FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

کلیاتِ میر

 

دیوانِ اول ۔ حصہ اول

 

 

                میر تقی میرؔ

 

 

 

اس متن کا مواد شمس الرحمن فاروقی اور احمد محفوظ کی مرتبہ  کلیات میر مطبوعہ نیشنل کاؤنسل برائے فروغ اردو زبان سے لیا گیا ہے

 

                ردیف الف

 

(۱)

تھا مستعار حسن سے اس کے جو نور تھا

خورشید میں بھی اس ہی کا ذرہ ظہور تھا

ہنگامہ گرم کن جو دل ناصبور تھا

پیدا ہر ایک نالے سے شور نشور تھا

پہنچا جو آپ کو تو میں پہنچا خدا کے تیں

معلوم اب ہوا کہ بہت میں بھی دور تھا

آتش بلند دل کی نہ تھی ورنہ  اے کلیم

یک شعلہ برق خرمن صد کوہ طور تھا

مجلس میں رات ایک ترے پر توے بغیر

کیا شمع کیا پتنگ ہر اک بے حضور تھا

۵

اس فصل میں کہ گل کا گریباں بھی ہے ہوا

دیوانہ ہو گیا سو بہت ذی شعور تھا

منعم کے پاس قاقم و سنجاب تھا تو کیا

اس رند کی بھی رات گذر گئی جو عور تھا

ہم خاک میں ملے تو ملے لیکن  اے سپہر

اس شوخ کو بھی راہ پہ لانا ضرور تھا

ق

کل پاؤں ایک کاسۂ سر پر جو آ گیا

یکسر وہ استخوان شکستوں سے چور تھا

کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر

میں بھی کبھو کسو کا سر پر غرور تھا

۱۰

تھا وہ تو رشک حور بہشتی ہمیں میں میرؔ

سمجھے نہ ہم تو فہم کا اپنے قصور تھا

 

(۲)

 

کیا میں بھی پریشانی خاطر سے قریں تھا

آنکھیں تو کہیں تھیں دل غم دیدہ کہیں تھا

کس رات نظر کی ہے سوے چشمک انجم

آنکھوں کے تلے اپنے تو وہ ماہ جبیں تھا

آیا تو سہی وہ کوئی دم کے لیے لیکن

ہونٹوں پہ مرے جب نفس باز پسیں تھا

اب کوفت سے ہجراں کی جہاں تن پہ رکھا ہاتھ

جو درد و الم تھا سو کہے تو کہ  وہیں تھا

۱۵

جانا نہیں کچھ جز غزل آ کر کے جہاں میں

کل میرے تصرف میں یہی قطعہ زمیں تھا

نام آج کوئی یاں نہیں لیتا ہے انھوں کا

جن لوگوں کے کل ملک یہ سب زیر نگیں تھا

مسجد میں امام آج ہوا آ کے وہاں سے

کل تک تو یہی میرؔ خرابات نشیں تھا

 

(۳)

 

نکلے ہے چشمہ جو کوئی جوش زناں پانی کا

یاد دہ ہے وہ کسو چشم کی گریانی کا

لطف اگر یہ ہے بتاں صندل پیشانی کا

حسن کیا صبح کے پھر چہرۂ نورانی کا

۲۰

کفر کچھ چاہیے اسلام کی رونق کے لیے

حسن زنار ہے تسبیح سلیمانی کا

درہمی حال کی ہے سارے مرے دیواں میں

سیر کر تو بھی یہ مجموعہ پریشانی کا

جان گھبراتی ہے اندوہ سے تن میں کیا کیا

تنگ احوال ہے اس یوسف زندانی کا

کھیل لڑکوں کا سمجھتے تھے محبت کے تئیں

ہے بڑا حیف ہمیں اپنی بھی نادانی کا

وہ بھی جانے کہ لہو رو کے لکھا ہے مکتوب

ہم نے سر نامہ کیا کاغذ افشانی کا

۲۵

اس کا منھ دیکھ رہا ہوں سو وہی دیکھوں ہوں

نقش کا سا ہے سماں میری بھی حیرانی کا

بت پرستی کو تو اسلام نہیں کہتے ہیں

معتقد کون ہے میرؔ ایسی مسلمانی کا

 

(۴)

جامۂ مستی عشق اپنا مگر کم گھیر تھا

دامن تر کا مرے دریا ہی کا سا پھیر تھا

دیر میں کعبے گیا میں خانقہ سے اب کی بار

راہ سے میخانے کی اس راہ میں کچھ پھیر تھا

بلبلوں نے کیا گل افشاں میرؔ کا مرقد کیا

دور سے آیا نظر تو پھولوں کا اک ڈھیر تھا

۳۰

 

(۵)

اس عہد میں الٰہی محبت کو کیا ہوا

چھوڑا وفا کو ان نے مروت کو کیا ہوا

امیدوار وعدۂ دیدار مر چلے

آتے ہی آتے یارو قیامت کو کیا ہوا

کب تک تظلم آہ بھلا مرگ کے تئیں

کچھ پیش آیا واقعہ رحمت کو کیا ہوا

اس کے گئے پر ایسے گئے دل سے ہم نشیں

معلوم بھی ہوا نہ کہ طاقت کو کیا ہوا

بخشش نے مجھ کو ابر کرم کی کیا خجل

اے چشم جوش اشک ندامت کو کیا ہوا

۳۵

جاتا ہے یار تیغ بکف غیر کی طرف

اے کشتۂ ستم تری غیرت کو کیا ہوا

تھی صعب عاشقی کی بدایت ہی میرؔ پر

کیا جانیے کہ حال نہایت کو کیا ہوا

 

(۶)

 

شب ہجر میں کم تظلم کیا

کہ ہمسائگاں پر ترحم کیا

کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات

کلی نے یہ سن کر تبسم کیا

زمانے نے مجھ جرعہ کش کو ندان

کیا خاک و خشت سر خم کیا

۴۰

جگر ہی میں یک قطرہ خوں ہے سرشک

پلک تک گیا تو تلاطم کیا

کسو وقت پاتے نہیں گھر اسے

بہت میرؔ نے آپ کو گم کیا

 

(۷)

الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا

دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا

عہد جوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند

یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا

حرف نہیں جاں بخشی میں اس کی خوبی اپنی قسمت کی

ہم سے جو پہلے کہہ بھیجا سو مرنے کا پیغام کیا

۴۵

ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی

چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا

سارے رند اوباش جہاں کے تجھ سے سجود میں رہتے ہیں

بانکے ٹیڑھے ترچھے تیکھے سب کا تجھ کو امام کیا

سرزد ہم سے بے ادبی تو وحشت میں بھی کم ہی ہوئی

کوسوں اس کی اور گئے پر سجدہ ہر ہر گام کیا

کس کا کعبہ کیسا قبلہ کون حرم ہے کیا احرام

کوچے کے اس کے باشندوں نے سب کو یہیں سے سلام کیا

شیخ جو ہے مسجد میں ننگا رات کو تھا میخانے میں

جبہ خرقہ کرتا ٹوپی مستی میں انعام کیا

۵۰

کاش اب برقع منھ سے اٹھا دے ورنہ پھر کیا حاصل ہے

آنکھ مندے پر ان نے گو دیدار کو اپنے عام کیا

یاں کے سپید و سیہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے

رات کو رو رو صبح کیا یا دن کو جوں توں شام کیا

صبح چمن میں اس کو کہیں تکلیف ہوا لے آئی تھی

رخ سے گل کو مول لیا قامت سے سرو غلام کیا

ساعد سیمیں دونوں اس کے ہاتھ میں لا کر چھوڑ دیے

بھولے اس کے قول و قسم پر ہائے خیال خام کیا

کام ہوئے ہیں سارے ضائع ہر ساعت کی سماجت سے

استغنا کی چوگنی ان نے جوں جوں میں ابرام کیا

۵۵

ایسے آہوئے رم خوردہ کی وحشت کھونی مشکل تھی

سحر کیا اعجاز کیا جن لوگوں نے تجھ کو رام کیا

میرؔ کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو

قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا

 

(۸)

 

چمن میں گل نے جو کل دعوی جمال کیا

جمال یار نے منھ اس کا خوب لال کیا

فلک نے آہ تری رہ میں ہم کو پیدا کر

برنگ سبزۂ نورستہ پائمال کیا

رہی تھی دم کی کشاکش گلے میں کچھ باقی

سو اس کی تیغ نے جھگڑا ہی انفصال کیا

۶۰

مری اب آنکھیں نہیں کھلتیں ضعف سے ہمدم

نہ کہہ کہ نیند میں ہے تو یہ کیا خیال کیا

بہار رفتہ پھر آئی ترے تماشے کو

چمن کو یمن قدم نے ترے نہال کیا

جواب نامہ سیاہی کا اپنی ہے وہ زلف

کسو نے حشر کو ہم سے اگر سوال کیا

لگا نہ دل کو کہیں کیا سنا نہیں تو نے

جو کچھ کہ میرؔ کا اس عاشقی نے حال کیا

 

(۹)

 

دیکھے گا جو تجھ رو کو سو حیران رہے گا

وابستہ ترے مو کا پریشان رہے گا

۶۵

وعدہ تو کیا اس سے دم صبح کا لیکن

اس دم تئیں مجھ میں بھی اگر جان رہے گا

منعم نے بنا ظلم کی رکھ گھر تو بنایا

پر آپ کوئی رات ہی مہمان رہے گا

چھوٹوں کہیں ایذا سے لگا ایک ہی جلاد

تا حشر مرے سر پہ یہ احسان رہے گا

چمٹے رہیں گے دشت محبت میں سر و تیغ

محشر تئیں خالی نہ یہ میدان رہے گا

جانے کا نہیں شور سخن کا مرے ہرگز

تا حشر جہاں میں مرا دیوان رہے گا

۷۰

دل دینے کی ایسی حرکت ان نے نہیں کی

جب تک جیے گا میرؔ پشیمان رہے گا

 

(۱۰)

 

تا گور کے اوپر وہ گل اندام نہ آیا

ہم خاک کے آسودوں کو آرام نہ آیا

بے ہوش مئے عشق ہوں کیا میرا بھروسا

آیا جو بخود صبح تو میں شام نہ آیا

کس دل سے ترا تیر نگہ پار نہ گذرا

کس جان کو یہ مرگ کا پیغام نہ آیا

دیکھا نہ اسے دور سے بھی منتظروں نے

وہ رشک مہ عید لب بام نہ آیا

۷۵

سو بار بیاباں میں گیا محمل لیلیٰ

مجنوں کی طرف ناقہ کوئی گام نہ آیا

اب کے جو ترے کوچے سے جاؤں گا تو سنیو

پھر جیتے جی اس راہ وہ بدنام نہ آیا

نے خون ہو آنکھوں سے بہا ٹک نہ ہوا داغ

اپنا تو یہ دل میرؔ کسو کام نہ آیا

 

(۱۱)

 

جس سر کو غرور آج ہے یاں تاجوری کا

کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا

شرمندہ ترے رخ سے ہے رخسار پری کا

چلتا نہیں کچھ آگے ترے کبک دری کا

۸۰

آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت

اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا

زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی

اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا

ہر زخم جگر داور محشر سے ہمارا

انصاف طلب ہے تری بے داد گری کا

اپنی تو جہاں آنکھ لڑی پھر وہیں دیکھو

آئینے کو لپکا ہے پریشاں نظری کا

صد موسم گل ہم کو تہ بال ہی گذرے

مقدور نہ دیکھا کبھو بے بال و پری کا

۸۵

اس رنگ سے جھمکے ہے پلک پر کہ کہے تو

ٹکڑا ہے مرا اشک عقیق جگری کا

کل سیر کیا ہم نے سمندر کو بھی جا کر

تھا دست نگر پنجۂ مژگاں کی تری کا

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

آفاق کی اس کار گہ شیشہ گری کا

ٹک میرؔ جگر سوختہ کی جلد خبر لے

کیا یار بھروسا ہے چراغ سحری کا

 

(۱۲)

 

منھ تکا ہی کرے ہے جس تس کا

حیرتی ہے یہ آئینہ کس کا

۹۰

شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہوں

دل ہوا ہے چراغ مفلس کا

تھے برے مغبچوں کے تیور لیک

شیخ میخانے سے بھلا کھسکا

داغ آنکھوں سے کھل رہے ہیں سب

ہاتھ دستہ ہوا ہے نرگس کا

بحر کم ظرف ہے بسان حباب

ق

کاسہ لیس اب ہوا ہے تو جس کا

فیض  اے ابر چشم تر سے اٹھا

آج دامن وسیع ہے اس کا

۹۵

تاب کس کو جو حال میرؔ سنے

حال ہی اور کچھ ہے مجلس کا

 

(۱۳)

 

وہ اک روش سے کھولے ہوئے بال ہو گیا

سنبل چمن کا مفت میں پامال ہو گیا

الجھاؤ پڑ گیا جو ہمیں اس کے عشق میں

دل سا عزیز جان کا جنجال ہو گیا

کیا امتداد مدت ہجراں بیاں کروں

ساعت ہوئی قیامت و مہ سال ہو گیا

دعویٰ کیا تھا گل نے ترے رخ سے باغ میں

سیلی لگی صبا کی سو منھ لال ہو گیا

۱۰۰

قامت خمیدہ رنگ شکستہ بدن نزار

تیرا تو میرؔ غم میں عجب حال ہو گیا

 

(۱۴)

بیتاب جی کو دیکھا دل کو کباب دیکھا

جیتے رہے تھے کیوں ہم جو یہ عذاب دیکھا

پودا ستم کا جس نے اس باغ میں لگایا

اپنے کیے کا ان نے ثمرہ شتاب دیکھا

دل کا نہیں ٹھکانا بابت جگر کی گم ہے

تیرے بلا کشوں کا ہم نے حساب دیکھا

آباد جس میں تجھ کو دیکھا تھا ایک مدت

اس دل کی مملکت کو اب ہم خراب دیکھا

۱۰۵

یوں خاک میں ملا یاں اس بن کہ کچھ نہ پوچھو

اس ظلم دیدہ دل کا ہم اضطراب دیکھا

واعظ زبون مت کہہ میخانے کو کہ اس جا

پیراہن نکویاں رہن شراب دیکھا

لیتے ہی نام اس کا سوتے سے چونک اٹھے ہو

ہے خیر میرؔ صاحب کچھ تم نے خواب دیکھا

 

(۱۵)

دل بہم پہنچا بدن میں تب سے سارا تن جلا

آ پڑی یہ ایسی چنگاری کہ پیراہن جلا

سرکشی ہی ہے جو دکھلاتی ہے اس مجلس میں داغ

ہوسکے تو شمع ساں دیجے رگ گردن جلا

۱۱۰

بدرساں اب آخر آخر چھا گئی مجھ پر یہ آگ

ورنہ پہلے تھا مرا جوں ماہ نو دامن جلا

کب تلک دھونی لگائے جوگیوں کی سی رہوں

بیٹھے بیٹھے در پہ تیرے تو مرا آسن جلا

گرمی اس آتش کے پرکالے سے رکھے چشم تب

جب کوئی میری طرح سے دیوے سب تن من جلا

ہو جو منت سے تو کیا وہ شب نشینی باغ کی

کاٹ اپنی رات کو خار و خس گلخن جلا

سوکھتے ہی آنسوؤں کے نور آنکھوں کا گیا

بجھ ہی جاتے ہیں دیے جس وقت سب روغن جلا

۱۱۵

شعلہ افشانی نہیں یہ کچھ نئی اس آہ سے

دوں لگی ہے ایسی ایسی بھی کہ سارا بن جلا

آگ سی اک دل میں سلگے ہے کبھو بھڑکی تو میرؔ

دے گی میری ہڈیوں کا ڈھیر جوں ایندھن جلا

 

(۱۶)

حال دل میرؔ کا رو رو کے سب  اے ماہ سنا

شب کو القصہ عجب قصۂ جانکاہ سنا

نابلد ہو کے رہ عشق میں پہنچوں تو کہیں

ہمرہ خضر کو یاں کہتے ہیں گمراہ سنا

کوئی ان طوروں سے گذرے ہے ترے غم میں مری

گاہ تو نے نہ سنا حال مرا گاہ سنا

۱۲۰

خواب غفلت میں ہیں یاں سب تو عبث جاگا میرؔ

بے خبر دیکھا انھیں میں جنھیں آگاہ سنا

 

(۱۷)

جب جنوں سے ہمیں توسل تھا

اپنی زنجیر پا ہی کا غل تھا

بسترا تھا چمن میں جوں بلبل

نالہ سرمایۂ توکل تھا

یک نگہ کو وفا نہ کی گویا

موسم گل صفیر بلبل تھا

ان نے پہچان کر ہمیں مارا

منھ نہ کرنا ادھر تجاہل تھا

۱۲۵

شہر میں جو نظر پڑا اس کا

کشتۂ ناز یا تغافل تھا

اب تو دل کو نہ تاب ہے نہ قرار

یاد ایام جب تحمل تھا

جا پھنسا دام زلف میں آخر

دل نہایت ہی بے تامل تھا

یوں گئی قد کے خم ہوئے جیسے

عمر اک رہرو سر پل تھا

خوب دریافت جو کیا ہم نے

وقت خوش میرؔ نکہت گل تھا

۱۳۰

 

(۱۸)

 

آگے جمال یار کے معذور ہو گیا

گل اک چمن میں دیدۂ بے نور ہو گیا

اک چشم منتظر ہے کہ دیکھے ہے کب سے راہ

جوں زخم تیری دوری میں ناسور ہو گیا

قسمت تو دیکھ شیخ کو جب لہر آئی تب

دروازہ شیرہ خانے کا معمور ہو گیا

پہنچا قریب مرگ کے وہ صید نا قبول

جو تیری صید گاہ سے ٹک دور ہو گیا

دیکھا یہ نا و نوش کہ نیش فراق سے

سینہ تمام خانۂ زنبور ہو گیا

۱۳۵

اس ماہ چار دہ کا چھپے عشق کیونکے آہ

اب تو تمام شہر میں مشہور ہو گیا

شاید کسو کے دل کو لگی اس گلی میں چوٹ

میری بغل میں شیشۂ دل چور ہو گیا

لاشہ مرا تسلی نہ زیر زمیں ہوا

جب تک نہ آن کر وہ سر گور ہو گیا

دیکھا جو میں نے یار تو وہ میرؔ ہی نہیں

تیرے غم فراق میں رنجور ہو گیا

 

(۱۹)

 

فرہاد ہاتھ تیشے پہ ٹک رہ کے ڈالتا

پتھر تلے کا ہاتھ ہی اپنا نکالتا

۱۴۰

بگڑا اگر وہ شوخ تو سنیو کہ رہ گیا

خورشید اپنی تیغ و سپر ہی سنبھالتا

یہ سر تبھی سے گوے ہے میدان عشق کا

پھرتا تھا جن دنوں میں تو گیندیں اچھالتا

بن سر کے پھوڑے بنتی نہ تھی کوہکن کے تیں

خسرو سے سنگ سینہ کو کس طور ٹالتا

چھاتی سے ایک بار لگاتا جو وہ تو میرؔ

برسوں یہ زخم سینے کا ہم کو نہ سالتا

 

(۲۰)

 

گل شرم سے بہ جائے گا گلشن میں ہو کر آب سا

برقع سے گر نکلا کہیں چہرہ ترا مہتاب سا

۱۴۵

گل برگ کا یہ رنگ ہے مرجاں کا ایسا ڈھنگ ہے

دیکھو نہ جھمکے ہے پڑا وہ ہونٹ لعل ناب سا

وہ مایۂ جاں تو کہیں پیدا نہیں جوں کیمیا

میں شوق کی افراط سے بیتاب ہوں سیماب سا

دل تاب ہی لایا نہ ٹک تا یاد رہتا ہم نشیں

اب عیش روز وصل کا ہے جی میں بھولا خواب سا

سناہٹے میں جان کے ہوش و حواس و دم نہ تھا

اسباب سارا لے گیا آیا تھا اک سیلاب سا

ہم سرکشی سے مدتوں مسجد سے بچ بچ کر چلے

اب سجدے ہی میں گذرے ہے قد جو ہوا محراب سا

۱۵۰

تھی عشق کی وہ ابتدا جو موج سی اٹھی کبھو

اب دیدۂ تر کو جو تم دیکھو تو ہے گرداب سا

بہکے جو ہم مست آ گئے سو بار مسجد سے اٹھا

واعظ کو مارے خوف کے کل لگ گیا جلاب سا

رکھ ہاتھ دل پر میرؔ کے دریافت کر کیا حال ہے

رہتا ہے اکثر یہ جواں کچھ ان دنوں بیتاب سا

 

(۲۱)

 

مر رہتے جو گل بن تو سارا یہ خلل جاتا

نکلا ہی نہ جی ورنہ کانٹا سا نکل جاتا

پیدا ہے کہ پنہاں تھی آتش نفسی میری

میں ضبط نہ کرتا تو سب شہر یہ جل جاتا

۱۵۵

میں گریۂ خونیں کو روکے ہی رہا ورنہ

اک دم میں زمانے کا یاں رنگ بدل جاتا

بن پوچھے کرم سے وہ جو بخش نہ دیتا تو

پرسش میں ہماری ہی دن حشر کا ڈھل جاتا

استادہ جہاں میں تھا میدان محبت میں

واں رستم اگر آتا تو دیکھ کے ٹل جاتا

وہ سیر کا وادی کے مائل نہ ہوا ورنہ

آنکھوں کو غزالوں کی پاؤں تلے مل جاتا

بے تاب و تواں یوں میں کا ہے کو تلف ہوتا

یاقوتی ترے لب کی ملتی تو سنبھل جاتا

۱۶۰

اس سیم بدن کو تھی کب تاب تعب اتنی

وہ چاندنی میں شب کی ہوتا تو پگھل جاتا

مارا گیا تب گذرا بوسے سے ترے لب کے

کیا میرؔ بھی لڑکا تھا باتوں میں بہل جاتا

 

(۲۲)

 

سنیو جب وہ کبھو سوار ہوا

تا بہ روح الامیں شکار ہوا

اس فریبندہ کو نہ سمجھے آہ

ہم نے جانا کہ ہم سے یار ہوا

نالہ ہم خاکساروں کا آخر

خاطر عرش کا غبار ہوا

۱۶۵

جو نہ کہنا تھا سو بھی میں نے کہا

دل کی بے طاقتی سے خوار ہوا

پھر  گیا ہے زمانہ کیا کہ مجھے

ہوتے خوار ایک روزگار ہوا

مر چلے بے قرار ہو کر ہم

اب تو تیرے تئیں قرار ہوا

وہ جو خنجر بکف نظر آیا

میرؔ سو جان سے نثار ہوا

 

(۲۳)

 

مانند شمع مجلس شب اشکبار پایا

القصہ میرؔ کو ہم بے اختیار پایا

۱۷۰

احوال خوش انھوں کا ہم بزم ہیں جو تیرے

افسوس ہے کہ ہم نے واں کا نہ بار پایا

چیتے جو ضعف ہو کر زخم رسا سے اس کے

سینے کو چاک دیکھا دل کو فگار پایا

شہر دل ایک مدت اجڑا بسا غموں میں

آخر اجاڑ دینا اس کا قرار پایا

اتنا نہ تجھ سے ملتے نے دل کو کھو  کے روتے

جیسا کیا تھا ہم نے ویسا ہی یار پایا

کیا اعتبار یاں کا پھر اس کو خوار دیکھا

جس نے جہاں میں آ کر کچھ اعتبار پایا

۱۷۵

آہوں کے شعلے جس جا اٹھتے تھے میرؔ سے شب

واں جا کے صبح دیکھا مشت غبار پایا

 

(۲۴)

 

مارا زمیں میں گاڑا تب اس کو صبر آیا

اس دل نے ہم کو آخر یوں خاک میں ملایا

اس گل زمیں سے اب تک اگتے ہیں سرو  مائل

مستی میں جھکتے جس پر تیرا پڑا ہے سایا

یکساں ہے قتل گہ اور اس کی گلی تو مجھ کو

واں خاک میں میں لوٹا یاں لوہو میں نہایا

پوجے سے اور پتھر ہوتے ہیں یہ صنم تو

اب کس طرح اطاعت ان کی کروں خدایا

۱۸۰

تا چرخ نالہ پہنچا لیکن اثر نہ دیکھا

کرنے سے اب دعا کے میں ہاتھ ہی اٹھایا

تیرا ہی منھ تکے ہے کیا جانیے کہ نو خط

کیا باغ سبز تو نے آئینے کو دکھایا

شادابی و لطافت ہرگز ہوئی نہ اس میں

تیری مسوں پہ گرچہ سبزے نے زہر کھایا

آخر کو مر گئے ہیں اس کی ہی جستجو میں

جی کے تئیں بھی کھویا لیکن اسے نہ پایا

لگتی نہیں ہے دارو ہیں سب طبیب حیراں

اک روگ میں بساہا جی کو کہاں لگایا

۱۸۵

کہہ ہیچ اس کے منھ کو جی میں ڈرا یہاں تو

بارے وہ شوخ اپنی خاطر میں کچھ نہ لایا

ہونا تھا مجلس آرا گر غیر کا تجھے تو

مانند شمع مجھ کو کاہے کے تیں جلایا

تھی یہ کہاں کی یاری آئینہ رو کہ تو نے

دیکھا جو میرؔ کو تو بے ہیچ منھ بنایا

 

(۲۵)

شکوہ کروں میں کب تک اس اپنے مہرباں کا

القصہ رفتہ رفتہ دشمن ہوا ہے جاں کا

گریے پہ رنگ آیا قید قفس سے شاید

خوں ہو گیا جگر میں اب داغ گلستاں کا

۱۹۰

لے جھاڑو ٹوکرا ہی آتا ہے صبح ہوتے

جاروب کش مگر ہے خورشید اس کے ہاں کا

دی آگ رنگ گل نے  واں  اے صبا چمن کو

یاں ہم جلے قفس میں سن حال آشیاں کا

ہر صبح میرے سر پر اک حادثہ نیا ہے

پیوند ہو زمیں کا شیوہ اس آسماں کا

ان صید افگنوں کا کیا ہو شکار کوئی

ق

ہوتا نہیں ہے آخر کام ان کے امتحاں کا

تب تو مجھے کیا تھا تیروں سے صید اپنا

اب کرتے ہیں نشانہ ہر میرے استخواں کا

۱۹۵

فتراک جس کا اکثر لوہو میں تر رہے ہے

وہ قصد کب کرے ہے اس صید ناتواں کا

کم فرصتی جہاں کے مجمع کی کچھ نہ پوچھو

احوال کیا کہوں میں اس مجلس رواں کا

سجدہ کریں ہیں سن کر اوباش سارے اس کو

سید پسر وہ پیارا ہے گا امام بانکا

ناحق شناسی ہے یہ زاہد نہ کر برابر

طاعت سے سو برس کی سجدہ اس آستاں کا

ہیں دشت اب یہ جیتے بستے تھے شہر سارے

ویرانۂ کہن ہے معمورہ اس جہاں کا

۲۰۰

جس دن کہ اس کے منھ سے برقع اٹھے گا سنیو

اس روز سے جہاں میں خورشید پھر نہ جھانکا

ناحق یہ ظلم کرنا انصاف کہہ پیارے

ہے کون سی جگہ کا کس شہر کا کہاں کا

سودائی ہو تو رکھے بازار عشق میں پا

سر مفت بیچتے ہیں یہ کچھ چلن ہے واں کا

ق

سو گالی ایک چشمک اتنا سلوک تو ہے

اوباش خانہ جنگ اس خوش چشم بد زباں کا

یا روئے یا رلایا اپنی تو یوں ہی گذری

کیا ذکر ہم صفیراں یاران شادماں کا

۲۰۵

قید قفس میں ہیں تو خدمت ہے نالگی کی

گلشن میں تھے تو ہم کو منصب تھا روضہ خواں کا

پوچھو تو میرؔ سے کیا کوئی نظر پڑا ہے

چہرہ اتر رہا ہے کچھ آج اس جواں کا

 

(۲۶)

ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا

دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا

قسم جو کھایئے تو طالع زلیخا کی

عزیز مصر کا بھی صاحب اک غلام لیا

خراب رہتے تھے مسجد کے آگے میخانے

نگاہ مست نے ساقی کی انتقام لیا

۲۱۰

وہ کج روش نہ ملا راستے میں مجھ سے کبھی

نہ سیدھی طرح سے ان نے مرا سلام لیا

مزا دکھا دیں گے بے رحمی کا تری صیاد

گر اضطراب اسیری نے زیر دام لیا

مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں

تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا

اگرچہ گوشہ گزیں ہوں میں شاعروں میں میرؔ

پہ میرے شور نے روئے زمیں تمام لیا

 

(۲۷)

سیر کے قابل ہے دل صد پارہ اس نخچیر کا

جس کے ہر ٹکڑے میں ہو پیوست پیکاں تیر کا

۲۱۵

سب کھلا باغ جہاں الا یہ حیران و خفا

جس کو دل سمجھے تھے ہم سو غنچہ تھا تصویر کا

بوئے خوں سے جی رکا جاتا ہے  اے باد بہار

ہو گیا ہے چاک دل شاید کسو دل گیر کا

کیونکے نقاش ازل نے نقش ابرو کا کیا

کام ہے اک تیرے منھ پر کھینچنا شمشیر کا

رہگذر سیل حوادث کا ہے بے بنیاد دہر

اس خرابے میں نہ کرنا قصد تم تعمیر کا

بس طبیب اٹھ جا مری بالیں سے مت دے دردسر

کام یاں آخر ہوا اب فائدہ تدبیر کا

۲۲۰

نالہ کش ہیں عہد پیری میں بھی تیرے در پہ ہم

قد خم گشتہ ہمارا حلقہ ہے زنجیر کا

جو ترے کوچے میں آیا پھر وہیں گاڑا اسے

تشنۂ خوں میں تو ہوں اس خاک دامن گیر کا

خون سے میرے ہوئی یک دم خوشی تم کو تو لیک

مفت میں جاتا رہا جی ایک بے تقصیر کا

لخت دل سے جوں چھڑی پھولوں کی گوندھی ہے ولے

فائدہ کچھ  اے جگر اس آہ بے تاثیر کا

گور مجنوں سے نہ جاویں گے کہیں ہم بے نوا

عیب ہے ہم میں جو چھوڑیں ڈھیر اپنے پیر کا

۲۲۵

کس طرح سے مانیے یارو کہ یہ عاشق نہیں

رنگ اڑا جاتا ہے ٹک چہرہ تو دیکھو میرؔ کا

 

(۲۸)

 

شب درد و غم سے عرصہ مرے جی پہ تنگ تھا

آیا شب فراق تھی یا روز جنگ تھا

کثرت میں درد و غم کی نہ نکلی کوئی طپش

کوچہ جگر کے زخم کا شاید کہ تنگ تھا

لایا مرے مزار پہ اس کو یہ جذب عشق

جس بے وفا کو نام سے بھی میرے ننگ تھا

دیکھا ہے صید گہ میں ترے صید کا جگر

تاآنکہ چھن رہا تھا پہ ذوق خدنگ تھا

۲۳۰

دل سے مرے لگا نہ ترا دل ہزار حیف

یہ شیشہ ایک عمر سے مشتاق سنگ تھا

مت کر عجب جو میرؔ ترے غم میں مر گیا

جینے کا اس مریض کے کوئی بھی ڈھنگ تھا

 

(۲۹)

 

دل میں بھرا زبسکہ خیال شراب تھا

مانند آئینے کے مرے گھر میں آب تھا

موجیں کرے ہے بحر جہاں میں ابھی تو تو

جانے گا بعد مرگ کہ عالم حباب تھا

اگتے تھے دست بلبل و دامان گل بہم

صحن چمن نمونۂ یوم الحساب تھا

۲۳۵

ٹک دیکھ آنکھیں کھول کے اس دم کی حسرتیں

جس دم یہ سوجھے گی کہ یہ عالم بھی خواب تھا

دل جو نہ تھا تو رات زخود رفتگی میں میرؔ

گہ انتظار و گاہ مجھے اضطراب تھا

 

(۳۰)

 

کیا طرح ہے آشنا گاہے گہے نا آشنا

یا تو بیگانے ہی رہیے ہو جیے یا آشنا

پائمال صد جفا ناحق نہ ہو  اے عندلیب

سبزۂ بیگانہ بھی تھا اس چمن کا آشنا

کون سے یہ بحر خوبی کی پریشاں زلف ہے

آتی ہے آنکھوں میں میری موج دریا آشنا

۲۴۰

رونا ہی آتا ہے ہم کو دل ہوا جب سے جدا

جائے رونے ہی کی ہے جاوے جب ایسا آشنا

ناسمجھ ہے تو جو میری قدر نئیں کرتا کہ شوخ

کم بہت ملتا ہے پھر دلخواہ اتنا آشنا

ق

بلبلیں پائیز میں کہتی تھیں ہوتا کاشکے

یک مژہ رنگ فراری اس چمن کا آشنا

کو گل و لالہ کہاں سنبل سمن ہم نسترن

خاک سے یکساں ہوئے ہیں ہائے کیا کیا آشنا

کیا کروں کس سے کہوں اتنا ہی بیگانہ ہے یار

سارے عالم میں نہیں پاتے کسی کا آشنا

۲۴۵

جس سے میں چاہی وساطت ان نے یہ مجھ سے کہا

ہم تو کہتے گر میاں ہم سے وہ ہوتا آشنا

ق

یوں سنا جا ہے کہ کرتا ہے سفر کا عزم جزم

ساتھ اب بیگانہ وضعوں کے ہمارا آشنا

شعر صائبؔ کا مناسب ہے ہماری اور سے

سامنے اس کے پڑھے گر یہ کوئی جا آشنا

تا بجاں ما ہمرہیم و تا بمنزل دیگراں

فرق باشد جان ما از آشنا تا آشنا

داغ ہے تاباں علیہ الرحمہ کا چھاتی پہ میرؔ

ہو نجات اس کو بچارا ہم سے بھی تھا آشنا

۲۵۰

(۳۱)

 

گل کو محبوب ہم قیاس کیا

فرق نکلا بہت جو باس کیا

دل نے ہم کو مثال آئینہ

ایک عالم کا روشناس کیا

کچھ نہیں سوجھتا ہمیں اس بن

شوق نے ہم کو بے حواس کیا

عشق میں ہم ہوئے نہ دیوانے

قیس کی آبرو کا پاس کیا

دور سے چرخ کے نکل نہ سکے

ضعف نے ہم کو مور طاس کیا

۲۵۵

صبح تک شمع سر کو دھنتی رہی

کیا پتنگے نے التماس کیا

تجھ سے کیا کیا توقعیں تھیں ہمیں

سو ترے ظلم نے نراس کیا

دیکھا ڈھہتا ہے جن نے خانہ بنا

زیر افلاک سست اساس کیا

ایسے وحشی کہاں ہیں  اے خوباں

میرؔ کو تم عبث اداس کیا

 

(۳۲)

 

مفت آبروئے زاہد علامہ لے گیا

اک مغبچہ اتار کے عمامہ لے گیا

۲۶۰

داغ فراق و حسرت وصل آرزوئے شوق

میں ساتھ زیر خاک بھی ہنگامہ لے گیا

پہنچا نہ پہنچا آہ گیا سو گیا غریب

وہ مرغ نامہ بر جو مرا نامہ لے گیا

اس راہزن کے ڈھنگوں سے دیوے خدا پناہ

اک مرتبہ جو میرؔ جی کا جامہ لے گیا

 

(۳۳)

 

اے تو کہ یاں سے عاقبت کار جائے گا

غافل نہ رہ کہ قافلہ اک بار جائے گا

موقوف حشر پر ہے سو آتے بھی وے نہیں

کب درمیاں سے وعدۂ دیدار جائے گا

۲۶۵

چھوٹا جو میں قفس سے تو سب نے مجھے کہا

بے چارہ کیونکے تا سر دیوار جائے گا

دے گی نہ چین لذت زخم اس شکار کو

جو کھا کے تیرے ہاتھ کی تلوار جائے گا

آوے گی اک بلا ترے سر سن لے  اے صبا

زلف سیہ کا اس کی اگر تار جائے گا

باہر نہ آتا چاہ سے یوسف جو جانتا

لے کارواں مرے تئیں بازار جائے گا

تدبیر میرے عشق کی کیا فائدہ طبیب

اب جان ہی کے ساتھ یہ آزار جائے گا

۲۷۰

آئے بن اس کے حال ہوا جائے ہے تغیر

کیا حال ہو گا پاس سے جب یار جائے گا

کوچے کے اس کے رہنے سے باز آ وگرنہ میرؔ

اک دن تجھے وہ جان سے بھی مار جائے گا

 

(۳۴)

کیا کہوں کیسا ستم غفلت سے مجھ پر ہو گیا

قافلہ جاتا رہا میں صبح ہوتے سو گیا

بے کسی مدت تلک برسا کی اپنی گور پر

جو ہماری خاک پر سے ہوکے گذرا رو گیا

کچھ خطرناکی طریق عشق میں پنہاں نہیں

کھپ گیا وہ راہرو اس راہ ہو کر جوگیا

۲۷۵

مدعا جو ہے سو وہ پایا نہیں جاتا کہیں

ایک عالم جستجو میں جی کو اپنے کھو گیا

میرؔ ہر یک موج میں ہے زلف ہی کا سا دماغ

جب سے وہ دریا پہ آ کر بال اپنے دھو گیا

 

(۳۵)

مت ہو دشمن  اے فلک مجھ پائمال راہ کا

خاک افتادہ ہوں میں بھی اک فقیر اللہ کا

سینکڑوں طرحیں نکالیں یار کے آنے کی لیک

عذر ہی جا ہے چلا اس کے دل نا خواہ کا

گر کوئی پیر مغاں مجھ کو کرے تو دیکھے پھر

میکدہ سارے کا سارا صرف ہے اللہ کا

۲۸۰

کاش تیرے غم رسیدوں کو بلاویں حشر میں

ظلم ہے یک خلق پر آشوب ان کی آہ کا

جو سنا ہشیار اس میخانے میں تھا بے خبر

شوق ہی باقی رہا ہم کو دل آگاہ کا

باندھ مت رونے کا تار  اے نا قباحت فہم چشم

اس سے پایا جائے ہے سر رشتہ جی کی چاہ کا

شیخ مت کر ذکر ہر ساعت قیامت کا کہ ہے

عرصۂ محشر نمونہ اس کی بازی گاہ کا

شہر میں کس منھ سے آوے سامنے تیرے کہ شوخ

جھائیوں سے بھر رہا ہے سارا چہرہ ماہ کا

۲۸۵

سرفرو لاتی نہیں ہمت مری ہر اک کے پاس

ہوں گدائے آستاں میں میرؔ حضرت شاہ کا

 

(۳۶)

ایسی گلی اک شہر اسلام نہیں رکھتا

جس کوچے میں وہ بت صد بدنام نہیں رکھتا

آزار نہ دے اپنے کانوں کے تئیں  اے گل

آغاز مرے غم کا انجام نہیں رکھتا

ناکامی صد حسرت خوش لگتی نہیں ورنہ

اب جی سے گذر جانا کچھ کام نہیں رکھتا

ہو خشک تو بہتر ہے وہ ہاتھ بہاراں میں

مانند نئے نرگس جو جام نہیں رکھتا

۲۹۰

بن اس کی ہم آغوشی بیتاب نہیں اب ہے

مدت سے بغل میں دل آرام نہیں رکھتا

میں داڑھی تری واعظ مسجد ہی میں منڈواتا

پر کیا کروں ساتھ اپنے حجام نہیں رکھتا

وہ مفلس ان آنکھوں سے کیونکر کے بسر آوے

جو اپنی گرہ میں اک بادام نہیں رکھتا

کیا بات کروں اس سے مل جائے جو وہ میں تو

اس ناکسی سے روئے دشنام نہیں رکھتا

یوں تو رہ و رسم اس کو اس شہر میں سب سے ہے

اک میرؔ ہی سے خط و پیغام نہیں رکھتا

۲۹۵

(۳۷)

خوبی کا اس کی بسکہ طلبگار ہو گیا

گل باغ میں گلے کا مرے ہار ہو گیا

کس کو نہیں ہے شوق ترا پر نہ اس قدر

میں تو اسی خیال میں بیمار ہو گیا

میں نو دمیدہ بال چمن زاد طیر تھا

پر گھر سے اٹھ چلا سو گرفتار ہو گیا

ٹھہرا گیا نہ ہو کے حریف اس کی چشم کا

سینے کو توڑ تیر نگہ پار ہو گیا

ہے اس کے حرف زیر لبی کا سبھوں میں ذکر

کیا بات تھی کہ جس کا یہ بستار ہو گیا

۳۰۰

تو وہ متاع ہے کہ پڑی جس کی تجھ پہ آنکھ

وہ جی کو بیچ کر بھی خریدار ہو گیا

کیا کہیے آہ عشق میں خوبی نصیب کی

دلدار اپنا تھا سو دل آزار ہو گیا

آٹھوں پہر لگا ہی پھرے ہے تمھارے ساتھ

کچھ ان دنوں میں غیر بہت یار ہو گیا

کب رو ہے اس سے بات کے کرنے کا مجھ کو میرؔ

نا کردہ جرم میں تو گنہگار ہو گیا

 

(۳۸)

 

تیر جو اس کمان سے نکلا

جگر مرغ جان سے نکلا

۳۰۵

نکلی تھی تیغ بے دریغ اس کی

میں ہی اک امتحان سے نکلا

گو کٹے سر کہ سوز دل جوں شمع

اب تو میری زبان سے نکلا

آگے  اے نالہ ہے خدا کا ناؤں

بس تو نُہ آسمان سے نکلا

چشم و دل سے جو نکلا ہجراں میں

نہ کبھو بحر و کان سے نکلا

مر گیا جو اسیر قید حیات

تنگنائے جہان سے نکلا

۳۱۰

دل سے مت جا کہ حیف اس کا وقت

جو کوئی اس مکان سے نکلا

اس کی شیریں لبی کی حسرت میں

شہد پانی ہو شان سے نکلا

نامرادی کی رسم میرؔ سے ہے

طور یہ اس جوان سے نکلا

 

(۳۹)

 

گرمی سے میں تو آتش غم کی پگھل گیا

راتوں کو روتے روتے ہی جوں شمع گل گیا

ہم خستہ دل ہیں تجھ سے بھی نازک مزاج تر

تیوری چڑھائی تو نے کہ یاں جی نکل گیا

۳۱۵

گرمی عشق مانع نشوونما ہوئی

میں وہ نہال تھا کہ اگا اور جل گیا

مستی میں چھوڑ دیر کو کعبے چلا تھا میں

لغزش بڑی ہوئی تھی ولیکن سنبھل گیا

ساقی نشے میں تجھ سے لنڈھا شیشۂ شراب

چل اب کہ دخت تاک کا جوبن تو ڈھل گیا

ہر ذرہ خاک تیری گلی کی ہے بے قرار

یاں کون سا ستم زدہ ماٹی میں رل گیا

عریاں تنی کی شوخی سے دیوانگی میں میرؔ

مجنوں کے دشت خار کا داماں بھی چل گیا

۳۲۰

 

(۴۰)

 

سنا ہے حال ترے کشتگاں بچاروں کا

ہوا نہ گور گڑھا ان ستم کے ماروں کا

ہزار رنگ کھلے گل چمن کے ہیں شاہد

کہ روزگار کے سر خون ہے ہزاروں کا

ملا ہے خاک میں کس کس طرح کا عالم یاں

نکل کے شہر سے ٹک سیر کر مزاروں کا

عرق فشانی سے اس زلف کی ہراساں ہوں

بھلا نہیں ہے بہت ٹوٹنا بھی تاروں کا

علاج کرتے ہیں سودائے عشق کا میرے

خلل پذیر ہوا ہے دماغ یاروں کا

۳۲۵

تری ہی زلف کو محشر میں ہم دکھا دیں گے

جو کوئی مانگے گا نامہ سیاہکاروں کا

خراش سینۂ عاشق بھی دل کو لگ جائے

عجب طرح کا ہے فرقہ یہ دل فگاروں کا

نگاہ مست کے مارے تری خراب ہیں شوخ

نہ ٹھور ہے نہ ٹھکانا ہے ہوشیاروں کا

کریں ہیں دعوی خوش چشمی آہوان دشت

ٹک ایک دیکھنے چل ملک ان گنواروں کا

تڑپ کے مرنے سے دل کے کہ مغفرت ہو اسے

جہاں میں کچھ تو رہا نام بے قراروں کا

۳۳۰

تڑپ کے خرمن گل پر کبھی گر ائے بجلی

جلانا کیا ہے مرے آشیاں کے خاروں کا

تمھیں تو زہد و ورع پر بہت ہے اپنے غرور

خدا ہے شیخ جی ہم بھی گناہگاروں کا

اٹھے ہے گرد کی جا نالہ گور سے اس کی

غبار میرؔ بھی عاشق ہے نے سواروں کا

 

(۴۱)

 

دل سمجھا نہ محبت کو کچھ ان نے کیا یہ خیال کیا

خون ہو بہ سب آپھی گیا عشق حسن و جمال کیا

آنکھیں کفک سے اس کی لگا کر خاک برابر ہم بھی ہوئے

مہندی کے رنگ ان پاؤں نے تو بہتوں کو پامال کیا

۳۳۵

یوں نکلے ہے فلک ایدھر سے ناز کناں جو جاتے تو

خاک سے سبزہ میری اگا کر ان نے مجھ کو نہال کیا

آگے جواب سے ان لوگوں کے بارے معافی اپنی ہوئی

ہم بھی فقیر ہوئے تھے لیکن ہم نے ترک سوال کیا

حال نہیں ہے عشق سے مجھ میں کس سے میرؔ اب حال کہوں

آپھی چاہ کر اس ظالم کو یہ اپنا میں حال کیا

 

(۴۲)

 

گذرا بنائے چرخ سے نالہ پگاہ کا

خانہ خراب ہو جیو اس دل کی چاہ کا

آنکھوں میں جی مرا ہے ادھر دیکھتا نہیں

مرتا ہوں میں تو ہائے رے صرفہ نگاہ کا

۳۴۰

صد خانماں خراب ہیں ہر ہر قدم پہ دفن

کشتہ ہوں یار میں تو ترے گھر کی راہ کا

یک قطرہ خون ہوکے پلک سے ٹپک پڑا

قصہ یہ کچھ ہوا دل غفراں پناہ کا

تلوار مارنا تو تمھیں کھیل ہے ولے

جاتا رہے نہ جان کسو بے گناہ کا

بدنام و خوار و زار و نزار و شکستہ حال

احوال کچھ نہ پوچھیے اس رو سیاہ کا

ظالم زمیں سے لوٹتا دامن اٹھا کے چل

ہو گا کمیں میں ہاتھ کسو داد خواہ کا

۳۴۵

اے تاج شہ نہ سر کو فرو لاؤں تیرے پاس

ہے معتقد فقیر نمد کی کلاہ کا

ہر لخت دل میں صید کے پیکان بھی گئے

دیکھا میں شوخ ٹھاٹھ تری صید گاہ کا

بیمار تو نہ ہووے جیے جب تلک کہ میرؔ

سونے نہ دے گا شور تری آہ آہ کا

 

(۴۳)

 

دل سے شوق رخ نکو نہ گیا

جھانکنا تاکنا کبھو نہ گیا

ہر قدم پر تھی اس کی منزل لیک

سر سے سود ائے جستجو نہ گیا

۳۵۰

سب گئے ہوش و صبر و تاب و تواں

لیکن  اے داغ دل سے تو نہ گیا

دل میں کتنے مسودے تھے ولے

ایک پیش اس کے روبرو نہ گیا

سبحہ گرداں ہی میرؔ ہم تو رہے

دست کوتاہ تا سبو نہ گیا

 

(۴۴)

 

گل و بلبل بہار میں دیکھا

ایک تجھ کو ہزار میں دیکھا

جل گیا دل سفید ہیں آنکھیں

یہ تو کچھ انتظار میں دیکھا

۳۵۵

جیسا مضطر تھا زندگی میں دل

وو ہیں میں نے قرار میں دیکھا

آبلے کا بھی ہونا دامن گیر

تیرے کوچے کے خار میں دیکھا

تیرہ عالم ہوا یہ روز سیاہ

اپنے دل کے غبار میں دیکھا

ذبح کر میں کہا تھا مرتا ہوں

دم نہیں مجھ شکار میں دیکھا

جن بلاؤں کو میرؔ سنتے تھے

ان کو اس روزگار میں دیکھا

۳۶۰

(۴۵)

کئی دن سلوک وداع کا مرے در پئے دل زار تھا

کبھو درد تھا کبھو داغ تھا کبھو زخم تھا کبھو وار تھا

دم صبح بزم خوش جہاں شب غم سے کم نہ تھی مہرباں

کہ چراغ تھا سو تو دود تھا جو پتنگ تھا سو غبار تھا

دل خستہ لوہو جو ہو گیا تو بھلا ہوا کہ کہاں تلک

کبھو سوز سینہ سے داغ تھا کبھو درد و غم سے فگار تھا

دل مضطرب سے گذر گئی شب وصل اپنی ہی فکر میں

نہ دماغ تھا نہ فراغ تھا نہ شکیب تھا نہ قرار تھا

جو نگاہ کی بھی پلک اٹھا تو ہمارے دل سے لہو بہا

کہ وہیں وہ ناوک بے خطا کسو کے کلیجے کے پار تھا

۳۶۵

یہ تمھاری ان دنوں دوستاں مژہ جس کے غم میں ہے خوں چکاں

وہی آفت دل عاشقاں کسو وقت ہم سے بھی یار تھا

نہیں تازہ دل کی شکستگی یہی درد تھا یہی خستگی

اسے جب سے ذوق شکار تھا اسے زخم سے سروکار تھا

کبھو جائے گی جو ادھر صبا تو یہ کہیو اس سے کہ بے وفا

مگر ایک میرؔ شکستہ پا ترے باغ تازہ میں خار تھا

 

(۴۶)

مہر کی تجھ سے توقع تھی ستمگر نکلا

موم سمجھے تھے ترے دل کو سو پتھر نکلا

داغ ہوں رشک محبت سے کہ اتنا بیتاب

کس کی تسکیں کے لیے گھر سے تو باہر نکلا

۳۷۰

جیتے جی آہ ترے کوچے سے کوئی نہ پھرا

جو ستم دیدہ رہا جا کے سو مر کر نکلا

دل کی آبادی کی اس حد ہے خرابی کہ نہ پوچھ

جانا جاتا ہے کہ اس راہ سے لشکر نکلا

ق

اشک تر قطرۂ خوں لخت جگر پارۂ دل

ایک سے ایک عدد آنکھ سے بہ کر نکلا

کنج کاوی جو کی سینے کی غم ہجراں نے

اس دفینے میں سے اقسام جواہر نکلا

ہم نے جانا تھا لکھے گا تو کوئی حرف  اے میرؔ

پر ترا نامہ تو اک شوق کا دفتر نکلا

۳۷۵

(۴۷)

رہے خیال تنک ہم بھی رو  سیاہوں کا

لگے ہو خون بہت کرنے بے گناہوں کا

نہیں ستارے یہ سوراخ پڑ گئے ہیں تمام

فلک حریف ہوا تھا ہماری آہوں کا

گلی میں اس کی پھٹے کپڑوں پر مرے مت جا

لباس فقر ہے واں فخر بادشاہوں کا

تمام زلف کے کوچے ہیں مار پیچ اس کی

تجھی کو آوے دلا چلنا ایسی راہوں کا

اسی جو خوبی سے لائے تجھے قیامت میں

تو حرف کن نے کیا گوش داد خواہوں کا

۳۸۰

تمام عمر رہیں خاک زیر پا اس کی

جو زور کچھ چلے ہم عجز دست گاہوں کا

کہاں سے تہ کریں پیدا یہ ناظمان حال

کہ پوچ بافی ہی ہے کام ان جلاہوں کا

حساب کاہے کا روز شمار میں مجھ سے

شمار ہی نہیں ہے کچھ مرے گناہوں کا

تری جو آنکھیں ہیں تلوار کے تلے بھی ادھر

فریب خوردہ ہے تو میرؔ کن نگاہوں کا

 

(۴۸)

 

اس کا خرام دیکھ کے جایا نہ جائے گا

اے کبک پھر بحال بھی آیا نہ جائے گا

۳۸۵

ہم کشتگان عشق ہیں ابرو و چشم یار

سر سے ہمارے تیغ کا سایہ نہ جائے گا

ہم رہرو ان راہ فنا ہیں برنگ عمر

جاویں گے ایسے کھوج بھی پایا نہ جائے گا

پھوڑا سا ساری رات جو پکتا رہے گا دل

تو صبح تک تو ہاتھ لگایا نہ جائے گا

اپنے شہید ناز سے بس ہاتھ اٹھا کہ پھر

دیوان حشر میں اسے لایا نہ جائے گا

اب دیکھ لے کہ سینہ بھی تازہ ہوا ہے چاک

پھر ہم سے اپنا حال دکھایا نہ جائے گا

۳۹۰

ہم بے خودان محفل تصویر اب گئے

آئندہ ہم سے آپ میں آیا نہ جائے گا

گو بے ستوں کو ٹال دے آگے سے کوہکن

سنگ گران عشق اٹھایا نہ جائے گا

ہم تو گئے تھے شیخ کو انسان بوجھ کر

پر اب سے خانقاہ میں جایا نہ جائے گا

یاد اس کی اتنی خوب نہیں میرؔ باز آ

نادان پھر وہ جی سے بھلایا نہ جائے گا

 

(۴۹)

 

ایسا ترا رہگذر نہ ہو گا

ہر گام پہ جس میں سر نہ ہو گا

۳۹۵

کیا ان نے نشے میں مجھ کو مارا

اتنا بھی تو بے خبر نہ ہو گا

دھوکا ہے تمام بحر دنیا

دیکھے گا کہ ہونٹ تر نہ ہو گا

آئی جو شکست آئینے پر

روئے دل یار ادھر نہ ہو گا

دشنوں سے کسی کا اتنا ظالم

ٹکڑے ٹکڑے جگر نہ ہو گا

اب دل کے تئیں دیا تو سمجھا

محنت زدوں کے جگر نہ ہو گا

۴۰۰

ق

دنیا کی نہ کر تو خواست گاری

اس سے کبھو بہرہ ور نہ ہو گا

آ خانہ خرابی اپنی مت کر

قحبہ ہے یہ اس سے گھر نہ ہو گا

ہو اس سے جہاں سیاہ تد بھی

نالے میں مرے اثر نہ ہو گا

پھر نوحہ گری کہاں جہاں میں

ماتم زدہ میرؔ اگر نہ ہو گا

 

(۵۰)

 

غم اس کو ساری رات سنایا تو کیا ہوا

یا روز اٹھ کے سر کو پھرایا تو کیا ہوا

۴۰۵

ان نے تو مجھ کو جھوٹے بھی پوچھا نہ ایک بار

میں نے اسے ہزار جتایا تو کیا ہوا

خواہاں نہیں وہ کیوں ہی میں اپنی طرف سے یوں

دل دے کے اس کے ہاتھ بکایا تو کیا ہوا

اب سعی کر سپہر کہ میرے موئے گئے

اس کا مزاج مہر پہ آیا تو کیا ہوا

مت رنجہ کر کسی کو کہ اپنے تو اعتقاد

دل ڈھائے کر جو کعبہ بنایا تو کیا ہوا

میں صید ناتواں بھی تجھے کیا کروں گا یاد

ظالم اک اور تیر لگایا تو کیا ہوا

۴۱۰

کیا کیا دعائیں مانگی ہیں خلوت میں شیخ یوں

ظاہر جہاں سے ہاتھ اٹھایا تو کیا ہوا

وہ فکر کر کہ چاک جگر پاوے التیام

ناصح جو تو نے جامہ سلایا تو کیا ہوا

جیتے تو میرؔ ان نے مجھے داغ ہی رکھا

پھر گور پر چراغ جلایا تو کیا ہوا

 

(۵۱)

 

گرچہ سردار مزوں کا ہے امیری کا مزا

چھوڑ لذت کے تئیں لے تو فقیری کا مزا

اے کہ آزاد ہے ٹک چکھ نمک مرغ کباب

تا تو جانے کہ یہ ہوتا ہے اسیری کا مزا

۴۱۵

لوہو پیتے ہی مرا اشک نہ منھ کو لاگا

بوسہ جب لے ہے ترے ہونٹوں کی بیری کا مزا

ہم تو گمراہ جوانی کے مزوں پر ہیں میرؔ

حضرت خضرؑ کو ارزانی ہو پیری کا مزا

 

(۵۲)

 

دل جو تھا اک آبلہ پھوٹا گیا

رات کو سینہ بہت کوٹا گیا

طائر رنگ حنا کی سی طرح

دل نہ اس کے ہاتھ سے چھوٹا گیا

میں نہ کہتا تھا کہ منھ کر دل کی اور

اب کہاں وہ آئینہ ٹوٹا گیا

۴۲۰

دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے

یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا

میرؔ کس کو اب دماغ گفتگو

عمر گذری ریختہ چھوٹا گیا

 

(۵۳)

 

یاد ایام کہ یاں ترک شکیبائی تھا

ہر گلی شہر کی یاں کوچۂ رسوائی تھا

اتنی گذری جو ترے ہجر میں سو اس کے سبب

صبر مرحوم عجب مونس تنہائی تھا

تیرے جلوے کا مگر رو تھا سحر گلشن میں

نرگس اک دیدۂ حیران تماشائی تھا

۴۲۵

یہی زلفوں کی تری بات تھی یا کاکل کی

میرؔ کو خوب کیا سیر تو سودائی تھا

 

(۵۴)

اے دوست کوئی مجھ سا رسوا نہ ہوا ہو گا

دشمن کے بھی دشمن پر ایسا نہ ہوا ہو گا

اب اشک حنائی سے جو تر نہ کرے مژگاں

وہ تجھ کف رنگیں کا مارا نہ ہوا ہو گا

ٹک گور غریباں کی کر سیر کہ دنیا میں

ان ظلم رسیدوں پر کیا کیا نہ ہوا ہو گا

بے نالہ و بے زاری بے خستگی و خواری

امروز کبھی اپنا فردا نہ ہوا ہو گا

۴۳۰

ہے قاعدۂ کلی یہ کوے محبت میں

دل گم جو ہوا ہو گا پیدا نہ ہوا ہو گا

اس کہنہ خرابے میں آبادی نہ کر منعم

یک شہر نہیں یاں جو صحرا نہ ہوا ہو گا

آنکھوں سے تری ہم کو ہے چشم کہ اب ہووے

جو فتنہ کہ دنیا میں برپا نہ ہوا ہو گا

جز مرتبۂ کل کو حاصل کرے ہے آخر

یک قطرہ نہ دیکھا جو دریا نہ ہوا ہو گا

صد نشتر مژگاں کے لگنے سے نہ نکلا خوں

آگے تجھے میرؔ ایسا سودا نہ ہوا ہو گا

۴۳۵

(۵۵)

 

عالم میں کوئی دل کا طلبگار نہ پایا

اس جنس کا یاں ہم نے خریدار نہ پایا

حق ڈھونڈنے کا آپ کو آتا نہیں ورنہ

عالم ہے سبھی یار کہاں یار نہ پایا

غیروں ہی کے ہاتھوں میں رہے دست نگاریں

کب ہم نے ترے ہاتھ سے آزار نہ پایا

جاتی ہے نظر خس پہ گہ چشم پریدن

یاں ہم نے پر کاہ بھی بے کار نہ پایا

تصویر کے مانند لگے در ہی سے گذری

مجلس میں تری ہم نے کبھو بار نہ پایا

۴۴۰

سوراخ ہے سینے میں ہر اک شخص کے تجھ سے

کس دل کے ترا تیر نگہ پار نہ پایا

مربوط ہیں تجھ سے بھی یہی ناکس و نااہل

اس باغ میں ہم نے گل بے خار نہ پایا

دم بعد جنوں مجھ میں نہ محسوس تھا یعنی

جامے میں مرے یاروں نے اک تار نہ پایا

آئینہ بھی حیرت سے محبت کی ہوئے ہم

پر سیر ہو اس شخص کا دیدار نہ پایا

وہ کھینچ کے شمشیر ستم رہ گیا جو میرؔ

خوں ریزی کا یاں کوئی سزاوار نہ پایا

۴۴۵

(۵۶)

کیا مرے آنے پہ تو  اے بت مغرور گیا

کبھی اس راہ سے نکلا تو تجھے گھور گیا

لے گیا صبح کے نزدیک مجھے خواب  اے وائے

آنکھ اس وقت کھلی قافلہ جب دور گیا

گور سے نالے نہیں اٹھتے تو نے اگتی ہے

جی گیا پر نہ ہمارا سر پر شور گیا

چشم خوں بستہ سے کل رات لہو پھر ٹپکا

ہم نے جانا تھا کہ بس اب تو یہ ناسور گیا

ناتواں ہم ہیں کہ ہیں خاک گلی کی اس کی

اب تو بے طاقتی سے دل کا بھی مقدور گیا

۴۵۰

لے کہیں منھ پہ نقاب اپنے کہ  اے غیرت صبح

شمع کے چہرۂ رخشاں سے تو اب نور گیا

نالۂ میرؔ نہیں رات سے سنتے ہم لوگ

کیا ترے کوچے سے  اے شوخ وہ رنجور گیا

 

(۵۷)

خواہ مجھ سے لڑ گیا اب خواہ مجھ سے مل گیا

کیا کہوں  اے ہم نشیں میں تجھ سے حاصل دل گیا

اپنے ہی دل کو نہ ہو وا شد تو کیا حاصل نسیم

گو چمن میں غنچۂ پژمردہ تجھ سے کھل گیا

دل سے آنکھوں میں لہو آتا ہے شاید رات کو

کشمکش میں بے قراری کی یہ پھوڑا چھل گیا

۴۵۵

قیس کا کیا کیا گیا اودھر دل و دیں ہوش و صبر

جس طرف صحرا سے لیلیٰ کا چلا محمل گیا

رشک کی جا گہ ہے مرگ اس کشتۂ حسرت کی میرؔ

نعش کے ہمراہ جس کی گور تک قاتل گیا

 

(۵۸)

 

تابہ مقدور انتظار کیا

دل نے اب زور بے قرار کیا

دشمنی ہم سے کی زمانے نے

کہ جفا کار تجھ سا یار کیا

یہ توہم کا کارخانہ ہے

یاں وہی ہے جو اعتبار کیا

۴۶۰

ایک ناوک نے اس کی مژگاں کے

طائر سدرہ تک شکار کیا

صد رگ جاں کو تاب دے باہم

تیری زلفوں کا ایک تار کیا

ہم فقیروں سے بے ادائی کیا

آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا

سخت کافر تھا جن نے پہلے میرؔ

مذہب عشق اختیار کیا

 

(۵۹)

 

شب تھا نالاں عزیز کوئی تھا

مرغ خوش خواں عزیز کوئی تھا

۴۶۵

تھی تمھارے ستم کی تاب اس تک

صبر جو یاں عزیز کوئی تھا

شب کو اس کا خیال تھا دل میں

گھر میں مہماں عزیز کوئی تھا

چاہ بے جا نہ تھی زلیخا کی

ماہ کنعاں عزیز کوئی تھا

اب تو اس کی گلی میں خوار ہے لیک

میرؔ بے جاں عزیز کوئی تھا

 

(۶۰)

 

پھوٹا کیے پیالے لنڈھتا پھرا قرابا

مستی میں میری تھا یاں اک شور اور شرابا

۴۷۰

حکمت ہے کچھ جو گردوں یکساں پھرا کرے ہے

چلتا نہیں وگرنہ شام و سحر عرابا

باہم ہوا کریں ہیں دن رات نیچے اوپر

یہ نرم شانے لونڈے ہیں مخمل دو خوابا

ان صحبتوں میں آخر جانیں ہی جاتیاں ہیں

نے عشق کو ہے صرفہ نے حسن کو محابا

ہر چند ناتواں ہیں پر آ گیا جو جی میں

دیں گے ملا زمیں سے تیرا فلک قلابا

وے دن گئے کہ آنکھیں دریا سی بہتیاں تھیں

سوکھا پڑا ہے اب تو مدت سے یہ دوآبا

۴۷۵

منھ دھوتے وقت اس کے اکثر دکھائی دے ہے

خورشید لے رہا ہے اک روز آفتابا

اب شہر ہر طرف سے میدان ہو گیا ہے

پھیلا تھا اس طرح کا کاہے کو یاں خرابا

دل تفتگی کی اپنی ہجراں میں شرح کیا دوں

چھاتی تو میرؔ میری جل کر ہوئی ہے تابا

 

(۶۱)

 

دکھ اب فراق کا ہم سے سہا نہیں جاتا

پھر اس پہ ظلم یہ ہے کچھ کہا نہیں جاتا

ہوئی ہے اتنی ترے عکس زلف کی حیراں

کہ موج بحر سے مطلق بہا نہیں جاتا

۴۸۰

نہیں گذرتی گھڑی کوئی مجھ خراب پر آہ

کہ جس میں غم سے ترے جی ڈھہا نہیں جاتا

ستم کچھ آج گلی میں تری نہیں مجھ پر

کب آ کے خون میں میں یاں نہا نہیں جاتا

خراب مجھ کو کیا اضطراب دل نے میرؔ

کہ ٹک بھی اس کنے اس بن رہا نہیں جاتا

 

(۶۲)

 

سمجھے تھے میرؔ ہم کہ یہ ناسور کم ہوا

پھر ان دنوں میں دیدۂ خونبار نم ہوا

آئے برنگ ابر عرق ناک تم ادھر

حیران ہوں کہ آج کدھر کو کرم ہوا

۴۸۵

تجھ بن شراب پی کے موئے سب ترے خراب

ساقی بغیر تیرے انھیں جام سم ہوا

کافر ہمارے دل کی نہ پوچھ اپنے عشق میں

بیت الحرام تھا سو وہ بیت الصنم ہوا

ق

خانہ خراب کس کا کیا تیری چشم نے

تھا کون یوں جسے تو نصیب ایک دم ہوا

تلوار کس کے خون میں سر ڈوب ہے تری

یہ کس اجل رسیدہ کے گھر پر ستم ہوا

ق

آئی نظر جو گور سلیماں کی ایک روز

کوچے پر اس مزار کے تھا یہ رقم ہوا

۴۹۰

کاے سرکشاں جہان میں کھینچا تھا میں بھی سر

پایان کار مور کی خاک قدم ہوا

ق

افسوس کی بھی چشم تھی ان سے خلاف عقل

بار علاقہ سے تو عبث پشت خم ہوا

اہل جہاں ہیں سارے ترے جیتے جی تلک

پوچھیں گے بھی نہ بات جہاں تو عدم ہوا

کیا کیا عزیز دوست ملے میرؔ خاک میں

نادان یاں کسو کا کسو کو بھی غم ہوا

 

(۶۳)

 

دل و دماغ ہے اب کس کو زندگانی کا

جو کوئی دم ہے تو افسوس ہے جوانی کا

۴۹۵

اگرچہ عمر کے دس دن یہ لب رہے خاموش

سخن رہے گا سدا میری کم زبانی کا

سبک ہے آوے جو مندیل رکھ نماز کو شیخ

رہا ہے کون سا اب وقت سرگرانی کا

ہزار جان سے قربان بے پری کے ہیں

خیال بھی کبھو گذرا نہ پر فشانی کا

پھرے ہے کھینچے ہی تلوار مجھ پہ ہر دم تو

کہ صید ہوں میں تری دشمنی جانی کا

نمود کر کے وہیں بحر غم میں بیٹھ گیا

کہے تو میرؔ بھی اک بلبلا تھا پانی کا

۵۰۰

 

(۶۴)

موا میں سجدے میں پر نقش میرا بار رہا

اس آستاں پہ مری خاک سے غبار رہا

جنوں میں اب کے مجھے اپنے دل کا غم ہے پہ حیف

خبر لی جب کہ نہ جامے میں ایک تار رہا

بشر ہے وہ پہ کھلا جب سے اس کا دام زلف

سر رہ اس کے فرشتے ہی کا شکار رہا

کبھو نہ آنکھوں میں آیا وہ شوخ خواب کی طرح

تمام عمر ہمیں اس کا انتظار رہا

شراب عیش میسر ہوئی جسے اک شب

پھر اس کو روز قیامت تلک خمار رہا

۵۰۵

ق

بتاں کے عشق نے بے اختیار کر ڈالا

وہ دل کہ جس کا خدائی میں اختیار رہا

وہ دل کہ شام و سحر جیسے پکا پھوڑا تھا

وہ دل کہ جس سے ہمیشہ جگر فگار رہا

تمام عمر گئی اس پہ ہاتھ رکھتے ہمیں

وہ دردناک علی الرغم بے قرار رہا

ستم میں غم میں سر انجام اس کا کیا کہیے

ہزاروں حسرتیں تھیں تس پہ جی کو مار رہا

بہا تو خون ہو آنکھوں کی راہ بہ نکلا

رہا جو سینۂ سوزاں میں داغ دار رہا

۵۱۰

سو اس کو ہم سے فراموش کاریوں لے گئے

کہ اس سے قطرۂ خوں بھی نہ یادگار رہا

گلی میں اس کی گیا سو گیا نہ بولا پھر

میں میرؔ میرؔ کر اس کو بہت پکار رہا

 

(۶۵)

جیتے جی کوچۂ دلدار سے جایا نہ گیا

اس کی دیوار کا سر سے مرے سایہ نہ گیا

کاو کاو مژۂ یار و دل زار و نزار

گتھ گئے ایسے شتابی کہ چھڑایا نہ گیا

وہ تو کل دیر تلک دیکھتا ایدھر کو رہا

ہم سے ہی حال تباہ اپنا دکھایا نہ گیا

۵۱۵

گرم رو راہ فنا کا نہیں ہوسکتا پتنگ

اس سے تو شمع نمط سر بھی کٹایا نہ گیا

پاس ناموس محبت تھا کہ فرہاد کے پاس

بے ستوں سامنے سے اپنے اٹھایا نہ گیا

خاک تک کوچۂ دلدار کی چھانی ہم نے

جستجو کی پہ دل گم شدہ پایا نہ گیا

آتش تیز جدائی میں یکایک اس بن

دل جلا یوں کہ تنک جی بھی جلایا نہ گیا

مہ نے آ سامنے شب یاد دلایا تھا اسے

پھر وہ تا صبح مرے جی سے بھلایا نہ گیا

۵۲۰

زیر شمشیر ستم میرؔ تڑپنا کیسا

سر بھی تسلیم محبت میں ہلایا نہ گیا

جی میں آتا ہے کہ کچھ اور بھی موزوں کیجے

درد دل ایک غزل میں تو سنایا نہ گیا

 

(۶۶)

 

دل کے تیں آتش ہجراں سے بچایا نہ گیا

گھر جلا سامنے پر ہم سے بجھایا نہ گیا

دل میں رہ دل میں کہ معمار قضا سے اب تک

ایسا مطبوع مکاں کوئی بنایا نہ گیا

کبھو عاشق کا ترے جبہے سے ناخن کا خراش

خط تقدیر کے مانند مٹایا نہ گیا

۵۲۵

کیا تنک حوصلہ تھے دیدہ و دل اپنے آہ

ایک دم راز محبت کا چھپایا نہ گیا

دل جو دیدار کا قاتل کے بہت بھوکا تھا

اس ستم کشتہ سے اک زخم بھی کھایا نہ گیا

میں تو تھا صید زبوں صید گہ عشق کے بیچ

آپ کو خاک میں بھی خوب ملایا نہ گیا

شہر دل آہ عجب جائے تھی پر اس کے گئے

ایسا اجڑا کہ کسی طرح بسایا نہ گیا

آج رکتی نہیں خامے کی زباں رکھیے معاف

حرف کا طول بھی جو مجھ سے گھٹایا نہ گیا

۵۳۰

 

(۶۷)

گل میں اس کی سی جو بو آئی تو آیا نہ گیا

ہم کو بن دوش ہوا باغ سے لایا نہ گیا

آہ جو نکلی مرے منھ سے تو افلاک کے پاس

اس کے آشوب کے عہدے سے بر آیا نہ گیا

گل نے ہر چند کہا باغ میں رہ پر اس بن

جی جو اچٹا تو کسو طرح لگایا نہ گیا

سرنشین رہ میخانہ ہوں میں کیا جانوں

رسم مسجد کے تئیں شیخ کہ آیا نہ گیا

حیف وے جن کے وہ اس وقت میں پہنچا جس وقت

ان کنے حال اشاروں سے بتایا نہ گیا

۵۳۵

منتظر اس کے کرخت ہو گئے بیٹھے بیٹھے

جس کے مردے کو اٹھایا سو لٹایا نہ گیا

خطر راہ محبت کہیں جوں حرف مٹے

جس سے اس طرف کو قاصد بھی چلایا نہ گیا

خوف آشوب سے غوغائے قیامت کے لیے

خون خوابیدۂ عشاق جگایا نہ گیا

میرؔ مت عذر گریباں کے پھٹے رہنے کا کر

زخم دل چاک جگر تھا کہ سلایا نہ گیا

 

(۶۸)

 

ادھر آ کر شکار افگن ہمارا

مشبک کر گیا ہے تن ہمارا

۵۴۰

گریباں سے رہا کوتہ تو پھر ہے

ہمارے ہاتھ میں دامن ہمارا

گئے جوں شمع اس مجلس میں جتنے

سبھوں پر حال ہے روشن ہمارا

بلا جس چشم کو کہتے ہیں مردم

وہ ہے عین بلا مسکن ہمارا

ہوا رونے سے راز دوستی فاش

ہمارا گریہ تھا دشمن ہمارا

بہت چاہا تھا ابر تر نے لیکن

نہ منت کش ہوا گلشن ہمارا

۵۴۵

چمن میں ہم بھی زنجیری رہے ہیں

سنا ہو گا کبھو شیون ہمارا

کیا تھا ریختہ پردہ سخن کا

سو ٹھہرا ہے یہی اب فن ہمارا

نہ بہکے میکدے میں میرؔ کیونکر

گرو سو جا ہے پیراہن ہمارا

 

(۶۹)

 

گلیوں میں اب تلک تو مذکور ہے ہمارا

افسانۂ محبت مشہور ہے ہمارا

مقصود کو تو دیکھیں کب تک پہنچتے ہیں ہم

بالفعل اب ارادہ تا گور ہے ہمارا

۵۵۰

کیا آرزو تھی جس سے سب چشم ہو گئے ہیں

ہر زخم سو جگہ سے ناسور ہے ہمارا

تیں آہ عشق بازی چوپڑ عجب بچھائی

کچی پڑیں ہیں نردیں گھر دور ہے ہمارا

تا چند پشت پا پر شرم و حیا سے آنکھیں

احوال کچھ بھی تم کو منظور ہے ہمارا

بے طاقتی کریں تو تم بھی معاف رکھیو

کیا کیجیے کہ دل بھی مجبور ہے ہمارا

ہیں مشت خاک لیکن جو کچھ ہیں میرؔ ہم ہیں

مقدور سے زیادہ مقدور ہے ہمارا

 ۵۵۵

 

(۷۰)

 

سحرگہ عید میں دور سبو تھا

پر اپنے جام میں تجھ بن لہو تھا

غلط تھا آپ سے غافل گذرنا

نہ سمجھے ہم کہ اس قالب میں تو تھا

چمن کی وضع نے ہم کو کیا داغ

کہ ہر غنچہ دل پر آرزو تھا

گل و آئینہ کیا خورشید و مہ کیا

جدھر دیکھا تدھر تیرا ہی رو تھا

کرو گے یاد باتیں تو کہو گے

کہ کوئی رفتۂ بسیار گو تھا

۵۶۰

جہاں پر ہے فسانے سے ہمارے

دماغ عشق ہم کو بھی کبھو تھا

مگر دیوانہ تھا گل بھی کسو کا

کہ پیراہن میں سو جاگہ رفو تھا

کہیں کیا بال تیرے کھل گئے تھے

کہ جھونکا باؤ کا کچھ مشک بو تھا

نہ دیکھا میرؔ آوارہ کو لیکن

غبار اک ناتواں سا کو بکو تھا

 

(۷۱)

راہ دور عشق میں روتا ہے کیا

آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا

۵۶۵

قافلے میں صبح کے اک شور ہے

یعنی غافل ہم چلے سوتا ہے کیا

سبز ہوتی ہی نہیں یہ سرزمیں

تخم خواہش دل میں تو بوتا ہے کیا

یہ نشان عشق ہیں جاتے نہیں

داغ چھاتی کے عبث دھوتا ہے کیا

غیرت یوسف ہے یہ وقت عزیز

میرؔ اس کو رائیگاں کھوتا ہے کیا

 

(۷۲)

 

رونا ٹک اک تھما تو غم بیکراں سہا

دس دن رہے جہان میں ہم سو رہا دہا

۵۷۰

پہلو میں اک گرہ سی تہ خاک ساتھ ہے

شاید کہ مر گئے پہ بھی خاطر میں کچھ رہا

آنکھوں نے راز داری محبت کی خوب کی

آنسو جو آتے آتے رہے تو لہو بہا

آئے تھے اک امید پہ تیری گلی میں ہم

سو آہ اس طرح سے چلے لوہو میں نہا

کس کس طرح سے میرؔ نے کاٹا ہے عمر کو

اب آخر آخر آن کے یہ ریختہ کہا

 

(۷۳)

 

بیکسانہ جی گرفتاری سے شیون میں رہا

اک دل غمخوار رکھتے تھے سو گلشن میں رہا

۵۷۵

پنجۂ گل کی طرح دیوانگی میں ہاتھ کو

گر نکالا میں گریباں سے تو دامن میں رہا

شمع ساں جلتے رہے لیکن نہ توڑا یار سے

رشتۂ الفت تمامی عمر گردن میں رہا

ڈر سے اس شمشیر زن کے جوہر آئینہ ساں

سر سے لے کر پاؤں تک میں غرق آہن میں رہا

ہم نہ کہتے تھے کہ مت دیر و حرم کی راہ چل

اب یہ دعویٰ حشر تک شیخ و برہمن میں رہا

در پئے دل ہی رہے اس چہرے کے خال سیاہ

ڈر ہمیں ان چوٹٹوں کا روز روشن میں رہا

۵۸۰

آہ کس انداز سے گذرا بیاباں سے کہ میرؔ

جی ہر اک نخچیر کا اس صید افگن میں رہا

 

(۷۴)

غمزے نے اس کے چوری میں دل کی ہنر کیا

اس خانماں خراب نے آنکھوں میں گھر کیا

رنگ اڑ چلا چمن میں گلوں کا تو کیا نسیم

ہم کو تو روزگار نے بے بال و پر کیا

نافع جو تھیں مزاج کو اول سو عشق میں

آخر انھیں دواؤں نے ہم کو ضرر کیا

مرتا ہوں جان دیں ہیں وطن داریوں پہ لوگ

اور سنتے جاتے ہیں کہ ہر اک نے سفر کیا

۵۸۵

کیا جانوں بزم عیش کہ ساقی کی چشم دیکھ

میں صحبت شراب سے آگے سفر کیا

جس دم کہ تیغ عشق کھنچی بوالہوس کہاں

سن لیجیو کہ ہم ہی نے سینہ سپر کیا

دل زخمی ہوکے تجھ تئیں پہنچا تو کم نہیں

اس نیم کشتہ نے بھی قیامت جگر کیا

ہے کون آپ میں جو ملے تجھ سے مست ناز

ذوق خبر ہی نے تو ہمیں بے خبر کیا

وہ دشت خوف ناک رہا ہے مرا وطن

سن کر جسے خضر نے سفر سے حذر کیا

۵۹۰

کچھ کم نہیں ہیں شعبدہ بازوں سے مے گسار

دارو پلا کے شیخ کو آدم سے خر کیا

ہیں چاروں طرف خیمے کھڑے گردباد کے

کیا جانیے جنوں نے ارادہ کدھر کیا

لکنت تری زبان کی ہے سحر جس سے شوخ

یک حرف نیم گفتہ نے دل پر اثر کیا

بے شرم محض ہے وہ گنہگار جن نے میرؔ

ابر کرم کے سامنے دامان تر کیا

 

(۷۵)

ناکسی سے پاس میرے یار کا آنا گیا

بس گیا میں جان سے اب اس سے یہ جانا گیا

۵۹۵

کچھ نہ دیکھا پھر بجز یک شعلۂ پر پیچ و تاب

شمع تک تو ہم نے دیکھا تھا کہ پروانہ گیا

ایک ہی چشمک تھی فرصت صحبت احباب کی

دیدۂ تر ساتھ لے مجلس سے پیمانہ گیا

گل کھلے صد رنگ تو کیا بے پری سے  اے نسیم

مدتیں گذریں کہ وہ گلزار کا جانا گیا

دور تجھ سے میرؔ نے ایسا تعب کھینچا کہ شوخ

کل جو میں دیکھا اسے مطلق نہ پہچانا گیا

 

(۷۶)

ہاتھ سے تیرے اگر میں ناتواں مارا گیا

سب کہیں گے یہ کہ کیا اک نیم جاں مارا گیا

۶۰۰

اک نگہ سے بیش کچھ نقصاں نہ آیا اس کے تیں

اور میں بے چارہ تو  اے مہرباں مارا گیا

وصل و ہجراں یہ جو دو منزل ہیں راہ عشق کی

دل غریب ان میں خدا جانے کہاں مارا گیا

دل نے سر کھینچا دیار عشق میں  اے بوالہوس

وہ سراپا آرزو آخر جواں مارا گیا

کب نیاز عشق ناز حسن سے کھینچے ہے ہاتھ

آخر آخر میرؔ سر برآستاں مارا گیا

 

(۷۷)

 

محبت کا جب روز بازار ہو گا

بکیں گے سر اور کم خریدار ہو گا

۶۰۵

تسلی ہوا صبر سے کچھ میں تجھ بن

کبھی یہ قیامت طرحدار ہو گا

صبا موئے زلف اس کا ٹوٹے تو ڈر ہے

کہ اک وقت میں یہ سیہ مار ہو گا

مرا دانت ہے تیرے ہونٹوں پہ مت پوچھ

کہوں گا تو لڑنے کو تیار ہو گا

نہ خالی رہے گی مری جاگہ گر میں

نہ ہوں گا تو اندوہ بسیار ہو گا

یہ منصور کا خون ناحق کہ حق تھا

قیامت کو کس کس سے خوں دار ہو گا

۶۱۰

عجب شیخ جی کی ہے شکل و شمائل

ملے گا تو صورت سے بیزار ہو گا

نہ رو عشق میں دشت گردی کو مجنوں

ابھی کیا ہوا ہے بہت خوار ہو گا

کھنچے عہد خط میں بھی دل تیری جانب

کبھو تو قیامت طرحدار ہو گا

زمیں گیر ہو عجز سے تو کہ اک دن

یہ دیوار کا سایہ دیوار ہو گا

نہ مر کر بھی چھوٹے گا اتنا رکے گا

ترے دام میں جو گرفتار ہو گا

۶۱۵

نہ پوچھ اپنی مجلس میں ہے میرؔ بھی یاں

جو ہو گا تو جیسے گنہگار ہو گا

 

(۷۸)

 

اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا

لہو آتا ہے جب نہیں آتا

ہوش جاتا نہیں رہا لیکن

جب وہ آتا ہے تب نہیں آتا

صبر تھا ایک مونس ہجراں

سو وہ مدت سے اب نہیں آتا

دل سے رخصت ہوئی کوئی خواہش

گریہ کچھ بے سبب نہیں آتا

۶۲۰

عشق کو حوصلہ ہے شرط ارنہ

بات کا کس کو ڈھب نہیں آتا

جی میں کیا کیا ہے اپنے  اے ہمدم

پر سخن تا بلب نہیں آتا

دور بیٹھا غبار میرؔ اس سے

عشق بن یہ ادب نہیں آتا

 

(۷۹)

 

کب تک تو امتحاں میں مجھ سے جدا رہے گا

جیتا ہوں تو تجھی میں یہ دل لگا رہے گا

یاں ہجر اور ہم میں بگڑی ہے کب کی صحبت

زخم دل و نمک میں کب تک مزہ رہے گا

۶۲۵

تو برسوں میں ملے ہے یاں فکر یہ رہے ہے

جی جائے گا ہمارا اک دم کو یا رہے گا

میرے نہ ہونے کا تو ہے اضطراب یوں ہی

آیا ہے جی لبوں پر اب کیا ہے  جا رہے گا

غافل نہ رہیو ہرگز نادان داغ دل سے

بھڑکے گا جب یہ شعلہ تب گھر جلا رہے گا

مرنے پہ اپنے مت جا سالک طلب میں اس کی

گو سر کو کھو رہے گا پر اس کو پا رہے گا

عمر عزیز ساری دل ہی کے غم میں گذری

بیمار عاشقی یہ کس دن بھلا رہے گا

۶۳۰

دیدار کا تو وعدہ محشر میں دیکھ کر کر

بیمار غم میں تیرے تب تک تو کیا رہے گا

کیا ہے جو اٹھ گیا ہے پر بستۂ وفا ہے

قید حیات میں ہے تو میرؔ آ رہے گا

 

(۸۰)

 

جو یہ دل ہے تو کیا سر انجام ہو گا

تہ خاک بھی خاک آرام ہو گا

مرا جی تو آنکھوں میں آیا یہ سنتے

کہ دیدار بھی ایک دن عام ہو گا

نہ ہو گا وہ دیکھا جسے کبک تو نے

وہ اک باغ کا سرو اندام ہو گا

۶۳۵

نہ نکلا کر اتنا بھی بے پردہ گھر سے

بہت اس میں ظالم تو بدنام ہو گا

ہزاروں کی یاں لگ گئیں چھت سے آنکھیں

تو  اے ماہ کس شب لب بام ہو گا

وہ کچھ جانتا ہو گا زلفوں میں پھنسنا

جو کوئی اسیر تہ دام ہو گا

جگر چاکی ناکامی دنیا ہے آخر

نہیں آئے جو میرؔ کچھ کام ہو گا

 

(۸۱)

 

خواب میں تو نظر جمال پڑا

پر مرے جی ہی کے خیال پڑا

۶۴۰

وہ نہانے لگا تو سایۂ زلف

بحر میں تو کہے کہ جال پڑا

میں نے تو سر دیا پر  اے جلاد

کس کی گردن پہ یہ وبال پڑا

شیخ قلاش ہے جوئے میں نہ لاؤ

یاں ہمارا رہے ہے مال پڑا

خوبرو اب نہیں ہیں گندم گوں

میرؔ ہندوستاں میں کال پڑا

 

(۸۲)

 

نہ پوچھ خواب زلیخا نے کیا خیال لیا

کہ کاروان کا کنعاں کے جی نکال لیا

۶۴۵

رہ طلب میں گرے ہوتے سر کے بھل ہم بھی

شکستہ پائی نے اپنی ہمیں سنبھال لیا

رہوں ہوں برسوں سے ہم دوش پر کبھو ان نے

گلے میں ہاتھ مرا پیار سے نہ ڈال لیا

بتاں کی میرؔ ستم وہ نگاہ ہے جس نے

خدا کے واسطے بھی خلق کا وبال لیا

 

(۸۳)

 

نقاش دیکھ تو میں کیا نقش یار کھینچا

اس شوخ کم نما کا نت انتظار کھینچا

رسم قلمرو عشق مت پوچھ کچھ کہ ناحق

ایکوں کی کھال کھینچی ایکوں کو دار کھینچا

۶۵۰

تھا بد شراب ساقی کتنا کہ رات مے سے

میں نے جو ہاتھ کھینچا ان نے کٹار کھینچا

مستی میں شکل ساری نقاش سے کھنچی پر

آنکھوں کو دیکھ اس کی آخر خمار کھینچا

جی کھنچ رہے ہیں اودھر عالم کا ہو گا بلوہ

گر شانے تو نے اس کی زلفوں کا تار کھینچا

تھا شب کسے کسائے تیغ کشیدہ کف میں

پر میں نے بھی بغل میں بے اختیار کھینچا

پھرتا ہے میرؔ تو جو پھاڑے ہوئے گریباں

کس کس ستم زدے نے دامان یار کھینچا

۶۵۵

(۸۴)

یہ حسرت ہے مروں اس میں لیے لبریز پیمانا

مہکتا ہو نپٹ جو پھول سی دارو سے میخانا

نہ وے زنجیر کے غل ہیں نہ وے جرگے غزالوں کے

مرے دیوان پن تک ہی رہا معمور ویرانا

مرا سر نزع میں زانو پہ رکھ کر یوں لگا کہنے

کہ  اے بیمار میرے تجھ پہ جلد آساں ہو مر جانا

نہ ہو کیوں ریختہ بے شورش و کیفیت و معنی

گیا ہو میرؔ دیوانہ رہا سوداؔ سو مستانا

 

(۸۵)

بارہا گور دل جھنکا لایا

اب کے شرط وفا بجا لایا

۶۶۰

قدر رکھتی نہ تھی متاع دل

سارے عالم میں میں دکھا لایا

دل کہ یک قطرہ خوں نہیں ہے بیش

ایک عالم کے سر بلا لایا

سب پہ جس بار نے گرانی کی

اس کو یہ ناتواں اٹھا لایا

دل مجھے اس گلی میں لے جا کر

اور بھی خاک میں ملا لایا

ابتدا ہی میں مر گئے سب یار

عشق کی کون انتہا لایا

۶۶۵

اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میرؔ

پھر ملیں گے اگر خدا لایا

 

(۸۶)

کیا عجب پل میں اگر ترک ہو اس سے جاں کا

ہو جو زخمی کبھو برہم زدن مژگاں کا

اٹھتے پلکوں کے گرے پڑتے ہیں لاکھوں آنسو

ڈول ڈالا ہے مری آنکھوں نے اب طوفاں کا

جلوۂ ماہ تہ ابر تنک بھول گیا

ان نے سوتے میں دوپٹے سے جو منھ کو ڈھانکا

لہو لگتا ہے ٹپکنے جو پلک ماروں ہوں

اب تو یہ رنگ ہے اس دیدۂ اشک افشاں کا

۶۷۰

ساکن کو کو ترے کب ہے تماشے کا دماغ

آئی فردوس بھی چل کر نہ ادھر کو جھانکا

اٹھ گیا ایک تو اک مرنے کو آ بیٹھے ہے

قاعدہ ہے یہی مدت سے ہمارے ہاں کا

کار اسلام ہے مشکل ترے خال و خط سے

رہزن دیں ہے کوئی دزد کوئی ایماں کا

چارۂ عشق بجز مرگ نہیں کچھ  اے میرؔ

اس مرض میں ہے عبث فکر تمھیں درماں کا

 

(۸۷)

ہر دم طرف ہے ویسے مزاج کرخت کا

ٹکڑا مرا جگر ہے کہو سنگ سخت کا

۶۷۵

سبزان تازہ رو کی جہاں جلوہ گاہ تھی

اب دیکھیے تو واں نہیں سایہ درخت کا

جوں برگ ہائے لالہ پریشان ہو گیا

مذکور کیا ہے اب جگر لخت لخت کا

دلی میں آج بھیک بھی ملتی نہیں انھیں

تھا کل تلک دماغ جنھیں تاج و تخت کا

خاک سیہ سے میں جو برابر ہوا ہوں میرؔ

سایہ پڑا ہے مجھ پہ کسو تیرہ بخت کا

 

(۸۸)

 

ہم عشق میں نہ جانا غم ہی سدا رہے گا

دس دن جو ہے یہ مہلت سو یاں دہا رہے گا

۶۸۰

برقع اٹھے پہ اس کے ہو گا جہان روشن

خورشید کا نکلنا کیونکر چھپا رہے گا

اک وہم سی رہی ہے اپنی نمود تن میں

آتے ہو اب تو آؤ پھر ہم میں کیا رہے گا

مذکور یار ہم سے مت ہم نشیں کیا کر

دل جو بجا نہیں ہے پھر اس میں جا رہے گا

اس گل بغیر جیسے ابر بہار عاشق

نالاں جدا رہے گا روتا جدا رہے گا

دانستہ ہے تغافل غم کہنا اس سے حاصل

تم درد دل کہو گے وہ سر جھکا رہے گا

۶۸۵

اب جھمکی اس کی تم نے دیکھی کبھو جو یارو

برسوں تلک اسی میں پھر دل سدا رہے گا

کس کس کو میرؔ ان نے کہہ کر دیا ہے بوسہ

وہ ایک ہے مفتن یوں ہی چُما رہے گا

 

(۸۹)

 

بھلا ہو گا کچھ اک احوال اس سے یا برا ہو گا

مآل اپنا ترے غم میں خدا جانے کہ کیا ہو گا

تفحص فائدہ ناصح تدارک تجھ سے کیا ہو گا

وہی پاوے گا میرا درد دل جس کا لگا ہو گا

کسو کو شوق یارب بیش اس سے اور کیا ہو گا

قلم ہاتھ آ گئی ہو گی تو سو سو خط لکھا ہو گا

۶۹۰

دکانیں حسن کی آگے ترے تختہ ہوئی ہوں گی

جو تو بازار میں ہو گا تو یوسف کب بکا ہو گا

معیشت ہم فقیروں کی سی اخوان زماں سے کر

کوئی گالی بھی دے تو کہہ بھلا بھائی بھلا ہو گا

خیال اس بے وفا کا ہم نشیں اتنا نہیں اچھا

گماں رکھتے تھے ہم بھی یہ کہ ہم سے آشنا ہو گا

قیامت کر کے اب تعبیر جس کو کرتی ہے خلقت

وہ اس کوچے میں اک آشوب سا شاید ہوا ہو گا

عجب کیا ہے ہلاک عشق میں فرہاد و مجنوں کے

محبت روگ ہے کوئی کہ کم اس سے جیا ہو گا

۶۹۵

نہ ہو کیوں غیرت گلزار وہ کوچہ خدا جانے

لہو اس خاک پر کن کن عزیزوں کا گرا ہو گا

بہت ہمسائے اس گلشن کے زنجیری رہا ہوں میں

کبھو تم نے بھی میرا شور نالوں کا سنا ہو گا

نہیں جز عرش جاگہ راہ میں لینے کو دم اس کے

قفس سے تن کے مرغ روح میرا جب رہا ہو گا

کہیں ہیں میرؔ کو مارا گیا شب اس کے کوچے میں

کہیں وحشت میں شاید بیٹھے بیٹھے اٹھ گیا ہو گا

 

(۹۰)

 

یاں نام یار کس کا ورد زباں نہ پایا

پر مطلقاً کہیں ہم اس کا نشاں نہ پایا

۷۰۰

وضع کشیدہ اس کی رکھتی ہے داغ سب کو

نیوتا کسو سے ہم وہ ابرو  کماں نہ پایا

پایا نہ یوں کہ کریے اس کی طرف اشارت

یوں تو جہاں میں ہم نے اس کو کہاں نہ پایا

یہ دل کہ خون ہووے برجا نہ تھا وگرنہ

وہ کون سی جگہ تھی اس کو جہاں نہ پایا

فتنے کی گرچہ باعث آفاق میں وہی تھی

لیکن کمر کو اس کی ہم درمیاں نہ پایا

محروم سجدہ آخر جانا پڑا جہاں سے

جوش جباہ سے ہم وہ آستاں نہ پایا

۷۰۵

ایسی ہے میرؔ کی بھی مدت سے رونی صورت

چہرے پہ اس کے کس دن آنسو رواں نہ پایا

 

(۹۱)

 

پھر شب نہ لطف تھا نہ وہ مجلس میں نور تھا

اس روئے دل فروز کا سب میں ظہور تھا

کیا کیا عزیز خلع بدن ہائے کر گئے

تشریف تم کو یاں تئیں لانا ضرور تھا

کیونکر تو میری آنکھ سے ہو دل تلک گیا

یہ بحر موج خیز تو عسرالعبور تھا

شاید نشے میں اس سے یہ سفاکیاں ہوئیں

زخمی جو اس کے ہاتھ کا نکلا سو چور تھا

۷۱۰

جیتے جی پاس ہوکے نہ نکلا کسو کے میرؔ

وہ دور گرد بادیۂ عشق دور تھا

 

(۹۲)

 

ہے حال جائے گریہ جان پر آرزو کا

روئے نہ ہم کبھو ٹک دامن پکڑ کسو کا

جاتی نہیں اٹھائی اپنے پہ یہ خشونت

اب رہ گیا ہے آنا میرا کبھو کبھو کا

اس آستاں سے کس دن پر شور سر نہ پٹکا

اس کی گلی میں جا کر کس رات میں نہ کوکا

شاید کہ مند گئی ہے قمری کی چشم گریاں

کچھ ٹوٹ سا چلا ہے پانی چمن کی جو کا

۷۱۵

اپنے تڑپنے کی تو تدبیر پہلے کر لوں

تب فکر میں کروں گا زخموں کے بھی رفو کا

دانتوں کی نظم اس کے ہنسنے میں جن نے دیکھی

پھر موتیوں کی لڑ پر ان نے کبھو نہ تھوکا

یہ عیش گہ نہیں ہے یاں رنگ اور کچھ ہے

ہر گل ہے اس چمن میں ساغر بھرا لہو کا

بلبل غزل سرائی آگے ہمارے مت کر

سب ہم سے سیکھتے ہیں انداز گفتگو کا

گلیاں بھری پڑی ہیں  اے باد زخمیوں سے

مت کھول پیچ ظالم اس زلف مشک بو کا

۷۲۰

وے پہلی التفاتیں ساری فریب نکلیں

دینا نہ تھا دل اس کو میں میرؔ آہ چوکا

 

(۹۳)

 

میں بھی دنیا میں ہوں اک نالہ پریشاں یک جا

دل کے سو ٹکڑے مرے پر سبھی نالاں یک جا

پند گویوں نے بہت سینے کی تدبیریں لیں

آہ ثابت بھی نہ نکلا یہ گریباں یک جا

تیرا کوچہ ہے ستمگار وہ کافر جاگہ

کہ جہاں مارے گئے کتنے مسلماں یک جا

سر سے باندھا ہے کفن عشق میں تیرے یعنی

جمع ہم نے بھی کیا ہے سر و ساماں یک جا

۷۲۵

کیونکے پڑتے ہیں ترے پاؤں نسیم سحری

اس کے کوچے میں ہے صد گنج شہیداں یک جا

تو بھی رونے کو ملا دل ہے ہمارا بھی بھرا

ہو جے  اے ابر بیابان میں گریاں یک جا

بیٹھ کر میرؔ جہاں خوب نہ رویا ہووے

ایسی کوچے میں نہیں ہے ترے جاناں یک جا

 

(۹۴)

فلک کا منھ نہیں اس فتنے کے اٹھانے کا

ستم شریک ترا ناز ہے زمانے کا

ہمارے ضعف کی حالت سے دل قوی رکھیو

کہیں خیال نہیں یاں بحال آنے کا

۷۳۰

تری ہی راہ میں مارے گئے سبھی آخر

سفر تو ہم کو ہے درپیش جی سے جانے کا

بسان شمع جو مجلس سے ہم گئے تو گئے

سراغ کیجو نہ پھر تو نشان پانے کا

چمن میں دیکھ نہیں سکتی ٹک کہ چبھتا ہے

جگر میں برق کے کانٹا مجھ آشیانے کا

ٹک آ تو تا سر بالیں نہ کر تعلل کیا

تجھے بھی شوخ یہی وقت ہے بہانے کا

سراہا ان نے ترا ہاتھ جن نے دیکھا زخم

شہید ہوں میں تری تیغ کے لگانے کا

۷۳۵

شریف مکہ رہا ہے تمام عمر  اے شیخ

یہ میرؔ اب جو گدا ہے شراب خانے کا

 

(۹۵)

کل شب ہجراں تھی لب پر نالہ بیمارانہ تھا

شام سے تا صبح دم بالیں پہ سر یک جا نہ تھا

شہرۂ عالم اسے یمن محبت نے کیا

ورنہ مجنوں ایک خاک افتادۂ ویرانہ تھا

منزل اس مہ کی رہا جو مدتوں  اے ہم نشیں

اب وہ دل گویا کہ اک مدت کا ماتم خانہ تھا

اک نگاہ آشنا کو بھی وفا کرتا نہیں

وا ہوئیں مژگاں کہ سبزہ سبزۂ بیگانہ تھا

۷۴۰

روز و شب گذرے ہے پیچ و تاب میں رہتے تجھے

اے دل صد چاک کس کی زلف کا تو شانہ تھا

یاد ایامے کہ اپنے روز و شب کی جائے باش

یا در باز بیاباں یا در میخانہ تھا

جس کو دیکھا ہم نے اس وحشت کدے میں دہر کے

یا سڑی یا خبطی یا مجنون یا دیوانہ تھا

بعد خوں ریزی کے مدت بے حنا رنگیں رہا

ہاتھ اس کا جو مرے لوہو میں گستاخانہ تھا

غیر کے کہنے سے مارا ان نے ہم کو بے گناہ

یہ نہ سمجھا وہ کہ واقع میں بھی کچھ تھا یا نہ تھا

۷۴۵

صبح ہوتے وہ بنا گوش آج یاد آیا مجھے

جو گرا دامن پہ آنسو گوہر یک دانہ تھا

شب فروغ بزم کا باعث ہوا تھا حسن دوست

شمع کا جلوہ غبار دیدۂ پروانہ تھا

رات اس کی چشم میگوں خواب میں دیکھی تھی میں

صبح سوتے سے اٹھا تو سامنے پیمانہ تھا

رحم کچھ پیدا کیا شاید کہ اس بے رحم نے

گوش اس کا شب ادھر تا آخر افسانہ تھا

میرؔ بھی کیا مست طافح تھا شراب عشق کا

لب پہ عاشق کے ہمیشہ نعرۂ مستانہ تھا

۷۵۰

(۹۶)

پیغام غم جگر کا گلزار تک نہ پہنچا

نالہ مرا چمن کی دیوار تک نہ پہنچا

اس آئینے کے مانند زنگار جس کو کھاوے

کام اپنا اس کے غم میں دیدار تک نہ پہنچا

جوں نقش پا ہے غربت حیران کار اس کی

آوارہ ہو وطن سے جو یار تک نہ پہنچا

لبریز شکوہ تھے ہم لیکن حضور تیرے

کار شکایت اپنا گفتار تک نہ پہنچا

لے چشم نم رسیدہ پانی چوانے کوئی

وقت اخیر اس کے بیمار تک نہ پہنچا

۷۵۵

یہ بخت سبز دیکھو باغ زمانہ میں سے

پژمردہ گل بھی اپنی دستار تک نہ پہنچا

ق

مستوری خوبروئی دونوں نہ جمع ہوویں

خوبی کا کام کس کی اظہار تک نہ پہنچا

یوسف سے لے کے تا گل پھر گل سے لے کے تا شمع

یہ حسن کس کو لے کر بازار تک نہ پہنچا

افسوس میرؔ وے جو ہونے شہید آئے

پھر کام ان کا اس کی تلوار تک نہ پہنچا

 

(۹۷)

اس کا خیال چشم سے شب خواب لے گیا

قسمے کہ عشق جی سے مرے تاب لے گیا

۷۶۰

کن نیندوں اب تو سوتی ہے  اے چشم گریہ ناک

مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا

آوے جو مصطبے میں تو سن لو کہ راہ سے

واعظ کو ایک جام مئے ناب لے گیا

نے دل رہا بجا ہے نہ صبر و حواس و ہوش

آیا جو سیل عشق سب اسباب لے گیا

میرے حضور شمع نے گریہ جو سر کیا

رویا میں اس قدر کہ مجھے آب لے گیا

احوال اس شکار زبوں کا ہے جائے رحم

جس ناتواں کو مفت نہ قصاب لے گیا

۷۶۵

منھ کی جھلک سے یار کے بے ہوش ہو گئے

شب ہم کو میرؔ پرتو مہتاب لے گیا

 

(۹۸)

 

کب تلک یہ ستم اٹھائیے گا

ایک دن یوں ہی جی سے جایئے گا

شکل تصویر بے خودی کب تک

کسو دن آپ میں بھی آیئے گا

سب سے مل چل کہ حادثے سے پھر

کہیں ڈھونڈا بھی تو نہ پایئے گا

نہ موئے ہم اسیری میں تو نسیم

کوئی دن اور باؤ کھایئے گا

۷۷۰

کہیے گا اس سے قصۂ مجنوں

یعنی پردے میں غم سنایئے گا

اس کے پابوس کی توقع پر

اپنے تیں خاک میں ملائیے گا

اس کے پاؤں کو جا لگی ہے حنا

خوب سے ہاتھ اسے لگائیے گا

ق

شرکت شیخ و برہمن سے میرؔ

کعبہ و دیر سے بھی جایئے گا

اپنی ڈیڑھ اینٹ کی جدی مسجد

کسی ویرانے میں بنایئے گا

۷۷۵

(۹۹)

 

دل پہنچا ہلاکی کو نپٹ کھینچ کسالا

لے یار مرے سلمہ اللہ تعالیٰ

کچھ میں نہیں اس دل کی پریشانی کا باعث

برہم ہی مرے ہاتھ لگا تھا یہ رسالا

معمور شرابوں سے کبابوں سے ہے سب دیر

مسجد میں ہے کیا شیخ پیالہ نہ نوالا

گذرے ہے لہو واں سر ہر خار سے اب تک

جس دشت میں پھوٹا ہے مرے پاؤں کا چھالا

گر قصد ادھر کا ہے تو ٹک دیکھ کے آنا

یہ دیر ہے زہاد نہ ہو خانۂ خالا

۷۸۰

جس گھر میں ترے جلوے سے ہو چاندنی کا فرش

واں چادر مہتاب ہے مکڑی کا سا جالا

ق

دشمن نہ کدورت سے مرے سامنے ہو جو

تلوار کے لڑنے کو مرے کیجو حوالا

ناموس مجھے صافی طینت کی ہے ورنہ

رستم نے مری تیغ کا حملہ نہ سنبھالا

دیکھے ہے مجھے دیدۂ پر خشم سے وہ میرؔ

میرے ہی نصیبوں میں تھا یہ زہر کا پیالا

 

 (۱۰۰)

 

پل میں جہاں کو دیکھتے میرے ڈبو چکا

اک وقت میں یہ دیدہ بھی طوفان رو چکا

۷۸۵

افسوس میرے مردے پر اتنا نہ کر کہ اب

پچھتانا یوں ہی سا ہے جو ہونا تھا ہو چکا

لگتی نہیں پلک سے پلک انتظار میں

آنکھیں اگر یہی ہیں تو بھر نیند سو چکا

یک چشمک پیالہ ہے ساقی بہار عمر

جھپکی لگی کہ دور یہ آخر ہی ہو چکا

ممکن نہیں کہ گل کرے ویسی شگفتگی

اس سرزمیں میں تخم محبت میں بو چکا

پایا نہ دل بہایا ہوا سیل اشک کا

میں پنجۂ مژہ سے سمندر بلو چکا

۷۹۰

ہر صبح حادثے سے یہ کہتا ہے آسماں

دے جام خون میرؔ کو گر منھ وہ دھو چکا

 

(۱۰۱)

 

دیر و حرم سے گذرے اب دل ہے گھر ہمارا

ہے ختم اس آبلے پر سیر و سفر ہمارا

پلکوں سے تیری ہم کو کیا چشم داشت یہ تھی

ان برچھیوں نے بانٹا باہم جگر ہمارا

دنیا و دیں کی جانب میلان ہو تو کہیے

کیا جانیے کہ اس بن دل ہے کدھر ہمارا

ہیں تیرے آئینے کی تمثال ہم نہ پوچھو

اس دشت میں نہیں ہے پیدا اثر ہمارا

۷۹۵

جوں صبح اب کہاں ہے طول سخن کی فرصت

قصہ ہی کوئی دم کو ہے مختصر ہمارا

کوچے میں اس کے جا کر بنتا نہیں پھر آنا

خون ایک دن گرے گا اس خاک پر ہمارا

ہے تیرہ روز اپنا لڑکوں کی دوستی سے

اس دن ہی کو کہے تھا اکثر پدر ہمارا

سیلاب ہر طرف سے آئیں گے بادیے میں

جوں ابر روتے ہو گا جس دم گذر ہمارا

نشوونما ہے اپنی جوں گردباد انوکھی

بالیدہ خاک رہ سے ہے یہ شجر ہمارا

۸۰۰

یوں دور سے کھڑے ہو کیا معتبر ہے رونا

دامن سے باندھ دامن  اے ابر تر ہمارا

جب پاس رات رہنا آتا ہے یاد اس کا

تھمتا نہیں ہے رونا دو دو پہر ہمارا

اس کارواں سرا میں کیا میرؔ بار کھولیں

یاں کوچ لگ رہا ہے شام و سحر ہمارا

 

 (۱۰۲)

 

غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا

دل کے جانے کا نہایت غم رہا

حسن تھا تیرا بہت عالم فریب

خط کے آنے پر بھی اک عالم رہا

۸۰۵

دل نہ پہنچا گوشۂ داماں تلک

قطرۂ خوں تھا مژہ پر جم رہا

سنتے ہیں لیلیٰ کے خیمے کو سیاہ

اس میں مجنوں کا مگر ماتم رہا

جامۂ احرام زاہد پر نہ جا

تھا حرم میں لیک نامحرم رہا

زلفیں کھولیں تو تو ٹک آیا نظر

عمر بھر یاں کام دل برہم رہا

اس کے لب سے تلخ ہم سنتے رہے

اپنے حق میں آب حیواں سم رہا

۸۱۰

میرے رونے کی حقیقت جس میں تھی

ایک مدت تک وہ کاغذ نم رہا

صبح پیری شام ہونے آئی میرؔ

تو نہ چیتا یاں بہت دن کم رہا

 

(۱۰۳)

 

چوری میں دل کی وہ ہنر کر گیا

دیکھتے ہی آنکھوں میں گھر کر گیا

دہر میں میں خاک بسر ہی رہا

عمر کو اس طور بسر کر گیا

دل نہیں ہے منزل سینہ میں اب

یاں سے وہ بیچارہ سفر کر گیا

۸۱۵

حیف جو وہ نسخۂ دل کے اپر

سرسری سی ایک نظر کر گیا

کس کو مرے حال سے تھی آگہی

نالۂ شب سب کو خبر کر گیا

گو نہ چلا تا مژہ تیر نگاہ

اپنے جگر سے تو گذر کر گیا

مجلس آفاق میں پروانہ ساں

میرؔ بھی شام اپنی سحر کر گیا

 

(۱۰۴)

 

واں وہ تو گھر سے اپنے پی کر شراب نکلا

یاں شرم سے عرق میں ڈوب آفتاب نکلا

۸۲۰

آیا جو واقعے میں درپیش عالم مرگ

یہ جاگنا ہمارا دیکھا تو خواب نکلا

دیکھا جو اوس پڑتے گلشن میں ہم تو آخر

گل کا وہ روئے خنداں چشم پر آب نکلا

پردے ہی میں چلا جا خورشید تو ہے بہتر

اک حشر ہے جو گھر سے وہ بے حجاب نکلا

کچھ دیر ہی لگی نہ دل کو تو تیر لگتے

اس صید ناتواں کا کیا جی شتاب نکلا

ہر حرف غم نے میرے مجلس کے تیں رلایا

گویا غبار دل کا پڑھتا کتاب نکلا

۸۲۵

روئے عرق فشاں کو بس پونچھ گرم مت ہو

اس گل میں کیا رہے گا جس کا گلاب نکلا

مطلق نہ اعتنا کی احوال پر ہمارے

نامے کا نامے ہی میں سب پیچ و تاب نکلا

شان تغافل اپنے نو خط کی کیا لکھیں ہم

قاصد موا تب اس کے منھ سے جواب نکلا

کس کی نگہ کی گردش تھی میرؔ رو بہ مسجد

محراب میں سے زاہد مست و خراب نکلا

 

(۱۰۵)

 

دامان کوہ میں جو میں ڈاڑھ مار رویا

اک ابر واں سے اٹھ کر بے اختیار رویا

۸۳۰

پڑتا نہ تھا بھروسا عہد وفائے گل پر

مرغ چمن نہ سمجھا میں تو ہزار رویا

ہر گل زمین یاں کی رونے ہی کی جگہ تھی

مانند ابر ہر جا میں زار زار رویا

تھی مصلحت کہ رک کر ہجراں میں جان دیجے

دل کھول کر نہ غم میں میں ایک بار رویا

اک عجز عشق اس کا اسباب صد الم تھا

کل میرؔ سے بہت میں ہو کر دوچار رویا

 

(۱۰۶)

 

اس چہرے کی خوبی سے عبث گل کو جتایا

یہ کون شگوفہ سا چمن زار میں لایا

۸۳۵

وہ آئینہ رخسار دم بازپس آیا

جب حس نہ رہا ہم کو تو دیدار دکھایا

کچھ ماہ میں اس میں نہ تفاوت ہوا ظاہر

سو بار نکالا اسے اور اس کو چھپایا

اک عمر مجھے خاک میں ملتے ہوئے گذری

کوچے میں ترے آن کے لوہو میں نہایا

سمجھا تو مجھے مرگ کے نزدیک پس از دیر

رحمت ہے مرے یار بہت دور سے آیا

یہ باغ رہا ہم سے ولے جا نہ سکے ہم

بے بال و پری نے بھی ہمیں خوب اڑایا

۸۴۰

میں صید رمیدہ ہوں بیابان جنوں کا

رہتا ہے مرا موجب وحشت مرا سایا

یا قافلہ در قافلہ ان رستوں میں تھے لوگ

یا ایسے گئے یاں سے کہ پھر کھوج نہ پایا

رو میں نے رکھا ہے در ترسا بچگاں پر

رکھیو تو مری شرم بڑھاپے میں خدایا

ٹالا نہیں کچھ مجھ کو پتنگ آج اڑاتے

بہتوں کے تئیں باؤ کا رخ ان نے بتایا

ایسے بت بے مہر سے ملتا ہے کوئی بھی

دل میرؔ کو بھاری تھا جو پتھر سے لگایا

۸۴۵

(۱۰۷)

 

دل جو زیر غبار اکثر تھا

کچھ مزاج ان دنوں مکدر تھا

اس پہ تکیہ کیا تو تھا لیکن

رات دن ہم تھے اور بستر تھا

سرسری تم جہان سے گذرے

ورنہ ہر جا جہان دیگر تھا

دل کی کچھ قدر کرتے رہیو تم

یہ ہمارا بھی ناز پرور تھا

بعد یک عمر جو ہوا معلوم

دل اس آئینہ رو کا پتھر تھا

۸۵۰

بارے سجدہ ادا کیا تہ تیغ

کب سے یہ بوجھ میرے سر پر تھا

کیوں نہ ابر سیہ سفید ہوا

جب تلک عہد دیدۂ تر تھا

اب خرابہ ہوا جہان آباد

ورنہ ہر اک قدم پہ یاں گھر تھا

ق

بے زری کا نہ کر گلہ غافل

رہ تسلی کہ یوں مقدر تھا

اتنے منعم جہان میں گذرے

وقت رحلت کے کس کنے زر تھا

۸۵۵

صاحب جاہ و شوکت و اقبال

اک ازاں جملہ اب سکندر تھا

تھی یہ سب کائنات زیر نگیں

ساتھ مور و ملخ سا لشکر تھا

لعل و یاقوت ہم زر و گوہر

چاہیے جس قدر میسر تھا

آخر کار جب جہاں سے گیا

ہاتھ خالی کفن سے باہر تھا

عیب طول کلام مت کریو

کیا کروں میں سخن سے خوگر تھا

۸۶۰

خوش رہا جب تلک رہا جیتا

میرؔ معلوم ہے قلندر تھا

 

(۱۰۸)

 

تیرا رخ مخطط قرآن ہے ہمارا

بوسہ بھی لیں تو کیا ہے ایمان ہے ہمارا

گر ہے یہ بے قراری تو رہ چکا بغل میں

دو روز دل ہمارا مہمان ہے ہمارا

ہیں اس خراب دل سے مشہور شہر خوباں

اس ساری بستی میں گھر ویران ہے ہمارا

مشکل بہت ہے ہم سا پھر کوئی ہاتھ آنا

یوں مارنا تو پیارے آسان ہے ہمارا

۸۶۵

ادریس و خضر و عیسیٰ قاتل سے ہم چھڑائے

ان خوں گرفتگاں پر احسان ہے ہمارا

ہم وے ہیں سن رکھو تم مر جائیں رک کے یک جا

کیا کوچہ کوچہ پھرنا عنوان ہے ہمارا

ہیں صید گہ کے میری صیاد کیا نہ دھڑکے

کہتے ہیں صید جو ہے بے جان ہے ہمارا

کرتے ہیں باتیں کس کس ہنگامے کی یہ زاہد

دیوان حشر گویا دیوان ہے ہمارا

خورشید رو کا پرتو آنکھوں میں روز ہے گا

یعنی کہ شرق رویہ دالان ہے ہمارا

۸۷۰

ماہیت دو عالم کھاتی پھرے ہے غوطے

یک قطرہ خون یہ دل طوفان ہے ہمارا

نالے میں اپنے ہر شب آتے ہیں ہم بھی پنہاں

غافل تری گلی میں مندان ہے ہمارا

کیا خانداں کا اپنے تجھ سے کہیں تقدس

روح القدس اک ادنیٰ دربان ہے ہمارا

کرتا ہے کام وہ دل جو عقل میں نہ آوے

گھر کا مشیر کتنا نادان ہے ہمارا

جی جا نہ آہ ظالم تیرا ہی تو ہے سب کچھ

کس منھ سے پھر کہیں جی قربان ہے ہمارا

۸۷۵

بنجر زمین دل کی ہے میرؔ ملک اپنی

پر داغ سینہ مہر فرمان ہے ہمارا

 

 (۱۰۹)

 

کیا مصیبت زدہ دل مائل آزار نہ تھا

کون سے درد و ستم کا یہ طرفدار نہ تھا

آدم خاکی سے عالم کو جلا ہے ورنہ

آئینہ تھا یہ ولے قابل دیدار نہ تھا

دھوپ میں جلتی ہیں غربت وطنوں کی لاشیں

تیرے کوچے میں مگر سایۂ دیوار نہ تھا

صد گلستاں تہ یک بال تھے اس کے جب تک

طائر جاں قفس تن کا گرفتار نہ تھا

۸۸۰

حیف سمجھا ہی نہ وہ قاتل ناداں ورنہ

بے گنہ مارنے قابل یہ گنہگار نہ تھا

عشق کا جذب ہوا باعث سودا ورنہ

یوسف مصر زلیخا کا خریدار نہ تھا

نرم تر موم سے بھی ہم کو کوئی دیتی قضا

سنگ چھاتی کا تو یہ دل ہمیں درکار نہ تھا

رات حیران ہوں کچھ چپ ہی مجھے لگ گئی میرؔ

درد پنہاں تھے بہت پر لب اظہار نہ تھا

 

(۱۱۰)

 

جی اپنا میں نے تیرے لیے خوار ہو دیا

آخر کو جستجو نے تری مجھ کو کھو دیا

۸۸۵

بے طاقتی سکوں نہیں رکھتی ہے ہم نشیں

رونے نے ہر گھڑی کے مجھے تو ڈبو دیا

اے ابر اس چمن میں نہ ہو گا گل امید

یاں تخم یاس اشک کو میں پھر کے بو دیا

پوچھا جو میں نے درد محبت سے میرؔ کو

رکھ ہاتھ ان نے دل پہ ٹک اک اپنے رو دیا

 

(۱۱۱)

 

خط منھ پہ آئے جاناں خوبی پہ جان دے گا

ناچار عاشقوں کو رخصت کے پان دے گا

سارے رئیس اعضا ہیں معرض تلف میں

یہ عشق بے محابا کس کو امان دے گا

۸۹۰

پائے پر آبلہ سے میں گم شدہ گیا ہوں

ہر خار بادیے کا میرا نشان دے گا

داغ اور سینے میں کچھ بگڑی ہے عشق دیکھیں

دل کو جگر کو کس کو اب درمیان دے گا

نالہ ہمارا ہر شب گذرے ہے آسماں سے

فریاد پر ہماری کس دن تو کان دے گا

مت رغم سے ہمارے پیارے حنا لگاؤ

پابوس پر تمھارے سر سو جوان دے گا

ہو جو نشانہ اس کا  اے بوالہوس سمجھ کر

تیروں کے مارے سارے سینے کو چھان دے گا

۸۹۵

اس برہمن پسر کے قشقے پہ مرتے ہیں ہم

ٹک دے گا رو تو گویا جی ہم کو دان دے گا

گھر چشم کا ڈبو مت دل کے گئے پہ رو رو

کیا میرؔ ہاتھ سے تو یہ بھی مکان دے گا

 

 (۱۱۲)

 

ہوتا ہے یاں جہاں میں ہر روز و شب تماشا

دیکھا جو خوب تو ہے دنیا عجب تماشا

ہر چند شور محشر اب بھی ہے در پہ لیکن

نکلے گا یار گھر سے ہووے گا جب تماشا

بھڑکے ہے آتش غم منظور ہے جو تجھ کو

جلنے کا عاشقوں کے آ دیکھ اب تماشا

۹۰۰

طالع جو میرؔ خواری محبوب کو خوش آئی

پر غم یہ ہے مخالف دیکھیں گے سب تماشا

 

(۱۱۳)

 

کل چمن میں گل و سمن دیکھا

آج دیکھا تو باغ بن دیکھا

کیا ہے گلشن میں جو قفس میں نہیں

عاشقوں کا جلاوطن دیکھا

ذوق پیکان تیر میں تیرے

مدتوں تک جگر نے چھن دیکھا

گھر کے گھر جلتے تھے پڑے تیرے

داغ دل دیکھے بس چمن دیکھا

۹۰۵

ایک چشمک دو صد سنان مژہ

اس نکیلے کا بانکپن دیکھا

شکر زاہد کا اپنی آنکھوں میں

مے عوض خرقہ مرتہن دیکھا

حسرت اس کی جگہ تھی خوابیدہ

میرؔ کا کھول کر کفن دیکھا

 

 (۱۱۴)

 

جدا جو پہلو سے وہ دلبر یگانہ ہوا

طپش کی یاں تئیں دل نے کہ درد شانہ ہوا

جہاں کو فتنے سے خالی کبھو نہیں پایا

ہمارے وقت میں تو آفت زمانہ ہوا

۹۱۰

خلش نہیں کسو خواہش کی رات سے شاید

سرشک یاس کے پردے میں دل روانہ ہوا

ہم اپنے دل کی چلے دل ہی میں لیے یاں سے

ہزار حیف سر حرف اس سے وا نہ ہوا

کھلا نشے میں جو پگڑی کا پیچ اس کی میرؔ

سمند ناز پہ ایک اور تازیانہ ہوا

 

(۱۱۵)

 

کیا دن تھے وے کہ یاں بھی دل آرمیدہ تھا

رو آشیان طائر رنگ پریدہ تھا

قاصد جو واں سے آیا تو شرمندہ میں ہوا

بیچارہ گریہ ناک گریباں دریدہ تھا

۹۱۵

اک وقت ہم کو تھا سر گریہ کہ دشت میں

جو خار خشک تھا سو وہ طوفاں رسیدہ تھا

جس صید گاہ عشق میں یاروں کا جی گیا

مرگ اس شکار گہ کا شکار رمیدہ تھا

کوری چشم کیوں نہ زیارت کو اس کی آئے

یوسف سا جس کو مد نظر نور دیدہ تھا

افسوس مرگ صبر ہے اس واسطے کہ وہ

گل ہاے باغ عشرت دنیا نچیدہ تھا

مت پوچھ کس طرح سے کٹی رات ہجر کی

ہر نالہ میری جان کو تیغ کشیدہ تھا

۹۲۰

حاصل نہ پوچھ گلشن مشہد کا بوالہوس

یاں پھل ہر اک درخت کا حلق بریدہ تھا

دل بے قرار گریۂ خونیں تھا رات میرؔ

آیا نظر تو بسمل در خوں طپیدہ تھا

 

(۱۱۶)

 

کثرت داغ سے دل رشک گلستاں نہ ہوا

میرا دل خواہ جو کچھ تھا وہ کبھو یاں نہ ہوا

جی تو ایسے کئی صدقے کیے تجھ پر لیکن

حیف یہ ہے کہ تنک تو بھی پشیماں نہ ہوا

آہ میں کب کی کہ سرمایۂ دوزخ نہ ہوئی

کون سا اشک مرا منبع طوفاں نہ ہوا

۹۲۵

ق

گو توجہ سے زمانے کی جہاں میں مجھ کو

جاہ و ثروت کا میسر سر و ساماں نہ ہوا

شکر صد شکر کہ میں ذلت و خواری کے سبب

کسی عنوان میں ہم چشم عزیزاں نہ ہوا

برق مت خوشے کی اور اپنی بیاں کر صحبت

شکر کر یہ کہ مرا واں دل سوزاں نہ ہوا

دل بے رحم گیا شیخ لیے زیر زمیں

مر گیا پر یہ کہن گبر مسلماں نہ ہوا

کون سی رات زمانے میں گئی جس میں میرؔ

سینۂ چاک سے میں دست و گریباں نہ ہوا

۹۳۰

 

(۱۱۷)

 

تیرے قدم سے جا لگی جس پہ مرا ہے سر لگا

گو کہ مرے ہی خون کی دست گرفتہ ہو حنا

سنگ مجھے بجاں قبول اس کے عوض ہزار بار

تابہ کجا یہ اضطراب دل نہ ہوا ستم ہوا

کس کی ہوا کہاں کا گل ہم تو قفس میں ہیں اسیر

سیر چمن کی روز و شب تجھ کو مبارک  اے صبا

کن نے بدی ہے اتنی دیر موسم گل میں ساقیا

دے بھی مئے دو آتشہ زور ہی سرد ہے ہوا

وہ تو ہماری خاک پر آ نہ پھرا کبھی غرض

ان نے جفا نہ ترک کی اپنی سی ہم نے کی وفا

۹۳۵

فصل خزاں تلک تو میں اتنا نہ تھا خراب گرد

مجھ کو جنون ہو گیا موسم گل میں کیا بلا

جان بلب رسیدہ سے اتنا ہی کہنے پائے ہم

جاوے اگر تو یار تک کہیو ہماری بھی دعا

بوئے کباب سوختہ آتی ہے کچھ دماغ میں

ہووے نہ ہووے  اے نسیم رات کسی کا دل جلا

میں تو کہا تھا تیرے تیں آہ سمجھ نہ ظلم کر

آخرکار بے وفا جی ہی گیا نہ میرؔ کا

 

 (۱۱۸)

 

قابو خزاں سے ضعف کا گلشن میں بن گیا

دوش ہوا پہ رنگ گل و یاسمن گیا

۹۴۰

برگشتہ بخت دیکھ کہ قاصد سفر سے میں

بھیجا تھا اس کے پاس سو میرے وطن گیا

خاطر نشاں  اے صید فگن ہو گی کب تری

تیروں کے مارے میرا کلیجہ تو چھن گیا

یادش بخیر دشت میں مانند عنکبوت

دامن کے اپنے تار جو خاروں پہ تن گیا

مارا تھا کس لباس میں عریانی نے مجھے

جس سے تہ زمین بھی میں بے کفن گیا

آئی اگر بہار تو اب ہم کو کیا صبا

ہم سے تو آشیاں بھی گیا اور چمن گیا

۹۴۵

سرسبز ملک ہند میں ایسا ہوا کہ میرؔ

یہ ریختہ لکھا ہوا تیرا دکن گیا

 

 (۱۱۹)

 

لخت جگر تو اپنے یک لخت رو چکا تھا

اشک فقط کا جھمکا آنکھوں سے لگ رہا تھا

دامن میں آج دیکھا پھر لخت میں لے آیا

ٹکڑا کوئی جگر کا پلکوں میں رہ گیا تھا

اس قید جیب سے میں چھوٹا جنوں کی دولت

ورنہ گلا یہ میرا جوں طوق میں پھنسا تھا

مشت نمک کی خاطر اس واسطے ہوں حیراں

کل زخم دل نہایت دل کو مرے لگا تھا

۹۵۰

اے گرد باد مت دے ہر آن عرض وحشت

میں بھی کسو زمانے اس کام میں بلا تھا

بن کچھ کہے سنا ہے عالم سے میں نے کیا کیا

پر تو نے یوں نہ جانا  اے بے وفا کہ کیا تھا

روتی ہے شمع اتنا ہر شب کہ کچھ نہ پوچھو

میں سوز دل کو اپنے مجلس میں کیوں کہا تھا

شب زخم سینہ اوپر چھڑکا تھا میں نمک کو

ناسور تو کہاں تھا ظالم بڑا مزہ تھا

ق

سر مار کر ہوا تھا میں خاک اس گلی میں

سینے پہ مجھ کو اس کا مذکور نقش پا تھا

۹۵۵

سو بخت تیرہ سے ہوں پامالی صبا میں

اس دن کے واسطے میں کیا خاک میں ملا تھا

ق

یہ سرگذشت میری افسانہ جو ہوئی ہے

مذکور اس کا اس کے کوچے میں جا بجا تھا

سن کر کسی سے وہ بھی کہنے لگا تھا کچھ کچھ

بے درد کتنے بولے ہاں اس کو کیا ہوا تھا

کہنے لگا کہ جانے میری بلا عزیزاں

احوال تھا کسی کا کچھ میں بھی سن لیا تھا

آنکھیں مری کھلیں جب جی میرؔ کا گیا تب

دیکھے سے اس کو ورنہ میرا بھی جی جلا تھا

۹۶۰

 (۱۲۰)

 

سر دور فلک بھی دیکھوں اپنے روبرو ٹوٹا

کہ سنگ محتسب سے پائے خم دست سبو ٹوٹا

کہاں آتے میسر تجھ سے مجھ کو خود نما اتنے

ہوا یوں اتفاق آئینہ میرے روبرو ٹوٹا

کف چالاک میں تیری جو تھا سر رشتہ جانوں کا

گریباں سے مرے ہر اک ترا ٹانکا رفو ٹوٹا

طراوت تھی چمن میں سرو گویا اشک قمری سے

ادھر آنکھیں مندیں اس کی کہ ایدھر آب جو ٹوٹا

خطر کر تو نہ لگ چل  اے صبا اس زلف سے اتنا

بلا آوے گی تیرے سر جو اس کا ایک مو ٹوٹا

۹۶۵

وہ بے کس کیا کرے کہہ تو رہی دل ہی کی دل ہی میں

نپٹ بے جا ترا دل میرؔ سے  اے آرزو ٹوٹا

 

 (۱۲۱)

 

آنکھوں میں جی مرا ہے ادھر یار دیکھنا

عاشق کا اپنے آخری دیدار دیکھنا

کیسا چمن کہ ہم سے اسیروں کو منع ہے

چاک قفس سے باغ کی دیوار دیکھنا

آنکھیں چرائیو نہ ٹک ابر بہار سے

میری طرف بھی دیدۂ خونبار دیکھنا

اے ہم سفر نہ آبلے کو پہنچے چشم تر

لاگا ہے میرے پاؤں میں آ خار دیکھنا

۹۷۰

ہونا نہ چار چشم دل اس ظلم پیشہ سے

ہشیار زینہار خبردار دیکھنا

صیاد دل ہے داغ جدائی سے رشک باغ

تجھ کو بھی ہو نصیب یہ گلزار دیکھنا

گر زمزمہ یہی ہے کوئی دن تو ہم صفیر

اس فصل ہی میں ہم کو گرفتار دیکھنا

بلبل ہمارے گل پہ نہ گستاخ کر نظر

ہو جائے گا گلے کا کہیں ہار دیکھنا

شاید ہماری خاک سے کچھ ہو بھی  اے نسیم

غربال کر کے کوچۂ دلدار دیکھنا

۹۷۵

اس خوش نگہ کے عشق سے پرہیز کیجو میرؔ

جاتا ہے لے کے جی ہی یہ آزار دیکھنا

 

 (۱۲۲)

 

غلط ہے عشق میں  اے بوالہوس اندیشہ راحت کا

رواج اس ملک میں ہے درد و داغ و رنج و کلفت کا

زمیں اک صفحۂ تصویر بیہوشاں سے مانا ہے

یہ مجلس جب سے ہے اچھا نہیں کچھ رنگ صحبت کا

جہاں جلوے سے اس محبوب کے یکسر لبالب ہے

نظر پیدا کر اول پھر تماشا دیکھ قدرت کا

ہنوز آوارۂ لیلیٰ ہے جان رفتہ مجنوں کی

موئے پر بھی رہا ہوتا نہیں وابستہ الفت کا

۹۸۰

حریف بے جگر ہے صبر ورنہ کل کی صحبت میں

نیاز و ناز کا جھگڑا گرو تھا ایک جرأت کا

نگاہ یاس بھی اس صید افگن پر غنیمت ہے

نہایت تنگ ہے  اے صید بسمل وقت فرصت کا

خرابی دل کی اس حد ہے کہ یہ سمجھا نہیں جاتا

کہ آبادی بھی یاں تھی یا کہ ویرانہ تھا مدت کا

نگاہ مست نے اس کی لٹائی خانقہ ساری

پڑا ہے برہم اب تک کارخانہ زہد و طاعت کا

قدم ٹک دیکھ کر رکھ میرؔ سر دل سے نکالے گا

پلک سے شوخ تر کانٹا ہے صحرائے محبت کا

۹۸۵

(۱۲۳)

 

جو اس شور سے میر روتا رہے گا

تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا

میں وہ رونے والا جہاں سے چلا ہوں

جسے ابر ہر سال روتا رہے گا

مجھے کام رونے سے اکثر ہے ناصح

تو کب تک مرے منھ کو دھوتا رہے گا

بس  اے گریہ آنکھیں تری کیا نہیں ہیں

کہاں تک جہاں کو ڈبوتا رہے گا

مرے دل نے وہ نالہ پیدا کیا ہے

جرس کے بھی جو ہوش کھوتا رہے گا

۹۹۰

تو یوں گالیاں غیر کو شوق سے دے

ہمیں کچھ کہے گا تو ہوتا رہے گا

بس  اے میرؔ مژگاں سے پونچھ آنسوؤں کو

تو کب تک یہ موتی پروتا رہے گا

 

(۱۲۴)

 

نئی طرزوں سے میخانے میں رنگ مے جھلکتا تھا

گلابی روتی تھی واں جام ہنس ہنس کر چھلکتا تھا

ترے اس خاک اڑانے کی دھمک سے  اے مری وحشت

کلیجا ریگ صحرا کا بھی دس دس گز تھلکتا تھا

گئی تسبیح اس کی نزع میں کب میرؔ کے دل سے

اسی کے نام کی سمرن تھی جب منکا ڈھلکتا تھا

۹۹۵

(۱۲۵)

 

تجھ سے ہر آن مرے پاس کا آنا ہی گیا

کیا گلہ کیجے غرض اب وہ زمانہ ہی گیا

چشم بن اشک ہوئی یا نہ ہوئی یکساں ہے

خاک میں جب وہ ملا موتی کا دانہ ہی گیا

بر مجنوں میں خردمند کوئی جا نہ سکا

عاقبت سر کو قدم کر یہ دوانہ ہی گیا

ہم اسیروں کو بھلا کیا جو بہار آئی نسیم

عمر گذری کہ وہ گلزار کا جانا ہی گیا

جی گیا میرؔ کا اس لیت و لعل میں لیکن

نہ گیا ظلم ہی تیرا نہ بہانہ ہی گیا

۱۰۰۰

 

 (۱۲۶)

 

دل عشق کا ہمیشہ حریف نبرد تھا

اب جس جگہ کہ داغ ہے یاں آگے درد تھا

اک گرد راہ تھا پئے محمل تمام راہ

کس کا غبار تھا کہ یہ دنبالہ گرد تھا

دل کی شکستگی نے ڈرائے رکھا ہمیں

واں چیں جبیں پر آئی کہ یاں رنگ زرد تھا

مانند حرف صفحۂ ہستی سے اٹھ گیا

دل بھی مرا جریدۂ عالم میں فرد تھا

تھا پشتہ ریگ بادیہ اک وقت کارواں

یہ گردباد کوئی بیاباں نورد تھا

۱۰۰۵

گذری مدام اس کی جوانان مست میں

پیر مغاں بھی طرفہ کوئی پیر مرد تھا

عاشق ہیں ہم تو میرؔ کے بھی ضبط عشق کے

دل جل گیا تھا اور نفس لب پہ سرد تھا

 

 (۱۲۷)

 

گئے قیدی ہو ہم آواز جب صیاد آ لوٹا

یہ ویراں آشیانے دیکھنے کو ایک میں چھوٹا

مرا رنگ اڑ گیا جس وقت سنگ محتسب آگے

بغل سے گر پڑا مینا و ساغر چور ہو پھوٹا

مرا وعدہ ہی آ پہنچا ترے آنے کے وعدے تک

ہوا میں موت سے سچا رہا  اے شوخ تو جھوٹا

۱۰۱۰

کف جاناں سے کیا امکاں رہائی میرؔ کوئی ہو

اچنبھا ہے جو اس کے ہاتھ سے رنگ حنا چھوٹا

 

 (۱۲۸)

 

برقع اٹھا تھا رخ سے مرے بدگمان کا

دیکھا تو اور رنگ ہے سارے جہان کا

مت مانیو کہ ہو گا یہ بے درد اہل دیں

گر آوے شیخ پہن کے جامہ قرآن کا

خوبی کو اس کے چہرے کی کیا پہنچے آفتاب

ہے اس میں اس میں فرق زمین آسمان کا

ابلہ ہے وہ جو ہووے خریدار گل رخاں

اس سودے میں صریح ہے نقصان جان کا

۱۰۱۵

کچھ اور گاتے ہیں جو رقیب اس کے روبرو

دشمن ہیں میری جان کے یہ جی ہے تان کا

تسکین اس کی تب ہوئی جب چپ مجھے لگی

مت پوچھ کچھ سلوک مرے بد زبان کا

ق

یاں بلبل اور گل پہ تو عبرت سے آنکھ کھول

گلگشت سرسری نہیں اس گلستان کا

گل یادگار چہرۂ خوباں ہے بے خبر

مرغ چمن نشاں ہے کسو خوش زبان کا

توبرسوں میں کہے ہے ملوں گا میں میرؔ سے

یاں کچھ کا کچھ ہے حال ابھی اس جوان کا

۱۰۲۰

 

(۱۲۹)

 

مغاں مجھ مست بن پھر خندۂ ساغر نہ ہووے گا

مئے گلگوں کا شیشہ ہچکیاں لے لے کے رووے گا

کیا ہے خوں مرا پامال یہ سرخی نہ چھوٹے گی

اگر قاتل تو اپنے پاؤں سو پانی سے دھووے گا

کوئی رہتا ہے جیتے جی ترے کوچے کے آنے سے

تبھی آسودہ ہو گا میرؔ سا جب جی کو کھووے گا

 

 (۱۳۰)

 

مجھے زنہار خوش آتا نہیں کعبے کا ہمسایا

صنم خانہ ہی یاں  اے شیخ تو نے کیوں نہ بنوایا

زہے  اے عشق کی نیرنگ سازی غیر کو ان نے

جلایا بات کہتے واں ہمیں مرنے کو فرمایا

۱۰۲۵

بھری ہے آگ تیرے درد دل میں میرؔ ایسی تو

کہ کہتے روبرو اس شوخ کے قاصد کا منھ آیا

 

 (۱۳۱)

 

نقش بیٹھے ہے کہاں خواہش آزادی کا

ننگ ہے نام رہائی تری صیادی کا

داد دے ورنہ ابھی جان پہ کھیلوں ہوں میں

دل جلانا نہیں دیکھا کسی فریادی کا

تو نے تلوار رکھی سر رکھا میں بندہ ہوں

اپنی تسلیم کا بھی اور تری جلادی کا

شہر کی سی رہی رونق اسی کے جیتے جی

مر گیا قیس جو تھا خانہ خدا وادی کا

۱۰۳۰

شیخ کیا صورتیں رہتی تھیں بھلا جب تھا دیر

رو بہ ویرانی ہو اس کعبے کی آبادی کا

ریختہ رتبے کو پہنچایا ہوا اس کا ہے

معتقد کون نہیں میرؔ کی استادی کا

 

(۱۳۲)

 

کام پل میں مرا تمام کیا

غرض اس شوخ نے بھی کام کیا

سرو و شمشاد خاک میں مل گئے

تو نے گلشن میں کیوں خرام کیا

ق

سعی طوف حرم نہ کی ہرگز

آستاں پر ترے مقام کیا

۱۰۳۵

تیرے کوچے کے رہنے والوں نے

یہیں سے کعبے کو سلام کیا

اس کے عیار پن نے میرے تئیں

خادم و بندہ و غلام کیا

حال بد میں مرے بتنگ آ کر

آپ کو سب میں نیک نام کیا

دختر رز سے کیا تھا میرے تئیں

شیخ کی ضد پہ میں حرام کیا

ق

ہو گیا دل مرا تبرک جب

ورد یہ قطعۂ پیامؔ کیا

۱۰۴۰

’’دلی کے کج کلاہ لڑکوں نے

کام عشاق کا تمام کیا

کوئی عاشق نظر نہیں آتا

ٹوپی والوں نے قتل عام کیا‘‘

عشق خوباں کو میرؔ میں اپنا

قبلہ و کعبہ و امام کیا

 

 (۱۳۳)

 

رات پیاسا تھا میرے لوہو کا

ہوں دوانہ ترے سگ کو کا

شعلۂ آہ جوں توں اب مجھ کو

فکر ہے اپنے ہر بن مو کا

۱۰۴۵

ہے مرے یار کی مسوں کا رشک

کشتہ ہوں سبزۂ لب جو کا

بوسہ دینا مجھے نہ کر موقوف

ہے وظیفہ یہی دعاگو کا

میں نے تلوار سے ہرن مارے

عشق کر تیری چشم و ابرو کا

شور قلقل کے ہوتی تھی مانع

ریش قاضی پہ رات میں تھوکا

عطر آگیں ہے باد صبح مگر

کھل گیا پیچ زلف خوشبو کا

۱۰۵۰

ایک دو ہوں تو سحر چشم کہوں

کارخانہ ہے واں تو جادو کا

ق

میرؔ ہرچند میں نے چاہا لیک

نہ چھپا عشق طفل بد خو کا

نام اس کا لیا ادھر اودھر

اڑ گیا رنگ ہی مرے رو کا

 

 

(۱۳۴)

 

آیا تھا خانقہ میں وہ نور دیدگاں کا

تہ کر گیا مصلیٰ عزلت گزیدگاں کا

آخر کو خاک ہونا درپیش ہے سبھوں کو

ٹک دیکھ منھ کدھر ہے قامت خمیدگاں کا

۱۰۵۵

جو خار دشت میں ہے سوچشم آبلہ سے

دیکھا ہوا ہے تیرے محنت کشیدگاں کا

اب زیر خاک رہنا مشکل ہے کشتگاں کو

آرام کھو چلا تو ان آرمیدگاں کا

تیر بلا کا ہر دم اب میرؔ ہے نشانہ

پتھر جگر ہے اس کے آفت رسیدگاں کا

 

 (۱۳۵)

 

صحرا میں سیل اشک مرا جا بجا پھرا

مجنوں بھی اس کی موج میں مدت بہا پھرا

طالع جو خوب تھے نہ ہوا جاہ کچھ نصیب

سر پر مرے کروڑ برس تک ہما پھرا

۱۰۶۰

آنکھیں برنگ نقش قدم ہو گئیں سفید

نامے کے انتظار میں قاصد بھلا پھرا

ٹک بھی نہ مڑ کے میری طرف تو نے کی نگاہ

اک عمر تیرے پیچھے میں ظالم لگا پھرا

دیر و حرم میں کیونکے قدم رکھ سکے گا میرؔ

ایدھر تو اس سے بت پھرے اودھر خدا پھرا

 

(۱۳۶)

 

کس شام سے اٹھا تھا مرے دل میں درد سا

سو ہو چلا ہوں پیشتر از صبح سرد سا

بیٹھا ہوں جوں غبار ضعیف اب وگرنہ میں

پھرتا رہا ہوں گلیوں میں آوارہ گرد سا

۱۰۶۵

قصد طریق عشق کیا سب نے بعد قیس

لیکن ہوا نہ ایک بھی اس رہ نورد سا

حاضر یراق بے مزگی کس گھڑی نہیں

معشوق کچھ ہمارا ہے عاشق نبرد سا

کیا میرؔ ہے یہی جو ترے در پہ تھا کھڑا

نمناک چشم و خشک لب و رنگ زرد سا

 

 (۱۳۷)

 

ترے عشق میں آگے سودا ہوا تھا

پر اتنا بھی ظالم نہ رسوا ہوا تھا

خزاں التفات اس پہ کرتی بجا تھی

یہ غنچہ چمن میں ابھی وا ہوا تھا

۱۰۷۰

کہاں تھا تو اس طور آنے سے میرے

گلی میں تری کل تماشا ہوا تھا

گئی ہوتی سر آبلوں کے پہ ہوئی خیر

بڑا قضیہ خاروں سے برپا ہوا تھا

گریباں سے تب ہاتھ اٹھایا تھا میں نے

مری اور دامان صحرا ہوا تھا

زہے طالع  اے میرؔ ان نے یہ پوچھا

کہاں تھا تو اب تک تجھے کیا ہوا تھا

 

 (۱۳۸)

 

آہ کے تیں دل حیران و خفا کو سونپا

میں نے یہ غنچۂ تصویر صبا کو سونپا

۱۰۷۵

تیرے کوچے میں مری خاک بھی پامال ہوئی

تھا وہ بے درد مجھے جن نے وفا کو سونپا

اب تو جاتا ہی ہے کعبے کو تو بت خانے سے

جلد پھر پہنچیو  اے میرؔ خدا کو سونپا

 

 (۱۳۹)

 

گلہ نہیں ہے ہمیں اپنی جاں گدازی کا

جگر پہ زخم ہے اس کی زباں درازی کا

سمند ناز نے اس کے جہاں کیا پامال

وہی ہے اب بھی اسے شوق ترک تازی کا

ستم ہیں قہر ہیں لونڈے شراب خانے کے

اتار لیتے ہیں عمامہ ہر نمازی کا

۱۰۸۰

الٹ پلٹ مری آہ سحر کی کیا ہے کم

اگر خیال تمھیں ہووے نیزہ بازی کا

بتاؤ ہم سے کوئی آن تم سے کیا بگڑی

نہیں ہے تم کو سلیقہ زمانہ سازی کا

خدا کو کام تو سونپے ہیں میں نے سب لیکن

رہے ہے خوف مجھے واں کی بے نیازی کا

چلو ہو راہ موافق کہے مخالف کے

طریق چھوڑ دیا تم نے دل نوازی کا

کسو کی بات نے آگے مرے نہ پایا رنگ

دلوں میں نقش ہے میری سخن طرازی کا

۱۰۸۵

بسان خاک ہو پامال راہ خلق  اے میرؔ

رکھے ہے دل میں اگر قصد سرفرازی کا

 

 (۱۴۰)

 

کیا کہیے کہ خوباں نے اب ہم میں ہے کیا رکھا

ان چشم سیاہوں نے بہتوں کو سلا رکھا

جلوہ ہے اسی کا سب گلشن میں زمانے کے

گل پھول کو ہے ان نے پردہ سا بنا رکھا

جوں برگ خزاں دیدہ سب زرد ہوئے ہم تو

گرمی نے ہمیں دل کی آخر کو جلا رکھا

کہیے جو تمیز اس کو کچھ اچھے برے کی ہو

دل جس کسو کا پایا چٹ ان نے اڑا رکھا

۱۰۹۰

تھی مسلک الفت کی مشہور خطرناکی

میں دیدہ و دانستہ کس راہ میں پا رکھا

خورشید و قمر پیارے رہتے ہیں چھپے کوئی

رخساروں کو گو تو نے برقع سے چھپا رکھا

چشمک ہی نہیں تازی شیوے یہ اسی کے ہیں

جھمکی سی دکھا دے کر عالم کو لگا رکھا

لگنے کے لیے دل کے چھڑکا تھا نمک میں نے

سو چھاتی کے زخموں نے کل دیر مزہ رکھا

کشتے کو اس ابرو کے کیا میل ہو ہستی کی

میں طاق بلند اوپر جینے کو اٹھا رکھا

۱۰۹۵

قطعی ہے دلیل  اے میرؔ اس تیغ کی بے آبی

رحم ان نے مرے حق میں مطلق نہ روا رکھا

 

(۱۴۱)

 

کام میرا بھی ترے غم میں کہوں ہو جائے گا

جب یہ کہتا ہوں تو کہتا ہے کہ ہوں ہو جائے گا

خون کم کر اب کہ کشتوں کے تو پشتے لگ گئے

قتل کرتے کرتے تیرے تیں جنوں ہو جائے گا

اس شکار انداز خونیں کا نہیں آیا مزاج

ورنہ آہوئے حرم صید زبوں ہو جائے گا

بزم عشرت میں ملا مت ہم نگوں بختوں کے تیں

جوں حباب بادہ ساغر سرنگوں ہو جائے گا

۱۱۰۰

تا کجا غنچہ صفت رکنا چمن میں دہر کے

کب گرفتہ دل مرے سینے میں خوں ہو جائے گا

کیا کہوں میں میرؔ اس عاشق ستم محبوب کو

طور پر اس کے کسو دن کوئی خوں ہو جائے گا

 

(۱۴۲)

 

سینہ دشنوں سے چاک تا نہ ہوا

دل جو عقدہ تھا سخت وا نہ ہوا

سب گئے ہوش و صبر و تاب و تواں

دل سے اک داغ ہی جدا نہ ہوا

ظلم و جور و جفا ستم بیداد

عشق میں تیرے ہم پہ کیا نہ ہوا

۱۱۰۵

ہم تو ناکام ہی جہاں میں رہے

یاں کبھو اپنا مدعا نہ ہوا

میرؔ افسوس وہ کہ جو کوئی

اس کے دروازے کا گدا نہ ہوا

 

(۱۴۳)

 

یار عجب طرح نگہ کر گیا

دیکھنا وہ دل میں جگہ کر گیا

تنگ قبائی کا سماں یار کی

پیرہن غنچہ کو تہ کر گیا

جانا ہے اس بزم سے آیا تو کیا

کوئی گھڑی گو کہ تو رہ کر گیا

۱۱۱۰

وصف خط و خال میں خوباں کے میرؔ

نامۂ اعمال سیہ کر گیا

 

(۱۴۴)

 

آہ سحر نے سوزش دل کو مٹا دیا

اس باؤ نے ہمیں تو دیا سا بجھا دیا

سمجھی نہ باد صبح کہ آ کر اٹھا دیا

اس فتنۂ زمانہ کو ناحق جگا دیا

پوشیدہ راز عشق چلا جائے تھا سو آج

بے طاقتی نے دل کی وہ پردہ اٹھا دیا

اس موج خیز دہر میں ہم کو قضا نے آہ

پانی کے بلبلے کی طرح سے مٹا دیا

۱۱۱۵

تھی لاگ اس کی تیغ کو ہم سے سو عشق نے

دونوں کو معرکے میں گلے سے ملا دیا

سب شور ما و من کو لیے سر میں مر گئے

یاروں کو اس فسانے نے آخر سلا دیا

آوارگان عشق کا پوچھا جو میں نشاں

مشت غبار لے کے صبا نے اڑا دیا

اجزا بدن کے جتنے تھے پانی ہو بہ گئے

آخر گداز عشق نے ہم کو بہا دیا

کیا کچھ نہ تھا ازل میں نہ طالع جو تھے درست

ہم کو دل شکستہ قضا نے دلا دیا

۱۱۲۰

گویا محاسبہ مجھے دینا تھا عشق کا

اس طور دل سی چیز کو میں نے لگا دیا

مدت رہے گی یاد ترے چہرے کی جھلک

جلوے کو جس نے ماہ کے جی سے بھلا دیا

ہم نے تو سادگی سے کیا جی کا بھی زیاں

دل جو دیا تھا سو تو دیا سر جدا دیا

بوئے کباب سوختہ آئی دماغ میں

شاید جگر بھی آتش غم نے جلا دیا

تکلیف درد دل کی عبث ہم نشیں نے کی

درد سخن نے میرے سبھوں کو رلا دیا

۱۱۲۵

ان نے تو تیغ کھینچی تھی پر جی چلا کے میرؔ

ہم نے بھی ایک دم میں تماشا دکھا دیا

 

 (۱۴۵)

 

اس آستان داغ سے میں زر لیا کیا

گل دستہ دستہ جس کو چراغی دیا کیا

کیا بعد مرگ یاد کروں گا وفا تجھے

سہتا رہا جفائیں میں جب تک جیا کیا

ہو تار تار سیتے ہی سیتے جو اڑ گیا

اب تک عبث میں اپنا گریباں سیا کیا

سن سن کے تیری بات کو کیا کیا نہ کہہ سنا

کیا کیا کہوں میں تجھ سے کہ کیا کچھ کیا کیا

۱۱۳۰

اب وہ جگر طپش سے تڑپتا ہے تشنہ لب

مدت تلک جو میرؔ کا لوہو پیا کیا

 

 (۱۴۶)

 

نہیں ایسا کوئی میرا جو ماتم دار ہوئے گا

مگر اک غم ترا  اے شوخ بے کس ہوکے روئے گا

اگر اگتے رہے  اے ناامیدی داغ ایسے ہی

تو کاہے کو کوئی تخم تمنا دل میں بوئے گا

الٰہی وہ بھی دن ہو گا کہ جس میں ایک ساعت بھی

میں روؤں گا وہ اپنے ہاتھ میرے منھ کو دھوئے گا

جو ایسے شور سے روتا ہے دن کو میرؔ تو شب کو

نہ سونے دے گا ہمسایوں کو نے یہ آپ سوئے گا

۱۱۳۵

 (۱۴۷)

 

وہ جو پی کر شراب نکلے گا

کس طرح آفتاب نکلے گا

محتسب میکدے سے جاتا نہیں

یاں سے ہو کر خراب نکلے گا

یہی چپ ہے تو درد دل کہیے

منھ سے کیونکر جواب نکلے گا

جب اٹھے گا جہان سے یہ نقاب

تب ہی اس کا حجاب نکلے گا

عرق اس کے بھی منھ کا بو کیجو

گر کبھو یہ گلاب نکلے گا

۱۱۴۰

آؤ بالیں تلک نہ ہو گی دیر

جی ہمارا شتاب نکلے گا

دفتر داغ ہے جگر اس بن

کسو دن یہ حساب نکلے گا

تذکرے سب کے پھر رہیں گے دھرے

جب مرا انتخاب نکلے گا

میرؔ دیکھو گے رنگ نرگس کا

اب جو وہ مست خواب نکلے گا

 

 (۱۴۸)

 

جب کہ تابوت مرا جائے شہادت سے اٹھا

شعلۂ آہ دل گرم محبت سے اٹھا

۱۱۴۵

عمر گذری مجھے بیمار ہی رہتے ہے بجا

دل عزیزوں کا اگر میری عیادت سے اٹھا

 

(۱۴۹)

 

طفل مطرب جو میرے ہاتھ آتا

چٹکیوں میں رقیب اڑ جاتا

خواب میں بھی رہا تو آنے سے

دیکھنے ہی کا تھا یہ سب ناتا

الفت اس تیغ سے تھی بے حد میرؔ

قتل کرتا تو لوہو جم جاتا

 

(۱۵۰)

 

ہو بلبل گلگشت کہ اک دن ہے خزاں کا

اڑتا ہے ابھی رنگ گل باغ جہاں کا

۱۱۵۰

ہے مجھ کو یقیں تجھ میں وفا ایسی جفا پر

گھر چاک برابر ہوئے اس میرے گماں کا

سینے میں مرے آگ لگی میرے سخن سے

جوں شمع جلایا ہوا ہوں اپنی زباں کا

آرام عدم میں نہ تھا ہستی میں نہیں چین

معلوم نہیں میرا ارادہ ہے کہاں کا

 

 (۱۵۱)

 

قصہ تمام میرؔ کا شب کو سنا کیا

بے درد سر بھی صبح تلک سر دھنا کیا

مل چشم سے نگہ نے دھتورا دیا مجھے

خس بھر نہ چھوڑا دل کو میں تنکے چنا کیا

۱۱۵۵

 (۱۵۲)

 

مئے گلگوں کی بو سے بسکہ میخانہ مہکتا تھا

لب ساغر پہ منھ رکھ رکھ کے ہر شیشہ بہکتا تھا

جلا کیونکر نہ ہو گا آشیان بلبل بے کس

برنگ آتش خس پوش رنگ گل دہکتا تھا

 

(۱۵۳)

 

اٹھوں نہ خاک سے کشتہ میں کم نگاہی کا

دماغ کس کو ہے محشر کی داد خواہی کا

سنو ہو جل ہی بجھوں گا کہ ہو رہا ہوں میں

چراغ مضطرب الحال صبح گاہی کا

 

 (۱۵۴)

 

یک پارہ جیب کا بھی بجا میں نہیں سیا

وحشت میں جو سیا سو کہیں کا کہیں سیا

۱۱۶۰

محشر سوائے کیا ہو اسے التیام میرؔ

یہ زخم سینہ جائے گا میرا وہیں سیا

 

 (۱۵۵)

 

گرچہ امید اسیری پہ میں ناشاد آیا

رام صیاد کا ہوتے ہی خدا یاد آیا

لوہو پینے کو مرا بس تھی مری تشنہ لبی

کاہے کو کیجیے تصدیع یہ جلاد آیا

 

 (۱۵۶)

 

جو  اے قاصد وہ پوچھے میرؔ بھی ایدھر کو چلتا تھا

تو کہیو جب چلا ہوں میں تب اس کا جی نکلتا تھا

سماں افسوس و بیتابی سے تھا کل قتل کو میرے

تڑپتا تھا ادھر میں اور ادھر وہ ہاتھ ملتا تھا

۱۱۶۵

(۱۵۷)

 

کیا کہیے عشق حسن کا آپھی طرف ہوا

دل نام قطرہ خون یہ ناحق تلف ہوا

کیونکر میں فتح پاؤں تری زلفوں پر کہ اب

یک دل شکست خوردہ مرا دو طرف ہوا

 

(۱۵۸)

 

مجھے تو نور نظر نے تنک بھی تن نہ دیا

بہار جاتی رہی دیکھنے چمن نہ دیا

لباس دیکھ لیے میں نے تیری پوشش کے

کہ بعد مرگ کنھیں نے مجھے کفن نہ دیا

کھلی نہ بات کئی حرف تھے گرہ دل میں

اجل نے اس سے مجھے کہنے اک سخن نہ دیا

۱۱۷۰

(۱۵۹)

 

تھا زعفراں پہ ہنسنے کو دل جس کی گرد کا

مشتاق منھ مرا ہے اسی رنگ زرد کا

کیا ڈر اسے ہے گرمی خورشید حشر سے

سایہ پڑا ہے جس پہ مری آہ سرد کا

 

(۱۶۰)

 

نظر میں آوے گا جب جی کا کھونا

ملے گا نیند بھر تب مجھ کو سونا

تماشے دیکھتے ہنستا چلا آ

کرے ہے شیشہ بازی میرا رونا

مرا خوں تجھ پہ ثابت ہی کرے گا

کنارے بیٹھ کر ہاتھوں کو دھونا

۱۱۷۵

وصیت میرؔ نے مجھ کو یہی کی

کہ سب کچھ ہونا تو عاشق نہ ہونا

 

 (۱۶۱)

 

بیتابیوں کے جور سے میں جب کہ مر گیا

ہو کر فقیر صبر مری گور پر گیا

اے آہ سرد عرصۂ محشر میں یخ جما

جلتا ہوں میں سنوں کہ جہنم ٹھٹھر گیا

کاکل میں نہیّں خط میں نہیں زلف میں نہیں

روز سیہ کے ساتھ مرا دل کدھر گیا

مفلس سو مر گیا نہ ہوا وصل یار کا

ہجراں میں اس کے جی بھی گیا اور زر گیا

۱۱۸۰

تیری ہی رہگذر میں یہ جی جا رہا ہے شوخ

سنیو کہ میرؔ آج ہی کل میں گذر گیا

 

(۱۶۲)

 

خیال چھوڑ دے واعظ تو بے گناہی کا

رکھے ہے شوق اگر رحمت الٰہی کا

سیاہ بخت سے میرے مجھے کفایت تھی

لیا ہے داغ نے دامن عبث سیاہی کا

نگہ تمام تو اس کی خدا نہ دکھلاوے

کرے ہے قتل اثر جس کی کم نگاہی کا

کسو کے حسن کے شعلے کے آگے اڑتا ہے

سلوک میرؔ سنو میرے رنگ کاہی کا

۱۱۸۵

 (۱۶۳)

 

دل گیا رسوا ہوئے آخر کو سودا ہو گیا

اس دو روزہ زیست میں ہم پر بھی کیا کیا ہو گیا

 

 (۱۶۴)

 

کس طور تو نے باغ میں آنکھوں کے تیں ملا

نرگس کا جس سے رنگ شکستہ بھی اڑ چلا

 

 (۱۶۵)

 

ہر شب جہاں میں جلتے گذرتی ہے  اے نسیم

گویا چراغ وقف ہوں میں اس دیار کا

 

(۱۶۶)

 

ہے لب نمکیں علاج میرا

پر بے مزہ ہے مزاج میرا

 

 (۱۶۷)

 

ابر جب مجھ خاک پر سے ہو گیا

ایک دو دم زار باراں رو گیا

۱۱۹۰

کیا کہوں میں میرؔ اپنی سرگذشت

ابتدا ہی قصے میں وہ سو گیا

 

(۱۶۸)

 

ترے لعل جاں بخش کو ہم نے بتلا

کیا آب حیواں کو پانی سے پتلا

 

(۱۶۹)

 

ایک عالم ہے کشتہ اس لب کا

الغرض اس پہ دانت ہے سب کا

 

(۱۷۰)

 

بخت دشمن بلند تھے ورنہ

کوہکن نے بھی سر کو پھوڑا تھا

 

(۱۷۱)

 

دل تاب ٹک بھی لاتا تو کہنے میں کچھ آتا

اس تشنہ کام نے تو پانی بھی پھر نہ مانگا

۱۱۹۵

 (۱۷۲)

 

پائے پر آبلہ سے مجھ کو بنی گئی ہے

صحرا میں رفتہ رفتہ کانٹوں نے سر اٹھایا

 

 (۱۷۳)

 

تجھ بن چمن میں جو تھا دل کو ٹٹولتا تھا

گل منھ نہ کھولتا تھا بلبل نہ بولتا تھا

 

                ردیف ب

 

 

(۱۷۴)

 

رکھتا ہے ہم سے وعدہ ملنے کا یار ہر شب

سو جاتے ہیں ولیکن بخت کنار ہر شب

مدت ہوئی کہ اب تو ہم سے جدا رکھے ہے

اس آفتاب رو کو یہ روزگار ہر شب

دیکھیں ہیں راہ کس کی یارب کہ اختروں کی

رہتی ہیں باز آنکھیں چندیں ہزار ہر شب

۱۲۰۰

دھوکے ترے کسو دن میں جان دے رہوں گا

کرتا ہے ماہ میرے گھر سے گذار ہر شب

دل کی کدورت اپنی یک شب بیاں ہوئی تھی

رہتا ہے آسماں پر تب سے غبار ہر شب

کس کے لگا ہے تازہ تیر نگاہ اس کا

اک آہ میرے دل کے ہوتی ہے پار ہر شب

مجلس میں میں نے اپنا سوز جگر کہا تھا

روتی ہے شمع تب سے بے اختیار ہر شب

مایوس وصل اس کے کیا سادہ مردماں ہیں

گذرے ہے میرؔ ان کو امیدوار ہر شب

۱۲۰۵

 (۱۷۵)

 

اب وہ نہیں کہ آنکھیں تھیں پر آب روز و شب

ٹپکا کرے ہے آنکھوں سے خونناب روز و شب

اک وقت رونے کا تھا ہمیں بھی خیال سا

آئی تھی آنکھوں سے چلی سیلاب روز و شب

اس کے لیے نہ پھرتے تھے ہم خاک چھانتے

رہتا تھا پاس وہ در نایاب روز و شب

قدرت تو دیکھ عشق کی مجھ سے ضعیف کو

رکھتا ہے شاد بے خور و بے خواب روز و شب

سجدہ اس آستاں کا نہیں یوں ہوا نصیب

رگڑا ہے سر میانۂ محراب روز و شب

۱۲۱۰

اب رسم ربط اٹھ ہی گئی ورنہ پیش ازیں

بیٹھے ہی رہتے تھے بہم احباب روز و شب

دل کس کے رو و مو سے لگایا ہے میرؔ نے

پاتے ہیں اس جوان کو بیتاب روز و شب

 

 (۱۷۶)

 

رویا کیے ہیں غم سے ترے ہم تمام شب

پڑتی رہی ہے زور سے شبنم تمام شب

رکنے سے دل کے آج بچا ہوں تو اب جیا

چھاتی ہی میں رہا ہے مرا دم تمام شب

یہ اتصال اشک جگر سوز کا کہاں

روتی ہے یوں تو شمع بھی کم کم تمام شب

۱۲۱۵

ق

شکوہ عبث ہے میرؔ کہ کڑھتے ہیں سارے دن

یا دل کا حال رہتا ہے درہم تمام شب

گذرا کسے جہاں میں خوشی سے تمام روز

کس کی گئی زمانے میں بے غم تمام شب

 

 (۱۷۷)

 

ہوتا نہ پائے سرو جو جوئے چمن میں آب

تو کون قمریوں کے چواتا دہن میں آب

اس پر لہو کے پیاسے ہیں تیرے لبوں کے رشک

اک نام کو رہی ہے عقیق یمن میں آب

شب سوز دل کہا تھا میں مجلس میں شمع سے

روئی ہے یاں تلک کہ بھرا ہے لگن میں آب

۱۲۲۰

دل لے گیا تھا زیر زمیں میں بھرا ہوا

آتا ہے ہر مسام سے میرے کفن میں آب

رویا تھا تیری چشم و مژہ یاد کر کے میں

ہے نیزہ نیزہ تب سے نواح ختن میں آب

ناسور پھونک پھونک کے پیجو خبر ہے شرط

ہے آپ داغ کوچۂ زخم کہن میں آب

دریا میں قطرہ قطرہ ہے آب گہر کہیں

ہے میرؔ موجزن ترے ہر یک سخن میں آب

 

 (۱۷۸)

 

کس کی مسجد کیسے میخانے کہاں کے شیخ و شاب

ایک گردش میں تری چشم سیہ کے سب خراب

۱۲۲۵

تو کہاں اس کی کمر کیدھر نہ کریو اضطراب

اے رگ گل دیکھیو کھاتی ہے جو تو پیچ و تاب

موند رکھنا چشم کا ہستی میں عین دید ہے

کچھ نہیں آتا نظر جب آنکھ کھولے ہے حباب

تو ہو اور دنیا ہو ساقی میں ہوں مستی ہو مدام

پر بط صہبا نکالے اڑ چلے رنگ شراب

ہے ملاحت تیرے باعث شور پر تجھ سے نمک

ٹک تو رہ پیری چلی آتی ہے  اے عہد شباب

کب تھی یہ بے جرأتی شایان آہوئے حرم

ذبح ہوتا تیغ سے یا آگ میں ہوتا کباب

۱۲۳۰

کیا ہو رنگ رفتہ کیا قاصد ہو جس کو خط دیا

جز جواب صاف اس سے کب کوئی لایا جواب

و اے اس جینے پر  اے مستی کہ دور چرخ میں

جام مے پر گردش آوے اور میخانہ خراب

چوب حرفی بن الف بے میں نہیں پہچانتا

ہوں میں ابجد خواں شناسائی کو مجھ سے کیا حساب

مت ڈھلک مژگاں سے اب تو  اے سرشک آبدار

مفت میں جاتی رہے گی تیری موتی کی سی آب

کچھ نہیں بحر جہاں کی موج پر مت بھول میرؔ

دور سے دریا نظر آتا ہے لیکن ہے سراب

۱۲۳۵

 (۱۷۹)

 

دیکھ خورشید تجھ کو  اے محبوب

عرق شرم میں گیا ہے ڈوب

آئی کنعاں سے باد مصر ولے

نہ گئی تا بہ کلبۂ یعقوبؑ

بن عصا شیخ یک قدم نہ رکھے

راہ چلتا نہیں یہ خر بے چوب

اس لیے عشق میں نے چھوڑا تھا

تو بھی کہنے لگا برا کیا خوب

پی ہو مے تو لہو پیا ہوں میں

محتسب آنکھوں پر ہے کچھ آشوب

۱۲۴۰

میرؔ شاعر بھی زور کوئی تھا

دیکھتے ہو نہ بات کا اسلوب

 

 (۱۸۰)

 

کھا کے دانہ یہ دام بچھوایا

ہوئے آدم کو بھی بہشت نصیب

 

                ردیف ت

 

 

(۱۸۱)

 

روزانہ ملوں یار سے یا شب ہو ملاقات

کیا فکر کروں میں کہ کسو ڈھب ہو ملاقات

نے بخت کی یاری ہے نہ کچھ جذب ہے کامل

وہ آپھی ملے تو ملے پھر جب ہو ملاقات

دوری میں کروں نالہ و فریاد کہاں تک

یک بار تو اس شوخ سے یارب ہو ملاقات

۱۲۴۵

جاتی ہے غشی بھی کبھو آتے ہیں بخود بھی

کچھ لطف اٹھے بارے اگر اب ہو ملاقات

وحشت ہے بہت میرؔ کو مل آیئے چل کر

کیا جانیے پھر یاں سے گئے کب ہو ملاقات

 

 (۱۸۲)

 

سب ہوئے نادم پئے تدبیر ہو جاناں سمیت

تیر تو نکلا مرے سینے سے لیکن جاں سمیت

تنگ ہو جاوے گا عرصہ خفتگان خاک پر

گر ہمیں زیر زمیں سونپا دل نالاں سمیت

باغ کر دکھلائیں گے دامان دشت حشر کو

ہم بھی واں آئے اگر مژگان خون افشاں سمیت

۱۲۵۰

قیس و فرہاد اور وامق عاقبت جی سے گئے

سب کو مارا عشق نے مجھ خانماں ویراں سمیت

اٹھ گیا پردہ نصیحت گر کے لگ پڑنے سے میرؔ

پھاڑ ڈالا میں گریباں رات کو داماں سمیت

 

 (۱۸۳)

 

پلکوں پہ تھے پارۂ جگر رات

ہم آنکھوں میں لے گئے بسر رات

اک دن تو وفا بھی کرتے وعدہ

گذری ہے امیدوار ہر رات

مکھڑے سے اٹھائیں ان نے زلفیں

جانا بھی نہ ہم گئی کدھر رات

۱۲۵۵

تو پاس نہیں ہوا تو روتے

رہ رہ گئی ہے پہر پہر رات

کیا دن تھے کہ خون تھا جگر میں

رو اٹھتے تھے بیٹھ دوپہر رات

واں تم تو بناتے ہی رہے زلف

عاشق کی بھی یاں گئی گذر رات

ساقی کے جو آنے کی خبر تھی

گذری ہمیں ساری بے خبر رات

ق

کیا سوز جگر کہوں میں ہمدم

آیا جو سخن زبان پر رات

۱۲۶۰

صحبت یہ رہی کہ شمع روئی

لے شام سے تا دم سحر رات

ق

کھلتی ہے جب آنکھ شب کو تجھ بن

کٹتی نہیں آتی پھر نظر رات

دن وصل کا یوں کٹا کہے تو

کاٹی ہے جدائی کی مگر رات

ق

کل تھی شب وصل اک ادا پر

اس کی گئے ہوتے ہم تو مر رات

جاگے تھے ہمارے بخت خفتہ

پہنچا تھا بہم وہ اپنے گھر رات

۱۲۶۵

کرنے لگا پشت چشم نازک

سوتے سے اٹھا جو چونک کر رات

تھی صبح جو منھ کو کھول دیتا

ہر چند کہ تب تھی اک پہر رات

پر زلفوں میں منھ چھپا کے پوچھا

اب ہووے گی میرؔ کس قدر رات

 

(۱۸۴)

 

چھٹتا ہی نہیں ہو جسے آزار محبت

مایوس ہوں میں بھی کہ ہوں بیمار محبت

امکاں نہیں جیتے جی ہو اس قید سے آزاد

مر جائے تبھی چھوٹے گرفتار محبت

۱۲۷۰

تقصیر نہ خوباں کی نہ جلاد کا کچھ جرم

تھا دشمن جانی مرا اقرار محبت

ہر جنس کے خواہاں ملے بازار جہاں میں

لیکن نہ ملا کوئی خریدار محبت

اس راز کو رکھ جی ہی میں تا جی بچے تیرا

زنہار جو کرتا ہو تو اظہار محبت

ہر نقش قدم پر ترے سر بیچے ہیں عاشق

ٹک سیر تو کر آج تو بازار محبت

کچھ مست ہیں ہم دیدۂ پر خون جگر سے

آیا یہی ہے ساغر سرشار محبت

۱۲۷۵

بیکار نہ رہ عشق میں تو رونے سے ہرگز

یہ گریہ ہی ہے آب رخ کار محبت

مجھ سا ہی ہو مجنوں بھی یہ کب مانے ہے عاقل

ہر سر نہیں  اے میرؔ سزاوارمحبت

 

(۱۸۵)

 

جی میں ہے یاد رخ و زلف سیہ فام بہت

رونا آتا ہے مجھے ہر سحر و شام بہت

دست صیاد تلک بھی نہ میں پہنچا جیتا

بے قراری نے لیا مجھ کو تہ دام بہت

ایک دو چشمک ادھر گردش ساغر کہ مدام

سر چڑھی رہتی ہے یہ گردش ایام بہت

۱۲۸۰

دل خراشی و جگر چاکی و خون افشانی

ہوں تو ناکام پہ رہتے ہیں مجھے کام بہت

رہ گیا دیکھ کے تجھ چشم پہ یہ سطر مژہ

ساقیا یوں تو پڑھے تھے میں خط جام بہت

پھر نہ آئے جو ہوئے خاک میں جا آسودہ

غالباً زیر زمیں میرؔ ہے آرام بہت

 

(۱۸۶)

 

کیا کہیں اپنی اس کی شب کی بات

کہیے ہووے جو کچھ بھی ڈھب کی بات

اب تو چپ لگ گئی ہے حیرت سے

پھر کھلے گی زبان جب کی بات

۱۲۸۵

نکتہ دانان رفتہ کی نہ کہو

بات وہ ہے جو ہووے اب کی بات

کس کا روئے سخن نہیں ہے ادھر

ہے نظر میں ہماری سب کی بات

ظلم ہے قہر ہے قیامت ہے

غصے میں اس کے زیر لب کی بات

کہتے ہیں آگے تھا بتوں میں رحم

ہے خدا جانیے یہ کب کی بات

گو کہ آتش زباں تھے آگے میرؔ

اب کی کہیے گئی وہ تب کی بات

۱۲۹۰

 

(۱۸۷)

 

ہر صبح دم کروں ہوں الحاح با انابت

تو بھی مری دعا سے ملتی نہیں اجابت

مت لے حساب طاقت  اے ضعف مجھ سے ظالم

لائق نہیں ہے تیرے یہ کون سی ہے بابت

کیا کیا لکھا ہے میں نے وہ میرؔ کیا کہے گا

گم ہووے نامہ بر سے یارب مری کتابت

 

                ردیف ٹ

 

 

(۱۸۸)

 

نہ پایا دل ہوا روز سیہ سے جس کا جا لٹ پٹ

کسو کی زلف ڈھونڈی مو بہ مو کا کل کو سب لٹ لٹ

تو کن نیندوں پڑا سوتا تھا دروازے کو موندے شب

میں چوکھٹ پر تری کرتا رہا سر کو پٹک کھٹ کھٹ

۱۲۹۵

چٹیں لگتی ہیں دل پر بلبلوں کے باغباں تو جو

چمن میں توڑتا ہے ہر سحر کلیوں کے تیں چٹ چٹ

ترے ہجراں کی بیماری میں میرؔ ناتواں کو شب

ہوا ہے خواب سونا آہ اس کروٹ سے اس کروٹ

 

                ردیف ج

 

 

(۱۸۹)

 

آئے ہیں میرؔ منھ کو بنائے خفا سے آج

شاید بگڑ گئی ہے کچھ اس بے وفا سے آج

وا شد ہوئی نہ دل کو فقیروں کے بھی ملے

کھلتی نہیں گرہ یہ کسو کی دعا سے آج

جینے میں اختیار نہیں ورنہ ہم نشیں

ہم چاہتے ہیں موت تو اپنی خدا سے آج

۱۳۰۰

ساقی ٹک ایک موسم گل کی طرف بھی دیکھ

ٹپکا پڑے ہے رنگ چمن میں ہوا سے آج

تھا جی میں اس سے ملیے تو کیا کیا نہ کہیے میرؔ

پر کچھ کہا گیا نہ غم دل حیا سے آج

 

                ردیف چ

 

 

(۱۹۰)

 

کاش اٹھیں ہم بھی گنہگاروں کے بیچ

ہوں جو رحمت کے سزاواروں کے بیچ

جی سدا ان ابروؤں ہی میں رہا

کی بسر ہم عمر تلواروں کے بیچ

چشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر

منھ نظر آتا ہے دیواروں کے بیچ

۱۳۰۵

ہیں عناصر کی یہ صورت بازیاں

شعبدے کیا کیا ہیں ان چاروں کے بیچ

جب سے لے نکلا ہے تو یہ جنس حسن

پڑ گئی ہے دھوم بازاروں کے بیچ

عاشقی و بے کسی و رفتگی

جی رہا کب ایسے آزاروں کے بیچ

جو سرشک اس ماہ بن جھمکے ہے شب

وہ چمک کاہے کو ہے تاروں کے بیچ

اس کے آتش ناک رخساروں بغیر

لوٹیے یوں کب تک انگاروں کے بیچ

۱۳۱۰

بیٹھنا غیروں میں کب ہے ننگ یار

پھول گل ہوتے ہی ہیں خاروں کے بیچ

یارو مت اس کا فریب مہر کھاؤ

میرؔ بھی تھے اس کے ہی یاروں کے بیچ

 

(۱۹۱)

 

فائدہ مصر میں یوسفؑ رہے زندان کے بیچ

بھیج دے کیوں نہ زلیخا اسے کنعان کے بیچ

تو نہ تھا مردن دشوار میں عاشق کے آہ

حسرتیں کتنی گرہ تھیں رمق اک جان کے بیچ

چشم بد دور کہ کچھ رنگ ہے اب گریہ پر

خون جھمکے ہے پڑا دیدۂ گریان کے بیچ

۱۳۱۵

حال گلزار زمانہ کا ہے جیسے کہ شفق

رنگ کچھ اور ہی ہو جائے ہے اک آن کے بیچ

تاک کی چھاؤں میں جوں مست پڑے سوتے ہوں

اینڈتی ہیں نگہیں سایۂ مژگان کے بیچ

جی لیا بوسۂ رخسار مخطط دے کر

عاقبت ان نے ہمیں زہر دیا پان کے بیچ

دعوی خوش دہنی اس سے اسی منھ پر گل

سر تو ٹک ڈال کے دیکھ اپنے گریبان کے بیچ

کرتے ململ کے پہن آتے تو ہو رندوں میں

شیخ صاحب نہ کہیں جفتے پڑیں شان کے بیچ

۱۳۲۰

کان رکھ رکھ کے بہت درد دل میرؔ کو تم

سنتے تو ہو پہ کہیں درد نہ ہو کان کے بیچ

 

(۱۹۲)

 

کر نہ تاخیر تو اک شب کی ملاقات کے بیچ

دن نہ پھر جائیں گے عشاق کے اک رات کے بیچ

حرف زن مت ہو کسی سے تو کہ  اے آفت شہر

جاتے رہتے ہیں ہزاروں کے سر اک بات کے بیچ

میری طاعت کو قبول آہ کہاں تک ہو گا

سبحہ اک ہاتھ میں ہے جام ہے اک ہات کے بیچ

سرمگیں چشم پہ اس شوخ کی زنہار نہ جا

ہے سیاہی مژہ میں وہ نگہ گھات کے بیچ

۱۳۲۵

بیٹھیں ہم اس کے سگ کو کے برابر کیوں کر

کرتے ہیں ایسی معیشت تو مساوات کے بیچ

تاب و طاقت کو تو رخصت ہوئے مدت گذری

پند گو یوں ہی نہ کر اب خلل اوقات کے بیچ

زندگی کس کے بھروسے پہ محبت میں کروں

ایک دل غم زدہ ہے سو بھی ہے آفات کے بیچ

بے مے و مغبچہ اک دم نہ رہا تھا کہ رہا

اب تلک میرؔ کا تکیہ ہے خرابات کے بیچ

 

(۱۹۳)

 

ساتھ ہو اک بے کسی کے عالم ہستی کے بیچ

باز خواہ خوں ہے میرا گو اسی بستی کے بیچ

۱۳۳۰

عرش پر ہے ہم نمد پوشان الفت کا دماغ

اوج دولت کا سا ہے یاں فقر کی پستی کے بیچ

ہم سیہ کاروں کا ہنسنا وہ ہے میخانے کی اور

آ گئے ہیں میرؔ مسجد میں چلے مستی کے بیچ

 

                ردیف ح

 

 

(۱۹۴)

 

ہونے لگا گذار غم یار بے طرح

رہنے لگا ہے دل کو اب آزار بے طرح

اب کچھ طرح نہیں ہے کہ ہم غم زدے ہوں شاد

کہنے لگا ہے منھ سے ستمگار بے طرح

جاں بر تمھارے ہاتھ سے ہو گا نہ اب کوئی

رکھنے لگے ہو ہاتھ میں تلوار بے طرح

۱۳۳۵

فتنہ اٹھے گا ورنہ نکل گھر سے تو شتاب

بیٹھے ہیں آ کے طالب دیدار بے طرح

لوہو میں شور بور ہے دامان و جیب میرؔ

بپھرا ہے آج دیدۂ خونبار بے طرح

 

 (۱۹۵)

 

خاطر کرے ہے جمع وہ ہر بار ایک طرح

کرتا ہے چرخ مجھ سے نئے یار ایک طرح

میں اور قیس و کوہکن اب جو زباں پہ ہیں

مارے گئے ہیں سب یہ گنہگار ایک طرح

منظور اس کو پردے میں ہیں بے حجابیاں

کس سے ہوا دوچار وہ عیار ایک طرح

۱۳۴۰

سب طرحیں اس کی اپنی نظر میں تھیں کیا کہیں

پر ہم بھی ہو گئے ہیں گرفتار ایک طرح

گھر اس کے جا کے آتے ہیں پامال ہوکے ہم

کریے مکاں ہی اب سر بازار ایک طرح

ق

گہ گل ہے گاہ رنگ گہے باغ کی ہے بو

آتا نہیں نظر وہ طرحدار ایک طرح

نیرنگ حسن دوست سے کر آنکھیں آشنا

ممکن نہیں وگرنہ ہو دیدار ایک طرح

ق

سو طرح طرح دیکھ طبیبوں نے یہ کہا

صحت پذیر ہوئے یہ بیمار ایک طرح

۱۳۴۵

سو بھی ہزار طرح سے ٹھہراوتے ہیں ہم

تسکین کے لیے تری ناچار ایک طرح

بن جی دیے ہو کوئی طرح فائدہ نہیں

گر ہے تو یہ ہے  اے جگر افگار ایک طرح

ہر طرح تو ذلیل ہی رکھتا ہے میرؔ کو

ہوتا ہے عاشقی میں کوئی خوار ایک طرح

 

                ردیف خ

 

 

(۱۹۶)

 

ہے نہیں دشمن جہاں وہ شوخ

ان دنوں کچھ ہے مہرباں وہ شوخ

 

                ردیف د

 

 

(۱۹۷)

کیا ہے یہ جو گاہے آ جاتی ہے آندھی کوئی زرد

یا بگولا جو کوئی سر کھینچے ہے صحرا نورد

۱۳۵۰

شوق میں یہ محمل لیلیٰ کے ہو کر بے قرار

اک نہاد وادی مجنوں سے اٹھ چلتی ہے گرد

وجہ دم سردی نہیں میں جانتا رونے کے بعد

مینھ برسا ہے کہیں شاید ہوا آتی ہے سرد

مار رکھا باطن پیر مغاں نے شیخ کو

مل گیا اس پیر زن کو غیب سے ایک پیر مرد

ایک شب پہلو کیا تھا گرم ان نے تیرے ساتھ

رات کو رہتا ہے اکثر میرؔ کے پہلو میں درد

 

 (۱۹۸)

 

آوے گی میری قبر سے آواز میرے بعد

ابھریں گے عشق دل سے ترے راز میرے بعد

۱۳۵۵

جینا مرا تو تجھ کو غنیمت ہے ناسمجھ

کھینچے گا کون پھر یہ ترے ناز میرے بعد

شمع مزار اور یہ سوز جگر مرا

ہر شب کریں گے زندگی ناساز میرے بعد

حسرت ہے اس کے دیکھنے کی دل میں بے قیاس

اغلب کہ میری آنکھیں رہیں باز میرے بعد

کرتا ہوں میں جو نالے سر انجام باغ میں

منھ دیکھو پھر کریں گے ہم آواز میرے بعد

بن گل موا ہی میں تو پہ تو جا کے لوٹیو

صحن چمن میں  اے پر پرواز میرے بعد

۱۳۶۰

بیٹھا ہوں میرؔ مرنے کو اپنے میں مستعد

پیدا نہ ہوں گے مجھ سے بھی جانباز میرے بعد

 

(۱۹۹)

 

نہ پڑھا خط کو یا پڑھا قاصد

آخرکار کیا کہا قاصد

کوئی پہنچا نہ خط مرا اس تک

میرے طالع ہیں نارسا قاصد

سر نوشت زبوں سے زر ہو خاک

راہ کھوٹی نہ کر تو جا قاصد

گر پڑا خط تو تجھ پہ حرف نہیں

یہ بھی میرا ہی تھا لکھا قاصد

۱۳۶۵

یہ تو رونا ہمیشہ ہے تجھ کو

پھر کبھو پھر کبھو بھلا قاصد

ق

اب غرض خامشی ہی بہتر ہے

کیا کہوں تجھ سے ماجرا قاصد

شب کتابت کے وقت گریے میں

جو لکھا تھا سو بہ گیا قاصد

کہنہ قصہ لکھا کروں تاکے

بھیجا کب تک کروں نیا قاصد

ہے طلسمات اس کا کوچہ تو

جو گیا سو وہیں رہا قاصد

۱۳۷۰

باد پر ہے برات جس کا جواب

اس کو گذرے ہیں سالہا قاصد

نامۂ میرؔ کو اڑاتا ہے

کاغذ باد گر گیا قاصد

 

(۲۰۰)

 

ہوں رہگذر میں تیرے ہر نقش پا ہے شاہد

اڑتی ہے خاک میری باد صبا ہے شاہد

طوف حرم میں بھی میں بھولا نہ تجھ کو  اے بت

آتا ہے یاد تو ہی میرا خدا ہے شاہد

شرمندۂ اثر کچھ باطن مرا نہیں ہے

وقت سحر ہے شاہد دست دعا ہے شاہد

۱۳۷۵

نالے میں اپنے پنہاں میں بھی ہوں ساتھ تیرے

شاہد ہے گرد محمل شور درا ہے شاہد

ایذا ہے میرؔ پر جو وہ تو کہوں ہی گا میں

بارے یہ کہہ کہ تیری خاطر میں کیا ہے شاہد

 

 (۲۰۱)

 

اے گل نو دمیدہ کے مانند

ہے تو کس آفریدہ کے مانند

ہم امید وفا پہ تیری ہوئے

غنچۂ دیر چیدہ کے مانند

خاک کو میری سیر کر کے پھرا

وہ غزال رمیدہ کے مانند

۱۳۸۰

سر اٹھاتے ہی ہو گئے پامال

سبزۂ نو دمیدہ کے مانند

نہ کٹے رات ہجر کی جو نہ ہو

نالہ تیغ کشیدہ کے مانند

ہم گرفتار حال ہیں اپنے

طائر پر بریدہ کے مانند

دل تڑپتا ہے اشک خونیں میں

صید  در خوں طپیدہ کے مانند

تجھ سے یوسف کو کیونکے نسبت دیں

کب شنیدہ ہو دیدہ کے مانند

۱۳۸۵

میرؔ صاحب بھی اس کے ہاں تھے لیک

بندۂ زر خریدہ کے مانند

 

 (۲۰۲)

 

قفس تو یاں سے گئے پر مدام ہے صیاد

چمن کی صبح کوئی دم کو شام ہے صیاد

بہت ہیں ہاتھ ہی تیرے نہ کر قفس کی فکر

مرا تو کام انھیں میں تمام ہے صیاد

یہی گلوں کو تنک دیکھوں اتنی مہلت ہو

چمن میں اور تو کیا مجھ کو کام ہے صیاد

ابھی کہ وحشی ہے اس کشمکش کے بیچ ہے میرؔ

خدا ہی اس کا ہے جو تیرا رام ہے صیاد

۱۳۹۰

 

 (۲۰۳)

 

میرے سنگ مزار پر فرہاد

رکھ کے تیشہ کہے ہے یا استاد

ہم سے بن مرگ کیا جدا ہو ملال

جان کے ساتھ ہے دل ناشاد

موند آنکھیں سفر عدم کا کر

بس ہے دیکھا نہ عالم ایجاد

فکر تعمیر میں نہ رہ منعم

زندگانی کی کچھ بھی ہے بنیاد

خاک بھی سر پہ ڈالنے کو نہیں

کس خرابے میں ہم ہوئے آباد

۱۳۹۵

سنتے ہو ٹک سنو کہ پھر مجھ بعد

نہ سنو گے یہ نالہ و فریاد

لگتی ہے کچھ سموم سی تو نسیم

خاک کس دل جلے کی دی برباد

بھولا جا ہے غم بتاں میں جی

غرض آتا ہے پھر خدا ہی یاد

تیرے قید قفس کا کیا شکوہ

نالے اپنے سے اپنے سے فریاد

ہر طرف ہیں اسیر ہم آواز

باغ ہے گھر ترا تو  اے صیاد

۱۴۰۰

ہم کو مرنا یہ ہے کہ کب ہوں کہیں

اپنی قید حیات سے آزاد

ایسا وہ شوخ  ہے کہ اٹھتے صبح

جانا سو جائے اس کی ہے معتاد

نہیں صورت پذیر نقش اس کا

یوں ہی تصدیع کھینچے ہے بہزاد

ق

خوب ہے خاک سے بزرگوں کی

چاہنا تو مرے تئیں امداد

پر مروت کہاں کی ہے  اے میرؔ

تو ہی مجھ دل جلے کو کر ارشاد

۱۴۰۵

نامرادی ہو جس پہ پروانہ

وہ جلاتا پھرے چراغ مراد

 

                ردیف ر

 

 

(۲۰۴)

 

اودھر تلک ہی چرخ کے مشکل ہے ٹک گذر

اے آہ پھر اثر تو ہے برچھی کی چوٹ پر

دھڑکا تھا دل پیند شب سے سو آج صبح

دیکھا وہی کہ آنسوؤں میں چو پڑا جگر

ہم تو اسیر کنج قفس ہوکے مر چلے

اے اشتیاق سیر چمن تیری کیا خبر

مت عیب کر جو ڈھونڈوں میں اس کو کہ مدعی

یہ جی بھی یوں ہی جائے گا رہتا ہے تو کدھر

۱۴۱۰

آتی ہی بوجھیو تو بلا اپنے سر صبا

وے مشک فام زلفیں پریشاں ہوئیں اگر

جاتی نہیں ہے دل سے تری یاد زلف و رو

روتے ہی مجھ کو گذرے ہے کیا شام کیا سحر

کیا جانوں کس کے تیں لب خنداں کہے ہے خلق

میں نے جو آنکھیں کھول کے دیکھیں سو چشم تر

اے سیل ٹک سنبھل کے قدم بادیے میں رکھ

ہر سمت کو ہے تشنہ لبی کا مری خطر

کرتا ہے کون منع کہ سج اپنی تو نہ دیکھ

لیکن کبھی تو میرؔ کے کر حال پر نظر

۱۴۱۵

(۲۰۵)

 

غیروں سے وے اشارے ہم سے چھپا چھپا کر

پھر دیکھنا ادھر کو آنکھیں ملا ملا کر

ہر گام سد رہ تھی بتخانے کی محبت

کعبے تلک تو پہنچے لیکن خدا خدا کر

نخچیر گہ میں تجھ سے جو نیم کشتہ چھوٹا

حسرت نے اس کو آخر مارا لٹا لٹا کر

اک لطف کی نگہ بھی ہم نے نہ چاہی اس سے

رکھا ہمیں تو ان نے آنکھیں دکھا دکھا کر

ناصح مرے جنوں سے آگہ نہ تھا کہ ناحق

گودڑ کیا گریباں سارا سلا سلا کر

۱۴۲۰

اک رنگ پاں ہی اس کا دل خوں کن جہاں ہے

پھبتا ہے اس کو کرنا باتیں چبا چبا کر

جوں شمع صبح گاہی یک بار بجھ گئے ہم

اس شعلہ خو نے ہم کو مارا جلا جلا کر

اس حرف ناشنو سے صحبت بگڑ ہی جا ہے

ہر چند لاتے ہیں ہم باتیں بنا بنا کر

میں منع میرؔ تجھ کو کرتا نہ تھا ہمیشہ

کھوئی نہ جان تو نے دل کو لگا لگا کر

 

 (۲۰۶)

 

نہ ہو ہرزہ درا اتنا خموشی  اے جرس بہتر

نہیں اس قافلے میں اہل دل ضبط نفس بہتر

۱۴۲۵

نہ ہونا ہی بھلا تھا سامنے اس چشم گریاں کے

نظر  اے ابر تر آپھی نہ آوے گا برس بہتر

سدا ہو خار خار باغباں گل کا جہاں مانع

سمجھ  اے عندلیب اس باغ سے کنج قفس بہتر

برا ہے امتحاں لیکن نہ سمجھے تو تو کیا کریے

شہادت گاہ میں لے چل سب اپنے بوالہوس بہتر

سیہ کر دوں گا گلشن دود دل سے باغباں میں بھی

جلا آتش میں میرے آشیاں کے خار و خس بہتر

کیا داغوں سے رشک باغ  اے صد آفریں الفت

یہ سینہ ہم کو بھی ایسا ہی تھا درکار بس بہتر

۱۴۳۰

قدم تیرے چھوئے تھے جن نے اب وہ ہاتھ ہی سر ہے

مرے حق میں نہ ہونا ہی تھا یاں تک دسترس بہتر

عبث پوچھے ہے مجھ سے میرؔ میں صحرا کو جاتا ہوں

خرابی ہی پہ دل رکھا ہے جو تو نے تو بس بہتر

 

(۲۰۷)

 

دیکھوں میں اپنی آنکھوں سے آوے مجھے قرار

اے انتظار تجھ کو کسی کا ہو انتظار

ساقی تو ایک بار تو توبہ مری تڑا

توبہ کروں جو پھر تو ہے توبہ ہزار بار

کیا زمزمہ کروں ہوں خوشی تجھ سے ہم صفیر

آیا جو میں چمن میں تو جاتی رہی بہار

۱۴۳۵

کس ڈھب سے راہ عشق چلوں ہے یہ ڈر مجھے

پھوٹیں کہیں نہ آبلے ٹوٹیں کہیں نہ خار

کوچے کی اس کے راہ نہ بتلائی بعد مرگ

دل میں صبا رکھے تھی مری خاک سے غبار

اے پائے خم کہ گردش ساغر ہو دستگیر

مرہون درد سر ہو کہاں تک مرا خمار

وسعت جہاں کی چھوڑ جو آرام چاہے میرؔ

آسودگی رکھے ہے بہت گوشۂ مزار

 

 (۲۰۸)

 

یہ عشق بے اجل کش ہے بس  اے دل اب توکل کر

اگرچہ جان جاتی ہے چلی لیکن تغافل کر

۱۴۴۰

سفر ہستی کا مت کر سرسری جوں باد  اے رہرو

یہ سب خاک آدمی تھے ہر قدم پر ٹک تامل کر

سن  اے بے درد گلچیں غارت گلشن مبارک ہے

پہ ٹک گوش مروت جانب فریاد بلبل کر

نہ وعدہ تیرے آنے کا نہ کچھ امید طالع سے

دل بیتاب کو کس منھ سے کہیے ٹک تحمل کر

یہ کیا جانوں کہ کیوں رونے لگا رونے سے رہ کر میں

مگر یہ جانتا ہوں مینھ گھر آتا ہے پھر کھل کر

مرے پاس اس کی خاک پا کو بیماری میں رکھا تھا

نہ آیا سر مرا بالیں پہ اودھر جو گیا ڈھل کر

۱۴۴۵

تجلی جلوہ ہیں کچھ بام و در غم خانے کے میرے

وہ رشک ماہ آیا ہم نشیں بس اب دیا گل کر

تری خاموشی سے قمری ہوا شور جنوں رسوا

ہلا ٹک طوق گردن کو بھی ظالم باغ میں غل کر

گداز عاشقی کا میرؔ کے شب ذکر آیا تھا

جو دیکھا شمع مجلس کو تو پانی ہو گئی گھل کر

 

 (۲۰۹)

 

کر رحم ٹک کب تک ستم مجھ پر جفا کار اس قدر

یک سینہ خنجر سینکڑوں یک جان و آزار اس قدر

بھاگے مری صورت سے وہ عاشق میں اس کی شکل پر

میں اس کا خواہاں یاں تلک وہ مجھ سے بیزار اس قدر

۱۴۵۰

منزل پہنچنا یک طرف نے صبر ہے نے ہے سکوں

یکسر قدم میں آبلے پھر راہ پر خار اس قدر

ہے جائے ہر دل میں تری آ درگذر کر بے وفا

کر رحم ٹک اپنے اپر مت ہو دل آزار اس قدر

جز کشمکش ہووے تو کیا عالم سے ہم کو فائدہ

یہ بے فضا ہے اک قفس ہم ہیں گرفتار اس قدر

غیر اور بغل گیری تری عید اور ہم سے بھاگنا

ہم یار ہوں یوں غم زدے خوش ہوئیں اغیار اس قدر

طاقت نہیں ہے بات کی کہتا تھا نعرہ ماریے

کیا جانتا تھا میرؔ ہو جاوے گا بیمار اس قدر

۱۴۵۵

(۲۱۰)

 

قیامت تھا سماں اس خشمگیں پر

کہ تلواریں چلیں ابرو کی چیں پر

نہ دیکھا آخر اس آئینہ رو نے

نظر سے بھی نگاہ واپسیں پر

گئے دن عجز و نالہ کے کہ اب ہے

دماغ نالہ چرخ ہفتمیں پر

ہوا ہے ہاتھ گلدستہ ہمارا

کہ داغ خوں بہت ہے آستیں پر

خدا جانے کہ کیا خواہش ہے جی کو

نظر اپنی نہیں ہے مہر و کیں پر

۱۴۶۰

پر افشانی قفس ہی کی بہت ہے

کہ پرواز چمن قابل نہیں پر

ق

جگر میں اپنے باقی روتے روتے

اگرچہ کچھ نہیں  اے ہم نشیں پر

کبھو جو آنکھ سے چلتے ہیں آنسو

تو بھر جاتا ہے پانی سب زمیں پر

قدم دشت محبت میں نہ رکھ میرؔ

کہ سر جاتا ہے گام اولیں پر

 

(۲۱۱)

 

دل دماغ و جگر یہ سب اک بار

کام آئے فراق میں  اے یار

۱۴۶۵

کیوں نہ ہو ضعف غالب اعضا پر

مر گئے ہیں قشون کے سردار

گل پژمردہ کا نہیں ممنون

ہم اسیروں کا گوشۂ دستار

مت نکل گھر سے ہم بھی راضی ہیں

دیکھ لیں گے کبھو سر بازار

سینکڑوں حرف ہیں گرہ دل میں

پر کہاں پایئے لب اظہار

سیر کر دشت عشق کا گلشن

غنچے ہو ہو رہے ہیں سو سو خار

۱۴۷۰

روز محشر ہے رات ہجراں کی

ایسی ہم زندگی سے ہیں بیزار

بحث نالہ بھی کیجیو بلبل

پہلے پیدا تو کر لب گفتار

چاک دل پر ہیں چشم صد خوباں

کیا کروں یک انار و صد بیمار

شکر کر داغ دل کا  اے غافل

کس کو دیتے ہیں دیدۂ بیدار

گو غزل ہو گئی قصیدہ سی

عاشقوں کا ہے طول حرف شعار

۱۴۷۵

ق

ہر سحر لگ چلی تو ہے تو نسیم

اے سیہ مست ناز ٹک ہشیار

شاخسانے ہزار نکلیں گے

جو گیا اس کی زلف کا اک تار

ق

واجب القتل اس قدر تو ہوں

کہ مجھے دیکھ کر کہے ہے پکار

یہ تو آیا نہ سامنے میرے

لاؤ میری میاں سپر تلوار

ق

آ زیارت کو قبر عاشق پر

اک طرح کا ہے یاں بھی جوش بہار

۱۴۸۰

نکلے ہے میری خاک سے نرگس

یعنی اب تک ہے حسرت دیدار

ق

میرؔ صاحب زمانہ نازک ہے

دونوں ہاتھوں سے تھامیے دستار

سہل سی زندگی پہ کام کے تیں

اپنے اوپر نہ کیجیے دشوار

چار دن کا ہے مجہلہ یہ سب

سب سے رکھیے سلوک ہی ناچار

ق

کوئی ایسا گناہ اور نہیں

یہ کہ کیجے ستم کسی پر یار

۱۴۸۵

واں جہاں خاک کے برابر ہے

قدر ہفت آسمان ظلم شعار

یہی درخواست پاس دل کی ہے

نہیں روزہ نماز کچھ درکار

در مسجد پہ حلقہ زن ہو تم

کہ رہو بیٹھ خانۂ خمار

جی میں آوے سو کیجیو پیارے

لیک ہو جو نہ در پئے آزار

حاصل دو جہان ہے یک حرف

ہو مری جان آگے تم مختار

۱۴۹۰

 

 (۲۱۲)

 

لبوں پر ہے ہر لحظہ آہ شرر بار

جلا ہی پڑا ہے ہمارا تو گھر بار

ہوئیں کس ستم دیدہ کے پاس یک جا

نگاہیں شرر ریز پلکیں جگر بار

کہو کوئی دیکھے اسے سیر کیونکر

کہ ہے اس تن نازک اوپر نظر بار

حلاوت سے اپنی جو آگاہ ہوں تو

چپک جائیں باہم وے لعل شکر بار

سبک کر دیا دل کی بے طاقتی نے

نہ جانا تھا اس کی طرف ہم کو ہر بار

۱۴۹۵

گدھا سا لدا پھرتا ہے شیخ ہر سو

کہ جبہ ہے یک بار و عمامہ سر بار

مرے نخل ماتم پہ ہے سنگ باراں

نہایت کو لایا عجب یہ شجر بار

ہمیں بار اس در پہ کثرت سے کیا ہو

لگا ہی رہے ہے سدا واں تو دربار

یہ آنکھیں گئیں ایسی ہو کر در افشاں

کہ دیکھے سے آیا تر ابر گہر بار

کب اس عمر میں آدمی شیخ ہو گا

کتابیں رکھیں ساتھ گو ایک خر بار

۱۵۰۰

جہاں میرؔ رہنے کی جاگہ نہیں ہے

چلا چاہیے یاں سے اسباب کر بار

 

(۲۱۳)

 

غصے سے اٹھ چلے ہو تو دامن کو جھاڑ کر

جاتے رہیں گے ہم بھی گریبان پھاڑ کر

دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہوسکے

پچھتاؤ گے سنو ہو یہ بستی اجاڑ کر

یارب رہ طلب میں کوئی کب تلک پھرے

تسکین دے کہ بیٹھ رہوں پاؤں گاڑ کر

منظور ہو نہ پاس ہمارا تو حیف ہے

آئے ہیں آج دور سے ہم تجھ کو تاڑ کر

۱۵۰۵

غالب کہ دیوے قوت دل اس ضعیف کو

تنکے کو جو دکھا دے ہے پل میں پہاڑ کر

نکلیں گے کام دل کے کچھ اب اہل ریش سے

کچھ ڈھیر کر چکے ہیں یہ آگے اکھاڑ کر

اس فن کے پہلوانوں سے کشتی رہی ہے میرؔ

بہتوں کو ہم نے زیر کیا ہے پچھاڑ کر

 

(۲۱۴)

 

مرتے ہیں تیری نرگس بیمار دیکھ کر

جاتے ہیں جی سے کس قدر آزار دیکھ کر

افسوس وے کہ منتظر اک عمر تک رہے

پھر مر گئے ترے تئیں یک بار دیکھ کر

۱۵۱۰

ناخواندہ خط شوق لگے چاک کرنے تو

قاصد تو کہیو ٹک کہ جفا کار دیکھ کر

کوئی جو دم رہا ہے سو آنکھوں میں ہے پھر اب

کریو ٹک ایک وعدۂ دیدار دیکھ کر

دیکھیں جدھر وہ رشک پری پیش چشم ہے

حیران رہ گئے ہیں یہ اسرار دیکھ کر

جاتا ہے آسماں لیے کوچے سے یار کے

آتا ہے جی بھرا در و دیوار دیکھ کر

تیرے خرام ناز پہ جاتے ہیں جی چلے

رکھ ٹک قدم زمیں پہ ستمگار دیکھ کر

۱۵۱۵

طالع نے چشم پوشی کی یاں تک کہ ہم نشیں

چھپتا ہے مجھ کو دور سے اب یار دیکھ کر

جی میں تھا اس سے ملیے تو کیا کیا نہ کہیے میرؔ

پر جب ملے تو رہ گئے ناچار دیکھ کر

 

(۲۱۵)

 

دیکھ اس کو ہنستے سب کے دم سے گئے اکھڑ کر

ٹھہرے ہے آرسی بھی دانتوں زمیں پکڑ کر

کیا کیا نیاز طینت  اے ناز پیشہ تجھ بن

مرتے ہیں خاک رہ سے گوڑے رگڑ رگڑ کر

قد کش چمن کے اپنی خوبی کو نیو چلے ہیں

پایا پھل اس سے آخر کیا سرو نے اکڑ کر

۱۵۲۰

وہ سر چڑھا ہے اتنا اپنی فروتنی سے

کھویا ہمیں نے اس کو ہر لحظہ پاؤں پڑ کر

پائے ثبات بھی ہے نام آوری کو لازم

مشہور ہے نگیں جو بیٹھا ہے گھر میں گڑ کر

دوری میں دلبروں کی کٹتی ہے کیونکے سب کی

آدھا نہیں رہا ہوں تجھ سے تو میں بچھڑ کر

اب کیسا زہد و تقویٰ دارو ہے اور ہم ہیں

بنت العنب کے اپنا سب کچھ گیا گھسڑ کر

دیکھو نہ چشم کم سے معمورۂ جہاں کو

بنتا ہے ایک گھر یاں سو صورتیں بگڑ کر

۱۵۲۵

اس پشت لب کے اوپر دانے عرق کے یوں ہیں

یاقوت سے رکھے ہیں جوں موتیوں کو جڑ کر

ناسازگاری اپنے طالع کی کیا کہیں ہم

آیا کبھو نہ یاں ٹک غیروں سے یار لڑ کر

اپنے مزاج میں بھی ہے میرؔ ضد نہایت

پھر مر ہی کے اٹھیں گے بیٹھیں گے ہم جو اڑ کر

 

(۲۱۶)

 

کہتا ہے کون تجھ کو یاں یہ نہ کر تو وہ کر

پر ہوسکے جو پیارے دل میں بھی ٹک جگہ کر

وہ تنگ پوش اک دن دامن کشاں گیا تھا

رکھی ہیں جا نمازیں اہل ورع نے تہ کر

۱۵۳۰

کیا قصر دل کی تم سے ویرانی نقل کریے

ہو ہو گئے ہیں ٹیلے سارے مکان ڈھہ کر

ہم اپنی آنکھوں کب تک یہ رنگ عشق دیکھیں

آنے لگا ہے لوہو رخسار پر تو بہ کر

رنگ شکستہ اپنا بے لطف بھی نہیں ہے

یاں کی تو صبح دیکھے اک آدھ رات رہ کر

برسوں عذاب دیکھے قرنوں تعب اٹھائے

یہ دل حزیں ہوا ہے کیا کیا جفائیں سہ کر

ایکوں کی کھال کھینچی ایکوں کو دار کھینچا

اسرار عاشقی کا پچھتائے یار کہہ کر

۱۵۳۵

طاعت کوئی کرے ہے جب ابر زور جھومے

گر ہوسکے تو زاہد اس وقت میں گنہ کر

کیوں تو نے آخر آخر اس وقت منھ دکھایا

دی جان میرؔ نے جو حسرت سے اک نگہ کر

 

(۲۱۷)

 

 

شیخی کا اب کمال ہے کچھ اور

حال ہے اور قال ہے کچھ اور

وعدے برسوں کے کن نے دیکھے ہیں

دم میں عاشق کا حال ہے کچھ اور

سہل مت بوجھ یہ طلسم جہاں

ہر جگہ یاں خیال ہے کچھ اور

۱۵۴۰

تو رگ جاں سمجھتی ہو گی نسیم

اس کے گیسو کا بال ہے کچھ اور

نہ ملیں گو کہ ہجر میں مر جائیں

عاشقوں کا وصال ہے کچھ اور

کوز پشتی پہ شیخ کی مت جاؤ

اس پہ بھی احتمال ہے کچھ اور

اس میں اس میں بڑا تفاوت ہے

کبک کی چال ڈھال ہے کچھ اور

میرؔ تلوار چلتی ہے تو چلے

خوش خراموں کی چال ہے کچھ اور

۱۵۴۵

(۲۱۸)

 

دل جو اپنا ہوا تھا زخمی چور

ضبط گریہ سے پڑ گئے ناسور

صبح اس سرد مہر کے آگے

قرص خورشید ہو گیا کافور

ہم ضعیفوں کو پائمال نہ کر

ق

دولت حسن پر نہ ہو مغرور

عرش پر بیٹھتا ہے کہتے ہیں

گر اٹھے ہے غبار خاطر مور

شکوۂ آبلہ ابھی سے میرؔ

ہے پیارے ہنوز دلی دور

۱۵۵۰

 

(۲۱۹)

 

غیروں سے مل چلے تم مست شراب ہو کر

غیرت سے رہ گئے ہم یک سو کباب ہو کر

اس روئے آتشیں سے برقع سرک گیا تھا

گل بہ گیا چمن میں خجلت سے آب ہو کر

کل رات مند گئی تھیں بہتوں کی آنکھیں غش سے

دیکھا کیا نہ کر تو سرمست خواب ہو کر

پردہ رہے گا کیونکر خورشید خاوری کا

نکلے ہے صبح وہ بھی اب بے نقاب ہو کر

یک قطرہ آب میں نے اس دور میں پیا ہے

نکلا ہے چشم تر سے وہ خون ناب ہو کر

۱۵۵۵

آ بیٹھتا تھا صوفی ہر صبح میکدے میں

شکر خدا کہ نکلا واں سے خراب ہو کر

شرم و حیا کہاں تک ہیں میرؔ کوئی دن کے

اب تو ملا کرو تم ٹک بے حجاب ہو کر

 

 (۲۲۰)

 

ہو آدمی  اے چرخ ترک گردش ایام کر

خاطر سے ہی مجھ مست کی تائید دور جام کر

دنیا ہے بے صرفہ نہ ہو رونے میں یا کڑھنے میں تو

نالے کو ذکر صبح کر گریے کو ورد شام کر

مست جنوں رہ روز و شب شہرہ ہو شہر و دشت میں

مجلس میں اپنی نقل خوش زنجیر کا بادام کر

۱۵۶۰

جتنی ہو ذلت خلق میں اتنی ہے عزت عشق میں

ناموس سے آ درگذر بے ننگ ہو کر نام کر

مر رہ کہیں بھی میرؔ جا سرگشتہ پھرنا تا کجا

ظالم کسو کا سن کہا کوئی گھڑی آرام کر

 

 (۲۲۱)

 

رہنے کا پاس نہیں ایک بھی تار آخرکار

ہاتھ سے جائے گا سررشتۂ کار آخرکار

لوح تربت پہ مری پہلے یہ لکھیو کہ اسے

یار دشمن ہو گیا جان سے مار آخرکار

مشت خاک اپنی جو پامال ہے یاں اس پہ نہ جا

سر کو کھینچے گا فلک تک یہ غبار آخرکار

۱۵۶۵

سیر کر کثرت عالم کی مری جان کہ پھر

تن تنہا ہے تو اور کنج مزار آخرکار

چشم وا دیکھ کے اس باغ میں کیجو نرگس

آنکھوں سے جاتی رہے گی یہ بہار آخرکار

ابتدا ہی میں محبت کی ہوئے ہم تو تمام

ہوتا ہو گا یہی کچھ عشق میں یار آخرکار

اول کار محبت تو بہت سہل ہے میرؔ

جی سے جاتا ہے ولے صبر و قرار آخرکار

 

 (۲۲۲)

 

خط میں ہے کیا سماں پسینے پر

موتی گویا جڑے ہیں مینے پر

۱۵۷۰

کوئی ہوتا ہے دل طپش سے برا

ایک دم کے لہو نہ پینے پر

دل سے میرے شکستیں الجھی ہیں

سنگ باراں ہے آبگینے پر

چاک سینے سے کھل گئے ٹانکے

کیا رفو کم ہوا ہے سینے پر

جور دلبر سے کیا ہوں آزردہ

میرؔ اس چار دن کے جینے پر

 

 (۲۲۳)

 

ہم بھی پھرتے ہیں یک حشم لے کر

دستۂ داغ و فوج غم لے کر

۱۵۷۵

دست کش نالہ پیش رو گریہ

آہ چلتی ہے یاں علم لے کر

مرگ اک ماندگی کا وقفہ ہے

یعنی آگے چلیں گے دم لے کر

اس کے اوپر کہ دل سے تھا نزدیک

غم دوری چلے ہیں ہم لے کر

تیری وضع ستم سے  اے بے درد

ایک عالم گیا الم لے کر

بارہا صید گہ سے اس کی گئے

داغ یاس آہوئے حرم لے کر

۱۵۸۰

ضعف یاں تک کھنچا کہ صورت گر

رہ گئے ہاتھ میں قلم لے کر

دل پہ کب اکتفا کرے ہے عشق

جائے گا جان بھی یہ غم لے کر

شوق اگر ہے یہی تو  اے قاصد

ہم بھی آتے ہیں اب رقم لے کر

میرؔ صاحب ہی چوکے  اے بد عہد

ورنہ دینا تھا دل قسم لے کر

 

(۲۲۴)

 

داڑھی سفید شیخ کی تو مت نظر میں کر

بگلا شکار ہووے تو لگتے ہیں ہاتھ پر

۱۵۸۵

اے ابر خشک مغز سمندر کا منھ نہ دیکھ

سیراب تیرے ہونے کو کافی ہے چشم تر

آخر عدم سے کچھ بھی نہ اکھڑا مرا میاں

مجھ کو تھا دست غیب پکڑ لی تری کمر

ہجراں کی شب سے مجھ کو گلہ نئیں کہ ان نے بھی

دیکھی نہیں ہے خواب میں آنکھوں کبھی سحر

سوتا تھا بے خبر تو نشے میں جو رات کو

سو بار میرؔ نے تری اٹھ اٹھ کے لی خبر

 

 (۲۲۵)

 

پشت پا ماری بسکہ دنیا پر

زخم پڑ پڑ گیا مرے پا پر

۱۵۹۰

ڈوبے اچھلے ہے آفتاب ہنوز

کہیں دیکھا تھا تجھ کو دریا پر

گرو مے ہوں آؤ شیخ شہر

ابر جھوما ہی جا ہے صحرا پر

دل پر خوں تو تھا گلابی شراب

جی ہی اپنا چلا نہ صہبا پر

یاں جہاں میں کہ شہر کوراں ہے

سات پردے ہیں چشم بینا پر

فرصت عیش اپنی یوں گذری

کہ مصیبت پڑی تمنا پر

۱۵۹۵

طارم تاک سے لہو ٹپکا

سنگ باراں ہوا ہے مینا پر

میرؔ کیا بات اس کے ہونٹوں کی

جینا دوبھر ہوا مسیحا پر

 

(۲۲۶)

 

جھوٹے بھی پوچھتے نہیں ٹک حال آن کر

انجان اتنے کیوں ہوئے جاتے ہو جان کر

وے لوگ تم نے ایک ہی شوخی میں کھو دیے

پیدا کیے تھے چرخ نے جو خاک چھان کر

جھمکے دکھا کے باعث ہنگامہ ہی رہے

پر گھر سے در پہ آئے نہ تم بات مان کر

۱۶۰۰

کہتے نہ تھے کہ جان سے جاتے رہیں گے ہم

اچھا نہیں ہے آ نہ ہمیں امتحان کر

کم گو جو ہم ہوئے تو ستم کچھ نہ ہو گیا

اچھی نہیں یہ بات مت اتنی زبان کر

ہم وے ہیں جن کے خوں سے تری راہ سب ہے گل

مت کر خراب ہم کو تو اوروں میں سان کر

تا کشتۂ وفا مجھے جانے تمام خلق

تربت پہ میری خون سے میرے نشان کر

ناز و عتاب و خشم کہاں تک اٹھائیے

یارب کبھو تو ہم پہ اسے مہربان کر

۱۶۰۵

افسانے ما و من کے سنیں میرؔ کب تلک

چل اب کہ سوویں منھ پہ دوپٹے کو تان کر

 

(۲۲۷)

 

آزار دیکھے کیا کیا ان پلکوں سے اٹک کر

جی لے گئے یہ کانٹے دل میں کھٹک کھٹک کر

سرو و تدرو دونوں پھر آپ میں نہ آئے

گلزار میں چلا تھا وہ شوخ ٹک لٹک کر

کب آنکھ کھول دیکھا تیرے تئیں سرہانے

ناچار مر گئے ہم سر کو پٹک پٹک کر

حاصل بجز کدورت اس خاکداں سے کیا ہے

خوش وہ کہ اٹھ گئے ہیں داماں جھٹک جھٹک کر

۱۶۱۰

یہ مشت خاک یعنی انسان ہی ہے روکش

ورنہ اٹھائی کن نے اس آسماں کی ٹکر

دل کام چاہتا ہے اب اس کے گیسوؤں سے

واں مر گئے ہیں کتنے برسوں اٹک اٹک کر

ٹک منھ سے اس کے دی شب برقع سرک گیا تھا

جاتی رہی نظر سے مہتاب سی چھٹک کر

دھولا چکے تھے مل کر کل لونڈے میکدے کے

پر سرگراں ہو واعظ جاتا رہا سٹک کر

کل رقص شیخ مطلق دل کو لگا نہ میرے

آیا وہ حیز شرعی کتنا مٹک مٹک کر

۱۶۱۵

منزل کی میرؔ اس کی کب راہ تجھ سے نکلے

یاں خضر سے ہزاروں مر مر گئے بھٹک کر

 

(۲۲۸)

 

نظر کر کے وہ سلک دندان یار

ہوئے پانی پانی در شاہوار

 

 (۲۲۹)

 

بس نہ لگ چل نسیم مجھ سے کہ میں

رہ گیا ہوں چراغ سا بجھ کر

 

 

                ردیف ڑ

 

 

(۲۳۰)

 

آشوب دیکھ چشم تری سر رہے ہیں جوڑ

پلکوں کی صف سے بھیڑیں گئیں منھ کو موڑ موڑ

لاکھوں جتن کیے نہ ہوا ضبط گریہ لیک

سنتے ہی نام آنکھ سے آنسو گرے کروڑ

۱۶۲۰

زخم دروں سے میرے نہ ٹک بے خبر رہو

اب ضبط گریہ سے ہے ادھر ہی کو سب نچوڑ

گرمی سے برشگال کی پروا ہے کیا ہمیں

برسوں رہی ہے جان کے رکنے کی یاں مروڑ

بلبل کی اور چشم مروت سے دیکھ ٹک

بے درد یوں چمن میں کسو پھول کو نہ توڑ

کچھ کوہکن ہی سے نہیں تازہ ہوا یہ کام

بہتیرے عاشقی میں موئے سر کو پھوڑ پھوڑ

بے طاقتی سے میرؔ لگے چھوٹنے پران

ظالم خیال دیکھنے کا اس کے اب تو چھوڑ

۱۶۲۵

                ردیف ز

 

 

(۲۳۱)

 

ہوتا نہیں ہے باب اجابت کا وا ہنوز

بسمل پڑی ہے چرخ پہ میری دعا ہنوز

باقی نہیں ہے دل میں یہ غم ہے بجا ہنوز

ٹپکے ہے خون دم بہ دم آنکھوں سے تا ہنوز

دن رات کو کھنچا ہے قیامت کا اور میں

پھرتا ہوں منھ پہ خاک ملے جا بجا ہنوز

خط کاڑھ لا کے تم تو منڈا بھی چلے ولے

ہوتی نہیں ہماری تمھاری صفا ہنوز

غنچے چمن چمن کھلے اس باغ دہر میں

دل ہی مرا ہے جو نہیں ہوتا ہے وا ہنوز

۱۶۳۰

گذری نہ پار عرش کہ تسکین ہو مجھے

افسوس میری آہ رہی نارسا ہنوز

احوال نامہ بر سے مرا سن کے کہہ اٹھا

جیتا ہے وہ ستم زدہ مہجور کیا ہنوز

غنچہ نہ بوجھ دل ہے کسی مجھ سے زار کا

کھلتا نہیں جو سعی سے تیری صبا ہنوز

توڑا تھا کس کا شیشۂ دل تو نے سنگ دل

ہے دل خراش کوچے میں تیرے صدا ہنوز

چلو میں اس کے میرا لہو تھا سو پی چکا

اڑتا نہیں ہے طائر رنگ حنا ہنوز

۱۶۳۵

بے بال و پر اسیر ہوں کنج قفس میں میرؔ

جاتی نہیں ہے سر سے چمن کی ہوا ہنوز

 

(۲۳۲)

 

ضبط کرتا نہیں کنارہ ہنوز

ہے گریبان پارہ پارہ ہنوز

آتش دل نہیں بجھی شاید

قطرۂ اشک ہے شرارہ ہنوز

خاک میں ہے وہ طفل اشک اس بن

چشم ہے جس کا گاہوارہ ہنوز

اشک جھمکا ہے جب نہ نکلا تھا

چرخ پر صبح کا ستارہ ہنوز

۱۶۴۰

ایک بار آ کے پھر نہیں آیا

عمر کی طرح وہ دوبارہ ہنوز

لب پہ آئی ہے جان کب کی ہے

اس کی موقوف یک اشارہ ہنوز

کب کی توبہ کی میرؔ نے لیکن

ہے بتر از شراب خوارہ ہنوز

عمر گذری دوائیں کرتے میرؔ

درد دل کا ہوا نہ چارہ ہنوز

 

(۲۳۳)

 

مر گیا میں پہ مرے باقی ہیں آثار ہنوز

تر ہیں سب سرکے لہو سے در و دیوار ہنوز

۱۶۴۵

دل بھی پر داغ چمن ہے پر اسے کیا کیجے

جی سے جاتی ہی نہیں حسرت دیدار ہنوز

بہ کیے عمر ہوئی ابر بہاری کو ولے

لہو برسا رہے ہیں دیدۂ خوں بار ہنوز

بد نہ لے جائیو پوچھوں ہوں تجھی سے یہ طبیب

بہ ہوا کوئی بھی اس درد کا بیمار ہنوز

نا امیدی میں تو مر گئے پہ نہیں یہ معلوم

جیتے ہیں کون سی امید پہ ناچار ہنوز

بارہا چل چکی تلوار تری چال پہ شوخ

تو نہیں چھوڑتا اس طرز کی رفتار ہنوز

۱۶۵۰

ایک دن بال فشاں ٹک ہوئے تھے خوش ہو کر

ہیں غم دل کی اسیری میں گرفتار ہنوز

کوئی تو آبلہ پا دشت جنوں سے گذرا

ڈوبا ہی جائے ہے لوہو میں سر خار ہنوز

منتظر قتل کے وعدے کا ہوں اپنے یعنی

جیتا مرنے کو رہا ہے یہ گنہگار ہنوز

اڑ گئے خاک ہو کتنے ہی ترے کوچے سے

باز آتے نہیں پر تیرے ہوادار ہنوز

ق

ایک بھی زخم کی جا جس کے نہ ہو تن پہ کہیں

کوئی دیتا ہے سنا ویسے کو آزار ہنوز

۱۶۵۵

ٹک تو انصاف کر  اے دشمن جان عاشق

میان سے نکلی پڑے ہے تری تلوار ہنوز

ق

میرؔ کو ضعف میں میں دیکھ کہا کچھ کہیے

ہے تجھے کوئی گھڑی قوت گفتار ہنوز

ابھی اک دم میں زباں چلنے سے رہ جاتی ہے

درد دل کیوں نہیں کرتا ہے تو اظہار ہنوز

آنسو بھر لا کے بہت حزن سے یہ کہنے لگا

کیا کہوں تجھ کو سمجھ اس پہ نہیں یار ہنوز

آنکھوں میں آن رہا جی جو نکلتا ہی نہیں

دل میں میرے ہے گرہ حسرت دیدار ہنوز

۱۶۶۰

٭٭٭

تشکر: تصنیف حیدر جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید