FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

احمد شاہ پطرس بخاری

 

 

                مختلف شخصیات

 

 

 

احمد بخاری

 

                ہیمرشولڈ

(سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ)

 

احمد بخاری سے میری پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب مجھے سیکرٹری جنرل کا عہدہ سنبھالے کوئی زیادہ مدت نہیں گزری تھی۔ اس وقت وہ اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کے رئیس تھے اور اپنی حاضر جوابی اور شگفتہ بیانی کی بدولت عظیم شہرت کے مالک تھے۔ اس کے علاوہ وہ اپنے ملک کے بدرجہ غایت مؤثر اور با وقار ترجمان ہونے کے اعتبار سے بڑے احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ ہماری پہلی گفتگو نے ان جذبات واحساسات میں کسی قدر اضافہ ضرور کیا۔ لیکن یہ اضافہ ان کی اس خیالی تصویر سے چنداں مختلف نہ تھا جس کے لیے وہ باہر کی دنیا میں معروف تھے۔ مجھے یاد ہے کہ کس طرح اس موقع پر انہوں نے اقوام متحدہ کے عالمی مسائل سے زیادہ انگریزی زبان کے ماورائی شعراء کے بارے میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔

کم و بیش ایک سال کے بعد جب مجھے اس ادارے کے لیے عالم اسلام کے ایک اعلیٰ نمائندے کی جستجو ہوئی تو قدرتی طور پر میرا ذہن بخاری کی طرف متوجہ ہوا اور مجھے یہ معلوم کر کے مزید مسرت ہوئی کہ وہ ہمارے عملے میں شرکت کے لیے رضامند ہیں۔ یوں پہلے پہل ان کی خود سپردگی کسی قدر اچنبے کی بات تھی۔

جنوری ۱۹۵۵ء میں وہ میرے ہمراہ پیکنگ گئے جہاں مجھے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ہوا بازوں کی ایک جماعت کو رہا کرانے کے لیے بات چیت کرنی تھی۔ کچھ شک نہیں کہ وہ بڑے ہوشمند اور زیرک مشیر تھے لیکن اپنے فرائض منصبی کی بجا آوری کے ساتھ جس بات پر انہیں ز یادہ تسکین حاصل ہوئی وہ یہ تھی کہ انہیں مشرقی ایشیا کی تہذیب سے رابطہ پیدا کرنے کا اولین موقع ہاتھ آیا تھا۔ یہ تہذیب مغربی ایشیا کی ثقافت کے متوازی اوصاف رکھتی تھی کہ جس رنگ میں وہ خود رنگے ہوئے تھے۔

اس کے بعد مشرق وسطیٰ کے دوروں میں مجھے چند موقعوں پر ان کی رہنمائی سے استفادہ کا شرف حاصل ہوا۔ ان ہی سفروں کے دوران، میں نے ان کی قدر و قیمت کا اندازہ لگا کر یہ محسوس کیا کہ ان کی شخصیت پر ان کے عہد شباب کے تجربوں اور خاص کر ان کی خاندانی روایات کی کتنی گہری چھاپ ہے۔ ان کے تمام رفقاء اور احباب جانتے ہیں کہ ان کی قدرتی گرم جوشی اور سادگی میں حیا داری کس قدر رچی بسی ہوئی تھی۔ ان مرکب اوصاف کے پیچھے ان کے عمیق شریفانہ اطوار کارفرما تھے۔ دراصل وہ ایک احساس فخر بھی رکھتے تھے۔ جس کا اظہار انہوں نے میرے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے دو موقعوں پر کیا۔ ان میں سے ایک ان طنزیہ الفاظ سے بھی مترشح ہے کہ "میری پرورش و تربیت اونٹ کے کوہان پر ہوئی”۔

میں نے اس جگہ روایات کے اس پس منظر پر خاص زور دیا ہے جس سے انہیں واقعی دل بستگی تھی۔ دوسرے اصحاب بلاشبہ ان کی علمی فضلیت اور مغربی اقدار پر ان کی بصیرت کا ذکر کریں گے۔ فی الواقعہ انہیں انگریزی زبان اور اپنے علاقے کی زبانوں پر زبردست قدرت حاصل تھی اور وہ غیر معمولی طور پر مغربی ادب کے بھی بلند پایہ نقاد تھے۔

قدرتی طور پر میرے لیے لازم ہے کہ احمد بخاری کے اوصاف و کمال کے بارے میں جو کچھ میں نے کہا ہے اسے چند لفظوں میں سمیٹ کر یہ بیان کروں کہ ان کی یہ خصوصیات ایک سیاسی سفیر کی حیثیت میں کس طرح ظاہر ہوتیں اور اپنا اثر ڈالتی تھیں۔ یہ کام میں جیقس برزون (Jacques Barzun) کی تازہ تصنیف دی ہاؤس آف انٹی لیکٹ کا ایک اقتباس پیش کر کے بخوبی انجام دے سکتا ہوں۔ وہ لکھتے ہیں "حکمت عملی (سفارت) کا تقاضہ ہے کہ دوسرے کے افکار و اذہان سے آگاہی حاصل ہو یہ انشاءپرداز کا بھی ایک امتیازی وصف ہے مگر اس سے دوسرے درجے پر کہ وہ دوسروں کے دلائل کا جواب کس ہوشمندی اور واضح استدلال کے ساتھ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایک ‘حاضر دماغ’ سفیر اور ایک ‘پریشان خیال’ سفیر اصلاح میں ایک دوسرے کی ضد ہیں”۔

احمد بخاری حقیقت میں ان اوصاف پر پورے اترنے والے سفیر تھے جو مندرجہ بالا اقتباس میں بیان کئے گئے ہیں۔

 

۲۵ جون ۱۹۵۹ء

٭٭٭

 

 

 

 

عالمی شہری

 

                نیویارک ٹائمز

(مورخہ ۷ دسمبر ۱۹۵۸ء اداریہ)

 

جب سے کپلنگ نے "مشرق مشرق ہے اور مغرب مغرب” کا گیت گایا اسی دن سے ہم مختلف اور متصادم معاشروں کے تعلقات کے بارے میں زیادہ سوچ بچار کر رہے ہیں۔ ہمیشہ ہم اسی فکر میں رہتے ہیں کہ کوئی ایسا مرکب مل جائے جو ہر ایک کی بہترین خوبیوں کو محفوظ کر دے۔

کبھی کبھی ہمیں کسی ایسی ہستی کی موجودگی کا یقین ہو جاتا ہے جو ہمارے تخیلات کو عمل کی دنیا میں لے آتی ہے۔ ابھی ابھی ہمیں پاکستان کے سفیر پروفیسر احمد شاہ بخاری کی بے وقت موت کی شکل میں ایسی ہی ایک شخصیت کے ضیاع کا سامنا ہوا ہے جنہوں نے اقوام متحدہ میں رئیس شعبہ اطلاعات کی حیثیت سے خدمات انجام دیں وہ صحیح معنوں میں عالمی شہری تھے۔

پروفیسر کا تعلیمی پس منظر مشرق اور مغرب۔۔ پنجاب یونیورسٹی اور کیمبرج۔۔ دونوں کو آغوش میں لیے ہوئے ہے وہ دنیا کے دونوں حصوں کی زبان کے قادر الکلام شاعر تھے۔ انہوں نے مشرق اور مغرب دونوں کی زبانوں اور محاوروں کا راگ الاپا۔ وہ مشرق اور مغرب دونوں کے نزدیک عالم تھے۔

لیکن مشرق اور مغرب کا یہ ملاپ اس سے بھی زیادہ گہرا ہے، سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ایک عظیم انسان تھے۔۔ حاضر جواب، شائستہ، دانش مند، زندہ دل، اور گرم جوش۔ وہ خود پسندی کی نمائش سے پاک تھے، انہیں زندگی سے اُنس تھا۔ وہ اس دنیا میں بسنے والے لوگوں سے ان کی قومیت، رنگ، نسل، مذہب، یا پیشے کا خیال کئے بغیر محبت کرتے تھے۔ ان کی روح ان کے ذہن کی طرح تنگ سرحدوں کی قائل نہ تھی۔

ہزاروں امریکی جنہیں ان سے ذاتی شناسائی کا شرف حاصل ہے ان کی موت کو اپنا ذاتی رنج محسوس کر رہے ہیں سب سے بڑھ کر اس لیے کہ وہ دوست تھے۔ لیکن یہ نقصان ذاتی نہیں بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہے۔ دنیا ایک ایسے شخص کے اُٹھ جانے سے مفلس تر ہو گئی ہے جو ہمیں بہتر طریق سے یہ دکھاتا تھا کہ آسودہ مستقبل کے لیے کون کون سی اچھی باتیں ممکن ہیں۔

(ترجمہ)

٭٭٭

 

 

 

بھلے مانس بنو

 

                نیویارکر

 

 

ہم نے سُن گن پائی کہ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے پروفیسر احمد شاہ بخاری ہیں جو عام طور پر عرب ایشیائی بلاک کے قابل ترین ترجمان سمجھے جاتے ہیں اور وہ پاک و ہند کے سرکردہ مزاح نویس بھی ہیں۔ مستقل نمائندوں اور مزاح نویسوں میں مجموعی طور پر یا الگ الگ دلچسپی رکھنے کے باعث ہم نے پروفیسر بخاری کی تصانیف حاصل کرنی چاہیں لیکن ہمیں معلوم ہوا کہ ان میں سے کسی کا ترجمہ انگریزی میں نہیں ہوا۔ ہم نے یہ ٹھان لی کہ ان کا پیچھا ضرور کریں گے خود پروفیسر صاحب کو ٹیلی فون کیا اور ہمیں اقوام متحدہ کی عمارت میں لنچ پر حاضر ہونے کی دعوت مل گئی۔

بہرکیف پروفیسر صاحب ان چند خوش دل، با مروت اور ذی علم مستقل نمائندوں یا مزاح نویسوں میں سے ایک ہیں جن سے ہم مدت کے بعد ملے ہیں۔ انہوں نے دریائے ایسٹ سے توجہ ہٹا کر کھانے کی طرف ہماری رہنمائی کی۔ بھنا ہوا گوشت اور ٹوماٹو منگوایا اور کہا کہ”پاکستان کی آزادی کے بعد ۱۹۴۸ء تک وہ ایک استاد، مترجم اور مصنف تھے، سیاسی سفیر نہ تھے۔ ۱۹۴۷ء سے وہ گورنمنٹ کالج لاہور کے صدر (پرنسپل) تھے۔ تیس برس وہ اس کالج میں ادب کے پروفیسر رہے۔ انہوں نے اس درس گاہ کے تجرباتی تھیٹر کے لیے دوسری چیزوں کے علاوہ شیکسپئیر اور برنارڈ شا کے بہت سے ڈرامے اردو میں ترجمہ کر کے دیئے جن میں امبن کا ڈرامہ "گڑیا گھر” اور اطررائس کا ڈرامہ”جمع کرنے والی مشین”بھی ہیں”۔ پروفیسر نے ہمیں بتایا کہ” ہارون الرشید کے زریں دور کے بعد گذشتہ چالیس سال کا زمانہ اسلامی دنیا میں تراجم کے لیے بڑا سازگار رہا ہے۔ پہلے زمانے میں مسلمان ہر اس چیز کا ترجمہ کر لیتے تھے جو فلسفہ اور سائنس میں ان کے ہاتھ لگتی تھی۔ اب ادب کے تراجم پر زور صرف ہو رہا ہے۔ تمہیں شیکسپئیر کو اردو میں سننا چاہیئے۔ لاہور کی مقامی بولی میں "پیندا” نہایت ظریفانہ لفظ ہے شیکسپئیر کی حیرت انگیز خوبی یہ ہے کہ ترجمہ خواہ کتنا ہی برا کیوں نہ ہو ڈرامے سے کچھ نہ کچھ لطف حاصل ہو ہی جاتا ہے۔

تیز نیلی آنکھوں والے پروفیسر بخاری نے جو ٹویڈ کا سوٹ پہنے اور نیلے رنگ کی ٹائی لگائے ہوئے تھے برطانیہ اور امریکہ کی غیر افسانوی کتابوں کے ترجمے بھی کئے ہیں۔ اردو کا ایک مزاحیہ رسالہ بھی مرتب کرتے رہے ہیں انہوں نے انگریزی اور اردو میں ادبی تنقیدیں بھی لکھی ہیں۔ مزاح نگار کی حیثیت سے ان کی شہرت تین یا چار سو مختصر افسانوں پر پھیلی ہوئی ہے جو انہوں نے پطرس کے قلمی نام سے لکھے تھے۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ”ان افسانوں کی مقبولیت کی بعض وجوہ یہ ہیں کہ وہ غلط ہیں نقادوں نے ان کے بارے میں کہا کہ یہ افسانے اگرچہ مزاحیہ ہیں لیکن انہیں بے دھڑک گھروں میں لے جایا جا سکتا ہے۔ ”

پطرس کو پاکستان میں شگفتہ ترین شخص مانا جاتا ہے۔ ان کے چند افسانوں کا ترجمہ انگریزی میں ہو چکا ہے۔ جنہوں نے اہل برطانیہ کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ برطانیہ والے کہتے ہیں کہ انہیں یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ ایک مشرقی مزاحیہ نگار ایسا بھی ہے جو "غزالی” آنکھوں اور ناموافق حالات کو اپنی تحریروں کا مرکز نہیں بناتا۔ ہم نے پوچھا "آخر پطرس اپنی توجہ کا مرکز کس چیز کو بناتا ہے ؟” پروفیسر بخاری نے جواب دیا "میری کہانیوں کا مثالی کردار ہمیشہ ایک معمولی آدمی ہوتا ہے جس میں بہت سی کمزوریاں اور کوتاہیاں ہوں۔ حادثات اسے ایسے ناموافق ماحول میں پھینک دیں جسے وہ پسند نہ کرتا ہو۔ وہ ہمیشہ بڑا سیاستدان اور عظیم ادیب بننے کے خواب دیکھتا ہو۔ ایک کہانی میں وہ خطرناک سرغنہ بننے کی کوشش کرتا ہے اور بالآخر ناکام رہنے کے نتیجے میں بہتر آدمی بن جاتا ہے اس نے اپنی تحریروں میں واحد متکلم اور جمع متکلم کا صیغہ استعمال کیا ہے تاکہ طنز کا نشانہ خود بیان کرنے والا بنے۔ پاکستانی اس بات کو بہت پسند کرتے ہیں۔ میرا اصول یہ ہے کہ:

"بھلے مانس بنو”

پروفیسر بخاری ۱۸۹۸ء میں پشاور میں پیدا ہوئے۔ اس صدی کے انتہائی بیس اور تیس برسوں کے درمیان چھ سال انہوں نے کیمبرج میں تعلیم پائی، دوسری عالمی جنگ کے وقت وہ آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ ان کی سفارتی زندگی کا آغاز ۱۹۴۰ء میں اس وقت ہوا جب وہ بین الاقوامی "ہائی فری کوئنسی براڈ کاسٹنگ کانفرنس” منعقدہ میکسیکو میں پاکستانی وفد کے رئیس کی حیثیت میں شریک ہوئے۔ ۱۹۵۰ء سے وہ اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کے ریئس چلے آرہے ہیں۔ وہ لسانیات کے بہت بڑے ماہر ہیں۔ ایک دفعہ انہوں نے کوکنی (Cockney) کے اختلافی لب و لہجہ میں مہارت حاصل کرنے کے لیے چھ مہینے صرف کئے تھے۔ انہوں نے بڑی گرم جوشی سے ہمیں بتایا "آپ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ کوکنی زبان اپنی گرامر اور حروف علت کا مخصوص نظام رکھتی ہے "۔ ہم امیدوار بن کر انتظار کرنے لگے۔ لیکن انہوں نے نے کہا۔ "اب میں کوکنی لب و لہجہ کی نقل اتارنے کی جرأت نہیں کروں گا۔ میرا خیال ہے کہ میں پھر شاہی انگریزی کی طرف لوٹ آیا ہوں اور بونوں کی جون سے نکل چکا ہوں۔ ”

ہم نے دریافت کیا کہ آپ سفارتی فرائض اور مزاح نویسی کو کس طرح یکجا کرتے ہیں؟ پروفیسر نے جواب دیا کہ۔ "مزاحیہ نویسی میں میری پیداوار بہت کم ہو گئی ہے ایک مشکل یہ ہے کہ وقت نہیں ملتا۔ دوسری مشکل یہ ہے کہ سفارتی کاروبار میں آپ بعض چیزوں پر ہنس تو سکتے ہیں لیکن مضحکہ اڑانے کی مقدار روایات نے مقرر کر دی ہے۔ ”

"مجھے نیویارک سے پیار ہے۔ میں بڑے شہر کا باشندہ ہوں تاہم ابھی مجھے ملامت کی جاتی ہے کہ میں چلنے میں بہت سست ہوں۔ دواؤں کے ذخیرے مجھے بہت دلچسپ نظر آتے ہیں۔ جب میں پہلے پہل یہاں آیا تو میں نے ایک سینڈوچ (سموسے ) کی فرمائش کی۔ اسٹال والے نے پوچھا۔ "سفید یارئی (یو گندمی)؟”اس کی بات سمجھنے میں مجھے کچھ وقت لگا۔ وہ یہ ہے کہ تمہاری زبان میں چک کا مطلب ہے بل۔ باقی کیا رہا؟ میں اپنے شاگردوں کو لاہور میں امریکہ کے متعلق طویل خط لکھا کرتا تھا تاکہ وہ مجمعوں کے سامنے پڑھ کر سنائے جائیں۔ ایک خط میں، میں نے لکھا کہ یہاں کے کونے کونے پر ایک ڈرگ اسٹور موجود ہے۔ انہوں نے جواب میں خطرے اور تعجب کا اظہار کیا۔ پھر اگلے خط میں اس کی تشریح کرنی پڑنی کہ یہ ڈرگ اسٹور زہریلی اور نشہ آور چیزیں نہیں بیچتے۔ جب معلومات اور واقفیت بڑھ جائے گی تو ممکن ہے کہ پطرس امریکہ کے بارے میں کچھ لکھے "۔

 

۱۰ ستمبر ۱۹۵۴ء

(ترجمہ)

٭٭٭

 

 

 

پروفیسر بخاری کے آخری لمحات

 

 

مارملی ہچمین

 

"وہ آخری لمحے تک زندہ رہے ” ان کے ڈاکٹر کا قول ہے "وہ کام کرتے ہوئے مرے "۔ اقوام متحدہ میں ان کے ایک رفیق کار کا کہنا ہے کہ دونوں حضرات پروفیسراحمد شاہ بخاری سے بہت قریبی تعلق رکھتے تھے۔ ان کے ڈاکٹر ان کے دوست بن گئے تھے۔ اور انہوں نے بخاری کے سفر زندگی کی رفتار کو حتی المقدور کم کرنا چاہا تھا مگر پروفیسر صاحب (جیسا کہ لوگ انہیں محبت سے کہتے تھے ) یہ نہیں چاہتے تھے کہ اپنے معذور ہونے کا اعلان کر دیں۔ گو وہ چند سال سے اچھے خاصے بیمار رہتے تھے۔ ان پر دل کا پہلا دورہ ۱۹ اگست ۱۹۵۳ء کو پڑا۔ پروفیسر بخاری کو اس کا اتنا شدید احساس تھا کہ وہ جب اسپتال میں طبی مشورے کے لیے گئے تو انہوں نے اپنا نام "مسٹر براؤن” لکھوایا۔ اس دورے کی وجہ سے وہ کمزور ہو گئے تھے لیکن انہوں نے اقوام متحدہ کے انڈرسیکرٹری کا کام شروع کرنے سے احتراز نہ کیا بلکہ چارج لینے سے قبل مسٹر ڈیگ ہیمرشولڈ کے ساتھ چین کے تاریخی دورے میں کام شروع کر دیا۔

وہ بڑی مصروف زندگی بسر کرتے تھے۔ انہیں کسی چیز کا خوف نہ تھا لیکن وقتاً فوقتاً ان پر دل کا دورہ پڑتا تھا۔ وہ بے ہوش ہو جاتے تو انہیں آکسیجن میں رکھا جاتا تھا۔ وہ کچھ دن آرام کر کے پھر اُٹھ کھڑے ہوتے تھے۔ اور پھر اس طرح مستعد نظر آتے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ گذشتہ چند سال سے ان کی صحت بری طرح گرنے لگی تھی۔ دل کے دورے جلد پڑنے لگے تھے۔ ان کی صحت جلد گر جانے کی کئی وجوہ تھیں۔ اول تو زندگی سے ان کی والہانہ محبت تھی۔ پھر وہ ریشہ دوانیاں جو ان کے خلاف ہوتی رہیں۔ جب کوئی تیز اور ذہین آدمی کسی بین الاقوامی ادارے میں اعلیٰ جگہ حاصل کر لیتا ہے تو اس کی باتیں ہوتی ہی رہتی ہیں۔

جب مسٹر ہمیرشولڈ کی مدت کے پانچ سال ختم ہو گئے اور ان کے نائبین کے استعفے دینے کی بات ہوئی تو رسم کے مطابق سب کو ایک سال کی توسیع دے دی گئی۔ یہ مدت توسیع اپریل ۱۹۵۹ء میں ختم ہو رہی تھی۔ اور اس کے بعد پروفیسر بخاری کولمبیا یونیورسٹی میں تعلیمی ذمہ داریاں سنبھالنے والے تھے۔ پہلے مہینے وہ بہت پریشان ہوئے۔ جب کہ اسمبلی کی ایک کمیٹی نے شعبہ اطلاعات کے بارے میں تحقیقات شروع کیں وہ چونکہ حد درجے کے حساس تھے اس لئے اس تحقیقات کے متعلق یہ سمجھتے تھے کے اس طرح سے ان پر تنقید کی جا رہی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ اسمبلی کئی سال سے شعبہ اطلاعات کے مصارف کم کرنے کی فکر میں تھی۔ اور اس کمیٹی کی تحقیقات اس لیے کئی سال کی جدوجہد کا آخری مرحلہ تھی۔ نومبر میں جب اس پانچویں کمیٹی کی بحث ہوئی تو ان لوگوں کو کامیابی ہوئی جو نام نہاد ماہرین کی سفارشات کی مخالفت کر رہے تھے۔ اور یہ طے پایا کہ یہ کام صدر دفتر کے ذمہ کر دیا جائے۔ اس کامیابی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اقوام متحدہ کے شعبہ اطلاعات کو محض پروپیگنڈہ بیورو بنا دینے کی نامہ نگاروں نے سخت مخالفت کی اور خود مسٹرڈیگ ہیمرشولڈ کو بھی اس پر شدید اعتراض تھا۔

 

موت کی باتیں

 

بحث کا جو نتیجہ نکلا اس سے گو پروفیسر بخاری مطمئن ہو گئے مگر اس بحث و مباحثہ کے دوران ان پر جو بار پڑا، ان سے ان کی وفات کا وقت قریب تر آ گیا۔ اگر یہ صورت حال پیدا نہ ہوتی تو شاید وہ مزید چھ ماہ سے دو سال تک زندہ رہ سکتے تھے لیکن جو کچھ ہوا یہ نہ ہوتا تب بھی غالباً زیادہ دن دنیا میں نہ رہتے۔ وہ اپنے ڈاکٹرسے اس تلخ ترین حقیقت (موت) کے بارے میں اکثر یہ سوال کیا کرتے تھے کہ "بتائیے خدارا بتائیے موت کب آئے گی؟”

گذشتہ اپریل میں نامہ نگاروں نے مسٹر ہیمرشولڈ کے اعزاز میں جو لنچ دیا تھا، اس میں پروفیسر بخاری بیمار ہو گئے ڈاکٹر نے انہیں کچھ ٹھیک ٹھاک کر دیا۔ انہیں انجکشن لگایا گیا جس سے ان کا بلڈ پریشر کم ہو گیا۔ اور وہ صاحبِ فراش ہو گئے۔ انتقال سے ایک دن قبل پھر ان کو انجکشن لگایا گیا۔ انہیں معلوم تھا کہ چلنے پھرنے اور اُٹھنے سے انہیں نقصان ہو گا مگر وہ اُٹھ بیٹھے اور آخر جو ہونا تھا وہ ہوا۔ وہ بے ہوش ہو گئے۔ اور انہیں آکسیجن میں رکھ کر گھر پہنچایا گیا۔ ڈاکٹروں نے جو کرسکتے تھے کیا، شام کو انہیں کچھ افاقہ معلوم ہوا۔

ڈاکٹر کو بھی بخاری کی طرح شیکسپئیر سے بڑی محبت تھی۔ اس شام کو ڈاکٹر نے ان سے پوچھا کہ میں رات آپ کے ساتھ بسر کرسکتا ہوا؟ پروفیسر بخاری نے کہا۔ "نہیں۔ نرس موجود ہے آپ زحمت نہ کریں”۔ اور پھر ڈاکٹر نے جاتے ہوئے مسکراتے ہوئے کہا۔ "خدا حافظ، شہزادہ شرمیں!”

صبح ہوتے ساڑھے پانچ بجے نرس نے ڈاکٹر کو اطلاع دی کہ مریض کی حالت تشویشناک ہے۔ سوا چھ بجے وہ اس دنیا سے سدھارچکے تھے۔ انہوں نے موت کا کرب تک محسوس نہ کیا۔ جمعہ کو اقوام متحدہ کی جتنی کمیٹیوں کے جلسے ہوئے سب میں انہیں خراج عقیدت پیش کیا گیا اور اسمبلی کے اجلاس میں بھی ان کا سوگ منایا گیا۔ پہلی کمیٹی میں جب انہیں خراج عقیدت پیش کیا جا چکا اور  آغا شاہی اس کا جواب دینے کے لیے اُٹھے تو ان کی آواز کانپ رہی تھی۔ پرنس علی خاں نے اسمبلی کے بھرے اجلاس میں کہا۔ "ان کے اُٹھ جانے سے اقوام متحدہ کے برآمدے سنسان نظر آئیں گے "۔

اقوام متحدہ کے شعبہ اطلاعات میں جو لوگ ان کے ساتھ کام کرتے تھے وہ ان سے بے پناہ محبت کرتے تھے اب یہ لوگ بہت افسردہ نظر آتے تھے نامہ نگاروں کو جو انہیں ایک مندوب کی حیثیت سے جانتے تھے (اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ پاکستان کے بہترین مندوب تھے اور پاکستان کو عرصے تک ایسا مندوب مشکل سے ملے گا) اب یہ احساس ہو گا کہ ان کے ہلکے پھلکے مزاحیہ جملوں میں کس قیامت کی ذہانت پوشیدہ ہوتی تھی۔

نامہ نگاروں نے انہیں شمالی افریقہ کی آزادی کے لیے نسلی امتیاز ختم کرنے کے لیے بڑے سے بڑے سیاست دانوں سے سوال و جواب کرتے دیکھا ہے اور وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ کبھی ان مباحثوں میں زیر نہ ہوئے تھے۔

ہمہ دم مسکراتی اور پُر مذاق شخصیت کے پس پردہ وہ ایک سنجیدہ بخاری بھی تھے۔ وہ مزاح کی نقاب اتار کر ضرورت کے وقت انتہائی سنجیدہ بات کرسکتے تھے اور کرتے تھے لیکن مزاح کی نقاب وہ تحفظ کے طور پر اکثر و بیشتر ڈالے رہتے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

 

ہر نغمہ جس کا حسن تمنائے گوش تھا

 

                محمد عبد الله قریشی

 

پروفیسر سید احمد شاہ بخاری پاکستان کے نہایت ذہین، نہایت روشن دماغ، بے حد ہنس مکھ، خوش پوشاک، خوش گفتار، مشہور ماہر تعلیم، انگریزی اور اردو کے صاحبِ طرز ادیب، منفرد مزاح نگار اور کامیاب سفیر تھے۔ ان کے بزرگ کشمیر سے ہجرت کر کے آئے تھے۔ مشہور مبلغ اسلام خواجہ کمال الدین مرحوم نے جب پشاور میں وکالت شروع کی تو بخاری کے والد سید اسد الله شاہ ان کے منشی تھے، وہیں یکم اکتوبر ۱۸۹۸ء کو سید احمد پیدا ہوئے۔ سید محمد شاہ رفعت مرحوم ان کے بڑے بھائی تھے اور سید ذوالفقار شاہ بخاری چھوٹے بھائی ہیں جو حال ہی میں ریڈیو پاکستان کے ڈائرکٹر جنرل کے عہدہ جلیلہ سے ریٹائر ہوئے ہیں۔

ابتدائی تعلیم پشاور میں حاصل کرنے کے بعد سید احمد شاہ بخاری نے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا وہ کالج میگزین "راوی” کے ایڈیٹر تھے۔ انھوں نے اپنے استاد واٹکنس سے عقیدت کی بنا پر اپنا قلمی نام پیٹرواٹکنس اختیار کیا اور اسی نام سے انگریزی کے روز نامہ سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور میں کئی مضامین لکھے جنھیں معاوضے کے قابل سمجھا گیا۔ مختلف اردو رسائل میں بھی بہت سے مضامین لکھے جو ادب، فلسفہ، طنز و مزاح اور فنون لطیفہ کے موضوعات پر پھیلے ہوئے ہیں۔ اردو میں وہ صرف پطرس کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔ "مضامین پطرس” اسی عہد کی یادگار ہیں۔

 

تکمیل تعلیم کے بعد انھوں نے انگلستان کا رخ کیا جہاں ایمانویل کالج کیمبرج میں داخلہ لے کر انگریزی ادب کے امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ وہاں کے اساتذہ کی رائے تھی کہ "بخاری کا علم اس قدر فراخ اور وسیع و بسیط ہے کہ ایک انگریز کے لیے بھی اتنا علم اس عمر میں رکھنا کم و بیش ناممکن ہے۔ ”

وطن واپس آنے کے بعد وہ پہلے سنٹرل ٹریننگ کالج پھر گورنمنٹ کالج میں انگریزی ادبیات کے پروفیسر ہو گئے۔ ان کی توجہ سے گورنمنٹ کالج کی تہذیبی، ثقافتی اور ادبی سرگرمیوں کی رفتار میں بہت ترقی ہوئی۔ انھوں نے مباحثوں میں حصہ لیا۔ مذاکروں میں جان ڈالی، ڈراموں میں اداکاری اور ہدایت کاری کے جوہر دکھائے اپنے دوست سید امتیاز علی تاج کے ساتھ مل کر کئی انگریزی ڈراموں کے اردو ترجمے کیے جن میں برناڈشا کا کھیل "آرمس اینڈ دی مین” ٹرنر کا کھیل "دی مین ہوایٹ دی پوپومیک” چیکو سلاویکی مصنف کیرل چپیک کا ڈراما "آریوآر” اور ایک ایکٹ کی نقل "باکس اینڈ کاکس” وغیرہ شامل ہیں۔

خالص تعلیمی کاموں میں بھی کسی سے پیچھے نہ رہے۔ ۱۹۲۴ء میں پنجاب ٹیکسٹ کمیٹی نے مبلغ دس ہزار روپے کی رقم مخصوص کر کے یہ اسکیم منظور کی کہ انگریزی کی بعض معلوماتی کتابیں جن سے لڑکوں اور لڑکیوں کو خاص دلچسپی ہو، مروجہ دیسی زبانوں میں ترجمہ کرائے جائیں تاکہ اردو ادب کی حوصلہ افزائی ہو، اس کے بعد کمیٹی ہر سال اس مقصد کے لیے روپیہ منظور کرتی رہی۔ ابتدا میں ڈاکٹر آر- ایچ- وائٹ ہاؤس اور پروفیسر بخاری اس کے ایڈیٹر مقرر ہو گئے۔ ایک دفعہ پروفیسر بخاری نے بھی رخصت لی مگر ان کی جگہ کوئی دوسرا آدمی نامزد نہ کیا گیا۔ فروری ۱۹۳۱ء میں جب پارکنسن صاحب بھی ولایت تشریف لے گئے تو کمیٹی نے ایک ایڈیٹوریل بورڈ بنا دیا جو مسٹر جی- سی- چیٹر جی، اے -ایس بخاری اور لالہ رنگ بہاری پر مشتمل تھا۔ یہ "پنجاب ایڈوائزر بورڈ بکس” کہلاتا تھا اور اس کا کام یہ تھا کہ ترجمے کے لیے کتابیں منتخب کر کے قابل اساتذہ سے انھیں اردو، ہندی اور پنجابی میں منتقل کرائے از خود نظر ثانی کر کے انھیں شائع کرنے کا اہتمام کرے چنانچہ مختلف موضوعات پر بیسیوں مفید اور دلچسپ کتابیں شائع ہوئیں اردو محکمے کی طرف سے اسکولوں میں بطور پیش کش بھیجی گئیں۔ ظاہر ہے کہ اردو کی تمام کتابیں نظر ثانی کے لیے بخاری کے حصے میں آئی ہوں گی۔

۳۲-۱۹۳۱ء میں بخاری کو پنجاب ٹیکسٹ بک کمیٹی کے سیکرٹری کا عہدہ پیش کیا گیا۔ چنانچہ اپنے فرائض منصبی کے علاوہ چار پانچ سال تک اس خدمت کو بھی باحسن الجوہ انجام دیتے رہے۔ سیکرٹری کی حیثیت سے آپ نے مندرجہ ذیل سالانہ رپورٹیں مرتب کیں جن سے کمیٹی کی کار گزاریوں کا پتہ چلتا ہے۔

 

سال ۳۲-۱۹۳۱ء حجم ۱۵۲ صفحات تاریخ اشاعت ۱۳ جون ۱۹۳۲ء

سال ۳۳-۱۹۳۲ء حجم ۱۱۶ صفحات تاریخ اشاعت ۱۵ جون ۱۹۳۳ء

سال ۳۴-۱۹۳۳ء حجم ۱۵۴ صفحات تاریخ اشاعت ۱۵ جون ۱۹۳۴ء

سال ۳۵-۱۹۳۴ء حجم ۵۸ صفحات تاریخ اشاعت ۲۶ مئی ۱۹۳۵ء

 

پطرس بخاری نے اس عرصہ میں دو تین ضخیم انگریزی کتابیں خود بھی ترجمہ کیں۔ ان میں ایک تو برٹرینڈرسل کی تصنیف تھی جس کا ترجمہ "تعلیم خصوصاً اوائل طفلی” کے نام سے ۱۹۳۵ء میں شائع ہوا۔ یہ ۴۰۷ صفحات کی کتاب ہے جس میں تعلیمی نصب العین، تربیت سیرت اور عام اصول تعلیم پر بحث کی گئی ہے۔

دوسری کتاب ہنڈرک فان لون کی اسٹوری آف مین کائنڈ تھی جس کی ترجمہ "نوع انسان کی کہانی” کے نام سے ۱۹۳۹ء میں طبع ہوا۔ یہ ۵۲۰ صفحات کی کتاب ہے اور موضوع کے لحاظ سے بے حد اہم ہے۔ ترجمہ منہ سے بولتا ہے کہ پطرس کا کیا ہوا ہے۔

تیسری کتاب ایگ-ایل برین صاحب کی تھی۔ انڈین سول سروس کے اس انگریزی حاکم نے "دیہات سدھار”۔ "سقراط ہندوستان کے گاؤں میں”- ” ہندستان کے گاؤں کی اصلاح” وغیرہ کئی مفید انگریزی کتابیں لکھی تھیں۔ جو بے حد مقبول ہوئی تھیں ان کی ایک کتاب کا ترجمہ بخاری نے غلام عباس کی مدد سے کیا جو "دیہات میں بوائے اسکاؤٹ کا کام” کے نام سے ۱۹۳۴ء میں شائع ہوا۔ دو سو صفحات کی اس کتاب میں دیہاتی اسکاؤٹوں کے ذہن نشین کرایا گیا ہے کہ وہ اپنے گھروں اور اپنے گاؤں کی بہتری کے لیے کیا کچھ کر سکتے ہیں۔ ”

بخاری انگریزی کی روح میں ڈوب کر اردو کی بلند سطح پر ابھرتے اور اس بے تکلفی سے ترجمہ کرتے تھے کہ اصل کا دھوکا ہونے لگتا تھا اور ترجمہ معلوم نہیں ہوتا تھا۔

۱۹۳۷ء میں آل انڈیا ریڈیو کا محکمہ قائم ہوا تو مسٹر فیلڈن کنٹرولر نے بخاری کی خدمات مستعارلے کر انھیں اپنا نائب منتخب کیا۔ وہ سات برس تک ریڈیو سے منسک رہے اور ۱۹۴۰ء میں کنٹرولر جنرل مقرر ہو گئے۔ اس عہدے کی بدولت ان کو بیشمار کانفرنسوں میں شرکت کا موقع ملا۔ ساتھ ہی دوسری جنگ عظیم کے دوران دولت برطانیہ کا پرو پیگنڈا کر نے کے لیے جو سپریم کمانڈ تھی اس میں بھی ان کی ضرورت محسوس کی گئی چنانچہ حکومت وقتاً فوقتاً ان کے مفید مشوروں سے فائدہ اٹھاتی رہی۔ اس سلسلے میں ان کو حکومت ہند کی طرف سے افغانستان بھی بھیجا گیا جہاں انھوں نے نمایاں خدمات انجام دیں۔

قیام پاکستان سے کچھ قبل وہ گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل نامزد ہوئے۔ اس حیثیت میں انھوں نے نہ صرف کالج کو فسادات کی زد سے محفوظ رکھنے میں اپنے غیر معمولی تدبر کا ثبوت دیا بلکہ گورنر مغربی پنجاب کے ایماء سے حکومت کے مہیا کردہ مستند مواد کی بنا پر مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کے قتل عام، کشمیر میں ڈوگروں کے مظالم، راشٹریہ سیوا سنگھ کی تخریبی سرگرمیوں اور سکھوں کی سازشوں اور سفاکیوں کے بارے میں چند رپورٹیں بھی مرتب کیں جو انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں محکمہ اطلاعات کی طرف سے شائع ہوئیں یہ ایسی قیمتی دستاویزات ہیں کہ اس عہد کی تاریخ لکھنے والا کوئی مورخ ان سے چشم پوشی نہیں کر سکتا۔

گورنمنٹ کالج ہی سے وہ لندن بھیجے گئے جہاں پاکستانی نمائندے کی حیثیت میں انھوں نے ان مذاکرات میں حصہ لیا جن کا تعلق انڈیا آفس کے املاک کی تقسیم سے تھا۔ ۱۹۴۸ء میں میکسیکو کے مقام پر ریڈیو کے بارے میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی۔ بخاری نے اس میں بھی پاکستان کی نمائندگی کی اور ایک نہایت مفید رپورٹ لکھی۔ ۱۹۴۹ء میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی میں آپ نے دولت پاکستان کی طرف سے شرکت۔ ۱۹۵۰ء میں جب لیاقت علی خاں مرحوم نے وزیراعظم پاکستان کی حیثیت سے ریاستہائے متحدہ کا دورہ کیا تو ہر شخص نے بخاری کی لیاقت کا لوہا مانا۔ بخاری اس تاریخی دورے میں ہر جگہ ان کے ہمراہ رہے۔ اس تمام عرصہ میں آپ نے روزانہ اکیس گھنٹے نہایت جانفشانی سے کام کر کے پاکستان کی عزت میں اضافہ کیا۔ اس سے اعصاب پر اتنا بوجھ پڑا کہ صحت خراب رہنے لگی مگر آپ کی خدمات کو اتنا سراہا گیا کہ اقوام متحدہ میں پاکستان کا مستقل مندوب نامزد کیا گیا۔ اس عہدے پر وہ ۱۹۵۴ء تک فائز رہے۔ اس جگہ ان کی شخصیت کا یہ پہلو سامنے آیا کہ وہ ایک باوقار مقرر اور سلجھے ہوئے سیاست دان بھی ہیں۔ ایک مرتبہ آپ نے اس کی مجلس شوریٰ کی صدارت بھی کی اور خوب نام پیدا کیا۔

حفاظتی کونسل کی مجالس میں بخاری کی شگفتہ اور متوازن تقریریں اتنی پسند کی جاتی تھیں کہ دنیا گوش بہ آواز ہو کر سنتی تھی۔ ان کی باتوں میں گلوں کی خوشبو تھی۔ ہر نغمہ تمنائے گوش تھا۔ تقریروں کے بعض حصے تو شیکسپیئر اور دوسرے بلند پایہ انگریزی ادیبوں کے حوالوں اور لطیف طنز و مزاح سے مزین ہو نے کی وجہ سے ادب پارے ہوتے تھے۔ پاکستان کے مسائل کو جس خوش اسلوبی اور سلیقے سے آپ نے پیش کیا وہ ہمیشہ یادگار رہے گا۔ تیو نیسیہ کے بارے میں انھوں نے ایک سچے اور مخلص مسلمان کا کردار جس انداز میں پیش کیا اس سے تمام دنیا کے مسلمان انھیں انتہائی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

۱۹۵۵ء میں بخاری کی صلاحتییوں کے پیش نظر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل مسٹر ڈاگ ہیمر شولڈ کی خواہش پر آپ کو اقوام متحدہ کے شعبۂاطلاعات کا ڈپٹی سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا۔ آپ پہلے ایشیائی ہیں جو اس عہدے پر فائز ہوئے۔ وہ اس عہدے سے اپریل ۱۹۵۹ء کے آخر میں سبکدوش ہونے والے تھے۔ انھوں نے کولمبیا یونیورسٹی میں ادبیات انگریزی کے پروفیسر کی حیثیت سے کام کرنے کی پیشکش قبول بھی کر لی تھی مگر عمر نے وفا نہ کی۔ ۵ دسبر ۱۹۵۵ء کی صبح کو نیو یارک میں آپ کی حرکت قلب بند ہو گئی۔ افسانۂ حیات سمٹ گیا اور یہ قیمتی وجود اجنبی دیار میں پیوند خاک ہو گیا۔

وہیں آرام گاہ آخری ہے اس سپاہی کی

ہمیشہ جو رہا سرگرم جنگ زندگانی میں

پروفیسر بخاری کی زندگی ایک مجاہد کی زندگی تھی اور ان کی موت شہادت کی موت، انھوں نے ملک و ملت کی خاطر ہر محاذ پر جنگ کی اور اس عزیز وطن کی خدمت میں جان دی انھوں نے اپنا شباب رنگین کیا اور جوانی چھڑکی تھی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ سیاحت کے لیے تو دنیا کا ہر ملک خوب ہے لیکن کوئی بیمار ہو تو اپنے وطن میں اور دفن ہو تو اپنی ہی مٹی میں۔ کیونکہ "انسان کو ہر وقت یہ توقع رہتی ہے کہ اس کے مر جانے پر کچھ غلغلہ ہو گا، کوئی تھامے گا، کوئی اٹھائے گا، کوئی روئے گا، کوئی چلائے گا” مگر ان کی یہ توقعات پوری نہ ہوئیں۔

دامن کو منہ پہ ڈال کے رویا نہیں کوئی

دنیا سے وہ اٹھے بھی تو کس بے کسی کے ساتھ

پروفیسر بخاری کی وفات سے نہ صرف پاکستان کو زبردست ملّی نقصان پہنچا بلکہ اقوام متحدہ کی سیاسی اور علمی محفلیں بھی سونی ہو گئیں۔ جنرل اسمبلی نے قرارداد اور تعزیت میں ان کے سانحہ ارتحال پر افسوس کا اظہار کیا اور ہر ملک کے نمائندے نے شاندار الفاظ میں ان کی علمی، ادبی اور سیاسی خدمات کا اعتراف کیا۔ ایرانی نمائندے نے کہا کہ بخاری کی ذات نہ صرف اپنے ملک کے لیے مایہ ناز تھی بلکہ عالم اسلام کے لیے بھی سرمایہ افتخار تھی۔ وہ فارسی خوب جانتے اور بولتے تھے۔ فارسی میں شعر کہتے اور فارسی کے قدیم جدید ادب سے بخاری واقف تھے۔

ایک ممتاز عرب خلیل عیسیٰ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور اپنے گہرے جذبات رنج و الم کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا۔

اقول وقدفاضت لعنی عبرة

الارض بتق والافلاء تذھب

یعنی میری آنکھیں اشکوں سے تر ہیں اور میں یہ کہہ رہا ہوں کہ زمین تو وہیں کی وہیں ہے لیکن احباب رخصت ہوتے جا رہے ہیں۔

اقوام متحدہ نے ان کی رحلت پر جو اعلامیہ شائع کیا اس میں آپ کی خدمات اور صلاحیتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔

"پروفیسر بخاری مشرق و مغرب کی میراث کے مالک تھے۔ یہی وہ نمایاں خصوصیت ہے جس کی بدولت ہم بین الاقوامی مسائل حل کر سکتے ہیں کیونکہ وسعت نظر و فکر کے بغیر یہ مشکل کام چل نہیں سکتا۔ نئی دنیا میں وحدت پیدا کرنے کے لیے لازم ہے کہ بزرگ میراث اور روایات پر کامل نظر ہو۔ جدید نسل کا فرض ہے کہ وہ اپنے اندر وہی فضائل و  نکارم پیدا کرے جو بخاری کی شخصیت میں آشکار تھے ”

پروفیسر بخاری کی دنیا محدود نہ تھی۔ ان کا مزاج مشرقی ذہن مغربی اور طرز فکر عالمگیر تھا۔ انھوں نے علمی اور ادبی یادگاریں زیادہ نہ چھوڑیں جو کچھ لکھا خوب سوچ سمجھ کر لکھا۔ ان کی ہر تخلیق ایک کارنامہ ہے۔ آخری زمانے میں فرینکلن پبلیکشنز والوں نے تالیف و ترجمے کے کام میں ان کا تعاون حاصل کرنا چاہا۔ بخاری نے سنکلیئر لیوئس کے ناول "ایرسمتھ” کے ترجمہ کا ذمہ بھی لے لیا۔ مگر بے انتہا مصروفیتوں کے باعث اسے مکمل نہ کرسکے۔ اس کے بعد ان کی طرف سے بخاری کی خدمت میں یہ تجویز پیش کی گئی کہ امریکی مصنف مرو کے سلسلہ کتب "دس آئی بی لیو” کی طرز پر اردو میں ایک کتاب مرتب کر دیں۔ بخاری نے اس سلسلے کی کتابوں سے مجوزہ کتاب کے لیے چند ایسے مضامین انتخاب کیے جو پاکستان کے پڑھنے والوں کے لیے موزوں ہو سکتے تھے۔ انہوں نے منتخبہ دیباچہ بھی لکھا۔ یہ مسودہ عین اس روز لاہور پہنچا جس کی شام کو ریڈیو پاکستان نے بخاری کی وفات کی خبر نشر کی۔

وصل اس کا خدا نصیب کرے

میر جی چاہتا ہے کیا کیا کچھ

٭٭٭

 

 

 

 

بھائی بھائی

 

                سید ذوالفقار علی بخاری

 

سید ذوالفقار علی بخاری اپنے برادر محترم سید احمد شاہ بخاری پطرس مرحوم کی موت کے بعد ان تمام یادوں کو جو اُن سے وابستہ ہیں "بھائی بھائی” کے نام سے ایک کتابی صورت میں یکجا کر رہے ہیں اور اس طرح اپنے اس سراپا زندگی بھائی کو موت کے بے رحم ہاتھوں سے چھین کر اپنے لیے زندہ رکھنا چاہتے ہیں جن کی موت کا یقین کر لینے کے بعد زندگی کا اعتبار اور بھی اُٹھ جاتا ہے۔

سید ذوالفقار علی بخاری کی اس کتاب کا ابھی بچپن ہے مگر اسی دور کے چند اقتباس میں نے اس لیے حاصل کر لیے ہیں کہ پڑھنے والے کو یہ اندازہ ہو سکے کہ سب کا پطرس خود اپنے بھائی کے لیے کیا تھا۔

میں جناب علامہ عباس کا ممنون ہوں کہ ان کی وساطت سے مجھ کو یہ اقتباس نقوش کے لیے حاصل ہو سکے اور طفیل صاحب سے سرخروئی ہوئی۔

 

(شوکت تھانوی)

* * *

 

بھائی جان اسکول میں پڑھتے تھے اور میں ابھی اسکول میں داخل بھی نہیں ہوا تھا۔ والد گھر آئے تو بہت خوش تھے۔ میری والدہ سے کہا مبارک ہو کل پیر احمد شاہ کو اسکول میں انعام ملے گا”۔

بھائی گھر آئے تو میں نے کہا ” لالہ اسکول میں مار پٹتی ہے یا انعام ملتا ہے "۔

پھر رات بھر ہم دنوں بھائی جاگتے رہے۔ وہ مجھے اسکول کے قصے سناتے رہے اور میں سنتا رہا۔ مجھ سے کہنے لگے "تم بڑے ہوتے تو میں تم کو کل ساتھ لے جاتا”۔

میں رو پڑا۔ انہوں نے مجھے اُٹھ کر پیار کیا اور کہا۔ "اچھا دیکھو کل میں تمہاری شلوار پہن کر انعام لینے جاؤں گا”۔

میں یہ سن کر بہت خوش ہوا اور ہنسی خوشی سو گیا۔ اگلے دن وہ میری شلوار پہن کر انعام لینے کے لیے گئے۔ ان کو کچھ کتابیں انعام میں ملی تھیں۔ جن پر سرخ رنگ کا دفتری فلیتہ بندھا ہوا تھا۔ کئی دن تک وہ فلیتہ میرے پاس رہا اور میں محلے کے لڑکوں کو دکھاتا رہا۔

میں اسکول میں داخل ہو گیا۔ بھائی جان کے ساتھ اسکول جانے لگا۔ میرے ہاتھ پاؤں کچھ ڈھیلے ڈھیلے تھے۔ کبھی بغل میں سے بستہ سرک جائے کبھی تختی پھسل جائے۔ کبھی میں گر پڑوں۔ چنانچہ بھائی میرا بستہ خود اٹھا لیتے اور انگلی پکڑ کر مجھے ساتھ چلاتے۔

جب میں نے سڑک پر جم کر پاؤں رکھنا سیکھ لیا تو بھائی جان نے اپنا بوجھ مجھ پر لادنا شروع کر دیا۔ اب ان کا بستہ میں اٹھا کر لے جاتا تھا۔ کبھی ان کو اسکول جاتے ہوئے کچھ اور لڑکے مل جاتے تو یہ لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے مجھے پیچھے چھوڑ کر آگے نکل جاتے۔ میں رو پڑتا اور روتے روتے اسکول پہنچتا۔

اسکول میں سالانہ جلسہ ہوا۔ اس وقت ہمارے صوبہ کے چیف کمشنر سرجارج روس کیپل تھے اور وہی جلسے کے صدر تھے۔ شہر کے تمام رؤسا اور حکام جلسے میں شریک تھے۔ ہمارے والد بھی تشریف رکھتے تھے۔ اسکول کے کئی لڑکوں نے نظمیں پڑھیں۔ بھائی جان نے بھی انگریزی میں ایک نظم پڑھی ان کی خواندگی کی بہت داد دی گئی۔ سرجارج روس کیپل بھی بہت خوش ہوئے۔

جلسہ ختم ہو گیا اور لوگ ٹولیوں میں کھڑے ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے یا ایک دوسرے کو الوداع کہہ رہے تھے۔ بھائی جان اور میں والد کے پاس کھڑے تھے۔ لوگ والد کو مبارکباد دے رہے تھے اور بھائی جان کو پیار کر رہے تھے کہ اتنے میں بھائی جان کے لیے ڈھنڈیا پڑی۔ ہمارے ایک ماسٹر صاحب بھاگتے ہوئے آئے

اور کہا "چلو پیر احمد لاٹ صاحب بلا رہے ہیں”۔

میں بھائی جان کو لیئے ہوئے جلدی جلدی وہیں جمگھٹے میں پہنچا جس کے بیچ میں سرجارج روس کیپل کھڑے تھے۔ والد آہستہ آہستہ پیچھے پیچھے آنے لگے۔ جب سرجارج روس کیپل نے بھائی جان کو دیکھا تو آگے بڑھے اور بھائی جان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر انگریزی میں کہا۔ "تم نے نظم بہت اچھی طرح پڑھی۔ تمہارا لہجہ بھی اچھا ہے اور تلفظ بھی۔ شاباش”۔

اتنے میں والد بھی مجمع میں پہنچ گئے۔ سرجارج روس کیپل نے میرے والد سے مصافحہ کیا اور بھائی جان کے متعلق تعریفی جملے پشتو میں کہے۔ والد نے کہا”صاحب جو لفظ کہہ رہے ہو یہیں لکھ دو تاکہ یہ لڑکا تمام عمر تمہارے کہے کی لاج رکھے ”

سرجارج نے بھائی کی بغل سے انعام کی کتابوں کے بنڈل میں سے ایک کتاب کی جلد کے اندر کی طرف پنسل سے یہ الفاظ لکھے "اے کاش میں پشتو اتنی اچھی طرح بولنے لگوں جتنی اچھی طرح چھوٹا پیر۔ پیر احمد شاہ انگریزی بولتا ہے "۔

یہ سند بہت مدت تک والد نے سنبھال کر رکھی تھی۔ اگلے دن صوبہ سرحد کے واحد اخبار ‘افغان’ میں اس سند کی کہانی شائع ہوئی۔ عنوان تھا:

"چھوٹا پیر۔۔ پیر احمد شاہ”

بھائی بڑے ہوتے گئے اور ہر سال اسکول میں انعام پاتے رہے۔۔ میں بھی پانچویں سوار کی طرح ان کے پیچھے پیچھے چلتا رہا۔ ہمارے ایک بڑے بھائی تھے۔ پیر محمد شاہ، الله انہیں غریق رحمت کرے، بہت تیز مزاج بزرگ تھے۔ ہم دونوں کو ان سے بہت ڈر لگتا تھا۔ لیکن کئی باتوں میں ہم ان کی پیروی بھی کرتے تھے۔ مثلاً ان کو انگریزی ڈھب کے کپڑے پہننے کا بہت شوق تھا۔ ہم کو بھی یہ شوق لاحق ہوا۔ وہ شعر کہتے تھے اس لئے والد کے منظور نظر تھے۔ ہم دونوں نے بھی شعر کی طرف توجہ کی۔ جب ہماری شعر گوئی کی خبر بڑے بھائی تک پہنچی تو وہ بہت ناراض ہوئے اور والد نے بھی اس بات کو نہ سراہا کہ ہم اسکول کا کام چھوڑ کر شعر و شاعری میں پڑ جائیں۔ خود والد شعر کہتے تھے۔ لیکن بچوں میں سے کسی اور کا شعر و شاعری کی طر ف متوجہ ہونا شروع شروع میں انہیں پسند نہ آتا تھا۔ بھائی شعر کہتے مگر انہیں فضول سمجھ کر پھاڑ دیتے۔ میں شعر کہتا اور فضول بھی کہتا تو لوگوں کو سناتا۔ میں نے بہت سے تخلص رکھے۔ اثر۔ ذوالفقار۔ وجدان، مگر ان میں سے کوئی نہ مجھے پسند آیا نہ میرے بھائی کو۔ ایک دن جب اس تخلص کا جھگڑا د ر پیش تھا تو کہنے لگے تخلص کیوں ضروری ہے۔ میں نے کہا مقطع کے لیے۔ پھر کہا مقطع کیوں ضروری ہے، میں نے کہا تاکہ معلوم ہو کہ غزل کسی کی ہے اور باقی شعر۔ میں چپ ہو گیا اور تخلص رکھنے کا خیال دل سے نکال دیا۔

ایف اے پاس کرنے کے بعد بھائی جان گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہو گئے اور ان کے خط آنے لگے۔ ایک خط میں بھائی نے مجھے لکھا کہ میں نے یہاں راجا غضنفر علی خان اور پنڈت اوتار لال بقایا کودوست بنایا ہے۔ راجہ غضنفر علی خان تو بہت بے سرے ہیں لیکن پنڈت اوتار لال بہت خود گاتے ہیں اور باجا بھی بجاتے ہیں۔ میں نے بانسری بجانی سیکھ لی ہے اور ان کے باجے کے ساتھ بانسری بجاتا ہوں۔ بھائی نے مجھے تاکید کی کہ اس بات کو صرف اپنے تک رکھوں۔

٭٭٭

 

 

 

 

آبگینہ تندیٴصہباسے پگھلا جائے ہے

 

                سرظفر الله خاں

 

احمد شاہ بخاری سے میری پہلی ملاقات ۱۰۱۶ء کے آخری ایام میں ہوئی جب میں اور وہ  (لاہور میں) کالج کے طالب علم تھے۔ میری ان کی رفاقت چالیس سال سے زیادہ عرصہ تک جاری رہی۔ ابتدائی دور ہی میں ان کے جگمگاتے اوصاف ہر اس شخص کا دل موہ لیتے تھے جسے ان کے ساتھ واسطہ پڑتا تھا۔ انگریزی زبان پر انہیں غیر معمولی قدرت حاصل تھی۔ ان کی یہ امتیازی خصوصیت کیمبرج اور بالآخر امریکہ میں بھی برابر قائم رہی۔

بخاری ہر اس صحبت یا اجتماع کی روح رواں ہوتے تھے۔ جس میں انہیں شامل ہونے کا موقع ملتا تھا۔ وہ بڑے تیز فہم اور حاضر جواب تھے۔ ان کی شخصیت گوناگوں صفات حسنہ کی حامل تھی۔ انگریزی زبان پر قدرت، ہر دور کے انگریزی ادب سے قریبی واقفیت، ملٹن اور شیکسپئیر کی تصانیف سے گہری شیفتگی، یہ ایسی خصوصیات ہیں جو بخاری کی شخصیت میں متوازن طور پر جمع ہو گئیں تھیں اور ان کی گفتگو، حاضر جوابی، مکالمے اور مباحثے کے دوران پھلجھڑیاں بن کر اپنے اظہار کی راہیں تلاش کر لیتی تھیں۔ اسی طرح اردو میں بے تکلف اظہار اور اس کی آمد برابر کا وصف سمجھی جا سکتی ہے۔ یہ بات عام طور پر معلوم نہیں لیکن بخاری بانسری بجانے میں بھی قابل تعریف مہارت رکھتے تھے۔

وہ مغربی پاکستان کی قدیم ترین تعلیمی درسگاہ گورنمنٹ کالج لاہور میں پہلے انگریزی کے پروفیسر اور بعد میں پرنسپل مقرر کئے گئے۔ یہ بات انگریزی زبان اور ادب میں ان کے بلند مقام کی آئینہ دار ہے۔ مگر یہ ان کے ایک جز کی قدردانی تھی۔ انہوں نے سفارت کے میدان میں اس کے برابر امتیازی مراتب کے حصول کا سلسلہ جاری رکھا اور بالآخر بین الاقوامی تنظیم میں داخل ہو کر اپنی زندگی کا اعلیٰ ترین مقام پا لیا۔ زندگی کی دوڑ میں جو یکساں طور پر درخشاں تھی وہ جہاں رکے اور جس رتبے پر فائز ہوئے وہاں ہر شخص نے انہیں صف اول کے لوگوں میں شمار کیا۔

بخاری زندگی کے ابتدائی دور ہی میں صحت کی تشویش ناک خرابی کا شکار ہو گئے تھے اور عمر بھر یہ روگ پالتے رہے۔ جب وہ آل انڈیا ریڈیو میں مسٹر فیلڈن کے ساتھ کام کر رہے تھے تو حیاتی لحاظ سے بہت آزردہ اور دل شکستہ رہتے تھے۔ انہیں خرابی ِصحت کی شدید کیفیت کا مقابلہ بھی درپیش تھا جس نے بعد ازاں کم و بیش دائمی مرض کی حیثیت اختیار کر لی تھی۔ ان ایام میں انہوں نے اس مرض کے پے درپے تکلیف دہ حملوں کا مقابلہ بڑی ہمت اور پامردی سے کیا۔ اور اپنی جسمانی تکلیف کو اپنے فرائض کی بجا آوری میں حائل نہ ہونے دیا۔ بعد میں جب وہ مسٹرفیلڈن کی جگہ آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل بنائے گئے تو انہوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ اس بات نے انہیں اس قابل بنا دیا کہ وہ اپنی تکلیف دہ بیماری کا مقابلہ کسی قدر کامیابی کے ساتھ کرسکیں۔

یہ کہنا مشکل ہے کہ ۱۹۵۳ء میں ان پر بیماری کا جو ناگہانی حملہ ہوا اسے ان کی مستقل رنجوری سے کوئی علاقہ تھا یا نہیں تاہم یہ حملہ شدید تھا جس کی وجہ سے انہیں کئی ہفتے ہسپتال میں رہنا پڑا۔ اس حملے سے وہ بچ گئے تو ہم سب نے آپ کو مبارکباد کا مستحق قرار گردانا تاکہ وہ اپنی دلچسپی کے مختلف میدانوں میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔ ہم پُر امید ہو گئے کہ مناسب احتیاط سے وہ اپنی فیض رساں اور لطف اندوز زندگی کے کئی مزید سال ہمارے درمیان بسر کرسکیں گے۔

جتنا عرصہ انہوں نے اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے کی حیثیت سے کام کیا، ہمیں مل جل کر بہت قریب رہنے کا موقعہ ملتا رہا۔ ان ہی دنوں مجھے بخاری کی ذہانت و تدبر کے بعض ایسے اوصاف کو بہ نظر غائر دیکھنے کا موقع ملا جو پہلے چنداں واضح اور روشن نہ تھے۔

اس اطلاع نے کہ بخاری خود کے دباؤ سے صاحب فراش ہو گئے مجھے اچانک صدمہ پہنچایا لیکن جب میں نے نیویارک پہنچ کر دیکھا کہ ان کی حالت بہتر ہو رہی ہے تو دل کا بوجھ ہلکا ہو گیا۔ اگرچہ انہیں تندرست ہونے کے لیے کئی ہفتے انتظار کرنا پڑا۔

اٹھارہ ماہ بعد وہ اقوام متحدہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل مقرر ہوئے۔ اس بات نے ان کے لیے موقع مہیا کیا کہ وہ اپنی قابلیت اور استعداد احسن طریقہ پر پوری وسعت کے ساتھ بروئے کار لائیں۔ اقوام متحدہ میں انہوں نے جو خدمات سرانجام دیں وہ سب کو معلوم ہیں۔ ابھی انہوں نے اقوام متحدہ میں اپنے فرائض انجام دینے شروع نہیں کئے تھے کہ مجھے اپنے موجودہ منصب کے لیے منتخب کر لیا گیا۔ اس کے بعد مجھے بخاری سے ملنے کے مواقع بہت میسر آئے۔ البتہ جب کبھی میں نیویارک جاتا تھا تو ان سے رابطہ پیدا کرنے کی کوئی نہ کوئی صورت نکال لیتا تھا۔ میرے دل میں یہ خطرہ پیدا ہونے لگا تھا کہ اگر بخاری کے قوائے جسمانی پر جو بوجھ پڑ رہا ہے وہ بہت بھاری ہے اور آخرکار ان کے دل پر اثر ڈال کر رہے گا۔ ایک اور بات جس نے میرے اس احساس خطر کو تیز تر کیا یہ تھی کہ بخاری تنہائی محسوس کرنے لگے تھے اور اس حال میں ایسے چھوٹے سے چھوٹے واقعات سے حد درجہ متاثر، فکرمند اور غمگین ہو جاتے تھے جنہیں عام حالات میں نظرانداز کر دیتے تھے۔ ان کی طبیعت کا یہ رخ سنبھالنا ثابت ہونے کی بجائے ان کی گرتی ہوئی صحت کی ایک علامت بن گیا۔

اچانک ان کے انتقال کی اطلاع، جو مجھے لندن کے اخبار "ٹائمز” کی وساطت سے ملی، میرے لئے صدمۂ عظیم تھی۔ اس صدمے کے اثر سے کچھ وقت گزرنے کے بعد ہی سنبھل سکا۔ مجھے یاد ہے کہ اس روز عدالت کے پرائیوٹ اجلاس میں، میں اپنے پیڈ پر کچھ لکھتا رہا یہ میری عادت کے سراسر خلاف بات تھی۔ میں ٹھٹکا اور جو کچھ میں نے لکھا تھا اسے دیکھا وہاں یہ شعر نظر آیا:

 

ہاتھ دھو دل سے یہی گرمی گر اندیشے میں ہے

آبگینہ تندی صہباسے پگھلا جائے ہے

یہ بخاری کے نمایاں ذہنی و فکری اوصاف کے لیے میرا لاشعوری خراج تحسین تھا۔ اور اس نقصان پر احساس رنج و الم کا اظہار، جسے ہم اس لیے زیادہ محسوس کر رہے ہیں کہ انہیں تربیتی برسوں سے لے کر بلندیوں پر پہنچنے کے وقت تک جانتے چلے آئے ہیں۔

خدا ان کی روح کو آسودگی نصیب کرے !

(ترجمہ)

٭٭٭

 

 

 

 

میرا نام بخاری ہے

 

                بی۔ اے۔ ہاشمی

 

کسی نے دروازے پر دستک دی۔

"آ جائیے۔ ”

"السلام علیکم۔۔۔ امتیاز ہیں؟”

"کمرہ آپ کے سامنے ہے دیکھ لیجئے۔ ”

نمایاں طور مسکراتے ہوئے "میرا نام بخاری ہے امتیاز نے کہا تھا کہ وہ آپ کے پاس آئیں گے تو ابھی تک نہیں پہونچے۔ ناگوار خاطر نہ ہو تو میں یہاں بیٹھ کر ان کا انتظار کر لوں۔ ”

"بسم الله۔ ”

یوں میری اور بخاری صاحب کی ۱۹۳۰ء میں پہلی ملاقات ہوئی۔

بخاری صاحب بیٹھ گئے۔ اِدھر اُدھر کی رسمی باتیں کرتے رہے پھر دہلی شہر گفتگو کا موضوع بن گیا۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ تک دہلی کے آثار قدیمہ سے لے کر کارخانہ داروں کے طورطریق اور رہن سہن کی باتیں ہوتی رہیں۔ سورج ڈھل گیا۔ مغرب کی اذانیں ہونے لگیں۔ بخاری صاحب بولے۔ امتیاز نہیں آئے میں نے آپ کا وقت ضائع کیا۔ زبان پر یہ لفظ تھے لیکن چہرے پر شادابی کہ اچھا کیا تیرا وقت ضائع کیا۔ پھر بولے آپ شام کو ٹہلنے نہیں جاتے۔ میں نے کہا التزاماً اس کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں۔ جی چاہے تو چلیے۔ یوں بخاری صاحب اور میں ٹہلنے نکلے جو پھر مہینوں لیکن بے قاعدگی سے جاری رہا۔ آٹھ بجے کے لگ بھگ واپس آئے تو پھر میرے کمرے میں۔ ملازم نے کہا میاں کھانا لے آؤں۔ میں نے کہا ہاں۔ اپنی کرسی پر اطمینان سے بیٹھے ہوئے فضا کو مخاطب بنا کر بخاری صاحب بولے اب چلنا چاہیئے۔ میں نے عرض کیا دال روٹی یہیں کھا لیجیے۔ انڈوں اور دہی کے اضافے کے بعد کھانا آیا۔ ہم دونوں نے معمولی اور مختصر کھانے کو آدھے گھنٹے سے زیادہ وقت میں ختم کیا۔ ساڑھے نو کے قریب بخاری صاحب بولے۔ اچھا بھائی میں چلا۔ میں گورنمنٹ کالج کے ہوسٹل کواڈرنیگل میں رہتا ہوں۔ میں بھی ہمراہی کے لیے ان کے ساتھ ہولیا۔ اور نیلے گنبد کے چوک سے واپس آ گیا۔

اس کے بعد کم و بیش بلا ناغہ شام کی ملاقاتوں کا سلسلہ کئی مہینوں تک جاری رہا۔

ہمارے ایک مشترکہ دوست کو بخاری صاحب کااس باقاعدگی سے میرے پاس تشریف لانا کچھ گراں گذرا۔ ایک دن وہ بولے کہ دیکھو بخاری! باوجود دیرینہ رسم کے تم میرے پاس نہیں آتے اور ہاشمی کے پاس روز آتے ہو، بخاری صاحب نے جواب دیا ملک صاحب یہ دل ملنے کے سودے ہیں۔ آپ اگر چاہتے ہیں کہ آپ کی خدمت میں روز حاضر ہوں تو میرے آنے کی ٹیوشن بلکہ ‘وزیٹنگ فی’ مقرر کر دیجیے۔ سو روپیہ مہینے پر روز ایک گھنٹہ کے لئے مقرر وقت پر حاضر ہوا کروں گا۔ البتہ اتوار اور چھٹی کے دن نہیں۔

بخاری صاحب بڑی ہموار طبعیت کے آدمی تھے۔ اکثر باتیں ہنسی میں ٹال دیتے تھے۔ غالباً وہ چھوٹی چھوٹی ناگواریوں کو دوسروں کا مذاق اڑانے والے کا خمیازہ سمجھ کر ایسا کرتے تھے لیکن جب گرم ہوتے تو بہت گرم ہو جاتے مگر شاذونادر۔

بیدل صاحب اس زمانہ میں انارکلی کے دہلی مسلم ہوٹل میں رہتے تھے۔ ان کے پاس کبھی کبھی امتیاز، بخاری، اور چند اور دوست ملنے جایا کرتے تھے۔ ایک دن بیدل صاحب نے از راہ شفقت دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا۔ کھانا شروع ہوا تو بیدل صاحب کو خیال آیا کہ بخاری صاحب کو دہی سے بہت رغبت ہے۔ بولے آپ لوگ دہی کھائیں گے۔ یک زبان ہو کر سب نے عرض کیا۔ جی ہاں۔ بیدل صاحب نے آواز دی۔ ارے لمڈے۔ ایک آنے کا دہی لے آ۔ سستا زمانہ تھا لیکن ایک آنے کا دہی تو اس وقت بھی ایک ہی آنے کا ہوتا تھا۔ بیدل صاحب یہ دہی کیا ملنے کے لیے منگایا ہے، بیدل صاحب ذرا تنک مزاج تھے، برہم ہو گئے۔ بخاری صاحب نے بھی خلاف معمول برہمی کا جواب برہمی سے دیا۔ بہرحال بات آئی گئی ہو گئی لیکن لوگ بدمزہ ہو کر لوٹے۔

بخاری صاحب غیر ارادی طور پر ہمیشہ محفل کی توجہ کا مرکز خود ہی رہنا چاہتے تھے۔ کبھی علم میں ٹھٹھول کی چاشنی اور کبھی ٹھٹول میں علم کی لاگ لفظوں کے الٹ پھیر سے، بات کی برجستگی سے ذہانت اور حسب موقع معصوم روئی سے وہ ہر بات اور ہر حرکت میں ایک ایسی لذت بھر دیتے تھے کہ محفل کی نگاہیں اور کان ان کے لیے وقف ہو جاتے تھے۔

ایکٹر اور تمثیل کار ایک معنوں میں خوش نصیب ہوتے ہیں۔ وہ اپنی پسند کے مطابق اپنے پارٹ تجویز کرتے ہیں۔ کبھی تخت شاہی اور کبھی کاسہ گدائی، کبھی ہمہ وقت خوش باشی اور خوش کامی اور کبھی پیہم مصائب وآلام۔ لیکن زندگی کا رنگ نرالا ہے۔ اس میں اپنی پسند اور انتخاب کو زیادہ دخل نہیں ہوتا۔ اس میں رنج اور خوشی توام ہیں۔ تاہم ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی زندگی کو تمثیل کار ہی بنا لے۔ مقصود صرف یہ ہوتا ہے کہ زندگی کا صرف وہی رخ پیش کرے جو اوروں کی خوشی اور اپنی بالیدگی کا باعث ہو۔ بخاری صاحب کی زندگی کا فلسفہ اور شیوہ یہی تھا۔ تاہم ان کے نیاز مندوں میں دو تین ایسے شخص بھی تھے جن کے سامنے دکھ سے رو دیئے ہوں یا خوشی سے ہنس پڑے ہوں۔ شاذونادر ہی سہی لیکن ایسا بھی ہوا ہے کہ یہ چہکنے والا بخاری اور ہر بات میں امرت گھولنے والا بخاری اپنے کسی نیازمند کے پاس آدھ آدھ گھنٹہ خاموش بیٹھا رہا ہے۔ ایسے موقعوں پر اس کا دل اس کی زبان سے زیادہ بلاغت اور ندرت سے اپنی کہتا تھا۔ اور دوسروں کی سنتا تھا۔ یہ لمحے اس کے نیاز مندوں کو نہیں بھول سکتے اور خواہ کوئی خود کو کتنا ہی زبان آور اور قلم کا دھنی کہے، بیان نہیں کئے جا سکتے :

 

محبت کے فسانے دیدہ و دل کی امانت ہیں

خیانت سے زباں کو محرم اسرار کر لینا

 

بخاری صاحب احسان فراموش نہیں تھے لیکن احسان مندی کے اعلان کے بھی قائل نہ تھے۔ ان کی رائے میں اظہار احسان مندی محسن کو خفیف اور خود کو بھکاری بنا دینے کے مترادف تھا۔ محکمہ تعلیم اور پھر آل انڈیا ریڈیو کی ملازمت کے زمانے میں وہ ہمیشہ جو مکھی لڑاتے رہے لیکن یہ کبھی ظاہر نہیں کیا کہ وہ عمریا زید سے برسرپیکار ہیں۔ ایک بار ریڈیو کی ملازمت کے دوران میں دشمن نے نرغہ کیا۔ وائسرائے کی ایگزیکوٹیوکونسل کے ایک مسلمان ممبر نے بے طلب ودرخواست پانسہ بخاری صاحب کے حق میں پلٹ دیا اور یوں بخاری صاحب نے تشویش سے نجات پائی لیکن اس کے بعد بخاری صاحب ان صاحب کے سامنے پڑنے سے بچتے رہے۔ میں اس قصے سے آگاہ تھا۔ ایک دن میں نے بخاری صاحب سے کہا کہ دیکھو فلاں نے تمہاری یہ مدد کی اور تم یوں طرح دے جاتے ہو کہ سامنے جا کر سلام و دعا بھی نہیں کرتے۔ وہ تمہارے شکریہ کے محتاج نہیں لیکن تمہاری شرافت کا تو یہی تقاضا ہونا چاہیئے کہ تم شکرگزار ہو۔ بولے۔ سنو بھائی یہ پرانے زمانے کے بزرگ ہیں۔ بے کہے انہوں نے کرم فرمایا تھا۔ ان کے احساس خوش کاری اور فتح مندی کو میں شکریہ کے چند جملے کہہ کر کیوں ضائع کروں۔

دوران ملازمت میں ہر ملازم کی طرح بخاری صاحب کو بھی اکثر اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے مختلف تدابیر اختیار کرنی پڑتی تھیں۔ گورنمنٹ کالج میں شعبہ انگریزی کے چیرمین کی جگہ خالی ہوئی۔ بخاری صاحب کو نظرانداز کر کے ایک فرنگی کو چیرمین بنادیا گیا۔ بخاری صاحب نے پرنسپل سے تحریری احتجاج کیا۔ اس نے اپنے فیصلے کو بحال رکھتے ہوئے بخاری صاحب کی درخواست ڈائریکٹر تعلیمات کے پاس بھیج دی۔ ڈائریکٹر نے بھی پرنسپل کے فیصلے کو بدلنے سے انکار کر دیا۔ بخاری صاحب نچلے نہ بیٹھے اور درخواست صوبے کے گورنر کو محکمانہ وسیلے سے ارسال کر دی۔ گورنر نے رو بہ کاری کو بلایا اور کہا کہ گورنمنٹ کالج میں تو انگریزی کا چیرمین انگریز ہی کو ہونا چاہیئے۔ بخاری صاحب نے جواب دیا۔ حضور کا ارشاد بجا لیکن اگر گورنمنٹ کالج میں شعبہ انگریزی کا چیرمین انگریز ہی کو ہونا چاہیے تو اس انگریز کے پاس انگریزی کی فرسٹ کلاس ڈگری بھی ہونا چاہیئے۔ بخاری صاحب کی ڈگری فرسٹ کلاس تھی اور دوسرے شخص کے پاس سیکنڈ کلاس ڈگری تھی۔ فرنگی گورنر نے تالی بجا کر کہا کہ ملاقات نعرہ تحسین کے بعد ختم کی جاتی ہے اور بخاری صاحب شعبہ انگریزی کے چیرمین ہو گئے۔

ریڈیو کی ملازمت کے دوران میں جب وہ ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر فائز تھے۔ ان کے ایک دو سال اچھے خاصے بدمزہ سے گزرے لیکن انہوں نے کبھی اپنی پریشانی کا حال بیان نہیں کیا۔ اپنے تمام حربے استعمال کرتے رہے اور آخرکار تمام دشواریوں پر فتح پائی۔ ان کے ایک مچٹے کا قصہ سینئے :

میں لاہور سے دلی گیا ہوا تھا۔ صرف ایک آدھ روز کے لیے۔ بغیر اطلاع بخاری صاحب سے ملنے ان کے دفتر پہنچا۔ گاڑی سے اُترا ہی تھا کے محکمے کے فرنگی افسر اعلیٰ سے آمنا سامنا ہو گیا۔ ان کی اور میری بے تکلف ملاقات تھی۔ وہ سمجھے کہ میں ان سے ملنے کو آیا ہوں۔ نہایت گرمجوشی سے ملے۔ تھوڑی سی گفتگو کے بعد جب انہوں نے اپنے کمرے میں چلنے کو کہا تو میں نے بتایا کہ میرا مقصود اس وقت بخاری صاحب ہیں۔ یہ بات اسے چبھی لیکن خلش کو دور کرنے کے لیے اس نے سلسلہ گفتگو دراز کر دیا۔ اچھے خاصے پندرہ منٹ کھڑے کھڑے اور باتیں کرتے گزر گئے تو بولا چلو میں تمہیں بخاری کے کمرے میں پہنچا دوں۔ بخاری صاحب کے کمرے میں پہنچے۔ میرے اچانک پہنچنے پر متعجب اور خوش ہوئے۔ فوراً غالب کا مصرع پڑھا:

 

آئے خدا کرے یہاں پر نہ کرے خدا کہ یوں

 

مجھے بخاری صاحب کے کمرے میں پہنچا کر فرنگی رخصت ہو گیا۔ ہم دونوں باتوں میں مشغول ہو گئے لیکن چند منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ وہ صاحب پھر آ گئے۔ کاروباری بات کی مجھ سے معافی مانگتے ہوئے بخاری صاحب سے مخاطب ہوئے کہ ایک ضروری دورے پر وہ اگلے ہفتہ خود مدراس جائیں گے اور اس لیے بخاری صاحب کے پیش نظر جو بھی پروگرام ہو وہ منسوخ کر دیا جائے۔ چونکہ بخاری صاحب کو دفتر میں موجود رہنا ہو گا۔ نہایت خوش ہو کر بخاری صاحب بولے۔ آپ ضرور مدراس جائیے شکر کا مقام ہے کہ میں گرمی کے زمانے میں ریل میں بیٹھ کر ریگستان کی خاک پھانکنے سے بچ گیا۔ دلی کا خوشگوار موسم، دفتر کا دل پسند کمرہ، میں نہایت خوشی سے دفتر میں رہوں گا۔

وہ فرنگی افسر اعلیٰ بخاری صاحب کو میرے آگے ہلکا بنانے آیا تھا لیکن خود سبک ہو کر واپس ہو گیا مگر خراشیدہ راہست قصد خراش۔ دس منٹ کے بعد پھر آیا اور بولا بخاری صاحب مجھے کاغذات دیکھتے ہوئے خیال آیا کہ اگلے ہفتہ ایک دو معاملات کے لیے میری دلی میں موجودگی ضروری ہو گی۔ اس لیے اب تم ہی دورے پر مدراس چلے جاؤ۔ بخاری صاحب اچھل پڑے۔ تالیاں بجانے لگے۔ "الله وہ تاڑ کے لمبے لمبے جھومتے ہوئے درخت، وہ نیلا سمندر، وہ خاموش فضائیں، وہ فلاں اور فلاں سے ملاقات، یقین جانو صعوبت سفر دو لمحے بھی یاد نہ رہے گی”۔ اس شخص نے بھونچکا ہو کر بخاری صاحب کا منہ دیکھا اور کچھ کہے بغیر کلغی گرائے کمرے سے چلا گیا۔ میں اس ڈرامے کا تماشائی تھا۔ بخاری صاحب بولے۔ بھائی اگر یہ سال بھر اور رہ گیا تو یہاں سے پاگل خانے جائے گا۔

قصہ مختصر سال کے بارہ مہینے ہوتے ہیں لیکن آل انڈیا ریڈیو کا فرنگی چند ماہ کے بعد ملازمت سے سبکدوش ہو کر ہندوستان سے رخصت ہو گیا اور بخاری صاحب آل انڈیا ریڈیو کے افسر اعلیٰ مقرر ہوئے۔

بخاری صاحب آل انڈیا ریڈیو کے کنٹرولر جنرل ہو گئے لیکن بوجوہ یہ زمانہ بخاری صاحب کے دوستوں اور بخاری صاحب کے لیے خود ایک آزمائش کا دور تھا۔ آل انڈیا ریڈیو ایک نیا اور اس لیے پھیلنے اور بڑھنے والا محکمہ تھا۔ روز نئی نئی نوکریاں نکلتی تھیں اور ہر نوجوان اس محکمہ میں نوکری کا خواہشمند تھا۔

بخاری صاحب کے دوستوں نے پندار تعلقات میں سفارشی خطوط لکھنے شروع کئے اور اپنے اپنے امیدوار کی ناکامی پر ابتدا میں خفیف سی خفگی اور بعد ازاں رنجش کا اظہار شروع کر دیا۔ اتفاق کی بات ہے کہ میں نے کبھی کسی کی سفارش بخاری صاحب سے نہ کی۔ لیکن ایک روز گفتگو کرتے ہوئے ان سے عرض کیا کہ مرد خدا فلاں دوست نے جو ہمارا محترم اور محسن ہے اپنے بیٹے کے لیے تمہیں لکھا اور تم آئیں بائیں شائیں کر گئے۔ یہ کیا طور ہے صاف لکھ دیتے کہ اس کو ملازمت دینا ممکن نہیں لیکن لیت و لعل میں ڈال دینا قطعی غلط ہے۔ بخاری صاحب نے جواب کی تمہید میں سرکاری قسم کی توجیہات پیش کیں جن سے ہر سرکاری ملازم واقف ہوتا ہے۔ پھر کہا کہ بھائی ہر ایک خواہش مند کو نوکری کہاں سے دوں البتہ میں اس کمی اور کوتاہی کو اور ذرائع سے پورا کر دیتا ہوں۔ مثلاً کوئی فلاں صاحب کا خط لائے تو میں کہہ دوں گا۔ دفتر میں خط لائیے۔ اور فلاں صاحب کا خط ہو کھول کر پڑھتا ہوا برآمدے میں آ کر عرض گزاروں سے ملاقات کروں گا۔ غرض یہ کہ اسی طرح کسی سے دفتر کے کمرے میں اور کسی سے ڈرائنگ روم میں ملتا ہوں۔ بہت محترم اور عزیز دوستوں کے سفارشیوں کو گھر پر ٹھہرا بھی لیتا ہوں۔ موٹر میں صفدر جنگ اور ہمایوں کے مقبرے کی سیر بھی کرا دیتا ہوں۔ نہایت لذیذ گفتگو کے بعد بولے کہ بھائی سفارشی خطوط کی پذیرائی اس سے زیادہ اور کیا کرسکتا ہوں۔

بخاری صاحب نے شعر و نثر میں بہت ہی کم لکھا ہے۔ شعر میں ایک نظم جس کا عنوان میں بھول رہا ہوں اور شاید کبھی چھپی بھی نہیں۔ دو تین غزلیں اور چند متفرق شعر۔ نثر میں پطرس کے مضامین کے علاوہ ایک کہانی عشق کی خودکشی اور چند متفرق مضامین جو کہکشاں میں چھپے اور گالزوردی کا ایک ترجمہ سیب کا درخت۔ مجھے یاد نہیں کہ انگریزی میں ایک دو مضمون کے علاوہ جو پاکستان ٹائمز میں چھپے اور کوئی چیز بخاری صاحب نے لکھی ہو۔ اس سرمایۂ ادب کی سب سے بڑی خوبی اور خصوصیت اس کا انوکھا پن ہے۔۔۔ وہ پچیس تیس بلکہ چالیس پچاس شعر کہتے۔ دو ایک دوستوں کو ایک ایک کر کے کبھی ایک کبھی دوسرا شعر سناتے۔ تنقید سے مستفیض ہوتے جو شعر معیار پر پورا اترتا اسے رکھتے اور باقی اس طرح بھول جاتے جیسے کبھی لکھے ہی نہ تھے۔

میرا مقصد یہ نہیں کہ بخاری صاحب پر بحیثیت ادیب یا نقاد کچھ عرض کروں۔ مجھ سے بہتر بہت سے حضرات ہیں جو مبسوط مضامین تحریر فرمائیں گے۔ البتہ یہ ضرور کہوں گا کہ بخاری صاحب کو قدرت نے یہ دولت فراوانی سے عطا فرمائی تھی کہ وہ چھپے ہوئے کونوں میں اپنی ذہانت کی روشنی ڈال دیں اور ان گوشوں کو منور کر دیں کہ دیکھنے والوں کی نگاہیں خیرہ ہو جائیں۔

بخاری صاحب محفل سازی اور محفل آرائی میں فرد تھے۔ اعلان آزادی کے بعد گورنمنٹ کالج میں پرنسپل مقرر ہوئے تو پھر طالب علمی کے زمانے سے ملتی جلتی محفلیں گرم کرنے کی سوجھی۔ میں اس زمانے میں ٹریننگ کالج میں تھا اور اس لئے بہر نوع ان کے بہت قریب۔ سال ڈیڑھ سال ایسا گذرا کہ ‘من دانم و دل داندود انددل من’ ہم دونوں کو بہت سی آسانیاں میسر تھیں، اس لیے بلا لحاظ وقت یا قید لباس جب جی میں آیا ایک دوسرے کے پاس پہنچ گئے۔ شام کے بعد اور رات گئے تک کی صحبتوں میں، میں شریک نہ ہو سکتا تھا۔ میں ہمیشہ سے اس معاملے میں کچا ہوں اس لیے اس وقت بخاری صاحب موٹر میں بیٹھ کر ادھر اُدھردوستوں پر یورش کیا کرتے تھے بلکہ ملاقاتوں کو یقینی بنانے کے لیے انہوں نے ہر دس پندرہ دن کے بعد اپنے گھر رات کے کھانے کی دعوتوں کا سلسلہ شروع کیا جو کئی مہینے چلتا رہا۔ دعوتوں میں ان کے پانچ چھ نیازمند شریک ہوتے تھے ان موقعوں پر وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ  میرے دوستوں کا خون سفید ہے۔ کھانے کو بلاؤ تو بلا تامل آ بیٹھتے ہیں، ویسے ادھر کا کبھی رخ بھی نہیں کرتے۔ دس بارہ برس گذر گئے لیکن:

 

کسے کہ محرم باد صبا  است میداند

کہ باوجود خزاں بوئے یاسمین باقی است

 

یہ قصے کہاں تک لکھے جاؤں اگر اس زمانے میں انتہائی عدیم الفرصتی نہ ہوتی تو بھی یہ داستان اتنی طویل ہے کہ اس کا لکھنا میرے بس کی بات نہیں۔ ایک بار میں نے بخاری صاحب سے کہا کہ میرے نزدیک ‘کلچرڈ’ آدمی کی ایک تعریف یہ بھی ہے کہ وہ تنہائی سے نہ گھبرائے اور آپ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تنہائی سے خوف زدہ رہتے ہیں یعنی میرے نزدیک آپ کلچرڈ آدمی نہیں ہیں یا میری ‘کلچرڈ’ ہونے کی تعریف غلط ہے۔ باوجود میرے کچھ کہنے کے کوئی جواب نہ دیا۔ چہرے پر افسردگی نمایاں ہو گئی۔ میرا گمان ہے کہ بخاری صاحب کے تحت الشعور میں ان کی زندگی کے کم از کم آخری دس پندرہ سالوں میں جان لیوا مرض کا دھڑکا لگا رہتا تھا۔ ضبط نے کبھی انہیں اجازت نہ دی کہ وہ اس کو ظاہر کریں۔ لیکن وہ ہمیشہ انجام مرض سے خائف رہے۔ اس دن کے بعد میں نے اس قسم کی کوئی بات بخاری صاحب سے نہ کی۔

٭٭٭

 

 

 

 

گورستان ادب کا فقیر

 

                عبدالمجیدسالک

مسلم ٹاؤن لاہور

 

مکرمی۔ السلام علیکم

 

آپ کے دو تین خط ملے لیکن میں کسی ایک کا بھی جواب نہ لکھ سکا۔ حالانکہ یہ کوتاہی میری وضع کے خلاف ہے۔ بخاری کا مرنا، میری محفل احباب کا قطعی طور پر اجڑ جانا ہے زندگی بالکل بے مزہ و بے رنگ ہو کر رہ گئی ہے۔

آپ کو غالباً معلوم نہیں، میں کوئی سال بھرسے عوارض قلب میں مبتلا ہوں، لکھنا پڑھنا چھوٹ چکا ہے۔ مر کھپ کر ایک آدھ نشری تقریر ہفتہ میں لکھ لیتا ہوں اور بس۔ آج کل بھی بلڈ پریشر میں مبتلا ہوں۔ ڈاکٹر محمد یوسف مہینوں سے علاج کر رہے ہیں۔ آپ مجھ سے مضمون کی فرمائش کرتے ہیں تو بے حد شرمندہ ہوتا ہوں۔ کچھ کہہ نہیں سکتا کہ تعمیل حکم کرسکوں گا۔ اگر ممکن ہوا تو شاید کچھ لکھ دوں نہ ہوا تو معذور جان کر معاف فرما دیجیئے گا۔

 

عبدالمجیدسالک

 

مولانا عبدالمجیدسالک کا یہ خط مجھے ۱۳ دسمبر ۱۹۵۸ء کو ملا تھا۔ مگر اس عرصے میں مولانا موصوف کی صحت اور بگڑی اور کہ ہم لوگ دم سادھ کے رہ گئے۔ مضمون لکھوانا تو درکنار، ہمیں اپنی زندگی، ان کے حساب میں جمع کرانا پڑی۔ تب کہیں انہیں دوبارہ زندگی نصیب ہوئی۔

ابھی دوچار روز کی بات ہے کہ میں پھر ان کی خدمت میں حا ضر ہوا تھا۔ خیال تھا کہ اگر ان کی صحت اچھی ہوئی تو پطرس پر لکھنے کے لیے کچھ عرض کروں گا۔ انہیں دیکھا تو کچھ کہا نہ گیا۔ دل کی دل ہی میں لے کر واپس آ گیا۔

بخاری صاحب کے جتنے گہرے تعلقات عبدالمجیدسالک سے تھے اتنے اور کسی سے نہ تھے۔ دین تھے تو یہ، دنیا تھے تو یہ، دوست تھے تو یہ، بھائی تھے تو یہ، مشیر تھے تو یہ، استاد تھے تو یہ، گویاسب کچھ بخاری صاحب کے لیے سالک صاحب تھے۔

بیماری نے انہیں اس حد تک نڈھال کر دیا ہے کہ باوجود انتہائی کوشش کے وہ پطرس کے لیے کچھ نہیں لکھ سکتے حالانکہ اتنا کچھ لکھنا چاہتے ہیں کہ آپ پڑھ پڑھ کر خوش ہوں اور یہ لکھ لکھ کر۔

مجبوری کے عالم میں مولانا موصوف کی دو چھوٹی چھوٹی تحریریں پیش کر رہے ہیں۔ ایک تو بخاری کی وفات پر، ریڈیو پر ان کا پیغام ہے، دوسری ایک اور مطبوعہ تحریر جس میں پطرس بھی ہے اور مجید بھی۔

 

(محمد طفیل)

 

                ۱

 

احمد شاہ بخاری کی موت پاکستان میں علم و ادب اور خلوص و محبت کی موت ہے۔ اس کے دوست اشکبار ہیں اور پورا ملک ناقابل تلافی نقصان پر ششدر و مبہوت ہو رہا ہے۔ اس بے نظیر قابلیت کے افراد ہمارے ملک میں نایاب ہیں جو زندگی کی ہر مصروفیت میں اپنے اپنے ہم عصروں سے نمایاں طور پر ممتاز نظر آئیں۔ بخاری صاحب گورنمنٹ کالج لاہور کے پروفیسر کی حیثیت سے، آل انڈیا ریڈیو کے ڈائیریکٹر جنرل کی حیثیت سے، پھر اپنے کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے، اس کے بعد اقوام متحدہ میں پاکستان وفد کے رئیس کی حیثیت سے، جہاں کہیں بھی رہے سربلند و ممتاز اور نمایاں رہے۔ وہ ادب و انشاء، طنز و مزاح اور تنقید عالیہ میں دور دور تک اپنی مثال نہ رکھتے تھے۔ صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ پورے برصغیر میں بخاری کے بیسیوں شاگرد اپنی اپنی حکومتوں کے اعلیٰ عہدوں پر ممتاز ہیں اور بہترین خدمات بجا لا کر اپنے عالی قدر استاد کا نام روشن کر رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ بخاری نے ادب وانشاء میں بہت قلیل سرمایہ چھوڑا ہے لیکن اس کے قلم سے جو چند تنقیدی مضامین اور جو ایک دو کتابیں نکلیں، وہ ہمیشہ ہمارے ادیبوں اور نقادوں کو صحیح   الخیالی اور بالغ نظری کا سبق دیتی رہیں گی۔ اور پاکستان ہمیشہ اپنے اس عدی المثال اور عالی دماغ فرزند پر ناز کرتا رہے گا۔

٭٭

 

                ۲

 

جن دنوں میں کراچی میں مقیم تھا۔ بخاری مرحوم پاکستان آئے تو چند روز کراچی میں فروکش رہے۔ ایک دن مجھ سے پوچھنے لگے کہ کہیے کوئی نیا دوست بھی بنایا۔ میں نے کہا کیسی باتیں کرتے ہو، کبھی دوست بھی بنائے جاتے ہیں اور خصوصاً اس عمر میں؟ دوست تو جوانی میں میسر آتے ہیں۔ اور خودبخود بن جاتے ہیں۔ البتہ بعض مخلص نوجوان زندگی کے ہر حصے میں ملتے ہیں جن کے خلوص پر جان قربان کر دینے کو جی چاہتا ہے۔ مثلاً تم نے مجید لاہوری کا نام سنا ہو گا؟ کراچی میں یہ شخص میرا تنہا رفیق اور دوست ہے۔ اسے عالم اور ادیب ہونے کا دعویٰ نہیں لیکن طبیعت کی جودت کی وجہ سے اچھے اچھے عالم اور ادیب اس کی قدر کرتے ہیں۔ کہنے لگے تو پھر ہم سے اس کی ملاقات ضرور کرا دیجیئے۔

ایک دن میں مجید کو لے کر برسٹل ہوٹل کے پا س بخاری کے ہاں گیا۔ "جنگ” کا "حرف و حکایت” تو پڑھتے ہی تھے۔ اب اس کے مصنف کو دیکھا تو بے حد نہال ہوئے اور جب باتیں سنیں تو اور بھی زیادہ فریفتہ ہوئے۔ مجید کی بھولی بھالی صورت، اس کے بے ضرر تفنن اور مخلصانہ سادگی کی وجہ سے پہلی ہی ملاقات میں اس سے یوں پیار کرنے لگے جیسے برسوں کی شناسائی ہو، مجید کی نظمیں سنیں تو اور بھی لٹو ہوئے۔ اس کے بعد قرار پایا کہ ہر روز رات کے وقت کھانے کے بعد سالک کے مکان پر "خلوت اُنس” برپا ہوا کرے۔ جس میں بخاری اور مجید کے سوا کوئی نہ ہوا۔ چنانچہ عقب ریڈیو اسٹیشن والے مکان میں یہ نشست باقاعدہ منعقد ہونے لگی۔ خشک پھل کی پلٹیں تپائیوں پر پڑی ہوتیں۔ چلغوزوں کا انبار موجود ہوتا اور نمکین اور گرما گرم کشمیری چائے کے بھرے ہوئے تھرمس تیار رہتے۔ بخاری، مجید اور میں چائے کی چسکیاں لیتے، چلغوزے کھاتے اور غزلیں پڑھتے۔ یہ صحبت بعض اوقات دو دو بجے رات کو ختم ہوتی۔

ان صحبتوں میں مجید کراچی کی سیاسیات، پاکستان کے بعض اکابر کی خصوصیات اور بعض ادبی، مجلسی اور اقتصادی (یعنی تجارتی) شخصیتوں کے لطیفے اپنے مخصوص انداز میں سناتا۔ بخاری بے حد شگفتہ ہوتے۔ اور اقوام متحدہ اور امریکہ کے واقعات کی جگالی کرتے۔ اور پرانی یادوں سے اپنے خزاں رسیدہ دور زندگی کی ویرانیوں کو لالہ زار بناتے اور پھر جب رات بوڑھی ہونے لگتی تو بخاری مجید کو اپنے موٹرکار میں بٹھا کر اس کے گھر پہنچاتے اور پھر اپنے گھر جاتے۔

جب تک مجید زندہ رہے بخاری پر والہ شیفتہ رہے اور بخاری بھی نیویارک سے جب کوئی خط مجھے لکھتے، مجید کا حال ضرور پوچھتے، اور ‘نمک دان’ بھیجنے کا تقاضا کرتے چنانچہ ہم "نمک دان” کے پرچے جمع کر کے وزارت خارجہ کے ذریعے "ڈپلومیٹک بیگ” میں بخاری کو ارسال کر دیتے۔

مجید کے انتقال پر بخاری اس قدر غمزدہ ہوئے کہ ان کا تعزیتی خط جو میرے نام آیا خود روتا ہوا معلوم ہوتا تھا۔

ابھی حسرت و مجید کا ماتم ختم نہ ہونے پایا تھا کہ ہم لوگوں کو بخاری جیسے عظیم الشان دوست اور عظیم الشان انسان کے فقدان پر سینہ کوبی کرنی پڑی۔ میں تو محسوس کرتا ہوں کہ گویا گورستان ادب کا فقیر ہوں جنازے دھڑادھڑ آرہے ہیں یہاں تک کہ انہیں دفن کرتے کرتے تھک گیا ہوں چاروں طرف نظریں ڈالتا ہوں تو تنہائی کاٹنے کو دوڑتی ہے۔

زندگی کی شاہراہ حوادث کے آفتاب کی تمازت سے تپ رہی ہے۔ آہ! اے موت کی سایہ دار سرزمین! تو کہاں ہے ؟ کہ راہ حیات کے مسافر تیری ٹھنڈی چھاؤں میں آرام پا سکیں اور ان گئے گذروں سے جا ملیں جو اپنی خوش نصیبی کی وجہ سے اس تیرہ خاکدان سے نجات پا کر جا چکے ہیں۔

یاریانِ موافق ہمہ اردست شدند

ازدست ا جل یگاں یگاں پست شدند

بودندتنک شراب درمجلسِ عمر

یک لحظہ زما پیشترک مست شدند

٭٭٭

 

 

 

 

کہ گوہر مقصودِ گفتگوست……

 

                فیض احمد فیض

 

دوستی تندہی اورمستعدی کا نام ہے یارو، محبت تو یونہی کہنے کی بات ہے۔ دیکھو تو ہر روز میں تم میں سے ہر پاجی کو ٹیلیفون کرتا ہوں، ہر ایک کے گھر پہنچتا ہوں، اپنے گھر لاتا ہوں، کھلاتا ہوں، پلاتا ہوں، سیر کراتا ہوں،  ہنساتا ہوں، شعر سناتا ہوں، پھر رات گئے باری باری سے سب کو گھر پہنچاتا ہوں، سب بیویوں کی بد دعائیں میرے حساب میں لکھی جاتی ہیں، آدھی تنخواہ پٹرول میں اڑ جاتی ہے، یعنی اول نقصان مایہ، مایہ نہیں مائع یعنی پٹرول، دوم شماتت ہمسائی، ارے یار یہ شماتت کیا لفظ ہے، ش۔ ما۔ تت کچھ پنجابی گالی معلوم ہوتا ہے نہیں” ……. قہقہہ۔

"کچھ تو خدا کا خوف کرودوستو۔ کسی کم بخت کو توفیق نہیں کہ کبھی خود ہی اٹھ کر جو چلا آئے۔ میں کوئی ٹیکسی ڈرائیور ہوں؟ شوفر ہوں؟ میراثی ہوں؟ مجھے تنخواہ دیتے ہیں آپ؟ یا آپ میری معشوقائیں ہیں؟ برس پندرہ یا کہ سولہ کا سن ہے آپ کا؟ یا آپ کے ذہن مبارک سے حکمت و  موعظمت کے وہ لعل و گہر برستے ہیں کہ اس ہیچمدان کا دامن گنج ہائے گران مایہ، اوئے مایہ، پٹرول والا مائع نہیں۔ دوسرا۔ عثمان نوٹ کرو، بلکہ تیسرا پنجابی والا، نون غنہ کے ساتھ، اوئے سمجھے آئی جے ؟ (عثمان نوٹ کرو کہ تلمیح کسی معمر بزرگ کی جانب تھی جسے بخاری صاحب نجانے کب ملے تھے ؟ روایت یہ تھی کہ ان بزرگ کے فرزند اکبر عثمان بھی سفید ریش اور کبر سنی کی منزل میں تھے لیکن بڑے میاں انھیں وہی طفل مکتب گردانتے اور انھیں اسی ڈھب سے خطاب کرتے۔ چنانچہ اگر محفل میں کسی نے کہا کہ میر صاحب وہ ڈپٹی کلکٹر آپ کو پوچھ رہے تھے تو میر صاحب کڑک کر بولے، "صحیح تلفظ ڈسیسیوٹی ہے، عثمان نوٹ کرو!” سمجھ آئی جے، کا قصہ میں نے انھیں سنا تھا اور مجھے خورشید انور نے، بھائی اسلامیہ ہائی اسکول میں کوئی ماسٹر صاحب تھے، جو تختہ سیاہ پر ریاضی کا کوئی مسئلہ حل کرنے کے بعد قریب قریب ہمیشہ اپنے طلبا سے پوچھتے "اوئے سمجھ آئی جے۔ ” اور لڑکے ہمیشہ جواب میں کہتے، "نہیں جی۔ ” اس پر ماسٹر صاحب بھنا کر ایک موٹی سے گالی دیتے اور کہتے، "نہیں سمجھ آئی تو جاؤ فلاں کی فلاں میں۔ ” بخاری صاحب سن کر لوٹ پوٹ ہو گئے کہنے لگے "یار اگر اسے یہی کہنا تھا تو پوچھتا ہی کیوں تھا؟” اس کے بعد عثمان نوٹ کرو کے ساتھ "سمجھ آئی جے ” بھی ان کی محفل کے روز مرہ میں شامل ہو گیا۔

ان کی فریاد ابھی جاری تھی۔

"دیکھو یارو اگر میں تم میں سے کسی کو ٹیلیفون کروں کہ بھائی جان مجھے ہیضہ ہو گیا ہے، پلیگ کی گلٹی نکل آئی ہے، ڈاکٹر جواب دے گئے ہیں، لبوں پہ دم ہے، لله آ کر منہ دیکھ جاؤ تو سو فیصدی یہی جواب ملے گا کہ موٹر میں آ کر لے جاؤ…..”

"ہمارے پاس موٹر موجود نہیں ہے "۔ تاثیر نے آہستہ سے کہا۔

"جی ہاں اور آپ ہر روز کالج تو میری ہی موٹر پر تشریف لے جاتے ہیں اور دن بھر جہاں جہاں بھی آپ حضرات جھک مارا کرتے ہیں، اس خاکسار ہی کے ساتھ تو جاتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ تم سب نہایت برے دوست ہو، کاہل، بے قاعدہ، بے سلیقہ، اگر میں اس شہر میں نہ ہوں تو تم مہینوں ایک دوسرے کی صورت بھی نہ دیکھو۔ ”

اور یہی ہوا بھی "ان کے اٹھتے ہی دگرگوں رنگ محفل ہو گیا” ادھر بخاری صاحب لندن اور میکسیکو روانہ ہوئے ادھر یہ بساط الٹ گئی۔ ان کی محفل شبینہ کا شیرازہ ایسا بکھرا کہ پھر کبھی یکجا نہ ہو سکا۔ ۴۹ء میں وہ مختصر سے عرصے کے لئے لاہور لوٹے تو یہاں کی صورت احوال سے بہت رنجیدہ ہوئے۔ کہنے لگے "یار تم لوگوں نے سب چوپٹ کر دیا ہے، اب ہم جائت ہیں ” اور اس کے بعد ایسے گئے کہ اپنی مٹی بھی پردیس ہی کو سونپ دی۔ ”

بخاری صاحب کی شخصیت کا ہلکا سا نقش بھی قلم کی گرفت میں کب آتا ہے، یہ کام تو انھیں کے کرنے کا تھا۔ ہاں انھیں یاد کرنے بیٹھا ہوں تو یہی تندہی، مستعدی، قاعدہ اور سلیقہ طرح طرح سے یاد آتے ہیں۔ خوش وقتی کے لئے احباب کی محفل کا اہتمام تو شادی ایسی بڑی بات نہیں۔ اگرچہ ہم سے بیشتر اتنا بھی نہیں کرتے اور بخاری صاحب ایسی تندہی سے تو کوئی بھی نہیں کرتا لیکن وہ تو جو کچھ کرتے ایسے ہی ڈوب کرتے تھے۔ دفتر ہو یا گھر، تحریر ہو یا گفتگو، دقیق علمی بحث ہو یا ہلڑ بازی۔

مغنی نے غزل شروع کی:۔

کجوائی دو چشمت بلا نشستہ

چوں قبیلہ گرد لیلیٰ ہمہ جابجانشستہ

تو اسی مطلع پر سحر ہو گئی، قوال اس شعر پر پہنچے۔

صد چاک شدہ سینہ وصد پارہ شدہ دل

دیں بے خبراں جامہ دریدن نگزارند

تو گھنٹوں وارفتگی کا عالم رہا۔ کوئی شعر، کوئی مصرع، کوئی ترکیب، کسی محراب کا خم، کسی کتبے کا خط،کسی خوانچے والے کی آواز، کوئی محاورہ، کوئی گالی جہاں بھی دل کو وجد و اہتزاز کا ذرا سا اشارہ ملا، اپنا واردات میں سبھی کو شریک کر لیا۔

دہلی کی جلتی ہوئی دوپہر میں کبھی بھٹک کر گھٹا آ گئی تو جنگ عظیم، ہٹلر اور مسولینی، آل انڈیا ریڈیو، دولت مشترکہ انگلشیہ اور ایسے سبھی دفاتر یک لخت بے معین ہو گئے۔ دوستوں کے افسروں کو ٹیلیفون ہوئے کہ ڈائریکٹر جنرل آل انڈیا ریڈیو فلاں فلاں صاحب سے بہت اہم گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ ہم بھاگم بھاگ پہنچے۔ بخاری صاحب دفتر میں دربار لگائے بیٹھے ہیں۔ آغا حمید، سید رشید احمد، غلام عباس، یا ایک آدھ اور، تاثیر پہنچے، مجید ملک آئے۔ میں گیا، بخاری صاحب کی مخصوص طنزیہ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔

"آئیے آئیے "، آپ کانفرنس کرنے آئے ہیں؟ تو کرو، اور سب پر اسکول سے بھاگے ہوئے بچوں کی سی کیفیت طاری ہو گئی۔ دن بھر قطب میں گزارا، شام کو جامع مسجد کی دیوار تلے کباب کھائے، ایک قطعی غیر معزز محلے میں پان خریدے، آدھی رات تک انڈیا گیٹ کے سامنے بیٹھ کر بیت بازی کی پھر کناٹ پلیس کے جس قہوہ خانہ کا در کھلا پایا وہاں سے ملک شیک پیا، اور وہیں کناٹ پلیس کے میدان میں غالب اور نظیری، حافظ اور سعدی، اقبال اور گوئٹے، ہاپکنز اور ڈلن ٹامس کے محاسن و معائب کے بارے میں کچھ بھی طے نہ ہو پایا کہ مرغ اذانیں دینے لگے۔ میں نے کہا "ہمارے ہاں چلئے چائے پئیں گے ” بخاری صاحب بولے، "ہرگز نہیں، ایک اصول یاد رکھو، آدمی رات چاہے کہیں گزارے لیکن صبح ہمیشہ اپنے بستر سے اٹھنا چاہیے، عثمان نوٹ کرو!”

خیر یہ قصے تو ان کی اپنی دلچسپیوں سے متعلق ہیں لیکن دوستی میں ان کی متعدی اور سلیقے کے ہزار گونہ مظاہر اور بھی تھے۔ ایک رات میرے ہاں محفل عین عروج پر تھی۔ تاثیر مرحوم، حسرت مرحوم، صوفی تبسم، عابد علی عابد، آغا بشیر احمد اور بخاری صاحب۔ حسرت صاحب نے انہی دنوں اپنا عجیب و غریب عربی گانا ایجاد کیا تھا اور فلک شگاف آواز میں نظیری کی کسی غزل پر کسی عربی دھن کی چھری چلا رہے تھے۔ اتنے میں ٹیلیفون کی گھنٹی بجی۔ ہمارے رپورٹر میاں شفیع ٹیلیفون پر تھے۔ کہنے لگے، ابھی ابھی ایک ٹیلیفون اپریٹر نے گورنمنٹ ہاوس سے ٹیلیفون ملاتے میں نے سنا ہے کہ قائد اعظم فوت ہو گئے ہیں۔ دفتر پہنچ کر ہزار جگہ سے خبر کی تصدیق چاہی لیکن کسی نے کچھ بتا کر نہ دیا۔ میں نے طے کیا کہ پاکستان ٹائمز اور امروز کے ضمیمے بہرحال تیار کر لئے جائیں۔ ممکن ہے رات میں کسی وقت کوئی اطلاع پہنچ جائے۔ میں اداریہ لکھنے بیٹھا، تو بخاری صاحب مرحوم کے سوانح حیات مرتب کرنے لگے۔ صوفی صاحب قطعہ تاریخ کو فکر کرنے لگے۔ تاثیر مرحوم اور حسرت مرحوم امروز کی ترتیب میں مصروف ہو گئے۔ میں نے رات بھی کام کیا۔ تین بجے کے قریب خبر کی تصدیق ہوئی اور جب ہم دفتر سے نکلے تو پو پھٹ چکی تھی۔ اور سیر خیز لوگ کاروبار یا کوئے یا ر کا رخ کئے گھروں سے روانہ ہو چکے تھے۔ بخاری صاحب کو صحافت یا خالص سیاسی کاروبار سے لگاؤ نہ تھا۔ لیکن انھوں نے اسی ڈھب سے کئی راتیں پاکستان ٹائمز کے دفتر اور چھاپے خانے میں بسر کیں۔ گاندھی جی کے قتل کی رات، پریس میں نئی روٹری مشین چالو ہونے کی رات، ۱۳/۱۴اگست کی درمیان رات، اب شاید بتا دینے میں بھی مضائقہ نہیں کہ اس زمانے کے پاکستان ٹائمز کے تین یا چار ادارئیے اور مختلف ناموں سے بہت سے مراسلے بخاری صاحب کے قلم سے ہیں مراسلوں کے کالم میں ایک پر لطف بحث مجھے خاص طور سے یاد ہے جو ہفتوں چلتی ہے اس کا سہرااور اصل ان حقیقی یا فرضی بزرگ کے سر ہے جو مولوی قینچی کے نام سے مشہور تھے۔ اور بقول خلق ہر بے نقاب خاتون کی چٹیا پر دست درازی کی فکر میں رہتے تھے۔ ایسے دو چار واقعات سننے میں آئے تو بخاری صاحب نے مولوی صاحب کی خدمت اور بے نقاب خواتین کی حمایت میں ایک بہت موثر مراسلہ "Mere Woman” کے نام سے لکھا۔ اس پر آزادی نسواں کے حامیوں اور مخالفین میں بہت زوروں کی بحث چلی اور جب تک چلتی رہی بخاری صاحب ان میں سے بیشتر خطوط کی تصحیح و ترتیب پاکستان ٹائمز کے دفتر میں بیٹھ کر خود کرتے رہے۔

انھیں بچوں سے خاص رغبت نہ تھی "چھوڑو یار، عورتوں کا محکمہ ہے۔ ” لیکن قریب قریب ہر چھٹی کے دن ہمارے اور تاثیر صاحب کے بچوں سے "لاج” میں آنکھ مچولی کھیلتے، ان کے لئے نئے نئے کھیل ایجاد کر تے، گیت گاتے اور کہانیاں سناتے۔

وہ بوڑھوں سے اور بھی زیادہ نفور تھے۔ لیکن انہی دنوں لندن سے میری بیوی کے والدین ہمارے ہاں وارد ہوئے تو بخاری صاحب نے ایک ہی ملاقات میں انہیں بھی رام کر لیا۔ یہ بیچارے اگلے وقتوں کے سیدھے سادھے سفید پوش انگیز لوگ جنہیں بخاری صاحب کے ذہنی مشاغل سے دور دور علاقہ نہ تھا۔ اس شام بخاری صاحب پہنچے تو میں اور میری بیوی دونوں یہ سمجھے کہ آج ان کا رنگ نہ جمے گا اور بات رسمی تکلفات سے آگے نہ بڑے سکے گی۔ خیر تعارف اور دو چار ادھر ادھر کی باتیں ہوئیں۔ پھر بخاری صاحب اچانک بولے "مسز جارج آپ کو پہلی جنگ عظیم کے بعد کا کوئی گانا یاد ہے۔ مثلاً فلاں اور کوئی پرانا انگریزی گیت گنگنانے لگے۔ ہماری خوشدامن کو گانے سے شغف تھا۔ فورا کھل گئیں اور دو گانوں کیا ایسا تناتا بندھا کہ کسی کو زمان و مکان کی سدھ نہ رہی۔ یہاں تک کہ دونوں موسیقار ہانپنے لگے۔ یہ ایکٹ ختم ہوا تو بخاری صاحب بڑے میاں سے مخاطب ہوئے ” مسٹر جارج چھوڑیئے۔ ان عورتوں کا، چلئے ہم دونوں چلیں۔ ”

"کہاں لئے جاتے ہو میرے بڈھے کو۔ ” مسز جارج پکاریں۔

"ہم عید کرنے جا رہے ہیں مسز جارجGoing to paint the town red. اور رات گئے تک انھیں لاہور کے ریستورانوں میں گھماتے اور اینگلو انڈین لڑکیوں کا رقص دکھاتے رہے۔

لیکن ان سب اداؤں کے باوجود ناآشنا لوگ بخاری لوگ کو بہت ہی کم آمیز بڑا صاحب سمجھتے تھے اور یہ تاثر چنداں غلط بھی نہ تھا۔ عمر بھر کی بے تکلفی کے باوجود ہم میں سے بھی کسی کا یہ حوصلہ نہ تھا کہ ان کے اوقات میں مداخلت کرے یا ان کی فرمائش کے بغیر ان کی کسی مصروفیت میں حارج بعض لوگ تو یہاں تک کہتے تھے کہ بخاری صاحب لباس بدلتے ہیں تو ساتھ یہ شخصیت بھی بدل لیتے ہیں۔ دفتر میں اور، گھر میں اور محفل میں اور، اصل میں یوں نہ تھا بلکہ یہ ان کے بہت ہی نپے تلے قاعدے اور سلیقے کا اظہار تھا۔ ایک بار ایک بہت ہی با تکلف لیکن کچھ غیر دلچسپ سے حضرت میرے گھر پر تشریف لائے۔ میں بخاری صاحب کے ہاں جانے کی فکر میں تھا۔ کہنے لگے، بھئی ان سے ملنے کا تو بہت اشتیاق ہے، مجھے بھی لے چلو۔ ” میں نے کہا چلئے۔ بخاری صاحب کی پیشانی پر انھیں دیکھتے ہی ہلکی سی شکن نمودار ہوئی۔ یہ صاحب پہلے تو گم سم بیٹھے رہے۔ پھر ایک آدھ یونہی سی بات کی بخاری صاحب اٹھ کھڑے ہوئے، کہنے لگے، صاحب اس وقت بدقسمتی سے میں مصرف ہوں، معافی چاہتا ہوں، انشاء الله بھر کبھی ملاقات ہو گی۔ ہم چلنے لگے تو چپکے سے پوچھا "اس کے بعد کیا پروگرام ہے ؟” میں نے کہا دفتر جاؤں گا۔ میں اپنے ساتھی سے رخصت ہو کر دفتر پہنچا تو تھوڑی دیر میں بخاری صاحب بھی آ گئے۔ پوچھا یہ کون تھے ؟ میں نے بتایا کہ فلاں فلاں تھے بہت بھلے آدمی ہیں۔ کہنے لگے، تکلف میں تضیعِ اوقات تک تو خیر جائز ہے لیکن تکلف میں بور ہونا کسی صورت بھی جائز نہیں امرتا شیر گل تمہیں یاد ہے ؟ کیا غضب کی عورت تھی؟ ایک دفعہ اس کے اعزاز میں یہیں فلیٹیز میں ایک بہت بڑی دعوت تھی۔ بڑا بڑا خان بہادر اور رائے بہار بیٹھا تھا۔ امرتا آ کے بیٹھیں، آس پاس کے لوگوں سے کچھ دیر گفتگو کی اور کھانا شروع بھی نہ ہوا تھا کہ اٹھ کھڑی ہوئیں، "میں بور ہو گئی، میں جاتی ہوں۔ ” میزبان اور مہمان دیکھتے ہی رہ گئے اور وہ کھٹ کھٹ یہ جا وہ جا! اخلاقی جرأت اسے کہتے ہیں۔ مجھے آج تک اس واقعے سے رشک آتا ہے۔ ”

یہ تو ایک قاعدہ تھا۔ دوسرا قاعدہ یہ تھا کہ "کام کے وقت ڈٹ کر قاعدے سے کام کرو تاکہ کام کے بعد ڈٹ کر بے قاعدگی کرسکو۔ ” اور قاعدے کی صورت یہ تھی کہ آل انڈیا ریڈیو کی پہاڑی سی عمارت اور ہندوستان بھر میں بکھرا ہوا چیونٹیوں کا سا عملہ لیکن اور دفتری کام کے علاوہ اس عمارت کی ہر کھڑکی کے ہر شیشے، ہر دروازے کے ہر قبضے، ہر کمرے کے ہر کونے کی صفائی اوراس عملے کے ہر فرد کی ہر سرکاری و غیر سرکاری حرکت پر ان کی نظر رہتی تھی۔ اور یہ تو خیر ممکن ہی نہ تھا کہ مستقل ہنگامہ آرائی، کوچہ گردی اور رتجگوں کے باوجود ان کی گاڑی ہر صبح نو بجے سے پانچ منٹ قبل دفتر کی عمارت میں داخل نہ ہو۔

لیکن اس ساری قاعدے بازی میں ساتھ ہی ساتھ ان کی خوش طبع اور اپج بھی کسمساتی رہتی تھی۔ ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ گھر میں آتش دان کے سامنے بہت سی فائلیں لئے بیٹھے ہیں اور فائلوں میں سے کاغذات نکال کر آگ میں جھونکے جا رہے ہیں۔

"یہ کیا ہو رہا ہے ؟” میں نے حیرت سے پوچھا۔

"دیکھو، اس کو انگریزی زبان میں کہتے ہیں۔ "Quick Disposal”بات یہ ہے کہ ان سب فائلوں میں محض خرافات بھری ہے اور اس خرافت سے چھٹکارا پانے کی واحد صورت یہی ہے کہ اس کا نام و نشان صفحۂ دفترسرکار عالی مدار سے محور کر دیا۔ ” یہ دوسری بات ہے کہ اس نوع کی خرافات وہ خود ہی ایجاد بھی کرتے رہتے تھے۔ ہماری طالب علمی کے زمانے میں وہ گورنمنٹ کالج میں انگریزی کے استاد بھی تھے اور پنجاب ٹیکسٹ بک کمیٹی کے سیکرٹری بھی۔ ایک دن ہم دو تین دو ست کسی کام سے ٹیکسٹ بک کمیٹی کے دفتر گئے۔ بخاری صاحب نے دیکھا تو اپنے کمرے میں بلا لیا۔ کہنے لگے "تمہیں معلوم ہے اس دفتر میں کیا کام ہوتا ہے، یہ دیکھو۔ ” اور کاغذات میں سے ایک کافی ضخیم فائل نکالی جس کے سرورق پہ لکھا تھا "Office Cat” یعنی دفتر کی بلی۔ یہ کون سی درسی کتاب ہے۔ ہم نے پوچھا۔ "بولے،” قصہ یوں ہے کہ ایک دن میرے کمرے میں ایک بلی آ گئی۔ مجھے اچھی لگی۔ میں نے کسی سے کہا اسے تھوڑا سا دودھ لادو۔ پھر وہ بلی ہر روز آنے لگی اور ہر روز اسے دودھ بھی ملنے لگا۔ مہینے کے آخر میں سپرنٹنڈنٹ صاحب نے دفتر کے اخراجات کا بل مجھے بھیجا تو اس کے ساتھ ایک تحریری سوال یہ بھی منسلک تھا کہ بلی کے دودھ پر چودہ روپے ساڑھے چھ آنے کی رقم صرف ہوئی ہے وہ کس مد میں جائیگی؟ میں نے لکھ بھیجا "Contingency” یعنی متفرق خرچ میں ڈال دو۔ تھوڑے دنوں کے بعد اکاؤنٹنٹ جنرل کے دفتر نے بل لوٹا دیا اور یہ تحریری فہمائش کی کہ "Contingency” کی حد دفتر کے ساز وسامان اور دیگر غیر جانبدار اشیا کے لئے مخصوص ہے۔ بلی جاندار شے ہے اور اس کے اخراجات "Contingency” میں شامل نہیں کئے جا سکتے۔ اس پر سپرنٹنڈنٹ صاحب نے مجھ سے مزید تحریری ہدایت طلب کی۔ میں نے لکھا کہ جاندار غیر جاندار کا قصہ ہے تو یہ خرچ "Establishment” یعنی عملے کی مد میں ڈال دو۔ دوبارہ بل خزانے کو روانہ ہوا اور تھوڑے دنوں میں لوٹ آیا۔ اب کے ایک کافی طویل مراسلے میں یہ استفسارات تھے کہ اگر یہ خرچ عملے کی مد میں جائے گا تو واضع کیا جائے کہ اس رقم کو تنخواہ تصور کیا جائے یا کہ الاؤنس؟ اگر تنخواہ ہے تو بموجب قاعدہ نمبر فلاں فلاں دفتر کی پیشگی منظوری درکار ہے اور اگر یہ الاؤنس ہے تو بموجب قاعدہ فلاں فلاں افسر سے اس کی تصدیق لازمی ہے …… چنانچہ یہ فائل چھ مہینے سے چل رہی ہے اور اس میں ایسے ایسے نازک اور باریک نکتے بیان ہوئے ہیں کہ اندازہ نہیں۔ ” ……. سنو، یہ ٹیکسٹ بک کمیٹی، پروفیسر اے ایس بخاری شعبہ انگریزی گورنمنٹ کالج لاہور۔ کہنے لگے "سنو، یہ پہلا خط ہے۔

از جانب پروفیسر اے ایس بخاری سیکرٹری ٹیکسٹ بک کمیٹی لاہور، بنام پروفیسر اے ایس بخاری شعبہ انگریزی گورنمنٹ کالج لاہور۔

جناب والا!

آپ کی یاد دہانی کے لئے عرض ہے کہ گزشتہ ماہ آپ کو پانچ کتابیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔ ریویو کی غرض سے ارسال کی گئی تھیں۔ لیکن ریویو ابھی تک موصول نہیں ہوئے۔ مہربانی سے جلد توجہ فرمائیے۔

آپ کا نیاز مند:۔ اے۔ ایس۔ بخاری

اس کے بعد یاد دہانی کے دو خط اور ہیں۔ اور تیسرا خط یہ ہے۔

از جناب پروفیسر اے ایس بخاری سیکرٹری ٹیکسٹ بک کمیٹی لاہور، بنام پروفیسر اے ایس بخاری شعبۂ انگریزی گورنمنٹ کالج۔ لاہور۔

جناب والا!

بحوالہ خط نمبر فلاں فلاں، آپ کو ٹیکسٹ کمیٹی کی طرف سے جو پانچ کتابیں ارسال کی گئی تھی  (تفصیل درج ذیل ہے ) ان میں سے تین کے ریویو وصول ہو گئے ہیں جس کے لئے کمیٹی آپ کی ممنون ہے، لیکن کمیٹی توجہ دلانا چاہتی ہے کہ انتہائی اصرار کے باوجود آپ نے دو کتابوں  (یعنی فلاں اور فلاں کتاب) کے بارے میں ابھی تک اپنی رائے تحریر نہیں فرمائی۔ کہ کمیٹی اس تاخیر کر وجوہ سمجھنے سے قاصر ہے۔ آپ کو تنبیہ کی جاتی ہے کہ اگر فلاں تاریخ تک آپ کی رائے وصول نہ ہوئی تو آپ کا نام ریویو کرنے والوں کا فہرست میں سے خارج کر دیا جائے گا۔ آپ کا نیاز مند:۔ اے ایس بخاری

اور کا جواب یہ ہے، منجانب اے ایس بخاری وغیرہ بنام اے ایس بخاری وغیرہ

جناب والا! بحوالہ خط نمبر فلاں فلاں، بقیہ ریویو ملفوف ہیں۔ میں یہ گوش گزار کئے بغیر رہ نہیں رہ سکتا کہ آپ کے خط کا آخری پیرا گراف انتہائی قابل اعتراض ہے۔ سینئر (Senior) افسروں سے خطاب کا یہ انداز قطعی غیر موزوں ہے۔ آپ کا نیاز مند:۔ اے ایس بخاری

پھر بخاری صاحب نے فائلیں اور کاغذات سمیٹے اور بولے "اچھا اب تم فوراً رفوچکر ہو جاؤ، مجھے بہت کام ہے۔ ”

لیکن یہ سب کچھ تو صرف بخاری صاحب کی باتیں ہیں، بخاری تو نہیں ہیں۔ وہ عالم بھی تھے، ادیب بھی، استاد بھی، ہم جلیس بھی، بذلہ سنج بھی، خود تحریر بھی، سخت گیر منظم بھی، بے فکر بانکے بھی اور آخر میں مدبر اور صاحب سیاست بھی۔ لیکن یہ سب صفات گنوا دینے سے بھی کیا ہوتا ہے۔ ان کی زندگی کا بنیادی پہلو تو یہ ہے کہ ان کا کوئی بھی لمحہ بے مقصد اور بے مصرف نہیں گزرا اور ان میں سے بیشتر لمحات موجودات کے ہر مظہر سے خوبی اور حسن اور انبساط کے اخذ و استفادہ میں گزرے اور وہ قلب و نظر کی اس دولت کو عمر بھر محفلوں، دانشکدوں، ایوانوں اور گزرگاہوں میں یوں بکھیرتے رہے کہ اپنے نام کی یادگار کے لئے اس کا عشر عشیر بھی نہ بچا۔ مجھے اس دور کی کوئی ایسی شخصیت معلوم نہیں جس نے اپنے بہت سے لوگوں ے لئے اس قدر لطف و مسرت دریافت اور تخلیق کی ہو۔ وہ سب لوگ جن کے دوسرے اہل کمال گفتار و تحریر کی کیسی بھی نعمتیں مہیا کریں۔ یہی فریاد کریں گے :۔

"عشوۂ زاں لب شیرین شکرباز بیار”

٭٭٭

 

 

 

چند پرانی یادیں

 

                غلام رسول مہر

 

میں نے بخاری صاحب کو پہلی مرتبہ نومبر ۱۹۲۱ء میں دیکھا تھا۔ ترک موالات یا لا تعاون کی تحریک اوج شباب پر تھی اور اس کے اوج شباب کی کیفیت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ لفظوں میں اس کا صحیح نقشہ پیش کرنا مشکل ہے۔ بس اتنا سمجھ لیجیئے کہ صاف نظر آ رہا تھا کہ حکومت برطانیہ کے قصر اقتدار میں ایک خوفناک زلزلہ آ گیا ہے اور یہ قصر تھوڑی ہی دیر میں زمیں بوس ہو جائے گا۔

سالک صاحب "زمیندار” کے مدیر کی حیثیت میں گرفتار ہو چکے تھے۔ مقدمہ چل رہا تھا اور اس کا فیصلہ نہیں ہوا تھا۔ شفاعت الله خاں مرحوم "زمیندار” کے منیجر تھے اور انتظام کے علاوہ تحریر کا زیادہ تر کام بھی وہی انجام دیتے تھے۔ ان کی ہی تحریک پر سیدعبدالقادرشاہ مرحوم نے مجھے ادارۂ تحریر کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے بلایا تھا۔ مرتضیٰ احمد خاں میکش مرحوم بھی اس وقت "زمیندار” ہی سے وابستہ تھے۔ خبروں اور مختلف مضمونوں کا ترجمہ ان کے ذمے تھا۔

"زمیندار” کا دفتر دہلی دروازے کے باہر اس بڑی عمارت میں تھا جو جہازی بلڈنگ کے نام سے مشہور تھی۔ ایک روز شام کے وقت دو گورے چٹے جوان نہایت عمدہ سوٹ پہنے ہوئے آئے۔ بادی النظر میں صاحب لوگ معلوم ہوتے تھے۔ انہوں نے کھڑے کھڑے شفاعت الله خاں سے باتیں کیں۔ غالباً اس روز سالک کے مقدمے کی پیشی ہوئی تھی۔ اسی کی کیفیت پوچھتے رہے اور چلے گئے۔ شفاعت الله خاں نے مجھے بعد میں بتایا کہ ان میں سے ایک احمد شاہ بخاری تھے اور دوسرے سیدامتیازعلی تاج۔ میں ان دونوں سے ناواقف تھا اور محض نام سن کر میری معلومات میں کیا اضافہ ہو سکتا تھا۔ میں نے ان کے متعلق کچھ پوچھنا بھی ضروری نہ سمجھا، البتہ اس بات پر تعجب ہوا کہ قومی تحریک کے نہایت اہم مرحلے پر بھی بعض مسلمان انگریزوں کی سی وضع قطع قائم رکھنے میں کوئی برائی محسوس نہیں کرتے۔

چند روز بعد میں گھر واپس چلا گیا اور "زمیندار” کے ساتھ تعلق قائم نہ رکھ سکا اس لیے کہ میرے اقربا خصوصاً والدہ مرحومہ کو یہ تعلق منظور نہ تھا۔ دو تین مہینے کے بعد شفاعت الله خاں اور مرتضیٰ احمد خاں میکش خود میرے گاؤں پہنچے جو جالندھر شہر سے چار پانچ میل کے فاصلے پر تھا اور اقربا کو راضی کر کے مجھے دوبارہ "زمیندار” میں لے آئے۔ اس وقت سے مستقل طور پر میری اخبارنویسی کی ابتدا ہوئی۔ سالک صاحب کو ایک سال قید کی سزا ہو چکی تھی اور وہ لاہور سے میانوالی جیل میں منتقل ہو چکے تھے۔ بخاری اور امتیاز وقتاً فوقتاً سالک صاحب کی صحت و عافیت دریافت کرنے کی غرض سے "زمیندار” کے دفتر آتے رہتے تھے۔ اس زمانے میں ان سے شناسائی ہوئی اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ وہ سالک صاحب کے نہایت عزیز دوست ہیں۔

۱۹۲۲ء کے اواخر میں سالک صاحب رہا ہو کر آ گئے اور ان سے وہ برادرانہ تعلق استوار ہوا جسے زندگی کا ایک عزیز ترین سرمایہ سمجھتا ہوں۔ ان کی وجہ سے بخاری اور امتیاز کے ساتھ بھی ایک خصوصی علاقہ پیدا ہو گیا۔ بخاری صاحب اس دنیا سے رخصت ہو گئے اور اس علاقہ میں آخری وقت تک کوئی خلل نہ آیا۔ امتیاز صاحب کو خدا تا دیر سلامت رکھے، ان کے ساتھ یہ علاقہ آج بھی اسی طرح قائم ہے جس طرح آج سے تیس پینتیس سال پیشتر قائم تھا۔

پھر بخاری صاحب سے زیادہ مفصل ملاقاتیں اس زمانے میں ہوتی رہیں جب منشی نعمت الله صاحب مرحوم دہلی مسلم ہوٹل چلا رہے تھے اور بخاری صاحب نے اسی ہوٹل میں اپنے لیے ایک یا دو کمرے لے لیے تھے۔ یہ ہوٹل اسی جگہ تھا جہاں اب اس نام کا ہوٹل موجود ہے لیکن اس کی عمارت بالکل بدل گئی ہے۔

بخاری صاحب کی باتیں اس زمانے میں بھی سب سے نرالی ہوتی تھیں۔ ہم لوگوں کے دل و دماغ کا ریشہ ریشہ لا تعاون اور آزادی کے جوش سے معمور تھا۔ بخاری صاحب گورنمنٹ کالج میں پروفیسر تھے۔ ایک روز انہوں نے خاص احساس ذمہ داری کے ساتھ فرمایا کہ آزادی کے لیے جو کچھ ہو سکتا ہے ضرور کرنا چاہیے ٴ مگر یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھیے کہ جس قوم کا لباس ایک نہیں، جس کے کھانے کے اوقات مقرر نہیں، جس میں یکسانی اور یکجہتی کا کوئی بھی پہلو نظر نہیں آتا، وہ آزادی سے کیا فائدہ اٹھائے گی؟ کوشش کرو کہ اس سرزمین میں بسنے والے لوگ واقعی ایک ایسی قوم بن جائیں جو ایک نظام زندگی کی پابند ہو۔

اس وقت یہ سن کر احساس ہوا کہ بخاری صاحب کا دل آزادی کے جذبے سے بالکل خالی ہے لیکن جب بنیادی حقائق کے صحیح اندازے کا شعور پیدا ہوا تو پتہ چلا کہ یہ ارشاد ان کے بلوغ نظر کی ایک روشن دستاویز تھا۔

اسی طرح مجھ سے انہوں نے بارہا کہا کہ آپ اخبار میں ایک چوکھٹا مستقل طور پر لگاتے رہیں جس کے اندر جلی حروف میں یہ عبارت مرقوم ہو کہ "بائیں ہاتھ چلو”۔ روزانہ یہ چوکھٹا چھپتا رہے گا تو یقین ہے کہ ہزاروں آدمیوں کو بائیں ہاتھ چلنے کی اہمیت کا احساس ہوتا جائے گا۔

میں خود ماضی پر نظر بازگشت ڈالتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

ہنستے ہنستے

 

                عصمت چغتائی

 

ہنستے ہنستے بے حال ہو کر نیر تخت سے نیچے لڑھک گئی۔

"بس کرو الله کا واسطہ” میں نے کرتہ کے دامن سے آنسوپونچھ کر خوشامد سے کہا۔ ہمارے پیٹوں میں مروڑیاں اٹھ رہی تھیں۔ سانس پھول گئی تھی۔ ہنسی چیخوں میں بدل گئی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا اگر ہنسی کا یہ زناٹا رہا تو کچھ دیر میں جسم بیچ میں سے دو ٹکڑے ہو جائے گا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب بات بات پر ہنستی آتی تھی۔ کوئی پھسل پڑا ہنسی چھوٹ نکلی۔ مرغے نے کتے کی پلے کے ٹھونگ ماردی۔ وہ پیں پیں کر کے بھاگا اور قہقہوں کا طوفان ٹوٹ پڑا اور جو کہیں کس کی مے پوچھ لیا کہ بھئی کیوں ہنس رہی ہیں تو پس پھر تو ہنسی کا وہ شدید دورہ پڑ جاتا کہ معمولی مار پیٹ سے بجائے قابو میں آنے کے اور بھی تیز ہو جاتا۔ ہنسی آسیب بن کر سوار ہو جاتی ہنس ہنس کر شل ہو جاتی، ہڈیاں چٹخنے لگتیں، جبڑے دکھ جاتے۔

کسی صورت افاقہ نہ ہوتے دیکھ کر امام اپنی چپٹی سلیم شاہ لے کر تل پڑتیں اور ساری ہنسی ناک کے راستے نکال دینے کی دھمکی دیتیں۔ تب ہم ناکیں پونچھتے پیٹ پکڑے نیم تلے پڑے ہوئے اپنے مخصوص جھلنگے میں جا گرتے اور نئے سرے سے ہنسنے لگتے۔

عظیم بھائی کی کتابوں میں سے مضامین پطرس چرا کر پڑھنے کے بعد بھی ہم اسی قسم کی جان لیوا ہنسی کے بھنور میں پھنس گئے۔ ہماری کھی کھی کھوں کھوں سے ہماری برباد اور غم گین آپا کی سمع خراشی ہونے لگی۔ دو دھپ سر پر جمائے کتاب چھین لے گئیں۔ مگر یہ ہم نہ جانے کون سی بار کتاب پڑھ رہے تھے۔ ہمیں جملے کے جملے یاد ہو گئے تھے جو اٹھتے بیٹھتے کھاتے پیتے دہرائے جاتے تھے اور قلابازیاں لگائی جاتی تھیں۔ نہ جانے ایک عمر میں کیوں بے بات ہنسی آتی ہے، اب وہی مضامین پڑھتی ہوں تو اتنی ہنسی نہیں آتی۔

اس وقت عظیم بھائی نے مزاح نگاری شروع نہیں کی تھی یا شاید ہم نے ان کے مضامین نہیں پڑھتے تھے۔ ملا رموزی کے مضامین پر اتنی ہنسی نہیں آتی تھی جیسی کبھی آیا کرتی تھی۔ کچھ پھیکے سے لگنے لگے تھے نہ جانے کیوں۔ بس پطرس بھا گئے اور ایک جان چھوڑ ہزار جان سے ان پر عاشق ہو گئے۔ نہ جانے کیوں تخیل میں وہ اپنے ہم عمر سے نظر آتے تھے اور یقین تھا کہ اگر ان سے ملاقات ہو جائے ہم ضرورت انہیں پیڑ پر بندھی اس بان کی کھٹولی پر چڑھا لے جائیں جو کنویں کے پاس نیم کی اونچی شاخوں پر شمیم اور چنو نے باندھ رکھی تھی۔

پطرس کی باتیں….. جی ہاں انہوں میں باتیں ہی کہوں گی۔ کیونکہ ان کی تحریریں بے ساختہ بولتی تھی۔ ان میں بڑی یگا نگت اور قربت محسوس ہوتی تھی۔ ہمارے گھر کے زندہ ماحول میں بڑی بے تکلفی سے کھپتی تھی چھوٹے بڑے سب ہی انہیں پسند کرنے لگے۔

عظیم بھائی نے "قصر صحرا” لکھی تو ہم نے جی جان سے پڑھی مگر "قرآن و پردہ”…….. "حدیث و پردہ” بڑی بور معلوم ہوئیں۔ خشک مردہ کتابیں ان کے کچھ مضامین اقتصادیات "ریاست” میں نکلتے تھے وہ ہمیں قطعی کھردرے معلوم ہوتے تھے۔ انہوں نے جب ہمیں پطرس کے مضامین اس رغبت سے پڑھتے دیکھا تو کچھ مکدر سے ہو گئے۔

نانی عشو پڑھ کر ہنسنے کا دور گزر چکا تھا۔ سخت رومنٹک افسانوں سے کبھی شدید دل چسپی نہ رہی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ہمیں پطرس بے طرح پسند آ گئے۔ "میں ایک میاں ہوں” ہمارے گھر میں بالکل کیری کی چٹنی کی طرح چٹخارے لے کر پڑھا گیا۔ اماں تک نے پڑھ ڈالا اور جب اپنی پلنگڑی پر بیٹھ کروہ ہنسیں تو پان دان کی کلھیاں پھدک پھدک کر آپس میں ٹکرانے لگیں۔ میں تنقید نگار نہیں نہ میں کوئی بات وثوق سے کہہ سکتی ہوں مگر میرا اپنا ذاتی خیال ہے کہ "میں ایک میاں ہوں” کے بعد سے پطرس کا رنگ دوسرے مزاح نگاروں میں جھلکنے لگا۔ عظیم بھائی نے تو اپنی ایک کہانی میں اعتراف بھی کیا ہے۔ فرحت الله بیگ اور شوکت تھانوی کے ہاں بھی وہی رنگ جھلکنے لگا۔ میں مزاح نگاری کی تاریخ نہیں لکھ رہی ہوں، کیونکہ مجھے یہ بھی نہیں معلوم۔ مگر میرے مطالعے کی تاریخ میں پہلا نام پطرس کا آتا ہے۔ میں پطرس کو اپنی جانب سے کوئی مقام نہیں دینا چاہ رہی ہوں۔ مجھے تو بس یہ کہنا کہ ایک عمر میں پطرس کی تحریریں دل کو ایسی لگی تھیں کہ ہم نے ایک دن جوش میں آ کر پطرس کو خط لکھ مارا۔ ابا میاں کے بکس سے لفافہ اور ٹکٹ چرایا اور معرفت….. "تہذیب نسواں” ….. خط بھیج کر جواب کا انتظار کرنے لگے۔

یا الله تیری ہر بات میں کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے۔ اسی پر تو میں خدا کے وجود کی قائل ہوں۔ وہ خط قبلہ ممتاز علی صاحب نے کھول لیا اور مع لفافہ کے آپا کو جنہیں انہوں نے منہ بولی بیٹی بنایا تھا بھیج دیا۔ بلی مظلوم سی ایک چوہیا پکڑ لیتی ہے اور کم بخت اس سے مذاق کرتی ہے۔ کبھی دانت مار دیا، کبھی گدگدا دیا، کبھی پنجہ لڑھکا دیا۔ اس خط کے آنے کے بعد کئی روز ہماری گت اسی طرح بنتی رہی۔ ہمارا خط اونچی آواز میں ابا کے سامنے پڑھا گیا۔ ہر فل اسٹاپ پر سر پر چپتیں پڑتی جاتیں۔ خط میں ہم نے انہیں مسخر لونڈا سمجھ کر نہایت بے تکلفی فرمانے کی کوشش کی تھی۔ اب تک اس خط کا ایک ایک حرف دماغ پر داغا ہوا ہے۔ برسوں خیال ہی سے پسینے چھوٹ جایا کرتے تھے۔ خط ہمیں تنبیہ دینے کے لئے بار بار پڑھایا جاتا تھا۔ ہم نے نہایت بے تکلفی سے اپنی دانت میں بالکل پطرس کے رنگ میں لکھا تھا۔ سب سے بھیانک جملہ تھا۔

"ابے پطرس! کیا گھاس کھا گیا ہے ؟”

"عوام” اس جملے سے ہماری دھجیاں بکھیرتے تھے۔ ہر شخص کو اجازت تھی کہ بے تکلف ہمارے سر پر چپت جڑ دے۔ ظاہر ہے کہ اس صلائے عام پر ہر نکتہ داں نے لبیک کہا۔ ہم حضرت ممتاز علی صاحب اور پطرس کی جان کو کوستے تھے۔ ہم مجرم جو تھے۔ صرف اس لئے نہیں کہ پطرس سے یارانہ گانٹھنے کی کوشش کی تھی، بلکہ اس لئے کہ ہم نے اس لفافہ پر ٹکٹ لگایا، اس پر "سروس” لکھا تھا، جو صرف سرکاری ڈاک کے استعمال کے لئے ہوتا تھا۔ آٹھ آٹھ آنے جرمانہ الگ ٹھکا۔ سچ پوچھئے تو اس سانحہ کے بعد پطرس ہماری چڑ بن گئے۔ ہماری جملہ شیطانیوں کی فہرست بناتے وقت ہمیشہ اس واقعہ کو تکلیف دہ حد تک اہمیت دی جاتی۔

بعض اوقات ایک چھوٹی سی بات کا دل پر کتنے دن نقش رہتا ہے۔ برسوں گزر گئے۔ لوگ بھول بھال گئے، مگر شاید دماغ نے ایک ننھی سی گانٹھ باندھ لی۔ بمبئی میں آئے سال بھر گزرا ہو گا کہ ایک دن ریڈیو اسٹیشن کسی صاحب نے فون کیا کہ بخاری صاحب آج کل بمبئی آئے ہوئے ہیں اور مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔ پہلا خیال یہ آیا کہ کوئی بہانہ کر دوں۔ کہہ و ں کہ بیمار ہوں، پھر سوچا یہ کیا حماقت ہے۔ پطرس آئے ہیں۔ یعنی سچ مچ پطرس آئے ہیں اور میں ان سے ملنے جان چرا رہی ہوں۔ یعنی ان کو کیا پتہ کہ ایک دن ان کی بدولت میرے چپتیں پڑ چکی ہیں۔ وہ مجھے قطعی قابل ملاقات سمجھتے ہیں، جب ہی تو بلایا ہے۔ خیر لنچ کا وعدہ رہا۔

مگر میں نے شاہد سے کوئی ذکر نہیں کیا۔ انہوں نے بلایا تو شاہد کو بھی تھا لیکن میں نے بہانہ کر دیا کہ انہیں قطعی فرصت نہیں۔ وہی میری نیم کے نیچے پڑے ہوئے جھلنگے والی ذہنیت! یہ ڈر کم بخت کاہے کا تھا۔ ٹھیریئے آگے چل کر بتاؤں گی۔

مجھے ضرورت سے زیادہ ذہین اور جملہ باز لوگوں سے بہت ڈر لگتا ہے۔ ان کی شخصیت مجھے اپنا جانب کھینچتی بھی ہے اور دور بھی دھکیلتی ہے۔ اور پھر پطرس کا مجھ پر ویسے ہی رعب بیٹھا ہوا تھا۔ خواہ مخواہ ان سے مل کر اور احساس کمتری دونا ہو جائے۔ بڑی کوفت ہوئی نہیں جاتی ہوں تو نہ جانے پھر کتنا پچھتانا پڑے۔ جاتی ہوں تو الله! نہ جانے کیسی چوٹیں کریں گے۔ ضرورت و بد تمیزی پر اتر آؤں گی۔ قطعی جو جھیل جاؤں۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ شاہد کے سامنے میرا پول کھل جائے۔ ، وہ فوراً منٹو سے کہہ دیں گے کہ پطرس نے محترمہ کو وہ پٹخنیاں دیں کہ گھگھی بندھ گئی۔

رات بھر میں نے ان تمام جملوں کے جواب سوچے جو وہ کہیں گے اور میں منہ توڑ جواب دوں گی۔ بدقسمتی سے میری ساری محنت رائیگاں گئی۔ پطرس نے وہ سوال ہی نہ کئے۔ اُف میری حماقت! میں نے اپنے پروفیسروں سے کبھی ہار نہ مانی۔ میرے استاد میری منہ زوری سے چوکنے رہتے تھے۔ میری کئی استانیاں کلاس میں آنسو بھر لاتیں۔ یہ میرا خاندانی ورثہ ہے اور مجھے اس پر بڑا ناز تھا۔ مگر اس دن احساس کمتری بے طرح بھوت بن کر گلا دبوچنے لگا۔ میں نے پطرس کی زندگی میں کبھی کسی سے ان احساسات کا ذکر نہ کیا۔ کوئی دل پر چھری رکھ دیتا۔ تب بھی نہ کرتی۔ کسی نے بچپن میں مجھے ہوّا بن کے ڈرانے کی کوشش کی، تو نے اس ہوّے کی پنڈلی کی بوٹی اتارلی تھی اور بجائے ڈرنے کے ڈرانے والے کی چیخیں نکل گئی تھی۔ مگر پطرس کے ہوّے نے مجھے ہولا ہولا کر شل کر دیا۔ میں نے اپنے لباس کے بارے میں کبھی غور نہیں کیا، مگر اس دن میں نے بڑے سوچ بچار کے بعد ایسی ساڑھی نکالی جس کا ذہن پر کوئی دھندلا سا نقش بھی نہ رہ جائے تا کہ کوئی حوالہ نہ دیا جا سکے۔ ہر شے مبہم ہو جائے۔ پطرس کے سامنے دال تو گلے گی نہیں صرف غائب ہو جانے والا ٹوپی پہننے ہی میں عافیت ہے۔

جب ریڈیو اسٹیشن جانے لگی تو دل سے دعا نکلی کاش پطرس بیمار پڑ گئے ہوں یا میرے ہی پیٹ میں درد اٹھ ائے۔ ہسپتال فون کروا دوں کہ آخری وقت ہے۔ لعنت ہے عصمت کی بچی تجھ پر پھر تو وہ ضرور ہسپتھال عیادت کو آئیں گے۔ بیگم اب تو مرنے میں بھی رہائی نہیں، کاندھا دینے تو وہ آ ہی پہنچیں گے۔ پھر میری چغتائی خون للکارا۔ میرے سکڑدادا نے کھوپڑیوں کا مینار چنوا کر اس پر بیٹھ کر خاصہ تناول فرمایا تھا، اور میں ایک حقیر پطرس کی دہشت میں فنا ہوئی جا رہی ہو۔ ایسا بھی کیا ہے۔ ٹانگ کھینچیں تو اپنی ازلی بدزبانی پر اتر آنا مزاج ٹھکانے آ جائیں گے شاہ صاحب کے ! لیجئیے بسم الله ہی غلط ہوئی۔ ریڈیو اسٹیشن کے دفتر میں پہنچی، تو کاغذوں پر سر جھکائے بیٹھے تھے۔

"آداب عرض!”

"گڈ مارننگ”۔ جواب ملا۔

"اف بور” میں نے سوچا۔ اب فراٹے کی انگلش کا رعب ڈالیں گے۔ وہ جھکے تھے۔ میں نے غور سے معائنہ شروع کر دیا۔ "صورت تو کچھ زیادہ توپ نہیں” میں نے سوچا۔ سیدھی سادھی سانولی سلونی شکل ہے مگر تصویر سے نہیں ملتی۔ قطعی مختلف!

"کتنے دن قیام رہے گا؟” میں نے انہیں کاغذوں میں لوٹ پوٹ دیکھ کر پوچھا۔ سوچا میں پہلے بولنا شروع کر دوں تو پہلا وار میرا رہے گا۔ مگر دل ڈوبنے لگا کہ پہلا وار نہایت پھسپھسارہا۔ ضرور اس جملہ ہی دھجیاں اڑیں گے۔

"جی؟” وہ کاغذوں میں سے ابھرے، "میرا تبادلہ بمبئی کا ہو گیا ہے "۔

یہ لیجئے، سنا تھا کسی میٹنگ کے سلسلہ میں بمبئی آئے ہیں بہت جلد جانے والے ہیں، یہ آخر مجھ سے جھوٹ کیوں بولا۔ کوئی اس میں بھی چال ہو گی۔ اس سے قبل کوئی اور سوال جھاڑتی فرمانے لگے، "چلئے ”

"خاصہ بور ہے ” میں نے بٹوہ اٹھا کر پیچھے چلتے ہوئے پوچھا۔ یہ دانت کیوں بار بار نکوستا ہے ؟ سارا ریڈیو اسٹیشن گھما کر ایک کمرے میں مجھ سے جانے کو کہا۔ سامنے میز پر ایک اونچے کاغذوں کے ڈھیر کے سامنے ایک عقاب کی سی صورت کا گورا چٹا پٹھان بیٹھا ہوا تھا۔ طوطے جیسی لمبی ناک، بھاری بھاری آنکھیں

"آیئے آیئے ……. معاف کیجئے گا میری میٹنگ ذرا لمبی کھنچ گئی۔ ”

"اوہ” میں نے سانولے سلونے پطرس کے جانے کے بعد کہا "میں سمجھ تھی آپ وہ ہیں”۔

"کیا؟….. میں وہ ہوں …… آپ میری ہتک کر رہی ہیں۔ وہ برا مان گئے۔ ” وہ لکشمن ہیں اور میں قطعی وہ نہیں ہوں۔ "ایک جھٹکے سے سارا اعصابی دباؤ بھک سے اڑ گیا۔ ایرکنڈیشن کمرے میں ایک دم مجھے نیند سی آنے لگی۔ یا خدا ناحق میں نے اس شخص کی اپنی جان پر اتنا ہیبت سوار کر لی۔ ایسا معلوم ہوا میں انہیں برسوں سے جانتی ہوں۔ یہ عقاب تو قطعی فاختہ نکلی۔ پھر جو باتوں کا ریلا چلا ہے تو میرا سارا ریہرسل بے کار ہو گا۔ سارے تراشے ہوئے جملے اڑ چھو ہو گئے۔ تاج محل ہوٹل پہنچتے پہنچتے دو چار مسائل پر اختلاف بھی ہو گیا میری خیال میں پطرس کی خاصیت یہی تھی کہ ان سے ملتے ہی برسوں کی ملاقات کا احساس ہونے لگتا تھا۔ یہ معلوم کر کے حیرت بھی ہوئی اور مسرت بھی کہ انہوں نے اس زمانے کے لکھنے والوں کا ایک ایک لفظ بڑی دل چسپی سے پڑھا تھا، اور یاد رکھا تھا۔ انہیں جملے جملے ازبر تھے۔ شعر تو میں نے بہت لوگوں کو یاد رکھتے سنا ہے مگر نثر صرف پطرس کی زبان سے اسی طرح سنی۔

"میرے کمرے میں چلنے پر کوئی اعتراض؟” بڑے بے تکلفی سے پوچھا۔

"کیوں؟”

"ٹھیک، آیئے۔ ”

یہ اطلاع مجھے بعد میں ملی، کہ پطرس نہایت لوفر انسان ہیں۔ اس وقت مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میری ڈھیٹ کہانیوں کی وجہ سے لوگ مجھے بھی بڑی نٹ کھٹ سمجھتے پیں۔

میں نہایت بے تکلفی سے آرام کرسی پر دراز لیمونیڈ پیتی رہی۔ وہ پلنگ پر پھیلے ٹھنڈی ٹھنڈی بیئر کی چسکیاں لیتے رہے اور دو قینچیاں اپنی پوری رفتار سے چلتی رہیں۔ باتوں کے طوفان میں بار بار یہ محسوس کر کے سخت کوفت ہوتی رہی کہ پطرس کا مطالعہ اور مشاہدہ اتنا وسیع ہے کہ برسوں کھر لی گھونگی پر تل کر عبث نہ ہو سکے گی اس لئے کیوں نہ قنوطیت پر اتر آَؤں اور اپنی خاندانی کج بحثی کام میں لاؤں کہ بڑے بڑے سورماؤں پر آزمایا ہوا نسخہ ہے۔ جہالت اور کم مائیگی کے لئے بہترین ڈھال۔

مگر بہت جلد معلوم ہو گیا کہ غنیم نہایت چوکس ہے۔ مجھ سے کئی سال پرانا اکھاڑے کا کج بحث ہے۔ تیرکی نوک بڑی چابک دستی سے واپس لوٹادیتا ہے۔ اس میدا میں بھی کھلی مار سے بہتر ہے اسے بزرگ مان کر ہتھیار ڈال دوں۔ شاگرد بن کر مسکین صورت سے سوالات کروں اور یہ لکچر جھاڑ کر حلق خشک کرے۔ موقع پاؤں تو ڈنک ماردوں۔ مگر توبہ کیجئے پطرس گھسے میں آنے والے آسامی نہ تھے۔ میرے ہر ذہین اور دقیق سوال میں نہایت بھونڈے پن سے "ہٹایئے بھی یہ بور نگ باتیں” کہہ کر میرا خوب جی جلایا۔

میں نے چڑ کی ان کی ہر بات کو الٹ کر بحث شروع کر دی۔ انہوں نے میرے ہر پسندیدہ شاعر کو اور ادیب کو جاہل اور الو کہہ دیا۔ میں نے بھی کلس کی نہایت تہذیب اور سلیقہ سے انہیں احمق کہہ دیا۔ جس پر وہ بے تحاشہ ہنسے۔ میں نے پھر چڑ کر ان کا ساتھ دیا، گو جی یہ چاہ رہا تھا سرہانے رکھا ہوا لیمپ اسٹینڈ ان کے سر پر گر پڑے اور میں ہنستی رہوں۔

"ارے ڈیڑھ بج گیا” گھڑی دیکھ کر وہ جلدی جلدی اپنا گلاس ختم کرنے لگے۔ پھر بھاری بھاری آنکھوں سے میر طرف ایسے دیکھا جیسے میں بالکل کوڑھ مغز ہوں اور پھر بے اختیار ہنسنے لگے۔ بالکل میرے بد ذات بھائی چنو کی طرح۔ ایک دفعہ اس کے چڑانے پر میں نے گال پر ایسا پنجہ مارا تھا کہ چربی نکل آئی تھی۔

"جلدی چلنا چاہیے ورنہ کھانے نہیں ملے گا۔ ” مطلع صاف ہو گیا اور ہم نہایت اطمینان سے ڈائننگ ہال میں جا کر مینو پڑھنے لگے۔ "اف یہ فرنچ کھانوں کے نام مجھے بڑے گندے لگتے ہیں۔ ” میں نے پھر جلانے کی کوشش کی۔ "سب کھانے ساڈین کی طرح بدبو دار اور لس سے معلوم ہوتے ہیں۔ "اس کے بعد مچھلیوں، گھونگوں اور سپیوں پر بحث ہونی لگی۔ اب انھوں نے ایک دوسرا طریقہ نکالا۔ ہر بات پھر اتفاق کرنے لگے جس پر کوفت دوگنی ہو گئی۔ اور میں اس نتیجہ پر پہنچی کہ پطرس اتر جائیں تو  دکہن جانے میں عافیت ہے۔ میں نے چاہا ان کی تحریروں کے بارے میں بات کروں مگر اس عرصے میں ہماری تعلقات اتنے کشیدہ ہو گئے تھے کہ وہ بھڑک گئے اور یہ بجا بھی تھا۔ اس وقت میں ان کہانیوں کی تعریف کر کے ان کے چہرے پر آنے والی جھپکوں پر مسکرا کر جی ٹھنڈا کرنا چاہ رہی تھی، مگر وہ فوراً ادب کی محفل سے چھلانگ مار پر کھانے پر آ گئے۔ کافی بدمزہ کھانا تھا۔ اسٹو کچا تھا جیسے چمڑے چبا رہے ہوں۔ اشارے سے بیرے کو بلا کر بڑی لجاجت سے بولے :۔

"دوست یہ بکرا تو سینگ مار رہا ہے کوئی مرا ہوا جانور نہیں پکار تمہارے ہاں۔ ” بیرا بے چارہ کھسیانا ہو کر ہنس دیا۔ اور جب وہ پلٹیں اٹھا کر چلا گیا تو ایک دم سے بولے :۔

"تم سے لکشمن کو پطرس کیوں سمجھا؟” اگر گدھے کو پطرس سمجھ لیا ہوتا تو مجھے قطعی شکایت نہ ہوتی۔ "مجھے مسکراتا دیکھ کر بولنے سے پہلے جلدی سے بولے ” شاید گدھے کو شکایت ہوتی۔ ” میں نے اتنی زور سے ٹھٹھ مارا کہ ہال میں مہذب لوگ بدبد کرتے کرتے ایک دم چونک کر دیکھنے لگے۔ پطرس نے تادیبی نظروں سے مجھ دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں:۔

"درمیانہ درجہ کی چاردیواری میں پلی ہوئی لڑکی تاج محل ہوٹل کے آداب سے کیسے واقف ہو سکتی ہے۔ اور ان کا خیال ٹھیک تھا۔ اس سے پہلے میں نے صرف ایک دفعہ تاج میں چائے پی تھی۔ اس وقت تک یہ پہلا اتنا شاندار ہوٹل جسے صرف دیکھنے کے لئے گئی تھی۔ تکلفات، سجاوٹ اور صفائی کو ہمارے گھر میں نہایت تحقیر کی نظروں سے دیکھا جاتا تھا۔ ہمارے گھر میں کھانے کی میز تو تھی اور جب نہایت غیر دلچسپ قسم کے مہمان آتے تھے تب اس پر سلائی کی مشین، اچار کی برنیاں اور بچہ کا گڈولنا اتار کی تخت کے نیچے دوسرے کاٹھ کباڑ کے ساتھ چھپا دیا جاتا تھا۔ خاص مہمانوں کی چادر بچھا کر چنی کی پلیٹیں سجادی جاتی تھی۔ آپا بڑے چاؤ میں آ کر نپکن کے پھول بنا کر کلاسوں میں سنوار دیتیں۔ ہم لوگ اسے احمقانہ بناوٹ اور بے کار کی زحمت سمجھ کر نہایت تحقیر سے ہنستے اور انہیں چڑانے کو گلاس میں سے نپکن نکالے بغیر پانی بھر لیتے، آپا مہمانوں کے سامنے ہمارے جنگلی پن کی وجہ سے شرمندہ ہوتیں تو بڑا لطف آتا۔ ہم لوگ تو تانبے یا تام چینی کی رکابیوں میں کھانا لے کر بان کی چارپائی پر سینی رکھ کر بیٹھ جاتے۔ ذرا پلنگ کی آدوائیں ڈھیلی ہوتی تو بڑا مزا آتا۔ کوئی موٹا آدمی بیٹھ جاتا تو سارا شوربہ گود میں رس آتا۔ بان کی ڈھیلی چارپائی پر بیٹھ کر پچھلے شوربہ کا سالن کھانا بھی ایک فن ہے۔ جس میں ہماری گھرانا ماہر تھا۔

تاج محل ہوٹل میں کانٹے چھری سے کھانا کھاتے وقت میری کندھے انجانے بوجھ سے تھک گئے۔ اور چغنائیت کو سخت ٹھیس لگی اور مجھے فوراً احساس برتری ہونے لگا۔ کم از کم اس میدان میں تو مجھے فوقیت حاصل تھی۔ پطرس کو روز روز اسی طمطراق سے کھانا پڑتا ہو گا۔ انہوں نے شاید کبھی کھاٹ پر بیٹھ کر آلو گوشست نہیں کھایا ہو گا۔ خاص کر جب کہ اس میں پڑوسی کے باغ سے چرا کر نیبو نچوڑا گیا ہو۔ اس کے بعد بیرے نے پلیٹوں میں نہ جانے کیا لا کر رکھ دیا۔ باتوں میں خیال ہی نہ رہا۔ بڑے دھواں دھار طریقے پر کرشن چندر، بیدی، اور منٹو پر بحث ہونے لگی۔ ان کا خیال تھا تکلف میں ان کی تعریفیں کرتی ہوں تا کہ لوگ مجھے بڑا دریا دل سمجھیں اور میں کہتی تھی میں خدا کی بھی جھوٹی تعریف نہیں کروں گی۔ ان کی کہانیاں میں نے تنقید نگار یا ایک کہانی نگار کی حیثیت سے انہیں ایک انسان کی حیثیت سے دل بہلانے کو پڑھی ہیں۔ کچھ بری بھی لگی ہیں اور کچھ نشتر بن کر دل میں ترازو ہو گئی ہیں۔

"یہ جذباتیت ہے ” انہوں نے رکھائی سے کہا۔

"جذباتیت کیا ہوتی ہے ؟” میں نے بھونڈے پن سے کہا۔ وہ سمجھے بن رہی ہوں، حالانکہ یہ سولہ سال پہلے کی بات ہے اور واقعی میری سمجھ میں بہت سے باتیں نہیں آئی تھیں۔ میں نے بہت سی باتوں کے نامعقول جواب دیئے۔ ان کی علمی بزرگی کے قائل ہوتے ہوئے بھی تسلیم نہیں کیا تھا۔ میں نے ان سے یہ بھی نہیں کہا کہ میں کب سے اور کتنی ان کی مختصر تحریروں کی مداح ہوں۔ میں نے بہت کم ان کی تعریف میں کہا۔ جو کہا وہ نہایت بے رخی سے سنی ان سنی کر گئے۔ ان کی اپنی تخلیقات ان کے لئے اتنی اہم نہیں تھی۔ کم سے کم مجھے تو یہی اندازہ ہوا کہ وہ خود پرست نہیں۔

دو گھنٹے لنچ سے کھیلتے گزر گئے۔

"آپ ڈرامہ کیوں لکھتی ہیں؟” انہیں اچانک بم گرانے میں بڑا مزا آتا تھا۔

"یونہی۔ ” میں نے لنگڑا ساجواب دیا۔

"میری رائے میں تو آپ ڈرامے لکھنا چھوڑ دیجئے۔ بڑے اوٹ پٹانگ ہوتے ہیں۔ کوئی ایکٹ چھوٹا کوئی لمبا۔ سلیقہ سے کتر بیونت کرنے کی بجائے آپ انہیں دانتوں سے کھسوٹتی ہیں۔ ” ان کی بوجھل عقابی آنکھیں میں ایذارسانی کی لذات کا نشہ ابھر آیا۔

جی چاہا میز کا سارا کوڑا کرکٹ ان کے اوپر لوٹ دوں اور یہ پلٹس کے مزے کی پڈنگ ان کے شاندار سوٹ پر لسٹر جائے۔ مگر نے جلدی سے بھڑکتے ہوئے رہوار کی لگامیں کھینچ لیں اور ایک گلاس ٹھنڈا پانی اتار کی نہایت نرمی سے کہا، "اچھا ….اب نہیں لکھوں گی۔ ” انہیں ناامیدی سی ہوئی کہ میں نے بحث کیوں کاٹ دی۔

"مکالموں میں آپ کے کافی جان ہوتی ہے۔ ” اونھ، میں نے سوچا، یہ میرے مکالمے تھوڑے ہوتے ہیں گھر میں سب ایسے ہی بولتے ہیں، میں دوسری زبان سے کہاں سے لاؤں۔

"برنارڈشا سے متاثر ہیں؟”

"بے حد، میں نے ایک ڈرامہ میں برناڈشا کے یہاں سے پورا کا پورا سین اڑا لیا ہے، کیوں کہ مجھے وہ سین بہت پسند آیا تھا۔ اس کا حوالہ بھی نہیں دیا مجھے اپنی آنے والی ذمہ داریوں کا اس وقت تک اندازہ نہیں تھا۔ یہ خبر نہ تھی کہ ایک دن "جواب داری” کرنا ہو گی۔ اصل میں میں نے وہ سین ایک فلمی کہانی کے لئے اڑایا تھا۔ ”

میں نے سوچا اس سے پہلے یہ میری ٹانگ کھینچیں خود ہی کیوں نہ سر پھوڑ لوں۔ "آپ بھی کے جردم جردم اور پی۔ جیوڈپاس سے متاثر ہوئے ہوں گے۔ ” میں نے کہہ تو دیا، لیکن اب سوچتی ہوں کہ صرف ایک بات مشترک تھی، یعنی دونوں مزاح نگار تھے،۔ شاید چڑ کر کہہ دیا ہو گا۔ وہ نہایت ہوشیاری سے ٹال گئے اور اشارے سے بیرے کو بلایا۔ بڑی پریشان صورت بنا کر چاروں طرف دیکھا۔

"معاف کیجئے گا۔ ” بڑے ادب سے مجھ سے معذرت چاہی، پھر سرگوشی میں بیرے سے کچھ کہا۔ وہ بڑے زور زور سے سرہلانے لگا۔

"صاحب آپ اطمینان رکھو، کوئی بات نہیں۔ ” بیرے نے ہمت بڑھائی۔

"نہیں اگر کوئی اعتراض ہو تو……” پھر سہم کر چاروں طرف دیکھا۔

"آپ بولو صاب”

"منیجر صاحب کو تو کچھ”

"نہیں صاحب مینجر صاحب کو کون بولے گا؟” ….. ہم کو بولو …..”

پطرس نے بڑی شکر گزاری سے اسے دیکھا۔ پھر بالکل کان کے پاس ہونٹ لے جا کر بولے۔

"کافی۔ ”

"کافی؟” بیرا چکرایا۔

"ہاں اور نمکین بسکٹ بھی۔ ” بیرامجسم سوال بنا کبھی مجھے اور کبھی انہیں دیکھنے لگا۔

"کسی کو کانوں کان پتہ نہ چلے ….. شاباش”۔

"نہیں صاحب اطمینان رکھو” ….. بھونچکا سا بیرا کافی لینے چلا گیا۔ جاتے جاتے اس نے حیرت زدہ ہو کر پلٹ کر دیکھا جیسے کہتا ہو، دماغ تو سلامت ہے حضور کا۔ پطرس نے نہایت معین خیز انداز میں آنکھ ماری، بے چارہ گھگیا کر ہنسنے لگا۔

اور مجھے معلوم ہوا پطرس مزاح نگار ہی نہیں ان کی زندگی میں شرارت اور چلبلا پن ہے۔ ان کی زبان میں لطیفے ہیں اور برتاؤ میں ہلکا پھلا پن ان کے طنز میں تیکھا پن ہے۔ انہوں نے زندگی کا تنگ و تاریک رخ نہیں دیکھا۔ وہ الجھنوں کا شکار نہیں تھے، آزاد اور زندگی کے قائل تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ نئے لکھنے والوں کی تلخی اور جھنجھلاہٹ سے مکدر سے ہو جاتے تھے۔

جسم فروشی اور حرامی بچوں کے سوال کو وہ کچھ زیادہ مہذب نہیں سمجھتے تھے۔ ان دنوں میں کسی سے بھی ملتی تھی، "لحاف” کا ذکر چھڑ جاتا تھا۔ میری چڑ سی ہو گئی۔ پطرس نے لحاف ہی نہیں اور بھی جنسی الجھنوں پر کوئی بحث نہ کی۔

"میں اپنی کہانیوں کا انگریزی میں ترجمہ کرانا چاہتی ہوں۔ ” میں نے انہیں ذرا رسانیت کے موڈ میں پا کر کہا۔

"کیوں؟” وہ بڑے کھرے پن سے بولے، "آپ کی کہانیاں ترجمہ نہ ہوں گی تو کیا انگریزی ادب غریب رہ جائے گا یا شاید آپ کے خیال ہے، انگریزی کا جامہ پہن کے تحریر زیادہ بلند ہو جائے گی۔ ”

پھر جی جلا۔ ایک دم سے یہ انسان اتنا خشک کیوں ہو جاتا ہے۔ "نہیں، یہ بات تو نہیں اصل میں انگریزی میں چھپنے سے پیسے زیادہ ملتے ہیں۔ احمد علی نے ایک کہانی کے مجھے چار پونڈ دلوائے تھے۔ ”

کچھ لاجواب سے ہو گئے اور مسکرانے لگے، "فکر نہ کیجئے ایک دن آئے گا لوگ خود ہی اس طرف توجہ دیں گے۔ ” پھر میں نے فکر نہ کی۔

ایک ایک لمحہ ہر لطف گزرا۔ گھنٹوں باتیں کرنے کے بعد بھی ابھی زنبیل میں بہت کچھ تھا۔ وہ مجھے چرچ گیٹ اسٹیشن تک چھوڑ گئے۔ میں ان دنوں ملاڈ رہتی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے میرے بارے میں ایک مضمون لکھا جو میں نے نہیں پڑھا، لوگوں سے ٹکڑے سنے۔ ایک بار دہلی جانا ہوا تو دعوت میں بلایا۔ وہاں فیض بھی تھے۔ مگر بڑی چپ چاپ سی محفل تھی۔ جس کا میرے دماغ پر دھندلا سا بھی عکس نہیں۔ کچھ سیاست کی باتیں زیادہ ہوئیں جو میرے پلّے نہیں پڑیں۔

سال بھر بعد میں نے نوکری سے استعفادے دیا۔ شاہد کی نوکری بھی کچھ ڈھل مل سے نظر آنے لگی۔ میں نے پھر نوکری کا ارادہ کیا۔ نہ جانے کیا دل میں سمائی پطرس کو لکھ مارا کہ نوکری چاہیے کہیں بھی ملے۔ چار پانچ سو سے کم میں گزر نہیں ہو گی۔ ہفتہ بھر کے اندر چھ سو روپے کی نوکری معہ تقرر کی خط کے مل گئی۔ اس عرصہ میں مجھے فلم کا کام مل گیا تھا اور شاہد کو بھی ڈائرکشن مل گیا۔ میں نے پطرس کو بڑی شرمندگی کا خط لکھا۔ معافی مانگی۔

پھر ملک تقسیم ہو گیا۔ جاگیریں بٹیں، زبان بٹی، ادب بٹا اور ادیبوں کا بھی بٹوارا ہو گی۔ آدھا کنبہ یہاں آدھا وہاں چلا گیا۔ پطرس ادب کی دنیا سے سیاست کے آسمان پر پہنچ گئے۔

مگر نقوش میں ان کا ایک خط پڑھ کر نجانے کیوں محسوس ہوا ….. پطرس دور جا کر بھی پاس ہی کھڑے ہیں۔ آج ہی میں نے "مضامین پطرس خریدے ہیں، پڑھ رہی ہوں۔ پڑھ کر پلنگ سے نیچے گرنے کی نوبت تو نہیں آئی مگر میرے دل و دماغ کی تکان سی اتر رہی ہے۔ وہ قلم جو تھکے ہوئے دماغوں کو ایک لمحہ کے لئے بھی مہلت بخش دے خاموش ہو چکا، مگر دور میرے تخیل میں دو بھاری بھاری غلافی آنکھیں آج بھی بے ساختہ مسکرارہی ہیں۔ ”

٭٭٭

 

 

 

پطرس بخاری مرحوم

 

                صوفی غلام مصطفے تبسم

 

 

پطرس صاحب کی زندگی دل کی دلچسپیوں کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ اگر یہ کہا جائے ہ کہ ان کی بعض وابستگیوں کے ڈانڈے ایک بین الاقوامی افق سے ٹکراتے تھے، تو مبالغہ نہ ہو گا۔ بقول ان کے ان کے دل میں تنہا ایک ملک یا قطعہ ارضی کی یاد نہیں بلکہ بیک وقت چھ ملکوں کی یادیں سمائی ہوئی تھیں۔ وہ ان سب کو سینے سے لگائے رکھتے اور کسی ایک وقت بھی دل سے الگ نہ ہونے دیتے۔ یہ ان کے وسیع القلب ہونے کی دلیل تھی۔

اس وسعت کی ساتھ ساتھ ان کی شخصیت میں ایک لوچ بھی تھا۔ وہ جہاں بھی ہوتے جسمانی اور ذہنی طور پر اپنے آپ کو اس ماحول میں سمولیتے یا یوں کہئے کہ اس ماحول کو اپنا لیتے۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود ایک یاد ان کی دل سے ہمیشہ لپٹی رہتی اور اس کی گرفت کبھی ڈھیلی نہ پڑتی وہ لاہور شہر کی یاد تھی اور اس کا شہر کا وہ بلند اور نمایاں ٹکڑا جسے دنیا گورنمنٹ کالج کے نام سے پکارتی ہے۔

بخاری مرحوم اس کالج کے طالب علم بھی رہے ہیں۔ ان کی اعلیٰ تعلیم ٰ کا آغاز بھی یہیں سے ہوا تھا، ان کی علمی اور ادبی زندگی یہیں پروان دکھائیں لیکن اس کالج کے خیال سے کبھی غافل نہ رہے۔

ایک وقت ایسا آیا کہ انہیں اس ادارے کو چھوڑ کر باہر جانا پڑا۔ ان کے قدم دنیا بھر میں گھومے، ان کے فکر و ذہن نے بڑی بڑی پروازیں دکھائیں لیکن اس کالج کے خیال سے کبھی غافل نہ رہے۔

ریڈیو کے محکمہ میں تقریباً دس سال گزارنے کے بعد ۱۹۴۷ء کے اوائل میں دوبارہ کالج میں پرنسپل کی حیثیت سے وارد ہوئے تو یوں محسوس ہوا جیسے وہ ایک دن کے لئے بھی اس سے الگ نہیں ہوئے۔ مجھے خوب یاد ہے کہ جن ان کا سامان ٹرک سے اتارا جا رہا تھا تو وہ میرے ساتھ کالج کے وسیع صحنوں اور سرسبز میدانوں میں گشت لگا رہے تھے اور ان کی آنکھوں کی چمک اور لبوں کا تبسم صاف صاف بتا رہا تھا کہ انہیں اس قدیمی ماحول میں اپنے آپ کو دیکھ کر کتنی مسرت ہو رہی ہے۔ ان کے ذہن میں کالج کی عظیم الشان عمارت کا گوشہ گوشہ بدستور تازہ تھا۔ وہ ان میں سے یوں گزر رہے تھے جیسے کوئی اپنے پرانے گھر میں پھر رہا ہو۔ وہ جہاں کوئی نئی چیز بھی دیکھتے تو انہیں اس میں اجنبی پن محسوس نہ ہوتا۔ جہاں کوئی چیز اپنی اصلی جگہ سے ہلی ہوتی تو کہتے ہیں! یہ کیا ہوا؟

بہرحال وہ اس کوچے کے ذرے ذرے سے آشنا تھے، کیونکہ ادھر مدتوں آئے گئے تھے۔

ان کے کالج میں آنے کے فوراً بعد حالات بگڑ گئے۔ لاہور میں مسلمانوں اور ہندوؤں اور سکھوں کے باہمی تعلقات کشیدہ ہو گئے۔ فرقہ وارانہ فساد شروع ہوئے لیکن بخاری صاحب مرحوم نے کالج کی فضا کو بڑی خوش اسلوبی سے محفوظ رکھا۔

پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد حالات ابھی مخدوش تھے۔ مقامی طلباء اور اساتذہ کی طبیعتیں اکھڑی اکھڑی تھیں، اور باہر سے وارد ہونے والے اصحاب پریشانی کے عالم میں تھے۔ اس ابتری کی حالت میں انہوں نے کالج کو سنبھالا اور اس احتیاط اور محبت سے سنبھالا کہ اس کی روایات اور شان میں فرق نہ آیا۔

مجھے خوب یاد ہے کالج میں فسٹ ایر کے داخلے کے دن قریب آرہے تھے۔ اخبارات میں داخلے کا اعلان ہو چکا تھا۔ داخلے کے فارم تقسیم ہو رہے تھے۔ داخل ہونے والے بچوں کی ہر طرف چہل پہل تھی۔ بخاری صاحب کے قدم غیر معمولی طور پر تیزی سے پر طرف اٹھ رہے تھے۔ کبھی وہ نووارد امیدواروں کو دیکھتے، کبھی دفتر کے کلرکوں پر نظر ڈالتے، کبھی دوسرے کالجوں میں پہنچ کر وہاں کی فضا کو بھانپتے۔ ان کی دماغ میں ایک خلجان تھا۔ وہ یہ کہ کیا گورنمنٹ کالج میں آنے والے طلباء اسی قدیم معیار کے ہوں گے ؟ کیا اس کی شان حسب معلوم بلند رہے گی؟ کیا اس کی روایات میں فرق تو نہیں آئے گا؟

جب درخواستیں گزارنے کا آخری دن آیا تو وہ صبح سے بے چین رہے۔ ہر پندرہ بیس منٹ کے بعد ہیڈ کلرک سے امیدواروں کی تعداد اور ان کی استعداد کے بارے میں پوچھتے۔ جب شام کو پانچ بجے انھیں معلوم ہوا کہ فسٹ ڈویژن میں پاس ہونے والے امیدواروں کی تعداد تقریباً ڈھائی سو تک پہنچ چکی ہے تو وہ خوش سے اچھل پڑے اور بے ساختہ کہنے لگے ……. صوفی! ہمارے بچوں میں بڑی جان ہے ! اس کالج کو زندہ رکھیں گے۔

داخلے میں انہوں نے کیا کیا کچھ کیا؟ یہ وہی لوگ جانتے ہیں جو ان کے شریک کار رہے۔ الله جانے انہوں نے کتنے بلکتے ہوئے بچوں کے آنسو پونچھے، کتنے نادار اور مایوس انسانوں کی ڈھارس بندھائی۔ اس عالیشان عمارت میں قدم رکھتے ہوئے جھجکتے لڑکھڑاتے قدموں کو سہارا دیا، اور اس کام کے لئے انہیں محکمہ تعلیم، افسران بالا، وزرا کے آستانوں غرض جہاں جہاں بھی جانا پڑا، گئے اور امداد لے کر آئے۔ ایسے مخدوش حالات میں انہوں نے کالج کے لئے وہ کچھ کیا کہ شاید کوئی دوسرا نہ کرسکتا۔

ایک دن چند بے تکلف احباب کی صحبت میں بیٹھے ہوئے کہنے لگے، دوستو! تمہیں معلوم ہے گورنمنٹ کالج کا فارغ التحصیل طالب علم جہاں کہیں بھی ہو سب سے ممتاز ہوتا ہے۔ اس کی حرکات و سکنات، اس کا لب و لہجہ فوراً بتا دیتا ہے کہ یہ کہاں سے آیا ہے۔ یہ سب کچھ ہمارے ماحول اور ہمارے معیار کی بدولت ہے۔ اب اردو ایم اے کی کلاس شروع ہونے والی ہے۔ میں سوچتا ہوں اور ڈرتا ہوں کہ اگر ہم نے انگریزی ایم اے کلاس کی طرح اسے بھی نہ سنبھالا تو معاملہ بگڑ جائے گا۔ اور ہو سکتا ہے کہ کچھ عرصے کے بعد اس کی حیثیت ادیب فاضل اور منشی فاضل کی سی نہ رہ جائے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی اردو کی ایم اے کلاس کی یونیورسٹی سے الگ تھلگ چلایا اور اس میں بڑی سرگرمی اور تندہی سے کام کی۔ اگر وہ امریکہ نہ چلے جاتے تو اس کے لئے کیا کچھ نہ کرتے۔

کالج کے علاوہ یونیورسٹی میں بھی ان کی سرگرمیاں بدستور جاری رہیں اور اگر انہیں یہاں ٹھرنے کا کام کرنے کا موقعہ ملتا تو یہ ادارے الله جانے کہاں سے کہاں پہنچ جاتے۔ لیکن حکومت ان سے اور خدمت لینا چاہتی تھی۔ انہیں بار بار باہر جانا پڑتا لیکن اس غیر حاضری میں بھی ان کا دل کالج کی یاد سے خالی نہ ہوتا۔ چند مہینوں کے بعد جب وہ لوٹ کر آتے تو گھر پہنچنے سے پہلے کالج کے سامنے موٹر کو کھڑا کر کے ادھر ادھر نظر ڈالتے اور ایک خوشی کی لہر ان کے چہرے پر دوڑ جاتی۔ یوں محسوس ہوتا کہ وہ اس جگہ کے ایک ایک ذرے سے لپٹ رہے ہیں۔

گورنمنٹ کالج میں ان کی حیثیت محض ایک معلم، استاد، یا پرنسپل کی نہیں تھی۔ وہ طالب علموں کو صرف پڑھاتے نہیں تھے۔ وہ زندگی میں ان کی مشفق رہنما اور دوست بھی تھے۔ طالب علموں کی ذہنی استعدادوں کو ٹٹولنا، انہیں ابھارنا، ان کی محنتوں کو صحیح راہ پہ چلانا، ان کی زندگی کو سنوارنا، ان کا ایک اہم فریضہ حیات تھا، اور ایک دل چسپ مشغلہ۔ اس کے لئے وہ نئے نئے تعلیمی ادبی، تفریحی حیلے سوچتے رہتے۔ مشاعرے، ڈرامے، مناظرے، ادبی مجلسیں قائم کرتے اور اس طرح طالب علموں کو مصروف کار رکھتے۔

کالج کے مشاعروں میں وہ نہ صرف صدارت کرتے بلکہ داد سخن بھی دیتے اور خود بھی شعر سناتے۔ ڈراموں میں ان کی عملی شرکت نے اس فن کو اس سرزمین میں ایک خاص معیار عطا کیا تھا۔ وہ خود نئے نئے ڈرامے ترجمہ کرتے، خود پارٹ بھی کرتے اور اداکاری کے ساتھ ساتھ ہدایت کار بھی ہوتے۔ انہوں نے کالج میں ادبی سوسائیٹیوں کے ہوتے ہوئے ایک الگ "اردو مجلس” قائم کی جس کے ہفتے وار جلسے انہیں کے مکان پر ہوتے تھے۔ جس میں شریک ہونے والے کچھ احباب اور کچھ مخصوص طالب علم ہوتے۔ ان مجلسوں میں علمی، ادبی مقالے پڑھے جاتے اور ایک نہایت بے تکلف فضا اور ماحول میں ان پر بے لوث تنقید بھی کی جاتی۔ تنقید کا مقصد تخریب نہیں بلکہ تہذیب ہوتی تھی۔ اس مجلس میں شریک ہونے والے اول اول طلباء وہ نوجوان تھے جو آج اپنی علمی ادبی حیثیت سے اپنے دیس کو چار چاند لگائے ہوئے ہیں میری مراد آغا حمید، فیض احمد فیض، حفیظ ہوشیار پوری، ن، م، راشد جیسی شخصیتوں سے ہے۔ غرض بخاری صاحب مرحوم غیر معمولی طور پر گورنمنٹ کالج سے وابستہ تھے۔ انہوں نے اس ادارے کی یاد کو زندگی بھر سینے سے لگائے رکھا اور جہاں بھی رہے اسے فراموش نہ کیا۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ خود کالج کی سرزمین بھی ان کی یاد سے خالی نہ تھی۔ آج جگہ جگہ ان کی محبت کے آثار نظر آتے ہیں اور ان کے ہاتھوں سے نکلے ہوئے شاگردوں کے دل اس محبت کی یاد تازہ کرتے رہتے ہیں۔

اس کالج کی فضا میں جن استادوں کی یادیں اور آوازیں گونجتی رہی ہیں۔ ان میں بخاری کی آواز "نوائے زمزمہ” کی حیثیت رکھتی ہے۔

۱۹۴۸ء کی بات ہے، شام کا وقت تھا۔ پروفیسر بخاری اور میں بیٹھے کالج کی باتیں کر رہے تھے۔ میں نے کالج کی تدریسی اور ادبی سرگرمیوں کے سلسلے میں کچھ تجویزیں پیش کیں۔ ہنس کر بولے، صوفی! یہ تو شعر ہوئے۔ تم نے سنائے اور میں نے سن کر داد دی۔ ”

میں چپ ہو گیا۔

کچھ وقفے کے بعد بولے، "سنو!” تم استاد ہو، اور میں کالج کا پرنسپل۔ ہمارا کام اس درس گاہ کے نظم و نسق کو عملی طور پر آگے بڑھانا ہے۔ میرے نزدیک وہ تجاوز جو عملی صورت میں نہیں آتی، خواہ وہ آسمان ہی سے کیوں نہ نازل ہوئی ہو، محض ذہنی عیاشی ہے اور میں ذہنی عیاشیوں میں شعروں اور دوستانہ خوش گپیوں کو ہمیشہ ترجیح دیتا ہوں۔”

میں نے مرزا بیدل کی ایک غزل جو اسی روز پڑھی تھی سنائی شروع کر دی۔

رات کچھ بے چینی سی رہی۔ ایک مدرسے کالج میں اردو کی تدریس شبانہ جاری کرنے کا ارادہ تھا۔ صبح ہوتے ہی میں نے "ادیب فاضل کلاس” کی تدریس کا ایک مکمل "پیش نامہ” مرتب کر لیا، اور اس کی تین نقلیں بھی تیار کر دیں۔ شام کو یہ مسل بغل میں دبائے بخاری صاحب کے مکان پر پہنچا۔

انہوں نے پوچھا، "ضلع کچہری سے آئے ہو؟”

میں نے کہا، "گھر سے آ رہا ہوں۔ ”

"تو یہ پلندہ کیسا ہے ؟”

"میرے ذاتی کاغذات ہیں۔ ”

"ٹھیک، بیٹھو”

ان دنوں پرنسپل کے مکان میں سرکاری کاغذات کا داخلہ ممنوع تھا۔ ایک آدھ ادھر ادھر کی بات کرنے کے بعد میں جھجکتے جھجکتے اپنا تجویز کلام سنانا شروع کیا۔

میں نے کہا "عام شائقین کے لئے اردو کی اعلے ٰتدریس کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں۔ ارادہ ہے کالج میں ادیب فاضل کی ایک کلاس شام کو جاری کی جائے۔ اس کلاس کے جملے نظم و نسق، ترتیب و تدوین اور درس کا کفیل کالج ہی ہو۔ ”

حسب معلوم کہنے لگے، "یہ طرحیہ اشعار ہیں؟”

میں نے کہ، "جی ہاں۔ مطلع سنا چکا ہوں، پوری غزل یہ رہی۔ ”

یہ کہہ کر میں نے کاغذات کا پلندہ ان کے ہاتھ میں دے دیا۔ وہ اسے پڑھتے جاتے اور ان کا چہرہ خوشی اور مسرت سے تمتما جاتا تھا۔ درمیان میں کہیں کہیں وہ کچھ سوال بھی پوچھتے جاتے۔ میں جواب دیتا رہتا، "آپ سارا مسودہ پڑھ لیں آپ کو معلوم ہو جائے گا۔ ”

کاغذات ختم ہوئے تو بولے :۔

"ہوں، گویا میں بھی پڑھاؤں گا۔ ”

"میں نے کہا، "آپ فقط پرنسپل ہی نہیں، استاد بھی ہیں۔ ”

"کیوں نہیں۔ ”

اسں کے بعد انہوں نے ایک سگرٹ سلگایا، جس کا دھواں تھوڑے ہی وقفے میں برآمدے کے ہر گوشے میں لہرا رہا تھا۔

شام کا کھانا کھانے کے بعد وہ موٹر کار میں بیٹھ کر شہر میں گھومنے لگے۔ جہاں جاتے اسی غزل کی تلاوت ہوتی اور پڑھنے کے ساتھ ہی اس طرح داد بھی دیتے کہ دوسروں کے منہ سے بے ساختہ واہ نکل جاتی۔ اہل فکر حضرات اور مشفق احباب سب نے اسے سراہا۔ اس تبلیغی اعلان اور نشری پر چار میں آدھی رات گزر گئی۔

صبح کو یہ بات لاہور کی گلی گلی کوچے میں گشت لگا رہی تھی۔ ایک ہفتہ کے اندر تمام ضروری مراحل طے ہو گئے۔ محکمانہ اجازت، اشتہار و اعلان اور درخواستوں کی طلبی، امیدواروں کی پیشی، داخلہ اور پڑھائی۔

پروفیسر بخاری اپنے روز مرہ مشاغل میں خواہ وہ فرائض منصبی سے تعلق رکھتے ہوں یا نجی ہوں ایسے ہی مستعدی سے کام لیتے تھے۔ زندگی میں ان کی کامیابی کا سب سے بڑا راز یہی ہے۔

قدرت نے انہیں غیر معمولی ذہانت عطا کی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی معاملہ فہمی اور جزرسی اس ذہانت کو اور بھی چمکاری تھی۔ وہ کسی کام میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے اس کے تمام امکانی پہلوؤں کو بھانپ لیتے تھے۔ اس کے حسن و قبیح اور دور رس نتائج کو دیکھتے تھے۔ بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کی قوت عمل بڑی تیزی سے کام کرتے تھی اور وہ کسی خیال کے آتے ہی اسے فی الفور عملی جامہ پہنا دینے کے عادت تھی لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ وہ معمولی کی اقدام کے لئے بھی کئی دن تک غور کرتے رہتے تھے۔ اٹھتے بیٹھے چلتے پھرتے سوچتے تھے دوسروں سے مشورہ بھی لیتے تھے اوراس مشورہ طلبی میں ایسے حسن تدبر سے کام لیتے تھے کہ بات بھی سلجھ جائے اور کسی کو اصلی راز کا پتہ بھی نہ چلے۔ جب ذہنی جائزہ لینے کے بعد انہیں پورا اطمینان ہو جاتا تب وہ قدم اٹھاتے اور بجلی سی تیزی کے ساتھ اس کام کی تکمیل کے درپے ہو جاتے تھے۔

کاموں کی تکمیل کے لئے دوسروں سے مدد لینے میں انہیں خاص ملکہ حاصل تھا۔ وہ اپنے عملی اقدام کا چرچا بڑی خوش اسلوبی سے کرتے تھے۔ دوسروں کی ہمدردی اور رفیقان کار کی اعانت ہمیشہ ان کا ہاتھ بٹاتی تھی۔ پھر ان کے کام کرنے کا طریقہ بھی اتنا خوش آید ہوتا تھا کہ دیکھنے والوں میں بھی تکمیل کار کا ایک غیر معمولی ولولہ پیدا ہو جاتا تھا اور وہ خود ان کے شریک کار بن جاتے تھے اور اس شرکت میں ایک راحت محسوس کرتے تھے۔

بخاری کا مقولہ تھا کہ کسی کام کے صحیح تکمیل کے لئے انسان میں محض شوق نہیں۔ بلکہ چسکا ہونا چاہیے چنانچہ وہ جب بھی کسی کام کو کرتے تھے تو ایسے ذوق و شوق سے کرتے، کہ گویا انہیں اس کام کا چسکا ہے۔ ان کا یہ ذوق و شوق ایک سہولت اور آسانی پیدا کرتا، ان میں ایک قدرتی روانی اور حسن آ جاتا اور ان کی تکمیل ایک فطری تقاضے کی تکمیل معلوم ہوتی تھی۔ بخاری جس کام کو کرتے۔ ایسی سرگرمی، ایسے انہماک اور شغف سے کرتے، کہ معلوم ہوتا یہی ان کا فطری مشغلہ ہے اور قدرت نے انہیں اسی کام کے لئے بنایا ہے۔ لیکن وہ تمام کاروبار زلیت کو اسی نقطۂ نظر سے دیکھتے۔ ان کے نزدیک ہر کام کے لئے ایک پیشہ وارانہ مہارت درکار تھی۔ جب تک کوئی مشغلہ فن نہیں بن جاتا اپنی صحیح حیثیت کو برقرار نہیں رکھ سکتا۔ انسان کام کرے تو حس کار کو کام میں لائے، نہیں تو بے کار رہے۔

بخاری نے ایک بے چین طبیعت پائی تھی۔ ان کا دماغ ان کے جسم سے، اور ان کا جسم ان کے دماغ سے زیادہ تیز کام کرتا تھا ان کے ذہنی اطوار اور عملی رفتار ہمیشہ ہم آہنگ رہتے۔ اس لئے انتہائی مصروفیتوں میں بھی ان کی طبیعت پر کوئی ناگوار بوجھ نہیں پڑتا تھا۔ بلکہ ہر تکمیل کار ان کے لئے خاص لذت اندوزی کا سامان مہیا کرتی تھی، وہ کسی شے کو معمولی حالت میں دیکھنا گوارا نہیں کرتے تھے۔ ان کی طبیعت کی اپج اس میں ہر روز کوئی نہ کوئی تغیر چاہتی تھی۔ اگر یہ تغیر  نہ ہو تو ہر مشغلہ اپنی دل چسپی کھو دیتا ہے اور اس کی یکسانیت اسے بے کیف بنا دیتی ہے۔ بخاری کو یہ یکسانیت کسی طرح بھی گورا نہیں تھی وہ سمجھتے تھے کہ ایسی یکسانیت سے نہ صرف کام کی رفتار ڈھیلی پڑ جاتی ہے بلکہ کام کرنے والے کی طبیعت کو بھی زنگ لگ جاتا ہے۔ گورنمنٹ کالج میں مجلس کا قیام، محکمہ تعلیم میں منتخب کتابوں کے تراجم، ریڈیو کے نئے نئے نشری پروگرام سب کے سب اسی اپج کا نتیجہ تھے۔

بخاری کی تیز رفتاری کا ایک واقعہ مجھے اب تک یاد ہے۔ مجلس کے ہفتہ وار ادبی اجلاس پہلے پہل انہی کا مکان پر ہوا کرتے تھے۔ ایک شام جب مجلس کی کاروائی شروع ہونے والی تھی، وہ ساتھ کے کمرے سے نکل آئے۔ آستنیں چڑھی ہوئیں، ہاتھ گرد آلود تھے۔ بولے، آج میں سخت مصروف ہوں، آپ میرا انتظار نہ کرتیں میں شریک محفل نہ ہو سکوں گا۔ بات ختم ہوئی، دوسرے روز معلوم ہوا ہک آپ نے رات بھر میں ٹیکسٹ بک کمیٹی پنجاب کی پچیس سالہ کار گزاریوں کی ایک رپورٹ مرتب کر لی۔ اس رپورٹ کی ترتیب میں انہیں سینکڑوں مسلوں کو کھنگالنا پڑا۔ متفرق اور ان سے ضرور مواد کا انتخاب اور اس کی تدوین و تہذیب کوئی آسان کام نہ تھا۔ دفتری کاروائی کی جاتی تو شاید مہینے لگے جاتے، لیکن یہ کٹھن کام ان کے تنہا ہاتھوں نے ایک رات میں سرانجام دیا۔

یہاں ایک لطیفہ بھی سن لیجئے۔ صبح سویرے بخاری صاحب یہ رپورٹ لے کر دفتر پہنچے۔ ان کا خیال تھا افسراں بالا ان کی اس خدمت گزاری کا اور تیز کاری پر خوش ہوں گے۔ لیکن وہاں اس وقت کرسی منصب پر ایک ایسے صاحب براجمان تھے جن کی قابلیت نبض کہنے خالی تھی۔ انہوں نے بڑی تمکنت اور رعونت سے رپورٹ کو ہاتھوں میں لیا، ورق کو الٹ پلٹ کر دیکھا اور پھر نہایت بے پروایانہ انداز میں بولے "یہ کیا لکھا ہے ……. خیر کوئی بات نہیں میں درست کر لوں گا۔ ” یہ کہہ کر انہوں نے رپورٹ کاغذات کی ٹوکری میں ڈال دی۔ بخاری نے یہ سب کچھ دیکھا اور سنا۔ کوئی صاحب ذوق یہ لفظ کہتا تو کوئی بات بھی تھی۔ ایک نااہل کا اس افسرانہ لہجے میں گفتگو کرنا نہایت ناگوار گزرا۔ انہوں نے لپک کر رپورٹ اٹھائی اور پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دی۔

"ہیں ہیں یہ کیا حماقت کر رہے ہو؟”

"اگر یہ رپورٹ اچھی نہیں تو اس کا رکھنا بے کار ہے۔ ”

بخاری یہ کہہ کر کمرے سے باہر چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد معلوم ہوا کہ افسر کے کمرے میں دفتر کے چپراسیوں کا ایک بڑا دستہ بیٹھا رپورٹ کے پھاڑے ہوئے کاغذات کے ٹکڑے جوڑ رہا ہے۔

صلۂ کار کی کسے تمنا نہیں ہوتی، لیکن جب کوئی کام کسی لالچ کے بغیر یا حصولِ نام و نمود سے بے نیاز ہو کر کیا جائے اور وہ بھی دوستوں کی خاطر کیا جائے اور پھر اس کام کو یوں ٹھکرایا جائے تو انسان کے دل کو ضرور ٹھیس لگتی ہے۔ نااہل ہاتھوں نے جو چرکے لگائے تھے معلوم نہیں کہاں تک ان پھٹے ہوئے کاغذوں پر چیپیوں نے مرہم کا کام کیا۔ یہ بخاری صاحب کا دل ہی بتا سکتا ہے میں تو یہی کہہ سکتا ہوں کہ ان کا چابکدستی دونوں طرح اپنا جوہر دکھا کے رہی۔

ایک مرتبہ ان کے رفیقوں میں سے ایک صاحب یونیوسٹی کے کسی رکن کی غلط کے کسی رکن کی غلط کاریوں پر چیں بہ جبیں ہو رہے تھے۔ بخاری صاحب کہنے لگے، "بھائی صاحب! میری دو باتیں یاد رکھو۔ زندگی میں الجھنا ہو تو کسی بڑے مسئلے پر الجھنا چاہیے اور اپنے سے بڑی آدمی کے ساتھ الجھنا چاہیے ورنہ مزہ نہیں آتا۔ انسان کی قوتیں اور کوششیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ کمزور آدمی کو دبانے میں کوئی شان نہیں۔ بڑے آدمی سے تصادم ہو تو انسان کی استعداد کار اور بھی چمکتی ہے۔ مجھے دیکھو! میں نے ریڈیو کی ملازمت کے دوران میں ہمیشہ بڑے آدمیوں سے ٹکر لی اور الله کے فضل و کرم سے کامیاب رہا ہوں۔ ”

بظاہر ٹکراؤ ایک ناگوار سی شے ہے اور کاموں کی تکمیل میں ایک رکاوٹ سا نظر آتا ہے لیکن جب اس کی بنیاد کسی بڑے اصول پر ہو اور ٹکرانے والے اہل لوگ ہوں تو اس سے مفید نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ بخاری کی طبعیت کا خاصہ تھا کہ وہ ہمیشہ ایسی رکاوٹوں سے خوش ہوتے تھے۔ رکاوٹوں سے خوش ہوتے تھے۔ روکاوٹوں سے ان کی طبعی صلاحیتیں اور استعدادیں اور بھی ابھرتی تھی۔ ان کا بڑا کمال یہ تھا کہ وہ ان رکاوٹوں سے عہدہ برآ ہوتے وقت کبھی تھکن یا تلخی محسوس نہیں کرتے تھے اور تو اور خود ان سے ٹکرانے والا جب ان سے شکست کھاتا تھا تو اسے اپنی شکست کا اتنا احساس نہیں ہوتا جتنا ان کی عظمت اور برتری کا۔

ریڈیو کے محکمے میں ان کا بالتدریج آگے بڑھنا اور آگے بڑھ کر محکمے پر چھا جانا ایک ایسا ہی کارنامہ ہے۔ انہوں نے دس سال کے عرصے میں ریڈیو کو جو وسعت اور شہرت دی وہ ان کی ذہانت اور مستعدی کی بین دلیل ہے۔ جنگ عظیم کے دوران میں ریڈیو پروگرام اور بالخصوص خبروں کی نشر و اشاعت کا کام بہت کٹھن تھا۔ اس بارے میں انگریز حکام اور ان کی پالیسی بارہا ان کے آڑے آئی لیکن انہوں نے بڑی خوش اسلوبی سے ایک طرف ان کی تصرفات کی روک تھام کی اور دوسرے طرف اپنی پالیسی کے پیش نظر ریڈیو کے وقار کو برقرار رکھا۔ خبروں کا اہتمام ریڈیو کے پروگرام کا سب سے اہم کام ہے۔ اس کی اہمیت کو غالباً ریڈیو کے عملے کے کارکنوں کے سوا کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ یہ امر واقعہ ہے کہ اسے موزوں بننے بلکہ ایک فنی شکل و صورت دینے میں بخاری صاحب کا زبردست ہاتھ تھا۔ اس میں ان کی شخصیت کا پورا پورا عکس نظر آتا ہے۔

انہیں نئی نئی تجویزیں سوجھتی تھیں۔ ایک مرتبہ حسب معمول انہوں نے حکومت کو لکھا کہ ریڈیو پروگرام میں بہت سی مستقل اہمیت رکھتی ہیں۔ اگر انہیں شائع کر کے محفوظ کر لیا جائے تو ایک ادبی خدمت بھی ہو گی۔ چونکہ جنگ کا زمانہ تھا۔ انہوں نے ایک دلیل یہ بھی دی کہ بعض پروگراموں میں جنگی پرچار کے عنصر پوشیدہ ہوتے ہیں۔ چھپ جانے کی صورت میں وہ بھی کارآمد ثابت ہوں گے۔ اس تجویز کا جواب کوئی آٹھ مہینے کے بعد موصول ہوا۔ تجویز رد کرنے میں جہاں بہت سے دلائل تھے وہاں ایک دلیل یہ تھی کہ جنگ اب جلد ختم ہونے والی ہے لہٰذا ایسے مواد کو چھپنا بے موقع ہے۔ بخاری نے اس دلیل کو پڑھ کر لکھا "ہاں درست، لیکن اگر ہماری حکومت اسی رفتار سے کام کرتی رہی تو "امن” کا دور بھی جلد ختم ہو جائے گا۔ ”

پطرس کے مضامین بخاری صاحب کی مزاحیہ طبیعت کے آئینہ دار ہیں۔ مزاح نگاری بظاہر بڑی ہلکی پھلکی شے ہے لیکن طنز نگاری کی طرح ایک لطیف شے کو پیدا کرنے کے لئے ایک بڑی شخصیت کی ضرورت ہوتی۔ جب تک کسی شخص میں غیر معمولی ذہانت، عمیق مشاہدہ کی عادت اور شگفتہ طرز بیان کی قوت نہ ہو وہ کامیاب مزاح نگار نہیں ہو سکتا۔ انسانی اعمال میں بعض حرکات بڑی مضحکہ خیز ہوتی ہیں، لیکن ہر انسانی آنکھ انہیں نمایاں طور پر نہیں دیکھتی۔ ایک مشاہدہ کار انسان انہیں بروئے کار لاتا ہے اور ان کا اظہار لطیف اور شگفتہ انداز میں اس طرح کرتا ہے کہ وہ تحت شعور سے ابھر کی اجاگر ہو جاتی ہیں اور ہم ان انسانی لغزشوں کو دیکھ کر مسکرادیتے ہیں۔ بخاری کی نظر بڑی وسیع اور گہری تھی اور پھر اسے بیان پر قدرت حاصل تھی، اس لئے وہ بے ساختہ ان حرکات کو دیکھتے سمجھتے اور چمکاتے رہتے تھے۔

مذکورہ بالا ریڈیو مسل کا التوا میں پڑ جانا روز مرہ کا معمول ہے۔ کوئی اور ہوتا تو اسے دفتری سرخ فیتے کے سلسلے کی ایک کڑی سمجھ کر ٹال دیتا، لیکن بخاری کی نظر التوا کے تمام پہلوؤں پر پڑتی تھی۔

مشاعروں کی بے طرحی سے کون واقف نہیں اور شہروں کی گندی حالت کو کون نہیں جانتا۔ لیکن "کتے ” اور "لاہور کا جغرافیہ” بخاری ہی لکھ سکتے تھے۔ بخاری کا مزاحیہ انداز ان کی تحریروں تک ہی محدود نہیں ان کی تقریریں بھی مزاح سے مزین ہوتی تھیں۔ وہ بڑے سے بڑے اہم اور سنجیدہ مسائل پر بحث کرتے ہوئے اسی حربے کو کام میں لاتے تھے۔ احباب کی صحبتوں اور عام موقعوں پر بھی اسے بے ساختہ استعمال کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر مجمع میں ان کی گفتگو لوگوں کی توجہ کا مرکز بن جاتی تھی اور لوگ پہروں ان کے پاس بیٹھنے سے نہیں اکتاتے تھے۔

لیکن اس سے یہ اندازہ نہیں لگانا چاہیے کہ بخاری کی ذات میں جو کشش تھی وہ محض ان کی مزاح گوئی کی وجہ سے تھی۔ بے شک ان کا مزاح ملنے والوں کے دل میں ایک شگفتگی پیدا کرتا تھا لیکن انہیں قریب سے دیکھنے والے جانتے ہیں کہ ان میں خلوص بھی تھا۔ وہ اپنے عزیزوں، دوستوں اور عام لوگوں سے بڑے رکھ رکھاؤ سے ملتے تھے۔  اس رکھ رکھاؤ میں دوست داری بھی ہوتی تھی اور سلیقہ بھی۔ عام ملاقاتوں میں جہاں انسانی منافقت کام کرتی ہے وہ اس آراستگی سے بات کرتے تھے کہ طبیعت کو خوش گوار معلوم ہوتی تھی۔ وہ چھیڑ چھاڑ کے خوگر تھے لیکن اس چھیڑ چھاڑ سے ان کی مراد کسی کی دل آزاری نہیں بلکہ اس سے لگاؤ کا اظہار ہوتا تھا۔

بخاری صاحب کو اپنے ان کرشموں کا پورا پورا احساس ہوتا تھا، بلکہ وہ دوسروں پر اکثر ایک خاص تفوق محسوس بھی کرتے تھے اور اس تقوق سے دوسروں کو اپنے مطابق چلاتے بھی رہتے تھے۔ جہاں کہیں ان کی طاقت لسانی کاگر نہیں ہوتی تھی وہ اپنی مزاحیہ گفتگو کو چھوڑ کر کوئی ایسی حرکت بھی کرسکتے تھے جو دوسروں کو چپ کرا سکے یا انہیں شکست دے سکے۔ ۱۹۴۷ء کے اواخر میں جب قومی زبان کا مسئلہ پیش ہوا تو بنگال کے ایک صاحب اقدار بزرگ نے بنگالی زبان کی حمایت میں بڑی پر زور تقریر کی۔ بخاری نے اپنی بذلہ سنجیوں سے انہیں بہت کچھ مرعوب کرنا چاہا لیکن خاطر خواہ کامیابی نہ ہوئی دوسرے روزہ وہ بزرگ اپنے عقائد کی تائید میں کچھ اعداد و شمار پیش کرنے والے تھے۔ بخاری صاحب کو ایسے مسودے کے مؤثر ہونے کا اندیشہ تھا۔ آپ ان کے پاس ہی بیٹھے۔ اچانک آپ کی نظر ایک کاغذ پر پڑی۔ تاڑ گئے، ہو نہ ہو یہ اعداد و شمار کا پلندہ ہے۔ انہوں نے چپکے سے وہ پلندہ نکال لیا جب وہ بزرگ پر جوش خیالات کا اظہار کرنے کے بعد اعداد و شمار پر آئے اور کاغذوں پر ہاتھ ڈالا تو غائب تھے۔ پریشانی میں جیبوں کو ٹٹولتے رہے اور یہ معصوم صورت بنائے ان سے ہمدردانہ استفسار کرتے چلے گئے۔ ان کی بدحواسی پر محفل میں ایک کہرام سا مچا۔ جب محفل کا رنگ بگڑ گیا تو بخاری نے اچانک جھک کر میز کے نیچے سے وہی پلندہ اٹھا کہ انہیں دکھایا اور بھولے انداز میں کہا:۔

"آپ یہ تو تلاش نہیں کر رہے ؟”

اس پر ایک زور کا قہقہہ لگا اور ساری بات ہنسی مذاق کی نذر ہو گئی۔

دوستداری، بخاری صاحب کا شیوہ ہی نہیں مسلک بھی تھا۔ اگرچہ اس دوست داری میں گرم جوشی اور وفورِ جذبات کا اظہار بہت کم ہوتا تھا۔ وہ آہوں اور آنسوؤں سے زیادہ جذبات محبت کے اعتدال اور اخفا کے قائل تھے۔ اس بارے میں ان کا گرم جوش دل مغرب کی خنک فضاؤں میں سانس لیتا رہتا تھا اور اپنی آگ کو دبائے رکھتا تھا۔

بظاہر دیکھو تو بخاری صاحب پورے "صاحب لوگ” تھے۔ ان کی وضع قطع، ان کا لباس، ان کے اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے، کھانے پینے، باتیں کرنے سے یورپینی انداز ٹپکتے تھے۔ وہ مشرقی طرز بود و باش پر اکثر پھبتیاں کستے رہتے تھے۔ ان کے ساتھ بازار میں گھومنے جائیے تو معلوم ہوتا تھا۔ انہیں یہاں کی کوئی حرکت پسند نہیں،

"وہ دیکھو، تہ بند کے ساتھ انگریزی قمیص۔ ”

"سبحان الله چپلی کے ساتھ پتلون۔ ”

"ٹائی اور شلوار کیا کہنے۔ ”

"یہ شخص بازار میں کھڑا کباب کھا رہا ہے۔ ”

"یہ دیکھئے اس نے بائیسکل بازار میں بغیر اشارے کے گھما دی۔ ”

"اور یہ چار آدمی صف باندھے چلے آرہے ہیں۔ میں موٹر کہاں سے گزاروں۔ ”

یہ فقرے مسلسل آپ کے کان میں پڑیں گے اور آپ انہیں سنتے سنتے اپنے ملک بلکہ اپنے آپ سے بیزار ہو جائیں گے۔ آپ کو اپنی کم سوادی کا احساس ہونے لگے گا۔ جو خامی آپ میں نہیں وہ بھی نظر آئے گی۔

لیکن اس سے آپ یہ نہ سمجھ لیں کہ بخاری صاحب مغربی طریق زندگی کے قالب سے نکلے ہوئے ایک مجسمہ تھے اور ان میں کوئی لوچ نہیں تھا۔ ان کی صورت شکل مغربی اور مزاج مشرقی تھا۔ ان کی ذات مغرب و مشرق کا تضاد نہیں بلکہ ایک لطیف امتزاج پیش کرتی تھی۔

ان کی مشرق مزاجی کو دیکھنا ہو ان ہی کے گھر کی چار دیواری میں دیکھئے جہاں ہر شے مغربی انداز میں جلوہ گر ہے۔ لیکن جہاں زندگی کی حرکات ٹھیٹھ مشرقی فضا میں سانس لیتی دکھائی دیتی ہیں۔ وہی بے پروا، لاابالیانہ پن، وہی بے تکلف گفتگو، وہی خلوص آمیز میل ملاپ، یوں معلوم ہوتا تھا، جیسے لنڈن یا نیویارک کے کسی مکان میں دلّی کے بلّی ماروں کے حملے والے اچانک آبسے ہوں اور وہ ماحول کے لئے اجنبی اور ماحول ان کے لئے اجنبی ہو۔

کوئی یہ اندازہ نہیں کرسکتا کہ دن بھر اتنی باقاعدگی اور مستعدی سے مشین کی طرح مسلسل کام کرنے والا رات کو کیونکر جاگتا ہو گا، لیکن بخاری صاحب کی شب بیداری کو ان کے ساتھ راتیں گزارنے والے ہی جانتے ہیں۔ رات کے دس گیارہ بجے کے بعد گھر سے گھومنے کے لئے نکلنا ان کا روز مرہ کا شیوہ بلکہ معمول۔ کوئی مقصد، کوئی منزل مقصود نہیں محض گھومنا اور گھومنا اور گھومتے گھومتے کسی سنسان سڑک کے کنارے کھڑے ہو کر گھنٹوں گپیں ہانکنا، یہ تھی ان کی تفریح، جس میں ان کے تمام ہم قدم دوست برابر کے شریک ہوتے تھے۔ مجال نہیں کہ کوئی شب خیز اس ثواب سے محروم رہ جائے۔ بیدل کے دقیق اشعار، شیکسپئر کے ڈرامے، ایلیٹ کے مجرد نگاری، منٹو کے افسانے انہیں خوش گپیوں کے تحت میں آ جاتے تھے۔

راتوں کی یہ بیداری ان کے روزانہ کاموں میں مخل نہیں ہوتی تھی۔ جس طرح دوستوں کو ایک ایک کر کے جمع کیا تھا اسی طرح ایک ایک کو گھر پر چھوڑنے کے بعد وہ بستر پر آ کر لیٹتے تھے اور ایک آدھ گھنٹہ آرام کے کرنے کے بعد حسب معمولی اٹھ کر روز مرّہ کے مشاغل میں کھو جاتے تھے اور اس معمول پر وہ سختی سے کار بند تھے۔ اور خود ہی نہیں بلکہ اپنے رفیقانِ کارسے خواہ وہ ان کے کتنے ہی بے تکلف دوست کیوں نہ ہوں، اسی باقاعدگی اور ضبط کی توقع رکھتے تھے۔ کسی طرح کی بے قاعدگی کو برداشت نہیں کر سکتے تھے۔

بارہا ایسا ہوا کہ رات بھر گھومنے کے بعد ہم پانچ بجے صبح کو لوٹے۔ پونے آٹھ بجے انہوں نے میرے یہاں ٹیلی فون کر کے پوچھا، "صوفی کہاں ہے ؟”

بچوں نے کہا، "وہ یونیورسٹی گئے ہیں، کوئی کام؟”

"کوئی نہیں، یونہی پوچھا تھا۔ ”

ان کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ کہیں ایسا تو نہیں ہوا کہ رات کی سیر نہ مجھے اپنے فرائض منصبی سے غافل کر دیا ہو۔ ان کے نزدیک دوستی اور فرائض بجا آوری دو الگ الگ خانے تھے۔

ریڈیو کے زمانے میں ان کے ایک دوسر سے کوئی کوتاہی ہوئی۔ انہوں نے بڑی سختی سے مواخذہ کیا۔ دوست ان کی غیر معمولی خفگی پر بگڑ گئے اور استفعے لکھ کر ان کے حوالے کیا۔ انہوں نے بڑے افسرانہ وقار کے ساتھ لے لیا اور کہا بہت اچھا آپ تشریف لے جائیے۔

دفتر کے بعد بخاری صاحب اس دوست کے مکان پر بیٹھے دیگر احباب کے ساتھ معافی مانگ رہے تھے۔

پروفیسربخاری کی ذات ایسی جامع صفات تھی کہ ان کی وفات پر یوں احساس ہوتا ہے کہ بیک وقت بہت سی شخصیتیں ہم سے الگ ہو گئیں۔ ان کے رخصت ہونے سے دنیا ایک معاملہ فہم، ہوش مند مفکر سے محروم ہو گئی۔ علم و دانش کے درس گاہوں سے ایک شفیق استاد چل بسا۔ اردو ادب ایک خوش فکر، خوش نگار انشا پرداز پطرس کا ماتم کر رہا ہے۔

یہ سب کچھ ہے لیکن ان کی موت ان کے دوستوں کے لئے ایک بہت بڑا حادثہ ہے۔ ایک ایسا صدمہ جس کی تلافی نہیں ہو سکتی۔ وہ ایک مخلص مشفقِ دوست کو کھو بیٹھے ہیں۔ ایسے مہربان دوسری دنیا میں کم پیدا ہوتے ہیں۔

بخاری صاحب میرے محترم استاد بھی تھے، رفیق کار بھی اور پیارے دوست بھی۔ میرا ان کا  تعارف ۱۹۲۴ء میں ہوا، اور اس کم و بیش تیس سال کے عرصے میں ان کا احترام، ان کی ہمدردانہ رہنمائی اور خلوص دوستی ایک عجیب امتزاج کے ساتھ دل کو لبھاتی اور گرماتی ہی۔ ان کی خوش ذوقی ان کی بذلہ گوئی، ان کے قہقہے جہاں دوستوں کے محفلوں کو جگمگاتے تھے وہاں ان کی پرسکون خاموش گرم جوشی اور محبت اور شفقت کی تڑپ احباب کے دکھی دلوں کی آہوں اور آنسوؤں کا ساتھ دیتی۔

آخری بار جب وہ امریکہ سے لاہور آئے اور چند روز یہاں ٹھہرے تو ایک بار پھر یہ محفلیں جاگ اٹھیں اور زندگی کی بہت سی یادیں پھر زندہ ہو گئیں۔ اس ایک بات کو تقریباً ایک سال گزر چکا ہے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ ابھی وہ کل ہمارے ساتھ بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ کتنا تازہ تھا ان کا پیار ا ر کتنی تیز تھی ان کی یاد۔ ان کی ایک نظر زندگی کے بہت سے گوشوں کو ٹٹولتی اور ایک بات کئی ایک سوئے ہوئے جذبات کو اکساتی تھی۔ انکے پاس بیٹھنے سے دل کی گم شدہ دنیا ئیں از سرنو آباد ہو جاتیں اور زندگی پیچھے کو کروٹیں لے لے کر مٹے ہوئے نقش ابھارتی چلی جاتی۔

ان کی کونسی بات ہے جو رہ رہ کر نہیں ستاتی، لیکن وہ جب کبھی کچھ عرصہ ملک سے باہر رہ کر لاہور میں آتے تو یہی کہتے، دوستو! غربت میں تمہاری یاد بہت ستاتی ہے اور اس یاد کے ساتھ ساتھ وطن کی محبت، اس کا احترام طوفان جذبات بن کر رگوں میں دوڑنے لگتا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے، انسان کا ہر قدم منزل دوست کی طرف اٹھ رہا ہے، جیسے کوئی عاشق اپنے محبوب کی طرف والہانہ انداز میں لپک لپک کر جا رہا ہو۔ تم لوگ یہاں بیٹھ کر اس بات کا اندازہ نہیں کرسکتے۔ اس کو میرا دل ہی جانتا ہے۔

مجھ سے بخاری کی جدائی کا حال نہ پوچھئے۔ ان کا مسلسل خلوص، یہ احسان اور اس احسان کا احساس ہمیشہ تیز اور تازہ رہنا اور خیال ہوتا کہ زندگی تو کیا اپنی موت بھی اسی کے آنسوؤں کا سہارا لے گی۔ لیکن یا خبر تھی کہ ان آنکھوں کو ان کے فراق میں آنسو بہانے پڑیں گے۔

کتنی جدائیوں کے کھائے ہیں زخم دل پر

کتنی محبتوں کے ماتم کئے ہیں ہم نے

(۱۳۷۸ھ)

٭٭٭

 

 

 

پیر و مرشد

 

                کنہیا لال کپور

 

 

پطرس میرے استاد تھے۔ ان سے پہلی ملاقات تب ہوئی، جب گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم اے انگلش میں داخلہ لینے کے لئے ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انٹر ویو بورڈ تین اراکین پر مشتمل تھا پروفیسر ڈکنسن (صدر شعبہ انگریزی) پروفیسر مدن گوپال سنگھ اور پروفیسر اے ایس بخاری۔ گھر سے خوب تیار ہو کر گئے تھے کہ سوالات کا کرارا جواب دے کر بورڈ کو مرغوب کرنے کی کوشش کریں گے۔ بخاری صاحب نے ایسے سوال کئے کہ پسینے چھوٹنے لگے۔ جونہی کمرے میں داخل ہو کر آداب بجا لائے انہوں نے خاکسار پر ایک سرسری نگاہ ڈالتے ہوئے پوچھا، "آپ ہمیشہ اتنے ہی لمبے نظر آتے ہیں یا آج خاص اہتمام کر کے آئے ہیں؟” لاجواب ہو کر ان کے منہ کی طرف دیکھنے لگے۔

"آپ شاعر ہیں؟”

"جی نہیں۔ ”

"دیکھنے میں تو آپ مجنونِ لاہور نظر آتے ہیں۔ "پروفیسر مدن گوپال سنگھ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا، "بہ خدا ان کی شکل خطرناک حد تک مجنوں گورکھپوری سے ملتی ہے۔ ” پھر میری جانب متوجہ ہوئے، "آپ کبھی مجنوں گورکھپوری سے ملے ہیں؟”

"جی نہیں۔ ”

"ضرور ملئے وہ آپ کے ہم قافیہ ہیں۔ ”

پھر پوچھا، "یہ آپ کے سرٹیفکیٹ میں لکھا ہے کہ آپ کتابی کیڑے ہیں۔ جانتے ہو، کتابی کیڑا کسے کہتے ہیں؟”

"جی ہاں۔ جو شخص ہر وقت مطالعہ میں منہمک رہتا ہے۔ ”

"کتابی کیڑا وہ ہوتا ہے جو کتاب کی بجائے قاری کو کھا جاتا ہے۔ ”

پروفیسر ڈکنسن نے بخاری سے دریافت کیا، ان کے بی۔ اے میں کتنے نمبر آئے تھے ؟”

انہوں نے میرا ایک سرٹیفیکٹ پڑھتے ہوئے جواب دیا، "۳۳۹۔ فرسٹ ڈویژن۔ ”

"تو پھر کیا خیال ہے ؟” پروفیسر مدن گوپال سنگھ نے پوچھا۔

بخاری صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا، "داخل کرنا ہی پڑے گا۔ جو کام ہم سے عمر بھر نہ ہو سکا وہ انہوں نے کر دیا۔ ”

پروفیسر ڈکنسن نے چونک کر پوچھا، "کونسا کام بخاری صاحب؟”

سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے فرمایا، "یہی بی۔ اے میں فرسٹ ڈویژن لینے کا!”

دوسرے دن کلاس روم میں گئے۔ بخاری صاحب کا ان دنوں عالم شباب تھا۔ پینتیس سال کے قریب عمر ہو گی۔ دراز قد گھنی بھنویں، سرخ و سفید رنگت، بڑی بڑی روشن آنکھیں، لمبوترا چہرہ، شکل و شباہت کے اعتبار سے وہ افغان یا ایرانی دکھائی دیتے تھے۔ ریشمی گاؤن(Gown) پہن کر کلاس روم میں آتے تھے۔ حاضری لئے بغیر لیکچر شروع کیا کرتے، عموماً لیکچر سے پہلے اپنے عزیز شاگردوں سے دو ایک چونچیں ضرور لڑایا کرتے تھے۔ بلراج ساہنی (مشہور ہندوستانی اداکار) ان کا عزیز ترین شاگرد تھا۔ اکثر ایک آدھ فقرہ اس پر کستے تھے، "کیا بات ہے ساہنی آج کچھ کھوئے کھوئے نظر آتے ہو۔ جانتے ہو جب کوئی نوجوان اداس رہتا ہے تو اس کی اداسی کی صرف د و وجہیں ہوتی ہیں۔ یا وہ عشق فرمانے کی حماقت کر رہا ہے یا اس کا بٹوا خالی ہے۔ ”

لیکچر کسی کتاب یا نوٹس (Notes) کی مدد کے بغیر دیتے تھے۔ انگیزی کا تلفظ ایسا تھا کہ انگریزوں کو رشک آتا تھا۔ فرسودہ یا روایتی انداز بیان سے چڑ تھی۔ غلطی سے بھی کوئی عامیانہ فقرہ ان کی زبان سے نہیں نکلتا تھا۔ "ڈرامہ” پڑھانے میں خاص کمال حاصل تھا۔ "ہیلمٹ” پڑھا رہے ہیں تو چہرے پر وہی تاثرات پیدا کر لیں گے جو موقع محل کی عکاسی کرتے ہوں۔ "کنگ لیئر” پڑھاتے تو معلوم ہوتا، کہ طوفان میں گھرا ہوا بوڑھا شیر غرارہا ہے۔ شیکسپئر کے مشہور کرداروں کی تقریریں زبانی یاد تھی۔ انہیں اس خوبی سے ادا کرتے کہ سامعین کو پھریری سی آ جاتی۔

حافظہ غضب کا پایا تھا۔ اکثر جب کوئی نئی کتاب پڑھتے تو دوسرے دن کلاس روم میں اس کا خلاصہ اتنی صحت کے ساتھ بیان کرتے کہ لیکچر سننے کے بعد محسوس ہوتا کتاب انہوں نے نہیں ہم نے پڑی ہے۔

ایک بارفرانسیی فلسفی "برگساں” کی "Laughter” (مزاح) کی وضاحت فرماتے وقت انہوں نے طنز و مزاح سے متعلق بہت دل چسپ باتیں بتائیں فرمایا، "انسان ہی صرف ہنسنے والا جانور ہے۔ ”

میں نے کہا "جناب بندر بھی ہنستا ہے۔ ”

ہنس کر فرمایا، "کیونکہ وہ انسان کا جد امجد ہے۔ ”

بیان کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا، "ہنسنے کے لئے عقل کا ہونا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیوقوف کو لطیفہ سنانا تضیع اوقات ہے۔ اگر ایک آدمی کیلے کے چھلکے سے پھسل کر کیچڑ میں گر پڑے تو دوسرے اس پر ہنستے ہیں، لیکن اگر ایک بھینس کیلے کے چھلکے سے پھسل کر کیچڑ میں گر پڑے تو باقی بھینسیں اس پر کبھی نہیں ہنسیں گی۔ کیونکہ بھینس کے پاس عقل نہیں ہوتی تبھی تو یہ محاورہ ایجاد ہوا ہے کہ عقل بڑی یا بھینس…… ہمدردی یا ترحم کا جذبہ ہنسی کے لئے زہر قاتل کا درجہ رکھتا ہے۔ اگر کوئی شخص سائیکل چلاتے وقت گر پڑے تو آپ اس پر ہنسیں گے لیکن اگر اسے سخت چوٹ آئی ہو تو آپ کبھی نہیں ہنس سکیں گے۔ اگر ایک ریلوے گارڈ گاڑی چلنے سے پہلے ہر مسافر کو سخت سست کہے، کھڑ کی میں سے باہر جھانکنے والے ہر بچے کو سرزنش کرے، ہر بوڑھے کو فہمائش کرے کہ اسے ڈبے میں فوراً داخل ہو جانا چاہیے، اور خود چلتی گاڑی میں سوار ہوتے وقت گر پڑے تو تمام مسافر قہقہے لگا کر اس کی بے بسی کا مذاق اڑائیں گے کیونکہ ان میں سے کسی کو اس کے ساتھ ہمدردی نہیں ہو گی۔ ”

ایک ہی چیز المیہ اور طربیہ ہو سکتی ہے سوال ہمدردی کاہے۔ فرض کیجئے بھرے میلے میں کوئی شخص یہ اعلان کرے کہ میری بیوی کھو گئی ہے، کچھ لوگ اس پر ضرور ہنسیں گے۔ یہ بات دوسروں کے نقط نگاہ سے طربیہ اور خود اس شخص کے نقطہ نظر سے المیہ ہے ….. مزاح بالکل اسی طرح تیار کیا جا سکتا ہے جیسے صابن یا خوشبودار تیل۔ فارمولا یہ ہے کہ دونوں چیزوں میں نا مطابقت پیدا کر دیجئے۔ مثال کے طور پر یہ کہنے کی بجائے ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں، یہ کہئے ہم طرفدار ہیں غالب کے سخن فہم نہیں، مزاح پیدا ہو جائے گا۔ ”

بخاری صاحب مزاحیہ تقریر کرنے کے فن میں اما کا درجہ رکھتے تھے۔ یہ سر عبدالقادر کا دور زریں تھا۔ ہر ادبی مجلس میں کرسی صدارت اور سرعبدالقادر لازم و ملزوم تھے۔ یونیورسٹی ہال میں ایک ادبی مباحثہ ہو رہا تھا۔ موضوع زیر بحث تھا "صنف نازک ہی مطالعہ کا صحیح موضوع ہے "۔ جب پروفیسر دیوان چند شرما، ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین، تقاریر کر چکے تو سرعبدالقادر نے بخاری صاحب کو اسٹیج پر تشریف لانے کو کہا۔ سامعین ہمہ تن گوش ہو گئے کہ انہیں پوری توقع تھی اب ہنسی مذاق کے فوارے چھوٹیں گے۔ بخاری صاحب جھومتے جھامتے اسٹیج پر آئے۔ صاحب صدر کی طرف مسکرا کر دیکھا۔ میں سامعین کو اپنی طرف متوجہ نہیں کرسکتا۔ بسا اوقات مجھے صنف نازک پر رشک آنے لگتا ہے۔ صاف ظاہر ہے طلباء یہ نکتہ بخوبی سمجھتے ہیں کہ صنف نازک ہی مطالعہ کا اصلی موضوع ہے ….. صاحب صدر! صنف نازک کے مطالعہ کے بغیر سائنس کا مطالعہ ناممکن ہے۔ کیا آپ "مقناطیسیت” کا مطالعہ صنفِ نازک کے بغیر مکمل سمجھیں گے، جب کہ آپ جانتے ہیں کہ عورت سے زیادہ پرکشش ہستی خداوند تعالیٰ نے پیدا نہیں کی۔ کیا آپ "حرارت” کا مطالعہ کرتے ہوئے عورت کو نظرانداز کرسکتے ہیں؟ جب آپ جانتے ہیں کہ محفلوں کی گرمی عورت کی موجودگی کی مرہون منت ہے۔ کیا آپ "برقیات” کا مطالعہ کرتے وقت عورت کو نظر انداز کرسکتے ہیں۔ جب آپ کو معلوم ہے کہ حوا کی بیٹیاں بادل کے بغیر بجلیاں گرا سکتی ہیں….. صاحب صدر! صنف نازک آرٹ کے مطالعہ کے لئے ناگزیر ہے۔ اگر لیونارڈو، رافیل اور مائیکل اینجلز نے عورت کے خط و خال کو قریب سے نہ دیکھا ہوتا تو کیا وہ ان لافانی تصاویر اور مجسموں کی تخلیق کرسکتے جن کا شمار عجائبات عالم میں ہوتا۔ کیا کالی داس، شکنتلا، شیکسپیئر، روز النڈ اور دانتے، بیتریس کا تصور بھی ذہن میں لا سکتے اگر انہوں نے صنف نازک کے مطالعے میں شب و روز نہ گزارے ہوتے ….. صاحب صدر! صنف نازک نے موسیقاروں سے ٹھمریوں اور دادروں، شاعروں سے مثنویوں اور غزلوں اور قاصوں سے کتھک اور کتھاکلی کی تخلیق کرائی۔ اگر آج فنون لطیفہ ختم ہو رہے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم مطالعہ کے اصلی موضوع سے بھٹک گئے ہیں۔ ہم ان چیزوں کا مطالعہ کر رہے ہیں جن سے بجلی کے پنکھے سستی دیسی فلمیں اور اکیثر چنبل تو معرض وجود میں آسکتی ہے۔ لیکن "میگھ دوت "”تائیس” اور "منی پور رقص” کی توقع کرنا بے کار ہے۔ ”

مرحوم تقریر نہیں سحر کیا کرتے تھے۔ ان کی ساحری کا ایک واقعہ مجھے یاد ہے۔ ۱۹۳۲ میں انہوں نے اپنے ایک عزیز شاگرد پروفیسر آرایل مہتہ کے اصرار پر ڈی اے وی کالج لاہور میں گالز وردی کے ناول "اے مین آف پراپرٹی” پر لیکچر دیا۔ پروفیسر مہتہ ان دنوں ڈی اے وی کالج میں ملازم تھے۔ مارچ کا مہینہ تھا مطلع ابرآلود تھا۔ ہلکی ہلکی پھوار پڑی رہی تھی۔ لاہور کے کالجوں کے سینکڑوں طلباء طالبات لکچر سننے کے لئے ڈی اے وی کالج کے سائنس تھیٹر میں اکھٹے ہوئے۔ بخاری صاحب نے لیکچر کی تمہید اس فقرے سے کی "خواتین و حضرات! ڈی اے وی کالج میں یہ میرا پہلا اور آخری لیکچر ہے۔ وجہ یہ کہ اس کالج کے طلبا کا انگریزی کا تلفظ اتنا عجیب واقع ہوا ہے کہ جب وہ مجھے انگریزی میں بولتے ہوئے سنیں گے، تو یہ سمجھیں گے میں انگریزی کی بجائے فرانسیسی یا جرمن میں تقریر کر رہا ہوں۔ ” مرحوم کو انگریزی فکشن (ناول) پر حیرت انگیز عبور حاصل تھا۔ جب وہ گالز وردی کے ناول کی وضاحت کر رہے تھے تو معلوم ہوتا تھا خود مصنف اپنی تخلیق کا تجزیہ کر رہا ہے۔ طلباء ان کے لیکچر کے "نوٹس” لے رہے تھے۔ بخاری صاحب کی فصاحت اور بلاغت کا یہ عالم تھا کہ وہ ایک خوب صورت فقرے کے بعد دوسرا وضع کرتے تھے اور طلباء تذبذب میں پڑ جاتے کہ کون سا فقرہ نوٹ کریں اور کون سا نظر انداز کر دیں۔ یکلخت باہر بارش تیز ہو گئی۔ بجلی ایک دم جو زور سے کڑکی تو کمرے کی تمام بتیاں گل ہو گئیں۔ بخاری صاحب نے تقریر منقطع کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ گھپ اندھیرے میں اپنے اسی شگفتہ انداز میں تقریر کرتے رہے اور طلبا اندھیرے میں ان کے فقرے نوٹ کرنے کی کوشش میں محو رہے۔ کہیں سے شور و غل، چیخ و پکار کی آواز نہیں آئی۔ کمرے میں مکمل سناٹا تھا۔ کوئی دس پندرہ منٹ کے بعد بتیاں پھر روشن ہوئیں۔ بخاری صاحب نے ایک خفیف مسکراہٹ کے ساتھ ان کا خیر مقدم کیا اور تقریر جاری رکھی۔ اس تقریر کے سننے کے بعد اکثر طلباء کا یہ رد عمل تھا کہ جو باتیں ان کے اپنے پروفیسر دو سال میں نہیں بتاسکے وہ بخاری صاحب نے ایک گھنٹے کے دوران میں بتا دیں۔ اسی تقریر سے متعلق مجھے ان کا ایک فقرہ یاد ہے۔ فرمایا، "مشہور انگریز نقاد "ڈاکٹر بیکر” نے انگریزی ناول پر آٹھ جلدیں لکھی ہیں۔ جن کا مجموعی وزن کوئی چار سیر ہو گا۔ ایک اور انگریز نقاد "جے بی پریسٹلے ” نے ناول پر ایک کتابچہ لکھا، جس کا وزن چار تولے ہو گا۔ میری رائے میں اگر بیکر کی تمام جلدیں ایک پلڑے میں رکھ دی جائیں اور پریسٹلے کا کتابچہ دوسرے میں تو یقیناً پریسٹلے کا پلڑا بھاری رہے گا۔ ”

سناتن دھرم کالج میں ایک ادبی مباحثہ ہوا۔ بخاری صاحب وہاں صاحب صدر کی حیثیت سے موجود تھے۔ موضوع زیر بحث۔ "عورت تمہارا دوسرا نام کمزوری ہے۔ ” لاہور کے بہترین مقرر اس مباحثے میں حصہ لے رہے تھے۔ ان میں سے اکثر یورپ کی سیر کر چکے تھے۔ انہوں نے اپنی تقاریر میں یورپین عورتوں کو خاص طور پر آڑے ہاتھوں لیا۔ کچھ نے ہندوستان کی تاریخ سے مثالیں دے کر ثابت کیا کہ عورت نے ہر گام پر مرد کو دھوکا دیا ہے۔ سکھ مہارانی "جنداں” کا ذکر کیا گیا، حوّا کمزوری کی طرف بار بار اشارے کئے گئے۔ بحث کے اختتام پر بخاری صاحب نے فرمایا، "میں نے مخالفین کے دلائل بڑے غور سے سنے، میں سمجھتا ہوں کہ ان کے دلائل صحیح اور نتائج غلط ہیں۔ اگر یہ ٹھیک ہے کہ عورت مرد کو ہمیشہ گمراہ کرتی رہی ہے تو میرے خیال میں یہ مرد کی کمزوری اور عورت کی شہ زوری ہے ….. حالانکہ میں نے بھی یورپ کی سیر کی ہے لیکن عورتوں سے متعلق میرا تجربہ اتنا وسیع نہیں جتنا میرے چند دوستوں کا، جنہوں نے یورپین عورتوں کی کمزوری کا بیان چٹخارے لے لے کر کیا….. کہا گیا کہ یورپ میں عورت شکاری اور مرد شکار ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو ہمیں ہر شیر اور عقاب کو کمزور سمجھنا چاہیے۔ دراصل بات یہ ہے خدا پنچ انگشت یکسان نہ کرد۔ نہ ہر عورت کا نچ کی چوڑی ہے اور نہ ہر مرد فولاد کا پنجہ”۔

بخاری صاحب اپنے طلباء میں تنقیدی شعور پیدا کرنے میں ہمیشہ کوشاں رہتے تھے۔ رٹے رٹائے فقروں سے انہیں بہت نفرت تھی اور اگر کسی طالب علم نے کسی مشہور نقاد کے قول کا حوالہ دیا ادھر جھٹ انہوں نے بھپتی کسی، "منصور کے پردے میں خدا بول رہا ہے، اجی حضرت یہ فرمان تو” اے۔ سی بریڈ لے ” کا ہے۔ خاکسار بریڈ لے کی نہیں آپ کی رائے دریافت کرنا چاہتا ہے ” جب ہمارا پہلا سہ ماہی امتحان ہوا تو میں نے اپنے پرچے میں متعدد مشہور نقادوں کے فقرے نقل کر دیئے۔ بخاری صاحب نے مجھے "صفر” نمبر عطا کرتے ہوئے پرچے کے ٹائیٹل پیج پر لکھا، "آپ کا سارا پرچہ واوین میں ہونا چاہیے۔ آپ نے جگہ جگہ "ایف۔ ایل لوکس” اور پروفیسر "کلرکوچ”  کے اقوال نقل کر دیئے ہیں۔ یہ دنوں کیمبرج میں میرے استاد تھے۔ یقیناً میں اس قابل نہیں کہ اپنے استادوں کا ممتحن بن سکوں۔ مجھے تو آپ کا امتحان لینا ہے۔ ”

کلاس روم میں کبھی کبھی جان بوجھ کر الٹی بات کہہ دیتے۔ ساری کلاس پنجے جھاڑ کر ان کے پیچھے پڑ جاتی۔ وہ ہر ایک معترض کو ایسا دندان شکن جواب دیتے کہ بے چارہ بغلیں جھانکنے لگتا۔ سارا پیریڈ بحث مباحثہ میں گزر جاتا۔ سب کو قائل کرنے کے بعد فرماتے "یہ بات میں نے صرف اشتعال دلانے کے لئے کہی تھی ورنہ اس میں کون کافر شک کرسکتا ہے کہ شیکسپئر بہت بڑا فن کار ہے۔ "سیمینار” کے پیریڈ میں جہاں طلباء کی تعداد تھوڑی ہوتی تھی، وہ ہر ایک طالب علم پر جرح کیا کرتے تھے۔ ایسی کڑی جرح کہ طلبہ کے چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگتیں۔ خون خشک ہو جاتا۔ ایک دفعہ مجھ سے پوچھا، "آپ نے اپنے جواب مضمون میں لکھا ہے کہ "ٹینی سن” کے کلام میں موسیقیت کا عنصر بدرجہ اتم موجود ہے۔ موسیقیت سے آپ کی کیا مراد ہے ؟”

"موسیقیت سے میرا مطلب یہ ہے کہ ٹینی سن کا کلام پڑھتے وقت ایک دلکش لے یا تال کا احساس ہوتا ہے۔ ”

"لے یا تال کیا چیز ہے ؟”

"آواز کا اتار چڑھاؤ”

"ٹینی سن کے کسی مصرعے کا حوالہ دے کر بتائیے۔ ”

میں نے گھبراہٹ کے عالم میں یونہی ایک مصرع پڑھ دیا۔ فرمانے لگے، "یہ تو اتنا کرخت ہے کہ اس کے مقابلے میں کوّے کی آواز زیادہ سریلی معلوم ہو گی۔ کہیں یہ بات تو نہیں کہ آپ موسیقی اور شور و غل کو ہم معنی سمجھتے ہیں۔ ”

"سیمینار” میں اکثر ہندوستانیوں کی عادات پر دل چسپ تبصرہ کیا کرتے تھے، "ہم ہندوستانی بھی تین لوگ سے نیارے ہیں۔ انگلینڈ میں اگر کسی کے گھر موت واقع ہو جائے تو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ یہاں کسی کا دور دراز کا رشتہ دار الله کو پیار ہو جائے تو ساری رات دھاڑیں مار مار کر ہمسایوں کے علاوہ گلی محلہ والوں کی نیند حرام کر دیتا ہے۔ ”

"شور و غل کا ہماری زندگی میں کتنا دخل ہے، انگلینڈ اور فرانس میں سڑک پر چلتے ہوئے لوگ اتنی دھیمی آواز میں باتیں کرتے ہیں گویا کاناپھوسی کر رہے ہوں۔ ہم ہندوستانی”مدھم کی بجائے پنجم” میں باتیں کرنے کے عادی ہیں، بخدا ہم بولتے نہیں چلاتے ہیں۔ ”

"ہم ہندوستانی جب تقریر کرتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے گھر والوں سے لڑ کر آئے ہیں اور سامعین پر اپنا غصہ اتار رہے ہیں۔ ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ ماتمی قرارداد بھی ہم اس انداز میں پیش کرتے ہیں جیسے ہمسایہ ملک سے اعلانِ جنگ کر رہے ہوں۔ ”

مبالغہ آمیزی ہماری طبیعت کا شعار بن چکی ہے۔ یہاں ہر کانفرنس ‘آل انڈیا، یا ”بین الاقوامی’ ہوتی ہے۔ چاہے شرکت کرنے والوں کی تعداد ایک درجن کیوں نہ ہو……چند دن ہوئے میں نے موچی دروازے کے اندر ایک دکان دیکھی جس میں ایک ٹوٹا ہوا ہارمونیم اور خستہ حال طبلہ پڑا تھا۔ سائن بورڈ پر لکھا تھا "انٹرنیشنل اکیڈیمی و میوزک اینڈ ڈانسنگ۔ ”

"ہندوستانی موسیقی میں سوز ہے جوش نہیں۔ کیمبرج میں ایک بار میں نے اپنے استاد کلرکو کو پکے گانوں کے چھ سات ریکارڈ سنوائے، اس کے بعد ان کی ہندوستانی موسیقی کے بارے میں رائے دریافت کی۔ نہایت سنجیدگی سے کہنے لگے،”بور کرنے کے لئے ایک ہی ریکارڈ کافی تھا، آپ نے چھ سات سنوانے کا خوامخواہ تکلف کیا۔ ”

بخاری صاحب سے آخری ملاقات جون ۱۹۴۷ء میں ہوئی، تب وہ آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر کے عہدہ سے سبکدوش ہو کر گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل مقرر ہو چکے تھے۔ بڑے تپاک سے ملے فرمانے لگے، "آپ ڈی اے وی کالج میں یونہی وقت ضائع کر رہے ہیں۔ غیر ادبی ماحول میں رہنا ذہنی خودکشی کے مترادف ہے۔ میں جلد ہی آپ کو گورنمنٹ کالج میں لانے کی کوشش کروں گا۔ "ان دنوں تحریک پاکستان اپنے شباب پر تھی۔ کسی پروفیسر نے کہا اگر پاکستان بن گیا تو ہم کپور کو ہندوستان میں نہیں جانے دیں گے۔ البتہ انہیں مشرف بہ اسلام ہونا پڑے گا۔ "بخاری صاحب نے چونک کر فرمایا، "حضرت پہلے ہم اور آپ تو مشرف بہ اسلام ہولیں، اس غریب کی باری تو بعد میں آئے گی۔ آخر ہم اور آپ میں کون سی مسلمانی رہ گئی ہے۔ ”

آل انڈیا ریڈیو کا تذکرہ چھڑا کہنے لگے ” ایک بار میرے متعلق پارلیمنٹ میں کہا گیا کہ میں دوست پرور ہوں۔ آل انڈیا ریڈیو میں میں نے اپنے دوست اور شاگرد اکھٹے کر رکھے ہیں۔ میں نے اخبارات میں ایک بیان دیا جس میں کہا یہ الزام سو فیصد درست ہے اب اس کا کیا کیا جائے کہ بدقسمتی سے میرے تمام شاگرد اور احباب قابل ترین اشخاص واقع ہوئے ہیں اور قابل دوست یا شاگرد، جاہل دشمن سے ہمیشہ اچھا ہوتا ہے۔ ”

بخاری صاحب ساٹھ اکسٹھ برس کی عمر میں ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔ ان کا مقبرہ دیار غیر میں بنا۔ ہندوستان اور پاکستان سے اتنی دور کہ ان کے شاگرد اور عقیدت مند اس پر آنسو بہانے یا شمع جلانے کی سعادت بھی حاصل نہیں کر سکتے۔ لیکن فہم و فراست کی شمعیں جو وہ خود جلا گئے۔ ان کی روشنی ابدی ہے۔ ان کی دین صرف "مضامین پطرس” نہیں، ان کی اصلی دین ان کے وہ مایہ ناز شاگرد ہیں، جنہوں نے ادب اور فن میں نئی راہیں نکالیں اور جنہیں اپنے "پیر و مرشد” پر جسد خاکی کے آخر سانس تک فخر رہے گا۔

٭٭٭

 

 

 

میرا شہرہ آفاق استاد

 

                ڈاکٹر حمید الدین

 

 

میں سمجھتا ہوں کہ مجھے سینکڑوں نہیں تو بیسیوں ایسے احباب سے معذرت طلب کرنی چاہئے جو مجھ سے کہیں زیادہ پروفیسر بخاری سے واقفیت کا دم بھرتے ہیں۔ میں پروفیسر بخاری کی روح سے بھی معذرت خواہ ہوں کیونکہ ہو سکتا ہے میں اپنے بیان میں بعض ایسی باتیں کہہ جاؤں جو موصوف کی شخصیت کے بارے میں سوفیصدی درست نہ ہوں۔

جب مجھے پروفیسر بخاری کا خیال آتا ہے۔ تو میرا ذہن دوسری دہائی کے آخری برسوں اور تیسری دہائی کے آغاز کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ اُن دنوں میں گورنمنٹ کالج لاہور میں بی اے کا طالب علم تھا اور وہ کیمبرج سے تازہ تازہ واپس آئے تھے۔ جہاں انہوں نے انگریزی ادب میں وہ امتیاز حاصل کیا تھا جو اُن سے پہلے کسی ہندوستانی کو نصیب نہ ہوا تھا۔ کیمبرج میں کئی ہندوستانیوں نے داخلہ لیا مگر دو تین کے سوا کسی کو ان جیسی کامیابی حاصل نہ ہوئی۔

دراز قد، خوبرو، عالمانہ پیشانی، تیز دلکش آنکھیں رکھنے کے باعث پروفیسر بخاری دور کھڑے بھی دیگر پروفیسروں سے الگ پہچانے جاتے اور ممتاز نظر آتے تھے۔ پروفیسروں کی اس جماعت میں دبلے پتلے، لمبے تڑنگے مونچھوں والے پروفیسر لینگ ہارن، مدن گوپال سنگھ جیسے محنتی اور پروفیسر فرتھ جیسے سراپا حرکت لوگ شامل تھے۔ اس سے پہلے پروفیسر مرزا سعید شاید کسی ڈگری کالج کے پرنسپل ہو کر باہر جا  چکے تھے اور ایک دو سال بعد پروفیسر ڈکنسن بھی علی گڑھ سے یہاں آ گئے تھے۔

مجھے پروفیسر بخاری سے پہلی بار واسطہ اس وقت پڑا۔ جب میں تیسرے یا چوتھے سال میں تھا۔ وہ ہمیں مختصر افسانہ پڑھاتے تھے۔ ہماری جماعت اُس کمرے میں بیٹھتی تھی۔ جسے توڑ کر آج کل پرنسپل اور کالج کے دفاتر میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ یہ جماعت صبح کے وقت ہوتی تھی۔ وہ ہمیں سٹیونسن کی مارخائیم پڑھا رہے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ان کے پہلے لیکچر کے بعد ہمارے تاثرات کچھ زیادہ اچھے نہ تھے۔ ان کے پڑھانے کا طریقہ خاص طور پر مختصر افسانہ اس طریقے سے مختلف تھا جس کے ہم عادی تھے۔ انہوں نے دو تین لیکچر دیئے جس کا مطلب یہ تھا کہ پورا ایک ہفتہ زیادہ تر یہ بتانے پر صرف کیا کہ انہوں نے لندن میں ایک عام آدمی کو کس حال میں دیکھا۔ انہوں نے مصنف اور اس کی کہانی کے متعلق ہمیں کچھ نہیں بتایا۔ اگرچہ بعد میں ایسا ہوا کہ لندن کے عام آدمی کے بارے میں انہوں نے جو کچھ بتایا تھا۔ ان کا ڈانڈا مارخائیم سے خود بخود مل گیا اور ہم اس فیصلے پر پہنچے کہ پروفیسر بخاری دوسروں سے خواہ کتنے ہی مختلف کیوں نہ ہوں خواہ مخواہ ہمارا وقت ضائع کرنا نہیں چاہتے تھے۔ اگر کوئی ان سے سوال پوچھتا یا ان پر نقطہ چینی کرتا تو وہ اس سے زیادہ بڑھ چڑھ کر باتیں کر سکتے تھے۔

اس کے بعد پروفیسر بخاری کی ذات کا جائزہ ہمارا موضوع بن گیا۔ ہم سیدھے سادے انداز میں ان کے قیامِ لندن کے ظاہری اثرات معلوم کرنا چاہتے تھے مگر مجھے اعتراف کرنا چاہئے کہ ہم ان کی ظاہری دلچسپیوں سے ان کا سراغ لگانے میں قطعاً ناکام رہے۔ ان کے جیکٹ کے سخت کالر کے سوا جو ایک خوش پوش آدمی کا نشان ہے، اُن میں کوئی ایسی چیز نہ تھی جسے دیکھ کر آدمی کہہ سکے کہ وہ دوسروں کو لاشعوری طور پر مرعوب کرنے کے لئے استعمال کی گئی ہے۔ اُن سردیوں میں وہ روزانہ ہلکے بادامی رنگ کے ٹریڈ کی جیکٹ اور شاید ویسی ہی فلالین کی سلیٹی رنگ کی پتلون پہنتے رہے۔ ان میں شک نہیں کہ ان کا کوٹ پتلون نہایت صفائی سے استری کیا ہوا ہوتا تھا۔ تاہم ٹائی کے انتخاب میں مجھے ان میں کبھی نمایاں نازک مزاجی کا ثبوت نہ ملا۔ دھاری دار کپڑے پہننے کی کمزوری تو ان میں شروع سے آخر تک پائی گئی۔ وہ خانے دار قمیض کا استعمال اسی قسم کے ہلکے لیکن نمایاں چیک کوٹ کے ساتھ ہرگز معیوب نہ سمجھتے تھے۔ البتہ انہیں بوٹائی لگانے کا شوق ہمیشہ رہا۔

اس طرح قریب سے جانچ پڑتال کرنے کے باوجود ہم ان کی وضع قطع کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جان سکتے۔ ہم جہاں تھے وہیں رہے اور ابھی تک یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ اُن میں ایسی کون سی بات تھی جس کی وجہ سے وہ واحد پروفیسر تھے جنہیں تنگ نہیں کیا جاتا تھا۔ گورنمنٹ کالج میں کوئی استاد ایسا نہ تھا جو دوسرے سے پانچویں سال کے طلبہ کی شرارتوں کا تختۂ مشق نہ رہا ہو۔ پانی کی طرح رواں اور غلطی سے پاک انگریزی شاذونادر ہی نوواردوں کے کام آتی تھی۔ دراصل ایسا استاد جتنا تیز بولتا اور جتنا زیادہ رعب جمانے کی کوشش کرتا۔ اتنا ہی زیادہ وہ بے نقاب ہو جاتا لیکن پروفیسر بخاری ایسی تمام شرارتوں سے بچے رہے۔

جذبۂ خلوص ہی ایک ایسی خوبی ہے جس کی بنا پر تمام دنیا کے شاگرد اپنے استادوں کی قدر کرتے ہیں۔ پروفیسر بخاری میں ایک استاد کی حیثیت سے یہ وصف نمایاں تھا۔ ان کے شاگرد شروع ہی سے جان گئے تھے کہ پروفیسر بخاری کی اہمیت ایک استاد سے اگر زیادہ نہیں تو کسی صورت کم بھی نہیں۔

پروفیسر بخاری کے نزدیک ادب پڑھانے کا مطلب صرف یہی نہیں تھا کہ مشکل الفاظ کے معنی بتا دیئے یا محاوروں کی تشریح کر دی یا کسی شاہکار کی ہیئت اور ساخت کا تجزیہ کر دیا یا کسی عظیم مصنف کے فن ٹیکنیک اور پُرکاری پر روشنی ڈال دی یہ سب کچھ کرنے کے علاوہ بہت کچھ اور بھی تھا۔ وہ اول تو اپنے آپ کو کسی شاہکار میں کھو دیتے تھے۔ پھر اپنی حقیقی زندگی اس کے سانچے میں ڈھال کر ایسا بنا دیتے تھے کہ مغائرت کا احساس باقی نہ رہتا تھا۔ منشاء یہ تھا کہ طلبہ اس عمل کو اپنی شخصیت کی ہر سطح میں دہرائیں۔ اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں اس کام کے پہلے حصے میں کامیابی حاصل کرنا کوئی زیادہ مشکل نہیں۔ البتہ اس کا دوسرا حصہ خاصہ مشکل ہے۔ کیونکہ صرف وہی معلم اس خواب کو پورا ہوتے دیکھ سکتا ہے جو ادب کو ایک وقتی پیشے یا مشغلے کے طور پر نہیں بلکہ زندگی کی شاہراہ کے طور پر اختیار کرتا ہے۔

بہت جلد پروفیسر بخاری کی جماعتوں کی شکل کچھ سے کچھ ہو گئی۔ ان کا تربیتی کام ایک استاد کے بے کیف لیکچروں اور طلبہ کے نوٹ لینے کا نام نہ تھا۔ ان میں گرما گرم بحثیں ہوتی تھیں۔ ہر طالب علم کسی نظم یا ڈرامے کے ٹکڑے کی ٹیکنک کے بارے میں اپنی رائے ظاہر کرتا تھا۔ یہ سوقیانہ ہے۔ یہ ارفع ہے، اس میں یہ خوبی ہے، یہ عیب ہے۔ پروفیسر بخاری خود بحث کا آغاز کرتے بلکہ اسے چلانے کے لئے خود بھی حصہ لیتے، عموماً ایسا ہوتا کہ وہ زید کے حق میں دلیلیں دے رہے ہوتے لیکن بہت جلد معلوم ہو جاتا کہ وہ کلیتہً اس کے حق میں نہیں۔ بلکہ جزوی طور پر اس سے متفق ہیں۔ ایسی بحثوں کا ایک پہلو نہایت قابل تعریف ہوتا۔ وہ یہ کہ کوئی شخص محض منطق کے زور پر انہیں قائل نہیں کرسکتا تھا۔ اپنی بات منوانے کے لئے اسے لازمی طور پر مصنف کی تخلیق ہی کے دامن میں پناہ ڈھونڈنی پڑتی تھی۔ اس کی دلیل بظاہر کتنی ہی وزنی کیوں نہ ہو اس وقت تک قابل قبول نہ سمجھی جاتی جب تک وہ یہ ثابت نہ کرے کہ اس نے اصلی کتاب کو عقلمندی سے سمجھ سوچ کر پڑھا ہے۔ اس طرح پروفیسر بخاری کی نظر میں مقبول ہونے کے لئے ایک طالب علم کو اپنے میدان مطالعہ میں چار چول چوکس رہنا پڑتا تھا۔

اپنے طلبہ میں ادب کا ذوق پیدا کرنے کا جذبہ پروفیسر بخاری میں عشق کی حد تک پہنچا ہوا تھا۔ اس سے نہ وہ بوجھ محسوس کرتے تھے نہ ان کے اپنے مشاغل میں کمی واقع ہوتی تھی۔ بلکہ یہ شوق بڑھتا ہی جاتا تھا ان تمام شاخوں کے مطالعہ کے لئے بھی مہمیز کا کام دیتا تھا جن کے سمجھے بغیر مطالعہ میں جان نہیں پڑ سکتی۔ تھیٹر، مشاعرہ، مذاکرہ اور کالج میگزین سے ان کا دلی لگاؤ بھی اس بات کا ظاہری ثبوت ہے کہ انہیں ادب اور زبان سے گہری شیفتگی تھی۔ ان کے دوست جانتے ہیں کہ زبان کی باریکیوں اور اسلوب بیان کے حسن سے انہیں انتہائی رغبت تھی۔ یہاں لسانی مہارت ان کی شخصیت کے پھلنے پھولنے میں کام آئی۔ اور اہم ترین نتائج کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ زبان کو اس سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں دی جاتی کہ وہ چند منجمد علامتوں کا ایک نظام ہے۔ مگر ان کی نظر میں یہ ایک زندہ تحریک تھی وہ اسے ایک ایسا جال تصور کرتے تھے جس کے ذریعے ادب کے شیدائی زندگی کے بے پایاں سمندر سے الفاظ اور محاوروں کی جھلملاتی مچھلیاں شکار کرسکیں۔

وہ زندہ اور خوبصورت الفاظ سے محبت کرتے تھے اور یہ قدرت کا ایک ایسا عطیہ تھا جس کی بدولت وہ ہر لمحہ اور ہر حال میں پیچیدگیوں کا مقابلہ کرتے تھے۔ اسی میں ان کی بذلہ سنجی، مزاح، طنز اور بات چیت کے جادو کا راز مضمر ہے۔ پروفیسر بخاری ان چند خیال انگیز خوش بیانوں میں سے ایک تھے جن سے مجھے ملنے کا اتفاق ہوا ہے۔ اسی سحر آفرینی کے باعث ان کا حلقۂ احباب وسیع ہوتا گیا اور اب بھی مداحین کا دائرہ بڑھتا رہے گا۔ جو ان کے نزدیک آتا ہر قیمت پر چند لمحے ان کے ساتھ گزارنے پر بہ خوشی آمادہ ہو جاتا۔ وہ ایک ایسے دانشور تھے  جن کی طنز و ظرافت سے ان کے ملاقاتی اپنی علمی استعداد اور فہم وفراست کے مطابق خط و فرحت حاصل کرتے تھے۔ کند ذہن آدمی ہنسی کی بات سے کبھی لطف اندوز نہیں ہو سکتا، ان کا مزاح ہمدردانہ ہوتا تھا۔ وہ دوسروں کے ساتھ قہقہے نہیں لگاتے تھے۔ ان کا تمسخر نہیں اڑاتے تھے۔ بلکہ ان کی کلفت و پریشانی ہنسی میں اُڑا دیتے تھے۔ ان کا طنز ان کی ادراکی قوت کی پیداوار ہوتی تھی۔ وہ ادنیٰ سے ادنیٰ آدمی کی کمزوری بھی اسی طرح بے نقاب کرتے تھے۔ جس طرح بڑے سے بڑے اکڑ باز اور طرح دار کی زندگی کا سارا تانا بانا ان کے لئے میدان کارزار تھا اور ان کی دیانت ان کی شمشیر، وہ کسی کو نہ بخشتے تھے اور کسی سے یہ توقع نہ رکھتے تھے کہ انہیں معاف کرے۔

پروفیسر بخاری نے جتنے سال گورنمنٹ کالج لاہور میں طلبہ کو پڑھانے میں صرف کئے، ان کا جائزہ لینے کے بعد آدمی کہہ سکتا ہے کہ اپنی قابلیتوں کو بروئے کار لانے اور شاگردوں میں وہی اوصاف اور رجحانات پیدا کرنے کے لئے کالج اور کلاس روم میں بے پناہ امکانات رکھنے کے باوجود ان کے لئے محدود جولاں گاہ تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ ان کے اردگرد ارباب فضل و ہنر کافی تعداد میں موجود ہیں۔ انہیں صرف منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے یہ کام اپنے ذمہ لیا۔ مجلس اردو اسی کی ایک شکل ہے۔

یہ سوسائٹی کالج کے ذہین نوجوانوں اور پروفیسر بخاری کے زیادہ تجربہ کار احباب کے لئے قائم کی گئی تھی۔ ہر شخص جو طبع زاد افسانہ، ڈرامہ، تنقیدی مضمون یا نظم لکھ سکتا تھا، اس مجلس میں بار پا سکتا تھا۔ اسے خوش آمدید کہا جاتا تھا اور اسے اجازت ہوتی تھی کہ وہ اس شام کو پڑھی جانے والی ہر ادبی کاوش پر تنقید کرے خواہ وہ کتنی ہی کڑی کیوں نہ ہو۔ تنقید کا معیار اتنا بلند رکھا جاتا تھا کہ اس میں اردو فارسی اور عربی کے قدیم اصول تنقید کے علاوہ مغرب کا جدید انداز تبصرہ بھی شامل ہوتا تھا۔

پروفیسر بخاری نے مجلس اردو کو بہت جلد ایک ایسی پُر کشش جماعت بنا دیا کہ ہر ہونہار نوجوان جو لاہور کی ادبی مجالس کی روح رواں تھا۔ یہ محسوس کرنے لگا کہ اسے مجلس اردو یا اس کی حریف بزم فروغ اردو میں سے کسی ایک میں شامل ہوئے بغیر چارہ نہیں۔ بزم فروغ اردو ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر جیسے مشہور شاعر اور فاضل کی نگرانی میں اپنی سرگرمیاں اسلامیہ کالج لاہور میں جاری کئے ہوئے تھی بالکل اسی طرح جس طرح پروفیسر بخاری گورنمنٹ کالج لاہور میں مجلس اردو چلا رہے تھے۔

جن اصحاب کو معلوم ہے کہ بخاری اور تاثیر نے اپنے نوجوان ادیب دوستوں کے لئے ان مجالس کے ذریعے کیا کچھ کیا۔ وہ یہ کہنے میں کبھی دریغ نہ کریں گے کہ ان جماعتوں نے اور کچھ نہیں تو اتنا ضرور کیا کہ ہمارے عہد اور خطے کی ادبی تربیت کی تاریخ میں ان دونوں عظیم استادوں کا نام محفوظ کر دیا۔ جن پر ہمیشہ فخر کریں گے۔

اور میں نے تو آرٹ اور ادب کے کئی پرستاروں کو ٹھنڈی آہیں بھر کر اپنی بدقسمتی کا ماتم کرتے دیکھا ہے کہ اس نے ہمیں ان دونوں سے کیوں محروم کر دیا۔ اگر آپ ان کی ایماندارانہ رائے پوچھیں تو وہ آپ کو بتائیں گے کہ پروفیسر بخاری اول و آخر ادب اور آرٹ کی دنیا کے باسی تھے۔ وہ جتنی جلدی اس دنیا میں لوٹ آئیں اتنا ہی بہتر ہے۔ وہ یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے اساتذہ، ادیب، شاعر اور ناول نویس لاہور جیسے تمدنی صدر مقام میں دن رات ادب کی قابل ستائش خدمت کرنے کے باوجود پروفیسر بخاری کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ جن کی وفات سے پیدا شدہ خلاء کبھی پُر نہیں ہو گا۔ یہ مضمون ختم کرنے سے پہلے مجھے ایک معمولی لیکن اہم بات کا ذکر کرنے کی اجازت دیجئے۔ آپ شاید یہ خیال کرتے ہوں گے کہ انگریزی ادب کے استاد کی حیثیت سے پروفیسر بخاری کا کارنامہ صرف انگریزی تک محدود تھا لیکن حقیقت یہ نہیں۔ اردو اور فارسی ادب کے لئے بھی ان کا عشق اتنا ہی بڑھا ہوا تھا جتنا انگریزی ادب کے لئے۔ اگر کسی صاحب کو انہیں نیویارک میں ملنے کا اتفاق ہوا ہو تو وہ آپ کو بتائیں گے کہ ان کے کتب خانے میں نور اللغات کی چاروں جلدوں کو وہی شرف حاصل تھا جو ملینکن کی امریکن انگلش کی پانچ جلدوں کو۔ اور یہ کہ انہیں دیوان حافظ اتنا ہی عزیز تھا جتنی شیکسپیئر کی تصانیف۔ وہ پشتو، پنجابی اور اردو میں بھی اتنے ہی خوش گفتار تھے جتنے انگریزی میں۔ ان تمام زبانوں پر ان کا علم یکساں وسیع تھا۔

(ترجمہ)

٭٭٭

 

 

 

اقوام متحدہ میں پروفیسر بخاری سے ملاقات

 

                ڈاکٹر محمد عبدالله چغتائی

 

مغربی اور مشرقی فن میں اصولی فرق میرے نزدیک ایک یہ بھی ہے کہ مغربی فن کی تصویر کو دور سے دیکھنے سے جو اس کی خوبیاں نظر آتی ہیں، وہ نزدیک سے دھبے دکھائی دیتے ہیں۔ یعنی اس کی صحیح نمائش دور سے ہی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس مشرقی فن کی تصویر کے صحیح خط وخال اور خوبیاں اس کو جس قدر بھی قریب سے دیکھا جائے گا زیادہ نظر آئیں گی ورنہ دور سے ایک مدہم مدہم یکساں رنگ کی دھندلی سی سطح معلوم ہو گی۔ چنانچہ ہم مرحوم احمد شاہ بخاری کو جب کبھی دور سے دیکھتے تو صحیح معنوں میں کسی یورپی یونیورسٹی کے ایک سجے سجائے مکمل پروفیسر نظر آتے۔ مگر جب کبھی ان کے پاس بیٹھ کر گفتگو سننے کا موقع ملتا تو ان کے برجستہ مسکراہٹ لئے ہوئے مادری زبان میں بے ساختہ جملے ظاہر کرتے کہ ان کا نہایت مکمل ظاہری مغربی لباس ان کی مشرقیت پر ایک ملمع ہے۔ اور ان کی مشرقیت کے جوہر آہستہ آہستہ گفتگو کے مدارج طے کرتے کرتے واضح ہوتے چلے جاتے بلکہ ان کی تمام انگریزی اور انگریزیت ان کی مشرقیت کے طابع نظر آنے لگتی۔

میں مرحوم کو ایک طرح دور سے اسی زمانے سے جانتا تھا جب کہ وہ ہنوز طالب علمی کے ابتدائی مدارج لاہور میں طے کر رہے تھے کیونکہ وہ ہمارے محلے کے قریب ہی تکیہ سادہواں میں ڈاکٹر محمد دین ناظر مرحوم کے بڑے لڑکے محمد امین مرحوم کے ہم زلف تھے۔ جن کے ہاں وہ اکثر رہائش رکھتے اور محمد امین کے بھائی ڈاکٹر محمد سعید (سعدی) سے بخاری کی خاصی بے تکلفی تھی۔ ان کی اور مولوی بشیر الدین مرحوم (بن مولوی احمد دین وکیل مرحوم)کی وجہ سے کبھی کبھی ان کی گفتگو میں مجھے بھی شرکت کا موقع ملتا جس کے بعد وہ ایم اے کا امتحان انگریزی میں پاس کر کے اپنی خاص طبع روشن اور بعض اچھوتی تحریروں کی وجہ سے لاہور کی زندگی میں نمایاں طور پر رچ مچ گئے۔ یوں کہئے کہ ہر علمی محفل میں وہ جزولاینفک ہونے لگے۔

میں نے ان کو اس وقت سے زیادہ دیکھاہے جب وہ لاہور میں سنٹرل ٹریننگ کالج میں مسٹر وائٹ پرنسپل کے ماتحت ایک معلم، پنجاب ٹیکسٹ بک کمیٹی کے معتمد اور گورنمنٹ کالج لاہور میں بہ حیثیت استاد انگریزی متعین تھے مگر ان کی شہرت آل انڈیا ریڈیو کے ذریعے زیادہ وسیع ہوئی جہاں وہ کئی سال تک ناظم اعلیٰ رہے۔

ابھی پاکستان بننے کے آثار نمودار ہو رہے تھے کہ اکتوبر ۱۹۴۶ء میں ڈاکٹر ذاکر حسین خاں صاحب مدظلہ العالی ٰنے جامعہ ملیہ دہلی کی جوبلی رچائی۔ جس میں دور دور سے علمی حضرات نے شرکت کی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مرکز میں ایک عبوری حکومت قائم ہو چکی تھی۔ راقم کو بھی دکن کالج پونہ سے اسی ضمن میں نمائش کی ترتیب کے لئے مدعو کیا گیا تھا، یہ ایک بہت پُر رونق علمی میلہ تھا جس میں ہر طرح کے پڑھے لکھے حضرات نے حصہ لیا۔ جب میں نے بالکل غیر متوقع طور پر یہاں تاثیر اور بخاری کو دیکھا اور ان سے قریب دس سال بعد ملنے کا اتفاق ہوا تو وہ مجھے فوراً اپنے الگ کیمپ میں لے گئے جس میں وہ دونوں فردکش تھے۔ اس وقت وہ دونوں حکومت ہند کے شعبہ نشرواشاعت میں تھے۔ دونوں علوم جدیدہ اور قدیمہ سے سرشار نہایت روشن ضمیر اور بڑے پائے کے ناقد تھے مگر مجھے یہاں غیرمعمولی بات یہ نظر آئی کہ یہ دونوں علمی دوست شمشیر برہنہ ایک ہی نیام میں سمٹے ہوئے تھے۔ ان کو ایک ہی کیمپ میں نہایت محبت وخلوص سے مل کر اپنے فرائض انجام دیتے دیکھ کر یقین ہو گیا کہ واقعی علوم کی غائت کمال یہی ہے خواہ جس قدر بھی متضاد عنصر ہو ایک جا پُر امن طریق پر جمع ہو سکتا ہے۔

مجھے وہ سماں ہرگز نہیں بھولتا جب ایک روز بعد دوپہر ایک ہی پلیٹ فارم پر محمد علی جناح قائد اعظم، جواہر لال نہرو، مولانا ابوالکلام آزاد، لیاقت علی خان، راج گوپال اچاریہ، دلبھ بھائی پٹیل، راجہ غضنفر علی وغیرہ کو دیکھا۔ تاثیر اور بخاری اپنے رنگ میں مقررین کے بعض جملوں پر خوب ظریفانہ تبصرہ کرتے تھے۔ ایک روز یہاں مرحوم سرشیخ عبدالقادر نے کنووکیشن ایڈریس بھی دیا تھا جو پہلے چھپ چکا تھا اس کی ان پنجابی فاضل دوستوں نے نہایت عمدگی سے بے لوث تعریف کی اور ڈاکٹر ذاکر صاحب کو داد دی کہ انہوں نے اس طرح پروگرام مرتب کیا۔ غرض یہ کہ اس جوبلی کی عملی کارروائی کو جس قدر بھی پریس میں اور ریڈیو پر نشر کیا گیا وہ تاثیر اور بخاری کا حصہ تھا جس کا لوگوں کو کم علم ہے۔

جب پاکستان قائم ہوا تو بخاری لاہور تشریف لائے اس کے ابتدائی دور میں بعض بکھری ہوئی لائبریریوں کو یکجا کیا، کچھ پریشان کن چشم دید حالات جو مہاجرین کے ساتھ پیش آئے بغیر نام کے لکھے مگر عوام کو زیادہ تر یہی علم ہے کہ وہ آتے ہی گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل ہو گئے، ۱۹۴۹ء میں وہ انڈیا آفس لائبریری کی تقسیم کے ضمن میں لندن گئے جس کے بعد ۱۹۵۰ء میں وہ اقوام متحدہ میں پاکستان کے نمائندے بنائے گئے جہاں اپنی ذاتی قابلیت سے انہوں نے دنیا کے قابل ترین حضرات کو اس قدر مرعوب اور مطمئن کیا کہ ان کو آخر وہیں ۱۹۵۴ء سے شعبہ اطلاعات میں ڈپٹی سیکریٹری جنرل مقرر کیا گیا اس جگہ مرتے دم تک (۵ دسمبر ۱۹۵۸ء) نہایت معزز طریق پر فائز رہے اور اسی ادار ہ اقوام متحدہ میں راقم نے ۲۴ اپریل ۱۹۵۷ء کو ان سے آخری ملاقات کی تھی۔ جس کی مختصر سی کیفیت جو مجھے یاد ہے ذیل میں پیش کرتا ہوں۔

اقوام متحدہ کا ادارہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے عظیم ترین شہر نیویارک کے مشرقی جانب دریائے ایسٹ کے کنارے ۴۲۔ ۴۸ سٹریٹ پر اول ایونیو میں واقع ہے۔ اس کے شمالی طرف سے داخل ہوتے ہی بہت بڑے ہال میں زائرین کو ایک با وجاہت خاتون سے سابقہ پڑتا ہے جس سے باقاعدہ تمام ہدایات حاصل ہوتی ہیں اور کوئی دیر نہیں لگتی۔ اسمبلی کے ہال پر گنبد ہے جس میں کل نشستیں ۲۱۵۰ ہیں جو مندوبین، ناظرین، اخباری نمائندوں اور پبلک پر مشتمل ہیں۔ اس کے جنوب کی طرف اصل سیکریٹریٹ ۳۹ منزلہ عمارت تمام آبی رنگ کی اینٹوں کی کھڑی ہے جس میں بخاری صاحب غالباً دسویں منزل پر کمرہ نمبر ۱۰۲۷ میں بیٹھتے تھے اگر صحیح اندازہ لگایا جائے تو اس عظیم الشان ادارہ کی عمارت کا سلسلہ قریب قریب ۵۰۰ فٹ لمبائی سے کم نہیں ہے۔ زائرین اس پر شکوہ عمارت کے اول ہال ملاقات میں ایک بلند نمایاں چبوترے پر یونانی دیوتا غالباً جیوپٹر کا قد آدم مجسمہ سیاہ دھات کا بنا ہوا مادر زاد برہنہ کھڑا ہوا مشاہدہ کرتے ہیں جو بادی النظر میں کافی بے حیائی کا منظر پیش کرتا ہے۔

میں یہاں دو تین بار گیا۔ اسمبلی کی میٹنگ روم نمبر ۲ میں کچھ وقت بیٹھا اور کارروائی دیکھی۔ رسالے بھی خرید کئے اور سیکریٹریٹ کے ملاقات ہال میں آ کر بخاری صاحب سے ملاقات کی کوشش کی مگر انہوں نے فون پر کارکن خاتون کے ذریعے ۲۴، اپریل کی تاریخ ایک بجے کا وقت طے کیا۔ چنانچہ اس تاریخ کو میں صبح صبح گھر سے نکلا اور گھومتے گھومتے ادارہ اقوام متحدہ پہنچا۔ بخاری صاحب سے ملنے کی خواہش کی تو خاتون نے ان سے فون پر اجازت حاصل کر کے مجھے ایک مطبوعہ چٹ پر وہاں کے دستور کے مطابق تاریخ، میرا نام، جس سے ملنا ہے اس کا نام (پروفیسر بخاری) اور کمرہ نمبر وغیرہ لکھ کر میرے حوالے کی اور اشارہ کیا کہ وہاں لفٹ کے آگے کھڑے ہو جائیے، ابھی کمرہ کھلے گا اور آپ اوپر چلے جانا۔ چنانچہ جب میں اوپر پہنچا تو مجھے فوراً ان تک ایک اور خاتون جو ان کی مددگار تھی لے گئی۔ بخاری مجھے دیکھ کر کہنے لگے میں گیارہ بجے سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں کیونکہ یہی وقت میں نے دیا تھا محض اخلاقاً انتطار کرتا رہا ورنہ چلا گیا ہوتا۔ میں نے معذرت کی کہ مجھے یہی وقت دیا گیا تھا مگر انہوں نے مجھے اپنی میز کی ڈائری دکھائی جس پر گیارہ بجے کا وقت لکھا تھا خیر یہ مغالطہ تھا جو غالباً سمجھنے میں یا سننے میں ہوا۔ بہرحال میں نے بہت معذرت کے بعد خیریت پوچھی۔

آپ نے اول امریکہ میں آنے کی وجہ دریافت فرمائی۔ میں نے کہا میں لیڈر پروگرام کے تحت یہاں آیا ہوں اورآپ سے ملے بغیر چلے جانا کوئی اچھا معلوم نہیں ہوتا تھا جس پر آپ نے فرمایا کہ میں بھی اسی لئے گیارہ بجے سے اس وقت تک (ایک بجے ) بیٹھا رہا کہ ملاقات ضرور کرنی ہے حالانکہ مجھے اور اہم کام بھی اس وقت تھا۔ آپ نے لاہور کے احباب مولانا سالک، مسٹر فیض اور بعض دیگر احباب کی خیریت دریافت فرمائی۔ میں نے کہا کہ لاہور میں نیا علمی رسالہ لیل و نہار فیض صاحب نے جاری کیا ہے جو ہفتہ میں ایک بار طبع ہوتا ہے آپ کے پاس ضرور آیا ہو گا۔ فرمانے لگے اگر آیا بھی ہو گا تو کہیں نہر سویز پر آ کر اٹکا ہو گا (جو دراصل ۱۹۵۶ء کے واقعات سویز کی طرف اشارہ تھا) میں مسکرایا پھر میں نے کہا آپ لوگوں نے ہی تو لڑائی بند کرائی تھی ورنہ دنیا میں کیا سے کیا ہو جاتا جس پر انہوں نے چند جملوں میں وہ تمام واقعہ سنایا کہ کس طرح مسٹر ڈاک ہیمر شوالڈ نے اپنے دفتر میں بیٹھے بیٹھے فوراً طے کیا کہ یہ ہنگامہ یکلخت بند ہو جانا چاہئے اور کسی طرح انہوں نے دنیا کے اخبار نویسوں کو نیچے پریس برانچ میں جمع کیا پھر یہاں سے لفٹ میں نیچے گئے تمام کمرہ بھر چکا تھا اور ابھی تک کسی شخص کو علم نہیں تھا کہ کیا ہونے والا ہے جب انہوں نے ترک جنگ کا اعلان کیا تو دنیا حیران رہ گئی۔

اس کے بعد فرمایا کہ آج رات پاکستان ہاؤس میں میرا ایک لیکچر اقبال پر ہے۔ میں نے کہا میں ضرور سننے آؤں گا۔ ویسے لیکچر تو آپ نے خوب عمدگی سے لکھ لیا ہو گا فرمانے لگے کہ کچھ کیا ہی ہے جس پر میں نے کہا کہ حال ہی میں میں نے یونسکو کے مجلہ کوریر Courier میں ایک مضمون بہ عنوان "دنیا کے بہت زیادہ ترجمہ شدہ مصنفین ۱۹۴۷ء۔ ۱۹۵۵ء” فروری ۱۹۵۷ء کے شمارے میں دیکھا ہے جس میں اقبال کو بھی شامل ہونا چاہئے تھا کیونکہ اگر آج ہم صحیح جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ اقبال کا کلام چین و جاپان کے سوا قریب قریب سب ملکوں نے اپنے ہاں ترجمہ کیا ہے۔ میرے خیال میں یہاں بین الاقوامی شہر نیویارک میں سامعین و حاضرین جلسہ کو بتانا چاہئے اگر آپ کے مضمون میں اس امر کی طرف اشارہ نہیں ہے تو ضرور آنا چاہئے چنانچہ انہوں نے اس مشورہ کو مفید خیال کیا اور کچھ نوٹ بھی کیا۔ فرمانے لگے کہ لاہور کے ماجے ساجے یعنی لاہور کی زندگی کا کیا حال ہے ؟ جس پر میں نے مسکرا کر کہا۔ آپ کو لاہور کی اس قسم کی گہماگہمی کا بڑا خیال رہتا ہے تو مسکرا کر فرمانے لگے کہ یہی تو ایک شہر ہے جو ہماری تمام جدوجہد کا آئینہ ہے۔ میں نے کہا توبہ قول آپ کے لاہور سب شہروں سے افضل ہے۔ جس شہر میں علامہ اقبال دنیا کا بہترین شاعر وفلسفی، گاماں پہلوان رستم زماں، آغا حشر کاشمیری، بہترین اردو ڈرامہ نویس عبدالرحمن چغتائی، بہترین مشرقی مصور حاجی دین محمد کاتب، مولانا ظفر علی خان جیسا اخبار نویس اور پطرس جیسا مزاح نگار ہو اس کی خوش نصیبی کی تو قسم کھانی چاہئے۔ دراصل میں نے ان کے کبھی کے کہے ہوئے ان جملوں کا اعادہ کیا ہے کہ یہ ان کا تصور ایمان کی حد تک تھا۔ اور یہی وجہ تھی کہ وہ پنجاب کو زندگی کا آئینہ تصور کرتے تھے۔ بات کاٹ کر فرمانے لگے کہ بھائی کی تصویریں بھی یہاں دیکھی ہیں؟ میں نے کہا ہاں دیکھی ہیں۔

دراصل نچلے ہال میں ایک نمائش کا حصہ ہے جس میں تین تصاویر عبدالرحمن چغتائی کی لگی ہوئی ہیں جن کو غالباً اسی سال پاکستان گورنمنٹ نے اقوام متحدہ کو ہدیہ کیا تھا اور اس میں بھی بخاری صاحب کا انتخاب اور جدوجہد شامل ہے ورنہ یہ کام نہ ہوتا۔ واقعی یہ بہت بڑا اعزاز ہے، کئی ہزار کی تعداد میں زائرین روزانہ دیکھتے ہیں۔

میں نے تجویز کیا کہ بعض لوگوں کو یہ گمان ہے کہ کسی قدیم مصور کی تصاویر ہیں اس کو رفع کرنے کے لئے ان پر مصور کے نام کے آگے محض تاریخ پیدائش لکھ کر چھوڑ دینا چاہئے تاکہ معلوم ہو کہ آرٹسٹ زندہ ہے اور آج کل یہ طرز مصوری اس ملک کی خصوصیت ہے جسے آپ نے قبول فرمایا۔ یہ علم نہیں کہ اس پر عمل ہوا یا نہیں۔ ابھی تک کسی دوسرے ملک کے آرٹسٹ کو یہ موقع نہیں ملا تھا۔ پھر آپ نے دریافت فرمایا کہ بتاؤ اس ادارۂ اقوام متحدہ کو کیسا پایا جس پر میں نے مسکرا کر بطور ظرافت جواب میں پنجابی کا محاورہ "گھر دے بھاگ بُوئے تے ” پیش کیا یعنی یہاں جو آدمی اول مرتبہ شمالی دروازے سے ملاقات کے ہال میں داخل ہوتا ہے تو اس کی نظر فوراً مشرقی جانب مادر زاد سیاہ فام ننگے یونانی دیوتا جیوپٹر کے قد آور بلند نشست مجسمہ پر پڑتی ہے تو وہ متحیر ہوتا ہے۔ ایسے شائستہ عالمی ادارہ میں اس طرح کی عریانی اس کے لئے ایک مسئلہ بن جاتی ہے خواہ اس مجسمہ میں بہت وسیع الخیال فلسفہ اور حقیقت ہی کیوں نہ ہو۔ جب وہ نووارد اس تمام ادارے کی سیر کرتا ہے اور واپسی پر پھر ایک بار اس جیوپٹر کے بت پر نظر کرتا ہے تو اس کا ذہن اس طرف ضرور منتقل ہوتا ہے کہ یہ مقام بطور تفریح گاہ تمام دنیا کی زندہ اقوام کی نمائندوں کا مختلف رنگوں اور لباسوں میں ایک عجائب گھر یا چڑیا گھر ضرور ہے مگر اس ادارے سے اقوام کی داد رسی ہرگز متوقع نہیں کیونکہ یہ ننگا بت جو یہاں کی علامتی نشان Symbol قرار دیا گیا ہے، اس امر کی دلیل ہے کہ یہاں کچھ نہیں رکھا "جامہ ندارم دامن از کجا آرم” بخاری صاحب نے اس مزاح کو سن کر حسب عادت ایک قہقہہ لگایا اور اُٹھ کر فرمایا کہ اب رات کو پاکستان ہاؤس میں اقبال کے لیکچر میں ملاقات ہو گی۔

چنانچہ ہم اپنے ہوٹل وڈسٹاک نیویارک ٹائمز چوک سے پروفیسر اجینی احمد جیو گرافی ڈھاکہ یونیورسٹی اور ایک اور صاحب جو کراچی سے تھے، مل کر نکلے اور قریب نو بجے وہاں پہنچ گئے، لیکچر ہمارے جانے کے بعد شروع ہوا۔ تمام پاکستان ہاؤس بھرا ہوا تھا۔ یہ کافی وسیع عمارت تھی۔ اس جلسہ کی صدارت ڈاکٹر جلال عبدہ ایران کے مستقل نمائندہ اقوام متحدہ نے کی تھی، ابتدا میں انہوں نے بخاری مرحوم کی علمی قابلیت کی نہایت تعریف کرتے ہوئے تعارف کروایا اور اعزاز صدارت کا شکریہ ادا کیا۔ بخاری صاحب نے اپنا مقالہ قریب ۴۵ منٹ میں ختم کیا اور لوگوں نے دل کھول کر داد دی۔ موضوع یہ تھا کہ اقبال نے شاعری کو اپنے افکار کے اظہار کے لئے ایک موزوں ذریعہ قرار دے کر کیا کیا علمی خدمات انجام دیں۔ بعد میں اس پر کوئی سوال جواب نہیں ہوئے۔ صدر ڈاکٹر جلال عبدہ نے فارسی شاعری میں اقبال کے مقام پر کچھ مزید روشنی ڈالی۔ جلسہ کے اختتام پر میں نے پروفیسر بخاری کی معرفت ڈاکٹر جلال عبدہ سے تعارف حاصل کیا۔

دو روز بعد میں نے پھر ان کے دفتر ایمپائراسٹیٹ بلڈنگ کی باسٹھ ویں منزل پر جا کر ان سے ایک تعارف نامہ بنام ڈاکٹر سید مصطفویٰ ناظم محکمہ آثار قدیمہ ایران حاصل کرنے کی کوشش کی۔ یہ تعارف نامہ انہوں نے بطیب خاطر فارسی زبان میں لکھ کر عنایت کیا۔ نیویارک میں ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ یک صد منزل سے زیادہ کی ہے اور بلند ترین عمارت ہے۔ حسنِ اتفاق سے جب میں ان کے کمرہ میں بیٹھا ان سے باتیں کر رہا تھا تو ہوائی جہاز گزرا، میں نے ظرافتہً کہا کہ دیکھو ہوائی جہاز آپ سے نیچے اُڑ رہا ہے یہ محض اس عمارت کی بلندی کی خصوصیت کی طرف ایک اشارہ تھا۔

میں نے امریکہ سے روانہ ہوتے وقت جون کے نصف میں بخاری سے پھر ملنے کا ارادہ کیا مگر وہ ۱۴ تاریخ کو جنیوا جا چکے تھے اس کا علم مجھے ان کے مددگار آغا اشرف سے ہوا۔

میں اپنے آپ کو اس کا اہل نہیں سمجھتا کہ پروفیسر بخاری مرحوم کی علمی کارناموں پر کوئی تبصرہ کروں مگر یہ ضرور عرض کروں گا کہ ان کا ایک خاص انداز تھا یعنی روزانہ کے حالات اور تجربات زندگی ان کو موضوع بخشتے تھے اور وہ اپنی تحریر کو اس قدر نفسیاتی طور پر بلند لے جاتے تھے کہ ہر مطالعہ کرنے والا اس پر خود گھومتا نظر آتا تھا اور اس سے اس قدر لطف اندوز ہوتا تھا کہ ختم کرنے کے بعد محسوس کرتا تھا کہ وہ واقعی اسی ماحول میں چلا گیا ہے چنانچہ ۱۹۵۷ء میں جب میں تہران پہنچا اور ایک شب مسٹر رحمان پاکستان کے ادارہ سفارت کے ہاں دعوت پر ایک اور سیکریٹری مسٹر صدیقی سے مذاکرہ ہوا تو بخاری کا ذکر آ گیا پھر کیا تھا ان کے بعض خاص خاص موضوعات پر بھی گفتگو ہوئی معلوم ہوا کہ ان کو بخاری کا مضمون "بائیسکل” ایک طرح زبانی یاد ہے انہوں نے اس مضمون کے بعض حصے اس طرح سنائے کہ تمام محفل پُر لطف ہو گئی جو آج تک نہیں بھولتی۔

٭٭٭

 

 

 

ضابطہ، بے ضابطہ

 

                عشرت رحمانی

 

مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں،

تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

بات ۱۹۳۴ء کی ہے۔ دہلی میں آل انڈیا ریڈیو کا قیام عمل میں آ چکا تھا۔ محکمہ کے کنٹرولر ذہین و طباع انگریز مسٹر لائنیل فلیڈن، اسٹیشن ڈائریکٹر مسٹر اسٹپلٹن اور پروگرام ڈائریکٹر سید ذوالفقار علی بخاری (ریڈیو پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل) تھے۔ ان کے علاوہ آغا محمد اشرف (نبیرۂ آزاد) اور سجاد سرور نیازی جیسے اہل فن حضرات بھی عملہ کے رکن تھے۔ مسٹر فیلڈن خود ایک ماہر اہل قلم ہونے کے ساتھ نشریات کے رموز سے بھی کما حقہ واقف تھے جو ارباب ہنر انہوں نے جمع کئے تھے ان کے لئے ایسے سرگروہ کی تلاش تھی جو ان کی صحیح قیادت کی اہلیت رکھتا ہو اور ملک کے لئے نشریات کا موزوں لائحہ عمل مرتب کر کے ان کو مناسب طریقے پر چلا سکے۔ چنانچہ مسٹر فیلڈن نے برصغیر کی تمام یونیورسٹیوں کو مراسلے بھیجے کہ وہ اپنے اداروں سے ایسے لائق اہل علم و ہنر چن کر اس کام کے لئے بھیجیں جن کے تعاون سے وہ اپنے دست و بازو مضبوط کر کے باضابطہ کام چلا سکیں چنانچہ کئی اداروں کے اربابِ اختیار نے چند اہم شخصیتوں کو منتخب کر کے مسٹر فیلڈن سے ملاقات کے لئے بھیج دیا۔ ان میں دو نام خاص تھے۔ ایک مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے پروفیسر رشید احمد صدیقی اور دوسرے گورنمنٹ کالج لاہور کے پروفیسر سید احمد شاہ بخاری پطرس۔ یہ حسنِ اتفاق تھا یا حسنِ انتخاب کہ یہ دونوں حضرات اردو کے مشہور مزاح نگار اور بلند پایہ ادیب بھی تھے اور ادب انگریزی کے پروفیسر بھی۔

فیلڈن صاحب نے تمام منتخب حضرات کا ملاقات کے دوران میں ضابطہ بے ضابطہ جائزہ لیا اور سید احمد شاہ بخاری کو اپنا دستِ راست منتخب کر لیا۔ مسٹر فیلڈن نے برصغیر کے قیام کے دوران میں آغا محمد اشرف سے اردو پڑھی تھی لیکن یہ استعداد معمولی تھی۔ وہ بخاری صاحب کی اردو ادیب کی حیثیت سے بے مثال خوبیوں کا اندازہ تو نہ کرسکتے تھے لیکن ابتدائی ملاقاتوں میں ان کی شخصیت و کمال کا بخوبی جائزہ لے کر اس حقیقت کے معترف ہو چکے تھے کہ پطرس بخاری انگریزی زبان و ادب کی مہارت میں اس برصغیر کی منفرد حیثیت کے مالک ہیں۔ اور اپنی طباعی، غیر معمولی ذہانت اور مختلف علوم و فنون میں واقفیت رکھنے کے سبب ان کی متنوع شخصیت گوناگوں کمالات کی حامل ہے اور اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ تھی باخبر حضرات اس حقیقت سے اچھی طرح آشنا تھے اور ہیں کہ پطرس بخاری کی شگفتہ مزاجی، بذلہ سنجی اور ہمہ گیر لیاقت و ذہانت ہر اعلیٰ و ادنیٰ محفل میں ان کی ذات کو ممتاز بنائے رہتی اور بڑی سے بڑی مجلس میں ان کی صفات غالب و نمایاں نظر آتیں۔ بیک وقت ان کو متعدد زبانوں اردو، انگریزی، فارسی، پشتو اور فرانسیسی وغیرہ پر قدرت حاصل تھی۔ چونکہ میرے پیش نظر بخاری صاحب کے ادبی ولسانی کمالات سے بحث کرنا نہیں بلکہ ان کی باضابطہ شخصیت کی چند یادوں کا بے ضابطہ تذکرہ مقصود ہے اس لئے ان تفصیلات سے گریز مناسب ہو گا، مختصر یہ ہے کہ آل انڈیا ریڈیو دہلی کے اسٹیشن پر پروفیسر سید احمد شاہ بخاری اسٹیشن ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہوئے اور دہلی کی علمی ادبی مجالس میں پطرس کے چرچے ہونے لگے۔

زیادہ عرصہ نہ گزرنے پایا تھا کہ پطرس بخاری نے محکمہ میں اپنی قابلیت کا سکہ جما لیا لیکن اس وقت ریڈیو اسٹیشن پر دو بخاری تھے۔ ان دونوں بھائیوں نے اپنے اپنے انداز فکر و نظر کے لحاظ سے اس برصغیر میں نشریات کی تاریخ کی تدوین کا آغاز کر دیا اور متحدہ طور پر مستحکم تنظیم کی بنیاد ڈالی۔ اب نشری دنیا میں یہ دو شخصیتیں، بڑے بخاری اور چھوٹے بخاری کے نام سے مشہور ہو گئیں۔ کچھ عرصہ "بڑے بخاری” اسٹیشن ڈائریکٹر اور "چھوٹے بخاری” اسسٹنٹ اسٹیشن ڈائریکٹر رہے لیکن پھر بڑے بخاری ڈپٹی کنٹرولر مقرر ہو گئے اور چھوٹے بخاری اسٹیشن ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہوئے فیلڈن صاحب کنٹرولر رہے مگر انہوں نے بڑے بخاری صاحب کو ان کی ذہانت وقابلیت کے بھروسے پر محکمہ کے سیاہ وسفید کا مالک بنا دیا۔

ڈپٹی کنٹرولر بخاری نے برصغیر میں نشریات کا جال بچھانا شروع کیا۔ نئے نئے اسٹیشن کھولے۔ ضروری قواعد منضبط کئے اور گوشے گوشے میں ہونہار شخصیتوں کو کھینچ کر کسی نہ کسی حیثیت سے محکمہ نشریات میں لا شامل کیا۔ تعلیمی اور ادبی حلقوں سے متعدد نامور حضرات آ کر مختلف اسٹیشنوں پر جمع ہو گئے۔ پروفیسر رشید احمد (حال ڈائریکٹر جنرل ریڈیو پاکستان) سومناتھ چب (حال سیکریٹری ٹرانسپورٹ ڈیپارٹمنٹ، ہند) ن۔ م۔ راشد (حال ڈپٹی ڈائریکٹر اقوام متحدہ امریکہ متعینہ کراچی) محمود نظامی (حال ڈائریکٹر محکمہ تعلقات عامہ، مغربی پنجاب) الطاف گوہر (حال کنٹرولر محکمہ درآمد و برآمد حکومت پاکستان) اعجاز بٹالوی (بیرسٹر)سید انصار ناصری (حال ریجنل ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان) ملک حسیب احمد (حال پبلک ریلیشن آفیسر این ڈبیلو آر) رفیع پیرزادہ (میوزک ڈائریکٹر) راقم الحروف اور متعدد اصحاب تھے جو بڑے بخاری صاحب کے عہد میں ان کے اشارے یا تحریک پر نشریات میں "داخل دفتر” ہوئے ان میں سے بعض حضرات نے بعد میں اپنے لئے کوئی نہ کوئی نیا میدان تلاش کر لیا اور بعض اب تک ریڈیو پاکستان میں موجود ہیں لیکن بخاری صاحب کی نظرِ انتخاب نے جن لوگوں کو قابل اہلکار تصور کیا تھا وہ اب خواہ کسی میدان میں بھی ہوں سرمیدان ہی نظر آتے ہیں۔

ڈپٹی کنٹرولر ہونے کے زمانے میں بخاری صاحب فیلڈن صاحب ہی کی نظر میں نہیں بلکہ اعلیٰ انگریز حکام اور اقتدار اعلیٰ کی نگاہوں میں بھی معتمد الیہ تصور کئے جانے لگے ان کا ضابطہ تحریر و تقریر دونوں حیثیت سے ناقابل تسخیر تھا۔ جو تجویز یا تحریک ہوتی، معقول اور مدّلل، جو بات کرتے پختہ اور مناسب، اس لئے کوئی وجہ نہ تھی کہ افسران بالا سے منوا کر نہ چھوڑتے۔

بخاری صاحب کی بے ضابطہ شخصیت کے رموزو نکات اور ادبی کمالات سے تو ہر عام و خاص بخوبی واقف ہے اور پطرس کی حیثیت سے جاننے والے ان کے طنز و مزاح کی بے مثال خوبیوں کے دلی مدّاح ہیں۔ لیکن باضابطہ سرکاری افسر اعلیٰ کی حیثیت سے صرف وہی لوگ ان کی نکتہ رس شخصیت سے آگاہ ہیں جنہوں نے ان کے ماتحت براہِ راست یا بالواسطہ محکمہ نشریات میں کام کیا ہے۔ بخاری صاحب ڈپٹی کنٹرولر ہی تھے کہ میں ان کے ایما سے اسی محکمہ میں پروگرام اسسٹنٹ کی حیثیت سے داخل ہوا۔ ۱۹۳۹ء کا زمانہ تھا اور میں اس وقت دہلی کے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ادارے سے منسلک تھا۔ میرے ڈرامے اور تقریریں دہلی کے ریڈیو اسٹیشن سے نشر ہوا کرتی تھیں۔ دہلی میں رہتے سات آٹھ سال گزرے تھے۔ میں اور چھوٹے بخاری دہلی کی بزم احباب کے قدیم رکن تھے۔ بڑے بخاری صاحب سے مجھے نیاز مندی کا شرف حاصل تھا۔ ایک مجلس میں نشریات پر بات ہو رہی تھی۔ بحث کے دوران میں بڑے بخاری صاحب نے بڑی شفقت سے حاضرین سے چند اصحاب کو مخاطب کر کے مشورہ دیا بلکہ ڈانٹا کہ آپ لوگوں کو ریڈیو کے محکمے میں باضابطہ داخل ہو کر کام کرنا چاہئے تاکہ آپ اپنے رجحان کے مطابق کچھ مفید کام کر سکیں۔ علمی، ادبی دلچسپیوں کا مرکز اب محکمہ نشریات کو بننا چاہئے۔ اسی سلسلے میں ایک مشہور ادیب کا نام لے کر فرمایا "…صاحب، لکھنؤ سے مجھے ملنے آئے تھے۔ آج کل جو آسامیاں پروگرام اسسٹنٹ کی ہمارے یہاں خالی ہیں ان کے لئے پُرزور اصرار کرتے تھے۔ میرے خیال میں وہ اس جگہ کے لئے موزوں نہیں، ضابطہ کی پابندی ہر ادیب کے بس کی نہیں!” چونکہ میں ان صاحب سے واقف تھا۔ بخاری صاحب نے میری طرف دیکھ کر فرمایا "کیا خیال ہے ؟” میں سمجھا کہ بخاری صاحب ان کی نسبت مجھ سے دریافت کر رہے ہیں میں نے کہا "بجا ارشاد ہے ” بخاری صاحب نے مخصوص انداز سے زیر لب تبسم فرما کر کہا "بھئی میں… صاحب کے بارے میں آپ کا خیال نہیں پوچھ رہا میں کسی کے بارے میں یونہی رائے قائم نہیں کرتا نہ اپنی رائے پر ووٹ حاصل کرنے کا پیشہ اختیار کیا ہے۔ میں تو اس آسامی کے لئے آپ سے دریافت کر رہا ہوں اگر آنے کا خیال ہے تو درخواست دے ڈالئے۔ ہو جائے مقابلہ” میں پہلے تو کچھ نادم ہوا پھر سوچ میں پڑ گیا کہ جواب کیا دوں۔ بخاری صاحب نے میرے تذبذب کو تاڑ لیا فرمایا "سوچ سمجھ کر فیصلہ کر لو جلدی نہیں مقابلہ ذرا سخت ہے۔ انتخابی بورڈ میں دس بارہ ممبر ہوتے ہیں۔ فیلڈن صاحب صدر ہیں۔ میں تو دانستہ بورڈ میں شامل نہیں ہوتا۔ سفارشوں کے طومار کون بھگتے، پھر ضابطہ کرے تو معقولیت ضبط، بے ضابطہ کارروائی اپنے بس کی نہیں۔ پھر ادھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ مجلس برخواست ہوئی چلتے ہوئے بخاری صاحب نے فرمایا مجھے "پھر درخواست آتی ہے ؟” میں نے عرض کیا "سوچ رہا ہوں” بولے صرف یہ سوچو کہ اگر انتخاب میں آ گئے اور داخل دفتر ہو گئے تو یکسوئی ملتی ہے، منتشر خیالات میں کچھ بات نہیں بنتی”۔

میں نے چند احباب واعزا سے مشورہ کیا۔ درخواست بھی دی۔ منتخب بھی ہو گیا۔ پروگرام اسسٹنٹ کے عہدہ پر تقرر ہوا اور لکھنؤ اسٹیشن کی تعیناتی ملی۔ میرے لئے دہلی چھوڑنا سخت تکلیف دہ تھا۔ بارہ خواجاؤں کی چوکھٹ، ادیبوں، شاعروں اور سب سے بڑھ کر عزیز دوستوں کی جدائی بڑی شاق تھی۔ احباب کی رائے ہوئی کہ بخاری صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر لکھنؤ کی تعیناتی کی جگہ دہلی اسٹیشن کی تقرری منظور کرالوں۔ یہ معاملہ قطعی بخاری صاحب کے اختیار میں تھا۔ میں نے ٹیلی فون کے ذریعے بخاری صاحب سے حاضری کی اجازت لی۔ اب میں ڈپٹی کنٹرولر نشریات کے دفتر میں ایک پروگرام اسسٹنٹ کی حیثیت سے داخل ہوا تھا۔ لیکن بخاری صاحب نے میرے کمرے میں داخل ہوتے ہی حسب سابق تپاک سے ہاتھ ملایا اور بیٹھ کر چند ضابطہ کی ہدایات شروع کر دیں کیونکہ میں اس محکمہ میں نووارد تھا اور وہ ایک مخلص مہربان افسر اعلیٰ۔

بعد ازاں میں نے اصل معاملہ پیش کیا۔ اور اپنی لکھنؤ کی تقرری کے احکام کی تبدیلی اور دہلی میں رہنے کی خواہش ظاہر کی۔ بخاری صاحب نے نہایت سنجیدگی سے کہا "عشرت صاحب! آپ کا تقرر لکھنؤ کے لئے محض اتفاقیہ نہیں بلکہ دانستہ ہے۔ آپ عرصہ دراز سے دہلی میں مقیم ہیں آپ کے تعلقات یہاں کے ادبی اور تعلیمی حلقوں میں وسیع ہیں آپ کا تقرر دہلی ریڈیو کے کسی شعبہ میں ہو تو آپ کی جان ضیق میں ہو جائے گی۔ لوگ آپ کو شک و شبہ کی نظروں سے دیکھنے لگیں گے۔ آپ پر کسی حلقے کی بے جا طرفداری اور کسی کی بے جا مخالفت کے الزام لگائے جائیں گے جس محکمہ کا پبلک سے قریبی واسطہ ہو وہ عوام اور خواص ہر طبقہ کی نظروں میں رہتا ہے۔ ریڈیو کے محکمے کا بھی یہی حال ہے اس لئے ریڈیو اسٹیشن کے ذمہ دار اور کسی حد تک بھی با اختیار اہلکار کا اس اسٹیشن (مقام) پر تعینات ہونا خود اس کے اور محکمہ دونوں کے حق میں مفید نہیں۔ آپ خاص مکتب خیال سے تعلق رکھتے ہیں خود ادیب ہیں شاعر ہیں آپ کے دوست بھی ادیب اور شاعر ہیں اور دشمن بھی۔ ان میں سے بعض آپ کے ہم خیال ہوں گے اور بعض مخالف۔ آپ کس کس کو خوش رکھ سکیں گے۔ اپنے متعلقہ شعبہ میں آپ سارے شہر کے ادیبوں اور شاعروں کو پروگرام نہیں دے سکیں گے اس لئے بہت جلد مظعون ہو جائیں گے اور ضابطہ بے ضابطہ ہر طرح سے آپ کی کڑی نگرانی ہونے لگے گی اور نتیجہ آپ کے حق میں مضر ہو گا۔

بخاری صاحب کی یہ مشفقانہ نصیحت اور مجرب گر دل کو لگے لیکن دہلی کی مفارقت کا خیال ستا رہا تھا۔ میں نے پھر بھی عرض کیا۔ آپ نے جو فرمایا بجا ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ ابھی کچھ عرصہ دہلی میں اور رہ لیتا اس کے بعد کہیں بھی بھیج دیا جاتا۔ بخاری صاحب ذرا سر اونچا کر کے گردن ہلاتے ہوئے حسب عادت مسکرائے اور بولے،  آپ سمجھ رہے ہیں میں ٹالنے کے لئے آپ کو بہلا رہا ہوں بات معمولی ہے آپ کو کچھ عرصہ کے لئے نہیں مستقلاً دہلی میں رکھا جا سکتا ہے مگر بات اب کی ہے ابھی آپ کا قیام دہلی میں آپ کے لئے مناسب نہیں۔ ابتدائی ایام میں دہلی کی ادبی مجالس راس نہ آئیں گی ان سے دور دلجمعی سے کام کرنے کا موقعہ ملے گا اور پھر یہ جدائی عارضی ہے "یار زندہ صحبت باقی” اطمینان سے روانہ ہو جائیے اور لکھنؤ پہنچ کر کام میں دل لگائیے۔ اچھا! خدا حافظ” اور کرسی سے اُٹھتے ہوئے ہاتھ بڑھا دیا۔ میں بھی اُٹھ کھڑا ہوا اور ہاتھ بڑھاتے ہوئے بخاری صاحب کے سنجیدہ متبسم چہرے پر نگاہ ڈالتے ہوئے بعد سلام رخصت ہوا۔ میرے مخلص احباب میں سے ایک محترم بزرگ اکبر حیدری مرحوم تھے۔ میں نے ان سے بخاری کی گفتگو کا حال بتایا انہوں نے بخاری صاحب کی رائے کی حرف بحرف تائید کی اور کہا "بخاری صاحب نے نہایت معقول فیصلہ کیا ہے۔ دہلی کے ادبی حلقوں میں اس قسم کی چہ میگوئیاں ابھی سے شروع ہو گئی ہیں۔ بعض ادیب احباب کو پروگراموں کی امید ہے بعض اس انتظار میں ہیں کہ اگر تم دہلی اسٹیشن پر تعینات ہو جاؤ تو تمہارے خلاف جا بے جا شکایتوں کا محاذ کھڑا کر دیں۔ بات ختم ہوئی میں لکھنؤ چلا گیا اور بس!

جیسا کہ بخاری صاحب نے فرمایا تھا۔ یہ واقعی معمولی بات تھی اور ایک ادنیٰ ماتحت کے ساتھ (جو اس محکمہ میں ہنوز قدم رکھنے آیا تھا) اس قدر تفصیلی گفتگو کی چنداں ضرورت بھی نہ تھی۔ وہ حسب ضابطہ یہ کہہ کر بات ختم کرسکتے تھے کہ جس اسٹیشن پر تعیناتی ہوئی ہے وہی مناسب ہے اس حکم پر کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ لیکن بخاری صاحب کا ضابطہ اس کا خوگر نہ تھا۔ انہوں نے ابتدا ہی سے مجھے اپنی ناصحانہ گفتگو سے اس محکمہ میں کام کرنے کے ضوابط اور نشیب و فراز سمجھا دیئے جن سے میں نے بہت سیکھا اور اپنی ملازمت کے دوران ان پر کاربند رہ کر اپنی ذات اور محکمہ کے لئے مفید ثابت ہوتا رہا۔ نیز انہوں نے حاکمانہ انداز اختیار کر کے سرسری طور پر میری درخواست رد کرنے کے بجائے بے ضابطہ طور پر ضابطہ کو اس خلوص اور محبت سے سمجھایا کہ میں قائل ہونے کے ساتھ ہی مطمئن واپس آیا۔

اس واقعہ کی عمومیت یہاں تفصیل طلب تھی تاکہ بخاری صاحب کے ضابطہ کی خصوصیت واضح ہو سکے۔ ایک اعلیٰ افسر ہونے کی حیثیت سے انہوں نے محکمہ کے نظم ونسق کو اسی طرح منضبط کیا تھا ان کے ہر قول و فعل اور فیصلہ میں ہمیشہ خوداعتمادی، نکتہ رسی، دور اندیشی اور قطعیت ہوا کرتی اور لطف یہ کہ کسی کے خلاف فیصلہ کی صورت میں اس کی دل آزادی کا اظہار تک نہ ہوتا۔ وہ ضابطہ کے ہر معاملہ میں معمولی بات کو خاص اہمیت دیئے بغیر نہ ٹالتے اور اہم بات کو عام انداز میں اس طرح طے کر ڈالتے جیسے نہایت معمولی ہو۔ یہ وہ دور تھا جب کہ ایک پروگرام اسسٹنٹ کا وقار اور اختیار بھی خاصہ دقیع ووسیع ہوتا۔ اسٹیشن ڈائریکٹر اور پروگرام ڈائریکٹر کے فیصلوں کی بنیاد زیادہ تر پروگرام اسسٹنٹ کی تجویز ورائے پر ہوا کرتی۔ کانگریس ومسلم لیگ اور ہندو مسلم مناقشات کا زمانہ تھا۔ مسلم لیگ کے پیش نظر مسلمانوں کا مفاد اور ان کی آزادی کا حصول تھا کانگریس ہندو گردی پر اڑی ہوئی تھی۔ لکھنؤ یو پی کا مرکز ہی نہیں سارے صوبے کی سیاسیات کا مرکز تھا۔ ایک بار ایک بڑے ہندو مہاشے کی تقریر نشر ہونا تھی۔ میں نے تقریر کا مسودہ پڑھ کر مہاشے جی سے چند تبدیلیوں کے لئے کہا کیونکہ وہ باتیں پالیسی کے خلاف اور مناقشات کو بڑھانے والی تھیں۔ مہاشے جی نہ مانے۔ معاملہ اسٹیشن ڈائریکٹر تک پہنچا انہوں نے میری تجویز کے مطابق فیصلہ کیا۔ مہاشے جی بگڑ کر چلے گئے اور تقریر نشر کرنے سے انکار کر دیا۔ دوسرے روز مہاشے جی کی خفگی اور ریڈیو اسٹیشن کی کارروائی ضابطہ تمام اخباروں کی سرخیاں بن گئیں۔ ریڈیو کو موردِ الزام قرار دے کر خوب خوب لے دے کی گئی۔ کانگریسی اخبارات نے ریڈیو کے محکمے اور مرکزی حکومت کو ہلا ڈالنے کا اعلان کر دیا۔ میری موقوفی کا مطالبہ کیا گیا۔

غیر معمولی ہنگامہ تھا۔ ڈائریکٹر جنرل (بخاری صاحب) کو دہلی سے بہ نفس نفیس تحقیقات کے لئے آنا پڑا۔ بخاری صاحب نے تقریر کا سودہ پڑھا۔ صورتحال کا جائزہ لیا اور  پھر خود مہاشے جی سے ملاقات کے لئے تشریف لے گئے۔ کوئی گھنٹہ بھر بعد بخاری صاحب ریڈیو اسٹیشن واپس آئے مہاشے جی ان کے ہمراہ تھے۔ بخاری صاحب مسکرا رہے تھے اور مہاشے جی خاموش تھے۔ اسٹیشن ڈائریکٹر کے کمرے میں میری طلبی ہوئی۔ سامنے پہنچتے ہی مہاشے جی نے بڑی خندہ پیشانی سے ہاتھ ملایا اور بولے "میری غلط فہمی بھی تھی مگر آپ کا انداز ناخوشگوار تھا”۔ بخاری صاحب نے مسکراتے ہوئے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور بولے "آپ بزرگ ہیں لیکن ان لوگوں کی مجبوریاں احتیاط کی متقاضی ہیں” معلوم نہیں بخاری صاحب کی حکمت عملی اور شگفتہ بیانی نے مہاشے جی پر کیا جادو کیا کہ وہ اپنی ساری منطق بھول کر اسی رات مجوزہ تقریر نشر کرنے پر آمادہ ہو گئے اور انہوں نے خود ہی اخبارات کے منہ بند کر دیئے اور ہماری دوستی کا دم بھرنے لگے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ بخاری صاحب کے علم و فضل اور حسنِ گفتار و کردار کی خوبی تھی جس نے آل انڈیا ریڈیو کے محکمہ کو ایسے طوفانی زمانے میں فرقہ وارانہ تفرقوں سے محفوظ رکھا۔ عملے کے ادنیٰ و اعلیٰ اراکین میں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، پارسی سب فرقوں کے خواتین و حضرات شامل تھے۔ لیکن باستثائے چند ہر اسٹیشن پر اتحاد و یگانگت کے روابط قائم تھے۔ ہندو مہاسبھا نے بار بار اس قسم کی تفرقہ اندازی کی کوشش کی۔ خصوصاً اردو زبان کو مٹا کر ہندی رائج کرنے کی بڑی جدوجہد کی۔ مگر مہاسبھائی جوڑ توڑ بخاری صاحب کے تدبر و حکمت نے توڑ پھوڑ کر رکھ دیئے۔ نام بدل کر ہندوستانی ہوا مگر زبان کی سلامت اور رچاؤ بدلنے نہ پایا۔ اور جب ایک وقت آیا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے "زبان” اور مسلمان دونوں کے گلے پر چھری چلائیں تو انہوں نے کھلم کھلا انکار کر کے اس عہدۂ جلیلہ سے سبکدوشی اختیار کر لی۔

جب کانگریس کی حکومت برصغیر پاک و ہند میں قائم ہوئی۔ اس وقت سردار پٹیل جو کٹر مہاسبھائی ذہنیت کے مالک تھے محکمہ اطلاعات و نشریات کے وزیر مقرر ہوئے۔ مسٹر پٹیل نے کرسی وزارت پر متمکن ہوتے ہی محکمہ نشریات میں ہندو گردی کا آغاز کر دیا۔ زبان ہندی، پروگراموں کی ترتیب ہندی اور موسیقی کے لئے احکام نافذ کئے گئے کہ تمام پیشہ ور موسیقار خواتین گانے کے پروگرام سے یک قلم خارج کر دی جائیں۔ ظاہر ہے کہ شوقیہ گانے والی خواتین سے مراد صرف غیر مسلم خواتین تھیں۔ بیک وقت مسلم دشمنی اور ہندو نوازی کی پالیسی مرتب ہو گئی، اردو زبان کی جگہ کھلم کھلا ہندی کا رواج تجویز ہوا۔ ڈائریکٹر جنرل (مسٹر بخاری) نے پہلے تو وزیر پٹیل کو سمجھایا بجھایا کہ اس انداز سے پروگرام بے جان ہو جائیں گے ہمیں زبان اور آرٹسٹ دونوں کے مسئلہ کو مناسب اور موزوں طریقے سے حل کرنا چاہئے اور ایک متوازن و خوشگوار تناسب قائم رکھنا چاہئے لیکن مسٹر پٹیل کا منشا ہی کچھ اور تھا وہاں تناسب کی جگہ تناسخ کا مسئلہ زیر نظر تھا۔ چنانچہ ذی ہوش، صاحب خرد و حوصلہ مند بخاری نے اس بے بسی اور بے اختیاری کے تحت اس اعلیٰ عہدے کو قبول کرنا اپنی کسر شان اور موجودہ پالیسی کو اختیار کرنا اپنی دیانت وبسالت کے منافی تصور کیا۔ بخاری صاحب گورنمنٹ کالج لاہور واپس آئے اور آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل ایک ہندو مہاشے (مجوزہ اسکیم کے مطابق) مقرر ہو گئے۔ بخاری صاحب نے اپنے اصول اور ایمان و ایقان کی قربانی گوارا کی نہ جاہ و منصب کی طلب میں سرتسلیم خم کیا۔

بخاری صاحب ضابطہ و قاعدہ کے سختی سے پابند ہونے کے باوجود ہر معاملے کو چٹکی بجاتے باتوں باتوں میں طے کر دیتے تھے مشکل سے مشکل مسئلہ کو نہایت خندہ پیشانی سے بآسانی حل کرنا ان کے ضابطہ کا خاصہ تھا۔ ان کی ضابطہ کی زندگی کے بے شمار واقعات و مطائبات مشہور ہیں جن کا بیان اس مختصر مضمون میں دشوار ہے وہ اپنے تمام ماتحت اہلکاروں سے ایک اعلیٰ افسر سے زیادہ ایک ناصح مشفق کا سلوک اختیار کرتے ہر شخص کی ذہنی صلاحیت اور قابلیت کو بخوبی پرکھ لیتے۔ اس کے ساتھ اسی انداز سے ہم کلام ہوتے اور اس کے عین مطابق برتاؤ کرتے۔ شگفتہ بیانی ان کا خاص کمال تھا۔ اور ہر شخص کے ساتھ گفتگو کے دوران میں اس کا دل موہ لینا اور بڑی سے بڑی شخصیت پر چھا جانا ان کا ادنیٰ کرشمہ تھا۔ ان کے حلقۂ احباب میں سیاسی لیڈر، سرکاری افسران اعلیٰ، پروفیسر، عالم فاضل اور ادیب و شاعر سب ہی تھے لیکن سب ہی کو ان کی لیاقت اور حسنِ گفتار کا معترف پایا۔ ان احباب میں سے اکثر ان کے ضابطہ کے کاموں میں سفارشیں بھی کرتے لیکن وہ تمام معاملات میں وہی فیصلہ کرتے جو حق  و دیانت کے مطابق ہوتا۔ لطف یہ ہے کہ خلافِ فیصلہ کی صورت میں بھی کسی کو شکایت کا موقع نہ دیتے اور بڑے اطمینان وسکون سے اس طرح سمجھا کر ٹال دیتے کہ صاحبِ معاملہ مطمئن ہونے پر مجبور ہو جاتا۔

بخاری صاحب کا حاکمانہ برتاؤ اپنے ماتحت افسران ہی کے ساتھ مشفقانہ نہیں تھا بلکہ تمام درجوں کے ملازمین کے ساتھ بھی پسندیدہ تھا۔ ہر اہل کاران کے حسنِ سلوک اور اخلاقِ حمیدہ کا گرویدہ اور معترف تھا۔ ماتحت عملہ میں جو ادیب، شاعر اور ان کے دوست احباب شامل تھے ان کے ساتھ دفتر میں نہایت باضابطہ اور باقاعدہ ڈائریکٹر جنرل نظر آتے لیکن نجی صحبتوں میں اسی انداز کی بے تکلفی برتتے، جس حیثیت کے تعلقات ہوتے۔ ضابطہ کی پابندی کا یہ حال تھا کہ ایک بار اسٹوڈیو کے محافظ نے ان کو حسبِ ضابطہ بغیر پرمٹ دروازے کے اندر داخل ہونے سے روک دیا۔ نئی دہلی پارلیمنٹ اسٹریٹ کے براڈ کاسٹنگ ہاؤس میں بالائی منزل پر ڈائریکٹر جنرل کے دفاتر تھے۔ اور زیریں منزل میں دہلی اسٹیشن کے دفاتر اور اسٹوڈیوز واقع تھے۔ واقعہ یوں ہوا کہ ایک دن بخاری صاحب اپنے دفتر سے اُٹھ کر بغرض معائنہ اسٹوڈیوز کی عمارت میں جانے لگے۔ اسٹوڈیوز کے دروازے پر محافظ موجود تھا جس کا پہلا فرض یہ تھا کہ وہ اندر جانے والے ہر شخص کو ٹوکے اور داخلے کا پرمٹ دیکھ کر دروازہ کھولے ورنہ باہر ہی روک دے بخاری صاحب کا حکم تھا کہ اس ضابطہ کی سختی سے پابندی کی جائے اور وہ خود پرمٹ کارڈ اپنے لئے بھی ساتھ رکھتے تھے۔ اس وقت اتفاق سے پرمٹ ساتھ لے جانا بھول گئے۔ محافظ نے حسبِ ضابطہ ادب سے سلام کیا۔ اور عرض کیا۔ "حضور پرمٹ!” ڈائریکٹر جنرل بخاری نے جیب میں ہاتھ ڈالا پرمٹ کارڈ نہ پایا، خاموشی سے مسکرائے اور واپس اپنے دفتر چلے گئے تھوڑی دیر بعد چپراسی آیا اور محافظ کی طلبی کا حکم سنایا۔ "ڈائریکٹر جنرل کو اس طرح بے باکی سے روک دیا۔ اب خیریت نہیں”۔ محافظ بے چارہ تھر تھر کانپنے لگا۔ باضابطہ پیشی ہوئے اور محافظ جو ڈرتا ہانپتا حاضر ہوا تھا خوش خوش اکڑتا ہوا اپنی ڈیوٹی پر واپس گیا۔ ڈائریکٹر جنرل نے اس کی فرض شناسی اور مستعدی کی تعریف کر کے اس کی حوصلہ افزائی کی۔ اور کئی روز تک اس محافظ کے چرچے براڈ کاسٹنگ ہاؤس میں ہوتے رہے۔

عام طور پر حکومت انگریزی کے زمانہ میں جب افسران بالا اپنے ماتحت دفاتر میں معائنہ کی غرض سے جاتے تو عملہ کی جانب سے شاندار ضیافتیں ہوا کرتیں لیکن بخاری صاحب جب کسی شہر میں ریڈیو اسٹیشن کے معائنہ کو جاتے اور دستور کے مطابق ان کو اسٹاف کی جانب سے دعوت دی جاتی تو وہ منظور کرنے کے بعد یہ شرط طے کرتے کہ دعوت کے مصارف ان کے ذمے ہوں گے وہ صاف طور پر کہہ دیتے کہ آپ لوگوں کا مقصد مجھ سے ملاقات کرنا ہے۔ مجھے آپ سب کے ساتھ مل بیٹھنے سے مسرت ہو گی لیکن آپ کو جو خوشی ہو گی اس کی قیمت آپ کی جیبوں سے ادا کرا کے بارِ خاطر نہیں بننا چاہتا وہ ان دعوتوں میں تمام اہل کاروں سے نہایت بے تکلفی اور خندہ پیشانی سے ملتے اور بے ضابطہ طور پر ان کی مشکلات کا حال دریافت کر کے ان کے حل بتاتے رہتے۔ آل انڈیا ریڈیو کی تعمیر و تنظیم بخاری صاحب کی دانش و تدبر کی رہین منت تھی۔ نئی دہلی کی براڈ کاسٹنگ ہاؤس کی تعمیر، پروگراموں کی ترتیب، برصغیر کے تمام بڑے شہروں میں نشری مرکزوں کا قیام اور ان کا استحکام ان ہی کے ہاتھوں انجام پایا۔ ہندوستان میں نشریات کی توسیع کا جو کام ۱۹۴۷ء اور اس کے بعد عمل میں آیا اس کا خاکہ بخاری صاحب نے کئی سال قبل مکمل کر لیا تھا یعنی چپہ چپہ پر نشریات کا ملک گیر جال بچھانے کا دستور العمل انہوں نے تیار کر دیا تھا جس پر بعد میں عمل درآمد ہوا۔ اس عالی دماغ و اہل علم و بصیرت نے نشری دنیا میں اپنے تدبر و حکمت اور فن کارانہ صلاحیتوں کے غیر معمولی جوہر دکھائے۔ قیام پاکستان کے بعد پاکستان کے درمیان محکمہ نشریات کے سامان کی تقسیم کے لئے جو کمیٹی  بنائی گئی، اس کے صدر اور مشیر اعلیٰ بخاری صاحب ہوئے۔ اس طرح ریڈیو پاکستان کی بنیاد بھی ان ہی کے لائق ہاتھوں سے پڑی اور ان کے دستِ راست برادر عزیز سید ذوالفقار علی بخاری ڈائریکٹر جنرل مقرر ہوئے (جو حال ہی میں ریٹائر ہوئے ہیں)۔

پطرس بخاری نے اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے کی حیثیت سے اہم خدمات انجام دیں۔ اور ملک و قوم کا پرچم بلند کیا اقوام متحدہ کے محکمۂ نشریات اور اطلاعات کے شعبوں کی تنظیم کی مہم بھی بخاری صاحب نے انجام دی خصوصاً اقوام متحدہ سے اردو نشریات کے سلسلے میں ان کا بڑا ہاتھ تھا۔

بخاری صاحب کی نغزگوئی بیدار مغزی اور شگفتہ بیانی اقوام عالم کے سربرآور دہ نمائندگان میں ضرب المثل ہو چکی ہے اور انہوں نے اپنے حسنِ گفتار اور دانش و حکمت کا دنیا بھر میں لوہا منوا لیا۔ لیکن اس بین الاقوامی شہرت اور عزو افتخار کے مالک ہونے کے باوجود ان کا دل وطن اور احبابِ وطن کے لئے ہمیشہ بے چین رہا۔ افسوس کہ ان کی آخری حسرت بر نہ آئی اور وہ سرزمین وطن و یارانِ وطن سے دور دیارِ غیر میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سوگئے۔ یارانِ وطن ان کے دیدار سے محروم رہے۔ اور انہوں نے بین الاقوامی شہرت کے دامن میں دائمی آرام گاہ بنائی۔ ہم ان کے نام، کام اور گفتار و کردار کی یادگار پر عقیدت کے پھول چڑھاتے رہیں گے۔

بضاعتِ سخن آخر شدو سخن باقیست

٭٭٭

 

 

 

پطرس

 

                حکیم یوسف حسن

 

جینئس بننے یا کہلانے کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ کسی کی پشت پر بہت سی تصنیفات لدی ہوں یا اس کے سینے پر بہت سی تعلیمی ڈگریوں کے طلائی تمغے جھلملا رہے ہوں۔ جینئس پیدائشی ہوتا ہے، اکتسابی نہیں ہوتا اس کی غیر معمولی ذہانت ہی اسے اس رتبہ پر پہنچا دیتی ہے۔ اس ربع صدی کے نامور اور ذہین ادباء پر ایک نظر ڈالی جائے تو زیادہ سے زیادہ ایک درجن ناموں پر نگاہ رکتی ہے اور اس نظریہ کے ثبوت میں کہ غیر معمولی ذہانت کا ڈگریوں سے کوئی تعلق نہیں ہمیں تاثیر وپطرس کو پیش نظر رکھنا پڑتا ہے۔ تاثیر میرا دوست، میرا ساتھ اور نیرنگ خیال کا مدیر معاون تھا اس لحاظ سے تاثیر مرحوم کے مجھ پر بہت سے حقوق ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ جب تاثیر کیمبرج میں داخلے کے لئے پہنچے تو انہوں نے بی اے میں داخلہ لیا۔ اور پطرس نے بھی بی اے ہی میں داخلہ لیا۔ لیکن تاثیر نے انگریزی ادب کے متعلق اتنا کچھ پڑھا ہوا تھا کہ اگر میں کہہ دوں کہ وہ کئی لائبریریوں کو نگل چکا تھا تو اسے مبالغہ نہ سمجھا جائے، کیمبرج کے پروفیسر سے تبادلہ خیال ہوتا رہتا تھا۔ وہ تاثیر کی عظیم واقفیت سے بے حد متاثر ہوئے اور انہوں نے اسے براہِ راست ایم اے میں داخلے کی اجازت دے دی اور پھر ایم اے میں اس کی قابلیت کے جوہر جو کھلے تو کیمبرج کے مروجہ دستور کے علی الرغم انہیں پی ایچ ڈی میں بیٹھنے کی اجازت کیمبرج کونسل کے ایک اسپیشل اجلاس میں دے دی گئی۔ تاثیر کو پی ایچ ڈی کے لئے قرون وسطیٰ کی انگریزی نظم میں تصوف کے رجحانات پر تحقیقی مقالہ تیار کرنا تھا۔ عنوان ہی سے اس کی سنگلاخی ظاہر ہے مگر تاثیر نے کیمبرج سے پی ایچ ڈی نمایاں حیثیت سے حاصل کر لی۔ شاید تاثیر پہلے ہندوستانی تھے جنہیں یہ فضیلت حاصل ہوئی تھی۔ تاثیر مرحوم نے اس واقعہ کی تفصیل اپنے ایک خط میں دی ہے جو نیرنگ خیال میں شائع ہو چکا ہے۔

پطرس جب بی اے (کیمبرج) بن کر آئے تو ان سے ملاقات ہوئی، تاثیر کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بے ساختہ کہا۔ حکیم صاحب تاثیر وہاں پڑھنے تھوڑا گیا ہے وہ تو پروفیسری کر رہا ہے۔ تاثیر اور پطرس کی کیمبرج کی ڈگریوں میں عظیم تفاوت ہے۔ تاثیر کا انگریزی ادب پر عبور محیر القول ہے لیکن جہاں تک فطری ذہانت کا تعلق ہے پطرس کا مقام بہت آگے ہے۔ تاثیر اور پطرس کی انگریزی اور اردو کا بغور مطالعہ کیا جائے تو پطرس میں جو رنگینی، لطافت اور لچک پائی جاتی ہے وہ تاثیر میں موجود نہیں۔

تاثیر نے بھی مزاحیہ رنگ میں چند مضامین نیرنگ خیال میں لکھے تھے جو ادب میں اچھا مقام رکھتے ہیں لیکن ہم انہیں پطرس کے مزاحیہ مضامین کے ساتھ نہیں رکھ سکتے۔ پطرس کا ادبی کارنامہ صرف "پطرس کے مضامین” ہیں اس ننھی سی کتاب کے متعلق کیا کہیں، شیخ سعدی نے فرمایا تھا کہ:

ہر چہ بہ قامت کہتر یہ قیمت بہتر

اس کے مصداق یہ چند مضامین ہی پطرس کی عالمگیر شہرت اور ناموری کا باعث بن گئے۔ اگر میں یہ کہہ دوں کہ ہندو پاکستان کی تمام مزاحیہ کتابوں کو ترازو کے ایک پلڑے میں ڈالا جائے اور پطرس کے مضامین دوسرے پلڑے میں رکھے جائیں تو پطرس کے مضامین بھاری رہیں گے۔ پطرس کے مضامین کے بعض حصے نیرنگ خیال میں بھی شائع ہو چکے ہیں اور پطرس کی یہ مزاحیہ تصنیف تو قریباً ہر پڑھے لکھے آدمی کی نظر سے گذری ہو گی لیکن پطرس نے ان مزاحیہ مضامین کے علاوہ اور بھی بہت کچھ لکھا ہے جس کا مجموعہ نقوش کے اس خاص نمبر میں آپ کے ملاحظہ سے گزرے گا اور جس سے معلوم ہو گا کہ پطرس نے ادب اور زندگی کے ہر شعبہ میں بہت سی کارآمد باتیں لکھی ہیں۔

پطرس کی شہرت ان مضامین سے بھی ہوئی تھی جو نیاز مندانِ لاہور کی طرف سے نیرنگ خیال اور کاروان میں شائع ہوئے تھے۔ ان مضامین میں طنز و مزاح کا امتزاج پایا جاتا ہے۔ نیاز مندانِ لاہور کون تھے ؟ یہ سوال تو لوگوں کو پریشان کرتا رہا۔ نیاز مندانِ لاہور سے مراد تین اصحاب تھے : پطرس، تاثیر اور سالک۔ جو مضمون بھی شائع ہوتا اس پر تینوں متفق ہوتے تھے، اصل میں ہوتا یوں تھا کہ دفتر نیرنگ خیال میں تبادلہ کے رسائل اور ریویو کے لئے کتابیں موصول ہوتیں تھیں۔ جب ان میں کوئی چیز ایسی آ جاتی جس پر بحیثیت پنجابی ہونے کے ہمیں توجہ کی ضرورت ہوتی تو میں وہ مواد تاثیر کے سپر د کر دیتا کہ اس کتاب یا اس رسالے کے فلاں مضمون پر نشتر زنی کی ضرورت ہے۔ تاثیر صاحب وہ مواد اپنے خیالات اور تحقیق کے ساتھ پطرس صاحب تک پہنچا دیتے۔ اور پطرس صاحب اس پر ایک مضمون قلم بند فرماتے جس میں آخری ٹچ عبدالحمید صاحب سالک کی ہوتی تھی اور پھر وہ مضمون نیرنگ خیال میں شائع ہو جاتا۔ ان مضامین کی ان دنوں یو پی اور اہل زبان میں بڑی دھوم تھی ان میں مزاح سے زیادہ طنز اور تنقید ہے۔ پطرس صاحب زندہ مزاج تھے۔ احباب کے ساتھ جس مجلس میں بھی وہ بیٹھتے، ان کے درخشاں اور شگفتہ چہرے سے مزاح کی فضا ترقی پکڑتی تھی، ان کے منہ سے مزاح بھرے فقرے اور الفاظ اس طرح مسلسل ادا ہوتے تھے کہ تمام مجلس لوٹن کبوتر بنی رہتی تھی۔ اس مزاح میں عامیانہ اور گھٹیا انداز میں کوئی بات نہ ہوتی تھی۔ جی چاہتا تھا کہ گھنٹوں بیٹھے پطرس کی باتیں سنتے رہیں۔

جب پطرس صاحب آل انڈیا ریڈیو میں ڈائریکٹر جنرل تھے تو ریڈیو کی بعض پالیسیوں کے متعلق میں نے نیرنگ خیال میں سختی سے نکتہ چینی کی۔ یہ سلسلہ کوئی دو مہینے چلا ہو گا کہ پطرس کا ایک خط مجھے ملا جس میں اس قسم کے الفاظ تھے : "سب میرے خلاف سب کچھ لکھیں تو میں برداشت کر لوں گا لیکن میرے خلاف نیرنگ خیال میں کچھ لکھا جائے تو میں اسے برداشت نہ کرسکوں گا”۔ خط کے پہنچتے ہی میں نے یہ سلسلہ نیرنگ خیال میں فوراً روک دیا۔

ایک دفعہ ہمارے دوستوں نے نیرنگِ خیال کو نیچا دکھانے کے لئے مخزن کا سہارا لیا "تاثیر مع اپنے عملہ” کے مخزن کے دفتر میں جا پہنچے۔ صبح سے شام تک پورا عملہ مخزن کو بڑھانے اور مقبول بنانے میں مصروف نظر آتا تھا۔ پطرس، سالک اور امتیاز کو بھی اپنے ڈھب پر لانے کی انہوں نے بہت کوشش کی اور ان کے بعض مضامین جو نیرنگ خیال کو ملتے تھے۔ انہوں نے راستے ہی سے اچک لئے۔ اس معرکہ میں پطرس صاحب نے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ "چوہے بلی کے گلے میں گھنٹی تو باندھیں گے لیکن اس کی میاؤں کا کیا علاج کریں گے۔ تمہارے طائفہ کے پاس سب کچھ ہے لیکن حکیم صاحب کی سوجھ بوجھ کہاں سے لاؤ گے ؟” چنانچہ اس جماعت کی یہ تمام کوششیں پوری طرح ناکام ہو گئی۔

پطرس نیرنگِ خیال کے دورِ اول کے لکھنے والوں میں سب سے نمایاں شخصیت تھے۔ بلکہ مجموعی طور پر انہوں نے دوسروں سے کچھ زیادہ ہی لکھا ہے۔ ان تحریروں میں ڈراما، فلم، افسانہ، ادب لطیف، تنقید، طنز و  مزاح سب ہی کچھ شامل ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

جس کی باتوں میں گُلوں کی خوشبو

 

                آغا بابر

 

جس قلم سے آج یہ چند منتشر خیالات خراج عقیدت کے طور پر پروفیسر بخاری مرحوم کی نذر کر رہا ہوں، یہ قلم چلانا انہوں نے ہی سکھایا تھا۔ وہ میرے استاد تھے۔ مشفق تھے۔ زندگی کی جنگ لڑنے کا اعتماد، حوصلہ نہ ہارنے کا جذبہ سب کچھ انہیں کی تہذیب و تربیت کا نتیجہ تھا۔ ان کی ناگہانی موت سے خیالات اس طرح پریشان ہیں کہ کیا لکھوں کیا نہ لکھوں کا رشتہ ترتیب قلم کے قابو سے باہر ہے۔ دماغ میں جو کچھ آ رہا ہے جس ترتیب سے آ رہا ہے اسی طرح پیش کر رہا ہوں:

خاطر مسلسل است پریشاں چوں زلفِ یار

عیبم مکن کہ در شب ہجراں نوشتہ ام

گورنمنٹ کالج لاہور ہندوستان میں سب سے بڑی اور سب سے پرانی درسگاہ تھی۔ اس کی تعلیم کا ڈھنگ، علمی وادبی صحبتیں اور پروفیسروں کی قابلیت کا شہرہ دور دور تھا۔ لڑکے اس درسگاہ سے منجھ کر نکلتے۔ انہیں بھی فخر ہوتا اور پروفیسروں کو بھی۔ جب فرسٹ ائیر میں یہاں داخل ہوا تو پروفیسر بخاری انٹرویو بورڈ میں تھے بلکہ بورڈ میں انہیں کی رائے چلتی تھی۔ گردن میں آپریشن ہونے کی وجہ سے ایک گڑھا سا پڑتا تھا۔ جس کی وجہ سے نسیں کھنچی رہتیں۔ شکل وصورت ایرانیوں کی سی تھی۔ ان دنوں مسٹر گیرٹ پرنسپل تھے۔ پروفیسر بخاری کی وضع قطع، باتیں کرنے کا ڈھنگ، لباس اور اطوار سے یورپینی انداز ٹپکتا۔ کسی پروفیسر کی کیا مجال کی گیرٹ کے کمرے میں سگریٹ پیتے ہوئے گھس جائے۔ مگر پروفیسر بخاری جب پرنسپل کے کمرے میں جاتے تو ہم ‘کی ہول’ (Key Hole) میں سے دیکھتے۔ گیرٹ کے سامنے وہ کھڑے سگریٹ پیتے۔ دھواں نتھنوں سے نکلتا۔ کبھی کش لیتے تو دھواں منہ سے نکلتا نہ نتھنوں سے۔ باتیں کر رہے ہیں دھواں غائب اتنی دیر میں دھواں نتھنوں سے نکلتا پھر منہ سے۔ یہ تماشا سرکس میں دیکھا تھا۔ گورنمنٹ کالج کے چوٹی کے پروفیسر کا یہ انداز اپنے اندر عجیب وقار، حسن، اور کشش لئے ہوئے تھا۔ پروفیسر بخاری بی اے کو ڈرامہ پڑھاتے تھے۔ میری بڑی خواہش تھی کہ میں ان کی باتیں سنوں۔ ان کی صحبت میں بیٹھوں۔

اردو مجلس کے وہ صدر تھے۔ اجلاس ان کے مکان پر ہوتے تھے۔ وہ ان دنوں میکلوڈ روڈ پر عطر چند کپور بلڈنگ میں رہتے تھے۔ پہلی دفعہ مجھے وہیں پروفیسر بخاری کی باتیں سننے کا اتفاق ہوا۔ فلیٹ کے برآمدے کی آرائش اور ڈرائنگ روم کی سجاوٹ ہر شے میں مغربی انداز جلوہ گر تھا۔ اس مغربی ماحول میں اردو مجلس کی میٹنگ پھر گفتگو کا انداز اتنا بے تکلف، سب کے ساتھ خلوص آمیز میل ملاپ۔ اس مجلس میں سید امتیاز علی تاج اور سالک صاحب بھی موجود تھے۔ ان سے بخاری گفتگو کرتے تو بات بات کے ٹکراؤ سے عجب پھلجھڑیاں اور شرارے پھوٹتے۔ تین گھنٹے کی مجلس رہی، مگر وقت گزرنے کا پتہ نہ چلا۔

ان کی ذات میں مشرق و مغرب کا جو لطیف امتزاج موجود تھا پہلی صحبت ہی میں آدمی اس سے متاثر ہوتا۔ کمال تو یہ تھا کہ وہ بڑے سے بڑے اہم اور سنجیدہ مسئلے پر بحث کرتے ہوئے کس طرح مزاح و ظرافت سے اسے حل کر کے رکھ دیتے تھے۔ ان کے مزاج کی آراستگی ساری محفل کو گرما دیتی۔ ان کی شخصیت میں ایک ایسی گرفت تھی کہ خواہ مخواہ طبی غا بابر)لکھنیں حاضر ہو کر لکھنویدد                                                                                             عتیں کھنچی چلی آتیں۔ وہ ان دنوں گورنمنٹ کالج کی تہذیبی سرگرمیوں کے روح رواں تھے۔ گھر پر اردو مجلس کی کھیتی کو سینچ رہے تھے۔ راشد اور فیض کو جدید شاعری کے گل بوٹے سجانے پر شاباشیاں مل رہی تھیں۔ شام کو انگریزی ڈرامے ‘دی مین ہو ایٹ دی پوپو میک’ (The Man Who Ate The Popomack) کا ریہرسل کرا رہے ہیں۔ انگریزی مباحثوں میں حصہ لے رہے ہیں۔ ادب اور فلسفہ پر لیکچر تیار کر رہے ہیں۔ پھر آستینیں چڑھی ہوئی ہیں، ہاتھ گرد آلود، ڈرامے کی سیٹنگ کا ٹھونکا ٹھانکی ہو رہی ہے۔ وقت کے ایک ایک لمحے سے اس کا اس طرح رس نچوڑ رہے ہیں کہ وقت اپنی تہی دامنی پر نادم ہے۔ ان کے کام کرنے کا طریقہ اتنا خوش آئند ہوتا کہ دیکھنے والوں میں بھی تکمیل کار کا ایک ولولہ جاگ اُٹھتا۔ جو لوگ ڈرامے کا ریہرسل دیکھنے آتے وہیں کے ہو رہتے۔ وہ لڑکوں کو یونیورسٹی ڈی بیٹ کے لئے تیاری کراتے تو لڑکوں کا یہی جی چاہتا کہ وہ بس ڈی بیٹ ہی کو زندگی کا مسلک بنا لیں۔ یہ بخاری صاحب کے خلوص کار کے کرشمے تھے۔

صوفی تبسم اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ : "بخاری کا مقولہ ہے کہ کسی کام کی صحیح تکمیل کے لئے انسان میں محض شوق نہیں بلکہ چسکا ہونا چاہئے چنانچہ وہ جب بھی کسی کام کو کرتے ہیں تو ایسے ذوق و شوق سے کرتے ہیں، گویا انہیں اس کام کا چسکا ہے "۔ ان کا اپنے شاگردوں سے بڑا مشفقانہ برتاؤ ہوتا تھا، کلاس میں بھی اور کلاس سے باہر بھی۔ اس کے باوجود ان سے جی ڈرتا۔ وہ اس لئے کہ جہاں کوئی اصول کی بات آ جاتی وہ معاف نہ کرتے، ڈانٹ پڑ جاتی۔ میں نے بی اے میں ان سے ڈرامہ پڑھا، شیکسپیئر کے وہ عاشق تھے۔ "ہملٹ” ہمارے نصاب میں تھا۔ جہاں پلونیئس لی آرٹینر کو تقریر کرتے ہوئے عقل و دانش کی باتیں سمجھاتا ہے جو انسانی زندگی اور دنیوی تجربوں کا نچوڑ ہیں۔ اس مقام پر شیکسپیئر نے جو باتیں سمجھائی ہیں ان کے متعلق پروفیسر بخاری ہمیں نوٹس لکھوانا چاہتے تھے۔ ہم نے اپنا اپنا قلم سنبھالا۔ اصغر (اب کمانڈ کنٹرولر راولپنڈی) میرے دائیں ہاتھ بیٹھتا تھا۔ اس نے موٹا سا پیلے رنگ کا قلم نکالا۔ نوٹ بک پر اس روز کی تاریخ لکھی۔ اور میری نوٹ بک کی طرف دیکھنے لگا میں نے اپنے قلم سے تاریخ لکھنی چاہی تو قلم نے لکھنے سے انکار کر دیا۔ میں نے اصغر کی طرف دیکھا پھر قلم کو انگلی سے ذرا ٹھونک کر لکھنا چاہا۔ قلم نے نہ لکھا۔ میں نے اصغر کو زور سے کہنی ماری اور کہا۔

"ادھر مت دیکھو میرے قلم کو نظر لگ رہی ہے "۔

پروفیسر بخاری نے مسکرا کر منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ ہم اگلی بنچوں پر بیٹھا کرتے تھے۔ دو سال ہوئے میں نے اپنے افسانوں کا تازہ مجموعہ "لب گویا” ن۔ م۔ راشد کے ہاتھ بخاری صاحب کو نیویارک بھیجا۔ میں نے اس پر لکھا۔۔ اپنے نالائق شاگرد کی طرف سے یہ کتاب قبول فرمائیے جو اگلی بنچوں پر اس لئے بیٹھا کرتا تھا کہ آپ پچھلی بنچوں پر بیٹھنے والوں سے سوال پوچھا کرتے تھے "۔۔ بخاری صاحب مسکرا کر کتاب دیکھنے لگے اور اگلے روز نئے سال کا کارڈ مجھے روانہ کیا جو اس وقت میرے سامنے موجود ہے، ہملٹ کا وہ نسخہ بھی جو پروفیسر بخاری ہمیں پڑھایا کرتے تھے میرے پاس موجود ہے۔ حقیقت میں تو ہمارے پاس ان کے وہ تحفے ہیں جن کو ہم نے زندگی بھر اپنائے رکھا ہے۔ یہ لکھنے کا روگ جو ہم طالب علمی کے زمانے سے پال رہے ہیں انہیں کی بخشش ہے۔ ڈرامے کا شوق بلکہ چسکا انہیں کا دیا ہوا ہے۔ جذبات کی یہ آگ جس نے استخواں تک کو جلا دیا ہے اور ابھی "آرزوئے سوختن باقیت” انہیں کا کرشمہ ہے انہوں نے ن۔ م۔ راشد کی حوصلہ افزائی کی۔ فیض کی کمر ٹھونکی۔ آغا عبدالحمید (سی ایس پی) بشیر قریشی (سی ایس پی) علی اصغر (سی ایس پی) رشید احمد (ڈپٹی ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان) اور مظہر علی خاں (سابق ایڈیٹر پاکستان ٹائمز) پروفیسر بخاری کے وہ شاگرد ہیں جن کی علمی استعداد اور ادبی تہذیب و تربیت بخاری صاحب کی شخصیت کا پر تو ہیں۔ وہ روشنی کا چراغ جس سے ہزاروں چراغ جلے۔ سینکڑوں نے اکتساب نور کیا۔ آج اپنی لو ختم کر چکا۔۔ پرانے وقت تابڑ توڑ ذہن پر وارد ہو رہے ہیں جن سے اپنے استاد کی تعظیم و تکریم میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس عظیم انسان کا وقار فضیلت بڑھ رہا ہے مرحوم کی شخصیت کا ایک پیارا پہلو یاد آیا۔  اصغر حسین قلعہ گوجر سنگھ میں رہتا تھا۔ پروفیسر صوفی تبسم نے کہا "تم میکلوڈ روڈ سے گزرتے ہوئے بخاری صاحب کے ہاں چلے جانا اور ان سے کہنا کہ آج شام کو چھ بجے اردو مجلس کی میٹنگ ان کے مکان پر ہو گی”۔ اصغر نے عطر چند کپور بلڈنگ کے ساتھ بائیسکل رکھا۔ سیڑھیاں چڑھ کر اُوپر پہنچا۔ دروازہ اندر سے بند۔ بجلی کی گھنٹی کا بٹن دبایا۔ کوئی جواب نہ آیا۔ اس نے انگلی رکھ کر بٹن کو زیادہ زور سے دبایا۔ پھر بھی کوئی جواب نہ آیا۔ اب وہ انگلی رکھ کر دباتا ہی چلا گیا۔

بخاری صاحب ڈریسنگ گاؤن پہنے ہوئے آئے۔ دروازہ کھول کر بولے "جو گھنٹی کے بٹن کے اوپر لکھا ہے تم نے پڑھا۔ "وہاں لکھا ہوا تھا "Be Brief And Patient”اصغر کچھ نہ بولا۔ انہوں نے دروازہ بند کرتے ہوئے کہا "No Mistake in Future” اور چلے گئے۔ اصغر حیران کہ اچھا پیغام دینے آئے کہ الٹی ڈانٹ کھا لی اور اس مرد خدا نے پوچھا تک نہیں کہ کیوں آئے کیا بات ہے ؟اصغر نے گھنٹی کو زور سے بجایا۔ سیڑھیاں اترا۔ بائیسکل لیا اور بھاگ گیا۔ اگلے دن پروفیسر بخاری کے پیریڈ میں اصغر کا دل دھڑک رہا تھا کہ وہ حاضری لے رہے تھے جب نمبر ۱۵۶ بولا تو رک گئے۔ اصغر کا برا حال، بخاری نے رجسٹر سے نظر اٹھائی۔ اصغر کی طرف دیکھا۔ ذرا سا ڈرامائی وقفہ دے کر بولے۔ "I Liked It”

اور حاضری لینے لگے۔ اسی زمانے کی بات ہے۔ یونیورسٹی سے کہہ سن کر پروفیسر نے کالجوں میں پراکٹوریل سسٹم رائج کرایا۔ طلباء کو شناختی کارڈ رکھنے کا حکم دیا گیا۔ نو بجے سے اوپر بغیر اجازت نامہ کے طالب علم گھر سے باہر نہیں رہ سکتا تھا۔ میں ایک دن پکڑا گیا۔ میں اپنے بڑے بھائی ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی کے ساتھ ایک کھانے پر مدعو تھا۔ انہوں نے مجھے گنڈیریاں لینے بھیج دیا۔ میں گوالمنڈی کے چوک میں گنڈیریاں تُلوا رہا تھا کہ ایک کار آ کر رکی۔ بخاری صاحب بولے۔ "اجازت نامہ؟”میں نے کہا "میں تو…”بولے "کل صبح” اور چلے گئے۔ میں نے عاشق صاحب سے اجازت نامہ لیا کہ میری اجازت سے باہر گیا تھا۔ مگر بخاری صاحب نے دس روپے جرمانہ کر دیا۔ بولے "اس وقت تمہارے پاس اجازت نامہ کیوں نہیں تھا؟ تم نے اصول توڑا ہے "۔ آج جب ہم اپنے بچوں سے اصول برتتے ہیں تو انہیں کیا معلوم کہ اس میں ہمارے پروفیسر کی تربیت بول رہی ہے ہم نے جو کچھ استاد سے سیکھا اگلی پود کو وہی کچھ دے رہے ہیں۔

گذشتہ جنوری میں وہ ڈھائی برس کے بعد رخصت لے کر امریکہ سے پاکستان آئے۔ راولپنڈی میں اپنے چھوٹے لڑکے ہارون کے پاس چند دن رہے۔ میں ملنے گیا۔ وہی پرانی گرم جوشی اور بزرگانہ شفقت، پوچھنے لگے "سنا ہے تم نے پنڈی میں ڈرامے اسٹیج کئے ہیں”۔ میں نے کہا "آپ کی لگائی ہوئی آگ ابھی تک نہیں بجھی”یہ سن کر مسکرائے۔ میں نے کہا "لٹل تھیٹر گروپ آپ کو چائے کی پیالی پلانے کا خواہشمند ہے۔ بولے "میں ان تکلفات (Formalities) سے بڑا تھک گیا ہوں۔ تم بلاؤ تو آ جاؤں گا۔ کراچی اور لاہور میں، میں نے کسی ادارے کی دعوت قبول نہیں کی۔ میں نے کہا "لٹل تھیٹر کو کوئی پیغام ہی دے دیں”۔ بولے "پیغام تو بڑے آدمی دیا کرتے ہیں”۔ راولپنڈی میں انہوں نے اپنے شاگردوں اور مداحوں کے ساتھ ایک شام بسر کی۔ عابد علی کے ہاں تین گھنٹے محفل جمی اور گفتگو کے بادشاہ کو ہم نے پھر بلندیوں پر اُڑتے دیکھا۔ دل خوش ہوا کہ دل کے دوروں نے ابھی تک اس عظیم شخصیت کا کچھ نہیں بگاڑا۔ وقت سے زندگی کا پورا رس نچوڑ لینے والا یہ انسان ابھی زندہ رہے گا۔

وہ اپنے قیام کے دوران اپنے شاگردوں اور دوستوں سے پہلا سوال یہی کرتے رہے۔ کیا تم مطمئن ہونا؟”اس سوال کو اولیت دینے کی وجہ پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ پاکستان کا ہر شخص شاکی نظر آتا ہے۔ میں یہاں ایک عام فرسٹریشن دیکھ رہا ہوں بے دلی، بے اطمینانی اور محرومی کا احساس چاروں طرف دکھائی دے رہا ہے۔ لوگوں کی اپنی ذات میں دلچسپی انتہائی طور پر بڑھ گئی ہے۔ سب قوموں میں، میں نے یہ دیکھا ہے کہ ان کی قوم کا کوئی فرد امریکہ میں آئے تو وہ اس کی بے حد تعریف کرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں یہ ہمارے ملک کا ممتاز اور قابل ترین فرد ہے۔ واحدپاکستانی ایسا شخص ہے جسے میں نے کبھی اپنے ملک کے فرد کی تعریف کرتے نہیں سنا۔ وہ تو دراصل یہ کہنا چاہتا ہے کہ "سب سے ممتاز اور قابل ترین فرد تو میں ہوں” یہ تو بس ایسوں میں سے ہی ہے۔ اگر کسی کو کوئی اچھا عہدہ مل جائے۔ کسی منصب پر کوئی جا پہنچے اور کسی پاکستانی سے کہا جائے کیوں بھئی وہ اچھے عہدے پر جاپہنچا؟ تو پتہ ہے وہ کیا جواب دیتا ہے۔۔ او چھڈو جی… یہاں پھرا کرتا تھا!” پھر میری طرف دیکھ کر بولے۔ کوئی اگر یہ کہے کہ بابر نے بڑا اچھا ڈرامہ اسٹیج کیا تو کہیں گے۔ او چھڈو جی۔۔ کل ایتھے لگا پھرداسی۔

اس چھڈو جی میں ہماری کم ہمتی، محرومیوں اور اہلیتوں کی بہت بڑی جھلک موجود ہے۔ پاکستان چھوٹا سا ملک ہے آخر یہاں ہی کے لوگ اچھے عہدوں پر متمکن ہوں گے مگر اس پر کوئی دھیان نہیں دیتا۔ پاکستانی خود کچھ کرنے کے لئے تیار نہیں۔ دوسرا اگر کچھ کرے اور اسے نیک نامی حاصل ہو جائے تو عام ردِ عمل یہی ہوتا ہے "او چھڈو جی”۔ کہنے لگے امریکہ میں ایک بین الاقوامی تقریب پر چوہدری سرظفر الله خاں کسی سے تنبورے کا ذکر کر رہے تھے۔ کسی غیر ملکی نے پوچھا تنبورے اور تان پورے میں کیا فرق ہوتا ہے۔ کہنے لگے "چلو بخاری سے پوچھیں وہ آل انڈیا ریڈیو کا ڈائریکٹر جنرل رہ چکا ہے "۔ میں نے کہا "آل انڈیا ریڈیو کا ڈائریکٹر جنرل رہنا تبنورے اور تان پورے پر کوئی اتھارٹی نہیں ہو سکتا۔ آپ کی عمر کتنی ہو گی؟”بولے "پینسٹھ سال”میں نے کہا "جہاں آپ نے پینسٹھ سال تان پورے اور تنبورے کا فرق معلوم کئے بغیر گزار دیئے ہیں دو چار سال اور بھی گزار دیجئے۔

پروفیسر صوفی تبسم کا کہنا ہے کہ ایک مرتبہ پروفیسر بخاری کے رفیقوں میں سے ایک یونیورسٹی کے کسی رکن کی غلط کاریوں پر چیں بہ جبیں ہو رہے تھے۔ بخاری کہنے لگے "بھائی صاحب میری دو باتیں یاد رکھو۔ زندگی میں کسی سے الجھنا ہو تو کسی بڑے مسئلے پر الجھنا چاہئے اور اپنے سے بڑے آدمی کے ساتھ الجھنا چاہئے ورنہ مزا نہیں آتا۔ انسان کی قوتیں اور کوششیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ کمزور آدمی کو دبانے میں کوئی شان نہیں۔ بڑے آدمی سے تصادم ہو تو انسان کی استعداد کار اور بھی چمکتی ہے۔ مجھے دیکھو میں نے ریڈیو کی ملازمت کے دوران ہمیشہ بڑے آدمیوں سے ٹکر لی ہے اور خدا کے فضل و کرم سے کامیاب رہا ہوں۔ ”

جب علامہ اقبال کے کلام کے سلسلے میں یوپی کے بعض اہل قلم کی طرف سے اعتراضات اُٹھنے لگے تو "زندہ دلان” پنجاب نے ان سے جو جنگ لڑی تھی بخاری اس میں پیش پیش تھے۔ ٹکراؤ اور پھر استعداد کا حرکت میں آنا، یہ بات ان کے ڈرامے سے غایت درجہ شغف رکھنے کا ایک طبعی باعث قرار دی جا سکتی ہے اس طرح الجھنے اور ٹکرانے میں جو رکاوٹیں پیدا ہوتیں ان سے عہدہ برآمد ہونے کے لئے وہ کبھی تھکن محسوس نہ کرتے۔ میں نے انہیں ۱۹۵۳ء میں ہملٹ کا پارٹ ادا کرتے دیکھا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پروفیسر بخاری واقعی پرنس ہملٹ ہے۔ ڈرامائی ٹکراؤ، واقعاتی الجھاؤ، کرداری رکاوٹیں ہملٹ کا راستہ روکے کھڑی تھیں۔ اور وہ کس کس طرح ان سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ ہملٹ کے کردار کی جیتی جاگتی تصویر ہمارے سامنے آ گئی۔

نیویارک کے جس ڈاکٹر کے وہ زیر علاج رہے وہ بھی شیکسپیئر کا بڑا دلدادہ تھا۔ مریض اور ڈاکٹر دیر تک اسی موضوع پر باتیں کرتے رہتے۔ عارضۂ قلب میں مبتلا ہونے کے بعد پروفیسر بخاری جب بھی ڈاکٹر سے طبی مشورہ کرتے تو مسکرا کر پُر معنی انداز میں ضرور پوچھتے۔ کب ڈاکٹر؟ بتاؤ تو سہی کب؟”نیویارک میں ملک ملک کے چوٹی کے اخباری نمائندے مقیم ہیں۔ وہ بخاری کی صحبت میں بیٹھنے کو بہت بڑا پُرمسرت اعزاز سمجھتے۔ ہر شخص ان کا مداح تھا۔ پروفیسر بخاری نے ایک بے چین اور مضطرب طبیعت پائی تھی۔ اس سیماب صفت انسان کا دماغ اس کے جسم سے اور اس کا جسم اس کے دماغ سے زیادہ تیز کام کرتا:

اسی کشمکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں

کبھی سوز وساز رومی کبھی پیچ و تاب رازی

موت کا فرشتہ دہلیز پر آ کر بیٹھ گیا تھا۔ ڈاکٹر نے کہا اگر تم چاہو تو میں حاضر ہوں۔ رات تمہارے پاس ٹھہرتا ہوں۔ صبح چلا جاؤں گا۔ پروفیسر بخاری نے کہا "نہیں، نرس جو میرے پاس موجود ہے۔ "ڈاکٹر نے مذاق سے کہا "اچھا سویٹ پرنس شب بخیر”۔ مگر یہ رات اس کی آخرت رات تھی۔ موت کے فرشتہ نے دہلیز الانگ لی۔ بچے باپوں سے پوچھتے ہیں آج کون مرگیا، آپ اداس جو ہیں کون بتائے نئی پود کو آج وہ مرگیا جس نے کہا تھا۔ بچوں کو بہلانا سہل ہے بڑوں کا بہلانا سہل نہیں۔

پروفیسر بخاری کی شخصیت کی عظمت کا بہت پیارا پہلو یہ تھا کہ عام عالموں کی طرح علم کے اظہار و بیان کو وہ بوریت اور یبوست کی کوئی چیز نہ بننے دیتے۔ بلکہ اپنی فطانت اور ظرافت کے امتزاج سے اسے اتنا پُر معنی اور پُر کشش بنا دیتے تھے کہ سننے والے کی سوچ کو تحریک بھی ہوتی اور ساتھ ہی ساتھ پھلجھڑیاں بھی بہار دکھاتی رہتیں۔ آج وہ اہل فکر وہ دانشور ہم میں نہیں۔ جو فصحا میں بیٹھا تو فصاحت و بلاغت کے دریا بہاتا، لکھتا تو موتی پروتا، بولتا تو زندگی کی چاندنی اور شگفتگی بلائیں لینے آ کھڑی ہوتی۔ بچوں سے باتیں کرتا تو سخت مزاج والدین منہ تکنے لگتے۔ جذبات کی باریکیوں کو سمجھنے والا یہ حقیقت پسند، حقیقت نگار انسان، زندگی کو زندوں کی طرح گزارنے والا خوش ذوق وسخن سنج ادیب، پاکستان کا شہری نہیں دنیا کا شہری اپنی سرزمین سے دور جا لیٹا۔ جس کی فطانت، طباعی اور تحریر و بیان کے دلدادگان ملک ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ شہزادہ علی خان نے اس کی میت پر آنسو بہاتے ہوئے کہا کہ بخاری کی موت سے اقوام متحدہ کی لابیاں سنسان ہو گئی ہیں۔۔۔ ہائے ان آنکھوں میں کون جھانکے گا جو اس کی میت سے دور آنسو بہا رہی ہیں اور ان دلوں کا حال کون جانے گا جو یہاں ویران اور سنسان ہیں۔

نمی دانم حدیث نامہ چوں است

ہمیں بینم کہ عنو انش بخوں است

٭٭٭

 

 

 

جناب پطرس

 

                محمد طفیل

 

پطرس نے جب بھی لکھا۔ لفظوں کے تاج محل بنائے۔ پطرس کو جب بھی کسی دوست نے پکارا، لبیک کی آواز آئی۔ پطرس جس بھی راہ سے گذرے، اپنے نقش چھوڑ گئے۔ اپنے جھنڈے گاڑ گئے۔ بخاری صاحب سے میری یاد، کوئی زیادہ پرانی نہیں۔ نئی بھی نہیں، اس لئے کہ مرحوم کو میں نے ہر رنگ میں دیکھا نہیں، سنا تو ہے۔ اگر ملنے ملانے کی حد تک، میں ان کی خدمت میں نووارد ہوں تو سننے سنانے کی حد تک بیگانہ نہیں۔ جب یہ طالب علم تھے تو اُنہوں نے "پطرس کے مضامین” لکھی۔ (غالباً ۱۹۲۸ء) جب میں طالب علم تھا۔ تو میں نے یہ کتاب پڑھی۔ بہ ظاہر ان کا لکھنا اور میرا پڑھنا زمانہ طالب علمی کی داستان ہے۔ مگر حقیقت کچھ اور بھی ہے۔ جب میں بچہ تھا اس وقت بھی میں نے اسے پڑھا اب جبکہ بچوں کا باپ ہوں تو بھی یہ چھوٹی سی کتاب میرا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ ہر وقت اکساتی رہتی ہے۔ مجھے پڑھو، مجھ سے سیکھو، پہلے جو فقرے مجھے ہنسنے ہنسانے پر آمادہ کرتے تھے آج غور و فکر پر مجبور کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ بوڑھا ہوں گا تو نہ جانے یہ کتاب کیا کیا سلوک نہ کرے۔

پطرس کے بارے میں لکھنا آسان نہیں اور اس جیسا ایک فقرہ لکھنا، قیامت ہی قیامت۔ میرا خیال ہے جس نے پطرس جیسا ایک بھی فقرہ لکھ لیا وہ اور کچھ ہو یا نہ ہو، کم بخت ادیب ضرور ہے۔ جس شخص نے اپنی زندگی میں، جو کچھ بھی لکھا ہو۔ اس کے ایک ایک لفظ پر غور کر کے لکھا ہو۔ اب کوئی اس کے بارے میں، بغیر غور کئے لکھ دے تو یہ زیادتی ہے یا نہیں۔ سچ جانئے غور کرتا ہوں تو میرے بھی پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔ قلم رک جاتا ہے۔ بات آگے نہیں بڑھتی۔ مجبوراً طے کرنا پڑا۔ لکھوں پہلے، غور بعد میں کروں۔ مرحوم کے جتنے بھی قریبی دوست تھے۔ معلوم ہوتا ہے وہ سب غور ہی کی زد میں آئے ہوئے ہیں۔ ورنہ کچھ نہ کچھ تو لکھ ہی لیتے۔ اب جس سے عرض کرتا ہوں…بھائی! اپنے یار پطرس پر کچھ لکھئے تو ان میں سے ہر ایک یہی جواب دیتا ہے۔ غور کر رہا ہوں…کچھ عرصے کے بعد دوبارہ عرض کیا غور کر لیا ہو تو کچھ لکھ ڈالئے۔ پھر جواب ملا جتنا غور کرتا ہوں اتنا ہی لکھنا مشکل ہو رہا ہے۔ یہ جواب مرحوم کے ایک دوست کا نہیں۔ تقریباً سب ہی کا ہے۔ نہ جانے یہ قصور، پطرس کی قابو میں نہ آنے والی شخصیت کا ہے یا مرحوم کے دوستوں کا، اس کا فیصلہ مجھ سے نہ کرائیے۔ اس لئے کہ مجھے آئندہ بھی پرچہ چھاپنا ہے۔ میرا عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مجبوراً مجھ ہی کو مرحوم کا قریبی دوست بننا پڑا ہے۔ حالانکہ اس بندۂ پُر تقصیر نے مرحوم کو صرف ایک بار دیکھا تھا۔ ان سے خط و کتابت ضرور تھی۔ وہ بھی مختصر، دو تین خط میرے نام آئے تھے اور بس۔

میں نے پچھلے دنوں، رشید احمد صدیقی کا مضمون مولانا ابوالکلام پر پڑھا، اس میں لکھا تھا کہ مولانا آزاد سے میری صرف چند منٹوں کی ایک ملاقات ہے اور دو خط مولانا کے میرے نام …یہ پڑھ کر میری ڈھارس بندھی۔ سوچا پطرس سے میرا رشتہ اس سے زیادہ کا ہے۔ اس لئے میں کیوں چپ رہوں۔ ضرور گھاس کاٹنی چاہیئے۔ پہلے عرض کر چکا ہوں کہ مرحوم ایک ایک لفظ کو کئی کئی طرح سے سوچتے اور لکھتے تھے تب کہیں جا کر کوئی خوش قسمت لفظ ان کے فقرے کی زینت بنتا تھا۔ بعض اوقات یہ بھی ہوا۔ امتیاز علی تاج، عبدالحمید سالک، صوفی تبسم، حفیظ جالندھری کی محفل جمی ہے۔ گپ شپ ہو رہی ہے، لطیفے تصنیف کئے جا رہے ہیں مگر ان کے دماغ میں وہی لفظ گھوم رہا ہے جس کے لئے یہ آج پریشان رہے تھے۔ رہا نہ گیا۔ سوال کر دیا۔ چنداں چوکڑی یہ بتائیے فقرہ یوں ہے اور ماحول یہ، لہٰذا اس جگہ اس مفہوم میں کون سا لفظ سجے گا؟ کسی نے کہا یہ، کسی نے کہا وہ، انہوں نے کہا سب غلط، بھئی پورے فقرے کی ساخت پر غور کرو۔ مضمون کے پس منظر پر نظر رکھو۔ کیریکٹر کے مزاج کو جانچو، پھر بتاؤ، میرے لفظ سے زیادہ موزوں کوئی لفظ اور ہے ؟

مرحوم انگریزی اتنی اچھی جانتے تھے جتنی سارے پاکستانی مل کر جانتے ہیں۔ اردو جتنی جانتے تھے اتنی اردو کے سارے پروفیسر مل کر بھی نہیں جانتے۔ اگر کسی پروفیسر کو میرا یہ تبصرہ برا لگے تو وہ مرحوم جیسا ایک جملہ لکھ کے تو دیکھے۔ ۱۹۲۸ء کے آس پاس اہل پنجاب اور یوپی والوں کے درمیان چلی اور خوب چلی۔ اُدھر سے بھی بڑے بڑے بقراط سامنے آئے۔ ادھر سے بھی، ادھر والوں کو میں نہیں چھیڑتا۔ اُدھر والوں کی بات کرتا ہوں۔ اس وقت یو پی کے کئی رسائل نے پنجابی اہل قلم کو مطعون گردانا۔ مگر ان میں قابل ذکر علی گڑھ میگزین اور جامعہ تھے۔ ادھر والوں کا سارا زور زبان کی اغلاط پر تھا۔ ادھر والوں میں صلاح مشورے کی حد تک، عبد المجید سالک، ڈاکٹر تاثیر، امتیاز علی تاج تھے، مگر جواباً جو کچھ لکھا جاتا تھا اسے لکھتے پطرس ہی تھے۔ بڑے بڑے تیز فقرے ادھر سے بھی آئے۔ اُدھر سے بھی لوٹائے گئے۔ نیاز مندانِ لاہور کے قلمی نام سے پطرس نے لکھا:

"اردو کے تین مرکز ہیں۔ یوپی حیدرآباد دکن اور لاہور لیکن اہل بینش بھی یہ بات گاہے گاہے بھول جاتے ہیں کہ یوپی میں یہ زبان خودرو ہے۔ حیدرآباد میں یہ زبان ایک رانی ملک کے سایۂ عاطفت میں پل رہی ہے اور صرف پنجاب ہی ایک ایسا علاقہ ہے جہاں اس کی نشوونما محض خونِ عشاق کی رہین منت ہے جس جگہ یہ زبان خودرو ہے وہاں خورد بین بھی ہے۔ جہاں اتالیق شاہی سے تعلیم پا رہی ہے وہا ں عوام سے کچھ کھچ کے رہتی ہے۔ لیکن پنجاب میں اس زبان کی حالت ایک ہونہار تنومند نوجوان کی ہے جس کا خون گرم ہے اور جس کے اعضا میں لچک ہے جو چھلانگیں مارتا جاتا ہے اور اس بات کی پروا نہیں کرتا کہ اس کا ہر قدم پگڈنڈی پر پڑتا ہے یا نہیں۔ اسے سمت کا اتنا ہی شعور ہے جتنا کسی اور قدرتی نمو کو ہوتا ہے۔ ” بلکہ اس سے بھی تیز فقرے :

"یو پی کے چشمے خشک ہو چکے ہیں۔ پیاس بجھانے کے لئے اب وہاں جانا بے سود ہے۔ اب پنجاب کی رہبری بجز اس کی اپنی قوتِ نامیہ کے کوئی چیز نہیں کرسکتی۔ یوپی اور اردو ادب ایک سسکتا ہوا سانپ ہے۔ جو کبھی کبھی ایک نحیف سی پھنکار مارتا ہے اور بس، اب یو پی صرف اعتراض کرسکتا ہے۔ رہنمائی نہیں کر سکتا اور نہیں جانتا کہ اس کا چڑچڑا پن اس کا مربیانہ انداز، اس کی طفلانہ تنقید یہ سب انحطاط کی نشانیاں ہیں”۔

پطرس کے یہ فقرے تیکھے ضرور ہیں۔ مگر دلآزاری کا سلسلہ دونوں طرف تھا۔ بری بات تھی تو دونوں طرف، اچھی تھی تو دونوں طرف،مگر میں جو بات یہاں عرض کرنی چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ مرحوم کو زندگی کے ہر مرحلہ پر سرداری کا چسکا رہا۔ جب اہل پنجاب ہی کے لتّے لئے جا رہے تھے تو یہ کیسے چپ رہتے۔ وہ جس بزم میں بیٹھتے تھے۔ چاہتے تھے میری باتیں، میرے جملے، حاصل بزم رہیں۔ بزم ادب میں بھی، انہوں نے اونچی ہی کرسی پر بیٹھنا چاہا۔ بزم سیاست میں بھی آئے تو ساری دنیا نے ان کی طرف مڑ مڑ کر دیکھا۔ میرا ایمان ہے اگر وہ یوں سرفراز نہ رہتے تو یقیناً خودکشی کر لیتے۔ ان کے مذہب میں، کسی بھی مرحلہ پر سُبکی، موت کے مترادف تھی۔ مرحوم پر فقرے وارد بھی ہوتے تھے۔ خود بھی جنتے تھے، مطالعہ بھی ان کا خوب تھا۔ حافظہ بھی خوب، جو ان کے مطالعہ کی زد پر آ گیا وہ چت، جو ان کی ذہنی اپچ کی زد پر آ گیا وہ چت، غالباً قدرت نے انہیں بھیجا ہی اس لئے تھا کہ وہ لوگوں کے دلوں کو بھی فتح کر لیں، دماغوں کو بھی۔ حصول تعلیم کے لئے جب یہ لندن گئے تو انہوں نے تاج صاحب کو کیا عمدہ لکھا تھا:

"حضرت یہ کیمبرج یونیورسٹی ہے۔ یہاں کا ہر فرمودہ پتھر تاریخ انگلش کی ایک خاموش فصل ہے۔ یہ وہ دارالعلوم ہے جہاں ہم سے کہیں پہلے جان ہاورڈ (جس نے امریکہ میں ہاورڈ یونیورسٹی کی بنیاد ڈالی) آلیوم کرام ویل (Crom Well) سٹرن (Sterene) کولرج، سیموئیل بٹلر، بیکن، ٹینی سن، تھیکرے، میکالے، نیوٹن، بل ورلٹن، سیلے، لارڈ چسٹر فیلڈ، مارلو، ولیم پٹ، گرے اور ملٹن کسبِ فیض کر چکے ہیں اور جہاں اس وقت انگلستان کی آئندہ نسل کے کئی مشاہیر تعلیم حاصل کر رہے ہیں اس بہارستان کا ایک مرجھایا ہوا بے رنگ و بُو پھول کیا حقیقت رکھتا ہے غریب ماں باپ کا بیٹا، ایک غلام قوم کا فرد، نسیم اور مرزا شوق کی مثنویوں کا پڑھنے والا، فسانۂ آزاد کا دلدادہ، طبلے اور سارنگی کا شوقین، زمیندار اور گرو گھنٹال کا خریدار، ایشیاء کے عشقیہ افسانوں میں رچا ہوا۔ مغلیہ عیش و عشرت کا خواہش مند اتحادِ اسلامی کے خواب دیکھنے والا، میں بھلا کیا حقیقت رکھتا ہوں۔

بخاری صاحب جب کیمبرج پہنچے تو ان کے سامنے یونیورسٹی کا سارا ماضی تھا۔ چھوٹی بڑی کئی ادبی چٹانیں، انہیں خوف زدہ کرنے کے لئے تاریخ کے صفحات پر موجود تھیں۔ انہیں اپنی کم مائیگی کا احساس تھا مگر مرعوب نہ تھے وہ سارے نام گنواتے ضرور ہیں مگر اس احساس کے ساتھ کہ کبھی میرا بھی نام ان لوگوں کے ساتھ لیا جائے گا۔ مرعوب ہونا تو یہ شروع ہی سے جانتے نہیں تھے۔ بلکہ مرعوب کرنا ان کا فن رہا۔ یہی وجہ ہے کہ غریب ماں باپ کے بچے نے اپنے آپ کو بنانے سنوارنے میں بڑا زور مارا۔ بڑا ہی زور مارا۔ ریاضت اور وہ بھی اس حد تک، کس کے بس کی بات ہے …آج کل (اور اس وقت بھی) لڑکے لندن اس لئے جاتے ہیں تاکہ ذرا عیش کر آئیں۔ پڑھنے کہاں جاتے ہیں مگر پطرس نے وہاں جا کر نہ صرف پڑھا بلکہ استادوں کو پڑھایا بھی۔ قدرت اگر پطرس کو لکھنے لکھانے کا موقع دیتی تو پھر ساری دنیا دیکھ لیتی کہ پطرس کا مقام دنیا کے لیکھکوں میں بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ بخاری صاحب جب کوئی مضمون لکھنے بیٹھتے تھے تو وہ کامل سکون اور سکوت چاہتے تھے۔ بالکل الگ تھلگ اور تنہا جب کچھ لکھ لیتے تو پھر نچلے نہ بیٹھتے، فوراً اپنی موٹر نکالتے اور بھاگتے اپنے کسی ذہنی دوست کے پاس، تاکہ اسے جا کر اپنا کارنامہ سنائیں۔ جب تک وہ اپنا لکھا ہوا مضمون اپنے سارے دوستوں کو سنا نہیں لیتے تھے انہیں چین نہیں آتا تھا بیکل رہتے تھے۔ یہی حال ان کا دوستوں کی تخلیقات کے بارے میں تھا وہ ہر دوست سے پوچھا کرتے تھے۔ سناؤ بھئی کوئی چیز لکھی؟ کچھ لکھا تو سناؤ، جب وہ بے چارہ سناتا تو یہ اس میں عیب ہی عیب نکالتے۔ امتیاز علی تاج نے مجھے بتایا۔ میں نے جب بھی پطرس کو کوئی چیز سنائی، اس نے ہزار جگہ انگلی رکھ دی۔ چنانچہ مرحوم کی اس "حرکت”پر پریشان رہنے لگا اور یہ طے کر لیا کہ اب انہیں کوئی چیز نہیں سناؤں گا۔ چنانچہ ایک دن، میں اپنے دوست کو اپنا کوئی مضمون سنا رہا تھا تو یہ دھم سے آنکلے میں نے انہیں دیکھا تو مضمون تہہ کر کے رکھ دیا۔ پطرس نے تاڑ لیا۔ کہنے لگے۔ اب مضمون کیوں نہیں سناتے ؟

تاج صاحب کہتے ہیں پطرس میرے اس جواب پر بڑے آزردہ ہوئے اور بڑے پیار سے کہا۔ "تاج تو نے مجھے بڑا غلط سمجھا ہے۔ میں جب بھی تمہاری کوئی چیز سنتا ہوں تو میرے پیش نظر دنیا کے تمام بڑے بڑے ادیب ہوتے ہیں۔ میں تمہیں ان کے معیار پر پرکھتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ تمہارا کام اور نام ان کے ساتھ لیا جائے اور تم ہو کہ مجھ سے ناراض ہو”۔ یہ تھی پطرس کی نقادانہ شان اور دوستوں کے فن کے بارے میں خلوص، اب کوئی مانے یا نہ مانے۔ آج پنجاب کے جتنے بڑے شاعر اور ادیب ہیں تقریباً ان سب کے فن کے نکھار میں پطرس کا بڑا ہاتھ ہے۔ یقین نہ ہو تو میری بات کی تصدیق سالک، تاج، عابد، صوفی، راشد اور فیض سے کر لی جائے۔ ارے بھئی پطرس تو وہ بلا تھی جو علامہ اقبال تک سے بھڑ جایا کرتی تھی۔ ایک دفعہ اقبال اور پطرس کی برگساں کے فلسفے پر بات چل نکلی۔ باتیں ہوئیں۔ دلیلیں دیں اور لیں۔ کوئی بھی قائل نہ ہوا۔ بالآخر اقبال چپ ہو گئے۔ جب پطرس چلے گئے تو اقبال نے ایک نظم پطرس کے بارے میں کہی جس کا عنوان ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے نام تھا نظم یہ ہے :

تو اپنی خودی اگر نہ کھوتا

زنا ریِ برگساں نہ ہوتا

ہیگل کا صدف گہر سے خالی

ہے اس کا طلسم سب خالی

محکم کیسے ہو زندگانی؟

کس طرح خودی ہو لا زمانی

آدم کو ثبات کی طلب ہے

دستورِ حیات کی طلب ہے

دنیا کی عشا ہو جس سے اشراق

مومن کی اذاں ندائے آفاق

میں اصل کا خال سومناتی

آبا میرے لاتی و مناتی

تو سید ہاشمی کی اولاد

مری کف خاک برہمن زاد

ہے فلسفہ میرے آب و گل میں

پوشیدہ ہے ریشہ ہائے دل میں

اقبال اگرچہ بے ہنر ہے

اس کی رگ رگ سے بے خبر ہے

شعلہ ہے ترے جنوں کا بے سوز

سن مجھ سے یہ نکتۂ دل افروز

انجام خرد ہے بے حضوری

ہے فلسفۂ زندگی سے دوری

افکار کے نغمہ ہائے بے صوت

ہیں ذوق عمل کے واسطے موت

دیں مسلک زندگی کی تقویم

دیں مرا محمدﷺوابراہیم

"دل در سخن محمدی بند

اے پور علی زبور علی چند

چوں دیدۂ راہ بیں نداری

قائد قرشی از بہ بخاری”

غور کیجئے اقبال پطرس کے بارے میں نظم کہتے ہیں۔ اقبال اس وقت اپنے عروج کی آخری بلندیوں پہ تھے اور پطرس بلندیوں کی طرف ہُمک رہے تھے مگر حوصلہ دیکھئے۔ پہاڑ سے ٹکر لے لی۔ اب ذرا مضمون میں توازن پیدا کر لوں۔ ورنہ آپ کہیں گے کہ میں برابر بے نیاز مندی برتتا چلا جا رہا ہوں۔ مرحوم تو واقعی بڑی صلاحیتوں کے مالک تھے ان کی تعریف و توصیف نہ بھی کروں تو بھی ان کا کچھ نہ بگڑے گا۔ میرا "پٹٹرا” ہو جائے گا۔ اسی الزام سے بچنے کے لئے مرحوم کی چٹکی لے رہا ہوں۔ اس کے دو فائدے ہوں گے۔ ایک تو پطرس بے چارے اوتاروں کے زمرے سے نکل جائیں گے۔ دوسرے پطرس کے بد خواہوں میں سے کوئی مجھے جان سے نہیں مار ے گا۔ وہ تو مرحوم ہیں۔ میں مرحوم بننا نہیں چاہتا۔ موت برحق ضرور ہے مگر وہ پطرس کی وجہ سے کیوں آئے۔ پطرس کے ہاں فقروں، ترکیبوں اور خیالات کی تکرار بہت ہے۔ وہ اپنے ایک دوست کو جن خوب صورت الفاظ سے یاد کریں گے۔ ان ہی الفاظ اور ان ہی طرحدار ترکیبوں سے اپنے دوسرے دوست کو زیر کریں گے۔ مرحوم کو کیا پتہ تھا کہ میرے بعد یہ کم بخت میری اس کمزوری کو اچھالے گا۔ یہ نقص مرحوم کے خطوط میں زیادہ نمایاں ہے۔ اُن میں ایک ہی طرح کے الفاظ کھلتے ہیں مگر بعض جگہ تو پیرے کے پیرے لڑ گئے ہیں۔ مثالیں کیا دوں خود پڑھ لیجئے۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔ اسی ضمن میں، میں نے ایک لطیفہ سنا ہے، معلوم نہیں کہاں تک صحیح ہے، راوی اس کا معتبر ضرور ہے۔ دلّی میں جب عصمت چغتائی پطرس سے ملیں۔ تو یہ ان دنوں آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ عہدے کا بھی رعب تھا اور پھر یہ تھے بھی پطرس مقابل میں بھی عصمت تھیں۔ ایک ادیبوں کا امام، ایک "ادیبنیوں "کی امام۔ مرحوم نے تابڑ توڑ کئی خوب صورت فقرے کہہ ڈالے۔ عصمت چُپ خاموشی سے سنتی رہیں۔ جب پطرس ذرا تھمے تو عصمت نے کہا،  آپ کے یہ سارے فقرے میں پہلے بھی سن چکی ہوں۔ کوئی نیا فقرہ کہئے۔ معلوم نہیں یہ دو بڑے ذہنوں کی زور آزمائی بھی، چھیڑ چھاڑ تھی یا افسانہ، عصمت بہ فضل تعالیٰ زندہ ہیں۔ اگر انہوں نے مجھے اس واقعہ کے غلط یا صحیح ہونے کے بارے میں لکھ دیا تو وہ آپ کو بھی بتا دوں گا ویسے آپ اسی شمارے کا بھی مضمون پڑھ لیں یہ واقعہ ممکن تو ہے پطرس بھی بلا عصمت بھی بلا۔ ویسے یہ واقعہ ہے کہ پطرس عصمت سے بہت متاثر تھے۔ مرحوم نے عصمت پر ایک بڑے زور کا مضمون لکھا تھا۔ پاکستان ٹائمز میں عصمت کے مضمون "ہیروئن” کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ دوستوں میں بیٹھ کر عصمت کے فن کی تعریف کی۔

پطرس کے مزاج میں اپج ہی اپج تھی۔ زندگی کے عام چلن میں، کبھی یہ یکسانیت ہی یکسانیت سے اکتا بھی جایا کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ کالج کے زمانہ میں، انہوں نے دیا سلائی کی ڈبیاں چرانے کی ایک سوسائٹی بنائی۔ دوستوں سے سگریٹ سلگانے کے لئے دیا سلائی مانگتے، سگریٹ سلگاتے، ماچس جیب میں ڈال لیتے۔ شام کو باقاعدہ حساب ہوتا۔ بخاری کی جیب میں باقی ممبروں سے زیادہ ڈبیاں برآمد ہوتیں۔ حتیٰ کہ یہ اپنے پروفیسروں تک کی ڈبیاں صاف کر دیا کرتے تھے۔ سالک صاحب راوی ہیں کہ ایک بار انہوں نے اپنے ایک پروفیسر سے ماچس مانگی۔ سگریٹ سلگانے کے بعد، جونہی انہوں نے ڈبیا جیب میں ڈالی۔ پروفیسر نے چلا کر کہا۔ بخاری خدا کے لئے میری ماچس نہ چراؤ۔ بخاری نے ماچس واپس کر دی۔ اور اس دن سے یہ سوسائٹی بھی توڑ دی۔ آرٹ پر آنچ جو آ گئی تھی۔ کالج کے زمانے کے بعد بعض شرارتوں کا ذکر، انہوں نے اپنے مضمون "ہوسٹل میں پڑھنا” میں کیا ہے۔ یہاں ان کا اعادہ اُن طبیعتوں پر بار ہو گا جن "مظلوموں” نے وہ کتاب پڑھی ہے اور بار بار پڑھی ہے۔ عابد صاحب نے بتایا ایک رات میں، حسرت، تاثیر، صوفی اور پطرس موٹر پر گھوم رہے تھے۔ رات اپنے شباب پر آ رہی تھی کہ ہم میں سے کسی نے کہا۔ پیاس لگی ہے۔ لیمو نیڈ پیا جائے کچھ کچھ دکانیں کھلی تھیں۔ جن میں ایک سگریٹ والا بھی تھا۔ اس کے پاس لیمونیڈ تھی۔ بخاری صاحب نے ان پینے والوں سے پوچھا "پیسے ہیں آپ حضرات کے پاس” جیبیں ٹٹولی گئیں تو سب کی کُل پونجی سوا چھ آنے نکلی۔ سب موٹر ہی میں بیٹھے رہے۔ پانچ لیمونیڈ کا آرڈر دیا گیا۔ جب سب پی کر ڈکار لے چکے تو بخاری صاحب دکاندار سے کہنے لگے۔ بڑے میاں! یہ لوگ شریفانہ لباس میں ضرور ہیں مگر ہیں سب کے سب آوارہ اُچکّے، ان کی جیبوں میں پھوٹی کوڑی نہیں۔ ان لفنگوں کی دوستی میں، مجھ جیسے شریف آدمی کا بھی حال پتلا ہو گیا ہے۔ بہرحال ہم اس وقت آپ کے سوا روپے کے مقروض ہیں۔ اعتبار کر لیں تو یہ رقم کل تک پہنچا دوں گا۔ اگر آپ کو میری بات پر اعتبار نہ ہو تو میری ۲۵ ہزار کی گاڑی کل تک کے لئے گروی رکھ لیں۔ ہم آپ کا سوا روپیہ دے جائیں گے تو اپنی موٹر لے جائیں گے۔ ابھی دکان دار فیصلہ ہی کر رہا تھا کہ موٹر گروی رکھ لوں یا اعتبار کر لوں۔ بخاری صاحب نے موٹر اسٹارٹ کر دی۔ دکان دار ہکا بکا رہ گیا۔ ضرور سوچتا ہو گا پانچواں بھی اُچکا نکلا۔ (ویسے دوسرے دن یہ رقم مع سود کے ادا کر دی گئی تھی)

ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب یہ آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل تھے انہوں نے ایک گٹار خریدا اور اپنے ایک دوست کو ساتھ لے کر دلّی کی نواحی بستیوں میں گھر گھر جا کر یہ صدا دی۔ "بابا الله کے نام پر کچھ ملے گا”۔ "ہم دونوں بھائی کل رات سے بھوکے ہیں”۔ "بھلا کر بھلا ہو گا”۔ "اپنے بچوں کے صدقے میں ہمیں کھانا کھلا دو”۔ معلوم ہے ان کا ساتھی کون تھا؟ سابق گورنر جنرل پاکستان غلام محمد!

پطرس کے یہ مشغلے عجیب ضرور تھے مگر ان میں زندگی سے پیار اور اس سے لطف اندوز ہونے ہی کے تو سارے رنگ روپ ہیں۔ مرحوم کو معلوم تھا۔ زندگی بڑی نعمت ہے۔ اسے ہر رنگ میں بسر کر دیکھو۔ میرا خیال ہے وہ دنیا سے، اپنی کوئی حسرت ساتھ لے کر نہیں گئے، کوئی بھی حسرت، سوائے لکھنے لکھانے کے۔

تاج صاحب نے مجھے بتایا۔ ایک بار حفیظ جالندھری، پطرس سے ناراض ہو گئے۔ دوستوں کی ناراضی پطرس سے دیکھی نہ جاتی تھی۔ بے چین اور بیکل رہتے تھے۔ چنانچہ ایک دن کہنے لگے حفیظ مجھ سے ناراض ہے۔ چلو اسے چل کر منائیں۔ چنانچہ وہ پطرس، حفیظ صاحب کے ہاں پہنچے۔ پطرس نے جاتے ہی کہا حفیظ میری خطائیں معاف کر دو میں آج معافی ہی مانگنے آیا ہوں۔ پطرس نے ہر ہر انداز سے چاہا، حفیظ کی ناراضی ختم ہو مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ مرحوم آزردہ ہو کر لوٹے۔ کوئی آٹھ دس دن ہوئے حفیظ صاحب میرے دفتر آ نکلے۔ میں نے اس واقعہ کے بارے میں استفسار کیا۔ فرمانے لگے۔ "تم نے جو کچھ سنا ہے ٹھیک سنا ہے۔ "”آخر بات کیا تھی؟””تمہیں کیا بتاؤں طفیل، بخاری میرا دوست تھا جگری دوست، اس جیسا آدمی پاکستان نے پیدا ہی نہیں کیا۔ ذہانت اس پر ختم تھی دوستانہ حقوق کی بجا آوری میں بھی وہ کسی سے پیچھے نہ تھا۔ مگر…۔ "مگر کیا؟””وہ کم بخت پاکستان کی بعض ایسی شخصیتوں کی صلاحیتوں کا منکر تھا جو میرے نزدیک واجب الاحترام تھیں۔ "حفیظ صاحب کہنے کو تو یہ فقرہ کہہ گئے میں نے بھی سن لیا۔ مگر میں اسے زیادہ  اہمیت نہیں دیتا۔ اس لئے کہ کوئی بڑا آدمی، اگر دوسرے کی بھی بڑائی کا اقرار کر لے تو اس کی اپنی بڑائی پر حرف آ جاتا ہے یا وہ سمجھ لیتا ہے کہ حرف آ گیا۔ یہ بھی امکان ہے کہ اس معاملے میں، پطرس کی نظر ہی چوک گئی ہو اور انہوں نے ان بزرگوں کو سمجھنے میں بھی غلطی کی ہو۔ مگر ان کی تحریروں، تقریروں اور خطوں سے یہ بات ظاہر نہیں ہوتی۔ برخلاف اس کے پاکستان کی بقاء کے لئے مرحوم کے کارنامے انمٹ ہیں۔ دنیا میں ان کی حب الوطنی کا شہرہ رہا۔ یو۔ این۔ او کی درو دیوار مرحوم کی پاکستان دوستی کی قسمیں کھانے کو تیار ہیں میرے دعوے کی تصدیق میں، اس ناچیز کی پیشکش میں بھی بہت کچھ ملے گا۔ ایک جگہ نہیں۔ کئی جگہ۔

بخاری صاحب کو کوئی باتوں سے جیت لے یہ ناممکن تھا۔ آغا اشرف بتاتے ہیں کہ لیک سکس میں بخاری صاحب کا جب پہلی پریس کانفرنس سے واسطہ پڑا تو یہ چہرے سے نڈھال نظر آئے۔ بخاری صاحب کو بھی معلوم تھا میری زندگی اور موت کا فیصلہ آج ہی ہونے والا ہے۔ چنانچہ یہ اپنی جگہ پورے چوکس تھے۔ ہندوستانی اخبار نویسوں کو سوجھی، بخاری کا جلوس آج ہی نکال دیا جائے۔ چنانچہ وہ سب بڑھ چڑھ کر سوال کر رہے تھے عین ممکن تھا کہ ان کے پاؤں اکھڑ جاتے۔ مگر ادھر قدرت نے بخاری کو قوتِ گویائی کی غیر معمولی صلاحیتیں عطا کی تھیں۔ اکھڑتے تو کیسے اکھڑتے۔ یہ پے درپے اپنی لسانی اور مزاحی خوبیوں سے ہندوستانی اخبار نویسوں کو چت کرتے رہے۔ ایک سوال کے جواب میں کہا۔ پاکستان تو ہندوستان سے تعاون کرنا چاہتا ہے مگر ہندوستان ہی راہِ راست پر نہیں ہے۔ قیام پاکستان کے وقت یہ طے ہوا تھا کہ پاکستانی فوج کو مشترکہ ذخیروں سے کئی ہزار جوتے دیئے جائیں۔ جوتے دیئے ضرور گئے لیکن جب صندوق کھولے گئے تو سارے جوتے بائیں پاؤں کے نکلے۔ دایاں پاؤں ایک نہ تھا۔

یہ اور اس کے قسم کے ہزاروں واقعات ہیں جو بخاری صاحب کی غیر معمولی ذہانت و فطانت کے مظہر ہیں۔ کوئی ان کا کہاں تک ذکر کرے۔ صوفی غلام مصطفی صاحب تبسم راوی ہیں کہ فسادات کے دنوں میں امتیاز علی تاج بڑے ہی گھبرائے ہوئے تھے۔ ایک شام سالک، بخاری اور میں اس کے گھر گئے تو تاج کو بے حد خوفزدہ پایا۔ وہ بخاری سے کہنے لگے اب کیا ہو گا۔ بخاری صاحب نے کہا۔ کچھ بھی نہیں۔ مصیبت یہ ہے کہ ہم لوگ یا تو پنیک میں رہتے ہیں یا  (Panic) پینک میں، سب ہنس پڑے۔ تاج صاحب میں بھی زندگی کے آثار نظر آئے۔

بخاری صاحب غالب کے بڑے مداح تھے۔ اکثر کہا کرتے تھے کہ غالب کا خیال ہے کہ انسان حیوانِ ناطق ہے لیکن غالب خود حیوانِ ظریف تھے۔ میرا خیال ہے کہ اس سلسلے میں بخاری غالب کے ہم پلہ تھے بلکہ اس سے بھی دو ہاتھ آگے۔ ان کے سب ہی دوستوں کو ان کے متعدد لطیفے اور قصے یاد ہیں۔ مجید ملک نے ایک دفعہ بخاری سے کہا کہ آپ اپنے مضامین کا ایک مجموعہ چھپوائیں اور اس کا نام صحیح بخاری رکھیں۔ بخاری نے بے ساختہ جواب دیا۔ عزیز من! آپ اپنی نظموں کا مجموعہ چھپوائیں اور اس کا نام "کلام مجید” رکھیں۔ ایک بار ایک صاحب نے بخاری صاحب سے پوچھا "بخاری صاحب آج کل آپ کچھ لکھ رہے ہیں؟”بخاری صاحب نے جواب دیا "یہ سوال ایسا ہی ہے جیسے کسی عورت سے پوچھا جائے تو حاملہ ہے ؟”اگر کوئی بخاری صاحب کے لطیفے، چٹکلے لکھنے ہی پہ آ جائے تو پھر وہ لکھتا ہی چلا جائے گا۔ ایک دو نہیں، ہزاروں لطیفے (واقعی ہزاروں لطیفے ) اگر میں نے اس سلسلے کو یہیں ختم نہ کیا تو بہت ممکن ہے یہ حصہ بخاری صاحب کی شخصیت پر چھا جائے اور خود بخاری صاحب چھپ جائیں۔ اس لئے یہیں چپ ہوتا ہوں۔

بخاری صاحب کو ڈرامے سے بڑی دلچسپی تھی۔ اس کے فن سے بھی کما حقہ واقف تھے۔ جس کا ذکر اور کئی جگہوں پر آئے گا۔ جب تک یہ گورنمنٹ کالج میں رہے۔ کالج کی ڈرامیٹک کلب زوروں پر رہی۔ خوب خوب داد حاصل کی۔ ضرورت پڑتی تو خود بھی ڈرامے کا کردار بن جاتے اور لوگ بخاری کی ایکٹنگ دیکھ کر دنگ رہ جاتے ان کا ارادہ تھا پختہ ارادہ کہ ڈرامہ کے فن پر "ایک مبسوط کتاب لکھیں۔ یہ اس ضمن میں اور دوستوں کو پکارتے رہے کہ میرا ساتھ دو تاکہ ایک کام ہو جائے مگر یہ خواہش ان کے ساتھ اس لئے دفن ہو گئی کہ ان کا کوئی دوست آگے نہیں بڑھا تھا”۔ اور بھی کئی تخلیقی کام کرنا چاہتے تھے۔ جن میں ایک بچوں کے لئے درسی کتابیں لکھنے کا پروگرام تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ بچوں کے لئے ایسی درسی کتابیں لکھی جائیں کہ پھر مدتوں ان کی یاد بھلائی نہ جا سکے۔ اسی ارادے سے انہوں نے ایک اسکیم بنائی جو کسی وجہ سے بار آور نہ ہوئی۔ ایک کتاب ایڈٹ بھی کر رہے تھے۔ نام تھا اس کا A Study of Pakistan کئی ابواب میں اسے تقسیم کیا۔ جو بھی جس موضوع پر کام کی چیز لکھ سکتا تھا۔ اسے اس کام کی تکمیل کے لئے پکارا۔ ادبی رجحانات پر خود لکھنے کا ارادہ رکھتے تھے مگر یہ کام بھی تکمیل کو نہ پہنچا۔ غرض بہت کچھ کرنے کے ولولے تھے جو ساتھ لے گئے۔ اگر وہ آخری عمر میں پاکستان سے باہر نہ جاتے تو وہ کچھ نہ کچھ کر گزرتے۔ وہ اسی خوشی میں زندگی بسر کرتے رہے کہ کچھ کریں گے۔ اگر انہیں یہ یقین ہوتا کہ کچھ نہیں کر پائیں گے اور چل دیں گے تو یقیناً ان کا اس سے پہلے انتقال ہو جاتا۔

اصل میں بخاری صاحب ادب ہی کے لئے سب سے زیادہ موزوں تھے۔ مگر زندگی کی اڑان میں وہ اس طرف توجہ نہ کر سکے۔ افسوس کہ ہمارے ہاں جتنے بھی صاحبِ اختیار تھے ان میں بھی کوئی ایسا دیدہ ور نہ ہوا۔ جو بخاری کی شخصیت کو پہچان لیتا اور ان سے ادب کے سنوارنے ہی کا کام لے سکتا۔ بخاری صاحب اپنی آخری عمر میں پنجاب یونیورسٹی کی وائس چانسلری کے لئے کوشاں رہے مگر انہیں وہ بھی نہ ملی۔ یہ بخاری صاحب کے ساتھ ظلم نہیں تو کیا تھا۔ یہ بات ان کے لئے تو باعث فخر نہ تھی کہ وہ کسی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہوتے بلکہ اس یونیورسٹی کی خوش قسمتی تھی جس کے وائس چانسلر بخاری صاحب ہوتے۔ ایک دو واقعات، جناب شورش کاشمیری نے بھی خوب سنائے جیسے شورش صاحب ہیں۔ ویسے ہی یہ واقعات، یعنی ہمت و شجاعت کے قصے مرحوم کی مردانگی کے ایسے واقعات پر اور کسی نے روشنی نہیں ڈالی۔ ایک زمانہ میں، ایک اخبار نویس کا کام یہ تھا کہ وہ بخاری صاحب کے خلاف لکھا کرتا اور جی بھر کے لکھا کرتا تھا بخاری صاحب پہلے تو دل کو بہلاتے رہے کہ کسی دن یہ الله کا بندہ خود ہی راہ راست پر آ جائے گا۔ جب مایوس ہو گئے تو ایک دن اس اخبار کے دفتر جا پہنچے۔ اخبار کے ایڈیٹر، کرسیٴ ادارت پر براجمان تھے۔ انہوں نے اس کے کان میں کہا مجھے آپ سے علیحدگی میں ایک کام ہے۔ وہ صاحب سمجھے کام بنا۔ آج ضرور اپنی کار گزاریوں کا معاوضہ ملے گا۔ خوش ہو کر اُٹھے۔ من میں ہزاروں کی سوچ لی۔ جب بخاری صاحب اور جناب ایڈیٹر صاحب ایک الگ کمرے میں پہنچے تو انہوں نے دروازہ بند کر کے چٹخنی چڑھا دی۔ منہ سے کچھ نہ بولے بڑے اطمینان سے اس کے منہ پر زور سے چانٹا رسید کیا۔ ایک ادھر ایک اُ دھر۔ اس کے بعد چٹخنی کھولی اور یہ کہتے ہوئے سیڑھیاں اُتر گئے اب اطمینان سے بیٹھا لکھتا رہ۔

متحدہ ہندوستان میں، جب انگریز ہی کا طوطی بولتا تھا۔ خلافِ حکومت سرگرمیوں کے سلسلے میں حاکمانِ وقت کو ارونا آصف علی کی تلاش ہوئی وہ روپوش ہو گئیں۔ یہ بھی ان ہی دنوں کا قصہ ہے جب بخاری صاحب ریڈیو کے ناخدا تھے۔ ریڈیو پر روز اعلان ہوتا۔ ارونا آصف علی کے وارنٹ گرفتاری جاری ہو چکے ہیں۔ جو صاحب ان کا اتہ پتہ بتائیں گے۔ انہیں انعام دیا جائے گا۔ یہ اعلان ایک دن نہیں ہوا کئی دن ہوتا رہا۔ جو محکمہ لوگوں سے یہ کہتا تھا کہ ارونا آصف علی کا پتہ بتانے والے کو انعام دیا جائے گا۔ اسی محکمہ کے ناخدا کے گھر ارونا آصف علی رہتی تھیں۔ آصف علی سے مرحوم کے مخلصانہ تعلقات تھے۔ یہ واقعہ ایک طرف تو حق دوستی کی آخری حد ہے اور دوسری طرف جرأت و ہمت کی ایک عجیب داستان!

بخاری صاحب نے زندگی بھر اپنے دوستوں سے ٹوٹ کر ہی محبت کی اور نبھائی۔ برخلاف اس کے ان کے دوست اتنے عاشق ثابت نہ ہوئے۔ اپنے خطوں میں انہوں نے کیا کیا گلے نہیں کئے۔ اس کی ایک نفسیاتی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مرحوم کو چھوٹے چھوٹے کئی عارضے تھے۔ اس پر کینسر جیسی خوفناک بیماری، موت ان کے سامنے مدتوں ناچتی رہی۔ مگر یہ آنکھیں چرائے، دل کو طرح طرح سے بہلاتے رہے۔ بالآخر اس جیالے، مخلص اور عالم کو موت نے آن ہی دبوچا آج یہاں سوگ ہے۔ عرش پر جشن ہو گا۔

یہ مانگے تانگے کا مضمون ضرور ہے۔ مگر "مستند ہے میرا فرمایا ہوا” کی قسم بھی کون کھائے !

٭٭٭

 

 

 

 

پطرس بخاری بحیثیت مزاح نگار

 

                محمد احسن فاروقی

 

لکھنؤ یونیورسٹی میں داخل ہوئے ایک مہینہ گزرا تھا کہ ایک دن لائبریری میں مشفق وصی رضا نے میرے ہاتھ میں ڈکنس کی ایک ناول دیکھ کر کہا "اگر سچ مچ ہنستے ہنستے لوٹ لوٹ جانا چاہتے ہو تو مضامین پطرس پڑھو”میں سن کر چپ ہو رہا۔ میں یونیورسٹی میں انگریزی ادب کی علویت کا اور اردو ادب کی اتنی ہی پستی کا احساس لے کر داخل ہوا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ میں اگر صاحبِ ذوق تھا نہیں تو اس قدر بنتا ضرور تھا کہ اعلیٰ ترین تصانیف کے علاوہ ہر معمولی تصنیف سے نفرت کا اظہار کرنا فرض سمجھتا تھا۔ پھر اس وقت میری ایک اور بھی بڑی خاص رائے تھی جو میرے جاننے والوں میں کچھ مقبول سی ہو چکی تھی وہ یہ کہ جسمانی امراض بھی ادبی تاثرات سے دور کئے جا سکتے ہیں اور کیونکہ پیٹ کی خرابی اس وقت ایک عام مرض تھا جس میں، میں مبتلا تھا اس لئے اپنے نظریہ کی مثال میں یہ کہا کرتا تھا کہ پیٹ خراب ہو تو ڈکنس کی ناولیں پڑھو، پیٹ ٹھیک ہو جائے گا۔ چنانچہ میرے ہاتھ میں ڈکنس کی ناول دیکھ کر وصی رضا نے یہی تصور کیا تھا کہ جیسے میں دوا کی شیشی لے جا رہا ہوں۔ اور جیسے لوگ انگریزی دوا کی شیشی ہاتھ میں دیکھ کر ڈاکٹر کا نام پوچھ کر اکثر کہتے ہیں بھئی کیا ڈاکٹر وید لئے پھرتے ہو حکیم کا علاج کراؤ جلد فائدہ ہو گا۔ اسی طرح وصی رضا نے بھی ڈکنسکی بجائے پطرس کے علاج کا مشورہ دیا مگر جیسے جدید لوگ حکیم کے علاج کا نام آتے ہی صاف ٹال دیتے ہیں اور مشورہ دینے والے کو نیچی نگاہ سے دیکھتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔ ویسے ہی میں نے وصی رضا کو دیکھا اور اپنا رستہ لیا۔

پطرس نام عجیب تھا۔ کوئی عیسائی ہے ؟ نہیں عیسائی عبرانی نام سے عربی نام پر اُتر آنے کی ذلت برداشت نہیں کرسکتا۔ کوئی لونڈا لپاڑی ہو گا جس نے یہ تخلص رکھ لیا اور پھکڑ بازی کرتا ہو گا۔ وصی رضا اردو کے لکھنے والوں کو اچھالا کرتے تھے۔ بات یہ تھی کہ وہ اردو بہت زیادہ جانتے تھے مگر انگریزی میں تھے کورے، اس لئے پطرس کو ڈکنس کی بجائے پیش کر کے ہم کو دھوکے میں ڈالنا چاہتے تھے۔

مگر کچھ عرصہ کے بعد معلوم ہوا کہ پطرس کوئی لونڈا لپاڑی نہیں جس استاد نے ہمیں انگریزی ہیومر کو سمجھنا سکھایا تھا۔ وہ اور پطرس کیمبرج میں ساتھی تھے۔ پطرس اصل میں پروفیسر بخاری تھے جو ہندوستان کے سب سے بہتر تعلیمی ادارے یعنی گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی ادب پڑھاتے تھے فوراً ہمیں یقین آ گیا کہ وہ ضرور جانتے ہوں گے کہ ہیومر کیا چیز ہے مگر ان کا ہیومرسٹ ہونا ابھی تک شبہ میں تھا۔

مگر جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ جادو سر چڑھ کر بولتا ہے ہم مانیں چاہے نہ مانیں وہ سر پر چڑھ ہی بیٹھے گا۔ اور پھر ہم کو اسے ماننا ہی پڑے گا ایک جادو اقبال تھا۔ "شکوہ” و "جواب شکوہ” پڑھتے ہی ہمارے سر پر ایسا سوار ہوا کہ قیامت کے دن بھی سوار ہی نظر آئے گا۔ دوسرا جادو پطرس، اس کے سر پر سوار ہونے کا قصہ سنیئے۔

کوئی نصاب کی کتاب تھی۔ اس میں "کتے ” نظر آیا۔ کتے ہمارے لئے بھی عجیب ہی جانور تھے۔ ہمیں ان سے اس قدر ڈر لگا کرتا تھا کہ جس گلی میں داخل ہوتے تو پہلے دیکھ لیتے کہ دور دور تک کوئی کتا تو نظر نہیں آ رہا ہے اور اگر نظر آتا تو اس گلی میں کبھی قدم آگے نہ بڑھاتے۔ ہمارے دوست اس بات پر ہمارا مذاق اڑایا کرتے۔ ہمارے بزرگ ڈانٹا کرتے۔ کتے سے ڈر ہمارے اندر فطری تھا۔ پھر ہم نے اسٹیونس کی کتاب "ٹرلولیزوتھ اے ونکی” پڑھی اس نے ایک جگہ کتوں سے خوف کا پُر لطف ذکر کیا۔ ہمیں بڑی تقویت ہوئی کہ ایک تو ساتھی ملا۔   اس پس منظر کو ساتھ لئے ہوئے جب میری نظر "کتے ” اور اس کے نیچے پطرس پر پڑی تو کیا بتائیں کیا ہوا۔ فوراً کتاب لے کر بیٹھ گیا اور پڑھنے لگا۔ پہلے ہی جملے نے جادو مارا۔ علم الحیوانات کے پروفیسر سے پوچھا، سلوتریوں سے دریافت کیا۔ خود سر کھپاتے رہے لیکن کبھی سمجھ میں نہ آیا کہ آخر کتوں کا فائدہ کیا ہے۔ اچھل کر دل بول اٹھا "قسم استاد کی ہیومر یہ ہے ” کہیں کوئی غلط نہ سمجھ لے ہیومر جملوں اور فقروں کی چیز نہیں ہے یہ ایک نقطۂ نظر، مزاج کے حقائق سے تصادم، زندگی میں ایک مخصوص کیفیت کے احساس کا نام ہے۔ اس جملے میں ہیومر نہیں۔ اس سے ہیومر شروع ہو رہا ہے۔ جملہ ایک نئی نظر، ایک نئی ہستی، ایک نئی ادا، ایک نئے عالم خیال، ایک نئی بے ڈھنگی دنیا کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ یہ کتوں کے ایک نئے عجائب خانے کا راستہ بتا رہا ہے۔

"دیکھئے یہ نئے "کتے ” آ گئے۔ "یہ کتے کیا کرتے ہیں؟” وفا دار جانور؟ واہ کیا وفاداری ہے کہ شام کے سات بجے سے جو بھونکنا شروع کیا تو لگاتار بغیر دم لئے صبح کے چھ بجے تک بھونکتے چلے گئے۔ لیجئے یہ کتوں کا مشاعرہ گرم ہے۔ کم بخت بعض تو دو غزلے اور سہ غزلے لکھ کر لائے ہیں۔ ہنگامہ گرم ہے۔ پطرس آرڈر آرڈر پکار رہا ہے کچھ اثر نہیں مجبور ہو کر کہتا ہے اب ان سے کوئی پوچھے کہ میاں تمہیں ایسا ہی ضروری مشاعرہ کرنا تھا تو دریا کے کنارے کھلی ہوا میں جا کر طبع آزمائی کرتے، یہ گھروں کے درمیان آ کر سوتوں کو ستانا کون سی شرافت ہے۔ ”

دیکھئے اور "کتے ” قومیت کے دلدادہ کتے۔ پتلون کوٹ کو دیکھ کر بھونکنے لگ جاتے ہیں۔ کیسے قوم پرست ہیں۔

انگریزوں کے کتے ان کی شائستگی دیکھئے۔ ایک نازک اور پاکیزہ آواز میں بخ بخ کر رہے ہیں۔ چوکیداری کی چوکیداری موسیقی کی موسیقی اور ہمارے کتے۔ بے تالے کہیں کے نہ موقع دیکھتے ہیں نہ وقت پہچانتے ہیں گلے بازی کئے جاتے ہیں۔

ظاہر ہے کہ پطرس سے ان کے تعلقات کشیدہ ہی رہے ہیں۔ مگر مسٹر پطرس۔ با اخلاق انسان ہیں طبعی شرافت ان پر غالب آ ہی جاتی ہے۔ ہم انہیں بزدل ہرگز نہ سمجھیں گے۔ ہاں ان کے حال سے بے حال ہونے پر ہماری نظر ہے۔ آیۃ الکرسیی کی جگہ دعائے قنوت پڑھنے لگے ہیں۔ رات کے وقت تھیٹر سے واپس آرہے ہیں… اتنے میں ایک موڑ پر سے جو مڑے تو سامنے ایک بکری بندھی تھی۔ ذرا تصور ملاحظہ ہو۔ آنکھوں نے اسے بھی کتا دیکھا۔ ایک تو کتا اور پھر بکری کی جسامت کا۔ گویا بہت ہی کتا بہت ہی کتا بہت ہی کتا۔ با۔ با۔ با۔ با۔ بس ہاتھ پاؤں پھول گئے، چھڑی کی گردش دھیمی ہوتے ہوتے ایک نہایت ہی نامعقول زاویے پر ہوا میں کہیں ٹھہر گئی۔ سیٹی کی موسیقی بھی تھرتھرا کر خاموش ہو گئی لیکن کیا مجال جو ہماری تھوتھنی کی مخروطی شکل میں ذرا بھی فرق آیا ہو۔ گویا ایک بے آواز لے ابھی تک نکل رہی ہے۔ طب کا مسئلہ ہے کہ ایسے موقعوں پر اگر سردی کے موسم میں بھی پسینہ آ جائے تو کوئی مضائقہ نہیں بعد میں پھر سوکھ جاتا ہے "۔ بابابابابا۔ اُف۔ اُف۔ ہم نے بھی کچھ ایسا ہی محسوس کیا مگر اب اس پر ہنستے ہنستے لوٹے جا رہے ہیں پطرس سچ مچ ہیومرسٹ ہے، پیدائشی ہیومرسٹ ہے۔

مگر وہ طبعاً محتاط ہے ورنہ کسی کتے نے اسے کاٹ لیا ہوتا اور آج اس کا مرثیہ چھپ رہا ہوتا مگر… جب تک "کتے ” موجود ہیں اور بھونکنے پر مصر ہیں سمجھ لیجئے کہ ہم قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں…بھونکنا عجیب چیز ہے۔ اس کے اصول نرالے ہیں۔ متعدی مرض ہے۔ ہر سن کے کتے کو لاحق۔ دو دو تین تین تولے کے کتے بھی بھونکنے سے باز نہیں آتے۔ "اور پھر بھونکتے ہیں چلتی موٹر کے سامنے آ کر گویا اسے روک ہی تو لیں گے "… بھونکنا عجیب چیز ہے۔ پطرس کے تمام قوے ٰ کو معطل کر دیتا ہے۔ لیجئے بھونکنے کا ایک اور منظر۔ پہلا منظر مشاعرہ ہو چکا۔ اب ایک پورا خفیہ جلسہ باہر سڑک پر آ کر تبلیغ کا کام شروع کر رہا ہے۔ پطرس سڑک پر ہے۔ آپ کہیے ہوش ٹھکانے رہ سکتے ہیں؟ بہرصورت کتوں کی یہ پرلے درجے کی ناانصافی میرے نزدیک ہمیشہ قابل نفرین رہی ہے۔  پطرس کو غصہ آ گیا۔ پوری مجلس کا یوں متفقہ و متحدہ طور پر سینہ زوری کرنا ایک کمینہ حرکت ہے۔ یہ الفاظ اس کے منہ سے نکل ہی گئے۔ آخر حد ہوتی ہے مگر کسی کتے کی دل شکنی اسے منظور نہیں۔ یہ مضمون کسی عزیز و محترم کتے کی موجودگی میں با آواز بلند نہ پڑھا جائے۔

خیر ذلیل کتوں کو چھوڑیئے۔ خدا ترس کتے دیکھئے مسکینی و عجز ملاحظہ ہو۔ سڑک کے بیچوں بیچ غور و فکر کے لئے لیٹا ہوا ہے۔ گاڑی کے بگل کوئی اثر نہیں کرتے۔ کسی نے چابک مارا تو ایک گز پرے جا لیٹا۔ بائیسکل ایسی چھچھوری چیزوں کے لئے راستہ چھوڑ دینا فقیری کی شان کے خلاف سمجھتا ہے۔ رات کے وقت اپنی دم کو تا  بحد امکان سڑک پر پھیلا کر رکھتا ہے۔ اس سے محض خدا کے بر گزیرہ بندوں کی آزمائش مقصود ہوتی ہے۔ اگر ان کی دم پر کسی نے پاؤں رکھ دیا تو راتوں خواب میں بے شمار کتے پاؤں سے لپٹے نظر آئے۔

پطرس کے دل میں ان سے انتقام لینے کی آگ ہے اگر خدا اسے بھونکنے اور کاٹنے کی طاقت عطا کر دے تو سب کتوں کو کسولی پہنچا دے۔ کاٹنا اور بھونکنا۔ یہی دو طاقتیں ہیں۔ انگریزی میں ایک مثل ہے کہ "بھونکتے ہوئے کتے کاٹا نہیں کرتے ” یہ بجا سہی لیکن کون جانتا ہے کہ ایک بھونکتا ہوا کتا کب بھونکنا بند کر دے اور کاٹنا شروع کر دے۔ واہ واہ کیا بات کہی ہے اس کے بعد مضمون کو آگے نہ جانا چاہیئے۔

یہ سب کیا ہوا۔ ایک مخصوص اپنے پر ہنسانے والی ہستی دکھائی دی۔ اس نے اپنے تئیں دکھایا۔ والله کیا آدمی ہے ہمیں جیسا ہے بالکل ہمارا ساتھی ہمزاد۔ اور اس نے کتے دکھائے۔ عجیب حالات کے کتے … دیکھئے وہ دروازے پر گلی میں کتے بھونک رہے ہیں۔ آس۔ آس۔ یہ کیا ہوا۔ یہ سب پطرس کے کتے ہو گئے۔ جو کتا دکھائی دیتا ہے وہ پطرس کا کتا ہے ہم پطرس ہیں وہ ہمارا کتا ہے۔ یہ جادو ہے۔ ہمارا نقطۂ نظر ہی بدل گیا۔ اسے ہیومر کہتے ہیں اردو کا کوئی لفظ اس لفظ کے معنی نہیں ادا کرسکتا۔

اب سنئے کہ اس مضمون کو پڑھ کر ہمارا کیا حال ہوا… ہمارے اندر سب سے بڑی بیماری یہ ہے کہ ہم پر کتابوں کا جنون سوار ہوا کرتا ہے اس کی شدت کا اندازہ یوں کیجئے کہ اگر کسی رات کو کسی کتاب کا جنون ہم پر سوار ہو تو ہم بازار جا کر کتابوں کی دوکان کے تالے توڑ کر کتاب نکال کر گھر لے آئیں گے اور بغیر اس کو ختم کئے دم نہ لیں گے … تو بس صاحب مضامین پطرس کا جنون ہم پر سوار ہوا فوراً بازار پہنچے اور ایسی جلدی کتاب لے کر واپس آئے کہ معلوم ہوتا تھا کہ کتاب چرا کے بھاگے ہیں۔

اب پطرس میری نگاہ میں پکا ہیومرسٹ تھا۔ اردو کا واحد ہیومرسٹ۔ بلکہ وحدہ لاشریک ہیومرسٹ” اور پھر ایک ہی جلوے میں ہم سودائی ہو چکے تھے۔ کتابوں کا سودا بہت اچھی چیز ہے اور ادھر سودا ہوا اور اُدھر وصل میسر ہو گیا۔ اتنی آسانی کسی اور عشق میں نہیں ہوتی۔ غرض ہم اور پطرس من تو شدم تومن شدی ہو گئے۔

دیباچہ شروع کیا۔ یہ کتاب ہمیں کیسے ملی؟ ایک مضمون تو مفت ملا۔ اتنا پطرس پر احسان ہوا۔ ۱۱۷/۱ احسان پطرس پر۔ باقی کتاب ہم نے چرائی؟ جس بے تابی کے ساتھ اس کو لے کر ہم گھر آرہے تھے۔ وہ محکمہ پولیس کے لحاظ سے چوری کے زمرے میں آتی ہے۔ چوری اور بھاگنا لازم و ملزوم ہیں تو ہم نے اگر پوری چوری نہیں تو آدھی چوری ضرور کی۔ ہمارا آدھا ذوق داد کے قابل ضرور ٹھہرتا ہے۔ مگر یہ کتاب تو ہم خرید کر لائے ہیں اس لئے ہمیں اپنی حماقت کو حق بجانب ثابت کرنا ضروری ہے۔

ہماری حماقت حق بجانب ہے۔ ہم حماقت کو حق بجانب یعنی حقیقت سے ملا جلا دیکھ کر ہی تو اس کتاب پر عاشق ہوئے اسی کو تو ہیومر کہا جاتا ہے ہمارے نزدیک ہیومر کی سب سے بہتر تعریف اتفاقاً ایک بڑے ہیومرسٹ کے قلم سے نکل گئی۔ یہ ہیومرسٹ تھیکر لے ہے۔ اور اس نے اپنی کتاب انگلش ہیومرسٹز میں سو افٹ "Swift” پر لکھتے لکھتے یہ فقرہ چھوڑ دیا۔ Truth Torsy – Turvy, At Once True And Absurd. یہ بات وہی ہے حماقت کو حق بجانب ثابت کرنا، حق بجانب کو حماقت ثابت کرنا۔ پطرس پر اتفاق سے وہی کچھ کہہ گیا جو تھیکر لے اتفاق ہی سے کہہ گیا۔ ہمیں یقین ہے کہ کوئی سچا مصنف خود نہیں لکھا کرتا۔ قلم تو اس کے ہاتھ میں ہوتا ہے مگر چلاتی اس کو کوئی روحانی چیز ہے۔ اور یہ روحانی چیز اپنی موج خرام سے ایسے گل کتر جاتی ہے جن کا احساس مصنف کے شعور کو بھی بعد میں ہی شاید کبھی ہوتا ہے۔ چنانچہ ہومیر کی روح جب پطرس کا قلم چلا رہی تھی تو اس نے حقیقت کو حق بجانب کرنے والا فقرہ کر دیا۔ یہ روح جسے یونانی علم اصنام میں مومس Momus کہتے ہیں یہی کرتی ہے۔ حقیقت اور حماقت کو اس طرح گڈمڈ کرتی چلی جاتی ہے کہ نہ حقیقت کھلے اور نہ حماقت ثابت ہو۔ یہ روح ہمارے پھکڑ نگاروں سے کبھی چھو کر نہیں گزرتی ان کی حماقتوں کو پڑھئے ہنسی کی ایک لہر دوڑے گی۔ مگر ذرا غور کیجئے تو ان کی حماقت حماقت ہی رہ جائے گی۔ بالکل ناممکن۔ غلط بات من گڑھت۔ لونڈوں کو ہنسانے کے لئے ٹھیک ہے۔ اس پر ہنسنا بد مذاقی ہے مگر پطرس تو مومس سے ہم کنار ہے اس کے خامے کی آواز نوائے مومس ہے۔

اب بتائیے کہ پطرس کیا ہے ؟ اتہ پتہ مل گیا۔ اس کے کتے دیکھے اس کو کتے بناتے دیکھا۔ اسے خود ہنستے دیکھا اس کا دیباچہ پڑھا اب اس پہیلی کو بوجھنے میں کیا کسر ہے۔ ایک بات سمجھ میں آئی۔ یہ کہ پطرس جو کچھ بھی ہے مگر ہے دیکھنے کی چیز اور برتنے کی چیز۔ شیکسپیئر کاپک Puck اس کے کان میں کہہ رہا ہے اس کی روح کے کان میں کہہ رہا ہے۔ O Lord What Fools These Mortals Be اور اس کا قلم چل رہا ہے وہ مارٹل ہے اس کے چاروں طرف سب مارٹلز ہیں وہ فول ہے اور اس کے چاروں طرف سب فول ہیں۔ یہی دنیا ابھرتی آ رہی ہے۔

"ہاسٹل میں پڑھنا” وہ طالب علم ہے اس کا مقصد حیات یہ ہے کہ ہاسٹل میں پڑھے۔ اس کے گھر والوں کو دیکھئے۔ کھاتے پیتے مسلمان لوگ۔ لڑکے کو تعلیم دلاتے ہیں مگر تعلیم کے مقصد اور تعلیمی اداروں کے حالات سے بالکل بے بہرہ ہیں۔ صاحبزادے کے لئے تعلیم گاہ تفریح گاہ کے ہم معنے ہے۔ سب سے زیادہ تفریح ہاسٹل میں پڑھ کر ہو سکتی ہے۔ اس لئے اس کی کوشش ہے کہ کوئی سال ایسا آ جائے کہ ہاسٹل میں داخل ہو سکے۔ اس لئے متواتر فیل ہی ہوتے رہنے میں ان کو دلچسپی ہے۔ ادھر ان کے سرپرستوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ ہاسٹل کوئی بری جگہ ہے والدین کی نگاہ میں ہاسٹل کو علم اور اخلاق کا اعلیٰ ترین مرکز ثابت کرنے کی کوشش برابر مضحکہ خیز ہو ہو کر رہ جاتی ہے وہ جس جس طرح فیل ہوا ہے وہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ایسے بالکل ایسے کتنے لڑکے ہمارے ذہن میں ہیں ان سب کا وہ ذو اضعاف اقل مشترک ہے وہ ہمارے مشاہدے کی زبردست مضحکہ خیز حقیقت ہے۔

"سویرے جو کل آنکھ میری کھلی” وہی طالب علم ہے پڑھنے سے اس کی دلچسپی کا حال دیکھئے۔ پڑھنا امتحان کے لئے ہے تیاری کے لئے سویرے اٹھنا ہے۔ لالہ جی اس کے پڑوسی مضحک حد تک مستعد اور منہمک ہیں۔ اس کو صبح جگانے کے سین اور اس کے جاگ کر سوجانے کے حالات وغیرہ کسی طالب علم نے نہیں دیکھے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہر طالب علم میں کچھ نہ کچھ ایسی باتیں ہوتی ہیں۔ پطرس اس میں فرد ہے۔

ہماری مضحک تعلیمی جدوجہد کی تصویر پوری ہو گئی۔ پطرس نے اپنے تئیں الٹ پلٹ کر اور اپنے چاروں طرف کی دنیا کو الٹ پلٹ کر سب کچھ دکھا دیا اور خوب خوب ہنسایا۔

لیجئے خانگی زندگی کے حالات دیکھئے "اردو کی آخری کتاب ماں کی مصیبت” یہ ایک عام بے ڈھنگا گھر ہے "میں ایک میاں ہوں” میاں بیوی کے درمیان تعلقات۔ میاں کے دوستوں پر بیوی کے اعتراضات۔ بیوی بھی عام ہی چیز ہے اس کا جدید تعلیم یافتہ فرماں بردار میاں ہے۔ بیوی کے میکے جانے پر خوش ہے کہ ہر قسم کی آزادی ملی۔ لیکن پھر بھی بیوی کے گھر میں نہ ہونے سے گھبرا کر اسے تار دے دیتا ہے۔ کیا موقعے سے بیوی گھر پہنچتی ہے۔ کمال ہے !

اب سیاسی زندگی کا کھیل دیکھئے "مرید پور کا پیر” لیڈر کیسے بنتا ہے اور کیسے بنایا جاتا ہے۔ شروع میں ایک طرح بنایا جاتا ہے۔ اب اسے لیڈر بنتے ہی بن پڑتی ہے۔ آخر میں تقریر کرتے میں اسے کیسا بنایا جاتا ہے اسے بھاگتے ہی بن پڑتی ہے۔ واہ رے لیڈر تم لیڈری کی حقیقت ہو۔

کالجوں کو دیکھئے انکسار کے مجسمے علم کے مرفو پروفیسر پطرس کو دیکھئے اور ان کے شاگردان رشید کے اٹھنی فی کس نذرانہ پیش کرنے پر غور کیجئے اور پھر ملک معظم وغیرہم کے تحائف پر ان کی شہادت دیکھئے۔ لگے ہاتھوں کیمبرج یونیورسٹی میں "میبل اور میں” کے فن سے بھی آگاہ ہو جائیے …”رفتہ رفتہ مجھے اس فن میں کمال حاصل ہو گیا جس روانی اور نفاست کے ساتھ میں ناخواندہ کتابوں پر گفتگو کرسکتا تھا اس پر میں خود حیران رہ جاتا تھا اس سے جذبات کو آسودگی نصیب ہوئی۔ والله کیا بات کہی ہے۔ کیمبرج سے لوگ یہی فن سیکھ کر آتے ہیں کیمبرج کی تعلیم کا شاید یہی نچوڑ ہے۔

ادب زندگی پر تنقید ہے ؟ میتھو  آرنالڈ نے اس بات کو کچھ ضرورت سے زیادہ انسپکٹر مدارس کے الفاظ میں ادا کیا ہے۔ جس سے کچھ بات ٹھیک نہیں بنتی دکھائی دیتی۔ ورنہ جو کچھ اس نے محسوس کیا تھا وہ ٹھیک ہی تھا زندگی کی وہ چیز جو فنکار ہمیں دیتے آئے ہیں اسے پطرس نے بھی ہمیں دے دیا ہے۔ اب اگر نظریۂ حیات، نصب العین، پول کھولنا، مفکرانہ سنجیدگی وغیرہ قسم کے حماقت زدہ الفاظ کا ذکر کیجئے تو جواب یہی ملتا ہے کہ اگر زندگی کے مکمل نقش میں کوئی نظریہ ہے، نصب العین ہے، کسی چیز کے پول کھولنے کی ضرورت ہے کوئی اخلاقی سیاسی وغیرہ قدر یا قدریں ہیں تو وہ پطرس کے یہاں بھی ہیں ورنہ ان کے ذکر پر پک کا جملہ یاد کیجئے اور خاموش ہو جائیے۔ یہ شیکسپیئر والا ہیومر ہے۔ صاف خاص ہیومر طنز وغیرہ کی گندگی سے پاک:

بے ادب پامنہ اینجا کہ عجب درگاہست

اب دیکھئے پطرس کیا ہے۔ سب مضامین کو ملا لیجئے اور دیکھئے کیا نکلتا ہے۔ الف لیلے میں ایک قصہ ہے جس میں ایک لڑکا سمندر کے کنارے ایک بوتل پڑی پاتا ہے۔ اس بوتل کو کھولتا ہے تو اس میں سے ایک جن نکلتا ہے جو لڑکے کو کھا جانے کو تیار ہوتا ہے۔ پطرس بھی ویسا ہی ایک جن ہے، مگر یہ جن آدم خور نہیں ہے آدم خوردہ ہے۔ یہ ہمیں نہیں کھاتا اپنے تئیں ہم کو کھلاتا ہے۔ اس کو پھر شیشے میں نہیں اتارا جا سکتا۔ یہ الف لیلیٰ والا احمق جن تو ہے نہیں کہ ایک لڑکے کے کہنے پر پھر بوتل میں واپس ہو جائے۔ اور ہم اسے بوتل میں واپس جانے کو کہیں ہی کیوں۔ وہ تو ہماری خوراک ہے۔ بڑے مزے کی خوراک ہے۔

یہی بہادر جن سردانٹیز کے دماغ سے ڈن کوئزٹ کی صورت میں روزینانت پر بیٹھ کر سانکوپانزا کوساتھ لے کر ڈلسینہ کے عشق میں سرد آہیں بھرتا ہوا دنیا کو فتح کرنے نکلا ہے۔ یہی اب پطرس کی صورت میں نمایاں ہوا ہے۔ جدید دور کے سب ہتھیار اس کے پاس ہیں۔ جدید تعلیم، کیمبرج کی ڈگری، پروفیسر کا عہدہ۔ اس کی ڈلسینہ روشن آراء ہے جس کو وہ آہ سرد کا تار بھیجتا ہے۔ اس کا بھی ایک سانکوپانزا ہے یعنی کبوتر باز مرزا صاحب جو روشن آراء کے فقروں، کبوتر بازی اور تاش بازی کے منظروں سے نمایاں ہوتا ہوا "سینما کا عشق” میں کمال کے ساتھ اُبھرتا ہے۔ یاد رکھئے پطرس ایسا جن ہے جو اپنے تئیں ہلکان کرتا ہے چنانچہ اس کا سانکو اس کو پریشان کرنے میں کمال رکھتا ہے۔ سینما جانا فرض۔ بغیر مرزا صاحب کو ساتھ لئے بن نہیں پڑتی۔ تماشا شروع ہو جانے کے بعد پہنچنا لازمی ٹھہرا۔ اب اندھیرے کی مہم شروع ہوتی ہے۔ ڈن کوئزٹ کی نچکیوں والی مہم! اُف اُف واہ مرزا خوب پھانستے ہو۔

مگر مرزا کا پھانسنا بڑی مفید چیز ہے۔ پھانس پھانس کر ہی سہی مگر مرزا ہی نے تو پطرس کو شہسوار بنایا ہے۔ مرزا ہی نے تو اسے وہ سواری دی ہے جس کو دیکھ کر روز نیانیت بچک کر  ڈن کے قابو سے باہر ہو جاتی ہے۔ اور ایسی بھاگتی ہے کہ پھر نہیں نظر آتی۔ وہی مرحوم جس کی یاد اردو زبان کے ساتھ وابستہ ہو گئی ہے بلکہ اردو زبان کے ثبات کی ضامن ہے۔

کیا سواری ہے ؟ مشین بنانے والے انسان کی قابلیت کا معجزہ! جدید دور کی سب سے زیادہ تعجب انگیز سواری، اگر ڈن کوئزٹ آج کل تشریف لائیں تو انہیں آج کل کی سب سے زیادہ تعجب میں ڈال دینے والی سواری بائیسکل کے سوا اور کوئی نہ دکھائی دے گی۔ یہ ہوا پر اڑنے والی پٹریوں پر چلنے والی پیٹرول کی غلام سواریاں کیا رقم ہیں!

پطرس اس معجز نما سواری کو دنیائے ادب کی مضحک ترین سواری بنا کر پیش کرتے ہیں۔ یہ مرزا صاحب کا تحفہ ہے نہیں مومس دیوتا کا عطیہ ہے۔ رات ہی میں آ گئی ہے اور اپنے ساتھ ایک پرزے کسنے کا اوزار بھی لائی ہے۔ یہ اوزار ہی اس کا علاج دردِ دل بلکہ اس کی روح ہے۔ کیا شکل پائی ہے۔ دیکھنے سے تو اتنا تو ثابت ہو جاتا ہے کہ بائیسکل ہے لیکن مجمل ہئیت سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پل اور رہٹ اور چرخہ اور اسی طرح کی جدید ایجادات سے پہلے کی بنی ہوئی ہے۔ مل اور رہٹ اور چرخہ اس کے مقابلے میں جدید ایجادات ہیں۔

اور اس کی چال بھی کیا کمال ہے پطرس آخر اس پر سوار ہوا۔ پہلا ہی پاؤں چلایا تو ایسا معلوم ہوا کہ کوئی مردہ اپنی ہڈیاں چٹخا چٹخا کر اپنی مرضی کے خلاف زندہ ہو رہا ہے۔ بائیسکل اپنی آوازوں میں گم ہے۔ ان آوازوں کے مختلف گروہ تھے، چین چان چون قسم کی آوازیں زیادہ تر گدی کے نیچے اور پچھلے پہیّے سے نکلتی تھیں۔ کھٹ کھڑ کھڑر کے قبیل کی آوازیں مڈ گارڈوں سے آتی تھیں۔ چرچرخ چرچرخ کی قسم کے سُر زنجیر اور پیڈل سے نکلتے تھے۔

جوڑو بند کی حرکات ملاحظہ ہوں۔ زنجیر! "میں جب کبھی پیڈل پر زور ڈالتا تھا زنجیر میں ایک انگڑائی سی پیدا ہوتی تھی جس سے وہ تن جاتی تھی اور چڑ چڑ بولنے لگتی تھی” اور پھر ڈھیلی ہو جاتی تھی”۔

پہیّہ! پچھلا پہیّہ گھومنے کے علاوہ جھومتا ہے یعنی ایک تو آگے کو چلتا ہے اور اس کے علاوہ داہنے سے بائیں اور بائیں سے داہنے کو بھی حرکت کرتا ہے۔ چنانچہ سڑک پر جو نشان پڑ جاتا تھا اس کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی مخمور سانپ لہرا کر نکل گیا ہے۔

مڈگارڈ! مڈگارڈ تھے تو سہی لیکن پہیّوں کے عین اوپر نہ تھے ان کا فائدہ صرف یہ معلوم ہوتا تھا کہ انسان شمال کی سمت سیر کو نکلے اور آفتاب مغرب میں غروب ہو رہا ہو تو مڈگارڈوں کی بدولت ٹائر دھوپ سے بچے رہیں گے۔

اگلے پہئے کے ٹائر میں ایک بڑا سا پیوند لگا تھا جس کی وجہ سے پہیہ ہر چکر میں ایک دفعہ لمحہ بھر کو زور سے اوپر اُٹھ جاتا تھا اور میرا سر پیچھے کو یوں جھٹکے کھا رہا تھا جیسے کوئی متواتر تھوڑی کے نیچے مکے مارے جا رہا ہو۔

اس کی چال میں ارتقا ء بھی ہے۔ جب اُتار پر بائیسکل ذرا زیادہ تیز ہوئی تو فضا میں ایک بھونچال سا آ گیا اور بائیسکل کے کئی اور پرز ے جو اب تک سورہے تھے بیدار ہو کر گویا ہوئے … اُف اُف ایبک نظموں کے گھوڑے کیا اُڑیں گے۔ یہ سائیکل بالکل آسمان سے اُتری ہے …مومس نے پطرس کے لئے یہ براق بھیجا ہے !

کیا قیامت کی بائیسکل ہے اس کے سامنے مستریوں کی پسپائی کے سین اور خریداروں کی ہار مان لینے کی بات چیت! یہ عہد الزبتھ کا انگلینڈ ہے۔ ہمارا ڈن کوئزٹ بائیسکل کے دو حصے ہاتھوں میں لئے ہوئے آفاق پر چلا آ رہا ہے۔ پک،سرجان فالسٹاف کیا کہتا ہے : Knight of the broken bicycle master shallow.

ہمیں اس سے کوئی مطلب نہیں کہ پروفیسر بخاری کہاں پیدا ہوئے کہاں کہاں رہے اور کہاں مرے۔ ہم چاہتے تو ان سے ملتے مگر اس کا موقع نہ ملا۔ اچھا ہی ہوا ہمیں ان سے کیا مطلب تھا ہمیں پطرس سے غرض ہے اور رہے گی یہ شخص رہتی دنیا تک رہنے والا ہے۔ عہد الزبتھ کا ایک فرد ہے اس کا لاہور سرجان فالسٹاف کا لنن ہے۔ یہ لاہور لاہور ہی ہے آگے کچھ نہیں اس کے پاس ایک دریا لیٹا رہتا ہے۔ بہنے کا شغل عرصے سے بند ہے۔ حملہ آوروں کی آماجگاہ ہے۔ یوپی کے حملہ آور دلی کے راستے سے یہاں آتے ہیں اور اہل زبان کہلاتے ہیں۔ اس کے حدود اربعہ منسوخ ہو چکے۔ آب و ہوا کا سوال نہیں اُٹھتا۔ آب کی جگہ پائپوں میں ہائیڈروجن اور آکسیجن اور ہوا کی جگہ گرد اور خاص حالات میں دھواں ملتا ہے، عہد الزبتھ کی سڑکیں ہیں، پھسلا دینے والے ٹانگے ملتے ہیں۔ مکانوں پر اشتہارات کے پلسٹر پر پلسٹر لگائے جاتے ہیں۔ یہاں کی صنعت و حرفت اسی حد تک رسالہ بازی ہے جیسے الزبتھ کے زمانہ میں ڈرامہ بازی تھی۔ ہر برانچ پر یہاں بھی اسی طرح ایک انجمن موجود ہے۔ جیسے شیکسپیئر کے لنڈن میں تھیٹر موجود تھے۔ یہاں کی بہترین پیداوار طلباء ہیں اور قسم قسم کے ہیں اور پروفیسر ہونے کے لئے شرط ہے کہ "دودھ پلانے والے جانوروں میں سے ہوں”یہاں کے لوگ بہت خوش طبع ہیں پک کے پرستار ہیں اور پک کا اوتار پطرس ہے۔

پطرس کا کام کھیل دکھانا ہے لفظوں کا کھیل۔ فقروں کا کھیل۔ چست جملوں کا کھیل، وٹ (WIT) کا کھیل کھیلتا ہے۔ مگر یہ اس کا خاص کھیل نہیں۔ اس کا کھیل پک کا کھیل ہے موقعوں کا کھیل، ڈرامائی حالات کا کھیل، ہر مضمون یہی کھیل دکھاتا ہے۔

ہاسٹل میں پڑھنے والا والدین کو شخصیت کا مطلب سمجھا رہا ہے !

"سویرے آنکھ کھولنے والا پلنگ پر لیٹا لالہ جی کے دروازے پر کھٹ کھٹ سن رہا ہے۔ جاگنے کی کوشش ہائے۔ ہائے۔

"یعنی بہت ہی کتا!”

"باپ انگوٹھا چوس رہا ہے "۔

فرمانبردار میاں چور بنا ہوا ہے …برقعہ پوش…منہ سے برقعہ الٹا تو روشن آرا

مرید پور کا پیر تقریر کر رہا ہے۔ پیارے ہم وطنو…!

پروفیسر پطرس پر عقیدت کی اٹھنیاں چڑھائی جا رہی ہیں۔

سینما کے اندھیرے میں آب حیات کی تلاش ہو رہی ہے۔

ایک کتب ناخواندہ کتابوں پر گفتگو کی مشق کر رہا ہے۔

"مرحوم کی یاد میں” یہ تماشا لمبا ہے۔ سین نمبر ایک۔ مرزا سے گفتگو، سین نمبر دو۔ سائیکل کا معائنہ۔ سین نمبر تین۔ رفتار کا ایبک منظر۔ نمبر چار۔ مرمت کی دوکان۔ نمبر پانچ۔ فروخت۔ نمبر چھ۔ ٹوٹی بائیسکل والا ہیرو۔ نمبر سات۔ ہوئے کیوں نہ غرق دریا۔

لاہور لاہور ہی ہے۔

کھیل ختم۔

ختم؟

یہ کھیل ختم نہیں ہوتا۔ "پطرس کا تماشا دیکھ۔ پطرس کا تماشا دیکھ!” ہم گلوب تھیٹر سے بول رہے ہیں۔ اب آپ پک لافانی کا تماشہ دیکھیں گے جو پطرس نے پیش کیا ہے …یہ پروگرام ہر میٹر سینڈ پر ہر وقت سنا جا سکتا ہے اور سننے سے زیادہ دیکھا جا سکتا ہے۔

اس کھیل کے سلسلے میں ایک نیا اعلان سن لیں۔ اردو ادب میں منشیان تنقید یا تنقید بابو برساتی مینڈکوں کی طرح پھیل رہے ہیں پطرس کے کھیل کو یہ ہرگز نہ دیکھیں ورنہ…پک نے ان کے لئے اب تک کوئی سزا تجویز نہیں کی۔

ان میں سے ایک بڑے بابو کو پکڑا گیا ہے۔ وہ عرصہ ہوا اپنے ابا کو فرسٹ کلاس کا اور اقبال کو انٹر کلاس کا ٹکٹ دے گئے تھے۔ اس وقت انہیں معاف کر دیا گیا تھا۔ مگر اب ان کی جرائم پیشی پختہ ہو گئی اور نظر موٹی ہو گئی۔ انہوں نے اردو کی مزاحیہ نگاری پر بھی ایک نظر ڈالی ہے اور پطرس پر جو کچھ کہا اس کی سزا ان کو اچھی طرح دی جائے گی۔

٭٭٭

 

 

 

پطرس کے مضامین کا سرسری جائزہ

 

                اثر لکھنوی

 

پطرس کے مضامین میں ظرافت عام رواج سے ہٹ کر ہے۔ اور اس کا آغاز مختصر دیباچے ہی سے ہوتا ہے :

"اگر یہ کتاب آپ کو کسی نے مفت بھیجی ہے تو مجھ پر احسان کیا ہے اگر آپ نے کہیں سے چرائی ہے تو میں آپ کے ذوق کی داد دیتا ہوں اپنے پیسوں سے خریدی ہے تو مجھے آپ سے ہمدردی ہے (یعنی آپ کی حماقت سے ہمدردی ہے ) اب مصلحت یہی ہے (کہ آپ اپنی حماقت کو نباہیں) اور اسے حق بجانب ثابت کریں”۔   نہ معلوم یہ حقیقت ہے یا میری شک بھری طبیعت کہ پطرس کے اظہار حقیقت کی تہ میں بھی ظرافت کی ایک لہر دوڑی ہوئی ہے کیونکہ اپنے استاد کی خدمت میں اعترافِ ممنونیت ان الفاظ میں کیا ہے : "اس کتاب پر نظر ثانی کی اور اسے بعض لغزشوں سے پاک کیا” جس کا مفہوم میرے نزدیک اس کے سوا نہیں ہو سکتا کہ جہاں کوئی بات ہوش مندی کی دیکھی اسے حماقت میں بدل دیا۔

کتاب میں گیارہ مضامین ہیں جو بہ ظاہر "ہولا خبطا پن” کے شاہکار ہیں مگر فی الحقیقت سوسائٹی اور تمدن کی دکھتی رگوں کو چھوا ہے اور خامکاریوں اور سفیہانہ رواسم و توہمات کا پردہ فاش کیا ہے۔ پطرس نے اپنا مطلب زیادہ تر مزاح میں طنز کی پُٹ دے کر نکالا ہے۔ بخلاف دیگر ظرافت نگاروں کے جو تمسخر کو آلۂ کار بناتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے مضامین میں باوجود اس احساس کے کہ ہم کو (اور معاف کیجئے گا آپ کو) بے دال کا بودم بنایا جا رہا ہے جھنجھلاہٹ کے بجائے گدگدانے کی ادا نکلتی ہے اور اسی کے ساتھ غور  و تعمق کی دعوت ہوتی ہے۔

ان مضامین کے کاتب کو بھی ظرافت سے کافی بہرہ معلوم ہوتا ہے کیونکہ علاوہ دیگر مخترعات کے "ہاسٹل میں پڑھنا” کے عنوان کو ہر جگہ "ہاسٹل پر پڑنا”بنا دیا ہے۔ مضمون میں ظرافت کی چاشنی پہلے ہی فقرے سے شروع ہے :

"ہم نے کالج میں تعلیم تو ضرور پائی اور رفتہ رفتہ بی اے بھی پاس کر لیا”۔ رفتہ رفتہ اور بھی کی معنویت دعوت نظر دیتی ہے آگے چل کر بی اے کے خانے اس خوبی سے گنوائے ہیں کہ باید و شاید۔

مضمون میں ایسے خاندان کی ذہنیت کا خاکہ ہے جو مہذب اور اخلاق پسندیدہ کا مالک ہونے کے با وصف قدامت پسند ہے اور حال کو ماضی کے آئینہ میں مشتبہ نظروں سے دیکھتا ہے۔ لڑکے نے انٹرنس کا امتحان تیسرے درجے میں پاس کیا ہے تاہم خوشیاں منائی جا رہی ہیں دعوتیں ہو رہی ہیں۔ مٹھائی تقسیم کی جا رہی ہے۔ خاندان خوش حال ہے مگر باوجود استطاعت کے لڑکے کو مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے ولایت نہ بھیجنے کی معقول ترین وجہ یہ ہے کہ گردو نواح سے کسی کا لڑکا ابھی تک ولایت نہ گیا تھا”۔

بڑی ہمت کی تو لڑکے کو لاہور بھیج دیا مگرہاسٹل کے بجائے ایک ایسے اجنبی عزیز کے یہاں قیام کا فیصلہ کیا جاتا ہے جس سے رشتہ داری کی نوعیت معلوم کرنے کے لئے خاندانی شجرے کی ورق گردانی کرنا پڑتی ہے تاہم ہاسٹل پر اس کے گھر کو یہ کہہ کر ترجیح دی جاتی ہے کہ "گھر پاکیزگی اور طہارت کا ایک کعبہ اور ہاسٹل گناہ و معصیت کا دوزخ ہے ” ضمناً نفسیات کے اس پہلو پر روشنی پڑی کہ جذبات کو دبا کر تحت الشعور میں دھکیل دینا ان کو دُند مچانے کے لئے آزاد چھوڑ دینا اور ارتفاع میں مشکلیں حائل کرنایا ارتفاع سے محروم کر دینا ہے۔ پطرس کے الفاظ میں:

"اس سے تحصیل علم کا جو ایک ولولہ ہمارے دل میں اُٹھ رہا تھا وہ کچھ بیٹھ سا گیا۔ ہم نے سوچا ماموں لوگ (ماموں قسم کے لوگ؟) اپنی سرپرستی کے زعم میں والدین سے بھی زیادہ احتیاط برتیں گے۔ جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ہمارے دماغی اور روحانی قوے ٰ کو پھلنے پھولنے کا موقع نہ ملے گا اور تعلیم کا اصل مقصد فوت ہو جائے گا۔ چنانچہ وہی ہوا”۔

بعد ازاں اس "وہی ہوا” کی شرح ہے۔ امتحانات میں پے در پے فیل ہونا، صلاحیتوں کی بے راہ روی اختیار کرنا۔ صاف گوئی اور راستبازی کا کج مج راستے اختیار کرنا۔ غسل خانے میں چھپ چھپ کر سگریٹ پینا۔ المختصر وہ آزادی و فراخی و وارفتگی نصیب نہ ہوئی جو تعلیم کا اصل مقصد ہے "۔

پطرس نے مسئلے کے اس پہلو کو ظریفانہ انداز میں اس حسن و خوبی سے وضاحت کی ہے کہ طبیعت عش عش کرتی ہے۔ تفصیل میں جانا مضمون کی لذتیت کو فنا کر دینا ہے۔ پڑھئے اور لطف اندوز ہو جائے۔

کتاب کا مقصد بھی غالباً فوت ہو جائے گا اس کے مضامین کی چیر پھاڑ کی گئی۔ کتاب انگریزی کے اس مقولے کی بہترین ترجمان ہے کہ مذاق کے پردے میں بہت سی سنجیدہ باتیں کہہ دی جاتی ہیں۔ (many a serious thing are said in joke)

٭٭٭

ماخذ: پطرس بخاری ڈاٹ کام

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید