FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

چمن کوئی بھی ہو

 

 

                باصِر سلطان کاظمی

 

 

 

 

 

انتساب

 

اپنی والدہ مرحومہ شفیقہ بیگم اور مرحومہ چچی شکیلہ جبیں کے نام

 

 

 

 

                اسمِ اعظم

 

مری دانست میں نامِ محمد

کلیدِ ہر دو عالم اسمِ اعظم

(ب س ک)

 

 

 

 

 

کچھ ٹائٹل پر دیئے گئے شعر کے بارے میں

 

دل لگا لیتے ہیں اہلِ دل وطن کوئی بھی ہو

پھول کو کھِلنے سے مطلب ہے چمن کوئی بھی ہو

باصِر سلطان کاظمی کا یہ شعراور اِس کا انگریزی ترجمہ، جو شاعر اور دیبجانی چیٹرجی کی مشترکہ کاوش ہے، دس دیگر زبانوں کے شعری نمونوں کے ساتھ، پتھرپہ کندہ کر کے لندن سے ملحقہ شہر سلاؤ ((Slough کے میکنزی سکوائر(McKenzie Square) میں نصب کیا گیا ہے۔ شعراء میں فلسطین کے معروف شاعر محمود درویش بھی شامل ہیں۔ اِس پروجیکٹ کے لیے آرٹس کونسل آف انگلینڈ نے اوکسفورڈشائر کے سنگ تراش Alec Peevar کی خدمات حاصل کیں۔

 

شاعر کا تعارف

 

پیدائش: 4 اگست 1953ء

تعلیم: ایم اے انگریزی، گورنمنٹ کالج لاہور؛ ایم ایڈ، ایم فِل، یونیورسٹی آف مانچسٹر، برطانیہ؛پی جی سی ای (انگریزی)، برطانیہ

ملازمتیں : استاد شعبۂ انگریزی :گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ (1976ء)؛ اِسلامیہ کالج سِول لائنز لاہور ( 1976-80) ;(گورنمنٹ کالج لاہور (1980-90)؛ ہیلی فیکس ہائی سکول، انگلستان(1992-95)؛ سٹریٹفورڈ ہائی سکول، مانچسٹر (1995-2008)؛ چینل فور خواندگی مہم (1999ء)؛ یونیورسٹی آف بریڈفورڈ (2008-12)؛ بلیسیڈ ٹامس کالج، مانچسٹر (2013-14ء)؛ گریٹ سینکی ہائی سکول /کالج، وارنگٹن (2014ء)؛ لیونزہیوم گرلز ہائی سکول، مانچسٹر (2014ء)، آلٹرنکم کالج آف آرٹس (2014ء)

اعزازات: رائٹر اِن ریذیڈنس، نارتھ ویسٹ پلے رائٹس ورکشاپس، اِنگلستان(1992ء)؛ فیلو آف رائل لٹریری فنڈ، اِنگلستان (2008-12ء)؛ ایم بی ای (MBE) :ملکہ برطانیہ کی جانب سے اعزاز، برائے ادبی خدمات بحیثیت شاعر (2013ء)؛غزل، ’زخم تمہارے بھر جائیں گے تھوڑی دیر لگے گی‘، انگریزی ترجمے کے ساتھ برطانیہ کے ہسپتالوں اور انتظار گاہوں میں آویزاں کی گئی (2001ء)؛شعر، ’دل لگا لیتے ہیں اہلِ دل وطن کوئی بھی ہو/ پھول کو کھِلنے سے مطلب ہے چمن کوئی بھی ہو‘، مع انگریزی ترجمہ، پتھر پہ کندہ کر کے لندن سے ملحق شہر سلاؤ کے میکنزی چوک میں نصب کیا گیا (2008ء)

اعزازی حیثیتیں : منتخب سیکرٹری سٹوڈنٹس یونین، گورنمنٹ کالج لاہور(1972ء)؛ مدیر ’راوی‘، گورنمنٹ کالج لاہور(1975ء)؛ نائب صدر گورنمنٹ کالج ڈرامیٹک کلب (1989-90ء) ؛ بانی، ایشین تھیٹر کمپنی، ’پیشکار‘، شمالی انگلستان (1992ء)؛ نیوز ریڈر، ایڈیٹر، ایشین پروگرام ’جھنکار‘، بی بی سی گریٹر مانچسٹر ریڈیو (1990-91ء)؛ مشیرآرٹس کونسل آف اِنگلینڈ (1995-98)؛ بانی رکن ’ مِنی مشاعرہ‘ (1996ء۔ تاحال)؛ رکن مجلسِ عاملہ، ایجوکیشن ایکشن زون مانچسٹر (1999-2000ء)؛ رکن مجلسِ عاملہ، نیشنل یونین آف ٹیچرز، برطانیہ (1999۔ تا حال) ؛ سرپرست یارک شائر ادبی فورم (2012۔ تا حال)

مطبوعات: ’بِساط ‘(طویل ڈرامہ)، 1987، مکتبۂ خیال، لاہور؛ ’مانوس اجنبی ‘ (کہانی)، 1987ء، مکتبۂ خیال، لاہور؛ ’موجِ خیال‘ (غزلیں )، مارچ1997ء، مکتبۂ خیال، لاہور؛ ’چمن کوئی بھی ہو‘ (غزلیں، نظمیں )، 2009ء؛ کلاسیک لاہور؛ شریکِ درد (ڈرامہ)، جون2005ء، سویرا، لاہور؛ ’ہوائے طرب‘ (غزلیں، نظمیں )، 2015ء، سنگِ میل پبلشرز لاہور؛ ’چونسٹھ خانے چونسٹھ نظمیں ‘ ( نظمیں )، 2015ء، سنگِ میل پبلشرز لاہور۔

The Chess Board:Pennine Pens, UK.ترجمہ ’بِساط‘ (1997ء)

غزلیں۔ انگریزی ترجمہ، (2003ء)؛

Generations of Ghazals: Ghazals by Nasir Kazmi & Basir Sultan Kazmi, 2003; edited by Debjani Chatterjee, Redbeck Press, UK

’غزل نسل در نسل: ناصِر کاظمی اور باصِر سلطان کاظمی کی غزلیں ‘۔ انگریزی ترجمہ معہ اردو متن (2006ء)، جہانگیر بک ڈپو، لاہور۔

غزلیں، نظمیں۔ انگریزی ترجمہ معہ اردو متن

Passing Through) (ہم وہاں بھی رہے Crocus Books/Commonword, UK 2014.

’ناصِر کاظمی: شخصیت اور فن ‘، اکادمی ادبیات پاکستان (2007ء)

تعارف ’سُرکی چھایا‘ (منظوم ڈرامہ از ناصِر کاظمی)، 1981ء، مکتبۂ خیال، لاہور

شریک مدیر، ’ خشک چشمے کے کنارے ‘ (ناصِر کاظمی کے مضامین کا مجموعہ)، 1981ء، مکتبۂ خیال، لاہور

دیباچہ ’پہلی بارش‘ (ناصر کاظمی کا شعری مجموعہ)، 1983ء، مکتبۂ خیال، لاہور

ترتیب و تعارف ’انتخابِ میر‘ (از ناصِر کاظمی)، 1989، مکتبۂ خیال، لاہور

ترتیب و تعارف ’انتخابِ نظیر ‘ (از ناصِر کاظمی)، 1989ء، مکتبۂ خیال، لاہور

ترتیب و تعارف ’انتخابِ ولی ‘ (از ناصِر کاظمی)، 1991ء، آغاز پبلشرز، لاہور

ترتیب و تعارف ’انتخابِ انشا ‘ (از ناصِر کاظمی)، 1991ء، فضل حق اینڈ سنز پبلشرز، لاہور

شریک مدیر، ’ہجر کی رات کا ستارہ‘ (ناصِر کاظمی پر مضامین کا مجموعہ، مدیر، احمد مشتاق)، طبعِ دوم(2013ء)سنگِ میل پبلشرز لاہور۔

’ناصر کاظمی کا دیوان‘، مطبوعہ، ’ہجر کی رات کا ستارہ‘، طبعِ دوم، 2013ء، سنگِ میل پبلشرز لاہور۔

 

Literacy in Pakistan:The Influences of Orthodox Religious Thought On Female Literacy (2000)

(ایم فِل تھیسس، زیرِ طبع)

رسائل اور اخبارات جن میں غزلیں / نظمیں شائع ہوئیں :

پاکستان: راوی، فنون، سیپ، ماہِ نو، محراب، ادبیات، محور، پطرس۔

برطانیہ: پرواز، مخزن، روزنامہ جنگ۔

غزلوں اور نظموں کے انگریزی تراجم

  1. 1. Orbis, autumn 1982, no 46; the international literary magazine (Double Issue), England.
  2. 2. Wasafri Issue 26, Autumn 1997, edited by Susheila Nasta (Dept. of English, Queen Mary & Westfield College, London, 1997)
  3. 3. A little Bridge by Debjani Chatterji, Simon Fletcher & Basir Sultan Kazmi (Pennine Pens, Hebden Bridge, 1997.
  4. 4. The Northern Durbar: Poems Celebrating Fifty Years of Independence edited by Shripati Upadhyaya & Brian Lewis (Pontefract Press & Kala Sangam, Pontefract & Bradford, 1997)
  5. 5. Agenda: An Anthology Vol. 35, Winter-Spring 1998 (Agenda Magazine, London, 1998)
  6. 6. Poems for the Waiting Room Project (Hyphen 21, London, 2001)
  7. 7. Dream Catcher Issue 11, Autumn 2002, edited by Paul Sutherland (Dream Catcher, Lincoln, 2002)
  8. 8. Jade Horse Torso: Poems and Translations by Debjani Chatterjee (Sixties Press, London, 2003)
  9. 9. The EMLIT Project: European Minority Literatures in Translation edited by Paula Burnett (Brunel University Press, London, 2003) Ghazal: ‘Tomorrows Trees’ along with Urdu original and translations in French, German, Spanish and Italian.
  10. 10. The EMLIT Project: Writers Reading: A Sampler CD to accompany The EMLIT Project European Minority Literatures in Translation edited by Paula Burnett (Brunel University Press, London, 2003) Urdu original of ‘Tomorrows Trees’ recited by the poet.
  11. 11. The EMLIT Project: European Minority Literatures in Translation website edited by Paula Burnett (Brunel University Press, London, 2003) ‘Tomorrows Trees’ along with Urdu original and translations in French, German, Spanish and Italian.
  12. 12. Poetry Leeds, Issue 1, Winter Edition, 2003; Sixties Press.

13 http://DebjaniChatterjee.mysite.wanadoo-members. co. uk

  1. 14. http:/mysite.freeserve.com/DebjaniChatterjee Debjani’s website.
  2. 15. Generations of Ghazals: Ghazals by Nasir Kazmi and Basir Sultan Kazmi, edited by Debjani Chatterjee (Redbeck Press, Bradford, 2003)
  3. 16. Is a religious poem possible in the early 21st century? Edited by David Hart, Flarestack, 2004.
  4. 17. Masala: Poems from India, Bangladesh, Pakistan and Sri Lanka. Macmillan Children’s Books, UK, 2005. ،
  5. 18. Hair: A Journey Into The Afro & Asian Experience. Shorelines, Manchester, UK, 2006.
  6. 19. Private, No 39: I am Pakistan, Winter 2007-08; Italia (International Review of Black and White Photographs and texts.
  7. 20. Fire nos 29/30, Special International Double Issue; edited by Jeremy Hilton, March, 2008.
  8. 21. The Suitcase Book of Love Poems, edited by Martin De Mello (Suitcase/Shorelines, Manchester, 2008)
  9. 22. Moving Worlds: A Journal of Transcultural Writings, Volume 9, Number 2, 2009.
  10. 23. Pakistani Diasporas: Culture, Conflict and Change; edited by Virinder S. Kalra, Oxford University Press, 2009.
  11. 24. Another Bridge by Debjani Chatterji, Brian D’Arcy, Simon Fletcher & Basir Sultan Kazmi. (Sahitya Press, Sheffield, 2012.)
  12. 25. Sweet Tongues, Crocus Book of Food Poems (Commonword, Manchester, 2013)
  13. 26. Atlanta Review, Pakistan Issue, Volume XX, Issue Number 2, 2014.
  14. 27. Writing the City in British Asian Diasporas. (Routledge UK & New York, 2014)

 

مشاعروں میں شرکت

پاکستان، برطانیہ، امریکہ، ہندوستان، ابوظہبی، بحرین، دوہا قطر، ناروے، سویڈن، ڈنمارک، فرانس، جرمنی، سپین، ہالینڈ، بیلجیم۔

ڈرامے جو سٹیج ہوئے

’بساط‘، پہلا ایکٹ، دوسرا منظر: پرل کونٹینٹل، لاہور، تقریبِ اجراء 1987 اور پی ٹی وی ڈرامہ فیسٹیول، 1987۔ اداکار: آصف سیماب، انوار احمد۔

’روبوٹ چار سو بیس‘ [one act play ) Robot 420]1992

’نئے افق‘ [(long play) New Horizons [ 1992

شریکِ درد [ (one act play) Something to Share] 1993

Robot 420 (Urdu, English, Bengali), staged at Werneth Park, Oldham & Abraham Moss Centre, Manchester, June/July1992.

New Horizons (Urdu, English, Bengali), staged at Sixth Form College Oldham (Dec.1.992), Nia Centre, Manchester (1993); Colesium Theatre, Oldham (23.0.5.1.994), Octagon Theatre; Bolton (30.0.5.1.994); Contact Theatre, Manchester (12.0.6.1.994)

Something to Share (English translation), staged at Unity Theatre Liverpool (25-27 March, 1993); Green Room Manchester (7 April, 1993)

Email: basirkazmi@hotmail.co.uk

 

 

 

 

چمن چمن مہکتا پھول۔ ۔ ۔ باصر سلطان کاظمی

 

                ارمان یوسف

 

باصرسلطان کاظمی جب ادب میں آئے، خواہ وہ نثر ہو یا نظم اپنا ایک الگ مقام بنانے میں کامیاب و کامران ٹھہرے۔ مزید تعلیم کے سلسلے میں سر زمینِ برطانیہ پہ قدم رکھا اور یہیں پر ہی تدریسی شعبے سے منسلک ہو کر انگریزوں کو انگریزی پڑھانے لگے۔

ہجرت کے آزار بھی سہے، جنم بھومی اور پرکھوں کی حویلی کے سائے اگرچہ اجنبی دیس میں دیر تک پیچھا کرتے رہے، یہاں، وہاں کی کتنی گردان رہی، وطن کی کشش بھی صدا دیتی رہی اور نئے ماحول کی رنگینی اور آسودگی بھی جی کو لبھاتی رہی۔ اقرار، انکار کی تکرار زیادہ نہ چلی اور اس نے اس ملک کو بھی عزیز جانا اور اپنا سمجھا، اور ایک بار یہیں کے ہو رہنے کا فیصلہ کر لیا تو پکار اٹھے ؂

دل لگا لیتے ہیں اہلِ دل وطن کوئی بھی ہو

پھول کو کھِلنے سے مطلب ہے چمن کوئی بھی ہو

اس شعر نے نہ صرف اردو ادب میں ان کے سوچ کے زاویے کو نئی جہت بخشی بلکہ اپنی الگ پہچان بنانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ کانٹا بن کے چبھنے کی بجائے پھول بن کے کھِلے کہ جس کی دل آویز خوشبو نے پورے چمن کو مہکا دیا۔ بدلے میں اسی چمن نے انھیں اجنبی اور دوسری زمین کی ایک شاخ سمجھ کر نظر انداز کرنے کی بجائے زینتِ چمن خیال کیا اور مذکورہ بالا شعر لندن کے نواحی علاقے سَلاؤکے اہم مقام پر انگریزی ترجمے کے ساتھ پتھر پہ کنندہ ہو کرتاریخ کے ماتھے پہ مہر ثبت کر چکا ہے اور پھر یہ اعزاز صرف اسی غزل تک ہی نہیں بلکہ ’’ویٹنگ رومز پرجیکٹ ‘‘کے تحت 2001 ء میں ان کی ایک اور غزل منتخب ہوئی اور انگریزی ترجمے کے ساتھ برطانیہ کے ہسپتالوں اور انتظار گاہوں میں آویزاں کی گئی۔ چمن کو اپنی خوبصورتی اور خوشبو سے معطر کرنے والے پھول سے باغبان بھلا کیسے غافل رہ سکتا ہے۔ شعری اور ادبی عظمت کے اعتراف میں ملکۂ برطانیہ کی طرف سے 2013 ء میں انھیں ’’MBE‘‘ کے اعزاز سے بھی نوازا گیا اور اب وہ باصر سلطان کاظمی ایم بی ای لکھے اور پڑھے جاتے ہیں۔ دہشتوں اور وحشتوں کے سائے میں گھری پاکستانی قوم کے لیے یہ بھی ایک کتنا بڑا اعزا زہے !

باصر کی شاعری میں ہجر کے آزار اور سمجھوتے کے آثار ملتے ہیں، وہ خوابوں کی تعبیر کو بھی پاتے ہیں اور جب فطری تقاضے کے عین مطابق خیال کا ریشم اپنی ہی تعبیروں سے الجھ سا جاتا ہے تو ایسے میں جھنجلاہٹ کی بجائے شعر میں ایسی خیال آفرینی کرتے ہیں جو انسانی نفسیات کا ترجمان بن کے فطرت کو آشکار کرتا ہے ؂

ہم کہ جو ہر ابر کو ابرِ کرم سمجھا کیے

آ گئے اِس دیس میں اور دھوپ کو ترسا کیے

وطن سے دور رہتے ہوئے چمکیلی دھوپوں، چاندنی راتوں اور محفلِ یاراں کا ٹوٹ کر جو احساس ہوتا ہے وہ ٍ’’تجربہ‘‘ اپنوں کے درمیان رہ کر ہر گز حاصل نہیں ہو سکتا۔ بارشوں میں مہکتی سوندھی مٹی کی خوشبو کا نعم البدل نہیں۔ یوسفی صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں ’’وطن سے دور رہنے کا ایک بیَن فائدہ یہ دیکھا کہ وطن اور اہلِ وطن سے محبت نہ صرف بڑھ جاتی ہے بلکہ بے طلب اور غیر مشروط بھی ہو جاتی ہے ‘‘

یوں مذکورہ بالا شعر میں توقعات اور سنہری خوابوں کے کرچی کرچی ہونے کا احساس بھی نمایاں ہے اور وطن میں میسر نعمتوں سے محرومی کا ادراک بھی۔ دھوپ کی تمازت سے لطف اندوز ہوتے دیو جانس کلبی نے اپنے سامنے دست بستہ عرض سکندرِ اعظم جیسے شاگرد کی پیش کردہ خدمات کو قبول کرنے کی بجائے اتنا ہی تو کہا تھا ’’دھوپ کو مت روکو، جو تم دے بھی نہیں سکتے ‘‘کسی شاعر نے اپنے انداز میں اسے یوں بھی بیان کیا ہے      ؂

خوشی ملی تو کئی درد مجھ سے روٹھ گئے

دعا کرو کہ میں پھر سے اداس ہو جاؤں

باصر کا ایک اور شعر دیکھیے۔

اگر خدا نے نکالا بتوں کے چکر سے

طوافِ کعبہ کا اب کے برس ارادہ ہے

خیر و شر، نیکی بدی اور انسانی زندگی کی ساری جد و جہد کا پورا نقشہ اس ایک شعر میں سمٹ آیا ہے۔ بنانے والے نے یہ جہاں بنا تو دیا اور انسانی کھیل کھود کی بھی خاصی گنجائش رکھ چھوڑی ہے۔ انسان ہر روز ایک نئے عزم کے ساتھ نئے دن کا آغاز کرتا ہے، دنیا کے جھمیلوں میں پھنسا یادِ خدا میں بھی مصروف رہنا چاہتا ہے۔ ذہن کے کسی نہ کسی گوشے میں یہ بات ضرور رہتی ہے۔ خدا جانے یہ بھی حور و غلماں کی خواہش میں غلطاں دلِ ناداں کوتسلئ طفلاں دینے والی بات ہے یا فرشتوں کو چکمہ دینے والی کہ آج تو گرمی بہت ہے کل روزہ رکھ لیں گے، اگلے اتوار عبادت کو نکلیں گے یا اگلے روز ما تھا ٹیکیں گے۔ اگلا روز بھی آ تو ضرور جاتا ہے مگر نئی مصیبتیں اور پریشانیاں بھی تو ساتھ لاتا ہے۔ غمِ دنیا ہو کہ غمِ روزگار۔ یا محبوب کی گلیوں کے چکر۔ ایک نا دیدہ سی زنجیر پاؤں جکڑے رہتی ہے۔ ذہن کے کسی گوشے میں سوئے کعبہ جانے کو بھی دل مچلتا رہتا ہے اور بالآخر انسان ان جھمیلوں سے رہائی پا کر کعبہ کو چل بھی دیتا ہے۔ حکمِ خداوندی بھی یہی ہے کہ ہر چیز کو میری طرف ہی لوٹ کر آنا ہے۔ اس شعر میں غالب کے جیسی شوخئ فکر بھی پنہاں ہے کہ اتنے سارے چکروں سے جان چھڑانے کے بعد محوِ طوافِ کعبہ ہوئے بھی تو گویا ایک اور ’’ چکر ‘‘میں پڑ گئے۔ منیر نیازی کا شعر اس حوالے ؂

اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو

میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

باصر کا ایک اور شعر ؂

حاضری کے واسطے سرکار کا دفتر کھُلا

کتنے چکّر کاٹنے کے بعد یہ چکّر کھُلا

درج بالا شعر پہ اب میں کیا تبصرہ کروں، جو شعر ایک ایک چہرے پہ لکھا ہو اس کے لیے صفحے کا لے کیا کرنے۔ وطنِ عزیز کا بطور خاص اور عمومی زندگی کا بطور عام ایک پورا نقشہ آپ کو اس شعر کی تہہ در تہہ پرت میں ملے گا۔ دفتروں کے چکر در چکر کے گھناؤنے سلسلے کا ایک رویہ کسی ریٹائرڈ سرکاری ملازم کے چہرے کی جھریوں میں ملاحظہ کیجیے، جو آپ کو اس شعر کی پوری وضاحت دے گا۔ کپکپاتے ہاتھوں سے عرضی لکھتے کسی مظلوم سے پوچھیے، وہ آنسوؤں کی جھڑی میں ایک ایک چکر کی تفصیل بتا دے گا۔ ہجر کا آزار سہہ کر دیارِ غیر میں شناخت کی جد و جہد کرتے کسی پردیسی سے جانیے۔ تین نسلوں سے حقوق کی جنگ لڑتے دادا جانی بسترِ مرگ پہ وصیتوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی تسلی کر کے دنیا سے رخصت ہونا چاہتے ہیں کہ نسلوں سے چلنے والے اِن دفتری چکروں کو اس کے ورثا چھوڑ نہیں دیں گے، بچے بھی تا دمِ مرگ نہ صرف جاری رکھیں گے بلکہ اگلی نسل تک منتقل کرنے میں بھی عہدِ وفا لے کے ہی دنیا سے رخصت ہوں گے۔ ۔ ۔ اور پھر اُدھر دم نکلتے ہی فرشتے ایک اور دفتر کھول کے بیٹھ گئے کہ حساب دو؟ بھئی سانس تو لینے دو، ابھی تو لواحقین کے آنسو تک نہیں خشک ہوئے۔ اور پھر کس کس بات کا حساب لیجیے گا؟ معصوم اور بے گناہ لاشوں کو تڑپتا دیکھ کر ان آنکھوں سے جو آنسو رواں تھے، ان کی تعداد بتائیں ؟ کتنے دن سیر شکم رہے اور کتنی راتیں فاقہ مستی میں گزاریں ؟ظالم ہاتھوں سے مظلوموں پہ برستے تیر و تلوار دیکھ کر روح پہ جو گھاؤ لگے، ایک ایک کر کے وہ دکھائیں ؟ دل کی حویلی کب کب کہاں کہاں کیسے کیسے لٹی، اس کی تفصیل دیں ؟زندگی کو زندگی کرتے ایک ایک لمحے میں کیسے کیسے مر مر کے جیا کیے، یہ پوچھو گے ؟

ذوق نے کیا خوب کہا تھا      ؂

اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے

مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

 

باصر کے چند اور نمونے کے اشعار ملاحظہ ہوں۔

 

اِس کاروبارِ عشق میں ایسی ہے کیا کشش

پہلے پدر خراب ہوا پھر پسر خراب

 

حالت جگہ بدلنے سے بدلی نہیں مری

ہوتی ہیں ہر جگہ کی کچھ اپنی خرابیاں

 

وہی ہلاکو کہ جس نے کیے ہزاروں ہلاک

اُسے بھی وقت کی یلغار نے ہلاک کیا

 

نہ کوئی ہمنوا میرا نہ ہمدم

غریبم شاعرم گوشہ نشینم

 

سُورج کا یہ رنگ نہ تھا جو وقتِ شام ہُوا ہے

دیکھو کیسا سَرکش گھوڑا کیسا رام ہُوا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

سرزمین شعر کا اجنبی مسافر

 

                ساجد علی

 

1971کا سال تھا جب میں گورنمنٹ کالج لاہور میں بی اے کا طالب علم تھا۔ باصر سے دوستی کا آغاز ہو چکا تھا۔ ایک دن باصر نے پہلی بار مجھے اپنی وہ غزل سنائی جس کا مطلع ہے :

دمِ صبح آندھیوں نے جنہیں رکھ دیا مسل کے

وہی ننھے ننھے پودے تھے گھنے درخت کل کے

غزل مجھے بہت ہی پسند آئی اور اس کا مطلع تو حواس پر اس قدر چھا گیا کہ کئی دنوں تک ہر وقت دماغ میں گردش کرتا رہتا تھا۔

اس وقت سے اب تک تقریباً چار دہائیوں پر محیط دوستی کا یہ سفر جاری ہے۔ شیخ صلاح الدین نے ناصر کاظمی: ایک دھیان میں لکھا ہے کہ ناصر سے ان کی دوستی کے ابتدائی زمانے میں بہت خوں ریز بحثیں ہوا کرتی تھیں۔ میری اور باصر کی دوستی کا آغاز بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ رات گئے تک کرشن نگر کی گلیوں میں ہمارا بحث مباحثہ جاری رہتا تھا۔ ان بحثوں کا ایک خاموش سامع وحید رضا بھٹی ہوتا تھا۔ وحید میرا کلاس فیلو تھا اور اسی نے باصر سے تعارف کروایا تھا۔ میرا تعلیمی، مذہبی، ادبی اور سیاسی پس منظر چونکہ باصر سے بہت مختلف تھا اس لیے ہمارے درمیان اختلافی نکات بھی بہت ہوتے تھے۔ دو بڑے اختلافی موضوعات اسلامی تاریخ اور اقبال کی شاعری تھے۔ بعض اوقات تو بحث میں تلخی کا رنگ بھی نمایاں ہو جاتا تھا جس پر وحید کو بڑی پریشانی ہوتی تھی اور وہ شاید اس اندیشے میں گرفتار گھر جاتا تھا کہ معلوم نہیں صبح یہ آپس میں ملیں گے یا نہیں۔ مگر صبح ہمیں کالج میں اسی خلوص اور گرم جوشی سے ملتے دیکھتا تو ابتداً تو وہ حیران ہوتا مگر پھر وہ اس کا عادی ہوتا چلا گیا۔

ان مباحثوں میں تو کوئی بھی دوسرے کے نقطۂ نظر کا کبھی قائل نہ ہوا مگر دھیرے دھیرے ہمارے بھیتر میں تبدیلی آتی چلی گئی جس کے نتیجے میں غیر محسوس طور پر ہمارے خیالات اور افکار تبدیل ہوتے گئے۔ عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم دنوں نے ہی اپنے ماضی کے بہت سے ترکے کو خیر باد کہہ دیا۔ باصر نے اقبال کو بطور شاعر از سر نو دریافت کیا اور اس کے اثرات اس کی شاعری میں دیکھے جا سکتے ہیں اور اب اس نے اقبال کی اسرارِ خودی کے ایک حصے کا ترجمہ بھی کیا ہے۔

کالج کے زمانے میں ہم چند دوستوں کا جو گروپ تھا اس میں سبھی لکھنے لکھانے کا شوق رکھتے تھے مگر ہم سب میں یہ بات مشترک تھی کہ ایک دوسرے کی تحریر کو سخت سے سخت تنقیدی معیار پر پرکھنے کی کوشش کرتے تھے، اس میں غلطیوں کی نشان دہی کرتے تھے، اس پر بحث کرتے تھے۔ اس طرزِ عمل نے ہمیں بہت فائدہ دیا اور ہم نے واقعتاً ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھا۔

ستر کی دہائی ہماری آوارہ گردیوں اور رتجگوں کا زمانہ تھا۔ اس زمانے میں شاعری کے علاوہ باصر کو شطرنج سے جنون کی حد تک عشق تھا۔ وہ یا تو ہر وقت شطرنج کی بساط سامنے رکھے اکیلا ہی کسی گرینڈ ماسٹر کی گیم کو سمجھنے میں دماغ سوزی میں مصروف ہوتا یا پھر شطرنج کے عالمی شہرت یافتہ کھلاڑیوں کے بارے میں کتب کا مطالعہ کرتا رہتا۔ اسی زمانے کو یاد کرتے ہوئے اس نے یہ شعر کہے ہیں :

کھلاڑی مجھ سے بہتر بیسیوں پیدا ہوئے ہیں

مگر شطرنج سے جو عشق مجھ کو تھا کسے تھا

 

یہی بچائے گا تم دیکھنا مری بازی

بساط پر جو یہ ناچیز سا پیادہ ہے

مگر ستر کی دہائی کے آخری برسوں میں باصر نظامِ ہضم کی خرابی کا شکار ہو گیا جس کا سلسلہ کئی برس تک جاری رہا۔ اس کے نتیجے میں اس نے اپنے طرزِ زیست کو بہت تبدیل کیا اور اپنی خوراک میں از حد احتیاط اور اعتدال کی راہ اختیار کی مگراس نے شطرنج کھیلنے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ تاہم کسی نہ کسی سطح پر اس کھیل میں اس کی دلچسپی برقرار رہی۔

شاعری اور شطرنج کے علاوہ باصر کو پتنگ بازی کا بھی بہت شوق تھا۔ وہ بڑے اہتمام سے بسنت منانے کی تیاری کرتا، ڈور کو مانجھا بھی خود لگاتا تھا۔ بسنت کے دن سب دوست اس کے گھر کی چھت پر جمع ہوتے اور خوب ہلہ گلہ ہوتا۔ میں اور بعض دوسرے دوست تو محض باصر کی خوشی کے لیے شریک ہوتے تھے کیونکہ ہمیں پتنگ بازی کے بارے میں سرے سے کچھ معلوم نہ تھا۔

اسی زمانے کی بات ہے کہ ایک رات حسب معمول باصر کے گھر پر دوستوں کی منڈلی جمع تھی۔ نصف شب گزر چکی تھی جب اس نے یہ اعلان کر کے سب کو چونکا دیا کہ وہ ایک ڈرامہ لکھ رہا ہے۔ اور اس نے زیرِ تصنیف ڈرامے کے کچھ مکالمات اور سین پڑھ کر سنائے۔ ان مکالموں میں حکمت و دانش کی بہت گہری باتیں تھیں اور نثر اتنی زور دار تھی کہ سب دوست حیران رہ گئے۔ اب اگلے کئی برس باصر ڈرامے کے مطالعے میں ہمہ تن غرق رہا۔ اس نے اردو کے سارے ہی طبع شدہ ڈرامے پڑھ ڈالے اور انگریزی زبان میں بھی بہت سے ڈرامہ نگاروں کا مطالعہ کیا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب مجھے تشویش ہونے لگی کہ کہیں وہ شاعری کو ہی خیر باد نہ کہہ دے کیونکہ کچھ بیماری کے سبب اور کچھ ڈرامے میں انہماک کے باعث باصر نے 1976 سے 1979 تک چار برسوں میں صرف نو غزلیں کہی تھیں۔

باصر کی یہ عادت ہے کہ تخلیقی کام میں وہ کبھی بھی جلدی کا شکار نہیں ہوتا۔ وہ بڑے صبر اور بڑی استقامت کے ساتھ کھیتی کے پھلنے پھولنے کا انتظار کرتا ہے۔ چنانچہ اس نے اپنا ڈرامہ بساط تقریباً دس برس کے عرصے میں مکمل کیا جو ایک شاہ کار تصنیف ہے۔ اگرچہ بعض لوگوں کواس پر یہ اعتراض تھا کہ اس میں فلسفہ بہت زیادہ ہو گیا ہے اور وہ ڈرامے کی بجائے مکالمات افلاطون کی قبیل کی کوئی چیز لگتا ہے۔ جب یہ ڈرامہ کتابی صورت میں شائع ہوا تو ادبی حلقوں میں اس کی بہت پذیرائی ہوئی تھی۔

نوے کی دہائی میں باصر نے مزید تعلیم کے لیے انگلستان کا سفر اختیار کیا۔ قیامِ انگلستان کے دوران میں اسے علمی اور ادبی سرگرمیوں کے لیے ایک وسیع میدان میسر آ گیا اور اس نے نئے علاقے فتح کرنے پر توجہ مرکوز کی۔ تعلیمی ڈگریوں کے حصول کے ساتھ ساتھ اس کی ادبی سرگرمیاں زیادہ بھرپور طریقے سے جاری رہیں۔ اس نے ڈرامے بھی تصنیف کیے جو وہاں کے بہت اعلی تھیٹروں میں اسٹیج ہوئے۔ اس کے دوسری قوموں اور زبانوں کے شاعروں اور ادیبوں سے روابط استوار ہوئے۔

ان روابط کا ایک ثمر یہ ہے کہ اس نے بھارتی نژاد برطانوی شہری اور انگریزی زبان کی شاعرہ دیبجانی چیٹرجی(Debjani Chatterjee) اور انگریز شاعر سائمن فلیچر کے ساتھ مل کر منی مشاعرہ کی بنیاد رکھی۔ دیبجانی ہندو ہیں اور ان کی مادری زبان بنگالی ہے۔ وہ ہندی سے بھی بخوبی واقف ہیں اور انگریزی کی انعام یافتہ اور مشہور شاعرہ ہیں۔ سائمن بھی انگریزی کے مستند شاعر ہیں جن کی کتاب کے بارے میں Poet Laureate ٹیڈ ہیوز (Ted Hughes)نے تعریفی جملے لکھے۔ یہ تینوں شاعر برطانیہ کے متعدد شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں جا کے اپنی شاعری سناتے ہیں اور ورکشاپیں منعقد کرتے ہیں۔ ان کا مقصد فن کے ذریعے مختلف قومیّتوں، مذاہب اور نسلوں کے لوگوں میں بھائی چارے کو فروغ دینا ہے۔ اِن دوستوں کی رفاقت نے باصر کو نظم لکھنے کی طرف راغب کیا اور اس سے غزلیں سن کر وہ غزل میں دلچسپی لینے لگے۔ انہوں نے انگریزی میں غزل کی طرز پہ نظمیں بھی کہیں اور باصر کے ساتھ مِل کے اردو غزلوں کے تراجم بھی کیے جو مختلف ادبی جرائد اور anthologiesمیں شائع ہو چکے ہیں۔ باصر نے بھی اُن کی نظموں کو اردو میں منتقل کیا ہے جواس مجموعے میں شامل ہیں۔ آرٹس کونسل انگلستان کی سپانسرشپ پر سائمن نے اپریل 1997 میں لاہور کا دورہ کیا اور ناصر کاظمی کی پچیسویں برسی کے موقع پر الحمرا میں جو تقریب منعقد ہوئی تھی اس میں اپنی نظم پیش کی۔ دیبجانی نے ۱پریل2006میں باصر کے ہمراہ پاکستان کا دورہ کیا۔ لاہور میں مختلف ادبی تنظیموں، ثقافتی اداروں اور تعلیمی درسگاہوں نے اِن مہمانوں کی بہت پذیرائی کی۔ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ میں بھی دیبجانی اور باصر کے ساتھ ایک محفل منعقد ہوئی جس میں دونوں نے اپنا کلام سنایا۔

دیبجانی نے باصر کے اشتراک سے ناصر کاظمی کی 25 اور باصِر کی 24 غزلوں کا انگریزی میں منظوم ترجمہ کیا ہے جو Generations of Ghazalکے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ ان تینوں شاعروں کے کلام کا ایک مجموعہ A Little Bridgeکے نام سے بھی شائع ہو چکا ہے۔ اب ناصر اور باصر کے حوالے سے انگریزی خواں لوگ اردو شاعری اور بالخصوص غزل کے ذائقے سے آشنا ہو رہے ہیں۔ بلاشبہ غریب الوطنی کے اپنے مسائل ہوتے ہیں مگر باصر نے رونے دھونے کی بجائے اس صورت حال کو قبول کرتے ہوئے ایک نیا جہاں تعمیر کرنے کا تہیہ کر لیا۔ اس مجموعے کی افتتاحی غزل میں اس صورت حال کو بہت ہی عمدگی سے بیان کیا گیا ہے۔

دل لگا لیتے ہیں اہلِ دل وطن کوئی بھی ہو

پھول کو کھلنے سے مطلب ہے چمن کوئی بھی ہو

باصر نے اپنے پہلے مجموعہ کلام موجِ خیال کے دیباچے میں لکھا تھا کہ انگلستان آنے کے بعد ’’جب مجھے یہ خیال آنے لگا کہ اب میں صرف ڈرامے لکھا کروں گا اور شعر کبھی کبھار ہی ہوا کریں گے، میری شاعری کا ایک نیا دور شروع ہوا جو شاید اب صرف غزل تک محدود نہ رہے۔ اگرچہ غزل اپنی جگہ ایک لامحدود صنفِ سخن ہے۔ ‘‘

باصر کے اس نئے مجموعہ کلام سے اس کی یہ بات درست ثابت ہوتی ہے۔ اس نے غزل کے ساتھ نظم نگاری کی طرف بھی توجہ کی ہے بلکہ نثری شاعری تک جا پہنچا ہے۔ نثری نظم کے بارے میں اگرچہ میرے تحفظات ہیں مگر منیر نیازی کی ایک پنجابی نثری نظم ’’گان والے پنچھی دی ہجرت‘‘ پڑھنے کے بعد میں اس امکان کو تسلیم کر چکا ہوں کہ ایک حقیقی شاعر نثری نظم میں بھی اعلیٰ درجے کی تخلیق پیش کر سکتا ہے۔

باصر کا شعری سفر اب چار دہائیوں پر محیط ہے۔ مجھے وہ دن بھی یاد ہیں جب گورنمنٹ کالج کے بعض اساتذہ اور شاعری سے شغف رکھنے والے طلبہ میں سے بہتوں کا خیال تھا کہ شاید وہ اپنے والد سے لکھوا کر لاتا ہے۔ والد کی وفات کے بعد جب باصر کہیں شعر سناتا تھا تو لوگوں کو اس میں ناصر کاظمی کا رنگِ سخن خود بخود بولتا نظر آ جاتا تھا۔ ایک بڑے اور نامور باپ کا فرزند ہونے کے جہاں بہت سے فوائد ہوتے ہیں وہاں کچھ مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ان مسائل سے عہدہ برا ہونے اور اپنی حیثیت منوانے کی خاطر بعض لوگ پدر کشی کا رویہ اختیار کر لیتے ہیں اور بعض اس راہ سے ہی کنارہ کش ہو جاتے ہیں جو ان کے پدر کی راہ ہوتی ہے۔ باصر نے ایسا کوئی رویہ اختیار نہیں کیا۔ اسے جہاں ناصر کاظمی کا فرزند ہونے پر فخر ہے وہاں اس نے شعوری یا شاید لاشعوری طور پر یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اس نے شاعری میں ناصر کا رنگِ سخن اختیار نہیں کرنا۔ اس نے یہ شعر تو بہت بعد میں کہا ہے مگر اس کا عمل شروع سے یہی تھا:

بنانی پڑتی ہے ہر شخص کو جگہ اپنی

ملے اگرچہ بظاہر بنی بنائی جگہ

میں وہ شخص ہوں جس کا تعارف باصر کی شاعری سے پہلے اور ناصر کاظمی کی شاعری سے بعد میں ہوا۔ اس لیے مجھے کبھی بھی باصر کی شاعری میں ناصر کا رنگ نظر نہیں آیا۔

باصر نے اپنے والد سے شعر گوئی کی تربیت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ لفظ کے استعمال کا سلیقہ بھی سیکھا ہے۔ ناصر کاظمی کے سب ملنے والے اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ اس جیسا لفظ شناس شاید ہی کوئی اور ہو۔ ایک بار ہم ناصر کاظمی سے دوستی کے دعویدار ایک صاحب کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور انہوں نے ہمیں کوئی بات بتاتے ہوئے کسی قدر فخریہ انداز میں کہا کہ آخر ہم بھی ناصر کی صحبت میں بیٹھتے رہے تھے اور اس سے لفظوں کے استعمال کا ہنر سیکھا تھا۔ ہم نے یہی بات جب شیخ صلاح الدین صاحب سے بیان کی تو ان کا بے ساختہ جواب تھا کہ موصوف بالکل غلط بیانی سے کام لے رہے تھے۔ جب ان سے اس بات کی وضاحت مانگی تو شیخ صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں کہا، ’’بھائی اگر انہوں نے ناصر کاظمی سے کچھ سیکھا ہوتا تو اتنی گھٹیا شاعری کبھی نہ کرتے۔‘‘ شیخ صاحب کے اس معیار سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ناصر کاظمی سے فیض یاب ہونے کا دعویدار خواہ بہت اعلیٰ شاعری نہ بھی کر سکے، مگر وہ گھٹیا شاعری کبھی نہیں کر سکتا۔ باصر اپنے اس دعوے میں سچا ہے کہ اس نے ناصر کاظمی سے تربیت حاصل کی ہے اور اس کا شعری سرمایہ اس کی تصدیق کرتا ہے۔ اس کی شاعری میں بے ڈھب اور بھرتی کا لفظ نہیں ملے گا۔ وہ لفظوں کی اداؤں کی مکمل جانکاری رکھتا ہے۔ خامہ بگوش نے ایک بہت مشہور شاعر کے بارے میں لکھا تھا کہ وہ لفظ کو نگینے کی طرح جڑتے تھے مگر یہ نہیں دیکھتے تھے کہ نگینہ انگوٹھی میں جڑا جا رہا ہے یا انگوٹھے میں۔ باصر کے کلام کا قاری یہ جاننے میں غلطی نہیں کر سکتا کہ وہ انگوٹھی اور انگوٹھے کا فرق بخوبی سمجھتا ہے۔

اعلیٰ ادب اور دیگر فنونِ لطیفہ کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ہر بڑا مصنف اور فن کار اپنی تخلیقی کاوشوں کے بارے میں خود انتقادی کا رویہ رکھتا ہے۔ قدرت کی طرف سے یہ صلاحیت بہت کم تخلیق کاروں کو عطا ہوتی ہے کہ ان کی اولین کاوش ہر اعتبار سے کامل ہو۔ شیخ صلاح الدین کے بقول ناصر کاظمی کا تخلیقی رویہ یہ تھا کہ وہ ’’اپنے ہر شعر کو حق کے کڑے سے کڑے امتحان سے گزارتا اور جب کوئی شعر اس کے امتحان پر پورا اترتا تو وہ اس کو سناتا اور کئی کئی بار سنا کر اس کو پرکھ لیتا تو پھر اس کو شائع کرواتا۔ مگر وہ اس پر بھی مطمئن نہ ہوتا تھا۔ ‘‘ کیونکہ اصلاح و ترمیم کا عمل اس کے بعد بھی جاری رہتا تھا۔

اس کے برعکس ہمارے بیشتر شاعر اور ادیب یہ یقین رکھتے ہیں کہ ان کے قلم سے جو کچھ کاغذ پر رقم ہوتا ہے وہ ان پر نازل ہوتا ہے۔ اور جو چیز اوپر سے نازل ہو اس میں کسی قسم کا تغیر کرنا یا اس کو بہتر بنانے کی کوشش کرنا گناہِ کبیرہ کے مترادف ہے۔ اس لیے جو وہ ایک بار لکھ لیتے ہیں نہ دوبارہ خود اسے پڑھتے ہیں اور نہ کسی دوسرے کی بات پر دھیان دینا گوارا کرتے ہیں۔ شاید اقبال نے انہی لوگوں کے لیے یہ شعر کہا تھا:

صاحبِ ساز کو لازم ہے کہ غافل نہ رہے

گاہے گاہے غلط آہنگ بھی ہوتا ہے سروش

انیسویں صدی کے مشہور ولندیزی مصور وان گوخ(Van Gogh) کی تصویروں پر بعض ناقدین نے جب یہ اعتراض کیا کہ وہ بہت جلدی میں بنائی گئی ہیں، تو اس کا جواب یہ تھا کہ انہوں نے تصویروں کو بہت جلدی میں دیکھا ہے۔ تصویر بنانے کا عمل بے شک بہت جلدی میں ہوا ہے مگر ناقدین نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ تصویر نے کتنے طویل عرصے تک مصور کے بطن میں پرورش پائی ہے۔

خاموش آتش فشاں سے لاوا دفعتہً پھوٹ بہتا ہے مگر اسے بننے میں شاید صدیاں درکار ہوتی ہیں۔ اس موقع پر ضمیر جعفری نے ملائی زبان کے پنتونوں کا جو اردو ترجمہ کیا تھا اس کا ایک مصرع یاد آ رہا ہے جس میں اس خیال کو بڑے خوبصورت انداز میں ادا کیا گیا ہے :

جب سب ٹیلا جل چکتا ہے تب جا کر لاوا بہتا ہے

یہ ناصر کاظمی کی تربیت کا فیضان ہے کہ باصر بھی لکھ کر کاٹنے کی اہمیت سے آگاہ ہے۔ وہ اس بات کا شعور رکھتا ہے کہ ہیرا بھی ایک پتھر ہی ہے جب تک اس کو تراشا نہ جائے اور ہیرا تراشنا ایک بہت صبر آزما اور پر مشقت کام ہے۔ وہ اپنے لکھے کا خود بھی تنقیدی جائزہ لیتا ہے اور دوسروں کی بات کو بھی دھیان سے سنتا ہے۔ اگر کسی سقم کی طرف توجہ دلائی جائے تو اس پر غور کرتا ہے۔ اس کا عمومی رویہ یہ ہے کہ وہ اپنی تخلیق سے جب ایک حد تک مطمئن ہو جائے تو اسے قریبی دوستوں کو سناتا ہے اور اس پر رائے طلب کرتا ہے۔ دوستی کے اس طویل سفرمیں اس کے تازہ کلام کے اولین سامعین میں سے ایک میں بھی ہوں۔ یہ اس کا حوصلہ ہے کہ مجھ جیسے غیر شاعر کی بات کو بھی لائق توجہ گردانتا ہے۔ بلکہ ایک اعتبار سے اس نے مجھے ویٹو کا حق دے رکھا ہے۔ مجھے اپنی پسند ناپسند کا اظہار کرنے میں کبھی باک نہیں رہا۔ چنانچہ اگر کوئی شعر مجھے پسند نہ آئے تو میں بلا جھجک اپنی رائے کا اظہار کر دیتا ہوں۔ متعدد دفعہ ایسا ہوا ہے کہ اگر وہ قائل ہو گیا تو اس نے شعر کو یا تو بدل دیا یا حذف ہی کر دیا۔

ناصر کاظمی سے اس نے ایک اور بات سیکھی ہے اور وہ ہے رائج الوقت فیشن کی پیروی سے حذر کرنا۔ ناصر کاظمی کے زمانے میں ایک طرف تو وہ لوگ تھے جنہوں نے آئیڈیالوجی اور کمٹمنٹ کا پرچم اٹھا رکھا تھا اور ہر ادیب اور شاعر سے یہ تقاضا کیا جاتا تھا کہ اسے وہ لکھنا چاہیے جو پارٹی کی آئیڈیالوجی کا مقتضا ہے نہ کہ جو وہ خود لکھنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف وہ لوگ تھے جو پیرس کے تازہ ترین فیشنوں کی پیروی کرنے کو ہی تخلیق کی معراج جانتے تھے۔ ان میں پہلے گروہ نے جو ادب تخلیق کیا اس کاحسب خراب تھا تو جدید ادب کا نسب مشکوک تھا۔ ان کے برعکس ناصر نے کسی آئیڈیالوجی کو کبھی درخور اعتنا نہیں سمجھا تھا۔ اس نے وہی کچھ لکھا جو وہ خود لکھنا چاہتا تھا۔

باصر نے بھی شعر گوئی میں نہ تو ان روایتی حربوں سے کام لیا ہے جن کے بارے میں کہا جاتا تھا برائے شعر گفتن خوب است اور نہ کسی آئیڈیالوجی سے فکر مستعار لی ہے، نہ کسی نام نہاد روحِ عصر کو اپنی شاعری میں سمونے کی کوشش کی ہے اور نہ کبھی کسی فیشن کی نقالی میں شعر کہے ہیں۔ اسی کا ایک شعر ہے :

کم لکھا ہے لیکن جتنا لکھا ہے

جیسا لکھنا چاہا ویسا لکھا ہے

اس نے صرف اپنے محسوسات، مشاہدات، تخیلات اور تجربات کو موضوع سخن بنایا ہے۔ اس کی شاعری کا منبع اس کی اپنی ذات اور باطن کی پکار ہے مگر وہ خارجی دنیا کے احوال و وقائع سے بے خبر بھی نہیں۔ آس یاس، یافت نا یافت، مسرت الم یہ سب زندگی کے رنگ ہیں اور باصر نے کسی رنگ سے منہ نہیں موڑا۔ زندگی کے بارے میں اس کا رویہ رومانی نہیں بلکہ حقیقت پسندانہ ہے۔ وہ ایک صورت حال کو قبول کر لیتا ہے مگر اس میں بہتری کی آرزو سے دست بردار نہیں ہوتا۔

یہاں نہ جینے کا وہ لطف ہے نہ مرنے کا

کہا تھا کس نے کہ آ کر رہو پرائی جگہ

 

گلہ بھی تجھ سے بہت ہے مگر محبت بھی

وہ بات اپنی جگہ ہے یہ بات اپنی جگہ

وان گوخ کا کہنا ہے کہ مصور کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے چھ بنیادی رنگوں میں توازن قائم کرنا۔ شاعر کا میڈیم رنگ نہیں الفاظ ہیں۔ اس کے لیے چیلنج ہے کسی قلبی واردات، روحانی کیفیت، ذہنی خیال، نفسیاتی حال کو مناسب اور دلربا جامۂ حرف میں ملبوس کرنا۔ شاعر لسانی وجود خلق کرتا ہے۔ اس لیے شاعری میں زبان کی حیثیت بنیادی ہے جبکہ موضوعات کی حیثیت ثانوی ہے۔ شاعر اظہار کے جو سانچے استعمال کرتا ہے ان کی ہیئت کی ایک روایت موجود ہوتی ہے۔ یہ سانچے اگرچہ بے لچک نہیں ہوتے مگر کوئی بھی سانچہ لامحدود حد تک لچک دار نہیں ہو سکتا۔ اب شاعر ان سانچوں کی لچک سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسے لسانی وجود خلق کرتا ہے جنہیں ناصر کاظمی کی ترکیب استعمال کرتے ہوئے مانوس اجنبی قرار د یا جا سکتا ہے۔ بطور خالق ایک شاعر کا مقام و مرتبہ اسی سے طے ہو گا کہ اس نے کتنے ایسے وجود تخلیق کیے ہیں جو بیک وقت مانوس بھی ہوں اور اجنبی بھی۔ باصر کی شاعری کا مقام طے کرنا تو اس کے قارئین یا پھر ناقدین کا کام ہے مگر میری رائے میں اس کی شاعری میں مانوس اجنبی قابل لحاظ تعداد میں موجود ہیں۔ اس کی غزل اگرچہ روایت سے جدا نہیں مگر اس کے ایک ایک شعر پر باصر کی مہر موجود ہے کہ یہ صرف اسی کا شعر ہو سکتا ہے کسی اور کا نہیں۔ اس مجموعے میں دو ایسی غزلیں بھی شامل ہیں جنہیں میں تجرباتی غزلوں کا نام دوں گا۔ ایک غزل میں اس نے دو مختلف قسم کے قافیے استعمال کیے ہیں جبکہ دوسری غزل میں محض بصری قوافی استعمال کیے گئے ہیں۔

باصر کے اولین مجموعہ کلام موج خیال میں اگرچہ اس کی انفرادیت پوری طرح جلوہ گر تھی مگر اس میں روایتی تغزل کے آثار بھی نمایاں تھے۔ اردو غزل کے ساتھ المیہ یہ ہوا تھا کہ میر صاحب جیسے بحرِ پر شور کی موجودگی کے با وصف غزل کو معاملہ بندی اور مخصوص لفظیات کی تنگنائے میں قید کر دیا گیا تھا۔ لہٰذا اقبال کی غزل کو غزل ماننے سے ہی انکار کر دیا گیا۔ ایک مخصوص انداز اور لہجہ تغزل کا نشان بن گئے۔ ہم نے سنا بھی اور پڑھا بھی ہے کہ محمد حسن عسکری صاحب اردو کے بہت بڑے نقاد تھے۔ قیام پاکستان کے ابتدائی برسوں میں وہ ناصر کاظمی کی غزل کے بہت مداح تھے۔ مگر جب ناصر نے اپنی غزل میں گھاس کا لفظ استعمال کیا تو عسکری صاحب بدک گئے کیونکہ ان کا شعری ذوق غزل جیسی نازک صنف میں اتنے کریہہ الصوت لفظ کا استعمال برداشت نہ کر سکا۔ انہیں لگا کہ شاعر نے تغزل کا اپمان کیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ عسکری صاحب اگر آج زندہ ہوتے اور ناصر کاظمی کے فرزند کا یہ شعر سنتے تو ان پر کیا بیتتی:

مشکل ہوا پتنگ کو اپنی سنبھالنا

الجھی ہوئی ہے ڈور سے کوئی دُگاڑ سی

مشکور حسین یاد صاحب نے باصر کو اکڑفوں شاعر قرار دیا ہے۔ مجھے ان کی اس بات سے اتفاق ہے۔ اسے اپنی ذات پر اعتماد ہے اس لیے نہ وہ شعر گوئی میں اور نہ مقبولیت کے لیے مروجہ بیساکھیوں کا سہارا تلاش کرتا ہے۔ وہ روایت اور تجربے کی اہمیت اور ان کے سمبندھ کا مکمل ادراک رکھتا ہے۔ اس کی تازہ کتاب چمن کوئی بھی ہو میں اس حقیقت کے کتنے ہی شواہد موجود ہیں کہ اس نے نہ صرف نئی زمینیں دریافت کی ہیں بلکہ ان میں نئی فصلیں بھی کاشت کی ہیں۔

انگلستان آمد کے بعد اس کی غزلوں کا نیا لہجہ اور منفرد ذائقہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کا تخلیقی سفر ابھی جاری ہے اور اس نے خود کو دہرانا شروع نہیں کیا۔ البتہ اسے اس بات کا احساس ہے کہ شاعری ہو یا کوئی اور فن، اس میں کمال حاصل کرنے کے لیے بہت زیادہ ارتکاز کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے لیے بہت کچھ قربان بھی کرنا پڑتا ہے۔ اسی بات کو اس نے یوں ادا کیا ہے :

رہ رہ کے یاد آتی ہے استاد کی یہ بات

کرتی ہے آرزوئے کمالِ ہنر خراب

دو مزید اشعار درج کرنے کے بعد اجازت چاہوں گا کہ پریشاں خیالی کا یہ سلسلہ بہت طویل ہو گیا ہے۔ مگر غور کرنے کی بات ہے کہ اس غزل کی ردیف نے (اس مجموعے میں ایسی کتنی ہی غزلیں اور بھی ہیں ) معانی کے کتنے در وا کیے ہیں :

حالت جگہ بدلنے سے بدلی نہیں مری

ہوتی ہیں ہر جگہ کی کچھ اپنی خرابیاں

باصرؔ کی شخصیت بھی عجب ہے کہ اس میں ہیں

کچھ خوبیاں خراب کچھ اچھی خرابیاں

شعبہ فلسفہ

پنجاب یونیورسٹی، لاہور

Email: sajidali51@gmail.com

sajid.phil@pu.edu.pk

 

 

 

 

حصۂ غزل

 

دل لگا لیتے ہیں اہلِ دل وطن کوئی بھی ہو

پھول کو کھِلنے سے مطلب ہے چمن کوئی بھی ہو

 

صورتِ حالات ہی پر بات کرنی ہے اگر

پھر مخاطَب ہو کوئی بھی انجمن کوئی بھی ہو

 

تارِ گیسو یا رگِ گُل سے ہوئے ہم بے نیاز

دار تک جب آ گئے عاشق رسن کوئی بھی ہو

 

ہے وہی لا حاصلی دستِ ہنر کی منتظر

آخرش سر پھوڑتا ہے کوہکن کوئی بھی ہو

 

ہیں جو پُر از آرزو ہوتے نہیں محتاجِ مے

رات دن مخمور رکھتی ہے لگن کوئی بھی ہو

 

ہے کسی محبوب کی مانند اُس کا انتظار

دیدہ و دل فرشِ رہ مشتاقِ فن کوئی بھی ہو

 

شاعری میں آج بھی ملتا ہے ناصِر کا نشاں

ڈھونڈتے ہیں ہم اُسے بزمِ سخن کوئی بھی ہو

 

عادتیں اور حاجتیں باصرِؔ بدلتی ہیں کہاں

رقص بِن رہتا نہیں طاؤس بَن کوئی بھی ہو

جولائی۔ اگست2000ء

 

 

 

 

قرار پاتے ہیں آخر ہم اپنی اپنی جگہ

زیادہ رہ نہیں سکتا کوئی کسی کی جگہ

 

بنانی پڑتی ہے ہر شخص کو جگہ اپنی

ملے اگرچہ بظاہر بنی بنائی جگہ

 

دل و نظر کی جو بچھڑے ہوئے تھے مدت سے

ہوئی ہے آج ملاقات اک پرانی جگہ

 

ہیں اپنی اپنی جگہ مطمئن جہاں سب لوگ

تصورات میں اپنے ہے ایک ایسی جگہ

 

یہاں نہ جینے کا وہ لطف ہے نہ مرنے کا

کہا تھا کس نے کہ آ کر رہو پرائی جگہ

 

گِلہ بھی تجھ سے بہت ہے مگر محبت بھی

وہ بات اپنی جگہ ہے یہ بات اپنی جگہ

 

نہیں ہے سہل کوئی جانشینِ قیس ملے

پڑی ہوئی ہے بڑی دیر سے یہ خالی جگہ

 

کیے ہوئے ہے فراموش تو جسے باصرِؔ

وہی ہے اصل میں تیرا مقام تیری جگہ

جولائی2000ء

 

 

 

 

کام سے بڑھ کر تھا جن کو جاہ و اکرام سے کام

اُن کے کام اگر دیکھیں تو ہیں بس عام سے کام

 

جن کا کام بنانا چاہا اُن سے بگڑ گئی

اسی لیے اب ہم رکھتے ہیں اپنے کام سے کام

 

کوئی نہ کوئی نئی مصیبت روز کھڑی کرتے ہو

ایک بھی دن کرنے نہ دیا ہم کو آرام سے کام

 

ابھی تو اُس میں دیکھتے ہو دنیا بھر کے اوصاف

پوچھوں گا جس روز پڑے گا اُس گلفام سے کام

 

لوگ گلی کوچوں میں بچارے ہو جاتے ہیں خوار

تم تو فقط کہہ دیتے ہو بالائے بام سے کام

 

زاہد اس سے قبل کہ جانا ہو داتا کے پاس

ہو توفیق تو کچھ کر لو سَر گنگا رام سے کام

 

اپنی کوشش تو ہوتی ہے اچھے شعر سنائیں

ورنہ چل جاتا ہے ناصِر تیرے نام سے کام

 

تھوڑی دیر رُکے ہیں باصرؔ ٹھنڈی چھاؤں میں ہم

پیڑ گِنے وہ باغ ہے جس کا ہمیں تو آم سے کام

جون۔ جولائی2003ء

 

 

 

 

کرتے نہ ہم جو اہلِ وطن اپنا گھر خراب

ہوتے نہ یوں ہمارے جواں دربدر خراب

 

اعمال کو پرکھتی ہے دنیا مآل سے

اچھا نہ ہو ثمر تو ہے گویا شجر خراب

 

اک بار جو اتر گیا پٹٹری سے دوستو

دیکھا یہی کہ پھر وہ ہوا عمر بھر خراب

 

منزل تو اک طرف رہی اتنا ضرور ہے

اک دوسرے کا ہم نے کیا ہے سفر خراب

 

ہوتی نہیں وہ پوری طرح پھر کبھی بھی ٹھیک

ہو جائے ایک بار کوئی چیز گر خراب

 

اے دل مجھے پتہ ہے کہ لایا ہے تو کہاں

چل خود بھی اب خراب ہو مجھ کو بھی کر خراب

 

اِس کاروبارِ عشق میں ایسی ہے کیا کشش

پہلے پدر خراب ہوا پھر پسر خراب

 

اک دن بھی آشیاں میں نہ گزرا سکون سے

کرتے رہے ہیں مجھ کو مرے بال و پر خراب

 

رہ رہ کے یاد آتی ہے استاد کی یہ بات

کرتی ہے آرزوئے کمالِ ہنر خراب

 

اِس تیرہ خاکداں کے لیے کیا بِلا سبب

صدیوں سے ہو رہے ہیں یہ شمس و قمر خراب

 

لگتا ہے اِن کو زنگ کسی اور رنگ کا

کس نے کہا کہ ہوتے نہیں سیم و زر خراب

 

اک قدر داں ملا تو یہ سوچا کہ آج تک

ہوتے رہے کہاں مرے لعل و گہر خراب

 

خاموش اور اداس ہو باصرؔ جو صبح سے

آئی ہے آج پھر کوئی گھرسے خبر خراب

جون2006ء

 

 

 

 

کتنی ہی بے ضرر سہی تیری خرابیاں

باصرؔ خرابیاں تو ہیں پھر بھی خرابیاں

 

حالت جگہ بدلنے سے بدلی نہیں مری

ہوتی ہیں ہر جگہ کی کچھ اپنی خرابیاں

 

تو چاہتا ہے اپنی نئی خوبیوں کی داد

مجھ کو عزیز تیری پرانی خرابیاں

 

جونہی تعلقات کسی سے ہوئے خراب

سارے جہاں کی اُس میں ملیں گی خرابیاں

 

سرکار کا ہے اپنا ہی معیارِ انتخاب

یارو کہاں کی خوبیاں کیسی خرابیاں

 

آدم خطا کا پُتلا ہے گر مان لیں یہ بات

نکلیں گی اِس خرابی سے کتنی خرابیاں

 

اُن ہستیوں کی راہ پہ دیکھیں گے چل کے ہم

جن میں نہ تھیں کسی بھی طرح کی خرابیاں

 

بوئیں گے اپنے باغ میں سب خوبیوں کے بیج

جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے ساری خرابیاں

 

باصرؔ کی شخصیت بھی عجب ہے کہ اُس میں ہیں

کچھ خوبیاں خراب کچھ اچھی خرابیاں

ستمبر2006ء

 

 

 

 

یہ نہیں ہے کہ تجھے میں نے پُکارا کم ہے

میرے نالوں کو ہواؤں کا سہارا کم ہے

 

اس قدر ہجر میں کی نجم شماری ہم نے

جان لیتے ہیں کہاں کوئی سِتارا کم ہے

 

دوستی میں تو کوئی شک نہیں اُس کی پر وہ

دوست دشمن کا زیادہ ہے ہمارا کم ہے

 

صاف اظہار ہو اور وہ بھی کم از کم دو بار

ہم وہ عاقل ہیں جنہیں ایک اشارا کم ہے

 

ایک رخسار پہ دیکھا ہے وہ تِل ہم نے بھی

ہو سمرقند مقابل کہ بخارا کم ہے

 

اِتنی جلدی نہ بنا رائے مِرے بارے میں

ہم نے ہمراہ ابھی وقت گُذارا کم ہے

 

باغ اک ہم کو مِلا تھا مگر اِس کو افسوس

ہم نے جی بھر کے بِگاڑا ہے سنوارا کم ہے

 

آج تک اپنی سمجھ میں نہیں آیا باصرؔ

کونسا کام ہے وہ جس میں خسارا کم ہے

اپریل۔ نومبر2007ء

 

 

 

 

ہم کہ جو ہر ابر کو ابرِ کرم سمجھا کیے

آ گئے اِس دیس میں اور دھوپ کو ترسا کیے

 

اُس نے اپنے منہ پہ انگلی رکھ کے آنکھیں بند کیں

میں نے کچھ کہنے کو اپنے ہونٹ جونہی وا کیے

 

روز لگ جاتے ہیں اُس کے صحن میں کاغذ کے ڈھیر

مستعد خط لکھنے والوں سے زیادہ ڈاکیے

 

ایک سورج کے لیے یہ کہکشاں در کہکشاں

اک زمیں کے واسطے سو آسماں پیدا کیے

 

خیر ہو چارہ گری کی میرے چارہ گر تجھے

مدتیں گزریں کسی بیمار کو اچھا کیے

اپریل2002ء

 

 

 

 

مگن ہوئے ہیں کسی اور ہی لگن میں لوگ

کہاں کھپائیں گے اب جان فکر و فن میں لوگ

 

وہی ہیں رنگ خزاں اور بہار کے لیکن

کچھ اور دیکھنے جاتے ہیں اب چمن میں لوگ

 

بدل دیے ہیں زمانے نے عشق کے انداز

سو دیکھ پائیں گے کیا قیس و کوہکن میں لوگ

 

ترس گئے ہیں مرے کان حرفِ شیریں کو

لیے ہوئے ہیں بڑی تلخیاں دہن میں لوگ

 

اگرچہ نعمتیں حاصل ہیں دو جہاں کی اِنہیں

اداس رہتے ہیں یارب مرے وطن میں لوگ

 

کہی تھی تو نے تو ہر بات صاف صاف مگر

نجانے سمجھے ہیں کیا اپنے بھولپن میں لوگ

 

میں کیا بتاؤں تجھے خوب جانتا ہے تو

شریک ہوتے ہیں کیوں تیری انجمن میں لوگ

 

دکھائی دی تھی جو اِتنی طویل رات کے بعد

تلاش کرتے رہے مہر اُس کرن میں لوگ

 

مرے سُخن میں سُخن بولتا ہے ناصِر کا

مجھے بھی پائیں گے ہر محفلِ سخن میں لوگ

اکتوبر2003ء

 

 

 

 

وہ دن تری بے وفائی کے تھے

جو میری غزل سرائی کے تھے

 

دل اشکوں کی داد چاہتا تھا

سامان یہ جگ ہنسائی کے تھے

 

ملنے کے جتن کیے تھے جتنے

اسباب وہی جدائی کے تھے

 

ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز میں بھی

آثار تری بڑائی کے تھے

 

گو تلخ زباں تھے اہلِ محفل

شیدائی سبھی مٹھائی کے تھے

 

نالے تو بلا کے تھے ہی باصرِؔ

نغمے بھی ترے دہائی کے تھے

مئی1998ء

 

 

 

 

کہاں سیاستِ اغیار نے ہلاک کیا

ہمیں تو اپنے ہی افکار نے ہلاک کیا

 

کسی کی موت کا باعث تھی خانہ ویرانی

کسی کو رونقِ گلزار نے ہلاک کیا

 

کسی کے واسطے پھولوں کی سیج موجبِ مرگ

کسی کو جادۂ پُر خار نے ہلاک کیا

 

کسی کو شعلۂ خورشید نے جلا ڈالا

کسی کو سایۂ اشجار نے ہلاک کیا

 

سوادِ شام کسی کے لیے پیامِ اجل

کسی کو صبح کے آثار نے ہلاک کیا

 

کسی کی جان گئی دیکھ کر ترا جلوہ

کسی کو حسرتِ دیدار نے ہلاک کیا

 

کوئی شکار ہوا اپنی ہچکچاہٹ کا

کسی کو جرأتِ اظہار نے ہلاک کیا

 

کسی کا تختہ بچھایا نصیبِ خُفتہ نے

کسی کو طالعِ بیدار نے ہلاک کیا

 

وہی ہلاکو کہ جس نے کیے ہزاروں ہلاک

اُسے بھی وقت کی یلغار نے ہلاک کیا

 

کسی کو مار گیا اُس کا کم سخن ہونا

کسی کو کثرتِ اشعار نے ہلاک کیا

 

وہی خسارہ ہے سب کی طرح ہمیں درپیش

ہمیں بھی گرمیِ بازار نے ہلاک کیا

 

کبھی تباہ ہوئے مشورہ نہ ملنے سے

کبھی نوشتۂ دیوار نے ہلاک کیا

 

ملی تھی جس کے لبوں سے نئی حیات ہمیں

اُسی کی شوخیِ گفتار نے ہلاک کیا

 

خدا کا شکر کہ پستی نہ ہم کو کھینچ سکی

ہمیں بلندیِ معیار نے ہلاک کیا

نومبر2006ء

 

 

 

 

ہوئی ہے آج تو بس ایک عام سی لغزش

یہ دل کرے گا کسی دن کوئی بڑی لغزش

 

بس اس قدر ہی یہ دنیا سمجھ میں آئی ہے

وہیں سزا ملی ہم کو جہاں ہوئی لغزش

 

ہُوا ہے کھیل جو میری گرفت سے باہر

ضرور مجھ سے ہوئی ہے کہیں کوئی لغزش

 

ازالۂ غلَطی کا ہے انحصار اِس پر

وہ صبح کی غلَطی ہے کہ شام کی لغزش

 

نہیں ہے جیتنا ممکن ترے لیے باصرِؔ

ترا حریف نہ جب تک کرے کوئی لغزش

فروری1999ء

 

 

 

 

نہیں کچھ فرق اب رہیے جہاں بھی

یہاں بھی دل جلے گا اور وہاں بھی

 

بیاباں کی شکایت کیسی یارو

ہوا پر خار اب تو گُلستاں بھی

 

معلق ہو گئے باصرِؔ فضا میں

زمیں چھوٹی تو روٹھا آسماں بھی

۱۸جولائی2000ء

 

 

 

 

صد حیف رہے خواب و خیالات کی حد تک

سارے مرے منصوبے تھے اک بات کی حد تک

 

یہ شہر تمہارا مری بستی کے مقابل

اچھا ہے مگر صِرف عمارات کی حد تک

 

کر سکتے تماشا تو زمانے کو دکھاتے

لفظوں کے کمالات کرامات کی حد تک

 

آوارہ خرامی کی بھلا اب کسے فرصت

ہوتی ہے ملاقات ملاقات کی حد تک

 

خوشیوں میں تو کرتا ہوں شریک اوروں کو لیکن

رہتے ہیں مرے رنج مری ذات کی حد تک

 

ہوتے ہیں عموماً یہ مِری دھُوپ کے دشمن

بادل مجھے خوش آتے ہیں برسات کی حد تک

 

دن دوگنی شب چوگنی کی ہم نے ترقی

کچھ راہنماؤں کے بیانات کی حد تک

 

افسوس کہ صاحب نے کیا اُن پہ بھروسہ

تھی جن کی وفاداری مراعات کی حد تک

 

اب حِکمتِ قرآن شب و روز میں اپنے

باقی ہے فقط قرأتِ آیات کی حد تک

 

ہر گام پہ تھا راہنما دین جو اپنا

محدود ہُوا صِرف عبادات کی حد تک

 

ڈرتا ہوں میں واعظ سے کہ اقبالؔ نہیں ہوں

شکوہ مرا ہوتا ہے مناجات کی حد تک

 

ہر چند مہذب کوئی ہم سا نہیں باصرؔ

بہکیں تو چلے جائیں خرافات کی حد تک

مارچ۔ اپریل2004ء

 

 

 

 

سوئے بہت مگر کسی بیمار کی طرح

آرام بھی مِلا ہمیں آزار کی طرح

 

کچھ ایسی پُختہ ہو گئی دِل توڑنے کی خو

اِقرار کر رہے ہیں وہ اِنکار کی طرح

 

بیکار سمجھے جاتے ہیں فن کار اِس لیے

دن رات کام کرتے ہیں بیگار کی طرح

 

میری غزل میں کیسے تغزل ملے اُنہیں

پڑھتے ہیں اب وہ شاعری اخبار کی طرح

اکتوبر۔ نومبر1997ء

 

 

 

 

 

مخمور چشمِ یار نے ایسا کیا مجھے

ساقی شراب چھوڑ کے دیکھا کیا مجھے

 

تجھ کو تو اپنی ساکھ ہے اے چارہ گر عزیز

تو نے مرے لیے نہیں اچھا کیا مجھے

 

کیا کیا دکھائے رنگ مجھے تیرے ہجر نے

دریا بنا دیا کبھی صحرا کیا مجھے

 

جو شعر میں نے چھوڑ دیا اُن کو یاد تھا

’’شعروں کے انتخاب نے رُسوا کیا مجھے ‘‘

31اکتوبر2003ء

 

 

 

 

اچھا کہ برا نہیں رہا کچھ

کچھ یاد رہا نہیں رہا کچھ

 

ہر چند بتا نہیں رہا کچھ

میں تجھ سے چھُپا نہیں رہا کچھ

 

اک ننھی سی لَو سے سب کچھ تھا

بُجھتے ہی دیا نہیں رہا کچھ

 

اب کس کو چمن میں ڈھونڈتی ہے

اے بادِ صبا نہیں رہا کچھ

 

اب ہم بھی بدل گئے ہیں باصرِؔ

اب اُن سے گِلہ نہیں رہا کچھ

نومبر2003ء

 

 

 

 

نہ اب ہے شعلہ مرے اختیار میں نہ ہوا

یہ آگ تیری لگائی ہوئی ہے تو ہی بجھا

 

ہیں ذہن و دل مرے تیار کچھ بھی سننے کو

اگر مرض ہے مرا لاعلاج مجھ کو بتا

 

نہ تھا بلندی و پستی کے درمیاں کچھ بھی

پہاڑ سے جو میں لُڑھکا ڈھلان پر نہ ٹِکا

 

منا لیا تھا کسی طور کل جسے ہم نے

سنا ہے اب ہے وہ پہلے سے بھی زیادہ خفا

 

ابھی بھی وقت ہے باصرِؔ ہماری بات سنو

تمہارے ساتھ نہ ہو جو ہمارے ساتھ ہوا

جولائی۔ اکتوبر2008

 

 

 

 

ممکن نہیں خموش رہوں لب سیے بغیر

یا اُن سے کوئی بات ہو جھگڑا کیے بغیر

 

انصاف کا اصولِ توازن یہ خوب ہے

دیتے نہیں وہ حق بھی مرا کچھ لیے بغیر

 

لگتا ہے تیرے ساتھ ملی زندگی ہمیں

گویا کہ اِس سے پہلے جیے ہم جیے بغیر

 

ناصح کریں گے تیری نصیحت پہ ہم عمل

ہو آئے اُس گلی سے جو تُو دل دیے بغیر

 

اب اُس کی ہوش مندی کی دینی پڑے گی داد

شیشے میں جس نے تجھ کو اُتارا پیے بغیر

دسمبر2004ء

 

 

 

 

رندوں کا ہو رہا ہے گزارا پیے بغیر

احسان مانتے ہیں تمہارا پیے بغیر

 

مے سے زیادہ ہم کو ترا میکدہ عزیز

خوش ہو رہے ہیں کر کے نظارا پیے بغیر

 

گِنتے ہوئے ستارے گزرتی ہے اُس کی رات

جو دیکھتا ہے شام کا تارا پیے بغیر

 

اِس اجنبی دیار میں ملتی نہیں شراب

کرنا ہے اب یہ رنج گوارا پیے بغیر

 

پی لو گے چار گھُونٹ تو باصرِؔ کرو گے کیا

درکار ہے تمہیں تو سہارا پیے بغیر

دسمبر2004ء

 

 

 

 

طَور جب عاشقانہ ہوتا ہے

وہ سنہری زمانہ ہوتا ہے

 

کچھ نہیں جن کے پاس اُن کے پاس

خواہشوں کا خزانہ ہوتا ہے

 

دل کسی کا کسی کے کہنے سے

کبھی پہلے ہوا نہ ہوتا ہے

 

بجلیوں کا ہدف نجانے کیوں

ایک ہی آشیانہ ہوتا ہے

 

غم نہیں اب جو ہم ہیں غیر فعال

اپنا اپنا زمانہ ہوتا ہے

 

دیکھتے ہیں تمہاری بستی میں

کب تلک آب و دانہ ہوتا ہے

 

دوستو کر لیا بہت آرام

کارواں اب روانہ ہوتا ہے

 

ڈھونڈتے ہیں جو آپ باصرِؔ کو

اُس کا کوئی ٹھکانہ ہوتا ہے

جون2005ء

 

 

 

 

عجب نہیں جو بنا دیں پہاڑ رائی کا

اُنہیں بہانہ کوئی چاہیے لڑائی کا

 

ہمیں تو آنکھوں کے دیکھے کا اعتبار نہیں

اُدھر بھروسہ ہے کتنا سنی سُنائی کا

 

ہمیں تو لگتی ہے دشوار بندگی بھی بہت

عجیب تھے جنہیں دعوی رہا خدائی کا

 

چمک سی ایک فریبِ امید کی جو نہ ہو

جو موت کا ہے وہی رنگ ہے جدائی کا

جون2005ء

 

 

 

 

بھروسہ کر کے دیکھا میں نے تو سو بار دل سے

وہ چہرے سے بہت معصوم ہے عیّار دل سے

 

سُنے گا شوق سے قصے زمانے بھر کے لیکن

کہاں سنتا ہے دل کی بات وہ دلدار دل سے

 

ہو اقلیمِ شہنشاہی کہ جمہوری ولایت

رعایا کی کبھی ہوتی نہیں سرکار دل سے

 

کٹا سکتے نہیں انگلی بھی اب تو اُس کی خاطر

کبھی ہم جان تک دینے کو تھے تیار دل سے

 

کچھ اپنے بھی تو شامل تھے عدو کے ساتھ اس میں

کروں میں کس طرح تسلیم اپنی ہار دل سے

 

دِکھانے کے لیے دنیا کو چاہے کچھ بھی کر دیں

کبھی بھی صلح کر سکتے نہیں اغیار دل سے

 

نبھائی ایک مدّت ہم نے لیکن آج کل کچھ

مرا دل مجھ سے ہے بیزار، میں بیزار دل سے

 

چہکتی بولتی دھڑکن ہوئی ویران کیونکر

کوئی پوچھے کبھی آ کر مرے بیمار دل سے

 

اُترتے ہیں کچھ اُس کے دل میں بھی یہ دیکھنا ہے

لکھے ہیں میں نے تو یہ سب کے سب اشعار دل سے

مئی2007ء

 

 

 

 

معلوم ہے کہ وہ تو ملے گا نہیں کہیں

کھو جائیں گے تلاش میں اُس کی ہمیں کہیں

 

شاید فلک ہی ٹوٹ پڑا تھا وگرنہ یوں

جاتا ہے چھوڑ کر کوئی اپنی زمیں کہیں

 

اک دوسرے کو دیکھتے ہیں آئینے کی طرح

ہو جائیں روبرو جو کبھی دو حسیں کہیں

 

مقصود اِس سے اہلِ نظر کا ہے اِمتحاں

وہ سامنے نہیں ہے مگر ہے یہیں کہیں

 

شہروں میں اپنے گویا قیامت ہی آ گئی

اڑ کر مکاں کہیں گئے باصرِؔ مکیں کہیں

نومبر۔ دسمبر2005ء

 

 

 

 

زیاں جگر کا سہی یہ جو شغلِ بادہ ہے

دل و نظر کے لیے اِس میں کچھ افادہ ہے

 

دکھائی دی ہے جھلک اُس کی ایک مدت بعد

یہ خواب میرے لیے خواب سے زیادہ ہے

 

ملائے گا یہ کسی شاہراہ سے ہم کو

مٹا مٹا سا جو قدموں میں اپنے جادہ ہے

 

یہی بچائے گا تم دیکھنا مری بازی

بِساط پر جو یہ ناچیز سا پیادہ ہے

 

یہ سوچ کر وہ مری بات کاٹ دیتے ہیں

کہ ہو نہ ہو یہ کسی بات کا اعادہ ہے

 

یہاں رہیں گے وہ میرے حریف کے ہمراہ

اُنہیں گماں ہے مرا دل بہت کشادہ ہے

 

وہ اہلِ بزم کی رنگیں نوائی اپنی جگہ

ہزار رنگ لیے میرا حرفِ سادہ ہے

 

اگر خدا نے نکالا بُتوں کے چکّر سے

طوافِ کعبہ کا اب کے برس اِرادہ ہے

جنوری2006ء

 

 

 

 

(نذرِ اِقبال)

 

پڑھتا ہوں بے شک نماز بھول گیا میں صلات

حَلف اُٹھایا مگر سچ نہ کہی کوئی بات

 

خواہشِ زر کی سدا مجھ پہ حکومت رہی

جسم حرَم ہے مرا ذہن مگر سومنات

 

کتنا ہی ناپاک ہو مال سمیٹا ہُوا

پاک سمجھتا ہوں میں دے کے ذرا سی زکات

 

باندھوں کہ کھولوں اِنہیں رہتی ہے یہ کشمکش

اِس لیے گویا مجھے تُو نے دئیے تھے یہ ہات

 

مجھ سے ہیں بہتر شجر اور چرند و پرند

پاس تِرے حُکم کا کرتے ہیں دِن ہو کہ رات

 

اپنا کرَم کر کہ کُچھ اِن میں نَم و دَم پڑے

سوکھ چلا ہے قلم خشک ہوئی ہے دوات

اپریل2006ء

 

 

 

 

اُن کو سب کچھ ہی لگ رہا ہے ٹھیک

کیا کہوں کیا غلط ہے کیا ہے ٹھیک

 

کبھی لب بستگی مناسب ہے

اور کبھی عرضِ مدعا ہے ٹھیک

 

ڈوب جائیں گے سُنتے سُنتے ہم

سب غلط ایک ناخدا ہے ٹھیک

 

آج ہم ٹھیک ہیں مگر یارو

مستقل کون رہ سکا ہے ٹھیک

 

تھی شفا چارہ گر کی باتوں میں

ہم سمجھتے رہے دوا ہے ٹھیک

 

چَین سے سو رہا ہے ہمسایا

چلیے کوئی تو گھر بنا ہے ٹھیک

 

ایک ہی دوست رہ گیا تھا مرا

وہ بھی دُشمن سے جا مِلا ہے، ٹھیک

 

کر دیا تھا عدو نے کام خراب

کر کے کتنے جتن کیا ہے ٹھیک

 

تیرا بیمار تجھ کو بھُول گیا

کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے ٹھیک

 

کچھ دوا کر کہ زخمِ دل باصرِؔ

خود بخود بھی کبھی ہُوا ہے ٹھیک

اپریل2006ء

 

 

 

 

اُس کے لیے کچھ بھی کرو انجام شکایت

لگتا ہے کہ اُس کا تو ہے بس کام شکایت

 

جو کچھ اُسے درکار ہے وہ سب ہے میسّر

کس بات کی کرتا ہے وہ گُلفام شکایت

 

گلشن کی فضا میں بھی ہم آزاد کہاں تھے

صیّاد سے کرتے جو تہِ دام شکایت

 

ہم نے ہی نہ خود کو کیا تیرے لیے تیار

تجھ سے نہیں کچھ گردشِ ایّام شکایت

 

ہر شخص کی کرتا ہے شکایت جو تو اے شیخ

ایسا نہ ہو پڑ جائے تِرا نام شکایت

 

موقع ہی نہ پایا کبھی تنہائی میں ورنہ

کرتے نہ کبھی تجھ سے سرِ عام شکایت

 

ہم فرش نشیں خوش ہیں اِسی بات پہ باصرِؔ

پہنچی تو کسی طور لبِ بام شکایت

جولائی2006

 

 

 

 

اپنا زیادہ وقت ہوا نوکری کی نذر

فرصت اگر ملی تو ہوئی کاہلی کی نذر

 

اپنی خوشی تمہاری خوشی میں تھی اس لیے

کر دی خوشی خوشی سے تمہاری خوشی کی نذر

 

یہ جسم ہے سو تیری امانت ہے اے اجل

وہ جاں تو کر چکے ہیں کبھی کے کسی کی نذر

 

کچھ نیکیاں جو اشکِ ندامت کا تھیں ثمر

صد حیف سب کی سب ہوئیں تر دامنی کی نذر

 

خود آگہی کے گرچہ مواقع ملے بہت

ہوتے رہے مگر وہ مری بے خودی کی نذر

 

باصرؔ ہمارے کام نہ آیا ہمارا دل

کچھ اُن کی نذر ہو گیا کچھ شاعری کی نذر

ستمبر۔ دسمبر2006ء

 

 

 

 

کچھ قرار آنے لگا تھا مدتوں جلنے کے بعد

اِک نگہ نے پھِر دکھا دی میری خاکستر کو آگ

 

چل رہے تھے کب سے ننگے پاؤں جلتی ریت پر

کیا عجب چڑھنے لگی ہے اب جو اپنے سر کو آگ

 

دوستو محفوظ مت سمجھو تم اپنے آپ کو

ایک گھر کی آگ سے لگ جائے گی ہر گھر کو آگ

24اکتوبر2007ء

 

 

 

 

پہلے ہی زندگی تھی ہماری پہاڑ سی

اوپر سے ہو گئی ہے یہ تجھ بن اجاڑ سی

 

دنیا اِسے خلیج بنا دے گی ایک دن

ہم دونوں کے جو بیچ پڑی ہے دراڑ سی

 

مشکِل ہُوا پتنگ کو اپنی سنبھالنا

الجھی ہُوئی ہے ڈور سے کوئی دُگاڑ سی

 

اپنی حدود کا بھی کچھ اِدراک چاہیے

اچھا ہے درمیاں میں رہے ایک باڑ سی

 

تھی بے اثر غزالِ شکستہ کی آہِ نرم

اب چاہیے ہے شیرِ ببر کی دہاڑ سی

مارچ2007ء

*دُگاڑ: ڈور یا ستلی کے دونوں سِروں سے پتھر یا وزن باندھ کر، گوپیے کی طرح گھما کے مخالف کی پتنگ کی ڈور پہ پھینکتے ہیں۔ یہ ایک فاؤل ہے جس پہ جھگڑے بھی ہوتے ہیں۔

 

 

 

 

سازشِ انتشار میں مصروف

ہے خزاں بھی بہار میں مصروف

 

ہم نے رکھا کئی طرح خود کو

فرصتِ انتظار میں مصروف

 

مثلِ سیآرگاں بنی آدم

اپنے اپنے مدار میں مصروف

 

عشق روتا ہے آٹھ آٹھ آنسو

حُسن سولہ سِنگھار میں مصروف

 

آہ وہ وقت جب لہو میرا

تھا دلِ بیقرار میں مصروف

 

زندگی کٹ رہی ہے باصرِؔ کی

بے ثمر کاروبار میں مصروف

جولائی۔ اکتوبر2008

 

 

 

 

فائدہ ہو اگر ہمارا کُچھ

اِس میں جاتا نہیں تمہارا کُچھ

 

کل ضرورت پڑے تری شاید

آج ہو جائے گا گزارا کُچھ

 

دھیان میں آئی شکل وہ سرِ شام

ہو گیا صُبح تک سہارا کُچھ

 

آسماں کا تھا شب عجب احوال

چاند کہتا تھا کُچھ سِتارا کُچھ

جون1997ء

 

 

 

 

 

رہِ عِشق میں کب دیا کچھ سنائی دکھائی

بہت دوستوں نے بھلائی برائی دکھائی

 

سمجھتے ہیں اہلِ نظر حسن کی یہ ادائیں

گھڑی دیکھنے کے بہانے کلائی دکھائی

 

ہماری توجہ بھی اُس دم ذرا منقسم تھی

مداری نے کچھ ہاتھ کی بھی صفائی دکھائی

 

دوبارہ بھروسہ کیا آزمائے ہوئے پر

بہت آپ نے بھی طبیعت رجائی دکھائی

 

عجب کیا جو عاشق نے سر پھوڑ کر جان دے دی

عجب کیا جو محبوب نے بے وفائی دکھائی

اکتوبر۔ نومبر1997ء

 

 

 

 

باتیں تو بڑی بڑی کریں گے

میدان میں طِفل سے ڈریں گے

 

سب فائدے آپ کے لیے ہیں

نقصان ہیں جتنے ہم بھریں گے

 

دشمن کی نہیں کوئی ضرورت

آپس ہی میں ہم لڑیں مریں گے

 

تصویر بنائی اُس نے لیکن

تصویر میں رنگ ہم بھریں گے

جون1998ء

 

 

 

 

 

حالات خراب ہو گئے ہیں

دریا بھی سَراب ہو گئے ہیں

 

آسان سوال تھے اگرچہ

دشوار جواب ہو گئے ہیں

 

لیتی تھیں گھٹائیں جن سے رنگ

محتاجِ خضاب ہو گئے ہیں

 

راتیں ہیں پہاڑ سی اور دن

مانندِ حباب ہو گئے ہیں

 

جو کام کبھی گُنہ تھے باصرِؔ

اب کارِ ثواب ہو گئے ہیں

اکتوبر۔ نومبر1998ء

 

 

 

 

پڑھنی تھی کتابِ زیست ساری

آنکھیں ہی چلی گئیں ہماری

 

تھی آج تو بات ہی کچھ اور

تصویر اُتارتے تمہاری

 

ہیں چار طرف کے راستے بند

گزرے گی یہاں سے اک سواری

 

خوش ہو گئے دو گھڑی کچھ یار

سُبکی تو بہت ہوئی ہماری

 

ثابت کرو اپنے دعوے باصرِؔ

شیخی تو جناب نے بگھاری

2000ء

 

 

 

 

منظر ہے کہ شاہکار تصویر

اے صاحبِ فن اتار تصویر

 

رہ جاتی ہے یادگار تصویر

ہر چیز سے پائیدار تصویر

 

اب دیکھ لو ایک بار ہم کو

پھر دیکھو گے بار بار تصویر

 

تصویر کی یار کو ضرورت

محتاجِ جمالِ یار تصویر

 

معمولی سے کیمرے نے باصرِؔ

کیا کھینچی ہے شاندار تصویر

جنوری2001ء

 

 

 

 

 

جب سے ہم رکھنے لگے ہیں کام اپنے کام سے

وہ اُدھر آرام سے ہیں ہم اِدھر آرام سے

 

یہ بھی کٹ جائے گی جو تھوڑی بہت باقی ہے عمر

ہم یہی کرتے رہیں گے کام اپنے عام سے

 

اُس درِ انصاف کے درباں بھی ہیں منصف بہت

ہم جونہی فریاد سے باز آئے وہ دشنام سے

 

عاشقی میں لُطف تو سارا تجسس کی ہے دین

کر دیا آغاز میں کیوں آشنا انجام سے

 

خاک سے بنتی ہے جیسے خِشت ہم کچھ اِس طرح

دیکھ کیا سونا بناتے ہیں خیالِ خام سے

 

اِس طرح مل جائے شاید باریابی کا شرف

مشورہ ہے اب کے عرضی بھیج فرضی نام سے

 

یا تو وہ تصویر ہے پیشِ نظر یا کچھ نہیں

ہاتھ دھو دیدوں سے باصرؔ یہ گئے اب کام سے

جون2003ء

 

 

 

 

(غالب کی زمین میں )

 

ہر دم نہیں دماغ ہمیں تیری چاہ کا

آنا تو خوب ہے ترا پر گاہ گاہ کا

 

تو اور آئنے میں ترا عکس رُو برُو

نظّارہ ایک وقت میں خورشید و ماہ کا

 

ہے خانۂ خدا بھی وہاں بت کدے کی شکل

غلبہ ہو جس زمیں پہ کسی بادشاہ کا

 

گو شرع و دین سب کے لیے ایک ہیں مگر

ہر شخص کا الگ ہے تصور گناہ کا

 

اِک گوشۂ بِساط سے پورس نے دی صدا

میں ہو گیا شکار خود اپنی سپاہ کا

 

باصرؔ تو عہد شِکنی کا موقع نہ دے اُسے

ویسے بھی کم ہے اُس کا ارادہ نباہ کا

اکتوبر2003ء

 

 

 

 

ہو کوئی بھی کاروبار دھندا

کہتے ہیں کہ آج کل ہے مندا

 

واعظ نے لگا دیا کہیں اور

مسجد کے لیے ملا جو چندا

 

راجا ترا ہار موتیوں کا

بن جائے گا کل گَلے کا پھندا

 

اب ہم ہی کریں گے صاف یہ شہر

ہم نے ہی اِسے کیا ہے گندا

 

ہیں شعر نئے سو کھُردرے ہیں

درکار ہے خواندگی کا رَندا

 

کاغذ پہ نہ چھپ سکا جو قول

پتھّر پہ کیا گیا ہے کندہ

اکتوبر2007ء

 

 

 

 

صریحاً روزِ محشر کا سا نقشہ اُس سمے تھا

مرے اعمال کا سارا نتیجہ سامنے تھا

 

جدا تھے راستے منزل اگرچہ ایک ہی تھی

کہانی وصل کی عنوان جس کا فاصلے تھا

 

کھلاڑی مجھ سے بہتر بیسیوں پیدا ہوئے ہیں

مگر شطرنج سے جو عِشق مجھ کو تھا کِسے تھا

(تبدیلیِ قافیہ)

دیا تھا اختیارِ انتخاب اُس نے مجھے سب

مجھے معلوم ہے پہلے سے تو کچھ بھی نہ طے تھا

 

بصارت اور سَماعت کے لیے کیا کچھ نہ تھا پر

الگ ہر رنگ ہر آواز سے اِک بَرگِ نَے تھا

مئی2003ء

 

 

 

 

نہ کوئی ہمنوا میرا نہ ہمدم

غریبم شاعرم گوشہ نشینم

 

اب اِس سے بڑھ کے کیا نام و نَسَب ہو

مَن آدم ابنِ آدم ابنِ آدم

 

بہت چھوٹی سی اپنی سلطنت میں

مَنم سلطان ہم سلطان زادم

 

کٹی ہے زندگی لفظوں میں اپنی

سخن گویم سخن دانم دبیرم

 

مرا اعمال نامہ مختصر ہے

تہی دستم و لیکن شادمانم

 

مری دانِست میں نامِ محمدؐ

کلیدِ ہر دو عالم اسمِ اعظم

فروری2004ء

 

 

 

 

 

حصۂنظم

 

حمد

 

بوجھ اتنے صدموں کا دل اگر اُٹھا پایا

تجھ سے ہی مرے مالک اِس نے حوصلہ پایا

 

ٹھوکروں سے رستے کی خود کو جو بچا پایا

زندگی میں جنت کا اُس نے در کھُلا پایا

 

حرف حرف کا تیرے ذرّہ ذرّہ ہے شاہد

جو بھی کچھ کہا ہم نے نقش بَر ہوا پایا

 

اُس کی راہ پر باصرؔ آ گئے جو ہم آخِر

جس قدر گنوایا تھا اُس سے دس گُنا پایا

اگست2007ء

 

 

 

 

سلام

 

کب سے خواہش تھی کہ میں لکھوں سلامِ شبیرؑ

مہرباں آج ہوئے مجھ پہ امامِ شبیرؑ

 

صبرِ ایّوبؑ میں ہے ضربِ علیؑ کا سا وصف

تیغ کی طرح چمکتی ہے نیامِ شبیرؑ

 

جائے سجدہ میں ملیں جادۂ جنّت کے سراغ

دل میں تیرے جو اُتر جائے پیامِ شبیرؑ

 

اہلِ ایمان کی ہر صبح ہے صبحِ عاشور

ان کی ہر شام کا عنوان ہے شامِ شبیرؑ

 

وقت پڑنے پہ کہیں شمر کے ہمراہ نہ ہوں

ویسے کہتے تو ہیں ہم خود کو غلامِ شبیرؑ

 

میرے حصّے میں بھی ہوتی یہ حیاتِ جاوید

نامۂ رشک ہے یہ خِضرؑ بنامِ شبیرؑ

 

آبِ زمزم کی طرح سہل نہیں اِس کا حصول

جامِ کوثر کے لیے شرط ہے جامِ شبیرؑ

 

شرط ہے راہبری تا بہ شہادت باصرؔ

محض ورثے میں ملا کس کو مقامِ شبیرؑ

نومبر2003ء۔ مارچ2004ء

 

 

 

 

بچپن

 

جب تک

میری ماں زندہ تھی

میں بچّہ تھا

19دسمبر1998ء

 

 

 

 

بیٹی کی دسویں سالگرہ پر

 

مِری اچھی وجیہہ

میں تجھ سے خوش ہوں اِتنا

کہ اکثر سوچتا ہوں

اگر تجھ کو زمیں پر بھیجنے سے پہلے

خالق مجھ سے کہتا

کہ چن لے اِن ہزاروں لاکھوں بچوں میں سے

اِک اپنے لیے

تو میں تجھے ہی منتخب کرتا

میں خوش قسمت ہوں کتنا

دعا گو ہوں

سدا جیتی رہے

اور ایسی ہی اچھی رہے تُو

15نومبر1993ء

 

 

 

 

’نو عُمری اور پیری‘

 

کل کی بات ہے

کتنے شوق سے میں یہ نظم پڑھا کرتا تھا

میں نو عُمر تھا

پیِری خود سے صدیوں دُور نظر آتی تھی۔

اب میں پیِری کی دہلیز پہ آ پہنچا ہوں

بچپن اور جوانی مجھ کو بالکل یاد نہیں ہیں

جیسے ان اَدوار سے میں گزرا ہی نہیں

اپریل1999ء

(عنوان کولرج کی ایک نظم کا ہے )

 

 

 

 

پڑھو گے لِکھو گے

 

اِس پڑھائی لِکھائی سے کیا فائدہ

جو سکھائے فقط ایسی تحریر

آغاز جس کا جناب و حضور

انتہا تابعداری کا اک غیر مشروط پیمان

اور پیشگی شکریہ

جانے کس بات کا

اگست1997ء

 

 

 

 

خواندگی

 

پہلی آواز:

آؤ لکھو پڑھو

تاکہ بہتر طریقے سے خدمت کرو

مُلک اور قوم کی

خواندگی خواندگی ورنہ پسماندگی

 

دوسری آواز:

اِتنا پڑھ لِکھ کے بھی

میری حالت وہی

آج اِس کی تو کل اُس کی دہلیز پر

منتظر، ملتجی

خواندگی!

مارچ1998ء

 

 

 

 

قلم دوات

 

شجر سے کٹ کے جو بے جان ہو گئی تھی شاخ

قلم بنی تو وہ دوبارہ ہو گئی زندہ

شبِ سیہ سے زیادہ سیہ سیاہی سے

تمام عالمِ تاریک ہو گیا روشن

اپریل2004ء

 

 

 

 

 

نِدائے آدم

 

جہانِ تازہ مِرے دم قدم سے پیدا ہو

بہشت ارض پہ اُس کے کرم سے پیدا ہو

 

خوشی کی صُبح شبِ تارِ غم سے پیدا ہو

سکون وسوسۂ بیش و کم سے پیدا ہو

 

زبانِ تیشہ سے ایسے ہو کچھ بیانِ حُسن

اَذانِ عشق دہانِ صنم سے پیدا ہو

 

نظامِ کہنہ اگر چاہیے حیاتِ نَو

یہ وقت ہے کہ تُو میرے قلم سے پیدا ہو

مئی2006ء

 

 

 

 

بادشاہت جہنم میں

 

وہ کہتے ہیں کہ جنت کی غلامی سے

کہیں بہتر ہے دوزخ کی شہنشاہی

میں کہتا ہوں وہ جنت ہی نہیں

جس میں غلامی ہو

اگرچہ بادشاہت اک نشانی ہے جہنّم کی

جولائی1998ء

 

 

 

 

 

عالی جاہ

 

صاحبِ عالی مقام

جس کا نہیں کوئی نام

اپنوں پہ حاکم ہے یہ

غیر کا ادنی غلام

2003ء

 

 

 

 

اِمداد

 

کچھ تو جہاں میں اہلِ سخاوت کی تعداد بڑھی

کچھ میں نے بھی سیکھے نئے نئے انداز

دستِ سوال بڑھانے کے

عرضِ تمنّا کرنے کے

میرا کام تو چل نِکلا

سوچ رہا ہوں لے آؤں

اِک عمدہ سا کشکول

7دسمبر1998ء

 

 

 

 

 

کشکول

 

 

جتنی بھیک مجھے درکار تھی

اس کے لیے میرا کشکول

بہت چھوٹا تھا

آخر میں نے توڑ دیا اپنا کشکول

اور دونوں ہاتھوں سے دامن پھیلایا

دسمبر1998ء

 

 

 

 

 

دِفاع

 

گو صُلح اور امن سے بڑھ کر نہیں ہے کچھ

موزوں نہیں پیام یہ ہر ایک کے لیے

 

دشمن کو ڈھیل دی تو ہُوا سَر پہ وہ سوار

کلہاڑی اپنے پاؤں پہ ہرگز نہ ماریے

 

بادل کی طرح سایہ بھی دیں غیر کو ضرور

لیکن کبھی گرجنا برسنا بھی چاہیے

اکتوبر2006ء

 

 

 

 

 

مشرق اور مغرب

 

پھُول کسی گلشن میں کھِلے

یا کسی کے آنگن کی کیاری میں،

سڑک کے بیچ میں، یا

فٹ پاتھ پہ لگے ہوئے پودے میں،

اس کے رنگ وہی ہیں

اس کی مہک وہی۔

 

سُورج سُورج ہے

چاہے مشرق سے نکلے

چاہے مغرب سے۔

اکتوبر2006ء

 

 

 

 

 

دوسری ہجرت

 

بابا، تم نے

اپنی آنے والی نسلوں کی خاطر

اپنے آبا کی قبروں کو چھوڑا تھا۔

ہم نے بھی ہجرت کی ہے

اپنی اولاد کے ’روشن‘ مستقبل کے لیے۔

اپریل2007ء

 

 

 

 

رونی صورت

 

اُس کو ہم سے گِلہ رہے گا ایسے ہی

کچھ کر لیں وہ خفا رہے گا ایسے ہی

اُسے ہنسانے کی ہر کوشش ہے بے سود

اُس کا منہ تو بنا رہے گا ایسے ہی

جنوری1998ء

 

 

 

 

 

گھر کی مُرغی

 

وہ زمانے گئے جب تھی یہ غریبوں کی غذا

قدر و قیمت میں تو اب لحم سے بڑھ کر ہے دال

اِس میں ہے یارو سَراسَرمری عزّت افزائی

گھر کی مُرغی کو جو تم دال برابر سمجھو

فروری2006ء

 

 

 

 

 

غزل کہتے ہیں

 

اُس کے آنے پہ غزل کہتے ہیں

اُس کے جانے پہ غزل کہتے ہیں

 

دھُوپ نکلے تو غزل ہوتی ہے

اَبر چھانے پہ غزل کہتے ہیں

 

ناشتے پر ہے غزل کا سامان

رات کھانے پہ غزل کہتے ہیں

 

مُہر ہم اپنے تخلّص کی لیے

دانے دانے پہ غزل کہتے ہیں

 

دل اُجڑنے پہ بہت شعر ہوئے

گھر بَسانے پہ غزل کہتے ہیں

 

منہ دکھائی میں غزل کا تحفہ

رُخ چھُپانے پہ غزل کہتے ہیں

 

نہیں لازم کہ کوئی زخم لگے

سَر کھُجانے پہ غزل کہتے ہیں

 

ہے کچہری کبھی موضوعِ سخن

کبھی تھانے پہ غزل کہتے ہیں

 

انقلابی ہوئے جب سے شاعر

کارخانے پہ غزل کہتے ہیں

 

اِس قدر سہل غزل کہنا ہے

سانس آنے پہ غزل کہتے ہیں

 

بیٹھ کر کُنجِ قفس میں باصرؔ

آشیانے پہ غزل کہتے ہیں

دسمبر2003ء

 

 

 

 

 

جنگل میں مور

 

ایک دن اِک مور سے کہنے لگی یہ مورنی

خوش صَدا ہے، خوش اَدا ہے، خوش قدم خوش رَنگ ہے

اِس بیاباں تک مگر افسوس تُو محدود ہے۔

جب کبھی میں دیکھتی ہوں محو تجھ کو رقص میں

ایک خواہش بے طرح کرتی ہے مجھ کو بے قرار

کاش تجھ کو دیکھ سکتی آنکھ ہر ذی روح کی

کاش مخلوقِ خدا ہو تیرے فن سے فیض یاب۔

 

مور بولا اے مِری ہم رقص میری ہم نوا

تُو نہیں واقف کہ میں گھوما پھرا ہوں کس قدر

کتنے جنگل میں نے جھانکے کتنی دیکھیں بستیاں

اَن گنت آنکھوں نے دیکھا میرا فن میرا ہنر۔

داد لینا دیکھنے والوں سے تھا مقصد مِرا

اِس طرح گویا اُنہیں تسخیر کر لیتا تھا میں۔

دیکھتا جب اُن کی آنکھوں میں ستائش کی چمک

بس اُسی لمحے پَروں کو میرے لگ جاتے تھے پَر۔

 

پھر ہوا یوں ایک دن دورانِ رقص

غالباً شیشے کا ٹکڑا یا کوئی کنکر چُبھا

رقص تو کیا چلنے پھرنے سے ہُوا معذور میں

رفتہ رفتہ ہو گیا اہلِ جہاں سے دُور میں۔

 

بعد مُدّت ایک دن پہنچا جو میں پنڈال میں

دیکھتا کیا ہوں کہ اک طاؤسِ خوش قد خوش جمال

مجھ سے بہتر اور کتنا مختلف

کر رہا تھا اپنے فن سے اہلِ مجلس کو نہال۔

دیر تک دیکھا کیا میں اُس کو اوروں کی طرح

یوں لگا جیسے وہ تھا میری جگہ میری طرح۔

 

کاروانِ زندگی رکتا نہیں

وقت کا دریا کبھی رکتا نہیں

آج میں کل کوئی پرسوں کوئی اور

اپنا اپنا وقت اپنا اپنا دور۔

 

رقص کرتا ہوں اگر میں اب تو بس اپنے لیے

یا فقط تیرے لیے، تیرے لیے، تیرے لیے

2006-08ء

 

 

 

 

نثری نظمیں

 

نثری نظم

 

کیوں نہیں ؟

آخر اِس میں مسئلہ کیا ہے ؟

شاعری اور نثر

متضاد چیزیں نہیں

کہ اکٹھی نہ ہو سکیں

ضِدّین نہیں زوجین ہیں

جو ایک دوسرے کا رُتبہ بڑھاتی ہیں

ایک دوسرے کی آبیاری کرتی ہیں۔

شاعری کیوں ؟

تاکہ بات اچھی لگے

اور یاد رہ جائے۔

اچھی نثر کے جملے بھی

موزوں اور رواں ہوتے ہیں

یاد رہتے ہیں۔

اچھی شاعری کی طرح یہ بھی

’’الفاظ کی بہترین ترتیب‘‘ کا نام ہے۔

نظم منظّم ضرور ہو

منظوم ہو نہ ہو۔

رہی نام کی بات،

کیا خوب کہا تھا کسی نے

اور سب جانتے ہیں کہ کس نے کہا تھا۔

نام میں کیا ہے ؟ ہم جسے گُلاب کہتے ہیں

وہ کسی اور نام سے بھی ایسی ہی سہانی خوشبو دے گا۔

نثر اور نظم کا ملاپ

زوجین کا نکاح ہے

بشرطیکہ نکاح خواں

دونوں سے بخوبی واقف ہو۔

جنوری2004ء

 

 

 

 

 

کوئی ہے ؟

 

کوئی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟

ہے کوئی؟

جو ایک ڈوبتے ہوئے شخص کی بات سُنے۔

دیکھو، مجھے مدد نہیں چاہیے

مجھے کسی سے کُچھ لینا نہیں

بلکہ کُچھ دینا ہے۔

میرے بہن بھائی مجھ سے دُور ہیں

میرے دوست اپنی اپنی جگہ خوش ہیں

میرا اپنے کسی رشتے دار سے کوئی رابطہ نہیں۔

میرے پاس ایک خزانہ ہے

جو میں کسی کو دینا چاہتا ہوں

اِسے حاصِل کرنا بہت آسان ہے۔

یہ خزانہ اُس کا ہو جائے گا

جو میری بات سُنے گا

کوئی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟

ہے کوئی۔ ۔ ۔ ۔ ؟

نومبر2004ء

 

 

 

 

 

سہرا

 

ساجد علی کی سہرابندی ہو رہی تھی۔ امجد بھائی میری طرف دیکھتے ہوئے بولے، ’’بھئی شاعر موجود ہے لیکن سہرا نہیں پڑھا جا رہا۔ ‘‘میں نے کوتاہی کا اعتراف کرنے کے بجائے حجّت کرتے ہوئے تقاضا کیا، ’’کوئی مصرع دیں اور سہرا لیں۔ ‘‘ امجد بھائی نے بے ساختہ کہا، ’’زمین تو پھر ایک ہی ہے۔ ‘‘

لیجیے صاحب، میں نے اپنا بوجھ کم کرنا چاہا لیکن یہ تو کئی گنا بڑھ گیا تھا۔ بہرحال، انسان آسانی سے ہار ماننے والی مخلوق تو ہے نہیں۔ میں نے ضمیر نقوی کا پسندیدہ جملہ، جو اس کا تقریباً تکیہ کلام ہے، استعمال کیا: ’’کچھ کرتے ہیں۔ ‘‘لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ساجد کی سسرال بہت نزدیک تھی۔ باراتی گاڑیوں کے ایک دروازے سے داخل ہوئے اور دوسرے سے اُتر گئے۔ نکاح بھی ہو گیا اور کھانا بھی۔ نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب۔ میں نے ہتھیار ڈالنے سے پہلے، آخری کوشش کے لیے، کچھ وقت حاصل کرنے کی غرض سے کہا، ’’کل ولیمہ ہے۔ ضرور کچھ نہ کچھ ہو جائے گا۔ ‘‘

زمین کتنی ہی زرخیز کیوں نہ ہو، اگر اس سے عمدہ فصلیں لی جا چکی ہوں تواس میں نئے بیج اُگانے کے لیے اسے پھر سے تیار کرنا پڑتا ہے۔ اگلے چوبیس گھنٹوں میں بس یہی کچھ ہو سکا۔ ایک دو مصرعے، چند ٹکڑے، مطلعے کا ہیولہ سا۔

ڈھائی برس بعد، وحید رضا بھٹی کی شادی پر یہ سہرا مکمّل ہُوا۔ ہونا بھی کچھ ایسے ہی تھا۔ کالج میں میری، ساجد اور بھٹی کی ٹرنٹی اتنی مشہور تھی کہ ہم میں سے کوئی ایک نظر آ جاتا تو کہا جاتا کہ دوسرے دو بھی کہیں آس پاس ہی ہوں گے،ع کیا زمانہ تھا کہ ہم روز ملا کرتے تھے۔ !

باصِر26 مئی 2008ء

 

دوست کے سہرے پہ کہتے ہیں سخنور سہرا

ہے ترے سہرے کا اے دوست مِرے سر سہرا

 

ہم کو ہر دولہا یہ کہتا ہُوا آیا ہے نظر

تاج کیا چیز ہے دیکھو مِرے سَر پر سہرا

 

کامیابی نہیں ہوتی کوئی اِس سے بڑھ کر

ہے سکندر وہی جس کا ہے مقدّر سہرا

 

تاکہ تاریکیِ شب مانعِ دیدار نہ ہو

لائے ہیں دھُوپ کے تاروں سے بنا کر سہرا

 

اِس میں بس جاتی ہے خوشبو جو حسیں یادوں کی

سُوکھ جانے پہ بھی رہتا ہے معطّر سہرا

 

چشمِ بد راہ نہ پائے گی کسی طور وحید

ہے دعاؤں کا تِرے سہرے کے اُوپر سہرا

 

اہلِ ذوق آئیں تو ہم اُن کو بتائیں باصِرؔ

دل سے کہتے ہیں تو پھر کہتے ہیں کیونکر سہرا

اکتوبر1982ء

 

 

 

 

منظوم تراجم

 

مرو کے ایک نوجوان کی حکایت۔ علّامہ اقبال

 

جس نے حضرت سیّد مخدوم علی ہجویریؒ کے حضور آ کر دشمنوں کے ستم کی فریاد کی

(از ’اسرار و رموز‘، علّامہ محمد اقبال)

 

سیّدِ ہجویرؒ مخدومِ اُمم

جس کا مرقد پیرِ سنجر کو حرم

 

چھوڑ کر کہسار آیا ہند میں

بیج بویا بندگی کا ہند میں

 

اُس سے تازہ ہو گیا عہدِ عمرؓ

حرف سے اُس کے ہُوا حق معتبر

 

پاسبانِ عزّتِ اُمّ الکتاب

خانۂ باطِل کیا جس نے خراب

 

خاکِ پنجاب اُس کے دم سے جی اُٹھی

صبح اُس کے مہر سے روشن ہوئی

 

تھا وہ عاشق قاصِدِ طیّارِ عشق

جس کے ماتھے سے عیاں اسرارِ عشق

 

اُس کی عظمت کی ہے یہ اِک داستاں

باغ کو غنچے میں کرتا ہوں نہاں

 

اِک جواں جس کی تھی قامت مثلِ سرو

وارِدِ لاہور شد از شہرِ مرو

 

سیّدِ والا کی خدمت میں گیا

تاکہ تاریکی ہو سورج سے فنا

 

اور ہُوا گویا کہ ہوں در دشمناں

جیسے مِینا پتھروں کے درمیاں

 

تُو سِکھا مجھ کو شہِ گردوں مکاں

زندہ رہنا دشمنوں کے درمیاں

 

پِیرِ دانا ذات میں جس کی جمال

کر گیا عہدِ محبت با جلال

 

بولے اے ناواقفِ رازِ حیات

غافِل از انجام و آغازِ حیات

 

اور مت اندیشۂ اٖغیار کر

قوّتِ خوابیدہ کو بیدار کر

 

سنگ نے خود کو جونہی شیشہ کہا

بن گیا شیشہ ہی اور ٹکڑے ہُوا

 

راہرو گر خود کو سمجھا ناتواں

راہزن کو اُس نے دے دی اپنی جاں

 

آب و گِل سمجھے گا خود کو تا کُجا

شعلۂ طُور اپنی مٹی سے اُٹھا

 

تُو عزیزوں سے خفا رہتا ہے کیوں

دشمنوں کا تُو گِلہ کرتا ہے کیوں

 

سچ کہوں دشمن بھی تیرا دوست ہے

ہے تِرے بازار کی رونق یہ شے

 

جانتا ہو جو مقاماتِ خودی

فضلِ حق جانے جو ہو دشمن قوی

 

کِشتِ انساں کے لیے بادل عدو

اُس کے اِمکانات کو بخشے نمو

 

سنگِ رَہ پانی ہے گر ہے حوصلہ

سیل کو پست و بلندِ جادہ کیا

 

مِثلِ حیواں کھانا پینا کس لیے

گر نہ ہو محکم تو جینا کس لیے

 

گر خودی سے خود کو تُو محکم کرے

چاہے تو دنیا کو پھر برہم کرے

 

خود سے ہو آزاد گر چاہے فنا

خود میں ہو آباد گر چاہے بقا

 

موت غفلت ہے خودی سے مہرباں

تُو سمجھتا ہے فراقِ جسم و جاں

 

صورتِ یوسف خودی میں کر قیام

قید سے تختِ شہی تک کر خرام

 

گُم خودی میں ہو کے مردِ کار بن

مردِ حق بن حامِلِ اسرار بن

 

داستانیں کہہ کے راز افشا کروں

غنچے کو زورِ نفس سے وا کروں

 

’’ہے یہی بہتر کہ رازِ دِلبراں

دوسروں کے قصّے میں کیجیے بیاں ‘‘

پِیرِسنجر: خواجہ معین الدّین چشتیؒ جو حضرت ہجویریؒ کے مزار پر تشریف لائے تھے۔

 

 

 

 

زخمی ہرن۔ ولیم کوپر

 

                The Stricken Deer

                William Cowper

 

میں ایک زخمی ہرن تھا، جسے ڈار چھوڑے ہُوئے

ایک عرصہ ہُوا تھا؛ کئی تِیر گہرے لیے

میرا بیتاب پہلو شِکستہ تھا، جب میں ہٹا

دُور اُفتادہ سایوں میں اِک پُرسکوں موت کو ڈھونڈنے

وہاں مجھ کو پایا اِک ایسے نے جو خود بھی تھا

تِیر انداز ہاتھوں کا گھائل شدہ۔ اُس کے پہلو میں تھے،

اور ہاتھوں میں اور پاؤں میں، کتنے ظالم نشاں۔

نرم قوّت سے اُس نے مِرے تِیر،

باہر نِکالے، مِرے زخم اچھے کیے، اور کہا جاؤ زندہ رہو۔

تبھی سے میں، ہمراہ کچھ ساتھیوں کے، الگ

اور خاموش جنگل میں آوارہ پھِرتا ہوں، اُن

اپنے گُنجان منظر کے سابق شناساؤں سے دُور؛

ہمراہ کچھ ساتھیوں کے، کسی اور کی آرزو کے بغیر۔

(ترجمہ، اگست 1978ء)

 

 

 

 

میرے دوست: باصِر اور سائمن۔ دیبجانی چیٹرجی

 

                My Friends: Basir and Simon

                Debjani Chatterjee

 

دو یار زِیرک و از بادۂ کہن دو منے

فراغتے و کتابے و گوشۂ چمنے

شمس الدین محمد حافظ

 

حافِظ، تجھے تھی بادۂ عمدہ کی آرزو

فرصت کی اور کتاب کی۔ ۔ ۔ یہ تیری دولتیں !

اِک گوشۂ چمن بھی تِری خواہشوں میں تھا،

دو دوستوں کی بزم مگر شرطِ اوّلیں۔

سو دیکھ رشک سے مجھے دو دوستوں کے ساتھ

اِک شرقِ نرم دوسرا سرگرم غرب سے

معمور اِن کے دم سے مِرا ساغرِ سرُور

یہ ہیں مِری کتاب مِرا گلشنِ سکون۔

(ترجمہ، جون2003ء)

 

 

 

 

جراحتِ دل۔ سائمن فلیچر

 

                (باصر سلطان کاظمی کے لیے )

                Heart Surgery

                Simon Fletcher

                (For Basir Sultan Kazmi )

 

لگے ہیں اِس میں کئی سال اعتراف کروں

نیا بنا دیا تُو نے مِرا دلِ شاعر

 

مِرا خیال تھا لکھتا ہوں میں ہنر سے مگر

میں جانتا نہ تھا ہوتا ہے کیا دلِ شاعر

 

جگا کے مجھ کو مِرے خوابِ سبز سے تُو نے

گَلے سے اپنے لگایا مِرا دلِ شاعر

 

مجھے دکھائی نہ دیتی تھی رہ جو لے جاتی

مقامِ اوج پہ مجھ کو جو تھا دلِ شاعر

 

میں چل رہا تھا بہت مطمئن، مگر نادان

اِسی گماں میں کہ پہلو میں تھا دلِ شاعر

 

تجھے خبر تھی کہ رستہ کٹھن تھا، ناہموار

تھکائے دیتا تھا مجھ کو ترا دلِ شاعر

 

ہوا خنک ہوئی سیکھا نیا ہنر باصِر

سو یہ ہے ایک تشکّر بھرا دلِ شاعر

 

 

 

 

نثری تراجم

 

ثقافتی مسالا۔ سائمن فلیچر

(باصِر اور دیبجانی کے لیے )

                Cultural Masala

                Simon Fletcher

                (For Basir and Debjani)

 

سو یہ کیسے ہوا، ہم کیسے مِلے ؟

سرائے میں نہیں، نہ ہی گلی میں،

 

مگر ہمارے اندر کی کسی چیز نے ہمیں اکٹھا کیا

تاکہ ہم اپنی محبتوں کے نغمے گائیں ہر موسم میں۔

 

مذہب، زبان، مشغلے اور تذکیر تانیث

شاعری نے آمیخت کیے، جیسے کسی بلینڈر میں۔

 

لاہور کی نایاب بوٹیاں ؛ خوش ذائقہ، تُرش؛

دہلی کے لذیذ مسالے، جن سے کوئی زبان نہ جلے۔

 

اور پکوان کو چٹ پٹا بنانے کے لیے، کھانے کا دَور مکمل کرنے کے لیے،

ایک پرانا انگریزی چٹخارہ، وُرسٹرشائرکی چٹنی!

 

 

 

 

 

بے ملاوٹ پیغام۔ سائمن فلیچر

(باصِر اور دیبجانی کے لیے )

 

                Unmixed Message

                Simon Fletcher

                (For Basir and Debjani)

 

سو ہم کیا کہنے کی کوشش کر رہے ہیں ؟

زمین گھومتی ہے اور کچھ لوگ فائدہ اُٹھاتے ہیں ؛

 

دوسروں کی ترجیح ہے پھُوٹ ڈالنا اور حکومت کرنا،

ایک مؤثر منصوبہ جو ہم نے سکول میں سیکھا۔

 

اِس کا نتیجہ، ہمیں پتا ہے، بے حالی

قحط، خشک سالی اور جنگ اور موت۔

 

سو ہم مسترد کرتے ہیں اِن جنگجو احمقوں کو

اِن کے دوستوں، ساتھیوں، پٹھوؤں اورآلۂ کاروں کو،

 

اور حمایت کرتے ہیں پکنکوں، پارٹیوں اور کھیلوں کی،

جہاں ہر کوئی حصّہ لے سکتا ہے

 

اورمحسوس نہیں کرتا خود کو گُونگا اور نظرانداز کیا گیا

پیغام واضح ہے پیچیدہ نہیں۔

 

 

 

 

 

ہمدردی کا ایک ننھا سا پُل۔ سائمن فلیچر

(باصِر سلطان کاظمی کے لیے )

 

                ‘A Little Bridge of Sympathy’

                Simon Fletcher

                (For Basir Sultan Kazmi)

 

ہم باہمی معاملات پر بات کرتے ہیں،

جبکہ گفتگو چوکڑیاں بھرتی ہے

مثلِ غزال کمرے میں اور

فرازہ کھانا پکاتی ہے اور وجیہہ

’ریڈرز آف دی لوسٹ آرک( خزانوں کے متلاشی)‘ دیکھتی ہے،

ہماری بات چیت سے اُدھر، دوسرے کمرے میں۔

تمہارے مرحوم والد، عظیم گفتگو کرنے والے،

لاہور کی گلیوں میں گھومتے ہیں

تمہارے ذہن میں، اپنے صاف گو دوستوں کے ہمراہ

رات کے پچھلے پہر؛

تمہارے دادا، کلف لگے ہوئے فوجی لباس میں

سُرخی مائل بھوری تصویر میں نظر آتے ہیں۔

میں تمہیں بتاتا ہوں کھیتوں میں کام کرنا

اپنے والد کے ساتھ، فصل کاٹنا،

پھل توڑنا، ہل چلانے کی مشقّت، جبکہ

میرے دادا چائے پیتے ہیں

ایک خاص سیاست دان کے ساتھ؛ یہ سب کچھ

حافظے کے محدّب عدسے میں سے گزر کر آتا ہے۔

اپنے ’گمشدہ خزانوں ‘ کے متلاشی، ہم

کئی برسوں اور زبانوں کو عبور کر کے پہنچتے ہیں

ہمدردی کے پُل بنانے۔

ماضی ایک دوسرا مُلک ہے،

بے شک، اور جو کچھ ہم نے وہاں کیا؛

لیکن اصل بات وہ ہے جو ہم دونوں اب کرتے ہیں۔

 

 

 

 

ناصر کاظمی کے گھر کے لیے ایک دعائے خیر۔ سائمن فلیچر

 

                A Prayer for the well-being of Nasir Kazmi’s House

                Simon Fletcher

 

’پیڑ لگانے والا شخص

بیشتر اوقات اس کا پھل کھانے کے لیے زندہ نہیں رہتا‘

 

سفید کبوتر اسی طرح جمع رہیں

چھت پر ناصر کاظمی کے گھر

 

پتنگ، زعفرانی، چمک دار، نیلے

اُڑتے رہیں اوپر ناصر کاظمی کے گھر

 

ارغوانی گلاب، پودے، درخت

پھلیں پھولیں ناصر کاظمی کے گھر

 

سورج چمکے، بارشیں، اپنے موسم میں،

برستی رہیں ناصر کاظمی کے گھر

 

۱ہلِ خانہ، حلیم، عالِم

لمبی عمر پائیں ناصر کاظمی کے گھر

[سائمن نے یہ نظم ناصر کاظمی کی پچیسویں برسی (مارچ 1997) کے موقع پر لکھی اور الحمرا آرٹس کونسل لاہور میں منعقدہ تقریب میں پڑھی۔ صدارت احمد ندیم قاسمی، مہمانِ خصوصی انتظار حسین]

 

 

 

 

قالین باف۔ محمد اطہر طاہر

                Carpet-Weaver

                M.Athar Tahir

 

اُن عمارتوں کے درمیان جو بھکاری عورتوں کی طرح

روشنی کے لیے ایک دوسرے کی حریف تھیں

میرا خیال ہے کہ میں راہ بھول کر

جب ایک کُنجِ عزلت میں پہنچا تو اُس سے دوچار ہوا۔

وہ گٹھری بنا ہوا تھا، عمارت کے اندر، اندھیرے کی روشنی میں

اُس کی انگلیاں، اُون کے کام کے باعث بے حِس،

پرانی کام چلاؤ مشین پر مشقّت کرتی ہیں

چوہے کی سی مختصر تیز رفتار سے

جبکہ یہ اپنی روزی کماتا ہے

فی مربع انچ گِرہوں کے حساب سے

محض مؤذن کی اذان کے فاصلے پر

عظیم بزرگ کے مزار پر

پیشہ ور مانگنے والے

اپنے دھات کے کشکول کھانا لینے کے لیے بڑھاتے ہیں

بے شمار خدا کے پیارے

چاولوں کی دیگیں اور پھولوں کے ہار لے کر

اس سبز گنبد والے ولی کا شکریہ ادا کرنے آتے ہیں۔

سفارشیں یہاں بھی چلتی ہیں۔

 

 

 

 

متفرق اشعار

 

1997

سُورج کا یہ رنگ نہ تھا جو وقتِ شام ہُوا ہے

دیکھو کیسا سَرکش گھوڑا کیسا رام ہُوا ہے

______________

اِنصاف اگر کہیں ہے کچھ

جنّت کا نشاں وہیں ہے کچھ

آ جائیں گے دیکھنے تمہیں ہم

کہنا تو ہمیں نہیں ہے کچھ

ستمبر

______________

حاضری کے واسطے سرکار کا دفتر کھُلا

کتنے چکّر کاٹنے کے بعد یہ چکّر کھُلا

دسمبر 2000

______________

سب حسینوں کا حُسن تجھ میں ہے

اور تِرا حُسن سب حسینوں میں

12 ۱کتوبر2001

______________

جو منافع نہ مِل سکا باصِرؔ

اُس کو نقصان کیوں سمجھتے ہو

3دسمبر2003

______________

کھُلتے ہی نہیں کسی صورت

وہ ہونٹ بھی سُرخ فیتے ہیں

 

ہیں سارے کے سارے آدم خور

شہروں میں جو شیر چیتے ہیں

جنوری

______________

یوں بھی کم تھی اُس کے آنے کی اُمید

اب تو ویسے بھی اندھیرا ہو گیا

28جنوری

______________

نقصان پر جو میرے افسوس کر رہے ہیں

میں جانتا ہوں کتنا اندر سے خوش ہوئے ہیں

9مارچ

______________

نیند میں بھی بھٹک نہیں سکتا

روز کا راستہ ہے یہ میرا

3اپریل

______________

جس نے ماں باپ کو دیا ہو دُکھ

اُس نے اولاد سے نہ پایا سُکھ

4دسمبر2004

______________

گئے خط بے اثر سارے

اُسے بھیجوں گا اب سی وی

4اپریل

______________

نکل گیا ہے مِری زندگی سے وہ شاید

کئی دنوں سے مِرے خواب میں نہیں آیا

10جون

______________

وہاں جانے سے کیا ڈرنا

جہاں سب جائیں گے اک دن

 

غلط سمجھے ہیں جو ہم کو

بہت پچھتائیں گے اک دن

13جولائی

______________

جن دنوں روتا تھا تیری یاد میں

رو رہا ہوں اُن دنوں کی یاد میں

3ستمبر 2005

______________

کیا مشورہ کوئی دے اب ایسے آدمی کو

جانے دیا ہو جس نے گھر آئی لکشمی کو

10جولائی

______________

اب آ کے دیکھتے ہیں شجر ہیں وہ سایہ دار

جاتے ہوئے جو بیج یہاں بو گئے تھے ہم

19ستمبر

______________

شفا ہوتی دوا سے معجزہ ایسا تو کیا ہوتا

مگر بیمار کچھ دِن اور جی لیتا تو کیا ہوتا

 

ابھی اُس کے نہ مِلنے پر عداوت ہے زمانے کو

کسی تدبیر سے وہ ہم کو مِل جاتا تو کیا ہوتا

دسمبر

______________

ہے اِتنا کچھ جہاں دل میں ہمارے ناخداؤں کے

خیالِ خلق بھی ہوتا اگر خوفِ خدا ہوتا

دسمبر2006

______________

کسی سبب سے جو وہ دے سکیں نہ میرا ساتھ

نہیں ہے اِس میں بُرا ماننے کی کوئی بات

 

سلوک اُس کا ترے ساتھ ٹھیک ہے باصِرؔ

کوئی تو ہو جو بتائے تجھے تِری اوقات

16فروری

______________

گزر گئی ہے اِسی کاہلی میں عُمر تمام

یہ سوچتے رہے بس اب کریں گے کل سے کام

 

یہ سوچ کر کہ مِلے گا ضرور اب کے جواب

نجانے لِکھّے ہیں خط کتنی بار اپنے نام

نومبر

______________

گو شاعری پڑھنے کا اُسے شوق بہت ہے

کیا کیجیے اِس کا کہ وہ بد ذوق بہت ہے

دسمبر

______________

ایک دشمن کی کمی تھی باصِرؔ

وہ بھی اِک دوست نے پوری کر دی

8دسمبر 2007

______________

جب چاہیے ہو ملتی ہے تازہ ہَوا مجھے

شاید کبھی لگی تھی کسی کی دعا مجھے

5جولائی

٭٭٭

تشکر: ’کتاب‘ ایپ، آئڈیل آئیڈیاز

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید