FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

مضامینِ  قرآن

 

 

 

                ابو یحییٰ

 

 

 

حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ  کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اس پس منظر میں آپ کی لائی ہوئی کتاب قرآن کریم کل عالم کے لیے اللہ کی آخری ہدایت اور رہنمائی ہے۔ آپ ہی کی ذات اب قیامت تک کل انسانیت کے لیے اللہ کی رضا اور ناراضی کو جاننے کا واحد ذریعہ ہے اور اس پہلو سے آپ کی تعلیمات آفاقی ہیں۔ یہ حقیقت قرآن مجید میں مختلف جگہوں پر بیان ہوئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ  ہے:

اور ہم نے تم کو تمام لوگوں کے لیے بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ اس حقیقت کو نہیں جان رہے ہیں، (سبا ۲۸:۳۴)

بڑی ہی بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر حق و باطل کے درمیان امتیاز کر دینے والی کتاب اتاری تاکہ وہ اہل عالم کے لیے ہوشیار کر دینے والا بنے،(فرقان ١:۲۵)

سورہ انبیا میں یہی حقیقت بڑے منفرد اور دلنشین انداز میں بیان ہوئی ہے۔ وہاں قرآن میں بیان ہونے والی قرب قیامت کی ایک عظیم نشانی کے ذکر کے بعد اللہ تعالیٰ  اپنا یہ حتمی فیصلہ سناتے ہیں کہ قیامت کے بعد نئی دنیا میں یہ دھرتی صالحین کی ملکیت و تصرف میں دے دی جائے گی۔ اس خبر میں اہل ایمان کے لیے ایک عظیم موقع کی آگاہی ہے اور اسی پہلو سے یہ خبر پہنچانے والی ہستی تمام عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجی گئی ہے،(انبیا ١۰۷:۲١)۔

یہی وہ پس منظر ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ابتداءً جزیرہ نما عرب کے رہنے والوں کی طرف کی گئی اور پھر آپ پر ایمان لانے والے صحابہ کرام پر یہ ذمہ داری ڈالی گئی کہ جس طرح نبی کریم نے اِن پر حق کی شہادت دی ہے وہ کل انسانیت تک حق پہنچا کر اس کی شہادت دیں (الحج۷۸:۲۲) اور اسی پس منظر میں ان مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے امت وسط قرار دیا، (بقرہ ١۴۳:۲)۔ یعنی ایسی امت جو اللہ کے رسول اور باقی انسانیت کے بیچ میں کھڑی ہے۔ وہ رسول سے حق پاتی ہے اور پھر اسے ساری انسانیت تک پہنچاتی ہے۔

قرآن مجید اس معاملے میں بھی بالکل واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کو جب انذار کیا اور ان تک حق کا پیغام پہنچایا تو قرآن کریم ہی آپ کا آلہ انذار اور ذریعہ دعوت تھا۔ یہ کتاب الہی آیات الہی کا وہ مجموعہ ہے جس کے ذریعے سے رسول عربی نے براہ راست اپنی قوم پر اتمام حجت کیا۔ یہ کتاب اس اتمام حجت یعنی رسول عربی اور ان کے مخاطبین اہل عرب کے مابین برپا ہونے والی اس پوری کشمکش اور اس کے نتائج کی تفصیلی روداد بھی ہے جو تیئیس برس کی مدت میں سرزمین عرب میں برپا رہی۔

اس پہلو سے اگر دیکھا جائے تو قرآن مجید ماضی کے ایک واقعے کی روداد ہے۔مگر اس روداد کے اندر ہی قرآن مجید کی اصل دعوت، اس کے دلائل اور مطالبات کی تفصیل بھی ہے۔ یہ چیزیں اپنے اندر عالمی اپیل رکھتی ہیں۔ چنانچہ یہی وہ چیزیں ہیں جن کو اگر ایک منطقی ترتیب کے ساتھ مرتب کرکے لوگوں کے سامنے پیش کر دیا جائے تو لوگ بلا تردد یہ سمجھ سکتے ہیں کہ قرآن مجید کس چیز کو بطور پیغام لوگوں کے سامنے رکھ رہا ہے، کن اساسات پر وہ اپنی بات لوگوں سے منوانا چاہتا ہے، لوگوں کے سامنے وہ کن اخلاقی قدروں کو اجاگر کر رہا ہے، قانون کی سطح پر اس کے مطالبات کیا ہیں اور کس طرح کی شخصیت کی تشکیل اس کے پیش نظر ہے۔ قرآن کریم کے مضامین اگر اس طرح واضح کر دیے جائیں تو پوری دنیا کے لوگو ں کے لیے مروجہ اسلوب میں قرآن مجید کے مضامین کو سمجھنا بہت آسان ہو جائے گا جو کہ عالمی دعوت کے پہلو سے انشاء اللہ ایک بہت مفید چیز ہو گی۔

 

تین بنیادی مضامین

 

قرآن مجید ہزاروں آیات پر مشتمل ایک بہت بڑی کتاب ہے۔ مگر مضامین کے اعتبار سے یہ ایک انتہائی مختصر کتاب ہے جس کے بنیادی موضوعات انگلیوں  پر گنے جا سکتے ہیں۔ یہ موضوعات نہ صرف تعداد میں بہت کم ہیں بلکہ آپس میں مربوط طریقے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہزاروں آیات پر مشتمل پورا قرآن مجید صرف تین بڑے اور چند درجن ذیلی عنوانات کے تحت نہ صرف مرتب ہو جاتا ہے بلکہ یہ مضامین و عنوانات ہر فرد اور ہر دور کے انسان سے براہ راست متعلق رہتے ہیں۔ یہ بنیادی تین موضوعات درج ذیل ہیں۔

 

۱) دعوت دین اور اس کے رد و قبول کے نتائج

۲) دعوت کے دلائل

۳) مطالبات

 

پھر ان تین موضوعات کو مضامین کے اعتبار سے ذیلی مضامین میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اس کی تفصیل انشاء اللہ ہم بعد میں الگ الگ عنوان کے تحت بیان کریں گے۔

 

قرآن مجید کے موضوعات اور ان کا باہمی منطقی ربط

 

قران مجید کے پیغام کو متعین عنوانات اور جامع موضوعات کے تحت مرتب کرنے کے اس کام کو عملی طور پر کرنے کی دو شکلیں ممکن ہیں۔ ایک شکل یہ ہے کہ ترتیب کے پہلو سے اول تا آخر قرآن مجید کی تفسیر یا حواشی لکھے جائیں۔ اس تفسیر میں اصل زور اس بات پر ہو کہ ایک مجموعہ آیات لے کر اس میں موجود مضامین کی نشاندہی کر دی جائے۔ یہی وہ شکل تھی جس میں پچھلے کچھ عرصے سے مضامین قرآن کے عنوان کے تحت سورہ فاتحہ اور پھر سورہ بقرہ کی تفسیر بیان ہو رہی تھی۔ مگر بعض دوستوں کا اصرار تھا کہ اس طریقے سے پورے قرآن مجید پر کام کرنے کا عمل بہت وقت طلب ہے۔ یہ بات چونکہ پیچھے بیان ہو چکی ہے کہ اصل مضامین کی تعداد بہت زیادہ نہیں بلکہ تمام تر تفصیل میں جا کر بھی درجن سے زیادہ نہیں بڑھتی ہے اور یہی مضامین مختلف پہلوؤں سے قرآن مجید میں دہرائے جاتے ہیں۔ اس لیے ایک دوسری بہتر شکل اب میں یہ اختیار کر رہا ہوں کہ قرآن مجید کے مضامین کو مرتب انداز میں عنوانات کے تحت بیان کر دیا جائے۔ ساتھ ساتھ یہ واضح کیا جائے کہ یہ مضامین آپس میں کس طرح ایک دوسرے سے متعلق ہیں۔ ان عنوانات کو قرآن مجید کے متعلقہ بیانات اور آیات کے ساتھ جب جمع کر دیا جائے گا تو انشاء اللہ العزیز مطالعہ قرآن مجید کی ایک ٹیکسٹ بک مرتب ہو جائے گی جو درج ذیل چار پہلوؤں سے انشاء اللہ انتہائی موثر ثابت ہو گی۔

 

قرآن کریم کے مطالعے کی چار سطحیں

 

یہ ٹیکسٹ بک ایک طالب علم کے لیے فہم قرآن کے پہلو سے بے حد مفید ہو گی۔عام طور پر ہمارے یہاں طالب علمانہ سطح پر جب قرآن مجید کو پڑھایا جاتا ہے تو اس میں زیادہ تفسیری مباحث زیر بحث آ جاتے ہیں۔ خود قرآن مجید کا اپنا متن اس طرح زیر بحث نہیں آتا جس طرح آنا چاہیے۔ مگر جب ایک طالب علم ایک  دفعہ اچھی طرح اس ٹیکسٹ بک کا مطالعہ کر لے گا تو اسے اندازہ ہو جائے گا کہ کلام الہی کے موضوعات کیا ہیں۔ اور دوران مطالعہ جب کبھی کوئی اشکال پیدا ہو گا تو وہ اس ٹیکسٹ بک سے رجوع کر کے جان لے گا کہ فلاں مقام پر کیا چیز زیر بحث ہے۔ ہمارے نزدیک قرآن مجید کے مطالعے کا یہ طالب علمانہ طریقہ انشاء اللہ قرآن کو سمجھنے میں بے حد مدد گار ہو گا۔

دوسری سطح وہ ہے جس میں یہ ٹیکسٹ بک غیر مسلمانوں کو قرآن کریم کی تعلیمات اور اسلام کی دعوت سے جامع انداز میں روشناس کرنے کا یہ ایک انتہائی آسان اور موثر ذریعہ ہے۔ اس ٹیکسٹ بک کی صرف فہرست کے مطالعہ ہی سے ایک غیر مسلم باآسانی یہ سمجھ لے گا کہ قرآن مجید کن مضامین پر مشتمل ہے۔ لوگ دور جدید میں کتابوں کو اسی طرح سمجھتے ہیں۔ اس جدید طریقے پر غیر مسلموں میں اسلام کی دعوت پہنچانا اور ان کے لیے اس دعوت کا سمجھنا انشاء اللہ بہت آسان ہو جائے گا۔ یہ ٹیکسٹ بک گویا اس پہلو سے ایک غیر مسلم کے لیے قرآن مجید کا ایک تعارفی مطالعہ بن جائے گی۔

قرآن کریم کے مطالعے کی تیسری سطح تذکیری مطالعہ ہے۔ اس میں ایک عام مسلمان یاددہانی اور نصیحت کے پہلو سے قرآن مجید کو پڑھتا ہے یا اسے پڑھنا چاہیے۔ اس پہلو سے بھی اگر کوئی شخص پہلے اس ٹیکسٹ بک کو پڑھ چکا ہو تو اسے قرآن سے نصیحت لینا بہت آسان ہو جائے گا۔ اس کی دعوت، دلائل، مطالبات کو سمجھنے میں انسان کبھی ٹھوکر نہیں کھائے گا۔ بلکہ زیادہ بہتر انداز میں گہرائی میں جا کر کتاب الٰہی کی نصیحت کو سمجھ سکے گا۔ وہ جان لے گا کہ قرآن میں چاند سورج اور تاروں کا ذکر کس پہلو سے آ رہا ہے۔ کس موقع پر اسے کس پہلو سے نصیحت کی جا رہی ہے۔ تاریخ کے آئینے اور فطرت کے مناظر میں کیا اسباق دیے جا رہے ہیں۔ اسے زندگی میں کیا کرنا اور کیا نہیں کرنا۔ غرض ہر پہلو سے ایک عام آدمی محسوس کرے گا کہ وہ اب اپنے رب کی بات بہتر طریقے پر سمجھ سکتا ہے۔

قرآن مجید کے مطالعے کی چوتھی سطح تحقیقی ہے۔ اس میں بھی یہ ٹیکسٹ بک بہت مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ ایک طرف تو یہ تدبر قرآن کے نئے پہلو سامنے لاتی ہے تو دوسری طرف یہ قرآن مجید کے مختلف بیانات کو ان عنوانات کے تحت متعین کر دیتی ہے جو آیات کے معنی متعین کرنے اور ان کے نئے پہلو سامنے لانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔

یوں تلمذ کی سطح ہو یا تعارف کی، تذکیر کی سطح ہو یا تحقیق کی، یہ کام انشاء اللہ ہر پہلو سے قرآن کا ذوق رکھنے والوں کے لیے مددگار ثابت ہو گا۔

اس کام کی اساسات کو متعین کرنے میں مجھے کم و بیش پندرہ برس  لگے ہیں۔ میری نیت یہ ہے کہ تازیست  اپنے آپ کو اس کام کے ابلاغ کے لیے وقف کر دوں۔ پروردگار عالم کے کلام کی شرح و وضاحت اور اس کے ابلاغ سے بڑا کوئی کام نہیں ہو سکتا۔ دور جدید میں لوگ جس طرح چیزوں کو سمجھتے ہیں، میری نیت اور ارادہ ہے کہ ان تمام پہلوؤں سے اس کام کو لوگوں تک پہنچایا جائے۔ اس کی پہلی شکل تو وہی ٹیکسٹ بک ہے جس کا اوپر ذکر ہوا۔ دوسری شکل ملٹی میڈیا پریزینٹیشن کی ہے  جسے میں نے ابتدائی درجے میں مکمل کر کے اپنے طلبا کو پچھلے برسوں میں پڑھایا ہے۔ اس کی اگلی شکل ماس میڈیا ہے۔ جس میں عالمی سطح پر قرآن مجید کی دعوت، دلائل اور مطالبات کا ابلاغ میرے پیش نظر ہے۔نظری طور پر اس کام کو کرنے کے بعد اب عملاً اس کام کو شروع کرنا ہے۔ یہ ایک اور پہاڑ ہے  جسے مجھے سرکرنا ہے۔ قارئین سے درخواست ہے کہ وہ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ  اس کام کو اپنی مرضی اور منشا کے مطابق آسان فرما دیں اور یہ کام اگر کسی خیر کا سبب ہے تو اس کی تکمیل کے اسباب اپنے فضل و کرم سے عطا فردیں۔ اللھم وفقنا ماتحب و ترضی، آمین یا رب العالمین۔

 

قرآن مجید کا بنیادی مضمون: دعوت کے دلائل

 

ہم یہ واضح کر چکے ہیں کہ قرآن مجید کے تین بنیادی مضامین ہیں:

 

۱) دعوت دین اور اس کے رد و قبول کے نتائج

۲) دعوت کے دلائل

۳) مطالبات

آج سے ہم ان میں سے ایک ایک پر تفصیلی گفتگو کرنا شروع کریں گے۔ مذکورہ بالا ترتیب کے لحاظ سے ہمیں سب سے پہلے دعوت دین اور اس کے رد و قبول کے نتائج سے گفتگو کا آغاز کرنا چاہیے۔ تاہم ہمارا تاثر یہ ہے کہ اس معاملے میں سب سے کم کام دعوت کے دلائل پر ہوا ہے اور اسی حوالے سے لوگوں میں بہت کنفیوژن پایا جاتا ہے، اس لیے گفتگو کا آغاز اسی سے کیا جائے۔

 

دعوت کے دلائل

 

قرآن مجید کی بنیادی دعوت توحید، رسالت اور آخرت کی دعوت ہے۔ تاہم اللہ تعالیٰ ان بنیادی معتقدات پر کسی تعصب یا جبر کی بنیاد پر نہیں بلکہ تعقل اور تفکر کی بنیاد پر ایمان لانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ وہ اس بات کا اہتمام کرتے ہیں کہ انسانوں پر یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہو جائے کہ توحید، آخرت اور رسالت کی دعوت پوری طرح عقل و فطرت پر استوار ہے۔ اس کی جڑیں انسان کے اپنے وجود سے پھوٹتی ہیں اور کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی تائید میں کھڑا ہے۔ مسلمہ علم کی روایت ہو یا انسانی تاریخ کا تسلسل، نظم کائنات ہو یا اس میں پائے جانے والے قدرت اور ربوبیت کے آثار ہر چیز انہی دلائل کی تقویت اور حمایت میں یک زبان ہے۔ انسانی ضمیر سے لے کر انفس و آفاق کی نشانیاں تک اس دعوت کی امین ہیں اور اس کی گواہ بھی۔ مذہب کی روایت ہو یا سابقہ کتابوں کی پیش گوئیاں سب اس دعوت کی تصدیق کرتی ہیں۔

یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ قرآن مجید کی دعوت کے دلائل محض مجرد الفاظ اور مبہم اشارات پر مشتمل نہیں بلکہ مسلمہ حقائق کے تفصیلی بیان پر مشتمل ہیں اور انتہائی منظم انداز میں باقاعدہ مرتب ہیں۔ یہ دلائل آخری درجے میں یہ ثابت کر دیتے ہیں کہ یہ پیغام حق ہے اور اس کے سوا سچائی کہیں اور نہیں پائی جاتی۔

 

                دلائل سے متعلق ایک اہم بات

 

ہم ابتدا ہی میں یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ قرآن مجید کے دلائل کا یہ موضوع تفصیلی ہے۔ قرآن مجید کا ایک بڑا حصہ انہی پر مشتمل ہے۔ ان دلائل کو جب تک ان کے پورے پس منظر کے ساتھ نہیں سمجھا جائے گا قرآن کی حجیت واضح نہیں ہو گی۔ مگر کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے چونکہ ہم مسلمان ہیں اور پہلے ہی ایمان لا چکے ہیں اس لیے یہ دلائل وغیرہ ہم سے غیر متعلق ہیں۔ اول تو ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے پیدائشی ایمان کو حقیقی ایمان بنائیں۔ ہم اپنے رب کی ذات، صفات، اس کے حضور پیشی اور اس کے پیغمبر کی ہستی کو کسی تعصب کی بنیاد پر ماننے کے بجائے غور و فکر کے بعد مانیں اور ایمان کو اپنی ذاتی دریافت بنائیں۔ تب ہی یہ ہو گا کہ ہمارا ایمان اللہ کی بارگاہ میں وہ قدر و قیمت پائے گا جس پر قرآن و حدیث کے سارے فضائل اور نتائج منحصر ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ نتائج کسی نسلی ایمان کا نہیں بلکہ حقیقی ایمان کا ثمرہ ہیں۔ یہی قرآن مجید نے اپنے پیروکاروں کو ’’یا ایھا الذین آمنو‘‘ کہا ہے یعنی ایمان لانے والے لوگو ! اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ایمان لایا جاتا ہے، یہ خود بخود نہیں آ جاتا۔ اور دلائلِ قرآن ہی وہ دلائل ہیں جن پر غور و فکر سے انسان حقیقی معنوں میں پورے شعور سے ایمان لاتا ہے۔

دوسری طرف ان دلائل کا مطالعہ تذکیر و  معارفت کے پہلو سے بہت اہم ہے۔ یعنی جو سمجھنا چاہیں یہ ان کے لیے دلیل راہ ہیں اور جو ایمان لا چکے ہیں ان کے لیے اضافہ ایمان، معرفت حق اور تذکیر و یاد دہانی کا ایک بڑا غیر معمولی ذریعہ ہیں۔ اس لیے کوئی مسلمان یہ کہہ کر ان سے صرف نظر نہیں کرسکتا کہ ہم تو مان چکے ہمیں دلائل کی کیا ضرورت۔ یہ دلائل ہی نہیں بلکہ معرفت حق کی کنجیاں ہیں۔ ان کو پڑھ کر اور ان پر غور و فکر کر کے ایمان بڑھتا ہے۔ یہ اضافہ ایمان وہ چیز ہے جس سے کوئی مومن کبھی بے نیاز نہیں ہو سکتا ہے۔

 

                دلائل قرآن : ایک اجمالی خاکہ

 

اس قسط میں ہم توحید، رسالت اور آخرت کے ان دلائل کا ایک اجمالی خاکہ پیش کر دیتے ہیں اور انشاءاللہ آئندہ اقساط میں ان میں سے ایک ایک کی قرآن مجید کی آیات و بیانات کی روشنی میں تفصیل کریں گے۔

 

الف :توحید کے دلائل

 

قرآن مجید میں توحید کی پانچ دلیلیں بیان ہوئی ہیں۔

ا۔ دلیل ربوبیت

ب : رسالت کے دلائل

رسالت کے سات دلائل قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں۔ رسالت و نبوت کا انسٹی ٹیوشن اب تا قیامت چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان ہی پر منحصر ہے اس لیے ہم دلائل اسی پس منظر میں بیان کر رہے ہیں۔ گرچہ قرآن جب سابقہ انبیا کی دعوت کو بیان کرتا ہے تو ان کی سچائی کے دلائل بھی وہاں زیر بحث آ جاتے ہیں۔ مگر اپنی نوعیت کے اعتبار سے کم و بیش وہی ہوتے ہیں جو نبی آخر زمان کے حوالے سے بیان ہوئے ہیں۔

 

                ۱) کلام کا معجزہ

 

پہلی دلیل جو رسالت کے اولین مخاطبین کو دی گئی جو زبان و بیان کے ہنر میں یکتا تھے۔ انہیں چیلنج دیا گیا کہ اس کلام کو اگر گھڑا ہوا انسانی کلام سمجھتے ہیں تو اس جیسی کوئی ایک سورت بنا لائیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرنے والے کفار مکہ نے آپ کی مخالفت اور ایذا رسانی میں کوئی کسر نہ چھوڑی لیکن کبھی اس چیلنج کا جواب دینے کی کوشش تک نہ کی۔ اس لیے کہ یہ ان کے لیے ممکن ہی نہ تھا۔ یہی اس کلام کے الوہی ہونے کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔

 

                ۲) سابقہ سیرت

 

نبوت کی دوسری دلیل خود سیرت مصطفیٰ تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اعلان نبوت سے قبل اہل عرب کے درمیان ایک عام آدمی کی حیثیت میں چالیس برس رہے۔ اس بے مثل سیرت کے شخص کو وہ خود صادق و امین کہتے تھے۔محمد صلی اللہ علیہ وسلم اعلیٰ اخلاق کے پیکر ایک تاجر تھے جنہیں مذہبی مباحث اور شعر و ادب سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ پھر یہی ہستی ایک روز اچانک اعلان نبوت کرتی ہے اور مذہب اور ادب دونوں کی روایت کو لاجواب کر دیتی ہے۔ سوائے اس بات کے کہ ان پر اللہ کا کلام اترا اس بات کی کوئی تاویل نہیں کی جا سکتی کہ یہ انقلابی تبدیلی کیسے رونما ہوئی۔

 

 

                ۳) کلام کا ارتقا اور تضاد سے پاک ہونا

 

اگلا ثبوت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کا ارتقا اور تضاد سے پاک ہونا ہے۔ اس دنیا میں ہر مفکر، شاعر، دانشور کا ایک فکری ارتقا ہوتا ہے۔ وہ کہیں نہ کہیں زانوئے تلمذ تہ کرتا ہے۔ وہ سیکھنے اور سمجھنے کے عمل سے گزرتا ہے۔ وہ فکری درستی، ارتقا اور بہتری کے مسلسل ایک لازمی مرحلے سے گزرتا ہے۔ اس عمل میں ممکن نہیں کہ اس کی فکر اور کلام تضادات سے پاک رہ جائے۔ دنیا کے کسی عالم، مفکر، شاعر اور دانشور کو اس سے استثنا نہیں۔ مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی وہ ہے جس نے سیکھے بغیر بہترین کلام دنیا کے سامنے پیش کیا جس میں نہ ارتقا آیا اور نہ کہیں تضاد پیدا ہوا۔ یہ اس کا ثبوت ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں نہ کہ کوئی عام انسان۔

 

                ۴) ماضی کا درست اور تصحیح شدہ بیان اور مستقبل کی بالکل درست پیش گوئیاں

 

آپ نے نہ صرف اُمی ہونے کے باوجود سابقہ کتابوں اور انبیا کے واقعات کو بیان کیا بلکہ وہاں جو کچھ تاریخی اور علمی غلطیاں تھیں ان کو چھوڑ کر صرف صحیح واقعہ سنایا۔ بارہا آپ نے اہل کتاب کے پوچھنے پر ایسے تاریخی واقعات پوری جزئی تفصیلات کے ساتھ بیان کر دیے جس کا علم عرب کے کسی شخص کو تھا ہی نہیں۔ بلکہ اہل کتاب میں سے بھی چند ہی علماء ان سے واقف تھے۔ یہ علم خدا کے سوا آپ کو کوئی نہیں دے سکتا۔ یہ آ پ کے رسول اللہ ہونے کا ثبوت ہے۔

ماضی کے ساتھ آپ نے مستقبل کی بالکل درست پیش گوئیاں کیں جو جزئی تفصیلات کے ساتھ بالکل درست ثابت ہوئیں۔ یہ پیش گوئیاں جن حالات میں کی گئیں ان میں ان کا پورا ہونا عملاً ناممکن تھا۔ مگر وقت نے ان میں سے ہر ایک کو بالکل درست ثابت کیا۔ اتنی صحت کے ساتھ واقعات بلکہ اقوام کے حالات کی پیش گوئیاں کرنا سوائے نبی کے کسی اور کے لیے ممکن نہیں جو خدا کے اذن ہی سے کلام کرتا ہے۔

 

                ۵) سابقہ کتابوں کی پیش گوئیاں

 

آپ کے وجود اور زندگی میں وہ سارے حالات جمع تھے جن کی پیش گوئی پچھلے صحیفوں اور انبیا کی تعلیمات میں ملتی ہے۔ آپ سے قبل نہ صرف آپ کے آنے کی پیش گوئی کی گئی تھی بلکہ کئی نشانیاں بھی بتادی گئی تھیں۔ آپ کا وجود ان نشانیوں کے عین مطابق تھا۔ اس لیے اہل کتاب آپ کو اس طرح پہچانتے تھے جس طرح لوگ اپنی اولاد کو پہچاننے میں غلطی نہیں کرتے۔

 

                ۶) تعلیمات

 

آپ کی دعوت فطرت و اخلاق کے مسلمات، صالحین کی روایت، سابقہ مذہبی صحیفوں کی تعلیمات اورعلم و عقل کی روایت کے عین مطابق ہیں۔ نیز آپ کا کلام ہر طرح کے انسانی اضافوں اور شیاطین کے اثرات سے مکمل طور پر محفوظ ہے۔ اس پس منظر میں یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ آپ الوہی تعلیم کے آسمانی سلسلے ہی کا ایک حصہ ہیں نہ کہ اس سے جدا کوئی اجنبی۔ آ پ کی تعلیم میں کوئی ایسی چیز نہیں جسے فطرت اور اخلاق رد کریں یا علم عقل جس کے خلاف ہو۔ ڈیڑھ ہزار برس کے بعد بھی قرآن کا ایک بیان بھی علم و عقل کے مسلمات کے خلاف ثابت نہیں ہو سکا۔ یہ آپ کی خدائی نسبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

 

                ۷) رسولوں کی اقوام کا انجام

 

رسول اس دنیا میں حق کی دعوت ہی لے کر نہیں آتا بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی بتاتا ہے کہ اس دعوت کے رد و قبول کے نتائج کیا نکلیں گے۔ یہ نتائج آخرت کے حوالے سے بھی ہوتے ہیں۔ مگر دلیل رسالت کے پہلو سے یہ بات زیادہ اہم ہے کہ دعوت کے رد و قبول کے نتائج کی اس دنیا میں بھی نکلنے کی پیش گوئی نہ صرف کی جاتی ہے بلکہ لوگ اپنی آنکھوں سے ان پیش گوئیوں کو پورا ہوتا ہوا دیکھتے ہیں۔ رسول کے منکرین اس کی پیش گوئی کے عین مطابق عذاب کی زد میں آ کر ہلاک کر دیے جاتے ہیں اور ماننے والے زمین کے وارث بنا دیے جاتے ہیں۔ یہ رسول کی سچائی کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔

اب پہلے آخرت کے دلائل بیان کر کے دعوت کے دلائل کا تعارف مکمل کیا جائے گا۔ پھر دعوت دین اور اس کے رد و قبول کے نتائج اور مطالبات کے ضمن میں آنے والے ذیلی مضامین کا مختصر جائزہ پیش کیا جائے گا۔ جس کے بعد انشاء اللہ ایک ایک کر کے ان تمام مضامین کو لیا جائے گا اور قرآن مجید کے نظائر اور آیات کی مدد سے ہر مضمون کو تفصیل کے ساتھ بیان کرنے کا سلسلہ شروع ہو گا۔ تاہم جیسا کہ بیان ہوا، آج قرآن کریم کے مضامین کا اجمالی خاکہ بیان کرنے کا عمل پورا ہو جائے گا۔

 

                آخرت کے دلائل

 

رسالت کے سات دلائل کی طرح آخرت کے بھی سات دلائل قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں۔ یہ درج ذیل ہیں۔

 

                ۱)            فطرت کی دلیل

 

انسانی فطرت میں خیر و شر کا شعور، ضمیر انسانی کی سزا و جزا کا نظام شاہد ہے کہ انسان سزا و جزا کے تصور سے اچھی طرح واقف ہے اور سمجھتا ہے کہ ایک دن حتمی سزا جزا کا یوم قیامت آ کر رہے گا۔

 

                ۲)            ربوبیت کی دلیل

 

یہ دلیل توحید کے ضمن میں بھی آئی ہے۔ یہاں جو استدلال ہے اس میں آخرت کے پہلو سے صرف یہ اضافہ ہے کہ جب ربوبیت کا اہتمام کیا گیا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ ربوبیت کے آثار دیکھ کر بھی بندگی سے انکار کرنے والوں کو ان کے کیے کی سزا نہ دی جائے اور بندگی کرنے والوں کو ان کے اجر سے محروم رکھا جائے۔

 

                ۳)            مقصدیت کی دلیل

 

تصور آخرت کو ہٹا دیا جائے تو پھر اس دنیا کو بسانے کا کوئی مقصد باقی نہیں رہتا۔ خاص اس حقیقت کے مشاہدے کے بعد کہ انتہائی بامعنی اور منظم کائنات میں انسانی زندگی ہر جگہ ظلم و ناانصافی اور عدم تکمیل سے عبارت ہے۔ اگر یہ دنیا اور اس کی موت ہی انسانی زندگی کا خاتمہ ہے تو اس سے زیادہ بے مقصد اور بے معنی بات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ اس بات سے پاک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا دار الامتحان ہے اور آخرت دار الجزا۔ یہی اس دنیا کا مقصد ہے جو آخرت سے مل کر پایہ تکمیل تک پہنچاتا ہے۔

 

                ۴)            جوڑے کی دلیل

 

دنیا و آخرت کے جوڑے کے وجود کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر بامعنی چیز جوڑوں میں بنائی گئی ہے۔ مرد عورت، دن رات، زمین آسمان سب جوڑے ہیں جو خالق کا طریقہ تخلیق بتاتے ہیں۔ یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ دنیا کا جوڑا آخرت ہے۔

 

                ۵)            ترتیب و تدریج

 

جوڑے بعض اوقات ایک ساتھ موجود ہوتے ہیں جیسے مرد و عورت اور بعض اوقات ایک کے بعد ایک آتے ہیں۔ جیسے دن کے وقت رات نہیں ہوتی مگر ایک تدریجی عمل سے پہلے دن ختم ہوتا ہے اور پھر رات آتی ہے۔ یہی مثال دنیا اور آخرت کے جوڑے کی ہے۔ دنیا کے بعد آخرت اسی طرح بالیقین آئے گی جیسے دن کے بعد رات آتی اور شب کی سیاہی کے بعد صبح کی روشنی طلوع ہوتی ہے۔ کائنات میں اِس ترتیب ہی کی نہیں بلکہ اس تدریج کی بھی مثالیں ہیں جس سے گزر کر قیامت آئے گی۔ چاند کا درجہ بدرجہ ہلال سے بدر کامل بننا، شفق کا بتدریج اندھیرے میں ڈھلنا اس تدریج کی مثالیں ہیں۔ یہی یوم آخرت کی تدریجی آمد کا بدیہی نشان ہے۔

 

                ۶)            قدرت کی دلیل

 

دلیل قدرت کے کئی پہلو ہیں۔

۱)انسان کی تخلیق اول سے ثانی پر استدلال : یہ اعتراض کا جواب بھی ہے اور اپنے اندر دلیل بھی۔ کفار کا اعتراض یہ تھا کہ مردہ ہڈیوں کو کیسے زندہ کیا جائے گا۔ جواب دیا گیا کہ وہی جس نے پہلی دفعہ پیدا کیا۔ ظاہر ہے پہلی دفعہ پیدا کرنا زیادہ مشکل تھا۔ جب وہ ہو سکتا ہے تو دوبارہ بھی سب کو پیدا کیا جا سکتاہے۔

۲) زمین وآسمان کی پیدائش : زمین و آسمان کی تخلیق خدا کی اس خلاقیت کا اظہار ہے جس کی کوئی حد و حساب نہیں۔ جب اللہ تعالیٰ زمین وآسمان جیسی بڑی چیزیں پیدا کرسکتے ہیں تو وہ انسان کو دوبارہ پیدا کرنے سے کیوں عاجز رہ سکتے ہیں۔

۳) چیزوں کے عدم و ظہور اور مجازی موت کے بعد دوبارہ زندگی سے استدلال : کائنات میں ان گنت نشانیاں ہیں جو بتاتی ہیں کہ یہاں اشیا بظاہر فنا کا لبادہ اوڑھ کر نظر سے اوجھل ہوتی ہیں، مگر دیکھتے ہی دیکھتے وہ دوبارہ زندگی کے قالب میں ڈھل جاتی ہیں۔ مثلاً بارش کے بعد مردہ زمین کا جی اٹھنا اور سبزے کو اگا دینا۔ سورج کا ڈوبنا اور دوبارہ نکلنا۔ انسان کا سونا اور دوبارہ جاگنا۔ اس کے علاوہ بعض تاریخی واقعات جو انسانوں سے متعلق ہیں جیسے اصحاب کہف کا دوبارہ جی اٹھنا وغیرہ اللہ تعالیٰ کی اس قدرت کاملہ کے گواہ ہیں کہ وہ جب چاہے مردوں کو زندہ کر دئے۔

۴) نگرانی و علم : حیات بعد ممات میں حساب کتاب کے لیے جس ریکارڈ کی ضرورت ہو گی اللہ کی قدرت اس کا مستقل اہتمام کر رہی ہے۔ فرشتوں کا ریکارڈ اور ان کی نگرانی کا عمل، کراما ًکاتبین کی گواہی، نیز وجود انسانی کا مکمل ریکارڈ رکھنے کی قدرت کی بنا پر اللہ اس بات پر مکمل طور پر قادر ہیں کہ مردوں کو زندہ کر کے ان کا مکمل اور جامع احتساب کریں۔

 

                ۷)            رسولوں کی امت کی سزاجزا

 

قیامت کی سب سے بڑی دلیل رسولوں کی امتوں کی وہ سزا جزا ہے جو اسی دنیا میں برپا ہوتی ہے۔ یہ سزا جزا حضرت نوح سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک ہر اس قوم کے لیے برپا ہوئی جس میں اللہ کے رسول آئے۔ قرآن میں سابقہ امم کی دینونت یا سزا جزا کے واقعات سنا کر کفار مکہ کو تنبیہ کی گئی کہ ان کے ساتھ بھی یہ ہو کر رہے گا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ واقعہ پیش گوئیوں کے عین مطابق ہو گیا۔ اس کا مطلب ہے کہ ٹھیک اسی طرح اب قیامت کے دن وہ سزا جزا برپا ہو گی جس کی پیش گوئی قرآن میں کی گئی ہے۔

 

دعوت اور اس کے رد و قبول کے نتائج

 

دعوت کے دلائل کے بعد دوسرا بنیادی مضمون جو قرآن کریم میں زیر بحث آتا ہے وہ دعوت دین اور اس کے رد و قبول کے نتائج ہیں۔ اصولاً تو یہی قرآن کا بنیادی موضوع ہے اور یہی سب سے زیادہ تفصیل کے ساتھ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے۔ اسی لیے ہم نے اسے ترتیب میں سب سے پہلے رکھا تھا، تاہم بعض دلائل سے بالعموم لوگ واقف نہیں اور نہ اس پر بہت زیادہ کام ہوا ہے، اسی لیے ہم نے ان کو پہلے بیان کر دیا تھا۔ یہ موضوع تین ذیلی موضوعات پر مشتمل ہے:

 

۱) دین کی بنیادی دعوت

۲) دعوت کا ابلاغ

۳) دعوت کو ماننے اور رد کرنے کے نتائج

 

ہم ایک ایک کر کے اب ان پر مختصر گفتگو کریں گے اور ان کے ذیلی مضامین بیان کریں گے۔ ان پر تفصیل بحث انشاء اللہ اپنے وقت پر کی جائے گی۔

 

                ۱) دین کی بنیادی دعوت

 

دین کی بنیادی دعوت ایک اللہ پر ایمان ہے۔ یہی قرآن مجید کا سب سے اہم اور بنیادی مضمون ہے جس کے ذیلی مضامین درج ذیل ہیں۔

 

                الف) ذات

 

اس ذیل کا پہلا مضمون ذات باری تعالیٰ کا وجود، اس کا درست تصور، اس کی بندگی کی دعوت اس کی وحدانیت پر ایمان ہے۔

 

                ب) صفات

 

ذات باری تعالیٰ کے ساتھ ہر جگہ زیر بحث آنے والی چیز صفات باری تعالیٰ ہیں۔ یہی وہ اصل مقام ہے جہاں ذات حق مخلوقات سے متعلق ہوتی ہے۔ یہ صفات تین اقسام کی ہیں:

 

الف) صفات جلال

ب) صفات جمال

ج) صفات کمال

 

                ج) سنن

 

سنن میں قرآن مجید یہ بیان کرتا ہے کہ فرد اور اقوام کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی ہستی کس طرح معاملہ کرتی ہے۔ یہ معاملہ الل ٹپ نہیں ہوتا بلکہ ایک متعین قانون کے اعتبار سے ہوتا ہے۔ ان کو سنن الہی کہتے ہیں۔ ان کو اگر سمجھ لیا جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ زندگی میں ہم کیا کریں گے تو جواب میں اللہ تعالیٰ کیا کریں گے۔ یہ بات اگر سمجھ آ جائے بلاشبہ انسان فرد و  اجتماع دونوں شکلوں میں ترقی و کامرانی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔

 

                ۲) دعوت کا ابلاغ

 

یہ اس ضمن کا دوسرا اہم موضوع ہے۔ اس میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں سے مکالمہ و مخاطبت کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا ہے۔ اس ضمن میں جو مضامین زیر بحث آتے ہیں وہ درج ذیل ہیں۔

 

                ۱) منصب نبوت و رسالت

 

اس میں یہ واضح کیا جاتا ہے کہ کسی انسان کی یہ حیثیت نہیں کہ اللہ تعالیٰ اسے دعوت دینے کے لیے خود شرف مخاطبت عطا کریں۔ اس مقصد کے لیے انسانوں ہی میں سے کچھ اعلیٰ ترین شخصیات کو اللہ تعالیٰ اپنے علم و حکمت کی بنیاد پر چن لیتے ہیں اور انہیں یہ فریضہ سونپتے ہیں کہ وہ انسانوں پر اللہ تعالیٰ کا پیغام اس طرح واضح کر دیں کہ قیامت کے دن انسان یہ عذر نہ پیش کرسکیں کہ ان تک ہدایت نہیں پہنچ سکی۔ چنانچہ سابقہ انبیا کے واقعات اور خاص طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کے مخاطبین سے ہونے والا مکالمہ بہت تفصیل کے ساتھ قرآن مجید میں زیر بحث آیا ہے۔

 

                ۲) فرشتے

 

ان انبیا پر عام طور پر فرشتوں کے ذریعے سے وحی کی جاتی ہے اور یہ فرشتے ہر طرح کی شیطانی آلائش سے پاک رکھتے ہوئے اس پیغام کو اللہ کے پیغمبروں تک پہنچاتے ہیں۔ یہ فرشتے وہ کارکنان قضا و قدر بھی ہیں جو کائنات کا سارا تکوینی نظام اذن الہی سے چلا رہے ہیں۔ نیز مشرکین ان فرشتوں کو خدائی میں شریک سمجھتے تھے۔ اس بات کی تردید اور فرشتوں کا اصل کام، ان کے مکالمات اور کر دار وغیرہ تفصیل سے قرآن مجید میں زیر بحث آئے ہیں۔

 

                ۳) کلام الہی اور کتابیں

 

یہ کلام الہی صحیفوں اور کتابوں کی شکل میں باقی انسانوں کی ہدایت کے لیے محفوظ کر دیا جاتا ہے۔ تاکہ آنے والی نسلیں ان سے استفادہ کرسکیں۔ ختم نبوت کے بعد یہ کلام الہی قرآن مجید کی شکل میں تا قیامت انسانو ں کے لیے محفوظ اور ہر طرح کی تحریف سے پاک کر دیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں جا بجا تورات، زبور، انجیل اور دیگر صحائف کے حوالے اور تفصیلات زیر بحث آتی ہیں۔

 

                ۳) دعوت کو ماننے اور رد کرنے کے نتائج

 

یہ اس سزا و جزا کا بیان ہے جو انبیا کی دعوت کو رد کرنے یا ماننے کی شکل میں روز قیامت ملے گی۔ رسولوں کے ضمن میں اس کا ایک نمونہ اسی دنیا میں قائم کر دیا گیا ہے۔ ان اقوام کے قصے اسی پہلو سے قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں۔ جبکہ اپنی کامل شکل میں یہ سزا جزا کل انسانیت کے لیے روز قیامت برپا ہو گی۔ اس سے ذیلی مضامین درج ذیل ہیں جن میں سے ہر ایک پر بہت تفصیل کے ساتھ قرآن مجید میں گفتگو کی گئی ہے۔

 

ا) موت اور برزخ

۲) احوال قیامت

۳) سزا جزا کے مقامات یعنی حشر، جنت، جہنم

 

۳) مطالبات

 

یہ آخری موضوع ہے۔ اور ایک فرد کی نسبت سے یہی اہم ترین ہے۔ کیونکہ اس میں اسے بتایا جاتا ہے کہ اس سے کیا مطلوب ہے۔ اس کے ذیلی مضامین درج ذیل ہیں

 

                ۱)            اخلاقی مطالبات

 

ان کی تین اقسام ہیں

الف) اللہ تعالیٰ کے حوالے سے عائد کر دہ مطالبات

ب) سماج اور اس کے مختلف طبقات کے حوالے سے عائد کر دہ ذمہ داریاں

ج) نوع انسانی کے دو بنیادی اجزا یعنی مرد و زن کے لحاظ سے عائد مطالبات

 

                ۲)            شرعی یا قانونی مطالبات

 

یہ وہ مطالبات ہیں جن میں باقاعدہ قانون سازی کر کے وقت، دن، تعداد اور دیگر ضابطے متعین کر دیے گئے ہیں۔ اس کی دو ذیلی قسمیں ہیں۔

الف) فرد پر عائد شرعی ذمہ داریاں

ب) سماج اور ریاست پر عائد قانونی ذمہ داریاں

 

                ۳)            شخصی رویے

 

اس میں ان رویوں کا بیان ہے جن کو شریعت نے موضوع بنایا ہے نہ وہ اخلاقیات کے ذیل میں آتے ہیں۔ مگر وہ انسانی نفسیات کی تشکیل میں اس طرح حصہ لیتے ہیں کہ ان کی سمت درست نہ کی جائے تو وہ ہر طرح کا اخلاقی اور قانونی فساد برپا کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔ یہ رویے براہ راست نہیں بالواسطہ طور پر قرآن مجید میں زیر بحث آئے ہیں۔

یہ دلیل بتاتی ہے کہ اس دنیا میں انسان کے لیے جو سامان زندگی بہترین طریقے پر میسر کیے گئے ہیں وہ زبان حال سے گواہ ہیں کہ اس درجہ متنوع کائنات میں ہم آہنگی پیدا کر کے زمین سے آسمان تک انسان کی ربوبیت کا اہتمام کرنے والی ایک ہی ہستی ہے اور وہی ہے جو انسان کے جذبہ پرستش اور بندگی کی تنہا حقدار ہے۔

 

                ۲) دلیل قدرت

 

اس دنیا میں قدرت کاملہ صرف ایک ہی ہستی کو حاصل ہے جو کسی کی محتاج نہیں اور سب اس کے محتاج ہیں۔ ہر نفع و ضرر اسی کے ہاتھ میں ہے۔ اس لیے وہی مستحق عبادت ہے۔ اس کے علاوہ جن کی پوجا کی جاتی ہے وہ کوئی قدرت نہیں رکھتے۔ وہ بے جان بت ہیں، کمزور اور محتاج انسان ہیں یا پھر وہ فرشتے ہیں جو خود کوئی قدرت اور طاقت نہیں رکھتے۔

 

                ۳) دلیل فطرت

 

انسانی فطرت اندر سے گواہی دیتی ہے کہ اس کا رب ایک ہی ہے۔ ربوبیت کا یہ اقرار روز ازل سے اس کی فطرت کے اندر ودیعت کر دیا گیا ہے۔ خواہشات اور تعصبات کی بنا پر اس فطرت پر پردہ پڑ جاتا ہے، مگر مصیبت میں یہ پردہ پھٹ جاتا ہے اور انسان ہر طرف سے مایوس ہو کر ایک ہی رب کو پکارتا ہے۔ یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک خدا ہی اصل معبود ہے۔

 

                ۴) نظم کائنات کی دلیل

 

انسان جس کائنات میں کھڑا ہے وہ بالکل متضاد اور متنوع عناصر کا مرکب ہے۔مگر مشاہدہ ہے کہ زمین و آسمان، خشکی و پانی، ہوا اور آگ جیسے متضاد عناصر ملتے ہیں اور بقائے زندگی کا وہ سامان (life supporting System) فراہم کرتے ہیں جو ایک خالق کے بغیر ممکن نہیں۔ اگر ان کے خالق الگ الگ ہوتے تو اپنی مرضی سے ان متضاد عناصر کو کنٹرول کرتے اور یوں زمین میں فساد برپا ہو جاتا۔ مگر یہ دھرتی فساد سے نہیں بلکہ زندگی کے حسن سے عبارت ہے۔ یہ ایک خالق کے وجود کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔

 

                ۵) انسانی علم و روایت کی دلیل

 

انسان کا سفر توحید کی سیدھی شاہراہ سے شروع ہوا۔ انسان اس راہ سے بھٹک کر بارہا شرک کی تاریک راہوں میں نکل گیا لیکن توحید کی سیدھی راہ اپنی جگہ باقی رہی۔ ایک خدا کے سوا کتنے معبود بنے اور وہ کون تھے اس بارے میں بہت اختلاف ہے، مگر ایک خدا موجود ہے۔ یہ انسانی روایت کی وہ وراثت ہے جس میں کبھی اختلاف نہیں ہوا۔ یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ اصل تعلیم ابتدا ہی سے توحید کی تھی۔ باقی سب انحرافات تھے۔ مزید یہ کہ توحید کے حق میں تو آسمانی صحائف میں بہت کچھ پایا جاتا ہے، مگر شرک کے حق میں ان میں ایک دلیل بھی موجود نہیں ہے۔ حتیٰ کہ حضرت عیسی جنہیں سب سے زیادہ بڑے پیمانے پر اللہ کا شریک بنایا گیا ان کی تعلیم بھی شرک کے بیان سے بالکل خالی ہے۔ یہی معاملہ انفس و آفاق اور فطرت انسانی کا ہے جس میں شرک کے حق میں کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔

یہ توحید کے وہ پانچ دلائل ہیں جو قرآن پاک میں بار بار مختلف پہلوؤں سے دہرائے گئے ہیں۔ توحید کے یہ دلائل وجود باری تعالیٰ کی بھی دلیل ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں ایک جگہ براہ راست وجود باری تعالیٰ کی بھی دلیل دی گئی ہے۔ اسے ہم توجیہ کی دلیل کہہ سکتے ہیں۔

 

توجیہہ کی دلیل

 

اس دلیل کا استدلال یہ ہے کہ کائنات کی ہر شے اپنی توجیہ چاہتی ہے۔ مگر خود اس کائنات کی کوئی توجیہہ انسان آج تک نہیں پیش کرسکا۔ کائنات کی واحد توجیہہ اللہ تعالیٰ کی اپنی ذات والا صفات ہے جس کے نور سے دیکھا جائے تو آسمان و زمین کی ہر شے اپنے ٹھکانے پر نظر آئے گی۔ اس نور سے محروم ہونے کے بعد شرک کا سراب باقی رہ جاتا ہے یا پھر الحاد کا تہہ در تہہ اندھیرا۔ جس کے بعد کوئی روشنی ممکن نہیں۔

قرآن مجید کے مضامین کا اجمالی خاکے کی تفصیلات کو بیان کرنے کے بعد اب ہم ایک ایک مضمون کو تفصیل کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔اجمالی خاکہ بیان کرنے سے ہمارا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کے سامنے وہ ربط نمایاں ہو ن

ر دے :وت و رسالت :کر سامنے آ جائے جو قرآن مجید میں بیان کر دہ موضوعات میں پایا جاتا ہے۔اس اجمالی خاکے میں ہم نے دیکھا تھا کہ قرآن مجید کے بنیادی موضوعات صرف تین ہی ہیں۔ یعنی

۱) دعوت دین اور اس کے رد و قبول کے نتائج

۲) دعوت کے دلائل

۳) مطالبات

ان کے ذیل میں آنے والے بنیادی مضامین کی تعداد تقریباً تین درجن ہے۔ قرآن مجید کم و بیش انہی موضوعات پر کلام کرتا ہے۔ ایک طالب علم اگر ان موضوعات کو سمجھ لے تو قرآن کریم کا مدعا سمجھنے میں نہ صرف بڑی سہولت رہتی ہے بلکہ فکرو تدبر اور  ہدایت و نصیحت کے پہلو سے بھی انسان کے لیے قرآن مجید سے نفع اٹھانا بڑا آسا ن ہو جاتا ہے۔ ان ذیلی موضوعات کی تفصیل کرتے وقت ہمارا طریقہ یہ ہو گا کہ ہم ہر مضمون میں بیان کی گئی حقیقت کو واضح کرنے کی کوشش کریں۔ ا س مقصد کے لیے قرآن مجید کے بیانات کی روشنی میں یہ بیان کیا جائے گا کہ وہ کیا پیغام ہے جو انسانیت کو دیا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ کوشش کی جائے گی کہ بنیادی موضوعات سے ربط کو واضح رکھا جائے۔ اب اللہ کا نام لے کر ہم اس کام کا آغاز دلائل قرآن سے کرتے ہیں۔

 

وجود باری تعالیٰ کے دلائل

 

قرآن کریم کی بنیادی دعوت عبادت رب کی دعوت ہے۔ اس حوالے سے اہم مسئلہ جو قرآن مجید میں زیر بحث آیا وہ توحید باری تعالیٰ  اور ایک اللہ کی عبادت تھی۔ انسان کی پوری تاریخ میں اصل اور بنیادی مسئلہ شرک رہا ہے۔ وجود باری تعالیٰ کو منوانے کی ضرورت اس لیے پیش نہیں آئی کہ ہر دور کے انسان، چند مستثنیات کو چھوڑ کر، اللہ تعالیٰ کے وجود کو مانتے رہے ہیں۔ تاہم انسیویں صدی میں ایک وقت آیا تھا جب بعض نامکمل سائنسی دریافتوں کی بنا پر انسانیت کو یہ غلط فہمی لاحق ہو گئی تھی کہ مادہ آخری حقیقت ہے اور جو چیز حواس انسانی کی گرفت میں نہ آ سکتی ہو، بلاواسطہ قابل مشاہدہ نہ ہو یا تجرباتی طور پر قابل تصدیق نہ ہو وہ موجود ہی نہیں ہو سکتی۔ تاہم بیسویں صدی میں خود سائنسی دریافتوں ہی نے اس غلط فہمی کو رفع کر دیا۔ گرچہ آج بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو خدا کے وجود کی قائل نہیں، مگر اس کی وجہ کوئی علمی یا عقلی دلیل نہیں بلکہ خارجی طور پر اہل مذہب کے بعض رویوں کے خلاف رد عمل یا پھر داخلی طور پر بعض نفسیاتی مسائل ہیں جو انسانی زندگی کی محرومیوں، اس کی محدودیت اور ناتمامی کو دیکھ کر جنم لیتے ہیں۔

یہی سبب ہے کہ قرآن مجید نے براہ راست وجود باری تعالیٰ کے ثبوت پر تفصیلی کلام نہیں۔ گرچہ ایک دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ توحید، رسالت اور آخرت کے حوالے سے دی جانے والی ہر دلیل درحقیقت بالواسطہ طور پر وجود باری تعالیٰ ہی کی دلیل ہے۔ یعنی اگر ثابت ہو جائے کہ معبود ایک ہے، وہ نبی اور رسول بھیجتا ہے اور اور ایک روز وہ یوم آخرت قائم کرے گا تو اس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ اس کائنات کا کوئی نہ کوئی خالق بھی ہے۔ کیونکہ یہی خالق، معبود برحق، رسولوں کا بھیجنے والا اور ایک روز انسانیت کا حساب کتاب کرنے والا بھی ہے۔  تاہم اس حقیقت کے باوجود قرآن مجید نے دو اعتبارات سے اجمالی طور پر وجود باری تعالیٰ کا بالواسطہ اثبات کیا ہے۔ ایک انسان کی روحانی اساس کے پہلو سے اور دوسری کائنات کی عقلیہ توجیہ کے لحاظ سے۔

 

                ۱) انسان کا روحانی پہلو اور تاریخی تسلسل

 

انسان کے نفسیاتی وجود کی ساخت میں یہ چیز اساسی طور پر شامل ہے کہ وہ مادی، جبلی اور حیوانی تقاضوں سے بلند تر ہو کر ان لطیف احساسات کو اپنے اندر محسوس کرے جن کی کوئی توجیہ اس کی حیوانی جبلت اور عقلی استعداد کی روشنی میں نہیں کی جا سکتی۔ ان میں سب سے اہم اور بنیادی جذبہ کسی برتر ہستی کے سامنے جھکنے، اس کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے، ہر کرم و احسان کو اس کی عطا ماننے اور اس کا شکریہ ادا کرنے، اس کے غضب سے بچنے اور ہر مشکل میں اسے پکارنے کا ہے۔ قرآن مجید کے مطابق یہ احساسات تخلیق کے وقت نفخ روح اور تسویہ کے عمل کے دوران انسانی فطرت میں ودیعت کیے گئے اور اس دنیا میں آنے سے قبل ایک باقاعدہ عہد و پیمان کی شکل میں خالق کائنات نے باقاعدہ اپنا تعارف کرا کے انسانوں کو اس دنیا میں بھیجا۔ اس مخصوص واقعہ کا نقش گرچہ امتحان کی غرض سے ذہن انسانی سے محو کر دیا گیا، مگر اس کی فطرت پر روحانیت کی یہ تحریر اتنی واضح ہے کہ فلسفہ، تشکیک اور الحاد کی گرد اس تحریر کو کتنا ہی دھندلا دے، انسان اسے ہمیشہ اپنے اندر کی صدا ہی سمجھتے رہے ہیں۔

پھر یہی نہیں بلکہ موجودہ شکل میں انسان کی تخلیق کرتے وقت ابتدائی دو انسانوں یعنی آدم و حوا کو باقاعدہ ان کے رب سے متعارف کروا کر اس دنیا میں بھیجا گیا۔ حضرت آدم کو مخاطبت کا شرف عطا کر کے منصب نبوت پر فائز کیا گیا۔ چنانچہ انہوں نے یہ تصور رب باقاعدہ اپنی اولاد کو منتقل کیا۔ اور ان کی اولاد بھی اپنے مشاہدات کی بنیاد پر ابتدا ہی سے اپنے خالق سے واقف رہی ہے۔ یوں داخل ہی کی نہیں بلکہ خارج کی شہادت بھی روز ازل سے انسان کو اس کے رب کا تصور دیتی رہی ہے اور شیطان کی تمام تر در اندازی کے باوجود لوگ اس رب کے ساتھ شریک بنانے پر تو آمادہ ہو گئے، لیکن اس کے وجود کے انکار کی روایت انسانیت میں کم ہی جڑ پکڑ سکی ہے۔

 

                قرآن مجید کے بیانات

 

جیسا کہ ہم نے عرض کیا وجود باری تعالیٰ کا اثبات چونکہ قرآن مجید کا براہ راست موضوع نہیں ہے۔ اس لیے استدلال بھی بالواسطہ ہی ہے۔ اس بنا پر اس میں ایک نوعیت کا ایجاز و اجمال پایا جاتا ہے۔ لیکن جیسے ہی قرآن مجید کے بیانات کو انسانی فطرت کے آئینے اور انسانی دنیا کے حقائق کے سامنے رکھ کر دیکھا جاتا ہے، بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے۔ یہی معاملہ انسان کی روحانی اساس کا بھی ہے۔

قرآن مجید نے انسانی تخلیق کے مدارج کو کئی مقامات پر موضوع بحث بنایا ہے۔ مثلاً ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

’’جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں۔ جب اس کو درست کر لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو اس کے آگے سجدے میں گر پڑ نا۔ ‘‘، (ص72-71:38)

اس بات کی مزید تفصیل اس طرح کی گئی ہے۔

’’اور جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں کھنکھناتے سڑے ہوئے گارے سے ایک بشر بنانے والا ہوں۔ جب اس کو درست کر لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو اس کے آگے سجدے میں گر پڑنا۔‘‘، (الحجر29:15)

ان دونوں آیات میں انسان کے مادی وجود کے حیوانی قالب میں تسویے (درست کرنے) کے بعد نفخ روح یعنی رو ح پھونکنے کے عمل کا بیان ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ امور مشابہات میں سے ہے جس کی حقیقت ہم مکمل طور پر نہیں سمجھ سکتے۔  مگر جب یہی بات سورہ شمس میں بیان کی گئی تو وہاں تسویے کے بعد نفخ روح کی جگہ الہام کا لفظ لا کر یہ واضح کر دیا گیا کہ انسان کا حیوانی وجود مختلف مراحل سے گزر کر جب درجہ کمال کو پہنچ گیا تو پھر انسان پر ایک خاص نوعیت کا الہام کیا گیا جس سے انسان کو نیکی و بدی کا و ہ شعور ملا جس کی اساس سرتا سر اخلاقی تھی۔ سورہ سجدہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسی ا لہام کے نتیجے میں انسان کو اپنی ذات کا شعور اور عقل و فہم کی وہ صلاحیت بھی عطا ہوئی جو اسے حیوانوں سے ممتاز کرتی ہے۔ ان دونوں آیات کا ترجمہ درج ذیل ہے۔

’’اور انسان کی پیدائش کو مٹی سے شروع کیا۔ پھر اس کی نسل حقیر پانی کے خلاصے سے چلائی۔ پھر اُس کو درست کیا۔ پھر اس میں اپنی روح پھونکی اور تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے مگر تم بہت کم شکر کرتے ہو۔‘‘، (السجدہ9:32)

اس آیت میں نفخ روح سے قبل انسان کا ذکر غائب کے صیغے میں ہو رہا تھا، مگر اس کے بعد فوراً انسان کو مخاطب کر کے عقل و فہم کی صلاحیتوں کے عطا کیے جانے کا ذکر ہے۔ یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ نفخ روح کے بعد ہی انسان کو اپنی ہستی کا ادراک ہوا اور اسی کے نتیجے میں انسان کو کان، آنکھ اور دل یعنی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت عطا ہوئی۔

انسان میں اپنی ذات کے شعور اور عقل و فہم کی صلاحیت کے ساتھ خیر و شرکا شعور بھی اسی نفخ روح کا نتیجہ ہے۔ جیسا کہ سورہ شمس  میں اللہ تعالیٰ  نے تسویے کے ذکر کے بعد میں نفخ روح کی جگہ الہام کے عمل کو بیان کر کے اس کی وضاحت کر دی ہے۔

’’قسم ہے نفس انسانی کی اور جیسا کہ اسے ٹھیک بنایا۔ پھر اس کی بدی اور تقویٰ اسے الہام کیا، کامیاب ہوا وہ جس نے اس نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا جس نے اسے آلودہ کر دیا۔‘‘ ، (الشمس91:7۔10)

یہی وہ اخلاقی شعور ہے جو مثال کے طور پر انسان کواس پر آمادہ کرتا ہے کہ وہ اپنے بوڑھے والدین کی ذمہ داری اس وقت اٹھائے جب ایسا کرنے میں اسے کوئی مادی نفع حاصل ہوتا ہو نہ کسی جبلت کی تسکین ہوتی ہو۔ ’’نفخ روح‘‘ کا عمل انسان میں احساس ذات، عقل و فہم کی صلاحیت اور اخلاقی شعور کے علاوہ ایک روحانی حس بھی پیدا کرتا ہے جس کی تسکین بندگی کے سوا ممکن نہیں۔ قرآن کریم نے ان تینوں مقامات (سورہ سجدہ، ص، حجر) پر انسا ن کی اس روحانی اساس کو ’’اپنی روح‘‘ کے الفاظ لا کر واضح کیا ہے۔ روح کی حقیقت جو بھی ہو مگر اسے اللہ تعالیٰ  کی طرف نسبت دینے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ انسان کے مادی قالب میں جو روح پھونکی گئی، وہ جس کی طرف سے آئی ہے ا س کی طرف ایسے ہی لپکتی ہے جیسے بچی ماں کی طرف۔ یہ انسان میں ایک ایسا روحانی طلب پیدا کرتی ہے جس کی تسکین کسی مادی ذریعے سے ممکن نہیں۔ اسی کی بنا پر انسان کا مادی وجود اور حیوانی قالب؛ مادیت سے بلند ایک روحانی ہستی کے شعور سے کبھی خالی نہیں رہتا۔

قرآن کریم یہی واضح نہیں کرتا کہ روحانیت انسان کی اجزائے ترکیبی کا ایک لازمی حصہ ہے وہ انسان کو یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ یہ اس کے لاشعور کا بھی حصہ ہے۔ اس حقیقت کو قرآن مجید اس طرح بیان کرتا ہے۔

’’اور یاد کرو، جب تمھارے پروردگار نے بنی آدم کی پشتوں سے اُن کی اولاد کو نکالا اور اُنھیں خود اُن کے اوپر گواہ بنا کر پوچھا: کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟ اُنھوں نے جواب دیا: ضرور، آپ ہی ہمارے رب ہیں، ہم اِس پر گواہی دیتے ہیں۔ یہ ہم نے اِس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے دن یہ نہ کہہ دو کہ ہم تو اِس سے بے خبر ہی تھے یا اپنا عذر پیش کرو کہ شرک کی ابتدا تو ہمارے باپ دادا نے پہلے سے کر رکھی تھی اور ہم بعد کو اُن کی اولاد ہوئے ہیں، پھر آپ کیا اِن غلط کاروں کے عمل کی پاداش میں ہمیں ہلاک کریں گے؟ ہم اِسی طرح اپنی آیتوں کی تفصیل کرتے ہیں، (اِس لیے کہ لوگوں پر حجت قائم ہو) اور اِس لیے کہ وہ رجوع کریں۔‘‘  (الاعراف7:172۔174)

یہ بات بالبداہت واضح ہے کہ اس دنیا میں انسانوں کو بھیجتے وقت اس خاص واقعہ کا شعور انسانی یادداشت سے اسی طرح مٹا دیا گیا ہے جس طرح مثال کے طور پر شیر خوارگی کے عمر کے بیشتر یا تمام واقعات انسان کو یاد نہیں رہتے۔ مگر اس کے شعور کی تشکیل میں یہ واقعات بڑ ا کر دار ادا کرتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح ماضی کا یہ عظیم واقعہ انانیت کے لاشعور کا لازمی حصہ ہے جسے گرچہ انسان بھولا ہوا ہے، مگر اس کی روحانی شخصیت کی صورت گری میں اس واقعہ کا بھی بہت اہم حصہ ہے۔ نفخ روح کے ساتھ یہ واقعہ بھی خالق کی ذات کا شعوراس کے اندر اس طرح پیوست کر دیتا ہے جب تک انسان ارادی طور پر یہ طے نہ کر لے کہ اسے ساری زندگی خدا کا نام لینا ہی نہیں، اس کی فطرت خدا کی طرف لپکتی رہتی ہے۔

انسان کے اجزائے ترکیبی اور لاشعور کی تشکیل کے ساتھ وجود باری تعالیٰ  کو انسانی تاریخ کے آغاز میں میں ایک محسوس اور معلوم واقعے کے طور پر متعارف کرانے کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ قرآن میں یہ بات کئی مقامات پر واقعہ آدم و ابلیس کے حوالے سے بیان ہوئی ہے۔ جس سے واضح ہے کہ اس دنیا میں مادی قالب میں بھیجتے وقت انسان کو اس کی فطرت اور لاشعور ہی  پر نہیں چھوڑا گیا بلکہ انسانوں کے جد امجد حضرت آدم اور حضرت حوا کو اللہ تعالیٰ  کی ہستی کا مکمل شعور دے کر اس دنیا میں بھیجا گیا۔

’’اور وہ واقعہ بھی اِنھیں سناؤ، جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو وہ سجدہ ریز ہو گئے، لیکن ابلیس نہیں مانا۔ اُس نے انکار کیا اور اکڑ بیٹھا اور اِس طرح منکروں میں شامل ہوا۔ اور ہم نے آدم سے کہا: تم اور تمھاری بیوی، دونوں اِس باغ میں رہو اور اِس میں سے جہاں سے چا ہو، فراغت کے ساتھ کھاؤ۔ ہاں، البتہ تم دونوں اِس درخت کے پاس نہ جانا ورنہ ظالم قرار پاؤ گے۔ پھر شیطان نے اُن کو وہاں سے پھسلا دیا اور جس حالت میں وہ تھے، اُس سے اُنھیں نکلوا کر چھوڑا۔ اور ہم نے کہا: (یہاں سے) اتر جاؤ، اب تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمھیں ایک خاص وقت تک زمین پر ٹھیرنا ہے اور وہیں گزر بسر کرنی ہے۔ پھر آدم  نے اپنے پروردگار سے (توبہ کے) چند الفاظ سیکھ لیے (اور اُن کے ذریعے سے توبہ کی)  تو اُس کی توبہ اُس نے قبول کر لی۔ بے شک، وہ بڑا معاف فرمانے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔‘‘ ، (البقرہ2:34۔37)

یہی شعور بعد میں اولاد آدم میں جاری رہا۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اولاد آدم کے ابتدائی لوگ اللہ تعالیٰ کے وجود اور نیکی بدی کے اس تصور سے پوری طرح آگاہ تھے جو فطرت میں الہام کیا گیا اورجس کی تعلیم حضرت آدم نے دی تھی۔

’’اور اِنھیں آدم کے دو بیٹوں کی سرگزشت بھی ٹھیک ٹھیک سنا دو، جب اُن دونوں نے قربانی پیش کی تو اُن میں سے ایک کی قربانی قبول کی گئی اور دوسرے کی قبول نہیں کی گئی۔ اُس نے کہا: میں تجھے مار ڈالوں گا۔ اُس نے جواب دیا: اللہ تو صرف اپنے پرہیزگار بندوں کی قربانی قبول کرتا ہے۔ اگر تم مجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ اٹھاؤ گے تو میں تمھارے قتل کے لیے ہاتھ اٹھانے والا نہیں ہوں۔ میں اللہ رب العٰلمین سے ڈرتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ میرا اور اپنا گناہ تم ہی سمیٹ لو اور دوزخی بن کر رہو اور یہی ظالموں کی سزا ہے۔ بالآخر اُس کے نفس نے اُسے بھائی کے قتل پر آمادہ کر لیا اور وہ (اُسے مار کر) نامرادوں میں شامل ہو گیا۔‘‘، (المائدہ5: 27۔30)

قرآن کریم بالکل واضح ہے کہ ایک زمانے تک لوگ ان تصورات میں ایک ہی جگہ کھڑ ے ہوئے تھے اور اختلاف بعد میں پیدا ہوا جسے رفع کرنے انبیا آتے رہے (البقرہ213:2)۔

اس ساری تفصیل سے یہ بات واضح ہے کہ انسان کی روحانی اساس، شخصیت انسانی کی تشکیل کرنے والا لاشعور، اس کی فطرت کا الہام، اس کے ابتدائی اجداد کے براہ راست مشاہدات سے قائم ہونے والی انسانی تاریخ کی روایت،  سب مل کر وجود باری تعالیٰ  کی اس طرح شہادت دیتی ہیں کہ انسان کبھی اس تصور سے ہٹ کر زندگی نہیں گزارسکتا۔ البتہ یہ بات واضح رہے کہ انسان اس دنیا میں ایک حیوانی قالب میں بھیجا گیا ہے۔ اس کی زندگی و نسل کو برقرار رکھنے کے لیے یہ خصوصی اہتمام کیا گیا ہے کہ مادی اور اور جبلی تقاضے ہمیشہ بہت شدید ہوتے اور فوری اپنا تقاضا چاہتے ہیں۔ مثلاً بھوک و پیاس فوری اپنی تسکین کا تقاضہ کرتی ہے۔ جنس کی جبلت صنف مخالف کے قرب کا شدید تقاضہ کرتی ہے،  خوف کی جبلت اپنے تحفظ کے لیے انسان کو فوراً متحرک کر دیتی ہے۔ یہ سب نہ ہوں تو انسان کا مادی وجود بقا کی جدوجہد میں حصہ نہیں لے سکے گا۔ اس لیے انسان پر بالعموم مادی تقاضوں کا غلبہ رہتا ہے۔ مگرانسانی تاریخ میں پائی جانے والی مذہب کی مستقل روایت، مراسم عبودیت اورپرستش کی کثرت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اگر فطرت انسانی ایک برتر ہستی کے سامنے جھک جانے کے تصور کی تصویب و تائید اپنے اندر سے نہ پاتی تو کبھی اس طرح ان چیزوں کو قبول عام حاصل نہ ہوتا۔ مادیت کا سیلاب، مفادات کی دوڑ، خواہش کی یلغار بندگی کی اس عظیم انسانی رویت کو کب کا خس و خاشاک میں ملا چکی ہوتی۔ مگرسب سے بڑھ کر حیرت انگیز بات انسانی تاریخ کا یہ سبق ہے کہ خواہش تو دور کی بات ہے مذہب اور نظریے کے نام پر بھی اگر تصور خدا کو مٹانے کی کوشش کی گئی تو اس کے بالکل الٹے نتائج نکلے ہیں۔ مثلاً جب بدھ مت نے مذہب کے نام پر خدا کی روایت کو ختم کرنا چاہے تو گوتم بدھ کے پیروکاروں نے اسی کو معبود بنا ڈالا اور جب کمیونزم نے نظریہ کی بنیاد پر خدا کے تصور کو ماضی کا قصہ قرار دیا تو انسانیت نے خود کمیونزم ہی کو ماضی کے قبرستان میں دفن کر ڈالا۔ اس سے بڑھ کر اس بات کا ثبوت کیا ہو گا کہ خدا کا تصور خارج کی ٹھونسی ہوئی چیز نہیں بلکہ انسان کی فطرت کی آواز ہے جو وقتی طور پر دبائی جا سکتی ہے، ختم نہیں کی جا سکتی۔

 

                سابقہ دلیل کا خلاصہ

 

ہم قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے وجود کے حوالے سے بیان ہونے والے دلائل کا جائزہ لے رہے ہیں۔ پہلی دلیل جسے ہم نے تفصیل سے دیکھا تھا ہم نے اسے انسان کا روحانی پہلو اور تاریخی تسلسل کا عنوان دیا تھا۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وجود گرچہ مادی حواس کی گرفت میں نہیں آ سکتا۔ مگر ایسا نہیں کہ خدا کا تصور انسان کے لیے ایک اجنبی اور نامانوس تصور ہے جسے زبردستی اس پر ٹھونسے کی کوشش کی جاتی ہے۔ انسان اپنی اندرونی ساخت میں چار ایسی چیزیں پاتا ہے جس کے نتیجے میں ایک عام انسان باآسانی خدا کی ہستی کا ادراک کر لیتا ہے۔

۱) انسان اپنی ہستی کا ایک بھرپور شعور رکھتا ہے۔ وہ اندازہ کرسکتا ہے کہ ایک ایسی ہی برتر ہستی کا کائنات کا خالق ہونا ممکن ہی نہیں عین فطری ہے۔

۲) انسان عقل و شعور رکھتا ہے۔ یہ عقل و شعور اسے یہ استعداد دیتی ہے کہ وہ انفس و آفاق میں پھیلی ہوئی نشانیوں پر غور کر کے یہ سمجھ لے یہ کارخانہ عالم بخت و اتفاق کی کارستانی نہیں بلکہ ایک خالق کی تخلیق ہے۔

۳) انسان خیر و شر کا اخلاقی شعور رکھتا ہے۔ یہ شعور اسے بتاتا ہے کہ فزیکل لاز پر مبنی کائنات میں انسان کی شکل میں اخلاقی شعور کی موجودگی کسی ایسی ہستی کی طرف ہی سے ممکن ہے جو خود اخلاقی شعور رکھتا ہو۔ دوسری صورت میں یہ اخلاقی شعور ایک مادی کائنات میں اپنے وجود کی کوئی اساس نہیں رکھتا۔

۴) انسان اپنے اندر ایک روحانی پیاس محسوس کرتا ہے۔ جس طرح پانی ایک خارجی حقیقت کے طور پر مادی پیاس کا جواب ہے اسی طرح روحانی پیاس کا جواب خدا کا تصور ہے اور یہ تصور جب انسان کو مل جاتا ہے تو انسان وہی طمانیت محسوس کرتا ہے جو پیاسے کو پانی پی کر ملتی ہے۔

انسان میں یہ سارے پہلو چونکہ قران کے مطابق ’’نفخ روح‘‘ کے عمل کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں اس لیے ہم نے اسے انسان کا روحانی پہلو کا نام دیا تھا۔ اس اندرونی تائید کے ساتھ خارج میں خدا کا وجود ابتداء ہی سے انسانی تاریخ کا حصہ رہا ہے۔ اس دنیا میں آنے سے قبل براہ راست اور اس دنیا میں آنے کے بعد مسلسل انبیا اور ان کے معجزات کے ذریعے سے انسان عالم کے پروردگار کی ہستی سے واقف رہے ہیں۔ یہ سب چیزیں مل کر خدا کے وجود کو انسانوں کے لیے ایک معقول اور مانوس وجود بناتی ہیں چاہے اس دنیا میں کسی انسان نے اسے دیکھا ہے نہ چھوا ہے۔ اسی کو ہم نے انسان کا روحانی پہلو اور تاریخی تسلسل کا نام دیا تھا۔

 

                ۲) توجیہ کی دلیل

 

اللہ تعالیٰ کے وجود کی دوسری دلیل توجیہ کی دلیل ہے۔ یہ دلیل دراصل پہلی دلیل پر کھڑی ہے جسے پیچھے ہم نے انسان کا روحانی پہلو اور تاریخی تسلسل کا نام دیا تھا۔ اس دلیل کی روشنی میں ہم نے ثابت کیا تھا کہ انسان ایک روحانی،  اخلاقی اور عقلی وجود ہے۔ توجیہ کی دلیل اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ یہ انسان کسی خلا میں نہیں جی رہا بلکہ ایک جیتی جاگتی ، زندہ، فعال، متحرک، منظم، مرتب اور با مقصد دنیا میں کھڑا ہے۔ یہاں بھوک اور پیاس جیسی ضروریات ہیں تو پانی اور خوراک کی شکل میں اس کا مکمل جواب ہے۔ جنسی خواہش ہے تو اس کا جواب موجود ہے۔ ذوق جمال کی طلب ہے تو حسن و کمال کی بہاریں بھی جلوہ فرما ہیں۔ جذبات محبت کا تلاطم ہے تو رشتے ناطے کی وہ ناؤ بھی ہے جو زندگی کا سفر ممکن بناتی ہے۔ غرض یہ دنیا کی زندگی ایک، فعال، متحرک اور ممتا بھری ماں کی طرح انسان کی خدمت پر مامور ہے۔

انسان کے اندر جو کچھ طلب ہے یہ کائنات نہ صرف اس کا بھرپور اور مکمل جواب دے رہی ہے بلکہ انتہائی با مقصد طور پر جواب دے رہی ہے۔ مثلاً جنسی جذبہ ایک شدید ترین خواہش ہے۔ مگر اس کے ساتھ زندگی کے تسلسل کا وہ بوجھ بھی لاد دیا گیا ہے جسے اٹھانا بہت مشکل ہے ، مگر جنسی خواہش ہر شخص کو یہ بوجھ اٹھانے پر مجبور کر دیتی ہے۔ انسانی خوراک لذتِ کام و دہن کا سامان ہی نہیں جسم و جان کو طاقت و توانائی کا وہ خزانہ بھی عطا کرتی ہے جس کے بغیر زندگی ایک دن بھی اپنا سفر جاری نہ رکھ سکے۔

زندگی کی فعالیت اور مقصدیت سے بھرپور جس کائنات کا انسان حصہ ہے وہ الل ٹپ اصولوں پر نہیں کھڑی بلکہ ہر جگہ ایک انتہائی منظم اور مرتب مشین کی طرح لگاتار کام کیے جا رہی ہے۔ یہ نظم اور یہ ترتیب اتنا حیرت انگیز ہے کہ انسانی عقل اس کو کسی اتفاق کی کارفرمائی ماننے کے لیے ایک لمحے کے لیے بھی تیار نہیں ہو سکتی۔ عقل اور شعور دونوں کا تقاضہ ہے کہ انھیں یہ بتایا جائے کہ یہ انتہائی حیرت کدہ کس نے تخلیق کیا ہے اور کون اسے چلا رہا ہے۔ پہلی دلیل ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بنیادی سوال کا جواب دے کر انسان کو اس دنیا میں بھیجا تھا، مگر وقت کے ساتھ توہمات کی گرد نے حقیقت کو اس طرح ڈھانپ دیا کہ سچ کی روشنی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ پھر انسان نے خود اپنے طور پر جب کبھی اس سوال کا جواب جاننے کی کوشش کی تو اس کے حصے میں سوائے اندھیروں کے کچھ نہیں آیا۔ انسان کی روحانی پیاس اسے مجبور کرتی رہی کہ وہ روحانیت کے چشمہ صافی سے خود کو سیراب کرے ، مگر ہر دفعہ وہ توہمات کو روحانیت سمجھ کر شرک و اوہام کے سرابوں کے پیچھے بھاگتا رہا۔ حالانکہ حقیقت ایک روشنی کی طرح پوری کائنات میں بکھری ہوئی تھی۔ پیغمبر انسانوں کو یہ سمجھاتے رہے کہ روشنی کو دیکھنے کی کوشش کرنے کے بجائے روشنی میں حقیقت کو دیکھنا سیکھو۔ خدا کو دیکھنے کی کوشش کرنے کے بجائے نور خدا سے کائنات کو دیکھو گے تو ہر جگہ اس کی قدرت، ربوبیت کی نشانیوں اور اپنی فطرت میں اس کی زندہ تصویر پاؤ گے۔ یہی وہ بات ہے جسے سورہ نور میں اس طرح بیا ن کیا گیا ہے۔

’ اللہ ہی زمین وآسمان کا نور ہے۔ اُس کے نور کی مثال ایسی ہے ، جیسے ایک طاق ہو جس میں چراغ رکھا ہوا ہو، چراغ ایک فانوس میں ہو، فانوس ایسا ہو جیسے ایک چمکتا ہوا تارا۔ یہ چراغ زیتون کے ایسے شاداب درخت کے روغن سے جلایا جاتا ہو جو نہ شرقی ہو نہ غربی۔ اُس کا روغن آگ کے چھوئے بغیر ہی بھڑکا پڑتا ہو۔ روشنی پر روشنی! اللہ اپنے نور کی طرف جس کی چاہتا ہے رہنمائی فرماتا ہے۔ (یہ ایک تمثیل ہے ) اور اللہ یہ تمثیلیں لوگوں (کی رہنمائی) کے لیے بیان کرتا ہے۔ (وہ ہر ایک سے وہی معاملہ کرتا ہے جس کا وہ سزاوار ہے ) اور اللہ ہر چیز سے واقف ہے۔‘‘(النور40:24)

 

                اللہ آسمان و زمین کا نور ہے

 

اس آیت میں اصل دلیل ایک سادہ سے جملہ یعنی ’’ اللہ آسمان و زمین کا نور ہے ‘‘ ہے۔ یہ جملہ اپنے اندر ایک جہانِ معانی پوشیدہ رکھتا ہے۔ تاہم ان معانی کی وضاحت سے قبل یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اس میں اللہ کو نور یا روشنی سے تشبیہ نہیں دی جا رہی۔ اللہ تعالیٰ ہر تشبیہ و تمثیل سے بلند ہیں۔ وہ خود کہتے ہیں لیس کمثلہ شیئا یعنی ان جیسا کوئی نہیں۔ یہاں روشنی کا ذکر صرف اس حقیقت کو سمجھانے کے لیے استعما ل کیا گیا ہے کہ ایک انسان اپنی نگاہ سے روشنی کو نہیں دیکھ سکتا مگر روشنی وہ مظہر ہے جس کے ذریعے سے ہر چیز بالکل صاف اور جیسی وہ ہے اور جہاں ہے نظر آ جاتی ہے۔ ٹھیک یہی معاملہ اللہ تعالیٰ کا ہے وہ خود نظر نہیں آتے نہ حواس ان کو گرفت میں لے سکتے ہیں ، مگر ان کو ماننے کے بعد زمین و آسمان کی ہر چیز اپنی جگہ پر نظر آنے لگتی ہے۔ یعنی یہاں مراد ایمان کی روشنی ہے کہ اللہ کو ماننے کے بعد کائنات کے ہر مظہر اور یہاں رونما ہونے والے ہر واقعے کی ٹھیک توجیہ ہو جاتی ہے۔ اس کی تفصیل درج ذیل ہے۔

 

                ۱)تخلیق و بقا کا سلسلہ

 

اس دنیا میں انسان کا سب سے بڑا مشاہدہ یہ ہے کہ یہاں ہر آن تخلیق کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ  دھرتی گویا زندگی پیدا کرنے کا ایک کارخانہ ہے جہاں ہر شے یا تو تخلیقی عمل سے گزر رہی ہے یا پھر اس میں بالواسطہ طور شامل ہے۔ مگر یہاں ہر شے اپنے وجود سے یہ گواہی دیتی ہے کہ یہ نہ خود وجود میں آ سکتی ہے نہ خود باقی رہ سکتی ہے۔ ہر شے اپنے وجود کے لیے کسی دوسرے وجود کی محتاج ہے۔ مثلاً ایک بچہ اپنے وجود کے لیے ماں باپ کا محتاج ہے۔ وجود میں آنے کے بعد زندگی کی بقا کے لیے بھی وہ ماں باپ یا ان کی غیر موجودگی میں کسی اور ایسی ہی طاقتور پناہ کا محتاج ہوتا ہے جو اس کی زندگی برقرار رکھ سکے۔ یہ ایک بچے کا نہیں زمین و آسمان کی ہر شے کا معاملہ ہے۔ عقل کہتی ہے کہ کوئی نہ کوئی ہستی ہونی چاہیے جو پیدا بھی کرے اور بقا کی ضمانت بھی فراہم کرے۔ انسان اپنی عقل سے آج کے دن تک کسی ہستی کو نہیں تلاش کرسکا جو یہ کام کر رہی ہو۔ مگر یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے۔ چنانچہ یہی وہ بنیادی سوال ہے جس کا جواب قرآن کریم میں جگہ جگہ بیان کیا گیا ہے۔ اختصار کے پیش نظر ہم صرف ایک مثال دے رہے ہیں۔

اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے اور وہی ہر چیز پر نگہبان ہے ، (الزمر62:39)

یہی بات ایک سوال کی شکل میں یوں کہی گئی۔

’’کیا یہ بغیر کسی خالق ہی کے پیدا ہو گئے ہیں یا پھر یہ خود ہی خالق ہیں۔ کیا انہی نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے۔ بلکہ یہ یقین نہیں رکھتے۔‘‘، (سوره طور  52: 35-36)

ہم نے جو بات اوپر بیان کی ہے بعض لوگ شاید یہ خیال کریں کہ یہ وہی دلیل ہے جسے فلسفے کی اصطلاح میں دلیل علت casual argument یا پھر Cosmological Argument کہا جاتا ہے۔ علت کی دلیل کا مطلب ہے کہ دنیا کی ہر چیز کسی سبب یا علت سے وجود میں آئی ہے اور علت و معلول کا یہ سلسلہ آخر میں خدا پر جا کر ختم ہوتا ہے۔ تاہم قرآن مجید یہ نہیں کہہ رہا خدا تخلیقی عمل کی آخری کڑی ہے۔ بلکہ جیسا کہ اوپر بیان ہوا وہ یہ کہہ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو ہر شے کا خالق ہے۔ ایک بچہ بظاہر ماں باپ کے ذریعے سے پیدا ہوتا ہے ، مگر اس کا خالق اللہ ہی ہے۔ چنانچہ کائنات کی ہر شے بظاہر اسباب کے پردے سے ظہور پذیر ہوتی ہوئی نظر آتی ہے ، مگر اس کے پیچھے براہ راست اللہ کا اذن اور اس کی ربوبیت کام کر رہی ہوتی ہے۔ مطلب یہ کہ ہر شے براہ راست اللہ کے حکم سے تخلیق پاتی ہے۔ ہر شے کی تخلیق، اور تخلیقی نظام میں لاکھوں کروڑوں عوامل کام کر رہے ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک عامل بھی کم ہو جائے تو تخلیق کا عمل نہیں ہو سکے گا اور ہو چکا ہو تو فنا کے گھاٹ اتر جائے گا۔ خلاصہ یہ کہ کائنات کی ہر شے براہ راست اللہ کی تخلیق ہے اور اپنے وجود کی بقا اور تسلسل کے لیے بھی یہ زمین و آسمان اللہ تعالیٰ ہی کے محتاج ہیں۔ چنانچہ فرمایا:

’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہی ہے جو آسمانوں اور زمین کو تھامے ہوئے ہے کہ وہ ٹل نہ جائیں۔ اور اگر وہ ٹل جائیں تو اللہ کے بعد کوئی دوسرا ان کو تھامنے والا نہیں ہے۔ بے شک اللہ بڑا حلیم اور درگزر فرمانے والا ہے۔‘‘، (فاطر41:35)

ہم دلائل قرآن کے ضمن میں وجود باری تعالیٰ پر قرآن مجید کی دوسری دلیل پر گفتگو کر رہے تھے جسے ہم نے توجیہہ کی دلیل کا نام دیا ہے۔ اس دلیل کی اساس سورہ نور آیت نمبر 40  رکھی گئی ہے۔ اس آیت میں یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ اللہ ہی زمین وآسمان کا نور ہے۔ یعنی اللہ پر ایمان کی روشنی کے ساتھ جب مظاہر کائنات پر نگاہ ڈالی جاتی ہے تو ہر چیز اپنی جگہ درست بیٹھ جاتی ہے۔اور اس کا انکار کر کے انسان سوائے اندھیروں کے کچھ حاصل نہیں کر پاتا۔ اس ضمن میں جو پہلی بات ہم نے واضح کی وہ یہ تھی کہ اس دنیا میں تخلیق و بقا کا سلسلہ ہر جگہ ہرسو کارفرما نظر آتا ہے۔ یہ کائنات پیدا ہوئی ہے اور اس کائنات میں ہر جگہ اور ہر لمحہ کچھ نہ کچھ پیدا ہو رہا ہے۔ یہ سب ایسے سازگار ماحول میں پیدا ہو رہا ہے جسے پیدا کرنے اور باقی رکھنے میں پیدا ہونے والی مخلوقات کا کوئی عمل دخل نہیں۔ یہ سازگار حالات باقی نہ رہیں تو تخلیقی عمل فوراً ختم ہو جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ تخلیق و بقا کے اس لامتناہی سلسلے کو وجود میں لانے اور باقی رکھنے کا سہرا کس کے سر ہے۔ قرآن مجید بتاتا ہے کہ یہ ہستی اللہ تعالیٰ کی ہستی ہے۔ اس سوال کا کوئی دوسرا جواب آج کے دن تک نہیں دیا جا سکا۔ یہی خدا کے ہونے کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔

اس خلاصے کے بعد اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے زمین و آسمان کے نور ہونے کا دوسرا پہلو کیا ہے۔یہ پہلو اس کائنات اور زندگی میں پائی جانے والی مقصدیت اور عناصر کائنات میں باہمی ربط ہے۔

 

                ۲) ربط و مقصدیت

 

قرآن مجید نے تخلیق و بقا کے حوالے سے خدا کے خالق ہونے کا جو دعوی کیا ہے ، پوری کائنات اس کی تصدیق میں کھڑی ہوئی ہے۔ کائنات اپنی اصل کے اعتبار سے حیات اور زندگی کی بدترین دشمن ہے۔ یہ بلاشبہ زندگی کا قبرستان ہے جس میں زندگی کا باقی رہنا تو درکنار وجود میں آنے کا بھی سرے سے کوئی امکان ہی نہیں۔ یہ کائنات کروڑوں ڈگری کی آگ اور ناقابل تصور سردی ، زندگی کی ہر حرارت سے محروم خلا، زہریلی گیسوں اور بنجر پتھروں کے سوا کسی چیز کا نام نہیں۔ مگر اس کائنات میں زمین جیسا سیارہ ہے جو اس مادے سے پیدا ہوا جو باقی کائنات میں موجود ہے مگر یہاں زندگی کو وجود میں لانے کے لیے کائنات میں پھیلے موت کے ہر روپ کو قابو کر کے زندگی بخش توانائی میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ جو فضا دوسر ے سیاروں میں زہریلی گیسوں پر مشتمل ہوتی ہے یا پھر خلا میں ہوتی ہی نہیں وہ یہاں زندگی کا ذریعہ بنا دی گئی ہے۔ جو دھرتی دوسری جگہ گیس ، برف یا بنجر چٹانوں سے عبارت ہے یہاں زرخیز مٹی کی شکل میں فصل اگا رہی ہے۔ آگ و ٹھنڈ کی انتہائیں جو زندگی کی قاتل ہیں یہاں پورے اعتدال سے موسم اور رنگ تخلیق کرتی ہیں۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ جگہ جگہ کائنات کی نشانیوں پر توجہ دلا کر یہ کہتے ہیں کہ اس درجے کی متنوع، مختلف اور متضاد کائناتی عناصر کو اس نے اس طرح مسخر کر رکھا ہے اور ان میں باہمی طور پر ایسا نظم، ڈیزائن، تناسب اور توازن ہے کہ یہ سب مل کر حیات کے ناممکن واقعہ کو ممکن بنا دیتے ہیں۔ اس عمل میں کائنات کس طرح موافق ہو کر کام کرتی ہے اسے صرف ایک مثال سے اس طرح سمجھیں کہ پانی کا ایک گھونٹ ہم پیتے ہیں اس کے لیے کیا نظام کام کر رہا ہے۔ پانی کا اصل ذخیرہ سمندر ہے۔ مگر یہ کھڑا پانی سڑ جاتا ہے اس لیے اسے سڑنے سے بچانے کے لیے نمکین بنا دیا گیا۔ پھر سورج زمین سے ایک مناسب فاصلے پر رہ کر سمندر کو گرم کرتا ہے۔ جس سے نمک نیچے رہ جاتا ہے اور پانی بھاپ کی شکل میں اوپر اٹھ جاتا ہے۔ پھر فضا اس بھاپ کو بادل بنا دیتی ہے اور پھر ہوا اسے اپنے کندھوں پر اٹھائے ہزاروں میل کا سفر طے کر کے بارش کی شکل میں انسانوں کو سیراب کرتی ہے۔ پھر مستقل استعمال کے لیے یہ پانی زمین کی تہہ میں اسٹور کر دیا جاتا ہے اور کچھ  پانی پہاڑوں پر برف کی شکل میں جما دیا جاتا ہے جس کے پگھلنے سے سارا سال دریا بہہ کر انسانی بستیوں کو سیراب کرتے ہیں۔ یہی نظام خوراک بھی پیدا کرتا ہے۔ کیونکہ یہ برسنے والا پانی ہی مردہ دھرتی کو زندہ کر کے وہ پیداوار اگاتا ہے جو انسان اور دیگر مخلوقات کی زندگی کا سبب ہیں۔

یہ بات قرآن کریم میں ان گنت مقامات پر بیان ہوئی ہے۔ اختصار کے پیش نظر چند مقامات درج ذیل ہیں۔ حج 63۔ فاطر27۔ زمر21۔ البقرہ 22، 164۔ انعام 99۔ رعد 17۔ نحل 10، 65 قرآن ان میں سے ہر ایک چیز کو سامنے رکھ کر یہ سوال کرتا ہے کہ یہ سارا انتظام کس نے کیا ہے۔ اگر اللہ کو نہیں مانا جائے گا تو یہ جو ہر قدم پر ایک ارادے کی کارفرمائی، مقصدیت، ڈسپلن، تنظیم، ڈیزائن نظر آ رہا ہے اس کی کیا توجیہ کی جا سکتی ہے۔ یہ توازن انتہائی نازک ہے جس میں معمولی سی کمی بیشی سب کچھ برباد کر دے گی۔ جیسے سورج ذرا سا بھی قریب آ جائے تو سارے سمندروں کا پانی بھاپ بن ختم ہو جائے گا اور نتیجتاً زندگی کی ہر شکل کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ مگر کس نے اس سسٹم کو تھام رکھا ہے۔ کون حیات اور پرورش کے اس انتظام کو پوری کائنات پر جبر کر کے باقی رکھے ہوئے ہے۔ یہ پورا نظام بلاشبہ ایک ارادے کا گواہ ہے۔ ارادہ ہے تو ارادہ کرنے والی ہستی بھی ہو گی۔ نظم ہے تو ناظم بھی ہو گا۔ ڈیزائن ہے تو ڈیزائنر بھی ہو گا۔ ربوبیت ہے تو رب بھی ہو گا۔ ایک شخص یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ ہم اس دعویٰ کو نہیں مانتے۔ یہ سب اتفاق کی کارفرمائی ہے۔ کروڑوں برس کے ارتقا کے نتیجے میں یہ سب آپ سے آپ ہو گیا۔ اربوں ستاروں میں سے ایک سیارے یعنی زمین پر اتفاق کی یہ زنجیر چلی اور زندگی ایک سادہ خلیہ سے شروع ہو کر بتدریج اتنی پیچیدہ ہو گئی۔ یہ بات ٹھیک ہونے کا ایک امکان ہو سکتا ہے ، مگر سائنس کی ترقی نے اب یہ حقیقت کھول دی ہے کہ حیات اپنی سادہ ترین سطح پر بھی اتنی زیادہ ہی پیچیدہ ہے اور وہاں بھی وہی پیچیدہ ترین نظام چل رہے ہیں جن کے لیے یہ ماننا ضروری ہے کہ کسی ارادہ کرنے والی ہستی، کسی ناظم ، کسی ڈیزائنر نے وہاں بھی ویسا ہی ایک سسٹم بنا رکھا ہے جیسا کہ سورج، سمندر، فضا، ہوا، بادل، پہاڑ ، دھرتی اور دریا کو ملا کر ہمیں پینے کا پانی دیتا ہے۔ یہ بات محض ایک مفروضہ ہے کہ زندگی ابتدائی سطح پر بہت سادہ ہے۔ زندگی ابتدائی سطح پر بھی انتہائی پیچیدہ ہے۔ اس کو وجود میں لانے کے لیے ضروری تھا اور اس کو باقی رکھنے کے لیے بھی ضروری ہے کہ کوئی ناظم، کوئی رب، کوئی ڈیزائنر مانا جائے۔ زندگی کی جو مقصدیت اس بظاہر بے مقصد کائنات میں نظر آتی ہے اس کی توجیہ سوائے خدا کے اور کوئی نہیں۔

 

                ۳) وجود انسانی کی اندرونی پکار

 

گرچہ یہ دو باتیں ہی جو ہم نے اوپر بیان کی اس حقیقت کو کھول دیتی ہیں کہ یہ کائنات اپنے وجود کی خاموش آواز میں پکار پکار کر یہ کہتی ہے کہ اس کا ایک خالق اور مالک ہے جو اسے پال رہا ہے۔ مگر اس کائنات میں انسان جیسی مخلوق بھی پائی جاتی ہے جس کی فطرت کے اندر اپنی ہستی کا شعور، خدا کا تصور، خیر و شر اور سب سے بڑھ  کر عقل و فہم کی صلاحیتیں رکھ دی گئی ہیں۔ انسان کی اس ہستی کا تجزیہ ہم پہلی دلیل کے تحت کر چکے ہیں اور اس دلیل کے آغاز پر خلاصہ بھی بیان کر چکے ہیں۔  زیر بحث آتی سورہ نور کے اگلے حصے میں اللہ تعالیٰ اس شخصیت کو سامنے رکھتے ہیں کہ اس نور کا ماخذ خارج نہیں خود انسان کا اپنا وجود ہے۔

’’ اُس کے نور کی مثال ایسی ہے ، جیسے ایک طاق ہو جس میں چراغ رکھا ہوا ہو، چراغ ایک فانوس میں ہو، فانوس ایسا ہو جیسے ایک چمکتا ہوا تارا۔ یہ چراغ زیتون کے ایسے شاداب درخت کے روغن سے جلایا جاتا ہو جو نہ شرقی ہو نہ غربی۔ اُس کا روغن آگ کے چھوئے بغیر ہی بھڑ کا پڑتا ہو۔ روشنی پر روشنی! اللہ اپنے نور کی طرف جس کی چاہتا ہے رہنمائی فرماتا ہے۔ (یہ ایک تمثیل ہے ) اور اللہ یہ تمثیلیں لوگوں (کی رہنمائی) کے لیے بیان کرتا ہے۔ (وہ ہر ایک سے وہی معاملہ کرتا ہے جس کا وہ سزاوار ہے ) اور اللہ ہر چیز سے واقف ہے۔‘‘

یہاں طاق سے مراد انسان کا حیوانی وجود ہے۔ چراغ انسان کا نفسی وجود یا اس کی شخصیت ہے جسے ہم نے انسان کی ہستی یا انا کا نام دیا۔ فانوس یا شیشہ عقل و فہم کی صلاحیتیں ہیں اور تیل فطرت میں موجود روحانیت کا احساس ہے۔ انسان کا یہ اپنا وجود خود اپنی توجیہہ چاہتا ہے۔ اس کی عقل کائنات کو دیکھ کر سوالات اٹھاتی ہے۔ اس کی فطرت اپنی خاموش صدا میں خدا کو تلاش کرتی ہے۔ یہ تلاش اتنی شدید ہے کہ خدا نہ ملے تو انسان غیر خدا کو خالق کے مقام پر بٹھا دیتا ہے ، مگر وہ کبھی خدا کے تصور کے بغیر نہیں زندہ رہا۔ کائنات کے بقیہ حقائق کی طرح اس بات کی بھی کوئی توجیہ نہیں کی جا سکتی کہ انسان میں خدا کا اتنا گہرا تصور کیسے آ گیا۔ منکرین اس کا یہ جواب دیتے ہیں کہ یہ ہزاروں برس کے خارجی تصورات اور حالات کا نتیجہ ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر یہ تصور خارج سے آیا ہے تو خارجی حالات کے بدلنے پر اس تصور کو بھی ختم ہو جانا چاہیے تھا۔ اس کو ایک مثال سے یوں سمجھیں کہ کہا جاتا ہے کہ انسانی معاشرت میں عورتوں کو ابتدا میں مرکزی اور برتر مقام حاصل تھا۔ مگر زراعتی دور میں عورت کا مقام پست ہو گیا۔ مگر ہم سب جانتے ہیں کہ صنعتی دور اور اب انفارمیشن ایج میں خواتین کی حیثیت تیزی سے تبدیل ہو چکی ہے۔ ایک اور مثال یہ ہے کہ ہزاروں برس تک انسان سورج ، چاند ، ستاروں اور دیگر کائناتی مظاہر کو پوجتا رہا۔ مگر وقت بدلا تو یہ پرستش کے بجائے تحقیق کا موضوع بن گئے۔مگر خدا کا معاملہ یہ ہے کہ حالات کچھ بھی رہے ہوں انسان خدا کو زندگی سے نہیں نکال سکا۔ اس کا مقام نہیں بدل سکا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مشرکانہ تصورات کے تحت جن دیگر خداؤں کو تخلیق کائنات میں سے کچھ حصہ دیا جاتا تھا آج ان کی یہ حیثیت نہیں رہی۔ مگر خدا آج بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ غیر خدا ہوں ، مظاہر کائنات ہوں یا عورت کا معاملہ ہو، ان سب کی حیثیت خارجی تصورات سے متعین ہوئی تھی اس لیے بدلتی رہی۔ خدا اصل میں اندرونی آواز ہے اس لیے اس کا تصو ر ہمیشہ سے اپنی جگہ باقی رہا ہے۔ وجود انسانی کی یہی وہ شہادت ہے جو بتاتی ہے کہ خدا موجود ہے۔ قرآن مجید اس تمثیل میں یہ واضح کرتا ہے کہ فطرت کا یہ تیل جیسے ہی نور نبوت سے روشنی پاتا ہے تیزی سے بھڑک اٹھتا ہے۔ پھر عقل کے شفاف فانوس سے گزر کر اس کی روشنی میں پوری کائنات کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے اور ہر چیز اپنی جگہ واضح ہو جاتی ہے۔

 

                ظلمات

 

اس آیہ نور میں قرآن کریم یہی واضح نہیں کرتا کہ اللہ پر ایمان کے نور سے کائنات کی ہر شے اپنی جگہ پالیتی ہے بلکہ وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ جب انکار کر دیا جاتا ہے تو سوائے اندھیروں کے کچھ بھی نہیں بچتا۔ اس سلسلہ کلام کے آخر میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

’’یا پھراس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک گہرے سمندر میں اندھیرا، کہ اوپر ایک موج چھائی ہوئی ہے ، اس پر ایک اور موج، اور اس کے اوپر بادل، تاریکی پر تاریکی مسلط ہے ، آدمی اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی نہ دیکھنے پائے ، جسے اللہ نور نہ بخشے اس کے لیے پھر کوئی نور نہیں۔(النور40:24) اللہ کے وجود کے سوا انسان اپنی تاریخ میں کبھی اس سوال کا جواب دے ہی نہیں سکا کہ یہ کائنات کس نے بنائی ہے۔ ڈھائی تین ہزار سال میں انسان نے جو کچھ سوچا اور جسے فلسفے کا علم کہا جاتا ہے ، اس کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ انسان کے پاس خدا کے سوا اس سوال کا کوئی قابل قبول جواب ہی نہیں۔ پچھلے تین ہزار برسوں میں فلسفیوں نے خدا کے علاوہ اس کائنات کی جو توجیہ کرنے کی کوشش کی ہے اس سے دو ہی جوابات سامنے آئے ہیں۔ ایک یہ کہ اس کائنات کا کوئی خدا نہیں۔دوسرا جواب یہ ہے کہ اس کائنات کا ایک خدا مگر وہ کائنات میں سرائیت کیے ہوئے ہے۔اس کے بارے میں ایک فلسفی نے بجا کہا ہے کہ یہ انکار خدا کا مہذبانہ طریقہ ہے۔ گویا کہ اصل جواب ایک ہی ہے کہ کائنات کا کوئی خالق نہیں اور یہ آپ سے آپ وجود میں آئی ہے۔ یہ بات علم، عقل، فطرت اور وجدان غرض ہر پہلو سے ایک ناقابل قبول بات ہے۔ اسی کی تفصیل پیچھے ہم نے بیان کی ہے کہ کس طرح اس کائنات میں موجود تخلیق و بقا کا سلسلہ، کائنات و مخلوقات میں موجود ربط و نظم، مقصد و معنویت اور ترتیب و توافق کا سلسلہ اور ان دونوں سے قبل انسان کے اندرونی وجود کی روحانی پکار سب مل کر اس بات کو ماننے سے انکار کر دیتے ہیں کہ یہ کائنات خود بخود بنی اور خود بخود ہی چل رہی ہے۔ کائنات کی یہ تخلیقی فیکٹری ، اس میں پائی جانے والی کامل حکمت اور اس میں کھ ا ہوا با شعور انسان سب ہمیشہ سے انکار خدا کے تصور کو رد کرتے آئے ہیں۔ اس انکار کو قرآن مجید اندھیرے در اندھیرے کا وہ سلسلہ کہہ رہا ہے جس میں انسان کو اپنا آپ بھی سجھائی نہیں دیتا۔ چنانچہ خدا کے علاوہ کائنات کی کسی دوسری توجیہ کا کبھی سامنے نہ آنا اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ خدا کے سوا اس دنیا کی کوئی توجیہ نہیں ہو سکتی۔

 

                سابقہ گفتگو کا خلاصہ

 

ہم قرآن مجید میں بیان ہونے والے وجود باری تعالیٰ کے دلائل پر گفتگو کر رہے ہیں۔ دور جدید میں چونکہ علمی سطح پر اللہ تعالیٰ کا انکار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس لیے ہم بہت تفصیل میں جا کر قرآن مجید کے ان دلائل کا احاطہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو اس بات کو بالکل متعین کر دیتے ہیں کہ کس طرح عمل و عقل کی انسانی روایت خدا کو ماننے پر مجبور ہے۔ ہم نے اب تک دو بنیادی دلائل دیکھے ہیں۔ ان کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان اس مادی کائنات میں حیوانی وجود لے کر پیدا ہوا ہے لیکن اس کے ساتھ وہ اپنے اندر ایک روحانی اور اخلاقی حس بھرپور طریقے سے محسوس کرتا ہے۔ یہ حس نہ صرف مادی حواس خمسہ سے بالکل جدا ہے بلکہ تقاضہ کرتی ہے کہ اس کا ماخذ خدا کی ہستی کو مانا جائے۔ دوسری دلیل یہ بتاتی ہے کہ انسان کو عقل و فہم کی جو استعداد دی گئی ہے وہ اس کائنات کا تجزیہ اور اپنے اندر سے اٹھنے والے جذبات و احساسات کا ادراک کرسکتی ہے۔ وہ جب یہ کرتی ہے تو کائنات میں موجود زندگی اور تخلیق کا سلسلہ، متضاد عناصر میں پایا جانے والا ربط و مقصدیت کا عنصر اور وجود انسانی کی اندرونی پکار یہ سب مل کر مطالبہ کرتے ہیں کہ حیات و کائنات کو ایک خالق ، اس میں پائی جانے والی ربط و نظم کو ایک ناظم اور انسان کی جبین نیاز کو ایک معبود کی ضرورت ہے۔ اس خالق، ناظم اور معبود کا انکار کر کے انسان ساری زندگی بے مقصد اندھیروں میں بھٹکنے کے سوا اور کچھ نہیں کر سکتا۔

 

                تیسری دلیل: خدائے متکلم

 

اب تک کے دلائل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے۔انسان اس خالق کا بھرپور شعور رکھتا اور کائنات اس خالق و ناظم کا مکمل تعارف کراتی ہے۔ یہ حقیقت اتنی واضح ہے کہ انسان نے اوہام سے نکل کر فلسفہ و سائنس کی وادیوں میں قدم رکھا تو بہرحال ایک خالق کا انکار وہ نہیں کرسکے۔مگر یہ خالق بہرحال ایک ایسی ہستی محسوس ہوتا ہے جس نے کائنات اور انسان کو بنا تو دیا، مگر اس کے بعد گویا وہ اس جہاز کو ایک آٹو پائلٹ کے حوالے کر کے غیر متعلق ہو چکا ہے۔ قوانین فطرت زلزلے اور سیلاب کی شکل انسانی آبادیوں کو نگل جائیں مگر وہ بے پروا، اس کے نام پر کھڑے لوگ اختلاف و عناد میں ہر حد عبور کر جائیں مگر وہ بے نیاز، ظلم و فساد دھرتی کے خشک و تر کو بھر دے مگر وہ بے حس و حرکت؛ ایسے خدا کو ماننا کسی معقول آدمی کے لیے بہت مشکل کام ہے۔ چاہے کائنات کچھ بھی کہے اور انسان کا اندرونی وجود کچھ بھی پکارے۔ عقل، علم، فہم، بصیرت، معرفت غرض سب کا تقاضہ ہے کہ اگر خدا ہے تو اپنے آپ کو ظاہر کرے۔ انسانی آنکھ اس کی براہ راست دید کا تقاضہ کرے تو اس کا غضب بجا لیکن سماعت کے دریچے اس کی صدا سنیں اور فہم کی آنکھ اس کا ادراک کرے ، یہ مطالبہ کیسے غلط ہو سکتا ہے۔ سب سے نہ سہی وہ کچھ سے کلام کرے۔ سو اگر وہ ہے تو اسے سامنے آنا ہو گا۔ نہیں ہے تو کبھی سامنے نہیں آئے گا۔ پھر جو ہے وہ بس کہانیاں ہیں اور داستانیں ہیں اور کچھ نہیں۔

یہی وہ مقام ہے جہاں سے پیغمبر اٹھتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ نہیں نہیں! ایسا نہیں ہے۔ با خدا ایسا نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ خدائے کائنات نے ان سے کلام کیا ہے۔اپنی مرضی سے انھیں آگاہ کیا ہے۔ فطرت کی پکار کو انسانی الفاظ میں بیان کیا ہے۔ کائنات کے اسرار کو کھلے حقائق میں بیان کیا ہے۔ ظلم و فساد کی وجوہات کو کھولا ہے۔ مذہبی اختلاف میں اپنی ہدایات کو کھولا ہے۔ اس کے آغاز و انجام کی حقیقتوں کو واضح کیا ہے۔ اس کے ماضی اور مستقبل کی سچائیوں کو واضح کیا ہے۔ وہ بول رہا ہے۔ اپنے وجود کو بول کر ثابت کر رہا ہے۔ وہ اپنی بندگی کی طرف بلا رہا ہے تو اس کے ناقابل انکار دلائل دے رہا ہے۔ وہ رسولوں کو اٹھا رہا ہے تو ان کی سچائی کے یقینی دلائل پیش کر رہا ہے۔ وہ اپنی مرضی بتا رہا ہے۔ اپنی مرضی پر چلنے کا انجام بتا رہا ہے۔ اپنی ناراضی کا نتیجہ بتا رہا ہے۔ یقین دلا رہا ہے کہ ایک روز تم اس کے حضور پیش ہو گے جہاں آج کے روحانی حقائق کل کے مادی حقائق میں بدل جائیں گے۔ آج کا ہر اخلاقی عمل کل جنت کے انعام اور آج کی ہر بد اخلاقی کل جہنم کی آگ میں بدل جائے گی۔

اچھا ! تمھیں یقین نہیں آتا۔ تم عقل و فطرت پر مبنی اور انفس و آفاق سے اٹھنے والے دلائل کو نہیں مانتے۔ چلو کچھ دیر رکو ! ہم ان نتائج کو اسی دنیا میں برپا کر کے دکھاتے ہیں۔ پھر زیادہ دیر نہیں گزرتی کہ تنہا اٹھنے والے پیغمبر اور ان کے گنتی کے پیروکار زمین کے وارث بنا دیے جاتے ہیں۔ اور وقت کے فرعونوں اور رسولوں کے منکرین کی جڑ کاٹ دی جاتی ہے۔ ایک معجزہ ہو جاتا ہے۔ ایک ناقابل یقین واقعہ پیش آ جاتا ہے۔ مادی دنیا میں طاقت کا سارا زور رکھنے والے برباد ہو جاتے ہیں اور اخلاقی زندگی جینے والے ضعفاء بادشاہ بن جاتے ہیں۔ یہ واقعہ کچھ صدیوں کے بعد بار بار کیا جاتا رہا اور آخری دفعہ چودہ سو برس قبل اس واقعہ کو رونما کر کے اس کی پوری روداد قرآن مجید میں محفوظ کر دی گئی۔ابو جہل اور ابو لہب جیسے قریش کے طاقتور سردار ساتھیوں سمیت ہلاک ہو گئے اور تنہا اٹھنے والے خدا کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم عرب کے بادشاہ بن گئے۔ قیصر و کسریٰ کے تخت الٹ گئے اور نبی عربی کے غلام عرب و عجم کے مالک بن گئے۔

قرآن مجید درحقیقت ایسا ہی ایک صحیفہ رسالت ہے جس میں خدائے متکلم پورے طور پر زندہ و جاوید، فعال و متحرک ہستی کے روپ میں نظر آتا ہے۔ وہ پیغمبر کو اٹھاتا ہے۔ کلام نازل کرتا ہے۔ لوگوں کو دعوت دیتا ہے۔ دعوت کے دلائل بیان کرتا ہے۔ چلنے والوں کو راہ دکھاتا ہے۔ ماننے والوں کی رہنمائی کرتا ہے۔ سوال کرنے والوں کے جواب دیتا ہے۔ انکار کرنے والوں کو سمجھاتا ہے۔ شک کرنے والوں کو یقین دلاتا ہے۔ معترضین کو جواب دیتا ہے۔ غافلوں کو متنبہ کرتا ہے۔ ظالموں کو جھنجھوڑتا ہے۔ منافقین کو لتاڑتا ہے۔ غداروں کو وعید کرتا ہے۔ کافروں کو انذار کرتا ہے۔ مومنین کو بشارت دیتا ہے۔ اور آخر کار اپنی مرضی کو نافذ کر کے دکھاتا ہے۔

قرآن مجید اول تا آخراسی حقیقت کا بیان ہے۔ اس کی دعوت، دعوت کے دلائل، دعوت کو ماننے اور اس کے انکار کے نتائج اور مطالبات کے ضمن میں اب آگے ہم جو کچھ بیان کریں گے ، وہ اسی بات کی تفصیل ہے۔ گویا کہ مضامین قرآن اپنی ذات میں اول تا آخراس بات کا ثبوت ہیں کہ اس کائنات کا ایک رب ہے۔ زندہ و جاوید رب جو دیکھتا ہی نہیں بولتا بھی ہے۔ یہی بولنے والا رب ، یہی خدائے متکلم اپنے وجود کا سب سے بڑ ا ثبوت  ہے۔

جدید فلسفے کے بانی  رینے ڈیکارٹ (1650 – 1596) کا ایک جملہ فلسفے اور دانش سے بہرہ مند ہر انسان کو زبانی یاد ہوتا ہے۔ یہ جملہ انسانی تاریخ کا مشہور ترین جملہ ہے جسے علم و دانش کی دنیا میں انسانی ہستی کا سب سے بڑا ثبوت مانا جاتا ہے۔

“I think, therefore I am”

خدا کے وجود کے دلائل کے خاتمے پر اوپر بیان کر دہ گفتگو کی روشنی میں یہ فقیر، یہ بندہ عاجز چاہتا ہے کہ ہر پڑھنے والا اس جملے کو یاد رکھ لے جو خدا کی سچائی کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔

”۔He Speaks, therefore He is”

 

                دلائل آخرت

 

وجود باری تعالیٰ کے دلائل کے بعد ہم دلائل آخرت پر گفتگو شروع کر رہے ہیں۔ توحید، رسالت اور آخرت تینوں اسلام کے بنیادی عقیدے ہیں اور اپنے اپنے اعتبار سے تینوں کی بڑی اہمیت ہے۔ توحید اس پہلو سے سب سے اہم ہے کہ دین کی بنیادی دعوت ایک اللہ پر ایمان ہی کی ہے۔ رسالت اس پہلو سے سب سے زیادہ اہم ہے کہ توحید ہو یا آخرت دونوں کا صحیح تصور ہی اس وقت سامنے آئے گا جب رسالت پر ایمان لائیں گے۔ آخرت اس پہلو سے سب سے زیادہ اہم ہے کہ آخرت کا تصور نہ ہو تو توحید و رسالت سمیت دین کی تمام فکری اور عملی اساسات بس اخلاقی نوعیت کی کچھ باتیں رہ جاتی ہیں۔ یہ آخرت کا عقیدہ ہی ہے جو ہمیں یہ بتاتا ہے کہ دین آج ایک اخلاقی معاملہ ہے لیکن موت کے بعد یہ مادی نفع و ضرر کی بنیاد بن جائے گا۔

اسلام میں تصور آخرت کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ دیگر تمام مذاہب یا تو آخرت کا کوئی تصور نہیں رکھتے یا پھر انتہائی مبہم اور غلط فہمیوں پر مبنی تصور رکھتے ہیں۔ چنانچہ اسلام کی دعوت کا طرہ امتیاز عقیدہ آخرت کی تفصیلات اور اس کے دلائل کا بیان ہے۔ اسی لیے ہم آخرت کے دلائل سے آغاز کر رہے ہیں۔ ہم نے ان دلائل کو جو قرآن میں جگہ جگہ دہرائے گئے ہیں سات عنوانات کے تحت مرتب کیا ہے۔ یہ درج ذیل ہیں۔

 

                ۱) فطرت کی دلیل

 

انسانی فطرت میں خیر و شر کا شعور، ضمیر انسانی کی سزا و جزا کا نظام شاہد ہے کہ انسان سزا و جزا کے تصور سے اچھی طرح واقف ہے اور سمجھتا ہے کہ ایک دن حتمی سزا جزا کا یوم قیامت آ کر رہے گا۔

 

                ۲) ربوبیت کی دلیل

 

ایک ایسی کائنات جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے زندگی کے لیے قطعاً ناموزوں ہے اس میں سرکش کائناتی طاقتوں کو لگام ڈال کر انسانوں کی زندگی اور ربوبیت کا بھرپور انتظام کیا گیا ہے کیسے ممکن ہے کہ یہ معجزانہ اہتمام دیکھ کر بھی بندگی سے انکار کرنے والوں کو ان کے کیے کی سزا نہ دی جائے اور بن دیکھے بندگی کرنے والوں کو ان کے اجر سے محروم رکھا جائے۔

 

                ۳) مقصدیت کی دلیل

 

تصور آخرت کو ہٹا دیا جائے تو پھر اس دنیا کو بسانے کا کوئی مقصد باقی نہیں رہتا۔ خاص اس حقیقت کے مشاہدے کے بعد کہ انتہائی بامعنی اور منظم کائنات میں انسانی زندگی ہر جگہ ظلم و نا انصافی اور عدم تکمیل سے عبارت ہے۔ اگر یہ دنیا اور اس کی موت ہی انسانی زندگی کا خاتمہ ہے تو اس سے زیادہ بے مقصد اور بے معنی بات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ اس بات سے پاک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا دار الامتحان ہے اور آخرت دار الجزا۔ یہی اس دنیا کا مقصد ہے جو آخرت سے مل کر پایہ تکمیل تک پہنچتا ہے۔

 

                ۴) جوڑے کی دلیل

 

دنیا و آخرت کے جوڑے کے وجود کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر بامعنی چیز جوڑوں میں بنائی گئی ہے۔ مرد عورت، دن رات، زمین آسمان سب جوڑ ے ہیں جو خالق کا طریقہ تخلیق بتاتے ہیں۔ یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ دنیا کا جوڑ ا آخرت ہے۔

 

                ۵) ترتیب و تدریج

 

کائنات کا ہر واقعہ ایک فطری ترتیب اور تدریج سے ظہور پذیر ہوتا ہے۔ صبح کے بعد شام اور شب کے بعد سحر ایک ترتیب سے اور بتدریج طلوع ہوتی ہے۔ایسی ہی دنیا کی شب تاریک ایک روز صبح قیامت کی روشنی ضرور دیکھے گی۔

 

                ۶) قدرت کی دلیل

 

اس دلیل کے کئی پہلو ہیں جن کی تفصیل وقت پر آئے گی۔ خلاصہ یہ ہے کہ انفس و آفاق میں پھیلی تمام نشانیاں یہ گواہی دیتی ہیں کہ جس خالق نے ان کو پیدا کیا ہے وہ اس کی پوری قدرت رکھتا ہے کہ انسانوں کو مرنے کے بعد دوبارہ پیدا کر کے ایک نئی دنیا آباد کرے۔

 

                ۷) رسولوں کی امت کی سزا جزا

 

رسولوں کی امتوں کو تاریخ کے ہر دور میں ان کے انکار پر سزا دی گئی اور ماننے والے کو جزا دی گئی۔ یہ سزا و جزا اپنی ذات میں آخرت کی سزا جزا کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔

 

                انکار آخرت: ایک مقبول نظریہ

 

انکار آخرت دور حاضر کا مقبول ترین نظریہ ہے۔ آج کل کے مذہبی لوگ ہوں یا غیر مذہبی ان سب کی تگ و دو کا اصل مقصود اسی دنیا کی فلاح اور ترقی ہے۔کچھ لوگ یہ کام مذہب کی نفی کر کے کرتے ہیں اور باقی مذہب کو مانتے ہوئے بھی کرتے ہیں۔ جو لوگ مذہب کا انکار کرتے ہیں ، ان کو تو جانے دیجیے کہ وہ دنیا ہی کو مرنے اور جینے کی آخری جگہ مان چکے ہیں ، مگر مذہب کے نام لیوا بھی ایسے نظریات سے اتنے متاثر ہو چکے ہیں کہ وہ منکرین آخرت کے جواب میں کوشش یہی کرتے ہیں کہ مذہب کا اصل مقدمہ ہی یہ ثابت کریں کہ وہ فرد و اجتماع دونوں کی دنیوی زندگی کو بہتر بنانے آیا ہے۔ اس کا نصب العین دنیا کو جنت بنانا ہے۔ بلاشبہ مذہب اسلام کی تعلیم کی یہ خصوصیت ہے کہ اس پر عمل کے بعد فرد اور اجتماع دونوں کے دنیوی معاملات بہتر ہو جاتے ہیں۔ مگر یہ ایک ثانوی نتیجہ ہے۔ دین کا اصل مقصد نہیں۔ دین کا اصل مقصد آخرت کی زندگی کے لیے لوگوں کو تیار کرنا ہے جہاں اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے سوا کسی اور طریقے سے کامیابی حاصل کرنا ممکن نہیں۔ رہی دنیا تو یہ آزمائش کی جگہ ہے جہاں سے موت، بیماری ، غم ، ظلم ، فساد نہ کبھی ماضی میں ختم ہوئے ہیں نہ مستبقل میں ختم ہوں گے۔ ہم انھی معاملات میں آزمائے جاتے ہیں اور ان حالات میں ہمارا رویہ ہی آخرت میں ہماری نجات یا  ہماری گرفت کا ذریعہ بنے گا۔

 

                فردوس کی تلاش

 

تاہم یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ انسان فطری طور پر اس دنیا میں دکھ، غم، پریشانی، بیماری، موت، بڑھاپے اور اس نوعیت کی ہر چیز کو ناپسند کرتا ہے جو اس کی زندگی کو مشقت میں ڈال دے۔ انسان خوشی چاہتا ہے، آسائش پسند کرتا ہے، آسانی کی خواہش رکھتا ہے، راحت اور سکون کی تمنا کرتا ہے۔ وہ اپنی زندگی نقصان سے بچنے اور منفعت حاصل کرنے کے اصول پر گزارتا ہے۔ اوپر جن لوگوں کا ذکر ہم نے کیا کہ یہ لوگ دنیا ہی کو جنت بنانے کے خواہش مند ہیں ؛ ان کی یہ خواہش غیر حقیقی سہی، مگر غیر فطری ہرگز نہیں ہے۔ ابدی زندگی، عیش جاوداں ، لذت کامل، راحت مسلسل اور بے غم زندگی وہ انسانی خواب ہے جس کی تعبیر تو آج تک نہیں ملی، مگر انسانیت نے ایک دن کے لیے بھی اس خواب سے دامن نہیں چھڑایا۔ جس کو جتنا موقع ملا اِس نے دنیا میں اپنے لیے اتنی ہی جنت بنالی۔ وسیع و عالی شان محلات، بڑی بڑی جاگیریں ، سرسبز و شاداب سیرگاہیں ، بہترین سواریاں ، سونے چاندی کے ڈھیر، مستعد خدام، نوخیز شباب کی حامل حسین عورتیں ، نشہ آور شراب کی لذت، تفریح و مستی، آرام و سکون، دولت و طاقت، حکومت و اقتدار غرض انسان نے ان سب چیزوں کے ذریعے سے اس دنیا میں ہمیشہ اپنی فردوس گمشدہ کو تلاش کرنا چاہا اور آج تک کیے جا رہا ہے۔ مگر یہ جنت ہاتھ نہیں آتی۔ کبھی کسی کو لمحہ بھر کو مل بھی جائے تو پھسلتی ریت کی مانند خاموشی سے ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔

انسان کے اندر اس جنت کی طلب اتنی فطری ہے کہ اس کے لیے کوئی دلیل دینے کی ضرورت نہیں۔ انسان کو صرف اس کا تعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ قرآن مجید نے جس وقت آخرت کو فطری بنیادوں پر ثابت کرنا شروع کیا ہے تو کچھ نہیں کیا، بس آخرت کی زندگی کا نقشہ سامنے رکھ دیا۔ لوگ لاکھ قیامت کا انکار کریں ، اسلام کو رد کریں ، پیغمبر کا مذاق اڑائیں ، آخرت کو نہ مانیں ، مگر کیا وہ کہہ سکتے ہیں کہ انھیں جنت نہیں چاہیے۔ وہ ابدی جوانی ، عیش لازوال ، صحت و عافیت سے بھرپور زندگی ، مستی و سرور سے عبارت آزادی کے خواہش مند نہیں ہیں ؟ وہ درد و غم، اندیشہ و حزن، خوف و خطر ، زحمت و نقصان، دکھ اور الم، اذیت اور مصیبت، سختی اور تکلیف، گھبراہٹ اور مایوسی، پشیمانی اور پچھتاوے ، ڈر اور محرومی کے ہر سائے سے محفوظ دائمی زندگی کے خواہاں نہیں ہیں ؟ ایسا ہے تو پھر بلاشبہ آخرت کا انکار ان کا حق بنتا ہے اور اس کی دعوت ایک فریب کے سوا کچھ نہیں ، مگر انسان صبح و شام اسی جنت کی تعمیر کے منصوبے بناتا اور اٹھتے بیٹھے اسی کے خواب دیکھتا ہو تو اس خواب کی تعبیر دکھانے سے زیادہ فطری دعوت اور کیا ہو سکتی ہے ؟ یہی آخرت اسلام کی بنیادی دعوت اور مذہب کا بنیادی مقدمہ ہے۔

 

                انسانی ضمیر کی گواہی

 

انسان کے اندر جنت کی طلب کی طرح ایک دوسری چیز بھی فطرت انسانی کا جزو لاینفک ہے۔ یہ انسانی ضمیر اور اس کے اندر پیوست سزا جزا کا تصور ہے۔ انسان نے ہر دور میں اپنی زندگی کا نقشہ اسی اصول کے مطابق بنایا ہے۔ انسانی ضمیر اخلاقی بنیادوں پر خیر و شر کا ایک بھرپور تصور اپنے اندر رکھتا ہے اور اس بنیاد پر ہمیشہ سزا و جزا کا قائل رہا ہے۔ انسان ظلم کو فطری طور پر برا سمجھتا ہے اور چوروں اور قاتلوں کو اسی ظلم کی بنیاد پر سزا دیتا ہے۔ جھوٹ ، بددیانتی، نا انصافی، بد عہدی، خیانت، غبن وغیرہ ہر دور، ہر نسل اور ہر گروہ میں برائی سمجھے گئے ہیں۔ ان کے ارتکاب پر ہمیشہ انسانی ضمیر نے آواز اٹھائی ہے اور معاشرے نے انھیں برا سمجھا ہے۔ اسی طرح سچ، ہمدرری، احسان، رحم، محبت، امانت، دیانت ، ایثار، قربانی جیسی چیزیں اعلی انسانی اقدار سمجھی گئی ہیں اور ان کو زندگی بنانے والے اپنے عمل کی داد سب سے پہلے اپنی فطرت سے پاتے ہیں اور پھر سارا معاشرہ ان کی تحسین کرتا ہے۔ اسی اصول پر ہم بچوں کو کامیابی پر انعام دیتے ، مزدور و ملازم کو تنخواہ دیتے اور ملک و قوم کے لیے جاں نثار کرنے والوں کو اعلیٰ قومی اعزاز سے نوازتے ہیں۔

تاہم جس طرح فردوس ارضی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا ، اسی طرح عدل و انصاف کے تقاضے بھی کبھی اس دنیا میں پورے نہیں ہو سکے ہیں۔ ایک قاتل کی جان لینے سے مقتول کی زندگی واپس آ سکتی ہے نہ اس کے خاندان کا نقصان پورا ہو سکتا ہے۔ ریپ اور گینگ ریپ کے مجرم کو کون سی سزا اس معصوم عفیفہ کے دکھ کا ازالہ کرسکتی ہے جس کا سامنا اسے کرنا پڑا ہے۔ یہ تو سزا ملنے کا ذکر ہے ، اکثر تو اس دنیا میں ظالموں کو سزا ہوتی نہ قاتلوں کو پکڑا جاتا ہے۔ کرپٹ لیڈر یہاں حکمران بن جاتے ہیں اور ظالم لوگ بادشاہ۔ مفاد پرست عیش کرتے ہیں اور ایثار کرنے والے دکھ اٹھاتے ہیں۔ محنت کرنے والے پیچھے رہ جاتے ہیں اور چوری کرنے والے آگے بڑھ جاتے ہیں۔

ایسے میں فطرت انسانی چیخ چیخ کر یہ کہتی ہے کہ ایک دنیا اور بننی چاہیے جہاں عدل کامل ہو۔ جہاں مجرموں کو ان کے کیے کی مکمل سزا ملے۔ اور جہاں نیکوں کاروں کو ان کی نیکی، صبر، ہمدردی، احسان اور ایثار کے صلے میں وہ فردوس ملے جو انسانیت کا خواب ہے۔ قرآن اپنا مقدمہ ٹھیک اسی جگہ سے اٹھاتا ہے اور اتنے کمال طریقے سے اٹھاتا ہے کہ دو جملوں میں کل داستان ختم۔ گرچہ اس کی تفصیل سے بھی قرآن بھرا پڑا ہے۔ چنانچہ قیامت کے جھٹلانے والوں کے جواب میں قرآن مجید اپنا کل فطری مقدمہ جو ہم نے دو نکات کی شکل میں اوپر تفصیل سے بیان کیا ہے انتہائی مختصر اور جامع انداز میں یوں بیان کرتا ہے۔

 

                قرآنی بیانات

 

’’(یہ قیامت کو جھٹلاتے ہیں )؟ نہیں (وہ تو ہو کر رہے گی اور اس کے لیے )، میں قیامت کے دن کو گواہی میں پیش کرتا ہوں اور نہیں (یہ کیسے جھٹلا سکتے ہیں ) میں (ان کے اندر) ملامت کرنے والے نفس کو گواہی میں پیش کرتا ہوں۔‘‘، (القیامہ 75 : 2-1)

اس سورہ قیامت سے اگلی سورت یعنی الدھر(76) میں قرآن مجید ایک دوسرے انداز سے فطرت کی اس دلیل کو اس کے سامنے رکھ دیتا ہے۔ پہلے وہ بتاتا ہے کہ ہم نے انسان کو خیر و شر کا شعور دیا اور ساتھ میں یہ اختیار بھی کہ چاہے تو شکر گزار ی کی راہ اختیار کرے اور چاہے تو ناشکری کی۔ اس کے فوراً بعد جہنم کا نقشہ اختصار سے اور اس فردوس گمشدہ کا نقشہ بڑی تفصیل سے اس کے سامنے رکھ دیتا ہے۔

’’ہم نے کفر کرنے والوں کے لیے زنجیریں اور طوق اور بھڑکتی آگ تیار کر رکھی ہے۔ ہاں ، وفادار بندے ایسی شراب کے جام نوش کریں گے جس میں چشمۂ کافور کی ملونی ہو گی۔ اس چشمہ سے اللہ کے خاص بندے پئیں گے اور اسی کی شاخیں نکال لیں گے جدھر جدھر چاہیں گے۔ یہ اپنی نذریں پوری کرتے اور اس دن سے ڈرتے رہے ہیں جس کا ہول ہمہ گیر ہو گا اور وہ مسکین ، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے رہے ہیں۔ خود اس کے حاجت مند ہوتے ہوئے۔ (اس جذبہ کے ساتھ کہ) ہم تمھیں صرف اللہ کی خوشنودی کے لیے کھلاتے ہیں ، نہ تم سے کسی بدلے کے طالب ہیں نہ شکریہ کے ، ہم اپنے رب کی طرف سے ایک ایسے دن سے اندیشہ ناک ہیں جو نہایت عبوس اور سخت ترش ہو گا۔ تو اللہ نے ان کو اس دن کی آفت سے بچایا اور ان کو تازگی اور سرور سے نوازا۔ اور انھوں نے جو صبر کیا اس کے صلہ میں ان کو جنت اور ریشمیں لباس عطا فرمایا۔ ٹیک لگائے ہوں گے اس میں تختوں پر۔ نہ اس میں گرمی کے آزار سے دوچار ہوں گے نہ سردی کے۔ باغِ جنت کے سائے ان پر جھکے ہوئے اور اس کے خوشے بالکل ان کی دسترس میں ہوں گے۔ اور ان کے سامنے چاندی کے برتن اور شیشے کے پیالے گردش میں ہوں گے۔ شیشے چاندی کے ہوں گے۔ ان کو انھوں نے نہایت موزوں اندازوں کے ساتھ سجایا ہو گا۔ اور وہ اس میں ایک اور شراب بھی پلائے جائیں گے جس میں ملونی چشمۂ زنجبیل کی ہو گی۔ یہ اس میں ایک چشمہ ہے جو سلسبیل سے موسوم ہے اور ان کی خدمت میں غلمان گردش میں ہوں گے جو ہمیشہ ایک ہی سِن پر رہیں گے۔ جب تم ان کو دیکھو گے تو ان کو بکھرے ہوئے موتی گمان کرو گے۔ جہاں دیکھو گے وہیں عظیم نعمت اور عظیم بادشاہی دیکھو گے۔ ان کے اوپر سندس کا سبز اور استبرق کا لباس ہو گا اور وہ چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے اور ان کا رب ان کو پاکیزہ مشروب پلائے گا۔ بے شک یہ تمھارے عمل کا صلہ ہے اور تمھاری سعی مقبول ہوئی۔ (سورہ الدھر 76: 22-4)

فطرت انسانی میں خیر و شر کے اس شعور کو دوسرے مقامات پر ’’نفس میں نیکی و بدی کے الہام‘‘ ، ( الشمس 8:91) اور ’’دونوں راستوں کی طرف رہنمائی‘‘، (البلد 10:90) سے تعبیر کیا ہے۔ جبکہ اس خیر و شر کی بنیاد پر کامل سزا و جزا پر مبنی آخرت کی ابدی دنیا کا نقشہ قرآن کریم میں جگہ جگہ بیان ہوا ہے۔ ہم ایسے ہی ایک مقام کے بیان کے ساتھ اس دلیل فطرت کا بیان مکمل کرتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جنت انسان کا خواب ہے اور سزاو جزا اس کی فطرت کی پکار ہے۔ قرآن اسی پکار کا الہامی اور آخری جواب ہے۔

’’یاد رکھو، جب کہ واقع ہو پڑے گی واقع ہونے والی۔ اس کے واقعہ ہونے میں کسی جھوٹ کا شائبہ نہیں۔ وہ پست کرنے والی اور بلند کرنے والی ہو گی۔ جب کہ زمین بالکل جھنجھوڑ دی جائے گی اور پہاڑ بالکل ریزہ ریزہ ہو کر منتشر غبار بن جائیں گے۔ اور تم تین گروہوں میں تقسیم ہو جاؤ گے۔ ایک گروہ داہنے والوں کا ہو گا، تو کیا کہنے ہیں داہنے والوں کے ! دوسرا گروہ بائیں والوں کا ہو گا، تو کیا حال ہو گا بائیں والوں گا! رہے سابقون، تو وہ تو سبقت کرنے والے ہی ہیں ! وہی لوگ مقرب ہوں گے۔ نعمت کے باغوں میں۔ ان میں بڑی تعداد اگلوں کی ہو گی اور تھوڑے پچھلوں میں سے ہوں گے۔ جڑاؤ تختوں پر، ٹیک لگائے ، آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔ ان کی خدمت میں غلمان، جو ہمیشہ غلمان ہی رہیں گے ، پیالے جگ اور شرابِ خالص کے جام لیے ہوئے گردش کر رہے ہوں گے جس سے نہ تو ان کو دردِ سر لاحق ہو گا اور نہ وہ فتورِ عقل میں مبتلا ہوں گے اور میوے ان کی پسند کے اور پرندوں کے گوشت ان کی رغبت کے۔ اور ان کے لیے غزال چشم حوریں ہوں گی، محفوظ کیے ہوئے موتیوں کے مانند۔ صلہ ان کے اعمال کا جو وہ کرتے رہے۔ اس میں وہ کوئی لغو اور گناہ کی بات نہیں سنیں گے۔ صرف مبارک سلامت کے چرچے ہوں گے۔

اور رہے داہنے والے تو کیا کہنے ہیں داہنے والوں کے ! بے خار بیریوں ، تہہ بہ تہہ کیلوں اور پھیلے ہوئے سایوں میں۔ اور پانی بہایا ہوا۔ میوے فراواں ، نہ کبھی منقطع ہونے والے نہ کبھی ممنوع۔ اور اونچے بستر ہوں گے اور ان کی بیویاں ہو گی جن کو ہم نے ایک خاص اٹھان پر اٹھایا ہو گا، پس ہم ان کو رکھیں گے کنواریاں ، دلرُبا اور ہم سنیں۔ یہ نعمتیں داہنے والوں کے لیے ہوں گی۔ ان میں اگلوں میں سے بھی ایک بڑا گروہ ہو گا اور پچھلوں میں سے بھی ایک بڑا گروہ۔

اور بائیں والے تو کیا ہی برا حال ہو گا بائیں والوں کا! وہ لُو کی لپٹ، کھولتے پانی اور دھوئیں کے سایہ میں ہوں گے جس میں نہ کوئی ٹھنڈک ہو گی اور نہ کسی طرح کی کوئی افادیت۔ یہ لوگ اس سے پہلے خوش حالوں میں سے تھے اور سب سے بڑے گناہ پر اصرار کرتے رہے۔ اور کہتے تھے کہ کیا جب ہم مر جائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں بن جائیں گے تو کیا از سرِ نو زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے ! اور کیا ہمارے اگلے آباء و اجداد بھی! کہہ دو! اگلے اور پچھلے سب جمع کیے جائیں گے۔ ایک معین دن کی مقررہ مدت تک۔ پھر تم لوگ، اے گمراہو اور جھٹلانے والو، زقّوم کے درخت میں سے کھاؤ گے اور اسی سے اپنے پیٹ بھرو گے ، پھر اس پر کھولتا پانی تونسے ہوئے اونٹوں کی طرح پیو گے۔ یہ جزا کے دن ان کی پہلی ضیافت ہو گی! (واقعہ 56: 56 -1)

 

دلائل آخرت: ربوبیت کی دلیل

 

                ربوبیت اور احتساب

 

ربوبیت زندگی کو جنم دینے، اسے برقرار رکھنے اور اس کی بقا اور تحفظ کو یقینی بنانے کا عمل ہے۔ اس کی سادہ ترین شکل ہم میں سے ہر شخص اپنے گھر میں دیکھ سکتا ہے کہ کس طرح اس کے والدین نے اسے وجود بخشا، اس کی پرورش کا اہتمام کیا اور ایک ننھی سی کونپل کو اپنی محنت و شفقت سے سینچ کر تناور درخت بنا دیا۔ والدین کی یہی وہ مہربانی ہے جس کی بنا پر کوئی اولاد اگر والدین کے ساتھ حسن سلوک نہ کرے تو معاشرے کی نگاہ میں قابل الزام ٹھہرتی ہے۔ اس کی ایک اور مثال آجر اور اجیر کا رشتہ ہے۔ ایک انسان جب ملازمت کرتا ہے تو اس کا مالک اسے ہر ماہ ایک مقررہ رقم بطور معاوضہ دیتا ہے۔ انسان اس رقم سے اپنی ضروریات زندگی پوری کرتا ہے۔ یہ تنخواہ اگر ملازم کا حق ہے تو اس کے جواب میں مالک کی بات ماننا، جو ذمہ داری دی جائے اسے پورے طور سے بجا لانا ملازم کی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ ملازم اگر یہ نہیں کرتا تو پھر مالک کا حق بنتا ہے کہ اس کا حتساب کرے۔ یہ احتساب آج نہیں ہو گا تو کل ہو گا۔ مگر جب کبھی ہو گا تو ایک کام چور ملازم کو بہرحال اس کی قیمت دینی پڑے گی۔ رہے جو لوگ محنت اور دیانت کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے رہے، انہیں اصل تنخواہ کے ساتھ انعام و اکرام اور ترقی ملنا بھی ایک لازمی حق بن جاتا ہے۔

 

                کائناتی ربوبیت اور اخروی جوابدہی

 

ربوبیت کی یہی داستان کہیں اعلیٰ سطٰح پر اس کائنات میں انسان کے حوالے سے صبح شام دہرائی جا رہی ہے۔ انسان ایک ایسی کائنات میں جیتا ہے جو ہر پہلو سے حیات کے لیے زہر ہلاہل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کائنات میں پانی ہے نہ ہوا، سبزہ ہے نہ غذا، دانہ ہے نہ دوا۔ یہاں مجرد خلا ہے، دہکتے ستارے ہیں، یخ بستہ اجسام ہیں۔ یہاں درجہ حرارت اس حد تک کم ہے کہ زندگی کی حرارت کو جما دے یا پھر اتنا زیادہ ہے کہ زندگی کی ہر رمق کو جلا کر مٹا سکتا ہے۔ اس قاتل کائنات کے ہر ذرے پر زندگی کے لیے صرف ایک ہی فیصلہ۔ موت کا فیصلہ۔ رقم ہے۔ زندگی کے اس قبرستان میں کرہ ارض ایک استثنائی حیثیت رکھتا ہے۔جہاں زندگی اپنے تمام تر حسن اور تنوع کے ساتھ جلوہ فرما ہے۔ یہ زندگی اس لائف سپورٹنگ سسٹم کا نتیجہ ہے جو اس کرہ ارض کو نہ صرف زندگی کی جنم بھومی بناتا ہے بلکہ اس کی بقا اور تحفظ بھی یقینی بناتا ہے۔ اس انتظام کے گوناگوں پہلوؤں کو قرآن مجید نے با ر بار دہرایا ہے وہ ہر دور کا انسان اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے۔ مگر دور جدید کا انسان اپنے غیر معمولی علم کی بنا پر ہر دور سے بڑھ کر سمجھ سکتا ہے کہ اس کی زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے اس کرہ ارض پر ان گنت اہتمام کیے گئے ہیں۔

قرآن مجید زندگی کی بقا اور تحفظ کے ان انتظامات کی نہ صرف یاد دہانی کراتا ہے بلکہ انسان کو جو خصوصی شرف دیا گیا، علم و عقل، سمع و بصر اور اختیار و ارادہ کی جو اضافی صلاحیتیں دی گئیں اور جس طرح تمام کائنات کوانسان کے لیے مسخر کیا گیا ہے، ان کی تفصیل کرتا ہے۔ وہ انسانی ضروریات ہی کا احاطہ نہیں کرتا بلکہ یہ بھی بتاتا ہے کہ انسان کہ ذوق جمال کی تسکین کے لیے بھی اس دنیا میں کیا کیا غیر معمولی انتظام کیے گئے ہیں۔

قرآن مجید ربوبیت کے وہ نمایاں اہتمام انسان کے سامنے رکھتا ہے جن کو انسان صبح و شام دیکھتا ہے اور پھر یہیں سے آخرت پر استدلال کرتا ہے کہ جب یہ سب کچھ گیا ہے تو پھر یہ طے ہے کہ بدلے کا دن آ کر رہے گا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ربوبیت کے ساتھ جواب دہی لازم و ملزوم ہے۔ جس طرح شروع میں آجر و اجیر کی مثال میں ہم نے دیکھا کہ ملازم کو تنخواہ اگر دی جا رہی ہے تو بہرحال اس سے پوچھا جائے گا کہ تفویض کر دہ کام اس نے کیا یا نہیں۔ جنھوں نے یہ کام کیا ان کی تحسین و ترقی واجب ہے اور جنھوں نے غفلت اور سرکشی برتی، ان کی گرفت بہرحال کرنے کا ایک کام ہے۔ یعنی اس کا ایک وقت معین ہے۔ اور وہی روز قیامت ہے جب ہر نفس کو اس کی کمائی کا بدلہ دیا جائے گا۔

 

                قرآنی بیانات

 

مذکورہ بالا تمام حقائق کو قرآن مجید میں جگہ جگہ دہرایا گیا ہے۔ ربوبیت اور پرورش کا ذکر کر کے اس سے قیامت پر استدلال اس طرح کیا گیا ہے۔

’’کیا ہم نے زمین کو گہوارہ اور پہاڑوں کو میخیں نہیں بنایا؟ تم کو جوڑے جوڑ ے نہیں پیدا کیا؟ تمہاری نیند کو دافعِ کلفت نہیں بنایا؟ رات کو تمہارے لیے پردہ اور دن کو وقتِ معاش نہیں بنایا؟ تمہارے اوپر سات محکم آسمان نہیں بنائے اور اس کے اندر ایک روشن چراغ نہیں رکھا؟ اور کیا ہم نے پانی سے لبریز بدلیوں سے موسلا دھار پانی نہیں برسایا کہ اس کے ذریعہ سے اگائیں غلہ اور نباتات اور گھنے باغ؟۔۔۔۔۔۔ بے شک فیصلہ کے دن کا وقت مقرر ہے۔

(سورہ نبا 6-17 :78 )

’’اور زمین کو ہم نے بچھایا اور ہم نے اس میں پہاڑوں کے لنگر ڈال دیے اور اس میں ہر قسم کی چیزیں تناسب کے ساتھ اگائیں اور ہم نے اس میں تمہاری معیشت کے سامان بھی رکھے اور ان کی معیشت کے بھی جن کو تم روزی نہیں دیتے۔ اور کوئی شے ایسی نہیں ہے جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں لیکن ہم اس کو ایک معین اندازے کے ساتھ ہی اتارتے ہیں۔

اور ہم ہی ہواؤں کو بار آور بنا کر چلاتے ہیں پھر آسمان سے پانی برساتے اور تم کو اس سے سیراب کرتے ہیں اور یہ تمہارے بس میں نہ تھا کہ تم اس کے ذخیرے جمع کر کے رکھتے۔

اور بے شک یہ ہم ہی ہیں کہ زندہ کرتے اور مارتے ہیں اور ہم ہی سب کے وارث ہیں اور ہم ان کو بھی جانتے ہیں جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں اور ان کو بھی جانتے ہیں جو بعد میں آنے والے ہیں اور بے شک تمہارا خداوند ہی ہے جو ان سب کو اکٹھا کرے گا۔ بے شک وہ علیم اور حکیم ہے۔ (سورہ الحجر19-25 :15)

’’وہی جس نے تمہارے لیے زمین کو گہوارا بنایا اور اس میں تمہارے لیے راہیں نکالیں اور آسمان سے پانی برسایا، پس ہم نے اس سے مختلف نباتات کی گوناگوں قسمیں پیدا کر دیں۔ کھاؤ اور اپنے چوپایوں کو چراؤ۔ اس کے اندر اہل عقل کے لیے نشانیاں ہیں۔ اسی سے ہم نے تم کو پیدا کیا ہے اور اسی میں تم کو لوٹائیں گے اور اسی سے تم کو دوبارہ نکالیں گے۔‘‘

(طہ 53-55 :20)

’’ اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر تم دیکھتے دیکھتے بشر بن کر روئے زمین پر پھیل جاتے ہو اور یہ بھی اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہارے جوڑے پیدا کیے تا کہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی ودیعت کی۔ بے شک اس کے اندر گوناگوں نشانیاں ہیں ان کے لیے جو غور کرنے والے ہیں۔ اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی خلقت اور تمہاری بولیوں اور تمہارے رنگوں کا تنوع بھی ہے۔ بے شک اس کے اندر گوناگوں نشانیاں ہیں اصحاب علم کے لیے۔ اور اس کی نشانیوں میں سے رات اور دن میں تمہارا سونا اور اس کے فضل کا طالب بننا ہے۔۔۔ بے شک اس کے اندر گوناگوں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ اور اسی کی نشانیوں میں سے یہ چیز بھی ہے کہ آسمان و زمین اس کے حکم سے قائم ہیں پھر جب وہ تم کو زمین سے نکلنے کے لیے ایک ہی بار پکارے گا تو تم دفعتہً نکل پڑو گے۔‘‘ (روم 20-25 :30)

یہ چند مقامات بطور مثال نقل کیے گئے ہیں جن سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ جو پالنہار ہے وہ ایک روز نعمتوں کے حساب کے لیے ضرور جمع کرے گا۔ جبکہ انسان کی ذات پر براہ راست کی گئی نعمتوں کا ذکر اور ان سے آخرت پر استدلال اس طرح کیا گیا ہے۔

’’اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے کان، آنکھ اور دِل بنائے ، پر تم بہت کم شکر گزار ہوتے ہو! اور وہی ہے جس نے تمہیں زمیں میں پھیلایا ہے پھر تم اسی کے پاس اکٹھے کیے جاؤ گے۔ اور وہی ہے جو زندہ کرتا اور مارتا ہے اور اسی کے اختیار میں ہے رات اور دن کی آمد و شد تو کیا تم سمجھتے نہیں !‘‘ (المومنون 78-80 :23)

انسان کی تخلیق، اس کی پرورش کے کائناتی انتظام کے ساتھ یہ بھی بیا ن کیا گیا ہے کہ انسان کے تحفظ کا مستقل اہتمام بھی کائنات میں جاری ہے۔

’’اور ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنایا اور وہ اس کی نشانیوں سے منہ پھیرے ہوئے ہیں۔‘‘ (انبیا 32 :21)

’’اللہ ہی ہے جو آسمانوں اور زمین کو تھامے ہوئے ہے کہ وہ ٹل نہ جائیں۔ اور اگر وہ ٹل جائیں تو اس کے بعد کوئی اور ان کو تھامنے والا نہیں بن سکتا۔ بے شک وہ نہایت حلیم و غفور ہے۔

(فاطر41 :35)

تخلیق، بقا، تحفظ اور تسکین؛ ربوبیت کے یہ وہ تمام پہلو ہیں جو اس بات کی طرف انسان کو توجہ دلاتے ہیں کہ یہ سب پا کر انسان کو بے پروا نہیں بلکہ ذمہ دار ہونا چاہیے۔ کیونکہ ایک دن آئے گا جب نعمت دینے والا سرکشوں کو سزا اور وفاداروں کو جزا دے گا۔ ربوبیت کا یہی انتظام آخرت کی ایک بہت بڑی دلیل ہے۔

 

دلائل آخرت : قدرت کی دلیل

 

                قرآن کی دعوت ، اعتراض اور دلیل قدرت

 

حیات بعد از ممات قرآن مجید کا بنیادی مقدمہ ہے۔ اس کا دعویٰ یہی ہے کہ یہ دنیا عارضی ہے اور ایک روز آئے گا جب تمام انسانوں کو زندہ کیا جائے گا اور پھر ان کے عمال کی بنیاد پر ان کے ابدی انجام کا فیصلہ ہو گا۔ صالحین جنت کی بادشاہی میں اور بدکار جہنم کے قید خانے میں جائیں گے۔ اس دعویٰ کی بنیاد پر قرآن مجید انسانوں سے پوری زندگی بدلنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اعتقاد، اعمال، اخلاق، مراسم عبودیت، طرز زندگی، معیشت، معاشرت غرض اس دعوت کو مان لینے کے بعد ہر شعبہ زندگی میں زبردست انقلاب آ جانا چاہیے۔

جو لوگ اپنی زندگی کو بدلنا نہیں چاہتے اور اخلاق کے بجائے خواہش اور مفاد کے اصول پر زندگی گزارنا چاہتے ہیں وہ چھوٹتے ہی یہ اعتراض کرتے ہیں کہ زندگی کے بعد موت ممکن نہیں۔ انسان زندگی کو جانتے ہیں۔ موت سے بھی واقف ہیں۔ لیکن مرنے کے بعد کسی کو زندہ ہوتے آج تک کسی نے نہیں دیکھا۔ لوگ دیکھتے ہیں کہ وہ مرتے ہیں اور خاک میں رل مل جاتے ہیں۔ جو بچتا ہے وہ بوسیدہ ہڈیاں ہوتی ہیں۔ قدیم زمانے کے لوگ صدیوں تک ایک ہی جگہ رہتے تھے۔ قرنوں سے موجود ان کے آباد و اجداد کی قبریں ان کے سامنے ہوتی تھیں۔کبھی کوئی زندہ ہوا نہ کسی ہڈی نے گوشت کا لبادہ اوڑھ کر انسانی قالب کو اختیار کیا۔ ایسے میں یہ دعویٰ کس طرح عقلی بنیادوں پر مان لیا جائے اور اس کی بنیاد پر پوری زندگی کا نقشہ ہی بدل دیا جائے کہ ایک روز اگلے پچھلے سارے انسانوں کو زندہ کیا جائے گا اور پھر ایک نئی زندگی شروع ہو گی۔

یہی وہ مقام ہے جہاں سے آخرت کی یہ دلیل قرآن مجید میں بیان ہوتی ہے اور اتنے گوناگوں پہلوؤں سے بیان ہوتی ہے کہ اس اعتراض کی کمزوری نہ صرف پوری طرح کھل کر سامنے آ جاتی ہے بلکہ معلوم ہو جاتا ہے کہ موت کے بعد زندگی ہر ہر پہلو سے انسانوں کے شب و روز کا مشاہدہ ہے اور اس کا انکار کوئی شخص کبھی نہیں کرسکتا۔

یوں تو قرآن مجید نے متعدد پہلوؤں سے اس دلیل کو پیش کیا ہے ، مگر جب تدبر کی نگاہ سے قرآن مجید کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو اندازہ ہوتا کہ قدرت کے استدلال کو تین پہلوؤں سے نمایاں کیا گیا ہے جو کہ درج ذیل ہیں۔

۱) ان انسانی مشاہدات کو سامنے رکھ کر جن میں انسان ہر روز مردہ چیزوں کو زندہ ہوتے دیکھتے ہیں۔

۲) انفس و آفاق میں جو کچھ موجود ہے اس صناعی و کاریگری کی عظمت کو سامنے رکھ کر یہ بتایا گیا ہے کہ تخلیق کا اتنا مشکل اور اتنا نازک معاملہ پہلی دفعہ کیا جا سکتا ہے تو دوبارہ بھی کیا جا سکتا ہے۔

۳) اللہ کے علم و قدرت کے ان پہلوؤں کو سامنے رکھنا جو یہ بتاتے ہیں کہ مرنے والے انسانوں کے لیے فنا ہوتے ہیں ، اللہ تعالیٰ کے علم و قدرت سے وہ کسی طور باہر نہیں نکلتے ، اس لیے وہ جب چاہے گا انھیں دوبارہ اٹھا کھڑا کرے گا۔

ذیل میں ہم قرآنی بیانات کی روشنی میں ان تینوں پہلوؤں کی تفصیل کریں گے۔

 

                مردہ مخلوقات کا زندہ ہونا

 

قرآن مجید کئی پہلوؤں سے اس حقیقت کو لوگوں کے سامنے بالکل نمایاں کر کے رکھ دیتا ہے کہ موت کے بعد جس زندگی کے وہ منکر ہیں ، وہ اس دنیا کا ایک روزمرہ کا مشاہدہ ہے۔ اس سلسلے کی سب سے نمایاں نشانی وہ مردہ زمین کی پیش کرتا ہے۔ انسانوں کا عام مشاہدہ ہے کہ زمین خشک اور بنجر پڑی ہوتی ہے۔ ہر طرف خاک اور دھول اڑتی ہے۔ سبزے کا ایک نشان تک نہیں ہوتا۔ صبح و شام گزرتے ہیں۔ شب و روز بیت جاتے ہیں۔ موسم اور مہینے بدل جاتے ہیں۔ مگر مردہ زمین کی قسمت نہیں بدلتی۔ یہاں تک کہ ایک روز یک بیک ٹھنڈی ہوا چلتی ہے۔ کچھ ہی دیر میں ہوا کے لطیف شانوں پر براجمان جھومتے اور ڈولتے بادل نمودار ہوتے ہیں۔ تپتا آسمان رنگ بدلتا ہے۔ ابرکرم کی برسات شروع ہوتی ہے۔ ہر چیز جل تھل ہو جاتی ہے۔ برسات کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ایک روز کوئی مسافر اس سرزمین سے گزرتا ہے۔ وہ حیران رہ جاتا ہے کہ جاتے وقت وہ جس زمین کو سنگلاخ چھوڑ گیا تھا وہ سرسبز و شاداب ہو گئی ہے۔ ہر طرف نباتات کی بہار ہے۔ درخت شاداب ہو چکے ہیں۔ پھول و پودوں کی بہار آئی ہوئی ہے۔ مردہ زمین زندہ ہو چکی ہے۔ قرآن مجید یہ مشاہدہ سامنے رکھ کر کہتا ہے کہ ایسے ہی ایک روز مردہ انسان زندہ کر دیے جائیں گے۔

دوسری نشانی خود انسان کا اپنا وجود ہے۔ اللہ نے رات کو دھرتی کا لباس اور نیند کو دافع کلفت بنایا ہے۔ دن بھر کی معاش کی جدوجہد کے بعد انسان کی یہ ضرورت بن جاتی ہے کہ وہ رات کے وقت نیند کے دامن میں پناہ ڈھونڈے۔  رات بھر وہ سوتا رہتا ہے اور صبح تازہ دم  ہو کر نئے دن کا آغاز کرتا ہے۔ قرآن مجید اس نیند کو موت اور اس بیداری کو روز حشر کی بیداری کی تمثیل کی شکل میں پیش کر کے کہتا ہے کہ اس عارضی موت اور پھر اس کے بعد بیداری کا تجربہ تم ہر روز کرتے ہو۔ اس کے بعد تم موت کی نیند کے بعد صبح ازل بیداری کے منکر کیسے ہو سکتے ہو۔

تیسری نشانی اجرام فلکی ہیں۔ سورج دن میں طلوع ہوتا اور رات میں غروب ہو جاتا ہے۔ جبکہ چاند اور تارے رات میں نکلتے اور دن میں ڈوب جاتے ہیں۔ مگر ہم جانتے ہیں کہ سورج کا ہر غروب ایک نئی طلوع کی نوید ہے اور ہمیں اس پر کوئی شک نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ جو خدا ڈوبے سورج کو دوبارہ نکال سکتا ہے وہ موت کی غروب کو زندگی کا طلوع دینے سے کیسے عاجز رہ سکتا ہے۔

پھر قرآن مجید انفس و آفاق کی انھی نشانیوں تک محدود نہیں رہتا بلکہ انسانی تاریخ کے بعض ایسے واقعات سامنے رکھتا ہے جن کی شہادت ایک زمانے نے دی ہے۔ مثال کے طور پر اصحاب کہف کے واقعے کو وہ تفصیل سے بیان کر کے یہ بتاتا ہے کہ انسانوں نے اپنی آنکھوں سے بھی مردوں کو زندہ ہوتے دیکھا ہے کہ کس طرح صدیوں تک سوئے ہوئے لوگ معجزانہ طریقے پر نہ صرف زندہ ہو گئے بلکہ حیات بعد از ممات پر جب لوگوں کو شک ہونے لگا تو اس کی ایک جیتی جاگتی مثال بن کر لوگوں کے سامنے آ گئے۔ یہی معاملہ سیدنا مسیح کا تھا جو اللہ کے اذن سے مردوں کو زندہ کر کے دکھاتے تھے ، (آل عمران 110:3)۔ اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تو ان کی فرمائش پر مردہ پرندوں کو زندہ کر کے دکھایا تھا، (البقرہ 260:2)۔

یوں انسانی مشاہدات ہی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ جو اللہ ان مخلوقات کو تمھاری آنکھوں کے سامنے مردہ کر رہا ہے ، اس کے لیے کیا مشکل ہے کہ وہ انسان کے مردہ ہو جانے کے بعد انھیں زندہ نہ کرسکے۔

 

                قرآنی بیانات

 

قرآن مجید میں حیات بعد از ممات کے تصور پر کفار کے رویے کو اس طرح بیان کیا گیا ہے۔

بلکہ ان لوگوں کو تعجب ہوا کہ ان کے پاس انہی کے اندر سے ایک آگاہ کرنے والا آیا تو کافروں نے کہا کہ یہ تو ایک نہایت عجیب بات ہے۔ کیا جب ہم مر جائیں گے اور مٹی ہو جائیں گے (تو دوبارہ لوٹائے جائیں گے ؟) یہ لوٹایا جانا تو بہت بعید ہے۔ (ق 50: 3-2)

کیا لوگوں کو اس بات پر حیرانی ہے کہ ہم نے انہی میں سے ایک شخص پر وحی کی کہ لوگوں کو ہوشیار کر دو اور اہل ایمان کو بشارت پہنچا دو کہ ان کے لیے ان کے رب کے پاس بڑا مرتبہ ہے ؟ کافروں نے کہا: بے شک یہ ایک کھلا ہوا جادوگر ہے۔ (یونس 2:10)

اور یہ کہتے ہیں کہ کیا جب ہم ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہو جائیں گے تو ہم ازسرنو اٹھائے جائیں گے ؟ کہہ دو کہ تم پتھر یا لوہا بن جاؤ یا کوئی اور شے جو تمھارے خیال میں ان سے بھی سخت ہو۔ پھر وہ کہیں گے کہ ہمیں کون دوبارہ زندہ کرے گا؟ کہہ دو کہ وہی جس نے تم کو پہلی بار پیدا کیا۔ (اسراء 17: 51-49)

اور کہتے تھے کہ کیا جب ہم مر جائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں بن جائیں گے تو کیا ازسر نو زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے ؟ اور کیا ہمارے اگلے آباؤ اجداد بھی؟ (واقعہ 56: 48-47)

اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ وہ نشانیاں بیان کرتے ہیں جن کا اوپر ذکر ہوا۔ مثلاً مردہ زمین کی زندگی کے حوالے سے قرآن کریم اس طرح توجہ دلاتا ہے۔

اور وہی ہے جو ابر رحمت سے پہلے ہواؤں کو بشارت بنا کر بھیجتا ہے ، یہاں تک کہ جب وہ بوجھل بادل کو اٹھا لیتی ہیں ، ہم اس کو ہانکتے ہیں کسی بے آب و گیاہ زمین کی طرف اور وہاں پانی برساتے ہیں اور پھر ہم اس سے پیدا کرتے ہیں ہر قسم کے پھل۔ اسی طرح ہم مردوں کو اٹھا کھڑا کریں گے تاکہ تم یاددہانی حاصل کرو۔

(اعراف 57:7)

اور تم زمین کو بالکل خشک دیکھتے ہو تو جب ہم اس پر پانی برسا دیتے ہیں تو وہ لہریں لینے لگتی اور اپجتی ہے اور طرح طرح کی خوشنما چیزیں اگاتی ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ اللہ ہی پروردگارِ حقیقی ہے اور وہی مردوں کو ایک دن زندہ کر کے اٹھائے گا جو قبروں میں ہیں۔ (حج 22: 6-5 )

اور ہم نے آسمان سے بابرکت پانی برسایا جس سے ہم نے باغ بھی اگائے اور کاٹی جانے والی فصلیں بھی۔ اور کھجوروں کے بلند و بالا درخت بھی جن میں تہ بہ تہ خوشے لگتے ہیں۔ بندوں کی روزی کے لیے۔ اور ہم نے اس سے مردہ زمین کو زندہ کر دیا۔ اسی طرح (مرنے کے بعد زمین سے ) نکلنا بھی ہو گا۔ (ق  50: 11-9)

انسانی نیند کو بطور نشانی اس طرح پیش کیا جاتا ہے :

اللہ ہی وفات دیتا ہے جانوں کو ان کی موت کے وقت، اور جن کی موت نہیں آئی ہوئی ہوتی ہے ان کو بھی ان کی نیند کی حالت میں۔ تو جن کی موت کا فیصلہ کر چکا ہوتا ہے ان کو تو روک لیتا ہے اور دوسروں کو ایک وقت مقرر تک کے لیے رہائی دیتا ہے۔ بے شک اس کے اندر نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور کرتے ہیں۔ (زمر 42:39)

اجرام فلکی کے طلوع و غروب سے وہ حیات بعد از ممات پر اس طرح استدلال کرتا ہے۔

’’(یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اِنھیں دوبارہ پیدا نہ کر سکیں گے )؟ نہیں ، میں قسم کھاتا ہوں اُس کی جو تمام مشرقوں اور مغربوں کا مالک ہے۔ ہم اِس پر قادر ہیں کہ اِن کو (دوبارہ) اِن سے بہتر پیدا کر دیں اور ہم اِس سے عاجز نہ رہیں گے۔‘‘(معارج  70:41-40)

خیال رہے کہ یہاں مشارق و مغارب کی قسم کھائی گئی ہے۔ اجرام فلکی مشرق و مغرب ہی میں ڈوبتے اور نکلتے ہیں۔ نیز مشرق یا مغرب کی کوئی ایک جگہ متعین نہیں ہوتی بلکہ مشرق اور مغرب کے تمام اطراف میں یہ طلوع غروب ہوتا ہے اس لیے مشرق و مغرب کے لیے جمع کے صیغے لائے گئے ہیں۔ پھر ان سے یہ استدلا ل کیا گیا ہے کہ ہم ان انسانوں کو نہ صرف ان جیسا بلکہ ان سے بہتر بنا کر زندہ کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔

اصحاب کہف کا واقعہ اس طرح بیان ہوا ہے۔

’’کیا تم نے کہف و رقیم والوں کو ہماری نشانیوں میں سے کچھ بہت عجیب خیال کیا! جب کہ کچھ نوجوانوں نے غار میں پناہ لی اور دعا کی کہ اے ہمارے رب ہمیں اپنے پاس سے رحمت بخش اور ہمارے اس معاملے میں ہمارے لیے رہنمائی کا سامان فرما۔ تو ہم نے غار میں ان کے کانوں پر کئی برس کے لیے تھپک دیا۔پھر ہم نے ان کو بیدار کیا کہ دیکھیں دونوں گروہوں میں سے کون مدت قیام کو زیادہ صحیح شمار میں رکھنے والا نکلتا ہے۔ ہم تمہیں ان کی سرگزشت ٹھیک ٹھیک سناتے ہیں۔ یہ کچھ نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے ان کی ہدایت میں مزید افزونی عطا فرمائی۔ اور ہم نے ان کے دلوں کو مضبوط کیا جب کہ وہ اٹھے اور کہا کہ ہمارا رب وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے۔ ہم اس کے سوا کسی اور معبود کو ہرگز نہیں پکاریں گے۔ اگر ہم نے ایسا کیا تو ہم یہ حق سے نہایت ہی ہٹی ہوئی بات کہیں گے۔ یہ ہماری قوم کے لوگوں نے اس کے سوا کچھ دوسرے معبود بنا رکھے ہیں۔ یہ ان کے حق میں واضح دلیل کیوں نہیں پیش کرتے ! تو ان سے بڑا ظالم کون ہو گا جو خدا پر جھوٹ باندھیں۔ اور اب کہ تم ان کو اور ان کے معبودوں کو، جن کو وہ خدا کے سوا پوجتے ہیں ، چھوڑ کر الگ ہو گئے ہو تو غار میں پناہ لو، تمہارا رب تمہارے لیے اپنا دامن رحمت پھیلائے گا اور تمہارے اس مرحلہ میں تمہاری ضروریات کا سامان مہیا فرمائے گا۔ اور تم دیکھتے سورج کو کہ جب طلوع ہوتا ہے تو ان کے غار سے دائیں جانب کو بچا رہتا ہے اور جب ڈوبتا ہے تو ان سے بائیں طرف کو کترا جاتا ہے اور وہ اس کے صحن میں ہیں۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے۔ جس کو اللہ ہدایت دے وہی راہ یاب ہوتا ہے اور جس کو وہ گمراہ کر دے تو تم اس کے لیے کوئی دستگیری کرنے والا اور رہنمائی کرنے والا نہیں پا سکتے۔

اور تم ان کو جاگتا گمان کرتے حالانکہ وہ سو رہے ہوتے اور ہم ان کو داہنے بائیں کروٹیں بھی بدلواتے اور ان کا کتا دونوں ہاتھ پھیلائے دہلیز پر ہوتا، اگر تمہاری نظر ان پر پڑ جاتی تو تم وہاں سے الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہوتے اور تمہارے اندر ان کی دہشت سماجاتی۔

اور اسی طرح ہم نے ان کو جگایا کہ وہ آپس میں پوچھ گچھ کریں۔ ان میں سے ایک پوچھنے والے نے پوچھا، تم یہاں کتنا ٹھہرے ہو گے ؟ وہ بولے ہم ایک دن یا ایک دن سے بھی کم ٹھہرے ہوں گے۔ بولے تمہاری مدت قیام کو تمہارا رب ہی بہتر جانتا ہے۔ پس اپنے میں سے کسی کو اپنی یہ رقم دے کر شہر بھیجو تو وہ اچھی طرح دیکھ لے کہ شہر کے کس حصہ میں پاکیزہ کھانا ملتا ہے اور وہاں سے تمہارے لیے کچھ کھانا لائے اور چاہیے کہ وہ دبے پاؤں جائے اور کسی کو تمہاری خبر نہ ہونے دے۔ اگر وہ تمہاری خبر پا جائیں گے تو تمہیں سنگسار کر دیں گے یا تمہیں اپنی ملت میں لوٹا لیں گے اور پھر تم کبھی فلاح نہ پا سکو گے۔اور اسی طرح ہم نے ان لوگوں کو مطلع کر دیا تاکہ لوگ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ شدنی ہے اور قیامت کے آنے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔

(کہف  18 : 21-9)

٭٭٭

ماخذ:

http://inzar.org

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید