FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

بے زبانی زباں نہ ہو جائے

(حفیظ ہوشیار پوری ۔۔  بیسویں صدی کی اردو غزل کے تناظر میں )

 

 

ڈاکٹر قرۃالعین طاہرہ

مقالہ:  پی ایچ ڈی ۱۹۹۹ ء

 

نگران: ڈاکٹر سہیل احمد خان

گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی، لاہور

 

 

یہ حصہ مکمل ڈاؤن لوڈ کریں

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

 

 

 

ابّا جی کے نام

 

٭سلیمہ خانم، نذیر احمد

 

قرۃ العین طاہرہ کے ادبی مضامین، ادبی جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں، لیکن حفیظؔ ہوشیار پوری کی شخصیت اور ان کی غزل گوئی کا زیرِ نظر جائزہ مربوط اور منظم ہے۔  قرۃالعین طاہرہ نے حفیظؔ صاحب کے بارے میں مختلف ناقدین کے تجزیوں کو پیشِ نظر رکھا ہے، لیکن حفیظ ؔکے ادبی طرزِ احساس اور ان کے کلام کی تہ بہ تہ کیفیات کو گرفت میں لینے کے لیے مناسب تنقیدی اسلوب وضع کیا ہے۔  حفیظؔ ہوشیارپوری کی غزل گوئی پر اب تک جو کچھ لکھا گیا ہے، حفیظؔ کی غزل اس سے کہیں زیادہ توجہ کی مستحق ہے۔  قرۃالعین کی اس تصنیف سے حفیظؔ شناسی کے نئے مراحل کی سمت نمائی ہو سکے تو اس کی اہمیت اور بڑھ جائے گی۔

ڈاکٹرسہیل احمد خان

صدرشعبۂ اردو

گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی، لاہور

 

 

جگرؔ، حسرتؔ، فانیؔ، اصغرؔ، فراقؔ، یگانہؔ اور حفیظ ؔجالندھری کے سے غزل گو شعراء کے دور میں حفیظؔ ہوشیارپوری کی غزل ہر لحاظ سے سربرآوردہ رہی۔  کمی صرف یہ رہی کہ خود حفیظؔ ؔاپنی غزلوں کو کتابی صورت میں مرتّب کرانے سے بے نیاز رہے۔ قرۃالعین طاہرہ نے حفیظؔ کی شخصیت اور فن کو اپنے تھیسس کا موضوع بنا کر نہ صرف حفیظ پر بلکہ پوری تاریخ اردو ادب پر احسان کیا ہے۔  اپنے ہی کلام کی اشاعت سے بے نیازی کے سبب قرۃالعین طاہرہ کو بے شمار مشکلات کا سامنا رہا ہو گا مگر انھوں نے جس کاوش اور لگن سے اپنے اس نہایت اہم موضوع کے ساتھ انصاف کیا ہے، وہ ہر ادب دوست کی طرف سے بھر پور تحسین کا مستحق ہے۔  میں حفیظ ہوشیارپوری کے بارے میں اس بنیادی اہمیت کی تصنیف کا دل کی گہرائی سے خیرمقدم کرتا ہوں۔

احمد ندیمؔ قاسمی

 

 

 

اردو کے مستقبل کے تین اہم شاعر راشدؔ، فیض ؔاور حفیظؔ ہوشیار پوری ایک ہی وقت میں گورنمنٹ کالج لاہور میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ ان کی عمروں میں بھی کوئی زیادہ فرق نہیں تھا راشدؔ ۱۹۱۰ ء میں فیض ؔ۱۹۱۱ء میں اور حفیظؔ ۱۹۱۲ء میں پیدا ہوئے تھے۔  طالب علمی کے زمانے میں ہی ان تینوں نے اپنے لیے الگ الگ راستے اختیار کر لیے تھے۔  راشدؔ نظمِ آزاد کو فروغ دینے میں کوشاں تھے توفیضؔ نے خود کو ایک سیاسی مسلک سے وابستہ کر لیا تھا۔  حفیظؔ نے کلا سیکی شاعری کے انداز ہی کو اپنا کر اس میں نئی جہتیں پیدا کیں، تینوں نے اردو، فارسی اور انگریزی زبانوں کے ادب کا گہرا مطالعہ کر رکھا تھا اور تینوں بے حد محتاط فنکار تھے، راشدؔ نے آزاد نظم کے تجربے کیے اور ان میں کمال حاصل کیا۔  فیضؔ نے اپنی سیاسی اور نیم سیاسی نظموں میں غنائیت اور رومانیت کو شامل کر کے ایک نیا انداز اختیار کیا۔  حفیظؔ نے شاعری کی مروّجہ ہیئتوں میں رہ کر دائمی موضوع محبت پر ہی نظمیں کہیں اور اپنے انداز میں شاعری کو بہت کچھ دیا۔  سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ انھوں نے غزل کی صنف کو اپنایا۔  جب حفیظ نے شعرکہنا شروع کیا اسز مانے میں غزل کے خلاف بہت سی آوازیں اٹھائی جا رہی تھیں اس کو نیم وحشی صنف تک کہا گیا اور پرانی اور دقیانوسی، فرسودہ، پیش پا افتادہ اور نہ جانے کیا کیا نام دے کر راندۂ درگاہ قرار دیا گیا، ایسے میں یہ فیصلہ کرنا کہ کلاسیکی ہیئتوں میں رہ کر ہی نئی اور جدید شاعری کی جا سکتی ہے، بڑی ہمّت اور حوصلے کا کام تھا۔  اس بات کا ذکر شاید دلچسپی سے خالی نہ ہو کہ حفیظ ہوشیار پوری حلقۂ ارباب ذوق کے نہ صرف ایک اہم رکن تھے بلکہ انجمن کے بانیوں میں سے تھے اور حلقۂ اربابِ ذوق جدید نظم کو رائج کرنے اور فروغ دینے میں سب سے آگے ہی نہیں بلکہ واحد ادارہ تھا۔  ایسے میں ان کا غزل کے محاذ پر ایک سپاہی کی طرح ڈٹے رہنا باعثِ حیرت ضرور تھا۔  پھر غزل کے موضوع کے طور پر انھوں نے محبت ہی کو اولیت دی، مگر اس میں بھی انھوں نے جدّتیں پیدا کیں۔  بیسویں صدی کے معاشرے میں تبدیلیاں نمودار ہو رہی تھیں، حتیٰ کہ اقدار تک بدل رہی تھیں۔  مغرب کا غلبہ قدم قدم پر اجاگر تھا اور مغرب سے آئی ہوئی ہر چیز کا فخر اور انبساط کے ساتھ استقبال کیا جاتا تھا۔  یہی حال انسانی رشتوں کا تھا اور حفیظ جو فلسفے کے طالب علم رہے تھے اور اسی مضمون میں انھوں نے ایم اے بھی کیا تھا، نفسیات سے بھی خوب واقف تھے۔  جدید نفسیات بھی فلسفے ہی کی ایک شاخ سمجھی جاتی تھی۔  حفیظ نے ان بدلتے ہوئے انسانی رشتوں کو، نئے جذباتی مظاہر کو اپنی شاعری میں سمویا اور محبت کے علاوہ زندگی کی بنیادی حقیقتوں کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔  ابتدا ہی سے انھوں نے ان نئے رشتوں پر غور کرنا شروع کر دیا تھا اور ایسے شعرکہنے لگے تھے:

کوئی دیکھے ہمارے احترامِ عہدِ رفتہ کو

وفا پر اب بھی قائم ہیں، محبت چھوڑ دی ہم نے

اور پھر ان کا مشاہدہ انھیں اس غزل تک لے گیا جہاں انھوں نے ایسا شعر کہا

تمام عمر ترا انتظار ہم نے کیا

اس انتظار میں کس کس سے پیار ہم نے کیا

یہاں مثالوں کی گنجائش نہیں مگر ایک نظم نما غزل یا غزل نما نظم ایسی ہے کہ جس کا ذکر کیے بغیر بات واضح نہ ہو سکے گی۔  پچپن اشعار کی اس نظم (یا غزل) ’ تقدیرِ انساں ‘ میں وہ اپنے فن کے کمال پر نظر آتے ہیں۔  یہ نظم انھوں نے اپنی وفات سے چند روز پہلے کہی تھی۔  جیسا کہ میں نے پہلے کہا وہ ایک نہایت محتاط فنکار تھے۔  لفظ کے آہنگ کے حسن سے وہ پورا فائدہ اٹھاتے تھے اور ایسی ادق باتوں کو وہ اس آسانی اور سادگی سے بیان کر دیتے تھے کہ انھیں پڑھ کر ایک خوشگوارحیرت ہوتی ہے اور یہ سب کچھ کلاسیکی ہیئت کی پیروی کرتے ہوئے انھوں نے غزل کے امکانات کی طرف نئے سرے سے اس وقت توجہ دلائی تھی جب بہت سے لکھنے والے اس ہیئت سے دامن بچانے لگے تھے۔ میرے خیال میں کوئی ہیئت بذات خود اچھی یا بری نہیں ہوتی، یہ تو اس کے استعمال پر منحصر ہے۔  شاعر اچھا ہو گا تو جو ہیئت وہ استعمال کرے گا وہی بہترین لگے گی۔  نظم، آزاد ہو یا پابند، اچھی ہو گی تو اس کی ہیئت بھی دل پذیر ہو گی۔ حفیظؔ ؔنے غزل کے سلسلے میں یہی کر دکھایا ہے۔ حفیظؔ نے خود پر اور اردو پر ایک ظلم یہ کیا کہ اپنی زندگی میں اپنا کلام کتابی صورت میں شائع نہیں کروایا، وہ اس کام کو ہمیشہ کل پر ٹالتے رہے اور انجام یہ ہوا کہ ان کی موت تک ان کا کلام ایک جگہ جمع ہو کر اشاعت پزیر نہ ہو سکا تھا۔  ہم ان سے جب بھی کہتے کہ یہ کام اب کر دیجیے۔  تو وہ ایک نظر اور ڈال لوں کہہ کرٹال دیتے۔  اس کتاب کے وقت پر نہ چھپنے سے جہاں حفیظؔ کی شناخت میں دیر لگی، وہاں دوسرے شعراء سے موازنے میں بھی کچھ اونچ نیچ ہوتی رہی۔ حفیظؔ ہوشیارپوری جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے کہ نئے انسانی تعلقات، نئے رشتوں اور نئے انداز کی محبتوں کا صورت گر تھا۔  نئی حقیقتوں کا نباض تھا۔  اس سلسلے میں کچھ دوسرے شاعروں کا ذکر کیا جاتا ہے۔  ممکن ہے کہ ان کا مجموعۂ کلام پہلے شائع ہو گیا ہوتا تو اِن سہروں کی کچھ لڑیاں جو اُن کے سروں پہ نظر آتی ہیں، حفیظؔ ان کے حق دار ٹھہرتے۔  قرۃالعین طاہرہ مستحقِ تحسین و تبریک ہیں کہ انھوں نے اپنے مقالے کے لیے حفیظؔ کو منتخب کیا اور یہ کام انتہائی ذمّہ داری اور خوبصورتی سے نبھایا، ڈاکٹر پروفیسر سہیل احمد خان بھی ہمارے شکریے کے مستحق ہیں کہ انھوں نے اس کارِ خیر کی تکمیل کے سلسلے میں ہر طرح کی معاونت فرمائی۔

 

ضیا جالندھری

 

 

تاریخِ ادب کے جاننے والے اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بڑی آوازوں کے ہجوم میں کوئی بہت اہم آواز اپنید ل نشینی اور دل آویزی کے باوجود اس طرح ظہور نہیں کر پاتی جیسا کہ اس کا حق ہوتا ہے، اقبالؔ کے بعد ہمارے شعری منظر نامے میں بہت سے اہم لوگ نظر انداز ہوئے ان میں غزل کے حوالے سے ایک بہت اہم نام حفیظؔ ہوشیارپوری کا ہے۔  حفیظؔ ہوشیار پوری کی غزلیں ان کی زندگی میں چھپتی بھی رہی ہیں اور ممتاز گلوکاروں کی آواز میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر نشر بھی ہوتی رہی ہیں، ان کے اشعار اجتماعی حافظے کا وسیلہ بھی بنے۔  مگر ان کا واحد شعری مجموعہ جو انھوں نے زیرِ لب کے عنوان سے اپنی زندگی میں ہی مرتب کر لیا تھا ’’مقام غزل‘‘ کے نام سے ان کی پہلی برسی کے موقع پر شائع ہوا۔

تمام عمر ترا انتظار ہم نے کیا ::اس انتظار میں کس کس سے پیار ہم نے کیا

مگر حیرت ہوئی کہ اشاعتِ شعر کے باوجود جہانِ ادب نے حفیظ کی شاعری کو اس طرح نہیں دیکھا جیسا کہ اس کا حق تھا۔

ڈاکٹر قرۃالعین طاہرہ کی کاوش ’’بے زبانی زباں نہ ہو جائے …‘‘ ہمارے تنقیدی اور تحقیقی ادب میں بجا طور پر داد و تحسین کی مستحق ہے اور مواد و متن کے حوالے سے ایک بڑے خلا کو پر کرتی ہے۔  حفیظؔ ہوشیارپوری کے بارے میں معمول کی دو ایک باتوں کے علاوہ سوانحی حوالے سے بھی لوگ نا واقف ہیں اور سچیّ بات یہ ہے کہ اِکّادُکّا تاثراتی مضمون کے علاوہ کسی نے جم کر حفیظ کی شاعری پر اب تک کوئی مؤ ثر گفتگو نہیں کی۔

ڈاکٹرقرۃالعین طاہرہ کی نظر، محنت اور لگن کتاب کے ایک ایک ورق سے نمایاں نظر آتی ہے۔  نہ صرف یہ کہ اس کتاب سے حفیظؔ کی شخصیت اور فن کو سمجھنے اور پرکھنے کی معتبر و مستند صورتیں سامنے آتی ہیں بلکہ اس پورے عہد کے شعری مزاج کی تفہیم اور تجزیے کے کچھ نئے معیار اور زاویے بھی مہیا ہوتے ہیں۔  ایک نظر انداز مگر صاحب جوہر شاعر پر اتنا وقیع اور معیاری کام کر کے ڈاکٹرقرۃالعین طاہرہ نے بلاشبہا یک بڑی خدمت سر انجام دی ہے۔

افتخار عارف

 

 

 

حفیظؔ ہی کیوں ؟

 

حفیظؔ کی غزل کی مختصر ترین تعریف ان الفاظ میں کی جا سکتی ہے۔

ان کی شاعری محبت میں تہذیب و شائستگی کی وہ مثال ہے، جو جدید اردو غزل کے لیے نئی تو نہیں لیکن کمیاب ضرور ہوتی جا رہی ہے۔

حفیظؔ غزل کی اس روایت سے منسلک ہیں، جس کے سلسلے کی پہلی کڑی میرؔ تھے۔  حفیظؔ کی غزل، غزل کے معیار پر پوری اترتی ہے کہ غزل زخمی ہرن کی آہ کا نام ہے۔  حفیظؔ کی شاعری میں اس آہ کی گونج ہے۔  غزل تیر نیم کش کی کسک ہے، یہ چبھن حفیظؔ کی غزل میں جا بجا نظر آتی ہے۔  غزل، محبوب سے باتیں کہنے سننے کا فن ہے، حفیظؔ کی غزل اس سے عبارت ہے۔  غزل ذاتی واردات کا بیان ہے۔  شاعر کائنات کا فرد ہے، چنانچہ کائنات بھی ذات کے حوالے سے غزل میں عیاں ہوتی ہے۔  حفیظؔ کی غزل میں ذات و کائنات کا آہنگ موجود ہے۔  یہ الگ بات ہے کہ ذات نمایاں رہتی ہے۔

حفیظؔ فلسفہ کے طالب علم رہے ہیں۔  یہی وجہ ہے کہ ان کی غزل فلسفیانہ مسائل سے تہی نہیں، لیکن ان کی غزل، فلسفیانہ موشگافیوں کا چیستاں نہیں۔  فلسفیانہ خیالات ملتے ہیں جو قاری کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں، اسے بیزاری عطا نہیں کرتے۔  فلسفیانہ فکر کی نشو و نما کے لیے تین مرحلے ناگزیر ہیں۔  پہلا مرحلہ عقلیت کا ہے، جس سے انسان اپنی ذات اور کائنات کا علم حاصل کرتا ہے۔ د وسرا مرحلہ حسّیت کا ہے کہ اب انسان معلوم کرنے کے بجائے محسوس کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔  تیسرا مرحلہ وہ ہے کہ جب انسان عالم معلوم اور عالم محسوس کو کبھی رد کرتا ہے اور کبھی قبول اور نقد و نظر سے کام لے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ عقل و حواس دونوں ہی علم کے حصول کے لیے لازمی ہیں۔  حفیظؔ کی غزل اسی معلوم اور محسوس کرنے کا بیان ہے، لیکن ان کی غزل ثابت کرتی ہے کہ وہ عقل کی برتری کے قائل نہیں۔

تیری منزل پہ پہنچنا کوئی آسان نہ تھا

سرحدِ عقل سے گزرے تو یہاں تک پہنچے

حفیظؔ کی غزل کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ انھوں نے غزل کو غزل ہی رہنے دیا، اسے کسی تجربہ گاہ کی حیثیت کبھی نہیں دی، جبکہ یہ بات نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ ساٹھ کی دہائی ہر صنف میں تجربات کا ایک طوفان لیے ہوئے ظاہر ہوئی تھی۔  چوک میں تانگہ الٹ جانے سے لے کر گاہک کا کال دیکھ کر دھندا بدل دینے تک سبھی تجربے اور مشاہدے اپنی تمام تر اسلوبی اور موضوعاتی کرختگی و درشتی کے ساتھ غزل میں در آئے تھے۔  وہ تمام موضوعات انتظار، اداسی، تنہائی، محرومی، یافت و نایافت، محبت کی طلب، ترکِ محبت کی آرزو، اپنی ذات کی تلاش وغیرہ، جو ابتدا سے غزل کا حصّہ رہے ہیں، حفیظؔ کی غزل میں بھی موجود ہیں، لیکن صرف اس فرق کے ساتھ کہ ان عمومی موضوعات پر ایسے اشعار مل جاتے ہیں جہاں کسی اور شاعر کے تخیّل کی پرواز نہ پہنچ پائی تھی۔  انتظار کے موضوع پر حفیظؔ کا یہ شعر دیکھیے جو آج زبانِ زدِ عام ہے اور جس میں انسانی نفسیات کے ایک گہرے اور پیچیدہ پہلو کو موضوع بنایا گیا ہے۔

تمام عمر ترا انتظار ہم نے کیا

اس انتظار میں کس کس سے پیار ہم نے کیا

حفیظؔ کی شاعری میں زمانے کے سیاسی نشیب و فراز کا گہرا شعور بھی ملتا ہے۔  قیامِ پاکستان، ہجرت اور پھر سیاسی رہنماؤں کے طرزِ سلوک سبھی رویّوں کا بیان ہے۔

خوفِ رہزن بھی ہے اندیشۂ رہبر بھی حفیظ

منزلیں سخت ہیں آغازِ سفر سے پہلے

حفیظؔ کی غزل اسلوبی لحاظ سے بھی روایتی غزل سے منسلک ہے۔ ا نھوں نے کلاسیکی انداز سے کبھی صرفِ نظرنہ کیا۔  آسان زبان، سلاست و روانی، مشکل ثقیل و کرخت الفاظ سے گریز نے ان کی غزل کو عام فہم بنا دیا ہے۔  ان کی غزل کا دھیما لہجہ بڑی سے بڑی بات بالکل عام انداز میں کہہ دینے کا فن، کہ قاری پہلے سرسری گزرجاتا ہے پھر سوچتا ہے تو حیران رہ جاتا ہے کہ یہ خیال اپنے اندر کتنی گہرائی رکھتا ہے۔  ایجاز و اختصار، سادگی، روانی، نغمگی، لطیف انداز بیان، زیر لبی اور مترنم طرز ادا ان کی غزل کے خاص اوصاف ہیں۔

آغازِ محبت سے انجامِ محبت تک

محفوظ ہیں سب یادیں اور یاد ہیں سب باتیں

مختصر یہ کہ حفیظؔ کا کلام انھیں زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے لیکن بسا اوقات ایسا بھی ہوا ہے کہ ایک عام شعر کہنے والا شاعر زیادہ مشہور ہو جاتا ہے۔  (مشہور اور مستند میں فرق کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا) اور کبھی یوں بھی ہوا ہے کہ ایک اہم اور معتبر شاعر زمانے کی ناقدری کے ہاتھوں پامال ہو کر خاک میں جا سویا اور ساتھ ہی اس کا کلام بھی۔

حفیظؔ وہ شاعر تھے، جو ایک طویل عرصے تک اہم سرکاری عہدے پر فائز رہے۔  وہ زندگی میں اپنا مختصر مجموعۂ کلام بغیر کسی دشواری کے شائع کرواسکتے تھے، لیکن فطری بے نیازی اور بے داغ تکمیلیت کی عادت کے باعث وہ ان کی زندگی میں شائع نہ ہو سکا اور جو مجموعۂ کلام ان کی وفات کے بعد منصہ شہود پر آیا وہ ان کی مکمّل نمائندگی نہیں کرتا۔  پھر ان چند خوش قسمت مرحوم شعرائ، کہ جن پر ان کی وفات کے بعد مسلسل اور خاصا اہم کام ہو رہا ہے، کے برعکس حفیظؔ کی شاعری کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جس کی وہ متقاضی تھی۔

حفیظؔ کی غزل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں میرؔ کا سوز، غالبؔ کی ایمائیت، جگرؔکا ایجازو اختصار، اصغرؔ کی فلسفیانہ ژرف نگاہی، حسرتؔ کی اخلاقی اقدار کی پاس داری و مہذب و شائستہ انداز اور فراق ؔکی محبوبیت موجود ہے۔

کیا شاعر اپنی ذات میں کچھ نہیں ہوتا، حفیظؔ کا انفرادی رنگ کیا تھا، کیا خوبی تھی ان کی غزل میں کہ ان کے ہم عصر یہ کہنے پر مجبور ہو گئے تھے۔

’’اچّھے اشعار سب حفیظؔ کے کھاتے میں چلے جاتے ہیں‘‘

حفیظؔ کی انفرادیت کی تلاش اور بیسویں صدی کی اردو غزل کے تناظر میں حفیظؔ کی غزل کی اہمیت، یہی میرے اس مقالے کا موضوع ہے۔

اصل مقالہ چھ ابو اب پر مشتمل تھا، پہلے باب میں حفیظؔ کا خاندانی پس منظر، تعلیم، اساتذہ، ازدواجی زندگی، ملازمت اور وفات کے تذکرے کے علاوہ ان کی شخصیت، عادات اور ان کے حلقۂ احباب کو موضوع بنایا گیا ہے۔  لفظ ’’مکمّل‘‘ کا استعمال بہت احتیاط کا متقاضی ہے، لیکن حفیظؔ کے معاملے میں اسے برتا جا سکتا ہے۔  وہ ایک مکمل شاعر، مکمل تاریخ گو اور مکمل محقّق تھے۔ اس باب میں ان کے فن بدیہہ گوئی، نظم گوئی، تاریخ گوئی، مضامین، علاقائی تراجم اور مثنویات ہیر رانجھا پر انھوں نے جو سیر حاصل کام کیا ہے، کا بھی تجزیہ کیا گیا ہے۔

باب دوم میں ’’اردو غزل حفیظؔ سے پہلے‘‘ کے عنوان کے تحت اہم شاعروں اور غزل کے بدلتے رحجانات پر بحث کی گئی ہے۔

باب سوم میں بیسویں صدی کا ادبی منظر نامہ اور بیسویں صدی میں شعر و ادب میں اٹھنے والی تحریکیں اور ان کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔

باب چہارم میں حفیظؔ کی غزل کے موضوعات، کلاسیکی غزل کی روایت، معاملات حسن و عشق، تصوّر محبوب، غمِ جاناں و غمِ دوراں، تہذیب و شائستگی، ہجرت کا تجربہ، رہنماؤں کا طرزِ سلوک وغیرہ سے بحث کی گئی ہے۔

باب پنجم میں حفیظؔ کا شعری اسلوب کا تجزیہ کیا گیا ہے، جو روایتی بھی ہے اور جدید بھی لیکن جدیدیت سے گریز نے اسے وہ پائندگی بخشی کہ آج بھی ان کے اشعار اپنے ترنم اور موسیقیت کے باعث ذہنوں میں تازہ ہیں۔

باب ششم میں حفیظؔ کے اہم معاصرین یعنی فراقؔ و ناصرؔ سے تفصیلی تقابلی تجزیہ کیا گیا ہے اور حفیظؔ کی غزل کے بارے میں ان کے معاصرین کی آراء کا جائزہ لیا گیا ہے۔

حاصلِ مطالعہ میں حفیظؔ کی غزل کے مطالعے کے بعد اردو شعری روایت میں حفیظؔ کا کیا کردار رہا، سے بحث کی گئی ہے۔

’’باقیات حفیظؔ‘‘ اس مقالے کا اہم حصہ ہے کہ جس میں حفیظؔ کی وہ نظمیں اور غزلیں یکجا کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جو مقامِ غزل میں شامل نہیں۔  مقامِ غزل کی اشاعت کو تیس سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود آج تک انھیں اکٹّھا کر کے شائع نہ کیا گیا تھا۔  حفیظؔ کے ذاتی کاغذات، ڈائری، مختلف اخبارات و رسائل سے ان کے کلام کو اکٹّھا کر کے محفوظ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔  (میری تلاش ہنوز جاری ہے )

میں نے ۱۹۹۱ ء سے آج تک اپنی تمام تر توجّہ اس کام کی جانب مبذول رکھی لیکن پھر بھی یہ احساس ہے کہ ابھی کام میں بہتری کی بہت گنجائش ہے۔

آخر میں حرف تشکر، سب سے پہلے مقالے کے نگران محترم ڈاکٹر سہیل احمد خان کے لیے کہ جنھوں نے مجھے مقالے کی تخلیق کے لیے آزاد فضا فراہم کی اور میں نے آزادی کے ساتھ مقالہ مکمل کیا، ان کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی نے اعتماد بخشا۔  مقالے کے موضوع کے انتخاب، خاکہ کی تیاری سے اختتام تک ان کی رہنمائی میرے لیے مشعلِ راہ رہی۔  یہ میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے ان کی نگرانی میں کام کرنے کا موقع میسّر آیا۔

یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن (حال، ہائر ایجوکیشن کمیشن ) کے جناب ڈاکٹر فضل ماجد خان کی بھی شکرگزار ہوں، جن کے توسط سے ڈاکٹر سہیل سے متعارف ہوئی۔

شاہدصاحب کا شکریہ میں ادا نہیں کر سکتی کہ اس مقالے میں صرف لکھنے کا کام میں نے کیا ہے، باقی رجسٹریشن سے لے کر مقالے کی کمپوزنگ، پروف ریڈنگ اور پرنٹنگ تک کے تمام مراحل انھوں نے سمیٹے۔ یہ حقیقت ہے کہ ان کے بے مثل تعاون کے بغیر میرے لیے یہ کام ممکن نہ تھا۔

دانش، سرمد اور فارد کے حصّے کا بہت سا وقت اس کی نذر ہوا، مجھے اس بات کا بہت احساس ہے، پھر منیر زیدی کا شکریہ مجھ پر واجب ہے کہ اس نے مقالے کی کمپوزنگ، بہت محنت اور محبت کے ساتھ کی۔

اکادمی ادبیات، پنجاب یونی ورسٹی لائبریری، لیاقت لائبریری کراچی، نیشنل لائبریری اسلام آباد، یونی ورسٹی گرانٹ کمیشن (ہائر ایجوکیشن کمیشن ) لائبریری اور اپنے کالج اسلام آباد کالج برائے طالبات ایف سکس ٹوکی لائبریری سے متعلقہ تمام اصحاب میری فرمائشیں جس طرح پوری کرتے رہے، اس کے لیے میں ان کی بے حد شکر گزار ہوں۔

جناب حفیظؔ کے اہلِ خانہ خصوصاً ً عصمت حفیظ اور محترم صہیب حفیظ کے مثالی تعاون کے لیے بھی ممنونِ احسان ہوں۔  مقالے کی طباعت کی تمام ذمہ داری بھی محترم صہیب حفیظ نے اٹھائی۔  اردو اکیڈمی سندھ، کراچی کے جناب عزیز خالد اور جناب شہباز مرزا کا شکریہ ادا کرنا بھی میرا خوشگوار فریضہ ہے۔  جناب احمد ندیم قاسمی، جناب ضیا جالندھری اور جناب افتخار عارف نے میرے مقالے کے بارے میں اپنی گراں قدر آراء سے آگاہ کیا، جس کے لیے میں ان کی سپاس گزار ہوں۔

اور اب شکر اس ربّ کریم کا جس نے مجھے اتنی مہلت، ہمّت اور صلاحیت بخشی کہ میں اس کام کو کر سکوں۔  انسان خدا کا شکر ادا کرے اور شکوہ کرنا بھول جائے یہ ممکن نہیں۔

’’کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور‘‘

ابّاجی مجھے ہمیشہ میری پڑھی لکھی بیٹی کہہ کر مخاطب کرتے۔  امّی جی کہا کرتیں ’’مجھے کیا علم تھا کہ تمھیں پڑھنے کا اتناشوق ہے۔  پتا ہوتا تو میں تمھیں ڈاکٹر بناتی۔‘‘

اور آج میری یہ کامیابی دیکھنے کے لیے دونوں ہی موجود نہیں۔  سارا کام ان کے سامنے کیا لیکن انھیں بتایا نہیں کہ کس مقصد کے لیے کر رہی ہوں۔  یہی خیال تھا کہ کام مکمل ہو جائے تبھی انھیں بتاؤں گی۔  اب کام مکمل ہوا ہے تو کسے بتاؤں ؟؟

 

قرۃ العین طاہرہ

۸۱۱۔  جی۔ ۴/۱۰

اسلام آباد

۲۵ فروری۱۹۹۷ء

 

 

 

 

حفیظؔ ماہ و سال کے آئینے میں

 

۵ جنوری ۱۹۱۲ء

ولادت، بمطابق ۱۵ محرّم ۱۳۳۰ھ بروز جمعہ، دیوان پور، ضلع جھنگ

۲۰ جون ۱۹۲۱ء

والد شیخ فضل محمد کا انتقال۔

 

۱۹۲۸ ء

میٹرک، اسلامیہ ہائی اسکول، ہوشیار پور۔

نومبر۱۹۳۰ء

پہلا منظوم ترجمہ شیلے کی نظم "A Widow Bird” جوطائرمہجور کے نام سے ہمایوں میں شائع ہوا۔

 

۱۹۳۰ء

سرپرست نانا شیخ غلام محمد کا انتقال۔

 

۱۹۳۱ء

انٹر میڈیٹ کالج ہوشیار پور۔  پہلی طبع زاد نظم ’’تجدیدِ محبت‘‘ اختر شیرانی کے رسالے خیالستان میں شائع ہوئی۔

مارچ۱۹۳۲ء

پہلی غزل نیرنگ خیال میں شائع ہوئی۔

 

۱۹۳۳ء

بی۔  اے گورنمنٹ کالج لاہور۔

 

۱۹۳۶ء

ایم۔  اے فلسفہ گورنمنٹ کالج لاہور۔

 

۳۷۔ ۱۹۳۶ء

انجمن اردو پنجاب سے وابستگی، صلاح الدین مرحوم کے رسالے ادبی دنیا اور مولانا چراغ حسن حسرت کے ہفت روزہ شیرازہکے عملۂ ادارت میں شمولیت۔

 

۱۹۳۷ء

سردار دیوان سنگھ مفتون کی دعوت پر دہلی روانگی، اخبار ریاست کی ادارت۔

 

۱۹۳۸ء

دارالاشاعت پنجاب سے وابستگی۔  پھول و

تہذیبِ نسواں کی ادارت…۲۶ سال کی عمر میں شادی۔

۲۹ اپریل

۱۹۳۹ء

حفیظؔ کی صدارت میں ’’بزم داستاں گویاں‘‘ کا قیام۔

یکم اکتوبر

۱۹۳۹ء

آپ کی صدارت میں بزم داستاں گویاں کا نام تبدیل کر کے حلقۂ اربابِ ذوق رکھا گیا۔

۳۱ اکتوبر

۱۹۳۹ء

پروگرام اسسٹنٹ آل انڈیا ریڈیو، لاہور۔

 

۴۳۔ ۱۹۴۲ء

آل انڈیا ریڈیو بمبئی۔

 

۱۹۴۳ء

لاہور آمد

۱۴ اگست

۱۹۴۷ء

ریڈیو سے نشر ہونے والا قیامِ پاکستان سے متعلق اعلان آپ ہی کا لکھا ہوا تھا۔

 

۱۹۴۸ء

کراچی ریڈیو سے وابستگی۔

 

۱۹۵۰ء

لاہور ریڈیو سے وابستگی۔

 

۱۹۵۱ء

نشریات کے لسانی لوازمات خصوصاً ً خبروں کے ترجمے کے متعلق خصوصی مقالے کی اشاعت۔

جون

۱۹۵۳ء

کراچی واپسی۔

جون، جولائی۱۹۵۳ء

ثقافتی وفد کے رکن کی حیثیت سے تین ہفتے کا دورۂ ایران۔

اپریل۵۶-۱۹۵۴ء

اقبال اکیڈمی کونسل کے رکن۔

 

۵۷۔ ۱۹۵۶ء

بی۔  بی۔  سی جنرل اور سیزکورس میں شمولیت کے لیے انگلستان کا سفر۔

 

۱۹۵۷ء

آپ کے مرتّب کردہ مجموعہ ’’مثنویات ہیر رانجھا‘‘ کی سندھیادبی بورڈ سے اشاعت۔

 

۵۹۔ ۱۹۵۸ء

ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے بحیثیت ریجنل ڈائریکٹر وابستگی۔

 

۱۹۶۲ء

حکومت پاکستان کی قائم کردہ کاپی رائٹ آرڈینینس کے رکن۔

اگست ستمبر۱۹۶۴ء

آر سی ڈی کی اطلاعتی کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے ترکی کا دورہ۔

 

۱۹۶۵ء

This is the house that Jack built کا مصورترجمہ، مکتبہ کامران کراچی سے کتابی صورت میں شائع ہوا۔  واضح ہو کہ یہ کتاب حفیظؔ صاحب کی زندگی میں شائع ہونے والی ان کی واحدکتاب ہے۔

۴ جنوری ۱۹۶۸ء

اٹھائیس برس کی ملازمت کے بعد ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ریڈیوپاکستان کے عہدے سے ریٹائرمنٹ۔

فروری۱۹۷۰ء

اقبال اکیڈمی گورننگ باڈی کے رکن۔

اپریل۱۹۷۰ء

ترقّی اردو بورڈ کراچی کے رکن۔

۱۰ جنوری۱۹۷۳ء

صبح گیارہ بج کر پندرہ منٹ پر بروز بدھ انتقال

پی ای سی ایچ سوسائٹی کراچی کے قبرستان میں مدفون ہیں۔  کتبہ، سراغِ رفتگاں۔

اکتوبر۱۹۷۳ء

’’مقام غزل‘‘ کی اشاعت۔

 

۱۹۹۷-۱۹۹۱ء

پنجاب یونی ورسٹی لاہور سے ’’حفیظ ہوشیارپوری‘‘ پر پی ایچ ڈی کے لیے قرۃ العین طاہرہ نے مقالہ تحریر کیا۔

 

۲۰۰۸ ء

’’بے زبانی زباں نہ ہو جائے‘‘ کے عنوان سے مقالہ پی ایچ ڈی طبع ہوا۔

٭٭٭

 

 

باب اوّل: سوانح

 

خاندانی پس منظر

 

۹ نومبر ۱۸۷۷ء سیالکوٹ میں مقیم شیخ خاندان میں ایک نابغۂ روزگار ہستی جنم لیتی ہے، جو بعد ازاں خداداد صلاحیتوں اور محنت کے باعث آسمانِ ادب کا وہ درخشاں ماہتاب ثابت ہوتی ہے کہ جس کی ضیا سے مشرق و مغرب کے اہل فکر و نظر ہی نہیں عام افراد بھی متاثر ہوتے ہیں۔  یہ شیخ محمد اقبال تھے، جنھوں نے شعری روایات کے مطابق کوئی تخلص اختیار نہ کیا بلکہ اپنے خاندانی نام کو ہی تخلّص کی جگہ بھی استعمال کرتے رہے۔  ان کی ذات اردو شاعری کے لیے سرمایۂافتخار ثابت ہوئی۔

۵ جنوری ۱۹۱۲ء کو لائل پور (فیصل آباد) سے بارہ میل کے فاصلے پر ایک گاؤں دیوان پور ضلع جھنگ کے ایک اور شیخ خاندان میں ایک بچّہ جنم لیتا ہے، جس کا بچپن ہی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ آئندہ زندگی میں یہ شعر و ادب کی دنیا کا جگمگاتا ستارہ ثابت ہو گا اور یہ خیال اس وقت حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے کہ جب کچھ ہی عرصہ بعد نہ صرف اردوبلکہ فارسی غزل گوئی میں وہ اپنی مثال آپ بن کر ظاہر ہوتا ہے۔  تاریخ گوئی میں اس کا ثانی کوئی نہیں اور تحقیقی مضامین اور مقالے اس کی ذہنی استعداد کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔  یہ مرنجان مرنج، اپنی دھن میں مگن، شہرت و ستائش سے بے پروا حفیظؔ ہوشیار پوری تھے کہ جنھوں نے تخلّص کے تکلّف سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اپنے اصل نام کو ہی تخلّص کے طور پر برتا۔

’’حفیظؔ ہوشیار پوری کا نام شیخ عبدالحفیظ سلیم رکھا گیا۔  سلیم کو تخلّص تصوّر نہ کیا جائے۔  یہ ان کے نام کا حصّہ ہے۔  آپ نے جمعہ کے روز ۱۵ محرّم ۱۳۳۰ھ شیخ فضل محمد کے گھر جنم لیا جن کا تعلق نچلے متوسط طبقے سے لے کر متوسط طبقے میں شمار کیا جا سکتا ہے جیسا کہ مشرقی پنجاب کے بیشتر مسلمان اہل کاروں کے خاندانوں کا ہوتا تھا۔‘‘ (۱)

صہیب حفیظ اپنے والد کے خاندانی پس منظر کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔  ’’معاشی حالات اچّھے نہ تھے۔  ہمارے دادا شیخ فضل محمد ملازمت پیشہ انسان تھے۔  ملازمت کے سلسلے میں دیوان پور ضلع جھنگ میں مقیم تھے اور پٹواری کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے تھے۔  رزقِ حلال کے طالب تھے۔  معاشی فارغ البالی کبھی نصیب نہ ہوئی۔‘‘ (۲)۔

’’خاندان راسخ العقیدہ، حنفی مسلمانوں کے مسلک کا تھا۔‘‘ (۳)

’’سنی مسلمان خاندان سے تعلّق تھا۔‘‘(۴)

’’عام مذہبی خاندان تھا، جہاں مذہب کی پابندی نہ تو انتہائی سختی سے کروائی جاتی تھی اور نہ ہی مذہب سے بے پروائی برتی جاتی تھی۔‘‘ (۵)

یہ وہ زمانہ تھا کہ جب قیامِ پاکستان کے لیے برصغیر کے ہر مسلمان کے دل میں تڑپ تھی اور وہ اس کے حصول کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار تھے۔

’’حفیظؔ کا سیاسی وخاندانی پس منظر دیکھا جائے تو ان کے آباء و اجداد سیاست سے عملاً بے تعلّق تھے لیکن تحریک پاکستان کی حمایت سب قرابت داروں نے کی۔‘‘ (۶)

وہ جنھیں بعد ازاں بڑے نصیب والا کہا جاتا ہے ان کی بدقسمتی کا آغاز بچپن میں ہی ہو ہو جاتا ہے۔  حفیظؔ کے والد حفیظؔ کی ابتدائی عمر میں ہی، جبکہ وہ صرف نو سال کے تھے اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔  والد کی وفات کے بعد آپ کی پرورش کی ذمہ داری آپ کے نانا شیخ غلام محمد اٹھاتے ہیں۔  شیخ غلام محمد علم و ادب سے گہری دلچسپی رکھتے تھے۔  عربی اور فارسی زبانوں پر کامل دسترس تھی۔  شعر و ادب سے لگاؤ کا یہ عالم تھا کہ ہر دو زبانوں کے کئی دیوان حفظ اور نثر کی بے شمار کتابیں ازبر تھیں۔  ان کی علمی و ادبی تربیت نے حفیظؔ کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کی۔  وہ فرصت کے تمام اوقات اپنے نانا کی معیّت میں گزارتے۔  آپ کے نانا کسی کتاب سے کوئی نظم یا نثر کا ٹکڑا آپ کو سناتے اور اس کی تشریح کرتے۔  شعر اور کتاب سے دلچسپی اسی زمانے کی دین ہے جو رفتہ رفتہ عشق کی صورت اختیار کر گئی۔  ۱۹۳۰ء میں آپ کے نانا کا انتقال ہو گیا۔  گھر کا ماحول علمی اور فضا ادبی تھی، پھر شعر سے محبت حفیظؔ کی رگ رگ میں اتر چکی تھی، جو نانا کے انتقال کے بعد بھی بڑھتی گئی۔  اس سلسلے میں ان کے برادر بزرگ شیخ عبدالرشید خاں راحل صاحب بھی مددگار ثابت ہوئے۔

 

راحل ہوشیارپوری

’’حفیظؔ تین بھائی تھے۔  راحل، حفیظؔ سے بڑے اور مجید، حفیظؔ سے چھوٹے۔  مجید ہوشیارپوری بھی شاعر تھے۔  ان کا مطبوعہ کلام موجود ہے۔  جوانی ہی میں انتقال کیا۔  حفیظؔ کی دو بہنیں رحمت بی بی اور محمد بی بی نہایت نیک، صوم و صلوٰۃ کی پابند تھیں۔‘‘ (۷)

راحل ہوشیار پوری بطور ایک شاعر اور تاریخ گو کے، قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔

’’برادر بزگ راحل ہوشیارپوری جالندھر اور اس سارے علاقے میں اردو لسانیات میں مستند تصوّرکیے جاتے تھے۔‘‘ (۸)

واضح رہے کہ راحل صاحب کی تربیت میں بھی ان کے نانا کی محنت و محبت شامل تھی۔

’’آپ کا خاندان علمی اور ادبی طور پر ممتاز حیثیت رکھتا تھا۔  فارسی اور عربی ادب پر انھیں (شیخ غلام محمد) پوری طرح قدرت حاصل تھی۔  یہی وجہ ہے کہ انھیں عربی اور فارسی کی بیشتر کتب حفظ تھیں، جو وہ اپنے نواسوں کو سنایا کرتے تھے اور ان کے ذوقِ علمی کی آبیاری میں ہمہ وقت لگے رہتے تھے … انھوں نے (حفیظؔ نے ) اپنے بڑے بھائی عبدالرشید راحل سے استفادہ کیا، جو بڑے قادر الکلام شاعر تھے اور تاریخ گوئی میں اپنے زمانے کے بہت بڑے استاد تھے، جن کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ قائد اعظم کی وفات پر راحل مرحوم نے حسبِ ذیل مادہ تاریخ نکالا۔

’’آہ قائد اعظم مرد‘‘ (۹)

جناب ممتاز حسن پرانی یادوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’آج جب میں ان کے متعلق سوچتا ہوں، تو میرا حافظہ مجھے آج سے چالیس سال پیچھے لے جاتا ہے۔  مجھے یاد ہے سب سے پہلے میں نے حفیظؔ کو نہ دیکھا، ان کے مرحوم بھائی راحل ہوشیارپوری کو دیکھا تھا۔  انارکلی کے قریب سے ایک تانگہ گزر رہا تھا۔  اس میں ایک نوجوان مغربی لباس(سوٹ) میں ملبوس جا رہا تھا۔  کسی نے مجھ سے کہا یہ راحل ہوشیار پوری ہیں۔  اس کے بعد ان کا ایک شعر سنا جو ان کی ایک غزل کا شعر تھا اسی شعر سے ابتدا ہوئی تھی حفیظؔ سے تعلق کی … راحل کا وہ شعر یہ تھا۔

گھول دے جام میں ان مد بھری آنکھوں کا سرور

میرے ساقی تیرا راحل ابھی سرشار نہیں‘‘

(۱۰)

ممتاز حسن نے انھیں مغربی لباس(سوٹ) میں ملبوس دیکھا۔  عصمت حفیظؔ (حفیظؔ صاحب کی صاحبزادی) کے لیے یہ امر باعث حیرت ہے۔  وہ کہتی ہیں کہ تایا جی کو ہم نے ہمیشہ ملگجے لباس میں گرمی ہو یا سردی کالا کمبل کندھوں پر ڈالے ہوئے دیکھا۔  ہمیں تو وہ کوئی درویش قلندر قسم کے انسان لگے جنھیں کھانے اور پہننے سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔  امّی بتاتی ہیں کہ انھیں نئے کپڑے سلوا کر دیتے تھے تو وہ ویسے ہی پڑے رہتے تھے۔  ان کی وفات کے بعد ان کے کمرے سے نئے جوڑے بھی نکلے جو انھیں سلوا کر دیے گئے تھے، لیکن انھوں نے نہیں پہنے تھے۔  وہ تمام وقت اپنے کمرے میں بند رہتے، بہت کم باہر نکلتے۔

شیخ منظور الٰہی لکھتے ہیں ’’ وہ ہوشیار پور میں تین برس تک کوٹھے سے نہیں اترے۔‘‘ (۱۱)

عصمت کہتی ہیں کہ ہم نے بھی انھیں ہمیشہ اپنے کمرے میں ہی دیکھا۔  ہم بہن بھائی اس وقت چھوٹے چھوٹے سے تھے اور حیران ہوتے تھے کہ وہ اپنے کمرے میں کیا کرتے رہتے ہیں۔  انھیں بھی ابّا جی کی طرح کتابوں سے دلچسپی تھی۔  کبھی کبھی ہم بچوّں کو اپنے کمرے میں بلا لیا کرتے تھے اور کوئی نہ کوئی کھانے کی چیز دیا کرتے تھے۔  وہ ہم سے بہت پیار کرتے تھے۔  خصوصاً ً باجی (صبیحہ حفیظؔ) سے۔  اپنے آپ میں مست اور درویش منش انسان ہونے کی وجہ سے ہی غالباً انھوں نے تمام عمر شادی نہ کی۔

خواجہ عبدالرشید تذکرہ شعرائے پنجاب میں جناب راحل ہوشیار پوری کا تفصیلی تعارف کرواتے ہیں۔

’’شیخ عبدالرشید متخلص بہ راحل پسر شیخ فضل محمد خان و برادر بزرگ حفیظؔ ہوشیارپوری بود کہ احوالش درین تذکرہ مرقوم گردیدہ است۔  وی درسال ۱۹۰۲ ء میلادی درہوشیارپور متولد و درسال ۱۹۵۳ء میلادی در لاہور فوت و مدفون گردید۔  وی یکی ازشاگردان غازی عبدالرحمن امرتسری و تحت تاثیر عقائد سیاسی وی قرار گرفتہ بود۔  راحل درتاریخ گوئی و شعر پارسی مہارت بسیار عجیبی رادارابودو علاقہ خاصی رانسبت بتصوف داشت بعد از وفات پدرخود گوشہ عزلت گرفت۔  ہنگام تقسیم شبہ قارہ وی درشہر ہوشیار پور زندگی می کردہ تمام کتب وی و اشعارش بدست ہندوان غارت گردید۔  فقط اشعار کہ آقای حفیظؔ ہوشیارپوری برائی نگار ندہ ارسال داشتہ اندباقی ماندہ است۔  اشعار راحل گاہی در رسالہ ای باسم شمع رخ چاپ می شد۔

تاریخ چاپ ’’غالب‘‘ بوسیلہ غلام رسول مہر:

جامی بدہ زبادہ غالب بلطف خاص

جام فدای لطف تو ساقی مہر چہر

زین یار گوبہ حضرت مہر این پیام من

دل رابدل رہسیت درین گنبد سپہر

درزیر چرخ راحل سرمست رابس است

جامی زدست ساقی ’’غالب زملک مہر‘‘

تاریخ تشریف فرمائی اعلیحضرت ہمایوں محمد رضا شاہ شہنشاہ آریہ مہر پاکستان

بفرمود تشریف برارض پاک

 

شہنشاہ ایران محمد رضا

بگفتم سن ہجری و عیسوی

 

کہ مضمر درآنست حرف دعا

بخواہم کہ درخدمت کجکلاہ

 

رسد این پیام بدوش صبا

بفیض قدومش مشرف شدم

 

جواں بخت شاہا۔  خوشا بخت ما

 

۱۳۲۹ ۱۹۵۰ء

راحل یکے ازدوستان وقدردان ’’گرامی‘‘ و استفادہ ہائی شایانی را از وی بدست آوردہ بود۔  وی قطعہ زیر رابمناسبت درگذشت گرامی سرودہ است۔

گرامی کہ درآخر عمر زیست

 

بخاک طربناک ہشیارپور

ہمہ خاک شد منزلش بعد مرگ

 

بجوسالش از ’’خاک ہشیارپور‘‘

۱۳۴۵ھ(۱۲)

 

مولاناغلام قادرگرامی

راحلؔ اور حفیظؔ کی شخصیت میں مولانا گرامی کا پر تو واضح طور سے دیکھا جا سکتا ہے۔  مولانا گرامی حلقۂ ارباب علم و ذوق کے لیے خصوصاً ً اقبال کے شیدائیوں میں ایک بلند مرتبہ شخصیت کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔  مولانا گرامی اصلاً پنجابی تھے، لیکن پنجابی سے زیادہ فارسی شاعری کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں۔  شیخ غلام قادر گرامی ۱۸۵۴ء کے آس پاس جالندھر میں شیخ سکندر بخش کے گھر ککے زئی خاندان میں پیدا ہوئے۔  آٹھ سال کی عمر میں لاہور آئے۔  بعد ازاں اورینٹل کالج سے تحصیل علم کے بعد اسی کالج سے تدریسی فرائض انجام دینے لگے۔۔  نظامِ دکن محبوب علی خان کی ریاست سے وابستہ رہے۔  تمام زندگی وہیں گزاری البتہ وطن سے ناتا نہ توڑا۔  گھر کی یاد ستاتی تو جالندھر آ جاتے۔  ان کے آنے پر اہل جالندھر کی خوشی اور فخر دیدنی ہوتا۔  مشاعرے منعقد کیے جاتے۔  ان کی پر لطف محفل ہر خاص و عام کے لیے دلکشی کا باعث ہوتی۔  محبوب علی خان، نظامِ دکن کی محبت کھینچ کر پھر دکن لے جاتی اور اہل جالندھر روز رخصت سے ہی ان کی واپسی کا انتظار شروع کر دیتے۔  نظامِ دکن کے انتقال کے بعد وطن واپس آ گئے۔  جالندھر کے قریب ہی ایک چھوٹا سا خوبصورت شہر ہوشیارپور ہے۔  گرامی کی اہلیہ کا تعلق ہوشیار پور سے تھا، پھر اہلِ ہوشیارپور کی محبت نے بھی گرامی کو کبھی تنہا نہ چھوڑا۔  ہوشیارپور میں بھی ایک حویلی تعمیر کی۔  اکثر و بیشتر اس حویلی میں قیام رہتا۔  انھیں اقبالؔ اور اقبالؔ کو ان سے خاص تعلق خاطر تھا اور اس تعلق خاطر کی وجوہ میں ایک بڑی وجہ گرامی کا صاحب علم و نظر ہونا بھی تھا کہ ناقدین اس بات پر متفق ہیں کہ گرامی کی تخلیقات کو ایران کے کسی بھی بڑے شاعر کے مقابلے میں پیش کیا جا سکتا ہے۔  فارسی دیوان اور رباعیات کا مجموعہ ان کی معنوی اولاد ہیں۔  گرامی نے اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کہا، لیکن فطری بے نیازی نے کبھی اپنے کلام کو سنبھال کر یکجا رکھنے نہ دیا۔  یاداشت اچھی تھی۔  اشعار یاد ہو جاتے۔

حفیظؔ جالندھری مولانا گرامی کی شخصیت کا تذکرہ اپنے مخصوص انداز میں کرتے ہیں۔

’’میں نے اپنی زندگی میں لاکھوں نہیں تو ہزاروں شاعر دیکھے اور سینکڑوں سے ملاقات ہوئی، لیکن شعر سے ایسا انہماک کسی دوسرے شاعر میں مجھے نظر نہیں آیا۔  فنافی اللہ لوگ شاید بہت سے ہوں لیکن فنافی الشعر جسے کہنا چاہیے، وہ میری دانست میں گرامی ہی تھے۔  خلوت ہویا جلوت، اٹھتے بیٹھے وہ کسی مصرعے کی دھن میں رہتے تھے۔  بظاہر اپنے ملاقاتیوں کی باتوں کا جواب دیے جا رہے ہیں لیکن گم ہیں کسی مصرعے کے جوڑ توڑ میں … جب شعر ہو جاتا تو ان کی آنکھیں روشن ہو جاتیں اور وہ اس شعر کو اپنے نزدیک بیٹھنے والے کو سنانے سے باز نہ رہتے لیکن ایک عجیب بات تھی، جو میں نے اب تک صرف انھی میں دیکھی۔  وہ اپنا شعر سنا کر داد طلب نہ ہوتے۔  شعر سنانے کے ساتھ ہی پھر کسی لفظ یا مصرعے میں گم ہو جاتے … وہ شاعری کے لیے پیدا ہوئے تھے زندگی بھر اسی میں محور ہے۔  اپنی تعریف اور تعارف سے بے نیاز تھے۔‘‘ (۱۳)

یہاں گرامی کے مختصر تعارف کی ضرورت اس لیے تھی کہ حفیظؔ و راحل کی شخصیت و کردارمیں گرامی کی سی قلندری، خواص میں نمایاں ہوتے ہوئے بھی نمایاں نہ رہنے کی عادت، شہرت و ستائش سے بے نیازی، اپنے ہی کلام کی اشاعت سے عدم توجہی، بدرجۂ اتم موجود تھی۔

نقوش جولائی ۱۹۷۳ء میں اشاعت پذیر حفیظؔ کے حالات زندگی میں شیخ عبدالرشید راحل سے حفیظؔ کے اکتسابِ فیض کا بطور خاص ذکر ہے۔

’’فن اور فنکار‘‘ کے عنوان کے تحت افکار کے شمارہ نمبر ۱۵ جولائی ۱۹۶۴ء میں بھی حفیظؔ کی سوانح شائع ہوئی۔  اس میں بھی جناب عبدالرشید صاحب راحل کا ذکر حفیظؔ نے محبت کے ساتھ کیا ہے۔

شفیع عقیل نے ۱۹۵۲ء میں روزنامہ چٹان کے لیے حفیظؔ کا انٹرویو لیا۔  حفیظؔ اس انٹرویو میں بھی کہتے ہیں کہ میرا ذوق سخن زیادہ تر برادر محترم شیخ عبدالرشید راحل کے فیضان کا مرہونِ منت رہا اور جناب راحل صاحب کا ذوق سخن کس کا مرہون احسان رہا؟

’’…راحل کو فارسی شعر و ادب سے خاص شغف تھا اور آپ کازیادہ وقت شیخ عبدالقادر گرامی، شاعر خاص نظام دکن کی صحبت میں گزرتا تھا۔  حفیظؔ صاحب کو بھی مولانا گرامی کی خدمت میں حاضر ہونے اور ان کی صحبت سے مستفید ہونے کے مواقع ملتے رہے۔‘‘ (۱۴)

مولانا گرامی کے فیض صحبت نے راحل و حفیظؔ کے ذوق سخن کی آبیاری کی، لیکن زندگی نے کب کسی کا ساتھ دیا ہے۔  مولانا گرامی کی وفات شعری کائنات اور اس کے باسیوں کے لیے ایک بہت بڑا دکھ لے کر آئی۔  حفیظؔ نے بھی تاریخ وفات کے قطعات کہے اور راحل نے بھی۔

’’…اور بھی کئی شاعروں نے تاریخیں کہیں لیکن حفیظؔ ہوشیارپوری کے بڑے بھائی مولوی عبدالرشید راحل مرحوم کے یہ قطعات تاریخ میں بہت مشہور ہوئے۔

 

گرامی کہ درآخر عمر زیست

بہ خاک طربناک ہوشیار پور

ہمہ خاک شد منزلش بعد مرگ

بجو سالش از ’’خاک ہوشیارپور‘‘

۱۳۴۵ھ

دیگر

رفت مولانا گرامی از جہاں

گر میء بزم سخن باقی نماند

راحل مغموم سالش گفت ’’ہائے

آں قدح بشکست و آں ساقی نماند‘‘

۱۲۳۴۔  فصلی

راحل مرحوم ہی کی کہی ہوئی مندرجہ ذیل تاریخ گرامی کے لوح مزار پر کندہ کی گئی۔

’’مزار۔  حضرت گرامی‘‘

۱۹۲۷ء۔‘‘(۱۵)

جو آیا اسے جانا ضرور ہے، زندگی اور موت کا فلسفہ بس اتنا سا ہی تو ہے۔  راحل جو تمام زندگی تاریخی قطعات کہتے رہے۔  کتنے ہی پیاروں کی وفات کی تاریخیں نکالیں اور جب خود رخصت ہوئے تو ان سے محبت کرنے والوں نے اس فرض کو نبھایا۔

’’شاعری معروف باسم عظامی تاریخ درگذشت وی راچینین گفتہ است

سخن سنجی، سخن فہمی، ادیب نکتہ دان راحل

دریغامیت پاکش ندوش ماسوار ستی

بگفتم آنچہ در تاریخ فوتش صورتاً بمعناً

محرم ازہزاروسہ صدوہفتادوچارستی

۱۳۷۴ھ

الف کش ای عظامی بازگو سال وفات او

ستمبر یک ہزاری نہصد و پنجاہ وچارستی‘‘

۱۹۵۴ – ۱ = ۱۹۵۳ء (۱۶)

’’حفیظؔ نے دس گیارہ برس کی عمرسے ہی اردو اور فارسی میں شعر کہنا شروع کیا۔  تاریخ گوئی کا شوق بھی اسی زمانے میں ہوا۔‘‘ (۱۷)

کچھ حاصل کرنے کے لیے بہت کچھ کھونا پڑتا ہے۔  حصول پاکستان کی خاطر جانی و مالی قربانیاں دی گئیں، چنانچہ حفیظؔ کا ابتدائی کلام بھی ان کے ہوشیار پور کے خاندانی کتب خانے کے ساتھ ضائع ہو گیا کہ جس میں قدیم و نایاب قلمی و غیر مطبوعہ نسخے بھی شامل تھے۔  ’’ ان کا سب سے پرانا اردو شعرجو غالباً ۱۹۲۹ء کا ہے، یہ ہے۔

پھر نہ دینا مجھے الزامِ محبت دیکھو

تم چلے جاؤ تمھیں دیکھ کے پیار آتا ہے‘‘

(۱۸)

’’طلب علم شروع سے تھی اور لڑکپن میں شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔‘‘ (۱۹)

 

تعلیم اور اساتذہ

 

۱۹۲۹ء میں اسلامیہ ہائی اسکول ہوشیارپور سے میٹرک اور ۱۹۳۱ء میں گورنمنٹ کالج ہوشیارپور سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔  اسی اثنا میں آپ لاہور آ گئے اور یہاں آ کر گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا۔  ۱۹۳۳ء میں بی۔ ا ے اور ۱۹۳۶ء میں فلسفہ میں ایم۔  اے کیا۔

تحریک پاکستان، جوش و جذبہ سے بھرپور تحریک کہ جس میں بچے بوڑھے اور جوان سب ہی شامل تھے۔  یہ حفیظؔ کے لڑکپن اور نوجوانی کا وقت تھا۔  حالات کے زیر اثر روایتی شعر و ادب کے ذوق کے ساتھ ساتھ حفیظؔ کو سیاسی جلسوں میں شرکت اور ہنگامی موضوعات پر نظم پڑھنے کا بھی شوق پیدا ہوا۔  ایک مرتبہ ہوشیارپور کے طالب علموں نے انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے مطالبے کے لیے ایک جلوس نکالا۔  حفیظؔ نے جلوس کی قیادت کی اور نظم بھی پڑھی۔  یہ جرم قابلِ معافی نہ تھا آپ کو گرفتار کرنے کا حکم نامہ جاری ہو گیا۔  بالآخرقربان علی خان سپرنٹنڈنٹ پولیس ہوشیارپور نے تنبیہ کے بعد آپ کو چھوڑ دیا۔

اعلیٰ تعلیم کے لیے حفیظؔ کی لاہور آمد ان کے ذوقِ شعر و سخن کے لیے مبارک ثابت ہوئی۔  یہاں کی علمی فضا شعر و ادب کے بڑے بڑے ناموں سے گونج رہی تھی۔

 

صوفی تبسّم

حفیظؔ کی خوش قسمتی کہ انھیں صوفی تبسّم اور احمد شاہ پطرس جیسے استاد میسّر آئے جو طالب علم کی صرف تعلیم ہی نہیں تربیت کی ذمّہ داری بھی اٹھاتے ہیں اور جن کی حوصلہ افزائی اور تعاون شاگرد کے لیے خوش بختی کا زینہ بن جاتا ہے۔  آج کے دور میں ایسے اساتذہ نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہیں۔

’’حفیظؔ جس زمانے میں کالج میں تھے، فیض احمد فیض اور نم راشد بھی اسی کالج میں پڑھ رہے تھے۔  سیّد احمد شاہ بخاری پطرس، صوفی غلام مصطفی تبسّم ان کے استادوں میں تھے اور انھی استادوں کا فیض تھا جو ہونہار شاگردوں کا شمار پائے کے اہل قلم میں ہوا۔‘‘ (۲۰)

یہ وہ زمانہ تھا کہ جب استاد کی توجہ طالب علم کی تعلیم تک ہی محدود نہ رہتی تھی، بلکہ وہ اس کے دیگر مسائل سے آگاہی بھی اپنا فرض جانتے تھے اور ان مسائل کے حل میں ہر ممکن مددگار بھی ثابت ہوتے تھے۔

’’دونوں بزرگوں (پطرس اور صوفی تبسّم) نے حفیظؔ ہوشیارپوری مرحوم کی سرپرستی بھی کی اور کچھ مالی امداد کا انتظام بھی کرتے رہے۔  گورنمنٹ کالج میں آتے ہی حفیظؔ ہوشیارپوری کی غزل گوئی کا چرچا ہونے لگا اور پطرس بخاری اور صوفی تبسّم کی سرپرستی سے جلد لاہور میں ایک معتبر غزل گو کی حیثیت مسلّم ہو گئی۔‘‘ (۲۱)

’’حفیظؔ ہوشیارپوری اور فیض، دونوں گورنمنٹ کالج لاہور میں ایک ساتھ داخل ہوئے اور ایم۔  اے کیا۔  صوفی تبسّم اور احمد شاہ (پطرس بخاری) کے دونوں عزیز شاگرد تھے۔‘‘(۲۲)

’’حفیظؔ صاحب کے ادبی روابط کا دائرہ بہت وسیع تھا۔  وہ علّامہ اقبال کے ہاں بھی جاتے تھے۔  تاثیر، عابد اور صوفی تبسّم سے گہرے مراسم رکھتے تھے۔‘‘ (۲۳)

صوفی تبسّم کتنے مشفق استاد اور کتنے بڑے انسان تھے۔  حفیظؔ کے حوالے سے ڈاکٹر سیّد عبداللہ ، صوفی تبسّم کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

’’حفیظؔ ہوشیار پوری جس زمانے میں پھول کے ایڈیٹر ہوئے، میں اس وقت پھول بلڈنگ میں رہتا تھا، اس لیے ہفتے میں ان سے کئی مرتبہ ملاقات ہوتی تھی۔  اس سے قبل استاد الاساتذہ صوفی تبسّم کے مکان پر (کہ ان کی طالب علمی کا زمانہ صوفی صاحب کے ہاں ہی گزرا) ملاقاتوں کا آغاز ہو چکا تھا اور صوفی صاحب کی مثال بقول عرفی

عدیل ہمّت ساقی است فطرت ساقی

کہ حاتمد گراں وگدائے خویشتن است

صوفی نے بہتوں کی خدمت اور پرورش کی اور خود صلے یا ستائش کی ہر تمنّا سے مستثنیٰ رہا۔  بہرحال حفیظؔ صاحب کے سلسلے میں تبسّم کا تذکرہ اس لیے ناگزیر ہوا کہ مرحوم کی تربیت میں اس مشفق استاد کا بڑا حصہ ہے۔‘‘ (۲۴)

صوفی تبسّم، حفیظؔ کی لاہور آمد کا حال اپنے مضمون’ ’اے حفیظؔ‘‘ میں یوں رقم کرتے ہیں۔

’’…ہاں تو مجھے یاد ہے جب تم کالج میں تھرڈ ائیر میں داخل ہوئے تھے تو چند دنوں کے بعد میرے پرانے ہم جماعت ایس۔  ایم۔  شریف (سابق سیکریٹری تعلیمات، پاکستان) نے ہوشیار پور کالج سے ایک خط میرے نام لکھا تھا۔  شریف صاحب ان دنوں کالج میں ہسٹری کے پروفیسر تھے۔  انھوں نے اس خط میں تمھارا تعارف کراتے ہوئے لکھا تھا۔  ایک لڑکا حفیظؔ نامی تمھارے کالج میں آ رہا ہے داخل خود بخود ہو جائے گا، تردّد کی ضرورت نہیں، البتہ اس کی حوصلہ افزائی درکار ہے۔  شریف، ذہین اور محنتی لڑکا ہے، تم ملو گے تو خوش ہو گے۔‘‘ (۲۵)

یہ مضمون حفیظؔ کی وفات کے فوراً بعد ان کے چاہنے والے استاد کی طرف سے اپنے طالب علم کو جو اس وقت اردو شاعری میں ایک منفرد مقام حاصل کر چکا تھا، خراج عقیدت بھی ہے اور اس سے اپنی بے پایاں محبت کا ثبوت بھی۔  حفیظؔ، صوفی تبسّم کے ایک شاگرد کی حیثیت سے کب ان کے گھر کے ایک فرد اور ان کے دل کے مکین کیسے ہوئے، اس کے لیے صوفی تبسّم کے متذکرہ مضمون کا مطالعہ ضروری ہے۔  صوفی تبسّم اپنے اس عزیز شاگرد کا تذکرہ ہمیشہ بہت محبت کے ساتھ کرتے رہے۔  فیض کی وفات کا سانحہ ہو یا علّامہ اقبال سے اپنی ملاقات کا ذکر، حفیظؔ کو کبھی نہیں بھولتے۔  صوفی تبسّم کے صاحبزادے صوفی گلزار احمد صاحب، جو آج خود بھی ایک محترم استاد تسلیم کیے جاتے ہیں اور جن کی زندگی کا ایک حصّہ حفیظؔ کی معیت میں گزرا۔  حفیظؔ کے ساتھ بیتے ہوئے دنوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔

’’حفیظؔ بہت ہی ان سوشل اور بے نیاز آدمی تھے۔  ان کا بچپن سے لے کر نوجوانی بلکہ جوانی تک کا زمانہ ہمارے گھر میں ہی گزرا، ہمارے پاس اس طرح رہتے تھے جیسے وہ گھر کے فرد ہوں۔  ان میں احساس ذمہ داری بہت تھا۔  گھر کا بہت خیال رکھتے تھے۔  ہم بچیّ تھے، ہم بہن بھائیوں کو اپنا بہن بھائی سمجھتے تھے۔  خاصی محبت اور شفقت نچھاور کرتے تھے۔  صوفی صاحب کا والد بزرگوار کی طرح عزّت و احترام کرتے تھے اور ہو بھی کیوں ناں۔  صوفی صاحب نے انھیں اپنے بیٹوں سے زیادہ پیار و محبت سے رکھا ہوا تھا۔  انھوں نے ہمارے گھر سے ہی ایم اے فلاسفی کیا تھا۔  شعر و شاعری بھی اسی جگہ سے شروع کی تھی۔  نیاز مندانِ لاہور کی صحبت میں رہ کر آپ کی صلاحیتوں اور استعداد نے بخوبی جلاپائی۔  ہم اس وقت بچپن کے زمانے میں داتا گنج بخش کے مزار کے عقب میں ذیلدار روڈ کے ایک مکان میں رہائش پذیر تھے۔  بچپن کا زمانہ وہیں گزرا۔  اس کے بعد کچھ عرصے کے لیے اندرون بھاٹی دروازہ بھی رہائش اختیار کی پاکستان کی تشکیل تک ہم شہر میں مقیم رہے، جو زمانہ ذیلدار میں گزرا وہ علمی و ادبی سرگرمیوں کا زمانہ تھا۔  نیاز مندانِ لاہور جن کا میں تذکرہ کر چکا ہوں اور اس محفل میں جو بھی اصحاب شریک ہوتے تھے ان کی محفل میں بیٹھنا بڑی سعادت کی بات تھی۔  ان اصحاب علم و دانش میں صوفی تبسّم، حفیظؔ جالندھری، پطرس بخاری، مولانا عبدالمجید سالک، مولانا چراغ حسن حسرت، عبدالرحمن چغتائی، ڈاکٹر تاثیر اور پنڈت ہری چند اختر کے نام قابل ذکر ہیں۔‘‘(۲۶ )

اسے حفیظؔ کی خوش نصیبی ہی کہا جائے گا کہ انھیں اپنے عہد کے جیّد علما اور شعراء کی صحبت نصیب ہوئی۔  صوفی گلزار کے خط سے دیے ہوئے اقتباس کی میں اس قدر وضاحت کرنا چاہوں گی کہ حفیظؔ بچپن سے نہیں بلکہ تھرڈائیر سے جبکہ ان کی عمر ایک اندازے کے مطابق ۱۹ برس کی تھی صوفی صاحب کے ایما پر ان کے گھر آئے۔  جناب صوفی گلزار کے اس جملے کو کہ بچپن سے نوجوانی بلکہ جوانی تک کا زمانہ ہمارے گھر میں گزرا، کو صوفی تبسّم کے مذکورہ مضمون کے اس جملے کی روشنی میں پڑھا جائے تو کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہے۔

’’…پھر مجھے وہ دن یاد آیا جب تم میرے دوستوں کے اصرار پر اپنا چھوٹا سا ٹرنک اور مختصر سا بستر اٹھا کر میرے گھر آئے اور چند دنوں میں تم میرے بچوّں سے یوں گھل مل گئے جیسے تم نے بچپن سے یہیں پرورش پائی تھی۔‘‘ (۲۷)

جناب صوفی گلزار صاحب کہتے ہیں، شعر و شاعری بھی اسی جگہ شروع کی۔  غالباً وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ شعری ذوق اور صلاحتیوں کو مزید جلا یہاں آ کر ملی، کیونکہ حفیظؔ نے دس گیارہ برس کی عمر سے شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔

 

پطرس بخاری

پطرس بخاری گورنمنٹ کالج کے استاد ہی نہیں بلکہ اردو ادب میں ایک اہم مقام رکھتے تھے۔  حفیظؔ گورنمنٹ کالج کے شاگرد، لیکن جب اس عام شاگرد نے انٹر کا لجیٹ مشاعرے میں اپنی غزل پڑھی تو اس کی حیثیت ایک عام شاگرد کی نہ رہی۔

’’ایک مرتبہ گورنمنٹ کالج میں کوئی مشاعرہ ہوا۔  فیض سمیت تمام طلبا کلام سنا چکے تو پطرس نے قریب بیٹھے ہوئے اسا تذہ سے مشورہ کر کے صرف دو طالب علموں کو دوبارہ کلام سنانے کے لیے طلب کیا۔  فیض اور حفیظؔ ہوشیارپوری کو۔  یہ واقعہ صوفی تبسّم نے بھی لکھا ہے۔‘‘ (۲۸)

اسی مشاعرے کا تذکرہ نصر اللہ خان اپنے انداز میں کرتے ہیں۔

’’آج سے تقریباً چالیس برس ادھر کی بات ہے۔  گورنمنٹ کالج لاہور میں ایک مشاعرہ ہوا تھا۔  صدر اس مشاعرے کے پطرس بخاری مرحوم تھے۔  شعراء میں نشتر جالندھری، احسان دانش، مرزا بیضا خاں مروی ایرانی، صوفی تبسّم، ڈاکٹر تاثیر اور نوعمر شاعر سراج الدین ظفر تھے اور احمد ندیم قاسمی اور ایک طالب علم اس کالج کا نوعمر، سر کے بال سفید، دبلا پتلا، گندمی رنگ، بڑی بڑی روشن آنکھیں، بوٹا ساقد، اپنے قد ہی کے برابر کی بحر میں ایک غزل سنا کر اور مشاعرہ لوٹ کر چلا گیا۔  یہ عمر اور ایسے بانکے ستھرے اور البیلے اشعار۔  یہ عمر اور یہ مذاق، ایسی پختگی اور خیالات میں اتنی گہرائی، آپ بھی اس نوجوان شاعر کی غزل سنیے۔

کوئی ستم آشنا نہیں ہے

اب جینے کاکچھ مزا نہیں ہے

بے لطف ہے اپنی زندگانی

اب ہم سے کوئی خفا نہیں ہے

ہر قلب غم آشنا ہے لیکن

ہر غم، غم آشنا نہیں ہے

امیدِ وفا پہ جینے والو

امیدِ وفا، وفا نہیں ہے

ملتے نہیں کیوں حفیظؔ سے آپ

ایسا تو وہ برا نہیں ہے

جب حفیظؔ ہوشیار پوری اپنی غزل سناچکے تو صدر مشاعرہ پطرس بخاری نے یوں داد دی۔  ’’انگل بھر کی زباں اور یہ گل گاریاں‘‘ اس پر ایک سردار جی نے آواز لگائی ’’ گنڈیریاں ہی گنڈیریاں۔‘‘ (۲۹)

اس مشاعرے کے بعد حفیظؔ پطرس سے بے حد قریب ہو گئے۔  اپنے انھی اساتذہ کی مہربانی سے حفیظؔ لاہور کے حلقۂ ادب کے معتبر ناموں سے متعارف ہوئے۔  اپنی سادہ طبیعت، اعلیٰ ذوق اور بہترین شعری صلاحیتوں کی بنا پر آپ نے اساتذہ کے دل میں گھر کر لیا۔

اسی مشاعرے کی روداد صوفی تبسّم اپنے تعزیتی مضمون’ ’اے حفیظؔ‘‘میں یوں رقم کرتے ہیں۔

’’اے حفیظؔ کل ان بدنصیب کانوں نے تیرے مرنے کی خبر سنی۔  دل دھک سے رہ گیا۔  اٹھا اور ایک کرسی پر آنکھیں بند کر کے بیٹھ گیا۔  تمھاری شکل سامنے آ گئی۔  مجھے وہ دن یاد آیا۔  جب میں ستمبر ۱۹۳۱ء میں سینٹرل ٹریننگ کالج لاہور سے تبدیل ہو کر گورنمنٹ کالج لاہور میں آیا تھا اور اکتوبر کے وسط میں ایک مشاعرہ منعقد کرایا تھا۔  جس کی صدارت پروفیسر بخاری کر رہے تھے۔  اسٹیج پر دونوں طرف شعرائے کرام بیٹھے تھے۔  حسب دستور پہلے کالج کے طلبہ نے اشعار پڑھنے شروع کیے۔  اساتذہ اور دوسرے سامعین داد دے رہے تھے۔  اچانک ایک طالب علم اسٹیج پر رونما ہوا اور اپنی غزل پڑھی۔  یہ غزل غیر معمولی طور پر اچّھی تھی۔  فکر کا انداز نیا تھا اور طرز بیان انوکھا تھا۔  سب نے جی بھر کے داد دی۔  شعراء کچھ سوچ میں پڑ گئے۔  طالب علم بعض اوقات دوسرے شعراء سے لکھوا کے بھی کلام پڑھا کرتے ہیں۔  احباب کی نظریں اِدھر اُدھر اٹھنے لگیں۔  قریب بیٹھے ہوئے شعراء حضرات کے چہروں کا جائزہ لیا گیا۔  کسی کے اسلوب کا رنگ بھی اس طالب علم کے کلام میں نہیں تھا۔  ہم یہی سوچتے رہے اور اتنے میں دو ایک طالب علم شاعر اپنے اشعار پڑھ کے چلے گئے۔  دوستوں کے ایما پر میں نے صدر صاحب کی خدمت میں ایک پرزہ بھجوایا اور التماس کی کہ فلاں طالب علم کو دوبارہ بلوایا جائے اور ایک آدھ غزل اور سنی جائے۔  ایک اور غزل پڑھی گئی۔  وہ پہلی غزل سے بھی اچھی تھی۔  تعجب ہوا۔  حفیظؔ یہ تم تھے۔  حفیظؔ مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب اس مشاعرے کے بعد پطرس، تاثیراور حسرت تمھیں ہمراہ لے کر میرے مکان پہ آ گئے اور تم سے تمھارے شعر سنتے اور داد دیتے رہے۔  پطرس بخاری نے ایک رقعہ لکھ کر تمھارے ہاتھ میں دے دیا اور کہا۔  آؤ میں تمھیں بورڈنگ کے پاس اتار دوں گا۔  یہ رقعہ اپنے سپرنٹنڈنٹ کو دکھا دینا، تم سے غیر حاضری کے بارے میں باز پرس نہیں ہو گی۔‘‘ (۳۰)

وقت کی گردش نے استاد اور شاگرد کے درمیان سیکڑوں، ہزاروں میل کا فاصلہ پیدا کر دیا، لیکن وہ محبت جو پطرس کے دل میں اپنے عزیز شاگرد کے لیے تھی کبھی کم نہ ہوئی۔  دیارِ غیر سے آنے والے ان کے خطوط، جو وہ اپنے احباب کو لکھتے تھے، ان میں بھی حفیظؔ کا تذکرہ موجود ہوا کرتا تھا، مثلاً سالک کے نام پطرس کا خط۔  (تفصیل کے لیے دیکھیے حفیظؔ کی تاریخ گوئی)

غلام عباس، حفیظؔ کے نام پطرس کے لکھے گئے خط کا تذکرہ کرتے ہیں۔

’’…ایک بار حفیظؔ صاحب کو نروس بریک ڈاؤن ہو گیا اور وہ وقتی طور پر اپنی یاداشت کھو بیٹھے۔  اس کی اطلاع غلام عباس نے احمد شاہ بخاری پطرس کو دی جو ان دنوں اقوام متحدہ میں جوائنٹ سیکریٹری کے عہدہ پر فائز تھے۔  بخاری صاحب نے فوراً حفیظؔ صاحب کو لمبا چوڑا خط لکھا۔  یہ خط کیا تھا۔  استاد کی طرف سے شاگرد کی خدمت میں خراج عقیدت تھا۔  استاد ہو تو ایسا ہو اور شاگرد ہو تو ایسا جوان کی عیادت کو آتا۔  سب سے پہلے بخاری صاحب کا خط دکھاتے اور کہتے یہ غلام عباس کی کارگزاری ہے۔‘‘(۳۱)

ذوالفقار علی بخاری، حفیظؔ سے اپنے بڑے بھائی پطرس بخاری کی محبت و شفقت کا تذکرہ یوں کرتے ہیں۔

’’میں وہ خوش قسمت انسان ہوں جس کے ساتھ ریڈیو پر نامور شاعر اور ادیب رہے۔  مجاز، ن۔  م۔  راشد، حمید نسیم، ضیا جالندھری اور حفیظؔ۔  مجھے حفیظؔ کے جدا ہونے کا بے حد غم ہے، جب وہ میرے بڑے بھائی کے ساتھ ہوتے تو بھائی صاحب ہمیشہ ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر چلتے تھے۔  مجھے ایسا محسوس ہوتا کہ وہ میرے بڑے بھائی کی لاٹھی ہیں۔‘‘ (۳۲)

 

پروفیسر ڈکسن

صوفی تبسّم اور پطرس کے علاوہ، گورنمنٹ کالج کے انگریز پروفیسر ڈکسن نے بھی آپ کے شعری ذوق کو نکھارنے میں مدد دی۔  طالب علمی کے اسی دور میں حفیظؔ نے نہ صرف اردو بلکہ انگریزی زبان میں بھی متعدد مضامین لکھے جو بہت پسند کیے گئے۔  پروفیسر ڈکسن نے آپ کی حوصلہ افزائی کی اور رہنمائی بھی۔

’’غزل کی ایک روایت سے شعوری طور پر پیچھا چھڑانے میں میرے انگریزی کے پروفیسر آنجہانی ڈکسن کی رہنمائی کو بہت دخل ہے۔  میں شروع شروع میں انگریزی میں بھی شعر کہتا تھا۔  ڈکسن مرحوم بڑی شفقت اور محبت سے اصلاح دیتے۔  ایک مرتبہ مرحوم نے کہا ’’تم کلام میں STROKE PHRASES یعنی روایتی ترکیبیں اور الفاظ استعمال نہ کیا کرو۔‘‘میں نے یہ نسخہ اپنے اردو کلام پر استعمال کیا۔  ایک دن اپنے سارے کلام کو اس نظر سے دیکھا اور بہت سے الفاظ بدلے۔  اس کے بعد مجھے ایسی ترکیبوں سے نفرت ہو گئی۔  مثلاً اے معاذ اللہ ، اللہ رے، ہم نشین وغیرہ اور میں نے روایتی اردو شاعری کی فرسودہ اور پامال ترکیبوں سے احتراز کیا۔  یہ شعوری کوشش ہوتے ہوتے میری طبیعت کا رجحان اور میری شاعری کابے ساختہ پن بن گئی۔‘‘(۳۳)

’’ایم اے فلسفہ میں آپ کے استاد پروفیسر چٹرجی اور قاضی محمد اسلم تھے (غالباً)۔‘‘(۳۴)

گورنمنٹ کالج کے اساتذہ، صوفی تبسّم، پطرس بخاری اور پروفیسر ڈکسن، حفیظؔ کے شعری ذوق کو نکھارنے میں معاون ثابت ہوئے ہیں تو طالب علم ساتھیوں میں فیض اور ن۔  م۔  راشد، اردو شاعری کی ایک نئی فضا کی تشکیل میں مصروف ہیں۔  یہ حفیظؔ کی خوش قسمی ہے کہ ان کے بزرگوں، معاصرین اور متاخرین میں علّامہ اقبال، غلام قادر گرامی، شیخ عبدالقادر، سیّد نذیر نیازی، عبدالرحمن چغتائی، خضر تمیمی، عطا اللہ شاہ بخاری، سراج نظامی، عابد علی عابد، عبدالمجید سالک، چراغ حسن حسرت، جگر، سلیمان ندوی، جوش، فراق، اخترشیرانی، تاثیر، شوکت تھانوی، منٹو، شہرت بخاری، مختار صدیقی، سراج الدین ظفر، ساحر لدھیانوی، ایوب رومانی، یوسف ظفر اور ناصر کاظمی جیسے شاعر و ادیب، تخلیق ادب میں مصروف تھے۔  اس سازگار شعری ماحول میں حفیظؔ کی سب سے پہلی نظم ’’تجدیدِ محبت‘‘ تھی۔  جو اختر شیرانی کے رسالے ’’خیالستان‘‘ میں ۱۹۳۱ء میں شائع ہوئی۔  سب سے پہلی غزل مارچ ۱۹۳۲ء کے ’’نیرنگ خیال‘‘ میں چھپی۔

پہلی غزل ’’کوئی ستم آشنا نہیں ہے …اب جینے کا کچھ مزا نہیں ہے۔‘‘ نے اکابرین ادب سے داد وتحسین سمیٹی۔

 

انجمنِ اردو پنجاب

’’رسمی تعلیم مکمل کرنے کے بعد، حفیظؔ انجمنِ اردو پنجاب سے منسلک ہو گئے۔  انجمنِ اردو پنجاب، کے سرگرم اور فعال رکن رہے یہ شہرت مجھ تک پہنچی تھی۔‘‘ (۳۵)

انجمن سے حفیظؔ کے تعلق کا تذکرہ ناصر کاظمی یوں کرتے ہیں۔

’’دیانت داری اور محنت سے کام کرنا یوں تو اس کی فطرت میں شامل ہے، لیکن اس میں میاں بشیر احمد صاحب کا بھی ہاتھ ہے، وہ میاں صاحب کے ساتھ ۱۹۳۷ء میں انجمن پنجاب میں بحیثیت اسسٹنٹ سیکریٹری کام کرتا رہا اور میاں صاحب ان گنے چنے لوگوں میں سے تھے، جنھیں وہ اپنا دوست سمجھنے کے علاوہ نیک سیرت انسان بھی کہتا تھا۔‘‘ (۳۶)

 

نیاز مندانِ لاہور

نیاز مندانِ لاہور کی حیثیت کسی مکمل ادبی تحریک کی تو نہیں لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پنجاب میں، کہ جس نے اردو شعر و ادب کی آبیاری میں ہمیشہ اہم خدمات سر انجام دی ہیں، بیسویں صدی کے دوسرے تیسرے عشرے میں ’’نیاز مندانِ لاہور‘‘ کے نام سے لاہور کے ادبی افق پر ایک جاندار تحریک نمودار ہوئی۔  نیاز مندانِ لاہور میں شامل شاعروں، ادیبوں اور تنقید نگاروں نے اردو ادب کو بدلتے وقت کے تقاضوں سے روشناس کرایا۔

اہلِ زبان ہمیشہ سے ہی اہلِ پنجاب کی اردو کے لیے کی گئی خدمات پر نکتہ چینی کرتے رہے ہیں۔  یہ اعتراضات یوپی، لکھنؤ اور دہلی کے اہلِ زبان کی طرف سے ہی وارد نہ ہوتے تھے بلکہ لاہور میں موجود اہل زبان تاجور، جگر، اصغراور سیماب بھی زبان ویبان کے درست استعمال پر اسی قدر زور دیتے اور فیض و اقبال سمیت دیگر اہل ادب کی تخلیقات میں زبان و بیان کی غلطیاں تلاش کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔  ان اعتراضات کا جواب نیاز مندانِ لاہورکھُل کر دیتے۔

’’معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہماری اصلاح میں اس قدر وقت ضائع کر دیتے ہیں کہ خود کچھ سیکھنے سکھانے کی فرصت ہی نہیں ملتی، لیکن پنجاب کا ایک رسالہ بھی ایسا نہیں جو آپ پر نکتہ چینی کرنے کو اپنے لیے باعث فخر و ناز سمجھے۔  ہم مہینے کے مہینے خود یوپی کے رسالوں ہی سے زبان، صرف و نحو اور انشا کی غلطیوں کی ایک طویل فہرست اہلِ بصیرت کی عبرت کے لیے مرتب کر سکتے ہیں لیکن اب تک ہم نے یہ پیشہ اختیار نہیں کیا۔‘‘(۳۷)

نیاز مندانِ لاہور کے حلقے میں وہ شاعر بھی شامل تھے جن کا تعلق شعبہ تعلیم سے تھا۔  یہ وہ وسیع النظر اور کشادہ دل ادیب و شاعر تھے جو اپنے شاگردوں پر نظر خاص رکھتے اور جس میں ذرا سا بھی جوہر نظر آتا، اس کی صلاحیتوں کے نکھار میں معاون ہوتے۔  ان کی حوصلہ افزائی ان ہونہار طلبہ اور ابھرتے ہوئے تخلیق کاروں کے لیے مہمیز کا کام دیتی۔

’’مجلس کے اراکین میں اس زمانے کے ہونہار ادیب، شاعر اور طلبہ میں سے چند ایک کا نام کہ جن سے مجھے ذاتی طور پر شرف نیاز حاصل رہا ہے اور اب بھی ہے، یہ ہیں، نم راشد، فیض احمد فیض، حفیظؔ ہوشیارپوری، آغا حمید، سیّد رشید احمد، شیخ محمد عمر اور شیر محمد۔  راشد، فیض اور حفیظؔ ہوشیارپوری نے ادب و سفر کی دنیا میں جو نام پیدا کیا، اس کا ذکر تحصیل حاصل ہے۔‘‘ (۳۸)

نیاز مندانِ لاہور کا کردار مشاعروں کے انعقاد کے سلسلے میں بھی کافی فعال رہا۔  ان مشاعروں میں اعلی تخلیقی صلاحیتوں کے ظہور کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے پر جو چوٹیں کی جاتیں اور پھبتیاں کسی جاتیں، وہ نظر انداز نہیں کی جا سکتیں۔  ان مشاعروں میں اساتذہ کرام کے علاوہ گورنمنٹ کالج، اسلامیہ کالج اور دیال سنگھ کالج کے ابھرتے ہوئے شعراء نے بھی اپنی اہمیت تسلیم کروائی چنانچہ عبدالعزیز خالد، جیلانی کامران، فیض، ن۔  م۔  راشد، حفیظ ہوشیارپوری، آغا عبدالحمید وغیرہ اپنے سنیئر شعراء صوفی تبسّم، عابد علی عابد، سالک، تاثیر، ہری چند اختر وغیرہ کے ہمراہ شریک ہوتے۔

حفیظؔ ہوشیارپوری کی ساری زندگی سیکھنے کے عمل میں گزری، اور اس عادت نے انھیں وہ بلند مرتبہ عطا کیا جس کی کوئی بھی خواہش کر سکتا ہے۔  صوفی گلزار احمد راقمہ کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں کہ نیاز مندانِ لاہور کی صحبت میں رہ کر حفیظؔ کی صلاحیتوں اور استعداد نے بخوبی جلا پائی۔  اس محفل میں جو بھی صاحب علم شریک ہوتے تھے ان کی محفل میں بیٹھنا بڑی سعادت کی بات تھی۔  ان اصحاب علم و دانش میں صوفی تبسّم، حفیظؔ جالندھری، پطرس بخاری، مولانا عبدالمجید سالک، مولانا چراغ حسن حسرت، عبدالرحمن چغتائی، ڈاکٹر تاثیر، پنڈت ہری چند اختر کے نام قابل ذکر ہیں۔

 

ازدواجی زندگی

 

بیگم کلثوم حفیظ

ریڈیو کی ملازمت سے قبل جبکہ حفیظؔ مختلف اخبارات و رسائل سے منسلک تھے، ۱۹۳۸ء میں ۲۶ سال کی عمر میں ان کی شادی ہوئی۔  ’’بیوی قرابت دار خانوادے سے تھیں، وہ عام پنجابی خاتون تھیں ادب و شعر سے نابلد۔‘‘(۳۹)

’’میری والدہ کا خاندان زیادہ مذہبی تھا۔  شیخ ککے زئی خاندان، لیکن مذہب سے زیادہ لگاؤ اور رجحان کے باعث مولویوں کا خاندان کہلاتا تھا۔‘‘ (۴۰)

کلثوم حفیظؔ ایک مذہبی خاتون تھیں۔  سادہ و معصوم، گھرداری کا سلیقہ بہت تھا۔  شوہر کی خدمت اور گھریلو فرائض کی ادائیگی کو ہر حال میں اوّلیت دیتی تھیں، البتہ حفیظؔ صاحب کی ادبی سرگرمیوں سے نہ تو بیزار تھیں اور نہ ہی اس سلسلے میں ان کی معاون۔  وہ جانتی تھیں کہ ان کا شوہر ریڈیو کا ایک افسر، ایک بڑا شاعر اور بہت عالم انسان ہے، لیکن وہ دیکھتی تھیں کہ گھر پر وہ صرف شوہر ہے یا باپ، کہ اپنے ان فرائض کی ادائیگی میں انھوں نے کبھی کوتاہی نہیں کی۔  بیگم حفیظؔ ۳۵ سالہ ازدواجی سفر کی روداد سناتے ہوئے کہتی ہیں۔  ’’ انھوں نے کبھی مجھ سے اونچی آواز میں بات نہیں کی، بہت دھیمے لہجے اور نرم مزاج کے تھے۔  میری ہر سالگرہ پر مجھے تحفہ ضرور دیتے۔  کبھی باہر جاتے تو کتابوں سے بھرے ہوئے صندوق ساتھ لاتے، لیکن میرے اور بچوّں کے لیے تحفہ لانا کبھی نہ بھولتے۔  وہ اکثر کہا کرتے تھے، مجھ سے کوتاہی ہوئی میں نے تمھیں پڑھایا ہوتا تو تم بہت پڑھ لکھ جاتیں۔  ان کا صرف ایک ہی شوق تھا کتابیں کتابیں اور کتابیں، لیکن وہ کتاب صرف خریدتے ہی نہ تھے بلکہ پڑھنے کے بھی شوقین تھے۔  کتاب کا سرسری مطالعہ نہیں کرتے تھے بلکہ وہ کتاب کے مطالعہ میں غرق ہو جاتے تھے اور اکثر اوقات ساتھ ساتھ کچھ لکھتے بھی جاتے تھے۔  میں سارا وقت ان کی کتابوں کو سنبھالتی رہتی تھی۔  بہت کتابیں تھیں۔  میرا کام بہت بڑھ گیا تھا۔  گھر کی دیکھ بھال، باورچی خانے کا کام، بچوّں کے مسائل اور پھرکتابوں کو سنبھالنا۔  کتابوں کے متعلق بہت احتیاط سے کام لیتے تھے۔ ا نھیں باقاعدگی سے دھوپ بھی لگوائی جاتی۔  اس کے لیے ساری کتابیں باہر صحن میں رکھنا پڑتیں پھر شام کو سب اٹھا کر اندر لے جانا ہوتیں۔  بعض اوقات میں ساتھ ساتھ روتی بھی جاتی اور کتابیں بھی اٹھا کر رکھتی جاتی۔  کتابیں انھیں اپنی جان سے زیادہ عزیز تھیں اور یہ مرحلہ ان کے لیے واقعی مشکل ہوتا تھا جب ان سے کوئی کتاب مانگتا تھا۔  کتابوں سے دلچسپی زندگی کے آخری لمحوں تک قائم رہی۔  ہسپتال جاتے تو کتابیں ساتھ لے کر جاتے۔  تاریخ، ادب، فلسفہ، سائنس، مذہب، ہر موضوع کی کتابیں ان کے پاس ہوتیں۔  ڈاکٹر آتے اور کہتے، حفیظؔ صاحب بہت رات ہو گئی ہے اب تو آپ سو جائیں لیکن وہ بہت اچھا کہہ کر پھر پڑھنے میں مشغول ہو جاتے۔

میں نے انھیں ہمیشہ مصروف دیکھا، لیکن کوشش کرتے کہ گھر کے کاموں میں جہاں تک ممکن ہو، میرا ہاتھ بٹائیں۔  کھانا کھانے کے بعد میز پر سے اپنے کھانے کے برتن خود اٹھاتے اور بچوّں کو بھی کہا کرتے تھے کہ اگر سب اپنے اپنے برتن خود دھولیں تو ایک فرد پر بوجھ نہیں پڑے گا۔  اسی طرح گھر کے چھوٹے چھوٹے کام سبھی خود کر لیں تو نوکر کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔  کبھی نخرہ نہیں کیا، بہت سادہ غذا کھاتے تھے اور بہت کم، جو سامنے آ جاتا خاموشی سے کھا لیتے۔  سگریٹ البتہ پیا کرتے تھے۔  میرے، بچوّں کے اور گھر کے معاملات میں بے جا مداخلت کے قائل نہ تھے۔  انھیں مجھ پر اعتماد تھا۔  اس لیے انھوں نے کبھی اپنی رائے یا مشورہ لاگو کرنے کی کوشش نہ کی۔  ان کی اس عادت کی وجہ سے آج ہمارے سارے بچّے پُر اعتماد اور اپنے اپنے شعبوں میں نمایاں ہیں۔

۱۹۳۸ء میں ہماری شادی ہوئی۔  پہلے بچیّ کی زندگی نے وفا نہ کی۔  صبیحہ نے ۱۹۴۳ء میں جنم لیا، حفیظؔ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔  صبیحہ نام رکھا۔  اس بیٹی سے بے پناہ محبت تھی۔  اس کی ہر فرمائش پوری کی جو کچھ اس نے چاہا مہیا کیا۔  اس بیٹی پر انھیں فخر بھی بہت تھا۔  بیٹی بھی باپ کی طرح علم کی شیدائی نکلی اور آج حفیظؔ کے حوالے کے علاوہ اپنے نام سے بھی پہچانی جاتی ہے۔

دوسرے بچّے صہیب کی پیدائش ۱۹۴۵ء کی ہے۔  باپ کا لاڈلا اور باپ سے ٹوٹ کر محبت کرنے والا۔  عصمت تیسرے نمبر پر ہیں۔  ان کی پیدائش ۱۹۴۷ء میں ہوئی۔  ثمینہ ۱۹۴۹ء میں اور عمیر ۱۹۵۴ء میں پیدا ہوئے۔  سبھی بچّے اپنے باپ کو بے انتہا چاہتے تھے۔  انھوں نے اپنے باپ کی شہرت بھی دیکھی۔  مصروفیت بھی دیکھی۔  شہرت وستائش اور صلے سے بے نیازی کی عادت بھی دیکھی۔  کردار کی پختگی بھی دیکھی۔  دوسروں کے کام آنے کا جذبہ بھی دیکھا اور خدا کا شکر ہے کہ آج میں ان میں حفیظؔ کو دیکھتی ہوں۔  سبھی بچے اپنے باپ پر گئے ہیں۔  وہی عادات اور وہی کردار۔  جہاں تک حفیظ کی زندگی کے آخری ایّام کا، بیماری کا تعلق ہے ؛ انھوں نے بہت ہمّت سے اس بیماری کا مقابلہ کیا۔  آخری وقت میں سانس کی تکلیف بڑھ گئی تھی۔  کھانسی بہت آ رہی تھی۔  میں تو سوچتی ہوں کہ اتنی دوائیاں، اتنے ٹیکے کہیں یہی تو جان لیوا ثابت نہیں ہوئے۔  انھیں آج ہم سے بچھڑے بیس برس سے زائد ہو گئے ہیں اور یہ باتیں کل کی باتیں لگتی ہیں اور کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ انھیں گئے صدیاں بیت گئی ہیں۔  وہ بہت اچھا انسان تھا، لیکن اس نے جدائی کا اتنا لمبا داغ دے کر اچھا نہیں کیا۔‘‘(۴۱)

آخر ہجر کے لمحات مختصر ہوئے ۱۹۹۶ ء کا سال، سال وصال ٹھہرا، بیگم حفیظؔ نے ۲۰ نومبر بروز بدھ لاہور میں وفات پائی اور پی۔  ای۔  سی۔  ایچ۔  ایس کراچی کے قبرستان میں مدفون ہیں۔

 

ڈاکٹر صبیحہ حفیظ

ڈاکٹر صبیحہ حفیظ، حفیظؔ کی سب سے لاڈلی اور بڑی بیٹی۔  کراچی یونیورسٹی میں سماجیات کی لیکچرر کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔  اب اسلام آباد میں منسٹری آف ویمن افیئرز کے ایک اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں۔  خواتین کی بہبود کے کئی منصو بوں پر کام کر رہی ہیں اور اسی موضوع پر ان کے گراں قدر مقالے اور کتب ان کی ذہانت اور قابلیت کا واضح ثبوت ہیں۔  ذہین تو وہ بچپن سے تھیں اور ان کی ذہانت کا اعتراف تب بھی کیا گیا تھا۔

’’…صبیحہ بلا کی ذہین ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کے بغیر حفیظؔ کی شخصیت ادھوری سی رہ جاتی ہے۔  وہ اور اس کے دوسرے بہن بھائی حفیظؔ کو فی ہوشیارپوری کہتے تھے۔  ماں باپ نے تو نام عبدالحفیظ رکھا تھا۔  عبدل حفیظؔ نے خود اڑادیا۔ ح اور ظ بچّوں نے اڑا دیا۔  میں نے صبیحہ سے پوچھا کہ فی کے کیا معنی ہیں وہ کھلکھلا کے ہنس پڑی۔  کہنے لگی ’’ایک‘‘ میں نے کہا ’’ایک چیز‘‘ وہ شرما کر بھاگ گئی۔  صبیحہ کی فارسی دانی کا ایک لطیفہ یاد آ گیا۔  ایک دفعہ حفیظؔ نے مجھے، نور عالم، انتظار حسین اور شیخ صلاح الدین کو چائے پر بلایا۔  حفیظؔ نور عالم کو نور قطب عالم کہتا تھا۔  صبیحہ فوراً بول اٹھی یہ عالَم ہیں یا عالِم اور یہ قطب ہیں یا کتب۔  ہم سب حیران رہ گئے۔  حفیظؔ بھی لفظوں کا رسیا ہے، لیکن یوں لگتا ہے کہ اس سلسلے میں اپنی بیٹی کا شاگرد ہے۔‘‘ (۴۲)

ناصر کاظمی کی شادی پر حفیظؔ کی کہی گئی تاریخ ’’پابند ناصر کاظمی۔  ۱۹۵۲ء‘‘ صبیحہ نے سنی تو فوراً کہا ’’ناصر کاظمی بانو۔  ۱۹۵۲ء‘‘ یہ قصہ بہت مشہور ہوا۔  کئی لوگوں کی زبانی بھی سنا اور اکثر لکھنے والوں نے اس تاریخ کا حوالہ بھی دیا۔

ناصر کہتے ہیں ’’کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے، یہ سارا خاندان ہی تاریخ گو ہے۔‘‘ (۴۳)

ڈاکٹر صبیحہ کہتی ہیں کہ مجھ میں بھی لکھنے لکھانے کے جراثیم بچپن سے ہی موجود تھے۔

’’میں کرتی تھی بچپن میں شاعری، کچھ چیزیں بچوّں کے رسالوں میں شائع ہوئیں۔  میں لکھ لکھ کر ان کی میز پر رکھ دیتی تھی گرد جم جاتی ان پر۔  ابّا جی منع کرتے تھے مجھے شاعری کرنے سے، کہتے تھے پروز لکھو، شاعری میں کیا رکھا ہے۔‘‘ (۴۴)

بیٹی نے باپ کی نصیحت پلّے باندھی اور آج وہ ایک اچھی نثر لکھنے والی کی حیثیت سے بھی پہچانی جاتی ہیں۔  اچھا لکھتی ہیں، لیکن انگریزی میں لکھتی ہیں اور اس اچّھا لکھنے میں ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت کا بڑا ہاتھ ہے۔  حفیظؔ کی موجودگی نے گھر کے ماحول کو یوں تشکیل دیا تھا کہ ہر ایک کا دل علم کی طرف مائل ہو جاتا تھا۔  بے شک ان کے سبھی بچیّ اس بات پر متفق ہیں کہ تعلیم و تربیت سے بس اتنی دلچسپی تھی کہ اچّھے سے اچّھے اسکول میں داخل کرادیا، لیکن ہر روز بیگ کھول کر نہیں دیکھتے تھے کہ کیا پڑھا ہے یارپورٹ اچھی یا بری کیوں ہے ؟ انھوں نے سب بچوّں سے کہہ رکھا تھا کہ تم نے خود پڑھنا ہے اور اپنے لیے پڑھنا ہے۔  اچھا پڑھو گے تو تمھارے کام آئے گا، سبھی بچوّں نے علم کا جو چراغ اپنے گھر میں جلتے دیکھا، اس کی روشنی سے مکمل فیض حاصل کیا اور آج دوسروں کو فیض پہنچا رہے ہیں۔

صبیحہ کہتی ہیں کہ ان کے اس روّیہ نے احساس ذمہ داری پیدا کیا۔  وہ ہمیں پراعتماد بنانا چاہتے تھے۔  کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے ہمیں بچہّ سمجھا ہی نہیں۔

’’میرے ابّا جی اوروں سے ذرا مختلف تھے۔  وہ مجھے جان و دل سے چاہتے تھے مگر وہ میرے بہترین دوست اور ذہنی رفیق بھی تھے۔  جب ابّاجی نوک جھونک اور چھیڑ چھاڑ کرتے تو ایسا لگتا تھا کہ وہ میرے ہم عمر ہیں اور جب کبھی سنجیدہ گفتگو میں شامل کرتے تھے تو ایسا لگتا تھا کہ میں ان کی ہم عمر ہوں۔‘‘ (۴۵)

حفیظ نے ایک بے انتہا مصروف زندگی گزاری۔  انھیں اپنے کام سے عشق تھا۔  فرائض منصبی کی ادائیگی میں وہ گھڑی کی سوئیوں کو مد نظر نہ رکھتے بلکہ جب تک کام ختم نہ کر لیتے دفتر سے نہ اٹھتے۔  صبیحہ اپنے والد کی اس تیز اور مصروف زندگی کے متعلق بچپن کی یادوں کے حوالے سے لکھتی ہیں۔

’’ابّاجی اپنی مصروف اور تیز زندگی میں بھی مجھے اپنے بہت قریب رکھتے تھے۔  اپنے دفتر میں دیر تک کام کرتے رہتے تھے پھر اکثر کسی نہ کسی ادبی محفل میں چلے جاتے تھے غرض کہ جب وہ گھر آتے تھے تومیں سو چکی ہوتی تھی۔  ایسے موقعوں پر ابّاجی اکثر اپنے گال میرے گالوں سے رگڑتے تو میری آنکھ خودبخود کھل جاتی تھی۔  ان کے پاس ضرور کچھ نہ کچھ کھانے کی چیز ہوتی۔  رس گلّے، سموسے، پھل، چلغوزے وغیرہ۔  مجھے ٹھونس ٹھونس کر کھلاتے۔  کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ ابّا جی سے کئی کئی دن میری ملاقات نہ ہو پاتی۔  اس طرح سے تین چار دن گزر جاتے تو ابّاجی کو تنہائی سی محسوس ہونے لگتی تھی۔  اس تنہائی کو دور کرنے کے لیے مجھے کھانے کے وقت میں اپنے دفتر بلا لیتے تھے۔  ان دنوں میرا سکول ۱۲ بجے چھٹتا تھا۔  میں اسکول سے اکثر ابّاجی کے دفتر چلی جاتی تھی۔  ابّاجی فائلوں میں غرق ہو تے۔  انھیں میری آمد کی خبر تک نہ ہوتی تھی اور جب خبر ہو جاتی تو جلد از جلد کام ختم کر کے مجھے زی لن یا شیزان لے جاتے۔  بہت تیز چلتے تھے اکثر مجھے ان کے ساتھ بھاگنا پڑتا تھا۔  PRAWNS وغیرہ کھلاتے اور خود کافی پیتے رہتے۔  وہاں کبھی کبھی ابّاجی کے دوست ان کو گھیر لیتے میری اور ابّاجی کی گفتگو کم سے کم ہو جاتی۔  ابّاجی تیز تیز چلتے اور مجھے بھگاتے ہوئے واپس دفتر لے جاتے اور کہتے بیٹا اسکول کی کتاب ساتھ لائی ہو نا۔  پڑھو میں کچھ کام کر لوں۔  میں اسکول کی کوئی نہ کوئی کتاب لے کر بیٹھ جاتی اور ابّاجی پھر فائلوں میں غرق ہو جاتے۔  اکثر چائے اور کافی کے لیے پوچھتے رہتے۔  اس دوران میں اگر انھیں کوئی ملنے آ جاتا تو میرا تعارف بڑے فخر سے کراتے۔  ’’یہ میری بیٹی صبیحہ ہے‘‘ شام کو تیز تیز بھگاتے ہوئے بوہری بازار، عباسی کتب خانہ یا امریکن بک ڈپو لے جاتے تھے۔  مجھے کہتے جتنی کتابیں چاہو چن لو میں خریدوادوں گا اور دکانوں کے مالکان سے میرا تعارف کروادیتے تھے اور کہتے تھے اگر تمھیں کسی کتاب کی کسی وقت بھی ضرورت ہو تو یہاں سے خرید لینا میں قیمت بعد میں ادا کر دوں گا۔  حالانکہ وہ خود کبھی ادھار نہیں لیتے تھے۔‘‘ (۴۶)

حفیظؔ کتابیں خریدنے کے شائق تو تھے ہی اس کے علاوہ بھی انھیں نایاب چیزیں جمع کرنے کا شوق تھا۔  صبیحہ لکھتی ہیں۔

’’کبھی جیولری کی دکان پر جاتے اور کبھی کھلونوں کی دکان پر۔  چیز نایاب اور اچھّی خریدتے۔  چاہے کتنی ہی مہنگی کیوں نہ ہوتی۔  اس کے بعد ہم چھ سات بجے گھر لوٹتے تھے۔  ابّاجی اکثر مشاعروں اور ادبی محفلوں میں مجھے ساتھ رکھتے تھے۔  وقت کے بے حد پابند تھے۔  اکثر مشاعرہ یا کوئی ادبی محفل وقت پر شروع نہ ہو تو گھر لوٹ آتے تھے۔‘‘ (۴۷)

ظاہر ہے حفیظؔ جیسے مصروف اور باعمل شخص کے لیے وقت کا زیاں قابل معافی نہ تھا۔  وہ یہی وقت کسی کتاب کے مطالعے میں، تحقیقی و تخلیقی عمل میں، گھر کے کسی مسئلے میں، کسی دفتری الجھن کے سلجھاؤ میں یا اپنے بچّوں میں موجود رہ کر بہتر انداز میں گزار سکتے تھے۔  صبیحہ کہتی ہیں کہ انھیں جب کبھی موقع ملتا، رات کو چہل قدمی کے لیے نکل جاتے۔  ایسی ہی ایک رات مجھے زندگی بھر نہ بھولے گی۔  شاید اس وقت مجھے اس بات کا اتنا شعور ہی نہ تھا کہ ابّاجی ایک حساس سرکاری ادارے میں ملازم ہیں۔  کچھ پابندیاں سرکار کی طرف سے ان پر لگائی گئی ہوں گی۔  کچھ انھوں نے خود اپنے اوپر عائد کر لی تھیں۔

’’میں بہت چھوٹی تھی شاید آٹھ نو سال کی۔  (صبیحہ کی عمر اس وقت اور کم ہو گی وہ ۱۹۴۳ء کی پیدائش ہیں قومی ترانہ ۴۸ میں لکھا گیا) ایک شام ابّاجی دفتر سے واپس آئے تو میں اور ابّاجی واک کرنے نکل گئے۔  راستہ میں کہنے لگے پت، قومی ترانہ لکھا جا رہا ہے۔  ہم (ریڈیووالے ) لکھوا رہے ہیں، تو میں نے کہا ابّاجی آپ کیوں نہیں لکھتے۔  کہنے لگے، میں نہیں لکھ سکتا، اس وقت جو ان کی آواز میں بے چارگی، محرومی اور آنکھوں میں یاسیت تھی۔  اتنا چھوٹا ہونے کے باوجود مجھے ان کے دکھ کا احساس ہو گیا، بعد میں بار بار سوچتی رہی کہ وہ ترانہ لکھنا چاہتے تھے لیکن ریڈیو پر ملازم ہونے کی وجہ سے انھوں نے خود کو پابند کر لیا تھا۔‘‘ (۴۸)

حفیظؔ کے لیے یقیناً یہ واقعہ ایسا تھا جس کا اثر انھوں نے لیا اور گھر آ کر بھی نہ صرف اس کا تذکرہ کیا بلکہ اس دکھ کو ان کے اہل خانہ نے بھی محسوس کیا جس نے اس وقت حفیظؔ کو اپنے حصارمیں لیا ہوا تھا، ورنہ حفیظؔ کے گھر کے سبھی افراد اس بات پر زور دیتے ہیں کہ بے شک وہ ریڈیو کے ایک اعلیٰ افسر تھے۔  فرائض کی ادائیگی میں زیادہ وقت صرف کرتے تھے لیکن انھوں نے گھر اور دفتر کو الگ الگ خانوں میں بانٹ رکھا تھا۔  دفتری معاملات دفتر تک اور گھر کی بات گھر تک۔

’’ابّاجی نے دفتر اور گھر کے ماحول کو کسی لحاظ سے آپس میں ّ گڈمڈ نہیں ہونے دیا۔  ابّاجی دفتر میں ایس۔  اے۔  حفیظؔ کہلاتے تھے اور ان کے احباب حفیظؔ ہوشیارپوری کی حیثیت سے جانتے تھے۔  وہ گھر میں دفتر کی کبھی کوئی بات نہیں کرتے تھے۔  ابّاجی نے کبھی کسی کی شکایت نہیں کی۔  حتیٰ کہ کبھی اپنی دفتری ترقّی اور خوشنودی کی خبر بھی نہیں بتائی۔  ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گھر آنے کے بعد ابّاجی کا تعلق دفتر سے بالکل ختم ہو جاتا ہے۔  انھوں نے کبھی کوئی سرکاری چیز ذاتی طور پر استعمال نہیں کی۔  سرکاری کار کا استعمال سرکاری کاموں تک محدود تھا۔  ابّاجی نے کبھی اپنے کسی افسر یا ماتحت کو بلاضرورت گھر پر مدعو نہیں کیا۔‘‘ (۴۹)

حفیظؔ کی شاعری میں جو سلیقہ اور غزل کی بنت میں جو ہنر مندی تھی ان کی گھریلو زندگی میں بھی اسی سلیقے اور ترتیب کی جھلک تھی۔

’’ابّاجی میں سگھڑ پن بے حد تھا۔  ان کے ہر کام میں بے حد سلیقہ تھا وہ ہر بات سلیقے سے نبھاتے تھے دفتری کام ہو یا گھریلو۔  ہر کام میں بڑی ترتیب تھی۔‘‘ (۵۰)

حفیظؔ کے اکثر احباب نے حفیظؔ کو لباس کی طرف سے بے پروا بتایا ہے کہ ان کے نزدیک شخصیت کی پہچان لباس سے نہیں، کردار سے ہوا کرتی ہے، جبکہ صبیحہ کہتی ہیں۔

’’وہ بہت ویل ڈریس انسان تھے۔  پان کی دکان پر بھی سوٹ پہن کر جایا کرتے تھے۔‘‘ (۵۱)

اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ والدین کو اپنی تمام اولاد یکساں عزیز ہوتی ہے۔  کسی بچّے کو ذرا سا دکھ پہنچے تو تکلیف انھیں ہوتی ہے اور اس کی خوشی سے وہ بھی کھل اٹھتے ہیں لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی بچّہ زیادہ ذہین ہونے، خوبصورت ہونے، سب سے بڑا یا چھوٹا ہونے کی بنا پر ماں یا باپ کی زیادہ توجہ اپنی جانب مبذول کروا لیتا ہے۔  ماں یا باپ اس بات کا اعتراف کریں یا نہ کریں۔  دیکھنے والا محسوس کر لیتا ہے کہ اس کی جانب توجہ زیادہ ہے۔

’’بڑی بچّی آنکھ کا تارہ تھی۔  باپ کی علمی لگن لے کر پیدا ہوئی تھی۔  سو اسے ایم۔  اے تک خود مدد دیتے تھے تیاری میں۔  پھر وہ امریکہ پی ایچ۔  ڈی کے لیے چلی گئی۔  دوسرے بچّوں کی اہمیت زیادہ نہ تھی۔‘‘ (۵۲)

حمید نسیم مزید لکھتے ہیں کہ بڑی بچّی نے اپنے شعبہ علم سوشیالوجی میں مہارت تامہ حاصل کی۔

صبیحہ زندگی کے نشیب و فراز سے با آسانی گزر جانے اور علم کے حصول میں اپنی کامرانیوں کا باعث اپنے والد کی ذات کو قرار دیتی ہیں، جو ان کے لیے باپ کے علاوہ استاد بھی تھے اور اصلاح کرنے والے بھی، لیکن وہ کبھی بھی استاد اور ناصح کے روپ میں نظر نہ آئے بلکہ انھوں نے اپنے عمل سے بہت کچھ سکھایا۔

’’ابّاجی میں خود اعتمادی بہت تھی اور انھوں نے مجھ میں یہ خوداعتمادی بڑی حد تک پیدا کی۔  ابّاجی نے ہر مسئلہ کا حل ذاتی کوششوں سے تلاش کرنے پر زور دیا۔  انھوں نے کبھی مجھے ایک روایتی استاد کی طرح نہیں پڑھایا۔  کبھی پڑھنے پڑھانے کا وقت مقرر نہیں کیا، البتہ اگر کوئی نکتہ، فلسفہ یا ادب سمجھ میں نہ آتا تو بڑے تپاک سے سمجھاتے تھے اور اس نکتے کی گہرائی تک چلے جاتے تھے۔  بی۔  اے میں میں نے دوسرے مضامین کے علاوہ فارسی لے رکھی تھی۔  ایک دن نہ جانے کس بنا پر کالج کا ناغہ ہو گیا اور میرا فارسی کا سبق جاتا رہا۔  ان دنوں میں ہم رومی کی غزلیات پڑھ رہے تھے۔  گھر آ کر میں نے ابّاجی سے کہا مجھے پوری غزل پڑھادیں۔  اس کا ترجمہ اور تشریح بھی بتادیں۔  اس وقت مجھے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ رات بہت ہو گئی ہے اس لیے میں سوجاؤں۔  دوسری شام کو دفتر سے واپسی پر سات آٹھ مختلف قسم کی ڈکشنریاں فارسی اور انگریزی، فارسی اور اردو کی اٹھا لائے اور مجھے کہنے لگے ان ڈکشنریوں میں ان سب الفاظ کے معنی ہیں، جو رومی کی غزل میں بھی مل جائیں گے۔  معنی ملنے کے بعد غزل کا ترجمہ خودبخود مل جائے گا اس کے بعد بھی سمجھ میں نہ آئے تو مجھ سے ضرور پوچھ لینا۔‘‘ (۵۳)

جب باپ کتابوں کا شائق ہو اور بیٹی کا رجحان بھی غیر محسوس طریقے سے کتابوں کی طرف کر رہا ہو تو بیٹی کو کیوں نہ کتاب سے محبت ہو۔  کتاب سے محبت صرف باپ کی تربیت اور رجحان کا ہی نتیجہ نہ تھی یہ محبت تو پرکھوں سے اس خاندان میں چلی آ رہی تھی۔  ہوشیارپور میں فسادات میں کتب خانہ تباہ ہوا تو پاکستان آ کر کئی سالوں کی محنت کے بعد اس سے بڑھ کر کتب خانہ سامنے آیا۔  حفیظؔ نے بھی بچپن کتابوں کی ہمراہی میں گزارا۔  صبیحہ بھی کم عمری ہی سے اپنے گرد و پیش میں کتابیں ہی کتابیں دیکھ رہی تھی۔  یہی وجہ ہے کہ وہ ان کی قدروقیمت اور اہمیت سے بھی آگاہ تھی۔

’’ایک دفعہ میں اس کے یہاں بیٹھا ہوا تھا کہ راحل مرحوم نے اوپر سے جرأت کا دیوان بھیجا۔  یہ بڑا کمیاب اور پرانا نسخہ تھا۔  اس کی بڑی بیٹی صبیحہ نے بجلی کا پنکھا بند کر دیا کہنے لگی ’’اس کتاب کے اوراق بہت بو سیدہ ہیں آپ پڑھ لیں پھر پنکھا چلا دوں گی۔‘‘ (۵۴)

جب بیٹی باپ اور باپ کی کتابوں سے محبت کا اس قدر خیال رکھنے والی ہو تو باپ کیوں نہ اسے چاہے گا۔  ۱۹۵۱ء میں جبکہ صبیحہ کی عمر صرف آٹھ سال کی تھی اور ان دنوں حفیظؔ کے اہل خانہ کا قیام لاہور میں تھا۔  لاہور سے صبیحہ نے اپنے والد کو خط لکھا اور جواب میں منظوم خط کی فرمائش کی۔  پیاری بیٹی کی یہ فرمائش ٹالنا ممکن نہ تھا۔  ۲۶ اپریل ۱۹۵۱ء کو حفیظؔ اپنی بیٹی کو منظوم خط میں یوں مخاطب کرتے ہیں۔

بیٹی جو تم نے شوق سے لکھا ہے خط مجھے

پڑھتا ہوں بار بارمیں اس خط کو شوق سے

میری طرف سے دیر بھلا کس لیے ہوئی

میری طرف سے دیر فقط اس لیے ہوئی

تم چاہتی ہو نظم میں اس کا جواب دوں

جو کچھ کہوں جواب میں سب نظم میں کہوں

میں کیا بتاؤں تم کو کہ کیا ہے مرے لیے

خط ہے کہ امتحان کا پرچہ مرے لیے

کب تک رہو گی میری نگاہوں سے دور تم

آؤ گی ایک روز کراچی ضرور تم

کرتی نہیں ہے سیر تُو باغِ جناح کی

امّی سے اس سلوک کی امید تو نہ تھی

امی سے اب یہ تم کو شکایت ہے خواہ مخواہ

کرتی ہے انتظار کلفٹن کی سیرگاہ

اس سے کمی ذرا نہ پڑھائی میں پاؤ گی

جو کچھ کرو گی یاد وہ مجھ کو سناؤ گی

نزدیک میرے قلب سے میری نظر سے دور

اوّل رہو گی اپنی جماعت میں تم ضرور

تم میرے پاس جب یہ خبر لے کے آؤ گی

تم کو یقیں دلاتا ہوں انعام پاؤ گی

عصمت، صہیب اور ثمینہ کو پیار دو

آ جائیں جلد پاس میرے ان سے یہ کہو

نو بج چکے ہیں اب مجھے دفتر کا ہے خیال

لاہور سے لکھو مجھے سب کا تمام حال‘‘

(۵۵)

حفیظؔ نے صبیحہ کی کوئی فرمائش کبھی رد نہ کی۔  اسے کبھی کوئی حکم نہیں دیا۔  کوئی ہدایت، کوئی نصیحت نہیں کی۔  وہ چاہتے تھے کہ ان کی اولاد اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا سیکھے۔  اپنے کاموں کے فیصلے خود کرے۔  جب ساری ذمہ داری ان کی ہو گی تو وہ فیصلے بھی سوچ سمجھ کر کریں گے، البتہ اگر حفیظؔ سے رائے پوچھی جاتی تو وہ مناسب مشورہ دینے سے گریز نہ کرتے، لیکن اپنی رائے لاگو کرنے کی کبھی کوشش نہ کی۔

’’ابّاجی نے کبھی مجھے کسی بات کا حکم نہیں دیا۔  ہاں کوئی بات پوچھنے پر خوب مشورہ دیتے اور آخری فیصلہ ہمیشہ مجھ پر چھوڑ دیتے تھے۔  ابّاجی نے ہمیشہ میری بھلائی اور ذاتی فائدے کو ہرمعاملہ پر ترجیح دی۔  شاید ہی کبھی ناراض ہوئے ہوں۔  وہ خود کہتے تھے کہ مجھے اپنی بیٹی کے دل کی ہر بات معلوم ہو جاتی ہے اس لیے اس کی بات کو نہیں موڑتا۔  ۱۹۶۶ء کی بات ہے میں کراچی یونی ورسٹی میں پڑھاتی تھی۔  ان دنوں میں فلبرائٹ اسکالر شب حاصل کرنے کی دھن میں تھی۔  میں ابھی موقع کی تلاش میں تھی کہ ابّاجی کی رائے لوں۔  ایک دن ابّاجی مجھے اپنے پاس بٹھا کر کہنے لگے۔  ’’میرا جی چاہتا ہے کہ تمھیں پڑھنے کے لیے امریکہ یا انگلینڈ بھیجوں، لیکن اس کے لیے تو بہت بڑی رقم درکار ہے۔‘‘ میں نے انھیں بتایا کہ مجھے فلبرائٹ اسکالر شب ملنے کی امید ہے۔  یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور میری بڑی حوصلہ افزائی کی۔  اس زمانے میں ہمارے بہت ہی قریب کے بعض رشتہ دار آئے ہوئے تھے۔  انھیں میرے باہر جانے کا علم ہوا تو ابّاجی سے کہنے لگے، اسے ہرگز باہر مت جانے دیں لیکن ابّاجی میرے ساتھ بضد رہے اور کہنے لگے وہ فیصلہ میری بیٹی کا ذاتی فیصلہ ہے، اگر اسے پڑھنے پڑھانے کا اس قدر اچھّا موقع مل رہا ہے تو میں اسے کیسے روک سکتا ہوں، اسی طرح جیسے جیسے میرا امریکہ سے واپسی کا وقت قریب آ رہا تھا، ملک کے حالات اچھے نہیں تھے۔  میں خاصی کشمکش میں تھی۔  امریکہ میں ملازمت جاری رکھوں یا واپس چلی جاؤں۔  اس وقت بھی میرے ابّاجی نے مجھے بڑا سہارا دیا۔  ہمیشہ کی طرح میرا ذاتی فائدہ اور میری ذاتی بھلائی کو مد نظر رکھتے ہوئے میری اس کشمکش کا حل اس طرح سے خط میں لکھ کر بھیج دیا۔

’’اگر تم امریکہ میں اپنا کام اور ریسرچ جاری رکھنا چاہتی ہو تو ہمیں کوئی اعتراض نہ ہو گا۔  یہاں کے حالات کچھ ایسے ہی ہیں۔‘‘ لیکن میں اپنے ابّاجی کو خوب جانتی تھی۔  میں جانتی تھی کہ ابّاجی مجھ سے ملنے کے لیے سخت بیتاب ہیں، چنانچہ میں اپنا کام چھوڑ کر چلی گئی۔‘‘(۵۶)

’’…پچھلے سال ہم انگلستان میں تھے تو ان کی بیٹی صبیحہ جو اب ڈاکٹر صبیحہ حفیظؔ کے طور پر کراچی یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں۔  وہیں ہمارے ایک دوست کے گھر مقیم تھیں، جو حفیظؔ صاحب کے بھی دوست تھے۔  اس گھر میں جمیل الدین عالی اور ان کی بیگم بھی تھیں کیونکہ وہ دوست پیرس گئے ہوئے تھے، یہاں صبیحہ سے کچھ مباحثہ رہا۔  کچھ لوگ ان کو مشورہ دے رہے تھے کہ پاکستان مت جاؤ۔  جنگ ہونے والی ہے۔  کینیڈا یا امریکہ چلی جاؤ۔  یہاں تم کو اچھی نوکری کی پیشکش بھی ہے۔  یہ بیٹھی سلگتی رہتی تھیں۔  آخر بولیں کیوں نہ جاؤں بابا کو دیکھے اتنے دن ہوئے۔  جنگ ہونی ہے تو سبھی کے لیے ہے۔  لوگ مرتے ہیں تو میں بھی کیوں نہ مروں۔  میں تو ضرور جاؤں گی۔  مشورہ ناصحین مشفقین کا غلط نہ تھا کہ اس بے یقینی کے عالم میں تم اور لائبیلیٹی Liability ہو جاؤ گی، لیکن انھوں نے رخت سفر باندھا اور آ گئیں۔  اس روز جو ہم حفیظؔ کی عیادت کو جناح ہسپتال گئے تو وہ بھی تھیں۔‘‘ (۵۷)

صبیحہ آج بھی اپنے والد کی کمی محسوس کرتی ہیں۔

’’ … اگر ابّاجی ہوتے تو میرے بارے میں سوچتے، مجھے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے میں کوئی مشورہ دیتے، میری مدد کرتے۔  ان کا مشورہ یقیناً میرے لیے بہتر ہوتا۔  وہ تو دوسرے کو بھی پوچھنے پر صائب مشورہ دیا کرتے تھے۔  خصوصاً ً شعری اصلاح کے سلسلے میں ان کے پاس دور دور سے خط آتے، لوگ آتے۔  شاید وہ مشہور ہو گئے تھے کہ اصلاح کر دیتے ہیں۔  ابّاجی پرفیکشن کے قائل تھے۔  اپنا کلام ہو یا دوسروں کا۔  وہ حتیٰ الامکان کوشش کرتے کہ بات صحیح طور پر بن جائے۔  صبیحہ کہتی ہیں کہ مجھے معلوم ہے کہ انھوں نے بعض شاعروں کے مصرعوں کے مصرعے، آخر پوری غزل ہی بدل کے رکھ دی۔  صہبا ؔاور ناصرؔ تو خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں لیکن ان کے علاوہ بھی ابّاجی نے بہت سے لوگوں کو بہت کچھ کر کے دیا۔  صرف شاعری ہی نہیں، نثر میں بھی انھوں نے مروتاً بہت کچھ لکھا جو دوسروں کے نام سے سامنے آیا۔  ایثار کا یہ جذبہ میں نے صرف ابّاجی میں دیکھا اور اگر مجھ سے ان کی شخصیت کے بارے میں مختصر ترین الفاظ میں رائے پوچھی جائے تو میں یہی کہوں گی کہ ’’وہ ایثار کا مجسمہ تھے۔‘‘ (۵۸)

( زمین کھا گئی آسماں کیسے کیسے، افسوس آج صبیحہ بھی ہم میں موجود نہیں )

 

صہیب حفیظ

سنجیدہ مزاج اور ذمہ دار انسان ہیں۔  والد کی بیشتر صفات ان میں موجود ہیں۔  والد سے بے پناہ محبت کا احساس ان کی باتوں سے جھلکتا ہے۔  والد سے محبت اور فخر کی وجہ یہ نہیں کہ وہ غزل کے بہت بڑے شاعر تھے۔  معتبر لوگوں نے ان کی عظمت کو تسلیم کیا ہے یا یہ کہ وہ ایک مشہور قومی ادارے کے اعلیٰ افسر تھے، بلکہ فخر کی بات یہ ہے وہ بہت بڑے انسان تھے۔  وقت اور فاصلے محبت کو کم نہیں کر سکتے۔  ۸ جولائی ۱۹۹۴ء کراچی میں جناب شمس الدین بٹ کے دولت کدے پر حفیظؔ کی غزلوں کا وہ ٹیپ چل رہا تھا جو ان کی زندگی کے آخری ایّام کی یادگار ہے۔  حفیظؔ ایک کے بعد ایک غزل سنا رہے تھے اور صہیب کی آنکھیں نم اور نم ہوئی جاتی تھیں۔

راولپنڈی میں عصمت کے گھر پر یکم اپریل ۱۹۹۴ء کو صہیب یادوں کے ورق الٹتے ہوئے کہتے ہیں۔

’’ابّاجی بے پناہ مصروف رہتے تھے۔  ہم نے انھیں کبھی فارغ نہیں دیکھا۔  تھوڑا بہت وقت ملتا تو وہ ہم بچّوں کے ساتھ گزارنا چاہتے۔  وہ ایک محبت کرنے والے باپ اور شوہر تھے۔  ان کی دو ہی دلچسپیاں تھیں، دفتر اور گھر۔  گھر میں ہم بچّے ہوتے یا کتابیں ہوتیں۔  کتاب سے محبت جیسی انھیں تھی ہم نے کسی اور میں نہیں دیکھی۔  نایاب اور نادر کتب ان کی کمزوری تھیں۔  دور دراز کے سفر پر بھی جاتے تو ان کے ساتھ واپسی پر بڑے بڑے ٹرنک ہوتے۔  ہم بہت خوش ہوتے کہ دیکھیں ابّاجی کیا کچھ لائے ہیں۔  ان میں نئی اور پرانی بوسیدہ کتابیں موجود ہوتیں اور وہ خوشی سے پھولے نہ سمار ہے ہوتے کہ یہ نایاب کتاب میں نے وہاں سے خریدی اور یہ کتاب بڑی مشکل سے اتنے میں ملی۔  ہمارے لیے بھی تحفے لانا نہ بھولتے۔  کتابوں کے معاملہ میں بہت محتاط واقع ہوئے تھے۔  کتابیں کبھی کسی کو نہیں دیتے تھے۔  بعض اوقات کتابوں کی وجہ سے لڑ بھی پڑتے تھے اور اگر کوئی کتاب لے جانے میں کامیاب ہو بھی جاتا تو جب تک کتاب واپس نہ آ جاتی چین سے نہ بیٹھتے۔  فون کرتے، خط لکھ کر یاد دہانی کراتے۔  اکثر افسوس کرتے بھی نظر آتے کہ فلاں کتاب ضائع ہو گئی، یعنی لے جانے والے نے واپس ہی نہ کی۔  آفس سے آنے کے بعد کتابیں ہوتیں یا وہ۔  پانچ مہینے ہسپتال میں رہے۔  وہاں بھی کتابیں ہی کتابیں تھیں۔  ملازم کو تاکید کرتے کہ میری کتابوں کو ہاتھ نہ لگانا۔  انھوں نے اپنی تنخواہ کا ایک حصہ کتابوں کی خرید، ان کی جلد بندی وغیرہ کے لیے وقف کر رکھا تھا۔  اردو ادب سے متعلق کتب ہی ان کی لائبریری میں نہ تھیں بلکہ فارسی، عربی، سندھی، انگریزی، پنجابی زبان و ادب کی کتب موجود تھیں۔  فلسفہ، سائنس، مذہب، تاریخ اور موسیقی کی کتابیں، ان کے زیر مطالعہ رہتیں۔  ان کی وفات کے بعد ان کتابوں کا مناسب حل ہمیں یہ نظر آیا کہ علم کو مقید رکھنا مستحسن نہیں۔  یہ نادر کتب یہاں الماریوں میں بند پڑے رہنے سے اپنا مقصد پورا نہیں کر رہیں۔  ہم نے یہ کتب جن کی تعداد اٹھارہ سو تھی، نیشنل لائبریری کو تحفتاً دے دیں۔  جن سے طالبانِ علم فیض حاصل کر رہے ہیں۔‘‘ (۵۹)

صبیب، حفیظؔ کی مصروفیت کے بارے میں کہتے ہیں:

’’ ابّاجی بہت مصروف رہتے تھے۔  پھر بھی چند دوستوں سے ملنے کی کمی خطوط کی ذریعے دور کر لیتے تھے۔  خطوط کم لکھتے تھے، لیکن جو خط لکھتے تھے وہ کسی بھی علمی و تحقیقی مقالے سے کم نہ ہوتا تھا، جیسا کہ جناب حسام الدین راشدی کے نام خط، شیخ صلاح الدین کے نام خط اور نہ جانے کتنے لوگوں کو انھوں نے خط لکھے ہوں گے، جن میں تاریخ اور ادب کے کتنے ہی موضوع زیرِبحث آئے ہوں گے۔  مجھے ان کا علم نہیں۔  خط ان کے پاس بے شمار آتے تھے۔  ہر خط کا جواب دینا ان کے بس کی بات نہ تھی۔  اصلاح شعر کے لیے بھی ان کے پاس خط آتے تھے اور وہ اصلاح کربھی دیتے تھے۔

ابّاجی کی سب سے اہم عادت بے داغ تکمیلیت کی تھی۔  وہ کسی چیز کو نامکمل حالت میں نہیں دیکھ سکتے تھے۔  ہر چیز مکمل ہونی چاہیے کسی بھی خامی اور نقص سے پاک۔  یہ عادت شاعری تک محدود نہیں تھی۔  وہ اپنے اردگرد ہر چیز کو خوبصورت دیکھنا چاہتے تھے۔  گھر کو، دفتر کو لیکن سب کچھ بدلنا ان کے اختیار میں نہ تھا اور اس مجبوری اور محرومی کے احساس کو وہ اس طرح دور کر لیتے تھے کہ جو کچھ ان کے ہاتھ میں ہوتا اسے پرفیکٹ دیکھنا چاہتے۔  دوسروں کی شاعری کی اصلاح بھی اسی طرح کرتے جیسے کہ اپنی غزل کی۔  پرفیکشن کی اس عادت نے انھیں فائدہ بھی بہت پہنچایا تو نقصان بھی کم نہ ہوا۔  شاعری ہی کی بات لیجیے کہ سبھی چاہتے ہیں کہ ان کا شعری مجموعہ اب تو آ جائے۔  سالوں سے سب کو تسلّیاں دیتے آ رہے ہیں کہ بس اب میں اس کی طرف توجہ دوں گا، لیکن ایک مصروفیت، دوسرے بے نیازی و بے پروائی، تیسرے پرفیکشن کی عادت، جس نے بھی شائع کرنے کی خواہش کا اظہار کیا، دیوان مانگا تو ایک ہی جواب ملا، بس ایک مرتبہ اور دیکھ لوں، پھر مقام اور مرتبہ تو انھیں طالب علمی کے زمانے میں ہی مل گیا تھا، لیکن بہتری کی خواہش، ہر شعر میں، ہر بات میں امپرومنٹ کے خواہاں، ایک ایک شعر سو مرتبہ پرکھتے۔  جو ذرا بھی معیار سے کم معلوم ہوتا اسے قلمزد کر دیتے۔

کیا مقام غزل میں ان کی تمام تخلیقات شامل ہیں ؟

ایک تہائی بھی نہیں۔  میں تو سوچتا ہوں کہ اگر ان کا پہلا مجموعہ وقت پر آ گیا ہوتا۔  چالیس پچاس کی دہائی میں، ان کی کئی کتابیں اور بھی آ سکتی تھیں لیکن ایسا نہیں ہوا بے داغ تکمیلیت کی عادت نے ان کی زندگی میں ایک مجموعہ بھی سامنے نہ آنے دیا۔

وہ ریڈیو کے ایک ذمہ دار افسر تھے۔  ان کے بعد آنے والوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی غزلیں بڑے ذوق و شوق سے ٹی وی پر گائی جاتی ہیں، لیکن ابّاجی کے زما نۂ ملازمت میں اگر غلطی سے بھی کسی نے ان کی غزل منتخب کی اور گا دی تو ڈانٹتے تھے کہ یہ کیوں گائی گئی۔  مجھ سے پوچھے بغیر یہ ریکارڈ کیسے ہوئی۔  در اصل سب کو علم تھا کہ اجازت نہیں دیں گے، اس لیے ان سے پوچھا ہی نہ جاتا تھا۔

چالیس پچاس سال پہلے کی بات ہے کہ ملکہ پکھراج نے ان کی غزل ’’بے زبانی زباں نہ ہو جائے:: رازِ الفت عیاں نہ ہو جائے‘‘ گائی تھی اور غزل گائیکی کاحق ادا کر دیا تھا۔  ’’محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے‘‘ پاکستان کے ہر بڑے گلوکار نے گائی، مہدی حسن، نسیم بیگم، فریدہ خانم، اقبال بانو حتیٰ کہ منّی بیگم نے بھی، اور خوب داد سمیٹی، اگر ابّاجی خود پر پابندی عائد نہ کر لیتے تو کتنی ہی ایسی غزلیں زبان زدِ عام ہوتیں۔

ابّاجی ایک مضبوط کردار کے مالک تھے۔  اصولوں سے ہٹ کر کبھی کوئی بات نہ کی۔  کبھی سمجھوتہ بازی کا راستہ نہیں اپنایا۔  دفتر کو وقت بہت دیا کرتے تھے، لیکن تنخواہ کے علاوہ انھوں نے دفتر سے کبھی کچھ نہ لیا۔  کبھی دفتر کی کوئی چیز استعمال نہ کی۔  ایک زمانے میں بیمار رہتے تھے۔  میرے پاس ایک چھوٹی سی گاڑی تھی۔  انھیں لینے آفس چلا جاتا تھا۔  ایک روز میرے پاس بھی گاڑی نہ تھی۔  مجھے خیال تھا کہ ابّاجی کی طبیعت ٹھیک نہیں۔  میں انھیں لینے چلا گیا۔  میں سات بجے پہنچا۔  کام میں مصروف تھے۔  ایک فائل دیکھتے مکمل کرتے پھر دوسری اٹھا لیتے۔  ساڑھے دس بج گئے۔  کہنے لگے، بہت ضروری کام ہے، فائلیں مکمل کر کے اسلام آباد بھیجنی ہیں۔  کام ختم کر کے باہر نکلے تو ساڑھے گیارہ بج چکے تھے۔  ڈرائیور آیا کہ صاحب میں گاڑی لے آؤں، کہنے لگے نہیں بھئی تم آرام کرو ہم رکشہ ٹیکسی میں چلے جائیں گے۔  میں تمام رستہ ان سے لڑتا رہا۔  دفتر میں اتنی گاڑیاں کھڑی ہیں، ڈرائیور بھی موجود ہیں پھر آپ کے انکار کی وجہ میری سمجھ میں نہیں آئی۔  آپ ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ہیں کچھ تو اپنے عہدے کا پاس کر لیا کریں اور نہ جانے کیا کچھ، لیکن میری سب باتوں کے جواب میں کہنے لگے یار تم میرے ساتھ ہو گپ شپ لگاتے پیدل چلتے ہیں۔  اس وقت میں ان سے گپ شپ کیا لگاتا میں کافی ناراض تھا ان سے … لیکن آج اس واقعے کو یاد کر کے فخر محسوس کرتا ہوں کہ آج کے معاشرے میں کسی کو خداکی بخشی ہوئی ذرا سی عزّت نصیب ہو جائے تو وہ خود ہی خدا بننے کے خواب دیکھنے لگتا ہے۔  ابّاجی کی وفات کے بعد کن کن لوگوں نے ان کی عظمت و بڑائی کا اعتراف کیا، وہ جو خود بہت اہمیت کے حامل تھے۔  انھوں نے بھی ابّاجی کی اہمیت کو تسلیم کیا۔  ایک تقریب میں فیض صاحب ملے، کہنے لگے ’’حفیظؔ ایک ہی تو پڑھا لکھا آدمی تھا ہم میں‘‘ ہمیں تو ان کی موت کے بعد علم ہو کہ ان کے چاہنے والے تو ہمارے اندازے سے کہیں زیادہ ہیں، پھر کوئی تو بات تھی ابّاجی میں جو ان کے اتنے چاہنے والے تھے۔

ابّاجی بہت کم سخن تھے۔  وہ بہت کم بولتے تھے خصوصاً ً اپنے بارے میں کبھی کچھ نہیں کہتے تھے۔  کبھی اپنے ماضی کے بارے میں انھوں نے ہمیں نہیں بتایا۔  بچپن میں یتیم ہو گئے تھے۔  اعلیٰ تعلیم کے اخراجات ٹیوشن کر کے پورا کرتے تھے۔  بچپن کا دکھ اور محرومیاں بھولنے والی تو نہیں لیکن انھوں نے ہمارے سامنے کبھی اس کا تذکرہ نہیں کیا۔  نہ کبھی ہمیں احساس دلایا کہ تم اتنی آسائش میں زندگی گزار رہے ہو۔  میری زندگی کن حالات میں گزری ہے۔  غرض اپنی کسی بھی محرومی کا عکس انھوں نے ہم پر نہ پڑنے دیا۔‘‘ (۶۰)

 

عصمت حفیظ

جنوری ۱۹۷۳ء کے تمام اخباروں میں ایک خبر شائع ہوئی جو ہر ایک کے لیے صدمے کا باعث تھی۔  اس خبر میں ایک اور خبر بھی موجود تھی جو اور زیادہ دکھی کر دینے والی تھی، حفیظؔ ہوشیار پوری انتقال کر گئے، کے ساتھ دوسری سرخی یہ تھی کہ مرحوم کی ایک بیٹی جنگی قیدیوں کے کیمپ میں ہے۔  یہ ان کی منجھلی بیٹی عصمت تھیں، جو ان دنوں بھارتی اسیر تھیں اور باپ کے آخری دیدار سے محروم رہیں۔

’’ عصمت نے ۱۹۴۷ء میں لاہور میں جنم لیا۔  سینٹ جوزف کالج کراچی سے ۱۹۶۶ء میں بی۔  اے۔  کرنے کے بعد کراچی یونی ورسٹی کے شعبہ صحافت میں داخلہ لیا مگر اس دوران میں ان کی شادی ہو گئی اور سلسلہ تعلیم منقطع کرنا پڑا۔  شوہر کا انتخاب ان کا اپنا تھا۔  شوہر ان سے تیس سال بڑے تھے۔  والد نے اس لیے اعتراض نہ کیا کہ وہ اپنے بچوّں کے دوست بھی تھے۔  انھوں نے بچّوں کی تعلیم و تربیت ایک شفیق باپ کی طرح کی اور مستقبل کے بارے میں بچوّں کے فیصلوں پر کبھی اثر انداز نہ ہوئے۔‘‘(۶۱)

عصمت کہتی ہیں ’’ ابو ّ نے ہمیں ہر فیصلے کا اختیار دیا ہوا تھا۔  وہ ہمیں کبھی بھی روایتی باپ کی طرح نظر نہ آئے۔  کبھی کبھی تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسا باپ ہمیں ملا کسی اور کو نہ ملاہو گا۔  میں اپنے والد کا ذکر جب اپنی سہیلیوں سے کیا کرتی تھی کہ اپنی اولاد خصوصاً ً بیٹیوں کے ساتھ ان کا رویہ کیسا ہوتا تھا تو وہ حیران رہ جاتی ہیں کہ ہمارے معاشرے میں تو ایسا نہیں ہوتا۔  یہاں تو لڑکیوں کو ثانوی درجہ دیا جاتا ہے۔  میرے والد نے ہم سب بہنوں سے بہت پیار کیا، بلکہ ہمارے خاندان کی بعض خواتین یہاں تک کہہ جاتی تھیں کہ حفیظؔ نے اپنی بیٹیوں کو بہت آزادی دی ہوئی ہے۔  ذرا روک ٹوک نہیں کرتا اور واقعی انھوں نے ہم پر کوئی قدغن نہیں لگائی۔  معاملہ پڑھائی کا ہو یا شادی بیاہ کا وہ ہم پر اعتماد کرتے تھے اور ہمارے فیصلوں کا احترام بھی۔  انھیں اپنے بیٹوں سے بہت لگاؤ تھا، لیکن بیٹیوں سے پیار کا انداز ہی جدا تھا۔  مجھے تو وہ منظر کبھی نہیں بھولتا جب ہماری سب سے چھوٹی بہن جو عمیر سے بڑی تھیں، کی شادی ہوئی۔  ثمینہ کی رخصتی کے وقت ایک طرف کھڑے رو رہے تھے اور اپنی چیخیں ضبط نہیں کرپا رہے تھے۔  باجی (صبیحہ حفیظؔ) ان دنوں امریکہ گئی ہوئی تھیں۔  ثمینہ کی شادی پر اس بات کو محسوس کر رہے تھے کہ میرے گھر کی تو ساری رونق ختم ہو گئی۔  عصمت کہتی ہیں وہ شاعر کیسے تھے ؟ پروگرام پروڈیوسر کیسے تھے ؟ یا ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کیسے تھے ؟ مجھے کچھ علم نہیں۔  انھوں نے اپنی زندگی کو مختلف خانوں میں منقسم کیا ہوا تھا اور ہر خانہ دوسرے سے اس طرح الگ تھا کہ اس کا ذرّہ برابر اثر کسی وقت بھی دوسرے پر نہیں پڑتا تھا۔  میں تو صرف ایک بیٹی کی حیثیت سے بات کر سکتی ہوں کہ وہ باپ کیسے تھے۔  ان کی اولاد سے محبت ضرب المثل تھی۔  جب میری پہلی بیٹی پیدا ہوئی، سیزیرین آپریشن سے، میں سخت تکلیف میں تھی۔  ایک رات میری آنکھ لگ گئی۔  مجھے محسوس ہو اکوئی میری ٹانگیں دبا رہا ہے۔  دھیرے سے میں نے آنکھیں کھولیں تو وہ ابّاجی تھے۔  کیا کبھی کسی باپ نے اتنی محبت کی ہو گی اپنی بیٹیوں سے ؟ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ ان جیسا باپ تو کسی اور کا ہو ہی نہیں سکتا۔

یہ میری بدقسمتی ہے کہ میں ان کی زندگی کے آخری لمحوں میں ان کے پاس موجود نہ تھی۔  وقت اور فاصلوں کی زنجیروں کے علاوہ ہم واقعی زنداں میں تھے۔  دسمبر ۱۹۷۱ء میں ڈھاکہ فال ہوا تو جہاں پاکستان فوج کے افسروں اور جوانوں کو قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں، وہیں سویلین بھی اس سے مستثنیٰ نہ رہے۔  میرے شوہر امتیاز انصاری ریڈیو پاکستان میں ڈپٹی چیف انجینئر تھے۔  (جو بعد ازاں ریڈیوپاکستان کے پراجیکٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے ) ڈھاکہ فال میں وہ بھی اسیر ہوئے۔  اس وقت میری دونوں بیٹیاں بہت چھوٹی تھیں۔  ہم سب جنگی قیدیوں کی حیثیت سے ہندوستان کے بندی خانوں میں پہنچائے گئے۔  پاکستان کے دو لخت ہونے کا سانحہ ایسا تھا کہ اس کے بعد ابّاجی اٹھ ہی نہ سکے۔  یہ صدمہ تو ہر پاکستانی کے لیے ناقابلِ برداشت تھا، پھر ان کی پیاری بیٹی بھی اس سانحے کا حصہ تھی۔  کھانا کھانے لگتے تو پریشان ہوتے۔‘‘(۶۲)

’’سقوط ڈھاکہ ہوا تو ان کی بیٹی اور داماد بھی وہیں دھر لیے گئے۔  عید کا روز تھا۔  ہم ان کے پاس حاضر ہوئے، بڑے دلگرفتہ تھے۔  اس بات پر پریشان تھے کہ چھوٹی بچیّ کو دودھ نہیں ملا ہو گا۔‘‘(۶۳)

عصمت کہتی ہیں کہ وہ حالات ایسے تھے کہ ہم کافی عرصے تک تو انھیں اپنی زندگی یا ہندوستان میں موجودگی کی اطلاع ہی نہ کر سکے، پھر ایسا ہوا کہ لندن سے ہوتا ہوا میرا ایک خط ان تک پہنچ گیا۔  امّی بتاتی ہیں کہ اس روز اس قدر خوش تھے کہ ایک ایک کو فون کر کے بتاتے تھے کہ میری بیٹی کی خیریت کی اطلاع آئی ہے۔  سب میں مٹھائی تقسیم کی۔

مجھے وہاں ان کی بیماری کی اطلاع تو مل چکی تھی۔  میرا چھوٹا بھائی عمیر خط لکھنے میں ریگولر تھا۔  میں اسے ہمیشہ لکھتی کہ انسان کو پریکٹیکل ہونا چاہیے۔  دوست احباب، خاندان میں کہیں کوئی خوشی غمی کی خبر، بیماری، موت مجھ سے کچھ نہ چھپانا، سبھی کچھ لکھنا۔  ہم ۲۲ ماہ جنگی اسیر رہے۔  وہ مجھے خط میں ہر بات لکھ دیا کرتا تھا۔  ابّاجی کی بیماری کا بھی اس نے لکھا۔  میں وہاں سوائے دعا کے اور کیا کر سکتی تھی یا اس خواہش کے کہ میرے پر لگ جائیں اور میں اڑ کر ان تک پہنچ جاؤں …

میرے اس سوال کے جواب میں کہ آپ کو ان کی وفات کی اطلاع کب اور کیسے ہوئی اور اس وقت اس ناقابل برداشت صدمے کو آپ نے کس طرح جھیلا۔  عصمت ان بیتے ہوئے دنوں کی یاد کو آنسوؤں کی نمی سے صاف کرتے ہوئے بولیں۔

’’…۵ جنوری کو ان کی سالگرہ ہوتی ہے۔  اس روز میں نے انھیں بہت یاد کیا۔  ٹھیک پانچ دن بعد دس جنوری کو ساتھ والی بیرک سے ایک صاحب آئے کہنے لگے۔  ’’انصاری صاحب ذراباہر آئیں، بات سنیں۔‘‘ مجھے حیرت ہوئی کہ وہ کون سی بات ہے جو انصاری صاحب کو باہر لے جا کر بتانا چاہتے ہیں۔  میں پوچھتی رہی لیکن انھوں نے مجھے کچھ نہ بتایا۔  مجھے گھبراہٹ شروع ہو گئی میں بھی ان کے پیچھے چلی آئی۔  مجھے لگ رہا تھا کہ کچھ ہو گیا ہے اور وہ ہو گیا تھا جو میں سننا نہیں چاہتی تھی۔  وہ صاحب بتا رہے تھے کہ ریڈیو پر خبروں میں سنا ہے کہ حفیظؔ ہوشیارپوری وفات پا گئے ہیں۔‘‘ میرے محسوسات کیا تھے۔  مجھے صرف یہ یاد ہے میں چیخیں مارمار کر رو رہی تھی۔  سلاخیں مجھ سے ٹوٹ نہیں رہی تھیں اور میرا دل ٹھہر نہیں رہا تھا۔  گورنمنٹ آفیسرز ایک بیرک میں رہتے تھے۔  پچھلی بیرک میں سپاہی رہتے تھے وہ سبھی آ گئے۔  ہم سب ایک گھر کے افراد کی طرح رہتے تھے۔  سب نے بہت تسلّی دی، صبر کی تلقین کی، بابا کی باتیں کرتے رہے۔  شام کو جرنیل صاحب اور دوسرے آرمی آفیسرز بھی تعزیت کے لیے آئے، لیکن سب چاہتے ہوئے بھی میرے لیے اتنا نہ کر سکے کہ میں باپ کا آخری دیدار کر لوں۔  غالباً اسی شام کو آل انڈیا ریڈیو سے بابا کی یاد میں ایک پروگرام بھی ہوا جس میں زیادہ زور اس بات پر دیا گیا کہ حفیظؔ ہمارا شاعر تھا ہمارے کلچر کا حصہ تھا، جو پاکستان چلا گیا۔  ان کی شعری خدمات کا اعتراف کیا گیا۔‘‘(۶۴)

ماحول خاصا سوگوار ہو چکا تھا میں نے عصمت کی توجہ دوسری طرف مبذول کرانے کی خاطر کہا کہ آپ کے ڈرائینگ روم میں حفیظؔ صاحب کا یہ پورٹریٹ بہت خوبصورت ہے، کس نے بنایا ہے ؟

عصمت کہنے لگیں کہ حفیظؔ صاحب کا یہ پورٹریٹ بھی انھی دنوں کی یادگار ہے کہ جب ہم پی۔  او۔  ڈبلیو تھے۔  اتفاق سے میری دوست مبشرہ طُور جنھوں نے فائن آرٹس میں ماسٹرز کیا ہوا ہے۔  وہ بھی وہیں پی۔  او۔  ڈبلیو تھیں۔  وہاں ہم آزادانہ ایک دوسرے کی بیرک میں آ جا نہیں سکتے تھے۔  اس کے لیے خصوصی اجازت لینا پڑتی تھی۔  ایک روز وہ میرے پاس آئی۔  میں ابّاجی کی بیماری کی وجہ سے بہت افسردہ تھی۔  ان کی ایک چھوٹی سی تصویر میرے پاس تھی وہ تصویر مجھ سے لے گئی پھر اس نے نہ جانے کتنی مشکلوں سے رنگ، کینوس اور برش وغیرہ منگوائے اور جیل میں ہی یہ تصویر بنائی۔  اس بات کا اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ میں کتنی مشکلوں سے وہاں سے بچا بچا کر یہ تصویر لائی ہوں۔  حفیظؔ کی یہ تصویر فن مصوّری کا ایک شاہکار ہے۔  محسوس ہوتا ہے کہ بیٹی کی محبت کے سارے ہی رنگ اس میں جھلک اٹھے ہیں۔  حفیظؔ کی آنکھیں بولتی ہوئی اور لب مسکراتے ہوئے معلوم ہو رہے ہیں۔

میرے اکثر سوالات کے جواب میں عصمت کہتی رہیں کہ میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتی۔

’’ میں اٹھارہ سال کی تھی جب میری شادی ہو گئی۔  میں تو صرف یہ جانتی ہوں کہ میرے والد اولاد سے بے پناہ محبت کرنے والے انسان تھے، لیکن ہمیں ان میں شاعروں والی بے پروائی، گھر اور بچّوں سے عدم دلچسپی یا اپنے آپ میں گم رہنے والی کوئی عادت نظر نہ آئی۔  ہاں کبھی کبھی رات کو آنکھ کھلتی تو میں دیکھتی کہ ان کے کمرے میں سگریٹ کا شعلہ بدستور روشن ہے۔  شاید وہ اس وقت فکرِ سخن میں مصروف ہوتے ہوں۔  شعر کبھی سگریٹ کی ڈبیا پر لکھا ہوتا تو کبھی کسی کاغذ پر غزل تحریر ہوتی۔  ہمیں کبھی محسوس نہیں ہوتا تھا کہ اس وقت وہ کسی خاص موڈ میں ہیں یا ان پر آمد ہو رہی ہے۔  ان کی بدیہہ گوئی بہت مشہور ہے، لیکن ہمارے سامنے کبھی انھوں نے فی البدیہہ شعر نہیں کہا، البتہ تاریخ گوئی کے وہ ماہر تھے۔  ہنستے کھیلتے باتیں کرتے کسی بچے کے منہ سے کوئی فقرہ نکلتا اور وہ بول اٹھتے لو بھئی تاریخ ہو گئی۔  ہمیں احساس ہی نہیں تھا اس وقت ان باتوں کا، اکثر ہمارے جملوں کو الٹ دیتے اور کہتے لو بھئی اس سے تو تاریخ نکل آئی۔

ہم سب بچّوں کو انھوں نے انڈیپینڈینٹ Independent رکھا ہوا تھا۔  ہمیں اپنے فیصلے، اپنے کام اپنی مرضی سے کرنے کی اجازت ہوتی تھی۔  مجھے یاد نہیں کہ انھوں نے کبھی ہمارا بستہ چیک کیا ہو۔  بس اسکول میں داخل کروانے گئے۔  بہت ہوا تو رپورٹ پر دستخط کر دیے۔  بری رپورٹ پر بھی انھوں نے کبھی نہیں ڈانٹا۔  وہ بس یہی کہا کرتے تھے جو کچھ تمھیں کرنا ہے خود کرنا ہے، اپنے لیے کرنا ہے۔  انھیں تو یہ بھی یاد نہیں رہتا تھا کہ کون سا بچّہ کس جماعت میں ہے۔  مصروفیت کے باعث وہ ہمیں وقت نہیں دے پاتے تھے۔  ان کا آفس سے آنے کا کوئی وقت مقرر نہیں ہوتا تھا۔  اکثر ایسا ہوتا کہ ہم سو رہے ہوتے تو وہ جاچکے ہوتے اور جب آتے تو ہم سو چکے ہوتے۔  انھوں نے اپنے کام کو عبادت کا درجہ دے رکھا تھا۔  گھر اور دفتر بس ان کی یہی مصروفیات تھیں۔  انھی سے انھیں عشق تھا۔  مشاعروں میں بہت کم جاتے تھے۔  مجھے یاد ہے بھائی شیخ منظور الٰہی یا کوئی اور دوست انھیں گھسیٹ کر مشاعرے میں لے جاتا تو چلے جاتے ورنہ نہیں۔  ویسے ہمیں علم نہیں ہوتا تھا کہ ابّاجی مشاعروں اور ادبی نشستوں میں جاتے ہیں یا نہیں کیونکہ انھوں نے باہر کی کوئی بات کبھی گھر میں نہیں بتائی۔  ان کی زندگی مختلف خانوں میں بٹی ہوئی تھی اور ہر خانہ ایک دوسرے سے بالکل الگ تھا۔  گھر میں فقط وہ باپ تھے یا شوہر، شاعر کبھی نہ تھے، گھر کا ماحول شاعرانہ تھا نہ کبھی ادبی نشستیں ہوئیں، نہ ہی کبھی شاعروں کا مجمع دیکھا۔  مجھے ۱۹۵۸ء کا وہ وقت کبھی نہیں بھولتا۔  حیدرآباد میں ایک مشاعرہ تھا اس سلسلے میں ابّاجی کو بھی حیدرآباد جانا پڑا۔  وہیں اچانک نروس بریک ڈاؤن ہوا، حالت بگڑ گئی۔  وہاں کوئی بات ہوئی تھی جس کی وجہ سے ابّاجی کی یہ حالت ہوئی، لیکن انھوں نے ہمیں وہ بات کبھی نہ بتائی۔  وہ کراچی آ کر ڈھائی ماہ ہسپتال میں رہے اور ہمیں وہیں جناب شمس الدین بٹ کے کردار کی عظمت کا اندازہ ہوا۔  جیسا کہ میں کہہ چکی ہوں کہ ابّاجی نے اپنی زندگی کو مختلف خانوں میں بانٹ رکھا تھا۔  ہر خانے کا دوسرے سے کوئی تعلق نہ تھا۔  ریڈیو کا کوئی افسر، کوئی ماتحت، کوئی دوست کبھی گھر نہیں آیا، جیسا کہ اکثر ہوتا ہے کہ دوست اور دوستوں کے اہلِ خانہ آتے جاتے رہتے ہیں ہمارے ہاں کبھی ایسا نہ ہوا۔  یہ صرف شمس الدین بٹ تھے جو ڈھائی ماہ ابّاجی کے ساتھ ہسپتال میں اس طرح رہے جیسے گھر کا کوئی فرد رہتا ہے۔  انھوں نے جس طرح ان کی خدمت کی ان کا یہ احسان ناقابلِ فراموش ہے۔  ابّاجی کا بھی اصرار ہوتا تھا کہ رات شمس الدین صاحب ہی ان کے پاس رہیں۔  ہم نہیں جانتے تھے کہ وہ کیا خصوصیات تھیں کہ جن کی بنا پر ابّاجی شمس الدین بٹ صاحب کو اس طرح چاہتے تھے اور اتنا اہم جانتے تھے، لیکن اب ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ یہ ابّاجی کے واحد دوست ہیں جو آج ان کی وفات کے بیس برس بعد بھی ہمیں اسی طرح چاہتے ہیں، اسی طرح دھیان رکھتے ہیں جیسا کہ ابّاجی کی زندگی میں، ورنہ کئی اور احباب جو ابّاجی کے قریبی دوستوں میں سے تھے، وہ ان کے رخصت ہوتے ہی ہمیں فراموش کربیٹھے۔‘‘(۶۵)

۱۹۹۸ء کا سورج ہنستا مسکراتا طلوع ہوا لیکن جب غروب ہوا تو عصمت کی معصوم بچیوں سائرہ اور نبیلہ کی سسکیاں اس کے ہمراہ تھیں کہ عصمت مختصر علالت کے بعد اپنی تمام تر معصومیت اور ترو تازگی کے ہمراہ ہنستی بولتی اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔  ان کے جانے سے گھر کے درودیوار ہی نہیں اس اسکول کا گوشہ گوشہ بھی اداس ہے جہاں عصمت نے اپنی زندگی کے بہترین سال پرورش علم خواہندگان میں گزارے۔

 

عمیر حفیظ

عمیر، حفیظؔ کے چہیتے بیٹے، حفیظؔ کے بہت قریب تھے۔  صبیحہ تعلیم کے لیے امریکہ گئی ہوئی تھیں۔  عصمت ہندوستان میں جنگی قیدی تھیں۔  ایسے میں صہیب، عمیر اور ثمینہ ہی باپ کی بیماری کے دوران میں باپ کے قریب تھے۔  عمیر ان دنوں کم عمر تھے، لیکن ذمہ داری کا احساس بہت تھا۔  والد کی دواؤں کا خیال، ان کی دیکھ بھال کی کافی ذمہ داری انھوں نے اٹھائی ہوئی تھی۔  ہنس مکھ چہرے اور شرارتی آنکھوں والے عمیر باپ کی بیماری اور پھر ان کی جدائی کے باعث بجھ سے گئے تھے۔  وقت بڑا مرہم ہے لیکن باپ کی یاد اب بھی ان کی آنکھوں کو نم کر دیتی ہے۔  عمیر ان دنوں ایک ائر لائن سے منسلک ہیں اور والد کے اصول زندگی کو اپنائے ہوئے ہیں۔  والد کی شخصیت کے متعلق کہتے ہیں ’’وہ بہت بڑے انسان تھے اور مجھے شکل اور کردار ہر دو اعتبار سے قائد اعظم سے ملتے جلتے لگتے تھے۔‘‘(۶۶)

 

ثمینہ حفیظ

ثمینہ جس کی شادی پر حفیظؔ پھوٹ پھوٹ کر روئے تھے کہ آج میرا گھر خالی ہو گیا باپ کی رخصت پر یوں بے تاب ہو کر روئیں کہ آج تمام کائنات محبت سے خالی ہو گئی ہے۔  علم سے محبت والد سے ورثے میں پائی تھی۔  درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہو کر اپنے اردگرد جہالت کے اندھیروں کو دور کرنے میں کوشاں ہیں۔

 

ادارت

 

مطالعے کے شوق اور کتابوں سے محبت ہی کی بنا پر حفیظؔ نے اپنی تعلیم مکمل کر لینے کے بعد کچھ عرصہ مختلف اخبار و رسائل کی ادارت کے فرائض بھی بڑی خوش اسلوبی سے سرانجام دیے۔  ۳۷۔  ۱۹۳۶ء میں فلسفہ میں تعلیم کی اعلیٰ ڈگری کے حصول کے بعد آپ انجمن اردو پنجاب سے منسلک ہوئے۔  میاں بشیر احمد صاحب، جنھوں نے اپنے والد کی یاد میں انھی کے نام سے ایک مؤقر ادبی جریدے ’’ہمایوں‘‘ کا اجرا کیا۔  انجمن پنجاب کے سیکریٹری تھے۔  حفیظؔ، میاں بشیر احمد سے دلی قربت رکھتے تھے۔  ’’ہمایوں‘‘ میں اپنے عہد کے معتبر اور اہم ادیبوں اور شاعروں کی تخلیقات جگہ پاتی تھیں۔  حفیظؔ کے کئی مضامین، نظمیں اور غزلیں ہمایوں کی زینت بنیں لیکن باقاعدہ ادارت کے سلسلے کا آغاز مولانا صلاح الدین احمد کے مشہور ادبی پرچے ’’ادبی دنیا‘‘ سے کیا۔  صلاح الدین احمد ادب سے گہرا شغف رکھتے تھے اور ادب میں جمود کے بجائے تحرک کے قائل تھے۔  انھوں نے اپنے رسالے میں ایسے سلسلے جاری کر رکھے تھے کہ جس کی بنا پر ادب کی دنیا سے تعلق رکھنے والے کچھ نہ کچھ سوچنے اور پھر کہنے پر مجبور ہوتے تھے۔  حفیظؔ کے زمانۂ ادارت میں بھی ’’ادبی دنیا‘‘ کا ادب کی دنیا میں فعال کردار رہا۔

مولانا چراغ حسن حسرت، حفیظؔ کے بے تکلّف دوستوں میں سے تھے۔

ان کی صحافتی سوجھ بوجھ کا آئینہ دار ’’ شیرازہ‘‘ سنجیدہ طبقے میں بھی مقبول و پسندیدہ رہا۔  لاہور ہی سے نکلنے والے اس ہفت روزہ ’’شیرازہ‘‘ کے عملہ ادارت میں حفیظؔ بھی شامل رہے۔  حفیظؔ نے اس دوران میں خود بھی شیرازہ کے لیے دیگر تخلیقات کے علاوہ فکاہیہ نظمیں بھی کہیں۔

۱۹۳۷ء میں حفیظؔ دہلی چلے گئے۔  وہاں آپ مشہور ادیب دیوان سنگھ مفتون کہ جن کی آپ بیتی ’’ناقابلِ فراموش‘‘ اردو ادب کی خود نوشت سوانح نگاری میں فراموش نہیں کی جا سکتی، کے اخبار ’’ریاست‘‘ کے عملہ ادارت میں شامل ہوئے۔

 

دارالاشاعت، پنجاب

۱۹۳۸ء میں امتیاز علی تاج کی فرمائش پر آپ واپس لاہور چلے آئے اور اردو کے عظیم اشاعتی ادارے ’’دارالاشاعت پنجاب‘‘سے کہ جس کی بنیاد تاج صاحب کے والد شمس العلما مولوی ممتاز علی نے رکھی تھی، وابستگی اختیار کی۔  ان دنوں اس ادارے سے دو ماہانہ پرچے شائع ہوا کرتے تھے ’’تہذیبِ نسواں‘‘ خواتین اس رسالے سے خصوصی دلچسپی رکھتی تھیں اور بچوّں کا رسالہ ’’ پھول‘‘۔  حفیظؔ نے ان دونوں پرچوں کی ادارت کے فرائض بہ طریق احسن انجامد یے۔

 

حلقۂ اربابِ ذوق

ترقّی پسند تحریک پورے برصغیر میں اپنا اثر و نفوذ قائم کر چکی تھی، لیکن اپنے بعض انتہا پسند اصول و قواعد کے بنا پر اس پر اعتراضات کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا تھا۔  ان حالات میں کسی دوسری تحریک کا منظر عام پر آنا کوئی حیران کن امر نہ تھا۔

حلقۂ اربابِ ذوق، ترقّی پسند تحریک کے ردِعمل کے طور پر وجود میں آیا۔

ترقّی پسند تحریک کے قیام کے تقریباً تین سال بعد ۱۹۳۹ء میں ترقّی پسند تحریک کے متوازی ایک اور تحریک سامنے آتی ہے۔  اس تحریک کے بانی ترقّی پسند تحریک کے مخصوص نقطۂ نظر کی طرح کوئی منتخب زوایہ نگاہ نہ رکھتے تھے بلکہ ان کا کہنا تھا کہ ہم ادب کو ادب سمجھ کر پڑھنا اور لکھنا چاہتے ہیں، کسی مخصوص نظریہ حیات یا فلسفۂ زیست کی ترجمانی ہمارا منشور نہیں۔  زندگی مختلف مدارج، مختلف پہلو، مختلف زوایے اور مزاج رکھتی ہے۔  ادیب یا شاعر جس زوایے یا جس پہلوپر چاہے اپنے خیالات کا اظہار کر سکتا ہے۔

یہ الگ بات کہ ترقّی پسند تحریک کے عروج کا دور یہی ہے اور ترقّی پسند تحریک نے نئی ابھرنے والی اس تحریک کے رحجانات متعین کرنے میں غیر شعوری طور پر فعال کردار ادا کیا کہ بعض افراد نے ترقّی پسند تحریک اور اس نئی تحریک کو ایک دوسرے کی ضد بھی قرار دیا، پھر یوں بھی کہا گیا کہ یہ نئی تحریک در اصل ترقّی پسند تحریک کی انتہا پسندی کا ردِعمل ہے۔  دونوں کے رحجانات، زاویہ ہائے نگاہ اور خیالات میں بُعد تھا۔  ترقّی پسند اجتماعیت پر زور دیتے تھے۔  نئی تحریک نے فرد کو اپنی ذات کی طرف متوجہ کیا۔  ترقّی پسند تحریک نے مادیت پر زور دیا۔  فرد کے مادی مسائل اور وسائل کی بات کی۔  اس نئی تحریک نے روحانیت اور داخلیت کو اہم جانا۔

ترقّی پسند تحریک ایک بڑی توانا اور طاقتور تحریک تھی اور کسی نئی تحریک کو ان حالات میں اپنے آپ کو متعارف کروانا اور جاری رکھنا سہل نہ تھا، پھر یہ نئی تحریک کسی مخصوص مقصد کی نشاندہی بھی نہ کرتی تھی اور نہ ہی ترقّی پسند تحریک کی طرح بڑے پیمانے پر شروع ہوئی تھی۔  یہ ایک بزم دوستاں تھی، جسے ابتدا میں ’’بزمِ داستاں گویاں‘‘ کا نام دیا گیا اور بعد ازاں جس نے متذکرہ تحریک یعنی ’’حلقۂ اربابِ ذوق‘‘ کی شکل اختیار کر لی۔

’’… البتہ یہ بات واضح ہے کہ حلقے کو شروع کرتے وقت کوئی سیاسی یا دوسرا مقصد پیش نظر نہ تھا۔  صرف بعض ادیبوں اور دوستوں نے آپس میں مل بیٹھنے اور اپنے اپنے ادب پارے ایک دوسرے کو سنانے کی خواہش کی تکمیل کے لیے کسی انجمن کو وجود میں لانے کی تجویز پیش کی۔‘‘(۶۷)

حلقۂ اربابِ ذوق کا قیام ۱۹۳۹ء میں ہوا۔  یہ دور ترقّی پسند تحریک کے عروج کا دور تھا۔  شیر محمد اختر (مرحوم) لکھتے ہیں۔

’’۱۹۳۹ء میں میوہ منڈی کے قریب رہتا تھا۔  ایک روز بازار میں نصیر احمد جامعی، سیّد نذیر نیازی کے برادر خورد سے ملاقات ہوئی انھوں نے مشورہ دیا کہ مل بیٹھنے کا کوئی طریقہ نکالا جائے۔  میں نے ان سے اتفاق کیا۔  وہ ان دنوں لکشمی مینشن میکلوڈروڈ کے عقب میں رہائش پذیر تھے۔  حلقے کا نام بزمِ داستاں گویاں رکھا گیا۔  اس میں پہلا افسانہ ’’تلافی‘‘ کے عنوان سے نسیم حجازی نے پڑھا، جو ۳۵ صفحات پر مشتمل تھا۔  یہ ادبی نشست ۲۹ اپریل ۱۹۳۹ء کو منعقد ہوئی۔  حفیظؔ ہوشیار پوری (مرحوم) کی صدارت میں درج ذیل حضرات نے شرکت کی۔  نسیم حجازی، تابش صدیقی، محمد فاضل، اقبال احمد، محمد سعید، عبدالغنی۔  قواعدو ضوابط بنے تو ’’بزم داستاں گویاں‘‘ کا نام ’’حلقۂ اربابِ ذوق‘‘ رکھا گیا۔  اس وقت حلقے کے ممبروں میں شیر محمد اختر، نصیر جامعی، تابش صدیقی، محمد فاضل، اقبال احمد اور حفیظؔ ہوشیارپوری شامل تھے۔‘‘(۶۸)

’’حفیظؔ ہوشیار پوری نے شعر گوئی کا آغاز قریب قریب اس زمانے میں کیا جب ہندوستان میں ترقّی پسند مصنفین کی بنیاد پڑ چکی تھی۔  زمانۂ طالب علمی میں انھوں نے آزادیِ ہند کی تحریک سے متاثر ہو کر چند ایک باغیانہ نظمیں کہی تھیں۔  اس کی پاداش میں وہ پکڑے بھی گئے لیکن پرنسپل کالج کی مدافعت پر معاملہ رفع دفع ہو گیا۔  غالباً یہی وجہ تھی کہ وہ نرم گفتاری کی طرف مائل ہو گئے اور ادب برائے ادب کے اس قدر قائل ہوئے کہ انجمن ترقّی پسند مصنفین کے مقابل جب ان کے ہم خیال اہل قلم نے ’’بزمِ افسانہ گویاں‘‘ کی طرح ڈالی تو انھوں نے اس کے پہلے جلسے کی صدارت کی اور یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب انھی احباب نے حلقۂ اربابِ ذوق قائم کیا تو اس کے پہلے اجلاس کی صدارت کے فرائض بھی حفیظؔ نے ہی انجام دیے۔  بہ الفاظ دیگر یہ کہا جا سکتا ہے کہ حلقۂ اربابِ ذوق کی تنظیم حفیظؔ ہوشیارپوری کی صدارت میں قائم ہوئی تھی۔‘‘ (۶۹)

حلقۂ اربابِ ذوق کے جلسوں میں معروف شعرا اور ادبا اور اہلِ ذوق حضرات شریک ہوا کرتے تھے، لیکن کیا یہ حلقہ راتوں رات قائم ہوا اور فوراً ہی ایک فعال ادارے میں بدل گیا، نہیں، ایسا نہیں ہے۔

’’آپ نے حلقۂ اربابِ ذوق کے بارے میں پوچھا ہے۔  سچ تو یہ ہے کہ یہ بات میں نے تابش صدیقی کی زبانی سنی ہے کہ جب وہ کالج میں بی۔  اے میں پڑھتے تھے، تو ان کے ذہن میں ایک انجمن کا خاکہ تھا۔  دوست بیٹھ کر لکھنے لکھانے کی باتیں کریں۔  ان کے دوستوں میں نصیر احمد ایک شخص تھے، جو انجمن ساز قسم کے انسان تھے۔  انھوں نے اپنے ملنے والوں سے بات کی اور ایک انجمن کی تشکیل کی۔  اس کی پہلی میٹنگ نذیر نیازی کے گھر ہوئی۔  نذیر نیازی کا کہنا ہے کہ میں نے انھیں آم کھلائے تھے لیکن میٹنگ میں شریک نہیں ہوا تھا۔  نذیر صاحب، نصیراحمد کے بھائی تھے۔  ابتدا میں جو لوگ شامل ہوئے ان میں تابش صدیقی، نصیر احمد، شیر محمد اختر اور کالج کے دیگر لڑکے۔  انھوں نے انجمن داستاں گویاں بنائی جس میں صرف افسانے پڑھے جاتے تھے اور وہ بیٹھ کر اس کی تعریفیں کرتے تھے اور آخر میں شعر پڑھے جاتے تھے، مزید واہ وا کرنے کے لیے …‘‘(۷۰)

قیوم نظر ایک دوسرے انٹرویو میں بزمِ داستاں گویاں کے ابتدائی جلسوں کے بارے میں کہتے ہیں۔

’’ابتدائی دور میں حلقے کے جلسوں میں جو حضرات تشریف لایا کرتے تھے۔  ان میں سے نصیر احمد جامعی مرحوم (جو حلقے کے اولین سیکریٹریوں میں سے تھے ) تابش صدیقی (جو اس زمانے میں روزنامہ انقلاب سے منسلک تھے ) شیر محمد اختر (جو ان دنوں انجمن حمایت الاسلام میں ملازم تھے ) حفیظؔ ہوشیارپوری (جو اس زمانے میں انجمن ترقّی ء اردو، پنجاب شاخ اور ماہنامہ ’’ادبی دنیا‘‘ لاہور سے وابستہ تھے ) کے نام اس وقت میرے ذہن میں آئے ہیں۔‘‘(۷۱)

بزمِ داستاں گویاں کے ابتدائی جلسہ میں شریک ہونے والے اصحاب کے بارے میں یونس جاوید لکھتے ہیں۔

’’بزمِ داستاں گویاں کا پہلا جلسہ ۲۹ اپریل ۱۹۳۹ء بروز شنبہ جناب حفیظؔ ہوشیار پوری کی صدارت میں منعقد ہوا۔  مندرجہ ذیل حضرات نے شرکت فرمائی۔  نسیم حجازی صاحب، تابش صدیقی صاحب، محمد فاضل صاحب، اقبال احمد صاحب، محمد سعید صاحب، عبدالغنی صاحب اور شیر محمد اختر۔‘‘(۷۲)

بزم افسانہ گویاں کا نام تبدیل کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔  اس کا جواب حفیظؔ صاحب یوں دیتے ہیں۔

’’…چند ابتدائی جلسوں کے تجربوں کے بعد اراکین اس نتیجے پر پہنچے کہ افسانوں کی محدود دنیا میں رہ کر کوئی اہم اور مفید کام نہیں ہو سکتا، چنانچہ یکم اکتوبر ۱۹۳۹ء کو ایک جلسے میں یہ طے پایا کہ بزمِ افسانہ گویاں کا نام بدل کر حلقۂ اربابِ ذوق رکھا جائے۔‘‘(۷۳)

نقوش میں اشاعت پذیر حفیظؔ کے سوانحی حالات میں حلقۂ اربابِ ذوق کا ذکریوں رقم ہے۔  ’’آپ حلقۂ اربابِ ذوق کے بانی ہیں۔  ہوا یوں کہ ۲۹ اپریل ۱۹۳۹ء کو آپ کی صدارت میں طبعز اد افسانوں کی ترویج اور تنقید کے لیے ایک بزم قائم کی گئی، جس کا نام ’’بزمِ افسانہ گویاں‘‘ رکھا گیا۔  پانچ ماہ کے بعد اراکین بزم نے محسوس کیا کہ اس کا دائرہ صرف افسانے اور افسانے کی تنقید تک محدود نہیں رکھنا چاہیے چنانچہ اراکینِ بزم نے دائرہ کار کو وسعت دینے کے لیے اسی سال یکم اکتوبر ۱۹۳۹ء کو آپ کی صدارت میں اس بزم کا نام تبدیل کر کے حلقۂ اربابِ ذوق رکھ دیا۔‘‘(۷۴)

چنانچہ حلقے کے دسویں اجلاس میں اس کا نام ’’حلقۂ اربابِ ذوق‘‘ تجویز کیا جاتا ہے اور حلقے میں افسانوں کے ساتھ ساتھ شعری تخلیقات بھی پڑھی جانے لگیں۔

بشیر ساجد، حفیظؔ اور حلقۂ اربابِ ذوق کے حوالے سے اپنی پرانی یادوں کو تازہ کرتے ہیں۔

’’…حفیظؔ ہوشیارپوری کو میں نے پہلی دفعہ حلقۂ اربابِ ذوق لاہور کے تیسرے اجلاس میں دیکھا، جبکہ میں کالج کا طالب علم تھا اور میرے مرحوم استاد پروفیسر ڈاکٹر محمد باقر مجھے بطور خاص اپنے ساتھ لے گئے تھے۔  یہ اجلاس نومبر ۱۹۳۹ء میں مزنگ (لاہور) کے ایک مکان (غالباً میراجی کے خاندان کے مکان) میں منعقد ہوا تھا۔  اس کی صدارت میاں بشیر احمد (مرحوم) ایڈیٹر ماہنامہ ہمایوں نے کی۔  اس اجلاس میں حفیظؔ ہوشیارپوری نے خوبصورت سی رومانی غزل پڑھی۔  جس کے مطلع کا مصرعہ اولیٰ یہ تھا۔ ع اب کوئی آرزو نہیں عرض سلام کے سوا۔  یہ غزل خاصی پسند کی گئی۔  چار پانچ دفعہ کی مزید ملاقاتیں۔  اگر انھیں ملاقاتیں کہا جا سکے حلقۂ اربابِ ذوق کے اجلاسوں میں ہوئیں۔  مجھے وہ بڑے پڑھے لکھے، باخبر اور متحمل مزاج انٹلیکچوئل Intellectual قسم کے ادیب و شاعر معلوم ہوئے۔  جب وہ ریڈیو اسٹیشن لاہور کے ریجنل ڈائریکٹر تھے تو حلقۂ اربابِ ذوق کے ایک سالانہ اجلاس غالباً (۵۱ یا ۵۲) کی صدارت بھی کی اور شعر و ادب اور اہل قلم کے مسائل کے متعلق ایک فکر انگیز صدارتی خطبہ پڑھا جس کا اخبارات میں بھی چرچا ہوا۔  حلقے کے ایک اجلاس میں حلقے کے سیکریٹری شہرت بخاری کی ایک غزل جس میں نئی اردو زبان اور میرؔ و سوداؔ کی زبان کے بعض متروکات استعمال کیے گئے تھے۔  میں نے کچھ اعتراضات کیے کہ آخر ایسے متروکات کو نئے سرے سے غزل میں متعارف کرانے کی کیا ضرورت ہے۔  حفیظؔ نے شاعر کے دفاع میں کہا کہ مقصود ایسے الفاظ کو ازسر نو رائج کرنا نہیں بلکہ محض ایک شاعرانہ مشق ہے۔  شہرت بخاری کی غزل کا مطلع تھا۔

اک حشر خو سے ہم نے آنکھیں لڑائیاں ہیں

کن آندھیوں میں شمعیں جلائیاں ہیں‘‘

(۷۵)

مذکورہ بالا اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حفیظؔ حلقے کے فعال شرکا ء میں سے تھے، جو حلقے کے اجلاسوں میں بطور تخلیق کار، بطور صدر، بطور نقّاد اور بطور سامع شامل ہوتے رہے، لیکن یہ بات قابلِ غور ہے کہ اگر ہم حفیظؔ کے حلقے میں پڑھی گئی تخلیقات کا تناسب نکالنا چاہیں تو وہ کافی کم ہے۔  غالباً اس کی ایک وجہ حفیظؔ کی وہی بے نیازی ہے جو تمام عمر ان کے ساتھ رہی۔  حلقے میں پڑھی گئی ان کی غزلیات کا ریکارڈ کچھ یوں ہے۔

۱۸ مئی ۱۹۴۱ء سے لے کر ۲۲ فروری ۱۹۴۲ء تک کے اجلاسوں میں حفیظؔ نے ایک غزل پڑھی۔

۱۹۴۵ء سے ۱۹۴۶ء کے اجلاسوں میں حفیظؔ نے ایک غزل پڑھی۔

۱۹۴۶ء سے ۱۹۴۸ء تک حفیظؔ نے دو غزلیں پڑھیں۔

۱۹۴۸ء سے ۱۹۴۹ء میں حفیظؔ نے دو غزلیں حلقے کے اجلاس میں پڑھیں۔

۱۹۴۵ء سے ۱۹۴۶ء کے دورانیے میں عبدالحمید کے مقالے ’’اردو بحیثیت انسان اور شاعر‘‘ کے اجلاس کی صدارت کی۔

۱۹۴۹ء کے بعد لاہور کے حلقے میں حفیظؔ کا تذکرہ نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ریڈیو کی ملازمت کے سلسلے میں کراچی منتقل ہو چکے تھے۔

’’حفیظؔ حلقۂ اربابِ ذوق کے بانیوں میں سے تھے، مگر ان کی جدّت میں انتہا پسندی نہیں تھی۔  حلقے کے جلسوں میں بھی اب کئی سال سے کوئی لے گیا تو چلے گئے ور نہ نہیں۔‘‘ (۷۶)

ضیا جالندھری، حفیظؔ اور حلقۂ اربابِ ذوق سے متعلق اپنی یادوں کے اوراق الٹتے ہوئے کہتے ہیں۔  ’’حفیظؔ صاحب کا ساتھ حلقۂ اربابِ ذوق کے ابتدائی زمانے سے ہے۔  پہلے ایک ادبی انجمن ’’انجمن داستاں گویاں‘‘ کے نام سے قائم تھی لیکن جب حفیظؔ صاحب شامل ہوئے تو ایک شاعر کے اضافے کی وجہ سے اس انجمن کا نیا نام زیرِغور آیا۔  حفیظؔ صاحب نے نیا نام ’’حلقۂ اربابِ ذوق‘‘ دیا۔  حفیظؔ صاحب حلقے کے بنیادی رکن اور صدر تھے۔  حفیظؔ صاحب تمام عمر کلاسیکی انداز میں لکھتے رہے، لیکن وہ ایک ایسی انجمن کے بانی تھے، جسے ’’جدید ادب کا علمبردار‘‘ کہا جاتا ہے۔‘‘ (۷۷)

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حفیظؔ انجمنِ داستاں گویاں کے پہلے اجلاس میں نہ صرف شریک ہوئے بلکہ اس اجلاس کی صدارت بھی انھوں نے ہی کی۔

۲۸ دسمبر ۱۹۸۳ء کے اخبار روزنامہ مشرق میں ’’حلقۂ اربابِ ذوق… ۳۰ سال قبل‘‘ کے عنوان کے تحت ’’ پنجاب نے حفیظؔ ہوشیارپوری کو بھلادیا‘‘ کی سرخی کے ساتھ خواجہ عبدالحمید یزدانی ۳۰ سال قبل ہونے والے ایک اجلاس کی کار روائی بیان کرتے ہیں۔

’’اتوار ۷ دسمبر آج حلقے کا اجلاس تین بجے ہونا تھا۔  کوئی ۴۵۔  ۲ پر وائی ایم سی اے پہنچ گیا۔  سجاد رضوی، شہرت بخاری اور شیر محمد اختر کے ساتھ مل کر دوسرے کمروں سے کرسیاں لا کر رکھیں۔  اکثر لوگوں کو اس تبدیلی وقت کا علم نہ تھا جس کے سبب آج تعداد کم رہی۔  حفیظؔ ہوشیارپوری صاحب نے اپنی ایک نامکمل غزل پیش کی۔  (حفیظؔ مرحوم اپنے دور کے چند اردو شاعروں میں سے تھے۔  ان کی اردو غزل بھرپور تغزل کے علاوہ سہلِ ممتنع کی بھی حامل ہے )

کنہیا لال کپور نے ایک جگہ لکھا ہے کہ حفیظؔ زندگی بھر کوشش کے باوجود برا شعر نہ کہہ سکا۔

حفیظؔ مرحوم بڑے زندہ دل انسان تھے۔  ان کی زندہ دلی آخر وقت تک قائم رہی۔

کراچی چلے جانے کے بعد پنجاب نے انھیں بھلا دیا…

تم آ گئے تو جیسے ہر چیز اجنبی ہے

خود آج اپنے گھر میں اجنبی ہو گئے ہم

اب اور داد کیا ہو اے جلوۂ مجسّم

آئینہ بن گئے حیران ہو گئے ہم

غزل ختم ہوئی تو بعض ناقدین نے اس قسم کے اعتراضات کیے کہ آیا مطلع اور مقطع کے بغیر بھی غزل کہلائی جا سکتی ہے یا نہیں ؟ کچھ اور اعتراضات بھی ہوئے جو ریکارڈ نہ کیے جا سکے۔  حفیظؔ صاحب نے اعتراضات سننے کے بعد کہا۔  جتنے شعر ہو سکے کہے، کوئی ضروری تو نہیں کہ میں خواہ مخواہ اِدھر اُدھر سے غزل پوری کر کے لے آتا۔  اس پر عبادت صاحب بولے، نہیں صاحب پھر اگر نظم لکھنے والا بھی یہی کہہ دے تو بات کیا بنے گی۔  مذکورہ حضرات کے علاوہ دوسرے حاضرین شان الحق حقی، ناصر کاظمی اور ریاض احمد تھے۔‘‘(۷۸)

حلقے کا آغاز کس طرح ہوا؟ یونس جاوید، شیر محمد اختر کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں۔

’’۱۹۳۹ء میں میں میوہ منڈی کے قریب رہتا تھا۔  ایک روز بازار میں نصیر احمد جامعی سے ملاقات ہوئی۔  انھوں نے مشورہ دیا کہ مل بیٹھنے کا کوئی طریقہ نکالا جائے۔  میں نے ان سے اتفاق کیا۔  وہ ان دنوں لکشمی مینشن (میکلوڈ روڈ) کے عقب میں رہائش پذیر تھے چنانچہ حلقۂ اربابِ ذوق کا پہلا اجلاس انھی کے مکان پر ہوا۔  حلقے کا نام ’’بزمِ داستاں گویاں‘‘ رکھا گیا۔‘‘(۷۹)

انور سدید حلقے کی ابتدا اور اس کے ابتدائی نام کے بارے میں لکھتے ہیں۔

’’۲۹ اپریل ۱۹۳۹ء کو نصیر احمد جامعی نے نسیم حجازی، تابش صدیقی، محمد فاضل، اقبال احمد، محمد سعید، عبدالغنی اور شیر محمد اختر جیسے دوستوں کو اکٹھا کیا اور ایک ادبی محفل منعقد کی۔  نسیم حجازی نے افسانہ پڑھا۔  لوگوں نے اس پر بحث مباحثہ کیا اور ادبی خدمت کے طور پر اس سلسلے کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔  نام ’’مجلسِ داستاں گویاں‘‘ رکھا گیا۔‘‘(۸۰)

آفاق علی ہاشمی حلقۂ اربابِ ذوق کراچی کے قدیمی رکن ہیں اور حلقے کے جلسوں میں اکثر و بیشتر شریک ہو کر اپنی تخلیقات تنقید کے لیے پیش کرتے رہے ہیں۔  آفاق علی ہاشمی، حلقۂ اربابِ ذوق کے عنوان سے لکھے گئے اپنے مقالے میں حلقے کے ابتدائی نام کے متعلق لکھتے ہیں۔

’’۱۹۳۹ء میں لاہور میں حفیظؔ ہوشیارپوری، شیر محمد اختر، تابش صدیقی اور محمد افضل نے نصیر احمد شاہ کے مکان پر ’’انجمن داستاں گویاں‘‘ کے نام سے ایک ادبی انجمن کی بنیاد رکھی۔  جس کے اجلاس ہر ہفتے منعقد ہوتے تھے۔  اس میں صرف افسانے پڑھے جاتے اور تنقیدیں کی جاتیں۔‘‘(۸۱)

قیوم نظر، طاہر مسعود کے ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں۔

’’ان کی میٹنگ باری باری مختلف گھروں میں بھی ہوتی تھی بعد میں شیر محمد اختر کے بھائی محمد زمان کی دکان پر جو لاہور میں ایبٹ روڈ پر واقع تھی۔  وہ اتوار کو اپنی دکان بند رکھتے تھے، چونکہ گھروں پر میٹنگ رکھنا نا ممکن سا تھا۔  اس لیے لوگ ایبٹ روڈ پر جمع ہونے اور مجلس کرنے لگے۔  اسی دوران میں حفیظؔ ہوشیارپوری کے کہنے پر حلقے کا نام ’’انجمنِ داستاں گویاں‘‘ سے تبدیل کر کے ’’حلقۂ اربابِ ذوق‘‘ رکھا گیا۔‘‘(۸۲)

شان الحق حقی لکھتے ہیں۔

’’…وہ (حفیظؔ ہوشیارپوری) جہاں کہیں رہے ایک انجمن ان کے گرد جم گئی۔  حلقۂ اربابِ ذوق کے بانیوں میں بھی وہ پیش پیش تھے۔  یہ پہلے ’’بزم افسانہ گویاں‘‘ کے نام سے انھی کے صدارت میں قائم ہوا تھا۔  پھر اس کا دوسرا نام بھی انھی کی صدارت میں رکھا گیا۔‘‘(۸۳)

محسن بھوپالی حفیظؔ ہوشیارپوری کے حوالے سے ان کی برسی کے موقع پر شائع کیے گئے اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں۔

’’ادب برائے ادب کے اس قدر قائل ہوئے کہ انجمن ترقّی پسند مصنفین کے مقابل جب ان کے ہم خیال اہلِ قلم نے ’’بزمِ داستاں گویاں‘‘ کی طرح ڈالی تو انھوں نے اس کے پہلے جلسے کی صدارت کی۔‘‘(۸۴)

حفیظؔ ہوشیارپوری حلقۂ اربابِ ذوق لاہور کے سالانہ اجلاس میں پڑھے گئے خطبۂ صدارت، جو بعد ازاں ’’نقوش‘‘ میں شائع ہوا۔  حلقہ کا ابتدائی نام ’’بزمِ افسانہ گویاں‘‘ ہی بتاتے ہیں۔

’’یہ بات اب عام طور پر معلوم ہے کہ ۱۹۳۹ء کے اپریل میں ’’بزمِ افسانہ گویاں‘‘ کے نام سے ایک بزم قائم ہوئی، جس کا پہلا جلسہ خاکسار کی صدارت میں ۲۹ اپریل ۱۹۳۹ء کو منعقد ہوا۔  چند ابتدائی جلسوں کے تجربوں کے بعد اراکین اس نتیجے پر پہنچے کہ افسانوں کی محدود دنیا میں رہ کر کوئی اہم اور مفید کام نہیں ہو سکتا، چنانچہ یکم اکتوبر ۱۹۳۹ء کو ایک جلسے میں یہ طے پایا کہ ’’بزمِ افسانہ گویاں‘‘ کا نام بدل کر ’’حلقۂ اربابِ ذوق‘‘ رکھا جائے۔‘‘ (۸۵)

یونس جاوید حلقے کے ابتدائی نام کے سلسلے میں رقم طراز ہیں۔

’’میری تحقیق کے مطابق حلقے کا نام بدلنے کی تحریک پہلی مرتبہ ۳ ستمبر۱۹۳۹ء کو ہوئی۔  یہ جلسہ حلقے کا دسواں جلسہ تھا کیونکہ ریکارڈ میں اس اجلاس کے بعد کی کار روائی یکم اکتوبر ۱۹۳۹ء کے اجلاس کی ہے۔  جس میں بزمِ داستاں گویاں ’’ حلقۂ اربابِ ذوق‘‘ ملتا ہے اور کار روائی میں نام بدلنے کی تجاویز کے ساتھ کچھ دوسری تجاویز، جو حلقے کے مقاصد اور ان کی توسیع کے لیے تھیں، پہلی مرتبہ نظر آتی ہیں۔  یہ تصویر کچھ یوں ہے۔

’’اس جلسے میں یہ بھی طے ہوا کہ بزم کے مقاصد میں توسیع کی جائے اور اس کا نام ’’بزمِ فسانہ گویاں‘‘ (یہی لکھا ہے )کے بجائے حلقۂ اربابِ ذوق رکھا جائے۔‘‘(۸۶)

حلقۂ اربابِ ذوق کے ضمن میں ڈاکٹر سلیم اختر اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ میں رقم طراز ہیں۔

’’شیر محمد اختر کے ایک بیان کے بموجب اس کا ابتدائی نام بزمِ داستاں گویاں تھا۔  ۲۹ اپریل ۱۹۳۹ء کو اس کا پہلا اجلاس حفیظؔ ہوشیار پوری کی زیرِصدارت منعقد ہوا۔  جس میں نسیم حجازی نے افسانہ تلافی پیش کیا… رفتہ رفتہ اس کے جلسوں کی رونق بڑھنے لگی اور ہر ذہن اور فکر کا ادیب یہاں آنے لگا۔  چنانچہ میراجی، شیر محمد اختر، قیوم نظر، ن۔  م۔  راشد، حفیظؔ ہوشیارپوری اور یوسف ظفر کے ساتھ ساتھ کرشن چندر، عارف عبدالمتین، احمد ندیم قاسمی، ظہیر کاشمیری، دیویندرستیار تھی، سیّد مطلبی فرید آبادی اور کنہیا لال کپور ایسے معروف ترقّی پسند ادیبوں کے نام بھی پروگراموں میں نظر آتے ہیں۔‘‘(۸۷)

حلقے کے ابتدائی نام سے متعلق اس ساری تمہید کالب لباب یہ ہے کہ حلقے کا ابتدائی نام مختلف اصحاب نے کہ جن میں سے بیشتر حلقے کے بانیوں میں سے ہیں۔  مختلف لکھے ہیں، چنانچہ

’’بزمِ افسانہ گویاں (حفیظؔ ہوشیارپوری)۔‘‘(۸۸)

’’انجمنِ داستاں گویاں (قیوم نظر)۔‘‘(۸۹)

’’انجمن داستاں گویاں (آفاق علی ہاشمی)۔‘‘(۹۰)

’’بزم افسانہ گویاں (شان الحق حقی)۔‘‘(۹۱)

’’بزمِ داستاں گویاں (محسن بھوپالی)۔‘‘(۹۲)

’’مجلسِ داستاں گویاں (انور سدید)۔‘‘(۹۳)

یونس جاوید اس ’’بزم‘‘ کی پہلی نشست کا ریکارڈسامنے رکھ کر چند نکات کا تذکرہ کرتے ہیں۔  اس میں پہلا ذکر حلقے کے ابتدائی نام سے متعلق ہے اور اس تمام مطالعے کے بعد میرے نزدیک بھی ’’بزم داستاں گویاں‘‘ ہی زیادہ قرین قیاس ہے۔  دیگر احباب نے اس بات کا خیال کیے بغیر کہ تاریخ میں ایک ایک لفظ کی کیا قیمت ہے، اپنے اپنے طور پر مترادف الفاظ غیر شعوری طور پر استعمال کر لیے ہیں۔  یونس جاوید پہلی نشست کی کار روائی کی وضاحت کچھ یوں کرتے ہیں۔

(۱) حلقۂ اربابِ ذوق کا نام اس وقت ’’بزم داستاں گویاں‘‘ تھا۔

(۲) اس کے پہلے سیکریٹری نصیر احمد جامعی تھے۔

(۳)نسیم حجازی نے اس کے پہلے جلسے میں افسانہ پڑھا۔

(۴)افسانہ نگار نے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے بحث میں حصہ لیا۔

(۵)حلقے کا آغاز ۲۹اپریل ۱۹۳۹ء کو ہوا جس کی صدارت حفیظؔ ہوشیارپوری نے کی۔‘‘(۹۴)

ابتدا میں یہ بزم جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے صرف افسانوی ادب تک ہی محدود تھی، جبکہ اس بزم میں شریک تخلیق کاروں میں صرف افسانہ نگار ہی شامل نہ تھے بلکہ شاعر بھی شریک ہوتے تھے اور اپنی تخلیقات بھی باقاعدہ انداز سے پیش کرنا چاہتے تھے کہ اس کے ابتدائی جلسوں میں نشست کے اختتام پر شاعر حضرات اپنے اشعار ایک دوسرے کو سناتے تھے لیکن اس کا بزم کے ریکارڈ سے کوئی تعلق نہ ہوتا تھا۔  حفیظؔ ہوشیار پوری کہ جن کی صدارت میں یہ بزم قائم ہوئی تھی بہترین غزل گو تھے۔  بعد ازاں میراجی، یوسف ظفر اور قیوم نظر بھی ان جلسوں میں شرکت کرنے لگے۔  حفیظؔ ہوشیارپوری ہی کی تجویز پر کہ ’’بزمِ داستاں گویاں‘‘ کا شاعری سے کوئی تعلق بنتا نظر نہیں آتا، اس لیے اس بزم کا نام ہی تبدیل کر دیا جائے۔

’’اکتوبر ۱۹۳۹ء میں حفیظؔ ہوشیارپوری نے تجویز پیش کی کہ افسانوں کی طرح شاعری پر بھی بحث ہونی چاہیے، لیکن ’’داستاں گویاں‘‘ کی نسبت سے شاعری نہیں ہو سکتی تھی، لہٰذا حفیظؔ ہوشیارپوری کی تجویز پر اس کا نام ’’حلقۂ اربابِ ذوق‘‘ رکھا گیا۔‘‘(۹۵)

وفا راشدی حفیظؔ کے ساتھ اپنی ابتدائی ملاقاتوں کا احوال رقم کرتے ہیں۔

’’اس زمانے میں حلقۂ اربابِ ذوق اور انجمن ترقّی پسند مصنفین کا بڑا چرچا تھا۔  کبھی کبھی حلقۂ اربابِ ذوق کی نشستوں میں حفیظؔ صاحب سے ملاقات ہو جایا کرتی تھی لیکن یہ ملاقات علیک سلیک تک محدود تھی۔‘‘(۹۶)

زندہ قومیں اپنے محسنین کو ان کے جانے کے بعد بھی نہیں بھولتیں۔  روزنامہ مشرق، حفیظؔ ہوشیارپوری کی یاد میں حلقۂ اربابِ ذوق کے اجلاس کی خبر یوں دیتا ہے۔

’’حلقۂ اربابِ ذوق کا ہفت روزہ اجلاس اتوار ۱۴ جنوری ۱۹۷۳ء کو ۴ بجے شام زیرِ صدارت عبادت بریلوی، وائی ایم سی اے کمرہ نمبر ۲ میں ہو گا۔  یہ جلسہ حفیظؔ ہوشیارپوری کی یاد کے لیے وقف ہے۔  مضامین صوفی تبسّم، احمد ندیم قاسمی، حامد علی خان، یوسف کامران، رشید اختر اور سجاد ترمذی پڑھیں گے۔  کلامِ حفیظؔ ہوشیارپوری، مہدی حسن اور محمد اقبال سنائیں گے۔‘‘(۹۷)

’’۱۴ جنوری ۱۹۷۳ء کو حفیظؔ ہوشیارپوری کی یاد میں حلقۂ اربابِ ذوق کا خصوصی اجلاس صوفی تبسّم کی صدارت میں ہوا۔  اجلاس کے شرکا میں احمد ندیم قاسمی، حامد علی خان، عبادت بریلوی، یوسف کامران، سجاد ترمذی، محمد اقبال اور عبدالعزیز خالد شامل تھے۔‘‘(۹۸)

حفیظؔ اپنی زندگی کے کسی دور میں بھی کسی گروہ بندی یا گ روپ بندی کے قائل نہ تھے۔  انجمن ترقّی پسند کے انتہا پسند ادب کے ردعمل میں جب حلقۂ اربابِ ذوق کا قیام عمل میں آیا تو حفیظؔ اس کے بانیوں میں سے ضرور تھے، لیکن انجمن ترقّی پسند مصنفین کے شدّت پسند مخالفین میں سے قطعی نہ تھے، یہی وجہ ہے کہ جہاں وہ حلقۂ اربابِ ذوق کے اجلاس کی صدارت کرتے نظر آتے ہیں وہیں انجمن ترقّی پسند مصنفین کے اجلاس میں اسی عزّت کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔

’’اگرچہ وہ حلقۂ اربابِ ذوق کے بانیوں میں سے تھے اور ابتدا میں حلقۂ اربابِ ذوق، ترقّی پسند مصنفین کے ’’ادب برائے زندگی‘‘ کے نعرہ کے جواب میں یا ردِعمل کے طور پر ’’ادب برائے ادب‘‘ کا نعرہ لگاتا تھا، مگر ہلاک گرمیء محفل، فرسودۂ تنہائی، حفیظؔ ہوشیارپوری دونوں گروہوں میں عزّت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے، کیونکہ وہ ادبی نظریات میں انتہا پسندی کے قائل نہ تھے بلکہ مخالف تھے۔‘‘(۹۹)

۶ دسمبر ۱۹۴۷ء کو منعقد ہونے والے ترقّی پسند مصنفین کے مشاعرے میں حفیظؔ نے بھی شرکت کی اور ملکی حالات کے تناظر میں کہی جانے والی اپنی ایک غزل سنا کر خوب داد سمیٹی۔

غزل کے چند اشعار۔

جنوں میں شیخ و برہمن ہیں کس قدر کامل

ہزار قافلۂ بے نشاں وبے منزل

کچھ اس طرح سے بہار آئی کہ بجھنے لگے

ہوائے لالہ و گل سے چراغ دیدہ و دل

رواں ہے قافلہ، بے درا وبے مقصود

جو دل گرفتہ ہیں راہی تو راہنما غافل

 

ریڈیو کی ملازمت

 

آج سے چالیس پچاس سال پہلے جب کسی تخلیق کار کے روزگار کا مسئلہ سامنے آتا تو وہ ریڈیو کا رخ کرتا یا پھر کسی اخبار یا رسالے کے دفتر کا۔  اخبار کے دفتر سے اسے دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے میسّر آتی تھی۔  ریڈیو کے حالات بھی کچھ اس سے زیادہ مختلف نہ تھے، لیکن سرکاری محکمہ ہونے کی بنا پر اس میں زیادہ دلکشی تھی، پھر تخلیق کار یہ بھی سوچتا تھا کہ ریڈیو جیسے تخلیقی محکمے میں جا کر اس کی فطری صلاحیتوں کو آزمانے اور انھیں نکھارنے کےز یادہ مواقع میسّر آئیں گے۔  عوام سے متعارف ہونے اور مشہور ہونے میں بھی یہ ذریعہ معاون ثابت ہو گا۔  انھی وجوہات کی بنا پر اردو ادب کے کئی بڑے نام اس شعبہ سے منسلک نظر آتے ہیں۔  یہ الگ بات کہ جب تخلیق کار اس محکمے سے وابستہ ہو جاتے ہیں، تو انھیں اس کے برعکس صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

’’…ہمارے آنے کے بعد اور لوگ بھی آتے گئے اور ریڈیو کے دیوانوں میں اضافہ ہوتا گیا۔  رشید احمد، اثنین قطب، جی۔  کے۔  فرید، ن۔  م۔  راشد، حفیظؔ ہوشیارپوری، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، ملک حسیب یہ سب اسی زمانے کے لگ بھگ کی کھیپ ہیں۔  فیض ریڈیو میں آنے سے بچ گیا ورنہ آج ہمارے پیارے عوام الناس کے لیے فلمی ریکارڈ بجاتاسنائی دیتا۔‘‘(۱۰۰)

حمید نسیم کی رائے اس سلسلے میں بخاری صاحب سے ذرا مختلف ہے، وہ کہتے ہیں۔

’’…ریڈیو نے بہت اعلیٰ درجے کے شاعروں کو، جو اس سے وابستہ رہے کوئی گزند نہیں پہنچایا، جیسے راشد صاحب، جیسے عزیز حامد مدنی صاحب، جیسے شفیق مکرم حفیظؔ ہوشیارپوری اور اب رضی اختر شوق، جو زندہ رہنے والی دل پذیر شاعری کر رہا ہے لیکن ان حضرات نے ریڈیو کو صرف ملازمت جانا اور دفتری کام مستعدی سے کرتے رہے جو یہ محکمہ انہار یا آبکاری میں ہوتے تو وہاں بھی کرتے، اس لیے ان کے دفتری فرائض اور تخلیقی عمل میں مسلسل ایک ایسی اوٹ رہی جیسی قرآن حکیم نے فرمایا ہے کہ ’’آب شیریں اور آب شور کے مابین زمین رکھ دی گئی ہے کہ دونوں ایک ساتھ رہتے ہیں لیکن بہم آمیز کبھی نہیں ہوئے۔‘‘ (۱۰۱)

تلاش معاش کے سلسلے میں حفیظؔ بھی مختلف اخبارات و رسائل کے دفاتر سے ہوتے ہوئے ریڈیو کے محکمے تک آپہنچے۔

ریڈیو میں حفیظؔ کی ملازمت کا آغاز پروگرام اسسٹنٹ کی حیثیت سے ہوا اور وہ مختلف ریڈیو اسٹیشنوں اور عہدوں سے ہوتے ہوئے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔

’’۳۱ اکتوبر ۱۹۳۹ء کو آپ نے پروگرام اسسٹنٹ کی حیثیت سے آل انڈیا ریڈیو لاہور میں ملازمت اختیار کر لی۔  اسی دن اور ان کے ساتھ ہی کرشن چندر بھی لاہور میں بطور پروگرام اسسٹنٹ متعین ہوئے۔  ۴۳۔  ۱۹۴۲ء میں حفیظؔ نے کوئی سال بھر آل انڈیا ریڈیو بمبئی میں بھی کام کیا۔  یہاں آپ کو قدیم اردو اور گجراتی زبان کے تقابلی مطالعے کے مواقع ملتے رہے۔

قیامِ پاکستان کے وقت لاہور میں تھے۔  کچھ عرصے کے بعد کراچی آ گئے اور ریڈیو پاکستان کے مختلف محکمے اور عہدے ان کے سپرد رہے۔  ۴ جنوری ۱۹۶۸ء کو اٹھائیس برس کی ملازمت کے بعد آپ ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ریڈیو پاکستان کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔‘‘(۱۰۲)

جدید شعرائے اردو کے خالق ڈاکٹر عبدالوحید، حفیظؔ کی ریڈیو سے وابستگی کا احوال بیان کرتے ہیں۔

’’…پھر تلاش معاش کی فکر دامن گیر ہوئی تو آل انڈیا ریڈیو لاہور سے وابستہ ہو گئے قیامِ پاکستان کے بعد آپ پہلے کراچی میں پروگرام ڈائریکٹر رہے۔  کچھ عرصہ بعد لاہور تبدیل ہو کر آئے اور اسٹیشن ڈائریکٹر کے فرائض انجام دیتے رہے۔  جون ۱۹۵۳ء میں دوبارہ واپس کراچی چلے گئے …‘‘(۱۰۳)

حمید نسیم، حفیظؔ صاحب کے قدیمی ساتھیوں میں سے ایک، وہ حفیظؔ صاحب کو اپنا بزرگ دوست جانتے ہیں۔  حفیظؔ صاحب سے ان کی ملاقات ۱۹۴۰ء میں ہوئی جو بہت جلد برادرانہ تعلقات کی نوعیت اختیار کر گئی۔  حفیظؔ کے ریٹائر ہونے پر حمید نسیم صاحب نے ہی ڈپٹی ڈی جی کے عہدے کا چارج لیا تھا۔  حمید نسیم ان کی ریڈیو کی ملازمت کے متعلق مختصراً تحریر کرتے ہیں۔

’’ریڈیو سے تعلق ۱۹۳۹ء تا ۱۹۶۷ء تک قائم رہا۔  پروگرام اسسٹنٹ کی حیثیت سے ملازم ہوئے اور ڈپٹی جنرل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔  سارا وقت جز ڈیڑھ سال لاہور میں گزرا۔  ڈیڑھ سال بمبئی میں، ۴۹۔  ۱۹۴۸ء میں کراچی اسٹیشن سے وابستہ ہوئے۔‘‘(۱۰۴)

سیّد ناصر علی دہلوی کے پوتے، ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے تخلیق کار سیّد انصار ناصری، تحریکِ پاکستان کی تاریخ کے عینی شاہد ہی نہیں بلکہ اس میں عملاً حصہ لیتے رہے اور تحریکِ پاکستان سے متعلق اپنی یاداشتیں بھی قلمبند کرتے رہے، جو مختلف اخبارات اور رسائل میں شائع ہونے کے بعد ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کی صورت میں یکجا ہوئیں۔  سیّد انصار ناصری آل انڈیا ریڈیو اور ریڈیو پاکستان میں مختلف عہدوں سے ترقّی کرتے ہوئے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔  (افسوس !آج وہ ہم میں نہیں ) ریڈیو اور حفیظؔ کے حوالے سے وہ اپنے ماضی کے اوراق الٹتے ہیں۔

’’…حفیظؔ صاحب اور اس خاکسار کے درمیان قدر مشترک رہی وہ بس اتنی ہی ہے کہ ہم دونوں برّصغیر کے نشریاتی اداروں سے طویل عرصے تک ایک ساتھ منسلک رہے۔  تقریباً ساتھ ہی آل انڈیا ریڈیو میں داخل ہوئے اور پچیس تیس سال تک ملازمت کرنے کے بعد شاید چندمہینوں کے فرق سے تقریباً ساتھ ساتھ ریڈیو پاکستان سے ریٹائر بھی ہو گئے لیکن یہ عجیب اتفاق ہے کہ ہم دونوں سوائے چند آخری سالوں کے کبھی یکجا نہ رہ سکے۔  وہ زیادہ تر آل انڈیا ریڈیو کے لاہور اسٹیشن سے وابستہ رہے اور میں لکھنؤ اور دہلی کے اسٹیشنوں پر پارٹیشن کے وقت تک تعینات رہا۔  اس عرصہ میں کبھی حفیظؔ صاحب سے ملنے کا اتفاق نہیں ہوا۔  قیامِ پاکستان کے بعد وہ لگ بھگ ۱۹۵۰ء تک لاہوراسٹیشن پر ہی رہے جبکہ میں پشاور اسٹیشن پر رہا۔  اس درمیان بھی حفیظؔ صاحب سے بالمشافہ ملنے کا شرف حاصل نہ ہو سکا۔  غالباً ۱۹۵۱ء میں جب ریڈیو پاکستان کا صدر دفتر کراچی میں قائم ہوا تو ہم دونوں ترقّی پا کر اس کے ڈائریکٹر جنرل سے منسلک ہو گئے۔  الحمد للہ یہاں حفیظؔ صاحب سے پہلی بار ملاقات نصیب ہوئی۔  وہ ڈائریکٹر آف پروگرامز کے منصب پر فائز تھے اور میں پبلک ریلیشنز آفیسر کے فرائض انجام دیتا تھا۔  اس درمیان، میں کچھ عرصہ تک ڈائریکٹر اسٹاف ٹریننگ کی خدمات بھی سرانجام دیتا رہا۔  سوئے اتفاق سے صدر دفتر میں ڈیڑھ سال یکجا رہنے کے بعد پھر مفارقت پیدا ہو گئی۔  حفیظؔ صاحب بدستور صدر دفتر میں تعینات رہے اور میں پہلے ریڈیو پاکستان کے راولپنڈی اسٹیشن اور پھر ڈھاکا اسٹیشن پر کئی برس تک جھک مارتا رہا۔  غالباً ۶۱۔  ۱۹۶۰ء میں ہم دونوں کی تقریباً ایک ساتھ ہی ترقّی ہو گئی اور دونوں ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل بنا دیے گئے۔  میں بھی راولپنڈی سے کراچی صدر دفتر پہنچ گیا۔  بس ہماری ملازمت کے یہی آخری چند سال ہیں، جب مجھے حفیظؔ صاحب سے ہم جلیسی کا شرف حاصل ہوا، لیکن اس آخری دور میں بھی حفیظؔ صاحب سے مکمل یکجائی یوں نصیب نہ ہو سکی کہ ریڈیو پاکستان کا صدر دفتر دو حصّوں میں تقسیم ہو گیا۔  ایک حصہ بدستور کراچی میں رہا۔  جہاں حفیظؔ صاحب تھے دوسرا حصہ راولپنڈی میں قائم ہوا، جس کا میں انچارج تھا۔  یہ اندازاً ۱۹۶۹ء کی بات ہے کہ اسی سال ہم دونوں آگے پیچھے ریڈیو کی ملازمت سے ریٹائر ہو گئے۔‘‘(۱۰۵)

ابن انشا ریڈیو کے تعلق سے حفیظؔ سے اپنی پہلی ملاقات کا احوال یوں رقم کرتے ہیں کہ اس زمانے کے ریڈیو اسٹیشن کا نقشہ نگاہوں کے سامنے لے آتے ہیں۔

’’…دیکھا ان کو لاہور میں جب ہم آل انڈیا ریڈیو سے ہجرت کر کے ریڈیو پاکستان میں آئے جو شملہ پہاڑی کے پاس ایک چھوٹے سے بنگلے میں واقع تھا اور برسوں واقع رہا۔  اسٹیشن ڈائریکٹر محمود نظامی تھا اور برآمدے میں دو پروگرام ایگزیکٹو حضرات کے نام کے بورڈ چمچماتے تھے۔  ایک حفیظؔ ہوشیارپوری اور دوسرے افضل اقبال، جو امریکہ میں ہمارے سفارت خانے کے کونسلر تھے۔  ہمارا ان صاحبوں سے تعلق نہ تھا۔  ہم ریڈیو پاکستان کے شعبہ مخابرات میں تھے۔  مخابرات کا مطلب نیوز NEWS ہے۔  یعنی خبریں۔  ایک زمانے میں یہ لفظ لاہور کے مسلمان اخباروں میں بہت چلتا تھا۔  بظاہر اس کا تعلق خرابات سے معلوم ہوتا۔  اس زمانے میں ریڈیو کا خبروں کا شعبہ، خرابات نہ سہی خراب حال ضرور تھا۔  اس عمارت کے پیچھے تین کوٹھریاں تھیں، لیکن یہیں سے پہلا آوازہ بلند ہوا… ’’یہ پاکستان براڈکاسٹنگ سروس ہے۔‘‘… پھر ہم کراچی آ گئے اور حفیظؔ صاحب ہم سے پہلے یا ہمارے بعد کراچی آئے۔  ملاقات کب اور کیوں ہوئی، یہ یاد نہیں، لیکن کسی طور اچھّے خاصے مراسم ان سے ہو گئے۔  ریڈیو پاکستان کے ہیڈ کوارٹر کی گارڈن روڈ کی عمارت کا جو برآمدہ بندر روڈ کے رخ پڑتا ہے۔  اس کے سامنے ان کا نیم تاریک سا کمرہ تھا۔  جس کی جھلملیاں ٹوٹ رہی تھیں اور پھر ٹوٹتی چلی گئیں۔  یہ اچھی طرح یاد ہے کہ اسی کمرے میں حفیظؔ صاحب نے ہمارا تعارف سیماب اکبر آبادی مرحوم سے کرایا تھا۔  وہ اپنے نیازمندوں کا بہت خیال کرتے تھے اور ہم سے ان کے تلطف کا رشتہ ایسا تھا کہ ہماری سفارش بھی وہ مانتے تھے۔  ہمارے دوست ضیامحی الدین ان دنوں ریڈیو میں ہمارے ہم کار تھے۔  یہ ایک وظیفہ پر آسٹریلیا گئے ؛وہاں ان کے ذوقِ تمثیل کو جلا ہوئی اور واپس آ کر انھوں نے ریڈیو پاکستان کی ملازمت سے رخصت چاہی۔  قواعد کی رو سے ان کو ایک معینہ مدت تک یہاں رہنا تھا اور ریڈیو پاکستان کو اپنی خدمات سے مستفیض کرنا تھا۔  ضیا نے ہم سے کہا، ہم نے حفیظؔ صاحب کو جاپکڑا۔  یہ ان دنوں ایڈمنسٹریشن کے انچارج تھے۔  ایک آدھ ڈانٹ ہمیں پلا کر انھوں نے ضیا صاحب کو فارغ خطی دے دی۔  بعد میں جب ہم نے سرکاری ملازمت کو خیرباد کہا، تب بھی ان کی مدد شامل حال نہ ہوتی تو بڑی دقّت ہوتی۔  محکمے یوں جس کو چاہیں نکال دیں، کوئی خود چھوڑے تو رستہ روک کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔‘‘(۱۰۶)

حفیظؔ کو پاکستان سے محبت تھی۔  یہ ان کی خوش قسمتی تھی کہ ریڈیوپاکستان سے قیامِ پاکستان کے تاریخی اعلان کی تحریری سعادت ان کے نصیب میں تھی۔

’’قیامِ پاکستان سے قبل یہ آل انڈیا ریڈیو سے منسلک ہو گئے۔  اگست ۱۹۴۷ء میں ریڈیو اسٹیشن لاہور سے قیامِ پاکستان کے متعلق جو تاریخی اعلان نشر ہوا وہ انھی کا تحریر کیا ہوا تھا۔‘‘ (۱۰۷)

’’پاکستان بننے پر لاہور آ گئے اور یہاں سے قیامِ پاکستان کے بارے میں پہلی خبر انھوں نے ہی لکھی جو مصطفی علی ہمدانی نے نشر کی۔‘‘(۱۰۸)

حفیظؔ کو قائد اعظم سے محبت تھی اور یہ ان کی خواہش تھی کہ وہ فرمانِ قائد پر عمل پیرا ہو کر وطن نے جوذمہ داریاں مقرّر کی ہیں انھیں بہ طریق احسن ادا کریں۔  قائد کے قول کام، کام اور بس کام کی عملی تفسیر حفیظؔ کی صورت میں سامنے آتی ہے۔  حفیظؔ جب کام میں مصروف ہوتے تو انھیں وقت گزرنے کا احساس ہوتا نہ تکان کا۔  کام کے دوران میں گپ شپ یا دوست احباب کی آمد پر کام کا سلسلہ منقطع کر دینا ان کے لیے ممکن نہ تھا، کیونکہ انھوں نے ہمیشہ اپنے فرائض کو اوّلیت دی۔  کام کے دوران میں انھیں اس بات کا احساس بھی نہ رہتا کہ ان سے ملنے وہ شخص آیا ہے کہ جس سے ملنے کی خواہش خود انھیں کتنے عرصے سے تھی۔  پیر حسام الدین راشدی حفیظؔ کے دلی دوستوں میں سے تھے۔  دوستی اتنی گہری تھی کہ اگر بعض اوقات فاصلے درمیان آبھی جاتے تو اس کو خطوط کے ذریعے کم کرنے کی کوشش کی جاتی۔  پیر حسام الدین راشدی نے ایسے ہی چار خط جو یقیناً علمی و ادبی اہمیت کے حامل ہیں ’’ نقوش‘‘ میں اشاعت کی غرض سے بھیجے، جو ’’نقوش‘‘ کے شمارہ نمبر ۱۰۵ میں شائع ہوئے۔  ان خطوط کے ساتھ راشدی صاحب کا ایک نوٹ بھی شامل اشاعت ہے۔

’’کل خطوط نقل کرا رہا تھا کہ حفیظؔ کو دیکھنے کی امنگ اٹھی۔  ابھی جانے کے لیے پر تول رہا تھا کہ مشترکہ دوست کرنل خواجہ عبدالرشید تشریف لے آئے۔  دونوں مل کر ان کے آفس پہنچے۔  دیر تک بیٹھے رہے اور ان کو تسلّیاں دیتے رہے۔  ایک قطعی مایوس، نحیف و نزار آدمی کو ہم نے دیکھا۔  رہ رہ کر دل میں درد کی ٹیسیں ابھرتی ہیں اور کمزوری کی بنا پرہلکی سی زحمت کے بعد پسینے آ جاتے ہیں۔  مجبوراً وہ کام پر آتے ہیں …‘‘(۱۰۹)

راشدی صاحب کی محبت کہ وہ حفیظؔ کو بیمار، تھکا ہوا دیکھنا نہیں چاہتے اور جب انھیں محسوس ہوتا ہے کہ حفیظؔ تندرست نہیں ہیں تو اس بات کو وہ شدّت سے محسوس کرتے ہیں، لیکن حفیظؔ کے دیگر احباب کے لیے حفیظؔ کا مندرجہ بالا نقشہ باعث تشویش ہوا۔  حفیظؔ کے عزیز دوست سیّد محمد نواز، مدیر نقوش کے نام ایک خط لکھ کر راشدی صاحب کی غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

’’نقوش کے شمارہ نمبر ۱۰۵ (اپریل مئی جون ۱۹۶۶) میں حفیظؔ ہوشیار پوری کے خطوں کے ساتھ پیر حسام الدین راشدی کا جو خط شائع ہوا تھا، وہ حفیظؔ کے بہت سے اعزاو احباب کے لیے تشویش کا باعث ہوا تھا… کراچی پہنچ کر میں نے حفیظؔ صاحب کو بدستور خوش و خرم پایا۔  آپ کو شاید معلوم نہیں کہ کراچی میں حفیظؔ سے اکثر ملنے والے احباب کو بھی ان کی صحت کے متعلق پیر صاحب کا خط پڑھ کر تعجب ہوا تھا۔  میں نے حفیظؔ سے خط کا ذکر کیا تو شکایتاً نہیں بلکہ حکایتاً انھوں نے اپنے عزیز دوست پیر حسام الدین راشدی کے متعلق کہا ’’کیا جانیے اس نے مجھے کس حال میں دیکھا۔‘‘

’’…میرے استفسار پر حفیظؔ نے اس خط کے بارے میں جو کچھ بتایا وہ آپ کو بتانا ضروری سمجھتا ہوں۔  بات یوں ہوئی کہ ۳۰ مارچ ۱۹۶۶ء کو پیر حسام الدین راشدی اور کرنل خواجہ عبدالرشید دفتر میں ملنے آئے۔  اس وقت حفیظؔ کی میز پر چاروں طرف فائلوں کے انبار تھے گفتگو کا سلسلہ دفتری مصروفیات سے آگے نہ بڑھ سکا۔  اس دوران میں دفتر کے ایک اور صاحب ان کے کمرے میں آ گئے۔  ظاہر ہے ایسے اجنبی اور خشک ماحول میں بے تکلّفانہ گفتگو کیسے ممکن تھی، جو ان کا خاصہ ہے۔  یہ درست ہے کہ پیر صاحب کئی دفعہ ’’نقوش‘‘ کے لیے حفیظؔ سے غزلوں کی فرمائش کر چکے تھے۔  حفیظؔ نے ہر بار دفتری مصروفیات کے باعث معذرت کا اظہار کیا حالانکہ ان کے پاس بہت سی غیر مطبوعہ غزلیں موجود ہیں، لیکن تلاش کرنے کی فرصت کسے اور نقل کون کرے۔  پیر صاحب نے اس معذرت کو مصروفیت سے زیادہ بیماری پر محمول کیا اور اس کا اظہار کچھ اس انداز میں کیا کہ خود کرنل رشید صاحب کو جو پیر صاحب کے ساتھ حفیظؔ سے ملنے آئے تھے، ان کا خط پڑھ کر تعجب ہوا۔‘‘(۱۱۰)

حفیظؔ کی دفتری مصروفیات میں گم ہو جانے والا ایسا ہی ایک قصہ جناب حمید نسیم (ضمیر غائب میں لکھی جانے والی) اپنی آپ بیتی میں تحریر کرتے ہیں۔  قصّہ قدرے طویل ہے لیکن اس کا درج کرنا یوں بھی نامناسب معلوم نہیں ہوتا کہ اس سے اس دور کے حالات و اقدار اور افراد کی وضعداری کا اندازہ ہوتا ہے کہ جس سے آج کا عہد محروم ہوتا جا رہا ہے۔  حمید نسیم لکھتے ہیں کہ وہ گھر میں بیکار بیٹھے تھے۔  والد ریٹائر ہو چکے تھے۔  شدید تنگ دستی نے انھیں گھن لگا دیا تھا۔  لاہور جا کر قسمت آزمانا چاہتے تھے۔  ماں نے چار روپے دے کر رخصت کیا۔  وہاں عبدالمجیدبھٹّی کے مہمان ہوئے۔  حفیظؔ کے متعلق تحریر کرتے ہیں۔

’’برادر محترم حفیظؔ ریڈیو میں اردو تقاریر کے شعبہ کے انچارج تھے۔  اس زمانے میں حکومت ہند کی طرف سے پبلیسٹی مٹیریل Material خاص طور پر جنگ کی تازہ ترین صورتِ حال کی اطلاعات پر مبنی مواد ریڈیو اسٹیشنوں کو فراہم کیا جاتا تھا اور ہر روز ایک شذرہ کا ترجمہ کر کے اسے نشر بھی کرنا ہوتا تھا۔  فی شذرہ پندرہ روپے ملتے تھے۔  چار پروگراموں کا انتظام حفیظؔ صاحب نے کر دیا، لیکن آمدن کا مستقل ذریعہ کوئی نہ تھا۔  بھٹّی صاحب کا حال تو اس سے بھی ابتر تھا کہ وہ ایک پورے خاندان کے کفیل تھے۔  ایک سہ پہر کو کہنے لگے، چلو ریڈیو اسٹیشن چلتے ہیں۔  حفیظؔ صاحب سے چائے پی لیں گے۔  ریلوے روڈ سے ریڈیو اسٹیشن کوئی میل سوا میل دور تھا۔  اس فاقے کے عالم میں یہ مسافت یوں معلوم ہوئی جیسے کوئی آکسیجن کے بغیر ایورسٹ پہاڑ کی آخری چوٹی کو سر کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔  بہ ہزار دقّت ریڈیو اسٹیشن پہنچے۔  اتفاق کی بات ہے کہ حفیظؔ صاحب کو چائے پلانے کا خیال ہی نہ آیا۔  ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔  قدرت شاید اس کی تربیت کر رہی تھی۔  حفیظؔ صاحب نے جلدی جلدی اپنا کام ختم کیا اور کہنے لگے، چلیے بھٹّی صاحب کہیں اچھی سی چائے پلائیے۔  بھٹّی صاحب نے اسے اور اس نے بھٹّی صاحب کو دیکھا، پھر دونوں کی نظریں خفّت اور نقاہت سے جھک گئیں۔  تینوں دوست ریڈیو اسٹیشن سے نکل کھڑے ہوئے۔  آفرین ہے بھٹّی صاحب کی ہمّت اور حاضر دماغی پر، ویسے مفلسی ایسی ہمّت اکثر عطا کر دیتی ہے۔  میکلوڈ روڈ پہنچے تو ایک بہت بڑا سائن بورڈ دیکھا Rio-Jenero Restaurant بھٹّی صاحب آگے آگے اور وہ دونوں ان کے جلو میں ریستوران میں داخل ہوئے۔  بھٹّی صاحب نے کاؤنٹر پر بیٹھے ایک معتبر شخص سے بڑے آشنایانہ لہجے میں پوچھا کہ کیوں جناب اگر ہم چائے وغیرہ پی لیں اور بل نہ دیں، تب آپ لوگ ہم سے کیا سلوک کریں گے ؟ ریستوران کا مالک کوئی بڑا ہی صاحب دل شخص تھا یا اس کی زندگی کا پہلا تجربہ تھا کہ کسی نے یوں بے تکلفی سے بات کی۔  کہنے لگا، صاحب یہ آپ کا اپنا ریستوران ہے، جو جی چاہے کھائیے پیجیے، بل کی کون پروا کرتا ہے۔  بیرا جاؤ صاحب سے آرڈر Order لو۔  بھٹّی صاحب نے فی کس دو دو فرائڈ انڈے، چارچار مکھن والے توس اور چار چائے کا آرڈر دے دیا۔  کچھ دیر میں وہ سب چیزیں حاضر کر دی گئیں۔  کباب ریستوران والے نے اپنی طرف سے شامل کر دیے تھے۔  سب نے جی بھر کر ماحضر تناول کیا۔  دو دو پیالی چائے پی۔  پھر بھٹّی صاحب نے کہا بھائی اب کرم کیا ہے تو دو پیکٹ کریون کے بھی منگوا دیجیے۔  سگریٹ بھی جھٹ میز پر آ گئے۔  اب بھٹّی صاحب اٹھ کھڑے ہوئے۔  ریستوران سے قدم باہر رکھنے سے پہلے بھٹّی صاحب نے کہا بھئی آپ کابہت بہت شکریہ۔  ہم آئندہ بھی حاضر ہوں گے۔  کاؤنٹر والے صاحب نے کہا جناب تسی جم جم آؤ۔  تواڈا اپنا ہوٹل اے۔  حفیظؔ ہوشیارپوری تو بچّے کی طرح معصوم دل رکھتے تھے۔  انھیں گمان تک نہ گزرا کہ یہ لوگ بالکل خالی جیب ہیں اور بھٹّی صاحب نے کیا ڈراما کیا۔‘‘(۱۱۱)

(اگلے دن جیسے ہی حمید نسیم کو پیسے ملے بھٹّی صاحب اور انھوں نے ہوٹل کے مالک کو بل ادا کیا)

حفیظؔ صاحب کے ساتھ ایسا ہوا کہ کبھی کبھی وہ اپنے کام میں مصروفیت کی بنا پر اپنے مہمانوں کی تواضع صحیح طور پر نہ کر پائے ہوں، لیکن انھوں نے کسی کی مدد سے جہاں تک ان سے ممکن ہوا کبھی ہاتھ نہ کھنچا۔  وہ سوچتے تھے کہ اگر خدا نے انھیں ایک ایسے مقام پر فائز کیا ہے کہ وہ کسی کے کام آ سکیں تو اس میں وہ کبھی پیچھے نہیں ہٹے اور کوشش کی کہ حاجت مند خواہ ان کا قریبی دوست ہو یا کوئی اجنبی شخص، اس کے مستقل روزگار کا بھی سامان فراہم کر سکیں تو ضرور کریں۔  حمید نسیم آگے چل کر لکھتے ہیں۔

’’اپریل ۱۹۴۴ء میں یونی ورسٹی ہال میں ایک مشاعرہ ہوا۔  لاہور کے سب جانے پہچانے شاعر مدعو تھے۔  حفیظؔ صاحب اسے بھی ساتھ لے گئے۔  وہاں لوگوں نے اس کے کلام پر اچّھی خاصی داددی۔  شاعروں نے بھی خست نہیں کی۔  لاہور ریڈیو کے اسٹیشن ڈائریکٹر سومناتھ چب بھی اس مشاعرے میں آئے ہوئے تھے، انھوں نے اگلے دن ریڈیو پر حفیظؔ صاحب سے اس کے بارے میں پوچھا۔  انھوں نے بتایا کہ انگریزی میں ایم اے ہے۔  چب صاحب نے حفیظؔ کو ایک چھپا ہوا فارم دیا اور کہا کہ اسے اس سے پُر کروا کر لے آئیے۔  حفیظؔ صاحب شام کو آئے۔  ملازمت کی درخواست پُر کروائی۔  اس کے دستخط کروائے اور اپنے ساتھ لے گئے۔  دوسرے دن چب صاحب وہ فارم لے کر دہلی چلے گئے۔  وہاں ریڈیو ڈائریکٹروں کی کانفرنس تھی۔  تین چار دن بعد اسے حفیظؔ صاحب کی معرفت تار ملا کہ پروگرام ایگزیکٹو کی اسامی کے انٹرویو کے لیے فوراً دہلی پہنچو۔‘‘(۱۱۲)

صہبا اختر حفیظؔ کو اپنا سب سے بڑا محسن قرار دیتے ہوئے اپنی زندگی کے ان ایّام کو یاد کرتے ہیں کہ جب

’’شدید نا آسودگی کے دور میں اس وقت میری شاعری گھر سے لے کر فٹ پاتھ اور فٹ پاتھ سے لے کر مختلف چائے خانوں تک محدود تھی۔  اس وقت ریڈیو اپنے عہد کا مستند ترین ادارہ تھا، جس کے ادبی پروگراموں اور مشاعروں میں شرکت، کسی بھی ادیب یا شاعر اور بطور خاص کسی ایسے نو آموز شاعر کے لیے جیسا کہ میں تھا، بڑے فخر کی بات تھی اور میرا یہ حال تھا کہ ریڈیو کے مشاعروں میں شرکت تو کجا شہر کے اہم مشاعروں میں بھی شرکت میرے لیے دیوانے کے خواب کی طرح تھی۔  ملک کے چند اہم ادبی رسالوں میں جہاں اپنا کلام بھیجتا، مدیر کے شکریے کے ساتھ واپس آ جاتا۔  (اس لیے نہیں کہ میری شاعری کمزور تھی بلکہ اس لیے کہ میں ایک نیا اور غیر معروف شاعر تھا) اور ملازمت کا یہ حال تھا کہ کلرکی سے بڑا عہدہ میرے نصیب میں نہ تھا۔‘‘(۱۱۳)

ایسے ہی دگرگوں حالات میں صہبا کی حفیظؔ صاحب سے ملاقات ہوئی۔  حفیظؔ کی جوہر شناس نگاہوں نے پہچان لیا کہ اس کی شاعری میں جو آب و تاب موجود ہے وہ ایک دن دنیائے شعر و ادب کو خیرہ کرے گی۔

’’…اور اس طرح حفیظؔ صاحب کی وساطت سے زندگی میں پہلی بار مجھے کراچی کے ایک ایسے حلقۂ ادب تک رسائی حاصل ہو گئی، جس میں کراچی کے اعلیٰ ترین افسر، شاعر، ادیب، صحافی اور تاجر سب ہی شامل تھے اور ان سب نے حفیظؔ صاحب کے طفیل مجھے یکساں محبت اور عزّت سے نوازا، پھر میں بھی اس حلقۂ ادب کا ایک مستقل رکن بن گیا، جس کا کوئی رسمی دستور نہیں تھا۔‘‘(۱۱۴)

اور وہ صہبا جو صرف یہ خواہش کر سکتا تھا کہ ریڈیو جیسے مستند ادارے کے کسی ادبی پروگرام یا مشاعرے میں شرکت کرے، اس خواہش کی تکمیل حفیظؔ ہوشیارپوری نے ہی کی۔

’’ارتقائے ادب کے لیے جس سیڑھی کی ضرورت ہوتی ہے۔  اس کی پہلی کڑی پر قدم میں نے حفیظؔ صاحب کے وسیلے سے رکھا۔  یہ صرف ان کا کرم تھا کہ وہ ریڈیو، جس کے دروازے مجھ پر بند تھے اور جس کے اجارہ دار مجھے نگاہِ کم سے دیکھتے تھے اور غزل تو کیا میرا ایک مصرع بھی نشر کرنے کے لیے آمادہ نہیں تھے۔  ایک ایسا وقت بھی آیا کہ وہی لوگ ریڈیو سے میرے طویل غنائیے، منظوم ڈرامے، غزلیں، گیت، حمد، سلام سب کچھ بہ نفس نفیس پڑھنے اور بحیثیت اسٹاف آرٹسٹ نشر کرنے پر مجبور تھے۔‘‘(۱۱۵)

صہبا حفیظؔ کے صرف احسان مند ہی نہ تھے بلکہ ان سے عقیدت و محبت کا رشتہ بھی رکھتے تھے، ان سے زندگی گزارنے کا قرینہ سیکھنا چاہتے تھے۔  اس کے لیے وہ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت حفیظؔ صاحب کے ساتھ گزارنے کے خواہش مند تھے اور ایسے میں وہ دیکھتے تھے کہ حفیظؔ صاحب، کام کام اور بس کام کی مکمل تفسیر نظر آ رہے ہیں۔

’’مجھے جب بھی فرصت ملتی اپنے دفتر سے اٹھ کر میں حفیظؔ صاحب کے دفتر پہنچ جاتا اور خاموشی سے سلام کر کے ان کے سامنے کرسی پر بیٹھ جاتا۔  حفیظؔ صاحب کی میز پرفائلوں کا ایک ڈھیر ہوتا۔  وہ ہر فائل کو پورے انہماک سے پڑھتے۔  ان پرنوٹس لکھتے اور گھنٹوں کے اس استغراق کے عالم میں فائلوں کا ڈھیر میز کے ایک گوشے سے دوسرے گوشے میں منتقل ہو جاتا، یہاں تک کہ شام ہو جاتی، لیکن حفیظؔ صاحب اس وقت تک کرسی سے نہ اٹھتے جب تک کہ انھیں یقین ہو جاتا کہ آج کا تمام کام پورا ہو گیا، اس لیے کہ اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی وہ ایک عبادت کی طرح مکمل کر کے ہی دم لیتے تھے۔‘‘(۱۱۶)

انھی دنوں کی روداد کا تذکرہ صہبا نے اپنے ایک مضمون میں بھی کیا ہے۔

’’…میں ابتداً بیکار تھا۔  حفیظؔ صاحب کے دفتر میں ان کے پاس چلا جاتا تھا۔  وہ سارا دن بے تکان کام کرتے تھے۔  وہ اس وقت ریڈیو پاکستان کے ہیڈ کوارٹر میں کسی بڑے عہدے پر فائز تھے۔  سارا دن فائلیں ہوتیں اور وہ۔‘‘(۱۱۷)

ریڈیو میں فائل ورک کے علاوہ ایک اور ا ہم کام اسٹاف میٹنگ ہوا کرتا ہے۔  اس میں دیگر امور کے علاوہ گذشتہ اور آئندہ روز کے پروگرام بھی زیربحث لائے جاتے ہیں۔  کوتاہیوں کی نشاندہی بھی ہوتی ہے اور آئندہ ان سے بچنے کی تدابیر بھی سوچی جاتی ہیں۔  ایسی ہی ایک میٹنگ جس کی صدارت حفیظؔ کر رہے تھے، کا حال عشرت رحمانی تحریر کرتے ہیں۔

’’…میں کراچی میں ۱۹۵۰ء میں بیک وقت اسسٹنٹ ریجنل ڈائریکٹر اور ایڈیٹر انچارج ریڈیو مطبوعات و رسائل کے عہدوں پر فائز تھا۔  اس وقت میرا تبادلہ میری خواہش پر لاہور اسٹیشن پر بحیثیت اسسٹنٹ ریجنل ڈائریکٹر ہوا اور میں لاہور آ گیا۔  جب میں لاہور ریڈیو اسٹیشن اپنے عہدے کا چارج لینے پہنچا تو اس وقت حفیظؔ ہوشیارپوری مجھ سے سینئر ہونے کے باعث ریجنل ڈائریکٹر تھے اپنے کمرے میں تقریباً دس بجے صبح اسٹاف میٹنگ کی صدارت کر رہے تھے، چونکہ اس دوران حسب ضابطہ عملہ کے علاوہ کسی اجنبی شخص یا غیر متعلقہ فرد کو خواہ وہ اسٹیشن ڈائریکٹر کا دوست ہو، کمرے میں اندر جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔  اس لحاظ سے جو میں نے حفیظؔ صاحب سے ملنے اور اپنے پہنچنے کی اطلاع دینے کے لیے ان کے کمرے میں جانے کے لیے دروازہ کھولا تو مجھے پہچانے بغیر، انھوں نے اجنبی شخص سمجھ کر کہا معاف کیجیے، اس وقت اسٹاف میٹنگ ہو رہی ہے۔  آپ باہر ڈرائینگ روم میں تھوڑی دیر تشریف رکھیے۔  اسٹاف کے کئی اہل کار جو میرے واقف تھے، انھوں نے جلدی سے حفیظؔ صاحب کو بتایا کہ عشرت رحمانی صاحب ہیں اور اس سے بیشتر حفیظؔ صاحب سے معذرت کا سن کر میں نے کہا تھا حفیظؔ صاحب میں میٹنگ میں شرکت کے لیے حاضر ہوا ہوں، اس لیے ابھی اندر آنا چاہتا ہوں۔  اس پر حفیظؔ صاحب مسکرا کر اپنی کرسی سے اٹھے اور دروازہ کھول کر مجھ سے نہایت خلوص سے گلے ملے اور بولے۔  ارے بھیا عشرت رحمانی معاف کرنا مجھے معلوم نہ تھا۔‘‘(۱۱۸)

پروگرام میٹنگ کے حوالے سے ایک اور واقعہ جو حمید نسیم نے لکھا ہے اس کا تذکرہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔

’’حفیظؔ ہوشیارپوری دو سال کا بن باس کاٹ کر بمبئی سے لاہور واپس آ گئے تھے۔  انھوں نے جولائی ۱۹۴۲ء میں ایک مقامی نوعیت کی محفل مشاعرہ کا ریڈیو پر اہتمام کیا۔  اس مشاعرے میں ابو الاثر حفیظؔ جالندھری، جناب احسان دانش، جناب صوفی تبسّم، عابد علی عابد، احسان دانش کے چہیتے شاگرد بلدیو راج، پنڈت ہری چند اختر، ناصر کاظمی اور وہ (حمید نسیم) شریک ہوئے۔  اس کی سفارش پر حفیظؔ صاحب نے مسعود محمود کو بھی بلایا۔  اس زمانے میں راج بلدیو راج اپنے استاد کا کلام اپنے نام سے پڑھتے تھے۔  یعنی استاد انھیں کلام لکھ کر دیتا تھا۔  جیسے مصحفی نے آدھے لکھنؤ کو شاعر بنا دیا تھا۔  کچھ کلام خود رکھ لیتے، کچھ اس مغبچے کو دیتے۔  ابتدا مشاعرے کی اس طفل خوش رو سے ہوئی۔  بڑی بیہودہ غزل تھی۔  اس میں ایک مصرع تھا۔ ع ’’یہ شے مفید نہیں میری دوستی کے لیے‘‘ اب راج بلدیو نے اسے نقل کیا تو غلطی سے مفید پر ایک نقطے کی جگہ دو نقطے پڑ گئے۔  اس لڑکے نے مصرع پڑھا۔  ’’یہ شے مقید نہیں میری دوستی کے لیے‘‘ اسے ایسا لگا جیسی کسی نے زورکا گھونسا جبڑے پر رسید کیا ہے۔  اس نے فوراً اپنے نفسیاتی سطح پر ٹوٹے ہوئے جبڑے سے مصرع اٹھایا… یہ شے مفید نہیں میری دوستی کے لیے‘‘ … وہ لونڈا پھر بھی نہ سمجھا اور دوبارہ مصرع پڑھا اور ’’مقید‘‘ ہی کہا۔  اب حفیظؔ صاحب کا رنگ بھی ببول کے پھول جیسا ہو گیا۔  اگلے دن پروگرام میٹنگ میں حفیظؔ صاحب پر کیا بیتی یہ بات انھوں نے کبھی نہیں بتائی۔  وہ پوچھتا تو مسکرا کر ٹال دیتے۔‘‘(۱۱۹)

ریڈیو کی ملازمت بظاہر دلکش سہی، لیکن ایک حساس قومی ادارے کے افسران میں سے ایک ہونے کے باعث حفیظؔ کو اکثر اوقات کٹھن مقامات کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا۔  فرائض منصبی کی ادائیگی میں وہ ان کاموں کو بھی کرنے پر مجبور تھے جو دل سے کرنا نہیں چاہتے تھے۔

’’مجھے صرف ایک بار حفیظؔ سے شکایت ہوئی۔  حکومت نے انجمن ترقّی پسند مصنفین پر ریڈیو کے سلسلے میں بین BANلگا دیا۔  اس زمانے میں مشہور مصنف شیخ محمد اکرام(جن کا انتقال حال ہی میں ہوا ہے ) اطلاعات و نشریات کے سکریٹری تھے۔  ایک روز حفیظؔ میرے پاس آئے اور کہا شام چار بجے ریڈیو اسٹیشن پر آؤ اور میرے ساتھ چائے پیو۔  شیخ محمد اکرام تم سے کچھ گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔  میں سمجھا ترقّی پسند مصنفین پر پابندی کے سلسلے میں گفتگو ہو گی۔  چنانچہ میں مقر رہ وقت پر پہنچا تو شیخ صاحب حسب معمول نہایت محبت سے ملے اور فرمایا کہ یہ پابندی ایک مجبوری تھی، البتہ اگر تم چاہو تو صرف تم پر سے یہ پابندی اٹھائی جا سکتی ہے۔  شیخ صاحب کا شمار اہلِ قلم میں ہوتا تھا، اس لیے مجھے ان سے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ انجمن ترقّی پسند مصنفین میں انتشار پیدا کرنے کی اس اسکیم کا آغاز کریں گے۔  میں نے ان کی اس کرم فرمائی سے مستفید ہونے سے معذرت کی اور عرض کیا کہ پابندی اٹھائیے تو پوری انجمن پر سے اٹھائیے ورنہ پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کے سامراجی فارمولے سے اجتناب فرمائیے کہ اب ہم ایک آزاد مملکت کے آزاد شہری ہیں۔  شیخ صاحب نے بہت وضاحتیں کیں کہ ان کا یہ مقصد نہیں تھا مگر میں وہاں سے چلا آیا۔  مجھے زیادہ دکھ اس بات کا ہوا کہ حفیظؔ بھی وہاں موجود تھے اور میں حیران تھا کہ یہ شخص جو اپنے اصولوں کے سلسلے میں اتنا کٹّر اور متشدّد ہے، مجھے مدعو کرنے میں اطلاعات و نشریات کی اس سازش میں شریک ہے۔  میں یہ سوچتا رہا اور کئی روز تک سخت بے چین رہا۔  آخر ایک روز حفیظؔ آنکلے اور مجھے بتایا کہ اسٹیشن ڈائریکٹر کی حیثیت سے ان کی وہاں موجودگی ضروری تھی۔  وہ وہاں سیکریٹری صاحب کے ایک ادنیٰ ماتحت کی حیثیت سے موجود رہے، ورنہ جب سیکریٹری صاحب نے مجھ سے اپنا مافی الضمیر بیان کیا تو ان کا جی چاہا کہ وہ احتجاج کریں کہ اس تجویز میں اسٹیشن ڈائریکٹر شریک نہیں ہے۔  حفیظؔ نے مجھے بتایا کہ سیکریٹری صاحب نے مجھے قطعی نہیں بتایا تھا کہ وہ تم سے اس طرح کی بات کرنا چاہتے ہیں۔  انھوں نے تو تمہاری شاعری کی تعریف کی تھی اور صرف اس بنیاد پر تم سے ملنے کا اشتیاق ظاہر کیا تھا۔‘‘(۱۲۰)

ریڈیو کی ملازمت کے دوران میں حفیظؔ کئی افسران کے ماتحت رہے۔  کئی افراد نے ان کے ماتحت کام کیا۔  بہت سے مشہور و غیر مشہور نام ان کے ساتھیوں میں شامل تھے۔  حفیظؔ نے حفظِ مراتب کا ہمیشہ خیال رکھا اور کسی چھوٹی بڑی بات کو اپنی انا کا مسئلہ بنا کر نئے مسائل کبھی کھڑے نہیں کیے۔

’’حفیظؔ مجھے وہ دن بھی یاد آئے جب تم ریڈیو کے کاروبار میں الجھ گئے۔  ایک موقع پر رفیع پیرزادہ نے تمہاری ادنیٰ سی فروگذاشت پر جو بالکل غیر ارادی تھی تمھیں بہت برا بھلا کہا اور تم سر جھکائے کھڑے رہے اور آواز نہ نکالی۔  صبح کو تم میرے پاس آئے میں نے اس واقعہ کا ذکر کیا۔  تم نے کہا آپ میرے استاد اور بزرگ ہیں اور پیر صاحب آپ کے دوست ہیں۔  انھیں سخت سست کہنے کا حق ہے۔  ان کی سخت گیری سے اگر میری نوکری بھی چلی جائے تو پروا نہیں۔  حفیظؔ یہ الفاظ کہتے ہوئے تمھاری آنکھوں میں آنسو آ گئے جن کی چمک اس وقت بھی میرے سامنے ہے۔  تم عمر بھر بڑوں سے انکساری اور چھوٹوں سے پیار سے ملتے رہے۔  اس چیز سے تمھیں زندگی ہی میں آبرو ملی اور پیارے حفیظؔ اب جو تم نے دوسری دنیا میں قدم رکھا ہے تو میرا دل یہی کہتا ہے کہ اس انکساری اور پیار سے تمھیں وہاں بھی سرخروئی نصیب ہو گی۔‘‘(۱۲۱)

’’حفیظؔ کے دیگر ساتھی بھی حفیظؔ کی خوش اخلاقی کے گرویدہ رہے۔  حفیظؔ کا رویہ افسروں کے ساتھ مؤدبانہ، ماتحتوں کے ساتھ نہایت مشفقانہ اور دوستانہ۔  افسر، ساتھی اور ماتحت سب ان کی عزّت کرتے تھے۔‘‘(۱۲۲)

’’بہت خوش اخلاق تھے۔  کبھی کسی سے سختی سے بات نہیں کی۔  کسی کی اہانت نہیں کی۔  افسروں کا لحاظ کرتے تھے با ادب، باملاحظہ، ہوشیار قسم کے ماتحت کبھی نہیں تھے۔‘‘(۱۲۳)

حمید نسیم، لاہور ریڈیواسٹیشن میں اپنےر وز اوّل داخلے کی روداد سناتے ہیں کہ اتنی محبت سے حفیظؔ صاحب نے انھیں ریڈیو کے دیگر عملے سے متعارف کروایا، اجنبیت کی وہ دیواریں جنھیں ٹوٹنے میں نامعلوم کتنا عرصہ لگتا، لمحہ بھر میں منہدم ہو گئیں۔

’’۴ ستمبر ۱۹۴۷ء کو اس (حمید نسیم) نے لاہور ریڈیواسٹیشن پر ڈیوٹی جوائن کر لی۔  حفیظؔ ہوشیارپوری اسے لے کر کمرے کمرے میں گئے۔  سارے پروگرام اسٹاف اور دوسرے پروگرام آرگنائزروں سے اس کا تعارف کرایا۔  حفیظؔ صاحب کے علاوہ دو پروگرام ایگزیکٹو تھے۔  آخر میں حمید صاحب کے کمرے میں پہنچے۔  اس کمرے میں ان کے ماتحت اسٹاف آرٹسٹ، پروگرام سیکریٹری اور کاپیسٹ بھی بیٹھے تھے۔  حمید صاحب اس سے مل کر بہت خوش ہوئے۔  فوراً تھری کاسل کی ڈبیا جیب سے نکالی۔  ایک سگریٹ سلگائی۔  اس کے ہونٹوں میں رکھ دی۔  اس نے بڑھ کر ان سے معانقہ کیا، پھر حفیظؔ صاحب اسٹوڈیو کے کاریڈور سے ہو کر دوسری طرف نکلے۔  اسٹیشن ڈائریکٹر کے کمرے کے عین سامنے اے ایس ڈی صاحبان کا کمرہ تھا۔  لاہور میں اس کے بزرگ دوست محمود نظامی اور آغا شبیر اسسٹنٹ ڈائریکٹر تھے۔  آغا صاحب پشاور سے آئے تھے، تو وہ اور آغا صاحب دونوں پشاور کے مشہور کھلاڑی لالہ ایوب کے گرین ہوٹل میں متصل کمروں میں رہتے تھے اور ان کے ساتھ اس نے بہت سی پرلطف شامیں گزاری تھیں۔  دونوں بزرگوں نے بڑی شفقت کا سلوک کیا۔  وہاں سے وہ حفیظؔ صاحب کے ساتھ واپس ان کے کمرے میں آیا تو اسٹیشن ڈائریکٹر کا ایک نوٹ حفیظؔ صاحب کی میز پر پڑا تھا کہ اسے اردو تقریروں کے شعبہ کا انچارج مقرر کیا گیا ہے اور وہ حفیظؔ صاحب کے سیکشن میں کام کرے گا۔  اسے اس بات سے خوشی ہوئی کیونکہ وہ دوسرے دو پروگرام ایگزیکٹوز کو نہیں جانتا تھا۔‘‘(۱۲۴)

کسی نئی جگہ کام کا آغاز کرنا ہو یا اس میں بہتری کی خواہش تو ایسے مواقع پر وہ کام کسی ذمہ دار اور تجربہ کار شخص کے حوالے کیا جاتا ہے۔  ریڈیو پر ملازمت کے دوران میں حفیظؔ کے تبادلے مختلف مقامات پر ہوتے رہے تاکہ ان کی خدمات اور تجربات سے دوسرے اسٹیشن بھی مستفید ہو سکیں۔  حفیظؔ صاحب محکمہ ریڈیو کے ایک بہترین ریجنل ڈائریکٹر ہی نہ تھے بلکہ ایک معتبر ادبی مقام کے مالک بھی تھے۔  ان کی آمد سے اس شہر کی ساکن ادبی فضا پر چھایا ہوا مدتوں کا جمود ٹوٹنے لگتا اور اہل ذوق کی محفلیں سجنے لگتیں۔

جناب وفاراشدی حفیظؔ کی حیدرآباد آمد سے قبل اور بعد کے حالات کا تقابلی جائزہ پیش کرتے ہیں، جس سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حفیظؔ کی آمد نہ صرف ریڈیو کے لیے بلکہ حیدرآباد کی ادبی فضا کے لیے کتنی فعال ثابت ہوئی۔

’’ریڈیواسٹیشن، ہوم اسٹیڈیم ہال حیدرآباد میں قائم ہوا تو عشرت رحمانی اس کے ایکٹنگ اسٹیشن ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔  راز مراد آبادی اور الیاس عشقی پروگرام آرگنائزر تھے۔  راقم کو ان تینوں حضرات سے نیاز مندی حاصل تھی۔  عشرت رحمانی صاحب سے بنگلہ ڈرامہ کے بارے میں تبادلہ خیالات ہوا۔  راز مراد آبادی ۱۹۴۷ء میں ریڈیواسٹیشن ڈھاکا میں آئے تو ڈیلی مارننگ نیوز رشید بلڈنگ ہی میں ان کا قیام تھا۔  میں بھی کلکتہ سے آیا تو اسی بلڈنگ میں رہائش کے لیے جگہ ملی۔  رات رات بھر راز مراد آبادی کی غزلیں اور حسین رباعیات سے مسرور اور ان کی دلنشیں مترنم آواز سے مخمور ہونے کا خوب خوب موقع ملا۔  الیاس عشقی حیدرآباد آنے سے پہلے ریڈیو پاکستان پشاور سے میری ایک کتاب(بنگال میں اردو) پر تبصرہ نشر کر چکے تھے۔  یوں ان اربابِ ذوق کی موجودگی نے میری حوصلہ افزائی کی لیکن واقعہ یہ ہے کہ حیدرآباد کے ادبی ماحول کا جمود اس وقت ٹوٹا جب حفیظؔ ہوشیارپوری وہاں ریجنل ڈائریکٹر کی حیثیت سے آئے۔  ۱۹۵۹ء کی بات ہے کہ مجھے اچانک حفیظؔ ہوشیارپوری کا مکتوب ملا۔  ’’وفا صاحب مجھے یہاں آ کر معلوم ہوا کہ آپ کوٹری میں رہتے ہیں۔  کبھی کبھی ریڈیو اسٹیشن آتے ہیں۔  جب سے میں یہاں آیا ہوں۔  آپ ایک بار بھی نہیں آئے۔  میں نے آپ کی کتاب (بنگال میں اردو) کی بڑی شہرت سنی تھی۔  اس لیے اسے خرید کر پڑھ لیا۔  اگر آپ مل جائیں تو میں اس کے بارے میں تبادلہ خیال کروں۔‘‘ یہ نامۂ محبت ملتے ہی حفیظؔ صاحب کی خدمت میں حاضرہوا۔  انھی دنوں حیدر آباد ریڈیواسٹیشن سے مشرقی پاکستان کے موضوع پر تقریروں کا ایک سلسلہ شروع ہوا تو موضوع کے کئی پہلوؤں پر میری تقریریں نشر ہوئیں۔  حیدرآباد میں حفیظؔ صاحب کے آنے سے ادبی محفلوں میں زندگی کی لہر دوڑ گئی اور ان کے دم سے بڑی رونق تھی۔  غلام مصطفی خان صاحب شعبۂ اردو سندھ یونی ورسٹی اور شیخ ڈاکٹر ابراہیم خلیل، سابق میڈیکل سپرنٹنڈنٹ حیدرآباد کہا کرتے تھے کہ حیدرآباد کے لوگوں کی خوش قسمتی ہے کہ حفیظؔ ہوشیارپوری ان کے شہر کے ریڈیو اسٹیشن کے ڈائریکٹر ہیں۔  ۱۲ جنوری ۱۹۵۸ء کو لطیف اکیڈمی کے زیر اہتمام ثقافتی کانفرنس منعقد ہوئی۔  سکھر کے مشہور شاعر و ادیب آفاق صدیقی اس کے روح رواں تھے۔  اس کانفرنس کی صدارت کے فرائض شاہد احمد دہلوی مرحوم اور حفیظؔ ہوشیارپوری نے انجام دیے تھے۔  اس کانفرنس میں جو خطبۂ صدارت پڑھا تھا، وہ ایک ایسا معلوماتی اور دقیق مقالہ تھا، جس کے مطالعے سے حفیظؔ صاحب کی محققانہ بصیرت اور شاعرانہ عظمت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔

اردو مجلس کوٹری کے زیرِاہتمام سندھی اردو کانفرنس کا پروگرام مرتب ہوا تو میں ۱۰ اپریل ۱۹۶۵ء کو بحیثیت مجموعی معتمد اردو مجلس، حفیظؔ ہوشیارپوری کی خدمت میں ریڈیو پاکستان ڈائریکٹوریٹ جنرل پہنچا کہ ان سے صدارت کے لیے درخواست کروں۔  وہ اس وقت ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل تھے اور بہت ضروری کاموں میں مصروف تھے۔  محشر بدایونی، ایڈیٹر آہنگ، ان کے پاس بیٹھے تھے۔  انھوں نے اپنے اسٹینو سے کہلوایا کہ وفا صاحب سے کہیں کہ تھوڑا انتظار کریں اور مجھ سے مل کر جائیں۔  تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ بعد بلوایا گیا۔  حفیظؔ صاحب نے کھڑے ہو کر مصافحہ کیا اور اپنی ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کی کرسی سے اٹھ کر اسی کمرے میں رکھی ہوئی آرام دہ کرسی پر بیٹھ گئے۔  مجھے اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ بیٹھنے کا اشارہ کیا، پھر بولے معاف کیجیے گا آپ کو انتظار کی زحمت اٹھانی پڑی، اگر میں فوراً بلا لیتا تو آپ سے اطمینان سے گفتگو نہ ہو سکتی تھی۔  اب فرمائیے کیسے آنا ہوا۔  ہم نے اپنامدعا بیان کیا اور کافی دیر تک گفتگو سے مستفید ہوئے۔‘‘(۱۲۵)

حفیظؔ صاحب نے حیدرآباد میں مختلف کانفرنسوں میں نہ صرف شرکت کی بلکہ اکثر و بیشتر صدارت کے فرائض بھی انجام دیے۔  ان کے یہ صدارتی خطبے کسی بھی تحقیقی مقالے سے کم نہ تھے۔  وہ شاعر تھے اس لیے مشاعروں میں بھی مدعو کیے جاتے تھے، لیکن چونکہ وہ مجلسی آدمی نہ تھے۔  بے تکلف دوستوں کی محفل سے قطع نظر وہ دیگر محفلوں خصوصاً ً مشاعروں میں شرکت سے گریز کیا کرتے تھے لیکن پھر بھی انھیں مشاعروں میں شرکت کرنا پڑتی تھی۔  ان کے حیدرآباد جانے کے بعد وہاں کی شعری نشستوں کی رونق اور حاضرین کی تعداد میں اضافہ ہوا۔

’’ان سے دوسری ملاقات حیدرآباد سندھ میں ہوئی جب وہ بحیثیت ریجنل ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان حیدرآباد سندھ میں نئے نئے آئے تھے۔  ریڈیو پاکستان کو قائم ہوئے چند ہی برس ہوئے تھے اور اس کی وجہ سے اندرون سندھ اور کراچی سے ادیبوں اور شاعروں کا آنا جانا شروع ہو گیا تھا۔  حافظ مبارک علی شاہ اپنے ہاں مہینے دو مہینے میں کراچی سے کسی نامور شاعر کی آمد پر شعری نشست کا اہتمام کرتے اور اس طرح مقامی شعراء کو بھی سننے سنانے کا موقع مل جاتا۔  حفیظؔ صاحب طبعاً کم سخن اور ڈسپلن کے قائل تھے۔  وہ زیادہ وقت سرکاری مصروفیات اور بقیہ وقت مطالعے میں صرف کیا کرتے تھے۔  بعد میں جب نیاز احمد کمشنر نے ۱۹۵۹ء میں حیدرآباد سندھ میں کل پاکستان یادگار مشاعروں کی داغ بیل ڈالی تو حفیظؔ صاحب نے ان مشاعروں میں بھی شرکت کی، لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہ بوجوہ مشاعروں میں شرکت سے گریز کیا کرتے تھے۔  اس کا اظہار انھوں نے اپنے ایک مقطع میں بہت کھل کر کیا ہے۔

فکرِ سخن ان کو مبارک ہو حفیظؔ

فرصت کے ساتھ جن کو ہے اذن کلام بھی‘‘

(۱۲۶)

حفیظؔ کم آمیز تھے ہر ایک کے ساتھ کھلتے نہ تھے، ان کے بے شمار دوست نہ تھے لیکن جو دوست تھے ان کے لیے حفیظؔ کم سخن نہ تھے، ان کے سامنے کھلی کتاب کی طرح تھے۔  حفیظؔ کے لیے ان کے دل میں اور ان کے لیے حفیظؔ کے دل میں جو محبت اور احساس تھا، اس کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ جب ان کا تبادلہ حیدرآباد ہوا تو ان کے دوست کراچی سے بہر ملاقات آتے اور دوستوں کی ملاقات عید کا سماں باندھ دیتی۔  ایسی ہی ایک ملاقات کے بعد کا احوال سیّد نواز اپنے ایک خط میں کرتے ہیں۔

’’مارچ ۱۹۵۸ء میں حفیظؔ حیدرآباد ریڈیو پاکستان کے ریجنل ڈائریکٹر تھے۔  میں ان سے ملنے گیا۔  کراچی آتے ہوئے راستے میں ٹھٹھہ کے قریب میری کار کو حادثہ پیش آیا۔  میں بال بال بچ گیا۔  سیّد قمر رضا سپرنٹنڈنٹ پولیس ٹھٹھہ نے ٹیلیفون پر حفیظؔ کو حادثے کے بعد میری خیریت سے مطلع کیا، لیکن حفیظؔ حادثے کی اطلاع سے اتنا متاثر ہوئے کہ رات بھر نہیں سوئے۔‘‘(۱۲۷)

راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے شاعر عطا حسین کلیم ریڈیو سے منسلک رہے ہیں۔  جن دنوں حفیظؔ حیدرآباد کے ریجنل ڈائریکٹر تھے عطا حسین کلیم بھی وہیں خدمات انجام دے رہے تھے ایک واقعہ کا تذکرہ کلیم صاحب یوں کرتے ہیں۔

’’حیدرآباد اسٹیشن پر ریڈیو ہی کے دفتر میں میرا کسی سے جھگڑا ہو گیا۔  میں نے اسے نوکری سے فارغ کر دیا۔  مجھے سمجھایا گیا کہ وہ خودسر آدمی ہے۔  ایسا نہ کرو اور خاموشی سے اسے بحال کر دو۔  حفیظؔ صاحب ان دنوں نئے نئے آئے تھے۔  میں ان کے کمرے میں چلا گیا۔  وہاں ایک شخص عام ملگجے سے لباس میں موجود تھا۔  میں نے پہچانا نہیں کہ حفیظؔ ہیں۔  وہ اپنے کام میں مصروف ہی نہیں بلکہ غرق تھے۔  کافی دیر بعد کہنے لگے، بھئی تم کتنی دیر سے بیٹھے ہو۔  مجھے احساس ہی نہ ہوا۔  اس کے بعد اصل موضوع بھی زیرِبحث آیا۔  حفیظؔ صاحب سمجھانے لگے کہ تم غیر جگہ بیٹھے ہو یہاں پنجابی سندھی جھگڑے بھی چلتے ہیں۔  تم نے یہ کیا حماقت کی ہے۔  تم ان جھگڑوں میں اضافہ نہ کرو۔‘‘(۱۲۸)

افتخار عارف، حفیظؔ کے مشفقانہ رویے، بہترین اخلاق اور دوسروں کی مدد پر ہمہ وقت تیار رہنے والی شخصیت سے بے حد متاثر رہے ہیں۔  وہ حفیظؔ ہوشیارپوری سے اپنے تعلق کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

’’میں ان دنوں بحیثیت نیوز کاسٹر اکسٹرنل اردو سروس(بیرونی نشریات کے ہندی سیکشن) سے وابستہ تھا۔  سلیم گیلانی میرے باس تھے۔  میں حفیظؔ صاحب سے سلیم گیلانی اور سلیم احمد کے توسط سے ملا۔  اس زمانے کا ریڈیو آج کے ریڈیو سے بہت مختلف تھا۔  اس کے ماضی میں بھی اور اس کے حال میں بھی جواب ماضی ہو چکا ہے بہت ممتاز اہل قلم اس سے وابستہ تھے۔  پطرس بخاری، زیڈ اے بخاری، ارم لکھنوی، انصار ناصری، سلیم احمد، سلیم گیلانی، چراغ حسن حسرت، عزیز حامد مدنی، ریاض فرشوری، انتظار حسین، ذاکر خان، نصراللہ خان، قمر جلیل، احمد ہمدانی، محمد عمر مہاجر، مرزاظفر الحسن، شمس الدین بٹ، آغا ناصروغیرہ، یہ چند نام جو اس وقت میرے ذہن میں آئے اور میں نے کسی تقدیم و تاخیر کے لحاظ کے بغیر گنوادیے، تو یہ تمام احباب مختلف طبقۂ خیال کے لوگ تھے۔  باہمی آویزش اور گروہ بندی تب بھی کسی قدر تھی، لیکن حفیظؔ تمام حلقوں میں یکساں مقبول تھے۔  سب سے اہم بات یہ تھی کہ وہ جہاں ایک طرف اچھے اور دیانت دار افسر کی حیثیت سے جانے جاتے تھے اور غیر جانبداری کے سبب مقبول تھے، ان کی یہ حیثیت بھی مسلم تھی کہ زبان و بیان کے اعتبار سے انھیں سند کا، حرف آخر کا درجہ حاصل تھا۔  میں نے ابھی شعری سفر کا آغاز ہی کیا تھا اور بہت ہی معمولی درجے کا ملازم تھا مگر وہ بحیثیت بزرگ لکھنے والے کے ہمیشہ شفقت فرماتے تھے۔  میرے زمانے میں وہ ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر پہنچ چکے تھے۔  انھیں اپنے ماتحتوں کی دفتری زندگی کے علاوہ، ذاتی زندگی، اس کے دکھ سکھ سبھی کا احساس رہتا تھا۔  جب میرے بیٹے کی ولادت ہوئی تو انھوں نے تقریباً ایک فل اسکیپ سائز صفحے پر نام تجویز فرمائے اور یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ انھیں فن تاریخ گوئی پر بہت عبور تھا۔  بہت کم لوگ ایسا ملکہ رکھتے ہیں جیسا کہ حفیظؔ اور بہت کم لوگ ایسا ظرف رکھتے ہیں جیسا کہ حفیظؔ کہ اپنے ادارے کے ادنیٰ ملازم کو اتنی اہمیت اور محبت دیں۔‘‘(۱۲۹)

صہیب حفیظؔ بھی اپنے والد کے اس رویے سے آگاہ تھے۔

’’ماتحتوں کے ساتھ ان کا رویہ ہمیشہ مشفقانہ اور ہمدردانہ رہا۔  کام کے وقت سخت ترین آدمی تھے، لیکن ماتحتوں کے ذاتی مسائل کو ہمدردی سے حل کرتے تھے۔  دفتر میں رات گئے تک کام کرنا ان کا معمول تھا لیکن چپڑاسی اور پی اے حتیٰ کہ ڈرائیور کو بھی وقت پر گھر بھیج دیتے تھے۔‘‘(۱۳۰)

جمیل زبیری ریڈیو سے وابستگی اور تعلق کے آغاز کے متعلق تحریر کرتے ہوئے حفیظؔ ہوشیارپوری سے اپنی ملاقات کا احوال بیان کرتے ہیں۔

’’ریڈیو میں پروگرام آرگنائزر کی کچھ اسامیوں کا اشتہار پبلک سروس کمیشن کی طرف سے شائع ہوا، چنانچہ میں نے درخواست بھیج دی۔  تقریباً چھ ماہ گزرنے کے بعد مجھے انٹرویو کے لیے طلب کیا گیا۔  انٹرویو بورڈ میں تین لوگ تھے۔  دو کمیشن کے ممبران اور ایک ریڈیو کا نمائندہ(یہ حفیظؔ ہوشیارپوری تھے جنھیں میں اس وقت نہیں جانتا تھا) زیادہ تر گفتگو انھوں نے ہی کی۔  جب سرکاری باتوں سے ہٹ کر گفتگو ادب پر آ گئی تو دیگر ممبران خاموش ہو گئے۔  صرف میرے اور حفیظؔ صاحب کے درمیان ہی مکالمہ ہوتا رہا۔  ہم منٹو کی افسانہ نگاری پر اٹک گئے۔  شاید حفیظؔ صاحب میرا امتحان لینے کے لیے طرح طرح سے بات واضح کر رہے تھے کہ منٹو ایک فحش نگار تھا اور میں طرح طرح سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ ایسا نہیں ہے۔  اس کا ادب صحت مند لوگوں کے لیے ہے اور وہ معاشرہ کو آئینہ دکھاتا تھا۔  بہرحال انٹرویو ختم ہوا اور چونکہ میں نے کافی بحث کی تھی اس لیے میں کچھ مایوس واپس آ گیا۔  وقت گزرتا گیا انٹرویو کا کوئی نتیجہ نہ نکلا۔‘‘(۱۳۱)

جمیل زبیری کی مایوسی اس وقت مسرت میں بدل گئی جب کوئٹہ ریڈیو اسٹیشن پر پروگرام آرگنائزر کی حیثیت سے ان کا تقرر ہو گیا یوں ریڈیو کے ناطے حفیظؔ سے ملاقات کے سلسلے بڑھے۔  انھی ملاقاتوں میں حفیظؔ کی شخصیت کے نمایاں رخ ان کے سامنے آئے۔  ان کی شاعری میں جو تہذیب و شائستگی جھلکتی ہے وہ ان کی شخصیت کا خاصہ ہے۔

’’…بہت سے معروف شعراء نے ریڈیو پاکستان میں مختلف عہدوں اور شعبوں پر مختلف اوقات میں کام کیا۔  ان میں حفیظؔ ہوشیارپوری اور عزیز حامد مدنی سرفہرست تھے۔  جیسا کہ میں اسی کتاب کے شروع میں لکھ چکا ہوں۔  ریڈیو کے لیے جب پبلک سروس کمیشن میں میرا انٹرویو ہوا تو ریڈیو کی طرف سے حفیظؔ ہوشیارپوری ہی تھے اور میری تمام تر گفتگو ان ہی سے ہوئی تھی۔  وہ اس وقت ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل تھے اور ان کا دفتر ۷۱ گارڈن روڈ پر تھا۔  میرے کراچی اسٹیشن پر آ جانے کے بعد ان سے مختلف کاموں کے سلسلے میں ملنے کا اتفاق ہوا۔  وہ ایک نہایت شائستہ، سمجھدار اور ہمدردافسر تھے۔  شاعری میں بھی ان کا خاص مقام ہے اور ان کی بعض غزلیں لافانی بن چکی ہیں۔

محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے

تری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے

اگر تُو اتفاقاً مل بھی جائے

تری فرقت کے صدمے کم نہ ہوں گے

نہ پوچھ کیوں میری آنکھوں میں آ گئے آنسو

جو ترے دل میں ہے اس بات پر نہیں آئے‘‘

(۱۳۲)

 

بیرونِ ملک سفر اور دیگر ذمہ داریاں

ریڈیو کی ملازمت کے دوران میں حفیظؔ کو کئی غیر ممالک کے سفر کرنے کے مواقع بھی ملے۔  جون جولائی ۱۹۵۳ء میں حکومت پاکستان کے محکمہ وزارت تعلیم کی جانب سے ایک ثقافتی وفد کے رکن کی حیثیت سے ایران جانے کا اتفاق ہوا۔  وفد کے دیگر ارکان میں جناب صوفی تبسّم، ڈاکٹر داؤدپوتا، سر محمد شفیع اور بذلِ حق محمود شامل تھے، اسی دوران میں آپ کا فارسی کلام ایرانی جریدوں میں بھی شائع ہوا، پھر ۵۷۔  ۱۹۵۶ء میں بی بی سی کے جنرل اور سیز کورس میں شرکت کرنے کے لیے انگلستان بھی گئے۔  اگست ستمبر ۱۹۶۴ء میں آرسی ڈی کے کلچرل ورکنگ گ روپ کے رکن کی حیثیت سے دوسری مرتبہ ایران گئے۔  جولائی ۱۹۶۵ء میں علاقائی تعاون برائے ترقّی کی اطلاعاتی کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے ترکی گئے۔  سفر کے دوران میں ہونے والے تجربات اور تربیت سے انھوں نے بہت فائدہ اٹھایا۔

ریڈیو ہی کی ملازمت کے دوران میں دیگر کئی علمی و ادبی اداروں کے لیے خدمات سرانجام دیتے رہے۔  اپریل ۱۹۵۲ء سے مارچ ۱۹۵۴ء تک دو سال اقبال اکیڈمی کونسل کے رکن رہے۔  فروری ۱۹۷۰ء سے اقبال اکیڈمی کے گورننگ باڈی کے رکن رہے اور اپریل ۱۹۷۰ء سے ترقّی اردو بورڈ کے رکن بھی رہے اور جس کے اجلاس ان کی بیماری اور مرض الموت تک ہسپتال میں ہوتے رہے۔

۱۹۶۲ء میں حکومت پاکستان نے کاپی رائٹ آرڈی نینس کے سلسلے میں ایک ڈرافٹنگ کمیٹی قائم کی، جس کے صدر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی تھے۔  اسی کمیٹی کے اراکین میں حفیظؔ ایک فعال رکن کی حیثیت سے شامل رہے۔

 

ریٹائرمنٹ

’’حفیظؔ ۱۹۶۶ء تک ریڈیو ہی سے منسلک رہے اور ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر پہنچ کر ریٹائر ہوئے البتہ وفات تک ریڈیو پاکستان کی دینی نشریات کے سلسلے میں ریڈیو پاکستان کے مشیر رہے۔‘‘(۱۳۳)

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ

’’۴جنوری ۱۹۶۸ء کو اٹھائیس برس کی ملازمت کے بعد آپ ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ریڈیو پاکستان کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔  ریڈیوپاکستان میں دیگر فرائض منصبی کے علاوہ آپ کے سپرد ایک اہم کام ریڈیو کے لیے مخصوص انداز بیان اور زبان کی نگرانی اور خبروں کے آسان اور بامحاورہ ترجمے کے اصول وضع کرنا تھا۔  چنانچہ آپ کئی سال ریڈیو پاکستان کی لسانی کمیٹی کے صدر رہے۔  ۱۹۵۱ء میں آپ نے نشریات کے لسانی لوازمات خصوصاً ً خبروں کے ترجمے کے متعلق ایک تحقیقی مقالہ لکھا جو ملک کے مقتدر ادبی رسالوں اور اخباروں نے شائع کیا۔‘‘(۱۳۴)

ریٹائرمنٹ کے بعد حفیظؔ کانٹریکٹ پر ریڈیو کے لیے کام کرتے رہے۔

’’اس زمانے میں سرکاری ملازموں کی تنخواہ بھی بہت کم ہوتی تھی، لیکن افسران بالا میں سے اکثر حضرات شریف النفس ہوتے تھے۔  چنانچہ اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل صاحب نے حفیظؔ صاحب کی ریٹائرمنٹ کے اگلے ہی دن انھیں مشیر برائے مذہبی امور کا ماہوار کانٹریکٹ دے دیا جو ان کی شدید علالت کے بعد ہسپتال میں داخلے تک جاری رہا۔  حفیظؔ صاحب تو درویش صفت انسان تھے۔  انھوں نے کبھی اپنا حال کسی سے نہیں کہا تھانہ ان کے کسی اور واقف نے ڈائریکٹر جنرل سے درخواست کی اور اسی نیک دل افسر نے فوراً اپنے اختیار کی حد تک احکام جاری کر دیے۔  حکم نامہ اسلام آباد سے جاری ہوا تھا۔  جس کی ایک نقل مجھے کراچی میں پہنچی۔  میں نے حفیظؔ صاحب کے ریٹائر ہونے پر ڈپٹی ڈی جی کا چارج لیا تھا۔‘‘(۱۳۵)

۔۔۔۔۔۔۔

یہ حصہ مکمل ڈاؤن لوڈ کریں

 

مکمل کتاب (چاروں حصے)  ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل