضطرؔ

یہاں بھی آئیں گے وہ تو تمہیں ستانے کو

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ازل سے عشق اگر ظاہر نہیں ہوتا تو کیا ہوتا

نہ ہوتی شمع خود روشن نہ پروانہ جلا ہوتا

جو ہے ظاہر ترا، ویسا اگر باطن ہوا ہوتا

ترے کہنے سے پہلے ہی تجھے سب نے سنا ہوتا

ترے ہونے سے ثابت ہے مرا ہونا مرے مولا

نہ ہوتا تُو ازل میں تو کہاں بندہ ہوا ہوتا

نہ ہنستا وہ کبھی مجھ پر، نہ کہتا مجھ کو دیوانہ

محبت میں اگر میری طرح وہ جل رہا ہوتا

تصّور میں اگر میرے وہ بے پردہ نہیں آتے

تخیّل میں مرے کوئی نہ ہنگامہ بپا ہوتا

اگر آتا نہ میں بہکاوے میں مطلب پرستوں کے

مرا عزمِ مصمّم خود ہی میرا نا خدا ہوتا

درِقسمت سے ملتیں ہیں اگر خوشیاں یہاں مضطرؔ

کبھی تو اپنی قسمت کا بھی دروازہ کھلا ہوتا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کتابِ حسن پر نقطہ لگا دوں

ترے رخسار پر میں تل بنا دوں

بلندی سے ابھی تم گر پڑو گے

اگر میں آئینہ تم کو دکھا دوں

خوشی ہو جائے گی کافور تیری

فسانہ غم کا گر تجھ کو سنادوں

نہ پوچھو عزم و ہمت کیا ہیں میرے

ہوائے تند میں دیپک جلادوں

مرے اعجاز کیا ہیں یہ نہ پوچھو

جو چاہوں ریگ سے دریا بہا دوں

تری اوقات اے مضطرؔ بتا کر

میں تیرے ذہن میں ہلچل مچا دوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

عشق کا طور کچھ نیا کر لیں

تم ہمیں، ہم تمہیں جدا کر لیں

پھر چلیں، بزم یار میں چل کر

اس کے حالات کا پتا کر لیں

ہے سفر ہی سفر، سفر کے بعد

تازہ دم خود کو ہم ذرا کر لیں

کھول کر اپنے دل کا دروازہ

آیئے آخری دعا کر لیں

ملتفت ہو وہ شاید اے مضطرؔ

عاجزی کر لیں التجا کر لیں

٭٭٭

 

 

 

 

غضب کو، ستم کو، جفا کو، بلا کو

گلے سے لگایا تری ہر ادا کو

کیا تھا مرے دل کو مجروح جس نے

صدا دے رہا ہوں اسی بے وفا کو

ادائیں، حیا، خوشی خرامی، تبسّم

یہی سب ہیں کافی ہماری قضا کو

کیا عشق نے تیرے سر شار ایسا

خودی کو تو کیا، میں ہوں بھولا خدا کو

نہ دینا پتہ تم فرشتوں کو اپنا

کہیں بھول جائیں نہ وہ بھی خدا کو

گذر ہی گیا جب وہ بیمارِ الفت

ضرورت تھی کیا، آئے اُس کی دوا کو

وہ گیسو بکھیرے جو مضطرؔ کھڑا ہے

معطّر کیا ہے اسی نے فضا کو

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

زندگی اپنی تو ادھوری ہے

پھر بھی جینا بہت ضروری ہے

سانپ ہو تم تو میں بھی صندل ہوں

پھر نجانے یہ کیسی دوری ہے

تند جھونکوں کو لو وہ کہتے ہیں

ہائے کیسی یہ لاشعوری ہے

فاصلہ رکھنا ایسے لوگوں سے

جن کی خصلت ہی بے شعوری ہے

خود کو ہر دم لئے دیئے رہنا

انکساری مگر ضروری ہے

عرضِ حالات پہ، یہ بس بس کیا

بات میری ابھی ادھوری ہے

وہ جو مضطرؔ ہیں، ہم بھی مضطرؔ ہیں

مضطرؔ اس کا سبب تو دوری ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

حقیقت کم، اداکاری بہت ہے

یہ عہدِ نو میں مکّاری بہت ہے

لگا ہے آنکھوں پر مطلب کا چشمہ

مگر چہرے پہ دلداری بہت ہے

سرشتِ آدمی اللہ اللہ

رعونت اور ریاکاری بہت ہے

مبارک ہو تجھے تیری یہ شہرت

میاں اپنی تو خود داری بہت ہے

ٹپکتی تھی کبھی الفت کی شبنم

نظر سے اب شرر باری بہت ہے

تمنا ہے کہ وہ اب سچ بھی بولے

مگر اس میں تو دشواری بہت ہے

اگر ہو، ہاں میں ہاں مضطرؔ ملاؤ

بس اتنی ناز برداری بہت ہے

٭٭٭

 

 

 

 

خامیوں کو مری وہ دکھاتا رہا

ساتھ اوقات اپنی بتاتا رہا

داستانِ الم وہ سناتا رہا

کچھ بتاتا رہا، کچھ چھپاتا رہا

نفرتوں کی زمیں پر دیا پیار کا

ہم جلاتے رہے وہ بجھاتا رہا

چاند شرما نہ جائے کہیں دیکھ کر

زلف رخ پر گرتا اٹھاتا رہا

کتنے گھر جل گئے نفرت و بغض سے

آگ نفرت کی لیکن لگاتا رہا

تشنہ لب رہ نہ جائے کوئی اب یہاں

خون اپنے جگر کا پلاتا رہا

اس کی باتوں کا مضطرؔ اثر ہو نہ ہو

آئینہ ہر کسی کو دکھاتا رہا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

یہ مانا حسینوں میں تجھ سا نہیں ہے

مگر عاشقوں میں بھی مجھ سا نہیں ہے

تجھے دیکھا ہے جب سے جانِ تمنا

حسیں کوئی نظروں میں جچتا نہیں ہے

بتوں کی پرستش کروں توبہ توبہ

مرا دل ہے کعبہ کلیسا نہیں ہے

جسے دیکھئے تکتا ہے مثلِ نرگس

چمن میں کوئی آنکھ والا نہیں ہے

عجب دور آیا ہے دنیا میں اب تو

کسی کو کسی پہ بھروسہ نہیں ہے

گرجتا ہے بادل گرجنے دو اس کو

گرجتا ہے جتنا برستا نہیں ہے

یہ دو دن کی دنیا ہے سوچو تو مضطرؔ

ذرا بھی تمہیں فکر عقبیٰ نہیں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

میں جب بھی ملا ان سے ہنس کر ملا

مگر ان کے ہاتھوں میں خنجر ملا

جدھر میں گیا، جس طرف بھی گیا

ہر اک سمت خوں بار منظر ملا

نظر ڈالی جب اپنے کردار پر

مجھے ہر کوئی مجھ سے بہتر ملا

جسے دربدر ڈھونڈتا میں رہا

چھپا وہ مرے دل کے اندر ملا

مری راہ میں جو بجھاتے تھے پھول

اب اس کے ہی ہاتھوں میں پتھر ملا

اجالے میں دن کے نہ آیا نظر

جو خوابوں میں آ آ کے اکثر ملا

قد آور جو بنتا تھا مضطرؔ وہی

خدا جانے کیوں آج جھک کر ملا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جب من و تو کا خفی جوہر کھلا

ہم پہ رازِ شیشہ و ساغر کھلا

بھید یہ میری نگاہوں پر کھلا

کھیلتا تھا کھیل بازی گر کھلا

ہائے غربت، ہائے یہ بے چار گی

پاؤں ڈھانکیں تو ہمارا سر کھلا

ہم لٹے تھے رہزنوں کے ہاتھ سے

دے گیا دھوکہ ہمیں رہبر کھلا

آئیں جائیں آپ کی مرضی جناب

آپ کی خاطر ہے میرا گھر کھلا

پہلے کچھ رکھتے تھے دنیا کا لحاظ

ہاتھ میں رکھتے ہیں اب خنجر کھلا

ظلم تو ڈھایا کئے لیکن کبھی

بہر شکوہ کیا لبِ مضطرؔ کھلا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ترے ظلم و ستم کا ہم کبھی چرچا نہیں کرتے

غیور انسان ہیں انسان کو رسوا نہیں کرتے

تلاطم ہی میں رکھتے ہیں جو اپنی ناؤ کو یارو

بھنور کے تیز دھاروں سے وہ سمجھوتہ نہیں کرتے

ادب پر ناز ہے ہم کو، ادب سے ہے شغف ہم کو

مگر فکر و ادب کا ہم کبھی چرچا نہیں کرتے

ہمیں رہتا ہے اپنے قد کا ہر اک وقت اندازہ

بلندی پر بھی ہوتے ہیں تو سر اونچا نہیں کرتے

خموشی سے گذرتے ہیں غموں کے ریگ زاروں سے

الم کے تند جھونکوں سے بھی گھبرایا نہیں کرتے

جلانا ہے ہمیں تو شمع مضطرؔ ہر منڈیری پر

ہوا بھی تیز ہوتی ہے توسمجھوتا نہیں کرتے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

محرومیوں کا کرب چھپانے میں رہ گیا

روتے ہوئے دلوں کو ہنسانے میں رہ گیا

تکذیب کی وہ راہ سے پہنچا عروج پر

سچائیوں کا درس جو سنانے میں رہ گیا

پھل پھول اس کے حصے میں آتا بھی کس طرح

وہ پتھروں پہ گھاس اُگانے میں رہ گیا

ہوتی بھی میری بزم میں کس طرح روشنی

میں رہ گذر پہ شمع جلانے میں رہ گیا

وہ بے حسی کی راہ پر چل کر تمام عمر

احساس کے صلیب اٹھا نے میں رہ گیا

مضطرؔ خلوص کہتے ہیں جس کو ہم اہلِ دل

اب تو برائے نام زمانے میں رہ گیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

زلف شانے پہ جو اپنے وہ پریشاں کر دے

دم بخود شانہ کو آئینہ کو حیراں کر دے

یاد سے اس کی نہ مہجور اگر ہو غافل

درد خود درد کو منت کشِ درماں کر دے

ایک دیوانے میں ہوتی ہے یہ خوبی پنہاں

دشت و صحرا کو بھی چاہے تو گلستاں کر دے

اپنے سینے میں چھپا رکھا جسے تابہ حیات

آج پیوست مرے دل میں وہ پیکاں کر دے

تو ہی مالی ہے نگہباں ہے تو پھر گلشن کو

خون سے اپنے تو گلزارِ بد اماں کر دے

مل گئے ہیں تجھے اربابِ سخن اے مضطرؔ

اچھا موقع ہے، غزل، نذرِ سخنداں کر دے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

خودی کو تم اپنی مٹا کر تو دیکھو

یہ نسخہ ذرا آزما کر تو دیکھو

سکوں تم کو حاصل نہ ہو گا کہیں بھی

الگ ان کے کوچے سے جا کر تو دیکھو

میری بے کلی پر نہ تم پھر ہنسو گے

کبھی ان کی راہوں میں آ کر تو دیکھو

بھلا دو گے ساری خدائی کو دل سے

ذرا دل کی دنیا لٹا کر تو دیکھو

ملائک کریں گے تمہاری غلامی

غلام ان کا خود کو بنا کر تو دیکھو

ابھی ختم ہو گی عداوت کی ظلمت

چراغِ محبت جلا کر تو دیکھو

زمانہ بھی تم کو بھلا دیگا مضطرؔ

کبھی ان سے دامن چھڑا کر تو دیکھو

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

گیت کوئی جو غم میں ڈھل جائے

سنگ دل کا بھی دل پگھل جائے

جب نقاب ان کے رخ سے ڈھل جائے

کیوں نہ حسرت مری نکل جائے

ان کو دیکھوں تو دل بہل جائے

چاہے پھر مرا دم نکل جائے

مسکرا کے جو دیکھو لو مجھ کو

سر پہ آئی بلا بھی ٹل جائے

اس سے بڑھ کر عروج کیا ہو گا

ان کے قدموں پہ دم نکل جائے

چرخ پہ بجلیاں چمکتی ہیں

آشیاں پھر کہیں نہ جل جائے

مسکرا دیں جو وہ کبھی مضطرؔ

ڈگمگاتے قدم سنبھل جائے

٭٭٭

 

 

 

 

زندگی کی نہ مجھ کو دعا دیجئے

غم کو سہنے کا کچھ حوصلہ دیجئے

میں تڑپتا رہوں ہجر میں آپ کے

عاشقی کی نہ ایسی سزا دیجئے

آپ کی خو ہے دینا جو سائل کو تو

زخم تازہ کوئی پھر لگا دیجئے

چوٹ لگتی رہے اور ہنستا رہوں

ہو سکے تو بس ایسی دعا دیجئے

نقشِ کثرت مٹا کر کے دل سے مرے

اپنے کوچے میں مجھ کو جگہ دیجئے

اک نئی زندگی مجھ کو مل جائے گی

اپنے قدموں سے ٹھو کر لگا دیجئے

لوگ کہتے رہیں مجھ کو مضطرؔ ہے یہ

درد کو آپ میرے بڑھا دیجئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

نذرِ غالبؔ

دل کو مرے ایک پل قرار نہیں ہے

آؤ کہ اب تابِ انتظار نہیں ہے

جینے کی ہم اب یہاں امید کریں کیا

زیست کا اب کچھ اعتبار نہیں ہے

شعلے بھڑکتے ہیں آج اپنے وطن میں

امن و اماں کوئی پائیدار نہیں ہے

کیسے کہوں، ہو گئی ہے تیری رسائی

رُخ پہ تری راہ کا غبار نہیں ہے

ہم تو ستم کیش ہیں نصیب ہے یہی

ظلم کے ہی آپ کا شمار نہیں ہے

شکرِ خدا لاکھ لاکھ عشقِ صنم میں

دامنِ دل مِرا تار تار نہیں ہے

مضطرؔ پر اضطرار مری ذرا سن

عشق میں داروئے اضطرار نہیں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

دورِ جدید میں تو سنبھلنے لگی غزل

ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کے چلنے لگی غزل

صحرائے درد و غم میں ٹہلنے لگی غزل

یادوں کی تپتی دھوپ میں جلنے لگی غزل

جن کی حکومتیں تھیں ہر اک صنف پر میاں

کیوں ان کی دسترس سے نکلنے لگی غزل

بے وجہ مجھ سے روٹھ کے جانے لگی ہے جب

آنکھوں میں اشک بن کے مچلنے لگی غزل

شرم و حیا تو لٹ گئی تقلیدِ غیر میں

بے پردہ ہو کے گھر سے نکلنے لگی غزل

مڑ مڑ کے دیکھتی رہی گردِ سفر اُسے

کس شانِ بے نیازی سے چلنے لگی غزل

اردو پہ ہے بہار خزاں ختم ہو گی

مضطرؔ پھر آج پھولنے پھلنے لگی غزل

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جب مرا ان کا سامنا ہو گا

حق و ناحق کا فیصلہ ہو گا

سوچنا کیا ہے آگے کیا ہو گا

ہو گا! قسمت میں جو لکھا ہو گا

ان کے گیسو ہیں الجھے الجھے سے

اب بلاؤں کا سامنا ہو گا

چاند پھر آج سہما سہما ہے

رخ سے ان کے نقاب اٹھا ہو گا

پھول کھلنے لگے ہیں گلشن میں

میرا محبوب ہنس پڑا ہو گا

کیوں فضا آج مہکی مہکی ہے ؟

ان کا گیسو بکھر گیا ہو گا

اب جو ملتا نہیں ہے وہ مضطرؔ

کوئی نظروں میں دوسرا ہو گا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

یہ شہر جو آباد تھا ویران لگے ہے

ہر شخص ہمیں تو یہاں بے جان لگے ہے

بیدادِ فلک، گردشِ دوراں کا ہے شاکی

اس دور میں ہر شخص پریشان لگے ہے

ویسے تو ہر اک چہرہ شگفتہ ہے مگر کیوں

سہما ہوا، سمٹا ہوا، انسان لگے ہے

کردار کا پستی کا عجب حال ہے لوگو

دیکھے میں یہ انسان بھی شیطان لگے ہے

بھگوان کا ڈر دل میں نہ ہے خوف خدا کا

وہ ہندو لگے ہے نہ مسلمان لگے ہے

کرنا تو کسی کام کا ہو جاتا ہے مشکل

کہہ دینا زباں سے بڑا آسان لگے ہے

اس شخص سے کچھ جان نہ پہچان ہے مضطرؔ

کیوں میرے لئے اتنا پریشان لگے ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

میرے چہرے سے غم آشکارا نہیں

وہ سمجھتے ہیں میں غم کا مارا نہیں

پہلے پرکھو نظر کی کسوٹی پہ تم

ہر چمکتی ہوئی چیز تارا نہیں

مدعا دل کا پاؤ گے کیسے بھلا

تم نے دامن کبھی جب پسارا نہیں

کس کی ہمت تھی جو لوٹ لیتا مجھے

کیسے کہہ دوں کہ تیرا اشارا نہیں

جس میں قربت تمہاری میسر نہ ہو

ایسی جنت بھی مجھ کو گورا نہیں

اے غمِ دل کہیں اور چل اور چل

اب کوئی بھی یہاں تو ہمارا نہیں

پختہ کاروں سے مضطرؔ سنا ہے یہی

بحرِ الفت کا کوئی کنارا نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

یاس و حرماں، خطر میں رہتے ہیں

ہم کرائے کے گھر میں رہتے ہیں

ایسے جیتے ہیں لوگ بستی میں

جیسے کیڑے گٹر میں رہتے ہیں

بم دھماکا کہیں بھی ہوتا ہے

ہم ہی اکثر نظر میں رہتے ہیں

ہم ہیں صحرا نورد کی صورت

ہم ہمیشہ سفر میں رہتے ہیں

دل ہو میرا کہ ہو نظر میری

آپ دونوں ہی گھر میں رہتے ہیں

آج کل آپ بھی تو اے مضطرؔ

سرخیوں میں خبر میں رہتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

تیرے لئے بے چین مرا دل کل بھی تھا اور آج بھی ہے

تجھ پہ بھروسہ تو لا حاصل کل بھی تھا اور آج بھی ہے

سچ پوچھو تو دنیا والو، بس ہے کمی جانبازوں کی

شمشیر بکف ورنہ قاتل کل بھی تھا اور آج بھی ہے

ناؤ کرو دریا کے حوالے، ڈرنا ہے بے کار میاں

طوفاں اپنے مدمقابل کل بھی تھا اور آج بھی ہے

بادِ صرصر موجِ تلاطم، سب کے سب ہیں میرے نام

دور مری قسمت کا ساحل کل بھی تھا اور آج بھی ہے

دم لیتا ہوں، مت سمجھو تھک ہار کے میں بھی بیٹھ گیا

زندہ دل میں شوقِ منزل کل بھی تھا اور آج بھی ہے

کیسی دوری، اور محرومی، کس کا شکوہ، کس کا غم

میں تجھ میں، تو مجھ میں شامل کل بھی تھا اور آج بھی ہے

مجھ کو تم گمنام نہ سمجھو اس کی بدولت اے مضطرؔ

شہرہ میرا محفل محفل کل بھی تھا اور آج بھی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

میں بھی سچّا، تم بھی سچّے، باقی جتنے سچے سب

لیکن بھائی، کون ہے سچا جانے تو بس جانے رب

بے ایمانی، رشوت خوری کی موجیں ہیں رواں دواں

اس دریا میں دیکھو یارو، ڈوب رہے ہیں سب کے سب

آزادیِ وطن کی خاطر جاں تو دی تھیں ہم نے بھی

بات تو ہے یہ کیول سچی، لیکن تو یہ مانے تب

کل لوٹا تھا غیروں نے اس دیش کو اس کے واسی کو

لوٹ رہے ہیں اس دھرتی کو خود ہی بھارت واسی اب

رام کی اس دھرتی کو تم نے راون کو کیوں سونپ دیا

کیسے بچے گی عصمت سب کی، ہر اک سیتا سوچے اب

کیا ہے آدرش، دھرم کا اور مذہب کیا سکھلاتا ہے

اس کی سمجھ تو دے بندے کو، مضطرؔ تجھ سے مانگے رب

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

غم نہ چہرے سے تم آشکارا کرو

زندگی اپنی ہنس کر گذارا کرو

اپنی زلفیں نہ برہم خدارا کرو

اپنے دیوانے کو یوں نہ مارا کرو

جب بھی کشتی کو طوفاں کا ہو سامنا

ناخدا کیا، خدا کو پکارا کرو

اب تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں

ہر ستم ان کا دل پر گوارا کرو

پورا کرتا ہے سب کا وہی مدعا

اس کے آگے ہی دامن پسارا کرو

وہ تمہارے ہی اندر ہے مضطرؔ چھپا

دل کی آنکھوں سے اس کا نظارہ کرو

٭٭٭

 

 

 

 

 

وسعت نظر میں پہلے تو پیدا کرے کوئی

پھر تجھ کو دیکھنے کی تمنا کرے کوئی

پتھر کا دل تو سینے میں پیدا کرے کوئی

پھر عاشقی کا آپ سے دعویٰ کرے کوئی

جب تک دوئی کا پردہ ہے حاصل نہ ہو گا کچھ

کرنے کو یوں ہزارہا سجدہ کرے کوئی

اپنے ہی بن گئے ہیں یہاں آستیں کے سانپ

اب کس طرح کسی پہ بھروسہ کرے کوئی

فکرِ معاش، خاطرِ دوراں، غمِ حیات

ہے چار دن کی زندگی کیا کیا کرے کوئی

پوری ہوئی نہ جبکہ میری آرزوئے دل

کہیے تو اور کیسے تمنا کرے کوئی

مانوس غم ہوں، غم ہی مری کائنات ہے

ممکن نہیں غموں کا مداوا کرے کوئی

رِستے ہیں میرے زخم تو مٹتی ہے تشنگی

زخموں کو میرے اور بھی تازہ کرے کوئی

انسانیت تڑپتی ہے ہر اک گام پر

لاشوں کا اب خدارا نہ سودا کرے کوئی

اس قیدِ زندگی سے تو اکتا گیا ہوں میں

جینے کی اس جہاں میں دعا کیا کرے کوئی

مضطرؔ غمِ حیات، غم دل، غمِ حبیب

کس کس کی فکر کس کا مداوا کرے کوئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

قتل خوں، غارت گری، بیداد دہشت عام ہے

دیکھئے اب ہر طرف کہرام ہی کہرام ہے

زندگی کی صبح رنگیں ہے، نہ دلکش شام ہے

کچھ خفا شاید نگاہِ گردشِ ایّام ہے

ہے تعجب خیز کتنا آج دنیا کا چلن

کام کرتا ہے جنوں لیکن خرد بد نام ہے

بے نقاب آنے پہ ان کے کوئی پابندی نہیں

یہ دلِ دیوانہ مرا مفت میں بد نام ہے

شاعری میں اب کہاں وہ فکر و فن کی ندرتیں

میرؔ و غالبؔ ہے نہ کوئی اب عمر خیّام ہے

کام کچھ غیروں کے آ! اپنوں سے گر فرصت ملے

اے دلِ درد آشنا دنیا اسی کا نام ہے

ہے جنوں سے ربط مضطرؔ دشت ہے جائے اماں

ہے یہی تقدیر عاشق کی، یہی انجام ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کسک رہ گئی ہے بس اس بات کی

خبر ہی نہیں ان کو حالات کی

چمک آب جیسی جو آنکھوں میں ہے

زباں ہے یہی میرے جذبات کی

ازل سے ہوں شیدا ترے حسن کا

محبت کی میں نے شروعات کی

خیالوں کی پریاں بھی تھیں رقص میں

غضب کی تھی وہ رات برسات کی

صبا کی طرح آئے اور چل دیئے

کبھی اُن سے کھل کر نہ کچھ بات کی

ہوئی ایک مدّت گئے روٹھ کر

ابھی تک ہے خوشبو ملاقات کی

خبر چاند سورج کو مضطرؔ ہے سب

کہاں دن گذارا کہاں رات کی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

مائلِ عقدہ کشائی ناخنِ تدبیر تھا

عمر بھر الجھا ہوا پر گیسوئے تقدیر تھا

دوستو! بعد از خرابی کھل گیا یہ راز بھی

پہلوئے تخریب ہی میں پہلوئے تعمیر تھا

رات جب دونوں ملے تو بھی تھا، چپ میں بھی خموش

تو کوئی تصویر تھا یا میں کوئی تصویر تھا

گرم تھا بازارِ قتل و خون، میرے قتل تک

جیسے مرے خون کا پیاسا لبِ شمشیر تھا

قبر میں کیا سونے دے گی چین سے مجھ کو زمیں

جیتے جی دشمن میرا جب آسمانِ پیر تھا

چھلنی چھلنی دشمنوں کے دل کو کر سکتے تھے ہم

اپنے ترکش میں بھی مضطرؔ طنز والا تیر تھا

٭٭٭

 

 

 

نجا نے شہر میں یہ کیا ہوا ہے

ہر اک انسان اب سہما ہوا ہے

یہ گل کے پھوٹنے کا معجزہ ہے

کہ اب تک گلستاں مہکا ہوا ہے

کمالِ فن نہیں تو اور کیا ہے

مرا ہر شعر جو سلجھا ہوا ہے

سناؤں کیا تمہیں دل کی کہانی

سمجھ لو آئینہ ٹوٹا ہوا

الٰہی اس کو تو امرت بنا دے

بلا سے زہر میں لپٹا ہوا ہے

جو مضطرؔ ٹوٹ کر ملتا تھا مجھ سے

نجانے آج کیوں سمٹا ہوا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

جب غم سے منسلک یہ مری ذات ہو گئی

دنیا میں معتبر مری ہر بات ہو گئی

درد و الم، فراق، جلن، ٹیس، زخم دل

جو شئے ملی مرے لئے سوغات ہو گئی

دن ان کے انتظار میں، اور رات خواب میں

دنیا میں میری یوں بسر اوقات ہو گئی

آیا نہ تھا کبھی مرے خواب و خیال میں

کیوں راہ چلتے ان سے ملاقات ہو گئی

دیکھا انہیں تو آنکھ سے آنسو نکل پڑے

کیا گر مئی نشاط تھی برسات ہو گئی

دیر و حرم میں ڈھونڈ رہے تھے جسے سدا

اپنے ہی گھر میں ان سے ملاقات ہو گئی

مضطرؔ نہ اور وصل کی روداد پوچھئے

تقدیر میں یہ بات تھی پس بات ہو گئی

٭٭٭

 

 

 

 

اشک آنکھوں میں جھلملاتا تو

کوئی ایسے میں آ بھی جاتا تو

ٹھہرے پانی میں آگ لگ جاتی

عکس اس کا جو تِلملاتا تو

بن کے چھوئی موئی سمٹ جاتی

ہاتھ کوئی اگر لگاتا تو

چاند بھی پانی پانی ہو جاتا

رخ سے پردہ ذرا ہٹاتا تو

دو پہر میں بھی شام ہو جاتی

زلف رخ پر اگر گراتا تو

بن کے بسمل تڑپ رہے ہوتے

تیرِ مژگاں اگر چلاتا تو

میں بھی مقبول عام ہو جاتا

شعر میرا وہ گنگنا تا تو

تیرگی خیر مانگتی پھرتی

ایک جگنو بھی سر اُٹھاتا تو

شبِ فرقت کبھی تسلّی کو

کوئی مضطرؔ کے پاس آتا تو

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جرم تو پہلے مرا مجھ کو بتایا ہوتا

پھر مجھے شوق سے سولی پہ چڑھایا ہوتا

دل کے گوشے سے عداوت کو مٹایا ہوتا

بڑھ کے دشمن کو بھی سینے سے لگایا ہوتا

ہم سمجھتے کہ بہت مخلص و ہمدرد ہیں آپ

کسی روتے ہوئے انساں کو ہنسایا ہوتا

بزم میں ساغر و شیشہ کی ضرورت تو نہ تھی

مد بھری آنکھوں سے ہی جام پلایا ہوتا

بے سبب عشق میں آنسو تو نہ ضائع ہوتے

سوزِ غم میں نہ اگر دل کو جلایا ہوتا

نئی دنیا کی طرف آیا جب اُس دنیا سے

فطرتِ شر کو وہیں چھوڑ کے آیا ہوتا

دھوپ میں سانس تو لے سکتے مسافر مضطرؔ

سایہ دار ایسا شجر کوئی لگایا ہوتا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ہٹا کر دیکھ تو پر دے ذرا چشمِ بصیرت کے

نظر آئیں گے جلوے چار سو وحدت ہی وحدت کے

حقیقت اس پتنگے کی اور یہ جذبے شہادت کے

ارے انساں ! ذرا تو جائزہ لے اپنی ہمت کے

پڑے گا ایک دن اس بزم میں اغیار سے پالا

ابھی سے سیکھ لے آداب اے دل رسمِ الفت کے

محبت ہو گئی عنقا الٰہی اب تو دنیا میں

جدھر دیکھو اُدھر ہی گرم ہے بازار نفرت کے

نظر آتے ہیں بالکل با شرع جو لوگ اے یارو

وہی تو ٹکڑے ٹکڑے کر رہے ہیں اب شریعت کے

بگڑ جاتا ہے رہ رہ کر مرا ہر کام دنیا میں

چمکتے ہیں ستارے دیکھئے کب میری قسمت کے

مرا غم خوار ہے کوئی نہ کوئی ہم نوا مضطرؔ

سناؤں کس کو افسانے میں اپنی شام فرقت کے

٭٭٭

 

 

 

 

جو مصیبتوں میں پلی بڑھی، سدارنج و غم میں گھری رہی

ذرا اے نصیب بتا مجھے، اسے کیا سمجھ لوں میں زندگی

وہی آرزو، وہی جستجو، وہی تشنگی، وہی بے بسی

کہ جو ہے متاعِ غم و الم، وہی بن کے رہ گئی زندگی

عجب اضطرابِ حیات ہے، رہا کش مکش کے میں درمیاں

نہ فضاؤں میں ملی دلکشی، نہ بہار میں ملی تازگی

میں کتابِ زیست ہی تھا مگر، نہ اٹھا کے دیکھا کسی نے سر

مرا خدا خال تھا آئینہ، نہ کسی نے مجھ کو پڑھا کبھی

ترے ساتھ گذرے جو چار دن، نہ بھلا سکا میں کسی طرح

نہ قرار ہے نہ سکون ہے، تری یاد آتی ہے ہر گھڑی

یہ کرشمہ ہے ترے حسن کا، یہ کمال ہے مرے عشق کا

رہی منتظر تری دید کی، مری چشم مرنے کے بعد بھی

ذرا ساقیا یہ بتا مجھے، یہی میکدے کا اصول ہے

کہیں خم کے خم تھے بھرے ہوئے کہیں مستقل رہی تشنگی

تو چلا گیا ہے جو چھوڑ کے، سبھی رشتے ناطے ہی توڑ کے

تری یاد مضطرِؔ بے نوا کے دماغ میں بسی رہ گئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

آگ، خوشبو، گلاب پانی میں

بھیگا بھیگا شباب پانی میں

تشنگی میں نہ ڈوب جائے کہیں

کوئی خانہ خراب پانی میں

قطرۂ آب مت سمجھ اس کو

زندگی با حجاب پانی میں

ہے کبھی خون تو کبھی آنسو

دیکھئے انقلاب پانی میں

جو گناہوں کو پل میں دھو ڈالے

ہے کہاں ایسی تاب پانی میں

قطرۂ آب تو نہیں آنسو

دل کا ہے اضطراب پانی میں

نیکیاں کر کے بھول جا مضطرؔ

ڈال اجر و ثواب پانی میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

انا میری وہاں پر اپنی ہمت ہار جاتی ہے

قناعت دیکھ کر میری، ضرورت ہار جاتی ہے

کسی اہلِ ہنر کی بے بسی تم پو چھتے کیا ہو

سفارش کی عدالت میں لیاقت ہار جاتی ہے

محبت ضامنِ فتح و ظفر ہے بزمِ ہستی میں !

یہ کس نے کہہ دیا تم سے محبت ہار جاتی ہے

سسکنا اور بلکنا دیکھ کر معصوم بچوں کا

یہی وہ معرکہ ہے جس میں غربت ہار جاتی ہے

سیاست کا یہی فن ہے اسے تکذیب مت سمجھو

ریا کاری نہیں تو پھر حکومت ہار جاتی ہے

ہوس کی تیز نظروں سے چھپا تو لیتی ہے خود کو

مگر بچے بلکتے ہیں تو عصمت ہار جاتی ہے

اگر اخلاق ہوتا ہے اثر انداز اے مضطرؔ

وفا کی جیت ہوتی ہے، بغاوت ہار جاتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

روز تخلیق حکایات کرو ہو تم تو

مجھ سے روٹھو ہو مری بات کرو ہو تم تو

زخم دل، درد، و الم، ٹیس، تڑپ اور جلن

پیش مجھ کو یہی سوغات کرو ہو تم تو

شوخی و ناز سے زلفوں کو گرا کر رخ پر

حشر کے پہلے ہی آفات کرو ہو تم تو

بادِ صرصر کی طرح آ کے گذر جاتے ہو

بس ادھوری سی ملاقات کرو ہو تم تو

سن کے روداد جو منہ پھیر لیا کرتے ہو

اور گھائل مرے جذبات کرو ہو تم تو

رکھتے ہو پیشِ نظر فائدہ اپنا مضطرؔ

خوب یہ قوم کی خدمات کرو ہو تم تو

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

زندگی روز مجھے زخم نیا دیتی ہے

جانے کس جرم کی ہر لمحہ سزا دیتی ہے

دل کے آنگن میں صبا جب بھی صدا دیتی ہے

میرے سوئے ہوئے جذبات جگا دیتی ہے

جب بھی چاہا کہ ترے غم سے چرا لوں آنکھیں

چشم میری اسی پل اشک بہا دیتی ہے

تیرے ہر ظلم و ستم اور تغافل کی قسم

زندگی جینے کا انداز سکھا دیتی ہے

جب بھی چاہا کہ زمانہ سے کنارا کر لوں

مجھ کو دنیا کی نئی شان صدا دیتی ہے

پیاس مری کہاں اشکوں سے بجھے گی مضطرؔ

تشنگی یہ تو مری اور بڑھا دیتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

لمحہ لمحہ عتاب ہے شاید

زندگی اب عذاب ہے شاید

جس پہ ٹھہری وہ ہو گیا بے خود

چشم جاناں شراب ہے شاید

سب عقیدت سے اس کو دیکھتے ہیں

وہ مقدس کتاب ہے شاید

عیب ان کو نظر نہیں آتا

آئینہ ہی خراب ہے شاید

تھی جو عیش و نشاط کی دنیا

اب تو خانہ خراب ہے شاید

رخ پہ بکھرے تو شام ہوتی ہے

زلف ان کی سحاب ہے شاید

لب پہ شکوہ جو ان کا ہے مضطرؔ

اثرِ اضطراب ہے شاید

٭٭٭

 

 

 

 

 

جو بھی کہنا ہو، بے خطر کہنا

بات معقول مختصر کہنا

اس کی تعریف میں اگر کہنا

کہکشاں شمس اور قمر کہنا

جس میں بغض و حسد نہ کینہ ہو

ایسے دل کو خدا کا گھر کہنا

زندگی کیا ہے ؟ کوئی پوچھے تو

دشت و صحرا کا ہے سفر کہنا

خود نمائی و خود پرستی میں

ایک عالم ہے سر بسر کہنا

ہے تقاضا وفا کا اے مضطرؔ

شامِ غم کو بھی تم سحر کہنا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

یہ کس حالت کو پہنچایا گیا ہوں

کہ ہر موسم میں جلوایا گیا ہوں

میں جب محفل میں بلوایا گیا ہوں

تولے کر دل کا سر مایا گیا ہوں

ادا، انداز، شوخی اور غمزہ

دکھا کر میں تو تڑپایا گیا ہوں

نہ پوچھو عشقِ جاناں کا کرشمہ

ہر اک محفل سے اٹھوایا گیا ہوں

ترانہ غم کا ایسا ہوں کہ یارو

میں ہر انداز سے گایا گیا ہوں

صلہ حق گوئی کا مجھ سے نہ پوچھو

کہ ہر محفل سے ٹھکرایا گیا ہوں

مآلِ صبر اے مضطرؔ کہوں کیا

فقط وعدوں پہ بہلایا گیا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

اپنی حد سے گذر گیا پانی

جبکہ آنکھوں کا مر گیا پانی

ہم کو جانا تھا صحنِ منزل تک

راستے میں بکھر گیا پانی

پانی پانی جو سب کو کرتا تھا

آج اس کا اتر گیا پانی

کر کے آباد شہر ہستی کو

قطرہ قطرہ سنور گیا پانی

سنکے احوالِ غم ترا مضطرؔ

سب کی آنکھوں میں بھر گیا پانی

٭٭٭

 

 

 

 

آنکھ جو بھی سرِ بازار دکھاتی ہے مجھے

ہیں قیامت کے سب آثار بتاتی ہے مجھے

کامرانی ہے مرے نام سے شاید منسوب

پھر کوئی منزلِ دشوار بلاتی ہے مجھے

میں پلٹ آؤں گا کیا تیری طرف اے دنیا

اپنی پائل کی جو جھنکار سناتی ہے مجھے

آئینہ آج انا الحق کا دکھانے کے لئے

روحِ منصور سرِ دار بلاتی ہے مجھے

چاند تارے بھی چھپا لیتے ہیں منہ بادل میں

یاد تیری جو شب تار رُلاتی ہے مجھے

میں اِدھر، بیچ میں دریا، اُدھر میری قضا

آج اِس پار سے اُس پار بلاتی ہے مجھے

ہم نشیں، ہم سخن و، ہم وطن و میں مضطرؔ

سرخرو نرمیِ گفتار بناتی ہے مجھے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

مضطرؔ تو بصد شوق ادھر دیکھ اُدھر دیکھ

ہر سو ہے وہی جلوہ نما چاہے جدھر دیکھ

شعلہ ہے چھپائے ہوئے پتھر کا جگر دیکھ

جب چوٹ لگے کوئی، نکلتا ہے شرر دیکھ

چہرے سے عیاں گردشِ دوراں کا اثر دیکھ

مایوس نظر آتا ہے ہر فرد و بشر دیکھ

ملاح کے ماتھے سے جو ٹپکتے ہیں پسینے

بن جائیں گے دریا میں وہ نایاب گہر دیکھ

ظاہر ہے کہ امید پہ قائم ہے یہ دنیا

اک روز تو ہو گی ہی شبِ غم کی سحر دیکھ

بکھرا کے کبھی چاند سے رخسار پہ زلفیں

ملتے ہوئے اک ساتھ ذرا شام و سحر دیکھ

بے مائے گی پہ اپنی نظر رکھنا ہے لازم

مضطرؔ تو کبھی عیب کسی کا نہ ہنر دیکھ

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

خود پر ہے اعتماد، نڈر ہو گئے ہیں ہم

ان سے الجھ کر اور شرر ہو گئے ہیں ہم

ہر اک کے لب پہ ذکر ہمارا ہے صبح و شام

جیسے کہ کوئی خاص خبر ہو گئے ہیں ہم

ہے ان کے غم کے ساتھ غمِ زور گار بھی

چکّر کچھ ایسا ہے کہ بھنور ہو گئے ہیں ہم

غیروں کی بات چھوڑئیے اپنے ہیں دور دور

شاید کہ کوئی تلخ ثمر ہو گئے ہیں ہم

بے خوف آستین میں اب پالتے ہیں سانپ

کچھ اتنا دوستوں سے نڈر ہو گئے ہیں ہم

مضطرؔ مصیبتوں کی نوازش نہ پوچھئے

ٹوٹے کچھ اس طرح کہ کھنڈر ہو گئے ہیں ہم

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کیسے کہہ دوں کہ ان میں شرافت نہیں

صرف باتوں میں ان کی صداقت نہیں

آبروئے سخن خود کو کہتے ہیں وہ

شعر کہنے کی جن میں لیاقت نہیں

جب رگِ جاں میں خود ہی وہ موجود ہے

در بدر اس کو ڈھونڈوں، ضرورت نہیں

ہر طرف خوف و دہشت کا ماحول ہے !

کیا وطن کے لئے یہ نحوست نہیں

میں بھی مشتاق ہوں چاندنی کا مگر

چاند کو چھونا میری تو عادت نہیں

جس میں تیرا تصّور نہ ہو رات دن

ایسی جنت کی مجھ کو ضرورت نہیں

خواہشِ خُلد ہو بندگی میں اگر

وہ تجارت ہے مضطرؔ عبادت نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کتنا پر کیف اب نظارہ ہے

سوزِ غم نے ہمیں پکارا ہے

منصفِ وقت کی عدالت میں

اب عقیدے کا ہی اِجارہ ہے

حق، چمن کے ہر ایک گوشے پر

کچھ ہمارا ہے کچھ تمہارا ہے

بحرِ الفت بھی سخت ہے کتنا

کوئی کشتی نہ اور کنارا ہے

کامیابی نصیب ہو شاید

خوش نما درد نے پکارا ہے

چل اندھیروں پہ ضرب کرتے ہیں

روشنی کا نگر ہمارا ہے

حق بیانی کے ہی سبب مضطرؔ

تیرے لفظوں نے تجھ کو مارا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

شرافتوں کا اجالے میں گیت گاتا ہے

ہوس کی آگ اندھیرے میں جو بجھاتا ہے

شکستہ دل ہے مگر پھر بھی مسکراتا ہے

عجیب شخص ہے گردش کو منہ چڑھا تا ہے

بنا کے اپنا دیوانہ وہ روٹھ جاتا ہے

حیا کے پردے میں کیا کیا نہ گُل کھلاتا ہے

اسی امید پہ بیٹھے ہیں ہم لبِ ساحل

کبھی کبھار سہی پیاس تو بجھاتا ہے

لٹاتے کیوں ہو متاعِ حیات تم ان پر

ذراسی بات پہ جو تم سے روٹھ جاتا ہے

یہ عہدِ نو کے اجالے عجیب ہیں مضطرؔ

یہاں تو کانچ سے پتھر بھی ٹوٹ جاتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ہماری فکر تلاشِ ہنر میں رہتی ہے

تمام زندگی گویا سفر میں رہتی ہے

شعور و آگہی واقف نہیں ہے اب تک کیا ؟

جنوں کی سلطنت امکاں کے گھر میں رہتی ہے

بتا دے زندگی کب تک چھپا کے رکھّوں میں

کہ تو ہمیشہ قضا کی نظر میں رہتی ہے

وہ ذاتِ قدس کہ جس کی تلاش ہے تجھ کو

زہے نصیب! وہ دل کے نگر میں رہتی ہے

حصار جسم میں ٹکتی ہے نہ عدم میں کبھی

ہماری روح ہمیشہ سفر میں رہتی ہے

ضیا کے زخم پہ مرہم لگائے کیوں مضطرؔ

کہ اس کی آگہی ظلمت کے گھر میں رہتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

حقیقت کو چھپایا جا رہا ہے

کمیشن پھر بیٹھایا جا رہا ہے

جلا کر بستیاں ہم مفلسوں کی

کبوتر پھر اڑایا جا رہا ہے

کہاں اُردو کی خدمت، کیسی اُردو

بس اپنا قد بڑھایا جا رہا ہے

میانِ شہر حج ٹاور بنا کر

ہمیں پھر سے منایا جا رہا ہے

انا کی جنگ میں کرسی کی خاطر

دھرم ایشو بنایا جا رہا ہے

بنا کر انجمن اُردو کی مضطرؔ

یہاں شہرہ کمایا جا رہا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اس کی افسردہ جوانی سے رفاقت مانگے

سوکھی ندّی سے وہ جذبوں کی حرارت مانگے

مسئلوں میں جو ٹھٹھرتا رہا مفلس کی طرح

سرد راتوں میں وہ سورج کی تمازت مانگے

جو کبھی اپنے گلستاں سے نہ محظوظ ہوا

کیوں وہ اغیار گلابوں سے تراوت مانگے

تشنگی اپنی بجھا سکتا ہے لیکن دیکھو

قربِ ساحل وہ سمندر سے اجازت مانگے

اس قدر خشک ہے ہر سمت گلستانِ ادب

آج شاعر سے بھی ہر فرد ظرافت مانگے

آدمی تو ہے ازل ہی سے خطا کار مگر

بے گناہی کا ثبوت اس سے عدالت مانگے

خوب ہے، خوب ہے مضطرؔ یہ سرشتِ انساں

کام دوزخ کا کرے اور وہ جنت مانگے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

عمر بھر شعر کہے حسنِ صنم فانی پر

کب لکھیں گے میاں تہذیب کی عریانی پر

سجدۂ رب سے چمکتی ہے جبینِ بندہ

بدنما داغ ہے کیوں آپ کی پیشانی پر

ان کو معلوم نہیں شانِ قلندر کیا ہے

جن کو حیرت ہے مری بے سرو سامانی پر

پوچھیں کیا وجہہ پشیمانی ستمگر سے بھلا

خود پشیمان ہیں ہم، اس کی پشیمانی پر

لاکھ تم کفر کو پہنا دو شریعت کا لباس

میرا ایمان ہے بس آیتِ قرآنی پر

بزم میں جو بھی ہے مضطرؔ مترنم شاعر

واہ وا خوب ہوئی اس کی غزل خوانی پر

٭٭٭

 

 

 

 

 

لہجے کو تند فکر کو تلوار مت بنا

اپنے عمل سے دوست کو اغیار مت بنا

با ظرف ہوں خلوص کا پیکر بھی ہوں مگر

اک آدمی ہوں میں، مجھے اوتار مت بنا

گوہر بٹورنا ہے، تو نقش قدم پہ چل!

خود کو کسی بھی راہ کا سر دار مت بنا

دنیا کہیں نہ خوف سے منہ موڑنے لگے

اتنا بھی خود کو صاحبِ کردار مت بنا

کردار کی کسوٹی پہ پر کھے بنا یہاں

بہتر ہے تو کسی کو، کبھی یار مت بنا

دنیا پہ اعتبار نہ کر دائمی نہیں

راہِ فنا ہے، تو اسے گھر بار مت بنا

بازارِ زندگی میں تماشائی بن کے رہ

مضطرؔ کبھی تو خود کو خریدار مت بنا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ہر نقشِ کفِ پاکی طرح پہلے مٹا ہوں

تب جا کے مورّخ کی نگاہوں میں جچا ہوں

افلاس کا مارا ہوں مرا حال نہ پوچھو

مفلس کا دیا بن کے جلا اور بجھا ہوں

مانا کہ نہیں ہوں میں ترے قد کے برابر

لیکن یہی کیا کم ہے ترے ساتھ کھڑا ہوں

یہ سچ ہے کیا میں نے تقاضائے نظارہ

ہوں آپ کا مجرم، میں سزاوار خطا ہوں

ملنے کے لئے چاہیئے کوئی تو بہانا

بن کر ترا دیوانہ سرِ راہ کھڑا ہوں

حالات کے صحرا میں، حوادث کے سفر میں

اٹھ اٹھ کے کئی بار سرِ راہ گرا ہوں

یہ فن کا سفر اتنا تو آساں نہیں مضطرؔ

سورج کی طرح صبح سے تا شام جلا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ہاتھوں میں پیمانے رکھ

آنکھوں کے مئے خانے رکھ

غم کی لذّت سہنے کو

اپنے رکھ، بیگانے رکھ

میٹھی نیند جو سونا ہو

میرا شعر سرہانے رکھ

واصلِ حق گر ہونا ہو

ٹھوکر میں زمانے رکھ

سجّادوں سے ملنا ہے ؟

ہاتھوں میں نذرانے رکھ

بھول جا تشنہ کامی کو

لیکن خواب سہانے رکھ

جنگل جنگل پھر نا کیا

دل میں تو ویرا نے رکھ

ٹھکرا دیں جب اپنے تو

مضطرؔ سے یارا نے رکھ

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

شعلہ شبنم ہے، یا سراب ہے، کیا ہے ؟

زندگی ہے کہ انقلاب ہے کیا ہے ؟

بے وفائی، ستم، فریب ہر لمحہ

یہ وفا کا مری جواب ہے کیا ہے ؟

تو ہی کہہ دے ! شب فراق، میری قسمت میں

درد ہے، ٹیس ہے، عذاب ہے کیا ہے ؟

تیری ان نرگسی سِپاٹ آنکھوں میں

آگ ہے، آب ہے، شباب ہے کیا ہے ؟

دل تڑپتا ہے کیوں صورتِ سیماب

بے قراری ہے، اضطراب ہے کیا ہے ؟

صاف چہرہ کبھی نظر نہیں آتا

زلف ہے یا گھٹا، نقاب ہے کیا ہے ؟

نام پر دھرم کے فساد اے مضطرؔ

یہ بھی کیا کوئی انقلاب ہے، کیا ہے ؟

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جب انا گھائل ہوئی تکرار سے

دوستی پھر ہو گئی دیوار سے

ظلم کو حد سے گذر جانے تو دو

مفلسی لڑ جائے گی دستار سے

ایک پگلی ہاتھ میں پتھر لئے

بچ رہی تھی ہر کسی کے وار سے

کام آخر آ گئیں بیساکھیاں

مرتبہ مل ہی گیا سرکار سے

حسن کی بے تابیوں کو دیکھ کر

ایک سورج گر پڑا دیوار سے

گھٹ گیا مضطرؔ یہاں معیارِ فن

آدمی کی قدر ہے دستار سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

غریبی جب بھی بچوں کو مرے بھوکا سلاتی ہے

مری ایمانداری کو ضرورت آزماتی ہے

ہماری آگہی بھی کیا غضب کا ظلم ڈھاتی ہے

کہ منظر سامنے رکھ کر کے پس منظر دکھاتی ہے

میاں ! ممتا سے وہ سر شار ہے، دیوی کہو اس کو

بدن کو بیچ کر بچوں کو جو روٹی کھلاتی ہے

دھرم پالن کے چکّر میں، پتی ورتا کی گنگا میں

سہاگن عمر بھر خونیں تمنّا میں نہاتی ہے

بڑی خوددار ہے بیٹی ہر اک تہوار میں ہنس کر

وہ اپنی ماں سے بو سیدہ ڈوپٹّے کو رنگا تی ہے

یہ کچّی عمر کی بچّی کسی کے کارخانے میں

سہاگن کے لئے کیوں رات دن چوڑی بناتی ہے

غریبوں کے مقدّر میں تو رونا عام ہے، مضطرؔ

امیری بھی کسی کو خون کے آنسو رُلاتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

معتوب سر بسر ہوے گذرے جدھر سے ہم

تنگ آ گئے ہیں وقت کے زیر و زبر سے ہم

جس سادہ داستاں سے فضائیں ہو لالہ زار

تحریر اس کو کرتے ہیں خونِ جگرِ سے ہم

ہوتا ہے جس جگہ پہ لٹیروں کا سامنا

گذرے ہیں بارہا اسی رہ گذرسے ہم

کل رات ان کے لب پہ ہمارا تھا تذکرہ

آئی ادھر تو پوچھیں گے بادِ سحر سے ہم

کوئی بھی اب تو ہم پہ نظر ڈالتا نہیں

جس دن سے گِر گئے ہیں تمہاری نظر سے ہم

غم کیا ہے، درد کیا ہے، جلن کیا ہے، ٹیس کیا

تم پوچھو یا کہ پوچھیں کسی دیدہ ور سے ہم

یہ کارِ زارِ شہر ہے مضطرؔ نہ پوچھئے

گھر ایسے لوٹے جیسے تھے محروم سر سے ہم

٭٭٭

 

 

 

 

حد بندیِ حیات جو کی تھی بکھر گئی

تقدیر ہی فریب مرے ساتھ کر گئی

دیکھا ہے رنگ ہم نے عروج و زوال کا

دریا چڑھا اور چڑھی ندّی اتر گئی

چہرے پہ گل کے ایک عجوبہ نکھار ہے

شاید کچھ آج کہہ کے نسیمِ سحر گئی

وائے نصیب حد کا تعین نہ کر سکا

دیکھا کیا جمال جہاں تک نظر گئی

منّت کشِ علاج نہ زخم نہاں ہوا

امید ہی پہ عمر ہماری گذر گئی

یہ حسنِ اتفاق ہے جب آئی تیری یاد

چادر مری سکون کی کلیوں سے بھر گئی

سرخ روی اور مضطرِؔ خانہ خراب ہم

محبوب کا کرم ہے کہ قسمت سنور گئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جذبۂ دل کو آزمانا ہے

خواب میں آپ کو بلانا ہے

تیری یورش کو آزمانا ہے

اے ہوا! پھر دیئے جلانا ہے

جو بھی آیا ہے اس کو جانا ہے

موت تو صرف اک بہانہ ہے

نام ان کا نہ ہو کہیں بدنام

اشک پلکوں میں ہی چھپانا ہے

درد ہو، ٹیس یا مصائب ہو

جو بھی حالت ہو، مسکرانا ہے

عشق کہتا ہے اب یہی یارو

دشت و صحرا مرا ٹھکانا ہے

اب تعصّب کی ظلمتوں میں بھی

الفتوں کے دیئے جلانا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ڈھلے جو رات کریں ہم سحر کا اندازہ

ہے ! آئینہ ہی، اِدھر کا اُدھر کا اندازہ

سنا ہے جلوہ گہہِ ناز میں اٹھا کے نقاب

کریں گے وہ مرے ظرفِ نظر کا اندازہ

یہاں تو لوگوں کا کردار کچھ، سرشت ہے کچھ

کوئی لگائے بھی کیا ہم سفر کا اندازہ

شریکِ بزم تھے وہ بھی، عدو بھی، ہم بھی تھے

نظر سے ہم نے کیا ہر نظر کا اندازہ

ہے عندلیب انا نیم جاں کے عالم میں

جو پھڑپھڑائے تو ہو بال و پر کا اندازہ

اُدھر ہے خیر، اِدھر شر عجیب عالم ہے

نہیں ہے سہل یہاں رہ گزر کا اندازہ

کمالِ درد سے مضطرؔ جو مضطرب ہو گا

لگائے گا وہی دردِ جگر کا اندازہ

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اداسیاں ترے چہرے کی سہہ نہیں سکتا

مگر میں ماں سے الگ بھی تو رہ نہیں سکتا

تمہارے طنز کے جملے میں سہہ نہیں سکتا

میں تم سے ہو کے جدا بھی تو رہ نہیں سکتا

بجائے اشک، سمندر بہا لے آنکھوں سے

جو داغ دل پہ ہے، دھل کے وہ بہہ نہیں سکتا

جسے ہو آپ کی رسوائی کا جہاں میں خیال

زباں سے اپنی وہ کچھ بھی تو کہہ نہیں سکتا

پڑوسی رستہ بنا لے جو تیرے آنگن کو

یہ مت سمجھ کہ مکاں تیرا ڈھ نہیں سکتا

کبھی کبھار تو مضطرؔ کو یاد کر لیجئے

بغیر آپ کے زندہ وہ رہ نہیں سکتا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ہزاروں حسرت و ارمان و خواہشات لئے

حضور آیا ہوں امیدِ التفات لئے

نصیب ہی میں نہ تھی شاہزادیِ منزل

پھرا کئے تری یادوں کی ہم برات لئے

کشاں کشاں بخدا قتلِ گاہِ جاناں میں

چلا ہے مجھ کو مرا مقصدِ حیات لئے

جب اپنے آپ کو عادی بنا لیا غم کا

وہ آئے عیش و خوشی کا پیام رات لئے

وہ آئے سامنے خنجر بکف تو دل نے کہا

فرشتہ آ گیا پروانۂ نجات لئے

کبھی وہ آئے، جو آتے مگر یہ سادہ دلی

میں منتظر تھا، چراغ انجمن میں رات لئے

نہ پوچھ قصّۂ دورِ حیات اے مضطرؔ

رہے وہ ساتھ میں جب لطفِ کائنات لئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

نہ ڈال پردہ مجھے بے حجاب رہنے دے

تمام ہاتھوں میں مثلِ کتاب رہنے دے

میں چاہتا ہوں مجھے بانٹ لیں سبھی مل کر

سبھوں کے نام مرا اکتساب رہنے دے

رہے گا مجھ کو بھی احساسِ زندگی اے دوست

دلِ حزیں میں سدا اضطراب رہنے دے

مجھے بچا لے حسیں تتلیوں سے اے مولیٰ

تو میرے حصّے میں کچھ تو ثواب رہنے دے

عجیب کیا ہے کہ عصیاں کے داغ دھل جائیں

تو چشمِ تر کو مری آب آب رہنے دے

کسی کو علم نہ ہو کون میرا قاتل ہے

مرے خدا اسے عزت مآب رہنے دے

شکن پڑے نہ حلیفوں کے ماتھے پر مضطرؔ

حریف چہروں کو پُر اضطراب رہنے دے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

خوں میں جب جب نہاتی رہی زندگی

ہر قدم مسکراتی رہی زندگی

اپنا وعدہ نبھاتی رہی زندگی

قصّۂ غم سناتی رہی زندگی

یہ نہ پوچھو کہ کیسے کٹی ہے مری

عمر بھر آزماتی رہی زندگی

قصّۂ زندگی بس، ہے یہ مختصر

لمحہ لمحہ رُلاتی رہی زندگی

جب بھی چاہا کہ ہو دسترس میں مری

ناز و غمزے دکھاتی رہی زندگی

تیری یادوں نے ایسا اجالا کیا

رات بھر جگمگاتی رہی زندگی

چاند سا تیرا مکھڑا جو تھا سامنے

چاندنی میں نہاتی رہی زندگی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

رواں دواں ہے زندگی مگر کہاں خوشی میاں

اسیرِ رنج و غم یہاں ہر ایک آدمی میاں

قدم قدم پہ سازشیں، نظر نظر پہ بندشیں

نصیب میں لکھا ہے کیا یہ کرب و بے کسی میاں

تمہیں کسی سے کیا غرض، تم اپنے حال میں ہومست

ڈوبو نہ دیں تمہیں کہیں تمہاری بے حسی میاں

تم اک انا پر ست ہو، ہمیں عزیز عاجزی

نبھے گی کس طرح سے پھر ہماری دوستی میاں

کبھی خیال یار تھا کبھی طلب تھی دید کی

گذر گئی اسی طرح ہماری زندگی میاں

خیال بن کے آتا ہے وہی تو میرے شعر میں

دیا ہے جس نے بے طلب شعور و آگہی میاں

مٹا دے عشقِ یار میں تو خود کو مضطرِ  حزِیں

یہی ہے شانِ عاشقی، یہی ہے بندگی میاں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کبھی منہ سے چھینے نوالے گئے

کبھی بزم سے ہم نکالے گئے

نہ مندر نہ مسجد شوالے گئے

سبھی نفرتوں کو بہا لے گئے

وہ مئے جس میں شامل تھے رنج و الم

ہمارے ہی ساغر میں ڈالے گئے

امیروں کے گھر روشنی کے لئے

غریبوں کے گھر سے اجالے گئے

ہمارا لہو جس میں شامل رہا

اسی گھر سے ہم تو نکالے گئے

تھے جتنے بھی سنگِ ملامت وہ سب

مرے سر کی جانب اچھا لے گئے

نہ جائیں گے وہ داغ مضطرؔ کبھی

جو دل میں محبت سے پالے گئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ان کو جب ہر بات پر تیور بدلنا آ گیا

مصلحت کے سانچے میں مجھ کو بھی ڈھلنا آ گیا

سر پھری آندھی کا اتنا ہی کرشمہ ہے بہت

قطرے کو سیلاب کی مانند ابلنا آ گیا

شادماں دو دن نہ ہو پائے اگر تو کیا ہوا

آتشِ رنج و الم میں ہم کو چلنا آ گیا

اپنے ہمسایہ کی اب بے اختیاری دیکھ کر

رنگ گرگٹ کی طرح اس کو بدلنا آ گیا

سر پٹکنا دیکھ کر موجوں کا ساحل پر مدام

تیرے در کی خاک ہم کو سر پہ ملنا آ گیا

بادِ صر صر کا اُسے تھوڑا سہارا کیا ملا

خاک کو پربت کی چوٹی تک اچھلنا آ گیا

عشق کی راہوں میں مجھ کو گرچہ ناکامی ملی

پر خطر وادی میں تو مضطرؔ سنبھلنا آ گیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

تم ہی بتاؤ اس محفل میں مجھ سے بہتر کتنے ہیں

لب پر میٹھے بول ہیں جن کے دل میں خنجر کتنے ہیں

قدر نہیں ہے اس دنیا میں فن کے لعل و گوہر کی

شہرت کے ہر بام پہ یارو کنکر پتھر کتنے ہیں

آؤ چل کر ہم ہی پوچھیں اہلِ سیاست سے یارو

ایوانوں میں بیٹھنے والے امن کے پیکر کتنے ہیں

کل تو ٹھاٹھیں مار رہا تھا سر کا سمندر سڑکوں پر

آج ذرا ہم چل کر دیکھیں دار پہ اب سر کتنے ہیں

اہلِ بصیرت بھانپ ہی لیں گے فن کے ہر اک پہلو کو

فکر کے تیرے سیپ میں مضطرؔ لعل و گوہر کتنے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

یہ رتبوں کا جو سورج ڈھل گیا ہوتا تو کیا ہوتا

مراقد آپ کے قد سے بڑا ہوتا تو کیا ہوتا

شبِ تیرہ میں الجھا ہوں تو خوش ہوتی ہے یہ دنیا

میں زندانِ مصائب سے رہا ہوتا تو کیا ہوتا

دکھا کر اک جھلک تو نے کیا بے ہوش موسیٰ کو

اگر پردہ ترے رخ سے ہٹا ہوتا تو کیا ہوتا

ہماری دسترس میں ہے دیا تو آپ نالاں ہیں

ہمارے ہاتھ میں سورج ہوا ہوتا تو کیا ہوتا

مرے ساقی ترے قربان جو ہے تیری آنکھوں میں

تری آنکھوں سے وہ بادہ پیا ہوتا تو کیا ہوتا

وفا کا پاس تھا مجھ کو رہا خاموش میں، ورنہ

سرِ محفل اگر میں کھل گیا ہوتا تو کیا ہوتا

کمالِ شوقِ سجدہ میں جبیں مضطر ہے اے مضطر

اگر وہ آستانہ مل گیا ہوتا تو کیا ہوتا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

فضائے شبنمی میں جب کلی کوئی نکھرتی ہے

حریمِ دل میں چپکے سے تری صورت ابھرتی ہے

بدلتی رہتی ہے یہ زندگی کیا کیا نہ رنگ اپنا

تڑپتی ہے، سسکتی ہے، بکھرتی ہے، سنورتی ہے

چھپا لو درد تم اپنا تبسّم لا کے ہونٹوں پر

کہانی اَن کہی یہ آنکھ لیکن کہہ گذرتی ہے

غموں کی دھوپ میں تپ کر نکھر جاؤ گے تم ایسے

کہ جیسے کانٹوں میں رہ کر کلی کوئی نکھرتی ہے

قسم کھائی تھی تم نے، جب نہ آنے کی اِدھر ہمدم

تمہاری یادوں کی خوشبو اِدھر سے کیوں گذرتی ہے

ہوا ہوں جب سے دنیا میں اسیرِ عشق اے مضطرؔ

مرے دامن میں آنے سے خوشی پہلے ہی ڈرتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

ہر اک شئے میں مشہود و مستور ہے وہ

نظر کی پہنچ سے مگر دور ہے وہ

جسے مل گیا تیری وحدت کا بادہ

شراباً طہوراً سے مخمور ہے وہ

جو ہستی کو اپنی نہ معدوم سمجھے

حقیقت سے سمجھو بہت دور ہے وہ

مکیں ہے، مکاں ہے، وہی لامکاں ہے

مگر سب کی نظروں سے مستور ہے وہ

ہر اک کی حقیقت اگرچہ وہی ہے

نہ مفتی، نہ قاضی، نہ منصور ہے وہ

وہی ہر نفس میں ہے موجود پھر بھی

بشر کی سمجھ سے بہت دور ہے وہ

ہو مضطرؔ کو کس طرح عرفان تیرا

کہ شبلی، نہ سرمد، نہ منصور ہے وہ

٭٭٭

ماخذ:

http://www.urduyouthforum.org/shayari/poet-Muztar-Iftekhari.html

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید