FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

جمالیاتی آگہی کا مصنف: شکیل الرحمن

 

 

                ڈاکٹر سیدہ جعفر

 

ترتیب و تہذیب ڈاکٹر شیخ عقیل احمد

 

 

 

 

 

 

 

فہرست

 

امیر خسرو کی جمالیات.. 14

محمد قلی قطب شاہ کی جمالیات.. 22

نظیر اکبر آبادی کی جمالیات.. 25

داستان امیر حمزہ اور طلسم ہوشربا 33

کلاسیکی مثنویوں کی جمالیات.. 40

میر شناسی.. 48

شکیل الرحمن کا مطالعہ غالبؔ… 54

پریم چند کے نقاد— شکیل الرحمن… 58

فراق کی جمالیات.. 67

اختر الایمان — جمالیاتی لیجنڈ… 75

 

 

 

 

 

 

جمالیاتی آگہی کا مصنف — شکیل الرحمن

 

 

شکیل الرحمن نے جمالیاتی آگہی کے مصنف کی حیثیت سے ادب میں اپنی شناخت قائم کی ہے۔ جمالیات اور ادب کے رشتے کی تفہیم کا تعلق دانشوری سے بھی ہے اور تنقیدی شعور سے بھی اس کا ربط مستحکم ہے۔ بام گارٹن وہ پہلا مفکر ہے جس نے فنون لطیفہ میں جمالیات کے تفاعل، اس کے اثر و نفوذ اور اس کے دائرہ کار کی وسعتوں اور پنہائیوں سے نتائج اخذ کرنے کی کوشش کی۔ ہیگل نے حسن اور حسن کاری کے وسیلے سے اس کا باقاعدہ مطالعہ کیا۔ جمالیات فلسفے کا ایک شعبہ ہے۔ اہل علم و بصیرت نے اسے مستقل حیثیت سے پیش کر کے اس کے امتیازات کا تشخص قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ حسن، فطرت اور کائنات کا ایک جوہر ہے اور جب یہ اپنا اظہار محسوسات کی سطح پر کرتا ہے تو ان میں رعنائی اور نظر فریبی و جاذبیت پیدا ہو جاتی ہے اور نشاط و انبساط کی کیفیت اس سے وابستہ ہو جاتی ہے۔ جمالیاتی حس تمام انسانوں میں یکساں نہیں ہوتی بلکہ مختلف محرکات، ماحول اور ذہنی تربیت اور افتاد طبع کے زیر اثر نئے زاویے سے اثر آفرینی کے درجات متعین ہوتے ہیں۔ جمالیات کی تفہیم و تحسین کے سلسلے میں ڈیکارٹ، ہیوم، کانٹ ( Kant) گوئٹے اور ہیگل سے لے کر ہرڈر اور کروچے تک تصورات کے تنوع اور کہیں کہیں تضاد سے بھی ہم آشنا ہوتے ہیں۔ کروچے نے حسن کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا تھا اس نے معاصر ادیبوں اور شعرا کے ذہنوں کو متاثر کیا اور ’’نظریہ اظہاریت‘‘ نے فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں پر اپنا نقش ثبت کر دیا۔ انسان کی تخلیقی حسیت کا اس کے جمالیاتی شعور سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ جمالیات کا ایک نظریہ یہ ہے کہ حسن دیکھنے والے کی نظر میں ہوتا ہے۔ اردو کے شعرا نے بار بار اس خیال کی تائید کی ہے :

سودا جو تیرا حال ہے اتنا تو نہیں وہ

کیا جانئے تو نے اسے کس رنگ میں دیکھا

اس طرف بھی نظر آئے دیدہ صاحب نگراں

میں نے ذروں سے تراشے ہیں ستاروں کے جہاں

ہاں دعا دے میری اس خوش نظری کو اے دوست

اس سے پہلے تیرے جلوؤں کا یہ عالم تھا کہاں

ہے وہی عارض لیلیٰ وہی شیریں کا دہن

نگہ شوق گھڑی بھر کو جہاں ٹھیری ہے

حسن ہے میری نظر کی ایجاد

لوگ سمجھے کہ بڑی شے ہو گی

مختلف قوموں میں حسن کا تصور جو جمالیات کی بنیاد ہے اپنے ماحول سے پیدا ہوتا ہے۔ ارد گرد کی فضا، روایات، کلچر کے خدوخال، تصور حسن اور تخلیقی حسیت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ جنوبی ہند ایک پہاڑی علاقہ ہے۔ جنوبی ہند کے مختلف مندروں میں بت تراشی کے جو انمول نمونے موجود ہیں وہ یہاں کے مذاق حسن کے غماز ہیں۔ ایلورہ اور دوسرے مقامات کی بت تراشی سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں اعضاء بدن کے گداز اور ان کی گولائی اساسی طور پر اپنا جلوہ دکھاتی رہتی ہے۔ ایران میں حسن کا تصور بلندی اور نفاست سے وابستہ ہے اور محبوب کو سرو رواں اور صنوبر سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ بعض بلند اور فنی نزاکت سے آراستہ تعمیریں اس کی ترجمانی کرتی ہیں۔ ان علاقوں میں جہاں اپنی بقا کے لیے جد و جہد کرنی پڑتی ہے، محبوبہ کا تصور قتالہ کے روپ میں اپنا حسن دکھاتا ہے۔ افریقی ممالک میں سیاہ رنگ، موٹے ہونٹ اور چپٹی ناک محبوبہ کے حسن دل آرا کی نشانیاں ہیں۔ افریقی لوگوں کی جمالیاتی حسیت ایک خاص ماحول کی پروردہ اور تربیت یافتہ ہوتی ہے۔

اردو میں جمالیاتی تنقید کے منظر نامے میں شکیل الرحمن اس لیے منفرد نظر آتے ہیں کہ انہوں نے اپنے پیش روؤں کی تقلید پر اکتفا نہیں کی بلکہ مشرقی وسطی اور ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کے پس منظر میں روایات، دیو مالائی تصورات اور اصول کی کارفرمائی کا تجزیہ کر کے بھی فنکار کی تخلیقی حسیت کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے فنون لطیفہ، شعر و ادب، سنگ تراشی، مصوری، رقص اور موسیقی کی بنیادوں میں کار فرما جمالیاتی رجحانات کے اشتراک اور داخلی ربط کی طرف ہمیں متوجہ کیا ہے۔ تصور جمالیات کی بازیافت شکیل الرحمن کا پسندیدہ انداز تنقید ہے۔ کلاسیکی ادب کے توسط سے شاعری کی جمالیات پر تبصرہ کرنے والوں میں محمد حسین آزاد، مہدی افادی، عبدالرحمن بجنوری، فراق، مجنوں گورکھپوری، نیاز فتح پوری، محمد حسن عسکری اور خورشید الاسلام کے ناموں کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔

شکیل الرحمن کی تصنیف ’’محمد قلی قطب شاہ کی جمالیات‘‘ کے مطالعے سے ایک ایسے تخلیق کار کی تصویر سامنے آتی ہے جو پریم رس میں ڈوبا ہوا ہے۔ ڈاکٹر زور نے پہلی بار محمد قلی قطب شاہ کا ضخیم دیوان مرتب کیا تھا۔ ان کی توجہ کا مرکز زیادہ تر تحقیقی حقائق کی بازیافت اور پیشکش تھا۔ اس لیے ’’قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان دہلی‘‘ سے جب میرا مرتبہ کلیات شائع ہوا تو میں نے تحقیقی مسائل کے علاوہ محمد قلی کے کلام کے تنقیدی پہلو کو اپنا ماسکہ بنایا اور شاعر کے ہندوستانی افکار اور تہذیبی تصورات کی عکاسی اور شاعری کے تجزیے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں محمد قلی کی شعری کاوشوں میں جو راگ راگنیوں، ہندوستانی دیومالا سے واقفیت، کلام کلا، نائیکہ بھید، رسوں اور مناظر فطرت کی مصوری کے ذیل میں ’’رت ورنن‘‘ کی ہندوستانی روایت سے اثر پذیری اور دوسری جہتیں موجود ہیں ان پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر محمد قلی قطب شاہ وہ اولین تخلیق کار ہے جس کے فن پاروں نے ہندوستانی تہذیب، ہندوستانی فکر، جمالیاتی تصورات، فنون لطیفہ اور ہندوستان کی سرزمین پر صدیوں سے جلا پانے والے گوناگوں مظاہر کے نقوش کو گویائی عطا کی۔ شکیل الرحمن کی تصنیف ’’محمد قلی قطب شاہ کی جمالیات‘‘ مطالعے کا نیا زاویہ پیش کرتی ہے۔ انھوں نے شاعر کے جمالیاتی شعور کا بڑی دیدہ وری اور باریک بینی کے ساتھ مطالعہ کیا ہے۔ شکیل الرحمن نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ محمد قلی کی جمالیاتی حس بہت بیدار اور متحرک ہے۔ مصنف نے شاعر کی جنسی حسیت پر روشنی ڈالی ہے اور لکھتے ہیں کہ بھرت نے جن اکتالیس ’’بھووں ‘‘ (Bhavas) کا ذکر کیا ہے ان میں ’’رتی بھو‘‘ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ شکیل الرحمن یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ’’شاعر کے کلام میں جو شرینگار رس ہے وہ اسی جذبے کی دین ہے۔ ‘‘

تنقید میں کلام غالب شکیل الرحمن کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ شکیل الرحمن نے اپنے منفرد انداز میں غالب کی شاعری کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہے اور ان نفسیاتی اور جمالیاتی محرکات کا جائزہ لیا ہے، جن سے اثر پذیری اشعار غالب کی تہہ میں کار فرما ہے۔ کلام غالب میں آتش، شعلہ، برق، رقص، آئینہ، چراغ، محفل، کوہ، دشت، صحرا، سیلاب، بیاباں، جلوہ، تماشہ، جنوں، شراب، بہار، لہو، آرزو، شر ر، موت، جادہ اور نفس جیسے الفاظ بار بار ہماری نظر سے گزرتے ہیں۔ ان الفاظ نے کلام غالب میں علامتوں کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔

شکیل الرحمن نے کلام غالب میں ’’رقص‘‘ کو زندگی، حرکت اور فعالیت کی علامت قرار دیا ہے۔ شکیل الرحمن نے اس سلسلے میں ہندوستانی کے اساطیری تصورات، تاریخ اور قدیم ادب اور تہذیب میں رقص کی اہمیت واضح کی ہے۔ ہندو مت کی قدیم کتابوں میں ہندو صنمیات کی رو سے بھگوان شیو، نٹ راجہ ہیں اور ان کا رقص زندگی کا مظہر اور کائنات میں انسانی وجود کی بقا کی علامت ہے جو ساکت و جامد میں نہیں حرکت اور جنبش میں ہے۔ شکیل الرحمن کا خیال ہے کہ غالب کی شخصیت، جس ماحول میں پروان چڑھی تھی، اس میں رقص و موسیقی تہذیبی زندگی میں گھل مل گئے تھے اس لیے غالب شعور اور غیر شعوری طور پر رقص کی جمالیات سے متاثر ہوئے تھے۔ رقص میں وجدان، جذب اور تحرک کے جو عناصر موجود ہیں وہ غالب کی شاعری اور ان کی شعری حسیت میں در آئے ہیں۔ غالب سے متعلق شکیل الرحمن کے محاکمات، تفہیم و تحسین غالب کا نیا زاویہ فراہم کرتے ہیں۔ کلام غالب میں متصوفانہ تصورات کے بارے میں میں لکھتے ہیں کہ غالب کی زندگی متصوفانہ سرگرمیوں سے عبارت نہیں تھی۔ ان کے تخلیقی ذہن کی نشو و نما ہند آریائی کلچر کے زیر اثر ہوئی۔ یہ پیکر غالب کو اردو زبان کے وسیلے سے ملا تھا۔

شکیل الرحمن کا خیال یہ ہے کہ ’’لہو‘‘ اور ’’سرخ‘‘ رنگ سے غالب کو جذباتی وابستگی تھی اور انھوں نے ان دونوں ’’استعاروں ‘‘ کو بڑی بلاغت کے ساتھ شعر کا جزو بنا کر اپنے دائرہ تفہیم کو وسعت عطا کی ہے۔ رنگ، رقص اور تحرک کی علامتی حیثیت کے شعری اظہار اور فکری اسرار کی پرتیں کھولتی ہے۔ غالب کو مختلف رنگوں کی معنویت کا احساس ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سیاہ، سبز اور سرخ رنگ حسن سے متعلق علامتوں کے اسرار کا امین ہے۔ زلف سیاہ، زمرد، داغ لالہ، پر طوطی، سبزہ رنگ حسن، سبز غبار، سرمہ، تیرگی اختر، داغ مہ، سایہ اور دیدہ آہو کا ذکر غالب کے اشعار میں محض لفظوں کی خانہ پری نہیں، ان کے وسیع معنوی جہات کا احاطہ کرنے کا رجحان ہے۔ شکیل الرحمن تصویر اور شعری پیکروں میں رنگون کے امتزاج اور ان کی کیفیات کی اثر آفرینی سے بخوبی واقف ہیں اور ان کے وسیلے سے وہ تخلیق کے سر چشموں اور تخلیق کار کی ذات تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مصوری اور شاعری میں رنگوں کو گویائی عطا کی جاتی ہے۔ شکیل الرحمن پر فنون لطیفہ کا یہ رمز آشکار ہو چکا ہے۔ مثنوی ’’چراغ دیر‘‘ مثال میں پیش کی جا سکتی ہیں جس میں تین رنگوں کو بنیادی اہمیت کا حامل قرار دیا گیا ہے، سرخ، آسمانی اور سبز۔

اپنی کتاب ’’میر شناسی‘‘ میں شکیل الرحمن نے اس تخلیق کار کو ایک نئے زاویے سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ہندوستانی جمالیات میں ’’شرینگار رس‘‘ کو مرکزی اہمیت حاصل ہے اور وہ تمام رسوں کا سرچشمہ تصور کیا جاتا ہے۔ وہ رقم طراز ہیں کہ ’’یہ رس محبت اور غم کے جذبوں سے پیدا ہوتا ہے۔ ‘‘غم کا جذبہ باطن میں کتھارسس کی کیفیت بھی پیدا کرتا ہے جس سے شعور، احساس اور تخیل متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ معروف عالم جمالیات ابھی نوگپت کا حوالہ دیتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ شرینگار رس ’’سرنگ‘‘ (Sringa) سے نکلا ہے جس کے مفہوم میں سیکس کی جبلت بھی شامل ہے اور شرینگار رس اس تجربے کی ترجمانی کرتا ہے جو عشق سے حاصل ہو اور سیکس کی جبلت کو متاثر کرے۔ شکیل الرحمن نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ جنس میر کے کلام میں اس طرح موجود نہیں جیسے اردو کے بعض اور شعرا کے اشعار میں نظر آتی ہے۔ شکیل الرحمن ایک جمالیاتی نقاد ہیں اس لیے وہ میر کی شاعری میں جمالیات کی کارفرمائی اور جلوہ گری کو اپنی توجہ کا مرکز بناتے ہیں۔ اس کا خلاصہ نقاد کے الفاظ میں یہ ہے کہ ’’فنکار کی سائیکی کو جو روحانی، جمالیاتی انبساط اور درد کی رومانی اور جمالیاتی لذت حاصل ہوتی ہے انھوں نے بڑی سادگی سے قاری کی سائیکی کو عطا کر دیا ہے۔ شکیل الرحمن نے اس تصنیف میں میر کے بعض اشعار کا تجزیہ کرتے ہوئے فکر و فلسفہ اور جمالیاتی شعور کے آئینے میں میر کے تجربے اور احساس کا عکس دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ شکیل الرحمن نے میر پر یہ تنقید کی ہے کہ ان کے یہاں خیال اور جذبے کا تنوع موجود نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ میر کی شاعری میں ایک رنگ ہے لیکن بہت گہرا اور پر اثر۔ میر شناسی کے سلسلے میں شکیل الرحمن نے ارسطو اور کروچے کے حوالے نہیں دیے ہیں بلکہ ابھی نوگپت کے تصورات سے استفادہ کیا ہے۔ اس میں نقاد کو اگر کوئی کمی نظر آتی ہے تو وہ یہ کہ یہ شاعری ’’جہت دار‘‘ اور ’’پہلو دار‘‘ نہیں ہے (صفحہ83)، لیکن جیسا کہ کہا جا چکا ہے کہ میر کے کلام کا مرکزی جذبہ عشق ہے، جس کی مختلف کیفیات اور جاں گداز تجربات کو انھوں نے اپنی شخصیت کے سارے سوز و ساز اور التہاب کے ساتھ لفظوں میں ڈھال دیا ہے۔ ایسی شاعری اس شاعری سے بہتر ہوتی ہے جو رنگا رنگ مناظر کو سرسری طور پر دیکھتی ہوئی گزر جاتی ہے اور دلوں کو متاثر نہیں کرتی۔ اپنے عہد کے ایک قوی ادبی رجحان ایہام گوئی کو بھی میر نے درخور اعتنا نہیں سمجھا ؎

کیا جانے دل کو کھینچے ہیں کیوں شعر میر کے

کچھ ایسا طرز بھی نہیں ایہام بھی نہیں

ظاہری طمطراق یا شعری صناعی نہیں بلکہ جذبے کی آنچ اور اس کی صداقت دلوں کو کھنچتی ہے۔

ابوالکلام آزاد کی تحریروں میں شکیل الرحمن کو ان کے جمالیاتی شعور کی جھلک جا بجا نظر آتی ہے۔ ڈاکٹر سید عبداللہ نے ’’غبار خاطر‘‘ پر تنقید کی تھی کہ اس میں آزاد کی ’’اصل نثر‘‘ کا سراغ نہیں ملتا اور ان کے مخصوص اسلوب سے یہ تصنیف بہت دور ہے۔ اس کتاب میں ابوالکلام آزاد کا قلم ’’بیمار اور ضعیف‘‘ نظر آتا ہے۔ شکیل الرحمن نے اس خیال کی تردید کی ہے۔ وہ ’’غبار خاطر‘‘ کی نثر کو اردو ادب کے لیے سرمایہ فخر محسوس کرتے ہیں۔ لکھا ہیـ: ’’اردو کی ادبی تنقید، آرٹ اور اس کے جو ہر کے تئیں زیادہ بیدار نہیں ہوئی ہے۔ آرٹ کے شعور کی کمی یقیناًً محسوس … ’’ترجمان القرآن‘‘ کے اسلوب کی جمالیات اور غبار خاطر کی رومانیت سے اردو نثر میں ’’سبلائم‘‘ اور ’’جمال‘‘ کا ایک عمدہ معیار قائم ہوتا ہے۔ ‘‘

شکیل الرحمن نے ’’غبار خاطر‘‘ میں رومانیت کے مختلف پیکر تلاش کیے اور ان کی نشاندہی کی ہے۔ ’’غبار خاطر‘‘ کے بارے میں مصنف نے لکھا ہے : ’’غبار خاطر‘‘ پڑھتے ہوئے مجھے ہمیشہ ایسا محسوس ہوا جیسے مولانا ابوالکلام آزاد کی رومانیت نے جنگل کے مور کی طرح اپنے پر کھول دیے ہیں اور ایک ایسے چمن کی تخلیق ہو گئی ہے جس میں طرح طرح کے پھول کھلے ہوئے ہیں۔ ’’نقاد نے ابوالکلام آزاد کی جمالیاتی حسیت کے علاوہ ان کی علمیت کو بھی سراہا ہے اور لکھتے ہیں کہ ’’ترجمان القرآن میں ابوالکلام آزاد نے اصحاب کہف، ذوالقرنین اور یاجوج ماجوج کے بارے میں اپنے تحقیق شعور کا ثبوت دیا ہے۔ ‘‘

قرآن مجید کو شکیل الرحمن جمالیات کا سرچشمہ تصور کرتے ہیں۔ انہوں نے سور نور کی آیت کریمہ جس میں ’’اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو زمین اور آسمانوں کا نور قرار دیا ہے اور اس کی مثال ایک فانوس سے دی ہے جس میں رکھا ہوا روشن چراغ موتی کی طرح چمکتا ہوا تارا ہے پھر فرمایا کہ وہ روشنی در روشنی ہے …‘‘ اس آیت کو بنیاد بنا کر شکیل الرحمن نے جمالیات کار موز آشکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ اپنے بیان کی وضاحت کے لیے انھوں نے ’’الذی احسن کل شی خلقہ‘‘ (اس نے ہر چیز خوب ہی تخلیق کی ہے ) اور ’’لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم‘‘ (ہم نے انسان کو احسن تقویم بنایا یعنی بہترین انداز کے ساتھ خلق کیا) اور ’’صورکم فاحسن صورکم‘‘ (اور تمہاری صورتیں بنائیں تو کیا ہی حسین صورتیں بنائیں ) سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ذات باری تعالیٰ جمالیات کا منبع ہے اور اس دنیائے آب و گل کے نظارے اسی کے رہین منت ہیں۔ انسان کے حسن سے لطف اندوز ہونے کی حس اللہ تعالیٰ کی دین ہے۔ شکیل الرحمن جمال کے ساتھ جلال کا بھی تذکرہ کرتے ہیں۔ وہ رقمطراز ہیں : ’’قرآن مجید جو جمالیات کا بھی ایک عظیم تر چشمہ ہے …‘ جلال اور پھر جمال کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ جلال جمال کا پیکر اختیار کرتا ہے۔ ‘‘

’’تصوف کی جمالیات ‘‘ پر بعض حضرات نے اظہار ناپسندیدگی کیا ہے۔ شکیل الرحمن اس تصور کے حامل ہیں کہ تصوف تمام مذاہب کی روح ہے۔ اس کتاب کا پہلا مضمون جمال قلندری ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر صوفی میں قلندری کا جوہر موجود ہوتا ہے۔ وہ رقمطراز ہیں : ’’قلندری آزادی کا پیکر ہے۔ وہ اپنے وجود کو سمیٹے جلال و جمال سے رشتہ قائم کر کے دیوانہ بن جاتا ہے۔ ‘‘ آگے چل کر لکھتے ہیں : ’’قلندری صوفیت کا منتہا بھی ہے اور اپنی علاحدہ شناخت بھی رکھتی ہے۔ ‘‘ جب صوفی عالم جذب و کیف کی انتہائی منزل پر پہنچتا ہے تو اس کا وجود عشق الٰہی کے جلال و جمال کی کیفیتوں کو محسوس کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کا خلاصہ مصنف کے الفاظ میں یہ ہے کہ ’’سارے متصوفانہ افکار و نظریات کا تعلق مذہب کی ان جمالیاتی قدروں سے ہے جو تصوف کے شناخت نامے کو مرتب کرنے میں ہمہ وقت متحرک رہتی ہے۔ ‘‘ اپنے مضمون ’’ہندوستان کے علاقائی ادب میں تصوف جمال ‘‘ میں وہ بتاتے ہندوستان کے مختلف حصوں میں تصوف اور جمالیات کے چراغ روشن ہوئے۔ اسلامی تصوف نے بدھ، جین اور ہندو مابعد الطبیعیات کے اثرات بھی قبول کیے ہیں۔ شکیل الرحمن لکھتے ہیں : ’’دنیا میں وحدت الوجود (Pantheism) کے عقیدے کا سب سے قدیم سرچشمہ ہندوستان ہے۔ ‘‘

شکیل الرحمن نے حافظ شیرازی کے جمالیاتی نگار خانے کی بھی سیر کروائی ہے۔ انہیں حافظ کے کلام میں ایک ’’پراسرار خوشبو‘‘ محسوس ہوتی ہے۔ تاثراتی اور جمالیاتی نقادوں کی تنقید میں اس طرح کے محاکمات اپنی جھلک دکھاتے رہتے ہیں۔ یہ شکیل الرحمن کی دانست میں ’’شعور‘‘ سے ماورائے شعور‘‘ کا سفر ہے۔ وہ لکھتے ہیں : ’’یہ خوبصورت ڈراما ہے جو جمالیات کی ارفع و افضل سطح پر دنیا کے کسی بھی شاعر کی تخلیقات میں موجود نہیں۔ (جمالیات حافظ، ص78)۔ حافظ کے بارے میں شکیل الرحمن کا خیال یہ ہے کہ انہیں ’’شکست دل‘‘ نے ایک ’’میٹھا گداز‘‘ عطا کیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جمالیات کے نقطہ نظر سے کلام کا جائزہ لے کر شکیل الرحمن نے حافظ کو از سر نو دریافت کیا ہے اور ان کے تخلیقی ارتعاشات کو گرفت میں لانے کی کوشش کی ہے۔

ایک اور فارسی شاعر امیر خسرو کی جمالیات پر بھی شکیل الرحمن نے نظر ڈالی ہے۔ امیر خسرو کے کلام میں تصوف کے عناصر اور جمالیاتی حسیت کا تجزیہ کر کے مصنف نے امیر خسرو کی اصل روح تک رسائی کی کوشش کی ہے۔ مصنف کا خیال ہے کہ نشاطیہ رجحان امیر خسرو کی رومانیت اور جمالیات کا سب سے اہم رجحان ہے اور نشاطیہ رجحان نے ’’رمز کیفیتوں ‘‘ کو پرکشش بنا دیا ہے۔ شکیل الرحمن نے امیر خسرو کی تخلیقات پر اچھا تبصرہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’امیر خسرو ایک سچے عاشق، صوفی اور بلند پایہ فنکار تھے۔ انہیں جہاں کہیں حسن کے جلوے نظر آتے ہیں وہ انہیں اپنی تخلیقات میں محفوظ کر دیتے ہیں جس طرح بچے جگنوؤں کو اپنی مٹھی میں قید کر لیتے ہیں۔ ‘‘ امیر خسرو کے بارے میں مصنف کی رائے یہ ہے کہ شاعر نے انسانی رشتوں کے احترام کا احساس دلایا ہے۔ شکیل الرحمن نے امیر خسرو کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے اس میں ہیومنزم کے عناصر کی نشاندہی کی ہے اور کہتے ہیں کہ ہیومنزم میں انسانی قدریں مرکزی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ آگے چل کر وہ رقمطراز ہیں : ’’حسن اور وحدت حسن کی تلاش ہی زندگی کا بنیادی مقصد ہے۔ ‘‘ اور اس معیار پر نقاد کو امیر خسرو پورے اترتے نظر آتے ہیں۔

کلام غالب پر تبصرہ کرتے ہوئے شکیل الرحمن نے داستان کے بارے میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ داستان کو تخیلی سطح پر شکیل الرحمن پیکر تراشی اور واقعہ طرازی کا عمل قرار دیا ہے اور لکھتے ہیں کہ جب تخیل تمثیل میں بدل جاتا ہے تو اس کی پیکر تراشی کا عمل الفاظ میں ظاہر ہوتا ہے اور اس طرح داستان ہمارے گرد و پیش سے ہمارا ربط پیدا کرتی ہے۔ مشرق میں داستانیں بہت مقبول رہی ہیں۔ غالب کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ جمالیات سے غالب کا پراسرار تخلیقی رشتہ قائم رکھا تھا اور ’’بوستان خیال‘‘ سے غالب کو طلسمات کی ایک ایسی کائنات حاصل ہوئی تھی جو ان کے ذوق اور مزاج سے مناسبت رکھتی تھی۔ طلسمی روح، طلسمی خط اور شہنامہ خورشیدی وغیرہ سے غالب کا ذہن متاثر تھا، اس لیے ان کی شاعری میں لفظ طلسم سے وابستہ تصورات و خیالات اور تراکیب بار بار ہماری نظر سے گزرتی ہیں۔

اخترالایمان کے فن کو بھی شکیل الرحمن نے تنقیدی نظر سے دیکھنے اور دکھانے کی کوشش کی ہے۔ نظریاتی بعد کے باوجود شکیل الرحمن نے اخترالایمان کی شاعری کے بعض پہلوؤں کو سراہا ہے لیکن انھوں نے شاعر پر یہ تنقید کی ہے کہ اخترالایمان کی شاعری جب جب مسائل کے دلدل میں پھنس جاتی ہے تو اچھا تاثر نہیں پیدا کر سکتی۔ وہ نظم ’’کوزہ گر‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’اخترالایمان کی ظاہری شخصیت جنتی بے چین نظر آتی ہے داخلی طور پر اتنی بے چین اور مضطرب نہیں۔ باطنی کرب کی پہچان نہیں ہوتی، الفاظ بوجھل ہیں، تجربات کا اظہار سپاٹ طریقے سے ہوا ہے … شاعر کا ذہن تو ملتا ہے لیکن اس کی وجدانی کیفیت نہیں ملتی۔ ‘‘جمالیاتی نقاد تنقید کرتے ہوئے اکثر جذبات کی رو میں بہہ جاتا ہے اور اس کا لب و لہجہ رومانی تاثر میں ڈوب کر تخلیقی آہنگ اختیار کر لیتا ہے۔ نشاۃ الثانیہ پر تبصرہ کرتے ہوئے شکیل الرحمن لکھتے ہیں : ’’فطرت کے حسن کے سایے میں ایک دلکش کہانی ہے۔ اس کی یاد خوبصورت نغمے کی طرح آتی ہے۔ اس نغمے کے آہنگ کی مدد سے شاعر اس ماحول میں پہنچ جاتا ہے جہاں جامنوں کے جھنڈ میں، شیشم کے درختوں کی چھاؤں میں کوئلوں اور پپیہوں کی آوازوں میں ان کے ساتھ جذبات میں ایک شدت ہے۔ ‘‘

شکیل الرحمن کی جمالیاتی تنقید نے ان کی ایک علاحدہ شناخت قائم کی ہے۔ انہیں اخترالایمان کی نظموں میں رومانیت کی پرچھائیں نظر آتی ہیں۔ خود اخترالایمان اپنی نظموں میں رومانیت کے اثرات کے زیادہ قائل نہیں۔ شکیل الرحمن لکھتے ہیں : ’’رومانیت انسان کی مادری زبان ہے اور شاعر کا تخیل مادری زبان کا تخلیقی استعمال خوب جانتا ہے۔ ‘‘ نقاد اخترالایمان کے مجموعہ کلام ’’گرداب‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے بعض ہم عصر نقادوں کے اس خیال کی تردید کی ہے کہ اخترالایمان کی نظموں جو حزنیہ تاثر اور افسردگی کی جھلک نظر آتی ہے وہ در اصل ان کی رومانیت کا ایک پیکر ہے۔ ’’یادیں ‘‘ اور ’’آب جو‘‘ پر بھی شکیل الرحمن نے تنقیدی نظر ڈالی ہے۔ اخترالایمان کی نظم ’’لڑکا‘‘ نے ادبی حلقوں میں بڑی مقبولیت حاصل کی اور یہ نظم نقادوں کی توجہ کا مرکز بنی رہی۔ شکیل الرحمن نے ورڈس ورتھ (Wordsworth) کی نظم ــ”There was a Boy” سے اس کا موازنہ کیا ہے۔ دونوں فنکاروں میں زمانی اور مکانی اختلافات اور زبان کے اختلاف کے باوجود شکیل الرحمن ’’نرگیسیت‘‘ کو قدر مشترک تصور کرتے ہیں۔ انھوں نے اس نظم کا تجزیہ کرتے ہوئے اسے سراہا ہے اور اردو شاعری میں اس کو خوبصورت شعری افسانہ تصور کرتے ہیں۔

شکیل الرحمن اپنے ادبی سفر کے آغاز میں ترقی پسند تحریک کے بعض رجحانات سے اختلاف نہیں کرتے تھے لیکن بعد میں انھوں نے اسے بہت پیچھے چھوڑ دیا اور اپنی مخصوص راہ پر گامزن ہو گئے۔ شکیل الرحمن نے ایک منفرد فکری رویے کا اظہار کیا ہے اور جمالیاتی تنقید کے وسیلے سے تخلیق کی حقیقی روح تک پہنچنے کی کوشش کی ہے۔ میکان کی انداز میں بندھے ٹکے اصولوں کے تحت فنکار کو جانچنے اور پرکھنے کے عمل کو وہ فرسودہ قرار دیتے ہیں۔ ان کی دانست میں تخلیق، جمالیاتی شعور اور مابعد الطبعیاتی تموج و تحریک کا نتیجہ ہے۔ اپنی تنقید کے دوران شکیل الرحمن نے فنتاسی (Fantasy) آرٹ کی ٹائپ، قدیم تاریخ تناظر اور جمالیاتی تجربات کے آئینے میں تخلیق کو دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ اردو کی بوطیقا میں یہ تنقید منفرد ہے۔ شکیل الرحمن اس خیال کے حامل ہیں کہ اچھی شاعری محض عروض کی پابندی کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کی تہہ میں انسانی زندگی کے اسرار و رموز کارفرما رہتے ہیں اور ان کے تاثرات کا جائزہ لینا تنقید کا اہم منصب ہے۔ وہ لکھتے ہیں : ’’داخلی لمحوں کی دنیا میں ماضی، حال اور مستقبل سب ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں۔ یہ پیکر حسیاتی ہوتے ہیں اور مختلف رجحانات کے ترجمان بن جاتے ہیں۔ آوازوں، خوشبوؤں، تاریکیوں اور اجالوں کے احساسات میں ماضی و حال کی میکان کی تقسیم ختم ہو جاتی ہے۔ ‘‘ شکیل الرحمن کے اس بیان سے مارکسی نقاد متفق نہیں ہو سکتے۔ فن پارے کو انفرادی شخصی اور داخلی معیاروں سے جانچنا ان کی دانست میں خارجی محرکات کو نظرانداز کر دینے کا رجحان ہے۔ شکیل الرحمن کا طرز تحریر بھی منفرد ہے اور اس میں محسوسات کی کارفرمائی، شخصی آہنگ اور دلکش اسلوب کی اہمیت مسلمہ ہے۔ مثلاً شکیل الرحمن نے غالب کو ایک نئے زاویے سے دیکھا ہے اور کہتے ہیں : ’’غالب رنگ اور آواز اور حرکت و رقص کے دلدادہ ہیں۔ اردو شاعری میں حسی لذتوں کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔ ان کے جمالیاتی لاشعور میں سومنات کا حسن اور تقدس ہے … لاشعور اور باطن کے سومنات کے جلال و جمال کے پیکر شاعر کے نفس، احساس تحیر اور تلازمی کیفیتوں کو سمجھاتے ہیں۔ ‘‘ آگے چل کر رقمطراز ہیں : ’’تخلیق انہیں گریز پا ہیولوں کی گرفت کی نیم کامیاب کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ شکیل الرحمن کے الفاظ میں ’’گنجینہ معنی‘‘ کی طلسم کشائی کے لیے شاعر کی علامتوں سے آشنائی حاصل کرنا ضروری ہے۔ علامتوں کی تفہیم کے بغیر فن پارے کے معنوی مرکز تک رسائی دشوار ہے۔ جدید تنقید نے بھی علامتوں کی اہمیت واضح کی ہے لیکن شکیل الرحمن ایک دوسرے سیاق و سباق میں اس کی نشان دہی کرتے ہیں۔ آرٹ میں تخلیقی عمل کا تجزیہ کرتے ہوئے وہ بار بار اس خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ تخلیقی بنیادی طور پر جمالیاتی تجربے کے مطالعے کا نام ہے جس کے پیچھے بہت سے معلوم و نامعلوم محرکات کام کرتے رہتے ہیں۔ وہ اس خیال کے حامل ہیں کہ جمالیاتی تجربہ حاسہ کے ذریعہ سے پہلے تخیل میں تحرک پیدا کرتا ہے اور تخیل متحرک ہو کر مختلف رنگوں میں اپنا جلوہ دکھانے لگتا ہے اور پیکر، امیج اور علامت کے وسیلے سے اظہار کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے۔ شکیل الرحمن کے تنقیدی رویے کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ جمالیات کو فنون لطیفہ (بشمول ادب) کی روح سے تعبیر کرتے ہیں جس کی گرفت کے بغیر نہ تو تخلیقی عمل مکمل ہو سکتا ہے اور نہ ہی ادب میں کسی فن پارے کی حقیقی تفہیم و تحسین ممکن ہے۔ شکیل الرحمن نے رومی، حافظ، کبیر، خسرو، میر، غالب، محمد قلی قطب شاہ، منٹو، پریم چند اور اخترالایمان وغیرہ کی تخلیقات کا اسی نقطہ نظر سے مطالعہ کیا ہے۔ شکیل الرحمن نے صرف تخلیق اور تخلیق کار تک اپنے تجزیے اور مطالعے کو محدود نہیں رکھا ہے بلکہ تہذیبی محرکات کی کارفرمائی اور شعور و لاشعور پر ان کے ارتسامات کو بھی اہمیت کا حامل قرار دیا ہے۔ ’’راگ راگنیوں کی تصویریں ‘‘ اور ’’قصہ میرے سفر کا‘‘ میں شکیل الرحمن نے موسیقی، مصوری اور فنون لطیفہ کے پیکروں سے اردو دنیا کو اپنے مخصوص انداز میں متعارف کروانے کی کوشش کی ہے۔ میرا بائی، گرونانک اور کبیر کی تخلیقات میں انھوں نے جمالیاتی آب و تاب اور فکر و بصیرت کے نقوش کی نشاندہی کی ہے۔ شکیل الرحمن نے ’’ہندوستانی جمالیات‘‘ اور ’’ہندوستان کا نظام جمال ‘‘ جیسی تصانیف پیش کر کے اردو ادب کے سرمایے میں بیش بہا اضافہ کیا ہے۔ ‘‘ ’’ہندوستان کا نظام جمال‘‘ کی جلد سوم اور ’’ہندوستانی جمالیات‘‘ کی تیسری جلد کا موضوع ’’ہند اسلامی جمالیات‘‘ سے متعلق ہے۔ جمالیات کے بارے میں شکیل الرحمن کہتے ہیں کہ کوئی جمالیات ’’خالص‘‘ نہیں ہوتی جس طرح کہ کوئی کلچر ایک عنصر پر مبنی نہیں ہوتا۔ ہندوستانی جمالیات میں مختلف قوموں اور نسلوں کے تجربات اور احساسات شامل ہیں۔ وہ ہندوستانی فنون لطیفہ میں رقص کو مرکزی اہمیت کا حامل قرار دیتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ ہندوستانی ذہن نے جسم کے آہنگ کو ہمیشہ اہمیت دی ہے اور یہ کہ روح کا آہنگ ایک منزل پر جسم کا آہنگ بن جاتا ہے۔ شکیل الرحمن اردو کے ایک منفرد اور اہم جمالیاتی نقاد ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

                امیر خسرو کی جمالیات

 

 

فارسی کے بلند پایہ شاعر اور اپنے عہد کے نابغہ امیر خسرو کی شخصیت بڑی پہلو دار اور رنگارنگ تھی۔ وہ لسانیات کے ماہر بھی تھے، ہندوستانی موسیقی کی جدید ترتیب کے بانی اور مورخ بھی۔ نظام الدین اولیاء کے فیض صحبت نے ان کے صوفیانہ مزاج کو جلا بخشی تھی۔ انھوں نے اپنے وسیع مشاہدے، اپنی ژرف نگاہی اور دیدہ وری سے زندگی کے جلوہ صد رنگ کا نظارہ کیا تھا۔ امیر خسرو نے سیاسی، تہذیبی، روحانی اور گوناگوں ارضی تجربات سے استفادہ کیا جس سے ان کے اجتماعی لاشعور میں تحرک پیدا ہوا تھا اور انہیں زندگی کا جو ادراک حاصل ہوا وہ انھوں نے اپنے قارئین تک پہنچایا تھا۔ صدیوں کے وسط ایشیائی افکار و خیالات اور ہندوستانی رجحانات ان کی سائیکی میں جذب ہو چکے تھے۔ امیر خسرو کی جمالیاتی حس بہت تیز اور گمبھیر تھی۔

شکیل الرحمن نے اپنی کتاب ’’امیر خسرو کی جمالیات‘‘ میں شاعر کے ذہن، ان کے تاثرات اور جمالیاتی وژن کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ امیر خسرو کے احساس جمال کے علاوہ ان کے متصوفانہ طرز فکر اور رومانی شعور کے تجزیے سے بھی دلچسپی لی ہے۔ امیر خسرو کے نسلی شعور نے ترک ذہن کے ارتسامات قبول کیے تھے اور ہندوستانی روایات۔ یہاں کے پھولوں، پرندوں، خوبصورت مناظر، میناؤں کی سحر طرازیوں اور ہندوستانی فکرنے ان کی شخصیت اور ذہن کی تعمیر و تشکیل میں حصہ لیا تھا۔ ان تمام عناصر اور محرکات کا اثر امیر خسرو کے تصور زندگی ہی پر نہیں بلکہ جمالیاتی شعور پر بھی سایہ فگن رہا۔

نقاد نے کتاب کے ابتدائی حصے میں امیر خسرو کی زندگی اور سوانحی حالات پر مختصراً روشنی ڈالی ہے اور لکھتے ہیں کہ امیر خسرو کی پیدائش مومن آباد (اتر پردیش)میں (1252ء— 1253ء) میں ہوئی تھی۔ بچپن میں ماں باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ امیر خسرو نے سات بادشاہوں کا زمانہ دیکھا تھا۔ غیاث الدین بلبن، جلال الدین خلجی، علاء الدین خلجی، قطب الدین خلجی، غیاث الدین تغلق اور محمد بن تغلق۔ امیر خسرو نے بہتر (72)سال کی عمر میں بمقام دہلی وفات پائی۔ امیر خسرو کا پہلا دیوان ’’دیوان الفقر‘‘ ہے اس کے بعد نثری مجموعہ ’’خزائنۃ الفتوح‘‘ منصہ شہود پر آیا۔ ’’وسط الحیاۃ‘‘، ’’غرۃ الکمال‘‘، ’’بقیہ بقیہ‘‘ اور ’’نہایت الکمال‘‘ ان کے کلام پر مشتمل ہیں۔

’’قران السعدین‘‘، ’’مفتاح الفتاح‘‘، ’’یادول رانی خضر خاں ‘‘، ’’نہہ سپیر‘‘ اور ’’تغلق نامہ‘‘، ’’امیر خسرو کی یادگار ہیں۔ مثنویوں میں ’’پنج گنج‘‘، ’’مطلع الانوار‘‘، ’’شیریں خسرو‘‘، ’’مجنوں لیلیٰ‘‘، ’’آئینہ سکندری‘‘، ’’ہشت بہشت‘‘ امیر خسرو کے شعری اکتسابات ہیں۔ امیر خسرو کو نظم و نثر دونوں پر یکساں قدرت حاصل ہے۔ ان کے علاوہ کہہ مکرنیاں، گیت، پہلیاں اور دوہے بھی ان سے منسوب ہیں۔

امیر خسرو فنون لطیفہ کے دلدادہ تھے۔ وہ موسیقی کے رسیا تھے اور انھوں نے ہندوستان کے کلاسیکی راگوں کو ایرانی اور عربی، موسیقی کی دھنوں سے مالا مال کیا تھا۔ قول، ترانہ اور بسیط امیر خسرو کی ایجاد سمجھی جاتی ہے۔ راگ صنم، راگ عشاق، راگ زیلف، راگ موامق اور راگ رگنولہ ان ہی کی اختراع ہیں۔

شکیل الرحمن نے امیر خسرو کی تاریخی حقائق پر مبنی مثنویوں کا جائزہ لیا ہے اور اس کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’مثنویوں کا مطالعہ کرتے ہوئے واقعات کے حسن انتخاب، جذباتی اور حسیاتی کیفیات، خیال افروزی، تخیل پسندی، منظر نگاری اور نفسیاتی نکتہ آفرینی وغیرہ پر نظر رکھیں تو محسوس ہو گا وہ حسی حقیقت پسندی کے ایک بڑے فنکار ہیں ‘‘

شکیل الرحمن نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ تاریخی مثنویوں میں فنکار خسرو، تاریخ نویس خسرو سے آگے نظر آتا ہے۔ خود امیر خسرو کا بیان ہے کہ :

من از دیدہ خویش گویم سخن

نہز افسانہ و داستان کہن

امیر خسرو داستان کہن کو بنیاد بنانے کے بجائے، اپنے محسوس کئے ہوئے واقعات و کر دار کو قابل ترجیح تصور کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر نقاد نے علاء الدین خلجی کی ’’خزائن الفتوح‘‘ کو پیش کیا ہے۔ امیر خسرو کے تاریخی قصیدوں پر یہ تنقید کی جاتی ہے کہ ان میں ایک بادشاہ کی جو تعریف و توصیف کی گئی ہے وہی دوسرے بادشاہ پر بھی چسپاں کی گئی ہے۔ اس تنقید کا جواب دیتے ہوئے شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ عہد وسطیٰ کے ہندوستانی تمدن اور شاہی روایات نے اکثر حکمرانوں کو ایک خاص سانچے ڈھال دیا تھا اس لیے بھی ان کی مدح سرائی میں مشابہت کا پرتو نظر آتا ہے۔ شبلی نعمانی نے اعتراض کیا تھا کہ قران السعدین میں امیر خسرو نے کیقباد اور بغرا خاں کا حال سرسری طور پر لکھا اور خاص خاص واقعات کو مفصل بیان کیا ہے اور ان کی تعریف میں رطب اللسان نظر آتے ہیں۔ اس کے جواب میں شکیل الرحمن کا بیان ہے :

’’امیر خسرو کا کارنامہ یہ نہیں کہ انھوں نے صداقتوں اور تاریخی واقعات کو پیش کر دیا ہے۔ ان کا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے ایک ڈراما خلق کیا ہے اور اپنے تہذیبی شعور سے جذبات کی سطح بلند کر دی ہے ‘‘

نقاد کی رائے یہ ہے کہ ’’قران السعدین‘‘ فی نقطہ نظر سے ایک شاہکار ہے۔ تاریخی واقعات میں ڈراما اور فکشن دونوں کی خوبیاں شامل ہو گئی ہیں۔ موضوع کو مختلف مناظر میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ جس سے ڈرامائی لطف واثر پیدا ہو گیا ہے۔ اس میں امیر خسرو کا جمالیاتی شعور اور ان کی رومانیت دونوں متاثر کرتے ہیں۔ امیر خسرو نے مرقع نگاری سے کام لیا ہے۔ جزئیات نگاری، ماحول اور فضاء کی تشکیل، تخیل آفرینی اور پھر ڈرامائی تصادم، ’’قران السعدین‘‘ کو ڈرامے کا لطف عطا کرتا ہے۔ ’’قران السعدین‘‘ میں ہر باب یا منظر کے بعد غزل ملتی ہے جو تبصرہ بھی ہے اور تنقید بھی۔ اس تصنیف میں دہلی شہر کی جو تصویر کشی کی گئی ہے وہ نہایت پر اثر اور دلچسپ ہے۔ ایک مٹا ہوا نقش امیر خسرو کی ’’قران السعدین‘‘ میں ہمیشہ کے لیے زندہ رہ گیا ہے۔ شہر کی تصویر بڑے فنکارانہ اور دلفریب انداز میں پیش کی گئی ہے۔ جامع مسجد، حوض سلطانی اور مینارہ وغیرہ کے گویا اور متحرک مرقع ماضی کی یادوں کا اثاثہ ہیں۔ حوض سلطانی دو پہاڑوں کے درمیان واقع تھا اور جمنا سے کئی نہروں کا پانی اس میں شامل ہوتا تھا۔ جمنا کے کنارے کیلوکھری میں شاہی محل تھا اس کا عکس دریا میں نظر آتا تھا۔ باغ کے درختوں کی شاخیں محل کے اندر پہنچ گئی تھیں۔

شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ امیر خسرو ایک اچھے ڈراما نویس تھے اور تمثیل نگاری سے انہیں بڑی دلچسپی تھی اور ’’تغلق نامہ‘‘ اور ’’قران السعدین‘‘ میں اس کا کمال نظر آتا ہے۔ ’’مفتاح الفتوح‘‘ میں جلال الدین خلجی کی چار فتوحات کا ذکر کیا گیا ہے اور بڑے تمثیلی انداز میں ان کی تصویر کشی کی گئی ہیی۔ امیر خسرو کی مثنوی ’’ذولمرانی خضرخاں ‘‘ میں علاء الدین خلجی کے بیٹے خضر خاں اور گجرات کی راجکماری دیولی دیوی کی داستان محبت پیش کی گئی ہے اس میں تاریخی عناصر بھی اپنی جھلک دکھاتے رہتے ہیں اور ادبیت کی روشنی اور چاشنی بھی موجود ہے۔ ’’نہہ سپہر‘‘ میں نو ابواب ہیں اور ہر باب کی بحر جداگانہ ہے۔ درمیان میں غزلیں موجود ہیں جو ’’نہ سپہر‘‘ کے حسن میں اضافہ کرتی ہیں۔ بعض نقادوں کا خیال ہے کہ ’’تغلق نامہ‘‘ ادبی اعتبار سے بھی ایک یادگار تصنیف ہے۔

شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ امیر خسرو کے کلام میں ہومنزم (Humanism) کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ خسرو کی رومانیت اور جمالیات میں ہیومنزم کا جو ہر کارفرما نظر آتا ہے۔ امیر خسرو کی نظر میں انسان کو کائنات میں ممتاز اور بلند مرتبہ حاصل ہے۔ شاعر نےا نسان کو ’’در پاک‘‘ سے موسوم کیا ہے جس طرح سمندر میں موتی سب سے گراں قدر شی ہوتی ہے اسی طرح زمین پر انسان کا وجود بے مثال ہے۔ ’’مطلع الانوار‘‘ میں انسان کی عظمت اجاگر کی گئی ہے۔ شکیل الرحمن کا خیال ہے کہ وجود حقیقی کے جلال و جمال کی شعاعیں اگر کہیں جذب ہوتی ہیں تو وہ انسان کا وجود ہے۔ نقاد کی رائے میں :

’’امیر خسرو کے رومانی ذہن اور جمالیاتی شعور کی تشکیل میں ترک ہندی روایات و اقدار، ہندوستان کے خوبصورت ماحول کے جلووں، مذہب کی روشنی اور پاکیزگی اور تصوف کی داخلی آنچ نے نمایاں حصہ لیا ہے ‘‘

امیر خسرو حسن کے ہر مظہر کے عاشق ہیں ان کی دانست میں عشق، انسانی زندگی کا جوہر ہے اور وہ انسان سے انسان کا رشتہ قائم کرتا ہے۔ ہیومنزم وہ ادراک عطا کرتا ہے جو کائنات کے حسن کی اساس کو سمجھ سکے۔

امیر خسرو کہتے ہیں کہ حسن مطلق اور معبود حقیقی کے جمال کو عقل سے پہچانا نہیں جا سکتا ہے اس سلسلے میں وجدان کی رہبری و رہنمائی ضروری ہے۔ وہ ان دانشوروں اور اہل علم پر تنقید کرتے ہیں جو عقل کو حق شناسی کا معیار قرار دیتے ہیں ؎

حکیم گفتہ شناسم بہ عقل یزداں را

زہے کمال حماقت وایں چہ گفتار است

امیر خسرو نے تصوف کے اسرار و رموز محبوب الٰہی نظام الدین اولیاء کی تعلیمات سے اخذ کیے تھے اور اسی ذات سے انہیں عشق کا سوز و ساز ملا تھا۔ عشق انسان کا انسان سے ربط قائم کرنا اور ہیومنزم کا جوہر یہ بتاتا ہے کہ تمام انسان ایک ہی خالق کی مخلوق ہیں اور انسان کو ’’برائے وصل کر دن‘‘ پیدا کیا گیا ’’نہ برائے فصل کر دن‘‘ نظام الدین اولیاء کے حجرے تک پہنچتے پہنچتے امیر خسرو پر یہ حقیقت منکشف ہو چکی تھی کہ ؎

سر آئینہ بھی جمال ہے پس آئینہ بھی جمال ہے

اور یہ جمال اپنی رنگا رنگی کے ساتھ نیرنگی کا جلوہ بھی دکھاتا رہتا ہے۔ جلال و جمال دونوں حسن کے مظہر ہیں۔ امیر خسرو فقیر کے تکیے سے دربار شاہی کے شہہ نشیں تک زندگی کے متنوع اور گوناگوں تجربات سے آشنا ہوئے تھے اور اس سے انہیں جو دیدہ وری اور وسیع النظری حاصل ہوئی تھی وہ ان کے ہیومنزم کی اساس بنی۔ زندگی کا تماشائی بن کر امیر خسرو نے زندگی کے مزاج کو سمجھنے کی کوشش کی۔ شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ امیر خسرو کے ذہن کا رشتہ وسط ایشیا کی صدیوں پر انی تہذیب تاریخ اور روایات سے ہے۔ شکیل الرحمن کا خیال ہے کہ ادب کے بارے میں امیر خسرو کے خیالات کا اظہار ان کی تصنیف ’’غزۃ الکمال‘‘ کے طویل دیباچے میں ہوا ہے جس کے مطالع سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاعری کے بارے میں خسرو کا نقطہ نظر جمالیاتی تھا۔

شکیل الرحمن نے امیر خسرو کو ہندوستانی موسیقی میں ’’ایک لیجنڈ اور متحرک و خوبصورت روایت‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ انھوں نے ہندوستانی موسیقی میں تجربے کیے اور کلاسیکی موسیقی کو نئے رجحانات سے آشنا کیا۔ ’’قران السعدین‘‘ اور ’’اعجاز خسروی‘‘ میں امیر خسرو نے ان راگوں کا ذکر کیا ہے جو انھوں نے ہندوستان کی کلاسیکی، ایرانی اور عربی موسیقی کی دھنوں کی آمیزش سے متعارف کروائے تھے۔

امیر خسرو کی تاریخی مثنویوں کے تحت شکیل الرحمن نے ’’قران السعدین‘‘، ’’مثنوی نہ سپہر‘‘ اور مثنوی ’’تغلق نامہ‘‘ کی تفصیل بیان کی ہے۔ یہ نقاد کے الفاظ میں ’’حسی حقیقت پسندی کے عمدہ نمونے ہیں ‘‘ وہ لکھتے ہیں کہ ان تصانیف کے وسیلے سے امیر خسرو نے پچاس سال کی تاریخ مرتب کر دی ہے۔ ان کاوشوں کے مطالعے سے ایک نقاش اور مصور فنکاری کی اعلیٰ تخلیقی صلاحیتوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ شکیل الرحمن نے امیر خسرو کی تاریخ نگاری کا جائزہ لیتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ تاریخی موضوعات میں بھی انھوں نے نفسیاتی نکتہ آفرینی سے کام لیا ہے اور دوسری خصوصیت یہ ہے کہ امیر خسرو جمالیاتی اور رومانی مزاج کے حامل ہیں اور انہوں نے اپنے مخصوص زاویے نظر سے واقعات کا تجزیہ کر کے نتائج اخذ کرنے کی کوشش کی ہے۔ نقاد کا خیال ہے کہ امیر خسرو کا آرٹ تاریخ نویسی کے فن سے اکثر جگہ آگے بڑھ گیا ہے۔ اپنی ’’توصیف نگاری‘‘ کا خود امیر خسرو کو احساس تھا۔ شکیل الرحمن تاریخ نویسی میں تخلیقی رجحان اور آرٹ کے عمل دخل کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’ایک مورخ واقعات کو پیش کرتے ہوئے تاریخی اور تمدنی قدروں کا تعین کرتا ہے اور تفصیل بیان کرتے ہوئے خود بھی ایک تماشائی رہتا ہے اس کے برعکس ایک فنکار تاریخی اور تمدنی قدروں کو اپنے احساس اور جذبے سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتا ہے اور واقعات و کر دار پیش کرتے ہوئے خود ایک تماشہ بن جاتا ہے ‘‘

امیر خسرو نے جو تاریخی نقوش ابھارے ہیں ان میں قرون وسطیٰ کی مزاج شناسی نے معنویت اور تہہ داری پیدا کر دی ہے۔ خسرو قرون وسطیٰ کے مزاج شناسی تھے اور ہندوستان کی تاریخ اور روایات سے آشنا بھی تھے اس لیے انھوں نے اپنے عہد کے تاریخی نقوش کو بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ اجاگر کیا ہے۔ اس وقت دو تہذیبیں ایک دوسرے میں جذب ہو رہی تھیں اور اس تاریخی تشکیل نے نئے افکار و تصورات اور تہذیبی عوامل کی تخلیق کی تھی۔ شبلی نے امیر خسرو پر تنقید کی تھی کہ ’’قران السعدین‘‘ میں کیقباد اور بغرا خاں کے حالات و واقعات پر کم توجہ کی گئی ہے اور بعض تہذیبی مظاہر کو مرکز نظر بنا لیا گیا ہے جو شبلی نعمانی کی دانست میں تاریخ نویسی کا کمزور پہلو ہے۔ امیر خسرو کی ’’قران السعدین‘‘ میں جو ہند ترک جمالیات کے نقوش ملتے ہیں ان کی اہمیت سے ان کار نہیں کیا جا سکتا۔ ضیاء الدین برنی نے ’’تاریخ فیروز شاہی‘‘ میں بغرا خاں اور کیقباد سے متعلق بعض معلومات کو ’’قران السعدین‘‘ سے اخذ کیا ہے اور بطور سند پیش کیا ہے یہ خسرو کی تار یخ نویسی کا رقم ہے لیکن شکیل الرحمن نے اس کمزوری کو بھی ہزینا کے پیش کیا ہے۔

امیر خسرو کی ’’مطلع الانوار‘‘ میں انسان کی عظمت کا بیان ہے اور خسرو نے انسان کو ’’در پاک‘‘ سے موسوم کیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ خدا کے جلال و جمال کی شعاعیں اگر کہیں جذب ہوتی ہیں تو وہ انسانی وجود ہے۔ ’’مطلع الانوار‘‘ کے مطالعے سے خسرو کے ہیومن ازم (Humanism) کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ انسان کو دوسرے انسان سے محبت کے لیے پیدا کیا گیا ہے اور عشق کی کتاب میں کہیں نفرت کا درس موجود نہیں ہے۔ صرف محبت کی تعلیم ملتی ہے۔ ’’نہ سپہر‘‘ میں اہل ہنود کی توحید پرستی کی حمایت کی ہے اور ان کے خلوص کو سراہا ہے کہ عورتیں اپنے شوہر کی چتا پر اپنی جان قربان کر دیتی ہیں۔ تصوف سے لگاؤ نے امیر خسرو کے ہیومنزم کو جلا بخشی تھی۔

شکیل الرحمن نے امیر خسرو کی پہلیوں اور کہہ مکرینوں پر بھی تبصرہ کیا ہے۔ اور ان کی مثالیں پیش کی ہیں۔ مصنف کا خیال ہے کہ امیر خسرو کے ادبی کارناموں اور ان کی تصانیف کا مطالعہ کرتے ہوئے مندرجہ ذیل نکات پر توجہ کرنا ضروری ہے۔

(1) صدیوں کے وسط ایشیائی افکار و خیالات سے امیر خسرو کے ذہن کا رشتہ قائم ہے اور تہذیبی آمیزش سے ان کی فکر روشن ہے۔

(2) موجود سچائیوں نے امیر خسرو کے لاشعور کو متحرک کیا ہے۔

(3) تہذیبی آمیزش کی قدروں اور تصوف و صوفیانہ تجربات کے رشتے سے امیر خسرو کی اثر آفرینی معنویت کی حامل ہے۔

(4) خسرو کی جمالیات ہند ترک جمالیات ہے

(5) امیر خسرو کا رومانی شعور بہت گہرا اور تابناک ہے

(6) ہندوستان سے امیر خسرو کو جذباتی لگاؤ ہے

(7) خسرو نے ؟؟؟؟ قصوں اور قدیم ہندوستانی روایات سے ذہنی اور جذباتی رشتہ استوار کیا ہے۔

(8) حسی حقیقت پسندی سے کام لے کرتا ریخی اور جذباتی نقوش کو دلکشی اور ذہنوں کو روشنی عطا کی ہے۔

(9) تاریخ میں ایسے عناصر ڈھونڈ نکالے ہیں جو مسرور ایام تک محدود نہیں ابدی قدروں کے نمائندہ ہیں۔

شکیل الرحمن کی تصنیف ’’امیر خسرو کی جمالیات‘‘ اس شاعر و ادیب کی تفہیم و تحسین کا ایک موثر وسیلہ ہے۔ کتاب کے مصنف نے امیر خسرو کی زندگی اور فن کے مختلف پہلوؤں پر نہ صرف علیحدہ علیحدہ روشنی ڈالی ہے۔ بلکہ اجمالی حیثیت سے بھی امیر خسرو کے علمی و ادبی مقام کا تعین کرنے کی ایک مستحسن کوشش کی ہے۔ امیر خسرو پر لکھی ہوئی تصانیف میں شکیل الرحمن کی اس کتاب کو ایک ممتاز مقام حاصل ہے۔

٭٭٭

 

 

 

                محمد قلی قطب شاہ کی جمالیات

 

 

ہر ادب کی جڑیں اس کے ماضی میں دور تک پیوست ہوتی ہیں اور وہ ان سے تقویت و توانائی حاصل کر کے اپنے وجود کو استحکام عطا کرتا، سنورتا اور نکھرتا رہتا ہے۔ اردو ادب کے حقیقی خد و خال، اساس رجحانات، اس کے امتیازات اور اس کے مزاج سے آشنا ہونے کے لیے اس کے ماخذوں اور سر چشموں کی آگہی ضروری ہے۔ دکنی ادب کا مطالعہ ان بنیادوں کی علمی شناخت کی سعی ہے جن پر آج اردو شعر و ادب کی سر بفلک عمارت قائم ہے۔ محمد قلی قطب شاہ اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر اور وہ تخلیق کار ہے جس کے فن پاروں نے ہند عالی تہذیب، ہندوستانی فکر، جمالیاتی تصورات، فنون لطیفہ اور اس سرزمین پر صدیوں سے جلا پانے والے گوناگوں مظاہر کے نقوش کو گویائی عطا کی ہے۔ محمد قلی قطب شاہ کے ضخیم دیوان کو ڈاکٹر ؟؟؟؟نے پہلی بار مرتب کر کے شائع کیا تھا۔ ان کی توجہ کا مرکز زیادہ تر تحقیقی حقائق کی بازیافت اور پیشکش تھا اس نے میں نے ’’قومی کونسل برائے ترقی اردو زبان‘‘ (دہلی) سے اسے شائع کروایا تو مقدمے میں تحقیقی مسائل کے علاوہ کلام قلی کے تنقیدی پہلو کو اپنا ماسکہ بنایا اور شاعر کے ہندوستانی افکار اور تہذیبی تصورات کی عکاسی اور شاعری کے تجزیے کی کوشش کی اس سلسلے میں محمد قلی کی شعری کاوشوں میں جو راگ راگنیوں، ہندوستانی دیومالا سے واقفیت، کلام کلا، نائیکہ بھید، رسنوں، مناظر فطرت کی مصوری کے ذیل میں رت ورنن کی ہندوستانی روایت سے اثر پذیری اور دوسری جہتیں موجود ہیں ان پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔

ڈاکٹر شکیل الرحمن علم جمالیات کے ماہر ہیں اور جمالیاتی عناصر کی تلاش اور تجزیے کے سلسلے میں اردو تنقید میں ان کا نام سر فہرست دکھائی دیتا ہے، گہرائی، علمی بصیرت، تجزیاتی سلیقے اور جمالیات و ادب کے باہمی ربط پر ان کی نظر اردو تنقید کے سرمایے میں ایک منفرد وقار اور عالمانہ انداز نظر کی نشاندہی کرتی ہے۔ ڈاکٹر شکیل الرحمن نے اردو تنقید کے اثاثے میں گرانقدر اضافہ کیا ہے اور اسے نئی وسعت اور پہنائی عطا کی ہے۔ شکیل الرحمن کی تنقیدیں یک سر کی اور بے کیف نہیں، انہیں اسلوب کی شگفتگی نے کشش اور جاذبیت بخش ہے۔ محمد قلی کی جمالیات سے پہلے شکیل الرحمن کی تصانیف ’’مولانا رومی کی جمالیات‘‘، ’’جمالیات حافظ شیرازی‘‘، ’’امیر خسرو کی جمالیات‘‘، ’’نظیر اکبر آبادی کی جمالیات‘‘ اور ’’تصوف کی جمالیات‘‘ جیسی تصانیف منظر عام پر آ چکی ہیں اور ان کتابوں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف نے جمالیات کے سطحی مطالعے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس علم کی وسعتوں اور اسرار و رموز سے واقفیت حاصل کی اور اس کی گہرائیوں میں ڈوب کر گوہر نایاب حاصل کیے ہیں۔ ان کے طریقہ انتقاد نے اردو تنقید کو نئی جہات اور نئے افق عطا کیے ہیں اور ان کا یہ کارنامہ کہ انھوں نے ادب میں جمالیات کی اثر آفرینی اور کار فرمائی کی طرز ہماری توجہ مبذول کی اور علم جمالیات سے ادب کے قریبی ربط کا احساس دلایا بڑی وقعت کا حامل ہے۔

ایک سو ایک صفحات پر مشتمل یہ کتاب محمد قلی قطب شاہ کے مطالعے کا نیا زاویہ اور نیا انداز پیش کرتی ہے۔ شکیل الرحمن نے محمد قلی کے جمالیاتی شعور کا بڑی دیدہ وری اور باریک بینی کے ساتھ مطالعہ کیا ہے اور ان کا یہ بیان کہ ’’اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر کی بوطیقا پر‘‘ یہ تصنیف ’’اردو تنقید کی پہلی کتاب ‘‘ ہے۔ حقیقت پر مبنی محاکمہ معلوم ہوتا ہے۔ کلام قلی کے مطالعے کی جو جہت شکیل الرحمن نے اجاگر کی ہے وہ اپنی معنویت کے لحاظ سے نہایت قابل توجہ ہے۔ محمد قلی کے کلام کا تجزیہ کرتے ہوئے نقاد اس نتیجے پر پہنچتا ہے :

’’سلطان محمد قلی قطب شاہ ابتدائی اردو تہذیب کے پہلے ارمانی شاعر ہیں رومانی تجربوں کا یہ شاعر پوری زندگی کو ایک جشن سمجھتا رہا، اس لیے اس کے جمالیاتی تجربوں میں ہر جگہ چراغاں کی سی کیفیت ہے۔ محبوب شعری کائنات کا مرکز ہے۔ تمام جمالیاتی ارتعاشات Aesthetic Vibration اسی مرکز کی شعاعوں کی دین ہیں ‘‘۔

اس کتاب میں شکیل الرحمن نے محمد قلی کے متعدد اشعار اپنے بیانات کی وضاحت کے لیے پیش کیے ہیں۔ بظاہر یہ مثالیں کثیر معلوم ہوتی ہیں لی کن ان سے فائدہ یہ ہوا کہ نقاد کے محاکمے کی تشریح میں بھی مدد ملی اور محمد قلی کے کلام سے واقفیت کا موقع بھی ملا۔

شکیل الرحمن نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ عورت اور اس کا جمال محمد قلی کی شاعری کی ’’جمالیات کا مرکز‘‘ ہے۔ شاعر کا ذہن رومانی اور اس کی جمالیاتی حس بہت بیدار اور متحرک ہے اس لیے محمد قلی کے کلام رنگ و نور نغمہ و آہنگ اور خوشبوؤں کی دنیا محسوس ہوتا ہے۔ مصنف نے محمد قلی کی جنسی حسیت پر روشنی ڈالی ہے اور لکھتے ہیں کہ بھرت نے جن اکتالیس ’’بھووں ‘‘ (BHAWAS) کا ذکر کیا ہے ان میں ’’ری بھووں ‘‘ کو بڑی اہمیت حامل ہے۔ شکیل الرحمن یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ’’شاعر کے کلام میں جو شر ر نگاہ رس ہے وہ اسی جذبے کی دین ہے ‘‘۔

 

محمد قلی کے طرز اظہار اور اس کے پیش کردہ پیکروں پر تبصرہ کرتے ہوئے شکیل الرحمن نے لکھا ہے کہ محمد قلی نے تجربات کی ترسیل کے لیے نہایت برجستہ اور مناسب الفاظ کا انتخاب کیا ہے اور ان سے شاعر نے اپنی تصویروں کی رنگ آمیزی میں مدد لی ہے۔ مثال میں جو اشعار پیش کیے گئے ہیں ان میں قدیم الفاظ کے نیچے ان کے معنی بھی درج کر دئے ہیں۔

شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ محمد قلی کی بارہ ؟؟؟؟، بارہ جمالیاتی جہتیں ہیں۔ بارہ راگنیوں کے وسیلے سے ان کی شبیہ ابھاری گئی ہے اور ان کے جمالیاتی اوصاف کو نمایاں کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں شکیل الرحمن لکھتے ہیں :

’’رتی بھون‘‘ (Rati Bavan) شر ر نگاہ رس سے شاعر نے ایک خوبصورت پیکر کو سامنے رکھ کر ایک پرکشش جمالیاتی فینومین (Aesthetic phenomenon) تخلیق نیا ہے۔ اردو بوطیقا میں آئندہ بھی ایسے دلفریب، رومانی اور رس بھرے تجربے نہیں ملتے ‘‘ (صفحہ76)

مختصر یہ کہ محمد قلی قطب شاہ کے ملازم کی تفہیم و تحسین کے سلسلے میں اس کتاب کی بڑی اہمیت ہے اور یہ تصنیف ہمارے تنقیدی سرمایے میں ایک خوشگوار اضافہ ہے۔ آخر میں اس کتاب کے سلسلے میں ایک بات کی وضاحت ضروری سمجھتی ہوں۔ کتاب کے ٹائٹل پیچ پر جس تصویر کو جگہ دی گئی ہے وہ محمد قلی قطب شاہ کی فوٹو ہونا چاہئے تھی۔ یہ تصویر محمد قلی قطب شاہ کی نہیں بلکہ محمد قطب شاہ کی ہے جو شاعر کا بھتیجا اور داماد تھا۔ محمد قطب شاہ بھی شاعر تھا اور اس نے ظل اللہ تخلص اختیار کیا تھا۔ اس کا کلام مرور ایام کی گرد و غبار میں ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا ہے۔ محمد قلی قطب شاہ کے دیوان پر جو منظوم دیباچہ اس نے سپرد قلم کیا تھا اب وہ اس کے کلام کا واحد مستند نمونہ ہے۔ اس کا انتقال 1666ھ میں ہوا تھا۔ محمد قطب شاہ گولکنڈے کا چھٹا حکمراں اور محمد قلی قطب شاہ کا جانشین تھا۔ کتاب کے دوسرے ایڈمیشن میں اس طرف توجہ کرنا ضروری ہے۔ مجھے توقع ہے کہ ادبی حلقوں میں منفرد موضوع پر لکھی ہوئی اس کتاب کی قدر ہو گئی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

                نظیر اکبر آبادی کی جمالیات

 

’’نظیر اکبر آبادی کی جمالیات‘‘ ایک مختصر سی تصنیف ہے لیکن شکیل الرحمن نے بڑے ایجاز و اختصار کے ساتھ شاعر کے کلام کے حقیقی خدوخال اور ان کی جمالیات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ نظیر کے سلسلے میں شکیل الرحمن کا سب سے پہلا محاکمہ یہ ہے کہ وہ جشن زندگی (Celebration of life) کے شاعر ہیں وہ رقمطراز ہیں :

’’ان کی جمالیات کے دائرے میں انسان، اس کی تمدنی اور تہذیبی زندگی، مناظر حسن و جمال، مظاہر کائنات، رقص حیات محبتوں کے نغمے، قہقہے، مختلف قسم کی خوبصورت آوازوں کا آہنگ سب شامل ہیں ‘‘۔

نظیر اکبرآبادی کی شاعری میں عوام کے مختلف طبقوں کی روزانہ زندگی کی خوبصورت عکاسی کی گئی ہے۔ نظیر نے زندگی کے چھوٹے بڑے تجربات کا مشاہدہ کر کے ان کے محرکات ہی تک رسائی حاصل نہیں کی ہے بلکہ عوام کے جمالیاتی شعور کا تجزیہ کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ زندگی اور اس کے رنگا رنگ جلووں کا مشاہدہ نظیر اکبرآبادی کا مطمح نظر رہا ہے اور ان کا مشاہدہ جزئیات کا احاطہ کر کے ان کی گہرائیوں تک پہنچنے کی کوشش ہے اور اس کے لیے انھوں نے کثیر تعداد میں لفظ استعمال کیے ہیں اردو کے بہت کم شاعر ان کے ذخیرہ الفاظ کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ فارسی اور اردو تہذیب سے ماخوذ روایتی اظہار کے سانچوں کے علاوہ نظیر نے کھڑی بولی اور برج بھاشا کے متعدد الفاظ اپنی شاعری میں صرف کیے ہیں اور معاشرے کے جمالیاتی نقوش کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔

شکیل الرحمن کا خیال ہے کہ تذکرہ نگاروں نے نظیرؔ اکبرآبادی کو وہ مقام نہیں دیا جس کے وہ بجا طور پر مستحق تھے۔ محمد حسین آزاد نے لکھا تھا ’’نظیر کے بعض اشعار ایسے ہیں کہ میرؔ سے پہلو مارتے ہیں ‘‘ اس خیال کا اظہار کرنے کے باوجود محمد حسین آزاد نے نظیر کے کلام پر نہ تو روشنی ڈالی اور نہ اشعار کی مثالیں پیش کی ہیں۔ اسی طرح شیفتہ اور شبلی نے بھی نظیر کے ساتھ انصاف کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔

جشن زندگی کے شاعر نظیرؔ اکبرآبادی کے مزاج اور شاعرانہ رجحان کا تجزیہ کرنا ہو تو ان کی نظمیں ’’بہار‘‘، ’’چاندنی‘‘، ’’برسات کا تماشا‘‘، ’’برسات کی بہاریں ‘‘، ’’جاڑے کی بہاریں ‘‘، ’’شب برات‘‘، ’’عیدالفطر‘‘، ’’بسنت‘‘، ’’ہولی‘‘، ’’دیوالی‘‘، ’’راکھی‘‘، ’’بلدیو جی کا میلا‘‘ اور ’’کبوتر بازی‘‘ وغیرہ جو تہذیبی زندگی کے مظہر ہیں اور ہندوستانی زندگی کی جاذب نظر تصویریں دکھا کر ہمیں ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے کا درس دیتی ہیں، قابل مطالعہ ہیں۔ ان نظموں میں انسان دوستی کا عنصر بھی ہے اور بھائی چارگی اور اخوت کی دعوت بھی۔ اس کے علاوہ ان نظموں میں ہمیں شاعر کے جمالیاتی شعور کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ ان نظموں میں نظیر نے یہ اشارہ کیا ہے کہ انسانی زندگی، مختصر، نا پائیدار اور غیر یقینی ہے اس لیے زندگی کی خوبصورت مناظر اور مظاہر سے خط حاصل کرنا اور ان کی رنگینیوں میں کھو جانا چاہئے، کیونکہ ان کی دوبارہ آمد یقینی نہیں ہے اور ان کی واپسی اپنے اختیار میں نہیں۔ نظیر اکبرآبادی زندگی کے تحرک اور حسن و جمال کے شیدا ہیں اور اپنی جھولی میں زندگی کی مسرتیں سمیٹ لینا چاہتے ہیں ؎

اپنے غمخواروں سے کوئی آن ہنس لے بولے

درد مندوں کا نکال ارمان ہنس لے بول لے

پھر کہاں یہ دلبری یہ شان ہنس لے بول لے

دم غنیمت ہے ارے نادان ہنس لے بول لے

مان لے کہنا مرا اے جان ہنس لے بول لے

حسن یہ دو دن کا ہے مہمان ہنس لے بول لے

نظیرؔ اکبرآبادی کی نظموں سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں زندگی کی اس تلخ حقیقت کا احساس ہے کہ وقت پراں اور گریزاں ہے جو لمحہ گزر جاتا ہے وہ واپس نہیں آتا۔ وقت ایک بہتی ہوئی ندی ہے جو کبھی ٹھہرتی ہی نہیں اور اس کے ساتھ زندگی کے مناظر بدل جاتے ہیں اور خود حسن گزر جاتا اور کہیں گم ہو جاتا ہے۔ اس لیے لمحہ موجود کی قدرک رنی چاہئے۔ جمالیاتی مسرت اور لطف اندوزی سے بہرہ ور ہونا چاہئے کیونکہ گزرا ہوا وقت واپس نہیں آتا۔ نظیر نے اپنی نظم ’’دنیا کے تماشے ‘‘ میں اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ :

دل لگا الفت میں اور کر پری زادوں کی چاہ

چاند مکھڑوں سے مل سورج وشوں پر کر نگاہ

کچھ مزے کچھ لوٹ خط یہ وقت کب ملتا ہے آہ

کھالے پی لے سکھ دے اور دے لے دلالے واہ واہ

دیکھ لے دنیا کو غافل یہ تماشے پر کہاں

شکیل الرحمن کا خیال ہے کہ زندگی کے بارے میں نظیرؔکا نقطہ نظر رجائی ہے وہ زندگی کے مختصر غیریقینی اور فنا پذیر ہونے کا ذکر ضرور کرتے ہیں تاکہ انسان مسرت اور شادمانی کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو سکے لیکن نظیر حیات انسانی کے اختتام یعنی موت کا ذکر کر کے افسردہ خاطر نہیں ہوتے اور نہ فنا کا تصور انہیں بقا کی بے ثباتی اور بے بضاعتی سے دل شکستہ کرتا ہے۔ شکیل الرحمن کا خیال ہے کہ :

’’جشن زندگی کے تعلق سے نظیر کے جتنے جمالیاتی تجربے ہیں ان کے پیچھے انسان اور جمال زندگی اور جمال فطرت سے درد کے ایک گہرے رشتے کے احساس کے ساتھ ان کے ختم ہو جانے اور گم ہو جانے کا درد موجود ہے ‘‘ (صفحہ 14)

لیکن نظیرؔ کی شاعری میں ان کی تان قنوطیت پر نہیں ٹوٹتی۔

شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ نظیرؔ اکبر آبادی کی نظموں میں لوگ گیتوں کا لطف موجود ہے۔ نظیر باتوں باتوں میں زندگی کی تلخ سچائیوں کو بے نقاب کر دیتے ہیں جو باتیں دوسرے شعراء بڑی سنجیدگی اور فلسفیانہ متانت کے ساتھ بیان کرتے ہیں وہ نظیر اکبرآبادی سادے اسلوب میں بڑی بے ساختگی کے ساتھ کہہ گزرے ہیں۔

نقاد کا خیال ہے کہ اپنے کلچر کے نفسی رجحانات Psychic Attitudesپر نظیر اکبرآبادی کی بڑی گہری نظر ہے۔ وہ عوام کی سائیکی تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ شاعر کا مشاہدہ تیز ہے اور وہ اپنے ’’معصومانہ‘‘ طرز ادا سے نظم کو پر اثر بنا دیتا ہے اور قاری کی سائیکی پر اپنا اثر ثبت کر دیتا ہے۔ نظیر کی نظموں کا بنیادی موضوع انسان اور اس کے گوناگوں تجربات ہیں۔ شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ نظیر اکبرآبادی ایک قلندر کی طرح ناخوش اور اذاں کی آواز سن کر جھومنے لگے ہیں۔ انسان سے محبت، احترام آدمیت انسانی رشتوں کے تقدس اور انسانی تجربات کی رنگا رنگی کا بیان ان کی شاعری کا اہم وصف ہے اور ہیومنزم (Humanism) نظیر کی شاعری کی روح ہے۔

شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ نظیرؔ اکبرآبادی لفظوں کے بادشاہ ہیں۔ انہیں اس کا احساس ہے کہ لفظوں سے جو آوازیں پیدا ہوتی ہیں وہ غیر معمولی حیثیت رکھتی ہیں۔ وہ رقمطراز ہیں :

’’لفظوں اور ان کے آہنگ سے نظم کی معنوی کیفیت مجسم ہو جاتی ہے ‘‘۔

نظیرؔ اکبرآبادی ایک منفرد ملوڈی کے خالق ہیں۔ یہ ملوڈی رقص زندگی میں شامل ہونے پر اکساتی ہے۔ نظیرؔ کی نظموں میں لفظوں کے انتخاب اور ردیف و قوافی کے آہنگ سے بھی ایک خاص صوتی فضاء کی تخلیق ہوتی ہے ؎

ہر طرف گل بدن رنگیلے ہیں

ٹک پلک غنچہ لب سنجیلے ہیں

بات کے ترچھے اور سجیلے ہیں

دل کے لینے کو سب ہٹیلے ہیں

خشک تر نرم سوکھے گیلے ہیں

ٹیڑھے بل دار اور نکے لیے ہیں

جوڑے بھی سبز سرخ پیلے ہیں

پیار الفت بہانے حیلے ہیں

سجیلے، ہٹیلے اور نکے لیے وغیرہ ایسے الفاظ ہیں جو ردیف و قوافی میں کم جگہ پاتے ہیں۔ ان سے بھی نظیرؔ کی شاعری میں زبان کے استعمال کا پتہ چلتا ہے۔

شکیل الرحمن کا خیال ہے کہ نظیر کی شاعری کا رشتہ کلچر سے مستحکم اور مربوط ہے۔ نظیرؔ کا وژن ایک مصور کا وژن ہے۔ تصویر کاری کی تکنیک کو مناسب لفظوں کے انتخاب نے جلا بخشی ہے۔ نظیرؔ ایک ایسا مصور ہے جو جزئیات پر گہری نظر رکھتا ہے۔ اردو کے تذکرہ نگار اور ان کے بعد ابتدائی دور کے نقاد بھی نظیرؔ اکبرآبادی کی شعری صلاحیتوں کی شناخت میں پوری طرح کامیاب نہیں رہے۔ نظیرؔ نے اپنی مصوری اور تصویر کاری میں برج اور کھڑی کے لفظوں اور ترکیبوں سے زبان کی متمول بنا دیا تھا جسے یہ کہہ کر نظرانداز کر دیا گیا کہ وہ محاورے کے خلاف ہیں۔ نظیرؔ اکبرآبادی پر یہ اعتراض کیا گیا کہ وہ ساکن لفظ کو متحرک اور متحرک کو ساکن بنا دیتے ہیں۔ شیفتہؔ نے نظیرؔ اکبرآبادی کے بارے میں لکھا تھا ’’اشعار بسیار دارد کہ بہ زبان شوقین جاری است‘‘ یعنی نظیرؔ کے اکثر اشعار شوقیوں کی زبان پر جاری ہیں اور ان اشعار کو پیش نظر رکھتے ہوئے نظیرؔ کو شعراء کی صف میں شامل نہیں کرنا چاہئے۔ حالیؔ نے لکھا تھا کہ نظیرؔ کی زبان اہل زبان کم جانتے ہیں ‘‘۔

احتشام حسین اور مجنوں گورکھپوری کی کوشش یہ رہی کہ وہ نظیرؔاکبر آبادی کو جمہوری شاعر ثابت کر دیں۔ نیاز فتح پوری نے نگار کا ’’نظیرؔ نمبر‘‘ نکال کر پہلی بار اس شاعر کی حقیقی قدر و قیمت کی طرف متوجہ کیا۔ رام بابو سکسینہ نے ان کے فلسفیانہ اور حکیمانہ نقطہ نظر کو سراہاہ ے۔ اور ان کے کلام میں مقامی رنگ کی نشاندہی کی ہے۔

نظیر اکبر آبادی کے بارے میں شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ وہ عوام کی سائیکی میں جذب ہیں اور عوامی نفسی توانائی (Psychic Energy) کی نمائندگی کرنے والے محرکات کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان کی شاعری کا ایک اپنا منفرد اجتماعی کر دار ہے۔ شکیل الرحمن کا خیال ہے کہ یہ اجتماعی کر دار (Collective character) شعری تجربات کی تخلیق میں جذب ہے۔ اسی اجتماعی کر دار کی وجہ سے لوگ گیتوں اور لوک کہانیوں کا حسن شامل ہوا ہے۔ نقاد کہتا ہے ’’اپنی مٹی کی سگندھ میں جذب یہ شاعری اردو کی بوطیقا میں ایک فینومن (Phenomenon) بن گئی ہے ‘‘ نظیرؔ اکبرآبادی کی شاعری میں لوک ادب کی بہت سی خصوصیات موجود ہیں۔ مثلاً تجربوں کا عام فہم اظہار جس میں شعریت اور موسیقیت موجود ہوتی ہے۔ شکیل الرحمن کا خیال ہے کہ نظیرؔ کا افسانوی مزاج تمثیلیت اور ڈرامائیت سے زیادہ آہنگ ملتے ہیں۔ المیہ کے ساتھ طربیہ پہلے منظر سے مختلف ہوتا ہے، لیکن نظیرؔ کی شاعری کی مرکزی کے لیے طربیہ ہے۔ لوگ گیتوں کی طرح نظیر کے اشعار بان زد ہو گئے۔ نقاد کا خیال ہے کہ چونکہ نظیرؔ موسیقی کے فن سے واقف تھے اس لیے وہ لفظوں کے آہنگ کے اچھے پارکھ ہیں۔

نظیرؔ اکبرآبادی نے زندگی پر تنقید کی ہے مگر وہ زندگی سے بیزار نہیں۔ ان کی نظمیں پڑھ کر قاری حیات کی آگہی حاصل کرتا ہے لیکن فراریت (Escapism) کا مرتکب نہیں ہوتا۔ نظیرؔ سمجھتے ہیں کہ انسان سے انسان کی محبت زندگی کا حاصل ہے۔ طبقاتی امتیازات اور معاشی اونچ نیچ بالآخر بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے اور سارا مال واسباب چھوڑ کر ’’بنجارہ‘‘ ایک طویل اور نامعلوم سفر پر روزانہ ہو جاتا ہے ؎

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ

نظیرؔ کا یہ تصور کہ سب انسان ایک دوسرے سے محبت اور اخوت کے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں، انہیں اونچ نیچ اور طبقاتی امتیاز کے جذبے سے بلند کر دیتا ہے۔ اس تصور نے نظیرؔ سے ایسے شعر کہلوائے ہیں ؎

سو دنیا میں بادشاہ ہے سو ہے وہ بھی آدمی

اور مفلس وگدا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

زردار وبے نوا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

نعمت جو کھارہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

ٹکڑے چسپا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

نظیرؔ کی شاعری میں المیہ لیے دلوں کو افسردہ نہیں کرتی۔ وہ بار بار زندگی کی بہاروں، پھولوں، خوشبوؤں، چہچہوں، محبوب کی نوازشوں اور زندگی کی لذتوں اور مسرتوں کی طرف ہمیں متوجہ کر کے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ زندگی کے یہ مظاہر جمالیاتی وحدت بن جاتے ہیں اور ان سے خط اور انبساط حاصل ہوتا ہے۔ نظیرؔ اکبرآبادی نے اپنی نظموں نے اپنی نظموں میں زندگی کو اس کی تمام دلچسپیوں اور رعنائیوں کے ساتھ پیش کیا ہے اور اور ان کا دو سطحوں پر اظہار ہوا ہے۔ انفرادی زندگی کی جلوہ سامانیاں اور اجتماعی اور تہذیبی جہت۔ میلے ٹھیلے، جشن، ریچھ کا تماشا، برسات کی بہاروں، تیراکی کے مقابلوں اور ہولی و دیوالی کی ہنگامہ آرائی نظیرؔ کو بہت عزیز ہے۔ وہ ان میں کھو جانا چاہتے ہیں۔ نظیرؔ زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوبیوں سے سرشار توہے لیکن زندگی کی بڑی اور عظیم حقیقتوں کے منکر نہیں رہے۔ شکیل الرحمن لکھتے ہیں :

’’جشن زندگی کے اس بڑے شاعر کی جمالیاتی کا مطالعہ کرتے ہوئے اس کے رومانی نقطہ نظر اور اس کے مشاہدات اور جمالیاتی وژن کا مطالعہ ضروری ہے ‘‘ (صفحہ 49)

حقیقت یہ ہے کہ نظیر اکبرآبادی کا کلام ان کی جمالیاتی حسیت (Aesthetic Sensibility) کا مظہر ہے۔ نظیرؔ کی دانست میں دنیا کی سرمستیاں آخرت کی نعمتوں سے مختلف ہیں۔ دنیا کے تماشوں کا جی بھر کے نظارہ کرنا اور ان سے لطف اندوز ہونا چاہئے ؎

یہ جو کڑوے ہو کے اب ہم کو جھڑکتے ہیں یہاں

ان کی تلخی میں ہزاروں ہیں بھری شیرینیاں

اٹھ سکے جب تک اٹھا اے دل تو ان کی سختیاں

لذتیں جنت کے میووں کی بہت ہوں گی وہاں

پر یہ میٹھی گالیاں خوباں کی کھاتی پھر کہاں

زندگی کا ایسا قدر داں اردو شاعری میں کم نظر آتا ہے۔

نظیرؔاکبر آبادی کی شاعری میں لفظوں کے آہنگ سے صوتی اثر پیدا کرنے کا کام لیا گیا ہے۔ نقاد کا خیال ہے کہ یہ آہنگ (Rhythm) احساس اور جذبے دونوں کو تجربوں کے آہنگ سے قریب کر دیتا ہے اور ان سے احساس میں نغمگی پیدا ہو جاتی ہے اور یہ آوازیں سائیکی کو چھونے لگتی ہیں ؎؎

زور مزوں سے رات کو برسے تھا میہہ جھمک جھمک

بوندیں پڑی ٹپک ٹپک پانی پڑے جھپک جھپک

جام رہے جھلک جھلک شیشہ رہے پھبک پھبک

یاد بغل میں باغک عیش و طرب تھے بے دھڑک

نظیرؔاکبر آبادی نے محبوب کے فراق اور اس کے ہجر میں گزرنے والی کیفیات کی بھی بڑی موثر تصویر کشی کی ہے۔ ہجر بھی تجربات عشق کی ایک وسعت ہے ؎

کوک کروں تو جگ ہنسے اور چپکے لاگے گھاؤ

اس طرح کے شعری اکتسابات سے نظیرؔاکبر آبادی کے درد مند دل اور ان کی شدت احساس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

نقاد کا خیال ہے کہ نظیرؔ صوفیانہ جمالیاتی شعور کے مالک ہیں۔ ان کی انسانی دوستی ان کے مسلک کو استحکام عطا کرتی ہے۔ نظیرؔ سمجھتے ہیں کہ بلدیوجی، گرو نانک، سلیم چشتی سب اپنے ہیں اور ہندوستان کی تہذیبی میراث اپنی میراث ہے۔ ہندوستانی ارسطو اور اسطوری کر دار سب اپنے ہیں۔ شکیل الرحمن کا خیال ہے کہ نظیرؔ اکبرآبادی ایک ایسے دانشور ہیں جو Crude Energyکو Refine میں تبدیل کر دیتا ہے۔ ’’نظیر اکبرآبادی کی جمالیات‘‘ شکیل الرحمن کی ایک دلچسپ اور معنی خیز تصنیف ہے۔ اس کتاب کی ترتیب کے سلسلے میں یہ کہنا ضروری سمجھتی ہوں کہ شکیل الرحمن نے اگر ایک خاص نقطے پر اپنے تمام خیالات کا ایک ہی جگہ اظہار کر دیا ہوتا تو کتاب میں موضوع کی تکرار کا احساس نہ ہوتا۔

٭٭٭

 

 

                داستان امیر حمزہ اور طلسم ہوشربا

 

 

داستان امیر حمزہ اور طلسم ہوشربا اردو کے افسانوی ادب میں قیاسی اور تخیل کے مظاہروں، کہانی کی تکنیک، دلچسپی و جاذبیت اور اسلوب کی انفرادیت کی وجہ سے ممتاز اور منفرد ہیں۔ سنگین حقیقتوں کی اس سفاک دنیا میں جہاں انسان عقل و خرد کی پابندیوں سے آزاد نہیں ہو سکتا اور تخیل کو پرواز کا موقع نہیں ملتا ایک محدود اور گھٹی ہوئی فضا میں مقید رہنا پڑتا ہے اور اس کھلی فضا اور آز اد دنیا سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا جہاں محیر العقل واقعات اور حیران کن موجودات کے ایسے کارنامے نظر آتے ہیں جو عقل انسانی کو دنگ کر دیتے ہیں۔ داستان امیر حمزہ اور طلسم ہوشربا قاری کو ایک دوسری دنیا میں پہنچا دیتے اور اس کے لیے تفریح و انبساط اور استعجاب کا سامان مہیا کرتے ہیں۔ امیر حمزہ اس کے مترجم تصدق حسین تھے اور 1887ء میں چار جلدوں میں شائع ہوئی تھی۔ تصدق حسین کے ساتھ محمد حسین جاں اور احمد حسین قمر بھی تھے۔

شکیل الرحمن کی کتاب ان دونوں داستانوں کے تجزیے پر مشتمل ہے۔ یہ تبصرہ تاثرات اور جمالیاتی نوعیت کا حامل ہے۔ کتاب کی ابتداء میں داستان امیر حمزہ کے بارے میں مصنف لکھتے ہیں :

’’داستان امیر حمزہ کی حیثیت کلاسیکی بھی ہے۔ اس کی اپنی اسطوری خصوصیات بھی ہیں۔ اردو ادب میں اس داستان نے اپنی ما تھیولوجی Mythology خلق کی ہے اور اردو دنیا کو فناستی Fantasyکا ایک شعور بھی دیا ہے۔ یہ وہ فیناستی بھی ہے جو اکثر حقیقت کے خلاف نہیں، بلکہ خوابوں کی ایک دلفریب سے پراسرار اور طلسمی دنیا خلق کر کے غیر حقیقی عناصر کے اندر حقیقت کی جھلک دکھاتی رہتی ہے ‘‘

داستان امیر حمزہ کے بارے میں شکیل الرحمن نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اس کا سانچہ بھی ہے لیکن اسے اردو کلچر یا اردو تمدن کے مزاج سے ہم آہنگ کر دیا گیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ داستان امیر حمزہ اردو کی سب سے حیرت انگیز طلسمی تصنیف ہے۔ شکیل الرحمن نے داستانوں کے تصویری اسلوب (Pictorial Style) اور اس سلسلے کی تفصیلات Pictures que Detailes بیان کی ہیں اور ان کی وجہ سے تحریر میں پیدا ہونے والی دلچسپی کو سراہا ہے۔

شکیل الرحمن کا بیان ہے کہ مغل مصوری کے تین ابتدائی اسالیب میں ’’حمزہ نامہ‘‘ (1580ء)، ’’انوار سہیلی‘‘ (1570ء)، اور ’’طوطی نامہ‘‘ (1570تا 1580ء) کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ خطاطی نقاشی آرائشی عمل اور تذہیب (Illustration) کے پیش نظر قدرے مختلف ہوتے ہوئے بھی یہ تصویری اسالیب ہند مغل مصوری کی جمالیاتی تحریک کو جنم دیتے ہیں۔ آگے چل کر شکیل الرحمن نے صفوی دبستان کے سید علی تبریری کا ذکر کیا ہے جنھوں نے ’’قمہ نظامی‘‘ کو تصویریں سے زینت بخشتی تھی۔ ہمایوں کے حکم پر اس نے داستان امیر حمزہ کو تصویروں سے مزین کیا تھا۔ سید علی تبریزی نے بہزاد سے تصویر کاری میں استفادہ کیا تھا۔ وسیع دلی نے بہزاد کی پیروی کی ہے اور اپنی تصویروں میں ان کے فن سے اثر پذیری کا ثبوت دیا ہے۔ شکیل الرحمن کا خیال ہے کہ سید علی تیزازی کی مصوری، صفوی خدوخال کی حامل ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں ہندوستانی رجحان بھی نمایاں ہے۔ شبیہ کاری میں ایرانی رجحان ملتا ہے تو اکثر تصویروں میں پیکروں کے لباس اور فطرت کی نقاشی میں ہندوستانی رجحان کی جھلک نظر آتی ہے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ بقول ابوالفضل (آئین اکبری) کہ اکبر کے زمانے میں ’’ایرانی ہندوستانی‘‘ اسالیب کی آمیزش کا آغاز ہوتا ہے۔

شکیل الرحمن کا خیال ہے کہ داستان امیر حمزہ نے داستان کا تصور دیا ہے اور طویل داستانوں کی تکنیک متعارف کرا دی ہے۔ یہ دنیا کی سب سے طویل کہانی ہے جو قصہ در قصہ کی تکنیک سے وابستہ ہے لیکن حتمی کہانیاں پیدا نہیں ہوتیں۔ اس کا بنیادی مقصد تجسس پیدا کرنا اور خوابوں کی تشکیل ہے۔ پراسرار ماحول میں مختلف جذبوں کو بیدار کرنا ہے۔ تکنیک کے اعتبار سے داستان امیر حمزہ کے قصے میں نشیب و فراز بھی ہیں اور کر داروں کا تنوع اور ان کی انفرادیت بھی اپنا جلوہ دکھاتی ہے۔ داستان امیر حمزہ اور طلسم ہوشربا میں خیر و شکر کا تصادم بھی ہے جس میں مافوق الفطرت عناصر، بزرگوں کے عطا کردہ تھے اور دعائیں، دیووں کی مدد اور فقیروں درویشوں کی اعانت سب کا ہاتھ ہوتا ہے۔ یہ کمزور لمحات میں مدد دینے اور شعر پر خیر کی فتح کا سامان مہیا کرتے ہیں۔ نقاد کا خیال ہے کہ بعض مناظر منفرد کہانیاں بن گئی ہیں۔

ان داستانوں میں تفریح اور انبساط، عشق، عیاری، رزم اور بزم اور کر داروں کا تنوع کی وجہ سے دلچسپی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ لسانی اعتبار سے بھی ان کا مطالعہ بے مقصد نہیں۔ ہمارے سماج کے مختلف طبقات کی زبان، ان کے انداز تکلم اور طرز گفتگو کا ریکارڈ ان میں ہمیشہ کے لیے محفوظ رہ گیا ہے اور ایک گزرے ہوئے زمانے کی معاشرت کی متحرک اور گویا تصویریں بھی محفوظ ہو گئی ہیں اور دستبرد زمانہ سے بچ گئی ہیں۔

شکیل الرحمن کا خیال ہے کہ یہ داستانیں رومانیت کا مخزن ہیں ان کے نام ہی ہمیں ایک رومان پرور ماحول میں پہنچا دیتے ہیں۔ کوہ قاف گرداب سکندری، ذوں گار، نور افشاں، طلسم ہفت، چاہ زمرد، طلسم شطرنج، گنبد سامری، سیمرغ اردبیلی، کیومرث، نارنج پری، قلعہ سیاہ بوم، قلعہ گلستاں ارم، تحقیق نگار، لاہوت شاہ، لقا، افرا؟؟؟؟ اور قباد شہر یار سب انوکھے نام ہیں اور قاری کے دل کو اپنی جانب کھنچتے ہیں۔

ان داستانوں میں طلسمی پیکر اپنا رول بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔ دیو، جن، پری، پتلے، عجیب الخلقت حیوان کے علاوہ، ساحر، حکیم پیر اور غول بھی اپنا اثر دکھاتے رہتے ہیں۔ بے جان چیزیں جیسے کتاب، سامری اور اوراق جمیشدی کی اہمیت بھی مسلمہ ہے، کیونکہ وہ قصے کو آگے بڑھانے اور ہیرو کی مشکلات حل کرنے میں مدد دیتے ہیں۔

شکیل الرحمن لکھتے ہیں :

’’داستان امیر حمزہ نے اپنی دیو مالا خلق کی ہے اسی دیومالا کہ جیسے تخیل اور رومانی ذہن نے دلچسپ پراسرار و حیرت انگیز بنا دیا ہے ‘‘۔

آگے چل کر رقمطراز ہیں :

’’نیکی اور بدی کے تصادم کی کہانی میں رومانی ذہن نے کئی اسطوری رنگ کے کر دار تراشے ہیں سحر انگیز ماحول میں اسطوری انداز کے واقعات پیش کیے ہیں۔ بعض غضبناک دیوی دیوتاؤں کی جگہ یہاں جادو گرنیاں اور جادوگر ہیں ‘‘۔

شکیل الرحمن کا خیال ہے کہ طلسم ہوشربا تخیل نگاری کی ’’روح‘‘ ہے۔ اس کی رومانیت تکیل کی دین ہے جو طلسمات اور طلسمی پیکروں میں شدت سے نمایاں ہوئی ہے۔ تخلیقی تخیل کا کرشمہ یہ ہے کہ خوابوں کی مانند ایک تصور سے دوسرا پیدا ہوتا ہے۔ اس داستان میں خیالات کا آزاد تسلسل بھی قائم ہوا ہے۔

داستانوں میں ایک واقعات و مناظر ہمارے سامنے آتے ہیں جن سے روز مرہ زندگی میں سابقہ نہیں پڑتا۔ ان میں ندرت اور استعجاب موجود ہوتا ہے اور وہ قاری کی توجہ اپنی طرف منعطف کر لیتے ہیں۔ داستانوں میں موضوع اور فوق الفطری عناصر سے رومانیت تخلیق کی جاتی ہے۔ اور یہ ڈرامائیت پر مبنی ہوتی ہے۔ شہر نارساں ملکہ حیرت کے لیے بنایا گیا ہے اور اس میں جو گنبد بے نور ہے وہ پراسرار اور حیران کن ہے۔ یہاں کاغذ کے سلسلے چلتے ہیں۔ اس شہر اور گنبد کا ذکر کرتے ہوئے نقاد کو اس ادبی حقیقت کی طرف اشارہ کرنا چاہئے تھا کہ داستان نگاروں نے انسانی تخیل کا سہارا لیتے ہوئے اپنی لاشعوری خواہشات کو پیکروں کی شکل دی ہے، مثلاً ہوائی جہاز کی ایجاد سے قبل یہ آرزو کہ کم وقت میں زیادہ فاصلہ طے کیا جائے یا ہوا میں انسان اڑ تے پھریں ایک نا آسودہ خواہش تھی جسے داستان لکھنے والوں نے اڑن کھٹولے اور فضائی قالین یا کل کے گھوڑے وغیرہ کی صورت میں اپنی داستانوں میں جگہ دی ہے۔ شہر نارساں میں دھات کے سکوں کے بجائے کاغذی سکوں کی چلن ہے۔ یہ در اصل معاشیات کی اصطلاح میں Paper Standardہے جو کرنسی کی ترقی یافتہ شکل سمجھی جاتی ہے۔ قدیم دور میں بار ٹرسسٹم (Barter System) رائج تھا جس میں اشیاء کا تبادلہ اشیاء سے ہوتا تھا۔ عہد قدیم میں پیسے، پیتل، تانبے، چاندی اور سونے کے سکے رائج تھے جن کی ذاتی قدر (Intrinsic Value) ان کی مروجہ قدر سے ہم آہنگ تھی لیکن دور ما بعد میں کرنسی کے رواج نے نیا روپ دھارا اور دھات کے سکوں کی جگہ کاغذی کرنسی نے لے لی اور اب ذاتی قدر اور مروجہ قدر میں زمین و آسمان کا فرق پیدا ہو گیا۔ کاغذی کرنسی انسان کے ایک دیرینہ خواب کی تعمیر ثابت ہوئی۔ طلسم ہوشربا میں شہر نا پرساں میں کاغذ کے سلسلے انسان کے اسی خواب کی نمائندگی کرتےہ یں۔ نقاد اگر اس طرف اشارہ کر دیتا تو شہر ناپرساں کی اہمیت اور بڑھ جاتی۔

شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ داستانوں کی رومانیت جمالیاتی انبساط عطا کرتی ہے اور ’’فنکارانہ التباس کی ایسی مثالیں آسانی سے نہیں ملیں گی‘‘ یہ رومانیت ایسی سچائی کی پیش کرتی ہے کہ جس میں زماں (Time) کا تصور ہی پگھل گیا ہے ‘‘۔

شکیل الرحمن نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ تخلیقی صلاحیت کے بغیر فنتاسی جنم نہیں لے سکتی اور ’’طلسم و تحیرات کی دنیا میں عام انسانی جذبوں اور تجربوں کا احساس ہوا ہے ‘‘ محبت نفرت اور حسد وغیرہ ایسے جذبے ہیں جو فتناسی کو اوپر اٹھاتے ہیں۔ داستان امیر حمزہ اور طلسم ہوشربا فنیسی سے زیادہ فنتاسی کے نمونے ہیں۔ طلسم ہوشربا کا شمار دنیا کی بہترین فنتاسی کے نمونوں میں ہوتا ہے۔ فتناسی کی دونوں اہم خصوصیات یعنی اجنبیت اور تحیر اس میں اپنے جلوے دکھاتی رہتی ہیں۔ نقاد اس داستان کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’اپنی میتھ (Myth) اور اپنی دیومالا خلق کرتے ہوئے یہ فینتاسی ایک لیجنڈ (Legend) بن گئی ہے ‘‘۔

حقیقت یہ ہے کہ اصل وجہ وہ واقعات اور مناظر ہیں جو تحیر پیدا کرتے ہیں اور یہ واقعات دلچسپی مناظر ہمیں حقیقی اور اصلی زندگی میں کبھی نظر نہیں آتے۔ لیکن لوگوں کا خیال ہے کہ فنتاسی عقل اور منطق کے خلاف ایک تحریک ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ منطق واستدلال اور فہم و عقل اور فتناسی کا کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔ یہ دونوں متوازی خطوط پر حرکت کرتے رہتے ہیں۔ فیناسی فنون لطیفہ کی جمالیات کا جوہر ہے اور اس کی دنیا مختلف ہے جو دلچسپ بھی ہے اور حیران کن بھی۔

تخلیقی قوت نے داستان امیر حمزہ کی فنتاسی کو توانائی عطا کی ہے۔ عمدہ اور بلند معیار فتناسی کا مطالعہ کرنا ہو تو داستان امیر حمزہ کو پیش نظر رکھنا ہو گا۔ عالمی ادب میں بصری پیکروں (Image) کا اعلیٰ ترین نمونہ اس داستان میں اپنی جھلک دکھاتا رہتا ہے۔ طلسم ہوشربا میں امیجروں کی ایک خوبصورت دنیا آباد ہے اور اس عجیب و غریب اور متحیر کن دنیا کی مثال کہیں اور ملنا دشوار ہے۔ تحیر یا دشیاس (Wonder) کے ایسے پیکر ادب میں کم دکھائی دیتے ہیں۔ نقاد اچھی فنتاسی کو تمثیل اور ڈراما کا درجہ دینا ہے اور مثال میں ’’طلسم ہوشربا‘‘ کو پیش کیا ہے۔ اس میں ڈرامے کے تمام عناصر موجود ہیں، پلاٹ، کشمکش اور کلائی میکس (Climax) وغیرہ اس داستان کی ابتداء سے اس کے اختتام تک ان مناظر کا پوری محویت اور دلچسپی کا ساتھ مشاہدہ کرتا رہتا ہے۔ شکیل الرحمن کا خیال ہے کہ طلسم ہوشربا کا فنکار تحیر کو ’’ادراک کے عوامل کا ایک مضبوط اور طاقتور محرک سمجھتا ہے ‘‘ داستان میں تحیر کا سلسلہ قائم ہے۔ مناظر ایک دوسرے سے مختلف اور متضاد ہیں۔ کہیں وحشت خیز و حیران کن اور کہیں خوبصورت اور انبساط پرور۔

تخلیقی فنیاسی ایک دوسری تخلیق کرتی ہے۔ جہاں وجدان کو تحرک ملتا ہے۔ یہ ادنیا پراسرار بھی ہے اور دلچسپ بھی۔ مافوق الفطرت عناصر اور محیر العقل کارنامے تخیل کو مہمیز بھی کرتے ہیں اور بار بار دیکھے ہوئے روز مرہ زندگی کے مناظر کے مقابلے میں تازہ، اچانک واقعہ ہونے والے اور توقع کے خلاف واقعات کا سلسلہ اسے ایک نئے ماحول میں پہنچا کر نئی دنیا کی سیر بھی کرواتا ہے۔ اس کی مقبولیت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہماری دنیا میں ان جذبات و خواہشات کی بنیاد موجود ہوتی ہے جس پر داستان نگار اپنی تخلیقی فنتاسی کی بلند عمارت تعمیر کرتا ہے۔ اس میں وقت کی فنتاسی (Time Fantasy) کا کردار اہم ہو جاتا ہے۔ یہ فنتاسی اچانک موسم تبدیل کر دیتی ہے۔ صبح سے شام ہو جاتی ہے اور ایک پل میں حالات دگرگوں ہو جاتے ہیں اور طویل عرصہ بیت جاتا ہے۔ شکیل الرحمن لکھتے ہیں :

’’فتناسی ایک آرٹ اور ایک تکنیک کا نام ہے جس سے خواہش بیدار ہوتی ہیں۔ جذبات میں اٹھان پیدا ہوتی ہے، انسان کی چائے کشی دیرینہ شعوری اور لاشعوری خواہشوں اور آرزوؤں سے فتناسی کو تقویت حاصل ہوتی ہے ‘‘۔

داستانوں میں ڈراما یا تمثیل کے عناصر بیانیہ صلاحیتوں میں جذب ہو کر اس ادبی کاوش کو وقیع بنا دیتے ہیں۔ فتناسی ہر تخلیقی عمل میں شامل رہتی ہے اور تخلیق کا جوہر ثابت ہوتی ہے۔ ریاض، طبعیات اور دوسرے علوم بھی اس کے رہین منت ہیں۔ در حقیقت فتناسی کی بنیاد نفسی قوت ہے جو شعور اور لاشعور دونوں کے اظہار کا سبب بنتی ہے۔ جو واقعات حقیقی دنیا اور روز مرہ زندگی میں کبھی واقع نہیں ہوتے انہیں محسوس بنا کے پیش کرنا ان کے منظر نامے تیار کرنا اور انہیں گویا تصویریں بنا کے نظر کے سامنے متحرک کر دینا فتناسی کا غیر معمولی کارنامہ ہے۔ داستان امیر حمزہ نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔

اس داستان کے مترجمین نے اپنے کر داروں کو اپنے گرد و پیش کے ماحول سے ہم آہنگ بنا دیا ہے۔ طلسم ہوشربا کی جادوگرنیاں اور ایک نسوانی کر دار لکھنو کی امیر زادیاں نظر آتی ہیں۔

نقاد کا خیال ہے کہ طلسم ہوشربا میں وہمی صورتیں التباس اور فتناسی نے واقعات کے تار و پود تیار کرنے میں مدد دی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

’’داستان نگار بہت حد تک یا کسی حد تک نیودائی Neuroticہوتا ہے لیکن تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ داستان اور نیو داس Neurosis دونوں سماجی تنظیم کو قبول کر لینے کی کوشش کی ناکامی کے اظہار کو نمایاں کرتے ہیں … زندگی کے کھوجانے کا احساس غیر معمولی ہوتا ہے۔ داستان کی تخلیق اسی احساس کا خوبصورت نتیجہ ہے … جن لوگوں کو خوشیاں نصیب ہیں زندگی کی مسرتیں حاصل ہیں وہ بھلا فتناسی کس طرح خلق کر سکتے ہیں۔ فتناسی تو وہ لوگ خلق کرتے ہیں جنہیں آسودگی حاصل نہیں ہوتی جو زندگی سے مطمئن نہیں ہوتے ‘‘۔

’’داستان امیر حمزہ اور طلسم ہوشربا‘‘ میں شکیل الرحمن نے بڑی دیدہ وری کے ساتھ داستانوں کے خدوخال کا جائزہ لیتے ہوئے ان میں انسان کی فتناسی کی کارفرمائی پر نظر ڈالی اور داستانوں کی تمثیلی نوعیت پر روشنی ڈالی ہے۔ شکیل الرحمن کی یہ تصنیف داستانوں کے مطالعے کی اہمیت واضح کرنے اور بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ ادب میں اس کا مقام کا تعین کرنے کی ایک پر خلوص کوشش ہے۔ داستانوں کے حقیقی مقام اور ان کی ادبی قدر و قیمت کا تعین کرنے میں یہ کتاب ممد و معاون ثابت ہوتی ہے۔

٭٭٭

 

 

                کلاسیکی مثنویوں کی جمالیات

 

 

شکیل الرحمن نے اپنیک تاب ’’کلاسیکی مثنویوں کی جمالیات‘‘ میں قدیم مثنویوں کا جمالیات کی روشنی میں تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ نقاد کا خیال ہے کہ اردو کی کلاسیکی منشور اور منظوم کہانیوں کا تعلق ملک کے عوامی قصوں اور دیومالا سے بھی ہے اور فارسی ادب کے قصے کہانیوں کا تعلق ملک کے عوامی قصوں اور دیومالا سے بھی ہے اور فارسی ادب کے قصے کہانیوں سے بھی اس کا رشتہ مستحکم رہا ہے اور لوگ کہانیوں اور مقامی قصوں کے اثرات بھی اپنا پرتو دکھاتے ہیں۔ قصوں میں تصادم اور کشمکش کو موثر بنانے کے لیے تخلیق کاروں کے تخیل نے ’’فتناسی‘‘ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ شکیل الرحمن کے الفاظ میں ’’فتناسی‘‘ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ شکیل الرحمن کے الفاظ میں ’’فتناسی ذہن کا وہ عمل ہے جس سے نئی دروں بینی پیدا ہوتی ہے اور وژن نئی معنویت کو پانے لگتا ہے۔ وہ فتناسی کو تخیل کی دین قرار دیتے ہیں۔ مثنویوں کا علیحدہ علیحدہ جائزہ لینے سے پہلے نقاد نے ’’اردو کی کلاسیکی مثنویوں میں فتناسی کا جمال‘‘ عنوان قائم کیا ہے اور اس کے تحت کلاسیکی مثنویوں میں فتناسی کی کارفرمائی کا مطالعہ کیا گیا ہے اور اس کے تحت کلاسیکی مثنویوں میں فتناسی کی کارفرمائی کا مطالعہ کیا گیا ہے اور اس کے بعد ’’چندربدن و مہیار‘‘، ’’قطب مشتری‘‘، ’’پھولیں ‘‘، ’’میر کی مثنویوں ‘‘، ’’سحرالبیان‘‘، ’’گلزار نسیم‘‘، ’’زہر عشق‘‘ اور ’’بہار عشق‘‘ کا مفصل تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ’’اردو کی کلاسیکی مثنویوں میں فتناسی کا جمال‘‘ میں شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ فتناسی تخلیقی فکر و نظر یا تخلیقی سوچ کی ایک صورت ہے اور انسانی نفسیات سے اس کا رشتہ ہوتا ہے۔ انسان کے ہیجانات (Impullses) اس کی تخلیق میں نمایاں حصہ لیتے ہیں۔ فتناسی انسان کی نفسیات کی داخلی سطح پر تحرک پیدا کرتی ہے۔ صرف ادبیات ہی نہیں دوسرے تمام علوم میں بھی اس کا اثر دیکھا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں نقاد کا بیان ہے کہ غالب فتناسی کے سب سے بڑے تخلیقی فنکار ہیں۔ شکیل الرحمن لکھتے ہیں ’’اسی تخلیقی شخصیت ایسے ہمہ گیر وژن کے ساتھ شاید ہی دنیا کے کسی ادب کو نصیب ہوئی ہو‘‘ فتناسی کی دنیا میں غالب کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ ان کی سائیکی (Psyche) نے امیجری کو صرف خلق ہی نہیں کیا بلکہ اسے توانائی بھی بخشی اور تحرک بھی عطا کیا… فتناسی کے امیجز اور استعاروں نے نفسی فیومنا (Physchic Pheno Mena) کی ایسی تخلیق کی ہے کہ وہ اپنی مثال آپ بن گئی ہے ‘‘۔ اس عنوان کے تحت نقاد نے ’’کوم راؤپدم راؤ‘‘، ’’قطب مشتری‘‘، ’’سیف الملوک وبدیع الجمال‘‘، ’’چندر بدن ومہیار‘‘، ’’پھول بن‘‘، ’’گلشن عشق‘‘، ’’سحرالبیان‘‘، ’’طوطی نامہ‘‘ (جعفر علی حسرت) اور ’’گلزار نسیم پر مختصراً روشنی ڈالی ہے اور یہ بتایا ہے کہ فتناسی کی وجہ سے ان کی قدر و قیمت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اس کے بعد شکیل الرحمن نے تفصیلی طور پر چند کلاسیکی مثنویوں کا جائزہ لیا ہے جس میں سب سے پہلے مثنوی ’’چندر بدن ومہیار‘‘ کا ذکر ہے۔ اس مثنوی پر تبصرہ کرتے ہوئے نقاد نے پہلے قصے کا تعارف پیش کیا ہے۔ انھوں نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ ڈرامائی کیفیتیں قصے کی اہمیت میں اضافہ کرتی ہیں۔ مندر میں شیوراتری کے موقع پر چندر بدن ومہیار کی اچانک ملاقات سے شکیل الرحمن نے اس کا آغاز کیا ہے۔ قصے کے آخر میں تابوت کھلنے پر چندر بدن اور مہیار دونوں کی موجودگی کو انھوں نے تحیر کی جمال Aesthetic of wonder سے تعبیر کیا ہے۔ نقاد کا خیال فتناسی کی سب سے بڑی خصوصیت تحیر ہے۔ آگے چل کر شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ قصے میں ڈرامائیت فتناسی کی دین ہوتی ہے اور ’’تخیل کے عمل سے واقعہ مشاہدے (Observation) کا منظر بن جاتا ہے۔ قاری کے ہیجان کو نفسیاتی سکون ملتا ہے اور جمالیاتی آسودگی حاصل ہوتی ہے ‘‘ ابن نشاطی کی ’’پھول بن‘‘کے بارے میں شکیل الرحمن کی رائے یہ ہے کہ یہ فتناسی کا ایک خوبصورت نمونہ ہے۔ ابن نشاطی، نقاد کی دانست میں ایک بڑا تخیل نگارشار تھا اور اس نے بڑے فنکارانہ انداز میں اپنی مثنوی میں فینامن تخلیق کرنے کی کوشش کی ہے۔ ’’پھول بن‘‘ کی پراسراریت اور اس کی فتناسی سے اس کی رومانی اور جمالیاتی رویے کا اندازہ ہوتا ہے اس سلسلے میں ’’پھول پن‘‘ کے منظوم قصے سے نقاد نے مثالیں پیش کی ہیں۔ شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ بعض لوگ اس طرح کے قصوں کو غیر اہم تصور کرتے ہیں لیکن ان میں فتناسی کی کارفرمائی نے جو جمالیاتی عنصر تخلیق کیا ہے اس کی قدر و قیمت کا تعین بھی ضروری ہے۔ فتناسی تحیر کے جمال کا تقاضا کرتی ہے کہ اور تحیر کے جلال و جمال ہی سے تجسس پیدا ہوتا ہے۔ مثنوی ’’گلشن عشق‘‘ سے شکیل الرحمن نے نو (9) ایسے واقعات و مناظر کی نشان دہی کی ہے جو فتناسی کے اعلیٰ نمونے ہیں۔

(1) پریاں اپنے سر کے بال راجاؤں کو دیتی ہیں اور درو پیش راجا پر مہربان ہو جاتا ہے۔

(2) پریوں کا مہارس نگر میں منوہر کے لیے مدمالتی کا انتخاب کرنا

(3) منوہر کی آنکھوں میں پری کا سرمہ ڈالنا تاکہ منوہر سب کو دیکھ سکے اور اسے کوئی نہ دیکھ پائے۔

(4) اژدہے سے ٹکرا کر جہاز کا پاش پاش ہو جانا

(5) چڑیل کا راجکمار کو اپنے بس میں کر لینا اور اژدہے کا چڑیل پر حملہ کرنا

(6) آدم خور کا علاقہ اور وہاں کے مناظر

(7) دروپیش کا ظہور و منوہر کو توانائی کا چکر عطا کرنا

(8) دیو سے منوہر کی جنگ

(9) مدمالتی کا طوطی بننا اور پھر اصلی انسانی صورت میں نمودار ہونا

نقاد کی دانست میں یہ تمام واقعات تحیر کے حسن کو نمایاں کرتے ہیں۔ دلچسپ بھی ہیں اور تخیل کو مہمیز بھی کرتے ہیں۔ دکن مثنویوں پر تبصرہ ختم کرنے کے بعد شکیل الرحمن نے شمالی ہند کی مثنویوں کا جائزہ لیا ہے اور سب سے پہلے مثنوی ’’سحرالبیان‘‘ کا تجزیہ کیا ہے۔ نقاد کا خیال ہے کہ سحرالبیان میں فتناسی کے عمدہ نمونے موجود ہیں اور ان سے جمالیاتی انبساط حاصل ہوتا ہے۔ انھوں نے ’’سحرالبیان‘‘ کے علاوہ جعفر علی حسرت کی مثنوی اور گلزار نسیم پر بھی تبصرہ کیا ہے۔ گلزار نسیم کے بارے میں رقمطراز ہیں کہ رومانی تخیل نے فتناسی کو اجاگر کرنے میں مدد دی ہے۔ شکیل الرحمن لکھتے ہیں :

’’فتناسی ذہن کا وہ نفسیاتی عمل ہے کہ جس سے نئی دروں بینی پیدا ہوتی اور وژن نئی صورتوں کو پانے لگتا ہے ‘‘

انہوں نے اسی نقطہ نظر سے اردو کی کلاسیکی مثنویوں پر نظر ڈالی ہے اور فتناسی کی کارفرمائی کا جائزہ لیا ہے۔ مثنویوں پر مجموعی تبصرہ ختم کرنے کے بعد ’’چندر بدن ومہیار‘‘، ’’قطب مشتری‘‘ اور ’’پھولیں ‘‘ پر علیحدہ علیحدہ تبصرہ کیا گیا ہے اور ہر مثنوی میں فتناسی کے عمل اور اس کے واقعات میں تحیر کے جمال پر نقاد نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ اس کے بعد کتاب میں میر تقی میر کی مثنویاں، سحرالبیان، گلزار نسیم، زہر عشق اور بہار عشق پر تفصیل سے اظہار خیال کیا ہے۔

مصنف نے سب سے پہلے چندر بدن ومہیار پر روشنی ڈالی ہے۔ شکیل الرحمن کا خیال ہے کہ اردو کی اکثر قدیم مثنویوں کی بنیاد فارسی قصوں پر رکھی گئی ہے۔ لیکن چندر بدن ومہیار ایک طبعزاد مثنوی ہے۔ مثنوی کا قصہ عوامی زندگی سے مستعار لیا گیا ہے۔ نقاد لکھتا ہے کہ مہیار ایک غریب مسلمان تھا اور چندر بدن راجا کی بیٹی، اس لیے ان کا ملاپ ممکن نہ تھا۔ راجا اس رشتے کو قبول نہیں کرتا اور ماہیار جدائی کی تاب نہ لا کر اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ اس کا جنازہ راجا کے محل کے سامنے سے گزرتا ہے تو رک جاتا ہے۔ جب چندر بدن کو مہیار کے انتقال کی خبر ملتی ہے تو وہ غسل کر کے اپنے کمرے میں بند ہو جاتی ہے جہاں اس کی روح پرواز کر جاتی ہے۔ جب ماہیار کو قہر میں اتارنے کے لیے تابوت کھولا جاتا ہے تو اس میں چندر بدن کی لاش بھی نظر آتی ہے۔ انہیں جدا کرنے کی تمام کوششیں بیکار ثابت ہوتی ہیں اور دونوں کو ایک ہی قبر میں دفن کیا جاتا ہے۔ یہاں قصے کی ڈرامائی کیفیت اپنے عروج پر نظر آتی ہے اور تحیر کا جمالیاتی بھی اس خصوصیت نے مثنوی کی ادبی وقعت میں اضافہ کیا ہے۔

’’قطب مشتری‘‘ کی ادبی عظمت اور قدر و منزلت کے بارے میں شکیل الرحمن رقمطراز ہیں کہ انہیں گیان چند جین کے اس خیال سے اتفاق نہیں کہ ’’قطب مشتری‘‘ احمد گجراتی کی ’’یوسف زلیخا‘‘ غواص کی ’’سیف الملوک و بدائع الجمال‘‘ یا ابن نشاطی کی ’’پھولیں ‘‘ سے کمتر درجے کی مثنوی ہے۔ (سیدہ جعفر گیان چند جین۔ تاریخ ادب اور جلد سوم صفحہ 1354) عام طور پر داستانوں کا تعلق لوک قصوں، اسطوری قصوں کے کر داروں اور ان کے عمل ورد عمل سے ہوتا ہے۔ شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ جب لوک کہانیاں ادب میں داخل ہوتی ہیں تو اپنی تمام معصومیت اور بھولے پن کے ساتھ۔ ’’شرح شعر گوید‘‘ کے سلسلے میں وجہیؔ نے اپنے ادبی نظریات و تصورات کا ذکر کیا ہے۔ نقاد کا خیال ہے کہ شاعری کی جمالیات پر اس سے پہلے کسی اور شاعر کی نگاہ نہیں تھی۔

عربی اور فارسی میں داستانوں کی کمی نہیں تھی لیکن وجہیؔ نے اپنی کہانی کا تانا بانا خود تیار کیا ہے۔ نقاد نے قطب مشتری میں ’’تحیر‘‘ کے جمال کو اجاگر کرنے والے واقعات کا ذکر کر کے ان کی عجیب و غریب صورت حال پر تبصرہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ داستانوں میں تلاش کا عمل معنی خیز ہوتا ہے۔ آب حیات یا اژدہے، پھول، انسان اور پتھر وغیرہ کی تلاش داستانوں میں سحر، طلسمات اور محیر العقل عناصر کو ظاہر ہونے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ کلاسیکی مثنویوں کا ذکر کرتے ہوئے نقاد نے ادبی محاسن کو اپنا موضوع نہیں بنایا ہے بلکہ ان کی جمالیاتی خوبیوں پر تبصرہ کرنے کی کوشش کی ہے جیسا کہ کتاب کے نام کا تقاضہ ہے۔

’’پھول بن‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے شکیل الرحمن نے اس خیال کا اظہار کیا ہے وہ اردو کی دوسری کلاسیکی مثنویوں سے مختلف ہے۔ وہ رقمطراز ہیں ’’ایک عمدہ جمالیاتی معیار قائم کرنے میں شاعر کی رومانیت نے بڑا حصہ لیا ہے اس رومانیت کی پہچان، تخیلیت، جذبوں کے رنگ، فتناسی فضا آفرینی اور کر داروں کے تحرک سے ہوتی ہے۔ جہاں تک اس مثنوی کے قصے کا تعلق ہے اس میں قصہ در قصہ کی تکنیک سے کام نہیں لیا گیا ہے بلکہ کئی قصوں کی وحدت نظر آتی ہے۔ قصے کے اجزاء کا تجزیہ کرتے ہوئے شکیل الرحمن اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اس داستان میں ’’پراسراریت‘‘ کا عنصر موجود ہے جو جمالیاتی انبساط کا سبب بنتا ہے۔

شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ ہندوستانی معلم جمالیات بھامہا (BHAMAHA) نے منظوم قصوں میں ڈرامائیت کو اہمیت دی تھی۔ اس اعتبار سے ’’پھول بن‘‘ ایک وقیع شعری کارنامہ ہے اور اس کا ہر قصہ ڈرامائیت سے معمور ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ بھامہا نے شعری اسلوب کی شیرینی (Madhurya) اور ستھرای (Parasoda) اور لفظوں میں احساس اور جذبے کی شدت (Ojar) کو بڑی اہمتی دی ہے اور ’’پھول بن‘‘ کے شعری اسلوب میں یہ تینوں اوصاف موجود ہیں۔ نقاد اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ابن نشاطی کی ’’پھول بن‘‘ اردو کی ایک ممتاز مثنوی ہے۔

شمالی ہند کی کلاسیکی مثنویوں میں سب سے پہلے میر تقی میر کی مثنویوں کا نقاد نے اپنے مخصوص نقطہ نظر سے جائزہ لیا ہے۔ شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ میرؔ ایک حساس انسان اور اچھے شاعر ہیں اور ان کا کلام دل کی گہرائیوں سے نکلتا ہے اس لیے ان کے قصوں میں آب بیتی کا لطف و انبساط موجود ہے۔ میرؔ کی مثنویاں ’’شعلہ عشق‘‘ اور ’’دریائے عشق‘‘ اختتامی مرحلے پر ایک پراسرار کیفیت کی مظہر بن گئی ہیں۔ میرؔ نے بقول نقاد جو Visual sensation پیش کرنے کی کوشش کی ہے وہ ان کی عمدہ تخلیقی فنکاری کا ثبوت ہے۔ اور اس سے ’’جمالیاتی لذت‘‘ حاصل ہونے لگتی ہے۔ میرؔ نے قصہ گوئی اور کر دار نگاری کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی ہے اور ان کے قصوں کے انجام میں بھی یکسانیت کا احساس ہوتا ہے۔ شکیل الرحمن رقمطراز ہیں ’’عشق کے دلکش دھوئیں میں دو تین کر داروں کے پراسرار سائے نظر آتے ہیں، چہرے دھندلے ہیں … سایوں کے تحرک کا انجام ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ تحیر کے جمال کا تاثر ملتا ہے اور سائے گم ہو جاتے ہیں ان کا کوئی سراغ نہیں ملتا‘‘ شکیل الرحمن کی دانست میں میر کی مثنویاں اردو کے کلاسیکی مثنویوں کے سرمائے میں ممتاز حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کے تجزیے کا نتیجہ ہیـ:

’’فنکار کی روح کی گہرائیوں اور تحت الشعور میں جو ڈرامائی داخلی آہنگ لیے تھا وہ یقیناًً اہم ہے لیکن سب سے اہم اس ڈرامے کی ظاہری صورت ہے جس میں فنکار کے وژن نے استعاروں کی تخلیق کی ہے اور تجربوں کو جمالیات ڈرامائی آہنگ عطا کیا ہے ‘‘

’’سحرالبیان‘‘ کے بارے میں شکیل الرحمن رقمطراز ہیں کہ یہ مثنوی ایک خوبصورت ڈراما معلوم ہوتا ہے۔ انھوں نے نجم النساء کے کر دار کو تحرک کا سبب قرار دیا ہے اور لکھتے ہیں کہ ایسے ذیلی کر داروں کو جن سے کہانی کی رفتار اور اس کی نوعیت پر اثر پڑتا ہے ہندوستانی جمالیات میں ’’پراسنگیکا‘‘ (Prasangika) کہا جاتا ہے۔ نجم النساء پراسنگیکا بھی ہے خود ایک رومانی فسانے کا کر دار بھی۔ طویل قصوں کے درمیان جو مختصر قصہ ہوتا ہے اسے پاٹکا (Patka) کہا جاتا ہے۔ اس قصے میں ارتقاء کا عمل ضروری نہیں ہوتا۔ شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ یہ ہندوستانی جمالیات میں پر اکاری (Prakari) سے موسوم کیا گیا ہے۔ نقاد کا خیال ہے کہ قصے کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ابتدائ، کر داروں کا عمل اور قصے کا اختتام جیسے ہندوستانی جمالیات میں آرمبھ (Arambha) پرایاتنا (Prayatana) کہا گیا ہے اور آخر میں پھل یوگ (Phalayoga) ہوتا ہے۔ شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ سحرالبیان میں کئی رسوں کی آمیزش ہے لیکن شرینگار رس تمام رسوں پر غالب ہے کیونکہ یہ ایک رومانی تمثیل ہے۔ ’’ناٹیہ شاستر‘‘ میں شرینگار رس کو سمبھوگ رس (Sambhogh Rasa) بھی کہا گیا ہے۔ ملن یا میتھن کے رس کو سمبھوگ رس کہا گیا ہے۔ جدائی اور فراق میں محبوب اور محب دونوں کے ہیجانات کارس (Vipralambha Sringara) کہلاتا ہے۔ جدائی میں چاہنے والے کے جذبات کی مصوری کی جاتی ہے۔ بھرت نے ناٹیہ شاستر (3104) میں لکھی تھی اس میں وہ بیان کرتا ہے کہ سنگارس کے کئی بھاؤ ہوتے ہیں۔

داستانوں میں اوبھت رس (Adbhuta Rasa)کی بڑی اہمیت تسلیم کی جاتی ہے۔ اس کا تعلق حیرت، تحیر اور جمالیاتی آسودگی سے ہے۔ نقاد کا خیال ہے کہ حیرت انگیز انبساط عطا کرنے کی توانائی اسی سے پیدا ہوتی ہے۔ انھوں نے سحرالبیان سے ادبھت رس سے معمور بعض مناظر کی مثالیں بھی دی ہیں۔ تمثیل کے اختتام پر شانت رس ملتا ہے اور قاری کو جمالیاتی حظ (Aesthetic Pleasure) حاصل ہوتی ہے۔

’’گلزار نسیم‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ دیا شنکر نسیم نے عزت اللہ بنگالی اور فورٹ ولیم کالج کے نہال چند لاہوری کے اردو قصے دونوں سے استفادہ کیا ہے۔ شکیل الرحمن نے دیا شنکر نسیم کے Diction اور موزون الفاظ کے انتخاب کو سراہا ہے۔ معروف عالم کنٹک (Kantaka) کے حوالے سے بتایا ہے کہ ؟؟؟؟ واکروکتی (Vakrokti) کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو شعراء دلوں میں اتر جانے والے شعر کہتے ہیں وہ لفظوں کے استعمال سے جو جمالیاتی حظ حاصل ہوتی ہے اس سے آشنا ہوتے ہیں۔ نقاد نے دیا شنکر نسیم کے اسلوب کی سادگی کی تعریف کی ہے اور اسے مثنوی کی مقبولیت کا سبب قرار دیا ہے۔ بھرت نے ناٹیہ شاستر میں اکتالیس بھووں کا ذکر کیا ہے جن میں سے آٹھ (8) ستھی بہاڑ اور باقی سنچاری (Sanchari)۔ بھرت نے جن بھووں کا ذکر کیا ہے ان میں سے کئی بنیادی احساسات مثنوی ’’گلزار نسیم‘‘ میں مرکزی حیثیت اختیار کیے ہوئے ہیں۔ شکیل الرحمن کا خیال ہے کہ رتی بھو کے علاوہ بھئے (خوف) سوگ (غم) پرس (مسرت) چنتا (تردد) وسمایہ (حیرت) کو نسیم نے بڑے فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے۔

شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ ہندوستانی جمالیات کے علماء نے النکاروں پر غور کرتے ہوئے وشیش النکار کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ جذبہ مناسب لفظوں میں ظاہر ہو تو لفظ و معنیٰ ایک دوسرے کو مکمل کرتے ہیں۔ مختصر یہ کہ شکیل الرحمن نے ’’گلزار نسیم‘‘ کو ایک ایسی مثنوی قرار دیا ہے جو پڑھنے والوں کا دل موہ لیتی ہے اور ان پر دیر پا اثر مرتب کرتی ہے۔

نقاد کے الفاظ میں ’’زہر عشق‘‘ ایک خوبصورت طلسمی خواب کے ٹوٹنے کی کہانی ہے۔ ’’زہر عشق‘‘ ایک رومانی تمثیل ہے جس کی پہچان المیہ کے جوہر سے ہوتی ہے۔ مہہ جبیں کی کہانی پڑھنے والے کو حالات کے جبر اور محبت کے شدید ارتعاشات کے غمناک انجام سے متاثر کرتی ہے۔ مہ جبیں ایک خوبصورت گڑیا نہیں ہے اس میں حرکت و عمل کی قوت موجود ہے۔ وہ جذبہ محبت سے متاثر ہوتی ہے اور بالآخر حالات سے مجبور ہو کر خودکشی کرنے کا فیصلہ کر لیتی ہے۔ وہ ایک فعال اور باعمل کر دار ہے اور دوسروں کے فیصلے کی محتاج نہیں۔ گھر والے بدنامی سے بچانے کے لیے اسے اپنے کسی عزیز کے گھر بنارس بھیج دیتے ہیں۔ مہہ جبیں اپنی ہستی کو مٹا دینے کا فیصلہ کرتی ہے۔ شکیل الرحمن لکھتے ہیں :

’’اوبھت رس کے شامل ہوتے ہیں شر ینگار رس کا ذائقہ تیکھا اور حیرت انگیز ہو جا تا ہے ‘‘۔

نقاد نے ’’زہر عشق‘‘ کو اردو کی کلاسیکی مثنویوں میں ایک منفرد مثنوی قرار دیا ہے۔

مرزا شوق کی ایک اور مثنوی ’’بہار عشق‘‘ پر بھی اس کتاب میں تبصرہ کیا گیا ہے۔ شکیل الرحمن کا خیال ہے کہ ’’فریب عشق‘‘، ’’بہار عشق‘‘ اور ’’زہر عشق‘‘ کلاسیکی آہنگ اور گبری رومانیت کے حامل ہیں۔ ان تینوں مثنویوں میں جمالیاتی تجربے کی نوعیت مختلف نہیں اس میں یکسانیت کا احساس ہوتا ہے۔ شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ اسے ’’سمانوبھاوہ‘‘ (Samanobhava) کہا جاتا ہے۔ ’’بہار عشق‘‘ میں نفسی جسمانی (Psycho physical) رد عمل کے اثرات ملتے ہیں جس سے مثنوی کی قدر و قیمت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ’’بہار عشق‘‘ کی کہانی ماحول اور زندگی کی سچائیوں سے گہرا رشتہ رکھتی ہے۔ شرینگار رس کے مطابق اچھی تخلیق میں وکاس (Vikas)کے بعد وستار (Vistar)ہوتا ہے یعنی کلی پھول بن جانے کے بعد اس کی خوشبو کا پھیلنا وکاس ہے۔ دستار کے بعد کشوبھا (Kasobha) کا مقام ہے۔ نقاد کا خیال ہے کہ اس مثنوی میں فنی فضیلت (Artistic Excellence) کی عمدہ مثالیں موجود ہیں۔

شکیل الرحمن نے اس تصنیف میں کلاسیکی مثنویوں کا جمالیاتی نقطہ نظر سے جائزہ لیا ہے اور ان کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہے اور ان میں فنتاسی سے پیدا ہونے والے تحیر کو اہمیت کا حامل قرار دیا ہے۔ یہ کتاب اردو مثنویوں کے مطالعے کی ایک نئی جہت اجاگر کرتی ہے۔

٭٭٭

 

 

                میر شناسی

 

 

شکیل الرحمن کی کتاب ’’میر شناسی‘‘ خدائے سخن میر تقی میرؔ کے کلام کی تفہیم و تحسین کے سلسلے میں ایک اہم تصنیف ہے۔ انھوں نے کلام میر کی مختلف جہتوں کو اپنے مخصوص تنقیدی نقطہ نظر سے جانچا اور پرکھا ہے۔ شکیل الرحمن نے سب سے پہلے اس نکتے پر ور دیا ہے کہ جمالیات کے بعض ماہرین کا خیال ہے کہ شرنگار کی اصطلاح لفظ شر (Sr) سے ماخوذ ہے جس کے معنوی معنی مارنا اور مار ڈالنا کے ہیں (SRHIM SAYAM) کے ہیں جو شخص عشق میں مبتلا ہوتا ہے وہ اس کی آگ میں بھسم ہو جاتا ہے اور محبت کی سختیوں کی تاب نہ لا کر فنا ہو جاتا ہے۔ شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ ابھی نوگپت نے لفظ شرینگار کا مفہوم یہ بتایا ہے کہ یہ عشق کا وہ تجربہ ہے جس میں جنس کی جبلت شامل ہوتی ہے۔ نقاد کا خیال ہے کہ دونوں مفاہیم میں تضاد نہیں ہے بلکہ یہ دونوں مفاہیم ایک دوسرے کی توسیع ہیں۔ میرؔ کی شاعری، تجربات محبت کے سوز وساز کی ترجمان ہے۔ ان کے اشعار درد و غم کے بیکراں سمندر کے موتی ہیں جن کی آب و تاب مرور زمانہ سے ماند نہیں پڑسکی ہے۔ میر کے اشعار اس شدید جذبہ محبت کے آئینہ دار ہیں جس کے بارے میں انھوں نے کہا تھا…

پہلے دیوانے ہوئے پھر میرؔ آخر ہو گے

ہم نہ کہتے تھے کہ صاحب عاشقی تم مت کرو

شمع جلتی ہے پر اس طرح کہاں جلتی ہے

ہڈی ہڈی میری آئے سوز نہاں جلتی ہے

خدا جانے کہ دل کس خانہ آباداں کو دے بیٹھے

کھڑے تھے میرؔ صاحب گھر کے دروازے پہ حیراں سے

استخواں کانپ کانپ جلتے ہیں

عشق نے آگ وہ لگائی ہے

میرؔ کے ان اشعار سے لفظ شرینگار کے دوسرے مفہوم کی وضاحت ہوتی ہے جس میں محبت کے ساتھ وجود کے مٹ جانے کا تصور بھی وابستہ ہے۔

رفتہ عشق کیا ہوں میں اب کا

جا چکا ہوں جہان سے کب کا

عاشقی جی ہی لے گئی آخر

یہ بلا کوئی ناگہانی ہے

شکیل الرحمن لکھتے ہیں :

’’میر کی کلاسیکیت حسن میں ایک تنظیم پیدا کرتی ہے اور ان کی رومانیت اس میں اجنبیت پیدا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کلام میرؔ سے زیادہ سے زیادہ جمالیاتی انبساط حاصل ہوتا ہے ‘‘

نقاد کا خیال ہے کہ میرؔ حسن کی ارادی میں ڈوب کر جمالیاتی انبساط حاصل کرتے ہیں۔ محبوب کے ’’پنکھڑی‘‘ جیسے ہونٹ، کیف و سرور میں ڈوبی ہوئی آنکھیں اور اس کا خوبصورت پیکر، شاعر کے احساس حسن اور جمالیاتی حسن کو مہمیز کرتا اور محبوب کی جدائی اور اس کے ہجر کے در گداز تجربات شاعر کے تغزل کو خستگی و گداختگی عطا کرتے ہیں۔ میرؔ ایک ایسے تخلیق فنکار ہیں جن کے جمالیاتی تجربے ڈرامائی اور تمثیلی انداز میں اس طرح پیش کیے گئے ہیں کہ ان کی اثر آفرینی میں اضافہ ہوتا ہے۔ شکیل الرحمن کا خیال ہے کہ میرؔ کی جمالیات کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ان کی عشقیہ شاعری میں رومانی سرور وکیف (Exaltation) پیدا ہو گیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ میرؔ کے کلام میں شرینگار رس کے دونوں مفاہیم کی ترجمانی کرنے والے عناصر موجود ہیں۔ میرؔ تجربوں کی شدت اور جذبوں سے لطف اندوز کرنے کی بڑی اچھی صلاحیت رکھتے ہیں اور ان کی شاعری وجد اور کیف کی عمدہ مثال ہے۔ شکیل الرحمن کی دانست میں میر اپنے عہد کے ایک ایسے شاعر تھے جن کے کلام میں شرینگار رس کی دو اہم خصوصیات احساس حسن کا ارتکاز اور رومانیت دونوں موجود ہیں۔ میر اپنے تجربات کو تمثیلی اور ڈرامائی رنگ دینے میں کامیاب رہے ہیں۔ نقاد نے مثال میں میرؔ کے مندرجہ ذیل اشعار پیش کیے ہیں۔

کل پانو ایک کاسہ سر پر جو آ رہا

سر چند استخوان شکستوں سے چور تھا

کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر

میں بھی کبھو کسو کا سر پر غرور تھا

رات محفل میں تیری ہم بھی کھڑے تھے چپکے

جیسے تصویر لگائے کوئی دیوار کے ساتھ

اک زخم کو میں ریزہ الماس سے چیرا

دل پر ابھی جراحت نو کار بہت ہیں

کاسہ سرکو لئے مانگتا دیدار پھرتے

میرؔ وہ جان سے بیزار گدا میں ہی ہوں

کہتا تھا کسو سے کچھ تکتا تھا کسو کا منہ

کل میرؔ کھڑا تھا یاں سچ ہے کہ دیوانا تھا

نقاد لکھتے ہیں کہ زندگی اور کائنات کا حسن زندہ اور اس کا تخلیقی عمل مسلسل جاری ہے۔ گوتم بدھ نے کہا تھا کہ تم ایک ہی ندی میں دو بار قدم نہیں رکھ سکتے اس لیے کہ تم بدلتے رہتے ہو شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ ایک ندی میں دوسری بار اس لیے بھی قدم نہیں رکھا جا سکتا کہ خود ندی بدل جاتی ہے ؎

ہوا رنگ بدلے ہے ہر آن میرؔ

زمیں و زماں ہر زماں اور ہے

میرؔ نے بڑی گہرائی میں اتر کر وجود اور کائنات کے ہر لمحہ تبدیلی ہوتے ہوئے حسن کو محسوس کیا ہے۔

کلام میرؔ میں حسن ایک مثبت اور آفاقی قدر ہے۔ نقاد لکھتے ہیں کہ شرینگار رس محبت اور غم کے جذبوں کی آفریدہ ہوتی ہے۔ میرؔ کی سائیکی میں محبوب اور غم سمائے ہوئے ہیں۔ غم میر کی شاعری اور ان کی جمالیات کا بنیادی جوہر ہے اور ’’لہو‘‘ان کا سب سے معنی خیز استعارہ جس کا رشتہ محبت اور غم دونوں سے استوار ہے۔ میرؔ نے زندگی کے خدوخال پہچان لیے تھے اور حیات کے چہرے پر غم کے غازے کی جھلک دیکھ لی تھی اس لیے ان کے اشعار زندگی کی سچائیوں کا رمز بھی آشکار کرتے ہیں اور انسانی زندگی کے کربناک تجربات کا شدید احساس بھی دلاتے ہیں اور اس کے لیے ’’لہو‘‘ کا استعارہ مناسب اور برجستہ معلوم ہوتا ہے ؎

اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا

لوہو آتا ہے تب نہیں آتا

گو خاک سی اڑتی ہے میرے منہ پہ جنوں میں

ٹیکے ہے لہو دیدہ غمناک سے اب تک

کوئی تو آبلہ پا دشت جنوں سے گذرا

ڈوبا ہی جائے ہے لہو میں سر خار ہنوز

لوہو میں شور بور ہے دامان و حبیب میرؔ

بپھرا ہے آج دیدہ خونبار بے طرح

اک عمر مجھے خاک میں ملتے ہوئے گزری

کوچے میں تیرے آن کے لوہو میں نہایا

’’لہو‘‘ میرؔ کا پسندیدہ اور مرغوب استعارہ ہے اور یہی کلام میرؔ کا مرکزی استعارہ ہے۔ یہ میرؔ کی حجابات کا سب سے اہم سرچشمہ ہے۔ نقاد کی دانست میں اچھا المیہ تجربہ نغمہ بن کر ظاہر ہوتا ہے اور یہ شرینگار رس ہی کا جلوہ ہے۔ شکیل الرحمن اس سلسلے میں غالبؔ اور میرؔکے المیہ تصور کا موازنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’لہو‘‘ ایک آر کی ٹائپ ہے جو غالب کی شاعری میں ’’غم گیر‘‘ نوعیت اختیار کرتا ہے (Archy type)۔ میرؔ نے اپنے کلام میں لہو کے رنگ سے تصویریں کھینچی ہیں۔ ’’لہو‘‘ غالبؔ کا ایک بنیادی حسی استعارہ ہے۔ شکیل الرحمن لکھتے ہیں :

’’یہ پیکر اپنی گہرائی تہہ داری، تازگی، لطافت، حرکت، گرمی اور روشنی اور رنگ سے متاثر کرتا ہے۔ بلاشبہ غالب کی جمالیات میں اس پیکر کو مرکزی حیثیت حاصل ہے ‘‘

نقاد نے میرؔ کو خوبصورت تجربوں کا شاعر بتایا ہے۔ میرؔ کی شاعری جہت دار نہیں ہے جب کہ غالبؔ کی شاعری جہت دار ہے اور اپنی معنی خیزی سے ہر تجربے کو محسوس بناتی ہے۔ غالب ؔ کے کلام میں ’’لہو‘‘ کے جمالیاتی پیکر اور استعارے کے ساتھ زخم، گریہ، جنون، جراحت دل اور جوش اشک سب کے حسی اور جمالیاتی تصورات وابستہ ہیں۔ غالبؔ نقاد نے خیال میں ’’ٹریجڈی کے ایک بڑے فنکار ہیں میرؔ نہیں ہیں ‘‘۔ نقاد کی دانست میں غالب کی ٹریجڈی میں ایمائی انداز بیان کو اہمیت حاصل ہے۔ غالب نے ہیگل کے الفاظ میں ’’آفاقی‘‘ اور ’’عالمگیر سچائی‘‘ کی علامت بن جاتے ہیں۔ جابر حسین ’’یک حرفہ نیم گفتہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ میرؔ کی آبلہ پانی پورے عہد کی آبلہ پائی ہے اور زندگی کی تاریک علامتوں کا روشن اور مثبت اشاریہ اور بلند انسانی قدروں کی پاسداری ہے اور ان کی شاعری کی یہی جہتیں ان کی آفاقیت کی ضامن ہیں۔ غالبؔ کے بارے میں شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ انھوں نے اس حقیقت کو ایک جمالیاتی رمز بنا دیا ہے۔

میر تقی میر پر لکھی ہوئی اس کتاب میں نقاد نے میرؔ سے غالبؔ کا تقابل کیا ہے۔ اور دونوں شعراء کے تصور غم پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ کتاب کے آخر میں شکیل الرحمن لکھتے ہیں :

’’جذبوں سے لطف اندوز ہونے کی جو صلاحیت میرصاحب میں ہے کسی کو نصیب نہیں۔ عشقیہ تجربوں کے آہنگ (RHYTHEM) اور ہارمونی (HARMONY) دونوں کا تاثر گہرا ہوتا ہے۔ ‘‘

یہ کتاب کلام میرؔ کی تفہیم و تحسین میں مدد دیتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

                شکیل الرحمن کا مطالعہ غالبؔ

 

 

اردو ادب کا جمالیاتی تنقید کے منظر نامے میں شکیل الرحمن اس لیے منفرد نظر آتے ہیں کہ انھوں نے اپنے پیشروؤں کی تقلید پر اکتفا نہیں کی بلکہ مشرق وسطیٰ اور ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کے پس منظر میں روایات، دیومالائی تصورات اور رسوں کی کارفرمائی کا تجزیہ کر کے بھی فنکار کی تخلیق حسیت کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے فنون لطیفہ شعر و ادب، سنگ تراشی، مصوری، رقص اور موسیقی کی بنیادوں میں کارفرما جمالیاتی رجحانات کے اشتراک اور داخلی ربط کی طرف ہمیں متوجہ کیا ہے۔ تصور جمال کی بازیافت، شکیل الرحمن کا پسندیدہ انداز تنقید ہے۔ تنقید میں کلام غالبؔ، شکیل الرحمن کی توجیہ کا مرکز بن گیا ہے۔ انھوں نے اپنے منفرد انداز میں غالبؔ کی شاعری کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہے اور ان نفسیاتی اور جمالیاتی محرکات کا مطالعہ کیا ہے جن سے اثر آفرینی اشعار غالبؔ کی تہہ میں کارفرما ہے۔ کلام غالب میں آتش، شعلہ، برق، آفتاب، آئینہ، چراغ، کوہ و دشت، صحرا، سیلاب بیاباں، جلوہ، تماشہ، جنون، شراب، بہار، آرزو، موت، بادہ، نفس اور رقص جیسے الفاظ بار بار ہماری نظر سے گزرتے ہیں۔ ان الفاظ نے کلام غالبؔ میں علامتوں کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ شکیل الرحمن نے کلام غالب میں رقص کو زندگی کی حرکت اور فعالیت کی علامت قرار دیا ہے۔ انھوں نے اس سلسلے میں ہندوستان کے ’’اساطیری تصورات‘‘ تاریخ اور قدیم ادب اور تہذیب میں رقص کی اہمیت واضح کی ہے۔ ہندومت کی قدیم کتابوں اور ہندو صنمیات کی رو سے بھگوان شیو نٹ راجہ ہیں اور ان کا رقص زندگی کا مظہر اور کائنات میں انسانی وجود کی بقا کی علامت ہے جو ساکت و جامد نہیں۔ حرکت اور جنبش میں ہے۔ شکیل الرحمن کا خیال ہے کہ غالبؔ کی شخصیت جس ماحول میں پروان چڑھی تھی اس میں رقص و موسیقی، تہذیبی زندگی میں گھل مل گئے تھے اس لیے غالبؔ شعوری اور غیر شعوری طور پر رقص کی جمالیات سے متاثر ہوئے تھے۔ رقص میں وجدان، جذب اور تحرک کے جو عناصر موجود ہیں وہ غالب کی شاعری اور ان کی شعری حسیت میں در آئے تھے۔ غالب سے متعلق شکیل الرحمن کے محاکمات، تفہیم و تحسین غالبؔ کا نیا زاویہ فراہم کرتے ہیں۔ کلام غالبؔ میں متصوفانہ تصورات کے بارے میں شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ غالبؔ کی زندگی متصوفانہ سرگرمیوں سے عبارت نہیں تھی۔ ان کے تخلیقی ذہن کی نشو و نما ہند آریائی کلچر کے زیر اثر ہوئی۔ یہ پیکر غالبؔ کو اردو زبان کے وسیلے سے ملا تھا۔

شکیل الرحمن کا خیال ہے کہ ’’لہو‘‘ اور ’’سرخ‘‘ رنگ سے غالب کو جذباتی وابستگی تھی اور انھوں نے ان دونوں ابلاغی پیکروں کو بڑی بلاغت کے ساتھ شعر کا جزو بنا کر اپنے دائرہ تفہیم کو وسعت عطا کی ہے۔ رنگ، رقص، اور تحرک کی علامتی حیثیت، غالبؔ کے شعری اظہار اور فکری اسرار کی پرتیں کھولتی ہے۔ رقص جلال و جمال کی خوبصورت آمیزش کا بہترین مظاہرہ ہے۔ اڈمنڈ برک (Edmund Burk) کا یہ تصور ہے کہ ؟؟؟؟ اور جمال دو متضاد مظاہر ہیں، یہاں اپنی معنویت کھودیتا ہے۔ شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ:

’’مرزا غالب رقص اور تحرک کے ایک بڑے شاعر ہیں ان کے کلام میں ’’رقص بتان آذری‘‘ کے جانے کتنے خوبصورت اور دلکش پیکر ہیں۔ ان سے کلام غالبؔ کی تخلیقی سطح حد درجہ بلند ہوتی ہے۔ رقص اور تحرک کلام غالبؔ کی بنیادی توانائی یا انرجی ہے ‘‘ (رقص بتاں آذری، صفحہ17)

شکیل الرحمن کا خیال ہے کہ آواز، دھمک، حرکت اور آہنگ رقص کے عناصر ہیں اور ان ہی سے شاعری جنم لیتی ہے۔ انھوں نے رقص کو ہندوستانی تفکر کی سب سے اہم قدر قرار دیا ہے وہ رقمطراز ہیں :

’’ہندوستان کی مٹی اور اس کی فضاؤں میں رقص ہے اسی مٹی پر غالبؔ کا جنم ہوا تھا اسی آب و ہوا میں انھوں نے سانس لی تھی… لہٰذا کہا جائے کہ رقص بھی ان کے فعال لاشعور کا ایک بڑا سرچشمہ ہے تو یقیناًً غلط نہ ہو گا‘‘ (رقص بتاں آذری۔ صفحہ 23)

ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ ’’غالب اپنے عہد میں ہندوستانی ادبیات کے فٹ راج ہیں ‘‘ غالبؔ نے اپنے ایک فارسی شعر میں کہا تھا ؎

دیدہ ور آں کہ تا نہد دل بہ شمار دلبری

در دل سنگ بنگرو رقص بتاں آذری

غالبؔ کی دیدہ وری پتھر میں رقص بتاں آذری دیکھ لیتی ہے۔ شکیل الرحمن کے خیال میں آتش شوق، رقص کا ایک پیکر ہے اور اسی سے شخصیت کی تہہ در تہہ پرتیں بھی کھلتی ہیں۔ غالبؔ کے اشعار میں آگ، آتش، سوزان، صاعقہ، شعلہ، سمندر، (آگ میں پیدا ہونے والا کیڑا) چراغاں، آتش کدہ، برق اور شعلہ جوالہ کا ذکر گہری معنویت کا امین بن گیا ہے۔ ؎

شب کہ برق سوز دل سے زہرہ ابر آب تھا

شعلہ جوالا ہر اک حلقہ گرداب تھا

جاری تھی اسدؔ داغ جگر سے میرے تحصیل

آتش کدہ جاگیر سمندر نہ ہوا تھا

جلوہ زار آتش دوزخ ہمارا دل سہی

فتنہ شور قیامت کس کی آب و گل میں ہے

ہے صاعقہ و شعلہ و سیماب کا عالم

آنا ہی سمجھ میں میری آتا نہیں گو آئے

غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس

برق سے کرتے ہیں روشن شمع ماتم خانہ ہم

غالبؔ کو رنگوں کی معنویت کا احساس ہے۔ ان کی دانست میں سیاہ، سبز اور سرخ رنگ حسن سے متعلق علامتوں کے اسرار کے امین ہیں۔ زلف سیاہ، زمرد، داغ لالہ، پر طوطی سبز رنگ، حسن سبز غبار، سرمہ، تیرگی اختر، داغ مہہ سایہ اور دیدہ آہو کا ذکر غالبؔ کے اشعار میں محض لفظوں کی خانہ پری نہیں بلکہ ان کے وسیع معنوی جہات کا احاطہ کرتی ہیں۔ شکیل الرحمن تصویر اور شعری پیکروں میں رنگوں کے امتزاج اور ان کی کیفیات کی اثر آفرینی سے بخوبی واقف ہیں اور ان کے وسیلے سے وہ تخلیق کے سر چشموں اور تخلیق کار کی ذات تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مصوری اور شاعری میں رنگوں کو گویائی عطا کی جاتی ہے۔ غالبؔ پر فنون لطیفہ کا یہ رمز آشکار ہو چکا ہے۔ مثنوی ’’چراغ دیر‘‘ مثال میں پیش کی جا سکتی ہے جس میں تین رنوں کو بنیادی اہمیت کا حامل قرار دیا گیا ہے۔ سرخ، آسمانی اور سبز۔

کلام غالبؔ پر تبصرہ کرتے ہوئے شکیل الرحمن نے داستان کے بارے میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ شکیل الرحمن داستان کو تخیلی سطح پر پیکر تراشی اور واقعہ نگاری کا عمل قرار دیتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ جب تخیل، تمثیل میں بدل جاتا ہے تو اس کی پیکر تراشی کا عمل الفاظ میں ظاہر ہوتا ہے اور اس طرح داستان ہمارے گرد و پیش سے ہمارا ربط پیدا کرتی ہے۔ مشرق میں داستانیں بہت مقبول ہیں۔ غالبؔ کے بارے میں شکیل الرحمن کا خیال ہے کہ جمالیات سے ان کا پراسرار تخلیقی رشتہ قائم تھا اور ’’بوستان خیال‘‘ سے غالبؔ کو طلسمات کی ایک ایسی کائنات حاصل ہوئی تھی جو ان کے ذوق و شوق سے مناسبت رکھتی تھی۔ ’’علمی روح‘‘، ’’طلسمی خط‘‘ اور ’’شاہ نامہ خورشیدی‘‘ وغیرہ سے غالبؔ آشنا تھے اس لیے ان کی شاعری میں لفظ طلسم سے وابستہ تصورات و خیالات اور تراکیب بار بار نظر سے گزرتی ہیں۔

شکیل الرحمن لکھتے ہیں :

’’ہند مغل جمالیات کا وہ طرز احساس کہ جس نے ہندوستان کی مٹی کی خوشبو کے ساتھ اپنی تازگی، نئے پن اور انوکھے پن کا احساس حضرت امیر خسرو کی موسیقی و تاج محل کی تخلیق اور میر کی شاعری میں رہا تھا، غالبؔ کی شخصیت میں جذب ہو کر انتہائی متحرک صورت میں نقطہ عروج پر پہنچ جاتا ہے ‘‘ (رقص بتاں آذری۔ صفحہ 17)

غالبؔ پر متعدد نقادوں نے اپنے نقطہ نظر سے روشنی ڈالی ہے۔ لیکن شکیل الرحمن کا زاویہ نگاہ دوسروں سے مختلف اور منفرد ہے۔ غالبؔ پر شکیل الرحمن کی تنقید دلچسپ بھی ہے اور فکر انگیز بھی۔ جدت فکر کی وجہ سے یہ انداز نظر توجہ طلب ہے۔

٭٭٭

 

 

                پریم چند کے نقاد— شکیل الرحمن

 

 

پریم چند اور ان کے فکشن کا اردو کے نقادوں نے مختلف زاویوں سے مطالعہ کیا ہے۔ پریم چند کے سماجی شعور، ان کی سیاسی آگہی، اخلاقی تصورات، دیہاتی زندگی کے مسائل پر ان کی نظر اور انسانی فطرت کے پیچ و غم سے ان کی واقفیت کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پریم چند پر شکیل الرحمن کا تبصرہ فکشن کی تنقید پر نقاد کے عبور اور انسانی نفسیات کے مطالعے سے دلچسپی اور انسانی تجربات کی معنویت کو سمجھنے کی کوشش کا ترجمان ہے۔ پریم چند کے فکشن میں ہندوستانی دیہات کی وہ ساری فضاء رچ بس گئی ہے جس کے پس منظر میں ان کے کر دار ابھرتے، اپنا رول ادا کرتے اور ہمارے ذہن پر اپنا نقش ثبت کر دیتے ہیں۔ شکیل الرحمن نے پریم چند کے فن کا تجزیہ کرتے ہوئے کوئی انوکھی بات نہیں کہی ہے۔ لیکن ان کے مطالعے کا مخصوص انداز، ان کی نفسیات فہمی اور کر داروں کے تجزیے نے ان کے تنقیدی محاکمات کو تہہ داری عطا کی ہے۔ انسانی تجربے کی کسک کو پریم چند نے جس شدت کے ساتھ محسوس کیا ہے وہ قاری کو پریم چند کے مطالعے کی ایک نئی جہت سے روشناس کرواتا ہے اور اس کے ذہن میں نئے سوالات پیدا کرتا ہے، پریم چند کے فن کو ایک نئے انداز نظر سے پرکھنے کی ترغیب دیتا اور قاری کے ذہن کو چونکا دیتا ہے۔ شکیل الرحمن کی تصنیف ’’فکشن کے فنکار پریم چند ‘‘ اس مصنف کے فکر و فن کا تجزیہ پیش کرتی اور اس کی ادبی قدر و قیمت کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

شکیل الرحمن نے پریم چند کے فکشن میں ’’تیسرے آدمی‘‘ کے رول کی اہمیت واضح کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

’’تیسرا آدمی نہ ہو تو ساری زندگی کا اقتصادی نظام درہم برہم ہو جائے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے اقتصادی حالات و مسائل کا انحصار اس کے عمل اور رد عمل پر ہے … گھریلو زندگی میں اس کی شخصیت ایک معمہ بن جاتی ہے ‘‘ (صفحہ 33)

حقیقت یہ ہے کہ یہ تیسری شخصیت فکشن میں کشمکش کا محرک ثابت ہوتی ہے۔ نقاد کا خیال ہے کہ پریم چند کے افسانوں میں اس کے مختلف پہلوؤں کا مطالعہ، ان کے آرٹ اور تخلیقی فکر و نظر کی اہمیت کا احساس دلاتی ہے۔ اس سلسلے میں شکیل الرحمن نے پریم چند کے مختلف افسانوں سے مثالیں پیش کی ہیں اور یہ بتایا ہے کہ ان کے مختلف افسانوں میں تیسرے آدمی کی شخصیت کے اتار چڑھاؤ، کر دار کی نفسیاتی الجھن اور اس کی جذباتی زندگی کی پراثر تصویریں نظر آتی ہیں۔ شکیل الرحمن نے ’’دومکھیاں ‘‘ (پریم چالیسی)، ’’حقیقت‘‘ (زاد راہ) اور ’’آخری تحفہ‘‘ سے مثالیں پیش کر کے ان کے مطالعے کی دعوت دی ہے۔ ’’شکست کی فتح‘‘ میں شاردا اور سوشیلا ’’موسی‘‘ میں چندر کماری ’’سہاگ کا جنازہ‘‘ میں ارمیلا ’’انتقام‘‘ میں ایشور داس ’’وفا کی دیوی‘‘ میں گلیا ’’لعنت‘‘ میں کاڑی جی ’’حسرت‘‘ میں بڑھیا، پچھتاوا کے پنڈت درگاناتھ، ’’فریب‘‘ کی جگنو اور ’’الزام‘‘ کا رضا تیسری شخصیت ہیں جن کی وجہ سے کہانی میں تحرک پیدا ہوا ہے۔ کشمکش اور تصادم کا معیار سامنے آیا ہے اور کہانی میں المیہ عناصر نے جگہ پائی ہے۔ شکیل الرحمن کا خیال ہے کہ پریم چند نے اپنے افسانوں میں جہاں تیسری شخصیت کو پیش کیا ہے وہیں تیسری طاقت کی قوت اور اس کے اثر و رسوخ کو بھی نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ نقاد لکھتا ہے کہ :

’’سماجی زندگی میں ایسی منظم جماعتیں موجود ہیں کہ جن کی حیثیت تیسری طاقت کی ہے۔ اپنے مفاد کے لیے مذہب اور سماجی تقاضوں کا سہارا لے کر یہ جماعتیں افراد کی زندگی میں انتشار پیدا کرتی ہیں (صفحہ 55)

’’زاد راہ‘‘ میں سیٹھ رام ناتھ کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد برادری کے لوگ مذہب اور برادری کے نام پر سیٹھ کے گھر کو تباہ کر دیتے ہیں۔ سیٹھ دھنی رام کبیرچند اور سنت لال بیوہ کو گھر چھوڑنے پر مجبور کر دیتے ہیں اور اسے ایک اذیت ناک زندگی بسر کرنی پڑتی ہے۔ شکیل الرحمن نے ’’خون سفید‘‘ کے مطالعے سے بھی اس تیسری قوت کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ شکیل الرحمن لکھتے ہیں :

کہ کہیں یہ تیسری قوت رحمت بن کر بھی آتی ہے اور کہیں عذاب۔ محبت کی دنیا میں تیسری شخصیت کی تلملاہٹ، مذہبی زندگی میں دیوتاؤں اور انسانوں کے درمیان پجاریوں کی شخصیت، کسان اور زمین دار کے درمیان تیسری شخصیت کا عمل اس کی مثالیں ہیں۔ شکیل الرحمن نے پریم چند کے افسانوں کا تجزیہ کر کے بتایا ہے کہ چین سنگھ، جگل، جوکھو، کاوس جی، مہاتما جی، رضا، قاسم، پنڈت درگا ناتھ، جگنو اور گومن وغیرہ تیسری شخصیتیں ہیں اور ان کر داروں کو پریم چند نے بڑی فنکارانہ بصیرت کے ساتھ ابھارا ہے اور کہانی کو اپنی منزل تک پہنچنے میں مدد دی ہے۔ شکیل الرحمن کا خیال ہے کہ تیسرا آدمی بنیادی حقیقتوں کی جانب اشارہ کرتا اور انسانی نفسیات کو نمایاں کرتا ہے۔ وہ جبلتوں کا آزادانہ اظہار کرتا ہوا نظر آتا ہے اور اس کے وسیلے سے انسانی نفسیات کے متعدد گوشے نمایاں ہوتے ہیں۔ پریم چند اپنے تیسرے آدمی کو متعارف کرواتے ہوئے بہت محتاط رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں نقاد نے پریم چند کے افسانے ’’گھانس والی‘‘ کا مکمل تجزیہ پیش کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ اس کہانی کا ہیرو گھانس والی کے رفیق حیات کو محض اس لیے خوش حال اور فارغ البال بنانا چاہتا ہے کہ گھانس والی گھر میں بری نظر سے محفوظ رہے اور بازار کے من چلے نوجوان اس کو نہ چھیڑیں۔

پریم چند کے رومانی ذہن نے جو نگار خانہ بنایا ہے اس میں عورت کے مختلف متحرک پیکر ملتے ہیں۔ عورت کی شخصیت کے گوناگوں رنگ پریم چند کے افسانوں میں محض اس لیے اجاگر نہیں ہوئے ہیں کہ انھوں نے متعدد افسانوں میں ان کا کر دار پیش کیا ہے بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ پریم چند نے ہندوستانی عورت کی سماجی حیثیت، اس کی شخصیت اور اس کی بدلتی ہوئی نفسیاتی کیفیتوں کو ایک فنکار کی نظر سے دیکھا اور پیش کیا ہے۔ پریم چند کے افسانوں میں نرگسی عورتیں بھی ہیں، شوہر پرست خواتین بھی، کوٹھوں کی زینت بننے والی طوائفیں بھی ہیں اور بیوہ عورتیں کی ویران زندگی کی بھی تصویریں پیش کی گئی ہیں۔ نرگسیت (Narcissism) ایک نفسیاتی کیفیت ہے جس میں انسان اپنے وجود اور اپنے حسن کا دیوانہ اور اپنی محبت میں مگن رہتا ہے۔ ’’دو بہنیں ‘‘ میں روپ کماری کا کر دار نرگسیت کے رجحان کی اچھی نمائندگی کرتا ہے۔ اسی طرح ’’بازیافت‘‘ کی ہیروئن نرگسیت کی گرفت میں جکڑی ہوئی ہے اور اس رجحان کا اثر اس کے فکر و عمل پر دیکھا جا سکتا ہے۔ نرگسی التباس، واہمہ، فریب نظر (Illusion & Hallucination) کی یہ تصویریں پریم چند کے افسانوں میں اپنی جھلک دکھاتی رہتی ہیں۔ اردو فکشن میں یہ تصویریں بہت کم یاب ہیں۔

پریم چند کے اکثر نقادوں نے اس نکتے پر زور دیا ہے کہ انھوں نے گھریلو زندگی کی مختلف تصویریں پیش کرتے ہوئے بے جوڑ اور بے میل شادیوں کے نقصانات اور تہذیبی نقائص کی طرف اشارے کیے ہیں۔ شکیل الرحمن نے گھریلو زندگی کے اس المیے کو نفسیاتی پس منظر میں دیکھنے کی کوشش کی ہے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی نفسیاتی بوالعجبیوں اور الجھنوں کا تجزیہ بھی کیا ہے۔ اس سلسلے میں مرد اور عورت دونوں کی نفسیات کے سلسلے میں بعض نازک گوشوں کو بے نقاب کیا ہے۔ مس پدما (زاد راہ) اور مسٹر جھلا کی شادی کے حوالے سے شکیل الرحمن اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ وہاتی تسلسل (Vita Continuity) کی واحد جبلت جو دو جبلتوں یعنی تحفظ ذات اور اشاعت ذات پر مشتمل ہے، یہاں نمایاں ہے۔ مس پدما اپنی تنہائی میں مسٹر جھلا کو شریک کرنا چاہتی ہے۔ یہی اس افسانے کی روح ہے۔ شکیل الرحمن لکھتے ہیں :

’’عقلی الجھاؤ (Intelligence Complex) کا ’’آتش مافیا‘‘ (Pyromania)ضرور ہے۔ عقلی الجھاؤ کی صورت میں اور معکوسی مالیخولیا کا رنگ بھی نمایاں ہے۔ یعنی ایک ناخوشگوار واقعے کو شعور سے الگ کرنے کی کوشش اور ماحول و واقعات کی وجہ سے خارجی امتناع کے دباؤ سے گریز‘‘ (صفحہ280)

شکیل الرحمن کی انسانی نفسیات سے آگہی نے جس طرح غالبؔ، خسروؔ، میرؔ اور منٹو وغیرہ کے فن کا تجزیہ کرنے میں ان کی رہنمائی کی ہے۔ اسی طرح پریم چند کے افسانوں کو بھی انھوں نے نفسیات کے آئینے میں دیکھتے ہوئے، اردو فکشن کی تنقید کے سرمایے میں افسانہ کیا ہے۔ کتاب کی ابتداء میں شکیل الرحمن نے پریم چند کے بارے میں اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ اردو کے مصنفین نے پریم چند کے افسانوں میں گاؤں کی زندگی کے نشیب و فراز، طبقاتی تضاد، آزادی کی تحریک وغیرہ کا ذکر کر کے پریم چند کے تہذیبی اور عصری شعور کو چمکانے کی کوشش کی ہے۔ پریم چند کے فن پر اظہار خیال کرتے ہوئے یہ بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ ’’فنکار نے خارجی حقائق اور معاشرتی اقدار کو کس حد تک جذب کیا ہے اور کس حد تک انہیں نئی تخلیق کی صورت دی ہے ‘‘

آگے چل کر شکیل الرحمن رقمطراز ہیں :

’’ناولوں کی جذباتیت سچائیوں کا سپاٹ بیان اور کر داروں کا میکان کی عمل، مکالموں … اور قدروں کا شعور سب نظرانداز ہو جاتا ہے (صفحہ 12-11)

شکیل الرحمن نے تہذیبی پس منظر کو ملحوظ رکھتے ہوئے انسانی تجربات اور نفسیاتی عوامل کی اہمیت نظرانداز نہیں کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ پریم چند نے اپنے فکشن میں عورتوں کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا بشری معنوی گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا ہے۔ اس رنگا رنگی اور بو قلمونروپک ری کی مثالیں اردو میں کم ملتی ہیں۔ شعور اور لاشعور کی کشمکش، نرگیست، اعصابی خلل، ہیجانات کا ابال، نفسیاتی دباؤ، احساس کمتری، واہمے اور خواب، نفسیاتی تعصب، فریب نظر اور بعض دوسرے محرکات کو پریم چند نے اپنے افسانوں میں بڑی دیدہ وری کے ساتھ پیش کیا ہے۔ شکیل الرحمن اس خیال کے حامل ہیں کہ پریم چند نے پہلی بار نفسیاتی کر داروں کی تخلیق کرتے ہوئے شعور کے بہاؤ کو نمایاں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

’’شعور کے بہاؤ یا چشمۂ شعور کی تکنیک تو اسی صدی میں مرتب ہوئی۔ براہ راست خود کلامی اور بالواسطہ خود کلامی کس حد تک ماورائی تفصیل اور سولیکول (Soliguay) کو چار مختلف تکنیک سے تعبیر کیا گیا ہے۔ پریم چند کے فن میں اس تکنیک کی جھلکیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ ظاہر ہے کہ انہیں اس تکنیک کی خبر نہیں تھی لیکن ذہن کے مطالعے اور شعور اور لاشعور کی کشمکش میں یہ تکنیک اجاگر ہو گئی ہے۔ موضوع تو خود اپنی تکنیک منتخب کر لیتا ہے ‘‘ (صفحہ 86)۔

شکیل الرحمن نے اس سلسلے میں بطور خاص پریم چند کے افسانے ’’بازیافت‘‘ کا حوالہ دیا ہے جس میں نفسی تاثرات، آزاد تلازمہ خیال اور نفسی تصورات (Psychic Images) سے کام لینے کے طریقے سے افسانہ نگار نے مدد لی ہے۔

پریم چند نے بچے کا کر دار واقعات کے نشیب و فراز میں جس طرح پیش کیا ہے وہ اس لیے بھی ہمیں متوجہ کر لیتا ہے کہ افسانہ نگار نے بچے کی معلوم اور بے داغ شخصیت، اس کے تخیل کی سنہری بستی اور اس کی بے ضر ر تمناؤں کی مرقع کشی میں پختہ ذہن اور بالیدہ شخصیت سے اس کے ٹکراؤ کو اساسی اہمیت کا حامل قرار دیا ہے۔ مارک ٹوئن (Mark Twain) کا ہکّل بری فن (Huckle berry finn) عالمی ادب میں بچوں کا ایک نمائندہ کر دار ہے۔ وہ بڑے لوگوں کی دنیا پر تنقیدی نظر ڈالتا ہے۔ اسی طرح ہنری جیمس کے ’’What Maisie Knew‘‘ میں مینری کا کر دار بڑے لوگوں کی دنیا کو اپنی نظر سے دیکھتا اور احتساب کی کوشش کرتا ہے۔ در اصل بچہ ایک اسی پاکیزہ اور تصنع سے عاری دنیا کی مخلوق ہے جہاں کذب و افتراء، ملمع کاری اور ظاہر داری کو کہیں جگہ نہیں مل سکتی۔ بچوں کی نفسیات اور ان کی چھوٹی چھوٹی خواہشات اور ان کے اظہار کے طریقے کہانی کی فضاء اور وقوع کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ پریم چند کے افسانوں میں مختلف عمر کے بچے ہمارے سامنے آتے ہیں ’’رام لیلا‘‘، ’’قزافی‘‘، ’’عیدگاہ‘‘، ’’سوتیلی ماں ‘‘، ’’بوڑھی کاکی‘‘، ’’ماں کا دل‘‘، ’’مہا تیرتھ‘‘، ’’گلی ڈنڈا‘‘، ’’مندر‘‘، ’’دو بیل‘‘، ’’چوری‘‘، ’’بڑے بھائی صاحب‘‘ اور ’’دودھ کی قیمت‘‘ میں بچوں کے کر دار پریم چند نے بڑی بالغ نظری کے ساتھ پیش کئے ہیں۔ ’’رام لیلا‘‘ میں پریم چند نے بتایا ہے کہ بچے اپنے محبوب کر داروں سے جذباتی قرب اور یگانگت محسوس کرتے اور ان کی فتح و شکست کو اپنا ذاتی معاملہ تصور کرتے ہیں۔ بچے اپنے ہیرو کو بلندی پر دیکھنا چاہتے ہیں اور اس سے کسی قسم کی کمزوری منسوب نہیں کر سکے۔ لیکن جب بھی ہیرو کسی انسانی کمزوری کا شکار ہو جاتا ہے تو ان کا بنایا ہو ابت ٹوٹ جاتا ہے اور شکست خواب کا رد عمل عجیب و غریب صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ ’’رام لیلا‘‘ میں جب معصوم لڑکا اپنے والد سے پیسے مانگ کر ان کی ڈانٹ سنتا ہے اور پھر والد کو طوائف پر پیسے نچھاور کرتے ہوئے دیکھتا ہے تو گھر کے اس ہیرو کا بت بری طرح ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے۔ اس کا رد عمل کہانی میں دیکھا جا سکتا ہے۔ بچہ کہتا ہے :

’’اسی روز سے والد صاحب سے میرا اعتماد اٹھ گیا۔ میں نے پھر کبھی ان کی ڈانٹ کی پرواہ نہیں کی۔ میرا دل کہتا ہے کہ آپ کو مجھے نصیحت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ مجھے ان کی صورت سے نفرت ہو گی۔ وہ جو کہتے میں ٹھیک اس کے برعکس کرتا‘‘

شکیل الرحمن نے بچے کے اس نفسیاتی رد عمل کا اچھا تجزیہ پیش کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ بچے کا ذہن گھریلو زندگی کے واقعات سے کس طرح متاثر ہوتا ہے اور عقیدت کو نفرت میں بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔ ’’قزاقی‘‘ کا نقاد نے ٹیگور کی کہانی ’’کابلی والا‘‘ سےا چھا موازنہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس کہانی میں پریم نے بچے کی نفسیات، ذہنی الجھنیں، اس کے معصومانہ احتجاج اور پھر ذہنی آسودگی کو بڑے فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ ’’سوتیلی ماں ‘‘ میں بچے کے کر دار کا نفسیاتی تجزیہ کرتے ہوئے شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ سوتیلی ماں کے کر دار کو پریم چند نے ایک ’’آئیڈیل کر دار‘‘ بنا دیا ہے۔ سوتیلی ماں کے بے انتہا محبت کے باوجود منو اس سے ہمیشہ خوف زدہ رہتاہ ے کہ اس کی حقیقی ماں کی طرح کہیں وہ بھی اسے چھوڑ کر چلی نہ جائے۔ شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ سگمنڈ فرائڈ کے مطابق یہ ایک قسم کی نفسیاتی الجھن ہے۔ مرانڈ اس کو (Reality Anxiety) سے تعبیر کرتا ہے۔ پریم چند نے بچے کی نفسیات کے اس پہلو کو بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ پیش کیا۔ ’’حج اکبر‘‘ میں ننھے کی ماں سکھدایچ کی دایہ رد درمنی سے بدگمان ہو کر اسے ملازمت سے علیحدہ کر دیتی ہے۔ یہ واقعہ بچے کی زندگی کا ایک المیہ بن جاتا ہے۔ شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ فرائڈ نے اس محرومی کو Privalion سے تعبیر کیا ہے جو ذہن پر خارجی حالات کے دباؤ کا نتیجہ ہوتا ہے۔ پریم چند نے ’’نادان دوست‘‘، ’’گلی ڈنڈا‘‘، ’’اناتھ لڑکی‘‘، ’’دو بھائی‘‘، ’’ماں ‘‘، ’’خواب راحت‘‘ اور ’’انجام محبت ‘‘ میں بچوں کے ذہن اور ان کی فطرت کے مختلف پہلو اجاگر کیے ہیں۔ ٹیگور مارک ٹوئن ہنری جیمس، ہانس اینڈرس، ٹالسٹانی، پیرولارٹ، چارلس لیمپ، جیمس بیری، لیوس کرول اور بعض دوسرے فنکاروں کی طرح پریم چند نے بھی بچوں کی نفسیاتی زندگی سے دلچسپی لی ہے اور ان کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

شکیل الرحمن نے پریم چند کے تصور زندگی کو ان کے کر داروں کے اعمال و افعال میں دیکھنے اور دکھانے کی کوشش کی ہے۔ ’’چوگان ہستی‘‘ کے سور داس میں ایک سچے کھلاڑی کی اسپرٹ موجود ہے وہ کہتا ہے :

’’کھیلنا تو اس طرح چاہیے کہ نگاہ جیت پر رہے پر ہارنے سے گھبرائے نہیں۔ ایمان کو نہ چھوڑے۔ جیت کر اتنا نہ اترائے کہ اب کبھی ہار ہو گی ہی نہیں۔ ہار جیت تو زندگی کے ساتھ ہے ‘‘ (چوگان ہستی حصہ دوم صفحہ 184)

پریم چند کے فکشن میں زندگی صرف ہار یا صرف جیت نہیں۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایماندار اور مخلص آدمی، لالچی اور بے ایمان شخص سے شکست کھا جاتا ہے اور کھا جاتا ہے اور کبھی خلوص و محبت کو شاندار فتح نصیب ہوتی ہے۔ پریم چند نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ انسان صرف فرشتہ یا محض شیطانی نہیں ہوتا، اس کی فطرت، مزاج اور افتاد طبع پر متعدد خارجی اور نفسیاتی محرکات اثر انداز ہو کر اسے مخصوص سانچے میں ڈھال دیتے ہیں۔ شکیل الرحمن پریم چند کے المیہ کر داروں کا تجزیہ کرتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ پریم چند کے کر داروں میں زیادہ پیچ و خم نہیں جیسا کہ جدید فکشن میں پیش کیا گیا ہے۔ ’’کفن‘‘ کے گیسو اور مادھو دونوں المیہ کر دار ہیں۔ بدھیا جو ان کی زندگی کا واحد ذریعہ معاش ہے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ لیکن یہ دونوں باہر الاؤ کے پاس بیٹھے آلو بھون کر کھا رہے ہیں۔ نقاد کا خیال ہے کہ دونوں طبقاتی زندگی کے المیہ کے ساتھ اپنی نفسیاتی کیفیتوں کی وجہ سے ’’کیرکٹر‘‘ بن گئے ہیں۔ (فکشن کے فنکار پریم چند۔ صفحہ 133) ان کا تجزیہ کرتے ہوئے شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ ان دونوں کر داروں کی جڑیں ان کی سائیکی میں تو ہیں لیکن اس سائیکی کا گہرا رشتہ معاشرتی عوامل اور محرکات کے متناقص (Paradox) سے ہیں (صفحہ134)۔ نقاد کا خیال ہے کہ ’’بوڑھی کاکی‘‘، ’’مس پدما‘‘، ’’بازیافت‘‘، ’’دو بہنیں ‘‘، ’’’دو سکھیاں ‘‘، ’’سکون قلب‘‘، ’’سوت‘‘ اور بعض دوسری تخلیقات میں عورتوں کا کر دار المیہ اور ڈرامائی کشمکش، شخصیت کے داخلی دباؤ، دفاعی میکانیت (Defense Mechanism)سے المیہ کر داروں نے اپنا معیار قائم کر دیا ہے۔

پریم چند کے افسانوں کی تکنیک کا تجزیہ کرتے ہوئے شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ پریم چند کے بعض افسانے داستانی رنگ میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں۔ ابتدائی حصہ اور نقطہ آغاز قدیم قصوں کے طرز کی یاد دلاتا ہے۔ ’’دو بیل‘‘ میں پریم چند لکھتے ہیں :

’’جمہوری کاچھی کے پاس دو بیل تھے۔ ایک کا نام ہیرا اور دوسرے کا موتی‘‘

پریم چند کی اس طرز کی کہانیوں میں وہ ابتدا ہی سے قاری کا قرب حاصل کر لیتے ہیں اور کسی تکلف اور تصنع کو جگہ نہیں دی جاتی لیکن یہ پریم چند کی افسانہ نگاری کا واحد رنگ نہیں ’’خون سفید‘‘ کی ابتداء علامتی ہے اور اس میں جس اشارتی اسلوب کو اپنایا گیا ہے اسے شکیل الرحمن کہانی کی اصل روح تصور کرتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ پریم چند نے کہانی سنانے کے قدیم انداز میں نئی جہت پیدا کی۔ پریم چندر کے بعض افسانے درمیانی کڑی کو پیش کرتے ہوئے اپنا ابتدائی سفر طے کرتے ہیں۔ ’’سر پر غرور‘‘، ’’نگاہ ناز‘‘، ’’خواب پریشانی‘‘، ’’بھاڑے کا ٹٹو‘‘، ’’آہ بے کس‘‘، ’’پوس کی رات‘‘ اور ’’سندھی‘‘ اسی تکنیک کے رہین منت ہیں اور قاری کے تصور کو ابتداء ہی سے مہمیز کرتے ہیں۔ پریم چند نے ڈائری کی تکنیک میں بھی افسانے لکھے ہیں اور مکتوب نگاریس بھی اپنی کہانیوں میں مدد لی ہے۔ ’’دو سکھیاں ‘‘ اور ’’کسم‘‘ جیسے افسانے مثال میں پیش کیے جا سکتے ہیں۔ پریم چند نے بعض وقت بہت مختصر افسانے بھی لکھے ہی ں۔ افسانے میں ان کے طرز تحریر، تکنیک پر ان کے عبور اور قصہ گوئی کے سلیقے کو ظاہر کرتے ہیں۔ ’’قوم کا خادم‘‘ اور ’’بند دروازہ‘‘ پریم چند کے مختصر ترین افسانے ہیں۔ ’’ابھاگن‘‘، ’’چکمہ‘‘، ’’جنت کی دیوی‘‘ وغیرہ بھی مختصر ہیں۔ لیکن ہر لحاظ سے مکمل اور بھرپور۔ پریم چند کے ابتدائی افسانوں میں مکالمہ لکھنے کا انداز کم و بیش وہی ہے جو ڈراموں میں ملتا ہے۔ یعنی کر دار کا نام لکھ کر ان کے سامنے مکالمہ لکھنا ’’زاد راہ‘‘ میں پریم چند کی افسانہ نگاری اور فنکاری کے اعلیٰ نمونے ملتے ہیں۔ پریم چند نے اپنے بعض افسانوں کا عنوان، کہانی کے انجام کی مناسبت سے تجویز کیا ہے مثلاً ’’طلوع محبت‘‘، ’’دھوکا‘‘، ’’پچھتاوا‘‘ ’’قربانی‘‘ اور ’’سہاگ کا جنازہ‘‘ علامتی عنوانات سے بھی کام لیا ہے، مثلاً ’’ترشول‘‘، ’’کفن‘‘، ’’دودھ کی قیمت‘‘، ’’کفارہ‘‘ اور ’’شطرنج کی بازی‘‘ وغیرہ۔ بعض انسانوں کے نام کسی کر دار کے نام سے زینت پاتے ہیں۔ آخر میں نقاد نے پریم چند کے اسلوب بیان کو قصہ گوئی کے لیے بہت موزوں اور مناسب قرار دیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ کہیں کہیں داستانی اور اساطیری رنگ بھی نمایاں ہو گیا ہے۔ نقاد لکھتا ہے کہ پریم چند کے افسانوں میں اسلوب کا ارتقاء بھی اپنی جھلک دکھاتا رہتا ہے اور ان کے طرز بیان میں اشاریت نے بھی جگہ پائی ہے۔ مثال میں ’’آتما رام‘‘ اور ’’پنچایت‘‘ پیش کیے جا سکتے ہیں۔ مقام، پیشہ اور طبقے کے پس منظر میں ابھرنے والے مکالمات نے پریم چند کے افسانوں میں جان ڈال دی ہے۔ فضاء آفرینی اور فطرت نگاری میں دیومالائی رنگ اور داستانی عناصر کے ساتھ علامتی اسلوب کی مثالیں بھی موجود ہیں۔

شکیل الرحمن خارجی حالات کے پس منظر میں پریم چند کی تحریروں کا تجزیہ کرنے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ شخصی عوامل جس طرح بیرونی دنیا سے اثر پذیر ہوتے ہیں ان کا بھی ادراک کیا ہے اور خارجی پس منظر میں فرد کی جذباتی زندگی اور اس کے نفسیاتی پہلو کو بھی پیش نظر رکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

’’بازار حسن‘‘ میں کوئی وجہ نہیں کہ تقسیم بنگال کی تحریک کا تجزیہ کریں اور اس ماحول کے اہم کر دار سمن کے جذبات و احساسات اور اس کی جبلتوں کا مطالعہ نہ کیا جائے۔ تلک، گوکھلے اور اربندو گھوش کی جد و جہد اور اصلاح پسندی کو دیکھیں اور سمن کے مزاج کو سمجھنے کی کوشش نہ کریں۔ (صفحہ15)

شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ پریم چند کے اصلاحی مقصد کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے لیکن اس کے فن کی اصل روح تک پہنچنے کی کوشش بھی ضروری ہے۔

مختصر یہ کہ پریم چند شکیل الرحمن کی یہ تصنیف ایک منفرد حیثیت کی حامل ہے اور افسانہ نگار کے فنی مزاج سے آشنا ہونے کے لیے قاری کو تجزیے کا ایک نیا دروازہ کھول کر ایک نئی علمی کائنات میں پہنچا دیتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

                فراق کی جمالیات

 

 

شکیل الرحمن کی کتاب ’’فراق کی جمالیات‘‘ ان کی اہم تصانیف میں سے ایک ہے۔ نقاد فراق کے جمالیاتی شعور، باطن میں محسوس کیے ہوئے حسن اور داخلی غنائیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ فراق نے اردو شاعری کو جو نیا آہنگ بخشا وہ ان کی جمالیاتی حسیت (Aesthetic Sensibility) کی دین ہے۔ شکیل الرحمن کا خیال یہ ہے کہ جب فنکار اپنے وجود اور اپنی سائیکی کے ساتھ محبتوں کو دیکھتا اور اس کے حسن کو محسوس کرتا ہے تو تخلیقی تجزیوں کا ظہور (Manifestation)وجود اور سائیکی کے آہنگ کے اندر سے ہوتا ہے۔ خوبصورت اور اچھے شعر سے ہم اس لیے متاثر ہوتے ہیں کہ ان سے الوہی نغمے کا احساس ملتا ہے۔ مثال میں شکیل الرحمن نے فراق کا یہ شعر نقل کیا ہے۔

فراق ایک ہوئے جاتے ہیں زماں و مکاں

تلاش دوست میں میں بھی کہاں نکل آیا

فراقؔ نے اپنے ادبی مزاج کے بارے میں لکھا تھا:

’’میرے اندر غالب عنصر ذہن کی روحانیت تھی جو بعد میں میری شاعری میں نمایاں ہوئی۔ میرے مزاج میں وجدانی اور جمالیاتی احساس غالب ہے ‘‘

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جمالیاتی انبساط کا سرچشمہ کہاں ہے۔ شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ سائیکی کے آہنگ (Rhythm) کی غنائیت اور معنویت سے جمالیاتی انبساط کی تخلیق ہوتی ہے۔ ہمیں خارج میں جو حسن نظر آتا ہے وہ سائیکی ہی کا کرشمہ اور اسی کا مظاہرہ ہے۔ اطہر نفیس نے کہا تھا ؎

خود اپنے ہی اندر سے ابھرتا ہے موسم

جو رنگ بچھا دیتا ہے تتلی کے پروں پر

شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ آہنگ فطرت کا پوشیدہ قانون ہے۔ دل کی دھڑکن، نبض کی حرکت، چشم میں خون کی گردش، طلوع آفتاب اور غروب آفتاب، سمندر کی لہروں کا تموج اور موسموں کی تبدیلی وغیرہ سب آہنگ کی تبدیلی کا احساس دلاتے ہیں۔ شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ ’’آہنگ ایک اسرار ہے جو وقت کے تسلسل اور لمحوں کی خاموش تبدیلیوں میں موجود ہوتا ہے۔ نقاد کا خیال ہے کہ فراق کی شاعری آہنگ جلال و جمال کا جو منفرد احساس ملتا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ کلام کا آہنگ عمدہ جذبوں کے رسوں کی دین ہے۔ حسیات و لمسیات کی اس شاعری کا آہنگ دوسرے شعراء سے مختلف اور منفرد ہے۔

شکیل الرحمن کا خیال ہے کہ لفظوں کی تکرار نے شاعر کی حسی اور لمسی کیفیتوں کو تخلیقی سطح پر حد درجہ محسوس بنا دیا ہے۔ فراق کے مندرجہ ذیل شعر مثال میں پیش کیے گئے ہیں ؎

سمٹ سمٹ سی گئی ہے فضائے بے پایاں

بدن چرائے وہ جس دم ادھر سے گزرے ہیں

عشق بھی تھا اداس اداس شام بھی تھی دھواں دھواں

دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں

تمام خستگی و ماندگی ہے عالم ہجر

تھکے تھکے سے یہ تارے تھکی تھکی سی یہ رات

ہندوستانی جمالیات میں آرٹ وجود کا ایک حصہ ہے۔ یہ زندگی کی روح اور اس کا جوہر ہے اور اس کا نقطہ عروج (Culmination) بھی۔ شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ فراق کی جمالیات میں ’’وقت‘‘ عاشق کے تجزیوں میں جذب ہے۔ شب یا رات وقت کا سب سے اہم اور معنی خیز استعارہ ہے جو عموماًً وقت کے المیے کو احساس اور جذبے سے قریب کر دیتا ہے۔ حسی کیفیتوں اور شب کی ہم آہنگی سے جو جمالیاتی وحدت پیدا ہوتی ہے وہ جمالیات فراق کا جوہر ہے۔ فراق کہتے ہیں :

’’رات کی کیفیتیں اور رات کی رمزیت جس طرح میرے اشعار میں فضا باندھتی ہے وہ کہیں اور نہیں ملے گی۔ (صفحہ 16، بحوالہ فراق کی جمالیاتی)

شکیل الرحمن کا خیال ہے کہ فراق کے کلام میں شب، شام اور احساس و ادراک کی ہم آہنگی اور وحدت سے ایک عمدہ جمالیاتی منظر نامہ (Scenario) سامنے آتا ہے جس سے حسیاتی سطح پر جذباتی رومانی قدروں کا مطالعہ جمالیاتی انبساط بخشنے لگتا ہے۔ مثال میں مندرجہ ذیل اشعار پیش کیے گئے ہیں ؎

میٹھی نیند میں سونے والے چونک پڑے ان ناموں سے

رات کو رونے والوں نے بھی کیسا درد بھرا ہو گا

تاروں کی فضاؤں کو ہواؤں کو سلا کر

اے رات کوی آنکھ ابھی جاگ رہی ہے

یہ نکہتوں کی نرم روی یہ ہوا یہ رات

یاد آ رہے ہیں عشق کے ٹوٹے تعلقات

شب فراق اٹھے دل میں اور بھی کچھ درد

کہوں یہ کیسے تیری یاد رات بھر آئی

دلوں میں داغ محبت کا اب یہ عالم ہے

کہ جیسے نیند میں ڈوبے ہوں پچھلی رات چراغ

شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ شب کی عطا کی ہوئی تاریکی جتنی گہری اور پراسرار ہوتی ہے اتنی دن کی روشنی نہیں ہوتی۔ دن کی روشنی میں وہ تہہ داری نہیں ہوتی جو رات کی تاریکی میں ہے۔ شب کے اسرار اور اس کی تاریکی سے جو جمالیاتی لذت اور انبساط حاصل ہوتا ہے وہ روح میں جاں پرور کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔ شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ:

’’فراق کی جمالیات میں دو آرچ ٹائپس (Archetypes) کے تحرک کا احساس بار بار ملتا ہے۔ ’’رات اور عورت‘‘ (صفحہ31)

یہ دونوں فراق کی سائیکی (Psyche) میں اترے ہوئے ہیں اور ان کی جمالیات میں مختلف رنگوں اور جہتوں کے ساتھ نمایاں ہوتے ہیں۔ ان کی وجہ سے شاعر کا وجود رقص کرتا ہوا ملتا ہے۔ ہندوستانی جمالیات میں فنکار کے وجود کو ایسا ’’نرتن‘‘ (Nirtin) کہا گیا ہے جس سے حسن کا اظہار ہوتا ہے۔ ایک تصویر یہ بھی ہے کہ دنیا کی تخلیق موسیقی سے ہوتی ہے اور جلال و جمال کا اظہار (Manifestation of Beauty) ہوتا رہتا ہے۔ فراق کے دونوں آرچ ٹائپس Rhythm of Bliss عطا کرتے ہیں۔ اس لیے اردو شاعری میں فراق کے یہاں جو رات اور حسن کی تصویریں ہیں وہ منفرد ہیں اور جمالیاتی انبساط عطا کرنے کی صلاحیت سے بہرور ہیں۔ فراق ’’بدن کی بھاشا‘‘ سے آشنا ہیں اور لمسی و حسی پیکروں کے منفرد خالق بھی ہیں۔ ہندوستانی جمالیات میں ’’سوندریا‘‘ کے گوناگوں روپ اور مختلف جہتیں ہیں۔ سیتم، شیوم اور سندرم کی صفات انسانی فطرت میں موجود ہی ں۔ سچائی، سکوں و طمانیت اور ان کے نتیجے میں حاصل ہونے والی حسن، جمالیاتی انبساط اور سرور تخلیق کرتے ہیں اور حسن سے سرشار ہونے کا حوصلہ عطا کرتے ہیں وہ حسن جو ارضی بھی ہو سکتا ہے اور الوہی نغمات کا خالق بھی۔

جمالیات کے ماہرین کا خیال ہے کہ سیتم شیوم اور سندرم کے تحرک سے وہ وژن میسر آتا ہے جو بلند پایہ فن پارے کی تخلیق کر سکتا ہے۔ بعض نقادوں کا خیال ہے کہ اردو شاعری میں فراق احساسات کے ایک ممتاز شاعر ہیں۔ حسن کی مختلف اداؤں، اس کی جادوگری، نظر فریبی اور جاذبیت کے جو گوناگوں مرقع فراق کے یہاں ملتے ہیں وہ دوسرے تخلیق کاروں کے البم میں کم نظر آتے ہیں۔ مثال میں یہ شعر پیش کیے جا سکتے ہیں ؎

اس میں ڈوبا ہوا لہراتا بدن کیا کہنا

کروٹیں لیتی ہوئی صبح چمن کیا کہنا

مد بھری آنکھوں کی السائی نظر پچھلی رات

نیند میں ڈوبی ہوئی چندر کرن کیا کہنا

تیری آواز سویرا، تیری باتیں تڑکا

آنکھیں کھل جاتی ہیں اعجاز سخن کیا کہنا

یہ رنگ و بوئے بدن ہے کہ جیسے رہ رہ کر

قبائے ناز سے کچھ شعلہ سا لپک جائے

ایسے متعدد شعر فراق کی غزلوں میں ان کے تحت الشعور کی جھلکیاں دکھاتے ہیں۔ کام دیو کے تیر میں پانچ خوبصورت پھول ہوتے ہیں جو پانچویں حواس خمسہ سے مناسبت رکھتے ہیں۔ شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ:

’’ پر عظمت عشقیہ شاعری قاری کے باطن میں حسن کی ایک لہر سے پیدا کر دیتی ہے۔ ایک موج اٹھتی ہے اسی کو ’’سندریا لہری‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ‘‘ (صفحہ36)

شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ علم نباتات کے بعض ماہرین کا جن میں Beverley Glover بھی ہے یہ خیال ہے کہ پھول اندرونی طور پر رنگ بدلتے اور اپنے حسن میں رنگا رنگی پیدا کر رہتے ہیں۔ ان بدلتے ہوئے جاذب رنگوں کی خوبصورتی کا شہد کی مکھیاں اور بھونرہ ہی نظارہ کر سکتے ہیں اس لیے وہ ان میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔

شکیل الرحمن کا خیال ہے کہ بڑے فنکار کا وژن اسی طرح حسن کی باطنی رعنائی پر محیط ہو جاتا ہے۔ جمالیاتی وژن حسن کی ان کیفیات کو بھی محسوس کرواتا اور ان کا جلوہ دکھاتا ہے جو عام انسان کی نظر سے پوشیدہ ہوتی ہے۔ جمالیاتی وژن کا کرشمہ فراقؔ کی غزلوں میں بار بار اپنی جھلک دکھاتا رہتا ہے۔

 

عالم عالم جمال تیرا، دنیا دنیا تیرا بدن ہے

صحرا صحرا میری محبت، دریا دریا تیرا بدن ہے

جیسے پردے میں راگنی ہوئے، یوں زیر قبا تیرا بدن ہے

جیسے یوں خواب گیت بن جائے، شاعر کی نوا تیرا بدن ہے

 

فراقؔ نے نسوانی حسن کے وہ مرقع پیش کیے ہیں جن میں شرنگار رس اور جمالیاتی تجربات کا ایک ایسا انوکھا امتزاج نظر آتا ہے جو ہندوستانی جمالیات کا رہین منت ہے۔ ان کی بعض مثالیں شائستگی کی حدوں سے متجاوز ہو گئیں ہیں۔ اس طرح کے تجربات و مشاہدات جرات رنگین اور انشا کے کلام میں نظر آتے ہیں لیکن اپنی بدلی ہوئی نوعیت کے ساتھ۔ فراقؔ کی جمالیاتی آگہی شعور نے سرور انبساط اور کیف آفرینی کی ایک نئی دنیا تخلیق کی ہے جو جمالیاتی آب و رنگ سے سجی ہوئی ہے۔ فراق نے کہا تھا:

جنسی کشش اور جنسی رجحانات میں جب تک جذباتی پائندگی، جذباتی سوز و ساز، نرمی، مانوسیت، حیرت و استعجاب، سپردگی، وجدانی محویت اور احساس طہارت کے عناصر گھل مل نہیں جائیں گے۔ اس وقت تک تخیل میں وہ حلاوت اور وہ عنصری طہارت پیدا نہ ہو گی جو بلند پایہ عشقیہ شاعری کو جنم دیتی ہے۔ (اردو کی عشقیہ شاعری کی پرکھ، صفحہ 78)

فراق کا وژن بقول نقاد خارجی اور مادی تجربوں اور ذہنی اور نفسیاتی کیفیتوں کی آمیزش اور جمالیاتی وحدت کا نتیجہ ہے۔ بڑی گہرائیوں میں اتر جاتا ہے اور عورت ان کی دانست میں کائناتی حسن کا پیکر بن جاتی ہے۔ فراق نے فطرت کے جلال و جمال کو عورت کے بدن میں جذب کر دیا ہے۔ شاعر کہتا ہے ؎

 

اس میں ڈوبا ہوا لہراتا بدن کیا کہنا

کروٹیں لیتی ہوئی صبح چمن کیا کہنا

تمام باد بہاری تمام خندہ

شمیم زلف کی ٹھنڈک بدن کی آنچ نہ پوچھ

قبا میں جسم ہے یا شعلہ زیر پردہ ساز

بدن سے لپٹے ہوئے پیرہن کی آنچ نہ پوچھ

 

شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ فراق کے جمالیاتی نقطہ نظر کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ عورت کو راگ راگینوں کے پیکر میں ڈھلا ہوا محسوس کرتے ہیں۔

روپ سنگیت نے دھارا ہے بدن کا یہ رچاؤ

فراق کی شاعری میں عورت کا پیکر مختلف راگ راگنیوں کے انبساط اور رچاؤ کے ساتھ ابھرتا ہے اور شاعر کو سنگیت کی نغماتی دنیا میں پہنچا دیتا ہے۔

 

اے جان بہار تجھ پہ پڑتی ہے جب آنکھ

سنگیت کی سرحدوں کو چھو لیتا ہوں

 

شکیل الرحمن نے اپنی کتاب ’’راگ راگنیوں کی تصویریں ‘‘ (جولائی 1995، پبلیکشنز ڈویژن حکومت ہند) میں لکھا ہے :

’’ہندوستانی موسیقی رسوں کا سرچشمہ ہے کہ جس سے حواس خمسہ بیدار ہوتے ہیں اور خود وجود میں رسوں کی لذت ملنے لگتی ہے ‘‘

فراق کے کلام میں محبوب کی تصویریں راگ راگنیوں کے مدھم سروں سے آراستہ نظر آتی ہیں ؎

 

ہر عفو کی نرم لو میں مدھم جھنکارا

پو پھٹتے ہی بھیرویں کی آنے لگی لے

یہ روپ کے گرد سات رنگوں کی پھوار

جیسے مدھم سروں میں خود گائے ملہار

آ آ کے راگنی کھڑی ہوتی ہے

دیکھے کوئی بسمل بدن کا یہ رچاؤ

 

فراقؔ کی شاعری میں شرنگار رس کی فراوانی، جمالیاتی انداز نظر اور ادبی وزن نے ان کی انفرادیت کی شناخت قائم کی ہے۔ شکیل الرحمن نے اپنی کتاب ’’فراق کی جمالیات‘‘ میں اس کا بڑی بالغ نظری اور گہرائی کے ساتھ جائزہ لیا ہے۔

٭٭٭

 

 

                اختر الایمان — جمالیاتی لیجنڈ

 

شکیل الرحمن کی تصنیف ’’اخترالایمان— جمالیاتی لیجنڈ‘‘ اس لیے بھی دعوت مطالعہ دیتی ہے کہ اس کتاب سے نہ صرف اخترالایمان کے شعری تجربوں اور ان کی نظم نگاری کی تکنیک پر روشنی پڑتی ہے بلکہ خود نقاد کے ادبی افکار، ان کے جمالیاتی انداز نظر اور تصور شعر سے روشناس ہونے کا موقع ملتا ہے۔ شکیل الرحمن نے اخترالایمان کے تعارف میں جو پہلا جملہ لکھا ہے وہ یہ کہ شاعر اردو کے ایک منفرد اور رومانی تخلیق کار ہیں اور ان کی شعری کاوشوں نے ایک پوری نسل کو متاثر کیا ہے۔ اخترالایمان روایات سے متاثر ضرور ہیں لیکن روایتی شاعری سے گریز کیا ہے۔ انھوں نے اپنے سماج میں نفسیاتی اقدار اور معاشرتی رجحانات کی کشمکش اور تصادم کو اپنے مخصوص انداز نظر سے دیکھا ہے۔ ان کی نظموں سے ایک نئی رومانیت کی تشکیل عمل میں آتی ہے۔ اس رومانیت کی بنیاد ہیومنزم (Humanism) کے جذب پر استوار ہوئی ہے۔ اس عالمی ماحول میں جب تمام دنیا کے انسان خود کو غیر محفوظ اور اپنے مستقبل کو غیر یقینی سمجھنے لگے ہیں اور یہ محسوس کرتے ہیں کہ دنیا کی کسی بڑی طاقت کا جنون قلیل عرصے میں کرہ ارض کو تباہ کر سکتا ہے۔ ان کے لیے کل ایک سوالیہ نشان بن گیا ہے۔ شکیل الرحمن کا خیال ہے کہ شاعر نے معاشرے کے کرب کو اپنے وجود کا درد بنا لیا ہے اور رومانی فکر و نظر نے المیہ کے ساتھ المیہ کے حسن کو بھی نمایاں کر دیا ہے۔

ٹھہر گئی ہے اک ایسے مقام پر دنیا

جہاں نہ رات نہ دن ہے نہ بے کلی نہ جمود

پکارتے ہیں ستارے سنبھالتی ہے زمیں

ہر ایک شی سے گریزاں ابھی ہے میرا وجود

میں سوچتا ہوں کہیں زندگی نہ بن جائے

خزاں بدوش بہاریں خمار زہر آلود

شکیل الرحمن اس تصور کے حامل ہیں کہ اخترالایمان کی رومانیت کی ایک بڑی خصوصیت (Fantasy) ہے۔ اچھے اور بڑے شاعروں کی رومانیت نے جاذب نظر اور پر اثر فنتاسی تخلیق کی ہے۔ رومانیت کو نقاد نوع انسانی کی ’’مادری زبان‘‘ سے تعبیر کرتا ہے۔ آرٹسٹ خواہ وہ مجسمہ ساز ہو یا رقاص، مصور، شاعر اور موسیقار اپنی مادری زبان کا تخلیقی استعمال کرتا ہے۔ تخلیقی استعمال، تمثیل، استعارہ، پیکر اور فنتاسی کے وسیلے سے ایک نئی دنیا تخلیق کرتا ہے۔ اخترالایمان کی رومانیت کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ تجربے کو خواب جیسی ’’ساخت‘‘ اور رنگ عطا کرتے ہیں۔ اخترالایمان کی رومانیت جذبہ، احساس و شعور سب کو بیدار کرتی ہے۔ شاعر کے ذہن میں رومانیت کا جو تصور ہے وہ بہت ہمہ جہت تو نہیں لیکن منفرد ضرور ہے اس سے ان کار نہیں کیا جا سکتا کہ رومانیت شاعر کے کلام کا بنیادی جوہر ہے۔ ان کے کلام میں کہیں کہیں وژن سے بھی رومانی تاثرات ابھرتے ہیں۔

جیسا کہ کہا جا چکا ہے کہ اس تصنیف سے جمالیاتی تنقید کے علمبردار شکیل الرحمن کے ادبی نظریات کا بھی اندازہ ہوتا ہے وہ لکھتے ہیں :

’’صرف مسئلے یا مسئلوں کو ابھارنے سے اچھی شاعری وجود میں نہیں آتی… مسئلے کو پا کر خوشی تو ہوتی ہے لیکن جمالیاتی آسودگی حاصل نہیں ہوتی، جمالیاتی انبساط نہیں ملتا… شاعری کے اسرار سے بلاشبہ بے پناہ جمالیاتی انبساط حاصل ہونا چاہئے ‘‘ یہ انداز نظر صرف تاثراتی اور جمالیاتی نقاد ہی اپنا سکتا ہے۔

شکیل الرحمن ایک اور جگہ لکھتے ہیں :

’’حقائق زندگی کی تصویر کشی یا فوٹو گرافی فن نہیں ہے۔ فن جمالیاتی انبساط عطا کرتا ہے۔ المیہ حالات اور المیہ تجربات پر طنز کرنا یقیناًً بڑی بات ہے، لیکن ساتھ ہی المیہ تجربات اور المناک حالات کے حسن و جمال کو پیش کرنا ضروری ہے۔ یہی سب سے بڑی بات ہے ‘‘

یہاں شکیل الرحمن یہ کہنا چاہتے ہیں کہ حقیقت کی عکاسی اور حقیقت کے جمالیاتی تاثرات میں بہت بڑا فرق ہے۔ رومانیت اور فراریت کی اصطلاحوں کا مفہوم اگرا یک ہو گیا ہے تو اس کی بڑی وجہ میکان کی فکر کا غلبہ ہے۔ شکیل الرحمن کا خیال ہے کہ رومانی کر دار کے بغیر تخلیق اور عمدہ تخلیق اور اعلیٰ تخلیق کا تصور ہی پیدا نہیں ہو سکتا… علامتوں کی تخلیق اور حسی پیکروں کی پیشکشی سب سے بڑا رومانی عمل ہے۔ سائیکی (Psyche) کو فکر کا مرکز سمجھنا اور بنا لینا رومانی رجحان ہے۔ آگے چل کر لکھتے ہیں :

’’اپنے شعور و احساس میں عمل کرنا اور کائنات کو اپنے وجود میں پا لینا رومانیت ہے ‘‘

شکیل الرحمن نے اخترالایمان کا موازنہ ای ای کمنگس (E.E Commings) کے مزاج اور رویے سے کرتے ہوئے ان دونوں میں مماثلت دریافت کی ہے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ دونوں کا اسلوب Personal Styleہے۔ دونوں لمحوں کی کیفیتوں کے شاعر ہیں۔ لمحوں کا ذاتی مشاہدہ دونوں کے کلام کی خصوصیت ہے۔ زندگی، محبت، سماج اور لوگ دونوں کے محبوب موضوعات ہیں اور ان کے نظریہ زندگی میں بھی مماثلت ہے۔

جب اخترالایمان کا پہلا مجموعہ ’’گرداب‘‘ شائع ہوا تو بعض ہمعصر شاعروں اور نقادوں نے کہا کہ یہ یاس انگیزی، گھٹن اور قنوطیت کی شاعری ہے اور حقیقی دنیا سے فرار کا رجحان ہے۔ شکیل الرحمن رقمطراز ہیں کہ اردو کے بعض نقاد جیسے افسردگی اور قنوطیت سے تعبیر کرتے ہیں وہ اخترالایمان کی رومانیت ہے۔ اس کے بارے میں ’’؟؟؟؟‘‘ میں شاعر نے لکھا تھا:

گرداب کی جن نظموں سے زیادہ غلط فہمی ہوئی وہ ’’مسجد‘‘، ’’موت‘‘، ’’قلوپطرہ‘‘، ’’جواری‘‘ اور ’’تنہائی‘‘ وغیرہ ہیں ‘‘۔

نظم ’’مسجد‘‘ کا آخری بند جس پر اکثر نقاد سوالیہ نشان لگاتے ہیں یہ ہے ؎

تیز ندی کی ہر اک موج تلاطم بردوش

چیخ اٹھتی ہے وہیں دور سے فانی فانی

کل بہا لوں گی تجھے توڑ کے ساحل کے قیود

اور پھر گنبد و محراب بھی پانی پانی

’’مسجد‘‘ مذہب کا علامیہ ہے اور اس کی ویرانی، انسان کی مذہب سے دوری ہے ’’ندی‘‘ وقت کا دھارا ہے جو وجود کو عدم اور عدم کو وجود سے تبدیل کرتا رہتا ہے اور ہر اس چیز کو بہا لے جاتا ہے جو عام انسان کی زندگی میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ اخترالایمان کی شاعری کو سمجھنے کے لیے ان کے تصورات کی رومانیت اور ان کے علامیہ کی معنویت سے آشنا ہونا ضروری ہے۔ شاعر لکھتا ہے :

’’میری شاعری احساس کی شاعری ہے میں موضوع کو محسوس کرنے کی کوشش کرتا ہوں اگر یہ موضوع اپنا احساس میرے ذہن اور میرے رنگ و پے میں نہیں چھوڑتا نظم کی صورت اختیار نہیں کرتا لیکن اگر احساس کی شکل اختیار کر لیتا ہے یا احساس بن جاتا ہے تو پھر اسے نظم کی صورت دینے کے لیے مناسب الفاظ اور موزوں بحر کی تلاش ہوتی ہے۔ تخلیقی عمل ایک بکھری ہوئی چیز ہوتی ہے۔ مرے ذہن میں اس کی مثال قوس قزح کی سی ہے۔ (دیباچہ یادیں۔ صفحہ 13)

اخترالایمان کی شاعری کے بارے میں شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ ’’اخترالایمان کی رومانی فکر جذبہ اور حقیقت کے تصادم میں شدت پیدا کرتی ہے … امیجز کی تخلیق کرتی ہے … اصل حقیقت کے تاثرات کو داخلی ہیجانات سے جذب کر کے تخلیق کے عمل میں شدت پیدا کرتی ہے۔ شکیل الرحمن کا خیال ہے کہ اخترالایمان کی شاعری میں ذات، محبوب، وقت، رومانی فکر ونظر سب کارفرما نظر آتے ہیں۔ اخترالایمان نے اپنی بہت سی نظموں میں اپنی تلاش کی تمثیل پیش کی ہے۔ خواب اور شکست خواب اور پھر رومانی آسودگی کے باہمی تفاعل نے شاعر کے کلام کی جمالیاتی سطح بلند کر دی ہے۔ کہیں کہیں اخترالایمان نے ’’مونتاج‘‘ (Montage) کی تکنیک سے بھی کام لیا ہے جس میں حسی تجربے حسیاتی رشتوں کی یادیں، خوابناک فضاء کی تخلیق کرتی اور انہیں ایک داخلی رشتے میں بکھری ہوئی تصویروں کو منسلک کر دیتی ہیں۔ یہ تصویریں انبساط اور مسرت کے ساتھ ساتھ پیتھوس (Pathos) بھی پیدا کرتی ہیں۔

شکیل الرحمن کا خیال ہے کہ اخترالایمان کی شاعری میں جدید انسان کی زندگی کا المیہ نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ انہیں یادوں کے لمحوں کا درد شدت سے متاثر کرتا ہے۔ ’’باز آمد‘‘ اور ڈاشنہ اسٹیشن‘‘ میں مکالموں کا حسن، گزرے ہوئے لمحوں کے اذیت ناک احساس کو اجاگر کر دیتا ہے۔ ’’باز آمد‘‘ میں برگد کا گھنا پیڑ، بہتی ہوئی ندی، جیب کا کر دار، دیہات کا ماحول، بھولی بسری یادوں کی خوابناک فضاء، ایسے محرکات ہیں جو نظم کو گزشتہ لمحوں کی یادوں کا کرب عطا کرتے ہیں ؎

نیم کے پیڑوں میں جھولے ہیں جدھر دیکھو ادھر

میں کبھی ایک کبھی دوسرے جھولے کے قریں جاتا ہوں

ایک ہی کم ہے وہی چہرہ نہیں

آخرش پوچھ ہی لیتا ہوں کسی سے بڑھ کر

کیوں حبیب نہیں آئی اب تک

کھلکھلا پڑتی ہیں سب لڑکیاں سن کر یہ نام

لو یہ سپنے میں ہیں اک کہتی ہے

باولی سپنا نہیں شہر سے آئے ہیں ابھی

ٹھاٹھ کی آئی تھی بارات چمیلی نے کہا

اتنا پوچھا وہ ندی بہتی ہے اب بھی کہ نہیں

اور وہ برگد کا گھنا پیڑ کنارے اس کے

وہ بھی قائم ہے ابھی تک یوں ہی

وعدہ کر کے جو حبیبہ نہیں آتی تھی کبھی

آنکھیں دھوتا تھا ندی میں جا کر

اور برگد کی گھنی چھاؤں میں سو جاتا تھا

شکیل الرحمن کے ایسے حسی تجربے بہت پر اثر ہیں۔ ماضی کی جمالیات میں یادوں کو بنیادی حیثیت حاصل ہے جن میں مسرت اور پتھوس کے ملے جذبات ایک خاص کیفیت پیدا کر دیتے ہیں۔ شکیل الرحمن کا خیال ہے :

’’شاعری حقیقت کی عکاسی نہیں، حقیقت کے Sensation سے شاعری جلوہ بنتی ہے۔ ‘‘

’’ورد کی حد سے پرے ‘‘‘‘، ’’متاع رائے گاں ‘‘، ’’کہاں تک‘‘، ’’باز آمد‘‘، ’’بے چارگی‘‘، ’’سبزہ بیگانہ‘‘، ’’اذیت پرست‘‘، ’’ایک احساس‘‘، ’’ایک لڑکا‘‘، ’’موت‘‘، ’’آمادگی‘‘، ’’یادیں ‘‘، ’’لغزش‘‘ اور ’’آگہی‘‘ اخترالایمان کی نمائندہ نظمیں ہیں۔ ماضی اور یادوں سے ربط رکھنے والے یہ شعری اور حسی تجربے ماضی کی جمالیات کے ذخیرے ہیں۔ ان میں مسرت و انبساط اور پتھوس کے ملے جلے جذبات کا ایک خوابناک تصور، قاری کے احساس کو ماضی کے دھندلکوں میں پہنچادیتا ہے۔ اخترالایمان کی شاعری کے بارے میں شکیل ال رحمن کا تجزیہ یہ ہے کہ شاعر کے کلام میں دو بنیادی رجحانات کارفرما ہیں، ایک رجحان وہ جیسے جس میں جوائس نے ایپی فینسی (Epi phancy) کا نام دیا ہے۔ گزرتے لمحوں کو پکڑنے کی کوشش اور دوسرا رجحان وہ جسے ہم پراوسٹ کے آرٹ میں پاتے ہیں جس میں گزرا ہوا لمحہ حال کا لمحہ بن جاتا ہے۔ ذات اور احساس کو ایک دوسرے میں جذب کر دینے کا عمل۔ وہ لکھتے ہیں :

’’دوسرا رجحان وہ جسے ہم پراوسٹ کے آرٹ میں پاتے ہیں … آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اخترالایمان کی شاعری میں ماضی بھی حال ہے حال کا تسلسل ہی سب کچھ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ماضی حال میں جذب ہے ‘‘ (صفحہ 78)

اخترالایمان کی نظموں میں آرچ ٹائپ حسیاتی پیکروں کا اظہار فطری اظہار کی حیثیت سے رونما ہوتا ہے۔ ماں، ممتا کی علامت، سمندر، وقت اور زمانے کا علامیہ ہے اسی طرح غار، گود، قبر، دروازہ، نیند، تاریکی اور کفن وغیرہ مختلف علامتیں صرف ہوئی ہیں ’’یادیں ‘‘ کے پیش لفظ میں اخترالایمان لکھتے ہیں :

’’میری نظموں کا بیشتر حصہ علامتی شاعری پر مشتمل ہے ‘‘

مسجد، موت، پرانی فصیل، قلو پطرہ، زندگی کے دروازے پر، تنہائی میں، پگڈنڈی، دستک، پیمبر گل، ایک لڑکا، یادیں، پس دیوار چمن، لوگو اے لوگو، شہر بیگانہ اور قبر علامتی نظمیں ہیں اور ان علامتوں کی تفہیم و تحسین سے نظم کی معنویت آشکار ہو سکتی ہے۔ ایک اچھے علامت نگار کی طرح اخترالایمان نے مجرد صورت کو وجودی حقیقت بنا دیا ہے۔

شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ اخترالایمان کی نظم ایک لڑکا نرگسی رجحان کی عمدہ تخلیق ہے۔ اخترالایمان نے ’’نارسی سس‘‘ (Narcissus) کی طرح وقت کی لہروں میں اپنی صورت دیکھی ہے۔ وقت کی لہروں میں انہیں وہ اخترالایمان نظر آتا ہے جو ایک معصوم لڑکا ہے وہ نہیں جس نے زمانے کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا ہے۔ ’’یادیں ‘‘ کے پیش لفظ میں اخترالایمان لکھتے ہیں :

’’مجھے اپنے بچپن کا ایک واقعہ ہمیشہ یاد رہا ہے اور یہ واقعہ ہی اس نظم کا محرک ہے ہم ایک گاؤں سے منتقل ہو کر دوسرے گاؤں جا رہے تھے۔ اس وقت میری عمر چار سال ہو گی۔ ہمارا سامان ایک گاڑی میں لادا جا رہا تھا اور میں اس گاڑی کے پاس کھڑا اسی منظر کو دیکھ رہا تھا۔ میرے چہرے پر کرب اور بے چینی تھی… میں گاؤں چھوڑنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ یہ بات میں اس وقت نہیں سمجھا تھا۔ وہاں بڑے بڑے باغ تھے۔ باغوں میں کھلیان پڑے تھے۔ وہاں کھیتوں میں ہرنوں کی ڈاریں کلیلیں کرتی نظر آتی تھیں۔ وہاں وہ سب کچھ تھا جو ذہنی طور پر مجھے پسند ہے۔ مگر وہ معصوم لڑکا اس گاڑی کو روک نہیں سکا۔ میں اس گاڑی میں بیٹھ کر آگے چلا گیا مگر وہ لڑکا وہیں کھڑا رہ گیا۔ (پیش لفظ یادیں )

وہ لڑکا شاعر کے لاشعور میں زندہ رہا۔ شاعر دنیا کی کشمکش میں الجھا رہا لیکن وہ لڑکا آزاد تھا۔ فطرت کی معصومیت کے حسن میں جذب گاؤں کے ماحول سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ اس نظم میں لڑکا آزادی، فطرت کی معصومیت اور سچائی کا علامیہ ہے تو شاعر زندگی کی پیچیدگی کا۔ ’’ایک لڑکا‘‘ اخترالایمان کی چند نمائندہ نظموں میں سے ہے۔ موضوع اور اسلوب دونوں منفرد … یہ نظم پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ نیا آدمی ذہنی طور پر کتنا بدن گیا ہے وہ خارجی ماحول کے رنگ میں ڈوب کر اور فطرت کی معصومیت اور سادگی سے دور ہو گیا ہے۔ وہ ایک کل پرزے میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اخترالایمان کی نظم ’’ایک لڑکا‘‘ وڑسورتھ کی نظم ’’There was a Boy‘‘ کی یاد دلاتی ہے۔ شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ دونوں نظموں میں شاعر کی نرگسیت ہمیں متوجہ کرتی ہے لیکن وقت اور زمانے کے اختلاف اور موضوع کی مختلف سطحوں کے اختلاف سے دونوں نظموں کا مزاج مختلف نظر آتا ہے۔ ’’ایک لڑکا‘‘ اخترالایمان کی ایک عمدہ تخلیق ہے۔ اخترالایمان نے اپنی نظم میں جدید علامتوں ہی سے کام نہیں لیا بلکہ روایتی علامتوں سے بھی محسوسات و تجربات کی ترسیل کا کام لیا ہے جیسے نغمہ شوق، نگاہ صبح، دامن گل، ہنگامہ بہار آتش گل، محفل زیست، غم حیات، غم تنہائی، کفن، پیرہن، آستین، لہو، خمار، آسمان، اہرمن اور چاند وغیرہ۔

٭٭٭

تشکر : پروفیسر شکیل الرحمٰن

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل : اعجاز عبید