فہرست مضامین
اقبال کا تصورِ فن
ڈاکٹر راشد حمید
ڈپٹی سیکرٹری
مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد
انیسویں صدی کی آخری چار دہائیوں میں مغرب کی علمی اور ادبی دنیا میں فن برائے فن اور فن برائے مقصد کے رجحانات اور بعد ازاں کسی حد تک دبستان بھی سامنے آئے۔ فن کے ان تصورات میں الہامی، نقالی، فطرت پرستی، تاثریت اور اظہاریت کے حوالے بے حد اہم ہیں اور پھر ٹین، مارکس، فرائیڈ کے تصورات بھی عہد جدید کے تصورِ فن کا ناک نقشہ بنانے کے ضمن میں اپنا حصہ ڈال چکے ہیں ۔ فن برائے فن کے حامیوں کا کہنا تھا کہ فن بذاتہٖ آزاد ہے اس لیے یہ کسی بھی قسم کے مقصد کے حصول کا ذریعہ کیسے ہو سکتا ہے۔ بعض فن کاروں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ فن اپنی ذات میں خود مقصد ہے لہٰذا فن کے ہوتے ہوئے دوسرے کسی مقصد کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ میاں محمد شریف لکھتے ہیں :
’’فن برائے فن کے علم بردار حسن فطرت کے قائل نہیں اور ان کے نزدیک یہ تو نہایت ادنیٰ درجہ کی شئے ہے۔ فلوبئر، گوتیر، آسکر وائلڈ اور بودلیئر اس حقیقت کو خاطر میں نہیں لاتے، کیوں کہ ان کے خیال میں مناظر فطرت کی رنگینیاں یکسانیت اور تھکا دینے والی کیفیت کی حامل ہیں ۔ ‘‘ ۱
فن برائے فن کا رجحان اور بعد میں اس کی تحریکی صورت دراصل ایک انتہا پسندانہ انفرادیت کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے تھی۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ چوں کہ یہ تحریک فکری حوالے سے انحطاط کے دور کی پیداوار تھی اس لیے اس نے دور ماضی کی تمام تر جمالیات کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا۔ اس کے برعکس رویّہ، فن برائے مقصد کا رجحان تھا۔ اگرچہ اس رویے کی شناخت انیسویں صدی کے نصف آخر میں کی گئی اور اس کے بعد اس کے لیے اصطلاح وضع کی گئی مگر یہ دبستان تو ہمیشہ سے رہا ہے۔ ہر بڑے شاعر، مفکر، صوفی اور عالم کے نزدیک فن، زندگی کی ترجمانی کا دوسرا نام ہے۔
جس زمانے میں علامہ محمد اقبال نے شعر گوئی کا آغاز کیا، یہ دونوں دبستان اپنے اپنے عروج کو پہنچ چکے تھے۔ چوں کہ علامہ محمد اقبال ایک با مقصد زندگی کے قائل تھے اس لیے انہوں نے ثانی الذکر دبستان سے استفادہ کیا۔ انہوں نے فن کو ایک مقصد اور نصب العین کے لیے برتا اور اس کی معنوی فضا کو زندگی کا لازمہ بنا دیا۔ وہ افلاطون کی طرح بعض نوعیت کے شاعروں کو گردن زدنی جانتے تھے اور بقول خلیفہ عبدالحکیم:’’اس تعزیر کی وجہ بھی تقریباً وہی ہے جو افلاطون نے بیان کی ہے۔ ‘‘۲
علامہ محمد اقبال نے نظم و نثر دونوں میں فنون لطیفہ کی جملہ اقسام پر تنقید کی ہے اور انہیں زندگی سے قریب تر لانے کا جتن بھی کیا ہے۔ مثلاً علامہ محمد اقبال ڈرامے کے محض اس لیے مخالف تھے کہ اس سے انسانی خودی مجروح ہوتی ہے۔ جب ایک کردارکسی دوسرے کردار کے لباس میں جلوہ گر ہوتا ہے تو عارضی نقالی اس کے احساس ذات کے لیے بمنزلہ سم قاتل کے ہے۔ انہوں نے اپنی ایک نظم ’’تیاتر‘‘ میں اس مسئلے پر روشنی ڈالی ہے، اس نظم کے یہ دو شعر ملاحظہ کریں :
حریم تیرا، خودی غیر کی، معاذاللہ
دوبارہ زندہ نہ کر کاروبار لات و منات
یہی کمال ہے تمثیل کا کہ تو نہ رہے
رہا نہ تو، تو نہ سوز خودی نہ ساز حیات۳
اقبال بنیادی طور پر شاعر تھے، انہوں نے فن شعر گوئی کے مختلف مراحل کے دوران میں ، فن کے معنوی پس منظر اور پیش منظر پر بھی اظہار خیال کیا ہے، اور حافظ شیرازی کو محض اس لیے رد کیا ہے کہ ان کے ہاں فن شعر گوئی انسانی خودی کو کمزور کر دیتا ہے۔ فن اگر کسی نصب العین کے حصول کے لیے تخلیق کے اندر محو سفر ہو تو ٹھیک ہے ورنہ حافظ شیرازی جیسا بڑا غزل گو کسی اہمیت کا حامل نہیں رہتا۔ اقبال نے اپنے نظریۂ فن کی ساخت اور پرداخت میں محاکات (Imitations)اور تخلیق (Creation)میں فرق روا رکھا ہے، کیوں کہ ان کے نزدیک فطرت کی نقل اتارنا کوئی کمال نہیں ہے۔ اس لیے کہ فن کار کا اصل کام تو تخلیق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ فطرت کی غلامی کے غیر معمولی حد تک مخالف ہیں ، ان کا کہنا ہے:
’’فطرت کی غلامی سے کر آزاد ہنر کو
صیاد ہیں مرادنِ ہنرمند کو نخچیر‘‘۴
بہ قول ڈاکٹر فرمان فتح پوری فن کار کی ذمہ داریاں خلاقی کی حدوں کو چھونے لگتی ہیں ، ملاحظہ کیجیے:
اقبال اس بات پر زور دیتے ہیں کہ فن کار کا کام فطرت سے ہم آہنگ ہونا نہیں ، اس قسم کا فن کار فطرت کی دریوزہ گری کرتا ہے، اس کا کام تو یہ ہے کہ گیسوئے کائنات کو سنوارے اور اس سے ایک دنیائے نو کی تعمیر کرے اور اس طرح اپنے وجود کے راز ہائے درون پردہ کو بے نقاب کرے:
غزل آں گو کہ فطرت ساز پردہ گرداند
چہ آید زاں غزل خوانی کہ با فطرت ہم آہنگ است‘‘۵
علامہ محمد اقبال فکری حوالوں سے افلاطون کے مخالف تھے، اسرار خودی میں اسے گو سفند قدیم کہا ہے، لیکن تصور فن کے حوالے سے وہ تقریباً اس کے پیرو ہیں ۔ علامہ محمد اقبال بھی بنیادی طور پر ناصحانہ (مقصدی) فن کے حامی تھے۔ ان کے نزدیک وہ فن بے معنی ہے، جس کا تعلق زندگی، انسان اور معاشرت کے ساتھ نہ ہو۔ اسی لیے انہوں نے دور زوال کی شاعری کی مذمت کی ہے، کہ زوال آشنا دور اور معاشرے میں موجود شاعر کسی بھی حوالے سے زندگی کی قدروں اور جذبوں کے ترجمان نہیں ہوتے بل کہ ہوسکتے ہی نہیں ۔ ان کے خیال میں ایسے شعرا کے عہد کی پرچھائیاں ان کے کلام میں موجود ہوتی ہیں ۔ قرآن کریم کی سورۃ الشعرا میں بھی اس قسم کے شاعروں کی مذمت کی گئی ہے، اقبال بھی فن شعر کے متعلق انہی قرآنی تعلیمات سے فیض یاب ہوئے ہیں :
’’مقصود ہنر سوز حیات ابدی ہے
یہ ایک نفس یا دو نفس مثل شرر کیا‘‘(۶)
’’شاعر دل نواز بھی بات اگر کہے کھری
ہوتی ہے اس کے فیض سے مزرع زندگی ہری
اہل زمیں کو نسخۂ زندگی دوام ہے
خون جگر سے پرورش پاتی ہے جب سخن وری‘‘۷
علامہ محمد اقبال کے نزدیک فن، زندگی اور اس کے مختلف النوع رویوں کے حصول کا ایک اہم ذریعہ ہے وہ کہتے ہیں :
’’اے میان کیسہ ات نقد سخن
بر عیار زندگی اورا بزن‘‘۸
اور اگر اس منزل تک رسائی پالے تو پھر شاعری صرف اور صرف شاعری نہیں رہتی بل کہ پیغمبری سے علاقہ قائم کر لیتی ہیں ، ملاحظہ کیجیے:
’’شعر را مقصود اگر آدم گریست
شاعری ہم وارث پیغمبریست‘‘۹
اگر شاعر واقعتا شاعر ہے تو اس کے شاعرانہ رویوں میں پیغمبرانہ قوتیں کار فرما ہوتی ہیں اور وہ ان قوتوں کی کارفرمائی سے ملت خوابیدہ کو بے دار کرتا ہے، علامہ محمد اقبال کہتے ہیں :
’’شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو
جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا؟
جس سے دل دریا متلاطم نہیں ہوتا
اے قطرۂ نیساں وہ صدف کیا وہ گہر گیا‘‘۱۰
علامہ محمد اقبال نے جہاں دور انحطاط کے پروردہ فن کاروں کے فن کی مذمت کی ہے وہاں وہ کہتے ہیں کہ اگر فن کار کے پاس افسردہ اور یاس انگیز نغموں کے سوا کچھ نہ ہو، تو اس کے لیے بہتر ہے کہ خاموش رہے کیوں کہ ایک انحطاطی فن کار ملک و قوم کے لیے چنگیز کی ایک پوری بٹالین سے زیادہ نقصان کا باعث بن سکتا ہے بشرطے کہ اس کا فن لوگوں کو اس کے نغموں یا تصویروں کی طرف مائل کر سکے۔ اپنے ملک کے دور انحطاط کے فن کاروں کے بارے میں علامہ محمد اقبال نوحہ خواں ہیں :
’’عشق و مستی کا جنازہ ہے تخیل ان کا
ان کے اندیشۂ تاریک میں قوموں کے مزار
چشم آدم سے چھپاتے ہیں مقامات بلند
کرتے ہیں روح کو خوابیدہ بدن کو بیدار
ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس
آہ! بے چاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار‘‘۱۱
علامہ محمد اقبال نے یوں تو نظم و نثر اور اردو، انگریزی وفارسی میں فن کے بارے میں ضرور اظہارِ خیال کیا ہے مگر علی الخصوص ضرب کلیم کے علاوہ، زبور عجم اور اسرار خودی میں فنون لطیفہ پر ان حوالوں سے تنقید کی ہے۔ زبور عجم میں غلام اقوام کی مصوری اور موسیقی کے بارے میں ایک معتدبہ حصہ موجود ہے اس طرح اسرار خودی میں ’’حقیقت شعر و اصلاح ادبیات اسلامیہ‘‘ کے عنوان سے انہوں نے شاعری اور اس کے مقامات سے بحث کی ہے اور تیس اشعار میں دور انحطاط کی شاعری کی تردید کی ہے۔ اس حصے میں انہوں نے صحیح شاعر اور اس کے فن کے اعلا مدارج پر بھی گفتگو کی ہے، ملاحظہ کیجیے:
’’سینۂ شاعر تجلی زار حسن
خیزد از سیناے او انوار حسن
از نگاہش خوب گردد خوب تر
فطرت از افسون او محبوب تر
از دمش بلبل نوا آموخت است
غازہ اش رخسار گل افروخت است
سوز او اندر دل پروانہ ہا
عشق را رنگین ازو افسانہ ہا
بحر و بر پوشیدہ در آب و گلش
صد جہاں تازہ مضمر در دلش
در دماغش نادمیدہ لالہ ہا
ناشنیدہ نغمہ با ہم نالہ ہا
فکر او با ماہ انجم ہم نشیں
زشت را نا آشنا خوب آفریں
خضر و در ظلمات او آب حیات
زندہ تر از آب چشمش کائنات‘‘۱۲
علامہ محمد اقبال نے سیاسی غلامی کے عہد میں بڑی اور عظیم شاعری کی۔ انہوں نے نہ صرف فنون لطیفہ کی تمام تر شاخوں پر فکری حوالوں سے اظہار خیال کیا بل کہ فنون کے لیے ضروری قرار دیا کہ وہ مذہب اور اخلاق کے تابع رہیں ۔ بہ قول میاں محمد شریف:
’’اقبال ہمیں حیات و فکر کی سر بفلک رفعتوں سے ہم کنار ہونے کی سیدھی راہ دکھا دیتے ہیں ۔ اس راہ پر بڑی دور تک ہماری رہ نمائی کے فرائض انہوں نے خود ادا کیے اور اس کے بعد ان الفاظ کے ساتھ ہم سے رخصت ہو گئے۔ ’’رکو نہیں ، بڑھے چلو، راہ میں بے شمار منزلیں آئیں گی، ان میں کسی کو آخری منزل گردان کر وہیں کے نہ ہو رہنا، عظیم سے عظیم تر رفعتوں کی تلاش میں اپنی راہ خود بناتے چلو، تمہاری کامرانیوں کی کوئی انتہا نہیں لیکن صبر و استقلال شرط ہے۔ ‘‘۱۳
یہ وہ الفاظ ہیں جو اقبال نے فضا میں بکھیر دیے اور جن کی صدائے بازگشت ابھی تک ہمارے کانوں میں گونج رہی ہے۔ یہی صدائے بازگشت ان کا فلسفہ حرکت ہے اور اس حرکت اور عمل سے ان کے فن کی ترویج ہوتی ہے اگر ہم بھی زندگی اور صداقت کی تلاش میں عزم و ثبات کے پتلے بن جائیں اور مسلسل اپنے فکر و عمل کے آئینوں کو جلا دیتے رہیں تو یہ عزم اور ثبات:
آں ہنر مندی کہ بر فطرت فزود
راز خود را بر نگاہ ما کشود۱۴
کا مصداق بن جاتا ہے۔
اقبال شناسوں اور بعض دوسرے دانش وروں نے علامہ محمد اقبال کے تصور فن کے بارے میں خیالات کا اظہار اپنے اپنے انداز اور تفہیم کے مطابق کیا ہے دیکھتے ہیں ان صاحبان دانش نے علامہ محمد اقبال کے ہاں تصور فن کو کیسے جلوہ نما دیکھا:
پروفیسر جابر علی سید:
’’اقبال کا تصور فن وہی ہے جو اس کا تصور زندگی ہے اور اس کے تصور زندگی سے ہم واقف ہو چکے ہیں ۔ ابلیس کی زبان میں :سوزو ساز و درد و داغ و جستجو و آرزو‘‘۱۵
ڈاکٹر یوسف حسین خاں :
’’ہر بڑے شاعر کے کلام کی تہ میں آرٹ کا ایک مخصوص تصور کارفرما ہوتا ہے جو دراصل بڑی حد تک اس کے کائنات کے تصور کے تابع ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اقبال کے آرٹ کا کیا تصور ہے جسے اس نے صوت و لحن کی ہم آہنگی سے ظاہر کیا۔ اس نے اپنے اس تصور کے متعلق مختلف جگہ اشارے کیے ہیں ۔ وہ آرٹ کو زندگی کا خادم خیال کرتا ہے۔ اس کے نزدیک حقیقی شاعر وہ ہے جو اپنی شخصیت کی قوت اور جوش عشق کی بدولت اپنے دل و دماغ پر ایسی کیفیت طاری کر لے جس کے اظہار پر وہ مجبور ہو جائے۔ یہی کیفیت آرٹ کی جان ہے۔ ‘‘۱۶
سید وقار عظیم:
’’زندگی اور فن کے اس رشتے میں اقبال نے حیات کو جو بلند مقام دیا ہے، اس کا احساس ان کے تصور حیات و کائنات کی بنیاد بھی ہے اور ان کے نظریۂ فن کا مرکزی نقطہ ہے۔ ‘‘۱۷
ڈاکٹر عبد المغنی:
’’اقبال کا فن دوسرے سچے اور بڑے فن کاروں کی طرح فکر سے الگ کوئی چیز نہیں ۔۔۔ بلا شبہ اقبال فن برائے فن کے حامیوں میں سے نہیں ۔ فن ان کا مقصد بھی نہیں ، وسیلہ ہے۔ وہ ہر عظیم فن کار کی طرح ورائے شاعری چیزے دگر کے طالب ہیں ۔۔۔ اقبال فن کی شکل میں کچھ کہنا چاہتے ہیں ۔ زمانہ، زندگی اور انسان کے متعلق ان کے پاس کہنے کو کچھ باتیں ہیں ۔ ‘‘۱۸
احمد ندیم قاسمی:
’’ان کا یہ نظریۂ شعر زندگی اور اس کے حسن، انسان اور اس کی توانائیوں ، کائنات اور اس کی پہنائیوں اور انسانی فکر کی رسائیوں کا نظریہ ہے، اور یہی وہ نظریہ ہے جس سے منفیت بے معنویت اور لایعنیت کے ان نظریوں کو شکست دی جا سکتی ہے جنھوں نے آج کے جدید انسان کو اپنی گرفت میں لینے اور اس سے اس کا انفرادی شرف چھیننے کی کوشش شروع کر رکھی ہے۔ ‘‘۱۹
ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی:
’’اقبال کے نزدیک فن وہی ہے جو زندگی بخش ہو اور زندگی کا ترجمان ہو، جو مردہ و افسردہ جذبات کو حرکت میں لائے، جو بلند نصب العین کے لیے جینا اور مرنا سکھائے۔ حقیقی فنکار وہ ہے جو اپنے فن کو قومی امراض کے دفیعہ کا ذریعہ بنائے۔ فن کا مقصد زندگی کے حسن کو نکھارنا ہے معاشرے کو پستی سے بلندی کی طرف لے جانا، انقلاب کی لذت سے آشنا کرنا اور ہر آن ایک نئے دور، ایک نئے انقلاب کی جستجو میں سرگرم رکھتا ہے۔ ‘‘۲۰
وحید اختر:
’’اقبال کے تصور فن کی اخلاقیت جامد اخلاق کے تصور کی تابع نہیں ، ان کا تصور اخلاق بھی حرکی اور کشادہ ہے، برگساں کی Open Morality کی طرح۔ وہ افلاطون کی طرح شاعری اور فنون لطیفہ کو مخرب اخلاق سمجھ کر ریاست سے باہر نہیں کرتے بلکہ اسے اپنی مثالی ریاست میں اقدار حیات کی تشکیل کا آلۂ کار بنانا چاہتے ہیں ۔ شاعری کی نارسائی اور بے حضوری پر اقبال کے خیالات سے یہ گمان ہوسکتا ہے کہ وہ افلاطون اور ہیگل کی طرح شعر کو علم کی ادنیٰ ترین سطح پر مانتے تھے خود کہتے ہیں :
فلسفۂ و شعر کی اور حقیقت ہے کیا
حرف تمنا جسے کہہ نہ سکیں روبرو
لیکن اسی کے ساتھ ان کے یہاں یہ خیال بھی جگہ جگہ ملتا ہے کہ روبرو حرف تمنا کہہ سکے تو وہ کائنات کے راز فاش کرنے میں جزو پیغمبری بن جاتا ہے۔ ‘‘۲۱
وحید اختر اپنے اس مضمون میں آگے چل کر کہتے ہیں :
’’اقبال کی شاعری نے بیانیہ اور رمزیہ، رومانی اور کلاسیکی، خطابیہ اور خود کلامی کے حدود کو توڑ کر ثابت کیا کہ یہ اصطلاحات صرف شاعری کو سمجھنے اور لہجوں کی ساخت کے وسیلے ہیں ، خود شاعری یا شاعر کا شناس نامہ نہیں ۔ ان کی شاعری شاہد ہے کہ بیانیہ میں رمزیہ اور خود کلامی میں خطابیہ آہنگ ضم ہو سکتا ہے۔ اسی طرح شاعری کی مقصدیت ایک طرف قدر آفرینی کا وسیلہ بن سکتی ہے تو دوسری طرف تخلیق کے عمل کی داخلی مسرت و بہجت۔ اقبال کے تصور فن کی بہترین مثال خود ان کی اچھی شاعری سے ملتی ہے اور ان کی شاعری کے بہترین نمونے ان کے تصور فن کو تخلیقی سطح پر سمجھنے کے لیے بنیاد فراہم کرتے ہیں ۔ اقبال کے کلام سے شاعری کی ایک نئی تعریف نکلتی ہے، شعر حیات افروزی و قدر آفرینی ہے۔ ‘‘۲۲
آئیے دیکھتے ہیں کہ علامہ محمد اقبال کی نثری تحریروں میں ان کا تصور فن کیسے نمود کرتا ہے۔ شذرات، خطوط اور ملفوظات میں علامہ محمد اقبال کے ہاں تصورِ فن کی صورت کچھ یوں ہے: خواجہ عبدالوحید لکھتے ہیں کہ ادب لطیف کی تعریف کے جواب میں علامہ محمد اقبال نے کہا :
’’اگرچہ آرٹ کے متعلق دو نظریے ہیں ۔ اوّل یہ کہ آرٹ کی غرض محض حسن کا احساس پیدا کرنا ہے اور دوم یہ کہ آرٹ سے انسانی زندگی کو فائدہ پہنچنا چاہیے۔ ان کا ذاتی خیال یہ ہے کہ آرٹ زندگی کے ماتحت ہے۔ ہر چیز کو انسانی زندگی کے لیے وقف ہونا چاہیے اور اس لیے ہر وہ آرٹ جو زندگی کے لیے مفید ہو اچھا اور جائز ہے اور جو زندگی کے خلاف ہو، جو انسانوں کی ہمتوں کو پست اور ان کے جذبات عالیہ کو مردہ کرنے والا ہو قابل نفرت و پرہیز ہے اور اس کی ترویج حکومت کی طرف سے ممنوع قرار دی جانی چاہیے۔ ‘‘۲۳
اپنے ایک مضمون میں علامہ محمد اقبال نے فن کے بارے میں کچھ یوں اظہار خیال فرمایا ہے:
’’میرا عقیدہ ہے کہ آرٹ یعنی ادبیات یا شاعری یا مصوری یا موسیقی یا معماری ان میں سے ہر ایک زندگی کی معاون اور خدمت گار ہے، اسی بنا پر میں آرٹ کو ایجاد و اختراع سمجھتا ہوں نہ کہ محض آلۂ تفریح، شاعر قوم کی زندگی کی بنیاد کو آباد بھی کر سکتا ہے اور برباد بھی۔ ‘‘۲۴
علامہ محمد اقبال نے ’’شذرات‘‘ میں فن کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کیا ہے:
’’فن ایک مقدس جھوٹ ہے۔ ‘‘ ۲۵
’’شذرات‘‘ ہی میں ایک اور مقام پروہ کہتے ہیں :
’’سائنس، فلسفہ، مذہب، ان سب کی حدیں متعین ہیں ، صرف فن ہی لامحدود ہے۔ ‘‘۲۶
علامہ محمد اقبال کے ہاں کوئی بھی تصور ان کی کلّیت میں تلاشا جا سکتا ہے، ایسا نہیں ہے کہ ان کے تصورات کو جزئیات میں بانٹا جا سکے۔ یہی سبب ہے کہ کوئی بھی تصور ان کے ہاں تمام اظہاریوں میں برابر ملتا ہے۔ ان کا تصور فن خطوط میں بھی یہاں وہاں ملتا ہے۔ کے نام اپنے ایک خط لکھتے ہیں :
’’میرے نزدیک حقیقی آرٹسٹ وہی ہے جو اپنی قوم کا نبض شناس ہو اور آرٹ کو قومی امراض کے دفیعہ کا ذریعہ بنائے۔ ‘‘۲۷
ایک اور خط میں علامہ محمد اقبال فن کے حوالے سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں :
’’آرٹ اقوامِ عالم کی زندگی کا عکس ہے، کسی قوم کے آرٹ کو دیکھ کر اس قوم کی نفسیاتی کیفیتوں کا صحیح نقشہ کھینچا جا سکتا ہے، لیکن آرٹ زندگی کا مظہر ہی نہیں زندگی کا آلۂ کار بھی ہے اور سچا آرٹسٹ وہ ہے جو اپنے کمال کو بنی نوع انسان کی بہتری کے لیے وقف کر دے۔ ‘‘۲۸
اردو اور فارسی شاعری چوں کہ علامہ محمد اقبال کے فن کی معراج بھی ہے اس لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ ان زبانوں میں ان کی شاعری میں ہمیں ان کے ہاں تصورِ فن کیسے ملتا ہے، پہلے اردو شاعری میں ملاحظہ کیجیے:
یا مردہ ہے یا نزع کی حالت میں گرفتار
جو فلسفہ لکھا نہ گیا خونِ جگر سے۲۹
سینہ روشن ہو تو ہے سوز سخن عینِ حیات
ہو نہ روشن تو سخن مرگِ دوام اے ساقی۳۰
مری مشاطگی کی کیا ضرورت حسن معنی کو
کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی۳۱
محفل نظمِ حکومت چہرۂ زیبائے قوم
شاعر رنگیں نوا ہے دیدۂ بینائے قوم
مبتلائے درد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ۳۲
مقام گفتگو کیا ہے اگر میں کیمیا گر ہوں
یہی سوزِ نفس ہے اور میری کیمیا کیا ہے۳۳
گر ہنر میں نہیں تعمیر خودی کا جوہر
وائے صورت گری و شاعری و نائے و سرود!۳۴
اے حرمِ قرطبہ! عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام، جس میں نہیں رفت و بود
رنگ ہو یا خشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صوت
معجزۂ فن کی ہے خون جگر سے نمود
قطرۂ خون جگر سل کو بناتا ہے دل
خون جگر سے صدا سوز و سرور و سرود۳۵
نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر۳۶
خونِ دل و جگر سے میری نوا کی پرورش
ہے رگِ ساز میں رواں صاحب ساز کا لہو۳۷
سرود و شعر و سیاست، کتاب و دین و ہنر
گہر ہیں ان کی گرہ میں تمام یک دانہ
ضمیر بندہ خاکی سے ہے نمود ان کی
بلند تر ہے ستاروں سے ان کا کاشانہ
اگر خودی کی حفاظت کریں تو عین حیات
نہ کر سکیں تو سراپا فسون و افسانہ
ہوئی ہے زیر فلک امتوں کی رسوائی
خودی سے جب ادب و دیں ہوئے ہیں بیگانہ۳۸
نہ جدا ہے نوا گر تب و تابِ زندگی سے
کہ ہلاکئی امم سے یہ طریقِ نے نوازی۳۹
خودی میں ڈوبنے والوں کے عزم و ہمت نے
اس آب جو سے کیے بحر بے کراں پیدا۴۰
جس روز دل کی رمز مغنی سمجھ گیا
سمجھو تمام مرحلہ ہائے ہنر ہیں طے۴۱
ہے یہ فردوس نظر اہل حضر کی تعمیر
فاش ہے چشم تماشا یہ نہاں خانۂ ذات
نہ خودی ہے نہ جہانِ سحر و شام کے دور
زندگانی کی حریفانہ کشاکش سے نجات
تو ہے میت، یہ ہنر تیرے جنازے کا امام
نظر آئی جسے مرقد کے شبستاں میں حیات۴۲
اے اہل نظر! ذوقِ نظر خوب ہے، لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ ہنر کیا
مقصود ہنر سوزِ حیات ابدی ہے
یہ ایک نفس یا دو نفس مثل شرر کیا
جس سے دل دریا متلاطم نہیں ہوتا
اے قطرۂ نیساں ! وہ صدف کیا، وہ گہر کیا
شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو
جس سے چمن افسردہ ہو وہ بادِ سحر کیا
بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں
جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا، وہ ہنر کیا؟۴۳
دیکھے تو زمانے کو اگر اپنی نظر سے
افلاک منور ہوں ترے نورِ سحر سے
خورشید کرے کسبِ ضیا تیرے شرر سے
ظاہر تری تقدیر ہو سیمائے قمر سے
دریا متلاطم ہوں تری موج گہر سے
شرمندہ ہو فطرت ترے اعجازِ ہنر سے
اغیار کے افکار و تخیل کی گدائی
کیا تجھ کو نہیں اپنی خودی تک بھی رسائی؟۴۴
مری نظر میں یہی ہے جمال و زیبائی
کہ سربسجدہ ہیں قوت کے سامنے افلاک
نہ ہو جلال تو حسنِ جمال بے تاثیر
ترا نفس ہے اگر نغمہ ہو نہ آتش ناک
مجھے سزا کے لیے بھی نہیں قبول وہ آگ
کہ جس کا شعلہ نہ ہو تند و سرکش و بے باک۴۵
ہے ابھی سینۂ افلاک میں پنہاں وہ نوا
جس کی گرمی سے پگھل جائے ستاروں کا وجود
جس کی تاثیر سے آدم ہو غم و خوف سے پاک
اور پیدا ہو ایازی سے مقام محمود۴۶
جس کی تاثیر سے آدم ہو غم و خوف سے پاک
اور پیدا ہو ایازی سے مقام محمود
مہ و انجم کا یہ حیرت کدہ باقی نہ رہے
تو رہے اور ترا زمزمہ لا موجود۴۷
اگر نوا میں ہے پوشیدہ موت کا پیغام
حرام میری نگاہوں میں نائے چنگ و رباب۴۸
ہے شعر عجم گرچہ طرب ناک و دل آویز
اس شعر سے ہوتی نہیں شمشیرِ خودی تیز
اقبالؔ ہے یہ خارا تراشی کا زمانہ
از ہر چہ بآئینہ نمایند بہ پرہیز۴۹
ہر چند کہ ایجاد معانی ہے خداداد
کوشش سے کہاں مردِ ہنر مند ہے آزاد
خونِ رگ معمار کی گرمی سے ہے تعمیر
مے خانۂ حافظ ہو کہ بت خانۂ بہزاد
بے محنت پیہم کوئی جوہر نہیں کھلتا
روشن شررِ تیشہ سے ہے خانۂ فرہاد۵۰
نوا کو کرتا ہے موج نفس سے زہر آلود
وہ نے نواز کہ جس کا ضمیر پاک نہیں
وہ نغمۂ سرد ہی خونِ غزل سرا کی دلیل
کہ جس کو سن کے ترا چہرہ تاب ناک نہیں ۵۱
وہ شعر کہ پیغام حیات ابدی ہے
یا نغمۂ جبریل ہے یا بانگِ سرافیل۵۲
علامہ محمد اقبال کے ہاں فارسی کلام میں ان کا تصورِ فن یہاں وہاں مختلف طرح سے سامنے آتا ہے، فارسی شاعری میں سے بعض اشعار یہاں نقل کیے جا رہے ہیں :
زندگی مضمون تسخیر است و بس
آرزو افسون تسخیر است و بس
زندگی صید افگن و دام آرزو
حسن را از عشق پیغام آرزو۵۳
سینہ شاعر تجلی زار حسن
خیزد از سینائے او انوار حسن
از نگاہش خوب گردد خوب تر
فطرت از افسون او محبوب تر۵۴
اے میان کیسہ ات نقد سخن
بر عیار زندگی اورا بزن۵۵
بو علی اندر غبار ناقہ گم
دست رومی پردۂ محمل گرفت
ایں فروتر رفت و تا گوہر رسید
آں بہ گردابے چو خس منزل گرفت
حق اگر سوزے ندارد حکمت است
شعر می گردد چو سوز از دل گرفت۵۶
تو قدر خویش ندانی بہا ز تو گیرد
وگرنہ لعل درخشندہ پارہ سنگ است۵۷
برہنہ حرف نہ گفتن کمال گویائی است
حدیث خلوتیاں جز بہ رمز و ایما نیست۵۸
نغمہ باید تند رو مانند سیل
تا برد از دل غماں را خیل خیل
نغمہ می باید جنوں پروردۂ
آتشے در خونِ دل حل کردۂ
از نم او شعلہ پروردن تواں
خاکشی را جزو او کردن تواں
بے شناسی؟ در سرود است آں مقام
کاند رو بے حرف می روید کلام
نغمۂ روشن چراغ فطرت است
معنیٔ او نقش بند صورت است
نغمہ گر معنی ندارد مردہ ایست
سوز او از آتش افسردہ ایست۵۹
آں ہنرمندے کہ بر فطرت فزود
راز خود ابر نگاہ ما کشود
فطرت پاکش عیار خوب و زشت
صنعتش آئینہ دارِ خوب و زشت
عین ابراہیم و عین آذر است
دست او ہم بت شکن ہم بت گر است۶۰
فطرت شاعر سراپا جستجوست
خالق و پروردگار آرزوست
شاعر اندر سینۂ ملت چو دل
ملتے بے شاعرے انبارِ گِل
سوز و مستی نقش بند عالمے است
شاعری بے سوز و مستی ماتمے است
شعر را مقصود اگر آدم گری است
شاعری ہم وارث پیغمبری است۶۱
٭٭٭
حوالہ جات
۱۔ اقبال کا نظریۂ فن از میاں محمد شریف: مشمولہ فلسفۂ اقبال: مرتبہ بزم اقبال، لاہور: بزم اقبال، بار دوم: ۱۹۶۱ء، ۴۵
۲۔ فکر اقبال: خلیفہ عبدالحکیم، لاہور: بزم اقبال، بار ہفتم: ۱۹۹۲ء، ص: ۴۱۸
۳۔ کلیات اقبال (اردو)، علامہ محمد اقبال، ڈاکٹر: لاہور: اقبال اکادمی:۱۹۹۸ء ص۶۱۸
۴۔ کلیات اقبال (اردو)، ص۶۲۹
۵۔ اقبال کا نظریۂ فن از ڈاکٹر فرمان فتح پوری، مشمولہ نگار، کراچی:نومبر ۱۹۸۲ء، ص:۴۲
۶۔ کلیات اقبال (اردو)، ص۶۳۵
۷۔ کلیات اقبال (اردو)، ص۲۴۵
۸۔ کلیات اقبال (فارسی)، علامہ محمد اقبال، ڈاکٹر:لاہور: اقبال اکادمی:۱۹۹۸ء :ص۵۵
۹۔ کلیات اقبال (فارسی)، ص۵۱۷
۱۰۔ کلیات اقبال (اردو)، ص۶۲۵
۱۱۔ کلیات اقبال (اردو)، ص ۶۴۵
۱۲۔ کلیات اقبال(فارسی)، ص ۵۱۔ ۵۲
۱۳۔ اقبال کا نظریۂ فن از میاں محمد شریف، مشمولہ فلسفہ اقبال: ص ۶۹
۱۴۔ کلیات اقبال (فارسی): ص۔ ۵۸۰
۱۵۔ اقبال کا فنی ارتقا: جابر علی سید: لاہور: بزم اقبال: ۱۹۹۵ء : ص۱۴۲
۱۶۔ روحِ اقبال : یوسف حسین خان، ڈاکٹر: لاہور، القمر انٹر پرائزز: ۱۹۹۶ء: ص۱۸
۱۷۔ اقبال شاعر اور فلسفی : سید وقار عظیم:لاہور: اقبال اکادمی: ۱۹۹۷ء: ص۱۱۴
۱۸۔ تنویرِ اقبال: عبدالمغنی، ڈاکٹر: لاہور:مکتبۂ تعمیر انسانیت: ۱۹۹۰ء: ص ۵۳۔ ۵۴
۱۹۔ اقبال کا فن از احمد ندیم قاسمی: مشمولہ اقبالیات کے سو سال: مرتبین: ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، محمد سہیل عمر: اسلام آباد: اکادمی ادبیات پاکستان: ۲۰۱۰ء : ص ۲۰۸۔ ۲۰۹
۲۰۔ فروغِ اقبال: افتخار احمد صدیقی، ڈاکٹر: لاہور: اقبال اکادمی: ۱۹۹۶ء :ص۱۷۱۔ ۱۷۲
۲۱۔ اقبال کا فن: گوپی چند نارنگ، ڈاکٹر: دہلی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس: ۱۹۸۲ء: ص۱۱۹۔ ۱۲۰
۲۲۔ اقبال کا فن: گوپی چندر نارنگ، ڈاکٹر: ص ۲۳۸
۲۳۔ اقبال کا فن: گوپی چندر نارنگ، ڈاکٹر : ص ۲۱۹
۲۴۔ مقالاتِ اقبال: مرتبہ، سیدعبدالواحد معینی:محمد عبد اللہ قریشی : لاہور: آئینہ ادب: ۱۹۸۸ء : ص ۲۱۸
۲۵۔ شذرات فکرِ اقبال: علامہ محمد اقبال: مرتب، ڈاکٹر جسٹس (ر) جاوید اقبال (اردو ترجمہ، ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی): لاہور، مجلس ترقی اردو: ۱۹۸۳ء: ص ۶۵
۲۶۔ شذرات فکرِ اقبال: ص۱۷۰
۲۷۔ انوارِ اقبال: مرتبہ بشیر احمد ڈار:کراچی، اقبال اکادمی: ۱۹۶۷ء: ص۳۶ ۲۸۔ انوارِ اقبال: مرتبہ بشیر احمد ڈار:ص ۳۵
۲۹۔ کلیاتِ اقبال (اردو):ص۔ ۵۰۴
۳۰۔ کلیاتِ اقبال (اردو):ص۔ ۳۰۴
۳۱۔ کلیاتِ اقبال (اردو):ص۔ ۳۰۶
۳۲۔ کلیاتِ اقبال (اردو):ص۔ ۶۱
۳۳۔ کلیاتِ اقبال (اردو):ص۔ ۳۴۷
۳۴۔ کلیاتِ اقبال (اردو):ص۔ ۳۷۶
۳۵۔ کلیاتِ اقبال (اردو):ص۔ ۳۸۷
۳۶۔ کلیاتِ اقبال (اردو):ص۔ ۳۹۳
۳۷۔ کلیاتِ اقبال (اردو):ص۔ ۴۷۲
۳۸۔ کلیاتِ اقبال (اردو):ص۔ ۵۶۲
۳۹۔ کلیاتِ اقبال (اردو):ص۔ ۵۳۶
۴۰۔ کلیاتِ اقبال (اردو):ص۔ ۵۶۳
۴۱۔ کلیاتِ اقبال (اردو):ص۔ ۵۷۷
۴۲۔ کلیاتِ اقبال (اردو):ص۔ ۵۷۹
۴۳۔ کلیاتِ اقبال (اردو):ص۔ ۵۸۰۔ ۵۸۱
۴۴۔ کلیاتِ اقبال (اردو):ص۔ ۵۸۴
۴۵۔ کلیاتِ اقبال (اردو):ص۔ ۵۸۵۔ ۵۸۶
۴۶۔ کلیاتِ اقبال (اردو):ص۔ ۵۸۷
۴۷۔ کلیاتِ اقبال (اردو):ص۔ ۵۸۷
۴۸۔ کلیاتِ اقبال (اردو):ص۔ ۵۸۸
۴۹۔ کلیاتِ اقبال (اردو):ص۔ ۵۹۰
۵۰۔ کلیاتِ اقبال (اردو):ص۔ ۵۹۳
۵۱۔ کلیاتِ اقبال (اردو):ص۔ ۵۹۳
۵۲۔ کلیاتِ اقبال (اردو):ص۔ ۵۹۵
۵۳۔ کلیاتِ اقبال (فارسی):ص۔ ۳۴
۵۴۔ کلیاتِ اقبال (فارسی):ص۔ ۳۵
۵۵۔ کلیاتِ اقبال (فارسی):ص۔ ۳۸
۵۶۔ کلیاتِ اقبال (فارسی):ص۔ ۲۷۶
۵۷۔ کلیاتِ اقبال (فارسی):ص۔ ۳۲۱
۵۸۔ کلیاتِ اقبال (فارسی):ص۔ ۳۳۰
۵۹۔ کلیاتِ اقبال (فارسی):ص۔ ۵۷۶
۶۰۔ کلیاتِ اقبال (فارسی):ص۔ ۵۸۰
۶۱۔ کلیاتِ اقبال (فارسی):ص۔ ۶۳۲
٭٭٭
ماخوذ از مجلہ ’معیار‘ اسلام آباد، شمارہ ۹
تشکر: سید زبیر اشرف ، جن کے توسط سے فائل کا حصول ہوا
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبیداقب