FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

سرودٕ زندگی

 

اصغرؔ گونڈوی

پیشکش: طارق شاہ

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

مکمل کلیات

ورڈ فائل              ای پب فائل

صرف سرودِ زندگی ڈاؤن لوڈ کریں

حصہ اول نشاط روح

 ورڈ فائل           ای پب فائل

 

 

 

 

 

 

ترک مدّعا کر دے، عین مدّعا ہو جا

شان عبد پیدا کر، مظہر خدا ہو جا

 

اس کی راہ میں مٹ کر بے نیاز خلقت بن

حسن پر فدا ہو کر حسن کی ادا ہو جا

 

برگ گل کے دامن پر رنگ بن کے جمنا کیا

اس فضائے گلشن میں موجۂ صبا ہو جا

 

تو ہے جب پیام اس کا پھر پیام کیا تیرا

تو ہے جب صدا اس کی، آپ بے صدا ہو جا

 

آدمی نہیں سنتا آدمی کی با توں کو

پیکر عمل بن کر غیب کی صدا ہو جا

 

ساز دل کے پردوں کو خود وہ چھیڑتا ہو جب

جان مضطرب بن کر تو بھی لب کشا ہو جا

 

قطرۂ تنک مایہ ! بحر بے کراں ہے تو

اپنی ابتدا ہو کر اپنی انتہا ہو جا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اگرچہ ساغر گل ہے تمام تر بے بود

چھلک رہی ہے چمن میں مگر شراب وجود

 

جو لے اڑا مجھے مستانہ وار ذوق سجود

بتوں کی صف سے اٹھا نعرۂ انا المعبود

 

کہاں خرد ہے، کہاں ہے نظام کار اس کا

یہ پوچھتی ہے تری نرگس خمار آلود

 

یہی نگاہ جو چاہے وہ انقلاب کرے

لباس زہد کو جس نے کیا شراب آلود

 

شعاع مہر کی جولانیاں ہیں ذرّوں میں

حجاب حسن ہے آئینہ دار حسن وجود

 

اٹھا کے عرش کو رکھّا ہے فرش پر لا کر

شہود غیب ہوا، غیب ہو گیا ہے شہود

 

مذاق سیر و نظر کو کچھ اور وسعت دے

کہ ذرّے ذرّے میں ہے اک جہان نا مشہود

 

نیاز سجدہ کو شائستہ و مکمّل کر

جہاں نے یوں تو بنائے ہزارہا معبود

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

تمام دفتر حکمت الٹ گیا ہوں میں

مگر کھلا نہیں اب تک کہاں ہوں، کیا ہوں میں

 

کبھی سنا کہ حقیقت ہے میری لاہوتی

کہیں یہ ضد کہ ہیولائے ارتقا ہوں میں

 

یہ مجھ سے پوچھئے، کیا جستجو میں لذّت ہے

فضائے دہر میں تبدیل ہو گیا ہوں میں

 

ہٹا کے شیشہ و ساغر ہجوم مستی میں

تمام عرصۂ عالم پہ چھا گیا ہوں میں

 

اڑا ہوں جب، تو فلک پر لیا ہے دم جا کر

زمیں کو توڑ گیا ہوں، جو رہ گیا ہوں میں

 

رہی ہے خاک کے ذرّوں میں بھی چمک میری

کبھی کبھی تو ستاروں میں مل گیا ہوں میں

 

کبھی خیال، کہ ہے خواب عالم ہستی!

ضمیر میں ابھی فطرت کے سو رہا ہوں میں

 

کبھی یہ فخر کہ، عالم بھی عکس ہے میرا

خود اپنا طرز نظر ہے کہ، دیکھتا ہوں میں

 

کچھ انتہا نہیں نیرنگ زیست کے میرے

حیات محض ہوں، پروردۂ فنا ہوں میں

 

حیات و موت بھی ادنیٰ سی اک کڑی میری

ازل سے لے کے ابد تک وہ سلسلہ ہوں میں

 

کہاں ہے ؟ سامنے آ مشعل یقیں لے کر

فریب خوردۂ عقل گریز پا ہوں میں

 

نوائے راز کا سینے میں خون ہوتا ہے

ستم ہے لفظ پرستوں میں گھر گیا ہوں میں

 

سما گئے مری نظروں میں، چھا گئے دل پر!

خیال کرتا ہوں ان کو، کہ دیکھتا ہوں میں

 

نہ کوئی نام ہے میرا، نہ کوئی صورت ہے

کچھ اس طرح ہمہ تن دید ہو گیا ہوں میں

 

نہ کامیاب ہوا میں، نہ رہ گیا محروم

بڑا غضب ہے کہ، منزل پہ کھو گیا ہوں میں

 

جہان ہے کہ نہیں، جسم و جاں بھی ہیں کہ نہیں

وہ دیکھتا ہے مجھے، اس کو دیکھتا ہوں میں

 

ترا جمال ہے، تیرا خیال ہے، تو ہے !

مجھے یہ فرصت کاوش کہاں کہ، کیا ہوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

خطاب بہ مسلم

 

کہاں اے مسلم سرگشتہ تو محو تماشہ ہے

جب اس آئینۂ ہستی میں، تیرا ہی سراپا ہے

 

ہجوم کفر بھی جنبش ہے تیری زلف برہم کی

فضائے حسن ایماں انعکاس روئے زیبا ہے

 

جہان آب و گل میں ہے شرار زندگی تجھ سے

تری ذات گرامی ارتقاء کا اک ہیولا ہے

 

تجھی سے اس جہاں میں ہے بنا آئین حکمت کی

کہ سب مے کی بدولت اصطلاح جام و مینا ہے

 

ضوابط دین کامل کے دئے ہیں تیرے ہاتھوں میں

تجھی سے خلق کی تکمیل کا بھی کام لینا ہے

 

تجھی کو دیکھتا ہوں روح اقوام و مذاہب کی

یہ راز زندگی سن لے کہ ہر قطرے میں دریا ہے

 

فرشتوں نے وہاں پر حرز جاں اس کو بنایا ہے

فرازِ عرش پر تیرا ہی کچھ نقش کف پا ہے

 

جو ہو للّٰہیت تو دین بن جاتی ہے یہ دنیا

اگر اغراض ہوں تو دین بھی بدتر ز دنیا ہے

 

فرائض کا رہے احساس، عالم کے مذاہب میں !

یہی عارف کا مقصد ہے، یہی شارع کا ایماں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

مجھ پہ نگاہ ڈال دی اس نے ذرا سرور میں

صاف ڈبو دیا مجھے موج مئے طہور میں

 

حسن کرشمہ ساز کا بزم میں فیض عام ہے

جان بلا کشاں ابھی غرق ہے موج نور میں

 

اس نے مجھے دکھا دیا ساغر مے اچھال کر

آج بھی کچھ کمی نہیں چشمک برق طور میں

 

خیر گی نظر کے ساتھ ہوش کا بھی پتہ نہیں

اور بھی دور ہو گئے آ کے ترے حضور میں

 

تیری ہزار برتری، تیری ہزار مصلحت !

میری ہر اک شکست میں، میرے ہر اک قصور میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

نمایاں کر دیا میں نے بہار روئے خنداں کو

کہ دی نغمے کو مستی، رنگ کچھ صبح گلستاں کو

 

ذرا تکلیف جنبش دے نگاہ برق ساماں کو

جہاں میں منتشر کر دے مذاق سوز پنہاں کو

 

ذرا روکے ہوئے موج تبسّم ہائے پنہاں کو

ابھی یہ لے اڑیں گی بجلیاں تار رگ جاں کو

 

قفس ہو، دام ہو، کوئی چھڑائے، اب یہ ناممکن

ازل کے دن کلیجے میں بٹھایا تھا گلستاں کو

 

بس اتنے پر ہوا ہنگامۂ دار و رسن برپا

کہ لے آغوش میں آئینہ کیوں مہر درخشاں کو

 

تمنّا ہے نکل کر سامنے بھی عشوہ فرما ہو

کوئی دیتا ہے جنبش پردۂ بیتاب جاناں کو

 

یہاں کچھ نخل پر بکھرے ہوئے اوراق رنگیں ہیں

مگر اک مشت پر سے پوچھئے راز گلستاں کو

 

دکھائی صورت گل پر بہار شوخی پنہاں

چھپایا معنی گل میں کبھی حسن نمایاں کو

 

ہوئے جو ماجرے خلوت سرائے راز میں اس سے

نہ کفر اب تک ہوا واقف، خبراس کی نہ ایماں کو

 

سنا ہے حشر میں شان کرم بیتاب نکلے گی

لگا رکھّا ہے سینہ سے متاع ذوق عصیاں کو

 

نہ میں دیوانہ ہوں اصغر، نہ مجھ کو ذوق عریانی !

کوئی کھینچے لئے جاتا ہے خود جیب و گریباں کو

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

یہ راز ہے میری زندگی کا

پہنے ہوئے ہوں کفن خودی کا

 

پھر نشتر غم سے چھیڑتے ہیں

اک طرز ہے یہ بھی دل دہی کا

 

پھر ڈھونڈ رہا ہوں بے خودی میں

کھویا ہوا لطف آگہی کا

 

او، لفظ و بیاں میں چھپنے والے

اب قصد ہے اور خامشی کا

 

مرنا تو ہے اک ابتدا کی بات

جینا ہے کمال منتہی کا

 

عالم پہ ہے اک سکون بے تاب

یا عکس ہے میری خامشی کا

 

ہاں سینہ گلوں کی طرح کر چاک

دے مر کے ثبوت زندگی کا

 

یاس، ایک جنون ہوشیاری

امّید، فریب زندگی کا

٭٭٭

 

 

 

 

 

ذرّوں کا رقص مستی صہبائے عشق ہے

عالم رواں دواں بہ تقاضائے عشق ہے

 

بیٹھا ہے ایک خاک نشین محو بے خودی

کچھ حسن سے غرض ہے، نہ پروائے عشق ہے

 

ہیجان و اضطراب ہے، امّید وصل ہے

راز حیات شورش بیجائے عشق ہے

 

ہر عشوۂ حجاب، طریق نمود حسن

ہر حرف شوق پردۂ اخفائے عشق ہے

 

اب خود یہاں تغافل و بیگانگی سی ہے

کچھ یہ بھی طرفہ کاری سودائے عشق ہے

 

جب یہ نہیں تو ختم ہیں رنگینیاں تمام !

سازخودی میں جوش نوا ہائے عشق ہے

 

کس درجہ ایک خاک کے ذرّے میں ہے تپش!

ارض و سما میں شورش و غوغائے عشق ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

شکوہ نہ چاہیئے کہ تقاضا نہ چاہیئے

جب جان پر بنی ہو تو کیا کیا نہ چاہیئے

 

ساقی تری نگاہ کو پہچانتا ہوں میں !

مجھ سے فریب ساغرومینا نہ چاہیئے

 

یہ آستان یار ہے، صحن حرم نہیں !

جب رکھ دیا ہے سر تو اٹھانا نہ چاہیئے

 

خود آپ اپنی آگ میں جلنے کا لطف ہے

اہل تپش کو آتش سینا نہ چاہیئے

 

کیا کم ہیں ذوق دید کی جلوہ فرازیاں ؟

آنکھوں کو انتظار تماشا نہ چاہیئے

 

وہ بارگاہ حسن ادب کا مقام ہے

جز درد و اشتیاق تقاضا نہ چاہیئے

 

تیغ ادا میں اس کے ہے اک روح تازگی

ہم کشتگان شوق کو مر جانا چاہیئے

 

ہستی کے آب و رنگ کی تعبیر کچھ تو ہو

مجھ کو فقط یہ خواب زلیخا نہ چاہیئے

 

اس کے سوا تو معنی مجنوں بھی کچھ نہیں

ایسا بھی ربط صورت لیلیٰ نہ چاہیئے

 

ٹھہرے اگر تو منزل مقصود پھر کہاں

ساغر بکف گرے تو سنبھلنا نہ چاہیئے

 

اک جلوہ خال و خط سے بھی آراستہ سہی

واماندگی ذوق تماشا نہ چاہیئے

 

سب اہل دید بیخود و حیران ومست ہیں

کوئی اگر نہیں ہے تو پروانہ چاہیئے

 

اصغرؔ صنم پرست سہی، پھرکسی کو کیا

اہل حرم کو کاوش بیجا نہ چاہیئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

موجوں کا عکس ہے خط جام شراب میں

یا خوں اچھل رہا ہے رگ ماہتاب میں

 

باقی نہ تاب ضبط رہی شیخ و شاب میں

ان کی جھلک بھی تھی، مری چشم پر آب میں

 

کیوں شکوہ سنج گردش لیل و نہار ہوں

اک تازہ زندگی ہے ہر اک انقلاب میں

 

وہ موت ہے کہ کہتے ہیں جس کو سکون سب

وہ عین زندگی ہے، جو ہے اضطراب میں

 

اتنا ہوا دلیل تو دریا کی بن سکے

مانا کہ اور کچھ نہیں موج و حباب میں

 

اس دن بھی میری روح تھی محو نشاط دید

موسیٰ الجھ گئے تھے سوال و میں

 

دوزخ بھی ایک جلوۂ فردوس حسن ہے

جو اس سے بے خبر ہیں، وہی ہیں عذاب میں

 

میں اضطراب شوق کہوں یا جمال دوست

اک برق ہے جو کوند رہی ہے نقاب میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

میخانۂ ازل میں، جہان خراب میں

ٹھہرا گیا نہ ایک جگہ اضطراب میں

 

اس رخ پہ ہے نظر، کبھی جام شراب میں

آیا کہاں سے نور شب ماہتاب میں

 

اقلیم جاں میں ایک تلاطم مچا دیا

یوں دیکھئے تو کچھ نہیں تار رباب میں

 

اے کاش میں حقیقت ہستی نہ جانتا

اب لطف خواب بھی نہیں احساس خواب میں

 

وہ برق رنگ خرمن جاں کے لئے کہاں

مانا کہ بوئے گل تو ملے گی گلاب میں

 

میری ندائے درد پہ کوئی صدا نہیں

بکھرا دیئے ہیں کچھ مہ و انجم میں

 

اب کون تشنگان حقیقت سے یہ کہے !

ہے زندگی کا راز تلاش سراب میں

 

میں اس ادائے مست خرامی کو کیا کہوں

میری نظر تو غرق ہے موج شراب میں

 

اصغرؔ غزل میں چاہیئے وہ موج زندگی

جو حسن ہے بتوں میں، جو مستی شراب میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

آلام روزگار کو آساں بنا دیا

جو غم ہوا، اسے غم جاناں بنا دیا

 

میں کامیاب دید بھی، محروم دید بھی

جلوؤں کے اژدہام نے حیراں بنا دیا

 

یوں مسکرائے، جان سی کلیوں میں پڑ گئی

یوں لب کشا ہوئے کہ گلستاں بنا دیا

 

کچھ شورشوں کی نذر ہوا خون عاشقاں

کچھ جم کے رہ گیا، اسے حرماں بنا دیا

 

اے شیخ! وہ بسیط حقیقت ہے کفر کی

کچھ قید رسم نے جسے ایماں بنا دیا

 

کچھ آگ دی ہوس میں تو تعمیر عشق کی

جب خاک کر دیا، اسے عرفاں بنا دیا

 

کیا کیا قیود دہر میں ہیں اہل ہوش کے

ایسی فضائے صاف کو زنداں بنا دیا

 

اک برق تھی ضمیر میں فطرت کے موجزن

آج اس کو حسن و عشق کا ساماں بنا دیا

 

مجبوری حیات میں راز حیات ہے

زنداں کو میں نے روزن زنداں بنا دیا

 

وہ شورشیں، نظام جہاں جن کے دم سے ہے

جب مختصر کیا، انہیں انسان بنا دیا

 

ہم اس نگاہ ناز کو سمجھے تھے نیشتر

تم نے تو مسکرا کے رگ جان بنا دیا

 

بلبل بہ آہ و نالہ و گل مست رنگ و بو

مجھ کو شہید رسم گلستاں بنا دیا

 

کہتے ہیں اک فریب مسلسل ہے زندگی

اس کو بھی وقف حسرت و حرماں بنا دیا

 

عالم سے بے خبر بھی ہوں، عالم میں بھی ہوں میں

ساقی نے اس مقام کو آساں بنا دیا

 

اس حسن کاروبار کو مستوں سے پوچھئے

جس کو فریب ہوش نے عصیاں بنا دیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

خون آرزو افشا ہو کسی بہانے سے

رنگ کچھ ٹپکتا ہے حسن کے فسانے سے

 

رنج تھا اسیروں کو بال و پر کے جانے سے

اڑ چلے قفس لے کر بوئے گل کے آنے سے

 

اب جو کچھ گزرنا ہو، جان پر گزر جائے

جھاڑ کر اٹھے دامن اس کے آستانے سے

 

اشک اب نہیں تھمتے، دل پہ اب نہیں قابو

خود کو آزما بیٹھے مجھ کو آزمانے سے

 

مسکرائے جاتا ہوں، اشک بہتے جاتے ہیں

غم کا کام لیتا ہوں عیش کے ترانے سے

 

زخم آپ لیتا ہوں، لذّتیں اٹھاتا ہوں

تجھ کو یاد کرتا ہوں درد کے بہانے سے

 

روشنی ہو جگنو کی جیسے شبنمستاں میں

وہ نقاب کا عالم اس کے مسکرانے سے

 

کثرت مظاہر ہے دفتر فنا آموز

نیند آئی جاتی ہے حسن کے فسانے سے

 

اک نگار محبوبی اشک خوں میں پنہاں ہے

حسن کی نمائش ہے عشق کے بہانے سے

 

بے خودی کا عالم ہے محو جبہ سائی میں

اب نہ سر سے مطلب ہے اور نہ آستانے سے

 

ایک ایک تنکے پر سو شکستگی طاری

برق بھی لرزتی ہے میرے آشیانے سے

 

زمزمہ طرازوں کی گرمی نوا معلوم

موج برق اٹھتی ہے میرے آشیانے سے

 

اس فضائے تیرہ کو گرم کر، منوّر کر

داغ دل نہیں کھلتا دیکھنے دکھانے سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

جز دل حیرت آشنا اور کو یہ خبر نہیں !

ایک مقام ہے جہاں، شام نہیں، سحر نہیں

 

محوئے ذوق دید بھی جلوۂ حسن یار میں

ایک شعاع نور ہے، اب یہ نظر نظر نہیں

 

سرو بھی، جوئے بار بھی، لالہ و گل، بہار بھی

جس سے چمن چمن بنا ایک وہ مشت پر نہیں

 

اب نہ وہ قیل و قال ہے، اب نہ وہ ذوق و حال ہے

میرا مقام ہے وہاں، میرا جہاں گزر نہیں

 

اس کی نگاہ مہر خود مجھ کو اڑا کے لے چلی!

شبنم خستہ حال کو حاجت بال و پر نہیں

 

فتنۂ دہر بھی بجا، فتنۂ حشر بھی درست

لذّت غم کے واسطے جب کوئی فتنہ گر نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

جینے کا نہ کچھ ہوش نہ مرنے کی خبر ہے

اے شعبدہ پرواز یہ کیا طرز نظر ہے

 

سینے میں یہاں دل ہے نہ پہلو میں جگر ہے

اب کون ہے جو تشنۂ پیکان نظر ہے

 

ہے تابش انوار سے عالم تہہ و بالا

جلوہ وہ ابھی تک تہہ دامان نظر ہے

 

کچھ ملتے ہیں اب پختگی عشق کے آثار

نالوں میں رسائی ہے نہ آہوں میں اثر ہے

 

ذرّوں کو یہاں چین نہ اجرام فلک کو

یہ قافلہ بے تاب کہاں گرم سفر ہے

 

خاموش! یہ حیرت کدۂ دہر ہے اصغر

جو کچھ نظر آتا ہے وہ سب طرز نظر ہے

٭٭٭

 

 

 

 

ہے سراپا حسن وہ رنگیں ادا، جان بہار

حسن پر حسن تبسّم، صبح خندان بہار

 

ایک سی گلکاریاں ہیں، ایک سی رنگیں بہار

لے کے دامان نظر سے تا بہ دامان بہار

 

ذرّہ ذرّہ پھر بنے گا اک جہان رنگ و بو

چپکے چپکے ہو رہا ہے عہد و پیمان بہار

 

سبزہ و گل لہلہاتے ہیں، نمو کا زور ہے

موج رنگا رنگ ہے یا جوش طوفان بہار

 

یوں نہ اس دور خزاں کو بے حقیقت جانئیے

پرورش پائی ہے اس نے زیر دامان بہار

٭٭٭

 

 

 

 

 

نالۂ دلخراش میں آہ جگر گداز میں

کون ستم طراز ہے پردۂ سوزوسازمیں

 

چاہیئے داغ معصیت اس کے حریم ناز میں

پھول یہ ایک بھی نہیں دامن پاکباز میں

 

یا تو خود اپنے ہوش کو مستی و بیخودی سکھا

یا نہ کسی کوساتھ لے اس کے حریم ناز میں

 

حشر میں اہل حشرسے دیکھئے خوش ادائیاں

فرد عمل تو چاہیئے دست کرشمہ ساز میں

 

اب وہ عدم عدم نہیں، پرتو حسن یار سے !

باغ و بہار بن گیا آئینہ دست ناز میں

 

گم ہے حقیقت آشنا بندۂ دہر بے خبر

ہوش کسی کو بھی نہیں مے کدۂ مجاز میں

 

موج نسیم صبح میں بوئے صنم کدہ بھی ہے

اور بھی جان پڑ گئی کیفیت نماز میں

 

کچھ تو کمال عشق نے حسن کا رنگ اڑا دیا

ایک ادائے ناز ہے بیخودی نیاز میں

 

شورش عندلیب نے روح چمن میں پھونک دی

ورنہ یہاں کلی کلی مست تھی خواب ناز میں

 

اصغرؔ  خاکسار وہ ذرّۂ خود شناس ہے

حشرسا کر دیا بپا جس نے جہان راز میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

اب نہ کہیں نگاہ ہے، اب نہ کوئی نگاہ ہے

محو کھڑا ہوا ہوں میں حسن کی جلوہ گاہ میں

 

اب تو بہار رنگ، ورائے درائے آب و رنگ

عشق کسی نگاہ میں، حسن کسی نگاہ میں

 

حسن ہزار طرز کا ایک جہاں اسیر ہے

ملحد باخبر بھی گم جلوۂ لا الہٰ میں

 

در یہ جو تیرے آ گیا، اب نہ کہیں مجھے اٹھا

گردش مہر و ماہ بھی دیکھ چکا ہوں راہ میں

 

اب وہ زماں نہ وہ مکاں، اب وہ زمیں نہ آسماں

تم نے جہاں بدل دیا آ کے مری نگاہ میں

 

راز فتادگی نہ پوچھ، لذّت خستگی نہ پوچھ

ورنہ ہزار جبرئیل چھپ گئے گرد راہ میں

 

لفظ نہیں، بیاں نہیں، یہ کوئی داستاں نہیں

شرح نیاز و عاشقی ختم ہے ایک آہ میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

پردۂ فطرت میں میرے اک نوائے راز ہے

ذرّہ ذرّہ اس جہاں کا گوش بر آواز ہے

 

وہ سراپا حسن ہے یا نغمۂ بے ساز ہے

چشم حیرت ہے کہ اک فریاد بے آواز ہے

 

تو بہت سمجھا تو کہہ گزرا فریب رنگ و بو

یہ چمن لیکن اسی کی جلوہ گاہ ناز ہے

 

گوشہ گوشہ علم و حکمت کا ہے سب دیکھا ہوا

یہ غنیمت ہے در میخانہ اب تک باز ہے

 

کیف و مستی کی حقیقت ایک مینائے تہی

نغمہ بھی اس بزم میں ٹوٹا ہوا اک ساز ہے

 

کیا گزرتی ہے شب غم، تم اسی سے پوچھ لو

ایک پیاری شکل، میری محرم و ہم راز ہے

 

بندشوں سے اور بھی ذوق رہائی بڑھ گیا

اب قفس بھی ہم اسیروں کو پر پرواز ہے

 

ہے خرد کی، عشق کی دونوں کی ہستی پر نظر !

یہ شہید نغمہ ہے، وہ مبتلائے ساز ہے

 

ہوش باقی ہوں تو اس پر کاوش بیجا بھی ہو

کیا خبر مجھ کو، کہ یہ آواز ہے یا ساز ہے

 

کیا تماشا ہے کہ سب ہیں اور پھر کوئی نہیں

اس کی بزم ناز بھی خلوت سرائے راز ہے

 

سننے والا گوش بلبل کے سوا کوئی نہیں

ریشہ ریشہ ان گلوں کا اک صدائے راز ہے

 

عام ہے وہ جلوہ، لیکن اپنا اپنا طرز دید

میری آنکھیں بند ہیں اور چشم انجم باز ہے

 

ختم کر اصغر، یہ آشفتہ نوائی ختم کر!

کون سنتا ہے اسے، یہ درد کی آواز ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

مئے بے رنگ کا سو رنگ سے رسوا ہونا

کبھی میکش، کبھی ساقی، کبھی مینا ہونا

 

از ازل تا بہ ابد محو تماشا ہونا

میں وہ ہوں، جس کو نہ مرنا ہے نہ پیدا ہونا

 

سارے عالم میں ہے بیتابی و شورش برپا

ہائے اس شوخ کا ہم شکل تمنّا ہونا

 

فصل گل کیا ہے ؟ یہ معراج ہے آب و گل کی

میری رگ رگ کو مبارک رگ سودا ہونا

 

کہہ کے کچھ لالہ و گل، رکھ لیا پردہ میں ہے

مجھ سے دیکھا نہ گیا حسن کا رسوا ہونا

 

جلوۂ حسن کو ہے چشم تحیّر کی طلب

کس کی قسمت میں ہے محروم تماشا ہونا

 

دہر ہی سے، وہ نمایاں بھی ہے پنہاں بھی ہے

جیسے صہبا کے لئے پردۂ مینا ہونا

 

تیری شوخی، تری نیرنگ ادائی کے نثار

اک نئی جان ہے تجدید تمنّا ہونا

 

حسن کے ساتھ ہے بیگانہ نگاہی کا مزہ

قہر ہے قہر مگر عرض تمنّا ہونا

 

اس سے بڑھ کر کوئی بے راہ روی کیا ہو گی

گام پر شوق کا منزل سے شناسا ہونا

 

مائل شعر و غزل پھر ہے طبیعت اصغر

ابھی کچھ اور مقدّر میں ہے رسوا ہونا

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایک ایسی بھی تجلّی آج میخانے میں ہے

لطف پینے میں نہیں ہے بلکہ کھو جانے میں ہے

 

معنی آدم کجا و صورت آدم کجا ؟

یہ نہاں خانے میں تھا، اب تک نہاں خانے میں ہے

 

خرمن بلبل تو پھونکا عشق آتش رنگ نے

رنگ کو شعلہ بنا کر کون پروانے میں ہے ؟

 

جلوۂ حسن پرستش گرمیِ حسن نیاز

ورنہ کچھ کعبے میں رکھّا ہے، نہ بت خانے میں ہے

 

رند خالی ہاتھ بیٹھے ہیں اڑا کر جزو کل

اب نہ کچھ شیشے میں ہے باقی، نہ پیمانے میں ہے

 

میں یہ کہتا ہوں فنا کو بھی عطا کر زندگی!

تو کمال زندگی کہتا ہے مر جانے میں ہے

 

جس پہ بت خانہ تصدّق، جس پہ کعبہ بھی نثار

ایک صورت ایسی بھی، سنتے ہیں بت خانے میں ہے

 

کیا بہار نقش پا ہے، اے نیاز عاشقی

لطف سر رکھنے میں کیا، سر رکھ کے مر جانے میں ہے

 

بے خودی میں دیکھتا ہوں بے نیازی کی ادا

کیا فنائے عاشقی خود حسن بن جانے میں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

دیکھنے والے فروغ رخ زیبا دیکھیں

پردۂ حسن پہ خود حسن کا پردا دیکھیں

 

اشک پیہم کو سمجھ لیتے ہیں ارباب نظر

حسن تیرا مرے چہرے سے جھلکتا دیکھیں

 

ہے تقاضا ترے جلوے کی فراوانی کا

ہمہ تن دید بنیں تجھ کو سراپا دیکھیں

 

ساقیا جام بکف پھر ہو ذرا گرم نوا

حسن یوسف، دم عیسیٰ، ید بیضا دیکھیں

 

حسن ساقی کا تومستوں کو ذرا ہوش نہیں

کچھ جھلک اس کی سر پردۂ مینا دیکھیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

یہ ننگ عاشقی ہے سود و حاصل دیکھنے والے

یہاں گمراہ کہلاتے ہیں منزل دیکھنے والے

 

خط ساغر میں راز حق و باطل دیکھنے والے

ابھی کچھ لوگ ہیں ساقی کی محفل دیکھنے والے

 

مزے آ آ گئے ہیں عشوہ ہائے حسن رنگیں کے

تڑپتے ہیں ابھی تک رقص بسمل دیکھنے والے

 

یہاں تو عمر گزری ہے اسی موج و تلاطم میں

وہ کوئی اور ہوں گے سیر حاصل دیکھنے والے

 

مرے نغموں سے صہبائے کہن بھی ہو گئی پانی

تعجّب کر رہے ہیں رنگ محفل دیکھنے والے

 

جنون عشق میں ہستی عالم پر نظر کیسی؟

رخ لیلیٰ کو کیا دیکھیں گے محمل دیکھنے والے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

متاع زیست کیا، ہم زیست کا حاصل سمجھتے ہیں

جسے سب درد کہتے ہیں اسے ہم دل سمجھتے ہیں

 

اسی سے دل، اسی سے زندگی دل سمجھتے ہیں

مگر حاصل سے بڑھ کر سعی بے حاصل سمجھتے ہیں

 

کبھی سنتے تھے ہم یہ زندگی ہے وہم و بے معنیٰ

مگر اب موت کو بھی خطرۂ باطل سمجھتے ہیں

 

بہت سمجھے ہوئے ہے شیخ راہ و رسم منزل کو

یہاں منزل کو بھی ہم جادۂ منزل سمجھتے ہیں

 

ابھرنا ہو جہاں، جی چاہتا ہے ڈوب مرنے کو

جہاں اٹھتی ہو موجیں، ہم وہاں ساحل سمجھتے ہیں

 

کوئی سرگشتۂ راہ طریقت اس کو کیا جانے !

یہاں افتادگی کو حاصل منزل سمجھتے ہیں

 

تماشا ہے نیاز و ناز کی باہم کشاکش کا !

میں ان کا دل سمجھتا ہوں، وہ میرا دل سمجھتے ہیں

 

عبث ہے دعوی عشق و محبّت خام کاروں کو

یہ غم دیتے ہیں، جس کو جوہر قابل سمجھتے ہیں

 

غم لا انتہا، سعی مسلسل، شوق بے پایاں

مقام اپنا سمجھتے ہیں نہ ہم منزل سمجھتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

راز کہیئے یہ کسی اہل وفا کے سامنے

آشنا گم ہو گیا اک آشنا کے سامنے

 

وہ ازل سے تا ابد ہنگامۂ محشر بپا

میں ادھر خاموش اک آفت ادا کے سامنے

 

دیکھئے اٹھتا ہے کب کوئی یہاں سے اہل درد

کعبہ و بت خانہ ہیں دونوں خدا کے سامنے

 

کامیاب شوق کی ناکامیوں کو دیکھئے

حرف مطلب محو ہے جوش دعا کے سامنے

 

اب مجھے خود بھی نہیں ہوتا ہے کوئی امتیاز

مٹ گیا ہوں اس طرح اس نقش پا کے سامنے

 

کائنات دہر کیا روح الامیں بے ہوش تھے

زدگی جب مسکرائی ہے قضا کے سامنے

 

حشر ہے زاہد، یہاں ہر چیز کا ہے فیصلہ

لا کوئی حسن عمل میری خطا کے سامنے

 

رشک صد ایماں ہے اصغرؔ میرا طرز کافری

میں خدا کے سامنے ہوں، بت خدا کے سامنے

٭٭٭

 

 

 

ستم کے بعد اب ان کی پشیمانی نہیں جاتی

نہیں جاتی، نظر کی فتنۂ سامانی نہیں جاتی

 

نمود جلوۂ بے رنگ سے ہوش اس قدر گم ہیں

کہ پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی

 

پتہ ملتا نہیں اب آتش وادی ایمن کا

مگر مینائے مے کی نور افشانی نہیں جاتی

 

مگر اک مشت پر کی خاک سے کچھ ربط باقی ہے

ابھی تک شاخ گل کی شعلہ افشانی نہیں جاتی

 

چمن میں چھیڑتی ہے کس مزے سے غنچہ و گل کو

مگر موج صبا کی پاک دامانی نہیں جاتی

 

اڑا دیتا ہوں اب بھی تار تار ہست و بود اصغر

لباس زہد و تمکیں پر بھی عریانی نہیں جاتی

٭٭٭

 

 

 

 

 

جلوہ ترا اب تک ہے نہاں چشم بشر سے

ہر ایک نے دیکھا ہے تجھے اپنی نظر سے

 

یہ عارض پر نور پہ زلفیں ہیں پریشاں

کمبخت نکل گمرہی شام و سحر سے

 

مے دافع آلام ہے، تریاق ہے لیکن

کچھ اور ہی ہو جاتی ہے ساقی کی نظر سے

 

وہ شوخ بھی معذور ہے، مجبور ہوں میں بھی

کچھ فتنے اٹھے حسن سے، کچھ حسن نظر سے

 

اس عالم ہستی میں نہ مرنا ہے نہ جینا

تو نے کبھی دیکھا نہیں مستوں کی نظر سے

 

جانبازوں کے سینے میں ابھی اور بھی دل ہیں

پھر دیکھئے اک بار محبّت کی نظر سے

 

نظّارۂ پر شوق کا اک نام ہے جینا

مرنا اسے کہئے کہ گزرتے ہیں ادھر سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ذرا سی آس ملنا چاہیئے درد محبّت کی

کہ خود بے چین ہیں ذوق نوا سے بزم فطرت کی

 

نقاب رخ الٹ کر آج کیوں گرم تبسّم ہو

شعاعیں مجھ پہ کیوں پڑتی ہیں خورشید قیامت کی

 

جہاں کی خیر ہو، جان حزیں کی خیر ہو، یا رب

کہ لو اونچی ہوئی جاتی ہے اب سوز محبّت کی

 

میں رند بادہ کش بھی، بے نیاز جام و ساغر بھی

رگ ہر تاک سے آتی ہے کھنچ کر میری قسمت کی

 

وہی بے تابیاں جانے، وہی یہ خستگی سمجھے

کہ جس نے آب و گل میں شورشیں بھر دیں محبّت کی

 

جہان گوہر مقصود ابھی گہرائیوں میں ہے

نظر پہنچے گی کیا افتادۂ گرداب حیرت کی

 

ترے نغمے کی لے، اے مطرب آفت نوا کیا ہے

یہ موج برق ہے یا اک چمک درد محبّت کی

 

اٹھا رکھّا ہے اس نے اپنے جلوے کو قیامت پر !

قیامت ہے وہ جلوہ، اس کو کیا حاجت قیامت کی

 

تکلّم ہے ترا یا شعلۂ وادی ایمن ہے !

تبسّم زیر لب ہے یا کلی کھلتی ہے جنّت کی

 

یہ بن کر برق و باراں دیکھئے کیا کیا غضب ڈھائے

خم گردوں سے موج مے اٹھی ہے کس قیامت کی

 

طبیعت خود بخود آمادۂ وحشت تھی اے اصغر

ہوائے فصل گل نے اور بھی اس پر قیامت کی

٭٭٭

 

 

 

الٰہی خاطر اہل نیاز رہنے دے

ذرا بتوں کو بھی بندہ نواز رہنے دے

 

مجاز کا بھی حقیقت سے ساز رہنے دے

یہ راز ہے، تو ذرا حسن راز رہنے دے

 

دل حزیں میں شرارے دبے ہوئے ہیں ابھی

خدا کے واسطے، اے نے نواز رہنے دے

 

صنم کدے میں تجلّی کی تاب مشکل ہے

حرم میں شیخ کو محو نماز رہنے دے

 

خبر کسی کو نہ ہو گی، کنارِ شوق میں آ

جہاں میں چشم مہ و مہر باز رہنے دے

 

حیات تازہ کی رنگینیاں نہ مٹ جائیں

ابھی یہ مرحلۂ غم دراز رہنے دے

 

فسردہ دل ہوں، کہاں ہے وہ آتشیں نغمہ

کہ پردہ رہنے دے کوئی نہ ساز رہنے دے

 

حریم ناز کے آداب اور ہیں اصغر

نیاز رکھ کے بھی عرض نیاز رہنے دے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کوئی محمل نشیں کیوں شاد یا ناشاد ہوتا ہے

غبار قیس خود اٹھتا ہے خود برباد ہوتا ہے

 

قفس کیا، حلقہ ہائے دام کیا، رنج اسیری کیا ؟

چمن پر مٹ گیا جو، ہر طرح آزاد ہوتا ہے

 

یہ سب نا آشنائے لذّت پرواز ہیں شاید !

اسیروں میں ابھی تک شکوۂ صیّاد ہوتا ہے

 

بہار سبزہ و گل ہے، کرم ہوتا ہے ساقی کا

جواں ہوتی ہے دنیا، میکدہ آباد ہوتا ہے

 

بنا لیتا ہے موج خون دل سے اک چمن اپنا

وہ پابند قفس، جو فطرتاً آزاد ہوتا ہے

 

بہار انجام سمجھوں اس چمن کا یا خزاں سمجھوں

زبان برگ و گل سے مجھ کو کیا ارشاد ہوتا ہے ؟

 

ازل سے اک تجلّی سے ہوئی تھی بیخودی طاری

تمہیں کو میں نے دیکھا تھا کچھ ایسا یاد ہوتا ہے

 

سمائے جا رہے ہیں اب وہ جلوے دیدہ و دل میں

یہ نظّارہ ہے یا ذوق نظر برباد ہوتا ہے

 

زمانہ ہے کہ خوگر ہو رہا ہے شور و شیون کا

یہاں وہ درد، جو بے نالہ و فریاد ہوتا ہے

 

یہاں کوتاہی ذوق عمل ہے خود گرفتاری

جہاں بازو سمٹتے ہیں، وہیں صیّاد ہوتا ہے

 

یہاں مستوں کے سر الزام ہستی ہی نہیں اصغر

پھر اس کے بعد ہر الزام بے بنیاد ہوتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

مجاز کیسا؟ کہاں حقیقت، ابھی تجھے کچھ خبر نہیں ہے

یہ سب ہے اک خواب کی سی حالت، جو دیکھتا ہے سحرنہیں ہے

 

شمیم گلشن، نسیم صحرا، شعاع خورشید، موج دریا

ہر ایک گرم سفر ہے، ان میں مرا کوئی ہم سفر نہیں ہے

 

نظر میں وہ گل سما گیا ہے، تمام ہستی پہ چھا گیا ہے !

چمن میں ہوں یا قفس میں ہوں میں، مجھے اب اس کی خبر نہیں ہے

 

چمک دمک پر مٹا ہوا ہے، یہ باغباں تجھ کو کیا ہوا ہے ؟

فریب شبنم میں مبتلا ہے، چمن کی اب تک خبر نہیں ہے

 

یہ مجھ سے سن لے تو راز پنہاں، سلامتی ہے خود دشمن جاں

کہاں سے رہرو میں زندگی ہو، کہ راہ جب پر خطر نہیں ہے

 

میں سر سے پا تک ہوں مے پرستی، تمام شورش، تمام مستی

کھلا ہے مجھ پر یہ راز ہستی، کہ مجھ کو کچھ بھی خبر نہیں ہے

 

ہوا کو موج شراب کر دے، فضا کو مست و خراب کر دے

یہ زندگی کو شباب کر دے، نظر تمھاری نظر نہیں ہے

 

پڑا ہے کیا اس کے در پہ اصغر، وہ شوخ مائل ہے امتحاں پر

ثبوت دے زندگی کا مر کر، نیاز اب کارگر نہیں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

عکس کس چیز کا آئینۂ حیرت میں نہیں

تیری صورت میں ہے کیا جو مری صورت میں نہیں

 

دونوں عالم تری نیرنگ ادائی کے نثار

اب کوئی چیز یہاں جیب محبّت میں نہیں

 

دولت قرب کو خاصان محبّت جانیں

چند اشکوں کے سوا کچھ مری قسمت میں نہیں

 

لوگ مرتے بھی ہیں، جیتے بھی ہیں، بیتاب بھی ہیں

کون سا سحر تری چشم عنایت میں نہیں

 

سب سے اک طرز جدا، سب سے اک آہنگ جدا

رنگ محفل میں ترا جو ہے، وہ خلوت میں نہیں

 

نشۂ عشق میں ہر چیز اڑی جاتی ہے

کون ذرّہ ہے کہ سرشار محبّت میں نہیں

 

دعوئٰ دید غلط، دعوئٰ عرفاں بھی غلط

کچھ تجلّی کے سوا چشم بصیرت میں نہیں

 

ہو گئی جمع متاع غم حرماں کیونکر

میں سمجھتا تھا، کوئی پردۂ غفلت میں نہیں

 

ذرّے ذرّے میں کیا جوش ترنّم پیدا

خود مگر کوئی نوا سازمحبّت میں نہیں

 

نجد کی سمت سے یہ شور انا لیلے ٰ کیوں ؟

شوخی حسن اگر پردۂ وحشت میں نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

عشق کی فطرت ازل سے حسن کی منزل میں ہے

قیس بھی محمل میں ہے، لیلیٰ اگر محمل میں ہے

 

جستجو ہے زندگی، ذوق طلب ہے زندگی

زندگی کا راز لیکن دوری منزل میں ہے

 

لالہ و گل تم نہیں ہو، ماہ و انجم تم نہیں !

رنگ محفل بن کے لیکن کون اس محفل میں ہے

 

اس چمن میں آگ برسے گی، کہ آئے گی بہار

اک لہو کی بوند کیوں ہنگامہ آرا دل میں ہے

 

اٹھ رہی ہے، مٹ رہی ہے موج دریائے وجود

اور کچھ ذوق طلب میں ہے نہ کچھ منزل میں ہے

 

طور پہ لہرا کے جس نے پھونک ڈالا طور کو !

اک شرار شوق بن کر میرے آب و گل میں ہے

 

محو ہو کر رہ گئی جو، ہے وہی راہ طریق

جو قدم مستانہ پڑتا ہے وہی منزل میں ہے

 

ہو کے راز عشق افشا بن گیا اک راز دار

سب زباں پر آ چکا ہے، سب ابھی تک دل میں ہے

 

عرش تک تو لے گیا تھا ساتھ اپنے حسن کو

پھر نہیں معلوم اب خود عشق کس منزل میں ہے

 

اصغرؔ افسردہ ہے محروم موج زندگی !

تو نوائے روح پرور بن کے کس محفل میں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

حسن بن کر خود کو عالم آشکارا کیجئے

پھر مجھے پردہ بنا کر مجھ سے پردا کیجئے

 

اضطراب غم سے ہے نشو و نمائے زندگی

ہر نفس میں ایک تازہ درد پیدا کیجئے

 

کھل گیا رنگ حسیناں، کھل گیا رنگ چمن

کم سے کم اتنا نظر میں حسن پیدا کیجئے

 

عقل ہو غرق تجلّی، روح پا جائے جلا !

بیٹھ کر اک لحظہ شغل جام و مینا کیجئے

 

اک دل بیتاب میں، پہلو میں پھر پیدا کروں

مسکرا کر پھر ذرا مجھ سے تقاضا کیجئے

 

پرورش پاتا ہے رگ رگ میں مزاج عاشقی

جلوہ پھر دکھلایئے، پھر مجھ سے پردا کیجئے

 

اس جہان غیر میں آرام کیا، راحت کہاں

لطف جب ہے، اپنی دنیا آپ پیدا کیجئے

 

دیرسے بھولے ہوئے ہیں درس مستی اہل بزم

آج ہر موج نفس کو موج صہبا کیجئے

 

رند ادھر بیخود، ادھر دیر و حرم گرم طواف

عرش بھی اب جھوم کر آتا ہے دیکھا کیجئے

 

دیکھتا ہوں میں کہ انساں کش ہے دریائے وجود

خود حباب و موج بن کر اب تماشا کیجئے

 

حسن کی بیگانگی و بے نیازی سب بجا

اس پہ چھپ کر پردۂ گل سے اشارا کیجئے

 

ایک ہی ساغر میں اصغر’ کھل گئی دل کی گرہ

راز ہستی بھی کھلا جاتا ہے دیکھا کیجئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

خدا جانے کہاں ہے اصغرؔ دیوانہ برسوں سے

کہ اس کو ڈھونڈتے ہیں کعبہ و بت خانہ برسوں سے

 

تڑپنا ہے نہ جلنا ہے، نہ جل کر خاک ہونا ہے

یہ کیوں سوئی ہوئی ہے فطرت پروانہ برسوں سے

 

کوئی ایسا نہیں یا رب، کہ جو اس درد کو سمجھے

نہیں معلوم کیوں خاموش ہے دیوانہ برسوں سے

 

کبھی سوز تجلّی سے اسے نسبت نہ تھی گویا

پڑی ہے اس طرح خاکستر پروانہ برسوں سے

 

ترے قربان ساقی، اب وہ موج زندگی کیسی

نہیں دیکھی ادائے لغزش مستانہ برسوں سے

 

مری رندی عجب رندی، مری مستی عجب مستی

کہ سب ٹوٹے پڑے ہیں شیشہ و پیمانہ برسوں سے

 

حسینوں پر نہ رنگ آیا، نہ پھولوں میں بہار آئی

نہیں آیا جو لب پر نغمۂ مستانہ برسوں سے

 

کھلی آنکھوں سے ہوں حسن حقیقت دیکھنے والا

ہوئی لیکن نہ توفیق در بت خانہ برسوں سے

 

لباس زہد پر پھر کاش نذر آتش صہبا

کہاں کھوئی ہوئی ہے جرأت رندانہ برسوں سے

 

جسے لینا ہو آ کر اس سے اب درس جنوں لے لے

سنا ہے ہوش میں ہے اصغرؔ دیوانہ برسوں سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

دے مسرّت مجھے اور عین مسرّت مجھ کو

چاہیئے غم بھی بہ اندازۂ راحت مجھ کو

 

جان مشتاق مری موج حوادث کے نثار

جس نے ہر لحظہ دیا درس محبّت مجھ کو

 

خود میں اٹھ جاؤں کہ یہ پردۂ ہستی اٹّھے

دیکھنا ہے کسی عنواں تری صورت مجھ کو

 

دل بے تاب میں ہنگامۂ محشر ہے بپا !

مار ڈالے نہ تری چشم عنایت مجھ کو

 

آ گئی سامنے اک جلوۂ رنگیں کی بہار

عشق نے آج دکھا دی مری صورت مجھ کو

 

نگہ ناز کو، یہ بھی تو گوارا نہ ہوا

اک ذرا درد میں ملنی تھی جو راحت مجھ کو

 

آج ہی محو ہے خورشید میں ذرّہ ذرّہ

میں کہاں ہوں کہ اٹھائے گی قیامت مجھ کو

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

نمود حسن کو حیرت میں ہم کیا کیا سمجھتے ہیں

کبھی جلوہ سمجھتے ہیں کبھی پردا سمجھتے ہیں

 

ہم اس کو دیں، اسی کو حاصل دنیا سجمھتے ہیں

مگر خود عشق کواس سے بھی بے پروا سمجھتے ہیں

 

کبھی ہیں محو دید ایسے، سمجھ باقی نہیں رہتی

کبھی دیدار سے محروم ہیں، اتنا سمجھتے ہیں

 

یکایک توڑ ڈالا ساغر مے ہاتھ میں لے کر

مگر ہم بھی مزاج نرگس رعنا سمجھتے ہیں

 

کبھی گل کہہ کے پردہ ڈال دیتے ہیں ہم اس رخ پر

کبھی مستی میں پھر گل کو رخ زیبا سمجھتے ہیں

 

یہاں تو ایک پیغام جنوں پہنچا ہے مستوں کو

اب ان سے پوچھئے دنیا کو جو دنیا سمجھتے ہیں

 

یہی تھوڑی سی مے ہے اور یہی چھوٹا سا پیمانہ

اسی سے رند راز گنبد مینا سمجھتے ہیں

 

کبھی تو جستجو جلوے کو بھی پردہ بتاتی ہے

کبھی ہم شوق میں پردے کو بھی جلوا سمجھتے ہیں

 

خوشا وہ دن کہ حسن یار سے جب عقل خیرہ تھی

یہ سب محرومیاں تھیں آج ہم جتنا سمجھتے ہیں

 

کبھی جوش جنوں ایسا، کہ چھا جاتے ہیں صحرا پر

کبھی ذرّے میں گم ہو کر اسے صحرا سمجھتے ہیں

 

یہ ذوق دید کی شوخی وہ عکس رنگ محبوبی

نہ جلوہ ہے نہ پردہ، ہم اسے تنہا سمجھتے ہیں

 

نظر بھی آشنا ہو نشۂ بے نقش و صورت سے

ہم اہل راز سب رنگینی مینا سمجھتے ہیں

 

وہ نگہت سے سوا پنہاں، وہ گل سے بھی سواعریاں

یہ ہم ہیں جو کبھی پردہ، کبھی جلوا سمجھتے ہیں

 

یہ جلوے کی فراوانی یہ ارزانی، یہ عریانی

پھر اس شدّت کی تابانی کو ہم پردا سمجھتے ہیں

 

دکھا جلوہ، وہی غارت کن جان حزیں جلوہ

ترے جلوے کے آگے جان کو ہم کیا سمھتے ہیں

 

زمانہ آ رہا ہے جب اسے سمجھیں گے سب اصغرؔ

ابھی تو آپ خود کہتے ہیں، خود تنہا سمجھتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

وہ ان کا اک بہار ناز بن کر جلوہ گر ہونا

مرا وہ روح بننا، روح بن کر اک نظر ہونا

 

یہ آنا جلوہ بن کر اور پھر میری نظر ہونا

یہی ہے دید تو خود دید بھی اے فتنہ گر

 

حجاب اس کا ظہورایسا، ظہوراس کا حجاب ایسا

ستم ہے خواب میں خورشید کا یوں جلوہ گر ہونا

 

عجب اعجاز فطرت ہے، اسیروں کو بھی حیرت ہے

وہ موج بوئے گل کا خود تڑپ کر بال وپر ہونا

 

جمال یار کی زینت بڑھا دی رنگ و صورت نے

قیامت ہے قیامت میرا پابند نظر ہونا

 

ابھی یہ طرز مستی مجھ سے سیکھیں میکدے والے

نظر کو چند موجوں پر جما کر بے خبر ہونا

 

یہاں میں ہوں، نہ ساقی ہے، نہ ساغر ہے، نہ صہبا ہے

یہ میخانہ ہے اس میں معصیت ہے باخبر ہونا

 

طلسم رنگ و بو کو جس نے سمجھا، مٹ گیا اصغر

نظر کے لطف کا برباد ہونا ہے نظر ہونا

٭٭٭

 

 

 

 

 

ذرّے ذرّے میں اسی کو جلوہ گر سمجھا تھا میں

عکس کو حیرت میں آئینہ مگر سمجھا تھا میں

 

دید کیا، نظّارہ کیا، اس کی تجلّی گاہ میں

وہ بھی موج حسن تھی جس کو نظر سمجھا تھا میں

 

پھر وہی واماندگی ہے، پھر وہی بے چارگی !

ایک موج بوئے گل کو بال و پر سمجھا تھا میں

 

یہ تو شب کو سربسجدہ ساکت و مد ہوش تھے

ماہ و انجم کو تو سرگرم سفر سمجھا تھا میں

 

دہر ہی نے مجھ پہ کھولی راہ بے پایان عشق

راہبر کو اک فریب رہ گزر سمجھا تھا میں

 

کتنی پیاری شکل اس پردے میں ہے جلوہ فروز

عشق کو ژولیدہ مو، آشفتہ سر سمجھا تھا میں

 

تا طلوع جلوۂ خورشید پھر آنکھیں ہیں بند

تجھ کو، اے موج فنا، نور سحر سمجھا تھا میں

 

مست و بے خود ہیں مہ و انجم، زمین و آسماں

یہ تری محفل تھی جس کو رہ گزر سمجھا تھا میں

 

ذرّہ ذرّہ ہے یہاں کا رہرو راہ فنا

سامنے کی بات تھی جس کو خبر سمجھا تھا میں

 

پتّے پتّے پر چمن کے ہے وہی چھائی ہوئی

عندلیب راز کو اک مشت پر سمجھا تھا میں

 

کائنات دہر ہے سرشار اسرار حیات

ایک مست آگہی کو بے خبر سمجھا تھا میں

 

جان ہے محو تجلّی، چشم و گوش و لب ہیں بند

حسن کو حسن بیاں، حسن نظر سمجھا تھا میں

 

میں تو کچھ لایا نہیں اصغرؔ بجز بے مائگی

سر کو بھی اس آستاں پر درد سر سمجھا تھا میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

رقص مستی دیکھتے، جوش تمنّا دیکھتے

سامنے لا کر تجھے اپنا تماشا دیکھتے

 

کم سے کم حسن تخیّل کا تماشا دیکھتے

جلوۂ یوسف تو کیا، خواب زلیخا دیکھتے

 

کچھ سمجھ کر ہم نے رکھّا ہے حجاب دہر کو

توڑ کر شیشے کو پھر کیا رنگ صہبا دیکھتے

 

روز روشن یا شب مہتاب یا صبح چمن

ہم جہاں سے چاہتے، وہ روئے زیبا دیکھتے

 

قلب پر گرتی تڑپ کر پھر وہی برق جمال

ہر بن مو میں وہی آشوب و غوغا دیکھتے

 

صد زماں و صد مکاں و ایں جہان و آں جہاں !

تم نہ آ جاتے، تو ہم وحشت میں کیا کیا دیکھتے

 

اس طرح کچھ رنگ بھر جاتا نگاہ شوق میں

جلوہ خود بے تاب ہو جاتا، وہ پردا دیکھتے

 

جن کو اپنی شوخیوں پر آج اتنا ناز ہے

وہ کسی دن میری جان نا شکیبا دیکھتے

 

میکدے میں زندگی ہے، شور نوشا نوش ہے

مٹ گئے ہوتے اگر ہم جام و مینا دیکھتے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

مذاق زندگی سے آشنا چرخ بریں ہوتا

مہ و انجم سے بہتر ایک جام آتشیں ہوتا

 

ترے ہی در پہ مٹ جانا لکھا ہے میری قسمت میں

ازل میں یا ابد میں، میں کہیں ہوتا، یہیں ہوتا

 

وہ اٹھّی موج مے، وہ سینۂ مینا دھڑکتا ہے

اسی کا ایک جرعہ کس قدر جاں آفریں ہوتا

 

نگاہیں دیکھتی ہیں، روح قالب میں تڑپتی ہے !

مرا کیا حال ہوتا، تو اگر پردہ نشیں ہوتا

 

طلب کیسی، کہاں کا سود حاصل کیف مستی میں

دعا تک بھول جاتے مدّعا اتنا حسیں ہوتا

 

خود اپنی ناز برداری سے اب فرصت نہیں دل کو

حسینوں کا تصّور کیوں نہ اتنا نازنیں ہوتا

 

ابد تک تجھ سے رہتی داستاں شکر و شکایت کی

نہ کوئی ہم نفس ہوتا، نہ کوئی راز داں ہوتا

 

ترے قربان ساقی، اب یہ کیا حالت ہے مستوں کی

کبھی عالم تو ہوتا ہے، کبھی عالم نہیں ہوتا
صنم خانے میں کیا دیکھا کہ جا کر کھو گیا اصغرؔ!

حرم میں کاش رہ جاتا تو ظالم شیخ دیں ہوتا

٭٭٭

 

 

 

 

 

وہ نغمہ بلبل رنگیں نوا، اک بار ہو جائے

کلی کی آنکھ کھل جائے، چمن بیدار ہو جائے

 

نظر وہ ہے جواس کون و مکاں سے پار ہو جائے

مگر جب روئے تاباں پر پڑے، بیکار ہو جائے

 

تبسّم کی ادا سے زندگی بیدار ہو جائے !

نظر سے چھیڑ دے، رگ رگ مری ہشیار ہو جائے

 

تجلّی چہرۂ زیبا کی ہو، کچھ جام رنگیں کی !

زمیں سے آسماں تک عالم انوار ہو جائے

 

تم اس کافر کا ذوق بندگی اب پوچھتے کیا ہو !

جسے طاق حرم بھی ابروئے خمدار ہو جائے

 

سحرلائے گی کیا پیغام بیداری شبستاں میں

نقاب رخ الٹ دو، خود سحر بیدار ہو جائے

 

یہ اقرار خودی ہے، دعویٰ ایماں و دیں کیسا

ترا اقرار جب ہے، خود سے بھی انکار ہو جائے

 

نظراس حسن پر ٹھہرے، توآخرکس طرح ٹھہرے !

کبھی خود پھول بن جائے، کبھی رخسار ہو جائے

 

کچھ ایسا دیکھ کر چپ ہوں بہار عالم امکاں

کوئی اک جام پی کر جس طرح سرشار ہو جائے

 

چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موج حوادث سے

اگر آسانیاں ہوں، زندگی دشوار ہو جائے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

آشوب حسن کی بھی کوئی داستاں رہے

مٹنے کو یوں مٹیں کہ ابد تک نشاں رہے

 

طوف حرم میں یا سر کوئے بتاں رہے

اک برق اضطراب رہے، ہم جہاں رہے

 

ان کی تجلّیوں کا بھی کوئی نشاں رہے

ہر ذرّہ میری خاک کا آتش بجاں رہے

 

کیا کیا ہیں درد عشق کی فتنہ طرازیاں

ہم التفات خاص سے بھی بدگماں رہے

 

میرے سرشک خوں میں ہے رنگینیِ حیات

یا رب فضائے حسن ابد تک جواں رہے

 

میں راز دار حسن ہوں، تم راز دار عشق

لیکن یہ امتیاز بھی کیوں درمیاں رہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

وہ سامنے ہیں، نظام حواس برہم ہے

نہ آرزو میں ہے سکّت، نہ عشق میں دم ہے

 

زمیں سے تا بہ فلک کچھ عجیب عالم ہے

یہ جذب مہر ہے یا آبروئے شبنم ہے

 

بہار جلوۂ رنگیں کا اب یہ عالم ہیں

نظر کے سامنے حسن نظر مجسّم ہے

 

نگاہ عشق تو بے پردہ دیکھتی ہے اسے

خرد کے سامنے اب تک حجاب عالم ہے

 

روائے لالہ و گل، پردۂ مہ و انجم

جہاں جہاں وہ چھپے ہیں عجیب عالم ہے

 

نہ اب وہ گریۂ خونیں، نہ اب وہ رنگ حیات

نہ اب وہ زیست کی لذّت، کہ درد بھی کم ہے

 

خوشا حوادث پیہم، خوشا یہ اشک رواں

جو  غم کے ساتھ ہو تم بھی، تو غم کا کیا غم ہے

 

اسے مجاز کہو یا اسے حجاب کہو

نگاہ شوق پہ اک اضطراب پیہم ہے

 

یہ حسن دوست ہے اور التجائے جانبازی

تجھے یہ وہم، کہ یہ کائنات عالم ہے

 

یہ ذوق سیر، یہ دیدار جلوۂ خورشید

بلا سے قطرۂ شبنم کی زندگی کم ہے

 

بس اک سکوت ہے طاری حرم نشینوں میں

صنم کدے میں تجلّی ہے اور پیہم ہے

 

نوائے شعلہ طراز و بہار حسن بتاں

کوئی مٹے تو تری یہ ادا بھی کیا کم ہے

 

کسی طرح بھی تری یاد اب نہیں جاتی !

یہ کیا ہے، روز مسّرت ہے یا شب غم ہے ؟

 

کہاں زمان و مکاں، پھر کہاں یہ ارض و سما

جہاں تم آئے، یہ ساری بساط برہم ہے

 

یہاں فسانۂ دیر و حرم نہیں اصغر!

یہ میکدہ ہے، یہاں بے خودی کا عالم ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

تا بہ کے آخر ملال شام ہجراں دیکھئے

نالۂ نے کی طرح اڑ کر نیستاں دیکھئے

 

غرق ہیں سب علم و حکمت، دین و ایماں دیکھئے

کس طرح اٹھّا ہے اک ساغر سے طوفاں دیکھئے

 

بے محابا اب فروغ روئے جاناں دیکھئے

فکر ایماں کیا، نظر سے عین ایماں دیکھئے

 

یہ مناظر کچھ نہیں ہیں، جب نظر ہے مستعار

اپنی آنکھوں سے کسی دن بزم امکاں دیکھئے

 

جسم کو اپنا سا کر کے لے اڑی افلاک پر

اللہ اللہ یہ کمال روح جولاں دیکھئے

 

اک تبسّم یا ترنّم، اک نظر یا نیشتر

کچھ نہ کچھ ہو گا پھڑکتی ہے رگ جاں دیکھئے

 

نالۂ رنگیں میں ہم مستوں کے ہے کیف شراب

لڑکھڑائے پائے نازک، دیکھئے ہاں دیکھئے

 

دیدۂ بے خواب انجم، سینۂ صد چاک گل

حسن بھی ہے مبتلائے درد پنہاں دیکھئے

 

رسم فرسودہ نہیں شایان ارباب نظر

اب کوئی منظر بلند از کفر و ایماں دیکھئے

 

میں نہ کہتا تھا کہ آفت ہے شراب شعلہ رنگ

سوختہ آخر ہوئے سب کفر و ایماں دیکھئے

 

دیدۂ بینا فروغ بادہ و حسن بتاں

ہر طرف پھیلا ہوا ہے نور عرفاں دیکھئے

 

عشق کا ارشاد، پہلو میں ہو بلبل کا جگر

عقل کہتی ہے رگ گل میں گلستاں دیکھئے

 

تیز گامی، سخت کوشی عشق کا فرمان ہے

علم کا اصرار ذرّے میں بیاباں دیکھئے

 

موسم گل کیا ہے اک جوش شباب کائنات

پھوٹ نکلا شاخ گل سے حسن عریاں دیکھئے

 

قالب بے جاں میں جاگ اٹّھا شراب زندگی

دیکھئے بوئے قمیص ماہ کنعاں دیکھئے

 

اصغرؔ رنگیں نوا کا یہ تغزّل الاماں !

کفر پھیلاتا ہے یہ مرد مسلماں، دیکھئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

یہ جہان مہ و انجم ہے تماشا مجھ کو

دشت دینا تھا بہ اندازۂ سودا مجھ کو

 

اب تو خود شاق ہے یہ ہستی بیجا مجھ کو

پھونک دے، پھونک دے، اے برق تماشا مجھ کو

 

میرا آئینۂ فطرت ہے عجب آئینہ

نظر آتا ہے ترا چہرۂ زیبا مجھ کو

 

ترا جلوہ، ترا انداز، ترا ذوق نمود

اب یہ دنیا نظر آتی نہیں دنیا مجھ کو

 

اب وہی شعلۂ بے تاب ہے رگ رگ میں مری

پھونکے دیتی تھی کبھی تابش مینا مجھ کو

 

ہمہ تن ہستی خوابیدہ مری جاگ اٹھی

ہر بن مو سے مرے اس نے پکارا مجھ کو

 

اب وہی چشم فسوں کار مجھے بھول گئی

کس محبّت سے کیا تھا تہ و بالا مجھ کو

 

کون سی بزم سے آتے ہیں جوانان چمن

خاک میں لے کے چلا ذوق تماشا مجھ کو

 

جس نے افتادگی خاک کی نعمت بخشی

اب اٹھائے گی وہی برق تجلّی مجھ کو

 

لالہ و گل کا جگر خون ہوا جاتا ہے

سب سمجھتے ہیں جو ناکام تماشا مجھ کو

 

توڑ ڈالے مہ و خورشید ہزاروں میں نے

اس نے اب تک نہ دکھایا رخ زیبا مجھ کو

 

بوئے گل بن کے، کبھی نغمۂ رنگیں بن کے

ڈھونڈ لیتا ہے ترا حسن خود آرا مجھ کو

 

علم و حکمت کا ہے اس دور میں آوازہ بلند

لا کے دینا تو ذرا ساغر و مینا مجھ کو

 

ایک میرا ہی فسانہ ز ازل تا بہ ابد

یوں نہ کرنا تھا مرے سامنے رسوا مجھ کو

 

میں سمجھتا تھا مجھے ان کی طلب ہے اصغر

کیا خبر تھی، وہی لے لیں گے سراپا مجھ کو

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اس طرح بھی کوئی سرگشتہ و برباد نہ ہو

اک فسانہ ہوں جو، کچھ یاد ہو، کچھ یاد نہ ہو

 

درد وہ ہے کہ جہاں کو تہ و بالا کر دوں

اس پہ یہ لطف کہ نالہ نہ ہو، فریاد نہ ہو

 

ایک مدّت سے تری بزم سے محروم ہوں میں

کاش وہ چشم عنایت بھی تری یاد نہ ہو

 

مار ڈالے گی مجھے عافیّت کنج چمن

جوش پرواز کہاں، جب کوئی صیّاد نہ ہو

 

حوصلے عشق کے پامال ہوئے جاتے ہیں

اب یہ بیداد، کہیں حسن پہ بیداد نہ ہو

٭٭٭

 

 

 

 

 

حسن کو وسعتیں جو دیں، عشق کو حوصلہ دیا

جو نہ ملے، نہ مٹ سکے وہ مجھے مدّعا دیا

 

ہاتھ میں لے کے جام مے آج وہ مسکرا دیا

عقل کو سرد کر دیا، روح کو جگمگا دیا

 

دل پہ لیا ہے داغ عشق کھو کے بہار زندگی

اک گل تر کے واسطے میں نے چمن لٹا دیا

 

لذّت درد خستگی، دولت دامن تہی

توڑ کے سارے حوصلے اب مجھے یہ صلا دیا

 

کچھ تو کہو یہ کیا ہوا، تم بھی تھے ساتھ ساتھ کیا

غم میں یہ کیوں سرور تھا، درد نے کیوں مزا دیا

 

اب نہ یہ میری ذات ہے، اب نہ یہ کائنات ہے

میں نے نوائے عشق کو ساز سے یوں ملا دیا

 

عکس جمال یار کا آئینۂ خودی میں ہے

یہ غم ہجر کیا دیا، مجھ سے مجھے چھپا دیا

 

حشر میں آفتاب حشر اور وہ شور الاماں

اصغرؔ بت پرست نے زلف کا واسطہ دیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

رشحات

 

ہے خستگی دم سے رعنائی تخیّل

میری بہار رنگیں پروردۂ خزاں ہے

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

مہ و انجم میں بھی انداز ہیں پیمانوں کے

شب کو در بند نہیں ہوتے ہیں میخانوں کے

حشر میں نامۂ اعمال کی پرسش ہے ادھر

اس طرف ہاتھ میں ٹکڑے ہیں گریبانوں کے

بجھ گئی کل جو سر بزم، وہی شمع نہ تھی

شمع تو آج بھی سینے میں ہے پروانے کے

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

جلوہ پائے نو بہ نو ہیں سامنے اب کیا کریں

ایک دل ہر لحظہ کھوئیں، ایک دل پیدا کریں

کیا یہی لازم تھا ان شوریدگان شوق کو؟

عشق کو پردہ بنائیں حسن کو رسوا کریں

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

کچھ پتہ بتلا سکے، یہ طاقت بسمل کہاں

زخم جس کو دیکھنا ہو، دیکھ لے قاتل کہاں

محو ہیں سب در پہ اس کے بندگان عاشقی

میں کہاں ہوں، دل کہاں ہے، آرزوئے دل کہاں ؟

لذّت جوش طلب، ذوق تگا پوئے دوام

ورنہ ہم شوریدگان شوق کی منزل کہاں

خوب، جی بھر کے اٹھا لے جوش وحشت کے مزے

پھر کہاں یہ دشت، یہ ناقہ کہاں، محمل کہاں

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

ذوق طلب حصول سے جو آشنا نہ ہو

یعنی وہ درد چاہیئے جس کی دوا نہ ہو

دیکھا ہے برق طور کو بھی فرش خاک پر

افتادگی عشق اگر نا رسا نہ ہو

صہبائے خوشگوار بھی یا رب کبھی کبھی

اتنا تو ہو، کہ تلخی غم بے مزا نہ ہو

ہر ہر قدم پہ جلوۂ رنگیں ہے نو بہ نو

خود تنگی نگاہ جو زنجیر پا نہ ہو

چھایا ہوا ہے ہر دوجہاں میں جمال دوست

اے شوق دید، چشم بھی اب وا ہو یا نہ ہو

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

 

فارسی اشعار

 

در حریمش امتیاز ایں و آں بے سود بود

جان مشتاقاں بہ سیر بود و ہم نابود بود

ما بہرطرزے کہ می رفتیم، شایانش نبود

او بہر رنگے کہ می آید، ہماں مقصود بود

آرزو پیکر تراش و شوق من جاں آفریں

شب، معاذاللہ ہمیں مخلوق من معبود بود

من ہم از دیر و حرم صد بہرۂ می داشتم

لیک در میخانہ ہر را ہے بمن مسدود بود

در حریم عشق ایں رمز حیات آموختند

بے زیاں سودے کہ من می خواستم، بے سود بود

من نوائے خویش را آوردم از جائے دگر

در چمن ہنگامۂ محدود و نا محدود بود

اے کہ تو دریائے خوبی وائے توئی بحر وجود

لاف منصوری کہ مے زد، قطرۂ بے بود بود

شورش عشق و نوائے آتشیں حسن بتاں

زندگی جائے کہ می دیدم، ہموں موجود بود

تو بہر شغلے کہ می باشی، ہماں معبود تست

آں شکست وریخت ہم بتخانۂ محمود بود

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

بالا غزل اصغرؔ گونڈوی صاحب نے اپنے قیام لاہور کے زمانہ میں لکھی تھی۔ علامہ اقبال نے اسے بہت پسند فرمایا، اور دو قوافی جو غزل میں گونڈوی صاحب نے استعمال نہیں کئے تھے، کو استعمال میں لاتے ہوئے دو شعر لکھے اور اصغر گونڈوی صاحب کو دیئے، جو تبرکاً گونڈوی صاحب نے اپنے پاس رکھا۔

اشعار یہ ہیں:

چشم آدم آں سوئے افلاک نورش ہم نہ یافت

از خیال مہر و ماہ اندیشہ گرد آلود بود

من درون سینۂ خود سومناتے ساختم

آستان کعبہ را دیدم، جبیں فرسودہ بود

علامہ اقبال

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

ہر صدائے کہ من می رسد، از ساز من است

اندریں گنبد ہستی ہمہ آواز من است

خندہ چوں شورش دل، عشوہ چو بے تابی جاں

ہر ادائے تو کہ داری، ہمہ انداز من است

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

ز فیض ذوق رنگیں صد بہارے کردہ ام پیدا

ز خون دل کہ می جوشد نگارے کردہ ام پیدا

بسے روحانیاں را درکمند شوق آوردم

بہ اوج عرش اعلیٰہم سکارے کردہ ام پیدا

زموج خون دل صد بار من رنگیں قبا گشتم

بخاک کربلا ہم صد بہارے کردہ ام پیدا

ز "لا ” تسخیر کردم ایں جہان ماہ و انجم را

زجوش بندگی پروردگارے کردہ ام پیدا

بلے از جلوہ حسنت جہاں یکسر نامی ماند

بیا اکنوں کہ خود را پردہ دارے کردہ ام پیدا

جہانے را تپش بخشم، جہانے را بوجد آرام

دریں خاکسترے حسن شرارے کردہ ام پیدا

من مسلم، چہ مسلم؟ آنکہ اورا یار مے گوید

پاس ازعمرے ہمیں زنّار دارے کردہ ام پیدا

جہان مضطرب را پرسکوں دانی، نمی دانی

چساں در بیقراری ہا قرارے کردہ ام پیدا

مگر اے پیرو طرز جنون من! نمے دانی

پسے ممحمل نشینے صد غبارے کردہ ام پیدا

من ازرنگ وجود خویش اصغرؔ نقشہا چینم

برائے جان بیخود مست یارے کردہ ام پیدا

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

مرا بس است کہ رنگینی نظر دارم

بگیرعالم خود، عالم دگر دارم

خراب بادہ خویشم، ہلاک ذوق خودم

ہجوم جلوہ بہ اندازۂ نظر دارم

چی درد و چارۂ درد از کجا، نمی دانم

منے بہ رگ کہ خویش نیشتر دارم

بہ پہلوئے مہ و انجم بساط آرایم

قلندرانہ گہے عزم صد سفردارم

ہزار عشوۂ رنگیں ہزار باربکن

غمے مخورکہ بہ پہلو دلے دگردارم

جہاں دوروزہ وانجام زیست خواب دوام

بیار بادہ کہ من ہم ازیں خبر دارم

مرا کرشمۂ ساقی چو یاد می آید

ہزار برق بخوں نابۂ جگر دارم

بیا کہ سوختن و گم شدن بیا موزم

دریں سرائے فنا فرصت شرر دارم

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

بہ شب ہائے سیا ہے چند آہے کردہ ام پیدا

بہ ہرسیارۂ صد رسم و را ہے کردہ ام پیدا

جمال لالہ و گل راہزاراں رنگہا بخشم

زفیض جلوۂ حسنت نگاہے کردہ ام پیدا

تودرقید جہاں پابستہ وصد شکوہ سنجیہا

من ازہرذرّہ سازے کردہ را ہے کردہ ام پیدا

غباراز دامن خود بارہا افشاندہ ام اصغر

بہ ہنگام جنوں صد مہروما ہے کردہ ام پیدا

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

٭٭٭

 

 

 

 

آخری غزل ! (اردو )

 

 

عیاں ہے راز ہستی، چشم حیرت باز ہے ساقی

کہ محو راز ہو جانا کشود راز ہے ساقی

 

وہ اٹھی موج مے، وہ جام و مینا میں تلاطم ہے

جہان بے نشاں سے دعوت پرواز ہے ساقی

 

یہاں اک خاک دان عنصری میں کیا گزرتی ہے

تو ہی ہمراز ہے ساقی، تو ہی دمساز ہے ساقی

 

سنا کرتا ہوں را توں کو برابر نعرۂ مستی

تری آواز ہے یا خود مری آواز ہے ہے ساقی

(غیر مطبوعہ)

٭٭٭

ماخذ:

http://www.urduweb.org/mehfil/threads/%DA%A%D%%DB%C%D%A%D%AA-%D%A%D%B%D%BA%D%B./

کمپوزنگ: طارق شاہ

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

 

مکمل کلیات

ورڈ فائل              ای پب فائل

صرف سرودِ زندگی ڈاؤن لوڈ کریں

 

حصہ اول نشاط روح

 ورڈ فائل           ای پب فائل