FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

شاطِ رُوح

 

 

اصغرؔ گونڈوی

 

پیشکش: طارق شاہ

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

کلیاتِ اصغر گونڈوی کا پہلا حصہ

 

مکمل کلیات

ورڈ فائل              ای پب فائل

صرف نشاط روح ڈاؤن لوڈ کریں

 ورڈ فائل                  ای پب فائل

حصہ دوم: سرودِ زندگی

 ورڈ فائل                  ای پب فائل

 

 

اصغرؔ نشاط روح کا اک کھل گیا چمن

جنبش ہوئی جو خامۂ رنگیں نگار کو

 

 

نعت حضور سرور کائنات صلّی اللہ علیہ وسلّم

 

کچھ اور عشق کا حاصل نہ عشق کا مقصود

جزانیکہ لطف خلشائے نالۂ بے سود

مگر یہ لطف بھی ہے کچھ حجاب کے دم سے

جو اٹھ گیا کہیں پردہ تو پھر زیاں ہے نہ سود

ہلائے عشق نہ یوں کائنات عالم کو

یہ ذرے دے نہ اٹھیں سب شرارۂ مقصود

کہو یہ عشق سے چھیڑے تو ساز ہستی کو

ہر ایک پردہ میں ہے نغمہ "ہو الموجود ”

یہ کون سامنے ہے ؟ صاف کہہ نہیں سکتے

بڑے غضب کی ہے نیرنگی طلسم نمود

اگر خموش رہوں میں، تو تو ہی سب کچھ ہے

جو کچھ کہا، تو ترا حسن ہو گیا محدود

جو عرض ہے، اسے اشعار کیوں مرے کہیئے

اچھل رہے ہیں جگر پارہ ہائے خوں آلود

نہ میرے ذوق طلب کو ہے مدّعا سے غرض

نہ گام شوق کو پروائے منزل مقصود

مرا وجود ہی خود انقیاد و طاعت ہے

کہ ریشہ ریشہ میں ساری ہے اک جبین سجود

مقام جہل کو پایا نہ علم و عرفاں نے

میں بے خبر ہوں باندازۂ فریب شہود

جو اڑ کے شوق میں یوں محو آفتاب ہوا

عجب بلا تھا یہ شبنم کا قطرۂ بے بود

چلو، میں جان حزیں کو نثار کر ڈالوں

نہ دیں جو اہل شریعت جبیں کو اذن سجود

وہ راز خلقت ہستی وہ معنی کونین

وہ جان حسن ازل، وہ بہار صبح وجود

وہ آفتاب حرم، نازنین کنج حرا

وہ دل کا نور، وہ ارباب درد کا مقصود

وہ سرور دو جہاں، وہ محمّد عربی

بہ روح اعظم و پاکش درود نامحدود

صبائے حسن کا ادنیٰ سا، یہ کرشمہ ہے

چمک گئی ہے شبستان غیب و بزم شہود

نگاہ ناز میں پنہاں ہیں نکتہ ہائے فنا

چھپا ہے خنجر ابرو میں رمز "لا موجود ”

وہ مست شاہد رعنا، نگاہ سحر طراز

وہ جام نیم شبی نرگس خمار آلود

کچھ اس ادا سے مرا اس نے مدّعا پوچھا

ڈھلک پڑا مری آنکھوں سے گوہر مقصود

ذرا خبر نہ رہی ہوش و عقل ایماں کی

یہ شعر پڑھ کے وہیں ڈال دی جبین سجود

"چو بعد خاک شدن یا زیاں بود یا سود

بہ نقد خاک شوم بنگرم چہ خواہد بود ”

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ (رومی)

٭٭٭

بیخبری

 

ہزار جامہ دری صد ہزار بخیہ گری

تمام شورش و تمکیں نثار بے خبری

سکون شورش پنہاں ہے شغل جامہ دری

قرار سینۂ سوزاں ہے نالۂ سحری

مزاج عشق بہت معتدل ہے ان روزوں

جگر میں آگ دہکتی ہے آنکھ میں ہے تری

یہ ڈر ہے ہر بن مو، اب لہو نہ دے نکلے

کچھ ایسے زور پہ ہے آج کاوش جگری

جو مجھ پہ گزری ہے شب بھر، وہ دیکھ لے ہمدم

چمک رہا ہے مژہ پر ستارۂ سحری

اٹھا رہا ہے درد، رگ جاں ہے تشنۂ نشتر

مجھے ہے آج تلاش کمال چارہ گری

غرض نشاط و الم سے فقط تماشا ہے

کہ یہ مناظر رہ، اور میں ہوں رہ گزری

نہ مدّعا کوئی میرا نہ کچھ ہراس مجھے

کہ عاشقی ہے فقط بے دلی و بے جگری

نگاہ ناز کی کیفیتیں ہیں دل میں وہی

کہ روح تن میں ہو شیشہ میں جس طرح ہو پری

تری نگاہ کے صدقے یہ حال کیا ہے مرا

کمال ہوش کہوں یا کمال بے خبری

غضب ہوا، کہ گریباں ہے چاک ہونے کو

تمہارے حسن کی ہوتی ہے آج پردہ دری

کہیں ہے عشق، کہیں ہے کشش، کہیں حرکت

بھرا ہے خامۂ فطرت میں رنگ فتنہ گری

محال تھا کوئی ہوتا یہاں سوا تیرے

یہ کل جہان ہے منّت پذیر کم نظری

وہ ہر عیاں میں نہاں ہے، وہ ہر نہاں میں عیاں

عجیب طرز حجاب و عجیب جلوہ گری

کچھ اس طرح ہوئیں عاجز نوازیاں اس کی

کہ میری آہ کو ہے اب تلاش بے اثری

نزول پیکر خاکی پہ روح اعظم کا

زہے کمال سر افگندگی و بے ہنری

کرم کچھ آج ہے ساقی کا وہ طرب انگیز

کہ جرعہ جرعہ ہے موج ترنّم سحری

اس آستاں سے اٹھائی نہ پھر جبیں میں نے

حرم مے سجدۂ پیہم تھی ایک درد سری

چھپی ہے نیم نگاہی میں روح بے تابی

ملی ہے حسن تبسّم کو ریزش شرری

نہ جائیے مری بگڑی ہوئی اداؤں پر

کہ عاشقی میں مرے حسن کی ہے جلوہ گری

جو شوخیوں سے لیا ہے جمال بے تابی

تو جوش حسن سے پائی ادائے جامہ وری

لئے ہیں زلف سے آشفتگی کے کل انداز

نگاہ مست سے پہنچا ہے حسن بیخبری

خموش اصغرؔ بے ہودہ کوش و ہرزہ سرا

کہ حسن و عشق کی اچھی نہیں ہے پردہ دری

—————-

بگوش ہوش شنو پند حافظ شیراز

چو نکتہ ایست بہ طرز ترنّم شکری

"چو ہرخبر کہ شنیدم رہے بہ حیرت داشت

ازیں سپش من و ساقی و وضع بے خبری ”

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ حافظ شیرازی

٭٭٭

 

سرِّ فنا

 

رہا نہ دل میں وہ احساس مدّعا باقی

نہ روح میں ہے وہ بے تابی دعا باقی

وہ لب پہ شوق و طلب کی حلاوتیں نہ رہیں

نہ وہ کلام میں رنگینی ادا باقی

فسانۂ شب ہجراں کی لذّتیں نہ رہیں

نہ اب ذرا ہوس ظلم ناروا باقی

شرارتیں نگہ شوق کی ہوئیں رخصت

رہا نہ ولولۂ آہ نا رسا باقی

دل حزیں میں تڑپنے کی سکّتیں نہ رہیں

نہ تار اشک کا اب کوئی سلسلہ باقی

کھٹک کہیں نہ رہی درد جاں نواز کی اب

نہ وہ لطیف خلش دل میں اب ذرا باقی

غضب تو یہ ہے، کہ ہے سازعاشقی خاموش

نہ گفتگو کوئی باقی نہ ماجرا باقی

نہ اب وہ عرض مطالب میں شوخی عنواں

نہ اب وہ شوق کی نیرنگی ادا باقی

رہی نہ وصل کی لذّت، نہ ہجر کی کلفت

دوائے درد، نہ اب درد بے دوا باقی

یہ دیکھنے کی ہیں آنکھیں، نظر نہیں آتا

کہ اب نگاہ میں عبرت نہیں ذرا باقی

نہ اب وہ ذوق عبادت کی سعی لا حاصل

نہ اب وہ لذّت عصیاں کا ولولہ باقی

نہ وہ بیاض حقیقت پہ نقش آرائی

خیال میں نہ رہا رنگ ما سوا باقی

بڑا غضب یہ دل شعلہ آرزو نے کیا

کہ مدّعی کا پتہ ہے، نہ مدّعا باقی

رہا نہ تار رگ جاں میں ارتعاش خفی

نہ اب وہ نغمۂ بے لفظ و بے صدا باقی

خبر نہیں کہ، کیا حال ہے، کہاں ہوں میں !

بقا کا ہوش، نہ اب مستی فنا باقی

جو سب لیا ہے، تو یہ سوز و ساز بھی لے لے

یہی رہا ہے کہ، اب امتیاز بھی لے لے

مگر یہ دل میں جو شعلہ سا تھرتھراتا ہے

نگاہ لطف کا شاید ہے آسرا باقی

جو کچھ نہیں، نہ سہی! دل تو خون ہوتا ہے

کہ عشق کی ہے ابھی شان ارتقا باقی

مزہ الم میں ہے، کچھ لطف خستگی میں ہے

غرض کہ نشو نما روح کی اسی میں ہے

٭٭٭

 

 

 

غزلیات

 

ادنیٰ سا یہ حیرت کا کرشمہ نظر آیا

جو تھا پس پردہ، سر پردہ نظر آیا

 

پھر میں نظر آیا، نہ تماشا نظر آیا

جب تو نظر آیا مجھے تنہا نظر آیا

 

اللہ رے دیوانگی شوق کا عالم

اک رقص میں ہر ذرّہ صحرا نظر آیا

 

اٹھّے عجب انداز سے وہ جوش غضب میں

چڑھتا ہوا اک حسن کا دریا نظر آیا

 

کس درجہ ترا حسن بھی آشوب جہاں ہے

جس ذرّے کو دیکھا، وہ تڑپتا نظر آیا

 

اب خود ترا جلوہ جو دکھا دے، وہ دکھا دے

یہ دیدۂ بینا تو تماشا نظر آیا

 

تھا لطف جنوں دیدۂ خوں نابہ فشاں سے

پھولوں سے بھرا دامن صحرا نظر آیا

٭٭٭

 

 

 

دل نثار مصطفے ٰ جاں پائمال مصطفے ٰ

یہ اویس مصطفے ٰ ہے وہ بلال مصطفے ٰ

 

دونوں عالم تھے مرے حرف دعا میں غرق و محو

میں خدا سے جب کر رہا تھا سوال مصطفے ٰ

 

سب سمجھتے ہیں اسے شمع شبستان حرا

نور ہے کونین کا لیکن جمال مصطفے ٰ

 

عالم ناسوت میں اور عالم لاہوت میں

کوندی ہے ہر طرف برق جمال مصطفے ٰ

 

عظمت تنزیہہ دیکھی، شوکت تشبیہہ بھی

ایک حال مصطفے ٰ ہے ایک قال مصطفے ٰ

 

دیکھئے کیا حال کر ڈالے شب یلدائے غم

ہاں نظر آئے ذرا صبح جمال مصطفے ٰ

 

ذرّہ ذرّہ عالم ہستی کا روشن ہو گیا

اللہ اللہ شوکت و شان جمال مصطفے ٰ

٭٭٭

 

 

 

خوب دن تھے ابتدائے عشق کے

اب دماغ نالہ و شیون کہاں

 

اس رخ رنگیں سے آنکھیں سینکئے

ڈھونڈھئے اب آتش ایمن کہاں

 

سارے عالم میں کیا تجھ کو تلاش

تو ہی بتلا، ہے رگ گردن کہاں

 

خوب تھا صحرا، پر اے ذوق جنوں !

پھاڑنے کو نت نئے دامن کہاں

 

شوق سے ہے ہر رگ جاں جست میں

لے اڑے گی بوئے پیراہن کہاں

٭٭٭

 

 

حیران ہے زاہد مری مستانہ ادا سے

سو راہ طریقت کھلیں، اک لغزش پا سے

 

اک صورت افتادگی نقش فنا ہوں

اب راہ سے مطلب، نہ مجھے راہنما سے

 

میخانہ کی اک روح مجھے کھینچ کے دے دی

کیا کر دیا ساقی! نگہ ہوش ربا سے

٭٭٭

 

 

فتنہ سامانیوں کی خو نہ کرے

مختصر یہ کہ، آرزو نہ کرے

 

پہلے ہستی کی ہے تلاش ضرور!

پھر جو گم ہو، تو جستجو نہ کرے

 

ماروائے سخن بھی ہے کچھ بات

بات یہ ہے، کہ گفتگو نہ کرے

٭٭٭

 

وہ اک دل و دماغ کی شادابی نشاط

گرنا چمک کے اف تری برق نگاہ کا

 

وہ لذّت الم کا جو خوگر سمجھ گئے

اب ظلم مجھ پہ ہے ستم گاہ گاہ کا

 

شیشے میں موج مے کو یہ، کیا دیکھتے ہیں آپ

اس میں ہے اسی برق نگاہ کا

٭٭٭

 

عشق ہی سعی مری، عشق ہی حاصل میرا

یہی منزل ہے، یہی جادۂ منزل میرا

 

یوں اڑائے لئے جاتا ہے مجھے دل میرا

ساتھ دیتا نہیں اب جادۂ منزل میرا

 

اور آ جائے نہ زندانی وحشت کوئی!

ہے جنوں خیز بہت شور سلاسل میرا

 

میں سراپا ہوں تمنّا ہمہ تن درد ہوں میں

ہر بن مو میں تڑپتا ہے مرے، دل میرا

 

داستاں ان کی اداؤں کی ہے رنگیں، لیکن

اس میں کچھ خون تمنّا بھی ہے شامل میرا

 

بے نیازی کو تری کچھ بھی پذیرا نہ ہوا

شکر اخلاص مرا، شکوۂ باطل میرا

٭٭٭

 

ہے ایک ہی جلوہ جو ادھر بھی ہے ادھر بھی

آئینہ بھی حیران ہے و آئینہ نگر بھی

 

ہو نور پہ کچھ اور ہی اک نور کا عالم

اس رخ پہ جو چھا جائے مرا کیف نظر بھی

 

تھا حاصل نظّارہ فقط ایک تحیّر

جلوے کو کہے کون کہ اب گم ہے نظر بھی

 

اب تو یہ تمنّا ہے کسی کو بھی نہ دیکھوں

صورت جو دکھا دی ہے تو لے جاؤ نظر بھی

٭٭٭

 

 

مستی میں فروغ رخ جاناں نہیں دیکھا

سنتے ہیں بہار آئی، گلستاں نہیں دیکھا

 

زاہد نے مرا حاصل ایماں نہیں دیکھا

رخ پر تری زلفوں کو پریشاں نہیں دیکھا

 

آئے تھے سبھی طرح کے جلوے مرے آگے

میں نے مگر اے دیدۂ حیراں نہیں دیکھا

 

اس طرح زمانہ کبھی ہوتا نہ پر آشوب

فتنوں نے ترا گوشۂ داماں نہیں دیکھا

 

ہر حال میں بس پیش نظر ہے وہی صورت

میں نے کبھی روئے شب ہجراں نہیں دیکھا

 

کچھ دعوی تمکیں میں ہے معذور بھی زاہد!

مستی میں تجھے چاک گریباں نہیں دیکھا

 

روداد چمن سنتا ہوں اس طرح قفس میں !

جیسے کبھی آنکھوں سے گلستاں نہیں دیکھا

 

مجھ خستہ و مہجور کی آنکھیں ہے ترستی

کب سے تجھے اے سرو خراماں نہیں دیکھا

 

کیا کیا ہوا ہنگام جنوں، یہ نہیں معلوم !

کچھ ہوش جو آیا تو گریباں نہیں دیکھا

 

شائستۂ صحبت کوئی ان میں نہیں اصغر

کافر نہیں دیکھے کہ مسلماں نہیں دیکھا

٭٭٭

 

 

رخ رنگیں پہ موجیں ہیں تبسّم ہائے پنہاں کی

شعاعیں کیا پڑیں، رنگت نکھر آئی گلستاں کی

 

یہیں پہ ختم ہو جاتی ہیں بحثیں کفر و ایماں کی

نقاب اس نے الٹ کر یہ حقیقت ہم پہ عریاں کی

 

روانی رنگ لائی دیدۂ خوں نا بہ افشاں کی

اتر آئی ہے اک تصویر دامن پر گلستاں کی

 

حقیقت کھول دیتا میں جنوں کے راز پنہاں کی

قسم دے دی ہے لیکن قیس نے چاک گریباں کی

 

مری اک بیخودی میں سینکڑوں ہوش و خرد گم ہیں

یہاں کے ذرّہ ذرّہ میں ہے وسعت اک بیاباں کی

 

مجھی سے بگڑے رہتے ہیں مجھی پر ہے عتاب ان کا

ادائیں چھپ نہیں سکتیں نوازشہائے پنہاں کی

 

اسیران بلا نے آہ، کچھ اس درد سے کھینچی

نگہباں چیخ اٹّھے، ہل گئی دیوار زنداں کی

 

نگاہ یاس و آہ عاشقاں و نالۂ بلبل

معاذاللہ کتنی صورتیں ہیں انکے پیکاں کی

 

اسیران بلا کی حسرتوں کو آہ کیا کہیئے

ٹرپ کے ساتھ اونچی ہو گئی دیوار زنداں کی

٭٭٭

 

 

 

ادھر وہ خندۂ گلہائے رنگیں صحن گلشن میں

ادھر اک آگ لگ جانا وہ بلبل کے نشیمن میں

 

بن آئی بادہ نوشوں کی، بہار آئی ہے گلشن میں

لب جو ڈھل رہی ہے، بھر لئے ہیں پھول دامن میں

 

تپش جو شوق میں تھی، اصل میں بھی ہے وہی مجھ کو

چمن میں بھی وہی اک آگ ہے جو تھی نشیمن میں میں

 

مری وحشت پہ بحث آرائیاں اچھی نہیں ناصح

بہت سے باندھ رکھے ہیں گریباں میں نے دامن میں

 

الٰہی کون سمجھے میری آشفتہ مزاجی کو

قفس میں چین آتا ہے، نہ راحت ہے نشیمن میں

 

بہار آتے ہی وہ اک بارگی میرا تڑپ جانا

وہ جا پڑنا قفس کا آپ سے آپ اڑ کے گلشن میں

 

ابھی اک موج مے اٹھی تھی میخانے میں او واعظ

ابھی اک برق چمکی تھی مرے وادی ایمن میں

٭٭٭

 

 

 

عشوؤں کی ہے، نہ اس نگہ فتنہ زا کی ہے !​

ساری خطا مرے دل شورش ادا کی ہے ​

مستانہ کر رہا ہوں رہ عاشقی کو طے ​

کچھ ابتدا کی ہے، نہ خبر انتہا کی ہے ​

کھلتے ہی پھول باغ میں پژمردہ ہو چلے ​

جنبش رگ بہار میں موج فنا کی ہے ​

ہم خستگان راہ کو راحت کہاں نصیب !​

آواز کان میں ابھی بانگ درا کی ہے ​

ڈوبا ہوا سکوت میں ہے جوش آرزو ​

اب تو یہی زبان مرے مدّعا کی ہے ​

لطف نہان یار کا مشکل ہے امتیاز​

رنگت چڑھی ہوئی ستم برملا کی ہے ​

٭٭٭

 

 

جلوۂ رنگیں اتر آیا نگاہ شوق میں ​

ہم لطافت جسم کی اے سیم تن دیکھا کئے ​

شیوۂ منصور تھا اہل نظر پر بھی گراں ​

پھر بھی کس حسرت سے سب، دار و رسن دیکھا کئے ​

دشت غربت کی طرف اک آہ بھر کر جست کی ​

گرد کو پہروں مری، اہل وطن دیکھا کئے ​

بلبل و گل میں جو گزری، ہم کو اس سے کیا غرض ​

ہم تو گلشن میں فقط رنگ چمن دیکھا کئے ​

دوڑتے پھرتے تھے جلوے ان کے موج نور میں ​

دور سے ہم راز شمع انجمن دیکھا کئے ​

٭٭٭

 

 

شعور غم نہ ہو، فکر مآل کار نہ ہو ​

قیامتیں بھی گزر جائیں ہوشیار نہ ہو ​

وہ دست ناز جو معجز نمائیاں نہ کرے ​

لحد کا پھول چراغ سر مزار نہ ہو​

اٹھاؤں پردۂ ہستی جو ہو جہاں نہ خراب ​

سناؤں راز حقیقت، جو خوف دار نہ ہو​

ہر اک جگہ تری برق نگاہ دوڑ گئی ​

غرض یہ ہے کہ کسی چیز کو قرار نہ ہو​

یہ دیکھتا ہوں ترے زیر لب تبسّم کو ​

کہ بحر حسن کی اک موج بے قرار نہ ہو​

خزاں میں بلبل بیکس کو ڈھونڈیئے چل کر ​

وہ برگ خشک کہیں زیر شاخسار نہ ہو ​

سمجھ میں برق سر طور کس طرح آئے ​

جو موج بادہ میں ہیجان و انتشار نہ ہو ​

دکھا دے بیخودی شوق، وہ سماں مجھ کو​

کہ صبح وصل نہ ہو، شام انتظار نہ ہو​

نگاہ شوق کو یارائے سیر و دید کہاں ​

جو ساتھ ساتھ تجلّیحسن یار نہ ہو​

ذرا سی پردۂ محمل کی کیا حقیقت تھی​

غبار قیس کہیں خود ہی پردہ دار نہ ہو​

٭٭٭

 

 

اس کا وہ قد رعنا اس پر وہ رخ رنگیں

نازک سا سر شاخ اک گویا گل تر دیکھا

 

تم سامنے کیا آئے، اک طرفہ بہار آئی

آنکھوں نے مری گویا فردوس نظر دیکھا

 

ہر ذرّے میں صحرا کے بے تاب نظر آئی

لیلیٰ کو بھی مجنوں نے یوں خاک بسردیکھا

 

مستی سے ترا جلوہ خود غرض تماشا ہے

آشفتہ مزاجوں کا یہ کیف نظر دیکھا

 

ہاں وادی ایمن کے معلوم ہیں سب قصّے

موسیٰ نے فقط اپنا اک ذوق نظر دیکھا

٭٭٭

 

 

 

کون تھا اس کے ہوا خواہوں میں شامل نہ تھا

اب ہوا معلوم مجھ کو، یہ دل بھی میرا دل نہ تھا

 

عشق کی بیتابیوں پر حسن کو رحم آ گیا

جب نگاہ شوق تڑپی، پردۂ محمل نہ تھا

 

تھیں نگاہ شوق کی رنگینیاں چھائی ہوئی

پردۂ محمل اٹھا تو صاحب محمل نہ تھا

 

قہر ہے تھوڑی سی بھی غفلت طریق عشق میں

آنکھ جھپکی قیس کی، اور سامنے محمل نہ تھا

٭٭٭

 

 

 

اک عالم حیرت ہے، فنا ہے نہ بقا ہے

حیرت بھی یہ حیرت ہے کہ، کیا جانئے کیا ہے

 

سو بار جلا ہے، تو یہ سو بار بنا ہے !

ہم سوختہ جانوں کا نشیمن بھی بلا ہے

 

ہونٹوں پہ تبسّم ہے، کہ اک برق بلا ہے

آنکھوں کا اشارہ ہے کہ، سیلاب فنا ہے

 

سنتا ہوں، بڑے غور سے افسانۂ ہستی!

کچھ خواب ہے، کچھ اصل ہے، کچھ طرز ادا ہے

 

ہے تیرے تصوّر سے یہاں نور کی بارش

یہ جان حزیں ہے کہ شبستان حرا ہے

٭٭٭

 

 

 

یہ بھی فریب سے ہیں کچھ درد عاشقی کے

ہم مر کے کیا کریں گے، کیا کر لیا ہے جی کے

 

محسوس ہو رہے ہیں باد فنا کے جھونکے

کھلنے لگے ہیں مجھ پر اسرار زندگی کے

 

شرح و بیان غم ہے اک مطلب مقیّد

خاموش ہوں کہ معنی صدہا ہیں خامشی کے

 

بار الم اٹھایا، رنگ نشاط دیکھا

آئے نہیں ہیں یونہی انداز بے حسی کے

٭٭٭

 

 

سبکی بقدر حوصلۂ دل نظر میں ہے

جلوہ تمھارا ذوق طلب کے اثر میں ہے

 

قید قفس میں طاقت پرواز اب کہاں

رعشہ سا کچھ ضرور ابھی بال و پر میں ہے

 

تم باخبر ہو چاہنے والوں کے حال سے

سب کی نظر کا راز تمھاری نظر میں ہے

 

تقدیر کس کے خرمن ہستی کی کھل گئی

طوفان بجلیوں کا تمھاری نظر میں ہے

 

مجھ کو جلا کے گلشن ہستی نہ پھونک دے

وہ آگ جو دبی ہوئی مجھ مشت پر میں ہے

٭٭٭

 

 

ہر ادائے حسن آئینے میں آتی ہے نظر

یعنی خود کو دیکھتے ہیں، مجھ کو حیراں دیکھ کر

 

ذرّے ذرّے سے نمایاں ہے تجلّی قدم

ہوش گم ہیں وسعت صحرائے امکاں دیکھ کر

 

کچھ غنیمت ہو گئے یہ پردہ ہائے آب و رنگ

حسن کو یوں کون رہ سکتا تھا عریاں دیکھ کر

 

بے تکلّف ہوکے مجھ سے، سب اٹھا ڈالے حجاب

شاہد دیر و حرم نے مست و حیراں دیکھ کر

 

آج خوں گشتہ تمنائیں مجھے یاد آ گئیں

ہر طرف ہنگامۂ جوش بہاراں دیکھ کر

 

گر پڑی خود روح قید عنصری میں ٹوٹ کر

لذّت ذوق فنا ہر سو فراواں دیکھ کر

 

پھر گئی آنکھوں کے نیچے وہ ادائے برق حسن

چیخ اٹّھے سب مرا چاک گریباں دیکھ کر

٭٭٭

 

 

 

 

ترے جلووں کے آگے ہمّت شرح و بیاں رکھ دی​

زبان بے نگہ رکھ دی، نگاہ بے زباں رکھ دی​

مٹی جاتی تھی بلبل جلوۂ گلہائے رنگیں پر​

چھپا کر کس نے ان پردوں میں برق آشیاں رکھ دی​

نیاز عشق کو سمجھا ہے کیا اے واعظ ناداں !​

ہزاروں بن گئے کعبے، جبیں میں نے جہاں رکھ دی​

قفس کی یاد میں، یہ اضطراب دل، معاذ اللہ !​

کہ میں نے توڑ کر ایک ایک شاخ آشیاں رکھ دی​

کرشمے حسن کے پنہاں تھے شاید رقص بسمل میں ​

بہت کچھ سوچ کر ظالم نے تیغ خوں فشاں رکھ دی​

الٰہی ! کیا کیا تو نے، کہ عالم میں تلاطم ہے ​

غضب کی ایک مشت خاک زیر آسماں رکھ دی ​

٭٭٭

 

 

گرم تلاش و جستجو اب ہے تری نظر کہاں ؟​

خون ہے کچھ جما ہوا، قلب کہاں، جگر کہاں ؟​

ہے یہ طریق عاشقی، چاہیئے اس میں بیخودی ​

اس میں چناں چنیں کہاں، اس میں اگر مگر کہاں ؟​

زلف تھی جو بکھر گئی، رخ تھا کہ جو نکھر گیا ​

ہائے وہ شام اب کہاں، ہائے وہ اب سحرکہاں ؟​

کیجئے آج کس طرح، دوڑ کے سجدۂ نیاز !​

یہ بھی تو ہوش اب نہیں، پاؤں کہاں ہے سرکہاں ؟​

ہائے، وہ دن گزر گئے جوششِ اضطراب کے ​

نیند قفس میں آ گئی، اب غمِ بال و پر کہاں ؟​

ہوش و خرد کے پھیر میں عمر عزیز صرف کی ​

رات تو کٹ گئی یہاں، دیکھئے ہو سحرکہاں ؟​

٭٭٭

صرف اک سوزتومجھ میں ہے، مگرسازنہیں

میں فقط درد ہوں جس میں کوئی آواز نہیں

 

مجھ سے جو چاہیئے، وہ درس بصیرت لیجے

میں خود آواز ہوں، میری کوئی آواز نہیں

 

وہ مزے ربط نہانی کے کہاں سے لاؤں !

ہے نظر مجھ پہ، مگر اب غلط انداز نہیں

 

پھر یہ سب شورش و ہنگامۂ عالم کیا ہے ؟

اسی پردے میں اگر حسن جنوں ساز نہیں

 

آتش جلوۂ محبوب نے سب پھونک دیا

اب کوئی پردہ نہیں، پردہ بر انداز نہیں

٭٭٭

 

 

 

اسرارعشق ہے دل مضطر لئے ہوئے

قطرہ ہے بیقرار سمندر لئے ہوئے

 

آشوب دہر فتنۂ محشر لئے ہوئے

پہلو میں یعنی ہوں دل مضطر لئے ہوئے

 

موج نسیم صبح کے قربان جائیے

آئی ہے بوئے زلف معنبر لئے ہوئے

 

کیا مستیاں چمن میں ہیں جوش بہار سے

ہر شاخ گل ہے ہاتھ میں ساغر لئے ہوئے

 

قاتل نگاہ یاس کی زد سے نہ بچ سکا !

خنجر تھے ہم بھی اک تہ خنجر لئے ہوئے

 

خیرہ کئے ہے چشم حقیقت شناس بھی

ہر ذّرہ ایک مہر منّور لئے ہوئے

 

پہلی نظر بھی آپ کی اف کس بلا کی تھی

ہم آج تک وہ چوٹ، ہیں دل پر لئے ہوئے

 

تصویر ہے کھنچی ہوئی، ناز و نیاز کی!

میں سرجھکائے اور وہ خنجر لئے ہوئے

 

صہبائے تند و تیز کو ساقی سنبھالنا

اچھلے کہیں نہ شیشہ و ساغر لئے ہوئے

 

میں کیا کہوں، کہاں ہے محبّت، کہاں نہیں !

رگ رگ میں دوڑی پھرتی ہی نشتر لئے ہوئے

 

نام ان کا آ گیا کہیں ہنگام باز پرس

ہم تھے کہ اڑ گئے صف محشر لئے ہوئے

 

اصغرؔ حریم عشق میں ہستی ہی جرم ہے

رکھنا کبھی نہ پاؤں یہاں سر لئے ہوئے

٭٭٭

 

 

 

نہ یہ شیشہ، نہ یہ ساغر، نہ یہ پیمانہ بنے

جان میخانہ تری نرگس مستانہ بنے

 

مرتے مرتے نہ کبھی عاقل و فرزانہ بنے

ہوش رکھتا ہو جو انسان تو دیوانہ بنے

 

پرتو رخ کے کرشمے تھے سر راہ گذر !

ذرّے جو خاک سے اٹّھے، وہ صنم خانہ بنے

 

موج صہبا سے بھی بڑھ کر ہوں ہوا کے جھونکے !

ابر یوں جھوم کے چھا جائے، کہ میخانہ بنے

 

کارفرما ہے فقط حسن کا نیرنگ کمال

چاہے وہ شمع بنے، چاہے وہ پروانہ بنے

 

چھوڑ کر یوں در محبوب چلا صحرا کو

ہوش میں آئے ذرا قیس، نہ دیوانہ بنے

 

خاک پروانہ کی برباد نہ کر، باد صبا

یہی، ممکن ہے کہ کل تک مرا افسانہ بنے

 

جرعۂ مے تری مستی کی ادا ہو جائے

موج صہبا تری ہر لغزش مستانہ بنے

 

اس کو مطلوب ہیں کچھ قلب و جگر کے ٹکڑے

جیب و دامن نہ کوئی پھاڑ کے دیوانہ بنے

 

رند جو ظرف اٹھا لیں وہی ساغر بن جائے

جس جگہ بیٹھ کے پی لیں وہی میخانہ بنے

٭٭٭

 

 

 

گم کر دیا ہے دید نے یوں سر بسر مجھے

ملتی ہے اب انہیں سے کچھ اپنی خبر مجھے

 

نالوں سے میں نے آگ لگا دی جہان میں !

صیّاد جانتا تھا فقط مشت پر مجھے

 

اللہ رے ان کے جلوے کی حیرت فزائیاں !

یہ حال ہے کہ کچھ نہیں آتا نظر مجھے

 

مانا حریم ناز کا پایہ بلند ہے

لے جائے گا اچھال کے درد جگر مجھے

 

ایسا، کہ بت کدے کا جسے راز ہو سپرد

اہل حرم میں کوئی، نہ آیا نظر مجھے

 

کیا درد ہجر، اور یہ کیا لذّت وصال

اس سے بھی کچھ بلند ملی ہے نظر مجھے

 

مست شباب وہ ہیں، میں سرشارعشق ہوں

میری خبر انہیں ہے، نہ ان کی خبر مجھے

 

جب اصل اس مجاز و حقیقت کی ایک ہے !

پھر کیوں پھرا رہے ہیں ادھر سے ادھر مجھے

٭٭٭

 

 

 

 

سامنے ان کے تڑپ کر اس طرح فریاد کی!

میں نے پوری شکل دکھلا دی دل ناشاد کی

 

اب یہی ہے وجہ تسکیں خاطر ناشاد کی

زندگی میں نے دیار حسن میں برباد کی

 

ہوش پر بجلی گری، آنکھیں بھی خیرہ ہو گئیں

تم تو کیا تھے، اک جھلک سی تھی تمھاری یاد کی

 

چل دیا مجنوں تو صحرا سے کسی جانب مگر!

اک صدا گونجی ہوئی ہے نالہ و فریاد کی

 

نغمۂ پر درد چھیڑا میں نے اس انداز سے !

خود بخود مجھ پر، نظر پڑنے لگی صیّاد کی

 

دل ہوا مجبور جس دم، اشک حسرت بن گیا

روح جب تڑپی تو صورت بن گئی فریاد کی

 

اس حریم قدس میں کیا لفظ و معنی کا گزر

پھر بھی سب باتیں پہنچتی ہیں لب فریاد کی

 

تمتما اٹّھے وہ عارض میرے عرض شوق پر

حسن جاگ اٹّھا وہیں جب عشق نے فریاد کی

 

آشیاں میں اب کسی صورت نہیں پڑتا ہے چین

تھی نظر تاثیر میں ڈوبی ہوئی صیّاد کی

 

شعر میں رنگینیِ جوش تخیّل چاہیئے

مجھ کو اصغرؔ کم ہے عادت نالہ و فریاد کی

٭٭٭

 

 

 

یہ کیا کہا کہ غم عشق ناگوار ہوا

مجھے تو جرعۂ تلخ، اورسازگار ہوا

 

سرشک شوق کا وہ ایک قطرۂ ناچیز !

اچھالنا تھا، کہ اک بحر بے کنار ہوا

 

ادائے عشق کی تصویر کھنچ گئی پوری

وفور جوش سے یوں حسن بے قرار ہوا

 

بہت لطیف اشارے تھے چشم ساقی کے

نہ میں ہوا کبھی بیخود، نہ ہوشیار ہوا

 

لئے پھری نگہ شوق سارے عالم میں

بہت ہی جلوۂ حسن آج بے قرار ہوا

 

جہاں بھی، میری نگاہوں سے ہو چلا معدوم

ارے بڑا غضب، اے چشم سحرکار! ہوا

 

مری نگاہوں نے جھک جھک کے کر دئے سجدے

جہاں جہاں سے تقاضائے حسن یار ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

ذوق سرمستی کو محو روئے جاناں کر دیا

کفر کو اس طرح چمکایا، کہ ایماں کر دیا

 

تو نے یہ اعجاز کیا، اے سوز پنہاں ! کر دیا

اس طرح پھونکا کہ آخرجسم کو جاں کر دیا

 

جس پہ میری جستجو نے ڈال رکھے تھے حجاب

بیخودی نے اب اسے محسوس و عریاں کر دیا

 

کچھ نہ ہم سے ہو سکا اس اضطراب شوق میں

ان کے دامن کو مگر اپنا گریباں کر دیا

 

گو نہیں رہتا کبھی پردے میں راز عاشقی

تم نے چھپ کر اور بھی اس کو نمایاں کر دیا

 

رکھ دئے دیر و حرم سرمارنے کے واسطے

بندگی کو بے نیاز کفر و ایماں کر دیا

 

عارض نازک پہ ان کے رنگ سا کچھ آ گیا

ان گلوں کو چھیڑ کر ہم نے گلستاں کر دیا

 

ان بتوں کی صورت زیبا کو اصغرؔ کیا کہوں

پر خدا نے، وائے ناکامی! مسلماں کر دیا

٭٭٭

 

 

 

ہوش کسی کا بھی نہ رکھ جلوہ گہ نماز میں

بلکہ خدا کو بھول جا، سجدۂ بے نیاز میں

 

راز نشاط خلد ہے خندۂ دل نواز میں

غیب و شہود کے رموزنرگس نیم باز میں

 

آج تو اضطراب شوق حد سے سوا گزر گیا

اور بھی جان پڑ گئی عشوۂ جاں گداز میں

 

اس سے زیادہ اور کیا شوخیِ نقش پا کہوں ؟

برق سی اک چمک گئی آج سر نیاز میں

 

آتش گل سے ہر طرف دشت و چمن دہک اٹھا

ایک شرار طور ہے خلوتیان راز میں

 

ہوش خرد کے ساتھ ساتھ جان حزیں بھی سوخت ہے

آگ سی ہے بھری ہوئی سینۂ نے نواز میں

 

پردۂ دہر کچھ نہیں، ایک ادائے شوخ ہے

خاک اٹھا کے ڈال دی دیدۂ امتیاز میں

اے دل شوخ و حیلہ جو، زیرِ کمین رنگ و بو

طاہر قدس کو بھی لے دام گہ مجاز میں

 

سب ہے ادائے بیخودی، ورنہ ادائے حسن کیا

ہوش کا جب گزر نہیں، اس کی حریم ناز میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

جو شجر باغ میں ہے، وہ شجر طور ہے آج

پتّے پتّے میں جو دیکھا تو وہی نور ہے آج

 

شورش دل جو وہ ہوتی تھی، بدستور ہے آج

نہیں معلوم وہ نزدیک ہے یا دور ہے آج

 

فصلِ گل، جوشِ نمو، طلعتِ زیبائے بہار

عرضِ دیدار بہ یک جلوۂ مستور ہے آج

 

میں نے خاکسترِ دل میں نہیں دیکھا جس کو

وہی ذرّہ تو ہے جو برق سر طور ہے آج

 

نہیں معلوم یہاں دار و رسن ہے کہ نہیں

خون میں گرمیِ ہنگامۂ منصور ہے آج

 

جس سے کل تک دل بیتاب پھنکا جاتا تھا

اسی شعلہ کو جو دیکھا تو سر طور ہے آج

٭٭٭

 

 

سب گھیر لیا جلوۂ حسن بشری نے

پایا ہے سرعرش بھی سیر نظری نے

 

افتادگیِ راہ کی منزل کو نہ سمجھا

آخر نہ دیا ساتھ مرا ہم سفری نے

 

اس جلوۂ بے کیف سے محروم ہی رکھّا

کمبخت کبھی ہوش، کبھی بے خبری نے

 

کس شان سے پردے کو ہٹایا ہے تڑپ کر

ناکامی پر درد حجاب بشری نے

٭٭٭

 

 

 

 

آنکھوں میں ‌تیری بزم تماشا لئے ہوئے ​

جنّت میں بھی ہوں جنّت دنیا لئے ہوئے ​

پاس ادب میں ‌جوش تمنّا لئے ہوئے ​

میں بھی ہوں اک حباب میں دریا لئے ہوئے ​

کس طرح حسن دوست ہے، بے پردہ آشکار​

صد ہا حجاب صورت و معنے ٰ لئے ہوئے ​

ہے آرزو، کہ آئے قیامت ہزار بار​

فتنہ طرازیِ قدِ رعنا لئے ہوئے ​

طوفانِ ناز، اور پریشاں غبارِ قیس​

شانِ نیاز محملِ لیلے ٰ لئے ہوئے ​

پھر دل میں التفات ہوا ان کے جاگزیں ​

اک طرز خاص رنجش بیجا لئے ہوئے ​

پھر ان لبوں پہ موج تبسّم ہوئی عیاں ​

سامانِ جوش رقصِ تمنّا لئے ہوئے ​

صوفی کو ہے مشاہدۂ حق کا ادّعا​

صد ہا حجاب دیدۂ بینا لئے ہوئے ​

صد ہا تو لطف مے سے بھی محروم رہ گئے ​

یہ امتیازِ ساغر و مینا لئے ہوئے ​

مجھ کو نہیں ہے تاب خلشہائے روزگار​

دل ہے نزاکت غم لیلیٰ لئے ہوئے ​

تو برق حسن اور تجلیّ سے یہ گریز​

میں خاک اور ذوق تماشا لئے ہوئے ​

افتادگانِ عشق نے، سر اب تو رکھ دیا​

اٹّھیں گے بھی تو نقش کف پا لئے ہوئے ​

رگ رگ میں اور کچھ نہ رہا، جز خیال دوست​

اس شوخ کو ہوں آج، سراپا لئے ہوئے ​

دل مبتلا و مائل تمکین اتّقا!​

جام شراب نرگس رسوا لئے ہوئے ​

سرمایۂ حیات ہے حرمان عاشقی​

ہے ساتھ ایک صورت زیبا لئے ہوئے ​

جوش جنوں میں چھوٹ گیا آستان یار​

روتے ہیں ‌منہ پہ دامن صحرا لئے ہوئے ​

اصغرؔ ہجوم درد غریبی میں اس کی یاد​

آئی ہے اک طلسم تمنّا لئے ہوئے ​

٭٭٭

 

 

 

ہے دل ناکام عاشق میں تمھاری یاد بھی

یہ بھی کیا گھر ہے، کہ ہے برباد بھی، آباد بھی

 

دل کے مٹنے کا مجھے کچھ اور ایسا غم نہیں

ہاں مگر اتنا کہ، ہے اس میں تمھاری یاد بھی

 

کس کو یہ سمجھائیے نیرنگ کار عاشقی !

تھم گئے اشک مسلسل، رک گئی فریاد بھی

 

سینے میں درد محبّت راز بن کر رہ گئے

اب وہ حالت ہے کہ، کر سکتے نہیں فریاد بھی

 

پھاڑ ڈالوں گا گریباں، پھوڑ لوں گا اپنا سر

ہے مرے آفت کدے میں، قیس بھی، فرہاد بھی

 

کچھ تو اصغرؔ مجھ میں ہے، قائم ہے جس سے زندگی!

جان بھی کہتے ہیں اس کو، اور ان کی یاد بھی

٭٭٭

 

 

 

سرگرم تجلّی ہو، اے جلوۂ جانانہ !

اڑ جائے دھواں بن کر، کعبہ ہو کہ بت خانہ

 

یہ دین، وہ دنیا ہے، یہ کعبہ، وہ بت خانہ

اک اور قدم بڑھ کر، اے ہمّت مردانہ

 

قربان ترے میکش، ہاں اے نگہ ساقی!

تو صورت مستی ہے، تو معنی میخانہ

 

اب تک نہیں دیکھا ہے کیا اس رخ خنداں کو؟

اک تار شعاعی سے الجھا ہے جو پروانہ

 

مانا کہ بہت کچھ ہے یہ گرمی حسن شمع

اس سے بھی زیادہ ہے، سوز غم پروانہ

 

زاہد کو تعجّب ہے، صوفی کو تحیّر ہے !

صد رشک طریقت ہے، اک لغزش مستانہ

 

اک قطرۂ شبنم پر خورشید ہے عکس آرا

یہ نیستی و ہستی، افسانہ ہے افسانہ

 

انداز ہیں جذب اس میں، سب شمع شبستاں کے

اک حسن کی دنیا ہے خاکستر پروانہ

٭٭٭

 

 

 

ہر جنبش نگاہ تری جان آرزو ​

موج خرام ناز ہے، ایمان آرزو​

جلوے تمام حسن کے آ کر سما گئے ​

اللہ رے یہ وسعت دامان آرزو ​

میں اک چراغ کشتہ ہوں شام فراق کا ​

تو نو بہار صبح گلستان آرزو ​

اس میں وہی ہیں، یا مرا حسن خیال ہے ​

دیکھوں اٹھا کے پردۂ ایوان آرزو​

اک راز ہے تبسّم غمناک، ہجر میں ​

ہے اک طلسم گریۂ خندان آرزو ​

اب طور پر وہ برق تجلّی نہیں رہی ​

تھرّا رہا ہے شعلۂ عریان آرزو ​

اس کی نگاہ ناز نے چھیڑا کچھ اس طرح !​

اب تک اچھل رہی ہے رگ جان آرزو ​

اس نوبہار ناز کی صورت کی ہو بہ ہو ​

تصویر ایک ہے تہ دامان آرزو​

چاہا جہاں سے، فطرت منظر بدل دیا ​

ہے کل جہان، تابع فرمان آرزو​

کوثر کی موج تھی، تری ہر جنبش خرام ​

شاداب ہو گیا چمنستان آرزو​

٭٭٭

 

 

 

اس طرح چھیڑیے افسانۂ ہجراں کوئی

آج ثابت نظر آئے، نہ گریباں کوئی

 

جان بلبل کا خزاں میں نہیں پرساں کوئی

اب چمن میں نہ رہا شعلۂ عریاں کوئی

 

بے محابا ہو اگرحسن تو وہ بات کہاں !

چھپ کے جس شان سے ہوتا ہے نمایاں کوئی

 

خرمن گل سے لپٹ کر وہیں مر جانا تھا

اب کرے کیوں گلۂ تنگیِ داماں کوئی

 

کیا مرے حال پہ سچ مچ انھیں غم تھا قاصد

تو نے دیکھا تھا ستارہ سر مژگاں کوئی؟

 

اشک خونیں ہے کہیں، نالۂ رنگیں ہے کہیں

ہر قفس میں اتر آتا ہے گلستاں کوئی

 

پردۂ لالہ و گل بھی ہے بلا کا خوں ریز

اب زیادہ نہ کرے حسن کو عریاں کوئی

 

اپنے انداز پہ ہو شاہد فطرت بیخود

رکھ دے آئینہ اگر دیدۂ حیراں کوئی

 

کیا کرے زاہد بیچارہ، اسے کیا معلوم

رحم کرتا ہے باندازۂ عصیاں کوئی

 

دل میں اک بوند لہو کی نہیں، رونا کیسا

اب ٹپکتا نہیں آنکھوں سے گلستاں کوئی

 

شعلۂ طور کو دیکھا ہے تواجد کرتے

شب کو جب رقص میں آ جاتا ہے عریاں کوئی

 

دل کا ہر داغ ہے سرمایۂ رنگینی حسن

دیکھنا ہو گا اسی میں مہ کنعاں کوئی

 

لطف ہر طرح کا ہے دشت جنوں میں، لیکن

پھاڑنے کو نہیں ملتا ہے گریباں کوئی

 

اب اسے ہوش کہوں یا کہ جنوں، اے اصغر

مجھ کو ہر تار میں ملتا ہے گریباں کوئی

٭٭٭

 

 

 

پردۂ حرماں میں آخر کون ہے اس کے سوا

اے خوشا روئے، کہ نزدیکی بھی ہے، دوری بھی ہے

 

حسرت ناکام میری، کام سے غافل نہیں !

اک طریق جستجو یہ درد مہجوری بھی ہے

 

میں تو اس محجوبیوں پر بھی سراپا دید ہوں

اس کے جلوے کی ادا اک شان مستوری بھی ہے

 

میری محرومی کے اندر سے، یہ دی اس نے صدا

قرب کی راہوں میں میری، راہ اک دوری بھی ہے

 

قلب پر اب تک تڑپتی ہے شعاع برق طور

خون کے قطروں میں اب تک رقص منصوری بھی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

تو وہ قاتل ہے کہ ہر وار ترا رحمت ہے

میں وہ زخمی ہوں کہ ہر زخم ہے اک تازہ علاج

 

چشم پر شوق کو گو حسن سے پہنچی ہے ضیا

حسن کا رنگ بھی ہے ذوق نظر کا محتاج

 

جس میں ہر روز نئے رنگ سے آتی تھی بہار

ہو گیا وہ چمنستان تمنّا تاراج

 

فائدہ کیا کہ ترے عشق کو بدنام کروں

میں ازل ہی سے ہوں دل رفتہ و وارستہ مزاج

 

انتہا دید کی یہ ہے کہ، نہ کچھ آئے نظر

کیف بے رنگی حیرت ہے نظر کی معراج

 

صاف کہتا ہے کہ میں کیا ہوں، فقط دریا ہے

کس قدر شوخ ہے ہر قطرۂ منصور مزاج

٭٭٭

 

 

 

ہے آتش بے تابی کچھ خرمن ہستی میں

اک برق بلا بن کر تاثیر دعا آئی

 

ہنگام سیہ مستی یہ فکر فلک پیما

ایک ایک ستارے کو آئینہ دکھا آئی

 

بیدار ہوا منظر اس مست خرامی سے

غنچوں کی کھلیں آنکھیں، دامن کی ہوا آئی

 

اس عارض رنگیں پر عالم وہ نگاہوں کا

معلوم یہ ہوتا ہے، پھولوں میں صبا آئی

 

مجنوں کی نظر میں بھی شاید کوئی لیلیٰ ہے

ایک ایک بگولے کو دیوانہ بنا آئی

 

اک شور انا لیلیٰ خلقت نے سنا، لیکن

پھر نجد کے صحرا سے کوئی نہ صدا آئی

٭٭٭

 

 

 

 

آج پھرحسن حقیقت کو نمایاں کر دیں

ظلمت کفر کو خال رخ ایماں کر دیں

 

نالۂ غم سے حقیقت کو نمایاں کر دیں

نے کو اس طرح سے چھیڑیں کہ نیستاں کر دیں

 

بند ہو آنکھ، ہٹے منظر قدرت کا حجاب

لاؤ اک شاہد مستور کو عریاں کر دیں

 

خاک کر دیں طپش عشق سے ساری ہستی

پھر اسی خاک کو خاک در جاناں کر دیں

 

رحمت حق نے بہت دیکھ لی طاعت کی بہار

اب ذرا سامنے رعنائی عصیاں کر دیں

 

لے لیا جائزۂ ہستی عالم سارا

اس پہ اب مہر ترے دیدۂ حیراں کر دیں

 

دیر کی راہ نہ ملتی ہو تو کعبہ ہی سہی

کفر جب کفر نہ بنتا ہو تو ایماں کر دیں

 

جان بیتاب پہ وہ چوٹ تری یاد کی دیں

نفس باز پسیں کو بھی فروزاں کر دیں

 

پھر ہر اک درد و الم آج بنے وجہ نشاط

دل کے ہر داغ کو پھر شمع شبستاں کر دیں

٭٭٭

 

 

نہ کھلے عقدہ ہائے ناز و نیاز

حسن بھی راز اور عشق بھی راز

 

راز کی جستجو میں مرتا ہوں

اور میں خود ہوں ایک پردۂ راز

 

بال و پر میں مگر کہاں پائیں

بوئے گل یعنی ہمّت پرواز

 

ساز دل کیا ہوا وہ ٹوٹا سا

ساری ہستی ہے گوش بر آواز

 

لذّت سجدہ ہائے شوق نہ پوچھ

ہائے وہ اتّصال ناز و نیاز

 

دیکھ رعنائی حقیقت کو

عشق نے بھر دیا ہے رنگ مجاز

 

ساز ہستی کا جائزہ کیسا

تار کیا! دیکھ تار کی آواز

٭٭٭

 

 

 

 

توڑ کر دست طلب محو رضا ہو جائے

سر سے پا تک ہمہ تن آپ دعا ہو جائے

 

وہ نظراس کی، جو ہے موجۂ صد روح حیات

مجھ تک آئے تو، وہی تیر قضا ہو جائے

 

ہے تلوّن سے ترے جلوۂ نیرنگ حیات

میں تو مر جاؤں، جو امّید وفا ہو جائے

 

لالہ و گل پہ، جو ہے قطرۂ شبنم کی بہار

رخ رنگیں پہ جو آئے تو حیا ہو جائے

٭٭٭

 

 

 

پاتا نہیں جو لذّت آہ سحر کو میں

پھر کیا کروں گا لے کے الٰہی اثر کو میں

 

آشوب گاہ حشر مجھے کیوں عجیب ہو

جب آج دیکھتا ہوں تری رہگزر کو میں

 

ایسا بھی ایک جلوہ تھا اس میں چھپا ہوا

اس رخ پہ دیکھتا ہوں اب اپنی نظر کو میں

 

جینا بھی آ گیا، مجھے مرنا بھی آ گیا

پہچاننے لگا ہوں تمھاری نظر کو میں

 

وہ شوخیوں سے جلوہ دکھا کر تو چل دئے

ان کی خبر کو جاؤں کہ اپنی خبر کو میں

 

آہوں نے میری خرمن ہستی جلا دیا

کیا منہ دکھاؤں گا تری برق نظر کو میں

 

باقی نہیں جو لذّت بیداری فنا

پھر کیا کروں گا زندگی بے اثر کو میں

 

اصغرؔ مجھے جنوں نہیں، لیکن یہ حال ہے !

گھبرا رہا ہوں دیکھ کے دیوار و درکو میں

٭٭٭

 

 

 

 

کیا کہیے جاں نوازی پیکان یار کو

سیراب کر دیا دل منّت گزار کو

 

جوش شباب و نشۂ صہبا، ہجوم شوق

تعبیر یوں بھی کرتے ہیں فصل بہار کو

 

ہر ذرّہ آئینہ ہے کسی کے جمال کا

یوں ہی نہ جانیئے مرے مشت غبار کو

 

میرے مذاق شوق کا اس میں بھرا ہے رنگ

میں خود کو دیکھتا ہوں کہ تصویر یار کو

 

ہاں اے نگار خوبی و اے جان دلبری

تو نے حیات بخشی ہے صبح بہار کو

 

اس جوئبار حسن سے سیراب ہے فضا

روکو نہ اپنی لغزش مستانہ دار کو

 

تھی بوئے دوست موج نسیم سحر کے ساتھ

یہ اور لے اڑی مری مشت غبار کو

 

یہ راز دل ہے، ہستی کل کائنات ہے

دیکھیں حضور دیدۂ امّیدوار کو

 

تیری ہی شوخیاں تھیں گرہ میں دبی ہوئی

چھیڑا جو میں نے موج نسیم بہار کو

 

کچھ اور ہی فضا دل بے مدّعا کی ہے

دیکھا ہے روز وصل و شب انتظار کو

 

اصغرؔ نشاط روح کا اک کھل گیا چمن

جنبش ہوئی جو خامۂ رنگیں نگار کو

٭٭٭

 

 

 

یوں نہ مایوس ہو اے شورش ناکام ابھی

میری رگ رگ میں ہے، اک آتش بے نام ابھی

 

عاشقی کیا ہے ؟ ہر اک شے سے تہی ہو جانا

اس سے ملنے کی ہے دل میں ہوس خام ابھی

 

انتہا کیف کی افتادگی و پستی ہے

مجھ سے کہتا تھا یہی درد تہہ جام ابھی

 

علم و حکمت کی تمنّا ہے، نہ کونین کا غم

میرے شیشے میں ہے باقی مئے گلفام ابھی

 

سب مزے کر دئے خورشید قیامت نے خراب

میری آنکھوں میں تھا اک روئے دل آرام ابھی

 

بلبل زار سے گو صحن چمن چھوٹ گیا

اس کے سینے میں ہے اک شعلۂ گلفام ابھی

٭٭٭

 

 

 

نہ کچھ فنا کی خبر ہے، نہ ہے بقا معلوم

بس ایک بیخبری ہے، سو وہ بھی کیا معلوم

 

ہوا ہے دل کو مگر ننگ آرزو لاحق !

خروش گریہ و بے تابی دعا معلوم

 

ہجوم شوق میں، اب کیا کہوں میں، کیا نہ کہوں

مجھے تو خود بھی نہیں اپنا مدّعا معلوم

 

غرض یہ ہے کسی عنواں تجھے کریں مائل

کرشمہ سازی ہر رند و پارسا معلوم

 

جبین شوق کی شوریدگی کو کیا کہیے

وگرنہ عشوہ طرازی نقش پا معلوم

 

نکھر کے تو اسی پردے میں جلوہ آ را ہے

بہار لالہ و گل، شوخی صبا معلوم

 

ستم جو چاہے کرے مجھ پہ عکس ذوق نظر

بساط آئینۂ حسن خود نما معلوم

 

معاملہ نگہ ناز سے ہے اے اصغر

بہانۂ الم و حیلۂ قضا معلوم

٭٭٭

 

 

 

ہر موج ہوا زلف پریشان محمدؐ

ہے نورسحر صورت خندان محمدؐ

 

کچھ صبح ازل کی، نہ خبر شام ابد کی

بے خود ہوں تہ سایۂ دامان محمدؐ

 

تو سینۂ صدّیقؓ میں اک راز نہاں ہے

اللہ رے اے صورت جانان محمدؐ

 

چھٹ جائے اگر دامن کونین تو کیا غم

لیکن نہ چھٹے ہاتھ سے دامان محمدؐ

 

دے عرصۂ کونین میں یا رب کہیں وسعت

پھر وجد میں ہے روح شہیدان محمدؐ

 

بجلی ہو، مہہ و مہر ہو، یا شمع حرم ہو

ہے سب کے جگر میں رخ تابان محمدؐ

 

اے حسن ازل اپنی اداؤں کے مزے لے

ہے سامنے آئینۂ حیران محمدؐ

 

اصغرؔ ترے نغموں میں بھی ہے جوش درود اب

اے بلبل شوریدۂ بستان محمدؐ

٭٭٭

 

 

 

ازل میں کچھ جھلک پائی تھی اس آشوب عالم کی

ابھی تک ذرّہ ذرّہ پر ہے حالت رقص پیہم کی

 

نظام دہر کیا؟ بیتابیوں کے کچھ مظاہر میں

گداز عشق گویا روح ہے اجزائے عالم کی

 

نہیں معلوم کتنے جلوۂ ہائے حسن پیما ہوں

کوئی پہنچا نہیں گہرائیوں میں اشک پیہم کی

 

خودی ہے جو لئے جاتی ہے سب کو بیخبر کر کے

اسی چھوٹے سے نقطہ پر نظر ہے سارے عالم کی

 

شعاع مہر خود بیتاب ہے، جذب محبّت ہے

حقیقت ورنہ سب معلوم ہے پرواز شبنم کی

 

نہ سمجھا دہر کو میں مبتلائے رنگ و بو ہو کر

مجھے ساز طرب نے دی صدائیں نالہ و غم کی

 

غزل کیا، اک شرار معنوی گردش میں ہے اصغر

یہاں افسوس و گنجائش نہیں فریاد و ماتم کی

٭٭٭

 

 

ہم ایک بار جلوۂ جانانہ دیکھتے

پھر کعبہ دیکھتے، نہ صنم خانہ دیکھتے

 

گرنا وہ جھوم جھوم کے رندان مست کا

پھر پائے خم پہ سجدۂ شکرانہ دیکھتے

 

اک شعلہ اور شمع سے بڑھ کر ہے رقص میں

تم چیر کر تو سینۂ پروانہ دیکھتے

 

رندوں کو صرف نشۂ بیرنگ سے غرض

یہ شیشہ دیکھتے ہیں، نہ پروانہ دیکھتے

 

بکھری ہوئی ہو زلف بھی اس چشم مست پر

ہلکا سا ابر بھی سر میخانہ دیکھتے

 

ملتی کہیں کہیں پہ رہ مستقیم بھی

اہل طریق لغزش مستانہ دیکھتے

٭٭٭

 

 

 

شاید کے پیام آیا پھر وادی سینا سے

شعلے سے لپکتے ہیں کچھ کسوت مینا سے

 

مجھ کو وہی کافی ہے ساقی ترے مینا سے

جو کھنچ کے چلے آئی خود جذب تمنّا سے

 

عالم کی فضا پوچھو محروم تمنّا سے

بیٹھا ہوا دنیا میں اٹھ جائے جو دنیا سے

 

یارب مجھے مطلب ہے شیشہ سے نہ مینا سے

ساغر کوئی ٹپکا دے اس اوج ثرّیا سے

 

اسرار حقیقت کو اک ایک سے پوچھا ہے

ہر نغمۂ رنگیں سے، ہر شاہد زیبا سے

 

میخانہ کی یہ صحبت اے شیخ غنیمت ہے

لے کچھ لب ساغر سے، کچھ سینۂ مینا سے

 

رہ رہ کے چمکتی ہے وہ برق تبسّم بھی

لہریں سی جو اٹھتی ہیں کچھ چشم تمنّا سے

 

تم دید کو کہتے ہو، آئینہ ذرا دیکھو!

خود حسن نکھر آیا اس کیف تماشا سے

 

انوار کی ریزش ہو، اسرار کی بارش ہو

ساغر کو جو ٹکرا دوں اس گنبد مینا سے

 

یا زندگیِ نو تھی ہر موجِ حوادث کی

یا موت کا طالب ہوں انفاس مسیحا سے

 

وہ عشق کی عظمت سے واقف ہی نہیں شاید

سو حسن کروں پیدا، اک ایک تمنّا سے

 

اشعار پہ اصغرؔ کے، ہے رقص رگ جاں میں

اک موج نسیم آئی کیا باغ مصلّے ٰ سے

٭٭٭

 

 

 

برق میں جوش و اضطراب، ذرّے میں سوزوسازعشق

کل یہ فضائے دہر ہے، سینۂ پر گداز عشق

 

فتنۂ دہر مٹ گیا، حشر اٹھا تھا اٹھ چکا

ختم مگر نہ ہو سکا، مرحلۂ دراز عشق

 

محو ادا و ناز ہے، یوں ہمہ تن نیاز ہے

پوچھو صنم پرست سے، کیفیّت نماز عشق

 

مستی ناز حسن کو، سنتے ہیں بے نیاز ہے

اس سے بھی بے نیاز تر، بیخودی نیاز عشق

 

حسرت و آرزو سے ہیں، اہل ہوس بھی آشنا

اک غم ناتمام ہے، طرۂ امتیاز عشق

 

زاہد سادہ لوح کو، وہم تھا، اشتباہ تھا

مصحف رخ سے حل ہوا، مسئلۂ جواز عشق

 

بیخود و محو جسم و جاں، مست زمین و آسماں

حسن نے دست ناز سے، چھیڑ دیا ہے راز عشق

٭٭٭

 

 

 

 

گلوں کی جلوہ گری، مہر و مہ کی بوالعجبی​

تمام شعبدہ ہائے طلسم بے سببی​

گذر گئی ترے مستوں پہ وہ بھی تیرہ شبی​

نہ کہکشاں، نہ ثرّیا، نہ خوشۂ عنبی​

یہ زندگی ہے، یہی اصل علم و حکمت ہے ​

جمال دوست و شب مہ و بادۂ عنبی​

فروغ حسن سے تیرے چمک گئی ہر شے ​

ادا و رسم بلالی و طرز بولہبی​

ہجوم غم میں نہیں کوئی تیرہ بختوں کا ​

کہاں ہے آج تو اے آفتاب نیم شبی !​

سرشت عشق طلب اور حسن بے پایاں ​

حصول تشنہ لبی ہے شدید تشنہ لبی​

وہیں سے عشق نے بھی شورشیں اڑائی ہیں ​

جہاں سے تو نے لئے خندہ ہائے زیر لبی​

کشش نہ جام نگاریں کی پوچھ اے ساقی​

جھلک رہا ہے مرا آب و رنگ تشنہ لبی ​

٭٭٭

 

صحن حرم نہیں ہے، یہ کوئے بتاں نہیں

اب کچھ نہ پوچھئے کہ، کہاں ہوں کہاں نہیں

 

مجھ میں نوائے عیش کی رنگینیاں نہیں

سوز خموش عشق ہوں، ساز بیاں نہیں

 

مدّت ہوئی کہ چشم تحیّر کو ہے سکوت

اب جنبش نظر میں کوئی داستاں نہیں

 

وہ بہترین دور محبّت گزر گیا !

اب مبتلائے کشمکش امتحاں نہیں

 

اب ہو، تو سنگ و خشت سے سرکوسکون ہو

وہ آستاں نہیں، تو کوئی آستاں نہیں

 

کیا مشق آرزو کی ہیں یہ سحرکاریاں !

کیا گوشۂ قفس میں مرا آشیاں نہیں

 

کسب حیات نو تری ہر ہر ادا سے ہے

مرنا پسند خاطر ارباب جاں نہیں

 

سارا حصول عشق کی ناکامیوں میں ہے

جو عمر رائیگاں ہے، وہی رائے گاں نہیں

 

تسلیم مجھ کو خانۂ کعبہ کی منزلت

سب کچھ سہی، مگر وہ ترا آستاں نہیں

 

ہوتا ہے راز عشق و محبّت انہیں سے فاش

آنکھیں زباں نہیں ہیں، مگر بے زباں نہیں

 

فطرت سنا رہی ہے ازل سے اسی طرح

لیکن، ہنوز ختم مری داستاں نہیں

 

دیکھوں، ہجوم غم میں وہ لے کس طرح خبر

یہ اس کا امتحاں ہے، مرا امتحاں نہیں

 

اب اس نگاہ ناز سے ربط لطیف ہے

مجھ کو دماغ صحبت روحانیاں نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

کیا فیض بخشیاں ہیں رخ بے نقاب کی!

ذرّوں میں روح دوڑ گئی آفتاب کی

 

طاقت کہاں مشاہدۂ بے حجاب کی

مجھ کو تو پھونک دے گی تجلّی نقاب کی

 

مجھ کو خبر رہی نہ رخ بے نقاب کی

ہیں خود نمود حسن میں شانیں حجاب کی

 

اتنا کہ اذن شورش و فریاد دیجئے

مجھ کو سوال کی نہ ضرورت کی

 

میں بوالہوس نہیں کہ بجھاؤں گا تشنگی

میرے لئے تو اٹھتی ہیں موجیں سراب کی

 

نقش قدم یہ ہیں اسی جان بہار کے

اک پنکھڑی پڑی ہے لحد پر گلاب کی

 

موسیٰ ظہور برق تجلّی سے غش ہوئے

مجھ کو مار ڈالتی، شوخی کی

 

حل کر لیا مجاز و حقیقت کے راز کو

پائی ہے میں خواب میں تعبیر خواب کی

 

تھی ہر عمل میں دعوی ہستی کی معصیت

مستوں نے اور راہ نکالی ثواب کی

 

کچھ ان کی شوخیوں سے مجھے وہم ہو چلا

دیکھوں تو، قلب چیر کے شکل اضطراب کی

 

پیری میں عقل آئی تو سمجھے کہ خوب تھی

ڈوبی ہوئی نشاط میں غفلت شباب کی

٭٭٭

 

 

نہ ہو گا کاوش بے مدّعا کا راز داں برسوں

وہ زاہد جو رہا سرگشتۂ سودوزیاں برسوں

 

ابھی مجھ سے سبق لے محفل روحانیاں برسوں

رہا ہوں میں شریک حلقہٴ پیر مغاں برسوں

 

کچھ اس انداز سے چھیڑا تھا میں نے نغمۂ رنگیں

کہ فرط ذوق سے جھومی ہے شاخ آشیاں برسوں

 

جبین شوق لائی ہے وہاں سے داغ ناکامی

یہ کیا کرتی رہی کم بخت ننگ آستاں برسوں
وہی تھا حال میرا جو بیاں میں آ نہ سکتا تھا !

جسے کرتا رہا افشا سکوت راز داں برسوں

 

نہ پوچھو مجھ پہ کیا گزری ہے میری مشق حسرت سے !

قفس کے سامنے رکھّا رہا ہے آشیاں برسوں

 

خروش آرزو ہو، نغمۂ خاموش الفت بن

یہ کیا اک شیوۂ فرسودۂ آہ و فغاں برسوں

 

نہ کی کچھ لذّت افتادگی میں اعتنا میں نے

مجھے دیکھا کیا اٹھ کر غبارِ کارواں برسوں

 

وہاں کیا ہے، نگاہ ناز کی ہلکی سی جنبش ہے

مزے لے لے کے اب تڑپا کریں ارباب جاں برسوں

 

محبّت ابتدا سے تھی مجھے گلہائے رنگیں سے

رہا ہوں آشیاں میں لے کے برق آشیاں برسوں

 

میں وہ ہرگز نہیں جس کو قفس سے موت آتی ہو

میں وہ ہوں جس نے خود دیکھا نہ سوئے آشیاں برسوں

 

غزل میں درد رنگیں تو نے اصغرؔ بھر دیا ایسا

کہ اس میدان میں روتے رہیں گے نوحہ خواں برسوں

٭٭٭

 

 

 

 

یہ عشق نے دیکھا ہے، یہ عقل سے پنہاں ہے

قطرہ میں سمندر ہے، ذرّہ میں بیاباں ہے

 

ہے عشق کہ محشر میں یوں مست و خراماں ہے

دوزخ بگریباں ہے، فردوس بہ داماں ہے

 

ہے عشق کی شورش سے رعنائی و زیبائی

جو خون اچھلتا ہے، وہ رنگ گلستاں ہے

 

پھر گرم نوازش ہے ضو مہر درخشاں کی

پھر قطرۂ شبنم میں ہنگامۂ طوفاں ہے

 

اے پیکر محبوبی میں کس سے تجھے دیکھوں

جس نے تجھے دیکھا ہے وہ دیدۂ حیراں ہے

 

سو بار ترا دامن ہاتھوں میں مرے آیا

جب آنکھ کھلی، دیکھا، اپنا ہی گریباں ہے

 

اک شورش بے حاصل، اک آتش بے پروا !

آفتکدۂ دل میں اب کفر نہ ایماں ہے

 

دھوکا ہے یہ نظروں کا، بازیچہ ہے لذّت کا

جو کنج قفس میں تھا، وہ اصل گلستاں ہے

 

اک غنچۂ افسردہ، یہ دل کی حقیقت تھی

یہ موج زنی خوں کی، رنگینی پیکاں ہے

 

یہ حسن کی موجیں ہیں یا جوش تبسّم ہے

اس شوخ کے ہونٹوں پر اک برق سی لرزاں ہے

 

اصغرؔ سے ملے لیکن اصغر کو نہیں دیکھا

اشعار میں سنتے ہیں کچھ کچھ وہ نمایاں ہے

٭٭٭

 

 

 

ہر شے میں تو ہی تو ہے، یہ بعد یہ حرماں ہے

صورت جو نہیں دیکھی یہ قرب رگ جاں ہے

 

مضراب محبّت سے اک نغمۂ لاہوتی

پھر جوش ترنّم سے بیتاب رگ جاں ہے

 

آغوش میں ساحل کے کیا لطف سکوں اس کو

یہ جان ازل ہی سے پروردۂ طوفاں ہے

 

سب رنگ و لطافت ہے افتادگی غم میں

میں خاک ہوں اور مجھ میں سب راز گلستاں ہے

 

گم صاحب تمکیں ہے افسانۂ محفل میں

مجنوں کو یہی لیکن پیغام بیاباں ہے

 

بچ حسن تعیّن سے، ظاہر ہو کہ باطن ہو !

یہ قید نظر کی ہے، وہ فکر کا زنداں ہے

 

اک ایک نفس میں ہے صد مرگ بلا مضمر

جینا ہے بہت مشکل، مرنا بہت آساں ہے

 

اک جہد و کشاکش ہے، مستی جسے کہتے ہیں

کفّار کا مٹ جانا خود مرگ مسلماں ہے

 

ہستی بھی مری پردہ، یہ لفظ و بیاں پردہ

وہ پردہ نشیں پھر بھی ہر پردے میں عریاں ہے

 

وہ نغمۂ رنگیں سب، میں بھول گیا اصغر

اب گریۂ خونیں میں روداد گلستاں ہے

٭٭٭

 

 

 

جو نقش ہے ہستی کا دھوکہ نظر آتا ہے

پردے پہ مصّور ہی تنہا نظر آتا ہے

 

نیرنگ تماشا وہ جلوہ نظر آتا ہے

آنکھوں سے اگر دیکھو، پردا نظر آتا ہے

 

لو شمع حقیقت کی، اپنی ہی جگہ پر ہے

فانوس کی گردش سے کیا کیا نظر آتا ہے

 

اے پردہ نشیں، ضد ہے کیا چشم تمنّا کو

تو دفتر گل میں بھی رسوا نظر آتا ہے

 

نظّارہ بھی اب گم ہے، بیخود ہے تماشائی!

اب کون کہے اس کو، جلوہ نظر آتا ہے

 

جو کچھ تھی یہاں رونق، سب باد چمن سے تھی

اب کنج قفس مجھ کو سونا نظر آتا ہے

 

احساس میں پیدا ہے پھر رنگ گلستانی

پھر داغ کوئی دل میں تازہ نظر آتا ہے

 

تھی فرد عمل اصغرؔ کیا دست مشیّت میں

اک ایک ورق اس کا سادہ نظر آتا ہے

٭٭٭

 

 

 

جان نشاط، حسن کی دنیا کہیں جسے ​

جنّت ہے ایک، خون تمنّا کہیں جسے ​

اس جلوہ گاہ حسن میں چھایا ہے ہر طرف​

ایسا حجاب، چشم تماشا کہیں جسے ​

یہ اصل زندگی ہے، یہ جان حیات ہے ​

حسن مذاق، شورش سودا کہیں جسے ​

میرے وداع ہوش کو اتنا بھی ہے بہت ​

یہ آب و رنگ، حسن کا پردا کہیں جسے ​

اکثر رہا ہے حسن حقیقت بھی سامنے ​

اک مستقل سراب تمنّا کہیں جسے ​

اب تک تمام فکر و نظر پر محیط ہے ​

شکل صفات معنی اشیا کہیں جسے ​

ہر موج کی وہ شان ہے جام شراب میں ​

برق فضائے وادی سینا کہیں جسے ​

زندانیوں کو آ کے نہ چھیڑا کرے بہت​

جان بہار، نکہت رسوا کہیں جسے ​

اس ہول دل سے گرم رو عرصۂ وجود​

میرا ہی کچھ غبار ہے، دنیا کہیں جسے ​

سرمستیوں میں شیشۂ مے لے کے ہاتھ میں ​

اتنا اچھال دیں کہ ثرّیا کہیں جسے ​

شاید مرے سوا کوئی اس کو سمجھ سکے ​

وہ ربط خاص، رنجش بیجا کہیں جسے ​

میری نگاہ شوق میں اب تک ہے منعکس ​

حسن خیال، شاہد زیبا کہیں جسے ​

میری فغان درد پہ اس سرو ناز کو​

ایسا سکوت ہے کہ تقاضا کہیں جسے ​

دل جلوہ گاہ حسن بنا فیض عشق سے !​

وہ داغ ہے کہ شاہد رعنا کہیں جسے ​

اصغرؔ نہ کھولنا کسی حکمت مآب پر​

راز حیات، ساغر و مینا کہیں جسے ​

٭٭٭

 

عشق ہے اک کیف پنہانی مگر رنجور ہے

حسن بے پروا نہیں ہوتا مگر دستور ہے

 

خستگی نے کر دیا اس کو رگ جاں سے قریب

جستجو ظالم کہے جاتی تھی منزل دور ہے

 

لے اسی ظلمت کدہ میں اس سے محرومی کی داد

اس سے آگے، اے دل مضطر، حجاب نور ہے

 

لب پہ موج حسن جب چمکے، تبسّم نام ہو

ربّ ارنی کہہ کے چیخ اٹّھوں، تو برق طور ہے

 

نور آنکھوں میں اسی کا، جلوہ خود نور محیط

دید کیا ہے، کچھ تلاطم میں ہجوم نور ہے

 

دیکھتا ہوں میں کہ ہے بحر حقیقت جوش پر

جو حباب اٹھ اٹھ کے مٹتا ہے، سرمنصور ہے

٭٭٭

 

 

 

بسترخاک پہ بیٹھا ہوں، نہ مستی ہے نہ ہوش

ذرّے سب ساکت و صامت ہیں، ستارے خاموش

 

نظر آتی ہے مظاہر میں مری شکل مجھے

فطرت آئینہ بدست اور میں حیران و خموش

 

ترجمانی کی مجھے آج اجازت دے دے

شجر طور ہے ساکت، لب منصور خموش

 

بحر آواز انا البحر اگر دے تو بجا

پردۂ قطرۂ ناچیز سے کیوں ہے یہ خروش

 

ہستی غیب سے گہوارۂ فطرت جنباں

خواب میں طفلک عالم ہے سراسرمد ہوش

 

پرتو مہر ہی ذوق رم و بیداری ہے

بستر گل پہ ہے اک قطرۂ شبنم مد ہوش

٭٭٭

 

 

 

 

 

فریب دام گہ رنگ و بو معاذاللہ

یہ اہتمام ہے اور ایک مشت پر کے لئے

 

جو دل سے تیر کوئی پار بھی ہوا تو کیا

تڑپ رہا ہوں ابھی تک تری نظر کے لئے

 

حقیقت ایک ہے صد ہا لباس رنگیں میں

نظر بھی چاہئے کچھ حسن رہگزر کے لئے

 

بہائے درد و الم درد و غم کی لذّت ہے

وہ ننگ عشق ہے جو آہ ہو اثر کے لئے

 

بتوں کے حسن میں بھی شان ہے خدائی کی

ہزار عذر ہیں اک لذّت نظر کے لئے

٭٭٭

 

 

 

سر سے پا تک میری ہستی گرم سوز و ساز ہے

جلوۂ حسن بتاں اک غیب کی آواز ہے

 

چھیڑتی ہے کس لگاوٹ سے نگاہ شوق کو

خود بہت با کیف تیری جلوہ گاہ ناز ہے

 

دوست اے بیتابی دل ہے رگ جاں سے قریب

درد جو کچھ ہے خود اپنا جلوۂ پرواز ہے

 

متبسّم یہ عشق کی راز جہاں کی کائنات !

عقل سرگرداں، کہ ہر ذرّہ جہان راز ہے

 

کس قدر پر کیف ہے ٹوٹے ہوئے دل کی صدا

اصل نغمہ ایک آواز شکست ساز ہے

 

ہے بہت اعلیٰ مقام خستگی و عاجزی!

بے پر و بالی سروش عشق کی پرواز ہے

 

حسن کے فتنے اٹھے میرے مذاق شوق سے !

جس سے میں بے چین ہوں وہ خود مری آواز ہے

٭٭٭

 

 

 

 

متفرقات

 

دیر و حرام بھی منزل جاناں میں آئے تھے

پر شکر ہے کہ بڑھ گئے دامن بچا کے ہم

====================

عشق تھا آپ مشتعل، حسن تھا خود نمود پر

میری نظرسے کیا ہوا، تیری نظر نے کیا کیا

====================

کہیں اور اب جو ہوتی ترے حسن کی تجلّی

تو نہ میری خاک ملتی، نہ مرا غبار ہوتا

====================

مطرب فتنہ نوا، نغمۂ پر درد نہ چھیڑ

نکلا پڑتا ہے مرے سینہ سے باہر کوئی

====================

رہا جو جوش تو رندی و میکشی کیا ہے

ذرا خبر جو ہوئی، پھر وہ آگہی کیا ہے

کسی طرح تو دل زار کو قرار آئے

جو غم دیا ہے، تو یہ سعیِ دلدہی کیا ہے

====================

٭٭٭

ماخذ:

http://www.urduweb.org/mehfil/threads/%DA%A%D%%DB%C%D%A%D%AA-%D%A%D%B%D%BA%D%B./

کمپوزنگ: طارق شاہ

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

مکمل کلیات

ورڈ فائل              ای پب فائل

صرف نشاط روح ڈاؤن لوڈ کریں

 ورڈ فائل                  ای پب فائل

حصہ دوم: سرودِ زندگی

 ورڈ فائل                  ای پب فائل