FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

عہدِ ملّاؔ کا لکھنؤ اور لکھنوی شاعری

 

 

 

                ولی الحق انصاری

 

 

 

 

 

 

 

 

نوابین اودھ کے زمانے میں لکھنؤ میں جو شعری روایات قائم ہوئی تھیں وہ لکھنؤ میں نوابی دور کے خاتمے کے بعد بھی برقرار رہیں اور موجودہ صدی میں بھی لکھنؤ اپنی شاعرانہ حیثیت اور انفرادیت کو برقرار رکھے ہوئے ہے، البتہ وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ یہاں کی شاعری میں بھی تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ یہ غیر لکھنوی شاعری کے اثرات کا نتیجہ ہیں۔

کچھ عرصے قبل تک لکھنوی شاعری کو بدنام کرنا ایک فیشن سا بن گیا تھا۔ اسے گل و بلبل کے افسانوں، کنگھی چوٹی کی داستانوں اور رکیک مضامین کی ادائیگی تک محدود سمجھ لیا گیا تھا لیکن اس قسم کے الزام لگانے والے شاید اس حقیقت کو فراموش کر بیٹھے تھے کہ شاعری کے یہ عناصر اہلِ لکھنو کو انھیں شاعروں سے ملے جنھیں فخریہ انداز میں استادانِ دبستانِ دہلی کہا جاتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ لکھنو کی عیش پر ور فضا میں اس قسم کی شاعری کچھ زیادہ مقبول ہو گئی چناں چہ یہاں کے شاعروں نے بھی اس کی طرف زیادہ توجہ کی۔ لکھنوی شاعری کا طرہ امتیاز وہ مضامین نہیں ہیں جنھیں یہاں کے شعراء نے اپنے کلام میں ادا کیا ہے بلکہ وہ زبان ہے جس میں یہ خیالات ادا کیے گئے ہیں اور اسی پاکیزگی زبان نے لکھنوی شاعری کو ایک علاحدہ دبستانِ شاعری کی حیثیت سے ابھرنے کا موقع دیا۔

اصلاحِ زبان کی ابتدا شیخ امام بخش ناسخ ؔ اور انھیں کے ساتھ خواجہ حیدر علی آتش ؔ نے کی اور ان کے بعد بھی ان کے شاگردوں کے ذریعہ یہ سلسلہ جاری رہا اور ان کی سعی سے نہ صرف لکھنؤ میں بلکہ اس کی تقلید میں ہندوستان کے گوشے گوشے میں وہ زبان رائج اور مقبول ہوئی جو اپنی شیرینی اور حسن میں بجا طور سے قند پارسی کا جواب کہی جا سکتی ہے۔ ان شعرا کے کلام میں خیالات البتہ محض روایتی ہیں جن کا حقیقت پسندی سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن یہ بات صرف لکھنوی شاعری تک محدود نہیں ہے۔ یہی اس عہد کی شاعری کا عام رنگ تھا۔ جیسا کہ لکھا جا چکا ہے، لکھنو کے عیش پسند ماحول نے اس میں صرف کچھ اضافہ کر دیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ۱۹۵۷ء کے بعد اس رنگ کو مقبول اور اجاگر کرانے والے لکھنوی شاعروں سے زیادہ داغؔ دہلوی تھے اور یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ داغؔ کی اس شاعری کی مقبولیت کے بدولت جس پر رکاکت اور ابتذال کی گہری چھاپ ہے رسا بند لکھنو خصوصاً امیرؔ مینائی اور ان کے شاگردوں، خصوصاً ریاضؔ خیر آبادی کی شاعری اور جلالؔ لکھنوی کی نثری تصانیف کو پیش کیا جا سکتا ہے۔

۱۸۵۶ء میں لکھنؤ کا نوابی دور ختم ہو گیا اور اس کے ساتھ وہ عیش پسندانہ ماحول بھی ختم ہوا جس کے نتیجہ میں وہ مبتذل شاعری وجود میں آئی جس کے لیے بغیر سمجھے بوجھے آج بھی لکھنو کو مطعون کیا جاتا ہے۔ ۱۹۵۷ء کے بعد کی لکھنوی شاعری کے عناصر بھی عشق و محبت رہے لیکن چرکنیت اور جان صاحبیت ختم ہو گئی البتہ ابتذال کچھ حد تک باقی رہا جس کا ایک سبب سبکِ داغؔ کی مقبولیت بھی تھا۔ اس دور میں حالات کی نا سازگاری کے ساتھ ساتھ حالیؔ کی اصلاحی تحریک کا بھی شعوری یا غیر شعوری طور پر لکھنوی شاعری پر اثر پڑا اور وہ شعراء جنھیں عہدِ ملّاؔ کا پیش رو کہا جا سکتا ہے وہ بھی کچھ حد تک اس سے متاثر نظر آتے ہیں۔ اس دور کے شعرا میں امیرؔ مینائی کے شاگرد اور لکھنؤ اسکول کے ایک اہم شاعر ریاضؔ خیرآبادی (۱۸۵۳ء تا ۱۹۳۲ء) ہیں۔ جہاں تک ان کے سبک کا تعلق ہے، وہ اپنے استاد کے علاوہ داغؔ دہلوی اور جلالؔ لکھنوی سے بھی متاثر ہیں چناں چہ دونوں کے اثرات ان کے کلام میں نمایاں ہیں۔ جہاں تک لطفِ زبان کا تعلق ہے۔ انھیں یگانۂ عصر کہا جا سکتا ہے لیکن شوخی ور ندی میں وہ داغؔ کے پیرو نظر آتے ہیں لیکن یہ رندی خمریات تک محدود ہے اور اس رنگ کلام کا انھیں لکھنؤ اسکول کا آخری شاعر سمجھنا چاہیے۔ نمونتاً ان کے چند اشعار پیش کیے جا رہے ہیں : ؎

 

شعر میرے تو چھلکتے ہوئے ساغر ہیں ریاضؔ

پھر بھی سب پوچھتے ہیں آپ نے پی ہے کی نہیں

 

چھلکائیں بھر کے لاؤ گلابی شراب کی

تصویر کھینچیں آج تمہارے شباب کی

 

محتسب آیا تو میں خم پر گرا

خم گرا، مینا گرا، ساغر گرا

 

اتر گئی سرِ بازار شیخ کی پگڑی

گرہ میں دام نہ ہوں گے، ادھار پی ہو گی

 

یہ اپنی وضع اور یہ دشنام مے فروش

سُن کر جو پی گئے یہ مزہ مفلسی کا تھا

 

وہ جانا مرا روٹھ کر میکدے سے

صراحی کا مجھ کو وہ آواز دینا

 

مل جائے تو شراب کا دریا بہائیں ہم

اللہ دے اگر تو پییں اور پلائیں ہم

خمریات کا ایک دوسرا رُخ ملاحظہ ہو: ؎

 

اتری تھی آسمان سے جو کل، اٹھا تولا

طاق حرم سے شیخ وہ بوتل تو اٹھا لا

 

سنا ہے ریاضؔ اپنی داڑھی بڑھا کر

بڑھاپے میں اللہ والے ہوئے ہیں

 

اہلِ حرم بھی آج ہوئے ہیں شریک دور

کچھ اور آج رنگ مری میکشی کا تھا

ریاض کی شاعری کا آہنگ بلا شبہ رندانہ تھا لیکن ریاضِ رضوان میں ایسے اشعار کی بھی کمی نہیں جن میں شوخی کے علاوہ اعلا پایہ کی سنجیدگی پائی جاتی ہے مثلاً

تری گلی میں نشانِ مزار باقی ہے

غبارِ راہ مری یاد گار باقی ہے

 

کتنے کعبے ملے رستے میں، کئی طور ملے

ان مقامات سے ہم کو وہ بہت دور ملے

 

ہم نے اپنے آشیانے کے لیے

جو چبھے دل میں وہی تنکے لیے

 

ہنگامِ نزع گر یہ یہاں بیکسی کا تھا

تم ہنس پڑے، یہ کون سا موقع ہنسی کا تھا

متذکرہ بالا اشعار سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ جس وقت ملّا صاحب نے شاعری کا آغاز کیا اس وقت پاکیزگیِ زبان کے علاوہ خیالات کے معاملے میں بھی لکھنوی شاعری ایک نئے موڑ پر کھڑی ہو چکی تھی۔

عہدِ ملّاؔ کے ابتدائی دور کے معاصرین میں صفی ؔ لکھنوی اور چکبستؔ لکھنوی وہ حضرات ہیں جنھوں نے شعوری یا غیر شعوری طور سے حالیؔ کا نظریہ شعر قبول کیا یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ حالات ہی کچھ ایسے ہو چکے تھے کہ تنگنائے غزل سے باہر آ کر انھیں اپنے خیالات کا اظہار کے لیے نظموں کا سہارا لینا پڑا۔ چکبستؔ وطنی شاعر تھے اور صفیؔ ملّی، چناں چہ ملّا صاحب سے پہلے لکھنؤ میں جو نظمیں لکھی گئیں وہ چکبستؔ کے وطنی لیڈروں کے مراثی اور صفیؔ اور ان کے شاگرد عزیزؔ لکھنوی کی ملی نظمیں ہیں۔ ان تینوں شاعروں نے (مرثیہ نگاروں کے علاوہ) نہ صرف لکھنؤ میں نظم گوئی کا آغاز کیا بلکہ لکھنو کی غزل کی بھی ایک نئی سمت متعین کی۔ ان سے قبل اگرچہ رکاکت و ابتذال کے عناصر لکھنوی شاعری سے ختم ہو چکے تھے لیکن غزل کے خاص موضوع حسن و عشق، سراپائے محبوب اور رندانہ خیالات کا اظہار تھا جیسا کہ ریاضؔ خیرآبادی کے سلسلے میں کہا جا چکا ہے۔ چکبستؔ ، صفیؔ ، عزیزؔ اور مرزا ہادی رسواؔ وغیرہ نے غزل کے مضامین میں وسعت اور تنوع پیدا کرنے کی کوشش کی بلکہ میں یہ کہنے کی جرأت کر سکتا ہوں کہ یہی حضرات تھے جنھوں نے حسرتؔ ، فانیؔ ، اصغرؔ سے بھی پہلے غزل کو معنوی آہنگ بخشا اور لطافتِ زبان ( جو لکھنوی شاعری کا ہمیشہ طرۂ امتیاز رہی ہے ) کے ساتھ ساتھ رفعتِ خیال اور ندرتِ اظہار کو بھی غزل کا لازمی جز بنا دیا اور اس معاملے میں یہ سب حضرات لکھنؤ اسکول کے اساتذہ ہونے کے باوجود سبکِ غالبؔ سے زیادہ قریب نظر آتے ہیں اور اس معاملے میں وہ خود غالبؔ کے وطن کے شاعروں سے بھی آگے بڑھے ہوئے ہیں اور اگر غالبؔ یہ کہتے ہیں : ؎

نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

 

تو چکبستؔ کہتے ہیں کہ: ؎

زندگی کیا ہے عناصر میں ظہورِ ترتیب

موت کیا ہے انھیں اجزا کا پریشان ہونا

ملّا صاحب کے سینیر معاصرین میں صفیؔ اور عزیزؔ کا دور ایک ہنگامہ آرائی کا دور ہے۔ اس دور میں لکھنؤ سے باہر سے آ کر لکھنؤ میں بس جانے والے اور خاص لکھنؤ کے شاعروں میں شاعرانہ ہنگامہ آرائی ہوتی رہی۔ اس گروہ بندی میں ایک طرف صفیؔ اور عزیزؔ صاحبان تھے اور دوسری طرف یگانہؔ ، بیخودؔ اور افقرؔ موہانی۔ آخر الذکر حضرات لکھنوی نہ ہونے کے باوجود لکھنؤ کا اسی طرح حصہ بن چکے تھے جیسے آتشؔ و ناسخؔ اور لکھنؤ کے لیے باعثِ فخر تھے اور یہ صرف بدقسمتی ہے کہ انھیں یہ احساس رہا کہ اہلِ لکھنؤ انھیں لکھنوی نہیں سمجھتے۔ یہ احساس یگانہؔ چنگیزی میں سب سے زیادہ تھا اور اسی کے تحت انھوں نے عمر میں اپنے سے بڑے لکھنوی شاعروں پر نہ صرف اعتراضات کیے بلکہ غیر شائستہ الفاظ بھی استعمال کیے مثلاً آیاتِ وجدانی کے خود نوشت دیباچے میں حضرت صفیؔ لکھنوی کو خفیؔ اور حضرت عزیز ؔ لکھنوی کو ذلیلؔ کے الفاظ سے یاد کیا گیا ہے اور ان کی یہی انانیت آخر عمر میں ان کی رسوائی کا باعث بنی۔ ان کی تحریروں سے البتہ اس بات کی طرف ضرور دماغ متوجہ ہوئے کہ لکھنویت کے لیے محض لکھنؤ میں پیدا ہونا لازمی نہیں۔ یہاں کے ادبی ماحول میں جو بھی آ کر گھل مل گیا اسے اس سر زمین اور اس کے مکتبۂ شعر کا شاعر سمجھنا چاہیے اور اس لحاظ سے یگانہؔ ، بیخودؔ ، افقرؔ ، آسیؔ وغیرہ حضرات کو بھی اسی طرح لکھنوی سمجھنا چاہیے جس طرح بانیان مکتبۂ لکھنؤ یعنی آتشؔ و ناسخؔ کو لکھنوی سمجھا جاتا ہے۔ باہر سے لکھنؤ آنے والے ان شعرا نے جو سب کے سب اسی سر زمین میں پیوند خاک ہوئے، لکھنوی شاعری کو بہت کچھ دیا جس کو دبستانِ لکھنؤ کی شاعری سے ہٹ کر کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ ان شاعروں کے کلام میں بھی وہ سب خصوصیات موجود ہیں جو لکھنوی شاعر کا طرہّ ٔ امتیاز ہیں یعنی زبان کی صفائی و شستگی، تراکیب کی درستی اور ندرتِ بیان۔ ان حضرات کے کلام میں بھی ان کے خالص لکھنوی معاصرین کی طرح معنویت کی طرف زیادہ توجہ ہے اور ان کا کلام بھی رکاکت کے اس الزام سے پاک ہے جن کا نشانہ لکھنوی شاعری بنتی رہی۔ اس عہد کے تمام لکھنوی شعرا، خواہ وہ خالص لکھنوی ہوں یا باہر سے آ کر یہاں آباد ہو گئے ہوں، کی محبوب ترین صنفِ غزل تھی اور عشق و محبت اس کے خاص موضوع تھے لیکن ان مضامین کے اظہار کا طریقہ انتہائی پر وقار ہو چکا تھا۔ فصاحتِ کلام اور لطافت زبان اس دور کے شعرا کے بھی ہمیشہ پیش نظر رہے لیکن محض زبان کے لیے شعر کہنا یا اس کے لیے خیال کو قربان کر دینا، جو نوابی دور کے آخر میں لکھنؤ میں رواج پا چکا تھا، تقریباً ختم ہو چکا تھا۔ رعایتِ لفظی اور صناعی کی طرف اب بھی توجہ تھی لیکن محض صنعتوں کے لیے شعر کہنا بند ہو چکا تھا۔ گل و بلبل کی داستانیں اس عہد کی غزل میں بیان ہوتی رہیں لیکن یہ اندازِ بیان اعلا خیالات کو بیان کرنے کے لیے صرف تخیلی اور استعاراتی تھا۔

لکھنوی شاعری کے اس دور کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ مسائلِ روزگار اور معاملات زندگی کو بھی غزل کے پاکیزہ انداز میں بیان کیا جانے لگا اور، جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے ان مضامین کی ادائیگی کے لیے صنف نظم کو بھی کام میں لانا شروع کر دیا گیا تھا اور اس ماحول میں ملا صاحب کو ایک اچھے غزل گو ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بلند مرتبہ نظم گو شاعر ہونے کی حیثیت سے پروان چڑھایا۔

جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے لکھنوی شاعری کے مذکورۂ بالا دور کا آغاز صفیؔ اور چکبستؔ نے کیا لیکن ان سے پہلے مرزا ہادی روسواؔ (۱۸۵۷ء تا ۱۹۳۱ء) اس صنف کو وقار بخش چکے تھے۔ مرزا رسواؔ کو اپنے وقت کا جینیس سمجھنا چاہیے۔ انھیں مختلف علوم و فنون پر مکمل عبور حاصل تھا اور اگر چہ ان کی شہرت بحیثیت نثر نگار سمجھی جاتی ہے لیکن وہ ایک بلند مرتبہ غزل گو بھی تھے۔ ان کے کلام کے چند نمونے پیش ہیں : ؎

شکووں میں بھی انداز نہ ہو حسنِ طلب کا

ہاں اے دل بیتاب رہے پاس ادب کا

مرزا رسواؔ کے جونیر اور ملّا صاحب کے سینئر معاصر پنڈت برج نرائن چکبستؔ (پیدائش: ۱۸۸۲ء، وفات: ۱۹۲۶ء) نے نہ صرف جدید نظم سے لکھنوی شاعری کو روشناس کرایا بلکہ غزل کو بھی ایک شستہ لہجہ عطا کیا، جس میں زبان کی پاکیزگی کے ساتھ ساتھ خیالات کا وقار بھی شامل تھا جس کے چند نمونے ذیل میں پیش کیے جا رہے ہیں، جن سے بیسویں صدی کے ابتدائی دور میں لکھنؤ کی شاعری کی ارتقائی شکل کا اندازہ کیا جا سکتا ہے :

نیا مسلک، نیا رنگِ سخن ایجاد کرتے ہیں

عروس شعر کو ہم قید سے آزاد کرتے ہیں

 

کچھ ایسا پاسِ غیرت اٹھ گیا اس دور پر فن میں

کہ زیور بن گیا طوقِ غلامی اپنی گردن میں

 

وطن کی خاک سے مر کر بھی ہم کو اُنس باقی ہے

مزہ دامانِ مادر کا ہے اس مٹی کے دامن میں

 

زندگی کیا ہے ؟ عناصر میں ظہور ترتیب

موت کیا ہے انھیں اجزا کا پریشاں ہونا

 

چکبستؔ کا مجموعۂ کلام ’’صبحِ وطن ‘‘ان کی نظموں پر مشتمل ہے جن میں حب الوطنی، خدمتِ خلق، خواہش معاشرت وغیرہ موضوعات پر ان کی نظمیں ملتی ہیں۔

چکبستؔ کی شاعری (غزل اور نظم دونوں ) اگر جذبۂ وطنیت کی آئینہ دار ہے تو ان کے معاصر صفیؔ (پیدائش: ۳؍ جنوری ۱۸۶۲ء، وفات: ۱۹۵۰ء) کی شاعری پاکیزہ عشق کی کیفیتوں اور ملی جذبات کی ترجمانی کرتی ہے۔ لکھنوی شاعری میں نظم گوئی کی ابتدا انھوں نے چکبست سے بھی پہلے کی تھی جب جنگِ عظیم کے دوران ان کی مشہور ملی نظم شائع ہوئی جس کے تین اشعار درج ذیل ہیں : ؎

زندہ ہیں اگر زندہ دنیا کو ہلا دیں گے

مشرق کا سرا لے کر مغرب سے ملا دیں گے

 

اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے

اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے

 

اے جذبۂ اسلامی جس دل میں نہ تو ہو گا

یہ نظمِ صفیؔ پڑھ کر ہم اس کو سنادیں گے

صفی کی نظم گوئی غالباً حالیؔ کی تلقین کے زیر اثر شروع ہوئی اس لیے کہ صفیؔ کے کلام میں خود حالیؔ کا ایک مرثیہ بھی ملتا ہے۔ لیکن صفیؔ نے باقاعدہ ملی نظمیں ۱۹۳۷ء یعنی ملازمت سے رٹائر ہونے کے بعد کہنا شروع کیں۔ ان نظموں میں جو عموماً مسدس کی شکل میں ہیں قومی عناصر کے ساتھ ساتھ ملکی اور سیاسی عناصر بھی شامل ہیں۔ نیز ان میں ان مقامات کی بھی کامیاب تصویر کشی کی گئی ہے جہاں شیعہ پولٹیکل کانفرنس کے اجلاس منعقد ہوا کرتے تھے۔ صفیؔ کی زندگی میں یہ نظمیں ’’لختِ جگر‘‘ کے عنوان سے شائع ہو چکی تھیں۔ نظموں کے علاوہ صفیؔ کی غزلیں بھی اس معنی میں انتہائی اہم ہیں کہ لکھنوی غزل کو مقصدیت کی طرف موڑنے میں صفیؔ کا سب سے زیادہ حصہ ہے۔ صفیؔ کی غزل کے چند اشعار بطور نمونہ پیش کیے جا رہے ہیں : ؎

ڈر ہے مجھے کہ رشتۂ الفت نہ ٹوٹ جائے

تسبیح سے کشا کشِ زنار دیکھ کر

 

کوئی زہر پی بھی لیتا تو وہ دل لگی سمجھتے

کوئی جان دے بھی دیتا تو نہ اعتبار ہوتا

 

مری لاش کے سرہانے وہ کھڑے یہ کہہ رہے ہیں

اسے نیند یوں نہ آتی اگر انتظار ہوتا

 

غزل اس نے چھیڑی مجھے ساز دینا

ذرا عمرِ رفتہ کو آواز دینا

ان اشعار کا مطالعہ، بقول مرزا جعفر حسین، ان کی زبان دانی، لطفِ بیان، رنگِ تغزل، سلیقہ مندی اور ان کے کمالِ فن کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔

 

عزیز ؔ لکھنوی (پیدائش: ۱۸۸۲ء، وفات: ۱۹۳۵ء) صفیؔ کے شاگرد اور خود مرتبہ استادی پر فائز جوشؔ و اثرؔ کے ایسے عظیم شاعروں کے استاد تھے۔ دبستان لکھنو میں لکھنوی شاعری کی خصوصیات کو برقرار رکھتے ہوئے غالبؔ کی پیروی کرنے والا انھیں اولین شاعر میں شمار کرنا چاہیے۔ نمونتاً ان کی غزل کے چند اشعار پیش ہیں۔ غزلوں کے علاوہ بحیثیت نظم نگار بھی ان کا پایہ بلند ہے۔ عزیزؔ کے کلام کے متعدد مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔

دل سمجھتا تھا کہ خلوت میں وہ تنہا ہوں گے

میں نے پردہ جو اٹھایا تو قیامت دیکھی

 

حیرت فروش جلوہ دلبر کے ہو گئے

بت اک نگاہ پڑتے ہی پتھر کے ہو گئے

 

اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن

بھولتا ہی نہیں عالم تری انگڑائی کا

 

دل سے باتیں کرنے والے کچھ خبر بھی تجھے

تیرے ہر انداز کو چھپ کر کوئی دیکھا کیا

 

مرے بعد آنے والے سردھنیں گے جس کے مطلب پر

لکھے جاتا ہوں ایسی بات اک دیوار زنداں پر

 

ثاقب لکھنوی (پیدائش: ۲ ؍ جنوری ۱۸۶۹ء وفات ۱۹۴۶ء) اکبر آباد میں پیدا ہوئے لیکن آبروئے لکھنؤ ہوئے کلام نمونتاً پیش ہے کلیات شائع ہو چکا ہے۔

اک عمر کاٹ دی ہے سوادِ گناہ میں

دھوتا ہوں شب کو بیٹھ کے داماں کبھی کبھی

 

وہی ذاتِ باری کو پہچانتا ہے

جو اپنی حقیقت کو خود جانتا ہے

 

گوہرِ مدعا نہیں ملتا

ہم نے دنیا کی خاک چھانی ہے

 

غنی ہے دل تو شکوۂ سکندری کیا ہے

تجھے خبر نہیں شانِ تونگری کیا ہے

 

کاظم حسین محشرؔ (متوفی ۱۹۳۳ء بعمر تقریباً اسی سال) عزیزؔ کی طرح قصیدہ گو تھے لیکن غزلیات بھی کہی ہیں جو دیوان کی شکل میں شائع ہوئی تھیں لیکن اب یہ دیوان ناپید ہے۔ نمونتاً چند شعر پیش ہیں۔

بس بس اے مستِ جوانی یہی ارمان تھا بس

کھینچ سکے دل پہ مرقع تری انگڑائی کا

 

تم کو بیمارِ محبت کی خبر ہے کہ نہیں

نام بدنام نہ ہو جائے مسیحائی کا

 

ان کے ادراک کی قوت پہ فدائے محشرؔ

مدعا بے کہے سمجھیں جو تمنائی کا

 

انور حسین آرزوؔ (پیدائش ۱۹۷۲ء، وفات: ۱۹۵۳ء) صحیح معنوں میں آخری استاد جنھیں جملہ فنون شعر، بشمول قواعد و عروض، پر مکمل عبور حاصل تھا اور انشاء اللہ خاں انشاؔ کے بعد پہلے شاعر ہیں جنھوں نے خالص اردو ادب پیش کیا۔ ان کے کچھ اشعار بطور نمونہ پیش ہیں :

کچھ کہتے کہتے اشاروں میں شرما کے کسی کا رہ جانا

وہ میراسمجھ کر کچھ کا کچھ جو کہنا نہ تھا وہ کہہ جاتا

 

اندازۂ سلامتِ عالم نہ پوچھیے

چاروں طرف کے تیر تھے اور اک نشانہ تھا

 

اس بے وفا سے قاصد اب کیا پیام کہنا

جاتا ہے تو تو اچھا، میرا سلام کہنا

 

دل ہجومِ ہوس سے نکلا خوب

اور بڑی آن بان سے نکلا

 

جی میں ادھر ٹھنی ہوئی ادھ موئے ہوکے کیا جییں

اور ادھر یہ بانکپن، مرتے پہ ہاتھ کیا اٹھائیں

 

ذاخرؔ لکھنوی خاندانی شاعر اور استاد تھے جن کے بیٹے فضل نقوی صاحب خود مرتبۂ استادی پر فائز تھے اور موجودہ دور کے کچھ مشہور شعرا مثلاً کرشن بہاری نورؔ ، شمبھو دیال شفقؔ مرحوم ان کے تربیت یافتہ ہیں۔ ذاخرؔ صاحب کے چند اشعار بطورِ نمونہ پیش ہیں :

اب تک ہے کہاں تو کہ دو عالم سمٹ آئے

وقت آ گیا محشر میں تری جلوہ گری کا

 

ہے یاد ابھی تک مجھے رفتارِ جوانی

وہ جھوم کے چلنا وہ قدم بے خبری کا

 

ملّا صاحب کے خالص لکھنوی سینئر معاصرین کا تذکرہ نا مکمل رہے گا اگر منشی نوبت رائے نظرؔ اور ظریفؔ لکھنوی کا ذکر نہ کیا جائے۔ نظرؔ (متوفی ۱۹۲۳ء) ایک چھے غزل گو ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بلند پایہ مزاج نگار بھی تھے اور ظریفؔ لکھنوی (پیدائش ۱۸۷۰ء، وفات: دسمبر ۱۹۳۷ء) کو تو اکبرؔ الہ آبادی کے بعد اردو زبان کا سب سے بڑا مزاح نگار سمجھنا چاہیے جس نے اکبرؔ ہی کی طرح طنز و مزاح سے اصلاحِ معاشرہ کا کام لیا۔ نظر کے کچھ سنجیدہ اشعار بطور نمونۂ کلام پیش ہیں :

اس سے بڑھ کر اور کیا ہے سادہ لوحی عشق کی

آپ نے وعدہ کیا اور مجھ کو باور آ گیا

 

نہ چھیڑ اے ہمنشیں ناکامیِ حسرت کا افسانہ

کہ اب تو بات کرنے سے بھی دل میں درد ہوتا ہے

 

ابھی اور طول دیتے غمِ عشق کو نظرؔ ہم

اگر اپنی زندگی کا ہمیں اعتبار ہوتا

 

چھوڑا ہر اک نے ساتھ دمِ جستجوئے دوست

ایک ایک نقش جادۂ منزل میں رہ گیا

 

زندگی کی کشمکش سے مر کے پائی کچھ نجات

اس سے پہلے اے نظرؔ فرصت کبھی ایسی نہ تھی

 

ظریف لکھنوی کا کلیات ’’دیوانجی‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ تبرکاً چند اشعار پیش ہیں :

ہوائے شوق اگر مجھ کو یوں ہی مجبور کرتی ہے

وہاں چل کر کروں گا گشت جو بے خار گلشن ہو

 

پنہاؤں فکر کو اس حسن سے جامہ ظرافت کا

کشادہ ہر طرف تہذیب کا جس میں کہ دامن ہو

 

داغ کے درہم و دینار بھرے ہیں جس میں

دل وہ کیونکر ہوا صرّاف کی تھیلی نہ ہوا

عہدِ ملّاؔ کا ابتدائی دور لکھنؤ میں ادبی معرکہ آرائیوں کا دور تھا۔ صفیؔ عزیزؔ ، ثاقبؔ ، آرزوؔ لکھنوی اور خالص لکھنوی تھے لیکن اسی زمانے میں کچھ باہر سے آنے والے شعرا نے بھی لکھنویت کا دعویٰ کیا اور اس کے ثبوت میں یہ دلیل پیش کی گئی کہ لکھنؤ اسکول کی بنیاد ہی باہر سے لکھنؤ آنے والوں نے رکھی۔ اس گروہ کے سربراہ یگانہؔ چنگیزی تھے جو اصل اہلِ لکھنؤکی مخالفت میں دائرۂ تہذیب سے بھی باہر نکل گئے تھے اور نہ صرف یہ کہ انھوں نے مسلسل حضرت صفیؔ کو حضرت خفیؔ اور جناب عزیزؔ میاں کو ذلیل لکھا ہے بلکہ اگر عرشیؔ لکھنوی کے قول پر اعتماد کیا جائے کیننگ کالج کے مشاعرے میں وہ عزیزؔ صاحب سے یوں مخاطب ہوتے ہیں : ؎

محرومیوں میں گذری ناکامیوں میں گذری

عمرِ عزیز گذری اور خامیوں میں گذری

ان باہر سے آ کر لکھنؤ میں بس جانے والوں میں محمد احمد بیخودؔ موہانی، عبد الباری آسیؔ المدنی کے نام سر فہرست ہیں اور کوئی شبہ نہیں کہ ان سب کو مرتبۂ استادی حاصل تھا اور انھیں مکتبۂ لکھنؤ کے اہم اراکین میں شمار کیا جانا چاہیے اس لیے کہ ان حضرات نے نہ صرف یہ کہ اپنی پوری زندگی لکھنؤ میں گذاری اور یہیں پیوندِ خاک ہوئے، بلکہ ان کا رنگِ سخن بھی انھیں خصوصیات کا حامل ہے جو ان کے عہد میں رائج ہو کر مقبولیت حاصل کر چکا تھا اور جس کا ذکر کیا جا چکا ہے۔ مثال کے طور پر ان حضرات کے چند اشعار پیش کیے جا رہے ہیں جن سے اندازہ ہو گا کہ لطفِ زبان، بلندیِ تخیل، داخلی کیفیتوں کا اظہار رمزیہ و استعاراتی پیرایۂ بیان اور سنجدیگی مضامین۔ ان کا مرتبہ بھی کم از کم اتنا ہی بلند ہے جتنا صفیؔ صاحب اور عزیزؔ صاحب کا۔

 

بیخودؔ موہانی (پیدائش: ۱۸۸۳ء، وفات: ۱۹۴۰ء) اردو اور فارسی دونوں زبانوں پر بیخودؔ صاحب کو قدرتِ کامل حاصل تھی اور شیعہ کالج میں وہ ان دونوں زبانوں کے استاد تھے۔ کلیات بیخودؔ جس میں اردو اور فارسی دونوں زبانوں کے اشعار ہیں، شائع ہو چکا ہے اور ڈاکٹر سکندر آغا کو بیخودؔ پر تحقیقات کرنے پر پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری لکھنؤ یونیورسٹی سے مل چکی ہے۔

یہ دل کے داغ ہیں ملتے ہیں جس کو ملتے ہیں

سیاسِ نعمتِ پروردگار کرتا جا

 

ابھی چمن ہے قفس تو ابھی قفس ہے چمن

نظارۂ چمنِ روزگار کرتا جا

 

شعلے وہی، بگولے وہی، آندھیاں وہی

کیا مر کے قیس جانِ بیاباں نہیں رہا

 

بے پردہ ایک دم رخِ جاناں نہیں رہا

پردہ اٹھا تو ہوش میں انساں نہیں رہا

 

غم و حرماں کی تاریکی زمیں سے آسماں تک ہے

اندھیرا ہی اندھیرا ہے مری دنیا جہاں تک ہے

 

امنگ کا یہ رنگ ہے ہجومِ رنج ویاس میں

کہ جس طرح کوئی حسیں ہو ماتمی لباس میں

 

مرزا واجد حسین یگانہؔ چنگیزی (پیدائش ۱۸۸۴ء، وفات: ۴ فروری ۱۹۵۶ء) عظیم آباد میں پیدا ہوئے لیکن لکھنؤ کو وطنِ ثانی بنایا اور یہیں سپرد خاک کیے گئے۔ اپنی ضرورت سے زیادہ تیکھی طبیعت کی وجہ سے ناکام زندگی بسر کی۔ فطری و شاعرانہ خصوصیات کی مناسبت سے انھیں اردو زبان کا عرفیؔ کہا جا سکتا ہے اور عرفیؔ ہی کی طرح ابو الفضل کے الفاظ میں ’’گلِ استعدادش نشگفتہ پژ مرد‘‘۔ اپنی فطرت کی اسی خامی کی وجہ سے آخری بیس سال کا کلام کھو بیٹھے جسمیں نہ جانے کیا کیا جواہر پارے ہوں گے۔ آیاتِ وجدانی کے عنوان سے اردو اور فارسی کلام شائع ہو چکا ہے۔ چند اشعار نمونتاً پیش ہیں :

کششِ لکھنؤ ارے توبہ

پھر وہی ہم وہی امین آباد

 

جان سے بڑھ کر سمجھتے ہیں مجھے یاس اہلِ دل

آبروئے لکھنؤ، خاکِ عظیم آباد ہوں

 

کجا طرز یگانہؔ اور کجا اندازِ بیگانہ

بجا ہے لکھنؤ کو رشک ایسے صاحبِ فن پر

 

بہارِ لکھنؤ کو خونِ دل سے کس نے سینچا ہے

خدا لگتی بھی کہہ دے گا کوئی پتا زباں ہو کر

 

منم کہ لکھنؤ جانِ تازہ ای دادم

منم خدا سخن یاسؔ و نا خدائے خودم

 

جو پہلے درد تھا اب داغ بن کر دل میں روشن ہے

بس اتنا فرق پاتا ہوں ضعیفی اور جوانی میں

 

افسردہ خاطروں کی خزاں کیا بہار کیا

کنجِ قفس میں مر رہے یا آشیانے میں

 

یکساں کبھی کسی کی بھی گذری زمانے میں

یادش بخیر بیٹھے تھے کل آشیانے میں

 

امید و بیم نے مارا مجھے دورا ہے پر

کہاں کے دیر و حرم، گھر کا راستا نہ ملا

 

عبد الباری آسیؔ الدنی بیخودؔ و عزیزؔ و یگانہؔ کے معاصر تھے اور استادانہ قدرتِ کلام رکھتے تھے۔ چند اشعار ذیل میں پیش کیے جا رہے ہیں :

 

دیکھیے کس کی خطا ہے کس کے سر الزام ہے

موت غفلت کر رہی ہے زندگی بدنام ہے

 

ایک انداز نہیں دوسرے انداز میں آ

آ پھر اک بار، مرے شہپرِ پرواز میں آ

 

مشورہ کس نے دیا تجھ کو کہ پرواز میں آ

قصد آنے کا ہے تو عشق کے آغاز میں آ

 

یہ تھے چند نمونے اس لکھنوی غزل کے جس کی ابتدا گذشتہ صدی کے آخر میں ہوئی اور ان سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس عہد میں بھی شاعری پر عموماً اور غزل پر خصوصاً لکھنؤی شعرا کی گرفت اور فوقیت برقرار رہی اور اگر یہ کہا جائے کہ معاصرین اور آئندہ کے لکھنؤ کے باہر کے بزرگ شعرا خصوصاً غزل گویوں نے جو رنگِ سخن اختیار کیا وہ اسی سبک کا چربہ تھا جس کی لکھنؤ میں تخلیق ہوئی تھی متذکرہ اشعار جنھیں مشتے از خروارے سمجھنا چاہیے۔ پوری طرح اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ اس دور میں وہ قدامت پسندی اور روایت پرستی جو انحطاط پذیر معاشرے کی دین تھی اور جس کی خصوصیات تکلف، تصنع، خارجیت، فرضی ہوس آمیز جذبات کی ترجمان، بے کیفی، حقائق سے گریز اور فرسودہ خیالی ہیں، کے اثرات لکھنوی شاعری سے پورے طور سے ختم ہو کر ایک صحت مند سبک وجود میں آ گیا تھا جس میں فرسودگی خیال کی جگہ علوئے تخیل نے، آورد کی جگہ آمد نے، ہوس آمیز تلذذ کی جگہ عشق کے پاکیزہ جذبات نے، خارجیت کی جگہ داخلی کیفیتوں کے اظہار نے، مبالغہ کی جگہ حقیقت پسندی نے لے لی تھی۔ یہی دور تھا جب اظہار و بیان کی اہمیت کو پورے طور پر محسوس کر لیا گیا تھا اور زبان کی شستگی اور صفائی جس کی ابتدا ناسخؔ کے عہد سے ہوئی اس عہد میں پایۂ تکمیل کو پہنچائی گئی اور اردو وہ اردو بن گئی جس کے بولنے والے کو ہندوستان کے کسی حصے میں بھی محض اس کی زبان سن کر پتا لگا لیا جاتا تھا کہ وہ لکھنؤ کا باشندہ ہے اور راقم الحروف کو خود اس کا تجربہ کلکتہ میں ہوا جب ایک معمولی قصاب نے محض لہجہ کی بنا پر مجھ سے سوال کیا کہ کیا میں لکھنؤ کا رہنے والا ہوں۔ جادۂ ملّا کے دیباچے میں خلیق انجم صاحب نے نشان دہی کی ہے کہ ملّا صاحب سے پہلے چکبستؔ ایسے شاعر تھے جن کی شاعری میں ہندوستان کی سیاسی اور سماجی زندگی کی عکاسی ملتی ہے۔ میں اس قول میں یہ اضافہ کرنے کی جسارت کروں گا کہ نظم گوئی کا یہ رجحان جس کی طرف خلیق انجم صاحب نے اشارہ کیا ہے، چکبستؔ کے علاوہ ان کے دوسرے لکھنوی معاصرین میں بھی ملتا ہے چناں چہ اس وقت بھی صفیؔ کے کلام میں نظموں کے اشعار کی تعداد غزلوں کے اشعار کی تعداد سے زیادہ ہے اور لخت جگر میں شامل چوبیس نظموں کے علاوہ جو شیعہ پولٹیکل کانفرنس کے اجلاسوں میں پڑھی گئیں ان کی دوسری نظمیں آغوشِ مادر، محبت، چراغ دیر، عقد پروین، بسنت مالتی، ہفت خواں اردو، آہنگ حجازی، وغیرہ بھی موجود ہیں جو مختلف اصنافِ سخن میں کہی گئیں۔ یہی کچھ حال عزیزؔ لکھنوی کی شاعری کا بھی ہے جس میں مختلف عنوانات کے تحت خوب صورت نظمیں ملتی ہیں۔ ان کے علاوہ دائرہ ادب (جس کا ذکر آئندہ کیا جائے گا) کی نشستوں کے لیے بھی مختلف شعرا نے متعدد نظمیں کہیں۔

گذشتہ صفحات میں لکھا جا چکا ہے کہ اصلاح زبان اور مروجہ شعری ذوق کو سدھارنے میں صفی کا بڑا حصہ ہے اور اسی کام کے لیے انھوں نے ۱۳۱۲ھ ؍ ۱۸۹۰ء میں دائرۂ ادبیہ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس کے تحت مشاعرہ، مناظمہ، مناثرہ کی ماہانہ نشستیں ہوتی رہتی تھیں۔ مشاعروں میں مصرعِ طرح کے بجائے قافیہ، ردیف اور بحر کا نام دے دیا جاتا تھا اور نظم و نثر کی نشستوں کے لیے مضمون کا عنوان دیا جاتا تھا۔ رفتہ رفتہ اس اصلاحی تحریک میں دوسرے لوگ مثلاً آغا بابر، نوبت رائے نظر، منے مرزا شر رؔ ، مرزا ہادی عزیزؔ ، کاظم حسین محشر، حکیم ناطقؔ ، مرزا رسواؔ منشی سجاد حسین وغیرہ بھی شامل ہو گئے اور اس کی نشستوں میں مرزا ثاقب فریدون مرزا مجروحؔ ننھو صاحب شفیقؔ ڈاکٹر متین قزلباش وغیرہ بھی شریک ہونے لگے اور اس نے لکھنو کی پہلی ادبی انجمن، انجمنِ معیار الادب کی شکل اختیار کر لی جس کا نقیب رسالہ ’’معیار‘‘ تھا جس کی ادارت کی ذمہ داری عزیز ؔ لکھنوی کو سونپی گئی۔ یہ دور ملّا صاحب کے بچین کا دور تھا اور لکھنو کی کیفیت یہ تھی کہ یہاں کا بچہ بچہ شعر کہہ رہا تھا۔ متذکرہ بالا اساتذہ کے علاوہ بیسوں دوسرے شاعر اور اہل قلم اس ادبی انجمن کے جلسوں اور مشاعروں میں دیکھے جاتے تھے جن میں ذاخرؔ لکھنوی، رازؔ لکھنوی، عالمؔ لکھنوی کو استادانہ وقار حاصل تھا اور آخر الذکر فنِ تاریخ گوئی میں یگانۂ عصر سمجھے جاتے تھے۔ انجمن کی شعری نشستوں میں آداب کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔ ہر شاعر اپنے مرتبے کے مطابق نشست میں اپنا مقام خود متعین کر لیتا تھا۔ مصرعوں کو اٹھانا تہذیب مشاعرہ میں داخل تھا اور بسا اوقات یہ بھی ہوتا تھا کہ اگر کسی نو مشق سے کوئی غلطی ہو جاتی تھی تو مصرعہ اٹھانے ہی کے دوران کوئی نہ کوئی استاد شعر یا مصرعے کو درست کر دیا کرتا تھا۔

انجمن معیار الادب جلد ہی نا اتفاقیوں کے نذر ہو گئی جس کا خاص سبب عزیزؔ لکھنوی کا صفیؔ لکھنوی سے منحرف ہو جانا تھا۔ معیار الادب کے خاتمے سے بھی لکھنو کی ادبی فضا پر کوئی اثر نہ پڑا۔ معیار الادب میں اصلاحِ زبان و بیان کی طرف جو قدم اٹھایا گیا تھا وہ بار آوار ہو چکا تھا۔ معیار الادب کے خاتمے کے بعد ایک دوسری اہم انجمن معین الادب ظہور میں آئی جس میں انجمن معیار الادب کے سینئیر ممبروں کے علاوہ انھیں اساتذہ کے ابھرتے ہوئے شاگردوں نے بھی اہم حصہ لینا شروع کیا۔ سر تیج بہادر سپرو اس انئی انجمن کے سر پرست تھے، مولانا صفیؔ صدر اور بہارؔ لکھنوی سکریٹری اور اس کے نوجوان ممبروں میں حکیم آشفتہؔ ، آل رضا ایڈوکیٹ، قدیرؔ لکھنوی، سراجؔ لکھنوی، منظرؔ لکھنوی، تپشؔ لکھنوی، بدر الحسن، بدرؔ فعال ہستیاں تھیں۔ آخر میں ان حضرات سے نوجوان تر حضرات مثلاً عمر انصاری، سالکؔ لکھنوی، ارمؔ لکھنوی وغیرہ بھی معین الادب کی نشستوں میں شرکت کرنے لگے اور انجمن کے باقاعدہ ممبر بنا لیے گئے۔ یہ مشاعرے تمام تر طرحی مشاعرے ہوتے تھے جنمیں لکھنو کے شاعروں کے علاوہ باہر کے اساتذہ بھی شرکت کرتے تھے۔ ایسی نشستوں میں عموماً سات یا نو قافیے متعین کر دیے جاتے تھے۔ جن میں غزلیں کہی جاتی تھیں۔ مطلع کے لیے علاحدہ قافیہ مخصوص ہوتا تھا۔ معیار الادب کے برخلاف معین الادب کی طرف سے مشاعروں کے گلدستہ شائع نہ ہو سکے۔ معین الادب کے نئے شرکا یعنی حکیم آشفتہؔ ، منظرؔ ، قدیرؔ ، سراجؔ ، شمسؔ وغیرہ نے جلد ہی معراج الادب کے اندر اپنا ایک گروہ قائم کر لیا جو ’’ینگ پارٹی‘‘ کے نام سے موسوم ہوا۔ یہ حضرات مشاعروں میں ایک ساتھ ہی بیٹھے تھے اور مشاعروں پر چھا جانے کی کوشش کرتے تھے کچھ ہی زمانے کے بعد یہ ’’ینگ پارٹی‘‘ کسی شکایت کی بنا پر معین الادب سے علاحدہ ہو گئی اور انھوں نے انجمنِ معراج الادب قائم کر لی لیکن علاحدہ ہونے کے بعد بھی دونوں گروپوں میں تعلقات خوشگوار رہے۔ بہار صاحب کے بعد معین الادب اور معراج الادب کے پھر متحد کرنے کی کوشش کی گئی جس کے نتیجے میں ایک نئی انجمن ’’بہار ادب‘‘ وجود میں آئی لیکن معین الادب کے بعض ممبروں مثلاً عزیز لکھنوی، آفتاب لکھنوی، ذاکر لکھنوی، حکیم مجن صاحب ادیبؔ وغیرہ کو یہ سمجھوتہ پسند نہ آیا اور انھوں نے انجمن معین الادب کو زندہ رکھنے کا فیصلہ کیا اور انجمن کو فعال رکھنے کے لیے سید نواب افسرؔ اور عمرؔ انصاری کی خدمات حاصل کی گئیں۔ چنانچہ ایک بڑے مشاعرے کا اہتمام کیا گیا اور ایک رسالہ ’’معیار‘‘ جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس کی ذمہ داری سید نواب افسرؔ ، عمر انصاری اور فضل نقوی کے سپرد ہوئی۔ بہرحال کچھ عرصے کے بعد اس باقی ماندہ معین الادب کے ممبران بھی بہار ادب میں شریک ہو گئے جس کے بعد پنڈت آنند نرائن ملّا کو اس کا جنرل سکریٹری بنایا گیا اور عمرؔ انصاری اور قدیرؔ لکھنوی اس کے سکریٹری ہوئے اور صفیؔ صاحب بدستور صدرِ انجمن رہے اور جہاں تک ذہن کام کرتا ہے سید نواب افسرؔ صاحب شعرائے لکھنو میں اپنا مقام بنا چکے تھے اور بہار ادب کے فعال ترین ممبروں میں تھے اور انجمن کے ایک سال وہ سکریٹری ہوئے تھے اور دوسرے سال سید آل رضا صاحب رضاؔ اور جب بھی سکریٹری بدلتا تھا انجمن کی کوئی نہ کوئی تقریب منعقد ہوتی تھی۔ چنانچہ اسی زمانہ کی یادگار وہ مشاعرے ہیں جن میں ایک محفل شعر و نغمہ کے نام سے موسوم ہوا اور دوسرا دریائی مشاعرہ۔ محفلِ شعر و نغمہ کا انعقاد قیصر باغ کی سفید بارہ دری میں آل رضا صاحب کی سکریٹری شب کے دوران ہوا اور ہندوستان بھر کے مشہور شاعر اور اساتذہ کو دعوتِ سخن دی گئی۔ ایک رات بارہ دری میں عظیم الشان مشاعرہ ہوا جو ادبی حیثیت سے اپنا جواب نہ رکھتا تھا اور دوسری رات محفل نغمہ منعقد ہوئی جس میں پہلی رات کی معرکۃ الآرا غزلوں کو معروف گانے والیوں نے نغمے کی شکل میں پیش کیا۔ دریائی مشاعرہ ۱۹۳۲ء یا ۱۹۲۳ء میں ملّا صاحب کی سکریٹری شپ کے دوران منعقد ہوا۔ گرمی کا موسم تھا۔ گومتی کی پانی کی سطح پر پل بنانے والے پیپوں پر مشاعرے کا پنڈال بنایا گیا اور مشاعرہ گاہ کو موٹے رسوں سے کنارے پر میخوں سے باندھا گیا۔ موسم کی رعایت سے اہل محفل کی ضیافت بالائی برف کے آبخوروں سے کی گئی تھی۔ مشاعرہ گاہ کے بھرتے ہی رسے کھول دیے گئے اور مشاعرے کا پنڈال گومتی کی سطح پر نظر آنے لگا۔ لکھنو کے شعراء میں آل رضا، حکیم آشفتہؔ ، سراجؔ لکھنوی، قدیرؔ لکھنوی، منظر لکھنوی، عمرؔ انصاری، احسن طباطبائی، منے آغا ذکیؔ ، ارمؔ لکھنوی، تپشؔ لکھنوی، ہزارؔ لکھنوی، بدرؔ لکھنوی، عرشیؔ لکھنوی وغیرہ نے اپنی کامیاب غزلوں سے مشاعرے کو ایک عظیم الشان ادبی اجتماع بنا دیا تھا۔ اس مشاعرے کا طرحی مصرعہ تھا ع

دریا کی روانی ہے، بہتا ہوا پانی ہے

بہار ادب کے مشاعرے لکھنو کے اہم شعرا اور روسا کے مکانوں پر منعقد ہوا کرتے تھے اور صرف اہل ادب تک محدود رہتے تھے لیکن متذکرہ دونوں مشاعروں نے خواص کے علاوہ عوام کو بھی ان میں شرکت کا موقع دیا تھا اور اس لحاظ سے ہندوستان میں بھی عوامی مشاعروں کی ابتدا قرار دیا جا سکتا ہے۔ بہار ادب کے بعد فردوس ادب نے لکھنوی شعری روایت کو برقرار رکھا اور اس انجمن کے وہ اشعار یقیناً یادگار ہیں جو یومِ ناسخؔ ، یومِ آتشؔ ، یومِ خواجہ وزیرؔ ، یومِ چکبستؔ اور یومِ آسیؔ کے نام سے موسوم مشاعروں میں پڑھے گئے لیکن بہار ادب کا اصل کارنامے وہ نعتیہ مشاعرے ہیں جو گیارہویں اور بار ہوئیں ربیع الاوّل کے درمیانی شب کو امین آباد پارک میں منعقد ہوا کرتے تھے اور جن کے تتبع میں ہندوستان بھرمیں نعتیہ مشاعروں کا رواج ہوا۔ خصوصی ادبی نشستوں کو عوامی مشاعرہ بنانے میں فردوسِ ادب کے ان نعتیہ مشاعروں کو بھی بڑا دخل ہے۔

تقسیم ہند سے پہلے لکھنؤ کے گلی کوچے شعر و نغمے سے گونج رہے تھے۔ خواہ ہندو، خواہ مسلمان، ہر ایک کی زبان اردو تھی اور متذکرہ معروف انجمنوں کے علاوہ ہر پڑھے لکھے انسان کا مکان (خواہ وہ مولانا سبط حسن صاحب یا مفتی عنایت اللہ صاحب کے ایسے عالمانِ دین ہی کا کیوں نہ ہوں ) ہر گلی اور سڑک کا چائے خانہ اور ہر اسکول اور کالج ادبی مرکز بن چکا تھا۔ چناں چہ اس عہد کے امیر الدولہ اسلامیہ انٹر کالج، گورنمنٹ جوبلی انٹر کالج شیعہ انٹر کالج اور لکھنؤ یونیورسٹی ایسے ایسے مشاعرے ہو گئے جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا اس لیے کہ یہ مشاعرے آج کل کے عوامی مشاعروں کی طرح Cultural get togetherنہیں ہوا کرتے تھے بلکہ خالص ادبی محفلیں ہوتی تھیں جن میں شعرا مخصوص مصرع ہائے طرح میں کلام پیش کرتے تھے۔ چناں چہ ۱۹۴۲ء یا ۱۹۴۳ء میں جوبلی کالج میں ایک مشاعرہ ہوا جس میں محضرؔ لکھنوی کی اس طرحی مطلع نے محفل لوٹ لی: ع

مے زیست ساقی نے دی اور سوا دی

مگر اک ذرا تلخیِ غم ملا دی

اسی طرح ۱۹۴۰ء میں شیعہ کالج میں منعقد ہونے والا طرحی مشاعرہ جہاں تک یاد پڑتا ہے (جس میں ساغرؔ نظامی، سیماب اکبر آبادی نے بھی شرکت کی تھی ) میں بیخودؔ موہانی کی درج ذیل مطلع سے شروع ہونے والی غزل حاصلِ مشاعرہ قرار پائی: ع

ارم میں بھی مگر گل کی پریشانی نہیں جاتی

کہیں اہلِ جنوں کی چاک دامانی نہیں جاتی

اسی طرح اسلامیہ کالج کے مشاعرے اپنی ہمہ گیری کی وجہ سے تمام ہندوستان میں مشہور تھے جن میں شرکت کو ہر بڑا شاعر اپنے لیے باعثِ فخر سمجھتا تھا اور اس وقت کے ہندوستان گیر شہرت کے تمام شاعر بشمول سیمابؔ ا کبر آبادی، حفیظؔ جالندھری، جگرؔ مرادآبادی، روشؔ صدیقی، احسانؔ دانشؔ شریک ہوا کرتے تھے۔ مخصوص نشستوں میں وکٹوریہ اسٹریٹ (موجودہ تلسی داس مارگ) پر حکیم آشفتہؔ صاحب کا مطب، چوک میں خواجہ عبد الرؤف عشرتؔ صاحب کی کتابوں کی دکان اور بعد کو امین آباد میں عمر انصاری کا مکان ادبی مراکز بنے ہوئے تھے۔ آشفتہؔ صاحب کے دوا خانے کیمیائے اودھ کے سامنے فٹ پاتھ پر پانی چھڑک کر کرسیاں ڈال دی جاتی تھیں اور وہاں اس عہد کے تمام سربرآوردہ شاعر مثلاً سراجؔ لکھنوی، شمس لکھنوی، قدیرؔ لکھنوی، آل رضا رضاؔ ، ارمؔ لکھنوی اور ملّا صاحب اکثر و بیشتر نظر آتے تھے۔ منظرؔ لکھنوی آشفتہؔ صاحب کے اس دوا خانے کا حساب کتاب دیکھتے تھے اور روز ہی ان محفلوں میں شریک رہتے تھے۔ ان نشستوں میں مشاعروں پر تبصروں کے علاوہ علمی اور شعری مسائل پر گفتگو رہتی تھی۔ حکیم صاحب کے حیدر آباد چلے جانے کے بعد وہ علاقہ ایسے نشستوں سے کچھ عرصے محروم رہا لیکن بعد کو کاظم حسین صاحب نے ایک چائے خانہ کھول دیا جو دوا خانہ کیمیائے اودھ کے تقریباً سامنے تھا اور اب اس قسم کی نشستیں اس چائے خانے کے سامنے فٹ پاتھ پر منعقد ہونے لگیں جہاں سراجؔ ، منظرؔ، نہالؔ ، سالکؔ اور ان کے شاگردوں کا جمگھٹا لگا رہتا تھا۔ خواجہ عشرتؔ کی کتابوں کی دکان زبان کی نزاکتوں پر بحث کا مرکز تھی۔ ابھی وہ زمانہ باقی تھا جب چوک کی طوائفیں تہذیب کی پتلیاں سمجھی جاتی تھیں جہاں آدابِ محفل سیکھنے کے لیے روسا اپنے بچوں کو بھیجا کرتے تھے۔ ان طوائفوں کا ادبی مذاق بے حد ستھرا ہوا کرتا تھا۔ چناں چہ ایک واقعہ ہے کہ عشرتؔ صاحب کی دکان پر ادیبوں میں کسی لفظ کی تذکیر و تانیث پر بحث ہو رہی تھی۔ فیصلہ یہ ٹھہرا کہ چودھرائن، جن کا کوٹھا عشرتؔ صاحب کی دکان کے سامنے تھا، ان کی رائے معلوم کی جائے۔ مسئلہ چودھرائن کے سامنے پیش ہوا جنھوں نے کسی معتبر استاد کا ایک شعر سند میں پید کر دیا اور فیصلہ ہو گیا۔

لکھنؤ میں فکاہی ادب بھی سنجیدہ ادب کی دوش بدوش ترقی کر رہا تھا۔ ظریفؔ لکھنوی کا ذکر کیا جا چکا تھا۔ ظریفانہ شاعری کے علاوہ انھوں نے تفریح الاحباب کلب بھی کھولا تھا جس میں علمی مباحثے ہوتے تھے۔ ظریف کے جونیر معاصرین میں ماچس لکھنوی اور منور آغا مجنوں بلند پایہ ہازل تھے۔ چناں چہ ماچس کا مندرجہ ذیل شعر کا ذکر مولا عبد الماجد صاحب کے اخبار صدق تک میں آ گیا: ؎

شیخ آئے جو محفل میں تو اعمال ندارد

جس مال کے تاجر تھے وہی مال ندارد

اسی ہزل کا دوسرا ایک شعر یہ ہے ؎

ماں باپ بہن بھائی سب آئے ہیں مرے گھر

اب گھر مری سسرال ہے سسرالی ندارد

منور آغا مجنوں کے اشعار بھی بلند پایہ ہوا کرتے تھے مثلاً ؎

ڈرے وہ کیا بلائے ناگہاں سے

جسے ہو سابقہ ننھے کی ماں سے

 

نہیں ڈرتا ہے مجنوں کوئی کہہ دے

فلاں بنتِ فلاں بنتِ فلاں سے

ماچس صاحب نے اپنی زندگی کے آخری برسوں میں انجمن ظریف الادب قائم کی تھی جس کی باقاعدہ نشستیں ہوا کرتی تھیں چناں چہ ایسی ہی ایک نشست میں ناوکؔ لکھنوی نے یہ شعر بھی پڑھا تھا جس سے اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ لکھنؤ میں کس حد تک زبان پر توجہ دی جاتی تھی،

بیٹھے ہوئے ہیں لوگ کندیں لیے ہوئے

پھسلی ذرا زبان کہ اہلِ زباں پھنسے

لکھنوی فکاہی ادب کا ذکر آفتابؔ لکھنوی اور ناظر حیاتی کے بغیر نا مکمل رہے گا۔ ان دونوں حضرات نے لکھنوی زبان اور لطیف ظرافت کو ہندوستان کے طول و عرض میں پھیلا دیا۔

۱۹۴۷ء کے بعد اردو مقہور ہو گئی۔ اسکولوں، کالجوں سے بیک جنبشِ قلم اسے ختم کر دیا گیا۔ اس وقت ان مجاہدین میں جنھوں نے اردو کے لیے زبان و قلم استعمال کیا، فراقؔ گورکھپوری کے ساتھ آنند نرائن ملا بھی شامل تھے۔ اس دور میں اردو کی جڑ پر کلہاڑی چل چکی تھی لیکن شاخیں ہنوز تر و تازہ تھیں۔ بہار ادب ختم ہو چکی تھی لیکن فردوسِ ادب زندہ تھی مگر اس کی محفلیں صرف نعت گوئی تک محدود تھیں۔ بہارِ ادب کے خلا کو ایک نئی انجمن بزم شعرا نے پر کیا جس کی تشکیل میں حبیب احمد صاحب صدیقی آئی۔ اے۔ ایس، سید صدیقی حسن صاحب آئی۔ سی۔ ایس، جعفر علی خاں اثر، سروش طبا طبائی وغیرہ نے اہم حصہ لیا۔ ملّا صاحب کا بھی اس انجمن کو پورا تعاون حاصل تھا۔ انجمن میں کوئی عہدہ نہیں تھا صرف ایک کنوینر ہوا کرتا تھا جو مختلف صاحبِ ذوق حضرات کے مکانوں پر نشستوں کا اہتمام کرتا تھا۔ ابتدا میں امین سلونوی صاحب اس فرض کو انجام دیتے تھے لیکن بعد میں عمرؔ انصاری کنوینر ہو گئے۔ بزم شعرا کی نشستیں بھی طرحی نشستیں ہوتی تھیں جن کے لیے عموماً دو مصرعے بطور طرح دیے جاتے تھے۔ مشاعرے دن کو دو بجے شروع ہوتے تھے اور وقت کی پابندی کا خاص لحاظ رکھا جاتا تھا اور محفل میں ابتدا سے لے کر آخر تک بیٹھنا بھی آداب میں شامل تھا۔ لکھنؤ کا بڑے سے بڑا آدمی خواہ وہ منسٹر ہو یا اعلیٰ افسر یا ڈاکٹر یا رئیس بزم شعرا کا اہتمام کرنا اپنے لیے باعثِ فخر سمجھتا تھا۔ بزم شعرا کی کچھ نشستیں وزیرِ اعلیٰ سمپورنانند کی قیام گاہ پر بھی منعقد ہوئیں جس میں حافظ ابراہیم بھی شرکت فرماتے رہے۔ شرکائے بزم میں صرف انھیں شاعروں کو کلام پیش کرنے کی اجازت ہوتی تھی جنھیں اصلاح کی ضرورت نہ ہوتی تھی۔ یہ نشستیں چلتی رہیں لیکن ان میں جو شاعر کم ہوتا گیا اس کی جگہ پر نہ ہو سکی۔ صدیق صاحب کا انتقال ہو گیا، حبیب احمد صاحب پاکستان چلے گئے، سنہا صاحب کا لکھنؤ سے تبادلہ ہو گیا، ملّا صاحب مستقلاً دہلی چلے گئے۔ اردو کی تعلیم ختم ہونے کے سبب ان حضرات نے جو جگہیں خالی کی تھیں وہ پر نہ ہو سکیں لیکن پھر بھی غلام حسین صاحب آئی۔ اے۔ ایس، ذوالنورین صاحب آئی۔ اے۔ ایس، اتھر حسین صاحب آئی۔ اے۔ ایس، سبطین صاحب آئی۔ ایف۔ ایس، جسٹس مرتضیٰ حسین کے دروازے بزم شعرا کی نشستوں کے لیے کھلے رہتے تھے۔ اس دور میں کنوینر تو عمر انصاری ہی رہے لیکن راقم الحروف اور ڈاکٹر کیسری کشور مرحوم ان نشستوں کے اہتمام میں پیش پیش رہتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اردو کی سرکاری سطح کے خاتمے کے اثرات شعراء اور سامعین کی کمی کی شکل میں نظر آنے لگے اور لکھنؤ کی ہر انجمن کی طرح بزم شعرا کی نشستیں بھی پھیکی پڑنے لگیں۔ بہر حال اردو میں دل چسپی قائم رکھنے اور بزم شعرا کی نشستیں برقرار رکھنے کے لیے اصولوں میں نرمی برتنے کی پالیسی اختیار کی گئی جس کے نتیجہ میں طرحی نشستوں کے بجائے غیر طرحی نشستیں منعقد ہونا شروع ہوئیں جن میں کہنہ مشقوں کے علاوہ نوواردانِ ادب کو بھی شرکت کی اجازت دی جانے لگی۔ بزم شعرا کے ساتھ ساتھ ایک دوسری انجمن ادارۂ شعر و ادب بھی مغربی لکھنؤ میں فعال تھی۔ ابتداً اثر لکھنوی اس کی سرپرستی فرماتے تھے اور رہبرؔ لکھنوی اس کے اصل کار کرتا تھے لیکن ان دونوں کے انتقال کے بعد پر بھان شنکر سروش انادی اس کے سرپرست بنے اور ان کے انتقال کے بعد ’’قرعہ فال بنامِ من دیوانہ زدند‘‘ کے مصداق اب مجھے اور پروفیسر شبیہ الحسن نوبزوی کو اس کا سرپرست بنایا گیا ہے۔ حکیم شاربؔ لکھنوی اس کے صدر ہیں اور ڈاکٹر مصطفیٰ فطرتؔ اس کے سکریٹری۔ اردو دانوں کی تعداد گھٹنے کی وجہ سے انجمن کا حال بھی بزم شعرا ہی کا ایسا ہے اور اس میں بھی طرحی نشستوں کی جگہ غیر طرحی نشستوں نے لے لی ہے۔

خدا ملّا صاحب کو اور طول زندگانی عطا فرمائے، ان کا عہد ایک طویل عہد ہے جس میں صفیؔ لکھنوی سے لے کر آج کا نوجوان شاعر بھی ملّا صاحب کا معاصر ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے۔ ملا صاحب کے سینئر معاصرین کا ذکر کیا جا چکا۔ ان کے ہم عمر معاصرین میں وہی لوگ ہیں جو انجمن معین الادب میں ’’ینگ پارٹی‘‘ کے ممبر تھے۔ ان تمام حضرات نے بشمول ملا صاحب اپنے بزرگ معاصرین کی اصلاحات اور رجحانات سے فائدہ اٹھایا اور ان کی قائم کردہ غزل کی تندرست روایات کو برقرار رکھا۔ ان لوگوں کے کلام میں صفیؔ کی متانت، عزیزؔ کی علوِ فکر، یگانہؔ کا تیکھا پن، بیخودؔ کا سوز وگداز اور حسین طرزِ ادا اور آزادؔ کی زبان کی شیرینی اور لطافت بیک وقت پائی جاتی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ داخلی کیفیات اور جذبات کی ترجمانی اور خالص غزل کی لطافت بھی ان شعرا کا طرّہ امتیاز ہے اور اس معنی میں وہ ہندوستان کے دوسرے مشہور غزل گویوں سے کسی طرح کم نہیں اور جہاں تک زبان کا تعلق ہے ان سے بڑھ کر ہیں۔ جہاں تک نظم کا تعلق ہے خود ملا صاحب نے اس صنف کو وقار بخشا اور خوبصورتی کے ساتھ بخشا لیکن لکھنو اسکول ہی سے متعلق عزیزؔ لکھنوی کے شاگرد جوشؔ ملیح آبادی (۱۸۹۰ء تا ۱۹۸۲ء) نے اتنی شاندار نظمیں کہیں کہ انھیں نہ صرف اردو زبان کا بلکہ بر صغیر کا دوسرا سب سے بڑا شاعر کہا جا سکتا ہے۔ جوشؔ کے علاوہ مجاز رودولوی (متوفی ۱۹۰۰ء) جن کی تمام عمر لکھنو میں گزری اور یہیں سپردِ خاک ہوئے، ملا صاحب کے دوسرے معاصر نظم گو ہیں جن کی نظموں نے انھیں بھی جوشؔ کی طرح زندگانی دوام عطا کر دی۔ ان دونوں عظیم نظم گویوں کے کامیاب نظم گو بننے میں بہت کچھ دخل ان کی زبان کا ہے جو لکھنؤ کی دین ہے۔ اس دور کے تقریباً تمام اہم شعرا وہ حضرات ہیں جو اپنے سے بزرگ تر شاعروں کے شاگرد اور ان سے فیض اٹھانے والے ہیں۔ چناں چہ اثرؔ ، حکیم آشفتہؔ ، جوش سب عزیز کے شاگرد ہیں اور ان سے جونیروں میں عمر انصاری بھی گلستانِ عزیز ہی کے ایک پھول ہیں۔ اگر چہ ملا صاحب خود کسی کے شاگرد ہونے کا ذکر نہیں کرتے لیکن ان کے ایک قریبی معاصر کے بقول وہ بھی کبھی کبھی صفیؔ صاحب سے مشورہ کیا کرتے تھے (خدا جانے اس میں کتنی حقیقت ہے )۔ اس دور کے یعنی ملّا صاحب کے ہم عمر معاصرین کے چند اشعار بطور نمونہ پیش کیے جا رہے ہیں : ؎

مرزا جعفر علی خاں اثرؔ لکھنوی انور حسین آرزو کے علاوہ لکھنو کے سب سے بڑے زبان داں اور استاد تھے۔ا علا عہدوں پر متمکن رہے اور نہایت قابل احترام شخصیت کے مالک تھے۔ اثرؔ کی غزلوں کے علاوہ ان کے منظوم ترجمے بھی اردو زبان و ادب کا قیمتی اثاثہ بن گئے۔ ان کے چند شعر پیش ہیں۔ اثر ستان، بہاراں اور نو بہاراں تین مجموعۂ کلام شائع ہو چکے ہیں۔

عدم سے دارِ فانی میں دل مشکل پسند آیا

مسافر کو خیالِ دوریِ منزل پسند آیا

 

جہاں معمور ہے جلوؤں سے لیکن کیا تماشا ہے

نگاہِ ذوق پیما کو دلِ بسمل پسند آیا

 

منشا نہیں کچھ اور پریشاں نظری کا

آئینہ ہے مشتاق تیری جلوہ گری کا

 

چشم مخمور! سچ بتا دل کو

تو نے توڑا کہ آپ ٹوٹا ہے

 

اک آن میں با رونق اک آن میں ویرانہ

آئینہ ہستی ہے میرا دل دیوانہ

 

جھنکار ہے شیشوں کی یا ٹوٹے ہوئے دل ہیں

لوٹے لیے جاتے ہو تم رونقِ میخانہ

 

حکیم سید علی آشفتہؔ خاندان اجتہاد کے فرد، خاندان فرنگی محل کے عزیز ترین دوست، راقم الحروف کی چچاؤں کے محترم دوست اور خود راقم کے انتہائی مشفق بزرگ، لکھنوی تہذیب کی جیتی جاگتی تصویر، حکیم حاذق تھے۔ لکھنؤ میں حالات خراب ہونے کے بعد حیدر آباد چلے گئے تھے اور نظامیہ طبیہ کالج میں پروفیسر ہو گئے تھے۔ افسوس ہے کہ انتہائی قرب کے باوجود آشفتہؔ صاحب کے زیادہ اشعار نہ جمع کر سکا۔ چند اشعار بطور نمونہ پیش ہیں : ؎

بھرم کھودیا ورنہ موسیٰ سے زائد

ہم اپنے میں تاب نظر دیکھتے

 

اللہ ری کوہکن تری بیدار مغزیاں

وحشت میں بھی خیال رسوم و قیود تھا

 

آتی ہے درس گاہِ محبت سے یہ صدا

موج جہاں میں صرف وفا بے وجود تھا

 

لو انھیں شاخوں میں جھولے جھولتی ہیں بجلیاں

جو مجھے سونپی گئی تھیں آشیا نے کے لیے

 

طور و موسیٰ سے عیاں نیرنگِ جذب حسن ہے

ایک تو بیخود ہوا اور اک سراپا جل گیا

 

جعفر حسین منظرؔ لکھنوی انتہائی شریف النفس، نرم گفتار اور کہنہ مشق شاعر تھے۔ ان کا تعلق بھی اسی ’’ینگ پارٹی‘‘ سے تھا جس کا ذکر ہو چکا ہے۔ ان کے مجموعۂ کلام منظر ستاں کے چند منتخب اشعار پیش ہیں۔ خالص تغزل دیکھیے : ؎

خونِ دل ہوتا ہے جل جل کے رگوں میں پانی

جب کہیں آنکھ کو اک اشک بہم ہوتا ہے

 

آئے ہیں میت پہ تو شوخی سے یہ کہتے ہوئے

مرگیا بیمار اور یہ چارہ گر دیکھا کیے

 

کس کا کوچہ ہے، آ گیا ہوں کہاں

یاں تو کچھ نیند آئی جاتی ہے

 

بیخود ایسا کیا خوف شبِ تنہائی نے

صبح سے شمع جلادی ترے سو دائی نے

 

حسب منشا دلِ پر شوق کی باتوں کا جواب

دے دیا شرم میں ڈوبی ہوئی انگڑائی نے

 

امۃ الفاطمہ مخفی ؔ لکھنوی (۱۹۰۲ء تا ۱۹۵۳ء) پردہ نشیں خاتون تھیں۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت کر گئیں۔ پختہ کلام شاعرہ تھیں۔ نمونۂ کلام پیش ہے۔ مجموعۂ کلام شائع ہو چکا ہے۔

وسعتِ دل ارے معاذ اللہ

ساری دنیا سمائی جاتی ہے

 

پردہ ہے اک بقا کا، راز فنا نہ پوچھو

مر کر بھی ساتھ ہم سے چھوٹا نہ زندگی کا

 

خدا کے بھروسے پہ چھوڑی ہے کشتی

نہ گرداب دیکھا، نہ طوفاں دیکھا

 

وہ چھپنا ترا پردۂ رنگ و بو میں

وہ ہر رنگ میں میرا پہچان جانا

 

وفا ابتدا ہے وفا انتہا ہے

خلاصہ ہے بس یہ مری داستاں کا

 

حکیم دانشؔ اثر ؔ لکھنوی کے خاص ملنے والے تھے اور انھیں کے یہاں نشست رہتی تھی۔ بہت غربت میں زندگی بسر کی لیکن وضعداری میں فرق نہ آنے دیا۔ آخر عمر میں نا بینا ہو گئے تھے۔ اسی عہد کا یہ شعر ہے جس نے مشاعرہ لوٹ لیا تھا:

دیکھ سکتا ہوں نہ ساقی کو نہ میخانے کو

آخری دور ہے، بھر دے کوئی پیمانے کو

دانشؔ کے چند شعر اور پیش ہیں : ؎

پیش نظر تھی تفرقہ پردازیِ فلک

تم کو کبھی گلے بھی لگایا تو آہ کی

 

دکھوں میں ترا جلوہ کس جا نظر آتا ہے

آنکھ اٹھتی ہے جس جانب پردا نظر آتا ہے

 

میخانے کا دروازہ کیوں بند ہوا اے واعظ

ہر وقت در تو بہ جب وا نظر آتا ہے

 

سراج الحسن سراجؔ ملا صاحب کے تقریباً ہم عمر اور عزیز دوست اور مداح۔ متذکرہ ’’ینگ پارٹی‘‘ کے ایک اہم کارکن۔ مجموعۂ کلام ’’شعلۂ آواز‘‘ کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے۔ چند اشعار نمونتاً پیش ہیں : ؎

اک مسلسل خوابِ بیداری میں کٹ جاتی ہے رات

نیند آئے یا نہ آئے سو رہا کرتے ہیں ہم

 

نذر غم شاید ہر اشک خونچکاں کرنا پڑے

کیا خبر کتنی بہاروں کو خزاں کرنا پڑے

 

دیا ہے درد تو رنگِ قبول دے ایسا

جو اشک آنکھ سے ٹپکے وہ داستاں ہو جائے

 

یہ آدھی رات، یہ کافر اندھیرا

نہ سوتا ہوں نہ جاگا جا رہا ہے

 

نہ پی سکو تو ادھر آؤ، پوچھ دوں آنسو

یہ تم نے سن لئے اس دل کے سانحات کہاں

 

ابوالفضل شمسؔ لکھنوی سراجؔ و آشفتہؔ کے ساتھیوں میں تھے۔ مرتبۂ استادی پر فائز تھے۔ لائق شاگردوں کی جماعت اب بھی موجود ہے جو ایک ادبی انجمن بزم شمس چلا رہے ہیں۔ شمسؔ صاحب کے شاگردِ رشید اسلم لکھنوی خود بھی استادوں میں شمار ہوتے تھے۔ چند شعر نمونتاً پیش ہیں : ؎

اٹھے جو لطف دید تو باہم و گر اٹھے

ان کی نظر کے ساتھ ہماری نظر اٹھے

 

طے کی ہیں گرد راہ کی صورت مسافتیں

بیٹھے ہیں اٹھ کے ہم تو کبھی بیٹھ کر اٹھے

 

یہ دور چاہتا ہے ابھی اور انقلاب

حشر آج اٹھے چاہے کل اٹھے، مگر اٹھے

 

سید آل رضا رضاؔ انجمن بہارِ ادب کے خاص رکن۔ اس انجمن کے سکریٹری ایک سال ملّا صاحب دوسرے سال آل رضا صاحب ہوتے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد ترکِ وطن کر گئے۔ منظرؔ صاحب کے ساتھ دوسرے خالص زبان کے شعر کہنے والے تھے۔ رنگِ تغزل ملاحظہ ہو:

دل کا سودا ہمیں نہ راس آیا

جی نہ بہلا کسی بہانے سے

 

دل تجھ کو دُکھاتا ہے ابھی اور زیادہ

اللہ کرے تیری خوشی اور زیادہ

 

دیکھی ہے بہت راہ، بہت دی ہیں صدائیں

اب عالم تکمیل ہے کہہ دو کہ نہ آئیں

 

اک شمع ہے منجملۂ اسبابِ شبِ غم

اے مصلحت وقت جلائیں کہ بجھائیں

 

جو شؔ ملیح آبادی ملّا صاحب کے تقریباً ہم عمر معاصرین کا ذکر بغیر ذکرِ جوشؔ ملیح آبادی کے نا مکمل ہو گا۔ بحیثیت نظم گو جوشؔ کا اردو ادب میں جو مرتبہ ہے وہ اظہر من الشمس ہے لیکن ان کی غزلوں کے بھی چند شعر ملاحظہ ہوں : ؎

سمجھتے ہیں مآل گل مگر جبر قدرت ہے

سو ہوتے ہی غنچوں کو تبسم آ ہی جاتا ہے

 

ہوائیں زور کتنا ہی لگائیں آندھیاں بن کر

مگر جو گھر کے آتا ہے وہ بادل چھا ہی جاتا ہے

 

جو ہو سکے گا تو روک دوں گا عذاب روزِ حساب تیرا

پر ہوں گا رحمت کا وہ قصیدہ کہ ہنس پڑے گا عتاب تیرا

 

ملّا صاحب کے متذکرہ سینیر اور ہم معاصرین کے علاوہ اس عہد میں سیکڑوں دوسرے شعر کہنے والے تھے جن کے ذکر کی گنجائش نہیں ہے۔ ان میں بہت سے ایسے تھے جنھوں نے قدیم لکھنوی روایات ہی پر گامزن رہنا مناسب سمجھا۔ اس سلسلے میں چند اشعار پیش ہیں : ؎

رازؔ لکھنوی۔ یہ بھی انھیں اساتذہ میں تھے جو قدیم رنگِ سخن کو اختیار کیے ہوئے تھے :

رازؔ اس دیر و حرم کا ایک ہی انجام تھا

کوئی در ہوتا مگر سجدے سے ہم کو کام تھا

 

نزع میں آئے تو وہ جن کا مسیحا نام تھا

اور شفا دینا نہ دینا، یہ خدا کا کام تھا

 

ہلالؔ لکھنوی:

دید کا ارمان اے موسیٰ خیال خام تھا

ہمت دل کے لیے گہری نظر کا کام تھا

 

کوئی مجنوں ہو گیا مشہور کوئی کوہکن

منزلِ الفت میں ہر اک کا جدا اک کام تھا

 

ذاخرؔ لکھنوی۔ اساتذۂ لکھنؤ میں شمار ہوتے تھے۔ چند شعر پیش ہیں : ؎

غم مجھ کو گوارا جو نہیں ہم سفری کا

منھ دیکھ کے روتا ہوں چراغِ سحری کا

 

مشہور جہاں شام جوانی کی ہیں نیندیں

سنتے ہیں زمانہ ہے ابھی بے خبری کا

 

کوثرؔ لکھنوی:

چہرہ اداس قلب و نظر زندگی اداس

یہ حال ہو گیا ہے تجھے دیکھنے کے بعد

 

یوسف لکھنوی:

پا در رکاب بیٹھے ہیں اس انتظار میں

ہم کو بھی لے لے اب جو کوئی کارواں چلے

 

افتخار مرزا ہنرؔ :

ہم بے بسی پہ اپنی قفس میں تڑپ گئے

جب ہم سفر اڑ کے سوئے آشیاں چلے

 

ہر فصل میں تھے چاک گریباں کیے ہوئے

ہم کو تو امتیاز بہار و خزاں نہ تھا

 

منے آغا آفتابؔ :

اٹھ رہی تھی لاش میری ہر طرف ہنگام تھا

ایسے موقع پر بھی ہنس دینا تمہارا کام تھا

 

مولانا برکت اللہ رضا فرنگی محلی ملّا صاحب کے بچپن کے استاد تھے۔ صاحبِ دیوان شاعر تھے جن کا مطبوعہ کلام موجود ہے۔ چند شعر نمونتاً پیش ہیں : ؎

نہ روتا میں تو دشواری یہ تھی گھٹتا دام میرا

خفا اب ضبط گریہ ہے کہ کیوں کھویا بھرم میرا

 

قضا کیا مجھ کو لائی ہے زمیں کوئے قاتل پر

الٰہی خیر کرنا کیوں نہیں اٹھتا قدم میرا

 

بالیں سے مری ہوکے خفا اٹھ گیا وہ بت

اتنا کہا تھا شکر ہے پروردگار کا

جیسا کہ لکھا جا چکا ہے دورِ ملّا ایک طویل زمانہ ہے۔ اس زمانے کے تیسرے دور کے وہ شعرا حضرات ہیں جو ۱۹۱۰ء کے لگ بھگ سے لے کر ۱۹۳۰ء تک اس عالمِ آب و گل میں آئے۔ اس دور کے شعرا کے خصوصیاتِ کلام بھی تقریباً وہی ہیں جو ان کے سینیر معاصرین کے ہیں لیکن ان کے برخلاف ان کی توجہ نظم کی طرف ان کے بہ نسبت کم رہی۔ یہ حضرات عموماً غزل گو ہیں جن کی شاعری ان الزامات سے قطعی طور سے مبرا ہے جس کے لیے لکھنؤ بدنام ہے۔ حسن و عشق غزل کے خاص موضوع ہیں۔ چناں چہ اس دور کے شاعروں کے بھی محبوب موضوع یہی ہیں لیکن مسائلِ حیات اور معاملاتِ روزگار کی ادائیگی میں بھی وہ کسی سے پیچھے نہیں ہیں اور ان میں سے زیادہ تر ایسے ہیں جن کے کلام میں فکر و تخیل کی بلندی نظر آتی ہے۔ استعاراتی اندازِ بیان، فصاحت اور لطافتِ زبان کی طرف ان کی بھی توجہ رہی اور اس معاملے میں وہ اپنے پیش روؤں کے سچے مقلد ہیں۔ ان کے کلام کی چند مثالیں پیش ہیں :

سالکؔ لکھنوی (پیدائش: ۱۹۱۰ء وفات: ۱۹۷۶ء) اساتذۂ لکھنو میں شمار ہوتے تھے۔ خالص تغزل اور لطافتِ زبان سالکؔ صاحب کے کلام کے خصوصیات ہیں۔ ان کے بھائی ماہرؔ لکھنوی نے ان کے حالاتِ زندگی اور انتخابِ اشعار شائع کر دیے ہیں۔ چند شعر بطور نمونۂ کلام پیش ہیں : ؎

آپ تو آپ ہیں، یہ بھی مرے امکاں میں نہیں

دو گھڑی بیٹھ کے تقدیر سے شکوہ کر لوں

 

ساقیِ روزِ ازل یاد تو ہو گا تجھ کو

کس نے پیمانہ اٹھایا تھا ادب سے پہلے

 

دو پھول ایک شاخ سے ٹوٹے مگر نصیب

کوئی گلے کا ہار کوئی پائمال تھا

 

ذوق فریاد بہ اندازۂ غم ہے کہ نہیں

یعنی اب بھی مجھے احساس کرم ہے کہ نہیں

 

محبت کے شعلوں نے دونوں کو پھونکا

نہ دل میں لہو ہے نہ آنکھوں میں پانی

 

سمجھو تو بہت کچھ ہے نہ سمجھو تو نہیں کچھ

فریاد سے کچھ کم نہیں فریاد نہ کرنا

 

سید نواب افسرؔ (پیدائش: ۱۹۰۹ء، وفات: ۱۹۸۱ء) لکھنؤ کے صاحبِ فکر استاد شاعر تھے۔ ان کے مجموعۂ کلام ’’غمِ حیات‘‘ میں غزلوں کے علاوہ نظمیں بھی ملتی ہیں۔ نمونۂ کلام پیش ہے : ؎

زیست کے دھوپ میں پتوار کے گرے ہیں کچھ لوگ

منہ نہ دیکھو، انھیں دامن کی ہوا دو یارو

 

دھوکے نمود صبح کے رہ رہ کے کھائے ہیں

سو مرتبہ چراغ جلائے بجھائے ہیں

 

دنیا ہے یہ، دلسوز یہاں کوئی نہیں ہے

پروانے بہت، شعلہ بجاں کوئی نہیں ہے

 

محمد عمرؔ انصاری (پیدائش: ۱۹۱۲ء) لکھنؤ کے موجودہ شعرا میں ملا صاحب کے بعد سب سے سینیر شاعر ہیں اور مرتبۂ استادی پر فائز ہیں۔ کلام متعدد مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن میں غزلوں کے علاوہ نظمیں بھی خاصی تعداد میں شامل ہیں۔ چند شعر بطور نمونۂ کلام پیش ہیں : ؎

روشن بخش کے دنیا کو پگھلتے رہنا

ہم چراغوں کا تو ہے کام ہی جلتے رہنا

 

پھاڑے ہوئے اک خط کے پرزے بھی عجب شے ہے

رکھے بھی نہیں جاتے، پھینکے بھی نہیں جاتے

 

کیا چیز ہے نہ جانے یہ مجبوریِ حیات

کہتے ہوئے ملے مجھے کچھ لوگ دن کو رات

 

کوئی ذوقِ عمل پیدا تو کرے زندگانی میں

حیاتِ جاوداں بھی ہے اسی دنیائے فانی میں

 

تڑپتے ہی رہے آنکھوں میں آنسو

ہنسی دیتی رہی جھوٹی گواہی

 

نہال رضوی (پیدائش۱۹۱۸ء، وفات: ۱۹۹۰ء) نبیرۂ جلال لکھنوی خوش فکر شاعر تھے۔ مجموعۂ کلام شائع ہو چکا ہے۔ کچھ شعر بطور نمونۂ کلام پیش ہیں : ؎

گھر چاند کی دنیا میں بنانے پہ ہے مجبور

اس درجہ اب انسان سے انسان ڈرے ہے

 

ہر کشمکش کے بعد سنورتی ہے زندگی

خوش ہوں کہ زندگی کا سفینہ بھنور میں ہے

 

صنم کدے میں بھی دیکھا ہے ان نگاہوں نے

خدا کو ڈھونڈھنے والا خدا کو پاتا ہے

 

ارم ؔ لکھنوی حضرت آرزوؔ کے شاگرد، سالکؔ لکھنوی، عمرؔ انصاری وغیرہ کے ہم عمر اور خوش فکر شاعر تھے۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت کر گئے۔ غزلیات کے علاوہ متعدد نظمیں بھی کہیں۔ چند شعر بطورِ نمونہ پیش ہیں : ؎

ہم باغِ تمنا میں دن اپنے گزار آئے

آئی نہ بہار آخر، شاید نہ بہار آئے

 

فطرت ہی محبت کی دنیا سے نرالی ہے

ہو درد سوا جتنا، اتنا ہی قرار آئے

 

کچھ ان سے نہ کہنا ہے، تھی فتح محبت کی

جیتی ہوئی بازی کو ہم جان کے ہار آئے

 

مٹے ہوؤں کی کوئی یادگار کیا ہو گی

مزار ہی نہیں، شمعِ مزار کیا ہو گی

 

فضلؔ نقوی (۱۹۱۳ء تا ۱۹۹۱ء) خاندان اجتہاد کے فرد اور ذاخرؔ لکھنوی کے فرزند تھے۔ اساتذۂ لکھنو میں شمار ہوتے تھے۔ قطعات تاریخ پر مشتمل ایک مجموعے کے علاوہ نوحے، سلام، غزلیات وغیرہ کے متعدد مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ نمونۂ کلام درج ذیل ہے :

حجاب تصور جو چہرے پہ چھائے

کبھی چاند نکلے کبھی ڈوب جائے

 

وہ جلوؤں کی کثرت، ضیاؤں کا عالم

وہاں شمع کیا ہے، نظر جھلملائے

 

سنبھل داستانِ وفا کہنے والے

سمٹنے لگی ہیں چراغوں کے سائے

 

یہی ہے محبت کی معراج آخر

ہماری کہانی زمانہ سنائے

 

کرشن بہاری نورؔ (پیدائش: ۱۹۲۴ء) فضلؔ نقوی صاحب کے شاگردِ رشید، خوش لہجہ اور منفرد رنگ کے غزل گو ہیں جس نے اردو کو خالص ہندوستانی روایات سے روشناس کروایا۔ دو مجموعۂ کلام شائع ہو چکے ہیں۔ ’’تپسیا‘‘ سے چند شعر پیش ہیں جو خود نورؔ کے پسندیدہ ہیں : ؎

میں جس کے ہاتھ میں اک پھول دے کے آیا تھا

اسی کے ہاتھ مری تلاش میں ہے

 

اس انتظار میں صدیاں گزرتی جاتی ہیں

ہوس سمیٹ لے دامن تو آرزو پھیلے

 

اپنی اپنی خود داری کی بوسیدہ چادر تانے

چلتے رہیں گے یوں ہی ہم تم کب تک آخر، آخر کب تک

 

پروفیسرولی الحق انصاری (پیدائش: ۱۱؍ دسمبر ۱۹۲۴ء) خاندان فرنگی محل کے فرد ہیں۔ فارسی کلام کے دو اور اردو کلام کے پانچ مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن میں ایک نظموں پر مشتمل ہے۔ ہر صنفِ سخن میں بشمول قطعات تاریخ طبع آزمائی کی ہے۔ اشعار غزلیات کے چند نمونے پیش ہیں جن سے اندازہ ہو گا کہ طبعِ مشکل پسند رعنائیِ خیال کی طرف راغب ہے :

حوادث کے میں ریگ زاروں میں تھا

مجھے کیا پتا کیا بہاروں میں تھا

 

وہ بیچارہ پیہم خساروں میں تھا

سبب یہ کہ ایمانداروں میں تھا

 

پریشان رہتی تھی دنیا جہانبانوں سے پہلے بھی

جدا ہوتی رہی ہیں گردنیں شانوں سے پہلے بھی

 

وجود عشق تھا عالم میں انسانوں سے پہلے بھی

فروزاں رہتی تھی یہ شمع پروانوں سے پہلے بھی

 

ہمیشہ ہی حسینوں سے ہوئی ہیں پیار کی باتیں

غزل کی حکمرانی تھی غزل خوانوں سے پہلے بھی

 

حکیم شاربؔ (پیدائش: ۱۹۲۷، ) موجودہ لکھنؤ کے خوشگوار اور صاحب فکر شاعر ہیں۔ نمونۂ کلام یہ ہے : ؎

جنگ اچھی بھی ہے بری بھی ہے

مقصد جنگ دیکھنا ہو گا

 

خاک کئے پتلے اپنی قیمت کچھ تجھ کو معلوم نہیں

خاک ہے لیکن خاک کے اوپر سجدہ بھی ہو سکتا ہے

 

کامیاب ہوکے زمانے کو جت لو

یا اس طرح مٹو کہ کہیں پر نشان نہ ہو

 

توڑیں گے اگر لوگ تو ٹوٹیں گئے وہ خود بھی

سب خاک کے پتلے ہیں، خدا کوئی نہیں ہے

 

زور بازو آزما، شکوہ نہ کر صیاد سے

آج تک کوئی قفس ٹوٹا نہیں فریاد سے

متذکرہ بالا شعر را کے علاوہ اس دور میں کچھ دوسرے خوش گفتار شعرا بھی ہوئے ہیں لیکن افسوس ہے کہ اس مقالے کی تحریر کے وقت راقم الحروف کے پاس ان کے اشعار نہیں ہیں۔ ان حضڑات میں بہزاد لکھنوی، سید محمد باسط، ماہر لکھنوی، افقرؔ موہانی، محضرؔ لکھنوی، محمد اسماعیل اسلمؔ لکھنوی، انور نواب انورؔ لکھنوی، مطربؔ نظامی، شفقؔ شاہانی قابلِ ذکر ہیں۔ یہ تمام حضرات بھی خالص غزل گو ہیں اور زبان کی وہ لطافت جو لکھنوی شاعری کا طرۂ امتیاز ہے ان کے کلام میں بھی پائی جاتی ہے۔

ملا صاحب کے چوتھے دور کے معاصر شعرا یعنی ۱۹۳۰ء کے بعد پیدا ہونے والوں میں جن کی شاعری لکھنؤ میں پروان چڑھی والی آسیؔ ، تسنیم فاروقی، بشیرؔ فاروقی، ساحرؔ لکھنوی، حیاتؔ وارثی لکھنوی قابل ذکر ہیں۔ اس دور میں غزل و نظم کی وہ کش مکش جو جوشؔ ملیح آبادی کے زمانے میں اپنے انتہائی عروج پر تھی، ختم ہو گئی اور اس میں غزل بحیثیت فاتح کے نمودار ہوئی۔ اس سے قتل کے دور کی طرح اس عہد کے بھی تقریباً تمام شعرا غزل کہنے والے ہیں اور انھوں نے اسی پیرایہ میں زندگی کے ہر مسئلہ کی ترجمانی کی ہے۔ زبان کی لطافت اس دور کے لکھنوی شعرا کا بھی طترہ امتیاز باقی رہی اور بلا خوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ اپنے ہم عمر ہندوستان بھر کے شعرا میں بحیثیت فن کار ان کا مرتبہ کسی سے بھی کم نہیں ہے اور ان میں سے کچھ مثلاً والیؔ آسی، تسنیمؔ فاروقی اب بہ مرتبۂ استادی فائز ہیں اور اپنے بزرگوں یعنی عبد الباری آسیؔ اور سراجؔ لکھنوی کے نام روشن کر رہے ہیں۔

ملا صاحب کے عہد کی شاعری کا ایک مختصر جائزہ پیش کر دیا گیا جس کے سلسلے میں اس دور کے شعرا کے کلام کو پیش کرنا ضروری تھا۔ اس جائزہ سے پتا چلے گا کہ غزل اور نظم دونوں اصناف میں لکھنوی شاعری اپنامقام بنائے رکھی۔ غزل کے میدان میں اگر صفیؔ ، عزیزؔ ، یگانہؔ ، آرزوؔ ، اثرؔ ، منظرؔ ، سالکؔ ، سراجؔ ، سید نواب افسرؔ ، عمرؔ انصاری، نورؔ لکھنوی، ڈاکٹر ولی الحق کا کلام ہندوستان کے کسی بھی معاصر سے بیان و زبان کے سلسلے میں کم نہیں ہے تو نظم کے میدان میں صفیؔ ، عزیزؔ ، جوشؔ ، عمر ؔ انصاری، اسرار الحق مجازؔ ، ڈاکٹر ولی الحق انصاری اپنے معاصر نظم گویوں میں سے کسی سے کم نہیں ہیں۔ ملا صاحب ان تمام حضرات کے معاصر رہے ہیں اور ان کے ان تمام معاصرین کے رنگ کلام کی خصوصیات ملا صاحب کے کلام میں بیک وقت نظر آتی ہے اور بحیثیت مجموعی ملا صاحب نے اپنے لیے ایک الگ راستہ پیدا کر دیا ہے جس کی طرف وہ اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں : ؎

ملا ادب میں ڈھونڈھ لی جادہ سے ہٹ کے اپنی راہ

رنگ جدید سے الگ طرز کہیں سے دور دور

ملّا صاحب کا یہ ’’رنگ جدید سے الگ اور طرز کہن سے دور‘‘ رنگ کلام ان کی غزلیات اور نظموں دونوں میں نمایاں ہے۔ اس رنگ میں کلاسیکی ٹھہراؤ بھی ہے اور جدید مسائل پر اظہار خیال بھی۔ ملا صاحب کی زبان بہر حال لکھنوی زبان ہے۔ ان کی غزل کے چند اشعار بھی بطور نمونہ پیش کیے جا رہے ہیں : ؎

نعرۂ گرم انقلاب میں نے بھی یاں سنا تو ہے

جام و سبو کے آس پاس داروسن سے دور دور

 

دی ہے مجھے دو آبۂ گنگ و جمن نے جو زباں

آج اسی کو حکم ہے کنگ و جمن سے دور دور

 

نہ تیرے لیے ہے نہ میرے لیے ہے

یہ دنیا ہے سب کی، سب کے لیے ہے

 

ہر سبزہ و گل کی نس نس میں اک ریشۂ جنبان ہو بھی چکا

اب کون مٹا سکتا ہے مجھے میں خاک گلستاں ہو بھی چکا

 

جور بتاں کے قصے نہ چھیڑو

آج اک جہان ہے مردم گزیدہ

 

بے حرف و بے صوت پیغامِ الفت

سینہ بہ سینہ، دیدہ، نہ دیدہ

 

جنون کا دور ہے کس کس جائیں سمجھانے

ادھر بھی ہوش کے دشمن ادھر بھی دیوانے

 

پھر ان گردوں نشینوں کو زمیں کی بات کہنے دے

انھیں پہلے ذرا زیرِ فلک کچھ روز رہنے دے

 

قطرہ قطرہ زندگی کے زہر کا پینا ہے غم

اور خوشی ہے دو گھڑی پی کر بہت جانے کا نام

 

تاریخ بشر بس اتنی ہے ہر دور میں پوجے اس نے صنم

جب آئے نئے بت پیش نظر اصنام پرانے توڑ دیے

 

گل کام نے دے گی تری نا کردہ گناہی

گلچیں کی عدالت ہے تو کانٹوں کی گواہی

 

پستی نہ بلندی نہ اطاعت نہ حکومت

دنیائے محبت میں گدائی ہے نہ شاہی

 

مشعلِ دل بھی تو سینے میں فروزاں چاہیے

راہِ منزل میں چراغ رہگذر کافی نہیں

 

زیست کی تیرگی میں شمع کوئی

دل سے تابندہ تر نہیں ملتی

 

بشر ہے بندہ الفت غلام جبر نہیں

جو اہلِ دل نے کیا، تاجدار کر نہ سکے

 

اسی کا نام جینا ہے جگر خوں ہو تو ہو جائے

نقوشِ دہر میں اک خاص اپنا رنگ بھرنا ہے

 

پیتے تو ہم نے شیخ کو دیکھا نہیں مگر

نکلا جو میکدے سے تو چہرے پہ نور تھا

 

تشنہ کاموں کی خبر لے مالکِ جام و سبو

تشنہ کامی نہ بن جائے چیرہ دستی ایک دن

 

فلک کے دور نے ذروں کا جن کو نام دیا

ستارے وہ بھی تھے، یاں نسل آسماں سے نہ تھے

 

بحیثیت نظم گو ملّا صاحب کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ انھوں نے پابند اور آزاد، دونوں قسم کی نظمیں کہیں جن میں چند مشہور یہ ہیں : اندھیرے نگر میں دیپ جلیں، بوڑھا مانجھی، ایوانِ عدالت سے رخصت ہوتے ہوئے۔

کلام ملّا پر تبصرہ کرنا احاطۂ مضمون سے باہر ہے اور امید ہے کہ کوئی دوسرا ناقد اس پر تفصیلی روشنی ڈالے گا۔

٭٭٭

کتاب ’آنند نرائن ملاؔ : حیات اور فن‘ : مرتبہ: عزیز نبیؔل، آصف اعظمی کا ایک حصہ

تشکر: عزیز نبیلؔ جنہوں نے مکمل کتاب کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید