FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

بے قراری سی بے قراری ہے

 

 

دوسرا حصہ

 

گوہر شہوار

Gohareshahwar07@gmail.com

 

 

یہ حصہ مکمل پڑھنے کے لیے

ورڈ فائل

 

ای پب فائل

 

کنڈل فائل

 

 

 

 

حصہ دوم: جیئے جانا بھی کیا روایت ہے۔۔

 

میں کیا محسوس کرتا ہوں؟

میں اپنے اندر ایک خلا محسوس کرتا ہوں، ایک ایسا خلا جو وقت کے ساتھ بڑھتا جاتا ہے۔ میں ساری زندگی مختلف چیزوں سے اس خلا کو بھرنے کی کوشش کرتا رہا۔ پر یہ نہیں بھرتا۔  زندگی کی ہر کامیابی اس خلا کو بھرنے میں ناکام رہی ہے۔

پہلی بار یہ خلا اس وقت محسوس ہوا جب میری ماں مجھے چھوڑ کر گئی۔  پانچ سالہ بچے کے ذہن میں یہ منظر نقش ہو گیا۔  اپنے دوپٹے سے آنسو پونچھتی وہ بھاری قدموں سے مجھے چھوڑ کر گئی۔  میں کئی دن روتا رہا، وہ کئی بار مجھ سے ملنے آئی۔

اب میری ضدیں کوئی پوری نہ کرتا۔  میں گھر کے دروازے پر بیٹھا آنسو بہاتا رہتا۔  وقت کے ساتھ یہ آنسو تو خشک ہو گئے، پر اندر کا خلا بڑھنے لگا۔  میرا کسی چیز میں دل نہ لگتا۔ گھر میں دل لگانے کے لیے سوائے کتابوں کے کچھ تھا بھی نہیں۔  میں دادا کی بڑی سی لائبریری میں گھسا کتابوں کو دیکھتا رہتا۔

میرے دادا سلیمان درانی بھی وہیں ہوتے۔  وہ ہر وقت کچھ نہ کچھ سوچتے رہتے۔  ان کی شخصیت میں بھی ایک اداسی اور مایوسی تھی۔  بہت سالوں بعد مجھے معلوم ہوا کہ وہ برصغیر کی تاریخ لکھ رہے تھے جو کبھی شائع نہ ہوئی۔  دادا مجھ سے محبت کرتے تھے یا نہیں اس کا تو نہیں پتا۔ کیونکہ انھوں نے اس کا کھل کر اظہار نہیں کیا۔

انھوں نے میری خدمت کے لیے آیا رکھی اور میری اچھی تعلیم کا بھی بندوبست کیا۔  میرا سکول اور مدرسہ میں دل نہ لگتا۔  میں سارا وقت کتابوں میں بتانا چاہتا۔  لائبریری کی دنیا میں وقت رک جاتا۔  یہاں ہر کتاب مجھے ایک نئے دور میں لے کر جاتی۔  میں ہر روز ایک نیا کردار بن جاتا۔  کرداروں کا یہ ماسک پہن کر، میں وقتی طور پر خود کو اور اپنے خلا کو بھول جاتا۔  کبھی کبھی کتابوں کی اس خوشبو میں ایک روتا ہوا چہرہ نظر آ جاتا۔  میں کتابوں کے ہر افسردہ کردار میں اپنی ماں کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتا۔

دادا میرے ماں باپ کا ذکر کم ہی کرتے۔  شاید وہ کسی بھی چیز کا ذکر کم ہی کرتے تھے۔  انھیں بھی کسی چیز کی تلاش تھی۔ شاید ان کے اندر بھی ایک خلا تھا۔  انھوں نے ہوش سنبھالا تو انگریز کی حکمرانی کا عروج تھا۔  باپ کی تھوڑی بہت جاگیر سے ٹھاٹ بھاٹ چل رہے تھے۔  دادا نے اعلیٰ تعلیم کے لیے کلکتہ بھیجا تاکہ وکیل بن سکیں۔  کلکتہ کی رونقیں دل کو بھاگئیں۔  باپ سے پیسہ منگوا کر اڑاتے رہے۔  اسی دوران ہندوستان میں مارکسسٹ تحریک عروج پر تھی۔ بہت سے امیر خاندانوں کے نوجوان اس سے متاثر ہو کر مزدوروں اور محنت کشوں کے حقوق کی بات کرنے لگے۔  ایک عجیب انقلابی فضا قائم ہو گئی۔

کہا جاتا، اگر آپ اٹھارہ سال سے کم ہیں اور مارکسسٹ نہیں ہیں تو آپ کے پاس دل نہیں ہے۔  اگر آپ چالیس سال سے زیادہ ہیں اور مارکسسٹ نہیں ہیں تو آپ کے پاس دماغ نہیں ہے۔

غریبوں اور محنت کشوں سے زیادہ جاگیردار اور انڈسٹرلسٹ طبقے کے جوان اس میں شامل ہوئے۔  اس میں حقیقت پسندی سے زیادہ رومانس کا غلبہ تھا۔

دادا نازونعم میں پلے تھے، پر مارکسسٹ تحریک میں اتنی کشش نظر آئی کہ سب کچھ چھوڑا اور مزدوروں کے کپڑے پہن کر محنت کشوں کے لیے جد و جہد میں مصروف ہو گئے۔  ان کے والد کو پتا چلا تو فوراً بلا کر سرزنش کی کہ مانا درانی خون میں بغاوت ہے۔ مگر تھوڑا ہوش سے کام لو۔

لیکن بات نہ ماننا بھی درانیوں کی ہی ایک خاصیت رہی ہے۔

دادا نے کسی مصلحت کو سامنے نہ رکھا۔  اپنے والد سے کہہ دیا کہ اپنی زمینیں غریبوں میں بانٹ دیں ورنہ جس دن انقلاب آیا ان کے ساتھ وہی سلوک ہو گا جو روس میں جاگیرداروں کے ساتھ ہوا۔

اپنے جوش میں وہ دہشت گرد کاروائیوں میں مصروف ہو گئے۔  کبھی ٹرینیں لوٹتے تو کبھی سرکاری املاک کو نقصان پہنچاتے۔  اسی دوران انھیں روس جانے کا موقع ملا، تاکہ وہاں مزید انقلابی بن کر آ سکیں۔  ماسکو یونیورسٹی میں تاریخ اور فلسفہ کا مضمون اٹھایا اور بڑی محنت سے پڑھنے لگے۔  ساتھ ساتھ وہاں کے انقلاب کے اثرات کا بغور مشاہدہ کیا۔

دو سال کے دوران انھوں نے روس کو گھوم پھر کر دیکھا۔  وہاں کے سردی سے ان کی جان جاتی۔ پر وہاں کی خوبصورتی کے وہ قائل ہو گئے۔  وہیں ایک خوبصورت روسی دوشیزہ پر دل بھی دے بیٹھے۔  ان کی ملاقات یونیورسٹی میں ہوئی جہاں وہ ادب کی طالبہ تھی۔  ہندی سمیت کئی زبانیں روانی سے بولتی۔  اس کی باتوں میں شاعری اور موسیقی ہوتی۔  بات بات پر شعر پڑھتی۔  دادا نے ساری نوجوانی انقلاب کے خواب کے پیچھے لگا دی۔  محبت جیسے جذبے کو کبھی سمجھا ہی نہیں۔

شاید محبت کرنا صرف آزاد لوگوں اور آزاد معاشروں کو آتا ہے۔  ہم پسماندہ لوگ صرف نفرت کر سکتے ہیں۔

دادا اس کے شہد جیسے بالوں اور نیلی آنکھوں کو دیکھ دیکھ حیران ہوتے۔  اس کی باتوں کی مٹھاس اوردھیمی دھیمی موسیقی میں انقلاب کی گن گرج مدھم پڑنے لگی۔ ایسی بات نہیں کہ دادا عورت ذات سے نا آشنا تھے۔ بچپن کی شادی سے ان کے پانچ بچے تھے۔  لیکن محبت انھیں پہلی بار محسوس ہوئی۔

کئی شامیں دونوں کی لمبی واک کرتے گزرتیں۔  اس لڑکی کے ماں باپ انقلاب کی جد و جہد میں مارے گئے تھے۔ اسی لیے وہ خود کمیونزم سے متنفر ہو گئی۔ وہ حکومتی خوف کی وجہ سے کھل کر اس کا اظہار نہ کرتی۔  وہ کسی آزاد ملک میں آزادی سے زندگی گزارنے کے خواب دیکھتی۔  جہاں آپ کی زندگی میں حکومت اور سماج مداخلت نہ کرے۔  اسے ایسا ملک صرف امریکہ نظر آتا۔  دادا اس کی باتوں کو حیرانی سے سنتے اور انھیں ایک نئی دنیا نظر آتی۔

شاید دادا کو اپنا انقلاب بھول جاتا لیکن ہندوستان سے ان کے دوستوں کے خط انھیں واپس حقیقت کی دنیا میں لے آتے۔  روس میں کمیونزم کی سختیاں اور قتل و غارت گری دیکھ کر ان کے ذہن میں مارکسسزم کے خلاف کئی سوال اٹھتے جنھیں وہ سختی سے دبا دیتے۔

وہ لڑکی انھیں ہندوستان واپس نہ جانے پر مناتی رہی۔  کہتی میرے ساتھ یورپ اور امریکہ چلو۔  اپنے سر سے یہ انقلاب کا بھوت اتار دو، انقلاب نہ تو تمھاری زندگی میں خوشی لائے گا نہ ہی ہندوستان کے لوگوں کی زندگی میں۔

مگر دادا کے سر پر تو انقلاب کا بھوت ایسا سوار تھا کہ مارکسسزم کے خلاف کچھ بھی سننے سے انکار کر دیا۔  اپنی محبت کو روتا چھوڑ کر چل پڑے۔  وہ لڑکی رو رو کر کہتی:  اپنی محبت کو چھوڑ کر تمھیں ایسے انقلاب میں کیا ملے گا۔

کچھ دیر کے لیے دادا کا دل بھی ڈگمگایا مگر ہمت کر کے چل پڑے۔  وہ لڑکی سٹیشن کے بنچ پر بیٹھ کر رونے لگی۔ یہ ٹرین کی کھڑکی سے اسے دیکھتے رہے۔  رونا تو مرد کو ویسے ہی زیب نہیں دیتا اوپر سے درانی پٹھان!

لیکن اس دن دادا کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل آئے۔  انھیں خود پر بھی حیرت ہوئی۔  ایک خلا ان کے دل میں بھی پیدا ہو گیا۔

اس وقت انھیں نہیں معلوم تھا کہ یہ خلا اب کبھی نہیں بھرے گا۔  واپس ہندوستان آتے ہی وہ دوبارہ اپنی سرگرمیوں میں شامل ہو گئے۔  پر وہ جوش جذبہ محسوس نہ ہوا۔  شاید نوجوانی ختم ہو گئی تھی۔  تاریخ اور فلسفہ کی تعلیم نے ان کا ویژن بہت بڑھادیا۔ اب تھوڑے حقیقت پسند ہو گئے۔  اسی لیے نوجوانوں کی تخریب کارانہ کاروائیوں کو اچھا نہ سمجھتے۔  ان کے نزدیک ہندوستان میں فضا ابھی کمیونسٹ انقلاب کے لیے سازگار نہیں اس کے لیے سالوں ذہن سازی کرنا پڑے گی۔

ان کی یہ باتیں لوگوں کو سمجھ نہ آتیں۔ وہ حیران ہوتے، ایک شخص کمیونزم کو اتنے قریب سے دیکھنے کے بابوجود ایسی باتیں کر رہا ہے۔

ان کا تحریک کے بڑوں اور چھوٹوں سے اختلاف رہنے لگا۔  جب ان کی گرفتاری ہوئی تو قریب قریب تحریک سے متنفر ہو چکے تھے۔  انھوں نے چار سال سے زیادہ جیل میں گزارے۔ جیل کی اذیتوں میں بھی انھیں صرف ایک چہرہ یاد آتا۔

چار سال میں انقلاب کا خواب ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو گیا۔  باہر نکلے تو تقسیم کے ہنگامے شروع ہو گئے۔ انھیں کسی چیز سے دلچسپی نہ رہی۔  دور دراز کے ایک سکول میں بچوں کو پڑھانا شروع کر دیا۔  سالوں گزر گئے اور ملک تقسیم ہو گیا۔  ادھیڑ عمری میں ہجرت کرنا پڑی۔  ہجرت کی ہولناکیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، ہر طرف انسان رائیگاں نظر آیا۔

زندگی اپنا معنی کھوبیٹھی۔ اسی مایوسی میں گاؤں کا رخ کیا۔  باپ کو بستر مرگ پر پایا۔  باپ نے گدی سنبھالنے کو کہا اور یہ انکار نہ کر سکے۔

رہ رہ کر اپنے فیصلوں کی ناکامی کا احساس ہوتا، ہر گزرتا دن تنہائی، اداسی اور مایوسی میں اضافہ کرتا گیا۔  کسی شخص سے کوئی تعلق محسوس نہ ہوتا۔  کسی پل چین نہ آتا۔  اکثر تنہائی میں چھوٹی سے بلیک اینڈ وائٹ تصویر کو دیکھ دیکھ کر روتے رہتے۔  ان کی فوتگی کے بعد وہ تصویر میرے قبضے میں آئی جس میں ایک بہت ہی خوبصورت روسی لڑکی کھلکھلا کر ہنس رہی تھی۔  اس کے بالوں میں ایک پھول تھا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔

دادا نے میری دیکھ بھال کے لیے ایک آیا رکھی۔  تھوڑا بڑا ہوا تو اپنے سارے کام خود کرنا شروع کر دیے ۔  دادا سارا دن لکھنے پڑھنے میں مصروف رہتے۔  مجھے دادا کی فوتگی کے بعد ان کتابوں کے چلے جانے کا دکھ ہوا۔ ان کی ہزاروں کتابوں کو کوڑیوں کے مول خریدتے ہوئے کباڑیا بہت خوش نظر آیا۔۔  میں نے بچپن اور لڑکپن کے کئی سال انھیں کتابوں کو پڑھتے ہوئے گزارے۔  وہاں طلسم ہو شربا، عمرو عیار، سند باد، جاسوسی ناول، تاریخی ناول، آپ بیتیاں اور نہ جانے کیا کیا خزانہ تھا۔  سکول اور پڑھائی میں میرا دل نہ لگتا۔  میں سکول سے جان چھڑا کر لائبریری میں گھسا رہتا۔  دادا مجھے پڑھائی کا تو کہتے لیکن ان کے نزدیک بھی ڈگریوں سے زیادہ علم کی اہمیت تھی۔

دادا نے کبھی مذہب پر بات نہیں کی۔  کئی بار میں انھیں تسبیح پڑھتے دیکھتا، صوفیانہ کلام سنتے ان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے۔  کبھی کبھار ان کے مرشد بھی آتے، جن کی وہ بہت عزت کرتے۔  ان کے مرشد حاجی فقیر علی عجیب سی شخصیت تھے۔  بہت بوڑھے، آنکھیں ہلکی ہلکی بند رہتیں، پر ہونٹ ہلتے رہتے۔  میں انھیں چھپ کر غور سے دیکھتا رہتا۔  وہ دادا سے بڑی مشکل مشکل باتیں جن میں وحدت الوجود، تزکیہ نفس، مشاہدہ حق وغیرہ کا ذکر ہوتا۔  مجھے ان کی سمجھ نہ آتی۔  مجھے تو تذکرۃ اولیا پڑھ کر صوفیوں کی کرامتوں میں دلچسپی تھی۔  میں چھپ چھپ کر دیکھنے کی کوشش کرتا کہ باباجی کب کوئی کرامت دکھائیں گے۔  پر انھوں نے کبھی کوئی کرامت دکھائی ہی نہیں۔

ایک بار دادا نے ان سے میرے بارے میں پوچھا، تو انھوں نے دیر تک آنکھیں بند کیں جیسے کچھ دیکھ رہے ہوں۔  مجھے نہیں معلوم انھوں نے میرے بارے میں جو دادا کو کیا بتایا۔ لیکن اس دن کے بعد دادا میرے بارے میں کافی پریشان رہتے۔  انھوں نے اس سے پہلے مجھ پر سیپارہ یاد کرنے اور نماز پڑھنے پر زور نہیں دیا تھا۔ لیکن اب وہ اس معاملے میں سختی کرنے لگے۔  مجھے چھ کے چھ کلمے زبردستی یاد کروا ئے۔  قرآن پاک پڑھنے کے لیے روزانہ مدرسہ بھیجنا شروع کیا۔

مجھے مدرسہ کا ماحول بہت عجیب لگا، ہر بات پہ سختی اور مار پیٹ۔  پینٹ شرٹ پہن کر آنے پر مار پیٹ، ذرا سی غلطی پر مار پیٹ، نماز میں لیٹ ہونے پر مار پیٹ۔  ایسا محسوس ہوتا کہ قاری صاحب کو تشدد کرنے میں مزا آتا ہے۔

مجھے زیادہ مار نہیں پڑتی کیوں کہ میں سبق ٹھیک سے یاد کر لیتا۔  لیکن اکثر بچے اتنے خوش قسمت نہیں تھے۔  وہ بری طرح پٹتے۔ کچھ عرصہ مار کھانے کے بعد ان کا جھاکا کھل جاتا اور وہ ڈھیٹ ہو جاتے۔

سختی ایک حد تک ہی چلتی ہے اس کے بعد لوگ اپنے لیے حل نکالنا شروع کر دیتے ہیں۔

میں کئی سال تک سکول کے بعد مدرسہ جاتا رہا۔ اس ماحول نے میرے ذہن پر گہرا اثر ڈالا۔  میں غریب بچوں کو بے دردی سے پٹتے دیکھتا۔  وہ مار کھانے کے بعد روتے ہوئے ایک کونے میں بیٹھ جاتے۔  ان کی آنکھوں کی بے بسی، شرمندگی اور غصہ مجھے کبھی نہ بھولتا۔

یہ غصہ ان کے اندر ٹپک ٹپک کر ان کی شخصیت کا حصہ بن جاتا۔  وہ وقت کے ساتھ بے حس اور ظالم بن جاتے۔  اب انھیں اپنے اوپر ہونے والے تشدد کی بھی پروا نہ رہتی۔  وہ اپنے سے چھوٹوں کے ساتھ بھی ایسا ہی کرتے۔  کئی بچے مستقل طور پر معذور بھی ہو جاتے۔  زیادہ تر کی نفسیاتی کیفیت نارمل نہ رہتی۔

مدرسہ میں سب سے مزے کا کام لوگوں کے گھروں میں میلاد اور ختم پر جانا ہوتا۔  تمام لوگوں کی خواہش ہوتی، کسی امیر گھر میں ہی جائیں، تاکہ کچھ اچھا کھانے کو تو مل سکے۔  ختم کے دوران کوئی لڑکا بھی سیپارہ سہی طریقے سے نہ پڑھتا۔ سب صرف سر اور ہونٹ ہلاتے۔  سب کی نظریں ادھر ادھر دیکھ رہی ہوتیں، ناک کھانوں کی خوشبو سونگھتے۔

کھانا کھلتے ہی سب جانوروں کی طرح ٹوٹ پڑتے اور سب چٹ کرجاتے۔  جو بچ جاتا شاپروں میں بھر کر لے آتے۔  غریب گھرانوں کے ان بچوں اور قاریوں کے اندر صدیوں کی بھوک کھل کر دکھائی دیتی۔  کبھی کبھی کھانا کھاتے ان کے چہروں پر ہلکی سی شرمندگی کی لہر بھی اٹھتی۔ جو سب کو اس حمام میں ننگا دیکھ کر فوراً ختم ہو جاتی۔

زیادہ تر بچے دور دراز پسماندہ علاقوں سے آئے تھے۔  اسی لیے ان کی رہائش اور کھانے کا انتظام مدرسہ میں ہی ہوتا۔  دال روٹی پر مشتمل یہ کھانا بھی دن میں صرف دو بار ملتا۔  مدرسہ میں روزانہ صدقے کی کئی چیزیں آتیں، جو قاری صاحبان کے گھروں میں تقسیم ہو جاتیں۔  بچوں کو سب سے ناقص چیز دی جاتی۔  یہ دیکھتے ہوئے بچوں میں چوری چکاری کا رواج بھی پڑ جاتا۔  وہ صدقے کی کئی چیزوں کی مولوی صاحب کو خبر بھی نہ ہونے دیتے۔

رہائش کے نام پر کچھ کمروں میں چھوٹے بچوں اور بڑے لڑکوں کو اکھٹے ہی سلایا جاتا۔ اسی وجہ سے کئی چھوٹے بچے زیادتی کا شکار ہوتے۔  لڑکے کئی قاری صاحبان کی دست درازی کا چھپ چھپ کر ذکر کرتے۔

مدرسہ ہمیشہ زیر تعمیر ہی رہتا۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے ساتھ کی کئی زمینوں پر قبضہ کر کے ان پر بھی کمرے تعمیر کر دیے گئے۔  وہ زمینیں ایک بیوہ کی تھیں، جب اس نے شور مچایا تو اسے کہا گیا تمھاری عاقبت سنور جائے گی۔  پر وہ خاموش نہ ہوئی اور عدالت چلی گئی۔  اسی دوران پتا نہیں کیسے اس کے بیٹے کے خلاف قرآن پاک کے مقدس اوراق کی بے حرمتی کا الزام لگا۔  اسے مار پیٹ کر شدید زخمی کر دیا گیا۔  بات کافی بڑھ گئی، لوگ اس نوجوان کے قتل کی بات کرنے لگے۔  ایک رات مشتعل ہجوم نے اس بیوہ کے گھر حملہ کیا۔ پر گھر میں کوئی نہ تھا۔  اس دن کے بعد کسی کو اس بیوہ اور اس کے بچے کا پتہ نہیں چلا۔  لوگ کہتے وہ بیوہ بیٹے کو لے کر لاہور چلی گئی جہاں اس کا بیٹا مزدووری کرتا ہے۔

دادا شاید مجھے مدرسہ بھیج کر ایک اچھا مسلمان بنانا چاہتے تھے۔  لیکن مدرسہ جا کر میرے دل میں مولویوں سے شدید نفرت پیدا ہو گئی۔  میں نے قرآن پاک بڑی مشکل سے ختم کیا۔  دادا سے کہہ دیا اب میں مدرسہ نہیں جاؤں گا۔  مدرسہ میں گزارے دن اب بھی مجھے نہیں بھولتے۔  ان بچوں کی آنکھیں اب بھی میرا پیچھا کرتی ہیں۔

میں اس وقت بارہ سال کا تھا جب دادا فوت ہوئے۔  زندگی کے آخری کچھ مہینے ان کی طبیعت کافی خراب رہنے لگی۔  انھوں نے چچا کو بلوایا جو عموماًسال میں ایک آدھ چکر لگاتے تھے۔  چچا کی دادا سے کبھی نہیں بنی۔  دونوں کی شخصیتوں میں زمیں آسمان کا فرق تھا۔  دونوں جب بھی مل بیٹھتے لڑائی چھڑ پڑتی۔  چچا کہتے:  گاؤں کی ان زمینوں اور حویلی کو بیچیں اور شہر چلیں۔

دادا کو اس حویلی سے عشق تھا۔  وہ کراچی شہر کے شور سے گھبراتے۔  کہتے جو سکون یہاں ہے وہ شہر میں میسر نہیں ہو سکتا۔  وہاں لے جا کر بھی تو تم نے مجھے ایک کمرے میں ہی ڈال دینا ہے۔  یہاں آزاد تو ہوں، چار لوگ مجھے جانتے اور عزت تو کرتے ہیں۔

فوتگی سے کچھ عرصہ پہلے چچا کو بلوایا اور ساری جائداد ان کے نام کر دی۔  چچا کی آنکھوں میں ایک عجیب کشش نظر آئی جیسے کوئی خزانہ ہاتھ لگ گیا ہو۔  دادا نے صرف ایک شرط رکھی کہ میری تعلیم و تربیت کی ذمہ داری ان کی ہو گی۔  چچا کو اس وقت سبھی باتیں قبول تھیں۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میرا باپ بابر درانی بہت شاعرانہ مزاج رکھتا تھا۔  باپ کی طرف سے پڑھنے لکھنے کا شوق ورثہ میں ملا۔  اسی لیے تعلیم حاصل کرنے کے بعد ٹیچر بننے کا فیصلہ کیا۔  مزاج میں باپ کی طرح آئیڈیلزم تھا۔  اسی لیے قوم کے بچوں کو پڑھانا چاہتے تھے۔  اپنی جوانی اسی کام میں لگادی۔  بیوروکریٹک سسٹم سے لڑتے رہے۔  دور دراز کے دیہاتوں میں جا کر پڑھاتے رہتے۔  ان کی کئی سال کی انتھک محنت سے نہ ہی سسٹم بدلا اور نہ ہی بچوں کا مستقبل۔

دنیا نے جو دکھ دیے اسے شاعری کی شکل میں لوٹانا شروع کیا۔ یہ شاعری مختلف اخباروں اور ادبی جریدوں میں چھپتی جسے عوام و خواص نے بہت سراہا۔ شہرت نے دل کے زخموں پر مرہم تو رکھا، مگر اپنے خوابوں سے مایوس ہونا شروع ہو گئے۔  نہ ہی ان کی پروموشن ہوئی، نہ ہی کسی نے ان کے کام کوسراہا اور نہ ہی قوم کے معمار پیدا ہوئے۔

شاعری میں غم شدید ہوتا گیا۔  ایک مشاعرے کے سلسلے میں کراچی آنا ہوا۔  یہیں مختلف ہائی کلاس پارٹیوں میں انھیں اپنی شہرت کی وجہ سے مدعو کیا گیا۔  وہیں ان کی ملاقات ایک بہت ہی خوبصورت شاعرہ سے ہوئی۔  اس شاعرہ کا نام بھی اس کی شاعری اور شخصیت کی طرح خوبصورت تھا۔

"غزل”۔۔

غزل کا تعلق ایک بہت اچھے علمی خاندان سے تھا۔  اس کے والد کا اپنا پبلشنگ ہاؤس تھا۔  دونوں ایک دوسرے کے کلام کو پسند کرتے تھے۔  پھر مشاعروں کی ملاقات محبت میں بدل گئی۔  یہ دھیمی دھیمی آگ بھڑک کر دونوں کے وجود کو جلانے لگی۔ عشق میں ایسے پاگل ہوئے کہ سب کچھ بھول گیا۔  غزل کے خاندان کی طرف سے اس شادی کی خوب مخالفت ہوئی۔ مخالفت کی بنیاد ابا کی باغیانہ فطرت، دگرگوں مالی حالات اور عمروں میں بیس برس کا فرق تھا۔

باپ نے بیٹی کو بہت سمجھایا:  یہ بے جوڑ رشتہ ہے۔  شاعر لوگ کبھی کامیاب گھر نہیں بسا سکتے۔

"مگر وہ عشق ہی کیا جو بغاوت نہ کرے ”

تمام مخالفتوں کے باوجود شادی ہو گئی۔ ایسی آگ جتنی جلدی بھڑکتی ہے اسی جلدی سے بجھ بھی جاتی ہے۔  معلوم ہوا

خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا

شاعری اور سہانے خواب دیکھنے سے واقعی گھر نہیں بستے۔

"لازمی نہیں الفاظ کی خوبصورتی کے پیچھے شخصیت کی خوبصورتی بھی ہو”

کچھ ہی ماہ بعد جھگڑے شروع ہو گئے۔ اسی دوران میری پیدائش ہوئی اور جھگڑے بڑھتے ہی چلے گئے۔  زیادہ مسائل پیسوں کے تھے۔  ابا کی آزاد منش طبیعت پر گھر کی ذمہ داریاں گراں گزرتیں۔ اماں چاہتیں، ابا ڈھنگ سے کوئی کام کریں، انھوں نے ابا کو کسی سرکاری محکمے میں اچھا عہدہ دلوانے کی بھی کوششیں کی۔

ہر بار ابا کی انا آڑے آ جاتی۔  میں جب پانچ سال کا ہوا تو دونوں میں علیحدگی ہو گئی۔  اماں نے مجھے حاصل کرنے کی بہت کوشش کی۔ ابا نہ مانے۔ انھوں نے علیحدگی کے لیے یہی شرط رکھی کہ میں ان کے پاس رہوں گا۔  اماں کئی بار مجھے ملنے آئیں۔  ہر بار ان کی صحت خراب سے خراب تر ہوتی۔  جیسے اسے اندر سے کوئی چیز کھائے جا رہی ہے۔

بہت سالوں بعد میں اپنی ماں کو ڈھونڈتا ہوا ان کے گھر پہنچا تو معلوم ہوا کہ علیحدگی کے کچھ عرصہ بعد ہی اماں کا انتقال ہو گیا تھا۔  ان کا ذہنی توازن بتدریج خراب ہوتا گیا۔ اس دوران انھوں نے بہت ہی دکھ بھری شاعری کی۔  فوتگی سے پہلے اپنا سارا کلام منگوا کر جلادیا۔

آخری وقت میری تصویر ہاتھوں میں لیے رو رہی تھیں۔ ایک حساس دل خاموشی سے دھڑکنا بند ہو گیا۔

علیحدگی کے بعد ابا کی شخصیت بھی بکھر گئی۔  وہ گھنٹوں کاغذ لے کر بیٹھے رہتے۔ ان سے ایک لفظ نہ لکھا جاتا۔  خیالات مرکوز ہی نہ ہوتے۔  ایک اداسی اور غم ان کو گھیرے رکھتا۔

زندگی میں ہمیشہ ان کی اپنی تصور پرستی نے ہی انھیں دھوکہ دیا۔  وہ تصوراتی چیزوں کو حقیقی سمجھ کر ان کے پیچھے بھاگتے رہے اور کچھ حاصل نہ ہوا۔

میں نے سہے ہیں مکر اپنے

اب بیچارہ لگتا ہوں

اسی غم میں انھوں نے نشہ کرنا شروع کر دیا۔  کچھ ہی سالوں میں یہ نشہ انھیں لے ڈوبا۔  دادا نے اپنے بڑے بیٹے کو نشے کے دھویں میں ضائع ہوتے دیکھا اور کچھ نہ کر سکے۔  وہ خود بھی تو ساری زندگی ایسے ہی تھے۔

میرے چچا آصف درانی کی طبیعت اپنے باپ اور بھائی سے بہت مختلف تھی۔  ان کے نزدیک دادا اور ابا نے اپنی ساری زندگی اپنی ہی غلطیوں کی وجہ سے برباد کی۔  یہ لوگ خوابوں خیالوں کو حقیقی زندگی سے زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ ان کے قریبی لوگ ان کی وجہ سے ساری زندگی دکھ اٹھاتے رہے۔  آخر میں خود انھیں بھی احساس ہو گیا کہ یہ شروع سے ہی غلط تھے۔

چچا بچپن سے ہی حقیقت پسند اور دنیا دار تھے۔  انھوں نے زیادہ وقت اپنے دادا کے ساتھ گزارا۔ ان سے زندگی اور لوگوں کے بارے میں بہت کچھ سیکھا۔  انھوں نے سیکھ لیا کہ اس دنیا میں طاقت ہی سکہ رائج الوقت ہے۔  اسی لیے ہمشہ طاقت حاصل کرنے کوشش کرو باقی چیزیں خود آتی جاتی ہیں۔

سیاست کا صرف اور صرف ایک مقصد ہے:  طاقت حاصل کرنا۔  اس کے علاوہ جو ہے وہ صرف باتیں ہیں۔

چچا جان گئے، جدید دور میں گاؤں کی زمینوں میں کچھ نہیں رکھا۔  اسی لیے وہ قسمت آزمانے کراچی چلے آئے۔  ان کا ذہن پڑھنے لکھنے سے زیادہ سازشوں اور دونمبریوں میں چلتا۔ انھوں نے دونمبر طریقے سے ماسڑ کیا۔ بیک ورڈ ایریا کے کوٹے پر جیل خانہ جات میں اچھے عہدے پر لگ گئے۔

ان کے نزدیک جائز ناجائز کی باتیں کوئی حیثیت نہیں رکھتی تھیں۔  انھیں صرف اور صرف پیسہ اور طاقت سے غرض تھی۔  یہاں آ کر ان کی دونوں خواہشیں پوری ہونے لگیں۔ جیل کا انچارج بن کر وہ خود کو چھوٹا موٹا خدا سمجھنے لگے۔

پروموشن اور بڑی سیٹوں کے لیے بڑوں کا خوش ہونا بہت ضروری ہے۔ اسی لیے انھوں نے سیاست دانوں اور ادارے کے بڑوں سے تعلق قائم کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا۔  ان کی دعوتیں کرتے، تحفے تحائف بھیجتے، انھیں شکار پر لے جاتے، غرض یہ کہ ان کی خواہشوں کی تکمیل کے لیے کسی بھی حد تک چلے جاتے۔

بڑوں کا حصہ تھوڑا زیادہ پہنچاتے۔  ان کی یہی خوبیاں بڑوں کو اچھی لگتیں۔  ان کے خیال میں ایسا شخص سسٹم چلانے کے لیے بہت ضروری ہے۔  انھیں ہمیشہ بہتریں قسم کی جیلیں دی جاتیں، جہاں کھانا پینا اور سیاسی اثر رسوخ سب سے زیادہ ہوتا۔

چچا نے شادی کے لیے بھی محبت اور مطابقت جیسی فضولیات کو مد نظر نہ رکھا۔  بلکہ ایک اعلیٰ افسر کی طلاق یافتہ بیٹی سے شادی کر لی۔  وہ لڑکی ان سے عمر میں پانچ سال بڑی اور ایک لڑکی کی ماں تھی۔  چچا نے ان سب باتوں کو قبول کر لیا۔  اس شادی کا فائدہ بھی انھوں نے جلد ہی اٹھالیا اور سب سے اچھی جیل کا چارج سنبھال لیا۔

میری چچی نے پہلی شادی اپنی پسند سے اور گھر سے بھاگ کر کی۔  ان کی اس شرمناک حرکت نے کمیونٹی میں ان کے خاندان کی ناک کٹوا دی۔  چچی کے والد بیوروکریٹ تھے۔ ان کا بیٹی کے ذریعے بڑے خاندانوں تک رسائی کا خواب چکنا چور ہو گیا۔

لڑکے غریب اور معمول خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔  جب عشق کی شدت میں کمی آئی تو زندگی کی تلخ حقیقتیں نظر آنا شروع ہوئیں۔ ناز و نعم اور نوکروں چاکروں میں پلی لڑکی کا معمولی سی تنخواہ میں کہاں گزارا ہوتا۔  اپنی غلطی کا احساس ہونے تک کافی دیر ہو گئی۔  بیٹی کی پیدائش سے پہلے ناقص دیکھ بھال کی وجہ سے مرتے مرتے بچیں۔ بیٹی کی پیدائش کے فوراً بعد اپنے باپ کے گھر چلی گئیں اور باپ سے اپنے کیے کی معافی مانگ لی۔

"باپ بہر حال باپ ہوتا ہے "، اس نے معاف کر دیا۔  کچھ ہی عرصہ میں طلاق کے کاغذات بھی پہنچ گئے۔ احساس ندامت چھپانے کے لیے چچی نے اپنی ساری توجہ بچی کی تربیت پر لگادی۔  اپنی غلطی کے بعد انھیں دوبارہ شادی کی توقع نہ رہی۔ لیکن باپ کی پوسٹ کی وجہ سے قسمت ان پر مہربان ہوئی۔ ان سے پانچ سال چھوٹا لڑکا ان سے شادی پرتیار ہو گیا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

چچا کے بنگلے میں داخل ہوتے ہی میری نظر لان میں بیٹھی ایک لڑکی پر پڑی۔  اس نے ایک لوز ٹراؤزر اور ٹی شرٹ پہنی تھی۔  وہ اپنے پیروں کے ناخنوں پر نیل پالش لگا رہی تھی۔  اس کو پہلی نظر میں دیکھ کر ہی احساس ہوا کہ میں نے آج تک اس سے زیادہ خوبصورت لڑکی نہیں دیکھی۔ مجھ جیسے گاؤں سے آئے نوجوان سے کے لیے یہ لڑکی کسی حور سے کم نہیں تھی۔  اس کا گورا رنگ نین نقش اتنے منفرد تھے کہ میں کچھ دیر تک دیکھتا ہی رہ گیا۔  وہ دور بیٹھی بالکل ایک "ایرانی بلی” لگتی۔

بعد میں معلوم ہوا کہ وہ واقعی ایرانی بلی جیسی ہے۔  جو معصوم اداؤں سے دل موہ لیتی ہے پھر گھات لگا کر بے دردی سے شکار کرتی ہے۔  اس کا نام عنبر تھا۔ وہ چچا کی سوتیلی بیٹی اور چچی کی پہلی اولاد تھی۔  چچی کو میرا گھر آنا بالکل اچھا نہ لگا۔  انھوں نے بہت کوشش کی کہ میں اس گھر میں نہ رہوں پر چچا کے غصے کے سامنے انھیں ہار ماننا پڑی۔  دادا نے مرتے وقت انھیں وصیت کی کہ اب تیمور کی دیکھ بال تمھارے ذمہ ہے۔  چچا کو برا تو لگا ہو گا، لیکن باپ کی آخری خواہش کو رد کرنا مناسب نہ سمجھا۔ دادا نے اسی لیے خاندانی حویلی اور زمینیں ان کے نام لگا دی تھیں۔  انھوں نے اپنی بہنوں کا حصہ بھی ہڑپ کر لیا۔

مجھے چچا کا گھر اجنبی اجنبی محسوس ہوا۔  یہاں پہلے دن سے ہی میری حیثیت ایک کم تر انسان جیسی تھی۔  چچی مجھے بالکل بھی قبول نہ کر سکیں۔  اسی لیے مجھ سے دور دور رہتیں۔  ان کی لگائی گئی شکایتوں کی وجہ سے آئے دن چچا میری پٹائی لگاتے۔  مجھے مدرسہ کے علاوہ کبھی پٹائی کا تجربہ نہیں تھا۔  چچا کو معلوم نہیں کیوں بہت غصہ آتا۔  یہ غصہ صرف چیخنے چلانے سے کم نہ ہوتا۔  وہ مارنا شروع کرتے تو ان کی آنکھوں میں عجیب سی لذت نظر آنا شروع ہو جاتی۔

مار کھانے کے بعد میں خاموشی سے اپنے کمرے میں بیٹھ کر روتا رہتا۔  مجھے ماں یاد آتی۔ ایک ایسی تنہائی کا احساس ہوتا کہ دم گھٹنے لگتا۔  اس گھر میں سب ہی میرے دشمن تھے۔  چچا کی بیٹی عنبر مجھ سے چار سال بڑی تھی۔ وہ بھی مجھ سے اپنی نفرت کے اظہار کو کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دیتی۔  چچی اور عنبر کو یوں لگتا جیسے کوئی شودر ان کے گھر میں گھس کر ان کے گھر کو ناپاک کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

میں نے کئی بار سوچا بھاگ جاؤں، مگر ہمت نہ پڑتی۔

میرا کمرہ سب سے الگ اور گھر کی پچھلی طرف تھا جہاں کوئی نہ آتا جاتا۔ اس گھر میں کوئی کتابیں نہ پڑھتا۔  پھر بھی پر مہینے ڈھیروں نئی کتابیں خریدی جاتیں، یا تحفے میں آتیں۔  یہ کتابیں صرف لوگوں کو دکھانے کے لیے ہوتیں۔  امیر گھرانوں میں ایسے شوق بھی ہوتے ہیں۔  مجھے پورے گھر میں صرف اسی جگہ سکون ملتا۔  میں چپکے سے جا کر اپنی پسند کی کتابیں لے آتا۔  شروع شروع میں نوکروں نے میری شکایتیں لگائیں۔ ان کا خیال تھا میں کتابیں چوری کر کے بیچتا ہوں۔

ایک دن چچا غصے سے میرے کمرے میں آئے اور مجھے کتاب پڑھتا دیکھا۔ ان کا غصہ تھوڑا ٹھنڈا ہوا۔

کہنے لگے، تو بھی اپنے باپ اور دادا پر گیا ہے جنھیں ان فضول کتابوں میں دلچسپی محسوس ہوتی تھی۔  تم کتابیں پڑھنے والے اصل زندگی سے فرار حاصل کر کے سمجھتے ہو، تمھیں زندگی کے بارے میں بہت پتا ہے۔

تو آج سے ہر ہفتے میرے ساتھ جیل جایا کرے گا تاکہ تجھے اندازہ ہو سکے، اصل زندگی کیا ہے اور انسان کیا ہوتے ہیں۔

مجھے یقین تھا تو کبھی کتابوں کو نہیں بیچ سکتا۔  تجھے جو کتاب چاہیے ہو لے لیا کر۔ ہاں پڑھنے کے بعد وہیں رکھ دینا۔

اس دن کے بعد مجھے لائبریری میں بیٹھ کر پڑھنے کی اجازت مل گئی۔

میں کتابیں پڑھنے کے علاوہ اس گھر کی دنیا کو سمجھنے کی کوشش کرتا۔  چچا ایک سرکاری ملازم ہونے کے باوجود کروڑوں کماتے۔  چچی ان کے پیسے کو خرچ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتیں۔  ہر وقت شاپنگ اور سوشل گیدرنگز میں مصروف رہتیں۔

آئے دن گھر میں پارٹیاں ہوتیں، جن میں شہر کی سیاسی و سماجی شخصیات مدعو ہوتیں۔  یہ دولت کی نمائش اور گوسپ کا موقع ہوتا۔  جس میں دیکھا جاتا:  کس نے پلاسٹک سرجری کروا ئی ہے، کس نے ویٹ لوز کیا ہے، اور کون ینگ لگ رہی ہے۔

50 سال کی عورتیں بھی ایسا لباس پہنتیں کہ بیس سالہ لڑکی شرما جائے۔  یہ ڈسکس کیا جاتا کہ:  کون ہوٹ ہے اور کون ہٹ جا رہا ہے۔  کون سی فلم اچھی ہے۔  کس عورت کا کس سے چکر چل رہا ہے۔  کون کس سے شادی کرنے جا رہا ہے۔

مردوں کی باتیں بھی گوسپ ہی ہوتیں۔ مگر ان میں بزنس اور پالیٹکس زیادہ ہوتی۔  عورت ہو یا مرد ہر کوئی طاقت ور اور مشہور شخصیات کے آگے پیچھے ہی گھومنے کی کوشش کرتا۔  یہ پارٹیاں تعلقات بنانے اور لوگوں سے کام نکلوانے کا ایک اچھا ذریعہ ہوتیں۔

مجھے ان پارٹیوں میں شامل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ اس بات کا ڈر تھا، کہیں میں اپنے پینڈو پن سے ان کا امیج خراب نہ کر دوں۔  میں نوکروں کی طرح ان پارٹیوں اور لوگوں کو دلچسپی سے دیکھتا۔  ویسے تو کبھی کسی نے مجھے نوٹ نہیں کیا۔  اگر کر بھی لیتا تو یہی سمجھتا:  کوئی نوکر ہے۔

رات گئے تک یہ پارٹیاں چلتیں۔  گلاسوں میں بچی ہوئی ڈرنکس کو نوکر پیتے۔ بچا ہواکھانا نوکر کھاتے اور گھروں کو لے جاتے۔  میں حیرت سے ان ساری کاروائیوں کو دیکھتا اور ان کی سینس پیدا کرنے کی کوشش کرتا۔

یہ سارے لوگ، اتنی دولت، اتنی خوبصورتی، اتنا کھانا اور اتنی شراب اور اتنی باتیں کس لیے ہیں۔  مجھے کچھ سمجھ نہ آتی۔  یہ دنیا بھی الف لیلا کی طرح انوکھی تھی۔  ہر بات کا ظاہری مطلب کچھ اور ہوتا اور حقیقی مطلب کچھ اور۔  مسکراہٹ کے پیچھے طنز ہوتا اور سنجیدگی کے پیچھے بیوقوفی۔  کسی کی سخت ترین بات کو بھی ہنس کر سہا جاتا اور کسی کی خوشامد پر بھی غصہ دکھایا جاتا۔

کیونکہ یہ محفلیں چچی کی جانب سے دی جاتیں اسی لیے وہ ہی محفل کی جان ہوتیں۔  چچا ان پارٹیوں میں کسی نہ کسی اہم سیاسی و سماجی شخصیت کی خوشامد کرتے نظر آتے۔  یقیناً ان پارٹیوں سے انھیں کافی فائدہ ہوتا ہو گا اسی لیے تو اتنے پیسے خرچ کرتے تھے۔

ینگ لڑکے لڑکیاں ان پارٹیز میں کم ہی آتے۔  اسی لیے عنبر ان پارٹیز سے بور ہو جاتی۔  چچی اسے پارٹیز میں لوگوں سے سوشلائز کرنے کا کہتیں۔ پر وہ جلد بور ہو کر چلی جاتی۔  اسے اپنے ہم عمر لوگوں کے ساتھ ہینگ آوٹ کا شوق تھا۔  ان لڑکے لڑکیوں کی مجھے تو سمجھ نہ آتی۔ یہ لوگ صرف انگریزی میں بات کرتے۔  فارن برینڈ سے کم کی کوئی چیز نہ تو پسند کرتے اور نہ ہی استعمال کرتے۔  یہ اس ملک کی ہر چیز کو پرایا سمجھتے ہوئے باہر زندگی گزارنے کی خواہش ظاہر کرتے۔

ان کی شاپنگ اور ہولی ڈیز دبئی، فرانس اور سوئزرلینڈ میں ہوتے۔  مذہب اور اخلاقیات ان نوجوانوں کے لیے اجنبی چیزیں تھیں۔  یہ لوگ چھپے کھلے وہ سب کرتے جو حرام اور برا ہے۔ پتا نہیں کیوں عنبر کو ان لڑکی نما لڑکوں کے ساتھ دیکھ کر مجھے اچھا نہ لگتا۔  میں اپنے جذبات کو اس وقت کوئی نام نہ دے سکا۔

مجھے اس گھر میں آئے کافی مہینے ہو گئے۔  اس دوران میری اور عنبر کی گفتگو کبھی نہیں ہوئی۔ البتہ جب بھی میں اسے دکھائی دیتا، وہ حقارت کی ایک نگاہ مجھ پر ضرور ڈالتی۔  ہمیشہ طنزیہ انداز سے کوئی نہ کوئی جملہ ضرور کستی۔ ہمیشہ مجھے پینڈو کہہ کر ہی پکارتی۔  یہ بات میرے دل میں کھب جاتی۔  پر جس دن وہ مجھ پر حقارت کی نگاہ ڈالے بغیر گزر جاتی، مجھے ہلکی سی خلش بھی محسوس ہوتی۔ جیسے اس نے مجھے حقارت کے قابل بھی نہیں سمجھا۔

وہ مجھ سے جتنی نفرت کرتی اتنا ہی میرا دل اس کی جانب کھنچتا چلا گیا۔  میں چھپ چھپ کر اس کو دیکھنے کی کوشش کرتا۔  جب وہ گھر میں نہ ہوتی تو بیچینی سے اس کا انتظار کرتا۔ میں جان بوجھ کر اس کے سامنے آنے کی کوشش کرتا تاکہ وہ مجھے نوٹس تو کرے۔

وہ مجھ سے پانچ سال بڑی تھی لیکن مجھے اس بات کی کوئی فکر نہیں تھی۔  مجھے نہیں معلوم یہ محبت تھی کہ نہیں، پر میں نے ایسے جذبات کبھی کسی کے بارے نہیں محسوس کیے۔  وہ سامنے آتی تو میرے دل کی دھڑکن خود بخود تیز ہو جاتی۔ اس کے چہرے کو دیکھنے کے علاوہ کسی بات کا ہوش نہیں رہتا۔  اس کی بے پرواہی میرے جذبات پر پڑول چھڑک دیتی۔

وہ اپنے تمام دوستوں میں سب سے زیادہ پراؤڈی اور نخرے والی تھی۔  اسے ہر وقت توجہ کا مرکز بننا پسند تھا۔ اگر کوئی اسے توجہ نہ دیتا تو شدید ناراض ہو جاتی۔  اپنے دوستوں پر بھی یوں رعب جھاڑتی جیسے وہ اس کے ماتحت ہوں۔  یہ بات شاید اس نے چچا اور چچی سے سیکھی تھی۔  اپنی سہیلیوں کو ذلیل کر کے بہت انجوائے کرتی۔

ان سب برائیوں کے باوجود میں دن بدن اس کا دیوانہ ہوتا گیا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔

یہ حصۃ مکمل پڑھنے کے لیے

ورڈ فائل

 

ای پب فائل

 

کنڈل فائل