FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

بے قراری سی بے قراری ہے

 

گوہر شہوار

Gohareshahwar07@gmail.com

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

 

ای پب فائل

 

کنڈل فائل

 

باباجی کے نام جنھوں نے کہا لکھا کرو

 

 

 

 

 پیش لفظ: اوپر، نیچے اور درمیان میں

 

زندگی کبھی ایک ٹھاٹھیں مارتا تو کبھی سکون سے بہتا دریا ہے۔ دریا کی سطح پر وقتی طور پر کچھ بلبلے ابھرتے ہیں۔  ان بلبلوں کا وجود دریا کے مقابلے میں بے معنی دکھائی دیتا ہے۔  ان بلبلوں کے لیے اپنا اور دریا کا وجود ایک معمہ ہوتا ہے۔

ان بلبلوں کے ذہن میں یہ سوال کلبلاتے ہیں: یہ دریا کہاں سے اور کیوں آیا۔ میری زندگی کا مقصد کیا ہے، میری موجودگی اور غیر موجودگی سے دریا کو کوئی فرق پڑتا ہے یا نہیں؟

بلبلے تین مائنڈ سیٹ کے ہوتے ہیں۔

اوپر والے:  دریا کی لا متناہیت میں ہماری یہ مختصر زندگی کسی بڑے منصوبے کا حصہ ہے۔  بنانے والے نے کچھ سوچ کر ہی ہمیں تخلیق کیا ہے۔  ہمیں اپنے بنانے والے کو پہچاننا ہے۔

ہر ذرہ چمکتا ہے انوار الٰہی سے

ہر سانس یہ کہتی ہے ہم ہیں تو خدا بھی ہے

نیچے والے:  ہماری یہ مختصر زندگی بے مقصد اور محض اتفاقیہ ہے۔  یہ جاننے کی تگود و معنی ہے کہ ہمیں اور اس دریا کو کس نے اور کیوں بنایا ہے۔  یہ سب بے معنی تماشا ہے۔

حاصل کن ہے یہ جہان خراب

یہی ممکن تھا اتنی عجلت میں (جون ایلیا)

درمیاں والے:  دریا کی روانی میں کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔  کبھی لگتا ہے کوئی مقصد ہے اور کبھی لگتا ہے سب بے معنی ہے۔  آخر کنفیوثن ختم کیوں نہیں ہوتی۔

ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر

کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے

کچھ بلبلے پیدائشی طور پر اوپر نیچے اور درمیاں والے ہوتے۔ جیسے بھی حالات ہوں وہ اسی مائنڈ سیٹ میں رہتے ہیں۔  زیادہ تر کیسز میں یہ مائنڈ سیٹ دھیرے دھیرے بنتا ہے۔ اسی دوران اوپر نیچے اور درمیاں کی چھلانگیں لگتی ہیں۔  ایک بار یہ مائنڈ سیٹ پختہ ہو جائے تو ہر واقعہ اسی کے تحت انٹرپریٹ ہوتا ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ فنا ہونے سے پہلے کوئی کیا مائنڈ سیٹ رکھتا ہے۔  ایمان اللہ کی عطا ہے وہ جسے چاہے دے دے۔

یہ بھی کچھ بلبلوں کی اوپر نیچے اور درمیاں کی کہانی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

حصہ اول:  اٹھا نقاب اور تباہ کر دے۔

 

مجھے یہ بھی یاد نہ رہا کہ میں بے نقاب اور ننگے سر ہوں۔

اس کی صورت دیکھتے ہی میرے سینے میں ٹھنڈک پڑ گئی۔

میرا سارا ڈیپریشن ختم ہو گیا۔  دل چاہا، اس کے سینے سے لگ جاؤں۔

یہ سب خواب جیسا تھا۔

لیکن وہ واپس کیوں آیا؟

یقیناً اسے میری معصومیت کا دل سے یقین ہے۔ اسی لیے ساری مخالفتوں کے باوجود وہ مجھے اپنانے آیا ہے۔

ایک لمحے میں میرے سارے غم دھل گئے۔  تاریک نظر آنے والا مستقبل، سہانا ہو گیا۔

اس نے شاید کبھی میری تصویر دیکھی ہو۔ مگر یوں بے نقاب کبھی نہیں دیکھا۔  اس کی آنکھوں کے تاثرات بدل گئے۔ کچھ لمحوں کے لیے وہ پتھر کا بت بن گیا۔۔

میں اس کی آنکھوں کے تاثرات نہ سمجھ سکی۔  میری سوچنے سمجھنے کی صلاحیت تواسے دیکھ کر ہی ختم ہو گئی۔  ایک خیال آیا کہ کاش وقت رک جائے۔

اسی لمحے اس کی آنکھوں میں فوراً شدید غصے کی لہر اٹھی۔

ایک زور دار تھپڑ مجھے خواب سے باہر لے آیا۔  اس کا چہرہ غصے سے لال تھا۔  یوں لگا کہ وہ بڑی مشکل سے خود کو کچھ کرنے سے روک رہا ہو۔

تھپڑ اتنی زور سے لگا کہ میں سائیڈ پر گر گئی۔  میرا سر جھن جھنا گیا۔ دکھ کے مارے میری آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔

میں تڑپ کر اٹھی اور اس سے کچھ کہنے ہی والی تھی، کہ اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے روکا۔

بس عبیر! کسی وضاحت کی ضرورت نہیں۔  میں سب جان چکا ہوں۔ تمھاری کوئی وضاحت میرا دل صاف نہیں کر سکتی۔

میرا بس نہیں چل رہا کہ۔ ۔

یہ کہتے ہی اس نے سامنے دیوار پر زور سے مکا مارا۔  اس کی آنکھوں میں بے بسی صاف دکھنے لگی۔  جیسے کسی شیر کو جکڑ دیا ہو۔

عبیر! میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔  کہ۔ ۔ ۔ کہ تم پیسے کی چکا چوند سے اتنی جلدی کرپٹ ہو جاؤ گی۔  اس کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی آ گئی۔

صحیح کہتے ہیں ! سب لڑکیاں ایک جیسی ہوتی ہیں۔  بس ظاہری روپ بدلتے ہیں۔

تم تو اپنی پارسائی کی وجہ سے مجھے چہرہ بھی نہیں دکھاتی تھیں۔  پھر۔۔ پھر ایسا کیا ہو گیا کہ تم۔ ۔ ۔۔

اسے بھی تم نے اپنی معصومیت سے شکار کیا ہو گا۔   ہے نا؟

وہ دادی کا وعدہ، وہ پردہ داری!

کیا صرف امیر لڑکوں کو پھنسانے کے بہانے تھے؟

کاشف میری بات تو سنو۔

بس عبیر!

مجھے مزید غصہ مت دلاؤ کہ میں کچھ اور کر گزروں۔

میں گھر سے یہ فیصلہ کر کے نکلا تھا آج تمھاری بھی جان لوں گا اور اپنی بھی۔  تمھارا یہ خوبصورت چہرہ دیکھ کر میرا غصہ آدھا رہ گیا ہے۔

میں اس چہرے کو دیکھنے کے لیے کتنا تڑپتا رہا۔  آج اسے اپنے ہاتھوں سے کیسے مٹادوں۔

اس کی آواز بھرا گئی۔

تم نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیاعبیر۔۔

میں تم سے نفرت کرتا ہوں۔

یہ کہہ کر وہ تیزی سے دروازہ بند کر کے چلا گیا جیسے اگر مزید رکا تو اپنے جذبات پر قابو نہ کر سکے گا۔

اس کی باتیں میرے سینے میں گرم سلاخوں کی طرح گھستی گئیں۔

میرا سانس لینا محال ہو گیا۔

میرے ذہن میں بس ایک ہی جملہ گونجنے لگا

میں تم سے نفرت کرتا ہوں۔   میں تم سے نفرت کرتا ہوں۔

میری پاکیزگی سے اسے محبت تھی۔

اب اس کی نظروں میں میری پاکیزگی میں ختم ہو گئی ہے۔

آج اس نے اپنا فیصلہ سنا دیا

میری کوئی دلیل اس کے دل میں میری محبت بحال نہیں کر سکتی۔

میری پاکیزہ محبت ختم ہو گئی۔

محبت جو میری زندگی تھی۔

اب میری کوئی زندگی ہی نہیں۔

محبت کے بنا یہ زندگی کتنی بے معنی ہے

میں جیوں تو کس لیے؟

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا

اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا

میرا خود پر اختیار ختم ہو گیا۔

یوں لگا یہ چہرہ اور جسم میرا حصہ نہیں۔ میں اس چہرے اور جسم سے علیحدہ ایک وجود ہوں۔  یہ ناپاک جسم اور چہرہ سزا کا مستحق ہے۔  مجھے ان سے نجات پانی ہے۔

میں فوراً ہی کچن میں گئی اور چھری پکڑ کر ایک ہی سیکنڈ میں بائیں کلائی کی نس کاٹ دی۔

میں کچن کی دیوار سے لگ کر بیٹھ گئی، اور اپنی سفید کلائی سے خون کو نکلتے دیکھنے لگی۔  میرا دل بہت آہستہ آہستہ ڈوبنے لگا۔  آنکھیں کھولنا مشکل ہو گیا۔  ذہن یوں تاریک ہونے لگا جیسے کسی بلڈنگ کی لائٹس آف ہوتی ہیں۔  میری سوچیں بہت آہستہ ہو گئیں، جیسے وقت رک گیا ہو۔

آپ کو دلچسپی ہو گی کہ موت سے پہلے انسان کو کیا دکھائی دیتا ہے، موت کا فرشتہ دیکھنے میں کیسا لگتا ہے، غیب کے پردے ہٹتے ہیں تو اس کے پیچھے کیا ہوتا ہے۔  مگر ان باتوں سے پہلے کچھ عجیب ہوا۔

میری آنکھوں کے سامنے میری پوری زندگی فلم کی طرح چل پڑی۔  عجیب بات ہے کہمیں خود ہی اس فلم کی کردار ہوں اور فلم دیکھنے والی بھی۔  میں اس فلم کی کہانی جانتی بھی ہوں اور نہیں بھی جانتی۔  میں اس کہانی میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتی۔  اس فلم کے ختم ہوتے ہی میری زندگی بھی ختم ہو جانی ہے۔

پر آگے کیا ہو گا؟ کیا بس یہی میری زندگی کا مقصد تھا۔

میں تو خود کشی کر رہی ہوں۔ کہیں ابد تک اسی فلم کو دیکھنا ہی میری سزا تو نہیں؟

بچپن کتنی جلدی گزر گیا، کسی پریشانی کا نام و نشان تک نہ تھا۔  چھوٹی چھوٹی خوشیاں اور مستقبل کے چھوٹے چھوٹے منصوبے تھے۔  گڑیوں کی شادی کرتے یہ خیال آتا جب میں دلہن بنوں گی تو کیسی لگوں گی۔  دادی کی باتیں کتنی انوکھی ہوتیں۔  زندگی دریا کے پرسکون پانی کی طرح ہی تو بہہ رہی تھی۔  پھر اچانک بھنور آ گیا۔ کچھ بھی پہلے جیسا نہ رہا۔

آغاز ایک خواب سے ہوا۔۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔

 

کئی دنوں سے مجھے ایک ہی خواب بار بار دکھائی دے رہا تھا۔۔

جنگل کے بیچوں بیچ صدیوں ایک بہت پرانی حویلی تھی جس کیدیواروں میں دڑاڑیں پڑ چکی تھیں۔ اس کا زنگ آلود گیٹ بہت بھاری تھا۔  دیواروں پر جھاڑیاں اور بیلیں چڑھی تھیں۔  سارا ماحول ویرانی اور خوف میں ڈوبا تھا۔  کہیں کہیں الو بولنے کی آواز آ جاتی۔  جنگل کے گھنے پن کی وجہ سے سورج کی روشنی نیچے نہیں پہنچتی۔  میں جیسے ہی دروازے کے سامنے پہنچی، وہ خود بخود کھل گیا۔

اندر ہو کا عالم تھا۔  ہر طرف جھاڑیاں ہی جھاڑیاں تھیں۔  ایسا لگتا جیسے وہاں صدیوں سے کوئی نہیں آیا۔  میں سیدھا چلتے ہوئے ایک بڑے سے کمرے میں داخل ہوئی۔ وہاں ایک بھیڑیا زنجیروں سے بندھا تھا۔ وہ خود کو چھڑانے کے لیے غرا رہا تھا۔  مجھے دیکھتے ہی اس نے حملہ کرنے کے لیے چھلانگ لگائی۔  مگر زنجیروں کی وجہ سے کچھ ہی فاصلہ پر رک گیا۔  اس کی آوازیں دل کو سہما دیتیں۔

میں نے دیوار پہ ٹنگا کوڑا اٹھایا اور غصے سے اسے مارنا شروع کیا۔  وہ درد کی شدت سے چیخنے لگا۔ بچنے کی پوری کوشش کرنے لگا۔ میں چاہتی تھی، وہ ایک پالتو کی طرح میرے پیروں میں سر رکھ کر اس تشدد روکنے کی فریاد کرے۔ اس چیخیں اور سسکیاں سن کر میرے جسم میں سرور کی لہر دوڑنے لگی۔۔  میں نے کبھی ایک چیونٹی بھی نہیں ماری پر اس بھیڑیے کو مارنے میں مجھے بہت مزہ آیا۔

میں نے اسے سخت برا بھلابھی کہا۔ اس کے جسم سے نکلتے خون کو دیکھ کر مجھے تسکین ملنے لگی۔

اس خواب کی کوئی سنس نہیں بن رہی تھی۔ میرے لاشعور میں ایسا کیا تھا کہ میں خواب میں اتنی تشدد پسند بن گئی۔ میں تو ایک معصوم سی نازک اندام لڑکی ہوں۔۔  میں نے صبح اٹھ کر فوراً اپنے خیالی گناہ معافی مانگی۔ دل پر اسی خواب میں اٹکا رہا۔

میں انھی سوچوں میں گم یونیورسٹی پہنچی۔ لائبریری میں بیٹھی اسی خواب کے بارے میں سوچنے لگی۔  خواب بھی بنا مقصد نہیں ہوتے ان کے خاص معنی ہوتے ہیں۔  کہتے ہیں جب ہم سو جاتے ہیں تو ہماری روح جسم سے نکل کر انجانی دنیاؤں کی سیر کرتی ہے۔  اس کے لیے ماضی، حال اور مستقبل کی کوئی پابندی نہیں ہوتی۔

پتا نہیں میرے خواب کے پیچھے کیا ہو؟ یا شاید بے مقصد ہی ہو۔

عمارہ کی آواز مجھے حقیقت کی دنیا میں واپس لے آئی۔

عبیر! تم نے حجاب کے نئے ڈیزائن فائنل کر لیے کہ نہیں۔

میں اپنے خیالوں میں اتنی کھوئی تھی کہ اس کے سوال کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکی۔  میں نے خالی نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔  اس نے میری آنکھوں کے سامنے ہاتھ ہلایا۔

او میڈم! کس کے خیالوں میں گم ہو۔

میں ٹرانس سے باہر آ گئی۔

عمارہ ییلو شرٹ اور بلیک ٹائٹس میں کمال لگ رہی تھی۔ اوپر سے لئیر کٹنگ نے غضب ڈھایا تھا۔  اس کے ہونٹوں پر تل بہت ہی منفرد اور خوبصورت لگ رہا تھا۔

ہاں ڈیزائن فائنل ہو گئے ہیں۔  تم انھیں ایک بار دیکھ لو تاکہ کوئی چھوٹی موٹی غلطی نہ رہ جائے۔  ایک بار سوٹ بننے کے لیے چلے گئے تو پھر کوئی موڈیفیکیشن نہیں ہوپائے گی۔ میں اسے سافٹ وئیر میں ڈیزائنز دکھانے لگی۔  وہ جیسے ہی میرے قریب ہوئی کلون کی بھینی بھینی خوشبو میرے ذہن کو تر و تازہ کرنے لگی۔

عمارہ یہ کون سا پرفیوم لگایا ہے تم نے؟

اچھا ہے نا! اس نے چپکتے ہوئے کہا۔

مما کو ان کے بھائی نے سپیشل گفٹ بھیجا ہے فرانس سے۔  میں نے فوراً قبضہ کر لیا۔

تمھارے مزے ہیں بہن۔  ادھر ہمارے رشتے دار ہیں، قسم لے لو جو دس روپے کا عطر بھی گفٹ کر دیں۔

میری بات سن کر وہ ہنس دی، اور ڈیزائن دیکھنے لگی۔

واہ عبیر، یہ کلر کمبینیشن کتنا منفرد ہے۔  پر یہ عبایہ تھوڑا آڈ ہے، یہ منفرد تو ہے لیکن تنگ تنگ سا ہو گا۔

تمھاری بات ٹھیک ہے لیکن میں نے کئی ڈیزائن اس سے ملتے جلتے دیکھے ہیں۔

ٹھیک ہے۔  میں ابھی تمھیں دیکھ کر بتاتی ہوں۔  یہ کہہ کر وہ ڈیزائنز کے اندر گھس گئی۔

واہ عبیر! میں نے آج تک ایسے ڈیزائن نہیں دیکھے۔

میری جان! یہ انوکھے آئیڈیاز تم کہاں سے لاتی ہو۔   یہ کہہ کر عمارہ نے مجھے گلے لگانے کی کوشش کی۔

تمھیں معلوم ہے باقی لوگوں کو تو شہزادہ گلفام کے خواب آتے ہیں، مجھے کسی سائنسدان کی طرح فیشن سے متعلق خواب میں آتے ہیں۔

جی جی۔ ۔  اسی لیے آپ کی زندگی میں بھی کوئی شہزادہ گلفام نہیں آتا۔

وہ بھی آ جائے گا اتنی جلدی کیا ہے۔  ابھی میری عمر ہی کیا ہے۔

ہاں جی ابھی پچھلے سال ہی تو فیڈر پینا چھوڑا ہے ہماری گڑیا نے۔

بکو مت۔  اب ایسی بھی کوئی بات نہیں۔

عمارہ میری بچپن کی دوست تو نہیں تھی پر یونیورسٹی کے چار سالوں میں ہم اتنی پکی سہیلیاں بن گئی کہ لگتا ہمیشہ سے ساتھ ہیں۔  وہ اکثر کہتی

میری جان! تم اتنی خوبصورت ہو کہ کھا جانے کو دل کرتا ہے۔  اگر میں لڑکا ہوتی تو تم سے شادی کر لیتی۔

مگر تم جو خود کو اتنا چھپا کے رکھتی ہو، اس کی سمجھ نہیں آتی۔

یار حسن تو ہوتا ہی دکھانے کے لیے ہے۔  مجھے دیکھو! فقیروں میں اپنے حسن کا دیدار بانٹتی ہوں۔  بیچارے لڑکوں کے دلوں کو تھوڑا سکون تو ملتا ہے۔  تمھیں دیکھ کر تو وہ تصور کرتے رہتے ہیں۔ جانے اس نقاب کے پیچھے جانے کیا قیامت ہو گی۔  تم اس معاملے میں اتنی کنجوس کیوں ہو؟

آج ایسا کرو رخ سے پردہ ہٹاؤ اوریونیورسٹی میں قیامت برپا کر دو۔۔

مجھے ہنسی آ گئی، سوری میرا وقت سے پہلے قیامت برپا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔

عمارہ بہت جولی اور کانفیڈنٹ تھی۔  کسی کو خاطر میں نہیں لاتی۔  بڑوں بڑوں کو سیدھا کر دیتی۔  دل کی بہت اچھی تھی۔  اس کی بچپن کی محبت اس کا کزن ہے جس کے ساتھ اس کی شادی بھی ہو جانی تھی۔  وہ بیچارا ہر وقت عمارہ کے نخرے اٹھاتا رہتا۔ لیکن یہ اسے تڑپا تڑپا کر مزے لیتی۔  بعد میں کہتی، ہائے بیچارے کے ساتھ میں نے کتنا برا کیا۔

ہم دونوں فیشن ڈئزائننگ میں ماسڑ کر رہی تھیں۔ ابھی فائنل پروجیکٹ چل رہا تھا۔  مجھے ہمیشہ سے ہی اسلامی فیشن میں کچھ کرنے کا شوق تھا۔  ایسا فیشن جو حیا والا بھی ہو اور جدید بھی۔ میں ڈیزائن کے ساتھ کلر کمبینیشن میں کچھ جدت لانا چاہتی تھی۔  یہ مشکل کام اور ناکامی کا خطرہ زیادہ تھا۔ پر ہمارے حوصلے بلند تھے۔

عمارہ کا ذہن مارکیٹنگ میں خوب چلتا۔ نئے نئے لوگوں سے تعلق بنانا اس کے بائیں ہاتھ کا کام تھا۔  وہ تھیبھی اونچے گھر کی اسی لیے تعلقات بنانا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔  اس نے یونیورسٹی آتے ہی سوچا کہ اپنا برینڈ کھولے گی۔  اس کے مقابلے میں مجھ سے یہ میل ملاقات والے کام نہیں ہوتے۔  میں خاموشی سے کتابوں اور رنگوں کی دنیا میں رہنا چاہتی تھی۔  مجھے نئے نئے آئیڈیاز سوجھتے۔  فائنل پروجیکٹ کے لیے ہم نے اسلامی فیشن کو چنا۔  ہمارا پلان تھا کہ پاس آوٹ ہونے کے بعد اسے کمرشلی چلائیں گے۔ ( آہ ہمارے معصوم خیال)

ہمارے گھر کا ماحول ایسا نہیں تھا، کہ لڑکیوں کو باہر کام کرنے دیا جائے۔  ابا زیادہ مذہبی تو نہیں مگر عورتوں کے گھر سے نکلنے کے خلاف تھے۔  اورلڑکیوں کی شادی جلدی کر دینے کے حق میں تھے۔  میرے یونیورسٹی کے لیے بھی وہ بہت مشکل سے مانے۔

امی نے دلیل دی کہ کم پڑھی لکھی لڑکیوں کے اچھے رشتے نہیں آتے۔ پر مجھے ڈگری کسی اچھے رشتے کے لیے نہیں چاہیے تھی۔  میں کچھ خوبصورت کرنا چاہتی تھی۔

ہمارے خاندان نے دو ہجرتیں کیں۔  پہلی انڈیا سے مشرقی پاکستان، دوسری مشرقی پاکستان سے کراچی۔  خاندان کے بہت سے لوگ شہید ہوئے، جائدادیں لٹ گئیں۔ دادا کا سارا خاندان بلوائیوں کے ہاتھوں شہید ہو گیا۔  صرف دادی اور ابا ہی بچ پائے۔  دادی بہت ہمت والی خاتون تھیں۔ انھوں نے زندگی کی مشکلات کا بڑی دلیری سے سامنا کیا۔ کسی بھی موقع پر مایوسی کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیا۔  وہ اس زمانے میں روئی کا کاروبار کرتی تھیں، جب اس بزنس میں عورتوں کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔

دادی نے ابا کو پڑھانے کی ناکام کوشش کی۔ ابا میں پڑھائی والی بات ہی نہیں تھی۔  وہ بس کاروبار کرنا چاہتے تھے، تاکہ اپنی ماں کو سکھ دے سکیں۔  وہ نہیں چاہتے تھے، ان کی ماں مردوں کے درمیاں بیٹھ کر کاروبار کرے۔  وقت کے ساتھ وہ بہت کٹڑ ہوتے گئے۔  امی کوبھی گھر سے باہر نہ نکلنے دیتے۔  بلوائیوں کے ہاتھوں عورتوں کی عزتیں لٹتے دیکھ کر ان کے ذہن میں عجیب سا خوف بیٹھ گیا۔  انھیں ہر بندے کے اندر ایک درندہ نظر آتاجو کسی بھی وقت باہر نکل سکتا ہے۔

دادی کو روحانیت سے شغف تھا۔  ہر وقت تسبیح پڑھتی رہتیں۔ رسول پاکﷺ سے انھیں خاص محبت تھی۔  جب بھی نعت سنتیں بے اختیار رو پڑتیں۔  میرا سارا بچپن انھی کے ساتھ گزرا۔  وہ بڑے مزے مزے کی کہانیاں سناتیں۔  میرا نام "عبیر مستور” بھی انھوں نے ہی رکھا۔  کہتیں اس کا مطلب چھپی ہوئی خوشبو ہے۔ اوراسے ایک خزانے کی طرح چھپا رہنا چاہئے۔  اسی لیے انھوں نے مجھے خود برقع سی کر دیا۔

دادی کی باتیں انوکھی ہوتیں۔ جنھیں سنتے رہنے کا دل کرتا۔  وہ ہر وقت تسبیح پر کچھ پڑھتی رہتیں۔  پوچھنے پر کہتیں بس بس درود شریف پڑھتی ہوں۔  مجھے خیال آتا کہ وہ چھپ چھپ کر کوئی خاص وظیفہ پڑھ رہی ہیں۔  جس سے انھیں بہت بڑی روحانی طاقتیں مل جائیں گی۔ ہر رات سونے سے پہلے مجھ پر کچھ پھونکتیں۔

میرے اوٹ پٹانگ خوابوں پر بہت ہنستیں۔  جب میں نے پینٹنگ شروع کی تو مجھے انسانی چہرہ بنانے سے منع کر دیا۔  اسی لیے میرا فوکس لینڈ سکیپ اور دوسرے ڈیزائنز کی طرف چلا گیا۔

میں لینڈ سکیپس کو اس نظر سے دکھانا چاہتی جیسے خود دیکھتی اور محسوس کرتی۔

میں اس وقت میڑک میں تھی جب دادی کی فوتگی ہوئی۔  میں بہت دنوں تک روتی رہی۔  میری دادی سے محبت بہت گہری تھی۔  وہ ایک طرح سے میری دوسری امی تھیں۔  ان کے جانے کے بعد بھی یوں محسوس ہوتا وہ کہیں میرے ساتھ ہی ہیں۔

فائنل سمیسٹر میں پروجیکٹ کے علاوہ ایک آدھا سیبجیکٹ ہی پڑھنا پڑتا تھا۔  ہم سارا دن بیٹھ کر مستقبل کے منصوبے بناتیں۔ عمارہ مجھے اکثر ڈیفنس میں اپنے گھر لے جاتی۔  اس کے پاپا ایک ملٹی نیشنل فرم میں سی ای او تھے۔  بڑا بھائی US پڑھنے گیاپھر وہیں سیٹل ہو گیا۔  اس کی شادی پاکستان میں ہی ہوئی۔ کبھی کبھی وہ اپنے بیوی بچوں کو لے کر آتا تھا۔  اس کی مما ایک پرائیویٹ سکول سسٹم کی مینجمنٹ میں تھیں۔

اس سارے بیک گراؤنڈ کی وجہ سے عمارہ بہت کانفیڈنٹ تھی۔  پر اس میں امیر لڑکیوں والی برائیاں نہیں تھیں۔  اسے اپنے ماں باپ کے پیسے اڑانے سے زیادہ اپنے لیے کچھ کرنے کی خواہش تھی۔  وہ اپنی مما کو کچھ کر کے دکھانا چاہتی تھی۔  وہ سوشل گیدرنگز میں جاتی لیکن سپیشل والی پارٹیز میں جانا پسند نہیں کرتی۔  کہتی یہ بے فائدہ ہیں۔  فیک لوگ، فیک باتیں۔  کچھ بھی اوریجنل اور ڈیپ نہیں ہوتا۔ یہ لوگ ہر ٹرینڈ اور فیشن کے پیچھے جاتے ہیں اور تھوڑی دیر میں اس سے بور ہو کر کچھ اور کرنے لگتے ہیں۔

عمارہ کام بھی اپنی زندگی کو معنی دینے کے لیے کرنا چاہتی تھی۔ وہ کسی پر ڈیپینڈنٹ نہیں ہونا چاہتی تھی اور نہ ہی ایسی بیوی بننا چاہتی تھی جو صرف پارٹیز اور شاپنگ کر کے خوش ہوتی ہو۔

میرا بیک گراؤنڈ ایسا نہیں تھا کہ میں اتنی بڑی یونیورسٹی میں فیشن ڈیزائنگ جیسی ڈگری کر سکتی۔ خوش قسمتی سے مجھے مجھے سکالر شپ مل گیا جو اتنا تھا کہ میری پاکٹ منی بھی نکل آتی۔ اسی وجہ سے میں اس یونیورسٹی میں مس فٹ تھی۔  یہاں سب لڑکے لڑکیوں کے کپڑے، گاڑیاں اور شوق ہی احساس کمتری پیدا کرنے کے لیے کافی تھے۔

شروع شروع میں سب نے مجھے یوں دیکھا جیسے میں کوئی خلائی مخلوق ہوں۔ جو یونیورسٹی میں اڑن طشتری سے آتی ہے۔ ویسے کراچی کی بسیں کسی اڑن طشتری سے کم بھی نہیں ہیں۔  مجھے روزانہ ایک گھنٹا بسوں کے دھکے کھا کر جانا پڑتا۔  رش کی وجہ سے سیٹ بھی نہیں ملتی، اوپر سے چھچوروں کی حرکتیں۔  اللہ کی پناہ۔

اوپر سے میرا نقاب کے ساتھ عبایہ بھی ان کے لیے ایک عجوبہ ہوتا۔  ٹھیک ہے میں اپنی طرف سے بڑا اچھا عبایہ ڈیزائن کر کے پہنتی۔  پھر بھی بات نہ بنتی، مجھے عجیب عجیب سے کمنٹس سننے پڑتے۔ لوگ بھی کیا کریں پردہ بھی تو صرف غریب اور لوئر مڈل کلاس کے ساتھ منسوب ہو گیا ہے۔ اسی بات نے مجھے مجبور کیا کہ اسلامی فیشن میں کچھ ایسا کروں جسے امیر لڑکیاں بھی فخر سے پہنیں۔

جب عمارہ میری فرینڈ بنی، میری مصیبتیں کم ہونا شروع ہوئیں۔

میری کلاس پرفارمنس سب سے اچھی تھی۔  مجھے نئے نئے آئیڈیاز سوجھتے رہتے۔  جنھیں علمی جامہ پہنانے میں بہت مزہ آتا۔ اسی کام نے مجھے اتنا مگن کیا کہ لوگوں کی نظروں اور باتوں کی کوئی پرواہ نہ رہی۔  زیادہ تر لڑکیاں اور لڑکے ٹائم پاس کے لیے ہی آئے تھے جنھیں زندگی میں کچھ خاص کرنے کا خیال نہیں تھا۔  شاید میری یہی باتیں عمارہ کو پہلے میرے قریب لائیں۔

دھیرے دھیرے ہم پکی سہیلیاں بن گئیں۔

وہ مذاق میں کہتی جس دن تم اپنا نقاب اٹھاؤ گی، مجھے پورا یقین ہے تیس چالیس لوگ تو اسی دن جان سے جائیں گے۔

ویسے اس نقاب کے پیچھے "کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے "۔

بکومت۔  ایسی بھی کوئی بات نہیں، بس دادی نے قسم دی تھی۔  شادی سے پہلے نقاب نہیں اتارنا۔  اب میں دادی سے کیا ہوا وعدہ نہیں توڑ سکتی۔

اچھا تو جی پھر کون ہو گا ہماری دلہنیا کا گھونگٹ اٹھانے والا؟

جو ہماری حور پری کو بغیر دیکھے ہی شادی کے لیے مان جائے گا۔  وہ اگر سوچے کہ نیچے کوئی مونچھوں والی آنٹی ہوئی تو؟

عمارہ کی بچی ! دفع ہو جاؤ تم، کبھی تو اچھی بات کر لیا کرو۔  میں نے عمارہ کو ایک مکا لگایا۔

اچھا نہیں کرتی، یہ بتاؤ تمھارا یہ شہزادہ گلفام ہے کہاں؟ ابھی تک ڈھونڈنا سٹارٹ بھی کیا کہ نہیں؟

یار مجھے نہیں پتا لیکن دادی کہتی تھیں کہ مجھے ڈھونڈنے والا خود ڈھونڈتا ہوا آئے گا۔

اچھا تو دادی نے کوئی نشانی بھی بتائی تھی ہمارے شہزادے گلفام کی۔  تاکہ کراچی کی دو کروڑ آبادی میں ڈھونڈنے میں پریشانی نہ ہو۔

یار مجھے خود یہ باتیں سمجھ نہیں آتیں، جو قسمت میں لکھا ہو گا مل جائے گا۔  اسی لیے میں ان باتوں پر زیادہ پریشان نہیں ہوتی۔

سچ بات یہ تھی، مجھے کبھی کوئی لڑکا پسند بھی نہیں آیا۔  میں نے ہمیشہ خود کو بچا کے رکھا۔  سکول کالج میں کئی لڑکوں نے کوشش کی۔ میں نے کبھی اپنی نظریں نہیں اٹھائیں۔  مجھے بس کسی کا انتظار تھا۔  جب وہ آئے گا تو میرا دل گواہی دے گا کہ یہ وہی ہے۔ آج تک کسی کو دیکھ کر میری دھڑکن تیز ہی نہیں ہوئی۔  اگرچہ یونیورسٹی اچھے خاندان کے امیر لڑکوں سے بھری پڑی تھی اور کئی لڑکیوں کی سیٹنگ یہیں بن گئی۔

اس خواب کے آنے کے بعد میں کچھ بیچین سی رہتی۔  دل کہتا کچھ ہونے والا ہے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

عمارہ کا ذہن مارکیٹنگ میں بہت چلتا۔  وہ اپنے پاپا سے بھی بزنس ٹیکٹک ڈسکس کرتی رہتی، چھوٹی چھوٹی باریکیوں کو بھی مس نہیں کرتی۔  اسے اپنے پلان کے بارے میں کوئی خوش فہمی نہیں تھی۔  اس کے بقول اگر امریکہ میں صرف تین فیصد بزنس کامیاب ہوتے ہیں۔  تو پاکستان کا اللہ ہی حافظ ہے۔ اسی لیے وہ اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑنا چاہتی تھی۔  اپنے بہت سے پیسے بھی خرچ کر رہی تھی۔  ہمارا نوے فیصد وقت انھی باتوں کو ڈسکس کرتے گزرتا۔

اس کی یہ ساری کوششیں دیکھ کر شرمندگی ہوتی، کہ میں کیا کر رہی ہوں۔  کہنے کو تو ہم دونوں برابر کے حصہ دار تھیں۔  اس نے تو کمپنی کا نام اور ہماری پوسٹس بھی چوز کر لی تھیں

کمپنی کا نام ” مستور "رکھا۔  یعنی چھپی ہوئی۔

مجھے یہ نام پسند آیا تھوڑا نان ٹریڈیشنل سا تھا۔ اس نے مجھے ڈیزائن سیکشن کا ہیڈ بنایا اور خود سی ای او بن گئی۔ یہ باتیں ابھی تک کاغذوں پر ہی تھیں جانے کب یہ باتیں حقیقت بن جائیں۔

میں بھی فارغ نہیں بیٹھی۔ نئے ڈیزائنز اور رنگوں کی انسپائریشن کے لیے دنیا بھر کے فیشنز کو دیکھ رہی تھی۔  پاکستانی ڈیزائنرز نیا کام تو کرتے نہیں۔  بس باہر کے برینڈز کو تھوڑا سا موڈی فائی کر کے چلا دیتے ہیں۔  اس میں برائی یہ ہے کہ آپ مغربی ڈیزائن سے متاثر ہو کر ایسا کرتے ہیں۔  جبکہ ہماری روایت میں زیادہ خوبصورت چیزیں موجود ہیں۔  میں اپنی انسپائریشن اسلامی تہذیب سے لینا چاہتی تھی۔

میں دیکھتی رہتی کہ دنیا بھر میں مسلم لڑکیاں کیا نیا پہن رہی ہیں۔  خصوصی طور پر وہ کون سے رنگوں کو اپنا رہی ہیں۔  مجھے اردن اور ترکی کے فیشن ڈیزائنرز بہت پسند تھے۔  یہ لوگ جدت اور قدامت دونوں کو لے کر چل رہے ہیں۔  اوپر سے اپنی تہذیب پر فخر بھی کرتے ہیں۔

ہم دونوں دنیا سے بے خبر اپنی ہی دھن میں لگی رہیں۔  جبکہ باقی ساری لڑکیاں اپنا مستقبل محفوظ کرنے میں۔  ہر روز کسی نہ کسی لڑکی کی منگنی یا شادی ہو رہی ہوتی۔

ان کی ڈائمنڈ کی رنگز دیکھ کر دل میں عجیب سی بے چینی ہونے لگتی؟

جانے میرے ہاتھ میں ایسی رنگ کب آئے گی؟

میں ان آوارہ خیالوں میں کبھی کبھار کھو جاتی۔

ایسے میں کہیں سے عمارہ ڈرامہ کوین بنتے ہوئے کہتی۔  کوئی میری دوست کی بھی منگنی کرادے بیچاری کی عمر نکلی جا رہی ہے۔  دکھوں کی ماری بیچاری کیسے ساری زندگی اکیلے گزارے گی۔  یہ کہہ کر وہ رونے کی ایکٹنگ کرنے لگتی۔

قریب بیٹھی لڑکیاں چونک جاتیں۔  میں عمارہ کی کمرپر ایک گھونسا مارتی۔  عمارہ کی بچی تم کب سدھرو گی۔  بند کرو اپنا یہ ناٹک۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میں انٹر میں تھی، جب میرے لیے پہلی بار رشتہ آیا۔  رشتہ بھیجنے والا مجھ سے پندرہ سال بڑا تھا۔ وہ اپنی دکان چلاتا تھا۔  مجھے تو سمجھ ہی نہیں آئی کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔

میں جیسے ہی کالج سے آئی، اماں نے مجھے کپڑے تبدیل کر کے تیار ہونے کا کہا۔  میرا تھکا ہونے کا بہانا بھی نہ چلا۔ جیسے تیسے تیار ہو کر کمرے میں ہی بیٹھ گئی۔  تھوڑی دیر کے بعد اماں کے ساتھ ایک اجنبی خاتون کمرے میں آئیں۔۔ وہ خاتون مجھے پہلی ہی نظر میں زہر لگی۔  وہ چھچھورے انداز سے اپنے پیسوں کی نمائش کر رہی تھی۔  کوئی بیس تولے سونا اس نے پہنا ہو گا۔  کپڑے اتنے تنگ کے مجھے شرم آنے لگی۔  جب اس نے بولنا شروع کیا تو اس کا پینڈو پن کھل کر ظاہر ہو گیا۔

اس نے مجھے یوں دیکھنا شروع کیا، جیسے قصائی بکری کو دیکھتا ہے۔  اس کی نظریں میرے جسم کے ایک ایک حصے پر رک رک جاتیں۔  میں شرم سے خود کو چادر کے نیچے چھپانے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔

اس کے سوال بھی عجیب تھے۔  ایسے جیسے کوئی انسان نہیں سارے گھر کی نوکرانی ڈھونڈ رہے ہوں۔  میری تعلیم انھیں بہت زیادہ لگی۔  میں نے بھی کورے کورے جواب دیے۔  جن کو سن کر ان کا مزاج بگڑ گیا۔

بعد میں معلوم ہوا، یہ ابا کے دور پار کے رشتے دار ہیں۔ جنھوں نے کچھ عرصہ پہلے ہی ابا کو دریافت کیا ہے۔  انھوں نے جب ابا سے میرے رشتے کی بات کی تو ابا خوشی خوشی مان گئے۔  وہ تو پہلے ہی اپنی لڑکیوں کو جلدی بیاہ دینے کے حق میں تھے۔

اس دن کے بعد سے مجھے دھڑکا رہتا۔  کہیں ابا کسی بھی ایرے غیرے سے میری شادی نہ کر دیں۔  کیونکہ ابا کا تو ایک ہی پیمانہ ہے: لڑکا شریف خاندان سے ہو اور چار پیسے کماتا ہو۔

تعلیم، اخلاق، کردار، اور خوبصورتی ان کے نزدیک بے معنی ہیں۔  میں ایسے کسی آدمی سے شادی نہیں کرنا چاہتی۔  جو مجھے پاؤں کی جوتی اور نوکرانی سمجھتا ہو۔ افسوس اکثر مردایسے ہی نظر آتے۔

پر دل کہتا، ایسا کوئی ضرور آئے گا۔  جو مجھے ایک دوست سمجھے گا۔

خوش قسمتی سے اس خاتون کو میں بالکل پسند نہیں آئی۔  اس کے بعد بھی تین چار خاندان آئے۔ کسی کو میں پسند نہ آتی، کسی کی جہیز کی ڈیمانڈ بہت ہائی ہوتی۔  میں ہر انکار کے بعد شکرانے کے دو نفل پڑھتی۔

ابا نے کبھی نہیں بتایامگر مجھے معلوم تھا۔  اس کی وجہ ان کا ایک خوف تھا۔  بنگلہ دیش میں ابا سے بڑی تین بہنیں تھیں۔  دادا سکول میں ٹیچر اور ترقی پسند خیالات رکھتے تھے۔  وہ اپنی بیوی اور بچیوں کو پردہ نہیں کروا تے۔  انھوں نے اپنی ساری بچیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوا ئی، نوکری کرنے کی بھی اجازت دی۔  ان کی دو بیٹیاں شادی سے پہلے بھی نوکری بھی کرتی تھیں۔  ابا سب سے چھوٹے تھے۔  باقی سب بہنیں ان سے پندرہ بیس سال بڑی تھیں۔ دادا نے اپنی دو منجھلی بیٹیوں کے رشتے طے کر دیے تھے۔  بڑی بیٹی نے مزید تعلیم حاصل کرنے اور نوکری کرنے کے چکر میں شادی سے انکار کر دیا۔  دادا پہلے ان کی شادی کرنا چاہتے مگر وہ خود منع کر دیتیں۔

سقوط ڈھاکہ سے ایک سال پہلے معلوم ہوا، بڑی پھپو کسی لڑکے سے محبت کرتی ہیں۔  دونوں کی محبت ابھی خفیہ اور خط و کتابہت تک محدود تھی۔  باہر کی دنیا میں نفرت کی دیواریں کھڑی ہو گئیں۔  وہ لڑکا کسی زمانے میں ان کا کلاس فیلو تھا۔  بعد میں مکتی باہنی میں شامل ہو گیا۔  اس نے پھپو کے محبت نامے پھیلا دیے۔  پھپو سمیت سارا خاندان بدنام ہو گیا۔  دادا پاکستانی حکومت کے حامی تھے اسی لیے ان کو بدنام کرنے کا کوئی بھی حربہ مخالفین ہاتھ سے نہ جانے نہ دیتے۔

کالج میں بھی دادا پر آوازیں کسی جانے لگیں۔ خاندان اور محلے والے بھی باتیں بنانے لگے۔  پھپو کو شدید صدمہ ہوا۔  وہ پڑھی لکھی اور بہت خوبصورت تھیں۔ وہ بے وفائی اور بدنامی کا یہ داغ برداشت نہ کر سکیں اور ان کا ذہنی توازن بگڑ گیا۔  وہ ہر وقت روتی رہتیں۔

ابا نے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ وہ اس بات کا قصور وار دادا کی آزاد خیال سوچ کو ٹھہراتے۔  ابا نے جب آخری بار اپنی پاگل بہن کو دیکھا تو اس کی آنکھوں میں دکھ اور بے بسی تھی۔  ابا نے اپنا یہ دکھ سوائے دادی کے کسی سے شئیر نہیں کیا۔  انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی بچیوں کے ساتھ ایسا نہیں ہونے دیں گے۔

میں بھی نہیں چاہتی تھی، میری وجہ سے کچھ بھی ایسا ہو جس سے امی ابا شرمندہ ہوں۔  دادی کو بھی اپنی تینوں بیٹیوں اور بیو گی کا شدید دکھ تھا۔ لیکن وہ اسے اللہ کی رضا سمجھ کر صبر کر گئیں۔  انھوں نے مجھے ہمیشہ اپنی بیٹی ہی سمجھا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

یونیورسٹی میں آئے دن فیشن شو کروا ئے جاتے۔  یہ کوئی بہت بڑے پیمانے کے تو نہیں ہوتے لیکن ان میں باہر کے کافی لوگوں کو بلا یا جاتا۔  زیادہ تر لوگ صرف خوبصورت لڑکیوں کو دیکھنے آتے۔ ان میں فیشن آئیڈیاز بہت ہی سٹوپڈ ہوتے۔  جن میں ویسٹرن ڈیزائنز کی بھونڈی سی کاپی کی گئی ہوتی۔  جس کا مقصد صرف لڑکیوں کے جسم دکھانا ہوتا۔  کبھی کبھی تو یہ جان بوجھ کر کیا جاتا تاکہ انویسٹرز کو پیسہ لگانے پر قائل کیا جا سکے۔

فیشن میں صرف کیٹ واک نظر آتی ہے، اصل محنت بیک گراؤنڈ میں کرنی پڑتی ہے۔  ایک ایک ڈیزائن پر کئی کئی دن کی محنت۔  پھر ہر ویری ایشن کو بنوانا، اسے پہن کر دیکھنا، اس کے مختلف کومبینشن بنانا۔  یہ کام بس سننے میں ہی آسان ہے۔

فیشن شو کروا نے کاتو ہم نے ابھی تک سوچابھی نہیں۔  بس ایک دو ماڈلز کے ساتھ فوٹو شوٹ ہی کروا ئے تھے۔  اس کام کے لیے بھی عمارہ کے لنکس کام آئے۔  اس کے سوشل سرکل میں کئی لڑکیاں ایسپائرنگ ماڈل تھیں۔  جو مفت ہی اس کام پر تیار ہو گئیں۔  ہم نے اپنے سارے ڈیزائنز کی ایک بک بنوائی اور پریزنٹیشن بھی تیار کر لی۔  اب سب سے مشکل کام تھا کسی انویسٹر کو ڈھونڈنا جو ہمارے ان ڈیزائنز کو سپانسر کرے۔  ہم نے سوچا کہ یہ کام بہت آسان ہو گا۔  کیونکہ عمارہ اپنے تعلق داروں میں کسی نہ کسی کو قائل کرہی لیں گی۔

یہ بھی ہماری خوش فہمی ثابت ہوئی۔  یہ کام تو سب کاموں سے مشکل نکلا۔

میٹنگز کا کام میں نے عمارہ پر چھوڑ دیا کیوں کہ وہ ان کاموں میں اچھی تھی۔  ویسے بھی میٹنگز شام اور رات کو ہوتیں جن میں میرا جانا نا ممکن ہوتا۔  عمارہ نے بھی اصرار نہ کیا۔  مجھے تو جیسے یقین ہو گیا کہ بس کچھ ہی دنوں میں ہمارے ڈیزائنز مارکیٹ میں لانچ ہو جائیں گے۔

ہر میٹنگ کے بعد عمارہ کا پارہ چڑھا ہوا ہوتا۔  وہ نان سٹاپ صلواتیں سناتی۔  یہ سمجھتے کیا ہیں اپنے آپ کو، چار پیسے کیا آ گئے چلے ہمیں بتانے کہ فیشن کیسے ہوتا ہے۔

کہتے ہیں یہ اسلامی فیشن کیا ہوتا ہے؟

دنیا کپڑے اتارنے کی طرف جا رہی ہے اور آپ لوگ مزید کپڑے پہنا رہے ہیں۔

کوئی کہتا ہے کہ یہ رنگ اچھے نہیں ہیں، آپ وہ زارا کے ڈیزائن کی کاپی کیوں نہیں کرتیں۔

ایک نے تو کہا کہ پاکستانی فیشن پہنتا کون ہے۔  ہم نے تو آج تک پاکستان سے شاپنگ نہیں کی۔

ہر کوئی انڈین برائیڈل فیشن بنانے کو کہہ رہا ہے۔

کئی تو اتنے کمینے ہیں کہ کہتے ہیں۔   انھیں پیسے کے علاوہ بھی کوئی فائدہ ہو گا۔  یو نو واٹ اٹ مینز، یعنی ماڈلز کے ساتھ۔ ۔ ۔

میرا تو دل کیا کہ اتار لوں جوتا اور ان کی ٹنڈوں پر دو چار لگاؤں تاکہ ان کی عقل ٹھکانے آئے۔

یار یہاں چیزیں واقعی اتنی سیدھی نہیں ہیں۔  ہمارے اس اسلامی فیشن والے آئیڈیے میں کسی کو دلچسپی نہیں۔  ان کے خیال میں یہ پاکستان میں نہیں چلے گا۔  ابھی تک دس انویسٹرز نے انکار کر دیا ہے۔

جب تک ہمارے فائنل پیپر آئے پندرہ سولہ بڑے انویسٹرز جھنڈی دکھا گئے۔  ہم تقریباً مایوس ہو گئے۔  پروجیکٹ تک انیس لوگوں نے انکار کر دیا۔  عمارہ کا حال مجھ سے زیادہ برا تھا۔  اسے اپنی ناکامی پر بہت غصہ آیا۔  اس کو اپنے سارے سوشل لنکس سے کورا جواب مل گیا۔  سب لوگ اسے ایک چھوٹی بچی کے طور پر لیتے۔  اسے سمجھا تے کہ پاکستان میں یہ بزنس والا کام بچوں کا کھیل نہیں ہے۔  یہاں کامیابی کے کوئی اور ہی طریقے ہیں۔  یہاں کامیابی محنت اور ٹیلنٹ سے نہیں ملتی۔

میری پریشانی کی وجہ وہ خواب بھی تھا۔  جو ہر دوسرے دن مزید تفصیل اور جذبات کے ساتھ دکھائی دیتا۔  جاگنے کے بعد بھی میری مٹھیاں بند ہوتیں جیسے ان میں ہنٹر پکڑا گیا ہو۔  اس بھیڑیے کی آنکھیں جاگتے میں بھی میری آنکھوں کے سامنے گھوم جاتیں۔  مجھے نہ جانے اس تشدد میں اتنا مزہ کیوں آ رہا تھا۔

سمجھ نہیں آ رہی اس ڈراؤنے خواب کے کیا معنی لوں؟ کہیں اس کا تعلق میری شادی سے تو نہیں؟ کیونکہ میری تعلیم ختم ہوتے ہی ابا نے میری شادی لازمی کروا دینی تھی۔  ایک بار میں شادی کے چکر میں پڑ گئی تو میرے سارے خواب چکنا چور ہو جائیں گے۔  میں کچھ بھی نہیں کر پاؤں گی۔  یہ خدشات کچھ ایسے غلط بھی نہیں تھے۔

ابا اور اماں کی حرکتیں ان دنوں مشکوک ہوتی جا رہی تھیں۔  میری چھوٹی بہن شگفتہ نے بتایا:  گھر میں کئی رشتے والیوں کے چکر لگ رہے ہیں۔  بہت سے پرانے رشتے داروں کے ہاں اماں نے آنا جانا شروع کر دیا ہے۔

میرے دل میں ہول اٹھنا شروع ہو گئے۔۔  اماں کی پسند ہمیشہ سے اپنا خاندان ہے جس میں سارے ہی کپڑے کا کام کرنے والے ہیں۔  ان کے سارے لڑکے ایسے تھے جو بزنس ابا کے مشورے پر اور گھر اماں کی مرضی پر چلاتے تھے۔  ان کی بیویاں سونے میں لدی بس گھر بیٹھی موٹی ہوتی جاتیں۔  ان کی باتیں مجھ سے تو برداشت ہی نہیں ہوتیں۔  انھیں پتا ہی نہیں کہ دنیا میں ان کے گھر سے باہر بھی کچھ ہے۔

ایک دن وہی گھر میں بکرا منڈی لگی۔  یعنی مجھے دیکھنے کے لیے لوگ آئے۔  لڑکا مجھ سے دس سال بڑا اور بالوں سے محروم۔ کیونکہ وہ اپنی سیوک گاڑی میں آئے تھے۔ لڑکا اپنی دکان چلاتا تھا اسی لیے امی ابا کی تو پوری کوشش تھی کہ کسی طرح یہ رشتہ ہو جائے۔  میری متوقع ساس نے پان چباتے ہوئے یوں دیکھا جیسا پان کی طرح مجھے بھی چبا کر پیک باہر پھینک دیں گی۔  مجھے دیکھ کر ان کے چہرے پر پسندیدگی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ ہاں میری باقی باتیں انھیں پسند نہیں آئیں۔

لڑکی ماسٹر کر گئی ہے۔ گھر کے کاموں سے زیادہ کتابوں اور رنگوں میں مگن رہنا پسند کرتی ہے۔  ایسی لڑکیاں گھر کیا بسائیں گی۔  میرا لڑکا دیکھو میٹرک فیل ہے مگر دنیا جانتا ہے۔

ان کے جانے کے بعد اماں نے کہا، یہ تم ہر کسی کو اپنی تعلیم اور شوق کے بارے میں کیوں بتاتی ہو؟

اماں میں ایسی ہی ہوں، میں جھوٹ کیوں بولوں۔

اماں ناراض تو ہوئیں پر مجھ سے بحث نہ کی۔

نوجوانی میں اماں کو بھی پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا۔  اب بھی کبھی کبھی میری جمع کی ہوئی ڈھیر ساری کتابوں میں کوئی اٹھا کر پڑھتی ہیں۔ ان کی آنکھوں میں ایک اداسی ہوتی جیسے کوئی بھولا بسرا خواب یاد آ گیا ہو۔

کہتیں میں لٹریچر میں ماسڑ کر کے ٹیچر بننا چاہتی تھی۔  مجھے ناول اور کہانیاں بہت پسند تھیں۔  کبھی کبھار خود بھی کہانیاں لکھتی جو ایک دو بار ڈائجسٹ میں شائع ہوئیں۔  ہمارے خاندان میں لڑکیوں کو پڑھانے کا رواج نہیں تھا۔  کوئی کوئی لڑکی خوش قسمتی سے میڑک کرتی۔

ہماری بوڑھی عورتیں کہتیں: ببوا:  ہم تو انڈیا میں پالکی کے بغیر کہیں جاتی ہی نہیں تھیں۔

ہمارا تعلق مغلیہ خاندان سے ہے، ہماری اتنی ساری جاگیریں تھیں کہ مردوں کو کوئی کام کاج کرنے کی نوبت ہی نہ آتی۔  ہم عورتوں کے لیے چار چار خاندانی ملازمائیں ہوتیں۔  ایک ایک وقت میں سو سو لوگوں کا کھانا پکا کرتا۔  پھر پتا نہیں پھر کس کی نظر لگ گئی۔  ہمارا سب کچھ ہی چھن گیا۔  یہ بٹوارا تو ہمیں راس نہیں آیا۔  ہمیں تو کراچی کا یہ موسم بھی زہر لگتا ہے۔ دہلی میں ہماری حویلی کے سامنے اتنا بڑا باغ تھا یہاں تو دڑبوں میں رہ رہے ہیں سارا دن نوکروں کی طرح کام کرنا پڑتا ہے۔  پان بھی اچھا نہیں ملتا۔  اوپرسے یہ لڑکیوں کا گھر سے باہر جانا۔

توبہ توبہ ہم نے تو نہ کبھی دیکھا نہ سنا۔

اماں کو میڑک کے بعد ہی سکول سے اٹھوالیا گیا۔  وہ سارا دن گھر کا کام کرتیں اورمستقبل کے سہانے سپنوں میں کھوئی رہتیں۔  چوری چوری رسالے اور ڈائجسٹ بھی پڑھ لیتیں۔  شاید اسی لیے وہ اپنی دونوں بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانا چاہتیں۔  ابا کو بھی انھوں نے زبردستی منا لیا۔  مجھے یونیورسٹی جاتے دیکھ کر خوش ہوتیں۔  میری سہیلیوں کے بارے میں دلچسپی سے پوچھتیں۔  اپنی طرف سے لڑکوں سے بچنے کی نصیحتیں بھی کرتی۔

ایک دن ایک انوکھا سا رشتہ گھر آیا۔ ان لوگوں کو کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔  پہلے اماں کو شک ہوا کہ کہیں میرا کوئی جاننے والا تو نہیں جو انجان بن کر آیا ہے۔ میں نے یہی سمجھا کہ یہ معمول کی کاروائی ہے۔  اماں نے کوئی تفصیلات نہیں بتائیں۔  مجھے اب تجسس ہوا۔  اماں کی یہ سیکریسی سمجھ نہیں آ رہی۔  پتا نہیں اماں کیا چاہ رہی تھیں۔  شاید رشتہ اتنا برا تھا کہ اماں نے بتانا بھی گوارا نہیں کیا۔ میں اپنے ذہن میں الٹی سیدھی چھلانگیں لگاتی رہی۔

یونیورسٹی تقریباً ختم ہو گئی پھر بھی ہم یونیورسٹی جاتیں اور اپنے بزنس پلان پر کام کرتیں۔  گھروں میں یہی بتایا کہ کلیرنس چل رہی ہے۔  اس دوران شگفتہ بھی یونیورسٹی جانے والی ہو گئی۔

شگفتہ کے شوق میرے جیسے نہیں تھے۔  وہ بہت زیادہ حسابی قسم کی لڑکی تھی۔  ہر چیز کو فائدے نقصان میں دیکھتی۔  شاید ابا کی لاڈلی ہونے کا اثر تھا۔  کہتی، فائنانس میں ماسٹر کر کے کسی ملٹی نیشنل میں جاب کرے گی۔  پڑھنے میں بہت تیز تھی اسی لیے سب سے اچھی یونیورسٹی جانا چاہتی تھی۔ مجھے یقین تھا اپنے ٹیلنٹ کی وجہ سے پہنچ جائے گی۔

اماں کے اصرار پر بھی برقع نہ پہنتی اور کہتی! آپی میں لوگوں کو احساس دلانا چاہتی ہوں:  میری کوئی کمزوری نہیں ہے۔  میں عورت ہوں مگر کسی سے کم نہیں۔  یہ برقع پہننے کا مطلب ہی یہ ہو گا کہ میں کمزور ہوں۔ خود کو بچانے کے لیے یہ پہنتی ہوں۔  میں اپنی تہذیب کے مطابق دوپٹا اور مناسب لباس تو پہنوں گی، یہ عبایا والا کام مجھ سے نہیں ہو گا۔

میں اس سے بحث نہیں جیت سکتی تھی وہ اپنی عقلی باتوں سے مجھے قائل کر لیتی۔  وہ میری طرح خوابوں اور رنگوں میں رہنے والی نہیں، بلکہ تھوڑی سے زیادہ پریکٹیکل تھی اسی لیے کسی شہزادہ گلفام کی منتظر نہیں تھی۔  میری اس بات پر ہنستی کہ کوئی آئے گا جسے دیکھ کر میرا دل گواہی دے گا۔ وہ کہتی جس دن کسی بھی پڑھے لکھے اور سمجھ دار لڑکے کا رشتہ آئے گا وہ شادی کر لے گی۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ہم یونیورسٹی میں بیٹھے تھے کہ ہماری کلاس فیلو سارانئی کرولا گاڑی سے نکلی۔  اس کے ساتھ ایک بہت ہی ہینڈسم لڑکا تھا۔  وہ عمر میں ہم سے تین چار سال بڑا ہو گا۔ اس کی ڈریسنگ بہت اچھی اور کسی فارن برینڈ کی تھی۔  اس نے کالی گوگلز لگائی تھیں۔  اس کی شیو ایسے بڑھی ہوئی تھی جیسے فیشن کے طور پر بڑھائی ہو۔  اس کے بال بھی لیٹسٹ کٹ کے تھے۔  اس کی باڈی دیکھ کر یہی اندازہ ہوتا کہ کافی ریگولر جم کرتا ہے۔  سارا اور اس کی جوڑی بہت زبردست لگ رہی تھی۔  ہم نے ساراکو پہلے کبھی اس لڑکے کے ساتھ نہیں دیکھا تھا۔  ویسے بھی ساراکی تو پچھلے مہینے ہی منگنی ہوئی تھی، یہ اس کا منگیتر نہیں تھا۔ ۔

پھر یہ کون ہے؟

میں نے اس لڑکے کوئی اتنا زیادہ گھور کر تو نہیں دیکھا۔  پھر بھی عمارہ سے بھلاکوئی بات چھپتی ہے۔  اس نے فوراً ہی مجھے کوہنی ماری۔

بس بھی کرو، کیا نظروں سے کھاجاؤ گی۔

بکو مت!میرے کان فوراً شرم سے لال ہو گئے۔

عمارہ نے اس موقع کو ہا تھ سے جائے دیے بغیر شرارت سے ایک نعرہ لگایا۔  لو جی فائنلی وہ آ گیا، جس کا سالوں سے انتظار تھا۔  لوگو یہ دن نوٹ کر لو۔ ۔ ۔

میں نے فوراً اس کے منہ پر ہاتھ رکھا اور غصے سے کہا عمارہ! کیا بیہودگی ہے۔۔  کچھ تو شرم کرو،۔  میں تو بس ایسے ہی۔ ۔ ۔  اس کے کپڑوں کے ڈیزائن کو نوٹ کر رہی تھی۔  مجھے اپنا لہجہ کھوکھلا لگا۔

عمارہ کے ہونٹوں پر شرارتی ہنسی میرا منہ چڑانے لگی۔  ہم دونوں ایک دوسرے کو اتنا جان چکی تھیں، کہ ایسی معمولی باتیں بھی نہیں چھپتیں۔

بات یہی تھی کہ اس لڑ کے کو دیکھ کر مجھے دل میں ہلکی سی گدگدی ہوئی۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔

وہ لڑکا سارا کو ڈراپ کر کے پارکنگ کی طرف چلا گیا اور وہ ہماری ہی طرف آنے لگی۔  ساراسے ہماری دوستی تو نہیں پر اچھی سلام دعا ضرور تھی۔  ایک دو پراجیکٹس میں ہم نے اکٹھے کام کیا تھا۔  عمارہ اور سارایونیورسٹی سے پہلے بھی ایک دوسرے کو جانتی تھیں۔ ان دونوں کی فیملیز سوشل گیدرنگ میں ملتی رہتی تھیں۔ ساراکے فادر کا اصل بزنس سٹیل تو کا تھا لیکن انھوں نے کافی جگہوں پر ہاتھ ڈالا ہوا تھا۔  اس کی مما بھی بزنس میں فلی انوالو تھیں۔ ساراکا ذہن بزنس میں نہیں چلتا۔  اسی لیے وہ ٹائم پاس کے لیے فیشن کی طرف آ گئی۔  وہ بڑی ہنس مکھ لڑکی تھی۔  ہر کسی کے ساتھ آسانی سے اس طرح گھل مل جاتی ہے جیسے بچپن کی دوست ہو۔  وہ ہم سے کچھ زیادہ ہی گرم جوشی سے ملی۔

ہماری رسمی سی باتیں ہوئیں۔  ماضی کے اچھے دنوں کی، فیوچر پلانز کی، وغیرہ وغیرہ۔

زیادہ باتیں عمارہ ہی کرتی رہی۔  اس کے انداز سے یہی محسوس ہو رہا تھا اصل بات کچھ اور ہے۔

پھر بات شادی پر آ گئی۔  اس نے بتایا کہ اس کا منگیتر تو فوراً شادی کے پیچھے پڑا ہے۔ لیکن میں نے کہا ہے کہ تھوڑا سا منگنی کے بعد کے ٹائم کو بھی انجوائے کرتے ہیں۔  پھر بعد میں تم نے کون سا میرے نخرے اٹھانے ہیں۔

ہاں یہ تو ہے اس کے بعد انھیں ہر وقت ہم سے دور بھاگنے کی پڑی رہتی ہے۔  عمارہ نے بھی ایک چٹکلہ چھوڑ دیا۔

عبیر تمھارا کیا ارادہ ہے؟ا سارانے اچانک مجھ سے پوچھا۔

میں اس کے ڈائریکٹ سوال پر گھبرائی اور سوچنے لگی کہ اسے کس طرح کا جواب دوں۔  جو جواب ہو بھی اور نہ بھی ہو۔  اس سے پہلے میں کچھ کہتی عمارہ نے سرد آہ بھری۔

آہ!مت پوچھو بہت درد بھری داستان ہے بیچاری کی۔  اور یہ کہہ کر روہانسی سی شکل بنا کر کہنے لگی۔

ایک لڑکا پسند آیا، لیکن وہ پہلے سے ہی۔ ۔ ۔

میں فوراً گھبرا گئی، یہ مذاق میں کوئی ایسی فضول بات نہ کہہ دے۔

میں نے فوراً بات کو ٹالتے ہوئے کہا۔  شادی بھی ہو جائے گی اتنی بھی کیا جلدی ہے۔  پہلے میں اپنے لیے فیشن میں کچھ کرنا چاہتی ہوں۔  ایک بار شادی ہو گئی تو پھر اس طرف فوکس مشکل سے ہو گا۔

ہاں یہ تو ہے۔  لیکن یاردیکھ لینا اس چکر میں عمر نہ نکل جائے۔

ویسے تمھاری کسی کے ساتھ انڈرسٹینڈنگ۔ ۔  یا دوستی۔   یو نو واٹ آئی مین۔

میں اس کی بولڈنس پر حیران رہ گئی۔  اتنا بولڈ سوال صرف عمارہ کو کرنے کی اجازت ہے۔

شاید وہ جس کلاس سے بی لونگ کرتی ہے وہاں یہ بات نارمل ہے۔  شاید وہ مجھے جج نہیں کر رہی۔  وہ خود بھی تو لڑکوں سے کھلم کھلا دوستی کرتی رہی تھی۔  ہم لوئر مڈل کلاس لوگ ان باتوں کو کچھ زیادہ ہی سیرس لیتے ہیں۔ اسے عزت غیرت کا مسئلہ بناتے ہیں۔

نہیں یار ایسا کچھ نہیں ہے۔ ہمارے ہاں لڑکیاں یہ فیصلے اپنے ماں باپ پر چھوڑ دیتی ہیں۔  وہ بہتر جانتے ہیں ہمارے لیے کیا بہتر ہے۔  میں نے روایتی جواب دیا۔

یار در اصل میں تم لوگوں سے ایک بہت اہم بات کرنے آئی ہوں۔  اس کا تعلق تمھارے ساتھ ہے عبیر۔

میں نے چونک کر اسے دیکھا۔  اس کو یونیورسٹی ختم ہونے کے بعد مجھ سے کیا کام پڑ گیا؟

تمھیں ہماری سینئر شمائلہ یاد ہے۔  جس نے ویلکم پارٹی میں ڈانس بھی کیا تھا۔

ہاں شمائلہ، وہ تو ہماری پروجیکٹ ایگزیبیشن میں بھی آئی ہوئی تھیں۔

شمائلہ کو ہم نے پہلی بار چار سال پہلے ویلکم پارٹی میں دیکھا تھا۔  اس نے ساری پہن کر انڈین گانے پر بہت اچھا ڈانس کیا تھا۔ اسے ڈانس اور ایکٹنگ کا بہت شوق تھا۔  بعد میں اس نے ایک دو فیشن شوز میں ماڈلنگ بھی کی۔ اس کی ساری فیملی ہی آرٹسٹ ٹائپ کی تھی۔  اس کی امی بنگالی ہونے کی وجہ سے گانے اور ڈانس کا شوق رکھتی تھیں۔  اس کے فادر بیورکریٹ تھے۔  نوجوانی میں بنگلہ دیش میں اس کی مما کے عشق میں ایسے گرفتار ہوئے کہ ساری مخالفتوں کے باوجود شادی کر لی۔  ان کے بچوں نے بھی آرٹیسٹک شوق پائے۔ شمائلہ شروع سے ہی آرٹسٹ طبیعت کی مالک تھی۔  یونیورسٹی میں اس کا سارا گروپ بھی ایسا ہی تھا۔ اس کی خوبصورتی اور شوق کو دیکھ کر یہی لگتا وہ ایکٹنگ یا سنگنگ میں ضرور نام بنائے گی۔

پچھلے سال سب کی امیدوں کے برعکس شمائلہ نے شادی کر لی۔  اس نے اپنے سارے شوق چھوڑ کر خود کو گھر تک محدور کر لیا۔ معلوم ہوا اس کی شادی کسی کاروباری خاندان میں ہوئی ہے جو کٹڑ مذہبی ہے۔  ان کی عورتیں پردہ کرتی ہیں۔  شمائلہ کا شوہر امریکہ سے ماسٹر کر کے آیا اور یہاں والد کا گارمنٹس بزنس ہینڈل کرنے لگا۔

اس کو شمائلہ اسی وقت پسند آ گئی، جب وہ ایک بار یونیورسٹی میں پروجیکٹ اییگزیبیشن پر آیا۔ وہ کافی عرصہ شمائلہ کے پیچھے پڑا رہا مگر شمائلہ نے انکار کر دیا۔  لیکن اس لڑکے کا اصرار جاری رہا۔  ایک سال بعد اچانک شمائلہ مان گئی۔  اب ان کی دو بیٹیاں ہیں جو اپنی ماں کی طرح بہت خوبصورت ہیں۔ شمائلہ نے اپنے شوق کو گھر اور شوہر تک محدود کر لیا۔

شمائلہ سے ہمارے فیملی ٹرمز ہیں۔  وہ اکثر ہمارے گھر آتی ہیں۔  آج کل وہ ایک مشن پر ہیں جس پر ہر بھابھی زندگی میں جلد یا بدیر ضرور نکلتی ہے۔  یعنی اپنے دیور کے لیے رشتہ ڈھونڈنا۔

ان کی نظر میں اچھی لڑکیوں کی کان تو صرف یہ یونیورسٹی ہے اسی لیے یہیں سے سٹارٹ کرنا چاہیے۔

سینکڑوں لڑکیوں میں ان کی نظر سب سے پہلے تم پر پڑی ہے۔  اس نے ہاتھ سے میری طرف اشارہ کیا۔

کیا!!

یہ بات میری سر پر ایک بم؂ کی طرح گری۔

مجھے یاد آیا، کچھ دن پہلے وہ پراجیکٹ ایگزیبیشن پر آئی تھیں۔ اس دن انھوں نے ہمارے پاس کافی ٹائم بتایا۔ ہمارے پراجیکٹ کی کافی تعریف بھی کی تھی۔

میرا ذہن اس دن بہت زیادہ مصروف تھا۔ اس لیے ان کی باتوں کو میں نے کوئی دھیان نہیں دیا۔  اچھا!! تو وہ مجھے رشتے کے لیے دیکھنے آئی تھیں۔

وہ خود تم سے ملنے آنا چاہتی تھیں مگر انھیں کچھ دنوں کے لیے لاہور جانا پڑ گیا۔  تو انھوں نے میرے ذمہ یہ کام لگایا کہ میں تم سے بات کر لوں۔  وہ ڈائریکٹ بات کرنے سے بھی کترا رہی ہیں، نہ جانے تمھارا ریسپانس کیا ہو۔

میرے ذہن میں بیک وقت کئی خیالات آئے۔  سمجھ نہیں آئی کہ کیا جواب دوں۔  میری کنفیوثن دیکھتے ہوئے عنبر خود ہی مزید انفارمینشن دینے لگی۔

ان کے دیور کا نام کاشف ہے۔  اس نے آئی بی اے سے بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسڑ کیا ہے۔  خاندانی بزنس کے بجائے اپنا کام کرنا چاہتا ہے۔  وہ آئی ٹی پراڈکٹس بنانے والی ایک کمپنی میں تجربہ حاصل کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔  کہتا ہے کہ بہت جلد اپنی کمپنی کھولوں گا۔  ابھی بھی اچھا کماتا ہے۔  ہینڈسم اور فنی ہے۔ اگرچہ خاندان کی کئی لڑ کیاں اس سے شادی کرنے کو تیار ہیں۔ پر اسے کوئی پسند ہی نہیں آتی۔  کہتا ہے یہ الیٹ کلاس کی لڑکیاں مجھے بور کرتی ہیں۔  یہ دکان پر پڑی سجی ہوئی گڑیوں جیسی ہیں۔

مجھے کچھ ایسا چاہیے جو فیشن کی اس گرد سے پاک ہو۔  جو پلاسٹک کی گڑیا نہ ہو۔  اسے آج تک ایسی لڑکی نہیں ملی۔  جب اس نے یہ بات اپنی بھابھی کو بتائی۔

شمائلہ کو یہ ساری خوبیاں تمھارے اندر نظر آئی ہیں۔

میں اپنی تعریف پر شرما گئی۔  یعنی لوگ مجھے اپنے گھروں میں اس طرح یاد کرتے ہیں۔

مجھے اب بھی سمجھ نہیں آیا، کیا کہوں؟

پہلے خیال آیا کہ فوراً انکار کر دوں۔  پھر سوچا، تھوڑا روڈ لگے گا۔

کوئی بہانہ بنا دیتی ہوں۔  کہہ دیتی ہوں کہ گھر والوں نے پہلے ہی لڑکا پسند کر لیا ہے۔

یہ شمائلہ کا حسن ظن ہے جو مجھے ایسا سمجھتی ہیں۔  مجھ میں ایسی کوئی خاص بات نہیں ہے۔  میں ایک سادہ سے لڑکی ہوں۔ ان کا دیور مجھ سے بات کرتے ہی بور ہو جائے گا۔

سارا کے چہرے پر ایک مسکراہٹ آئی۔

اس بات کا تو یہیں پر پتا کرایا جا سکتا ہے۔

وہ کیسے؟

کاشف میرے ساتھ ہی یونیورسٹی آیا ہے، اور پارکنگ میں کھڑا ہے۔  میں اسے ہیلو ہائے کے لیے بلا لیتی ہوں۔

میں چونک گئی۔  یعنی وہ گاڑی والا لڑکا کاشف تھا۔

یا اللہ ! یہ آج دن کہاں سے چڑھا ہے جو ایک کے بعد ایک انکشاف ہو رہا ہے۔  میں شش و پنج کا شکار ہو گئی۔

مجھے جواب دینے کی کشمکش سے عمارہ نے نکالا۔

ہاں ہاں بلالو۔   صرف سلام دعا سے کوئی قیامت نہیں آئے گی۔

میں شرما گئی اور منع کرنا چاہا، لیکن نہ کرپائی۔

میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ میرا رشتہ دیکھنے کو ئی اس طرح بھی آئے گا۔

تھوڑی دیر میں کاشف آیا تو میرا کانفیڈنس بالکل لوز ہو گیا۔  مجھ سے اس کی طرف دیکھا بھی نہیں گیا۔ میرا دل بہت تیزی سے دھڑکنے لگا۔  یہ مجھے کیا ہو رہا ہے۔  میں اتنی کانفیڈنس لیس تو نہیں تھی۔

اس کا انداز بہت پولائٹ اور باتوں سے اعتماد پھوٹتا تھا۔  اس نے آتے ہوئے مجھے کچھ لمحوں لیے غور سے دیکھا۔  اس کی نگاہوں میں کوئی چھچورا پن نہیں، بس ہلکی سی دلچسپی دکھائی دی۔

اس نے کچھ رسمی سی باتیں کیں اس کی باڈی میری طرف رہی اور بات وہ عمارہ اور عنبر سے کرتا رہا۔  یعنی اس کی اٹینشن میری طرف ہی تھی۔  اس نے عمارہ سے ہمارے بزنس پلان کے بارے میں پوچھا، اور خوب دلچسپی ظاہر کی۔  اس کے مطابق یہ پلان کامیاب ہونا چاہئے۔  مارکیٹ میں اس وقت نئے آئیڈیاز کی ضرورت ہے۔  وہ جب بات کرتا تو اپنی باڈی لینگوج اور ایکسپریشنز سے اپنی بات کو پوری طرح واضح کرتا۔  اس کے انداز میں کوئی شوخی اور بڑائی کا ایلیمنٹ نہیں تھی۔  اس کاکلون بھی ایسا منفرد اور دھیما دھیما کہ حواس پر طاری ہو گیا۔

میں یہ تو نہیں کہہ سکتی کہ میں پہلی نظر میں اس سے محببت ہو گئی، لیکن وہ باقی لڑکوں سے بہت مختلف لگا۔

اس نے غیر محسوس انداز سے مجھ سے میرے بنائے ہوئے ڈیزائنز کے بارے میں پوچھنا شروع کیا اور جینوئن دلچسپی ظاہر کی۔  میں شروع میں تو نروس ہوئی۔ پر اس کے انداز نے میرا سارا ڈر ختم کر دیا۔

ہم اس گفتگو میں اتنا کھو گئے کہ خبر ہی نہ ہوئی، کب عمارہ اور ساراوہاں سے کھسک گئیں۔ میں اسے اپنی آئیڈیاز کے بارے میں بتانے لگی۔  میری فیشن کی فلاسفی کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔  وہ بہت انہماک سے سنتا رہا۔  کئی باتوں پر اس نے ایسے فنی جملے کہے کہ بے اختیار میری ہنسی نکل گئی۔  وقت گزرنے کا بھی احساس نہ ہوا۔

حیرت تھی کہ آج تک میں نے ایسا محسوس نہیں کیا۔  ہم پتا نہیں کتنی دیر تک باتیں کرتے رہے۔ تبھی مجھے عمارہ اور سارہ کی موجودگی کا احساس ہوا۔  کچھ دیر بعد دونوں اجازت لے کر رخصت ہو گئے۔

ساراکے جاتے ہی عمارہ تو جیسے تیار بیٹھی تھی۔  وہ کچھ کہتی میں نے فوراً اس کے منہ پر انگلی رکھی اور کہا کہ ایک لفظ مت بولنا۔  تم سوچ میں بہت آگے جاچکی ہو۔  ہماری ساری باتیں فارمل ہی ہوئی ہیں، ویسے تمھیں شرم نہیں آئی مجھے اکیلا وہاں چھوڑ کر بھاگتے ہوئے۔

اچھا جی فارمل باتوں یوں ہنسا جاتا ہے۔  اس نے شرارتی لہجے میں کہا۔

میرے کان لال ہو گئے۔

وہ باتوں کے درمیاں ایک آدھا چٹکلا چھوڑ دیتا تھا، میں کیا کرتی۔ میں نے چہرے کے تاثرات چھپانے کے لیے منہ پھیر لیا۔

یہ بتاؤ تمھیں پسند آیا کہ نہیں؟ عمارہ نے سنجیدہ انداز سے پوچھا۔

یار پتا نہیں لیکن وہ برا نہیں ہے۔ میں نے گول مول سا جواب دیا۔

یعنی اگر وہ لوگ تمھا رے گھر رشتہ بھیجیں تو تمھیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔

یار! میری مرضی کوئی معنی نہیں رکھتی۔  فیصلہ تو امی ابا نے کرنا ہے۔  مجھے ڈر لگتا ہے کہ یونیورسٹی کے تعلق سے میرے گھر رشتہ گیا تو ابا یہی سمجھیں گے کہ میں پہلے سے کسی کو پسند کرتی ہوں۔  اس لیے تم سارہ کو انکار کر دو۔

میں نہیں چاہتی کوئی بھی ایسی بات ہو جس کی وجہ سے ابا کے مان کو ٹھیس پہنچے۔

ٹھیک ہے جیسے تمھاری مرضی۔۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔

 

یہ حصہ مکمل پڑھنے کے لیے

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

 

ای پب فائل

 

کنڈل فائل