FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

کیک

اور دوسرے افسانے

 

 

 

 

 

 

               اصغر وجاہت

 

ترجمہ: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

 

 

کیک

 

انہوں نے میز پر ایک زوردار گھونسا مارا اور میز بہت دیر تک ہلتی رہی۔ میں کہتا ہوں جب تک ایٹ اے ٹائیم پانچ سو لوگوں کو گولی سے نہیں اڑا دیا جائے گا، حالات ٹھیک نہیں ہو سکتے۔ اپنی خاصی سپیکنگ پاور برباد کر کے وہ ہانپنے لگے۔ پھر انہوں  نے اپنا اوپری ہونٹ نچلے ہونٹ سے دبا کر مجھے گھورنا شروع کیا۔ وہ یقیناً سمجھ گئے تھے کہ میں مسکرا رہا ہوں۔ پھر انہوں نے گھورنا بند کر دیا اور اپنی پلیٹ پر پل پڑے۔

روز ہی رات کو سیاست پر بات ہوتی ہے۔ دن کے دو بجے سے رات آٹھ بجے تک پروف ریڈنگ کا گھٹیا کام کرتے کرتے وہ کافی کھسیا اٹھتے ہیں۔

میں نے کہا، ’ان پانچ سو لوگوں میں آپ اپنے کو بھی جوڑ رہے ہیں؟’

’اپنے کو کیوں جوڑوں؟ کیا میں کروک پالٹیشین ہوں یا سمگلر ہوں یا کروڑوں کی چور بازاری کرتا ہوں؟’وہ پھر مجھے گھورنے لگے تو میں ہنس دیا۔ وہ اپنی پلیٹ کی سمت دیکھنے لگے۔

’آپ لوگ تو کسی بھی چیز کو سیریسلی نہیں لیتے ہیں۔’

کھانے کے بعد انہوں نے جھوٹی پلیٹیں اٹھائیں اور کچن میں چلے گئے۔ کرسی پر بیٹھے ہی بیٹھے مسز ڈسوزا نے کہا، ’ڈیوڈ، میرے لئے پانی لیتے آنا۔’

ڈیوڈ جگ بھر کر پانی لے آئے۔ مسز ڈسوزا کو ایک گلاس دینے کے بعد  بولے، ’پی لیجئے مسٹر، پی لیجئے۔’

میرے انکار کرنے پر جلے کٹے طریقے سے چمکے، ’تھینکس ٹو گاڈ! یہاں دن بھر پانی تو مل جاتا ہے۔ اگر اندرپوری میں رہتے تو پتا چل جاتا۔ خیر، آپ نہیں پیتے تو میں ہی پئے لیتا ہوں،’کہہ کر وہ تین گلاس پانی پی گئے۔

کھانے کے بعد اسی میز پر ڈیوڈ صاحب کام شروع کر دیتے ہیں۔ آج بھی وہ پروف کا پلندا کھول کر بیٹھ گئے۔ انہوں نے میز صاف کی۔ میز کے پائے کی جگہ  اینٹوں کو ہاتھ سے ٹھیک کیا، تاکہ میز ہل نہ سکے۔ پھر ٹوٹی کرسی پر بیٹھے بیٹھے اچانک اکڑ گئے اور ناک کا چشمہ اس طرح فٹ کیا جیسے بندوق میں گولیاں بھر لی ہوں۔ ہونٹ خاص طرح سے دبا لئے۔ پروف مسودّے سے ملانے لگے۔ گولیاں چلنے لگیں۔ اسی طرح ڈیوڈ صاحب رات بارہ بجے تک پروف دیکھتے رہتے ہیں۔ اسی بیچ سے کم سے کم پچاس بار چشمہ اتارتے اور لگاتے ہیں۔ بندوق میں کچھ خرابی ہیں۔ پانچ سال پہلے آنکھیں ٹیسٹ کروائی تھیں اور چشمہ خریدا تھا۔ اب آنکھیں زیادہ کمزور ہو چکی ہیں، مگر چشمے کا نمبر نہیں بڑھ پایا ہے۔ ہر مہینے کی پندرہ تاریخ کو وہ اگلے مہینے آنکھیں ٹیسٹ کروا کر نیا چشمہ خریدنے کی بات کرتے ہیں۔ بندوق کی قیمت بہت بڑھ چکی ہے۔ پروف دیکھنے کے بیچ پانی پئیں گے تو وہ ’باسو کی جے ‘کا نعرہ لگائیں گے۔ ’باسو’ان کا باس ہے جس سے انہیں کئی درجن شکایتیں بھی ہیں۔ ایسی شکایتیں بیشتر چھوٹا کام کرنے والوں کو ہوتی ہیں۔

’بڑا جان لیوا کام ہے صاحب۔’وہ دو ایک بار سر اٹھا کر مجھ سے کہتے ہیں۔ میں ’ہوں ہاں’میں جواب دے کر بات آگے بڑھنے نہیں دیتا۔ لیکن وہ چپ نہیں ہوتے۔ چشمہ اتار کر آنکھوں کی رگڑائی کرتے ہیں، ’بڑی ہائی لیول بنگلنگ ہوتی ہے۔ اب تو چھوٹے موٹے کرپشن کیس پر کوئی چونکتا تک نہیں۔ پوری مشینری سڑ گل چکی ہے۔ یہ آدمی نہیں، کتّے ہیں کتّے۔۔۔۔ میں بھی آزادی سے پہلے گاندھی کا سٹانچ سپورٹر تھا اور سمجھتا تھا کہ نان وائیلینس از د بیسٹ پالسی۔ لٹکا دو پانچ سو آدمیوں کو سولی پر۔ ارے، ان سالوں کا پبلک ٹرائل ہونا چاہئے، پبلک ٹرائل!’

’پبلک ٹرائل کون کرے  گا، ڈیوڈ صاحب،’میں جھلاّ جاتا ہوں۔ اتنی دیر سے لگاتار بکواس کر رہے ہیں۔

وہ دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔

’ماسیج میں اگر لیفٹ فورسیز۔۔۔’، وہ دھیرے دھیرے بہت دیر تک بڑبڑاتے رہتے ہیں۔

میں جاسوسی ناول کے ہیرو کو ایک بار پھر گولیوں کی بوچھار سے بچا دیتا ہوں۔

وہ کہتے ہیں، ’آپ، بھی کیا دو ڈھائی سو روپئے کے لئے گھٹیا ناول لکھا کرتے ہیں!’میں مسکرا کر ان کے پروف کے پلندے کی طرف دیکھتا ہوں اور وہ چپ ہو جاتے ہیں۔ گمبھیر ہو جاتے ہیں۔

’میں سوچتا ہوں بردر، کیا ہم تم اسی طرح پروف پڑھتے اور جاسوسی ناول لکھتے رہیں گے ؟ سوچو تو یار! دنیا کتنی بڑی ہے۔ یہ ہمیں معلوم ہے کہ کتنی اچّھی طرح سے زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ کتنا آرام اور سکھ ہے، کتنی بیوٹی ہے۔۔۔۔’

’پریشانی تو میرے لئے ہے، ڈیوڈ صاحب۔ آپ تو بہت سے کام کر سکتے ہیں۔ مرغی  خانہ کھول سکتے ہیں۔ بیکری لگا سکتے ہیں۔۔۔۔’

وہ آنکھیں بند کر کے شک بھری ہنسی ہنسنے لگتے ہیں۔ اور کمرے کی ہر ٹھوس چیز سے ٹکرا کر ان کی ہنسی ان کے مونہہ میں واپس چلی جاتی ہے۔

اکثر کھانے کے بعد وہ ایسی ہی بات چھیڑ دیتے ہیں۔ کام میں من نہیں لگتا اور وقت بوجھ لگنے لگتا ہے۔ جی میں آتا ہے کہ لوہے کی بڑی سی راڈ لے کر کسی فیشن ایبل کالونی میں نکل جاؤں۔ ڈیوڈ صاحب تو ساتھ چلنے پر تیّار ہو جائیں گے۔ وہ پھر بولنے لگتے ہیں اور ان کے پسندیدہ الفاظ  ’بچ’، ’کروک’، ’نان سینس’، ’بنگلنگ’، ’پبلک ٹرائل’، ’ایکسپلائیٹیشن’، ’کلاس سٹرگل’وغیرہ بار بار سنائی  پڑتے ہیں۔ بیچ بیچ میں وہ ہندوستانی گالیاں فرّاٹے سے بولتے ہیں۔

’اب کیا ہو سکتا ہے ! پچّیس سال تک پروف ریڈری کے بعد اب اور کیا کر سکتا ہوں۔ سن 1948 میں دلّی آیا تھا۔ ارے ساب، ڈفینس کالونی کی زمین تین روپئے گز میرے سامنے بکی ہے، جس کا دام آج چار سو روپئے ہے۔ نظام الدّین سے اوکھلا تک جنگل تھا جنگل۔ کوئی شریف آدمی رہنے کو تیّار ہی نہیں ہوتا تھا۔ اگر اس وقت اتنا پیسا نہیں تھا اور آج۔۔۔۔ سینیر کیمبرج میں تیرے ساتھ پڑھتا تھا۔ اب اگر آپ آج اسے دیکھ لیں تو مان ہی نہیں سکتے کہ میں اس کا کلاس فیلو اور دوست تھا۔ گورا چٹّا رنگ، اے کلاس صحت، ایک جیپ، ایمبیسیڈر اور ایک ٹریکٹر ہے اس کے پاس۔ مرزا پور کے پاس فارمنگ کرواتا ہے۔ اس زمانے میں دس روپئے بیگھا زمین خریدی تھی اس نے۔ مجھ سے بہت کہا تھا کہ تم بھی لے لو ڈیوڈ بھائی، چار پانچ سو بیگھا۔ بالکل اسی کے فارم کے سامنے پانچ سو بیگھے کا پلاٹ تھا۔ اے کلاس فرٹائیل زمین۔ لیکن اس زمانے میں میں کچھ اور تھا۔’وہ کھسیانی ہنسی ہنسے، ’آج اس کی آمدنی تین لاکھ روپئے سال ہے۔ اپنی ڈیری، اپنا مرغی خانہ ٹھاٹھ ہیں، سب ٹھاٹھ۔’ڈیوڈ صاحب خوش ہو گئے جیسے وہ سب انہیں کا ہو۔ پروف کے پلندے کو اٹھا کر ایک کونے میں رکھتے ہوئے بولے، ’میری تو قسمت میں اس شاندار کمرے میں مسز ڈسوزا کا کرائے دار ہونا لکھا تھا۔’

مسز ڈسوزا کو پچاس روپئے دو، کمرا مل جائے گا۔ پچّیس روپئے اور دو تو صبح ناشتہ مل جائے گا اور تیس روپئے دو رات کا کھانا، جسے مسز ڈسوزا انگریزی کھانا کہتی ہیں، مل جائے گا۔ مسز ڈسوزا کے کمرے سے لگی تصویروں کو، جو بیشتر ان کی جوانی کے دنوں کی ہیں، کرائے دار ہٹا نہیں سکتا۔ کسی تصویر میں وہ موم بتّی کے سامنے بیٹھی کتاب پڑھ رہی ہیں، تو کسی میں اپنے بال گود میں رکھے خلا میں دیکھنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ کچھ لوگوں کا تعارف انگریز افسر کے روپ میں کرواتی ہیں، پر دیکھنے میں وہ سب ہندستانی لگتے ہیں۔ ایک تصویر مسز ڈسوزا کی لڑکی کی بھی ہے، جو ڈیوڈ صاحب کی میز پر رکھا رہتا ہے۔ لڑکی اصل میں کنٹاپ ہے۔ چھنال پنا اس کے چہرے سے ایسا ٹپکتا ہے کہ اگر سامنے کوئی برتن رکھ دے تو دن میں دسیوں بار خالی کرنا پڑے۔کچھ پڑوس والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسی تصویر کو دیکھ دیکھ کر ڈیوڈ صاحب نے شادی کرنے اور بچّہ پیدا کرنے کی صلاحیت سے ہاتھ دھو لئے ہیں۔ مسز ڈسوزا دیسی عیسائیوں کی کئی لڑکیاں ان کے لئے کھوج چکی ہیں۔ مگر سب بیکار۔ وہ تو ڈھائی سو وولٹیج ہی کے کرنٹ سے جل بھن کر راکھ ہو چکے تھے اور ایک دن تنگ آ کر مسز ڈسوزا نے محلّے میں ان کی نامردی کا اعلان کر دیا اور ان کے سامنے کپڑے بدلنے لگیں۔

صبح کا دوسرا نام ہوتا ہے جلدی جلدی بنا دودھ کی چائے کے کچھ کپ۔ رات کے دھوئے کپڑوں پر الٹا سیدھا پریس۔ جوتے پر پالش۔ اور دن بھر پروف کریکٹ کرتے رہنے کے لئے آنکھوں کی مساج۔ پروف کے پلندے۔ کریکٹ کئے ہوئے اور پریس سے آئے ہوئے۔ پھر کریکٹ کئے ہوئے پھر آئے ہوئے۔ دھم! سالا زور سے گالی دے مارتا ہے، ’دیکھ لو بابو، جلدی دے دو۔ بڑا صاحب کالم دیکھنا مانگتا ہے۔’پوری زندگی گھٹیا قسم کے کاغذ پر چھپا پروف ہو گئی ہے، جسے ہم لگاتار کریکٹ کر رہے ہیں۔

گھر سے باہر نکل کر جلدی جلدی بس سٹاپ کی طرف دوڑنا، جیسے کسی کو پکڑنا ہو، ہم دونوں ایک ہی نمبر کی بس پکڑتے ہیں۔ راستے میں ڈیوڈ صاحب مجھ سے روز ایک سی باتیں کرتے ہیں، ’ہری سبزیوں سے کیا فائدہ ہے، کس سبزی میں کتنا سٹارچ ہوتا ہے۔ انڈے اور مرغے کھاتے رہو تو اسّی سال کی عمر میں بھی لڑکا پیدا کر سکتے ہو۔’بکری اور بھینس کے گوشت کا باریک امتیاز انہیں اچّھی طرح معلوم ہے۔ انگریزی کھانے کے بارے میں ان کی جانکاری اتھاہ ہے۔ کیک میں کتنا میدا ہونا چاہئے۔ کتنے انڈے ڈالے جائیں۔ میدا اور جیلی کو کیسے ملایا جائے۔ دودھ کتنا پھینٹا جائے۔ کیک کی سنکائی کے بارے میں ان کے الگ ہی خیالات ہیں۔ کریم لگانے اور کیک کو سجانے کے ان کے پاس سیکڑوں فارمولے ہیں جنہیں اب ہندستان میں کوئی نہیں جانتا۔ کبھی کبھی کہتے، ’اے سالے دھوتی باندھنے والے، کھانا کھانا کیا جانیں! ڈھیر ساری سبزی لے لی، تیل میں ڈالی اور کھا گئے بس، کھانا پکانا اور کھانا مسلمان جانتے ہیں یا انگریز۔ انگریز تو چلے گئے، سالے مسلمانوں کے پاس اب بھینسے کا گوشت کھا کھا کر عقل موٹی کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ بھینسے کا گوشت کھاؤ، بھینسے کی طرح عقل موٹی ہو جائے گی اور پھر بھینسے کی طرح ہی کولہو میں پلے رہو۔ رات گھر آ کر بیوی پر بھینسے کی طرح پل پڑو۔’

آج پھر گھوم پھر کر وہ اپنے ٹاپک پر آ گئے۔

’ناشتہ تو ہیوی ہونا ہی چاہئے۔’

میں نے حامی بھری۔ اس بات سے کوئی الّو کا پٹّھا ہی انکار کر سکتا ہے۔

’ہیوی اور اینرجیٹک؟’چلتے چلتے وہ اچانک رک گئے۔ ایک نئے بنتے ہوئے مکان کو دیکھ کر بولے، ’کسی بلیک مارکٹیر کا معلوم ہوتا ہے۔ پھر انہوں نے اکڑ کر جیب سے چشمہ نکالا، آنکھوں پر فٹ کر کے مکان کی اور دیکھا۔ فائر ہوا زوردار دھماکے کے ساتھ، اور سارا مکان اڑ اڑ دھڑام کر کے گر گیا۔’

’بس، ایک گلاس دودھ، چار ٹوسٹ اور مکّھن، پورج اور دو انڈے۔’انہوں نے ایک لمبی سانس کھینچی، جیسے غبّارے میں سے ہوا نکل گئی  ہو۔

’نہیں، میں آپ سے ایگری نہیں کرتا، فروٹ جوس بہت ضروری ہے۔ بنا۔۔۔۔’

’فروٹ جوس؟’ وہ بولے ؟ ’نہیں اگر دودھ ہو تو اس کی ضرورت نہیں ہے۔’

’پراٹھے اور انڈے کا ناشتا کیسا رہئے گا؟’

’ویری گڈ، لیکن پراٹھے ہلکے اور نرم ہوں۔’

’اور اگر ناشتے میں کیک ہو؟’ وہ سپاٹ اور پھیکی ہنسی ہنسے۔

کئی سال ہوئے۔ میرے دلّی آنے کے آس پاس۔ ڈیوڈ صاحب نے اپنی برتھ ڈے پر کیک بنوایا تھا۔ پہلے پورا بجٹ تیّار کر لیا گیا تھا۔ سب خرچ جوڑ کر کل ستّر روپئے ہوتے تھے۔ پہلی تاریخ کو ڈیوڈ صاحب میدا، شکّر اور میوا لینے کھاری باولی گئے تھے۔ سارا سامان گھر میں پھر سے تولا گیا تھا۔ پھر اچّھے بیکر کا پتا لگایا گیا تھا۔ ڈیوڈ صاحب کے کئی دوستوں نے دریا گنج کے ایک بیکر کی تعریف کی تو وہ اس سے ایک دن بات کرنے گئے بالکل اسی طرح جیسے دو دیشوں کے پردھان منتری گمبھیر سمسیاّوں پر بات چیت کرتے ہیں۔ ڈیوڈ صاحب نے اس کے سامنے ایک ایسا سوال رکھ دیا کیا وہ لاجواب ہو گیا، ’اگر تم نے سارا سامان کیک میں نہ ڈالا اور کچھ بچا لیا تو مجھے کیسے پتا چلے گا؟’اس مسئلے کا حل بھی انہوں نے خود کھوج لیا۔ کوئی ایسا آدمی ملے جو بیکر کے پاس اس وقت تک بیٹھا رہے، جب تک کہ کیک بن کر تیّار نہ ہو جائے۔ ڈیوڈ صاحب کو مسز ڈسوزا نے اس کام کے لئے اپنے آپ کو کئی بار ’آفر’کیا۔ مگر اصل میں ڈیوڈ صاحب کو مسز ڈسوزا پر بھی اعتبار نہیں تھا۔ ہو سکتا ہے بیکر اور مسز ڈسوزا مل کر ڈیوڈ صاحب کو چوٹ دے دیں۔ جب پوری دلّی میں ’معتبر’آدمی نہیں ملا تو ڈیوڈ صاحب نے ایک دن کی چھٹّی لی۔ میں نے اس کام میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی تھی، اس لئے ان دنوں مجھ سے ناراض تھے اور پیٹھ پیچھے انہوں نے مسز ڈسوزا سے کئی بار کہا کہ جانتا ہی نہیں ’کیک’کیا ہوتا ہے۔ میں جانتا تھا کہ ’کیک’بن جانے کے بعد کسی بھی رات کو کھانے کے بعد مرغی  خانہ کھولنے والی بات کر کے ڈیوڈ صاحب کو خوش کیا جا سکتا ہے یا ان کے دوست کے بارے میں بات کر کے انہیں جوش میں لایا جا سکتا ہے، جس کا مرزا پور کے پاس بڑا فارم ہے اور وہ وہاں کیسے رہتا ہے۔

کیک برتھ ڈے سے ایک دن پہلے آ گیا تھا۔ اب اسے رکھنے کا سوال تھا۔ مسز ڈسوزا کے گھر میں چوہے ضرورت سے زیادہ ہیں۔ اس آڑے وقت میں میں نے ان کی مدد کی۔ اپنے ٹین کے بکس میں سے کپڑے نکال کر تولئے میں لپیٹ کر میز پر رکھ دئے اور بکس میں کیک رکھ دیا گیا۔ میرا بکس پورے ایک مہینے گھرا رہا۔

ہم سب کو اس کیک کے بارے میں بات چیت کر لینا بہت اچّھا لگتا ہے۔ ڈیوڈ صاحب تو اسے اپنا سب سے بڑا ’ایچیومینٹ’مانتے ہیں۔ اور میں اپنے بکس کو خالی کر دینا کوئی چھوٹا سا کارنامہ نہیں سمجھتا۔ اس کے بعد سے لے کر اب تک کیک بنوانے کے کئی پروگرام بن چکے ہیں۔ اب ڈیوڈ صاحب کی شرط یہ ہوتی ہے کہ سب ’شیّر’کریں۔ زیادہ موڈ میں آتے ہیں تو آدھا خرچ اٹھانے پر تیّار ہو جاتے ہیں۔

انہیں کے مطابق، بچپن سے انہیں دو چیزیں پسند رہی ہیں جولی اور کیک۔ جولی کی شادی کسی کیپٹن سے ہو گی،  تو وہ دھیرے دھیرے اسے بھولتے گئے۔ پر کیک اب بھی پسند ہے۔ کیک کے ساتھ کون شادی کر سکتا ہے ؟ لیکن کھاری باولی کے کئی چکّر لگانے پر انہوں نے محسوس کیا کہ کیک کی بھی شادی ہو سکتی ہے۔ پھر بھی پسند کرنا بند نہ کر سکے۔

دفتر سے لوٹ کر آیا تو سارا بدن اس طرح درد کر رہا تھا، جیسے بری طرح سے مارا گیا ہو۔ باہری دروازہ کھولنے کے لئے مسز ڈسوزا آئیں۔ وہ شاید کچن میں اپنے کھٹولے پر سو رہی تھیں۔ اندر آنگن میں ان کے پوشیدہ لباس سوکھ رہے تھے۔ ’ پوشیدہ لباس ‘لفظ سوچ کر ہنسی آئی۔ کوئی حصۂ جسم پوشیدہ ہی کہاں رہ گیا ہے ! ڈی۔ٹی۔سی۔ کی بسوں میں چڑھتے اترتے پوشیدہ اعضاء کے جغرافئے کا اچّھا خاصا علم  ہو گیا ہے۔ ان کی گرماہٹ، چکنائی، کھدرے پن، گندے پن اور لبھاؤنے پن کے بارے میں اچّھی معلومات ہے۔ ’آج جلدی چلے آئے۔’مسز ڈسوزا ’ پوشیدہ لباس ‘اتارنے لگیں، ’چائے پیو گے ؟’میں نے ابھی تک نہیں پی ہے۔’

’ہاں، ضرور۔’ سوچا اگر سالی نے پی لی ہوتی تو کبھی نہ پوچھتی۔

کمرے کے اندر چلا آیا۔ پتّھر کی چھت کے نیچے کھانے کی میز ہے۔ جسکے ایک پائے کی جگہ اینٹیں لگی ہیں۔ دوسرے پایوں کو ٹین کی پٹّیوں سے جکڑ کر کیلیں ٹھونک دی گئی  ہیں۔ رسّی، ٹین، لوہا، تار اور اینٹوں کے سہارے کھڑی میز پہلی نظر میں زمانۂ قدیم کی مشین سی لگتی ہے۔ میز کے اوپر مسز ڈسوزا کی سلائی مشین رکھی ہے۔ کھانا کھاتے سمے مشین کو اٹھا کر میز کے نیچے رکھ دیا جاتا ہے۔ کھانے کے بعد مشین پھر میز پر آ جاتی ہے۔ رات میں ڈیوڈ صاحب اسی میز پر بیٹھ کر پروف دیکھتے ہیں۔ کئی گلاس پانی پیتے ہیں اور ایک بجتے بجتے اٹھتے ہیں تو کمرا اکیلا ہو جاتا ہے۔ میں کمرے میں رکھی سلائی مشین یا میز کی طرح کمرے کا ایک حصّہ بن جاتا ہوں۔

’اے لو ! ٹی، گرین لیبل ہے !’مسز ڈسوزا نے چائے کی پیالی تھما دی۔ وہ کھانوں کے نام انگریزی میں لیتی ہے۔ روٹی کو بریڈ کہتی ہے، دال کو پتا نہیں کیوں انہوں نے سوپ کہنا شروع کر دیا ہے۔ ترکاری کو ’بایلڈ ویجٹیبلس’کہتی ہیں۔ کریلوں کو ’ہاٹڈش’کہتی ہیں۔ مسز ڈسوزا تھوڑی بہت گورا شاہی انگریزی بھی بول لیتی ہیں، جس سے محلّے کے لوگ کافی متاثّر ہوتے ہیں۔ میں نے ٹی تاج محل لے لی۔ مسز ڈسوزا آج کے زمانے کا مقابلہ پہلے زمانے سے کرنے لگیں۔ انہیں چالیس سال تک پرانے دام یاد ہیں۔ اس کے بعد اپنے مکان کی چرچا ان کا پسندیدہ موضوع ہے، جس کا سیدھا مطلب ہم لوگوں پر رعب ڈالنا ہوتا ہے۔ ویسے رعب ڈالتے وقت یہ بھول جایا کرتی ہیں کہ دونوں کمرے کرائے پر اٹھا دینے کے بعد وہ خود کچن میں سوتی ہیں۔ میں ان کی بکواس سے تنگ آ کر باتھ روم میں چلا گیا۔ اگر ڈیوڈ صاحب ہوتے تو مزا آتا۔ مسز ڈسوزا منہ کھول کر اور آنکھیں پھاڑ کر مرغی پالن کی باریکیوں کو سمجھنے کی کوشش کرتیں۔ ’ یاد نہیں، صرف دو ہزار روپئے سے کام شروع کرے کوئی۔ چار سو مرغیوں سے شاندار کام چالو ہو سکتا ہے۔ چار سو انڈے روز کا مطلب ہے کم سے کم سو روپئے روز۔ ایک مہینے میں تین ہزار روپئے اور ایک سال میں چھتّیس ہزار روپئے۔ میں تو آنٹی، لائیف میں کبھی نہ کبھی ضرور کروں گا کاروبار۔ فائدہ۔۔۔؟ میں کہتا ہوں چار سال میں لکھ پتی۔ پھر انڈے، مرغی خانے کا آرام الگ۔ روز ایک مرغی  کاٹئے سالے کو۔ بیس انڈوں کی پڈنگ بنائیے۔ تب یہ مکان آپ چھوڑ دیجئے گا، آنٹی۔ یہ بھی کوئی آدمیوں کے رہنے لایق مکان ہے۔ پھر تو مہارانی باغ یا وسنت وہار میں کوٹھی بنوایئے گا۔ ایک گاڑی لے لیجئے گا۔’

تب تھوڑی دیر کے لئے وہ دونوں ’وسنت وہار’پہنچ جایا کرتے۔ بڑی سی کوٹھی کے پھاٹک کی داہنی طرف پیتل کی چمچماتی ہوئی پلیٹ پر ایرک ڈیوڈ اور مسز جے۔ ڈسوزا کے حروف اس طرح چمکتے جیسے چھوٹا موٹا سورج۔

میں لوٹ کر آیا تو ڈیوڈ صاحب آ چکے تھے۔ کپڑے بدل کر آنگن میں بیٹھے وہ باس کو تھوک میں گالیاں دے رہے تھے، ’یہ سالا باس اس لایق ہے کہ اس کا ’پبلک ٹرائل’کیا جائے۔’ ان کی آنکھوں میں نفرت اور اکتاہٹ تھی۔ چشمہ تھوڑا نیچے کھسک گیا تھا۔ انہوں نے اپنی گردن اکڑا کر چشمہ چہرے پر فٹ کیا۔ میں نے تلک برج کے سامنے ایک پیڑ کی بڑی سی ڈال پر رسّے کے سہارے باس کی لاش کو جھولتے ہوئے دیکھا۔ لہریں مارتی بھیڑ اتھاہ بھیڑ۔ اور کچھ ہی کشن بعد ڈیوڈ صاحب کو ایک ننھے سے مرغی خانے میں بند پایا۔ چاروں اور جالیاں لگی ہوئی ہیں۔ اور اس کے اندر دو سو مرغیوں کے ساتھ ڈیوڈ صاحب دانا چگ رہے ہیں۔ گردن ڈال کر پانی پی رہے ہیں اور انڈے دے رہے ہیں۔ انڈوں کے ایک ڈھیر پر بیٹھے ہیں۔ مرغی خانے کی جالیوں سے باہر ’وسنت وہار’صاف دکھائی پڑ رہا ہے۔

میں نے کہا، ’آپ کیوں پریشان ہیں ڈیوڈ صاحب؟ چھوڑئے سالی نوکری کو۔ ایک مرغی خانہ کھول لیجئے۔ پھر وسنت وہار میں مکان۔’

’نہیں نہیں، میں وسنت وہار میں مکان نہیں بنوا سکتا۔ وہاں تو باس کا مکان بن رہا ہے۔ بھائی صاحب، یہ تو دعویٰ ہے کہ اس دیش میں بغیر چار سو بیسی کئے کوئی آدمی کی طرح نہیں رہ سکتا۔ آدمیوں کی طرح رہنے کے لئے آپ کو بلیک مارکیٹنگ کرنی پڑے گی لوگوں کو ایکسپلایٹ کرنا پڑئے گا۔۔۔اب آپ سوچئے، میں کسی سالے سے کم کام کرتا ہوں۔ روز آٹھ گھنٹے ڈیوٹی اور دو گھنٹے بس کے انتظار میں۔۔۔۔’

’تم بہت گالی بکتے ہو،’مسز ڈسوزا بولیں۔

’پھر کیا کروں آنٹی؟ گالی نہ بکوں تو کیا ایشو سے پرارتھنا کروں، جس نے کم سے کم میرے ساتھ بڑا ’جوک’کیا ہے ؟’

’چھوڑئے یار ڈیوڈ صاحب۔ کچھ اور بات کیجئے۔ کہیں پروف کا کام زیادہ تو نہیں ملا۔’

’ٹھیک ہے، چھوڑئے۔ دلّی میں ابھی تین سال ہوئے ہیں نا! کچھ جوانی بھی ہے۔ ابھی شاید آپ نے دلّی کی چمک دمک بھی نہیں دیکھی؟ کیا ہمارا کچھ بھی حصّہ نہیں ہے اس میں؟ کناٹ پلیس میں بہتے ہوئے پیسے کو دیکھا ہے کبھی؟’وہ ہاتھ چلا چلا کر پیسے کے بہاؤ کے بارے میں بتانے لگے، ’لاکھوں کروڑوں روپئے لوگ اڑا رہے ہیں۔ عورتوں کے جسموں پر سے بہتا پیسہ۔ کاروں کی شکل میں تیرتا ہوا۔’وہ جوش میں آ گئے، اور انہوں نے جیب سے چشمہ نکالا، گردن اکڑائی اور چشمہ آنکھوں پر فٹ کر لیا۔

مجھے اکتاہٹ ہونے لگی۔ طبیعت گھبرانے لگی، جیسے اومس ایک دم بیٹھ گئی  ہو۔ سانس لینے میں تکلیف ہونے لگی۔ لوہے کا سلاخوں دار کمرا مرغی خانہ لگنے لگا جس میں سخت بدبو بھر گئی ہو۔ مسز ڈسوزا کئی بار پیشگوئی کر چکی ہیں کہ ڈیوڈ صاحب ایک دن ہم لوگوں کو اریسٹ کروائیں گے اور ڈیوڈ صاحب کہتے ہیں کہ میں اس دن کا ’ویلکم’کروں گا۔

غصّے میں لگاتار ہونٹ دبائے رہنے کے سب ان کا نچلا ہونٹ کافی موٹا ہو گیا ہے۔ چہرے پر تین لکیریں پڑ جاتی ہیں۔ بچپن میں سنا کرتے تھے کہ ماتھے پر تین لکیریں پڑنے والا راجا ہوتا ہے۔

کچھ ہی دیر میں وہ کافی شانت ہو چکے تھے۔ کھانے کی میز پر انہوں نے ’باس کی جے ‘نعرہ لگایا اور دو گلاس پانی پی گئے۔ مسز ڈسوزا کی ’ہاٹڈش’، ’سوپ’اور ’بریڈ’تیّار تھی۔

’کریلے کی سبزی پکانا بھی آرٹ ہے، صاب!’ڈیوڈ صاحب نے زور زور سے مونہہ چلایا۔

’تین ڈش کے برابر ایک ڈش ہے۔’مسز ڈسوزا نے احسان لادا۔

ڈیوڈ ان کی بات ان سنی کرتے ہوئے بولے، ’کریلے کھانے کا مزا تو سیتاپور میں آتا تھا آنٹی۔ کوٹھی کے پیچھے کچن گارڈن میں ڈیڈی طرح طرح کی سبزی بواتے تھے۔ ڈھیر ساری پیاز کے ساتھ ان کریلوں میں اگر قیمہ بھر کر پکایا جائے تو کیا کہنا!’

ہم لوگ سمجھ گئے کہ اب ڈیوڈ صاحب بچپن کے قصّے سنائیں گے۔ ان قصّوں کے بیچ نصیبن گورنیس کا ذکر بھی آئے گا جو صرف ایک روپیہ مہینہ تنخواہ پا کر بھی کتنی خوش رہا کرتی تھی۔ اور جسکا خاص کام ڈیوڈ بابا کی دیکھ بھال تھا۔ وہ ان  کو دیپک بابا ہی کہتی رہی۔ اسی سلسلے میں اس پکنک پارٹی کا ذکر آئے گا جس میں ڈیوڈ بابا نے جمنا کے سلوپ پر گاڑی چڑھا دی تھی۔ تجربے کار ڈرائیور اسمٰعیل خاں کو پسینا چھوٹ آیا تھا۔ خاں کو ڈانٹ کر گاڑی سے اتار دیا تھا۔ سب لڑکے اور لڑکیاں اتر گئے۔ انگریز لڑکے کی ہمّت چھوٹ گئی  تھی۔ مگر جالی نے اترنے سے انکار کر دیا تھا۔ ڈیوڈ بابا نے گاڑی سٹارٹ کی۔ دو منٹ سوچا۔ گیر بدل کر ایکسیلیٹر پر دباؤ ڈالا اور گاڑی ایک فرّاٹے کے ساتھ اوپر چڑھ گی۔ اسمٰعیل خاں نے اوپر آ کر ڈیوڈ بابا کے ہاتھ چوم لئے تھے۔ وہ بڑے بڑے انگریز افسروں کو گاڑی چلاتے دیکھ چکا تھا مگر ڈیوڈ بابا نے کمال ہی کر دیا تھا۔ جالی نے ڈیوڈ بابا کو اسی دن ’کس’دینے کا پرامس کیا تھا۔

ان باتوں کو سناتے وقت ڈیوڈ صاحب کی بٹرنیس غائب ہو جاتی ہے۔ وہ ڈیوڈ صاحب نہیں، دیپک بابا لگتے ہیں۔ ہلکیسی دھول اڑتی ہے اور سیتاپور کی سول لائینس پر بنی بڑی سی کوٹھی کے پھاٹک میں 1930 کی فورڈ مڑ جاتی ہے۔ پھاٹک کے ایک کھمبے پر صاف حروف میں لکھا ہوا ہے پیٹر جے۔ ڈیوڈ، ڈپٹی کلکٹر۔ کوٹھی کی چھت کھپریلوں کی بنی ہوئی ہے۔ کوٹھی کے چاروں اور کئی بیگھے کا کمپاؤنڈ۔ پیچھے آم اور سنترے کا باغ۔ داہنی طرف ٹینس کورٹ کی بائیں طرف بڑاسا کچن گارڈن، کوٹھی کے اونچے برامدے میں با وردی چپراسی اونگھتا ہوا دکھائی پڑے گا۔ اندر ہال میں وکٹورین فرنیچر اور چھت پر لٹکتا ہوا فانوس۔ مسٹر پیٹر جے۔ڈیوڈ ڈپٹی کلکٹر اپنے ولایتی جوتوں کی ٹھوکروں سے اس کے کالے بدن پر نیلے رنگ کے پھل اگا دیتے ہیں۔ بابا لوگ ٹائی باندھ کر کھانے کی میز پر بیٹھ کر چکن سوپ پیتے ہیں۔ کھانا کھانے کے بعد آئیس کریم کھاتے ہیں اور ممّی ڈیڈی کو گڈ نائیٹ کہہ کر اپنے کمرے میں چلے جاتے ہیں۔ ساڑھے نو بجے کے آسپاس 1930 کی فورڈ گاڑی پھر سٹارٹ ہوتی ہے۔ اب وہ یا تو کلب چلی جاتی ہے یا کسی دیشی رئیس کی کوٹھی کے اندر گھس کر آدھی رات کو ڈگمگاتی ہوئی لوٹتی ہے۔

مسز ڈسوزا کے مکان کی چھت کے اوپر سے دلّی کی روشنیاں دکھائی پڑتی ہیں۔ سیکڑوں جنگلی جانوروں کی آنکھیں رات میں چمک اٹھتی ہے۔ پانی پینے کے لئے نیچے آتا ہوں تو ڈیوڈ صاحب پروف پڑھ رہے ہیں۔ مجھے دیکھ کر مسکراتے ہیں، قلم بند کر دیتے ہیں اور بیٹھنے کے لئے کہتے ہیں۔ آنکھوں میں نیند بھری ہوئی ہے۔ وہ مجھے دھیرے دھیرے سمجھاتے ہیں۔ ان کے اس سمجھانے سے میں تنگ آ گیا ہوں۔ شروع شروع میں تو میں ان کو الّو کا پٹّھا سمجھتا تھا، مگر بعد میں پتہ نہیں کیوں ان کی باتیں میرے اوپر اثر کرنے لگیں۔ ’بھاگ جاؤ اس شہر سے۔ جتنی جلدی ہو سکے، بھاگ جاؤ۔ میں بھی تمہاری طرح کالج سے نکل کر سیدھے اس شہر میں آ گیا تھا راجدھانی جیتنے۔ لیکن دیکھ رہے ہو، کچھ نہیں ہے اس شہر میں، کچھ نہیں۔ میری بات چھوڑ دو۔ میں کہاں چلا جاؤں! یہ شہر میرے اندر گھس چکا ہے۔’’لیکن کب تک کچھ نہیں ہو گا، ڈیوڈ صاحب؟’

‘اس وقت تک، جب تک تمہارے پاس دینے کے لئے کچھ نہیں ہے۔ اور میں جانتا ہوں، تمہارے پاس وہ سب کچھ نہیں ہے جو لوگوں کو دیا جا سکتا ہے۔’

میں لوٹ کر اوپر آ جاتا ہوں۔ میرے پاس کیا ہے دینے کے لئے ؟ اونچی کرسیاں، کاک ٹیل پارٹیاں، لمبے چوڑے لان، انگریزی میں سلام، سوٹ اور ٹائیاں، لڑکیاں، موٹریں، شاپنگ! تب یہ لوگ، جو تنگ گلیاروں میں مجھ سے وعدے کرتے ہیں، مسکراتے ہیں، کون ہیں؟ اس کے بارے میں پھر سوچنا پڑے گا۔ اور کافی دیر تک پھر میں سوچنے کی ہمّت جٹاتا ہوں۔ مگر وہ پیچھے ہٹتا جاتا ہے۔ میں اس کی باہیں پکڑ کر آگے گھسیٹتا ہوں۔ ایک بگڑے ہوئے خچّر کی طرح وہ اپنی رسّی تڑا کر بھاگ نکلتا ہے۔

میں پھر پانی کے لئے نیچے اترتا ہوں۔ اپنی میز پر سر رکھے وہ سو رہے ہیں۔ پروف کا پلندا سامنے پڑا ہے۔ میں اس کا کندھا پکڑ کر لگا دیتا ہوں۔ ’اب سو جایئے۔ کل آپ کو سائیٹ دیکھنے جانا ہے۔’ان کے چہرے پر مسکراہٹ آتی ہے۔ کل وہ مرغی خانہ کھولنے کی سائیٹ دیکھنے جا رہے ہیں۔ اسّے پہلے بھی ہم لوگ کئی سائیٹ دیکھ چکے ہیں۔ ڈیوڈ صاحب اٹھ کر پانی پیتے ہیں۔ پھر اپنے پلنگ پر اس طرح گر پڑتے ہیں جیسے راجدھانی کے پیروں پر پڑ گئے ہوں۔ میں پھر اوپر آ کر لیٹ جاتا ہوں۔ ’میں نے کالج میں اتنا پڑھا ہی کیوں؟ اتنا اور اتنا کی بات نہیں ہے، مجھے کالج میں پڑھنا ہی نہیں چاہئے تھا اور اب دو سال تک ڈھائی سو روپئے کی نوکری کرتے ہوئے کیا کیا جا سکتا ہے ؟ کیوں مسکرایا اور کیوں شانت رہا؟ دو سال سے دوپہر کا کھانا گول کرتے رہنے کے پیچھے کیا تھا؟’نیچے سے بھینس کے گوبر کرنے کی آواز آتی ہے۔ ایک مانوس بو پھیل جاتی ہے۔ اس نیم مانوس قصبے کی بو، جسے میں اپنا گھر سمجھتا ہوں، جہاں مجھے بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں۔ اس چھوٹے سے سٹیشن پر اگر میں اتروں تو گاڑی چلی جانے کے بعد کئی لوگ مجھے گھور کر دیکھیں گے۔ اور اکّا دکّا اکّے والے بھی مجھ سے بات کرتے ڈریں گے۔ ان کا ڈر دور کرنے کے لئے مجھے اپنا تعارف دینا پڑئے گا۔ یعنی اپنے باپ کا تعارف کرانا پڑئے گا۔ تب ان کے چہرے پر مسکراہٹ آئے گی اور وہ مجھے اکّے پر بیٹھنے کے لئے کہیں گے۔ دس منٹ اکّا چلتا رہے گا تو ساری بستی ختم ہو جائے گی۔ اس پار کھیت ہیں جن کا سیدھا مطلب ہے اس پر غریبی ہے۔ وہ غریبی کے عادی ہیں۔ پولس ان کے لئے سب سے بڑی قوّت ہے اور اپنی ہر ہوشیاری میں وہ کافی مورکھ ہیں۔۔۔اوپر آسمان میں پالم کی اور جانے والے ہوائی جہاز کی مسلسل آواز سنائی پڑتی ہے۔ نیچے سڑک پار بالو والے ٹرک گزر رہے ہیں۔ لدی ہوئی بالو کے اوپر مزدور سو رہے ہیں، جو کبھی کبھی کسان بن جانے کا سپنا دیکھ لیتے ہیں، اپنے گاؤں کی بات کرتے ہیں، اپنے کھیتوں کی بات کرتے ہیں، جو کبھی ان کے تھے۔ ٹرک تیزی سے چلتا ہوا اوکھلا موڑ سے متھرا روڈ پر مڑ جائے گا۔ فرینڈس کالونی اور آشرم ہوتا ہوا ’راج دوت’ہوٹل کے سامنے سے گزرے گا جہاں رات بھر کیبرے اور ریستوراں کے اشتہارات نیون لائٹ میں جلتے بجھتے رہتے ہیں۔ اسی کے سامنے فٹ پاتھ پر بہت سے دبلے پتلے، کالے اور سوکھے آدمی سوتے ہوئے ملیں گے، جن کی نیند ٹرک کی کرخت آواز سے بھی نہیں کھلتی۔ اوپر تیز بلب کی روشنی میں ان کے عضو عضو بکھرے دکھائی پڑتے ہیں۔ میں اکثر حیران رہتا ہوں کہ وہ اس چوڑے فٹ پاتھ پر چھت کیوں نہیں ڈال لیتے۔ اس کے چاروں اور، کچّی ہی سہی، دیوار تو اٹھائی جا سکتی ہے۔ ان سب باتوں پر سرسری نگاہ ڈالی جائے، جیسی کہ ہماری عادت ہے، تو ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ بیوقوفی اور جذباتیت سے بھری باتیں۔ مگر اگر کوئی اوپر سے کیڑے کی طرح فٹ پاتھ پر ٹپک پڑے تو اس کی سمجھ میں سب کچھ آ جائے گا۔

دن اس طرح گزرتے ہیں جیسے کوئی لنگڑا آدمی چلتا ہے۔ اب اس مہانگری میں اپنے بہت عام اور لاچار ہونے کا احساس وہ سب کچھ کروا لیتا ہے۔ اور ہتک، جو اس مہانگر میں لوگ تفریحاً کر دیتے ہیں، اب اتنے برے نہیں لگتے، جتنے پہلے لگتے تھے۔ آفس میں افسر کی میز پر تواری کا سور کی طرح گندا مونہہ، جو ایک ہی وقت میں پکّا سوشلسٹ بھی ہے اور پرو امریکن بھی۔ اس کی تنگ بشرٹ میں سے جھانکتا ہوا حرام کی کمائی کا پلا تندرست جسم اور اس کا سوشلسٹ قلم جو ہر دوسری سطر محض اس لئے کاٹ دیتا ہے کہ وہ دوسرے کی لکھی ہوئی ہے۔ اس کا رعب داب، گمبھیر ہنسی، سازش بھری مسکراہٹ اور اس کی میز کے سامنے اس کی  سلطنت میں بیٹھے ہوئے چار جاندار، جو قلم گھسنے کے علاوہ اور کچھ نہیں جانتے۔ ان لوگوں کے چہرے کے ٹائپ رائیٹروں کی کھڑکھڑاہٹ۔ ان سب چیزوں کو مٹّھی میں دبا کر ’کرش’کر دینے کو جی چاہتا ہے۔ بھوک بھی کمبخت لگتی ہے تو اس جیسے پورے شہر کا کھانا کھا کر ہی ختم ہو گی۔ شروع میں پیٹ گڑگڑاتا ہے۔ اگر ڈیوڈ صاحب ہوتے تو بات یہیں پہ جھٹک لیتے، ’جی، نہیں، بھوک جب زور سے لگتی ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے بلّیاں لڑ رہی ہوں۔ پھر پیٹ میں ہلکاسا درد شروع ہوتا ہے جو شروع میں میٹھا لگتا ہے۔ پھر درد تیز ہو جاتا ہے۔ اس سمے اگر آپ تین چار گلاس پانی پی لیں تو پیٹ کچھ دیر کے لئے شانت ہو جائے گا اور آپ دو ایک گھنٹا کوئی بھی کام کر سکتے ہیں۔ اتنا سب کچھ کہنے کے بعد وہ یقیناً صلاح دیں گے کہ اس مہانگری میں بھوکوں مرنے سے اچّھا ہے کہ میں لوٹ جاؤں۔ لیکن یہاں سے نکل کر وہاں جانے کا مطلب ہے ایک غریبی اور بھک مری سے نکل کر دوسری بھک مری میں پھنس جانا۔ اسی طرح کی بہت ساری باتیں ایک ساتھ دماغ میں کبڈّی کھیلتی رہتی ہیں۔ تنگ آ کر ایسے موقعے پر ڈیوڈ صاحب سے پوچھتا ہوں، ’گریٹر  کیلاش کی مارکیٹ چل رہے ہیں؟’وہ مسکراتے ہیں اور کہتے ہیں، ’اچّھا، تیّار ہو جاؤں۔’میں جانتا ہوں ان کے تیّار ہونے میں کافی وقت لگے گا۔ اس لئے میں بڑے پیار سے جوتے پالش کرتا ہوں۔ ایک میلا کپڑا لیکر جوتے کی گھسائی کرتا ہوں۔ جوتے میں اپنی شکل دیکھ سکتا ہوں۔ ٹپ ٹاپ ہو کر ڈیوڈ صاحب سے پوچھتا ہوں، ’تیّار ہیں؟’

بس سٹاپ کی طرف جاتے ہوئے ایک دوسرے کے جوتے دیکھ کر ہم دونوں کی ہمّت بڑھتی ہے۔ ایک عجیب طرح کا حوصلہ آ جاتا ہے۔گریٹر کیلاش کی مارکٹ کی ہر دوکان کا نام ہمیں زبانی یاد ہے۔ بس سے اتر کر ہم پیشاب خانے میں جا کر اپنے بال ٹھیک کرتے ہیں۔ وہ میری اور دیکھتے ہیں۔ میں فرنیچر کی اور دیکھتا ہوں۔ دو جوڑا چمچماتے جوتے برامدے میں گھومتے ہیں۔ میں فرنیچر کی دوکان کے سامنے رک جاتا ہوں۔ تھوڑی دیر تک دیکھتا رہتا ہوں۔ ڈیوڈ صاحب اندر چلنے کے لئے کہتے ہیں اور میں سارا حوصلہ بٹور کر اندر گھس جاتا ہوں۔ یہاں کے لوگ بڑے مہذّب ہیں۔ ایک جملے میں دو بار ’سر’بولتے ہیں۔ چمکدار جوتے دوکان کے اندر ٹہلتے ہیں۔ ڈیوڈ صاحب یہاں کمال کی انگریزی بولتے ہیں کندھے اچکا کر اور آنکھیں نکال کر۔ چیزوں کو اس طرح دیکھتے ہیں جیسے وہ کافی گھٹیا ہوں۔ میں ایسے موقعوں پر ان سے متاثّر ہو کر انہیں کی طرح بہیو کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔کنفیکشنری کی دوکان کے سامنے وہ بہت دیر تک رکتے ہیں۔ شو ونڈو میں سب کچھ سجا ہوا ہے۔ پہلی بار میں بھرم ہو سکتا ہے کہ سارا سامان دکھاوٹی ہے، مٹّی کا، مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔’جلدی چلئے۔ سالا دیکھ کر مسکرا رہا ہے۔’

’کون؟’ڈیوڈ صاحب پوچھتے ہیں، میں آنکھ سے دوکان کے اندر اشارہ کرتا ہوں اور وہ اچانک دوکان کے اندر گھس جاتے ہیں۔ میں ہچکچاہٹ سے برامدے میں آگے بڑھ جاتا ہوں۔ ’پکڑے گئے بیٹا! بڑے لاٹ صاحب کی اولاد بنے پھرتے ہیں۔ ان کی جیب میں دس پیسے کا بس کا ٹکٹ اور کل ساٹھ پیسے نکلتے ہیں۔’سارے لوگ ہنس رہے ہیں۔ ڈیوڈ صاحب نے چمچماتا جوتا اتار کر ہاتھ میں پکڑا اور دوکان میں بھاگے۔’ میں ہمّت کر کے دوکان کے اندر جاتا ہوں۔ ڈیوڈ صاحب دوکاندار سے بہت فرّاٹے دار انگریزی بول رہے ہیں اور وہ بیچارا گھبرا رہا ہے۔ میں خوش ہوتا ہوں۔ ’لے سالے، کر دیا نہ ڈیوڈ صاحب نے ڈنڈا! بڑا مسکرا رہے تھے۔’ڈیوڈ صاحب انگریزی میں اسّے ایسا کیک مانگ رہے ہیں جسکا نام اس کے باپ، دادا، پردادا نے بھی کبھی نہ سنا ہو گا۔باہر نکل کر ڈیوڈ صاحب نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔روز کی طرح کھانے کی میز پر یہاں سے وہاں تک ولایتی کھانے سجے ہوئے ہیں۔ مسز ڈسوزا کا موڑ کچھ آف ہے۔ سب صرف اتنا ہے کہ میں اس مہینے کی پہلی تاریخ کو پیسہ نہیں دے پایا ہوں۔ ایک آدھ دن مونہہ پھولا رہے گا۔ پھر وہ مہنگائی کے قصّے سنانے لگیں گی۔ چیزوں کی بڑھتی قیمتیں سنتے ہم لوگ تنگ ہو جائیں گے۔بات کرنے کے لئے کچھ ضروری تھا اور چپ ٹوٹتی نہیں لگ رہی تھی، تو مسز ڈسوزا نے پوچھا، ’آج تم ڈفینس کالونی جانے والے تھے ؟’’نہیں جا سکتا،’ڈیوڈ صاحب نے مونہہ اٹھا کر کہا۔’اب تمہارا سامان کیسے آئے گا؟’مسز ڈسوزا بڑبڑائیں، ’بیچاری کیتھی نے کتنی محبّت سے بھیجا ہے۔’

’محبّت سے بھجوایا ہے آنٹی؟’ڈیوڈ صاحب چونکے، ’آنٹی، اس کا ہسبینڈ دو ہزار روپئے کماتا ہے۔ کیتھی ایک دن بازار گئی ہو گی۔ سوا سو روپئے کی ایک گھڑی اور دو قمیضیں خرید لی ہوں گی۔ اور ڈینو کے ہاتھ دلّی بھجوا دیں۔ اس میں محبّت کہاں سے آ گئی؟’

’مگر تم انہیں جا کر لے تو جاؤ۔’

’ڈینو اس سامان کو یہاں لا سکتا ہے۔’

ڈینو کا ڈفینس کالونی میں اپنا مکان ہے۔ کار ہے۔ ڈیوڈ صاحب کا بچپن کا دوست ہے۔ وہ اس شکار پارٹی میں بھی تھا، جس میں ہاتھی پر بیٹھ کر ڈیوڈ صاحب نے پلائینگ شاٹ میں چار ہتھنیاں گرا دی تھیں۔

’ڈفینس کالونی سے یہاں آنا دور پڑئے گا۔ اور وہ بزی آدمی ہے۔’

’میں بزی پروف ریڈر نہیں ہوں؟’وہ ہنسے، ’اور وہ تو اپنے کام سے آ سکتا ہے، جبکہ مجھے دو بسیں بدلنی پڑیں گی۔’ وہ دال چاول اس طرح کھا رہے تھے، جیسے ’کیک’کی یاد میں اسے کیک سمجھ رہے ہوں۔

’جیسی تمہاری مرضی۔’

کھانا ختم ہونے پر کچھ دیر کے لئے محفل جم گئ۔ مسز ڈسوزا پتہ نہیں کہاں سے اس بڑے زمین دار کا ذکر لے بیٹھیں جو جوانی کے دنوں میں ان پر دل و جان سے عاشق تھا، اور ان کے ریٹائر ہونے کے بعد بھی ایک دن پتہ لگاتا ہوا دلّی کے ان کے گھر آیا تھا۔ وہ پہلا دن تھا جب اس مکان کے سامنے سیکنڈ ہینڈ ایمبیسڈر کھڑی ہوئی تھی اور ڈیوڈ صاحب کو کچن میں سونا پڑا تھا۔ اس زمین دار کا ذکر ڈیوڈ صاحب کو بڑا بھاتا ہے۔ میں تو فوراً اس زمیندار کی جگہ اپنے آپ کو ’فٹ’کر کے صورت حال کا پورا مزا اٹھانے لگتا ہوں۔

کچھ دیر بعد ادھر ادھر گھوم گھام کر بات پھر کھانوں پر آ گئی۔ ڈیوڈ صاحب سوئیاں پکانے کی ترکیب بتانے لگے۔ پھر سب نے اپنے اپنے پسندیدہ کھانوں کے بارے میں بات کی۔ سب سے زیادہ ڈیوڈ صاحب بولے۔

کھانے کی بات ختم ہوئی تو میں نے دھیرے سے کہا، ’یار ڈیوڈ صاحب، اس گاؤں میں کوئی لڑکی ایسی نظر پڑ جاتی ہے کہ پاؤں کانپنے لگتے ہیں۔’

’کیسی تھی، مجھے بتاؤ؟ چھدّو کی بہو ہو گی یا۔۔۔۔’

’بس ڈیوڈ، تم لڑکیوں کی بات نہ کیا کرو۔ میں نے کتنی خوبصورت لڑکی سے تمہارا ‘انگیج مینٹ’طے کیا تھا۔’

’کیا خوب صورتی کی بات کرتی ہیں آنٹی! اگر جالی کو آپ نے دیکھا ہوتا۔۔۔۔’

’جالی؟ خیر، اس کو تو میں نے نہیں دیکھا۔ تم نے اگر میری لڑکی کو دیکھا ہوتا۔’ان کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں، ’مگر وہ ہج۔۔۔’کچھ دیر بعد بولیں، ’اگر اب وہ ہوتی تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ میں اس کی شادی کسی ملٹری افسر سے کر دیتی۔ اس سے تو کوئی بھی شادی کر سکتا تھا۔’

کچھ ٹھہر کر ڈیوڈ صاحب سے بولی، ’تم شادی کیوں نہیں کر لیتے ڈیوڈ؟’

’میں شادی کیسے کر لوں آنٹی؟ دو سو پچھتّر روپئے اکّیس پیسے سے ایک پیٹ نہیں بھرتا۔ ایک اور لڑکی کی جان لینے سے کیا فائدہ۔ میری زندگی تو گزر ہی جائے گی۔ مگر میں یہ نہیں چاہتا کہ اپنے پیچھے ایک غریب عورت اور دو تین پروف ریڈر چھوڑ کر مر جاؤں جو دن رات مشینوں کی کان پھاڑ دینے والی آواز میں بیٹھ کر آنکھیں پھوڑا کریں۔’وہ کچھ رکے، ’یہی بات میں ان سے کہتا ہوں۔’انہوں نے میری طرف اشارہ کیا، ’اس آدمی کے پاس گاؤں میں تھوڑیسی زمین ہے جہاں گیہوں اور دھان کی فصل ہوتی ہے۔ اس کو چاہئے کہ اپنے کھیت کے پاس ایک کچّا گھر بنا لے۔ اس کے سامنے ایک چھپّر ڈال لے، بس، اس پر لوکی کی بیل چڑھانی پڑے گی۔ دیہات میں آرام سے ایک بھینس پالی جا سکتی ہے۔ کچھ دنوں بعد مرغی  خانہ کھول سکتے ہیں۔ کھانے اور رہنے کی فکر نہیں رہ جائے گی۔ ٹھاٹھ سے کام کرے اور کھائیں۔’

’اس کے بعد آپ وہاں آیئے گا تو ’کیک’بنایا جائے گا۔ بہت سے انڈے ملا کر’

میں نے مذاق کیا۔

دیپک بابا ہنسنے لگے۔ بالکل بچّوں کیسی معصوم ہنسی۔

٭٭٭٭

 

 

بندر

 

 

 

ایک دن ایک بندر نے ایک آدمی سے کہا  "بھائی، کروڑوں سال پہلے تم بھی بندر تھے۔ کیوں نہ آج ایک دن کے لئے تم پھر بندر بن کر دیکھو۔”

یہ سن کر پہلے تو آدمی چکرایا، پھر بولا  "چلو ٹھیک ہے۔ ایک دن کے لئے میں بندر بن جاتا ہوں۔”

بندر بولا  "تو تم اپنی کھال مجھے دے دو، میں ایک دن کے لئے آدمی بن جاتا ہوں۔”

اس پر آدمی تیار ہو گیا۔

آدمی درخت پر چڑھ گیا اور بندر آفس چلا گیا۔ شام کو بندر آیا اور بولا  "بھائی، میری کھال مجھے لوٹا دو، میں بھر پایا۔”

آدمی نے کہا  "ہزاروں  لاکھوں سال میں آدمی رہا۔ کچھ سو سال تو تم بھی رہ کر دیکھو۔”

بندر رونے لگا  "بھائی، اتنا ظلم نہ کرو۔” پر آدمی تیار نہیں ہوا۔ وہ درخت کی ایک ڈال سے دوسری، پھر دوسری سے تیسری، پھر چوتھی پر جا پہنچا اور نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

مجبور ہو کر بندر لوٹ آیا۔

اور تب سے حقیقت میں آدمی بندر ہے اور بندر آدمی۔

٭٭٭٭

 

 

آگ

 

 

اس آدمی کا گھر جل رہا تھا۔ وہ اپنے خاندان کے ہمراہ آگ بجھانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن آگ شدید تھی۔ بجھنے کا نام نہ لیتی تھی۔ ایسا لگتا ہے جیسے صدیوں سے لگی آگ ہے، یا کسی تیل کے کنویں میں ماچس لگا دی گئی ہے یا کوئی آتش فشاں پھٹ پڑا ہے۔ آدمی نے اپنی بیوی سے کہا، "اس طرح کی آگ تو ہم نے کبھی نہیں دیکھی تھی۔”

بیوی بولی، "ہاں کیونکہ اس طرح کی آگ تو ہمارے پیٹ میں لگا کرتی ہے۔ ہم اسے دیکھ نہیں پاتے تھے۔”

وہ آگ بجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ دو پڑھے  لکھے وہاں آ پہنچے۔ آدمی نے ان سے کہا، "بھائی ہماری مدد کرو۔” دونوں نے آگ دیکھی اور ڈر گئے۔ بولے، "دیکھو، ہم دانشور ہیں، مصنف ہیں، صحافی ہیں، ہم تمہاری آگ کے بارے میں جا کر لکھتے ہیں۔” وہ دونوں چلے گئے۔

کچھ دیر بعد وہاں ایک آدمی اور آیا۔ اس سے بھی اس آدمی نے آگ بجھانے کی بات کہی۔ وہ بولا، "ایسی آگ تو میں نے کبھی نہیں دیکھی ۔۔۔ اس کو جاننے اور پتہ لگانے کے لئے تحقیق کرنا پڑے گا۔ میں اپنی تحقیق مواد لے کر آتا ہوں، تب تک تم یہ آگ نہ بجھنے دینا۔” وہ چلا گیا۔ آدمی اور اس کا خاندان پھر آگ بجھانے میں جٹ گئے۔ پر آگ تھی کہ قابو میں ہی نہ آتی تھی۔

دونوں تھک  ہار کر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر میں وہاں ایک اور آدمی آیا۔ اس سے آدمی نے مدد طلب کی۔ اس آدمی نے آگ دیکھی۔ انگارے دیکھے۔ وہ بولا، "یہ بتاؤ کہ اگارو کا تم کیا کرو گے؟”

وہ آدمی حیران تھا کیا بولتا۔

وہ آدمی بولا، "میں انگارے لے جاؤں گا۔”

"ہاں ٹھنڈے ہونے کے بعد ۔۔۔ جب وہ کوئلہ بن جائیں گے ۔۔۔”

کچھ دیر بعد آگ بجھانے والے آ گئے۔ انہوں نے آگ کا جو غضب ناک روپ دیکھا تو چھکے چھوٹ گئے۔ ان کے پاس جو پانی تھا وہ آگ کیا بجھاتا اس کے ڈالنے سے تو آگ اور بھڑک جاتی۔ فائر برگیڈ  والے فکر میں ڈوب گئے۔ ان میں سے ایک بولا، "یہ آگ اسی طرح لگی رہے اسی میں ملک کی بھلائی ہے۔”

"کیوں؟” آدمی نے کہا۔

"اس لئے کہ اس کو بجھانے کے لئے پورے ملک میں جتنا پانی ہے اس کا آدھا چاہئے ہوگا۔”

"پر میرا کیا ہوگا۔”

"دیکھو تمہارا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں آ جائے گا۔ تمہارے ساتھ ملک کا نام بھی ۔۔۔ سمجھے؟”

وہ بات چیت ہو ہی رہی تھی کہ ماہرین کا دل وہاں آ پہنچا۔ وہ آگ دیکھ کر بولے، "اتنی عظیم الشان  آگ ۔۔۔ اس کو تو برآمد کیا جا سکتا ہے ۔۔۔ غیر ملکی کرنسی آ سکتی ہے ۔۔۔ وہ آگ خلیج ممالک میں بھیجی جا سکتی ہے ۔۔۔” دوسرے ماہرین نے کہا، "وہ آگ تو پورے ملک کے لئے سستی توانائی ذریعہ بن سکتی ہے”

"توانائی کی بہت کمی ہے ملک میں۔”

"اس توانائی سے تو بغیر پٹرول کے گاڑیاں چل سکتی ہیں۔ یہ توانائی ملک کی ترقی میں عظیم مدد فراہم کر سکتی ہے۔”

"اس توانائی سے ملک میں اتحاد بھی قائم ہو سکتی ہے۔ اسے اور پھیلا دو ۔۔۔

"پھیلاؤ؟” وہ آدمی چلایا۔

"ہاں بڑے  بڑے پنکھے لگاؤ ۔۔۔ تیل ڈالو تاکہ یہ آگ پھیلے۔”

"پر میرا کیا ہو گا؟” وہ آدمی بولا۔

"تمہارا فائدہ ہی فائدہ ہے ۔۔۔ تمہارا نام تو ملک کے تعمیر کی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا ۔۔۔ تم ہیرو ہو۔”

کچھ دنوں بعد دیکھا گیا کہ وہ آدمی جس کے گھر میں اس کے پیٹ جیسی بھیانک آگ لگی تھی، آگ کو بھڑکا رہا ہے، ہوا دے رہا ہے۔

٭٭٭٭

 

 

راجہ

 

ان دنوں شیر اور لومڑی دونوں کا دھندہ مندا پڑ گیا تھا۔ لومڑی کسی سے چکنی  چپڑی باتیں کرتی تو لوگ سمجھ جاتے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ شیر دہاڑ کر کسی جانور کو بلاتا تو وہ جلدی سے اپنے گھر میں گھس جاتا۔

ایسے حالات سے تنگ آ کر ایک دن لومڑی اور شیر نے سوچا کہ آپس میں کھالیں  بدل لیں۔ شیر نے لومڑی کی کھال پہن لی اور لومڑی نے شیر کی کھال۔ اب شیر کو لوگ لومڑی سمجھتے اور لومڑی کو شیر۔ شیر کے پاس چھوٹے  موٹے جانور اپنے آپ چلے آتے اور شیر انہیں ہڑپ جاتا۔

لومڑی کو دیکھ کر لوگ بھاگتے تو وہ چلاتی ‘ارے سنو بھائی۔ ۔ ارے ادھر آنا لالہ جی۔ ۔ ۔ بات تو سنو پنڈت جی! ‘ شیر کا یہ رنگ  ڈھنگ دیکھ کر لوگ سمجھے کہ شیر نے کٹھی لے لی ہے۔ وہ شیر، یعنی لومڑی کے پاس آ جاتے۔ شیر ان سے میٹھی  میٹھی باتیں کرتا اور بڑے پیار سے گڑ اور گھی مانگتا۔ لوگ دے دیتے۔ خوش ہوتے کہ چلو سستے چھوٹے۔

 

ایک دن شیر لومڑی کے پاس آیا اور بولا، ‘مجھے اپنا دربار کرنا ہے۔ تم میری کھال مجھے واپس کر دو۔ میں لومڑی کی کھال میں دربار کیسے کر سکتا ہوں؟ ‘ لومڑی نے اس سے کہا، ‘ٹھیک ہے، تم پرسوں آنا۔’ شیر چلا گیا۔

لومڑی بڑی ہوشیار تھی۔ وہ اگلے ہی دن دربار میں چلی گئی۔ تخت پر بیٹھ گئی۔ بادشاہ بن گئی۔

دوستو، یہ کہانی بہت پرانی ہے۔ آج جو جنگل کے بادشاہ ہیں وہ دراصل اسی لومڑی کی اولادیں  ہیں، جو شیر کی کھال پہن کر بادشاہ بن گئی تھی۔

٭٭

جنگجو

 

 

کسی ملک میں ایک بہت ویر سپاہی رہتا تھا۔ وہ کبھی کسی سے نہ ہارا تھا۔ اسے تکبر ہو گیا تھا۔ وہ کسی کو کچھ نہ سمجھتا تھا۔ ایک دن اسے ایک درویش ملا۔ درویش نے اس سے پوچھا  "تو اتنا گھمنڈ کیوں کرتا ہے؟”

سپاہی نے کہا  "دنیا میں مجھ جیسا بہادر کوئی نہیں ہے۔”

درویش نے کہا  "ایسا تو نہیں ہے۔”

بہادر کو غصہ آ گیا  "تو بتاؤ، پوری دنیا میں ایسا کون ہے، جسے میں ہرا نہ سکتا ہوں۔”

درویش نے کہا  "چیونٹی ہے۔”

یہ سن کر سپاہی غصہ سے پاگل ہو گیا۔ وہ چیونٹی کی تلاش میں نکلنے ہی والا تھا کہ اسے گھوڑے کی گردن پر چیونٹی دکھائی دی۔ سپاہی نے چیونٹی پر تلوار کا وار کیا۔ گھوڑے کی گردن اڑ گئی۔ چیونٹی کو کچھ نہ ہوا۔ بہادر کو اور غصہ آیا۔ اس نے چیونٹی کو زمین پر چلتے دیکھا۔ سپاہی نے چیونٹی پر پھر تلوار کا وار کیا۔ خوب دھول اڑی۔ چیونٹی سپاہی کے بائیں ہاتھ پر آ گئی۔ سپاہی نے اپنے بائیں ہاتھ پر تلوار کا وار کیا، اس کا بایاں ہاتھ اڑ گیا۔ اب چیونٹی اسے سینے پر رینگتی دکھائی دی۔ وہ وار کرنے ہی والا تھا کہ اچانک درویش وہاں آ گیا۔ اس نے بہادر کا ہاتھ پکڑ لیا۔

سپاہی نے ہانپتے ہوئے کہا  "اب میں مان گیا۔ بڑے سے، چھوٹا زیادہ بڑا ہوتا ہے۔”

٭٭٭٭

 

 

میں ہندو ہوں

 

ایسی چیخ کہ مردے بھی قبر میں اٹھ کر کھڑے ہو جائیں۔ لگا کہ آواز بالکل کانوں کے پاس سے آئی ہے۔ ان حالات میں۔ ۔ میں اچھل کر چارپائی پر بیٹھ گیا، آسمان پر اب بھی ستارے تھے۔ ۔ ، شاید رات کا تین بجا ہوگا۔ ابا جان بھی اٹھ بیٹھے۔ چیخ پھر سنائی دی۔ سیف اپنی کھری چارپائی پر لیٹا چیخ رہا تھا۔ آنگن میں ایک سرے سے سب کی چارپائیاں بچھی تھیں۔

‘لاحول ولاقوۃ۔ ۔ ۔ ‘ ابا جان نے لاحول پڑھی ‘خدا جانے یہ سوتے  سوتے کیوں چیخنے لگتا ہے۔’ اماں بولیں۔ ‘اماں اسے رات بھر لڑکے ڈراتے ہیں۔ ۔ ۔ ‘ میں نے کہا۔ ‘ان مو کو بھی چین نہیں پڑتا۔ ۔ ۔ لوگوں کی جان پر بنی ہے اور انہیں شرارتیں سوجھتی ہیں ‘، اماں بولیں۔

صفیہ نے چادر میں منہ نکال کر کہاں، ‘اسے کہو چھت پر سویا کرے۔’ سیف اب تک نہیں جاگا تھا۔ میں اس کے پلنگ کے پاس گیا اور جھک کر دیکھا تو اس کے چہرے پر پسینہ تھا۔ سانس تیز  تیز چل رہی تھی اور جسم کانپ رہا تھا۔ بال پسینے میں تر ہو گئے اور کچھ لٹیں ماتھے پر چپک گئی تھیں۔ میں سیف کو دیکھتا رہا اور ان لڑکوں کے لئے من میں غصہ گھمڑتا رہا جو اسے ڈراتے ہیں۔

 

تب فساد ایسے نہیں ہوا کرتے تھے جیسے آج کل ہوتے ہیں۔ فسادات کے پیچھے چھپے فلسفے، حکمت عملی، طریقۂ عمل اور رفتار میں بہت تبدیلی آئی ہے۔ آج سے پچیس  تیس سال پہلے نہ تو لوگوں کو زندہ جلایا جاتا تھا اور نہ پوری کی پوری بستیاں ویران کی جاتی تھیں۔ اس زمانے میں وزرائے اعظم، وزرائے  داخلہ اور وزرائے اعلی کا آشیرواد بھی فسادیوں کو نہیں ملتا تھا۔ یہ کام چھوٹے  موٹے مقامی لیڈر اپنے مقامی اور معمولی قسم کا مفاد پورا کرنے کے لئے کرتے تھے۔ تجارتی ہوڑ ، زمین پر قبضہ کرنا، چنگی کے انتخابات میں ہندو یا مسلم ووٹ سمیت لینا وغیرہ مقصد ہوا کرتے تھے۔ اب تو دلی دربار کا قبضہ جمانے کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ فرقہ وارانہ فسادات۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی ناک میں نکیل ڈال وہی سکتا ہے جو فرقہ وارانہ تشدد اور نفرت پر خون کی ندیاں بہا سکتا ہو۔

سیف کو جگایا گیا۔ وہ بکری کے معصوم بچے کی طرح چاروں طرف اس طرح دیکھ رہا تھا جیسے ماں کو تلاش کر رہا ہو۔ ابا جان کے سوتیلے بھائی کی سب سے چھوٹی اولاد سیف الدین عرف سیف نے جب اپنے گھر کے تمام لوگوں سے گھرے دیکھا تو گھبرا کر کھڑا ہو گیا۔ سیف کے ابا کوثر چچا کے مرنے کا آیا کونہ کٹا پوسٹ کارڈ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ گاؤں والوں نے خط میں کوثر چچا کے مرنے کی خبر ہی نہیں دی تھی بلکہ یہ بھی لکھا تھا کہ ان کا سب سے چھوٹا بیٹا  سیف اب اس دنیا میں اکیلا رہ گیا ہے۔ سیف کے بڑے بھائی اسے اپنے ساتھ ممبئی نہیں لے گئے۔ انہوں نے صاف کہہ دیا ہے کہ سیف کے لئے وہ کچھ نہیں کر سکتے۔ اب ابا جان کے علاوہ اس کا دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ کونا کٹا پوسٹ کارڈ پکڑے ابا بہت دیر تک خموش بیٹھے رہے تھے۔ اماں سے کئی بار لڑائی ہونے کے بعد ابا جان آبائی گاؤں دھنوا کھیڑا گئے تھے اور بچی  کھچی زمین بیچ، سیف کو ساتھ لے کر لوٹے تھے۔ سیف کو دیکھ کر ہم سب کو ہنسی آئی تھی۔ کسی جاہل لڑکے کو دیکھ کر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اسکول میں پڑھنے والی صفیہ کی اور کیا رد عمل ہو سکتی تھی، پہلے دن ہی یہ لگ گیا کہ سیف صرف جاہل ہی نہیں ہے بلکہ آدھا پاگل ہونے کی حد تک براہ راست یا بیوقوف ہے۔ ہم اسے طرح  طرح سے چڑایا یا بیوقوف بنایا کرتے تھے۔ اس کا ایک فائدہ سیف کو اس طور پر ہوا کہ ابا اور اماں کا اس نے دل جیت لیا۔ سیف محنت کا پتلا تھا۔ کام کرنے سے کبھی نہ تھکتا تھا۔ اماں کو اس کی یہ ‘ادا’بہت پسند تھی۔ اگر دو روٹیاں مزید کھا جاتا ہے تو کیا؟ کام بھی تو کمر توڑ کرتا ہے۔ سالوں پر سال گزرتے گئے اور سیف ہماری زندگی کا حصہ بن گیا۔ ہم سب اس کے ساتھ بے تکلف ہوتے چلے گئے۔ اب محلے کا کوئی لڑکا اسے پاگل کہہ دیتا تو تو میں اس کا منہ نوچ لیتا تھا۔ ہمارا بھائی ہے تم نے پاگل کہا کیسے؟ لیکن گھر کے اندر سیف کی حیثیت کیا تھی یہ ہمیں معلوم ہے۔

شہر میں فساد ویسے ہی شروع ہوا تھا جیسے ہوا کرتا تھا یعنی مسجد سے کسی کو ایک پوٹلا ملا تھا جس میں میں کسی قسم کا گوشت تھا اور گوشت کو دیکھے بغیر یہ طے کر لیا گیا تھا کہ چونکہ وہ مسجد میں پھینکا گیا گوشت ہے اس لئے سور کے گوشت کے سوا اور کسی جانور کا ہو ہی نہیں سکتا۔ اس رد عمل میں مغل ٹولے میں گائے کاٹ دی گئی تھی اور فساد بھڑک گیا تھا۔ کچھ دکانیں جلی ہوئی تھیں اور زیادہ تر لوٹی گئی تھیں۔ چاقو  چھری کی وارداتوں میں قریب سات  آٹھ افراد ہلاک تھے لیکن انتظامیہ اتنا حساس تھا کہ کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا۔ آج کل والی بات نہ تھی ہزاروں لوگوں کے مارے جانے کے بعد بھی وزیر اعلی مونچھوں پر تاؤ دے کر گھومتا اور کہتا کہ جو کچھ ہوا صحیح ہوا۔

فساد چونکہ آس پاس کے گاؤں تک بھی پھیل گیا تھا اس لئے کرفیو اٹھا لیا گیا تھا۔ مغل پورا مسلمانوں کا سب سے بڑا محلہ تھا اس لئے وہاں کرفیو کا اثر بھی تھا اور ’جہاد’جیسا ماحول بن گیا تھا۔ محلے کی گلیاں تو تھی ہی پر کئی فسادات کے تجربو نے یہ بھی سکھا دیا تھا کہ گھروں کے اندر سے بھی راستے ہونے چاہئے۔ یعنی ایمرجنسی پیکج۔ تو گھروں کے اندر سے، چھتوں کے اوپر سے، دیواریں کو پھلانگتے کچھ ایسے راستے بھی بن گئے تھے کہ کوئی اگر ان کو جانتا ہو تو محلے کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک آسانی سے جا سکتا تھا۔ محلے کی تیاری جنگی پیمانے کی تھی۔ سوچا گیا تھا کہ کرفیو اگر مہینے بھر بھی کھنچتا ہے تو ضرورت کی تمام چیزیں محلے میں ہی مل جائیں۔

فساد محلے کے لڑکوں کے لئے ایک عجیب طرح کے جوش دکھانے کا موسم ہوا کرتا تھا۔ اجی ہم تو ہندوؤں کو زمین چٹا دیں گے ۔۔ سمجھ کیا رکھا ہے دھوتی باندھنے والوں نے۔ ۔ ۔ اجی بزدل ہوتے ہیں ۔۔ ۔ ۔ ایک مسلمان دس ہندوؤں پر بھاری ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ‘ہنس کے لیا ہے پاکستان لڑ کر لیں گے ہندوستان’جیسا ماحول بن جاتا تھا، لیکن محلے سے باہر نکلنے میں سب کی نانی مرتی تھی۔ پی اے سی کی چوکی دونوں سروں  پر تھی۔ پی اے سی کے بوٹوں اور ان کی رائفلوں کے بٹوں کی مار کئی کو یاد تھی اس لئے زبانی جمع  خرچ تک تو سب ٹھیک تھا لیکن اس کے آگے۔۔۔

 

بحران اتحاد سکھا دیتا ہے۔ اتحاد ڈسپلن اور نظم ۔ ہر گھر سے ایک لڑکا پہرے پر رہا کرے گا۔ ہمارے گھر میں میرے علاوہ، اس زمانے میں مجھے لڑکا نہیں مانا جا سکتا تھا، کیونکہ میں پچیس پار کر چکا تھا، لڑکا سیف ہی تھا اس لئے اسے رات کے پہرے پر رہنا پڑتا تھا۔ رات کا پہرہ چھتوں پر ہوا کرتا تھا۔ مغل پورا چونکہ شہر کے سب سے بالائی حصے میں تھا اس لئے چھتوں پر سے پورا شہر دکھائی دیتا تھا۔ محلے کے لڑکوں کے ساتھ سیف پہرے پر جایا کرتا تھا۔ یہ میرے، ابا، اماں اور صفیہ  تمام کے لئے بہت اچھا تھا۔ اگر ہمارے گھر میں سیف نہ ہوتا تو شاید مجھے رات میں دھکے کھانے پڑتے۔ سیف کے پہرے پر جانے کی وجہ سے اسے کچھ سہولیتیں بھی دے دی گئی تھیں، جیسے اسے آٹھ بجے تک سونے دیا جاتا تھا۔ اس سے جھاڑو نہیں دلوائی جاتی تھی۔ یہ کام صفیہ کے حوالے ہو گیا تھا جو اسے بے حد ناپسند کرتی تھی۔

کبھی  کبھی رات میں میں بھی چھتوں پر پہنچ جاتا تھا، لاٹھی، ڈنڈے، بلم اور اینٹوں کے ڈھیر ادھر  ادھر لگائے گئے تھے۔ دو  چار لڑکوں کے پاس دیسی کٹے اور زیادہ تر کے پاس چاقو تھے۔ ان میں سے تمام چھوٹا  موٹا کام کرنے والے کاریگر تھے۔ زیادہ تر تالے کے کارخانوں کے کام کرتے تھے۔ کچھ درزی گری، بڑھئی گیری جیسے کام کرتے تھے۔ چونکہ ادھر بازار بند تھا اس لئے ان کے دھندے بھی ٹھپ تھے۔ ان میں سے زیادہ تر کے گھروں میں قرض سے چولہا جل رہا تھا۔ لیکن وہ خوش تھے۔ چھتوں پر بیٹھ کر وہ فسادات کی تازہ خبروں پر تبصرہ کیا کرتے تھے یا ہندوؤں کو گالیاں دیا کرتے تھے۔ ہندوؤں سے مزید گالیاں وہ پی اے سی کو دیتے تھے۔ پاکستان ریڈیو کا مکمل پروگرام انہیں زبانی یاد تھا اور کم آواز میں ریڈیو لاہور سنا کرتے تھے۔ ان لڑکوں میں دو  چار جو پاکستان جا چکے تھے ان کی عزت حاجیوں کی طرح ہوتی تھی۔ وہ پاکستان کی ریل گاڑی ’تیز گام’اور ’گلشنِ اقبال کالونی’کے ایسے قصے سناتے تھے کہ لگتا جنت اگر زمین پر کہیں ہے تو پاکستان میں ہے۔ پاکستان کی تعریفوں سے جب ان کا دل بھر جایا کرتا تھا تو سیف سے چھیڑ چھاڑ کیا کرتے تھے۔ سیف نے پاکستان، پاکستان اور پاکستان کا وظیفہ سننے کے بعد ایک دن پوچھ لیا تھا کہ پاکستان ہے کہاں؟ اس پر سب لڑکوں نے اسے بہت کھینچا تھا۔ وہ کچھ سمجھا تھا، لیکن اسے یہ پتہ نہیں لگ سکتا تھا کہ پاکستان کہاں ہے۔

گشتی لونڈے سیف کو مذاق میں سنجیدگی سے ڈرایا کرتے تھے، ‘دیکھو سیف اگر تمہیں ہندو پا جائیں گے تو جانتے ہو کیا کریں گے؟ پہلے تمہیں ننگا کر دیں گے۔’ لڑکے جانتے تھے کہ سیف ادھ پاگل ہونے کے باوجود ننگے ہونے کو بہت بری اور خراب چیز سمجھتا ہے، ‘اس کے بعد ہندو تمہارے تیل ملیں گے۔’

‘کیوں، تیل کیوں ملیں گے؟”تاکہ جب تمہیں بیت سے ماریں تو تمہاری کھال نکل جائے۔ اس کے بعد جلتی سلاخوں سے تمہیں داغیں گے۔ ۔ ۔”نہیں’ اسے یقین نہیں ہوا۔

رات میں لڑکے اسے جو ڈراؤنے اور پر تشدد قصے سنایا کرتے تھے ان سے وہ بہت زیادہ ڈر گیا تھا۔ کبھی  کبھی مجھ سے الٹی  سیدھی باتیں کیا کرتا تھا۔ میں جھجھلاتا تھا اور اسے چپ کرا دیتا تھا لیکن اس کا تجسس کا جذبہ خاموش نہیں ہو پاتا تھا۔ ایک دن پوچھنے لگا، ‘بڑے بھائی پاکستان میں بھی مٹی ہوتی ہے کیا؟’

‘کیوں، وہاں مٹی کیوں نہ ہوگی۔”سڑک ہی سڑک نہیں ہے ۔۔۔ وہاں ٹیریلین ملتا ہے ۔۔۔ وہاں سستی ہے ۔۔۔ رہی ‘دیکھو یہ سب باتیں من گڑھت ہیں ۔۔۔۔ تم الطاف وغیرہ کی باتوں پر کان نہ دیا کرو۔’ میں نے اسے سمجھایا۔

‘بڑے بھائی کیا ہندو آنکھیں نکال لیتے ہیں۔ ۔ ۔ "بکواس ہے۔ ۔ یہ تم سے کس نے کہا؟ ‘بچھن نے۔”غلط ہے۔”تو کھال بھی نہیں کھینچتے؟”افوہ۔ ۔ یہ تم نے کیا لگا رکھی ہے۔۔۔’

وہ چپ ہو گیا لیکن اس کی آنکھوں میں سینکڑوں سوال تھے۔ میں باہر چلا گیا۔ وہ صفیہ سے اسی طرح کی باتیں کرنے لگا۔

کرفیو لمبا ہوتا چلا گیا۔ رات کی گشت جاری رہی۔ ہماری گھر سے سیف ہی جاتا رہا۔ کچھ دنوں بعد ایک دن اچانک سوتے میں سیف چیخنے لگا تھا۔ ہم سب گھبرا گئے لیکن یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ یہ سب اسے ڈرائے جانے کی وجہ سے ہے۔ ابا جان کو لڑکوں پر بہت غصہ آیا تھا اور انہوں نے محلے کے ایک  دو بزرگ نما لوگوں سے کہا بھی، لیکن اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ لڑکے اور وہ بھی محلے کے لڑکے کسی فن fun سے کیوں کر ہاتھ دھو لیتے؟

 

بات کہاں سے کہاں تک پہنچ چکی ہے اس کا اندازہ مجھے اس وقت تک نہ تھا جب تک ایک دن سیف نے بڑی سنجیدگی سے مجھ سے پوچھا، ‘بڑے بھائی، میں ہندو ہو جا؟’ سوال سن کر میں سناٹے میں آ گیا، لیکن جلد ہی سمجھ گیا کہ یہ رات میں ڈراؤنے قصے سنائے جانے کا نتیجہ ہے۔ مجھے غصہ آ گیا پھر سوچا پاگل پر غصہ کرنے سے اچھا ہے غصہ پی جا اور اسے سمجھانے کی کوشش کروں۔ میں نے کہا، ‘کیوں تم ہندو کیوں ہونا چاہتے ہو؟’

‘اس کا مطلب ہے میں نہ بچ پاؤں گا،’ میں نے کہا۔ ‘تو آپ بھی ہو جایئے۔ ۔ ۔ ‘، وہ بولا۔ ‘اور تمہارے تایا ابا، میں نے اپنے والد اور اس کے چچا کی بات کی۔ ‘نہیں۔ ۔۔ انہیں۔ ۔ ۔ ‘ وہ کچھ سوچنے لگا۔ ابا جان کی سفید اور لمبی داڑھی میں وہ کہیں پھنس گیا ہوگا۔

 

‘دیکھا یہ سب لڑکوں کی خرافات ہے جو تمہیں بہکاتے ہیں۔ یہ جو تمہیں بتاتے ہیں سب جھوٹ ہے۔ ارے مہیش کو نہیں جانتے؟ "وہ جو اسکوٹر پر آتے ہیں۔ ۔ ۔ ‘ وہ خوش ہو گیا۔ ‘ہاں  ہاں وہی۔”وہ ہندو ہے؟’

‘ہاں ہندو ہے۔’ میں نے کہا اور اس کے چہرے پر پہلے تو مایوسی کی ہلکی  سی پرچھائیں ابھری پھر وہ خاموش ہو گیا۔ ‘یہ سب غنڈے بدمعاشوں کے کام ہیں۔ ۔ ۔ نہ ہندو لڑتے ہیں اور نہ مسلمان۔ ۔ ۔ غنڈے لڑتے ہیں، سمجھے؟ ‘

فساد شیطان کی آنت کی طرح کھنچتا چلا گیا اور محلے میں لوگ تنگ آنے لگے  یار شہر میں فساد کرنے والے ہندو اور مسلمان بدمعاشوں کو ملا بھی دیا جائے تو کتنے ہوں گے۔ ۔ ۔ مزید سے مزید ایک ہزار، چلو دو ہزار مان لو تو بھائی دو ہزار آدمی لاکھوں لوگوں کی زندگی کو جہنم بنائے ہوئے ہیں اور ہم لوگ گھروں میں دبکے بیٹھے ہیں۔ یہ تو وہی ہوا کہ دس ہزار انگریز کروڑوں ہندوستانیوں  پر حکومت کیا کرتے تھے اور سارا نظام ان کے تحت چلتا رہتا تھا اور پھر ان فسادات سے فائدہ کس کا ہے، فائدہ؟ اجی حاجی عبدالکریم کو فائدہ ہے جو چگی کا الیکشن لڑے گا اور اسے مسلمان ووٹ ملیں گے۔ پنڈت جوگیشور کو ہے جنہیں ہندوؤں کے ووٹ ملیں گے، اب تو ہم کیا ہیں؟ تم ووٹر ہو، ہندو ووٹر، مسلمان ووٹر، ہریجن ووٹر، کایستھ ووٹر، سنی ووٹر، شا ووٹر، یہی سب ہوتا رہے گا اس ملک میں؟ ہاں کیوں نہیں؟ جہاں لوگ جاہل ہیں، جہاں کرائے کے قاتل مل جاتے ہیں، جہاں پالی ٹیشین اپنی گدیوں  کے لئے فساد کرتے ہیں وہاں اور کیا ہو سکتا ہے؟ یار کیا ہم لوگوں کو پڑھا نہیں سکتے؟ سمجھا نہیں سکتے؟ ہا  ہا  ہا  ہا تم کون ہوتے ہو پڑھانے والے، حکومت پڑھائے گی، اگر چاہے گی تو حکومت نہ چاہے تو اس ملک میں کچھ نہیں ہو سکتا؟ ہاں۔ ۔ ۔ انگریزوں نے ہمیں یہی سکھایا ہے۔ ۔ ۔ ہم اس کے عادی ہیں۔ ۔ ۔ چلو چھوڑو، تو فساد ہوتے رہیں گے؟ ہاں، ہوتے رہیں گے؟ مان لو اس ملک کے سارے مسلمان ہندو ہو جائیں؟ لاحول و لا قوت ۔۔یہ کیا کہہ رہے ہو۔ اچھا مان لو اس ملک کے سارے ہندو مسلمان ہو جائیں؟ سبھان اللہ۔ ۔ ۔ واہ واہ کیا بات کہی ہے۔ ۔ تو کیا فساد رک جائیں گے؟ یہ تو سوچنے کی بات ہے۔ ۔ ۔ پاکستان میں حکمران ہی  ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہیں۔ ۔ ۔ بہار میں برہمن ہریجن کے سائے سے گریز کرتے ہیں۔ ۔ ۔ تو کیا یار آدمی یا کہو انسان سالا ہے ہی ایسا کہ جو لڑتے ہی رہنا چاہتا ہے؟ ویسے دیکھو تو جمن اور میکو میں بڑی دوستی ہے۔ تو یار کیوں نہ ہم میکو اور جمن بن جائیں۔ ۔ ۔ واہ کیا بات کہہ دی، ملتب۔ ۔ ۔ مطلب۔ ۔ ۔ مطلب۔ ۔ ۔

 

میں صبح  صبح ریڈیو کے کان امیٹھ رہا تھا صفیہ جھاڑو دے رہی تھی کہ بادشاہ کا چھوٹا بھائی اکرم بھاگتا ہوا آیا اور پھلتی ہوئی سانس کو روکنے کی ناکام کوشش کرتا ہوا بولا، ‘سیف کو پی اے سی والے مار رہے ہیں۔ ‘

‘کیا؟ کیا کہہ رہے ہو؟ "سیف کو پی اے سی والے مار رہے ہیں’، وہ ٹھہر کر بولا۔ ‘کیوں مار رہے ہیں؟ کیا بات ہے؟ "پتہ نہیں۔ ۔ ۔ نکڑ پر۔ ۔ ۔ "وہیں جہاں پی اے سی کی چوکی ہے؟”ہاں وہیں۔’

‘لیکن کیوں۔ ۔ ۔ ‘ مجھے معلوم تھا کہ آٹھ بجے سے دس بجے تک کرفیو کھلنے لگا ہے اور سیف کو آٹھ بجے کے قریب اماں نے دودھ لینے بھیجا تھا۔ سیف جیسے پگلے تک کو معلوم تھا کہ اسے جلد سے جلد واپس آنا ہے اور اب دو دس بجے گئے تھے۔

‘چلو، میں چلتا ہوں’ ریڈیو سے آتی بےڈھنگی آواز کی فکر کئے بغیر میں تیزی سے باہر نکلا۔ پاگل کو کیوں مار رہے ہیں پی اے سی والے، اس نے کون  سا ایسا جرم کیا ہے؟ وہ کر ہی کیا سکتا ہے؟ ۔

٭٭٭

 

 

زخم

 

بدلتے ہوئے موسم کی طرح دارالحکومت میں فرقہ وارانہ فسادات کا بھی موسم آتا ہے۔ فرق اتنا ہے کہ موسم کے آنے  جانے کے بارے میں جیسے واضح اندازہ لگائے جا سکے ہیں ویسے اندازہ سامپرادایک فسادات کے معاملے میں نہیں لگتے۔ پھر بھی شہر یہ ماننے لگا ہے کہ فرقہ وارانہ فساد بھی موسم کی طرح یقینی طور پر آتا ہے۔ بات اتنی آسان  عام بنا دی گئی ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات کی خبریں لوگ اسی طرح سناتے ہیں جیسے ‘گرمی بہت بڑھ گئی ہے’ یا ‘اب پانی بہت برسا’ جیسی خبریں سنی جاتی ہیں۔ فسادات کی خبر سن کر بس اتنا ہی ہوتا ہے کہ شہر کا ایک حصہ ‘کرپھیوگرست’ ہو جاتا ہے۔ لوگ راستے بدل لیتے ہیں۔ اس تھوڑی  سی تکلیف پر من  ہی دل کبھی کھیج جاتے ہیں، اسی طرح جیسے بہتر گرمی پر یا مسلسل پانی برسنے پر کوفت ہوتی ہے۔ شہر کے سارے کام یعنی صنعت، تجارت، تعلیم، سرکاری کام  کاج سب عام طریقے سے چلتا رہتا ہے۔

کابینہ کی ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ پارلیمنٹ کے اجلاس ہوتے ہیں۔ مخالف جماعتوں کے دھرنے ہوتے ہیں۔ پردھان منتری غیر ملک کے  سفر پر جاتے ہیں، وزیر  افتتاح  کرتے ہیں، عاشق محبت کرتے ہیں، چور چوری کرتے ہیں۔ اخبار والے بھی فسادات کی خبروں میں کوئی نیا یا چٹپٹا پن نہیں پاتے اور اکثر حاشیہ پر ہی چھاپ دیتے ہیں۔ ہاں، مرنے والوں کی تعداد اگر بڑھ جاتی ہے تو موٹے ٹائپ میں خبر چھپتی ہیں، نہیں تو عام۔

یہ بھی ایک صحت مند روایت  سی بن گئی ہے کہ فرقہ وارانہ فساد ہو جانے پر شہر میں ‘فرقہ پرستی مخالف کانفرنس’ ہوتا ہے۔ کانفرنس کے منتظمین اور حامیوں کے درمیان اکثر اس بات پر بحث ہو جاتی ہے کہ فساد کے فوراً بعد نہ کرنے کانفرنس اتنی دیر میں کیوں کیا گیا۔ اس الزام کا جواب منتظمین کے پاس ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جمہوری طریقے سے کام کرنے میں وقت لگ جاتا ہے۔ جبکہ غیر جمہوری طریقے سے کئے جانے والے کام پھٹ سے ہو جاتے ہیں  جیسے فساد۔ لیکن فسادات کے خلاف کانفرنس کرنے میں وقت لگتا ہے۔ کیونکہ کسی بائیں بازو کی پارٹی کی صوبائی کمیٹی کانفرنس کرنے کا مشورہ قومی کمیٹی کو دیتی ہے۔ قومی کمیٹی ذیلی کمیٹی بنا دیتی ہے تاکہ کانفرنس کے مختلف پہلوؤں پر غور کیا جا سکے۔ مرکزی کمیٹی اپنے مشورہ دینے میں کچھ وقت لگاتی ہے۔ اس کے بعد اس کی سفارشات قومی کمیٹی میں جاتی ہیں۔ قومی کمیٹی میں ان پر بحث ہوتی ہے اور ایک نئی کمیٹی بنائی جاتی ہے جس کا اجلاس کے شکل کے مطابق کام کرنا ہوتا ہے۔

اگر رائے یہ بنتی ہے کہ فرقہ پرستی جیسے سنگین مسئلے پر ہونے والے اجلاس میں تمام بائیں بازو کی قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لایا جائے، تو دوسری جماعتوں سے بات چیت ہوتی ہے۔ دوسری جماعت بھی جمہوری طریقے سے اپنے ملوث ہونے کے بارے میں فیصلے کرتے ہیں۔ اس کے بعد یہ کوشش کی جاتی ہے کہ ‘فرقہ پرستی مخالف کانفرنس’ میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی بنانے کے لئے نامی ہندو، مسلمان، سکھ شہریوں کا ہونا بھی ضروری ہے۔ ان کے نام تمام جماعتیں جمہوری طریقے سے طے کرتی ہیں۔ اچھی بات ہے کہ شہر میں ایسے نامی ہندو مسلم، سکھ شہری ہیں جو اس کام کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ ان شہریوں کی ایک فہرست ہے، مثال کے طور پر بھارتی فضائیہ سے  سبکدوش ایک لیفٹینٹ جنرل ہیں، جو سکھ ہیں، دارالحکومت کی ایک اقلیتی یونیورسٹی کے نائب  وائس چانسلر ہیں اور خارجہ سروس سے  ریٹائرڈ ایک سفیر ہندو ہیں، اسی طرح کے کچھ اور نام بھی ہیں۔ یہ سب بھلے لوگ ہیں، سماج اور پریس میں ان کا بڑا احترام ہے۔ پڑھے  لکھے اور بڑے  بڑے عہدوں پر فائز یا سبک دوش۔ ان کے سیکولر ہونے میں کسی کو کوئی شک نہیں ہو سکتا۔ اور وہ ہمیشہ اس طرح کے فرقہ پرستی مخالف کانفرنس میں آنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔

ایک دن سو کر اٹھا اور حسبِ دستور آنکھیں ملتا ہوا اخبار اٹھانے بالکنی پر آیا تو ہیڈنگ تھی  ‘پرانی دلی میں فساد ہو گیا۔ تین مارے گئے۔ بیس زخمی۔ دس کی حالت نازک۔ پچاس لاکھ کی املاک تباہ ہو گئی۔ ‘پوری خبر پڑھی تو پتہ چلا کہ فساد قصاب پورے میں بھی ہوا ہے۔ قصاب پورے کا خیال آتے ہی مختار کا خیال آ گیا۔ وہ وہیں رہتا تھا۔ اپنے شہر کا تھا۔ سلائی کا کام کرتا تھا کناٹ پلیس کی دکان میں۔ اب سوال یہ تھا کہ مختار سے کیسے ‘کانٹیکٹ’ ہو۔ کوئی راستہ نہیں تھا؛ نہ فون، نہ کرفیو  پاس اور نہ کچھ اور۔

مختار اور میں، جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں، ایک ہی شہر کے ہیں۔ مختار درجہ آٹھ تک اسلامیہ سکول میں پڑھا اور پھر اپنے پشتینی سلائی کے دھندے میں لگ گیا تھا۔ میں اس سے بعد میں ملا تھا، اس وقت جب میں ہندی میں ایم اے کرنے کے بعد بے کاری اور نوکری کی تلاش سے تنگ آ کر اپنے شہر میں رہنے لگا تھا۔ وہاں میرے ایک رشتہ دار، جنہیں ہم سب ہتھیار کہا کرتے تھے، آوارگی کرتے تھے۔ آوارگی کا مطلب کوئی غلط نہ لیجئے گا، مطلب کہ یہ بے کار تھے۔ انٹر میں کئی بار فیل ہو چکے تھے اور ان کے شہر میں اچھے تعلقات تھے۔ تو انہوں نے میری ملاقات مختار سے کرائی تھی۔ پہلی، دوسری اور تیسری ملاقات میں وہ کچھ نہیں بولا تھا۔ شہر کی اہم سڑک پر سلائی کی ایک دکان میں وہ کام کرتا تھا اور شام کو ہم لوگ اس کی دکان پر بیٹھا کرتے تھے۔ دکان کا ایک مالک وفاتی بھائی مال دار اور بال  بچے دار آدمی تھا۔ وہ شام کے سات بجتے ہیں دکان کی چابی مختار کو سونپ کر اور بھینسے کا گوشت لے کر گھر چلا جاتا تھا۔ اس کے بعد وہ دکان مختار کی ہوتی تھی۔ ایک دن اچانک حیدر ہتھیار نے یہ راز کھول دیا کہ مختار بھی ‘برادر’ ہے۔ ‘برادر’ کا مطلب بھائی ہوتا ہے، لیکن ہماری زبان میں ‘برادر’ کا مطلب تھا جو آدمی شراب پیتا ہو۔

شروع  شروع میں مختار کا مجھ سے جو ڈر تھا وہ دو  چار بار ساتھ پینے سے ختم ہو گیا تھا۔ اور مجھے یہ جان کر بڑی حیرت ہوئی تھی کہ وہ اپنے سماج اور اس کی مسائل میں دلچسپی رکھتا ہے۔ وہ اردو کا اخبار پڑھتا تھا۔ خبریں ہی نہیں، خبروں کا تجزیہ بھی کرتا تھا اور اس کا خاص موضوع ہندو  مسلم فرقہ پرستی تھی۔ جب میں اس سے ملا تو، اگر بہت سیدھی زبان سے کہیں تو وہ پکا مسلمان فرقہ پرست تھا۔ شراب پی کر جب وہ کھلتا تھا تو شیر کی طرح دہاڑنے لگتا تھا۔ اس کا چہرہ لال ہو جاتا تھا۔ وہ ہاتھ ہلا  ہلا کر اتنی کڑوی باتیں کرتا تھا کہ میرا جیسا متحمل مزاج نہ ہوتا تو کب کی لڑائی ہو گئی ہوتی۔ لیکن میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں رہنے اور وہاں ‘سٹوڈنٹ فیڈریشن’ کی سیاست کرنے کی وجہ سے پک چکا تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ جذباتی اور غصہ کا جواب صرف محبت اور دلیل سے دیا جا سکتا ہے۔ وہ محمد علی جناح کا مرید تھا۔ عقیدت سے ان کا نام نہیں لیتا تھا۔ بلکہ انہیں ‘قائد اعظم’ کہتا تھا۔ اسے مسلم لیگ سے بے پناہ ہمدردی تھی اور وہ دو  قومی نظرئے کو بالکل صحیح مانتا تھا۔ پاکستان کے اسلامی ملک ہونے پر فخر کرتا تھا اور پاکستان کو بہترین مانتا تھا۔

مجھے یاد ہے کہ ایک دن اس کی دکان میں میں، حیدر ہتھیار اور اوما شنکر بیٹھے تھے۔ شام ہو چکی تھی۔ دکان کے مالک وفاتی بھائی جا چکے تھے۔ کڑکڑاتے جاڑوں کے دن تھے۔ بجلی چلی گئی تھی۔ دکان میں ایک لیمپ جل رہا تھا، اس کی روشنی میں مختار مشین کی تیزی سے ایک پینٹ سی رہا تھا۔ ارجنٹ کام تھا۔ لیمپ کی روشنی کی وجہ سے سامنے والی دیوار پر اس کے سر کی پرچھائیں ایک بڑے سائز میں ہل رہی تھی۔ مشین چلنے کی آواز سے پوری دکان تھرا رہی تھی۔ ہم تینوں مختار کے کام ختم ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔ پروگرام یہ تھا کہ اس کے بعد ‘چسکی’ لگائی جائے گی۔ آدھے گھنٹے بعد کام ختم ہو گیا اور ‘چائے کی پیالیاں’ لے کر ہم بیٹھے گئے۔ بات چیت گھوم  گھوم کر پاکستان پر آ گئی۔ جوحسب  دستور مختار پاکستان کی تعریف کرنے لگا۔ ‘قائد اعظم’ کی عقلمندی کے گیت گانے، نغمے لگا۔ اوما شنکر سے اس کا کوئی پردہ نہ تھا، کیونکہ دونوں ایک  دوسرے کو اچھی طرح جانتے تھے۔ کچھ دیر بعد موقع دیکھ کر میں نے کہا،” یہ بتاؤ مختار، جناح نے پاکستان کیوں بنایا؟”

” اس لئے کہ مسلمان وہاں رہیں گے”، وہ بولا۔ ” مسلمان تو یہاں بھی رہتے ہیں۔”

” لیکن وہ اسلامی ملک ہے۔”

” تم پاکستان تو گئے ہو؟”

” ہاں گیا ہوں۔”

”وہاں اور یہاں کیا فرق ہے؟ ”

”بہت بڑا فرق ہے۔”

” کیا فرق ہے؟”

” وہ اسلامی ملک ہے۔”

” ٹھیک ہے، لیکن یہ بتاؤ کہ وہاں  غریبوں اور امیروں میں ویسا ہی فرق نہیں ہے جیسا یہاں ہے؛ کیا وہاں رشوت نہیں چلتی؛ کیا وہاں بھائی  پروری نہیں ہے؛ کیا وہاں پنجابی  سندھی اور مہاجر ‘فیلنگ’ نہیں ہے ! کیا پولیس لوگوں کو پھنساکر پیسہ نہیں وصولتی؟” مختار چپ ہو گیا۔ اوما شنکر بولے، ”ہاں، بتاؤ ۔۔ اب چپ کاہے ہو گئے؟”

مختار نے کہا،” ہاں، یہ سب تو وہاں بھی ہیں لیکن ہے تو اسلامی ملک۔”

” یار، وہاں ڈکٹیٹر شپ ہے، اسلام تو بادشاہت تک کے خلاف ہے، تو وہ کیسا اسلامی ملک ہے؟ ”

” اماں  چھوڑو ۔۔۔ کیا عورتیں وہاں پردہ کرتی ہیں؟ بینک تو وہاں بھی سود لیتے دیتے ہوں گے ۔۔۔ پھر کاہے کا اسلامی ملک۔” اوما شنکر نے کہا۔

” بھیا، اسلام ‘مساوات’ سکھاتا ہے ۔۔۔ مطلب برابری، تم نے پاکستان میں برابری دیکھی؟” مختار تھوڑی دیر کے لئے چپ ہو گیا۔ پھر اچانک پھٹ پڑا،” اور یہاں کیا ہے مسلمانوں کے لئے؟ الہ آباد، علی گڑھ، میرٹھ، مراد آباد، دہلی بھیونڈی  کتنے نام گناؤ ۔۔۔ مسلمانوں کی جان اس طرح لی جاتی ہے جیسے کیڑے  مکوڑے ہوں۔”

” ہاں، تم ٹھیک کہتے ہو۔”

” میں کہتا ہوں یہ فساد کیوں ہوتے ہیں؟”

” بھائی میرے، فساد ہوتے نہیں، کرائے جاتے ہیں۔”

‘”کرائے جاتے ہیں؟”

” ہاں بھائی، اب تو بات جگ ظاہر ہے۔”

” کون کرتے ہیں؟ ”

” جنہیں اس سے فائدہ ہوتا ہے۔”

”کن لوگوں کو انہیں فائدہ ہوتا ہے؟”

” وہ لوگ جو مذہب کے نام پر ووٹ مانگتے ہیں۔ وہ لوگ جو مذہب کے نام پر نیتا گری کرتے ہیں۔”

”کیسے؟”

” دیکھو، ذرا صرف تصور کرو کہ ہندوستان میں ہندوؤں، مسلمانوں کے درمیان کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ کوئی بابری مسجد نہیں ہے۔ کوئی رام جنم بھومی  نہیں ہے۔ سب پیار سے رہتے ہیں، تو بھائی، ایسی حالت میں مسلم لیگ یا آر ایس ایس  کے لیڈروں کے پاس کون جائے گا؟ ان کا وجود ہی ختم ہو جائے گا۔ اس طرح سمجھ لو کہ شہر میں کوئی ڈاکٹر ہے جو صرف کان کا علاج کرتا ہے اور پورے شہر میں سب لوگوں کے کان ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ کسی کو کان میں کوئی تکلیف نہیں ہے، تو ڈاکٹر اپنا پیشہ ترک کرنا پڑے گا یا شہر چھوڑنا پڑے گا۔” وہ خاموش ہو گیا۔ شاید وہ اپنا جواب سوچ رہا تھا۔ میں نے پھر کہا،” اور فرقہ پرستی سے ان لوگوں کو بھی فائدہ ہوتا ہے جو اس ملک کی حکومت چلا رہے ہیں۔”

” کیسے؟”

” اگر تمہارے دو پڑوسی آپس میں لڑ رہے ہیں، ایک  دوسرے کے پکے دشمن ہیں، تو تمہیں ان دونوں سے کوئی خطرہ نہیں ہو سکتا ۔۔۔ اسی طرح ہندو اور مسلمان آپس میں ہی لڑتے رہیں تو حکومت سے کیا لڑیں گے؟ کیا کہیں گے کہ ہمارا یہ حق ہے، ہمارا وہ حق ہے اور تیسرا فائدہ ان لوگوں کو پہنچتا ہے جن کا کاروبار اس کی وجہ سے ترقی کرتا ہے۔ علی گڑھ میں فساد، بھیونڈی کے فساد اس مثالیں ہیں۔”

یہ تو شروعات تھی۔ دھیرے  دھیرے ایسا ہونے لگا کہ ہم لوگ جب بھی ملتے تھے، بات چیت انہی باتوں پر ہوتی۔ چائے یا ہوٹل ہو یا شہر کے باہر سڑک کے کنارے کوئی ویران  سی پلیا  بحث شروع ہو جایا کرتی تھی۔ بحث بھی عجب چیز ہے۔

٭٭٭٭

 

 

سرگم  کولا

 

 

جیسے کتوں کے لئے کارتک کا موسم ہوتا ہے ویسے ہی فن اور ثقافت کے لئے جاڑوں  کا موسم ہوتا ہے دلی میں، گوری چمڑی والے سیاح بھرے رہتے ہیں کھلکھلاتے، ابلتے، چہکتے، رجھاتے، لبالب ہماری ثقافت سے سب سے بڑے خریدار اور اسی لئے پارکھی۔ بڑے گھروں کی خواتین لپی  پتی کلینڈر آرٹ جس سے نفرت کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے، جاڑوں کی شامیں کسی آرٹ گیلری، نگارخانہ اور ڈرامہ دیکھنے میں گزارنا پسند کرتی ہیں۔ جاڑا فن اور ثقافت کا موسم ہے۔

 

سورج جلدی ڈوب جاتا ہے اور نرم ملائم گرم کپڑوں سے ٹکراتی تازگی دینے والی ہوا آرٹ گیلریوں اور آڈیٹوریموں کے آس پاس مہک جاتی ہے؟ ایسی خوشبو جو نامرد کو مرد بنا دے اور مرد کو نامرد۔ لوگ فن اور ثقافت میں ڈوب جاتے ہیں۔ فن اور ثقافت لوگوں میں ڈوب جاتی ہے۔

میوزک کانفرنس کے گیٹ پر چار سپاہی کھڑے تھے۔ اوبے، اکتائے ڈنڈے لئے۔ ان کے پیچھے دو انسپکٹر کھڑے تھے، گردن اکڑائے کیونکہ ان کے سامنے چار سپاہی کھڑے تھے۔ پھر دو سوٹدھری تھے۔ سوٹدھریو کے سوٹ ایک سے تھے۔ بنوائے گئے ہوں گے۔ سوٹدھری کافی ملتی  جلتی شکل کے تھے۔ کافی مشکل سے تلاش کئے گئے ہوں گے۔

گیٹ کے سامنے بجری پڑا راستہ تھا۔ بجری بھی ڈالی گئی ہوگی۔ پھلوں کے گملے زمین کے اندر گاڑ دیئے گئے تھے۔ نہ جاننے والوں کو اچنبھا ہوتا تھا کہ اوسر میں پھل اگ آئے ہیں۔ اوپر کاغذ کے سفید پھلوں کی چادر  سی تانی گئی تھی جو کچھ سال پہلے تک  کاغذ کے پھلوں کی نہیں، اصل پھلوں کی، پیروں، فقیروں  کی مزاروں  پر تانی جاتی تھی۔ پھر شادی بیاہ میں لگائی جانے لگی۔ دونوں طرف غلاف چڑھے بانس کے کھمبے تھے۔ ان غلاف چڑھے بانسوں پر ٹیوب لائیٹیں لگی تھیں۔ اسی راستے سے اندر جانے والے جا رہے تھے۔ داس گپتا کو گیٹ کے بالکل سامنے کھڑے ہونے پر صرف اتنا ہی دکھائی دے رہا تھا۔ جانے والے دکھائی دے رہے تھے، جو اونچے  اونچے جوتوں پر اپنے قد کو اور اونچا دکھانے کی ناکام کوشش میں اس طرح لاپرواہی سے ٹہلتے اندر جا رہے تھے جیسے پورا انعقاد انہی کے لئے کیا گیا ہو۔ ادھیڑ عمر کی عورتیں تھیں جن کی صورتیں ولایتی کاسمیٹکس نے  عجیب  و غریب بنا دی تھیں۔ لال ساڑھی، لال آئی شیڈو، نیلی ساڑھی، نیلی آئی شیڈو، کالی کے ساتھ سیاہ۔ ۔ پیلی کے ساتھ پیلا۔ جاپانی ساڑیوں کے پلو کو لپیٹنے کی کوشش میں اور اپنے ادھ کھلے سینے دکھاتی، کشمیری شالوں کو لٹکنے سے بچاتی یا صرف سامنے دیکھتی۔ ۔ ۔ یا جینس اور جیکٹ میں نے کروٹ  کھٹ کھٹ  نے کروٹ۔ امیری کی یہی نشانیاں ہیں۔ داس گپتا نے من  ہی  من سوچا۔ گمبھیر، بھیانک طور پر سنجیدہ چہرے، خود اطمینان سے تمتمائے۔ ۔ ۔ فخر سے روشن ، دولت، شہرت، عزت سے مطمئن۔ ۔ ۔ کسی پریشانی سے آزاد۔ ‘سالا کون آدمی اس کنٹری میں اتنا کانفیڈینس ڈزرو کرتا ہے؟’ داس گپتا اپنی ڈزرو کرنے والی فلاسفی بدبدانے لگے۔ سامنے سے بھیڑ گزرتی رہی۔ ہپپی لڑکیاں۔ ۔ ۔ عجیب  عجیب طرح کے بال۔ ۔ ۔ گھسی ہوئی جینس۔ ۔ ۔ مرد مار لڑکیاں۔ ان کو سونگھتے ہوئے کتے۔ ۔ کتے  ہی  کتے۔ ۔ ۔ ڈاگی۔ ۔ ۔ ڈاگیز۔ ۔ ۔ سویٹ ڈاگیز۔

پروگرام شروع ہو گیا۔ بھیم سین جوشی کا گانا شروع ہو چکا تھا، لیکن داس گپتا کا کوئی جگاڑ نہیں لگ پایا تھا، بغیر ٹکٹ اندر جانے کا جگاڑ۔

گیٹ، بجری پڑے راستے، سوٹ پہنے سواگت کرنے والوں ، پولیس انسپیکٹروں اور سپاہیوں سے دور باہر سڑک پر دائیں طرف ایک گھنے درخت کے نیچے عجب سنگھ اپنا پان  سگریٹ کا کھوکھا رکھے بیٹھا تھا۔ تعجب کی بات ہے، مگر سچ ہے کہ اتنے بڑے شہر میں داس گپتا اور عجب سنگھہ ایک  دوسرے کو جانتے ہیں۔ داس گپتا گیٹ کے سامنے سے ہٹ کر عجب سنگھ کے کھوکھے کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے۔ سردی بڑھ گئی تھی اور عجب سنگھ نے تسلے میں آگ سلگا رکھی تھی۔

‘دس بیڑی۔’

‘تیس ہو گئی دادا۔’

‘ہاں، تیس ہو گیا۔ ہم کب بولا تیس نہیں ہوا ۔۔ ۔ ہم تم کو پیسہ دے گا۔ ‘ داس گپتا نے بیڑی لے لی۔ اے بیڑی تسلے میں جلتی آگ سے سلگائی۔ اور خوب لمبا کش کھینچا۔

 

‘جگاڑ نہیں لگا دادا؟’

‘لگے گا، لگے گا۔’

‘اب گھر جاؤ۔ گیارہ بجنے کا ہے۔ ‘

‘کیوں شالا گھر جائے۔ ہم کو بھیم سین جوشی کو سننے کا ہے۔ ۔ ۔۔ ‘

‘دو سادے بنارسی۔’

استاد بھیم سین جوشی کی آواز کا ایک ٹکڑا باہر آ گیا۔

‘ولس۔”کنگ سائز، یہ نہیں۔’

داس گپتا کھوکھے کے پاس سے ہٹ آئے۔ اب آواز صاف سنائی دے گی ۔۔ ۔ لیکن آواز بند ہو گئی ۔۔ ۔ ۔ ایک آئیڈیا آیا۔ پنڈال کے اندر پیچھے سے گھسا جائے۔ بیڑی کے طویل  لمبے کش لگاتے وہ گھوم کر پنڈال کے پیچھے پہنچ گئے۔ اندھیرا۔ درخت۔ وہ لپکتے ہوئے آگے بڑھے۔ ٹارچ کی روشنی۔

‘کون ہے بے؟’ پولیس کے سپاہی کے علاوہ ایسے کون بولے گا۔ داس گپتا جلدی  جلدی پینٹ کے بٹن کھولنے لگے ‘پیشاب کرنا ہے جی پیشاب۔’ ٹارچ کی روشنی بجھ گئی۔ داس گپتا کا جی چاہا ان سپاہیوں پر موت دیں۔ سالے یہاں بھی ڈیوٹی بجا رہے ہیں ۔۔ ۔ ۔ پیشاب کی دھار سپاہیوں پر پڑی۔ پنڈال پر گری۔ چوتئے نکل  نکل کر بھاگنے لگے ۔۔ ۔ ۔ داس گپتا ہنسنے لگے۔

وہ لوٹ کر پھر کھوکھے کے پاس آ گئے۔ پاس ہی میں ایک چھوٹے  سے پنڈال کے نیچے کینٹین بنائی گئی تھی۔ دو میزوں کا کاؤنٹر۔ کافی پلانٹ۔ اوپر دو  سو واٹ کا بلب۔ ہاٹ ڈاگ، ہیمبرگر، پاپ کارن، کافی کی پیالیاں۔ داس گپتا نے کان پھر اندر سے آنے والی آواز کی طرف لگا دئیے۔ ۔ سب اندر والوں کے لئے ہے۔ جو سالا میوزک سننے کو باہر کھڑا ہے، چوتیا ہے۔ لاڈسپیکر بھی سالے نے ایسا لگایا ہے کہ باہر تک آواز نہیں آتا۔ اور اندر چوتئے بھرے پڑے ہیں۔ بھیم سین جوشی کو سمجھتے ہیں؟ استاد کی تانیں انجوائے کر سکتے ہیں؟ ان سے اگر یہ کہہ دو کہ استاد جوشی تانوں میں نچلے سپتک سے درمیانی اور درمیانی ​​سپتک سے تار سپتک تک سروں  کا پل  سا بنا دیتے ہیں، تو یہ سالے گھبرا کر بھاگ جائیں گے۔ ۔ یہ بات بھیم سین جوشی کو نہیں معلوم ہوگا؟ ہوگا، ضرور ہوگا۔ سالے موسیقی سننے آتے ہیں۔ ابھی دس منٹ میں اٹھ کر چلے جائیں گے۔ ۔ ۔ ڈکار کر کھائیں گے اور گدھے کی طرح پڑ کر سو جائیں گے۔

‘دادا سردی ہے،’ عجب سنگھ کی انگلیاں پان لگاتے  لگاتے اینٹھ رہی تھیں۔ ‘شردی کیوں نہیں ہوگا۔ دشمبر ہے، دشمبر۔ "اینٹا لے لو دادا، اینٹا۔’ عجب سنگھ نے داس گپتا کے پیچھے ایک اینٹ  رکھ دیی اور وہ اس پر بیٹھ گئے۔

جیسے  جیسے سناٹا بڑھ رہا تھا اندر سے آواز کچھ صاف آ رہی تھی۔ استاد بڑا خیال شروع کر رہے ہیں۔ داس گپتا اینٹوں پر سنبھل کر بیٹھ گئے ۔۔ ۔ ۔ قدم لگانے دے۔ ۔ ۔ گھ  گھ۔ ۔ ۔ دھگے ترکٹ تو نا ایک تتا دھگے۔ ۔ ۔ ترکٹ دھی نا۔ ۔ یہ طبلے پر سنگت کون  کر رہا ہے؟ داس گپتا نے اپنے  آپ سے پوچھا۔

‘یہ طبلے پر کون ہے؟’ انہوں نے عجب سنگھ سے پوچھا۔ ‘کیا معلوم کون ہے دادا۔’ کتنی وقار اور سنجیدگی ہے۔ اندر تک آواز اترتی چلی جاتی ہے ۔۔ ۔ ۔ تو نا ایک تتا۔ ۔ ۔۔

‘تمہارے پاس کیمپا  ہائے؟’ تین لڑکیاں تھیں اور چار لڑکے۔ دو لڑکیوں نے جینز پہن رکھی تھیں اور ان کے بال اتنے لمبے تھے کہ کمر پر لٹک رہے تھے۔ تیسری کے بال اتنے چھوٹے تھے کہ کانوں تک سے دور تھے۔ ایک لڑکے نے چمڑے کا کوٹ پہن رکھا تھا اور باقی دو آسامی جیکٹ پہنے تھے۔ تیسرے نے ایک سیاہ کمبل لپیٹ رکھا تھا۔ ایک کی پینٹ اتنی تنگ تھی کہ اس کی پتلی  پتلی ٹانگیں پھیلی ہوئی اور عجیب  سی لگ رہی تھیں۔ لمبے بالوں والی لڑکیوں میں سے ایک مسلسل اپنے بال پیچھے کی جا رہی تھی، جبکہ اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ تیسری لڑکی نے اپنی ناک کی کیل پر ہاتھ پھیرا۔

‘تمہارے پاس کیمپا  ہائے؟’ لمبی اور پتلی ٹانگوں والے لڑکے نے کینٹین کے بیرے سے پوچھا۔ اس کا اکسینٹ بالکل انگریزی تھا۔ وہ ‘ت’کو’ ٹ’ اور ‘ہا’کو’ا ے’ کے ساتھ ملا کر بول رہا تھا۔ ‘اے’کو کچھ زیادہ لمبا کھینچ رہا تھا۔

‘نہیں جی ابھی ختم ہو گیا۔ ۔ ۔ "او ہاؤ سلی،’ چھوٹے بالوں والی لڑکی ٹھنکی۔ ‘ہاو سٹوپڈ کینٹین دے ہیو۔”وی مسٹ کمپلین۔”لیٹس ہیو کافی سویٹیز،’ لمبی ٹانگوں والے نے ادا سے کہا۔ ‘بٹ آئی کانٹ ہیو کافی ہیر،’ جو لڑکی اپنی ناک کی کیل چھوئے جا رہی تھی اور شاید ان تینوں میں سب سے زیادہ خوبصورت تھی، بولی۔

‘وائے مائی ڈیر،’ لمبی ٹانگوں والا اس کے سامنے کچھ جھکتا ہوا بولا اور وہ بات باقی دو لڑکیوں کو کچھ بری لگی۔ ‘آئی آلویز ہیو کافی ان مائی ہاؤس  ان اوبرایز۔’ لیٹس گو ٹ دی اوبیرائے دین،’ لمبی ٹانگوں والا نعرہ لگانے کے سے انداز میں چیخا۔

‘سر۔ ۔ ۔ سر کیمپا آ گیا، ‘کینٹین کے بیرے نے سامنے اشارہ کیا۔ ایک مزدور اپنے سر پر کیمپا کا کریٹ رکھے چلا آ رہا تھا۔ ‘او، کیمپا ہیز کم،’ دوسری دو لڑکیوں نے کورس جیسا گایا۔ اندر سے بھیم سین جوشی کی آواز کا ٹکڑا باہر آ گیا۔

‘او کیمپا SSSSہیز کم،’ سب سر میں گانے لگے، ‘کے اے اے اے ےم  پا SSSS۔ ۔ ۔ ۔ پار کرو ارج سنو او۔ ۔ ۔ او۔ ۔ ۔ پا SSSS۔ ۔ ۔ کےمپا SSSپار کرو۔ ۔ ۔ پا SSSSرہی۔ ۔ ۔ کےمپا SSSS۔ ۔ ۔ "بٹ نا آئی واٹ ٹ ہیو کافی ان اوبیرائے،’ خوبصورت چہرے والی لڑکی ٹھنکی۔ ‘بٹ وی کیم ہیر ٹو لسن بھیم سین جوشی۔’

‘او، ڈونٹ بی سلی۔ ۔ ۔ ہی ول سنگ فار دی ہول نائٹ۔ ۔ ۔ ہیو کافی ان اوبیرائے دین وی کین کم بیک۔ ۔ ۔ اور وی کین ہیو سلیپ اینڈ کم بیک۔ ۔ ۔ ‘ لمبی ٹانگوں والا چابیوں کا گچھا ہلاتا آگے بڑھا۔ ۔ ۔ بھیم سین جوشی کی دردناک آواز باہر تک آنے لگی تھی۔ ۔ ۔ التجا کی، دکھوں اور تکلیفوں سے بھری حمد۔ ۔ ۔ ارج سنو SSSS۔ ۔ ۔ ۔ محمد SSSS۔ ۔ ۔ کھچاک۔ ۔ ۔ کھچاک۔ ۔ ۔ کار کے دروازے ایک ساتھ بند ہوئے اور کرررر کررررر کررر۔ ۔ ۔ بھرر SSSSبھرر SSSS۔ ۔ ۔۔ ‘

 

بارہ بج چکے تھے۔ سڑک پر سناٹا تھا۔ سڑک کے کناروں پر دور  تک موٹروں کی لائنز تھیں۔ لوگ باہر نکلنے لگے تھے۔ زیادہ تر ادھیڑ عمر اور سنجیدہ چہرے والے  اکتائے اور  موٹی عورتیں۔ ۔ ۔ کمر پر لٹکتا ہوا گوشت۔ ۔ ۔ جمائیاں  آ رہی ہیں۔ سالے، نیند آنے لگی۔ ۔ ۔ ٹکٹ برباد کر دیا۔ ارے استاد تو دو بجے کے بعد موڈ میں آئیں گے۔ بس ٹکٹ لیا۔ ۔ ۔ منگوا لیا ڈرائیور سے۔ گھنٹے  دو گھنٹے بیٹھے۔ پبلک رلیشن۔ ۔ یہ ٹکٹ ہی نہیں ڈزرو کرتے۔ ۔ ۔ پیسہ ویسٹ کر دیا۔ ۔ ۔ استاد کو بھی ویسٹ کر دیا۔ ۔ ۔ ایسی ردی آڈئینس۔ جو لوگ جا رہے ہیں ان کی جگہ خالی۔ ۔ ۔ اس میں شالا ہم کو نہیں بیٹھا دیتا۔ ۔ ۔ بولو، پیشا تو تم کو مکمل مل گیا ہے۔ اب کیوں نہیں بیٹھائے گا۔

 

داس گپتا کو سردی لگنے لگی اور انہوں نے ایرفورس کے پرانے اوورسائز کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈال دئے۔ عجب سنگھ کچھ خشک چیز اٹھا لایا۔ تسلے کی آگ دہک اٹھی ۔۔ ۔ ۔ یہ سالا نکل رہا ہے ‘آرٹ سینٹر’کا ڈائریکٹر۔ پینٹنگ فروخت  فروخت کر کے کوٹھیاں کھڑی کر لیں۔ اب سینیٹری فٹنگ کا کاروبار ڈال رکھا ہے۔ یہی سالے آرٹ کلچر کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کو پبلک رلیشن کا کام سب سے اچھا آتا ہے۔ پارٹیاں دیتے ہیں۔ ایک ہاتھ سے لگاتے ہیں، دوسرے سے کماتے ہیں۔ اپنی وائف کے نام پر انٹیریر ڈیکوریشن کا ٹھیکہ لیتا ہے۔ مت سے کام کرتا ہے۔ اسے پکڑا دیتا ہے ہزار دو ہزار۔ ۔  لڑکی سپلائی کرنے سے ووٹ خریدنے تک کے دھندے جانتا ہے۔ ۔ ۔ دیکھو میوزک کانفرنس کی آرگنائزر کیسے اس کی کار کا دروازہ کھول رہی ہے۔ ۔ ۔ بروشر میں دیا ہو گا ایک ہزار کا اشتہار۔ جیسے سور گو ٗپر چلتا ہے اور اسے کھا بھی جاتا ہے وہی یہ آرٹ  کلچر کے ساتھ کرتے ہیں۔ فیکٹری نہ ڈالی ‘فن سینٹر’کھول لیا ۔۔ ۔ ۔ غیر ملکی کار کا دروازہ مہذب آواز کے ساتھ بند ہو گیا۔ کسم گپتا۔ ۔ ۔ سالی نہ مس ہے، نہ مسیز ہے۔ ۔ ۔ داس گپتا سوچنے لگے۔ کیوں نہ اس سے بات کی جائے۔ وہ تیزی سے گیٹ کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اس سے انگریزی ہی میں بات کی جائے۔

‘کین یو پلیز۔ ۔ ۔ ‘

اس نے بات پوری نہیں سنی۔ مطلب سمجھ گئی۔ گدھے اچکائے۔ ‘نو آئی ایم ساری۔ ۔ ۔ وی ہیو سپینٹ تھرٹی تھاؤزینڈ ٹو ارنج دس۔ ۔ ۔ ‘ آگے بڑھتی چلی گئی۔ تھرٹی تھاؤزینڈ، ففٹی تھاؤزینڈ، ون لیکھ۔ ۔ ۔ فائدے، منافعے کے علاوہ وہ کچھ سوچ ہی نہیں سکتی۔ وہ آ کر اینٹ پر بیٹھ گئے۔ ‘ولس۔”میٹھا پان۔”نوے نمبر ڈال، نوے۔ ۔ ۔ ‘

‘او ہاؤ مین یو آر۔’ عورت نما لڑکی کو کمسن لڑکا اپنا ہیمبرگر نہیں دے رہا تھا۔ عورت نما لڑکی نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور پھر کمسن لڑکے نے اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا۔ ان کے ساتھ کی دوسری دو لڑکیاں ہنسے جا رہی تھیں۔ ‘مین،’ لڑکی ادا سے بولی۔

مین؟ اس کا مطلب تو ذلیل ہوتا ہے۔ لیکن یہ سالے ایسے بولتے ہیں جیسے سویٹ۔ اور سویٹ کا مطلب مین ہوگا۔

کمسن لڑکا اور عورت نما لڑکی ایک ہی ہیمبرگر کھانے لگے۔ ان کے ساتھ والی لڑکیاں ایسے ہنسنے لگیں جیسے وہ دونوں ان کے سامنے جماع کر رہے ہوں۔ ‘ڈڈ یو اٹینڈ دیٹ چاؤلاز پارٹی؟’

‘او نو، آئی وانٹیڈ ٹو گو۔۔ بٹ۔ ۔ ۔ ‘

‘مہراج گو نائس پارٹی۔”ہاے بابی!”ہاے لٹی!”ہائے جان!”ہاے کٹی!’

‘یس مہراج گو نائس پارٹیز۔ ۔ ۔ بِکاز دے ہیو نائس لان۔ ۔ ۔ لاسٹ ٹائم دئیر پارٹی واز  ٹیریفک۔ ۔ ۔ دئیر واز ٹو مچ ٹو ایٹ اینڈ ڈرنک۔ ۔ ۔ وی کیم بیک  اٹ ٹو تھرٹی ان دی مارننگ۔ ۔ ۔ یو نو وی ہیڈ ٹو کم بیک سو سون؟ مائی مدر انلا واز دئیر ان انڈر ہاؤس۔ ۔ ۔ ڈڈ یو میٹ ہر؟ سو چارمنگ لیڈی  اٹ  دی ایج آف سیونٹی تھری۔ ۔ ۔ سو اٹٹریکٹو آئی کانٹ ٹیل یو۔ ‘

‘ڈڈ یو لائک دی پروگرام؟”او ہی اس سو ہینڈسم۔”ڈڈ  یو نوٹس دی رنگ ہی از ویرنگ؟’

‘او یس، یس۔ ۔ ۔ بیوٹی فل۔ "مسٹ بی ویری ایکسپینسیو۔’

‘او شیور۔’

‘مائی مدرس انکل گاٹ دی سیم رنگ۔”دیٹ از پلیٹنم۔”ہائے  ویٹر، ٹو کافی۔’

سننے نہیں دیتے سالے۔ اب اندر سے تھوڑی  بہت آواز آ رہی تھی۔ داس گپتا نے اینٹ کھسکا لی اور انگیٹھی کے پاس کھسک آئے۔

‘ہی ہیز جسٹ کم بیک فرام انگلینڈ۔”ہی ہیز اے ہاؤس ان لنڈن۔”مسٹ بی ویری رچ۔”نیچرلی، ہی ٹیکس ٹین تھاؤزینڈ فار اے نائٹ۔’

‘دین آئی ول آسک ہم ٹو سنگ ان اور میرج۔’ کم عمر لڑکے نے عورت نما لڑکی کی کمر میں ہاتھ ڈال دیا۔

سالے کے ہاتھ دیکھو۔ کلائیاں دیکھو۔ داس گپتا نے سوچا۔ اپنے بل پر سالا ایک پیسہ نہیں کما سکتا۔ باپ کی دولت کے بل بوتے پر استاد کو شادی میں گانے بلائے گا۔ عجب سنگھ نے پھر انگیٹھی میں سوکھے پتے ڈال دئے۔ بیڑی پیتا ہوا ایک ڈرائیور آیا اور آگ کے پاس بیٹھ گیا۔ اس نے خاکی وردی پہن رکھی تھی۔ ‘سردی ہے جی، سردی۔’ اس نے ہاتھ آگ پر پھیلا دئے۔ کوئی کچھ نہیں بولا۔

‘دیکھو جی کب تک چلتا ہے یہ چتیاپا۔ ڈیڑھ سو کلومیٹر گاڑی چلاتے  چلاتے ہوا پتلی ہو گئی۔ اب سالے کو مجرا سننے کی سوجھی ہے۔ دو بجنے۔ ۔ ۔ "صبح چھ بجے تک رہے گا۔”تب تو پھنس گئے جی۔”پراجی کوئی پاس تو نہیں ہے؟’ عجب سنگھ نے ڈرائیور سے پوچھا۔ ‘پاس؟ اندر جانا ہے؟ "ہاں جی اپنے دادا کو جانا ہے،’ عجب سنگھ نے داس گپتا کی طرف اشارہ کیا۔ ‘دیکھو جی دیکھتے ہیں۔’

ڈرائیور اٹھا تیزی سے گیٹ کی طرف بڑھا۔ لمبا تڑنگا۔ ہریانہ کا ہندو۔ گیٹ پر کھڑے سپاہیوں سے اس نے کچھ کہا اور سپاہی  والنٹئر کو بلا لایا۔ ڈرائیور زور  زور سے بول رہا تھا، ‘پولیس لے آیا ہوں جی۔ اےسپی کرائم برانچ، نارتھ ڈسٹرکٹ کا ڈرائیور ہوں جی۔ ڈی وائےاس پی کرائم برانچ اور ڈیڈئےسپی ٹریفک کی فیملی نے پاس منگایا ہے جی، ‘وہ لاپروائی سے ایک سانس میں سب بول گیا۔

سوٹ پہنے والنٹئر نے  سوٹ کی جیب سے پاس نکال کر ڈرائیور کی طرف بڑھا دئے۔ وہ طویل  لمبے ڈگ بھرتا آ گیا۔

‘سردی ہے جی، سردی ہے۔’ ہاتھ آگے بڑھایا ‘یہ لو جی پاس۔”یہ تو چار پاس ہیں۔”لے لو جی اب، نہیں تو کیا ان کا اچار ڈالنا ہے۔’ داس گپتا نے ایک پاس لے لیا، ‘ہم چار پاس کا کیا کرے گا؟’

ہریانہ کا ہندو کو کافی اوب چکا تھا، اس سوال کا کوئی جواب نہیں ظاہر کرنا چاہتا تھا۔ اس نے بچے ہوئے تین پاس تسلے میں جلتی آگ میں ڈال دئے۔ ڈرائیور اور عجب سنگھ نے تسلے پر ٹھنڈے ہاتھ پھیلا دئے۔ داس گپتا گیٹ کی طرف لپکے۔ اندر سے صاف آواز آ رہی تھی۔ ۔ ۔ جا Sگو S۔ ۔ ۔ استاد الاپ لے کر بھیرویں شروع کرنے والے ہیں۔ ۔ ۔ جا Sگو Sمحمد Sپآ نہ پیا SSSSرے SS۔ ۔ ۔ دھ دھ دھ دھ دھ ت ت تا۔ ۔ ۔ جا Sگو Sمحمد Sپآ Sنہ پیا SSSSSSSرے SSSSS۔ ۔ ۔

٭٭٭٭

 

 

دلی پہنچنا ہے

 

رات کے دو بجے تھے اور قاعدے سے اس وقت اسٹیشن پر سناٹا ہونا چاہئے تھا۔ اکا  دکا چائے کی ٹھیلوں کو چھوڑ کر یا دو  چار اونگھتے ہوئے قلیوں یا سامان کی گانٹھوں اور گٹھریوں یا پلیٹ فارم پر سوئے غریب پھٹے حال لوگوں کے علاوہ کچھ نہیں ہونا چاہئے تھا۔ پر ایسا نہیں تھا۔ پورے اسٹیشن پر ایسی چہل  پہل تھی، جیسے رات کے دو نہیں، سات بجے ہوں۔ آٹھ  آٹھ دس  ​​دس کی ٹکڑیوں میں لوگ پلیٹ فارم پر ادھر  ادھر کھڑے تھے یا کسی کونے میں دائرے بنائے بیٹھے تھے یا پانی کے نل کے پاس بیٹھے چیوڑا کھا رہے تھے۔

یہ سب ایک ہی طرح کے لوگ تھے۔ میلی، پھٹی، اونچی دھوتیاں یا لنگیاں ​​اور الٹی، بے تکی، سلوٹے پڑی قمیضیں یا کپڑے کی سلی بنیانیں پہنے۔ ننگے سر، ننگے پیر، سر پر چھوٹے  چھوٹے بال۔ ایک ہاتھ میں پوٹلی اور دوسرے ہاتھ میں لال جھنڈا۔

بپن بہاری شرما، مدن پور گاؤں، کلیاپر بلاک، موتیہاری، مشرقی چپارن آج صبح گاؤں سے اس وقت نکلے تھے جب مشرق میں آم کے بڑے باغ کے اوپر سورج کا کوئی اتا  پتہ نہ تھا۔ سورج کی ہلکی  ہلکی سرخی انہیں کھجوریا چوک پہنچنے سے کوئی ایک گھنٹہ پہلے دکھائی دی تھی، جہاں آ کر سب لوگوں نے دانت مانجھے تھے ۔

املی، آم اور نیم کے بڑے  بڑے درخت کے نیچے دبکا گاؤں سو رہا تھا۔ ان درختوں کی اندھیری پرچھائیاں ادھر  ادھر کھپریل کے گھروں، گلیاروں، کچی دیواروں پر پڑ رہی تھیں۔ بڑے برگد کے درخت کے پتے ہوا میں کھڑکھڑاتے تو سناٹا کچھ وقت کے لئے ٹوٹتا اور پھر پورے گاؤں کو چھاپ کر بیٹھ جاتا۔ اپر آسمان کے سفید کاٹن جیسے بادل جواب کی طرف بھاگے چلے جا رہے تھے۔ چاند پیلا پڑ چکا تھا اور جیسے سہم کر ایک کونے میں چلا گیا تھا۔

کنوئیں میں کسی نے باتھ ڈالا اور اس کی آواز سے کنوئیں کے پاس لگے نیم کے پیڑ سے توتوں کا ایک جھنڈ  بھرا مار کر اڑا اور گاؤں کا چکر لگاتا ہوا شمال کی طرف چلا گیا۔ دھیرے  دھیرے ادھر  ادھر کے باگانوں سے کٹی کاٹنے کی آوازیں آنے لگیں۔ گنڈاسا چارہ کاٹتا ہوا لکڑی سے ٹکراتا اور آواز دور تک پھیل جاتی۔ کٹی کاٹنے کی دور سے آتی آواز کے ساتھ ساتھ کچھ دیر بعد گھروں سے آٹا پیسنے کی آواز بھی آنے لگی۔ کچھ دیر تک یہی دو آوازیں ادھر  ادھر منڈراتی رہیں، پھر بلدیو کے گھر میں آتی بابا  کی پھٹی اور بھاری آواز، ‘بھئے ظاہر کرپالا دین دیالا۔ ۔ ۔ ‘ بھی کٹی کاٹنے اور پیسنے کی آوازوں کے ساتھ مل گئی۔ اندھیرا ہی تھا، پر کچھ پرچھائیاں ادھر  ادھر آتی  جاتی دکھائی پڑنے لگی تھیں۔

سکھوا کاکا کی گھر کی طرف سے ایک چھایا بھاگی چلی آ رہی تھی۔ پاس آیا تو دکھائی پڑا دین دیالا۔ اس نے قمیض کے کندھے پر رکھی ہوئی تھی، ایک ہاتھ میں جوتے، دوسرے میں چیوڑے کی پوٹلی تھی۔ مائی کے تھان پر کئی لوگ جمع تھے۔ دین دیالا بھی مائی کے تھان پر کھڑی پرچھائیوں میں مل گیا۔ نیچے ٹولی سے ‘للکارتا’رگھبیرا چلا آ رہا تھا۔ اب ان لوگوں کی باتیں کرنے کی آوازوں میں دوسری آوازیں دب گئی تھیں۔

 

کھجوریا چوک سے سوان اسٹیشن کے لئے بس ملتی ہے، پر بس کے پیسے کس کے پاس تھے؟ دانت صاف کرنے کے بعد وہ پھر چل پڑے تھے۔ اب سوار رہ ہی کتنا گیا ہے، بس بیس ‘کلومیٹر’! بیس کلومیٹر کتنا ہوتا ہے۔ چلتے  چلتے رفتار سست پڑنے لگی تو بپن جی کہتے، ‘لگائے للکارا۔’ للکارا لگایا جاتا اور سست پڑے پیر تیز جو جاتے۔ گیارہ بجتے  بجتے سوان اسٹیشن پہنچ گئے تو گاڑی ملے گی۔ اور پھر پٹنہ۔

ٹرین دندناتی ہوئی پلیٹ فارم کے قریب آتی جا رہی تھی۔ انجن کے اوپر بڑی بتی کی تیز روشنی میں ریل کی پٹریاں چمک رہی تھیں۔ ٹرین پوری وقار اور سنجیدگی کے ساتھ نپے  تلے قدم بھرتی اسٹیشن کے اندر گھستی چلی آئی۔ رفتار سست پڑنے لگی اور دروازوں پر لٹکے ہوئے آدمی پلیٹ فارم کی سفید روشنی میں نہا گئے۔

 

انتظار کرتے لوگوں میں ادھر  سے  ادھر تک بجلی  سی دوڑ گئی کہ اگر یہ ٹرین نکل گئی تو کل شام تک دہلی نہیں پہنچ سکیں گے۔ کل شام تک اس کو دہلی پہنچنا ہے، کسی بھی حالت میں۔ پوٹلی میں بندھے مکی کے ستو، چیوڑا اور بھوجا اسی حساب سے رکھے گئے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ دس  ​​پندرہ دن چلتی رہیں گی اور ایسا بھی نہیں کہ گاڑی نہیں پکڑ پانے کا بہانہ لے کر لوٹ جائیں گے۔ کل شام دلی ضرور پہنچنا ہے۔ سب کو۔ ہر حالت میں۔

 

ٹرین کھڑی ہو گی۔ اسٹیل، بجلی کے تاروں اور لکڑی کے ٹکڑوں سے بنی ٹرین ایک چیلنج کی طرح سامنے کھڑی تھی۔ یہاں سے وہاں تک ٹرین دیکھ ڈالی گئی۔ پر بیٹھنے کیا، کھڑے ہونے کیا، سانس لینے تک کی جگہ نہیں ہے۔ سیکنڈ کلاس کے ڈبے اسی طرح کے لوگوں سے بھرے ہیں۔ ان کو بھی کل کسی بھی حالت میں دلی پہنچنا ہے۔

‘اب کیا ہوگا بپن جی؟’ یہ سوال بپن بہاری شرما سے کسی نے پوچھا نہیں، پر انہیں لگ رہا تھا کہ ہزاروں بار پوچھا جا چکا ہے۔

‘بیٹھنا تو ہے ہی۔ کاہے نہیں فرسٹ کلاس میں جائیں۔ ‘ فرسٹ کلاس کا طویل  سا ڈبا بہت محفوظ ہے۔ اسٹیل کے دروازے پوری طرح سے بند۔ اندر الگ  الگ کیبنوں کے دروازے پوری طرح سے بند۔

‘دروازہ کھلوا بابو جی!’ دھڑ  دھڑ  دھڑ۔ "بابو جی دروازہ کھولو! ‘ دھڑ  دھڑ  دھڑ۔ ‘نیچے بیٹھ گلے بابو جی!’ دھڑ  دھڑ  دھڑ۔ "بابو جی دہلی بہت ضروری پہنچنا با! ‘ دھڑ  دھڑ  دھڑ۔

تین  سو آدمی باہر کھڑے دروازہ کھولنے کے لئے کہہ رہے تھے اور جواب میں اسٹیل کا ڈبا ہنس رہا تھا۔ وقت تیزی سے گذر رہا تھا۔ اگر یہ گاڑی بھی نکل گئی تو کل شام تک دہلی پہنچ سکیں گے۔

‘دروازے کے پاس والی کھڑکی توڑتے ہیں۔’ بپن جی کھڑکی کے پاس آ گئے اور پھر پتہ نہیں کہاں سے آیا، کس نے دیا، ان کے ہاتھ میں ایک لوہے کا بڑا سا ٹکڑا آ گیا۔ مکمل اسٹیشن کھڑکی کی سلاخیں توڑنے کی آواز سے گونجنے لگا۔

‘کس کے مار  مار دروازہ توڑے کا پڑی۔ ہمنی بانی ایک ساتھ مل کے چال جائی تو۔ ۔ ۔ ‘ بھرپور ہاتھ مارنے والوں میں دوڑ لگ گئی۔ دو سلاخیں ٹوٹ گئیں تو ان سے بھی ہتھوڑے کا کام لیا جانے لگا۔

‘ارے، یہ آپ کیا کرتا ہے، فرسٹ کلاس کا ڈبہ ہے،’ کالے کوٹ والے بابو نے بپن کا ہاتھ پکڑ لیا۔ بپن جی نے ہاتھ چھڑانے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے پوری قوت سے نعرہ لگایا۔

‘ہر زور ظلم کی ٹکر میں’ تین سو آدمیوں نے پوری طاقت سے جواب دیا”سنگھرش ہمارا نعرہ ہے۔”

کالے کوٹ والے بابو کو جلد ہی اپنے دونوں کانوں پر ہاتھ رکھنے پڑے۔ ‘سنگھرش ہمارا نعرہ ہے’ باز گشت ان لوگوں کے چہروں پر کانپ رہی تھی۔ کالے کوٹ والے بابو کو سمجھتے دیر نہ لگی کہ صورت حال دھماکہ خیز ہے۔ وہ لال جھڑو اور ادھ ننگے جسموں کے درمیان سے مچھلی کی طرح پھسلتے نکل گئے اور براہ راست اسٹیشن ماسٹر کے کمرے میں گھس گئے۔

کچھ دیر بعد ادھر سے ایک سپاہی ڈنڈا ہلاتا ہوا آیا اور سامنے کھڑا ہو گیا۔ ‘کیا تمہارے باپ کی گاڑی ہے؟’ سپاہی نے بپن جی سے پوچھا۔ ‘نہیں، تمہارے باپ کی ہے؟’ سپاہی نے بپن شرما کو اوپر سے نیچے تک دیکھا۔ چمڑے کی گھسی ہوئی چپل۔ نیچے سے پھٹا کرتے پاجامے، اوپر کھادی کا کرتا اور کرتے کی جیب میں ایک ڈائری، ایک قلم۔

‘تم ان کے لیڈر ہو؟’

‘نہیں۔’

‘پھر کون ہو؟’

‘انہی سے پوچھئے۔’

سپاہی نے بپن بہاری شرما کو پھر دھیان سے دیکھا۔ عمر یہی کوئی تئیس  چوبیس سال۔ ابھی داڑھی  مونچھ نہیں نکلی ہے۔ آنکھوں میں ٹھہراؤ اور یقین۔

‘تمہارا نام کیا ہے؟’

‘اپنے کام سے کام رکھیں۔ ہمارا نام پوچھ کر کیا کریں گے؟ ‘

بات چیت سننے کے لئے بھیڑ کھسک آئی تھی۔ رام دین ہزرا نے چیوڑا کی پوٹلی بغل میں دبا کر سوچا، یہی سالی پولیس تھی جس نے اسے جھوٹے ڈکیتی کے کیس میں پھنسا کر پانچ  سو روپے وصول کر لئے تھے۔ بلدیو تو پولیس کو مارنے کی بات بچپن سے سوچتا ہے۔ جب سے اس نے اپنے والد کے منہ پر پولیس کی ٹھوکریں پڑتی دیکھی ہیں، تب سے اس کے دل میں آتا ہے، پولیس کو کہیں جم کے مارا جائے۔ آج اسے موقع ملا ہے۔ اس نے ڈنڈے میں لگے جھنڈے کو نکال کر جیب میں رکھ لیا اور اب اس کے ہاتھ میں ڈنڈا  ہی  ڈنڈا رہ گیا۔

‘ٹھیک سے جواب نہیں دیں گے تو تمہیں بند کر دیں گے سالے،’ سپاہی نے ڈنڈا ہوا میں لہراتے ہوئے کہا۔

‘دیکھو بھائی صاحب، بند تو ہمیں تم کر نہیں سکتے۔ اور یہ جو گالی دے رہے ہیں، تو ہم آپ کو ماریں گے پیٹیں گے نہیں۔ آپ کو وردی  ٹوکری اتار کر ویسے ہی چھوڑ دیں گے۔ ‘

سپاہی نے سر اٹھا کر ادھر  ادھر دیکھا۔ چاروں طرف کالے، ادھ ننگے بدنوں اور لال جھڑو کی  نا قابلِ تسخیر  دیوار تھی۔ اب اس کے سامنے دو ہی راستے تھے، نرم پڑ جاتا یا گرم۔ نیا  نیا لگا تھا، گرم پڑ گیا۔

‘مادر۔ ۔ ۔ قانون۔ ۔ ۔ ‘ پھر پتہ نہیں چلا کہ اس کی ٹوپی، ڈنڈا، قمیض، ہاف پینٹ، جوتے اور موزے کہاں چلے گئے، کیونکہاگر بیس ہاتھ ڈنڈا چھیننے کے لئے بڑھے ہوں ، دس ہاتھوں نے ٹوپی اتاری ہوں، سات  آٹھ آدمی قمیض پر جھپٹے ہوں، تین  چار لوگوں نے جوتے اور موزے اتارے ہوں، تو اس کام میں کتنا وقت لگا ہوگا؟ اب سپاہی، سپاہی سے آدمی بن چکا تھا۔ اس کے چہرے پر نہ رعب تھا، نہ داب۔ سامنے کھڑا تھا بالکل ننگا۔ اس چھینا جھپٹی میں اس کی شاندار مونچھ چھوٹی، بہت عجیب لگ رہی تھی۔ لوگ ہنس رہے تھے۔

پتہ نہیں کہاں سے خیال آیا بہر حال ایک بڑا  سا لال پرچم سپاہی کے منہ اور سر پر کس کر لپیٹا اور پھر پتلی رسی سے باندھ دیا گیا۔ اسی رسی کے دوسرے کونے سے سپاہی کے ہاتھ باندھ دئے گئے۔

کھوپڑا اور چہرہ سرخ، جسم ننگا۔ دکھ، فاقہ کشی اور ظلم سے مرجھائے چہروں پر ہنسی پہاڑی جھرنوں کی طرح پھٹ پڑی۔ ان چہروں پر ہنسی کتنی اچھی لگتی ہے، جن پر صدیوں سے خوف، دہشت گردی کے کانٹے لگے ہوں۔

پھر سپاہی کے ننگے چوتڑ پر اسی کا ڈنڈا پڑا اور وہ پلیٹ فارم پر بھاگتا چلا گیا۔ ان تفریح ​​کے بعد کام میں تیزی آئی۔ باقی بچی دو سلاخیں جلدی ہی ٹوٹ گئیں۔ شیشہ ٹوٹنے میں کتنی دیر لگتی ہے؟ اب راستہ صاف تھا۔ ایک لڑکا بندر کی طرح کھڑکی میں سے اندر کود گیا۔ اندر سے اس نے دروازے کے بولٹ کھول دئے۔

سارے لوگ جلدی  جلدی اندر چڑھے۔ بتی سبز ہو چکی تھی اور ٹرین رینگنے لگی تھی۔ طویل ڈبے کی پوری گیلری کھچا کھچ بھر گئی۔ اور اب بھی لوگ دروازے کے ڈنڈے پکڑے لٹک رہے تھے۔ اب کیبن بھی کھلنا چاہئے۔ اندر بیٹھنے کی مزید جگہ ہوگی۔

بپن جی پہلے کیبن کے بند دروازے کے سامنے آئے۔ ‘دیکھئے، ہم نے آپ کے ڈبے کا بڑا لوہا والا دروازہ توڑ دیا ہے، اندر آ گلے۔ کیبن کا دروازہ کھول دیجئے۔ نہیں تو اسے توڑنے میں کیا ٹیم لگے گا۔ ‘ اندر سے کوئی صاحب نہیں آیا۔

‘آپ اپنے سے کھول دیں گے تو ہم صرف بیٹھ بھر جائیں گے۔ اور جو ہم توڑ کر اندر آئیں گے تو آپ لوگوں کو ماریں گے بھی۔ ‘ کیبن کا دروازہ کھلا۔ دھاری دار قمیض  پاجامے میں ملبوس  آدمی نے کھولا تھا۔ اندر مدھم نیلی بتی جل رہی تھی، پر تینوں لوگ جگے ہوئے تھے اور اس طرح ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میلے  سکڑے بیٹھے تھے کہ سیٹوں پر بیٹھنے کی کافی جگہ ہو گئی تھی۔

٭٭٭

 

 

چاند کے دیش میں

 

ہم دہلی کے رہنے والے جب چھوٹے شہروں یا قصبوں میں پہنچتے ہیں تو ہمارے ساتھ کچھ اس طرح کا برتاؤ کیا جاتا ہے جیسے پہلے زمانے میں تیرتھ یاترا یا حج سے لوٹ کر آئے لوگوں کے ساتھ ہوتا تھا۔ ہم سے امید کی جاتی ہے کہ ہم ہندوستان کے دل دہلی کی رگ  رگ جانتے ہیں۔ وزیر اعظم سے نہ سہی تو وزراء سے تو ملتے ہوں گے۔ وزراء سے نہ سہی تو ان کے چمچوں سے تو ٹکراتے ہی ہوں گے۔ ہم سے امید کی جاتی ہے ہم اخبارات میں شائع خبروں کے پیچھے چھپی اصلی خبروں کو جانتے ہوں گے۔ نئی آنے والی پریشانیوں و اور تبدیلیوں کی معلومات ہمیں ہوگی۔ ہم سے لوگ وہ سب سننا چاہتے ہیں جس کی معلومات ہمیں نہیں ہوگی۔ لیکن مفت میں ملے احترام سے کون منہ موڑ لے گا؟ اور وہ بھی اگر دو  چار الٹی  سیدھی باتیں بنا کر مل سکتا ہو، تو پھر میں قابل اعتماد گپیں پورے قصبے میں پھیل جاتی ہیں۔ رات تک دوسرے شہر اور اگلے دن تک ریاست میں اس طرح پھیلتی ہیں، جیسے وہیں کی زمین سے نکلی ہوں۔

چھٹیوں کے وقت ضائع کرنے کے لئے وہاں کئی قابل دید مقامات ہیں۔ ان میں سے ایک ‘کھادی آشرم’بھی ہے۔ چونکہ وہاں کے ملازمین فرصت میں ہوتے ہیں۔ آس پاس میں لڑ  لڑ کر تھک چکے ہوتے ہیں اس لئے صارفین سے دو  چار باتیں کر لینے کا لالچ انہیں بہت مہذب بنا دیتا ہے۔ اچھی بات ہے کہ گاندھی جی نے کھادی کی طرح وقت کے درست استعمال کے بارے میں زور دے کر کوئی ایسی بات نہیں کہی ہے، جس سے ان کے شاگردوں کو وقت ضائع کرنے میں تکلیف محسوس ہو۔ لیکن وقت کے بارے میں ایسی کوئی بات نہ کہہ کر گاندھی جی نے ادارے بنانے والوں کے ساتھ ضرور نا انصافی کی ہے، نہیں تو اب تک ‘وقت آشرم’جیسے کئی ادارے بن چکے ہوتے۔

 

سفید کرتا  پاجامہ پہنے  نوجوان پان کھائے تھا۔ مجھے اندر آتا دیکھ کر اطمینان سے کھادی کے تھان پر تھان دکھانے لگا۔ میں اس طرح جیسے گاندھی جی کے بعد دوسرا آدمی ہوؤں جس نے کھادی کی اہمیت کا سمجھا ہو، کھادی دیکھتا رہا۔ درمیان  درمیان میں بات چیت ہوتی رہی۔ کھادی آشرم کا فروخت کنندہ کچھ دیر بعد تھوڑا نرم مزاجی کا مظاہرہ ہو کر بولا، ‘مسٹر، آپ جیسے کھادی کے عاشق یہاں کم آتے ہیں؟’

میں بات کرنے کا موقع کیوں چھوڑ دیتا۔ پوچھا، ‘کس طرح؟’ بولا، ‘یہاں تو ٹمپریری کھادی  کے عاشق آتے ہیں؟”یہ کیا ہوتا ہے؟’

‘ارے مطلب یہی محترم کہ لکھنو والی بس پکڑنے سے پہلے دھڑدھڑاتے ہوئے آئے۔ پینٹ، قمیض اتاری۔ سفید کرتا  پاجامے میں خریدا۔ پہنا۔ ٹوپی لگائی۔ سڑک پر آئے۔ لکھنو جانے والی بس رکوائی۔ چڑھنے سے پہلے بولے، ‘شام کو پینٹ  قمیض لے جائیں گے۔’اور براہ راست لکھنؤ۔’ اس پر یاد آیا کہ مرے بھائی جو وکیل ہیں، ایک بار بتا رہے تھے کہ ایک پیشہ ور ڈاکو جو ان کا موکل تھا، بہت دنوں سے کہہ رہا تھا کہ وکیل صاحب ہمیں ‘سہارا’دلا دو۔ خیر، تو ایک دن وہ شبھ دن آیا۔ ہمارے بھائی صاحب، ان کے دو دوست اور پیشہ ورانہ ڈاکو کرائے کی ٹیکسی پر لکھنؤ کی طرف روانہ ہوئے۔ جیسے ہی ٹیکسی لکھنؤ میں داخل ہونے لگی، ڈاکو نے ٹیکسی والے کو رکنے کا حکم دیا۔ ٹیکسی رکی۔ وہ لوگ سمجھے، سالے کو ٹٹی  وٹی لگی ہوگی۔ وہ اپنا تھیلا لے کر جھاڑیوں کے پیچھے چلا گیا۔ کچھ منٹ بعد جھاڑیوں کے پیچھ سے وزیر نکلا۔ سر کھادی کی ٹوپی میں، پیر کھادی کے پاجامے میں، بدن کھادی کے کرتے میں۔ پیر گاندھی چپل میں۔

ان میں سے ایک نے پوچھا، ‘یہ کیا؟”ضروری ہے۔ عقیل بھائی، ضروری ہے، ‘وہ بولا۔ ‘اماں تم تو ہم سے ہوشیار نکلے۔”سو تو ہئی ہے عقیل صاب!’

اپنا کھادی  سے عشق ظاہر کر کے اور دو کرتوں کا کپڑا بگل میں اس طرح دبا کر جیسے وہی گاندھی جی کی طرف سے ملک کے لئے چھوڑی مکمل ملکیت ہو، میں آگے بڑھا۔ اب میرا نشانہ ایک گرہستھ آشرم تھا۔

اب چھوٹے شہروں میں کسی بھی چیز کی کمی ہو، وکلاء کی کمی نہیں ہے۔ ہر گاؤں، ہر محلے، ہر ذات، ہر مذہب کے وکیل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر گاؤں، ہر محلے، ہر ذات، ہر مذہب کے لوگوں کی مقدمے بازیاں  ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ کہ وکیلوں کی کمی نہیں ہے۔

اس کا کریڈٹ کسے دیا جانا چاہئے؟ آپ چاہیں تو موتی لال نہرو یا جواہر لال نہرو کو دے سکتے ہیں، لیکن میں تو ایسا نہیں کروں گا، کیونکہ یہ ہمارے وکلاء کے آباء و اجداد نہیں ہو سکتے۔ کہاں تو ان کے ولایت سے دھل کر کپڑے آتے تھے اور کہاں یہ ولایت سے منگوا کر کپڑے دھوتے ہیں۔ اتنے فرق کی وجہ سے انہیں کسی اور کا ہی جانشین کہا جانا چاہئے۔ یہ فیصلہ آپ کریں، کیونکہ وکلاء کے لئے کسی پر ہتک عزت کا مقدمہ داغ دینا اتنا ہی آسان ہے، جتنا ہمارے آپ کے لئے ایک سگریٹ سلگا لینا۔

 

وکیل صاحب کا گھر یعنی ‘گرہستھ آشرم’قریب تھا۔ چھکے ہوئے وکیل ہیں۔ چھکے ہوئے الفاظ کے دو معنی ہیں۔ پتلا مطلب خوب کھائے  پئے، موٹے  تازہ، تندرست۔ دوسرا مطلب پریشان، ستائے گئے، تھکے ہوئے۔ کہتے ہیں کہ یار یہ کام کرتے  کرتے میں چھک گیا۔ تو وکیل صاحب دوسری طرح کے چھکے ہوئے آدمی ہیں۔ اردو کے امتحانات یعنی ‘ادیب’وغیرہ پاس کر کے بی اے کیا تھا۔ پھر علی گڑھ سے ایل ایل بی اس کے بعد کی تعلیم یعنی جو اصل تعلیم تھی، یعنی مجسٹریٹوں  اور ججوں کو کس طرح قابو کیا جائے۔ یہ نہ پڑھ سکے تھے۔ اس لئے زندگی کے امتحان میں فیل ہو گئے تھے۔

میں ان کے گھر پہنچا تو خوش ہو گئے۔ مجھ میں عمر میں آٹھ  ایک سال بڑے ہیں اس کا ہم دونوں کو احساس ہے۔ اور اس کا خیال کرتے ہیں۔ پھر وکیل صاحب کو تجربہ بھی مجھ سے زیادہ ہے۔ اپنی زندگی میں اب تک یہ کام کر چکے ہیں: کھیتی کروا چکے ہیں، بھٹے لگوا چکے ہیں، اناج کی منڈی لگوا چکے ہیں، موزے بنوانے کا کام کیا ہے، پاور لوم لگوا چکے ہیں، ڈیری کھول چکے ہیں اور آپ کی دعا سے ان سب کاموں میں انہیں خسارہ ہو چکا ہے۔ سب کام بند ہو چکے ہیں۔ کچھ قرض اب تک چکا رہے ہیں۔ کچھ کا چک چکا ہے۔ اب آپ کو دریافت حال ہوگی کہ ایسے حالات میں وکیل صاحب کی گاڑی کیسی چل رہی ہے۔ وکیل صاحب کے پتا شری نے ان کو کرائے کی تین دکانیں اور ایک مکان ایک طرح چھوڑے ہیں کہ وکیل صاحب کو یہ لگتا ہی نہیں کہ والد مرحوم حقیقت میں مرحوم ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وکیل صاحب کچہری روز جاتے ہیں تو دس  ​​بیس روپیہ بن ہی جاتا ہے۔ کبھی  کبھی ایسا ہوتا ہے کہ خالی ہاتھ آئے۔ ارے دو درخواستیں ہی لکھ دیں تو دس روپے ہو گئے۔

‘آؤ۔ ۔ ۔ کب آئے؟ "پرسوں۔ جی وہ۔ ۔ ۔ "خیر چھوڑو۔ ۔ ۔ سناؤ دہلی کے کیا حال ہیں۔ ‘

پھر وہی دہلی۔ ارے آپ لوگ دہلی کو چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔ یہ کیوں نہیں کہتے کہ دہلی جائے چولہے بھاڑ میں، یہاں کے حال سنو! ‘کوئی خاص بات نہیں۔’

‘بجلی تو آتی ہوگی؟’

‘ہاں، بجلی تو آتی ہے۔’

‘یہاں تو سالی دن  دن  بھر نہیں آتی۔ سنتے ہیں ادھر کی بجلی کاٹ کر دہلی سپلائی کر دیتے ہیں۔ "ہاں ضرور ہوتا ہوگا۔’

‘ہوگا نہیں، ہے۔ ادھر کے پڑھے  لکھے لوگ کام کرنے دہلی چلے جاتے ہیں۔ ادھر کے مزدور مزدوری کرنے دہلی چلے جاتے ہیں۔ ادھر کا مال فروخت ہونے دہلی جاتا ہے۔ ‘

‘دہلی سے ادھر کچھ نہیں آتا؟’ میں نے ہنس کر پوچھا۔

‘ہاں آتا ہے۔ ۔ ۔ حکم۔ ۔ ۔ حکم۔ ۔ ۔ اور تم کہہ رہے ہو دہلی میں کوئی خاص بات نہیں ہے۔ ارے میں تمہیں گارنٹی دیتا ہوں کہ دہلی میں وقت ہر کہیں کوئی  نہ  کوئی خاص بات ہوتی رہتی ہے۔ ‘

‘اور آپ آج کل کیا کر رہے ہیں؟’

‘میاں، سوچتے ہے۔ ایک انگریزی میڈیم پبلک اسکول کھول دیں۔ بتاؤ کیسا آئیڈیا ہے؟ دہلی میں تو بڑے  بڑے انگلش میڈیم اسکول ہیں۔ "لیکن۔ ۔ ۔ ‘

انہوں نے میری بات کاٹی، ‘لیکن کیا،’ وہ شیر کی طرح بمکے۔ میں سمجھ گیا کہ وہ من  ہی  من انگلش میڈیم اسکول کھولنے کی بات ٹھان چکے ہیں۔ ‘کیا کچھ اسکوپ ہے؟’

‘اسکوپ  ہی  سکوپ ہے۔ آج شہر میں آٹھ انگلش میڈیم پبلک اسکول ہیں۔ سب کھچا کھچ بھرے رہتے ہیں۔ سو روپیہ مہینے سے کم کہیں فیس نہیں لگتی۔ سو بچے بھی آ گئے تو فیس  ہی  فیس کے دس ہزار مہینہ ہو گئے۔ ٹیچریں رکھ لو آٹھ  دس۔ ان کو تھوڑا بہت دیا جاتا ہے ۔۔ ۔ ۔ مکان  وکان کا کرایہ نکال کر سات  آٹھ ہزار روپیہ مہینہ بھی منافع رکھ لو تو اتنی آمدنی اور کس دھندے سے ہوگی؟ اور پھر دو ٹیچر تو ہم گھر ہی کے لوگ ہیں۔ ‘

‘گھر کے، کون  کون؟”ارے میں اور سعید۔’

ان کو چونکہ اپنا بڑا سمجھتا ہوں اور چونکہ وہ میرا ہمیشہ خیال کرتے ہیں، اس لئے دل کھول کر ہنسنے کی خواہش دل ہی میں رہ گئی۔ وکیل صاحب کو اگر چھوڑ بھی دیں تو ان کے صاحبزادے سعید میاں بچوں کو انگریزی پڑھاتے ہوئے مجھے تصور میں ایسے لگے جیسے بھینس اڑ رہی ہو۔ درخت کی جڑیں اوپر ہوں اور ڈالیاں زمین کے اندر۔ مطلب ایسا لگتا ہے، جیسے اسے دنیا کا آٹھواں عجوبہ تصور کیا جائے گا۔

اتر پردیش، بہار ہی نہیں، پورے  کے  پورے بیلٹ میں انگریزی کی جو حالت ہے، کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ یہ اچھا ہے یا برا، یہ اپنے  آپ میں ڈبیٹیبل پوائنٹ ہو سکتا ہے۔ لیکن ‘ایم’کو’ یم’، ‘این’کو’ ین’ اور ‘وی’کو’ بھی’ بولنے والوں اور انگریزی کا رشتہ ناکام عاشق اور انتہائی خوبصورت محبوبہ کا رشتہ ہے۔ پر کیا کریں کہ یہ گرل فرینڈ دن  بدن خوبصورت سے زیادہ خوبصورت ہوتی جا رہی ہے اور عاشق ناکامی کی سیڑھیوں پر لڑھک رہا ہے۔ عاشق جب محبوبہ کو پا نہیں پاتا تو کبھی  کبھی اس سے نفرت کرنے لگتا ہے۔ اس کیس میں عام طور پر یہی ہوتا ہے۔ اگر آپ اچھی  خاصی ہندی جانتے اور بولتے ہوں، لیکن کسی پردیش کے چھوٹے شہر یا قصبے میں انگریزی بولنے لگیں تو سننے والے کی خواہش پہلے آپ سے متاثر ہو کر پھر آپ کو پیٹ دینے کی ہوگی۔

یہ تو ہوئی سب کی حالت۔ اس مقابلے میں سعید میاں کی حالت سونے پر سہاگے جیسی ہے۔ جب پڑھاتے تھے تب انگریزی کا نام سنتے ہی کسی نئے ناتھے گئے بچھڑے کی طرح بدکتے تھے اور ‘گرامر’کا نام سنتے ہی ان کی سٹی  پٹی گم نہیں نہیں ہو جایا کرتی تھی، خون خشک ہو جایا کرتا تھا۔ کچھ الفاظ تو ان پر گولی سے زیادہ اثر کرتے تھے، جیسے ‘پنکچویشن’،’ ڈائریکٹ انڈایریکٹ ‘، ‘فل ان دی بلینکس’۔ انگریزی کے استاد کو وہ قصائی اور آپ بکرا سمجھتے تھے۔

سعید میاں کو انٹر میں انگریزی کے پرچے میں تین سوال نقل کرتے ہی لگا تھا، جیسے ایوریسٹ فتح کر لی ہو۔ اس کے بعد کہاں انگریزی اور کہاں سعید میاں وہ ہتھیلی پر سرسوں جمانا نہ جانتے تھے۔ ہوگی دنیا میں دھوم  اپنے ٹھینگے پر۔

وکیل صاحب نے پھر پوائنٹ کلییر کیا، ‘بھئی ہمیں ان انگلش اسکول والوں کا سسٹم اچھا لگا۔ رٹا دو لونڈوں کو۔ دے دو سالوں کو ہوم ورک۔ ماں  باپ دینے کے دوران، نہیں تو ٹیچر رکھیں۔ ہمارے ٹھینگے سے۔ ہوم ورک مکمل نہ کرتا ہو تو ماں  باپ کو کھینچ بلواؤ اور سمجھاو کہ میاں بچے کو انگریزی میڈیم میں پڑھوا رہے ہو، ہنسی  مذاق نہیں ہے۔ پھر کس کر فیس لو۔ آج اس نام سے، تو کل اس نام سے۔ بلڈنگ فنڈ، فرنیچر فنڈ، پر فنڈ، ٹیچر فنڈ اور اسکول فنڈ۔ ۔ ۔ ‘ وہ ہنسنے لگے۔

‘ہاں، یہ بات تو ہے۔”ارے بھول ہی گیا۔ ۔ ۔ چائے۔ ۔ لیکن چائے تو تم پیتے ہی رہتے ہوں گے۔ ۔ ۔ بیل کا شربت پیو گے؟ ‘ جی میں آیا کہ کہ، حضور، اب تو بیئر پلائیں۔ کہاں انگلش میڈیم، کہاں بیل کا شربت۔

بیل کا شربت آنے سے پہلے آئے سعید میاں۔ انہیں دیکھتے ہی وکیل صاحب خوش ہو گئے، بولے، ‘آؤ آؤ، بیٹھو۔ اسکول کے بارے میں ہی بات کر رہے ہیں۔ ‘ میں نے سعید میاں کے چہرے پر وہ سب کچھ دیکھ لیا جو ان کے بارے میں لکھا جا چکا ہے۔

‘جی!’ انہوں نے چھوٹا  سا جواب دیا اور بیٹھ گئے۔ وکیل صاحب اس بات پر یقین کرنے والے آدمی ہیں کہ بچوں کو کھلاؤ سونے کا نوالا، پر دیکھو شیر کی نگاہ سے۔ تو انہوں نے سعید میاں کو ہمیشہ شیر کی نگاہ سے دیکھا ہے اور سعید میاں نے اکبر الہ آبادی کے مطابق’ اب قابل ظبطی کتابیں’ پڑھ لی ہیں اور ‘باپ کو خبطی’سمجھتے ہیں۔

لیکن سعید میاں خبطی باپ سے بے تحاشہ ڈرتے ہیں۔ وکیل صاحب اسے کہتے ہیں، لڑکا سعادت مند ہے۔ لیکن ادھر کچھ سال سے اس سعادت مندی میں کچھ کمی آ رہی ہے۔ دراصل چکر یہ ہے کہ وکیل صاحب نے بیٹوں کو چکر گھنی کی طرح نچایا ہے۔ ایک تو بیٹے کا مکمل کیریئر ہی ‘شاندار’ تھا، دوسرے وکیل صاحب کی روز  روز بنتے  بگڑتے منصوبوں نے سعید میاں کو بری طرح کنفیوز کر رکھا ہے۔ وکیل صاحب نے کبھی انہیں کمپیوٹر سائنٹسٹ، کبھی چارٹرڈ  اکاؤنٹنٹ، کبھی ایکسپورٹر وغیرہ بنانے کی ایسی کوشش کی کہ سعید میاں کچھ نہ بن سکے۔

‘اب تم کوئی اچھا  سا نام بتاؤ اسکول کے لئے۔ یہاں تو یہی سٹی مانٹیسری، انگلش میڈیم پبلک نام چلتے ہیں۔ لیکن نام انگریزی میں ہونا چاہئے۔ ۔ وہ مجھے پسند نہیں کہ اسکول تو انگلش میڈیم ہے لیکن نام پکا ہندی کا ہے۔ ‘ وہ میری طرف دیکھنے لگے، ‘ارے دہلی میں تو بہت انگلش میڈیم اسکول ہوں گے۔ ۔ ان میں سے دو  چار کے نام بتاؤ۔ ‘

پھر آ گئی دہلی۔ میں نے دل میں دہلی کو موٹی  سی گالی دی اور دہلی کے پبلک اسکولوں کے نام سوچنے لگا۔ ‘ذرا ماڈرن فیشن کے نام ہونا چاہئے،’ وہ بولے۔ میں نے سوچ کر کہا، ‘ٹائنی ٹوٹ۔’

‘ٹائنی ٹوٹ؟ یہ کیا نام ہوا؟ نہیں نہیں، یہ تو بالکل نہیں چلے گا۔ ۔ ارے میاں، کوئی سمجھے گا ہی نہیں۔ اب تو قسم خدا کی، میں بھی نہیں سمجھا ٹائنی کیا بلا ہے۔ کیوں سعید میاں، کیا خیال ہے؟ ‘

سعید میاں گردن انکار میں ہلانے لگے اور اور بولے، ‘چچا، یہاں تو سٹی مانٹیسری اور انگلش میڈیم پبلک اسکول ہی سمجھتے ہیں اور وہ۔ ۔ ۔ ‘ ان کی بات کاٹ کر وکیل صاحب بولے، ‘وہ بھی ہندی میں لکھا ہونا چاہئے۔’

‘ٹوڈلرس ڈین،’ پھر میں نے مذاق میں کہا، ‘رکھ لیجئے۔’ اس پر تو وکیل صاحب لوٹنے لگے۔ ہنستے  ہنستے ان کے پیٹ میں بل پڑ گئے۔ بولے، ‘وا بھئی واہ۔ ۔ کیا نام ہے۔ ۔ ۔ جیسے مرغی کا دڑبا۔ ‘ اب سعید میاں کی طرف مڑے، "تم انگریزی کی پریکٹس کر رہے ہو؟ "جی ہاں۔’

‘کیا کر رہے ہو؟”پریزنٹ، پاسٹ اور’ فیوچر ٹینس یاد کر رہا ہوں۔ "گزشتہ ہفتے بھی تم نے یہی کہا تھا۔ اچھی طرح سمجھ لو کہ میں اسکول میں ایک لفظ بھی ہندی یا اردو کا نہیں برداشت کروں گا۔ "جی ہاں،’ سعید میاں بولے۔ ‘بچوں سے تو انگریزی میں بات کر سکتے ہو؟’

‘کیوں نہیں کر سکتا۔ ۔ ، مثلاً یہ شہر اور انگلش میڈیم پبلک اسکول، جو شہر کا ٹاپ انگلش اسکول ہے، کی ٹیچریں بچوں سے انگریزی میں بات کرتی ہیں، ویسے تو کر سکتا ہوں۔ ‘

‘یہ کس طرح؟’ میں نے پوچھا۔

‘ارے چچا، کاپی میں لکھ لیتی ہیں۔ پہلے سوال لکھتی ہیں جو بچوں کو رٹا دیتی ہیں۔ جیسے بچوں سے کہتی ہیں اگر تم کو باتھ روم جانا ہے تو کہا، ‘میم میں آئی گو ٹو باتھ روم۔’جب بچے ان سے پوچھتے ہیں تو وہ کاپی میں دیکھ کر جواب دے دیتی ہیں۔’

‘لیکن اس سوال کا جواب دینے کے لئے تو کاپی میں دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔’

‘چچا، یہ تو ایگزامپل دی ہے۔ کرتی ایسا ہی ہیں۔ ‘

‘اچھا جناب، ایڈمیشن کے لئے جو لوگ آئیں گے، ان سے بھی آپ کو انگریزی ہی میں گفتگو کرنا پڑے گی۔’ مجھے لگا وکیل صاحب اور سعید میاں کے درمیان رساکشی ہو رہی ہے۔ اس سوال پر سعید میاں تھوڑا کسمساے، پھر بولے، ‘ہاں اگر وہ لوگ انگریزی میں بولے تو میں بھی انگریزی میں بولوں گا۔’ وکیل صاحب جواب سن کر سکتے میں آ گئے۔ سب جانتے ہیں کہ اس شہر میں جو لوگ اپنے بچوں کو انگلش میڈیم اسکول میں داخل کرانے آئیں گے، وہ انگریزی نہیں بول سکتے۔

‘یہی تو تمہاری غلطی ہے۔ ۔ ۔ تم اپنا سب کام دوسروں کے حساب سے کرتے ہو۔ ۔ ارے تمہیں کیا۔ ۔ ۔ وہ چاہے بولے، چاہے نہ بولو۔ ۔ ۔ تم اپنا انگریزی پیلتے رہو۔ ۔ ، سالے سمجھیں تو کہاں آ گئے ہیں۔ ‘

‘یعنی چاہے سمجھ میں آئے نہ آئے؟’

‘بالکل۔’

‘تو ٹھیک ہے، یہی درست،’ سعید میاں کا چہرہ کھنچ گیا۔ کچھ دیر بعد وکیل نرم ہو کر بولے، ‘اب ایسا بھی کر دینا کہ سالے بھاگ ہی جائیں۔’

‘نہیں  نہیں، بھاگ کیوں جائیں گے۔’

وکیل صاحب نے بتایا کہ ان کے زمانے میں ہندی  انگلش ٹرانسلیشن میں اس طرح کے جملے دیئے جاتے تھے، جیسے آج بازار میں جوتا چل گیا، یا وہ چپل لے کر نو  دو گیارہ ہو گیا۔ پھر وکیل صاحب نے کہا، ‘میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ سعید میاں کو ٹیچنگ میں نہ ڈالوں۔ ۔ ۔ انہیں وائس پرنسپل بنا دوں۔ "کیوں؟’ میں نے پوچھا۔

‘ارے بھائی اسکول میں پانچ  چھ لڑکیاں پڑھائیں گی۔ ۔ یہ ان کے درمیان کہاں گھسیں گے۔ ‘ میں پوری بات سمجھ گیا۔ سعید میاں بھی سمجھ گئے اور جھینپ گئے۔ شربت آنے کے بعد وکیل صاحب بات چیت کو اسکول کے نام کی طرف گھسیٹ لائے۔ وہ چاہتے تھے، یہ مسئلہ میرے سامنے ہی طے ہو جائے۔ سینٹ پال، سینٹ جانس، سینٹ کولبس جیسے نام انہیں پسند تو آئے، پر ڈر یہی تھا کہ یہاں ان ناموں کو کوئی سمجھے گا نہیں۔ مقامی لوگوں کی جہالت پر روتے ہوئے وکیل صاحب بولے، ‘اماں میاں دھر جاہل۔ ۔ ، سالے گوکھے۔ ۔ یہ لوگ کیا جانیں سینٹ کیا ہے۔ ۔ ۔ گھر جاہل۔ ۔ ۔ میلی  چکٹ دھوتی اور گندہ شلوکا، پاؤں میں چمرودھا جوتے  منہ اٹھائے چلتے جاتے ہیں۔ ہندی تک بولنی نہیں آتی، لیکن کہتے ہیں، ‘ببا کا انگریجی اسکول میں پڑھاوا چہت ہن۔ کھیسے میں دو  تین ہزار کے نوٹ دابے رہتا ہے۔ ۔ اب تم ہی بتاؤ، منافع کا کاروبار ہوا کہ نہ ہوا؟ ‘

‘بالکل ہوا۔’

رات اوپر آسمان میں تارے  ہی  تارے تھے۔ چاندنی پھیلی ہوئی تھی۔ رات کی رانی کی مہک بے روک  ٹوک تھی۔ اچھی  خاصی تیز ہوا نہ چل رہی ہوتی تو مچھر اس سہاؤنی رات میں فلمی ولینس جیسا طرز عمل کرنے لگتے۔ برابر میں سب کی چارپائیاں بچھی تھیں۔ سب سو رہے تھے۔ رات کا آخری پہر تھا۔ میں وکیل صاحب سے جرح کر رہا تھا، ‘آپ یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ پوری دنیا میں بچوں کو ان کی مادری زبان میں پڑھایا جاتا ہے۔’

‘مجھے کیا مطلب لوگوں سے، کیا مطلب مادری زبان سے۔ ۔ یہ تو دھندہ ہے۔ ۔ ۔ دھندہ۔ ہر آدمی اپنے بچوں کو انگریزی سکول میں پڑھوانا چاہتا ہے۔ ‘

‘لیکن کیوں؟’

‘انگریزی تو پانی ہے۔ ۔ ۔ جیسے بن پانی سب سون ہے۔ ۔ ۔ ویسے ہی بن انگریزی سب کچھ سونا ہے۔ ‘

‘لیکن ایسا ہے کیوں؟’

‘انگریزی ہم لوگوں کے حکمرانوں کی زبان ہے۔’

‘کیا اب بھی کوئی ہمارے اوپر حکومت کرتا ہے؟’ وکیل صاحب زور سے ہنسے، ‘تم یہی نہیں جانتے؟’

میں نے دل میں کہا، ‘جانتا ہوں پر مانتا نہیں۔’

وہ دھیرے  دھیرے پورے اعتماد کے ساتھ اس طرح بولنے لگے جیسے ان کا ایک  ایک جملہ پتھر پر کھچی لکیر جیسا سچ ہو  ‘انگریزی سے آدمی کی عزت ہوتی ہے۔ ۔ ۔ ‘رتبہ۔ ۔ ۔ پوزیشن۔ ۔ ۔ پاور۔ ۔ جو عزت تم انگریزی بول کر ملے گی وہ ہندی یا اردو یا دیگر ہندوستانی زبانیں کہہ کر ملے گی؟ ‘ انہوں نے سوال کیا۔ ‘ہاں ملے گی۔ ۔ آج نہ سہی تو کل ملے گی۔ ‘ ہوائی لمس نے مچھروں کو پھر تتر  بتر کر دیا۔ رات کی رانی کی مہک دور تک پھیل گئی۔ مشرق میں میلوں دور ‘سورج کے ملک میں’صبح ہو چکی ہوگی۔

٭٭٭

 

 

سویمنگ پول

 

مجھے لگ رہا تھا کہ جس کا مجھے ڈر تھا، وہی ہونے جا رہا ہے۔ اور افسوس یہ کہ میں کوشش بھی کروں تو اسے روک نہیں سکتا۔ میں نے کئی اقدامات کئے کہ بیوی میری طرف دیکھ لیں تاکہ اشارے  ہی  اشارے میں انہیں خاموش رہنے کا اشارہ کر دوں، لیکن وہ مسلسل وی آئی پی سے باتیں کئے جا رہی تھیں! میرے سامنے کچھ دوسرے مہمان کھڑے تھے، جنہیں چھوڑ کر میں ایک دم سے بیوی اور وی آئی پی کی طرف نہیں جا سکتا تھا۔ کوشش کرتا ہوا جب تک میں وہاں پہنچا تو بیوی وی آئی پی سے ‘اسی’کے بارے میں بات کر رہی تھیں۔ بے تکان بول رہی تھیں۔ میں شرمندہ ہوا جا رہا تھا۔ جب مجھ سے خاموش نہ رہا گیا تو بولا، "ارے چھوڑو، ٹھیک ہو جائے گا۔ ”

بیوی غصے میں بولی، ‘آپ کو کیا ہے، صبح گھر سے نکل جاتے ہیں تو رات ہی میں واپس آتے ہیں۔ جو دن  بھر گھر میں رہتا ہو اس سے پوچھئے کہ کیا گزرتی ہے۔ ‘

یہ کہہ کر بیوی پھر ’اس’بارے میں شروع ہو گئیں۔ میں دل  ہی  دل میں سوچنے لگا کہ بیوی پاگل نہیں ہو، حد درجے کی حماقت ضرور ہے جو اتنے بڑے، اہم اور مؤثر وی آئی پی سے شکایت بھی کر رہی ہے تو یہ کہ دیکھئے ہمارے گھر کے سامنے نالہ بہتا ہے، اس میں سے بدبو آتی ہے، اس میں سور لوٹتے ہیں، اس میں آس پاس والے بھی نگاہ بچا کر گندگی پھینک جاتے ہیں۔، نالے کو کوئی صاف نہیں کرتا۔ سینکڑوں بار شکایات درج کرائی جا چکی ہیں۔ ایک بار تو کسی نے مرا ہوا اتنا بڑا چوہا پھینک دیا تھا۔ وہ پانی میں پھول کر آدمی کے بچے جیسا لگنے لگا تھا۔

یہ سچ ہے کہ ہم نے گھر کے سامنے والے نالے کی شکایتیں سینکڑوں بار درج کرائی ہیں۔ لیکن نالا صاف کبھی نہیں ہوا۔ اس میں سے بدبو آنا کم نہیں ہوئی۔ جب ہم لوگ شکایات کرتے  کرتے تھک گئے تو ایسے پہچان والوں سے ملے جو اس بارے میں مدد کر سکتے تھے، یعنی کچھ سرکاری ملازمین یا میونسپل کے رکن یا اور دوسرے قسم کے با اثر لوگ۔ لیکن نالا صاف نہیں ہوا۔ ہمارے یہاں جو دوست مسلسل آتے ہیں، وہ نالہ  صفائی کرانے والی پوری کارروائی سے واقف ہو گئے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ اس بارے میں اپراجے پال کو دو رجسٹرڈ خط جا چکے ہیں۔ اس کے بارے میں ایک مقامی اخبار میں تصویر مع تفصیل چھپ چکا ہے۔ اس کے بارے میں مہانگرپالکا کے دفتر میں جو خط بھیجے گئے ہیں ان کی فائل اتنی موٹی ہو گئی ہے کہ آدمی کے اٹھائے نہیں اٹھتی، وغیرہ  وغیرہ۔

وی آئی پی کو گھر بلانے سے پہلے بھی مجھے ڈر تھا کہ بیوی کہیں ان سے نالے کا رونا نہ لے کر بیٹھ جائیں۔ کیونکہ میں ان کی ذہنی حالت سمجھتا تھا، اس لئے میں نے انہیں سمجھایا تھا کہ دیکھو نالہ  والا مشترکہ چیزیں ہیں، وہ وی آئی پی کے بائیں ہاتھ کا بھی نہیں، آنکھ کے اشارے کا کام ہے۔ یہ کام تو ان کے یہاں آنے کی خبر پھیلتے ہی، اپنے  آپ ہو جائے گا۔ لیکن اس وقت بیوی سب کچھ بھول چکی تھیں۔ مجبور مجھے بھی وی آئی پی کے سامنے ‘ہاں” ہوں’ کرنی پڑ رہی تھی۔ آخر کار وی آئی پی نے کہا کہ یہ فکر کرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔

وی آئی پی کے یقین دہانی کے بعد ہی بیوی کئی سال کے بعد ٹھیک سے سو پائیں۔ انہیں دوستوں اور محلے والوں نے مبارک باد دی کہ آخر کام ہو ہی گیا۔

وی آئی پی کی یقین دہانی سے ہم لوگ اتنے مطمئن تھے کہ ایک  دو ماہ تو ہم نے نالے کے بارے میں سوچا ہی نہیں، ادھر دیکھا ہی نہیں۔ نالہ ہم سب کو کینسر کے مریض اس جیسا لگتا تھا جو آج نہ مرا تو کل مر جائے گا ۔۔ ۔ ۔ کل نہ سہی تو پرسوں۔ ۔ ۔ پر مرنا یقینی ہے۔ دھیرے  دھیرے نالہ ہماری بات چیت سے باہر ہو گیا۔

جب کچھ مہینے گزر گئے تو بیوی نے نگر  پالکا کو فون کیا۔ وہاں سے جواب ملا کہ نالا صاف کیا جائے گا۔ پھر کچھ ماہ گزرے، نالہ ویسے کا ویسا ہی رہا۔ بیوی نے وی آئی پی کے آفس فون کئے۔ وہ اتنے مصروف تھے، دوروں پر تھے، بیرون ملک تھے کہ رابطہ ہو ہی نہیں سکا۔

ماہ بعد جب وی آئی پی سے رابطہ ہوا تو انہوں نے بہت اعتماد سے کہا کہ کام ہو جائے گا۔ فکر مت کریں۔ لیکن یہ جواب ملے چھ مہینے گزر گئے تو بیوی کے صبر کا باندھ ٹوٹنے لگا۔ وہ وزارت سے لے کر دیگر دفاتر کے چکر کاٹنے لگیں۔ اس میز سے اس میز تک۔ اس کمرے سے اس کمرے تک۔ صرف ‘ہاں” ہاں”ہاں” ہاں’ جیسی تشفیاں ملتی رہیں، لیکن ہوا کچھ نہیں۔

ایک دن جب میں آفس سے لوٹ کر آیا تو بیوی نے بتایا کہ انہوں نے نالے میں بہت  ​​سے پھل بہتے دیکھے ہیں۔ میں نے کہا، ‘کسی نے پھینکے ہوں گے۔’ اس واقعہ کے دو  چار دن بعد بیوی نے بتایا کہ انہوں نے نالے میں کتابیں بہتی دیکھی ہیں۔ یہ سن کر میں ڈر گیا۔ لگا شاید بیوی کا دماغ ہل گیا ہے، لیکن بیوی نارمل تھیں۔

پھر تو بیوی ہی نہیں، محلے کے اور لوگ بھی نالے میں طرح  طرح کی چیزیں بہتی دیکھنے لگے۔ کسی دن جڑ سے اکھڑے درخت، کس دن چڑیوں کے گھونسلے، کسی دن ٹوٹی ہوئی شہنائی۔ ایک دن دیر سے رات گئے گھر آیا تو بیوی بہت گھبرائی ہوئی لگ رہی تھیں۔ بولی، ‘آج میں نے وی آئی پی کو نالے میں تیرتے دیکھا تھا۔ وہ بہت خوش نظر آ رہے تھے۔ نالے میں ڈبکیاں لگا رہے تھے۔ ہنس رہے تھے۔ کلکاریاں مار رہے تھے۔ اچھل  کود رہے تھے، جیسا لوگ سوئمنگ پول میں کرتے ہیں! ‘

٭٭٭

 

 

 

 

 

شاہ عالم کیمپ کی روحیں

 

(1)

شاہ عام کیمپ میں دن تو کسی نہ کسی طرح گزر جاتے ہیں لیکن راتیں قیامت کی ہوتی ہے۔ ایسی نفسا نفسی کا عالم ہوتا ہے کہ اللہ بچائے۔ اتنی آوازیں ہوتی ہیں کہ کان پڑی آواز نہیں سنائی دیتی، چیخ  پکار، شور  گل، رونا، چلانا، آہیں سسکیاں۔ ۔ ۔

رات کے وقت روحیں اپنے بال  بچوں سے ملنے آتی ہیں۔ روحیں اپنے یتیم بچوں کے سروں پر ہاتھ پھیرتی ہیں، ان کی سونی آنکھوں میں اپنی سونی آنکھیں ڈال کر کچھ کہتی ہیں۔ بچوں کو سینے سے لگا لیتی ہیں۔ زندہ جلائے جانے سے پہلے جو ان کی جگر دوز چیخیں نکلی تھیں وہ پس منظر میں گونجتی رہتی ہیں۔

سارا کیمپ جب سو جاتا ہے تو بچے جاگتے ہیں، انہیں انتظار رہتا ہے اپنی ماں  ۔ ۔ ابا کے ساتھ کھانا کھانے کا۔ کیسے ہو سراج، ‘اماں کی روح نے سراج کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔’

‘تم کیسی ہوں اماں؟’

ماں خوش نظر آ رہی تھی بولی سراج۔ ۔ ۔ اب۔ ۔ ۔ میں روح ہوں۔ ۔ اب مجھے کوئی جلا نہیں سکتا۔ "اماں۔ ۔ ۔ کیا میں بھی تمہاری طرح ہو سکتا ہوں؟ ‘

 

(2)

شاہ عالم کیمپ میں آدھی رات کے بعد ایک عورت کی گھبرائی بوکھلائی روح پہنچی جو اپنے بچے کو تلاش کر رہی تھی۔ اس کا بچہ نہ اس دنیا میں تھا نہ وہ کیمپ میں تھا۔ بچے کی ماں کا کلیجہ پھٹا جاتا تھا۔ دوسری عورتوں کی روحیں بھی اس عورت کے ساتھ بچے کو تلاش کرنے لگی۔ ان سب نے مل کر کیمپ چھان مارا۔ ۔ محلے محلے گئیں۔ ۔ ۔ گھر دھوں  دھوں کر  کے جل رہے تھے۔ چونکہ وہ روحیں تھیں اس لئے جلتے ہوئے مکانوں کے اندر گھس گئی۔ ۔ ۔ کونا  کونا چھان مارا لیکن بچہ نہ ملا۔

آخر تمام عورتوں کی روحیں  دگایو کے پاس گئی۔ وہ کل کے لئے پٹرول بم بنا رہے تھے۔ بندوقیں صاف کر رہے تھے۔ ہتھیار چمکا رہے تھے۔

بچے کی ماں نے ان سے اپنے بچے کے بارے میں پوچھا تو وہ ہنسنے لگے اور بولے، "ارے دیوانی عورت، جب دس  ​​دس بیس  بیس لوگوں کو ایک ساتھ جلایا جاتا ہے تو ایک بچے کا حساب کون رکھتا ہے؟ پڑا ہوگا کسی راکھ کے ڈھیر میں۔ ‘

ماں نے کہا، ‘نہیں، نہیں میں نے ہر جگہ دیکھ لیا ہے۔ ۔ ۔ کہیں نہیں ملا۔ ‘

تب کسی فسادی نے کہا، ‘ارے یہ اس بچے کی ماں تو نہیں ہے جسے ہم ترشول پر ٹانگ آئے ہیں۔’

 

(3)

 

شاہ عالم کیمپ میں آدھی رات کے بعد روحیں آتی ہیں۔ روحیں اپنے بچوں کے لئے آسمان سے کھانا لاتی ہیں، پانی لاتی ہیں، دوائیں لاتی ہیں اور بچوں کو دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شاہ عالم  کیمپ میں نہ تو کوئی بچہ ننگا بھوکا رہتا ہے اور نہ بیمار۔ یہی وجہ ہے کہ شاہ عالم کیمپ بہت مشہور ہو گیا ہے۔ دور  دور ملکوں میں اس کا نام ہے۔

دہلی سے ایک بڑے لیڈر جب شاہ عالم کیمپ کے دورے پر گئے تو بہت خوش ہو گئے اور بولے، ‘یہ تو بہت اچھی جگہ ہے ۔ یہاں تو ملک کے تمام مسلمان بچوں کو پہنچا دینا چاہئے۔ ‘

 

(4)

 

شاہ عالم کیمپ میں آدھی رات کے بعد روہے آتی ہیں۔ رات بھر بچوں کے ساتھ رہتی ہیں، انہیں نہارتی ہیں۔ ۔ ۔ ان کے مستقبل کے بارے میں سوچتی ہیں۔ ان سے بات چیت کرتی ہیں۔

سراج اب تم گھر چلے جاؤ، ‘ماں کی روح نے سراج سے کہا۔’

‘گھر؟’ سراج سہم گیا۔ اس کے چہرے پر موت کی پرچھائیاں ناچنے لگیں۔

‘ہاں، یہاں کب تک رہو گے؟ میں روز رات میں تمہارے پاس آیا کروں گی۔ ‘

‘نہیں میں گھر نہیں جاؤں گا۔ ۔ کبھی نہیں۔ ۔ ۔ کبھی، ‘دھواں، آگ، چیخوں، شور۔

‘اماں میں تمہارے اور ابو کے ساتھ رہوں گا’

‘تم ہمارے ساتھ کیسے رہ سکتے ہو سککو۔ ۔ ۔ ‘

‘بھائیجان اور آپا بھی تو رہتے ہیں نہ تمہارے ساتھ۔’

‘انہیں بھی تو ہم لوگوں کے ساتھ جلا دیا گیا تھا نہ۔’

‘تب۔ ۔ ۔ تب تو میں۔ ۔ ۔ گھر چلا جاؤں اماں۔ ‘

 

(5)

 

شاہ عالم کیمپ میں آدھی رات کے بعد ایک بچے کی روح آتی ہے۔ ۔ ۔ بچہ رات میں چمکتا ہوا جگنو جیسا لگتا ہے۔ ۔ ادھر  ادھر اڑتا پھرتا ہے۔ ۔ ۔ پورے کیمپ میں دوڑا  دوڑا پھرتا ہے۔ ۔ ۔ اچھلتا  کودتا ہے۔ ۔ ۔ شرارتیں کرتا ہے۔ ۔ ۔ تتلاتا نہیں۔ ۔ ۔ صاف  صاف بولتا ہے۔ ۔ ۔ ماں کے کپڑوں سے لپٹا رہتا ہے۔ ۔ ۔ باپ کی انگلی پکڑے رہتا ہے۔

شاہ عالم کیمپ کے دوسرے بچے سے الگ یہ بچہ بہت خوش رہتا ہے۔

‘تم اتنے خوش کیوں ہو بچے؟’

‘تمہیں نہیں معلوم۔ ۔ یہ تو سب جانتے ہیں۔ ‘

‘کیا؟’

‘یہی کہ میں ثبوت ہوں۔’

‘ثبوت؟ کس کا ثبوت؟ ‘

‘بہادری کا ثبوت ہوں۔’

‘کس کی بہادری کا ثبوت ہو؟’

‘ان کی جنہوں نے میری ماں کا پیٹ پھاڑ کر مجھے نکالا تھا اور میرے دو ٹکڑے کر دیئے تھے۔’

 

(6)

 

شاہ عالم کیمپ میں آدھی رات کے بعد روحیں  آتی ہیں۔ ایک لڑکے کے پاس اس کی ماں کی روح آئی۔ لڑکا دیکھ کر حیران ہو گیا۔

‘ماں تم آج اتنی خوش کیوں ہو؟’

‘سراج میں آج جنت میں تمہارے دادا سے ملی تھی، انہوں نے مجھے اپنے ابا سے ملوایا۔ ۔ انہوں نے اپنے دادا۔ ۔ ۔ سے۔ ۔ ۔ سکڑ دادا۔ ۔ ۔ تمہارے نگڑ دادا سے میں ملی۔ ‘ ماں کی آواز سے خوشی پھٹی پڑ رہی تھی۔ ‘سراج تمہارے نگڑ دادا۔ ۔ ۔ ہندو تھے۔ ۔ ۔ ہندو۔ ۔ ۔ سمجھے؟ سراج یہ بات سب کو بتا دینا۔ ۔ ۔ سمجھے؟ ‘

 

(7)

 

شاہ عالم کیمپ میں آدھی رات کے بعد روحیں آتی ہیں۔ ایک بہن کی روح آئی۔ روح اپنے بھائی کو تلاش کر رہی تھی۔ تلاش کرتے  کرتے روح کو اس کا بھائی سیڑھیوں پر بیٹھا دکھائی دے گیا۔ بہن کی روح خوش ہو گئی وہ جھپٹ کر بھائی کے پاس پہنچی اور بولی، ‘بھیا، بھائی نے سن کر بھی ان سنا کر دیا۔ وہ پتھر کی مورتی کی طرح بیٹھا رہا۔ ‘

بہن نے پھر کہا، ‘سنو بھیا!’

بھائی نے پھر نہیں سنا، نہ بہن کی طرف دیکھا۔

‘تم میری بات کیوں نہیں سن رہے بھیا!’، بہن نے زور سے کہا اور بھائی کا چہرہ آگ کی طرح سرخ ہو گیا۔ اس کی آنکھیں ابلنے لگیں۔ وہ جھپٹ کر اٹھا اور بہن کو بری طرح پیٹنے لگا۔ لوگ جمع ہو گئے۔ کسی نے لڑکی سے پوچھا کہ اس نے ایسا کیا کہہ دیا تھا کہ بھائی اسے دھونے لگا۔ ۔ ۔

بہن نے کہا، ‘نہیں سلیمہ نہیں، تم نے اتنی بڑی غلطی کیوں کی۔’ بزرگ پھوٹ  پھوٹ کر رونے لگا اور بھائی اپنا سر دیوار پر پٹکنے لگا۔

 

(8)

 

شاہ عالم کیمپ میں آدھی رات کے بعد روحیں  آتی ہیں۔ ایک دن دوسری روحوں کے ساتھ ایک بوڑھے کی روح بھی شاہ عالم کیمپ میں آ گئی۔ بوڑھا ننگے بدن تھا۔ اونچی دھوتی باندھے تھا، پیروں میں چپل تھی اور ہاتھ میں ایک بانس کا ڈنڈا تھا، دھوتی میں اس نے کہیں گھڑسی کھونسی ہوئی تھی۔

روحوں نے بوڑھے سے پوچھا ‘کیا تمہارا بھی کوئی رشتہ دار کیمپ میں ہے؟’

بوڑھے نے کہا، ‘نہیں اور ہاں۔’

روحوں نے بوڑھے کو پاگل روح سمجھ کر چھوڑ دیا اور وہ کیمپ کا چکر لگانے لگا۔

کسی نے بوڑھے سے پوچھا، ‘بابا تم کسے تلاش کر رہے ہو؟’

بوڑھے نے کہا، ‘ایسے لوگوں کو جو میرا قتل کر سکے۔’

‘کیوں؟’

‘مجھے آج سے پچاس سال پہلے گولی مار کر مار ڈالا گیا تھا۔ اب میں چاہتا ہوں کہ دگایو مجھے زندہ جلا کر مار ڈالیں۔ ‘

‘تم یہ کیوں کرنا چاہتے ہو بابا؟’

‘صرف یہ بتانے کے لئے کہ نہ ان کے گولی مار کر مارنے سے میں مرا تھا اور نہ ان کے زندہ جلا دینے سے مروں گا۔’

 

(9)

 

شاہ عالم کیمپ میں ایک روح سے کسی لیڈر نے پوچھا

‘تمہارے ماں  باپ ہیں؟’

‘مار دیا سب کو۔’

‘بھائی بہن؟’

‘نہیں ہیں’

‘کوئی ہے’

‘نہیں’

‘یہاں آرام سے ہو؟’

‘ہوں  ہیں۔’

‘کھانا  وانا ملتا ہے؟’

‘ہاں ملتا ہے۔’

‘کپڑے  وپڑے ہیں؟’

‘ہاں ہیں۔’

‘کچھ چاہئے تو نہیں،’

‘کچھ نہیں۔’

‘کچھ نہیں۔’

‘کچھ نہیں۔’

لیڈر جی خوش ہو گئے۔ سوچا لڑکا سمجھ دار ہے۔ مسلمانوں جیسا نہیں ہے۔

 

(10)

 

شاہ عالم کیمپ میں آدھی رات کے بعد روہے آتی ہیں۔ ایک دن روہو کے ساتھ شیطان کی روح بھی چلی آئی۔ ادھر  ادھر دیکھ کر شیطان بڑا شرمایا اور جھینپا۔ لوگوں سے آنکھیں نہیں ملا پا رہا تھا۔ کنی کاٹتا تھا۔ راستہ بدل لیتا تھا۔ گردن جھکائے تیزی سے ادھر مڑ جاتا تھا جدھر لوگ نہیں ہوتے تھے۔ آخر کار لوگوں نے اسے پکڑ ہی لیا۔ وہ واقعی شرمندہ ہو کر بولا، ‘اب یہ جو کچھ ہوا ہے۔ ۔ اس میں میرا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ ۔ ۔ اللہ قسم میرا ہاتھ نہیں ہے۔ ‘

لوگوں نے کہا، ‘ہاں۔ ۔ ۔ ہاں ہم جانتے ہیں۔ آپ ایسا کر ہی نہیں سکتے۔ آپ بھی آخر ایک سٹینڈرڈ ہیں۔ ‘

شیطان ٹھنڈی سانس لے کر بولا، ‘چلو دل سے ایک بوجھ اتر گیا۔ ۔ ۔ آپ لوگ سچائی جانتے ہیں۔’

لوگوں نے کہا، ‘کچھ دن پہلے اللہ میاں بھی آئے تھے اور یہی کہہ رہے تھے۔’

٭٭٭

 

 

 

مرغابیوں کے شکاری

 

ادھیڑ عمر لوگوں کو آسانی سے کسی بات پر حیرت نہیں ہوتی۔ زندگی کی پینتالیس بہاریں یا پت جھڑ اتنے کھٹے  میٹھے تجربات سے اس کا دامن بھر دیتی ہیں کہ اچھا اور برا، خوبصورت اور بد صورت، ایثار اور مفاد وغیرہ وغیرہ کے کنارے اور بہت کچھ دیکھنے کے بعد ادھیڑ عمر آدمی بہت کچھ ہضم کر  لیتا ہے۔

ڈاکٹر رام بابو سکسینہ یعنی آر کے سکسینہ پچاس کے ہونے والے ہیں۔ دہلی کالج سے ریٹائرمنٹ میں ابھی سال باقی ہیں۔ ڈاکٹر آر کے سکسینہ کو آج حیرت ہو رہی ہے۔ انہیں لگتا ہے، ایسا تو انہوں نے سوچا بھی نہ تھا! یہ ہوگا، اس کا ذرہ  برابر اندازہ بھی نہ تھا اور اس طرح انجان پکڑے جانے پر توہین کا جو احساس ہوتا ہے، وہ بھی ڈاکٹر سکسینہ کو ہو رہا ہے۔ سامنے کلاس میں بیٹھے استاد ان کی باتوں پر ہنس رہے ہیں۔ چلئے طالب علم ہنس دیتے تو ڈاکٹر سکسینہ صبر کر لیتے کہ چلو نہیں جانتے، اس لئے ہنس رہے ہیں۔ لیکن یہ اسکول کے اساتذہ، جنہوں نے کم سے کم بی اے اور اس کے بعد بی۔ ایڈ ضرور کیا ہے، ہنس رہے ہیں تو ڈوب مرنے کی بات ہے۔

 

قصہ کچھ یوں ہے کہ ڈاکٹر سکسینہ کے پاس صبح  صبح ڈاکٹر پی سی پانڈے جی کا فون آیا کہ اگر آج کچھ خاص نہ کر رہے ہوں تو اسکول کے اساتذہ کے ٹریننگ پروگرام میں آ کر دو  ڈھائی گھنٹے کا خطاب دے دیں کہ بچوں کو ہندی کس طرح پڑھائی جانی چاہئے۔ جس طرح کہا گیا تھا اس سے ظاہر تھا کہ کچھ ملے گا۔ ڈاکٹر پانڈے نے واضح کر دیا، ڈاکٹر صاحب آپ بے فکر رہو جیسا کہ آپ کہتے ہو مرغابیوں  کا شکار ہے۔ ۔ ہم نے پورا انتظام کر رکھا ہے۔ جال  وال لگوا دیئے ہیں۔ ہاکا  واکا لگوا دیا ہے۔ ۔ ۔ مچان  وچان کرا دی ہے، اب آپ کی کسر ہے کہ آ جاؤ اور سولہ بور کی لبلبی دوا دو ڈاکٹر پانڈے نے تفصیل سے بتایا۔

 

عمر میں کم ہوتے ہوئے بھی پانڈے اور ڈاکٹر سکسینہ میں نزدیکی ہے۔ مرغابیوں یعنی پانی پر اترنے والی چڑیوں کا شکار ڈاکٹر سکسینہ کی ایجاد ہے۔ بچپن میں چالیس  پینتالیس سال پہلے اپنی ننہال مرزا پور میں اپنے نانا دیوان رام بابو رائے کے ساتھ مرغابیوں کے شکار پر جایا کرتے تھے۔ مرغابیوں کے شکار پر جانے والوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی، کیونکہ شکار کا مطلب تھا مرغابیوں میں مفت کا حصہ کام کرنے کے بعد ادھر  ادھر سےمیناروں، ورکشاپس، جلسوں وغیرہ میں جو مل جاتا ہے اس کے لئے پتہ نہیں کس طرح ڈاکٹر سکسینہ نے دل میں مرغابیوں کے شکار کا بب بنا لیا تھا۔ یہ بات ڈاکٹر سکسینہ کے قریبی لوگ جانتے ہیں کہ وہ اسے’بالا’نہیں’ اندرونی’ آمدنی کو مرغابیوں کا شکار کہتے ہیں۔

ہاں وہ تو ہے۔ ۔ ۔ اچھا ہے لیکن ڈاکٹر پانڈے، یہ بتاؤ کہ پروگرام  کیا ہے؟ ہریانہ کے رہنے والے ڈاکٹر شرما تفصیل سے بات کرتے ہیں، ‘اجی ڈاکٹر صاحب کیا بتاویں۔ ۔ یہ ورلڈ بینک کا پروجیکٹ ہے جی۔ ۔ ایک مہینے کا ٹریننگ پروگرام، اس سے پہلے ‘ٹیکسٹ بک’بنوانے کی’ ورکشاپ’ کرائی تھی۔ آج کل یہ چل رہا ہے۔ دہلی میں دس سینٹر بنائے ہیں۔ ۔ ۔ ہمارے جی ‘ہویل’ایک ہزار سے مزید ٹیچر لے۔ ۔ ۔ کچھ بڑے اسکولوں میں تو حالات اچھی ہے اور کچھ میں تو کولر بھی نہیں ہے ڈاک ساب۔ ۔ ۔ اب تم ہی  بتاؤ جی۔ ۔ ۔ بغیر کولر ماہرین کو بلاوے تو شرم نئیں آئے گی؟۔ ۔ ۔ تو پھر اسی سکول منتخب ہیں۔ ۔ ۔ کم سے کم کولر تو ہووے نہ ڈاک صاحب۔ ۔ ۔ ماہر۔ ۔ ۔’

 

ماہر اور ‘کولر’یعنی گرمی میں ٹھنڈا درجہ حرارت اور موسم سرما میں گرم بہت ضروری ہے ورلڈ بینک میں رپورٹ ہو جائے تو ڈاکٹر پانڈے جیسے ڈائریکٹرس کی نوکری پر بن آئے گی۔ ویسے ڈاکٹر پانڈے سے ان کا تعارف پرانا ہے۔ انہیں پی ایچ ڈی میں ایڈمیشن لینا تھا انہوں نے پرپوزل جمع کرایا، پاس کروایا، تھیسس لکھوائی، ٹائپ کرائی، جمع کرائی، ممتحین  کو بھجوائی، رپورٹ منگوائی، وائے وا کرایا۔ ۔ ۔ پانڈے جی کو پی ایچ ڈی ایوارڈ کرائی اور ڈگری گھر بھجوائی تھی۔ ڈاکٹر سکسینہ نے یہ سب کسی اچھے خیال کے تحت نہیں کیا تھا۔ ایک معاملہ یہ تھا کہ فرید آباد کی سرکاری کالونی سے ملے گاؤں میں پانڈے جی کی زمین تھی جس پر پلاٹنگ کی ہوئی تھی۔ ‘ڈیل’یہ تھی کہ ادھر پی ایچ ڈی ہوگی، ادھر زمین کا بیع نامہ ہوگا۔ یہ تبادلہ  پروگرام صحیح طور سے چلا۔

 

ڈاکٹر سکسینہ کا ‘سیشن’دس بجے سے شروع ہونا تھا۔ اس وقت سوا دس ہو رہا ہے۔ ٹریننگ سینٹر یعنی اسکول میں پرنسپل کے کمرے میں ڈاکٹر پانڈے کا لیکچر جاری ہے، ‘ڈاکٹر صاحب! موسم گرما میں ماہر ملنے مشکل ہو جاتے ہیں۔ ۔ ۔ ارے شملہ یا نینی تال ہو تو کہئے میں سینکڑوں ماہرین جمع کر دوں لیکن گرمیوں میں دہلی۔ ۔ ۔ ارے بھائی جی، وزیر اعظم اور صدر وغیرہ کی بات تو چھوڑ دو، چھٹ بھئے لیڈر تک موسم گرما میں دار الحکومت چھوڑ دیتے ہیں۔ ۔ اب جب پانی نہیں برسے گا، یہی مسئلہ رہے گی۔ ۔ ۔ اب دیکھو جی، ہمیں تو یہی آدیش ہیں کہ ماہرین کی مانو۔ ۔ ۔ تو ہم عمل کرتے ہیں۔ ۔ ۔ عالمی بینک سے ہم لوگوں نے دس کروڑ مانگا تھا نئے سکول کھولنے کے لئے۔ انہوں نے کہا دس کروڑ سے پہلے ‘یہ’اور’ یہ’ اور ‘یہ’کرائیں گے۔ اس کے لئے پانچ کروڑ دیں گے۔ ۔ پھر نصاب تبدیل کرنے کو اتنا، پھر اتنا۔ ۔ ۔ ہوتے  ہوتے سو کروڑ ہو گیا۔ ۔ ۔ چلو ٹھیک ہے، تعلیم پر پیسہ لگ رہا ہے۔ ۔ ۔ پر سمجھ میں کم ہی آتا ہے۔ اب دیکھو گے، ان ہی ماہرین نے بچوں کے بستوں  کا وزن بڑھایا پھر یہ ہی  بولے، بچوں کی تو کمر ٹوٹی جا رہی ہے۔ ۔ اب سنو جی ماہر کہتے ہیں ہماری تعلیم چو حدی میں قید ہو گئی ہے۔ دیکھو جی، پہلے اسکول کی چار دیواریں۔ ۔۔ پھر کہوے ہیں۔ کلاس روم  کی چار دیواریں۔ ۔ ۔ نصاب کی چار دیواریں، اساتذہ کی چار دیواریں۔ ۔ ۔ امتحان کی چار دیواریں۔ ۔ ۔ اب بولو۔ ۔ ۔ حکم ہو جائے تو توڑ دی جاویں سب دیواریں۔ ۔ ۔’

‘ساڈھے دس بج رہا ہے۔’ڈاکٹر سکسینہ بولے۔ ‘ارے ڈاک صاحب کیوں جلدبازی کر رہے ہو۔ ۔ ابھی نہ آئے ہوں گے۔’

پینتالیس استاد، جن میں نصف کے قریب خواتین اور لڑکیاں۔ کچھ اساتذہ جاہل جیسے لگ رہے تھے اور کچھ استانیاں  اچھا  خاصا فیشن کئے ہوئے تھیں۔ ان سب کے چہروں پر ایک عجیب سی کیفیت تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ اس سب سے متفق نہیں ہیں جو ہو رہا ہے یا ہونے جا رہا ہے۔ ڈاکٹر سکسینہ نے سوچا، ایسا تو اکثر ہی ہوتا ہے۔ جب بات چیت شروع ہوگی تو یقین کا رشتہ بنتا چلا جائے گا اور تھکاوٹ ایک دور ہو جائے گی۔ ڈاکٹر سکسینہ نے بہت مؤثر طریقے سے اپنی بات شروع کی اور مسائل کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا تاکہ ان پر تفصیل سے گفتگو ہو سکے۔ ان سب کوششوں کے بعد بھی ڈاکٹر سکسینہ کو لگا کہ سامنے بیٹھے اساتذہ  استانیوں کے چہرے پر مذاق اڑانے، طنز کرنے، بولنے والوں کو جوکر سمجھنے کے جذبات پیدا ہو  گئے ہیں۔ کچھ زیرِ  لب مسکرانے بھی لگے۔ تیس سال پڑھانے اور شریر سے شریر طالب علم کو سیدھا کر دینے کا دعویٰ کرنے والے ڈاکٹر سکسینہ اپنا چہرہ، جتنا سخت بنا سکتے تھے، بنا لیا۔ آواز جتنی بھاری کر سکتے تھے کر لی اور باڈی لینگویج کو جتنا جارحانہ بنا سکتے تھے بنا لیا۔ لیکن حیرت کی بات یہ کہ سامنے بیٹھے لوگوں کے چہروں پر مذاق  اڑانے والا انداز دکھائی دیتا رہا۔ ایک ٹیچر کے چہرے پر ایسے تاثرات آئے جیسے وہ کچھ کہنا چاہتی ہے۔

‘سر آپ جو کچھ بتا رہے ہیں بہت اچھا ہے۔ پر ہمارے کام کا نہیں ہے۔’ٹیچر بولی۔

اس رد عمل پر ڈاکٹر سکسینہ کو غصہ تو بہت آیا لیکن پی گئے اور بولے، ‘کیا سمجھ نہیں آ رہا؟’

‘ نو سر۔ ۔ ۔ سمجھ میں تو سب آ رہا ہے۔’

‘اس وقت یہ کام کا کیوں نہیں لگ رہا ہے؟’ڈاکٹر سکسینہ نے پوچھا اور اساتذہ کی پوری کلاس کھل کر مسکرانے لگی۔ ڈاکٹر سکسینہ نے سوچا، کیا وہ ‘تھرڈ ڈگری’میں چلے جائیں؟ پر یہ بھی لگا کہ یہ لڑکے نہیں ہیں، استاد ہیں، کہیں گڑبڑ نہ ہو جائے۔

‘سر، جہاں بچے پڑھنا ہی نہ چاہتے ہوں وہاں ٹیچر کیا کر سکتا ہے؟’ایک بالغان کے اساتذہ نے سنجیدگی سے کہا اور کچھ نوجوان اساتذہ ہنس دئے۔ ڈاکٹر سکسینہ کا خون کھول گیا۔ وہ فورا سمجھ گئے کہ یہ سالے مجھے۔ ۔ یعنی مجھے یعنی ڈاکٹر آر بی سکسینہ پروفیسر صدر اور پتہ نہیں کتنی قومی کمیٹیوں اور جماعتوں کے رکن کو اکھاڑنا چاہتے ہیں، ان کو شاید معلوم نہیں کہ ان کا سب سے بڑا باس مجھے سر کہتا ہے اور پوری بات چیت میں صرف ‘سر’ہی’ سر’ کرتا رہتا ہے۔

‘بچے پڑھنا نہیں چاہتے یا آپ لوگ پڑھانا نہیں چاہتے۔’ڈاکٹر سکسینہ نے پلٹ  کر وار کیا۔

‘سر، ہم بچوں کو پڑھانا چاہتے ہیں۔ ۔ ۔ ایمانداری سے پڑھانا چاہتے ہیں۔ ۔ ۔ پر وہ نہیں پڑھتے۔ ‘ایک لیڈی ٹیچر بولی۔ اس کا بولنے کا انداز اور چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ سچ بول رہی ہے اور مذاق نہیں اڑا رہی ہے۔

‘سر، آپ ایسے نہیں سمجھو گے۔ ۔ ۔’ایک دیہی علاقے کا سا لگنے والا استاد بولا، ‘ایسے ہے جی کہ ہمارے اسکولوں میں سب سے کمزور ‘ورگ’ کے بچے آوے ہیں۔’

‘ورگ نہیں طبقہ۔ ۔ ۔’کسی نے چپکے سے کہا کہ پوری کلاس ہنسنے لگی۔ ‘وہی سمجھ لو جی۔ ۔ ۔ اپنی تو زبان ایسی ہے۔ ۔ ۔ تو جی۔ ۔ ۔’

‘ٹھیک ہے، ٹھیک ہے، بیٹھئے میں سمجھ گیا۔’ڈاکٹر سکسینہ نے استاد کو چپ کرا دیا۔ ایک فیشنیبل ٹیچر بولنے لگی، ‘سر، ہمارے اسکولوں میں مزدوروں، ریڑی والوں، ٹھیلے والوں، مزدوروں، صفائی کرنے والوں، مالی  دھوبی خاندانوں کے بچے آتے ہیں۔ سر، ہم انہیں وہ سب سکھاتے ہیں جو عام طور پر بچوں کو ماں  باپ سکھا دیتے ہیں۔ انہیں بیٹھنا تک نہیں آتا۔ کھانا نہیں آتا۔ انہیں ہم سکھاتے ہیں کہ دیکھو سب کے سامنے ناک میں انگلی ڈال کر۔ ۔ ۔۔’پوری کلاس ہنسنے لگی۔

‘تو پھر بتائیے سر۔ ۔ ۔؟”تو پڑھانے میں کیا پرابلم ہے؟” بچے ریگولر اسکول نہیں آتے۔ ۔ ۔ لنچ ٹائم میں آتے ہیں۔ اسکول کی طرف سے لنچ ملتا ہے، وہ کھاتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ ۔ کبھی ان کے خاندان والوں کو علاقے میں مزدوری نہیں ملتی تو کہیں اور چلے جاتے ہیں۔ ۔ ۔’

‘ارے، یہ سب بچوں کے ساتھ تو نہ ہوتا ہوگا؟’ڈاکٹر سکسینہ نے انہیں پکڑا۔ ‘سر، یہ سمجھ لو۔ ۔ ۔ بچہ اسکول میں پانچویں تک پڑھتا ہے، پاس ہو کر چلا جاتا ہے، پر وہ الف  بے جیم نہ تو پڑھ سکتا ہے نہ لکھ سکتا ہے۔’ڈاکٹر سکسینہ کو لگا، یہ سفید جھوٹ ہے اور اگر کہیں یہ سچ ہے تو اس سے بڑا کوئی سچ نہیں ہو سکتا۔

یہ کیسے ‘پاسبل’ہے، ڈاکٹر سکسینہ کی آواز میں ماہرین والی تناہٹ آ گئی۔ ‘سر، اس طرح کے بچوں کو ہم فیل نہیں کر سکتے؟’ڈاکٹر سکسینہ کو دھکا اور لگا۔ یہ کیسے تعلیم حاصل ہے اور کیسا اسکول ہے؟ ‘کیا آپ کو ایسا حکم دیا گیا ہے کہ۔ ۔ ۔’

‘سر، لکھ کر تو نہیں۔ ۔ ۔ زبانی طور پر دیا ہی گیا ہے۔ دلیل یہ ہے کہ فیل ہونے پر لڑکے پڑھائی چھوڑ دیتے ہیں اور۔ ۔ ۔”تو اسکول میں کوئی فیل نہیں ہوتا؟” یس، سر۔ ۔ ۔75 فیصد حاضری جس کی بھی ہوتی ہے اسے پاس کرنا پڑتا ہے۔’

ایک مشکل ڈاکٹر سکسینہ کو یہ لگ رہی تھی کہ بات چیت اسکول نظام پر مرکوز ہو گئی تھی جب کہ یہاں ان کا کام اچھے تعلیمی پر تقریر دینا تھا۔ ‘دیکھئے، ایسا ہے کہ آپ لوگ بچوں کی پڑھائی میں دلچسپی پیدا کرنے کے لئے کچھ تو کر ہی سکتے ہیں۔’

‘کیوں نہیں۔ ۔ ۔ ضرور کچھ بچے پڑھتے بھی ہیں پر جب وہ جانتے ہیں کہ پڑھنے والے اور نہ پڑھنے والے دونوں پاس ہو جائیں گے تو بس۔ ۔ ۔”دیکھئے، میں یہ زور دے کر کہنا چاہتا ہوں کہ آپ لوگ ہر حالت میں اپنی’ پرفارمینس’ امپروو کر سکتے ہیں۔’

‘سر، براہ مہربانی میری ایک چھوٹی اور بنیادی بات پر یقین کریں کہ اگر۔ ۔ انہوں نے داڑھی والے استاد کی بات کاٹ دی کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ مشترکہ بنیادی باتوں کا وہ جواب نہ دے سکیں گے۔ ‘دیکھئے مسائل تو ہوں گے ہی۔ ۔ ۔ ۔ پر۔ ۔ ۔’

ان کی بات کاٹ کر ایک ٹیچر بولی، ‘سر، آپ نے وہ کتاب دیکھی ہے جو ہم پہلے درجے کے بچے کو پڑھاتے ہیں۔’اس نے کتاب بڑھاتے ہوئے کہا،’ پہلا سبق ہے باورچی خانہ۔ ۔ ۔ پہلا جملہ ‘پھل کھا’جن بچوں کو ہم پڑھاتے ہیں وہ جانتا ہی نہیں کہ پھل کیا ہے؟’ استاد نے کہا اور باقی سب ہنسنے لگے۔

‘دیکھئے سر، یہ گھر کی تصویر بنی ہے۔ ۔ ۔ ہمارے بچوں نے تو گیس سلینڈر، فریج، برتن رکھنے کی الماریاں دیکھی تک نہیں ہوتیں۔ ۔ ان کی سمجھ میں یہ سب کیا آئے گا۔ ۔ ۔؟ جب تک ڈاکٹر سکسینہ جواب دیتے، ایک دوسرا سوال اچھلا، ‘سر، جس بچے کو’ ا”ب” ج’نہ آتا ہو وہ جملہ کیسے پڑھے گا یا سیکھےگا؟”دیکھئے، اسے ڈائریکٹ میتھڈ کہتے ہیں۔’

‘وہ’ ا”ب” ج’والے سسٹم میں کیا خرابی تھی؟”اب دیکھئے، ماہرین کو لگا کہ نئے میتھڈ سے۔ ۔ ۔”سر میتھڈ چھوڑیئے۔ ۔ ۔ یہ دیکھئے ماں کی تصویر۔۔ سلائی کر رہی ہے۔ والد صاحب آفس جا رہے ہیں۔ ہاتھ میں چھاتا اور پورٹ فولیو ہے۔ ۔ ہمارے اسکول کے بچے جھگی  جھونپڑی مزدور۔ ۔ ۔’

ڈاکٹر سکسینہ ان کی بات کاٹ کر بولے، ‘کیا نئی کتاب بناتے وقت ماہرین نے آپ لوگوں سے یا اسکول کے بچوں سے کوئی بات چیت کی تھی۔” نہیں، چالیس آوازیں ایک ساتھ آئی۔ ‘اب بتائیے سر۔ ۔ ۔ ہم کیا کریں۔ ۔ ۔ بجلی ہمارے ہی اوپر گرتی ہے۔ ۔ ۔ بچوں کو کیا ‘انکریج’کریں؟’

‘آپ، لوگ ذاتی طور پر تو کچھ کر سکتے ہیں؟” سر، ہمارے اسکول میں سات سو لڑکے ہیں۔ گیارہ استاد ہیں۔ ایک کلاس روم میں تین کلاسیں بیٹھتی ہیں۔ ایک استاد ایک ساتھ تین کلاسوں کو پڑھاتا ہے۔’ڈاکٹر سکسینہ کو لگا جیسے وہ حیرت کے سمندر میں ڈوبتے چلے جا رہے ہیں۔ ۔ ۔ دھیرے  دھیرے اندھیرے میں کسی بہت بڑے بحری جہاز کی طرح ان کے اندر پانی بھر رہا ہے اور روح دھیرے  دھیرے نکل رہی ہے۔ ۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟ استاد یہ ثابت کئے دے رہے ہیں کہ وہ بھی ایک بڑے بھاری سازش کا حصہ ہے۔

‘دیکھئے یہ صورتحال ہر اسکول میں تو نہیں ہوگی؟’ڈاکٹر سکسینہ نے کہا۔ ‘ہاں سر، یہ بات تو آپ کی ٹھیک ہے۔ دیہی علاقوں میں جو سکول ہیں۔ ۔ وہاں یہ حالت ہے۔ ۔ ۔ شہری علاقوں میں۔ ۔ ۔’

‘شہری علاقوں میں بچے غیر  جگہ بہت رہتے ہیں۔ ۔ ۔’

‘سر، دراصل ان کو پڑھانا ہے تو پہلے ان کے ماں  باپ کو پڑھاؤ۔’ کسی چنچل ٹیچر نے کہا اور سب ہنس پڑے۔

‘ہاں جی، سو کی سیدھی بات ہے۔’کسی نے رد عمل دیا۔ ڈاکٹر سکسینہ گھبرا گئے۔ پھر وہی ہو رہا ہے۔ یہ لوگ مجھے ‘ڈبو’رہے ہیں اس پانی میں جہاں مرغابیاں  نہیں ہیں۔ ۔ جہاں پانی ہی پانی ہے۔ ‘سر، بچوں کے ماں  باپ کو پڑھایا جائے تو انہیں کھلائے گا کون؟” حکومت کھلائے؟’ کسی استاد نے کہا۔ ‘حکومت کے پاس اتنا ہے؟’

کسی دوسرے استاد نے کہا۔ ‘کیوں نہیں ہے؟’

‘ابھی پڑھا نہیں؟ صنعت کاروں کا ڈھائی ہزار کروڑ قرض معاف کر دیا ہے حکومت نے۔ ۔ ۔ کیا کہتے ہیں انگریزی میں بڑا اچھا نام دیا ہے  نان رکرنگ۔ ۔ ۔ ۔’ڈاکٹر سکسینہ نے گھبرا کر استاد کی بات کاٹ دی، ‘ٹھہریئے۔ ۔ یہ یہاں ڈسکس کرنے کا مسئلہ نہیں ہے۔’وہ ڈر رہے تھے کہ ڈائریکٹر صاحب کہیں گے  کیوں جی آپ کے یہاں مرغابیوں کا شکار کرنے کے لئے بلایا گیا تھا اور آپ تو شکاریوں کا شکار کرنے والی باتیں کرنے لگے۔ ‘ارے، یہ سیاست گندی چیز ہے۔ چھوڑیئے اس کو، صرف یہ بتائیں کہ بچوں کی تعلیم کو کس طرح سے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔’

‘سر اب بات نکل آئی ہے تو کہنے دیجئے سر۔ ۔ ۔ ہمارے اسکولوں میں ہمارے افسران کے بچے کیوں نہیں پڑھتے؟ وزراء کے بچے سرکاری اسکولوں میں کیوں نہیں جاتے۔’ڈاکٹر سکسینہ پھر مجبور ہو گئے، ‘ٹھہریئے۔ ۔ یہ باتیں آپ لوگ اپنی تنظیموں میں ‘ڈسکس لوڈ، اتارنا۔’

‘ سر، ہمارے تنظیموں میں یہ کبھی ‘ڈسکس’ نہیں ہوتا۔’

‘دیکھئے اب میں آپ لوگوں سے نفسیاتی پہلوؤں  پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ بچوں کے پڑھانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم ان کی نفسیات کو سمجھیں۔ ۔ ۔ ہر بچے کی اپنی الگ نفسیات ہوتی ہے۔ ۔ ۔’

 

استاد آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ خاتون ٹیچرس بڑے آسان طریقے سے کھسر  پسر کر  رہی تھیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ اتوار کے دن جاڑوں کی ریشمی دھوپ میں بیٹھی سویٹر بن رہی ہوں اور باتیں کر رہی ہوں۔ مرد اساتذہ کے بھی کئی گروپ بن گئے تھے اور سب باتوں میں مشغول  ہو گئے تھے۔ ایک دو اساتذہ بار  بار گھڑی دیکھ رہے تھے۔ ڈاکٹر سکسینہ مسلسل بغیر رکے بولے جا رہا ہے۔ وہ مرغابیوں کا شکار کھیل رہے تھے۔ وہ چاہتے بھی نہیں تھے کہ استاد کی توجہ سے ان کے پاس تھے نہیں یا وہ دے نہیں سکتے تھے کیونکہ وہ تو مرغابیوں کے شکاری ہیں۔

 

کچھ دیر بات شور کی شکل بدل گئی۔ اب شور نے چھوٹے  چھوٹے گروپوں کے سائز کو توڑ دیا اور وہ کلاس بھر میں پھیل گیا اور انہیں لگا کہ وہ کچھ کر  بھی نہیں سکیں گے۔ ‘آپ لوگ کیا باتیں کر رہے ہیں؟’انہوں نے پوچھا۔ ‘سر، ہماری کلاس ایک بجے ختم ہوگی۔” ہاں، مجھ سے آپ کے ڈائریکٹر نے یہی کہا ہے کہ ایک بجے تک میں آپ کو لیکچر دیتا رہوں۔’

‘سر، اس کے بعد ہماری حاضری ہوگی۔” ٹھیک ہے۔’

‘نہیں سر۔ ۔ ۔ ٹھیک کیسے ہے۔ ۔ ۔ ایک بجے تو کلاس ختم ہو جاتی ہے۔ ہمیں چلے جانا ہے۔ ایک بجے اگر حاضری ہوگی تو پندرہ منٹ تو حاضری میں لگ جائیں گے۔’ایک خاتون ٹیچر بولی۔

‘تو پھر’

‘ ہماری حاضری پون بجے ہونا چاہئے تاکہ ہم ٹھیک ایک بجے چھٹی حاصل کر سکیں۔”دس  پندرہ منٹ سے کیا فرق پڑتا ہے۔’ڈاکٹر سکسینہ نے کہا۔

‘میری بس چھٹ جائے گی۔ ۔ پھر ایک گھنٹے بعد بس ہے۔ ۔ ۔ گھر پہنچتے  پہنچتے تین بجے جائیں گے۔ انہیں کھانا دینا ہے۔ بیٹی کو سکول بس سے لینا ہے۔ روٹی ڈالنا ہے۔ ۔ ۔ انہیں گرم روٹی ہی دیتی ہوں۔ دال میں بگھار بھی نہیں لگایا ہے۔ ۔ ۔ ‘خاتون بولتی رہی ۔۔

ایک مرد استاد نے کہا، ‘ویسے بھی اصول کی بات ہے ۔۔۔۔ اگر ایک بجے چھٹی ہونی ہے تو ایک ہی بجے ہونی چاہئے۔”مجھے تو نجف گڑھ جانا ہے۔ ۔ ۔ دیر ہو جاتی ہے تو اندھیرا ہو جاتا ہے۔ ۔ ۔ کرمنل ایریا پڑتا ہے۔ ۔ ۔ کچھ ہو گیا تو۔ ۔ ۔’لڑکی خاموش ہو گئی۔

‘حاضری پون بجے ہی ہونی چاہئے۔’ایک دادا قسم کے اساتذہ نے دھمکی آمیز انداز میں کہا۔

‘سر، لیڈیز کی پرابلم کوئی نہیں سمجھتا۔ ۔ میں تو خیر میریڈ ہوں۔ ۔ ۔ بچے بستے لئے گھر کے باہر ‘ویٹ’کر رہے ہوں گے۔ ۔ ۔ چابی پڑوس میں دینے کے لئے ‘وہ’منع کرتے ہیں۔ ۔ ۔ سر جو لیڈی ٹیچر میریڈ نہیں ہیں ان کے گھروں میں بھی کچھ تو ہے ہی ہے سر۔ ۔ ۔’

‘سر، ہم لڑکیاں دیر سے گھر پہنچے تو ہزار طرح کی باتیں ہونے لگتی ہیں۔’

 

ڈاکٹر سکسینہ کو لگا کہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا اور ضروری کام یہی ہے کہ ان لوگوں کی پندرہ منٹ پہلے حاضری ہو جائے تاکہ یہ ٹھیک ایک بجے اسکول سے نکل سکیں۔ انہوں نے ڈائریکٹر پانڈے جی کو بلایا۔ وہ رجسٹر لے کر آئے۔ رجسٹر جیسے ہی میز پر رکھا گیا، یہ لگا گندے چپچپے میلے مٹھائی باندھنے والے کپڑے پر مکھیوں نے حملہ بول دیا ہو۔ ایسی کائیں کائیں، بھائیں  بھائیں ہونے لگی کہ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔

ڈاکٹر سکسینہ تھکے ہارے اور کچھ بے عزت بھی ڈائریکٹر کے کمرے میں جہاں کولر چل رہا تھا، آ گئے۔ ڈاکٹر پانڈے کو پتہ نہیں کس طرح معلوم ہو گیا کہ کلاس میں میرے ساتھ کیا ہوا۔ ‘اب دیکھو جی، ہم تو انہیں’ بیسٹ ٹرینر’دیتے ہیں۔ ۔ اب ان کی ذمہ داری ہے کہ یہ کچھ سیکھتے ہیں یا نہیں۔’

ڈاکٹر سکسینہ ڈاکٹر پانڈے سے کہنا چاہتے تھے کہ یار پانڈے کیا تمہیں حقیقت میں کچھ نہیں معلوم؟ یا تم سب جانتے ہو؟ ڈاکٹر پانڈے کیا تمہیں نہیں معلوم کہ ایک سو تک سب الٹ  پلٹ گیا ہے۔

وہ یہ سب سوچ رہے تھے اور ڈاکٹر پانڈے پتہ نہیں کس طرح سمجھ گئے کہ ان کے پاس براہ راست اور چھوٹے سوال ہیں۔ ڈاکٹر پانڈے وہی کرنے لگے جو ڈاکٹر سکسینہ کلاس روم میں کر رہے تھے۔ یعنی بغیر رکے، مسلسل بولنے لگے تاکہ سوال پوچھنے کا موقع نہ ملے۔ ڈاکٹر پانڈے مسلسل بول رہے ہیں، وہ سانس ہی نہیں لے رہے۔

‘اب جی یہ تو دوسرا دن ہے۔ ۔ ۔ تیس دن چلنا ہے ورکشاپ۔ ۔ ۔ پھر رپورٹ بنے گی ورلڈ بینک کو جائے گی۔ ۔ ۔ بائیس سینٹر بنائے گئے ہیں۔ ہر سینٹر میں سو کے قریب ٹیچر ہیں۔ ۔ ۔’تقریر  دیتے ہی انہوں نے ڈاکٹر سکسینہ  کی  طرف کچھ بڑھایا۔ ظاہر ہے اس میں مرغابی ہی ہے۔ انہوں نے لفافہ جیب میں رکھ لیا۔ ڈاکٹر پانڈے بولے جا رہے ہیں۔ ۔ ۔۔

 

ڈاکٹر سکسینہ دروازے کے باہر دیکھ رہے ہیں، اساتذہ اسکول کے باہر نکل رہے ہیں۔ ۔ پھر لگا کہ نہ تو یہ استاد ہیں، نہ وہ ٹرینر ہیں، نہ ڈاکٹر پانڈے ڈائریکٹر ہیں، نہ یہ اسکول ہے۔ ڈاکٹر سکسینہ کو حیرت ہوئی کہ وہ اتنے صوفیانہ کیسے بنے گئے۔ پر اچھا لگا۔ ۔ ڈاکٹر پانڈے بولے جا رہے ہیں۔ ۔ ۔ مرغابیاں پانی پر اتر رہی ہے۔ ۔ ڈاکٹر سکسینہ خاموش ہیں کیونکہ شکاری چپ رہتے ہیں، بولتے ہی شکار اڑا جاتا ہے۔ ۔ لیکن انہیں یہ یقین کیوں ہے کہ وہ مرغابیوں کے شکاری ہیں ۔۔۔ ہو سکتا ہے وہ یا ڈاکٹر ترپاٹھی مرغابی ہوں اور شکاری۔ ۔ ۔۔

٭٭٭سو

 

ماخذ:

http://www.hindikunj.com/search/label/असगर%20वज़ाहत?

اور دوسری ویب سائٹس

ان کہانیوں کے ترجمے میں گوگل ٹرانسلیٹ سے مدد لی گئی ہے

http://translate.google.com/?hl=en&tab=mT#auto/ur/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید