FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

افسانہ و افسوں

               پروفیسر غلام شبیر رانا

 

 

 ایک صدی کے بعد

     ایک صدی کی عمارت بھی  عجیب مکان اور نہایت پر اسرار ماحول تھا۔ ہر طرف زاغ و زغن، بوم اور شپر منڈلاتے دکھائی دیتے تھے۔ ہر شخص اس مکان کو دیکھ کر حیرت و استعجاب میں ڈوب جاتا اور اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگتیں۔ یہ سال دو ہزار چار  عیسوی کے آخری مہینے کی ایک خنک شام تھی۔ میں اس طرف سے گزرا تو میں یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ گر دو نوا ح کے لوگ اس قدیم فن تعمیر کے شاہکار مکان کو دیکھ کر آہیں بھرتے اور نیرنگیِ تقدیر جہاں سے عبرت حاصل کرتے۔ مکان کیا تھا ایک وسیع و عریض محل تھا جو دو کنال کے قریب رقبے پر پھیلا ہو تھا اور جس کے چاروں جانب بلند فصیل اور اس کے اندر چاروں جانب کمرے تھے۔ مکان کے صدر دروازے پر سنگ مر مر کی کئی  بڑی تختیاں نصب تھیں جن  پر جلی حروف میں اس عمارت کے آخری مکینوں کے نام اور عمارت کی تاریخ انہدام بھی  درج تھی۔ حیران کن بات یہ تھی کہ ایک صدی کے بعد اس عمارت کی نئی تعمیر ہوتی چلی آئی تھی۔ اس عمارت کی تعمیر نو کرانے والوں اور اس کے اولین مکینوں کے بارے میں کسی کو کچھ علم نہ تھا۔ یہ ایک معما تھا کہ اس عمارت کے مکین اس میں دس برس سے زائد قیام نہ کر سکے اور ان سب کو ناگہانی حالات کے باعث یہ مکان خالی کرنا پڑا۔ اس مکان کے آخری مکین کے حصے میں جو ذلت، رسوائی اور جگ ہنسائی آتی وہ ا ن ننگ انسانیت درندوں کو عبرت کی مثال بنا دیتی اور ان کے نام اس عمارت کی تعمیر نو کے وقت اس پر کندہ کر دئیے جاتے۔ ’’ نابو اور شانتی:  سال انہدام 1706‘‘  ’’ نعمت خان کلاونت اور لال کنور :سال انہدام  1806‘‘اس کے بعد آخری تختی تھی جس پر یہ تحریر درج تھی ’’صاحباں اور مرزا :سال انہدام 1906‘‘مجھے یہ جان کر تشویش ہوئی کہ یہ عمارت محض دو سال کے بعد صفحہ ء ہستی سے نا پید ہو جائے گی۔ ابھی میں ان سوچوں میں گم تھا کہ میں نے دیکھا کہ ایک ضعیف آدمی جس کی عمر سو سال سے زائد ہو گی اس عمارت کے قریب آیا اور زار و قطار رونے لگا۔ میں اس کے قریب جا پہنچا اور اس سے مخاطب ہو کر کہا :

     ’’بابا جی !یہ ایک صدی کی عمارت کا کیا قصہ ہے ؟

     ضعیف آدمی نے مجھے حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا ’’یہ عمارت ایک صدی کے بعد اپنا قالب بدل لیتی ہے۔ سب کچھ تہس نہس ہو جاتا ہے۔ ہر چیز ملیا میٹ ہو جاتی ہے۔ اس عمارت کا حقیقی وار ث بھی اس حادثے کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ اس کے بعد چند روز  تک لوگ اس کے قریب بھی نہیں جاتے جب تمام واقعات پر ابلق ایام کے سموں کی گرد پڑ جاتی ہے تو پھر سے اس کی تعمیر نو ہوتی ہے اور ٹھیک ایک سو سال کے بعد یہ پھر مکمل طور منہدم ہو جاتی ہے۔ یہی عمل گزشتہ کئی صدیوں سے دہرایا جا رہا ہے۔ ‘‘

   ’’ یقین نہیں آتا۔ ۔ ۔ بالکل عجیب اور پر اسرار سی کیفیت ہے ‘‘میں نے کہا ’’آخر اس تمام بربادی کا کوئی تو پس منظر بھی ہو گا ؟آفات نا گہانی، زلزلے، آتش زدگی یا کوئی اور حادثہ ؟‘‘

   ’’ ان دنوں اس عمارت میں کیا ہو رہا ہے یہ کسی سے مخفی نہیں ‘‘بوڑھے نے کر ب ناک لہجے میں کہا ’’شباہت شمر اور ناصف بقال نے ورکنگ ویمن ہاسٹل بنا رکھا ہے مگراس کی آڑ میں یہاں قحبہ خانہ، چنڈو خانہ اور عقوبت خانہ بنا رکھا ہے۔ یہ شامت اعمال ہے جو کسی آفت ناگہانی کی صور ت میں سب کچھ تباہ و برباد کر دے گی۔ یہاں سر عام عزتوں کو نیلام کیا جاتا ہے۔ جسم فروش اور ضمیر فروش رذیل طوائفیں یہاں کھل کھیلتی  ہیں۔ ناصف بقال اور شباہت شمر کے قبیح کردار، جنسی جنوں اور بے غیرتی اور بے حیائی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اب ان کا جانا ٹھہر گیا ہے یہ صبح گئے کہ شام گئے ‘‘

    ’’  یہ سرا سر توہم پرستی ہے ‘‘میں بولا ’’دنیا بھر میں متعدد عمارات ہزاروں سال سے موجود ہیں ان علاقوں میں بھی سارے کے سارے پارسا، زاہد اور متقی نہیں رہتے۔ دنیا میں ہر جگہ رند، بگلا بھگت، کالی بھیڑیں ، سفید کوے اور گندی مچھلیاں پائی جاتی ہیں لیکن افراد کی بد اعمالیوں کا عمارات کے انہدام سے کوئی تعلق بنتا نظر نہیں آتا۔ اہرام مصر، تاج محل، دیوار چین  اور ایفل ٹاور وغیرہ۔ اب انسانوں کی  بد اعمالیوں کا عمارت  سے کیا تعلق ؟اگر ایسا ہوتا تو شالا مار باغ، مقبرہ جہانگیر اور قلعہ کہنہ اب نا پید ہو چکے ہوتے۔ ‘‘

   ’’  ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ؟ دو سال بعد یہاں جو کچھ ہونے والا ہے وہ تم خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لینا۔ اس عمارت کے قریب کی زمیں دل کے مانند دھڑک رہی ہے۔ جو یہ تنبیہ کر رہی ہے کہ کوئی حادثہ ہونے والا ہے۔ آفات نا گہانی کا ایک یہ اشارہ ہو ا کرتا ہے کہ کسی جگہ سے طائران خوش نوا، قمریاں ، فاختائیں اور عنادل کوچ کر جائیں اور وہاں چراغ غول کے سوا کچھ نہ رہے ‘‘ بوڑھے نے طنزیہ لہجے میں کہا ’’میں پانچ سال کا تھا جب یہ عمارت برباد ہوئی۔ یہ 1906کی بات ہے، جب ایک ہولناک زلزلے کے باعث یہ پوری عمارت ملبے کا ڈھیر بن گئی اور اس کے نیچے تمام عیاش زندہ دفن ہو گئے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس عمارت میں ان دنوں مرزا نامی ایک عیاش رہتا تھا اس کی داشتہ کا نام صاحباں تھا۔ یہ دونوں عیاشی، بد معاشی، لوٹ مار اور بے ضمیری کی آخری حدوں کو بھی عبور کر گئے۔ یہ مکان پورے شہر کا مورا بن گیا۔ ساری غلاظت یہیں آ کر گرتی تھی۔ ہر لمحہ یہاں رقص و سرود کی محفلیں برپا ہوتیں اور سارے مست مے گلفام سے سیراب ہو کر بند قبا سے بے نیاز اول فول بکتے باہر نکل آتے اور  شاہراہوں پر رقص ابلیس کا منظر پیش کرتے تھے۔ لوگ انھیں دیکھ کر لاحول پڑھتے اور ان کی بربادی کی دعا مانگتے۔ دولت اور طاقت کے نشے نے ان فراعنہ کو اپنی اوقات سے غافل کر دیا تھا‘‘

آج سے ایک سو سال پہلے کی یہ روداد سن کر میں لرز اٹھا۔ اس عبرت سرائے دہر کا ایک چشم دید گواہ اپنے روبہ رو دیکھ کر مجھے اطمینان ہوا کہ اب تمام معاملات کی تہہ تک پہنچناآسان ہو جائے گا۔ میں نے پر تجسس انداز میں بوڑھے سے استفسار کیا:

  ’’  اس پر اسرار عمارت کو ایک صدی کی عمارت کیوں کہا جاتا ہے ؟کیا یہ نوشتۂ تقدیر ہے کہ اس عمارت کو سو سال مکمل ہونے کے بعد صفحہ ء ہستی سے نیست و نابود کر دیا جائے ؟‘‘میں نے کہا ’’آخر یہ کیا معما ہے ؟یہ باتیں عام آدمی کی سمجھ سے بالا تر ہیں۔ ‘‘

       بوڑھے نے کھانستے ہوئے  میری طرف اس طرح دیکھا جیسے میں نے اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہو۔ شاید نسل در نسل یہ روایات سننے کے بعد اس کا ان پر پختہ یقین ہو چکا تھا۔ وہ پورے اعتماد سے بولا:

        ’’میں نے اپنے پرکھوں سے سنا ہے کہ اس عمارت میں کسی ابلیس نژاد انسان کی آنول نال گڑی ہے۔ اس بد طینت درندے نے راجہ اندر اور راسپوٹین کو بھی مات کر دیا تھا۔ یہ سکندر کے زمانے کی بات ہے۔ اس کے بارے میں یہ بات نسل در نسل سنتے چلے آئے ہیں کہ یہ چار ہزار سال قبل مسیح کا واقعہ ہے۔ اس کی بد روح اس عمارت میں بھٹک رہی ہے۔ کہتے ہیں ایک سو سال کے بعد یہ بد روح خواب عدم سے جاگتی ہے اور جب اسے یہاں بد قماش عناصر کی در اندازی دکھائی دیتی ہے تو وہ ان شیطانی قوتوں کا قلع قمع کر دیتی ہے۔ یہ جگہ آسیب زدہ ہے مگر کسی کو اس خطرے کا احساس ہی نہیں کہ کوئی مافوق الفطرت طاقت  کوئی بد رو ح، کوئی چڑیل اور آدم خور اسے دیکھ کر کسی وقت بھی اشتعال میں آ کر اس کا کام تمام کر کے اسے عبرت کی مثال بنا سکتی ہے۔ یہاں تک کہ اس کی داستاں تک بھی داستانوں میں نہ ہو گی۔ ‘‘

’’لیکن تاریخ کے مسلسل عمل کے بارے میں آپ نے کچھ نہیں بتایا ‘‘میں نے ہمہ تن گوش ہو کر کہا’ ’کیا مختلف ادوار میں اس جگہ کے نشیب و فراز کے متعلق کوئی حکایت آپ کے علم میں ہے ؟‘‘

   ’’تمھاری بات درست ہے ‘‘بوڑھا قدرے رنجیدہ ہو کر بولا ’’تاریخ کا ایک مسلسل عمل ضرور ہوتا ہے۔ تاریخ کا ایک سبق بھی ہے وہ یہ ہے کہ تاریخ سے آج تک کسی نے کبھی کوئی سبق سیکھا ہی نہیں۔ سکندر کی قبر اور دارا  جیسے بادشاہ کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔ اجلاف و ارزال، سفہا اور نمرود اور فرعون اس حقیقت کو فراموش کر چکے ہیں کہ فطرت کی تعزیریں نہایت سخت ہوتی ہیں۔ ایک صدی کی عمارت دراصل فطرت کی تعزیروں کی ایک مثال ہے۔ ا س جگہ پر سکندر کے ایک جر نیل سلوکس کا گزر ہوا اور اس نے یہاں مقیم ایک ظالم درندے کی عیاشیوں اور چیرہ دستیوں کو دیکھ کر اس عمارت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ بل خان جو بابر کی فوج کا سالار تھا جس  نے قصبہ بل کسر آباد کیا اس نے 1526میں یہاں جنگل کے قانون کو دیکھا تو یہاں کے مکین لچے، تلنگے اور شہدے لوگوں کا دھڑن تختہ کر دیا۔ یہ جگہ تو صدیوں سے عبرت سرائے دہر چلی آرہی ہے۔ لوگ اسے بھوت بنگلہ، چڑیلوں کا بسیرا، آدم خوروں کا مسکن، درندوں کی کچھار اور اس قسم کے کئی دل دہلا دینے والے ناموں اور ان سے وابستہ داستانوں کی وجہ سے اس جگہ سے خوف زدہ رہے ہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ ہر دور میں اس جگہ پر عزت و آبرو  اور اخلاقیات کا سفینہ غرقاب ہوتا چلا آیا ہے۔ کوئی نہ کوئی ناصف بقال اور شباہت شمر اس آسیب زدہ مکان میں ہر دور میں قیام پذیر رہا ہے۔ ان کی بد اعمالیوں ، جنسی جنون اور حرام خوری کے باعث درو دیوار پر  حسرت و یاس، بے حسی، بے غیرتی، ذلت، تخریب، بے برکتی اور بے ضمیری کے کتبے اس طرح آویزاں ہو جاتے جیسے یہی تقدیر کی منشا ہے اور یہی مکافات عمل ہے۔ ‘‘

    ’’لیکن اس تمام عمل میں عمارت کا کیا کردار ہو سکتا ہے ؟‘‘میں نے پوچھا’’سنگ و خشت کی بنی ہوئی اس عمارت میں اگر چربہ ساز، سارق، کفن دزد، مسخرے، رجلے خجلے، بھانڈ، بھڑوے اور ڈوم ڈھاری قماش کے عیار بسیرا کر لیں تو اس کا خمیازہ عمارت کو کیوں اٹھانا پڑتا ہے؟‘‘

    میری بات سن کر بوڑھا انگشت بہ دنداں رہ گیا۔ اس نے پرنم آنکھوں سے مجھے دیکھا اور گلو گیر لہجے میں بولا:

                 ’’کہتے ہیں گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے۔ عمارت اپنے مکینوں سے پہچانی جاتی ہے۔ عبادت گاہیں اس لیے محترم ہیں کہ یہاں خالق اور مخلوق میں کوئی پردہ حائل نہیں رہتا۔ قحبہ خانے اس لیے بدنام ہیں کہ اس جگہ عیوب برہنگی کو ڈھانپنے کی کوئی تدبیر نہیں ہوتی اور عقل و خرد کو بارہ پتھر کر کے گھٹیا عیاش یہاں رنگ رلیاں مناتے ہیں۔ فطرت کی تعزیروں کی زد میں آ کر ان رسوائے زمانہ عقوبت خانوں ، قحبہ خانوں اور چنڈو خانوں کو حرف غلط کی طرح مٹا دیا جاتا ہے اور پھر سب کچھ درہم بر ہم ہو جاتا ہے۔ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری ‘‘

     مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے اس قلزم ہستی میں بے بس و لاچار انسانیت حالات کے رحم و کرم پر ہے اور سفاک ظلمتوں میں ٹامک ٹوئیے مار رہی ہے۔ اپنے انجام سے بے خبر ہر فرعون، ہلاکو خان، شداد یہ سمجھتا ہے کہ اس کا احتساب کوئی نہیں کر سکتا۔ وہ مختار کل اور عقل کل ہے۔  ناصف بقال قماش کے مخبوط الحواس، فاتر العقل، جنسی جنونی، متفنی فلسفی اور شیخ چلی قماش کے مسخرے جب رواقیت کے داعی بن بیٹھتے ہیں تو ان کی ہفوات سن کر اہل درد دنگ رہ جاتے ہیں کہ ایسے مسخرے کس طرح کفن پھاڑ کر ہرزہ سرائی میں مصروف ہیں۔ انسانیت کی توہین، تذلیل، تضحیک اور بے توقیری کے لرزہ خیز اور اعصاب شکن واقعات جب روزمرہ کے معمولات بن جائیں تو ایسے چمتکار وقوع پذیر ہوتے ہیں کہ تقدیر اور فطرت کی تعزیروں پر اعتماد پختہ تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے بوڑھے شخص نے جو کچھ کہا وہ چشم کشا صداقتوں سے لبریز تھا۔

میں نے کہا؛’’ کیا اس صدی میں بھی یہ عمارت اپنے منطقی انجام کو پہنچے گی ؟‘‘

          بوڑھا آدمی دبنگ لہجے میں گویا ہوا ’’ہر دور میں موسیؑ نے فرعون کا خاتمہ کیا ہے۔ ہر عہد میں ابراہیم ؑ نے نمرود کو کیفر کردار تک پہنچایا ہے اور جبر کے ہر زمانے میں حقیقت ابدی نے مقام شبیری کی صورت میں اپنے وجود کا اثبات کیا ہے۔ حق ہمیشہ قوت شبیری کے اعجاز سے زندہ رہتا ہے۔ فسطائی جبر کا ہر انداز سیل زماں کے تھپیڑوں میں خس و خاشاک کی طرح بہہ جاتا ہے۔ روشنیوں کی راہ میں جو دیوار بن کر حائل ہو گا وہ حرف غلط کی طرح مٹ جائے گا۔ یہ عمارت اور اس کے مکین اب ظلم و جور، عیاشی اور بد معاشی کے باعث ننگ انسانیت بن گئے ہیں۔ ان کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گئے کہ شام گئے۔ ‘‘

    بوڑھے آدمی کی باتیں سن کر میں بھی کرب اور خوف میں مبتلا ہو گیا۔ ابھی ہم اس پر اسرار عمارت کے سامنے کھڑے راز دارانہ انداز میں گفتگو میں مصروف تھے کہ اچانک قیمتی گاڑیوں کا ایک کارواں وہاں آ کر رکا۔ کار میں سے جو حسین و جمیل لڑکیاں نکل کر اندر داخل ہوئیں ان کے چہرے پر عیارانہ مسکراہٹ تھی مگر تن پر لباس ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے والی کیفیت تھی۔ اس کے سا تھ ہی ملازمین نے شراب کی بھری ہوئی پیٹیاں اتارنا شروع کر دیں۔ مجھے تو پورا ماحول ہی شراب و شاب کا دلدادہ دکھائی دے رہا تھا۔ پراسرار بوڑھا اور اس کی گفتگو اس سے بھی کہیں بڑھ کر ناصف بقال اور شباہت شمر کی رنگ رلیوں اور جنسی جنون کی داستانیں زبان زد عام تھیں۔ ایک صدی قبل کے واقعات کا راوی بوڑھا اس قدر پر اسرار انداز میں گفتگو کر رہا تھا کہ لگتا تھا کہ یہ سب کچھ اس کی منشا کے خلاف  ہو رہا تھا اور وہ  ناصف بقال اور شباہت شمر کی نکبت، ذہنی افلاس، ژولیدہ خیالی اور کج روی  اور جنسی جنون کو دیکھ کر دوہرے عذاب میں مبتلا ہے وہ اسے دیکھ کر سوچتا ہے اور اس پر کڑھتا بھی ہے۔ کیا عجب یہ بوڑھا اس تمام قضیے کا نہ صرف چشم دید گواہ ہو بلکہ اس پر اسرار عمارت کا نسل در نسل وارث بھی ہو۔

   اچانک میں نے دیکھا کہ ایک سٹھیایا ہو ا شخص کار سے نکلا اس کے ساتھ ایک نیم عریاں ڈھڈو کٹنی بھی تھی۔ بوڑھے نے مجھے بتایا کہ یہی سٹھیایا ہو ا جنسی جنونی ناصف بقال ہے اور اس کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر چلنے والی عورت شہر کی رسوائے زمانہ اور جسم فروش رذیل طوائف شباہت شمر ہے۔ ناصف بقال نے شباہت شمر کے گال تھپتھپاتے ہوئے اور ساتھ ہی ہنہناتے ہوئے کہا :

         ’’آج رات لاٹ صاحب کی آمد ہے۔ تمام انتظامات مکمل ہو چکے ہیں۔ لاٹ صاحب کو کسی قسم کی کمی کا احساس نہ ہو۔ تم اس تمام محفل رنگیں کی نگرانی کرو۔ محفل رقص میں لباس کے تکلف کی ضرورت نہیں۔ مے گلفام سے سیراب ہونے کے مواقع فراواں کر دیئے جائیں۔ یہی اس ورکنگ ویمن ہاسٹل کی دیرینہ روایت ہے۔ ‘‘

    شباہت شمر نے ایک کاتک کی کتیا کی طرح دم ہلا کر اس ابلیس کی تجویز کی تائید کی اور بولی ’’نا معلوم یہ بڈھا کھوسٹ کیوں ہر وقت اس عمارت کے ارد گرد منڈلاتا رہتا ہے۔ مجھے تو یہ کوئی سراغ رساں معلوم ہوتا  ہے آج میں اس سے سارے راز اگلوا کے دم لوں گی۔ یہ کسی جاسوسی ادارے کے لیے کام کرتا ہے۔ ‘‘

’’ ہاں میں نے سنا ہے اس کی زبان کالی ہے اور اس کی بد شگونی سے بہت نقصان ہوتا ہے۔ یہ بڑا منحوس ہے۔ اس سے دو دو ہاتھ ہو جائیں تو اچھا ہے۔ ‘‘ناصف بقال نے دم ہلاتے ہوئے کہا’’اس بوڑھے کو اپنی راہ سے ہٹانا اب ہماری مجبوری بن گیا ہے۔ یہ شخص ہمیں اخلاق کا سبق پڑھاتا ہے۔ آج اسے ہم خوب سبق سکھائیں گے۔ ‘‘

یہ کہہ کر دونوں عیاش اس ناتواں بوڑھے کی طرف لپکے۔ شباہت شمر نے بوڑھے کو کندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑتے ہوئے کہا ’’اوئے کالی زبان والے بڈھے کھوسٹ تو یہاں کیا کر رہا ہے ؟تجھے اکثر یہاں پر اسرار حالت میں دیکھا گیا ہے، تو ہماری جاسوسی کرتا ہے۔ یاد رکھو کوئی ہمارا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ ‘‘

        ناصف بقال نے بوڑھے کو گھونسا مار کر کہا :’’ تمھاری زبان کالی ہے اور تم بد شگونی کرتے پھرتے ہو کہ یہ عمارت اور اس کے مکین 2006میں صفحۂ ہستی سے مٹ جائیں گے۔ جاؤ جو کچھ کرنا ہے کر لو  تمھارے جیسے بھکاری گلیوں میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ کون ہے جو تمھاری باتوں پر دھیان دیتا ہے ؟تمہاری یاوہ گوئی اور لاف زنی تمھیں لے ڈوبے گی۔ تم عادی دروغ گو اور چرب زبان ہو۔ میں تم پر تین حرف بھیجتا ہوں۔ ہم اس عمارت کے قابض ہی نہیں اب تو مالک بھی ہم ہی ہیں۔ ایک سو سال کی لیز ختم ہونے والی ہے ہم نے تمام کاغذات اپنے نام کے بنوا لیے ہیں۔ اب یہ عمارت آئندہ صدیوں تک نسل در نسل ہماری ملکیت رہے گی۔ آئندہ کبھی اس طرف کا رخ نہ کرنا ورنہ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

  ’’ورنہ تم کیا کر لو گے ؟‘‘بوڑھے نے بات کاٹتے ہوئے کہا ’’زبان کالی ہونا کوئی بری بات نہیں مگر تم لو گوں کا تو منہ بھی کالا ہے۔ کسی بھی جگہ، شخص یا عمارت کو منحوس کہنے سے ذی شعور  لوگ اسے کبھی منحوس تسلیم نہیں کر سکتے۔ بلکہ اس مقام پر رہنے والے جب  بد اخلاقی، ظلم وستم اور شقاوت آمیز نا انصافیوں کو وتیرہ  بنا لیتے ہیں تو اس  بد قسمت جگہ پر نحوست کے بادل چھا جاتے ہیں۔ اس عمارت پر اب یہی کڑا وقت آ پڑا ہے۔ تمھارا سایہ، تمھارے لچھن  اور تمھاری بد اعمالیوں اور ضمیر فروشی نے تو ساری دنیا میں تمھیں تماشا بنا دیا ہے۔ ذرا منہ سنبھال کر بات کرو۔ رہی زمیں کی ملکیت کا دعویٰ تو میری بات کان کھول کر سن لو یہ کسی کی ملکیت نہیں اس کا مالک وہ خالق کائنات ہے جس نے دنیا بنائی۔ تم جعل ساز اور فریب کار ہو۔ چھاج تو بولے مگر چھلنی کیوں بولے جس میں ان گنت چھید ہیں ‘‘

  ’’تمھاری  یہ جسارت!بڈھے کھوسٹ !‘‘ شباہت شمر نے کھسیانی بلی کی طرح کھمبا نوچتے ہوئے کہا ’’ابھی میں تمھیں تمھاری اوقات یاد دلاتی ہوں تمھیں کیا معلوم کہ ہم کس قدر طاقت ور ہیں ؟ہمارا کاٹا تو پانی بھی نہیں مانگتا۔ تم جیسے بے ضرر حشرات کو مارنا ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ اب تمھیں ہمارے قہر و غضب سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ ‘‘

     ناصف بقال کو اس حرافہ نے چلو میں الو بنا رکھا تھا اور اسے انگلیوں پر نچاتی تھی۔ وہ بھی بوڑھے کو دیکھ کر مسلسل غراتا رہا اور دانت پیستے ہوئے کہنے لگا ’’ضعیفی ایک جرم ہے اور اس کی سزا مرگ مفاجات ہے۔ میں  لندن پلٹ فلسفی ہوں اور پوری دنیا دیکھ چکا ہوں۔ آج تمھیں دن میں تارے دکھا دیں گے۔ ‘‘

          یہ کہہ کر وہ دونوں آگے بڑھے اور بوڑھے پر ٹوٹ پڑے۔ میں نے بیچ بچاؤ کرا کے بوڑھے کو ان بد معاشوں کے  چنگل سے چھڑایا۔ اس وقت پانچ سال کا ایک کم سن بچہ رو رو کر مدد کے لیے پکار رہا تھا اور چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا ’’ہم اس جائداد کے قانونی وارث ہیں۔ یہ ایک سو سال کے پٹے پر ہے میرا باپ اس کا مالک ہے۔ یہ بوڑھا میرا باپ ہے۔ ‘‘ اس بچے کی باتوں پر کسی نے دھیان نہ دیا۔

پاس ہی تین جاروب کش عورتیں سڑک کے موڑ پر گندی نالی کی صفائی میں مصروف تھیں۔ غلیظ اور متعفن  پانی زد جاروب کھا کر تیزی سے بہہ رہا تھا۔ جب انھوں نے ایک ضعیف آدمی پر ایک عیاش حسینہ اور اوباش شخص کو تشدد کرتے دیکھا تو اسی وقت ان بد معاشوں پر جھپٹیں اور دونوں بد معاشوں کو غلیظ جاروب سے پیٹنا شروع کر دیا۔ یہ تماشا دیکھنے کے لیے لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہو گیا۔ مہترانی نے شباہت شمر کو پوری قوت سے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے اور ٹھڈے مارتے ہوئے کہا:

             ’’اری او کاتک کی کتیا!تو ہند، سندھ کا مورا ہے۔ ساری دنیا کی غلاظت تیرے اندر گرتی ہے اور یہ تیرا بڈھا سٹھیایا ہوا عاشق ناصف بقال  اس کے بارے پوری دنیا جانتی ہے کہ اس کا نہ تو باپ نہ ہی دادا یہ درندا تو ہے سو پشت کا حرام زادہ۔ اس نے اپنی ماں کو موت کے گھاٹ اتارا، بہنوں کی عزت لوٹی اور اب تجھے ہیرا منڈی سے اٹھا لایا ہے۔ تم نے ایک معمر نا تواں اور ضعیف شخص پر محض اس لیے تشدد کیا ہے کہ وہ تمھاری حرام خوری پر کڑھتا اور دنیا کو تمھارا کریہہ چہرہ دکھاتا ہے۔ تم پر خدا کی مار پڑے گی اور تم عبرت کی مثال بنو گے۔ ‘‘

          اس غیر متوقع وار سے ناصف بقال اور شباہت شمر بو کھلا گئے۔ میں نے بہت پھرتی سے ان غنڈوں کو  دھکیلا مگر اس اثنا میں ان ظالموں نے ا س ضعیف آدمی کو چابک مار مار کر ادھ موا کر ڈالا۔ میں اسے لے کر نزدیکی شفا خانے پہنچا۔ معالج نے کہا:

    ’’اگرچہ ضربات خفیف ہیں مگر بوڑھے کو جو دلی صدمہ پہنچا ہے اس کی وجہ سے یہ بے ہوش ہو گیا ہے۔ کچھ دیر کے بعد ہوش میں آ جائے گا۔ ‘‘

    میں اس عرصے میں اللہ کے حضور سر بہ سجدہ ہو کر گڑ گڑا کر دعا مانگتا رہا۔ خدا کا شکر ہے کہ ایک گھنٹے کے بعد وہ  بوڑھا ہوش میں آ گیا۔ بوڑھے نے فرط غم سے نڈھال ہو کر کہا :’’میرے باپ کے ساتھ بھی ایک صدی قبل یہی سلوک ہوا تھا۔ اس وقت میری عمر پانچ سال تھی۔ ‘‘

  میرا ماتھا ٹھنکا وہ بچہ بھی یہ کہہ رہا تھا۔ یہ ضرور پر اسرار عمارت ہے۔ جہاں ہر صدی کے بعد نئی تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ تمام سوچوں اور تجزیے کے بعد بھی کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ دل نے کہا کون سی الجھن کو سلجھاتے ہو؟عقل تو محض چراغ راہ ہے منزل ہر گز نہیں۔ تقدیر کے فیصلے اور مقدر کے آہنگ نرالے ہوتے ہیں۔ آج تک کوئی بھی ان کی تفہیم پر قادر نہ ہو ا ہے اور نہ ہی ہو سکتا ہے۔ ان سوچوں میں گم میں بوڑھے کو لے کر اس کے گھر کی جانب روانہ ہو گیا۔ بوڑھے کو اس کی کٹیا میں پہنچا کر میں رات گئے گھر لوٹا۔ اس سے اگلے روز مجھے ایک ضروری کام کے سلسلے میں شہر سے باہر جانا پڑا۔ افکار معیشت کے اس قدر الجھ گئے کہ پھر کچھ ہوش نہ رہا۔ کئی ماہ گزر گئے میں اس تمام مسئلے کو بھول گیا۔

        ایک بات نے مجھے چونکا دیا بوڑھے کی کٹیا میں وہ کم سن بچہ اور ایک ضعیفہ موجود تھی۔ جو سب کے سب ایام گزشتہ کے اوراق کی نوحہ خوانی میں مصروف تھے۔ کٹیا کے ایک کونے میں موجود ایک شکستہ الماری میں سفید سنگ مر مر کی ایک بڑی سل پڑی تھی۔ یہ تختی شاید حال ہی میں تیار کرائی گئی تھی جس پر یہ الفاظ کندہ تھے :

          ’’ناصف بقال اور شباہت شمر :سال انہدام 2006‘‘

      مجھے یقین ہو گیا کہ یہ بوڑھا پر اسرار غیبی قوتوں کا مالک ہے۔ مابعد الطبیعات سے تعلق رکھنے والے بعض واقعات انسانی فہم کی دسترس سے باہر ہیں۔ ابھی تو سال 2004کا اختتام بھی نہیں ہوا اور اس شخص نے اس قدر پیش بینی کر لی ہے کہ اس نے عمارت کے انہدام اور اس کے بعد اس کی تعمیر نو کے بعد اس پر تختی کی تنصیب کا انتظام کر لیا ہے۔ وہ بوڑھا تقدیر کے اسرار و رموز کا عجیب رمز آشنا شخص تھا۔ اس کی عقابی نگاہیں ستاروں کی گردش کا اندازہ  لگا سکتی تھیں۔ اس کی تمام باتیں اور ادا کیے گئے سارے  الفاظ گنجینہ ء معانی کا طلسم تھے۔ اس سے مل کر زندگی کی حقیقی معنویت کا احساس دو چند ہو گیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اپنی اصلیت کے لحاظ سے زندگی بھی ایک غیر ملکی زبان کے مانند ہے  جس کا صحیح تلفظ ہر مبتدی کے بس کی بات نہیں۔ زندگی کی برق رفتاریوں کو وہ شخص سیل رواں کی موجوں سے تعبیر کرتا جو نہایت سرعت کے ساتھ رواں دواں ہیں۔ کوئی شخص انتہائی تمنا کے باوجود بیتے ہوئے دنوں اور گزرے ہوئے لمحات کی یادوں کی موجوں سے دوبارہ فیض یاب ہو ہی نہیں سکتا۔

     سال 2006کا آغاز تھا، میں روزگار کے سلسلے میں شہر سے بہت دور چلا گیا۔ مجھے وہاں کئی ماہ قیام کرنا پڑا۔ اس عرصے میں اس پر اسرار عمارت اور یہاں کے حالات سے یکسر بے خبر رہا۔ واپسی پر مجھے معلوم ہوا کہ شباہت شمر اور ناصف بقال نے اجرتی بد معاشوں اور کرائے کے قاتلوں کے ذریعے بوڑھے کو ٹھکانے لگا دیا۔ لوگوں نے مجھے بتایا کہ اسی رات خوف ناک سرخ  آندھی آئی اور اس کے تند و تیز بگولوں نے پوری عمارت کو الٹ پلٹ دیا۔ بلند چیخ پکار سنائی دیتی رہی۔ اس عمارت میں موجود تمام عیاش زندہ دفن ہو گئے ملبے کی کھدائی کے بعد کچھ نہ ملا۔ اگلے ماہ میرا وہاں سے گزر ہوا تو پانچ سال کی عمر کا وہی بچہ جو بوڑھے کا بیٹا ہونے کا دعوے دار تھا، عمارت کی جگہ کھڑا تھا۔ عمارت نئے سرے سے تعمیر ہو رہی تھی تمام پرانے ناموں کی تختیاں حسب سابق صدر دروازے پر لگ چکی تھیں۔ صرف ایک نئی تختی کا اضافہ کیا گیا تھا۔ یہ وہی تختی تھی جو میں نے دو سال قبل بوڑھے کی کٹیا میں ایک شکستہ سی بوسیدہ الماری میں دیکھی تھی۔ میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اور دل نے کہا یا الہٰی یہ کیا ماجرا ہے ؟لوح تقدیر پر نصب گردش حالات کے کتبے پڑھنا اور ان سے سبق سیکھناکس قدر مشکل ہے۔ وہ بوڑھا یقینی طور پر کشف و کرامات سے متمتع تھا۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ بڑے بڑے جاہ و جلال اور کر و فر رکھنے والے طاقت ور بھی تقدیر کے ہاتھوں اجنبی اور بے نشاں ہو گئے۔ کوئی سمندر میں غرقاب ہوا تو کسی کی بے گور و کفن لاش بے آب و گیاہ  تپتے ہوئے صحراؤں اور لق و دق  صحراؤں میں گاڑ دی گئی۔ یہی تو عبرت کے نشان ہو ا کرتے ہیں۔ اس تمام روداد نے میری روح کو زخم زخم اور دل کو کرچی کرچی کر دیا۔ ناصف بقال اور شباہت شمر کا انجام بلا شبہ تازیانہ ء عبرت ہے ان سب درندوں کے لیے جو طاقت، دولت اور جاہ و منصب کے نشے میں دھت ہو کر انسانیت کی توہین، تذلیل، تضحیک اور بے توقیری کے قبیح جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں۔ سیل زماں کے تند و تیز مہیب تھپیڑے سب کچھ بہا کر لے جاتے ہیں۔

      میں محو حیرت تھا کہ کس ہوا میں اور کس فضا میں فکر و خیال کی پرواز سے حقائق کی گرہ کشائی کروں۔ شاید ہر سو بچھے ہوئے دکھوں کے جال دیکھ کر وہ بوڑھا اس جہاں کے کار دراز کو فسانہ سمجھا اور اب اسے ایک ایسے فسانے کا روپ دے گیا جس کے بارے میں اگلی صدی تک قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ یہی تو تقدیر کا فسانہ ہے جو کسی کی سمجھ  میں اب تک نہیں آ سکا۔ یہ دنیا ایک آئینہ خانہ ہی تو ہے اس میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو یا تو خود تماشا بنتے ہیں  یا دوسروں کو تماشا بنا دیتے ہیں اور خود ایک معما بن جاتے ہیں۔ اس پر اسرار بوڑھے نے تو سب کو حیران کر دیا اور سب تماشا دیکھنے والے خود تماشا بن گئے ہیں۔ ایک صدی کے بعد کیا ہونے والا ہے اس کے بارے میں عینی شاہد یہی چھوٹا بچہ ہے جو مستقبل کے  افسانہ نگار اور مورخ کو تمام واقعات من و عن بتائے گا۔

٭٭٭

 

بلوندر کی بلی

           بلوندر بھی عجیب آدمی تھا، اس کے بارے میں کئی داستانیں زبان زد عام تھیں۔ اس قدر پر اسرار واقعات اس سے وابستہ تھے کہ حیرت ہو تی تھی کہ یہ کوئی عام آدمی ہے یا کوئی بھوت اور مافوق الفطرت مخلوق۔ اس کی ہیئت کذائی دیکھنے و ا لوں پر کوئی اچھا تاثر نہ چھوڑتی۔ کالا بھجنگ، موٹا اور بد وضع سراپا، کلین شیو، ساٹھ سے اوپر کاسن، آنکھوں پر انتہائی بد صورت موٹے شیشوں کی عینک لگی ہوئی، سر پر گنج چھپانے کے لیے گدھے کے بالوں کی عفونت زدہ وگ لگائے اور دونوں ہاتھوں کی انگلیوں میں انگوٹھیاں ٹھونسے، گلے میں مختلف رنگوں کے پتھروں کی مالا ڈالے اور ہر وقت بھبھوت رمائے یہ شخص اس قدر کریہہ تھا کہ یہ مجسم ننگ وجود تھا۔ اس کے جسم سے اس قدر شدت سے  عفونت و سڑاند کے بھبھوکے اٹھتے تھے کے پاس بیٹھے ہوئے لو گوں کے لیے سانس لینا محال ہو جاتا تھا۔ عقل و خرد سے یکسر تہی یہ سٹھیایا ہو ا خضاب آلودہ کھوسٹ ایک عجوبہ اور طرفہ تماشا بن چکا تھا۔ اس کے بارے میں جتنے منہ اتنی باتیں۔ کوئی کہاں تک ان کی تحقیق اور چھان پھٹک کرتا۔ اس کی زندگی تو ایک فسانہ تھی جس نے سب لوگوں کو حیران کر کے تماشا بنا دیا تھا۔ اس کے باوجود اس کے ساتھ اندھی عقیدت رکھنے والوں کی کوئی کمی نہ تھی لوگوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ اس کے  ڈیرے پر منڈلاتے رہتے اور اس سے اپنے مستقبل کے بارے میں مشورے لیتے اور اپنی پھوٹی ہوئی تقدیر سنورانے کی تدبیر پو چھتے۔ اس شخص سے اصلاح احوال کی توقع رکھتے جو خود اپنی تخریب کی عبرت ناک مثال بن چکا تھا۔

           اپنے کالے کرتوت، کالی صور ت اور بد اعمالیوں کے سیاہ حروف میں لکھے کردار کی طرح اس نے ایک بلی پال رکھی تھی جو کالے رنگ کی تھی۔ دریا کے کنارے ایک جنگل بیلے میں واقع اس کی کٹیا میں دن کو بھی شب کی سیاہی کا سماں ہو تا تھا۔ بلوندر ہمیشہ کالے رنگ کے کپڑوں میں ملبوس رہتا۔ اس کے مقدر کی سیاہی کی طرح اس کے ارد گرد سب چیزیں ہی کالے رنگ کی ہوتی تھیں۔ کئی لوگ اسے کالا دیو کہہ کر پکارتے اور کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ کالے بھو ت کی صورت میں بلوندر کوئی جادو گر ہے اس کی طاقت کا راز ایک کالی بلی ہے جس میں کوئی مافوق الفطرت طلسمی اور ما بعد الطبعیاتی طاقت مو جود ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ  کالی بلی  اپنے پچھلے جنم میں کوئی نجومی یا رمال ہو گی۔ اس کالی  بلی کی وجہ سے بلوندر  کے جادو، ٹونے، عملیات، رمل، نجوم اور قیافہ شنا سی کے ہر طرفے چرچے ہونے لگے۔

       گاؤں کے لوگ اپنے تمام کاموں کے آغاز کے سلسلے میں بلوندر کی بلی سے قرعۂ فال نکلواتے اور اس پردل و جان سے عمل کرتے۔ عورتیں ایک مرغ لے کر بلوندر کے پاس جاتیں۔ وہ اس مرغ کو کاٹ کر اس کی بو ٹیاں بناتا، اس کی آنتیں ، پر، کلیجی، پوٹا اور گردن بلی کے آگے پھینک دیتا جسے بلی نوچ کر کھا جاتی۔ باقی گوشت کی تکا بوٹی کر کے وہ انگاروں پر بھون کر ڈکار جاتا۔ بلوندر اگرچہ  ایک جاہل مطلق تھا  لیکن اسے جاہل لوگوں کو الو بنانے اور ان کو انگلیوں پر نچانے کا فن آتا تھا۔ جاہلوں کی نفسیات  اور ان کی توہم پرستی کے بارے میں وہ بہت کچھ جانتا تھا۔ وہ ایک سکہ لیتا اور بلی کے سامنے پھینک دیتا۔ بلی وہ سکہ اپنے منہ میں دبا لیتی۔ وہ قرعہ ء فال کے لیے آنے والوں  سے کہتا کہ اب بلی یہ سکہ زمین پر پھینک دے گی اگر اوپر چاند آیا تو کام کرنے کی اجازت ہے لیکن اگر بیل آ گئی تو  اس صورت میں کام کرنا بہت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ اس طرح بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹنے کی صورت سامنے آتی۔

        دور افتادہ علاقے میں واقع یہ گاؤں غربت  اور افلاس کے اعتبار سے پتھر کے زمانے کا ماحول پیش کرتا تھا۔ یہاں کئی پینترے باز، شعبدہ باز، مداری، بھکاری  اور جواری آتے جو لوگوں کی سادگی سے فائدہ اٹھا کر اپنا الو سیدھا کر کے چلتے بنتے۔ طوطے والے نجومی، نیولے والے عطائی، سانڈے کا تیل  اور الو کی آنکھ کا سرمہ بیچنے والے بھی اس علاقے کے لوگوں کو لوٹ لیتے۔ کبھی کبھی ایک گیدڑ سنگھی فروخت کرنے والا بھی آ نکلتا جو فاقہ کشوں کو سونے سے مالا مال کرنے کے گر بتاتا اور ان سے رقم بٹور لیتا۔ طبی سہولتیں نہ ہونے کے باعث یہاں کے مکین عملیات کا سہار لیتے اور ہر بیماری  کا سبب کالے جادو کو قرار دیتے تھے۔ ایک ریچھ والا آتا وہ یہ صدا لگاتا کہ اس کالی بلا پر بیٹھنے والے  بچے کی ہر مصیبت اس ریچھ کے اندر جذب ہو جاتی ہے۔ بچوں کی مائیں اپنے کم سن بچوں کو اس مداری کے ریچھ پر گلی کی سیر کراتیں ا اور اس کے بدلے اسے پانچ کلو گندم مل جاتی۔ بندر والا آتا اور وہ بندر  کے کرتب دکھا کر اجناس خوردنی سے بوری بھر لیتا۔ گاؤں میں نقد رقم کی جگہ زیادہ تر اجناس ہی کے ذریعے کام چلایا جاتا تھا۔ نزدیکی قصبے سے ایک بنجارن آتی اور  فرسودہ چوڑیاں بیچ کر ایک من گندم  ہر ہفتے بٹور لیتی۔ کئی رمال، نجومی، جوگی اور ڈبے پیر بھی وارد ہوتے اور سب کی بات بن جاتی۔ ایک جوگی ہر ہفتے آتا اور پر درد آواز میں یہ صدا لگاتا :

دھن دولت آنی جانی ہے، یہ دنیا رام کہانی ہے

یہ عالم عالم فانی ہے، باقی ہے ذات خدا بابا

        یہ پر درد صدا سن کر سب کی آنکھیں بھیگ بھیگ جاتیں اور اس کی خوب مدد کی جاتی۔ اسے ہر ہفتے دو من کے قریب گندم مل جاتی جو وہ مقامی کریانہ فروش کے ہاتھ بیچ کر رقم اپنی جیب میں ڈال کر اپنے گھر چلا جاتا۔ ان سب سے بڑھ کر بلوندر اور اس کی کالی بلی کی پانچوں گھی میں تھیں۔ بلوندر ایک طرف تو مایا جمع کرنے میں لگا تھا ساتھ ہی اسے ہر روز نئی دیوی کے درشن بھی ہو جاتے۔ کئی بار تو ایک کے بجائے کئی حسین و جمیل دیویاں اس کی کٹیا میں حاضری دیتیں اور کالی بلی اور اس کے مالک کالے بلوندر پر سب کچھ نچھاور کر دیتیں۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ بلوندر نے اتنی رقم جمع کر لی تھی کہ اس نے شہر میں ایک عالی شان مکان بنا لیا تھا جسے کرائے پر دے رکھا تھا۔ اس کے مکر کا پردہ فاش کرنے والا کوئی نہ تھا۔ ہر شخص اسی کا دم بھرتا اور اس کا شیدا بن کر اس کی ہاں میں ہاں ملاتا۔

        اس سال دریا میں زبردست سیلاب آیا، بلوندر  کی کٹیا اس میں بہہ گئی۔ اس نے کالی بلی اپنے تھیلے میں ڈالی اور نزدیک قصبے میں جا پہنچا۔ ٹھاکر موہن نے اس کی خوب آؤ بھگت کی اور اسے اپنے محل نما گھر میں بیرونی طرف ایک کمرہ رہنے کے لیے دے دیا۔ ٹھاکر اپنی عمر کی اسی بہاریں دیکھ چکا تھا اور اس خزاں رسیدگی میں بھی اس کے دل کی بہار کا یہ عالم  تھا کہ پچھلے سال اس نے کالی بلی کی فال پر ایک اٹھارہ سالہ لڑکی سے بیاہ کر لیا تھا۔ سینگ کٹا کر بچھڑوں میں شامل ہونے والے اس عیاش بڈھے نے اپنے نو جوان بیٹے اور بیوی کو گھر سے نکال دیا اور وہ اب شہر میں جا بسے تھے۔ شہر میں اس کے بیٹے نے شادی کر لی اور وہ اپنے گھر میں  اپنے بچوں کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کرتا تھا۔

         گاؤں کے لوگ اس بات پر حیران تھے کہ ایک کالا کلوٹا مسٹنڈا ٹھاکر کے گھر میں کیسے گھس گیا۔ سب اسی انتظار میں تھے کہ یہ بلی تھیلے سے باہر کب آتی ہے ؟ٹھاکر موہن اس کی بیوی کلپنا اور  بلوندر کے بارے میں لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے لیکن ان لوگوں کے کان پر جوں تک نہ رینگتی۔ بے حسی اور بے ضمیری جب کسی کو دبوچ لیتی ہے تو کان بہرے ہو جاتے ہیں اور آنکھوں سے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ بلوندر اپنی کالی بلی کے ذریعے سادہ لوح لوگوں کو دنیا و مافیہا سے بے خبر کر چکا تھا۔ یہ کالی بلی تو سب گاؤں والوں کے لیے اس قدر منحوس ثابت ہوئی کہ لوگ کوڑی کوڑی کے محتاج ہو گئے۔ وہ جس کام میں ہاتھ ڈالتے ان کی سب  تدبیریں الٹی ہو جاتیں اور رتیں بے ثمر ہو کر رہ جاتیں۔ سب کا یہی خیال تھا کہ ہو نہ ہو یہ سب کچھ اسی کالی بلی کی نحوست کی وجہ سے ہے کہ ان کی امیدوں کی فصل غارت ہو جاتی ہے اور صبحوں شاموں کی محنت اکارت چلی جاتی ہے۔ کئی بار دل جلے لوگوں نے بلی کو ٹھکانے لگانے کے بارے میں بھی سوچا لیکن ہر بار کوئی نہ کوئی ایسی افتاد پڑ جاتی کہ سب منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے۔

           بلوندر کی کالی بلی کی پیش بینی کے بارے میں ہر طرف چرچے تھے۔ لوگ کہتے تھے کہ جس کسی کا یہ کالی بلی راستہ کاٹ لے وہ کبھی منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔ عقل کے اندھے اور گانٹھ کے پورے لوگ  کالی بلی اور اس کے کالے کرتوت کرنے والے مالک بلوندر کے شر سے اس قدر سہمے ہوئے تھے کہ کوئی بھی ان کے سامنے دم نہ ما ر سکتا تھا۔ رہی سہی کسر ٹھاکر کی سر پرستی نے پوری کر دی۔ اب وہ دھڑلے سے ٹھاکر کی دولت پر گلچھرے اڑاتا، مے گلفام سے سیراب ہوتا اور داد عیش دیتا۔ ٹھاکر کا پہلی بیوی سے  بیٹا روپن مل شہر میں ان تمام واقعات سے اچھی طرح آگاہ تھا۔ وہ جانتا تھا کہ کلپنا نے اس کے باپ کی دولت پر قبضہ کرنے کی غرض سے اسے چلو میں الو بنا رکھا ہے۔ ٹھاکر کی زرعی اراضی، جمع پونجی بے حد و بے حساب تھی۔ اس قدر دولت کا واحد وارث روپن مل ہی تھا جو اپنی بیوی، بچوں اور ضعیف ماں کے ہمراہ محنت مزدوری کر کے وقت گزار رہا تھا۔ اسے باپ کی شادی پر کوئی اعتراض نہ تھا لیکن حالات نے جو نئی کروٹ لی تھی اس پر وہ پیچ و تاب کھاتا رہتا تھا۔ کلپنا اور بلوندر  نے تو اس کے باپ کی زندگی ہی خطرے میں ڈال دی تھی۔ وہ ہمیشہ اسی فکر میں رہتا کہ جلد اپنے باپ کو اپنے پاس لائے اور اس کی خدمت کر کے اس کا سہار ا بنے۔

          اب پورے علاقے میں کالی بلی والے سادھو بلوندر کی دھوم مچی تھی۔ کالی بلی کے ذریعے سے بلوندر جس عیاری سے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتا تھا وہ حد درجہ لرزہ خیز کیفیت تھی۔ فاقہ کش لوگ اپنی سب جمع پونجی اس جعل ساز کو دے کر رخصت ہو جاتے اور پھر زندگی بھر اپنے مقدر کو کوستے پھرتے۔ ایک بار بلی نے ایک نوجوان کا راستہ  کاٹ لیا جو موٹر سائیکل پر سوار ہو کر قصبے کی جانب جا رہا تھا۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ کچھ فاصلے پر موٹر سائیکل جب نہر کی پٹڑی پر جا رہا تھا تو وہ نہر میں جا گر ا اور اس طرح وہ نو جوان ڈوب کر مر گیا۔ اسی طرح یہ بات بھی زبان زد عام تھی کہ جس مکان کی چھت پر کالی بلی رات کو گھوم کر میاؤں کر دے وہ مکان اسی وقت خالی کرنا ضروری ہو جاتا ہے ورنہ اس کے مکین مارے  جاتے ہیں۔ مکان خالی  کرتے وقت کوئی چیز ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اس کا سبب یہ بتایا جاتا تھا کہ کالی بلی اور اس کے بھو ت وہ سار ا سامان اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔

        گاؤں میں ارشد نامی ایک شخص نے کچھ زرعی اراضی خریدی۔ وہ شہر کا رہنے والا تھا اور جدید زراعت کے ذریعے رزق کمانا چاہتا تھا۔ وہ ٹریکٹر کے ذریعے ہل چلا کر زمیں ہموار کر رہا تھا کہ بلوندر اپنی بلی سمیت وہاں جا پہنچا۔ بلوندر نے اسے کہا کہ  ہل چلانے سے پہلے بلی کی فال ضروری ہے۔ اور اسے دھمکی دی کہ اگر اس نے کالی بلی کی فال نہ مانی تو سب کچھ بھسم ہو جائے گا۔ بلوندر نے غصے سے کہا :

         ’’اس علاقے میں ہر کام اس کالی بلی کی فال کے بعد ہوتا ہے۔ اگر تم نے اب بھی کالی بلی کی فال نہ مانی تو تمھیں یہ کالی بلی عبرت کا نشان بنا دے گی۔ ‘‘

      ’’چپ رہو کالی زبان والے احمق ‘‘  ارشد نے کہا ’’میں تم پر اور تمھاری فال پر لعنت  بھیجتا ہوں۔ اس مظلوم بلی کو بلا وجہ بد نام نہ کرو۔ اس دنیا میں وہی کچھ ہوتا ہے جو خدا کو منظور ہوتا ہے۔ جو کچھ تم سے ہو سکتا ہے وہ تم کر لو، میں اس توہم پرستی پر یقین نہیں کر سکتا۔ ‘‘

   ’’ اب سب کچھ بھسم ہو جائے گا ‘‘ بلوندر نے غراتے ہوئے کہا ’’آج کی رات تم بچ نہیں سکتے یہ کالی بلی تم پر قہر بن کر گرے گی اور تم راکھ کریدتے پھرو گے لیکن کچھ بھی باقی نہیں بچے گا ‘‘

      ارشد نے ٹریکٹر اپنی زمین میں کھڑا کیا اور واپس شہر چل دیا۔ وہاں اپنے ساتھیوں سے بات کی۔ اتفاق سے روپن مل سے بھی رابطہ ہو گیا۔ روپن مل نے ارشد کو بھر پور تعاون کا یقین دلایا اور اپنے باپ ٹھاکر کو سمجھانے کی کوشش پر آمادہ ہو گیا۔ دوسرے دن جب ارشد گاؤں پہنچا تو یہ دیکھ کر اس کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی کہ ٹریکٹر کو کسی نے آگ لگا دی تھی اور وہ کباڑ کا ایک ڈھانچہ بن چکا تھا۔ پورے گاؤں میں یہ بات جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی کہ کالی بلی اور بلوندر کے غیظ و غضب کے باعث ارشد کو یہ دن دیکھنا پڑا۔ ارشد دامن جھاڑ کر وہاں سے شہر کی جانب چل دیا۔ راستے میں اسے ایک بوڑھا آدمی ملا اس نے ارشد کو سمجھایا کہ دریا میں رہ کر مگر مچھ  سے دشمنی کا نتیجہ ایسا ہی نکلتا ہے۔ اگر ٹھاکر اور اس کی بیوی اس درندے کی سر پرستی نہ کریں تو اسے سیدھا کیا جا سکتا ہے۔ ایک اور شخص نے کہا کہ کالی  بلی کی نحوست سے آج تک کوئی نہیں بچ سکا۔ بلوندر لوگوں کی جان، مال اور عزت و آبرو جس بے دردی سے لو ٹتا ہے ا س تمام کام میں اسے کالی بلی کی آشیر باد حاصل ہے۔ ارشد یہ سب باتیں سن کر خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔ شہر واپس آ کر اس نے تمام واقعات سے روپن مل کو آگاہ کیا۔

         اگلے دن روپن مل گاؤں پہنچا اور اس نے اپنے باپ سے کہا ’’آپ کی بہو سخت بیمار ہے۔ امی نے کہا ہے کہ اپنے باپ اور والدہ کو ساتھ لے کر جلدی آؤ۔ ‘‘

     یہ سن کر ٹھاکر خوشی سے پھولا نہ سمایا اس کی بیوی نے اس سے صلح کر لی تھی اور اس کا اکلوتا بیٹا اب اس کے گھر آ گیا تھا۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اپنی نئی بیوی کو ساتھ لیا اور شہر جانے پر آمادہ ہو گیا۔ جاتے وقت اس نے بلوندر سے کہا :

  ’’ تم مکان میں موجود رہنا اور کالی بلی کو کمرے میں ساتھ رکھنا اس کے بعد کوئی خطرہ نہیں۔ ‘‘

     ’’اس گاؤں میں کوئی چور نہیں آ سکتا ‘‘ بلوندر نے کہا ’’کالی بلی کے اندر کالی دیوی چھپی ہے وہ سب کچھ بھسم کر دے گی۔ جس طرح ارشد کا ٹریکٹر راکھ کا ڈھیر بن گیا تھا اسی طرح  کالی بلی کے باغی اس کے قہر و غضب سے بچ نہیں سکتے۔ ‘‘

      روپن مل یہ سب باتیں دھیان سے سن رہا تھا کہ اچانک کالی بلی میاؤں میاؤں کرتی اس طرف آ نکلی۔ روپن مل نے ایک چکن سینڈوچ اس کی طرف پھینکا اور وہ اسے اٹھا کر بھا گ گئی۔

       ’’اچھا ہوا کہ اس کالی بلی نے کا رکا راستہ نہیں کاٹا ورنہ کوئی حادثہ ہو سکتا تھا۔ ‘‘ کلپنا بولی ’’لیکن یہ تو بتاؤ کہ بہو کو کیا ہوا ہے ؟‘‘

     ’’  ابھی جا کر معلوم ہو جائے گا ‘‘ ٹھاکر بولا ’’روپن مل تم نے یہاں آ کر  میرے جگر کو ٹھنڈا کر دیا ہے۔ تمھاری ماں کا کیا حال ہے اس نے چالیس سال تک میری خدمت کی ہے۔ اب اس عالم پیری  میں  اسے میں نے  تنہا چھوڑ دیا یہ تو بڑی بے دردی ہے۔ کیا وہ مجھے معاف کر دے گی ؟‘‘

  یہ سن کر کلپنا دانت پیسنے لگی اور بولی ’’معافی کس بات کی ؟تم نے کون سی غلطی کی ہے۔ غلطی تو میں نے کی ہے جس نے  اٹھارہ سال کی عمر میں ایک اسی  سالہ بڈھے کھوسٹ سے بیاہ کر کے اپنی جوانی کو بر باد کر دیا ہے۔ تم جیسے ناکارہ شوہر کے ساتھ زندگی گزارنا ایک بہت بڑا عذاب ہے۔ ‘‘

      ’’ یہ وقت لڑنے کا نہیں بل کہ دعا کا وقت ہے َ‘‘  ٹھا کر نے آہ بھر کر کہا ’’ جو بھی اس دنیا میں کوئی غلطی کرتا ہے وہ اس کا خمیازہ خود اٹھاتا ہے۔ ‘‘

        دو گھنٹے کی مسافت طے کر کے وہ شہر پہنچے تو روپن مل کے گھر میں سب حیرت زدہ رہ گئے۔ اس نے ا پنی ماں اور بیوی کو سب باتیں پہلے سے سمجھا رکھی تھیں۔ بہو اس وقت اپنے بستر پر لیٹی کرا رہی تھی۔ روپن مل اپنی پہلی بیوی کے سامنے بیٹھا زار و قطار رو رہا تھا۔ جلد ہی اس نے بہو کے سر پر ہاتھ رکھا اور اپنے پوتوں پوتیوں کو گود میں لے لیا۔

  ’’تم نے یہ صلح کرنے سے پہلے کالی بلی کی فال کیوں نہیں نکلوائی ‘‘ کلپنا بولی ’’اب کیا ہو گا وہ کالی بلی تو ہم سب کو ما ڈالے گی۔ ‘‘

      ’’صبح کا بھولا اگر شام کو گھر آ جائے تو اسے بھولا نہیں سمجھا جاتا ‘‘ٹھاکر نے کہا ’’اب مجھے کالی بلی اور کالے سادھو کا کوئی ڈر نہیں۔ سب کچھ بھاڑ میں جائے  میں تو اب یہیں رہوں گا۔ اور تم اگر میرے ساتھ رہنا چاہو تو ٹھیک ورنہ جہاں سینگ سمائیں چلی جاؤ۔ ‘‘

        رات کے سائے گہرے ہو رہے تھے، روپن مل، ارشد اور اس کے دو ساتھی گاؤں کے قریب پہنچ چکے  تھے۔ روپن مل نے اپنے گھر کے دروازے پر دستک دی اندر سے بلوندر کی آواز آئی :

    ’’ کون ہو؟اس وقت کیا کام ہے ؟ٹھاکر اوراس کی بیوی تو شہر چلے گئے ہیں۔ ‘‘

       ’’ میں روپن مل ہوں اور ابا نے مجھے بھیجا ہے کہ تمھیں ساتھ لے آؤں ‘‘

دروازہ کھل گیا۔ سب لوگ اندر داخل ہو گئے اور بلوندر کو گریبان سے پکڑ لیا اور اس کی خوب دھنائی کی۔ اس کی چیخ پکار سن کر گاؤں کے لوگ بھی وہاں آ پہنچے لیکن سب نے دم سادھ رکھا تھا۔  کالی بلی مسلسل میاؤں میاؤں کر رہی تھی۔ سب لوگ اس انتظار میں تھے کہ کالی بلی  کے قہر و غضب  سے اب کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ مسلسل  جوتے پڑنے سے بلوندر  نڈھال ہو گیا اور وہ معافی کی دہائی دینے لگا۔ ارشد نے برگر اور سینڈوچ  کالی بلی کی طرف پھینکے جو اس نے اپنے منہ میں اٹھا لیے  اور وہ چپکے سے ایک طرف  جا کر بیٹھ گئی اور آنکھیں بند کر لیں  مزے سے بر گر اور سینڈ وچ کھانے میں مصروف ہو گئی  بلوندر کو جس قدر زور سے جوتے پڑتے کالی بلی کی اسی قدر خوشی سے باچھیں کھل جاتیں۔ گاؤں کے لوگ بھی اس تماشے کو دیکھ کر خوشی سے پھولے نہ سمائے۔ کئی  زندہ دلوں نے تو ان نو واردوں پر پھول بھی نچھاور کیے۔ ارشد نے کالی بلی کی پیٹھ تھپتھپائی اور اسے اٹھا لیا۔  روپن مل نے  بلوندر کی لوٹی ہوئی تمام جمع پونجی ارشد کے حوالے کر دی اور کہا کہ اسے کسی یتیم خانے میں جمع کرا دینا۔ اس کے بعد  ا پنے گھر کو تالہ لگایا۔ اب انھوں نے بلوندر کو اپنے ساتھ  لیا اور شہر کا رخ کیا۔ راستے میں درد سے کراہتے ہوئے بلوندر نے کہا کہ شہر میں میرا ایک مکان ہے وہ میں تمھیں ٹریکٹر کا نقصان پورا کرنے کے عوض دیتا ہوں میری جان بخشی کر دو۔ گاؤں سے باہر نکلتے ہوئے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ مکر اور فریب کی ایک داستان اپنے انجام کو پہنچی۔ جور و ستم کی ہو ا تھم گئی تھی۔

       اگلے دن ارشد نے اس مکان کا قبضہ لے لیا اور تمام کاغذات  اپنے نام کر ا لیے۔ بلوندر کی بلی اب بھی ارشد کے مکان میں رہتی ہے مگر بلوندر اب در بہ در اور خاک بہ سر بھیک مانگتا پھرتا ہے۔ کسی کو اس پر اسرار بھکاری کے ماضی کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ جس کی حالت زار دیکھ کر لوگ دل تھام لیتے ہیں۔ فطرت کی سخت تعزیروں کی زد میں آنے والے اس بھکاری  کی آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برستی ہیں اور جو  اپنے آبائی گاؤں سے سیکڑوں میل دور ایک بہت بڑے شہر کے گلی کوچوں میں یہ صدا لگاتا ہے :

                             ہے حرص و ہوا کا دھیان تمھیں ، اور یاد نہیں بھگوان تمھیں

                             سل، پتھر، اینٹ، مکان تمھیں دیتے ہیں یہ راہ بھلا بابا

٭٭٭

 

تبدیلی

           شہر کے مرکز سے دور گندے نالے کے کنارے نئی تعمیر ہونے والی  رائس فیکٹری کے مالکان کو ایک ایسے شخص کی تلاش تھی جو بے غیرتی، بے ضمیری، بے حیا ئی اور انسان دشمنی  میں اپنی مثال آپ اور رسوائے زمانہ  ہو۔ وہ فیکٹری کے مالکان کے لیے رسد کا انتظام بھی کرے اور ان کے لیے پریوں کا اکھاڑہ بھی سجائے جس میں مالکان تو راجہ اندر کی صورت میں موجود ہوں مگر فیکٹری کا منیجر صرف جال لگا کر حسین و جمیل پریوں کو زیر دام لا نے کی ذمہ داری سنبھالے۔ فیکٹری کے مالک اپنے کالے دھن کو اجلا کرنے کی فکر میں ہلکان ہو رہے تھے۔ وہ ایک ایسے کو ر مغز، بے بصر، کینہ پرور، حاسد اور وضیع درندے کو اس فیکٹری کا کرتا دھرتا بنانا چاہتے تھے جو نہ صرف تھالی کا بینگن ہو بل کہ چکنا گھڑا بھی ثابت ہو۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں ایسے جو فروش گندم نما، بگلا بھگت درندے کو ڈھونڈنا کون سا مشکل کام تھا، ایسے ایک مشکوک نسب کے متفنی کو دھونڈنے نکلو راستے میں اجلاف و ارزال  اور سفہا شکاری کتوں کی صورت میں جھپٹتے نظر آئیں گے جو مظلوم انسانوں  کو نوچنے میں لگے ہیں۔ چند روز بعد فیکٹری کے مالکان گھاسو مل کو ڈھونڈ  لائے۔ اس سے قبل وہ وانی رائس ملز میں اسی قسم  کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے تھے۔ اس قماش کے ننگ انسانیت مسخرے خون آشام درندوں کو ہمیشہ بہت پسند آتے ہیں۔ یہ شخص گرگ آشتی کی مثال تھا۔ جس شاخ پہ بیٹھتا اسی کو کاٹنے کی ٹھان لیتا، جس تھالی میں کھاتا اسی میں چھید کرنا اس کا وتیرہ تھا، جس درخت کے سائے میں بیٹھتا اسی کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی مذموم کوششوں میں مصروف ہو جاتا۔

          سال2002کی ایک سرد شام تھی جب گھاسو مل نے فیکٹری میں اپنا سبز قدم رکھا۔ نظام ثقہ اپنے پورے کر و فر کے ساتھ اپنے دفتر میں جا گھسا۔  بلند پروا ز عقابوں کے نشیمن اب زاغوں کے تصرف میں آ چکے تھے۔ درو دیوار پر حسرت و یاس کے گہرے سائے چھا گئے اور ہر طرف ذلت، تخریب، نحوست، بے برکتی، بے توفیقی، بے ایمانی، بے حیائی اور بے غیرتی کے کتبے آویزاں ہو گئے۔ فیکٹری کے ایک پارک میں دو بوڑھے مالی اس نئی تبدیلی کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ نورے نے گامے سے مخاطب ہو کر کہا:

         ’’  سنا بھائی گامے !نئے منیجر کو آئے ایک سال  گزر گیا ہے اب کیسے حالات ہیں ؟  اس برس میں کوئی بھی تو بھلائی کی صور ت  دکھائی نہیں دی۔ کیا کوئی نئی تبدیلی آئے گی یا پہلے کی طرح لوٹ مار کا بازار گرم رہے گا ؟سنا ہے نیا منیجر مل مالک کے چربیلے کتوں کے لیے بھی یہاں سے وسائل مہیا کرے گا۔ یہاں کے بے بس مزدوروں کے چہرے تو پیلے ہیں۔ اب کیا ہو گا ؟‘‘

          ’’ تبدیلی تو صاف دکھائی دے رہی ہے۔ ‘‘ گامے نے کھانستے ہوئے کہا ’’  اس فیکٹری کے ہر درخت کی ہر شاخ پہ الو نے بسیرا کر لیا ہے۔ جس طرف دیکھو کوے، گدھ، چیل اور بوم کے غول دکھائی دیتے ہیں۔ حالات اس قدر ہو لناک صورت اختیار کر تے چلے جا رہے ہیں کہ زمین بھی دل کے مانند دھڑکتی محسوس ہو تی ہے۔ نئے منیجر کو ابلیس نژاد سمجھاجاتا ہے لوگ اس پر تین حرف بھیجتے ہیں اور کئی لوگ تو اسے دیکھتے ہی لاحول کا ورد شروع کر دیتے ہیں۔ ‘‘

    ’’سچ کہتے ہو بھائی نورے !‘‘ گامے نے آہ بھر کر کہا ’’ساری دنیا بدل جائے ہم غم زدہ لوگوں کا حال کبھی نہیں بدل سکتا۔ ہم فقیر لوگ ہمیشہ سے حالات کی چکی میں پستے چلے آرہے ہیں۔ جب کہ بے ضمیروں کے ہمیشہ وارے نیارے رہتے ہیں۔ یہ جو منحوس پرندے ہر طرف منڈلاتے دکھائی دیتے ہیں یہ تو کسی آفت نا گہانی کا اشارہ ہے۔ اس نئے منیجر کے آنے کے بعد تو دم گھٹنے لگا ہے۔ ‘‘

      ’’ ایک تبدیلی ایسی ہے جو مستقبل کے لیے خطرے  کی گھنٹی ثابت ہو سکتی ہے۔ ‘‘نورے نے سر کھجاتے ہوئے کہا ’’نئے منیجر نے جو عملہ بھرتی کیا ہے اس میں ایک ہی میرٹ رکھا ہے کہ جو بھی حسین و جمیل عورتیں یہاں کام کرنا چاہیں وہ سب کی سب بھرتی کر لی جائیں۔ اول تو مرد ملازم رکھے ہی نہ جائیں اور اگر کوئی مجبوری کی وجہ سے رکھنا پڑ جائے تو اسے بھی جلد از جلد گھر کا رستہ دکھایا جائے۔ اس پر عرصہ ء حیات تنگ کر دیا جائے تا کہ وہ حالات سے عاجز آ کر اپنا دامن جھاڑ کر رخصت ہو جائے۔ ‘‘

     ’’  یہ تو بہت برا شگون ہے۔ ‘‘گامے نے  اپنے آنسو پو نچھتے ہوئے  کہا ’’مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ ہر فرعون، نمرود اور ہلاکو خان اپنی موت کو کیوں  فراموش کر دیتا ہے۔ مال بٹورنے والے یہ بات کیوں نہیں یاد رکھتے کہ کفن میں تو کوئی جیب ہی نہیں ہوتی۔ یہاں کا سب ٹھاٹ یہیں  پڑا رہ جاتا ہے اور ہر بنجارہ خالی ہاتھ یہاں سے چپکے سے اپنی آخری منزل کی جانب  چل پڑتا ہے ‘‘

         گھاسو مل نے فیکٹری کی ملازم خواتیں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ کئی مجبور، بے بس اور مظلوم  عورتیں اپنی متاع عصمت اس درندے کے ہاتھوں گنوا کر بے نیل مرام یہاں سے گھروں کو لوٹ جاتیں اور ان کید اد رسی کہیں سے نہ ہو پاتی۔ ان کی فریاد صدا بہ صحرا ثابت ہوتی۔  اس فرعون کے ہاتھوں جن خواتین کی امیدوں کی فصل غارت اور صبح شام کی محنت اکارت  چلی جاتی وہ ہاتھ اٹھا کر اس کی تباہی کے لیے خا لق کائنات کے حضور التجا کرتیں کہ اب اس فرعون کی مدت مزید نہ بڑھائی جائے۔ گھاسو مل کے شب و روز عیاشی، بد معاشی، مے نوشی، حرام خوری اور رنگ رلیوں میں بسر ہوتے تھے۔ بھتہ خوری، دہشت گردی اور خواتین کی آبرو ریزی کے شیطانی کاموں میں ملوث ہو کر  اس نے اپنی اوقات کو بھلا دیا۔ اس کی محفل عشرت میں سارے مست بند قبا سے بے نیا ز ہو کر داد عیش دیتے اور شرم و حیا کو بارہ پتھر کر دیا جاتا۔ اس ایک شخص کی وجہ سے پورے کا پورا آوا ہی خراب ہو چکا تھا۔ بہت سی کالی بھیڑیں ، گندی مچھلیاں ، سفید کوے اور گندے انڈے اس کے گرد جمع تھے جن کی وجہ سے یہ اپنی فضا میں مست پھرتا تھا اور کسی مظلوم کی چشم تر کی جانب نگاہ کرنے کی اسے بالکل فرصت ہی نہ تھی۔ سب سے بڑھ کر طرفہ تماشا یہ تھا کہ ایک رذیل طوائف  اس کے اعصاب پر سوار تھی وہ اس بد اندیش جنسی جنونی کو چلو میں الو بنا کر اپنی انگلیوں پر نچاتی تھی۔ فیکٹری کے تمام وسائل کو انھوں نے شیر مادر سمجھ رکھا تھا۔ لوگ اس طوائف کو ڈاکو حسینہ کے نام سے پکارتے تھے۔ یہ ڈاکو حسینہ رات کی تاریکی میں گھروں میں گھس جاتی اور خواتین کو دولت اور زر و مال سے محروم کر دیتی۔ یہ ڈاکو حسینہ گھاسو مل کی داشتہ تھی اور اس نے پوری فیکٹری میں جنگل کا قانون نافذ کر رکھا تھا۔ ورکنگ ویمن ہاسٹل میں ہونے والی چوری کی تمام وارداتوں میں یہی ڈھڈو ملوث تھی۔ ا اس نے خواتین کو نشے کی لت میں مبتلا کر دیا تھا۔ منشیات فروشی  اور خرچی کے ذریعے اس نے بہت مال کمایا۔ شہر کے تمام جرائم پیشہ لوگوں کے ساتھ اس کا گٹھ جوڑ تھا۔

         ڈاکو حسینہ اور گھاسو مل نے مجبوروں پر ظلم و ستم ڈھانے کی انتہا کر دی۔ ایک رات ڈاکو حسینہ نے ورکنگ ویمن  ہاسٹل کے ایک کمرے میں مقیم ایک نو جوان عورت کے کمرے میں دھا ا بول دیا۔ نقاب پوش حسینہ نے پستول نکال کر کہا:’’ خبردار اگر حرکت کی یا کوئی آواز نکال کر چیخ پکار کی اور کسی کو مدد کے لیے پکارا۔ یہاں کوئی تمہاری مدد کو نہیں آ سکتا۔ کس کی مجال ہے جو ڈاکو حسینہ کا مقابلہ کرے ؟۔ یہ جو تم نے سونے کی آٹھ چوڑیاں ہاتھوں میں پہن رکھی ہیں اور کانوں میں جو سونے کی بالیاں سجا  رکھی ہیں وہ اتار کر میرے حوالے کر دو۔ اگر تم نے میری بات نہ مانی تو میں تمھیں گولی مار دوں گی اور یہ بھی سن لو اگر تمھارے پاس کوئی نقد رقم ہے تو  اپنی تمام رقم بھی نکال کر مجھے دے دو۔ ‘‘

       نوجوان اور تنومند لڑکی نے اپنے اعصاب پر قابو رکھتے ہوئے کہا: ’’یہ  تو نقلی زیور ہیں۔ میرے اصلی زیور تو میری الماری میں پڑے ہیں۔ تم آرام سے بیٹھو میں وہ سب خالص سونے کے زیور  تمھارے حوالے کر تی ہوں۔ میرے پاس بیس ہزار روپے  نقد بھی ہیں جو میں نے کل اپنے کالج کی فیس جمع کرانی ہے۔ ‘‘

         ڈاکو حسینہ نے یہ سن کر اطمینان کا سانس لیا وہ یہ جان گئی کہ اس نو جوان لڑکی سے زر و  مال ہتھیانے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئے گی۔ اس نے خود ہی اپنے پاس موجود نقد  رقم کا راز بھی  اگل دیا ہے۔ یہ سوچا اور پستول اپنے کوٹ کی  جیب میں ڈال کر کہا ’’ کیسی فیس اور کیسی پڑھائی۔ آج میں تم کو ایسا سبق پڑھاؤں گی کہ تمھیں چھٹی کا دودھ یاد آ جائے گا۔ اب جلدی کرو مجھے تمام نقدی اور خالص سونے کے زیورات دے دو۔ میں نے ابھی اور کمروں میں بھی جانا ہے َ۔ آ جاتی ہیں بن سنور کر اب معلوم ہوا کہ یہاں کیسے کیسے طاقت ور ڈاکو پھرتے ہیں جو حسن اور آتش سے لیس ہیں۔ ‘‘

       نوجوان لڑکی الماری کی طرف بڑھی وہاں سے کچھ نکالا اور ڈاکو حسینہ کی طرف  بڑھی اور ایک جست لگا کر اسے دبوچ لیا، اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنی گرفت میں لے لیا اور اس کے کوٹ کی جیب سے پستول نکال کر اس پر تان لیا اور ٹھیک نشانہ لگا یا۔ گولیاں ڈاکو حسینہ کی کھو پڑی کو چیرتی ہوئی نکل گئیں اور وہ اسی جگہ ڈھیر ہو گئی۔ اس کے بعد چاقو سے اس کی ناک اور کان کاٹ کر باہر گندے نالے میں پھینک دئیے۔ اس مکار طوائف  کی لاش کو گھسیٹ کر باہر گلی میں  پھینک دیا جسے  آوارہ کتے ساری رات بھنبھوڑتے رہے۔ ڈاکو حسینہ کی ہلاکت پر خواتین نے سکھ کا سانس لیا۔ گھاسو مل کے لیے یہ واقعہ بہت پریشان کن تھا لیکن اس مکار نے  ڈاکو حسینہ  سے لا تعلقی کا اعلان کر دیا تا کہ چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں میں اس کا نام نہ آئے۔

         نورے اور گامے کی آنکھیں اس وقت ساون کے بادلوں کی طرح  برسنے لگتیں جب وہ اپنے ان ساتھیوں کو یاد کرتے جنھیں گھاسو مل نے اپنی شقاوت آمیز نا انصافیوں سے جیتے جی ما ر ڈالا۔ کئی بے گناہ تو اپنی زندگی کی بازی ہار گئے اور کئی گھر بے چراغ ہو گئے۔

   ’’تمھیں یاد ہے وہ رات جب ایک سال قبل  فیکٹری میں ہڑتال ہوئی تھی اور مزدوروں نے گھاسو کے دفتر کا گھیراؤ کر لیا تھا‘‘ نورے نے آہ بھر کر کہا’’اس رات گھاسو مل نے اجرتی دہشت گردوں۔ پیشہ ور بد معاشوں اور کرائے کے قاتلوں کو بلایا اور اندھا دھند فائرنگ کرائی گئی جس سے بیس مزدور لقمۂ اجل بن گئے۔ ان کی لاشیں بھی غائب کر دی گئیں۔ ‘‘

       ’’ہاں مجھے اچھی طرح یاد ہے جب اس درندے نے مظلوم مزدوروں کے خون سے ہولی کھیلی تھی۔ ‘‘گامے نے روتے ہوئے کہا ’’لوگ کہتے ہیں کہ  اس فرعون کو لاٹ صاحب کی آشیر باد بھی حاصل تھی۔ اگلے دن یہ خونخوار بھیڑیا دندناتا پھرتا تھا اور کہہ رہا تھا کہ اس کے ہاتھ بہت لمبے ہیں۔ کوئی اس کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ ‘‘

        ’’ہر فرعون کو یہی زعم ہوتا ہے کہ اس کی طاقت اور ہیبت  پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے۔ ‘‘نورے نے دکھ بھرے لہجے میں کہا ’’گھاسو  مل عبرت کی مثال ضرور بنے گا۔ دارا، سکندر اور شداد کی شان اب کہاں ہے ؟ایک وقت آئے گاجب یہ ابلیس اپنے عبرت ناک انجام کو ضرور پہنچے گا۔ ‘‘دونوں بوڑھے ملازم اپنے دل کا بوجھ اتارنے کے لیے تزکیہ نفس کرتے رہتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ خالق کائنات کے ہاں دیر تو ہو سکتی ہے مگر اندھیر کا وہاں کوئی گماں نہیں کر سکتا۔  طاقت پر گھمنڈ کرنے والے نامیوں کے نشاں تک باقی نہیں رہتے۔ خالق کی منشا ہو تو سینۂ صحرا سے حباب اٹھ سکتا ہے اور رود نیل میں فرعون غرقاب ہو سکتا ہے۔ وہ نار نمرود کو گلزار میں بدل کر اپنے خلیل کو بچا سکتا ہے۔ تبدیلی کے یہ نشان دنیا والوں کے لیے مقام  عبرت ہیں۔

            سیل زماں کے تند و تیز تھپیڑے سب کچھ بہا لے جاتے ہیں۔ جاہ و منصب، قوت و ہیبت ، مال و زر، سطوت و حشمت اور کر و فر سب کچھ سیل زماں کی مہیب موجوں میں خس و خاشاک کی طرح بہہ جاتا ہے۔ اس کے بعد ان تمام امور کی یادیں باقی رہ جاتی ہیں اور انسان بے بسی کے عالم میں ان کی نوحہ خوانی کے لیے رہ جاتا ہے۔ وقت جس برق رفتاری سے گزر جاتا ہے اس کا کسی کو مطلق احساس نہیں ہوتا۔ جب قوت کا نشہ اترتا ہے اور ہاتھ سے دولت چلی جاتی ہے تو انسان ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے۔ گھاسو مل نے جب فیکٹری کی باگ ڈور سنبھلی تو تو وہ فرعون بن بیٹھا۔ اس نے مجبوروں ، مظلوموں اور لاچار ملازموں کے چام کے دام چلائے۔ اس نے فیکٹری کو عقوبت خانے، چنڈو خانے اور قحبہ خانے میں بدل کر اسے پاتال کی پستی تک پہنچا دیا۔ جہاں پہلے سر و صنوبر کی فراوانی ہوا کرتی تھی اب وہاں زقوم، حنظل، پوہلی، کریروں ، جنڈ اور بھکڑا کے جھنڈ دکھائی دیتے تھے۔ رہائشی کالونی ویران ہو چکی تھی۔ اس کالونی کے غیرت مند مکین اپنی عزت اور جان بچا کر کہیں دور چلے گئے تھے۔ جن  رہائشی  کوارٹروں میں سر شام چراغ فروزاں ہو جاتے تھے اب وہاں چراغ غول کے سو ا کچھ نہ تھا۔ ان ویران کمروں میں بڑے بڑے چمگادڑ  شہتیروں سے الٹے لٹکے رہتے تھے۔ فیکٹر ی کے باغیچوں کے  سب درخت سوکھ گئے ان ٹنڈ منڈ درختوں کو ایندھن کے لیے فروخت کر دیا گیا۔ قاتل تیشوں اور آروں نے ان سوکھے اشجار کے جسموں کو چیر کر رکھ دیا۔ گھاسو مل نے نادر شاہی حکم دیا کہ ان تمام سوکھے درختوں پر منحوس پرندوں کے جو گھونسلے ہیں انھیں آگ لگا دی جائے۔ ساتا روہن نے اس حکم کی تعمیل کی  جس کے نتیجے میں بہت سے طیور اس آگ کی زد میں آ کر راکھ کا ڈھیر بن گئے۔ آگ سے بچ جانے والے طیور نے اسی عمارت کی منڈیروں پر مستقل ڈیرے ڈال لیے    دیکھنے والوں کو یہ گمان گزر تا تھا کہ یہ طیور اپنے بے گناہ ساتھی  پرندوں کے بے بسی کے عالم میں جل کر ہلاک ہو جانے پر احتجاج کر رہے ہیں۔ رات کی تاریک میں کئی پر اسرار سائے دکھائی دیتے  ایسا محسوس ہوتا کہ یہ پوری فیکٹری آسیب زدہ ہے اور کئی بد روحیں یہاں موجود ہیں۔ بعض لوگوں کی یہ رائے تھی کہ جو لوگ گھاسو مل کے مظالم کی وجہ سے عدم کی بے کراں وادیوں کو سدھار گئے ان کی روحیں اب بھی یہاں انصاف طلب پھرتی ہیں اور اس وقت تک یہاں رہیں گی جب تک گھاسو مل اور اس کے ساتا روہن کیفر کردار کو نہیں پہنچ جاتے۔

            عمارت کے در و بام پر بوم و شپر اور زاغ و زغن اور گدھ بڑی تعداد میں منڈلاتے تو دیکھنے والے ڈر جاتے کہ جلد ہی کوئی سانحہ رونما ہونے والا ہے۔ ایک دن گھاسو مل ایک فٹ پاتھ پر سے گزر رہا تھا کہ  سامنے والے بلند کمروں کی منڈیروں  پر بیٹھی چیلیں اچانک اڑیں اور گھاسو مل کی گنجی کھوپڑی پر جھپٹ کر چونچ اور پنجوں سے حملہ کر دیا۔ یہ چیلیں اپنی تیز چونچ سے اس کے سر، چہرے اور گردن پر جھپٹ پڑیں اور دیکھتے ہی دیکھتے اس فرعون کو لہو لہان کر دیا۔ گھاسو مل کو گہرے زخم آئے تھے۔ اسے اسی وقت ہنگامی طبی امداد کے لیے نزدیک شفا خانے لے جایا گیا۔ سب معالج اس بات پر متفق تھے کہ یہ موذی فطرت  کی  تعزیروں کی زد میں آ گیا ہے ا س کا جانا ٹھہر گیا ہے یہ اب صبح گیا کہ شام گیا۔

                گھاسو مل دو ہفتے ز یر علاج رہا۔ اس کے بعد جب یہ فیکٹری میں واپس پہنچا تو اس نے سفید لباس پہن رکھا تھا اس بگلا بھگت کی یہ ہیئت کذائی دیکھ کر سب لوگ کسی نا معلوم اندیشے میں مبتلا ہو گئے۔ یہ دیکھ کر اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا کہ عمارت کی منڈیروں پر بڑی تعداد میں زاغ و زغن   بدستور موجود ہیں۔ اس نا ہنجار کو دیکھتے ہی ان تمام طیور نے ایک نیچی اڑان بھری اور اس پر اپنا فضلہ اور بیٹ اس طرح گرائی جیسے ہوائی حملے میں جنگی طیارے دشمن پر جھپٹتے ہیں۔ یہ بد نہاد  درندہ  ان طیور کے ضماد میں لت پت ہو گیا اس نے اپنے محافظ دستے کو اسی وقت فائرنگ کا حکم دیا لیکن پرندے تو پلک جھپکتے میں لمبی اڑان بھر چکے تھے وہ کس پر فائرنگ کرتے۔ یہ طائر تو ابابیل کے طیور جیسا کردار ادا کر رہے تھے۔ گھاسو مل اس اچانک حملے سے بو کھلا گیا اس کے جسم سے عفونت اورسڑاند کے بھبوکے نکل رہے تھے۔ اس کے حفاظتی عملے کو شدید الٹیاں آ رہی تھیں۔ سب نے اپنی ناک پر رومال رکھ لیے اور اس بد بو سے بچنے کے لیے دور چلے گئے۔ گھاسو مل اب اکیلا کھڑا تھا۔ اس کے منہ سے جھاگ بہہ رہا تھا اور اس کی آنکھیں بوٹی کی طرح سرخ ہو رہی تھیں۔ اب اس نے کھسیانی بلی کی طرح کھمبا نوچنے کی کو شش میں اپنا پستول نکالا اور اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ سب لوگوں نے بھاگ کر بڑی مشکل سے اپنی جان بچائی۔

           گھاسو مل اپنا ذہنی توازن کو چکا تھا۔ وہ اول فول بکتا فائرنگ کرتا ہر طرف  دوڑتا پھرتا تھا۔ سب لوگ چھپ گئے تھے۔ اچانک گھاسو مل کا پاؤں  پھسلا اور وہ منہ کے بل ایک گٹر میں جا گرا۔ اس کے منہ، ناک، کانوں اور آنکھوں میں بد رو کا متعفن اور آلودہ پانی بھر گیا۔ اس کی چیخ نکلی اور اس کے ساتھ ہی وہ تڑپ تڑپ کر ٹھنڈ ا ہو گیا۔ نا معلوم کس جانب سے سیکڑوں کی تعداد میں گدھ وہاں آ گئے جنھوں نے اس کی بوٹی بوٹی نوچ لی اور اڑ گئے۔ گھاسو مل کا ڈھانچہ گڑ کے باہر دو دن پڑا رہا۔ اسے  خشک پتوں سے ڈھانپ دیا گیا۔ رنگو خاکروب نے تیسرے دن خشک پتوں کے اس  بہت بڑے  ڈھیر کو  جس کے نیچے گھاسو مل کا ڈھانچہ پڑا تھا اسے آگ لگا دی۔ آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کر رہے تھے اور تمام ملازمین آپس میں سرگوشیوں میں مصروف تھے۔ سب کے چہرے کھل اٹھے تھے۔ اچانک نورے نے کہا :

         ’’وہ دیکھو سامنے ایک کونپل پھوٹ رہی ہے ایک  سوکھے تنے سے جہاں سے شاخ ٹوٹی تھی وہیں سے نئی شاخ پھوٹی ہے اور  ہریالی کے آثار پیدا ہو رہے ہیں۔ ‘‘

     ’’  ہاں !اور یہ بھی دیکھو کمرے کی منڈیر پر طائران خوش نوا  پھر لوٹ کر آ گئے ہیں۔ گدھ، بوم اور زاغ و زغن کا کہیں اتا پتا  اب معلوم نہیں۔ بلبل کو چہچہاتے ہوئے سنو ‘‘گامے نے خوشی سے کہا  سال2006 کا آغاز ہو چکا ہے۔ عرصے کے بعد  یہ پرندے لو ٹ کر آئے ہیں۔ حبس کے ماحول میں تو یہاں سے خوش الحان  پرندے بھی کوچ کر گئے تھے۔ اور اب تو رات کے وقت پر اسرار سائے بھی دکھائی نہیں دیتے۔ نہ کوئی بھوت رہا اور نہ ہی کسی چڑیل کا خوف اب باقی ہے۔ ایک بھیانک دور اپنے انجام  پہنچا۔ نظام کہنہ کی عمارت اب دھڑام سے زمیں بوس ہو چکی ہے۔ کالے دھن والوں کے کالے کرتوت سب جان گئے ہیں۔ گھاسو مل اور ڈاکو حسینہ کے گھناؤنے کردار کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ مجبور نے صعوبتوں کا جو سفر طے کیا ہے وہ اب کسی منزل تک پہنچ کر ہی دم لیں گے۔ ‘‘

       ’’اب حقیقی تبدیلی سامنے آئے گی۔ ظلم کا جھنڈا  ہمیشہ کے لیے سر نگوں ہو چکا ہے ‘‘نورے نے کہا’ ’اب تمام فرعون فطرت کی تعزیروں کی زد میں آ کر  اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں۔ ‘‘

       گامے نے کہا ’’ہاں اگر خنجر کی زباں چپ بھی رہے تو آستین کا لہو پکار اٹھتا ہے۔ مظلوم کا خون ہمیشہ تبدیلی لاتا ہے۔ یہ خون جبر کے ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ اسی کا نام تو مکافات عمل ہے اور اس کے نتیجے میں جو تبدیلی رونما ہوتی ہے وہ دائمی ہوتی ہے۔ ‘‘

 

مکرم درزی

           مکرم درزی ایک دور دراز گاؤں میں رہتا تھا۔ وہ لکھنا پڑھنا جانتا تھا اور سلائی کی تربیت اس نے شہر کے مشاق درزی ماسٹر نور سے حاصل کی تھی۔ مکرم درزی  ایک با ضمیر، بے ضرر، با حوصلہ اور با وقار انسان تھا۔ اس کا گاؤں جو دریائے چناب کے کنارے پر  واقع تھا، ایک نزدیک قصبے کھورواہ  سے تین میل کے فاصلے پر تھا۔ اس نے گاؤں کی لڑکیوں کو سلائی کڑھائی کا ماہر بنا دیا اور یہ  بچیاں نہ صرف اپنے لباس کی سلائی کے قابل تھیں بل کہ وہ دوسری عورتوں اور بچوں کا لباس سی کر اچھی خاصی رقم جمع کر لیتیں اور اس طرح گھر کی آمدنی میں اضافہ کر کے ماں باپ کا ہاتھ بٹاتیں۔ مکرم درزی روزانہ صبح کی نماز با جماعت پڑھ کر اپنی سلائی مشین اپنے سر پر اٹھا کر نواحی قصبے کھوروا کا رخ کرتا اور بازار میں ایک کلاتھ مر چنٹ کی بڑی دکان کے تھڑے پر بیٹھ کر سارا دن کپڑوں کی سلائی میں مصروف رہتا۔  اس کے پاس ایک ہی سلائی مشین تھی اور دوسری سلائی مشین کی خریداری کی اس میں سکت ہی نہ تھی۔ شام کو مشین اس لیے گھر لاتا تھا کہ وہ رات کو بھی اپنے گھر میں سلائی کے کام میں مصروف رہتا تھا۔ قصبے کی اس سب سے بڑی دکان کے تھڑے پر بیٹھنے کی اجازت سرمایہ دار سیٹھ کی کئی شرائط سے جڑی ہوئی تھی۔ موہن کلاتھ ہاؤس کے مالک سیٹھ موہن داس نے اس غریب درزی کو جن کاموں کا ذمہ دار بنا رکھا تھا ان میں دکان کے سامنے جھاڑو دینا، چھڑکاؤ کرنا،  دن کے دس بجے سیٹھ کے گھر سبزی اور پھل وغیرہ پہنچانا اور وہاں سے دوپہر کو کھانے کا ٹفن دکان پر لانا۔ مکرم درزی یہ سب خدمات  بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیتا۔ صبح سے شام تک وہ اپنے کام میں مصروف رہتا۔ دکان سے کپڑوں کی خریداری کے لیے آنے و الے مرد اور عورتیں اس کے کام کی نفاست کو پسند کرتے تھے۔ وہ کپڑوں کی سلائی اور فٹنگ پر خاص توجہ دیتا۔ میرے ساتھ مکرم درزی کا ایک تعلق سا بن گیا تھا۔ میں اس کے کام اور دیانت داری سے متاثر تھا۔ جو بھی اس سے کپڑے سلواتا وہ اس کے ناپ کے مطابق کٹائی اس کی موجودگی میں کرتا اور جو کپڑا بچ جاتا وہ مالک کو اسی وقت واپس کر دیتا۔ موہن داس اسے سبزی اور پھلوں کے لیے جو رقم دیتا وہ اس کا پائی پائی کا حساب سیٹھ کو لکھ کر دیتا۔ سیٹھ موہن داس اور اس کے گھر کے تمام افراد مکرم کی دیانت، شرافت اور خوش اخلاقی کے معترف تھے۔

        بچپن کی شادی نے مکرم کی زندگی کو متعدد مسائل کی بھینٹ چڑھا دیا۔ اس کی سات بچیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوا۔ ایک بڑے کنبے کا واحد کفیل ہونے کی وجہ سے مکرم معیشت کے افکار میں بری طرح الجھ کر رہ گیا تھا۔ چالیس سال کی عمر میں وہ ستر برس کا بوڑھا دکھائی دیتا تھا۔ مکرم کی پہلی بچی پیدا ہوئی تو اس وقت مکرم کی عمر سولہ سال تھی۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے بارہ سال کے عرصے میں اس کی سات بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوا۔ بیٹا سب سے چھوٹا تھا اور سب کی آنکھ  کا تارا تھا۔ مکرم جو کچھ کماتا وہ اس کی اولاد کے لباس، غذا اور دیگر ضروریات پر خرچ ہو جاتا۔ تقدیر کے کھیل بھی نرالے ہوتے ہیں۔ مکرم کے ساتھ بھی مقدر نے عجب کھیل کھیلا۔ بیٹے کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کی اہلیہ پر فالج کا شدید حملہ ہوا اور وہ مستقل طور پر چلنے پھرنے سے معذور ہو گئی۔ مفلسی میں آٹا گیلا ہونا کی مثل ان پر صادق آتی ہے۔ مکرم کی تمام جمع پونجی اپنی اہلیہ کے علاج پر خرچ ہو گئی مگر وہ چارپائی پر ایسے گری کے پھر زمین پر چلنا اسے نصیب نہ ہو سکا۔ سیٹھ موہن داس نے بھی اس کی امداد کی مگر اس کی اہلیہ ٹھیک نہ ہو سکی۔ مکرم کے گھر کے در و دیوار پر حسرت، یاس، مجبوری، محرومی، افلاس اور بیماری کے سائے روز بہ روز گمبھیر ہوتے چلے گئے۔ ان آلام کے باعث یوں محسوس ہوتا ہے کہ چاروں جانب جان لیوا اداسی بال کھولے گریہ و زاری میں مصروف ہے۔

          وقت گزرتا رہا اور ساتھ ہی مسائل بھی بڑھتے چلے گئے۔ مسائل کے ساتھ ساتھ بچوں کی عمر بھی بڑھنے لگی۔ مکرم کی بیٹیاں اب جوانی کی حدود میں قدم رکھ چکی تھیں۔ جہاں دو وقت کی روٹی ہی سب سے بڑا مسئلہ ہو وہاں تعلیم اور دیگر مسائل  پر توجہ کیسے دی جا سکتی ہے ؟مکرم کی سات بیٹیاں صرف دینی تعلیم، خانہ داری  اور سلا ئی  کڑھائی ہی کو اپنی متاع حیات سمجھتی تھیں۔ یہ بچیاں بڑی صابر اور شاکر تھیں۔ انھوں نے اپنے والدین کی خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ مکرم نے دن رات ایک کر کے ان بچیوں کے جہیز کا انتظام کیا۔ اس کام میں سیٹھ موہن داس کی دست گیری بہت کام آئی۔ اس نے  مناسب رشتے تلاش کر کے ان کے ہاتھ پیلے کرنے میں عافیت سمجھی۔ اس کی بیٹیوں کے لیے مناسب رشتوں کی تلاش میں علاقے کے معززین اور پورے شہر کے  لوگوں نے بھر پور تعاون کیا۔ اب مکرم قدرے مطمئن دکھائی دیتا تھا۔

          میرے والد صاحب فریضہ حج ادا کرنے کے لیے ارض مقدس روانہ ہونے لگے تو مکرم بھی انھیں ملنے کے لیے آیا اور دیر تک بیٹھا رہا۔ وہ اپنے بارے میں تفصیل سے بتاتا رہا اور اپنے مصائب کے حل کے لیے دعا کی استدعا کی۔ رخصت ہوتے وقت والد صاحب نے اسے گلے لگا لیا اور کہا:

         ’’مکرم ! اگر ارض مقدس سے تم کوئی چیز منگوانا چاہو تو بے جھجھک کہہ دو۔ میں وہ ضرور لاؤں گا۔ ‘‘

       یہ سن کر مکرم زار و قطار رونے لگا اور اس کی ہچکیاں نکلنے لگیں۔ والد صاحب نے اس پیار کیا اور اس کی ڈھارس بندھائی۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ روتے ہوئے کہنے لگا :

         ’’میرے لیے تو آپ مدینے، مکے، طائف، غار حرا، غار ثور اور جنت البقیع کی مٹی لیتے آنا۔ یہ مٹی میری آنکھ  کا سرمہ بنے گی اور قبر میں بھی یہی مٹی  میرے ساتھ جائے گی۔ ‘‘

      مکرم کی باتیں سن کر میں اور میرے والد صاحب اپنے آنسو ضبط نہ کر سکے اور  والد صاحب  کا گریہ گلو گیر ہو گیا۔ انھوں نے مکرم کی باتیں بڑی توجہ سے سنیں۔ میں سوچنے لگا کہ یہ شخص کس قدر مثبت سوچ رکھتا ہے۔ کاش ہم اپنی سوچ کو اسی انداز میں بدل سکیں۔ والد صاحب نے مکرم سے کہا :

        ’’تمھاری اس خواہش کا مجھے بہت احترام ہے۔ میں ارض مقدس سے ان مقامات کی مقدس مٹی ضرور حاصل کروں گا جہاں پر حضور ﷺ نے قدم مبارک رکھے۔ کوئی اور چیز جو تمھیں درکار ہے وہ بھی بتاؤَ۔ میری کوشش ہو گی کہ تمھاری دلی تمنا کو پوری کرنے کی کوشش کروں۔ ‘‘

      ’’ہاں ایک تمنا دل میں ضرور ہے ‘‘مکرم نے کہا ’’میرے لیے کفن کا ایک ٹکڑا  خریدنا۔ اسے آب زم زم سے دھوکر حرم پاک اور روضہ اقدس سے مس کر کے لانا۔ میرے لیے سفر آخرت میں کام آئے گا۔ ‘‘

    والد صاحب نے وعدہ کیا کہ وہ مکرم کی ان خواہشات کی تکمیل کی سعی کریں گے۔ مکرم مطمئن ہو گیا اور دعا دے کر چلا گیا۔ اس کے بعد وہ مجھے اکثر ملتا رہا اور مجھ سے میرے والد صاحب اور دوسرے حاجی صاحبان کی خیریت معلوم کرتا رہا۔ ایک مرتبہ تو اس نے میرے ٹیلی فوں پر والد صاحب سے بات کرنے کی خواہش ظاہر کی جو میں نے پوری کر دی۔ اس وقت اس کی حالت دیدنی تھی، وہ بہت خوش تھا، کہنے لگا :

’’ میری آواز ارض مقدس تک جا پہنچی ہے اور وہاں کی فضا سے مجھے آواز سنائی دے رہی ہے۔ میں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں۔ تمھارے احسان کے سامنے میری گردن ہمیشہ خم رہے گی۔ آپ لوگوں سے مل کر تو زندگی سے پیا ر ہو جاتا ہے۔ ‘‘

             والد صاحب  فریضۂ حج کی ادائیگی کے بعد گھر پہنچے تو مکرم بھی پھولوں کے ہار لیے ہمارے گھر آیا۔ والد صاحب نے اس کے مطلوبہ تبرکات اس کے حوالے کیے۔ اس موقع پر اس نے کہا:

        ’’میں نے اب مرنے کی سب تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔ آپ میرے لیے دعا کریں۔  آلام روزگار کے مہیب بگولوں نے میری امیدوں کے سب دئیے ایک ایک کر کے گل کر دئیے ہیں۔ اب میں بھی

 کوئی دن کا مہمان ہوں۔ میں اب چراغ سحر ہوں نا معلوم کس وقت اجل کے ہاتھوں زندگی کی یہ شمع بجھ جائے۔ تقدیر کے چاک کو سوزن تدبیر سے رفو کرنا قطعی نا ممکن ہے۔ ‘‘

اس کا چہرہ پیلا ہو رہا تھا اور اس کے ہاتھوں اور جسم پر رعشہ طاری تھا۔ آخر وہ ایک انسان  تھا۔ مسموم حالات اور مصائب کی گردش مدام نے اسے یاس وہراس میں مبتلا کر دیا تھا۔ ہجوم یاس میں وہ اس قدر گھبرا گیا تھا کہ مجھے محسوس ہوا کہ اس کا سینہ و دل حسرتوں سے چھا گیا ہے۔ وہ دنیا کے ستم حرف حرف کہنا چاہتا تھا مگر یہاں تو ہر شخص اپنی ہوا میں مست پھرتا ہے۔ اس شہر نا پرساں میں ایک غریب اور بے بس محنت کش کی چشم تر پر نگاہ التفات ڈالنے کی فرصت کس کو ہے ؟مکرم کی زندگی تو کسی مفلس کی قبا  کے مانند تھی جس میں درد کے اس قدر پیوند لگ چکے تھے کہ اس کی شکل ہی بدل چکی تھی۔

          مکرم کا بیٹا نسیم  بھی اب اس کے ساتھ مل کر سلائی کے کام میں لگ گیا۔ موہن داس کی دکان کے تھڑے پر تو مکرم ہی بیٹھتا جب کہ نسیم اب گھر میں رہ کر سلائی کے کام میں مصروف رہتا۔ نسیم بھی اپنے باپ کی طرح بہت محنتی اور صابر نو جوان تھا۔ ایک تبدیلی یہ ہو ئی کہ مکرم نے اب گاؤں چھوڑ کر اسی قصبے میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ اس کی  وجہ  یہ تھی کہ مکرم کی فالج زدہ معذور اہلیہ کی دیکھ بھال کرنے والا اب کوئی نہیں تھا۔ اس کی بیٹیاں تو کب کی اپنے گھروں کو سدھار چکی تھیں۔ بیٹیاں بھی چڑیوں کی طرح ہوتی ہیں۔ نہایت مختصر عرصے کے لیے اپنے والدین کے آنگن میں چہچہاتی ہیں اور اس کے بعد جب اپنا گھر بسا لیتی ہیں تو پھر اپنے نئے گھر میں اپنے بچوں کے ساتھ اس قدر گھل مل جاتی ہیں کہ بیتے دنوں کی یاد انھیں ایک خواب کے مانند محسوس ہوتی ہے۔ بچپن کے لمحات کبھی لوٹ کر نہیں آسکتے، ان بیٹیوں کے لیے ان کی یادیں ہی ان کے لیے ایک سرمایہ ہوتا ہے۔ سیرجہاں کا حاصل حیرت و حسرت کے سوا کچھ بھی تو نہیں۔ مکرم جب بھی اپنی بیٹیوں کو یاد کرتا اس کے منہ سے حرف دعا کے علاوہ کچھ نہ نکلتا۔ اس قصبے میں وہ ایک نیا مکین تھا۔ اس نے محسوس کیا کہ جو بھی اس کٹھن مرحلے میں اس کے کام آیا وہی اس کا حقیقی مونس و غم خوار ہے۔ سب سے بڑھ کر اس کے دیرینہ کرم فرما موہن داس نے اس کی قدر افزائی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ اس کی کوششوں سے مکرم کو ایک چھوٹا سا مکان کرائے پر مل گیا۔ اب اس کی بیوی بھی چارپائی پر بیٹھ کر کپڑے سیتی اور اس طرح یہ تین افراد دن رات ایک کر کے محنت کرتے اور رزق حلال کماتے۔

             سیل زماں کے تھپیڑوں سے مکرم کو کبھی کوئی شکوہ نہ رہا۔ وہ دیانت داری سے یہ محسوس کرتا تھا کہ اس کی  نا آسودگی اور معاشی تشنگی کا موج حوادث کی تند و تیز موجوں سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ یہ سب کچھ تو نوشتۂ تقدیر ہے جس کو دنیا کی کوئی طاقت بدل نہیں سکتی۔ مکرم نے اب اپنے بیٹے کی شادی کے انتظامات پر اپنی توجہ مرکوز کر دی۔ اس کی دلی خواہش تھی کہ جس قدر جلد ممکن ہو وہ اپنے گھر میں اپنی بہو لے آئے اور اس اداس، خاموش اور سونے آنگن میں بہار آ جائے۔ اس کی اپنی زندگی کا سفر تو جیسے تیسے کٹ گیا مگر اس مسافرت میں اس کا پورا وجود کرچیوں میں بٹ گیا۔ زندگی کے اس سفر میں طویل مسافت طے کرنے کے بعد اسے یو ں لگا کہ جیسے سفر کی دھول ہی اب اس کا پیرہن بن چکا ہے۔ اس کے بیٹے کی زندگی  کی رنگینی و رعنائی بھی جیسی اس کی توقع تھی اس کہیں کم محسوس ہوتی تھی۔ ہر گھڑ ی اس کو یہ کھٹکا  لگا رہتا کہ اس کے بیٹے کو کسی کمی کا احساس نہ ہو۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہر انسان زندگی کے سفر میں صدائے جرس کی جستجومیں آبلہ پا دیوانہ وار پھرتا ہے مگر اس کی تمام جد و جہد رائیگاں چلی جاتی ہے اور وہ سرابوں کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے اور جب وہ خود کو   بے بسی کے عالم میں سکوت کے صحرا میں بھٹکتا ہو ا پاتا ہے تو اس کا کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ مکرم بھی اب حالات سے بہت مایوس ہوتا چلا جا رہا تھا۔ وہ اپنے بیٹے کی شادی کے لیے جہاں بھی جاتا اسے مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا۔ اس کی غربت ہی ا س کی راہ میں سد سکندری بن گئی۔ مکرم کی بیوی موہن داس کی بیٹی لاجونتی  کو للچائی نگاہوں سے دیکھتی تو مکرم اسے غصے سے ٹوکتا۔

          سیٹھ موہن داس بھی اب ضعیفی کی حدود میں داخل ہو چکا تھا۔ وہ اولاد نرینہ سے محروم تھا۔ اس کی ایک ہی بیٹی تھی جس کے لیے موزوں رشتے کی تلاش میں اب تک وہ کامیاب نہ ہو سکا تھا۔ گزشتہ رات اسے دل کا شدید دورہ پڑا اور اسے ایمرجنسی میں پہنچا دیا گیا۔ وہ ایک ہفتہ ہسپتال میں داخل رہا اس دوران میں ا س کی دکان مسلسل بند رہنے کی وجہ سے اسے بہت نقصان برداشت کرنا پڑا۔ اس کا المیہ یہ تھا کہ اسے کوئی قابل اعتماد ملازم نہ مل سکا۔ دو تین بارا س نے ملازمین کو کیش پر بٹھایا مگر ہر بار وہ اسے لوٹ کر چلتے بنے۔ موہن داس جب ہسپتال سے واپس آیا تو اس نے مکرم کو بلایا اور کہا:

        ’’میں چاہتا ہوں کہ میری علالت کے دوران تم اور تمھارا بیٹا میرا کاروبار سنبھال لو اور تمام خرچ اور آمد پر کڑی نظر رکھو۔ تمھارا بیٹا میٹرک پاس ہے وہ یہ کام کر سکتا ہے تمھاری مدد کے لیے ایک ملازم جو پہلے سے کام کر رہا ہے وہ بھی موجود رہے گا۔ زندگی نے وفا کی تو میں تمھارے لیے ہر خدمت بجا لاؤں گا، اگر چل بسا تو یہ سب کچھ اپنی نگرانی میں میری بیوی اور بچی کے لیے بہ طور امانت سنبھال رکھنا۔ ‘‘

ابھی مکرم سوچ رہا تھا کہ موہن داس کی اکلوتی بیتی لاجونتی نے روتے ہوئے کہا ’’چچا مکرم آپ بے فکر ہو کر اس کام کو اپنے ذمے لے لیں۔ ہمیں آپ پر پورا اعتماد ہے۔ میں آپ کی بیٹی کی طرح ہوں دیکھیں میرا دل نہ توڑیں ہماری دکان کو اب کوئی اور نہیں سنبھال سکتا۔ آپ کے ساتھ ہمارا درد کا رشتہ ہے۔ جب بھی آپ نے ہمیں پکارا ہم آپ کے نام پہ چلے آئے۔ اب ہم آپ کو مدد کے لیے بلا رہے ہیں ، آپ کیسے انکار کر سکتے ہیں ؟کیا عجب درد کا یہ رشتہ دونوں خاندانوں کی قسمت بدل دے  اور خوش حالی اور خوش نصیبی دونوں کا مقدر بن جائے۔ ‘‘

       مکرم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور  اس کے منہ سے کوئی لفظ نہ نکل سکا۔ وہ دل میں سوچ رہا تھا کہ تھڑے پر بیٹھ کر وقت گزارنا تو بہت آسان ہے مگر اتنے وسیع کاروبار کو سنبھالنا اور تجوری کی حفاظت اور سب سے بڑھ کر اپنی دیانت کا بھرم قائم رکھنے کے لیے بڑی تپسیا کی ضرورت ہے۔ مال و دولت کی ہوس انسان کو کسی وقت بھی بے حسی کی بھینٹ  چڑھا سکتی ہے۔ یہ سوچتا تو وہ کانپ اٹھتا۔

  لاجونتی کی ماں نے مکرم سے مخاطب ہو کر کہا ’’دیکھو مکرم تم گزشتہ چالیس برس سے ہمارے گھر آ رہے ہو۔ اس عرصے میں تم نے ہمارا ایک پائی کا نقصان نہیں کیا۔ تم نے ہر حال میں ہماری عزت اور وقار کاخیال رکھا ہے۔ آج ہم پر بہت کٹھن وقت آ گیا ہے۔ میرے شو ہر کو معالج نے ایک برس مکمل آرام کا مشورہ دیا ہے۔ ہم سخت مشکلات میں گھر گئے ہیں۔ اب تم جانو اور دکان جانے یہ میرا حکم ہے۔ ‘‘

      لاجونتی نے دکان کی چابیاں مکرم کے حوالے کرتے ہوئے کہا ’’ آج سے دکان کے تمام معاملات کی نگرانی تمھارے ذمے ہے۔ تمھارے گھر کے تمام اخراجات ہم پورے کریں گے ‘‘

’’ آپ سب سچ کہہ رہے ہیں۔ ہم غریب لوگ درد کے رشتے کو خوب سمجھتے ہیں ‘‘مکرم نے روتے ہوئے کہا ’’میری بیٹیوں کی شادی کا تمام جہیز موہن داس نے بنایا۔ میری بیوی کے علاج کے لیے موہن داس نے  میری مالی مدد کی۔ میں آپ کی خدمت ضرور کروں گا لیکن اس کے بدلے کوئی مالی مفاد حاصل نہ کروں گا۔ ہم لوگ غریب ضرور ہیں مگر آپ کے احسانات کے سامنے ہماری گردن خم رہے گی۔ ‘‘

         ’’جو کچھ ہم نے کیا وہ ہمارا فرض تھا ‘‘لاجونتی کی ماں بولی ’’تمھاری بیٹیاں  ہماری اپنی بیٹیاں ہی تو تھیں ہم نے کوئی احسان نہیں کیا۔ اب تم ہم پر یہ احسان کرو کہ اس مشکل گھڑی میں کاروبار کو ڈوبنے سے بچاؤ۔ موہن داس ٹھیک ہو جائے گا تو سب کچھ سنبھال لے گا۔ تمھاری اس نیکی کا صلہ ہم کبھی نہیں دے سکتے۔ کیا عجب مقدر کے اس کھیل میں حالات کوئی نیا اور مثبت  رخ بھی اختیار کر سکتے ہیں۔ ‘‘

      ’’تم سب جاؤ اور نسیم کی ماں فردوس کو یہاں لے آؤ‘‘ موہن داس نے کہا ’’وہ ہمارے ساتھ رہے گی۔ گھر میں جو کچھ پکے گا سب مل کر کھائیں گے اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک رہیں گے۔ ‘‘

    شام کے سائے ڈھل رہے تھے مکرم اس کی بیوی اور اس کا بیٹا نسیم  اپنی نئی قیام گاہ میں پہنچ چکے تھے۔ اب لاجونتی اور اس کی ماں اپنی نگرانی میں ملازمہ سے کھانا پکواتی۔ مکرم اور اس کے  بیٹے نے  دل لگا کر کام کیا۔ پہلے مہینے سٹاک کی پڑتال اور فروخت شدہ کپڑے کے متبادل نئے کپڑے کی خریداری کے بعد  ایک لاکھ روپے کا منافع ہوا جو کہ ایک ریکارڈ تھا۔ موہن داس کی آنکھوں میں ممنونیت کی نمی تھی۔ اگلے

 مہینے یہ منافع بڑھ کر ڈیڑھ لاکھ روپے  ہو گیا۔ اور اس طرح رفتہ رفتہ  فروخت اور خریداری کی شرح اور منافع میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اب یہ دکان شہر کی سب سے بڑی اور ہول  سیل کی دکان بن چکی تھی۔ سب مقامی  دکان دار یہیں سے کپڑا خریدتے۔ اس کے علاوہ ارد گرد کے قصبوں کے بیوپاری بھی موہن کلاتھ ہاؤس ہی کو ترجیح دیتے تھے۔ ایک سال کے عرصے میں موہن داس کی طبیعت بالکل بحال ہو گئی اور وہ پھر سے ہشاش بشاش ہو گیا۔ اس عرصے میں مکرم نے جو منافع دکھایا وہ دکان کے اصل زر سے  تین گنا زیادہ تھا۔ اپنی صحت یابی کے بعد جب مو ہن  داس پہلی بار دکان میں آیا تو مکرم اسی وقت دکان کے تھڑے پر اپنی سلائی مشین لے کر بیٹھ گیا۔ موہن داس نے کہا :

          ’’اب تمھیں مزید  یہاں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ بہت ہو چکا  !اب تم کہیں اور جا کر اپنا  سلائی کا کاروبار کرو گے۔ ‘‘

   یہ سنتے ہی مکرم کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی اور اس کی آنکھوں کے آگے اندھیر چھا گیا۔ وہ دل ہی دل میں سوچنے لگا شاید اس سے کوئی بھول ہو گئی ہو یا حساب میں کوئی غلطی نا دانستہ رہ گئی ہو۔ ابھی وہ ان سوچوں میں گم تھا کہ موہن داس نے اسے پھر مخاطب ہو کر کہا :’’آ ج سے تمھاری رہائش کا بھی الگ انتظام کر  دیا گیا ہے اب تم اپنی نئی رہائش میں منتقل ہو جاؤ گے۔ ‘‘

     یہ بات مکرم کے لیے قدرے اطمینان بخش تھی۔ وہ خو دبھی یہی چاہتا تھا کہ جس قدر جلد ممکن ہو وہ  پھر سے اپنے غریبانہ ماحول میں گزر بسر کرے۔ تاہم  موہن داس کے رویے سے وہ حیرت زدہ رہ گیا۔

    ’’ لیکن اب میں سلائی کہاں کروں گا ؟‘‘ مکرم نے پوچھا ’’ابھی کچھ دن تو مجھے یہیں بیٹھنے دیں اس کے بعد میں اپنا کوئی نیا ٹھکانہ تلاش کر لوں گا۔ ‘‘

   ’’یہ نہیں ہو سکتا میں ا س کام میں مزید تاخیر کا متحمل ہر گز نہیں ہوسکتا ‘‘موہن داس نے کہا ’’ابھی اپنی مشین اٹھاؤ اور میرے پیچھے پیچھے آؤ۔ ‘‘

       دکان کو تالا لگا کر موہن داس باہر نکلا اور مکرم اس کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ بازار کے درمیان میں ایک دکان پر ابھی تازہ بورڈ لگا تھا جس پر لکھا تھا ’’مکرم  ٹیلرز اینڈ بو تیک ‘‘ موہن داس نے مکرم سے مخاطب ہو کر کہا :’’یہ دکان اب تمھاری ملکیت ہے۔ وہ سامنے تمھارے لیے ایک چھوٹا سا گھر بھی خریدا ہے جس میں تمھاری بیوی اور بیٹا آج صبح منتقل ہو گئے ہیں۔ اس دکان، مکان اور بوتیک کے سامان پر جو خرچ آیا ہے وہ  منافع میں تمھارے  حصے کی رقم ہے۔ اب اپنے گھر سے ہو کر ہمارے گھر کا بھی چکر لگا لینا۔ تم تو چھپے رستم نکلے ہو۔ ہماری بیٹی لاجونتی کے لیے تم نے بہت اچھا سوچا۔ ہمیں معاف کر دینا تم نے تو ہماری بیٹی لاجونتی کے لیے بہتر سوچا لیکن ہم تمھارے بیٹے نسیم کے لیے کچھ نہ کر سکے۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ نسیم کا گھر ضرور آباد کروں گا۔ تمھاری خواہش ضرور پوری ہو گی۔ ‘‘

          مکرم جب موہن داس کے گھر پہنچا تو موہن داس کی بیوی نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا ــ’’ تم نے لاجونتی کو اپنی بیٹی  کی طرح سمجھا اور اس کے لیے موزوں رشتہ تلاش کرنے کی کوشش کی۔ آج شام کراچی سے اونی کپڑے کے وہ تاجر اور ان کے خاندان کی عورتیں آ رہی ہیں جنھیں تم نے لاجونتی کے رشتے کے لیے کہا تھا۔ سیٹھ رنگون والا  ٹیلی فون پر ہمیں سب کچھ بتا چکا ہے۔  ان لوگوں سے ہمارا برسوں کا لین دین رہا ہے،  درمیان میں کچھ غلط فہمیوں کی وجہ سے فا صلے بڑ ھ گئے تھے۔ تم نے اچھا کیا جو  ان سے روابط پیدا کیے۔ ان کے قیام و طعام کے سب انتظام تمھارے ذمہ ہوں گے۔ ‘‘

       مکرم کو سب باتیں یاد آ گئیں۔ وہ بہت خوش تھا کہ اس کے محسن کی بیٹی اپنے گھر کو سدھار جائے گی۔ بیٹیاں تو ہوتی ہی پرایا مال ہیں۔

        شام کو کراچی سے وہ لوگ آ گئے سب سے پہلے وہ مکرم کے گھر گئے۔ سفینہ کو مکرم کا گھر اور اس کا ماحول بہت پسندآیا۔ نسیم کو دیکھ کر اس نے سکھ کا سانس لیا جیسے اسے اس کے خوابوں کا شہزادہ مل گیا ہو۔ اس کے بعد وہ موہن داس کے گھر آئے۔ کراچی کے سیٹھ رنگون والا کے ہمراہ اس کی بیوی، بیٹا اور اس کی لے پالک بیٹی سفینہ  بھی تھی۔ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد سب بہت خوش تھے۔

         سیٹھ رنگون والا نے کہا ’’مکرم تم نے جو کچھ کہا وہ حر ف بہ حر ف سچ نکلا۔ لیکن تم نے ہم سے ایک جھوٹ بولا کہ تم تھڑے پر بیٹھ کر کپڑے  سیتے ہو اور تم ایک انتہائی غریب آدمی ہو۔ ‘‘

   ’’عاجزی اور انکسار مکرم کے مزاج کا حصہ ہے ‘‘موہن داس نے کہا ’’میری دکان کی کامیابی کا دارو مدار مکرم کی دیانت پر ہے ‘‘

      ’’میں سب جان گیا ہوں۔ گزشتہ ایک برس سے مکرم نے مجھ سے جس طرح کاروباری  لین دین کیا ہے وہ اس  کے بلند کردار اور وقار کا ثبوت  ہے۔ میرے اکلوتے بیٹے  کے لیے لاجونتی جیسی چندے آفتاب چندے ماہتاب بیٹی  کا رشتہ ڈھونڈ ا، یہ اس عظیم انسان کا مجھ پر بہت بڑا احسان ہے۔ ‘‘

’’اب تم زیادہ باتیں نہ بناؤ اور لاجونتی کی شادی  کے لیے ابھی انتظام کرو ‘‘موہن داس نے کہا ’’میں چاہتا ہوں کہ تم لاجونتی کو ابھی ساتھ لے جاؤ ۔ جہیز اور سب کچھ تو کب کا تیا ر ہے۔ اور ہمارا بیٹا بھی اب بیرون ملک جانے والا ہے۔ ‘‘

       ’’لاجونتی  کی شادی سے پہلے اور بھی ضروری کام ہیں ‘‘سیٹھ  رنگون والا بولا’’ مجھے مکرم کے احسانات کا بدلہ بھی تو چکانا ہے۔ ‘‘

       موہن داس نے چونک کر کہا ’’وہ کیسے ؟میں کچھ نہیں سمجھا ‘‘

     سیٹھ رنگون والا نے اپنی لے پالک بیٹی سفینہ کا ہاتھ مکرم کے بیٹے نسیم کے ہاتھ میں دیا اور کہا ’’تم دونوں کو  زندگی کا نیا سفر مبارک ہو۔ ‘‘

      مکرم اور اس کی بیوی کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے سب نے مل کر ایک دوسرے کو مبارک دی۔ سب کے چہرے خوشی سے چمک اٹھے۔

٭٭٭

 

پر اسرار صورتیں

           حالات پر کسی انسان کا کوئی اختیار نہیں۔ پر زمانہ اپنی اصلیت کے اعتبار سے پرواز نور سے بھی تیز تر ہے۔ شکم کی بھوک انسان کو در در کی خاک چھاننے پر مجبور کر دیتی ہے۔ میں ملازمت کے سلسلے میں اس دور دراز گاؤں میں پہنچا۔ اس گاؤں میں رہتے ہوئے مجھے ایک سال بیت گیا۔ یوں تو اس گاؤں کے تمام لوگ اپنی سادگی، نیکی اور انسانی ہمدردی کی وجہ سے مجھے پسند تھے مگر ارشد کے مزاج کا ایک الگ انداز تھا۔ وہ کم گو، محنتی، جفا کش اور صابر و شاکر نو جوان تھا۔ ارشد ایک سعادت مند نو جوان تھا  اور محکمہ ڈاک میں پہلے سکیل کا ملازم تھا۔ اس نے  میری عزت و احترام  کو ملحوظ رکھا اور بڑھ چڑھ کر  میری خدمت کی اور میرے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی مقدور بھر سعی کی۔  مجھے معلوم ہوا کہ گاؤں کے نہایت ایمان دار اور خوش اخلاق نو جوان ارشد نے گاؤں کے پر اسرار حالات  سے دل برداشتہ ہو کر گاؤں اور نوکری  چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس گاؤں کا ماحول اب بھی پتھر کے زمانے کی یاد دلاتا تھا۔ کچے گھروندوں پر مشتمل یہ گاؤں دریا  ئے جہلم کے کنارے واقع تھا۔ اس کے چاروں طرف کھجوروں کے جھنڈ تھے۔ اس سے آگے کیکر کے درختوں کا جنگل تھا جہاں ہر طرف خار مغیلاں بکھرے پڑے تھے۔ اس سے کچھ  آگے جنگل بیلا تھا جس میں کریروں ، جنڈ، سر کنڈے، اکڑے، پوہلی، بھکڑا اور جال  کی کثرت تھی۔ اس جنگل بیلے میں جنگلی سور، بھیڑئیے، گیدڑ، خرگوش اور چیتے پائے جاتے تھے۔ خود رو جڑی بوٹیوں اور خار دار جھاڑیوں نے فرش زمیں کو ڈھانپ رکھا تھا۔ اس قدر خس و خاشاک  اس جنگل میں بکھرا پڑا تھا کہ میلوں تک کسی کا گزرنا محال تھا۔ یہ جنگلی جڑی بو ٹیاں  سانپ، بچھو، اور کئی خطرناک حشرات کی آماجگاہ بن چکی تھیں۔ ارشد نے مجھے بتایا کہ اس  جنگل میں ا س نے با ر ہا  کئی  پر اسرار شکلیں دیکھیں۔ گاؤں کے لوگ انھیں بھوت پریت کا نام دیتے اور اس طرف کا کبھی رخ نہ کر تے۔ یہ بھو ت گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے رہتے۔ کبھی عینک والا بھوت دکھائی دیتا اور کبھی انگوٹھی والا بھوت لوگوں پر ہیبت طاری کر دیتا۔ کسی رات گنجا اور کلین شیو  بھوت آتا تو دوسری رات لمبے بالوں والا اور لمبی لمبی مونچھوں والا جٹا دھاری بھوت ظاہر ہوتا اور اس جنگل میں جنگل کے قانون کو پوری قوت سے نافذ کر دیتا۔ اس جنگل کا ما حول  اس قدر  ہولناک اور پر اسرار تھا کہ سوچ کے محدود زاویے اس کا احاطہ نہ کر سکتے تھے۔ میں نے اسے ارشد کی خام خیالی اور ضعیف الاعتقادی پر محمول کیا۔ اپنی تمام تر کوشش کے با وجود میں ارشد کے لا شعور میں پوشیدہ خوف کو ختم نہ کر پایا جس نے اس کی زندگی کی تمام رتوں کو بے ثمر کر دیا تھا۔ اس کے ریشے ریشے میں ایک موہوم خوف سرایت کر چکا تھا۔ ایک دن موقع پا کر میں نے ارشد سے کچھ باتیں جاننے کی کوشش کی۔ میں نے اسے اعتماد میں لے کر کہا:

         ’’تم پر کب انکشاف ہوا کہ اس جنگل میں پر اسرار بھوت، پریت اور آسیب موجود ہیں ؟‘‘

     ’’میرے دادا نے مجھے بتایا تھا کہ اس جنگل کی چوتھی سمت جانے کی کوشش نہ کرنا۔ ‘‘ ارشد نے آہ بھر کر کہا ’’مشرق، شمال اور جنوب کی جانب تو کوئی خطرہ نہیں مگر مغربی سمت جو دریائے جہلم کے کنارے واقع ہے وہاں ایک بھوت کا بسیرا ہے۔ جو بھی اس سمت گیا وہ پھر کبھی واپس نہیں آیا۔ خاص طور پر نو جوان لڑکی جب بھی اس سمت گئی وہ متاع عزت و عصمت گنوا کر زندگی کی بازی ہار جاتی ہے۔ اس کے بعد اس کی لاش دریا کے مگر مچھ کھا جاتے ہیں۔ اور اس بد قسمت نوجوان دوشیزہ کے خون آلود کپڑے دیکھ کر لوگ اندازہ لگا لیتے ہیں کہ وہ بد نصیب لڑکی کسی آدم خور بھوت کی درندگی اور خون آشامی کی بھینٹ چڑھ گئی ہے۔ ‘‘

     یہ باتیں سن کر مجھے یقین ہو گیا کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ اس وقت اصل مسئلہ یہ تھا کہ کسی طرح اس نو جوان کی ڈھارس بندھائی جائے۔ اس کی تین ایکڑ آبائی زمین بھی تھی جو دریا کے مغربی کنارے کے ساتھ تھی۔ اسی جگہ پر بھوتوں اور پراسرارمخلوق نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ یہ جب بھی اس جانب کا رخ کرتا اسے پراسراربھوت اس قدر ہراساں کرتے کہ کہ اس کو جان کے لالے پڑ جاتے۔ اس نے کئی مرتبہ گاؤں کے مکھیاسے بھی اپنے اس دکھ کا ذکر کیا مگر کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔

     ’’ دریا کے کنارے جہاں بھوتوں کا مسکن ہے وہاں اب تک کتنے لو گ گئے اور پھر کبھی نہ لوٹے ؟‘‘میں نے ارشد سے پو چھا ’’آخر وہ کو ن سے حالات ہوتے ہیں جب عورتیں یا مرد اس طرف جاتے ہیں ؟‘‘

   ’’  یہ بڑی عجیب بات ہے۔ کہتے ہیں آج سے نصف صدی قبل یہاں ایک سوامی کا ٹھکانہ تھا۔ وہ بگلا بھگت شخص تھا جس نے اپنی ترک دنیا کی آڑ میں دہشت گردی، جنسی جنون اور  لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ ‘‘ارشد بولا ’’شانتی ایک بے حد حسین  لڑکی تھی وہ اپنے آشنا نابو کے ساتھ مل کر سوامی کے پاس گئی اور اس سے مدد کی التجا کی کہ کسی طرح ان کے والدین ان کی باہم شادی پر آمادہ ہو جائیں۔ دونوں محبت کرنے والے چوری چھپے سوامی کے پاس پہنچے تھے۔ سوامی نے دونوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور ان کی لاشیں دریا میں بہا دیں۔ ‘‘

        ’’یہ تو بہت تشویش ناک بات تھی۔ ‘‘میں نے کہا ’’کیا شانتی اور نابو کے والدین نے اس سانحہ کی اطلاع پولیس کو دی۔ مرنے کے بعد ان بد قسمت نو جوانوں کی لاشیں تلاش کی گئیں یا تمام معاملہ ختم ہو گیا اور خاک نشینوں کا خون رزق خاک ہو گیا۔ ‘‘

    ’’   میرے دادا کہا کرتے تھے کہ شانتی اور نابو کی موت پر کوئی بھی آنکھ نم نہ ہوئی۔ ‘‘ارشد نے روتے ہوئے کہا ’’ہم غریب لوگ ہیں۔ جب کوئی غریب مر جاتا ہے تو کسی کو ذرا بھی دکھ  نہیں ہوتا۔ سب امیر بے حس ہو چکے ہیں۔ غریب کی زندگی کیا ہے اب تو وہ اپنے ارمانوں ، امیدوں اور خواہشوں کی لاشیں اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتے ہیں اور خود زندہ درگور ہو چکے ہیں۔ ‘‘

        گاؤں میں کریانہ کی ایک دکان تھی۔ اس میں روزمرہ ضرورت کی اشیا شہر سے تین گنا زیادہ نرخ پر فروخت ہوتی تھیں۔ اس کے با وجود یہاں کے لوگ ادھار پر چیزیں خرید لیتے اور فصل کی کٹائی کے موقع پر ادھار ادا کیا جاتا تھا۔ ایک دن اس دکان دار نے مجھے بتایا کہ ارشد کا معاملہ خاص پیچیدہ ہے۔ اس کے دکھ کا مداوا کوئی نہیں کر سکتا۔ وہ کہنے لگا :

’’ اس کی ایک محبوبہ تھی جس کا نام گائتری تھا۔ بڑی خوب صورت  لڑکی تھی۔ ایک دن اس نے گاؤں کے مکھیا نے اسے اپنے پیار کاسندیسہ بھیجا تو گائتری نے اسے گالیاں دیں۔ وہ پنگھٹ سے پانی بھر کر لا رہی تھی کہ مکھیا نے اسے چھیڑا۔ بس پھر کیا تھا گائتری نے پانی سے بھرا ہوا گھڑا  پوری قوت سے مکھیا پر دے مارا اور اسے لہو لہان کر دیا۔  عامل کی ایک معتمد عورت گاؤں میں رہتی ہے جو عورتوں کو لے کر وہاں جاتی ہے۔ پریشان حال، مسائل کی شکار اور بے اولاد عورتیں وہاں عملیات، گنڈے، ٹونے یا جادو کے ذریعے اپنی مرادیں پا لیتی ہیں۔ چند روز بعد گائتری سوامی کی ایک معتمد عورت کے ساتھ مل کر اس پر اسرار حویلی میں پہنچی جہاں عامل رہتا تھا اور جہاں بھوت اور جن اس کے قبضے میں تھے۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ مکھیا سے بچنے کے لیے عامل کا سہار ا لیا جائے اور بھوتوں کے ذریعے اس بگڑے ہوئی عیاش جاگیردارسے نجات حاصل کی جائے۔ وہ چاہتی تھی کہ ارشد کے ساتھ زندگی کے خوش گوار سفر کا آغاز کرے۔ ارشد اور گائتری کی منگنی بچپن ہی سے ہو چکی تھی۔ ‘‘

  ’’اس کے بعد کیا ہوا ؟‘‘ میں نے بڑے تجسس سے پو چھا ’’کیا گائتری اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئی ؟‘‘

      دکان دار نے آہ بھر کر کہا’’اس کے بعد گائتری کا کوئی اتا پتا نہ ملا۔ گائتری کی گم شدگی کے بعد ارشد اپنا  ذہنی توازن کھو بیٹھا۔ وہ کئی بار اس کی تلاش میں عامل کے ٹھکانے کی  طرف گیا مگر ہر بار اسے بھوتوں نے ڈرا دھمکا کر بھگا دیا۔ اب یہ بے بسی کے عالم میں نوکری اور  گاؤں چھوڑنا چاہتا ہے۔ اتنا معلوم ہوا ہے کہ گائتری زندہ ہے اور اسے بھوتوں نے اپنے قبضے میں لے رکھا ہے۔ ‘‘

        مجھے یہ باتیں سن کر حیرت ہوئی کہ اس دور میں بھی لوگ کس قدر توہم پرست ہیں۔ لیکن ایک معما میری سمجھ سے بالاتر تھا کہ آخر یہ بھوت ا س قدر طاقت ور کیسے بن گئے کہ یہ کسی کوخاطر میں نہیں لاتے۔ یہ بھوت تو مظلوموں کے چام کے  دام چلا رہے ہیں۔ چند روز بعد ارشد  شام کے وقت مجھے ملنے آیا۔ اس کے چہرے پر  بے بسی اور لاچاری، پریشاں حالی اور درماندگی  اور حسرت و یاس کی جھلک صاف دکھائی دے رہی تھی۔ اس کی ظاہری حالت سے پتا چلتا تھا کہ وہ اپنی بے بسی پر شدید کرب میں مبتلا ہے  اور خطرہ تھا کہیں وہ مایوسی کے عالم میں اپنی زندگی کی شمع نہ بجھا دے۔ میں نے اس سے گائتری کے بارے میں پو چھا تو  وہ چونکا اور زار و قطار رونے لگا۔ فرط غم سے نڈھال ارشد کہنے لگا :

        ’’دوسال گزر گئے۔ گائتری کو بھوتوں نے قید کر رکھا ہے۔ کچھ چرواہے جو اس طرف سے گزرتے رہتے ہیں ، انھوں نے مجھے بتایا کہ گائتری زندہ ہے اور انھوں نے اس کو اس پر اسرر مکان میں گھومتے پھرتے دیکھا ہے۔ مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ گائتری  اب وہاں بہت دکھ اور مصیبت میں پھنس چکی ہے۔ اس سے فریب کیا گیا ہے اور دھوکے سے اسے وہاں لے جایا گیا ہے۔ گائتری کو بھوتوں کی آماجگاہ اور عامل کے ڈیرے پر لے جانے والی اس گاؤں کی کٹنی صابو ہے جو کہ ان عاملوں کی رسد کی ذمہ دار ہے ‘‘

       میرے ذہن میں ایک لاوا سا پک رہا تھا کہ ہو نہ ہو یہ کوئی گہری سازش ہے۔ ممکن ہے کچھ جرائم پیشہ افراد  اس ویرانے کو اپنے جرائم اور قبیح دھندے کے لیے استعمال کرتے ہوں۔ یہ بد قسمت عورتیں موہوم فصل کی کاشت اور برداشت سے پہلے اس قدر بھاری لگان ادا کرنے پر کیوں آمادہ ہو جاتی ہیں۔ آخر وہ کون سی مجبوری ہے جس کی وجہ سے وہ بے غیرتی، بے حسی اور بے ضمیری کی دلدل میں دھنس گئی ہیں۔ اس کے باوجود یہ بات سمجھ میں نہ آئی کہ پر اسرار شکلیں ، ڈراؤنے لوگ، سر کٹے انسان، عجیب الخلقت درندے۔ چڑیلیں اور جن  یہ سب کچھ  کیا ہے۔ سارے لوگ  کیوں اس گورکھ دھندے میں الجھ گئے ہیں۔ گاؤں کا ہر مکین  ایک انجانے  خوف، لا شعوری اضطراب اور ذہنی اذیت میں مبتلا دکھائی دیتا تھا۔ کواکب نے جو روپ دھار رکھا تھا وہ حد درجہ گمراہ کن تھا۔ اس کے باوجود کوئی بھی اس معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتا تھا۔ پورا ماحول ہی مافوق الفطرت عناصر کی چیرہ دستیوں کے باعث سوگوار تھا۔ ایک دن میں گلی سے گزر رہا تھا کہ ایک بد صورت عورت نے میرا رستہ روکا۔ اس عورت کی ہیئت کذائی دیکھ کر مجھے گمان گزرا کہ ممکن ہے یہ وہی ڈھڈو ہو جو معصوم عورتوں کو جعلی عاملوں کے پاس لے جاتی ہے اور ان کی زندگی برباد کرنے کے جرم میں شریک ہو تی ہے۔ ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ عورت نے غصے سے کہا :

    ’’مجھے سب معلوم ہے کہ تم ارشد کو ہمارے خلاف بھڑکاتے رہتے ہو۔ ہمارا کاٹا تو پانی بھی نہیں مانگتا۔ جو سوامی کی راکھ پر بیٹھے ہیں وہ اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ ایک معمولی ملازم کو ٹھکانے لگا سکیں۔ تمھارا کام صرف ڈاک پہنچاناہے۔ ایک ڈاکیے کی اوقات ہی کیا ہے ؟جن، بھوت، چڑیلیں اور پریاں سب  ہوائی مخلوق ان کی غلام ہے۔ بڑی تپسیا کی ہے سوامی کی راکھ پر بیٹھنے والوں نے۔ ‘‘

     ’’اب میں سمجھ گیا کہ تم ہی وہ عورت ہو جو اس بد نصیب گاؤں اور گرد و نواح  کی سادہ لوح عورتوں کو بہلا پھسلا کر دور ویرانے میں چھپے مکار مجرموں کے پاس لے جاتی ہو۔ ‘‘میں نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا ’’خدا  کی لاٹھی بے آواز ہے۔ اس کے ہاں دیر ہے مگر اندھیر نہیں۔ بکرے کی ماں آخر کب تک خیر منائے گی۔ جب اونٹ پہاڑ کے نیچے آئے  گاتو ان بھیڑیوں کو اپنی اوقات کا پتا  چل جائے گا۔ ‘‘

      وہ عورت تو جیسے پہلے ہی سے بہت بھڑکی ہوئی تھی۔ اس کے منہ سے جھا گ بہنے لگا اور اس کی ہف وات سن کر  مجھے ان لوگوں کی ایذا رسانیوں کے بارے میں کوئی شبہ نہ رہا۔ یہ لوگ اپنے مکر کی چالوں سے سادہ لوح لوگوں کو بڑی بے دردی سے لوٹتے ہیں۔ صابو نے مجھے غصے سے دیکھتے ہوئے کہا :

          ’’غور سے سن لو ڈاک بابو۔ جتنی جلدی ہو سکے اپنا بستر گول کر کے یہاں سے چلے جاؤ ورنہ کالا بھوت تمھیں زندہ نہیں چھوڑے گا۔ یہ بھی سن لو کہ گائتری اب کالے بھوت کی بیوی بن چکی ہے۔ ارشد کو بتا دو کہ وہ اس کے خواب مت دیکھے۔ کالا بھوت اور اس کے  ساتھی جس کو نشانہ بنا لیں اسے دنیا میں کہیں بھی پناہ نہیں مل سکتی۔ اس گاؤں میں رات ہوتے ہی ہر گلی میں بھوت راج ہوتا ہے۔ یہ جو رات کے وقت پرانی قبروں سے نکل کر باہر آ جانے والے لوگ  پر اسرار سائے، انوکھی شکلیں اور چلتے پھرتے ہوئے مردے  نظر آتے ہیں وہ سب بھوت ہی تو ہیں۔ کالے دیو  کے احسان سے گاؤں والے اب تک محفوظ ہیں ورنہ اس آسیب زدہ گاؤں کے تمام لو گ کب کے ہلا ک ہو چکے ہوتے َ۔ ‘‘

     ’’ زندگی اور مت تو اللہ کریم کے ہاتھ  میں ہے۔ نہ تو کوئی کالا دیو کسی کو ما رسکتا ہے اور نہ ہی کسی کو زندگی دے سکتا ہے میں اس کالے دھندے اور کالے جادو  پر یقین نہیں رکھتا۔ یہ سب مکار ہیں ان کا منہ جلد ہی  کالا ہو گا۔ یہ سب کچھ مکر اور فریب ہے۔ ‘‘میں نے جواب دیا ’’ہر فرعون کے لیے ایک موسیٰ ضرور آتا ہے۔ کیا عجب یہی ارشد کالے دیو کے لیے تباہی اور بربادی کا پیغام بن جائے۔ اب کالے دیو اور اس کے ساتھیوں کی بربادی کا وقت قریب ہے۔ میری مانو تو تم  عورتوں کے ساتھ فریب کاری کے دھندے سے توبہ کر لو اور اپنی اوقات میں آ جاؤ۔ ‘‘

      اب تو صابو کی آنکھیں بوٹی کی طرح سرخ ہو گئیں۔ اس نے چیخ ماری اور میرے کمرے کی چھت پر گاؤں کے مکھیا کے مکان کی چھت سے اترنے والا  ایک  مردہ کفن پہنے کھڑا تھا۔ اس کے ساتھ  خون میں لت پت ایک کریہہ شکل کا انسان نما  درندہ  بھی کھڑا تھا جس کے منہ سے خون نکل رہا تھا۔ ایسا دکھائی دے رہا تھا جیسے یہ آدم خور ہے اور ابھی ابھی خون پی کر آ رہا ہے۔ ایک سر کٹا  انسان کھڑا ہاتھ ہلا رہا تھا اس نے صابو کو اشارے سے بلایا اور یہ سب جنگل کی طرف چل نکلے۔ میں یہ سب کچھ دیکھ کر عجیب شش و پنج میں مبتلا ہو گیا۔ ارشد اس وقت میرے ساتھ تھا وہ یہ سب کچھ دیکھ کر تھر تھر کانپ رہا تھا۔ میں کچھ سمجھ نہ پایا۔ میں شدید ذہنی دباؤ کا شکار تھا۔ میں نے ارشد کو ساتھ لیا اور شام ہونے سے پہلے شہر چلا آیا۔ میری اچانک اور غیر متوقع آمد پر سب لوگ ششدر رہ گئے۔ میرے بھائی نے ایک جہاں دیدہ بزرگ  صابر کوہاٹی کو بلایا اور اسے اس تمام ماجرے سے آگاہ کیا۔ انھوں نے مجھے مشورہ دیا کہ اپنے اعصاب پر قابو رکھوں اور ان سے تعاون کروں۔ یہ سب جعل سازی، فریب کاری اور عیاری ہے۔ منشیات فروش  اپنے گھناؤنے کردار سے پورے علاقے میں دہشت کی علامت بن چکے ہیں۔

        اگلے  روز میں اور ارشد گاؤں کے لیے روانہ ہو گئے۔ دو پہر کو ایک ویگن اسی گلی میں آ کر رکی جس میں صابو کا گھر تھا۔ اس میں سے چھ حسین و جمیل عورتیں بر آمد ہوئیں۔ دراز قد، سڈول جسم، چال جیسے کڑی کمان کا تیر ان کے ہاتھ میں چھوٹے چھوٹے بیگ  تھے۔ مشاطہ نے ان مہ جبینوں کے بناؤ سنگھار میں جس کمال فن کا ثبوت دیا تھا وہ حیران کن تھا۔ ان کے خد و خال کے نکھار سے آنکھیں چندھیا رہی تھیں۔ رنگ، خوشبواورحسن و جمال کے تمام استعارے ان  حسیناؤں کے چہرے اور جسم کے  نشیب و فراز  اور چشم غزال سے نکلنے والے نگاہوں کے تیر  دل میں اترتے چلے جا رہے تھے۔ جب یہ حسینائیں گاؤں کی گلی سے گزریں تو  سب نے انھیں آنکھ بھر کے دیکھا اور ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ چند لمحوں کے بعد وہ عورتیں صابو کے ہمراہ دریا کے کنارے واقع اس پر اسرار مکان کی طرف جا رہی تھیں جس میں عامل اور اس کے بھوت رہتے تھے۔ ایسی کئی عورتیں  یہاں آتیں اور صابو انھیں عامل کے ڈیرے پر لے جاتی۔ یہ سب بے اولادی کے تدارک کے لیے عمل اور کالے  جادو، ٹونے یا گنڈوں  کا سہار ا لے کر اپنے مسائل کا حال تلاش کرتیں۔ عورتوں کے ساتھ ایک ضعیف آدمی بھی آیا تھا مگر وہ جنگل کی جانب نہیں گیا بل کہ وہ صابو کے گھر ٹھہر گیا۔ شاید ضعیفی نے اسے ضعیف الاعتقاد بھی بنا دیا تھا۔ جب قویٰ مضمحل ہو جائیں تو تمام عناصر جن میں دماغ بھی شامل ہے  درست کارکردگی نہیں دکھا سکتے۔ یہ عورتیں جو چندے آفتاب چندے ماہتاب تھیں  نا معلوم کس  مجبوری کی وجہ سے اس ویرانے کی جانب چپکے سے سدھا ر گئیں جاتے وقت وہ خالی ہاتھ تھیں۔ اور اپنے ساتھ بیگ بھی نہ لے گئیں۔ حسن بے پروا کو اپنی بے حجابی کے لیے شہروں سے بن پیارے لگیں تو  کوئی کیا کر سکتا ہے۔

     اچانک ارشد بولا ’’میرا جی چاہتا ہے کہ ان حسین عورتوں کو ان بد معاشوں اور درندوں کی کچھار میں جانے سے روک لوں وہاں تین بھوت ان کے منتظر ہیں جو مل کر ان کی عزت لوٹ لیں گے۔ صابو تو ایک چڑیل ہے جو معصوم عورتوں کو ان درندوں کے پاس ورغلا کر  اورسبز باغ دکھا کر لے جاتی ہے۔ وہاں ان کو دن کو تارے نظر آئیں گے اور  چھٹی کا دودھ  یاد آ جائے گا۔ جب یہ واپس آئیں گی تو ان کے چہرے کی سب چمک ماند پڑ چکی ہو گی اور یہ اپنی قسمت کو کوس رہی ہوں گی۔ ‘‘

      ’’ جو خو د ڈوبنا چاہے اسے کیسے بچایا جا سکتا ہے ؟‘‘میں نے کہا ’’تم نے دیکھا کہ نہیں وہ حسین عورتیں کیسے اٹھلاتی، بل کھاتی اور خراماں خراماں چلی جا رہی تھیں۔ ان کو اچھی طرح معلوم تھا کہ وہ  ان عاملوں کے پاس جا رہی ہیں جو منشیات کے عادی اور جنسی جنونی ہیں۔ انھیں وہاں سے گوہر مراد ملنے کی توقع ہے جہاں کے مکین خود  نا مراد ہیں۔ گائتری کے ساتھ بھی تو یہی المیہ ہوا تھا۔ ‘‘

      ’’  تف ہے ایسی زندگی پر !کس قدر ڈھٹائی کے ساتھ یہ عورتیں منشیات  فروشوں اور جنسی جنونی لوگوں کی جانب بڑھ رہی ہیں  ‘‘ ارشد نے آہ بھر کر کہا ’’گائتری نے ہمیشہ اپنی عزت کی حفاظت کی۔ اسے دھوکے سے یہاں سے لے جایا گیا اور اسے درندوں کے حوالے کر دیا گیا۔ ایک نہ ایک دن میری گائتری ضرور واپس آ جائے گی۔ ‘‘

       ’’ہو سکتا ہے یہ پری چہرہ عورتیں بھی فریب خوردہ ہوں ‘‘میں نے دکھ بھرے  لہجے میں کہا ’’یہ بازی گر کھلا دھوکا دیتے ہیں۔ ‘‘

     ’’ ایک گھنٹے کے بعد ان کا حال دیکھنا ‘‘ارشد نے کہا ’’یہ عورتیں جن کے ہونٹ گلاب کی پنکھڑیوں کی طرح تھے اور زلفیں کالے ناگ کی طرح بل کھا رہی تھیں اور  جو اٹھلا اٹھلا کر چل رہی تھیں جب  واپس آئیں گی تو سب  کی سانس پھول چکی ہو گی اور ان کے لیے دو قدم بھی چلنا دشوار ہو گا۔ میں دس سال سے اسی قسم کے  درد ناک مناظر دیکھ رہا ہوں۔ ان کے ساتھ آنے ولا وہ  خضاب آلود بڈھا کھوسٹ  اور بے حس سر پرست جو اس وقت صابو کے کمرے میں مردوں کے سا تھ شرط باندھ کر خراٹے لے رہا ہے ، کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے گا۔ جنگل کے یہ بھوت تو عورتوں کا بھبھوت بنا دیتے ہیں۔ ‘‘

       ’’یہ تو بتاؤ کہ اس جنگل میں حسین عورتوں کا کام کیا ہے ؟‘‘میں نے ارشد کی  دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا’’ ان کے ساتھ آنے والے مرد انھیں  اکیلا ا س ویرانے میں بھوتوں کے مسکن کی جانب کیوں دھکیل دیتے ہیں  ؟ مجھے تو یہ کوئی بہت بڑا  مافیا لگتا ہے جو اندھا دھند  ناجائز طریقوں سے رقم بٹورنے اور کالا دھن کمانے میں ملوث ہے۔ ‘‘

       ’’  یہی سچ ہے ‘‘ ارشد نے آہ بھر کر کہا ’’یہ مافیا حسین عورتوں کو منشیات فروشی اور جسم فروشی کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ان کا جال بڑے شہروں تک پھیلا ہوا ہے۔ اس جنگل میں منشیات کی تیاری کا سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے۔ یہ متعلقہ اداروں کو بھتہ دیتے ہیں اور کوئی ان پر گرفت نہیں کرتا۔ ‘‘

        ارشد اپنے گھر چلا گیا اور میں دل برداشتہ ہو کر اپنے کمرے میں آ کر سو گیا۔ جب آنکھ کھلی تو دن ڈھل چکا تھا لیکن ذہن ابھی تک سوچ کے سفر میں تھا۔ میں نے  نماز کی تیاری کی۔ ظہر کی نماز پڑھنے کے بعد میں اپنے کمرے سے باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ہمدم دیرینہ  صابر کوہاٹی  میرے رو بہ رو کھڑے مسکرا رہے تھے۔ ان کی غیر متوقع آمد پر میں چونک اٹھا۔ انھوں نے آگے بڑھ کر  مجھے گلے لگا لیا اور بولے :’’ تمہارے مسئلے کا حل تلاش کرنے آیا ہوں۔ میرے ساتھ شہر کے چھ خواجہ سرا ہیں جو رقص، ناز و ادا، حسن و جمال میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ان کی جسمانی  ساخت اتنی قوی ہے کہ انھیں کوئی پچھاڑ نہیں سکتا۔ اس کے علاوہ انھوں نے جوڈو کراٹے میں بے پناہ مہارت حاصل کر رکھی ہے۔ منشیات کے  عادی جنسی جنونی ان کے سامنے چلو  میں الو بن جاتے ہیں اور ان کے سامنے دم ہلانے لگتے ہیں۔ وہ عامل کے ڈیرے کی طرف گئے ہیں۔ صابو بھی ان کے ساتھ گئی ہے، ابھی وہ آتے ہی ہوں گے ‘‘

         میں تمام معاملے کی تہہ تک پہنچ گیا اور صابر کوہاٹی کی فہم و فراست پر دنگ رہ گیا۔ ایسے لوگ اپنی جان پر کھیل کر مجبوروں اور مظلوموں کے لیے آسانیاں تلاش کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا وجود ایک ایسی نعمت ہے جس کی قدر کرنی چاہیے۔ میری آنکھوں میں ممنونیت کی نمی تھی اور میں اپنے اس محسن کی جانب دیکھ رہا تھا جس کی بے لوث محبت، خلوص اور درد مندی کا ایک عالم معترف ہے۔ دل میں ملال تھا کہ ابھی کچھ دیر پہلے ان لوگوں کے بارے میں ارشد اور میں جس رائے کا اظہار کر رہے تھے وہ ہماری کوتاہ اندیشی تھی۔ کچھ دیر بعد ارشد بھی گھومتا ہوا اس طر ف آ نکلا۔ وہ ابھی تک تمام صورت حال سے لاعلم تھا۔ وہ ان چھ عورتوں کے بارے میں فکر مند تھا جو جعلی عاملوں کے پاس گئی  تھیں۔

     اچانک ارشد نے سامنے اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’وہ دیکھو !سامنے درختوں کے جھنڈ سے سات عورتیں خراماں خراماں چلتی آ رہی ہیں۔ ‘‘

      اب وہ اور قریب آ چکی تھیں۔  ان سب کے چہرے خوشی سے کھل رہے تھے اور وہ سب کی سب قہقہے لگا رہی تھیں۔ ایک عورت نے چادر سے منہ کو ڈھانپ رکھا تھا۔ ایک بات حیران کن تھی کہ جاتے وقت تو ساتویں عورت صابو تھی لیکن واپسی پر صابو کی جگہ ایک اور دھان پان  لڑکی نظر آ رہی تھی، صابو غائب تھی۔ ‘‘

       ’’آ گئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آ گئی   ‘‘ارشد خوشی سے چلایا ’’میری گائتری گھر واپس آ گئی۔ وہ ان چھ عورتوں کے ہمراہ چادر لپیٹ کر آ رہی ہے۔ ‘‘

        اب انتظار کی گھڑیاں ختم ہو چکی تھیں۔ سارا کھیل ختم ہو چکا تھا۔ صابر کوہاٹی کی ٹیم اپنی کامیابی پر احساس تفاخر محسوس کر رہی تھی اور صابر کو ہاٹی کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔

        چھ خواجہ سرا  اب ہمارے  سامنے کھڑے تھے۔ گائتری ارشد سے لپٹ کر زار و قطار  رونے لگی۔

     ’’  بھوتوں اور چڑیل کا کیا ہوا ؟‘‘ صابر کوہاٹی نے پو چھا ’’یہ مہم کیسی رہی ؟‘‘

  ’’ہمیں دیکھ کر  سب جنسی جنونی ہوش و حواس کھو بیٹھے وہ شراب میں دھت تھے۔ وہ تینوں آگے بڑھے اور ہمیں اپنی باہوں میں سمیٹنے کی کوشش کی ‘‘ایک خواجہ سر ا نے کہا ’’وہ بہت بزدل، بد مست اور بے خبر تھے۔ انھیں اس بات کا کوئی اندازہ نہ تھا کہ کوئی عورت ان سے گتھم گتھا بھی ہو سکتی ہے۔ ‘‘

       سب سے حسین اور تنو مند خواجہ سر ا نے کہا ’’کالا بھوت تو گاؤں کا مکھیا تھا اور باقید واس کے مزارع تھے۔ ان تینوں کو فلائنگ کک لگا کر اور کلائی کے وار سے ادھ موا کر دیا اور اس کے بعد ان کے گلے گھونٹ کر انھیں ہلاک کر دیا گیا اور انھیں دریائے جہلم میں پھینک  دیا ہے۔ صابو کی لاش وہیں پڑی تھی کہ اس پر گدھ  ٹوٹ پڑے۔ ‘‘

       سب لوگ خوش تھے سب بھوت اور چڑیل اپنے انجام کو پہنچ چکے تھے۔ مسافر  اپنی اپنی منزل کی جانب چل پڑے۔ ویگن کچی سڑک پر گرد اڑاتی دور نکل گئی گاؤں کے لوگوں کو اس تمام واقعے کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا۔ رات ہو گئی اس کے بعد نئی صبح ہوئی تو سب حیرت زدہ تھے کہ پچھلی رات کوئی پر اسرار سایہ یا بھوت دکھائی نہیں دیا۔ دوپہر کو تنور پر روٹیاں لگوانے  والی عورتیں گائتری کو دیکھ کر خوش تھیں۔

دائی نے پوچھا ’’گائتری تمھیں تو چڑیل اور بھوت اٹھا کر لے گئے  تھے تم ان کی قید سے کیسے بچ نکلی ہو؟‘‘

’’ بچانے والی ہستی ہر چیز پر غالب اور بالا دست ہے ‘‘ گائتری نے کہا ’’   ڈراونی شکلیں ، چڑیل اور بھوت اب کبھی نظر نہیں آئیں گے۔ سب پر اسرار صورتیں تباہ و برباد ہو چکی ہیں۔ ظلم کا دور اب ختم ہو چکا ہے۔ کل سے ہر کوئی جہاں چاہے جا سکتا ہے کوئی بھوت اب روشنیوں کی راہ میں دیوار نہیں بن سکے گا۔ ‘‘

          اس تبدیلی کے بعد پورے گاؤں کا ماحول ہی بدل گیا۔ تتلیاں پھر سے پھولوں پر بیٹھنے لگیں ، چڑیوں ، فاختاؤں اور عنادل نے خوشی سے چہچہا کر ہرسو دھوم مچا دی۔ لمبی پرواز کر جانے والے پرندے پھر سے لوٹ کر آنے لگے۔ ارشد اور گائتری نے زندگی کے ایک نئے سفر کا آغاز کر دیا اب وہ اس تمام  کرب ناک واقعے کو ایک بھیانک خواب سمجھتے ہیں۔                 ٭٭٭

       چوہے

           گزشتہ ماہ راول پنڈی سے ایک سنسنی خیز خبر آئی کہ کسی  شفا خانے میں ایک نو مولود بچے پر چوہے ٹو ٹ پڑے اور اس معصوم، بے بس اور نا تواں بچے کو لہو لہان کر دیا۔ بچوں کے ساتھ چوہوں کی دلچسپی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہر چوہا یہ چاتا ہے کہ وہ بچوں کو لقمۂ تر بنا لے۔ ایسے آدم خور چوہوں کی موجودگی کی خبر سن کر ہر طرف خوف و ہراس کی ایک لہر دوڑ گئی۔ لوہا بازاروں میں دھڑا دھڑ چوہے دان خریدے جا رہے ہیں۔ حواس باختہ خریداروں کا ایک تانتا بندھ گیا ہے جو جلد از جلد کوئی چوہے دان یا شکنجہ خریدنا چاہتے ہیں تا کہ چوہا گردی سے نجات حاصل کر سکیں۔ صنعت کاروں کی بھی بن آئی اور اب وہ دھڑا دھڑ  چوہے دان بنانے میں مصروف ہیں۔ انجمن تاجران چوہے دان، چوہا بازار عدم آباد کے ہنگامی اجلاس میں طلب کے مطابق چوہے دان کی رسد کو یقینی بنانے پر غور کیا گیا۔ صنعت کاروں کا خیال ہے کہ آدم خور چوہے پوری دنیا میں موجود ہیں اس لیے چوہے دان بر آمد کرنے سے قیمتی زر مبادلہ کمایا جا سکتا ہے والدین کو اپنے کم سن شیر خوار  بچوں کے لیے دودھ کی اتنی فکر نہیں جتنی انھیں اپنے نونہالوں کو چوہوں سے بچانے کی فکر ہے۔ وہ سب اس غم میں ہلکان ہو رہے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی غفلت یا کسی مصروفیت سے نا جائز فائدہ اٹھا کر کوئی چوہا ا ن کے جگر گوشے کے رخ روشن پر دانت گاڑ دے اور وہ دانت پیستے رہ جائیں۔ اس کے بعد جب بچہ لہولہان ہو جائے تو معالج کی بھاری فیس اور بچے کے علاج معالجے پر زر کثیر خرچ کرنا پڑے اور وہ ہاتھ ملتے رہ جائیں۔ حال آں کہ اس میں یاس و ہراس کی کوئی وجہ نہیں۔ ہاں حیرت کی بات ضرور ہے کہ شفا خانے کی انتظامیہ اس رسوائے زمانہ بلی کی خدمات حاصل کرنے میں کیوں ناکام رہی جس نے نو سو چوہے کھانے کا ریکارڈ قائم کیا اور پھر گوشہ نشینی اختیار کر لی۔ ایسی تارک الدنیا بلیاں اپنے چوہا خوری  کے طویل تجربے سے انسانیت کو اس خطرے سے بچا سکتی ہیں۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں چوہے اور بلی کا جو شکار دیکھنے میں آ رہا ہے وہ اہل دانش کے لیے لمحہ ء فکریہ ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والی بات اب قصۂ پارینہ بن چکی ہے۔ اب تو جس کی بلی اسی کا چوہا والی کیفیت ہر طرف دیکھنے والوں کا منہ چڑا رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پرانے زمانے میں لوگ گھروں کی حفاظت کے لیے کتے پالتے تھے پھر المیہ یہ ہوا کہ یہ کتے چوروں سے ساز باز کر لیتے اور اس طرح چوروں کو کھل کھیلنے کا موقع مل جاتا۔ آج بھی ایسی ہی صورت حال ہے ہر طرف کتوں اور چوروں کی ملی بھگت ہے اور بلی نے بھی چوہوں کے ساتھ اپنے تعلقات کار قائم کر لیے ہیں۔ بلی اور چوہے اب پر امن بقائے باہمی کے اصول کو  پیش نظر رکھتے ہیں۔ پرانے مطلق العنان بادشا ہوں کے عدل کے بارے میں بے پر کی اڑائی جاتی تھی کہ  ان کے عہد میں شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے تھے۔ آج کے عہد کے ادل کے مطابق  جو بات مشہور ہے وہ پر بھی رکھتی ہے اور طاقت پرواز بھی رکھتی ہے۔  قصہ یہ ہے کہ آج بلی، کتا اور چوہا ایک ہی کمرے میں گزر بسر کرتے ہیں ، وہیں مل کر چیزوں کا تیا پانچہ کرتے ہیں ، ان کے بخیے ادھیڑتے ہیں اور کبھی ایک دوسرے کو گزند نہیں پہنچاتے۔ کیسا زمانہ آ گیا ہے ہر کوئی اپنی فضا میں دیوانہ وار مست پھرتا ہے، فاختائیں  اور گلچھرے اڑانا آج کے نیر و کا محبوب مشغلہ ہے۔ چوہا بل میں سما نے سے رہا مگر دم سے چھاج باندھے ہر طرف اودھم مچانے میں مصروف ہے۔ چوہا کنی میں پلنے والے سانپ تلے کے بچھو  ہر طرف ڈنک مارنے کے لیے مو جود ہیں۔ جن کے گھر میں چوہے کا بچہ بھی نہیں وہ بھی اپنے اہل و  عیال کے لیے کالا دھن سمیٹنے، مال مفت بٹورنے، مجبوروں کے حقوق غصب کرنے  اور جائدادیں ہتھیانے   کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ یہ ایک طرفہ تماشا ہے کہ چوہے کے ہاتھ ہلدی کیا لگی کہ اس نے خود کو پنساری سمجھنا شروع کر دیا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ چوہے کا جنا ہمیشہ بل ہی ڈھونڈتا ہے۔ ایسے چوہوں کو  فطرت کی تعز یروں سے غافل نہیں رہنا چاہیے، سیل زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے، یہی غاصب چوہے  جو روم کو جلتا دیکھ کر دیپک راگ الاپ کر اپنی آدم خوری پر دم ہلاتے، دانت نکالتے اور چلاتے  پھرتے ہیں کل یہ  بل ڈھونڈتے پھریں گے مگر ان کو جہاں میں کہیں بھی اماں نہ مل سکے گی۔

         کسی جنگل میں ایک شیر رہتا تھا۔ اس درندے  نے پورے جنگل میں جنگل کا قانون پوری مار دھاڑ کے ساتھ لاگو کر رکھا تھا۔ موسم گرما کی ایک دوپہر تھی شیر گرمی کی شدت سے بو کھلا  کر اپنی کچھار سے نکلا اور ایک درخت کے نیچے لیٹ کر سستانے لگا۔ جلد ہی اس کے خراٹوں کی آواز سن کر نزدیکی بل سے ایک بے وقوف  چوہا نکلا اور شیر کے جسم پر اچھل کود کر  اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے لگا۔ جوں ہی اس چوہے نے شیر کی ناک کے بال نوچے شیر نے اسے پکڑ لیا اور   ’’کون ہو تم ؟تمھاری یہ تاب اور مجال کہ تم جنگل کے بادشاہ کے جسم کو روندتے ہو۔  اے نا ہنجار بے وقعت مخلوق آج تمھیں اس گستاخی کی سزا ضرور ملے گی اور تمھیں عبرت کی مثال بنا دیا جائے گا۔ ذات کی کوڑھ کر لی اور شہتیروں کو جپھے۔ ‘‘    ا  س سے قبل کہ درندہ  اسے اپنا ایک نوالہ بناتا چوہے نے کہا :

        ’’  میں چھوٹا  سا اک چوہا ہوں پر کام کروں گا بڑے بڑے۔ مجھے آزاد کر دو، ہو سکتا ہے کسی روز میں تمھارے کام آ جاؤں اور میری رہائی  تمھارے لیے اچھا شگون بن جائے۔ ‘‘

       یہ سن کر شیر نے حقارت سے چوہے کو دیکھا اور دہاڑا ’’شیر بھوک سے مر تو سکتا ہے مگر کبھی گھاس نہیں چرتا۔ شیر جان کی بازی ہار سکتا ہے مگر کبھی  ایک حقیر چوہے سے اپنی جان بچانے کی التجا نہیں کر سکتا یا مشکل گھڑی اسے مدد کے لیے نہیں پکار سکتا۔ ایسی سوچ پر تو رونے کو جی چاہتا ہے۔ جا اپنی حسرتوں پہ آنسو بہا کے بھاگ جا میں جنگل کا بادشاہ ہوں۔ مجھے کسی چوہے کی مدد کی ضرورت نہیں۔ ‘‘یہ کہہ کر شیر نے چوہے کو زمین پر پٹخ دیا اور چوہا دم ہلاتا، دانت نکالتا اپنے بل میں جا گھسا۔ چوہے کو یقین تھا کہ یہ خونخوار درندہ جس قدر مغرور ہے وہ ایک نہ ایک دن  اپنے انجام کو ضرور پہنچے گا۔ جب اونٹ پہاڑ کے نیچے آتا ہے تب اسے آٹے دال کے بھاؤ کا علم ہوتا ہے۔ وقت  گزرتا رہا۔ شیر اس واقعے کو بھول گیا اور چوہے نے بھی اب اپنی زندگی کے معمولات کو بدل لیا۔ اب وہ اس جانب کا کبھی رخ نہ کرتا جس جانب کسی درندے کی بھنک پڑتی۔ اس چوہے نے اپنے مہا چہوں سے یہ سن رکھا تھا کہ طاقت ور کے نہ تو آگے سے گزرو اور نہ ہی اس کے پیچھے سے گزرو۔ صرف اسی طرح تم جان بچا سکتے ہو۔

      ایک مرتبہ وہی شیر ایک شکاری کے تیار کیے ہوئے مضبوط رسوں کے جال میں پھنس گیا۔ شیر نے پوری قوت آزمائی مگر وہ  اسے توڑنے میں بری طرح ناکام ہو گیا۔ شکاری اپنے جال میں پھنسے  درندوں کو زندہ پکڑنے کے لیے انھیں بھوک کے عذاب میں مبتلا رکھتے  ہیں۔ یہ شیر بھی جال میں پھنسا بھوک سے نڈھال دہاڑ رہا تھا مگر ہر طرف ہو کا عالم تھا کسی نے اس کی فریاد پر کان نہ دھرے۔ جنگل کے بادشاہ کو مصیبت میں دیکھ کر سب رعایا نے آنکھیں پھیر لیں۔ چڑھتے سور ج کی پوجا کرنے والے اور بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے اپنا الو سیدھا کرنے کے بعد ہمیشہ اپنی آنکھوں پر ٹھیکری رکھ کر دوسروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے شیر نے خاک بھی چاٹی اور گھاس بھی چبائی مگر بے سود۔  بھوک کی وجہ سے اب تو شیر کی شیرانہ خو بھی عنقا ہونے لگی تھی۔

         سامنے درخت کی شاخوں پر بیٹھے بوم، کرگس، زاغ و زغن اور شپر جنگل کے بادشاہ کی اسیری پر خوش تھے۔ جنگل کے تمام جانوروں نے اس موذی درندے کو جب جال میں پھنسے دیکھا تو انھوں نے سکھ کا سانس لیا۔ شیر کو بھوک کی وجہ سے دن میں تارے نظر آرہے تھے۔ اس کو چھٹی کا دودھ یاد آ گیا۔ ساتھ ہی اس چوہے کا بل تھا۔ چوہا بل سے نکلا اور شیر کو دیکھ کر اس نے چپ سادھ لی۔ اس پرانے آشنا چوہے کو دیکھ کر شیر نے ہجوم غم میں دل کو سنبھالتے ہوئے  اور چوہے کے سامنے زمین پر ناک رگڑتے ہوئے کہا ’’اے میرے دیرینہ رفیق اور جنگل کے عظیم اثاثے چوہے مجھے پہچانا، میں وہی شیر ہوں جس نے تمھاری جان بخشی کی تھی۔ میں تمھارے پاؤں پڑتا ہوں او تم سے مدد کی التجا کرتا ہوں۔ آگے بڑھو اور یہ جال اپنے تیز دانتوں سے کاٹ دو میں رہا ہوتے ہی تمھیں اپنا مشیر بناؤں گا اور میرے بعد تم میرے جانشین ہو گے۔  تم میرے محسن بن جاؤ اور میری جان بچاؤ۔ مجھے تمھاری مدد کی ضرورت ہے۔ ‘‘

    ’’  لیکن تم نے تو کہا  تھا کہ شیر مر تو سکتا ہے مگر اسے کسی چوہے کی مدد کی ضرورت نہیں۔ ‘‘  چوہے نے طنز یہ انداز میں کہا ’’اب کہاں گئی وہ تمھاری خونخواری۔ اب میرے سامنے کیوں زمین پر ناک رگڑ رہے ہو؟  اس وقت تو تم اپنی اوقات سے بڑھ کر بات کر رہے تھے۔ ‘‘

     ’’ تم سچ کہتے ہو چوہے بادشاہ ہمیں ہمیشہ اپنی اوقات ہی میں رہنا چاہیے۔ ‘‘   شیر نے روتے ہوئے کہا ’’  اپنی اوقات سے بڑھنے والے اندھیروں میں ٹامک ٹوئیے مارتے پھرتے ہیں  اور وہ اپنی شناخت سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ مجھے تو تم کوئی  فلسفی لگتے ہو۔ اب تو مجھے بھی ارسطو کا تصور المیہ یاد  ہو گیا ہے۔ اب منطق اور فلسفے کو چھوڑو اور جلدی سے اپنے دانتوں سے جال کی رسیاں کاٹ کر مجھے با ہر نکلنے کا راستہ بنا دو۔ میں تمھارا یہ احسان زندگی بھر نہ بھولوں گا۔ ‘‘

         بے وقوف چوہے نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور آگے بڑھ کر جال کی رسیاں اپنے تیز دانتوں سے کا ٹ دیں۔ شیر جب جال سے باہر نکلا تو اس نے پھر سے درندگی کا سلسلہ شرع کر دیا۔ اب اس نے چوہوں ، چھپکلیوں ، مینڈکوں اور دوسرے حشرات کو ابھی اپنے ساتھ ملا لیا۔ وہ دن اور آج کا دن چوہوں کو شیر کی سر پرستی حاصل ہے اور چوہا گردی کی ہر واردات کے پیچھے کسی نہ کسی درندے کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے۔ ہر شخص یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ  درندوں کی آشیر باد کے بغیر بھلا ایک بے وقعت اور حقیر  چوہا ایک انسان کو کیسے نوچ سکتا ہے ؟

     ماہرین علم الحیوانات کا خیال ہے کہ چوہوں کی متعدد اقسام ہیں۔ ان کی کئی انواع، اقسام اور خاندان ہیں۔  یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ جو چوہا جس جگہ ہے وہ لا جواب ہے۔ اس کا وجود ایک سراب اور پیہم عذاب ہے۔ عالمی ادب پر نظر ڈالیں تو کئی ادبی چوہے بھی مل جاتے ہیں۔ نقادوں کی رائے ہے کہ اس قماش کے چوہے چربہ سازی، سرقہ، جعل سازی، نقالی اور کفن چوری میں اپنی مثال آپ ہیں۔ یہ چوہے ضخیم  کلیات، تصانیف  اور دیوان کتر کر اپنے پیٹ میں ٹھونس لیتے ہیں۔ خوب جگالی کر کے اسے ہضم کر لیتے ہیں اور پھر جب اگلتے ہیں تواس پر ان کا نام کندہ ہوتا ہے۔ کئی متشاعر اسی نوعیت کی واردات کرتے پکڑے گئے مگر ہر بار جال کتر کر بل میں جا گھسے۔ سچ ہے لاتوں کے چوہے باتوں سے کب مانتے ہیں ؟شاہ دولہ کے چوہے اپنی شکل و صورت کے اعتبار سے بہت معصوم مگر مظلوم دکھائی دیتے ہیں۔ انھیں بردہ فروش گداگری کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ عالمی طاقتوں کے فراعنہ غریب اقوام کے بے بس لوگوں کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیں جو شاہ دولہ کے چوہوں کے ساتھ ان کا آقا کرتا ہے۔  ان سپر طاقتوں  کے سامنے غریب ممالک کے عوام شاہ دولہ کے چوہوں کے مانند ہیں  مانگ کر کماتے  تو شاہ دولہ  کے چوہے ہیں  مگر  ان کی کمائی پر داد عیش دینے والے ان کے مالک ہیں جو کہ ان کو بہ طور آلہ ء کار استعمال کرتے ہیں اور سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے پھرتے ہیں۔ جنگلی چوہے صحراؤں اور جنگلوں میں رہتے ہیں  اور خود رو جڑی بوٹیوں پر گزار کرتے ہیں۔ شہر ی چوہے گنجان آبادیوں میں رہتے ہیں ان کی پسندیدہ غذا فاسٹ فوڈ ہے۔ فصلی چوہے بھی فصلی بٹیروں کی طرح کھیتوں کی فصلوں کو کھا جاتے ہیں۔ اس میں وہ کچی یا پکی فصل کا کوئی امتیاز نہیں کرتے۔ زندگی کا کوئی شعبہ چوہوں کی غاصبانہ دستبرد سے محفوظ نہیں۔

      نو سو چوہے کھا کر تارک الدنیا ہو کر گوشہ نشین ہونے والی ایک بھیگی بلی نے ایسا سوانگ رچایا کہ کئی  آزمودہ کار اورسرد گرم چشیدہ چوہے بھی اس کے دام فریب میں آ کر  اس کے عقیدت مند بن گئے۔ وہ بلی اب بیماری ، بڑھاپے اور کمزوری کے باعث، جھپٹنے ، پلٹنے اور پلٹ کر جھپٹنے کی تاب سے یکسر محروم ہو چکی تھی۔ اپنے حواری چوہوں پر ہی اس کی گزر بسر ہوتی تھی۔ اس مسکین گربہ نے گرگ آشتی کو اپنا وتیرہ بنا رکھا تھا۔ جب بھی کوئی چوہا دم بھر کے لیے غافل ہو کر اپنی حفاظت کے اولین کام سے غفلت کا مرتکب ہوتا تو بلی اس چوہے کا اسی وقت کام تمام کر دیتی۔ ایک  مر تبہ اس بلی نے کوڑے کے ڈھیر کو سونگھنے، وہاں سے اپنے مفادات کے استخواں چننے  اور  اپنے نزدیک دم ہلانے والے ایک چوہے کو دبوچا مگر چوہا تیز نکلا  وہ دم دبا کر بھاگا مگر بلی نے اس کی دم  کاٹ لی تھی۔ اب چوہا بل میں جا گھسا وہاں سے دم کٹے چوہے نے  درد کی شدت سے کراہتے ہوئے باہر جھانکا تو  اس کھسیانی  بلی نے کھمبا نوچتے ہوئے کہا :

     ’’ اے میرے پیارے چوہے !یہ تمھاری دم میرے پاس امانت ہے۔ یہ تو میں پیار سے تمھاری دم کو  چوم رہی تھی کہ تم بلاوجہ ڈر کے بھاگ نکلے اور دم میرے ہونٹوں میں رہ گئی اور تم لنڈورے ہو گئے ہو۔ اب دیر نہ کرو جلدی میری آغوش میں سمٹ آؤ تاکہ میں اس دم کو پیوند کاری کے ذریعے پھر سے تمھارے جسم کا حصہ بنا دوں۔ اس طرح تم پہلے کی طرح دل ربا، خوب صور ت  اور حسین نظر آ نے لگو گے۔ ‘‘

        وہ چوہا بھی اس سازش اور مکر کی چال کو سمجھ گیا اس نے بلی کی شرم ناک حرکت کے جواب میں اپنے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا :‘‘بخشو بی بلی، چوہا لنڈورا ہی بھلا ‘‘

         کسی گاؤں میں چوہوں کی اس قدر فراوانی تھی کی جس طرف بھی آنکھ اٹھتی چوہے ہی چوہے دکھائی دیتے۔ چوہے پل بھر میں اناج کے گوداموں کا صفایا کر دیتے۔ چوہوں کی اس خطرناک  چوہا گردی نے کئی بل اجاڑ دئیے۔ سانپ، بچھو، نیولے، مینڈک اور کئی حشرات وہاں سے نو دو گیارہ ہو گئے۔ وہ جو نہ تین میں تھے نہ تیرہ میں وہ ہر طرف دندناتے پھرتے تھے۔ جو بھی تین پانچ کرتا اسے بارہ پتھر کر دیا جاتا۔ ایک تاجر کے پاس سو من لو ہا تھا اس نے اپنے ایک پڑوسی کے پاس وہ سو من لوہا امانت رکھا اور خود قسمت آزمائی کرنے کے لیے ایک دور دراز ملک کی جانب سدھار گیا۔ دس سال کے بعد واپس آیا تو اس نے اپنے پڑوسی سے اپنی امانت سو من لوہا طلب کیا۔ پڑوسی نے مگر مچھ کے آنسو بہاتے  ہوئے کہا کہ وہ تمام لوہا تو چوہے کھا گئے ہیں۔ تم تو اچھی طرح جانتے ہو یہاں کے چوہے تو ریل کی پٹڑیاں تک ہضم کر گئے  ہیں۔ تاجر چپ ہو گیا اور جب با ہر نکلا تو اس نے پڑوسی کا چھ سالہ بچہ اٹھایا اوراسے اپنے گھرکے کمرے میں بند کر دیا۔ شام ہوتے ہی جب بچہ گھر نہ پہنچا تو اس کی تلاش شروع  ہو گئی۔ اس عیار پڑوسی نے تاجر سے اپنے بچے کی گم شدگی کے بارے میں پوچھا تو تا جر نے کہا ’’میں نے بچے کو دیکھا تھا اسے تو آج سہ پہر ایک چیل اٹھا کر اڑی جا رہی تھی ‘‘

      یہ کیسےہو سکتا ہے ؟‘‘پڑوسی نے آ گ بگولا ہو کر کہا ’’بارہ کلو کے بچے کو ایک کلو کی چیل کیسے اٹھا کر  ہوا میں اونچی اڑان بھر سکتی ہے ؟میاں ہوش کے ناخن لو۔ لگتا ہے گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے کے بعد تمھاری مثال بھی دھوبی کے ا س کتے کی ہو چکی ہے جو نہ تو گھر کا رہا اور نہ ہی گھاٹ کا۔ ‘‘

      ’’میں نے تمھاری بات کا اعتبار کر لیا مگر تم میری بات کو ماننے سے انکار کر رہے ہو ‘‘تاجر نے تحمل سے کہا’’جس بد قسمت گاؤں کے خونخوار چوہے سو من لوہا کھا سکتے ہیں وہاں کی چیلیں تو ہاتھی کو بھی اٹھا کر ماؤنٹ ایورسٹ پر اپنے گھونسلے میں لے جا سکتی  ہیں اور اس کی تکا بوٹی کر سکتی ہیں۔ ‘‘

     اس عیار پڑوسی کو جلد ہی اپنی بے ضمیری، بے غیرتی، بے حسی اور شقاوت آمیز نا انصافی  کا احساس ہو گیا اس نے تاجر کو سو من لوہا واپس کر دیا اور اپنا بچہ گھر لے آیا۔ اب وہ کہہ رہا تھا کہ صبح کا بھولا اگر شام کو گھر لوٹ آئے تو اسے بھولا نہ سمجھا جائے۔ اس گاؤں میں چوہے اب بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں مگر وہ  عارض کو نوچتے ہیں اور ان کی زندگانی محض عارضی ہو کر رہ گئی ہے۔

          عالمی ادب میں  چوہوں کو ہمیشہ اہم مقام حاصل رہا ہے۔ چوہوں کے بارے میں بچوں کا ادب بڑی توجہ سے پڑھا جاتا ہے۔ صوفی غلام مصطفیٰ تبسم نے بچوں کے لیے جو نظمیں لکھی ہیں ان میں کئی نظمیں چوہوں کے موضوع پر ہیں۔ ان میں سے ایک نظم تو بہت پر لطف ہے جس میں پانچ چوہے شکار کی غرض سے بل سے باہر نکل کر روانہ ہو تے ہیں۔ ایک چوہا پیچھے رہ جاتا ہے اور باقی چار بین بجانے لگتے ہیں۔ شاید ان چوہوں نے بھینس کے آگے بین بجائی ہو گی کہ ان میں سے  ایک کو کھانسی کا جان لیوا دورہ پڑا اور وہ چل بسا۔ ظاہر ہے بھینس کے آگے بین بجانا اور اندھے کے آگے رونا اپنی بصارت اور  جان کا زیان ہے۔ اب باقی تین اس قدر دل برداشتہ ہو گئے کہ انھوں نے فیصلہ کیا کہ اب شکار تو ہونے سے رہا۔ اجل کے ہاتھوں وہ خود شکار ہو رہے تھے اس لیے گھر کو بھاگ جانا ہی مصلحت تھی۔ ان تین چوہوں میں سے ایک نے اس تجویز سے اتفاق نہ کیا۔ اس کی مثال ا س پسر کی تھی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ باپ نہ ماری پدی اور بیٹا تیر انداز۔ وہ اپنے زعم میں پیشہ ور شکاری  بن کر اکیلا شکار کو چل نکلا اور کسی حادثے کا شکار ہو گیا۔ اب  پانچ میں سے  صرف دو چوہے باقی رہ گئے تھے یہ دونوں چوہے بہت نیک تھے۔ ان نیک چوہوں کی نیکی اور سادگی کو دیکھ کر ایک فربہ چوہے  کو بلی نے اپنے طعام کے لیے منتخب کر لیا اور اب ان پانچ شکاری چوہوں میں سے صرف ایک زندہ باقی بچ گیا۔ اس ایک چوہے کے سر میں محبت کا خناس سما گیا اور اس نے پیار کی شادی کر لی۔ اس کی شادی ایک جھگڑالو چوہیا سے ہو گئی  اور اس طرح وہ بھی تباہ ہو گیا۔ سچ ہے جب کسی کی بد قسمتی اسے دبوچ لیتی ہے تو خواہ  وہ اونٹ کی پشت پر بھی سوار ہو اسے باؤلا کتا کاٹ لیتا ہے۔ تقدیر کو مورد الزام ٹھہرانا مناسب نہیں ان پانچ شکاری چوہوں نے اپنی موت کا سامان خود کر لیا تھا۔ اس نظم میں صوفی غلام مصطفی ٰ تبسم نے بچوں کو یہی سبق سمجھایا ہے کہ عاقبت نا اندیش چوہوں نے اپنی تباہی کے تابوت میں خود دہی کیل ٹھو نک دی تھی۔

          ایک مرتبہ چوہوں نے بلی کی دہشت  گردی اور چوہا دشمنی سے تنگ آ کر ایک بین الجنگلاتی چوہا کانفرنس طلب کی۔ دور ویرانے میں ایک کھنڈر میں بڑے بڑے چوہے مل بیٹھے اور بلی کی خونریزی سے بچنے کے لیے ایک فارمولے پر سب متفق ہو گئے۔ یہ طے ہو ا کے بلی کے گلے میں گھنٹی باندھ دی جائے تا کہ جوں  ہی بلی چلتی ہوئی آئے گھنٹی کی آوازسن کر سب چوہے اپنے اپنے بل میں دبک جائیں۔ ایک فربہ چوہا بھیجا گیاجو ایک کھیت میں لیٹے ہوئے بیل کے گلے میں بندھی گھنٹی اپنے تیز  دانتوں سے کاٹ لایا۔ اس گھنٹی کے ساتھ ایک دھاگہ بھی تھا جو کہ بلی کے گلے میں باندھنے کے لیے درکار تھا۔ اب چوہوں کے سردار نے کہا کہ تم میں سے کون سورما  چوہا ہے جو بلی کے گلے میں یہ گھنٹی باندھے گا۔ یہ سننا تھا کہ سب چوہوں کی گھگھی بندھ گئی اور وہ سب وہاں سے رفو چکر ہو گئے۔

        جب سے چوہوں نے گھروں میں ڈیرے ڈالے ہیں اہل درد قبروں میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چوہوں نے اپنے بالوں میں پسو ہی نہیں انسانی عقوبت کے تمام سامان سمیٹ رکھے ہیں۔ پسو تو طاعون پھیلانے کے ذمہ دار ہیں مگر چوہے تو اب انسانی خون سے ہو لی کھیل رہے ہیں۔ جس طرح زمیں چوہوں سے بھرتی جا رہی ہے ایسا رنگ آسماں اب دیکھنے کو کہاں سے جگر آئے۔ اب تو چوہوں نے اس قدر قریب بستیاں بسا لی ہیں کہ ہر گلی کوچے میں چوہوں کے انبوہ مو جود ہیں۔ گلیاں ، نالیاں ، گھر، محلے، چوپال، ہسپتال، مدرسے، کھیت کھلیان، دفاتر اور شاہراہیں جدھر دیکھو چوہوں نے نظام تلپٹ کر کے لٹیا ہی ڈبو دی ہے۔ رنگیلے مغل حکم ران کو جب دلی پر نادر شاہ کی چڑھائی کی اطلاع ملی  اور کابل سے افواج کے کوچ کا علم ہو اتو اس شاہ بے خبر نے عالم خواب میں کہا کہ ہنوز دلی دور است۔ آج کے دور میں ا س نعرۂ مستانہ کو تمام چوہوں نے اپنا دستورالعمل بنا رکھا ہے۔ یہ چوہے بلی کی موجودگی کو محسوس کرتے ہوئے یہی کہتے ہیں کہ ہنوز بلی دور است۔ پھر سانحہ یہ ہوتا ہے کہ بلی ان چوہوں کو نگل جاتی ہے۔ حالات سے شپرانہ چشم پوشی کرنے والے چوہوں نے پورے معاشرتی نظام کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔   چوہوں کی ایذا رسانی کی وجہ سے زندگی ایک جبر مسلسل کا روپ دھار گئی ہے۔

       محکمہ صحت کا خیال ہے کہ جس طر ح کتا مار مہم کے خاطر خواہ نتائج بر آمد نہیں ہوئے اسی طرح چوہے ما ر مہم کی صورت حال بھی غیر امید افزا دکھائی دیتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چوہوں نے اپنی مجرمانہ چالوں سے اپنے انسداد کی ہر تدبیر کو نا کام بنا نے کی ٹھان لی ہے۔ چوہے اور بلی کی ملی بھگت سے حالات  روز بہ روز ابتر ہو تے چلے جا رہے ہیں۔ آج کا انسان صحت، سلامتی اور سکون قلب کی تلاش میں سر گرداں ہے لیکن چوہوں نے اسے سکوت کے صحرا اور سرابوں کے عذابوں کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ آج چوہوں کے بل کے کنارے کھڑے ہو کر لوگ اسی نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ سیر جہاں کا حاصل ما سوائے حسرت و حیرت کچھ بھی تو نہیں۔ کل شام ایک دیوانہ ایک چوہے کے بل کے سامنے کھڑا پکار رہا تھا کہ یہاں کوئی ہے کہ نہیں ہے۔ شاید وہ موج تلاطم سے گھبرا کر اہنے حواس پر قابو نہ رکھ سکا۔ دریا کی روانی اور چوہوں کی ایذا رسانی کے آگے بند باندھنا بہت کٹھن مر حلہ ہے۔ چوہوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے بہت منصوبے بنائے جاتے ہیں۔ ہر بار امید تو بندھ جاتی ہے لیکن یقین نہیں آتا۔ یہی خو ف دل میں گھر کر جاتا ہے کہ کہیں نہ کہیں گھر کے بھیدی ہی چوہوں کی افزائش میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ چوہوں کے پیچ و تاب کو دیکھ کر ہمارے اوسان خطا ہو جاتے ہیں۔ معاشرتی زندگی اور سماجی معا ملات میں چوہوں کے تیزی سے بڑھتے ہوئے التفات نے زندگی کو طو مار اغلاط بنا دیا ہے۔ باغباں اگر برق و شرر سے ساز باز کر لیں تو باغ کی ہر شاخ پر بوم و شپر اور زاغ و زغن کا بسیرا ہوتا ہے۔ جہاں پہلے سر و صنوبر اگا کرتے تھے وہاں حنظل اور زقوم سر اٹھانے لگتے ہیں۔ اسی طرح اگر انسانوں کی رہائشی بستیوں میں اگر چوہے اور دوسرے حشرات کثرت سے گھس آئیں تو یہ زندگی کے لیے بہت برا شگون ہے۔ یہ بے حسی کی نشانی ہے کہ رتیں بے ثمر، کلیاں شرر، زندگیاں پر خطر، آہیں بے اثر اور آبادیاں خوں میں تر کر دی گئی ہیں۔ ان سب آلام کے  پس پردہ خون آشام اور آدم خور چوہے ہیں جو خونریزی کے بعد اپنے بلوں میں گھس جاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان چوہوں اور ان کے تمام بلوں کو نیست و نابود کر دیا جائے۔

٭٭٭

 

تقدیر کے فیصلے

         اللہ کریم نے اس شخص کو بڑے عزم، قوت ارادی، صبر، استقامت اور دلیری سے نوازا تھا۔ اس بزرگ شخص کا نام بابا محمود تھا اور ہمارے محلے میں وہ سب سے معمر اور قابل احترام تھا۔ اس سفید ریش بزرگ کے چہرے کی جھریوں سے ایام گزشتہ کی صعوبتوں ، آزمائشوں ، ابتلا اور دکھوں کی تحریریں صاف پڑھی جا سکتی تھیں۔ اس کی عمر ایک سو برس کے قریب تھی۔ وہ گزشتہ ساٹھ برس سے اس علاقے میں مقیم تھا۔ اس پیرانہ سالی کے باوجود وہ اپنے گھر سے مسجد تک کا دو فرلانگ کا فاصلہ پانچ وقت پیدل طے کرتا اور با جماعت مسجد میں نماز پڑھتا۔ وہ سب  سے پہلے مسجد میں پہنچتا اور اذان بھی خود بلند آواز سے پڑھتا۔ اس کی دبنگ آواز سن کر دلوں میں اک ولولۂ تازہ پیدا ہوتا۔ سننے والے یہ جان لیتے کہ کار جہاں بے ثبات ہے اور یہ سب کچھ بتان وہم و گماں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ میری خوش قسمتی یہ رہی کہ میرے خاندان کے ساتھ اس بزرگ کے شفقت بھرے تعلقات گزشتہ چھ عشروں پر محیط تھے۔ وہ بزرگ سراپا شفقت و خلوص تھا، اس کی موجودگی پورے محلے کے لیے سرمایہ ء افتخار تھا۔ اس سے مل کر زندگی کی حقیقی معنویت کا احساس  اس طرح اجاگر ہوتا کہ زندگی سے ٹوٹ کر پیار کرنے کو جی چاہتا۔ تمام عزیزوں کے ساتھ اس کا رویہ ہمدردانہ، مصلحانہ اور مخلصانہ ہوتا تھا۔ شہر کے سب لوگوں کے ساتھ اس نے خلوص اور دردمندی پر مبنی ایک قلبی رشتہ استوار کر رکھا تھا، اس کا نام سن کر اس کے قریبی رشتہ دار اور غم گسار کچے دھاگے سے کھنچے چلے آتے تھے۔ وہ ایک عالم با عمل تھا۔ اس کی زندگی شمع کے مانند تھی۔ وہ سب کے لیے فیض رساں تھا۔ اس کے رہن سہن اور ذریعہ معاش کے بارے میں لوگ کچھ نہیں جانتے تھے۔ اکثر لوگ یہ کہتے تھے کہ بابا محمود نے ہم زاد قابو کر رکھا ہے جو پلک جھپکتے میں اس کی تمام ضروریات پوری کر دیتا ہے اور ہتھیلی پر سرسوں جمانا ا س کے  بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ خواتین کی رائے تھی کہ کوئی پری اس کے تابع ہے جو اس کے طعام کا بندوبست کرتی ہے۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ ایک بات تو سب جانتے تھے کہ کوئی مافوق الفطرت طاقت ضرور ہے جس کے بل بوتے پر بابا محمود اس ناتوانی میں بھی پوری قوت سے سر گرم عمل ہے۔ کئی محیر العقول واقعات بابا محمود سے منسوب تھے۔ اس کے دم درود اور تعویذوں کے بہت چرچے تھے۔ دور دراز علاقوں سے لوگ اس بزرگ کے پاس آتے اور دعا کراتے۔ اللہ کی قدرت کہ ان کی مرادیں پوری ہو جاتیں۔

      بابا  محمود کے بارے میں مجھے معلوم ہوا کہ جب وہ چھوٹا سا تھا تو اس کا والد حرکت قلب بند ہونے کے باعث خالق حقیقی سے جا ملا۔ اس کی ماں نے بیوگی کی چادر اوڑھ کو اپنے چھ بیٹوں اور  ایک بیٹی کی پرورش بڑے کٹھن حالا ت میں کی۔ بابا محمود سب بہن بھائیوں میں سے بڑا تھا۔ یہ اس دور کی بات ہے جب پورا بر صغیر برطانوی نو آبادی میں بدل گیا تھا اور یہاں کے کھیت اور کھلیان برطانوی فوجیوں کے بوٹوں کے نیچے روند ڈالے گئے۔ 1939جب دوسری عالمی جنگ کا آغاز ہوا تو محمود نے جوانی کی حدود میں قدم رکھا تھا۔ محمود کا خاندان اس زمانے میں حیدرآباد  میں مقیم تھا۔ برطانوی استعمار نے بر صغیر میں ایسے متعدد میر جعفر اور میر صادق تلاش کر لیے تھے جو اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ملی وقار اور قومی مفاد کو داؤ پر لگانے میں کوئی عار محسوس نہ کرتے تھے۔ اس قماش کے ابن الوقت اور مفاد پرست عناصر نے بے بس، فاقہ کش  اور مظلوم نو جوانوں کو جو پہلے ہی بے روز گاری کے باعث  غر بت اور بیماری کے عذاب سہہ رہے تھے ایسے سبز باغ دکھائے کہ وہ برطانوی فوج میں بھرتی ہونے پر آمادہ ہو گئے۔ کئی نو جوانوں کو زبردستی جنگ کی بھٹی میں جھونک دیا گیا۔ محمود کو بھی ایک مقامی جعلی کالے میجر نے جنگ کے شعلوں میں دھکیل دیا اور یہ غریب نو جوان جنگ کے آغا ز میں جرمن فوجوں کی گولیوں کی بو چھاڑ میں جھونک دیا گیا۔ دوسری عالمی جنگ جو چھ سال تک جاری رہی اس کے دوران محمود برما، جاپان، مصر اور عراق کے مختلف محاذوں پر جرمن فوجوں کے خلا ف نبرد آزما برطانوی افواج میں شامل رہا۔ جو کچھ تنخواہ ملتی وہ گھر روانہ کر دیتا مگر اسے گھر کے حالات کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا۔ چھ سال کے بعد جب وہ گھر لوٹا تو حالت بدل چکے تھے۔ اس کی ماں نے ایک سال قبل عدم کے کوچ کے لیے رخت سفر باندھ لیا تھا۔ بھائی اب مزدوری کرنے لگے تھے۔ سب سے چھوٹی بہن بھی اب جوان ہو چکی تھی۔ وہ گھر کی خانہ داری کی واحد ذمہ دار تھی۔ اب محمود نے یہ تمام ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ تقدیر کے ستم بھی عجیب ہوتے ہیں۔ یہ انسان کو ایسے دکھ دے جاتی ہے جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے۔ یہ تقدیر ہی تو ہے جو ہر لحظہ ہر گام انسان کی تمام تدابیر کے پرخچے اڑا دیتی ہے اور اس کے مستقبل کے منصوبوں کی دھجیاں اڑا دیتی ہے۔

       ساری دنیا بدل جاتی ہے مگر الم نصیبوں ، جگر فگاروں اور مصیبت زدوں کا حال جوں کا توں رہتا ہے۔ محمود نے محسوس کر لیا تھا کہ اس کی قسمت میں کا تب تقدیر نے سکھ بہت کم لکھے ہیں۔ اس نے برطانوی فوج میں ملازمت کے دوران جو کچھ کمایا اس سے اس خاندان کا پیٹ پالنا بہت مشکل تھا۔ سب بھائیوں نے جیسے تیسے  محنت شاقہ سے اس قدر رقم جمع کر لی کہ بہن کے ہاتھ بھی پیلے کر نے میں کامیاب ہو گئے اور بے سروسامانی کے باوجود اپنا اپنا گھر بسانے میں بھی قسمت نے ان کی یاوری کی۔ اب وہ سب اپنے اپنے گھر والے ہو چکے تھے۔ نواحی گاؤں میں وہ مزارع کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ ان کی تھوڑی سی زرعی زمین بھی تھی مگر گاؤں کے بڑے زمیندار نے اس پر قبضہ کر لیا تھا۔ ان کے پاس محکمہ مال کے کاغذات تو تھے لیکن پٹواری ہمیشہ بڑے زمیندار کی حمایت کرتا اور یوں ان کے لیے زندگی کی تمام رتیں بے ثمر کر دی گئیں۔ ان کی امیدوں کی فصل غارت اور صبح شام کی محنت اکارت چلی گئی۔ 1947میں ہجرت کے وقت  گھر کا تمام سا مان مہاجن نے  سود در سود کے چکر میں ہتھیا لیا۔ محمود کا خاندان ہجرت کر کے ٹنڈو محمد خان پہنچا۔ اس بار قسمت نے ان کی یاوری کی اور ان کی آبائی زمین کے بدلے انھیں یہاں کلیم میں زمین مل گئی۔ یہ تمام باتیں مجھے اپنے بزرگوں سے معلوم ہوئیں وہ اس خاندان کے بارے میں بس یہی کچھ جانتے تھے۔ اس کے بعد کیا ہوا اس کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہ تھا۔ سب یہی کہتے تھے کہ بابا محمود کا اب اس دنیا میں کوئی نہیں۔ یہ اب ستم کش سفر ہے۔ اس کے خاندان کے تمام افراد پر اسرر انداز میں داعی ء اجل کو لبیک کہہ گئے۔ پے درپے سانحا ت کے باعث بابا محمود نے مسلسل شکست دل کی وجہ سے لب اظہار پر تالے لگا لیے ہیں۔ اور کسی کو حال دل بتا نے پر آمادہ نہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ پے در پے صدمات  اور دل کی ویرانی کی وجہ سے با با محمود کی ذہنی حالت درست نہیں رہی۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ بابا محمود عملیات کا ماہر ہے اور اسے جادو ٹونے کے ذریعے جن اور بھوت قابو کرنے میں ملکہ حاصل ہے۔

       ایک دن بابا محمود سے میری ملاقات ہو گئی۔ وہ اپنی کٹیا میں بیٹھا اپنی تسبیح روز و شب کا دانہ دانہ شمار کرنے میں مصروف تھا۔ ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی میں مصروف اس معمر بزرگ کی زندگی کے متعدد اوراق ابھی ناخواندہ تھے۔ اس ملاقات میں میرے ساتھ میرا پڑوسی بوم خلجانوی بھی وہاں جا دھمکا۔ اس کی یہ بات مشہور ہے۔ کسی کو اس کی چاہ ہو یا نہ چاہ یہ سب کے ہمراہ۔ یہ پیر تسمہ پا بن کر جس کے ساتھ چل نکلے اس  کی منزل سرابوں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ بابا محمود نے ہمیں بیٹھنے کو کہا اور پھر ہمارے لیے چائے بنائی۔ اس گھر پر بھوت کی کٹیا کا گمان ہوتا تھا۔ در و دیوار پر حسرت ویاس کی تصویریں نوشتہ ء تقدیر کے مانند آویزاں تھیں۔ جان لیوا تنہائی، غیر مختتم اداسی اور ویرانی بال کھولے ہر طرف گریہ کناں دکھائی دے رہی تھی۔ خدا جانے کس کی نظر اس گھر کو کھا گئی۔ اس پر اسرار ماحول کو دیکھ کر دم گھٹنے لگا اور ذہن میں کئی خیالات آنے لگے۔ میرا شک یقین میں بدلنے لگا کہ ہو نہ ہو یہ گھر ضرور آسیب زدہ ہے۔ بوم خلجانوی نے خاموشی کی مغموم فضا کے مسموم اثرات ختم کرتے ہوئے کہا؛

’’ آپ محمود ہیں !کیا آپ کی زندگی میں کوئی ایاز آیا؟کیا آپ بھی کسی کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوئے ؟آج ہمیں اپنی زندگی کے ناخواندہ اوراق سنائیں۔ ‘‘

بابا محمود نے ٹھنڈی سانس لی اور گلو گیر لہجے میں کہا ’’زمانہ بدل گیا ہے اب نہ تو کسی محمود میں پہلے جیسی بے لوث محبت کی تڑپ ہے  اور نہ ہی مادی دور کے ایاز کی زلفوں میں پہلے جیسا دم خم ہے۔ میاں صاحب زادے جس شخص کی آنتیں قل ہو اللہ پڑھ رہی ہوں وہ کبھی حسن و رومان اور پیار و محبت کے نغمے نہیں الاپ سکتا۔ مثل مشہور ہے کہ جاڑے کی چاندنی ر ات اور مفلس و قلاش شخص کا بھرپور شباب دونوں رائیگاں چلے جاتے ہیں۔ میری  زندگی کے تمام اوراق پر ابلق ایام کے سموں کی گرد پڑ چکی ہے۔ اب تم جو راکھ کریدتے ہو اس جستجو سے کیا حاصل ہو گا ؟‘‘

       میں یہ باتیں سن کر ششدر رہ گیا۔ بابا محمود جس نے کم گوئی کو اپنا شعار بنا رکھا تھا اور جس  کی داستان اب تک نا گفتہ تھی  اس کے باوجود وہ کس اعتماد سے بول رہا تھا۔ میں نے مو قع کو غنیمت جاتا اور بڑے ادب سے  بابا محمود سے مخاطب ہو کر کہا :

         ’’آپ اپنی زندگی کے واقعات سے ہمیں آگاہ کریں۔ اس طرح آنے والی نسلیں آپ کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکیں گی۔ ‘‘

      بابا محمود کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور وہ گلو گیر لہجے میں بولا ’’میں اپنی زندگی کے حالات کیا بتاؤں۔ تقدیر کے ستم سہتے سہتے یہ حالت ہوئی کہ میں خود بھی اپنی اصلیت  سے آگاہ نہیں ہوں۔ میری بے بسی اور بے چارگی نے مجھے تماشا بنا دیا ہے۔ اس دھوپ بھری دنیا میں سائے کی تلاش فضول ہے۔ یہاں سرابوں کے عذابوں کے سوا کچھ بھی تو نہیں۔ ‘‘

     ’’آپ نے درست فرمایا۔ میں سمجھتا ہوں نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں ‘‘بوم خلجانوی نے ہرزہ سرائی کی ’’شرابوں کے عذابوں  والی بات میری سمجھ میں آ گئی ہے۔ جسے بھی منشیات کی لت پڑ جائے اس کی زندگی ایک عذاب بن جاتی ہے۔ آپ کو کس نے شراب کا عادی بنا دیا ؟‘‘

      بوم خلجانوی کی بے تکی باتیں سن کر بابا محمود  کے چہرے پر ناگواری کے جذبات ظاہر ہوئے۔ بابا محمود نے بوم خلجانوی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا :’’میاں !اندھا کیا جانے بسنت کی بہار ؟سچی بات تو یہ ہے کہ ساون کے اندھے کہ ہمیشہ ہرا ہی دکھائی دیتا ہے۔ ‘‘

    میں نے محسوس کر لیا کہ گفتگو کا رخ اب بدلنے لگا ہے۔ اس سے پہلے کہ بوم خلجانوی کی ہف وات سے تنگ آ کر بزرگ ہمیں نکال باہر کرتا میں نے مداخلت کرتے ہوئے کہا :

     ’’بابا جی اس کی باتوں پر دھیان نہ دیں اس کی مثال تو اس مردے کی ہے جو ہمیشہ کفن پھاڑ کر بو لتا ہے۔ ایسے لوگ چلتے پھرتے ہوئے  مردے ہیں۔ ‘‘

     خدا خدا کر کے میں بوم خلجانوی کا منہ بند کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ کچھ دیر توقف کرنے کے بعد بابا محمود نے کہا:’’میں بیسویں صدی کے پہلے سال کے پہلے مہینے میں پیدا ہوا، علی گڑھ سے میٹرک کرنے کے بعد  مجھے برطانوی فوج میں سپاہی بھرتی کیا گیا اور دوسری عالمی جنگ میں مجھے برما، عراق، مصر، جاپان اور دیگر محاذوں پر برطانوی فوج کے سا تھ جنگ میں شامل کیا گیا۔ اس تمام عرصے میں مجھے مصر، ترکی  بصرہ، کربلا، کوفہ، شام، بیت المقدس، مکہ، مدینہ، رنگون، ٹوکیو اور ایران جانے کا موقع ملا۔ حج بیت اللہ کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ اب اکیسویں صدی کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس صدی کے بھی دس برس بیت گئے ہیں۔ پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو عمر رواں کی خطا اور حسرت و یاس کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ میں نے رنگون میں بہادرشاہ ظفر کی آخری آرام گاہ دیکھی۔ قبر کے اندر تہہ ظلمات سلا طین کے بدن بھی  کرمک و مور کے جبڑوں میں آ جاتے ہیں۔ اس بادشاہ کو تو دفن کے لیے دو گز زمین بھی اپنے  وطن میں نہ مل سکی۔ زندگی کی یہی حقیقت ہے جو خون کے آنسو رلاتی ہے۔ ‘‘

   بابا محمود یہ کہہ کر زار و قطار رونے لگا۔ مجھے افسوس ہوا کہ میں نے یاد ماضی کو ایک کرب کی صورت میں اس ضعیف کے سامنے لا کھڑا کیا۔ دشت غربت میں رنج سفر کھینچتے کھینچتے اس کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ اب وہ آلام روزگار کے مہیب بگولوں میں بار ہستی کو خاک بہ سر کھینچتے ہوئے درماندہ رہرو کی طرح دم آخریں کا منتظر ہے۔ اپنے کلبۂ غم میں وہ سانس گن گن کر زندگی کے دن پورے کر رہا ہے۔ اتنے رنج و کرب سہنے کے بعد وہ اپنے جینے کا کیا جواز پیش کرتا۔  تاریخ کے مسلسل عمل کے حوالے  سے میں نے بابا محمود سے دریافت کیا :

’’آج آپ کو اپنی دہلیزسماعت پر ماضی اور حال کے واقعات اور مستقبل کے امکانات کی آہٹ کیسے سنائی دیتی ہے اور آپ اس سے کیا تاثر لیتے ہیں ؟کیا ہمارے لیے تسلی کی کوئی صورت آپ کو دکھائی دیتی ہے ؟کیا آپ کو کوئی ایسا درد آشنا ملا جو آپ کی آنکھوں میں اتری غربتوں اور محرومیوں کے کرب کا مداوا کر تا۔ ؟

  میرے اس سوال پر بابا محمود چونک اٹھا۔ شاید میں نے اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔ اس سوال پر میرے پاس بیٹھے  اونگھتے ہوئے بوم خلجانوی نے بھی سوال داغ دیا :’’ان بے نمو رتوں میں کیا اب بھی بہار کا کوئی امکان دکھائی  دیتا ہے۔ میرا مطلب یہ ہے کہ کیا اس عالم پیری میں بھی آپ کسی کو دل دے کے اپنی بے برگ و ثمر زندگی میں پھول کھلانے کی تمنا رکھتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ آپ کے گھر کے میں جھٹ پٹے کے وقت طاق میں دیا روشن کرنے والی کوئی حسینہ موجود ہو جو آپ کی شریک غم بھی ہو اور شریک حیات بھی۔ ‘‘

بابا محمود نے جب بوم خلجانوی کی باتیں سنیں تو وہ دانت پیس کر رہ گیا۔ اس نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا اور بولا ’’میرے دردو غم کا مداوا کسی مسیحا کے بس کی بات نہیں۔ میری عیادت کے لیے آنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کی میرا غسل میت ہی در اصل غسل صحت کی ایک صورت  بن سکتا ہے۔ وسعت کائنات بھی اس حقیقت سے بے خبر ہے کہ اس کی ابتدا اور انتہا کیا ہے۔ آپ مجھ سے میری زندگی کا سراغ کیسے لگائیں گے میں تو خود رفتگاں کے سراغ میں بھٹک رہا ہوں۔ ‘‘

      ایک سو دس سال کی عمر میں بھی بابا محمود پورے وثوق سے محو گفتگو تھا اور اس کے وسیع تجربات اور مشاہدات پر مبنی اس کی گفتگو سن کر فکر و خیال کے متعدد نئے دریچے وا ہوتے چلے جاتے تھے۔ میں نے اس جہاندیدہ  شخص سے مزید معلومات حاصل کرنے کی غرض سے سوال کیا:’’آپ نے دنیا کے بہت سے ممالک کا سفر کیا، چھ برس تک میدان جنگ میں توپوں اور گولہ باری کی گھن گرج میں گزارنے کے بعد کیا آپ یہ محسوس کرتے ہیں کہ دنیا اب اصلاح کی جانب گا م زن ہے ؟کیا آنے والا زمانہ ماضی سے بہتر ہو گا۔ آپ کو نئے دور کی آمد کیسے لگتی ہے ؟‘‘

    ’’ کون سا نیا دور ؟‘‘بابا محمود بولا ’’مجھے تو یوں لگتا ہے کہ زندگی اب پھر پتھر کے زمانے کی جانب لوٹ رہی ہے۔ ایثار، خلوص، دردمندی، انسانی ہمدردی اب عنقا ہیں۔ ہوس نے نوع انساں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے۔ انسان اپنے ابنائے جنس کے خون کا پیاسا ہو چکا ہے۔ ہم ترقی معکوس کی جانب جا رہے ہیں۔ کارواں کے دل سے احساس زیاں نا پید ہو چکا ہے۔ تہذیبی و ثقافتی اقدار کی زبوں حالی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ بے حسی، بے غیرتی اور بے ضمیری کا عفریت چاروں جانب منڈلا رہا ہے۔ زمین جو کہ دل کے مانند دھڑک رہی ہے وہ کسی ہولناک حادثے کے بارے میں خبردار کر رہی ہے۔ ‘‘

     بابا محمود کی گفتگو قنوطیت پر مبنی تھی لیکن اس کی باتوں کی تردید بھی ممکن نہ تھی۔ کسی بھی آنکھ میں اتنا دم نہیں ہو تا کہ وہ ہجوم غم میں دل کو سنبھال کر تمام  عمر رہ رفتگاں کو تکتا رہے اور سفر کی دھول کو اپنا پیرہن بنا کر خیال پلاؤ پکاتا رہے۔ میں ابھی کوئی سوال سوچ ہی رہا تھا کہ بوم خلجانوی پکار اٹھا :’’رسی جل گئی مگر بل نہ گیا۔ ایک صدی بیت گئی مگر بڑے میاں کو حالات جوں کے توں دکھائی دیتے ہیں۔ ترقی کا زمانہ ہے انسان نے ستاروں پر کمند ڈال کر سورج کی شعاعوں کو گرفتار کر لیا ہے مگر ادھر مرغے کی وہی ایک ٹانگ کی رٹ لگی ہے۔ اسی کا نام تو ناسٹلجیا ہے جو کہ ایک خطرناک نفسیاتی روگ ہے۔ بابا جی کچھ تو خدا کا خوف کریں زندگی کے ہر شعبے میں انقلاب بر پاہو چکا ہے، مہلک بیماریوں پر قابو پایا جا چکا ہے، مواصلات، تعلیم اور سائنس  کے شعبوں میں ترقی نے حالات کی کایا پلٹ دی ہے۔ یہ سب کچھ  ایک کور چشم کو کیسے دکھائی دے سکتا ہے ؟سچی بات تو یہ ہے کہ روشنی اپنی اصلیت کے اعتبار سے بصارت کی چمک کی مرہون منت ہے۔ آنکھیں بند ہوں تو نمود سحر کا یقین بھی نہیں ہوتا۔ یہی تو کو ر مغزی اور بے بصری کی دلیل ہے۔ ‘‘

     ’’خاموش ہو جاؤ !تم کیوں ایک بزرگ کی توہین کر رہے ہو؟‘‘میں نے بوم خلجانوی کو ٹو کتے ہوئے کہا ’’بابا جی کی باتیں گہرے تفکر کی مظہر ہیں۔ اچھا یہ بتائیں کہ آپ کو کسی شعبہ ء زندگی میں ترقی کی کوئی علامت دکھائی دیتی ہے یا ہم تمام شعبوں میں  اب تک پس ماندہ ہیں اور وہی حالات ہیں جو ایک صدی قبل تھے۔ کہیں آپ کو ماضی کی نسبت اضافہ  دکھائی دیتا ہے ؟‘‘

’’ہاں اضافہ ہوا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ بالکل اضافہ ہوا ہے۔ ‘‘بابا محمود بولا ’’ہر ذی ہوش کو اس اضافے کا احساس ہے۔ ‘‘

  ’’خدا کا شکر ہے کہ حقائق سے شپرانہ چشم پوشی کرنے والوں کو بھی کچھ اضافہ تو ماضی کی نسبت دکھائی دیا ‘‘بوم خلجانوی نے بابا جی کو گھورتے ہوئے کہا ’’اب یہ بھی ارشاد فرمائیں کہ کس شعبے میں آپ کو ماضی کی نسبت اضافہ دکھائی دے رہا ہے اور یہ اضافہ معاشرتی زندگی پر کیا اثرات  مرتب کر رہا ہے ؟‘‘

    اس بار بابا محمود نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا اور بوم خلجانوی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا ’’ماضی کی نسبت  معاشرتی زندگی میں خون خرابے میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ پوری انسانیت کے لیے ہلاکت خیزی کے جو سامان اب مہیا ہو چکے ہیں ماضی میں ایسے نہیں تھے۔ منشیات کے دھندے میں بھی بہت اضافہ ہوا ہے۔ ‘‘

    یہ سن کر بوم خلجانوی کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا اور وہ حیرت زدہ رہ گیا۔ اب اس بات کا جواب دینا اس  کی محدود سوچ سے باہر تھا۔ میں بابا محمود کی دردمندی اور کرب کو دل سے محسوس کر سکتا تھا۔ وہ جب بات کرتا تو فرط جذبات سے اس کی آواز  بھرا جاتی اور آنکھیں پرنم ہو جاتیں۔ دنیا نے اس ضعیف شخص کو تجربات و حوادث کی صورت میں جو کچھ دیا وہ اسے من و عن پیش کر رہا تھا۔ اس کا سینہ ایک صدی کے واقعات اور سانحات کا امین تھا مگر اب وہ اس قدر مایوس تھا کہ اسے سفاک ظلمتوں میں روشنی کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی تھی۔ بابا محمود اپنی بات مکمل کر چکا تھا۔ ہم اٹھ کھڑے ہوئے۔ جب ہم باہر جانے لگے تو بابا محمود نے  ممتاز شاعر  عبید اللہ علیم کے یہ اشعار پڑھے جو دیر تک فکر و نظر کو مہمیز کرتے رہے :

     میں یہ کس کے نام لکھوں جو الم گزر رہے ہیں

مرے شہر جل رہے ہیں مرے لوگ مر رہے ہیں

کوئی اور تو نہیں ہے پس خنجر آزمائی

ہمیں قتل ہو رہے ہیں ، ہمیں قتل کر رہے ہیں

        بابا محمود کے بھائی برادران یوسف ثابت ہوئے۔ اس کی اولاد نے بھی اسے تنہا چھوڑ کر کاروبار اور روزگار کے سلسلے میں یہاں سے بوریا بستر سمیٹ کر بیرون ملک ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ بیوی کی وفات کے بعد وہ زندگی سے بھی بیزار رہنے لگا تھا۔ اس کی باتیں زندگی کے بارے میں گہری معنویت کی مظہر ہوتی تھیں۔ اس سے کئی بار سر راہے ملاقات ہوئی مگر وہ سلام دعا کے سوا کچھ کہنے کا روادار نہ تھا۔ ایک بات جو مجھے مختلف لوگوں نے بتائی وہ یہ تھی کہ بابا محمود فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔ درد مندوں ، ضعیفوں اور الم نصیبوں کے ساتھ اس نے عمر بھر پیمان وفا باندھے رکھا۔ اگرچہ وہ کوئی کام نہ کرتا تھا لیکن اسے کبھی کسی کے سامنے دست سوال دراز کرتے کسی نے کبھی نہ دیکھا تھا۔ کچھ لوگوں کا خیال  تھا کہ اس بوڑھے کے پاس یا تو اللہ دین کا چراغ ہے یا اس نے خزانے ڈھونڈنے والا سرمہ آنکھ میں لگا رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ شخص دکھی انسانیت کے دکھوں کا مداوا کرنے کے لیے بے دریغ رقم خرچ کرتا ہے۔ تمام باتیں اپنی جگہ پر لیکن اس کی زندگی کے متعدد راز ابھی تک سر بستہ تھے۔ ان گتھیوں کو اور الجھنوں کو سلجھانا کسی کے بس کی بات  نہ تھی۔ جس طرح نخل تناور کو دیمک لگ جائے تو اندر ہی اندر سے کھو کھلا ہو جاتا ہے اسی طرح اگر کوئی انسان بھی غم کو دل میں بٹھا لے تو یہ غم اس کی  جان لے کر ہی باہر نکلتا ہے۔ آبادی سے کچھ فاصلے پر ایک شہر خموشاں تھا۔ بابا محمود اکثر وہاں جاتا اور اہل القبور کے ساتھ وقت گزارتا۔ اس علاقے میں گدھ، بجو، کوے، چیلیں نیولے، سانپ بچھو اور کنڈیالے چوہے کثرت سے پائے جاتے تھے۔ اس کا آبائی مکان ایک بھیانک صورت  پیش کرتا تھا۔ کئی لوگوں نے اس مکان کی چھت پر رات کی تاریکی میں روشنی کے ہیولے اٹھتے دیکھے تھے اور وہ اس جانب جانے سے کتراتے تھے۔ دو ہزار دس کا سال اپنے اختتام کو پہنچ رہا تھا، سردیوں کی ایک شام تھی، بابا محمودقبرستان سے گھر آ رہا تھا کہ دو نا معلوم نقاب پوشوں نے اسے  روکا اور ہڈیوں کے اس  ڈھانچے کو دیکھ کر ان کی چیخیں نکل گئیں وہ سمجھے کہ یہ کوئی مردہ ہے ، کوئی بد روح ہے یا آدم خور ہے جو ابھی قبر سے نکل کر اپنا شکار تلاش کر رہا ہے۔ دوسرے ہی لمحے وہ دم دبا کر بھا گ گئے مگر اس بوکھلاہٹ میں وہ اپنی گٹھڑ ی اٹھانا بھول گئے بابا محمود وہ گٹھڑی اٹھا کر گھر لایا۔ اس میں پانچ کلو سونا اور لاکھوں روپے کے کرنسی نوٹ تھے۔ اس نے یہ تمام رقم ایک یتیم خانے کے لیے دے دی اور دامن جھاڑ کر چلا گیا اس کے بعد اس کا کوئی اتا پتا نہ چلا۔ میں نے کئی لوگوں سے اس کے بارے میں معلوم کرنے کی کوشش کی مگر بے سود۔ وہ تو عجیب مانوس اجنبی تھا کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ کہاں سے آیا اور کس طرف عازم سفر ہو گیا۔ وہ دنیا کو آئینہ خانہ قرار دیتا تھا اس کے بعد وہ سب جاننے والوں کو تماشا بنا گیا اور خود فسانہ بن گیا۔ وہ جو سب کے لیے مرہم بہ دست موجود ہوتا تھا دیکھتے ہی دیکھتے کسی نا معلوم منزل کی جانب چل نکلا۔ بابا محمود کے اچانک محلے سے چلے جانے کے بعد لوگوں کو اس بات کا شدت سے احسا س ہوا کہ اس ضعیف بزرگ کا وجود کتنی بڑی نعمت تھا۔ تقدیر انسان کے عزائم کی تحریروں کے اوراق کے پرزے بکھیر دیتی ہے۔ تقدیر کے چاک سوزن تدبیر سے کبھی رفو  نہیں ہو سکتے۔

     دو سال بعد ایک نجی مصروفیت کے سلسلے میں حیدرآباد کا سفر کرنا پڑا۔ ریلوے سٹیشن  کے شمال میں واقع ایک قبرستان میں میرے چچا کی ابدی آرام گاہ ہے۔ میں فاتحہ پڑھنے کی غرض سے وہاں پہنچا تو یہ دیکھ کر میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کہ بڑی تعداد میں لوگ ایک جنازہ لیے وہاں پہنچے تھے۔ سب لوگ زار و قطار رو رہے تھے۔ میں نے اندازہ لگایا کہ یہ جنازہ کسی بڑے پیر یا روحانی پیشوا کا ہو گا۔ میں نے جنازہ پڑھنے کے بعد میت کا آخری دیدا ر کیا، یہ تو بابا محمود کا جسد خاکی تھا۔ حیدر آباد کے اس شہر خموشاں کی زمین نے کتنے بڑ ے آسمان کو اپنے دامن میں چھپا لیا۔ ایک شجرسایہ دار جو غریبوں کے سر پر سایہ فگن تھا اجل کے ہاتھوں زیر زمین چلا گیا۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ آلام روزگار کی تمازت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ میں نے اس بزرگ کی خاک مرقد کے سامنے کھڑے ہو کر اس کی مغفرت کی دعا کی اور پر نم آنکھوں سے واپس روانہ ہوا۔

     جنازے میں شامل ایک معمر شخص نے بتایا’’ یہ راجپوت قبیلے کا چشم و چراغ بابا محمود تھاجس نے ساٹھ سال تک اپنی مرضی سے خدمت خلق کو شعار بنایا اور گوشۂ گم نامی میں رہا۔ تمام مال و دولت چھوڑ کر اپنی دنیا آپ پیدا کی اور غربت کے مسائل کو قریب سے دیکھا اور غم زدوں کا حال جاننے کی سعی کی۔ وہ غربت کے تجربے کا حصہ بنا رہا اور جو صدمے مفلس و قلاش لوگوں پر گزرتے ہیں ان کا قریب سے مشاہدہ کیا۔ ساٹھ سال کی خود اختیار کردہ جلا وطنی کے بعد ایک سال قبل وہ گھر آیا تو خاندان کے لو گوں نے اس کا بھر پور خیر مقدم کیا۔ کس خاموشی سے وہ شخص پیمانہ ء عمر بھر گیا۔ اب ا س کی  موت پر ہر دل سو گوار اور ہر آنکھ اشک بار تھی۔ اس کی نیکیاں زندہ رہیں گی اور اس کی خوبیاں ابد تک باقی رہیں گی.تقدیر کے فیصلے بلا شبہ انوکھے ہوتے ہیں  ‘‘میں یہ باتیں سن کر دنگ رہ گیا ابھی کچھ لوگ دنیا میں باقی ہیں جو نمود و نمائش کی خاطر نہیں بل کہ اللہ کی رضا کی خاطر انسانیت کی خدمت کرتے ہیں سچی بات تو یہ ہے کہ اس عالم آب و گل کا نظام ایسے ہی لوگوں کے دم سے چل رہا ہے جو تقدیر کے ہر فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں اور کبھی حرف شکایت لب پر نہیں لاتے۔ مجھے اس وقت ممتاز شاعر شیر افضل جعفری کا یہ شعر یاد آ گیا:

میری موت تے ہو سیں جنج ورگی                 سنجی زندگی چپ چپیتی اے

(میری موت پر لوگ بڑی تعداد میں برات کی طرح امڈ آئیں گے اگرچہ میری زندگی ویران اور خاموش ہے )

٭٭٭

خوانچے والا

             شہر کے سب سے بڑے نجی سکول کے سامنے ایک وسیع و عریض کھیل کا میدان تھا۔ کھیل کے میدان اور سکول کی عمارت کے درمیان ایک بڑی کشادہ  سڑک تھی جو انھیں  الگ کرتی تھی۔ یہ شاہراہ ملک کے بڑے شہروں کی جانب جانے والی بھاری ٹریفک کی وجہ سے بہت مصروف رہتی تھی۔ سکول کی عمارت ختم  ہوتی تو اس کے سامنے کھیل کے میدان کی حدود بھی ختم ہو جاتی تھیں۔ اس کے آگے کچی آبادی آ جاتی جہاں کا ماحول پتھر کے زمانے سے بھی ابتر تھا۔ اس کچی آبادی سے ملحق ایک گندے پانی کا جوہڑ تھا جس میں پورے شہر کا عفونت زدہ آلودہ گندا پانی اکٹھا ہوتا تھا۔ اس جوہڑ میں صرف گندہ پانی ہی نہیں پورے شہر کی آلودگی، غلاظت اور گناہ کی عفونت پھینک دی جاتی تھی اس لیے یہاں سے ہر وقت سڑاند کے بھبھوکے اٹھتے رہتے۔ اسی کچی آبادی میں نتھو کباڑیا بھی رہتا تھا جو کوڑے کے ڈھیر کو کرید کر کچھ چیزیں اکٹھی کرتا ان میں پلاسٹک کی خالی بوتلیں ، پرانے جوتے، پرانے کپڑے اور پلاسٹک یا لوہے کی ٹوٹی پھوٹی اشیا شامل تھیں۔ یہ مقدر کے کھیل ہیں کوئی تو سونے کا چمچہ منہ میں لے کر دنیا میں آتا ہے اور کوئی تمام عمر کوڑے کے ڈھیر کرید کرید کر پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے چند ٹکوں کی تلاش میں در بہ در اور خاک بہ سر رہتا ہے۔ نتھو کباڑیا کئی واقعات اور لا تعداد داستانوں کے سر بستہ راز اپنے سینے میں لیے زندگی کے دن پورے کر رہا تھا۔ وہ اکثر اس بات پر شاکی رہتا کہ سگان راہ دم دبائے کوڑے کے ڈھیر سے جاہ و منصب کی ہڈیاں تلاش کر کے اپنا الو سیدھا کر لیتے ہیں یا یہی خارش  زدہ سگان آوارہ در کسریٰ کو چاٹ کر اور اپنی عزت و ناموس کو نیلام کر کے اونچی اڑانیں بھرتے پھرتے ہیں۔ ان کی پستی جس حد تک جا پہنچتی ہے اس کا انھیں مطلق احساس نہیں تھا کہ وہ ضمیر کا گلا گھونٹ کر باعث ننگ و عار بن گئے ہیں اور زمیں کا بوجھ بن چکے ہیں۔ بے غیرتی، بے ضمیری ، بے حیائی اور بے حسی جب انتہا کو پہنچ جائے تو انسان درندگی کی حد کو چھو لیتا ہے۔

           نتھو کی زندگی میں کئی یادیں اس قدر تلخ تھیں کہ ان کا ذکر کرتے وقت اس کا آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برسنے لگتیں۔ گندے پانی کے جو ہڑ کے کنارے کوڑے کے ڈھیر پر وہ ہمیشہ صبح تین بجے پہنچ جاتا تھا۔ گزشتہ ستر سال سے یہ اس کا معمول تھا۔ اس عرصے میں اسے ہر سال اس کوڑے کے ڈھیر سے نرم کپڑوں میں لپٹے نو مولود بچے ملتے جو ماں کے گناہ اور باپ کی عیاشی، بد معاشی اور سفاکی کا منہ بو لتا ثبوت تھے۔ ان مشکوک  نسب کے نو مولود بچوں کو وہ  ان بے اولاد والدین کو دے دیتا جنھوں نے اس کو یہ کام ذمے لگا رکھا تھا۔ یہ کام وہ بے لوث انداز میں جاری رکھے ہوئے تھا اس کے عوض وہ کوئی معاوضہ کسی صورت میں لینے پر آمادہ نہ ہوتا۔ ایک بات کا خیال نتھو کباڑیا ضرور رکھتا کہ مشکوک نسب کے ان نو مولود بچوں کو ان ضرورت مند والدین کے سپرد کیا جائے جو ان کی کفالت اور تربیت کی استعداد رکھتے ہوں۔ عام طور پر متمول طبقہ ہی ان بچوں کی تلاش میں رہتا تھا۔ کبھی کبھی  تو نتھو یہ سوچ کر دل گرفتہ ہو جاتا کہ ان بچوں کے والدین پر کیا  افتاد پڑی کہ انھوں نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو کپڑے میں  لپیٹ کر کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا۔ یہ لعل و جواہر کس بے دردی سے عفونت زدہ ماحول میں پھینک دئیے جاتے تھے اس کے تصور ہی سے کلیجہ منہ کو آتا تھا۔ اسی کا نام تو تقدیر ہے جو ہر لمحہ ہر گام انسانی تدبیر کی دھجیاں اڑا  کے رکھ دیتی ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہو ا کہ اس نے نو مولود بچوں کو پھینکنے والوں کو دیکھا اور ان کو پہچان بھی لیا مگر اس نے لب اظہار پر ایسے تالے لگا رکھے تھے کہ کبھی یہ راز فاش نہ ہو سکا۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ سچ کہنے سے جب شعلے بلند ہوتے ہیں تو اس میں سب کچھ جل کر راکھ ہو جاتا ہے۔ نتھو اچھی طرح جانتا تھا کہ کون سا بچہ کس کے گھر پل کر جوان ہوا ہے اور اس کا پس منظر کسی کو معلوم نہ تھا۔ مخمل میں ٹا ٹ کے پیوند کس کس جگہ لگے ہیں یہ راز صرف نتھو کباڑیا ہی جانتا تھا۔

         نتھو کی تمام زندگی اسی کباڑ خانے کی بھینٹ چڑھ گئی۔ اب اس کے تمام اعضا مضمحل ہو چکے تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کا اکلوتا بیٹا پھتو جو اب جوانی کی حدود میں قدم رکھنے والا تھا اس دھندے میں نہ پڑے بل کہ دو وقت کی روٹی پوری کرنے کے لیے کوئی اور طریقہ ڈھونڈے۔  منشیات کے تمام عادی ریلوے سٹیشن کے مسافر خانے میں رات کو اکٹھے ہوتے اور یہ تاثر دیتے کہ وہ اپنے عزیزوں کی آمد کے منتظر ہیں۔ قلی اور سٹیشن کا تمام عملہ ان کے قبیح کردا رسے آگاہ تھا۔ یہ سب اپنی حفاظت کے لیے متعلقہ لوگوں کی مسلسل مٹھی گرم کرتے رہتے تھے اس طرح جیب تراشی، چوری اور منشیات کے دھندے سے ان کے گھروں کا چولھا کبھی ٹھنڈا نہ ہوتا تھا۔ بڑے غور و خوض اور  اپنے ساتھیوں کے ساتھ طویل مشاورت کے بعد نتھو کباڑئیے نے اپنے بیٹے پھتو کو ایک خوانچہ بنا کر دیا اور اسے گلی گلی گھوم کر رزق کمانے پر آمادہ کر لیا۔ پھتو اپنی ٹوکری میں آلو چھولے، شکر قندی، مکئی کے ابلے ہوئے بھٹے، دال سوئیاں ، ٹافیاں اور موسم کے پھل لے کر سکول کے دروازے کے سامنے جا کر بیٹھ جاتا۔ سکول میں جب تفریح کا وقفہ ہوتا تو طالب علم اس کے پاس آتے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی تمام چیزیں بک جاتیں۔ سہ پہر کو وہ پھر سے خوانچہ  لگا کر گلیوں میں گھومتا اور اس طرح  خواتین خانہ بھی اس کی خستہ چیزیں بڑے شوق سے خریدتیں۔ ایک  شام کو وہ گلاب والے محلے میں سے گزر رہا تھا کہ ایک لڑکی نے اسے پکارا :

   ’’اوئے خوانچے والے ! ادھر آنا‘‘

اس نے مڑ کر دیکھا تو اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ ایک چندے آفتاب چندے ماہتاب لڑکی اس سے مخاطب تھی۔ ساڑھے پانچ فٹ لمبی لڑکی، کھلی سیاہ گھنی لمبی زلفیں جو گھٹنوں سے بھی نیچے پڑ رہی تھیں ۔ بادامی آنکھیں اور دانت جیسے موتیوں کی لڑی۔ اس حسینہ کو دیکھ کر وہ اپنے ہوش و حواس کھو چکا تھا۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کس طرح گفتگو کا آغاز کرے۔ رنگ خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعارے اس حسینہ میں مجسم ہو گئے تھے۔ لڑکی نے غصے سے کہا :

       ’’تم کیا بیچ رہے ہو ؟ذرا آواز تو لگاؤ۔  اور یہ تم میری طرف  ندیدوں کی طرح گھور کر کیوں دیکھ رہے ہو ؟ کیا تم ہوش میں تو ہو ؟مجھے تو تم کوئی احمق اور جنسی جنونی لگتے ہو۔ تم نے پہلے کبھی کوئی حسین لڑکی  نہیں دیکھی ؟پہلے اپنی اوقات دیکھ لو پھر میری طرف للچائی ہوئی نگاہ سے دیکھنا۔ تف ہے ایسی سوچ پر۔ ‘‘

    پھتو نے کانپتے ہوئے کہا   ’’جی نہیں۔  آپ جیسی  نہیں۔ ۔ بالکل نہیں۔ میرے پاس شکر قندی اور آلو چھولے ہیں۔ میں گلی گلی گھوم کر یہ چیزیں بیچتا ہوں اور اس طرح اپنی روزی کماتا ہوں۔ ‘‘

  ’’ خوب طریقہ ڈھونڈا ہے حسین  لڑکیوں کو تاڑنے کا ‘‘ حسینہ بولی ’’اچھا مجھے پانچ روپے کی شکر قندی اور آلو چھولے ملا کر دو اور اس پر کھٹاس، مرچ مصالحے خوب چھڑکنا۔ ‘‘

  حسینہ کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اس قدر تنو مند، وجیہہ اور دراز قد نو جوان کس قدر تکلیف دہ حالات میں زندگی کے دن پورے کر رہا  ہے۔ خوانچے والے کا بھر پور شباب اس کے انگ انگ سے جھلک رہا تھا۔ ایک لمحے کے لیے اس کا دل مچلا کہ اس نو جوان کے ساتھ پیار بھری باتیں کی جائیں لیکن دوسرے ہی لمحے اس پر سادیت پسندی (Sadism)نے غلبہ پا لیا اور اس نے دل پر جبر کر کے اس نو جوان کی توہین، تذلیل اور تحقیر کرنے کی ٹھا ن لی۔ وہ لذت ایذا حاصل کرنا چاہتی تھی یہی اس کا وتیرہ بن گیا تھا۔ حسن بے پروا  کے غرور نے اسے خلوص اور دردمندی سے دور کر دیا تھا۔ اس کی چال ایسی تھی جیسے کڑی کمان کا تیر اور نگاہوں کے تیر سیدھے دیکھنے والوں کے دل میں پیوست ہو جاتے تھے۔ دونوں ایک دوسرے کو کن انکھیوں سے دیکھ رہے تھے۔ آنکھوں آنکھوں میں کئی اشارے ہوئے مگر دل کی بات لبوں پر لانے کی نوبت نہ آ سکی۔    تابندہ نے اپنے لیے خوابوں کا جو شہزادہ سوچ رکھا تھا اس کی جسمانی ساخت اس خوانچے والے سے ملتی تھی۔

 پھتو نے ردی کا ایک پرانا اور بو سیدہ کاغذ نکالا اور اس پر شکر قندی کاٹنے والا تھا کہ حسینہ نے قہر بھری آواز سے کہا:

’’اب میں اس میلے کچیلے رد ی کاغذ میں شکر قندی کھاؤں گی !تمھارے پاس ڈسپوزیبل پلیٹ نہیں ؟گندے، غلیظ، احمق خوانچے والے۔ تم تو سادہ لوح لوگوں کو ان غلیظ کاغذوں میں زہر کھلاتے پھرتے ہو۔ تم پکے حرام خور ہو اور میں تم کو اس غلطی کی سزا ضرور دوں گی۔ میں تمھیں معصوم  بچوں کی صحت سے کھیلنے کی اجازت کبھی نہیں دوں گی۔ ‘‘

’’ جی میرے پاس جو کچھ ہے وہ میں نے حاضر کر دیا ہے ‘‘پھتو نے بڑی لجاجت سے کہا ’’اگر آپ کو میری چیزیں گندی لگتی ہیں تو نہ خریدیں اپنے گھر میں تیار کر کے اعلیٰ قسم کے برتنوں میں کھائیں۔ ‘‘

   ’’بد زبان  خوانچے والے !تمھاری یہ جرأت کہ تم مجھے سامنے سے جواب دیتے ہو۔ ‘‘حسینہ نے کہا ’’میرا نام تا بندہ ہے اور مجھے اس گلی کے سب لو گ جانتے ہیں میرا کاٹا تو پانی بھی نہیں مانگتا۔ ابھی تمھیں سبق سکھاتی ہوں۔ زبان دراز اور بد معاش کہیں کے۔ تمھیں معلوم ہے میں اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی  ہوں۔ لوگ کہتے ہیں کہ  پورے خاندان میں بل کہ پورے ملک میں کوئی مجھ  سے حسین لڑکی نہیں۔ کسی کو میرے سامنے دم مارنے کی مجال نہیں اور تم ہو کہ مسلسل اپنی ہانکے  چلے جا رہے ہو۔ بد تمیز، پاجی پھیری والے !‘‘

’’بس اس سے آگے ایک لفظ بھی نہ کہنا‘‘  اگرچہ پھتو گالیاں کھا کے بھی بے مزا نہ ہوا تھا لیکن اس کے با وجود  جعلی رعب ڈالتے ہوئے پھتو نے کہا ’’آپ کو گالی دینے کا کوئی حق نہیں۔ آپ اپنی حد میں رہیں۔ کسی غریب مجبور اور بے بس مزدور کو گالیاں دینا شرافت نہیں۔ ہم پھیری والے ضرور ہیں لیکن ہیرا پھیری والے ہر گز نہیں۔ آج کی دنیا میں لوگ ہیرا پھیری سے کالا دھن کما کر عیاشی کرتے ہیں  جب کہ ہم غریب لوگ خون پسینہ ایک کر کے رزق حلال کماتے ہیں۔ ۔ ‘‘یہ سنتے ہی حسینہ غصے میں آپے سے باہر ہو گئی اور اس نے نہایت حقارت سے خوانچے والے سے مخاطب ہو کر کہا :

’ ’اچھا تواب تم ہمیں شرافت کا سبق پڑھاؤ گے ؟ میں نے ایم۔ بی۔ اے کر رکھا ہے۔ مجھے آمدن اور وسائل کے  بارے میں تم سے زیادہ علم ہے، ، رذیل کمینے خوانچے والے !‘‘حسینہ کے منہ سے اب جھا گ بہہ رہا تھا اور وہ اس غریب خوانچے والے کو نا کردہ گناہوں کی سزا دینے پر تل گئی تھی۔ اچانک وہ آگے بڑھی اور اس نے پاؤں کی ٹھوکر سے چھابڑی کو الٹ دیا کھانے کی تمام اشیا کو گندے نالے میں پھینک دیا۔ اسی پر اکتفا نہ کیا بل کہ اس نے پھتو پر ٹھڈوں ، مکوں ، گھونسوں  اور لاتوں کی بارش کر دی۔ پھتو نے نہایت صبر سے یہ ظلم سہہ لیا اور اف تک نہ کی۔ جب وہ اس غریب خوانچے والے کو مار مار کر تھک گئی تو بڑ بڑ اتی ہوئی گھر کے اندر چلی گئی۔ پھتو دامن جھاڑ کر گھر چل دیا۔ اس کی دن بھر کی کمائی بھی جو ٹوکرے کے ردی کاغذوں کے نیچے چھپائی گئی تھی وہ بھی گند ے  نالے کے پانی میں بہہ گئی۔ خاک نشینوں  کی کمائی اسی طرح رزق خاک کر دی جاتی ہے۔ پھتو کے سامنے اس کی امیدوں کی فصل غارت کر دی گئی اور اس کی کئی دنوں کی محنت اکارت چلی گئی۔ اس تمام ستم کے باو جود پھتو کے دل میں کوئی ملال نہ تھا اور نہ ہی اس نے تابندہ کو کسی قسم کی بد دعا دی۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ آخر کیوں اس کے دل میں تابندہ کے لیے نفرت کے جذبات پیدانہ ہو سکے۔ وہ بو جھل قدموں کے ساتھ گھر کی جانب چل دیا۔

      گھر پہنچا تو پھتو کو شدید  بخار نے آ لیا اور وہ تین دن تک چارپائی پر پڑا کراہتا رہا۔ گھر میں دوا کے لیے پیسے نہ تھے۔ نتھو کو جب ساری صورت حال کا علم ہوا تو اس نے خود جا کر اس حسینہ کے والدین سے بات کرنے کا قصد کیا۔ پھتو نے اس ظالم حسینہ کے گھر کا جو حدود اربعہ بتا یا تھا وہ اسے کچھ جانا پہچاناسا لگا۔ وہاں پہنچ کر اسے یاد آیا کہ آج سے تیس  برس قبل بھی وہ صبح کے چار بجے یہاں آ یا تھا اور ایک بچی اس مکان کے مالک کے حوالے کی تھی جس کا نام بعد میں معلوم ہو ا کہ تا بندہ رکھا گیا تھا۔ ایک نا معلوم غیبی طاقت نے نتھو کو آگے بڑھنے سے  روک دیا۔ اور وہ الٹے پاؤں گھر لوٹ آیا۔ راستے بھر یہ سوچیں اس کے لیے سوہان روح بنی رہیں کہ جس بچی کو اس کی حقیقی ماں نے کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا اور پھر کبھی اس کی خبر تک نہ لی اس کی پیدائش، نمو اور یہ حالت سب کچھ فطرت کی تعزیروں کا ایک سلسلہ ہے۔

گھر واپس آ کر نتھو نے اپنے بیٹے پھتو سے روتے ہوئے کہا ’’  مثل مشہور ہے اس دنیا میں نیکی کا بدلہ ہمیشہ بدی کی صورت میں ملتا ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں نیکی کر اور دریا میں ڈال۔ بیٹے اگر زندگی چاہتے ہو تو آئندہ  ا س لڑکی  کے گھر کی جانب رخ نہ کرنا۔ وہ لوگ بڑے طاقت ور ہیں  اپنا معاملہ تم اپنے خالق کی عدالت میں بھیج دو وہاں دیر ہے مگر اندھیر نہیں۔ ‘‘

 ’’ ٹھیک ہے بابا!‘‘پھتو نے آہ بھر کر کہا ’’حسن اور دولت تو ڈھلتی چھاؤں ہے اس پر گھمنڈ کیا معنی رکھتا ہے ؟میں کل سے پھر چھابڑی لگاؤں گا اور جان مار کر کام کروں گا۔ جب تک تابندہ اس مکان میں موجود  ہے میں اس گلی کی طرف ہر گز نہ جاؤں گا یہ میرا وعدہ ہے۔ بے گناہوں اور مظلوموں کی آہیں ضرور رنگ لائیں گی۔ ‘‘

        وقت پر لگا کے اڑتا رہا۔ پھتو  کو یہ معلوم ہو گیا کہ تابندہ نے جلد ہی پسند کی شادی کر لی اور اپنے شوہر کے ہمراہ مردان  چلی گئی۔ اس کا والد بھی اس کے ساتھ چلا گیا اور یہ گھر مقفل ہو گیا۔ اتنے بڑے گھر میں اب زاغ و زغن اور بوم و شپر کا بسیرا تھا۔ اس نے اب اشک بار آنکھوں سے تا بندہ کی گلی کا چکر بھی لگانا شروع کر دیا۔ اس گلی میں اس کی چیز یں خوب بکتی تھیں۔ تابندہ کی گلی میں داخل ہوتے ہی پھتو کے دل میں اک لہر سی اٹھتی اور اسے یوں محسوس ہوتا کہ خانۂ دل میں تنہائیوں نے مستقل ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ سکول کے بچے اس گلی میں رہتے تھے۔ وہ اسے پہچانتے تھے۔ اب تو اس نے صفائی کا معیار بھی خاصا بلند کر لیا تھا اس نے ڈسپوزیبل پلیٹوں میں شکر قندی فروخت کرنا شروع کر دی۔ ٹماٹر کی کیچ اپ بھی وہ ساتھ رکھتا تھا۔ چوک پر لگے فلٹر پلانٹ سے وہ پانی کی بو تلیں بھی ساتھ رکھتا اور سارا سامان سائیکل پر لاد کر گلی گلی چکر لگاتا۔ چھ سال گزر گئے ایک دن وہ اس طر ف سے گزر رہا تھا کہ ایک بچے نے اس کے کان میں سرگوشی کے انداز میں بڑی راز داری سے کہا  :

’’ وہ سامنے والا گھر جو پچھلے چھ سال سے بند تھا اب کھل گیا ہے۔ اس گھر میں ایک چڑیل آ گئی ہے۔ ادھر نہ جانا یہ گھر بڑا خطر ناک ہے اس میں جو چڑیل ر ہتی ہے اسے دیکھ کر بچوں کی چیخیں نکل جاتی ہیں۔ جو بھی اس طرف جاتا ہے چڑیل اسے کاٹنے کو دوڑتی ہے۔ محلے کے سارے بچے اس گھر کی طرف جانے سے ڈرتے ہیں۔ انسانوں کو دیکھ کر چڑیل بھاگ کر کمرے میں چھپ جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ایک بوڑھا بھوت بھی ہے جو کبھی باہر نہیں آیا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بوڑھا بھوت بیمار ہے۔ ‘‘

’’تمھیں یہ باتیں کیسے معلوم ہوئیں ؟‘‘پھتو نے بچے سے پو چھا’’انسانوں کی بستی میں چڑیلوں کا کیا کام ؟یہ آسیب، بھوت اور چڑیلیں سب وہم اور گمان ہے۔ انھیں کبھی کسی نے نہیں دیکھا۔ ‘‘

’’میں نے اپنی آنکھوں سے اس گھر میں رہنے والی چڑیل کو دیکھا ہے ‘‘دوسرے بچے نے بڑے اعتماد سے کہا ’’ پچھلے ہفتے ہم اس سامنے والے کھیل کے میدان میں کر کٹ کھیل رہے تھے کہ ہماری گیند  اس چڑیل کے گھر میں جا گری، ہم دو لڑکوں نے دیوار سے جھانکا تو ہماری چیخیں نکل گئیں کہ وہ چڑیل اپنے بچے کو گود میں لیے بیٹھی تھی اور اس کی گردن پر اپنے ہونٹ رکھ کر شاید اس کا خون پینے کی کوشش کر رہی تھی۔ ہم اسی وقت نیچے اتر گئے اور بھاگ نکلے۔ تھوڑی دیر بعد چڑیل کا بچہ با ہر نکلا اور اس نے گیند ہماری طرف پھینک دی۔ ‘‘

       پھتو اس تمام قضیے کے بارے میں کچھ نہ سمجھ سکا۔ چند روز بعد وہ سکول کے گیٹ پر خوانچہ لگائے بیٹھا تھا۔ بچے تفریح کے وقت اس سے شکر قندی خرید رہے تھے کہ اچانک دو لڑکوں نے ایک چھوٹے بچے کو مارنا شروع کر دیا وہ اسے گالیاں دے رہے تھے اور کہہ رہے تھے :

   ’’یہ چڑیل کا بچہ ہے۔ اس کی ماں خطرناک چڑیل ہے۔ اس چڑیل  کی ناک اور کان کٹے ہوئے ہیں ، سر کے بال بالکل موجود نہیں۔ بھوئیں صاف ہیں اور چہرے پر ہڈیوں کے سوا کچھ نہیں۔ گردن پر گہرے زخم ہیں۔ چہرے کا سارا  گوشت غائب ہے۔ یہ آدم خور چڑیل ہے۔ اسے دیکھ کر ڈر کے مارے  دیکھنے والوں کی چیخیں نکل جاتی ہیں۔ ‘‘

        وہ معصوم بچہ یہ باتیں سن کر زار و قطار رونے لگا۔ پھتو نے اسے پیار کیا اسے شکر قندی پلیٹ میں رکھ کر دی اور اسے پانی پلایا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے ان دو بچوں کو سختی سے منع کر دیا کہ وہ آئندہ  اس بچے کو کچھ نہ کہیں۔ پھتو نے سکول کے فزیکل ایجو کیشن کے استاد کو اس تمام واقعے کے بارے میں آگاہ کیا اس کے بعد یہ تمام معاملہ سلجھ گیا۔ وہ بچہ بڑے اعتماد سے پڑھنے آتا اور بغیر کسی خوف و خطر کے واپس گھر پہنچ جاتا۔ پھتو کو ایک نا معلوم خوف لا حق تھا کہ ہو نہ ہو یہ بچہ اور اس کی ماں ضرور کٹھن مسائل کا شکار ہیں۔ اس کے باوجود اس نے اس مسئلے کے بارے میں مزید  چھان بین کی ضرورت محسوس نہ کی۔ شام کو جب وہ اپنی بائیسیکل پر چیزیں  فروخت کرنے کے کے لیے نکلتا تو اس گلی میں سے بھی گزر ہوتا۔ جس دن بچے کے ساتھ سکول میں دوسرے بچوں نے جھگڑا کیا تھا اس شام وہ بچہ پھتو کی آواز سنتے ہی اپنے گھر سے  با ہر آیا اور کہا :

 ’’انکل تمھیں میری امی نے بلایا ہے، وہ شکر قندی اور کچھ کھانے کی چیزیں  خریدنا چاہتی ہے۔ ‘‘

 پھتو  نے کہا ’’تم جاؤ اور پیسے لے آؤ میں اسی وقت شکر قندی دے دوں گا َ۔ میں یہیں دروازے کے با ہر زمین پر بیٹھا ہوں۔ ‘‘

ٓٓ اچانک ایک آواز آئی ’’خوانچے والے !پانچ روپے کی شکر قندی اور آلو چھولے ملا کر دو اس پر مرچ مصالحے اور کھٹاس خوب چھڑکنا۔ ‘‘

پھتو کو یہ آواز مانوس سی لگی۔ آج سے چھ برس قبل عین اسی جگہ پر اسی آواز نے اس سے بات کی تھی لیکن اس بار نہ تو الفاظ  میں کوئی ترنگ تھی اور نہ ہی لہجہ دبنگ تھا۔ مقام وہی تھا متکلم بھی وہی شخصیت محسوس  ہوتی تھی لیکن لہجہ بدل گیا تھا۔ گزشتہ تلخ تجربے کے باعث پھتو کی نگاہیں زمین پر گڑی تھیں اس نے ڈسپوزیبل پلیٹ نکالی اس میں سٹین لیس سٹیل کے بڑے چمچ سے شکر قندی اور آلو چھولے ملائے اور اس پر مر چ مصالحے اور لیموں نچوڑ کر اور ٹماٹر  کیچ اپ ایک پلاسٹک  کے لفافے میں ڈال کر  پلیٹ کو  آگے بڑھایا۔ خاتون نے اسے پکڑنے سے انکار کر دیا اور بولی :

’’ آپ کے پاس ردی کاغذ نہیں ہیں کیا ؟ہم جیسے بے کار اور ردی لوگوں کے لیے ردی کاغذ ہی مناسب ہیں۔ میں تو اپنی شناخت ہی کھو چکی ہوں۔ میں تابندہ ہوں اسی جگہ پر آج سے چھ برس پہلے میں نے جو توہین آمیز سلوک تم سے کیا وہ میری بہت بڑی حماقت تھی۔ میری طرف دیکھیں ، حالات نے مجھے تماشا بنا دیا۔ تمھیں اپنے والدین کی قسم ایک بار میری طرف نظر اٹھا کر تو دیکھو۔ اور اگر ہوسکے تو مجھے معاف کر دو۔ میں خود اپنی نظروں میں حقیر اور بے وقعت ہو چکی ہوں۔

پھتو نے نظر اٹھا کر دیکھا تو ایک دراز قد عورت اس کے سامنے کھڑی تھی جس کی پوری شکل بر ی طرح مسخ ہو چکی تھی۔ اسے اس حال میں دیکھ کر اس کی آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برسنے لگیں۔ تابندہ بھی زار و قطار رو رہی تھی۔ قدرت کے اپنے اصول ہوتے ہیں کسی کو ان کے سامنے دم مارنے کی مجال نہیں۔ وہ حسینہ جسے دیکھنے کی تاب نہ تھی اب اسے دیکھ کر خوف کے مارے پتا پانی ہوتا تھا۔ پھتو نے آہ بھر کر کہا :

’’تمھارا یہ حال کیسے ہو گیا ؟تم پر کیا افتاد پڑ گئی ؟‘‘

’’ میرے والد نے میری شادی ایک عیاش سرمایہ دار سے کردی۔ وہ مجھے اپنے سب احباب کو پیش کرنا چاہتا تھا جب میں نے اس کی گھٹیا خواہش کی تکمیل نہ کی تو اس نے مجھ پر تشدد کرنا شروع کر دیا۔ تنگ آ کر میں نے طلاق کا مطالبہ کر دیا۔ اس نے میرے چہرے اور گردن پر تیزاب پھینک دیا اور مجھے طلاق دے دی۔ اس درندے نے میرے تین فٹ لمبے بالوں  اور گھنی پلکوں اور بھووں سے مجھے محروم کر دیا۔ ‘‘

’’یہ تو بہت بڑا ظلم ہے ‘‘پھتو نے کہا ’’قدرت کے بنائے ہوئے حسین و جمیل چہرے کو مسخ کرنا سفاکی اور درندگی کی بد ترین مثال ہے۔ ‘‘

’’    ظالم مجھے دھمکی دے رہا تھا کہ اب کوئی مرد تمھارے منہ پر کبھی تھوکے گا بھی نہیں۔ تم  سسک سسک کر جیو گی اور تڑ پ تڑپ کر مرو گی۔ جس حسن پر تمھیں ناز ہے وہ اب ختم ہو گیا اب تم سے کوئی شادی نہیں کرے گا۔ تم دنیا بھر کی نفر توں کا مرکز بن کر عبرت کی  مثال بن جاؤ گی۔ میرے باپ نے جب مجھے اس حال میں دیکھا تو وہ عارضہ ء قلب میں مبتلا ہو گیا ‘‘تابندہ نے روتے ہوئے کہا ’’اس نے مجھے اپنی حقیقت اور تم لوگوں خاص طور پر تمھارے والد کی نیکی کے بارے  میں سب کچھ بتا دیا ہے۔ ‘‘

’’کیسی نیکی اور ہم کیا اور ہماری حقیقت کیا ؟‘‘ پھتو بولا ’’میں کچھ سمجھا نہیں۔ یہ کیا معما  ہے ؟۔

  ’’آج رات میں اور تابندہ  تمھارے گھر آئیں  گے اور تمھارے والد سے ملیں گے۔ ‘‘تا بندہ کا باپ روتے ہوئے بولا ’’میں اپنے اس محسن کا قرض اتارنے کے لیے اس کے گھر ضرور جاؤں گا۔ ‘‘

    تابندہ کے لیے تو ہر  رات مقدر کی سیاہی کی طرح کالی تھی لیکن آج کی رات اسے حوصلے اور امید کی ایک ہلکی سی کرن دکھائی دی۔ اس نے چادر اوڑھی اور اپنے باپ سیٹھ انور کے ساتھ اپنی گاڑی میں بیٹھ  کر نتھو کی کٹیا کی جانب روانہ ہو گئی۔

 نتھو اور پھتو کا گھر کیا تھا حسرتوں ، امنگوں اور امیدوں کا ایک مدفن تھا جس پر وہ نسل در نسل مجاور بن کر زندگی کے دن پورے کرتے چلے آ رہے تھے۔ سیٹھ انور جب نتھو کے کھنڈر نما گھر میں داخل ہوا تو شدت غم سے اس کی چیخ نکل گئی۔ تابندہ جو چادر میں لپٹی ہوئی تھی اس نے جھک کر نتھو کو سلام کیا اور پھتو کو آداب کہا۔ سیٹھ نے نتھو کو گلے لگا کر کہا :

       ’’آج سے تیس  سال پہلے تم نے ایک ننھی جان کو نئی زندگی دی اور اسے ہمارے حوالے کیا۔ وہ بچی یہ تا بندہ ہے جسے ہم نے پڑھا لکھا کر ایم۔ بی۔ اے کرایا۔ اس کی شادی ایک اعلی ٰ تعلیم یافتہ سرمایہ دار سے کی جس نے اس معصوم اور قسمت سے محروم بچی کا یہ حال کر دیا ہے۔ ‘‘

تابندہ نے چادر منہ سے ہٹائی تو نتھو کی شدت غم سے آہ نکل گئی اور فرط غم سے اس نے دل تھام لیا۔

سیٹھ نے کہا ’’اس کے شوہر نے اس کے چہرے پر تیزاب پھینکا تو میں نے اس کے علاج پر پوری توجہ دی لیکن زخم اس قدر گہرے تھے کہ مندمل نہ ہو سکے  اور اس کا تمام حسن خداداد ماضی کا حصہ بن گیا ہے۔ سب سے بڑھ کر اس کے دل کا زخم تو سد ا ہر رہتا ہے۔ اس کا مرہم تم بن جاؤ اور اسے اپنی بیٹی بنا لو۔ ‘‘

  ’’بابا نتھو اب میں آپ کے رحم و کرم پر ہوں۔ ‘‘ تابندہ نے روتے ہوئے کہا ’’اگر آپ مجھے اپنی بہو نہیں بنا سکتے تو پھر میری ماں کی طرح مجھے گندے پانی کے جو ہڑ میں پھر سے دھکا دے دیں۔ ‘‘

  ’’میری بیٹی مجھے تمھاری ہر خواہش منظور ہے۔ ‘‘نتھو نے روتے ہوئے کہا ’’تمھارے کردار کا حسن اور انا کی دولت  ہی میرے بیٹے کے لیے کافی ہے۔ ‘‘

نتھو اور پھتو کو سیٹھ انور اپنے گھر لے گیا۔ تابندہ کی شادی پھتو  سے ہو گئی۔ ہنسی خوشی دس برس گزر گئے، پھتو کے تا بندہ سے تین بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ تابندہ ورکنگ ویمن ہاسٹل  اب شہر میں خواتین کا سب سے با وقار پر آسائش اور  قابل اعتبار رہائشی مرکز ہے۔ یہ مرکز  پھتو اور تابندہ مل کر چلاتے ہیں۔ اس کی  آمدنی کا بڑا حصہ مظلوم خواتین کی بحالی اور فلاحی کاموں  پر خرچ ہوتا ہے۔ جس جگہ پھتو خوانچہ لگاتا تھا اب وہاں ان میاں بیوی کے سرمائے سے  ایک ہوٹل تعمیر ہو گیا ہے جس کا نام الفتح ہوٹل ہے۔ اس میں معیاری کھانے انتہائی کم قیمت پر دستیاب ہیں۔ پھتو خوانچے والا اب فتح خان کے نام سے مشہور ہے۔

٭٭٭

 

نئے محسن

           چنیوٹ   شہر کے مضافات میں واقع ایک کچی آبادی تھی جس کا ماحول پتھر کے زمانے سے بھی بد تر تھا۔ اس کچی آبادی میں ایک سو کے قریب کچے گھروندے تھے  ان میں انسان بھیڑ بکریوں کی طرح  ٹھنسے ہوئے تھے۔ صحت، صفائی اور تعلیم کا یہاں کوئی گزر نہ تھا۔ یہاں کے باشندے اپنا ہر دکھ  اپنے مقدر، اپنی قسمت اور حالات کے کھاتے میں ڈال کر مجبوری کے عالم میں بے عملی اور بیزاری کے  پیکر بن چکے تھے ۔ یہاں نورا کنجڑا اور فجا بھٹیارا پڑوسی تھے۔ اس کچی آبادی کے جنوبی کنارے پر ایک گندے پانی کا جوہڑ تھاجس میں گاؤں کے لوگ اپنے مویشیوں کو نہلاتے اس کے علاوہ  اس پوری آبادی کا کوڑا کرکٹ اور کچرا یہیں اکٹھا ہوتا تھا۔ گندے پانی سے عفونت اور سڑاند کے بھبھوکے اٹھتے تھے اور راہ گزرنا محال ہو جاتا تھا۔ اس جوہڑ میں ہر قسم کے حشرات کی فراوانی تھی۔ دریا کے کنارے واقع ہونے کی وجہ سے اس میں بڑے بڑے نہنگ، کچھوے، مچھلیاں اور سانپ بھی پائے  جاتے تھے۔ سب سے زیادہ تعداد خون آشام طفیلی  جونکوں کی تھی  جو اس تالاب میں داخل ہونے والے انسانوں یا  جانوروں کو چمٹ جاتیں اور ان کا خون پی لیتیں۔ یہ  ظالم، بے رحم طفیلی جونکیں جن جانوروں کا خون پی کر پل رہی تھیں ان میں گدھے، خچر، گھوڑے، بیل، اونٹ  اور دیگر جانور شامل تھے۔ قسمت سے محروم یہ بے زبان جانور اپنی پیاس بجھانے اس تالاب پر پہنچتے مگر انھیں کیا معلوم کہ سیکڑوں کی تعداد میں جونکیں ان کی منتظر ہیں۔ بار برداری کے لیے استعمال ہونے والے گدھے، خچر، استر اور گھوڑے  ان جونکوں کو تازہ خون فراہم کرنے کا بہت بڑا ذریعہ تھے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ جونکیں سالہا سال سے ان جانوروں کے خون پر پل رہی تھیں مگر کسی کو احساس زیاں نہ تھا۔ ان جانوروں کو ان سے نہ تو کوئی ڈر محسوس ہوتا اور نہ ہی اپنے خون کے ضیاع پر کوئی تشویش ہوتی  بل کہ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جونکوں اور ان جانوروں کوئی درد کا رشتہ ضرور موجود ہے۔ سب جانور بے خطر اس تالاب میں کود پڑتے  اور جب باہر نکلتے تو ان کا سیروں خون ان جونکوں کے پیٹ کا دوزخ بھرنے میں خرچ ہو  چکا ہوتا۔ وقت بھی عجب گل کھلاتا ہے خچروں اور گدھوں کی چال اور جونکوں کے وبال میں کوئی فرق نہیں آتا۔

                  اس جگہ سے چند قدم کے فاصلے پر نورا کنجڑا اور فجا بھٹیارا رہتے تھے۔ فجے بھٹیارے کی بیٹی صابو چندے آفتاب چندے ماہتاب تھی۔ پورے علاقے میں اس کے حسن کے چرچے تھے۔ صابو تنور پر روٹیاں لگاتی اور شام کو بھٹی پر دانے بھونتی۔ اس کے ہاتھ کی پکی ہوئی روٹیاں اور بھٹی کے بھنے ہوئے دانے سب کو پسند تھے۔ قدرت کاملہ نے صابو کو حسن کی دولت عطا کرنے میں بے پناہ فیاضی سے کام لیا تھا۔  اپنے حسن پر صابو کو بجا طور پر ناز تھا۔ اس کی چال کڑی کمان کے تیر کے مانند تھی۔ اس کی نیم باز آنکھیں دیکھنے والے کو  مخمور کر دیتیں۔  اس الھڑ سوانی کی اٹھتی جوانی اور اس کی چاندی کی گردن میں سونے کی گانی دیکھ کر دل پھینک قماش کے گھٹیا عاشق اور لا ابالی مزاج کے حسن پرست اور امیر  نوجوان  دل تھام لیتے۔ صابو کسی کی پروا نہ کرتی اور اپنی دھن میں مگن تنور اور چتڑی (بھٹی )پر محنت کر کے اپنا رزق کماتی۔ شاید اسی دائی کے بے پناہ ناز، نخرے اور اداؤں کے بارے میں شیر افضل جعفری نے کہا تھا :

           چنیوٹ کی دائی کے             دعوے ہیں خدائی کے

       اس دائی کی چال، روپ اور اداؤں کے متعلق شیر افضل جعفری نے اپنی ایک نظم میں لکھا ہے :

         سندر کو مل نازک دائی             جھلمل جھلمل کرتی آئی

          پھاگن کی سرشار فضا میں           لال پری نے لی انگڑائی

        تڑ تڑ کر تڑنے لگے پھلے             تاروں کی دنیا شرمائی

            نورے کنجڑے کا بیٹا ناصو بھی بہت محنتی اور جفا کش نو جوان تھا۔ نورا منہ اندھیرے اٹھتا اور نہار منہ ناصو کے ساتھ سبزی منڈی کا رخ کرتا۔ دونوں باپ بیٹا  صبح دس بجے تک وہاں خون پسینہ ایک کر  کے پلے داری کرتے اور روزانہ فی کس تین سو روپے کے لگ بھگ کما لیتے۔ مزدوری سے فارغ ہو کر وہ ایک تھڑے پر بیٹھے نانبائی سے چنے اور روٹی لے کر کھاتے اور فٹ پاتھ پر لگے ہینڈ پمپ سے پانی پیتے۔ نورا کنجڑا یہ بات بڑے گھمنڈ سے بتایا کرتا کہ وہ زہرہ کنجڑن کا نواسا ہے۔ زہرہ کنجڑن جو کہ مغل بادشاہ جہاں دار شاہ کے زمانے میں دہلی کی رسوائے زمانہ رقاصہ تھی اور اس کی سہیلی لال کنور اس کے ساتھ مل کر کوٹھے پر بیٹھتی تھیں۔ جہاں دار شاہ  جب لال کنور کی زلف گرہ گیر کا اسیر ہوا تو اسے ملکۂ ہند بنا لیا۔ اس کے بعد عقابوں کے نشیمن میں زاغ و زغن گھس گئے۔ لال کنور اور زہرہ کنجڑن نے جہاں دار شاہ کو کٹھ پتلی بنا دیا اور وہ ان رذیل طوائفوں کے سامنے بے بس و لاچار ہو کر رہ گیا۔ لال کنور کا بھائی نعمت خان کلاونت  ملتان کا صوبے دار بن گیا اور زہرہ کنجڑن نے لوٹ مار کا بازار گرم کر دیا۔ ناصو کے دادا کو بھی ورثے میں ایک جاگیر ملی مگر وہ سب کچھ اس نے اونے پونے داموں بیچ دیا اور شراب و شباب سے خوب گل چھرے اڑائے۔ اس قسم کے حادثے اچانک کبھی نہیں ہوا کرتے بل کہ طویل عرصہ تک حالات کے زیر اثر یہ نمو پاتے رہتے ہیں۔ مغلوں کے زوال کے بعد بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے مفاد پرست عناصر کو ایسے نکالا گیا جیسے دودھ سے مکھی نکالی جاتی ہے۔  سیل زماں کے تھپیڑے کھا کھا کر زہرہ کنجڑن کا نواسا ایام گزشتہ کی کتاب کی نوحہ خوانی کے لیے در بہ در اور خاک بہ سر مارا مارا پھرتا تھا اور لوگ اس کی حالت زار کو دیکھ کر توبہ استغفار کرتے تھے۔

           ناصو کنجڑا اور صابو دائی پڑوسی بھی تھے اور ہم عمر بھی تھے۔ ان دونوں کی باہمی قربت اور میل ملاپ کی وجہ سے یہ گمان گزرتا کہ شاید یہ دونوں پیمان وفا باندھ چکے ہیں۔ دونوں آپس میں جلد گھل مل جاتے اور بے تکلفی سے بات چیت بھی کر لیتے۔ ان کے گھر والے بھی ان کے ملنے پر کوئی اعتراض نہ کرتے۔ گزشتہ برس جب فجا بھٹیارا بیمار ہوا تو ناصو کنجڑا اسے لے کر نور شاہ دروازے کے قریب بیٹھے حکیم کے پاس    گیا اور اسے ایک پیر سے دم بھی کرایا۔ اس کے گھٹنے کے درد کے لیے فٹ پاتھ پر بیٹھے ایک عطائی سے شیر کی چربی اور سانڈے کا تیل بھی لایا۔ اس کے باوجود صابو کو ناصو کنجڑا ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔  ناصو ایک متلون مزاج  شخص تھا اس لیے وہ سمجھتی تھی کہ یہ شخص ایک ایسے بھنورے کی طرح ہے جو کہ ہر پھول پر منڈلاتا ہے۔

       سبزی   منڈی سے فارغ ہونے کے بعد دن کے گیارہ بجے ناصو کنجڑا سبزی کی ریڑھی لگاتا اور محلے کی گلیوں میں تازہ سبزی بیچتا۔ اس طرح شام تک وہ مزید چارسو روپے کما لیتا۔ کچھ عرصہ بعد اچانک   دائی صابو کو محسوس ہوا کہ کئی دنوں سے ناصو کنجڑا کچھ بدلا بدلا سا نظر آ رہا تھا۔ اس کا لباس بھی بڑا امیرانہ اور انداز بھی انوکھے تھے۔ وہ کسی پر تعیش ماحول میں زندگی بسر کرنے لگا تھا۔ اب وہ تنور سے روٹی یا بھنے ہوئے دانوں اور گڑ سے تیار کیا ہوا مرنڈا نہ خریدتا بل کہ اس کے پاس سینڈوچ، برگر یا کیک ہوتے جو وہ شام کو بڑے مزے لے لے کر کھاتا۔ یہ سب کچھ کھانے کے بعد وہ سوڈے کی ایک لٹر کی آدھی بوتل نکالتا اور اسے سلور کے جگ میں انڈیلتا اور برف ڈال کر کئی کٹورے  غٹا غٹ پی جاتا۔ ناصو کنجڑا اب جو لباس پہنتا وہ بھی بہت قیمتی ہوتا لیکن لباس پر پیوند کاری اور کئی مقامات پر کیڑوں کی ضرب کاری سے  یہ بات صاف معلوم ہو جاتی کہ یہ لباس کسی کی اترن ہے جو اسے کسی نے مفت دے دی ہے۔ ایک تبدیلی یہ آئی کہ ناصو کنجڑے نے اب دائی صابو سے دور رہنا شروع کر دیا۔ وہ اپنے خیالات میں گم سم سا رہنے لگا۔ اب وہ سبزی منڈی سے واپس آتا تو سبزی کی ریڑھی لے کر کوئی اور رستہ اختیار کرتا تا کہ صابو کے تنور اور بھٹی سے اسے نجات مل جائے۔ ایک دن تنور پر روٹیاں لگوانے کے لیے آنے والی عورتوں نے اس پر حیرت کا اظہار کیا اور ایک عورت بولی :

     ’’اب وہ سبزی والا ناصو کنجڑا کبھی ادھر سے نہیں گزرا۔ پہلے تو ہم اس سے تازہ سبزی یہیں سے خرید لیتے تھے۔ ‘‘

دوسری عورت بولی ’’ہاں وہ تازہ سبزہی بازار سے کم بھاؤ پر بیچتا تھا اور اس کے ساتھ دھنیا، سبز مرچ اور تھوڑا سا پودینہ مفت دے دیتا تھا۔ نا معلوم اب وہ اس طرف سے کیوں نہیں گزرتا۔ ‘‘

’’مجھے معلوم ہے کہ اب وہ کس طرف جاتا ہے ‘‘ایک بڑھیا نے کھانستے  ہوئے کہا ’’اب وہ چوک سے پنڈی بھٹیاں روڈ پر جہاں یہ تنور ہے نہیں آتا بل کہ جھنگ روڈ پر مڑ جاتا ہے اور سامنے ہی کھڑا ہو جاتا ہے جہاں ایک کوٹھی والی بیگم صاحبہ کے ساتھ ان دنوں اس کی گاڑھی چھنتی ہے۔ وہ چڑیل نوجوان جن کو بوتل میں بند کرنے کا فن خوب جانتی ہے۔ اس کی کوٹھی میں نو جوان لڑکوں اور حسین و جمیل نو جوان دوشیزاؤں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ مجھے تویہ عورت ایک نائکہ لگتی ہے۔ ‘‘

’’میں سمجھ گئی  تم نے خوب کھوج لگایا ‘‘ایک ادھیڑ عمر کی عورت نے انگشت شہادت ناک  پر رکھتے ہوئے کہا’’اس کوٹھی میں ایک بیوہ عورت کامنی رہتی ہے، لوگ اسے ناگن اور ڈائن کہتے ہیں۔ اس نے اپنے بہت  بڑے سرمایہ دار  شوہر کو ڈس لیا اور اب شوہر کی موت کے بعد اس کی دولت پر گلچھرے اڑا رہی ہے۔ غریب نوجوان لڑکوں کو ورغلا کر اپنے پاس بلاتی ہے، اپنے مرحوم شوہر کے پرانے کپڑے انھیں پہناتی ہے۔ اس طرح اپنی زندگی کی یادیں تازہ کر کے سکون پاتی ہے  اور عیاشی کرتی ہے۔ ‘‘

’’تم سب اپنے کام سے غرض رکھو‘‘ دائی صابو نے غصے سے کہا’’کسی کی پیٹھ کے پیچھے اس کی برائی بیان کرنا ظلم ہے۔ ‘‘

’’ناصو کنجڑے نے بھی تو ظلم کیا ہے۔ ‘‘ایک تیز اور جہاں دیدہ عورت نے جواب دیا ’’پہلے تو دائی صابو کے تنور کا طواف کرتا تھا۔ یہیں  سے روٹی اور دال لے کر کھاتا تھا۔ اس وقت تو  ہماری پیاری  دائی صابو کے ہاتھ کے بنے ہوئے  مرنڈے اسے اچھے لگتے تھے اور اب وہ کامنی کے نام کی مالا جپتا ہے۔ بے وفا اور ظالم کہیں کا۔ ‘‘

’’ میرا نام درمیان میں نہ لاؤ ‘‘دائی صابو نے آگ بگولا ہو کر کہا ’’وہ میرا پڑوسی ضرور ہے مگر اس کے علاوہ اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اب یہ اس کا اختیار ہے کہ جس راہ پر اس کا جی چاہے چلے۔ ہم سب اسے روکنے والے کون ہوتے ہیں ؟‘‘

       ’’اونہہ جس راہ پر اس کا جی چاہے چلے ‘‘ ایک حسین اور نو جوان عورت نے غصے سے کہا ’’یہ سب پیسے کا کھیل ہے پیار، وفا، محبت کی کوئی قدر نہیں۔ وہ ہر جائی کنجڑا دائی صابو سے بے وفائی کر کے ایک  امیر بیوہ کی چوکھٹ پر جا گرا اور اب اس ڈائن کے تلوے چاٹ کر پنی خواہشوں کی تسکین چاہتا ہے۔ وہ فریب کھا چکا ہے وہ ضرور پچھتائے گا۔ ہماری دائی تو لاکھوں میں ایک ہے۔ ‘‘

     شام کے سائے ڈھلنے لگے۔ آج  تنور پر عورتوں نے جو  باتیں کیں، وہ سن کر دائی صابو کو بہت پریشانی ہوئی۔ گھر پہنچی تو ناصو کنجڑا اس کے باپ کے پاس بیٹھا تھا۔ آج اس نے عمدہ قسم کے استعمال شدہ کپڑے پہن رکھے تھے اور سامنے ایک تھالی میں کچھ برگر، سینڈوچ، ایگ رول اور پیزا کے ٹکڑے پڑے تھے۔ پاس ہی سوڈے کی آدھی بوتل بھی رکھی تھی۔

     ’’یہ سب چیزیں کس لیے لائے ہو ؟‘‘دائی صابو نے پوچھا ’’مجھے تو یہ بچے ہوئے کھانے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ تم کہاں سے اٹھا کر لائے ہو ؟‘‘

’’یہ تم کھا لو ‘‘ناصو نے نہایت ڈھٹائی سے کہا ’’میں نے شام کو ایک میڈم کی کوٹھی میں نوکری کر لی ہے۔ ان کے ہاں اکثر دعوتیں ہو تی رہتی ہیں۔ یہ جو کھانے بچ جاتے ہیں وہ میں خود بھی کھا لیتا ہوں اور بابا کے لیے بھی لے آتا ہوں۔ آج سوچا کہ یہ انگریزی کھانے تمھیں بھی چکھاؤں تم لوگوں کی اتنی ہستی کہاں کہ ان بہت ہی مہنگے  چینی اور انگریزی کھانوں کے مزے لے سکو؟‘‘

’’بند کرو یہ فضول باتیں ‘‘فجا بھٹیارا  بولا ’’تم نے ہمیں کیا سمجھ رکھا ہے ؟ہم غریب لوگ بھوک سے مر تو سکتے ہیں لیکن کسی کے بچے ہوئے کھانے کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا بھی ہمیں گوارا نہیں۔ تمھیں امیروں کی اترن اور بچا کھچا کھانا نصیب رہے ہمیں تو اس سے معاف رکھو۔ ‘‘

       ناصو کنجڑا جب سب سامان سمیٹ رہا تھا تو اس کا خون کھول رہا تھا۔ وہ اسے اپنی بے عزتی سمجھ رہا تھا۔ اگرچہ وہ کوئی دلیل نہ دے سکا لیکن دل ہی دل میں وہ دائی صابو اور اس کے باپ کو بری طرح کوس رہا تھا۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ فاقہ کش غریب لوگ اس قدر خود دار بھی ہو سکتے ہیں۔ جاتے وقت اس نے دائی صابو کی طرف گھورتے ہوئے کہا :

         ’’آج کے بعد میرا تم سے کوئی تعلق باقی نہیں رہا۔ ‘‘

    ’’   عجیب بات ہے ‘‘ دائی صابو نے حیرت سے کہا ’’پہلے کون سا تعلق تھاجسے اب تم ختم کرنے جا رہے ہو؟اگر ہم کامنی کے مرحوم شوہر کی اترن اور کامنی کے دستر خوان کے بچے کھچے ٹکڑے پسند نہ کریں تو اس میں ہمارا کون سا قصور ہے ؟‘‘

’’کان کھول کر سن لو ناصو میاں ہم یہ جیتی مکھی نہیں نگل سکتے۔ ‘‘فجا بھٹیارا حقے کے کش لگاتے ہوئے بولا ’’بے غیرتی، بے حسی، بے ضمیری اور بے حیائی انسان کو جیتے جی مار ڈالتی ہے۔ جب کوئی شخص اپنی عزت، انا اور خود داری کا گلا گھونٹ دیتا ہے تو اس کی حالت چلتے پھرتے ہوئی مردے کی سی ہو جاتی ہے۔ تم جو جی چاہے کرو لیکن ہمیں اپنی غلط ڈگر پر مت چلاؤ  جو کہ مکمل تباہی کی جانب لے جاتی ہے۔ کوڑے کے ڈھیر سے ہڈیاں چن کر پیٹ کا دوزخ بھرنے سے تو موت  ہی بہتر ہے۔ امیروں کی چوکھٹ پر ناک رگڑنے کے بعد اگر ان کا بچا کھچا کھانا ملتا ہے تو اس سے تو بھوکا رہنا بہتر ہے۔ ‘‘

    ’’تم لوگوں کو بھوک اور فاقہ کشی سے محبت ہے تو ایسا ہی سہی ‘‘ناصو کنجڑا مجسم بے غیرتی بن کر بولا ’’ہم تو اب یہ دکھ نہیں سہہ سکتے۔ ہم کل سے یہ جھونپڑی چھوڑ کر جا رہے ہیں اور میڈم کامنی کی بہت بڑی اور خوب صورت کوٹھی کے کوارٹر میں رہیں گے َ۔ وہاں پانی، بجلی، گیس اور ہر قسم کی سہولت میسر ہے۔ اب ہم اس کال کوٹھڑی میں مزید نہیں رہ سکتے جہاں زندگی اذیت اور عذاب بن کر رہ گئی ہے۔ میڈم کامنی میری محسن ہے۔ اس نے مجھے سر چھپانے کے لیے آرام دہ جگہ مفت مہیا کر دی ہے اور ساتھ ہی دو وقت کا کھانا اور پانچ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ بھی ملے گی۔ کام صرف رات کی چوکیداری ہے۔ ‘‘

      ’’یہ تمھاری اپنی خوشی ہے ‘‘فجا بھٹیارا بولا ’’ہم تو اپنی اسی جھونپڑی میں ہی زندگی کے دن پورے کریں گے۔ مانگے کی خوشیاں بالکل عارضی ہوتی ہیں۔ یہ وہم، گمان اور فریب کے سوا کچھ بھی نہیں۔ تم جہاں رہو خوش رہو۔ تم سبزی منڈی میں جا کر پلے داری کرو یا کسی امیر بیوہ کے مکان کی چوکیداری کرو یہ تمھاری اپنی مرضی ہے۔ ہم تو اپنے حال میں مست ہیں۔ اللہ کریم نے ہمیں جس حال میں رکھا ہے ہم اس پر راضی ہیں۔ چادر سے بڑھ کر پاؤں پھیلانے سے ذلت اور رسوائی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ‘‘

     ناصو کنجڑا بڑ بڑاتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔  اگلے دن علی الصبح ناصو کنجڑا اپنی جھونپڑی  خالی کر کے چلا گیا۔ یہ بوسیدہ کھنڈر نما جھونپڑی ایک نوجوان نتھو تیلی نے  انھیں منہ مانگے دام دے کر خرید لی اور یہاں وہ اپنا کولھو لگانے کا منصوبہ بنانے لگا۔ ناصو کنجڑا اور اس کا باپ میڈم کامنی کے سرونٹ کوارٹر میں رہنے لگے۔ چار عشروں پر محیط ان دو غریب خاندانوں کے تعلقات اب ماضی کے طوماروں میں دب گئے۔ جاتے جاتے ناصو کنجڑا سارے سلسلے ہی توڑ گیا اور عمر بھر دائی صابو سے  نہ ملنے کی قسم کھا لی۔

      دائی صابو نے اس تمام روداد کو ایک بھیانک خواب سمجھتے ہوئے جلد ہی اس کے اثر سے نجات حاصل کر لی۔ ایک برس بیت گیا ناصو کنجڑا ایسا گیا کہ پھر کبھی نظر نہ آیا۔ نتھو تیلی کا کولھو بہت کامیاب ہوا اس کا کاروبار چل نکلا۔ وہ سرسوں، کنولا اور دوسری تیل دار اجناس کا تیل نکال کر بیچتا تھا۔ اس کی ایمان داری کے بہت چرچے تھے۔ جلد ہی اس نے اپنا مکان بھی تعمیر کر لیا اور شہر میں ایک دکان بھی بنا لی۔

       کا منی کرائے کی کو ٹھی میں رہتی تھی۔ اس نے اس کوٹھی کو قحبہ خانے اور عیاشی کے اڈے میں بدل دیا تھا۔ محلے والوں نے اس کے خلاف درخواست دی اور اسے وہاں سے نکلنے پر مجبور کر دیا گیا۔ اس نے تو اپنی الگ دنیا کہیں اور بسا لی لیکن ناصو کنجڑا نہ تو تین میں رہا اور نہ ہی وہ تیرہ میں رہا۔ کامنی نے اسے منشیات کا عادی بنا دیا تھا۔ اس عرصے میں اس کا باپ چل بسا اور ناصو کنجڑے کی تمام جمع پونجی منشیات اور کامنی کی بھینٹ چڑھ گئی۔ اب نہ تو وہ کوئی کام کر سکتا تھا اور نہ ہی اسے کسی طرف سے امداد یا سہارے کی توقع تھی۔ مفلسی جب ہوس کی راہ پر چل نکلتی ہے تو اس کی تیر اندازی سے عزت و ناموس اور انا مات کھا کر رہ جاتی ہے۔ ناصو کنجڑا اچھے دنوں کی تلاش میں دیوانہ وار اس راہ پر چل نکلا جس نے اسے سرابوں کے صحرا میں پہنچا دیا۔ اس کے کان اب صدائے جرس کو ترس گئے تھے۔

       نتھو تیلی نے سخت محنت کو اپنا شعار بنایا۔ اپنی خوش اخلاقی اور  بلند کردار سے معاشرے میں عزت پائی اور جلد ہی اپنے ہمسائے فجے بھٹیارے اور دائی صابو کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اپنے کردار، وقار اور محنت کے بل بوتے پر وہ دائی صابو کی محبت حاصل کر سکا۔ جوڑے تو آسمانوں پر بنتے ہیں لیکن اس کے لیے زمین پر بھی جدو جہد ضروری ہے۔ نتھو تیلی نے دائی صابو کے ساتھ ایک عہد وفا استوار کیا اور اسی کو گردش لیل و نہار کا علاج سمجھا۔ نتھو تیلی کی وفا کی اس موج نسیم نے دائی صابو کے قریۂ جاں کو معطر کر دیا۔  دائی صابو کی شادی نتھو تیلی سے ہو گئی اور اب ان کے آنگن میں دو خوب صور ت پھول کھل اٹھے تھے۔ تحصیل چوک پر واقع گھاس کے میدان میں بہت سے لوگ زمین پر رات کو سوتے تھے۔ ان میں سے بیش تر منشیات کے عادی تھے۔ ناصو کنجڑا بھی ان میں شامل تھا۔ ایک رات جب نتھو تیلی اور دائی صابو اپنی اپنی محنت  مزدوری سے فارغ ہو کر گھر لوٹ رہے تھے تو ایک چیتھڑوں میں ملبوس خستہ حال لا غر سے فقیر نے صدا لگائی :

        ’’اللہ کے نام پر مجھ پر ترس کھاؤ، میں بیمار ہوں اور تین دن سے فاقے سے ہوں۔ میرا اس دنیا میں اب کوئی بھی نہیں کوئی ہے جو مجھ غریب پر رحم کرے اور نیکی کمائے۔ ‘ُ‘

        نتھو تیلی اور دائی صابو کے قدم اس مانوس آواز کو سن کر رک گئے۔ نتھو نے فقیر کو پہچان لیا۔ یہ تو وہی شخص تھا جس سے اس نے جھونپڑی خریدی تھی۔ یہ تو ناصو کنجڑا تھا جو ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا تھا۔ اس نے اسی وقت ناصو کا ہاتھ تھام لیا اور اسے اپنے ساتھ لے کر گھر آیا۔ دائی صابو نے اسے کھانا دیا۔ اس کے علاج کے لیے ماہر معالج سے رجوع کیا گیا۔ صرف چار ماہ کے علاج کے بعد ناصو کی طبیعت سنبھل گئی اور وہ پھر سے سبزی بیچنے لگا۔ اس کے علاج کے تمام اخراجات نتھو تیلی نے برداشت کیے۔ اس نیک کام میں اسے دائی صابو کی تائید بھی حاصل تھی۔ ان دونوں میاں بیوی کی کوششوں سے ناصو کنجڑے کی شادی بھی ہو گئی اور اب وہ ہنسی خوشی اپنی بیوی بچوں کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے۔ کامنی نے ناصو کنجڑے کی زندگی میں جو زہر گھولا اب وہ اس کے اثر سے نکل چکا ہے۔ جب بھی وہ بیتے دنوں کو یاد کرتا ہے تو اس کی آنکھیں ساون کے بادلوں کی طر ح برسنے لگتی ہیں۔ اپنے ان  نئے محسنوں کے لیے ناصو کے دل میں بہت عزت ہے جن کی وجہ سے اسے نئی زندگی ملی۔

٭٭٭

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید