FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

رمضان المبارک اور تین قسم کے لوگ

مولانا ابو الکلام آزاد

رمضانُ المبارک کا با برکت مہینہ ہر سال ہم پر سایہ فگن ہوتا ہے۔ لیکن افسوس اس بابرکت مہینہ سے فیض اُٹھانے اور اس مقدس ماہ میں اَحکامِ الٰہی کے مطابق چلنے والے مسلمان خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ ایک اسلامی معاشرے میں رمضان پر عمل کس طور سے کیا جاتا ہے، اس کی ایک تصویر کشی مولانا ابو الکلام آزادؒ نے آج سے ۸۶ برس قبل کی تھی ۔ عشرے بیت جانے، آزادی حاصل ہو جانے اور بہت سے سبق آموز واقعات گزر جانے کے باوجود بھی آج کے مسلمان کا طرزِ عمل اسی کی تصدیق کرتا ہے۔ اگر ہم معمولی سے غورسے بھی کام لیں تو ان مثالوں میں ہمیں اپنے چہرے پہچاننا مشکل نہ ہو گا !!

امتِ مسلمہ کے دورِ زوال کے یہ رویے ہماری آنکھیں کھول دینے کو کافی ہیں، لیکن ان سے عبرت پکڑنے کے لئے، اللہ سے ڈرنے والے دل اور دیدہ بینا کی ضرورت ہے!

(حسن مدنی)

قرآن کریم نے اِعتقاد و اعمال اور تعلق الٰہی کے لحاظ سے انسانوں کو تین جماعتوں میں تقسیم کیا ہے:

﴿فَمِنْہمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِہ، وَمِنْہُمْ مَّقْتَصِدٌ وَّمَنْہُمْ سَابِقٌ بِالْخَیْرَاتِ بِاِذْنِ اللّٰہِ، ذٰلِکَ ہُوَ الْفَضْلُ الْکَبِیْرُ﴾ (۳۵:۳۲) ’’پس ان میں سے ایک گروہ تو احکامِ الٰہی سے سرتابی کر کے اپنے نفس پر ظلم کرتا ہے۔ ایک گروہ درمیانی حالت میں ہے، اور ایک ایسا بھی ہے کہ اللہ کے حکم سے نیکیوں کے کرنے میں آگے بڑھا ہوا ہے‘‘

سویہ آخری حالت اللہ کا بہت ہی بڑا افضل ہے جو وہ اپنے بندوں پر کرتا ہے!

فی الحقیقت انسان کے اَعمال و اخلاق کی یہ ایک ایسی جامع اور قدرتی تقسیم ہے جس کی صداقت ہر حیثیت اور ہر پہلو سے دیکھی جا سکتی ہے اور نیکی کے کاروبار کا کوئی میدان ایسا نہیں ہے جہاں یہ تین گروہ نظر نہ آتے ہوں۔ ماہِ رمضان المبارک کے احترام و تعظیم اور حکم صیام کی تعمیل کے لحاظ سے بھی غور کریں تو آج بھی ہم میں یہ تینوں گروہ موجود ہیں۔ ایک گروہ تارکین صیام کا ہے جو روزہ رکھتا ہی نہیں۔ دوسرا صائمین کا ہے جو روزہ تو رکھتا ہے، پر افسوس کہ اس کی حقیقت اپنے اوپر طاری نہیں کرتا۔ تیسرا گروہ اِن مومنین صالحین کا ہے جنہوں نے روزہ کی اصلی حقیقت کو سمجھا ہے اور وہ احتساب اور تقویٰ کے ساتھ ماہِ مقدس بسر کرتا ہے…

ذیل میں ہم ان تین گروہوں کے متعلق بیان کرتے ہیں:

تارکین اَحکام و طاعات

ان میں سب سے پہلا گروہ ظالم لنفسہ کا ہے۔ یہ اپنے نفس کے لئے اس لئے ظالم ہیں کہ انہوں نے اللہ کو اور اس کے ذکر کو بھلانا چاہا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ خود اپنے نفس ہی کو بھول گئے :

﴿اَلَّذِیْنَ نَسُوْا اللّٰہَ فَاَنْسَاہُمْ اَنْفُسَہُمْ، اُوْلٰئِکَ ہُمُ الْخَاسِرُوْنَ﴾ (۵۹:۱۹)

’’وہ لوگ کہ انہوں نے اللہ کو بھلا دیا، نتیجہ یہ نکلا کہ اپنے نفس ہی کی طرف سے غافل ہو گئے۔ یہی لوگ ہیں کہ دونوں جہان کے گھاٹے میں ہیں‘‘

یہ ظالم لنفسہ اس لیے ہیں کہ انہوں نے عدالتِ حقہ کا رستہ چھوڑ کر اِسراف و تبذیر کا رستہ اختیار کیا۔ ظلم کہتے ہیں زیادتی کو، اور عدالتِ حقہ صرف اسی راہ میں ہے جسے صراطِ مستقیم، میزان الموازین اور قسطاس مستقیم کہا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرمایا: ﴿الَّذِیْنَ اَسْرَفُوا عَلٰی اَنْفُسِہِمْ ﴾ (۳۹:۵۲)

’’وہ لوگ کہ جنہوں نے اپنے نفسوں پر زیادتی کی‘‘

ہوائے نفس کی لذتوں نے انہیں پاگل کر دیا ہے:﴿کَمَا یَتَخَبَّطُہٗ الشَّیْطَانُ مِنَ الْمَسِّ﴾ ان کی زندگی کی غایت صرف غذا اور روٹی ہے۔ اللہ نے انہیں انسان بنایا تھا تاکہ وہ اعلیٰ قوائے انسانیت سے کام لیں، پر وہ مثل چار پایوں کے بن گئے جو صرف اپنا چارا ڈھونڈھتا ہے اور صرف اپنی غذا کے لئے دن بھر دوڑتا اور لڑتا رہتا ہے: ﴿اُوْلٰئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ اَوْلٰئِکَ ہُمُ الْغَافِلُوْنَ﴾ (۸:۱۷۸)

’’ یہ لوگ مثل چار پایوں کے ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر اور یہی ہیں کہ غفلت میں پڑ گئے ہیں‘‘

سو ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ اللہ کی حکومت سے باغی ہیں، اس کے قوانین سے انہوں نے علانیہ سرکشی کی، اس کے پاک حدود و مواثیق کو انہوں نے یکسر توڑ ڈالا۔ وہ انسانوں کے آگے جھکتے ہیں، مگر فاطر الارض والسموات کے آگے جھکنے سے اُنہیں شرم آتی ہے۔ وہ دنیاوی حاکموں سے ڈرتے ہیں، پر اَحکم الحاکمین کا ان کے دلوں میں خوف نہیں۔ انسانی بادشاہت کا اگر ایک چھوٹے سے چھوٹا قانون بھی ہو تو اس سے سرتابی کرنے کی انہیں ہمت نہیں پڑتی، کیونکہ ان کو یقین ہے کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو عدالت سزا دے گی اور حاکم وقت باز پرس کرے گا۔ پر شہنشاہِ ارض و سماء کے بڑے سے بڑے قانون کو بھی ٹھکرا دینے اور ذلیل و حقیر کرنے سے وہ نہیں ڈرتے، کیونکہ اللہ پر انہیں یقین نہیں رہا اور اس کی سزاؤں کو وہ نہیں مانتے۔ وہ اپنی نفسانی خواہشوں کے پورا کرنے کا اختیار اگر کسی انسان کے ہاتھ میں دیکھتے ہیں، تو جانوروں کی طرح اس کے پاؤں پر لوٹتے ہیں، گدھے کی طرح اس کا مرکب (سواری) بن جاتے ہیں، اور غلاموں اور چاکروں کی طرح اس کے آگے ہاتھ باندھ کر کھڑے رہتے ہیں، تاکہ وہ انہیں کچھ عرصہ کے لئے روٹی دے یا تانبے اور چاندی کے چند سکے حوالے کر دے۔ پر وہ جس نے انہیں پیدا کیا، جس کی ربوبیت ان کے جسم کے ایک ایک ذرے اور خون کے ایک ایک قطرہ کو پالتی اور ہلاکت سے بچاتی ہے، جو ان کی فریادوں اور دکھ درد کے وقت سنتا اور جب وہ ہر طرف سے مایوس ہو جاتے ہیں تو انہیں اُمید اور مراد بخشتا ہے، سو اس ربّ الارباب کے لئے ان مغروران کے پاس عاجزی کا ایک سجدہ، بندگی کی ایک پیشانی، بے قراری محبت کی ایک پکار، تقویٰ اور احتساب کا ایک روزہ، اور خلوص و صداقت کے ساتھ انفاق فی سبیل اللہ کا ایک کھوٹا پیسہ بھی نہیں ہے :

﴿فَوَیْلٌ لِّلْقَاسِیَةِ قُلُوْبُہُمْ مِّنْ ذِکْرِ اللّٰہِ اُوْلٰئِکَ فِیْ ضَلاَلٍ بَعِیْدٍ﴾(۳۷:۶۲)

’’پس صد افسوس اور صد حسرت ان دلوں پر جو ذکر الٰہی کی طرف سے بالکل سخت ہو گئے ہیں اور یہی لوگ ہیں کہ جو بڑے ہی پرلے سرے کی گمراہی میں مبتلا ہیں‘‘

ایمان باللہ

انسان کے تمام کاموں میں جو یقین کا رسوخ اور اعتماد کا استحکام ہے، اسی کو شریعت ’ایمان‘ کے لفظ سے تعبیر کرتی ہے۔ لیکن ان کے دل میں ایمان کا درخت مرجھا گیا ہے، اس لئے اعمالِ صالحہ کے پھل نہیں لگتے۔ اللہ کا تصور یا تو محبت کی شکل میں انسان کو اپنی طرف کھینچتا ہے یا خوف کی عظمت و ہیبت دکھلا کر اپنے آگے جھکاتا ہے۔ اس کے دیکھنے والوں نے ہمیشہ انہی دو نقابوں میں سے اسے دیکھا ہے۔ پر نہ تو ان کے دلوں میں محبت ہے کہ اپنے محبوب کے لئے دکھ اُٹھائیں اور نہ خوف ہے کہ ڈر کر اور ہیبت میں آکر اس کے آگے جھک جائیں ۔ اللہ کے رشتے کی کوئی زنجیر ان کے پاؤں میں نہیں رہی کیونکہ نفس و شیطان کی غلامی کے طوق ان کے گلوں پر پڑ گئے :

﴿اِنَّا جَعَلْنَا فِیْ اَعْنَاقِہِمْ اَغْلَالًا فَہِیَ اِلیٰ الْاَذْقَانِ فَہُمْ مُّقْمَحُوْنَ﴾(۳۸:۸)

’’ہم نے گمراہی اور شیطان کی غلامی کے طوق ان کی گردنوں میں ڈال دیئے جو ان کی ٹھوڑیوں تک آگئے ہیں اور ان کے سرپھنس کے رہ گئے ہیں‘‘

پس ان کی فطرت کو عبودیتِ الٰہی سے کچھ اس طرح کی اجنبیت ہو گئی ہے کہ اگر ایک لمحہ اور ایک دقیقہ بھی اس کی عبادت و ذکر میں بسر کرنے کے لئے کہا جاتا ہے، تو انہیں ایسا معلوم ہوتا ہے، گویا کسی بڑی ہی سخت مصیبت اور بڑے ہی جانکاہ عذاب میں پڑ گئے ہیں۔ حالانکہ اصلی عذاب کی انہیں خبر نہیں جس میں واقعی پڑنے والے ہیں اور جو واقعی سخت و جانکاہ ہے:

﴿قُلْ اَفَأنُبِّئُکُمْ بِشَرِّ مِنْ ذٰلِکُمْ؟ النَّارُ، وَعَدَہَا اللّٰہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ

’’اے پیغمبر! ان سے کہہ دے کہ تمہیں ذکر الٰہی سے بڑی ہی تکلیف ہوتی ہے لیکن اس سے بھی بڑھ کر ایک مصیبت کی تمہیں خبر دوں جو آنے والی ہے: آتش دوزخ …جس کا اللہ نے منکروں سے وعدہ کیا ہے اور جو بڑا ہی برا ٹھکانا ہے‘‘ (۲۲:۷۰)

ان کی فطرت پر شدتِ عصیان اور استغراقِ ضلالت و فساد سے ایک ایسی تاریکی چھا گئی ہے جو نورِ ایمان سے کلیۃمغائر ہے اور اس کے ساتھ عبودیتِ الٰہی کا نور جمع نہیں ہوسکتا۔ پس نماز سے بھی اسے انکار ہے اور روزہ کی بھی اسے توفیق نہیں۔ شریعت کے تمام حکموں کو اس نے چھوڑ دیا ہے اور اس کی زندگی یکسر ابلیسی ہو گئی ہے جس میں خداپرستی کے لیے چند گھڑیاں اور چند منٹ بھی نہیں ہیں:

﴿اُوْلٰئِکَ الَّذِیْنَ طَبَعَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِہمْ وَسَمْعِہمْ وَاَبْصَارِہِمْ وَاُوْلٰئِکَ ہمُ الْغَافِلُوْنَ

’’یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ نے ان کے دلوں، ان کے کانوں، اور ان کی آنکھوں پر مہر لگا دی ہے اور یہ وہ ہیں کہ غفلت میں گم ہو گئے ہیں‘‘ (۱۲:۱۰۹)

امراء فساق اور روساء فجار

پس رمضان المبارک میں ایک گروہ تو تارکین صیام کا ہے جن کے لئے ماہِ مقدس کی برکتوں میں کوئی حصہ نہیں رکھا گیا، اور جن کی نفس پرستی پر روزہ رکھنا بہت ہی شاق گذرتا ہے۔ ان میں ایک جماعت اُمراء و روساء کی ہے جو فسق و فجور کی تاریکی میں ایسے گھر گئے ہیں کہ تقویٰ اور احتساب کی ایک ہلکی سی شعاع بھی ان کے سیاہ خانۂ عمل پر نہیں پڑتی اور استغراقِ لہو و لعب اور انہماکِ شہوات و لذات نے انہیں بالکل اپنی طرف مشغول کر لیا ہے۔

روزہ کی اصل صبر اور تقویٰ ہے۔ صبر کی حقیقت یہ ہے کہ خواہشات اور تکالیف برداشت کی جائیں۔ پس اس کے لیے ضبط و تحمل کی، ایثار و احتساب کی، اتقائے روح اور طہارتِ نفس کی ضرورت ہے۔ مگر ان کا نفس شریر اپنی بہیمی خواہشوں میں اس درجہ بے قابو ہو گیا ہے کہ وہ تکلیف اور ایثار کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ان کی طبیعت خواہشوں کی غلام اور نفس پرستیوں کی عادی ہو گئی ہے۔ پس وہ ایک گھنٹہ بھی ضبطِ جذبات و تحمل نفس کے ساتھ بسر نہیں کرسکتے۔

وہ ماہِ مقدس جو نزولِ سعادت کی یادگار تھا، جو مومنوں کے لئے نیکیوں اور خداپرستیوں کا سرچشمہ تھا، جو ہمیں تحمل مصائب اور مرضیاتِ الٰہیہ کی راہ میں ایثار نفس کی تعلیم دیتا تھا، آتا ہے اور گذر جاتا ہے، پر ان کے اعمالِ شیطانیہ اور افعالِ خبیثہ میں رائی برابر بھی تبدیلی نہیں ہوتی۔ پھر ان میں کتنے ہی ہیں جو عین رمضانُ المبارک کے اندر شربِ خمر اور زِنا و فسق میں چار پایوں اور حیوانوں کی طرح ڈوبے رہتے ہیں اور ماہِ مقدس کی برکتوں کی جگہ آسمانی لعنتوں کی ان پر بارش ہوتی ہے۔حدیث شریف میں تو آیا ہے کہ

’’اِذا دخل شہر رمضان فتحت أبواب الجنة وأغلقت أبواب النار وصفدت الشیاطین‘‘ (رواہ البخاری)

’’جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو نیکیوں کے بہشتی دروازے کھل جاتے ہیں، برائیوں کے جہنمی دروازے بند ہو جاتے ہیں، اور ارواحِ شریرہ و شیطانیہ کا عمل باطل ہو جاتا ہے ‘‘

لیکن ان کی حالت اس کے بالکل برعکس ہے، ان کے لئے جہنمی دروازے اور زیادہ وسعت کے ساتھ کھل جاتے ہیں، اور ارواحِ شریرہ کا تسلط ان پر اور زیادہ سخت ہو جاتا ہے

﴿وَمَنْ یَعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِضْ لَہٗ شَیطَانًا فَہُوَ لَہٗ قَرِینٌ﴾ (۳۶:۴۳)

’’اور جو اللہ کی یاد سے غافل ہوتا ہے، ہم اس پر ایک شیطان مسلط کر دیتے ہیں پھر وہی اس کا ساتھی ہوتا ہے‘‘

حلقہ شیاطین و مجمع ’اَبالسہ‘ (جمع ابلیس)

ان کے وہ مصاحب اور ندیم جو ہر وقت ذرّیتِ شیطانی کی طرح ان کے ارد گرد رہتے ہیں، اور ان کے وہ اَعمال و حکام جو اللہ کی طرح انہیں پوجتے اور مشرکوں کی طرح ان کے آگے زمین بوس ہوتے ہیں، یہ سب کچھ دیکھتے ہیں، مگر شیطان نے ان کی زبانوں پر مہر لگا دی ہے اور انسان کی بندگی کی خباثت نے اللہ کا خوف ان کے دلوں سے محو کر دیا ہے ۔ پس ان میں سے کسی کی بھی زبان نہیں کھلتی کہ حق و معروف کی صدا بلند کرے، اور گونگا شیطان نہ بنے جو ایمان کی موت اور اللہ پرستی کا خاتمہ ہے۔

فتنۂ علمائے سوء

پھر اس سے بھی بڑھ کر ماتم انگیز منظر یہ ہے کہ ان امراء فاسقین و روساء فاجرین کے حاشیہ نشینوں اور وابستگانِ دولت کی فہرست میں بہت سے علماء و صوفیا کے نام بھی نظر آتے ہیں، جو اپنے تئیں مسندِ نبوت کا جانشین اور فضائل رسالت کا وارث حقیقی سمجھتے ہیں، اور اپنے ا تقا و تقدس کے دامنوں کو ہزاروں انسانوں سے سنگِ اسود کی طرح بوسہ دلاتے، اور اپنے بڑے بڑے دامنوں کی عباؤں کو عہدِ مسیح کے فریسیوں اور صدوقیوں کی طرح غرورِ فضیلت و کبر تقدس سے حرکت دیتے ہیں۔

ان کو اپنی فضیلت و پیشوائی کا بڑا ہی گھمنڈ ہے۔ وہ جب اپنے مریدوں اور معتقدوں کے جمگھٹے میں تسبیح مکر و سجادۂ زُو ر کے سازوسامانِ فریب کے ساتھ بیٹھتے ہیں تو کسی طرح اللہ کی الوہیت اور رسولوں کی قدوسیت سے اپنے تقدس و کبریائی کو کمتر نہیں سمجھتے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کا وجود شریعت کی توہین اور دین الٰہی کی سب سے بڑی تذلیل ہے۔ قوم کا بدتر سے بدتر اور جاہل سے جاہل گروہ بھی ان خلفائے شیاطین و نائبین ابلیس لعین سے زیادہ نیک اور زیادہ راست باز ہے۔ کیونکہ یہ علمائے سوء ہیں اور ان کے فتنہ سے بڑھ کر قوم کے لئے کوئی فتنہ نہیں۔ ہوائے نفس ان کی شریعت ہے، درہم و دنانیر ان کا قبلہ ہے، نفس و شیطان ان کا معبود ہے، اور طلبِ جاہ و مال ان کا ذکر و فکر ہے۔ چونکہ ان کو امراء فساق اور روساء فجار کے دربار سے بڑے بڑے وظائف و مناصب ملتے ہیں اور نذر و نیاز کی فتوحات کا پیہم سلسلہ جاری رہتا ہے، اس لئے ان کی زبانیں گونگی ہو گئی ہیں اور اپنے منصوبوں، تنخواہوں اور نذر و نیاز کی لعنت کے بند ہو جانے کے خوف سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ایک لفظ بھی اپنی زبان سے نہیں نکالتے۔

وہ اپنی آنکھوں سے رمضانُ المبارک کی توہین کا تماشہ دیکھتے ہیں اور چپ رہتے ہیں۔ ان سامنے ماہِ مقدس کے اندر حکم الٰہی کو ٹھکرایا جاتا ہے اور وہ خوش ہوتے ہیں، نہ تو کسی شیطانِ اَخرس (گونگے)کی زبان معروف کے لئے کھلتی ہے، نہ کسی خلیفہ ابلیس کو شریعت کی علانیہ توہین پر غیرت آتی ہے۔ امر بالمعروف کو انہوں نے یکسر بھلا دیا ہے اور نہی عن المنکر کو اپنے مقاصدِ نفسانیہ کے خلاف دیکھ کر نسیا ً منسیاً کر دیا ہے۔ اگر وجودِ مقدس حضرت صادق مصدوق ا کا حکم باطل نہیں تو میں کہتا ہوں کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب ایسے ہی علمائے سوء کو ہو گا۔’’و قال رسول اللہﷺ: إن أشد الناس عذابا یوم القیامة، عالم لم ینفعہ اللہ بعلمہ‘‘ (رواہ ابن عساکر عن ابی ہریرہ والبیہقی فی شعب الایمان و الطبرانی فی الصغیر والحاکم فی المستدرک)

فتنۂ اِلحاد و مُتفرنجین (انگریزسے متاثر)

پھر تارکین صیام کے گروہ میں اس سے بھی بڑھ کر ایک فتنے نے سراٹھایا ہے، جس کا اثر بہت شدید اور جس کی آفات سخت متعدی ہیں اور جس کے اندر شریعت کا استخفاف و استہزا پہلے سے کہیں زیادہ اور حدود اللہ کے خلاف نفسانی جسارت پہلوں سے کہیں بڑھ کر ہے۔ نہایت درد اور رنج کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ ان لو گوں کا فتنۂ اِلحاد و اِباحہ ہے جنہیں افسوس کہ الحاد سے بھی جہل کے سوا اور کچھ نہیں ملا۔ حالانکہ اِلحاد نے اکثر غرورِ علم کے ساتھ ظہور کیا ہے۔ یہ لوگ نشا ٴة مدنیہ حدیثہ (جدید تہذیبی ارتقا)کی مہذب و متمدن مخلوق ہیں جو نئی درسگاہوں کی کائناتِ جہل و غرور میں پیدا ہوئی ہیں، اور جو فی الحقیقت غرورِ ادّعا اور جہل افساد کے سوا اور کچھ نہیں ہیں۔

پہلی جماعت کی اگر غفلت شدید تھی اور معصیت جرأت و جسارت تک پہنچ گئی تھی، تو افسوس کہ اس گروہ کے اندر غفلت کی جگہ جسارت اور اعتراف کی جگہ انکار و سرکشی اور کھلم کھلا استخفافِ شریعت واستہزائے حدود اللہ پایا جاتا ہے۔ ان میں سے اکثروں کے نزدیک روزہ عرب جاہلیت کے فقر و فاقہ کی ایک وحشیانہ یادگار ہے جو یا تو اس لئے قائم کی گئی تھی کہ غذا میسر نہیں آتی تھی، یا من جملہ ان عالمگیر غلط فہمیوں کے ایک توہم پرستی تھی جو اہل مذاہب میں ابتدا سے پھیلی ہوئی ہیں اور انہوں نے ترکِ لذائذ اور تعذیبِ جسم کو وسیلۂ نجات سمجھ لیا ہے،فأعاذنا اللہ سبحانہ مما یعتقد الزنادقة

اِن میں بہت سے لوگ اپنے اِلحاد کو شریعت کی نسبت سے انجام دینے کے شائق ہیں۔ وہ تطبیق بین العقل والنقل العلوم الجدیدة والاسلام اورالاسلام ہو الفطرة والفطرة ہی الاسلام کا راستہ اختیار کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ اگر فرض ہوا بھی تھا تو ﴿وَالَّذِینَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَة طَعَام﴾ نے ثابت کر دیا کہ ایک مسکین کو کھانا کھلا کر ہم روزے کے پنجہ ٴ عذاب سے نجات پا سکتے ہیں۔ پس یہ ہمارے لیے کفایت کرتا ہے۔ فأولئک ہم المتفرنجون، الذین یفسدون فی الأرض ولا یصلحون

﴿وَاِذَا قِیلَ لَہُمْ لاَتُفْسِدُوْا فِیْ الْاَرْضِ قَالُوْا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ، اَلاَ اِنَّہُمْ ہُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَلٰکِنْ لاَّ یشْعُرُوْنَ﴾(۲:۱۱)

’’اور عجب تو یہ کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین پر فساد نہ پھیلاؤ تو کہتے ہیں کہ ہم تو قوم کے مصلح ہیں، یقین کرو کہ یہی لوگ ہیں جو دنیا کے لئے مفسد ہیں مگر اپنے فساد سے واقف نہیں‘‘

پھر آہ! ان لوگوں کی حالت آپ کو کیا کہیں کہ میرے سامنے بڑے ہی درد انگیز صدہا نمونے موجود ہیں۔ جس ملحدانہ جسارت، جس مارقانہ جرأت، اور جس مرتدانہ شوخی کے ساتھ میں نے انہیں عین رمضان المبارک کے ایام میں (باوجود صحت و عافیت، قوت و توانائی و بغیر سفر و عذراتِ شرعیہ) اپنے دوزخِ شکم کی ایندھن جمع کرتے دیکھا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ اسے کیونکر بیان کروں؟ وہ اس بے پروائی کے ساتھ ماہِ مقدس میں کھاتے پیتے ہیں، گویا انہیں اس گروہ سے کوئی تعلق ہی نہیں جس کے لئے رمضان کا وُرود صبر و اِتقا کا پیام تھا۔

جرم اور بغاوت

ایک چیز غفلت و تساہل ہے اور ایک انکار و تمرد ہے۔ بلاشبہ پرانے لوگوں میں بھی ہزاروں اشخاص ایسے موجود ہیں جن میں تسلطِ نفس و شیطان سے معاصی و ذنوب کی نہایت کثرت ہو گئی ہے اور ان پر غفلت و تساہل نے ایک دینی موت طاری کر دی ہے۔ علیٰ الخصوص امرا و رؤسا مسلمین کہ ان میں سے اکثر اَحکام و اَوامر شریعہ سے بے پروا و غافل ہیں۔ تاہم ان میں ایک فرد بھی ایسا بمشکل ملے گا جو احکامِ الٰہی کا صریح استہزا کرتا ہو، اور اللہ کے شعائر کی بے باکانہ ہنسی اُڑاتا ہو۔ مگر میں نے ’اس متمدن و روشن خیال‘ طبقہ میں بکثرت ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو علانیہ اَحکام اسلامیہ کی ہنسی اُڑاتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں کہ لوگ کیسے احمق اور نادان ہیں جو مفت میں بھوکے رہتے ہیں اور اپنے نفس کو تکلیف و مشقت میں ڈالتے ہیں:

﴿وَقَالُوْا: مَاہِیْ اِلَّاحَیَاتُنَا الدَّنُیَا نَمُوْتُ وَنَحْیَا وَمَا یُہْلِکُنَا اِلَّا الدَّہْرُ﴾ (۴۵:۲۴)

’’وہ کہتے ہیں: یہ تو صرف کی دنیا کی ہی زندگی ہے، ہم مریں گے اور زندہ رہیں گے اور نہیں ہلاک کرتی ہمیں مگر زمانہ (کی گردش)‘‘

﴿قُلْ اَبِاللّٰہِ وَاَیَاتِہ وَرَسُوْلِہ کُنْتُمْ تَسْتَہزِءُ وْنَ﴾ (۹:۶۵)

’’ان ملحدوں سے کہو کہ آیا تم اللہ، اس کی آیات اور اس کے رسولوں کے ساتھ ہنسی کرتے ہو‘‘

آغازِ اسلام میں یہود و نصاریٰ اَحکامِ شریعت کی ہنسی اڑاتے تھے، جن کا حال سورہ مائدہ میں اللہ نے فرمایا ہے:

﴿یَااَیَّہُا الَّذِینَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوْا الَّذِینَ اتَّخَذُوْا دِینَکُمْ ہُزُوًا وَلَعِبًا﴾ (۵:۶۲)

’’اے مسلمانو! ان لوگوں کا رشتہ نہ پکڑو جنہوں نے تمہاری شریعت کو ہنسی ٹھٹھا اور ایک طرح کا کھیل بنا لیا ہے‘‘ ان کا حال یہ تھا کہ :

﴿وَاِذَا نَادَیْتُمْ اِلٰی الصَّلوٰةِ اتَّخَذُوْہَا ہُزُوًا وَّلَعِبًا ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لاَّیَعْقِلُوْنَ

’’جب تم نماز کے لئے صدا بلند کرتے ہو تو یہ ہنسی اور ٹھٹھا کرتے ہیں۔ یہ اس لئے کہ ان کی عقلیں کھو گئی ہیں‘‘ (۵:۶۳)

سورۂ بقرہ میں انہیں کی نسبت فرمایا ہے:

﴿زُیِنَ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا الْحَیَاةُ الدُّنْیَا وَیَسْخَرُوْنَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾(۲:۱۰۸)

’’کافروں کی نظروں میں صرف دنیا کی زندگی ہی سما گئی ہے، وہ ان لوگوں کے ساتھ تمسخر کرتے ہیں جو اللہ پر ایمان لاتے ہیں‘‘

سو آج یہ حالت خود مسلمانوں کا یہ نیا متمدن فرقہ ہمیں دکھلا رہا ہے، اور ضمناً خبر دیتا ہے کہ اس کا شجرۂ نسبِ ضلالت کن لوگوں سے ملتا ہے؟ نماز سے بڑھ کر اس گروہ کے لئے کوئی مبغوض و مکروہ حکم نہیں، کیونکہ علاوہ ایک وحشیانہ حرکت کرنے کے اس کے اکثر اجزاء ایسے ہیں جو متمدن زندگی کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔ وضو سے شرٹ کی آستینوں کا کلف خراب ہو جاتا ہے، اور سجدہ میں جانے سے پتلون پر گھٹنوں کے پاس شکنیں پڑ جاتی ہیں : ﴿اِذَا قِیْلَ لَہُمْ ارْکَعُوْا لاَ یَرْکَعُوْنَ﴾ (۷۷:۴۸)

’’جب ان سے رکوع کرنے کو کہا جاتا ہے تو رکوع بجا نہیں لاتے‘‘

جب نماز کے ساتھ یہ سلوک ہے تو روزہ کی نسبت پوچھنا ہی عبث ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ موجودہ متمدن زندگی نے دن میں پانچ مرتبہ اقلا ً غذا کا حکم دیا ہے، کوئی وجہ نہیں کہ ایک مہینے تک کے لئے انسان بالکل غذا ترک کر دے ﴿قَاتَلَہُمْ اللّٰہُ اَنّی یوٴْفَکُوْنَ﴾ (۹:۳۰)

المصلحون الدجّالون

پھر عجیب تو یہ کہ اس گروہ میں ایک جماعت مصلحین ملت و ائمہ اُمت کی بھی ہے جو اپنے تئیں تمام قوم کا پیشوا اور ہادیِ حقیقی سمجھتی ہے اور چونکہ اسے یقین ہے کہ ابھی مسلمان اَحکامِ شریعت سے متنفر نہیں ہوئے ہیں، گو غافل ہیں، اس لئے جب کبھی مجلسوں اور کانفرنسوں کے اسٹیجوں پر ان کے سامنے آتی ہے تو یکسر پیکر اسلام و ایمان و مجسمہ شریعتِ اسلامیہ بن جاتی ہے، اور جس شریعت کے اوّلین ارکان و عبادات تک سے اسے عملاً انکار ہے، اس کے ماننے والوں کے اِدبار و غفلت پر نبیوں کی طرح روتی اور رسولوں کی طرح فغاں سنج ہوتی ہے۔ پھر نماز کا فلسفہ اس کی زبان پر ہوتا ہے۔ روزہ کی فلاسفی پر ان سے بہتر کوئی لیکچر نہیں دے سکتا۔ اسلامی عبادات کے مصالح و حکم کے اعلان کا اس سے بڑھ کر کوئی واعظ نہیں، حالانکہ خود اس کے نفس کا یہ حال ہے کہ احکامِ شریعت کی تذلیل و تحقیر میں اس سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں ہے اور اس کا وجود الحاد و زندقہ کے سوا اور کچھ نہیں :

﴿یُخَادِعُوْنَ اللّٰہَ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَمَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّا اَنْفُسَہمْ وَمَا یَشْعُروْنَ﴾ (۲:۱۰)

’’یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ کو اور مسلمانوں کو اپنے نفاق سے دھوکا دینا چاہتے ہیں، مگر نہیں جانتے کہ درحقیقت وہ اپنے نفس ہی کو دھوکا دے رہے ہیں‘‘

ایک بشارتِ عظمیٰ

البتہ دو تین سال سے تعلیم یافتہ طبقہ میں ایک مبارک تغیر و انقلاب کے آثار ضرور نظر آرہے ہیں، اور میں بہت سے ایسے اربابِ انابت و رجوع الی اللہ کو جانتا ہوں جن کے دلوں پر پچھلے مصائبِ اسلامی سے تنبہ و اعتبار کی ایک کاری چوٹ لگی ہے اور ان کے اندر مذہبی اعمال کی طرف یکایک میلان و رجوع پیدا ہو چلا ہے۔ سو فی الحقیقت ایسے مبارک نفوس اس گروہ کی عام حالت سے بالکل مستثنیٰ ہیں، اور اگر ان کو استقامت و ثبات نصیب ہو تو کچھ شک نہیں کہ ہم سب کو چاہئے کہ انکے ہاتھوں کو جوشِ عقیدت سے بوسہ دیں اور مقدس عباؤں کے دامنوں کی جگہ ان کے فرنگی کوٹوں کے دامنوں کو آنکھوں سے لگائیں۔ کیونکہ موجودہ عہد میں اسلام و ملت کی خدمت کے لیے اس گروہ سے بڑھ کر اور کوئی جماعت مفید تر نہیں ہوسکتی اور اس کی اصلاح سے بڑھ کر عالمی اسلامی کیلئے کوئی بشارت نہیں لعلّ اللہ یحدث بعد ذلک أمرا۔

عاملین اَحکام و صائمین رمضان

یہ حال تو تارکین صیام کا تھا۔ اب انہیں دیکھیں جو عاملین و صائمین میں دا خل ہیں۔ یہ سرگزشت ان کی تھی جنہوں نے شریعت کو چھوڑ دیا، لیکن آؤ اب ان کی سراغ میں نکلیں جو اب تک دامن شریعت سے وابستہ ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جو پانی سے دور ہو گئے۔ اب آؤ ان کو دیکھیں جو دریا کے کنارے خیمہ زن ہیں… پھر کیا وہ سیراب ہیں؟کیا وہ پہلوں کی طرح پیاسے نہیں!!

افسوس کہ حقیقت کی آنکھیں اب تک خونبار ہیں اور عشق مقصود کا قدم یہاں تک پہنچ کر بھی کامیاب نہیں۔ یہ سچ ہے کہ پہلوں نے دریا کی راہ چھوڑ دی اور دوسرے نے اس کے کنارے اپنا خیمہ لگایا اور اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ اس کا اجر انہیں ملنا چاہئے، لیکن اگر دریا کا قرب دریا کے لئے نہیں بلکہ دریا کے پانی کے لئے تھا تو پہلا گروہ پانی سے دور رہ کر پیاسا رہا، اور دوسرے اس تک پہنچ کر پیاسے ہیں!

انہیں کشتی نہیں ملتی، انہیں ساحل نہیں ملتا…!!

یہ وہ لوگ ہیں کہ انہوں نے شریعت کے حکموں کو تو لے لیا ہے، مگر اس کی حقیقت چھوڑ دی ہے۔ یہ وہ ہیں کہ انہوں نے چھلکے پر قناعت کی اور اس کے مغز کو ان لوگوں کی طرح چھوڑ دیا جنہوں نے چھلکا اور مغز دونوں چھوڑ دیا ہے۔ یہ جسم کو انسان سمجھتے ہیں حالانکہ جسم بغیر روح کے ایک سڑجانے والی لاش ہے۔ یہ نقاب کو چہرۂ محبوب سمجھے ہیں، حالانکہ عیش نظارہ اس نے پایا، جس نے نقاب کی جگہ صورت سے عشق کیا۔ کاشت کار پھل کے لئے بیج بوتا ہے اور پھولوں کی ساری محبوبیت اس میں ہے کہ اس کی خوشبو سے دماغ معطر ہو جاتا ہے۔ پس اگر بیج پھل نہ لایا اور پھولوں نے خوشبو نہ دی تو کاشتکار کے لئے ہل جوتنے کی جگہ بہتر تھا کہ وہ گھر میں آرام سے سوتا، اور بے خوشبو کے پھولوں سے وہ خشک ٹہنی زیادہ قیمتی ہے جو چولہے میں جلائی جا سکے ﴿فَوَیلٌ لِّلْمُصَلِّینَ الَّذِینَ ہُمْ عَنْ صَلاَتِہمْ سَاہوْنَ﴾ (۱۰۷:۶)

نماز ہو یا روزہ، شریعت کے جتنے اَحکام اور جتنی طاعات ہیں، سب کا حال یہ ہے کہ ایک شے تو ان میں مقصود بالذات ہوتی ہے اور ایک اس مقصود کے حاصل کرنے کا وسیلہ…!

نماز میں اصلی شے عبودیتِ الٰہی، انکسار و تذلل، خضوع و خشوع، ابتہال و توجہ الی اللہ و انقطاع و تبتّل ہے، اور نتیجہ اس کا تمام فواحش و منکرات اور رذائل و خبائث سے اجتناب و تحفظ ہے۔ حج کا مقصود دعوتِ اسلامی کی نشا ٴة اولیٰ کی یادگار، اسوۂ ابراہیم کی تجدید، مرکزِ توحید پر تمام شعوب و قبائل موحدین کا اجتماع، اور وحدتِ اسلامی و اتحادِ ممالک و اُمم کا ظہور و قیام ہے اور نتیجہ اس کا تعلق الٰہی کی تقویت، احکامِ شریعت کا انقیاد اور رفع انشقاق و اختلاف، و انسدادِ تفریق و تشتت کلمہ اسلام ہے۔

اسی طرح روزہ بھی صرف بھوک پیاس کا نام نہ تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو ہر فقیر عابد ہوتا اور ہر فاقہ کش مومن کامل، حالانکہ بہت سے بے نصیب مسکین ہیں جن کی فاقہ کشی انہیں وہ شے نہیں دے سکتی جو ایک اللہ پرست بادشاہ، لذائذ و نعائم کے خوان ہائے پر تکلف کے سامنے بیٹھ کر پالیتا ہے۔ اصل شے روح کا تقویٰ، نفس کی طہارت، خواہشو ں کا حبس، قوتوں کا احتساب اور جذبات کا ایثار ہے، اور چونکہ مخلوقات کے لئے غذا کی خواہش سب سے بڑی مجبور کن خواہش ہے، اس لئے درسِ صبر، تعلیم تحمل، تولید فضائل اور نفوذِ اتقاء و ایثارِ نفس کے لئے اسی خواہش کے ترک کرنے کا حکم دیا گیا اور اس کو تمام روحانی فضائل کے کسب اور تمام اَ خلاقی رذائل سے اجتناب کا وسیلہ قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ روزہ کا حکم دینے کے بعد اس کی علت ایک نہایت ہی جامع و مانع اصطلاح شریعت میں واضح کر دی گئی کہ :﴿لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ یہ اس لئے ہے تاکہ تم تقویٰ حاصل کرو! ’تقویٰ ‘بچنے اور پرہیز کرنے کو کہتے ہیں۔ قرآنِ حکیم کی اصطلاح میں اس سے مقصود تمام برائیوں اور رذالتوں سے بچنا اور پرہیز کرنا ہے۔

پس روزہ وہ ہے جو ہمیں پرہیزگاری کا سبق دے، روزہ وہ ہے جو ہمارے اندر تقویٰ اور طہارت پیدا کرے۔ روزہ وہ ہے جو ہمیں صبر اور تحمل شدائد و تکالیف کا عادی بنائے۔ روزہ وہ ہے جو ہماری تمام بہیمی قوتوں اور غضبی خواہشوں کے اندر اعتدال پیدا کرے، روزہ وہ ہے جس سے ہمارے اندر نیکیوں کا جوش، صداقتوں کا عشق، راست بازی کی شیفتگی، اور برائیوں سے اجتناب کی قوت پیدا ہو۔ یہی چیز روزہ کا اصل مقصود ہے اورباقی سب کچھ بمنزلہ رسائل و ذرائع کے ہے۔ اگر یہ فضیلتیں ہمارے اندر پیدا نہ ہوئیں تو پھر روزہ روزہ نہیں ہے بلکہ محض بھوک کا عذاب اور پیاس کا دکھ ہے۔ کیا نہیں دیکھتے کہ احادیثِ نبویہ میں روزہ کی برکتوں کے لئے ’احتساب‘ کی بھی شرط قرار دی گئی۔

من صام رمضان إیمانا واحتسابا غفرلہ ما تقدم من ذنبہ(رواہ البخاری)

’’جس شخص نے رمضان کے روزے احتسابِ نفس کے ساتھ رکھے سو اللہ اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کر دے گا‘‘

پھر کتنے ہیں جو روزہ رکھتے ہیں اور ساتھ ہی ایک سچے صائم کی پاک اور ستھری زندگی بھی انہیں نصیب ہے۔ آہ، میں ان لوگوں کو جانتا ہوں جو ایک طرف تو نمازیں پڑھتے اور روزے رکھتے ہیں۔ دوسری طرف لوگوں کا مال کھاتے، بندوں کے حقوق غصب کرتے، ان کو دکھ اور تکلیف پہنچاتے، طرح طرح کے مکر و فریب کو کام میں لاتے، اور جبکہ ان کے جسم کا پیٹ بھوکا ہوتا ہے تو اپنے دل کے شکم کو گناہوں کی کثافت سے آسودہ اور سیر رکھتے ہیں۔ کیا یہی وہ روزہ دار نہیں جن کی نسبت فرمایا کہ :

کم من صائم لیس لہ من صومہ إلا الجوع والعطش (رواہ النسائی و ابن ماجہ)

’’کتنے ہی روزہ دار ہیں جنہیں ان کے روزے سے سوا بھوک اور پیاس کے کچھ نہیں ملتا‘‘

وہ راتوں کو تراویح میں قرآن سنتے ہیں اور صبح کو اس کی منزلیں ختم کرتے ہیں، لیکن اس کی نہ تو ہدایتیں ان کے سامعہ سے آگے جاتی ہیں اور نہ اس کی صدائیں حلق سے نیچے اترتی ہیں :

وربّ قائم لیس لہ من قیامہ إلا السہر (رواہ ابن ماجہ)

’’اور کتنے راتوں کو ذکر و تلاوت کا قیام کرنے والے ہیں کہ انہیں اس سے سوائے شب بیداری کے اور کچھ فائدہ نہیں‘‘

نیز فرمایا کہ ربّ تال للقرآن والقرآن یلعنہ بہت سے قرآن تلاوت کرنے والے ایسے ہیں کہ قرآن ان پر لعنت بھیجتا ہے، کیونکہ انہوں نے اپنی بد کرداریوں اور بے عملیوں سے قرآن کی تلاوت وسماعت کو لہو و لعب بنا رکھا ہے۔

پھر کتنے ہی روزہ دار ہیں جن کا روزہ برکت و رحمت ہونے کی جگہ بندگانِ الٰہی کے لئے ایک آفت و مصیبت ہے، اور بہتر تھا کہ وہ روزہ نہ رکھتے۔ دن بھر بھوکا رہ کر اور رات کو تراویح پڑھ کر وہ ایسے مغرور و بدنفس ہو جاتے ہیں گویا انہوں نے اللہ پر، اس کے تمام ملائکہ پر، اور اس کے تمام بندوں پر ایک احسانِ عظیم کر دیا ہے۔ اور اس کے معاوضہ میں انہیں کبریائی اور خود پرستی کی دائمی سند مل گئی ہے۔ اب اگر وہ انسانوں کو قتل بھی کر ڈالیں، جب بھی ان سے کوئی پرسش نہیں۔ وہ تمام دن درندوں اور بھیڑیوں کی طرح لوگوں کو چیرتے پھاڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم روزہ دار ہیں۔ سو ایسے لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ زمین اور آسمان کا خداوند ان کے فاقہ کرنے کا محتاج نہیں ہے۔ اور ان کے اس روزہ رکھنے سے اس عاجز و درماندہ اور اپنی خطاؤں کا اعتراف کرنے والے گناہگار کا روزہ نہ رکھنا ہزار درجہ افضل ہے جو گو اللہ کا روزہ نہیں رکھتا مگر اس کے بندوں کو بھی نقصان نہیں پہنچاتا۔

روزہ کا مقصود نفس کا انکسار اور دل کی شکستگی تھی۔ پھر اے شریر انسان! تو روٹی اور پانی کا روزہ رکھ کر خون اور گوشت کو کھانا کیوں پسند کرتا ہے: ﴿اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہ مَیْتًا فَکرِہتُمُوْہٗ

’’آیا تم میں سے کوئی پسند کرے گا کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے‘‘

من لم یدع قول الزور والعمل بہ فلیس للہ حاجة فی أن یدع طعامہ وشرابہ

’’جس شخص نے مکر و فریب نہ چھوڑا اور اتقائے صیام پر عمل نہ کیا سو اللہ کو کوئی حاجت نہیں کہ اس کے کھانے اور پینے کو چھڑا دے اور اسے بھوکا رکھے‘‘ (رواہ البخاری)

اللہ فرماتا ہے کہ

﴿لَنْ یَنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُہَا وَلاَدِمَائُہَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہٗ التَّقْویٰ مِنْکُمْ﴾ ’’اللہ تک تمہاری قربانیوں کا گوشت نہیں پہنچتا اور نہ ان کا خون، لیکن تمہارا تقویٰ اور تمہاری نیت پہنچتی ہے‘‘

اگر قربانی کا گو شت اللہ تک نہیں پہنچتا، تو اے مغرورِ عبادت اور مردم آزار صائم! تیری بھوک اور پیاس بھی اللہ تک نہیں پہنچتی، بلکہ وہ چیز پہنچتی ہے جو تیرے دل اور تیری نیت میں ہے۔ اگر تجھے وہ نعمت حاصل نہیں تو تجھے معلوم ہو کہ تیری ساری ریاضت اِکارت اور تیری ساری مشقت بیکار ہے۔

پس وہ لوگ جنہوں نے روزہ نہ رکھا اور اللہ کا حکم توڑا، اور وہ جنہوں نے رکھا، پر اس کی حقیقت حاصل نہ کی، ان دونوں کی مثال ان دو لڑکوں کی سی ہے جن میں سے ایک تو مدرسہ جانے کی جگہ گھر میں پڑا رہتا ہے، اور دوسرا مدرسہ میں تو حاضر ہوتا ہے لیکن پڑھنے کی جگہ دن بھر کھیلتا ہے۔ پہلا لڑکا مدرسہ نہ گیا اور علم سے محروم رہا۔ دوسرا گیا اور پھر بھی محروم رہا۔ البتہ جانے والے کو نہ جانے والے پر ایک درجہ فضیلت حاصل ہے، لیکن اگر وہ مدرسے جا کر لوگوں کو تکلیف پہنچاتا ہے تو بہتر تھا کہ وہ نہ جاتا۔

پھر خدارا غور کرو کہ ہمارا ماتم کیساشدید اور ہماری بربادی کیسی المناک ہے؟ کس طرح حقیقت ناپید اور صحیح عمل مفقود ہو گیا ہے۔ اس سے بڑھ کر شریعت کی غربت اور احکامِ الٰہیہ کی بے کسی کیا ہو گی کہ مسلمانوں نے یا تو اسے چھوڑ دیا ہے یا لباس لے لیا ہے، اصل صورت چھوڑ دی ہے ! آہ، یہ کیسی رُلا دینے والی بدبختی اور دیوانہ بنا دینے والا ماتم ہے کہ یا تو تم اس کے حکموں پر عمل نہیں کرتے یا کرتے ہو تو اس طرح کرتے ہو گویا اللہ سے ٹھٹھا اور تمسخر کرتے ہو۔ ’’فوا أسفا، واحسرتا وامصیبتا‘‘ جب حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے تو تنزل کا شکوہ کیوں اور تباہیِ ملت کی شکایت کیا ؟ فہل من مدکر؟؟

٭٭٭

٭٭٭٭

ماخذ:

ہفت روزہ ’الہلال‘ کلکتہ ۱۲/ اگست ۱۹۱۴ء بمطابق ۱۹ /رمضان ۱۳۳۲ھ )

محدث

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید