FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

برِّ صغیر کے جدید مسلم مفکرین اور اُن کی قومی و مِلّی خدمات

اقبال احمد قاسمی

(ریڈر، شعبۂ علم الادویہ)

اجمل خاں طِبِّیہ کالج، مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ

تہدیہ

عالی جناب نواب رحمت اللہ خاں شِروانی

(پرو چانسلر مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ)

کے نام

اقبال احمد قاسمی

حرفے چند

انیسویں اور بیسویں صدیاں ہندوستانی قوموں کی نشاۃِ ثانیہ اور برِّ صغیر کے باشندوں کی سیاسی، سماجی، علمی اور اقتصادی ترقی کا نقطۂ عروج ہیں۔ اِن دونوں صدیوں میں پیدا ہونے والے اور اپنی قوم و مِلّت کی تاریخ اپنے خونِ جگر سے لکھنے والے اصحابِ فکر کی تعداد یوں تو سیکڑوں میں ہے لیکن ملک و مِلّت کو ترقی دینے والی اور سماجی و سیاسی استحکام بخشنے والی جن شخصیات کو تاریخ نے اپنے سینے میں محفوظ رکھا ہے اُن میں سے چند کے احوال و آثار کو اِس تالیف میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اِن کے حالاتِ زندگی سے ہر ہندوستانی شہری اور اپنے ملک سے محبت رکھنے والے ہر فرد کو سبق لینا چاہیے۔ نیز برِّ صغیر کے ہندو و مسلم مواطنین کو ان حضرات کا مرہونِ مِنَّت ہونا چاہیے جنہوں نے ہندوستان میں متعدد علمی اِدارے قائم کئے اور دینی و عصری تعلیم کی روشنی میں ایک صحیح قومی شاہ راہ پر چلنے کی ترغیب دی اور دوسری طرف برطانوی حکومت کے ظلم و استبداد سے نجات دِلا کر من حیث القوم اپنی شناخت بنائے رکھنے کے لئے راستے ہموار کئے۔ اِن نابغۂ روزگار شخصیات میں سر سیّد احمد خان، مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، مسیح الملک حکیم محمد اجمل خان دہلوی اور مولانا ابو الکلام آزادؔ جیسے لوگ شامل ہیں۔

میں اُستاذی پروفیسر حکیم سیّد ایوب علی صاحب کا از حد ممنون ہوں کہ اُنہوں نے اِس تالیف کی مناسبت سے نہایت وقیع تقدمہ زیبِ کتاب کیا جس سے اِس کتاب کی ثقاہت اور افادیت مستند ہو گئی۔

یہ میری خوش قسمتی ہے کہ ایشیاء کی دو عظیم جامعات، دار العلوم دیوبند اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں مجھے حصولِ تعلیم کا موقع ملا اور اِن اِداروں میں خوشہ چینی کے طفیل، میں اِس لائق ہوا کہ اِن معمارانِ وطن کو متعارف کرا سکوں۔ وَمَا تَوفِیْقِیْ اِلّا بَاللّٰہ۔

اقبال احمد قاسمی

تقدمہ

(پروفیسر) حکیم سیَّد ایوب علی

عزیزی ڈاکٹر اقبال احمد قاسمی، ایم۔ڈی۔ علم الادویہ و معالجات،اپنے دورِ طالبِ علمی میں مجھ سے وابستہ رہے۔ طِب کے دو اہم مضامین میں ایم۔ڈی۔ کیا اور ہمیشہ امتیازی حیثیت سے کامیابی حاصل کی۔ نہ صرف میں، بلکہ کالج کے سینئر اساتذہ اُن کی علمی و تحقیقی صلاحیتوں کے معترف رہے۔ مادری زبان اُردو کے علاوہ عربی زبان و ادب میں مہارت تامّہ اور انگریزی پر بھی خاصا عبور ہے۔ انگریزی، عربی و فارسی زبانوں میں ما فی الضمیر کو بحسن و خوبی انجام دے سکتے ہیں۔ لکھنے پڑھنے اور بے تکان بولنے، تقریر و تحریر پر اچھی دسترس ہے۔ طِب کے مختلف موضوعات پر ملک و بیرونِ ملک رسائل میں اُن کے وقیع مضامین کا سلسلہ جاری ہے۔ نیز متعدد فنِّی کتابوں کے مصنِّف بھی ہیں۔زیرِ نظر مجموعۂ مقالات بعنوان ’’برِّصغیر کے جدید مسلم مفکِّرین ‘‘ میں ملک کے مشہور و معروف ماہرین تعلیم و تربیت، صاحبِ بصیرت، مفکر، دانشور، علمی و تحقیقی ذہن و فکر کے حامل، ملک و قوم کی فلاح و بہبود کے امین، پانچ معزز و مقتدر اشخاص کو موضوع بنایا گیا ہے۔

ترتیب زمانی کے لحاظ سے اُمَّتِ مسلِمہ کو جدید علوم سے آشنا کرانے والی پہلی بڑی شخصیت بانی درس گاہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سر سّید علیہ الرَّحمہ کی ہے، جنہوں نے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی اور اقتصادی ابتری سے متاثر ہو کر خالص مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے جذبہ سے دنیاوی ترقی کی راہوں کو استوار کیا اور مسلمانوں کو دوسری بڑی قوموں کے شانہ بشانہ لا کھڑا کر دیا۔ یقیناً مسلم یونیورسٹی کی سوا سو سالہ تاریخ شاہد ہے کہ سر سیَّد احمد خاں کی یہ فکر بڑی حد تک کامیابی سے سرفراز ہوئی۔ یہ مسلمانوں کا وہ معتبر و مقتدر اِدارہ ہے جس نے پوری دنیا میں مسلمانوں کو علمی وقار عطا فرمایا۔ سر سیَّد کی حوصلہ مندی یا بالِغ نظر ی کی اِس داستان کو مقالہ نگار نے بہت سلیقہ سے ترتیب دیا ہے۔

اِن شخصیات میں ترتیبِ زمانی کے اعتبار سے فکرِ ولی اللہّٰی کے امین بانی دارالعلوم دیوبند قاسم العلوم و الخیرات مولانا محمد قاسم نانوتوی دوسرے نمبر پر ہیں۔ حضرت مولانا اُس دور میں پیدا ہوئے جب کہ سلطنتِ مغلیہ کا زوال اور حکومت برطانیہ کا تسلُّط اپنے عروج پر تھا۔ ملک و مِلَّت کا اقتصادی و دینی شیرازہ منتشر ہو چکا تھا اور مجاہدین اِس جنگ میں ناکام ہو چکے تھے۔ ایسے نازک وقت میں قدرت کے مخفی ہاتھوں نے مولانا نانوتوی جیسی عظیم شخصیت کو حوصلہ دیا۔ آپ کی بصیرت و استقامت نے براہِ راست طاغوتی طاقتوں سے ٹکراؤ کے بجائے مسلمانوں میں دینی علوم کے اِداروں کے قیام کو اپنا مطمح نظر بنایا۔ اِن اداروں نے نہ صرف علم و ادب کے ماہرین بلکہ مجاہدین کی ایک بڑی جماعت پیدا کی اور جن کی مسلسل جد و جہد اور بصیرت نے ملک میں انگریزی تسلُّط کی جڑیں کھوکھلی کر دیں۔ مقالہ نگار نے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے تذکرے میں بہت تفصیل سے اُن کے اِن کارناموں کا جائزہ پیش کیا ہے۔ نیز آپ کی متعدد تصنیفات و تالیفات میں مسائلِ شرعیہ کو عقل و دلائل سے ثابت کرنے اور مسائلِ باطلہ کو دلائلِ عقلیہ سے رد کرنے پر بھی تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ آپ کی ۴۹ سالہ مختصر مدّت العمر کے علمی، عملی و فکری کارناموں سے یونیورسٹی اور مدارس کے افراد کو واقف کرانے کی یہ ایک قابلِ تحسین کوشش کی ہے۔

مفکِّرین کی ترتیب میں صاحبِ مقالہ نے تیسرے مفکِّر اور مجتہدِ طِب ناظمِ جہاں حکیم محمد اعظم خاں رامپوری کو موضوع بنایا ہے۔ حکیم صاحب انیسویں صدی عیسوی کی دوسری دہائی کی ابتداء میں پیدا ہوئے اور بیسویں صدی کے بالکل ابتدائی ایّام میں نواسی سال کی طویل عمر پاکر جہانِ فانی سے رخصت ہو گئے۔ آپ نے اپنی اِس طویل عمر میں معالجانہ حذاقتوں کے جو نمونے چھوڑے اور تصنیف و تالیف کے میدان میں ہزاروں صفحات پر مشتمل جو طِبِّی ذخیرہ جمع کر دیا ہے وہ آپ اپنی مثال ہے۔ حکیم اعظم خاں کی شخصیت اور کارنامے اِس قدر وسیع و وقیع ہیں جن کی تفصیلات کو صفحۂ قرطاس کی زینت بنانا مشکل ہے۔ طِبِّی دنیا کے کسی بھی فنکار نے اپنی تصنیفات کا اتنا بڑا ذخیرہ نہیں چھوڑا۔ فنِّ طِب کا کوئی تو شہ ایسا نہیں جو اعظم خاں کی عظمتوں کا مظہر نہ ہو۔ طِبِّی کتاب گھروں میں ’’اعظم ‘‘کے ساتھ جتنی کتابیں معنون ہیں، وہ آپ ہی کی تصنیف ہیں۔ رموزِ اعظم، اکسیر اعظم، قرابا دین اعظم، محیط اعظم وغیرہ علم الادویہ سے متعلق محیط اعظم میں ادویہ مفردہ پر مشتمل ہزاروں دواؤں کا تذکرہ ہے۔ پھر مرکب دواؤں میں قرابادین اعظم ایک نابغۂ روزگار کتاب ہے۔ حکیم صاحب کے اپنے تجربات و مخترعات بھی درجنوں کی تعداد میں اِن میں داخل ہیں۔

والی ریاست بھوپال نواب جہانگیر محمد خاں نے وجع الکلیہ کے معرکۃ الآراء علاج اور شفا یابی کی بناء پر آپ کو’’ ناظم جہاں ‘‘ کا خطاب عطا کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر طِب کی ہندوستان میں کوئی یونیورسٹی قائم ہوتی تو آپ کی شخصیت اور کارناموں پر عرصہ دراز تک تحقیقی عنوانات پر ریسرچ جاری رہتی۔ متاخرین اطِبّاء میں حکیم اعظم خاں سے زیادہ وسیع المطالعہ اور کثیر التصانیف اور علاج و معالجہ میں مخترعات کا موجِد دوسرا فرد نظر نہیں آتا۔

زیرِ نظر کتاب میں خاندانِ شریفی دہلی کے چشم و چراغ مجدد طب، مسیح الملک، حکیم اجمل خان ایک ایسی عظیم شخصیت کا نام ہے جس کا سب سے بڑا کارنامہ دیسی طِبوں کی حفاظت، فلاح و بہبود اور ملک میں با وقار فن کی حیثیت سے طِب کو متعارف کرانا ہے۔ حکومتِ برطانیہ نے ہندوستان پر تسلُّط کے بعد ۱۹۰۱ء؁ میں میڈیکل رجسٹریشن ایکٹ پاس کیا جس کی رو سے تمام معالجینِ دیسی طِبِ بے دست و پا اور معالجہ کے حق سے محروم ہو گئے۔ اِس ایکٹ کا ماحصل یہ تھا کہ اب وہی شخص مجازِ مَطَبْ قرار دیا جائے گا جس نے یورپ یا ہندوستان کی کسی مسلَّمہ یونیورسٹی سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی ہو۔ یہ بل دیسی طبوں کے خلاف زبردست چیلنج تھا اور دیسی طبوں کو اَن سائنٹِفِک اور عام انسانیت کے لئے نقصان دہ قرار دیتا تھا۔ اِس بل کے پسِ پردہ انگریزوں کا وہی تجارتی مفاد پیشِ نظر تھا ا جس کو لے کر وہ یہاں آیا اور تاجر سے حاکمِ وقت بن بیٹھا۔ مسیح الملک اِس بل کی بناء پر بہت متفکر ہوئے۔ آپ نے پہلا کام یہ کیا کہ تمام دیسی طِبوں کے معالجین کو متحد کیا اور ’’آل اِنڈیا یونانی اینڈ آیورویدک طِبِّی کانفرنس‘‘ قائم کی اور اُس کے ذریعہ مختلف مقامات پر اجلاس منعقد کرائے اور عوامی احتجاج کی صورت پیدا کی۔ دوسرا بڑ اکام یہ کیا کہ لندن کا سفر کیا، جارج پنجم سے ملاقات فرمائی۔ یہ حکیم صاحب کی شخصیت کا کمال تھا کہ دربارِ شاہی کی خفیہ رِپورٹ محض آپ کی عزت و شہرت، اور طِب کی حیثیت سے ’’بے تاج کی بادشاہی ‘‘کی بدولت، حکیم صاحب کے لئے جارج پنجم سے ملاقات کا ذریعہ بن گئی۔ حکیم صاحب کی سفارشات پر جارج پنجم نے شاہی عزت و احترام کے ساتھ دیسی طِبوں کے لئے رکاوٹیں دور فرمائیں اور قرول باغ میں ایک وسیع و عریض قطعہ زمین آیورویدک و یونانی طبیہ کالج کے قیام کے لئے عطیہ فرمایا۔

مسیح الملک حکیم اجمل خان نے اِس کالج میں نصابِ تعلیم کو جدید رِوایتوں پر مرتب کرنے کے لئے ’’مجلِسِ عٕلمی‘‘ قائم کی جس کے سکریٹری حکیم محمد الیاس خاں اور اراکین میں پروفیسر حکیم کبیر الدین، حکیم عبد الحفیظ، حکیم فضل الرَّحمٰن اور حکیم سیَّد ناصر عبّاس شامل فرمائے۔ اِس ’’مجلس علمی‘‘ نے تجدیدِ طِب اور طِبِّی تحقیقات کی نئی راہیں قائم کیں اور مرکب دواؤں کی فراہمی کے لئے ہندوستانی دوا خانہ قائم کیا۔ ۱۹۳۲؁ء تک یہ ’’مجلِسِ علمی‘‘ اپنا کام سلیقہ سے کرتی رہی اور اُس کے بعد حکیم صاحب کے اَخلاف میں اِس کام کو آگے بڑھانے کی توفیق نہ ہو سکی، ایک طبیب کی حیثیت سے مقالہ نگار نے حکیم صاحب کی اُن کوشِشوں اور مشن کا پورا جائزہ پیش کیا ہے۔

مسیح الملک کی جدت پسندی، تحقیق و تحسین اور دیسی جڑی بوٹیوں سے متعلق ریسرچ پر تحقیق ہی کا نتیجہ ہے کہ بیخ اسرول پر تحقیقی کام کے نتیجہ میں اِس کے اثرات بلڈ پریشر کے سلسلہ میں متعین ہوئے۔ اِس دوا پر جدید انداز میں بھی کام کیا گیا۔ مسیح الملک نہ صرف ایک حاذق طبیب ہی تھے بلکہ ملکی سیاست کے مسائل میں بھی خاصی پکڑ رکھتے تھے۔ ملک کی سیاسی شخصیات: مولانا ابوالکلام آزادؔ، مسٹر گاندھی، نہرو، ڈاکٹر مختار انصاری، شیخ الاسلام مولانا سیَّد حسین احمد مدنی نیز’’ علی برادران‘‘ سے آپ کے ذاتی تعلقات اور سیاسی و ملکی سطح پر اِن کا اعتماد حاصل تھا۔

اِس تذکرۂ مُفکِّرین میں آخری اور پانچویں شخصیت مفکِّرِ اعظم، حضرت مولانا ابوالکلام آزاد کی ہے جو ترتیب زمانی کے لحاظ سے آخری لیکن دانشوری، تفکُّرا ور بصیرت میں لاثانی شخصیت کے مالک تھے۔ علماء کے ایک بڑے طبقہ نے متَّفِقہ طور پر ’’اِمام الہند ‘‘کا تمغہ عطا کیا۔مورِّخین و مبصّرین کی رائے ہے کہ ملتِ اسلامیہ کی تاریخ میں پانچ سو سال میں ایسا دانشور، جامع صفات، علم کا پیکر، ذہانت کا منبع دیکھنے میں نہیں آیا۔ ۱۸۸۸؁ء پیدائش سے لیکر ۲۲ فروری ۱۹۵۸؁ء تک زندگی کا ہر لمحہ اور گوشہ انتہائی تابناک اور روشن ہے۔ مقام پیدائش دنیا کا سب سے مکرم خطّہ اور موصوف کی مادرِ معظّمہ جن کی آغوشِ تربیت میں آپ پروان چڑھے، مکّہ ا لُمکرمہ کے علمی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ والد بزرگوار جیّد عالم و فاضل دینیات اور مرجع خلائق کی تربیت میں عمر کی بارہ منزلیں طے فرمائیں۔

اُس دور میں شاعری، نثر نگاری، علوم متداولہ کی تکمیل، سائنسی علوم کی تحقیق و مطالعہ اور بے شمار میدانوں میں دسترس حاصل کر لی۔ کم عمری میں ہی اُن کو اِتنی شہرت نصیب ہوئی کہ ملک کے دانشوروں اور علمی میدان کے شہسواروں کو اُن سے پہلی ملاقات میں یہ یقین نہیں آتا تھا کہ یہی مولانا ابوالکلام آزاد ہیں۔اہلِ علم و ظرافت کے لئے یہ واقعہ دلچسپ ہے کہ سیّد رشید رضا مصری کی ہندوستان آمد کے موقع پر جب علّامہ شبلی کی پہلی ملاقات ندوۃ العلماء میں ہوئی تو مولانا آزادؔ اِس قدر کم سِن تھے کہ شبلی نعمانی نے مولانا آزادؔ کو مولانا آزادؔ کا بیٹا سمجھا تھا۔

یوں تو مولانا عنفوانِ شباب ہی سے میدانِ صحافت کے پختہ کار شہسوار رہے۔ مختلف رسائل اُن کی یاد گار ہیں۔لیکن مولانا کے کام کی اصل جولان گاہ ۱۹۱۲ء؁ میں ’’الہلال ‘‘کے اجراء سے شروع ہوئی۔ ملک و ملت کے خوابیدہ ماحول کو ’’الہلال‘‘ کی چنگاری سے گرمایا۔

مولانا کا یقین تھا کہ فرقہ پرستی اور علیحدگی پسندی ملک و قوم کے لئے سم ّ قاتل ہے۔ چنانچہ ۱۹۴۷؁ء سے قبل جنگِ آزادی میں اُس کو ہر طرح نا پسند فرمایا اور ملک کی آزادی کی جد و جہد میں جمعیۃ العلماء ہند کے پلیٹ فارم سے متحدہ قومیت کا سبق دیا اور بحیثیت صدر کانگریس مختلف مجالس و مباحث میں اِس کی کھل کر ترجمانی فرمائی اور رام گڑھ کے کانگریس کے اجلاسِ عام میں مسلم لیگ کے دو قومی نظریہ کی قباحتوں اور اُس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی خرابیوں سے اہل ملک و قوم کو آگاہ کیا اور ساتھ میں ملک میں پائی جانے والی سب سے بڑی اقلیت کے اُن اندیشوں کا مداوا بھی بیان فرمایا جو مخالفین کے غلط پروپیگنڈوں کی وجہ سے ذہنوں میں پرورِش پا رہے تھے۔ اِس سلسلہ میں رام گڑھ کا اجلاس بہت اہمیت کا حامل تھا۔مولانا کی سیاسی بصیرت مسلمانوں کی تباہی و بربادی ملک کی تقسیم کے نتیجہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ اِس لئے وہ اُس کے سخت ترین مخالف رہے اور جب ملک و قوم کی بد نصیبی نے وہ دِن دیکھ ہی لیا جس کے نتیجہ میں لاکھوں انسان تباہ و برباد ہوئے تو یہ تباہی و بربادی بھی اُن سے دیکھی نہ گئی۔ ۲۴ اکتوبر ۱۹۴۷؁ء کو جمعہ کے دِن مولانا نے جامع مسجد دہلی سے ایک ایسی تقریر کی جو مولانا کی خطابت کا بہترین شاہ کار ہے۔ اِس میں مولانا نے ایک طرف مسلمانوں کی غلط سیاست پر آگاہی کے باوجود انکار و منع کی تمام سنَّتوں کا شکوہ کیا ہے، وہیں اُن کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش بھی کی اور آئندہ کے لائحۂ عمل کے لئے اِرشادات بھی فرمائے۔مولانا نے فرمایا کہ ’’ایمان اور بزدِلی‘‘ ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔اپنے دِل کو ایمان و یقین کی جلوہ گاہ بناؤ اور یقین رکھو کہ اگر تم اس فرار کی زندگی کو اختیار نہ کرنے کا مصمّم اِرادہ کر لو تو دنیا کی کوئی طاقت تمہیں یہاں سے بھگا نہیں سکتی۔مولانا کی اِس تقریر کا اثر یہ ہوا کہ مسلمانوں کے بھاگتے قدم رُک گئے۔ جو جانے کے لئے بستر باندھ چکے تھے، اُنہوں نے بستر کھول دئیے اور ہندوستان ہی کو اپنا وطن بنائے رکھنے کا تہیہّ کر لیا۔ اِس کے اچھے اثرات مرتب ہوئے۔ متولی ہمدرد دو اخانہ کی واضح مثال سامنے موجود ہے۔غالِباً اُنہوں نے بھی اِرادہ فرما لیا تھا لیکن مولانا کی تقریر کے بعد اِرادہ ملتوی کر دیا۔آج ہم اپنی کھلی ہوئی آنکھوں سے اِس کے نتائج دیکھ رہے ہیں کہ ایک دوا خانہ نے ترقی کی کتنی منزلیں طے کیں جو نہ صرف ملک و بیرونِ ملک میں ہمدرد دوا خانہ بلکہ ہمدرد یونیورسٹی کی شکل میں طِبِّی اور دوسرے علوم کا بڑا اِدارہ قائم ہو گیا۔ اِس قسم کی سیکڑوں مثالیں موجود ہیں :

قرآن حکیم کے الفاظ میں ’’نہ ڈرو نہ غم کرو تم ہی سر بلند ہو گے اگر خدا پر تمہارا یقینِ کامل ہے‘‘

مولانا نے اِس کی تلقین کی۔ صاحبِ مقالہ نے مولانا کی اِس تقریر کو من و عن اِس مقالہ کا جز ء بنا دیا ہے۔ اِس تقریر میں،مولانا کی اِصابت رائے، سیاسی بصیرت، خیالات کی پختگی اور مزاجی استقلال کے ایسے جوہر پوشیدہ ہیں جو اُن کی شخصیت کی آبرو ہیں۔ بحیثیت وزیر تعلیم مولانا نے مسلم اِداروں کو کچھ مراعات عطا فرمائیں جب کہ غیر مسلم اکیڈمیوں کو اُس سے کہیں زیادہ مراعات دی جا چکی تھیں، جس پر ایک آر۔ایس۔ایس۔ زدہ جن سنگھی لیڈر نے مسلمانوں کے تئیں بے جا مراعات کا الزام لگایا۔ مولانا نے بر وقت حقائق کی روشنی میں اُس کا مسکت جواب دیا اور فرمایا: ’’میری زندگی کھلی ہوئی کتاب ہے۔ ۱۹۱۳؁ء میں جہاں میں کھڑا ہوا تھا آج بھی وہیں ہوں۔‘‘ یہ تھے مولانا آزاد، جنہیں نہ کوئی طمع ہلا سکی نہ کوئی خوف ڈگمگا سکا۔

بیسویں صدی کے اُن مفکرین کے تذکرے میں مقالہ نگار نے حقائق نگاری سے کام لیا ہے اور اُن کے سلسلہ میں بہت سے راز ہائے سربستہ کو واشگاف کیا ہے۔ پھر بھی اُن حضرات کے سلسلہ میں اِس کو حرفِ آخر نہیں کہا جا سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ اور اُن جیسی بہت سی شخصیات ہیں جنہوں نے ملک و ملّت کے تئیں اپنی مخلصانہ کوششوں میں کوئی دقیقہ فرد گذاشت نہیں کیا، اُن حضرات کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے، لکھا جا رہا ہے اور آئندہ بھی لکھا جائے گا۔مقالہ نگار کی یہ کوشش یقیناً لائقِ تحسین و آفرین ہے۔

(پروفیسر) حکیم سیَّد ایوب علی

علی گڑھ،

۱۵ اکتوبر ۲۰۱۰

بابِ اوّل

سر سیّد احمد خاں

(۱۸۱۷ء تا ۱۸۹۸ء)

تاریخ وِلادت اور خاندانی پس منظر

مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے بانی، عظیم رہنما سر سیّد احمد خاں مرحوم کی ذاتِ گرامی کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ سیّد احمد خاں ۵ ذی الحجّہ ۱۲۳۲ھ مطابق ۱۷ اکتوبر ۱۸۱۷ء کو دِلّی میں پیدا ہوئے۔ مہدی قلی خاں وزیر جلال الدین فرُّخ سیر شاہ(دورِ حکومت ۱۷۱۲ء تا ۱۷۱۸ئ) نے اپنی وزارت کے زمانہ میں تراہا بہرام خاں کے قریب ایک بڑی حویلی بنائی تھی جس میں دیوان خانہ، فیل خانہ اور اصطبل وغیرہ تھے، اِس حویلی کو سر سیّد کے نانا خواجہ فرید الدین احمد نے خرید لیا تھا اور وہ اب تک خواجہ فرید کی حویلی کے نام سے مشہور ہے۔ اِس حویلی کے ایک حصّہ میں جو خواص پورہ کہلاتا تھا، سیّد احمد خاں پیدا ہوئے تھے (۲۔۶)۔

آپ سادات خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کا سلسلۂ نسب حضرت اِمام محمد تقی اِبنِ اِمام موسٰی رضا سے ملتا ہے۔ اِس لئے آپ خود کو سیّد کہتے تھے۔ والد کا نام سیّد میر متقی تھا۔ سر سیّد کی والدہ عزیزالنِّساء بیگم دبیر الدولہ خواجہ فرید الدین احمد کی بیٹی تھیں۔سر سیّد کی پروَرِش مان بی بی نے کی اور جب وہ ۵ سال کے ہوئے تو مان بی بی کا انتقال ہو گیا۔ سر سیّد کا تولُّد اور اُن کی پروَرِش ایسی ماں کی گود میں ہوئی جو انتہائی خدا ترس، معاملہ فہم، نیک طینت تھیں اور سر سیّد کی تربیت میں اُن کے اخلاق و عادات کو بڑا دخل تھا۔ سر سیّد کی والدہ کا کردار و مزاج یہ تھا کہ بقول سر سیّد ’’اُن کی جو کچھ آمدنی ہوتی تھی اُس میں سے پانچ فی صدی کے حساب سے میری والدہ ہمیشہ الگ رکھتی جاتی تھیں اور اُس سرمایہ کو حُسنِ انتظام کے ساتھ نیک کاموں میں صرف کرتی تھیں۔ ‘‘کئی جوان لڑکیوں کا اُن کی امداد سے نکاح ہوا۔ اکثر پردہ نشین عورتیں جو معاش سے تنگ ہوتیں اُن کی پوشیدہ خبر گیری کرتیں، غریب رشتہ داروں کے گھر جاتیں اور خفیہ یا کسی حیلہ سے اُن کی امداد کرتیں (۶)۔

سر سیّد احمد خاں کا خاندان جس میں اُنہوں نے تولُّد پایا، شروع ہی سے ایک علمی خانوادہ اور آزمودہ کار شخصیات کا گہوارہ رہا ہے۔ خود سر سیّد نے جگہ جگہ اِسی کی اشاعت کی ہے کہ ’’علم کے خزانوں کو اپنے قبضہ میں کر لو‘‘ (لکچروں کا مجموعہ صفحہ ۳۸ ۱۸۶۷ء)جہاں اُن کی یہ تعلیم ہے وہیں پر اُنہوں نے خود بھی یہ کوشش کی ہے کہ علوم و فنون کی کوئی شاخ اور اُس کا کوئی بھی میدان اُن سے چھوٹنے نہ پائے۔

سر سیّد کی تعلیم

قدیم خاندانی رِوایات کے مطابق سیّد احمد خاں نے جب زانوئے تلمُّذ طے کیا تو بسم اللہ کی تقریب کے بعد جو کہ حضرت شاہ غلام علی صاحب نے شروع کی تھی۔سیّد احمد نے قرآن شریف پڑھنا شروع کیا۔ قرآن حکیم پڑھنے کے بعد وہ باہر مکتب میں پڑھنے لگے۔ مولوی حمیدالدین سے اُنہوں نے کریما، خالقِ باری، آمد نامہ وغیرہ کتابیں پڑھیں۔

کتب درسیہ و غیر درسیہ

سر سیّد نے عربی کتب درسیہ میں شرح مُلّا جامی شرح تہذیب، میبذی مختصرالمعانی اور مطوَّل پڑھی پھر اُن کو اپنے خاندانی علم یعنی ریاضی پڑھنے کا شوق ہوا جس میں اُن کی ننھیال کے لوگ دِلّی میں اپنا ہم مِثل نہیں رکھتے تھے۔ علاوہ ازیں اقلیدس، ہیئت میں شرح چغمینی اور مجسَّطی سے پہلے کے چند مقالے پڑھے۔ آلات رصد بر جندی، اعمال کرہ، اصطرلاب، رِسالہ صنعت اصطرلاب،رُبع مجیب، رُبع مقنطر، ہلزون، جریب السَّاعہ، پرکار تقسیم، پرکار متناسبہ اپنے ماموں زین العابدین سے پڑھے۔

اُسی زمانہ میں طِب پڑھنے کا شوق ہو گیا اور درسِ نظامی میں طِبّی کتب بلا استثناء ہر کسی کو پڑھائی جاتی تھیں چنانچہ حکیم غلام حیدر خاں سے جو ایک خاندانی حکیم تھے، طِب کی ابتدائی کتب مثل قانونچہ اور مُوجز وغیرہ کے بعد معالجاتِ سدیدی، شرح اسباب، نفیسی امراضِ عین تک پڑھی اور چند ماہ تک اُن کے ساتھ مطب بھی کیا۔پھر پڑھنا چھوڑ دیا۔ اُس وقت اُن کی عمر ۱۸ یا ۱۹ سال کی تھی۔ تسہیل العلاج کے نام حکیم غلام حیدر کی ایک مشہور کتاب معالجہ پر ہے۔

ملازمت کا آغاز

۱۸۳۸ء میں جب کہ سر سیّد کی عمر تقریباً ۲۲ سال تھی۔ اُن کو سرکاری ملازمت کا خیال پیدا ہوا۔ اُن کے خالو مولوی خلیل اللہ خاں اُس وقت دہلی میں صدر امین تھے۔ اُن سے درخواست کی کہ اپنی کچہری میں وہ کام سیکھنے کی اِجازت دیں۔پھر سر رابرٹ ہملٹن نے، جب کہ وہ آگرہ کے کمشنر تھے، اُن کو آگرہ بلا لیا اور فروری ۱۸۳۹ء میں کمشنری کے دفتر میں نائب منشی مقرر کر دیا(۶)۔

اِداروں کا قیام

(۱) مدرسۂ مرادآباد: سر سیّد نے ۱۸۵۹ء میں ایک فارسی مدرسہ مرادآباد میں قائم کیا جہاں اِس سے پہلے کوئی مدرسہ نہ تھا۔ کچھ دِنوں یہ مدرسہ بدستور اپنی حالت پر رہا، مگر جب جان اسٹریچی صاحب وہاں کلکٹر ہو کر آئے اور اُنہوں نے ایک تحصیلی مدرسہ قائم کیا تو اُسی تحصیلی مدرسہ میں اُس فارسی مدرسہ کے طلباء بھی داخل ہو گئے (حیات جاوید نمبر ۸۹، تیسرا باب)۔

(۲) غازی پور میں تبادلہ اور سائنٹِفِک سوسائٹی کا قیام:

۱۲ مئی ۱۸۶۲ء کو سر سیّد کا تبادلہ غازی پور ہو گیا۔ مراد آباد کے دورانِ قیام انتظامِ قحط کے بعد گو کہ ایک بہت بڑا یتیم خانہ کھولنے کا خیال سیّد احمد کو ہوا تھا مگر یہ سب خیالات اُن کے دِل سے محو ہو گئے تھے اور اُن کو یقین ہو گیا کہ جب تک ہندوستان میں عام طور پر علم کی روشنی نہ پھیلے گی اُس وقت تک بھلائی کی سب تدابیر بیکار ثابت ہوں گی لہٰذا ضروری ہو گا کہ ایک سوسائٹی ایسی قائم کی جائے کہ اِس کے ممبر انگریز اور ہندوستانی دونوں ہوں جو سائنس اور انگلش لٹریچر کی کتب اُردو میں ترجمہ کرا سکیں۔ اِس مقصد کے لئے اُنہوں نے ۱۸۶۳ء میں ’’سائنٹِفِک سوسائٹی‘‘ غازی پور میں قائم کی۔ سر سیّد احمد خاں کو اُن کی اصلاحی خدمات کے پیشِ نظر حکومتِ برطانیہ نے ’’سر‘‘ کا خطاب دیا جو اُن کے نام کا جز بن گیا۔

(۳) غازی پور میں مدرسہ کا قیام:

۱۸۶۳ء کو غازی پور میں ایک مدرسہ قائم کرنے کی فکر ہوئی۔ سر سیّد نے تھوڑا تھوڑا چندہ جمع کیا، اِس مدرسہ کی عمارت اور اُس کے قیام کے لئے اَسّی ہزار روپیوں کا تخمینہ ہوا تھا۔

جب چندہ کی مقدار سترہ ہزار تک پہنچ گئی تو اوّل مدرسہ کے لئے ایک مکان بنانا تجویز ہوا اور ۱۸۶۴ء میں ایک عام مجمع میں جس میں ہندوستانی اور تمام ضلع کے حکّام شریک تھے، اِس کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور اس کی تعمیر شروع ہو گئی۔ وہ مدرسہ آج تک وِکٹوریہ اسکول کے نام سے غازی پور میں جاری ہے اور ہائی اسکول تک کی پڑھائی اِس میں ہوتی ہے (۶)۔

(۴) غازی پور سے علی گڑھ تبادلہ:

۱۸۶۴ء میں سر سیّد غازی پور سے تبدیل ہو کر علی گڑھ آ گئے، چونکہ غازی پور میں سر سیّد کے غائبانہ میں سائنٹِفِک سوسائٹی کا چلنا ممکن نہیں تھا، اِس لئے سوسائٹی کا تمام سامان اور اسٹاف وہ اپنے ساتھ علی گڑھ لے آئے۔ مسٹر ولیم جنکس بریملی جو اُس زمانہ میں علی گڑھ کے جج تھے، سوسائٹی کے پریسیڈینٹ قرار پائے۔ اُن کی توجہ سے سوسائٹی کے کاروبار کو نہایت ترقی ہوئی۔

۱۴ فروری ۱۸۶۶ء کو مسٹر ولیمس کمشنر میرٹھ ڈِویژن کے ہاتھوں اِس کے افتتاح کی رسم ادا ہوئی (۶)۔

ہومیوپیتھی سوسائٹی کی بنیاد اور اسپتال کا قیام

ابھی تک سر سیّد یونانی طریقۂ علاج کے گِرویدہ تھے، لیکن ۱۸۶۷ء میں جب سر سیّد بنارس پہنچے تو اُن کو خیال پیدا ہوا کہ سب سے اچھا طریقۂ علاج ’’ہومیوپیتھی‘‘ ہے اور پھر وہ اِس کی اشاعت میں مصروف ہو گئے اور صرف مصروف ہی نہیں بلکہ اِس طریقۂ علاج کو تقویت دینے کی غرض سے ایک کمیٹی قائم کی اور ہندوستانیوں کو ہومیوپیتھی کی طرف مائل کرنا شروع کر دیا۔ اِس کمیٹی کے صدر مہاراجہ بنارس اور سکریٹری بہ نفسِ نفیس سر سیّد احمد خاں تھے اور یہی نہیں، بلکہ اُنہوں نے ۲۵ ستمبر ۱۸۶۷ء کو بنارس میں ہومیوپیتھی ڈسپینسری اینڈ ہاسپیٹل ( Homeopathic Dispensary & Hospital ) کے نام سے ایک شفا خانہ قائم کر دیا۔ اُنہوں نے اپنے تمام اثر و رسُوخ استعمال کر کے لوگوں کو اِس کی طرف متوجہ کیا اور دور دراز سے لوگوں کو بنارس بلانے کے لئے خط و کتابت شروع کر دی۔ اُنہوں نے اپنے تمام دوستوں کو بلا لیا جو کسی نہ کسی مزمن مرض (Chronic Disease ) میں مبتلا تھے، جس کے نتیجہ میں معمولی سے عرصہ میں اُس کا چرچا چاروں طرف ہونے لگا۔ پھر اخبار ’پایونیر‘ (Pioneer ) کے شمارہ ۴ دسمبر ۱۸۶۷ء میں اِس شفا خانہ کے متعلق رِپورٹ مندرجہ ذیل شائع ہوئی:۔

پہلے مہینہ میں ہی ۵۱۶ بیمار معالجہ کے لئے ہاسپیٹل آئے، حالانکہ اِس سے پہلے کوئی اِس طریقۂ علاج سے واقف نہ تھا۔

۱۷ دسمبر ۱۸۶۷ء کو سر سیّد نے ایک طویل لکچر ہومیو پیتھک طبابت کی تاریخ اور اُس کے اصول پر دیا۔ اِس علاج کو تمام طریقوں سے بے خطر بتاتے ہوئے جلسہ کو خطاب کیا اور سامعین کو ہومیوپیتھی کی طرف توجہ دِلائی۔

رِسالہ ہیضہ:

یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ ۱۸۶۷ء میں سر سیّد نے ہیضہ کے علاج پر ایک رِسالہ مرتب کیا جو ہومیوپیتھک اصول پر رقم کیا گیا تھا۔ خوش قسمتی سے یہ رِسالہ شائع بھی ہو چکا ہے۔۱۸۶۹ء میں سر سیّد نے کاؤنسل میں ’’قانون ٹیکہ‘‘ (Vaccination Law) پیش کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ ٹیکہ کا قاعدہ مختلف صوبے کے لوگوں اور فوجی چھاؤنیوں میں لازم قرار دیا جائے تاکہ امراضِ وَبائیہ پھیل نہ سکیں اور عوام النّاس محفوظ رہ سکیں۔ اِس میں خاص بات یہ تھی کہ ٹیکہ لگانے والے لوگوں کو عوام کے گھر جا کر اُن کے بچوں کو ٹیکہ لگانا ہو گا اور اُن کے ہمراہ کوئی سرکاری آدمی بھی ضروری ہو گا۔ یہ بِل اُس وقت تو پاس نہ ہو سکا لیکن اُسی مسودے میں جزوی ترمیم کے بعد ۱۸۷۹ء میں پاس ہو گیا۔

سر سیَّد کا سفرِ برطانیہ اور رِسالہ تہذیب الاخلاق کا اجراء

۱۸۶۹؁ء میں ہی سیّد احمد خاں ایک سال کے لئے انگلینڈ گئے اور وہاں قیام فرما کر بہت سی معلومات یکجا کیں۔ وہاں کے نظامِ تصنیف و تالیف، اِدارت، اخبار و رسائل علمی و سائنسی مجلّات کا مطالعہ اور اِس سلسلہ کی معلومات حاصل کیں اور واپس آنے پر رِسالہ ’تہذیب الاخلاق‘ نکالا۔ سیّد احمد خاں کو جو رفقائے کار ملے، اُنہوں نے سر سیّد کی قدر و منزلت اور اُن کی شہرت میں چار چاند لگا دئیے۔ اِن رفقاء نے سر سیّد کی تحریک کو آگے بڑھایا جن میں خاص طور پر خواجہ الطاف حسین حالیؔ، ڈِپٹی نذیر احمد، مولانا شبلی نعمانی، مولوی چراغ علی، محسن الملک مولوی مہدی علی اور وقار الملک بطورِ خاص قابلِ ذکر ہیں۔

سر سیَّد احمد خاں کو سی۔ایس۔آئی۔ CSI کا خطاب:

۶ اگست ۱۸۶۹ء؁ کو ہندوستان کے سابق گورنر جنرل اور وائسرائے لارڈ لارنس کی تحریک پر سر سیَّد احمد خاں کو سی۔ایس۔آئی۔ CSI کا خطاب ملا۔

سر سیّد ایک قومی، دینی اور علمی رہنما تو تھے ہی، وہ ایک طِبی قافلہ کے سالار بھی تھے اور طِبّی مناسبات کا ایک باب اُن کی شخصیت میں پوشیدہ تھا۔ اُنہوں نے قدم قدم پر اپنے طلباء، دوستوں اور ہم نواؤں کو اِس کی ہدایت کی۔ سر سیّد کے یہ کارنامے اُن کی بھاری بھرکم شخصیت میں چار چاند لگاتے ہیں (۱)۔

مدرسۃ العلوم علی گڑھ کا قیام

فروری ۱۸۷۳ء میں جو جلسہ صدر کمیٹی کا بنارس میں ہوا تھا اُس میں سید محمود نے یہ بھی تحریک کی تھی کہ بہت جلد ایک مدرسہ مقامِ مجوِّزہ (علی گڑھ)میں قائم کیا جائے چنانچہ ۳۱ اگست ۱۸۷۳ء کو علی گڑھ میں جو سب کمیٹی کا جلسہ ہوا۔ وہاں مولوی سمیع اللہ خاں سکریٹری سب کمیٹی اور سیّد محمود نے اپنی تقریروں میں مدرسہ ماتحت قائم کرنے کی دوبارہ تحریک کی پھر ۲۱ دسمبر۱۸۷۳ء کو علی گڑھ میں دوسرا جلسہ ہوا اور مولوی سمیع اللہ خاں نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ مدرسۃ العلوم کی مخالفت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے لہٰذا ایک ماتحت مدرسہ بطور نمونہ علی گڑھ میں قائم کیا جائے۔ اِس تجویز کو سب نے پسند کیا اور علی گڑھ میں مدرسہ کا جاری ہونا منظور ہو گیا اور ۲۴ مئی ۱۸۷۵ء کو جو کہ ملکۂ معظّمہ وِکٹوریہ (Victoria )کی سالگرہ کا دِن تھا، مدرسہ کے افتتاح کی تاریخ قرار پایا۔

تہذیب الاخلاق کی اِشاعت اور مدارسِ اسلامیہ کا قیام

جوں جوں تہذیب الاخلاق ’’مدرسۃ العلوم‘‘ کی طرف لوگوں کو بلاتا تھا اور جس قدر انگریزی تعلیم کی ضرورتیں اُن کے ذہن نشین کراتا تھا اُسی قدر مدارس اسلامیہ قائم کرنے کا جوش مسلمانوں میں بڑھتا جاتا تھا۔ چنانچہ اِس کی تحریک سے ہندوستان میں بے شمار مدارس قائم ہوئے (حیاتِ جاوید صفحہ ۳۴۹)۔

علی گڑھ میں تعلیم کا آغاز اور مدرسۃ العلوم کا افتتاح

کالج میں اوّلاً دو ڈِپارٹمنٹ قائم کئے گئے تھے۔ ایک انگریزی ڈِپارٹمنٹ جس میں یونیورسٹی کا کورس پڑھایا جاتا تھا، دوسرا اوریئنٹل ڈِپارٹمنٹ جس کی پڑھائی مقرر کرنی کمیٹی کے اختیار میں تھی، اُردو میں علومِ جدیدہ اور فارسی و عربی ادب اور علوم قدیمہ پڑھائے جانے قرار پائے تھے اور انگریزی کے لئے بطور ثانوی زبان (Second Language ) صرف ایک گھنٹہ مقرر کیا گیا تھا (حیاتِ جاوید صفحہ ۲۱۱)۔

کالج کلاس قائم کرنا

۲۴ مئی ۱۸۷۵ء کو ابتدائی مدرسہ علی گڑھ میں کھولا گیا اور یکم جنوری ۱۸۷۸ء کو کالج کلاس قائم ہو گئی جس کے پہلے ہیڈ ماسٹر (پرنسپل ) H.G.I.Siddon تھے۔ نیز اِس سال محمڈن کالج فرسٹ آرٹس کے امتحان تک اور ۱۸۸۱ء میں بی۔اے۔ اور ایم۔اے۔ کے امتحان تک اور ۱۸۸۳ء سے قانون کے امتحان میں کلکتہ یونیورسٹی کے ساتھ اِسی طرح سائنس اور آرٹس کی اعلیٰ تعلیم میں اور نیز قانونی تعلیم میں اِلٰہ آباد یونیورسٹی کے ساتھ ملحق (Affiliate ) ہو گیا (۶)۔

جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا جا چکا ہے کہ سر سیّد کا طِب و معالجہ سے گہرا تعلق تھا اور اِس کی ترویج کی فکر کا اندازہ اِس سے بھی ہوتا ہے جو نواب محسن الملک کی تحریر میں موجود ہے۔ ۱۸۸۰ء میں سر سیّد نے ایک مقالہ لکھا تھا، جس میں محمڈن کالج کے طلباء و فارِغین کا (جو سرکاری ملازمتوں میں آ چکے تھے یا مستقبل قریب میں اُن کو تقرری ملنی تھی) ایک اجمالی خاکہ پیش کیا ہے۔ اِس میں مختلف عہدوں کے ساتھ ہی تحریر فرماتے ہیں کہ :

’’ہمارے کالج سے ایک سِوِل سرجن، ۴ ڈاکٹری کے لئے وِلایت میں تعلیم پا رہے ہیں اور ۵ ڈاکٹر ی کے لئے لاہور میں تعلیم پا رہے ہیں۔‘‘

اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ فنِّ طِب و معالجہ کو اُنہوں نے بے انتہا اہمیت دی اور یہی وجہ ہے کہ اِس معمولی سے عرصہ میں اُنہوں نے اپنے یہاں کے دس طلباء کو اِس فن کے سیکھنے کے لئے منتخب کیا اور اِس پر اُن کو فخر بھی تھا۔ دیگر لوگوں میں وکلاء، مُنصِفین اور فوجی افسران شامل ہیں۔

مدرسۃ العلوم کے قیام اور اُس کے محمڈن کالج کی شکل میں آ جانے اور اُس وقت کے حالات بتاتے ہیں کہ سر سیّد نے طِبِّی نقطۂ نگاہ کو سامنے رکھ کر طلباء کی صحت و تندرستی کے لئے ہر وہ شی لازم قرار دی تھی جو کسی بھی ناحیہ سے مفید ہو سکتی تھی۔ جس میں رِیاضتِ جسمانی کو خاص طور پر تفوق حاصل تھا۔ سر سیّد ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’’ریاضتِ جسمانی کا سامان محمڈن کالج میں ہندوستان کے تمام کالجوں سے زیادہ مہیا کیا گیا ہے تاکہ جو لوگ یہاں سے نکلیں وہ سُستی اور کاہلی کے بجائے مستعدی اور جفا کشی کی مثال ہوں۔ سُستی، کاہلی، چِڑچِڑا پن اور آرام طلبی کے بجائے وہ سختیوں کو جھیلنے کے عادی بن جائیں۔ اِنہی اغراض کے لئے محمڈن کالج میں ریاضتِ جسمانی پر زور دیا گیا ہے۔ ایک حکیم کا قول ہے کہ ’’قومی قوت صحت پر منحصر ہے۔‘‘ اور چونکہ صحت بغیر ریاضتِ جسمانی کے قائم نہیں ہو سکتی۔ اِس لئے یہ کہنا چاہیے کہ قومی قوت ریاضتِ جسمانی پر منحصر ہے۔ سر سیّد کا معالجانہ ذوق اور فنِّی دِلچسپی ۱۸۶۰ء کے قحط کے زمانے میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ جب وہ مراد آباد میں صدر الصدور تھے۔ اُس زمانہ میں جگہ جگہ محتاج خانے کھول دئیے گئے تھے، جن میں ہزاروں لوگوں کو مفت کھانا تقسیم کیا جاتا تھا۔سر سیّد صبح و شام، دونوں وقت محتاج خانے جاتے اور جن کی حالت آنکھ سے نہ دیکھی جاتی، جن کے دست جاری ہوتے تھے اور کپڑے بول و براز میں لت پت ہوتے تھے، اُن کو سر سیّد اپنی گود میں اُٹھا کر دوسری صاف جگہ لٹا دیتے اور پھر کپڑے بدلواتے تھے۔ سر منڈواتے، ہاتھ منھ دھلواتے اور خود اپنے ہاتھوں سے دوا پلواتے تھے۔

سر سیّد احمد خاں کی وفات

جولائی ۱۸۹۵ء میں سر سیّد احمد خاں کو محمڈن کالج کی طرف سے ایک ایسا دَھچکا لگا جس کا صدمہ وہ آخیر دم تک فراموش نہ کر سکے۔ ایک شخص شیام بہاری لال جون ۱۸۸۳ء سے کالج کے آفس میں ہیڈ کلرک تھا اور علی گڑھ کے ایک ممتاز کایستھ خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ سر سیّد نے اُس کو ایک اشراف خاندان کا سمجھ کر اپنے دفتر میں رکھ لیا تھا اور اِس مروّت میں اُس پر اعتماد کرتے ہوئے کام کا موقع دیا لیکن اُس نے سر سیّد کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی اور کالج کی مالیات میں ایک بڑا غبن کر لیا جس کی رقم ۴۰۹،۰۵،۱روپے تھے۔ جب سر سیّد کو علم ہوا تو اُن کو اِتنا صدمہ پہنچا کہ اُن کو چُپ لگ گئی اور بالکل ساکت و صامت رہنے لگے اور مسلسل بیمار رہنے لگے۔غبن کے اِس حادثہ کے بعد کالج کا روپیہ شہر میں لالہ سری رام کی تحویل میں رہنے لگا۔ اگر چہ غبن کے واقعہ سے سر سیّد کی طبیعت مکدّر ہو گئی لیکن اُس کے تدارک کی فکر سے کبھی غافل نہ رہے اور باوجود ایسی تلخ حالت کے کبھی کسی نے اِس کوہ وقار شخص کی زبان سے کوئی شکایت یا افسوس کا کلمہ نہیں سنا۔انتقال کے ڈیڑھ دو ماہ پہلے اُن کو چُپ لگ گئی، بولتے بہت کم تھے۔ ۲۴ مارچ ۱۸۹۸ء کو احتباسِ بول کا عارضہ ہوا، سِوِل سرجن علی گڑھ بڑی توجہ سے علاج کرنے لگے۔میرٹھ کے مشہور میڈیکل آفیسر ڈاکٹر موریاٹی سے بھی مشورہ کیا گیا۔ ۲۶ مارچ کی شام کو علاماتِ رُدیّہ ظاہر ہونے لگیں۔ ۲۷ مارچ کی صبح سے نہایت سخت دردِ سر لاحق ہوا، شام کو شدید لرزہ کے ساتھ بخار چڑھا۔ غرض اِن ہی شدائد و سکرات سے جوجھتے ہوئے رات کے دس بجے حاجی اسمٰعیل خاں کی کوٹھی میں جہاں انتقال سے دس بارہ روز پہلے حالتِ صحت میں وہ سیّد محمود کی کوٹھی سے اُٹھ آئے تھے، حَسْبِی اللّٰہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْل کا وِرد کرتے ہوئے جانِ جاں آفریں کے سپُرد کر دی۔ اِنَّا للّٰہِ وَاِنَّا اِلِیْہِ رَاجْعُونَ۔ دوسرے دِن ساڑھے پانچ بجے مغفور و مرحوم کا جنازہ اُٹھا اور مغرِب سے کچھ قبل مسجد مدرسۃ العلوم (موجودہ یونیورسٹی جامع مسجد) کے شمالی پہلو پر احاطہ کے اندر سپُردِ خاک کیا گیا۔نمازِ جنازہ کرکٹ گراؤنڈ پر اُس وقت کے ناظم دینیات مولانا عبد اللہ انصاری نے پڑھائی۔

مادۂ تاریخ وفات

اگر چہ سر سیّد کی بے شمار تاریخیں لکھی گئی ہیں لیکن دو۲ عربی مادّے عجیب و غریب نکلے : ایک غُفِرَ لَہٗ اور دوسری قرآن حکیم کی آیت : اِنّی رافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَہِّرُکَ۔

سر سیّد کی تصنیفات و تالیفات

پہلا حصہ

سر سیّد کی تصنیفات تین قسموں کی ہیں : ۱۔ مذہبی کتب، ۲۔ تاریخی کتب

۳۔ علمی کتب۔

پہلے حصے میں مندرجۂ ذیل کتابیں ہیں :

۱۔ جلاء القلوب بذکر المحجوب مؤلِّفہ ۱۲۵۰ھ۔

۲۔ تحفۂ حَسَن مؤلِّفہ ۱۲۶۰ھ۔

یہ تحفۂ اثنا عشریہ کے بابِ دہم و دوازدہم کا ترجمہ ہے۔

۳۔ کلمۃ الحق مؤلِّفہ ۱۲۶۶ھ۔

۴۔ راہِ سُنَّت در ردِّ بدعت ۱۲۶۷ھ

۵۔ ’نمیقہ در بیان مسئلہ تصوُّر شیخ ۱۲۶۹ھ۔

۶۔ آغازِ کیمیائے سعادت کے چند اوراق کا ترجمہ ۱۲۷۰ھ۔

۷۔ تبیین الکلام فی تفسیر التوراۃ و الانجیل علی مِلۃ الاسلام مُرتّبہ ۱۲۷۰ھ

۸۔ رِسالہ طعام اہلِ کتاب مُرتّبہ ۱۲۸۵ھ۔

۹۔ خطبات احمدیہ مُرتّبہ ۱۲۸۷ھ۔

۱۰۔ تفسیر القرآن مطبوعہ ۱۲۹۶ھ تا ۱۳۹۰ھ۔

۱۱۔ النظر فی بعض مسائل الامام الغزالی ۱۲۹۰ھ۔

۱۲۔ رقیم فی قصۃ اصحاب الکہف و الرَّقیم ۱۳۰۷ھ۔

اِس میں اصحابِ کہف کے قصہ کی تفسیر بیان کی گئی ہے۔

۱۳۔ اِزالۃ الغین عن ذی القرنین ۱۳۰۷ھ۔

یہ رِسالہ بھی درحقیقت تفسیر القرآن کا ایک جزو ہے۔

۱۴۔ رِسالۂ ابطال غلامی مطبوعہ ۱۳۱۰ھ۔

۱۵۔ الدعاء ُ و الاستجابۃ مطبوعہ ۱۸۹۲ء۔

۱۶۔ تحریر فی اصول التفسیر مطبوعہ ۱۸۹۲ء۔

۱۷۔ تفسیر السمٰوٰت مطبوعہ ۱۳۱۵ھ۔

یہ رِسالہ اوّل تہذیب الاخلاق کے متعدد پرچوں میں بطور ایک آرٹِکل کے چھپ چکا تھا مگر ۱۳۱۵ھ میں سر سیّد نے اِس کو علاحدہ سے بطور ایک رِسالہ کے چھپوا دیا۔ اِس میں اُن آیات کی تفسیر جو بظاہر نظامِ بطلیموسی کے موافق معلوم ہوتی ہیں، آج کل کی تحقیقات کے مطابق کی ہے۔ خصوصاً سب سے اخیر کے تہذیب الاخلاق کی تینوں جلدیں زیادہ تر مذہبی مضامین سے بھری ہوئی ہیں جن کا مقصد تعلیم یافتہ نوجوان مسلمانوں کے اُن شکوک و شبہات کو زائل کرنا ہے جو انگریزی تعلیم سے اسلام کی نسبت اُن کے دِل میں پیدا ہونے ممکن ہیں۔

دوسرا حصہ

تاریخی کتابوں اور رِسالوں کا ہے۔ اِس حصہ میں مندرجۂ ذیل کتابیں شامل ہیں :

۱۸۔ جامِ جم مطبوعہ ۱۸۴۰ء۔

یہ ایک نقشہ ہے جس میں امیر تیمور صاحبقران سے لے کر ابو ظفر سراج الدین بہادر شاہ تک مختلف خاندانوں کے ۴۳ بادشاہوں کا حال جن کو سلطنت ہند سے تعلق تھا، مختصر طور پر سترہ سترہ خانوں میں بہ زبان فارسی قلم بند کیا ہے۔

۱۹۔ آثار الصَّنادید مطبوعہ ۱۸۴۰ء

۲۰۔ سلسلۃ الملوک مُرتّبہ ۱۸۵۲ء۔

۲۱۔ تاریخِ سرکشی ضلع بجنور ۱۸۵۸ء۔

۲۲۔ اسبابِ بغاوتِ ہندوستان مطبوعہ ۱۸۵۸ء۔

۲۳۔ ڈاکٹر ہنٹر کی کتاب پر ریویو مطبوعہ ۱۸۷۲ء واقع لندن۔

۲۴۔ ہندوستان کے طریقۂ تعلیم پر اعتراضات بہ زبانِ انگریزی مطبوعہ ۱۸۷۲ء واقع لندن۔

تیسرا حصہ

یہ حِصّہ علمی تصنیفات کا ہے جس میں مندرجہ ذیل رِسالے شامل ہیں :

۲۵۔ تسہیل فی جرالثقیل مؤلّفہ ۱۸۴۴ء۔

۲۶۔ فوائد الافکار فی اعمال الفرجار مؤلّفۂ ۱۸۴۶ء۔

۲۷۔ قول متین در ابطال حرکت زمین ۱۸۶۵ء۔

اِس رِسالے میں قدیم خیالات کے موافق زمین کی حرکت کو جس کا اب تمام یورپ قائل ہے، غلط ثابت کیا ہے لیکن اِس کے لکھنے کے بعد سر سیّد نے اپنی تحریرات میں جا بجا زمین کی حرکت کو تسلیم کیا ہے۔

۲۸۔ انتخاب الاخوین، قانون کی کتاب ہے، بزبان اُردو لکھی گئی ہے۔

فیصل جاتِ شرقی و غربی (۳ جلدیں ) از ۱۷۹۲؁ء تا ۱۸۴۶؁ء

بابِ دوم

مولانا محمد قاسم نانوتوی

(۱۸۳۲ء تا ۱۸۸۰ء)

تعارف

ٍ قاسم العلوم و الخیرات، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کا خاندان اصلاً سہارنپور کے قریب نانوتہ نامی قصبہ سے تعلق رکھتا ہے۔نانوتہ دیوبند سے بجانب مغرِب تقریباً ۲۵ کلو میٹر دور سہارنپور- شاہدرہ لائٹ ریلوے لائن پر واقع ہے، اِس کی وجہ تسمیہ کی نسبت تاریخِ سہارنپور میں لکھا ہے کہ یہ قصبہ ’نانو‘ نامی گوجر یا راجپوت کے نام پر موسوم ہے جو کثرتِ استعمال سے نانوتہ بن گیا۔ مولانا قاسم نے تیرھویں صدی ہجری کے اواخر میں دیوبند کی سکونت اختیار فرمائی۔ بعض حوالوں کے مطابق حضرت مولانا قاسم نانوتوی کے مورِثِ اعلیٰ قاضی مظہرالدین (وفات ۸۷۸؁ھ مطابق ۱۴۷۳؁ء) سلطان بہلول لودھی (۸۵۵؁ ھ مطابق ۱۴۵۱ء تا ۸۹۴؁ھ مطابق ۱۴۸۸ء) کے عہدِ حکومت میں خراسان سے ہندوستان آئے اور یہاں قضاء کے عہدے پر سرفراز ہوئے۔ اُن کے فرزند قاضی میراں ’’بڑے‘‘ بلند پایہ عالِم تھے، سلطان بہلول نے اُن کو جاگیر اور نانوتہ کا منصبِ قضا عطا کیا۔ عہدِ شاہجہاں (۱۰۳۷؁ھ مطابق ۱۶۲۷؁ء تا ۱۰۶۸؁ھ مطابق ۱۶۵۷ء) میں قاضی میراں ’’بڑے‘‘ کی اولاد میں ایک بزرگ مولوی محمد ہاشم ہوئے جو دربارِ شاہی میں مقرَّب تھے۔

تاریخِ وِلادت اور خاندانی پس منظر

اِس خاندان کا تفصیلی شجرہ مفتی محمود احمد نانوتوی کا مُرتِّب کردہ ’’نسب نامہ ‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے، اِس میں قاضی میراں بڑے کی نسبت مرقوم ہے کہ ’’اُن کے معارف علمیہ کی خبر پاکر ۸۶۴؁ھ مطابق ۱۴۵۹؁ء میں سلطان بہلول لودھی نے مراحمِ خسروانہ سے نوازتے ہوئے فرمانِ قضاء و جاگیر کے ساتھ نانوتہ کی قضاء و خطابت اِس تصریح کے ساتھ عطا فرمائی کہ قصبۂ مذکور میں متوطن ہو جائیں۔قاضی صاحب کا سالِ وِلادت ۸۰۵؁ھ مطابق ۱۳۰۲؁ء ہے اور آپ کی وفات ۹۰۲؁ھ مطابق ۱۴۹۶؁ء میں بہ عہدِ سلطان سکندر لودھی ہوئی۔

حضرت نانوتوی کا شجرۂ نسب اِس طور پر ہے:

مولانا محمد قاسم بن شیخ اسد علی بن غلام شاہ بن محمد بخش بن علاء الدین بن ابوالفتح بن محمد مفتی بن عبد السَّمیع بن مولوی محمد ہاشم بن شاہ محمد بن قاضی طٰحہ بن مفتی مبارک بن شیخ امان اللہ بن شیخ جمال الدین بن قاضی میراں بڑے، بن قاضی مظہرالدین بن نجم الدین ثانی بن نورالدین رابع بن قیام الدین بن ضیاء الدین بن نورالدین ثالث بن نجم الدین بن نورلدین ثانی بن رکن الدین بن رفیع الدین بن بہاء الدین بن شہاب الدین بن خواجہ یوسف بن خلیل بن صدر الدین بن رکن الدین السمر قندی بن صدرالدین الحاج بن اسمٰعیل شہید بن نورالدین القتال بن محمود بن بہاء الدین بن عبد اللہ بن زکریا بن نورالدین سراج بن شادی الصدیقی بن وحید الدین بن مسعود بن عبدالرَّزاق بن قاسم بن محمد بن سیّد نا ابوبکر صدیقؓ۔

اِس خاندان کے لوگوں کو وقتاً فوقتاً حکومت سے جاگیریں ملتی رہیں۔ شاہجہاں کے عہد (۱۶۲۷ء تا ۱۶۵۷ء)میں جیسا کہ اوپر گذر چکا ہے مولوی محمد ہاشم ایک جلیل القدر عالم گزرے ہیں، اُسی زمانہ میں حافظ غلام حسین بھی بڑی شخصیت کے مالک تھے، نسب نامہ میں لکھا ہے کہ اورنگ زیب کو جب دارا شکوہ کے مقابلے میں کامیابی ہوئی تو رمضان المبارک کی ۸ تاریخ تھی، اورنگ زیب نے کہا ’’طویل سفر اور جنگ کی وجہ سے تراویح اور ختم قرآن نہ ہو سکا، اگر ہمارے لشکر میں کوئی ایسا حافظ ہو جو آج شب میں پورا قرآن شریف سنا سکے تو پیش کیا جائے۔‘‘ اِس پر حافظ غلام حسین نے شبینہ میں قرآن سنا کر شاہزادے کی خوشنودی حاصل کی، حکم ہوا کہ کوئی ضرورت ہو تو عرض کرو، بتلایا گیا کہ نانوتہ میں وہاں کے مناسبِ حال جامع مسجد نہیں ہے، فوراً احکام جاری ہو گئے اور خوبصورت جامع مسجد مع کنویں کے تیار ہو گئی، اورنگ زیب نے یہ بھی حکم دیا تھا کہ جامع مسجد کے قریب حافظ غلام حسین کے لئے ایک حویلی بھی تعمیر کی جائے۔

اِس خانوادے کے اراکین علم و اِمارت کے ساتھ ساتھ دین داری اور اتباعِ شریعت کے اوصافِ حسنہ سے بھی متّصِف رہے ہیں۔

مولانا مفتی محمود احمد صاحب نے اِس خاندان کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ شروع سے آج تک علومِ شرعیہ کے ساتھ ساتھ طبابت وغیرہ فنون میں اِس خاندان کے لوگ با کمال رہے ہیں لیکن اِن علوم کو کبھی ذریعۂ معاش نہیں بنایا بلکہ حسبتہً للہ مخلوق کی خدمت انجام دیتے رہے۔ تصوُّف و طریقت سے غیر معمولی دلچسپی کے ساتھ مُروّجہ بدعات کے نام سے یہاں کے مشائخ (شیخ زادگان) کبھی آشنا نہیں ہوئے۔ یہاں بڑے بڑے اولیاء اللہ کے مزارات ہیں مگر عرس و روشنی کا نام نہیں ہے، زیارتِ قبور کا مسنون طریقہ ہی معمول رہا ہے، خرافات و بدعات سے کبھی دور کا تعلق بھی نہیں رہا، سوم اور چہلم وغیرہ کا رِواج بھی نہیں ہے، بس ساری دوڑ ختم قرآن کی ہے، مُروّجہ مجالِسِ میلاد سے بھی شیخ زاد گان بالکل الگ تھلک رہے مگر سُنَّت سے بہت زیادہ دلچسپی رہی ہے۔

اپنے علم و فضل اور صلاح و تقویٰ کے لحاظ سے صدیقی شیوخ کا یہ خاندان ممتاز حیثیت کا مالک رہا ہے، استاذ الاساتذہ مولانا مملوک علی کا تعلق بھی اِسی خاندان سے ہے، جنہوں نے دہلی میں مولانا رشید الدین خاں سے تحصیلِ علم کی تھی اور پھر دہلی کالج میں شعبۂ عربی کے صدر مدرِّس مقرر ہو گئے تھے، اُن کے فیضِ تعلیم و تربیت سے نانوتہ میں علماء کی ایک بڑی جماعت تیار ہو گئی، جس کا ہر فردآسمانِ علم و فضل کا درخشندہ ستارہ کہے جانے کا بجا طور پر مستحق ہے، اِس جماعت میں حضرت مولانا محمد قاسمؒ حضرت مولانا محمد یعقوبؒ، مولانا محمد مظہرؒ اور مولانا محمد منیرؒ خاص طور پر مشہور و معروف ہوئے۔ قاضی میراں ’’بڑے‘‘ کی چودھویں پشت میں شیخ اسد علی نامی بزرگ تھے، جن کے نامور فرزند حضرت مولانا محمد قاسم ہوئے۔ سالِ وِلادت ۱۲۴۸؁ھ مطابق ۱۸۳۲؁ء ہے اور آپ کا تاریخی نام خورشید حسین ہے۔

تعلیم کا آغاز

حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی تعلیم کا آغاز اُن کے وطن نانوتہ میں ہی ہوا۔ قرآن شریف اور بعض ابتدائی کتب کی تعلیم کے بعد اُن کو دیوبند بھیج دیا گیا، یہاں کچھ دِنوں مولوی مہتاب علی کے مکتب میں پڑھا، پھر اپنے نانا کے پاس سہارنپور چلے گئے جو وہاں کے وکیل تھے۔ سہارنپور میں مولوی محمد نواز سے عربی اور صرف و نحو کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔۱۲۵۹؁ھ مطابق ۱۸۴۳؁ء کے آخر میں حضرت مولانا مملوک علی نانوتوی اپنے ہمراہ دہلی لے گئے، وہاں کافیہ شروع کیا، اور بعد ازاں اُنہیں دِلّی کالج میں داخل کرایا گیا، مگر حضرت نانوتوی نے سالانہ امتحان میں شرکت نہیں کی۔ مولانا محمد یعقوب نانوتوی لکھتے ہیں :

’’والد مرحوم نے مولوی صاحب کو مدرسہ عربی سرکاری میں داخل کیا اور فرمایا کہ تم اقلیدس خود دیکھ لو اور قواعد حساب کی مشق کر لو۔ چند روز میں چرچا ہوا کہ مولوی صاحب سب معمولی مقالے دیکھ چکے ہیں اور حساب پورا کر لیا ہے، منشی ذکا ء اللہ صاحب چند سوالات لائے، وہ نہایت مشکل تھے۔ اُن کے حل کر لینے سے مولانا کی نہایت شہرت ہوئی، جب امتحان سالانہ کے دِن آئے، مولوی صاحب امتحان میں شریک نہ ہوئے اور مدرسہ چھوڑ دیا تھا۔ سب اہلِ مدرسہ کو علی الخصوص ہیڈ ماسٹر صاحب کو،کہ مُدرِّسِ اوّل انگریزی تھے، نہایت افسوس ہوا۔‘‘

’’لوگوں کو خیال تھا کہ جناب مولوی محمد اسحٰق صاحب کے بعد کوئی شخص اُن کی مثل اِن تمام صفات میں پیدا ہونے والا نہیں ہے مگر مولوی محمد قاسم صاحب مرحوم نے اپنی کمال نیکی اور دینداری اور تقویٰ اور ورع اور مسکینی سے ثابت کر دیا کہ مولوی محمد اسحٰق صاحب کی مثل اور شخص کو بھی خدا نے پیدا کیا ہے، بلکہ چند باتوں مین اُن سے زیادہ تفوّق حاصل ہے۔ بہت سے لوگ زندہ ہیں، جنہوں نے مولوی محمد قاسم صاحب کو نہایت کم عمر میں دِلّی میں تعلیم پاتے دیکھا ہے، ابتداء ہی سے آثار ورع و تقویٰ اور نیک بختی اور خدا پرستی اُن کے اوضاع و اطوار سے نمایاں تھے، بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ :

بالائے سرش زہوش مندی

می تافت ستارۂ بلندی

زمانۂ تحصیلِ علم میں جیسے کہ وہ ذہانت اور عالی دماغی اور فہم و فراست میں معروف و مشہور تھے، ویسے ہی نیکی اور خدا پرستی میں بھی زبان زد اہلِ فضل و کمال تھے، اُس زمانہ میں سب لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ مولوی محمد قاسم اِس دنیا میں بے مثل تھے، اُن کا پایہ اُس زمانہ میں شاید معلوماتِ علمی میں شاہ عبد العزیزؒ سے کچھ کم ہو، اِلّا اور تمام باتوں میں اُن سے بڑھ کر تھا۔ مسکینی اور نیکی اور سادہ مزاجی میں اگر اُن کا پایہ مولوی محمد اسحٰق سے بڑھ کر نہ تھا تو کم بھی نہ تھا، در حقیقت فرشتہ سیرت اور ملکوتی خصلت کے مالک تھے۔

تحصیلِ علم سے فراغت کے بعد مولانا محمد قاسم نانوتوی نے ذریعۂ معاش کے لئے مولانا احمد علی محدِّث سہارنپوری کے مطبع احمدی دہلی میں تصحیح کتب کا کام اختیار فرمایا، اور آخر تک یہی ذریعۂ معاش رہا۔تصحیح کتب کے ساتھ ساتھ درس و تدریس کا سلسلہ بھی ہمیشہ جاری رہا۔ صحاح ستَّہ کے علاوہ مثنوی مولانا رومؒ اور دوسری کتابیں بھی پڑھاتے مگر درس کسی مدرسہ کے بجائے بالعموم مطابع کی چہاردیواری، مسجد اور مکان پر ہوتا تھا جہاں صرف خاص تلامذہ زانوئے تلمذ طے کرتے تھے، اُن کے فیض تعلیم سے شیخ الہند مولانا محمود حسن دیو بندیؒ، مولانا احمد حسین امروہویؒ اور مولانا فخر الحسن گنگوہی ؒ جیسے با کمال اور نامور علماء کی جماعت پیدا ہوئی۔

مولانا نانوتویؒ نے مطبع احمدی دہلی سے تعلق کے زمانہ میں صحیح بخاری کی تصحیح کے ساتھ آخر کے چند سیپاروں کا حاشیہ بھی تحریر فرمایا۔

مولانا محمد یعقوب نانوتوی لکھتے ہیں :

’’جناب مولوی احمد علی صاحب سہارنپوری نے تحشیہ اور تصحیح بخاری شریف جس کے پانچ چھہ سیپارے آخر کے باقی تھے، مولوی صاحب کے سپرد کیا۔ مولوی صاحب نے اِس کو ایسا لکھا ہے کہ اب دیکھنے والے دیکھیں کہ اِس سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے۔ اُس زمانہ میں بعض لوگوں نے جو کہ مولوی صاحب کے کمال سے آگاہ نہ تھے، جناب مولوی احمد علی صاحب کو بطور اعتراض کہا تھا کہ’’ آپ نے یہ کیا کام کیا؟‘‘آخر کتاب کو ایک نئے آدمی کے سپرد کیا۔ اِس پر مولوی احمد علی صاحب نے فرمایا تھا کہ میں ایسا نادان نہیں ہوں کہ بلا سمجھے بوجھے ایسا کروں اور پھر مولوی صاحب کا تحشیہ (حاشیہ)دِکھلایا، جب لوگوں نے جانا اور وہ جگہ بخاری میں سب جگہ سے مشکل ہے، علی الخصوص تائیدِ مذہبِ حنفیہ کا دِل سے التزام ہے اور اُس جگہ پر اِمام بخاری نے اعتراض مذہبِ حنفیہ پر کئے ہیں اور اُن کے جواب لکھنے معلوم ہے کہ کتنے مشکل ہیں، اب جس کا جی چاہے اُس جگہ کو دیکھ لے اور سمجھ لے کہ کیسا حاشیہ لکھا ہے اور اِس حاشیہ میں یہ بھی التزام تھا کہ کوئی بات بے سند کتاب کے محض اپنے فہم سے نہ لکھی جائے۔ (۲)

درسِ حدیث میں حنفیہ کا طرزِ تنقیح

درسِ حدیث میں حنفیہ کے اثبات و ترجیح اور تنقیحات و تشریحات کا جو انداز دارالعلوم دیوبند اور دوسرے بہت سے مدارِس میں جاری ہے۔ اس کی ابتداء حضرت نانوتوی ہی سے ہوتی ہے۔ اُن سے پہلے درسِ حدیث میں محض حدیث کا ترجمہ اور الگ الگ مذاہب بیان کر دینا کافی سمجھے جاتے تھے، حنفیہ کے اثبات و ترجیح کا طریقہ مروّج نہ تھا۔

حضرت نانوتوی کے بعد اُن کے تلامذہ میں حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ وغیرہ حضرات نے اِس طریقہ کو جاری رکھا، مولانا نانوتویؒ کی ذہانت و ذکاوت، بالغ نظری اور قوتِ استدلال کے متعلق مولانا حکیم منصور علی خاں مرادآباد ی جو حضرت نانوتوی کے شاگرد تھے، اپنی تصنیف مذہبِ منصور میں لکھتے ہیں :

’’یہ حقیقت ہے کہ حضرت نانوتوی جب کسی اہم اور مشکل مسئلہ کو جمہور کے تصوُّرات کے خلاف ثابت کرتے تھے تو اہلِ عِلم حیران رہ جاتے تھے، جو حکم ظاہر میں قطعاً بے دلیل و برہان معلوم ہوتا، وہ تقریر کے بعد عقل کے مطابق معلوم ہونے لگتا تھا۔ آپ کے پیش کردہ دلائل کے خلاف بڑے بڑے اربابِ علم و فضل کو لب کشائی کی جرات نہ ہوتی تھی۔‘‘

اِشاعتِ دین اور غیر مسلِموں سے مناظرے

ہندوستان میں انگریزی اقتدار کے دوش بدوش عیسائیت نے بھی بڑا فروغ حاصل کیا اور ہر ممکن صورت سے ہندوستان کے لوگوں خصوصاً مسلمانوں کو عیسائی بنانے کی کوشش کی گئی۔ اِسی کے ساتھ انگریزوں نے ایک خطرناک سازش یہ کی کہ ہندوؤں کو مسلمانوں کے مقابلے میں مناظرے کے لئے لا کھڑا کیا، مولانا نانوتویؒ نے نہایت ہمّت و جرات سے کام لے کر اِس سازش کو ناکام بنا دینے کی زبردست خدمت انجام دی۔ چاندپور ضلع شاہجہاں پور میں ۱۲۹۳؁ھ مطابق ۱۸۷۶؁ء میں خدا شناسی کے نام سے بڑے پیمانے پر ایک میلہ لگایا گیا، جس میں عیسائی، ہندو اور مسلمان تینوں مذہب کے نمائندوں کو بذریعۂ اشتہارات دعوت دی گئی کہ وہ اپنے اپنے مذاہب کی حقّانیت کو ثابت کریں، حضرت نانوتوی اپنے چند تلامذہ کے ساتھ شریکِ جلسہ ہوئے اور ابطالِ تثلیت و شرک اور اثباتِ توحید میں ایسی معرکۃ الآراء تقریر فرمائی کہ حاضرینِ جلسہ موافق و مخالف سب مان گئے۔

دوسرے سال ۱۲۹۴؁ھ مطابق ۱۸۷۷؁ء میں پھر یہ میلہ منعقد ہوا، مولانا نانوتوی نے اِس مرتبہ بھی ایسی زبردست تقریر فرمائی کہ کسی سے اُس کا جواب بن نہ آیا۔

جنگِ آزادی کی تحریک

۱۸۵۷؁ء کی جنگِ آزادی میں حضرت نانوتوی نے مردانہ وار حصہ لیا، مگر اُس وقت کے بگڑے ہوئے سیاسی حالات کے باعث کامیابی سے ہم کنار ہونے کا موقع میسّر نہ آ سکا۔

جنگِ آزادی کی تحریک سے وابستہ ہونے کی وجہ سے انگریزی سرکار کی آپ پر ہمیشہ نظر رہتی۔ ایک دفعہ کا واقعہ ہے جب کہ آپ کی گرفتاری کا وارنٹ آ چکا تھا، آپ اُس وقت مسجد میں موجود تھے۔ ایک انگریز سپاہی آیا اور آپ سے ہی دریافت کیا کہ مولوی قاسم کہاں ہیں ؟ آپ نے بڑی تیزی سے چند قدم پیچھے ہٹ کر فرمایا کہ مولوی قاسم ابھی یہیں تو تھے، انگریز افسر نے سمجھا کہ وہ اب یہاں سے جا چکے ہیں۔ وہ فوراً مسجد سے باہر حضرت کی تلاش میں چلا گیا اور حضرت نانوتوی اپنے حسنِ تدبیر سے انگریز کی اِس اُفتاد سے بچ گئے اور اُن کی گرفتاری ٹل گئی۔

حضرت کے مزاج میں استغنا اور عجز و انکسار اِس درجے تھا کہ علماء کی مخصوص وضع جُبَّہ و دستار وغیرہ کا کبھی استعمال نہیں کیا، تعظیم سے بہت گھبراتے تھے، فرمایا کرتے کہ ’’علم نے خراب کیا ورنہ اپنی وضع کو ایسی خاک میں ملاتا کہ کوئی بھی نہ جانتا۔‘‘

جن امور میں نمایاں ہونے کا موقع ہوتا اُس سے عموماً گھبراتے تھے۔ ۱۲۷۷؁ھ مطابق ۱۸۶۰؁ء میں حجِّ بیت اللہ کے لئے حجاز تشریف لے گئے، حج سے واپسی کے بعد مطبع مجتبائی میرٹھ میں تصحیح کتب کے سلسلہ میں ملازمت کر لی۔ ۱۲۸۵؁ھ مطابق ۱۸۶۸؁ء تک اِس مطبع سے وابستہ رہے، اُسی زمانہ میں دوسری مرتبہ حج کے لئے جانا ہوا، واپسی کے بعد مطبع ہاشمی میرٹھ سے تعلق قائم ہو گیا، درس و تدریس کا مشغلہ اگر چہ ہمیشہ جاری رہا مگر کسی مدرسے کی ملازمت کبھی پسند نہیں کی۔

مولانا محمد قاسم نانوتوی کی زاہدانہ زندگی

یہ سب کو معلوم ہے کہ مدرسہ اسلامی دیوبند آپ ہی کا ساختہ پرداختہ تھا مگر ہرگز اُس کی کسی چیز سے آپ نے نفع نہیں اُٹھایا، اوائل میں اہلِ شوریٰ نے بھی درخواست کی کہ آپ بھی اِس مدرسے کی مدرّسی قبول فرمائیے اور اُس کے عوض کسی قدر تنخواہ لیجئے مگر قبول نہ فرمایا اور کبھی کسی طور سے ایک حبّہ تک کے مدرسہ سے روادار نہ ہوئے، حالانکہ رات دِن مدرسے کی خوش اسلوبی میں اور اُس کی تعمیر و ترقی اور اُس کی فلاح و بہبود میں مصروف رہتے اور تعلیم میں مشغول، اگر کبھی بضرورت مدرسہ کے قلم دوات سے اپنا کوئی خط لکھ لیتے تو فوراً ایک آنہ مدرسے کے خزانے میں داخل کردیتے کہ مدرسہ کا آپ پر کوئی ذمّہ و احسان نہ رہ جائے۔‘‘

دارالعلوم دیوبند کا قیام اور اُس کا پس منظر

۱۸۵۷؁ء کی پہلی جنگِ آزادی کے بعد جب مسلمانوں کی حالت بہت ابتر ہو گئی، نہ اُن کا کوئی راہ بر تھا، نہ منزل اُس وقت مسلمانوں نے جدید تعلیم کا مقاطعہ کیا اور اِسلامی و قدیم تعلیم کے معقول بندوبست کا بیڑا اُٹھایا، ہندوستان کے بے سہارا مسلمانوں کے ذہن و ایمان کو بچانے کی کوششیں کی گئیں۔ برِّ صغیر میں مسلم سلطنتوں کے زوال کے بعد چھوٹے بڑے بہت سے علمی اِدارے اور تدریسی مراکز قائم ہوئے جن میں اِسلامی و عربی علوم کی ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک کا نظم رکھا گیا۔ ان اِداروں نے ایک تحریک کی شکل اختیار کر لی جن کا کام تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ برطانوی سامراج کے استبداد ی پنجوں کو مروڑنا تھا اور اُسی کے ساتھ اہلِ ملک میں علمی، سیاسی اور تعلیمی تحریکات کو مؤثر بنانا مقصود تھا، اِن تحریکوں کے ذریعہ نہ صرف مِلّی تشخُّص اور علمی ورثہ کا تحفُّظ ہوا بلکہ دینی علوم کے ارتقاء اور مسلمانوں کی نشاۃِ ثانیہ میں بھی نمایاں کامیابی ملی۔ دارالعلوم دیوبند اِسی نوعیت کی ایک دینی درسگاہ اور ہندوستانی مسلمانوں میں علمی، ادبی، سیاسی اور علمی ترقیاتی فکر کا نقطۂ آغاز تھا، یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے سیاسی و سماجی اور علمی و معاشرتی اُفق پر اِس کے نمایاں اثرات آج تک مُرتَّب ہوتے چلے آرہے ہیں۔

دارالعلوم دیوبند کے فارغین آج ملک اور بیرونِ ملک کے گوشہ گوشہ میں موجود ہیں اور علمی دینی اور اصلاحی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اِن ہی نتائج کی توقع کی بناء پر اور اِسی مرکزِ فکر کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی اور اُن کے رفقا ء کار مولانا ذوالفقار علی، مولانا فضل الرَّحمٰن اور حاجی سیّد محمد عابد رحمہم اللہ نے یہ طے کیا کہ دیوبند میں اِس دینی درس گاہ کا قیام عمل میں لایا جائے، چنانچہ مدرسہ اسلامی عربی دیوبند کا قیام ۱۸۶۶؁ء میں اِسی لائحۂ عمل کے تحت شرمندۂ تعبیر ہوا۔

مدرسہ کا قیام

۱۵ محرّم الحرام ۱۲۸۳؁ھ مطابق ۱۸۶۶؁ء میں اِن علماء کی تحریک پر دیوبند میں جو مدرسہ قائم، کیا گیا اُس کا مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کو مغربی تہذیب کے سیلاب سے بچانا اور اسلامی قدروں کا تحفُّظ کرنا تھا۔ ابتداء میں یہ مدرسہ دیوبند کی ایک چھوٹی سی مسجد میں شروع ہوا جو ’’مسجد چھتہّ ‘‘کے نام سے مشہور ہے(دیوبند میں جب مولانا محمد قاسم نانوتوی کی تشریف آوری ہوتی تو اِسی مسجد میں آپ کا قیام رہتا)۔(۲)

جب طلباء کی تعداد میں دِن بہ دِن اِضافہ ہوتا گیا اور مسجد کی جگہ ناکافی محسوس ہونے لگی اور دوسری عمارت کی ضرورت پڑی تو اِس کا انتظام کیا گیا جس کا سنگِ بنیاد مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے رکھا۔رفتہ رفتہ طلباء کی تعداد بھی میں اِضافہ ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ چند ہی سالوں میں دیوبند نے اسلامی علوم و فنون کے ایک عظیم مرکز کی شکل اختیار کر لی اور دارالعلوم پورے ملک و بیرونِ ملک میں معروف ہو گیا۔

دارالعلوم دیوبند کے بزرگوں نے برِّصغیر میں ملَّت کی دینی اور اجتماعی زندگی کی بقاء اور تحفُّظ کے لئے کتاب اللہ کی مشعل روشن کی اور تفسیر و حدیث و فقہ اور دیگر اِسلامی علوم و فنون اور عقائد و اعمال کے ذریعہ ایک ایسا مضبوط دفاعی حصار تیار کیا جس نے مسلمانوں کو روحانی اور علمی شکست سے بچانے کے ساتھ ساتھ سیاسی استحکام پیدا کرنے میں بھی اہم کارنامہ انجام دیا۔

دارالعلوم دیوبند کی علمی خدمات

اگر دارالعلوم کی گزشتہ صد سالہ علمی، دینی، مِلّی اور سیاسی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ اچھی طرح واضح ہو گا کہ اکابر علماء دیوبند نے کس طرح کتاب و سنَّت کی حفاظت کا اہم ترین فریضہ ادا کیا، علماء دارالعلوم دیوبند نے اُس دور میں جو عظیم الشَّان خدمات انجام دی ہیں وہ بلا شبہ اپنی مثال آپ ہیں۔ بقول حضرت مولانا سیّد محمد میاں صاحب :

’’در حقیقت اِن مدارسِ عربیہ کا قیام مسلمانوں کے لئے نعمتِ عظمیٰ ثابت ہوا۔اِسلامی تہذیب و معاشرت کے جو کچھ آثار آج ہندوستان میں نظر آرہے ہیں، وہ اِنہی مدارس کی برکت ہیں، عِلمِ دین اور پابندی شریعت کی وہ روشنی جو دوسرے آزاد ممالک کو ابھی تک نصیب نہیں ہوئی۔ ہندوستان کو یہ امتیازی شان صرف اِنہی مدارِس کے ذریعے سے حاصل ہوئی ہے اور جب تک اِن مدارِس کا نظام ہندوستان میں آزادانہ طور پر باقی ہے،شمعِ علم کی ضیا پاشیوں کو کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔‘‘

ازہرِ ہند دارالعلوم دیوبند نے اپنے فرزندوں کو صرف برِّصغیر ہی میں نہیں بلکہ تمام ایشیائی، افریقی اور یوروپی ممالک تک پہنچا دیا جنہوں نے اُن ممالک میں نمایاں دینی اور ادبی خدمات انجام دے کر نہ صرف دیوبند اور مسلکِ دیوبند، بلکہ پورے ہندوستان کا نام روشن کیا ہے۔چنانچہ جامعۃ الازھر (مصر) کے مشہور عالِم سیّد رشید رضا مصری جب ہندوستان کے دورہ پر آئے تو دارالعلوم دیو بند میں بطور خاص حاضری دی اور اپنے عقیدت مندانہ خیالات کا اظہار اِس والہانہ انداز سے فرمایا:

’’اگر ہندوستان کے علماء کی توجہ اس زمانہ میں عِلم حدیث کی طرف مبذول نہ ہوتی تو مشرقی ممالک سے یہ علم ختم ہو چکا ہو تا کیونکہ مصر، شام، عراق اور حجاز میں دسویں صدی ہجری سے چودھویں صدی ہجری کے اوائل تک حدیث کا عِلم ضعف کی آخری منزل تک پہنچ گیا تھا۔‘‘ (بحوالہ مقدمہ مفتاح کنوز السنَّہ رشید رضا مصری مطبوعہ ۱۹۳۴؁ء

اِسی طرح دارالعلوم دیو بند میں جب ملکِ شام کے مشہور عالِمِ دین شیخ عبد الفتّاح ابو غدہ ۱۹۸۲؁ء میں تشریف لائے تو اُنہوں نے اکابر علماء دیوبند سے ملاقات کے بعد بڑے شد و مد کے ساتھ اپنی اِس خواہش کا اظہار کیا کہ علماء دیوبند کی تصانیف کو عربی زبان میں منتقل کرنے کی سخت ضرورت ہے کیونکہ اِن تصانیف میں جو علمی مباحث اور عمیق فنِّی باریکیاں ملتی ہیں وہ علماء متقدمین کے یہاں بھی دستیاب نہیں، شیخ موصوف کے الفاظ میں :

’’اِن علمائے کرام کا فریضہ یہ ہے کہ اپنے متفردانہ عقول ‘‘ کے نتائجِ فکر اور بیش بہا علمی فیُوض و تحقیقات کو عربی زبان کا جامہ پہنا کر عالمِ اسلام کے دوسرے علماء کے لئے استفادہ کا موقع فراہم کریں، یہ فریضہ اُن پر اِس لئے بھی عائد ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص ہندوستان کے علمائے محققین کی کوئی تصنیف پڑھتا ہے تو اُس میں اُس کو ایسی نئی اور متفردانہ تحقیقات ملتی ہیں جن کی بنیاد گہرے علم اور وسیع مطالعہ کے علاوہ تقویٰ، صلاح اور روحانیت پر ہوتی ہے اور چونکہ ہندوستان کے علماء و شیوخِ کرام نیکی و صلاح، روحانیت اور استغراق فی العلم جیسی شرطوں پر نہ صرف یہ کہ پورے اُترتے ہیں، بلکہ سلفِ صالحین کے صحیح وارِث اور اُن کے نمونے ہیں ’’ذٰلِکَ فَضْل اللّٰہ یُوتِیْہ مَنَّ یَشاء‘‘ بلکہ اُن حضرات کی بعض کتابیں تو وہ ہیں جن میں ایسی چیزیں ملتی ہیں جو متقدمین علمائے اکابر مفسرین و محدثِین اور حکماء کے یہاں بھی دستیاب نہیں اور یہ تمام کتابیں زیادہ تر اُردو زبان میں لکھی ہوئی ہیں۔ یہ بیش قیمت علمی تحقیقات جو ہندوستانی علماء کا خصوصی حصہ اور کارنامہ ہیں اگر اُردو ہی کے قالب میں محبوس رکھی گئیں تو ہم عربی دانوں سے مخفی ر ہ کر محرومی کا باعِث بنی رہیں گی۔‘‘(ابوغدہ کا طلبائے دارالعلوم سے خطاب)۔

آج بھی یہ تحریک اُسی رفتار سے اپنے مقاصد کی تکمیل کی طرف رواں دواں ہے کہ کس طرح ہندوستانی مسلمانوں کو مغربی تہذیب کے اِس سیلاب سے بچایا جائے جو پہلے سے کہیں زیادہ بڑھا ہوا ہے اور لوگ پوری طرح اِس سے متاثر نظر آرہے ہیں، لیکن انشاء اللہ ایک وقت ضرور آئے گا جب اِسلامی قدروں کا بول بالا ہو گا اور باطل کو شکستِ فاش ہو گی۔

ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد

مولانا محمد قاسم نانوتوی کا سانحۂ وفات

۴ جمادی الاولیٰ ۱۲۹۷؁ھ مطابق ۱۸۸۰؁ء پنج شنبہ کے روز علم و عمل کا یہ آفتابِ عالم تاب ۴۹ سال کی عمر میں دیوبند کی سرزمین میں ہمیشہ ہمیش کے لئے غروب ہو گیا۔ (۲)

دارالعلوم کی شمالی جانب آپ کا مزارِ پُر انوار واقع ہے۔ یہ’’ قبرستان قاسمی ‘‘کے نام سے موسوم ہے، یہاں بے شمار علماء و طلباء اور دوسرے لوگ آسودۂ خواب ہیں۔ میرے ہم جماعت اور بڑے بھائی مولوی جزیل احمد بن مولوی زینت علی متوطن ضلع بستی (یو۔پی۔)کو یہ شرف حاصل ہے کہ حضرت نانوتویؒ کی آرام گاہ کے عین سرہانے بھائی کا مرقد ہے جن کا انتقال ۱۹۷۱؁ء میں دارالعلوم دیوبند کے دارِ جدید میں ہوا تھا اور اُس زمانہ میں ہم دونوں بھائی سالِ چہارم عربی کے طالبِ علم تھے۔

پسماندگان

مولانا محمد قاسم نانوتوی نے دو صاحبزادے مولانا حافظ محمد احمد اور محمد ہاشم یادگار چھوڑے۔ مؤخر الذکر کاعہدِ جوانی میں مکّہ معظَّمہ میں انتقال ہو گیا۔

مولانا حافظ محمد احمد صاحب تعلیم سے فراغت کے بعد ۱۳۰۳؁ھ مطابق ۱۸۸۵؁ء میں دارالعلوم کے مدرِّس مقرر ہوئے۔ ۱۳۱۳؁ھ مطابق ۱۸۹۵؁ء میں دار العلوم کے مہتمم بنائے گئے۔ آپ کے دورِ اہتمام میں یہ اِدارہ ’’ مدرسہ عربی‘‘ سے ’’دارالعلوم‘‘ بنا اور اِس کا حلقۂ اثر بہت وسیع ہو گیا۔ آپ میں انتظام و انصرام کا خاص ملکہ تھا۔ ۱۳۲۸؁ھ مطابق ۱۹۱۰؁ء میں دارالعلوم کا عظیم الشَّان جلسۂ دستار بندی اُن ہی کے دورِ اہتمام میں ہوا تھا۔ اہتمام کی مصروفیتوں کے ساتھ درس و تدریس کا مشغلہ بھی تھا۔

آپ کو تفہیم مضامین میں کمال حاصل تھا، آخر میں ریاست حیدر آباد دکن میں مفتی عدالت مقرر ہوئے۔۱۳۴۷؁ھ مطابق ۱۹۲۹؁ء میں وفات پائی۔

حافظ صاحب کے خلف الصِّدق مولانا قاری محمد طیّب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند حضرت علّامہ سیّد محمد انور شاہ کشمیری کے ارشدِ تلامذہ میں سے تھے۔۱۳۴۳؁ھ مطابق ۱۹۱۸؁ء میں دارالعلوم کے نائب مہتمم اور پھر ۱۳۴۸؁ھ مطابق ۱۹۳۰؁ء میں مہتمم مقرر ہوئے۔ آپ کے دورِ اہتمام میں دارالعلوم نے بڑی ترقی کی اور منصبِ اہتمام کے ساتھ تعلیم و تعلُّم کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ تفسیر و حدیث کی اکثر کتابیں زیرِ درس رہیں۔ آخری زمانہ میں برس ہا برس تک حجّۃ اللہ البالغہ کا درس ہوتا رہا ہے۔ جماعتِ علماء میں آپ کی خطابت معروف و مُسلَّم ہے۔ مختلف ممالک کا سفر کر چکے ہیں اور درجنوں کتابوں کے مُصنِّف بھی ہیں۔

راقم الحروف اقبال احمد قاسمی کو حضرت مولانا قاری محمد طیَّب صاحب کے حضور میں زانوئے تلمُّذ طے کرنے اور حجّۃاللہ البالغہ کے درس میں جو مسجد دار العلوم میں ہوتا تھا، ۱۹۷۳؁ء اور ۱۹۷۴؁ء میں شرکت کا اعزاز حاصل ہے۔

تالیفات و تصنیفات

حضرت نانوتوی کی دو۲ درجن سے زیادہ تصانیف اُن کی یادگار ہیں۔ اُنہوں نے اپنے زمانہ کے اُن مسائل پر قلم اُٹھایا جو اُس وقت زیادہ تر زیرِ بحث تھے، اُن کی تمام تر تصانیف کسی نہ کسی استفسار کے جواب میں لکھی گئی ہیں، مسائلِ شرعیہ کو دلائل عقلیہ سے ثابت کرنے اور فلسفہ کے مسائل کو دلائلِ عقلیہ سے رد کرنے میں اُن کو زبردست کمال حاصل تھا۔

بابِ سوم

ناظِمِ جہاں حکیم محمد اعظم خان

(۳ ۱۸۱ء۔ ۱۹۰۲ء)

تعارف

تقریباً دسویں صدی عیسوی میں طب ہندوستان میں آئی۔ طِب کے ایرانی آب و ہوا سے متاثر ہونے کے ناطے ہندوستانی اطِبَّاء میں بھی ایرانی رنگ غالب پایا گیا۔ چنانچہ رفتہ رفتہ ہندوستانی اطِبَّاء میں ایرانی قلموں کا رنگ اور فارسی زبان کی چاشنی سرایت کر گئی اور دیگر علوم و فنون کی طرح فارسی زبان میں طِب اور ادوِیہ پر بھی کتابیں تصنیف کی جانے لگیں۔ اِنہی شاہکار و مایۂ ناز طبیبوں میں جن کا طِب کے ساتھ ساتھ فارسی زبان پر بھی احسانِ عظیم ہے، ایک جیتا جاگتا نام ناظِمِ جہاں حکیم ’’محمد اعظم خان‘‘ کا ہے۔

تاریخِ وِلادت اور خاندانی پس منظر

حکیم اعظم خان کے اجداد خراسان کے رہنے والے تھے، وہ بارہویں صدی عیسوی میں سِستان سے کابل آئے۔ آپ کے پردادا محمد کاظم خان نواب سیّد علی محمد خان کے زمانہ میں علاقہ سوات سے ہندوستان آئے اور نواب صاحب کی سرکار سے وابستہ ہو گئے۔ کاظم خان صاحب نے ۱۱۶۴؁ء میں نواب بنگش کے مقابلہ میں ڈوری رسول پور (بدایوں ) کے میدان میں جام شہادت نوش کیا۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کے چھوٹے بھائی رضی خاں سوات سے ہندوستان آئے اور بھائی کی جگہ جمعدار ہوئے۔ آپ کے آٹھ صاحبزادے :انور شاہ خان، سعادت خان، محمد شاہ خان،شاہ ولی خان، شاہ اعظم خان، محمد نور خان اور شیر محمد خان کے ناموں سے جانے جاتے ہیں۔ حکیم شاہ اعظم خان اپنے وقت کے ایک با کمال طبیب تھے۔ اُن کے آبا و اجداد نے میدان جنگ میں اپنی تیغ کے جوہر دِکھائے، حکیم شاہ اعظم خان کے بعد سے ہی خاندان میں علم و فضل کا سِلسِلہ شروع ہوا۔ اُن کے صاحبزادے حکیم محمد اعظم خان اور اُن کے بھانجے حکیم نجم الغنی خان نے اپنے قلم سے علم و ادب اور فنِّ طِب کی جو خدمات انجام دی ہیں وہ آج بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں۔ صاحبِ نزہت الخواطر نے اُن کو واسع النظر، متین الذہانت اور رفیع المنزلۃ جیسے الفاظ سے یاد کیا ہے۔

اعظم خان کی تعلیم و تربیت

حکیم محمد اعظم خاں کی ولادت با سعادت ۱۸۱۳؁ء میں ہوئی۔ آپ ۱۴ سال کی عمر میں پدرانہ شفقت سے محروم ہو گئے۔اُس وقت تک آپ فارسی درسیات کی تعلیم مکمل کر چکے تھے۔ والد کی وفات حسرت آیات کے بعد آپ نے عربی علوم و فنون کی جانب توجہ دی۔ صرف و نحو اور منطق کی ابتدائی تعلیم مولوی عبد الرَّحیم خان سے اور دینیات کی تعلیم مفتی شرف الدین رام پوری اور اُس دور کے مشہور اساتذہ کرام سے حاصل کیں۔ اِن اساتذہ کا نام تاریخ کے صفحات میں محفوظ نہیں ہے۔ حکیم صاحب نے طِب کی تعلیم حکیم مولانا نورالاسلام سے حاصل کی۔ حکیم نورالاسلام اپنے چچا حکیم سیّد علی سیّد کے شاگرد تھے، جنہیں نواب علوی خان سے شرفِ تلمُّذ حاصل تھا۔اِسی طرح حکیم اعظم خاں کو اپنے والد کے بر خلاف صرف دو واسطوں سے حکیم علوی خاں سے نسبت حاصل ہے۔ حکیم اعظم خاں اپنے تلامذہ کو جو سند عطا کرتے تھے اُس میں علوی خاں تک کے سلسلے کے اطِبَّاء کے نام درج ہوتے تھے، جن میں اُن کے درمیان صرف دو ہی واسطے موجود ہیں۔

حکیم اعظم خاں ۱۲۲۵؁ھ مطابق ۱۸۳۵؁ء میں ۲۲ سال کی عمر میں رام پور میں طِب کی تعلیم سے فارغ ہوئے اور ترکِ وطن کر کے بھوپال پہنچے جو اُس وقت اہلِ عِلم کے لئے باعثِ کشِش بنا ہوا تھا۔ دُور دُور سے طالبِ علم وہاں پہنچ کر اپنے علمی اور ادبی ذوق کی تسکین کرتے تھے۔

حکیم صاحب کی ملازمت کا آغاز

حکیم صاحب موصوف، ’’نواب جہاں گیر محمد خاں ‘‘ والی رِیاست بھوپال کے یہاں تیس روپے ماہانہ پر ملازم ہو گئے۔ نواب قدسیہ بیگم نے نواب جہاں گیر محمد خاں کو جو اُن کے داماد بھی تھے، جب نظر بند کیا تو حکیم صاحب علاج کے بہانے نواب صاحب کے پاس رہنے لگے۔ حکیم صاحب نے ہی نواب صاحب کو قیدِ تنہائی سے لباس تبدیل کرا کے فرار ہونے میں معاونت کی، جس کی پاداش میں نواب قدسیہ بیگم نے حکیم اعظم خاں کو نظر بند کر دیا۔ اِس موقع پر راجہ خوش ونت رائے کی کوشش سے حکیم صاحب کو بیگم صاحبہ نے بھوپال سے جانے کی اِجازت مرحمت فرمائی۔ آپ بھوپال سے ۲۵ میل دور سیہور نواب جہاں گیر محمد خاں کے پاس پہنچے۔

۱۸۳۷؁ء میں نواب قدسیہ بیگم کی معزولی اور نواب جہاں گیر محمد خاں کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد حکیم صاحب کی تنخواہ دو سو روپے ماہانہ ہو گئی اور۱۰۰ روپے پالکی اور ہاتھی کے خرچ کے واسطے، نیز ہاتھی بھی اپنی سرکار سے عطا کیا۔ علاوہ ازیں دو گاؤں ’’ڈھیری‘‘ اور ’’پوری‘‘ جن کی جمع ساڑھے تین ہزار روپے سالانہ تھی، حکیم صاحب کو جاگیر میں عطا کئے۔ آپ نواب جہاں گیر محمد خاں کے عہد اور اوائلِ زمانہ مختاری نواب سکندر جہاں بیگم بھوپال میں ناظم عدالت بھی رہے۔

نواب جہانگیر محمد خاں کا علاج اور ’ناظِم جہاں ‘ کا خطاب

نواب جہانگیر محمد خاں کو ایک دفعہ وجع الکلیہ (دردِ گروہ) کی شکایت ہوئی۔ حکیم عطا محمد کیرانوی اور حکیم سِراج الدین دہلوی جیسے حاذِق الاطِبَّاء نے آپ کا علاج کیا لیکن اِن کے علاج سے فائدہ نہیں ہوا اور حکیم اعظم خاں کے علاج سے شفائے کاملہ حاصل ہوئی۔ نواب صاحب نے غسلِ صحت کے بعد ایک ہزار روپے انعام، ایک قیمتی دوشالہ اور نواب صاحب کی والدہ نے تین سو روپے اپنی طرف سے عطا کئے۔ علاوہ ازیں ریاست کی طرف سے ’’ناظم جہاں ‘‘ کا خطاب بھی مرحمت فرمایا۔ نواب صاحب نے حکیم صاحب کو اپنا طبیبِ خاص بھی مقرر کیا اور اُن کو اسباب و علامات اور علاج سے متعلق ایک جامع کتاب لکھنے کا حکم صادر کیا۔چنانچہ ’’رموزِ اعظم‘‘ جو متاخرینِ اطبَّاء ہند کی بہترین تصنیف خیال کی جاتی ہے، اُسی حکم کی تعمیل اور نواب جہانگیر محمد خاں کی فرمائش کا ثمرہ ہے۔

مہاراجہ بڑودہ کی ملازمت

نواب جہانگیر محمد خاں کی وفات کے بعد حکیم وارِث علی کی تحریک پر مہاراجہ بڑودہ نے حکیم اعظم خاں کو پانچ سو روپے کے مشاہرہ پر بڑودہ بلایا مگر نواب سکندر جہاں بیگم والیۂ رِیاست بھوپال نے نواب جہانگیر محمد خاں کی وفات کے بعد جو ’’مسندِ حکومت ‘‘پر فائز ہوئی تھیں، حکیم صاحب کو نہیں جانے دیا، اُسی دوران حکیم اعظم خاں بغرض سیر و سیاحت لکھنؤ تشریف لے گئے، جہاں پر نوابینِ اودھ، اور دیگر ریاستوں کے راجاؤں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ نواب علی نقی خاں نے کھانے پر مدعو کر کے ایک خلعت عطا کی۔ راجہ مان سنگھ نے ’’استرکہ‘‘ پرگنہ کا ناظم مقرر کرنا چاہا، مگر حکیم صاحب نے منظور نہ کیا۔ اِسی دوران نواب واجد علی شاہ ’’مراق‘‘ کے مرض میں مبتلا تھے۔ اُن کی والدہ نے چاہا کہ حکیم صاحب اُن کے بیٹے کا علاج کریں، مگر حکیم صاحب نے اِس سے اعتذار کیا اور واپس بھوپال آ گئے۔۔۔۔۔ بھوپال میں حکیم صاحب کی معالجانہ حذاقتوں سے وہاں کے عوام اور خواص خوب خوب مستفیض ہوئے۔ حیاتِ سکندری کے مُصنِّف نے اُن کے زمانۂ قیام بھوپال کے متعلق فخریہ انداز میں لکھا ہے کہ ’’نواب جہانگیر محمد خاں کے عہد میں حکیم اعظم خاں جیسا با کمال اور نامور طبیب رعایائے بھوپال کا معالج تھا۔‘‘

حکیم صاحب کی اُجّین میں ملازمت

نواب سکندر جہاں سے اختلافات کے بعد حکیم صاحب اِندور تشریف لے گئے، اُسی زمانہ میں بیجا بائی نے مدار المہام داروغہ لطف علی کو بھیج کر اپنی بہن کے علاج کے لئے حکیم صاحب کو اُجّین بلایا اور ایک سو پچاس روپے ماہانہ تنخواہ مقرر کی۔ حکیم اعظم خاں نے تین سال تک وہاں ملازمت کی۔ اُسی زمانہ میں نواب سیّد محمد بیر خاں والی رام پور نے بھی حکیم صاحب کو اپنے یہاں ملازمت کی پیش کش کی، مگر حکیم صاحب نے اُن کی پیش کش مسترد کر دی۔

مہاراجہ تکوجی راؤ ہولکر کی ملازمت

اندور کے مہاراجہ تکوجی راؤ ہولکر نے حکیم صاحب کو اِندور میں قیام کی پیش کش کی۔مگر حکیم صاحب نے اُس کو مہارانی بیجا بائی کی منظوری تک مسترد کر دیا۔ مہاراجہ نے بیجا بائی کو خط لکھ کر اِجازت حاصل کی اور پھر آپ نے قبول فرما لیا۔ حکیم صاحب مہاراجہ کے یہاں دو سو۲۰۰ روپے ماہانہ پر ملازم ہوئے۔ اِس کے بعد ساڑھے تین سو روپے ماہانہ تنخواہ مقرر ہوئی۔ حکیم صاحب مہاراجہ کے طبیبِ خاص ہونے کے علاوہ صدر کورٹ اِندور کے جج بھی رہے اور مہتمم اپیل اور میر منشی ریاست بھی رہے۔ اکثر معاملات میں مہاراجہ اُن سے مشورے طلب کرتے اور اُن کی دانش مندی سے فائدہ اُٹھاتے تھے۔ ایک مرتبہ حکیم صاحب مہاراجہ کے حکم سے مہاراجہ ’’سریندر سنگھ‘‘ والی رِیاست اُدئے پور کے علاج کے لئے بھی گئے۔

نواب کلبِ علی خاں، والی رِیاست رام پور کی دعوت پر ۱۸۸۳؁ء میں جب مہاراجہ سات سو آدمیوں کے جُلو میں وہاں تشریف لے گئے تو حکیم صاحب بھی مہاراجہ کے ہمراہ تھے۔ رِیاست اِندور میں ایک زمانہ تک ملازمت کرنے کے بعد حکیم صاحب ملازمت سے سبکدوش ہوئے اور ڈھائی سو روپے ماہانہ اُن کی پنشن مقرر ہوئی۔ فرماں روایانِ ہولکر نے حکیم صاحب کا اِس درجہ لحاظ و خیال رکھا کہ آپ نے پھر کسی دوسری ریاست کا رُخ تک نہ کیا اور آخر عمر تک اِندور میں ہی قیام کیا اور ایک عالَم کو فیض یاب کرتے رہے۔

حکیم صاحب کا ممتحن الاطِبَّاء متعین ہونا اور ’’مسیح مالوہ‘‘ کا خطاب ملنا

حکیم صاحب اِندور میں ممتحن الاطِبَّاء جیسے عہدے پر بھی فائز رہے۔ آپ ہی کی کاوِشوں سے مہاراجہ ہولکر نے پوری رِیاست کے اطِبَّاء، وَیدیوں اور جرَّاحوں کے لئے ایک امتحان مقرر کیا جس میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اُنہیں رِیاست اِندور میں مطب کی اِجازت دی جاتی تھی۔ حکیم صاحب نے قیامِ بھوپال اور اِندور میں سرکاری مطب کے علاوہ اپنا ذاتی مطب بھی کیا اور آپ کے علاج سے لاتعداد مایوس مریضوں کو شفاء ہوئی اور ’’مسیح مالوہ‘‘ کے نام و لقب سے سرفراز کئے گئے۔

حکیم صاحب کا شمار اساتذۂ وقت میں ہوتا تھا۔ تصنیف و تالیف اور مطب و معالجہ کے ساتھ درس و تدریس کا سِلسِلہ بھی تھا۔ آپ کے شاگردِ رشید اور بھانجے حکیم نجم الغنی خاں کا بیان ہے کہ ’’معالجات میں حکیم صاحب کی معلومات بہت ہی وسیع تھیں اور اعلیٰ درجہ کی کتابوں کے مطالب ازبر تھے۔ مذاق کی تراکیب کو بہت ہی استعمال میں لاتے تھے۔‘‘نیز لکھتے ہیں کہ ’’معالجات سے متعلق ماہرینِ فن کے اقوال اور کتب مستند کے مطالب نوکِ زباں پر تھے۔‘‘

ذوقِ شاعری و شعر گوئی

تفریح طبع کی خاطر حکیم صاحب عنفوانِ شباب میں اُردو و فارسی میں غزلیں اور نظمیں کہتے تھے۔ اعظمؔ تخلص فرماتے تھے۔ آپ بڑے متدیّن اور زاہد و عابد بھی تھے۔ شدید ضعف، نقاہت اور پیری کے عالم میں بھی کبھی نماز ترک نہ کی اور نہ ہی روزے، میاں امیر شاہ رام پوری سے بیعت تھے۔زندگی کے آخری ایّام میں آپ چشمِ بصارت سے محروم ہو گئے۔ آپ کے ایک صاحبزادے افضل خاں اور ایک صاحبزادی پیدا ہوئی تھیں۔

حکیم اعظم خاں کی وفات

آپ نے ۱۳ اپریل ۱۹۰۲؁ء بروز دو شنبہ، بعمر ۹۱سال داعی اجل کو لبیک کہا اور جان جان آفریں سے جا ملی۔ حکیم اعظم خاں نواب غفور خاں کی چھاونی کے قبرستان میں اپنے مکان اور باغیچہ کے سامنے سپردِ خاک ہوئے۔(۱)

تصنیفات و تالیفات

مرحوم حکیم اعظم خاں نے طبِّ یونانی کی جو عظیم خدمات انجام دیں اور اُن کی تصنیفات و تالیفات نے جو قبولیت اور شرف عام حاصل کیا، وہ بہت کم مُصنِّفین کے حصہ میں آیا۔ اُن کی تصانیف مندرجہ ذیل ہیں :

(۱) اکسیر اعظم:

چار جلدوں پر مشتمل معالجات کی کتاب ہے جس کا انتساب مہاراجہ تکوجی راؤ ہولکر دوم کے نام ہے۔ مہاراجہ نے یہ کتاب ایڈورڈ ہفتم کو جب وہ اِندور تشریف لائے تو بطور تحفہ پیش کی۔ اِسے ایڈورڈ ہفتم نے بہت پسند کیا اور قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ اُس کا انگریزی ترجمہ بھی ہوا ہے۔ یہ کتاب تیس برس میں مکمل ہوئی۔

(۲) محیط اعظم:

مفردات پرچار ضخیم جلدوں پر مشتمل یہ کتاب نہ صرف قدیم معلومات کا بہترین ذریعہ ہے بلکہ ہندی ادویہ اور اُن کے ذاتی تجربات کے اضافہ نے اِسے رہتے زمانہ تک کی مفردات کی بہترین تصنیف بنا دیا ہے۔ یہ کتاب نواب جہانگیر محمد خاں کی فرمائش پر لکھی گئی۔ اِس کا انتساب مہاراجہ تکوجی راؤ ہولکر کے نام ہے۔ اِس کے انتساب کے سِلسِلہ میں ایک دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ نواب کلبِ علی خاں، والی رِیاست رام پور نے حکیم صاحب سے فرمائش کی کہ جس طرح آپ نے اکسیر اعظم مہاراجہ اِندور کے نام معنون کی ہے، اُسی طرح کوئی کتاب میرے نام بھی معنون کریں۔ حکیم صاحب نے ابتداء میں محیط اعظم اُن کے نام معنون کی اور فارسی میں ایک نظم اُن کی مدح میں لکھ کر کتاب میں شامل کرنے کے لئے اِسے نواب صاحب کو دِکھایا۔ چونکہ نواب صاحب نے زرِ نقد سے چھاپنے کے لئے کوئی مدد نہ کی اور اُن کا انتقال ہو گیا۔ اِس لئے بعد میں اِسے مہاراجہ ہولکر کے نام معنون کر دیا۔ یہ کتاب ۱۸ برس میں مکمل ہوئی۔ حکیم اعظم خاں کے لکھے ہوئے کل صفحات کی تعداد پانچ ہزار سے زائد ہو گی۔ صرف محیط اعظم میں اُنہوں نے تقریباً ۲۰۰۰ ہزار دوائیں معالجاتی استعمال کی بیان کی ہیں۔

(۳) رموزِ اعظم:

اسباب و علامات اور امراض سے متعلق یہ کتاب نواب جہانگیر محمد خاں کی فرمائش پر لکھی گئی،جو دو جلدوں پر مشتمل ہے۔

(۴) قرابادینِ اعظم:

یہ کتاب ۲۹۷۵ (دو ہزار نو سو پچھتر مرکبات )پر مشتمل ہے۔ اِس میں قدیم اور ہم عصر اطِبَّاء کے حوالے سے جو مرکبات و مجرّبات تحریر کئے گئے ہیں، اُن کے علاوہ اِس کتاب میں بیس نسخے ایسے ہیں جو اعظم خاں کی خاص اختراعات میں سے ہیں۔ قرابادینِ اعظم نہ صرف اِس اعتبار سے ممتاز ہے کہ وہ فارسی دور کی آخری کتاب ہے، بلکہ اِس کی امتیازی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اِس میں پیش رو مصنِّفین کی بہترین معلومات کا نچوڑ ۶۵ سالہ ذاتی تجربہ اور تحقیقات کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے۔ قرابادینِ اعظم کو مرکبات کی Enclyclopaedia کہا جاتا ہے۔ قرابادینِ اعظم کا اُردو ترجمہ بھی کئی بار زیور طبع سے آراستہ و پیراستہ ہو چکا ہے۔

(۵) نیّرِ اعظم:

یہ تصنیف نبض کے بیان میں ایک جلد پر مشتمل ہے۔

(۶) رُکنِ اعظم:

بُحران کے مسائل پر مشتمل جامع فنِّی سرمایہ ہے۔ یہ ۱۲۸۱ ؁ھ کی تصنیف ہے۔ اِس کا تاریخی نام بھی ’’رُکنِ اعظم‘‘ ہی ہے۔

(۷) قسطاسِ اعظم:

لغاتِ طِب پر مشتمل مہتمم بالشاّن کتاب ہے۔ چار جلدوں میں ہے۔ یہ کتاب زیور طبع سے آراستہ نہ ہو سکی۔ اِس کا ایک نسخہ اُن کے پوتے حکیم محمد اکمل خاں کے پاس موجود تھا۔

متاخرینِ اطِبَّاء میں حکیم محمد اعظم خاں سے زیادہ وسیع المطالعہ اور اعلیٰ قسم کا کوئی طبیب نہیں گزرا۔ اُن کے بیان کے مطابق مطالعہ اور تحریر کا یہ عالم تھا کہ کبھی کبھی شب کو لکھنے کی مصروفیت میں ایسا ہوتا کہ سونے کو اُٹھتے تو سحر کی اَذان سنائی دیتی اور مُرغ بول اُٹھتے۔ بعض اوقات گھبرا جاتے اور دِل میں آتا کہ مسودہ جلا ڈالوں، ناحق اپنی نحیف جان پر مصیبت مول لے رکھی ہے۔ ؎

ایں سعادت بزوربازو نیست

تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

بابِ چہارم

مسیح الملک حکیم اجمل خاں

(۱۸۶۴ء ۔ ۱۹۲۷ء)

خاندانی پس منظر

حکیم اجمل خان کے آباء و اجداد کا وطن کاشغر تھا۔ اِس خاندان کے مورِثِ اعلیٰ بابر بادشاہ کے ہمراہ تقریباً ۱۵۲۶؁ء میں ہرات سے ہندوستان آئے۔ علم و حکمت کا یہ کارواں سب سے پہلے سندھ میں خیمہ زن ہوا۔ عہدِ بابر تک یہ خاندان زیادہ تر امورِ سلطنت میں منہمک رہا۔ بعد ازاں اُن میں سے چند افراد کا رُجحان سیاست سے مذہب کی طرف ہو گیا۔ چنانچہ اِس خاندان کے دو بزُرگ خواجہ ہاشم اور خواجہ قاسم حیدر آباد سندھ میں مشہور درویش گزرے ہیں۔ ان کے زہد و تقویٰ کی بناء پر ہندو اور مسلمان دونوں بکثرت اُن کے مرید تھے۔ اِن دونوں حضرات کے بعد مُلّا نورالدین علی قاری نے جو اپنے وقت کے اِمام تھے، اپنی علمیت اور مذہبیت کی وجہ سے شہرتِ عوام اور بقائے دوام پائی۔ آج تک لوگ اُن کی بیش بہا تالیفات و تصنیفات سے استفادہ کرتے ہیں۔

بقول مشہور پادری سی۔ایف۔اینڈ ریوز ملّا نورالدین علی قاری کے بیٹے حکیم محمد فاضل خاں نے سب سے پہلے میدانِ طبابت میں قدم رکھا۔ اُن کے بعد اُن کے بیٹے حکیم محمد واصل خاں ( اوّل ) عہدِ عالمگیر (۱۶۵۹؁۔۱۷۰۷؁ء) میں آگرہ سے دہلی آئے اور شاہی عہدۂ طبابت پر فائز ہوئے۔ محمد شاہ بادشاہ کے عہد (۱۷۱۹؁۔۱۷۴۸؁ء) میں وفات پائی۔ اُن کے دو بیٹے حکیم اکمل خاں اور حکیم اجمل خاں (اوّل) ہوئے۔ محمد شاہ نے حکیم اکمل خاں کے حق میں نہ صرف اُن کے باپ کا منصب طبابت اور دو۲ لاکھ کی جاگیر برقرار رکھی بلکہ حاذق الملک کے خطاب سے مزید عزّت بخشی۔ بادشاہ کو اُن پر اِس قدر اعتقاد اور اعتماد تھا کہ شاہی خاصے پر روزانہ حکیم صاحب کی مہر لگتی تھی۔ محمد شاہ کی وفات کے بعد جب احمد شاہ (۱۷۴۸؁۔۱۷۵۴؁ء)تخت نشین ہوا تو کسی بناء پر عتاب شاہی کے ماتحت جاگیر ضبط ہو گئی اور حکیم صاحب گوشہ نشین ہو گئے، لیکن چند ہی روز بعد فرمانِ عفو جاری ہوا مگر اکمل خاں نے جاگیریں لینے سے انکار کر دیا۔

حکیم اکمل خاں نے بھی اپنے ورثاء میں دو لائق و فائق فرزند حکیم محمد شریف خاں اور حکیم محمد سعید خاں چھوڑے۔ اُن میں حکیم شریف خاں نے ایسی شہرت و عظمت پائی کہ آگے چل کر یہ خاندان، خاندانِ شریفی کے نام سے مشہور ہوا۔ حکیم شریف خاں اِمام طِب ہونے کے علاوہ مختلف علوم و فنون کے عالم و فاضل بھی تھے۔ چنانچہ آپ نے متعدد تصانیف اپنی یادگار چھوڑیں اور بے شمار دینی کتب، فقہ، اصولِ فقہ نحو و صرف و عقائد وغیرہ پر موصوف کا حاشیہ ہے۔ دربارِ شاہی میں بھی اُن کو بڑا مرتبہ اور اعزاز حاصل تھا۔ آپ کو اشرف الحکما کا خطاب اور ضلع پانی پت میں 25,000 کی جاگیر حاصل تھی۔ ۱۸۰۶؁ء اور بقول بعض مورِّخین ۱۸۱۵؁ء میں وفات پائی۔ درگاہ حضرت قطب صاحب واقع مہرولی، دہلی میں مدفون ہوئے۔

حکیم اجمل خاں کی تاریخ پیدائش

حکیم حافظ محمد اجمل خان نے ۱۱ فروری ۱۸۶۴؁ء اور بعض مورِّخین کے بقول ۱۷ شوّال ۱۲۸۴؁ھ مطابق ۱۸ فروری ۱۸۶۸؁ء کو دہلی کے ایک معزز گھرانے میں آنکھ کھولی۔ آپ کے والد حکیم محمود خاں طِبی دنیا میں کافی شہرت رکھتے تھے، نیز آپ کے بھائی حکیم واصل خاں بھی ایک معروف طبیب تھے۔

حکیم صاحب نے اپنی ابتدائی تعلیم کے بعد مولوی دائم علی کی شاگردی میں تین سال کی مدّت میں قرآن پاک حفظ کیا۔ اِس کے بعد منطق و فلسفہ مولوی عبد الحق دہلوی (مؤلف تفسیر حقانی) اور مولوی عبد الرَّشید سے، عربی ادب مولوی محمد طیب رامپوری سے اور دیگر علوم مرزا عبید اللہ بیگ اور حکیم مولانا جمیل الدین سے حاصل کئے۔ اِس کے بعد فنِّ طِب کی طرف مائل ہوئے اور خاندان ہی کے ایک بزرگ حکیم غلام رضا خاں سے بو علی سینا کی معروف کتاب ’’القانون فی الطب‘‘ کا درس لیا۔ طِب کی تعلیم، معالجات اور مطب والدِ محترم اور بھائیوں سے سیکھے، طب سے دلچسپی اور ذاتی محنت اور حذاقت کی بنا پر ۱۸۹۲؁ء میں ریاست رامپور کے طبیبِ خاص (میڈیکل آفیسر) کے عہدہ پر فائز ہو کر نواب رامپور محمد حامد علی خان کی خدمت میں چلے گئے اور آپ نے نو سال تک اس عہدہ پر کام کیا۔ وہاں آپ کو علمی ذوق کی سیرابی کے لئے وسیع میدان ملا۔ ریاست کے قدیم اور بے مثل کتب خانہ کا اہتمام بھی آپ ہی کے سپرد کیا گیا۔ ۱۹۰۲؁ء تک آپ اِس عہدہ پر فائز رہے۔ بعد میں آپ نے دہلی میں اقامت پذیر ہو کر گوناگوں طبِّی خدمات انجام دیں اور فنِّ طِب کی تعمیر و ترقی کی طرف عملی طور پر متوجہ ہوئے۔

یوں تو ہندوستان میں بہت سی شخصیات گزری ہیں لیکن جو شہرتِ دوام مرحوم اجمل خان کو ملی وہ کم ہی لوگوں کے حصے میں آئی۔ حکیم صاحب ایک بے باک سیاست دان، ہمدردِ قوم، محقِّق، مُصنِّف، مربی ّ، منتظم، حاذِق، معالج اور نامور طبیب تھے۔ آپ کی علمی صلاحیتوں اور فنِّی لیاقتوں کے اعتراف میں حکومتِ ہند نے ۱۹۰۸؁ء میں ’’حاذِق الملک‘‘ کے خطاب سے نوازا، طِبِّی خدمات کے اعتبار سے حکیم اجمل خان کو یونانی طِب کی نشاۃِ ثانیہ کا علم بردار سمجھا جاتا ہے۔ مغلیہ عہد کے اطبَّا کی غیر تحقیقی روِش اور یونانی طِب کی کس مَپُرسی کو دیکھتے ہوئے آپ نے اپنے مطب اور دیگر سیاسی و سماجی مصروفیات کے ساتھ طِب کی ترقی کے لئے متعدد کوششیں کیں، مثلاً تحقیقی و تعلیمی اِداروں کا قیام، ویدوں اور حکیموں کے لئے ایک متحدہ پلیٹ فارم تیار کرنا، ادویہ کی فراہمی کے لئے ہندوستانی دوا خانہ کا قیام اور طِب کے مختلف موضوعات پر گراں قدر تحریریں آپ کی وہ عظیم طِبّی یادگار ہیں جن کی وجہ سے یونانی طِبّی دنیا ہمیشہ آپ کی احسان مند رہے گی۔ حکیم اجمل خان متحدہ ہندوستان کی جنگِ آزادی کے صفِ اوّل کے مجاہدین میں بھی شمار ہوتے ہیں، آپ مسلم لیگ کے سرگرم رکن اور نائب صدر کے علاوہ تحریکِ خلافت اور تحریکِ ترکِ موالات سے بھی وابستہ رہے۔ مسلم لیگ کے اِجلاس میں صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے آپ نے پہلی بار ہندو مسلم اتحاد کو مضبوط کرنے کے لئے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ عید الاضحیٰ کے موقع پر گائے کی قربانی ترک کر دیں۔

حکیم اجمل خان پاکیزہ اوصاف کے حامل نہایت بردبار و سنجیدہ، متحمل مزاج اور ہمدرد اِنسان تھے۔ اِنہی خوبیوں کے باعِث آپ عوام و خواص میں یکساں مقبول اور ہر دِل عزیز تھے۔ گاندھی جی اور پنڈت جواہر لعل نہرو سے آپ کے ذاتی تعلقات تھے۔ آپ عرصہ تک انڈین نیشنل کانگریس سے وابستہ رہے، جنگِ آزادی روز افزوں تھی۔ فرنگی اقتدار سے ملک کو بازیاب کرانے کے لئے حکیم صاحب کے عزائم بلند تر ہوتے جا رہے تھے۔ اِسی اثناء میں موہن داس کرم چند گاندھی نے آپ کو صدا دی، آپ نے گاندھی جی کی آواز پر لبیک کہا اور جنگِ آزادی کے لئے کمربستہ ہو گئے۔ آپ کی سیاسی چابک دستیوں کے تذکرے سے گاندھی جی، شری راج گوپال آچاریہ، آر۔ٹی۔ پارتھا سارتھی، بی۔آر۔نند ا اور دوسری اہم شخصیتوں کی تحریریں بھری پڑی ہیں۔

حکیم صاحب کو مطالعہ اور کتب بینی کا شوق بچپن ہی سے تھا، خاص طور پر طِبّی کتب سے دلچسپی کا یہ حال تھا کہ آپ مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کتب کی تلاش میں ہمہ وقت سرگرداں رہتے، آپ ایک اچھے ادیب، بہترین مقرِّر اور طلیق اللِّسان شاعر بھی تھے۔ شیداؔ تخلُّص کرتے تھے، شوقِ مطالعہ اور ذوقِ جستجو نے علمِ طِب میں مہارت عطا کی۔ ۱۹۱۱ء؁ میں حکیم صاحب نے برطانیہ کا سفر کیا، لندن کے اسپتال اور میڈیکل کالج کا معائنہ کیا، پھر پیرس، برلِن اور استنبول کا سفر طے کر تے ہوئے واپس ہندوستان آئے۔

آپ نے طِبّی نصابی کتابوں کی اِصلاح کی جانب توجہ کی۔ مدرسہ طِبِّیہ میں اُس وقت جو نصاب چل رہا تھا، اُس کو عصری تقاضوں کے مطابق بنایا۔ آپ کی کوششوں ہی کا نتیجہ تھا کہ اوائل ۱۹۲۷؁ء میں طِبّی کانفرنس منعقدہ رامپور میں جس کی صدارت نواب رامپور کر رہے تھے، نصاب پر نظر ثانی کے لئے دہلی، لاہور اور لکھنؤ میں تین کمیٹیوں کا تقرر ہوا۔

یونانی طریقۂ عِلاج میں جدید طِبّی انکشافات و ترقیات شامل کر کے آپ نے اِس میں جان ڈال دی اور ہندوستانی دوا خانہ میں جدید طریقۂ دوا سازی کو رائج کیا۔

یونانی ادوِیہ کو جدید سائنسی اصولوں پر پرکھنے کے لئے آپ نے کالج میں ریسرچ کا شعبہ قائم کیا۔ اِس شعبہ میں اسرول نامی دوا پر جو ریسرچ ہوئی اور اُس کے جوہرِ فعال جدید اصولوں سے علیحدہ کئے گئے اُن کا ذکر مغربی مصنِّفین بھی شناختِ ادویہ پر اپنی تصانیف میں کرتے ہیں۔

حکیم اجمل خان کی سیاسی زندگی کا آغاز

۱۹۰۵؁ء میں تقسیمِ بنگال کے اعلان کے بعد جب ہندوستان کی انگریزی حکومت شورِش سے متاثر ہو کر اِس فکر میں تھی کہ مسلمانوں کو اپنے انعام و اِکرام کے ذریعہ قابو میں رکھے اور ہندوؤں کی بڑھتی ہوئی تحریک میں شامل نہ ہونے دے، اِن حالات میں نواب وقار الملک نے مسلمانوں کے سیاسی مطالبات کی ایک فہرست پیش کر کے گورنرجنرل سے کچھ وعدے لئے، اُنہوں نے ۱۹۰۴ء میں ڈھاکہ میں ایک جلسہ منعقد کیا جس میں نواب ڈھاکہ نے مسلم لیگ کے قیام کی تجویز پیش کی اور حکیم اجمل خان نے اِس کی تائید کی گویا کہ مسلم لیگ کا قیام نہ صرف یہ کہ حکیم اجمل خان کی سیاسی زندگی کا آغاز تھا بلکہ یہی زمانہ دراصل مسلمانوں کی قومی جدّ و جہد کے دور میں ایک نئے باب کا اِضافہ بھی تھا۔ آئین میں اِصلاحات اور اپنے حقوق کے مطالبات کی یہ پہلی کڑی تھی جس نے ۱۹۱۹ء؁ سے لیکر ۱۹۳۰ء؁ تک کے انقلاب کی بنیادیں استوار کیں اور ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں کے جداگانہ حقوق کی بنیادیں بھی مضبوط کیں۔ اِس درمیانی زمانہ کی تاریخ سے اندازہ ہوتا ہے کہ لیگی سیاسی زندگی کے دو الگ الگ ادوار ہیں : ایک وہ دَور ہے جو ۱۹۰۶ء؁ سے شروع ہوا اور ۱۹۱۸ء ؁ میں ختم ہوا اور دوسرا وہ جو ۱۹۱۹ء؁ میں علی برادران کی رہائی کے بعد سے شروع ہوا اور بالآخر مسٹر محمد علی جناح کی قیادت میں ملک کی تقسیم تک جاری رہا۔ اجمل خان پہلے دَور کے ایسے رہنما تھے جنہوں نے اُس دور کی ابتداء سے انتہا تک مسلم لیگ کا ساتھ دیا لیکن دوسرے دور کے آغاز سے ہی کانگریسی سالارِ قافلہ کے ہم رکاب ہو گئے۔

حکیم اجمل خان کی سماجی و مِلّی خدمات

حکیم صاحب نے اپنی زندگی کے بیش بہا اوقات میں سے ایک معتدبہ حصہ مختلف اِداروں، جامعات و کالِجوں، سوسائٹیوں اور فلاحی تنظیموں کی سرپرستی اور خدمت کے لئے وقف کر رکھا تھا۔ اِن اہم اِداروں میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ اور دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ بھی شامل ہیں۔ آپ ۱۸۹۲ء؁ میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے ٹرسٹیوں میں شامل رہے، اِس کے علاوہ دارالمصنِّفین اعظم گڑھ، نظارۃُ المعارف دہلی، جامعہ مِلِّیہ اسلامیہ دہلی اور مسلم ایجو کیشنل کانفرنس علی گڑھ وغیرہ کے استحکام میں بھی ہمیشہ سرگرمی سے حصہ لیتے رہے۔

میگنیٹ آف اِنڈیا

حکیم صاحب کی ذات ہندو مسلم اتحاد کی علامت بھی تھی اور مرکز بھی۔ انگریزوں کے مشہور پادری مسٹر سی۔ایف۔اینڈریوز نے جو حکیم صاحب کی خدمت میں آ کر حاضر ہوتے تھے، حکیم صاحب کے مطب کی ایک نہایت دلکش تصویر کھینچی ہے۔ سیّد یوسف بخاری نے اُن کا یہ بیان اِس طرح نقل کیا ہے۔ ’’میری پرورِش اینگلو انڈین لوگوں میں ہوئی تھی اور میرے دِل و دماغ میں یہ خیال ٹھونس دیا گیا تھا کہ ہندو و مسلمانوں کے درمیان مذہب اور ذات پات کی وجہ سے ایک ایسی بڑی خلیج حائل ہے جو کسی طرح پُر نہیں ہو سکتی، لیکن لندن سے دہلی آنے پر جب میں نے حکیم صاحب کا روزانہ مطب کا نقشہ دیکھا تو کیا عرض کروں کہ میرا اعتقاد بالکل پاش پاش ہو گیا۔‘‘لارڈ ہارڈنگ کے پرائیویٹ سکریٹری کو حکیم صاحب کے مطب میں آنے کا اتفاق ہوا۔ اُنہوں نے جب یہ دِلکش منظر دیکھا تو لارڈ ہارڈنگ سے جا کر کہا: ’’حکیم صاحب بلا شبہ میگنیٹ آف اِنڈیا ہیں۔‘‘ حکیم صاحب کا دیوان خانہ دہلی کی سماجی زندگی کا مرکز بن گیا تھا اور دہلی ہی کیوں پورے ملک کی منتخب روزگار شخصیتیں حکیم صاحب کی تاریخی صحبتوں اور محفلوں میں شریک ہوتی تھیں۔

کانگریس اِجلاس منعقدِہ احمدآباد کی صدارت

۱۹۱۲ء؁ میں اُنہوں نے احمد آباد میں کانگریس کے جلسے کی صدارت فرمائی جس میں مولانا فضل الحسن حسرت موہانی نے مکمل آزادی کا ریزولوشن (Resolution ) پیش کیا۔ ملک کے سیاسی و معاشرتی اُفق پر حکیم اجمل خان ایک قوم پرست رہنما کی حیثیت سے اُٹھے اور اپنے عہد کی پوری قومی زندگی پر چھا گئے۔ خلافت اور عدم تعاون کی تحریکوں میں وہ ملک کے پہلے لیڈر تھے جنہوں نے حکومتِ برطانیہ کے عطا کئے ہوئے تمام اعزازات و خطابات واپس کئے۔قومی تعلیم کا مسئلہ سامنے آیا تو اُنہوں نے جامعہ مِلِّیہ اِسلامیہ کے قیام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اِس اِدارے کو علی گڑھ سے دہلی منتقل کرنے والے حکیم صاحب ہی تھے جو اِس کے اوّلین چانسلر رہے۔ اُنہوں نے طِبِّیہ کالج کے ساتھ جامعہ مِلِّیہ اِسلامیہ کے جملہ امور کی نگرانی کی۔ اُس کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے وہ بے قرار رہتے تھے۔

طِبِّ یونانی مسائل اور وسائل میں خاور ہاشمی لکھتے ہیں :

’’حکیم اجمل خان صاحب مروِّجہ اصطلاحی مفہوم میں سیاسی لیڈر نہیں تھے۔ اُنہوں نے قومی زندگی میں بعض اعلیٰ آدرشوں کی تکمیل کے لئے قومی جدو جہد میں حصہ لیا۔ غلامی سے نجات، ہندو مسلم اتحاد، علوم و فنون کی بقاء اور ترقی کا مشن اُن کے سامنے تھا۔اُن کے عہد میں اقتدار پرست سیاست کا تصوُّر پیدا نہ ہوا تھا۔ یہ سارے جھگڑے اور الجھنیں تو آزادی کے بعد پیدا ہوئیں۔ بقول سیّد یوسف بخاری: ’’حکیم صاحب کو خدمتِ خلق اور ذوقِ مطالعہ کے سِوا کوئی دوسرا شوق ہی نہ تھا۔ ذاتی کتب خانہ کے علاوہ خدا بخش لائبریری، پٹنہ اور رامپور کا شاہی کتب خانہ بھی اُن کی علمی پیاس بجھانے کے لئے ناکافی تھا۔‘‘ حکیم صاحب سیر و سیاحت کی غرض سے عراق تشریف لے گئے۔ اِس سفر میں بھی اُن کی دلچسپی کی خاص چیزیں اور تحائف صرف کتابیں تھیں یا طِبِّی کالجوں، شفا خانوں اور دوا سازی کے کارخانوں کا معائنہ اور سیر تھی۔‘‘

یونانی طِبِّی کانفرنس اور دیگر اِداروں کا قیام

حکیم صاحب کے دلِ دردمند نے سب سے پہلے محلہ چتلی قبر میں یتیم اور بے سہارا بچوں کے لئے معید الاسلام کے نام سے ایک ’’یتیم خانہ‘‘ قائم کیا جو اُن کے دور میں بہترین انتظامات کے ساتھ چلتا رہا۔ بایں ہمہ آپ کی گراں قدر سیاسی و سماجی مصروفیات کے ساتھ ساتھ آپ کی شخصیت کا طِبِّی پہلو ہر چیز پر بھاری رہا اور طِب کی ترویح و ترقی اور اُس کے احیاء کے لئے آپ نے کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا۔ ۱۹۱۰ء؁ میں آپ نے آل اِنڈیا آیورویدک اینڈ یونانی طِبِّی کانفرنس قائم کی جس کا مقصد اُس میڈیکل رجسٹریشن ایکٹ کے خلاف احتجاج کرنا تھا جس کی رُو سے گورنمنٹ نے صرف اُسی شخص کو علاج و معالجہ کی اِجازت دی تھی جو یورپ یا ہندوستان کی کسی مسلّمہ یونیورسٹی سے منظور شدہ اور سند یافتہ ہو۔

حکیم صاحب ایک اچھا طِبِّیہ کالج، فارمیسی کالج اور ایک بے مثال تحقیقی اِدارہ قائم کرنا چاہتے تھے، چنانچہ آیورویدک اینڈ یونانی طِبِّی کالج قرول باغ، ہندوستانی دوا خانہ اور مجلس تحقیقات نیز مدرسہ زنانہ اُن کے خوابوں کی زندہ تعبیریں ہیں۔

سفرِ لندن اور میڈیکل رجسٹریشن ایکٹ

۱۹۱۰ء؁ میں پاس ہونے والا میڈیکل رجسٹریشن ایکٹ در اصل برطانوی حکومت کی طرف سے دیسی طِبوں کے خلاف ہونے والا ایک زبردست چیلنج تھا جس کا ماحصل یہ تھا کہ دیسی طِبیں وحشی اور جنگلی ہیں اور عام انسانیت کے لئے یہ طریقہ ہائے طِب مہلک اور نقصان دہ ہیں۔ اِس بل کے پاس ہوتے ہی حکیم اجمل خان حکومت سے دست و گریباں ہو اُٹھے اور اُسی وقت اُنہوں نے لندن کا سفر شروع کر دیا۔ اُس وقت برطانیہ کا شاہی تاج جارج پنجم کے سر کی زینت تھا۔ شہنشاہ جارج پنجم کو جب حکیم اجمل خان کی بکنگھم پیلیس میں آمد کا پتہ چلا تو اُنہوں نے اپنی خفیہ ایجنسی کے ذریعہ حکیم صاحب کے بارے میں معلومات حاصل کرائیں۔ہندوستانی ایجنسی نے یہ رِپورٹ بھیجی کہ حکیم صاحب دہلی کے بے تاج بادشاہ ہیں اور دہلی کے عوام کے دِلوں پر اُن کی حکومت ہے۔ اِس پر جارج نہ صرف یہ کہ حکیم صاحب سے مل کر مطمئن ہوئے اور اُن کی ساری باتیں مان لیں بلکہ لارڈ ہارڈنگ کو خط لکھا کہ حکیم صاحب کو دہلی میں کالج قائم کرنے کے لئے مناسب جگہ مرحمت کی جائے اور اُن کو جملہ سہولیات فراہم کی جائیں۔

قرول باغ طِبِّیہ کالج کا قیام

۱۹۱۱ء ؁ میں آپ نے یورپ کے سفر سے واپسی کے بعد اپنے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں ہندوستانی دوا خانہ اور مدرسہ طِبِّیہ میں چند اہم اصلاحات کیں اور مدرسہ طِبِّیہ کی توسیع کے لئے قرول باغ میں ایک بڑا رَقبہ زمین حکومت سے حاصل کرکے ۲۹؍ مارچ ۱۹۱۶ء؁ کو لارڈ ہارڈنگ وائس رائے آف اِنڈیا سے طِبِّیہ کالج کا سنگِ بنیاد نصب کرایا۔ جب کالج کی عالی شان عمارت تقریباً گیارہ لاکھ روپیوں کے خطیر صرفہ سے پایۂ تکمیل کو پہنچی تو ۱۹۲۱ء؁ میں اِس کا افتتاح گاندھی جی کے ہاتھوں انجام پذیر ہوا۔ ۱۹۲۶ ؁ء میں آپ نے کالج میں ریسرچ کا شعبہ قائم کیا جس کا مقصد قدیم طِبِّی نصابی کتابوں کی تنقیح و تہذیب اور ادویۂ مفردہ کی جدید سائنسی بنیادوں پر جانچ پڑتال اور تحلیل و تجزیہ تھا۔ دراصل ادویہ مفردہ کی بہم رسانی اور مرکب دواؤں کی تیاری کے لئے حکیم واصل خاں نے انیسویں صدی میں ہی یونانی اینڈ آیورویدک میڈیسن کمپنی قائم کر دی تھی۔ یہ کمپنی حکیم واصل خاں اور حکیم اجمل خاں دونوں کے مشترکہ سرمایہ سے قائم کی گئی تھی جو بعد میں ہندوستانی دوا خانہ کے نام سے مشہور ہوئی۔ ہندوستانی دوا خانہ کے قیام کے مقاصد میں سے ایک مقصد یہ بھی تھا کہ یونانی ادویہ کو جو اپنی شکل و صورت اور ظاہری حیثیت کے لحاظ سے عجیب و غریب نظر آتی ہیں اُن کو جدید شکل دی جائے چنانچہ اُنہوں نے جوارِش زرعونی اور بعض دیگر ادویہ مرکبہ کو ٹیبلیٹ کی شکل میں ہندوستانی دوا خانہ میں تیار کرایا اور مریضوں کو پیش کیا۔ ہندوستانی دوا خانہ کی نگرانی ۱۹۰۳؁ء میں حکیم اجمل خاں کے سپرد ہوئی تھی۔

مدرسہ دائیان اور مدرسہ طِبِّیہ زنانہ کا قیام

۱۹۰۶ء میں آپ نے مدرسہ دائیان کی تحریک چلائی تاکہ اَن پڑھ اور ناواقف کاروائیوں کی وجہ سے جو نقصان عامۃ النِّساء کو پہنچ رہا ہے اُس کا تدارک کیا جا سکے۔ اِس کوشش کے نتیجہ میں ۱۹۰۸؁ء میں دہلی میں ’’مدرسہ طِبِّیہ زنانہ‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔ حکیم صاحب کا یہ بھی خیال تھا کہ اطِبَّا میں تقلیدِ جامد کا رجحان فی الحقیقت طِب کی راہ میں ایک بڑی رُکاوٹ ہے اِس کو دور کئے بغیر یا با الفاظِ دیگر طِب کی تجدید و اِصلاح کئے بغیر طِب کی ترقی مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے، چنانچہ آپ نے طِب کی تجدید و تحقیق پر بہت زیادہ زور دیا اور ایک ’’مجلِس علمی‘‘ قائم کی جس میں حکیم محمد اِلیاس خاں دہلوی، حکیم کبیر الدین بہاری، حکیم عبدالحفیظ، حکیم فضل الرَّحمٰن اور ڈاکٹر سیّد ناصر عبّاس بہ حیثیت رکن اِس کمیٹی میں شامل رہے جب کہ حکیم صاحب موصوف خود اِس کے صدر اور حکیم محمد اِلیاس خان مرحوم اِس کے سکریٹری تھے۔ مسیح الملک کی رحلت کے بعد بھی ۱۹۳۲ء؁ تک یہ کمیٹی اپنا کام کرتی رہی۔

عربی زبان میں مہارت

مفتی کفایت اللہ کا بیان ہے کہ حکیم اجمل خان کو عربی میں اِس قدر کمال تھا کہ بلا تکلُّف عربی بولتے تھے اور عربی نظم و نثر لکھتے تھے۔ عربی جاننے والوں سے وہ عربی میں مکاتبت اور مراسلت کرتے تھے۔ میری خط و کتابت اُن سے عربی میں ہوتی تھی۔ اگر اتفاق سے میں نے اُردو میں کوئی خط بھیج دیا تو جواب عربی میں دیتے تھے اور اُردو میں خط لکھنے کی شکایت کرتے تھے۔‘‘ اُن کا بیان ہے کہ حکیم صاحب کے عربی خطوط کا ایک وافر ذخیرہ اُن کے پاس موجود تھا۔

حکیم نذر احمد کے مطابق علی گڑھ کے عربی کے جرمن پروفیسر نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ’’ہندوستان میں عربی ادب کے ماہر صرف دو شخص ہیں : ایک مسیح الملک حکیم اجمل خان اور دوسرے کلکتہ کے ایک صاحب۔‘‘

حکیم اجمل خان کی شاعری

حکیم صاحب عربی اشعار بھی کہتے تھے۔اُن کا عربی کا غیر مطبوعہ کلام موجود تھا۔ رموزالاطباء میں بعض عربی اشعار شائع ہوئے ہیں۔ عربی ادب کے علاوہ رامپور میں اُنہیں فارسی میں بھی مہارت حاصل کرنے کا موقع ملا۔ ریاست کے اساتذۂ باکمال کی صحبتیں اُنہیں میسَّر آئیں جس سے نہ صرف ادب اور تصنیف و تالیف بلکہ شعر و سخن کا بھی ذوق پیدا ہوا اور تینوں زبانوں میں اُنہوں نے طبع آزمائی کی (بہ حوالہ رسائل مسیح الملک)۔

ادویہ پر ریسرچ و تحقیق کا منصوبہ

حکیم اجمل خان نے ادویہ مفردہ و مرکّبہ دونوں پر ہی بہت منصوبہ بند طریقے سے ریسرچ و تحقیق کرانے کا آغاز کیا جس کی غرض یہ تھی کہ یونانی ادویاتی خزانہ کو جدید تحقیقات اور آلات و وَ سائل کی مدد سے برِّصغیر سے نکال کر اہلِ مغرب کو بھی اِس کی اہمیت و افادیت سے روشناس کرایا جا سکے جس کے لئے اُنہوں نے ڈاکٹر سلیم الزَّماں صدیقی کو منتخب کیا۔

حکیم اجمل خان نے ڈاکٹر سلیم الزَّماں صدیقی کو ایک یونانی دوا جو اسرول یا چندن بوٹی Rauwolfia serpentina کے نام سے مشہور ہے، دی اور فرمائش کی کہ اِس پر تفصیل سے تحقیقی کام کیا جائے، جس پر ڈاکٹر صدیقی نے کئی سالوں تک انتھک محنت و لگن کے ساتھ کام کیا، اسرول ایک عمدہ اور مجرَّب دوا تھی جو فشار الدم کے لئے عرصہ سے مستعمل تھی، کئی برسوں کی ریسرچ و تحقیق کے بعد اُنہوں نے طِب میں ایک نئے باب کا اِضافہ کیا اور بہترین دافع فشار الدمDrug Anti hypertensive کے طور پر serpasil منصّۂ شہود پر آئی۔ حکیم صاحب کی زندگی میں یہ کام پایۂ تکمیل تک تو نہ پہنچ سکا البتہ ۱۹۳۲؁ء میں سلیم الزَّماں صدیقی نے اپنی جو تحقیقات پیش کیں اُن میں الکلائڈز (Alkaloids ) معلوم کئے اور حکیم صاحب کی ذاتِ گرامی کو خِراجِ عقیدت پیش کرنے کے طور پر اُن کو حکیم صاحب کے نام سے منسوب کیا۔ اُن میں اجملین،اجملینین، نیو اجملین، آئیواجملین، اجملیسین وغیرہ شامل ہیں۔ دنیائے طِب کا یہ ایک عظیم کار نامہ ہے جو حکیم صاحب کی عبقری شخصیت کے ایک معمولی پہلو کی ترجمانی کرتا ہے۔

حکیم اجمل خان بنیادی طور پر ایک طبیب تھے۔ اُن کے آباء و اجداد طبیب تھے۔ اُنہوں نے فنِّ طِب اِس طرح سیکھا جس طرح مچھلی پیدا ہوتے ہی پانی میں تیرنا سیکھتی ہے۔ حکیم اجمل خان نے صرف اِسی پر اکتفا نہیں کیا جو اُنہیں وِرثہ میں ملا تھا، اُنہوں نے اِس فن کو ہر پہلو سے ترقی دے کر آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ اُن کے عہد میں طِبِّی تعلیم افراد اور خاندانوں تک محدود تھی۔ اِس لئے باقاعدہ کالجوں اور مدرسوں کا رِواج نہ تھا۔ قدیم نظامِ تعلیم میں دیگر علوم کے ساتھ طِب بھی پڑھائی جاتی تھی۔ خاندانی اور رِوایتی طبیبوں کے مطب مریضوں کے علاج کے مرکز ہوتے تھے۔ یہ زمانہ تھا جب جدید میڈیکل سائنس کا رِواج شروع ہو رہا تھا جسے انگریزوں کی بھرپور سرپرستی حاصل تھی۔ انگریز ایک پالیسی کے تحت ہندوستان کے فنِّی اور تہذیبی ورثوں کو مٹاتے جا رہے تھے۔ وہ دیسی طِبّوں کو پسند نہیں کرتے تھے اور اُنہیں غیر سائنٹِفِک طریقے قرار دیتے تھے۔ چنانچہ بمبئی پر یزیڈینسی میں ایک قانون پاس ہوا جس کے ذریعہ ملک کے دیسی معالجین پر پابندی لگا دی گئی۔ حکیم صاحب بے قرار ہو اُٹھے۔ اُنہوں نے تمام ملک کے ویدوں اور طبیبوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور اِس قانون کے خلاف جدو جہد شروع کی۔ برطانوی سامراج سے حکیم صاحب کا پہلا براہِ راست ٹکراؤ دیسی طِبّوں کے تحفُّظ کے لئے ہوا۔ اُنہوں نے ۱۹۱۰؁ء میں آیورویدک اینڈ یونانی طِبِّی کانفرنس کی بنیاد ڈالی۔ بالآخر حکیم صاحب کو کامیابی ملی۔ اُنہوں نے آیوروید اور یونانی طِب کی تعلیم کی جدید میڈیکل سائنس کے پیشِ نظر معیار بندی کا کام شروع کیا مدرسہ طِبِّیہ تو بہت پہلے قائم ہو چکا تھا لیکن اِسے باقاعدہ کالج بنانے کا عمل اب شروع ہوا۔حکیم صاحب نے طِبِّی تعلیم کے لئے باقاعدہ نصاب مرتب کرائے۔یورپ کا دورہ کر کے وہاں کی میڈیکل ایجوکیشن اور اسپتالوں کا قریب سے جائزہ لیا۔

قرول باغ میں نو تعمیر شدہ طِبِّیہ کالج کی عمارت کا افتتاح

۱۹۱۲ء میں مہاتما گاندھی نے طِبِّیہ کالج کی عمارت کا افتتاح کیا۔ اِس کالج میں حکیم صاحب نے آیورویدک اور یونانی کو مساوی درجہ دیا اور دونوں طِبّوں کی تعلیم و تربیت کے لئے یہ کالج ایک مرکز بن گیا۔ حکیم صاحب نے دیسی طِبّوں میں ریسرچ کی ضرورت کو شِدّت سے محسوس کیا اور جدید سائنٹِفِک پیمانے پر ریسرچ کے دروازے کھولے۔ طِبِّ یونانی کا تمام لٹریچر فارسی اور عربی میں محفوظ تھا اور اِن دونوں زبانوں کا چلن ختم ہوتا جا رہا تھا۔اِس لئے حکیم صاحب نے مروّجہ زبان اُردو کو ذریعۂ تعلیم قرار دیا اور اِس کے ساتھ ہی ترجمہ کی ضرورت بڑی شِدّت سے محسوس کی۔ عربی اور فارسی میں محفوظ طِبِّی ذخائر کو تیزی سے اُردو میں منتقل کرایا گیا تاکہ طلباء اپنے فن کے کلاسیکی لٹریچر اور قدیم تجربات سے براہِ راست استفادہ کر سکیں۔ حکیم اجمل خان نے دیسی دوا سازی پر خاص توجہ کی اور بدلتے ہوئے زمانے کی ضرورتوں کو ملحوظ رکھا اور ۱۹۰۴ء میں ’’ہندوستانی دوا خانہ‘‘ قائم کیا جس نے تیزی سے ترقی کی۔ اِس سے ایک طرف تو خالص، مجرَّب اور مؤثر دوائیں مریضوں کو دستیاب ہونے لگیں اور دوسری طرف اِس کی آمدنی سے طِبِّیہ کالج کے مالی مسائل حل ہوئے۔ دوا خانے کی ہزاروں روپے کی آمدنی کالج کی کفالت کے لئے وقف کر دی گئی۔

حکیم صاحب کی رحلت کے بعد اُن کے جا نشینوں نے اِس مشن کو کسی نہ کسی طرح جاری رکھا اور ۱۵ اگست ۱۹۴۷ء کو ہندوستان آزاد ہوا۔ امید تھی کہ قومی حکومت اِس محسنِ قوم کے ورثوں پر خاص توجہ دے گی اور اُن کے نامکمل مشن کو پورا کرے گی لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔ ۱۹۵۲ء میں طِبِّیہ کالج ایکٹ پاس ہوا جس کے تحت طِبِّیہ کالج اور ہندوستانی دوا خانے کے انتظام و انصرام کی ذمّہ داری بورڈ آف ٹرسٹیز سے لے کر نو تشکیل طِبِّیہ کالج بورڈ کے سپرد کردی گئی۔ اُس زمانے میں ہندوستانی دوا خانے کی خالص آمدنی اِتنی تھی کہ اُس سے طِبِّیہ کالج کے اخراجات کی تکمیل ہو رہی تھی۔ طِبِّیہ کالج ایکٹ ۱۹۵۲ء کے تحت جو بورڈ بنایا گیا اُس کی ذمّہ داریوں میں مندرجہ ذیل تین امور لائقِ توجہ اور قابلِ غور ہیں :

(الف) آیورویدک اینڈ یونانی سسٹم آف میڈیسن کی تعلیم و تربیت اور ریسرچ کی ترقی کے لئے اور اُس کے معیار کو قائم کرنے کے لئے یہ بورڈ ذمّہ دار ہو گا۔

(ب) ہندوستانی دوا خانہ و رسائن شالہ کو قائم رکھنے اور ترقی دینے کی ذمہ داری بورڈ ہی کی ہو گی۔

(س) اِس بورڈ کی یہ بھی ذمَّہ داری ہو گی کہ کالج سے متعلق تمام اثاثوں و آراضیوں کو مقاصد(الف)اور(ب) کے تحت اپنی صوابدید کے مطابق استعمال کرے اور اُن کا انتظام کرے۔

لیکن جناب خاور ہاشمی کے الفاظ میں کڑوی سچائی کچھ اِس طرح ہے:

’’اب ذرا زمینی صورتِ حال پر غور کیجئے۔ ۱۹۵۲ء سے اب تک اِس بورڈ کی نگرانی میں ہندوستانی دوا خانہ مکمل طور سے تباہ ہو چکا ہے۔ لوگ اِس کا نام بھول چکے ہیں۔ چند لوگ جو وہاں ملازم ہیں اُن کا کام دوا سازی نہیں صرف اِس کے دروازوں کو کھلا رکھنا ہے۔ اِس عظیم و قدیم دوا خانے میں حقیر مقدار میں جو دوائیں بنتی ہیں وہ شفا خانہ طِبِّیہ کالج کی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے بھی ناکافی ہیں۔ مختصر یہ کہ ہندوستانی دوا خانے میں درو دیوار، ایک بوسیدہ سائن بورڈ اور حکیم اجمل خان کی ایک تصویر کے سِوا اب کچھ باقی نہیں ہے۔‘‘(۱۳)

خاور صاحب مزید لکھتے ہیں :

’’آیورویدک اینڈ یونانی طِبِّیہ کالج میں تعلیم و تربیت اور ریسرچ کی کہانی اِس سے بھی زیادہ افسوس ناک اور تکلیف دہ ہے۔ کالج کیمپس کے ایک بڑے حصے پر پارک بنا دیا گیا ہے جس میں حکیم صاحب کا ایک مجسّمہ درسِ عبرت کے لئے لگا ہوا ہے۔ باقی ماندہ کچھ حصے پر ناجائز قبضے ہو چکے ہیں لیکن ضرورتوں کے لئے جو عمارت خود مسیح الملک نے تعمیر کرائی تھی اُس میں ایک اِنچ بھی اِضافہ نہیں ہوا کیونکہ اِس کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔ ضرورت اُس وقت ہوتی جب تعلیم و تربیت کے دائرے میں وسعت پیدا ہوتی۔ تعلیم کا معیار اور اُس سے دلچسپی بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے۔ رفتہ رفتہ کالج کیمپس علم و فضل کا مرکز ہونے کے بجائے گھٹیا سیاست کا اکھاڑہ بننے لگا چونکہ بورڈ کی لگام سیاسی کارِندوں کے ہاتھ میں رہی اِس لئے اِس کے اثرات سے کالج کے اساتذہ اور پھر طلباء بھی محفوظ نہیں رہے۔ گروہی مفادات کی کھینچ تان میں کالج کے مفادات کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا، کالج میں پوسٹ گریجوئیٹ کلاسز کے لئے جب بھی تحریک اُٹھی وہ گروہ بندی کا شکار ہو کر ختم ہو گئی۔ اِس کالج کے عظیم بانی نے یونانی اور آیورویدک میں ریسرچ کے جو دروازے کھولے تھے، اُنہیں بند کر دیا گیا۔ تازہ ہواؤں کے نہ ملنے سے علمی اور فنِّی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ سیاسی لیڈروں کو یہ توفیق بھی نہیں ہوتی کہ مسیح الملک کے یومِ وفات پر فاتحہ اور گل پوشی کے بہانے اُس قبرستان کا حالِ زار دیکھ لیتے۔‘‘

حکیم صاحب رئیسانہ مزاج اور شاہانہ سطوت کے حامل تھے۔ اُن کا مطب ایک مثالی مطب تھا جس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اِس دور میں حکیم صاحب خاص مریضوں کو دیکھنے کی فیس مبلغ1000/- روپے لیا کرتے تھے لیکن دوسری طرف اُن کے دِلِ درد مند میں، ضعیفوں، ناداروں اور محتاجوں کے لئے وسیع جگہ تھی، چنانچہ صدر بازار دہلی میں جہاں حکیم صاحب کا مطب ہوتا تھا وہاں آپ بلا معاوضہ عام مریضوں کو بھی دیکھا کرتے تھے اور اُن کے لئے نسخے تجویز فرماتے تھے۔ اُن کا مطب صبح سویرے سے شروع ہو کر شام کے پانچ بجے تک چلتا تھا۔ حکیم صاحب موصوف صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے لیکن دوسری جانب اُن کا ذہن و دماغ ذوقِ لطیف سے بھی پیراستہ تھا، چنانچہ کبھی کبھی نمازِ مغرِب کے بعد ہی اُن کی رہائش گاہ پر سازندوں کے طائفے آتے، محفلِ رنگ و بو جمتی، شبِ رعنا جوان ہوتی اور محفلِ سرُور سے حکیم صاحب محظوظ ہوتے۔ اُن کی سارے دِن کی انتھک محنت، جد و جہد اور جسمانی و ذہنی تکان کے لئے اِس قسم کی محفلوں کا انعقاد ضروری خیال جاتا تھا۔

حکیم اجمل خان کو اپنے فن کی عظمت اور یونانی ادویہ سے علاج و معالجہ پر بڑا ناز تھا۔ اُن کو اپنی تشخیص اور معالجہ پر کس قدر اعتماد تھا، اِس کا اندازہ حکیم صاحب کی زندگی کے مختلف واقعات تشخیص و علاج کا مطالعہ کرنے سے ہوتا ہے۔ جنگِ آزادی کے مشہور رہنما اور اپنے وقت کے بڑے سرجن ڈاکٹر مختار احمد انصاری مرحوم کی یہ تحریر یاد رکھنے کے لائق ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

’’حکیم اجمل خان صاحب سے میری پہلی ملاقات لندن میں ہوئی تھی جب میں ’’چیرنگ کراس اسپتال‘‘ میں ہاؤس سرجن تھا۔ حکیم صاحب بغرض سیاحت لندن تشریف لائے تھے، اُن کو لندن کے مشہور اسپتال کے معائنہ کا شوق تھا۔’’ڈاکٹر اسٹیلے بائیڈ‘‘ چیرنگ کراس اسپتال کے مشہور سینئر سرجن تھے اور بادشاہ کے بھی وہ آنریری سرجن تھے۔ تشخیصِ امراض اور فنِّ سرجری میں لندن میں یہ مسلّم اُستاذ سمجھے جاتے تھے، میں اُنہی کا ہاؤس سرجن تھا۔ حکیم صاحب سے اُن کی ملاقات میں نے کرائی۔ اُنہوں نے حکیم صاحب کو ایک روز اپنے اسپتال میں اپنے کلینکل سرجری کلاس میں دعوت دی۔ ایک مریض کے متعلق ڈاکٹر بائیڈ طلباء کو سمجھا رہے تھے۔ حکیم صاحب سے بھی اُنہوں نے مریض کو دیکھنے اور تشخیص کرنے کی خواہش کی، نبض اور دیگر معائنوں کے بعد حکیم صاحب نے تشخیص کیا کہ مریض کی آنتوں کے ابتدائی حصہ میں کہنہ زخم ہے جس کے باعِث درد کی تکلیف، یرقان اور حرارت ہے۔

ڈاکٹر بائیڈ کی رائے میں وہ پت کی تھیلی کا وَرم تھا۔ اُنہوں نے حکیم صاحب کو نہایت خُلق و اِصرار سے دوسرے روز صبح کو بھی مریض کے آپریشن کے وقت بلایا اور ہنس کر کہا کہ یہ طِبِّ یونانی اور انگریزی طِب کا امتحان ہے۔ آپریشن سے پتہ چلے گا کہ کون سا طِب صحیح ہے۔ مجھ کو کس قدر اندیشہ تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری دیسی طِب کی بے عزتی ہو جائے۔ آپریشن کے وقت بھی میں کسی قدر تشویش میں تھا لیکن شکم چاک کرنے پر حکیم اجمل خان کی تشخیص صحیح نکلی اور ڈاکٹر بائیڈ نے نہایت فیّاضی اور کشادہ پیشانی کے ساتھ حکیم صاحب کو اُن کی کامیابی پر مبارک باد دی، حکیم صاحب کو اور مجھ کو اپنے گھر ڈِنر کے لئے لے گئے۔ حکیم صاحب اور مجھ پر بھی بائیڈ کی اِس علم شناسی، قدردانی اور خوش خلقی کا بہت اثر ہوا۔‘‘

اِس طرح کے کئی اور بھی اہم واقعات ہیں جن میں مرحوم لالہ لاجپت رائے، ڈاکٹر سر محمد اقبال اور پیرس کی ایک مریضہ کے پیٹ میں شدید در د رہا کرتا تھا اور اُس کی ٹانگیں سکڑ گئی تھیں جن سے وہ چلنے پھرنے سے معذور ہو گئی تھی۔ اُن سب کا کامیاب علاج حکیم اجمل خان نے کیا اور وہ صحت یاب ہو گئے۔ حکیم صاحب کی زندگی اِس مصرع کی تعبیر تھی کہ:

؎مری زندگی یہی ہے کہ ہر اک کو فیض پہنچے

حکیم صاحب کی زندگی ایک سمندر سے تعبیر تھی اور اُن کی حیات کا ہر پہلو ایک اُمڈتے ہوئے طوفان کی طرح تھا۔ اُن کی حیاتِ مستعار کا ایک ایک لمحہ بیش قیمت تھا اور وہ اُن قیمتی لمحات کے صحیح استعمال کے لئے ہمہ وقت بے قرار رہتے تھے۔ طِب کی بساط سے اُٹھتے تو سیاست کا گھوڑا تیار ملتا، سیاست کی ناؤ سے اُترنے کا اِرادہ کرتے تو قوم کا غم اُنہیں ایک دوسری سمت کی طرف چلنے پر مجبور کرتا۔ اِنہی کوائف میں حکیم صاحب کے شب و روز کا پہیہ گھومتا تھا اور وہ شب و روز مصروفِ عمل رہتے!(۴)

خلافتِ عثمانیہ کا زوال اور تحریکِ ترکِ موالات

۱۹۱۲؁ء میں خلافتِ عثمانیہ کے خلاف جو جنگ شروع ہوئی اُس نے ہندوستان کے مسلمانوں میں غم و غصہ کی آگ بھڑ کادی اور ہندو آبادی نے بھی اِس خطرہ کو محسوس کیا جو سامراجی حکومتوں کی اِس دست درازی سے تمام ایشیائی اقوام کے لئے پیدا ہو رہا تھا۔ اِن حالات میں مسلم لیگ کے لیڈروں کا نقطۂ نظر کانگریسی سیاسی تحریک سے قریب تر ہونے لگا۔ اب وہ فرقہ وارانہ مسائل کے میدان سے آگے بڑھ کر ملکی سیاست کی جانب اپنا رُخ بدلنے لگے۔ اگست ۱۹۱۲ء؁ جنگ یورپ کے اعلان کے بعد اجمل خان، مولانا محمد علی جوہرؔ اور ڈاکٹر مختار احمد انصاری وغیرہ نے محسوس کیا کہ اِس وقت برطانیہ کی مدد کرنا خود اپنے ملک کی مدد کرنا ہے، چنانچہ دہلی کے ٹاؤن ہال میں اظہارِ وفاداری کے لئے جو جلسہ منعقد ہوا اُس میں مذکورہ رہنماؤں نے اہلِ ملک کو وفاداری اور تعاون کی تلقین کی اور پھر امدادی کاموں میں مصروف ہو گئے لیکن جنگ کے انقلابی حالات ممالکِ اِسلامیہ کے مصائب نے مغربی تہذیب و تمدُّن کا اعتبار اُن کی نظروں سے گرا دیا۔ آخر کار اجمل خان ۱۹۱۵ء؁ میں امدادی جنگ کی جد و جہد سے تقریباً کنارہ کش ہو گئے۔اِسی سال کے آخر میں کانگریس اور لیگ کے لیڈروں نے طے کیا کہ جنگ کے بعد دنیا میں جو نظام قائم ہونے والا ہے اس میں ہندوستان کی سیاسی حیثیت کا تعیُّن کر لینا بہت ضروری ہے۔چنانچہ ۱۹۱۶ء؁ میں وائس رائے کے لیجس لیٹو کاؤنسل (Legislative Council) کے ۱۹ اراکین نے ایک متَّفِقہ مطالبہ پیش کیا جس کی تائید کانگریس اور لیگ نے کی اور اُسی سال دسمبر میں لیگ اور کانگریس کے اجلاس ایک نئی جگہ لکھنؤ میں منعقد ہوئے اور اُن میں ایک ایسا مُتَّفِقہ دستورالعمل تیار کیا گیا جو عرصہ تک ہندوؤں و مسلمانوں کے سیاسی اتحاد کی دستاویز سمجھا جا تا رہا، مسیح الملک حکیم اجمل خان کی سیاسی زندگی کی تعمیر میں یہ سمجھوتہ ایک سنگِ بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔

اِس کے بعد تحریکِ ترکِ موالات کا آغاز ہوا تو اجمل خان پوری طرح اُس کی طرف متوجہ ہو گئے۔ دسمبر ۱۹۱۲ء؁ کا آخری ہفتہ کلکتہ میں قومی جوش و خروش کے مظاہروں کا عجیب و غریب مشاہدہ تھا، اجمل خان کانگریس اور لیگ کے پلیٹ فارم پر موجود تھے۔ اب وہ سیاسی زندگی کے اُس دور میں داخل ہو چکے تھے جہاں کوئی بھی اجتماع، کانفرنس یا اِجلاس اُن کے بغیر نا مکمّل سمجھا جاتا تھا۔ غالِباً پہلی دفعہ اُسی موقع پر اجمل خان اور گاندھی جی ایک دوسرے کے قریب ہوئے۔ نومبر ۱۹۱۸ء میں کانگریس کے سالانہ اجلاس میں اجمل خان نے مجلِسِ استقبالیہ کے صدر کی حیثیت سے جو خطبہ پیش کیا اُس میں بیک وقت ملک کے سیاسی مسائل اور مسلمانوں کے مذہبی امور کا توازن قائم رکھا گیا تھا۔ ۱۹۱۹ء ؁ میں علی برادران کی رہائی کے ساتھ ساتھ اجمل خان کی سیاسی زندگی کا آفتاب نصف النہار پر آگیا تھا اور گاندھی جی اپنے دستورالعمل کو اہلِ ملک کے سامنے پیش کرنے کے لئے تیار بیٹھے تھے۔ ۶؍ فروری ۱۹۱۹ء؁ کو رولٹ بل کاؤنسل میں پیش ہوا تو اِس سیاہ قانون کے خلاف گاندھی جی نے ستیہ گرہ کا اعلان کر دیا۔ نیز دہلی میں اجمل خان اپنے دیگر رفقاء کے ساتھ ہڑتال میں شریک رہے۔

اِجلاسِ خلافت کانفرنس اور سودیشی تحریک کا آغاز

اِسی دوران ایک طرف جلیاں والا باغ کے حادثہ میں جنرل ڈائر کے قتلِ عام نے ہندوؤں و مسلمانوں کو بے چین کر دیا تھا تو دوسری طرف خلافت کا مسئلہ بھی مسلمانوں کے لئے سخت تردُّد کا باعِث بن گیا تھا۔ چنانچہ اجمل خان اور ڈاکٹر مختار احمد انصاری نے خلافت کانفرنس کے نام سے ایک عظیم الشَّان جلسہ منعقد کیا اور اُس میں یہ اعلان کیا کہ اگر ترکی اور مسئلۂ خلافت کے مسائل مسلمانوں کی عام خواہشات کے خلاف طے ہوئے تو مسلمان انگریزی مال کا بائیکاٹ کریں گے اور حکومت کے ساتھ اتحاد و عمل کی پالیسی کو بھی ترک کر دیں گے اور اگلے ماہ جب لیگ اور کانگریس کے اِجلاس امرتسر میں منعقد ہوئے تو اجمل خان لیگ کے صدرِ جلسہ تھے۔ اِس موقع پر اُن کا خطبۂ صدارت واقعاتِ پنجاب اور ہندو مسلم اتحاد کے باب میں ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔

یہ وہ زمانہ تھا جسے بجا طور پر ہندوستان کی سیاسی جد و جہد کا اور خود اجمل خان کی سیاسی زندگی کا دورِ عروج کہا جا سکتا ہے، مارچ ۱۹۲۰ء ؁ میں آپ نے ملک کے تمام ہندو مسلم لیڈران کو دہلی مدعو کیا۔ کئی دِنوں تک غور و فکر ہوتا رہا، آخر کار اپریل ۱۹۲۰ء؁ میں گاندھی جی نے حکومت کے مقابلہ پر اعلانِ جنگ کر دیا۔ اِس موقع پر سب سے پہلے حکیم صاحب نے اپنا خطاب ’’حاذق الملک ‘‘اور’’ تمغۂ قیصر ہند‘‘ حکومت کو واپس کر کے حاکمانہ جبر و تشدُّد کے خلاف اپنے رنج اور بیزاری کا اظہار کیا جس کے بعد تمام لوگوں نے سرکاری خطابات واپس کرنے شروع کر دئیے۔ اِس کے چند ہی دِنوں بعد جمعیۃ العلمائے ہند کے اِجلاس کانپور میں آپ کو مسیح الملک کا خطاب دیا گیا۔ آخر کار ۳۱ اگست ۱۹۲۰ء؁ کو یومِ خلافت کے نام سے ملک کے ہر گوشے میں ہڑتال ہوئی اور اِسی ہڑتال سے تحریکِ ترکِ موالات کا آغاز ہوا۔ اِس دوران ملک کے مختلف گوشوں سے ہندوؤں و مسلمانوں کے جھگڑوں کی خبریں آنا شروع ہوئیں۔ اِن میں آپ نے دونوں فرقوں کے درمیان صلح کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ نومبر میں آپ اور علی برادران نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اربابِ کار کو مشترکہ مکتوب میں لکھا کہ گورنمنٹ کی امداد لینا بند کر دیں لیکن وہ اِس پر راضی نہ ہوئے۔ البتہ طلباء سے براہِ راست اپیل کرنے پر چھ سو برافروختہ طلباء نے مسلم یونیورسٹی چھوڑ دی۔ نتیجتاً اُن کی تعلیم کے لئے آپ کی تجویز کے مطابق علی گڑھ میں جامعہ ملّیہ اسلامیہ کے نام سے ایک اِدارہ قائم کیا گیا۔ حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن صاحب ؒ دیوبندی اس دوران سخت علیل تھے لیکن اِس حالت میں آپ علی گڑھ تشریف لائے اور جامعہ مِلِّیہ اِسلامیہ (جو بعد کو دہلی منتقل ہو گئی)کا افتتاح آپ کے مبارک ہاتھوں سے کرایا گیا۔

دراصل حکیم صاحب کے سنہری خوابوں میں سے ایک خواب جامعہ مِلّیہ اِسلامیہ کا قیام بھی تھا جو شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن صاحب کے ہاتھوں شرمندۂ تعبیر ہوا۔

علی گڑھ میں سر سیّد احمد خان بہادر کا محمڈن اینگلو اورینٹل کالج ایک بڑی یونیورسٹی بننے کے مراحل سے گزر رہا تھا۔ اِدھر حکیم اجمل خان جامعہ مِلِّیہ اسلامیہ کے ترقیاتی منصوبوں کو بروئے کار لانے کے لئے بہت سی قربانیاں دینے میں لگے ہوئے تھے۔ اُنہوں نے ڈاکٹر ذاکر حسین،ڈاکٹر سلیم الزَّماں صدیقی اور ایک غیر مسلم اسکالر (غالباً گرگ صاحب) تینوں کو اپنے ذاتی مصارِف پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے جرمنی بھیجا تاکہ وہاں سے واپسی کے بعد وہ جامعہ کے کاموں میں حکیم صاحب کا ہاتھ بٹا سکیں۔یہ اُن دِنوں کی بات ہے کہ جب امریکی اور برطانوی اعلیٰ تعلیم ابھی نوزائیدہ تھی اور اُس دور میں ہر سو تعلیم و ترقی اور ٹیکنالوجی میں فرانس اور جرمنی کا شہرہ تھا۔ اِن لوگوں کو حکیم صاحب نے ۷۵ روپے ماہانہ تعلیمی خرچہ کی رقم کے بطور اپنے جیبِ خاص سے دیا۔ جب یہ لوگ اپنی تعلیم پوری کر کے ہندوستان واپس آئے، اُس وقت تک حکیم صاحب کے جامعہ کا کام کافی ترقی پا چکا تھا۔ جامعہ کے لئے حکیم صاحب کی بڑی قربانیاں ہیں۔ پورے عملہ کو وہ اپنی جیبِ خاص سے تنخواہیں دیتے۔ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ کالج کے منشی نے حکیم صاحب کو آ کر بتایا کہ اِس ماہ ملازمین کو مشاہرہ دینے کی کوئی شکل نظر نہیں آتی۔ خزانہ خالی ہے، فنڈ ز میں پیسے نہیں ہیں۔ اُس وقت حکیم صاحب نے ذرا توقف فرمایا،پھر اپنی ہیرے کی ایک انگوٹھی اُتار کر منشی کے حوالہ کی جس کو فروخت کر کے تمام عملہ کی تنخواہیں دی گئیں اور اُس میں سے جو کچھ روپے بچ رہے اُن کو بھی داخل دفتر کروا دیا۔ اُس زمانہ میں حکیم صاحب کی یہ انگوٹھی ساڑھے چار ہزار روپے میں فروخت ہوئی تھی جو اُس زمانہ کی ایک خطیر رقم تھی۔ اِس واقعہ سے حکیم صاحب کی اولوالعزمی اور اُن کے ایثار کا پتہ چلتا ہے۔

گردِشِ ایّام اور وقت کی ستم ظریفی کہیے کہ حکیم صاحب کئی دوسری مصروفیات میں لگ گئے اور اپنے سینچے ہوئے پودے کو تناور درخت بنتا نہ دیکھ سکے اور تاریخ کے اوراق سے رفتہ رفتہ اُن کا نام مٹنے لگا اور جامعہ مِلِّیہ اِسلامیہ پر دوسرے لوگوں کا تسلُّط بڑھتا گیا اور اب حالت یہ ہے کہ آج کا ایک بڑا طبقہ جامعہ مِلِّیہ اِسلامیہ سے حکیم صاحب کے علاقہ کو تسلیم کرنا تو درکنار وہ حکیم صاحب کی ساری قربانیوں کو بھی یکسر فراموش کر چکا ہے اور جامعہ کو حکیم صاحب سے کیا نسبت ہے، اِس سے لا عِلم ہے۔ (۱۳)

کانگریس کمیٹی کی صدارت اور مکمل آزادی کا تصوُّر

۱۹۲۱ء میں حکومت نے کانگریس کے صدر سی۔آر۔داس کو گرفتار کر لیا تو گاندھی جی اور رفقائے کار نے کانگریس کی صدارت آپ کے سپرد کر دی۔ آپ کی صدارت میں کانگریس نے انفرادی سول نافرمانی کی تجویز منظور کی اور عوامی ادائیگی ٹیکس کی تحریک شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ کانگریس کے اِس اجلاس کا اہم ترین واقعہ یہ تھا کہ پہلی دفعہ مولانا حسرت موہانی نے ہندوستان کی ’’مکمّل آزادی‘‘ کا مطالبہ کانگریس اور خلافتِ کانگریس کے سامنے پیش کیا۔ جنوری ۱۹۲۲ء؁ میں کرمنل امینڈمنٹ ایکٹ کے خلاف سِوِل نافرمانی کی تحریک شروع ہوئی۔ آپ دیگر رفقاء کے ساتھ والنٹیئرس کی بھرتی میں ہمہ تن مصروف رہے اور تقریباً ۳۵۰۰۰ والنٹیئرس تیار کئے، لیکن جب کچھ ہی دِنوں کے بعد ایک موقع پر پولیس اور پبلک کے درمیان تصادم میں پبلک کی جانب سے تشدُّد کی خبر ملی تو گاندھی جی نے اُس پروگرام کو بند کرنے کا اعلان کر دیا۔اِسی دوران حکومت نے گاندھی جی کو ۶ سال کے لئے قید کر دیا۔ گاندھی جی نے گرفتاری کے بعد اپنے تمام اختیارات آپ کی طرف منتقل کر دئیے۔ اپریل ۱۹۲۲ء؁میں ملک میں پھر فرقہ وارانہ فسادات کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا، گو کہ آپ ان حالات سے بہت بیزار ہو چکے تھے، لیکن آپ نے ہندو و مسلم اتحاد کے لئے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ ۱۹۲۴؁ء میں قومی سیاسی میدان سے آپ نے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ سیاست سے آپ کی دلچسپی بہت کم ہو گئی اور صحت بھی بہت گر چکی تھی، لہٰذا اپنے مرض سے متعلق مشورہ کرنے کے لئے یورپ کے سفر کا فیصلہ کیا اور وہاں سے جب واپس ہوئے تو ۱۹ اکتوبر ۱۹۲۵ء ؁ کو جامع مسجد کے جلسہ میں حالاتِ سفر بیان کرتے ہوئے آپ نے ملک کو یہ پیغام دیا کہ اِس سفر میں جو کچھ میں نے دیکھا ہے اُس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک دِن ایشیا ضرور آزاد ہو گا۔

حکیم اجمل خان کے احوال و آثار

واقعہ یہ ہے کہ حکیم اجمل خان کی تہہ در تہہ شخصیت جدید ہندوستان کی سیاسی و سماجی معمار ہونے کے ساتھ ساتھ یونانی طِب کی ترجمان اور طِبِّ یونانی میں تحقیق و تجدید کی علمبردار بھی ہے کیونکہ جملہ شکوک و شبہات سے بالاتر حکیم صاحب ایک وسیع طِبِّی و سیاسی ذہن رکھتے تھے، وہ ایک طرف مسلم لیگ کے سرگرم رکن اور نائب صدر تھے تو دوسری طرف خلافت تحریک اور تحریک عدم موالات کی روحِ رواں تھے۔ ایک طرف وہ اگر ہندوستان کی جنگِ آزادی میں پیش پیش رہے تو دوسری طرف طبِّ یونانی میں تحقیقات کی نئی راہوں کے سرخیل بھی رہے۔ اُنہوں نے ادویہ و معالجہ کے فن کو ایک نئی سمت دی۔ حکیم صاحب کی بیش بہا فنِّی خدمات ماضی سے لیکر تا دمِ تحریر ایک مشعلِ راہ کا کام دے رہی ہیں اور امید ہے کہ مستقبل میں بھی برادرانِ وطن کو اُس سے رہنمائی ملتی رہے گی۔

ہندوستانی دوا خانہ اور دیگر اِدارہ جات کا قیام

(1) مفرد دواؤں کی بہم رسانی اور مرکب دواؤں کی تیاری کے لئے حکیم واصل نے ’’یونانی اینڈ ویدک میڈیسنزکمپنی‘‘ قائم کی تھی۔ یہ کمپنی حکیم واصل اور حکیم اجمل دونوں کے مشترکہ سرمایہ سے قائم ہوئی تھی۔یہی بعد میں ہندوستانی دوا خانہ کے نام سے مشہور ہوئی۔۱۴ اکتوبر ۱۹۰۳ء سے اِس کی نگرانی حکیم اجمل خان کے ذمّہ آئی۔

(2)جاہل اور ناواقف دائیوں کی وجہ سے جو نقصان ہو رہا تھا۔ اُس کے تدارک کے لئے حکیم صاحب نے ۱۹۰۶ء میں ’’مدرسہ دائیاں ‘‘ کی تحریک چلائی۔ بعد میں ’’مدرسہ طِبِّیہ زنانہ‘‘ کے نام سے اِس کا قیام عمل میں آیا اور ۱۳ جنوری ۱۹۰۹ء؁ کو پنجاب کے لفٹِننٹ گورنر بہادر کی اہلیہ ایڈتھ ڈین کے ہاتھوں اُس کا افتتاح ہوا۔

(3 ) طِبِّی تعلیم کے لئے حکیم عبد المجید نے ۱۸۸۲ء؁ میں ’’مدرسہ‘‘ قائم کیا تھا۔ اُن کے انتقال کے بعد اِس کے استحکام کی ذمّہ داری حکیم واصل کے سر آئی اور اُن کے بعد حکیم اجمل خان اِس کے ذمّہ دار ہوئے۔ حکیم صاحب نے مدرسہ کو کالج کی شکل میں ترقی دینے کا منصوبہ بنایا اور بہت سے اہلِ خیر نے مالی تعاون پیش کیا۔ چنانچہ مئی ۱۹۱۰ء میں ’’انجمنِ طِبِّیہ‘‘ قائم ہوئی اور ستمبر ۱۹۱۰ء؁ میں مدرسہ طِبِّیہ، شفا خانہ زنانہ اور ہندوستانی دوا خانہ کو انجمن نے اپنی تحویل میں لے لیا۔ پھر ماہ اکتوبر ۱۹۱۵ء؁ میں انجمن اپنے تمام صیغوں کے ساتھ بورڈ آف ٹرسٹیز، آیورویدک اینڈ یونانی طِبِّی کالج دہلی میں منتقل کر دی گئی۔۱۹۱۱ء؁میں انگلینڈ سے واپس آ کر آپ نے اپنے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں ہندوستانی دوا خانہ اور مدرسہ طِبِّیہ میں چند اہم اصلاحات کیں۔

(4 ) ۱۹۱۰؁ء میں آپ نے آل اِنڈیا آیورویدک اینڈ یونانی طِبِّی کانفرنس قائم کی۔ اِس کا پہلا اِجلاس ۲۶ نومبر ۱۹۱۰ء؁ کو دہلی میں ہوا جس کا مقصد میڈیکل رجسٹریشن ایکٹ کے خلاف احتجاج کرنا تھا جس کی رو سے گورنمنٹ نے صرف اُسی شخص کو علاج و معالجہ کی اِجازت دی تھی جو یورپ و ہندوستان کی کسی مُسلِّمہ یونیورسٹی سے سند یافتہ ہو۔ بالآخر طویل کوششوں، ملک گیر احتجاج اور آئینی طریقے اپنا کر حکیم صاحب یہ ایکٹ منسوخ کرانے میں کامیاب ہو گئے۔

حکیم صاحب نے مدرسہ طِبِّیہ کی توسیع کے لئے قرول باغ میں ایک بڑا رقبہ زمین کا حاصل کر کے ۲۹ مارچ ۱۹۱۶ء؁کو لارڈ ہارڈنگ گورنر جنرل سے طِبِّیہ کالج کا سنگِ بنیاد نصب کرا دیا۔ اِس کے بعد جب کالج کی شاندار عمارت پایۂ تکمیل کو پہنچی تو ۱۹۲۱ء؁ میں اُس کا افتتاح مہاتما گاندھی کے ہاتھوں ہوا۔

(5) مدرسہ طِبِّیہ سے حکیم واصل نے ’’مجلّہ طِبِّیہ‘‘ کے نام سے ایک رِسالہ جاری کیا تھا۔ اُن کے بعد کچھ دِنوں تک وہ حکیم اجمل خان کی زیرِ سرپرستی نکلتا رہا۔ اِس میں طِبِّی و علمی مقالات شائع ہوتے تھے۔بعد میں و حسب دستور زمانہ بند ہو گیا۔

(6 ) ۱۹۲۶؁ء میں حکیم صاحب نے کالج میں ریسرچ کا شعبہ قائم کیا جس کا مقصد طِبِّی نصاب کی قدیم کتابوں کی تنقیح اور ادویۂ مفردہ کی جدید سائنسی اصولوں کے مطابق جانچ اور تحلیل و تجزیہ تھا۔

عربی کتب کی فہرست سازی

حکیم اجمل خان کو مطالعہ کا از حد شوق تھا۔قیامِ رامپور کے زمانہ میں اُنہیں اپنے اِس علمی ذوق کی آبیاری کا ایک وسیع میدان ہاتھ آیا، کیونکہ نواب صاحب نے ۱۸۹۶؁ء میں ریاست کے قدیم اور بے مثال کتب خانہ کا اہتمام بھی حکیم اجمل خان کے سپرد کر دیا تھا اور اُنہیں اِس کا افسرِ اعلیٰ مقرر کیا تھا۔حکیم اجمل خان کا ایک اہم علمی کارنامہ یہ تھا کہ اُنہوں نے کتب خانہ کی عربی کتابوں کی فہرست تیار کروائی اور اُسے طبع کرایا۔ یہ کیٹلاگ ’’فہرست کتب عربی جلد اوّل موجودہ کتب خانہ ریاست رامپور‘‘ کے نام سے مطبع احمدی کوچہ لنگر خانہ رامپور سے مئی ۱۹۰۲؁ ء میں شائع ہوا۔ اِس کی دوسری جلد ۱۹۲۸ء؁ میں حافظ احمد علی خاں (۱۸۶۳۔۱۹۳۳ء) ناظم کتب خانہ ریاست رامپور کی نگرانی میں شائع ہوئی۔(۱،۵)

حکیم اجمل خان کی عربی طِبِّی تصانیف

حکیم اجمل خان تعلیم سے فراغت کے بعد جب نواب رامپور محمد حامد علی خان بہادر (متوفی ۱۹۳۰ئ) کے یہاں طبیبِ خاص ہوئے تو اُنہوں نے مختلف علوم و فنون میں قدماء کی کتابوں کا کثرت سے مطالعہ کیا۔ طِب کے مصادر و مراجع سے بھی استفادہ کیا۔ قیامِ رامپور کے زمانہ میں اُنہوں نے تصنیف و تالیف کا خاصا کام انجام دیا اور طِبِّی موضوعات پر متعدد رِسالے لکھے۔(۵)

یہ طِبِّی رسائل اپنے حجم کے اعتبار سے اگر چہ مختصر ہیں مگر موضوع اور مباحث کے اعتبار سے بڑے وقیع ہیں اور اُن سے حکیم صاحب کی تحقیقی شان نمایاں ہوتی ہے۔

۱۔ القول المرغوب فی الماء المشروب:

اِس رسالہ میں شیخ الرَّئیس ابنِ سینا (۳۷۰۔۴۲۸ھ/۹۸۰۔۱۰۳۷ء)کی کتاب ’’القانون فی الطِب‘‘ کی ایک بحث کی شرح کی گئی ہے۔ یہ حکیم صاحب کی پہلی تصنیف ہے، جسے اُنہوں نے ۱۳۰۵ھ/۱۸۸۷ء میں اُس وقت تحریر کیا تھا جب وہ اپنے بڑے بھائی حکیم عبد المجید خاں (۱۸۵۰۔۱۹۰۱ء) سے طِب کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ حکیم صاحب خود فرماتے ہیں :

’’جس زمانہ میں میں نے یہ رِسالہ تصنیف کیا تھا اُس وقت القانون کا کچھ حصہ اور شرح اسباب کا بیش تر حصہ پڑھ چکا تھا۔‘‘ اِس رِسالہ میں حکیم صاحب نے ابنِ سینا کی بعض عبارتوں کی تشریح کی ہے، پھر اطباء کے مُتّفق علیہ خیال کہ ’’شوربا کے پانی سے تغذیہ ہوتا ہے‘‘ تردید کی ہے۔

ٍ۲ ۔ التحفۃ الحامدیۃ فی الصناعۃ التکلیسیۃ:

ہندوستانی اطبَّاء کے درمیان کشتہ جات کے استعمال یا عدم استعمال کے سلسلہ میں اختلاف رہا ہے۔ خاص طور سے لکھنؤ کے اطباء اُن کے استعمال کو ناپسند کرتے تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ کشتہ جات طبیعت انسانی کے لئے مضر ہیں، اِس لیے اُن سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اِسی طرح بعض لوگوں کا یہ بھی خیال تھا کہ طِب کی تاریخ میں کشتہ سازی کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، یہ ویدوں کی ایجاد ہے۔ اِس رِسالے میں حکیم اجمل خان نے اِسی خیال کا رد کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ کشتہ سازی یونانی اطباء ہی کی ایجاد ہے، اُن سے بہت اہم فوائد حاصل ہوتے ہیں، اِس لئے اُن کا استعمال ممنوع نہیں۔ ۳۲ صفحات کا یہ رِسالہ ۱۳۱۷ھ/۱۸۹۹ء میں مطبع مجتبائی دہلی سے شائع ہوا تھا۔ اس کا انتساب حکیم صاحب نے نواب رامپور محمد حامد علی خان بہادر کی جانب کیا ہے۔نام کے پہلے جزء التحفۃ الحامدیۃ کی وجہ تسمیہ یہی ہے۔

یہ رِسالہ ایک مقدمہ، دو ابواب اور ایک خاتمہ پر مشتمل ہے۔

۳۔ البیان الحسن بشرح المعجون المسمّی باکسیر البدن

حکیم اجمل خان کے جدِ امجد حکیم شریف خان دہلوی (۱۷۲۵ئ۔۱۸۰۷ء) کی علاج الامراض کے نام سے ایک قرابادین ہے۔ اِس میں ایک مرکب معجون اکسیر البدن کا بھی تذکرہ ہے، جو معجون لَنا کے نام سے مشہور ہے۔ یہ معجون خود حکیم شریف خان کی ترتیب دی ہوئی ہے۔ اِس کا جزء خاص حب الغراب ہے۔ حکیم شریف نے اپنی کتاب میں اِس دوا کا نام صراحت سے ذکر نہ کر کے پہیلی کے انداز پر کیا ہے۔ چنانچہ اِس کے حروف کی تعداد،طریقِِ ابجد کے مطابق اُن کی گنتیاں اور اُن میں ضرب، تقسیم، جمع کی تفصیلات ذکر کرتے ہوئے اِس رِسالہ میں اِس معجون کے بارے میں حکیم شریف کی پہیلی کو حل کیا ہے اور اُن کے بیانات کی تشریح کی ہے۔(۵)

۴۔ اوراق مزھرۃ مُثمرۃ:

یہ رِسالہ چند طِبِّی استفسارات اور حکیم اجمل خان کے جوابات پر مشتمل ہے۔ اِسے حکیم محمد اِبراہیم بن الحاج مولوی ریاض الحق رمضان پوری نے مرتب کیا ہے۔ اُنہوں نے ہی مختلف طِبِّی مسائل میں حکیم اجمل خان سے جواب دینے کی درخواست کی تھی۔ چوبیس صفحات کا یہ رِسالہ مطبع احمدی رامپور سے ۱۳۲۰ھ/۱۹۰۲ء میں شائع ہوا تھا۔ بعد میں یہ جی اینڈ سنس پریس دہلی سے بھی طبع ہوا۔

۵۔ الساعاتیۃ:

طِبِّی کتب میں حلاوت کو دیگر ذائقوں کے مقابلے میں افضل قرار دیا گیا ہے۔ اِس رِسالے میں حکیم صاحب نے اِس عام نظریہ پر تنقید کی ہے۔ اِسے اُنہوں نے صرف ایک گھنٹے میں برجستہ اِملا کرایا تھا۔ یہی اِس کی وجہ تسمیہ ہے۔ اِس کو اِملا کراتے وقت حکیم صاحب کے پیشِ نظر کوئی طِبِّی کتاب نہیں تھی۔ چھہ صفحات کا یہ رِسالہ جسے اُنہوں نے ۱۳۱۸ھ/۱۹۰۰ء میں اِملا کرایا تھا، ایک دوسرے رِسالے ’’القول المرغوب فی الماء المشروب‘‘ کے ساتھ ’’ھٰذا ما تیسّرلی‘‘ نامی کتابچہ کی صورت میں ۱۳۲۰ھ/۱۹۰۲ء میں مطبع احمدی رامپور سے شائع ہوا تھا۔

۶۔ الوجیزۃ:

یہ رِسالہ کلیاتِ قانون ابنِ سینا کی بحث ’’نبض مستوی و نبض مختلف‘‘ کی شرح پر مشتمل ہے۔ اِسے حکیم اجمل خان نے اپنے صاحبزادے حکیم محمد جمیل خان اور بعض دوسرے تلامذہ کے درس کے دوران تحریر کیا تھا۔ (اِس رِسالے کی اِشاعت ۱۳۳۵ھ بہ مطابق ۱۹۱۶ء میں ہوئی ہے)۔

اُنہوں نے لکھا ہے :

’’کہ مشغولیات کی وجہ سے طِبِّی کتب کے درس کا سِلسِلہ منقطع ہو گیا تھا، لیکن جب میرے بیٹے حکیم جمیل خان نے فنِّ طِب میں کچھ مہارت حاصل کر لی تو میں نے اُنہیں بعض دوسرے طلباء کے ساتھ، جو دہلی میں اقامت پذیر ہو کر فنِّ طِب حاصل کر رہے تھے، درس دینا شروع کیا۔ جب درس کلیاتِ قانون کی بحث ’’نبض مستوی و مختلف‘‘ تک پہنچا تو میں نے اِس کی شرح کرنے اور مشکلات کو حل کرنے کا اِرادہ کیا، کیونکہ یہ فصل متعلِّمین اور معلِّمین دونوں کا مرکزِ توجہ بنی رہتی ہے۔‘‘

۷۔ مقدّمۃ اللّغات الطِبِّیّۃ:

یہ رِسالہ اُس دور کا تصنیف کردہ ہے جب حکیم صاحب نواب رامپور عالی جناب محمد حامد علی خان بہادر کے یہاں طبیبِ خاص تھے، اِس لئے اِس کا انتساب اُنہوں نے نواب صاحب کی جانب کیا ہے، البتہ اِس کی اِشاعت بعد میں ۱۳۳۴ھ/۱۹۱۵ء میں مطبع مجتبائی دہلی سے ہوئی۔

عِلمِ طِب کے موضوع پر آپ نے کئی کتابیں لکھی ہیں۔ آپ کی تحریروں میں تشریح طلب طِبِّی مسائل کو جدید افکار و خیالات کی روشنی میں پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ طِب کی شناخت اور اُس کی بنیادی قدروں کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ آپ طِب میں تقلید اور جمود کے سخت مخالف تھے۔حکیم صاحب نے اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں اطبّاء کے ایسے بہت سے نظریات کی تردید اور مخالفت کی ہے۔

۸ ۔ المسائل الخمسہ:

حکیم صاحب نے طِب کے پانچ مسائل تعیُّن ایّامِ بحران، عفونتِ خلطِ صفرا، خلطِ صفراء کے تلخ ذائقہ، داخل عروق اخلاط کے تعفّن اور غذائے مطلق کے وجود کے بارے میں جمہور اطباء سے اختلاف کیا اور دیگر امور کے متعلق قدیم و مُسلِّمہ نظریات کی تردید کی۔ اُن کی یہ اختلافی تحریر کسی علیحدہ رِسالہ کے بجائے حکیم فیروز الدین کی کتاب رموز الاطبا میں ۱۹۱۱ء میں شائع ہوئی ہے۔ اُن کی دوسری تالیفات کے مقابلہ میں طِب کے علمی حلقہ میں اِس پر زبردست ردِّ عمل ہوا اور اِس کی تائید و تروید میں رسائل کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ طِب کے مناظرانہ ذخیرہ میں یہ رسائل بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ ان

سے اُس دور کے علمی ذوق کا اظہار ہوتا ہے۔ اِن مسائل خمسہ کی تنقید میں حکیم حافظ عبد المجید لکھنوی نے ۱۹۱۲ء؁ میں ’’ابانۃ الحُجّۃ لِمنْ سَلَک الطریقۃ

المعوّجۃ ‘‘لکھا۔ حکیم محمد عبد اللہ رامپوری نے ۱۹۱۳ء میں تقویم الادویہ اور حکیم ایوب اسرائیلی نے اقوم الدَّلائل علی خمسۃ مسائل فاضل لکھنوی کے

جواب میں شائع کیں۔ حکیم عبد اللہ نگینوی اور حکیم فرید احمد عبّاسی نے اجمل خان کی تائید میں مضامین لکھے۔

حکیم اجمل خان کے یہ رِسالے سلیس عربی میں اور شفاء الملک حکیم محمد حسن قرشی کے الفاظ میں ’’اُن میں سلاستِ بیان، حریتِ رائے، اصابتِ فکر اور وسعتِ نظر کی وہ تمام خصوصیات جمع ہیں جو ایک بہترین مُصنِّف کا حصہ ہو سکتی ہیں۔‘‘

۹۔ رِسالہ طاعون:

۱۸۹۵ء؁ میں ملک میں طاعون کی وبا اِس طرح پھیلی کہ ہزاروں جانیں اِس کی نذر ہوئیں۔

اُنہوں نے عام لوگوں کی معلومات اور استفادہ کے لئے طاعون پر اُردو میں یہ رِسالہ تصنیف کیا۔ اِس میں تاریخی پس منظر کے ساتھ اسباب و علامات اور علاج پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ معالجات کے ذیل میں خاندانی معمولات بھی درج کئے ہیں۔ یہ رِسالہ متعدد بار طبع ہوا ہے۔

۰ ۱ ۔ حاذِق:

اجمل خان کی علمی یادگاروں میں ایک قابلِ قدر تصنیف ’حاذق‘ بھی ہے۔ یہ اُردو میں معالجات کی ایسی مختصر اور مفید کتاب ہے جس سے اُن کے اندازِ مطب کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے اور طالبانِ فن کو مطب کے رموز اور کامیاب معالجہ سے عہدہ بر آ ہونے کے نکات حاصل ہوتے ہیں۔

۱۱۔ افاداتِ مسیح الملک:

اجمل خان کے شاگرد حکیم نذر احمد خان نے ان کے علاجی واقعات اور کلینکی مشاہدات کو اِفادات مسیح الملک کے نام سے شائع کیا ہے۔ سریریات اور قصص و حکایات مرضیٰ کے سلسلہ کی اُردو میں یہ ایک عمدہ کتاب ہے۔ اس میں مریض کی رودادِ مرض و تجویز اور علاجی تدابیر بیان کی گئی ہیں۔

۲ ۱ ۔ مسائل طِبِّیہ اجتھادیۃ :

حکیم اجمل خان نے پانچ طِبِّی مسائل میں تمام اطباء سے اختلاف کیا ہے۔ آپ کے نزدیک بحران کا اجرام سماوی کی طرف انتساب صحیح نہیں۔حمی صفراوی کا کوئی وجود نہیں۔

اخلاط اندرونِ عروق متعفن نہیں ہوتے۔ صفراء کا مزہ تلخ نہیں ہوتا اور غذائے مطلق کا کوئی وجود نہیں۔ اِن کے علاوہ کچھ اور رسائل بھی آپ کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں۔

حکیم اجمل خاں کی غیر مطبوعہ تصانیف

حکیم اجمل خاں کے سوانح نگاروں نے اُن کی بعض ایسی تصانیف کے نام لکھے ہیں جو زیورِ طبع سے آراستہ نہ ہو سکیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اُن میں سے ہر تصنیف پر کام چند صفحات سے آگے نہ بڑھ سکا تھا اور وہ صفحات بھی حوادثِ زمانہ کی نذر ہو گئے ہیں۔ وہ تصنیفات درجِ ذیل ہیں :

۱۔ رِسالۃ فی ترکیب الادویۃ و استخراج دَرجاتھا۔

۲ْ المحاکمۃ بین القرشی و العلامۃ۔

۳۔ حاشیۃ شرح الاسباب (الیٰ مبحث السرسام)۔

۴۔ اللُّغات الطبِّیۃ۔

آپ کی مذکورہ تصانیف کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ آپ طِب میں تقلید اور جمود کے سخت مخالف تھے۔ آپ نے اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں اطبّاء کے ایسے بہت سے نظریات کی تردید کی ہے جو عرصہ دراز سے مُتّفق علیہ چلے آ رہے تھے۔ آپ کا نظریہ یہ تھا کہ اطبّائے قدیم کی تقلیدِ محض طِب کی ترقی میں سدِ راہ ہے۔ اِس لئے آپ نے طِب کی اصلاح اور تجدید پر بہت زور دیا۔ طِب کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے کے لئے آپ کس نہج سے سوچتے تھے اِس کا اندازہ آپ کے درجِ ذیل اقوال سے ہو سکتا ہے:

اِس امر کی نہایت ضرورت ہے کہ موجودہ زمانے میں جو ترقی ہو رہی ہے ہم اُس کے پہلو بہ پہلو اپنی طِب کو ترقی دیں۔ ایک زمانہ گزر گیا، دنیا کے علوم کہیں سے کہیں پہنچ گئے لیکن ہم نے ذرّہ برابر ترقی نہیں کی۔ ترقی کرنا تو درکنار ہم اُلٹے رو بہ تنزُّل ہیں۔سچائی خواہ مشرِق میں ہو یا مغرب میں وہ تمام دنیا کی مشترک ملکیت ہے اِس لئے ہمارا حق ہے کہ ترقی جہاں کہیں بھی ہو اُس کو حاصل کریں۔

ہمارے مروّجہ طِبِّی نصاب میں ایسے بے شمار منطقی اور فلسفیانہ دلائل موجود ہیں جن کوطِب سے علیحدہ کرنا ضروری ہے اُن کے بجائے وہ مفید اِضافات شریک کرنے کی ضرورت ہے جن کو آج کل ہندوستان اور یورپ کے بڑے بڑے ماہرین نے اِس شعبہ میں تحقیقات کر کے معلوم کیا ہے۔

آپ نے طِبِّی نصاب کی کتابوں کی اصلاح کی جانب توجہ دی، نیز طِبِّیہ کالج میں اُس وقت جو نصاب چل رہا تھا اُس کو زمانہ کے مطابق بنایا اور اِنہی کی کوششوں کی بدولت ۱۹۲۷ء؁ میں نصاب پر نظر ثانی کے لئے دہلی، لاہور اور لکھنؤ میں تین کمیٹیوں کا تقرر عمل میں آیا۔ طِبِّ یونانی میں علمِ جراحت کو ترقی دینے کے لئے آپ نے جدید سرجری سے استفادہ کی تاکید کی اور ایسی درس گاہوں کے قیام کی طرف توجہ دِلائی جہاں تشریح اور دواسازی کے ساتھ جراحت کی مکمّل تعلیم تربیت کا انتظام ہو۔ یونانی طریقۂ علاج میں جدید طِبِّی انکشافات اور ترقیات شامل کر کے آپ نے اُس میں جان ڈال دی اور ہندوستانی دوا خانہ واقع گلی قاسم جان میں جدید طریقۂ دواسازی کو رائج کیا، یونانی اور جدید سائنسی اصولوں پر تحقیق جاری رکھنے کے لئے آپ نے کالج میں ریسرچ کا شعبہ قائم کیا۔

حکیم اجمل خان کی رحلت

حکیم صاحب کی شب و روز کی مصروفیات، بے شمار مریضوں کی دیکھ بھال اور اُن کے دِلِ درد مند میں سارے جہاں کا درد اُن کی صحت کو برابر متاثر اور قویٰ کو مضمحل کرتا رہا، بالآخر رامپور میں دِل کا شدید دورہ پڑا اور چونسٹھ (۶۴) سال کی عمر میں ۲۹؍ دسمبر ۱۹۲۷ء؁ کی صبح کو سوا دو بجے (2:15A.M. ) دنیائے فانی سے عالمِ جاودانی کی طرف منتقل ہو گئے۔ اِنَّالِلّٰہِ وَ اِنَّااِلیْہِ راجْعُون۔ حکیم صاحب کی رحلت کی خبر سُن کر پورے ہندوستان و بیرونِ ہند میں صفِ ماتم بچھ گئی۔ ہر قوم و مذہب کے لوگ سوگوار تھے۔ اِس حادثہ پر بے شمار لوگوں نے تعزیتی تحریریں لکھیں جن میں سے صرف دو ۲کا اقتباس یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔

(۱) موہن داس کرم چند گاندھی کے طویل مضمون کا اقتباس یہ ہے:

’’حکیم اجمل خان کی موت نے مجھ سے صرف ایک دانشور اور ثابت قدم شریکِ کار ہی نہیں چھین لیا، بلکہ میں نے ایک ایسا دوست بھی کھو دیا جس پر میں ضرورت کے وقت بھر پور اعتماد کر سکتا تھا۔ ہندو مسلم اتحاد کے معاملہ میں وہ میرے مشیر اور رہنما تھے۔ وہ انسانی فطرت کو خوب پہچانتے تھے اور اِسی صلاحیت نے اُنہیں صحیح قوتِ فیصلہ عطا کی تھی۔ وہ ایک خیالی قسم کے انسان نہ تھے بلکہ وہ اپنے خوابوں کو حقیقت میں تبدیل کرنے کی پوری قوّت اور صلاحیت رکھتے تھے۔‘‘

(۲) حکیم صاحب کے بارے میں سابق صدر جمہوریۂ ہند ڈاکٹر ذاکر حسین کے دِلِ فگار جملے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے:

’’جو لوگ حکیم اجمل خان سے اپنے مرض کا نسخہ لینا چاہتے ہیں، جو اپنی ملازمت کے خواہاں ہیں، جنہیں اپنے کسی عزیز کی شادی کے لئے روپیہ درکار ہے، جن بیواؤں کی روٹی اُن کی توجہ سے چلتی ہے، جن یتیموں اور ناداروں کی تعلیم کے لئے اُن کے خزانہ سے رقم ملتی تھی، اُن کی تعداد سیکڑوں، ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں تک پہنچتی ہے، اُن کا’’ اجمل خان‘‘ رخصت ہو گیا، مگر طِبِّ قدیم کا مجدّد اور طِبِّی تعلیم کا رہنما آج بھی زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔‘‘(۴)

٭٭٭

بابِ پنجم

مولانا ابوالکلام آزاد

(۱۸۸۸ء تا ۱۹۵۸ء)

تعارف

حضرت مولانا کی زندگی مختلف اور متضاد حیثیتوں میں بٹی ہوئی ہے۔ وہ ایک ہی وقت میں مُصنِّف بھی ہیں، مقرِّر بھی ہیں، مُفکِّر بھی ہیں، فلسفی بھی ہیں، ادیب بھی ہیں اور ساتھ ہی سیاسی جد و جہد کے میدان میں ایک چاق و چوبند سپہ سالار بھی۔ دینی علوم میں تبحّر کے ساتھ ساتھ اُن کی شخصیت میں علوم عقلیہ اور فلسفہ کا واضح رجحان بھی یکجا ہو گیا ہے، علم و ادب کے ذوق نے ایک ہی دماغ میں بہت گھر کیا ہو گا لیکن یہاں تو علمی و فکری زندگی کا میدان، عملی سیاست کی جدّو جہد سے اتنا دور واقع ہوا ہے کہ ایک ہی قدم دونوں میدانوں میں بہت کم اُٹھے ہوں گے، مگر مولانا آزاد کی زندگی ان تمام متضاد، متباین اور متنوَّع حیثیتوں کی جامع ہے، گویا اُن کی زندگی میں بہت سی زندگیاں مُدغم ہو گئی ہیں۔ صِفاتِ متنوعہ کی پرتیں تہہ بہ تہہ ہیں۔ شخصیت کی گوناگوئیاں ایک دوسرے پر متراکم ہیں۔

اِس صورتِ حال کا قدرتی نتیجہ یہ نکلا کہ اُن کے علائق کا دائرہ کسی ایک گوشہ میں محدود نہیں رہا۔ علوم دینیہ کے حجروں کے زاویہ نشین، شعر و ادب کی محفلوں کے بزمِ طراز، علم اور فلسفہ کی کاوِشوں کے دقیقہ سنج اور میدانِ سیاست کے مُدبِّر کے لئے اُن کی شخصیت یکساں طور پر حاذب محسوس ہو نے لگی اور ہر میدان کے اصحابِ فضل و کمال اس عبقری شخصیت کے افادات سے بقدرِ طلب و حوصلہ اور بقدر کدّ و اکتساب مستفید ہوتے رہے۔ آگے کی سطور میں اِسی شخصیت سے آپ کی ملاقات ہو گی۔

تو نخلِ خوش ثمر کیستی، کہ باغ و چمن

ہمہ ز خویش برید ند و در توپیو ستند

تاریخِ وِلادت اور خاندانی پس منظر

مولانا ابوالکلام آزاد کی جامعِ کمالات شخصیت اور اُن کی زندگی کے جملہ پہلوؤں کو احاطۂ تحریر میں لانا در اصل سمندر کو کوزہ میں سمونے کے مترادِف ہے۔اِس مقالہ میں مولانا آزاد کی زندگی کے بعض گوشوں کو متعارف کرایا گیا ہے۔

مولانا آزاد ذی الحجہ ۱۳۰۵؁ہجری مطابق اگست/ستمبر۱۸۸۸؁ء مکَّہ مکرَّمہ میں پیدا ہوئے۔ ’’آثار ابوالکلام‘‘ میں قاضی عبدالغفَّار نے تاریخ پیدائش ستمبر ۱۸۸۸؁ء لکھی ہے۔ صحیح تاریخ پیدائش کا حوالہ گو کہ کتب میں نہیں مل رہا ہے لیکن آپ کا تاریخی نام فیروز بخت تھا اور طریقِ ابجدی کے لحاظ سے جس کا مجموعی عدد ۱۳۰۵ بنتا ہے اور اِس سے ہجری سن کا استخراج کیا جا سکتا ہے۔ مولانا آزاد ۱۸۸۸؁ء میں ۹ اگست تا ۶ ستمبر کے درمیان پیدا ہوئے۔ (۳)

نام و شجرۂ نسب

مولانا کا پورا نام ابوالکلام غلام محی الدین اور شجرۂ نسب یوں ہے: مولانا ابوالکلام بن مولانا خیر الدین بن مولانا محمد ہادی بن شاہ محمد افضل بن مولانا محمد حسن دہلوی۔

خاندانی پس منظر

مولانا کے اجداد میں مولانا جمال الدین عرف شیخ بہلول دہلوی اکبرؔ کے ہم عصر تھے۔ جب ملّا مبارک اور دوسرے علماء نے اُس محضر پر دستخط کر دئیے جس کی رُو سے اکبرؔ کو مذہبی اعتبار سے ’مجتہد‘ تسلیم کیا گیا تھا تو مولانا جمال الدین نے اُس محضر پر دستخط کرنے سے اِنکار کر دیا۔ اُن کے بیٹے شیخ محمد حضرت مجدّد الف ثانی شیخ احمد سرہندی کے مُرید تھے۔ شیخ محمد نے بھی جہانگیری احکام کورنش کو تسلیم نہ کیا اور وہ گوالیار کے قلعے میں قید رہے۔ مولانا کی مشہور تصنیف ’تذکرہ‘ شیخ جمال الدین ہی کے حالاتِ زندگی پر مشتمل ہے۔ مُلّا عبدالقادر بدایونی نے ’’منتخب التواریخ ‘‘ میں شیخ جمال الدین سے متعلق لکھا ہے کہ ’’با اہل دُنیا کارے ندارد‘‘ اِس پر مولانا نے بہت فخر کیا ہے۔ مولانا فرماتے ہیں :

’’یہ شہادت دیکھ کر طبیعت کو نہایت درجہ خوشی ہوئی، کہہ نہیں سکتا کہ یہ خیال کِس درجہ سرورِ قلب و کیفِ دماغ کا باعث ہوا کہ الحمد للہ علمِ حدیث و سنَّت کی خدمت و چاکری کی سعادت سے ہمیشہ یہ خاندان ممتاز رہا ہے اور ’’برنگِ محدِّثین‘‘، ذوقِ سنَّت اور ’’بااہلِ دُنیا کارے نداشتن‘‘ کی دولت ابتداء ہی سے ہم خاکِ نشینانِ فقر و نامرادی کے حِصے میں آئی ہے۔‘‘ (۱،۳،۱۰)۔

مولانا منوَّر الدین نے ۱۸۵۵ ء میں ملک کے حالات سے بد دِل ہو کر ہجرت کا اِرادہ کیا اور حجاز جانے کا فیصلہ کر لیا۔ بمبئی کا رُخ کیا۔ راستے میں بھوپال پڑتا تھا، نواب سکندر بیگم حکمران تھیں، اُنہوں نے مولانا کے وعظ اور پند و نصائح سے متاثر ہوکر مولانا کو روک لیا۔ اِس کے بعد ۱۸۵۸ء کا ہنگامہ شروع ہوا تو اُن کا دِل اُچاٹ ہوا۔ شورِش فرو ہونے کے بعد بمبئی چلے گئے لیکن کچھ مُریدوں نے عقیدت مندی میں روک لیا۔ کچھ علالت فسّاخ العزائم ثابت ہوئی۔ آخر ۱۸۵۸ئ۔۱۸۵۹ء میں وہیں انتقال ہوا۔

مولانا آزاد کے والد مولانا مولانا خیر الدین اُن کے ہمراہ تھے۔ وہ حجاز چلے گئے، تعلیم ہندوستان میں مکمل کر چکے تھے۔مکّہ اور مدینہ کے علماء سے فیض یاب ہوئے۔ اُن کی شادی اُن کے اُستاد شیخ محمد ظاہر وِتری کی بھانجی عالیہ سے تقریباً ۱۸۷۰ء۔۱۸۷۱ء میں ہوئی۔ اِس خاتون سے اُن کے پانچ بچے ہوئے۔ دو لڑکے، تین لڑکیاں۔ لڑکیاں زینب، فاطمہ اور حنیفہ عرف محمودہ تھیں اور لڑکے ابو النصر، غلام یٰسین اور ابوالکلام غلام محی الدین احمد تھے۔ دونوں بھائی شعر کہنے لگے تھے۔ اِس لئے ابوالکلام آزاد اور ابوالنصر آہؔ کے نام سے مشہور ہوئے۔

سب سے چھوٹی بہن کا تخلُّص آبروؔ تھا اور منجھلی فاطمہ کا آرزوؔ۔ سب سے بڑی بہن زینب قسطنطنیہؔ میں پیدا ہوئی تھیں۔ آبروؔ بیگم مولانا کی بہت غم گسار تھیں۔ اُن کے شوہر بھوپال میں ایک معقول عہدے پر فائز رہے اور وہیں بس گئے۔ آبروؔ بیگم کا جون ۱۹۴۲ء میں اور آرزوؔ بیگم کا ۱۳ اپریل ۱۹۶۶ء کو ۸۲ سال کی عمر میں بھوپال ہی میں انتقال ہوا۔

مولانا خیر الدین اپنے مُریدوں کے حلقے میں ’’حضرت‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ ’مولانا آزاد‘ کو بچپن میں لوگ ’چھوٹے حضرت ‘ کہتے تھے۔

مولانا آزاد کا بچپن

مولانا آزاد کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے پہلے اُن کے بچپن سے متعلق اُن کی بڑی بہن فاطمہ بیگم کے مندرجہ ذیل بیان کا مطالعہ بہت ضروری ہے وہ بیان کرتی ہیں :

’’ مولانا آزاد مرحوم عمر میں مجھ سے چار سال چھوٹے تھے،مکّہ شریف میں ہم دونوں پیدا ہوئے۔ جب مولانا آزاد دو سال کے ہوئے تو ہمارے والد مرحوم ہم دونوں کو لے کر کلکتہ چلے آئے، جہاں ہمارے والد کے ہزاروں ماننے والے تھے۔ بھائی کی تعلیم گھر پر والدِ مرحوم کی نگرانی میں ہوئی۔ اُن کا اصلی نام محی الدین احمد تھا اور آزاؔد تخلُّص۔ وہ شاعر بھی تھے اور اچھے شعر کہتے تھے۔ ۱۴ برس کی عمر کے اُن کے دو شعر مجھ کو یاد ہیں، اُنہوں نے کہا تھا۔‘‘

ہوں نرم دِل کہ دوست کے مانند رو دِیا

دُشمن نے بھی جو اپنی مُصیبت بیان کی

آزادؔ یہ خودی کا نشیب و فراز دیکھ

پوچھی زمین کی تو کہی آسمان کی

بچپن میں بھائی کو اُن کھیلوں کا شوق نہ تھا جو اکثر بچے کھیلا کرتے ہیں۔ اُن کے کھیل سات آٹھ سال کی عمر میں عجیب انداز کے ہُوا کرتے تھے، مثلاً کبھی وہ گھرکے تمام صندوقوں اور بکسوں کو ایک لائن میں رکھ کر کہتے تھے کہ یہ ریل گاڑی ہے۔ پھر والد کی پگڑی سرپر باندھ کر بیٹھ جاتے تھے اور ہم بہنوں سے کہتے تھے کہ تم لوگ صندوق پر چِلّا چِلّا کر کہو ’’ہٹو ہٹو‘‘ راستہ دو، دہلی کے مولانا آرہے ہیں۔‘‘ ہم لوگ اِس پر کہتے تھے کہ بھائی یہاں تو کوئی آدمی نہیں ہے۔ ہم کِس کو دھکّا دیں اور کہیں کہ راستہ دو۔ اِس پر وہ کہتے تھے کہ یہ تو کھیل ہے۔ تم سمجھو لوگ مجھ کو لینے اسٹیشن پر آئے ہیں۔ پھر بھائی صندوقوں پر سے اُترتے تھے اور بہت آہستہ آہستہ قدم اُٹھا کر چلتے تھے، جیسے کہ بڑی عمر کے لوگ چلتے ہیں۔ کبھی وہ گھر میں کسی اونچی چیز پر کھڑے ہو جاتے تھے اور سب بہنوں کو آس پاس کھڑا کر کے کہتے تھے کہ تم لوگ تالیاں بجاؤ اور سمجھو کہ ہزاروں لوگ میرے چاروں طرف کھڑے ہیں اور میں تقریر کر رہا ہوں اور لوگ میری تقریر سُن کر تالیاں بجا رہے ہیں۔ میں کہتی تھی کہ بھائی سوائے ہم دو چار کے یہاں اور کوئی نہیں ہے۔ ہم کیسے سمجھیں کہ ہزاروں آدمی یہاں کھڑے ہیں۔ اِس پر وہ کہتے تھے کہ یہ تو کھیل ہے۔ کھیل میں ایسا ہی ہوتا ہے۔

تعلیم کا آغاز

مولانا آزاد کے بھائی ابوالنصر غلام یٰسین اُن سے دو برس بڑے تھے۔ وہ چھ سال کے تھے جب اُن کی تسمیہ خوانی ہوئی۔ چھوٹے بھائی بھی ساتھ بیٹھ گئے۔ اِس کے بعد دونوں بھائیوں کی تعلیم ایک ساتھ ہونے لگی مگر ایک زمانے تک اُن کی تینوں بہنیں بھی اُن کے ساتھ درس میں شامل رہیں۔

مولانا خیر الدین حجاز جانے کے بعد قریب قریب بیس سال تک ہندوستان نہیں آئے۔پہلی بار ۱۸۸۷ء میں اُن کے آنے پتہ چلتا ہے۔ اِس کے بعد آتے جاتے رہے۔ آخر ۱۸۹۸ء میں مستقلاً کلکتہ آ گئے، مکّہ میں ایک حادثے میں اُن کی ایک ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔ اُس کا خاطر خواہ عِلاج وہاں نہیں ہو سکا۔ کلکتہ میں علاج تو ہو گیا لیکن ٹانگ میں کچھ نقص باقی رہ گیا۔

آزادؔ بھی والدین کے ساتھ آئے۔ تعلیم تو مکّے میں شروع ہو ہی چکی تھی۔ اب کلکتے کے اساتذہ سے درس لینے لگے۔ ۱۹۰۳ء میں جب اُن کی عمر صرف پندرہ برس کی تھی، وہ درسِ نظامی سے فارغ ہو گئے، جب کہ عام طلباء اِس عمر میں نصف مسافت بھی کم طے کر پاتے ہیں۔ اِس کے بعد وہ خود درس دینے لگے۔

شعر و شاعری میں طبع آزمائی

مولانا آزادؔ کے گھر میں سینے پِرونے پر ایک مغلانی عالیہ نام کی ملازمہ تھی۔ اُس کے بھائی شعر بھی کہتے تھے اور اچھے خاصے ادیب تھے۔ اُن سے مولانا کو شعر گوئی کی ترغیب ہوئی۔ تخلُّص آزاد اِس لئے رکھا کہ گلدستوں میں جہاں حروفِ تہجِّی کے اعتبار سے کلام شائع ہو تو پہلے چھپے۔ اُنہوں نے ایک دو غزلیں امیر مینائی کو دِکھائیں۔ اُن سے جی نہ بھرا تو ایک دو غزلیں داغؔ کو بھیجیں۔ یہ سِلسِلہ بھی زیادہ دِن تک نہیں چلا۔ اُن کے بھائی البتہ شعر کہتے رہے اور وہ بہتر بھی کہتے تھے۔ مولانا کی سب سے پہلی غزل بمبئی کے ایک گلدستے ’’ارمغانِ فرُّخ‘‘ میں چھپی تھی۔ دونوں بھائیوں کے کلام کا کچھ نمونہ یہاں دیا جاتا ہے:

آزادؔ:

چھوڑا نہ غم نے کچھ بھی مرے جسمِ زار میں

اک جان ہے سو وہ بھی نہیں اختیار میں

سودا نیا جنوں ہے نیا ولولے نئے

کچھ اور ہی بہار ہے اب کے بہار میں

اُس نے تلواریں لگائیں اب کچھ اِس انداز سے

دِل کا ہر ارماں فدائے دستِ قاتل ہو گیا

آہؔ :

ترقی پہ ہے بے وفائی کسی کی

ابھی اور اے زندگی کچھ وَفا کر

آبرو پائی نگاہِ خلق میں

ہم شہیدِ تیغِ اَبرو ہو چکے

تم کو چاہا سب کی نظروں سے گِرے

یہ ہمارے عشق کی اُفتاد ہے

پاؤں اپنے نہیں اُٹھتے طرفِ منزلِ عشق

دِل بڑھا جاتا ہے یہ کہتا ہوا آؤ بھی

شعر کا شوق اِتنا بڑھا تھا کہ ۱۹۰۰ء میں ’’نیرنگِ عالم‘‘ کے نام سے ایک گلدستہ جاری کیا جس میں طرحی کلام چھپتا۔ یہ آٹھ مہینے جاری رہا۔ مولانا کی عمر اُس وقت صِرف ۱۲ سال کی تھی۔ یہ سب رِوایتی شاعری تھی۔ مولانا جلد ہی اِس سے کنارہ کش ہو گئے۔

مولانا کی ازدواجی زندگی

ابھی آپ نے عمر کی بارہ تیرہ منزلیں ہی طے کی تھیں کہ آپ علوم دینیہ سے فارغ التحصیل ہو گئے اور اِسی کم عمر میں ہی آپ کی زلیخا نامی لڑکی سے شادی بھی ہو گئی۔اِن سے ایک نرینہ اولاد بھی پیدا ہوئی مگر بچپن ہی میں فوت ہو گئی۔ آپ نے شاعری، نثر نگاری، علوم متداولہ کے مطالعہ، سائنسی علوم کی تحقیق و مطالعہ اور بے شمار میدانوں میں دسترس حاصل کی۔ کم عمر میں ہی اُن کو اتنی شہرت نصیب ہوئی کہ لوگوں کو یقین نہیں آتا تھا کہ یہی مولانا ابوالکلام آزاد ہیں۔ زلیخا بیگم کی نظر میں یہ بڑے فخر کی بات تھی۔

کتب بینی کا شوق اور بچپن کا ایک عجیب و غریب واقعہ

مولانا آزاد کو بچپن سے کتابیں پڑھنے کا بڑا شوق تھا۔ جب وہ سولہ سترہ سال کے تھے تو ایک رات کمرے میں بیٹھے ہوئے کتابیں پڑھ رہے تھے۔ اُس وقت کا ایک واقعہ اُن کی بہن فاطمہ نے نقل کیا ہے کہ : ایک چور آیا اور بھائی کی میز پر سے سگریٹ کیس اُٹھا لیا اور اُسی کمرے میں ایک بکس تھا جس میں چھ سات ہزار روپے رکھے ہوئے تھے۔ اُس بکس کو کھول کر چور نے وہ روپیہ بھی لے لیا۔ مولانا کو بالکل معلوم نہ ہوا کہ اُن کے کمرے میں سے کوئی شخص بکس کھول کر روپیہ لے جا رہا ہے۔دوسرے دِن صبح کو معلوم ہوا کہ سگریٹ کیس اور روپیہ کوئی لے گیا۔ ہم سب نے اُس چور کو بُرا بھلا کہا مگر بھائی نے کہا کہ اُس چور کو بُرا مت کہو۔ نہیں معلوم چور کِس مصیبت میں گرفتار تھا اور اُسے کیسی سخت ضرورت تھی، جس کی وجہ سے اُسے چوری کرنی پڑی۔ وہ چور قابلِ رحم ہے۔۔۔۔۔۔ فاطمہ کہتی ہیں کہ ’’سچ تو یہ ہے کہ مولانا آزاد نے بچپن نہیں دیکھا۔ چھ سات برس کی عمر سے ہی معلوم ہوتا تھا کہ ننھے ننھے کندھوں پر ایک سر ہے جس میں ایک بڑا اونچا دماغ مصروفِ کار ہے۔‘‘

مولانا کی تربیت اور گھریلو پس منظر

بچوں کی سیرت پر ماں باپ کا بہت اثر پڑتا ہے۔ مولانا کے والد ایک جیّد عالم اور فاضل دینیات تھے۔ والد ہ مکّہ کے ایک علمی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ اُن کے عادات و خصائل کا اثر بچپن ہی میں بچوں کی اعلیٰ اخلاقی تربیت کا باعث ہوا۔ مولانا آزاد نے بچپن کا ایک واقعہ لکھا ہے:

’’میرے والد مرحوم نے ایک خوش نویس حافظ مُبارک بخاری کو گھر پر رکھ لیا تھا، تاکہ اُن کی تصنیفات کی تبیض کریں۔ وہ اپنے کپڑوں کی صفائی کا ذرا بھی خیال نہیں کرتے تھے۔ ایک دِن میں نے کہہ دیا کہ وہ بڑے گندے آدمی ہیں۔ میری والدہ نے نہایت دھیمی آواز میں مجھے تادیب تو نہیں، تلقین کی اور کہا :’’میری جان، ایسا نہ کہو ہو سکتا ہے کہ وہ خدا کی نظر میں تم سے اور ہم سے عزیز تر ہو۔‘‘

مولانا ایک جگہ والدۂ ماجدہ کے باب میں لکھتے ہیں :

’’اُن کی اخلاقی اور دماغی بصیرت پر اب جس قدر غور کرتا ہوں، مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ہر اعتبار سے وہ بلند درجہ کی تھیں۔ وہ نہایت فیّاض اور سیر چشم تھیں۔ مفلس اور مصیبت زدہ آدمیوں کی تکلیف اُن سے دیکھی نہ جاتی تھی۔ والد مرحوم نے ایک مرتبہ ایک نہایت قیمتی دوشالہ اُن کے لئے منگوایا جس دِن اُنہوں نے اُسے اوڑھا، اُسی دِن اُمِّ حبیب اُن سے مِلنے کے لئے آئی۔ یہ ایک غریب بیوہ تھی جو ہمارے گھر کے قریب رہتی تھی۔ اُس نے ایسا قیمتی دوشالہ کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اُس کا پَلّہ ہاتھ لے کر نہایت طامع نگاہوں سے اُسے دیکھنے لگی اور بار بار کہنے لگی کہ ایسی چیز ہم غریبوں کو کہاں نصیب ہو سکتی ہے۔ والدہ نے فوراً دوشالہ کاندھے سے اُٹھایا اور اُس کے کاندھے پر ڈال دیا۔‘‘

میدانِ صحافت اور مولانا کی علمی خدمات

مولانا نے ۱۲ سال کی عمر میں سب سے پہلے ۱۹۰۰ء میں ’’نیرنگِ عالم‘‘ نام کا ایک گلدستہ جاری کیا۔ یہ ایک سال بھی نہیں گزرنے پایا تھا کہ بند ہو گیا اور پھر جنوری ۱۹۰۱ء میں ’’الصباح‘‘ جاری ہوا۔ یہ رِسالہ عید الفطر کے دِن جاری ہوا تھا۔ چند ماہ بعد یہ بھی بند ہو گیا۔ اِسی اثناء میں مولانا کی پہلی تصنیف ’’اعلانِ حق‘‘ شائع ہوئی جس میں رویتِ ہلال سے متعلق ایک فتویٰ کو موضوعِ بحث بنا کر لکھا گیا تھا۔ اِس کے بعد آپ نے ’’احسن الاخبار‘‘ کلکتہ، ’’قرن‘‘ لاہور، ’’مرقع عالم‘‘ ہردوئی وغیرہ اخباروں میں اپنے مضامین لکھے۔ ’’خدنگِ نظر‘‘ بانی منشی نوبت رائے نظرؔ، میں بھی آپ نے کافی مضامین لکھے۔ ’’لسان الصّدق‘‘ کا پہلا شمارہ ۲۰ ستمبر ۱۹۳۰ء کو شائع ہوا جو پورے ملک میں وقعت کی نظر سے دیکھا گیا۔ اِس کا آخری شمارہ اپریل و مئی ۱۹۰۵ء کا مشترکہ شمارہ تھا۔ اِس میں علمی و ادبی مقاصد کے ساتھ مسلمانوں کی طرزِ معاشرت اور رسم و رِواج وغیرہ کی اِصلاح بھی پیشِ نظر تھی۔ یہ وہ دور تھا جب مولانا صرف ۱۵ سال کے تھے اور پختگی کا یہ عالم تھا کہ آپ کی تحریروں پر مولانا وحیدالدین پانی پتی اور خواجہ الطاف حسین حالیؔ جیسے لوگ عش عش کرتے تھے۔ مولانا نے ۱۹۰۶ء میں امرت سر آکر ’’وکیل‘‘ کی اِدارت کا بوجھ اپنے ناتواں کاندھوں پر سنبھالا۔ جب علّامہ شبلی حیدرآباد سے اعظم گڑھ اور پھر لکھنؤ آگئے تو بہت زیادہ اِصرار کر کے مولانا کو ’’اَلندوہ‘‘ کی اِدارت کی ذمّہ داری دینا چاہی اور مولانا آزاد نے اِسے بخوشی قبول کر لیا۔ آزادؔ ذہین تو تھے ہی، چنانچہ علّامہ شبلیؔ کی صحبت سے اُن کو ذہنی اور دماغی جِلا مِلی۔ ۱۹۰۸ء میں مولانا نے غیر ممالک کے دورے کئے جس کا ذکر اُنہوں نے اپنی کتاب India Wins Freedom میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :’’اُس زمانہ میں مجھے ہندوستان سے باہر جانے اور عراق، مصر شام اور ترکی کے سفر کرنے کا اتفاق ہوا۔ ۱۹۰۸ء میں جب میں قاہرہ گیا تو جامعہ الازھر کا نظامِ تعلیم اِس قدر ناقص تھا کہ اُس سے ذہن کو نہ تو کوئی تربیت ہوتی تھی اور نہ تو قدیم اسلامی علوم اور فلسفہ پر کافی عبور حاصل ہوتا تھا۔ مصر سے میں ترکی اور فرانس گیا۔ اِرادہ تھا کہ میں آگے لندن تک جاؤں گا، یہ میں نہ کر سکا اور پیرس سے ہندوستان واپس آگیا۔‘‘

۱۹۰۵ء میں جب کہ مسلم لیگ، کانگریس کے اثر کو زائل کرنے کے لئے قائم ہو چکی تھی ادھر ماضی میں سر سیّد نے مسلمانوں کو جھنجھوڑا کہ وہ ہندوؤں سے پیچھے نہ رہ جائیں، لیکن سر سیّد کے مقاصد میں انگریزوں سے دوستی اور نا شعاری بھی شامل تھی۔ مولانا نے بھی وقت کی ضرورت کا احساس کیا اور غیر ملکی حکومت کے اثراتِ مہلک کو دور کرنے کا عزم کیا۔ یکم جون ۱۹۱۲ء کو اُنہوں نے ’’الہلال‘‘ کی شکل میں صورِ اسرافیل پھونکا اور ہندوستانی عوام بالخصوص مسلم خوابِ غفلت سے بیدار ہونے لگے۔ مولانا نے الہلال میں مسلمانوں سے ایک نئی زبان میں خطاب کیا۔ اُن کا اسلوبِ بیان جاندار اور پُر زور تھا۔ اُنہوں نے قدامت پرستی کے قلعہ پر حملہ کیا جو اُن کے خیالات و رجحانات کی ترویج و اِشاعت کے ذریعہ کیا گیا۔ مولانا کا ایمان تھا کہ اِسلام ظلم و استبداد کے خلاف جنگ آزما ہونے کی تلقین کرتا ہے، مولانا کے دِل میں نشتر چبھ رہے تھے، اُن کی آواز میں درد تھا، پکار تھی، آپ نے فرمایا ’’آہ ! کاش مجھے وہ صورِ قیام قیامت ملتا جس کو میں لے کر بلند پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ جاتا، اِس کے لئے صدائے رعد آسائے غفلت شکن سے سرگشتگان خوابِ ذلَّت و رسوائی کو بیدار کرتا اور چیخ چیخ کر کہتا کہ اُٹھو کیونکہ اب بہت سو چکے ہو اور بیدار ہو کیونکہ اب تمہارا خدا تمہیں بیدار کرنا چاہتا ہے۔‘‘

’’الہلال ‘‘نئے خیالات نئے رجحانات اور نئی تعلیمات کی بشارت لیکر آیا گویا یہ ایک صاعقہ تھا جو دِلوں کو ہلا گیا اور ایک پیغام تھا جو نفوس کو گرما گیا اور ایک روح تھی جو خون کو عروق میں تڑپا گئی۔ الہلال کو پڑھنے کے بعد مولانا محمود الحسن صاحب، مولانا محمد علی جوہر، حکیم اجمل خاں، حسرت موہانی، مولانا حسین احمد مدنی ؒ، ڈاکٹر ذاکر حسین اور رحیم اللہ نے بے ساختہ کہا کہ یہ ایک چنگاری ہے جو انسان کو زندگی بھر سرگرمِ عمل رکھے گی۔

جب پہلی جنگِ عظیم ہوئی تو مولانا حکومت کی نظروں میں کھٹکنے لگے۔ حکومت کی اُن پر کڑی نگاہ تھی ’’الہلال‘‘ کو پریس ایکٹ کے تحت بند کر دیا گیا اور مولانا نے ۱۹۱۵ء میں ’’البلاغ‘‘ نکالا۔ اِس کی بھی وہی شان تھی اور اُس میں بھی وہی تعلیمات و انتباہات۔ الہلال کا پہلا شمارہ ۱۳ جولائی ۱۹۱۲ء کو شائع ہوا اور آخری شمارہ ۱۸ نومبر ۱۹۱۴ء کو ’’البلاغ‘‘ کے نام سے ایک سال بعد ۱۲ نومبر ۱۹۱۵ء کو یہ دوبارہ نکلا اور ۳ اپریل ۱۹۱۶ء کو اِس کا آخری شمارہ شائع ہوا۔ گیارہ سال بعد پھر جون ۱۹۲۷ء کو ایک بار ’’الہلال‘‘ شائع ہوا اور دسمبر تک چل کر ختم ہو گیا۔ ’’الہلال‘‘ جاری کرنے کے بعد مولانا نے ایک جگہ لکھا ہے ’’چوبیس برس کی عمر میں جب کہ لوگ عشرتِ شباب کی سرمستیوں کا سفر شروع کرتے ہیں،میں اپنی صحرا نوردیاں ختم کرکے تلوؤں کے کانٹے چن رہا تھا، گویا کہ اِس معاملہ میں بھی اپنی چال زمانہ سے الٹی ہی رہی۔ لوگ زندگی کے جس مرحلہ پر کمر باندھتے ہیں، میں کمر کھول رہا تھا۔‘‘ مولانا نے اپنے ایک دوست مسٹر فضل الدین احمد کے اصرار پر ’’تزکیہ‘‘ جیسی تصنیف لکھی۔ نیز ’’ترجمان القرآن‘‘ کے نام سے ایک تفسیر بھی زیرِ ترتیب تھی جو مکمل نہ ہو سکی پھر بھی آپ نے جو کچھ لکھا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ آپ کی شاہکار کتاب جو دراصل انشائیے ہیں اور قلعہ احمد نگر سے مولانا نے اپنی اسیری کے زمانے میں نواب صدر یار جنگ مولانا حبیب الرَّحمٰن خان شِروانی کو لکھے ہیں، اُس کا نام ’’غبار خاطر‘‘ ہے۔ غبار خاطر میں مختلف موضوعات پر آپ نے جس انداز سے قلم اُٹھایا ہے وہ بے نظیر ہے۔

قید و بند اور جِلا وطنی کی زندگی

۲۳ مارچ ۱۹۱۶ء کو گورنمنٹ آف بنگال نے ڈیفینس ایکٹ کے تحت مولانا آزاد کو حدود بنگال سے ایک ہفتہ کے اندر نکل جانے کا حکم دیا۔آپ ۳۰ مارچ کو کلکتہ سے رانچی کے لئے روانہ ہو گئے۔ آپ کی زندگی کا ایک نہایت روشن باب قید و محن کی زندگی بھی ہے جو رانچی، اِلٰہ آباد و نینی سے لے کر قلعہ احمد نگر تک کی داستانوں میں پھیلی ہوئی ہے اور وہ آپ کی زندگی کا ایک الگ ہی باب ہے جس کا ذکر میں کسی اور موقع سے کرونگا۔لیکن اِس وقت میں مولانا کے صرف اُن محسوسات پر اِس پر اکتفا کرتا ہوں جس کو اُنہوں نے صدر یار جنگ، مولانا حبیب الرَّحمٰن خاں شِروانی کے نام ۲۷ اگست ۱۹۴۲ء کے خط میں تحریر فرمایا ہے۔ ’’انسان اپنی زندگی کے اندر کتنی ہی مختلف زندگیاں بسر کرتا ہے، مجھے بھی اپنی زندگی کی دو قسمیں کر دینی پڑیں۔ ایک قید خانے سے باہر کی زندگی ایک اندر کی۔ دونوں زندگیوں کے مرقع کی الگ الگ رنگ و روغن سے نقش آرائی ہوئی ہے۔ آپ شاید ایک کو دیکھ کر دوسری کو پہچان نہ سکیں۔‘‘

ہم سمندر باش و ہم ماہی کہ در اقلیم عشق

روئے دریا سلسبیل و قعر دریا آتش است

نواب صدر یار جنگ ہی کو مخاطب کر کے ایک اور جگہ رقم طراز ہیں : صدیق مکرم اگر میں اپنی زندگی کا محاسبہ کروں تو ساری حیات تین حصّوں میں بٹی ہوئی ہے۔ زندگی کا ایک حصّہ قید خانے کے باہر گزرا ہے اور دو حصیّ قید خانے کے اندر۔ یہ تھا آپ کے قید و بند کا ایک اجمالی خاکہ۔

مولانا کی سیاسی سرگرمیاں

۱۹۲۳ء میں جب چینجیز اور نو چینجیز میں جھگڑا تھا اور مولانا دہلی میں منعقدہ کانگریس کے اسپیشل اجلاس کے صدر تھے تو اُنہوں نے کہا تھا کہ تعمیری کام کرنے والے بھی ملک کی خدمت کرنا چاہتے ہیں اور مجالِس قانون ساز میں جانے والے بھی۔ اِس لئے دونوں اپنی اپنی راہ پر چلیں لیکن مفاہمت بھی قائم رہے تو کوئی عیب نہیں۔ اُن کی اِس فِراست پر سب نے صاد کیا تھا۔

مولانا بہ حیثیت صدرِ کانگریس

مولانا ۱۹۳۳ء میں دہلی میں منعقدہ کانگریس کے خاص اجلاس کے صدر بنے تھے، جس میں کاؤنسلوں میں داخلے کے حامیوں اور مخالِفوں کے درمیان ایک خوبصورت مُفاہمت کا مُوجِب ہوئے تھے۔ اِس کے بعد زمانے نے کئی رُخ بدلے۔ہندوستان کی سیاست کہیں سے کہیں جا پہنچی۔ اِنڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ء کی رُو سے صوبوں میں ہندوستانیوں کو نام نہاد حکومت دی گئی۔ ریمزے میکڈانلڈ نے کمیونل ایوارڈ کا گولہ چھوڑا۔گول میز کانفرنس کے بعد یہ پہلا انعامِ خصوصی تھا۔ جداگانہ انتخاب کی لعنت کو کانگریس نے قبول نہ کیا۔

۳۷۔۱۹۳۶ء میں اسمبلیوں کے انتخاب ہوئے جس میں کانگریس کو بڑی کامیابی ملی۔ مسٹر جناح افسردہ خاطر ہوکر لندن سے بھاگم بھاگ ہندوستان واپس آ گئے۔ دو سال تک یہ وزارتیں بڑی کامیابی سے کام کرتی رہیں۔ آخر میں آٹھ صوبوں میں کانگریسی وزارتیں کام کر رہی تھیں۔

دوسری عالمی جنگِ عظیم

۳ ستمبر ۱۹۳۹ء کو دوسری عالمگیر جنگ شروع ہوئی۔ ہندوستان کے لوگوں سے پوچھے بغیر برطانوی حکومت نے ہندوستان کی طرف سے بھی اعلانِ جنگ کر دیا۔ اِس سلسلے میں کانگریس ورکنگ کمیٹی کی صدائے احتجاج کے باوجود وائس رائے نے کوئی اطمینان بخش جواب نہ دِیا۔ پھر اِس کے نتیجے میں کانگریس ورکنگ کمیٹی نے اعلان کیا:

’’اِن حالات میں کمیٹی کے لئے ممکن نہیں کہ وہ برطانوی حکومت کی سامراجی پالیسی کو منظور کرے۔ کمیٹی کانگریس وِزارتوں کو ہدایت کرتی ہے کہ جو راہ اب ہمارے سامنے کھُل گئی ہے، اُس کی طرف بڑھتے ہوئے بطور ایک ابتدائی قدم کے اپنے اپنے صوبوں کی حکومتوں سے مستعفی ہو جائیں۔‘‘

پیر پور کمیٹی اور کانگریس

اِس کے نتیجے کے طور پر آٹھوں صُوبوں کی کانگریسی وِزارتیں مُستعفی ہو گئیں۔دوسری طرف مسٹر جناح اور اُن کے

حواریوں نے اِس کو یومِ نجات سے تعبیر کیا اور ایک رِپورٹ تیار کی جس میں کانگریسی حکومتوں کے مُسلمانوں پر جھوٹے مظالِم کی جھوٹی داستانیں درج کیں۔ یہ رِپورٹ پیر پور کمیٹی کے نام سے مشہور ہے اور تو اور بنگال کے مشہور مُتلوّن مزاج لیڈر فضل الحق بھی اِس کمیٹی کے ہم آواز تھے۔ حکومتِ برطانیہ کو اور کیا چاہیے تھا۔ وہ اِس تفریق کی آگ کو ہوا دیتی رہی اور حالاتِ بد سے بدتر ہونے لگے۔

یہ پس منظر تھا جب مولانا آزاد اِنڈین نیشنل کانگریس کے صدر منتخب ہوئے۔ اِس سے قبل ۱۹۳۸ء میں سُبھاش چندر بوس صدر رہ چکے تھے۔ ۱۹۳۸ء کے آخر میں مولانا سے صدارت قبول کرنے کے لئے کہا گیا لیکن سُبھاش چندر بوس اڑ گئے اور مقابلے پر آمادہ ہو گئے۔ شاید بدمزگی سے بچنے کے لئے مولانا نے اپنا نام واپس لے لیا۔ سردار پٹیل مولانا کی وجہ سے پہلے ہی نام واپس لے چکے تھے۔ اب میدان میں بوس کے مقابلے میں صرف ٹپا بھائی سیتا رامیہ رہ گئے۔ سُبھاش الیکشن میں کامیاب ہو گئے۔

انڈین نیشنل کانگریس کا تریپن واں اجلاس رام گڑھ (بہار) میں مارچ ۱۹۴۰ء میں ہوا۔اِس اجلاس کا مولانا کا خُطبۂ صدارت ایک تاریخی دستاویز ہے۔ اِس میں اُنہوں نے سامراجی طاقتوں کی چیرہ دستیوں کا پردہ چاک کیا ہے۔ ہندوستان کے لئے دستور ساز اسمبلی اور مکمّل آزادی کا مطالبہ کیا۔ اُنہوں نے بڑی وضاحت سے ہندوستان میں مُسلمانوں کے مُستقبل کے مسلے پر کھُلے دِل سے غور کیا ہے اور اُن لوگوں کا مذاق اُڑایا ہے جو نو کروڑ آبادی کو اقلیت کہتے ہیں۔ اُنہوں نے اِس بات کی توضیح بھی کی کہ ہندوستان کا آئندہ دستورِ اساسی اپنی تفصیلات میں خواہ کسی نوعیت کا ہو مگر اُس کی ایک بات ہم سب کو معلوم ہے کہ وہ کامل معنوں میں ایک آل اِنڈیا وِفاق (فیڈریشن) کا جمہوری دستور ہو گا، جس کے تمام حلقے اپنے اندرونی معاملات میں خود مختار ہوں گے۔ پھر فرمانے لگے:

’’تقریباً تیس برس ہوئے جب میں نے بہ بحیثیت ایک ہندوستانی مُسلمان کے اِس مسئلے پر پہلی مرتبہ غور کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ مُسلمانوں کی اکثریت سیاسی جد و جہد کے میدان سے یک قلم کنارہ کش تھی اور عام طور پر وہی ذہنیت ہر طرف چھائی ہوئی تھی جو ۱۸۸۸ء میں کانگریس سے علیحدگی اور مخالفت کی صورت اختیار کر گئی تھی۔ وقت کی یہ عام آب و ہوا میرے غور و فکر کی راہ نہ روک سکی۔ میں بہت جلد ایک آخری نتیجے پر پہنچ گیا اور اُس نے میرے سامنے یقین اور عمل کی راہ کھول دی۔ میں نے غور کیا کہ ہندوستان اپنے تمام حالات کے ساتھ ہمارے سامنے موجود ہے اور اپنے مستقبل کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ہم بھی اِسی کشتی میں سوار ہیں اور اِس کی رفتار سے بے پرواہ نہیں رہ سکتے۔ اِس لئے ضروری ہے کہ اپنے طرزِ عمل کا ایک صاف اور واقعی فیصلہ کر لیں۔ یہ فیصلہ ہم کیونکر کر سکتے ہیں۔ صرف اِس طرح کہ معاملے کی سطح پر نہ رہیں۔ اِس کی بنیادوں تک اُتریں اور پھر دیکھیں کہ ہم اپنے آپ کو کس حالت میں پاتے ہیں۔ میں نے ایسا کیا اور دیکھا کہ سارے معاملے کا فیصلہ ایک سوال کے جواب پر موقوف ہے۔ ہم ہندوستانی مُسلمان ہندوستان کے آزاد مُستقبل کو شک اور بے اعتمادی کی نظر سے دیکھتے ہیں یا خود اعتمادی اور ہمت کی نظر سے؟ اگر پہلی صورت ہے تو بلا شُبہ ہماری راہ دوسری ہو جاتی ہے۔ وقت کا کوئی اعلان آئندہ کا کوئی وعدہ دستورِ اساسی کا کوئی تحفُّظ ہمارے شک اور خوف کا اصلی علاج نہیں ہو سکتا۔ ہم مجبور ہو جاتے ہیں کہ کسی تیسری طاقت کی موجودگی برداشت کریں۔ یہ تیسری طاقت موجود ہے اور اپنی جگہ چھوڑ دینے کے لئے تیار نہیں اور ہمیں بھی یہی خواہش رکھنی چاہیے کہ وہ اپنی جگہ نہ چھوڑ سکے۔ مذاکرات کی ناکامی کی وجہ لارڈ لِنتھگو اور اُن کی حکومت کی پیدا کردہ اڑچنیں تھیں۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ فیصلہ ہو اور کانگرس کا وقار بڑھے۔‘‘

مسلم لیگ کا شرمناک سیاسی کردار

مُسلم لیگ نے ہمیشہ ملک کی آزادی کی راہ میں رُکاوٹیں پیدا کیں۔ مسلم لیگ کا وجود ۱۹۰۶ء میں ہوا، جب کہ اِس کا پہلا اجلاس ڈھاکہ میں مُنعقد ہوا۔ کرسمس کے دِن تھے۔ نواب مشتاق حسین کی کوششوں سے مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے بعد یہ اِجلاس مُنعقد ہوا۔ مولانا آزاد اِس اِجلاس میں موجود تھے۔ اِس کی بنیاد ہی دو باتوں پر رکھی گئی۔ اوّل تو یہ کہ مسلمان حکومتِ ہند کی وفاداری کا اظہار کریں اور دوسرے یہ کہ ہندوؤں اور دوسری قوموں کی مخالفت کر کے مسلم حقوق کا تحفُّظ کریں۔ کانگریس نے آزادی کی جو مانگ کی تھی، لیگ اُس کی مخالف تھی۔ لیگ کا خیال تھا کہ اگر اُس نے کانگریس کے مطالبات کی حمایت کی تو برٹش حکومت مسلمانوں کے مُطالبات کی پرواہ نہیں کرے گی اور اُنہیں اُن کا حصہ نہیں مِلے گا۔ حکومت کانگریس کو ایک باغی جماعت سمجھتی تھی اور گوکھلے اور فیروز شاہ مہتہ ایسے اعتدال پسندوں پر بھی اعتماد نہیں کرتی تھی۔ چنانچہ برطانوی حکومت ہمیشہ مسلم لیگ کو کانگریسی مُطالبات کے لئے جوابی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی رہی۔

یہ تو پہلا مرحلہ تھا جب حکومت کچھ نہ کچھ اصلاحات کرنے پر مجبور ہوئی۔ پہلے تو لیگ سیاسیات سے الگ رہی لیکن بعد میں مسلمانوں کی طرف سے مطالبات پیش کرنے لگ گئی۔ مسلم لیگ کا اِس قسم کا طرزِ عمل حکومتِ برطانیہ کے لئے بہت مفید تھا اور برطانوی حکومت خوش تھی کہ اِس طرح ہندوؤں و مسلمانوں میں مُناقشات کے بیج بو کر وہ اپنے دائمی اقتدار کو قائم رکھ سکے گی۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اصلاحات کے ہر اقدام پر مسلم لیگ گورنمنٹ کے اِشاروں پر ناچتی تھی اور اِس طرح کا واویلا کرتی تھی کہ مسلمانوں کے حقوق تلف ہو رہے ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے وقت معاملہ زیادہ نازک ہو گیا۔ جب لیگ کی عنان مِسٹر جناح کے ہاتھ میں آ گئی۔

مسٹر جناح اوّل اوّل کانگریسی تھے۔ ۱۹۲۰ء کے خاص اجلاسِ کانگریس میں جو کلکتہ میں منعقد ہوا تھا اور اس میں برطانوی حکومت کے خلاف عدم تعاون کا ریزولیوشن پاس ہوا تھا اور یہیں سے مسٹر جناح کانگریس سے الگ ہو گئے تھے۔ آہستہ آہستہ اُنہوں نے بعض ناعاقبت اندیش مسلمانوں کی قیادت حاصل کر لی۔ کانگریس اور حکومت کے درمیان جب کبھی گفت و شُنید ہوئی اور اُس کا حشر ناکامی ہوا تو مسٹر جناح خاموش رہے اور آخر میں صرف اِتنا بیان دے دیتے کہ چونکہ کوئی فیصلہ نہیں ہوا، اِس لئے مسلم لیگ کے لئے کوئی بیان دینا ضروری نہیں۔ لیکن اُن کے دِل کا حال یہ تھا کہ وہ کانگریس سے جلے بھنے بیٹھے تھے۔مولانا آزادؔ کے تو نام سے ہی اُنہیں چڑھ تھی۔ ۸ اگست ۱۹۴۰ء کو جب وائس رائے نے اپنی ایگزیکیوٹو کاؤنسل میں توسیع کی پیشکش کی اور ہندوستانی رہنماؤں کو اُس میں شامل ہونے کے لئے بلایا تو مولانا آزادؔ نے بہ حیثیت صدرِ کانگریس مسٹر جناح کو تار دیا کہ کانگریس نے جو شرائط وائسرائے کو پیش کی ہیں، وہ بھی اُن پر صاد کریں تو مسٹر جناح نے اپنی زندگی کا تلخ ترین جواب مولانا کو اِن الفاظ میں دیا۔

مسلمانوں کے تئیں مسٹر جناح کا بغض

مسڑ جناح صدرِ کانگریس مولانا آزاد کے لا سلکی پیغام کے جواب میں لب کشائی فرماتے ہیں کہ:

’’میں آپ سے بذریعہ خط و کتابت یا بالمشافہ کوئی بحث و تمحیص کرنے سے انکار کرتا ہوں کیونکہ آپ نے تمام مسلمانانِ ہند کا اعتماد کھو دیا ہے۔ کیا آپ یہ محسوس نہیں کر سکتے کہ آپ کانگریس کے نمائشی مسلم (Show Boy ) یہ ثابت کرنے کے لئے ہیں کہ کانگریس قومی جماعت ہے تاکہ دوسرے مُلکوں کو دھوکا دیا جا سکے۔ آپ نے اب تک حد سے زیادہ لیگ کی مخالفت کی ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ آپ سخت ناکام رہے ہیں۔ اِن باتوں کو چھوڑ دیجئے۔‘‘

یہ ہے بغض کی معراج۔ مسٹر جنا ح بھی مزاج کے سخت تھے لیکن جس نے اُن کے وقار کو تسلیم نہ کیا ہو اور اِسلامی دُنیا میں مُمتاز بھی ہو، اُس کے تو وہ بدترین دُشمن تھے۔ یہ تار اُن کے ذہن اور اُن کی سوچ کی غمّازی کرتا ہے۔

مولانا آزادؔ کے ہاتھوں میں وزارتِ تعلیم کی باگ ڈور

جنوری ۱۹۴۷ء میں جب راجندر پرساد کو دستور ساز اسمبلی کا صدر بنایا گیا تو حکومت میں ایک جگہ خالی ہوئی، چنانچہ گاندھی جی اور جواہر لعل نہرو کے اِصرار پر مولانا آزاد نے سی۔ راج گوپال آچاریہ سے ۱۵ جنوری ۱۹۴۷ء کو عہدۂ وزارتِ تعلیم کا چار ج لیا۔مولانا آزاد بارہ (۱۲) سال کے عرصہ تک وزارتِ تعلیم کے منصب پر فائز رہے۔ ۱۹۵۲ء اور ۱۹۵۷ء میں لوک سبھا کے ممبر بھی منتخب ہوئے۔ بلا شبہ مولانا معلِّم اخلاق و اِنسانیت، بندۂ تسلیم و رضا، علم و فضل اور فکرو عقل کی راہوں کے ہر نشیب و فراز سے واقف تھے، لہٰذا آپ نے دوستوں کے اِصرار پر وزارت قبول فرما لی۔ دوررَس نگاہوں نے دیکھا کہ نوجوانوں میں اب اِصلاح، ذہن صالح اور اقدارِ حسنہ پیدا ہونا چاہیے اور پھر آپ نے باگ ڈور سنبھال لی۔ مولانا نے بڑی خوبصورتی سے اپنی فکر کا نقش تعلیم و تربیت کے ہر پہلو پر ثبت کیا۔ آپ نے مشرقی علومِ ادب میں ریسرچ کو فروغ دیا۔ فنونِ لطیفہ کی ترویج و ترقی کے لئے اکاڈمیاں قائم کیں۔ ہندی میں سائنس کی اصطلاحیں بنانے کا کام بڑے زور و شور سے شروع کیا۔ تعلیم بالغان ’’Adult Education‘‘ اور تعلیم نسواں پر خصوصی زور دیا۔ مولانا کی زندگی کے اہم مقاصد تھے : قومی یکجہتی اور ہندوستان کی بہبود کے لئے تعلیم و تربیت۔اُنہوں نے ہندوستانیوں کی مناسب نشو و نما اور ہندوستانیوں کے دِلوں میں محبت و آشتی پیدا کرنے میں وہ عظیم کارنامے انجام دئیے جس کی مثال ہندوستان کی تاریخ میں بہت ہی نادر ملے گی۔ مولانا کے عہدِ وِزارت میں مندرجہ ذیل تعلیمی بورڈ یا کمیشن قائم ہوئے:

۱۔ یونیورسٹی ایجوکیشن کمیشن قیام ۱۹۴۸ء

۲۔ سیکنڈری ایجوکیشن کمیشن قیام ۱۹۵۲ء

۳۔ آل اِنڈیا کاؤنسل فار ٹیکنیکل ایجوکیشن کی تشکیلِ نو ۔۔۔۔

۴۔ اِنسٹی ٹیوٹ آف ہایر ٹیکنالوجی، کھڑگ پور کا قیام ۱۹۵۱ء

۵۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (UGC ) کا قیام وغیرہ۔

جب مولانا نے وزارتِ تعلیم کا چارج سنبھالا تو سالانہ بجٹ صرف دو کروڑ روپے تھا جو بڑھ کر ۳۰ کروڑ روپے ہو گیا تھا۔ مولانا ہر معاملہ پر بڑی گہری نظر رکھتے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ ملک میں سائنسی یا دوسری قسم کی استعداد کی کمی نہیں ہے۔ہمیں صر ف یہ دیکھنا ہے کہ لوگوں کی تربیت کس طرح کی جائے۔ کھڑگ پور اِنسٹی ٹیوٹ مولانا کے عظیم کارناموں میں ایک کارنامہ ہے۔ ۱۹۵۵ء میں جب طلباء کا پہلا Batch نکلا تو ہر کسی کو فوراً ملازمت مل گئی۔ یہاں سے ہر طرح کی انجینئرنگ کی تعلیم اور تحقیق کے کام کو فروغ ملا۔ مندرجہ ذیل جدول سے سائنسی ترقیات کا بخوبی پتہ چل سکتا ہے، جو مولانا کی ایماء سے ڈاکٹر سر شانتی سروپ بھٹناگر کی صدارت میں ۱۹۴۷ء میں انجام پذیر ہوئیں۔

انجینئرنگ سے متعلق مضامین

۱۹۴۷ء ۱۹۵۰ء ۱۹۵۵ء

درس گاہوں کی تعداد ۲۸ ۳۷ ۴۳

طلباء کی تعداد ۲۵۲۰ ۳۳۲۷ ۵۰۰۰

کامیاب طلباء ۹۵۰ ۱۷۰۰ ۳۰۰۰

ٹیکنالوجی

درس گاہوں کی تعداد ۱۶ ۲۴ ۵۲

طلباء کی تعداد ۴۲۰ ۷۸۲ ۱۰۵۰

کامیاب طلباء ۳۰۰ ۴۹۸ ۷۰۰

اِس چارٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ دس ہی سال کے عرصہ میں درس گاہوں کی تعداد دوگنی ہو گئی تھی۔ فنونِ لطیفہ میں بھی شعر و شاعری اور موسیقی (Music ) سے مولانا کو خاص شغف تھا۔ اُنہوں نے تین اکاڈمیاں بھی قائم کیں :

۱۔ ساہتیہ اکاڈمی

۲۔ سنگیت ناٹک اکاڈمی

۳۔ اور لَلِت کلااکاڈمی

ساہتیہ اکاڈمی کا افتتاح ۱۲ مارچ ۱۹۵۴ء کو ہوا۔ اِس سے ہندوستان کی مختلف زبانوں کے ادب کی ترقی مقصود تھی۔سنگیت ناٹک اکاڈمی کے ذریعہ ہندوستانی اور کرناٹک موسیقی کو فروغ ملا اور موخر الذِّکر مصوری، مجسَّمہ سازی اور متعلقہ فنون کی ترویج و ترقی کی ذمّہ دار تھی۔

وزارتِ تعلیمات کے مسند پر متمکن رہتے ہوئے اُنہوں نے انسانی قدروں کو صحیح زاویۂ نگاہ سے دیکھا۔ ہریجنوں، قبائلی اور پسماندہ طبقوں کے لئے وظائف کی ایک اسکیم جاری کی جو اُن کے زمانہ میں ۳ لاکھ روپے سالانہ سے بڑھ کر ۲ کروڑ روپے سالانہ تک پہنچ گئی۔ مولانا ایک وزیر تو تھے ہی، بہ حیثیت انسان اُن کا درجہ بہت بلند تھا۔ وہ بڑے وقار اور عظمت سے منصفانہ خیال لے کر تعلیمی سرگرمیوں کے صدر رہے تھے۔ اُن کی دوربینی کا ایک کارنامہ یہ بھی تھا کہ اُنہوں نے تعلیمات کے سکریٹری کے طور پر ماہرینِ تعلیم ہی کو جگہ دی چنانچہ اُن کے زمانے میں ڈاکٹر تارا چند، پروفیسر ہمایوں کبیر اور غلام السَّیدین بالترتیب تعلیمات کے سکریٹری رہے۔

مولانا اساتذہ کی بہبود کے بہت متمنّی تھے اور اِس کے لئے ہر وقت کوشاں رہتے تھے۔ مرنے سے دو ہفتہ قبل ہی سینٹرل ایڈوائزری بورڈ آف ایجوکیشن کے اجلاس میں اُنہوں نے اساتذہ کو اپنا آخری خراجِ عقیدت پیش کیا تھا۔ اُنہوں نے کہا تھا۔

’’خواہ کوئی سسٹم ہو لیکن اساتذہ کی بہبود کے بغیر کسی قسم کی تعلیمی بہبود ممکن نہیں۔ اُنہوں نے دوسرے پنج سالہ پلان میں اساتذہ کی تنخواہ کی شرحوں کے اِضافے کا ذکر بھی کیا اور اِس بات پر بھی افسوس ظاہر کیا کہ بعض اساتذہ پورے طور پر تربیت یافتہ نہیں ہوتے۔ اِس کے باوجود اُنہوں نے قوم کے بچوں کی تربیت کے فرض کو اچھی طرح نباہا۔‘‘

مولانا جزئیات میں کبھی دخل نہیں دیتے تھے بلکہ وہ اُن میں دلچسپی بھی نہیں لیتے تھے۔ جب تک کہ وہ کسی خاص پالیسی میں دخل انداز نہ ہو ں،مولانا آزاد سب کے معاون بنتے تھے۔ لوگوں کی کمزوریوں اور غلطیوں کو معاف کر دیتے تھے، تاوقتیکہ وہ انتظامیہ کی بنیاد پر ضرب نہ لگائیں۔ وہ ’ڈاکٹر‘ اور اِس قسم کی آنریری ڈگریاں لینا پسند نہیں کرتے تھے۔ وہ اِن سب علائق اور جھوٹی شان سے ماورا تھے۔ وہ ہندوستان کی سیاسی کشتی کے ناخدا تھے۔ اُن کی یہی صلاحیت تھی جس نے ہندوستان کی وزارتِ تعلیمات کی کشتی کو ڈگمگانے سے بچا لیا اور ملک کو ایک ٹھوس نظامِ تعلیم کی راہ پر گام زن کر دیا۔

مولانا آزاد کی رحلت

مولانا متحدہ قومیت کے علمبردار تھے اور اِس تہذیب کی نشاۃِ ثانیہ میں اُن کا بڑا حصّہ بھی تھا۔ ۲۲ فروری ۱۹۵۸ء کو حکمت و شرافت، بصیرت و نجابت اور ادب و سیاست کا بادشاہ اِس جہانِ فانی سے رخصت ہو گیا اور ایسا خلاء چھوڑ گیا جس کو پُر کرنا اب تک مشکل نظر آ رہا ہے۔

ہمہ دان عالِم اور مصنِّف ۔کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا عائبا نہ کیا

مولانا نیاز فتح پوری نے ایک جگہ لکھا ہے کہ وہ

’’اگر عربی شاعری کی طرف توجہ کرتے تو متنبِّی و بدیع الزَّماں ہوتے، اگر وہ دینی و مذہبی اصلاح اپنا شعار بنا لیتے تو اُس عہد کے ابنِ تیمیہ ہوتے۔ اگر علوم حِکمیہ کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیتے تو ابنِ رَشد اور ابنِ خلّدون سے کم درجہ کے مُتکلِّم و فیلسوف نہ ہوتے۔ اگر وہ فارسی شعر و ادب کی طرف مُتوجہ ہو جاتے تو عرفی و نظیر ی کی صف میں اُنہیں جگہ ملتی۔ اگر وہ تصوُّف و اِصلاحِ باطن کی طرف متوجہ ہوتے تو غزالی اور رومی سے کم نہ ہوتے اور اگر وہ مسلکِ اعتزال اختیار کرتے تو دوسرے واصل بِن عطا ہوتے۔ ‘‘

مولانا کی قرآن فہمی

مولانا کی تصانیف میں سب سے زیادہ اہم کتاب ’’ترجمان القرآن‘‘ ہے۔ قرآن کی ایک صحیح اور عقلی تفسیر کی ضرورت تو اُنہوں نے اُس زمانے میں ہی محسوس کر لی تھی جب وہ طبعِ رسا کی جولانیاں ’الہلال‘ میں دِکھانے لگے تھے اور اِس ضمن میں اُنہوں نے کام بھی شروع کر دیا تھا۔ لیکن اِس پر بھی قرآن کے اٹھارہ پاروں کا ترجمہ چھپتے چھپتے سالہا سال گزر گئے اور ۱۹۳۱ء میں یہ منزل طے ہوئی۔ ایسے شواہد بھی ملتے ہیں کہ مولانا باقی بارہ پاروں کا ترجمہ بھی کر چکے تھے لیکن اُن کے انتقال کے بعد اِس کا مسودہ نہیں ملا اور خدا جانے وہ مکمل بھی ہوا تھا یا نہیں۔ مولانا غلام رسول مہر کے نام اکثر خطوط میں اِس کا ذکر آیا ہے۔

قرآن کریم کی حیثیت ایک مُکمّل ضابطۂ اخلاق اور ایک جامع دستوُرِ معاشرت و تمدُّن کی ہے۔اِسی نقطۂ نظر سے مولانا نے قرآن کو دیکھا اور سمجھا اور اُسی انداز سے سمجھانے کی کوشش بھی کی۔ ہندوستان میں شاہ ولی اللہ کا ترجمہ جو فارسی میں تھا، پہلا ترجمہ تھا جو نہایت بصیرت و بے باکی سے کیا گیا۔ وہ ایک نئے زاویۂ فکر کی بشارت تھی اور قرآن کریم کے سربستہ رازوں کو آشکار کرنے کی ایک صحیح کوشش تھی۔ اُن کے بعد اُن کے صاحب زادے حضرت شاہ عبد القادر ؒ نے اُس کا ترجمہ اُردو میں کیا جو عوام کے لئے مفید ثابت ہوا۔ یہ کام اُنہوں نے انیسویں صدی کے آغاز میں کیا۔ شاہ ولی اللہ کے ترجمہ سے ایک سہولت یہ پیدا ہوئی کہ اُس سے دوسری زبانوں میں قرآن کے ترجمے کی آسانی پیدا ہو گئی اور اُنہوں نے یہ بات بھی ذہن نشین کرانے کی کوشش کی کہ قرآن ریشمی رومال میں بند کر کے طاق میں رکھنے کی چیز نہیں بلکہ اُس کا پیغام تو ہر اِنسان تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ شاہ صاحب اندھی تقلید کے منکر تھے اِس لئے اُن کی خواہش تھی کہ اِسلامی تعلیمات کو انسانی فلاح و بہبود کے اُصولوں پر منطبق کیا جائے اور اِسلام کے اُصولوں کو رِوایات اور جھوٹی داستان کی خرافات سے پاک کیا جائے۔ شاہ صاحب نے اِنصاف پسندی کی بنیاد رکھی۔ مولانا کے ذہن پر اِن تمام باتوں کا اثر تھا۔ وہ اِس سے قبل اِمام غزالی کے تجدیدی کاموں سے متاثر تھے۔ اِمام غزالی کے ڈیڑھ سو برس بعد (۶۶۱۔۷۲۸ھ) ابنِ تیمیہ حدیث، فقہ، علوم عقلیہ، منطق، فلسفہ اور کلام کے بہت بڑے ماہر گزرے ہیں۔ مولانا آزاد اپنے پیش روؤں میں ابنِ تیمیہ سے سب سے زیادہ متاثرہیں کیونکہ اِبنِ تیمیہ اِسلام کے بُنیادی تصوُّرات پر یونانی اثرات کے قائل نہیں۔

ترجمان القرآن کی پہلی جلد جو صرف سورۂ فاتحہ کی تفسیر ہے، ۱۹۳۱ء میں شائع ہوئی۔ دوسری جلد تک اٹھارہ پارے ختم ہو گئے تھے۔ یہ۱۹۳۶ء میں مدینہ پریس بجنور سے چھپی تھی۔

ساہتیہ اکاڈمی نے بڑے اہتمام سے اِن جلدوں کو نئی شان سے چھاپا ہے۔ دوسری جلد کے دو حِصّے کر دئیے ہیں، گویا ۱۸ اپاروں کی تفسیر اب تین جلدوں میں ہے۔

مولانا آزاد نے قرآن کا مُطالعہ بڑی محنت اور کاوِش سے کیا۔ وہ لکھتے ہیں :’’میں نے قریب قریب تیئیس (۲۳)سال قرآن کو اپنا موضوعِ فکر بنایا۔ میں نے ہر پارے، ہر سورۃ اور ہر آیت اور ہر لفظ کو گہرے فکر و نظر سے دیکھا۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ قرآن کی موجودہ تفاسیر مطبوعہ یا غیر مطبوعہ کا بہت بڑا حصہ میری نظر سے گزرا ہے، میں نے فلسفۂ قرآن کے سلسلے میں ہر مسئلے کی تحقیق کی ہے۔‘‘

مولانا کا علوئے مرتبت علمی

’ترجمان القرآن‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا سیّد سلیمان ندوی مرحوم رقم طراز ہیں :

’’میں نے قرآن کریم کی جتنی تفاسیر پڑھی ہیں، اُن میں ابنِ تیمیہ اور حافظ ابنِ قیمِّ کی تفاسیر سے بہتر کوئی تفسیر نہیں۔‘‘ترجمان القرآن کا مصنف قابلِ مبارک باد ہے کہ اُس نے یورپی سامراج کے زمانے میں بڑی ہمت ا ور دلیری سے ابنِ تیمیہ اور ابنِ قیمِّ کی اِس صورت سے پیروی کی ہے جس طرح اُنہوں نے منگولی فاتحوں کی مزاحمت کے سلسلے میں کی تھی۔‘‘

مولانا عجیب و غریب دماغی اور ذہنی اہلیتیں لے کر پیدا ہوئے تھے۔اُن کی خلوت پسند طبیعت نے عوام پر اُن کے جوہر آشکار نہ ہونے دئیے۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں نے اُنہیں ’الہلال‘ اور ’البلاغ‘ کے مدیر اور ’ترجمان القرآن ‘ کے مصنِّف کی حیثیت سے دیکھا یا ’تذکرہ‘ اور ’غبارِ خاطر‘ میں اُن کی خطیبانہ تحریروں کا لُطف اُٹھایا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے اندر اِس صدی کے مجدَّد ہونے کی تمام صلاحیتیں رکھتے تھے۔

مولانا آزاد کی تصانیف

مولانا کم عمری میں ہی نظر بند ہو گئے، پھر سیاست کے خارزار میں اُلجھ گئے۔ اُنہیں فُرصت کے لمحات کہاں ملے؟ اِس پر بھی وہ بہت کچھ لکھ گئے۔ اُن کی تصانیف کی فہرست بڑی طویل ہے جو ذیل میں در ج ہے:

’’اعلانِ حق، ’’مسلمان عورت‘‘، تازہ مضامینِ مولانا ابو الکلام آزاد ’’مسئلۂ خلافت اور جزیرۃ العرب‘‘، ’’قولِ فیصل‘‘، ’’خطباتِ آزاد‘‘،’’تقاریر‘‘، نوادر ابوالکلام‘‘، ’’ترجمان القرآن‘‘، تذکرہ‘‘، آزاد کی کہانی خود آزاد کی زبانی‘‘،’’اِنڈیا وِنز فریڈم(India Wins Freedom )‘‘، ’’غبارِ خاطر‘‘، ’’کاروانِ خیال‘‘، ’’نقشِ آزاد‘‘۔

(مولانا کے خطوط غلام رسُول مہر کے نام)، ’’مکاتیبِ ابوالکلام‘‘،’’ فیصلۂ مُقدمہ جامع مسجد کلکتہ‘‘،’’مالیر کوٹلہ کا نزاع‘‘، ’’سرمد شہید‘‘۔

قلمی تصانیف: ’’نیشنل تحریک، البیرونی اور جغرافیۂ عالم‘‘، متفرِّق خطوط‘‘۔

مولانا کے علم و فضل کے باب میں تہران یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر نفیسی نے تفصیل سے لکھا ہے۔ اُنہوں نے مولانا سے اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا :

’’کہ موصوف فارسی زبان پر تو قدرت رکھتے ہی تھے لیکن وہ فارسی بے تکان بول بھی لیتے تھے۔ فارسی علماء اور فضلا کا ذکر بہت کرتے، ایرانی ثقافت کی تاریخ سے بہت واقف تھے۔ میں نے ایسا جیّد عالم نہیں دیکھا تھا۔وہ بلا کا حافظہ رکھتے تھے اور اُن کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ چنانچہ اپنی تصانیف میں بے شمار فارسی اور اُردو کے اشعار حافظے سے درج کر گئے ہیں۔ ‘‘

ایک دفعہ مولانا غلام رسُول مہر نے اُن کے حافظے پر شک کیا اور شعر میں ترمیم کر دی۔ مولانا نے لکھا کہ تیس سال ہوئے یہ شعر پڑھا تھا، آج اصل ہاتھ آگیا۔ خدا کا فضل ہے کہ شعر بعینہٖ اُسی طرح ہے، جس طرح میں نے لکھا تھا۔

مولانا بہت بڑے عقلیت پسند تھے، اِس لئے اُنہوں نے ہر بات کا جائزہ اِسی انداز سے لیا ہے۔

’’تذکرہ:

مولانا آزادؔ ۱۹۱۶ء میں رانچی میں نظر بند ہوئے تو اُن کے ایک مخلص دوست اور ’الہلال‘ اور ’البلاغ‘ کے مہتمم فضل الدین احمد بٹالوی نے اُن سے رانچی میں مُلاقات کی اور اُنہیں اِس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ اپنے حالاتِ زندگی لکھتے جائیں اور اُنہیں بھیجتے جائیں۔ نہ جانے کونسی ساعت تھی کہ مولانا نے ہاں کر لی۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہ مُسلسل لکھتے گئے اور فضل الدین احمد صاحب کو بھیجتے گئے۔لوگوں نے احمد صاحب کو بہت مجبور کیا تھا کہ مولانا کے حالات شائع ہونا بہت ضروری ہیں۔ یہ کون نوجوان ہے، جس نے اپنے قلم سے ہندوستان کے گوشے گوشے میں ایک حرکت پیدا کر دی ہے۔‘‘

’’غبارِ خاطر:

غبارِ خاطر مولانا کی آخری تصنیف ہے۔ اِس کے بعد سیاست کے جھمیلوں نے اُنہیں فرصت نہ دی کہ قلم کی جولانیاں دِکھاتے۔ یہ خطوط کا مجموعہ ہے، جو قلعۂ احمد نگر میں نظر بندی کے زمانے میں نواب صدر یار جنگ مرحوم کے نام لکھے گئے۔ نواب صاحب مرحوم سے مولانا کی ملاقات پہلے پہل ۱۹۰۵ء میں لکھنؤ میں مولانا شبلی کے توسط سے ہوئی تھی اور زِندگی بھر یہ علمی اور ادبی تعلق قائم رہا۔ دونوں میں اخلاص تھا، حالانکہ راستے الگ الگ تھے۔ یہ خطوط مولانا کے قول کے مُطابق محض دِل بہلاوا تھا۔ نہ مکتوب الیہ کو بھیجنے کے لئے تھے، نہ شائع کرنے کے لئے۔لیکن مولانا جب قیدِ فرنگ سے آزاد ہوئے اور اِن خطوط کا علم اُن کے سکریٹری اجمل خاں صاحب کو ہوا تو اُنہوں نے مولانا کو اُن کی اشاعت پر مجبور کر دیا۔ اصل میں یہ خطوط نہیں ایک طرح کے مضامین ہیں، جن میں زندگی کی نفسیات ہے۔ معمولی باتوں سے بڑے بڑے کلیّے اخذ کئے گئے ہیں۔ ’الہلال‘، ’البلاغ‘ اور ’تذکرے‘ والے ابوالکلام کی انانیت نہیں، اِن متنوّع تحریروں میں سال خوردہ ابوالکلام کی زندگی کے تجربے اور مزاج کا ٹھہراؤ ہے۔ ڈاکٹر سیّد عبد اللہ ایسے نقاد جو مولانا کی جوانی کی طوفانی نثر کے شیدا تھے ’غبارِ خاطر‘ سے مایوس نظر آتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مولانا آزاد کے قلم کی مشین کے کل پُرزے ڈھیلے پڑ گئے لیکن ایسا نہیں ہے۔ یہ بات آئندہ مثالوں سے پایۂ ثبوت کو پہنچ جائے گی۔بعض لوگوں نے قیاس آرائی کی ہے اور خیال ظاہر کیا ہے کہ :

’’ممکن ہو سکتا ہے کہ مولانا کو یہ مضامین لکھنے کا خیال فرانسیسی مصنِّف اور فلسفی چارلس نولی مونئسیکو کی مشہور کتاب فارسی خطوط (۱۷۲۱ء) سے ہوا ہو۔ اِس کتاب میں دو فرضی ایرانی سیّاح فرانس پر عموماً اور پیرس کی تہذیب و تمدُّن پر خصوصاً بے لاگ طنز و تنقید کرتے ہیں۔‘‘

مولانا نے باقاعدہ مضامین اور مسلسل کتاب تو نہیں لکھی، جو جی میں آیا لکھتے گئے۔ اُن کے مخاطب اصل علم و فضل کی دنیا میں مولانا حبیب الرَّحمٰن خاں شِروانی ہی تھے، حیدرآباد میں صدرِ امورِ مذہبیہ اور دار الترجمہ کے ’شیخ‘ بھی رہے تھے۔ نواب صدر یار جنگ کا خطاب وہیں سے ملا تھا۔

سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ خود مولانا کے باب میں بہت سی معلومات اِس کتاب سے ملتی ہیں۔ مولانا کو موسیقی بالخصوص ستار پر درک حاصل تھا، وہ اِس اقتباس میں دیکھئے۔

’’میں آپ سے ایک بات کہوں۔ میں نے بارہا اپنی طبیعت کو ٹٹولا ہے۔ میں زندگی کی احتیاجوں میں سے ہر چیز کے بغیر خوش رہ سکتا ہوں لیکن موسیقی کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ آوازِ خوش میرے لئے زندگی کا سہارا، دماغی کاوِشوں کا مداوا اور جسم و دِل کی ساری بیماریوں کا علاج ہے۔‘‘

رات کا سنّاٹا، تاروں کی چھاؤں، ڈھلتی ہوئی چاندنی سے دُھلا ہوا مرمریں گنبد اپنی کرسی پر بے حِس و حرکت متمکّن تھا۔ نیچے جمنا کی روپہلی جدولیں بل کھا کھا کر دوڑ رہی تھیں۔ نورو عظمت کی اِس ملی جلی فضا میں اچانک پردہ ہائے ستار سے نالہ ہائے بے حرف اُٹھتے اور ہوا کی لہروں پر بے روک تیرنے لگتے۔ آسمان کے تارے جھڑ رہے تھے اور میری انگلی کے زخموں سے نغمے۔‘‘ (۱۰)

شوقِ موسیقی بھی، ستار بجانے کی مہارت بھی اور پھر اُس پر یہ ذوقِ جمالیات۔ سبحان اللہ !

حکایتِ زاغ و بلبل، چڑیا چڑے کی کہانی، بہ ظاہر ایسے موضوع ہیں کہ کوئی اُن پر کیا لکھے گا لیکن ایسے انشائیے اُردو نثر میں کم موجود ہوں گے بلکہ یوں کہیے ندارد ہیں۔ اِن میں کہیں کہیں مزاح کا ہلکا مگر خوش گوار رنگ بھی موجود ہے۔ ڈاکٹر سیّد محمود پرندوں کو بلا کر روٹی کھلانا پسند کرتے تھے یا تو یہ کسی قسم کا مذہبی توہم تھا یا دِل کا گداز تھا جو اِس قید کی تنہائی میں اُنہیں معصوم پرندوں کی زندگی کے چند لمحوں سے وابستہ کرتا تھا۔

٭٭٭

جامع مسجد دہلی میں مولانا آزاد کی تقریر

اکتوبر ۱۹۴۷ء

۲۴ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو پاکستان بننے کے بعد مسلمانوں کی سراسیمگی اور پریشانی کو دیکھ کر مولانا آزاد نے جامع مسجد دہلی میں جو یادگار اور تاریخ ساز تقریر فرمائی وہ آبِ زر سے لکھنے کے لائق ہے اور اہلِ ہندوستان کے لئے نسخۂ کیمیاء ہے۔اِس تقریر کا متن، من و عن ذیل میں درج ہے:

’’عزیزانِ گرامی۔ آپ جانتے ہیں کہ وہ کون سی زنجیر ہے جو مجھے یہاں لے آئی ہے۔ میرے لئے شاہ جہاں کی اس یاد گار مسجد میں یہ اجتماع نیا نہیں۔ میں نے اِس زمانہ میں بھی، کہ اِس پر لیل و نہار کی بہت سی گردِشیں بیت چکی تھیں، تمہیں خطاب کیا تھا۔ جب تمہارے چہروں پر اضمحلال کی بجائے اطمینان تھا اور تمہارے دِلوں میں شک کی بجائے اعتماد۔ آج تمہارے چہروں کا اضطراب اور دِلوں کی ویرانی دیکھتا ہوں تو مجھے بے اختیار پچھلے چند سالوں کی بھولی بسری کہانیاں یاد آ جاتی ہیں۔تمہیں یاد ہے میں نے تمہیں پکارا اور تم نے میری زبان کاٹ لی۔ میں نے قلم اُٹھایا اور تم نے میرے ہاتھ قلم کر دئیے۔ میں نے چلنا چاہا تم نے میرے پاؤں کاٹ دئیے، میں نے کروٹ لینا چاہی تو تم نے میری کمر توڑ دی۔ حتیّٰ کہ پچھلے سات سال کی تلخ نوا سیاست جو تمہیں آج داغِ جدائی دے گئی ہے اُس کے عہدِ شباب میں بھی میں نے تمہیں ہر خطرے کی شاہراہ پر جھنجھوڑا لیکن تم نے میری صدا سے نہ صرف اعراض کیا بلکہ منع و اِنکار کی ساری سنتیں تازہ کر دیں۔ نتیجہ معلوم کہ آج اُنہی خطروں نے تمہیں گھیر لیا ہے جن کا اندیشہ تمہیں صِراطِ مستقیم سے دور لے گیا تھا۔‘‘

سچ پوچھو تو اب میں ایک جمود ہوں یا ایک دُور افتادہ صدا جس نے وطن میں رہ کر بھی غریب الوطنی کی زندگی گزاری ہے۔ اِس کا مطلب یہ نہیں کہ جو مقام میں نے پہلے دِن اپنے لئے چُن لیا تھا، وہاں میرے بال و پر کاٹ لئے گئے ہیں یا میرے آشیانے کے لئے جگہ نہیں رہی بلکہ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میرے دامن کو تمہاری دست درازیوں سے گِلہ ہے۔ میرا احساس زخمی ہے اور میرے دِل کو صدمہ ہے۔ سوچو تو سہی تم نے کون سی راہ اختیار کی۔ کہاں پہنچے اور اب کہاں کھڑے ہو؟کیا یہ خوف کی زندگی نہیں اور کیا تمہارے حواس میں اختلال نہیں آگیا۔ یہ خوف تم نے خود فراہم کیا ہے۔

ابھی کچھ زیادہ عرصہ نہیں بیتا جب میں نے تمہیں کہا تھا کہ دو قوموں کا نظریہ حیاتِ معنوی کے لئے مرض الموت کا درجہ رکھتا ہے۔ اِس کو چھوڑو۔ یہ ستون جن پر تم نے بھروسہ کیا ہوا ہے نہایت تیزی سے ٹوٹ رہے ہیں لیکن تم نے سُنی ان سُنی برابر کر دی اور یہ نہ سوچا کہ وقت اور اُس کی رفتار تمہارے لئے اپنا ضابطہ تبدیل نہیں کر سکتے۔ وقت کی رَفتار تھمی نہیں۔ تم دیکھ رہے ہو کہ جن سہاروں پر تمہارا بھروسہ تھا وہ تمہیں لا وارِث سمجھ کر تقدیر کے حوالے کر گئے ہیں،وہ تقدیر جو تمہاری دماغی لغت میں مشیت کی منشا سے مختلف مفہوم رکھتی ہے۔ یعنی تمہارے نزدیک فقدانِ ہمّت کا نام تقدیر ہے۔

انگریز کی بساط تمہاری خواہش کے بر خلاف اُلٹ دی گئی اور راہ نمائی کے وہ بت جو تم نے وضع کئے تھے، وہ بھی دغا دے گئے حالانکہ تم نے سمجھا تھا کہ یہ بساط ہمیشہ کے لئے بچھائی ہے اور اُن ہی بتوں کی پوجا میں تمہاری زندگی ہے۔ میں تمہارے زخموں کو کریدنا نہیں چاہتا اور تمہارے اضطراب میں مزید اِضافہ میری خواہش نہیں لیکن اگر کچھ دُور ماضی کی طرف پلٹ جاؤ تو تمہارے لئے بہت سی گرہیں کھُل سکتی ہیں۔ ایک وقت تھا، میں نے ہندوستان کی آزادی کے حصول کا احساس دِلاتے ہوئے تمہیں پکارا تھا اور کہا تھا:

’’جو ہونے والا ہے اُس کو کوئی قوم اپنی نحوست سے روک نہیں سکتی۔ ہندوستان کی تقدیر میں بھی سیاسی انقلاب لکھا جا چکا ہے اور اِس کی غلامانہ زنجیریں بیسویں صدی کی ہوائے حُرِّیت سے کٹ کر گِرنے والی ہیں۔ اگر تم نے وقت کے پہلو بہ پہلو قدم اُٹھانے سے پہلو تہی کی اور تعطل کی موجودہ زندگی کو اپنا شعار بنائے رکھا تو مستقبل کا مورِّخ لکھے گا کہ:

’’تمہارے گروہ نے جو سات کروڑ انسانوں کا ایک غول تھا،ملک کی آزادی کے بارے میں وہ روَیّہ اختیار کیا جو صفحۂ ہستی سے محو ہو جانے والی قوموں کا شیوہ ہوا کرتا ہے۔ آج ہندوستان آزاد ہے اور تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو کہ وہ سامنے لال قلعہ کی دیوار پر آزاد ہندوستان کا جھنڈا اپنے پورے شکوہ سے لہرا رہا ہے۔ یہ وہی جھنڈا ہے جس کی اُڑانوں سے حاکمانہ غرور کے دِل آزار قہقہے تمسخر کیا کرتے تھے۔‘‘

یہ ٹھیک ہے کہ وقت نے تمہاری خواہشوں کے مطابق انگڑائی نہیں لی، بلکہ اُس نے ایک قوم کے پیدائشی حق کے احترام میں کروٹ بدلی ہے اور یہی وہ انقلاب ہے جس کی ایک کروٹ نے تمہیں بہت حد تک خوف زدہ کر دیا ہے۔ تم خیال کرتے ہو کہ تم سے کوئی اچھی شے چھن گئی اور اُس کی جگہ بُری شے آ گئی۔ یہ واقعہ نہیں واہمہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بُری شے چلی گئی اور اچھی شے آ گئی۔ ہاں تمہاری بے قراری اِس لئے ہے کہ تم نے اپنے تئیں اچھی شے کے لئے تیار نہیں کیا تھا اور بُری شے کو ہی نجاتِ مادِّی سمجھ رکھا تھا۔ میری مراد غیر ملکی غلامی سے ہے، جس کے ہاتھ میں تم نے مدّتوں حاکمانہ طمع کا کھلونا بن کر زندگی بسر کی ہے۔ ایک دِن تھا جب تم کسی جنگ کے آغاز کی فکر میں تھے اور آج اِس جنگ کے انجام سے مضطرِب ہو۔ آخر تمہاری اِس عجلت پر کیا کہوں کہ اِدھر ابھی سفر کی جستجو ختم نہیں ہوئی اور اِدھر گمراہی کا خطرہ درپیش آگیا ہے۔

میرے بھائی میں نے ہمیشہ سیاسیات کو ذاتیات سے الگ رکھنے کی کوشش کی ہے اور کبھی اِس پُر خار وادی میں قدم نہیں رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ میری بہت سی باتیں کنایوں کا پہلو لئے ہوتی ہیں لیکن مجھے آج جو کہنا ہے میں اُسے بے روک ہو کر کہنا چاہتا ہوں۔ متحدہ ہندوستان کا بٹوارہ بنیادی طور پر غلط تھا۔ مذہبی اختلافات کو جس ڈھب سے ہوا دی گئی اُس کا لازمی نتیجہ یہی آثار و مظاہر تھے جو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھے اور بدقسمتی سے بعض مقامات پر ابھی تک دیکھ رہے ہیں۔

پچھلے سات برس کی روداد دہرانے سے کوئی خاص فائدہ نہیں اور نہ اِس سے کوئی اچھا نتیجہ نکل سکتا ہے۔ البتہ ہندوستان کے مسلمانوں پر مصیبتوں کو جو ریلا آیا ہے۔ وہ یقیناً مُسلم لیگ کی غلط قیادت کی فاش غلطیوں کا بدیہی نتیجہ ہے۔ یہ سب کچھ مُسلم لیگ کے لئے جو موجبِ حیرت ہو سکتا ہے لیکن میرے لئے اِس میں کوئی نئی بات نہیں۔ میں پہلے دِن ہی سے اِن نتائج پر نظر رکھتا تھا۔

اب ہندوستان کی سیاست کا رُخ بدل چکا ہے۔ مُسلم لیگ کے لئے یہاں کوئی جگہ نہیں ہے۔ اب یہ ہمارے اپنے دماغوں پر منحصر ہے کہ ہم کسی اچھے اندازِ فکر میں سوچ بھی سکتے ہیں یا نہیں۔ اِس خیال سے میں نے نومبر کے دوسرے ہفتہ میں ہندوستان کے مُسلمان رہنماؤں کو دہلی بلانے کا قصد کیا ہے۔ دعوت نامے بھیج دئیے گئے ہیں۔ ہراس کا یہ موسم عارضی ہے۔ میں تم کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم کو ہمارے سِوا کوئی زیر نہیں کر سکتا۔

میں نے ہمیشہ کہا اور آج پھر کہتا ہوں کہ تذبذب کا راستہ چھوڑ دو۔ شک سے ہاتھ اُٹھا لو اور بے عملی کو ترک کر دو۔ یہ تین دھار کا انوکھا خنجر لوہے کی اِس دودھاری تلوار سے زیادہ کاری ہے جس کے گھاؤ کی کہانیاں میں نے تمہارے نوجوانوں کی زبانی سنی ہیں۔

یہ فرار کی زندگی جو تم نے ہجرت کے مقدّس نام پر اختیار کی ہے، اُس پر غور کرو۔ تمہیں محسوس ہو گا کہ یہ غلط ہے۔ اپنے دِلوں کو مضبوط بناؤ اور اپنے دماغوں کو سوچنے کی عادت ڈالو اور پھر دیکھو کہ تمہارے یہ فیصلے کتنے عاجلانہ ہیں۔ آخر کہاں جا رہے ہو اور کیوں جا رہے ہو؟

یہ دیکھو۔۔۔ مسجد کے مینار تم سے جھُک کر سوال کرتے ہیں تم نے اپنی تاریخ کے صفحات کو کہاں گُم کر دیا ہے؟ ابھی کل کی بات ہے کہ یہیں جمنا کے کنارے تمہارے قافلوں نے وضو کیا تھا اور آج تم ہو کہ یہاں رہتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے۔ حالانکہ دہلی تمہارے خون کی سینچی ہوئی ہے۔

عزیزو ! اپنے اندر ایک بنیادی تبدیلی پیدا کرو۔ جس طرح آج سے کچھ عرصہ پہلے تمہارا جوش و خروش بیجا تھا۔ اُسی طرح آج تمہارا یہ خوف و ہراس بھی بیجا ہے۔ مسلمان اور بُزدِلی اور یا مسلمان اور اشتعال ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔ سچے مسلمان کو نہ تو کوئی طمع ہِلا سکتی ہے اور نہ کوئی خوف ڈرا سکتا ہے۔ چند انسانی چہروں کے غائب از نظر ہو جانے سے ڈرو نہیں۔ اُنہوں نے تمہیں جانے کے لئے ہی اکٹھا کیا تھا۔ آج اُنہوں نے تمہارے ہاتھ سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ہے تو یہ تعجب کی بات نہیں۔ یہ دیکھو کہ تمہارے دِل تو اُن کے ساتھ ہی رخصت نہیں ہو گئے۔ اگر دِل ابھی تک تمہارے پاس ہیں تو اُن کو اپنے اُس خدا کی جلوہ گاہ بناؤ جس نے آج سے تیرہ سو برس پہلے عرب کے ایک اُمّی کی معرفت فرمایا تھا۔۔۔

’’جو خدا پر ایمان لائے اور اُس پر جم گئے تو اُن کے لئے نہ تو کسی طرح کا ڈر ہے اور نہ کوئی غم‘‘، ہوائیں گُزر جاتی ہیں۔ یہ صرصر صحیح لیکن اِس کی عمر کچھ زیادہ نہیں۔ ابھی دیکھتی آنکھوں ابتلا کا یہ موسم گزرنے والا ہے۔ یوں بدل جاؤ جیسے تم پہلے کبھی اِس حالت میں نہ تھے۔‘‘

میں کلام میں تکرار کا عادی نہیں لیکن مجھے تمہاری تغافل کشی کے پیشِ نظر بار بار کہنا پڑتا ہے کہ تیسری طاقت اپنے گھمنڈ کا پشتارہ اُٹھا کر رخصت ہو چکی ہے۔ جو ہونا تھا وہ ہو کر رہا ہے۔ سیاسی ذہنیت اپنا پچھلا سانچہ توڑ چکی اور اب نیا سانچہ ڈھل رہا ہے اگر اب بھی تمہارے دِلوں کا معاملہ بدلا نہیں اور دماغوں کی چبھن ختم نہیں ہوئی تو پھر حالت دوسری ہے۔ لیکن اگر واقعی تمہارے اندر سچی تبدیلی کی خواہش پیدا ہو گئی ہے تو پھر اِس طرح بدلو جس طرح تاریخ نے اپنے تئیں بدل لیا ہے۔

آج بھی کہ ہم ایک دورِ انقلاب کو پورا کر چکے ہیں۔ ہمارے ملک کی ترقی میں کچھ صفحے خالی ہیں اور اِنہی صفحوں میں ہم زیبِ عنوان بن سکتے ہیں۔ مگر شرط یہ ہے کہ ہم اِس کے لئے تیار بھی ہیں۔

عزیزو ! تبدیلیوں کے ساتھ چلو۔ یہ نہ کہو کہ ہم اِس تغیر کے لئے تیار نہ تھے۔ بلکہ اب تیار ہو جاؤ۔ ستارے ٹوٹ گئے لیکن سورج تو چمک رہا ہے۔ اُس سے کرنیں مانگ لو اور اُن اندھیری راہوں میں بچھا دو جہاں اُجالے کی سخت ضرورت ہے۔

میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ تم حاکمانہ اقتدار کے مدرسے سے وفاداری کا سرٹیفِکیٹ حاصل کرو اور کاسہ لیسی کی وہی زندگی اختیار کرو جو غیر ملکی حاکموں کے عہد میں تمہارا شعار رہا ہے۔ میں کہتا ہوں جو اُجلے نقش و نگار تمہیں اِس ہندوستان میں ماضی کی یاد گار کے طور پر نظر آرہے ہیں وہ تمہارا ہی قافلہ لایا تھا۔ اُنہیں بھُلاؤ نہیں۔ اُنہیں چھوڑ و نہیں۔ اُن کے وارِث بن کر رہو اور سمجھ لو کہ اگر تم بھاگنے کے لئے تیار نہیں تو پھر تمہیں کوئی طاقت نہیں بھگا سکتی۔

آؤ عہد کرو کہ یہ ملک ہمارا ہے۔ ہم اِسی کے لئے ہیں اور اِس کی تقدیر کے بنیادی فیصلے ہماری آواز کے بغیر ادھورے ہی رہیں گے۔

آج زلزلوں سے ڈرتے ہو۔کبھی تم خود ایک زلزلہ تھے۔ آج اندھیرے سے کانپتے ہو۔ کیا یاد نہیں رہا کہ تمہارا وجود ایک اُجالا تھا۔ یہ بادلوں کے پانی کی سیل کیا ہے کہ تم نے بھیگ جانے کے خدشے سے اپنے پائینچے چڑھا لئے ہیں۔ وہ تمہارے ہی اسلاف تھے جو سمندروں میں اُتر گئے۔ پہاڑوں کی چھاتیوں کو روند ڈالا۔ بجلیاں آئیں تو اُن پر مسکرائے۔ بادل گرجے تو قہقہوں سے جواب دیا۔ صرصر اُٹھی تو رُخ پھیر دیا۔ آندھیاں آئیں تو اُن سے کہا۔ تمہارا راستہ یہ نہیں ہے۔ یہ ایمان کی جانکنی ہے کہ شہنشاہوں کے گریبانوں سے کھیلنے والے آج خود اپنے ہی گریبان کے تار بیچ رہے ہیں اور خدا سے اِس درجہ غافل ہو گئے ہیں کہ جیسے اُس پر کبھی ایمان ہی نہیں تھا۔

’’عزیزو ! میرے پاس تمہارے لئے کوئی نیا نسخہ نہیں ہے۔ چودہ سو برس پہلے کا نسخہ ہے۔وہ نسخہ جس کو کائناتِ انسانی کا سب سے بڑا محسن لایا تھا۔ وہی نسخہ تمہاری حیات کا ضامن اور تمہارے وجود کا رکھوالا ہے۔ اُسی کا اتباع تمہاری کامرانی کی دلیل ہے۔‘‘

مصادر و مراجع

۱۔ اختیاراتِ قاسمی، اقبال احمد قاسمی،فخر الدین علی احمد میموریل کمیٹی، حکومت اتر پردیش، لکھنؤ، ۱۹۸۷؁ء۔

۲۔ تاریخ دیوبند۔۔۔مؤ لَّفہ سیّد محبوب رضوی، شائع کردہ علمی مرکز، دیو بند، طبع دوم، ۱۹۷۲؁ء۔

۳۔ جدید ہندوستان کے معمار، مولانا ابوالکلام آزاد( سوانح حیات ) مؤ لَّفہ عرش ملسیانی،پبلِکیشن ڈِویژن، وزارتِ اطلاعات و نشریات، حکومتِ ہند، نئی دہلی، ۱۹۷۴؁ء۔

۴۔ حکیم اجمل خاں اور عربی زبان و ادب، محمد رضی الاسلام ندوی، اے۔ایم۔یو۔ علی گڑھ،ناشر فخر الدین علی احمد میموریل کمیٹی، حکومت اتر پردیش، سن اِشاعت ۲۰۰۵؁ء۔

۵۔ حیاتِ جاوید۔۔ از مولانا الطاف حسین حالیؔ، مطبوعہ ترقی اُردو بیورو، نئی دہلی ۱۹۷۹؁ء۔

۶۔ دیوان میرزا کامران تقدیم محمد محفوظ الحق، پریسیڈینسی کالج، کلکتہ، مطبوعہ معارف پریس،اعظم گڑھ، جنوری ۱۹۲۹؁ء۔

۷۔ دارالعلوم دیو بند کی خدمات کا ایک مختصر جائزہ۔۔۔ از امجد سعید فلاحی، ’’نوائے سحر‘‘، حبیب ہال میگزین، مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ۔

۸۔ علمائے ہند کا شاندار ماضی۔۔۔از مولانا سیّد محمد میاں، شائع کردہ کتابستان، دہلی ۱۹۵۷؁ء۔

۹۔ غبار خاطر مُرتَّبہ محمد اجمل خان، سکریٹری۔۔۔مولانا ابوالکلام آزادؔ۔

۱۰۔ سوانح قاسمی۔ از مولانا سیّد مناظر احسن گیلانی، مطبوعہ نیشنل پریس دیوبند، ۱۳۷۳؁ھ۔

۱۱۔ فرمودات مسیح الملک حکیم اجمل خاں،مُرتّبہ خاور ہاشمی، آل اِنڈیا یونانی طِبّی کانفرنس، دہلی، مطبوعہ ۲۰۰۶؁ء۔

۱۲۔ مقدمہ مفتاح کنوز السنَّہ، سیّد رشید رضا مصری ۔۔۔ مطبوعہ قاہرہ (مصر) ۱۹۳۴؁ء۔

٭٭٭

مؤلف کی دیگر تالیفات

۱۔ اختیاراتِ قاسمی، اقبال احمد قاسمی :

فخر الدین علی احمدمیموریل کمیٹی، حکومت اتر پردیش، لکھنؤ، ۱۹۸۷؁ء۔

۲۔ حفظانِ صحت کے مصادر و مراجع، اقبال احمد قاسمی:

اجمل خان طِبِّیہ کالج، مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ، ۱۹۹۷؁ء

۳۔ کتاب المفردات، اقبال احمد قاسمی :

شعبۂ علم الادویہ، مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ، ۲۰۰۱؁ء

۴۔ کتاب التکلیس، اقبال احمد قاسمی :

قومی کاؤنسل برائے فروغ اُردو زبان، حکومت ہند، نئی دہلی، ۲۰۰۳؁ء

۵۔ کتاب النّبض، اقبال احمد قاسمی:

اجمل خان طِبِّیہ کالج، مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ، ۲۰۰۳؁ء

۶۔ چراغِ راہ، یعنی حکیم اجمل خان کی حیات و خدمات، اقبال احمد قاسمی،

شعبۂ علم الادویہ، مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ، ۲۰۰۳؁ء۔

۷۔ نبض اور ای۔سی۔جی۔ کے مبادیات زیر طبع

۸۔ قاموس اسماء الادویہ زیر طبع

٭٭٭

تشکر: مصنف کا، ان کی اجازت کے لئے اور شجاع الدین اثر کا، جنہوں نے فائل فراہم کی