FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

عراق اشک بار ہیں ہم

 

 

 

 

سلمیٰ اعوان

 

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

 

 

 

یہ درد جگر عراقی شُعرا کا

 

یہ عراق ہے

جیتا رہے وہ جس نے کہا تھا

میں اس تک جانے والے ہر راستے سے آگاہ ہوں

سلامت رہے وہ جس کے ہونٹوں نے یہ چار الفاظ ادا کیے تھے

عراق، عراق، عراق کے سوا کچھ نہیں

سعدی یوسف

 

دھرتی کے پیار میں گرفتار لوگو

میں اپنے دروازے پر آئے وحشیوں سے خائف نہیں

میں تو ڈرتا ہوں اندرونی دشمن سے

آمریت، مطلق العنانی اور سکھا شاہی سے

مظفر النواب

 

جنگ سخت محنت کرتی ہے جنگ کتنی ذی شان اور عظیم ہے

یہ یتیموں کیلئے نئے گھر بناتی ہے کفن سینے اور قبریں کھودنے والوں کیلئے

خوشیاں لاتی ہے

ماؤں کی آنکھوں سے بارش مانگتی ہے

کھیتوں میں بارودی سرنگیں بوتی ہے خاندانوں کو نقل مکانی پر مجبور کرتی ہے

اخباروں کو تصویروں سے سجاتی ہے یہ کتنی مشقت کرتی ہے ؟

پھر بھی

کوئی اس کا مدّاح نہیں

دُنیا میخائل

 

میں اپنے سامنے خون آلود افق دیکھتا ہوں

اور کتنی بیشمار اندھیری راتیں

ایک نسل گئی ایک نئی نسل آئی

آگ ہے کہ جلتی اور بھڑکتی ہی رہی

محمد مہدی الجواہری

 

سال نو چلے جاؤ

ہمارے گھروں میں مت آؤ

ہم جن کے خواب نہیں

ہم جن کی یادیں نہیں

ہماری خواہش ہے ہم مر جائیں

ہمیں قبریں قبول کرنے سے منکر ہو جائیں

ہم صدیوں کی تاریخ لکھنا چاہتے ہیں

سال نو

ہم ایک تاریخ لکھنا چاہتے ہیں

نازک الملائکہ

 

 

 

 

 

 اعلیٰ ترین اور کمتر ترین قوموں کی اِن سوچوں کے نام

 

وقت کی سُپر پاور کا ایک اہم فرد کارل روKaral Rove تکبّر اور نخوت سے بھرے پرے لہجے میں دنیا کو اُس کی گھٹیا اوقات کا احساس دلاتے ہوئے کہتا ہے۔

’’ہم ایک ایمپائر ہیں۔ جب ہم کوئی کام کرتے ہیں ہم اس کے ہونے کا جواز پیدا کر لیتے ہیں۔ جب دنیا ہمارے اِس جواز پر غور و خوض کر رہی ہوتی ہے۔ ہماری ترجیحات کا رُخ بدل جاتا ہے۔ ہم تاریخ کے اداکار ہیں اور تم سب لوگ(یعنی باقی دنیا)صرف یہی جاننے میں لگے رہتے ہیں کہ ہم کر کیا رہے ہیں ؟‘‘

مجھ جیسی ایک بے عمل اور شورش زدہ قوم کی فرد جلے دل کے پھپھولے پھوڑتے ہوئے کہتی ہے۔

’’ ارے کتنا زعم ہے۔ خدا تو کہیں یاد ہی نہیں اور ہاں تاریخ میں تو بڑا ہی نکمّا لگتا ہے۔ جانتا ہی نہیں کہ ہر دور کی ایمپائر، ہر عہد کی سپر پاور، ہر وقت کی عظیم سلطنت در اصل کسی سرکس ہی کی طرح ہے جو فنکاری اور اداکاری کے کرتب دکھا رہی ہوتی ہے۔ کرّہ ارض پر ظالم خدا کا روپ دھار لیتی ہے اور بھول جاتی ہے کہ اُس کی سکھا شاہی کا وقت کائناتی حاکم اعلیٰ کی تعین کردہ مدت کے اندر ہے۔ کیونکہ اُس اوپر والے کی افتاد طبع کو بھی چین نہیں۔ وہ بھی تو نئی سرکس کے نئے گھوڑوں، نئے اداکاروں اور نئے فنکاروں کے نئے نئے تماشے دیکھنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ شکر ہے وہ ایسا ہے۔ ‘‘

تو یہ کتاب اعلیٰ ترین اور کمتر ترین قوموں کی ایسی ہی سوچوں کے نام معنون کرتی ہوں۔

٭٭٭

 

 

 

باب نمبر: 1

 

1۔ بحرین ایرپورٹ کے گیٹ نمبر 30پر مسکین سا آدمی بغداد کیلئے یوں آوازیں لگاتا تھاجیسے بادامی باغ کے بس سٹینڈ پر سیالکوٹ سیالکوٹ، راولپنڈی کی صدائیں لگتی ہیں۔

2۔ دمشق سیٹیڈل Damascus Citadel دمشق شہر کا موتی  ہے۔ اس کا لینڈ مارک ہے۔

3۔ تو مجھے اِن کے ساتھ رہنا ہے۔ رنگ برنگے نئے نئے تجربات سے  اپنا دامن بھرنا اور مسرتوں کو کشید کرنا ہے۔

 

 

 

 

 

سچ تو یہ تھا کہ ایک کہانی کی تخلیق کیلئے میں اپنے بھیجے کا تیل نکالنے میں کسی کولہو کے بیل کی طرح آنکھوں پر کھوپے چڑھائے چوبی ہل کے ساتھ جُتی دن رات چکر پر چکر کاٹے چلی جا رہی تھی۔

بات تو اتنی سی تھی کہ سفرِروس کے دوران رُوس کی صحافتی زندگی کے ایک بے باک پر مقتول کردار نے مجھے جپھّی ڈال لی تھی۔ یوں تو وہ ایک لفظ بھی نہیں بولی تھی پر پتہ نہیں کیوں اُس کا متین سا، سچائی کی لو سے دمکتا چہرہ میری آنکھوں میں رچ گیا۔ دل میں بس گیا۔ میرے سنگ سنگ رہنے لگا۔ ایک دن میں نے اپنے آپ سے کہا تھا۔

’’بھئی اب اُردو پڑھنے والوں سے اُس کا ملانا بہت ضروری ہو گیا ہے۔ ‘‘

پھر کہانی بُنی جانے لگی۔

جب میں نے اُس کے بالوں کو سنوار کر اُن میں پھول چٹریاں سجالیں۔ سک مسّی لالی سے ہونٹوں، سُرمے کاجل سے آنکھوں، ماتمی پوشاک اور حُزن و یاس میں ڈوبے گیتوں سے اُسے رخصت کر بیٹھی تو احساس ہوا کہ اب کیا کروں ؟

اُچھل پیڑے یوں بھی ٹکنے نہیں دیتے۔ ہمیشہ یہی چاہتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں بھاگی پھروں۔ خجل ہوتی رہوں۔

اب خود سے پوچھتی ہوں۔ کہاں چلنا ہے ؟ کہیں بھی سوائے ٹامیوں اور سامیوں کے دیس کے۔ باقی سب جگہیں قبول ہیں۔ پر مصیبت ساتھی کی۔ ہمیشہ ساتھ چلنے والی نے مہم جوئی دکھا دی تھی۔ نازُک سی نئی نویلی گاڑی کا دیو جیسے ٹرک سے پیچا لڑا دیا۔ اُس نے وہ پٹخنیاں دیں کہ یقیناً چھٹی کا دودھ یاد آ گیا ہو گا۔ وہیں اُسے یہ بھی سمجھ نہیں آتی تھی کہ بچی کیسے ؟ کسی بڑی نیکی نے جیسے دروازہ کھٹ سے کھول کر اُسے فٹ پاتھ پر لُڑھکا دیا۔

دھان پان سی مہر النساء کو گاڑی کے سُرمہ بننے کے ملال کے ساتھ ساتھ خود پر اوپر والے کی نظر عنایت کا بھی پورا احساس تھا۔ شکر گزاری کے سجدوں کی مدت کم از کم سال بھر تو ٹھہری۔

’’بھئی سر نہیں اٹھانا مجھے تو۔ ‘‘

اب ایسے میں میں کیا کرتی؟ایک دن شیریں مسعود کا ایس ایم ایس پر ایران جانے کا پیغام ملا۔

’’ایران ‘‘میں نے پکوڑا سی ناک سکیڑی اور لمبی سانس بھری۔

"ہائے کہیں عراق چلی جاؤں نا۔ ایک کہانی جنگ کے زمانے سے بلا رہی ہے جائے بغیر اُسے پیرہن کیسے پہناؤں ؟یوں بھی میرے خوابوں کے بغداد کا ظالموں نے حشر کر دیا ہے دیکھنا چاہتی ہوں۔

یونہی کہیں بچوں کے سامنے ذکر کر بیٹھی۔ انہوں نے تو وہ لتّے لئے کہ بولتی کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ بڑے والے نے ماں کی ایسی بے سُری خواہشوں کا ذکر بہن سے کر دیا۔ اُس نے پل نہیں لگایا بڑی ہی جلی بو بو نے فون کھڑ کھڑا دیا۔

’’بس بس باز رہیں ایسی مہم جوئیوں سے۔ ہماری تو جان آپ میں ہی پھنسی رہے گی۔ ‘‘

تپ چڑھی۔

’’لو اِن کی محتاج ہوں نا میں۔ میرے نان نفقے کا بوجھ اُٹھاتے ہیں نا یہ۔ رُعب تو دیکھو۔ ساری زندگی ان کے پیچھے گال دی ابھی بھی رجّے نہیں۔ پر چھوٹے والے نے تو حد ہی کر دی۔ اُس کی تو منطق ہی عجیب تھی۔

’’جیسی ٹٹ پنجھی(شکستہ، غریب سی) خود ہیں ویسے ہی مُلکوں میں جاتی ہیں۔ کبھی سری لنکا جا وڑھیں گی، کبھی رنگون۔ ارے امریکہ انگلینڈ جاتے ہوئے تکلیف ہوتی ہے کیا؟چلو کِسی یار دوست کے سامنے بندہ ڈھینگ ہی مار لیتا ہے۔ بے نیازی اور خاندانی رجّے پجّے ہونے کا تاثر دیتا ہے۔

’’یار امّاں تو آجکل ذرا امریکہ گئی ہوئی ہیں۔ واپسی پر انہیں انگلینڈ بھی رُکنا ہے۔ بہت مِس کر رہا ہوں۔ ‘‘

بھانڈوں اور میراثیوں سے انداز میں بات کرتے کرتے اِک ذرا وہ رُکا اور پھر بولا۔

’’ چلو امریکہ انگلینڈ سے الرجک ہیں تو آسٹریلیا چلی جائیں۔ عائشہ باجی نے ہزار بار کہا ہے۔ شو بازی کیلئے وہ بھی کچھ اتنا بُرا نہیں۔ ‘‘

وہ اگر چھوٹا سا ہوتا تو میں نے کھینچ کر جُوتا اُس کے جباڑے پر مارنا تھاجیسے میں اُس کے بچپن میں اکثر مارا کرتی تھی۔ مگرا سوقت وہ پانچ فٹ دس انچ کا لوہاری دروازے کے ماجھے ساجھے جیسے تن و توش رکھنے والوں جیسا بنا ہوا تھا۔

میں نے ’’ حرام زادہ‘‘ منہ بھر کر کہا تھا۔

ایسا کرنے اور کہنے میں اُس کی فضولیات پر میرے غصے اور کھولاؤ دونوں کی یقیناً تسکین تھی۔

’’میں تو وہ کروں گی جو میرا من چاہے گا۔ ‘‘

اِن ہی بھُول بھلّیوں میں کچھ یاد آیا تھا جو ذہن سے اوجھل ہوا پڑا تھا۔

مصر پر ایک کتاب لکھی تھی۔ "مصر میرا خواب”۔ کتاب لکھ کر اُس کی رونمائی کروانا بھی اب بیٹی کو بیاہنے کی طرح ایک مجبوری بن گئی ہے۔ سوچا کہ بھئی مصر پر لکھا ہے تو مصر والوں کو بھی خبر کرو۔ یہ کیا کہ سوتے ہوئے بچے کا منہ چُوم رہی ہوں، نہ ماں کو خبر نہ پیو کو پتہ۔ تھوڑی سی ہِل جُل کرو۔

سفیر صاحب کو لاہور بُلانے نے کا سدّابھیجا۔ جواب آیا۔ بڑے مشکور ہیں ہم کہ آپ نے ہمارے دیس پر لکھا۔ اب حق تو ہمارا بنتا ہے۔ پچاس لوگوں کی بارات لے کر جولائی کے پہلے ہفتے ہمارے گھر اسلام آباد تشریف لے آئیں۔ اب اس البیلی داستان کی روئیداد کی تفصیل کا کیا ذکر کہ من آنم و من دانم۔ بہر حال سفارت خانے کی اِس نوازش کا بُہت شکریہ کہ بہتیری عزت دے ڈالی جس کا ہمیں گمان تک نہ تھا۔

یہیں سفارت خانے میں تقریب کے اختتام پر ایک اُونچے لمبے نوجوان نے اپنا تعارف ابو شینب الٰہیثم سفیر فلسطین کی حیثیت سے کرواتے ہوئے کہا۔

’’ہمارے ملک فلسطین پر لکھئیے۔ ‘‘

’’لو میاں۔ ہمارے تو نتھنے پھُولے۔ جی باغ باغ ہوا۔ سالوں پُرانی خواہش کی تکمیل کے آثار نمودار ہوئے۔

فلسطین پر بھلا کِس کافر کا جی لکھنے کو نہ چاہے گا اور فلسطین کی سرزمین پر اُترنے کی تمنا کون نہ کرے گا؟

پر ایک مصیبت تھی۔ میں اس وقت سفرنامہ رُوس کے کھلارے میں تن من سمیت ڈوبی پڑی تھی۔ ایسا بڑا میدان کہ جس نے میرے کَس بل نکال دئیے تھے۔

درمیان میں یہ ایک اور نازک، گہرا اور گھمبیر سا پنگا۔

گھر آ کر سوچا کہ پہلے ایک سے تو نپٹوں۔ کہیں دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا والی بات ہو جائے۔ دو کشتیوں کا سواربلعموم غڑاپ سے پانیوں میں لڑھک جا تا ہے۔ بچتا بچاتا کہیں نہیں سیدھا ڈوبتا ہے۔ کوئی بخت ور اور قسمت والا ہو تو دوسری بات۔

اور میں جتنی بخت ور اور قسمت کی دھنی ہوں۔ بہت اچھی طرح جانتی ہوں۔

پروجیکٹ سے فراغت ملی تو فون کھڑکایا۔ کہ حضور والا بندی فلسطین جانے کی آرزو مند ہے۔ ہز ایکسیلنسی کے ہاں پھُوں پھاں والی کوئی بات نہ تھی۔ جواب میں بچوں والی تہذیب و شائستگی نمایاں تھی۔ پاسپورٹ، درخواست فوری بھیجنے کو کہا گیا۔ چلو بھیج کر انتظار میں بیٹھ گئی۔

شوق و اضطراب بیٹھنے نہیں دیتا تھا۔ رابطہ کیا۔ لہجے کی بیتابی و شتابی پر صبر اور حوصلے کی تلقین کی گئی۔ کارگزاری کی رپورٹ بلاشبہ بڑی مسرور کن تھی۔ اس بے چاری نمانی سی عورت کا ذکر صدر فلسطین جناب محمود عباس سے ہوا تھا۔ انہوں نے کہا۔ اھلاً و سہلاً، جم جم آئیں سو بسم اللہ، سر متھے سر آنکھوں پر۔ پاکستان اور پاکستانی ہمیں بہت پیارے۔ وہاں کی وزارت اطلاعات کی چیف سکریٹری بھی ہماری آمد کی تہہ دل سے منتظر اور اسرائیل خانہ خراب کے ہاں بھی تذکرہ ہو گیا تھا۔

ہمیشہ کہیں بھی گئے رُلنے والی بات ہی ہوتی تھی، کوئی تھوکتا بھی نہیں تھا۔ اب جو کچھ وی آئی پی بننے کے آثار نمودار ہونے شروع ہوئے تو ایڑی ہی زمین پر نہ لگتی تھی۔ فلسطین کیلئے پروین عاطف کی جان بھی لبوں پر تھی۔ تھوڑی سی شاکی بھی تھیں کہ سب کچھ اکیلے اکیلے ہی۔ پر ابھی تو میں خود بھی بیچ میں لٹکتی مٹکتی پھر رہی تھی تو کسی اور کیلئے کیا فرمائش ڈالتی؟

یہ جاڑوں کے دن تھے۔ گلابی گلابی جاڑوں والے نہیں بلکہ دھندوں، کہروں اور ہڈیوں کے اندر گودا تک جام کرنے والے دن۔ جب وہ میری خلیری بہن ڈاکٹر رضیہ حمید امریکہ سے ٹپکی۔ ۱۹۷۱ کے اوائل میں کیمسٹری میں پی۔ ایچ ڈی کے لئے وظیفہ پر امریکہ جانے والی ایسی وہاں گئی کہ واپسی کا تو راستہ ہی بھُول گئی۔ وہیں اپنے پاکستانی کلاس فیلو سے شادی اور دو بچے پیدا کر کے اُسی معاشرے میں گھُل مل کر ہمارے لئیے بس ایک داستان کی صورت میں یاد رہ گئی تھی۔

کہیں بیس 20سال بعد جو گی والا پھیرا ڈالا تو آدھی زندگی امریکہ جیسے مُلک میں گالنے والی کو دیکھ کر دانتوں تلے اُنگلی داب لی۔ کمبخت نری سا دھو، مہنت، بے چین و مضطرب، غریبوں اور ماڑے موٹے انسانوں کے لئے کُچھ کرنے کی خواہشمند۔

پھر سُننے میں آیا۔ اُس نے نوکری پر لات مار دی۔ امریکہ کیPeace core میں شامل ہو کر دُنیا کے دُور اُفتادہ ملکوں میں تعلیم دینے کے مشن پر روانہ ہو گئی۔ کبھی لاطینی امریکہ اور کبھی افریقہ کے پس ماندہ ملکوں میں اُس کی سرگرمیوں کے بارے پتہ چلتا۔ بیچ میں اکثر پاکستان کا چکر بھی لگ جاتا۔ ساتھ میں اُس کے اپنے جیسے کچھ اور ماہی منڈے ٹائپ عورتیں اور مرد بھی ہوتے۔ اکتوبر2005کے زلزلے میں آزاد کشمیر کے علاقوں میں جا بیٹھی۔ اُن دنوں میں بھی اُس کے ساتھ مظفر آباد کی دُور افتادہ اور دشوار گزار وادیوں میں گئی۔

جب وہ گھانا، موزمبیق، تنزانیہ اور ممباسا کے قصّے سناتی تو میرے سینے پر رشک و حسد کے سانپوں کی یلغار ہو ہو جاتی۔ جی چاہتا ابھی اور اِسی وقت اٹھوں کھڑاویں نہیں جوگرز پہنوں۔ جو گیا کُرتا نہیں، پینٹ کُرتا تن پر ڈالوں۔ ٹین کا نہیں، چمڑے کا چھوٹا سا بیگ ہاتھ میں لوں اور "ربّا میں شوقن تیرا جگ ویکھن دی” الاپتی انجانے دیسوں کی طرف نکل جاؤں۔ پر کہاں ؟

تنزانیہ کیلئے ٹرائیاں ماریں۔ پر وہ تو کہیں ڈو دوما Dodoma میں بیٹھی تھی۔ افریقی سارے زمانے کے ہڈ حرام اور سُستی کی پنڈیں۔ دو بار وہ میرے ویزے کیلئے دارلسلام بھی آئی۔ پر ایک کے بعد ایک ایسی ایسی پخیں فون پر سُنیں کہ میں نے کڑھ کر اُسے کوسا۔

’’ارے ایک تہائی جنم تو میرا اُس کا ایک چھت تلے اکٹھا گزرا۔ ہوشیاری چالاکی تو اُس کمبخت کے پاس نہیں پھٹکی۔ نہ بل نہ پھیر۔ مقدر کی بخت ور تھی۔ علم نصیب میں لکھا تھا۔ پڑھ گئی اور امریکہ پہنچ گئی۔ چالیس سال سے وہاں ہے۔ کچھ کرنے جو گی ہوتی تو آدھا محنت کش ٹبر امریکن شہری اور کروڑ پتی تو ضرور ہوتا۔

’’بیٹھ آرام سے۔ تیرے نصیب میں یہ دیس دیس گھومنا نہیں لکھا۔ ‘‘

جاڑوں کے یخ بستہ دنوں میں وہ پاکستان آئی۔ اُس نے مجھے بتایا کہ اس بار اس کے پروگرام میں تین ماہ کیلئے اسرائیل و فلسطین کا قیام بھی ہے۔

میں چلائی۔

’’ارے وہاں تو میں بھی جا رہی ہوں۔ مجھے اپنے ساتھ ہی نتّھی کر لو نا۔ ‘‘

دو دنوں بعد میں نے اُسے گاڑی میں بٹھایا اور اسلام آباد کے سیکٹر ۱۰ میں ابو الٰہیثم کے سفارت خانے پر ہلّہ بول دیا۔

میرے اضطراب، میری بے چینیوں، میرے اُچک کر جہاز میں بیٹھنے کے بے تابانہ و بے پایاں اظہار پر نوجوان سفارت کار کا انداز بڑا مدبّرانہ سا تھا۔

کاجو کی پلیٹ بذات خود وہ میرے سامنے کرتے ہوئے بولا۔

’’یہ لیجیئے۔ ‘‘

چاکلیٹ ہاتھوں میں زبردستی تھمائی اور مُصر ہوا اِسے کھائیے۔

میں نے ممتا کی ساری محبت لہجے میں گھولتے ہوئے کہا تھا۔

’’الٰہیثم مجھے پہنچاؤ وہاں۔ ‘‘

’’سمجھنے کی کوشش کریں۔ ‘‘اُسنے میرے جوش و جذبے پر سرد پانی انڈیلا۔ ’’یہ امریکی شہری ہیں۔ اسرائیل انہیں روک نہیں سکتا۔ آپ کا تو پاسپورٹ اعلان کرتا ہے کہ اسرائیل جائے ممنوعہ ہے۔ ‘‘

ٹھنڈی ٹھار ہو گئی تھی۔

’’کوشش ہو رہی ہے۔ گھبرائیے نہیں۔ ‘‘

ایک دن جب میں جنگ اخبار کی ریفرنس لائبریری میں بیٹھی "سری لنکا” کی فائل دیکھ رہی تھی۔ ماحول کی خاموشی اور سناٹے کو فلسطینی سفارت خانے سے آنے والی آواز نے توڑا۔ ابو شینب بول رہے تھے۔

’’اسرائیل نے آپ کو اوکے کر دیا ہے۔ پر ساتھ ہی چند شرائط بھی عائد کر دی ہیں۔ سُن لیجیئے۔ ‘‘

میں دھڑکتے دل کے ساتھ سُنتی تھی۔ کڑی شرائط میں سب سے اہم فلسطین کے مسئلے پر نہ لکھنے کا وعدہ تھا۔ یروشلم میں داخلے کی کوئی کوشش نہیں ہونی چاہیے۔ چند اور بھی ایسی ہی بے تکی باتیں تھیں۔ فون بند ہو گیا تھا۔ اب خود سے پوچھنا ضروری تھا تو میں نے وہاں کرنے کیا جانا ہے اگر لکھنا نہیں۔ پھر چند لمحوں کی چُپ کے بعد میرا اندر جیسے پھڑک اٹھا تھا۔

’’ہے نا لعنتی یہ اسرائیل بھی۔ ‘‘

اب یہ بھی کہیں ممکن تھا کہ فلسطین پر جس انداز سے بھی لکھا جائے اسرائیل کا ذکر نہ آئے۔ اس کے وجود کا کینسر اور اُس کے بغیر ہی۔ یعنی افسانہ آئیں بائیں شائیں سے بھر جائے اور اصل قصے سے رہ جائے یا شاعر کے خوبصورت لفظوں میں کہ وہ بات جس کا سارے فسانے میں ذکر نہ تھا والی بات ہو۔

گھر واپس آ کر میں نے خود پر لعن طعن اور پھٹکار کا پٹارا کھولا جس میں اس سے پہلے بھی بیسیوں بار میں اُسے غوطے دیتی رہی ہوں۔

عمان میں اپنے قیام کے دوران جب ہوٹل والوں نے اسرائیل کے لئے چند گھنٹوں کا ٹرانزٹ ویزا دینے کا پوچھا تو مجھے ڈر کیوں لگا اور فیس کا سُن کر مجھے دندل سی کیوں پڑی؟کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وقت اور چانس آپ پر خوش قسمتی کا دروازہ کھول دے۔ اور تُف ہے کہ کھیسے میں پیسے ہوتے سوتے بھی آپ یہ دروازہ بند کر لیں۔ کوئی چار پانچ سال بعد مصر اپنی سیر کے دوران صحرائے سینا(Sinai)کے ریگ زاروں سے گزرتے ہوئے خلیج عقوبہ (Gulf of Aqaba)کے ساحلی شہر ایلات اور اسرائیلی شہر رفہ(Rafah)سے ظالم اسرائیل کو شروع ہوتے دیکھنا بڑا تلخ تجربہ تھا۔ یہ سرحدی علاقہ افقی صورت میں چلتا چلتا بحیرہ روم کے مشرقی ساحلوں پر واقع غزہ سے جا ملتا ہے جو ایک چھوٹی سی مستطیل پٹی ہے۔ جہاں وہ بدقسمت اور مظلوم قوم جس کا نام فلسطینی ہے محصور ہوئی پڑی ہے۔ مصر کے ساتھ جڑے اس چھوٹے سے حصے میں جیالوں نے سرنگیں بنا ڈالی ہیں۔ ایک ظالم اسرائیل، دوسری ظالم مصری فوجی حکومتیں جو غزہ کے مجاہدوں اور مصر کے اخوان المسلمین سے خائف۔ اوپر سے دلیر اور جیالے فلسطینی مجاہد جنہوں نے سو جتنوں اور حربوں سے یہ غیر قانونی راستے بار بار تباہ کیے جانے کے باوجود پھر بنانے ہیں۔ اِن سے گزرنا ہے۔ چھاپے پڑنے پر پکڑے بھی جانا ہے۔ سزائیں بھی کاٹنی ہیں اور باز پھر بھی نہیں آنا۔

میں نے بھی جی جان سے اُس سرنگ کے راستے فلسطین جانے کا سوچا۔ خرچہ کچھ زیادہ نہ تھا۔ لالچی طبعیت نے اب ساری توانائی اس میں جھونک کر اس مقصد کو حاصل کرنے کی اپنی سی کوشش کرنی چاہی۔ گو یہ آدم خور شیر کے کچھار میں سر دینے والی بات تھی۔ پر اس وقت خواہش کے منہ زور اور تندو تیز ریلے کے سامنے بڑی مجبوری محسوس کر رہی تھی۔

پر بُرا ہوا یا اچھا۔ میری ساتھی نے ایڑھی نہ لگنے دی۔ زمانے بھر کی ڈرپوک اور دبّو سی۔

اُسے کون سی کتاب لکھنی تھی جو وہ اس جھمیلے میں پڑتی۔ یوں بھی چسکے مارے میرے ساتھ آ گئی تھی۔ میرا کیا تھا؟کھا کھٹ بیٹھی تھی۔ نانی دادی جو بالعموم کاٹھ کباڑ کا سامان بن کر کھڈے لائن لگی ہوتی ہے۔ اندر بھی ہو جاتی تو خیر صلّا۔

رضیہ حمید نے جب واپس آ کر فلسطین کے شہروں حیفہ، غزہ، رام اللہ، عکا، یروشلم وغیرہ کی گردان کی۔ غزہ کی بوڑھی عورت کے زیتون کے باغ میں زیتون کے درختوں پر چڑھنے، انہیں توڑ کر گھر لانے اور دستی مشین سے تیل نکالنے کے قصے سنائے۔ اسرائیل کی ظالمانہ کہانیاں، اس کے ظالمانہ ہتھکنڈے، حماس کی خدمت خلق، ان کے جذبات کی شدتیں اور الفتح کی سیاست سب پہلوؤں پر روشنی ڈالی تو میری حالت قابل دیدنی تھی۔ حسرتوں کا دھواں تھا جو مجھے سُلگا سُلگا کر مارے جا رہا تھا۔

خیر سے میری اُمیدوں پر پانی پھر جانے کی رہی سہی کسر فریڈم فرٹیلا نے پوری کر دی۔ میری تو لُٹیا ہی ڈوب گئی۔ ظالم اسرائیل پٹڑی پر کِس مشکل سے چڑھا تھا؟ اب ایک گڑ گڑاہٹ سے نیچے اُتر گیا۔

ابو شینب فون پر تاسف بھرے لہجے میں مخاطب تھے۔

’’اسرائیل نے انکار کر دیا ہے۔ ‘‘

اب بغداد جانا بھی خاصا سنسی خیز تھا۔ جسے کہتی وہ کانوں پر ہاتھ رکھ لیتا۔

’’ارے موت کے منہ میں جانے والی بات ہے یہ تو۔ ‘‘سوچا عراق ایمبیسی کو لکھوں۔ عرضداشت بھیجی گئی کہ حضور والا اکیلی ہوں صرف تحفظ درکار ہے۔ بلایا گیا۔ ہزایکسی لینسی ڈاکٹر رُشدی محمود تاریخ میں پی ایچ ڈی تھے۔ تپاک سے ملے۔ ہر طرح سے تعاون کی یقین دہانی ہوئی۔

’’بس جا کر ایک خط لکھئیے کہ آپ کو کن کن پہلوؤں پر کام کرنا ہے ؟‘‘

آٹھ نو پوائنٹس پر مشتمل ایک خط بھیج کر انتظار کی سُولی پر چڑھ بیٹھی۔ چند بار فون کیا۔ ہر بار ہزایکسی لینسی خوش مزاجی سے ہیلو ہائے کرتے۔ یقین دلاتے۔ جلد خوشخبری سنانے کا فرماتے۔ مگر کچھ تھا جس کی پردہ داری مطلوب تھی۔ تفصیل ہرگز خوشگوار نہیں۔ کہیں خوشگوار میٹھی میٹھی سی دوستانہ با توں کے انبار میں محتاط لفظوں میں لپٹا ایک پیغام ضرور تاکا جھانکی کرتے ہوئے کچھ بتاتا اور سمجھاتا تھا کہ عراق امریکی تسلط میں ہے۔ کہیں تمہارے جیسی منہ پھٹ اور ہتھ چھٹ گرفت میں آ گئی تو اُس کا تو پٹڑہ ہو جائے گا اور کوئی بعید نہیں کہ اُس کی اٹھا پٹخکی شروع ہو جائے کہ عراق میں تو افراتفری مچی ہوئی ہے اور عہدوں کیلئے دوڑیں ہیں۔ وہ جو گذشتہ سال سے ڈپلومیٹک انکلیو میں کروڑوں کی مالیت سے بننے والا نیا سفارت خانہ انتہائی شاندار، بغداد کی قدیمی عظمتوں کا نمائندہ جی جان سے بنانے میں ہلکان ہو رہا ہے اور چاہتا ہے کہ اُس کی تکمیل صرف اور صرف اسی کے ہاتھوں ہواس اعزاز سے محروم رہ جائے گا۔

اب میں تو یہی کہوں گی کہ اس میں یقیناً میرے مقدر کا بھی دوش ہے کہ جس کے نصیب میں مُفتہ نہیں خجل خواری ہے۔

’’اب میں کیا کروں ؟ کِس کھوں کھاتے میں گروں ؟کہاں جاؤں ؟کسی پل چین نہ تھا۔ ایسے میں اخبار کا ایک اشتہار نظر سے گزرا۔ عراق اور شام کیلئے زیارتی کارواں ۱۵ جولائی کو روانگی۔ ادائیگی ایک لاکھ پچیس ہزار۔

یہ زیارات کا پیکج تھا۔ عراق و شام کی مقدس جگہیں محترم تو سبھی مسلمانوں کیلئے ہیں۔ یوں شیعہ مسلک کیلئے ذرا خصوصی اہمیت رکھتی ہیں۔

بہت سی سوچوں نے گھیرا ڈال دیا۔ ترجیحات کا فرق غور طلب تھا۔

مذہبی معاملات میں بُہت لبرل ہوں۔ خدا کو ربُ المسلمین نہیں رب العالمین جانتی ہوں۔ انسانیت پر ایمان رکھتی ہوں اور تہہ دل سے اِس پر یقین ہے کہ مذاہب کی یہ رنگا رنگی اوپر والے کی اپنی تسکین طبع کیلئے ہے اور یہ تنوع اُسے حد درجہ محبوب ہے۔

اس لئے آپ اور میں کون اپنے عقیدے اور مسلک پر غرور کرنے والے۔

مسئلہ میرے اکیلے کا تھا۔ عرفانہ عزیز نے ایک بار بڑے جذب سے میرے ساتھ سفر کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ فون کیا تو دس مجبوریاں سُننے کو ملیں۔ میں نے ریسورپٹختے ہوئے دل میں کہا۔

’’چل میاں چل انہی کے ساتھ۔ بات ساری کھول دینا۔ گھر والوں والے تو مطمئن رہیں گے کہ بی بی اکیلی نہیں۔ عراق جانے کی اور تو کوئی راہ ہی نہیں۔

بہت خوبصورت شاعر جناب حسن عسکری کاظمی سے راہنمائی چاہی کہ مقامات مقدّسہ پر اُن کی دو کتابیں میں پڑھ چکی تھی۔ انہوں نے ایک نمبر دیا ’’اِن سے رابطہ کرو۔ ‘‘

بات ہوئی۔ دل کچھ ٹھُکا۔ پر تھوڑی سی جانکاری تھوڑی سی پر کھ پڑتال ضروری تھی۔ حیدر زماں صاحب کے گھر پہنچی۔ دہلیز میں قدم دھرتے ہی دروازے ہی دروازے والا اشتہار آنکھوں کے سامنے آ گیا تھا۔ یہاں بھی درویشی ہی درویشی والا منظر تھا۔

لگی لپٹی کے بغیر اپنی ترجیحات کا ذکر کر دیا۔ اہل بیت سے محبت ہے مگر مسلمان میں بس ایویں سی ہوں۔ حج، عمرہ، گیتوں اور نظموں کے زور پر کر کے آئی ہوں۔ مجھ جیسی سرکی ہوئی خاتون اُس شریف النفس انسان نے کہاں دیکھی ہو گی؟تاہم انہوں نے اپنے تعاون کا بھرپور یقین دلایا تومیں نے پاسپورٹ اور پچاس ہزار روپیہ کھٹ سے نکالا۔ حوالے کیا۔ شام کو بقیہ رقم بھیجنے کا وعدہ کیا اور اتنا سا جانا کہ5 جولائی کو روانگی ہے۔ لاہور سے دمشق بذریعہ ہوائی جہاز۔ تیرہ دن کا شام میں قیام۔ بس سے عراق، پندرہ دن کے بعد ایران کیلئے روانگی اور تہران سے لاہور واپسی۔

مزید حال احوال کیا ہیں ؟پتہ نہیں کچھ جاننے کی ضرورت ہی نہ سمجھی۔ جنگ کے بعد کا عراق دیکھنے کا تجسّس اگر زوروں پر تھا تو وہیں شام کے بارے وارفتگیِ شوق عالم کچھ نہ پوچھ والا معاملہ بھی تھا۔

چند دن کے خمار کے بعد نقشے کھولے۔ فاصلوں کا حساب کتاب کیا۔ موسم کے بارے میں رپورٹیں لیں۔ شام گرم تھا۔ لیکن قابلِ برداشت۔ تیس سے بتیس30-32ٹمپریچر پر۔ ہاں البتہ عراق تنور بنا ہوا تھا۔ ڈی ہائیڈریشن کی پرانی مریض ہنس کر خود سے بولی۔

’’آپے بجھی نی تینوں کون چھڑائے۔ (خود اپنے شوق سے تم بندھی ہو۔ اب کون تمہیں اِس سے چھڑائے )۔

وسط جون کا وہ بھی ایک آگ برساتا دن ہی تھا۔ ظہر کے چار فرض پڑھتے پڑھتے عراق پہنچ گئی۔

’’دو جہاں کے بادشاہ، نا ممکنات کو ممکن بنا دینے والے شہنشاہ کیا یہ ممکن ہے ؟اب

پڑھ کیا رہی تھی التحیات، قل ہو اللہ یا سورہ فاتحہ سب بھول گئی اور سوال جواب میں اُلجھ گئی تھی۔

میرے لئیے تو نا ممکن پر تیرے لئیے کن فیکون۔ پلیز آپ عراق میں میرے قیام کے دوران ابر کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا میرے سر پر تان دیجئیے نا۔ مشکور ہوں گی آپ کی۔ ‘‘

ایسی فضول اور بے سرو پاسی خواہش پر بے اختیار ہی میری ہنسی چھوٹ گئی۔

بیڈ پر بیٹھے پانچ سالہ پوتے نے حیرت سے دیکھا۔ چھلانگ لگا کر نیچے کُودا اور دوڑتا ہوا ماں کے پاس جا کر بولا۔

’’اماں دادو پاگل ہو گئی ہیں۔ ‘‘

چار بالشت لمبے اور تین بالشت چوڑے اٹیچی کیس میں میرے نہ نہ کرنے پر بھی میری بے حد پیاری خادمہ نے دس جوڑے ٹھونس دیئے کہ وہاں جا کر آپ نے دھوبی گھاٹ ہرگز ہرگز نہیں لگانا۔ تنہائی میں چُپکے سے میں نے پانچ جوڑے نکال باہر پھینکے۔

’’کِسی فیشن شو میں جا رہی ہوں۔ فضول کا بوجھ‘‘

ہاں البتہ عراق کی گرمی کو مارنے کیلئے تخم ملنگا اور قتیرہ گوند کے لفافے رہنے دئیے۔ بادام اور سونف کے ساتھ قطعی چھیڑا چھیڑی نہیں کی۔ نئے ڈیجیٹل کیمرے کے ساتھ پرانا یوشیکا بھی رکھا۔ پرانی ساتھی دوربین بھی حفاظت سے کونے میں ٹکائی۔

بلڈ پریشر کی دوائی دھیان سے سنبھالی۔

میں اُن جاہل اور ان پڑھ لوگوں سے بھی بدتر ہوں جو خاموش قاتل کے بارے میں سب کچھ جانتے ہوئے بھی دوائی نہ کھانا بڑا فخر سمجھتے ہیں۔ سفر پر جاتے ہوئے دوائی رکھنی ضروری پر کھانے کی مجبوری نہیں۔ ہاں البتہ تکلیف کی شدت تو ناک سے لکیریں بھی نکلوا دیتی ہے۔

بیگ میں نہ پاسپورٹ، نہ ٹکٹ، نہ کوئی معلوماتی برو شر۔ اجڈوں اور جاہلوں والی بات تھی۔ اللہ تیرے حوالے۔

ایر پورٹ پر تھوڑی سی پریشانی ہوئی۔ شُکراً کہا کہ میاں ساتھ نہیں آئے تھے۔ ایسی بدنظمی دیکھتے تو وہیں لعن و طعن کے تبّروں سے تواضع شروع کر دیتے۔

قافلے کے لوگوں کو تاڑنے اور جائزہ لینے سے یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ سیدھے سادھے عقیدتوں کے اسیر لوگ ہیں جو حج و عمرہ کی طرح زیارات کو بھی ایمان کا حصّہ سمجھتے ہیں۔

پہلا پڑاؤ بحرین ہوا۔ خوبصورت شہر پرشیئن گلف کے دہانے سے کِسی جادوئی اسرار کی مانند پھوٹتا ہوا نظر آیا۔ ایرپورٹ کیا تھا۔ ایک پورا شہر۔ دنیا جہان کی نسلوں اور قوموں سے بھرا پڑا۔

فلپائن کی پھینی پھدکڑ ڈھڈورنگی(چپٹی ناک اور مینڈک جیسے رنگ والی)لڑکیوں کے ٹولوں نے آدھا ہال سنبھالا ہوا تھا۔ باقی کا آنبوسی بنگلہ دیشی لڑکیوں اور عورتوں کے قبضے میں تھا۔ شلوار قمیض اور قمیض پاجاموں کے علاوہ ساڑھی تو قسم کھانے کو ایک کے بھی تن پر نہ تھی۔

 

1969ڈھاکہ یونیورسٹی میں اپنا زمانہ طالب علمی یاد آیا تھا۔ ایک ماہ میں ہی اُٹھتے بیٹھتے میرے کلاس فیلوز نے ’’تماں کے خوقی نائیں (تم بچی نہیں ہو)بنگال آئی ہو تمہیں ساڑھی پہننی اور بنگالی بولنی چاہئے ‘‘ جیسے طعنوں سے چھلنی کرنا شروع کر دیا تھا۔ لباس اور زبان کیلئے اُن کی بے تکی محبت، کریز اور تعصّب خوفناک حدوں کو چھوتا تھا۔ میں نے بھی فی الفور یہ دونوں کام کرنے میں ہی اپنی سلامتی اور عافیت جانی تھی۔

وقت کتنا بدل گیا تھا۔ بنگلہ دیشی عورت ملکی معیشت مضبوط کرنے میں کِس درجہ سر گرم ہے۔

متحدہ عرب امارات کی چھ امیر ریاستوں اور مشرق وسطیٰ کے کھاتے پیتے ملکوں

میں یہ غریب عورتیں اور لڑکیاں ایجنٹوں کی وساطت سے محنت مزدوریاں کرنے جا رہی تھیں۔ تیسری دنیا کے غریب لوگوں کا مقدّر۔ یہاں کوئی تین گھنٹے کا پڑاؤ ہوا۔ گیٹ نمبر 31سے دمشق کیلئے ہمیں داخل ہونا پڑا۔

گیٹ نمبر 30 پر کھڑا دُبلا پتلا مسکین سا آدمی ’’ بغداد بغداد‘‘ کیلئے یوں آوازیں لگا رہا تھا کہ جیسے بادامی باغ کے بس سٹینڈ پر ’’ سیالکوٹ سیالکوٹ راولپنڈی راولپنڈی ‘‘کی صدائیں لگتی ہیں۔

اِس بین الاقوامی ہوائی اڈے پر جہاں دنیا جہاں کے مسافروں کو اُن کی پروازوں کیلئے پر وقار انداز میں عربی، انگریزی اور ہندی میں بلایا جا رہا تھا۔ میں خود سے کہے بغیر نہ رہ سکی تھی۔

’’اللہ یہ پیغمبروں، ولیوں، صاحبِ کشف اور الف لیلیٰ کا بغداد ایسا یتیم و یسیر ہو گیا ہے کہ اِس درجہ گھٹیا اور جٹ کے انداز میں اِس کے مسافروں کو پُکاریں پڑ رہی ہیں۔

بس اُس وقت جی چاہا تھا کہ اِس پُکار کے پیچھے پیچھے چلتی شہریار اور  شہر زاد کے دیس چلی جاؤں۔ دیکھوں تو بے چارہ کتنا زخمی ہوا پڑا ہے ؟

یہیں میں نے اُس مدھو بالا کو دیکھا تھا۔ ثروت شجاعت شیخوپورہ کالج کی پروفیسر۔ ہنستے ہوئے میں نے پوچھا تھا۔ ’’کوئی قرابت داری اُس خاندان سے۔ ‘‘کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ زندہ دل خاتون تھی۔

جہاز میں دہکتے لبوں، چمکتے رخساروں نین کٹارا سی آنکھوں اور چھ فٹی مٹیار جٹیوں جیسی جتنی عورتیں بھی نظر آئیں کم و بیش سب شامی تھیں۔ میرے ساتھ بیٹھنے والی بھی ایسے ہی قد کاٹھ اور رنگت والی تھی۔ وہ تو علم کے میدان کی بھی اچھی شہسوار تھی کہ دمشق یونیورسٹی میں جغرافیہ کی استاد تھی۔

بچے جہاں کے بھی ہوں اُن کے کھیل بھی ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ سامنے والی سیٹ پر بیٹھی شامی بچی گڑیا کے ساتھ کھیلتی، کبھی اُسے کپڑے پہناتی، کبھی پھول تاروں سے سجاتی۔

لڑکا موبائل پر گیمیں کھیلتا تھا۔ سامنے چلتے ٹی وی پر عربی فلم میں وہی پُرانے رنڈی رونے تھے۔ مرد کی بیوفائی، عورت کا چہکوں پہکوں رونا، جیبوں کی تلاشی۔

واش روم کیلئے اٹھی تو چلتے چلتے ٹھٹھکی۔ ایک فلپینو لڑکی روتی تھی۔ دلداری کی تو جیسے ٹھیس لگ جائے آبگینوں کو والا معاملہ ہو گیا تھا۔ دو نّنھی منی معصوم صورتیں چھوڑ کر آئی تھی۔ یاد نے زور مارا تو موتیوں کے ہار پرونے لگی۔

اب دلاسا اورتسلّی کے دو بول ہی تھے نا غریبوں کے مقدّر۔

گلف ایر لائن کی فضائی میزبانیں بلاشبہ مقابلۂ حسن میں بھیجی جانے والی تھیں۔ مرد جتنے خوبصورت تھے اتنے ہی فارغ البال۔ جی چاہتا تھا ایک کراری چپت کھوپڑیوں پر لگاؤں۔ کیسا مزہ آئے ؟

کھانے میں بریانی تھی۔ کمبختوں کے پاس کشمش کا قحط تھا۔ سارا زور پیاز پر تھا۔ گارنش گویا مردے کے منہ پر مکھن ملنے کے حساب میں جاتی تھی۔ سبزیوں کی ڈش بے سوادی اور میٹھا اُس سے بھی زیادہ بے سوادا۔

ایک عظیم اور قدیم تہذیبی گہوارہ ملک شام کے دارالخلافہ دمشق کی پہلی جھلک جہاز کی کھڑکی سے اڑتی ہوئی آنکھوں سے آ ٹکرائی تھی۔

بڑا دلربائی والا منظر تھا۔ جیسے دُنیا سے کٹے پھٹے کِسی صحرا میں پہاڑیوں کے پاؤں سے ناف تک کے دامن میں بچیوں نے کھیلتے کھیلتے گڑیوں کے خوبصورت گھروندے یہاں وہاں سجا دئیے ہوں۔

ریگستانی میدان میں جبل قاسیون اور چامchamپیلس ہوٹل کی اولین جھلک بھی میں نے اُس شامی خاتون کی نشاندہی پر ہی دیکھی تھی۔

میں نے باہر دیکھا تھا شہر کے بیچوں بیچ گزرتی لمبی شاہراہ حافظ الا اسد روڈ جیسے کوئی موٹا تازہ اژدھا پھنکارتے مارتا ہو۔ درختوں کی قطاریں اپنی لمبائی چوڑائی اور تناسب کے اعتبارسے بڑی منفرد سی دِکھی تھیں۔

تین گھنٹے کے اِس سفر میں میں نے اُس حُسن کی مورتی سے شام کے متعلق کافی اسباق پڑھ لئیے تھے۔

پہلی جنگ عظیم کے خاتمے تک جغرافیائی لحاظ سے شام، فلسطین وغیرہ سلطنت عثمانیہ کی علمداری میں تھے۔ انگریزوں اور اتحادیوں کی سازشوں نے اس کے حصّے بخروں کیلئے بڑی گھناؤنی چالیں چلیں۔ اِس سرزمین کو مختلف ٹکڑوں میں اپنے حواریوں میں بانٹ دیا۔

یہ کمبخت انگریز اور اُن کے چچیرے، ممیرے بھائی بند منحوس مارئے کیسے تخریبی ہیں ؟ملکوں ملکوں پھڈے ڈالے رکھتے ہیں۔ میں نے کڑھ کر سوچا۔ ڈاکٹر زُخرف کے لہجے میں دُکھ کی چبھن تھی کہ اس کا خوبصورت خدوخال والا ملک اس بندر بانٹ کے نتیجے میں بے ڈھبا سا ہو گیا تھا۔

دمشق کمال کا خوبصورت شہر ہے اور دمشق سٹیڈیل Damascus citadelتو گویا شہر کا موتی ہے۔ اس کا لینڈ مارک ہے۔ ایک کروڑ پچیس لاکھ آبادی والا یہ مُلک کٹھ پتلی بادشاہت سے گزرتا کیمونسٹ سوشلسٹ چکروں میں اُلجھتا حافظ الا اسد کے بعد اُس کے بیٹے بشارالاسد کی صدارت میں ترقی کی منزلیں طے کر رہا ہے۔

بشار کے بارے میں میرے ایک سوال پر ڈاکٹر زُخرف نے کہا تھا۔

’’بہت سمجھدار اور لوگوں میں ہر دل عزیز ہے۔ مُلک کو تیز رفتاری سے ترقی کی جانب لے جا رہا ہے۔ ہمہ وقت لوگوں سے رابطے میں رہتا ہے۔ ‘‘

جہاز لینڈ کر رہا تھا۔ میں نے اپنی حسین ہم سفر کا شکریہ ادا کیا کہ جس نے شام سے میرا ابتدائی تعارف کروا دیا۔ ایرپورٹ اتنا شاندار نہ تھا جتنا میں توقع کر رہی تھی۔

پڑاؤ زینبیہ میں ہوا۔ دمشق سے پندرہ کلومیٹر پر زینبیہ کا علاقہ حضرت زینب کے نام نامی سے مشہور ہے۔ درمیانے درجے کے ہوٹلوں، بازاروں اور رہائشی مکانوں کی وجہ سے متوسط زائرین کی کثرت ہے۔ جو یہاں ٹھہرتے اور دنوں رہتے ہیں۔ اب "محبّانِ اہل بیت "ہوٹل کے ایک کمرے میں بچھی اٹھ چارپائیوں میں سے ایک پر لیٹتے ہوئے میں نے آنکھیں بند کرتے ہوئے اپنے آپ سے پوچھا تھا۔

’’میں کیا کروں۔ ‘‘

کمرے میں داخل ہونے کے ساتھ ہی عورتوں کے بیگ اٹیچی کیس کھُل گئے تھے۔ برتن بھانڈے، دالیں، چاول، مٹھیاں اور چنے نکل آئے تھے۔ دیگچیاں گلاس پلیٹیں بھی

ملحقہ کچن میں سج سجا گئی تھیں۔ اکلوتے غُسل خانے میں باری باری غُسل کے بعد تن والا جوڑا دھُل کر کمرے میں بچھی چارپائی کی پائنیتیوں پر سُوکھنے کیلئے ڈل گیا تھا۔

بالوں میں کنگھی پٹی اور حضرت زینب کے روضۂ مبارک پر جانے کی تیاریاں عروج پر تھیں۔

’’میں کیا کروں۔ ‘‘سوال ایک بار پھر اپنے آپ سے ہوا تھا۔

ابھی تک میں آنکھیں موندے لیٹی تھی۔ 1955اور 1956کی کچھ کچھ دھندلی یادیں تھیں۔ میری نانی اور دادی ایسے ہی ملازموں کے ساتھ حج کیلئے گئی تھیں۔

میری توقعات کے خانوں میں ایسے مناظر میں سے کسی ایک منظر کا بھی کوئی تصور نہ تھا۔ پورے دو ڈھائی گھنٹوں کے بعد میں نے آنکھیں کھولیں۔ اٹھ کر بیٹھی۔ اُن سبھوں کو دیکھا۔

بڑی موٹی موٹی خوبصورت آنکھوں والی صابرہ داتا دربار کی ملنگنی تھی۔ موچی دروازے کربلا گامے شاہ میں صفائی کرتی تھی۔ کسی نیک دل لیڈی ڈاکٹر کے جذبہ رحمی کے نتیجے میں یہاں پہنچی تھی۔ کونے والی چارپائی پر بیٹھی چھ فٹی تیس سالہ زیب النساء ٹکہ ٹکہ پیسہ پیسہ جوڑ کر آئی تھی اور شکر کی کیفیت سے باہر نہیں نکل رہی تھی۔

جمیلہ سچی کہانیوں کے حوالے سے اپنی ذات کا ایک بڑا کردار تھا۔ ایسی دلخراش داستان، رونگٹے کھڑے کرنے والی، رُلانے والی۔

چار سیاہ کپڑوں میں ملبوس دو نوجوان اور دو بوڑھی عورتیں سرگودھا کے زمیندار کھاتے پیتے روایتی گھروں سے تھیں۔ اور مدھو بالا جانے کِس کمرے میں تھی۔ جس کے لئے میں نے سوچا تھا کہ میری اُس سے دال گل جائے گی۔

باتھ روم کے کھڑ کھڑ کرتے پلاسٹک کموڈ پر بیٹھتے ہوئے کہ جب مجھے ہر لمحہ یہ محسوس ہوتا تھا کہ جانے کب میں اِس پر سے لڑھک کر دھڑام سے گرتے ہوئے گندگی میں لُتھڑ سکتی ہوں۔

یہ جملہ میں نے خود سے کہا تھا۔

’’تو مجھے اِن کے ساتھ رہنا ہے۔ ان رنگ برنگے نئے تجربات سے اپنا دامن بھرنا اور مسرتوں کو کشید کرنا ہے۔ ‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

 

باب نمبر: 2

 

1۔ شام سے بغداد تک کی اِس اہم شاہراہ پر کاش ریسٹورنٹ ہوتے۔ زمانے بھر کا زائر، پتہ نہیں اِن اوندھے حکمرانوں کو اِس مذہبی سیاحت Religious Tourism کی اہمیت کب سمجھ آئے گی؟

2۔ چیک پوسٹوں پر میٹل ڈیٹکٹرز کی سرسے پیر تک چڑھائیاں، اُترائیاں ٹینکوں پر چڑھے بندوقیں تانے امریکیوں کی مشتبہ نگاہیں اور عراقیوں کی پیسے بٹورنے کی کاوشیں سب انتہائی بیہودہ اور جی جلانے والی تھیں۔

 

 

 

 

 

صحرا کی رات دیکھنے کا میرا تجربہ نہیں تھا۔ صحرائی شاموں کی دید سے میں شام میں خوب لُطف اندوز ہوئی تھی۔ کہیں دمشق میں پل پل نیچے اُترتے سورج کے نظارے، کہیں حلب میں ڈوبتا سورج کہیں حمص میں اس کی رنگینیاں۔

شام میں گزرے تیرہ دن جیسے ہوا کے تیرہ معطر جھونکے تھے۔ کمرہ بھی ٹھیک ہی مل گیا تھا اور ساتھی نسرین بھی اچھی بیبی سی خاتون تھی۔

اس وقت میرے سامنے جو شام تھی اُس نے مجھے ٹک ٹک دیدم ودم نہ کشیدم والی کیفیت میں مبتلا کر دیا تھا۔ اور جب رات سے واسطہ پڑا تب بھی سانس سینے میں اٹکنے لگا اور آنکھیں جیسے پتھرا سی گئیں۔

دمشق سے بغداد کے راستے میں زیتون کے باغوں، نخلستانوں اور پستہ قامت پہاڑیوں کے ساتھ ساتھ سرابوں سے بھی آشنائی ہوئی۔

منظروں میں یکسانیت بھی تھی مگر کہیں کہیں بڑی انفرادیت تھی۔ چھوٹے شہروں کی وضع قطع جدید انداز کی یوں کہ آٹھ دس منزلہ عمارتوں کے پہلو بہ پہلو کشادہ اور صاف سُتھری سڑکوں پر شجر کاری کی بہتات کے ساتھ ساتھ کارخانوں کی چمنیاں دھواں اگلتی تھیں۔

آسمان کی شفاف نیلاہٹیں کہیں نہیں تھیں۔ دھرتی کے مٹیالے پن کے عکس آکاش کی بلندیوں پر منعکس تھے۔

سرابوں نے بہت گمان دئیے۔ دُور لمبی لمبی ریل گاڑیاں چلتی تھیں۔ دریا نظر آتے تھے۔ پانی کی چاندی جیسی چھلیں مارتی بل کھاتی لہراتی لہریں ابھرتیں اور پھر غائب

ہو جاتیں۔ شفاف ہموار سڑک جیسے پستہ قامت پہاڑی منظروں کا عکس دیتی۔

پتھریلی زمین کے اِس سپاٹ سمندر میں کہیں سیاہ پتھروں کی بارش سی برسی ہوئی جیسے کسی شرارتی بچے نے رنگ برنگے بانٹے اُچھال کر یہاں وہاں بکھیر دئیے ہوں۔ کہیں مخمل سی بچھی ہوئی، کہیں بل کھاتے کچے راستے دُور کھجوروں اور کینا کے درختوں سے گھرے گھروں کی طرف جاتے ہوئے نظر آتے۔

سُورج کا غروب ہونا بھی دل کش تھا۔ آتشیں گولا جیسے افق میں ساکت ہو گیا تھا۔ جیسے ٹھٹھرسا گیا تھا اور پھر چند بار پلکیں جھپکنے میں ہی وہ جانے کہاں ڈوب گیا؟

بند شیشوں سے صحرائی زندگی کی صورت کے جتنے رُخ سامنے آئے تھے اُن کے سحر نے دل اور آنکھوں کو عجیب سا سُرور دیا تھا۔

شام کے امیگریشن ڈیپارٹمنٹ سے تو خلاصی جلد ہی ہو گئی پر عراق نے گویا سُوکھنے ڈال دیا تھا۔ ایک تو باتھ روموں کی حالت ناگفتہ بہ۔ پندرہ عراقی دینار بھی دینے ضروری اوپر سے خوشبوؤں کی بھر مار۔ انتڑیاں باہر نکلنے کیلئے بے قرار و بے تاب۔ خدا خدا کر کے انہیں روکا اور سمجھایا۔

’’بی بی رحم کرو، کچھ ترس کھاؤ، اتنی اُگل اُچھل دکھانے کی ضرورت نہیں۔ کِس نے سنبھالنا ہے تمہیں یہاں۔

ہواؤں کے جھونکے نہیں جھکڑ تھے۔ سبھوں کے راستے دوزخ کے اوپر سے ہو کر آتے تھے۔

صحرائی رات کا حُسن چیک پوسٹوں کی خستہ حال عمارتوں پر جلتے مدقوق روشنی والے بلبوں اور ٹیوب لائٹوں سے ماند پڑا ہوا تھا۔

خانہ خدا کی حالت بہتر تھی۔ مگر ارد گرد جنگ کا بکھرا ہوا فضلہ، جیپوں کے انجر پنجر، گاڑیوں کے دانت نکوستے ڈھانچے ساری کہانی سُناتے تھے۔ نماز کے بعد وہیں جائے نماز پر لیٹ گئی۔

شام سے عراق تک اِس اہم شاہراہ پر ’’کاش ‘‘ریسٹورنٹ ہوتے۔ بندہ اُتر کر ٹانگیں سیدھی کر لیتا۔ دو گھونٹ چائے پی لیتا۔ اتنا زائر۔ میرے اللہ اِن حکمرانوں کو کب عقل آئے گی؟

ٹورزم کِسی بھی ملک کیلئے سونے کا انڈہ دینے والی مرغی کی طرح ہے اور مذہبی سیاحت Religious Tourismتو اِس باب میں سر فہرست ہے۔

امرتسر کے بی بی کے، ڈی اے وی کالج میں سیاحت پر ایک کانفرنس کے دوران کالج کی پرنسپل مسز کاکڑیا نے پاکستان سے جانے والے ہم مندوبین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا پاکستان کا پنجاب ہمارے لئے مسلمانوں کے مکہّ مدینہ کی طرح ہے۔ حکومت پنجاب ہمیں تھوڑی سی سہولیات کے عوض اپنی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ کر سکتی ہے۔ ’’ہائے۔ ‘‘مجھے محسوس ہوا تھا جیسے میرے اندر کی ہوک نے میرے سارے سریر میں اُداسی اور یاس گھول دیا ہے۔ کاش کوئی اِس بات کو سمجھے۔ کاش ہنگامی بنیادوں پر کام ہو۔

دفعتاً پُکار پڑی تھی۔ ’’حاضر ہو‘‘

پس تو آناً فاناً حاضر ہو گئے تھے۔ کتنے مرحلوں سے گزرنا پڑا۔ کتنی بار میٹل ڈیٹکٹر نے سینے سے پاؤں تک چڑھائیاں اور اترائیاں کیں۔ چیک پوائنٹ کسٹم پر کھڑے اپنے اپنے پاسپورٹ پر عراق میں داخلے کیلئے مہر لگوانے والوں کی قطار بہت لمبی تھی۔ آخری نمبر پر میں تھی۔ عراق کی تاریخ کا جھمیلا دماغ کی راہداریوں میں اُلٹے سیدھے مارچ پاسٹ میں مصروف تھا تبھی میں نے اُسے دیکھا تھا۔

ملاحت بھرا چہرہ، میک اپ سے سجا، سکارف میں لپٹا، نازک سا وجود جینز اور کھُلے بلاؤز میں پھنسامیرے قریب آ کر کھڑا ہوا تھا۔ خوش آئند بات تھی کہ انگریزی اچھی بول لیتی تھی۔

وہ بغداد سے کوئی پنتالیس45 کلو میٹر پرMandaliشہر کے ایک سیکنڈری سکول میں سینئر ٹیچر تھی۔ مجھے تو ایسا بندہ اللہ دے۔ اُس کا ہاتھ پکڑا اور دروازے سے باہر آ گئی۔

’’لگ جائے گی مہر بھی۔ ‘‘میں نے اپنے آپ سے کہا تھا۔

میں نے دردِ دل کا ساز کیا چھیڑا وہاں تو پل بھی نہیں لگا تھا کہ پلکیں بھیگ گئیں۔ لہجے میں جیسے گِلہ سا گھُل گیا تھا۔

منگولوں نے ہماری تہذیب، ہماری وراثت، ہمارے تمدّنی اثاثوں کو تاراج کر دیا تھا۔ علم و ادب کے خزینوں سے دجلہ کے پانیوں کو سیاہ کر دیا تھا۔

تب خوازم شاہ نے دنیا کے حکمرانوں سے مدد کیلئے کہا تھاپر کسی نے پرواہ نہیں کی۔ سینکڑوں سال بعد عصر حاضر کے ہلاکو خان نے بھی ہمیں تاراج کیا اورکسی اسلامی ملک کے کان پر جُوں نہیں رینگی۔

میں صدام کو بھی قصور وار سمجھتی ہوں مگر اتنی بڑی سزا۔ ہسپتالوں میں جانا نہ بھُولیں۔ جنگ کی صحیح تصویر وہاں نظر آئے گی آپ کو۔ اُس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے اور ساتھ ہی میری آنکھوں سے بھی۔

’’عراق پر خدا رحم کرے۔ خدا رحم کرے۔ میرے عراق پر خدا کی رحمت ہو۔ ‘‘اِس رحمت کی بہت بار تکرار تھی۔

اُسے میں نے اپنے بارے میں بتایا۔ اور اس کے بارے میں مزید جاننے کی کوشش کی تو جیسے وہ خوف سے بھرے لہجے میں بولی۔

"خدا کیلئے میرے متعلق کچھ مت لکھئیے گا”۔ انتہائی کوشش کے باوجود وہ مجھے اپنا نام نہ بتا سکی۔

کلیرنس میں 25000کے نوٹوں نے اہم کردار ادا کیا۔ گروپ کا ایک لڑکا دمشق سے غائب ہو گیا تھا۔ پھڈا پڑ جا نا تھا کہ بندے پورے کرو۔

پھر جیسے دھیرے دھیرے آسمان پر چراغ جلنے لگے۔ رنگوں کی جھلملاہٹوں کی ایک دنیا آباد ہو گئی۔ نیلی، سرخ، پیلی، سفید ٹم ٹم کرتی روشنیاں۔ باہر اندھیرا تھا مگر آسمان روشن تھا اتنا روشن جیسے ننّھے مُنّے دیوں کا کھیت سا اُگ آیا ہو۔

گاڑی بظاہر صُورت سے تو بہت اچھی نظر آتی تھی۔ پر ایک جگہ چلنے سے انکاری ہو گئی۔ میں کہوں میرے لئے ہوئی کہ میرا اندر جان گئی تھی کہ بیچاری بے کل اور مضطرب ہے۔ گاڑی میں بڑے روایتی لوگ تھے۔ ساتھ کا آج چود ہواں دن تھا اور وہ میری صورت کم کم دیکھتے تھے کہ مجھے دمشق کے گلی کوچوں نے نہیں چھوڑا۔

حلب کے میوزیم چمٹے رہے۔ حمص میں مرقد خالد پر راز و نیاز کے سلسلے تھے اور اب گاڑی میں باہر نکلنے کیلئے کھڑی ہونے والی پہلی عورت بھی میں ہی تھی۔

ہوائیں تو گرم تھیں۔ صحرا میں رات ٹھنڈی ہوتی ہے اِس کی نفی کرتی تھیں مگر آسمان پر تو بارات سجی ہوئی تھی۔

جی چاہتا تھا۔ گاڑی تو ٹھیک ہی نہ ہو۔ یونہی بیٹھی نظارے لُوٹتی رہوں۔ شب کو الوداع اور سحر کو خوش آمدید کہوں۔

’’اللہ یہ کہکشاں اتنے قریب کہ بازو پھیلاؤ اور کلاوے میں بھر لو۔ ‘‘

دوبارہ گاڑی میں بیٹھ کر میں نے آنکھیں موند لی تھیں اُس شرارتی بھُوکے بچے کی طرح جو ماں کے دودھ سے پیٹ بھرنے کے ساتھ ہی پرُسکون نیند سو جاتا ہے۔

میں پیغمبروں کی سرزمین پر سفر کر رہی تھی۔ میں دنیا کی قدیم ترین ارض تہذیب پر تھی۔ تاریخ عراق کے ورق پھڑ پھڑائے۔ قدیم ترین میسو پوٹیما (Mesopotamia)اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ آئی۔ اسلامی عہد جاہ و جلال کے ساتھ وارد ہوا۔ جدید عراق اپنے المیوں کے ساتھ ابھرا۔

معذرت کرتے ہوئے میں نے بس اتنا کہا۔

’’دیکھو میں بہت تھکی ہوئی ہوں۔ نیند میری پلکوں پر اُتر آئی ہے۔ تم سے تو مجھے ڈھیروں ڈھیر باتیں کرنی ہیں۔ دل کی باتیں، گہری اور راز کی باتیں۔ آخر یہ تمہاری محبت اور چاہت ہی تو ہے جس میں مبتلا میں دُور دیسوں سے مارو مار کرتی تمہارے پاس آئی ہوں۔

گھبراؤ نہیں ہر مرحلے پر میں نے تمہاری معیت میں ہی رہنا ہے۔ جگہوں اور لوگوں کے حوالے میں نے تمہاری وساطت سے ہی دیکھنے ہیں۔

ابھی جس پچھلے پڑاؤ پر گاڑی رُکی تھی وہاں ٹینکوں پر چڑھے امریکیوں کو بندوقیں تانے دیکھ کر میں بہت ڈپریس ہوئی ہوں۔ لو اب اجازت دو۔ ‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

 باب نمبر: 3

 

1۔ زمانے گزر گئے اِن عربوں کے ہاں خارجیوں کی تمیز نہ ختم ہوئی اور نہ ہو گی۔

2۔ صدام کے زمانے میں زبان بندی تھی مگر امن تھا۔ اب ہماری زبان کھُل گئی ہے مگر امن ناپید ہو گیا ہے۔

3۔ ہلاکو خان کتاب کی عظمت سے آگاہ نہ تھا مگر اس عصر حاضر کے ہلاکو سے زیادہ کون کتاب سے واقف ہو سکتا ہے۔

4۔ عراقی اور افغانی دنیا کی مشکل اور عجیب قومیں اور امریکہ دونوں سے پنگا لے بیٹھا تھا۔

 

 

 

 

بغداد کا پہلا وار ہی بڑا تیکھا اور کڑا تھا۔ خوبصورت چہرے والے ٹیکسی ڈرائیور کو ایک صرف انگریزی کی شُدبُد نہیں تھی۔ باقی سب چویتیوں (ہوشیاریوں ) اور سیاحوں کو ڈاج دینے کی چالاکیوں میں وہ اگر دس نمبریا نہیں تو نو نمبریا ضرور تھا۔ ٹیکسی میں سوار تین عورتوں میں سے صرف ثروت کے ہاں عربی کالا ما والا دال دلیہ تھا۔ میں اور نسرین تو کورے تھے۔

شاہراہوں پر اُگے کھجور کے درختوں کا بانکپن لُو کے تھپیڑوں کے باوجود آنکھوں کو تھوڑی سی ٹھنڈک اور طراوت کا احساس بخشتا تھا۔ دائیں بائیں مٹی رنگے یک و دو منزلہ گھروں پر پڑتی طائرانہ سی نظر صحرائی تصویر کے ایک رُخ کو سامنے لاتی تھی۔ تیل کے گھر میں ہونے کے باوجود گاڑی کا ایر کنڈیشنر آن نہیں تھا۔ کھُلے شیشوں سے دوزخ کی ہوا فراٹے مارتی اندر آتی تھی۔

دوپہر اپنے جوبن کے اعتبار سے اِس درجہ جوان تھی کہ اُس پر آنکھ کا ٹکنا محال تھا۔

کوچ سے اُتر کر بغداد کی دھرتی پر قدم رکھا تھا اور جہاں رکھا تھا وہ ایک ویران اور آگ میں تپتا بلتا وسیع و عریض بس ٹرمینل یارڈ تھا۔ خارجیوں کا بس سٹینڈ۔ زمانے گزر گئے اِن عربوں کے ہاں خارجیوں کی تمیز نہ ختم ہوئی اور نہ ہو گی۔

باہر سڑک کشادہ تھی اور دونوں سمت بازار تھا اور منظر من و عین مردان و نوشہرہ کے قصباتی بازاروں جیسا تھا۔ اِس اتنے بڑے جتھّے کو پیدل مارچ کیلئے کہا گیا۔ کچھ بہت ہی تھکی ہاری شکستہ دم عورتوں کو چوبی ریڑھیوں میں بٹھا دیا گیا۔ بالکل ویسی ہی ریڑھیاں کہ جن میں ٹوٹے پھوٹے اعضاء والے لوگوں کو بٹھا کر بھیک مانگی جاتی ہے یا سامان کی ڈھویا ڈھائی ہوتی ہے۔

اب ستم سا ستم تھا۔ پیکج والوں کی ٹکے ٹکے کو بچانے والی کمیں گیاں تھیں یا کام کی منصوبہ بندی کا جٹکہ پن کہ دمشق سے ڈھائی بجے چلنے والے بھیڑ بکریوں کے اِس ریوڑ کو جس طرح رگیدا گیا۔ وہ تو بڑا ہی انسانیت سوز تھا۔ چیک پوسٹوں پر ناکہ بندی کے مرحلے یا وردی والوں کی تنی ہوئی سنگینوں کے سایوں میں گنتی جبراً پڑاؤ کے کھاتے میں تھی۔ وگرنہ تو بگٹٹ ’’بھاگتے چلو‘‘ والی پالیسی تھی۔ انگوروں، کھجوروں کے باغات، مٹیالی پر شکوہ بغداد کی عمارتوں اور دجلے کو بہتے دیکھ کر سکون بھرا سانس تھا۔

’’ چلو اب پڑاؤ ہو گا۔ پر نہیں جی۔ سامرہ کا ٹانکا بھرنا ہے اور واپسی امام محمد کے مزار پر حاضری دینی ہے۔ پھر کہیں بغداد میں داخلہ ہو گا۔ ہر صورت ایک دن بچانا ہے۔ ‘‘

ناشتے کیلئے ایک جگہ رُکے۔ کیا غریب الوطنی کا سا سماں تھا کہ صرف ایک بوتل پانی۔ راستے میں جا بجا بنی چیک پوسٹوں پر فوجیوں کے پُرے طبیعت پر حُزن و ملال کے سائے گہرے کیے دیتے تھے۔ ریت کی بوریاں مدافعتی دیواروں کی صورت دھارے اپنے گرد و پیش جنگ کا فضلہ بکھیرے نظر آتی تھیں۔ ہاں اِن فوجی چوکیوں پر پیلے پھولوں کی لمبی سی بیلیں ضرور لہرا رہی ہوتیں۔ عراقی پھولوں سے پیار کرتے ہیں۔ موسیقی کے رسیا ہیں اور اب ٹینک توپوں میں اُلجھ گئے ہیں۔

صحرائی راستے کی ویرانی دھوپ کے پسار میں اپنا رنگ لئیے ہوئے تھی اور نخلستانوں جیسے مناظر بھی جا بجا تھے۔ دجلہ کے پانیوں پر مرغابیوں کے ڈیرے اُترتے اور اڑتے، کناروں پر بنے خالی گھروں کے آگے وسیع و عریض کھیتوں کے سلسلے تھے۔ کھجوروں کے جھنڈ تھے اور میں نے خود سے کہتے ہوئے آنکھیں بند کر لی تھیں۔

’’یہ لوگ خانہ پری کے چکر میں ہیں۔ مجھے تو دجلہ اور فرات کو آرام سے دیکھنا ہے۔ یقیناً میرا خدا کوئی ایسی سبیل میرے لئیے ضرور پیدا کرے گا۔ اس وقت تو بھوک پیاس سے حشر ہوا پڑا ہوا ہے۔ میں بہت نڈھال ہوں۔ ‘‘

سامرہ کے تپتے، بگولے اڑتے صحرا میں امام علی ال حادی اور امام حسن ال عسکری کے مزار جیسے صحراؤں میں جنگلی گلابوں کی طرح کھلے ہوئے تھے۔ تاہم اس وقت کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھانہ طرزِ تعمیر کا حسن، نہ اُن کی دلربائی۔ بس اگر مجھے اچھے لگے تھے تو خطائیوں جیسے وہ بسکٹ جنہیں میں نے بڑی ڈھٹائی سے تین چار بار مانگ مانگ کر کھایا اور قہر برساتی گرمی میں لنگر سے ملنے والی قہوے کی دو چھوڑ تین چار گلاسیوں کو پی کر زہر کو زہر سے مارنے کی کوشش کی تھی۔

بغداد کے مضافات میں بھی امام محمد کا مقبرہ اُس اُجڑے پجڑے قطعے میں کسی عورت کے بدصورت ہاتھ میں پہنی ہوئی فیروزے کی خوشنما انگوٹھی کی مانند دکھتا تھا۔

میں گاڑی میں ہی بیٹھی ویرانیوں کو گھورتی اور کڑھتی رہی تھی۔ سارا منظرسبّی اور جیکب آباد کے کسی قصباتی جگہ جیسا تھا۔ مٹی دھول کی دھند میں لپٹے کچے گھر، ہواؤں کے بگولوں سے اڑتے پھرتے شاپروں کی یہاں وہاں بکھری بہار۔ ہائے یہ بغداد کیسی بے سرومانی کا شکار نظر آتا تھا۔

اب میں خود سے کہتی تھی کہ یہ کون سے امام محمد ہیں ؟جس امام محمد سے میں آشنا ہوں۔ وہ فقہ کا بڑا نام، تفسیرو حدیث اور ادب میں اجتہاد کا درجہ رکھنے والے ہیں جن کے بارے میں انہی کے ایک ہونہار شاگرد امام شافعی کا کہنا ہے کہ میں نے قرآن مجید کا عالم امام محمد سے بڑھ کر نہیں دیکھا۔ فقہ حنفی والے انہیں بہت مانتے ہیں۔

میرے خیال میں یہ محمد بن الحسن نہیں ہو سکتے۔ مجھے یاد آیا تھا وہ تو رے میں فوت ہوئے تھے۔ ہارون رشید ساتھ تھے۔

اس وقت تو میں مزید تفصیل کے موڈ میں نہیں تھی۔ جو بھی ہوں گے اللہ کے نیک بندے ہی ہوں گے نا۔

میں نے بھوک کے ہاتھوں آنکھیں موند لی تھیں۔

اور اب بغداد کی سرزمین پر میں سر پر ہیٹ اوڑھے دم بخود کھڑی تھی۔ گنہگار تھی نہ۔ بغداد کے آسمان پر بادل کا چھوٹا موٹا ٹکڑا چھوڑ خشخش کے دانے جتنا دھّبہ بھی نہ تھا۔

"یہ تو نری سن سڑوک کے منہ میں جانے والی بات ہے۔ "نسرین نے کہا۔

میں نے قریب سے گزرتی ٹیکسی کو ہاتھ دے دیا اور ذرا آگے چلتی ثروت کو بھی کھینچ لیا۔ سالار کارواں آگے چلتے تھے۔ ٹیکسی ان کے پاس جا کے رُکی۔ میں نے گردن نکال کر ہوٹل کا نام پوچھا۔

’’بابُ المراد‘‘

ہم کاظمین کے علاقے میں تھے۔ حضرت امام موسیٰ کاظم کے روضۂ مبارک کے سنہری گُنبد اور نقشین میناروں نے بُہت دُور سے ہماری توجہ کو کھینچ لیا تھا۔

مگر مصیبت تو یہ آن پڑی تھی کہ ہم اپنے بقیہ ساتھیوں سے بچھڑ گئے تھے۔

ہونٹوں پر ’’بابُ المراد بابُ المراد‘‘ کا ورد تھا۔

چوک میں کھڑے پولیس میں نے انگریزی میں کہا۔ ’’ حرم کی جانبِ بازار بیرونی دیوار ساری کی ساری بابُ المراد کے نام سے جانی جاتی ہے۔ فندق(ہوٹل) کا نام بتائیے۔ وہ نام کیا تھا؟جانے میری بلا۔ اب وہ دونوں مجھے دیکھتی تھیں۔ میں چُپ۔ بولوں کیا؟

اِس اندر کوتو اللہ سمجھے۔ بس ذرا موقع مِلا اور فضیحتا شروع۔ اب منہ میں کنگھُنیاں ڈال لی ہیں۔ چلی تھی بڑی ابنِ جبیر بننے۔

ٹیکسی والے نے چار پانچ چکر لگا کر تُرشی سے کہا تھا۔ ’’اُتر جائیں۔ ‘‘

اب اُسے پانچ ڈالر دے رہے ہیں اور وہ ماش کے آٹے کیطرح اینٹھا جا رہا ہے۔ ویلوں کیطرح ایک ایک ڈالر کا اضافہ کرتے ہوئے بالآخر میں نے آنکھیں دکھائیں۔

’’چلو دفع ہو جاؤ۔ بیچ منجھدار چھوڑ کر بھاگ رہے ہو۔ اوپر سے اکڑتے بھی ہو۔ ‘‘

اُس کے پلّے خاک پڑنا تھا۔ جیسے ہماری پھٹکار اس کے سر پر سے گزری تھی اسی طرح وہ بھی بکتا جھکتا ہماری ہی طرح ہمیں پھٹکارتا ٹیکسی بھگا لے گیا۔

اب کھڑے ہیں۔ کاظمین بہت پُر رونق نظر آ رہا تھا۔ جگہ جگہ چیک پوسٹیں بھگتنے کے باوجود اِس تلخ حقیقت کی عکاسی کرتا تھا کہ پانچ سال گزرنے کے باوجود بغداد ابھی بھی خطرے سے بھرا ہوا ہے۔

اب بہت سارے سوالیہ نشان سامنے تھے۔

’’دیکھو میں نے کہا۔ اسلام کی اتنی عظمتوں والی ہستی موسیٰ ابو الحسن امام جعفر صادق کے بیٹے کے علاقے میں ہیں۔ گھبراہٹ کس بات کی؟چلو پہلے کچھ کھائیں پئیں۔ ‘‘

سامنے جنرل سٹور تھا۔ پانچ ڈالر بھنائے تو تقریباًساڑھے پانچ ہزار کے عراقی دینار ہاتھوں میں آ گئے۔ دودھ کے بڑے ڈبے اور سیون اپ کی بوتلوں سے گرمی کو مارا اور دوکاندار سے ذرا احوال پوچھا۔ صدام اور موجودہ صورت کا موازنہ جاننا چاہا۔

متین سے مرد کا جواب تھا۔

’’صدام کے زمانے میں ہماری زبان بند تھی مگر امن تھا سکون تھاپر اب ہماری زبان کھُل گئی ہے۔ ہم بول سکتے ہیں مگر امن و امان کی صورت انتہائی مخدوش ہے۔ آپ گھر سے نکلتے ہیں تو جانتے نہیں کہ واپسی ہو گی یا نہیں۔ ‘‘

’’ہائے وے میریا ربّا وہی وطن والا حال۔ ‘‘

پاس کھڑا دوسرا عراقی امریکہ کے بارے میں بولا تو لگا جیسے لہجے میں زہر گھُل گیا ہو۔

’’لعنتی۔ ساتھ ہی زمین پر تھُوک دیا۔ صدام بھی لعنتی۔ ‘‘ایک بار پھر تھُوکا۔

طے پایا کہ روضۂ مبارک کے اندر چلتے ہیں۔ کوئی نہ کوئی نظر آ جائے گا۔

روضۂ مبارک تک دو رویہ ہوٹلوں اور دوکانوں کا سلسلہ چلتا ہے۔ زائرین کے پُرے دو پہر کی ان دوزخی ساعتوں میں بھی سڑکوں پر گھومتے پھرتے اور دوکانوں کے اندر آ جا رہے تھے۔ چیک پوسٹ پر تفصیلی چیکنگ کے مرحلوں سے گزارا جا رہا تھا۔

پسینے کی دھاریں پشت پر بہتی تھیں۔ وہ والی بات ہو گئی تھی موسیٰ ڈریا موت توں تے موت اگے (یعنی جتنا دھوپ میں چلنے سے ڈرتے تھے اتنا ہی چلنا پڑ رہا تھا)۔

دفعتاً ثروت چِلّائی۔ ’’وہ دیکھو باب المراد فندق۔ ‘‘

سُوکھے دھانوں پانی پڑ گیا۔ خوشی خوشی سیڑھیاں چڑھیں۔ آدھ گھنٹہ مغز کھپائی کی۔ سب لاحاصل۔ پھر جیسے اُنہیں کچھ سمجھ آئی۔ ایک آدمی” چلو آؤ "کا تاثر دیتا اِن گواچی بھیڑوں کو ہانکنے لگا۔ جہاں لا کر کھڑا کیا وہ بیوٹی سیلون تھا۔

اب وہاں کھڑے ہنستے ہوئے سوچتے، ایک دوسرے سے پوچھتے اور کہتے ہیں کہ بھلا یہاں لانے کی کیا تُک؟

” اوہو "ثروت نے ماتھے پر ہاتھ مارا۔

میر کارواں کا حُلیہ بتاتے ہوئے اُن کی آنکھوں کی ایک خصوصیت کی تمثیلی وضاحت ہوئی تھی۔ تھوڑا سا بھینگا پن تھا وہاں۔ خیال تھا کہ وہ عرصہ تیس30 سال سے مسلسل زیارتی گروپوں کے ساتھ یہاں آ جا رہے ہیں تو یہ ہوٹلوں والے انہیں پہچانتے جانتے ہوں گے۔ یہ نہیں معلوم تھا کہ ماروں آنکھ پھوٹے گھُٹنا والی صورت پیدا ہو جائے گی۔ بڈھیوں کو تھریڈنگ اور فیشل کی ضرورت تھی۔ واہ بھئی واہ۔

ایک دوکان کے آگے دھری خالی کُرسیوں پر بیٹھتے ہوئے مدھو بالا نے ہاتھ اٹھائے اور جلیل القدر شخصیت سا تویں امام حضرت موسیٰ کاظم سے کہا۔

’’حُضور آپ کے گھر آئے ہیں اور بھٹک رہے ہیں۔ کچھ تو خیال کیجئے۔ ‘‘

ابھی ہاتھ میں پکڑا کولا کاٹن ختم بھی نہ ہوا تھا کہ دائم زمان نے آواز دی ’’ آنٹی آپ لوگ کہاں پھر رہی ہیں ؟ہوٹل اِدھر ہے۔ ‘‘

اب تاسف سے کہتے ہیں۔

’’ ارے یہ تو وہی جگہ ہے کئی بار گزرے تھے ہم جہاں سے۔ ‘‘

ہوٹل فندق ذوالفقار تھا تو حرم کے پہلو میں۔ پر تھا بس ایویں ہی۔ لفٹ ندارد کمرے میں پہلا استقبال لوڈشیڈنگ نے کیا۔ دوسرا اُن چار بوڑھی عورتوں نے جو ریڑھیوں میں لد کر یہاں پہنچی تھیں اور اب بستروں پر چڑھی بیٹھی آنکھیں جھپکتی کہتی تھیں۔

’’تُسی بڑیاں شُتریاں او۔ کتھے رہ گیاں سو(تم لوگ بڑی شُتریاں ہَو۔ کہاں رہ گئی تھیں )۔ بجلی آئی تو دیکھا چھ بیڈ۔ ایک پر ایک چڑھا ہوا۔

’’اللہ رحم کرے۔ اگر رات کے اندھیرے میں باتھ روم جاتے ہوئے کسی ایک کی دوسرے پر چڑھائی ہو گئی تو کھوپڑے میں پلپل کرتا بھیجا باہر نکل کر فرش پر نہ بھی گرا تو بھی پسلیاں اور ہڈیاں کسی ہوچھے کی یاری کی طرح تڑاخ کر کے ٹوٹے ٹوٹے ہو سکتی ہیں۔ انہی منگتی ریڑھیوں میں لدلدا کر بغداد کے اسپتالوں میں داخلہ ہو گا۔ اللہ ویری دشمن کو جو صبح اٹھ کر سات جوتیاں بھی مارے اُسے بھی بغداد کے اسپتالوں سے بچائے کہ صدام دور میں غریب غرباء دوائیں نہ ملنے کے باعث زخموں کے ناسور بننے پر مرتے تھے۔ پھر امریکیوں کے پیٹریاٹ میزائلوں اور کلسٹر بموں کے زخمی اسپتال پہنچتے بعد میں تھے مر پہلے جاتے تھے کہ جانتے تھے وہاں جانے کا کچھ فائدہ نہ ہو گا۔

اب وہ سامی ٹامی خود تو اوٹ میں ہو گئے ہیں۔ اپنے چیلوں چانٹوں اور بالکوں کو آگے کر دیا ہے۔ جو اپنے ہی لوگوں کو خود کش دھماکوں میں کٹے پھٹے اعضاء کے تحفے اور آنکھوں میں دُکھ اور حسرتوں کے دھوئیں عنایت کر رہے ہیں۔

مولا مندی لکھی ٹالیوؤ۔

نسرین نے کہا۔ ’’ذرا میر کاروان سے تو کہو۔ ‘‘

’’نہ بی بی نہ۔ میں نہ بولوں۔ اقلیتی بندہ ہوں۔ نکّو بن جاؤں گی۔ تم نکلو باہر۔ شور مچاؤ۔ ‘‘

بتی آئی۔ تھوڑی سی کھینچا تانی ہوئی۔ کچھ اِدھر کچھ اُدھر والا معاملہ ہوا۔ چلو سانس تو آنے لگا۔ اٹیچی کیس پائنتی پر رکھا۔ بیگ وغیرہ سرہانے سجایا اور کمر سیدھی کرنے لیٹی۔

آرام خاک کرنا تھا۔ دماغ پر بغداد سوار تھا۔ ڈی ہائیڈریشن کا خوف تھا۔ آدھ گھنٹہ بھی نہ لیٹ پائی۔

ہوٹل کے ریسپشن پر جو لڑکا بیٹھا تھا مروان تھا۔ انگریزی صاف سُتھری بولتا تھا۔ تعارف کروایا تو پاس بٹھا لیا۔ کمپیوٹر پر بغداد کے شب و روز دوڑنے لگے تھے۔ کتنی تصویریں اُن بد قسمت عراقیوں کی دکھا دیں جو سڑکوں پر مرے پڑے تھے۔ کِسی کی ٹانگیں غائب، کِسی کا سر غائب، کہیں بازو، کہیں دھڑ ندارد۔ جلتی عمارتیں، شعلے اُگلتی گاڑیاں اور اِن قیامت جیسے لمحوں میں سامان لوٹتے لوگ۔

سکرین پر نئے منظر اُبھرے تھے۔

قُرآن لائبریری، بغداد لائبریری آگ میں جل رہی تھیں۔ عہد عثمانیہ کے بے حد قیمتی نُسخے، قرآن پاک کے قدیم ترین مخطوطے فٹ پاتھوں پر، سڑکوں پر ادھ جلے ٹکڑوں اور پورے جلے راکھ کے ڈھیروں کی صورت پڑے تھے۔ ایک پڑھی لکھی قوم کا گھٹیا پن، چاند پر کمندیں ڈالنے والے ایسے وحشی، ظالم اور انسانیت سے عاری لوگ۔

ہلاکو خان جاہل تھا۔ اُسے کتاب کی عظمت سے آگاہی نہ تھی۔ عہد عباسیہ خصوصاً َ عہد ہارونی میں یونانی، رومی، سنسکرت، ژند، فارسی، سریانی، قبطی زبانوں میں لکھی گئی نادر کتابیں جنہیں دنیا بھر سے بغداد لا کر تراجم کی صورت جس انداز میں محفوظ کیا گیا۔ اُس نے علم و آگہی کے دئیے یوں روشن کئیے کہ بغداد جگمگا اُٹھا۔ انسانی فکر کو جلا ملی اور شہر علم و ادب کا گہوارہ بن کر پوری دنیا میں ممتاز ہوا۔ اُس وقت کی دُنیا کے دو ہی تو نام تھے۔ بغداد اور قرطبہ۔

ہلاکو یہ سب نہیں جانتا تھا۔ اسی لئیے اُس نے دجلہ کا پانی سیاہ کر دیا تھا۔ غرناطہ کے عیسائی تو کتاب کی اہمیت سے آگاہ تھے اور جانتے تھے کہ کتاب دنیا کا مشترکہ اثاثہ ہے انہوں نے کیوں راکھ کے ڈھیر لگائے ؟ عصر حاضر کے ہلاکو خان سے زیادہ بھلا کتاب سے کون واقف ہو سکتا ہے ؟

پھر۔

ایک بڑا سوال میرے سامنے تھا۔

شاید وہ نئی صدی کے انسان کو انسانیت کے اِس تحفے سے نوازنا چاہتا تھا۔

میں نے سر جھٹک کر سکرین پر نظریں جما دی تھیں۔

مروان صدام کی بعض پالیسیوں کا ناقد تھا۔ بعض کا حامی۔ تعلیم پر حکومت کی خصوصی توجہ۔ مفت اور لازمی۔ ہر عراقی اسی لئیے پڑھا لکھا ہے۔ ملک کے طول و عرض میں صاف پانی کے پلانٹ۔ ظالم بھی بڑا تھا۔ اپنے دامادوں اور بیٹے تک کو نہ چھوڑا۔ بیچاری عام پبلک کِس کھاتے میں ؟

کلک کلک ہوئی تھی۔ اُودے حسین سکرین پر نمودار ہوا۔ صدام کا بڑا بیٹا۔ بڑا رعنا جوان تھا۔ قصّے حسین کو بھی دیکھا۔ وہ بھی شہزادہ تھا۔ دونوں بیٹے امریکیوں کے خلاف مزاحمت میں مارے گئے۔ اُودے حسین کی کہانی نے لرزا دیا۔

میرے تو سارے وجود نے جھُر جھُری لی تھی۔ صدام کے گہرے دوست اور اُودے کے درمیان جھگڑا ہو گیا۔ دوست مارا گیا۔ صدام کو معلوم ہوا۔ پہلے تو بیٹے کو مار مار کر اُس کا بھُرتہ بنا یا۔ اسپتال پہنچایا پھر عدالت میں گھسیٹا۔ ماں نے بیٹے کو بچانے کیلئے کوشش کی تو اُسے خاتون اوّل کے سارے اعزازات سے محروم کر دیا۔ ساجدہ اُس کی چچا زاد، بچپن کی ساتھی، راز دار، بچوں کی ماں۔ زندگی کے ہر اُتار چڑھاؤ میں اُس کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی۔ اُسے سزا دی۔ دوست کی بیوی سے شادی کی اور سمیرا خاتون اوّل بن گئی۔

دونوں بیٹیوں راغدہ اور رعنا کی شادیاں اپنے سگے بھانجوں سے کیں۔ سُسر اور دامادوں کے درمیان کچھ غلط فہمیاں پیدا ہو گئیں۔ دونوں داماد اپنی بیویوں کے ساتھ امریکہ چلے گئے جہاں وہ ہاتھوں ہاتھ لئیے گئے۔ انہیں واپس لانے میں شاہ اردن نے بڑا کردار ادا کیا۔

بیچارے بغداد آئے تو پہلا کام دونوں کو قتل کرنے کا ہوا۔

سکرین پر بڑی خوبصورت لڑکیاں پھول جیسے بچوں کے ساتھ دیکھیں تو بے اختیار افسوس کے پاتال میں گرتی چلی گئی۔ کیا انسان تھا؟کیسی شخصیت تھی؟سفاک، بے رحم، نرالا اور انوکھا۔

خلیجی جنگ پر اپنی قوم سے خطاب پر سلامتی کونسل کے جس انداز میں لتّے لئیے گئے میں تو اُس کا ترجمہ سُن کر دنگ تھی۔ جارج بُش کے والد سینئر بُش کو جو خط لکھا گیا وہ بھی بڑا اہم تھا۔

اُس کے ہاں کہیں رّتی برابر ابہام نہیں تھا۔ ڈنکے کی چوٹ پر اُس کا بیان تھا کہ امریکہ کو صرف اور صرف ہمارے تیل میں دلچسپی ہے۔ عربوں کو غلام بنانا اُس کی خواہش ہے۔

وہ احمق تھا، بہادر تھا، کیا تھا؟ابھی تو خیر سے میرا ابتدائے عشق تھا۔

سفارتی دُنیا کے ایک معتبر امریکی سفارت کار ریان سی کروکرRayan C Crokerکے الفاظ یاد آئے تھے۔ عراقی اور افغانی دنیا کی مشکل اور عجیب قومیں ہیں۔

اور وہ دونوں سے پنگا لئیے بیٹھے تھے۔

بغداد کا نقشہ پوچھا۔ نہیں تھا۔ پرانے بغداد کیلئے رہنمائی چاہی۔

یہ کاظمین یا الکاظمیہAL.Kazimiaa ملحقہ حرّیہ (Huriya)آگے قدیم شہر یہیں وہ جگہ جہاں مدینۃ المنصور کی بنیاد رکھی گئی۔ بس ذرا احتیاط۔ بغداد میں لاء اینڈ آرڈر کی صورت خاصی مایوس کن ہے۔ شنوائی نہیں۔ کسی کو ساتھ لے لیں۔ بم دھماکوں کا بھی کچھ پتہ نہیں چلتا۔

بم دھماکوں کی وجہ پوچھنے پر مروان بولا تھا۔

’’خیر سے استعماری طاقتیں مفاد پرست سُنّی اور شیعہ ٹولوں کو لڑا لڑا کر مروا رہی ہیں۔ دونوں بڑے فرقے ایک دوسرے کا بیج مارنے میں دل و جان سے مصروف ہیں۔

ڈپریشن سا ہونے لگا تھا۔ کمرے میں آ کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔ لیٹ گئی۔ پھر اُٹھ بیٹھی اور پھر باہر نکل گئی۔

دو رویہ دوکانوں میں طعام خانے تھے۔ کپڑے تھے۔ ڈھیروں ڈھیرسونا آنکھوں کو چُندھیاتا تھا۔ تربوز، گرما، انگور اور مالٹے تھے۔ بڑے بڑے تھالوں میں تلوں سے سجے گرما گرم طبون تھے جو تازہ تازہ بیکریوں کے تندوروں سے نکل کر آئے تھے۔

دھوپ کا جوبن تھا اور لوگوں کے پُرے تھے۔ رونقیں اور گہما گہمی تھی۔ رنگا رنگ کھجوریں تھیں۔ کہیں بچپن چھلانگ مار کر سامنے آ گیا تھا۔ جب ریڑھیوں والے آوازیں لگاتے تھے۔ کھجوریں بصرے کی۔ یہ بصرہ ہمیشہ سے ذہن کی گپھاؤں میں بیٹھا ہوا تھا۔ چلو اب بصرہ میں تو نہیں پر اُس سر زمین پر تو تھی۔

سو ڈالر بھنایا تو تقریباً ایک لاکھ سولہ ہزار کے نوٹ ہاتھ آئے۔ ۲۵ ہزار کا نوٹ باہر رکھا۔ بقیہ پرس میں گھسیڑا۔ دودھ لیا۔ ۱۰ کلو وزنی تربوز اُٹھایا۔ کرنسی اتنی بے وقعت سی تھی کہ سینکڑوں چھوڑ ہزاروں کے نوٹ بے اوقاتے اور بے توقیرے تھے۔

صد شکر کمرے میں مُنّی سی فرج تھی۔ کِسی سے پلیٹ چھُری مانگی۔ کپڑا بچھا کر آدھے تربوز کو دوائی جان کر ٹھونسا۔ صُبح سے اناج نام کی ایک کھِیل اندر نہیں گئی تھی۔ نسرین اُونگھتی تھی۔ فرج میں بقیہ آدھا رکھ کر اُسے کھانے کو کہا۔ منہ ہاتھ دھویا۔ کنگھی پٹی کی۔ نرم ڈوپٹے کا حجاب بنا کر اوڑھا۔ عبا یا پہنی اور نکل پڑی۔

مجھے اس مختصر سے وقت میں یہ اچھی طرح سمجھ آ گیا تھا کہ میرا وہ بسوں ٹراموں میں بیٹھ کر ہر نئے مُلک میں اُس کے شہروں سے متعارف ہونے کا سستا ترین پیکج فارمولا یہاں عراق میں نہیں چلے گا۔ شہر اور ملک جس ابتلا سے گزر رہا ہے وہ ایسی من مانی کی اجازت نہیں دیتا۔ مجھے ڈالروں والی تھیلی کا منہ کھولنا ہے۔ سلامتی اور تحفّظ سے بغداد کو دیکھنا ہے۔

روضۂ مبارک کی بیرونی دیوار کے سامنے کا سارا علاقہ بازاروں اور ہوٹلوں سے بھرا پڑا ہے۔ بڑے بڑے تنبو نما چیک پوسٹوں پر بیٹھی لڑکیاں جدید وضع کے میٹل ڈیٹکٹر ہاتھوں میں پکڑے آپ کو خارجی جانتے ہوئے دھیمی سی مسکراہٹ لبوں پر بکھیرے آپ کے سینے سے ٹانگوں تک پھیرتے اور اوکے کرتے ہوئے باہر کا اشارہ کر دیتی ہیں۔

ٹیکسی سٹینڈ تک آتے آتے میرے ہونٹوں پر دعائیں تھیں۔ اپنی آرزوؤں کے شہر بغداد کی سر زمین پر قدم دھرنے کی خوشی تھی۔ اِس خوشی کے سنگ سنگ خدشات کی بھی ایک لام ڈور تھی۔

میں نے چلتے چلتے اپنے آپ سے کہا تھا ’’ کہ اب دھماکوں سے کیا ڈرنا۔ آنی نے جیسے لکھا گیا ہے آنا ہی ہے۔ بندہ ڈریا موت توں تے موت اگے۔ وہاں دیس میں بھی تو یہی سب ہوتا ہے۔ ‘‘

اور جب میں ٹیکسی ڈرائیوروں سے بات کرتی تھی جو شہد کی مکھیوں کیطرح ارد گرد آ کھڑے ہوئے تھے۔ نظریں عینک کے سیاہ شیشوں کے عقب سے چہروں کو تنقیدی انداز میں ٹٹولتے ہوئے ایک قابل اعتماد، ایک قابل بھروسہ بندے کیلئے خدا کی مدد کی طلبگار تھیں۔

پھر جیسے وہ ٹھک سے میری نظروں کو بھا گیا۔ کوئی پچیس چھبّیس کے چکر میں ہو گا۔ مہذب، سنجیدہ، متین سا۔ آنکھیں جیسے اندر کے کسی دُکھ کو عیاں کرتی ہوں۔ انگریزی میں رواں تھا۔ بس پتہ نہیں میرا دل اُس سے سودے بازی اور مُک مُکا پر کیوں نہ مائل ہوا؟

دروازہ کھول کر بیگ سیٹ پر پھینکتے ہوئے میں خود کو ربِ کائنات کی تحویل میں دے چکی تھی۔ کچھ چہرے ایسے ہوتے ہیں نا جن پر اعتماد کرنے کو دل گواہی دیتا ہے۔

اور وہ چہرہ بھی ایسا ہی تھا۔

گاڑی میں بیٹھنے کے ساتھ ہی میرے اندر کی شوخ و چُلبلی سی خواہشیں فی الفور پھسل کر ہونٹوں پر آ گئیں۔

میں نے خود سے سوال کیا۔

’’مجھے سب سے پہلے کہاں جانا ہے ؟‘‘میرے اندر نے فی الفور جواب میں کہا تھا۔

’’دجلہ پر۔ ‘‘

دجلہ پر دیر تک ٹھہرنا ہے کہ مجھے اُس سے باتیں کرنی ہیں۔ شام کو رخصت ہوتے، سورج اور اس کی کرنوں کو دجلہ کے پانیوں پر اُترتے ہوئے دیکھنا ہے۔ پھر مجھے اُس قدیم ترین بغداد سے ملنا ہے جس کا سحر مجھے یہاں لایا ہے۔ دن کی روشنیوں میں، رات کی روشنیوں اور تاریکیوں میں۔ جنگوں سے متاثر لوگوں سے ملنا ہے۔ اسپتالوں میں جانا ہے۔

امام اعظم جناب ابو حنیفہ، جناب ابو موسیٰ کاظم اور پیران پیر غوث اعظم کے روضۂ مبارک پر حاضری صبح پاک صاف ہو کر ہو گی۔ ‘‘

عینک اُتار کر اُس سے مخاطب ہوئی جو افلاق تھا اور جو مجھے بھرے مجمع میں بڑا منفرد لگا تھا۔

’’عراق تہذیبوں کا گھر اور بغداد مسلمانوں کی عظمتوں کا نشان جس کی کہانیاں پڑھ پڑھ کر ہم بچپن سے اس کی محبت میں گرفتار ہیں۔ یہ دجلہ اور فرات جن کے کناروں پر ہمارے آبا ء کے قافلے اُترے اور جن کے پانیوں میں ان کے گھوڑوں نے چھلانگیں ماریں۔

میں بہت دور سے آئی ہوں۔ محبتّوں اور چاہتوں کے اس سفر میں اکیلی بھی ہوں اور خوف زدہ بھی۔ بس اتنی سی منّت ہے کہ بغداد کو دکھا دو۔ اُس سے بصری تفصیلی تعارف کروا دو۔ اس کے زخمی اور نڈھال لوگوں سے ملا دو۔ تمہارا احسان یاد رکھوں گی۔ ‘‘

اب آواز میں بھی جذبات ہوں۔ آنکھوں میں بھی۔ اور چہرہ بھی انہی تاثرات میں بھیگ جائے۔ مخاطب بھی جوان بچہ ہو تو متاثر ہونا ضروری امر ہے۔

’’کیسے وقت میں آئی ہیں آپ۔ ہم بدقسمت لوگ تو شعلوں کی برستی بارش میں نہا رہے ہیں۔ آتش فشاں کے کھولتے لاوے میں بہہ رہے ہیں۔

کلیجے پر گھونسہ لگا۔ کیا کہتی؟ تھوڑی سی چپ کے بعد لڑکا بولا۔

’’آپ کو اپنے گھر لے کر جاتا۔ ماں بہنوں سے ملاتا۔ ‘‘

میں اُس کے سنجیدہ سے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہے بغیر نہ رہ سکی۔

’’خواہشیں کتنی بھی منہ زور کیوں نہ ہوں۔ دانے پانی کا اختیار بھی بہت اہم ہے۔ ہاں یہ شعلوں اور آتش فشاں کی بھی تم نے خوب کہی۔ پاکستانی بھی تو اسی بربریت کا شکار ہیں۔ آگ اور شعلوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ ہمارے فیصلے، ہماری پالیسیاں، ہمارے حکمران، سب غیرت و حمیت سے عاری مغرب کے غلام ہیں۔ ان کے دست نگر۔ تمہاری عنایت ہو گی اگر تم اپنے گھر مجھے لے کر جاؤ۔ ‘‘

کون سے گھر؟ لمبی سی آہ اس کے سینے سے نکلی تھی۔ گھر تو کوئی رہا ہی نہیں۔ ماں بہنیں سب بمباری میں مر گئیں۔ گھر زمین بوس ہو گیا۔

’’تو تم کہاں تھے ؟‘‘

میں زکو(Zakhu ) شمالی عراق میں تھا۔ عراق پٹرولیم کمپنی میں اپنی جاب پر۔ چار دن بعد پہنچا تھا۔ المامون میں میرے انجنیئر ابّا کے ہاتھوں کا بنا ہوا خوبصورت گھر تو 20مارچ کی خوفناک صبح کی وحشیانہ بمباری میں ہی زمین بوس ہو گیا تھا۔ اور اس میں رہنے والی مہربان صورتیں جانے کہاں اور کن کمروں میں رزق خاک ہوئیں۔ مجھ سے چھوٹی بہن جو صرف دو ماہ بعد بیاہی جانے والی تھی نے جانے اپنی خوابوں سے معمور آنکھوں سے کیسے موت کو آنگن میں اترتے دیکھا ہو گا؟مجھے تو ان کا آخری دیدار بھی نصیب نہ ہوا۔ نہ کہیں قبریں نہ کہیں غسل کا اہتمام اور نہ کفن دفن کہ بغداد کربلا بنا ہوا تھا۔ اور صدام کے محل پر وحشیانہ بمباری ہو رہی تھی اور المامون کا علاقہ گرین زون سے بہت قریب تھا۔

وہ کیمیکل ٹیکنالوجی میں ایم ایس سی کیمیکل انجنئیر اب ایک ٹیکسی ڈرائیور ہے کہ ملازمتوں کا قحط پڑا ہوا ہے۔ یوں سیاحت، تاریخ سے دلچسپی اور گائیڈ جیسے شوق اور مشاغل اُس نے زمانۂ طالب علمی سے پال رکھے تھے۔ اُس کی چھٹیاں اکثر و بیشتر غیر ملکیوں کے ساتھ گزرتیں۔ باپ اُس کی اِن بے قاعدہ اور بے ڈھبی سی سرگرمیوں سے بڑا الرجک رہتا تھا۔ جاب تو اُسنے کوئی سال بھر پہلے شروع کی تھی۔ سب کچھ لٹ جانے پر اُسے تو مہینوں کچھ یاد ہی نہیں رہا تھا۔ ایک بار خودکشی کی کوشش کر چکا تھا۔ کاظمیہ کے علاقے الحریت میں رہنے والے چچا چچی نے بانہوں میں سمیٹاہوا ہے۔ ان کا بہت ممنون تھا۔

’’آپ کو لے کر چلوں گا ان سے ملانے۔ اِس ٹیکسی ڈرائیوری نے مجھے زندگی کی طرف دوبارہ کھینچا ہے کہ میں لوگوں کے دُکھوں کو سنتا ہوں اور اپنے بھُولتا ہوں۔ درد میں ڈوبے گیت احساس دلاتے ہیں کہ زندگی ابھی باقی ہے۔ مجھ جیسے لوگوں کیلئے۔ علی اسماعیل عباس جیسے بچوں کیلئے جس کا کوئی عزیز بھی نہیں بچا۔ جس کے بازو بھی نہیں بچے جس کے ڈاکٹر بننے کے خواب بھی نہیں بچے۔

اِس نوحے کو ذرا سُنیے۔ اس نے گاڑی کا ٹیپ آن کیا اور میں سُنتی تھی۔

The children of Iraq have names

They are not the nameless ones

The children of Iraq have faces

They are not the faceless ones

The children of Iraq do not wear Sadam’s face

They each have their own face

The children of Iraq have names

They are not all called Sadam Hussain

The children of Iraq have dreams

They are not the dreamless ones

The children of Iraq have hearts that pound

They are not meant to be statistics of war

They are quick and lively with their laughter

What do you call the children of Iraq

Call them Omar, Muhammad Fahad

Call them Tiba, Marwa.

 

میں دائیں بائیں دیکھتے دوکانوں کے سائن بورڈ پڑھتے کہیں سمجھ آنے، کہیں نہ آنے کی کیفیت میں ڈوبی اور عراقی بچوں کی ترجمان یہ انگریزی نظم سُنتے سنتے اس وقت چونکی جب گاڑی ایک اسپتال کے یارڈ میں داخل ہوئی۔

’’سب سے پہلے یہاں بچوں کو دیکھئیے اُن سے ملیئے۔ ‘‘

میرا تو وہ حال تھا کہ جسے کہیں سرمنڈواتے ہی اولے پڑیں۔ یہاں تک پہنچنے میں تکالیف کا ہی کوئی انت نہ تھا۔ مروان نے کمپیوٹر پر ایک سے بڑھ کر ایک المناک مناظر دکھا کر پتّہ پانی کر دیا۔ اوپر سے افلاق کی غم انگیز داستان، اس پر بھی بس نہ ہوا لا کر ایرموک اسپتال میں کھڑا کر دیا۔

ایرموک اسپتال اور یہ منصور سٹی کا علاقہ ہے۔ میں نے جانا تھا۔ پاؤں من من بھر کے ہو گئے تھے اور دل جیسے وزنی پتھروں تلے آ گیا تھا۔ اسپتال کے شعبہ اطفال کے انچارج ڈاکٹر کے کمرے میں داخلہ ہوا۔ چشمہ پہنے جس شخص سے تعارف ہوا وہ درمیانی عمر کا حواس باختہ سا تھا۔ ڈاکٹر سعد معروف۔ ڈاکٹر تو کہیں سے نہیں لگتا تھا تاہم پاکستان کا جان کر بہت خوش ہوا۔ قہوہ پیتے ہوئے پتہ چلا کہ گلف وار کے بعد جنگ کے تین چارسال تک تنخواہوں کی کوئی باقاعدگی نہیں تھی۔

ایک اقتصادی پابندیوں سے زندگی اجیرن۔ دوسرے دوائیں نہ ملنے سے مریضوں کی ابتر حالت اور اموات۔ جی چاہتا تھا دنیا کو آگ لگا دیں۔

وارڈوں میں ہمیں خود لے کر گیا۔ کاش مجھے تھوڑا ساپتہ چل جاتا تو ان معصوم بچوں کیلئے ٹافیاں ہی خرید لاتی۔

اچھے بھلے پرسکون اور خوشحال ملکوں میں بیمار بچوں کو دیکھنا تکلیف دہ امر ہوتا ہے کہ اسپتال اور مریض دونوں خوفناک۔ تو اب ایسے ملک کی بات ہی کیا جو جنگوں اور پیہم جنگوں میں ہی اُلجھا رہا ہو۔ جس کا بیج مارنے کی ہر کوشش ہوتی رہی ہو۔

جنرل وارڈ میں کیسے کیسے بچے تھے۔ پانچ سال پہلے جنگ کے شعلوں میں جھلستے بچوں اور عورتوں سے وارڈ بھرے تھے اور اب خود کش دھماکوں میں مرتے اور جلتے بچے، عورتیں اور مرد بستروں پر پڑے تھے۔ تیکھے نقوش اور سرسوں جیسی رنگتوں والے malnutritionکی مختلف اقسام کے مریض تھے۔ ڈاکٹر سعدی خوفناک حقیقتوں سے پردہ اٹھاتے تھے۔ بلیک مارکیٹ میں بیکار ہونے والی دواؤں کی تفصیلات جنہیں والدین بیچارے خرید کر لاتے اور بچوں پر اُن کے منفی اثرات پڑتے۔ ایک افراتفری اور مار دھاڑ ہوئی پڑی تھی۔ اِن بستروں پر بچے نہیں تھے جیسے لاشیں تھیں۔ کہیں ٹوٹی ٹانگوں، ٹوٹے بازوؤں، جلے چہرے، بارود سے جھلسے وجود لیکموئیاLeukemia، Lymphatic cancer، جگر اور جانے کن کن بیماریوں میں مبتلا تھے۔ بچوں سے بات کرنا چاہی تو زبان درمیان میں تھی۔

دل چاہتا تھا یہیں بیٹھوں اور پھوٹ پھوٹ کر روؤں۔ پہلے امریکی جارحیت کا سامنا تھا۔ اب دھماکوں اور خودکش حملوں نے قیامت برپا کر رکھی تھی۔

جب وہ خواتین کے وارڈ کی طرف جانے لگے۔ میں رُک گئی۔ میں نے ڈاکٹر کی طرف دیکھتے ہوئے شکستہ سی آواز میں کہا تھا۔

’’ڈاکٹر صاحب میں ایک جہنم سے نکل کر دوسرے جہنم میں داخل ہو گئی ہوں۔ یہ سب منظر میرے ملک کے بھی ہیں۔ میں بہت ڈپرس ہو رہی ہوں۔ اور وہ حساس منفرد طرز کا شاعر منصور آفاق یاد آیا تھا۔ اُس کا نوحہ یاد آیا تھا۔ لب دھیرے دھیرے گنگنانے لگے تھے۔

میرے ہارے ہوئے مظلوم دل کو مرثیہ خوانی کی ہمت دے

ہمارے عہد کے اِس کربلا پر تیری امت کی یہ مجبوری بھی کیسی ہے

کہ ہم مرتے ہوؤں پر بین کرنے سے گریزاں ہیں۔

٭٭٭

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں