FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

انجمنِ رنگ

انتخاب از کتاب: کلیاتِ قابل

شاعر: قابل اجمیری

انتخاب:نوید صادق، احمد فاروق

 

انجمنِ رنگ

انتخاب از کتاب: کلیاتِ قابل

شاعر: قابل اجمیری

ٹھنڈے پڑے ہیں انجمنِ رنگ کے چراغ

اک نغمۂ  بہار بطرزِ فغاں سہی

انتخاب:نوید صادق، احمد فاروق

راستہ ہے کہ کٹتا جاتا ہے

فاصلہ ہے کہ کم نہیں ہوتا

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

تم نہ مانو، مگر حقیقت ہے

عشق انسان کی ضرورت ہے

جی رہا ہوں اس اعتماد کے ساتھ

زندگی کو مری ضرورت ہے

حسن ہی حسن، جلوے ہی جلوے

صرف احساس کی ضرورت ہے

اس کے وعدے پہ ناز تھے کیا کیا

اب در و بام سے ندامت ہے

اس کی محفل میں بیٹھ کر دیکھو

زندگی کتنی خوبصورت ہے

حرم کی آبرو لٹتی رہے گی

یہاں بھی غزنوی آتے رہے ہیں

ہم بدلتے ہیں رخ ہواؤں کا

آئے دنیا ہمارے ساتھ چلے

خیالِ سود نہ اندیشہ زیاں ہے ابھی

چلے چلو کہ مذاقِ سفر جواں ہے ابھی

رکا رکا سا تبسم، جھکی جھکی سی نظر

تمہیں سلیقۂ  بے گانگی کہاں ہے ابھی

سکونِ دل کی تمنا سے فائدہ قابل

نفس نفس غمِ جاناں کی داستاں ہے ابھی

رہبر جو ہمیں ٹھوکریں کھانے نہیں دیتا

ڈرتا ہے کہیں راستہ ہموار نہ ہو جائے

میخانہ بھی اک کارگہِ شیشہ گری ہے

پیمانہ کہیں ٹوٹ کے تلوار نہ ہو جائے

ہمیں بھی شہرِ نگاراں میں لے چلو یارو

کسی کے عشق کا آزار ہم بھی رکھتے ہیں

قدم قدم پہ چٹکتی ہیں شوق کی کلیاں

صبا کی شوخی رفتار ہم بھی رکھتے ہیں

نہیں اب تیرے ملنے کا گماں بھی

قیامت ناگہاں ہو جائے گی کیا

اک جھومتے بادل نے چپکے سے کہا قابل

ہنگامِ گل آیا ہے، ساقی نے بلایا ہے

 

دل کی دھڑکن کا اعتبار نہیں

ورنہ آواز تو تمہاری ہے

لطفِ صبحِ نشاط مجھ سے پوچھ

میں نے شامِ الم گزاری ہے

مقاماتِ فکر و نظر کون سمجھے

یہاں لوگ نقشِ قدم دیکھتے ہیں

بصد رشک قابل کی آوارگی کو

غزالانِ دیر و حرم دیکھتے ہیں

رات تاریک، راہ نا ہموار

شمعِ غم کو ہوا نہ دے جانا

بے کسی سے بڑی امیدیں ہیں

تم کوئی آسرا نہ دے جانا

احباب کے فریبِ مسلسل کے باوجود

کھنچتا ہے دل خلوص کی آواز پر ابھی

بھی مشکل سے سمجھے گا زمانہ

نیا نغمہ نئی آواز ہوں میں

مجھی پہ ختم ہیں سارے ترانے

شکستِ ساز کی آواز ہوں میں

آؤ اپنی زمیں کو چمکائیں

چاند تاروں کا اعتبار نہیں

حسنِ ترتیب ہے دلیلِ چمن

ورنہ صحرا میں کیا بہار نہیں

اختیاراتِ محبت کو سمجھتا ہوں میں

آپ بے وجہ بھی کر سکتے ہیں برباد مجھے

تضادِ جذبات میں یہ نازک مقام آیا تو کیا کرو گے

میں رو رہا ہوں تو ہنس رہے ہو میں مسکرایا تو کیا کرو گے

مجھے تو اس درجہ وقتِ رخصت سکوں کی تلقین کر رہے ہو

مگر کچھ اپنے لئے بھی سوچا میں یاد آیا تو کیا کرو گے

کچھ اپنے دل پہ بھی زخم کھاؤ مرے لہو کی بہار کب تک

مجھے سہارا بنانے والو، میں لڑکھڑایا تو کیا کرو گے

ابھی تو تنقید ہو رہی ہے مرے مذاقِ جنوں پہ لیکن

تمہاری زلفوں کی برہمی کا سوال آیا تو کیا کرو گے

ابھی تو دامن چھڑا رہے ہو، بگڑ کے قابل سے جا رہے ہو

مگر کبھی دل کی دھڑکنوں میں شریک پایا تو کیا کرو گے

چمن کے غنچوں نے رنگ بدلا، فلک کے تاروں سے ساتھ چھوڑا

میں جن سہاروں سے مطمئن تھا انہی سہاروں نے ساتھ چھوڑا

خود اہلِ کشتی کی سازشیں ہیں کہ نا خدا کی نوازشیں ہیں

وہیں تلاطم کو ہوش آیا جہاں کناروں نے ساتھ چھوڑا

مرے گناہِ نظر سے پہلے چمن چمن میری آبرو تھی

مجھے شعورِ جمال آیا تو گل عذاروں نے ساتھ چھوڑا

پاس ہے منزل مگر انجام کا کیا ٹھیک ہے

شوق کو مانوسِ سعی رائیگاں کرتے چلو

بھڑک اٹھی ہیں شاخیں، پھول شعلے بنتے جاتے ہیں

ہمارے آشیانوں سے کہاں تک روشنی ہوتی

صحنِ گلشن نہ سہی گوشۂ زنداں ہی سہی

قافلے راہ میں آرام لیا کرتے ہیں

ہمارا کیا ہمیں تو ڈوبنا ہے ڈوب جائیں گے

مگر طوفان جا پہنچا لبِ ساحل تو کیا ہو گا

شوق ہو راہنما تو کوئی مشکل نہ رہے

شوق مشکل سے مگر راہنما ہوتا ہے

رخصتِ دوست پہ قابل دلِ مایوس کو دیکھ

اک سفینہ ہے کہ ساحل سے جدا ہوتا ہے

جلوہ گاہِ یار سے بھی تشنہ کام آئے ہیں لوگ

جانے امیدیں زیادہ ہیں کہ جلوے کم رہے

 

ہمیشہ شمع بھڑکے گی، سدا پیمانہ چھلکے گا

تری محفل میں ہم چھوڑ آئے ہیں جوشِ بیاں اپنا

جمالِ دوست کو پیہم نکھرنا ہے، سنورنا ہے

محبت نے اٹھایا ہے ابھی پردہ کہاں اپنا

بہت ہیں میکدے میں لڑکھڑانے جھومنے والے

وقارِ لغزشِ پیرِ مغاں کچھ اور ہوتا ہے

بہت دلچسپ ہیں ناصح کی باتیں بھی مگر قابل

محبت ہو تو اندازِ بیاں کچھ اور ہوتا ہے

ہنسی معلوم ہوتی ہے فغاں معلوم ہوتی ہے

محبت زندگی کی داستاں معلوم ہوتی ہے

راہ پرخار ہے اور رات اندھیری قابل

دور تک کوئی چراغِ رخِ زیبا بھی نہیں

اپنے گلشن میں جب بہار آئی

کوئی شائستۂ بہار نہ تھا

درِ زنداں پہ کس نے دستک دی

آج موسم بہار سا کیوں ہے

باغ تک پہونچی بیابانوں کی خاک

تیرا دیوانہ کہاں ہے آج کل

جانے کیا ہو پلک جھپکنے میں

زندگی جاگتی ہی رہتی ہے

جھوٹے وعدوں کی لذتیں مت پوچھ

آنکھ در سے لگی ہی رہتی ہے

عجیب چیز ہے خاکسترِ محبت بھی

ذرا کسی نے چھوا اور آگ ابھر آئی

نہیں یہ ہوش کہ کیونکر ترے حضور آیا

بس اتنا یاد ہے ٹھکرا دیا تھا دنیا نے

دن نکلتا ہے کس تمنا میں

رات کس آسرے پہ آتی ہے

جب وہ گیسو بکھیر دیتے ہیں

زندگی راہ بھول جاتی ہے

چشمِ میگوں پہ ہیں سیہ پلکیں

یا گھٹائیں شراب خانے پر

 

وہ ہر مقام سے پہلے وہ ہر مقام کے بعد

سحر تھی شام سے پہلے سحر ہے شام کے بعد

مجھی پہ اتنی توجہ مجھی سے اتنا گریز

مرے سلام سے پہلے مرے سلام کے بعد

چراغِ بزمِ ستم ہیں ہمارا حال نہ پوچھ

جلے تھے شام سے پہلے بجھے ہیں شام کے بعد

یہ رات کچھ بھی نہیں تھی یہ رات سب کچھ ہے

طلوعِ جام سے پہلے طلوعِ جام کے بعد

رہِ طلب میں قدم لڑکھڑا ہی جاتے ہیں

کسی مقام سے پہلے کسی مقام کے بعد

رفتہ رفتہ رنگ لایا جذبۂ خاموشِ عشق

وہ تغافل کرتے کرتے امتحاں تک آ گئے

خود تمہیں چاکِ گریباں کا شعور آ جائے گا

تم وہاں تک آ تو جاؤ ہم جہاں تک آ گئے

آج قابل میکدے میں انقلاب آنے کو ہے

اہلِ دل اندیشۂ سود و زیاں تک آ گئے

ٹھنڈے پڑے ہیں انجمنِ رنگ کے چراغ

اک نغمۂ  بہار بطرزِ فغاں سہی

گرتے سنبھلتے جھومتے دار و رسن کو چومتے

اہلِ جنوں تیرے حضور آ ہی گئے کشاں کشاں

آؤ اب ایک نئے دور کا آغاز کریں

عہدِ رفتہ کی کوئی بات نہیں یاد مجھے

عمر بھر ہم سمجھ سکے نہ تجھے

آج سمجھا رہی ہے تیری یاد

زندگی کتنی تیز رو ہے مگر

ساتھ ساتھ آ رہی ہے تیری یاد

اے آفتابِ صبحِ بہاراں! سلام کر

دیوانے آ رہے ہیں شبِ غم گزار کے

ہم تری راہ سے پھرے ہی نہیں

آستانے ہمیں بلاتے رہے

کچھ غمِ زیست کے شکار ہوئے

کچھ مسیحا نے مار ڈالے ہیں

آخرِ شب کے ڈوبتے تارو!

ہم بھی کروٹ بدلنے والے ہیں

خیالِ خاطرِ احباب اور کیا کرتے

جگر پہ زخم بھی کھائے شمار بھی نہ کیا

نجانے زندگی کیسے گزر گئی اے دوست

کہیں ٹھہر کے ترا انتظار بھی نہ کیا

گھبرا کے نا خدا نے سفینہ ڈبو دیا

ہم مسکرا کے دامنِ طوفاں میں آ گئے

زمانہ کھیل رہا ہے تمہاری زلفوں سے

ہمارے حالِ پریشاں کی بات کون کرے

********

ٹائپنگ: : نوید صادق،

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید