FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

غزل ہے شرط

شاہین

مدیر: وہاب اشرفی

شاہین کی غزلوں کے منتخب اشعار

1
چاند ہو فلک پر کا یا دیا بجھے گھر کا
رات سے شکایت کیا روشنی تو میری ہے

2
کیا خبر کہاں جا کر ساتھ چھوڑ دے میرا
خاک کا بھروسا کیا خاک بھی تو میری ہے

3
شہر آرزو کا یہ منطقہ ہے زیبا تر
ہے کہیں اگر اس میں کچھ کمی تو میری ہے

4
تیری ان بہاروں کو ورنہ پوچھتا ہی کون
رنگ سب سہی تیرے تازگی تو میری ہے

5
جس کو بلند رکھ کے ہوا میں لہو لہان
اپنی فصیل پر وہی پرچم نہیں ملا

6
کیا کیا نہ جھلملائے ستارے شبِ فراق
لیکن سراغِ دیدۂ پرنم نہیں ملا

7
بہت نیندیں اکٹھی ہو گئی ہیں
کتابوں سے بھری الماریوں میں

8
سیاست خواہشوں کی درمیاں ہے
رہِ منزل کی ناہمواریوں میں

9
فاصلوں پر کبھی ممکن نہیں غالب آئیں
اپنے بیساکھ میں ساون سے الجھتے ہوئے لوگ

10
حشر آ جائے نظر بھر کے جو بت کو دیکھیں
بتکدے بیچ برہمن سے الجھتے ہوئے لوگ

11
کام دن بھر کے سبھی درج ہیں نسخوں کی طرح
گھر کے ہر شخص کی خود ساختہ بیماری ہے

12
کون جی پایا ہے شاہین یہاں اپنی طرح
زندگی اصل میں بس ایک اداکاری ہے

13
ہے بے جہتی میری بگولوں کا سہارا
رکھتا ہوں مسلسل خس و خاشاک سے پیوند

14
بھکشو کی طرح کیسری چولے میں نہاں ہے
دھڑکن کا دلوں کی بتِ بنکاک سے پیوند

15
سایہ مرا بھاری تھا بدن سے بھی زیادہ
باہر نکل آیا دلِ صد چاک سے پیوند

16
خرابے سے خبر پہنچی ہے یہ جھمری تلیا میں
عجب وحشت ہے اب کے کول کاتا کے جویا میں

17
دعا دیتی ہوئی سی چہچہا کر لوٹ جاتی ہے
کسی درویش کی جاں قید ہو جیسے گوریا میں

18
احوال چھپاتے ہیں کیا جانیے کیا جی کا
چہرے سے بڑی عینک ماتھے سے بڑا ٹیکا

19
اب عمر کے خیمے میں پیوند ہی لگنے ہیں
صحرائے عرب ہو یا بازی گہِ امریکا

20
رکھ کے سامانِ جراحت طشت میں ترتیب سے
زخم کو پھر اپنے ہونے کی خبر دیتا ہوں میں

21
فلک تو بجلیوں کی تربیت کر ہی نہیں پاتا
زمیں زادے بھی پتھر پھینکتے ہیں آشیانوں پر

22
عذابِ نقلِ مکانی تو اک بہانہ ہے
سگِ زمانہ جہاں ہے سگِ زمانہ ہے

23
لگائے مل کے برس بھر کے قہقہے اک دن
انامیکا کی ادا ایسی کافرانہ ہے

24
رکھ دی ہے زندگی نے کچھ ایسی عجیب شرط
نرغے سے بے وفا کے نکلنا محال ہے

25
اترنے لگتے ہیں کچھ بدقماش سائے بھی
جن آنگنوں میں دعا دھوپ بن کے چڑھتی ہے

26
وہ آنکھ جان کے بھی ہے مرا مخاطب کون
غزل غزل مجھے بین السطور پڑھتی ہے

27
خود اپنے گرد جو سیتا نے کھینچ رکھی ہے
وہی لکیر ہے باقی نہیں کہیں کچھ اور

28
ایک پشتارہ لئے بس چل پڑے
ہم سفر بھی کوئی ہم سا چاہیے

29
چپ چاپ گزر جائیے بازارِ گماں سے
ارزاں بھی ہو گر جنس اٹھانا ہی نہیں اب

30
جہاں میلوں نہیں کوئی پڑوسی
خزاں کیوں تخمِ لالہ بو رہی ہے

31
وہ بھی شاہین مری طرح پریشاں ہوگا
ہم وطن جس نے مجھے جانا وطن سے باہر

32
کم نہیں یہ بھی جو زمیں نے دیا
میرے حصے میں آسماں ہے بہت

33
قبول ہے غمِ دنیا ترے حوالے سے
یہ بوجھ ورنہ سنبھلتا نہیں سنبھالے سے

34
سراغ اپنا اُدھر ہی کہیں ملے شاید
تنے ہوئے ہیں جدھر مکڑیوں کے جالے سے

35
کسی کی یاد بھی عنوانِ بے وفائی تھی
پڑے ہیں پاؤں میں قبلِ سفر بھی چھالے سے

36
شامِ ہجراں وہی صورت ہو تو
پھر تجھے میری ضرورت ہو تو

37
میری آنکھیں ترا مسکن تسلیم
میری وحشت تری قسمت ہو تو

38
ہم کہ شاہین ہیں رنگوں کے قتیل
فصل گل اُس کی شرارت ہو تو

39
دن بھر کی مشقت سے تھک ہار کے گھر جائیں
اور اپنی ہی دستک کی آواز سے ڈر جائیں

40
اچھا ہے کہ ہم اپنے ہونے سے مکر جائیں
یا اپنی خبر دے کر چپکے سے گزر جائیں

41
یہ جو غوغائے زہد و طاعت ہے
معصیت کا غبارِ وحشت ہے

42
اک دھنک سی حباب پر اتری
زندگی کتنی خوبصورت ہے

43
اک مکمل سکوت، بے خبری
لمس وہم و گماں کی حیرت ہے

44
بدلتی رُت میں اپنا جسم ہم مٹی میں بو آئے
سنور جائے گی اب کشتِ گل و لالہ، ترا لالا

45
ہمیں مر کر بھی خود ہی اپنا استقبال کرنا تھا
ہوا نامِ خدا اب پاک یہ قصہ، ترا لا لا

46
زرد سی بیل اور دیوارِ شکستہ
اشتراکِ درد کے رشتے بڑے ہیں

47
بند مٹھی میں چھپی خوشبو کی خاطر
رات بھر وحشی ہواؤں سے لڑے ہیں

48
سفر ہے ختم مگر بے گھری نہ جائے گی
ہمارے گھر سے یہ پیغمبری نہ جائے گی

49
سزا وجود سے بھی قبل ہو چکی مقسوم
خبر نہ رکھ مری اس درجہ بے خبر میرے

50
میں نے چپکا دئے اس طرح ورق کچھ باہم
جزوِ ہستی مرا ماضی نہ رہا ہو جیسے

51
پیڑ نے سائے کے حرفوں میں لکھا تھا جس کو
ڈوبتے چاند وہ تحریر مٹا دے اب تو

52
برف چپ چاپ گری ہوگی سرِ منزلِ شب
صبح کی آنکھ میں افسانے کہاں سے آئے

53
چاند کو تقسیم کرتا اک پرندہ اُڑ گیا
فاصلوں کی آگ میں جلنے لگا سارا بدن

54
ہائے یہ بے سر و سامانی و بے ترتیبی
زندگی کیا کسی میخوار کا گھر ہے اے دوست

55
کمزور ساعتوں کا وہ جانکاہ فیصلہ
اُس ایک فیصلے کے گنہگار ہو گئے

56
دئے ہیں زندگی نے زخم ایسے
کہ جن کا وقت بھی مرہم نہیں ہے

57
ہوئی خوشی جو میسر تو یہ ہوا معلوم
خوشی کا بوجھ اٹھانا محال ہے کتنا

58
سمجھ میں آ نہ سکے گا مزاج دنیا کا
ترے غرور کی صورت مری انا کی طرح

59
میں صدائے گم گشتہ میں ادائے نازیبا
میرا نام کتنوں کو وجہِ خود نمائی ہے
٭٭٭

٭٭٭
مباحثہ، شمارہ۔۳۵ (جلد۹، شمارہ ۳۵، جون تا نومبر ۲۰۱۰ء)
مدیر: وہاب اشرفی
ناشر:ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی۔۱۱۰۰۰۶
تشکر: شاہین   جنہوں نے فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید