FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

کیا ہے ؟کیوں ہے ؟

اور سدباب کیا ہے ؟

 

مولانا منیر احمد

 

            علما ء دین کو بدنام کرنے،بے وقعت بنانے اور ان کے بارے عوام الناس میں نفرت پیدا کرنے کے لیے دین اور علم دین سے بیزار انحرافی طبقہ کی طرف سے مختلف ادوار میں جو مختلف انداز اختیار کیے جاتے رہے ہیں ان میں سے مؤثر ترین ہتھیار ان کے نزدیک ”فرقہ واریت کا پرو پیگنڈہ ”ہے۔ چنانچہ علماء اسلام کے متعلق یہ زبان درازی اور طعنہ بازی عام ہے کہ علما ء فرقہ پرست ہوتے ہیں ۔علماء کا کام فرقہ واریت،فرقہ پرستی اور مذہب کے نام پرمسلمانوں کو آپس میں لڑانا اور لڑا کر مختلف گروہوں میں تقسیم کرنا ہے،وہ قوم میں بجائے محبت کے نفرت پیدا کرتے ہیں ۔حال میں علماء اسلام اور مدارس اسلامیہ کی کردار کشی نیز عوام الناس کو علماء سے متنفر کرنے کے لیے باقاعدہ حکومت کی سرپرستی میں تقریر و تحریر اور ریڈیو و ٹی وی کے ذریعے ایک مہم شروع ہے۔ ا س کے ساتھ ساتھ عوام کو خوش کرنے اور عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے حکومت اپنی پوری قوت کے ساتھ سختی سے فرقہ واریت ختم کر کے قوم کو متحد کرنے کی نوید بھی سنا رہی ہے۔ ان حالات میں بہت مناسب ہے کہ فرقہ واریت کی حقیقت،فرقہ واریت کے اسباب اور فرقہ واریت کے سدباب کے عنوان پر کچھ گزارشات و معروضات برادرانِ اسلام کے گوش گزار کی جائیں ۔

دین اسلام

            احکام شرعیہ کی تین قسمیں ہیں ۔

            (١)  احکام اعتقادیہ مثلاً وجود الٰہ،توحید الہی،نبوت،ختم نبوت،قیامت،صداقت قرآن،عدالت صحابہ، صحابہ کرام کا معیار حق ہونا،اجماع و قیاس شرعی کا حجت شرعیہ ہونا،نزول عیسی  وغیرہ۔

            (٢)  احکام علیہ یعنی انفرادی و اجتماعی،ذاتی و قومی بلکہ بین الاقوامی عملی زندگی کے متعلق اسلام کے احکامات مثلاً نماز، روزہ، حج،زکوٰۃ، نکاح و طلاق،تجارت،شرکت و مضاربت اجارہ،اعارہ،وکالت،حلال و حرام،جہاد،امارت اسلامیہ،میراث وغیرہ۔غرضیکہ عبادات،معاملات، حقوق اللہ، حقوق العباد اور نظام حکومت کے تمام شعبہ جات کے متعلق اسلام کے تفصیلی احکامات جن کو عملًا اختیار کیا جاتا ہے۔

            (٣)  احکام اخلاقیہ مثلاًسخاوت،و شرافت، شجاعت، تواضع وغیرہ۔

             انہی تین قسم کے احکام اسلام کے مجموعہ کا نام دین اسلام ہے جس کو اللہ تعالی نے دیناًقیماً اور دین فطرت فرمایا ہے اسی کے متعلق فرمایا ان الدین عند اللّٰہ الا سلام (بے شک اللہ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے )اسی کے متعلق فرمایا الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا(آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور میں نے تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور میں نے تمہارے لیے اسلام کو بطور دین کے پسند کر لیا )اور اسی دین اسلام کے متعلق فرمایا ہو الذی ارسل رسولہ با لھدی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ (اللہ وہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ وہ اس کو تمام ادیان پر غالب کر دے اور قبر میں اسی دین کے متعلق سوال ہو گامادینک ؟تیرا دین کیا ہے ؟ پس جس نے سچے دل سے اللہ کے اس پسندیدہ دین کے سامنے سر تسلیم خم کیا ہو گا اور دنیا کے دوسرے نظامو ں پراس نظام رحمت کی برتری و بالادستی کا عقیدہ رکھا ہو گا وہی جواب دے سکے گا ”دینی الاسلام ” میرا دین اسلام ہے۔

تدوین دین

            قرآن کریم پہلے کتابی شکل میں مدون نہیں تھا۔سب سے پہلے حضرت عمر کے مشورہ سے خلیفۃ الرسول حضرت ابوبکر صدیق  نے اپنی خلافت کے دوران قرآن مقدس کو کتابی شکل میں جمع کرایا۔ یہ جمع شدہ نسخہ ام المؤمنین حضرت حفصہ بنت عمر بن الخطاب کے پاس محفوظ رہا تاآنکہ حضرت عثمان  نے حضرت حذیفہ  و دیگر اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشورہ سے قرآن کریم کو لغتِ قریش میں جمع کیا اور اس لغتِ قریش والے مصحفِ قرآنی کے متعدد نسخے تیار کرا کے پوری اسلامی سلطنت میں اس کو عام کیا پھر خلیفہ چہارم حضرت علی المرتضی  کے دور میں قرآن کریم پر اعراب اور نقطے لگائے گئے۔ ازاں بعد مزید آسانی کی خاطر قرآن کریم وقف کے رموزو علامات کے نشانات وغیرہ لگائے گئے۔اسی طرح عہد نبوت صحابہ میں زیادہ تر حفاظتِ حدیث کا دارومدار حفظِ حدیث پر تھا اور کتابی سطورکے بجائے انسانی صدور کے ذریعے تھا اگرچہ بعض اصحاب رسول اللہﷺ  اور بعض تابعین کے پاس کچھ حدیثوں کے نوشتے تھے لیکن بہت مختصر اور محدود، جب قوت حافظ میں کمی کا خوف ہوا تو اللہ تعالی نے حضرت عمر بن عبدالعزیز  کے دل میں احادیث رسول اللہﷺ   کے منتشر ذخیرہ کو یکجا جمع کرنے کا داعیہ پیدا کر دیا چنانچہ انہوں نے اپنی خلافت کے دوران استاذ الکل محمد بن مسلم بن شہاب الزھری اور ابو بکر بن حزم  کے ذریعے احادیث کو جمع کرایا۔اس جمع شدہ ذخیرہ حدیث پر محدثین حضرات نے مزید تحقیق و تسہیل کا کام کیا جس کے نتیجہ میں مختلف قسم کی کتب حدیث وجود میں آ گئیں اور ہرقسم کا جدا نام رکھا گیا جیسے جامع سنن،مسند،معجم وغیرہ پس جس طرح قرآن و حدیث پہلے مدون نہ تھا بعد میں مختلف ادوار میں مرحلہ وار مدون کیے گئے اسی طرح احکام شرعیہ یعنی مسائل شرعیہ اور قرآن و حدیث کی توضیح و تشریح کا تعلیم و تعلم عہد نبوت،صحابہ اور اوائل تابعین میں زبانی طور پر تھا۔سب سے پہلے الامام الاعظم، امام الائمہ، المحدث الفقیہ،امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت (٨٠۔١٥٠) نے قرآن و حدیث اور آثار صحابہ کے ذخیرہ میں منتشرہ احکام شرعیہ کو جمع کیا بلکہ ان احکام منصوصہ کی تہہ میں مستور کلیات کو تلاش کر کے ان کے ذریعے ممکنہ پیش آمدہ ہزاروں جزئیات کو پیشگی حل کر دیا چنانچہ اس وقت کی حل کردہ بعض جزئیات ایسی ہیں جو صدیوں کے بعد اب پیش آ رہی ہیں تاہم ان کا حل پہلے سے موجود ہے یا کم از کم ان کے حل کرنے کے لیے اصول و نظائر موجود ہیں ۔ نیز قرآن و حدیث میں عبارت النص،دلالۃالنص، اشارۃ النص،اقتضاء النص کے اسلوب میں بیاں شدہ مسائل کا ادراک کر کے ان کو اجاگر کیا آپ نے اس عظیم کام میں یہ احتیاط برتی کہ احکام شریعت کو انفرادی طور پر جمع کرنے کے بجائے اپنے ہزاروں شاگردوں میں سے چالیس جید و ماہر ترین شاگردوں کی مجلس شورٰی قائم کر کے شورائی طریقہ پر شریعت کے احکام منصوصہ و غیر منصوصہ کو جمع کرایا۔چنانچہ محدثین و فقہا ء حضرات نے اس حقیقت کو تسلیم کیا اور صاف لکھا  وابو حنیفۃ من دون علم الشریعۃ ورتبہ ابو ابا،ثم تابعہ مالک بن انس فی ترتیب المؤطا ولم یسبق ابا حنیفۃ احد لان الصحابۃ والتابعین لم یضعوا فی علم الشریعۃ ابوابا مبوبۃ ولا کتبامرتبۃ وانما کانو ا یعتمد ون علی قوۃحفظہم فلمارأی ابوحنیفۃالعلم منتشرا وخاف علیہ الضیاع دونہ فجعلہ ابواباوبدأ بالطہارۃثم بالصلاۃ ثم بسائر العبادات ثم المعاملات ثم ختم الکتاب بالمواریث، وانما بد أ بالطہارۃ والصلاۃلانھما اھم العبادات، وانما ختم الکتاب بالمواریث لا نھا آخر احوال لناس وھو اول من وضع کتاب الفرائض وکتاب الشروط (تبییض الصحیفہ ص١١٦،عقود الجمان ص١٨٤،مناقب موفق ص ١٣٦ج٢)امام ابو حنیفہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے علم شریعت کو مدون کیا اور ابواب و ار مرتب کیا پھر امام مالک بن انس نے موطا کی ترتیب میں آپ کی موافقت کی امام ابو حنیفہ سے پہلے کسی نے بھی علم شریعت کو مدون نہیں کیا کیونکہ صحابہ کرام اور تابعین حضرات نے علم شریعت کو نہ ابواب کی صورت میں مدون کیا نہ کتابوں کی شکل میں مرتب کیا وہ صرف اور صرف اپنی قوت حفظہ پر اعتماد کرتے تھے پس اما م ابو حنیفہ نے جب دیکھا کہ علم منتشر ہے اور اس کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے تو انہوں نے ابواب وار علم دین کو مدون کیا یعنی پہلے کتاب الطہارۃ پھر کتاب الصلوۃ،پھر تمام عبادات ازاں بعد معاملات پھر کتاب کومسائل وراثت پر ختم کیا۔طہارۃ و صلاۃسے اس لیے آغاز کیا کہ نماز تمام عبادات میں سے اہم ترین عبادت ہے اور مسائل وراثت پر اس وجہ سے ختم کیا کہ وہ انسان کے تمام احوال میں سے آخری حالت ہے نیز امام ابو حنیفہ  پہلے شخص ہیں جنہوں نے کتاب الفرائض اور کتاب الشروط کو مدون کیا ہے پھر اس ابتدائی تدوین کے بعد مختلف ادوار میں اس پر مزید محنت ہوتی رہی اور ہر دور میں نئے پیش آمدہ مسائل کو امام اعظم  کے مقرر کردہ اصول اور حل شدہ فروع کی روشنی میں حل کرنے کا سلسلہ برابر جاری رہا حتی کہ فقہ حنفی کی کتب میں حل شدہ شرعی مسائل کی تعداد قریبًا ساڑھے بارہ لاکھ ہے (مقدمہ البنائیہ)پھر اس تدوین کے سلسلہ نے مزید ترقی کی اس میں مزید وسعت پیدا ہوئی حتی کہ احکامات شرعیہ کی مذکورہ بالا تین قسموں کو بڑی تفصیل کے ساتھ علیحدہ  علیحدہ جمع کیا گیا جس سے تین علوم شرعیہ وجود میں آ گئے۔احکامات شرعیہ اعتقادیہ کے حل شدہ مجموعہ کا نام” علم الکلام”،احکامات شرعیہ عملیہ کے تشریحی مجموعہ کا نام” علم ا لفقہ” اور احکامات شرعیہ اخلاقیہ کی تفصیلات کا مجموعہ” علم التصوف” کے نام سے موسوم ہوا۔سواللہ تعالی کی تکوینی حکمت کے تحت دین کے سب احکامات ان تین علوم کی شکل میں پوری تفصیل کے ساتھ مدون ہو گئے،مدون ہو کر تقریر و تحریر،قلم  و زبان، تعلیم و تعلم اور علم و عمل کے ذریعے نسل در نسل محفوظ رہے اور محفوظ رہ کر ہر پہلے طبقہ سے بعد والے طبقہ کی طرف منتقل ہوتے رہے اور انشاء اللہ العزیز قلت و کثرت کے تفاوت کے ساتھ یہ مبارک سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا اور اللہ تعالی دین اور خدام دین کی حفاظت فرماتے رہیں گے۔ ان تنصروا اللّٰہ ینصرکم اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا۔

            پس جیسے قرآن کریم عہد نبوت میں مدون نہ ہوا تھا بلکہ اس کی تدوین کا آغاز عہد صدیقی میں ہوا پھر مختلف تدوینی مراحل سے گزر کر موجودہ صورت پر پختہ ہوا اور قرآن کریم کے ان مختلف تدوینی ادوار کے نتیجہ میں مختلف علوم قرآن وجود میں آ گئے۔اگرچہ قرآن کریم کی تدوین بعد میں ہوئی لیکن پوری امت مسلمہ کا پختہ ایمان ہے کہ یہ وہی قرآن ہے جو محمد عربیﷺ   پر نازل ہوا اس میں ذرا برابر تبدیلی نہیں آئی۔تدوین قرآن کا مؤخر ہونا قرآن کو مشکوک نہیں بناتا بلکہ اس سے قرآن کریم کی صداقت میں کوئی ادنی شک و شبہہ بھی پیدا نہیں ہو تا۔اس لیے ملتِ اسلامیہ نے عہد صحابہ و عہد تابعین کے مدون شدہ قرآن کو بلا چون و چرا تسلیم کیا ہے اور اس سے انحراف ہی نہیں کیا بلکہ اس میں تردد و تذبذب کو بھی کفر قرار دیا ہے۔اسی طرح تدوین حدیث بھی عہد تابعین میں شروع ہوئی پھر مختلف ادوار میں مختلف انداز سے تدوین حدیث کا عمل جاری رہا تاآنکہ اس محنت کے نتیجہ میں متعدد علوم حدیث معرض وجود میں آ گئے لیکن تدوین حدیث کی تاخیر کی وجہ سے نہ تو احادیث رسول اللہﷺ   کا انکار کیا گیا اور نہ ہی ان میں شک کیا گیا بلکہ احادیث نبویہ کو قوانینِ شریعت کے لیے دوسرا ماخذ تسلیم کیا گیا۔بعینہ اسی طرح علم شریعت یعنی احکام شرعیہ کی تدوین اگرچہ عہد تابعین اور اس کے مابعد کے ادوار میں ہوئی ہے لیکن تدوین قرآن اور تدوین حدیث کی طرح تدوین کی تاخیر احکام شریعت کے مدو نہ توضیحی و تشریحی ورثہ کے تسلیم کرنے میں بھی مانع نہ ہونی چاہیے بلکہ حق و باطل اور راہ ہدایت و راہ ضلالت کے تعین میں علم شریعت کی ان توضیحات و تعبیرات کو معیار مان لینا چاہیے کہ ہر فن میں اناڑی لوگوں کے مقابلہ میں ماہر ین فن کی تحقیق قابل تسلیم اور حرف آخر ہوتی ہے اور علم و عقل، حکمت و بصیرت، نور فطرت اور فن کی سلامتی کا تقاضا بھی یہی ہے۔لہٰذا خیر القرون کے ماہرین شریعت یعنی مجتہدین اسلام کی تشریح و تعبیر جو علم الکلام،علم الفقہ،علم التصوف کی صورت میں موجود و محفوظ ہے۔ اسی تشریحی و تعبیر کے ساتھ کتاب وسنت کو ماننا اور اس پر چلنا صراط مستقیم اور سبیل اللہ ہے۔اس سے انحراف کر کے احکام شریعت کی خواہشاتی من بھاتی آزادانہ تشریح و تعبیر اختیار کرناپھراس نئی تشریح کی بنیاد پر نیا مذہب نکالنا فرقہ واریت ہے خواہ اس کو فہم قرآن و فہم حدیث کا نام دیا جائے یا اسے تحقیق وریسرچ کہا جائے یا اس پر دین محمدی اور سلفی مذہب کا پر کشش و پر فریب لیبل چسپاں کیا جائے یہ فرقہ واریت ہے اور فرقہ واریت ہی کہلائے گی کیونکہ عنوان کے بدلے سے دوسروں کی دھوکہ تو دیا جا سکتا ہے لیکن حقیقت کو نہیں بدلا جا سکتا۔بوتل میں قارورہ ڈال کر اس پر روح افزا کا لیبل لگا دیا جائے تو قارورہ،قارورہ ہی رہتا ہے روح افزا نہیں بنتا۔ پس ماہرین شریعت کی دینی تحقیق سے سرکشی ورو گردانی کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی فرقہ واریت کو جو بھی پر کشش عنوان دیا جائے اور فرقہ واریت کے ا س مکروہ چہرہ کو چھپانے کے لیے پر فریب اور حسین تعبیرات کا جو بھی پردہ ڈال دیا جائے پھر بھی فرقہ واریت آ خر فرقہ واریت ہی ہے اور در حقیقت فرقہ واریت کا ذمہ دار علمبردار یہی انحرافی طبقہ ہے اور مسلمہ مجتہدین امت کی تحقیقات انیقہ سے انحراف اور اس کے مقابلہ میں اپنا جاہلانہ اجتہاد فرقہ واریت کا بہت بڑا سبب ہے بلکہ فرقہ واریت کے شجرۂ خبیثہ کی جڑ ہے۔

قرآن حدیث کے نام پر فرقہ واریت

            عجیب تر اور حیران کن امر یہ ہے کہ اب تک مسٹر وملاں کے ہر دو طبقوں سے اسلاف کے علمی ورثہ سے بغاوت کر کے اندھیرے میں ٹامک ٹویاں مارنے والے محققین کی کھیپ کی کھیپ منظر عام پر آ چکی ہے جنہوں نے فرقہ واریت کی مذمت،قرآن و حدیث کی دعوت اور دین اسلام کی وحدت کا بورڈ لگا کر اپنی مذہبی دکانیں خوب چمکائی ہیں اور تا حال یہ سلسلہ جاری ہے۔ان کی دعوت کا نقطہ آغاز یہ ہوتا ہے کہ علما ء فرقہ پرست ہوتے ہیں ان کا کام فرقہ واریت ہے ان کو چھوڑ دو اور براہ راست خود قرآن و حدیث سے دین سیکھو کیونکہ قرآن و حدیث میں کوئی اختلاف نہیں لہٰذا اپنے اپنے فرقوں کو چھوڑکرسب کو قرآن و حدیث پر متفق ہو جانا چاہیے مگر اس پُر فریب نعرے و دعوے کا انجام یہ ہوتا ہے کہ ا س نوع کا ہر محقق وداعی جب مجتہدین کی تشریح و تعبیر سے یکسر آزاد ہو کر اپنے آزادانہ توہمات و نظریات کو تفسیر قرآن اور تشریح حدیث یا فہم قرآن اور فہم حدیث کے جلو میں پیش کرتا ہے تو کچھ ہی عرصہ بعد وہ ایک نیا فرقہ بن کر سامنے آتا ہے سو اس طور پر ہر جدید محقق شعوری یا غیر شعوری طور پر ایک نئے فرقہ کو وجود میں لانے کا سبب بن جاتا ہے اور روز بروزجیسے جیسے جدید محقق کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے ویسے ویسے نئے فرقوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے نتیجہ یہ کہ دعوت اتحاد کے یہ داعی وحدت امت کی تباہی کا سبب بن رہے ہیں ۔راقم الحروف کی اس بات کی اس سے تائید ہوتی ہے کہ میاں نواز شریف نے اپنے دور حکومت میں ایک شریعت بل تیا ر کیا تھا جو مختلف اخبار و رسائل میں چھپا اس کی پہلی دفعہ یہ تھی کہ ”پاکستان کا سپریم لاء کتاب وسنت ہو گا لیکن ہر فرقہ کے لیے کتاب وسنت کی وہی تشریح معتبر ہو گی جو وہ خود کرے گا ” اس سے یہ بات بخوبی سمجھ آ جاتی ہے کہ فرقے بنتے ہیں ماہرین شریعت یعنی مجتہدین اسلام کی تشریح سے انحراف کر کے اپنی آزادانہ نئی تشریح کرنے سے جو دراصل کتاب وسنت کی تشریح نہیں ہوتی بلکہ ان کے اپنے خیالات و خواہشات اور اپنے توہمات وفاسد نظریات ہوتے ہیں جن کو عوام الناس میں مقبول بنا نے کے لیے کتاب وسنت کی تشریح کا عنوان دے دیا جاتا ہے یا پھر کتاب و سنت میں تحریف کا ایمان کش زہر ہوتا ہے جو کتاب وسنت کی تشریح کے نام پر ناواقف لوگوں کو کھلا یا جاتا ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اپنے مذکورہ بالا دعوے کو مدلل اوراس کی تفہیم کو سہل کرنے کے لیے قدیم ماہرین شریعت اور جدید محققین و ادیان اتحاد کی متضاد تشریحات کی روشنی میں عقائد اسلام اور فرقہ وارانہ نظریات کا تقابلی خاکہ پیش کیا جائے تاکہ فرقہ واریت اور اسباب فرقہ واریت کی تشخیص و تفہیم آسان ہو جائے۔

عقائد اسلام اور فرقہ وارانہ نظریات کا تقابلی خاکہ

عقائد اسلام بتحقیق اسلاف

(١)  اللہ تعالی موجود ہے

 (٢)  اللہ تعالی اپنی شان کے مطابق ہر جگہ موجود ہے

(٣)  اللہ عالم الغیب ہے

(٤)  اللہ ہی عالم الغیب ہے

(٥)  اللہ ہی مختار کل ہے

(٦)  اللہ جسم اور اعضا ء جسمانیہ سے پاک ہے

(٧)  اللہ کا مکان نہیں ہے بلکہ وہ لا مکان ہے

(٨)  اللہ کے لیے مثالیں مت بیان کرو

 (٩)  رسول اللہﷺ   آخری نبی ہیں

(١٠)  رسول اللہﷺ   کے بعد کسی اور کو نبی ماننا کفر ہے

(١١)  رسول اللہﷺ   اپنی قبر اطہر میں زندہ ہیں

(١٢) ر سول اللہﷺ  قبر اطہر کے پاس پڑھا ہو ا درود خود سنتے ہیں

(١٣)  وحی صرف انبیاء علیہم السلام پر نازل ہوتی ہے

(١٤)  انبیاء کرام علیہم السلام معصوم ہیں یعنی گناہوں سے پاک ہیں

(١٥)  صرف انبیا ء علیہم السلام معصوم ہیں

(١٦)  عیسیٰ علیہ السلام آسمانوں پر زندہ ہیں وہ دو بار ہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے کی حیثیت سے نازل ہوں گے۔

(١٧)  قرآن محفوظ ہے اس کے محفوظ ہونے میں شک و تردد کفر ہے۔

(١٨)  بغیر سمجھے تلاوت قرآن بھی باعث اجر ہے۔

(١٩)  احادیث رسول اللہﷺ    حجت ہیں ۔

(٢٠) آثار صحابہ حجت شرعیہ ہیں ۔ آثار صحابہ حجت شرعیہ نہیں ہیں

(٢١)   اجماع امت حجت شرعیہ ہے۔

(٢٢)  قیاس شرعی حجت شرعیہ ہے۔

(٢٣)  اصحاب رسول معیار حق ہیں ۔

(٢٤)  علم الفقہ بر حق ہے اور یہ قوانین شریعت کی شرح ہے

 (٢٥)  علم تصوف اخلاقیات اسلام کی شرح ہے۔

(٢٦)  نماز فرض ہے اور ارکان اسلام میں سے ایک رکن ہے۔

(٢٧)  روزہ رمضان فرض ہے اور رکن اسلام ہے۔

 (٢٨)  حج بیت اللہ ذی استطاعت پر فرض ہے۔

 (٣٩)  قبر کا ثواب و عذاب برحق ہے۔

(٣٠)  قبر بانی شعار اسلام ہے اور واجب ہے۔

(٣١)  سود حرام ہے۔

(٣٢)  پردہ فرض ہے۔

(٣٣)  گانا بجانا رقص و سرور حرام ہے۔

(٣٤)   نماز تراویح بیس رکعت پر پوری امت مسلمہ ہمیشہ متفق رہی ہے۔

(٣٥)  مجلس واحد کی تین طلاقیں تین ہیں اس پر ہمیشہ پوری امت متفق رہی ہے۔

(٣٦)  دین اسلام ابدی دین ہے۔

(٣٧)  غیر مجتہد لوگوں کے لیے اجتہاد ی مسائل میں ماہر تر ین مجتہد کی تقلید ضروری ہے اور اس پر اجتہاد کرنا حرام ہے۔

 (٣٨ )  عقیدۂ  تقدیر برحق ہے تقدیر پر ایمان لانا فرض ہے۔

(٣٩)  اسلامی اخلاق و تہذیب دین اسلام کا ایک حصہ ہے جس پر عمل کرنا ضروری ہے۔

 فرقہ واریت اور فرقہ وارانہ نظریات

 اللہ تعالی موجود نہیں ہے۔

 اللہ ہر جگہ موجود نہیں ہے۔

 اللہ عالم الغیب نہیں ہے۔

 اللہ بھی عالم الغیب ہے یعنی انبیاء و اولیاء بھی عالم الغیب ہیں ۔

 اللہ کے علاوہ انبیاء و اولیاء بھی مختار کل ہیں ۔

 اللہ کے ہاتھ،پاؤں ، ہتھیلی،انگلیاں ، کلائی، آنکھ، سینہ، پہلو، پنڈلی،چہرہ وغیرہ ہیں ۔

اللہ کا مکان عرش ہے اور جب وہ کرسی پر بیٹھتا ہے تو وہ چار انگل بھی بڑی نہیں رہتی ہے اور اس کے بوجھ سے چرچر کرتی ہے۔

 اللہ بے ریش لڑکے کی شکل میں ظاہر ہو سکتا ہے۔

 اللہ کی صورت ہے اور وہ بہت ہی خوبصورت ہے۔

 محمد رسول اللہﷺ   آخری نبی نہیں ہیں بلکہ آپ کے بعد مرزائی قادیانی نبی ہے۔ جو آدمی مرزا قادیانی کو نبی نہ مانے وہ کافر ہے۔

آپ کو قبر میں زندہ ماننا شرک ہے۔

 ر سول اللہﷺ  قبر اطہر کے پاس پڑھا ہو ا درود نہیں سنتے اور سننے کا عقیدہ رکھنا شرک ہے

 وحی آئمہ معصومین پربھی نازل ہوتی ہے۔

 انبیاء علیہم السلام معصوم نہیں ہیں ۔

بارہ امام بھی معصوم ہیں ۔

عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے وہ دوبارہ نازل نہیں ہوں گے۔

قرآن محفوظ نہیں ہے بلکہ اس میں صحابہ کرام  نے تحریف کی ہے۔

 محض الفاظ قرآن کی تلاوت فضول اور بے کا رہے۔

احادیث رسول اللہﷺ   حجت نہیں ہیں ۔

 آثار صحابہ حجت شرعیہ نہیں ہیں ۔

 اجماع امت حجت شرعیہ نہیں ہے۔

 قیا س شرعی حجت شرعیہ نہیں ہے۔

 اصحاب رسول معیار حق نہیں ہیں ۔

 فقہ قرآن و حدیث کے مقابلہ میں ایک باطل دین ہے

علم تصوف باطل ہے اور یہ برہمنوں کی ایجاد ہے۔

نماز فرض نہیں ہے ”نمازی چوتڑ اُٹھانے والے لوگ ”

 رمضان کے روزے فرض نہیں ہیں ۔

 حج بیت اللہ فرض نہیں ہے جبکہ ذکری مذہب والے لوگ تربت(بلوچستان) میں واقع کوہ مراد کا حج کرتے ہیں ۔

 ثواب و عذاب قبر محض ایک افسانہ ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔

 قربانی کے نام پر دولت کا ضیاع ہے۔

سودحرام نہیں ہے۔

پردہ فرض نہیں ہے۔

 گانا بجانا رقص و سرورحرام نہیں ہے۔

 تراویح کا انکار،تراویح ٨ رکعت ہے،بیس تراویح بدعت ہے۔تراویح صرف تین راتیں ہے،تراویح صرف ایک رکعت بھی جائز ہے۔

مجلس واحد کی تین طلاقیں ایک طلاق ہے۔

دین اسلام میں حسب ضرورت ترمیم ہو سکتی ہے۔

 غیر مجتہد لوگوں پربھی اجتہاد لازم اور تقلید حرام ہے۔

 تقدیر کوئی چیز نہیں ہے ہر آدمی اپنی قسمت کا آپ مالک ہے۔

اسلامی اخلاق و تہذیب کا انکار اور اس کے مقابلہ میں مغربی تہذیب کا

فرقہ واریت کے مراکز

            عام طور پر تاثر یہ دیا ہے کہ اسلامی مدارس اور مساجد میں فرقہ واریت سکھائی جاتی ہے اور یہ فرقہ واریت کے مراکز ہیں ۔اس سلسلہ میں ہم یہ وضاحت ضروری خیال کرتے ہیں کہ جن مساجد میں کتاب وسنت کے سمجھنے کے لیے اکابرین امت اور ان کی تحقیقات پر اعتماد کا درس دیا جاتا ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب اور کتاب وسنت میں وارد ہونے والے احکام شرعیہ کی جو تشریح و تحقیق صحابہ کرام  کے سامنے فرمائی اور اس پر عمل کر کے دکھایا۔صحابہ کرام  نے اس تشریح و تحقیق اور عملی مشاہدہ کے مطابق کتاب وسنت کے علم و عمل کو محفوظ کیا اورسر مواس سے انحراف نہ کیا پھر خدا اور رسول خدا کی اس عظیم،مقدس،معتمد علیہ جماعت اس تشریح امانت کو علم و عمل کی صورت میں تابعین کی طرف منتقل کیا تابعین نے بھی علم و عمل کی اس امانت اور وراثت نبوت کو جوں کا توں محفوظ رکھا اور اسی کی علماً  و عملاً تعلیم جاری رکھی بالآخر تابعین کے دور کے آخیر میں ١٢١ھ سے ١٥٠ ھ کے دورانیہ میں علم و عمل کی اس امانت کو مدون کر دیا گیا بعد میں پورے تواتر وتسلسل کے ساتھ احکام شریعت اور کتاب کی یہی تحقیق و تشریح ملت اسلامیہ میں چلتی رہی اور اسلامی حکومتوں میں بطور قانون نافذ رہی۔پھر ہر زمانے کے نئے پیش آمدہ مسائل کو ماہرین شریعت یعنی مجتہدین اسلام کے طے کردہ اصولوں اور ان کے مدون کردہ اس تحقیقی و تشریحی علمی ورثہ کی روشنی میں حل کیا جاتا رہا۔پس جن مدارس اسلامیہ میں کتاب و سنت کی تعلیم اس تحقیق و تشریح کے مطابق دی جاتی ہے جو عہد نبوت،عہد تابعین اور اس کے بعد کے ادوار میں محفوظ رہی ہے اور وہ اسی تحقیق و تشریحی کی بنیاد پر قائم ہیں اس متواتر و متوارث تحقیق سے جڑا ہوا ہے اور جن کے علم و تحقیق کو جدیدیت کی بجائے تواتر و توارث کی سند حاصل ہے وہ مدارس ہرگز ہرگز فرقہ واریت کے مرکز نہیں ہیں اور نہ ہی وہ علماء فرقہ واریت میں ملوث ہیں جو اسلاف کی اسی متواتر و متواثر علمی تحقیق و تشریح کے وارث و امین ہیں اور وہ اس تحقیق و تشریح کے قدر دان و علم بردا ر ہیں جس کو تحقیق من یامن کی تحقیق کی سفلی سفلی نسبت کی بجائے تحقیق سلفی کی نسبت حاصل ہو اور جو تحقیق اسلاف کی تحقیق سے متصادم ہو وہ اس سے بیزار ہیں کتاب وسنت ان کا مقصد حیات ہے مگر ذہنی آوارگی اور باغیانہ ذہنی آلودگی کے ساتھ نہیں بلکہ اسلاف کی تحقیق و تشریح کے تحت اور یہی صراط مستقیم ہے …..ہاں فرقہ واریت کے مراکز وہ مدارس ومساجد اور سکول،کالج،یونیورسٹی اور سرکاری و نیم سرکاری ادارے اور ان کے دفاتر ہیں جن میں عہد نبوت،عہد صحابہ،عہد تابعین سے پورے تواتر کے ساتھ علم و علم کے راہ سے چلنے والی کتاب وسنت کی متواتر تحقیق کوتقلیدی شرک،جہالت، رجعت پسندی،دقیانوسیت ذہنی غلامی تقلیدی ذہنی، ذہنی جمود،ملائیت،ملاازم، فرسودہ خیالات کامکروہ عنوان دیا جاتا ہے اور اس متواتر تحقیق پر پختگی کو بنیاد پرستی انتہا پسندی تنگ ظرفی،ضد، تعصب کہا جاتا ہے اور تاریخ اسلام کے تابناک ماضی،سنہری دور یعنی زمانہ خیر القرون کو دور تاریکی اور جہالت ثانیہ کے اپنے اس تاریک دور کو علم و روشنی کا دور قرار دے کر اسلاف کی تحقیقات و تشریحات سے نفرت و بیزاری اورسرکشی و بغاوت کا ذہن پیدا کر کے ا س حد تک باغیانہ متکبرانہ اور گستاخانہ ذہن اور انداز فکر پیدا کیا جاتا ہے اور اس قدر خود رائی،انانیت اور غرور و تکبر بھر دیا جاتا ہے کہ پھر ایسے لوگ صحابہ کرام  سمیت بڑے بڑے محققین علماء سلف ماہرین شریعت ان کو اپنے مقابلہ میں ہیچ نظر آتے ہیں اس لیے وہ ان پر اعتماد کرنے کی بجائے ان کی کامل تحقیق کو اپنی ناقص جاہلانہ،طفلانہ بلکہ مجنونانہ تحقیق کی کسوٹی پر پرکھنا اور پرکھ کر ان کے علم و تحقیق پر تنقید و نکتہ چینی کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں اور ایسی تربیت کرنے والے اساتذہ کا وہ پروردہ بیٹا اور پالتو بڑا ہی باکمال متصور ہوتا ہے جو ماہرین شریعت یعنی فقہا ء امت اور مجتہدین اسلام کی پگڑیاں اچھالنے میں دلیر ہوا ور اُن کی صحیح تحقیقات و تشریحات کو رد کر کے ان کے مقابلہ میں اپنے جاہلانہ اجتہادات اور اپنی خواہشاتی تحقیقات کو پُر فریب و پُر کشش عنوانات کے ساتھ عوام کو دھوکہ دینے کا ماہر ہوا ور یہ جو ہر جس میں جتنا زیادہ ہو وہ ان کی نظر میں اتنا بڑا محقق شمار ہوتا ہے تقریباً ہر کالج یو نیورسٹی میں اس قسم کے جدیدئیے کسی نہ کسی رنگ میں موجود ہیں جو ایک خاص انداز سے اپنی جدید تحقیقات کے پردہ میں فرقہ واریت کا تعفن پھیلا رہے ہیں ۔راقم الحروف چند سال قبل گل گشت ملتان کی ایک مسجد میں امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دیتا تھا مسجد کے نمازیوں میں ایک خوش بخت نوجوان بھی تھا جو ہر نماز میں اذان ہوتے ہی مسجد میں پہنچ جاتا اور جماعت کے وقت تک نوافل اور تلاوت میں مشغول رہتا ا س نوجوان پر مسجد کے سارے نمازی بڑے خوش تھے۔ اپنے بچو ں کو نماز و تلاوت کا شوق دلانے کے لیے اس نوجوان کو بطور نمونہ پیش کرتے۔لیکن ہوا یہ کہ وہ نوجوان رفتہ رفتہ سست ہوتا چلا گیا حتی کہ کچھ دنوں کے بعد مسجد سے بالکل غائب ہو گیا اس نوجوان کا گھر تو مجھے معلوم نہ تھا تاہم اس کی جستجو میں رہا آخر ایک دن سڑک پر کرکٹ کھیلتا نظر آ گیا،میں اس کے قریب ہو ا علیک سلیک کے بعد میں نے پوچھا بیٹا آپ تو ہمارے پختہ نمازی تھے خیر توہے آپ کئی دنوں سے مسجد میں نہیں آرہے اس نے بڑی لاپرواہی سے جواب دیا جی بہت نمازیں پڑھ لیں ،میں یہ جواب سن کر بہت پریشان ہو گیا کہ اتنا نیک صالح بچہ اور پختہ نمازی ا س کا دل نماز سے کیوں اچاٹ ہو گیا اور اس کے دل سے نماز کی محبت و اہمیت کیوں نکل گئی ؟

کیا علماء فرقہ پرست ہیں ؟

            پس فرقہ واریت کو ختم کرنے کی اصل ذمہ داری تو اسلامی حکومت پر ہے لیکن اگر حکومت اس میں بے حسی و غفلت کا مظاہر ہ کرے بلکہ فرقہ واریت کرداروں اور ذمہ داروں کو تحفظ دے کر فرقہ واریت کو تحفظ دے تو اولاً علماء حقہ افضل الجہاد  کلمۃ حق عند سلطان جائر کے مطابق حکومت کو فرض شناسی کا احساس دلائیں اور حکومت کی غفلت و بے حسی کو دور کر کے فرقہ واریت کی حقیقت بھی سمجھائیں اور حکومت کو فرقہ واریت ختم کرنے کی طرف متوجہ کریں لیکن اگر سب کچھ کے باوجود حکومت ٹس سے مس نہ ہو تو پھر علماء کرام عدالت کی طرف رجوع کریں اور عدالتیں بھی ساتھ نہ دیں اُدھر باطل فرقہ اپنی فرقہ واریت کو خوب پھیلا رہا ہے اور  فرقہ وارانہ مہم کو تیزسے تیز تر کرتا جا رہا ہے حتی کہ عامۃالمسلمین ان کے دھوکہ میں  آکر اس فرقہ واریت کا حصہ بن کر صراط مستقیم کے متواتر و متوارث سلسلۃ الذہب سے ہٹتے اور کٹتے جا رہے ہیں تو ایسی صورت میں علماء حقہ پر فرض ہے کہ وہ حفاظتِ دین اور قوم میں مذہبی اتحاد قائم رکھنے اور باطل یعنی فرقہ واریت کا راستہ روکنے کے لیے علمی دلائل کے ساتھ اس صحیح اور سچے عقیدہ و عمل کی طرف قلم و زبان اور تقریر و تحریر کے ذریعے دعوت دیں جو اُمتِ مسلمہ کے درمیان تواتر و تسلسل کے ساتھ اوپرسے چلا آ رہا ہے اور باطل فرقے نے جو نیا عقیدہ،نیا عمل اور نیا مذہب بنا کر کتاب و سنت کے حوالے سے پیش کیا ہے پیش کر کے کتاب وسنت کے نام پر لوگوں کے مال و ایمان کو لوٹا ہے، اس فرقہ کی دھوکہ بازی اور اس کا بطلان واضح کریں اور باطل فرقہ کی طرف سے پیدا کیے گئے تمام شکوک و شبہات کا ازالہ کریں تاکہ عامۃالمسلمین ان کی فرقہ واریت کے جال میں پھنس کر فرقہ واریت کا حصہ بننے کی بجائے سبیل المؤمنین پر چل کر سلسلہ اتحاد کی کڑی بن جائیں ۔دفاعِ حق اور حفاظتِ دین کی اس محنت کا نام فرقہ واریت نہیں بلکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے،یہ فرقہ واریت نہیں بلکہ دعوت اتحاد ہے۔یہ فرقہ واریت نہیں بلکہ فرقہ واریت والے فساد کے خلاف جہاد ہے،یہ فرقہ واریت کے شجرِ خبیثہ کی آبیاری نہیں بلکہ اس کی بیخ کنی ہے اور اس کا نام فرقہ پرستی نہیں بلکہ ”حق گوئی اور حق پرستی” ہے۔

            اے برادرانِ اسلام ! ایسے مجاہد،جرأت مند،حق گو علماء بسا غنیمت ہیں یہ علما ء اللہ کی رحمت ہیں بلکہ بقائے دنیا اور نزول رحمۃ کا ذریعہ ہیں ۔یہی جماعت وہ طائفہ منصورہ ہے جس کے بارے میں محسنِ اعظم سرور کائناتﷺ  کا ارشادِ گرامی ہے  ولن تزال ہذہ الامۃ قائمۃ علی امراللّٰہ لایضرہم من خالفھم حتی یأ تی امراللّٰہ (بخاری ج١  ص١٦)  اور یہ اہل حق کی جماعت قیامت تک قائم رہے گی ان کو کوئی مخالف نقصان نہ پہنچا سکے گا یعنی نہ ان کی استقامت میں فرق آئے گااور نہ وہ اپنے مشن سے پیچھے ہٹیں گے اور یہی جماعت خیر امت کا مصداق ہے جس کے متعلق ارشادِ ربانی ہے کنتم خیرامۃ اخرجت للناس تأ مرون بالمعروف وتنہون عن المنکر(تم بہترین امت ہو کہ تمہیں لوگوں کی نفع رسانی کے لیے اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر ظاہر کیا گیا ہے اور یہ وہی مؤمن ہیں جن کے متعلق قرآن نے کہا والمؤمنون والمؤمنات بعضہم اولیاء بعض یامرون بالمعروف وینہون عن المنکر (مؤمنین ایک دوسرے کے دو ست ہیں امر بالمعروف اور عن المنکر کرتے ہیں )انہی مؤمنین کو خوش خبری دی ا  ولئک سیر حہم اللّٰہ الخ ( اللہ ان پر یقینًا رحمت فرمائے گا اور اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ ان کو پر رونق باغات اور عمدہ رہائش گاہیں عطا کرے گا ان سے بھی بڑھ کر نعمت اللہ کی رضا ہے ) یہ مجاہدین علماء تمام مسلمانوں کے شکریہ کے مستحق ہیں کہ وہ پوری اُمت مسلمہ کی طرف سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں اللہ تعالی کا حکم ہے  ولتکن منکم امۃ ید عون الی الخیر و یأمرون بالمعروف و ینہون عن المنکر الخ(تم میں سے لازماً ایک ایسی جماعت ہونی چاہئے جو امر بالمعروف اور نہی المنکر کا فریضہ انجام دے اور یہی لوگ کامیاب ہیں )دنیا ان علماء کو فرقہ پرست اور شرپسند کہے یا انتہا پسند اور بنیاد پرست قرار دے،ان کو تخریب کاری اور دہشت گردی کا طعنہ دے یا فرقہ واریت اور امن شکنی کا الزام دے قرآن ان خوش بخت،خوش نصیب،سعادت مند علماء کو خیر امۃ، اولو بقیہ، المفلحون،المؤمنون، الصالحون کے اعلی القاب سے نواز کر  و رضوان من اللّٰہ اکبر کا پروانہ عطا کر کے بشارت دیتا ہے ذالک الفوز العظیم۔

اللہ تعالی نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکرسے غفلت و ترک کو موجب ہلاکت فرمایا ہے۔ سورۃ ہود میں ہے  فلولاکان من القرون تا مجرمین یعنی ان ہلاک شدہ بستیوں میں اہل علم فساد فی الارض سے کیوں نہیں روکتے تھے(جس کی وجہ سے ہم نے سب کو ہلاک کر دیا )البتہ جو چند افراد نہی عن المنکر کرتے تھے ہم نے صرف ان کو نجات دی اور ان ہلاک شدہ لوگوں کی ہلاکت کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے آرام پرستی اور  عیش پسندی کے پیچھے پڑکر نہی عن المنکر کا فریضہ چھوڑ دیا تھا اور سورۃالاعراف میں ہے واسئلھم عن القریۃ التی کانت حاضرۃ البحرتاخاسئین حضرت داؤد علیہ السلام کی قوم کا واقعہ ہے ہم اُن کی زبانِ حال کو زبانِ قال میں ڈھال کر حقیقتِ حال سے آگاہی کی کوشش کریں گے ان کو حکم الہی تھا کہ وہ ہفتے والے دن مچھلی کا شکار نہ کیا کریں لیکن اتفاق کی بات یہ کہ ہفتے کے دن مچھلیاں زیادہ ظاہر ہوتیں ۔ان حالات میں جدید محققین اور جدید شارحین کا ایک گروہ پیدا ہو گیا جو یہ سوچنے لگے کہ اس طرح تو قوم کا بہت اقتصادی و معاشی نقصان ہے لہٰذا اللہ تعالی کے اس حکم کی ایسی تشریح کی جائے کہ شریعت بھی رہ جائے اور مچھلی بھی ہاتھ سے نہ جائے۔ وہ کہنے لگے اب تک جو اس حکم کی یہ تشریح ہوتی رہی ہے کہ نہ مچھلی کو پکڑنا ہے نہ ان کو کسی گڑھے میں محبوس و محفوظ کرنا ہے یہ غلط ہے۔ ہماری تحقیق یہ ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہفتے والے دن مچھلی کو مت پکڑو اور اگر ہفتے والے دن مچھلیوں کو گڑھوں میں اس طرح محبوس و محفوظ کر دیں کہ واپس دریا میں نہ جا سکیں اور اتوار کے دن ان کو پکڑ لیں تو یہ ا س حکم کی خلاف نہیں ۔ان جدید محققین نے اس نئی تحقیق کی بنیاد پر نیا مذہب جاری کیا اور ایک نیا فرقہ بنا ڈالا اور کچھ لوگوں کو چکنی چپڑی باتیں کر کے اپنے ساتھ ملا لیا یوں فرقہ واریت شروع ہو گئی۔ سو قوم تین گروہوں میں بٹ گئی، ایک گروہ فرقہ واریت کا علم بردار جدید فرقہ تھا یعنی ہفتے والے دن مچھلیوں کو چھوٹے چھوٹے گڑھوں میں محبوس کرنے والا طبقہ وہ اپنے اس عمل کو حکمِ شرعی کے خلاف نہیں سمجھتا تھا،دوسرا گروہ اہل حق کا تھا جن کا دعوی تھا کہ حکم شرعی کی وہ تحقیق و تشریح جو پہلے سے چلی آ رہی ہے وہی حق وہی سچ اور وہی صحیح ہے۔ قو ی وحدت اور قومی اتحاد و اتفاق کا تقاضا بھی یہی ہے اپنی نئی تحقیق اور نئی تشریح کر کے اس کی بنیاد پر نیا مذہب اور نیا فرقہ بنانا فرقہ واریت ہے جو بہت بڑا فتنہ اور فساد ہے لہٰذا ا س سے باز آ جانا چاہئے۔وہ ایک طرف عوام الناس کو سمجھاتے اور ان کو فرقہ واریت سے بچانے کے لیے اسی متواتر و متوارث تحقیق کے مطابق حکم الہی پر عمل کرنے کی دعوت دیتے جو فرقہ واریت کے مقابلے میں دعوتِ اتحاد تھی۔ دوسری طرف ان روشن دماغ جدید محققین کو سمجھاتے کہ تمہاری یہ نئی تحقیق غلط ہے اس کو چھوڑ دو کیونکہ اللہ تعالی نے ہمیں ہفتے کے دن مچھلیوں کے شکار کرنے سے منع کیا ہے اور جیسے مچھلی کو پکڑنا شکار ہے اسی طرح چھوٹے گڑھے میں مچھلیوں کو اس طرح محبوس اور محفوظ کر لینا کہ وہ واپس دریا میں نہ جا سکیں اور ہم جب چاہیں ان کو پکڑ لیں یہ بھی شکار ہے گویا یہ بھی مچھلی پکڑنے کے مترادف ہے اس کو بھی عرفِ عام میں شکار ہی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ان روشن دماغوں اور فرقہ پرستوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی تھی یا ان میں ضد تھی اور تسلیم کا مادہ نہ تھا۔ بہرکیف ا ن کی کم فہم یا کج فہم جدید محققین کو یہ بات ناگوار گزری،شاید ان کا خیال یہ ہو کہ بات وہ ماننی چاہئے جو براہِ راست اللہ یا رسول اللہ کی ہو، شکار کی یہ وضاحت اور یہ تشریح نہ اللہ نے کی ہے نہ اللہ کے رسول نے کی ہے بلکہ یہ تمہاری اپنی تحقیق ہے اور ہم اُمیتوں کے اقوال اور اُمتیوں کی تحقیق کے پیچھے نہیں چلتے کہ اس کا نام تقلید ہے اور تقلید شرک ہے اس لیے ہم آپ لوگوں کی تحقیق کو مان کر تقلید کر کے مشرک نہیں بننا چاہتے لہٰذا ہم اسی تحقیق پر چلیں گے اوراسی پر عمل کریں گے جو ہم نے خود کی ہے گویا وہ اپنی تحقیق کو خدا اور رسولِ خدا کی تحقیق سمجھتے ہیں جبکہ یہ تحقیق بھی نہ خدا تعالی نے بتائی ہے نہ رسولِ خدا نے بتائی ہے اور اُمتیوں کی تحقیق ماننا ان کے نزدیک حرام و شرک ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ اس جدید فرقے کا ہر فرد غیر شعوری طور پر خدا یا رسول بنا ہوا ہے اور ان کی سمجھ خدا اور رسو ل کی سمجھ ہے۔ اہل حق کہتے ہم جو اس حکم شرعی کی تشریح بتا رہے ہیں یہ ماہرین شریعت کی تحقیق ہے اور یہ وہ متواتر اور متوارث تحقیق ہے جو پہلے سے چلی آ رہی ہے اس پر عمل بھی ہوتا آیا ہے نہ تم ان پہلے ماہرینِ شریعت کی طرح ماہر ہو نہ تمہاری یہ تشریح متواتر ہے اور نہ اس کے مطابق پہلے کبھی عمل ہوا ہے لہٰذا اس پر اصرار نہ کرو لیکن ممکن ہے اُن کا اُصول یہ ہو کہ اللہ اور رسول کی بات میں ہر ایک کو غور کرنے کا اور تحقیق کرنے کا حق ہے ماہر،غیر ماہر کا اس میں کوئی فرق نہیں ۔رہی یہ بات کہ تمہاری بیان کردہ تحقیق متواتر اور معمول بہ رہی ہے تو میاں ہم تو صرف اور صرف خدا اور رسول کی بات حجت مانتے ہیں اس لیے تواتر کی بات ہمارے سامنے نہ کریں ، دوسری بات یہ ہے کہ اگر ساری اُمت گمراہ رہی ہے اور ایک غلطی کرتی رہی ہے تو ضروری ہے کہ ہم بھی اس گمراہی اور غلطی میں ان کے ساتھ شریک ہو جائیں ۔اہل حق کہتے کہ ارے بندگانِ خدا اگر تمہیں یہ معقول باتیں سمجھ نہیں آتیں اور ان مسلمہ و متفقہ حقائق کو تسلیم نہیں کرتے تو چلو اس بات کو دیکھ لو قوم میں پھوٹ پڑ رہی ہے اور فرقہ واریت پھیل رہی ہے قوم کا مذہبی اتحادو اتفاق پارہ پارہ ہو رہا ہے اس لیے قوم پرترس کھاؤ اور فرقہ واریت پھیلانے سے باز آؤ وہ یہی جواب دیتے ہوں گے جو آج دیا جاتا ہے کہ تم خاموش ہو جاؤ ہماری تردید نہ کرو تم اپنی متواتر تشریح کے مطابق حکم الہی پر عمل کرتے رہو ہمیں اپنی تشریح کے مطابق عمل کرنے دو نہ ہم تمہیں کچھ کہتے ہیں نہ تم ہمیں کچھ کہو بس فرقہ واریت ختم۔اہل حق کہتے ہیں کہ تم جو یہ کہہ رہے ہو کہ ”ہم تمہیں کچھ نہیں کہتے ” یہ جھوٹ ہے،کیونکہ ہماری یہ جماعت پہلے سے چلی  آ رہی ہے اگرچہ تم نے ان کو گمراہ کہا ہے لیکن اتنی بات تو ثابت ہو گئی کہ ہماری جماعت پہلے سے چلی آ رہی ہے اور تمہاری جماعت کل کا ایک نوزائیدہ نیا فرقہ ہے جو ایک نئی تشریح کے نتیجے میں وجود پذیر ہوا ہے۔نئی تشریح کا داعی تمہارا یہ سربراہ پہلے فرد واحد تھا پھر وہ ہماری جماعت کے آدمیوں کو دھوکہ اور چکر دے کر توڑ تا رہا حتی کہ تم نے ہمارے بیسیوں آدمی گمراہ کر کے اپنے ساتھ ملا لیے، ان میں سے ہر آدمی ہماری جماعت کا بازو تھا تم نے ہمارے اتنے بازو کا ٹ لیے پھر بھی یہ کہتے ہو کہ ہم تمہیں کچھ نہیں کہتے یہ جھوٹ مت بولو۔دیکھو بات صاف ہے کہ ہم اُس وحدت اور اکائی کا حصہ ہیں جو شروع سے آ رہی ہے اور  تواتر کے ساتھ چلتی رہی ہے اور چل رہی ہے ہم اسی شاہراہ پر چل رہے ہیں جس پرسب اہل حق چلتے رہے ہیں تم نے اس شاہراہ کو چھوڑ کر الگ پگڈنڈی نکالی ہے اور اس اکائی سے کٹ کر ایک الگ فرقی بنائی ہے۔ ہم اپنے لوگوں کو اسی شاہراہ پر چلنے اوراسی اکائی کے ساتھ وابستہ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہیں گے۔ تمہارے دھوکے،تمہارے چکر اور مکر و فریب سے بچانے کے لیے تمہارا مکروہ چہرہ بے نقاب کرتے رہیں گے اور  تمہاری پگڈنڈی پر نہ چلنے دیں گے نہ تمہاری نوزائیدہ فرقی کا حصہ بننے دیں گے کہ قومی وحدت، مذہبی اتحاد و اتفاق اور فرقہ واریت کے سدبات کا تقاضا یہی ہے اور اللہ تعالی کے سامنے سرخوئی اور نجات بھی اسی میں ہے۔تیسرا گروہ ابن الوقت زمانہ ساز،مصلحت بین اور رو بہ مزاج تھا وہ اگرچہ عملًا اس جدید فرقہ سے جدا تھا اور اسی متواتر تحقیق کے مطابق حکم ربی پر عمل پیرا تھا۔ لیکن فرقہ واریت کے حوالے سے ان کا طرز عمل یہ تھا کہ وہ فرقہ وا ریت پیدا کرنے اور پیدا کر کے اس کو پھیلانے والے نوزائیدہ فرقہ کو سمجھانے کی بجائے حق گو مجاہد ین کی جماعت کو سمجھاتے کہ اللہ جس قوم کو ہلاک کرنے یاسخت عذاب دینے کا ارادہ فرما چکے ہیں اس کو تمہاری نصیحت کا کیا فائدہ ؟ لہٰذا تم بھی ہماری روش اختیار کولو کہ اپنا عمل صحیح رکھو اور ان کو کچھ نہ کہو، اپنا مذہب چھوڑ و مت دوسرے کو چھیڑو مت، گویا وہ زبانِ حال سے کہہ رہے تھے      تو اپنی نبیڑ تینوں ہورنال کی          کُڑے تو اپنی گٹھڑی سنبھال تینوں چورنال کی

            جماعت حقہ مجاہدین نے جواب دیا کہ ہم چاہتے ہیں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کر کے اللہ کے سامنے سرخروہو جائیں اور شائد ان کو سچ سمجھ آ جائے تو وہ بھی ہلاکت و بربادی سے بچ جائیں ۔یہ تینوں گروہ اپنے اپنے طریقہ پر چلتے رہے اور جب اللہ تعالی کی طرف سے فیصلہ کن گھڑی کا وقت آ گیا تو عذابِ الہی کی گرفت سے صرف وہ بچے جو فرقہ واریت کی برائی سے بچا نے کی کوشش کرتے تھے اور فرقہ واریت کو مٹانے کی محنت کرتے تھے۔باقی جدید تحقیق کا علم بردار نوزائیدہ فرقہ اور ان کے بارے میں خاموش رہ کر اہل حق کی جماعت پر تنقید کر کے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے روکنے والا طبقہ دونوں عذاب الہی کا نشانہ بن گئے۔ اس سے پتہ چلا کہ جیسے صراط مستقیم سے انحراف کر کے اس کے مقابلہ میں فرقہ واریت ہلاکت کا سبب ہے اسی طرح فرقہ واریت کے بارے میں سکوت و مداہنت اختیار کرنا اور باطل فرقہ کی فرقہ واریت کو پھلتا پھولتا دیکھنے کے باوجود خاموش رہنا یا فرقہ واریت کے خلاف کام کرنے والوں پر طعن و تشنیع کر کے اور ان کے کام میں رکاوٹیں پیدا کر کے فرقہ واریت کے لیے میدان ہموار کرنا یہ بھی ہلاکت اور عذاب کا موجب ہے۔خلاصہ یہ کہ علماء حق فرقہ واریت نہ پیدا کرتے ہیں نہ پھیلاتے اور بڑھاتے ہیں بلکہ وہ فرقہ واریت کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں اس لیے علماء حق کے بارے میں فرقہ واریت کا پروپیگنڈہ کرنا اور فرقہ واریت کے حوالہ سے ان کو بدنام کرنا عدل و انصاف کے خلاف ہے نیز فرقہ واریت کے کرداروں اور ذمہ داروں کو آزاد رکھنا اور اس کے برعکس اتحاد اور  دعوتِ اتحاد کے علم برداروں (علما ء حق ) کو ہتھکڑیاں پہنا کر پابندِ سلاسل کر کے ان کو جیل کی تنگ و تاریک کال کوٹھڑیوں میں بند کرنا اور ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑنا اس کی مثال تو ایسے ہے جیسے کوئی آدمی پتھروں کو باندھ دے اور کتوں کو چھوڑ دے۔پہرے داروں کو بند کر دے اور چوروں کو آزاد کر دے۔

فرقہ واریت کا حل کتاب و سنت کی روشنی میں

             ہم نے جو فرقہ واریت کا حل پیش کیا ہے یعنی کتاب و سنت کی جدید تحقیقات کا دروازہ بند کر کے اُمت میں جو پہلے سے متواتر و متوارث معمول بہ تحقیق چلی آ رہی ہے سب کو ا س کا پابند کرنا کیونکہ کتاب وسنت کی وہ متواتر تحقیق و تشریح صراط مستقیم،دین قیم،طریق حق اور راہ ہدایت ہے اس کو قرآن و حدیث کی روشنی میں ملاحظہ کریں ۔

            (١)  قرآن کریم میں ہے ومن یشاقق الرسول من بعد ما تبین لہ الھدی ویتبع غیرسبیل المؤمنین نولہ ما تولی و نصلہ جہنم وساءت مصیرا  جس شخص پرراہ ہدایت واضح ہو گئی پھر بھی وہ رسول کی مخالفت کرتا ہے اور مؤمنین کے راستے کے خلاف چلتا ہے ہم (دنیا) میں اس کو پھیر دیں گے جدھر وہ پھرتا ہے اور (آخرت) میں اسے جہنم میں دھکیل دیں گے جو بُرا ٹھکانہ ہے۔ اس آیت میں ویتبع غیرسبیل المؤمنین کا عطف یشاقق الرسول پر عطف تفسیری ہے جیسا کہ آباؤ اجداد،پیر و مرشد،حسین و جمیل،سیر و تفریح،ذہین و فطین،دین و شریعت میں ہر دواسموں کے مجموعہ میں دوسرے اسم کا پہلے پر عطف تفسیر ی ہے یعنی دوسرا اسم پہلے اسم کی تفسیر ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ دونوں کا مصداق اور دونوں کی مراد ایک ہے۔ اسی طرح  ویتبع غیرسبیل المؤمنین کا عطف یشاقق الرسول پربھی عطف تفسیری ہے یعنی رسولﷺ   کی مخالفت کی تفسیر اور وضاحت یہ ہے کہ سبیل المؤمنین کی مخالفت کرنا اور سبیل المؤمنین کی اتباع کو چھوڑ کر اس کے برعکس غیر سبیل المؤمنین کی اتباع کرنا درحقیقت مخالفتِ رسول ہے اور غیرِ رسول کی اتباع ہے۔ جب اللہ تعالی نے سبیل المؤمنین کی مخالفت کو اور غیر سبیل کی اتباع کو مخالفت رسول قرار دیا ہے تو اس سے یہ حقیقت از خود واضح ہو جاتی ہے کہ سبیل الرسول اور سبیل المؤمنین ایک ہے یا یوں کہیں کہ سبیل المؤمنین سبیل الرسول کی تفسیر ہے پس جو شخص سبیل الرسول کو پہچاننا  اور جاننا چاہتا ہے اور جان کر اس پر عمل کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ سبیل الرسول کی تفسیر  اور شر ح کو سمجھے اور وہ تفسیر و شرح وہی ہے جس کو خود خدا تعالی نے اپنے کلامِ مقدس میں تفسیر و شرح کے طور پر ذکر کیا ہے یعنی”سبیل المؤمنین” اور سبیل المؤمنین سے مراد کسی ایک فرد یا چند افراد کا شاذ عقیدہ وعمل نہیں بلکہ مؤمنین کا متواتر و متوارث عقیدہ و عمل مراد ہے پس سبیل المؤمنین ہی سبیل الرسول کی پہچان اور جان ہے۔ اس کے بغیر سبیل الرسول کی پہچان اور اتباعِ رسول ناممکن ہے کیونکہ سبیل المؤمنین سے جو مختلف راستہ ہو گااس کو قرآن نے جہنم کا راستہ بتایا ہے اور یہ آگ کی ایک ایسی رسی ہے جو حبل الشیطان ہے۔ اس کا ایک سرا اس انحرافی طبقہ کے ہاتھ میں ہے جو سبیل المؤمنین سے اور اس کی عظمت و اہمیت سے منحرف ہے دوسرا سرا جہنم سے ملا ہوا ہے۔قرآن کہہ رہا ہے ونصلیہ جہنم ہم سبیل المؤمنین سے انحراف کرنے والوں کو جہنم میں داخل کریں گے۔ قارئین کرام ! جب سبیل المؤمنین صراط مستقیم اور سبیل الرسول ہے تو اس سے انحراف فرقہ واریت ہے اور فرقہ واریت کا سدباب یہ ہے کہ ا س انحرافی طبقہ کو سبیل المؤمنین کا پابند کیا جائے اگر یہ طبقہ سبیل المؤمنین کا پابند ہو جائے گا تو فرقہ واریت کا دروازہ بھی بند ہو جائے گا۔

ٍ            (٢)   اللہ تعالی نے اہل ایمان کو ایک دعا سکھائی جو نمازوں کے مبارک اوقات میں بحالت نماز ہر رکعت میں کی جاتی ہے۔وہ ہے اھدناالصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم  ائے اللہ مجھے سیدھے راستہ پر چلایعنی ان لوگوں کا راستہ جن پر تونے انعام کیا ہے۔ اللہ عالم الغیب ہے اس کو ماکان وما یکون کا علم ہے وہ جانتا تھا کہ آگے جا کر صراط مستقیم کا معاملہ ُالجھ جائے گا۔کچھ مادر پدر آزاد،روشن خیال،آزاد منش،خود رائی کے مریض جدید محققین پیدا ہو جائیں گے وہ قرآن و حدیث کا آزادانہ مطالعہ کر کے اپنی اپنی جدا تحقیق کر کے صراط مستقیم کے کئی نمونے بنا ڈالیں گے۔ ایک سبیل اللہ کے مقابلہ کئی سبیل الشیطان ایجاد کر لیں گے اور اپنی جدید تحقیق کی بنیاد پر مختلف فرقے بنا کر فرقہ واریت کی آگ بھڑکا دیں گے اس لیے اللہ تعالی نے اُ مت محمدیہ کو اس پریشانی سے بچانے اور نکالنے کے لیے اصلی صراط مستقیم اور نقلی صراط مستقیم کے درمیان فرق کرنے کے لیے پہچان بتائی اور پہچان بتا کر تعیین فرما دی۔فرمایا صراط الذین انعمت علیھم یعنی ”صراط مستقیم ” منعم علیھم جماعت کا راستہ ہے لہٰذا ہر زمانہ کے منعم علیھم لوگوں کا جو متواتر راستہ ہے وہ صراط مستقیم ہے اور اس سے کٹا ہو اراستہ فرقہ واریت ہے۔ جس عقیدہ و عمل پر منعم علیھم جماعت کی تحقیق و عمل کی مُہر ہے وہ حق ہے اور سچ ہے جس پر منعم علیھم کی مہر نہیں بلکہ جدید محققین کے آزادانہ نظریات و خیالات ہیں وہ باطل اور جھوٹ ہے۔ پس فرقہ واریت کا خاتمہ اسی میں ہے کہ سب منعم علیھم لوگوں کے متواتر طریقہ کو مضبوطی سے پکڑ لیں اور اپنی اپنی آزادانہ تحقیق کو چھوڑ دیں ۔ اللہ تعالی نے صراط مستقیم کی پچان یہ نہیں بتائی صراط القرآن والحدیث یا سبیل القرآن والحدیث بلکہ فرمایا صراط الذین انعمت علیھم اور سبیل المؤمنین۔اس لیے کہ قرآن و حدیث کے مطالعہ کے دو طریقے ہیں ایک یہ کہ منعم علیھم مؤمنین کی تحقیق اور عملی طریق کی روشنی میں مطالعہ ہو اور ان کی تحقیق و عمل کو بطور شرح کے سامنے رکھ کر قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جائے اور جہاں اپنی تحقیق،منعم علیہ کی تحقیق و طریق سے اور سبیل المؤمنین سے ٹکراتی نظر آئے تو صراط الذین انعمت اور سبیل المؤمنین کی تکذیب کرنے اور ان پر گمراہی کے فتوے لگانے کی بجائے قرآن و حدیث کے سمجھنے میں اپنے فہم کی کجی اور غلطی دور کی جائے۔ان کو غلط کہنے کی بجائے اپنا منشا غلطی تلاش کر کے اپنی غلطی کو درست کیا جائے۔دوسرا طریقہ یہ ہے کہ منعم علیہم کے طریق اور سبیل المؤ منین سے آنکھیں بند کر کے مطالعہ کیا جائے اور جو کچھ اپنے ذہن میں آتا جائے اور اپنے ذہن میں نقشہ بنتا چلا جائے وہ حرف آخر ہے اور  وہ اصل دین ہے اس پر صراط الذین انعمت علیھم اور سبیل المؤمنین کو پر کھا جائے اور جہاں دونوں میں تضاد پیدا ہو جائے وہاں منعم علیھم کے متواتر طریق اور سبیل المؤمنین کو غلط اور گمراہی قرار دے دیا جائے اور اپنی جدید تحقیق کو حق اور حق کا محور بنا دیا جائے اس کا نام خود رائی ہے جو علاماتِ قیامت میں سے ہے۔سرور کائناتﷺ   نے فرمایا قیامت کی علامتوں میں سے ہے اعجاب کل ذی رائی برأیہ ہر رائے والا اپنی رائے پر اکڑ جائے گا۔آپﷺ  نے ایک دوسری حدیث میں یہ علامت فرمائی کہ اس امت کے پچھلے لوگ پہلے لوگوں کو برا کہیں گے۔یہ انداز مطالعہ اور انداز فکر و تحقیق گمراہ کن ہے۔بلاشبہہ قرآن سرچشمۂ  ہدایت ہے لیکن طرز مطالعہ اور طرز فکر کے ان دو مختلف طریقوں کے اعتبار سے قرآن ذریعہ ہدایت بھی ہے اور سبب گمراہی بھی۔ یضل بہ کثیرا و یھدی بہ کثیرا ( اللہ اس قرآن کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو گمراہ کرتا ہے اور بہت سے لوگوں کو ہدایت دیتا ہے) پس صراط الذین انعمت علیھم میں جہاں صراط مستقیم کی پہچان بتائی گئی ہے وہاں براہ راست قرآن و حدیث سے ہدایت تلاش کرنے اور مطالعہ قرآن کے ذریعے حق سمجھنے والوں کے لیے رہنمائی بھی ہے جو اوپر عرض کی گئی ہے۔

            عربی گرائمر کے لحاظ سے الصراط المستقیم مبدل منہ ہے اور صراط الذین بدل ہے۔ان میں سے مبدل منہ مقصور نہیں ہوتا بلکہ بدل مقصور ہوتا ہے اور مبدل منہ کا ذکر بدل سے پہلے بطور تمہید کے ہوتا ہے جیسے نماز سے پہلے وضو خود مقصور نہیں ہوتا بلکہ نماز کے لیے تمہید ہوتا ہے سو صراط الذین انعمت علیھم کو بدل کی صورت میں ذکر کر کے بتا دیا گیا کہ اللہ تعالی کے ہاں مقصود اور مقبول منعم علیم کا طریق ہے اس لیے کہ وہی دراصل سبیل اللہ، سبیل الرسول اور  سبیل المؤمنین ہے اس سے انحراف سبیل خدا اور سبیل رسول سے انحراف ہے اور یہی فرقہ واریت ہے لہٰذا منعم علیہم کے طریق اور  سبیل المؤمنین سے ہٹ جانا اور اس سے کٹ جانا فرقہ واریت ہے۔اگر فرقہ واریت سے بچنا اور فرقہ واریت کو ختم کرنا ہے تو منعم کے طریق سے جُڑ جائیں ۔

            (٣)  سرور کائناتﷺ   کا ارشاد گرامی ہے ان اللّٰہ لا یجمع اُمتی علی الضلالۃ  (ترمذی) پکی بات ہے کہ اللہ تعالی میری اُمت کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا لہٰذا اُمت کا متواتر و متفقہ راستہ جو شروع سے چلا آ رہا ہے اور اُمتِ مسلمہ میں تواتر سے چلتا رہا ہے وہ حق ہے اس سے ہٹے اور کٹے ہوئے راستے باطل ہیں اور اَن گنت ہیں لہٰذا سب کو اسی ایک راستہ پر چلنا چاہیے تاکہ ہم بھی ایک ہو جائیں اور جدید تحقیقات کر کے نئے نئے راستہ نکالنا چھوڑ دیں کہ یہ باطل اور وحدت اُمت کے لیے سمِ قاتل ہیں ۔

            (٤)  عن عبداللّٰہ بن مسعود  قال خط لنا رسول اللّٰہﷺ   خطا ثم قال ھذا سبیل اللّٰہ ثم خط خطوطاعن یمینہ و عن شمالہ و قال ھذہ سبل علی کل سبیل منہا شیطان یدعو الیہ وقرأ وان ھذا صراطی مستقیما فا تبعو ہ ولا تتبع السبل فتفرق بکم عن سبیلہ  (مشکٰوۃ  ص ٣٠)

            حضرت عبداللہ بن مسعود   فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ   نے ہمارے سامنے ایک لکیر کھینچی اور اس کی طرف اشارہ کر کے فرمایا یہ اللہ کا راستہ ہے پھر آپﷺ   نے اس خط کے دائیں بائیں کئی لکیریں کھینچ کر فرمایا یہ کئی راستے ہیں ان میں سے ہرراستے پر ایک شیطان ہے جو اسی کی طرف دعوت دیتا ہے پھر آپﷺ  نے قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی (ترجمہ ) اور بے شک یہ میرا راستہ ہے اس پر چلو اور دوسرے راستہ پر مت چلو (اگر ان راستوں پر چلو گے ) تو راہِ خدا سے کٹ جاؤ گے۔اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ سبیل اللہ پر چلنے والے قافلۂ  حق سے بھی کٹ جاؤ گے اور شاہراہِ حق سے بھی اور صراطِ مستقیم کے خط سے ہٹا اور کٹا ہوا راستہ سبیل اللہ نہیں بلکہ سبیل الشیطان ہے اور اس سبیل اللہ کو چھوڑ کر سبیل الشیطان پر چلنا فرقہ واریت ہے اور شیطنت ہے۔

             اس فرقہ واریت کا یہ علاج نہیں کہ ان کو آ زاد چھوڑ دیا جائے بلکہ حکومت ان کو قا نون کے شکنجہ میں کس کر ان کے بل کس نکال کر سبیل الرحمن کی طرف لائے بصورت دیگر علماء حقہ کا فرض ہے کہ وہ فرقہ واریت کی حقیقت کھول کر اس کے پھیلاؤ کو روکیں نیز و ہ سبیل الرحمن اور سبیل الشیطان یعنی راہ حق اور راہ باطل،صراط مستقیم اور فرقہ واریت کے درمیان فرق واضح کر کے ان کی پہچان کرا کر عوام الناس کو فرقہ واریت سے بچائیں اور صراط مستقیم کی شاہراہ پر چلائیں ۔ عجیب بات ہے کہ حکومت اپنے باغی کو تو معاف نہیں کرتی اس کے لیے دوہی راستے ہیں وفا دار بن جائے یا تختہ دار پر لٹک جائے لیکن خدا کا باغی جو اللہ اور سبیل اللہ کو چھوڑ کر اس کے مقابلہ میں سبیل الشیطان کو اختیار کر لے اس کے لیے معافی کیوں ؟ وہ آزاد کیوں ؟ اور  اس کے لیے اعزاز و انعام کیوں ؟ ہونا تو یہ چاہیے کہ جتنا کوئی بڑا باغی ہے وہ اتنا بڑا مجرم ہے اس کی سزا بھی اتنی سخت ہو لیکن ہو یہ رہا ہے کہ اپنے باغی کے لیے تو تختہ ہے اور اللہ و سبیل اللہ کے باغی کے لیے تخت ہے۔ بس علماء کا قصور یہ ہے کہ وہ اپنے دشمن کو تو معاف کر دیتے ہیں مگر فرقہ واریت پیدا کرنے اور فرقہ واریت پھیلانے والے اللہ کے باغی و غدار کے لیے معافی کے روا دار نہیں ۔وہ بھی اس لیے کہ علماء اللہ کے سپاہی ہیں ان کا فرض ہے کہ وہ حدودِ دین کی حفاظت کریں اور حفاظت کر کے قیامت کے روز اللہ کے ہاں سُرخرو ہو جائیں اور آگ کی لگام پہننے سے بچ جائیں ۔راقم الحروف کے ان سارے معروضات کا خلاصہ حکیم الامت شاعرِ مشرق علامہ اقبال   کا یہ شعر ہے

زاجتہاد عالماں کوتاہ نظر                  اقتداء رفتگاں محفوظ تر

            یعنی کوتاہ نظر علماء کے نئے اجتہاد سے گذرے ہوئے ماہرینِ شریعت کی تقلید و اقتدا میں دین و ایمان کی زیادہ حفاظت ہے۔

ازالہ شبہات

            جب بات یہاں تک پہنچی کہ فرقہ واریت سے بچنے اور شیطنت کی اس دلدل سے نکلنے کے لیے کتاب وسنت کی اس تحقیق و تشریح کی پابندی کرائی جائے جو اُمت میں متواتر و معمول بہ ہے۔ اس کے لیے حکومت کو جبر و تشدد کرنا پڑے تو وہ اس سے بھی گریز نہ کرے۔اس سے کچھ شبہات پیدا ہوتے ہیں ہم ان کا ازالہ کردینا ضروری خیال کرتے ہیں  :

             (١)       دین میں جبر نہیں لا اکراہ فی الدین آپ کسی کو اس متواتر تحقیق پر مجبور کیوں کرتے ہیں ؟

            جواب  :  اس آیت کا مطلب صرف یہ ہے کہ کفار کو جبراً دین میں داخل نہ کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ برسرپیکار کفار کو مسلمان فوج کی طرف سے تین چیزوں کا اختیار دیا جاتا تھا۔ اسلام یا اسلامی حکومت کی ماتحتی اور جزیہ یا تلوار،لیکن اسلام میں داخل ہونے کے بعد کتاب و سنت میں جدید تحقیقات و تشریحات کر کے دین میں تحریف کرنے اور فرقہ واریت پیدا کرنے کی اجازت نہیں ،حدیث شریف میں ہے من بدل دینہ فاقتلوہ  یعنی جو شخص متواتر اور متوارث طریقہ سے حاصل ہونے والے دینِ اسلام کو تبدیل کر کے فتنہ اور فرقہ واریت پیدا کر دے اور پھر اس پر مصِر ہو جائے تو حکومت اس کو قتل کر دے۔ دین اسلام کی حفاظت اور مسلمانوں کے   افراتفری اور بدامنی پیدا کرنے کا کسی کو اختیار نہیں البتہ اس کو قتل کرنے کا حکومت سے مطالبہ کیا جا سکتا ہے اور اگر حالات کی نزاکت کی وجہ سے قتل مناسب نہ ہو تو کوئی دوسری سزا بھی دی جا سکتی ہے جس سے وہ فتنہ اور فرقہ واریت ختم ہو جائے۔

            (٢)      اگر جدید تحقیق نہیں کر سکتے تو جدید مسائل کیسے حل ہوں گے؟

            جواب  :  جدید تحقیق ان مسائل میں روا نہیں جن کی تحقیق پہلے ہو چکی ہے اور وہ عملی تواتر و توارث سے چلی آ رہی ہے لیکن جدید پیش آمدہ مسائل پر تحقیق ناگزیر ہے۔اس سے فتنہ اور فرقہ واریت پیدا نہیں ہوتی نہ ہونی چاہئے لیکن اس تحقیق کے لیے بھی کچھ شرائط ہیں  :

            نمبر ا  :  علوم آلیہ اور علوم عالیہ میں پوری مہارت یعنی علم صرف،علم نحو،علم بیان،علم بدیع،عربی ادب،علم تفسیر اور اصول تفسیر،علم الفقہ اور اصولِ فقہ، علم الحدیث و اصول حدیث،علم الکلام،علم اسماء الرجال،علم التاریخ یعنی احوال ماضی اور موجودہ احوال، زمانہ کا علم،اور ان علوم میں بھی صرف ابجد شناسی کافی نہیں بلکہ پوری مہارت ہو۔اگر پوری مہارت نہ ہو تو اس علم کے ضروری مسائل کا علم ہو۔

            نمبر ٢  :  جدید مسائل کا حل انفرادی طور پرنہ ہو بلکہ شورائی طریقہ پر ہو جیسا کہ امام اعظم ابو حنیفہ نے اپنے چالیس جید شاگردوں کی مجلس شورٰی قائم کر کے اس میں احکام شرعیہ کے علم کو مدون کیا گیا۔

            نمبر٣   :  مجلس شورٰی کا ہر رکن علوم آ لیہ اور علوم عالیہ کا ماہر ہو، متقی،پرہیز گار، علم و عمل کا جامع ہو اور خالص اسلامی ذہن رکھتا ہو، مغربی تہذیب و تمدن کا دلدادہ اور مغربی یورپین اساتذہ کا تربیت یافتہ نہ ہو۔

            نمبر ٤  :  جدید مسائل کو جب کتاب و سنت کی روشنی میں حل کرنا ہے تو فیصلہ کرنے کی اتھارٹی علماء شورٰی کے پاس ہو گی البتہ جہاں تحقیق مسائل میں وہ جدید معلومات کی ضرورت محسوس کریں وہاں ان کو جدید علوم و فنون کے وہ ماہرین معلومات فراہم کرنے میں تعاون کریں جن کو بطورِ رکن شورٰی نامزد کیا جائے۔

            نمبر  ٥  :  جدید مسائل کو حل کرنے میں اُن اُصولوں کو پیش نظر رکھا جائے جو مجتہدین اسلام نے طے کر دئیے ہیں جدید مسائل کا حل اُن اُصولوں کے ماتحت رہ کر ہو، ان سے بالا تر ہو کر نہیں ہے۔

            نمبر  ٦  :  سب کو مجلس شورٰی کے فیصلے کا پابند کیا جائے۔انفرادی طور پر اپنی اپنی تحقیق کے پردہ میں فتنہ کھڑا کرنے اور فرقہ واریت پھیلانے کی اجازت نہ دی جائے اور اگر کسی میں جوشِ تحقیق اتنا موجزن ہو کہ وہ صبر نہیں کر سکتا تو وہ اپنی تحقیق تحریری طورپرمجلس شورٰی میں پیش کر دے بس اس کا فرض ادا ہو گیا۔ایسی شورٰی حکومت بھی تشکیل دے سکتی ہے اور اگر چاہیں تو علماء اور جدید دین دار ماہرین خود بھی بنا سکتے ہیں ۔

            (٣)   جناب اللہ نے قرآن کو آسان کیا ہے ولقد یسرنا القرآن للذکر لیکن آپ نے بہت مشکل کر دیا ہے!

            جواب  :  محترم آپ نے ایسے کام کیا ہے جیسے کوئی لاتقربو ا الصلوۃ پڑھے اور وانتم سکارٰی کو چھوڑ دے اس کے آگے بھی پڑھیں فھلمن مدّکر ؟ اب اس آیت کا مطلب واضح ہو جاتا ہے البتہ تحقیق ہم نے قرآن نصیحت پکڑنے کے لیے آسان کر دیا ہے کیا ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا ؟اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم نے اس کے حصۂ  قانون کا حل  کرنا آسان کر دیا ہے کیا ہے کوئی حل کرنے والا؟دراصل قرآن و حدیث کے دو حصے ہیں حصۂ  قانون اور حصۂ  پند و وعظ۔ حصہ قانون کو وہی حل کر سکتے ہیں جو کتاب وسنت اور قانون شریعت کے ماہر ہوں اگر قانونِ شریعت والے حصہ کا حل کرنا آسان ہوتا تو سحری کے وقت سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عبداللہ بن عباس کو سینہ کے ساتھ لگا کر ہاتھ اُٹھا کر یہ دعا نہ فرماتے اللّٰھم علمہ الکتاب وفقہہ فی الدین اے اللہ اس بچے کو کتاب اللہ کا علم اور قانون شریعت میں مہارت عطا فرما اسی مہارت کا نام فقہ فی الدین ہے۔دیکھئے انگریزی قانون انسانوں کا بنایا ہوا ہے اس کے باوجود اس کی وضاحت کرنے کا حق صرف اور صرف جج اور وکیل کو ہے ان کے علاوہ کوئی کتنا بھی تعلیم یافتہ اور دانشور ہوا س کو وضاحت کرنے کا حق نہیں اور اگر وہ وضاحت کرے گا تو اس کا اعتبار نہ ہو گا۔وضاحت اور تشریح وہی معتبر ہو گی جو وکیل اور جج کریں گے۔اسی طرح قانون کی وضاحت میں ایک وکیل دوسرے وکیل سے ایک جج دوسرے جج سے اختلاف کر سکتا ہے لیکن ہر ایک کو وکیل یا جج سے اختلاف کرنے کا حق نہیں حتی کہ بعض مرتبہ عدالت میں وکیل اور جج کے درمیان اختلاف ہو جاتا ہے آپس میں بحث بھی ہو جاتی ہے اُس کو توہینِ عدالت تصور نہیں کیا جاتا،نہ وکیل پر توہین عدالت کا کیس ہوتا ہے لیکن اگر کوئی دوسرا شخص عدالت میں جج کے ساتھ کسی قانونی نکتہ پر اختلاف و بحث کرے تو توہینِ عدالت کا کیس ہو جائے گا اور ہر فن میں ماہر فن کی رائے ہی معتبر ہوتی ہے اور اُس فن کے ماہر ین ہی آپس میں کسی فنی مسئلہ میں اختلاف کا حق رکھتے ہیں ،دوسروں کی نہ رائے معتبر ہے نہ ان کو اختلاف کرنے کا حق۔لیکن اسلامی حکومت نہ ہونے کی وجہ سے یا اسلامی حکومت کی گرفت کمزور ہونے کی وجہ سے کتاب و سنت اور قانونِ شریعت کے بارے ہر ایک کو رائے زنی کرنے کا اور مجتہدین اسلام کی متواتر و مسلمہ تحقیقات سے اختلاف کرنے کا بلکہ ان کی تحقیقات و تشریحات کو رد کر کے اپنی جاہلانہ تحقیقات و تشریحات کرنے کا حق ہے۔ اس لیے جو آدمی قانونِ اسلام میں مہارت نہیں رکھتا وہ قرآن و حدیث کا موعظۃ والا حصہ پڑھ کر نصیحت حاصل کرے اس سے نصیحت پکڑنا بہت آسان ہے۔

            (٤)     کیا اب کتاب وسنت کے حصہ قانون کا مطالعہ نہ کیا جائے ؟

            جواب  :    مطالعہ کیا جائے لیکن اس کا طریقہ کا ر اور ترتیب یہ ہے کہ پہلے باقاعدہ کسی ماہر و دیانت دار استاذ کے پاس علوم آلیہ یعنی صرف و نحو وغیرہ پڑھ کر ماہرینِ شریعت یعنی مجتہدین اسلام کی تحقیقات و تشریحات پر مشتمل عربی،فارسی، اردو کتب کو باقاعدہ کسی ماہراستاذ کے پاس پڑھا جائے یا ان کی نگرانی میں مطالعہ کیا جائے پھر ان تحقیقات و تشریحات کو رموز و شرح کے طور پرساتھ لے کر قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جائے اور یہ کوئی عجوبہ نہیں ۔کتنی ہی اہم کتابیں ہیں جن کی شروح لکھی گئی ہیں ہم اس کتاب کو ان شروحات کی مدد سے سمجھتے ہیں ۔ آج کل ماہر اساتذہ کے لکھے ہوئے رموز کی مدد سے سکول کی نصابی کتابیں پڑھی پڑھائی جاتی ہیں ۔اقبالیات کے سمجھنے کے لیے ان کی شروحات کو سامنے رکھا جاتا ہے جبکہ یہ سب انسانی کتب ہیں اور قرآن تو وحی الہی ہے اس کو سمجھنے کے لیے مجتہدین اسلام نے احادیث رسو ل اللہ اور اصحاب رسول  اللہ  کے آثارو اقوا ل کو سامنے رکھ کر خدا داد فقاہت اور فقہی مہارت کے ذریعے قرآن کو سمجھا اور قوانینِ شریعت کو پوری تشریح کے ساتھ مدون کیا۔ ہمارے اندر چونکہ اتنی فقاہت اور فقہی مہارت نہیں ،نہ احادیث و اقوال پر اتنی وسیع نظر ہے،نہ اتنا حافظہ،نہ تقویٰ و طہارت، نہ خوف و خشیت،نہ حلال روزی،نہ اخلاص اور یک سوئی ہمارے دل دماغ تو خاندان اور معاشی مسائل میں اُلجھے ہوئے ہیں او دنیا سازی میں ہمہ تن مصروف ہیں اس لیے ہمیں چاہئے کہ ہم ان کی تشریحات و تحقیقات کو   بطورِ شرح کے سامنے رکھ کر قرآن و حدیث کا مطالعہ کریں جب کہ صراط الذین انعمت علیہم اور سبیل المؤمنین میں اسی طریقہ کار کی طرف رہنمائی کی گئی ہے۔

            (٥)   صحابہ کرام کے زمانہ میں نہ یہ علوم تھے اور نہ یہ شروح لیکن قرآن و حدیث کو وہ سمجھتے تھے معلوم ہوا کہ کتاب و سنت کے سمجھنے کے لیے یہ علوم اور شروح ضروری نہیں ۔

            جو ات  :  پہلی بات یہ ہے کہ عربی صحابۂ  کرام  کی مادری زبان تھی اور مادری زبان اور اس کے اشارات و کنایات اور باریکیاں سمجھنے کے لیے گرائمر وغیرہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔دیکھئے جناب اس وقت جو قرآن ہمارے ہاتھوں میں ہے اس پر زیر زبر پیش،جزم، شد مد،رموز وقف،منزل،رکوع،آیات،پارے وغیرہ کے نمبرات لگے ہوئے نہ تھے لیکن اس کے باوجود وہ تلاوت کرتے ان کو کبھی دقت پیش نہ آئی لیکن بعد میں غیر زبان والوں کو پڑھنے میں مشکلات پیش آئیں   تو ان کی آسانی کے لیے یہ علوم ایجاد ہوئے مگر سارے غیر زبان والے عجمی لوگ ان علوم کو نہیں پڑھ سکتے تھے۔ ایسے بے علم لوگوں کی مشکل پھر بھی حل نہ ہوئی تو قرآن پر اعراب وغیرہ لگا دئیے گئے۔اب اگر کوئی یہ کہے کہ جب صحابہ کرام قرآن کو بغیر اعراب،بغیر وقف وغیرہ کے پڑھتے تھے تو ہم بھی پڑھ سکتے ہیں لہٰذا اعراب لگانے کی ضرورت نہیں تو ان کو یہی کہا جائے گا کہ صحابہ کرام  اہل زبان تھے عربی ان کی مادری زبان تھی وہ بغیر صرف و نحو وغیرہ علوم کے اور بغیر اعراب لگانے کے پڑھ لیتے تھے لیکن ہم ان علوم کی طرف یا کم ز کم اعراب وغیرہ علامات کے محتاج ہیں ہم اس کے بغیر نہیں پڑھ سکتے۔اسی طرح قرآن پاک کے سمجھنے کا مسئلہ ہے وہ اہل لسان ہونے کی وجہ سے قرآن کو بقدر ضرورت سمجھ لیتے تھے لیکن ہم ان علوم کے بغیر نہیں سمجھ سکتے۔دوسری بات یہ ہے کی خود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سامنے ایک کھلی کتاب تھے اولاً تو وہ اہل زبان ہونے کی وجہ سے قرآن کے ظاہر کو وہ سمجھ لیتے تھے اور ثانیاً سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے بھی وہ بہت کچھ سمجھ لیتے وہ ایک عملی تعلیم تھی۔ثالثاً اس کے باوجود جو بات سمجھ نہ آتی و ہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیتے۔ اس لیے صحابہ کرام ان علوم کے محتاج نہ تھے۔ اس کے باوجود اعلام المو قعین میں علامہ ابن قیم لکھتے ہیں وہ صحابہ کرام  جو قرآن کے ظاہرو باطن دونوں پر دسترس رکھتے تھے اور قانونِ شریعت کے ماہر تھے یعنی مجتہدین و فقہا ء بن کر اجتہاد و فقاہت کے منصب پر فائز ہوئے وہ ایک لاکھ چودہ ہزار صحابہ میں سے صرف ایک سو تیس تھے یہ بھی باقی صحابہ کرام ا ور تابعین کے لیے شرح کی ضرورت کو پورا کرتے۔ اسی طرح تابعین میں بھی قانونِ شریعت کی ماہر شخصیات پیدا ہوئیں ان میں سے مدینہ کے سات تابعین فقہا ء سبہ کے نام سے معروف ہیں : (١)سعید بن المسیب (٢) عروۃ بن الزبیر (٣)  قاسم بن محمد بن ابی بکر الصدیق (٤)خارجہ بن زید بن ثابت (٥) عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود (٦ )سلیمان بن یسار (٧)سالم بن عبداللہ بن عمر اپنے وقت میں یہ بھی قانون شریعت کی شر ح کر کے اس ضرورت کو پورا کرتے جب اس اجتہاد و فقاہت والی اعلی استعداد میں کمی بلکہ نابود ہونے کے حالات پیدا ہونے والے تھے تو اللہ تعالی کی تکوینی حکمت کے امام اعظم ابو حنیفہ  جو اصاغر تابعین میں سے ہیں اللہ تعالی نے ان کے اور ان کے تلامذہ کے ذریعے قانون شریعت مدون کرایا پھر اس تدوین کے عمل میں مزید ترقی ہوئی، اب ہمیں ان علوم کی دو وجہ سے ضرورت ان مدونہ کتب کو سمجھنے کے لیے بھی اور پھر ان مدونہ شروح قرآن و حدیث کی روشنی میں قرآن و حدیث سمجھنے کے لیے بلکہ قدیم عربی زبان جو قرآن و حدیث اور ان مدونہ کتب کی زبان ہے اس کو سمجھنے کے لیے تو آج کے جدید عرب بھی محتاج ہیں وہ بھی ان علوم کو پہلے پڑھتے ہیں پھر سمجھتے ہیں تو ہم غیر زبان کے عجمی لوگ کیسے مستغنی ہو گئے۔

            (٦)     جب کتاب وسنت کے مختلف زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں جیساکہ ہمارے اردو میں قرآن کریم اور صحاح ستہ کا ترجمہ ہو چکا ہے بس ان اردو مترجم کتابوں کو پڑھ کر دین سمجھا جائے نہ ان علوم کی ضرورت نہ شروح کی اور نہ ہی کسی استاذ کی ضرورت ہے۔

            جواب  :   چند اُمور ہمارے لیے غور طلب ہیں ایک یہ کہ پتہ چلا کہ فہمِ دین کا یہ طریقہ غیر فطرتی طریقہ اردو تراجم کے دور سے شروع ہوا ہے اس سے پہلے نہ تھا۔پہلے طریقہ یہ تھا چونکہ مجتہدین کا دور گزر گیا تھا البتہ اپنے زمانے میں انہوں نے جو علم شریعت کی تحقیق کی وہ مدونہ دینی کتب میں محفوظ تھی،بتوفیق الہی کچھ خوش نصیب لوگ دینی علوم اور دینی کتب پڑھتے اُن کو عرف میں علماء کہا جاتا ہے اور  کچھ اتنا علم بھی حاصل نہ کرسکتے تھے جیسا کہ آج کل بھی لوگوں کی یہ دو قسمیں عیاں ہیں ہمیشہ غیر علماء علماء سے پوچھ کر ان پر اعتماد کر کے ان کی رہنمائی میں عمل کرتے۔وہ علماء جو کچھ بتاتے وہ بھی براہ راست قرآن و حدیث سے استنباط نہ ہوتا تھا بلکہ مجتہدین سابقین کا تحقیقی و تشریحی اور اجتہاد ی ورثہ جو کتب دینیہ محفوظ تھا اُس کو پڑھ کر اس کے مطابق شرعی حکم بتاتے اور بے علم لوگ اس پر عمل کرتے حتی کہ جب اردو ترجمے ہوئے اور وہ بھی صرف قرآن کریم اور صحاح ستہ کے تو یہ نظریہ بن گیا کہ استاذ کی ضرورت نہ دوسری دینی کتب کی، بس قرآن کا اردو ترجمہ اور صحاحِ ستہ کے اردو تراجم فہم دین کے لیے کافی ہیں ۔سو یہ طریقہ ایک جدید بدعت ہے پہلے نہ تھا۔ دوسری بات یہ کہ اصحابِ رسول جو عربی دان تھے عربی اُن کی مادری زبان تھی وہ اس اردو خواں طبقہ سے قرآن و حدیث کو بہتر سمجھتے تھے اس کے باوجود ان میں براہ راست قرآن و حدیث سے احکام اسلام اخذ کرنے اور سمجھنے والے مجتہدین ایک لاکھ چودہ ہزار صحابہ کرام  میں سے ایک سو تیس تھے آج اردو خواندہ طبقہ کا ہر فرد کیسے مجتہد بن گیا ؟وہ کتاب وسنت کے ساتھ استاذ کے محتاج تھے وہ استاذ و معلم اصحاب رسول کے لیے خود رسول اللہﷺ ، اصاغر صحابہ کے لیے اکابر صحابہ، پھر تابعین کے لیے صحابہ کرام،  تبع تابعین کے لیے تابعین اسی طرح ہر دور میں استاذی شاگردی کے طریقہ تعلیم و تعلم کا سلسلہ جاری رہا اور تعلیم و تعلم کے ذریعہ علم محفوظ رہا۔اگر استاذ کی ضرورت نہ ہوتی تو کتاب اللہ کے ساتھ رسول اللہ نہ بھیجے جاتے صرف قرآن نازل کر دیا جاتا اور نہ ہی تعلیم و تعلم کی ضرورت تھی وہ خود ہی مطالعہ کر لیا کرتے پس جب وہ صاحب لِسان لوگ ا ستاذ کے محتاج ہیں تو آج کل کے  یہ غیر زبان والے ا ستاذ سے کیسے مستغنی ہو گئے۔ تیسری یہ کہ کتاب و سنت اور علم دین کی خصوصیت کیوں ؟ بغیر تعلیم و تعلم کے اور بغیر استاذ کے ڈاکٹری،انجینئر نگ،سائنس وغیرہ علوم میں محض مطالعہ پر اکتفا کیوں نہیں کر لیا جاتا جبکہ ان میں سے ہر علم و فن میں اردو کتب کا وسیع ذخیرہ موجود ہے جو قرآن و حدیث کے تراجم کے مقابلہ مفصل اور واضح ہیں ۔لیکن ان علوم میں تو حالت یہ ہے کہ دوسرے استاذ بنائے جاتے ہیں یعنی سکول،کالج کے استاذ علیحدہ اور ٹیوشن پڑھانے والے علیحدہ۔ چوتھی بات یہ کہ پورا دین سمجھنے کے لیے محض قرآن اور صحاح ستہ کا ترجمہ ناکافی ہے۔ ہمارے ایک دوست نے غیر مقلدوں کے ایک جید عالم دین اور مناظر پر شرط رکھی کہ وہ پورے دین کے مسائل نہیں صرف نماز کا مکمل طریقہ اور نماز کے ضروری مسائل صرف صحاح ستہ سے سکھا دیں میں اہل حدیث مذہب قبول کر لوں گا وہ اس پر آمادہ نہ ہوئے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ بھی سمجھتے ہیں کہ قرآن اور صحاح ستہ کا اردو ترجمہ دین سمجھنے کے لیے کافی نہیں ۔ اس کے لیے صحاح ستہ کے علاوہ احادیث و آثار کا بہت ذخیرہ ہے جو ضروری ہے، وہ نہ صحاح ستہ میں ہے نہ حدیث کی دوسری مروجہ کتب میں ہے مثلاً امام بخاری فرماتے ہیں کہ میں نے ایک لاکھ صحیح احادیث میں سے صحیح بخاری کا انتخاب کیا ہے اور صحیح بخاری میں تکرار ختم کر کے کل احادیث کی تعداد چار ہزار ہے۔ سوال یہ ہے کہ باقی چھیانوے ہزار صحیح احادیث کہاں ہیں ؟ امام احمد بن حنبل   کو چھ لاکھ صحیح احادیث یاد تھیں لیکن مسنداحمد میں ان میں سے چند ہزار ہیں باقی حدیثیں کہاں ہیں ۔ کتاب الآثار چالیس ہزار احادیثِ صحیحہ سے انتخاب ہے باقی احادیث کہاں ہیں ؟ جبکہ مجتہدین کے سامنے وہ سب احادیث و آثار تھے اور کوئی بھی صاحب علم اپنے پورے علم کو کتاب میں منتقل کر بھی نہیں سکتا جو کچھ اس کی کتاب میں ہو گا وہ اس کے علم کا کچھ ہی حصہ ہو گا۔ جب یہ صورت حال ہے تو دین سمجھنے کے لیے صرف قرآن کا اردو ترجمہ اور صحاح ستہ کے اردو تراجم کیونکر کافی ہو سکتے ہیں ؟ جبکہ صحاح ستہ کی احادیث ملا کر چھ سات ہزار سے زیادہ نہیں ہیں ۔ اصل بات یہ ہے کہ دین اور علم دین کی عظمت و اہمیت ہی ختم ہو چکی ہے اور خوفِ خدا دل سے نکل چکا ہے اس لیے اس کی تحقیق پر جاہل سے جاہل آدمی بھی دلیر ہے۔

            (٧)      اگر خود تحقیق نہ کریں تو ذہنی جمود پیدا ہو جائے گا ذہنی ارتقا ء رُک جائے گا۔

            جواب  :  اس کا اولاً جواب یہ ہے کہ ہمارا مطلب یہ ہے کہ ماہرین کا ملین کے تحقیق شدہ مسائل کی ناقصین کو دوبارہ تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں جیسا کہ ڈاکٹر کے نسخہ کی مریض کو چیک کرنے کی یا اپنے طور پر تحقیق کر کے نسخہ تجویز کرنے کی اجازت نہیں ۔رہے جدید حالات کے تحت پیش آنے والے جدید مسائل وہ بہر کیف حل کرنے پڑیں گے جن کی وجہ سے ذہنی بالیدگی،ذہنی ارتقاء اور علمی ترقی جاری رہے گی۔ ثانیًا جواب یہ ہے کہ حالاتِ زمانہ کے بدلنے سے طرزِ استدلال بھی بدلتا ہے اس لیے یہ ضرورت ہر زمانہ میں باقی رہتی ہے کہ حالات زمانہ کے مطابق انہی قدیم تحقیقات کو جدید دلائل کے ساتھ مدلل کر کے پیش کیا جائے نیز ماہرین شریعت کی تحقیق کے مطابق احکامِ شرعیہ کی حکمتیں اور اسرار جدید علوم و فنون کی روشنی میں تلاش کی جائیں ۔مثال کے طور پر بول و براز کی وجہ سے وضو کے لازم اور منی کی وجہ سے غسل لازم کرنے میں کیا حکمت ہے ؟ پھر وضو ٹوٹنے میں حدث لاحق ہوتی ہے پورے بدن میں مگر حکم ہے چہرے،بازو اور پاؤں دھونے کا اور سر پہ مسح کرنے کا۔وضو میں ان چار اعضا ء کی تخصیص کیوں ہے؟ پھر ان چار اعضاء کے دھونے سے پورا بدن پاک ہو جاتا ہے اس میں کیا حکمت ہے ؟ جدید محققین کی تحقیق کے لیے یہ میدانِ تحقیق بڑا وسیع ہے وہ اس تحقیق میں اپنے علم و فن کی توانائیاں خرچ کریں اور مزید ترقی کریں ۔ ثالثاً عرض یہ ہے کہ اجتہاد اور استشہاد میں بڑا فرق ہے مجتہد کا غیر منصوص مسئلہ کو کتاب وسنت کی روشنی میں از خود اجتہاد و فقاہت کے ذریعہ حل کرنا اجتہاد ہے وہ چونکہ اس مسئلہ کے ساتھ اپنے تفصیلی دلائل تحریر نہیں کرتا بطورِ خلاصہ صرف شرعی حکم بیان کر دیتا ہے سو اس نے جو حکم شرعی بیان کیا ہے اس کو بلا چون و چرا اس مجتہد کی مجتہدانہ مہارت کی شہرت کی بنیاد پر بلا دلیل تسلیم کرنا پھر کتاب وسنت کا مطالعہ کر کے اس کے مستدلات اور مؤیدات کو تلاش کرنا استشہاد کہلاتا ہے۔ پس جس کو شوق و جذبہ ہے تحقیق کا وہ اجتہاد ی تحقیق کی جگہ استشہاد ی تحقیق کرے اور خوب علمی ترقی اور ذہنی ارتقاء کی منزلیں طے کرے۔

            (٨)     مجتہد غیر معصوم تھے ان سے غلطی ہوسکتی ہے لہٰذا ان کی تحقیق کو پرکھا جا سکتا ہے اگر وہ پرکھ میں غلط ثابت ہو تو اس کو چھوڑ کر اس کی جگہ جدید تحقیق جو صحیح ہو وہ اختیار کی جا سکتی ہے۔

            جواب  :  خیالاتی اور عقلی دنیا میں تو یہ بات بالکل درست ہے لیکن واقعات و مشاہدات کی دنیا میں مشکل ہے بلکہ خلاف عقل ہے کیونکہ ڈاکٹر کے نسخہ تجویز کرنے میں اور جج کے فیصلہ لکھنے میں غلطی ممکن ہے کیونکہ ڈاکٹر اور جج معصوم نہیں اس لیے ڈاکٹر کے نسخہ اور جج کے فیصلہ کو پرکھا جا سکتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ پرکھنے کا حق کس کو ہے؟ ہر ذی شعور آدمی سمجھ سکتا ہے کہ ہر آدمی کو یہ حق نہیں بلکہ ڈاکٹر کے نسخہ کو ڈاکٹر،اور جج کے فیصلہ کو جج ہی پرکھ سکتا ہے اسی طرح مجتہد کی تحقیق پرکھنے کا حق ہے لیکن اس جیسے مجتہد کو نہ کہ ہر ایک کو۔ظاہر بات ہے کہ ایم۔اے کے پرچہ کو میٹرک پاس کیسے پرکھ سکتا ہے ؟ پس جیسے یہ خلافِ عقل بھی ہے او عملاً ناممکن بھی۔ اسی طرح غیر مجتہد شخص کا ماہر شریعت مجتہد کی تحقیق کو پرکھنا خلافِ عقل اور عملاً ناممکن ہے۔باقی غیر ذ ی شعور اور غیر ذی عقل لوگوں کی دنیا ہی اپنی ہوتی ہے جس کے ساتھ ذی شعور اور ذی عقل لوگوں کا تعلق ہی نہیں ہوتا۔

            (٩)    مجتہد ین آئمہ کرام کے درمیان چونکہ اختلاف ہے اس لیے مجتہدین کی تحقیق پر چلنے کی صورت میں بھی اختلاف جُوں کا توں باقی رہے گا اور یہی اختلاف تو فرقہ واریت ہے۔

            جواب  :  اولاً یہ ہے کہ مسائل شرعیہ کی دو قسمیں ہیں (١) مسائل قطعیہ یعنی وہ مسائل جن کا ثبوت یقینی اور قطعی ہو مثلاً توحید،رسالت،قیامت،صداقتِ قرآن،جنت و دوزخ،وجودِ ملائکہ،ختم نبوت،نزول عیسیٰ علیہ السلام،عذاب قبر،حیاتِ انبیا ء علیہم السلام فی القبور،آخرت میں میزان،پُل صراط، شفاعت،رؤیۃ باری تعالی،پانچ نمازوں کی فرضیت، رمضان کے روزوں کی فرضیت، ذی استطاعت پر حج کی فرضیت، زکٰوۃ کی فرضیت،سود کی حرمت،زنا کی حرمت،چوری ڈکیتی کی حرمت،شراب کی حرمت،مسواک کا سنت ہونا،داڑھی کاسنت ہونا،قربانی،اذان و تکبیر وغیرہ (٢) مسائل ظنیہ یعنی وہ مسائل جن کا ثبوت یقینی و قطعی نہیں بلکہ وہ غلبۂ  ظن کے درجہ میں ثابت ہیں مثلاً اللہ تعالی کی صفت تکوین مستقل صفت ہے یا صفت قدرت میں داخل ہے۔صفاتِ الہیہ عین ذات ہیں یا غیر ذات، عذاب قبر کی کیفیت،حیاۃ فی ا لقبر کی کیفیت،انبیاء علیہم السلام افضل ہیں یا ملائکہ۔سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کون سے نبی افضل الانبیا ہیں ۔ ایمان کم زیادہ ہوتا ہے یا نہیں ۔وضوئ، غسل،نماز، روزہ،حج وغیرہ میں سے ہر ایک میں سے ہر ایک میں فرائض،واجبات، سنن، مستحبات کتنے ہیں اور کون کون سے ہیں یا وہ مسائل غیر منصوصہ ہیں یعنی کتاب و سنت میں ان کا ذکر نہیں ہوا جیسے ہر زمانہ کے پیش آمدہ اکثر جدید مسائل ان مسائل ظنیہ کو مسائل اجتہاد یہ بھی کہا جاتا ہے۔ دراصل مسائل کے ان دو قسموں کی بنیاد دلائل کے دو قسموں پر ہے دلائل دو قسم کے ہیں (١) دلائلِ قطعیہ یعنی وہ دلائل جو نبوت کے لحاظ سے قطعی ہیں اور مفہوم کے اعتبار سے بالکل واضح ہیں جیسے لاالہ الا ہو الحی القیوم،محمد رسول اللہ،واقیمو االصلوۃ و اٰتوالزکوۃ وغیرہ (٢)وہ دلائل ظنیہ یعنی وہ جن کا ثبوت غلبۂ  ظن کے درجہ میں ہے یا ان کا مفہوم و معنی غیر واضح ہے مثلاً خبر واحد، اس کا ثبوت ظنی ہوتا ہے پھر اگر ان اخبار آ حاد میں تعارض ہو جیسے رفع ید ین اور ترک،قراء ۃ خلف الامام اور ترک القراء ۃ خلف الامام کی متعارض احادیث یا مفہوم کے اعتبار سے اس میں مختلف احتمالات ہوں جیسے والمطلقٰت یتربصن بانفسھن ثلثلۃ قروء میں دو احتمال ہیں کہ قراء سے مراد طہر ہو یا حیض پس وہ مسائل جو دلائل قطعیہ سے ثابت ہیں وہ قطعی ہیں اور جو دلائل ظنیہ سے ثابت ہیں وہ ظنی ہیں پھر مسائل قطعیہ کی دو قسمیں ہیں وہ مسائل جن کا ثبوت اتنا قطعی اور واضح ہے کہ ان کو ہر مسلمان خواہ عالم ہو یا غیر عالم جانتا ہے۔ان کو ضروریاتِ دین کہا جاتا ہے مثلاً توحید،رسالت، قیامت،صداقتِ قرآن، جنت و دوزخ،ختم نبوت وغیرہ ان کو ضروریات دین کہا جاتا ہے ان میں سے کسی ایک عقیدہ کا انکار خواہ تا ویل کے ساتھ ہو کفر ہے اور  وہ مسائل جن کا ثبوت دو راول میں واضح نہ تھا بعد میں ان کا ثبوت اور دینی و شرعی حکم ہونا اتنا واضح ہو گیا کہ ان کو ہر عام و خاص مسلمان جانتا ہے ان مسائل کو ضروریاتِ اہل سنت والجماعت کہاجاتا ہے جیسے عذاب قبر،حیاۃ انبیا ء علیہم السلام فی القبور وغیرہ۔ان عقاید میں سے کسی عقیدے کا انکا ر کفر تو نہیں البتہ اہل سنت والجماعت کی جماعت حقہ سے خارج ہو جاتا ہے اور مسائل ظنیہ اجتہادیہ میں سے کسی ظنی مسئلہ کا انکار نہ کفر ہے نہ اس سے اہل سنت والجماعت سے خروج لازم آتا ہے۔ یہ بات سمجھ لیجئے کہ فرقہ واریت مسائل قطعیہ میں اختلاف کا نام ہے باقی مسائل ظنیہ اجتہادیہ میں اختلاف فرقہ واریت نہیں ہے بلکہ یہ اختلاف تو باعث اجر ہے۔ مجتہد مصیب کو دوا جر اور مجتہد  کو ایک اجر ملے گا اور اتنا ہی اجر ملے گا ہر ایک کے مقلدین کو۔ آئمہ مجتہدین کے درمیان جو اختلاف ہے وہ مسائلِ اجتہادیہ میں ہے مسائل قطعیہ میں نہیں ہے ا س لیے فقہ کے چاروں مکتبِ فکر اہل سنت والجماعت جماعت حقہ ہیں اور ماانا علیہ و اصحابی میں داخل ہیں ۔ قرآن کریم میں ہے ولا تفرقوامن بعد ماجا ئھم البینت اور باہمی تفرقہ مت ڈالو واضح احکام آ جانے کے بعد۔پتہ چلا قطعی اور واضح احکام میں تفرقہ فرقہ واریت ہے۔

            ثانیًا عرض یہ ہے کہ اللہ تعالی کی تکوینی حکمت کے تحت آئمہ اربعہ کے مذاہب مدون ہو گئے اور مدون ہو کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گئے اور مختلف ملکوں اور علاقوں میں عملاً رائج اور قانوناً نافذ ہو گئے ان مذاہب اربعہ میں سے رواج و نفاذ کے اعتبار سے اللہ تعالی نے فقہ حنفیہ کو زیادہ قبولیت عطا کی اس لیے اس کی پذیرائی اور پھیلاؤں کا دائرہ بمقابلہ باقی مذاہب ثلثہ کے زیادہ وسیع ہوا اور عملاً طے ہو گیا کہ جس ملک اور جس علاقے میں ان میں سے جو مذہب قبولیت پا گیا ہے وہاں وہی مذہب چلے گا دوسرے مذہب والے اس میں مداخلت کر کے بدامنی کی فضا پیدا نہ کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزوں کی خلافت عثمانیہ کے خلاف دہشت گردی سے قبل خلافتِ عثمانیہ کے تحت مکہ و مدینہ میں ساڑھے پانچ سو سال تک حنفیوں کی حکومت رہی جس میں فقہ حنفی بطور قانون نافذ تھی لیکن اتنے طویل عرصہ میں کبھی بھی احناف اور غیر احناف کے درمیان محاذ آرائی نہیں ہوئی اور اب تقریباً ساٹھ سال سے سعودی عرب میں فقہ حنبلی نافذ ہے تب بھی کوئی محاذ آرائی نہیں ہے۔ پاکستان میں فقہ حنفی تھی اور ہے یہاں پر بھی کبھی کسی شافعی یا مالکی یا حنبلی نے کوئی جھگڑا نہیں کھڑا کیا اور اگر اس مسلک کے حاملین یہاں آتے ہیں تو حنفی لوگ کھلے دل سے ان کو برداشت کرتے ایک دوسرے کے خلاف نہ محاذ آرائی ہوتی ہے نہ فتوے بازی۔پس جب ہر علاقے میں وہاں کا متواتر مذہب چلے گا اور دوسرے حضرات کے لیے اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی برقرار رہے گی تو فرقہ واریت تو کجا اختلاف بھی نہیں ہو گا جیسا کہ اب سعودی عرب میں حنفیوں اور حنبلیوں کے درمیان کوئی محاذ آرائی نہیں ہے۔

            ثالثاً گزارش یہ ہے کہ اگر ماہرین شریعت کی قدیم تحقیق کا ان جدید محققین کو پابند نہ کیا جائے ہر ایک اپنی سوچ،اپنے فکر اور اپنے ذہن کے مطابق آزادانہ تحقیق کرے تو جتنے جدید محقق ہوں گے اتنے نئے مذہب بن جائیں گے اور چار فقہوں کو ختم کرتے کرتے ہزاروں جدید فقہیں بنا ڈالیں گے اور آئمہ اربعہ کے اختلاف سے بچتے بچتے ہزاروں جدید محققین کے درمیان اختلافات کھڑے ہو جائیں گے جو صرف اجتہادی اختلاف نہیں بلکہ فرقہ واریت اور باہمی مخالفت کی مکروہ ترین شکل ہو گی۔ اسی لیے حکیم الامت علامہ اقبال کی یہ نصیحت آبِ زر سے لکھنے کے لائق ہے

ز اجتہاد عالماں کو تاہ نظر               اقتدا ء رفتگاں محفوظ تر

فرقہ واریت کی قسمیں

            ایک قابل غور بات یہ ہے کہ فرقہ واریت کی کئی قسمیں ہیں ۔سیاسی فرقہ واریت،لسانی فرقہ واریت،قومی فرقہ واریت،وطنی فرقہ واریت، مذہبی فرقہ واریت، صنفی و مرفتی فرقہ واریت یعنی ہر قسم و صنف کے لوگوں نے اپنی الگ الگ جتھہ بندی کر کے اپنے اپنے مفادات کی جنگ شروع کر رکھی ہے۔ان میں سے زیادہ خطرناک فرقہ واریت کی پہلی چار قسمیں ہیں کیونکہ صنفی فرقہ واریت کے نتیجہ میں اپنی گروہی مفادات کی خاطر زیادہ سے زیادہ احتجاج، ہڑتال، جلسے جلوس ہو جائیں گے اور مذہبی فرقہ واریت کے نتیجہ میں جلسے جلوس احتجاج ہڑتال کے علاوہ جُدا مساجد و مدارس بن جائیں گے ایک دوسرے کے خلاف جلسے کر لیں گے لیکن فرقہ واریت کی پہلی چا رقسمیں تو اتنی خطرناک ہیں کہ ان سے تو ملکوں کے نقشے اور ملکوں کے جغرافیے بدل جاتے ہیں ۔پاکستان کا جغرافیہ بدل گیا جو کبھی مغربی پاکستان ہوتا تھا اب وہی کُل پاکستان بن گیا جبکہ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا جس میں بلا شبہہ ہزاروں مسلمان شہید ہوئے۔٩٠ہزار فوج دشمن کی قید میں چلی گئی اور پوری دنیا کے سامنے اس سیاسی،لسان،وطنی،قومی فرقہ واریت نے پاکستانی قوم کو ذلیل اور ُرسوا کر دیا اور سر شرم سے جُھک گئے۔قائد اعظم محمد علی جناح لیاقت علی خان جیسے عظیم لوگ سیاسی فرقہ واریت کی بھینٹ چڑ ھ گئے کتنے گولیوں کے نشانہ بن گئے کتنی عزتیں پامال ہوئیں کتنے جانی و مالی نقصانات ہوئے اور کتنے سیاسی حریف ہیں جو انتقام کا نشانہ بنے اور کتنے سیاسی حریف ہیں جو بے قصور ہونے کے باوجود جیلوں میں پڑے ہیں اور ظلم وستم کی چکی میں پس رہے ہیں اور محض اپنے سیاسی دشمنوں سے انتقام لینے کے لیے کتنے جُھوٹے ڈرامے رچائے جاتے ہیں اور جُھوٹی کہانیاں بنائی جاتی ہیں لیکن حکومت اس خطرناک فرقہ واریت کو ختم کرنے کے لیے حکومتی وسائل استعمال نہیں کرتی۔ ایک مذہبی فرقہ واریت ہی ہے جو ان کو نظر آتی ہے وہ اسی کی مذمت کرتی ہیں اسی کو ختم کرنے کے پروگرام بناتی ہیں ان کو تمام برائیاں اسی کے ارد گرد گھومتی نظر آتی ہیں ۔ کیا ان کو فرقہ واریت کی مکروہ ترین اور خطر ناک ترین قسموں کے مہلک تباہ کن نتائجِ بد نظر نہیں آتے۔اصل بات یہ ہے کہ دین دشمن عناصر کی مدت سے کوشش ہے کہ علماء اسلام اور دین کے قلعے یعنی اسلامی مدارس کو مذہبی فرقہ واریت اور دہشت گردی کے حوالے سے اتنا بدنام کر دیا جائے کہ عوام الناس مدارس اسلامیہ اور علماء اسلام سے اتنے بد ظن ہو جائیں اور مدارس اور اہلِ مدارس سے اتنے دور ہو جائیں کہ وہ تعاون بھی چھوڑ دیں اور علماء دین سے دور ہو کر خود بھی بے دین ہو جائیں اور لوگ بے دینی اور بدنامی کے خوف سے اپنے بچوں کو دینی تعلیم دلانا چھوڑ دیں ۔ درحقیقت فرقہ واریت کا یہ پروپیگنڈا اس تسلسل کا حصہ ہے جو مشرکین مکہ نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف فرقہ واریت کا اور قریش کو آپس میں لڑانے کا پروپیگنڈا کیا تھا لیکن نہ وہ اوائل زمانے کے دین دشمن اپنے مکروہ عزائم میں کامیاب ہوئے نہ اخیر زمانہ کے یہ دشمن کامیاب ہوں گے۔ بس دُعا یہ ہے کہ اللہ تعالی علماء اسلام کو خصوصاً اہل مدارس اور اہل مساجد کو اخلاص و تقوٰیٰ،علم و فہم اور ہمت و استقامت کی قوت و دولت سے مالا مال فرمائیں ۔ آمین ثم آمین بجاہ رسول رب العالمین۔

٭٭٭

ماخذ: مکتبۃ الحکیم سافٹ وئر میں موجود ’انوار مدینہ‘ کے شماروں سے

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید