FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

فہرست مضامین

ایک کٹورا پانی کا

 

 

                    ثروت حسین

 

پیشکش: تصنیف حیدر

 

 

 

 

 


 

 

 

 

 

انتساب

 

                   (شمائلہ ثروت کے نام)

 

تعمیر کی بنیاد میں دل رکھا ہے میں نے

ہم لوگ اٹھائیں گے مکاں اور طرح کا

 

 

 

 

سمندر سے ایک کٹورا پانی

 

 

ایک عمر اور اپنی نسل کا سب سے بڑا شاعر ثروت حسین۔ سچا شاعر اور انوکھا شاعر۔ میں قلندرانہ نثر لکھنے کا احساس رکھتا ہوں مگر ثروت ایسے لوگوں میں سے ہے جن کے لیے لکھتے ہوئے میری تخلیقی بے قراری، سرشاری، شکر گزاری اور انکساری میری اپنی مٹی میں مل جاتی ہے اور میں اس کی شاعری پڑھنے لگتا ہوں۔ ایسا میں کئی بار کر چکا ہوں۔ اس کی شاعری میری ہمت بندھاتی ہے۔ یہ مطالعہ ایک رفاقت جیسا ہے۔ اس کے ساتھ میری رشتہ داری شاعری کے حوالے سے ہے۔ یہ ان دیکھے کی محبت ہے جو بڑھتی ہی رہتی ہے۔ا س کے مرنے کے بعد تو اور بڑھتی جا رہی ہے۔ سوچتا ہوں میرا کیا بنے گا۔

وہ صرف اور صرف شاعر تھا۔ اس نے زندگی نہ کی شاعری کی۔ شاعری نہ کی زندگی کر لی۔ زندگی اور شاعری نے مل کر اس کے وجود میں وجد پیدا کیا۔ اس دھمال نے اسے بھونچال میں رکھا۔ وہ اپنے جیسے لوگوں کی تلاش میں ہو گا۔ اس کے جیسے لوگ آج بھی اس کی تلاش میں ہیں۔ دونوں ناکام رہے دونوں کامیاب ہوئے۔ کامیابی اور ناکامی کا ایسا امتزاج اس کے تخلیق مزاج کا حصہ تھا جو خاک اور خواب کے سانجھے ماحول میں رواج پاتا ہے۔ یہ ماحول اسے اپنے باہر کہاں ملتا۔ وہ جو زندگی اس کے اندر تھی، اسے اپنے باہربسر کرنے کی لگن اسے کہاں سے کہاں تک لیے لیے پھری۔ اپنی ہی کسی سرزمین کی سرحد پر کھڑے ہوکے اس نے بات کی۔

وہ اپنے اندر بھی بہت چیزیں گم کر بیٹھا تھا۔ وہ گمشدہ چیزیں تلاش کرنے کے حق میں نہ تھا۔ گمشدگی کے عالم میں اسے مزا آتا تھا۔ اس نے شاعری ایسے ہی کسی عالم میں کی۔ اس نے عمر نہ گزاری زمانہ گزارا ہے۔ وہ اپنی تلاش میں رہا جیسے زمین اپنے زمانے کو ڈھونڈتی ہے، وہ دوسروں کے درمیان ایسے تھا جیسے گندے پانی کے جوہڑ میں کنول۔ سمندر جیسے دھیان رکھنے والے کے لیے یہ مثال بہت چھوٹی ہے۔ مگر چھوٹے لوگوں کے لیے یہ بہت بڑی مثال ہے۔ وہ بے مثال شاعر ہے۔ اس نے اپنی ایک نظم جل پری میں کہا۔

وہ مجھے ایسے دیکھتی ہیں جیسے ایک عورت سمندر کو دیکھتی ہے۔

تو یہ شعر ان عورتوں کے لیے نہیں ایسوں ویسوں کے لیے کہا گیا ہو گا:

چھوٹے چھوٹے لوگ تھے اور چھوٹی چھوٹی خواہشیں

سو میں ان کے درمیاں اک داستاں ہوتا گیا

تو پھر یہ لوگ کہاں ہیں جن کے لیے یہ شعر ثروتؔ نے کہا ہے :

مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے

لفظ میرے مرے ہونے کی گواہی دیں گے

کیا اسے معلوم تھا کہ وہ مر جائے گا۔ اس کے بعد تو یہ ثابت ہے کہ موت کے بعد ہی اصل زندگی ہے۔ اس نے یہاں بھی وہی زندگی گزاری، وہ وہاں یہ زندگی گزار رہا ہو گا۔ اس کی شاعری میں اس زندگی کاسراغ پایا جاتا ہے۔ وہ چراغ تو ہے جس کی روشنی میں ہم وہ زندگی دیکھ سکتے ہیں ایک تخلیقی جانکنی انہونی کی طرح اس پر ٹوٹ پڑتی تھی:

موت کے درندے میں اک کشش تو ہے ثروتؔ

لوگ کچھ بھی کہتے ہوں خودکشی کے بارے میں

کہتے ہیں اس نے خودکشی کی تو پھر خودکشی اور شہادت میں کیا فرق ہے۔ میں نے کہیں لکھا تھا کہ جنرل نیازی ڈھاکے کے پلٹن میدان میں خودکشی ہی کر لیتا تو میں فتویٰ دیتا کہ یہ شہادت ہے۔ یہ معرکہ ثروتؔ نے اپنی ذات میں کیا کر دیا تھا۔ وہ پہلے ہی اپنے اندر شہید ہو چکا تھا۔ شہید بھی اپنے آپ کو اس نے خود کیا ہو گا۔ جوسچی طرح خود کشی کرتے ہیں وہ غلط نہیں ہوتے۔ میں شاید اس کے لیے بات کرتے کرتے اس کی یاد کے کسی غیر آباد علاقے میں جا پڑا ہوں۔

آدمی قاتل ہوتا ہے یا مقتول ہوتا ہے یہ کیا کہ آدمی بیک وقت قاتل بھی ہوا ور مقتول بھی ہو۔ ایک وجود میں دو کردار۔ میں نے شاید اس کے لیے ہی کہا تھا:

تو جو قاتل ہے تو مقتول کہوں میں کس کو

تو جو گلچیں ہے تو پھر پھول کہوں میں کس کو

ثروتؔ کے وجود میں کئی کردار ادا ہو رہے تھے۔ اس کی شاعری میں کئی کردار بولتے ہیں اور ہواؤں میں بنے ہوئے دروازے کھولتے ہیں۔ ان دروازوں کے پار کیسے کیسے جہان ہیں۔ وہ ان جہانوں کی سیرکرآیا تھا۔ اسے پڑھتا ہوں تو لگتا ہے کہ کئی جہان واقع ہوئے چلے جا رہے ہیں۔

مجھے لیڈی ڈیانا کی موت پر کہنے کے لیے کہا گیا تو میں نے ثروتؔ کا شعر پڑھ دیا تھا:

شہزادی ترے ماتھے پر یہ زخم رہے گا

لیکن اس کو چومنے والا پھر نہیں ہو گا

خاص طور پر ہونے والے واقعات کے حوالے سے اس غزل کا کوئی نہ کوئی شعر پڑھا جا سکتا ہے۔ ثروتؔ کو یاد کرتے ہوئے خواہ مخواہ شکیب جلالی کو یاد کیا جاتا ہے۔ باخبر زمانے کے لوگ کیسے بے خبر ہیں۔ ثروتؔ اہلِ خبر میں سے تھا۔ اس کا موازنہ اپنے زمانے کے کسی شاعر اور شخص سے نہیں کیا جا سکتا۔ وہ اکلوتا تھا اور اکیلا۔ یکہ و تنہا اور یکتا۔ وہ جو کچھ ایک لمحے میں ہوتا تھا دوسرے لمحے میں خود بھی نہیں ہو سکتا تھا:

میں نے خود کو جمع کیا پچیس برس میں

یہ سامان تو مجھ سے یکجا پھر نہیں ہو گا

وہ نغمے جوسانولی می میں سوئے ہوئے تھے۔ اس نے انہیں اپنے وجود کی دھول میں پھول کیا۔ لگتا ہے اس نے ویران اور حیران مٹی میں کھلے ہوئے پھولوں سے مشورہ کر کے شاعری کی تھی۔ میں جب جب اس کے شعر پڑھتا ہوں ان میں کوئی نئی خوشبو رقص کرنے لگتی ہے۔ یہیں کہیں اس نے انجانی محبت کا بیج بویا تھا۔ وہ داستان جسے وہ خود بھی بھول بیٹھا تھا اس کا خلاصہ اس کی شاعری میں ہے۔ وہ اپنی ہی بھولی بسری یادوں کا شاعر ہے۔ اس نے جن عورتوں کو ہجر کی ماری زمین پر رقص کرتے دیکھا تھا، انہیں اپنی شاعری کی وصال آمادہ بستیوں کی طرف ہجرت کرنے پر مائل کیا۔ میں نے ایسی کچھ عورتوں کواس کا پیغام دے کر ملاقات کر لی ہے۔ ان میں وہ مکمل عورت بھی تھی جو مرد کی موجودگی سے پوری طرح واقف تھی۔ جس طرح دوسریاں واقف نہ تھیں۔

اس نے شاعری کی جیسے کسی روٹھے ہوئے کو گھر میں لاتے ہیں جیسے شہد کی مکھیاں پھولوں کی طرف جاتی ہیں۔ خدا نے کہا کہ میں نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی۔ اس وحی کی تفسیر ثروتؔ کی شاعری میں ملتی ہے۔ وہ ایک بچے کی طرح تھا سچا اور معصوم۔ وہ جنت کا باشندہ تھا۔ بچہ پالتو جانور اور درندے میں فرق نہیں کر سکتا۔ وہ دونوں کے بہت قریب چلا جاتا ہے۔ بچہ تو بچہ ہوتا جس عورت کی چھاتیاں بھرپور ہوں ان کی نوک پر اپنے ہونٹ رکھنا چاہتا ہے۔ ثروتؔ نے کس عورت کا دودھ پی لیا تھا کہ یہ ذائقہ اسے جنت کی طرف بلاتا رہا اور وہ وہاں چلا گیا۔ وہ کئی نشانیاں اپنی شاعر میں چھوڑ گیا:

اپنے مکاشفوں کے ساتھ اپنی کہانیوں کے ساتھ

آیا ہوں میں زمین پر اپنی نشانیوں کے ساتھ

یہ تو طے ہے کہ نرے علم سے شاعری نہیں ہوتی۔ شاعری کے لیے کوئی توعلم چاہیے۔ میرے خیال میں علم راز ہے اور راز دو آدمیوں کے پاس نہیں ہوتا۔ وہ ثروتؔ جیسے تنہا آدمی کو ملتا ہے۔ جہالت بھی کوئی علم ہے تو شاعری کے لیے یہ بہت کارآمد ہے۔ ثروتؔ کہتا ہے :

آئینہ عورت کے بارے میں مجھ سے زیادہ جانتا ہے

عورت تخلیق کے بارے میں مجھ سے زیادہ جانتی ہے

وہ عورت کے بارے میں اس سے زیادہ نہ جانتا ہو گا۔ مگراس کے اندر جو عورت تھی اس کے بارے میں تو زیادہ جانتا ہو گا۔ بعض اوقات نہ جاننا جاننے سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ اپنی تنہائی میں وہ کن عورتوں سے باتیں کرتا تھا۔ خود کلامی کو ہم کلامی کا درجہ اس نے دیا۔ اس نے یہ بھی تو کہا تھا:

مٹی پہ نمودار ہیں پانی کے ذخیرے

ان میں کوئی عورت سے زیادہ نہیں گہرا

ثروتؔ کے ہاں کسی صوفیہ کا ذکر ملتا ہے۔ اس عورت سے ثروتؔ کی ملاقات شاعری میں ہوئی ہو گی۔ میں  اس کے علاوہ بھی اس سے ملنا چاہتا ہوں۔ وہ کسی زمین پر توہو گی۔ شاعری بھی اک سرزمین ہے۔ یہ ثروت کی دل دھرتی ہے۔ کسی مقام پر تھا ثروتؔ کہ جہاں دھرتی اور دل دھرتی ایک ہو جاتی ہے :

صوفیہ تم سے ملاقات کروں گا اک روز

کسی سیارے کی جلتی ہوئی عریانی میں

میں نے انگوروں کی بیلوں میں تجھے چوم لیا

کر دیا اور اضافہ تیری حیرانی میں

 

جھوم رہی ہے زندگی ناچ رہی ہے اجل

سن تو سہی صوفیہ آج ہوا میں نکل

چھوڑ یہ گل پیرہن چوم لے میرا بدن

اس کے سوا کچھ نہیں تیری اداسی کا حل

 

آگ میں یا آب میں رہتی ہو تم

صوفیہ کس خواب میں رہتی ہو تم

شیرنی رہتی نہیں دیوار میں

کس لیے آداب میں رہتی ہو تم

ساتواں دریاب ہے ثروت حسین

جانے کس پنجاب میں رہتی ہو تم

آخری شعر میں نے اس لیے نہیں لکھا کہ صوفیہ صرف پنجاب میں رہتی ہے۔ سندھ بھی قریہ حسن عشق ہے۔ یہاں پنجاب صرف قافیے کے لیے نہیں آیا۔ ثروتؔ پنجاب میں کسی اور پنجاب کا نقشہ پیش کر رہا ہے۔ بہرحال ثروتؔ کی صوفیہ کا اختر شیرانی کی سلمیٰ وغیرہ سے موازنہ توہین ہے۔ ثروت کی بھی اور صوفیہ کی بھی۔ میں سوچتا ہوں کہ صوفیہ صوفی کی مونث تو نہیں۔ صوفیہ بھی ثروت کی شاعری کا تحفہ ہے۔ اسے ملیں اوراس کے لیے ثروت کی شاعری پڑھیں :

زمانہ ہوا اس کو دیکھے ہوئے

کسی دن وطن کی طرف جاؤں گا

تلاش مسرت میں دیوانہ وار

میں کارِ سخن کی طرف جاؤں گا

میں نے ثروت کی کافی پہلی بار پڑھی

آکھوآکھوآکھ

ساری رات جلا میں ثروتؔ

پھر بھی ہوا نہ راکھ

یہ رات عمر بھر میں پھیل گئی ہے۔ وہ جلتا ہی رہا۔ اس آگ نے جلا کے اسے سبز کر دیا۔ پھر وہ سرسبز ہو گیا۔ سرمست اورسربلند۔ جس زمین پر وہ بے قرار ہوا، وہ سرزمین بن گئی۔ میں اسے یاد کرتا ہوں یعنی اس کی شاعری یاد کرتا ہوں تو میرے اندر ہر طرف راکھ ہی راکھ اڑتی ہے۔ ثروتؔ نے اس راکھ میں قلم ڈبو کے لکھا اور اس کے لفظوں میں چراغ ہی چراغ جل اٹھے، ثروتؔ نے یہ چراغ بجھا کے بھی دیکھ لیے۔ سانولا اندھیرا اس کادوست ہو گیا۔ لگتا ہے کہ جو کچھ ہے اندھیرے میں ہے۔ جو نظر نہیں آتا، بس وہی ہے ثروت نے کیا دیکھ تھا کہ اس کی شاعری سارے زمانے میں ہونے والی شاعری سے مختلف ہے۔ لفظ مختلف یہاں مجھے حقیر سا لگا ہے۔ وہ ایسا مختلف تھا کہ اسے مختلف کہتے ہوئے جی نہیں بھرتا:

 

آگ اور طرح کی ہے دھواں اور طرح کا

ہے کچھ مرے جلنے کا سماں اور طرح کا

دیتے ہیں خبر خوش گزراں اور طرح کی

کرتے ہیں سخن دل زدگاں اور طرح کا

تعمیر کی بیاد میں دل رکھا ہے میں نے

ہم لوگ اٹھائیں گے مکاں اور طرح کا

 

میں نے دو تین بار ثروتؔ کا یہ شعر گنگنایا:

 

بادل گرجے دیواروں میں بجلی چمکی آئینے میں

اس نے اپنے ہونٹ جو رکھے میرے بالوں بھرے سینے میں

تو ایک دوست کہنے لگا کہ یہ تو فحش کلامی ہے۔ میں نے اسے کہا کہ میرے بالوں بھرے سینے پر اپنے ہونٹ رکھے تھے کسی نے مگر میں نے ثروتؔ کا شعر پڑھ کر جو نشاط پائی ہے۔ اس با وضو لذت بھری سرشاری کا اشارہ بھی تب نہیں ہوا تھا۔ یہ تو خیالوں میں کسی تجربے کی تخلیقی یاد ہے جس میں ثروتؔ نے ہمیں بھی بھگو دیا ہے۔ ایسی ہی بات کسی نے بہت بڑے تخلیقی وجود منیرؔنیازی کے لیے کہی تھی کہ وہ شاعر تو بہت بڑا ہے مگر شراب پیتا ہے۔ میں نے کہا تھا کہ شراب جب منیر خان کے اندر جاتی ہے تو خواب اور گلاب ہو جاتی ہے۔ تم نہ پینا۔ اس طرح شراب واقعی خراب ہو جائے گی۔

شاعری میں جو محبوب ہے وہ کس نے دیکھا ہے۔ یہ کوئی اور ہی مخلوق ہے۔ میرا دعویٰ ہے کہ ثروتؔ نے محبوب کو آنکھ بھر کے دیکھا ہو گا:

میں نے اس کو چوم کے دیکھا تھا ثروتؔ

برف برستی تھی، انگارہ پھول میں تھا

وہ کون ہے اور یہ چومنا کیا ہے۔ کاش سب لوگ اس تجربے سے گزرسکیں ورنہ ثروتؔ کی شاعری پڑھیں اس تجربے سے گزر جائیں گے۔

میں نے ساقیؔ فاروقی کے لیے ثروتؔ کے اشعار پڑھے تو وہ مجھے اچھا لگنے لگا:

بجھی روح کی پیاس لیکن سخی

مرے ساتھ میرا بدن بھی تو ہے

یہ نجانے کس ساقیؔ کی طرف اشارہ ہے۔ نئی کتاب میں بظاہر کسی شعر میں کسی طرف اشارہ نہیں مگر میری طرح شاید کوئی یہ سمجھے کہ یہ شاعری اس کے لیے ہے میں یہ چند سطریں ثروتؔ کے لیے کہنے کے بعد سرخرونہیں بھی ہوا تو سرشار ضرور ہوا ہوں۔ سمندر میں ایک گلاس پانی ڈالیں تو اس کا کیا ہو گا۔ میں نے یہ ایک کٹورا پانی کا خود پی لیا ہے اور پھر بات کی ہے۔

 

ڈاکٹر محمد اجمل نیازی

 

 

 

 

 

 

ہے وقتِ امتحان، بھلے دن بھی آئیں گے

مہکے گا گلستان، بھلے دن بھی آئیں گے

 

سوئیں گے دل گرفتہ و دل ریش سکھ کی نیند

بدلے گا یہ جہان، بھلے دن بھی آئیں گے

 

رنجیدہ کیوں ہے کوئی ستارہ اگر نہیں

دل کو چراغ جان، بھلے دن بھی آئیں گے

 

پھر جمع ہوں گے آگ کے چو گرد قصہ گو

چھیڑیں گے داستان، بھلے دن بھی آئیں گے

 

اطراف سے دیار کی مہماں سراؤں میں

اتریں گے میہمان، بھلے دن بھی آئیں گے

 

ہاتھوں میں شمع دان لیے باغ و راغ میں

نکلیں گے نوجوان، بھلے دن بھی آئیں گے

 

پتوں کی تالیوں سے، پرندوں کے شور سے

گونجے گا ہر مکان، بھلے دن بھی آئیں گے

 

فردا کی گونج سن کے اٹھیں گے جہاز راں

کھولیں گے بادبان، بھلے دن بھی آئیں گے

 

کیوں سو گیا ہے ہاتھ سرھانے دھرے ہوئے

ثروتؔ خدا کو مان، بھلے دن بھی آئیں گے

٭٭٭

 

 

 

آگ اور طرح کی ہے دھواں اور طرح کا

ہے کچھ مرے جلنے کاسماں اور طرح کا

 

یہ شہر ہے، مٹی ہے یہاں اور طرح کی

یہ دشت ہے، پانی ہے یہاں اور طرح کا

 

دیتے ہیں خبر خوش گزراں اور طرح کی

کرتے ہیں سخن دل زدگاں اور طرح کا

 

پر مل گئے مٹی کو تو آنکھوں پہ کھلا یہ

منظر ہے سرِ کاہکشاں اور طرح کا

 

تعمیر کی بنیاد میں دل رکھا ہے میں نے

ہم لوگ اٹھائیں گے مکاں اور طرح کا

٭٭٭

 

یک بارگی زمین ہلی، آسماں چلا

ایسے میں اُس کی آنکھ کا جادو کہاں چلا

 

ہاں زمزمہ سرائی کا اعجاز دیکھنا

جب میں چلا تو ساتھ مرے گلستاں چلا

 

باہر خزاں کی شام ہے، لب بستہ پیڑ ہیں

آئینے سے نکل کے ستارہ کہاں چلا

 

یہ دشت اپنی پیاس لیے منتظر رہا

کس شہر کی تلاش میں ابرِ رواں چلا

 

دروازے سے اُترتی ہوئی سیڑھیوں کے پاس

ثروتؔ گلاب رکھ کے کوئی نوجواں چلا

٭٭٭

 

باغ تھا مجھ میں اور فوارہ پھول میں تھا

منظر یہ سارے کا سارا پھول میں تھا

 

راسیں تھامے ٹھہر گیا میں رستے میں

جیسے جنت کا نظّارہ پھول میں تھا

 

تند ہوائیں لے گئیں اس کو ساتھ اپنے

ہاں یارو، اک شخص ہمارا پھول میں تھا

 

جلتی آنکھ میں ریگِ بیاباں اڑتی تھی

آنکھ لگی تو میں دوبارہ پھول میں تھا

 

میں نے اُس کو چوم کے دیکھا تھا ثروتؔ

برف برستی تھی، انگارہ پھول میں تھا

٭٭٭

 

آدمی کی محنتوں کو رائیگاں سمجھا تھا میں

زندگی کو صرف تمثالِ خزاں سمجھا تھا میں

 

ارضِ اسفل کی بہاریں اور انسانوں کے گھر

یہ کرہ من جملۂ سیّارگاں سمجھا تھا میں

 

ایک ہے سب کی مسافت، ایک ہے سب کا سفر

منتشر لوگوں کو کیوں بے کارواں سمجھا تھا میں

 

کچھ تو موسم کا فسوں تھا اور کچھ وہ راستا

ہر شجر کو ہم سکوت و ہم زباں سمجھا تھا میں

 

جب تلک ثروتؔ کسی کی ہمرہی حاصل نہ تھی

آب اور افلاک کا مطلب کہاں سمجھا تھا میں

٭٭٭

 

جز عشق محاذِ رم و پیکار نہ رکھوں

مر جاؤں مگر ہاتھ سے تلوار نہ رکھوں

 

اپنی ہی کسی آگ میں جل جاؤں سرِ شام

اب اُس کے چراغوں سے سروکار نہ رکھوں

 

جب اس نے مجھے شعلۂ جوّالہ کیا ہے

لازم ہے اندھیروں سے بہت پیار نہ رکھوں

 

خنجر ہوں تو پیوست بھی ہونا ہے کہیں پر

سو اس کے علاوہ کوئی معیار نہ رکھوں

 

اس معرکۂ عشق میں اپنے لیے ثروتؔ

کیا رکھوں اگر نشّۂ پندار نہ رکھوں

٭٭٭

 

 

اپنے مکاشفوں کے ساتھ، اپنی کہانیوں کے ساتھ

آیا ہوں میں زمین پر اپنی نشانیوں کے ساتھ

 

ایک ہی دن بسر کیا کتنے ہی اختلاف سے

صبح کو آئینوں کے ساتھ، شام کو پانیوں کے ساتھ

 

چہرۂ آب ہوں مگر سب سے الگ ہوں سر بسر

اور بہت سے وصف ہیں مجھ میں روانیوں کے ساتھ

 

رات بہت طویل ہے، چاند ہے اور جھیل ہے

کاش کبھی تو جل بجھوں رنگ فشانیوں کے ساتھ

٭٭٭

 

 

 

یہ سب سنان و سپر تیرے نام کرتا ہوں

میں آج تجھ پہ محبت تمام کرتا ہوں

 

یہ فرشِ دل ترے شایان تو نہیں لیکن

ذرا ٹھہر کہ کوئی انتظام کرتا ہوں

 

میں انتظار بہت دیر کر نہیں سکتا

غروبِ مہر سے پہلے ہی شام کرتا ہوں

 

کوئی پیالہ نہیں اور شام آ پہنچی

سو تیغِ تیز تجھے بے نیام کرتا ہوں

 

یہ بات اس کو بہت دیر سے ہوئی معلوم

کہ میں تو صرف اسی سے کلام کرتا ہوں

٭٭٭

 

 

فرد نہیں، ہجوم ہوں، میرا شمار تو کرو

مجھ کو اسیر تو کرو، مجھ کو شکار تو کرو

 

شہرِ خزاں ہے اور ہم، ایک دھواں ہے اور ہم

اس تگ و دو میں کم سے کم ذکرِ بہار تو کرو

 

لوگ نڈھال ہیں تو کیوں، بے پر و بال ہیں تو کیوں

زندگیوں کے باب میں سوچ بچار تو کرو

 

فرش و گیاہ و بام و در، اب بھی حسین ہیں مگر

صبح سے عشق تو کرو، شام سے پیار تو کرو

٭٭٭

 

 

 

 

کہتی ہے نگاہِ آفریں کچھ

پھول اتنے کہ سوجھتا نہیں کچھ

 

بادل جھک آئے آئینے پر

بدلی بدلی سی ہے زمیں کچھ

 

اس کی ہی قبا سے ملتی جلتی

دیوارِ گلاب و یاسمیں کچھ

 

دیتا ہے سراغ فصلِ گُل کا

فوارۂ سحرِ نیلمیں کچھ

 

کھلتا نہیں بھید روشنی کا

جلتا ہے قریب ہی کہیں کچھ

 

نظریں تو اٹھاؤ، مجھ کو دیکھو

تم بھی تو کہو اے ہم نشیں کچھ

 

آئینے میں موج زن ہے ثروتؔ

مہتابِ گناہِ اولیں کچھ

٭٭٭

 

 

 

 

بادل گرجے دیواروں میں، بجلی چمکی آئینے پر

اس نے اپنے ہونٹ جو رکھے میرے بالوں بھرے سینے پر

 

پھر یہ پرند نہیں چہکیں گے، پھر یہ پھول نہیں مہکیں گے

مٹی کی موسیقی سن لو میرے دل کے سازینے پر

 

انگوروں کا رس تو میں نے اس سے پہلے بھی چکھا تھا

اور ہی آگ دہک اٹھی ہے تیرے ہونٹوں سے پینے پر

 

میرے گھوڑے کی ٹاپوں سے گونج رہے ہیں معبد و مقتل

لیکن وہ خاموش کھڑی ہے پتھر کے اونچے زینے پر

٭٭٭

 

 

 

ایک دیا مستقل آئنہ خانے میں ہے

عکس نئے سے نیا تیرے خزانے میں ہے

 

جیسے زمیں ہے نئی، جیسے سفر ہے نیا

جانیے کیسی خوشی آگ جلانے میں ہے

 

حرفِ وصال و فراق، دیکھ صداؤں کا طاق

لطف ملاقات کا چھوڑ کے جانے میں ہے

 

پھول، شجر، جانور، یعنی مرا مستقر

اپنی زمینوں پہ ہے، اپنے گھرانے میں ہے

 

سن مرے ثروتؔ حسین، بھائی ترا صادقینؔ

اب بھی خدا کے حضور نقش بنانے میں ہے

٭٭٭

 

کسی کی یاد کو آرامِ جاں بنایا تھا

بڑے جتن سے کوئی سائباں بنایا تھا

 

ہوا نے چاٹ لیا، بارشوں نے دھو ڈالا

ردائے خاک پہ میں نے نشاں بنایا تھا

 

بساطِ لالہ و نسریں بچھانے والے نے

مرے وجود کو آتش بجاں بنایا تھا

 

بس اس قدر ہے حکایت کہ راہ چلتے ہوئے

وہ ایک گل تھا، اسے گلستاں بنایا تھا

 

مکاں ضرور بنایا تھا اس خرابے میں

مجھے خبر نہیں ثروتؔ کہاں بنایا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

ہرچند بارِ آسماں انسان سے اُٹھا

یہ راہ پُر خطر ہے قدم دھیان سے اُٹھا

 

یارانِ خوش معاملہ نزدیک آ گئے

میں گرد جھاڑتا ہوا دامان سے اٹھا

 

سویا وہ کیا کہ پہلے پہر نیند آ گئی

اٹھا وہ کیا کہ صبح کے اعلان سے اٹھا

 

بلقیسِ خوش جمال کو پا کر بہت قریب

دیوانہ وار تختِ سلیمان سے اٹھا

 

تو نے چھپا کے رکھے ہیں مہتاب کس لیے

جانِ جہان! ہاتھ گریبان سے اٹھا

 

ثروتؔ اداس کیوں ہے ہوائے بہار میں

اک پھول اس کے واسطے گل دان سے اٹھا

٭٭٭

 

 

 

ایسا بھی کوئی مہرباں جو مرے ساتھ چل سکے

بارِ ستم اُٹھا سکے، نظمِ جہاں بدل سکے

 

تیرہ و تار ہے زمیں، پاس مرے کوئی نہیں

میں اسی فکر میں غمیں، میرا چراغ جل سکے

 

کار گہِ وجود میں ابر و ہوائے پیش و پس

میری یہی دعا کہ بس آدمی پھول پھل سکے

 

عشق کا نام چاہیے، حسنِ کلام چاہیے

ایسا کوئی سخن نہیں، شعر میں جو نہ ڈھل سکے

 

زندگی کی رمق ملے، ایک نیا افق ملے

ساتھیو، گرد و پیش کی برف اگر پگھل سکے

٭٭٭

 

آنکھ تاریک مری، جسم ہے روشن میرا

در و دیوار سے ٹکراتا ہے آہن میرا

 

اور اب ہاتھ مرا قبضۂ شمشیر پہ ہے

یہی جوہر ہے مرا اور یہی فن میرا

 

آج میں تم کو جلانے کے لیے آیا ہوں

تم نے اک روز اُجاڑا تھا نشیمن میرا

 

صورتِ ابر برستے رہیں بازو تیرے

آگ کی طرح دہکتا رہے گلشن میرا

 

تم جہاں جرمِ ضعیفی کی سزا پاتے ہو

اسی سیارے پہ موجود ہے بچپن میرا

٭٭٭

 

تراش لی ہے زمیں ماہ و تاب سے میں نے

زبان سیکھی ہے اُم الکتاب سے میں نے

 

بہارِ لالہ و نسرین دیکھنے کے لیے

قدم نکالا جہانِ خراب سے میں نے

 

نگار خانۂ ہستی عجیب مستی ہے

کہ ہاتھ کھینچ لیا ہے شراب سے میں نے

 

یہ بست و بندِ مسرت مجھے پسند آیا

چنا ہے پھول ردائے چناب سے میں نے

 

خدا گواہ کہ اک اور آب کی خاطر

بچا لیا ہے مکاں سیلِ آب سے میں نے

٭٭٭

 

 

آسمانِ نیلگوں کو دیکھتا ہے پر کشادہ

آدمِ خاکی کے دل میں شوق ہے حد سے زیادہ

 

باغ دہکایا ہوا ہے، ابر سا چھایا ہوا ہے

دو بدن یک جا ہوئے ہیں بر بنائے شامِ وعدہ

 

پھوار پڑتی ہے چمن پر، یاسمین و نسترن پر

ایک فوارے کے نیچے خواہشیں ہیں بے لبادہ

 

روشنی ہلکی گلابی، نیند میں چہرہ کتابی

کاغذی قندیل تھامے دیکھتا ہے شاہ زادہ

 

صبحِ آب و گِل کی جانب، شہرِ مستقبل کی جانب

توڑ کر زنجیرِ جادہ، چل دیا ہوں پاپیادہ

 

شہر کی آوارہ گردی اور شغلِ شعر گوئی

کیسے رہ سکتا ہے کوئی بے نیازِ ابر و بادہ

 

واسطہ ہے میرا ثروتؔ داستانوں سے برابر

ان خزانوں سے برابر کر رہا ہوں استفادہ

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

رقصِ سیارگاں کے ہم بھی ہیں

ساتھ اس کہکشاں کے ہم بھی ہیں

 

روئے شہزادگاں پر اک موسم

شہرِ جنت نشاں کے ہم بھی ہیں

 

اک طلسمِ بہار ہے دائم

باغباں گلستاں کے ہم بھی ہیں

 

رفتۂ رنگِ آسمانی ہیں

سحرِ آبِ رواں کے ہم بھی ہیں

 

گردشوں میں ہزار سیارے

قائل اس خاک داں کے ہم بھی ہیں

 

اور بھی لوگ جل رہے ہیں یہاں

ساتھ اس نوجواں کے ہم بھی ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

حکمِ آوارگی بجا لایا

راہرو تھا صدائے پا لایا

 

برگِ بے اختیار تھا میں بھی

اک سمندر مجھے بہا لایا

 

دامنِ دل میں اور کیا لاتا

آگ تھی، آگ ہی لگا لایا

 

جی بہلتا نہیں کسی صورت

سیرِ بازار بھی دکھا لایا

٭٭٭

 

 

 

 

 

اک کائنات ٹوٹ کے دوبارہ بن گئی

بعد از چراغ، تیرگی نظارہ بن گئی

 

فرشِ زمیں پہ بالش و بستر سے بے نیاز

میں آسمان اور وہ سیّارہ بن گئی

 

وہ کون تھی جو میرے اندھیرے کے سامنے

پتھر سے آگ، آگ سے فوارہ بن گئی

٭٭٭

 

 

 

 

شبِ سجود مری اور نہ اعتکاف مرا

بس ایک شمع کے چو گرد ہے طواف مرا

 

مرے چراغ کی پیکار آسمان سے ہے

زمین تجھ سے نہیں کوئی اختلاف مرا

 

اُتر رہی ہیں رخِ ماہ تاب سے پریاں

لرز رہا ہے اندھیرے میں کوہِ قاف مرا

٭٭٭

 

 

 

 

پرندے، چراغ اور پھول اور بادل، زمیں چل رہی ہے

سمندر مجھے بھی بہائے لیے چل، زمیں چل رہی ہے

 

نمودار و ناپید کی منزلوں سے گزرتے مناظر

اساطیر، آبادیاں اور جنگل، زمیں چل رہی ہے

 

صدا اور خاموشیوں کے تصرّف میں اک آبگینہ

اور اس آبگینے کے اندر مسلسل زمیں چل رہی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

میری دیواروں کے اندر عمر بھر موجود ہو

صوفیہ تم آگ ہو اور خاک پر موجود ہو

 

اس سے پہلے جو بھی ڈر تھا راکھ ہونا ہے اُسے

خوف کیسا، میری بانہوں میں اگر موجود ہو

 

میں نے اے وحشی پرندے نام رکّھا ہے ترا

کس لیے یہ سرگرانی جب شجر موجود ہو

 

اپنی دونوں چوٹیوں کو کھول دو اور ساتھ آؤ

کس لیے ٹھہرے رہیں ہم، جب سفر موجود ہو

٭٭٭

 

 

 

اسی زمین پر ایک ختن ہے جس میں اک آہو رہتا ہے

جس کے ہونٹ پہ تل ہے، ثروتؔ، آنکھوں میں جادو رہتا ہے

 

پھر وہ لڑکا ان آنکھوں کی گہرائی میں ڈوب گیا تھا

بیس برس کی حیرانی میں کب دل پر قابو رہتا ہے

 

اس کے ہجر میں مر سکتا ہوں، اس کو قتل بھی کر سکتا ہوں

میری ہر چاہت میں شامل نفرت کا پہلو رہتا ہے

 

باغ سے باہر ریگستان اور گرم ہواؤں کے لشکر ہیں

باغ کی دیواروں کے اندر موسمِ ابر و سبو رہتا ہے

 

وہ بھی دن تھے اس کی خاطر جمع کیے تھے پھول اور آنسو

اب تو ان ہاتھوں میں ثروتؔ کھلا ہوا چاقو رہتا ہے

٭٭٭

 

عورت، خوشبو اور نمازیں، اب ہے یہی معمول مرا

اس شہدیلے سیارے پر میں ہوں اور رسولؐ مرا

 

کوئی بھی رُت ہو، میں موجود ہوں ریگستان کے آخر پر

گرم ہواؤں کے جھکڑ میں کھل اٹھتا ہے ببول مرا

 

تم نے اک شاعر کو لڑکی، اتنی دیر اداس رکھا

لوٹا دو اس کے آئینے، واپس کر دو پھول مرا

 

کہاں کہاں کے باشندوں نے میرے گرد ہجوم کیا

پانی کیسی کشش رکھتا ہے دیکھو شوقِ فضول مرا

 

باغیچے کے ٹھنڈے فرش پہ ہم دونوں پیوست ہوئے

تیز ابلتی روشنیوں میں سایہ تھا معز ول مرا

٭٭٭

 

 

جب تک سورج سر رہے

باقی یہ منظر رہے

 

بادل بھیجے آسماں

دامن تیرا بھر رہے

 

پیروں نیچے چاندنی

سر اوپر چھپّر رہے

 

محنت اپنے کام میں

وارفتہ دن بھر رہے

 

ٹھنڈی میٹھی نیند کو

ہریالی بستر رہے

 

یہ چھوٹی سی جھونپڑی

سیاروں کا گھر رہے

 

دریاؤں کی دوستی

دائم صورت گر رہے

 

زرخیزی کا ذائقہ

مٹی کو ازبر رہے

 

نور ظہور بہار کا

پتّی پتّی پر رہے

٭٭٭

 

 

 

 

نہیں آتی ثروتؔ وہ پہچان میں

یہی اک کمی ہے پرستان میں

 

ہمارے لیے اس نے دو ماہتاب

چھپا کر رکھے ہیں گریبان میں

 

گناہوں کی قندیل رکھ لیجیے

اندھیرا بہت ہے بیابان میں

 

کوئی دامِ بلقیس ہے چار سو

بھٹکتا ہوں خوابِ سلیمان میں

 

یہ دن رات جشنِ بہاراں کے ہیں

ملو اس سے جا کر گلستان میں

 

محبت سے دبکی ہوئی شیرنی

ابھی سو رہی ہے نیستان میں

 

مگر آدمی اب بھی محصور ہے

اسی خوابِ انجیر و یک نان میں

٭٭٭

 

 

 

اس طاقچے پہ تیغ و علَم خوش نما نہیں

میدانِ کارزار سے رَم خوش نما نہیں

 

جھونکے گزر رہے ہیں جلاتے ہوئے مجھے

اُس کے بغیر باغِ ارم خوش نما نہیں

 

اک شیرنی کو سوئے ہوئے دیکھتا ہوں میں

اس سے زیادہ کوئی صنم خوش نما نہیں

 

ان گیسوؤں کی چھاؤں میں ٹھنڈک عجیب ہے

یہ سائبان دھوپ سے کم خوش نما نہیں

 

اے دخترِ فراعنہ، ثروتؔ سے آ کے مل

’’حد سے زیادہ جور و ستم خوش نما نہیں ‘‘

٭٭٭

 

میں حجلۂ شہناز پہ تاخیر سے پہنچا

یہ زخم مجھے اپنی ہی شمشیر سے پہنچا

 

کب خامشیِ یار سے پہنچا تھا کوئی رنج

جو شور مچاتی ہوئی تصویر سے پہنچا

 

یہ سلسلۂ عشق جو پہنچا ہے یہاں تک

عشاق کی لکھی ہوئی تحریر سے پہنچا

 

میں اپنی شکستوں پہ پریشاں تھا کہ اُس دم

پیغام کوئی بارگہِ میر سے پہنچا

 

ثروتؔ مری تنہائی کا نابینا کبوتر

اس بام تلک کون سی تدبیر سے پہنچا

٭٭٭

 

خوابوں میں وہ لوگ زندہ تر ہیں

آنکھیں نہیں، رفتگاں کے گھر ہیں

 

شبنم ہے نہ شاخ، نَے ستارہ

سب اپنی نگاہ کے بھنور ہیں

 

میں اُن سے ضرور جا ملوں گا

صبحیں مری منتظر اگر ہیں

 

مٹی کی اس انتظار گہ میں

آدم ہے، شجر ہیں، جانور ہیں

 

بچپن ہے بہشت کا کنارہ

ہم جس کی جھلک سے نغمہ گر ہیں

٭٭٭

 

بہار آسا ہوئیں شاخیں، نئے پتے نکل آئے

تھرکنے کے لیے مٹی پہ رقاصِ ازل آئے

 

عجب تقسیم ہے لیکن خدا کو زیب دیتی ہے

مرے حصے میں پانی، اس کے حصے میں کنول آئے

 

عجب انداز سے دیکھا کسی نے میرے تارے کو

مجھے تو یوں لگا جیسے کہ بال و پر نکل آئے

 

بہت سے رنج ہیں جو بے ارادہ کھینچتا ہوں میں

کسی پہلو تو چین آئے، کسی کروٹ تو کل آئے

 

سرِ شام و سحر میں منتظر ہوں اس بلاوے کا

نہ جانے کس طرف سے، کب وہ پیغامِ اجل آئے

٭٭٭

 

 

 

 

تندیِ آب و ہوا پر دھیان دینا چاہیے

دوستو، شورِ درا پر دھیان دینا چاہیے

 

سبزۂ خودرو کی بانہیں کس لیے بیتاب ہیں

اس وفورِ خوش نما پر دھیان دینا چاہیے

 

کام لینا چاہیے آدم کو غور و فکر سے

یعنی اس حیرت سرا پر دھیان دینا چاہیے

 

بام و در سے بے نیازانہ گزر اچھا نہیں

کچھ تو انداز و ادا پر دھیان دینا چاہیے

 

آسمانوں سے اُدھر کوئی اگر ہے تو اُسے

آدمی کی التجا پر دھیان دینا چاہیے

 

ہم اسی مٹی کی پیداوار ہیں ثروتؔ ہمیں

سر زمینِ مبتلا پر دھیان دینا چاہیے

٭٭٭

 

 

 

 

مری صفوں کو پریشان کیوں نہیں کرتا

غنیم جنگ کا اعلان کیوں نہیں کرتا

 

کھلی فضاؤں میں نشّہ عجیب نشّہ ہے

ہجوم قصدِ بیابان کیوں نہیں کرتا

 

خروش رکھتا ہے دریائے دل اگر لوگو

تو پھر تہیّۂ طوفان کیوں نہیں کرتا

 

کھلیں گے زیست کے اسرار ہائے سر بستہ

فرشتہ سیرِ پرستان کیوں نہیں کرتا

 

غزالِ تشنہ بھٹکتا ہے کس جہنّم میں

کنارِ آب سے پیمان کیوں نہیں کرتا

 

دلِ تباہ اگر ہے نجات کا طالب

تو وردِ سورۂ رحمٰن کیوں نہیں کرتا

 

یہ کوہسار، یہ گلشن، نجوم و شمس و قمر

ان آیتوں پہ کوئی دھیان کیوں نہیں کرتا

 

محمدؐ عربی کی مثال کو ثروتؔ

کتابِ زیست کا عنوان کیوں نہیں کرتا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اپنے ہونے پہ پیار آتا ہے

اور بے اختیار آتا ہے

 

اے غزالِ ختن تری جانب

کوئی دیوانہ وار آتا ہے

 

ایک طاؤس نے کہا مجھ سے

موسمِ صد بہار آتا ہے

 

دیدہ و دل میں کر رکھو محفوظ

یہ سماں ایک بار آتا ہے

 

دیکھیے آج رونقِ عکاظ

کوئی ناقہ سوار آتا ہے

 

میں کسی کا نہیں، اُسی کا ہوں

کب اُسے اعتبار آتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

وہ سرِ بام کیوں نہیں آتا

ڈھل گئی شام، کیوں نہیں آتا

 

حجرۂ ذات میں ہے کیوں رُو پوش

بر سرِ عام کیوں نہیں آتا

 

طائرِ سرخ سے کبھی پوچھوں

وہ تہہِ دام کیوں نہیں آتا

 

اب تو وہ شخص بھی میسر ہے

دل کو آرام کیوں نہیں آتا

 

کیا ہے اندھیر میکدے والو!

مجھ تلک جام کیوں نہیں آتا

 

میرا سکّہ کھرا ہے گر ثروتؔ

پھر کسی کام کیوں نہیں آتا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

حیران ہیں کیوں مدِ مقابل نہیں آیا

ہم راہ میں بیٹھے رہے، قاتل نہیں آیا

 

رنگینیِ باغات سے اس بار جو گزرا

کانوں میں مرے شورِ عنادل نہیں آیا

 

کیوں سو گیا عشاق کی تلوار کو رکھ کر

اس شہر میں تجھ سا کوئی بزدل نہیں آیا

 

ڈوبی ہوئی چیزوں پہ گزرتا رہا پانی

غرقاب ہوئے لوگ، پہ ساحل نہیں آیا

 

بے مہریِ موسم کا گلہ کیجیے کس سے

حصے میں مرے شوق کا حاصل نہیں آیا

 

کم بختیِ دل راہ سجھائے کوئی ثروتؔ

میری یہی مشکل ہے کہ مشکل نہیں آیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

انساں کی خوشی کا استعارہ

رکھا ہے زمین پر ستارا

 

الجھاؤ بہت ہے زندگی میں

کچھ ہوش سے کام لے خدارا

 

بہتے ہیں چراغ اور بادل

کیا خوب ہے زندگی کا دھارا

 

اس نے نہ کبھی پلٹ کے دیکھا

میں نے تو اُسے بہت پکارا

 

تھی شامِ سفر، پری کی خاطر

میں نے بھی شفق سے گُل اتارا

 

مٹی کی دھنک بتا رہی ہے

گزرا تھا ادھر سے ابر پارہ

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

دستِ دیوانگی میں پتھر ہیں

جیب و دامان خون سے تر ہیں

 

ادب آداب اُٹھ گئے شاید

سب کے سب آدمی کھلے سر ہیں

 

بیچ میں باغ ہے محبت کا

اور اطراف میں کھلے در ہیں

 

دیدہ و دل میں کیجیے محفوظ

یہ مقامات روح پرور ہیں

 

نہیں چلنا بھی ایک چلنا ہے

راستے آدمی کے اندر ہیں

 

میں پیمبر نہیں مگر مجھ کو

کاتبانِ وحی میسر ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

تیز چلنے لگی ہوا مجھ میں

کوئی پتے گرا رہا مجھ میں

 

اے مرے اندروں، بتا کچھ تو

کیا خداوند ہے چھپا مجھ میں

 

میں دھنک اوڑھ کر نکلتا ہوں

پھول ہے ایک خوش نما مجھ میں

 

میں عجب شہسوار ہوں لوگو!

نینوا مجھ میں، قرطبہ مجھ میں

 

دوستو اب نہیں رہا باقی

حوصلہ امتحان کا مجھ میں

 

یہ طلوع و غروب کے منظر

ابتدا مجھ میں، انتہا مجھ میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

عہدِ ستم تمام ہو، لوگوں کو سکھ ملے

ایسا کوئی نظام ہو، لوگوں کو سکھ ملے

 

عشاق نے چراغ جلائے ہیں اس لیے

انسانیت کا نام ہو، لوگوں کو سکھ ملے

 

الفت کا پھول رنگ بکھیرے ابد تلک

نفرت خیالِ خام ہو، لوگوں کو سکھ ملے

 

کب تک رہیں گے خوار کھلے آسماں تلے

دیوار و سقف و بام ہو، لوگوں کو سکھ ملے

 

تاراج کر کے رکھ دیا ساری زمین کو

اب اس کا اختتام ہو، لوگوں کو سکھ ملے

 

اس سے زیادہ اور نہیں چاہیے ہمیں

آدم کا احترام ہو، لوگوں کو سکھ ملے

٭٭٭

 

 

 

 

گلاب لے کے آئیں گے، سحاب لے کے آئیں گے

گئے ہوئے وہ نوجواں جواب لے کے آئیں گے

 

مفاہمت سے دور ہیں ہمارے انتظار کش

زمین پر ضرور انقلاب لے کے آئیں گے

 

وہ جس میں درج ہے تری قیامتوں کا تذکرہ

ترے حضور ہم وہی کتاب لے کے آئیں گے

٭٭٭

 

 

 

دھرتی نے دامن پھیلایا

ہوا چلی اور میں زخمایا

 

ست رنگے باغات سمیٹے

کون یہ میرے سامنے آیا

 

شاید یہ تہوار کا دن ہے

سنکھ بجے، پرچم لہرایا

 

ایک چراغ محبت والا

بلھے شاہ سے مجھ تک آیا

 

ایک الف درکار ہے ثروتؔ

تختی لکھ کر بھید یہ پایا

٭٭٭

 

انگور کی بیلوں تلے

اے یار، لگ جاؤ گلے

 

امروز سے آئندہ تک

دل کا چمن پھولے پھلے

 

آوارگی کی راہ میں

آئے ہیں کیا کیا مرحلے

 

دیکھو ہوائے تُند میں

امید کا دیوا جلے

 

ثروتؔ تری دہلیز تک

آیا ہے کوئی دن ڈھلے

٭٭٭

 

سرِ کوئے بتاں حیران کن ہے

محبت کی اذاں حیران کن ہے

 

ہواؤں سے گزرتے ہیں پرندے

یہ گلشن، باغباں، حیران کن ہے

 

سحردم بادباں کا چاک ہونا

سرِ آبِ رواں حیران کن ہے

 

فرشتوں نے کہا حیران ہو کر

بشر کا خاک داں حیران کن ہے

 

ادائے شعلگی کہتی ہے ثروتؔ

قبائے جسم و جاں حیران کن ہے

٭٭٭

 

 

گل و گیاہ سے میں استفادہ کیا کرتا

ترے بغیر چمن کا ارادہ کیا کرتا

 

ترے حضور گزرنا تھا دشت و دریا سے

ترے غیاب میں تسخیرِ جادہ کیا کرتا

 

دِشائیں ٹوٹ رہی تھیں شجر کی شاخوں میں

پرندہ اپنے پروں کو کشادہ کیا کرتا

 

سفر کی خاک ہی میرا لباس تھی ثروتؔ

اتار کر میں شکستہ لبادہ کیا کرتا

٭٭٭

 

 

 

 

حمد

 

 

پرستش کے پودے کو سینچا ہے میں نے

لہو سے، لہو سے گزرتی ہوئی آب جو سے

مری آبیاری سے روشن ہوئے ہیں

گلابی شگوفے، پرستش کی خوشبو

کو پایا ہے میں نے، نہایت کے

اجلے افق پر پرندے، پرستش کے

پودے کے اطراف ایسے اترے ہیں

جیسے فرشتے۔ ۔ .

٭٭٭

 

 

 

 

 

شگفت۔ ۔ ایک حمد

 

اک اک کر کے تارے شاخِ شجر پر کھل اٹھتے ہیں

جیسے سات فلک کے سیاروں پر دھوپ چمکتی ہے

دھوپ جو ہر دم پر تولے آغاز و انجام سے بے پروا گردش میں رہتی ہے

گردش جو خود اک سیارہ ہے کبھی نہ تھکنے والا

کبھی نہ تھکنے والے سیارے کو میرا نیک سلام

نیک سلام اسی کی جانب جو سیاروں کا مالک ہے

مالک ازل کے دن کا اور ابد کے تہہ خانے کا،

کھِل اٹھنے پر سارے پھول اورسارے منظر ایک ہی سورج کے پرتو سے روشن۔ ۔ .

٭٭٭

 

 

 

 

آدمی۔ ۔ ایک حمد

 

 

آدمی ایک حمد ہے، حمد کے اُس طرف ہے کیا

حمد کے اُس طرف ہے نور، جو ہے زمیں پہ موج زن

 

جو ہے زمیں پہ موج زن، وہ ہے فلک پہ چار سُو

اور یہاں مرے قدم اُس کے خیال میں سدا

 

روشنیوں کے بھید ہیں، آدمی ایک حمد ہے

حمد کا گھر ہے آدمی، آدمی نُور کا سِرا

٭٭٭

 

 

 

 

چراغ۔ ۔ ایک حمد

 

 

چراغ ایک حمد ہے، چراغ ایک گیت ہے

چراغ کا یہ گیت ہی ازل کا انتظار ہے

 

از کے انتظار سے ابد کی ڈور کا سِرا

بندھا ہوا ہے دیر سے، خدا کے حکمِ خاص پر

 

خدا کے حکمِ خاص پر چراغ ایک حمد ہے

٭٭٭

 

 

 

 

درخت۔ ۔  ایک حمد

 

 

درخت پانی کو چھو رہا ہے

سیاہ مٹی کے آئنے میں

 

اسی کا چہرہ بنا ہوا ہے

اسی کا چہرہ جو بے صدا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

خودکشی کا فرشتہ

(صادق ہدایت)

 

 

وہ بوفِ کو ر، بہت دور

آشیانے میں تلاش کرتا ہے

اس موت کو جو آنی ہے

عجب کہانی ہے

مگر سنوٹھہرو!

کہیں وہ موت ہمارے ہی درمیاں تو نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

خود کشی کا فرشتہ

(شکیب جلالی)

 

 

کالی ریل کی پٹری پر

شہزادے کی لاش پڑی

آنکھوں میں اشکوں کی جھڑی

جیسے بارش آوارہ ہو

سیّارہ ہو

جو خون میں دھُل کر نکلا ہو

٭٭٭

 

 

 

 

خود کشی کا فرشتہ + محبت کا فرشتہ

(سعید کے واسطے )

 

 

تم نے لوہے کے پُل سے دریا کو دیکھا:

ناراض، غصیلا چنگھاڑتا پانی

میں نے کشتی سے دریا کو دیکھا

اور چلّو بھر گیت اٹھا لیے

٭٭٭

 

 

 

 

ابدیت کا فرشتہ

 

 

ہری سلاخیں

ہری ہوائیں

ہرے احاطے

ہرے پرندے

ہری گھنٹیاں

ہرا فرشتہ

ہری موت اور ہری زندگی

٭٭٭

 

 

 

 

شکستہ پر فرشتہ

 

 

شکستہ پر فرشتہ اپنے پر کو ڈھونڈتا ہے، رات کالی ہے

کسی حبشی کی صورت طوفِ کعبہ میں مگن پیہم، ابابیلوں

سے پوچھو: کس جگہ ہے پر فرشتے کا، کسی آئینے پر یا

کنوئیں کے زرد پانی میں، کسی بچے کی آنکھوں میں، کوئی

دریا بہا کر لے گیا یا رات کا بادل ستارہ

دین و دانش کا، انڈیلے ارغوانی مے، پیے اور جھومتا

جائے، بہشتِ باغ میں فوارے کے آنسو نکل آئے

٭٭٭

 

 

 

 

اے کارونجھر

 

اے کارونجھر تو معبد ہے

میں پاندھی چل کر آتا ہوں

 

گیتوں سے ہلکا کوئی نہیں

گیتوں میں ڈھل کر آتا ہوں

 

اے کارونجھر، اے کارونجھر

تری روپا میں سو رنگ بہیں

 

ترے مور مویشی اور پکھّی

تری بھٹیانی کے سنگ رہیں

 

اے کارونجھر اے کارونجھر

ترا سینہ رازوں کا مسکن

 

ترے بازو چاہت کے بندھن

آنکھوں میں سانجھ سویر لیے

 

اور پھولوں بھری چنگیر لیے

میں آتا ہوں، میں آتا ہوں

 

اے کارونجھر، اے کارونجھر

٭٭٭

 

 

 

 

کارونجھر

(اظہر نیاز کے نام)

 

 

تھر کے ریگستان میں رنگوں کی بوچھار ہے

موروں کی جھنگار ہے

موروں کی جھنگار میں رقص کا بلاوا ہے

رقص کے بلاوے میں مورنی کی پکار ہے

میرے دل کی مٹی کو کارونجھر سے پیار ہے

٭٭٭

 

 

 

 

مور پنکھ

 

 

اے مور پنکھ

تو مُوقلم

تختی مجھے درکار ہے

چاروں طرف

رنگوں کا اک تہوار ہے

بوچھار ہے

بوچھار میں دو پھول ہیں

اک پھول جوڑے کے لیے

اک سبزپانی کے لیے

٭٭٭

 

 

چلنا

 

 

چلنا دھوپ میں چلنا

دھوپ میں ننگے پیر چلنا

تپتی ہوئی زمیں پر دھوپ میں ننگے پیر چلنا

بناکسی چھتری کے

بنا کسی یاد کے

جال کاندھے پر دھرے

موت کی سیدھ میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

گیت

 

 

اُن ہونٹوں پر

اِن ہونٹوں پر

یہ گیت کہاں سے آتے ہیں

یہ پھول جہاں سے آتے ہیں

بن پھلواری میرا من ہے

من درپن ہے

اس درپن میں

ٹھنڈا جھونکا

گیت سنائے

اُن ہونٹوں پر

اِن ہونٹوں پر

یہ گیت کہاں سے آتے ہیں

یہ پھول جہاں سے آتے ہیں

بادل بن اُڑ جانے والے

لوگ ہمارے

اپنے پیارے

اُن ہونٹوں پر

اِن ہونٹوں پر

یہ گیت کہاں سے آتے ہیں

یہ پھول جہاں سے آتے ہیں

تتلی کے رنگین پروں پر

دھوپ ہے کیسی

روپ ہے کیسا

انگنائی کا

تنہائی کا

اُن ہونٹوں پر

اِن ہونٹوں پر

یہ گیت کہاں سے آتے ہیں

یہ پھول جہاں سے آتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

نیند سے پہلے

 

 

گؤ دھول سمے تم یاد آئے

جب شام کا پہلا تارا

دُور آکاش پہ چمکا

اور مرا دل ایک دیے کی صورت جل اُٹھا

تم یاد آئے

 

مٹّی کے اک کوزے پر

پتوں کا گرنا

اور بچوں کا شور مچانا

گیلی مٹی پر

اک پھول بنانا

اور لوٹ آنا

اپنی چوکھٹ پر

اور ماں کی آنکھوں میں

شام کے تارے کو پانا

اورسوجانا

٭٭٭

 

 

 

 

کھیت

 

 

ہوا میں لہلہاتے، سانس لیتے بادلوں، آبادیوں

کو دیکھتے، سنتے، سناتے، مینڈھ پر چلتے ہوئے بچے کی

آنکھیں طائروں کو دیکھتی ہیں، سوچتی ہیں، ابتدا کا

بیج کیا تھا، کون سی مٹی میں وہ بویا گیا، کھویا گیا تھا

پھول، پتے اور شاخیں اور جڑوں کی انگلیاں مٹی کے

گہراؤ کو چھوتی

سات رنگی چھتریوں کو ہاتھ میں تھامے گزرتا ہے جلوسِ جاودانی

اور پانی پتھروں کو کاٹتا، تحریر کرتا آفرینش کی کہانی

٭٭٭

 

 

 

 

 

جھیل من چھر

 

 

پکشی آئے دور سے، تن من نیل و نیل

پھر بھی ایک سبیل، آب کٹورا جھیل کی

 

آب کٹورا جھیل پر، صدیوں سے آباد

بستی دور افتاد، ازل ابد کے سامنے

 

ماہی گیر کی تان، سورج کی لالان

محنت کش انسان، رزق تلاشیں آب میں

 

ہنسوں کی پہچان، اجلے برف سمان

جیسے چپ انسان، حیرانی میں غرق ہو

 

اے میری من چھر، تیرے کشتی گھر

پانی کے اوپر، شاد آباد رہیں

 

پکشی لایا چونچ میں، اک برگِ زیتون

ثروتؔ نیک شگون، اس جلتے شمشان میں

٭٭٭

 

 

 

 

گھوڑے کا قصیدہ

 

 

گھوڑے تیری آنکھوں میں

دو جلتے انگارے ہیں

رنگوں کے فوارے ہیں

فوارے کے چھینٹوں سے

کل عالم گلزاری ہے

گاڑی تجھ پر بھاری ہے

جنگل تیرے سپنے میں

لذت ایک تڑپنے میں

تیرے نعل کی چنگاری

مجھ کو پھول سے ہے پیاری

گھوڑے تیری زنجیریں

مٹی کا سینہ چیریں

مٹی اندر پانی ہے

سب کی ایک کہانی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

پتھر کی دیوار میں ایک کھڑکی

(انوپا کے لیے )

 

 

اس نے پتھر کی دیوار میں ایک کھڑکی بنائی

اس میں پانی کا ایک کوزہ رکھا

اور باجرے کے دانے بکھیر دیے

اُس نے کھڑکی بنائی پرندوں کے لیے

اور دیکھنے کے لیے کہ باہر کا جنگل کیسا ہے

کیا آسمان پہلے کی طرح گنجان ہے

اس نے کھڑکی بنائی

کہ ہوائیں اپنے ساتھ گیت لا سکیں

اس نے کھڑکی بنائی

اور اپنے زخمی ہاتھوں کو دیکھا

اس نے کھڑکی بنائی

کہ کوئی موسم آئے اور کہے :

تم اتنی دکھی کیوں ہو

تمھارے ہاتھ دھو دوں

تمھارے بال سنواروں

اس نے کھڑکی بنائی

کہ اس کی دعا چڑیوں کے ساتھ

پرواز کر سکے اور کوزے کے پانی پر لوٹ سکے

اس نے کھڑکی بنائی

کہ جو اب آنے تک وہ زندہ رہے

سوکھڑکی کھلی رہے گی

اور ہاتھ خون آلود رہیں گے۔ ۔ .

٭٭٭

 

 

 

 

 

بھگون بیلی

 

 

ہری ہری بیلوں میں لال لال پھول ہیں

لال لال پھولوں میں پھولوں کے بیج ہیں

 

پھولوں کے بیج بھی اندر سے باغ ہیں

گھنی گھنی راتوں میں مٹی کے چراغ ہیں

 

مٹی کے چراغوں کو پوَن کیا بجھائے گی

روشنی کی برکھا میں نیند ڈوب جائے گی

 

سپنوں کے پھولوں میں بھگون بیلی ہے

اتنے بڑے باغ میں کب سے اکیلی ہے

 

پت جھڑ کی اوٹ سے خواب یہ دکھایا ہے

بیج بونے والے نے آسماں بنایا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

آنکھیں

 

 

جب میں نے پہلی بار آنکھ کھولی

تو میں نے دو آنکھوں کو دیکھتے ہوئے پایا

اذان کی آواز سے پہلے پیار کا اک میٹھا بول سنا

یہ میری ماں کی آواز تھی

پھر مجھے گہری نیند آ گئی

جب میری آنکھ کھلی تو سامنے

دو خوب صورت آنکھیں تھیں

سمندر کی طرح گہری

اورستاروں کی طرح بہت قریب

مجھے ان آنکھوں میں اپنا چہرہ دکھائی دیا

پھر یہ آنکھیں مجھ سے اوجھل ہو گئیں

میں روٹی کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا

اور آئنوں، جھیلوں اور دریاؤں میں

ان آنکھوں کو ڈھونڈتا رہا جو مجھ سے کھو گئی تھیں

٭٭٭

 

 

 

 

خیاباں خیاباں ارم

(بہاریہ)

 

 

گلِ محمدّی:

کیسے تمہید گلِ تر لکھوں !

سارے عالم کو جزیرہ ٹھہراؤں

ایک انساں کو سمندر لکھوں

 

گلِ داؤدی:

زبور کی ان لکھی عبارت

سپید مٹی کی اک عمارت

سفر گہہِ خاک کی زیارت

 

گلِ آب:

دشتِ ناپیدا کنار

دُور بگلوں کی قطار

اک پیمبر سوگ وار

 

گلِ عباس:

ایک نارنجی ہنسی

ایک زخمِ مندمل

آشنائے آب و گِل

 

گلِ دوپہر:

میرا سکوت اور کلام

اُس گلِ دوپہر کے نام

جو مرے خواب میں کھلا

اور مجھے نہیں ملا

 

گلِ کاغذی:

قیدی کسی گل دان کے

پتھر کسی میدان کے

لکھے ہوئے انسان کے

 

گلِ مرگ:

چہرہ کسی چنگیز کا

ایک وار تیغِ تیز کا

٭٭٭

 

 

 

 

 

شاعری کا پرندہ

 

 

باغ کے اک گوشۂ تنہائی میں میری طرح

آب و خاک و باد کی یک جائی میں میری طرح

منہمک ہے قافیہ پیمائی میں میری طرح

٭٭٭

 

 

 

ابھی تو میسر مجھے بال و پر ہیں

 

ابھی تو میسر مجھے بال و پر ہیں

کھلے جا بجا باد و باراں کے در ہیں

 

پروں کی سکت آزمانی ہے مجھ کو

محبت کے اک زمزمے کے علاوہ

 

پس انداز کچھ بھی نہیں کر سکا ہوں

تجھے سونپنے کے لیے اے پرندے !

 

لہو کی روانی کا قصّہ ہے باقی

ابھی عمر کا ایک حصّہ ہے باقی

٭٭٭

 

 

زرینہ بلوچ کے روبرو

 

 

آواز کا پرکاش تم

آکاش تم

اے کاش تم

اِک پھول میں زندہ رہو

اِک پھول میں زندہ رہو

٭٭٭

 

 

 

 

شاعری کی طرف

 

 

شاعری کی طرف کھلتے ہیں مرے دروازے

اور دروازوں کے اُس پار دمکتی دنیا

کھینچتی ہے مراد امان، چلے بھی آؤ

تنگنائے در و دیوار سے باہر جا کر

میں بھی اطراف و جوانب کی خبر لاؤں گا

٭٭٭

 

 

 

 

اوسارو

 

 

بزمِ جہاں میں تجھ ایسا دیوانہ کوئی کوئی

محفل سے یوں اُٹھ جانے پر تیری سندھڑی روئی

دلوں میں تیری یاد سلامت حیدر بخش جتوئی

٭٭٭

 

 

 

 

تاراس بلبا کے خوابوں میں

 

 

تاراس بلبا کے خوابوں میں وحشی درندے کے منھ زور جھکّڑ

بکھرتے ہوئے پھول پتّے، گراں خواب پنجر

حکایت زدہ پانیوں پر اُترتے پرندے، پرانے نئے

آسمانی لبادے، شرابور قریے، گزرتے ہوئے چاند تارے

شرارے فراموش جگہوں سے اٹھتے، سنبھلتے، زد و کوب کی

داستانیں، اڑانیں نمودار ناپید کی منزلوں پر

٭٭٭

 

 

 

 

پالنا

 

 

خوشبوؤں کا پالنا

دیکھنا بھالنا

ننھے کو اٹھاؤ مت

دور کہیں جاؤ مت

خوشبوؤں کا پالنا

 

ابو جان آئیں گے

پھول مسکرائیں گے

کاپیاں اٹھاؤ مت

خوشبوؤں کا پالنا

امی کتنی پیاری ہیں

بچو، راج دلاری ہیں

جھولنے سے جاؤ مت

خوشبوؤں کا پالنا

٭٭٭

 

 

 

 

وہ وہاں کھڑی ہے

 

 

وہ وہاں کھڑی ہے

اپنے پیر مضبوطی سے جمائے

ایک اونچے پتھر پر

جسے صرف میں دیکھ سکتا ہوں

ایک بچے کی طرح دم سادھے۔ ۔ .لگاتار

وہ وہاں کیسے پہنچی

کہیں سے کسی پتھر کا کنارا نہیں جھڑا

گھاس اور گیلی زمین پر اس کی آمد کا کوئی نشان نہیں

وہ کسی اورسیارے سے اُتری ہو گی

ٹھیک اس پتھر پر آہستگی اور  وقار کے ساتھ

جیسے ایک اڑتا ہوا پر پانی پر گرتا ہے

بے آواز۔ ۔ .پُرسکون

وہ وہاں سے جست کرے گی

ایک دن وہ وہاں سے جست کرے گی

کسی شکار پر۔ ۔

کسی بنفشیِ ستارے پر جو اس نے سوچ رکھا ہے

کسی دھڑکتے ہوئے دل پر جو اس کے لیے بنایا گیا ہے

ایک ابدی شور یا سناٹا

یا اُس کے بیچ کوئی اور سمندر

اور ایک تیرتی ہوئی شیرنی۔ ۔

٭٭٭

 

 

 

 

وصال کی نظم

 

 

دوجسم

پیوست اک دوسرے میں

اندھیرے کا بستر

اندھیرے کا سیال بستر

چکا چوند

اور اک آئینہ

آئینے میں سمندر

سمندر میں کشتی

کہیں دور

اک واچ ٹاور کی

بنتی بگڑتی ہوئی

روشنیوں کی لُک چھُپ

اندھیرا

اندھیرے میں پیوست

دوجسم

اک دوسرے میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

سُدھ بُدھ

 

 

بھکشا پاتر لیے کھڑا ہے

کوس کڑا ہے

گیروا چولا چونک پڑا ہے

بودھی پیڑ کے نیچے ثروتؔ

گیان دھیان کا چوبارہ ہے

جل دھارا ہے

سروم دکھم دکھم کہتاسیّارہ ہے

٭٭٭

 

 

 

 

نیند سے باہر

 

 

جاگ اٹھتا ہوں کسی آواز پر

تکیے کے نیچے

پھول کچھ رکھے ہوئے ہیں

نیند سے باہر نکل کر

دھوپ نے دروازہ کھولا

جل پری کی آنکھ سے

آنسونہیں، موتی گرے تھے

دھوپ کے پیراک نے غوطہ لگایا

اورآنسو کھینچ لایا

اینٹ گارے سے بنی پیلی عمارت

کھڑکیوں سے گر رہے ہیں کاغذ رو مال جیسے

یا فرشتے سرمئی مٹی پہ اپنے پاؤں دھرتے

سانس روکے دیکھتے ہیں

آدمی کو رقص کرتے

٭٭٭

 

 

 

بیج میں سوئے ہوئے سُن!

 

 

سات رنگوں کا بلاوا، سانس لیتا ہے ہوا میں

طائروں کا رنگ دیکھو، گیت کا آہنگ دیکھو

 

بانسری کے دائروں میں دل دھڑکتا ہے کسی کا

جو گیوں کے جھونپڑے میں ایک مٹی کا پیالہ

 

دیر سے رکھا ہوا ہے اور سندھو کے کنارے

منھ اندھیرے، جاگتے جیتے مچھیرے، جال اپنا

 

پھینکتے ہیں پانیوں پر، گیت بنتے ہیں ازل کا

٭٭٭

 

 

 

سندھڑی

 

 

سندھڑی تیرے باغ پر شاہ لطیف کا ہاتھ

شاہ لطیف کا ہاتھ، جیسے غیب کی بات

 

جیسے غیب کی بات لائے ایک چراغ

لائے ایک چراغ، اپنا ایک فلک

 

اپنا ایک فلک، رنگوں کا دربار

رنگوں کا دربار، ایک طلسم عجیب

 

ایک طلسم عجیب، جس میں دھوپ نہ چھاؤں

جس میں دھوپ نہ چھاؤں، وہ کیسا میدان

 

وہ کیسا میدان، جس میں ایک سوار

جس میں ایک سوار لایا اپنے ہاتھ میں

 

لایا اپنے ہاتھ میں، دو دھاری تلوار

دو دھاری تلوار کیسا رقص کرے

 

کیسا رقص کرے حیدر کی شمشیر

حیدر کی شمشیر، خیبر کی آواز

 

خیبر کی آواز، سورج کی پہچان

سورج کی پہچان، آنکھ کے اندر تل

 

آنکھ کے اندر تل، جس میں اک آکاش

جس میں اک آکاش، کروٹ لیتا دیر سے

 

کروٹ لیتا دیر سے، اژدر اک منھ زور

اژدر اک منھ زور، کس کے ہاتھ سے دور

 

کس کے ہاتھ سے دور سیبوں کی تمثال

سیبوں کی تمثال، ایک درخت کا بھید

 

ایک درخت کا بھید، مٹی کے اسرار

مٹی کے اسرار جانے اک دہقان

 

جانے اک دہقان، بیج میں کتنے کھیت

بیج میں کتنے کھیت، شاہ لطیف کہے

 

شاہ لطیف کہے، بیج میں منظر چار

بیج میں منظر چار اور اندھیرا ایک

 

اور اندھیرا ایک سورج کی تصویر

سورج کی تصویر میری آنکھ کے پاس

 

میری آنکھ کے پاس، ایک دھڑکتا پھول

ایک دھڑکتا پھول میرے دل کا ساز

 

میرے دل کا ساز، سندھڑی کا ہم راز

سندھڑی کا ہم راز، سچل کا احساس

 

سچل کا احساس، اجلے پھول کی باس

اجلے پھول کی باس، ٹھنڈے باغ کا گیت

 

ٹھنڈے باغ کا گیت، پاکستان کی آس

پاکستان کی آس پرچم ایک ہرا

 

پرچم ایک ہرا، سات فلک کے بیچ

سات فلک کے بیچ، سیہون کا گنبد

 

سیہون کا گنبد، جس میں ایک اذان

جس میں ایک اذان، یثرب کا آغاز

 

یثرب کا آغاز، اسماعیل کا حرف

اسماعیل کا حرف، ابّ و جد کا شہر

 

ابّ و جد کا شہر، الف الحمد خیال

الف الحمد خیال، اشیا کا پاتال

 

اشیا کا پاتال، جیسے غیب کی بات

جیسے غیب کی بات، شاہ لطیف کا باغ

 

شاہ لطیف کا باغ، مہکے ماہ و سال

مہکے ماہ و سال، میرا ایک ایاغ

 

میرا ایک ایاغ، جس میں مئے قدیم

جس میں مئے قدیم، اس رب کی تعظیم

٭٭٭

 

 

 

 

کبوتر

 

چار کبوتر دور کے آئے میرے پاس

آئے میرے پاس چپ چاپ اور اداس

 

چپ چپ اور اداس دیکھیں چاروں اور

دیکھیں چاروں اور بارش کو منھ زور

 

بارش کو منھ زور دیکھا ہم نے آج

دیکھا ہم نے آج گرج چمک کا تاج

 

گرج چمک کا تاج کس کے ہاتھ لگا

کس کے ہاتھ لگا سورج کا پہیا

 

سورج کا پہیا چاند سے بات کرے

چاند سے بات کرے، اک قندیل دھرے

 

اک قندیل دھرے گزرا ایک رسولؐ

گزرا ایک رسولؐ دیواروں کی اوٹ

 

دیواروں کی اوٹ ایک پرانی چوٹ

ایک پرانی چوٹ جس کا گیت قدیم

 

جس کا گیت قدیم وہ ہے ربِ رحیم

٭٭٭

 

 

دیوی کے حضور

 

پُشپا دیوی!

آج کی شام مجھے مہکا دے

ساتوں رنگوں میں نہلا دے

ست رنگا بادل برسادے

میرے مٹی کے برتن میں

رس ٹپکا دے !

پیاس بجھا دے !

پُشپا دیوی!

پیاس بجھا دے

مجھ کو بھی اک پھول بنا دے

اور کہیں بالوں میں سجادے

٭٭٭

 

 

 

 

ہنس اور جھیل

 

 

ہنس بتائے کیا، جو کچھ اندر جھیل میں

جو کچھ اندر جیلی میں، اوپر لائے کیا

 

اوپر لائے کیا، اندر کا آکاش

اندر کا آکاش، گونجے آٹھ پہر

 

گونجے آٹھ پہر، اس کا نیک قدم

اس کا نیک قدم، مٹی کے مابین

 

مٹی کے مابین، گندم اور جوار

گندم اور جوار، کھیتوں کا امکان

 

کھیتوں کا امکان، جیسے بیج میں پھول

جیسے بیج میں پھول، جیسے جسم میں جان

 

جیسے جسم میں جان، پر تولے ہر آن

پر تولے ہر آن، ایک پرند مہان

 

ایک پرند مہان، بارش سا منھ زور

بارش سا منھ زور، نکلا ایک سوار

 

نکلا ایک سوار، اندر کی محراب سے

اندر کی محراب سے، سورج کا سندیس

 

سورج کا سندیس، جھیل کا پہلا عکس

جھیل کا پہلا عکس، تہہ کا ایک چراغ

 

تہہ کا ایک چراغ، جاگے اندر جھیل میں

جاگے اندر جھیل میں، رنگوں کا پاتال

 

رنگوں کا پاتال، اوپر لائے کیا

اوپر لائے کیا، جو کچھ اندر جھیل میں

 

جو کچھ اندر جھیل میں، ہنس بتائے کیا

٭٭٭

 

 

 

ہوا

 

ہوا کی باتیں

میری سمجھ میں آتی ہیں

درختوں کا سکوت مجھ سے کلام کرتا ہے

بارش میرے ساتھ ساتھ چلتی ہے

اس کے گھر تک

ایک سڑک ہے

سڑک کے دو رویہ

پام کے دو پودے ہیں

ایک ناریل کا درخت

اس کے گھر پر جھکا ہوا ہے

ہوا کی باتیں، میری سمجھ میں آتی ہیں

٭٭٭

 

بیت

 

 

اٹھ باروچہ! نیند سے، دیکھ جبل کی شان

اوپر سے تو سنگلاخ، اندر سے انسان

 

اٹھ باروچہ! نیند سے، گرد زمین کی جھاڑ

نیل و نیل پہاڑ، راہ کسی کی دیکھتے

 

اٹھ باروچہ! نیند سے، ست رنگی برسات

ہات میں لے کر ہات، جھومر ناچے زندگی

٭٭٭

 

 

 

 

بیت

 

 

مٹی ہے رنگین، پانی ہے شفاف

باغوں کے اطراف، جھل مل کرتی بستیاں

 

اپنا پیار اٹوٹ، باقی سب کچھ جھوٹ

چشمہ نکلا پھوٹ، پتھر کی دیوار سے

 

تیرے بدیسی پھول، مجھ کو نہیں قبول

کیکر اور ببول، صحراؤں کے رسول

٭٭٭

 

 

 

 

بیت

 

 

الف احد اکرام، سب سے پہلا نام

جس نے گام بہ گام، پھول بکھیرے دور تک

 

کیچ ہو یا بھنبھور، پھوٹی پریت کی بھور

کوئی اور نہ چھور، جو ڈوبا سو پا گیا

 

’’سونے والے جاگ، سن لہروں کا راگ

سلطانی سہاگ، آنکھیں موندے نہ ملے ‘‘

 

پڑھ کر شاہ کا بیت، دیکھوں چاروں اور

جل چڑیوں کا شور، ازل ابد کے سامنے

 

اپنا ملک ملیر، چھوڑوں کیسے ویر

گل برسیں یا تیر، میرا ایک ہی راستا

 

ڈاچی کی رفتار، چھیڑے دل کے تار

اوپرسے وسکار، گیلا کر گئی ریت کو

 

اوپر ماہ نجوم، دیکھ دیکھ مت جھوم

اپنی ماٹی چوم، اپنے پھول شمار کر

٭٭٭

 

 

 

 

بیت

 

 

بادل چھوتی انگلیاں، پیر جمے پاتال پر

مجھ کو میرے حال پر، چھوڑ بھی دے اے سانولی!

 

کاک بلاوا آ گیا، گہرا بادل چھا گیا

رنگوں میں نہلا گیا، مجھ کو مرے استھان پر

 

کینجھر تا کشمور، بندھی پریت کی ڈور

پھوٹ رہی ہے بھور، باج رہی ہیں گھنٹیاں

٭٭٭

 

 

 

بیت

 

کارونجھر کی کور سے، پھوٹ رہی ہے بھور

پانی پر آ پہنچے ہیں، آدم، پکشی، ڈھور

شور قدیمی شور، دشت جبل میں گونجتا

 

سدا جلیں او سندھڑی، تیرے چار چراغ

پھولے رنگ بسنت کا، مہکیں تیرے باغ

میرے دل کا داغ، روشن رکھے مامتا

 

سندھڑی تری سگندھ پر جھوم رہا مالی

سدا رہے یہ کامنا، سدا یہ ہریالی

رنگ بھری ڈالی، جھک آئی دیوار پر

 

آئندہ کی آس رکھ، اے گھائل انسان

مہکیں گے برآمدے، آئیں گے مہمان

بدل رہا ہر آن، موسم اپنے آپ کو

 

ہوا چلے گی اور ہی، بدلیں گے دن رات

شاخ شاخ پر دیکھنا، آئیں گے پھل پات

تیرے خالی ہات، بھر جائیں گے باغباں

 

سورج کب کا چھپ گیا، باٹ باٹ اندھیاؤ

مت جاؤ بیراگیو، پل دو پل رہ جاؤ

تاپو آگ الاؤ، جو میں نے روشن کیا

 

جگ مگ جگ مگ انکھڑیاں چہرہ رنگ رتول

خوش بوؤں والی گھڑی ہے یہ ان مول

بند قبا کے کھول، آئی رات سہاگ کی

٭٭٭

 

 

وائی

 

 

پریت نبھاؤ تب میں جانوں

سندھوقول و قسم لیتا ہے

اور کوئی دکھیارا شاعر

چھاؤں کے نیچے دم لیتا ہے

چھوڑ کے دنیا بھر کی چیزیں

کاغذ اور قلم لیتا ہے

گُن گاتا ہے اس مٹی کے

جس مٹی سے نم لیتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

وائی

 

 

.دیکھ رہا کیا جنوب شمال

اپنا دیوا آپ ہی بال

 

کیا کہویں اندر کا حال

ہاتھوں میں بجتی کھڑتال

 

’’جس تن لگیا عشق کمال

ناچے بے سُر تے بے تال‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

وائی

 

 

دور قصور سے مجھ تک آتی

بلّھے شاہ کی روشن باتی

 

آب کٹورا بھرا رکھا ہے

تھوڑی سی روٹی مل جاتی

 

ثروت ایک ندی میں آ کر

گرتے ہیں نالے برساتی

٭٭٭

 

 

 

 

وائی

 

 

تیر کمان میں جوڑ نہ پیارے

لالن لال لطیف پکارے

 

سارے پرندے ہنس نہیں ہیں

پھول نہیں ہیں آدم سارے

لالن لال لطیف پکارے

 

سندھ ندی میں چل پڑی کشتی

اوجھل ہو گئے گھاٹ ہمارے

لالن لال لطیف پکارے

 

تھرمٹی پیاسی کی پیاسی

کارُونجھر کرتا ہے اشارے

لالن لال لطیف پکارے

٭٭٭

 

 

 

 

 

وائی

 

 

نہ ول سائیں تھیوپرے

بادل مجھ میں شور کرے

نہ ول سائیں تھیوپرے

 

پیپل پتے پرے پرے

نہ ول سائیں تھیوپرے

کیسے کیسے رنگ بھرے

نہ ول سائیں تھیوپرے

 

 

کاندھے پر مہتاب دھرے

نہ ول سائیں تھیوپرے

 

ثروتؔ آکھے بول کھرے

نہ ول سائیں تھیوپرے

٭٭٭

 

 

 

 

 

وائی

 

 

سب ساتھی لوٹ کے آئیں گے

تب گائیں گے

 

جب بادل جل برسائیں گے

تب گائیں گے

 

باغیچے رنگ جمائیں گے

تب گائیں گے

 

جل پنچھی شور مچائیں گے

تب گائیں گے

 

سب سُنجے تھل میں گائیں گے

تب گائیں گے

٭٭٭

 

 

 

وائی

 

رنج ہے سب کا اپنا اپنا

میری مٹھّی میں جل سپنا

بیچ سمندر رہ کر میں نے

موجوں سے سیکھا ہے تڑپنا

میری مٹھّی میں جل سپنا

ملاحوں کا کام ہی کیا ہے

ساگر نام کی مالا جپنا

میری مٹّھی میں جل سپنا

دیکھو کونپل پھوٹ رہی ہے

جیسے ہردے بیچ کلپنا

میری مٹھّی میں جل سپنا

٭٭٭

 

 

وائی

 

پانی کے اوپر

جیسے چمکے ماہ

مجھ میں تیری چاہ

 

میلوں پھیلے کھیت

سرسوں اور کپاہ

مجھ میں تیری چاہ

 

پتا ٹوٹ شاخ سے

کس نے سنی کراہ

مجھ میں تیری چاہ

 

میری آنکھوں میں

تیری نیم نگاہ

مجھ میں تیری چاہ

٭٭٭

 

 

 

وائی

 

دیکھا جھل مل آسماں

اٹھ کر آدھی رات کو

 

کہہ دی دل کی داستاں

اٹھ کر آدھی رات کو

 

گیت سنائے سارباں

اٹھ کر آدھی رات کو

 

چلتا جائے کارواں

اٹھ کر آدھی رات کو

٭٭٭

 

 

 

وائی

 

 

جھلملاتا ہے ستارا

پانیوں پر

اپنی کشتی کو اتارا

 

پانیوں پر

منھ اندھیرے جال ڈارا

 

پانیوں پر

دھوپ نکلے گی دوبارہ

 

پانیوں پر

ہم مچھیرے، گھر ہمارا

پانیوں پر

٭٭٭

 

 

 

وائی

 

لالن لال لطیف کہے

کچھ تو کارِ ثواب کرو

لالن لال لطیف کہے

 

ماٹی لال گلاب کرو

لالن لال لطیف کہے

 

قطرے کوسیلاب کرو

لالن لال لطیف کہے

 

لکھ لکھ درد کتاب کرو

لالن لال لطیف کہے

٭٭٭

 

وائی

 

 

پون جھکولے بن پھلواڑی

او آرائیں !

جیون کانڈیروں کی جھاڑی

او آرائیں !

تو اندر سے تھری نہ لاڑی

او آرائیں !

بیچ باٹ میں مار نہ تاڑی

او آرائیں !

اپنی منزل روپاماڑی

او آرائیں !

 

(آرائیں :پھول بیچنے والا)

٭٭٭

کافی

 

ویلے کا کوئی نام نہیں ہے

چیت ہویابیساکھ

آکھو آکھو آکھ

ماٹی کا کوئی بدل نہ سائیں

سیارے سولاکھ

آکھو آکھو آکھ

میں تو مست الست ہوا ہوں

ندی کا پانی چاکھ

آکھو آکھو آکھ

ساری رات جلا میں ثروتؔ

پھر بھی ہوا نہ راکھ

آکھو آکھو آکھ

٭٭٭

 

 

کافی

 

 

مجھ میں آنکھیں کھول

ہوسندھڑی

مجھ میں آنکھیں کھول

 

یہ نیلاہٹ کھلے فلک کی

یہ کوّوں کے غول

مجھ میں آنکھیں کھول

 

پتن پتن چہکار جگائیں

ملاحوں کے بول!

مجھ میں آنکھیں کھول

 

تہہ کی ساری کتھاسنائے

کنویں پہ رکھا ڈول

مجھ میں آنکھیں کھول

 

دشت، جبل میں گونج رہا ہے

ایک قدیمی ڈھول

مجھ میں آنکھیں کھول

ہو سندھڑی، مجھ میں آنکھیں کھول

٭٭٭

 

 

 

 

کافی

 

 

پہلے کو کدی کویل گزری

پھر گزری برسات

میں تے خالی ہاتھ

 

دوجا شو کداسپ لہرایا

بن بیلے کے ساتھ

میں تے خالی ہاتھ

 

کِن مِن کِن مِن کرتی بوندیں

ہوا سے گرتے پات

میں تے خالی ہاتھ

 

چلتی، جھاگ اڑاتی لہریں

رُکے ہوئے دیہات

میں تے خالی ہاتھ

٭٭٭

 

 

 

 

کافی

 

یہ گیلے پتے ساون سادے

مجھے نچ کر یار مناون دے

یہ بدلی مجھ تک آون دے

مجھے نچ کر یارمناون دے

ذرا اپنی آگ تپاون دے

مجھے نچ کر یار مناون دے

یہ الجھاوے سلجھاون دے

مجھے نچ کر  یار مناون دے

سب قصے آون جاون دے

مجھے نچ کر  یار مناون دے

٭٭٭

 

کافی

 

سچا اک کرتار

سہیلی سچا اک کرتار

کیاری کیاری سجاہوا ہے

رنگوں کا دربار

سہیلی سچا اک کرتار

الجھے دھاگے سلجھاتا ہے

اپنا پالن ہار

سہیلی سچا اک کرتار

پاک پتن گلزاراں ماٹی

دیوے بلدے چار

سہیلی سچا اک کرتار

٭٭٭

 

 

 

کافی

 

 

کچھ نئیں میرے پلّے

میں نے چناب کاپانی چکھیا

نیلی چھاں دے تھلّے

کچھ نئیں میرے پلّے

اک اک کر کے ٹُردے جاندے

لوکی کلّم کلے

کچھ نئیں میرے پلّے

چارچو فیرے کڑی حیاتی

سنجے گلی، محلے

کچھ نئیں میرے پلّے

یاگھنٹی پیتل کی ثروتؔ

یابھیڑوں کے گلّے

کچھ نئیں میرے پلّے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کافی

 

 

الف احد کنارے میں نے

کُٹیا ایک بنا لی

میں اندر سے خالی

دو جانبی مبشّر سچا

جس کی کملی کالی

میں اندر سے خالی

 

دور قصور کی

چمکے جالی

میں اندر سے خالی

 

الغوزے کی دھن پر ناچے

بالی، بالی، بالی

میں اندر سے خالی

 

کنک، جوار، مکئی کے دانے

تھالی، تھالی، تھالی

میں اندر سے خالی

٭٭٭

ماخذ:

http://adbiduniya.com

تدوین اور  ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید