FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

اردو ادب میں مہاراشٹر کی خواتین کا حصہ

۔ ۔ ۔ ۱۹۶۰ء کے بعد۔ ۔ ۔

 

 

محقق

مشتاق علی

نگراں

ڈاکٹر ریحانہ جاوید صاحبہ

(سابق چیئرپرسن بورڈ آف اسٹیڈیز اردو، ناگپور یونیورسٹی، ناگپور،

سابق صدر شعبہ اردو ایل اے ڈی کالج اینڈ ایس آر پی کالج، ناگپور)

 

یہ تحقیقی مقالہ ناگپور یونیورسٹی کو پی ایچ ڈی کی سند کے لیے پیش کیا گیا ہے۔

 

 

تقدیم

ہندوستان میں جب زبان کی بنیاد پر ریاستیں وجود میں آئیں تو۱۹۶۰ء میں مراٹھی زبان بولنے والوں کے لیے ریاست مہاراشٹر کی تعمیر و تشکیل ہوئی جن کی تعداد اس علاقے میں سب سے زیادہ تھی۔ اس کے بعد اردو بولنے والوں کا نمبر آتا ہے جن کی دس فی صد آبادی پوری ریاست میں پھیلی ہوئی ہے۔ اس سرزمین کی فضا اردو کے حق میں ہمیشہ خوش گوار اور سازگار رہی ہے اس لیے اردو تہذیب و ثقافت کی جڑیں اس کے ہر گوشے میں پیوست ہیں۔

اس کی خاک سے اردو کے ایک سے بڑھ کر ایک ادیب، شاعر، دانشور اور فنکار ابھرے جنہوں نے ادبی دنیا میں اپنا نام روشن کیا۔ اس کے شہروں اور گاؤں میں اردو مدارس جال کی طرح پھیلے ہوئے ہیں جن میں پہلی جماعت سے بارہویں جماعت تک اردو میں تعلیم دی جاتی ہے۔ ان مدارس کی بقا در اصل نتیجہ ہے ان کوششوں اور قربانیوں کا جو اس علاقے کے جیالوں نے اس وقت دی جب اردو کے مخالفین نے اس کو مٹانے کی سازش کی۔ اس کا ثمر یہ ملا کہ اردو اپنی تمام روایات کے ساتھ اس ریاست میں زندہ ہے۔ یقین ہے کہ کل بھی زندہ رہے گی۔

اس ریاست کے کئی شہروں اور علاقوں کی علمی و ادبی تاریخ منصۂ شہود پر آ چکی ہے جن میں بمبئی میں اردو (ڈاکٹر میمونہ دلوی)، ناگپور میں اردو(ڈاکٹر شرف الدین ساحل)، کامٹی کی ادبی تاریخ (ڈاکٹر شرف الدین ساحل)، برار کی تمدنی و علمی تاریخ(ڈاکٹر شرف الدین ساحل)، مالیگاؤں میں اردو نثر نگاری (ڈاکٹر الیاس صدیقی)، پونا کے مسلمان(ڈاکٹر عبدالستار دلوی)، کوکن میں اردو تعلیم(ڈاکٹر عبدالرحیم نشتر) اور پونا میں اردو(ڈاکٹر عبدالرحیم نشتر) نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کے علاوہ متعدد جرائد و رسائل میں اس علاقے کی علمی و ادبی و تعلیمی تاریخ کے متعلق اچھے مضامین شائع ہو چکے ہیں۔ تذکرہ شعرائے دکن (عبدالجبار ملکا پوری) اور دکن میں اردو (نصیرالدین ہاشمی) میں مہاراشٹر کے ایک تاریخی خطے مراہٹواڑہ ( اور نگ آباد) کے قدیم شعرا کے حالات ملتے ہیں۔ اگر ان سب کو یکجا کر دیا جائے تو مہاراشٹر میں اردو زبان و ادب کی ایک جامع تاریخ تیار ہو سکتی ہے۔

ان مواد کی روشنی میں یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ مہاراشٹر کی خواتین نے اردو ادب کی ترویج و اشاعت میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ چنانچہ جب میرے دل میں پی ایچ ڈی کرنے کا خیال آیا تو میں نے اسی بکھرے مواد کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا۔ ڈاکٹر ریحانہ جاوید(سابق صدر شعبہ اردو، ایل اے ڈی کالج، ناگپور) کی نگرانی میں اپنے کام کا آغاز کیا اور جہد مسلسل کے بعد اس کو درجۂ تکمیل تک پہنچایا۔

میری یہ تحقیق چھ ابواب پر مشتمل ہے۔ اس میں پہلے ریاست مہاراشٹر کی تاریخی و جغرافیائی حیثیت پر اجمالی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کے بعد مہاراشٹر میں اردو زبان و ادب کے ارتقائی سفر کو پیش کیا گیا ہے۔ پھر اردو ادب میں خواتین نے جو کارنامے انجام دیئے ہیں ان کی مختصر تاریخ بیان کی گئی ہے تاکہ نفسِ موضوع کو سمجھنے میں آسانی ہو سکے۔ بعد ازاں اردو ادب میں مہاراشٹر کی خواتین کے کارناموں کو تفصیل سے پیش کیا گیا ہے۔ یوں ان ابواب کو ایک دوسرے سے مربوط کر کے تحقیق کو مکمل و جامع بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ میں اس میں کہاں تک کامیاب ہو سکا ہوں اس کا فیصلہ بالغ نظر نقاد کریں گے۔

میرا یہ تحقیقی کام ڈاکٹر ریحانہ جاوید کی نگرانی میں مکمل ہوا ہے۔ تحقیق کے دوران انھوں نے مجھ کو مفید مشوروں سے نوازا اور میری ہمت افزائی کی اس کے لیے میں ان کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔

            ناچیز

            مشتاق علی

 

اردو ادب میں مہاراشٹر کی خواتین کا حصہ

۔ ۔ ۔ ۱۹۶۰ء کے بعد۔ ۔ ۔

 

 

باب اول

ریاست مہاراشٹر۔ ۔ ۔ ایک اجمالی نظر

ہندوستان کی عظیم الشان ریاست مہاراشٹر یکم مئی ۱۹۶۰ء کو وجود میں آئی۔ اس کا افتتاح پنڈت جواہر لال نہرو کے دستِ مبارک سے ہوا۔ اس کے شمال مشرق میں ریاست مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ، شمال مغرب میں گجرات، جنوب میں آندھرا پردیش اور کرناٹک اور مغرب میں بحر عرب ہے۔ اس کا رقبہ تین لاکھ سات ہزار سات سو باسٹھ(307762)  کلومیٹر اور آبادی تقریباً آٹھ کروڑ نفوسِ انسانی پر مشتمل ہے۔ یہ رقبے اور آبادی کے لحاظ سے اس ملک کی تیسرے نمبر کی ریاست ہے۔ انتظامی سہولت کے پیشِ نظر اسے ۳۵اضلاع اور چھ ڈیویژن (Division)  کوکن، پونہ، ناسک، اور نگ آباد، امراؤتی اور ناگپور میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مذکورہ چھ ڈیویژن میں کوکن کا علاقہ مناظر قدرت سے بھرپور ہے۔ اس کا اہم اور مشہور شہر ممبئی ہے جو ریاست کا صدرمقام ہے۔ پونہ و ناسک ڈیویژن مغربی مہاراشٹر کہلاتا ہے۔ اور نگ آباد کو مراٹھواڑہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسی طرح امراؤتی اور ناگپور ڈیویژن کو ودربھ کہا جاتا ہے۔ ناگپور، ریاست کا دوسرا صدرمقام ہے جہاں ہر سال اسمبلی کا سرمائی اجلاس ہوتا ہے۔

اس ریاست میں کالا پتھر بسالٹ پایا جاتا ہے۔ یہاں کوہ سہیادری کی چوٹیاں ، ست پڑا کا پہاڑی سلسلہ، سطح مرتفع، ندیاں ، وادیاں قابلِ ذکر ہیں۔ جانوروں میں شیر، ہرن، چیتل، سانبھر، نیل گائے، لومڑی، ریچھ، خرگوش اور پرندوں میں طوطا، تیتر، مور اور جنگلی مرغ پائے جاتے ہیں۔ جانوروں کی حفاظت کے لیے کئی حفاظت گاہیں ہیں۔ قومی عوامی باغ میں تاڑوبا، پینچ، نوئے گاؤں باندھ، میل گھاٹ اور سنجے گاندھی باغ اہمیت کے حامل ہیں۔

مہابلیشور، ماتھیران، امبولی، کھنڈالا، لوناولہ، چکھلدرا اور تورن مال صحت افزا مقامات ہیں۔ بلڈانہ میں کھارے پانی کی مشہور لونار جھیل ہے۔ ساوتری، تاپتی، گود اور ی، وین گنگا، پین گنگا، وردھا، بھیما اور کرشنا یہاں کی اہم ندیاں ہیں۔ ان کے کنارے کئی مقدس مقامات ہیں۔ مغرب میں ایک طرف نیلا سمندر اور دوسری طرف ہرے بھرے جنگلات سے لدا ہوا کوہ سہیادری ہے۔ ان کے درمیان کوکن واقع ہے۔ یہاں آم، کاجو، کٹھل، ناریل اور سپاری کے باغ ہیں۔ معدنیات میں باکسائیٹ اور کرومائیٹ ملتا ہے۔ مشرق میں ودربھ کا علاقہ ہے۔ جس میں بانس اور ساگون کے جنگلات ہیں۔ یہ کوئلہ، مینگنیز، کرومائیٹ، تانبا ، ابرق اور لوہا جیسی معدنیات سے مالامال ہے۔

اس ریاست کا اہم پیشہ کاشتکاری ہے۔ یہاں جوار، چاول، گیہوں ، باجرہ جیسی اہم فصلیں ہوتی ہیں۔ گنا، کپاس، تمباکو اور تلہن بھی کافی مقدار میں پیدا ہوتا ہے۔ یہاں کے کئی شہروں میں کپڑا سازی کی صنعت پائی جاتی ہے۔ شولاپور، ناگپور، بھیونڈی، مالیگاؤں اور اچل کرنجی وغیرہ ہینڈلوم اور پاور لوم کے مرکز ہیں۔ یہاں کے بنکر طرح طرح کے سوتی، ریشمی اور اونی کپڑے تیار کرتے ہیں۔ یہاں چادریں اور غالیچے بھی بنائے جاتے ہیں۔ کئی ضلعوں میں برتن سازی، بیڑی سازی اور کھلونے سازی کا کام ہوتا ہے۔ ایسی صنعتیں بھی ہیں جو زراعت پر منحصر ہیں۔ مثلاً یہاں شکر سازی کے کارخانے اور سوتی کپڑوں کی ملیں بھی کافی تعداد میں ہیں۔

یہ پھلوں کی کاشت میں بہت آگے ہیں۔ ناگپور کے سنترے، جل گاؤں اور ناندیڑ کے کیلے، ناسک کے انگور اور رتناگیری و سندھودرگ کے ہاپوس آم سارے ملک میں مشہور ہیں۔ کوئنا بجلی گھر، جائیک واڑی بند، تاراپور کا جوہری توانائی مرکز، بحر عرب کے تیل کے ذخیرے کی وجہ سے ریاست یہ نمایاں ہے۔

یہ ریاست تاریخی و ثقافتی لحاظ سے بھی اہمیت رکھتی ہے۔ اس میں قابلِ دید قلعے ہیں۔ اس اعتبار سے گاول گڑھ، نرنالا، دولت آباد اور جنجیرہ کا قلعہ امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔ ملک کی آزادی میں بھی اس نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ یہاں کی خاک سے بہت سے سنت و صوفی اور سماج کی اصلاح کرنے والے بزرگ ابھرے جن کی مخلصانہ کار گزاریوں سے تاریخ کے صفحات روشن ہیں۔ اس اعتبار سے سنت گیانیشور، سنت نام دیو، سنت تکا رام، سنت گاڈگے مہاراج، سنت گجانن مہاراج، سنت ایکناتھ، سنت تکڑوجی، سائیں بابا، شیخ مخدوم ماہمی، حاجی علی، حاجی ملنگ، شیخ حیات قلندر، شاہ دولہا عبدالرحمن، شیخ شاہ بابو اور حضرت بابا تاج الدین کے اسمائے گرامی قابل احترام ہیں۔ یہاں کئی تاریخی مندر، مسجد اور گرجا ہے۔ اس کے تاریخی غار اجنتا اور ایلورا کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہے۔ ان میں نقاشی و سنگ تراشی کے جاذب نظر نمونے پائے جاتے ہیں۔ یہ ریاست موسیقی، ڈراما اور فلمی صنعت میں بھی نمایاں مقام رکھتی ہے۔

مہاراشٹر ہندوستان کی پرانی تہذیب کا گہوارہ ہے۔ اس کے کچھ مقامات ہزاروں برس کی کہانیاں سناتے ہیں۔ یہ اس ملک کی تاریخ کے ہر دور میں اپنے کارناموں کی وجہ سے نمایاں رہا ہے۔ کسی زمانے میں اس کا نام  دکشناپتھ تھا۔ یہ نام ہندوؤں کی مقدس کتاب رگ وید میں بھی ملتا ہے۔ اگرچہ دکشناپتھ کی تعریف ہمیشہ بدلتی رہی لیکن ہندو مذہب کی کتابوں میں ودربھ اور کنڈن پور(کوڈینہ پور) کا ذکر آتا ہے۔ جواس علاقے کی قدیم تہذیب کی شہادت دیتا ہے۔ یہ علاقہ آج کے مہاراشٹر میں شامل ہیں۔

یہ ایک طویل داستان ہے کہ یہ علاقہ کیوں کر مہاراشٹر کے نام سے موسوم ہوا۔ مشہور و معروف مورّخ وشوناتھ کاشی ناتھ راجواڑے نے لکھا ہے کہ قدیم ہندوستان میں چھوٹی بڑی بہت سی ریاستیں تھیں ان کو راشڑ یا مہاراشٹر کہا جاتا تھا۔ مہاراشٹر کے حاکموں کو مہاراجہ اور رعیت کو مہاراشٹریا کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ چوتھی صدی اور اس کے بعد کے کندہ پتھروں میں یہی نام مہاراشٹر ملتا ہے۔ اس کے علاوہ بدھوں کی مقدس کتاب مہادنش پران میں لکھا ہے کہ مشہور درویش یتھراس صوبے میں تشریف لائے تھے۔

زمانۂ قدیم سے دیو گری (دولت آباد، مہاراشٹر) پر علاء الدین خلجی کے حملے (۱۲۹۴ء) تک ریاست مہاراشٹر کا ایک بڑا حصہ مرویہ خاندان (زوال ۱۸۴ق م)، سنگا خاندان (۱۸۰ق م) ستواہن خاندان (۲۰۰ق م۔ ۲۵۰ء) وکاٹک خاندان (۲۵۰ء۔ ۵۵۰)، کلچوری مہیشتمی خاندان (۵۵۰ء۔ ۶۶۰ء)، چالوکیہ خاندان (۶۲۰ء سے نصف آٹھویں صدی عیسوی تک) راشٹرکوٹ خاندان(منیا کھیڑا) چالوکیہ کلیانی خاندان اور یادو خاندان دیو گیری کے یکے بعد دیگرے زیر اقتدار رہا۔ یادو حکومت کے زوال (۱۳۱۷ء)کے بعد یہ مسلم حکمرانوں کے قبضے میں آیا۔ اسی کے بعد یہاں اردو زبان و ادب کی نشو و نما کے لیے فضا ہموار ہوئی۔

نوٹ      :یہ باب مندرجہ ذیل کتب و رسائل کی مدد سے ترتیب دیا گیا ہے:

۱۔          ریاست مہاراشٹر کا جغرافیہ، مطبوعہ مہاراشٹر راجیہ پاٹھیہ پستک نرمتی منڈل، پونے، ۲۰۰۱ء

۲۔         قومی راج، بمبئی، ۱۶اگست ۱۹۷۴ء، ص: ۳۲

۳۔         قومی راج، بمبئی، یکم مئی۱۹۷۴ء، ص: ۱۴

۴۔         قومی راج، بمبئی، ۱۶اپریل ۱۹۷۴ء، ص: ۱۴

۵۔         قومی راج، بمبئی، ۱۶دسمبر ۱۹۷۴ء، ص: ۳

۶۔         قومی راج، بمبئی، ۱۶فروری۱۹۷۵ء، ص: ۱۴

۷۔         قومی راج، بمبئی، یکم مئی۱۹۷۶ء، ص: ۱۳

۸۔         قومی راج، بمبئی، یکم دسمبر۱۹۷۶ء، ص: ۷

۹۔         Maharashtra State Gazetteer (Language & Literature) – 1971

 

 

 

باب دوم

مہاراشٹر کا ادبی ماحول

دیو گیری (دولت آباد) پر علاء الدین خلجی (۱۲۹۴ء۔ ۱۳۱۶ء) کا حملہ اردو زبان و تہذیب کا پہلا بیج مہاراشٹر کی سرزمین کے حوالے کرتا ہے۔

نئی تہذیب کا آغاز

جب ۱۲۹۴ء میں علاء الدین خلجی دیو گیری پر حملہ اور ہوا تو اس نے دیو گیری کے راجہ رام چند عرف رام دیو (ف:۱۳۱۰ء)کو شکست دینے کے بعد ایک ایسا صلح نامہ تیار کیا جس کی روسے مشرقی برار اس کے قبضے میں آگیا۔ اس کامیابی کے بعد اس نے ایارج خان کو برار کا ناظم بنایا جو ایلچیو (ضلع امراؤتی) میں رہا کرتا تھا۔ رام دیوکی وفات کے بعد جب ملک کافور نے ۱۳۱۲ء میں دیو گیری پر دوبارہ حملہ کیا تو اس نے دیو گیری کو مکمل طور سے اپنے قبضے میں لے لیا۔ یوں مہاراشٹر کا ایک بڑا علاقہ علاء الدین خلجی کے قبضے میں آگیا۔ علاء الدین خلجی کی وفات کے بعد جب ۲جنوری ۱۳۱۶ء کو قطب الدین مبارک شاہ تخت نشین ہوا تو دیو گیری کے راجہ رام دیو کے داماد ہرپال دیو نے بغاوت کر دی۔ مبارک شاہ نے ۱۳۱۷ء میں اس کو شکست دے کر یادو خاندان کے چراغ کو ہمیشہ کے لیے گل کر دیا۔ (۱)اس کے بعد مہاراشٹر کا زیادہ تر علاقہ انگریزوں کے عہدِ حکومت تک مسلم حکمرانوں کے قبضے میں رہا۔ اسی سیاسی انقلاب نے مہاراشٹر میں اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے راہیں ہموار کیں۔ علاء الدین جینا بڑے اپنے مضمون مہاراشٹر میں اردو کا تاریخی پسِ منظر میں اس سچائی کو اس طرح ظاہر کرتے ہیں :(۲)

’’دولت آباد پر علاء الدین خلجی کا حملہ کیا تھا، ایک ملی جلی گنگا جمنی تہذیب کا ہر اول دستہ تھا جو بندیل کھنڈ اور وسط ہند کے گھنے جنگلوں اور بندھیا چل کے دشوار گزار، پیچ در پیچ کوہستانی راستوں سے ہوتا ہوا سرزمین مہاراشٹر میں وارد ہوا تھا۔ دیو گیری (دولت آباد) کے راجہ نے اطاعت قبول کی۔ لیکن کچھ دنوں بعد اسی راجہ کے بیٹے نے باپ کے اقرار کو پسِ پشت ڈال دیا اور ایک بڑا لشکر جمع کر کے علاء الدین کا مقابلہ کیا۔ علاء الدین نے اس وقت اپنی شرائطِ صلح سخت کر دیں اور تاوان جنگ میں بے شمار زر و جواہر کے علاوہ ایلچپور(ضلع امراؤتی) کا علاقہ بھی اپنے قبضے میں لے لیا اور اس سرزمین پر اپنے تمام لشکر کے ساتھ ایک مہینہ قیام کے بعد خاندیش اور مالوہ سے ہوتا ہوا اپنے شہر کٹرہ مانک پورکو واپس ہوا۔ اس طرح نئی ابھرتی ہوئی تہذیب کا پہلا قافلہ دکن میں سب سے پہلے مہاراشٹر میں وارد ہوا اور اس کے ساتھ وہ نئی زبان بھی آئی جو ابھی تشکیل کے مراحل سے گزر رہی تھی۔ سیاسی اعتبار سے نووارد توسیع پسندوں اور مقامی حاکموں کے درمیان تنازع للبقا کے جو بھی نتائج برآمد ہوئے ہوں۔ یقینی طور پر اتنا تو ہوا کہ یہاں کی دیہاتی زندگی میں جو سیاسی اتھل پتھل سے صرف معمولی طور پر متاثر ہوتی تھی اور ہمیشہ پُر امن تھی، اس میں نیز شہروں کے تجارتی و کاروباری امور میں ایک نئی زبان کا عمل دخل شروع ہوا۔ ‘‘

علاء الدین اور ملک کافور کے حملوں کے بعد شمالی ہندسے مسلم سپاہیوں ، تاجروں ، صنعت کاروں ، دانشوروں اور صوفیوں کی آمد مہاراشٹر میں شروع ہوئی۔ تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ حضرت نظام الدین اولیاؒ نے بھی دعوت و ارشاد کی غرض سے چار سو اہل اللہ پر مشتمل ایک جماعت دیو گیری (دولت آباد) روانہ کی۔ اس روحانی قافلے کی قیادت و سیادت حضرت نظام الدین اولیاؒ کے خلیفہ شیخ برہان الدینؒ کے سپرد تھی۔ ان کا مزار آج بھی خلد آباد میں مرجعِ خلائق ہے۔

 

دوسرا سیلاب

مہاراشٹر میں ایک نئی زبان و تہذیب کا دوسرا سیلاب ۱۳۲۶ء میں اس وقت آیا جب محمد تغلق نے اپنا پائے تخت دہلی سے دولت آباد منتقل کیا۔ اس وقت آمدورفت کی سہولت کے لیے دہلی سے دولت آباد تک عمدہ سڑک اور جگہ جگہ سرائے تعمیر ہوئیں۔ دولت آباد کی عالی شان مکانات سے آرائش ہوئی۔ اس کی آبادی میں زبردست اضافہ ہوا۔ یوں دولت آباد جو یادو حکمرانوں کی حکومت کا صدرمقام تھا ایک نئی تہذیبی زندگی کے ہنگاموں کا مرکز بن گیا۔ محمد تغلق کے حکم سے دہلی کی پوری آبادی دولت آباد منتقل ہوئی تو یہ علاقہ رشکِ غرناطہ و بغداد بن گیا۔ رونقیں ، چہل پہل، سامانِ تفریح اور علم و ادب کی مجلسوں سے معمور ہو گیا۔ اگرچہ دولت آباد زیادہ دنوں تک پائے تخت نہ رہ سکا لیکن دہلی سے آنے والے اچھی خاصی تعداد میں یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ ان کی زبان کھڑی بولی تھی جس میں مقامی زبان کے تال میل سے نمایاں تبدیلیاں ہوئیں۔ ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ ہوا۔ بیان میں مقامی رنگ آیا اور اردو کی وہ صورت نمودار ہوئی جو دکنی کے نام سے مشہور ہے۔ اس سچائی کو نصیرالدین ہاشمی نے اس طرح واضح کیا ہے:(۳)

’’شمال کے فاتحین نے جب ۱۱۹۲ء میں دہلی کی چوہان سلطنت فتح کر لی تو یہ نئی زبان بھی اپنے ساتھ لائے۔ اس سرزمینِ برج میں کا زیادہ اثر نہیں ہوا تھا کہ مسلمانوں نے جنوب کا رخ کیا۔ اولاً علاء الدین خلجی پھر ملک کافور نے دکن پر مسلسل حملے کیے۔ ۷۱۰ھ(۱۳۱۰ء)میں راس کماری تک علائی علم پہنچ گیا۔ اس کے بعد ایک بہت بڑا سیلاب محمد تغلق کے زمانے میں اٹھا اور دکن میں جا کر رکا۔ محمد تغلق نے نہ صرف دکن پر فوج کشی کی بلکہ دیو گڑھ (دیو گیری) کو دولت آباد سے موسوم کر کے اس کو اپنا پائے تخت بھی قرار دے دیا۔ اس کے باعث نہ صرف فوجی اشخاص بلکہ اہلِ علم و فضل، اہلِ حرفہ اور تجّار سب ہی دہلی چھوڑ کر دکن آ گئے۔ اگرچہ کچھ عرصے بعد بادشاہ نے دہلی کو مراجعت کی مگر ایک بڑے گروہ نے یہاں بود و باش اختیار کر لی۔

یہ فاتح جو زبان دکن میں لے کر آئے وہ یہاں آزادانہ نشوونما حاصل کرنے لگی۔ کیوں کہ اس کے مقابل کوئی اور زبان جواس کے آگے بڑھنے میں رکاوٹ پیدا کرے، یہاں نہیں تھی۔ ۔ ۔ اس طرح اس جدید زبان کا یہاں خیر مقدم ہوا اور عام طور سے ہر شخص اسی کو بولنے لگا اور وہ کام کاج میں بھی آنے لگی۔ ‘‘

ان حقائق کو انیس چشتی اس طرح پیش کرتے ہیں :(۴)

’’جب محمد تغلق نے دہلی سے اس علاقے کی طرف کوچ کیا تو اس کے ہمراہ علما و صلحا، ادباء و شعرا اور منتظمین و رؤسا کی ایک اچھی خاصی تعداد بھی تھی۔ ان میں حضرت نظام الدین اولیاؒ کے معتمد و مرید خاص حضرت امیر خسرو بھی موجود تھے۔ ایک اندازے کے مطابق حضرت امیر خسرو نے پائے گاہِ سلطانی کے ساتھ دولت آباد کے دو سفر کیے تھے اور طویل عرصے تک یہاں قیام بھی فرمایا تھا۔

یہ وہ زمانہ ہے جب دوآبے میں اردو سے ملتی جلتی ایک بولی وجود میں آ چکی تھی اور جس نے عوام کو اپنی طرف راغب کرنا شروع کر دیا تھا۔ پس جب متذکرہ ہستیوں کے نفوسِ قدسیہ سے دولت آباد کا یہ علاقہ جگمگا اٹھا تو دوآبے کی اس زبان کا تال میل، دولت آباد کے اطراف و اکناف میں بولی جانی والی مہاراشٹری سے ہوا جو گجری کے زیرِ اثر تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان نوزائیدہ ہند آریائی زبانوں کے میل جول نے دکنی کو وجود بخشا جو دراصل موجودہ کتابی اردو کی نانی پرنانی یا دادی پر دادی ہے۔ ‘‘

بہمنی عہدِ حکومت میں

ابھی اس سیاسی جوار بھاٹے کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ محمد تغلق کی زندگی میں ہی علاء الدین حسن کانگو نے اپنی گردن سے تغلق کی وفاداری کا جوا اتار پھینکا اور دکن میں ایک آزاد بہمنی حکومت کی بنیاد ڈال کر ۳اگست ۱۳۴۷ء کو تخت پر بیٹھا۔ یہ حکومت تقریباً ڈیڑھ سو سال تک قائم رہی۔

حسن کانگو غیر متعصب، دور اندیش اور رعایا پرور تھا۔ اس کی حکومت بڑی وسیع تھی۔ اس نے اس کو انتظام کی سہولت کے پیش نظر گلبرگہ، بیدر، حیدرآباد اور برار میں تقسیم کر کے ہر طرف کے لیے چار طرفدار مقرر کیے۔ مہاراشٹر کا ایک وسیع و عریض علاقہ اس کی حکومت کا حصہ تھا جو ایلچپور(برار) سے دریائے کرشنا اور تنگ بھدرا تک اور بحیرۂ عرب سے ورنگل تک پھیلا ہوا تھا۔ بعد کو احمد شاہ بہمنی نے کوکن کے علاقے کو بھی اپنی حکومت میں شامل کر لیا تھا۔

یہ دور مہاراشٹر میں اردو کی ترقی و توسیع کے لحاظ سے بہت ہی مفید ثابت ہوا۔ اسی دور میں علامہ میر فضل اللہ انجو شیرازی جیسے جید عالم برار کے طرفدار ہوئے، جنھوں نے جامع مسجد ایلچپور کے اس مدرسے کو زبردست فروغ دیا جس کی بنیاد برار کے ناظم صفدر خان سیستانی (۱۳۴۸ء۔ ۱۳۹۷ء) نے محمد شاہ بہمنی ثانی (۱۳۷۸ء۔ ۱۳۹۷ء) میں ڈالی تھی اور اس کے اخراجات کے لیے ایک جاگیر وقف کی تھی جس کے محاصل تیس ہزار ہون سالانہ تھے۔ تاریخ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس مدرسہ کا سالانہ خرچ ایک لاکھ پچاس ہزار روپے تھا۔ (۵)

یہ عظیم الشان بہمنی حکومت اس کے آخری فرمانروا ملک حسن نظام الملک کے ۱۴۸۵ء میں قتل کے بعد زوال پذیر ہو گئی۔ یہ پاش پاش ہو کر ان پانچ مسلم حکومتوں میں بٹ گئی:(۶)

۱۔          برار کی عماد شاہی حکومت۔

۲۔         احمد نگر کی نظام شاہی حکومت۔

۳۔         بیجا پور کی عادل شاہی حکومت۔

۴۔         بیدر کی برید شاہی حکومت۔

۵۔         گولکنڈہ کی قطب شاہی حکومت۔

 

 

عماد شاہی حکومت

ان حکومتوں میں برار کی عماد شاہی حکومت موجودہ مہاراشٹر میں تھی۔ اگرچہ یہ سیاسی اعتبار سے کمزور تھی اور سو سال کے اندر ہی ۱۵۷۴ء میں احمد نگر کے نظام شاہی حکمرانوں کے قبضے میں چلی گئی تھی لیکن اس قلیل عرصے میں بھی فارسی واردو کو یہاں فروغ پانے کا خوب موقع ملا۔ اس دور میں اس علاقے میں متعدد جید علماء و صلحا تشریف لائے اور اسے اپنے فکر و خیال سے روشن کیا۔ اس اعتبار سے شیخ طاہرؒ (ف: ۱۵۹۵ء)، شیخ قاسمؒ(ف:۱۵۷۳ء)، شیخ مبارکؒ(ف:۱۵۸۰ء)، شیخ طیب ؒ(ف:۱۵۸۵ء)، شیخ اسحٰق قلندرؒ(ف:۱۶۰۱ء)، شیخ عیسیٰ جنداللہؒ(ف:۱۶۲۲ء)، شیخ سلیمان سیفیؒ(ف:۱۶۹۷ء) کے نام قابل احترام ہیں۔ ان میں کوئی جلیل القدر مصنف، کوئی معلم اور کوئی شاعر تھا۔ (۷)

نظام شاہی حکومت

احمد نگر کی نظام شاہی حکومت بھی پورے طور سے موجودہ مہاراشٹر کے علاقے میں تھی۔ یہ تقریباً ۱۶۳۳ء تک رہی۔ اس میں بھی اردو برابر پنپتی رہی اور فارسی کی اصطلاحات سرکاری امور کی بجا اور ی میں استعمال ہوتی رہی۔ اردو کا مشہور شاعر خواجہ محمد دہدار فانی (وفات:۱۶۰۷ء) اسی دور میں ہوا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے ان کے اردو کلام کی تعریف کرتے ہوئے ان کے رنگ اور اسلوب کو منفرد قرار دیا ہے۔ وہ بیس سال کی عمر میں شیراز(ایران) سے ہندوستان آئے اور اپنی قابلیت کی بنیاد پر بیجا پور کے حکمراں علی عادل شاہ (۱۵۵۷ء۔ ۱۵۸۱ء) کے مقربِ خاص ہوئے۔ انہی کی سفارش پر علی عادل شاہ نے فتح اللہ شیرازی کو بیجا پور بلوایا جنھوں نے بعد کو دربارِ اکبری میں معزز مقام حاصل کیا۔ علی عادل شاہ کی وفات کے بعد فانی نے احمد نگر کا رخ کیا جہاں انھیں مرتضیٰ نظام شاہ (۱۵۶۵ء۔ ۱۵۸۸ء) نے ناظرِ سلطنت کے عہدے پرائز کیا۔ وہ برہان نظام شاہ ابن حسین شاہ کے دور حکومت (۱۵۹۰ء۔ ۱۵۹۵ء) میں برار کے صوبیدار مقرر ہوئے۔ نظام شاہی حکومت کے دوسرے شعرا میں اشرف، آفتابی اور شوقی قابل ذکر ہیں۔

عادل شاہی حکومت

بیجا پور کی عادل شاہی حکومت کا ایک بڑا حصہ بھی موجودہ مہاراشٹر میں شامل تھا۔ یہ حکومت بھی اردو کی نشو و نما اور ترقی کے لیے فائدے مند ثابت ہوئی۔ اس حکومت میں جو ۱۶۸۶ء تک قائم رہی دکنی اردو کے شاعر کثرت سے پیدا ہوئے جن کی عادل شاہی حکمرانوں نے خوب عزت افزائی کی۔ علی عادل شاہ ثانی کو تو اردو سے بہت محبت تھی۔ اسی طرح ابراہیم عادل شاہ ثانی بھی اس زبان کا قدردان تھا۔ اس نے موسیقی کے فن پر اپنی کتاب نورس اسی زبان میں لکھی تھی۔ اس کا درباری شاعر نصرتی تھا۔ رستمی ، ملک خوشنود، امین، سیوا، ہاشمی اس دور کے مشہور شعرا ہیں۔

عہدِ مغلیہ

اس کے بعد جب سترہویں صدی میں مہاراشٹر کے علاقے پر مغلوں کا سیاسی غلبہ ہوا تو اور نگ زیب نے اور نگ آباد کو صدر مقام بنایا۔ یہاں اردو زبان و ادب کو تیزی سے ترقی کرنے کا خوب موقع ملا۔ اس کے نتیجے میں یہ پورے علاقے میں پھیل گئی۔ شاعروں ، ادیبوں اور تذکرہ نگاروں سے یہ سرزمین جگمگانے لگی۔ نصیرالدین ہاشمی لکھتے ہیں :(۸)

’’ اور نگ آباد کو اور نگ زیب نے ۱۰۶۲ھ(۱۶۵۱ء) میں اپنا صدر مقام قرار دیا تھا۔ اسی وقت سے اس کی رونق زیادہ ہونے لگی تھی۔ پہلے قطب شاہی پائے تخت گولکنڈہ اور عادل شاہی دارالحکومت بیجا پور شاعری کے مرکز تھے تو اب مغلیہ دور میں اور نگ آباد نے اس کی جگہ لے لی۔ اس طرح اور نگ آباد نہ صرف سلطنت مغلیہ کا مستقر ہونے کے لحاظ سے دہلی کے امرا، رؤسا، علما اور شعرا کا مرکز بن گیا بلکہ گولکنڈہ اور بیجا پور کے با کمالوں کا بھی ملجا ٹھہر گیا۔ شعرو شاعری کا چرچا بڑھا۔ اس طرح اردو شاعری کے بھی قدم یہاں اچھی طرح جم گئے اور شعرا نے اپنی یادگار میں بہترین کلام کو یادگار زمانہ چھوڑا۔ ‘‘

ان حقائق کے پیش نظر انیس چشتی نے یہ نتیجہ نکالا ہے:(۹)

’’جب اور نگ زیب میدانِ جنگ میں دارا شکوہ سے لوہا لے رہا تھا اور شاہجہاں تاج محل کی تعمیر سے ابھی ابھی فارغ ہوا تھا اس وقت ولی دکنی (ف:۱۷۰۷ء) دولت آباد کے مرغزاروں اور بزرگوں کے مزارات کے پائنتی بیٹھ کر اردو کا اپنا دیوان ترتیب دے رہے تھے۔ چوں کہ یہ زبان قرآنی انداز میں دائیں سے بائیں لکھی جا رہی تھی اس لیے مسلمانوں کے لیے اس کا اختیار کرنا عین فطری بات تھی اور شاید یہی وجہ ہے کہ مہاراشٹر کے مسلمانوں کی مادری زبان اردو ہے جبکہ بنگال، کیرالہ، تامل ناڈو، کشمیر، گجرات اور آسام وغیرہ کے مسلمانوں کی مادری زبان اردو نہیں ہے۔ ‘‘

مہاراشٹر کا علاقہ ۱۸۵۷ء کے انقلاب کے بعدانگریزوں کے قبضے میں آیا۔ اس وقت تک اس سرزمین سے اردوکے جوشعرا ابھرے ان میں سیدسراج الدین سراج(ف:۱۱۷۷ھ/۱۷۶۳ء)، مرزاداؤد (ف:۱۱۶۸ھ/۱۷۵۴ء)، عاشق علی خان عاشق، عارف الدین خان عاجز (ف: ۱۱۷۸ھ/۱۷۶۴ء)، خواجہ حمیدخان حمید(مصنف گلشن گفتار)، لالہ لچھمی نرائن شفیق(ف:۱۲۲۳ھ/ ۱۸۰۸ء)، میرعبدالقادر مہربان، اسدعلی خان تمنا(ف:۱۲۰۴ھ/۱۷۸۹ء)، خواجہ عنایت اللہ فتوت (ف:۱۲۲۳ھ/۱۸۰۸ء)، بالاجی ترمبک ذرہ، شیخ غلام مصطفی انسان (ف:۱۷۲۹ء)، نورالدین حسین خان رنگین (ف: ۱۷۵۷ء)، آقامحمدامین وفا(ف:۱۷۷۹ء)، میرعبدالحی خان صارم (ف:۱۷۸۱ء)، غلام قادر سامی (ف: ۱۷۸۱ء)، شیخ نورمحمدعاصی(ف:۱۷۶۱ء) ، محمدماہ محرم (ف:۱۷۵۲ء)، مرزامحمدعطا (ف: ۱۷۶۷ء)، نصیرالدین خان دانا(ف:۱۷۷۱ء)، مبارک یارخان مبارک (ف:۱۷۷۶ء)، شاہ غلام حسین (ف: ۱۷۹۵ء)، لالہ پیہم چند، فیض محمدفیض (ف:۱۸۶۵ء)، غلام رسول غمگین(ف:۱۸۷۱ء)، سید عباس علی شہرت(ف:۱۸۸۸ء)، سید عبدالعلی عادل(ف:۱۸۹۴ء)، عبدالقادر برجی (مصنف گلشن دین)، قاسم مہری (مصنف عروس المجالس، ۱۲۰۹ھ)، مولوی یوسف مرگھے (ف:۱۸۶۶ء)، باپومیاں فقیہہ (ف: ۱۸۰۸ء)، محمد طاہر نصرت، سلیمی، احمد میاں احمد، غلام علی، ملاداؤدخان اجمل وغیرہ نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے علمی و ادبی کارناموں کودکن میں اردو (نصیرالدین ہاشمی)، بمبئی میں اردو (ڈاکٹر میمونہ دلوی)، ناگپورمیں اردو(ڈاکٹرمحمدشرف الدین ساحل)، برار کی تمدنی و علمی تاریخ (ڈاکٹرمحمدشرف الدین ساحل) اور تذکرۂ شعرائے دکن (عبدالجبار ملکاپوری) میں دیکھاجا سکتا ہے۔

اسی پس منظرمیں مہاراشٹر میں اردوزبان کی زبردست نشوونما اور ترقی ہوئی اور اس کی جڑیں اس کے گوشے گوشے میں پھیل گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ مہاراشٹر میں جس کی تشکیل ۱۹۶۰ء میں ہوئی ہے اردو کا ادبی ماحول توانا اور صحت مندہے۔ اس ریاست کا ہرضلع اپنی ایک علاحدہ تاریخ رکھتا ہے۔ بمبئی، پونا، شولاپور، ناندیٹر، اور نگ آباد، بھمڑی، جل گاؤں ، مالیگاؤں ، دھولیہ، آکولہ، امراؤتی اور ناگپور اردو کے اہم مرکزہیں۔ ان علاقوں میں اردوزبان و ادب کا چراغ اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ روشن ہے۔ اس چراغ کی روشنی اب ان لوگوں کی نگاہوں کوچکا چوند کررہی ہے جن کوکبھی اس بات پر فخر تھا کہ ہم اردو کی جنم بھومی سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اب وہاں اردو کسمپرسی کی حالت میں ہے۔

بیسویں صدی میں

بیسویں صدی میں مہاراشٹر میں نمایاں حیثیت رکھنے والے قلمکاروں میں منشی سعیدکا مٹوی (ف: ۱۹۳۰ء)، مولاناناطق گلاؤٹھوی(ف:۱۹۶۹ء)، منشی محمدحیات خان مظہر(ف:۱۹۲۶ء)، پروفیسر منظور حسین شور(ف:۱۹۹۴ء)، شارق نیازی (ف:۱۹۸۷ء)، شائق کھام گانوی (ف: ۱۹۴۳ء)، قیصر بدنیروی (ف: ۱۹۶۶ء)، بشیر ملکا پوری (ف: ۱۹۲۸ء)، انور کامٹوی (ف: ۱۹۷۴ء)، طرفہ قریشی (ف: ۱۹۸۱ء)، حمید ناگپوری(ف:۱۹۷۳ء)، مانی ناگپوری (ف: ۱۹۷۵ء)، نواب غازی (ف: ۱۹۷۹ء)، ادیب مالیگانوی (ف:۱۹۸۷ء)، اکرم دھولیوی (ف:؟؟؟؟)، سکندرعلی وجد (ف: ۱۹۸۳ء)، دکھی جالنوی، سلیم اللہ سلیم پونوی(ف:۱۹۵۳ء) کے اسمائے گرامی اہم ہیں۔ یہ وہ شعراہیں جواستادی کی مسندپرفائزرہے۔ ان سے نوجوان شعرا نے رہنمائی حاصل کی۔ نتیجہ یہ نکلاکہ مہاراشٹر کا ادبی ماحول جاندار اور پراثر ہو گیا۔

مہاراشٹر خصوصاً بمبئی میں اردو زبان و ادب کی ترقی اور اس کی نشوونما کے لیے فضا قدرے خوشگوار تھی اور یہاں اہل قلم کو اپنے جوہر دکھانے کے لیے اتنے مواقع فراہم تھے کہ اس نے دوسرے علاقے کے قلمکاروں کو بھی پوری قوت سے اپنی طرف کھینچا، چنانچہ انھوں نے اس کو اپنا مستقر بنایا۔ مولوی عبدالحق، علامہ آرزو لکھنوی، بہزاد لکھنوی، رئیس احمد جعفری، مولانا شوکت علی، جوش ملیح آبادی، ساغر نظامی، شکیل بدایونی، سعادت حسن منٹو، ضیاء الدین احمد برنی، نجیب اشرف ندوی، آغا حشر کاشمیری، خواجہ احمد عباس، کرشن چندر، ڈاکٹر صفدر آہ، کالی داس گپتا رضا، سردار جعفری، کیفی اعظمی، اعجاز صدیقی، اختر الایمان، جاں نثار اختر، ساحر لدھیانوی، مجروح سلطان پوری، حامدالانصاری غازی، آغا جانی کشمیری، علی رضا، شہاب مالیر کوٹلوی، ڈاکٹر ظ انصاری، جوگندر پال، مہندر ناتھ، عصمت چغتائی، سریندر پرکاش، قرۃ العین حیدر، سلمیٰ صدیقی، راجندر سنگھ بیدی، خشونت سنگھ، ملک راج آنند، شہریار عابدی، قاضی اطہر مبارک پوری، شہاب الدین دسنوی، ندا فاضلی، ممتاز راشد، قیصر الجعفری وغیرہ کے نام نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ وہ اہلِ قلم ہیں جن کے شعری، علمی، ادبی اور صحافتی کارناموں سے اردو کی تاریخ جگمگا رہی ہے۔ (۱۰)

عہد حاضر

موجودہ مہاراشٹرکی سرزمین اردوکے لحاظ سے بے انتہازرخیزہے۔ یہاں پرائمری اول سے بارہویں جماعت تک ہرعلاقے میں اردومدارس قائم ہیں۔ ان میں جونصابی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں ان کی اشاعت کا اہتمام حکومت مہاراشٹر کرتی ہے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں بھی اردولازمی اور اختیاری مضمون کی حیثیت سے شامل ہے۔ اردوپریس اور لائبریری بھی ہربڑے شہروں میں ہے۔ اردو کے مشاعرے، شبِ غزل، سیمی نار، سمپوزیم اور جلسے بھی جگہ جگہ کامیابی سے ہوتے ہیں۔ ہر بڑے شہرسے روزنانہ، ہفت روزہ ، پندرہ روزہ، ماہنامہ اور سہ ماہی رسالہ نکل رہا ہے۔ بمبئی سے نکلنے والے روز نامہ انقلاب اور روزنامہ اردوٹائمزکا شمارملک کے مشہورروزناموں میں ہوتا ہے۔ اور نگ آباد اور مالیگاؤں سے بھی کئی اچھے روزنامے اور ہفت روزہ اخبار نکل رہے ہیں۔ شاعر (بمبئی)، ترسیل(بمبئی)، گل بوٹے(بمبئی)، اردوچینل(بمبئی)، نی اور ق (بمبئی)، تکمیل (بھیونڈی)، دل رس( اور نگ آباد)، قرطاس(ناگپور)، اردومیلہ (ناگپور)، اسباق(پونہ)، ادبی کارواں (ناگپور) مؤقر جرائد و رسائل ہیں۔ یہ ادبی دنیا میں عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔

اس وقت مہاراشٹر میں اردو زبان و ادب بڑی تیزی سے ارتقا پذیر ہے۔ شاعری، تحقیق، تنقید، افسانہ، ناول، ڈرامہ، بچوں کا ادب، غرض کہ ہر صنفِ ادب کے خاکے میں رنگ بھرنے والے قلمکار اس علاقے میں موجود ہیں۔ ڈاکٹر عبد الستار دلوی، یوسف ناظم، یونس اگاسکر، باقر مہدی، عبدالاحد ساز، سلام بن رزاق، ساجد رشید، م ناگ، شمیم طارق، حسن کمال، واجدہ تبسم، رفیعہ شبنم عابدی، نور العین علی، سلیم شہزاد، شرف الدین ساحل، مدحت الاختر، شاہد کبیر، ڈاکٹر یحییٰ نشیط، نور السعید اختر، ڈاکٹر سید صفدر، ڈاکٹر عبدالرحیم نشتر وغیرہ ادبی دنیا میں اپنی شناخت قائم کر چکے ہیں۔ ان حقائق کے پیشِ نظر مہاراشٹر میں اردو زبان و ادب کا مستقبل تابناک نظر آتا ہے۔

حواشی:

            برار کی تمدنی و علمی تاریخ از ڈاکٹر محمد شرف الدین ساحل مطبوعہ علیم پرنٹرس، ناگپور (۲۰۰۱ء) ص: ۲۶

            Amraoti District Gazetteer (1968), P. No. 54, 55

            تاریخ فیروز شاہی ازضیاء الدین برنی مطبوعہ ایشیاٹک سوسائٹی، بنگال (۱۸۶۲ء) ص: ۲۲۲

            پندرہ روزہ قومی راج، بمبئی(۱۶اگست ۱۹۷۴ء)ص: ۳۲

            دکن میں اردو ازنصیرالدین ہاشمی، مطبوعہ ترقی اردوبیورونئی دہلی(۱۹۸۵ء) ص:۳۶، ۳۷

            سہ ماہی اردودنیا، نئی دہلی(اکتوبر، نومبر، دسمبر۱۹۹۹ء)ص: ۳۵

            برار کی تمدنی و علمی تاریخ از ڈاکٹر محمد شرف الدین ساحل، ص:۲۷، ۶۴

            برار کی تمدنی و علمی تاریخ از ڈاکٹر محمد شرف الدین ساحل، ص:۲۷، ۲۸

            دکن میں اردو(از نصیر الدین ہاشمی)، تذکرائے شعراء دکن(عبد الجبار ملکا پوری) اور برار کی تمدنی و علمی تاریخ(از ڈاکٹر محمد شرف الدین ساحل)میں ان شعرا کے حالات و کارنامے تفصیل سے ملتے ہیں۔

            دکن میں اردواز نصیرالدین ہاشمی، ص:۲۹۸، ۲۹۹

            سہ ماہی اردو دنیا، نئی دہلی(اکتوبر، نومبر، دسمبر۱۹۹۹ء)ص: ۳۵

            Maharashtra State Gazetteer (Language & Literature) 1971

            ماہنامہ آج کل، نئی دہلی، (اردو نمبر)اگست۔ ستمبر۱۹۷۳ء

            (مضمون مہاراشٹرمیں اردو، ازعبدالحمیدبوبیرے، ص:۱۴۔ تا۔ ۲۰)

            بمبئی میں اردواز ڈاکٹرمیمونہ دلوی، مطبوعہ آج پریس بمبئی، (۱۹۷۰ء)

            کامٹی کی ادبی تاریخ از ڈاکٹر محمد شرف الدین ساحل، مطبوعہ بزم غالب، کامٹی(۱۹۸۲ء)

            ناگپور میں اردو از ڈاکٹر محمد شرف الدین ساحل

 

 

 

باب سوم

اردو ادب میں خواتین کا حصہ

انسان کو خدا نے عقل کی دولت سے سرفراز کیا ہے۔ اسی کی مدد سے وہ حق کو باطل سے، سچ کو جھوٹ سے، کھرے کو کھوٹے سے اور سفید کو سیاہ سے الگ کرتا ہے۔ اچھے برے کی تمیز کرتا ہے۔ غور و فکر کرتا ہے، تخلیق کرتا ہے اور تحقیق بھی۔ عقل کی یہ انمول شئے مرد اور عورت دونوں کے پاس ہے۔ مرد کو آزادی رہی اس لیے اس کی صلاحیتیں ہر شعبے میں نمایاں ہوتی رہیں۔ عورت گھر کی چار دیواری میں مرد کے حکم کے تابع رہ کر امورِ خانہ داری انجام دیتی رہی، بار امومت اٹھاتی رہی اس لیے عرصہ دراز تک اس کی فطری اور تخلیقی صلاحیتیں دبی رہیں۔ اسے اپنے جوہر کو آشکارا کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ اس کی آواز کا باہر جانا بھی معیوب تھا۔

جب عورتوں کو کچھ آزادی ملی تو انھیں اپنی صلاحیتوں کو ظاہر کرنے کا موقع ملا۔ رضیہ سلطان، حبہ خاتون، چاند سلطانہ، میرا بائی، لل عارفہ، تارا بائی، اہلیہ بائی، گلبدن بیگم، نورجہاں ، جہاں آرا اور زیب النسا اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ ہماری سیاسی و علمی تاریخیں ان کے کارناموں کی گواہ ہیں۔

اردو ادب میں خواتین کے ادبی و علمی کارناموں کا آغاز مہ لقا بائی چندا، گلنار بیگم، گنا بیگم شوخ اور ملکہ زینت محل سے ہوتا ہے۔ مسلم عہد حکومت کی ان شاعرات کے نام اور کام کو ہمارے بعض تذکرہ نگاروں اور مؤرخوں نے اپنی کتابوں میں محفوظ کیا ہے۔ مہہ لقا بائی چندا ایک طوائف تھی۔ وہ اس قدر قادر الکلام تھی کہ اس نے اپنا دیوان بھی ترتیب دیا تھا۔ گنا بیگم ایک بڑے رئیس کی بیٹی اور نواب عماد الملک غازی الدین خان بہادر نظام، وزیر عالمگیر ثانی کی رفیقہ حیات تھی اور ملکہ زینت محل، مغلیہ سلطنت کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کی بیوی اور نواب حامد علی خان کی بیٹی تھی۔ ان شاعرات کی ذہانت و صلاحیت کو تذکرہ نگاروں نے سراہا ہے۔ انھوں نے اپنے کلام پر مشہور زمانہ شاعروں سے اصلاح لی۔ مثلاً گنا بیگم کے بارے میں تذکروں سے یہ ثبوت فراہم ہوتا ہے کہ وہ مرزا محمد رفیع سودا سے اپنے کلام پر اصلاح لیتی تھی۔

ان کے بعد اور بھی کئی خواتین نے اردو شاعری کے میدان میں اپنا قدم رکھا جن میں اچپل، نزاکت، امیر بیگم ادا، منی بیگم حجاب، حسین، حور، حشمت، دلبر، زہرہ کے اسمائے گرامی اہم ہیں۔ ان میں سے بیشتر طوائف پیشہ تھیں اس لیے ان کے یہاں داخلی جذبات اور نسائی احساس ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ چند شعر دیکھئے:(۱)

یک لخت پارہ پارہ کر ڈالوں آئینے کو

پر کیا کروں کہ تیرا منہ درمیاں ہے گا

۔ ۔ ۔ چندا

ہے عیش اس کے جی کو اجی غم بہت ہے یاں

شادی وہاں رچائی ہے، ماتم بہت ہے یاں

۔ ۔ ۔ اچپل

مدتوں صدمے جدائی کے اٹھائے اے ادا

جان دینا ہے تو دے دو جا کے اس قاتل کے پاس

۔ ۔ ۔ ادا

جس وقت تک وہ بزم میں پیشِ نظر رہے

ہم اپنا دونوں ہاتھ سے تھامے جگر رہے

۔ ۔ ۔ حسین

ہر روز جو تم روٹھ کے تیوری ہو بدلتے

بے جا تو ہمیں ناز اٹھانا نہیں آتا

۔ ۔ ۔ دلبر

کیا تماشہ ہے کہ لے کر آئینہ کو ہاتھ میں

دیکھ کر زلفیں وہ اپنی آپ بل کھانے لگے

۔ ۔ ۔ حجاب

بوسہ دیں گے نہ وہ تجھے زہرہ

منہ لگاتا ہے کون سائل کو

۔ ۔ ۔ زہرہ

مندرجہ بالا اشعار سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس ابتدائی دور کی شاعرات نے اپنے دل کی بات کس ہنر مندی سے کہی ہے۔

جب ۱۸۵۷ء کے تاریخی انقلاب کے بعد اس ملک میں انگریزوں کا دور حکومت شروع ہوا اور ایک نیا نظام آیا تو اس کے تحت ہر شعبے میں تبدیلیاں ہوئیں۔ جدید تعلیم نے فکر و خیال کو متاثر کیا۔ سوچنے کے انداز بدلے اور آزادیِ نسواں کی آواز بلند ہونا شروع ہوئی۔ لڑکوں کے ساتھ لڑکیاں بھی تعلیمی میدان میں قدم رکھنے کی ہمت شرم و حیا کے ساتھ کرنے لگیں۔ خواتین کے احساسات و جذبات کی نشر و اشاعت رسائل کے ذریعہ کی جانے لگی۔ یوں ایک چراغ سے دوسرا چراغ جلتا رہا اور ادب کی ہر صنف میں خواتین کے نام نظر آنے لگے۔ قرۃ العین حیدر اپنے ایک مضمون ’’ہندوستان کی مسلمان عورتیں ‘‘ میں لکھتی ہیں :(۲)

’’انیسویں صدی کے خاتمے کے بعد ہندوستان کی مسلمان عورتیں قومی اور تعلیمی میدان میں زور و شور سے داخل ہوئیں۔ پردے نے انھیں ملک کی دوسری عورتوں سے الگ کر رکھا تھا۔ لہٰذا پہلے انھوں نے اپنی آزادی کی لڑائی اپنے گھر کی چہار دیواری کے اندر سے لڑکی۔ مردوں کے ساتھ برابری کے مقابلے میں انھیں شرعِ محمدی کی تائید بھی حاصل تھی۔ انھیں صرف یہ کہنا پڑتا تھا، ہمیں صرف وہی حقوق دیجئے جو خدا اور رسول نے دیے ہیں۔ مگر اس کے لئے بھی انھیں کٹر مردوں کی زبردست مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔

ساحلی ہندوستان کا کاروباری فرقہ خوجہ اور بوہرہ وغیرہ ان مسلمانوں میں سے تھے جنھوں نے پہلے پہل اپنی لڑکیوں کو تعلیم کے لیے اسکولوں میں بھیجا۔ جاگیردارانہ شمالی ہندوستان نے سب سے آخیر میں اپنی عورتوں کے لیے جدید تعلیم کی حامی بھری۔ ‘‘

اس خیال کو شمیم نکہت نے اپنے ایک مضمون ’’آزادیِ نسواں کی جدوجہد‘‘ میں سر سید احمد خان کی تعلیمی تحریک کے تناظر میں اس طرح پیش کیا ہے:(۳)

’’ہند میں انیسویں صدی کا آخری حصہ اور بیسویں صدی عورتوں کی آزادی کی جدوجہد کے لحاظ سے بہت اہم ہے۔ اسی زمانے میں سر سید نے مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کی بنیاد ڈالی۔ اس کا اصل مقصد ہندوستانی مسلمانوں کو ذہنی، معاشرتی اور اخلاقی پستی سے نکالنا تھا۔ سر سید یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ خواب اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا جب تک مردوں کے ساتھ عورتوں کی تعلیم و اصلاح اور مذہبی عقائد و رسومات کو درست نہ کیا جائے اس لیے سر سید نے ۱۸۷۰ء سے تہذیب الاخلاق میں عورتوں کی تعلیم، کثرتِ ازدواج اور رفاہِ عورات وغیرہ عنوانات پر کئی مضامین لکھے۔ سر سید تحریک کے اثر کے تحت بہت جلد ایک معقول اور روشن خیال مسلمان حلقہ بن گیا جس نے عام مسلمانوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ عورتوں کی تعلیم و اصلاح پربھی خصوصیت کے ساتھ زور دیا۔ علی گڑھ میں ۱۹۰۴ء میں عورتوں کی پہلی کانفرنس منعقد ہوئی جس کے بانی شیخ عبداللہ صاحب تھے۔ جس میں عورتوں کی آزادی اور تعلیم کے سلسلے میں بہت سے فیصلے کیے گئے۔ اس وقت ہندوستان میں عطیہ فیضی، آبرو بیگم، آلہ بی، مسز رضا علی، سعید احمد بیگم اور سلطان جہاں بیگم فرمانروائے بھوپال جیسی ترقی یافتہ خواتین موجود تھیں۔ ۱۹۰۴ء میں عورتوں میں تعلیم کی تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے خاتون نام کا ایک رسالہ بھی جاری کیا گیا۔ کچھ عرصے بعد علی گڑھ میں عورتوں کی تعلیم کے لیے عبداللہ صاحب نے باقاعدہ اسکول قائم کیا جو ویمنس کالج کی شکل میں آج بھی موجود ہے۔ ‘‘

یہیں سے اردو معاشرے کی خواتین تعلیمی، علمی اور ادبی لحاظ سے میدانِ عمل میں آنا شروع ہوئیں جن کی تعداد میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا رہا۔ عورتوں کے شعور کو بیدار کرنے اور ان کے تعلیمی، علمی و ادبی ذوق و شوق کو پروان چڑھانے میں شمس العلما مولوی ممتاز علی کے ہفتہ وار رسالے تہذیبِ نسواں نے بھی بہت اہم کردار ادا کیا۔ یہ انقلاب آفریں رسالہ ۱۸۹۶ء میں لاہور سے جاری ہوا تھا۔ مولوی ممتاز علی کی بیوی محمدی بیگم اس کی ایڈیٹر تھیں۔ اس کے بعد مولوی صاحب نے ۱۹۰۸ء میں بچوں کے لیے رسالہ پھول جاری کیا۔ اسی سال علامہ راشدالخیری نے بھی خاص عورتوں کے لیے دہلی سے عصمت کا اجرا کیا۔ ان پرچوں نے بھی بچیوں ، لڑکیوں اور عورتوں کی ذہن سازی کی اور انھیں تعلیمی و ادبی لحاظ سے اکسایا۔ ان میں تعلیم حاصل کرنے اور لکھنے کا جذبہ پیدا کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ادب کی ہر صنف میں عورتوں نے طبع آزمائی شروع کی۔ آگے چل کروہ ماحول تیار ہوا کہ شاعری، ناول، افسانہ ، ڈرامہ، تنقید، تحقیق سب ان کی گرفت میں آ گئے۔ یہاں ان پر علاحدہ علاحدہ روشنی ڈالی جاتی ہے۔

شاعری

مولوی ممتاز علی کے رسالے تہذیب نسواں اور علامہ راشدالخیری کے رسالے عصمت کے بعد خاص خواتین کے لیے اور کئی رسالے نکلے جن کی وجہ سے ان کا ادبی شعور تربیت یافتہ ہوا۔ بقول شمیم نکہت:(۴)

’’(اس دور میں ) اردو ادب میں بہت سی خواتین افسانہ نگار اور شاعرات کے نام ملتے ہیں جنھوں نے مختلف نثری و شعری اصناف میں کامیاب تخلیقات پیش کی ہیں۔ ۔ ۔ شاعرات کی فہرست میں بہت سی خواتین کے نام نظر آتے ہیں۔ یہ اتفاق ہے کہ ان میں کوئی اس شہرت کو نہ پہنچ سکا جو مردوں کو ملی۔ لیکن اس کے باوجود ان کی ادبی خدمات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ شاید اس کا سبب پردے کا رواج یا دوسری سماجی بندشیں ہوں جس کی وجہ سے نہ وہ عوام یا شعرا سے گھل مل سکتی تھیں اور نہ مشاعروں میں شریک ہو سکتی تھیں۔ ‘‘

اس عہد کی شاعرات کو عام قبولیت کب ملی اور ان کی شعری تخلیقات کب منظر عام پر آئیں اس کا تجزیہ کرتے ہوئے نسرین رئیس خان اپنے مضمون:اردو نظم کو خواتین کی دین میں لکھتی ہیں :(۵)

’’جب ہم بیسویں صدی عیسوی یا اس کے نصف آخر کے ادبی منظر نامے پر نظر ڈالتے ہیں تو پہلی چند دہائیوں میں خواتین ادب نگاروں میں ناول نگار، افسانہ نگار اور مضمون نگار خواتین نسبتاً زیادہ ہیں اور شاعرات کم ہیں۔ ۔ ۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ جتنی اہم شاعرات ہمارے اپنے زمانے یعنی بیسویں صدی کے نصف آخر میں سامنے آئیں وہ ۱۹۴۷ء سے پہلے چاہے پیدا ہو چکی ہوں ، لیکن ان کی شعری تخلیقات سامنے آنے کا زمانہ پچھلے چند برس ہی ہیں۔ ‘‘

آزادی کے بعد مشاعروں میں شرکت، کلام کی اخبار و رسائل میں کثرت سے اشاعت اور مجموعۂ کلام کے منظر عام پر آنے کے باعث ادبی حلقوں میں جن شاعرات کو بے حد مقبولیت ملی ان میں ادا جعفری، کشور ناہید، سیدہ اختر، شاہجہاں بانو یاد، زہرہ نگاہ، داراب بانو وفا، سلطانہ مہر، فہمیدہ ریاض، شفیق فاطمہ شعریٰ، مسعودہ حیات، جمیلہ بانو، پروین شاکر، بلقیس ظفیر الحسن، ساجدہ زیدی، زاہدہ زیدی، رفیعہ شبنم عابدی، زرینہ ثانی، ملکہ نسیم، نورجہاں ثروت، شہناز نبی، نسرین نقاش، عذرا پروین، ذکیہ سلطانہ نیر، بیگم ممتاز مرزا اور سیدہ شان معراج کے نام نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں بعض شاعرات ایسی ہیں جو کئی شعری اصناف پر یکساں قدرت رکھتی ہیں۔ انھیں شاعری کے ساتھ ساتھ نثرنگاری پربھی عبور حاصل ہے۔ ان میں بعض کے شعری مجموعے شائع ہو کر ادبی حلقوں میں قبولیت کی سند حاصل کر چکے ہیں۔ ادا جعفری کے شعری مجموعے: غزالاں تم تو واقف ہو، سازِ سخن بہانہ ہے، میں ساز ڈھونڈتی رہی اور درد کو اربابِ سخن نے کافی سراہا ہے۔ شفیق فاطمہ شعریٰ اپنے شعری مجموعے:آفاقِ نوا اور گلۂ صفورہ کی وجہ سے ادبی دنیا میں مقبول ہوئیں۔ کشور ناہید:لب گویا، بے نام مسافت، گلیاں ، دھو دروازے، علامتوں کے درمیاں ، سیاہ حاشیے میں گلابی رنگ، دائروں میں پھیلی لکیریں کی تخلیق کار ہیں۔ انھیں بھی خوب شہرت ملی۔ فہمیدہ ریاض کے مجموعۂ کلام:پتھر کی زبان، ہم گنہگار عورتیں ، بدن دریدہ، ادھورا آدمی اور دھوپ ادبی دنیا میں مقبول ہوئے۔ پروین شاکر کے شعری مجموعے:خوشبو، صد برگ، خود کلامی اور انکار نے اہلِ ذوق سے اپنا لوہا منوایا۔ اسی طرح شہناز نبی کا مجموعہ کلام بھیگی رتوں کی کتھا، نورجہاں ثروت کا مجموعۂ کلام بے نام شجر، ساجدہ زیدی کا مجموعۂ کلام:جوئے نغمہ، سیلِ وجود، آتشِ زیر پا اور آتشِ سیال، زاہدہ زیدی کا مجموعۂ کلام:زہرآب، دھرتی کا لمس اور سنگ جاں ، ڈاکٹر رفیعہ شبنم عابدی کا مجموعۂ کلام:موسم بھیگی آنکھوں کا اور اگلی رات کے آنے تک، بلقیس ظفیر الحسن کا مجموعۂ کلام:گیلا دھن، مسعودہ حیات کا مجموعۂ کلام:بوئے سخن، سیدہ نسرین نقاش کا مجموعۂ کلام:دشتِ تنہائی اور سیدہ شان معراج کا مجموعۂ کلام:ساحل۔ سیپ۔ سمندر، ادبی حلقوں میں قدر و عزت کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ یہ سارے مجموعۂ کلام ۱۹۴۷ء کے بعد مختلف اوقات میں منظرِ عام پر آئے اور لوگوں کے دلوں کو گرما گئے۔

فکری لحاظ سے ان شاعرات کی شاعری میں نہ صرف اس روایتی عورت کی تصویر کشی ملتی ہے جو اپنی زبان بندی کو سماجی قدر کی حیثیت سے قبول کرتی ہے بلکہ اس کے وہ احساسات و جذبات بھی نظر آتے ہیں جو مختلف حالات کے پیشِ نظر اس کے دل کی دنیا میں ابھرتے ہیں اور بعض اوقات طوفان برپا کر دیتے ہیں۔ ان کے یہاں حسن و عشق کے وہ تصورات بھی ملتے ہیں جو اردو کی عشقیہ اور رومانی شاعری کی جان کہلاتے ہیں۔ چند شعر دیکھئے:

کیا آس تھی دل کو کہ ابھی تک نہیں ٹوٹی

جھونکا بھی ہوا کا ہمیں مہماں سا لگے ہے

۔ ۔ ۔

ادا جعفری

سمیٹ لو کہ یہی منظروں کا حاصل ہے

اس ایک آنکھ میں تصویر پورے گھر کی ہے

۔ ۔

کشور ناہید

پتھر سے وصال مانگتی ہوں

میں آدمیوں سے کٹ گئی ہوں

۔ ۔ ۔

فہمیدہ ریاض

میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤنگی

وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا

۔ ۔ ۔

پروین شاکر

ذہن و دل کی خانہ جنگی گر یونہی جاری رہی

میرے اندر کی یہ لڑکی ایک دن مر جائے گی

۔ ۔ ۔

شہناز نبی

یہ شبِ دراز کٹتی، یہ کڑا سفر گزرتا

کوئی حرفِ وعدہ ہوتا کہ سحر کو شام کرتے

۔ ۔ ۔

ساجدہ زیدی

رازِ غم کو نگاہوں سے چھپایا ہوتا

سر پہ شاید کسی تنویر کا سایا ہوتا

۔ ۔ ۔

زاہدہ زیدی

عمر بھر خوابوں کی چلمن سے لگی بیٹھی رہی

میں نے ساری زندگی حالات سے پردہ کیا

۔ ۔ ۔

داراب بانو وفا

چھونے سے کبھی بادِ صبا کے، مرے تن کو

اک برق سی لہرائے تو لگتا ہے کہ تم کو

۔ ۔ ۔

مسعودہ حیات

روز ان جاگتی آنکھوں سے بغاوت کیسی

رات کو دیر سے گھر آنے کی عادت کیسی

۔ ۔ ۔

رفیعہ شبنم عابدی

اک معمہ ہے ابھی تک، قربتوں کے باوجود

ہم پہ کھلتا ہی نہیں وہ چاہتوں کے باوجود

۔ ۔ ۔

نسرین نقاش

کون ہے جس نے مرا عزم سفر چھین لیا

کیا کہوں کس نے یہ زنجیر سی پہنائی ہے

۔ ۔ ۔

شان معراج

ان شعروں میں عشقیہ اور رومانی جذبات و احساسات نئے انداز، نئے اسلوب اور نئے آہنگ کے ساتھ ملتے ہیں۔ ان میں گہرائی و گیرائی اور نئی معنویت ہے۔ اردو شاعری کا یہ نسائی رنگ اس کی تاریخ میں منفرد اور بے مثال ہے۔ یہ عورتوں کے جذبۂ دروں کا ترجمان ہے۔ یہی لب و لہجہ ان شاعرات کی نظموں پربھی غالب ہے۔ اس کی بھی کچھ مثالیں دیکھئے:

یہ کیسی لذت سے جسم شل ہو رہا ہے میرا

یہ کیا مزا ہے کہ جس سے ہے عضو عضو بوجھل

یہ کیفیت کیا کہ سانس رک رک کے آ رہا ہے

۔ ۔ ۔

فہمیدہ ریاض

زباں میں ذائقۂ وصل یوں رچے شب بھر

کہ ختم ہو نہ یہ قربت کی ساعتوں کا سحر

۔ ۔ ۔

کشور ناہید

مرے اطراف تنہائی کی یخ بستہ فضائیں سانس لیتی ہیں

مرے سینے میں وہ آتش فروزاں ہے

جو ہر زندہ حقیقت کا مقدر ہے

۔ ۔ ۔

ساجدہ زیدی

 اور وہ بھی ہوا کی طرح بھاگتی ہی گئی

 اور چند لمحوں میں دنیا نے دیکھا

سمندر کی بیٹی، سمندر کی باہوں میں تھی

۔ ۔ ۔

پروین شاکر

اردو کی شاعرات اپنا فکری سفر طے کرتے ہوئے اب اس منزل تک آ گئی ہیں جہاں راز، راز نہیں رہتا، افشا ہو جاتا ہے۔ عہد حاضر کی دیگر مشہور شاعرات میں اوشا شفق، بشریٰ رحمن، زینت بشیر، عفت زریں ، حسنیٰ سرور، رعنا حیدری، نورجہان ثروت، شائستہ یوسف، پروین راجہ، آشا پربھات، قمر قدیر ارم، تاجور سلطانہ تاج، شگفتہ یاسمین، شانتا بائی روشن، ڈاکٹر گرجا ویاس، یاسمین حمید، سارا شگفتہ، شاہدہ حسن، زہرہ نگاہ، ناہید قاسمی، شفیقہ فرحت، زرینہ ثانی، نینا جوگن، نسیم نکہت، نفیس بانو شمع، پروین حق، نگار عظیم، عفت بانو زیبا، وہاب جعفری، بانو طاہرہ سعید، مظفر النسا ناز، کوثر جہاں کوثر، عابدہ احمد، کاظمی بانو ضیا، اسما سعیدی، عظمت عبد القیوم، نسیم مخموری کے نام اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ شاعرات مقبول عام ہو چکی ہیں۔ ان میں بیشتر شاعرات تعلیم یافتہ ہیں۔ وہ گردش زمانہ اور عصری حالات سے پوری طرح باخبر ہیں۔ ان کا تجربہ و مشاہدہ قوی ہے۔ کہنے کا سلیقہ ہے اور انداز بھی اس لیے ان کی شاعری نے مردوں کو چونکا دیا ہے اور ان سے خراج تحسین وصول کیا ہے۔

ناول

اردو میں ناول نگاری کا آغاز انیسویں صدی کے اوآخر میں ڈپٹی نذیر احمد کے ناولوں سے ہوتا ہے۔ مراۃ العروس (۱۸۶۹ء)، بنات النعش(۱۸۸۸ء)، توبۃ النصوح، ایامیٰ، محصنات ان کے مشہور ناول ہیں جن میں انھوں نے دہلی کی ٹکسالی زبان استعمال کی ہے اور محاورات کا استعمال سلیقہ سے کیا ہے۔ نذیر احمد نے ان ناولوں کے لیے زندگی سے براہِ راست مواد حاصل کیا ہے اس لیے یہ حقیقت سے قریب ہیں۔ ان کا موضوع دہلی کے متوسط خاندانوں کی زندگی ہے۔ مذہبی، معاشرتی اور اخلاقی اصلاح ان کا مقصد ہے۔ خاندانی زندگی کے عکاس ہونے کے باعث یہ ناول خواتین میں بے انتہا مقبول ہوئے۔ ان کا زبردست تاثر قبول کرنے والی ایک تعلیم یافتہ خاتون رشیدۃ النساء تھیں۔ وہ ان سے اس قدر متاثر ہوئیں کہ انھوں نے بھی ناول نگاری کو اپنے اظہارِ خیال کا ذریعہ بنایا اور اصلاح النساء کے نام سے ایک ناول تخلیق کیا۔ یوں انھیں پہلی خاتون ناول نگار بننے کا شرف حاصل ہوا۔

رشیدۃ النساء ایک روشن خیال خاتون تھیں۔ لڑکیوں کی اصلاح کرنا اور سماج کی بے ہودہ رسومات کو ختم کرنا ان کا مشن تھا۔ انھوں نے توہم پرستی اور مزار پرستی کے خلاف آواز اٹھائی اور لڑکیوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے مدرسہ اسلامیہ کی بنیاد ڈالی۔ ان کے دماغ میں یہ بات بھی سما چکی تھی کہ قصے اور کہانیوں کے ذریعہ بھی لڑکیوں کی اصلاح ممکن ہو سکتی ہے لہٰذا انھوں نے ناول نگاری کو اسی مقصد کے تحت اپنایا۔

ان کے بعد کئی خواتین اس میدان میں آئیں جن میں محمدی بیگم، طیبہ بیگم، عباسی بیگم، مسز ا۔ ض۔ حسن بیگم، اکبری بیگم، صغریٰ ہمایوں مرزا، بیگم شاہنواز، مسز عبدالقادر، مسز عباس طیب جی، بیگم خجستہ خدیو جنگ اور نذر سجاد حیدر کے نام قابلِ احترام ہیں۔ ان خواتین ناول نگاروں میں محمدی بیگم کے ناول:سگھڑ بیٹی اور شریف بیٹی، طیبہ بیگم کے ناول:انوری بیگم، اکبری بیگم کے ناول: گلدستۂ محبت، عفتِ نسواں ، شعلۂ پنہاں اور گودڑ کا لال، صغریٰ ہمایوں مرزا کے ناول:مشیر نسواں ، مسز عباس طیب جی کے ناول:شوکت آرا بیگم، بیگم ا۔ ض۔ حسن کے ناول: روشنک بیگم، نذر سجاد حیدر کے ناول: اختر النساء بیگم، جانباز، آہِ مظلوماں ، ثریا، نجمہ اور حرماں نصیب کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کسی مسلم عورت کا گھر سے باہر قدم نکالنا ممکن نہیں تھا۔ یہاں تک کہ اس کی آواز پر بھی پردہ پڑا ہوا تھا اس لیے ان خواتین ناول نگاروں میں سے بعض نے فرضی ناموں کا سہارا لے کر اپنے ناول شائع کروائے۔ اکبر بیگم نے عباس مرتضیٰ اور والدہ افضل علی کا فرضی نام اختیار کیا۔ اسی طرح مسز عباس طیب جی نے اپنا فرضی نام خاتون رکھا۔ ان خواتین ناول نگاروں کے ناولوں میں زیادہ تر گھریلو زندگی کی عکاسی ملتی ہے۔ ان میں زندگی کے اہم مسائل اور کئی پہلو سمائے ہوئے ہیں اس لیے انھیں معاشرتی، سماجی یا گھریلو ناول کہہ سکتے ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد متوسط مسلم سماج کی اصلاح و درستگی ہے۔ ان میں خواتین کی بیداری، کمسنی اور بے جوڑ شادی کے نتائج، مغربی تہذیب کی اندھی تقلید کے نتائج اور سماج میں خواتین کی اہمیت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ان ناولوں میں اکبری بیگم کے ناول گودڑ کے لال کو غیر معمولی شہرت ملی اس لیے کہ یہ روایت کے خلاف بغاوت پر مشتمل ہے۔ اس ناول میں اکبری بیگم نے مسلم لڑکیوں کو مخلوط تعلیم (Co – education) کا تصور دیا ہے۔ اس وقت جب لڑکیوں کا اسکول کی شکل تک دیکھنا ناممکن تھا۔ یہ تصور بالکل باغیانہ تھا اس لیے اسے خوب شہرت ملی۔ اسی طرح نذر سجاد حیدر کے ناول جانباز کا موضوع وطن پرستی ہے۔ اس میں ناول کی ہیروئن زبیدہ گاندھی جی کی تحریک عدم تعاون سے اس درجہ متاثر ہوتی ہے کہ وہ اس میں شریک ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں اسے اپنے منگیتر قمر سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ یہ ناول پہلے ۱۹۔ ۱۹۱۸ء میں عصمت میں قسط وار شائع ہوا۔ بعد کو کتابی صورت میں آیا۔

ترقی پسند تحریک کے ابتدائی دور میں ایک ترقی پسند، تعلیم یافتہ اور روشن خیال خاتون حجاب امتیاز علی ناول نگار کی حیثیت سے نمایاں ہوئیں۔ ان کی ترقی پسند اور روشن خیالی کا اندازہ اس سچائی سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ہندوستان کی پہلی مسلم خاتون ہوا باز ہیں۔ انھیں حکومت برطانیہ نے پائیلٹ کا لائسنس جاری کیا تھا۔ حجاب رومانی فکر و خیال کی ترجمان تھیں۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز اس وقت ہوا جب ان کی عمر صرف گیارہ سال تھی۔ اس عمر میں انھوں نے اپنا پہلا ناول میری ناتمام محبت لکھا جس نے اردو ادب کے ناقدین کو بھی حیرت میں ڈال دیا۔ ان کا دوسرا ناول ظالم محبت ہے۔ یہ دونوں ناول اگرچہ معاشرتی ہیں اور ان میں سماج کی قدروں اور شادی بیاہ کے مسئلوں سے نرم و نازک زبان و اسلوب میں بحث کی گئی ہے لیکن ہے یہ حقیقت کہ ان کی فضا رومانی ہے۔ حجاب کا ایک اور ناول ہے اندھیرا خواب جو نفسیاتی نکات سے مزین ہے۔ یہ ایک پراسرار اور طلسماتی فضا میں ڈوبا ہوا ہے۔ یہ فضا پرکشش اور متاثر کن ہے۔

اس کے بعد ترقی پسندی کے عروج کے زمانے میں کئی خاتون ناول نگار سامنے آئیں اور اپنے حقیقت نگار قلم سے ادبی دنیا پر چھا گئیں۔ پھر تقسیم وطن کے بعد ان کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا۔ اب زمان و مکاں کے تصور اور کردار نگاری کے عام معیاروں میں بھی نمایاں تبدیلیاں ہوئیں۔ ماضی کو حال سے اور حال کو مستقبل سے منضبط کیا گیا۔ اس کی وجہ سے پلاٹ اور کردار نگاری کے روایتی تصور نے دم توڑ دیا اور ایسے ناول منظر عام پر آئے جن میں ہیرو اور ہیروئن غائب ہیں۔ یہ ایک نہ ختم ہونے والے واقعاتی سلسلے پر مشتمل ہیں۔ اس پورے دور میں جو اہم ناول منصۂ شہود پر آئے یہاں صرف ان کی فہرست پر اکتفا کیا جاتا ہے تاکہ یہ بات ظاہر ہو جائے کہ مردوں کے دوش بدوش عورتوں نے اس میدان میں کیا نقوش چھوڑے ہیں۔

ضدی ٹیڑھی لکیر، معصومہ، سودائی، عجیب آدمی، جنگلی کبوتر، دل کی دنیا، ایک قطرۂ خوں (عصمت چغتائی)۔ ۔ ۔ میرے بھی صنم خانے، سفینۂ غمِ دل، آگ کا دریا، آخری شب کے ہم سفر، کارِ جہاں دراز ہے، گردشِ رنگِ چمن، چاندنی بیگم(قرۃ العین حیدر)۔ ۔ ۔ آنگن، زمین (خدیجہ مستور)۔ ۔ ۔ تلاشِ بہاراں ، روحی چہرہ بہ چہرہ، رو بہ رو، دشتِ ہوس(جمیلہ ہاشمی)۔ ۔ ۔ آبلہ پا، انتظارِ موسمِ گل(رضیہ فصیح احمد)۔ ۔ ۔ ایوانِ غزل، بارشِ سنگ(جیلانی بانو)۔ ۔ ۔ راجہ گدھ(بانو قدسیہ)۔ ۔ ۔ پیار کا ساگر، نقشِ قدم، راز داں ، مردم گزیدہ(فردوس حیدر)۔ ۔ عذرا، آتشِ خاموش، قطرے سے گہر ہونے تک، راہِ عمل، یادوں کے چراغ، ساتواں آنگن، الجھی ڈور، اپنی اپنی صلیب(صالحہ عابد حسین)۔ ۔ ۔ سرِ شام، کانٹے، سمن، اللہ میگھ دے(رضیہ سجاد ظہیر)۔ ۔ ۔ فاصلے دل کے، شمع، تصویر، افشاں ، چشمہ (اے آر خاتون)۔ ۔ ۔ زخمِ دل(سلطانہ جبیں )۔ ۔ ۔ روح کے زخم(ڈاکٹر نسیم اعظم)۔ ۔ ۔ گھروندے(ہاجرہ مسرور)۔ ۔ ۔ زندگی ، وحشی، فاصلے(رضیہ بٹ)۔ ۔ ۔ اکیلی، لکیریں ، سنگسار(سلمیٰ کنول)۔ ۔ ۔ بت تراش(یاقوتہ رحمن)۔ ۔ ۔ عالم، پناہ، اک جہاں اور بھی ہے(رفیعہ منظور الامین)۔ ۔ ۔ واپسی، سیاہ سرخ سفید(آمنہ ابوالحسن)۔ ۔ ۔ راگ بھوپالی، پا بہ جولاں ، دھند، پروائی، جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو (صغریٰ مہدی)۔ ۔ ۔ نتھ کا غرور(واجدہ تبسم)۔ ۔ ۔ دھندکا اگا پیڑ (آشا پربھات) اردو کے اہم ناولوں میں شمار ہوتے ہیں۔ عہدِ حاضر کے دیگر ناول نگاروں میں بشریٰ رحمن، عفت موہانی، عطیہ پروین، مینا ناز، مسرور جہاں ، واجدہ تبسم، ہاجرہ نازلی، شہناز کنول اور دیبا خانم کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ یہ حقائق ثابت کرتے ہیں کہ ناول نگاری کے میدان میں خواتین نے اہم کردار ادا کیا ہے۔

افسانہ

بیسویں صدی میں اردو افسانے نے اتنی تیزی سے ترقی کہ وہ نثر کی دوسری اصناف پر حاوی ہو گیا۔ اس کی تاریخ میں پریم چند کا نام سر فہرست ہے جن کی پریم پچیسی اور پریم بتیسی نے افسانہ نگاری کو زبردست تقویت پہنچائی۔ پھر ترقی پسند تحریک کے عروج کے زمانے میں مختلف افسانہ نگاروں کے افسانوں کا ایک مجموعہ انگارے شائع ہوا۔ ان افسانوں نے مروجہ اخلاقی نظام اور سماجی رویوں سے بغاوت کر کے اردو افسانے کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز کیا۔

اردو افسانہ نگاری کے میدان میں خواتین کی آمد اسی سیاسی و سماجی اضطراب کے دور میں ہوئی۔ اس سلسلے میں پہلا نام حجاب امتیاز علی کا لیا جاتا ہے جو ایک جدید تعلیم یافتہ اور روشن خیال خاتون تھیں۔ ان کے نیم رومانی اور نیم حقیقی افسانے اس دور میں کافی مقبول ہوئے۔ اس لحاظ سے صنوبر کے سائے، مرد اور عورت، کونٹ الیاس کی موت اہمیت رکھتے ہیں۔ ان میں مرد اور عورت کے جذبات کوبڑی ہنر مندی سے اجاگر کیا گیا ہے۔ ان کے بعد ڈاکٹر رشید جہاں اس میدان میں نمایاں ہوئیں جنہوں نے اپنی توانا شخصیت کو افسانوں کے قالب میں ڈھال کراس قدر شہرت حاصل کی کہ سجاد ظہیر، احمد علی اور محمود ظفر کے ہمراہ انگارے (۱۹۳۲ء) کی زینت بن گئیں۔ دراصل ڈاکٹر رشید جہاں کے جرأت آمیز اور باغیانہ اسلوب نے معاشرے کے کھوکھلے پن کو جس سلیقے سے اجاگر کیا ہے وہ انھیں اپنے عہد کے دیگر افسانہ نگاروں میں ممتاز کرتا ہے۔ ان کے متعلق عصمت چغتائی نے ان حقائق کا انکشاف کیا ہے:(۶)

’’ایک طوفانی ہستی سے ملنے کا موقع ملا جس کے وجود نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ روشن آنکھیں اور مسکراتے شگفتہ چہرے والی رشیدہ آپا سے کون ایسا تھا کہ ایک دفعہ مل کے بھنا نہ جائے۔ ۱۹۳۸ء میں رشیدہ آپا انگاروں والی رشیدہ آپا بن چکی تھیں۔ اب ان کی سلگتی ہوئی باتیں پلے بھی پڑنے لگی تھیں اور پھر میرا وہ حسین ڈاکٹر ہیرو، شمعی انگلیاں ، نارنگی شگوفے اور قرمزی لبادے چھو ہو گئے۔ مٹی سے بنی رشیدہ آپا نے سنگ مرمر کے سارے بت منہدم کر دیے۔ ‘‘

گویا ڈاکٹر رشید جہاں اپنے دور کی بے باک افسانہ نگار تھیں۔ ان کے افسانے اس بات کے گواہ ہیں کہ انھوں نے عورت کی سماجی آزادی پر بے خوف ہو کر خامہ فرسائی کی ہے۔ ان کے افسانے: دلی کی سیر، پردے کے پیچھے، نئے عیب، مجرم کون، غریبوں کے بھگوان اور نئی مصیبتیں وغیرہ اس کی اچھی مثالیں ہیں۔

اس دور میں ترقی پسند تحریک کے زیر اثر جتنے افسانے منظر عام پر آئے وہ زندگی کی حقیقتوں سے لبریز تھے۔ ان میں تلخ سچائیاں تھیں۔ سماجی اور جنسی بے راہ روی کے خلاف بغاوت تھی۔ اس کا فوری اثر جن خواتین افسانہ نگاروں نے قبول کیا ان میں صالحہ عابد حسین، عصمت چغتائی، رضیہ سجاد ظہیر اور قرۃ العین حیدر کے نام اہم ہیں۔

عصمت چغتائی نے رشید جہاں کے اسلوب کا تاثر قبول کر کے ان کی روایت کو فروغ دیا۔ اپنے افسانوں میں جنس اور عورت کے مسائل کو جگہ دی اور ایک بے باک تلخ اور جرأت آمیز اسلوب کو رائج کیا۔ اس سچائی کو ان کے افسانے چھوئی موئی، میرا بچہ، ڈائن، بہو بیٹیاں ، چوتھی کا جوڑا، اف یہ بچے، ایک شوہر کی خاطر، سالی، سفر میں ، سونے کا انڈا، تل ، لال چیونٹے، پیشہ ور، دو ہاتھ، ننھی کی نانی، لحاف وغیرہ میں دیکھا جا سکتا ہے۔

عصمت نے اگرچہ ۱۹۳۶ء کے آس پاس لکھنا شروع کیا لیکن صحیح معنوں میں انھیں ۱۹۴۷ء کے بعد شہرت ملی۔ یہی حال صالحہ عابد حسین، رضیہ سجاد ظہیر، قرۃ العین حیدر، ممتاز شیریں اور جیلانی بانو کا بھی ہوا۔ آزادی سے قبل جو چند افسانے مشہور ہوئے ان میں آنسو جو بہہ نہیں سکے(اختر جہاں )، تنکے کا سہارا (صالحہ عابد حسین)، اداس شام (ممتاز شیریں )، رسیلا(مسز عبدالقادر)، وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے(جہاں بانو نقوی)، تھیٹر کے ٹکٹ(حجاب امتیاز علی)، نگاہیں (تسنیم سلیم چھتاری) اہم ہیں۔

آزادی کے ہنگامی حالات کے بعد فسادات اور ہجرت کے مسائل نے اردو افسانوں میں جگہ بنائی اس کی وجہ سے یہ فنکار کے فنی خلوص اور اس کے شعوری کمٹ منٹ کے ترجمان بن گئے۔ یوں فکر و خیال کے لحاظ سے اس میں وسعت و کشادگی آئی۔ اس دور میں صدیقہ بیگم، شکیلہ اختر، سرلا دیوی، آمنہ ابوالحسن، جمیلہ ہاشمی، ہاجرہ مسرور، خدیجہ مسرور، واجدہ تبسم افسانہ نگار کی حیثیت سے سامنے آئیں اور ادبی حلقوں میں انھیں شہرت ملی۔ آزادی کے بعد جن افسانوں کو مقبولیت ملی ان میں ہائے اللہ، اندھیرے اجالے، امت مرحوم(ہاجرہ مسرور)۔ ۔ ۔ جھکے جھکے، ادا ادا، ہینڈ پمپ، بیچاری، چل پی کے ملن کو اور مینوں لے چلے بابلا لے چلے(خدیجہ مستور)۔ ۔ ۔ ہاؤسنگ سوسائٹی، جلاوطن، فوٹوگرافر، روشنی کی رفتار، حسب و نسب، غازی، آئینہ فروش، شیشے کا گھر، آوارہ گرد، پت جھڑ کی آواز، فقیروں کی پہاڑی، نظارہ درمیاں ہے(قرۃ العین حیدر)۔ ۔ ۔ نیلی گھڑی، نیچ، معجزہ، راکھی والے پنڈت جی، لنگڑی ممانی، نگوڑی چلی آوے ہے(رضیہ سجاد ظہیر)۔ ۔ ۔ میگھ ملہار، دیپک راگ، آئینہ، رانی، کفارہ، متن، آندھی میں چراغ، انگڑائی(ممتاز شیریں )۔ ۔ ۔ روپ چند، بھنور، بہو بازار، راہی، گلدان کے پھول، سورج کی تلاش(صدیقہ بیگم)۔ ۔ ۔ کلنک، جوالا مکھی، دیا بجھ گیا (سرلا دیوی)۔ ۔ مجرم، اجنبی چہرے، تماشا، سونا آنگن، بہار کا آخری گلاب، بند دروازہ (جیلانی بانو)۔ ۔ ۔ نتھ اتروائی، چوتھی کا جوڑا، نتھ کا زخم (واجدہ تبسم)۔ ۔ ۔ سواری، ہزار پایہ، پرندہ، سایہ، پہچان، ایک بوند لہو کی (خالدہ حسین)۔ ۔ ۔ اردو کے افسانوی ادب میں اہمیت کے حامل ہیں۔ اسی طرح خواتین افسانہ نگاروں کے جو افسانوی مجموعے مشہور ہوئے ان میں کلیاں ، چوٹیں ، دھانی بانکپن، چھوئی موئی، ایک بات (عصمت چغتائی)۔ ۔ ۔ اللہ دے بندہ لے، درد گلاب(رضیہ سجاد ظہیر)۔ ۔ ۔ اپنی نگریا(ممتاز شیریں )۔ ۔ ۔ درپن، آنکھ مچولی، ڈائن، آگ اور پتھر، تنکے کا سہارا، لہو کے مول، آخری سلام(شکیلہ اختر)۔ ۔ ۔ روشنی کے مینار، پرایا گھر، نروان، یہ کون ہنستا ہے (جیلانی بانو)۔ ۔ ۔ ستاروں سے آگے، شیشے کے گھر(قرۃ العین حیدر)۔ ۔ ۔ کہانی (آمنہ ابو الحسن)۔ ۔ ۔ بازگشت، امربیل، کچھ اور نہیں (بانو قدسیہ)۔ ۔ ۔ پتھر کا شہزادہ، جو میرا وہ راجہ کا نہیں (صغریٰ مہدی)۔ ۔ ۔ پھول کھلنے دو، زخم دل اور مہک اور مہک ، شہر ممنوعہ، نتھ اترائی، آیا بسنت سکھی، نتھ کا بوجھ(واجدہ تبسم)۔ ۔ ۔ مٹی کا چراغ(سلمیٰ صدیقی)۔ ۔ ۔ ادھورے چہرے(شمیم صادقہ)۔ ۔ ۔ دھوپ دھوپ سایہ(مسرور جہاں )۔ ۔ پرائے چہرے، تاریک راتوں کے مسافر(ذکیہ مشہدی)۔ ۔ ۔ ایک ٹکڑا دھوپ کا (غزال ضیغم) نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔

ان خاتون افسانہ نگاروں کے افسانوں میں عورتوں کے مسائل، سماج میں ان کی حیثیت اور ان کی محرومیوں کو مرکزیت حاصل ہے۔ ان میں عورت اپنی مکمل شخصیت، مزاج اور تہذیب کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ انھوں نے سماج میں مسائل اور جدوجہد سے دو چار عورت کے ہر روپ کو پیش کیا ہے۔ ان کے علاوہ سماج کے دیگر مسائل مثلاً بھوک، فرقہ واریت، دقیانوسیت کا آسیب، بکھرتی ہوئی اخلاقی قدریں ، کمزور طبقہ کا استحصال اور سیاست کی عیاری و مکاری کو بھی ہنر مندی سے واضح کیا ہے۔ غرض کہ اردو کی خواتین افسانہ نگار اپنے گرد و پیش اور اپنے عہد کے حالات سے جڑی رہیں اور ہراس موضوع کو اپنی فکر کا محور بنایا جو سماج کی ترقی کے لیے ضروری تھے۔ اب افسانہ نگاری کے میدان میں اتنی خواتین آ چکی ہیں کہ روشنیوں کا ایک شہر آباد ہو گیا ہے۔

ڈراما

اردو ڈرامے کی تاریخ کا آغاز واجد علی شاہ کے ناٹک افسانۂ عشق سے ہوتا ہے جو محل کی چہار دیواری کے اندر کھیلا گیا۔ پھر سید آغا حسین امانت لکھنوی کی اندر سبھا نے اسے تقویت پہنچائی اور بیتاب، طالب، رونق اور احسن نے اسے پارسی تھیٹروں کے ذریعے بامِ عروج پر پہنچایا۔ آغا حشر کاشمیری نے اس کے حسن میں چار چاند لگائے اور ڈرامے کی دنیا میں کافی شہرت پائی۔ وہ ڈرامے لکھتے بھی تھے اور اسے اسٹیج بھی کرتے تھے۔ انھیں اردو کا شیکسپیئر کہا جاتا ہے۔ ان کے بعد ہی ادبی ڈراموں کے دور کا آغاز ہوتا ہے اور کئی ڈرامہ نگار منظرِ عام پر آتے ہیں جن میں مولوی عبدالماجد، پنڈت کیفی، امتیاز علی تاج، آرزو لکھنوی، ڈاکٹر عابد حسین کے نام اہمیت کے حامل ہیں۔

اس میدان میں مردوں کے دوش بدوش عورتوں نے بھی قدم رکھا اور اپنے کمالات دکھائے۔ ان خواتین ڈرامہ نگاروں میں سے کچھ نے انگریزی ڈراموں کے ترجمے کیے۔ کچھ نے بچوں کے لیے، کچھ نے لڑکیوں کی اسکول کے لیے اور کچھ نے اپنے شوق کی تکمیل کے لیے ڈرامے لکھے۔ لیکن کچھ ایسی بھی ہیں جنھوں نے ڈرامے کو ایک بے مثال فن سمجھ کر ڈرامے تحریر کیے اور ادب میں نمایاں اضافہ کیا۔ اس لحاظ سے قدسیہ زیدی، صالحہ عابد حسین، بانو قدسیہ، حجاب امتیاز علی، جیلانی بانو، عصمت چغتائی، آمنہ نازلی، ہاجرہ مسرور، رفیعہ منظور الامین، زاہدہ زیدی اور ساجدہ زیدی کے اسمائے گرامی قابل احترام ہیں۔

اردو ڈرامے کو فروغ دینے میں قدسیہ زیدی کا کردار اہم ہے۔ انھیں ا س سے اس قدر دلچسپی تھی کہ انھوں نے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ مل کر ہندوستانی تھیٹر کی بنیاد رکھی تھی جس کے زیر اہتمام کئی ڈرامے پیش کیے گئے۔ ان کے زیادہ تر ڈرامے مغربی ڈراموں کے ترجمے پر مشتمل ہیں۔ لیکن ان میں انھوں نے اپنی جانب سے جو اضافہ کیا ہے اور جو ماحول پیش کیا ہے اس سے یہ ان کے اصل ڈرامے معلوم ہوتے ہیں۔ انھوں نے سنسکرت کے شاہکار ڈرامے شکنتلا کو بھی اردو میں منتقل کیا۔ ان کے ڈراموں میں آذر کا خواب، چچا چھکن اور خالد کی خالہ کو شہرت ملی۔

صالحہ عابد حسین نے گرلز اسکول کی طالبات کے لیے زیادہ تر مختصر ڈرامے لکھے۔ ان کا پہلا مجموعہ نقشِ اول ۱۹۴۰ء میں شائع ہوا جس میں افسانوں کے ساتھ کچھ ڈرامے بھی ہیں۔ انھوں نے ۱۹۴۰ء میں سازِ ہستی اور ۱۹۴۶ء میں عفت نامی ڈرامہ لکھا۔ ان کے مختصر ڈراموں کا ایک مجموعہ ’’زندگی کے کھیل‘‘ ہے۔

 حجاب امتیاز علی اپنے ڈرامے چچا بھتیجیاں ، دعوت نامہ، پنجرہ اور وہ طریقہ تو بتا دو تمہیں چاہیں کیوں کر کی وجہ سے مشہور ہوئیں۔ ان کے زیادہ تر ڈرامے ریڈیو سے نشر ہوئے۔ ان کے ڈراموں میں ہماری زندگی کے جیتے جاگتے کردار متحرک ہیں۔

بانو قدسیہ پاکستان کی مشہور ڈرامہ نگار ہیں۔ انھوں نے ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اسٹیج کے لیے کئی ڈرامے لکھے۔ آدھی بات، منزل بہ منزل، اک ترے آنے سے پہلے، اہل کرم، بزدل، زمین کی بھوک، اہلِ علم، میری ڈائری، ریت کے جھاگ ان کے شہرت یافتہ ڈرامے ہیں۔

عصمت چغتائی کے ڈراموں میں ایک بات، نیلی رگیں ، سانپ، دھانی بانکپن اور انتخاب کو مقبولیت ملی۔ یہ ڈرامے صاف ستھری اور سادہ زبان میں ہیں۔ ان میں ہماری زندگی کے کردار متحرک ہیں۔

جیلانی بانو کا پہلا ڈرامہ دو بچے ۱۹۵۸ء میں ریڈیو سے نشر ہوا۔ ا س کے بعد ان کے کئی ڈرامے نشر ہوئے جن کو شہرت ملی۔ بڑے لوگ، کمودنی، اکیلا، آٹو گراف بک، دل کی آواز، دشتِ وفا، پیاسی چڑیا، آدم سے آدمیت تک، نفرت، کھیل وغیرہ ان کے مشہور ڈرامے ہیں۔ ان میں پلاٹ پران کی پوری گرفت نظر آتی ہے۔ مکالمے بھی عمدہ اور چست ہیں۔ انھیں کرداروں کے مابین کشمکش پیدا کرنے میں مہارت حاصل ہے۔

آمنہ نازلی کا اندازِ بیان دوسروں سے مختلف ہے۔ وہ ظریفانہ لہجے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتی ہیں۔ ان کے تیرہ مختصر ڈراموں کا ایک مجموعہ دوشالہ کے نام سے ۱۹۴۴ء میں چھپ چکا ہے۔ روشن خیال، دلہن، انا، شوہر کی شادی، استانی جی، دوزخ وغیرہ ان کے مشہور ڈرامے ہیں۔ ہاجرہ مسرور کے ڈراموں کا مجموعہ:وہ لوگ ہے۔ اس میں چھ ڈرامے شامل ہیں۔ نوری خالہ اور فدو میاں ان کے مشہور ڈرامے ہیں۔ رفیعہ منظور الامین کے متعدد ڈرامے حیدرآباد ریڈیو سے نشر ہو کر شہرت حاصل کر چکے ہیں۔ ساجدہ زیدی کے ڈراموں کے دو مجموعے:چاروں موسم اور سرحد کوئی نہیں منظرِ عام پر آ چکے ہیں۔ ان میں چاروں موسم تین شاہکار مغربی ڈراموں کے اردو ترجمے پر مشتمل ہے۔ زاہدہ زیدی موجودہ دور کی سب سے مشہور ڈرامہ نگار ہیں۔ ان کے مشہور ڈرامائی مجموعے: دوسرا کمرہ اور صحرائے اعظم ہیں۔ وہ ایک منفرد اور کامیاب ڈرامہ نگار ہیں۔ ان کے ڈرامے جدید رجحانات کے آئینہ دار ہیں۔

ان کے علاوہ اور بھی کئی خاتون ڈرامہ نگاروں نے ڈرامے لکھے جن میں ان ڈراموں کو مقبولیت ملی۔ مال خاتون(زہرہ بیگم)۔ ۔ ۔ اشرفی اور پرچمِ اتحاد(سیدہ اختر)۔ ۔ ۔ سوتیلا بیٹا اور یہ بمبئی ہے ( حمیدہ برنی)۔ ۔ ۔ کھڑکی اور گھر میں اور گھرکے باہر(خدیجہ مستور)۔ ۔ ۔ ناری، جہاں کے نخچیر، التفات، فلک پیما، کچھ جھوٹ کچھ سچ اور ضدی عورت (رفعت جمال)۔ ۔ ۔ دریچہ (نقویہ)۔ ۔ ۔ میں ہوں اپنی شکست کی آواز(فرخندہ جمال)۔ ۔ ۔ فریب(صفیہ بیگم)۔ ۔ ۔ لیلاوتی، لکیر کے فقیر، سرخ سویرا اور بڑی بی نے سفر کیا(صدیقہ بیگم)۔ ۔ ۔ رائی کا پہاڑ(شفیق بانو)۔ ۔ ۔ بھوت (راحت آرا بیگم)۔ ۔ ۔ پھول کی پتی اور ہیرے کا ہار(بیگم آغا بابر)۔ ۔ ۔ بیکسی (بلقیس جمال)۔ ۔ ۔ پھول والی (پروین جہاں )۔ ۔ ۔ پنگھٹ (عفت الماس)۔ ۔ ۔ وہ ایک عورت تھی(صفیہ نقوی)۔ ۔ ۔ سہارا اور پچھتاوا(عفت موہانی)۔ ۔ ۔ خونِ دل (اختر بانو)۔ ۔ ۔ دیدہ و دل (سرور فاطمہ)۔

ان ڈراموں میں بہت سے ڈرامے یک بابی ہیں۔ ان خواتین ڈرامہ نگاروں کے ڈرامے بناوٹ و تصنع سے پاک ہیں۔ ان کی زبان دلچسپ اور مکالمے چست ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین نے بھی ڈرامہ نگاری کے میدان میں نمایاں حصہ لیا ہے اور ڈرامے کے دامن کو وسیع کرنے اور اسے ترقی دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

تنقید و تحقیق

اردو میں تنقید کو ایک نئی حیثیت ۱۸۵۷ء کے بعد اس وقت ملی جب اس ملک کے دانشور انگریزی علم و ادب سے آشنا ہوئے اور جدید تعلیم کو فروغ ملا۔ خواجہ الطاف حسین حالی کی دو کتابیں یادگار غالب اور مقدمہ شعر و شاعری اس لحاظ سے نقشِ اول کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ آئندہ نسلوں کے لیے تنقید کا نیا دروازہ کھولتی ہیں۔ ان کے بعد مولانا شبلی نعمانی کی شعر العجم اور موازنۂ انیس دبیر تنقیدی لحاظ سے مقبول ہوئیں۔ پھرکئی نقاد سامنے آئے جن میں امداد امام اثر، عبدالرحمن بجنوری، محمود خان شیرانی، مولانا سلیمان ندوی، مولانا عبد السلام ندوی، سید مسعود حسن رضوی، جعفر علی خان اثر، فراق گورکھپوری، سجاد ظہیر، مجنوں گورکھپوری، نیاز فتح پوری، اعجاز حسین، آل احمد سرور اور احتشام حسین کے اسمائے گرامی قابلِ احترام ہیں۔

اس میدان میں خواتین نے بہت کم توجہ دی ہے۔ لیکن جنھوں نے توجہ دی ہے ان کی کوششوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس اعتبار سے ممتاز شیریں ، صفیہ اختر اور ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ کو فراموش کرنا ممکن نہیں ہے۔ ان کو آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

ممتاز شیریں اپنی تنقیدوں میں بڑی دیدہ وری اور انہماک کے ساتھ بحث کرتی ہیں اور مثالوں کے ذریعے اپنے بیان کو تقویت پہنچاتی ہیں۔ انھوں نے بعض مروجہ ادبی اصولوں پر سخت تنقید کی ہے جو ایک خاص دبستانِ فکر سے ان کی ذہنی وابستگی کو ظاہر کرتی ہے۔ وہ ادب کوم اور ائے سخن تصور کرتی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ادب کو ہر طرح کی پابندیوں سے آزاد ہونا چاہئے۔ تکنیک کا موضوع اور منٹو کی فنی تکمیل ان کے شاہکار تنقیدی مضامین ہیں۔ ان کے تنقیدی مضامین کا ایک مجموعہ معیار کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے۔

صفیہ اختر بھی اپنے دور کی ایک بہترین تنقید نگار ہیں۔ ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ اندازِ نظر ہے۔ اس میں یہ تین تنقیدی مضامین ہیں :شمن کا نفسیاتی تجزیہ، صبح ہوتی ہے، جوش کی انقلابی شاعری۔ ان مضامین میں وہ فنِ تنقید کے سنجیدہ تقاضوں سے عہدہ بر آ ہوئی ہیں۔ ان کے یہاں اصابتِ رائے، عمق اور دیدہ وری نظر آتی ہے۔ ان مضامین سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ادب میں افادیت کے تصور کو بہت زیادہ اہمیت کا حامل سمجھتی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ادب، سیاست اور سماج سے علاحدہ ہو کر بے مقصد بن جاتا ہے۔

ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ فن اور فنکار ہے۔ اس میں جو مضامین شامل ہیں وہ ان کی صلاحیت، علمیت اور تنقید کے فن سے ان کی گہری واقفیت کے غماز ہیں۔ انھوں نے مغربی ادب کے تناظر میں اردو ادب کے فنکاروں کو پرکھا ہے۔ وہ ان کی تخلیقات کا تجزیہ مقامی اور جغرافیائی خصوصیات، ادبی روایات اور قومی مزاج کے پسِ منظر میں کرتی ہیں۔ ان کے یہاں ترقی پسند تحریک کے اثرات کا غلبہ نمایاں نظر آتا ہے۔ ان کے بلند پایہ تنقیدی مضامین یہ ہیں : اردو ادب میں عالمی تحریکات، جدید اردو شاعری، ادب میں نظریۂ کردار، اردو شاعری اور فلسفۂ زیست، ادب اور جبریت، نظر اپنی اپنی۔ ۔ ۔ میر ؔ وغیرہ۔

ان خواتین تنقید نگاروں کے علاوہ صالحہ عابد حسین، زرینہ ثانی، رضیہ اکبر، صغیرہ نسیم، عطیہ نشاط، پروین عالم، ناز صدیقی، اصغر خانم، حمیرہ جلیلی، عزیز فاطمہ، آمنہ صدیقی، ڈاکٹر ام ہانی اشرف، شفیق النسا قریشی اور ثریا حسین نے اس میدان میں اپنی صلاحیت و فکر کا جو مظاہرہ کیا ہے وہ لائقِ تحسین ہے۔ ان میں سے بعض کی کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں جن میں خواتینِ کربلا کلام انیس کے آئینے میں (صالحہ عابد حسین)، اردو شاعری کی ہندوستانی روح(زرینہ ثانی)، اندازِ بیان (ناز صدیقی)، یونگ کا نظریۂ ٹائپ (اصغر خانم)، اردو ناولوں میں سوشلزم (ڈاکٹر زرینہ عقیل)، ادب پارے(حمیرہ جلیلی)، اردو افسانہ (عزیز فاطمہ)، غلام ربانی تاباں (شفیق النسا قریشی)، کلاسیکیت و رومانیت اور دوسرے مضامین (ڈاکٹر ام ہانی اشرف) اہم ہیں۔

تنقید کی طرح تحقیق کے میدان میں بھی خواتین کے کارنامے اہمیت کے حامل ہیں۔ تحقیق اگرچہ بہت مشکل کام ہے اور اس کے لیے کافی محنت و مشقت کرنی پڑتی ہے لیکن جب خواتین میں اعلا تعلیم کے حصول کا جذبہ پیدا ہوا تو انھوں نے اپنی پی ایچ ڈی کی سند کے لیے اس وادی میں بھی قدم رکھا اور انتہائی وقیع اور جامع تحقیقی مقالات سپرد قلم کیے۔ کچھ خواتین نے تو اپنے ذاتی ذوق و شوق سے مجبور ہو کر تحقیقی کتابیں لکھیں۔ ان میں سے بعض تحقیقی کتابیں شائع ہو کر منظرِ عام پر آ چکی ہیں اور قبولیت عامہ کی سند حاصل کر چکی ہیں۔ طوالت کے خوف سے یہاں ان کتابوں کی فہرست پر اکتفا کیا جاتا ہے۔

یادگارِ حالی(صالحہ عابد حسین)، بمبئی میں اردو(ڈاکٹر میمونہ دلوی)، اکبر کی شاعری کا تنقیدی مطالعہ (صغرا مہدی)، سیماب کی نظمیہ شاعری(ڈاکٹر زرینہ ثانی)، آزادی کی چھاؤں میں (بیگم انیس قدوائی)، پریم چند کے ناولوں میں نسوانی کردار(ڈاکٹر شمیم نکہت)، اردو ادب میں خاکہ نگاری (ڈاکٹر صابرہ سعید)، مولانا محمد علی جوہر(ڈاکٹر حمیدہ ریاض)، اردو گیت (ڈاکٹر قیصر جہاں )، جان نثار اختر۔ حیات و فن (ڈاکٹر کشور سلطان)، ساحر۔ شخص اور شاعر (ڈاکٹر ناز صدیقی)، طالب آملی(ڈاکٹر آصفہ زمانی)، اختر انصاری کی شاعری (فاطمہ پروین)، آغا حشر کاشمیری اور ڈراما(ڈاکٹر انجمن آرا)، ایلچپور کے چند قدیم شعرا(ڈاکٹر وسیم دردانہ)، پروفیسر آل احمد سرور (عابد النساء)، جمالیات اور ادب(ثریا حسین)، مثنوی سحر البیان کا تنقیدی مطالعہ (رضیہ سلطان علوی)، مہاراجہ چندو لال شاداں (ڈاکٹر ثمینہ شوکت)، فورٹ ولیم کالج کی ادبی خدمات (ڈاکٹر عبیدہ بیگم)، اردو میں فن سوانح نگاری کا ارتقا(ڈاکٹر ممتاز فاخرہ)، نواب صدیق علی خان (ڈاکٹر رضیہ حامد)۔

ان حقائق کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اردو ادب کو فروغ دینے میں خواتین کا بھی نمایاں حصہ ہے۔

حواشی

            تذکرۃ الخواتین از مولانا عبد الباری آسی، مطبوعہ منشی نول کشور پریس، لکھنو

            شاعراتِ بنگالہ از الف انصاری، مطبوعہ شب نور پبلی کیشنز، کولکتا(۲۰۰۱ء)

            اردو زبان اور عورت از وحید نسیم، مطبوعہ غضنفر اکادیمی، کراچی(۱۹۷۹ء)

            اردو ادب کی ترقی میں خواتین کا حصہ از ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ، مطبوعہ مجلس تحقیقاتِ اردو،

            حیدرآباد(۱۹۶۳ء)

            تذکرہ شاعراتِ اردو از محمد جمیل احمد، مطبوعہ قومی کتب خانہ، بریلی(۱۹۴۴ء)

            محفلِ خواتین از فاروق محشر بدایونی، مطبوعہ اردو پریس، بدایوں(۱۹۴۸ء)

            ماہنامہ آج کل، نئی دہلی(خواتین نمبر)اگست، ستمبر۱۹۷۵ء، ص: ۱۵

            محولۂ فوق، ص: ۹

            محولۂ فوق، ص: ۱۱

            سہ ماہی نخلستان، جئے پور(خواتین نمبر)جنوری، فروری، مارچ۲۰۰۰ء، ص: ۳۲

            سہ ماہی نخلستان، جئے پور(خواتین نمبر)، ص: ۱۱

نوٹ:

اس باب کی تیاری میں مندرجہ بالا کتابوں اور رسالوں کے علاوہ ان کتابوں سے بھی مدد لی گئی ہے۔

۱۔          اردو میں ترقی پسندادبی تحریک ازخلیل الرحمن اعظمی، مطبوعہ ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، ۱۹۷۹ء

۲۔         تاریخ اردو ادب ازرام بابوسکسینہ، مطبوعہ منشی تیج کمارلکھنو، ۱۹۶۹ء

۳۔         ترقی پسنداردوناول از انورپاشا، مطبوعہ پیش روپبلی کیشنز، دہلی، ۱۹۹۰ء

۴۔         کتاب شناسی ازظ انصاری، مطبوعہ یونیورسل پریس، بمبئی، ۱۹۸۱ء

۵۔         وضاحتی کتابیات(جلداول) ازگوپی چندنارنگ ومظفرحنفی، مطبوعہ ترقی اردوبیورونئی دہلی، ۱۹۸۰ء

۶۔         وضاحتی کتابیات(جلددوم)۱۹۸۳ء

۷۔         وضاحتی کتابیات(جلدسوم)۱۹۹۶ء

۸۔         جائزے مرتبہ مظفرحنفی، مطبوعہ مکتبہ جامعہ نئی دہلی، ۱۹۸۵ء

۹۔         دستاویزمطبوعہ اترپردیش اردواکادیمی، لکھنو، ۱۹۸۳ء

۱۰۔        اصنافِ ادب کا ارتقا ازسیدصفی مرتضیٰ مطبوعہ نسیم بکڈپو لکھنو، ۱۹۸۶ء

۱۱۔         بیسویں صدی میں خواتین کا اردو ادب ازترنم ریاض، مطبوعہ ۲۰۰۴ء

 

باب چہارم

اردو ادب میں مہاراشٹر کی خواتین کا حصہ۔ ۔ ۔ ۱۹۶۰ء سے پہلے

اب تک جو کچھ لکھا گیا ہے اس سے یہ سچائی صاف ظاہر ہو جاتی ہے کہ اگرچہ ریاست مہاراشٹر کی تعمیر و تشکیل ۱۹۶۰ء میں ہوئی ہے لیکن اس میں جو علاقے شامل ہیں ان میں ہر دور میں اردو ادب کی روایت ملتی ہے۔ جہاں تک اردو ادب میں مہاراشٹر کی خواتین کے کردار کا تعلق ہے تو اس ریاست کے مختلف علاقوں کی ادبی تاریخ کی روشنی میں یہ پتہ چلتا ہے کہ ریاست مہاراشٹر کی تشکیل سے پہلے کچھ خواتین اہلِ قلم مختلف شہروں میں موجود تھیں جو خاموشی سے شعرو ادب کی خدمت کر رہی تھیں۔ یہاں ان کا مختصر تذکرہ کیا جاتا ہے۔ (۱)

٭        امیر النساء بیگم(بمبئی) نے سلیمانی بوہروں کی منظوم دعاؤں کا جو آمین کہلاتی ہیں ایک مجموعہ مرتب کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے نادرِ بیان کے عنوان سے ایک ناول بھی تصنیف کیا۔

٭        ہر ہائی نیس نازلی بیگم(بمبئی) نے ایک با تصویر سفرنامہ مرتب کیا۔

٭        زہرہ بیگم فیضی(بمبئی) نے مآلِ خاتون کے عنوان سے ایک ڈرامہ لکھا۔ ان کے چند مضامین تہذیبِ نسواں اور خاتون میں شائع ہوئے۔ ان کے مضامین کا ایک مجموعہ ۱۹۱۲ء میں شائع ہو کر منظر عام پر آیا۔

٭        عطیہ بیگم فیضی(بمبئی) کو اردو زبان و ادب سے بے انتہا محبت تھی۔ شبلی و اقبال سے ان کے گہرے مراسم تھے۔

٭        بلقیس جہاں بیگم نے یکم جولائی ۱۸۸۵ء کو عمر کھاڑی بمبئی سے چراغِ کعبہ کے نام سے ۲۴ صفحات پر مشتمل ایک ماہانہ گلدستہ جاری کیا۔ اس میں شعرا کا نعتیہ کلام شائع ہوتا تھا۔ یہ فاطمہ بیگم کی ادارت میں نکلتا تھا۔

فاطمہ

بمبئی کی میمن برادری کی ایک خاتون فاطمہ بنت محمد یعقوب کو شاعری سے مزاولت تھی۔ ان کی ایک نظم عریضۂ نیاز مخطوطے کی صورت میں مدرسہ محمدیہ، بمبئی کے کتب خانے میں محفوظ ہے۔ انھوں نے یہ نظم محمد ابراہیم مقبہ کی خدمت میں پیش کی تھی۔

حجاب

حجاب ایک پردہ نشین خاتون تھیں۔ کشمیر کی رہنے والی تھیں۔ وہ ۱۲۹۳ھ(۱۸۷۶ء) میں اپنے شوہر کے ساتھ بمبئی آئیں اور وہیں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شعر کہتی تھیں۔ ان کا یہ شعر تذکروں میں ملتا ہے:(۲)

کیا جانے بھلا لذتِ دیدار کو اپنی

جب تک کہ کوئی بادۂ خونباز نہ ہووے

نزاکت

بمبئی کی ایک شاہد بازاری تھی جس کا تخلص نزاکت تھا۔ تذکرۃ الخواتین میں اس کے یہ اشعار ملتے ہیں :(۳)

جسے دیکھئے سنگ دل بے وفا ہے

نہیں بت کوئی دل لگانے کے قابل

اسی سے ہے درد و الم عاشقوں کو

ہے یہ نقشِ الفت مٹانے کے قابل

کہیں کیا کیا ضعف نے حال اپنا

نہیں اب رہے لب ہلانے کے قابل

کیا عشق نے ہم کو بدنام سب میں

کہاں اب رہے منہ دکھانے کا قابل

شوق

تذکرۃ الخواتین میں مرتضیٰ پور(ضلع امراؤتی) کی ایک شاعرہ کریم بخش شوق کا بھی ذکر ملتا ہے۔ اس کا پیشہ کسب عام تھا۔ وہ بسم اللہ خان بسمل کی شاگرد تھی۔ ایک شعر ملتا ہے جو نقل کیا جاتا ہے۔ (۴)

فرقتِ یادِ صنم میں اس قدر روتا رہا

اشک چشمِ تر سے بہہ کر سیلِ دریا ہو گیا

حمیدہ

حمیدہ خاتون حمیدہ کا تعلق بمبئی کی کوکنی برادری سے تھا۔ وہ شیخ محمد تارکر کی رفیقۂ حیات تھیں۔ انھیں شاعری سے دلچسپی تھی۔ انھوں نے اپنی ایک مثنوی حمیدہ مجلس (نصیحت النساء و مجالس الضیا) میں ان سماجی و اخلاقی برائیوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی جو بمبئی کے مسلمانوں میں عموماً اور کوکنیوں میں خصوصاً فروغ پا رہی تھیں۔ ان کی دیگر مثنویوں میں توحید نامہ اور سخاوت نامہ ہے۔ یہاں توحید نامہ کے چند اشعار نقل کیے جاتے ہیں :(۵)

پھر آدم کا پتلا بنا خاک کا

مقابل فرشتوں کے پھر لا رکھا

ہوا روح کو حُکمِ پروردگار

کہ قالب میں داخل ہو اے گلعذار

گئی روح قالب میں جس دم اتر

مخاطب وہ پتلا ہوا جلوہ گر

کیا حمد آدم خدا کی وہیں

رکھا سر کو سجدے میں آدم وہیں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ہوئے جب ہیں حوا پہ آدم فدا

شروع یاں سے دنیا ہوئی برملا

ہوا نامہ توحید یاں پر ختم

سخاوت کی ظاہر کروں میں رقم

پلا ساقیا آب آتش بتاس

رہیں جس کے پینے سے ثابت حواس

محبت کی مے جس میں آمیز ہو

کہ پیتے ہی میری زباں تیز ہو

چلے تیز رفتار میرا قلم

کروں دوسرا ایک نامہ رقم

ناز

ان کا نام بی سکینہ تھا۔ جلگاؤں کی رہنے والی تھی۔ ۱۹۰۴ء میں انتقال ہوا۔ اس کا ذکر قاضی مشتاق احمد نے اپنی کتاب خاندیش تاریخی تہذیبی ادبی مطالعہ ، ( مطبوعہ ۲۰۰۶ء)میں صفحہ نمبر ۱۱۷پر کیا ہے۔ نمونہ کلام حسب ذیل ہے:

وہ سلطنت کو جہاں کی مٹائے بیٹھے ہیں

تمہارے در پہ جو دھونی رمائے بیٹھے ہیں

سنا ہے آج وہ پردا اٹھائے بیٹھے ہیں

نکھر کے آج لب بام آئے بیٹھے ہیں

الٰہی شوقِ شہادت کا باغ ہو سرسبز

وہ آبِ زہر سے خنجر بجھائے بیٹھے ہیں

اٹھے تو درد اٹھے ہم تو اٹھ نہیں سکتے

وہ میرے دامنِ دل کو دبائے بیٹھے ہیں

چلو تو حضرت واعظ دکھا دوں قدرت حق

نقاب رُخ سے وہ اپنا اٹھائے بیٹھے ہیں

بغدادی بیگم

بغدادی بیگم علاقہ برارکے ایک روشن خیال اور تعلیم نسواں کے حامی بزرگ قاضی سیدقیام الدین کی صاحبزادی ہیں۔ وہ ۱۹۰۴ء میں ایلچپور میں پیدا ہوئیں۔ عربی وفارسی کی ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ۱۹۳۵ء اور ۱۹۳۶ء میں ادیب فاضل اور منشی فاضل کا امتحان پاس کیا۔ وہ گورنمنٹ کرلس ہائی اسکول امراؤتی میں معلمہ تھی۔ ان کی طبیعت بچپن ہی سے شعرگوئی کی طرف مائل تھیں۔ پندرہ برس کی عمرمیں شعرکہناشروع کیا۔ کلام پروالد سے اصلاح لی۔ عمرکے ساتھ ساتھ اس میں پختگی آتی چلی گئی۔ تقسیم وطن کے بعد انھوں نے اپنے بیٹے سیدمزمل حسین کے ساتھ کراچی پاکستان میں سکونت اختیارکی۔ وہاں بھی درس وتدریس سے وابستہ رہیں۔ وہیں ۱۹۹۹ء میں ان کا انتقال ہوا۔ ان کا کلام بلندیِ تخیل سلاستِ زبان اور جذب وتاثیر میں اپنی مثال آپ ہے۔ شاعری کا ایک مجموعہ بزمِ شبستان شائع ہو چکا ہے۔ نمونے کے طور پر ان کی نظم مت پوچھ کے یہ بندیکھئے:(۶)

وہ محبت جو رہے دل سے بھی اکثر مستور

وہ محبت جو نہ ہو زادۂ انظار شعور

جو نہ زنہار ہو پابندِ مزاجِ دستور

سامنے جس کے ہو فطرت کا تقاضہ مجبور

ضبط ہی ضبط میں جو نذرِ جہاں ہو جائے

اس محبت کی شرر بار نزاکت مت پوچھ

وہ نظر جس میں ہو بے چین گناہوں کا ہجوم

وہ نظر جس میں چھپے ہوں کئی دل نامعلوم

جس کی ہر گردشِ بے باک بظاہر معصوم

رہزنِ ہوش ہو غارتِ گر آداب و رسوم

جس میں خود داریِ تقدس فنا ہو جائے

ایسی پُر کیف نگاہوں کی ضلالت مت پوچھ

وہ گلِ تازہ جسے روح کی نزہت کہیے

رنگ و بوئے چمنِ خلد کی دولت کہیے

نور و نگہت کے جہانوں کی حلاوت کہیے

مرگِ بلبل کے فسانوں کی شہادت کہیے

چھیڑ سے بادِ سحر کے جو فنا ہو جائے

اس گل تازہ کی پامالیِ نخوت مت پوچھ

غزلوں کے یہ تین شعر بھی ملاحظہ کیجئے:

کبھی رسم وفا افزوں کبھی کم ہوتی جاتی ہے

کبھی قلزم، کبھی قلزم سے شبنم ہوتی جاتی ہے

ٹھکانہ ہے کچھ اس شورش طلب دل کے فسانوں کا

حیاتِ آرزو تمہید ماتم ہوتی جاتی ہے

ضبط الفت میں سب گوارا ہے

تجھ سے تیرا ستم پیارا ہے

خورشید آرا بیگم

بغدادی بیگم کی چھوٹی بہن ہیں۔ ۱۹۰۷ء میں امراؤتی میں پیدا ہوئیں۔ ناگپور کے مشہور و معروف رہنما نواب صدیق علی خان سے شادی ہوئی تو ناگپور میں مستقل سکونت اختیار کی۔ منشی فاضل، ادیب کامل اور بی اے آنرز تھیں۔ سنٹرل کالج فار ویمنس ناگپور میں ۱۹۳۵ء سے ۱۹۴۷ء تک اردو، فارسی کی لکچرر رہیں۔ مڈل گرلز اسکول امراؤتی اور انجمن گرلز ہائی اسکول ناگپور انہی کی مساعیِ جمیلہ کے نتائج ہیں۔ تقسیم وطن کے بعد انھوں نے اپنے شوہر کے ساتھ کراچی پاکستان میں سکونت اختیار کی۔ گلِ رعنا نصرت کمیٹی سینٹر کراچی کی بانی و صدر، خورشید گرلز کالج کراچی کی بانی اور انجمن اردو خواتین کراچی کی نائب صدر تھیں۔ ان کا انتقال ۶ جون ۱۹۸۳ء کو کراچی میں ہوا۔

انھوں نے کمسنی میں شعر کہنا شروع کیا۔ نظموں کی شاعرہ تھیں۔ ان کا کلام عصمت دہلی میں شائع ہوتا تھا۔ ان کے کلام کا پہلا مجموعہ شعاعِ خورشید ۱۹۶۷ء میں مشہور آفسیٹ پریس، کراچی سے شائع ہوا۔ اس کے بعد آخری کرنیں اور جگر لخت لخت منصۂ شہود پر آیا۔ ان کے مضامین کا ایک مجموعہ موجیں کے عنوان سے چھپ چکا ہے۔ ان کی شاعری فارسی تراکیب، استعارات و تشبیہات سے مزین ہے۔ نمونۂ کلام کے طور پر ان کی نظم مقامِ دوست دیکھئے:(۷)

فضائے نیلگوں میں آسماں کی

تبسم پاشیوں میں کہکشاں کی

تموج میں شفق کی سرخیوں کے

ترانوں میں ہوا کی شوخیوں کے

افق کے پار چھپتی روشنی میں

زمیں پر رقص پیرا چاندنی میں

تخیل آفریں رنگِ چمن میں

طلائی شمس کی زریں کرن میں

تڑپتی بجلیوں کے سوزِ غم میں

بھٹکتے بادلوں کے سرد غم میں

نوائے ساز کے جوشِ جواں میں

جوانی کی امنگوں کے جہاں میں

کسی بیداد کس کے عکسِ خوں میں

کسی معصوم کے دردِ دروں میں

کسی مایوس کی مجبوریوں میں

کسی ناکام کی مہجوریوں میں

مقامِ دوست اے خورشید پایا

شفیقہ فرحت

شفیقہ فرحت طنزومزاح کی دنیاکا ایک جاناپہچانا اور اہم نام ہے۔ انھوں نے اس کوبطورِ صنفِ سخن اپنایا اور اس کے ساتھ پوراپورا انصاف کیا۔ وہ اپنے طنزکی تلوار سے سماج کی ایسی پرتیں اڑاتیں ہیں کہ داد نہیں دی جا سکتی۔ انھیں اختصار اور وقار کے ساتھ اپنی بات کوپیش کرنے کا اچھاسلیقہ ہے۔ ان کے طنزیہ اور مزاحیہ مضامین کے چارمجموعے:لوآج ہم بھی(۱۹۸۱ء)، رانگ نمبر (۱۹۸۶ء)، گول مال (۱۹۸۸ء) اور ٹیڑھاقلم(۲۰۰۳ء) شائع ہو چکے ہیں۔ بچوں کے لیے ایک کتاب چوں چوں بیگم چھپ چکی ہے۔

لیکن یہ بات بہت کم لوگوں کومعلوم ہے کہ ناگپور ان کا وطنِ مالوف ہے۔ وہ یہیں ۲۶اگست ۱۹۳۱ء کو پیدا ہوئیں اور یہیں سے ان کے ادبی سفرکا آغاز بھی ہوا۔ انھوں نے ناگپوریونیورسٹی سے ۱۹۵۴ء میں ڈپلوما ان جرنلزم، ۱۹۵۷ء میں اردوسے ایم اے اور ۱۹۶۲ء میں فارسی سے ایم اے کیا۔ بعدکو بھوپال سے اردو اور ہندی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔ انھیں فکرِ ملازمت ۱۹۵۶ء کے آس پاس بھوپال کھینچ کرلے گئی۔ وہ ۱۹۵۷ء میں ایم ایل بی کالج بھوپال میں اردو کی لکچرر ہوئیں یہاں کچھ عرصے کام کرنے کے بعد حمیدیہ کالج بھوپال کے شعبۂ اردو سے منسلک ہوئیں اور صدرشعبہ کے منصب کو پہنچ کر ۱۹۹۱ء میں ملازمت سے سبکدوش ہوئیں۔ اگر ناگپورمیں رہتیں توبقول یوسف ناظم آج ہم بھی کہتے کہ دیکھو یہ ہیں مہاراشٹر کی واحد، اکیلی اور اکلوتی مزاح نگار ادیبہ۔

شفیقہ فرحت کا خاندان ناگپورمیں برسوں پہلے آبادہوا۔ یہیں ان کی تعلیم و تربیت ہوئی۔ جب ادبی جذبہ بیدارہواتوماہنامہ خیال کامٹی کے ایڈیٹر فیض انصاری کے ساتھ مل کر جنوری ۱۹۵۳ء میں بچوں کا ایک علمی، اخلاقی اور معلوماتی ماہنامہ چاندجاری کیا۔ اس میں بچوں میں ادبی ذوق پیدا کرنے کی غرض سے انھیں کے معیار کے مطابق مضامین اور نظمیں شائع ہوتی تھیں۔ یہ پرچہ جون ۱۹۵۴ء تک جاری رہا۔ اس کے بعدانھوں نے اگست ۱۹۵۴ء میں ایک نیاماہنامہ اپنی ذاتی کوششوں سے کرنیں جاری کیا۔ اس میں افسانے، دلچسپ مضامین اور منظومات شائع ہوتی تھیں۔ ناگپورمیں شفیقہ فرحت کی ادبی سرگرمیاں جاری تھیں کہ وہ بسلسلۂ ملازمت بھوپال منتقل ہوگئیں اور وہیں مستقل سکونت اختیارکر لی۔ ان دونوں پرچوں میں ان کی ابتدائی تخلیقات ملتی ہیں :(۸)

فہمیدہ پروین

ناگپور میں تعلیم نسواں کو عام کرنے کا سہرا فہمیدہ پروین کے سر ہے۔ ان کا تعلق ایک جاگیردار خاندان سے تھا۔ ان کے پر دادا گل محمد انیسویں صدی کے وسط میں ملتان سے ناگپور آئے تھے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کر لی تھی۔ اچھے شہسوار تھے اس لیے راجہ رگھو جی بھوسلہ ثالث کی فوج میں انھیں ملازمت مل گئی۔ بعد کو ترقی کر کے صوبیدار کے منصب پر فائز ہوئے۔ انھوں نے ۱۳۱۰ھ میں رحلت فرمائی۔ (۹)

گل محمد کے تین بیٹے تھے: عبدالصمد، عبد الجلیل اور عبدالعزیز۔ ان میں عبدالصمد، فہمیدہ پروین کے دادا تھے۔ وہ بھی ملازم پیشہ تھے۔ انھیں جاگیرداری ورثے میں ملی تھی۔ ان کے بڑے بیٹے عبدالرشید، فہمیدہ پروین کے والد تھے جو اپنی پوری زندگی خاندانی جاگیر کی نگہداشت کرتے رہے۔ ان کی وفات ۲۳ فروری ۱۹۷۷ء کو ہوئی۔

فہمیدہ پروین اپنی ننہال کے گھر ملتائی(یوپی) میں ۱۹۲۵ء میں پیدا ہوئیں۔ ان کی تعلیم و تربیت گھر ہی ہوئی۔ جب تعلیم و ادب سے دلچسپی بڑھی تو خود ہی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا اور مضامین لکھنے لگیں۔ عورتوں کے مسائل پران کے بعض مضامین مقتدر پرچوں میں چھپ چکے ہیں۔ ان کے دل میں قومی و سماجی خدمت کرنے خصوصاً بچیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا بے انتہا جذبہ تھا۔ اسی جذبے کے تحت انھوں نے گانجہ کھیت ناگپور میں ۱۹۵۱ء میں شمس گرلس اسکول کی بنیاد ڈالی جو آج ترقی کر کے جونیئر کالج بن چکا ہے۔ یہ ان کا مثالی کارنامہ ہے۔ اس وقت اس اسکول میں تقریباً ایک ہزار طالبات زیر تعلیم ہیں۔ ان کا انتقال ۳جون ۱۹۶۸ء کو ہوا۔ مسلم قبرستان مومن پورہ میں آخری آرام گاہ ہے۔

عائشہ حکیم

انھیں مالیگاؤں کی خواتین میں نمایاں مقام حاصل تھا۔ وہ شہر کی پہلی خاتون گریجویٹ، نثرنگار اور ایم ایل اے تھیں۔ ان کا تعلق ایک حکیم خاندان سے تھا۔ ان کے پردادا حکیم محمد اسمٰعیل، دادا حکیم محمد حسن اور والد حکیم چراغ حسین تھے۔ ان سب کا شمار نامور حکما میں تھا۔ یہ سب کامیابی سے اپنا مطب چلاتے رہے۔ یہی ان کے معاش کا ذریعہ تھا۔ (۱۰)

عائشہ حکیم ۱۳ جنوری ۱۹۲۶ء کو مالیگاؤں میں پیدا ہوئیں۔ انھوں نے اینگلو اردو ہائی اسکول مالیگاؤں سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد اسمٰعیل یوسف کالج، بمبئی میں داخلہ لیا۔ جہاں سے ۱۹۴۹ء میں بی اے اور ۱۹۵۱ء میں اردو سے ایم اے کیا۔ یہ ان کی خوش نصیبی تھی کہ تعلیم مکمل کرنے کے فوراً بعد ہی ۱۹۵۲ء میں انھیں اینگلو اردو ہائی اسکول مالیگاؤں میں ملازمت مل گئی۔ یوں انھیں اسکول کی پہلی معلمہ ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ انھوں نے ۱۹۵۸ء میں بی ایڈ کی ٹریننگ مکمل کی تو وہ ۹ جون ۱۹۵۸ء کو مالیگاؤں ہائی اسکول میں ہیڈمسٹریس مقرر ہوئیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اسکول کی حالت بہت ہی خراب تھی۔ چنانچہ انھوں نے اسکول کی ترقی کو منزل کی طرف لے جانے کے لیے بے انتہا کوشش کی اور اسے زمین سے آسمان تک پہنچا دیا۔

انھوں نے ۱۹۷۲ء میں میدان سیاست میں اپنا قدم رکھا اور مہاراشٹر اسمبلی کے الیکشن میں شہر کے سب سے طاقتور سیاسی رہنما نہال احمد کے مقابلے میں کامیابی سے سرفراز ہوئیں۔ ان کے پانچ سالہ دور میں شہر کے لیے کئی ترقیاتی منصوبے منظور ہوئے۔ وہ مہاراشٹر اردو اکادمی کی بنیادی رکن تھیں۔ لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ میں ان کی خدمات کو فراموش کرنا ناممکن ہے۔ انھوں نے مہاراشٹر اسمبلی کی رکنیت کے زمانے میں بیڑ(مہاراشٹر) کے ایم ایل اے اقبال حسین سے شادی کی۔ اتفاقاً ان کے گھر پر ۲۲ جون ۱۹۸۵ء کو ڈاکوؤں کا حملہ ہوا اور وہ شہید کر دی گئیں۔ بیڑ ہی میں ان کا مزار ہے۔

انھوں نے بمبئی میں اپنی تعلیم کے دوران ادبی سرگرمیوں میں نمایاں حصہ لیا۔ ان کے کئی مضامین اور افسانے اسمٰعیل یوسف کالج کے ادبی رسالے پام میں شائع ہو چکے ہیں۔ وہ بمبئی میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے جلسوں میں بھی شریک ہوتیں اور اپنی نثری تخلیقات پیش کرتیں۔ انھوں نے بمبئی کے قیام کے زمانے میں ہی حصول تعلیم کے دوران ایک علمی ماہنامہ سنگیت جاری کیا تھا جسے مالی دشواریوں کے باعث بہت جلد بند کر دیا گیا۔ اینگلو اردو ہائی اسکول کی ملازمت کے دوران بھی ان کی تخلیقی سرگرمیاں جاری رہیں۔ اس زمانے میں ان کے افسانے بیسویں صدی اور شاہراہ میں شائع ہوئے۔ یہ ساری باتیں تشکیل مہاراشٹر سے پہلے کی ہیں۔ بعد کو وہ تعلیمی سرگرمیوں میں الجھ کر رہ گئیں۔

شفیق فاطمہ شعریٰ

شعریٰ کا شمار جدید اردو شاعری کی نمایاں شاعرات میں ہوتا ہے۔ وہ ۱۷مئی ۱۹۳۰ء کو ناگپور میں پیدا ہوئیں۔ اور نگ آباد میں تعلیم و تربیت ہوئی۔ ریاست مہاراشٹر کی تشکیل سے پہلے بسلسلۂ ملازمت حیدرآباد میں مقیم ہوئیں۔ ممتاز کالج میں درس و تدریس سے وابستہ رہیں۔ وہ اردو سے ایم اے ہیں۔ اس کے علاوہ انھیں فارسی اور عربی زبانوں پربھی دسترس حاصل ہے۔ ان کی شاعری کا آغاز ۱۹۵۰ء کے آس پاس ہوا۔ ان کی پہلی نظم فصیلِ اور نگ آباد ۱۹۵۳ء میں شاہراہ (دہلی) میں زیورِ طبع سے آراستہ ہوئی۔ ان کا کلام آئینہ، صبا، سوغات، شاعر، شعرو حکمت، شب خون وغیرہ میں اکثر شائع ہوتا رہا۔ ان کا پہلا مجموعۂ کلام آفاقِ نوا ۱۹۸۸ء میں اور دوسرا مجموعۂ کلام گلۂ صفورہ ۱۹۹۰ء میں منظرِ عام پر آیا۔

شعریٰ کی شاعری میں انفرادیت اور نیا پن ہے۔ انھوں ایک نئے اسلوب، تجربے اور لہجے سے اردو شاعری میں مخصوص مقام حاصل کیا۔ سچ پوچھو تو اردو شاعری میں اس تجربے کا متبادل نہیں ملتا۔ وہ رسوم و قیود سے بالا تر ہو کر انسان کے روحانی ارتقائی سفر کو اپنے دل میں جذب کر کے اسے مخصوص اسلوب اور اچھوتے انداز میں پیش کرتی ہیں۔ ان کی شاعری میں صوفیانہ ذہن، فلسفیانہ دماغ اور نازک احساسات کی آئینہ دار ہے۔ زبان و بیان اور تلمیحات و مرکبات کے لحاظ سے غیر معمولی ہے۔ ان کے باعث وہ ابہام و اسراریت کا کہیں کہیں مرقع بن گئی ہے۔ جس کے مفہوم کو پانے کے لیے قاری کو کافی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کی طویل آزاد نظم قطب تارہ کا ایک حصہ دیکھئے:(۱۱)

یوں تو صدہا ٹہنیوں پر لہلہائے آفتاب

نسبتیں کتنی ہیں سرتاپا اجالوں میں گندھی

نذر لیکن دامنِ مریم کی بے ہمتا رہی

سخت تر جادہ تھا اس کے امتحاں کا

بہرِ امرِ حق پذیرا اس نے موقف

بے پدر بچہ کی ماں کا

اس کی سچائی پہ ہو سکتا تھا دھوکا فطرتِ دوں کو گماں کا

سخت تر جادہ تھا اس کے امتحاں کا

کتنے پیچھے چھوڑ آئے

سایۂ محراب کو اس کے قدم

جب منتخب اپنے لئے اس نے کیا بے چھت بیاباں

تھیں جہاں بے روک یلغاریں ہوا کی

قہر افشاں قہقہوں ، قاتل سوالوں میں گھرا

اک صومِ خاموشی انوکھا

دلربا نورانیت، معصوم جلوہ، بے ہراس و بے نیاز

مرحمت کی چھاؤں بنتا، تا ابد پھیلے زمانے کے لئے

سخت تر جادہ تھا اس کے امتحاں کا

گرد بن کر اڑ گیا تھا کتنے پیچھے مرحلہ تسلیم جاں کا

نسبت عیسیٰ کے ہالے سے نہیں مریم عزیز

اپنے قدموں پر اٹل قائم نہ ہو

تب تک کوئی آدرش کہلاتا نہیں

یہ وہ خواتین اہلِ قلم ہیں جو ریاست مہاراشٹر کی تشکیل سے پہلے اس سرزمین پر ادبی خدمات انجام دے رہی تھیں۔

حواشی:

            بمبئی میں اردو ازڈاکٹرمیمونہ دلوی، ص:۷۲، ۹۶ ۱۱۸،۲۵

            تذکرۃ الخواتین ازمولاناعبدالباری آسی، ص:۴۸، ۴۹

            تذکرۃ الخواتین ازمولاناعبدالباری آسی، ص:۱۶۸، ۱۶۹

            تذکرۃ الخواتین ازمولاناعبدالباری آسی، ص: ۱۰۲

            بمبئی میں اردو ازڈاکٹرمیمونہ دلوی، ص:۱۷۵۔ ۱۷۸

            سمن زارازشاکر اور نگ آبادی، مطبوعہ نشرگاہ ادب، ناگپور(۱۹۴۵ء)ص:۵۹۔ ۶۲

            تذکرہ مشاہیر برار(جلددوم)، مطبوعہ انجمن یادرفتگاں ، امراؤتی(۲۰۰۵ء)، ص:۶۵

            سمن زارازشاکر اور نگ آبادی، ص:۷۳۔ ۷۵

            تذکرہ مشاہیر برار(جلددوم)، ص: ۱۶۸

            متاع خورشیدازخورشیدآرابیگم، مطبوعہ مشہورآفسیٹ پریس، کراچی، (۱۹۶۷ء)

            ناگپورمیں اردوازڈاکٹرمحمدشرف الدین ساحل، ص:۲۸۹، ۲۹۰

            لوآج ہم بھی ازشفیقہ فرحت، مطبوعہ مدھیہ پردیش اردواکادیمی، بھوپال، ۱۹۸۱ء

            رانگ نمبرازشفیقہ فرحت، مطبوعہ نئی آواز، جامعہ نگر، نئی دہلی، ۱۹۸۶ء

            گول مال ازشفیقہ فرحت، مطبوعہ نئی آواز، جامعہ نگر، نئی دہلی، ۱۹۸۸ء

            ٹیڑھاقلم ازشفیقہ فرحت، مطبوعہ مرکزِادب، بھوپال، ۲۰۰۳ء

            ناگپورمیں اردوازڈاکٹرمحمدشرف الدین ساحل، ص:۳۱۰، ۳۱۱

            مالیگاؤں میں اردونثرنگاری ازڈاکٹرالیاس صدیقی، مطبوعہ یونیٹی آفسیٹ، مالیگاؤں (۲۰۰۱ء)

            آج کل (نئی دہلی) اگست ستمبر۱۹۷۵ء، ص: ۸۹

 

 

باب پنجم

اردو ادب میں مہاراشٹر کی خواتین کا حصہ۔ ۔ ۔ ۱۹۶۰ء کے بعد

ریاست مہاراشٹر کی تشکیل یکم مئی ۱۹۶۰ء کوجن اضلاع کے انضمام سے ہوئی ان میں سے کئی اضلاع اردوزبان و ادب کے لحاظ سے زرخیزتھے لہٰذا اس نئی ریاست میں اسے فروغ پانے کا خوب موقع ملا۔ چوں کہ یہاں اردوکلچر اور معاشرہ توانا اور بیدار تھا اس لیے ریاستی حکومت بھی اس کی بقاوترقی کے لیے ہر دور میں فیاض رہی۔ یہ اسی فیاضی کا نتیجہ ہے کہ اس ریاست کے چاروں طرف پرائمری سے جونیئر کا لج تک اردو اسکول کا جال پھیلا ہوا ہے۔ ان سے اردو معاشرے کے ہزاروں طلبہ و طالبات استفادہ کر رہے ہیں۔ یہ اردو کے سیکڑوں اساتذہ کو معیشت فراہم کر رہے ہیں۔ ان درس گاہوں کے نصاب میں جو کتابیں شامل ہیں ان کی اشاعت کا اہتمام بھی حکومت کر رہی ہے۔ اس ریاست کی یونیورسٹیوں کے نصاب میں بھی اردو شامل ہے۔ اس زبان کا شیدائی نہ صرف بی اے بلکہ ایم اے، پی ایچ ڈی اور ڈی لٹ کی ڈگری تک اپنی علمی پیاس بجھا سکتا ہے۔ سچ پوچھو تو اردو ذریعہ تعلیم کی سہولت نے اس ریاست میں اردو معاشرے کو توانا اور متحرک رکھا ہے۔ ان کی شاعری علمی و ادبی سرگرمیاں اسی وجہ سے ہیں۔

آزادی کے بعد بمبئی، بھمڑی، مالیگاؤں ، امراؤتی اور ناگپور وغیرہ میں اردو معاشرے کی لڑکیوں کے لیے علاحدہ سے اردو اسکول قائم ہوئے جن کی وجہ سے لڑکیوں میں تحصیل علم کا شوق پیدا ہوا اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔ ریاست مہاراشٹر کی تشکیل کے بعد جب اسکولوں کو سو فیصد گرانٹ ملنی شروع ہوئی تو اردو میڈیم کی بوائز اسکولوں کے ساتھ ساتھ گرلس اسکولوں کی تعداد میں بھی کافی اضافہ ہوا۔ اس سے اردو معاشرے کے عام افراد میں اپنی لڑکیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا اس قدر جذبہ پیدا ہوا کہ اسکولوں میں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں کے مساوی ہو گئی۔ اب تو یہ حال ہے کہ لڑکیاں اعداد و شمار میں لڑکوں سے آگے بڑھ چکی ہیں۔ وہ اعلا تعلیم کے میدان میں بھی نمایاں نظر آ رہی ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ اردو معاشرہ مخلوط تعلیم (Co – Education)  سے متنفر تھا۔ آج یہ حال ہے کہ جونیئر اور سینئر کالجوں میں اس معاشرے کی لڑکیاں لڑکوں کے دوش بدوش تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ مہاراشٹر کی انہی تعلیم یافتہ لڑکیوں میں سے کچھ نے جب علمی و ادبی میدان میں قدم رکھا تو انھوں نے مختلف اصناف ادب میں گل کاریاں کیں۔ ان میں سے کچھ کو ادبی دنیا میں خوب شہرت ملی۔

ریاست مہاراشٹر کی تشکیل سے پہلے جو خواتین اہل قلم اس علاقے میں ادبی خدمت کر رہی تھی ان پر گزشتہ باب میں روشنی ڈالی جاچکی ہیں۔ ریاست مہاراشٹر کے قیام کے وقت جو خواتین اہل قلم یہاں موجود تھیں اور بعد کو جو منصۂ شہود پر آئیں یہاں ان پر تفصیل سے روشنی ڈالی جاتی ہے۔

عصمت چغتائی

عصمت چغتائی اردو ادب کی تاریخ میں نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔ ناول، افسانہ اور خاکہ نگاری کے میدان میں بڑے بڑے مرداہل قلم کی آنکھیں ان کے آگے جھک گئیں۔ وہ ۲۱اگست ۱۹۱۵ء کو اترپردیش کے ایک شہربدایون میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد مرزا نسیم بیگ چغتائی ڈپٹی کلکٹر تھے۔ ان کا بچپن جودھ پور (راجستھان) میں گزرا۔ انھوں نے علی گڑھ گرلس کالج سے گریجویٹ کا امتحان پاس کرنے کے بعد بی ٹی (بیچلر آف ٹیچنگ) کیا۔ تحصیل علم کے بعد بدایون کی ایک گرلس کالج میں ملازمت اختیارکی۔ وہ ۱۹۴۲ء میں انسپکٹر آف اسکول کی حیثیت سے بمبئی پہنچیں۔ شاہد لطیف سے ان کی شادی ہوئی جو تھوڑے سے ابتدائی دنوں کو چھوڑکر ہمیشہ جی کا جنجال بنی رہی۔ وہ ہمیشہ فلمی، صحافتی اور ادبی سرگرمیوں میں مصروف رہیں۔ ان کا انتقال ۲۴اکتوبر ۱۹۹۱ء کوہوا۔ انھیں ان کی وصیت کے مطابق بمبئی کے ایک کری میٹوریم میں سپرد برق کیا گیا۔

عصمت چغتائی بڑی آزاد خیال اور عجیب و غریب خاتون تھیں۔ ان کو جن لوگوں نے قریب سے دیکھا ہے اور ان کی شخصیت کی تصویر کشی کی ہے یہاں ان کے مضامین سے چند اہم اقتباسات نقل کیے جاتے ہیں تاکہ ان کی شخصیت و فکر جلوہ گر ہو سکے۔ شمس کنول اپنے ایک مضمون:عصمت، سماج کی محتسب میں لکھتے ہیں :

’’میں اور شہناز۔ ۔ ۔ ان کے مکان پر پہنچے تو فلیٹ کا دروازہ ملازمہ نے کھولا۔ چند لمحے ہم بیٹھے ہی تھے کہ دوسرے کمرے سے عصمت آپا ہنستی، چیختی، پیار بھری گالیاں دیتی ہوئی سامنے آئیں۔ میں نے پوچھا کون ہے؟ ارے وہ میرا نواسہ۔ بڑا بے ایمانٹا ہے۔ تاش میں مجھے ہرانا چاہتا ہے۔ پھر فوراً ہی کچھ خیال آیا۔ اندر کمرے میں پلٹ گئیں۔ دراصل وہ صرف پیٹی کوٹ اور بلاؤز پہنے ہوئے تھیں۔ ۔ ۔ ساڑی لپیٹ کر واپس آئیں۔ ایک ہاتھ میں سگریٹ کا پیکٹ تھا دوسرے ہاتھ میں لائٹر۔ ‘‘

اسی مضمون میں شاہد لطیف کی موت پر عصمت کے احساسات کو یوں نمایاں کیا ہے:

’’شاہد لطیف کی میت(۱۹۶۷ء)میں شاہد کے سبھی احباب شریک ہوئے۔ جو مجبوری سے اس دن شریک نہ ہو سکے وہ بعدمیں تعزیت کے لیے عصمت کے گھر پہنچے۔ بعدمیں جانے والوں میں ڈاکٹر صفدرآہ بھی تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے چند تعزیتی جملے کہے اور مرنے والے کو یادکیا۔

’’یہ تو دنیا ہے ڈاکٹر صاحب۔ یہاں آنا جانا تو لگا ہی رہتا ہے۔ جیسے اس ڈرائنگ روم کا فرنیچر، یہ صوفہ ٹوٹ جائے گا۔ ہم اسے باہر نکال دیں گے اور پھر اس خالی جگہ کو کوئی دوسرا صوفہ پر کر دے گا۔ ‘‘۔ ۔ ۔ یہ عصمت کا جواب تھا۔ ‘‘

مشہور افسانہ نگار اوپندر ناتھ اشک اپنے ایک مضمون:عصمت چغتائی۔ دوزخی کی باتیں میں ساحر لدھیانوی کے گھر فراق کے اعزاز میں دئے گئے ایک ڈنر کا ذکر کرتے ہوئے عصمت کے کردار کی یہ تصویر کھینچتے ہیں۔ اس مجلس میں عصمت کے شوہر شاہد لطیف بھی تھے:

’’سبھی مرد عورتیں پی رہے تھے۔ عصمت نے ایک آدھ پیگ پینے کے بعد ہاتھ میں گلاس تھامے اسے گھماتے ہوئے یہ آواز بلند کہا۔ ۔ ۔ ’’میر اجی چاہتا ہے میں ایک حرام کا بچہ جنوں ، لیکن شاہد زہر کھا لے گا‘‘۔ ۔ ۔ مجھے اس ریمارک سے خاصہ دھکا لگا تھا۔ کوئی عورت پی کر بھی ایسا ریمارک نہیں کس سکتی۔ جب تک کہ اپنے شوہر کی بے راہ روی یا کمزوری سے اس کے دماغ میں یہ خیال نہ پیدا ہوا ہو یا پھر شوہر کے علاوہ وہ کسی اور مرد کونہ چاہتی ہو۔ ‘‘

عصمت کو قریب سے دیکھنے اور جاننے والوں میں قرۃ العین حیدر بھی ہیں۔ انھوں نے عصمت کی وفات سے متاثر ہو کر لیڈی چنگیز خان کے عنوان سے جو مضمون قلم بند کیا ہے اس میں عصمت کی آزاد خیالی کو اس واقعہ کی روشنی میں پیش کیا ہے:

’’ان کی بڑی بیٹی نے بنگلور میں سول میریج کر لی اور اطلاع دی کہ اس کی ساس سسر مذہبی رسوم کی ادائیگی بھی چاہتے ہیں آپ بھی آ جائیے۔ بنگلور سے واپس آ کے عصمت آپا نے اپنے خاص انداز میں نہایت محظوظ ہوتے ہوئے سنایا کہ صبح صبح میں اٹھ گئی۔ سارا گھر سو رہا تھا۔ ان کا پنڈت آگیا۔ اب وہ بے چارہ ایک کمرے میں پریشان بیٹھا تھا۔ کہنے لگا مہورت نکلی جا رہی ہے اور یہاں کوئی ہے ہی نہیں۔ میں پوجا کیسے شروع کروں۔ میں نے کہا اے پنڈت جی آپ کیوں فکر کرتے ہیں۔ میں پوجا شروع کروائے دیتی ہوں۔ بس میں بیٹھ گئی اور میں نے پوجا شروع کروا دی۔ میں نے حیران ہوکے پوچھا بھلا اپ نے پوجا کس طرح کروائی۔ کہنے لگیں۔ اے اس میں کیا تھا۔ پنڈت نے کہا۔ میں منتر پڑھتا ہوں آگ میں تھوڑے تھوڑے چاول پھینکتے جائیے۔ میں چاول پھینکتی گئی۔ اتنے میں گھر کے اور لوگ بھی آ گئے۔ بس۔ ‘‘

یہ ہے عصمت چغتائی کی سیرت و کردار کا رس اور ان کی فکر کا محور۔ وہ بہت آزاد خیال تھیں۔ وہ تاش دلچسپی سے کھیلتی اور لگاتار سگریٹ پیتی تھیں۔ انھیں مے نوشی کا بھی شوق تھا۔ ان کے سینے میں مردوں یا اپنے حریفوں سے انتقام کی آگ ہمیشہ جلتی رہی۔ جس سے نفرت ہوئی اس کو کبھی معاف نہیں کیا۔ دراصل انھوں نے اپنے بچپن ہی میں اس بات کو شدت سے محسوس کیا تھا کہ اچھی سے اچھی بیٹی نالائق سے نالائق بیٹے سے کم ترہی سمجھی جاتی ہے چنانچہ ان کی کسی بھائی سے کبھی نہیں نبھی۔ ہر بھائی سے لڑائی جھگڑے میں ہی ان کا بچپن گزرا۔ بچپن کا یہ نقش ان کے بڑھاپے تک پتھر کی لکیر بنا رہا اور مردوں سے بیر رکھنا ان کی فطرت ثانیہ بن گیا۔ وہ انتقام کی اسی آگ میں ہمیشہ جلتی رہیں۔ یہاں تک کہ مرنے کے بعد خود جل کر راکھ ہو گئیں۔ عصمت چغتائی کی سوچ کا تانا بانا انھی حادثات و واقعات سے تیار ہوا ہے۔ انھوں نے ترقی پسندی کے انتہائی عروج کے زمانے میں قلم سنبھالا اور اپنے باغی لب و لہجے سے مردوں کی صفوں میں ہل چل مچا دی اور انھیں یہ یقین دلانے کی بے باکانہ کوشش کی کہ عورت اپنی محدودیت کے باوجود لامحدود ہے اور مرد سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ اس کی معلومات کا دائرہ گھرکی قید سے بہت آگے ہے۔ اگر اسے موقع ملے تو وہ مدرسے زیادہ اس کا اظہار کر سکتی ہے۔ جب عصمت نے بے خوف و بے باک ہو کر اس فکر کو عام کرنا شروع کیا تو ادبی حلقوں میں زلزلہ آگیا۔ لوگ انھیں جلی کٹی سنانے لگے۔ ان کی کہانیاں پڑھ کر لڑکیاں شرم سے منھ چھپانے لگیں مرد پانی پانی ہونے لگے۔ ان کے فکر و فن کا تجزیہ کرتے ہوئے ظ انصاری نے جو رس نچوڑا ہے وہ حرف آخر ہے۔ دیکھئے:

’’عصمت چغتائی صرف نام کی نہیں مزاج کی بھی تھوڑی بہت چغتائی ہیں۔ بے محابا کہتی ہیں۔ بے دریغ لکھتی ہیں۔ بے تحاشہ حملہ آور ہوتی ہیں۔ سماجی ریاکاری پر، ظلم اور فریب کی جھلملی پر، جس طرح چغتائی لوگ اب سے دور پار، فصیل بند شہروں کو نرغے میں لے کر اندھا دھند دھاوا بولتے ہوں گے، اسی طرح عصمت چغتائی نے حصار بند آنگنوں ، محفوظ دالانوں ، موٹے لحافوں ، غلافوں میں دبی دبائی زندگی پر ہلہ بول کر افسانے اور ناول کا میدان مارا اور بڑے بڑے مرد اہل قلم کی آنکھیں ان کے سامنے جھک گئیں۔ ‘‘

عصمت چغتائی نے ضدی، ٹیڑھی لکیر، ایک بات، معصومہ، جنگلی کبوتر، سودائی، انسان اور فرشتے، عجیب آدمی اور ایک قطرۂ خون جیسے مشہور ناول لکھے۔ باغیانہ خیالات پر مشتمل ایک ناولٹ دل کی دنیا تحریر کیا۔ اپنے افسانوں کے مجموعے چوٹیں ، چھوئی موئی، دو ہاتھ اور کلیاں شائع کروائے۔ دھانی بانکپن اور شیطان جیسے معروف ڈرامے قلمبند کیے اور تاویل، سودائی اور درزی جیسے بے مثال خاکے لکھے۔ ان کی یہ وہ تخلیقات ہیں جو ناول، افسانہ، ڈرامہ اور خاکہ نگاری کی تاریخ میں اہمیت کی حامل ہیں۔

عصمت کی ناول نگاری کا آغاز ضدی سے ہوا جو اپنے مواد اور تلخ لہجے کی وجہ سے نوجوانوں میں بہت مقبول ہوا۔ اس میں ایک ایسے جذباتی نوجوان کی عکاسی کی گئی ہے جو مروجہ طبقاتی نظام میں محبت کی آزادی سے محروم رہ کر ضدی بن جاتا ہے۔ یہ ضدی نوجوان پورن ایک نچلے طبقے کی لڑکی آشا کی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے لیکن ہمارا معاشرتی نظام اس محبت میں رکاوٹ کا سبب بن جاتا ہے۔ جب پورن اونیچ نیچ کے اس فرق کو دیکھتا ہے تو وہ خود کو بے دست و پا محسوس کرتا ہے۔ اندر ہی اندر گھلتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ موت کو گلے لگا لیتا ہے۔

اس ناول میں پورن دراصل نئے دور کے تعلیم یافتہ اور جذباتی نوجوانوں کا ایک ایسا نمائندہ ہے جو سماج کی فرسودہ روایات سے نفرت تو کرتا ہے لیکن اس قدر مجبور بھی ہے کہ وہ اسے شکست دینے سے قاصر رہتا ہے۔ اگر اس ناول میں پلاٹ کی عمومیت کو نظر انداز کر دیا جائے تو زبان و بیان کی خوبی اور طنز کے تیز نشتروں کے لحاظ سے یہ بے انتہا کامیاب ہے۔

عصمت کا ناول ٹیڑھی لکیر ان کے فنکارانہ خلوص کا آئینہ دار ہے۔ یہ اپنے طنزیہ اسلوب کی وجہ سے امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں عصمت نے صرف مشاہدات ہی نہیں پیش کیے ہیں بلکہ اس سچائی کو بھی ظاہر کیا ہے کہ کس طرح ماحول سے فرد کی زندگی میں آہستہ آہستہ انقلاب رونما ہوتا ہے اور اس انقلاب کے نتیجے میں کس طرح شخصیت کی تکمیل ہوتی ہے۔

اس ناول میں انھوں نے مسلم متوسط خاندانوں کی پردہ نشیں لڑکیوں کی نفسیاتی پیچیدگیوں سے رونما ہونے والے مسائل کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ ان خاندانوں میں کون کون سی معاشرتی برائیاں عام ہیں انھیں واضح اور طنزیہ اسلوب میں بیان کیا ہے۔ اس سے ان کا مقصد ان خاندانوں کی تذلیل و تضحیک نہیں ہے بلکہ اصلاح و درستی اور لڑکیوں کی تعلیم و تربیت ہے۔ اس کے پیش لفظ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ٹیڑھی لکیر دراصل عصمت کی آپ بیتی ہے:

’’کچھ لوگوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ ٹیڑھی لکیر دراصل عصمت کی آپ بیتی ہے۔ مجھے خود یہ آپ بیتی لگتی ہے۔ میں نے اس ناول کو لکھتے وقت بہت کچھ محسوس کیا ہے۔ میں نے سخن کے دل میں اترنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے ساتھ آنسو بہائے ہیں اور قہقہے لگائے ہیں۔ اس کی کمزوریوں سے جل بھی اٹھی ہوں۔ اس کی ہمت کی داد بھی دی ہے۔ اس کی نادانیوں پر رحم بھی آیا ہے اور شرارتوں پر پیار بھی آیا ہے۔ اس کے عشق و محبت کے کارناموں پر چٹخارے بھی لیے ہیں اور حسرتوں پر دکھ بھی ہوا ہے۔ ایسی حالت میں اگر میں کہوں کہ یہ میری آپ بیتی ہے تو کچھ زیادہ مبالغہ تو نہیں۔ ‘‘

ناقدین نے ٹیڑھی لکیر کو اردو ادب کا ایک شاہکار ناول قرار دیا ہے۔ اس کی ہیروئن سمن اردو کے قدیم ناولوں کی ہیروئنوں سے قطعی مختلف ہے۔ وہ جدید دور کی عورت ہے جس کے پیش نظر جدید مسائل ہیں۔

عصمت کے دیگر اہم ناولوں میں معصومہ، سودائی، عجیب آدمی، دل کی دنیا اور ایک قطرۂ خون بھی شامل ہے۔ معصومہ بمبئی کے ماحول پر لکھا گیا ہے۔ اس میں فلمی دنیا اور سرمائے داروں کی سچی تصویر کھینچی گئی ہے۔ سودائی کا شمار کمرشیل ناولوں میں ہوتا ہے۔ یہ ناول وجود میں آنے سے پہلے بزدل کے عنوان سے پردے پر فلمایا جا چکا تھا۔ بعد کو اسے ناول کا لباس دیا گیا۔ عجیب آدمی بھی فلمی دنیا سے تعلق رکھتا ہے۔ دل کی دنیا ایک سماجی ناول ہے۔ اس میں خاندان اور معاشرے کے قدیم رسم و رواج میں جکڑی ایک ایسی لڑکی کی کہانی بیان کی گئی ہے جو شوہر کی بے التفاتی کا شکار ہو جاتی ہے۔

عصمت نے ایک قطرۂ خون اپنے مخصوص انداز، مزاج اور لب و لہجے سے ذرا ہٹ کر لکھا ہے۔ اس کا موضوع واقعہ کربلا ہے جو تاریخ اسلام کا ایک نمایاں باپ ہے۔ اس کتاب پر ڈاکٹر ظ انصاری نے کتاب شناسی میں تفصیل سے تبصرہ کیا ہے اور اس میں موجود تاریخی غلطیوں اور کمزوریوں کو واضح کیا ہے۔ آخر میں وہ لکھتے ہیں :

’’ان تمام کوتاہیوں کے باوجود ایک قطرۂ خون ان پڑھنے والوں کو اپنے اندر جذب کر لینے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے جو رسالت مآب سے لے کر سید سجاد تک ستر سال کے دوران اہم مذہبی روایات کو ایک تسلسل کے ساتھ کہانی کی طرح پڑھنا چاہتے ہیں۔ ‘‘

ناول نگاری کی طرح افسانہ نگاری میں بھی عصمت کا ایک منفرد مقام ہے۔ ان کے افسانوی مجموعے چوٹیں ، چھوئی موئی، دو ہاتھ اور کلیاں کو بہت مقبولیت ملی۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں رشید جہاں کی قائم کردہ روایت کو بلندیوں پر پہنچایا اور عورت کے مسائل کی پیش کش میں رقت آمیز اور رومانی طرز کو بدل کر ایک بے باک، تلخ لیکن جرأت آمیز اسلوب کو رائج کیا۔ عصمت نے اپنے تخلیقی اظہار کے لیے گھروں میں بولی جانے والی جس ٹھیٹھ اردو اور کٹیلے طنزیہ لہجے کو اپنایا وہ ان کی انفرادیت کا ضامن بن گیا۔ انھوں نے زیادہ تر متوسط اور نچلے طبقے کی خواتین کے مسائل اور ان کی نفسیات پر لکھا جس پر انھیں گہرا عبور تھا۔ ان کے زیادہ تر افسانے ایک ایسے المیے پر ختم ہوتے ہیں جو حقیقت سے بہت قریب ہوتا ہے۔ انھوں نے اردو افسانے کو سچ بولنا سکھایا اور عورت کے چھوٹے سے چھوٹے مسئلے کو کہانی کا موضوع بنایا۔ چوتھی کا جوڑا، بہو بیٹیاں ، سونے کا انڈا، چھوئی موئی، بھول بھلیاں ، ساس، لحاف، بے کار، کلو کی ماں ، اف یہ بچے، چارپائی، جھوٹی تھالی، میرا بچہ، ڈائن، ایک شوہر کی خاطر، سالی، سفر میں ، تل، لال چیونٹے، پیشہ ور، ننھی کی نانی ان کے مشہور اور یادگار افسانے ہیں۔ ان میں انھوں نے ایک مخصوص قسم کی فضا تخلیق کی ہے۔ یہ فضا گھر اور گھریلو زندگی سے تعلق رکھتی ہے۔ ان میں زیادہ تر افسانوں میں عورت کا تصور اس کی بدنصیبی سے وابستہ نظر آتا ہے۔ اس کی پوری زندگی تلخیوں اور پریشانیوں میں گھری معلوم ہوتی ہے اور آخر میں وہ ان دکھوں کی تاب نہ لا کر اپنی جان دے دیتی ہے۔ عصمت کے زیادہ تر افسانے ایک خاص طبقے اور خصوصی طور پر عورت کے گھریلو ا ور جنسی تعلقات کے اردگرد گھومتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے افسانوں میں یکسانیت کا پہلو ابھر کر سامنے آتا ہے جو قاری کے لیے کبھی کبھی اکتاہٹ کا سبب بھی بن جاتا ہے۔

عصمت صرف جنس اور عورت کے مسائل تک محدود نہیں تھیں۔ ان کے افسانے:جڑیں ، کافر، دو ہاتھ اور ہندوستان چھوڑ دو ان کے گہرے تاریخی اور معاشرتی شعور کے آئینہ دار ہیں۔ انھوں نے دو ہاتھ میں محنت کس طبقے کی اہمیت اجاگر کیا ہے۔ دراصل عصمت کا دور ترقی پسندی کا دور تھا جس میں سماجی نا انصافیوں کے ساتھ جدوجہد کرتے ہوئے آزادی، انصاف اور ترقی کا ساتھ دیا گیا۔ یوں انھوں نے سماج کے ہر مسئلے اور طبقے پر لکھا لیکن یہ ایک مسلمہ سچائی ہے کہ عورت کی نفسیات اور جنس کے موضوع ہی ان کے نزدیک اہمیت کے حامل تھے۔

عصمت ناول نگار اور افسانہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب ڈرامہ نگار بھی تھیں انھوں نے اپنے ڈراموں میں حقیقت نگاری پر زور دیا۔ ان کے ڈراموں میں ایک بات اور نیلی رگیں بہت مشہور ہیں۔ ان کے علاوہ سانپ، دھانی بانکپن اور انتخاب بھی ان کے اچھے ڈرامے ہیں۔ ان کے ڈراموں کے کردار ہماری زندگی کے کردار ہیں۔ ان کی زبان صاف، سادہ اور دل کش ہے۔

عصمت کے تحریر کیے ہوئے تاویل، سودائی اور دوزخی کے نام سے شائع ہوئے۔ ان خاکوں میں دوزخی کو ادبی دنیا میں کافی مقبولیت ملی۔ جب یہ ماہنامہ ساقی (دہلی) میں شائع ہوا تو منٹو کی بہن نے کہا کہ ’’سعادت یہ عصمت کیسی بے ہودہ عورت ہے کہ اپنے موئے بھائی کو بھی نہیں بخشا۔ کمبخت نے کیسی کیسی فضول باتیں لکھی ہیں۔ اس وقت منٹو نے اپنی بہن سے کہا تھا کہ اقبال اگر تم مجھ پر ایسا ہی مضمون لکھنے کا وعدہ کروتو میں ابھی مرنے کو تیار ہوں۔ منٹو نے دوزخی کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ اپنے تاثرات کا اس طرح اظہار کیا ہے:

’’شاہجہاں نے اپنی محبوبہ کی یاد قلم کرنے کے لیے تاج محل بنوایا۔ عصمت نے اپنے محبوب بھائی کی یاد میں دوزخی لکھا۔ شاہجہاں نے دوسروں سے پتھر اٹھوائے، انھیں ترشوایا اور اپنی محبوبہ کی لاش پر ایک عظیم الشان عمارت تعمیر کروائی۔ عصمت نے خود اپنے ہاتھ سے اپنے خواہرانہ جذبات چن چن کر ایک اونچا مچان تیار کیا اور اس پر نرم نرم ہاتھوں سے اپنے بھائی کی نعش رکھ دی۔ تاج محل شاہجہاں کی محبت کا برہنہ اشتہار معلوم ہوتا ہے لیکن دوزخی عصمت کی محبت کا نہایت ہی لطیف اور حسین اشارہ ہے۔ وہ جنت جواس مضمون میں آباد ہے، عنوان اس کا اشتہار نہیں دیتا۔ ‘‘

اس میں کوئی شک نہیں کہ دوزخی میں عصمت کے افسانوی فن کی تمام خوبیاں یکجا ہو گئی ہیں۔ اگر عصمت ایک بھی افسانہ نہ لکھتی تو یہ خاکہ انھیں اردو ادب کی تاریخ میں زندۂ جاوید بنانے کے لیے کافی تھا۔

بلاشبہ عصمت کی تحریریں موضوعات، اسلوب، کردار اور لب و لہجے کے اعتبار سے تانیثی حسیت اور تانیثی شعور کے اظہار کا پہلا معتبر تجربہ ہیں۔ اس اعتبار سے یہ تانیثیت کی پہلی اور مستند دستاویزات ہیں۔

 

زہرہ جبیں

ناگپور کی ادبی تاریخ میں انھیں نمایاں مقام حاصل ہے۔ اچھی ڈرامہ اور افسانہ نگارتھیں۔ ان کا تعلق داؤدی بوہرہ فرقے سے تھا۔ ان کے والد فداحسین ایک نامور وکیل تھے۔

 زہرہ جبیں ۴اپریل ۱۹۲۲ء کوناگپور میں پیدا ہوئیں۔ ان کا خاندان تعلیم یافتہ اور ترقی پسند تھا اس لیے انھیں تحصیل علم کا خوب موقع ملا۔ وہ ابتدائی اور ثانوی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلاتعلیم کی طرف بلا کسی روک ٹوک کے بڑھتی گئیں یہاں تک کہ ناگپور یونیورسٹی سے گریجویٹ کرنے کے بعد اردو اور فارسی میں ایم اے بھی کرلیا۔ یہ اس دور کی بات ہے جب کہ لڑکیوں کوجدیدتعلیم سے آراستہ کرنا مسلم معاشرے میں معیوب سمجھاجاتاتھا۔

ان کا ۱۹۵۲ء میںیاس اعتبار سے یہ تاینہرے خواہر  لیڈی امرت ڈاگا کالج(ایل اے ڈی کالج، ناگپور) کے شعبۂ اردو فارسی میں بحیثیت لکچرر تقرر ہوا۔ برسوں صدرشعبہ کے منصب پر فائزرہیں۔ وہ اس کالج میں تقریباً ۲۹سال درس وتدریس کے فرائض انجام دے کر ۱۹۸۱ء میں سبکدوش ہوئیں۔

انھوں نے ۱۹۵۰ء کے آس پاس افسانہ نگاری سے اپنی ادبی زندگی کا آغاز کیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی تحریرمیں پختگی اور ان کی سوچ میں گہرائی وگیرائی آتی گئی۔ انھوں نے تقریباً سوسے زائد مختصر افسانے قلمبند کیے۔ ان میں سے متعدد افسانے مقتدر جرائد ورسائل میں شائع ہوئے۔ بعدکو ڈرامہ نگاری سے دلچسپی پیداہوئی تواخلاقی واصلاحی نوعیت کے ڈرامے تحریرکیے۔ ان کے افسانے اور ڈراموں کے چندمجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ جن میں مشعل راہ، صبح کے مشعل راہ ان کے گیارہ سبق آموز، اصلاحی اور مزاحیہ ڈراموں پرمشتمل ہے۔ ان گیارہ ڈراموں کے عنوانات یہ ہیں :(۱)مشعل حیات، (۲)بساط ، (۳)پانسہ پلٹ گیا، (۴)مبادلہ، (۵)داغ، (۶)دودھاری تلوار، (۷)تم کون ہو، (۸)تقدیر کندخندہ، (۹)ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو، (۱۰)پروفیسر، (۱۱)بیٹی کی فکر۔ ۔ ۔ یہ کتاب نسیم بکڈپو لکھنو کے زیراہتمام ۱۹۷۸ء میں شائع ہوئی۔

ان کی دوسری کتاب صبح کے بھولے کو بھی ۱۹۷۸ء میں نسیم بکڈپو، لکھنو نے شائع کیا۔ یہ دوطویل ڈراموں پر مشتمل ہے جن کے عنوانات ہیں صبح کے بھولے اور آزمائش۔ یہ ڈرامے بھی اخلاقی و اصلاحی نوعیت کے ہیں۔

انھوں نے اپنے افسانوں کا پہلامجموعہ نشیب وفراز ۱۹۷۷ء میں ناگپور سے خودشائع کروایا اور اپنی بہن افتخار بانو کے نام معنون کیا۔ اس میں کل بارہ افسانے شامل ہیں جن کے عنوانات یہ ہیں : (۱)عشق برقی، (۲)فرض اور محبت، (۳)آزادی، (۴) اسم بے مسمیٰ، (۵)حسرت حسن، (۶)سب سے بڑاہتھیار، (۷)درونِ خانہ، (۸)چاہتے ہیں خوبرویوں کو، (۹)خدمت میں عظمت، (۱۰)چہ نسبت خاک را، (۱۱)شجربے ثمر، (۱۲)نگرانِ تاج۔ یہ افسانے زندگی کے شعور و آگہی کے آئینہ دار ہیں۔ ان میں زندگی کے نشیب و فراز کو سلیقے سے پیش کیا گیا ہے۔

زہرہ جبیں کی زندگی کا بڑا حصہ تعلیم و تدریس میں گزرا۔ وہ سادگی پسند اور کم گوتھیں۔ شادی نہیں کی تھی۔ ایک کوارٹر میں تنہا رہتی تھیں۔ اس تنہائی نے ان میں جھنجھلاہٹ کو پیدا کر دیا تھا۔ ان کا کوارٹر کالج کے پیچھے تھا۔ وہ کالج سے فارغ ہو کر گھر میں ہی رہا کرتی تھیں۔ لکھنا پڑھنا ان کا معمول تھا۔ انھوں نے کبرسنی کے باعث ۷جنوری ۲۰۰۱ء کورحلت فرمائی۔

انھوں نے مطالعے اور کالج کے مشاہدے سے جوکچھ حاصل کیا انھی کو اپنی فکر کا موضوع بنایا۔ ان کے افسانے اور ڈرامے اس حقیقت کے شاہد ہیں۔ انھوں نے اپنی تخلیقات میں زندگی کے خیری اور شری پہلوؤں کو وضاحت بہت ہی موثرانداز سے کی ہے۔ ان کے مطالعہ کے بعد خیر کی صحت و توانائی پر اعتماد و مستحکم ہو جاتا ہے۔ انھوں نے مریضہ کے ساتھ ہوس پرست ڈاکٹر کی عیاری، بہو کے ساتھ ساس کی سخت گیری ، ایک شوہر کی اپنی بیوی کے ساتھ وفاداری، بھکاریوں کی مکاری، ظاہر و باطن کی تفریق، صورت و سیرت کے امتیاز، ماحول کے اثرات، عقل و دل کی کشمکش، مظلوم عورت کی اپنے شوہر کے ساتھ محبت، مالکن کا نوکرانی پر ستم، مختلف نظریات کا ٹکراؤ، گردش تقدیر کے نتائج۔ ان موضوعات پر اپنے خیالات بڑی ہنر مندی سے پیش کیے ہیں اور ان کے تناظر میں سماج کی جو تصویریں کھینچی ہیں وہ حقائق کی آئینہ دار ہیں۔ ان کے ڈراموں اور افسانوں میں توجہ کا دامن بار بار الجھتا ہے اور یہ قاری کی دلچسپی کو برقرار رکھتے ہیں۔ ان میں سنجیدگی، طنز، شیرینی اور شگفتگی ملتی ہے۔ ان کی زبان صاف ستھری، شگفتہ اور لطیف ہے۔ چند اقتباسات دیکھئے:

’’جب کہکشاں گھر پہنچی تو گھر والے خوشی سے اچھل پڑے وہ دوڑ کر اپنے والد سے لپٹ گئی۔ ان کی چراغ سحری سی دھندلی بے رونق آنکھیں شعلوں کی طرح چمک اٹھیں !سوکھے دھانوں پر پانی پڑ گیا۔ مردہ جسم میں جان آ گئی۔ مایوس دل میں زندگی کی خواہش کروٹیں لینے لگی‘‘۔ ۔ ۔ (فرض اور محبت)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

’’ملک محمد جائسی بھی تو بہت بدنما تھے۔ چیچک زدہ۔ ایک آنکھ بھی نہ تھی۔ ایک مرتبہ وہ کہیں جنگل میں ایک گڑھا کھود رہے تھے کہ بادشاہ وقت کا گزر اس طرف سے ہوا اور وہ انھیں دیکھ کر قہقہہ مارکر ہنس پڑا۔ انھوں نے پوچھا۔ اے بادشاہ بتلا کس پر ہنستا ہے۔ برتن پریا کمہار پر‘‘۔ ۔ ۔ (اسم بے مسمیٰ)

’’تم کون ہوتی ہو میری بچی کو مارنے والی۔ میرے بچوں کو تم ہاتھ بھی نہیں لگا سکتیں۔ امیر ہو تو اپنے گھر کی۔ ہم غریبوں کو بھی اپنے بچے پیارے ہوتے ہیں۔ ‘‘۔ ۔ ۔ (درون خانہ)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

’’اس لڑکی کا خیال یہ ہے کہ شوہر بد شکل ہونا چاہئے۔ اگر بد شکل ممکن نہ ہو تو کم سے کم بیوی سے تو خوبصورتی میں گھٹ کر ہی ہونا چاہئے ورنہ وہ اپنے جلال و جمال کے گھمنڈ میں بیوی کو کچھ نہیں سمجھتا اور بیوی کے اپس حسن کا ایک ہی ہتھیار ہوتا ہے تو وہ بھی بالکل بے کار ہو جاتا ہے اور بے چاری کو دب کر لونڈی بن کر رہنا پڑتا ہے۔ ‘‘۔ ۔ ۔ (چاہتے ہیں خوب رویوں کو اسد)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

’’گستاخ ، بدتمیز! لے اپنی ماں کا حصہ ان کی زندگی میں ہی لے۔ وحید غصے میں آپے سے باہر ہو گیا اور اس نے اپنی نازک اندام بہن کے نازک رخساروں پر تڑاتڑ چانٹے لگا دئیے۔ آمنہ گھبرا کر کھڑی ہو گئی۔ اس نے وحید کے ہاتھ پکڑ لیے۔ وحید کے ایک ہی جھٹکے نے کمزور، بیمار، ضعیفہ کو ایک سیل کے مقابل تنکے کی طرح دور لے جا پھینکا۔ نعیمہ جھپٹ کراس کے پاس پہنچی اور اسے اٹھایا لیکن آمنہ قید ہنستی سے آزاد ہو چکی تھی۔ ‘‘۔ ۔ ۔ (شجر بے ثمر)

زہرہ جبیں افسانہ، ڈرامہ اور مقالہ نگاری کے علاوہ شعر گوئی سے بھی دلچسپی رکھتی تھیں۔ انھوں نے اردو کے علاوہ انگریزی میں بھی شاعری کی ہے۔ ان کی چند انگریزی نظموں کو امریکن پوئٹری انتھالاجی کے ایڈیٹر نے جلد نمبر ۱۰، شمارہ نمبر ۳میں شامل کیا ہے۔ اردو میں انھوں نے زیادہ تر نظمیں کہی ہیں۔ یہاں ان کی ایک نظم نقل کی جاتی ہے تاکہ ان کی شاعری کے معیار کا اندازہ ہو سکے۔ اس نظم کا عنوان

ہے ’’بھوک ہڑتال‘‘:

نور العین علی

ان کا نام بچوں کے ادب میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ ڈرامہ نگار اور شاعرہ ہیں۔ وہ ۲۷فروری ۱۹۳۰ء کوامراؤتی میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد حبیب الرحمن صدیقی اردو کے مشہور و معروف شاعر اسمٰعیل میرٹھی کے بڑے بھائی مولوی عبدالحکیم کے پوتے اور مولوی خلیل الرحمن کے بڑے صاحبزادے تھے۔ وہ اپنے پھپھی زادبھائی مولوی انعام الرحمن (آئی سی ایس) کے ساتھ نوجوانی میں ناگپورآئے۔ انھوں نے ہسلاپ کالج ناگپور میں داخلہ لیا اور ۱۹۲۱ء میں الہٰ آباد یونیورسٹی سے بی اے کیا۔ گورنمنٹ محمڈن کالج(امراؤتی) میں ۱۹۲۴ء میں ٹیچر ہوئے۔ درس وتدریس کے دوران الہٰ آباد یونیورسٹی سے اردومیں ایم اے اور ناگپوریونیورسٹی سے فارسی میں ایم اے کیا۔ انھوں نے تقریباً تیس سال سی پی وبرار کے مختلف اسکولوں میں درس وتدریس کے فرائض انجام دیے۔ ان کا انتقال ۲۵ جولائی ۱۹۷۱ء کو امراؤتی میں ہوا۔

حبیب الرحمن صدیقی ایک اچھے نثر نگار تھے۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے ذکا نے ان کے مکاتیب کا ایک مجموعہ مکاتیب حبیب کے نام سے چھپوا دیا ہے۔ انھوں نے چار بیٹے (ولی الرحمن صدیقی، ضیاء الرحمن صدیقی، ذکاء الرحمن صدیقی، عطاء الرحمن صدیقی) اور تین بیٹیاں (قرۃ العین، نور العین، انوار العین) اپنی جسمانی یادگار چھوڑے۔ انھوں نے اپنے سب بچوں کو اعلا تعلیم دلوائی تھی۔ ان میں ولی، ذکا اور عطا کو شاعری سے دلچسپی تھی۔ ذکا کے کلام کا ایک مجموعہ ’’آج کی شب بھر سناٹا‘‘ شائع ہو چکا ہے۔ ان کی سب بیٹیاں درس و تدریس سے وابستہ رہیں۔ اس سے حبیب الرحمن صدیقی کی روشن خیالی کا اندازہ لگایاجا سکتا ہے۔

نورالعین علی نے پرائمری سے ایم اے تک کی تعلیم امراؤتی میں حاصل کی۔ بی ٹی کی سند پرانتیہ شکشن مہاودیالیہ(جبلپور) اور ایم ایڈ کی سند ناگپور یونیورسٹی ٹیچرس ٹریننگ کالج سے حاصل کی۔ انھوں نے ۱۹۵۱ء سے ۱۹۶۸ء تک گورنمنٹ گرلس ہائی اسکول، امراؤتی میں ٹیچر اور لکچرر کی حیثیت سے کام کیا۔ اس کے بعد ان کاتبادلہ بمبئی کے سکنڈری کالج میں ہو گیا۔ یہاں سے وہ ۱۹۸۸ء میں رٹائرہوئیں۔

ان کے گھر کا ماحول تعلیمی و ادبی تھا۔ ان کے والد کے بیشتر احباب و تلامذہ اعلا تعلیم یافتہ تھے۔ وہ شعر و ادب کا معیاری ذوق رکھتے تھے چنانچہ ان کے گھر میں اکثر علمی و ادبی مذاکرے، مباحثے اور مشاعرے منعقد ہوا کرتے تھے۔ اسی ماحول میں ان کی ذہنی نشو و نما ہوئی۔ اسی نے ان کے دل میں شعرو ادب سے دلچسپی پیدا کی اور انھوں نے طالب علمی کے زمانے میں ہی ڈرامے، کہانیاں اور نظمیں لکھنا شروع کیں۔

اس ادبی و تعلیمی ماحول میں سب بہن بھائیوں نے گھر میں ہی ڈرامہ کھیلنا شروع کیا۔ ان کے کورس کی کتابوں میں جو کہانیاں شامل تھیں انھیں کو ڈرامے کی شکل میں پیش کرنا ان سب کا دلچسپ مشغلہ تھا۔ ان ڈراموں کو دیکھنے کے لیے ان کی والدہ کی جان پہچان والی سب خاتون اپنے بچوں کے ساتھ آتیں جن کی چائے پان سے تواضع کی جاتی۔ جب نور العین درجہ پنجم میں تھیں تو اس وقت ان سب بہن بھائیوں نے مل کر راجہ ہریش چندر نامی ڈرامہ کھیلا۔ جو بے انتہا پسند کیا گیا۔ ان سب سرگرمیوں میں ان کے والدین ہمت افزائی کیا کرتے تھے۔ اس سے ذوق کو تقویت ملتی رہی۔

نور العین علی جب امراؤتی کے گرلس ہائی اسکول میں ٹیچر ہوئیں تو اسکول کی سوشل گیدرنگ کے موقع پر طلبہ و طالبات کے لیے کئی ڈرامے لکھے جو اسٹیج پر کامیابی سے پیش کیے گئے۔ ان کے ڈراموں کے پہلے مجموعے’’بہو کی تلاش اور دوسرے ڈرامے‘‘ میں اس دور کے پانچ ڈرامے بھی شامل ہیں۔ یہ کتاب ۱۹۶۵ء میں شائع ہوئی ہے۔

اس کے بعد انھوں نے تقریباً پچاس ڈرامے لکھے۔ کچھ مراٹھی ڈراموں کے اردو میں ترجمے بھی کئے۔ ان میں سے بعض ڈرامے آل انڈیا ریڈیو، بمبئی کے اردوپروگرام باتوں باتوں میں اور ہندی پروگرام ناری جگت میں نشر ہوئے جنہیں سامعین نے بے حد پسند کیا۔ انھی پسندیدہ ڈراموں سے پانچ ڈراموں کوذراسی تبدیلی کے بعدانھوں نے اسٹیج کے قابل بنایا اور انھیں سوچ لیجئے کے نام سے ۱۹۸۹ء میں کتابی صورت میں شائع کرواکے منظرِ عام پرلایا۔ یہ پانچ ڈرامے یک بابی ہیں جنھیں اسٹیج پر پیش کرنے کی مدت بیس سے تیس منٹ ہے۔ ان کے عنوانات یہ ہیں :منزل ہے کہاں تیری، جیون ساتھی، ہاتھی کے دانت، کس کے لیے اور مانگے کا اجالا۔ کتاب میں شامل پہلا ڈرامہ سوچ لیجئے تین ایکٹ ڈرامہ ہے جسے اسٹیج پر پیش کرنے کی مدت تقریباً دیڑھ گھنٹہ ہے۔ انھوں نے یہ ڈرامہ ۱۹۸۸ء میں ساہتیہ کلا پریشد، دہلی کے طبع زاد ڈراموں کے کل ہند مقابلے کے لیے لکھاتھا۔ اس پر انھیں پہلا انعام ملاتھا۔ کتاب میں شامل ان چھ ڈراموں کا موضوع متوسط طبقے کے پڑھے لکھے گھرانوں کے وہ مسائل ہیں جن کے متعلق ہم اکثرسوچتے رہتے ہیں۔

سوچ لیجئے کے بعد ان کا دوایکٹ ڈرامہ’’کینسر‘‘ ۱۹۹۵ء میں کتابی صورت میں شائع ہوا۔ انھیں اس ڈرامے پربھی ساہتیہ کلاپریشد، دہلی کے ڈراموں کے کل ہند مقابلے میں ۱۹۹۳ء میں پہلا انعام ملا تھا۔ اس میں انھوں نے بیٹی کی حالت زار کی پردردعکاسی کی ہے جو بے طلب دنیا میں آتی ہے اور ماں باپ کی چھاتی کا بوجھ بن کر زندگی گزارتی ہے۔ اس کی ذراسی غلطی ناقابل معافی جرم بن جاتی ہے اس لیے خاندان کے افراد اس بوجھ کو جلدی سے سرسے اتاردینے کی فکرمیں رہتے ہیں۔ یہی المیہ اس ڈرامے کو پراثربناتا ہے۔

ان کے ڈراموں کا مجموعہ:وہ بولتے کیوں نہیں ۲۰۰۰ء میں شائع ہوا۔ اس میں نوسے پندرہ سال تک کی عمر کے بچوں کے لیے چار ڈرامے شامل ہیں جن کے عنوانات یہ ہیں :تیتری، اڑکٹریا، کمل اور سوزی۔ ان ڈراموں میں ایسے حالات دکھائے گئے ہیں جہاں کسی فرد یا افراد کے انسانی حقوق پامال کیے جا رہے ہیں۔ انھی کی مدد سے بچوں کو یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ انسانی حقوق کیا ہیں اور انھیں مجبوروں کو ان کے حقوق دلانے کے لیے کیا کرنا چاہئے۔

ڈرامہ’’ہے اور کوئی راستہ ‘‘کتابی صورت میں ۲۰۰۲ء میں زیورطبع سے آراستہ ہوا۔ یہ بھی بچوں کے لیے ہے۔ انھوں نے یہ ڈرامہ دہلی اردو اکادمی کے اسکرپٹ رائٹنگ مقابلے کے لیے لکھاتھا جو انعام کے لیے منتخب کیا گیاتھا۔ اس کا مرکزی خیال مسلم سماج کا ایک سلگتاہوامسئلہ یعنی عرب شیوخ کے ساتھ کم سن ہندوستانی مسلم لڑکیوں کی شادی ہے۔ حالات کے جبر اور معاشرے کے غلط رسم و رواج کی وجہ سے غریب والدین اپنی معصوم بچیوں کو مالدار عرب شیوخ کے نکاح میں دینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اس ڈرامے میں اسی سچائی کو ہنر مندی سے واضح کیا گیا ہے۔

ان کا مشہور ڈرامہ سراب ۲۰۰۴ء میں اشاعت پذیرہوا۔ اس میں مرد کی برتری کے زعم اور عورت کی اپنے وجود اور اپنی شخصیت کو منوانے کی کشمکش کو تین سطحوں پر واضح کیا گیا ہے اور یہ ظاہر کیا گیا ہے اس کا کوئی ایسا عالمی حل نہیں ہے جو آسانی سے پیش کیا جا سکے بلکہ اس کا حل انفرادی طور پر ہی تلاش کرن ہوگا۔

یوں نور العین علی کے اب تک ڈراموں کے کل چھ مجموعے چھپ چکے ہیں۔ ان کے ڈرامے طبع زاد ہوتے ہیں۔ انھوں نے نہ تو دوسری زبانوں کے ڈراموں کا چربہ اتارا ہے اور نہ ہی دوسری زبانوں سے ترجمہ کیا ہے۔ ان کے ڈراموں کی اہم خوبی مقصدیت ہے۔ انھوں نے اپنے ڈراموں میں کسی نہ کسی سماجی، معاشرتی یا معاشی مسئلے کو موضوع بحث بنایا ہے۔ انھیں عورتوں کے مسائل سے خصوصی دلچسپی ہے۔ وہ اصولی طور پر مساواتِ مرد و زن کی قائل ہیں۔ سماج میں جہاں اور جب عورتوں کے حقوق غضب کیے گئے انھوں نے اس کے خلاف فوراً آواز اٹھائی۔ وہ آزادی نسواں کی حامی ضرور ہیں لیکن حدود کی پاسداری کا بھی خیال رکھتی ہیں۔ انھیں بے محابا آزادی پسند نہیں ہے لیکن بے جا بندشوں کو بھی وہ گوارا نہیں کرتیں۔ وہ مرد و زن کے رشتے میں ایک توازن کی قائل ہیں۔ انھوں نے انھی خیالات کو اپنے ڈراموں میں بے باکی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ان کے ڈراموں کے کردار جچے تلے اور انداز میں اپنی بولی اور اپنے اصل لہجے میں اپنے مدعا کا اظہار کرتے ہیں۔ زبان صاف ستھری اور دلکش ہے۔ مختلف ڈراموں کے چند اقتباسات دیکھئے:

’’نگار:جی ہاں۔ ۔ ۔ یہی کہہ کہہ کر وہ مجھے تسلیاں دیتے رہے اور میں ہمیشہ کی طرح ان کی باتوں کے سحر میں کھوتی رہی۔ لیکن ایک بے چینی، ایک خلش دل کو لگی ہوئی تھی۔ کیوں کہ میں سمجھنے لگی تھی کہ ماں بننا شاید میری قسمت میں نہیں ہے۔ اس ذہنی اور جسمانی کوفت نے مجھے بیمار کر دیا۔ ایک دن میں اتنا روئی کہ بے ہوش ہو گئی۔ تب شوکت صاحب نے اصل بات بتا دی کہ میں ماں بن سکتی ہوں اور بنوں گی لیکن بیٹے کی۔ ۔ ۔ دونوں باربچے کی جنس معلوم کرنے کے لیے سونی گرافی کرانے سے پتہ چلا کہ لڑکی ہے توانھوں نے ابارشن کروادئیے۔ ‘‘(سوچ لیجئے، ص:۵۲)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

’’واجد:تم اکیلی اس کینسر کی مریض نہیں ہو، نجو۔ ۔ ۔ ہمارا سارا ملک ایک کینسر وارڈ بن گیا ہے۔ کہیں مذہبی، علاقائی، لسانی تعصب کا کینسر ہے۔ کہیں بے انتہا دولت کا کینسر ہے۔ کہیں سرنگوں کرنے والی غربت، بھوک اور بے روزگاری کا کینسر ہے۔ تم نا امیدی، مایوسی اور قنوطیت کے کینسر میں مبتلا ہو۔ ‘‘ (کینسر، ص:۹۱)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

’’زرینہ:اکیسویں صدی شروع ہونے میں ابھی سال بھر باقی ہے اور ابھی تک انسان بیچے جا رہے ہیں۔ بیچنے والے اور خریدنے والے اپنی اپنی غرض میں اندھے ہو رہے ہیں۔ جو بک رہا ہے اس کی کسی کو فکر نہیں۔ کہتے ہیں دنیا سے غلامی کا دستور ختم ہو گیا(ارشد کی طرف دیکھ کر غصے سے) کہاں ہے آپ کا قانون؟ کیا کر رہا ہے۔ ‘‘(وہ بولتے کیوں نہیں میں شامل ڈرامہ تیتری کا اقتباس، ص:۱۸)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

’’زرینہ: یہی تو سمجھنا ہے بیٹے تم کو۔ ۔ ۔ انسان ہونے میں وہ تمہارے برابر کا ہے۔ انسان ہونے کی وجہ سے جو حق تمہیں ملے ہوئے ہیں اس کو بھی وہی ملنے چاہئیں۔ وہ جنگلی قبیلے کا لڑکا ہے لیکن اسے بھی حق ہے کہ اپنی عمر کے ہر لڑکے کی طرح وہ بھی اچھے محبت بھرے ماحول میں رہے۔ اچھی صحت بخش غذا کھائے۔ جس طرح تم پڑھ رہے ہو، وہ بھی پڑھے لکھے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے جو صلاحیتیں دی ہیں انھیں بڑھنے، پھلنے، پھولنے کا موقع ملے۔ اسے بھی معاشرے میں با عزت مقام حاصل ہو۔ قبائلی لڑکا ہونے کی وجہ سے کوئی اس کا مذاق اڑائے۔ ‘‘(وہ بولتے کیوں نہیں میں شامل ڈرامہ اڑکڑیا کا اقتباس، ص:۴۲، ۴۳)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

’’چنی:نوکری ڈھونڈنے کے لیے مجھے گھر سے باہر نکلنا ہوگا ماموں ! یہ مردوں کی دینا ہے۔ اکیلی لڑکی کو زندگی سے لڑتے ہوئے دیکھ کر مرد اپنی توہین محسوس کرتے ہیں۔ پتہ ہے ماموں۔ آج کل میں گھر سے باہر قدم رکھتی ہوں تو لگتا ہے کہ ایک گھنے جنگل میں پہنچ گئی ہوں۔ ہر طرف سے بھیڑئیے نکل نکل کر آ رہے ہیں۔ ‘‘(ہے اور کوئی راستہ، ص:۴۵)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

’’حمیدہ:غریب گھرکی بیٹی ہوں۔ جس دن سے سمجھ آئی یہی سنتی رہی ہوں کہ بیٹی ماں باپ کی چھاتی کا بوجھ ہے۔ جیسے بھی ہو اتارو۔ جتنی جلدی اتارو اچھا ہے۔ بغیر جہیز، گھوڑے، جوڑے کے کوئی شادی کو تیار نہ تھا۔ انھوں نے اسی شرط پر شادی کی کہ تنخواہ پر ان کا حق ہوگا۔ جس دن سے ان کے گھر آئی ساس، سسر، میاں سب سناتے رہتے ہیں کہ عورت تو پاؤں کی جوتی ہے۔ ایک اتارو، دوسری پہن لو۔ ‘‘(سراب، ص:۳۳)

یہ اقتباسات نورالعین علی کی سوچ کو پورے طور سے واضح کرتے ہیں اور یہ ثابت کرتے ہیں کہ انھیں انسانی حقوق اور اعلا تہذیبی اقدار بہت عزیز ہیں۔ انھوں نے انھی کو اپنا موضوع بنایا ہے اور انھی تناظر میں اپنے ڈراموں کی تخلیق کی ہے۔

نور العین علی نے بچوں کے لیے جو نظمیں لکھی ہیں وہ سبق آموز ہیں۔ اپنی نظموں میں انھوں نے اخلاق و محبت کی تعلیم شائستگی اور نرم لہجے میں دی ہے اور ہنر مندی سے ان کی معلومات میں اضافہ کیا ہے۔ دل کو متاثر کرنے والی ان کی کچھ نظمیں ملاحظہ کیجئے:

آؤ سہیلی

کب تک بیٹھو گی منہ موڑے

چھٹی کے دن ہو گئے پورے

تھوک دو غصہ کر لو میل

آؤ سہیلی کھیلیں کھیل

ٹافی، بسکٹ، گولی لادوں

میک اپ کی چیزیں منگوا دوں

پوڈر، سرخی، سر کا تیل

آؤ سہیلی کھیلیں کھیل

آؤ دونوں بنیں سپاہی

چور کے منھ پر ملیں سیاہی

پھر اس کو بھجوا دیں جیل

آؤ سہیلی کھیلیں کھیل

بس من جاؤ، یوں مت اکڑو

یہ لو میرا کرتا پکڑو

میں ہوں انجن تم ہو ریل

آؤ سہیلی کھیلو کھیل

(مطبوعہ ماہنامہ امنگ، نئی دہلی، مارچ ۱۹۹۱ء، ص:۸)

ایک شکایت

کیوں امی نے مجھ کو ڈانٹا

کیوں ابا نے مارا چانٹا

ایسا میں نے کیا ہی کیا تھا

بس تکیے کا بنایا گھوڑا

بس بلی کا کان مروڑا

بس کھڑکی کا شیشہ توڑا

چھوٹی چھوٹی بات کو لے کر

دن دن بھر چلاتے ہیں

ابا، امی دوں مل کر

کتنا شور مچاتے ہیں

(مطبوعہ ماہنامہ امنگ، فروری ۱۹۹۰ء، ص:۴)

نہیں بوجھ پائے

سویرے جو دیکھو تو نیلا لگے

جو ہو دوپہر تو وہ پیلا لگے

کبھی لال ہے اور کبھی سرمئی

سفیدی کبھی ہر طرف چھا گئی

یہ کس طرح اتنے بدلتا ہے رنگ

سکھائے ہیں کس نے اسے ایسے ڈھنگ

کبھی ایک تھالی ہے ہیروں بھری

کہ جیسے ہو دنیا میں الٹی دھری

مگر ایک ہیرا بھی گرتا نہیں

یہ کیا بھید ہے میں تو سمجھا نہیں

چمکتی دمکتی ہیں قندیلیں دو

کہ ہم دیکھیں دنیا کی ہر چیز کو

روپہلی جو ہے اس میں قندیل ایک

دکھاتی ہے وہ رات کو راہ نیک

سنہری جو قندیل دن میں جلے

اٹھا کر نظر کوئی گر دیکھ لے

تو چندھیائیں آنکھیں نظر کچھ نہ آئے

بہت دیر تک وہ نہ سر بھی اٹھائے

بتاؤ تو کیا شئے ہوئی ہے بیاں

نہیں بوجھ پائے؟ یہ ہے آسماں

(مطبوعہ:ماہنامہ پیام تعلیم، دہلی، مارچ ۱۹۸۶ء، ص:۵)

۱۔          بہوکی تلاش اور دوسرے ڈرامے ازنورالعین علی، مطبوعہ یونیورسل پریس(بمبئی)، ۱۹۶۵ء

۲۔         سوچ لیجئے ازنورالعین علی، مطبوعہ ہدیٰ آفسٹ (مالیگاؤں )، ۱۹۸۹ء

۳۔         کینسرازنورالعین علی، مطبوعہ پربھات پرنٹنگ ورکس(پونہ)، ۱۹۹۵ء

۴۔         وہ بولتے کیوں نہیں ازنورالعین علی، مطبوعہ پربھات پرنٹنگ ورکس(پونہ)، ۲۰۰۰ء

۵۔         ہے اور کوئی راستہ از نورالعین علی، مطبوعہ پرنٹوپ پریس(ممبئی)، ۲۰۰۲ء

۶۔         سراب ازنورالعین علی، مطبوعہ پرنٹ آرٹ انٹرپرائزس(پونہ)، ۲۰۰۴ء

۷۔         مکاتیب حبیب مرتبہ ذکا صدیقی مطبوعہ کاتب کمپیوٹرس(امراؤتی)، ۱۹۹۸ء

۸۔         ماہنامہ امنگ(نئی دہلی)، فروری ۱۹۹۰ء

۹۔         ماہنامہ امنگ(نئی دہلی)، مارچ۱۹۹۱ء

۱۰۔        ماہنامہ پیام تعلیم(نئی دہلی)، مارچ۱۹۸۶ء

فاطمہ انیس

تعلیمی اور صحافتی اعتبارسے شہرت یافتہ ہیں۔ ان کی پیدائش ۴اگست ۱۹۳۳ء کو شولاپور میں ہوئی۔ ان کے والد روشن خیال، دوراندیش اور تعلیم نسواں کے حامی تھے لہٰذا انھیں تحصیل علم کا آزادانہ موقع ملا۔ انھوں نے ۱۹۴۶ء میں اردو پرائمری میونسپل اسکول (شولاپور) سے ساتویں جماعت کا بورڈ کا امتحان (فائنل) پاس کرنے کے بعد اینگلو اردو ہائی اسکول (شولاپور) میں داخلہ لیا۔ یہاں سے ۱۹۵۰ء میں میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ بعد کوبی اے، ایم اے اور بی ایڈ کی اسناد حاصل کیں۔ ان کی شادی شولاپور کے ایک نامور شاعروصحافی غفورانیس کے ساتھ ہوئی تھی۔ وہ بسلسلۂ ملازمت حیدرآباد، ناگپور، دہلی اور بمبئی میں مقیم رہے۔ انھوں نے تقریباً پیتالیس سال کی عمر پاکر شولاپور میں ۱۹۷۶ء میں رحلت فرمائی۔

فاطمہ انیس ہمیشہ درس وتدریس کے پیشے سے وابستہ رہیں۔ انھوں نے انجمن اسلام گرلز ہائی اسکول (ممبئی) میں کئی سال تک ایک معلمہ کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دیے۔ اس کے بعد وہ انجمن خیرالاسلام گرلزہائی اسکول (ممبئی) کی صدرمعلمہ ہوئیں۔ اسی منصب پر رہ کر ۱۹۹۲ء میں ملازمت سے سبکدوش ہوئیں۔ بعدازاں سیاست میں حصہ لیا اور ۱۹۹۲ء میں ہی کانگریس (آئی) کی طرف سے شولاپور میونسپل کارپوریشن کی کارپوریٹر منتخب ہوئیں۔ اسی اثنامیں ڈپٹی میئربھی بنائی گئیں۔

ان کے شوہر اچھے صحافی وشاعرتھے۔ گھرکا ماحول ادبی و علمی تھا۔ چنانچہ انھیں بھی تعلیم وتدریس کے موضوع پر لکھنے کا شوق ہوا۔ وہ بمبئی کے نامور اخبار انقلاب میں ہرہفتے اور تدریس کے عنوان سے ایک کالم لکھاکرتی تھیں۔ یہ سلسلہ کئی سال تک جاری رہا۔ اس کالم کی وجہ سے ان کوکافی شہرت ملی۔ ان کی یہ تین کتابیں بھی شائع ہوئیں ہیں :(۱)تعلیم وتدریس(۲)مہاراشٹر کے تعلیمی مسائل اور اردو اسکول(۳)تعلیم اور معاشرتی مسائل۔ ان کتابوں میں اردوزبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کی پرزور سفارش کی گئی ہے اور تعلیم وتدریس کے متعلق ان کے واضح خیالات بھی ملتے ہیں۔ جو اردو معاشرے کو اس راستے کی نشاندہی کرتے ہیں جس پر چل کر سماج تعلیمی لحاظ سے مضبوط ومستحکم ہوتا ہے۔ ان کتابوں سے مہاراشٹر کی اردو اسکولوں کی انتظامیہ اور اساتذہ نے کافی استفادہ کیا ہے۔ انھیں ان کی تصنیف تعلیم وتدریس پر مہاراشٹر اسٹیٹ اردواکادیمی کی جانب سے انعام بھی ملاتھا۔

اردواسکولوں کی بہتری اور ترقی کے لیے انھوں نے آل مہاراشٹر اردو ہائی اسکول ہیڈماسٹرس اسوسی ایشن کی بنیادڈالنے میں اہم کرداراداکیا۔ وہ کئی سال تک اس اسوسی ایشن کی جنرل سکریٹری اور پھر نائب صدر رہیں۔ یہی نہیں بلکہ انھوں نے اردوطلبہ کی سہولت کے لیے پہی مرتبہ تاریخ، جغرافیہ اور شہریت کی ورک بک بھی تیارکی۔ یوں انھوں نے اپنی تدریسی زندگی میں اردو معاشرے کے تعلیمی مسائل کوسمجھنے اور انھیں دیانت داری سے سلجھانے کی مخلصانہ کوشش کی۔ یہی ان کا بڑا کارنامہ ہے۔

۱۔          ماہنامہ خاتون مشرق(دہلی) اگست ۲۰۰۳ء، ص:۱۳، ۱۴

۲۔         ماہنامہ گل بوٹے(ممبئی) ستمبر ۲۰۰۴ء، ص:۶، ۷

۳۔         تعلیم وتدریس ازفاطمہ انیس مطبوعہ خیاباں پبلی کیشنز(بمبئی)، ۱۹۷۹ء

سلمیٰ صدیقی

اردو ادب کے مسلمہ اور مایۂ ناز نثرنگار اور طنز مزاح کے منفرد مصنف رشید احمد صدیقی کی دختر نیک اختر ہیں۔ ان کے جد اعلا حضرت پیر زکریا سترہویں صدی عیسوی میں تبلیغ دین کی غرض سے ترک سے ہندوستان آئے۔ پنجاب، دلی اور الٰہ آباد میں رکتے ہوئے جونپور پہنچے اور اس کے ایک علاقے مریاہو میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ ان کی بیشتر اولاد نے فوج اور سپہ گری کے پیشے کو ترجیح دی۔ ان میں رشید صدیقی کے اسلاف بھی تھے۔

سلمیٰ صدیقی کے داداعبدالقدیر پولیس محکمے میں ملازم تھے۔ انھوں نے ایک خداترس اور پاکیزہ زندگی گزارکر ۱۹۴۸ء میں رحلت فرمائی۔ ان کے چارلڑکے اور تین لڑکیاں تھیں جن میں رشید احمد صدیقی نے علمی و ادبی دنیامیں بے انتہامقبولیت حاصل کی۔ وہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے شعبۂ اردو میں لکچرار، ریڈر اور پروفیسر کے منصب پر یکے بعد دیگرے فائزرہے۔ اس شعبے میں تقریباً ۳۸ سال تک خدمات انجام دینے کے بعد یکم مئی ۱۹۵۸ء کوملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ اس کے بعد بھی علی گڑھ ہی میں مستقل قیام رہا۔ انھوں نے ۱۵جنوری ۱۹۷۷ء کو رحلت فرمائی۔ اولاد میں پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں ہوئیں۔ طنزیات ومضحکات، مضامین رشید، گنجہائے گراں مایہ، جدیدغزل، آشفتہ بیانی میری، ہم نفسانِ رفتہ ان کی مشہور کتابیں ہیں۔ (۱)

سلمیٰ صدیقی ۱۸جون ۱۹۳۱ء کو بنارس میں پیدا ہوئیں جہاں ان کا ننہال تھا۔ ان کی تعلیم و تربیت علی گڑھ یونیورسٹی کی تعلیمی، ادبی و علمی فضامیں ہوئی۔ وہ اردوسے ایم اے کرنے کے بعد چندے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے خواتین کالج میں لکچرربھی رہیں۔

ان کے ادبی ذوق کا آغاز کتابوں کے مطالعہ سے ہوا۔ گھرمیں کافی کتابیں تھیں۔ گھرکی کتابیں پڑھ لیتی تویونیورسٹی لائبریری سے پسندیدہ کتابیں منگواتیں۔ اس کے علاوہ آل احمدسرور کے گھر سے کتابیں اٹھالاتیں۔ اس وقت وہ حجاب امتیازعلی کی کتابوں پہ دیوانی تھیں۔ ایک دن انھیں ان کے بڑے بھائی اقبال رشید نے کرشن چندر کی کہانی ان داتا پڑھنے کودی۔ جوکسی رسالے میں شائع ہوئی تھی۔ کچھ دن بعد ان کے پھوپھی زادبھائی جلال الدین احمد نے’’ شکست‘‘ پڑھنے کودی۔ بعدازاں طلسم خیال کا مطالعہ کیا۔ پھرتو یہ حالت ہوئی وہ کرشن چندر پہ دیوانی ہوگئیں اور انھیں کی کہانیاں پڑھنے لگیں اور ان کے فکروخیال پہ ایمان لے آئیں۔

کرشن چندر سے ان کی پہلی ملاقات ۱۹۵۳ء میں دہلی میں مجاز کے توسط سے ہوئی اور بہت جلد یہ ملاقات ازدواجی رشتے سے مستحکم ہوگئی۔ وہ ۱۹۶۲ء میں کرشن چندرکے ساتھ بمبئی آئیں اور وہیں مستقل سکونت اختیارکر لی۔ (۲)

سلمیٰ صدیقی نے اردو اور ہندی میں جوافسانے لکھے ہیں وہ عورتوں کے مسائل سے تعلق رکھتے ہیں۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں ایک عورت کی نفسیات، اس کی شخصیت اور اس کی روح کی ترجمانی بہت سلیقے سے کی ہے۔ بقول خواجہ احمدعباس:

’’وہ کبھی کبھی ایسے جملے لکھ جاتی ہیں جومرد کے قلم سے نکل ہی نہیں سکتے۔ ‘‘

ان کے افسانوں کی نہج موضوعاتی اور اسلوب بیانیہ ہے۔ ان کا بنیادی وصف بیان کی چاشنی اور پلاٹ کی چستی ہے۔ نظریات واضح اور زبان بے تکلف ہے۔ ان کے نومنتخب افسانوں کا ایک مجموعہ ’’مٹی کا چراغ‘‘ نصرت پبلشر، لکھنو کے زیراہتمام ۱۹۷۶ء میں شائع ہوا ہے۔ ان نوافسانوں کے عنوانات یہ ہیں :(۱) عرش کا پایہ، (۲) پھٹی پرانی نشانی، (۳) اندھاچاند، (۴) ایک تھالڑکا، (۵) بھروسا (۶)منگل سوتر، (۷) سمجھوتا، (۸)گلہری کی بہن، (۹)مٹی کا چراغ۔ ۔ ۔ (۳)

حواشی

۱۔          تذکرۂ معاصرین (۴)ازمالک رام مطبوعہ مکتبہ جامعہ(نئی دہلی) ۱۹۸۲ء، ص: ۲۰۱

۲۔         فن اور شخصیت، بمبئی(آپ بیتی نمبر)، ص: ۲۴۷

۳۔         مٹی کا چراغ ازسلمیٰ صدیقی مطبوعہ نصرت پبلشر(لکھنو) ۱۹۷۶ء

***

مواد بتشکر ڈاکٹر شرف الدین ساحل، ناگپور

ان پیج سے تبدیلی، پروف ریڈنگ، ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید