FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

حسد و بغض سے  ممانعت

اس قصے  میں حسد و بغض سرکشی اور تکبر کا بد انجام بیان ہو رہا ہے  کہ کس طرح حضرت کے  دو صلبی بیٹوں میں کشمکش ہو گئی اور ایک اللہ کا ہو کر مظلوم بنا اور مار ڈالا گیا اور اپنا ٹھکانا جنت میں بنا لیا اور دوسرے  نے  اسے  ظلم و زیادتی کے  ساتھ بے  وجہ قتل کیا اور دونوں جہان میں برباد ہوا۔ فرماتا ہے  "اے  نبی صلی اللہ علیہ و سلم انہیں  حضرت آدم کے  دونوں بیٹوں کا صحیح صحیح بے  کم و کاست قصہ سنا دو۔ ان دونوں کا نام ہوابل و قابیل تھا۔ مروی ہے  کہ چونکہ اس وقت دنیا کی ابتدائی حالت تھی، اس لئے  یوں ہوتا تھا کہ حضرت آدم کے  ہاں ایک حمل سے  لڑکی لڑکا دو ہوتے  تھے ، پھر دوسرے  حمل میں بھی اسی طرح تو اس حمل کا لڑکا اور دوسرے  حمل کی لڑکی ان دونوں کا نکاح کرا دیا جاتا تھا، ہابیل کی بہن تو خوبصورت نہ تھی اور قابیل کی بہن خوبصورت تھی تو قابیل نے  چاہا کہ اپنی ہی بہن سے  اپنا نکاح کر لے ، حضرت آدم اس سے  منع کیا آخر یہ فیصلہ ہوا کہ تم دونوں اللہ کے  نام پر کچھ نکالو، جس کی خیرات قبول ہو جائے  اس کا نکاح اس کے  ساتھ کر دیا جائے  گا۔ ہابیل کی خیرات قاعدہ جو اوپر مذکور ہوا بیان فرمانے  کے  بعد مروی ہے  کہ بڑا بھائی قابیل کھیتی کرتا تھا اور ہابیل جانوروں والا تھا، قابیل کی بہن بہ نسبت ہابیل کی بہن کے  خوب رو تھی۔ جب ہابیل کا پیغام اس سے  ہوا تو قابیل نے  انکار کر دیا اور اپنا نکاح اس سے  کرنا چاہا، حضرت آدم نے  اس سے  روکا۔ اب ان دونوں نے  خیرات نکالی کہ جس کی قبول ہو جائے  وہ نکاح کا زیادہ حقدار ہے  حضرت آدم اس وقت مکے  چلے  گئے  کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے  حضرت آدم سے  فرمایا زمین پر جو میرا گھر ہے  اسے  جانتے  ہو؟ آپ نے  کہا نہیں  حکم ہوا مکے  میں ہے  تم وہیں  جاؤ، حضرت آدم نے  آسمان سے  کہا کہ میرے  بچوں کی تو حفاظت کرے  گا؟ اس نے  انکار کیا زمین سے  کہا اس نے  بھی انکار کر دیا، پہاڑوں سے  کہا انہوں نے  بھی انکار کیا، قابیل سے  کہا، اس نے  کہا ہاں میں محافظ ہوں، آپ جایئے  آ کر ملاحظہ فرما لیں گے  اور خوش ہوں گے ۔ اب ہابیل نے  ایک خوبصورت موٹا تازہ مینڈھا اللہ کے  نام پر ذبح کیا اور بڑے  بھائی نے  اپنی کھیتی کا حصہ اللہ کیلئے  نکالا۔ آگ آئی اور ہابیل کی نذر تو جلا گئی، جو اس زمانہ میں قبولیت کی علامت تھی اور قابیل کی نذر قبول نہ ہوئی، اس کی کھیتی یونہی رہ گئی، اس نے  راہ اللہ کرنے  کے  بعد اس میں سے  اچھی اچھی بالیں توڑ کر کھا لیں تھیں ۔ چونکہ قابیل اب مایوس ہو چکا تھا کہ اس کے  نکاح میں اس کی بہن نہیں  آ سکتی، اس لئے  اپنے  بھائی کو قتل کی دھمکی دی تھی اس نے  کہا کہ "اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے  کہ اللہ تعالیٰ تقویٰ والوں کی قربانی فرمایا کرتا ہے ۔ اس میں میرا کیا قصور؟ ایک روایت میں یہ بھی ہے  کہ یہ مینڈھا جنت میں پلتا رہا اور یہی وہ مینڈھا ہے  جسے  حضرت ابراہیم نے  اپنے  بچے  کے  بدلے  ذبح کیا۔ ایک روایت میں ہے  کہ ہابیل نے  اپنے  جانوروں میں سے  بہترین اور مرغوب و محبوب جانور اللہ کے  نام اور خوشی کے  ساتھ قربان کیا، برخلاف اس کے  قابیل نے  اپنی کھیتی میں سے  نہایت ردی اور واہی چیز اور وہ بے  دلی سے  اللہ کے  نام نکالی۔ ہابیل تنو مندی اور طاقتوری میں بھی قابیل سے  زیادہ تھا تاہم اللہ کے  خوف کی وجہ سے  اس نے  اپنے  بھائی کا ظلم و زیادتی سہ لی اور ہاتھ نہ اٹھایا۔ بڑے  بھائی کی قربانی جب قبول نہ ہوئی اور حضرت آدم نے  اس سے  کہا تو اس نے  کہا کہ چونکہ آپ ہابیل کو چاہتے  ہیں  اور آپ نے  اس کیلئے  دعا کی تو اس کی قربانی قبول ہو گئی۔ اب اس نے  ٹھان لی کہ میں اس کانٹے  ہی کو اکھاڑ ڈالوں ۔ موقع کا منتظر تھا ایک روز اتفاقاً حضرت ہابیل کے  آنے  میں دیر لگ گئی تو انہیں  بلانے  کیلئے  حضرت آدم نے  قابیل کو بھیجا۔ یہ ایک چھری اپنے  ساتھ لے  کر چلا، راستے  میں ہی دونوں بھائیوں کی ملاقات ہو گئی، اس نے  کہا میں تجھے  مار ڈالوں گا کیونکہ تیری قربانی قبول ہوئی اور میری نہ ہوئی اس پر ہابیل نے  کہا میں نے  بہترین، عمدہ، محبوب اور مرغوب چیز اللہ کے  نام نکالی اور تو نے  بے  کار بے  جان چیز نکالی، اللہ تعالیٰ اپنے  متقیوں ہی کی نیکی قبول کرتا ہے ۔ اس پر وہ اور بگڑا اور چھری گھونپ دی، ہابیل کہتے  رہ گئے  کہ اللہ کو کیا جواب دے  گا؟ اللہ کے  ہاں اس ظلم کا بدلہ تجھ سے  بری طرح لیا جائیگا۔ اللہ کا خوف کر مجھے  قتل نہ کر لیکن اس بے  رحم نے  اپنے  بھائی کو مار ہی ڈالا۔ قابیل نے  اپنی توام بہن سے  اپنا ہی نکاح کرنے  کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی تھی کہ ہم دونوں جنت میں پیدا ہوئے  ہیں  اور یہ دونوں زمین میں پیدا ہوئے  ہیں ، اسی لئے  میں اس کا حقدار ہوں ۔ یہ بھی مروی ہے  کہ قابیل نے  گیہوں نکالے  تھے  اور ہابیل نے  گائے  قربان کی تھی۔ چونکہ اس وقت کوئی مسکین تو تھا ہی نہیں  جسے  صدقہ دیا جائے ، اس لئے  یہی دستور تھا کہ صدقہ نکال دیتے  آگ آسمان سے  آتی اور اسے  جلا جاتی یہ قبولیت کا نشان تھا۔ اس برتری سے  جو چھوٹے  بھائی کو حاصل ہوئی، بڑا بھائی حسد کی آگ میں بھڑکا اور اس کے  قتل کے  درپے  ہو گیا، یونہی بیٹھے  بیٹھے  دونوں بھائیوں نے  قربانی کی تھی۔ نکاح کے  اختلاف کو مٹانے  کی وجہ نہ تھی، قرآن کے  ظاہری الفاظ کا اقتضا بھی یہی ہے  کہ ناراضگی کا باعث عدم قبولیت قربانی تھی نہ کچھ اور ۔ ایک روایت مندرجہ روایتوں کے  خلاف یہ بھی ہے  کہ قابیل نے  کھیتی اللہ کے  نام نذر دی تھی جو قبول ہوئی لیکن معلوم ہوتا ہے  کہ اس میں راوی کا حافظہ ٹھیک نہیں  اور یہ مشہور امر کے  بھی خلاف ہے  واللہ اعلم۔ اللہ تعالیٰ اس کا عمل قبول کرتا ہے  جو اپنے  فعل میں اس سے  ڈرتا رہے ۔ حضرت معاذ فرماتے  ہیں  لوگ میدان قیامت میں ہوں گے  تو ایک منادی ندا کرے  گا کہ پرہیزگار کہاں ہیں ؟ پس پروردگار سے  ڈرنے  والے  کھڑے  ہو جائیں گے  اور اللہ کے  بازو کے  نیچے  جا ٹھہریں گے  اللہ تعالیٰ نہ ان سے  رخ پوشی کرے  گا نہ پردہ۔ راوی حدیث ابو عفیف سے  دریافت کیا گیا کہ متقی کون ہیں ؟ فرمایا وہ جو شرک اور بت پرستی سے  بچے  اور خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے  پھر یہ سب لوگ جنت میں جائیں گے ۔ جس نیک بخت کی قربانی قبول کی گئی تھی، وہ اپنے  بھائی کے  اس ارادہ کو سن کر اس سے  کہتا ہے  کہ تو جو چاہے  کر، میں تو تیری طرح نہیں  کروں گا بلکہ میں صبر و ضبط کروں گا، تھے  تو زور و طاقت میں یہ اس سے  زیادہ مگر اپنی بھلائی، نیک بختی اور تواضع و فروتنی اور پرہیز گاری کی وجہ سے  یہ فرمایا کہ تو گناہ پر آمادہ ہو جائے  لیکن مجھ سے  اس جرم کا ارتکاب نہیں  ہو سکتا، تو اللہ تعالیٰ سے  ڈرتا ہوں وہ تمام جہان کا رب ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے  کہ "جب دو مسلمان تلواریں لے  کر بھڑ گئے  تو قاتل مقتول دونوں جہنمی ہیں ۔ ” صحابہ نے  پوچھا قاتل تو خیر لیکن مقتول کیوں ہوا؟ آپ نے  فرمایا اس لئے  کہ وہ بھی اپنے  ساتھی کے  قتل پر حریص تھا۔ حضرت سعد بن وقاص نے  اس وقت جبکہ باغیوں نے  حضرت عثمان ذوانلورین کو گھیر رکھا تھا کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا ہے  "عنقریب فتنہ برپا ہو گا۔ بیٹھا رہنے  والا اس وقت کھڑے  رہنے  والے  سے  اچھا ہو گا اور کھڑا رہنے  والا چلنے  والے  سے  بہتر ہو گا اور چلنے  والا دوڑنے  والے  سے  بہتر ہو گا "۔ کسی نے  پوچھا "حضور صلی اللہ علیہ و سلم اگر کوئی میرے  گھر میں بھی گھس آئے  اور مجھے  قتل کرنا چاہے "۔ آپ نے  فرمایا پھر بھی تو حضرت آدم کے  بیٹے  کی طرح ہو جا۔ ایک روایت میں آپ کا اس کے  بعد اس آیت کی تلاوت کرنا بھی مروی ہے ۔ حضرت ایوب سختیاتی فرماتے  ہیں  "اس امت میں سب سے  پہلے  جس نے  اس آیت پر عمل کیا وہ امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان ہیں "۔ ایک مرتبہ ایک جانور پر حضور صلی اللہ علیہ و سلم سوار تھے  اور آپ کے  ساتھ ہی آپ کے  پیچھے  حضرت ابوذر تھے ، آپ نے  فرمایا ابوذر بتاؤ تو جب لوگوں پر ایسے  فاقے  آئیں گے  کہ گھر سے  مسجد تک نہ جا سکیں گے  تو تو کیا کرے  گا؟ میں نے  کہا جو حکم رب اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہو فرمایا صبر کرو۔ پھر فرمایا جبکہ آپس میں خونریزی ہو گی یہاں تک کہ ریت کے  تھر بھی خون میں ڈوب جائیں تو تو کیا کرے  گا؟ میں نے  وہی جواب دیا تو فرمایا کہ اپنے  گھر میں بیٹھ جا اور دروازے  بند کر لے  کہا پھر اگرچہ میں نہ میدان میں اتروں ؟ فرمایا تو ان میں چلا جا، جن کا تو ہے  اور وہیں  رہ۔ عرض کیا کہ پھر میں اپنے  ہتھیار ہی کیوں نہ لے  لوں ؟ فرمایا پھر تو تو بھی ان کے  ساتھ ہی شامل ہو جائے  گا بلکہ اگر تجھے  کسی کی تلوار کی شعاعیں پریشان کرتی نظر آئیں تو بھی اپنے  منہ پر کپڑا ڈال لے  تاکہ تیرے  اور خود اپنے  گناہوں کو وہی لے  جائے ۔ حضرت ربعی فرماتے  ہیں  ہم حضرت حذیفہ کے  جنازے  میں تھے ، ایک صاحب نے  کہا میں نے  مرحوم سے  سنا ہے  آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنی ہوئی حدیثیں بیان فرماتے  ہوئے  کہتے  تھے  کہ اگر تم آپس میں لڑو گے  تو میں اپنے  سب سے  دور دراز گھر میں چلا جاؤں گا اور اسے  بند کر کے  بیٹھ جاؤں گا، اگر وہاں بھی کوئی گھس آئے  گا تو میں کہہ دوں گا کہ لے  اپنا اور میرا گناہ اپنے  سر پر رکھ لے ، پس میں حضرت آدم کے  ان دو بیٹوں میں سے  جو بہتر تھا، اس کی طرح ہو جاؤں گا۔ میں تو چاہتا ہوں کہ تو میرا اور اپنا گناہ اپنے  سر رکھ لے  جائے ۔ یعنی تیرے  وہ گناہ جو اس سے  پہلے  کے  ہیں  اور میرے  قتل کا گناہ بھی۔ یہ مطلب بھی حضرت مجاہد سے  مروی ہے  کہ میری خطائیں بھی مجھ پر آ پڑیں اور میرے  قتل کا گناہ بھی۔ لیکن انہی سے  ایک قول پہلے  جیسا بھی مروی ہے ، ممکن ہے  یہ دوسرا ثابت نہ ہو۔ اسی بنا پر بعض لوگ کہتے  ہیں  کہ قاتل مقتول کے  سب گناہ اپنے  اوپر بار کر لیتا ہے  اور اس معنی کی ایک حدیث بھی بیان کی جاتی ہے  لیکن اس کی کوئی اصل نہیں ۔ بزار میں ایک حدیث ہے  کہ "بے  سبب کا قتل تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے "۔ گو یہ حدیث اوپر والے  معنی میں نہیں ، تاہم یہ بھی صحیح نہیں  اور اس روایت کا مطلب یہ بھی ہے  کہ قتل کی ایذا کے  باعث اللہ تعالیٰ مقتول کے  سب گناہ معاف کر دیتا ہے ۔ اب وہ قاتل پر آ جاتے  ہیں ۔ یہ بات ثابت نہیں  ممکن ہے  بعض قاتل ویسے  بھی ہوں، قاتل کو میدان قیامت میں مقتول ڈھونڈھتا پھرے  گا اور اس کے  ظلم کے  مطابق اس کی نیکیاں لے  جائے  گا۔ اور سب نیکیاں لے  لینے  کے  بعد بھی اس ظلم کی تلافی نہ ہوئی تو مقتول کے  گناہ قاتل پر رکھ دیئے  جائیں گے ، یہاں تک کہ بدلہ ہو جائے  تو ممکن ہے  کہ سارے  ہی گناہ بعض قاتلوں کے  سر پڑ جائیں کیونکہ ظلم کے  اس طرح کے  بدلے  لئے  جانے  احادیث سے  ثابت ہیں  اور یہ ظاہر ہے  کہ قتل سب سے  بڑھ کر ظلم ہے  اور سب سے  بدتر۔ واللہ اعلم۔ امام ابن جریر فرماتے  ہیں  مطلب اس جملے  کا صحیح تر یہی ہے  کہ میں چاہتا ہوں کہ تو اپنے  گناہ اور میرے  قتل کے  گناہ سب ہی اپنے  اوپر لے  جائے ، تیرے  اور گناہوں کے  ساتھ ایک گناہ یہ بھی بڑھ جائے ۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں  کہ میرے  گناہ بھی تجھ پر آ جائیں، اس لئے  کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے  کہ ہر عامل کو اس کے  عمل کی جزا ملتی ہے ، پھر یہ کیسے  ہو سکتا ہے  کہ مقتول کے  عمر بھر کے  گناہ قاتل پر ڈال دیئے  جائیں، اور اس کے  گناہوں پر اس کی پکڑ ہو؟ باقی رہی یہ بات کہ پھر ہابیل نے  یہ بات اپنے  بھائی سے  کیوں کہی؟ اس کا جواب یہ ہے  کہ اس نے  آخری مرتبہ نصیحت کی اور ڈرایا اور خوف زدہ کیا کہ اس کام سے  باز آ جا، ورنہ گنہگار ہو کر جہنم واصل ہو جائے  گا کیونکہ میں تو تیرا مقابلہ کرنے  ہی کا نہیں ، سارا بوجھ تجھ ہی پر ہو گا اور تو ہی ظالم ٹھہرے  گا اور ظالموں کا ٹھکانا دوزخ ہے ۔ اس نصیحت کے  باوجود اس کے  نفس نے  اسے  دھوکا دیا اور غصے  اور حسد اور تکبر میں آ کر اپنے  بھائی کو قتل کر دیا، اسے  شیطان نے  قتل پر ابھار دیا اور اس نے  اپنے  نفس امارہ کی پیروی کر لی ہے  اور لوہے  سے  اسے  مار ڈالا۔ ایک روایت میں ہے  کہ یہ اپنے  جانوروں کو لے  کر پہاڑیوں پر چلے  گئے  تھے ، یہ ڈھونڈھتا ہوا وہاں پہنچا اور ایک بھاری پتھر اٹھا کر ان کے  سر پر دے  مارا، یہ اس وقت سوئے  ہوئے  تھے ۔ بعض کہتے  ہیں  مثل درندے  کے  کاٹ کاٹ کر، گلا دبا دبا کر ان کی جان لی۔ یہ بھی کہا گیا ہے  کہ شیطان نے  جب دیکھا کہ اسے  قتل کرنے  کا ڈھنگ نہیں  آتا، یہ اس کی گردن مروڑ رہا ہے  تو اس لعین نے  ایک جانور پکڑا اور اس کا سر ایک پتھر پر رکھ کر اسے  دو سرا پتھر زور سے  دے  مارا، جس سے  وہ جانور اسی وقت مر گیا، یہ دیکھ اس نے  بھی اپنے  بھائی کے  ساتھ یہی کیا یہ بھی مروی ہے  کہ چونکہ اب تک زمین پر کوئی قتل نہیں  ہوا تھا، اس لئے  قابیل اپنے  بھائی کو گرا کر کبھی اس کی آنکھیں بند کرتا، کبھی اسے  تھپڑ اور گھونسے  مارتا۔ یہ دیکھ کر ابلیس لعین اس کے  پاس آیا اور اسے  بتایا کہ پتھر لے  کر اس کا سر کچل ڈال، جب اس نے  کچل ڈالا تو لعین دوڑتا ہوا حضرت حوا پاس آیا اور کہا قابیل نے  ہابیل کو قتل کر دیا، انہوں نے  پوچھا قتل کیسا ہوتا ہے ؟ کہا اب نہ وہ کھاتا پیتا ہے  نہ بولتا چالتا ہے ، نہ ہلتا جلتا ہے  کہا شاید موت آ گئی اس نے  کہا ہاں وہی موت۔ اب تو مائی صاحبہ چیخنے  چلانے  لگیں، اتنے  میں حضرت آدم آئے  پوچھا کیا بات ہے ؟ لیکن یہ جواب نہ دے  سکیں، آپ نے  دوبارہ دریافت فرمایا لیکن فرط غم و رنج کی وجہ سے  ان کی زبان نہ چلی تو کہا اچھا تو اور تیری بیٹیاں ہائے  وائے  میں ہی رہیں  گی اور میں اور میرے  بیٹے  اس سے  بری ہیں ۔ قابیل خسارے  ٹوٹے  اور نقصان والا ہو گیا، دنیا اور آخرت دونوں ہی بگڑیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  ہیں  "جو انسان ظلم سے  قتل کیا جاتا ہے ، اس کے  خون کا بوجھ آدم کے  اس لڑکے  پر بھی پڑتا ہے ، اس لئے  کہ اسی نے  سب سے  پہلے  زمین پر خون ناحق گرایا ہے "۔ مجاہد کا قول ہے  کہ "قاتل کے  ایک پیر کی پنڈلی کو ران سے  اس دن سے  لٹکا دیا گیا اور اس کا منہ سورج کی طرف کر دیا گیا، اس کے  گھومنے  کے  ساتھ گھومتا رہتا ہے ، جاڑوں اور گرمیوں میں آگ اور برف کے  گڑھے  میں وہ معذب ہے "۔ ضرت عبد اللہ سے  مروی ہے  کہ "جہنم کا آدھوں آدھ عذاب صرف اس ایک کو ہو رہا ہے ، سب سے  بڑا معذب یہی ہے  زمین کے  ہر قتل کے  گناہ کا حصہ اس کے  ذمہ ہے "۔ ابراہیم نخعی فرماتے  ہیں  "اس پر اور شیطان پر ہر خون ناحق کا بوجھ پڑتا ہے "۔ جب مار ڈالا تو اب یہ معلوم نہ تھا کہ کیا کرے ، کس طرح اسے  چھپائے ؟ تو اللہ نے  دو کوے  بھیجے ، وہ دونوں بھی آپس میں بھائی بھائی تھے ، یہ اس کے  سامنے  لڑنے  لگے ، یہاں تک کہ ایک نے  دوسرے  کو مار ڈالا، پھر ایک گڑھا کھود کر اس میں اس کی لاش کو رکھ کر اوپر سے  مٹی ڈال دی، یہ دیکھ کر قابیل کی سمجھ میں بھی یہ ترکیب آ گئی اور اس نے  بھی ایسا ہی کیا۔ حضرت علی سے  مروی ہے  کہ از خود مرے  ہوئے  ایک کوے  کو دوسرے  کوے  نے  اس طرح گڑھا کھود کر دفن کیا تھا۔ یہ بھی مروی ہے  کہ سال بھر تک قابیل اپنے  بھائی کی لاش اپنے  کندھے  پر لادے  لادے  پھرتا رہا، پھر کوے  کو دیکھ کر اپنے  نفس پر ملامت کرنے  لگا کہ میں اتنا بھی نہ کر سکا، یہ بھی کہا گیا ہے  مار ڈال کر پھر پچھتایا اور لاش کو گود میں رکھ کر بیٹھ گیا اور اس لئے  بھی کہ سب سے  پہلی میت اور سب سے  پہلا قتل روئے  زمین پر یہی تھا۔ اہل توراۃ کہتے  ہیں  کہ جب قابیل نے  اپنے  بھائی ہابیل کو قتل کیا تو اللہ نے  اس سے  پوچھا کہ تیرے  بھائی ہابیل کو کیا ہوا؟ اس نے  کہا مجھے  کیا خبر؟ میں اس کا نگہبان تو تھا ہی نہیں ، اللہ تعالیٰ نے  فرمایا سن تیرے  بھائی کا خون زمین میں سے  مجھے  پکار رہا ہے ، تجھ پر میری لعنت ہے ، اس زمین میں جس کا منہ کھول کر تو نے  اسے  اپنے  بے  گناہ بھائی کا خون پلایا ہے ، اب تو زمین میں جو کچھ کام کرے  گا وہ اپنی کھیتی میں سے  تجھے  کچھ نہیں  دے  گی، یہاں تک تم زمین پر عمر بھر بے  چین پھٹکتے  رہو گے  پھر تو قابیل بڑا ہی نادم ہوا۔ نقصان کے  ساتھ ہی پچھتاوا گویا عذاب پر عذاب تھا۔ اس قصہ میں مفسرین کے  اقوال اس بات پر تو متفق ہیں  کہ یہ تو دونوں حضرت آدم کے  صلبی بیٹے  تھے  اور یہی قرآن کے  الفاظ سے  بظاہر معلوم ہوتا ہے  اور یہی حدیث میں بھی ہے  کہ روئے  زمین پر جو قتل ناحق ہوتا ہے  اس کا ایک حصہ بوجھ اور گناہ کا حضرت آدم کے  اس پہلے  لڑکے  پر ہوتا ہے ، اس لئے  کہ اسی نے  سب سے  پہلے  قتل کا طریقہ ایجاد کیا ہے ، لیکن حسن بصری کا قول ہے  کہ "یہ دونوں بنی اسرائیل میں تھے ، قربانی سب سے  پہلے  انہی میں آئی اور زمین پر سب سے  پہلے  حضرت آدم کا انتقال ہوا ہے ” لیکن یہ قول غور طلب ہے  اور اس کی اسناد بھی ٹھیک نہیں ۔ ایک مرفوع حدیث میں یہ واقعہ بطور ایک مثال کے  ہے ” تم اس میں سے  اچھائی لے  لو اور برے  کو چھوڑ دو”۔ یہ حدیث مرسل ہے  کہتے  ہیں  کہ اس صدمے  سے  حضرت آدم بہت غمگین ہوئے  اور سال بھر تک انہیں  ہنسی نہ آئی، آخر فرشتوں نے  ان کے  غم کے  دور ہونے  اور انہیں  ہنسی آنے  کی دعا کی۔ حضرت آدم نے  اس وقت اپنے  رنج و غم میں یہ بھی کہا تھا کہ شہر اور شہر کی سب چیزیں متغیر ہو گئی۔ زمین کا رنگ بدل گیا اور وہ نہایت بدصورت ہو گئی، ہر ہر چیز کا رنگ و مزہ جاتا رہا اور کشش والے  چہروں کی ملاحت بھی سلب ہو گئی۔ اس پر انہیں  جواب دیا گیا کہ اس مردے  کے  ساتھ اس زندے  نے  بھی گویا اپنے  تئیں ہلاک کر دیا اور جو برائی قاتل نے  کی تھی، اس کا بوجھ اس پر آ گیا، بظاہر معلوم ہوتا ہے  کہ قابیل کو اس سی وقت سزا دی گئی چنانچہ وارد ہوا ہے  کہ اس کی پنڈلی اس کی ران سے  لٹکا دی گئی اور اس کا منہ سورج کی طرف کر دیا گیا اور اس کے  ساتھ ہی ساتھ گھومتا رہتا تھا یعنی جدھر سورج ہوتا ادھر ہی اس کا منہ اٹھا رہتا۔ حدیث شریف میں ہے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  ہیں  جتنے  گناہ اس لائق ہیں  کہ بہت جلد ان کی سزا دنیا میں بھی دی جائے  اور پھر آخرت کے  زبردست عذاب باقی رہیں  ان میں سب سے  بڑھ کر گناہ سرکشی اور قطع رحمی ہے ۔ تو قابیل میں یہ دونوں باتیں جمع ہو گئیں فانا للہ و انا الیہ راجعون (یہ یاد رہے  کہ اس قصہ کی تفصیلات جس قدر بیان ہوئی ہے ، ان میں سے  اکثر و  بیشتر حصہ اہل کتاب سے  اخذ کیا ہوا ہے ۔ واللہ اعلم۔ مترجم)

اسی وجہ سے ، ہم نے  بنی اسرائیل پر یہ لکھ دیا کہ جو شخص کسی کو بغیر اس کے  کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے  والا ہو قتل کر ڈالے  تو گویا اس نے  تمام لوگوں کو قتل کر دیا، اور جو شخص کسی ایک کی جان بچا لے  اس نے  گویا تمام لوگوں کو بچا لیا، ان کے  پاس ہمارے  بہت سے  رسول ظاہر دلیلیں لے  کر آئے  لیکن پھر اس کے  بعد بھی ان میں سے  اکثر لوگ زمین میں ظلم و زیادتی اور زبردستی کرنے  والے  ہی رہے ۔ انکی سزا جو اللہ سے  اور اس کے  رسول سے  لڑیں اور زمین میں فساد کرتے  پھریں یہی ہے  کہ وہ قتل کر دیئے  جائیں یا سولی چڑھا دیئے  جائیں یا الٹے  طور سے  ان کے  ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے  جائیں یا انہیں  جلا وطن کر دیا جائے ، یہ تو ہوئی ان کی دنیوی ذلت اور خواری اور آخرت میں تو ان کیلئے  بڑا بھاری عذاب ہے ۔ ہاں جو لوگ ان سے  پہلے  توبہ کر لیں کہ تم ان پر اختیار پالو، تو یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ بہت بڑی بخشش اور رحم و کرم والا ہے ۔

۳۲

ایک بے  گناہ شخص کا قتل تمام انسانوں کا قتل

فرمان ہے  کہ حضرت آدم کے  اس لڑکے  کے  قتل بیجا کی وجہ سے  ہم نے  بنی اسرائیل سے  صاف فرما دیا ان کی کتاب میں لکھ دیا اور ان کیلئے  اس حکم کو حکم شرعی کر دیا کہ "جو شخص کسی ایک کو بلا وجہ مار ڈالے  نہ اس نے  کسی کو قتل کیا تھا نہ اس نے  زمین میں فساد پھیلایا تھا تو گویا اس نے  تمام لوگوں کو قتل کیا، اس لئے  کہ اللہ کے  نزدیک ساری مخلوق یکساں ہے  اور جو کسی بے  قصور شخص کے  قتل سے  باز رہے  اسے  حرام جانے  تو گویا اس نے  تمام لوگوں کو زندگی، اس لئے  کہ یہ سب لوگ اس طرح سلامتی کے  ساتھ رہیں  گے "۔ میر المومنین حضرت عثمان کو جب باغی گھیر لیتے  ہیں ، تو حضرت ابوہریرہ ان کے  پاس جاتے  ہیں  اور کہتے  ہیں  میں آپ کی طرف داری میں آپ کے  مخالفین سے  لڑنے  کیلئے  آیا ہوں، آپ ملاحظہ فرمایئے  کہ اب پانی سر سے  اونچا ہو گیا ہے ، یہ سن کر معصوم خلیفہ نے  فرمایا، کیا تم اس بات پر آمادہ ہو کہ سب لوگوں کو قتل کر دو، جن میں ایک میں بھی ہوں ۔ حضرت ابوہریرہ نے  فرمایا نہیں  نہیں ، فرمایا سنو ایک کو قتل کرنا ایسا برا ہے  جیسے  سب کو قتل کرنا۔ جاؤ واپس لوٹ جاؤ، میری یہی خواہش ہے  اللہ تمہیں  اجر دے  اور گناہ نہ دے ، یہ سن کر آپ واپس چلے  گئے  اور نہ لڑے ۔ مطلب یہ ہے  کہ قتل کا اجر دنیا کی بربادی کا باعث ہے  اور اس کی روک لوگوں کی زندگی کا سبب ہے ۔ حضرت سعید بن جیر فرماتے  ہیں  "ایک مسلمان کا خون حلال کرنے  والا تمام لوگوں کا قاتل ہے  اور ایک مسلم کے  خون کو بچانے  والا تمام لوگوں کے  خون کو گویا بچا رہا ہے "۔ ایک مسلمان کا خون حلال کرنے  والا تمام لوگوں کا قاتل ہے  اور ایک مسلم کے  خون کو بچانے  والا تمام لوگوں کے  خون کو گویا بچا رہا ہے "۔ ابن عباس فرماتے  ہیں  کہ "نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اور عادل مسلم بادشاہ کو قتل کرنے  والے  پر ساری دنیا کے  انسانوں کے  قتل کا گناہ ہے  اور نبی اور امام عادل کے  بازو کو مضبوط کرنا دنیا کو زندگی دینے  کے  مترادف ہے ” (ابن جریر) ایک اور روایت میں ہے  کہ "ایک کو بے  وجہ مار ڈالتے  ہی جہنمی ہو جاتا ہے  گویا سب کو مار ڈالا "۔ مجاہد فرماتے  ہیں  "مومن کو بے  وجہ شرعی مار ڈالنے  والا جہنمی دشمن رب، ملعون اور مستحق سزا ہو جاتا ہے ، پھر اگر وہ سب لوگوں کو بھی مار ڈالتا تو اس سے  زیادہ عذاب اسے  اور کیا ہوتا؟ جو قتل سے  رک جائے  گویا کہ اس کی طرف سے  سب کی زندگی محفوظ ہے "۔ عبد الرحمن فرماتے  ہیں  "ایک قتل کے  بدلے  ہی اس کا خون حلال ہو گیا، یہ نہیں  کہ کئی ایک کو قتل کرے ، جب ہی وہ قصاص کے  قابل ہو، اور جو اسے  زندگی دے  یعنی قاتل کے  ولی سے  درگزر کرے  اور اس نے  گویا لوگوں کو زندگی دی”۔ اور یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے  کہ جس نے  انسان کی جان بچا لی مثلاً ڈوبتے  کو نکال لیا، جلتے  کو بچا لیا، کسی کو ہلاکت سے  ہٹا لیا۔ مقصد لوگوں کو خون ناحق سے  روکنا اور لوگوں کی خیر خواہی اور امن و امان پر آمادہ کرنا ہے ۔ حضرت حسن سے  پوچھا گیا کہ "کیا بنی اسرائیل جس طرح اس حکم کے  مکلف تھے ، ہم بھی ہیں ، فرمایا ہاں یقیناً اللہ کی قسم! بنو اسرائیل کے  خون اللہ کے  نزدیک ہمارے  خون سے  زیادہ بے وقعت نہ تھے، پس ایک شخص کا بے  سبب قتل سب کے  قتل کا بوجھ ہے  اور ایک کی جان کے  بچاؤ کا ثواب سب کو بچا لینے  کے  برابر ہے "۔ ایک مرتبہ حضرت حمزہ بن عبد المطلب نے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے  درخواست کی کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم مجھے  کوئی ایسی بات بتائے  کہ میری زندگی با آرام گزرے ۔ آپ نے  فرمایا کیا کسی کو مار ڈالنا تمہیں  پسند ہے  یا کسی کو بچا لینا تمہیں  محبوب ہے ؟ جواب دیا بچا لینا، فرمایا "بس اب اپنی اصلاح میں لگے  رہو”۔ پھر فرماتا ہے  ان کے  پاس ہمارے  رسول واصح دلیلیں اور روشن احکام اور کھلے  معجزات لے  کر آئے  لیکن اس کے  بعد بھی اکثر لوگ اپنی سرکشی اور دراز دستی سے  باز نہ رہے ۔ بنو قینقاع کے  یہود و بنو قریظہ اور بنو نضیر وغیرہ کو دیکھ لیجئے  کہ اوس اور خزرج کے  ساتھ مل کر آپس میں ایک دوسرے  سے  لڑتے  تھے  اور لڑائی کے  بعد پھر قیدیوں کے  فدیئے  دے  کر چھڑاتے  تھے  اور مقتول کی دیت ادا کرتے  تھے ۔ جس پر انہیں  قرآن میں سمجھایا گیا کہ تم سے  عہد یہ لیا گیا تھا کہ نہ تو اپنے  والوں کے  خون بہاؤ، نہ انہیں  دیس نکالا دو لیکن تم نے  باوجود پختہ اقرار اور مضبوط عہد پیمان کے  اس کے  خلاف گو فدیئے  ادا کئے  لیکن نکالنا بھی تو حرام تھا،ے  کیا معنی کہ کسی حکم کو مانو اور کسی سے  انکار کر، ایسے  لوگوں کو سزا یہی ہے  کہ دنیا میں رسوا اور ذلیل ہوں اور آخرت میں سخت تر عذابوں کا شکار ہوں، اللہ تمہارے  اعمال سے  غافل نہیں ۔ محاربہ کے  معنی حکم کے  خلاف کرنا، برعکس کرنا، مخالفت پر تل جانا ہیں ۔ مراد اس سے  کفر، ڈاکہ زنی، زمین میں شورش و فساد اور طرح طرح کی بدامنی پیدا کرنا ہے ، یہاں تک کہ سلف نے  یہ بھی فرمایا ہے  کہ سکے  کو توڑ دینا بھی زمین میں فساد مچانا ہے ۔ قرآن کی ایک اور آیت میں ہے  جب وہ کسی اقتدار کے  مالک ہو جاتے  ہیں  تو فساد پھیلا دیتے  ہیں  اور کھیت اور نسل کو ہلاک کرنے  لگتے  ہیں  اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں  فرماتا۔ یہ آیت مشرکین کے  بارے  میں نازل ہوئی ہے ۔ اس لئے  کہ اس میں یہ بھی ہے  کہ جب ایسا شخص ان کاموں کے  بعد مسلمانوں کے  ہاتھوں میں گرفتار ہونے  سے  پہلے  ہی توبہ تلا کر لے  تو پھر اس پر کوئی مواخذہ نہیں ، برخلاف اس کے  اگر مسلمان ان کاموں کو کرے  اور بھاگ کر کفار میں جا ملے  تو حد شرعی سے  آزاد نہیں  ہوتا۔ ابن عباس فرماتے  ہیں  "یہ آیت مشرکوں کے  بارے  میں اتری ہے ، پھر ان میں سے  جو کئی مسلمان کے  ہاتھ آ جانے  سے  پہلے  توبہ کر لے  تو جو حکم اس پر اس کے  فعل کے  باعث ثابت ہو چکا ہے  وہ ٹل نہیں  سکتا "۔

فساد اور قتل و غارت٭٭

حضرت ابی سے  مروی ہے  کہ اہل کتاب کے  ایک گروہ سے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا معاہدہ ہو گیا تھا لیکن انہوں نے  اسے  توڑ دیا اور فساد مچا دیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے  اپنے  نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اختیار دیا کہ اگر آپ چاہیں  تو انہیں  قتل کر دیں، چاہیں  تو الٹے  سیدھے  ہاتھ پاؤں کٹوا دیں ۔ حضرت سعد فرماتے  ہیں  "یہ حرودیہ خوارج کے  بارے  میں نازل ہوئی ہے "۔ صحیح یہ ہے  کہ جو بھی اس فعل کا مرتکب ہو اس کیلئے  یہ حکم ہے ۔ چنانچہ بخاری مسلم میں ہے  کہ "قبیلہ عکل کے  آٹھ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے  پاس آئے ، آپ نے  ان سے  فرمایا اگر تم چاہو تو ہمارے  چرواہوں کے  ساتھ چلے  جاؤ اونٹوں کا دودھ اور پیشاب تمہیں  ملے  گا چنانچہ یہ گئے  اور جب ان کی بیماری جاتی رہی تو انہوں نے  ان چرواہوں کو مار ڈالا اور اونٹ لے  کر چلتے  بنے ، حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو جب یہ خبر پہنچی تو آپ نے  صحابہ کو ان کے  پیچھے  دوڑایا کہ انہیں  پکڑ لائیں، چنانچہ یہ گرفتار کئے  گئے  اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  سامنے  پیش کئے  گئے ۔ پھر ان کے  ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے  گئے  اور آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیری گئیں اور دھوپ میں پڑے  ہوئے  تڑپ تڑپ کر مر گئے "۔ مسلم میں ہے  یا تو یہ لوگ عکل کے  تھے  یا عرینہ کے ۔ یہ پانی مانگتے  تھے  مگر انہیں  پانی نہ دیا گیا نہ ان کے  زخم دھوئے  گئے ۔ انہوں نے  چوری بھی کی تھی، قتل بھی کیا تھا، ایمان کے  بعد کفر بھی کیا تھا اور اللہ رسول سے  لڑتے  بھی تھے ۔ انہوں نے  چرواہوں کی آنکھوں میں گرم سلائیاں بھی پھیری تھیں، مدینے  کی آب و ہوا اس وقت درست نہ تھی، سرسام کی بیماری تھی، حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  ان کے  پیچھے  بیس انصاری گھوڑ سوار بھیجے  تھے  اور ایک کھوجی تھا، جو نشان قدم دیکھ کر رہبری کرتا جاتا تھا۔ موت کے  وقت ان کی پیاس کے  مارے  یہ حالت تھی کہ زمین چاٹ رہے  تھے ، انہی کے  بارے  میں یہ آیت اتری ہے ۔ ایک مرتبہ حجاج نے  حضرت انس سے  سوال کیا کہ سب سے  بڑی اور سب سے  سخت سزا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  کسی کو دی ہو، تم بیان کرو تو آپ نے  یہ واقعہ بیان فرمایا۔ اس میں یہ بھی ہے  کہ یہ لوگ بحرین سے  آئے  تھے ، بیماری کی وجہ سے  ان کے  رنگ زرد پڑ گئے  تھے  اور پیٹ بڑھ گئے  تھے  تو آپ نے  انہیں  فرمایا کہ جاؤ اونٹوں میں رہو اور ان کا دودھ اور پیشاب پیو۔ حضرت انس فرماتے  ہیں  پھر میں نے  دیکھا کہ حجاج نے  تو اس روایت کو اپنے  مظالم کی دلیل بنا لی تب تو مجھے  سخت ندامت ہوئی کہ میں نے  اس سے  یہ حدیث کیوں بیان کی؟ اور روایت میں ہے  کہ ان میں سے  چار شخص تو عرینہ قبیلے  کے  تھے  اور تین عکل کے  تھے ، یہ سب تندرست ہو گئے  تو یہ مرتد بن گئے ۔ ایک اور روایت میں ہے  کہ راستے  بھی انہوں نے  بند کر دیئے  تھے  اور زنا کار بھی تھے ، جب یہ آئے  تو اب سب کے  پاس بوجہ فقیری پہننے  کے  کپڑے  تک نہ تھے ، یہ قتل و غارت کر کے  بھاگ کر اپنے  شہر کو جا رہے  تھے ۔ حضرت جریر فرماتے  ہیں  کہ یہ اپنی قوم کے  پاس پہنچنے  والے  تھے  جو ہم نے  انہیں  جالیا۔ وہ پانی مانگتے  تھے  اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  تھے ، اب تو پانی کے  بدلے  جہنم کی آگ ملے  گی۔ اس روایت میں یہ بھی ہے  کہ آنکھوں میں سلائیاں پھیرنا اللہ کو ناپسند آیا، یہ حدیث ضعیف اور غریب ہے  لیکن اس سے  یہ معلوم ہوا کہ جو لشکر ان مرتدوں کے  گرفتار کرنے  کیلئے  بھیجا گیا تھا، ان کے  سردار حضرت جریر تھے ۔ ہاں اس روایت میں یہ فقرہ بالکل منکر ہے  کہ اللہ تعالیٰ نے  ان کی آنکھوں میں سلائیاں پھیرنا مکرو رکھا۔ اس لئے  کہ صحیح مسلم میں یہ موجود ہے  کہ انہوں نے  چرواہوں کے  ساتھ بھی یہی کیا تھا، پس یہ اس کا بدلہ اور ان کا قصاص تھا جو انہوں نے  ان کے  ساتھ کیا تھا وہی ان کے  ساتھ کیا گیا واللہ اعلم۔ اور روایت میں ہے  کہ یہ لوگ بنو فزارہ کے  تھے ، اس واقعہ کے  بعد حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  یہ سزا کسی کو نہیں  دی۔ ایک اور روایت میں ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ایک غلام تھا، جس کا نا یسار تھا چونکہ یہ بڑے  اچھے  نمازی تھے ، اس لئے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  انہیں  آزاد کر دیا تھا اور اپنے  اونٹوں میں انہیں  بھیج دیا تھا کہ یہ ان کی نگرانی رکھیں، انہی کو ان مرتدوں نے  قتل کیا اور ان کی آنکھوں میں کانٹے  گاڑ کر اونٹ لے  کر بھاگ گئے ، جو لشکر انہیں  گرفتار کر کے  لایا تھا، ان میں ایک شاہ زور حضرت کرز بن جابر فہری تھے ۔ حافظ ابوبکر بن مردویہ نے  اس روایت کے  تمام طریقوں کو جمع کر دیا اللہ انہیں  جزائے  خیر دے ۔ ابو حمزہ عبد الکریم سے  اونٹوں کے  پیشاب کے  بارے  میں سوال ہوتا ہے  تو آپ ان محاربین کا قصہ بیان فرماتے  ہیں  اس میں یہ بھی ہے  کہ یہ لوگ منافقانہ طور پر ایمان لائے  تھے  اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  مدینے  کی آب و ہوا کی ناموافقت کی شکایت کی تھی، جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کی دغا بازی اور قتل و غارت اور ارتداد کا علم ہوا، تو آپ نے  منادی کرائی کہ اللہ کے  لشکریو اٹھ کھڑے  ہو، یہ آواز سنتے  ہی مجاہدین کھڑے  ہو گئے ، بغیر اس کے  کہ کوئی کسی کا انتظار کرے  ان مرتد ڈاکوؤں اور باغیوں کے  پیچھے  دوڑے ، خود حضور صلی اللہ علیہ و سلم بھی ان کو روانہ کر کے  ان کے  پیچھے  چلے ، وہ لوگ اپنی جائے  امن میں پہنچنے  ہی کو تھے  کہ صحابہ نے  انہیں  گھیر لیا اور ان میں سے  جتنے  گرفتار ہو گئے ، انہیں  لے  کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  سامنے  پیش کر دیا اور یہ آیت اتری، ان کی جلاوطنی یہی تھی کہ انہیں  حکومت اسلام کی حدود سے  خارج کر دیا گیا۔ پھر ان کو عبرتناک سزائیں دی گئیں، اس کے  بعد حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  کسی کے  بھی اعضا بدن سے  جدا نہیں  کرائے  بلکہ آپ نے  اس سے  منع فرمایا ہے ، جانوروں کو بھی اس طرح کرنا منع ہے ۔ بعض روایتوں میں ہے  کہ قتل کے  بعد انہیں  جلا دیا گیا، بعض کہتے  ہیں  یہ بنو سلیم کے  لوگ تھے ۔ بعض بزرگوں کا قول ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  جو سزا انہیں  دی وہ اللہ کو پسند نہ آئیں اور اس آیت سے  اسے  منسوخ کر دیا۔ ان کے  نزدیک گویا اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اس سزا سے  روکا گیا ہے ۔ جیسے  آیت عفا اللہ عنک میں اور بعض کہتے  ہیں  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  مثلہ کرنے  سے  یعنی ہاتھ پاؤں کان ناک کاٹنے  سے  جو ممانعت فرمائی ہے ، اس حدیث سے  یہ سزا منسوخ ہو گئی لیکن یہ ذرا غور طلب ہے  پھر یہ بھی سوال طلب امر ہے  کہ ناسخ کی تاخیر کی دلیل کیا ہے ؟ بعض کہتے  ہیں  حدود اسلام مقرر ہوں اس سے  پہلے  کا یہ واقعہ ہے  لیکن یہ بھی کچھ ٹھیک نہیں  معلوم ہوتا، بلکہ حدود کے  تقرر کے  بعد کا واقعہ معلوم ہوتا ہے  اس لئے  کہ اس حدیث کے  ایک راوی حضرت جریر بن عبد اللہ ہیں  اور ان کا اسلام سورہ مائدہ کے  نازل ہو چکنے  کے  بعد کا ہے ۔ بعض کہتے  ہیں  حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیرنی چاہی تھیں لیکن یہ آیت اتری اور آپ اپنے  ارادے  سے  باز رہے ، لیکن یہ بھی درست نہیں ۔ اس لئے  کہ بخاری و مسلم میں یہ لفظ ہیں  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  ان کی آنکھوں میں سلائیں پھروائیں ۔ محمد بن عجلان فرماتے  ہیں  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  جو سخت سزا انہیں  دی، اس کے  انکار میں یہ آیتیں اتری ہیں  اور ان میں صحیح سزا بیان کی گئی ہے  جو قتل کرنے  اور ہاتھ پاؤں الٹی طرف سے  کاٹنے  اور وطن سے  نکال دینے  کے  حکم پر شامل ہے  چنانچہ دیکھ لیجئے  کہ اس کے  بعد پھر کسی کی آنکھوں میں سلائیاں پھیرنی ثابت نہیں ، لیکن "اوزاعی کہتے  ہیں  کہ یہ ٹھیک نہیں  کہ اس آیت میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  اس فعل پر آپ کو ڈانٹا گیا ہو، بات یہ ہے  کہ انہوں نے  جو کیا تھا اس کا وہی بدلہ مل گیا، اب آیت نازل ہوئی جس نے  ایک خاص حکم ایسے  لوگوں کا بیان فرمایا اور اس میں آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیرنے  کا حکم نہیں  دیا "۔ اس آیت سے  جمہور علماء نے  دلیل پکڑی ہے  کہ راستوں کی بندش کر کے  لڑنا اور شہروں میں لڑنا دونوں برابر ہے  کیونکہ لفظ ویسعون فی الارض فسادا کے  ہیں ۔ مالک، اوزاعی، لیث، شافعی،، احمد رجمہم اللہ اجمعین کا یہی مذہب ہے  کہ باغی لوگ خواہ شہر میں ایسا فتنہ مچائیں یا بیرون شہر، ان کی سزا یہی ہے  کہ بلکہ امام مالک تو یہاں تک فرماتے  ہیں  کہ اگر کوئی شخص دوسرے  کو اس کے  گھر میں اس طرح دھوکہ دہی سے  مار ڈالے  تو اسے  پکڑ لیا جائے  اور اسے  قتل کر دیا جائے  اور خود امام وقت ان کاموں کو از خود کرے  گا، نہ کہ مقتول کے  اولیاء کے  ہاتھ میں یہ کام ہوں بلکہ اگر وہ درگزر کرنا چاہیں  تو بھی ان کے  اختیار میں نہیں  بلکہ یہ جرم، بے  واسطہ حکومت اسلامیہ کا ہے ۔ امام ابو حنیفہ کا مذہب یہ نہیں ، وہ کہتے  ہیں  کہ "مجاربہ اسی وقت مانا جائے  گا جبکہ شہر کے  باہر ایسے  فساد کوئی کرے ، کیونکہ شہر میں تو امداد کا پہنچنا ممکن ہے ، راستوں میں یہ بات ناممکن سی ہے ” جو سزا ان محاربین کی بیان ہوئی ہے  اس کے  بارے  میں حضرت ابن عباس فرماتے  ہیں  "جو شخص مسلمانوں پر تلوار اٹھائے ، راستوں کو پر خطر بنا دے ، امام المسلمین کو ان تینوں سزاؤں میں سے  جو سزا دینا چاہے  اس کا اختیار ہے "۔ یہی قول اور بھی بہت سوں کا ہے  اور اس طرح کا اختیار ایسی ہی اور آیتوں کے  احکام میں بھی موجود ہے  جیسے  محرم اگر شکار کھیلے  تو اس کا بدلہ شکار کے  برابر کی قربانی یا مساکین کا کھانا ہے  یا اس کے  برابر روزے  رکھنا ہے ، بیماری یا سر کی تکلیف کی وجہ سے  حالت احرام میں سر منڈوانے  اور خلاف احرام کام کرنے  والے  کے  فدیئے  میں بھی روزے  یا صدقہ یا قربانی کا حکم ہے ۔ قسم کے  کفارے  میں درمیانی درجہ کا کھانا دیں مسکینوں کا یا ان کا کپڑا یا ایک غلام کو آزاد کرنا ہے ۔ تو جس طرح یہاں ان صورتوں میں سے  کسی ایک کے  پسند کر لینے  کا اختیار ہے ، اسی طرح ایسے  محارب، مرتد لوگوں کی سزا بھی یا تو قتل ہے  یا ہاتھ پاؤں الٹی طرح سے  کاٹنا ہے  یا جلا وطن کرنا۔ اور جمہور کا قول ہے  کہ یہ آیت کئی احوال میں ہے ، جب ڈاکو قتل و غارت دونوں کے  مرتکب ہوتے  ہوں تو قابل دار اور گردن وزنی ہیں  اور جب صرف قتل سرزد ہوا ہو تو قتل کا بدلہ صرف قتل ہے  اور اگر فقط مال لیا ہو تو ہاتھ پاؤں الٹے  سیدھے  کاٹ دیئے  جائیں گے  اور اگر راستے  پر خطر کر دیئے  ہوں، لوگوں کو خوف زدہ کر دیا ہو اور کسی گناہ کے  مرتکب نہ ہوئے  ہوں اور گرفتار کر لئے  جائیں تو صرف جلاوطنی ہے ۔ اکثر سلف اور ائمہ کا یہی مذہب ہے  پھر بزرگوں نے  اس میں بھی اختلاف کیا ہے  کہ آیا سولی پر لٹکا کر یونہی چھوڑ دیا جائے  کہ بھوکا پیاسا مر جائے ؟ یا نیزے  وغیرہ سے  قتل کر دیا جائے ؟ یا پہلے  قتل کر دیا جائے  پھر سولی پر لٹکایا جائے  تاکہ اور لوگوں کو عبرت حاصل ہو؟ اور کیا تین دن تک سولی پر رہنے  دے  کر پھر اتار لیا جائے ؟ یا یونہی چھوڑ دیا جائے  لیکن تفسیر کا یہ موضوع نہیں  کہ ہم ایسے  جزئی اختلافات میں پڑیں اور ہر ایک کی دلیلیں وغیرہ وارد کریں ۔ ہاں ایک حدیث میں کچھ تفصیل سزا ہے ، اگر اس کی سند صحیح ہو تو وہ یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  جب ان محاربین کے  بارے  میں حضرت جبرئیل سے  دریافت کیا تو آپ نے  فرمایا "جنہوں نے  مال چرایا اور راستوں کو خطرناک بنا دیا ان کے  ہاتھ تو چوری کے  بدلے  کاٹ دیجئے  اور جس نے  قتل اور دہشت گردی پھیلائی اور بدکاری کا ارتکاب کیا ہے ، اسے  سولی چڑھا دو۔ فرمان ہے  کہ زمین سے  الگ کر دیئے  جائیں یعنی انہیں  تلاش کر کے  ان پر حد قائم کی جائے  یا وہ دار الاسلام سے  بھاگ کر کہیں  چلے  جائیں یا یہ کہ ایک شہر سے  دوسرے  شہر اور دوسرے  سے  تیسرے  شہر انہیں  بھیج دیا جاتا رہے  یا یہ کہ اسلامی سلطنت سے  بالکل ہی خارج کر دیا جائے "۔ شعبی تو نکال ہی دیتے  تھے  اور عطا خراسانی کہتے  ہیں  "ایک لشکر میں سے  دوسرے  لشکر میں پہنچا دیا جائے  یونہی کئی سال تک مارا مارا پھرایا جائے  لیکن دار الاسلام سے  باہر نہ کیا جائے "۔ ابو حنیفہ اور ان کے  اصحاب کہتے  ہیں  "اسے  جیل خانے  میں ڈال دیا جائے "۔ ابن جریر کا مختار قول یہ ہے  کہ "اسے  اس کے  شہر سے  نکال کر کسی دوسرے  شہر کے  جیل خانے  میں ڈال دیا جائے "۔ "ایسے  لوگ دنیا میں ذلیل و رذیل اور آخرت میں بڑے  بھاری عذابوں میں گرفتار ہوں گے "۔ آیت کا یہ ٹکڑا تو ان لوگوں کی تائید کرتا ہے  جو کہتے  ہیں  کہ یہ آیت مشرکوں کے  بارے  میں اتری ہے  اور مسلمانوں کے  بارے  وہ صحیح حدیث ہے  جس میں ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  ہم سے  ویسے  ہی عہد لئے  جیسے  عورتوں سے  لئے  تھے  کہ "ہم اللہ کے  ساتھ کسی کو شریک نہ کریں، چوری نہ کریں، زنا نہ کریں، اپنی اولادوں کو قتل نہ کریں، ایک دوسرے  کی نافرمانی نہ کریں جو اس وعدے  کو نبھائے ، اس کا اجر اللہ کے  ذمے  ہے  اور جو ان میں سے  کسی گناہ کے  ساتھ آلودہ ہو جائے  پھر اگر اسے  سزا ہو گئی تو وہ سزا کفارہ بن جائے  گی اور اگر اللہ تعالیٰ نے  پردہ پوشی کر لی تو اس امر کا اللہ ہی مختار ہے  اگر چاہے  عذاب کرے، اگر چاہے  چھوڑ دے "۔ اور حدیث میں ہے  "جس کسی نے  کوئی گناہ کیا پھر اللہ تعالیٰ نے  اسے  ڈھانپ لیا اور اس سے  چشم پوشی کر لی تو اللہ کی ذات اور اس کا رحم و کرم اس سے  بہت بلند و بالا ہے ، معاف کئے  ہوئے  جرائم کو دوبارہ کرنے  پہ اسے  دنیوی سزا ملے  گی، اگر بے  توبہ مر گئے  تو آخرت کی وہ سزائیں باقی ہیں  جن کا اس وقت صحیح تصور بھی محال ہے  ہاں توبہ نصیب ہو جائے  تو اور بات ہے "۔ پھر توبہ کرنے  والوں کی نسبت جو فرمایا ہے  "اس کا اظہار اس صورت میں تو صاف ہے  کہ اس آیت کو مشرکوں کے  بارے  میں نازل شدہ مانا جائے ۔ لیکن جو مسلمان مغرور ہوں اور وہ قبضے  میں آنے  سے  پہلے  توبہ کر لیں تو ان سے  قتل اور سولی اور پاؤں کاٹنا تو ہٹ جاتا ہے  لیکن ہاتھ کا کٹنا بھی ہٹ جاتا ہے  یا نہیں ، اس میں علماء کے  دو قول ہیں ، آیت کے  ظاہری الفاظ سے  تو یہی معلوم ہوتا ہے  کہ سب کچھ ہٹ جائے ، صحابہ کا عمل بھی اسی پر ہے ۔ چنانچہ جاریہ بن بدر تیمی بصری نے  زمین میں فساد کیا، مسلمانوں سے  لڑا، اس بارے  میں چند قریشیوں نے  حضرت علی سے  سفارش کی، جن میں حضرت حسن بن علی، حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت عبد اللہ بن جعفر بھی تھے  لیکن آپ نے  اسے  امن دینے  سے  انکار کر دیا۔ وہ سعید بن قیس ہمدانی کے  پاس آیا، آپ نے  اپنے  گھر میں اسے  ٹھہرایا اور حضرت علی کے  پاس آئے  اور کہا بتایئے  تو جو اللہ اور اس کے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے  لڑے  اور زمین میں فساد کی سعی کرے  پھر ان آیتوں کی قبل ان تقدروا علیھم تک تلاوت کی تو آپ نے  فرمایا میں تو ایسے  شخص کو امن لکھ دوں گا، حضرت سعید نے  فرمایا یہ جاریہ بن بدر ہے ، چنانچہ جاریہ نے  اس کے  بعد ان کی مدح میں اشعار بھی کہے  ہیں ۔ قبیلہ مراد کا ایک شخص حضرت ابو موسیٰ اشعری کے  پاس کوفہ کی مسجد میں جہاں کے  یہ گورنر تھے ، ایک فرض نماز کے  بعد آیا اور کہنے  لگا اے  امیر کوفہ فلاں بن فلاں مرادی قبیلے  کا ہوں، میں نے  اللہ اور اس کے  رسول سے  لڑائی لڑی، زمین میں فساد کی کوشش کی لیکن آپ لوگ مجھ پر قدرت پائیں، اس سے  پہلے  میں تائب ہو گیا اب میں آپ سے  پناہ حاصل کرنے  والے  کی جگہ پر کھڑا ہوں ۔ اس پر حضرت ابو موسیٰ کھڑے  ہو گئے  اور فرمایا اے  لوگو! تم میں سے  کوئی اب اس توبہ کے  بعد اس سے  کسی طرح کی بڑائی نہ کرے ، اگر یہ سچا ہے  تو الحمدللہ اور یہ جھوٹا ہے  تو اس کے  گناہ ہی اسے  ہلاک کر دیں گے ۔ یہ شخص ایک مدت تک تو ٹھیک ٹھیک رہا لیکن پھر بغاوت کر گیا، اللہ نے  بھی اس کے  گناہوں کے  بدلے  اسے  غارت کر دیا اور یہ مار ڈالا گیا۔ علی نامی ایک اسدی شخص نے  بھی گزر گاہوں میں دہشت پھیلا دی، لوگوں کو قتل کیا، مال لوٹا، بادشاہ لشکر اور رعایا نے  ہر چند اسے  گرفتار کرنا چاہا، لیکن یہ ہاتھ نہ لگا۔ ایک مرتبہ یہ جنگل میں تھا، ایک شخص کو قرآن پڑھتے  سنا اور وہ اس وقت یہ آیت تلاوت کر رہا تھا قل یا عبادی الذین اسرفوا الخ، یہ اسے  سن کر رک گیا اور اس سے  کہا اے  اللہ کے  بندے  یہ آیت مجھے  دوبارہ سنا، اس نے  پھر پڑھی اللہ کی اس آواز کو سن کر وہ فرماتا ہے  اے  میرے  گنہگار بندو تم میری رحمت سے  ناامید نہ ہو جاؤ، میں سب گناہوں کو بخشنے  پر قادر ہوں میں غفور و رحیم ہوں ۔ اس شخص نے  جھٹ سے  اپنی تلوار میان میں کر لی، اسی وقت سچے  دل سے  توبہ کی اور صبح کی نماز سے  پہلے  مدینے  پہنچ گیا، غسل کیا اور مسجد نبوی میں نماز صبح جماعت کے  ساتھ ادا کی اور حضرت ابوہریرہ کے  پاس جو لوگ بیٹھے  تھے ، ان ہی میں ایک طرف یہ بھی بیٹھ گیا۔ جب دن کا اجالا ہوا تو لوگوں نے  اسے  دیکھ کر پہچان لیا کہ یہ تو سلطنت کا باغی، بہت بڑا مجرم اور مفرور شخص علی اسدی ہے ، سب نے  چاہا کہ اسے  گرفتار کر لیں ۔ اس نے  کہا سنو بھائیو! تم مجھے  گرفتار نہیں  کر سکتے ، اس لئے  کہ مجھ پر تمہارے  قابو پانے  سے  پہلے  ہی میں تو توبہ کر چکا ہوں بلکہ توبہ کے  بعد خود تمہارے  پاس آ گیا ہوں، حضرت ابوہریرہ نے  فرمایا! یہ سچ کہتا ہے  اور اس کا ہاتھ پکڑ کر مروان بن حکم کے  پاس لے  چلے ، یہ اس وقت حضرت معاویہ کی طرف سے  مدینے  کے  گورنر تھے ، وہاں پہنچ کر فرمایا کہ یہ علی اسدی ہیں ، یہ توبہ کر چکے  ہیں ، اس لئے  اب تم انہیں  کچھ نہیں  کہہ سکتے ۔ چنانچہ کسی نے  اس کے  ساتھ کچھ نہ کیا، جب مجاہدین کی ایک جماعت رومیوں سے  لڑنے  کیلئے  چلی تو ان مجاہدوں کے  ساتھ یہ بھی ہو لئے ، سمندر میں ان کی کشتی جا رہی تھی کہ سامنے  سے  چند کشتیاں رومیوں کی آ گئیں، یہ اپنی کشتی میں سے  رومیوں کی گردنیں مارنے  کیلئے  ان کی کشتی میں کود گئے ، ان کی آبدار خارا شگاف تلوار کی چمک کی تاب رومی نہ لا سکے  اور نامردی سے  ایک طرف کو بھاگے ، یہ بھی ان کے  پیچھے  اسی طرف چلے  چونکہ سارا بوجھ ایک طرف ہو گیا، اس لئے  کشتی الٹ گئی جس سے  وہ سارے  رومی کفار ہلاک ہو گئے  اور حضرت علی اسدی بھی ڈوب کر شہید ہو گئے (اللہ ان پر اپنی رحمتیں ناز فرمائے)

۳۵

تقویٰ قربت الٰہی کی بنیاد ہے

تقوے  کا حکم ہو رہا ہے  اور وہ بھی اطاعت سے  ملا ہوا۔ مطلب یہ ہے  کہ اللہ کے  منع کردہ کاموں سے  جو شخص رکا رہے ، اس کی طرف قربت یعنی نزدیکی تلاش کرے ۔ وسیلے  کے  یہی معنی حضرت ابن عباس سے  منقول ہیں ۔ حضرت مجاہد، حضرت وائل، حضرت حسن، حضرت ابن زید اور بہت سے  مفسرین سے  بھی مروی ہے ۔ قتادہ فرماتے  ہیں  اللہ کی اطاعت اور اس کی مرضی کے  اعمال کرنے  سے  اس سے  قریب ہوتے  جاؤ۔ ابن زید نے  یہ آیت بھی پڑھی اولئک الذین یدعون یبتغون الی ربھم الوسیلۃ جنہیں  یہ پکارتے  ہیں  وہ تو خود ہی اپنے  رب کی نزدیکی کی جستجو میں لگے  ہوئے  ہیں ۔ ان ائمہ نے  وسیلے  کے  جو معنی اس آیت میں کئے  ہیں  اس پر سب مفسرین کا اجماع ہے ، اس میں کسی ایک کو بھی اختلاف نہیں ۔ امام جریر نے  اس پر ایک عربی شعر بھی وارد کیا ہے ، جس میں وسیلہ معنی قربت اور نزدیک کے  مستعمل ہوا ہے ۔ وسیلے  کے  معنی اس چیز کے  ہیں  جس سے  مقصود کے  حاصل کرنے  کی طرف پہنچا جائے  اور وسیلہ جنت کی اس اعلیٰ اور بہترین منزل کا نام ہے  جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی جگہ ہے ۔ عرش سے  بہت زیادہ قریب یہی درجہ ہے ۔ صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے  "جو شخص اذان سن کر اللھم رب ھذہ الدعوۃ التامۃ الخ، پڑھے  اس کیلئے  میری شفاعت حلال ہو جاتی ہے "۔ مسلم کی حدیث میں ہے  "جب تم اذان سنو تو جو موذن کہہ رہا ہو، وہی تم بھی کہو، پھر مجھ پر درود بھیجو، ایک درود کے  بدلے  تم پر اللہ تعالیٰ دس رحمتیں نازل فرمائے  گا۔ پھر میرے  لئے  اللہ تعالیٰ سے  وسیلہ طلب کرو، وہ جنت کا ایک درجہ ہے ، جسے  صرف ایک ہی بندہ پائے  گا، مجھے  امید ہے  کہ وہ بندہ میں ہی ہوں ۔ پس جس نے  میرے  لئے  وسیلہ طلب کیا، اس کیلئے  میری شفاعت واجب ہو گئی”۔ مسند احمد میں ہے  "جب تم مجھ پر درود پڑھو تو میرے  لئے  وسیلہ مانگو، پوچھا گیا کہ وسیلہ کیا ہے ؟ فرمایا جنت کا سب سے  بلند درجہ جسے  صرف ایک شخص ہی پائے  گا اور مجھے  امید ہے  کہ وہ شخص میں ہوں "۔ طبرانی میں ہے  "تم اللہ سے  دعا کرو کہ اللہ مجھے  وسیلہ عطا فرمائے  جو شخص دنیا میں میرے  لئے  یہ دعا کرے  گا، میں اس پر گواہ یا اس کا سفارشی قیامت کے  دن بن جاؤں گا "۔ اور حدیث میں ہے  "وسیلے  سے  بڑا درجہ جنت میں کوئی نہیں ۔ لہٰذا تم اللہ تعالیٰ سے  میرے  لئے  وسیلے  کے  ملنے  کی دعا کرو”۔ ایک غریب اور منکر حدیث میں اتنی زیادتی بھی ہے  کہ لوگوں نے  آپ سے  پوچھا کہ وسیلے  میں آپ کے  ساتھ اور کون ہوں گے ؟ تو آپ نے  حضرت فاطمہ اور حسن حسین کا نام لیا۔ ایک اور بہت غریب روایت میں ہے  کہ حضرت علی نے  کوفہ کے  منبر پر فرمایا کہ جنت میں دو موتی ہیں ، ایک سفید ایک زرد، زرد تو عرش تلے  ہے  اور مقام محمود سفید موتی کا ہے ، جس میں ستر ہزار بالا خانے  ہیں ، جن میں سے  ہر ہر گھر تین میل کا ہے ۔ اس کے  دریچے  دروازہ تخت وغیرہ سب کے  سب گویا ایک ہی جڑ سے  ہیں ۔ کا نام وسیلہ ہے ، یہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کی اہل بیت کیلئے  ہے ۔ تقویٰ کا یعنی ممنوعات سے  رکنے  کا اور حکم احکام کے  بجا لانے  کا حکم دے  کر پھر فرمایا کہ "اس کی راہ میں جہاد کرو، مشرکین و کفار کو جو اس کے  دشمن ہیں  اس کے  دین سے  الگ ہیں ، اس کی سیدھی راہ سے  بھٹک گئے  ہیں ، انہیں  قتل کرو۔ ایسے  مجاہدین با مراد ہیں ، فلاح و صلاح سعادت و شرافت انہی کیلئے  ہیں ، جنت کے  بلند بالا خانے  اور اللہ کی بے  شمار نعمتیں انہی کیلئے  ہیں ، یہ اس جنت میں پہنچائے  جائیں گے ، جہاں موت و فوت نہیں ، جہاں کمی اور نقصان نہیں ، جہاں ہمیشگی کی جوانی اور ابدی صحت اور دوامی عیش و عشرت ہے "۔ اپنے  دوستوں کا نیک انجام بیان فرما کر اب اپنے  دشمنوں کا برا نتیجہ ظاہر فرماتا ہے  کہ "ایسے  سخت اور بڑے  عذاب انہیں  ہو رہے  ہوں گے  کہ اگر اس وقت روئے  زمین کے  مالک ہوں بلکہ اتنا ہی اور بھی ہو تو ان عذابوں سے  بچنے  کیلئے  بطور بدلے  کے  سب دے  ڈالیں لیکن اگر ایسا ہو بھی جائے  تو بھی ان سے  اب فدیہ قبول نہیں  بلکہ جو عذاب ان پر ہیں ، وہ دائمی اور ابدی اور دوامی ہیں "۔ جیسے  اور جگہ ہے  کہ "جہنمی جب جہنم میں سے  نکلنا چاہئیں گے  تو پھر دوبارہ اسی میں لوٹا دیئے  جائیں گے ۔ بھڑکتی ہوئی آگ کے  شعلوں کے  ساتھ اوپر آ جائیں گے  کہ داروغے  انہیں  لوہے  کے  ہتھوڑے  مار مار کر پھر قعر جہنم میں گرا دیں گے ۔ غرض ان دائمی عذابوں سے  چھٹکارا محال ہے "۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  ہیں  "ایک جہنمی کو لایا جائے  گا پھر اس سے  پوچھا جائے  گا کہ اے  ابن آدم کہو تمہاری جگہ کیسی ہے ؟ وہ کہے  گا بدترین اور سخت ترین۔ اس سے  پوچھا جائے  گا کہ اس سے  چھوٹنے  کیلئے  تو کیا کچھ خرچ کر دینے  پر راضی ہے ؟ وہ کہے  گا ساری زمین بھر کا سونا دے  کر بھی میں یہاں سے  چھوٹوں تو بھی سستا چھوٹا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے  گا جھوٹا ہے  میں نے  تو تجھ سے  اس سے  بہت ہی کم مانگا تھا لیکن تو نے  کچھ بھی نہ کیا۔ پھر حکم دیا جائے  گا اور اسے  جہنم میں ڈال دیا جائے  گا ” (مسلم) ایک مرتبہ حضرت جابر نے  آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان بیان کیا کہ ایک قوم جہنم میں سے  نکال کر جنت میں پہنچائی جائے  گی۔ اس پر ان کے  شاگرد حضرت یزید فقیر نے  پوچھا کہ پھر اس آیت قرآنی کا کیا مطلب ہے ؟ کہ یریدون ان یخر جوا منھا الخ، یعنی وہ جہنم سے  آزاد ہونا چاہیں  گے  لیکن وہ آزاد ہونے  والے  نہیں  تو آپ نے  فرمایا اس سے  پہلے  کی آیت ان الذین کفروا الخ، پڑھو جس سے  صاف ہو جاتا ہے  کہ یہ کافر لوگ ہیں  یہ کبھی نہ نکلیں گے  (مسند وغیرہ) دوسری روایت میں ہے  کہ یزید کا خیال یہی تھا کہ جہنم میں سے  کوئی بھی نہ نکلے  گا اس لئے  یہ سن کر انہوں نے  حضرت جابر سے  کہا کہ مجھے  اور لوگوں پر تو افسوس نہیں  ہاں آپ صحابیوں پر افسوس ہے  کہ آپ بھی قرآن کے  الٹ کہتے  ہیں  اس وقت مجھے  بھی غصہ آ گیا تھا اس پر ان کے  ساتھیوں نے  مجھے  ڈانٹا لیکن حضرت جابر بہت ہی حلیم الطبع تھے  انہوں نے  سب کو روک دیا اور سمجھے  سمجھایا کہ قرآن میں جن کا جہنم سے  نہ نکلنے  کا ذکر ہے  وہ کفار ہیں ۔ تم نے  قران نہیں  پڑھا؟ میں نے  کہا ہاں مجھے  سارا قرآن یاد ہے ؟ کہاں پھر کیا یہ آیت قرآن میں نہیں  ہے ؟ ومن اللیل فتھجدبہ الخ، اس میں مقام محمود کا ذکر ہے  یہی مقام شفاعت ہے ۔ اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو جہنم میں ان کی خطاؤں کی وجہ سے  ڈالے  گا اور جب تک چاہے  انہیں  جہنم میں ہی رکھے  گا پھر جب چاہے  گا انہیں  اس سے  آزاد کر دے  گا۔ حضرت یزید فرماتے  ہیں  کہ اس کے  بعد سے  میرا خیال ٹھیک ہو گیا۔ حضرت طلق بن حبیب کہتے  ہیں  میں بھی منکر شفاعت تھا یہاں تک کہ حضرت جابر سے  ملا اور اپنے  دعوے  کے  ثبوت میں جن جن آیتوں میں جہنم کے  ہمیشہ رہنے  والوں کا ذکر ہے  سب پڑھ ڈالیں تو آپ نے  سن کر فرمایا! اے  طلق کیا تم اپنے  تئیں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے  علم میں مجھ سے  افضل جانتے  ہو؟ سنو جتنی آیتیں تم نے  پڑھی ہیں  وہ سب اہل جہنم کے  بارے  میں ہیں  یعنی مشرکوں کیلئے ۔ لیکن وہ لوگ نکلیں گے  یہ وہ لوگ ہیں  جو مشرک نہ تھے  لیکن گنہگار تھے  گناہوں کے  بدلے  سزا بھگت لی پھر جہنم سے  نکال دیئے  گئے ۔ حضرت جابر نے  یہ سب فرما کر اپنے  دونوں ہاتھوں سے  اپنے  دونوں کانوں کی طرف اشارہ کر کے  فرمایا یہ دونوں بہرے  ہو جائیں اگر میں نے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے  یہ نہ سنا ہو کہ جہنم میں داخل ہونے  بعد بھی لوگ اس میں سے  نکالے  جائیں گے  اور وہ جہنم سے  آزاد کر دیئے  جائیں گے  قرآن کی یہ آیتیں جس طرح تم پڑھتے  ہو ہم بھی پڑھتے  ہی ہیں ۔

۳۸

احکام جرم و سزا

حضرت ابن مسعود کی قرات میں فاقطعوا ایمانھما ہے  لیکن یہ قرات شاذ ہے  کو عمل اسی پر ہے  لیکن وہ عمل اس قرات کی وجہ سے  نہیں  بلکہ دوسرے  دلائل کی بناء پر ہے ۔ چور کے  ہاتھ کاٹنے  کا طریقہ اسلام سے  پہلے  بھی تھا اسلام نے  اسے  تفصیل وار اور منظم کر دیا اسی طرح قسامت دیت فرائض کے  مسائل بھی پہلے  تھے  لیکن غیر منظم اور ادھور اسلام نے  انہیں  ٹھیک ٹھاک کر دیا۔ ایک قول یہ بھی ہے  کہ سب سے  پہلے  دو یک نامی ایک خزاعی شخص کے  ہاتھ چوری کے  الزام میں قریش نے  کاٹے  تھے  اس نے  کعبے  کا غلام چرایا تھا اور یہ بھی کہا گیا ہے  کہ چوروں نے  اس کے  پاس رکھ دیا تھا۔ بعض فقہا کا خیال ہے  کہ چوری کی چیز کی کوئی حد نہیں  تھوڑی ہو یا بہت محفوظ جگہ سے  لی ہو یا غیر محفوظ جگہ سے  بہر صورت ہاتھ کاٹا جائے  گا۔ ابن عباس سے  مروی ہے  کہ یہ آیت عام ہے  تو ممکن ہے  اس قول کا یہی مطلب ہو اور دوسرے  مطالب بھی ممکن ہیں  ۔ ایک دلیل ان حضرات کی یہ حدیث بھی ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا اللہ تعالیٰ چور پر لعنت کرے  کہ انڈا چراتا ہے  اور ہاتھ کٹواتا ہے  رسی چرائی ہے  اور ہاتھ کاٹا جاتا ہے ، جمہور علماء کا مذہب یہ ہے  کہ چوری کے  مال کی حد مقرر ہے ۔ گو اس کے  تقرر میں اختلاف ہے ۔ امام مالک کہتے  ہیں  تین درہم سکے  والے  خالص یا ان کی قیمت یا زیادہ کی کوئی چیز چنانچہ صحیح بخاری مسلم میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ایک ڈھال کی چوری پر ہاتھ کاٹنا مروی ہے  اور اس کی قیمت اتنی ہی تھی۔ حضرت عثمان نے  اترنج کے  چور کے  ہاتھ کاٹے  تھے  جبکہ وہ تین درہم کی قیمت کا تھا۔ حضرت عثمان کا فعل گویا صحابہ اجماع سکوتی ہے  اور اس سے  یہ بھی ثابت ہوتا ہے  کہ پھل کے  چور کے  ہاتھ بھی کاٹے  جائیں گے ۔ حنفیہ اسے  نہیں  مانتے  اور ان کے  نزدیک چوری کے  مال کا درس درہم کی قیمت کا ہونا ضروری ہے ۔ اس میں شافعیہ کا اختلاف ہے  پاؤ یا دینار کے  تقرر میں ۔ امام شافعی کا فرمان ہے  کہ پاؤ دینار کی قیمت کی چیز ہو یا اس سے  زیادہ۔ ان کی دلیل بخاری و مسلم کی حدیث ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا چور کا ہاتھ پاؤ دینار میں پھر جو اس سے  اوپر ہو اس میں کاٹنا چاہئے  مسلم کی ایک حدیث میں ہے  چور کا ہاتھ نہ کاٹا جائے  مگر پاؤ دینار پھر اس سے  اوپر میں ۔ پس یہ حدیث اس مسئلے  کا صاف فیصلہ کر دیتی ہے  اور جس حدیث میں تین درہم میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  ہاتھ کاٹنے  کو فرمانا مروی ہے  وہ اس کے  خلاف نہیں  اس لئے  کہ اس وقت دینار بارہ درہم کا تھا۔ پس اصل چوتھائی دینار ہے  نہ کہ تین درہم۔ حضرت عمر بن خطاب حضرت عثمان بن عفان حضرت علی بن ابی طالب بھی یہی فرماتے  ہیں ۔ حضرت عمر بن عبد العزیز لیث بن سعد اوزاعی شافعی اسحاق بن راہو یہ ابو ثور داؤد بن علی ظاہری کا بھی یہی قول ہے ۔ ایک روایت میں امام اسحق بن راہویہ اور امام احمد بن حنبل سے  مروی ہے  کہ خواہ ربع دینار ہو خواہ تین درہم دونوں ہی ہاتھ کاٹنے  کا نصاب ہے ۔ مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے  چوتھائی دینار کی چوری پر ہاتھ کاٹ دو اس سے  کم میں نہیں ۔ اس وقت دینار بارہ درہم کا تھا تو چوتھائی دینار تین درہم کا ہوا۔ نسائی میں ہے  چور کا ہاتھ ڈھال کی قیمت سے  کم میں نہ کاٹا جائے ۔ حضرت عائشہ سے  پوچھا گیا ڈھال کی قیمت کیا ہے ؟ فرمایا پاؤ دینار۔ پس ان تمام احادیث سے  صاف صاف ثابت ہو رہا ہے  کہ دس درہم شرط لگانی کھلی غلطی ہے  واللہ اعلم۔ امام ابو حنیفہ اور ان کے  ساتھیوں نے  کہا ہے  کہ جس ڈھال کے  بارے  میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  زمانے  میں چور کا ہاتھ کاٹا گیا اس کی قیمت نو درہم تھی چنانچہ ابوبکر بن شیبہ میں یہ موجود ہے  اور عبد اللہ بن عمر سے ۔ عبد اللہ بن عباس اور عبد اللہ بن عمرو مخالفت کرتے  رہے  ہیں  اور حدود کے  بارے  میں اختیار پر عمل کرنا چاہئے  اور احتیاط زیادتی میں ہے  اس لئے  دس درہم نصاب ہم نے  مقرر کیا ہے ۔ بعض سلف کہتے  ہیں  کہ دس درہم یا ایک دینار حد ہے  علی ابن مسعود ابراہیم نخعی ابو جعفر باقر سے  یہی مروی ہے ۔ سعید بن جیر فرماتے  ہیں  پانچوں نہ کاٹی جائیں مگر پانچ دینار پچاس درہم کی قیمت کے  برابر کے  مال کی چوری میں ۔ ظاہر یہ کا مذہب ہے  کہ ہر تھوڑی بہت چیز کی چوری پر ہاتھ کٹے  گا انہیں  جمہور نے  یہ جواب دیا ہے  کہ اولاً تو یہ اطلاق منسوخ ہے  لیکن یہ جواب ٹھیک نہیں  اس لئے  تاریخ نسخ کا کوئی یقینی عمل نہیں ۔ دوسرا جواب یہ ہے  کہ انڈے  سے  مراد لوہے  کا انڈا ہے  اور رسی سے  مراد کشتیوں کے  قیمتی رسے  ہیں ۔ تیسرا جواب یہ ہے  کہ یہ فرمان باعتبار نتیجے  کے  ہے  یعنی ان چھوٹی چھوٹی معمولی سی چیزوں سے  چوری شروع کرتا ہے  آخر قیمتی چیزیں چرانے  لگتا ہے  اور ہاتھ کاٹا جاتا ہے  اور یہ بھی ہو سکتا ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم بطور افسوس کے  اوپر چور کو نادم کرنے  کے  فرما رہے  ہیں  کہ کیسا ذیل اور بے  خوف انسان ہے  کہ معمولی چیز کیلئے  ہاتھ جیسی نعمت سے  محروم ہو جاتا ہے ۔ مذکور ہے  کہ ابو العلام معری جب بغداد میں آیا تو اس نے  اس بارے  میں بڑے  اعتراض شروع کئے  اور اس کے  جی میں یہ خیال بیٹھا گیا کہ میرے  اس اعتراض کا جواب کسی سے  نہیں  ہو سکتا تو اس نے  ایک شعر کہا کہ اگر ہاتھ کاٹ ڈالا جائے  تو دیت میں پانچ سو دلوائیں اور پھر اسی ہاتھ کو پاؤ دینار کی چوری پر کٹوا دیں یہ ایسا تناقض ہے  کہ ہماری سمجھ میں تو آتا ہی نہیں  خاموش ہیں  اور کہتے  ہیں  کہ ہمارا مولا ہمیں جہنم سے  بچائے ۔ لیکن جب اس کی یہ بکواس مشہور ہوئی تو علماء کرام نے  اسے  جواب دینا چاہا تو یہ بھاگ گیا پھر جواب بھی مشہور کر دیئے  گئے ۔ قاضی عبد الوہاب نے  جواب دیا تھا کہ جب تک ہاتھ امین تھا تب تک ثمین یعنی قیمتی تھا اور جب یہ حائن ہو گیا اس نے  چوری کر لی تو اس کی قیمت گھٹ گئی۔ بعض بزرگوں نے  اسے  قدرے  تفصیل سے  جواب دیا تھا کہ اس سے  شریعت کی کامل حکمت ظاہر ہوتی ہے  اور دنیا کا امن و امان قائم ہوتا ہے ، جو کسی کا ہاتھ بے  وجہ کاٹ دینے  کا حکم دیا تاکہ چوری کا دروازہ اس خوف سے  بند ہو جائے ۔ پس یہ تو عین حکمت ہے  اگر چوری میں بھی اتنی رقم کی قید لگائی جاتی تو چوریوں کا انسداد نہ ہوتا۔ یہ بدلہ ہے  ان کے  کرتوت کا۔ مناسب مقام یہی ہے  کہ جس عضو سے  اس نے  دوسرے  کو نقصان پہنچایا ہے ، اسی عضو پر سزا ہو۔ تاکہ انہیں  کافی عبرت حاصل ہو اور دوسروں کو بھی تنبیہ ہو جائے ۔ اللہ اپنے  انتقام میں غالب ہے  اور اپنے  احکام میں حکیم ہے ۔ جو شخص اپنے  گناہ کے  بعد توبہ کر لے  اور اللہ کی طرف جھک جائے ، اللہ اسے  اپنا گناہ معاف فرما دیا کرتا یہ۔ ہاں جو مال چوری میں کسی کا لے  لیا ہے  چونکہ وہ اس شخص کا حق ہے ، لہٰذا صرف توبہ کرنے  سے  وہ معاف نہیں  ہوتا تاوقتیکہ وہ مال جس کا ہے  اسے  نہ پہنچائے  یا اس کے  بدلے  پوری پوری قیمت ادا کرے ۔ جمہور ائمہ کا یہی قول ہے ، صرف امام ابو حنیفہ کہتے  ہیں  کہ "جب چوری پر ہاتھ کٹ گیا اور مال تلف ہو چکا ہے  تو اس کا بدلہ دینا اس پر ضروری نہیں "۔ دار قطنی وغیرہ کی ایک مرسل حدیث میں ہے  کہ "ایک چور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  سامنے  لایا گیا، جس نے  چادر چرائی تھی، آپ نے  اس سے  فرمایا، میرا خیال ہے  کہ تم نے  چوری نہیں  کی ہو گی، انہوں نے  کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں نے  چوری کی ہے  تو آپ نے  فرمایا اسے  لے  جاؤ اور اس کا ہاتھ کاٹ دو جب ہاٹھ کٹ چکا اور آپ کے  پاس آئے  تو آپ نے  فرمایا توبہ کرو، انہوں نے  توبہ کی، آپ نے  فرمایا اللہ نے  تمہاری توبہ قبول فرما لی” (رضی اللہ عنہ) ابن ماجہ میں ہے  کہ "حضرت عمر بن سمرہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  پاس آ کر کہتے  ہیں  کہ مجھ سے  چوری ہو گئی ہے  تو آپ مجھے  پاک کیجئے ، فلاں قبیلے  والوں کا اونٹ میں نے  چرا لیا ہے ۔ آپ نے  اس قبیلے  والوں کے  پاس آدمی بھیج کر دریافت فرمایا تو انہوں نے  کہا کہ ہمارا اونٹ تو ضرور گم ہو گیا ہے ۔ آپ نے  حکم دیا اور ان کا ہاتھ کاٹ ڈالا گیا وہ ہاتھ کٹنے  پر کہنے  لگے ، اللہ کا شکر ہے  جس نے  تجھے  میرے  جسم سے  الگ کر دیا، تو نے  میرے  سارے  جسم کو جہنم میں لے  جانا چاہا تھا” (رضی اللہ عنہ) ابن جریر میں ہے  کہ "ایک عورت نے  کچھ زیور چرا لئے ، ان لوگوں نے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  پاس اسے  پیش کیا، آپ نے  اس کا داہنا ہاتھ کاٹنے  کا حکم دیا، جب کٹ چکا تو اس عورت نے  کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیا میری توبہ بھی ہے ؟ آپ نے  فرمایا تم تو ایسی پاک صاف ہو گئیں کہ گویا آج ہی پیدا ہوئی”۔ اس پر آیت فمن تاب نازل ہوئی۔ مسند میں اتنا اور بھی ہے  کہ اس وقت اس عورت والوں نے  کہا ہم اس کا فدیہ دینے  کو تیار ہے  لیکن آپ نے  اسے  قبول نہ فرمایا اور ہاتھ کاٹنے  کا حکم دے  دیا۔ یہ عورت مخزوم قبیلے  کی تھی اور اس کا یہ واقعہ بخاری و مسلم میں بھی موجود ہے  کہ چونکہ یہ بڑی گھرانے  کی عورت تھی، لوگوں میں بڑی تشویش پھیلی اور ارادہ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے  اس کے  بارے  میں کچھ کہیں  سنیں، یہ واقعہ غزوہ فتح میں ہوا تھا، بالاخر یہ طے  ہوا کہ حضرت اسامہ بن زید جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے  بہت پیارے  ہیں ، وہ ان کے  بارے  میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  سفارش کریں، حضرت اسامہ نے  جب اس کی سفارش کی تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو سخت ناگوار گزرا اور غصے  سے  فرمایا! اسامہ تو اللہ کی حدود میں سے  ایک حد کے  بارے  میں سفارش کر رہا ہے ؟ اب تو حضرت اسامہ بہت گھبرائے  اور کہنے  لگے  مجھ سے  بڑی خطا ہوئی، میرے  لئے  آپ استفغار کیجئے ۔ شام کے  وقت اللہ کے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے  ایک خطبہ سنایا جس میں اللہ تعالیٰ کی پوری حمد و ثنا کے  بعد فرمایا کہ تم سے  پہلے  کے  لوگ اسی خصلت پر تباہ و برباد ہو گئے  کہ ان میں سے  جب کوئی شریف شخص بڑا آدمی چوری کرتا تھا تو اسے  چھوڑ دیتے  تھے  اور جب کوئی معمولی آدمی ہوتا تو اس پر حد جاری کرتے ۔ اس اللہ کی قسم جس کے  ہاتھ میں میری جان ہے  اگر فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ و سلم بھی چوری کریں تو میں ان کے  بھی ہاتھ کاٹ دوں ۔ پھر حکم دیا اور اس عورت کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ حضرت صدیقہ فرماتی ہیں  پھر اس بیوی صاحبہ نے  توبہ کی اور پوری اور پختہ توبہ کی اور نکاح کر لیا، پھر وہ میرے  پاس اپنے  کسی کام کاج کیلئے  آتی تھیں اور میں اس کی حاجت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے  بیان کر دیا کرتی تھی۔ (رضی اللہ عنہما) "مسلم میں ہے  ایک عورت لوگوں سے  اسباب ادھار لیتی تھی، پھر انکار کر جایا کرتی تھی، حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  اس کے  ہاتھ کاٹنے  کا حکم دیا” اور روایت میں ہے  یہ زیور ادھار لیتی تھی اور اس کا ہاتھ کاٹنے  کا حکم حضرت بلال کو ہوا تھا۔ کتاب الاحکام میں ایسی بہت سی حدیثیں وارد ہیں  جو چوری سے  تعلق رکھتی ہیں ۔ فالحمد للہ۔ جمیع مملوک کا مالک ساری کائنات کا حقیقی بادشاہ، سچا حاکم، اللہ ہی ہے ۔ جس کے  کسی حکم کو کوئی روک نہیں  سکتا۔ جس کے  کسی ارادے  کو کوئی بدل نہیں  سکتا، جسے  چاہے  بخشے  جسے  چاہے  عذاب کرے ۔ ہر ہر چیز پر وہ قادر ہے  اس کی قدرت کامل اور اس کا قبضہ سچا ہے ۔

۴۱

جھوٹ سننے  اور کہنے  کے  عادی لوگ

ان آیتوں میں ان لوگوں کی مذمت بیان ہو رہی ہے ، جو رائے ، قیاس اور خواہش نفسانی کو اللہ کی شریعت پر مقدم رکھتے  ہیں ۔ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت سے  نکل کر کفر کی طرف دوڑتے  بھاگتے  رہتے  ہیں ۔ گو یہ لوگ زبانی ایمان کے  دعوے  کریں لیکن ان کا دل ایمان سے  خالی ہے ۔ منافقوں کی یہی حالت ہے  کہ زبان کے  کھرے ، دل کے  کھوٹے  اور یہی خصلت یہودیوں کی ہے  جو اسلام اور اہل اسلام کے  دشمن ہیں  ۔ یہ جھوٹ کو مزے  مزے  سے  سنتے  ہیں  اور دل کھول کر قبول کرتے  ہیں ۔ لیکن سچ سے  بھاگتے  ہیں ، بلکہ نفرت کرتے  ہیں  اور جو لوگ آپ کی مجلس میں نہیں  آتے  یہ یہاں کی وہاں پہنچاتے  ہیں ۔ ان کی طرف سے  جاسوسی کرنے  کو آتے  ہیں ۔ پھر نالائقی یہ کرتے  ہیں  کہ یہ بات کو بدل ڈالا کرتے  ہیں  مطلب کچھ ہو، لے  کر کچھ اڑتے  ہیں ، ارادے  یہی ہیں  کہ اگر تمہاری خواہش کے  مطابق کہے  تو مان لو، طبیعت کے  خلاف ہو تو دور رہو۔ کہا کیا گیا ہے  کہ یہ آیت ان یہودیوں کے  بارے  میں اتری تھی جن میں ایک کو دوسرے  نے  قتل کر دیا تھا، اب کہنے  لگے  چلو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  پاس چلیں اگر آپ دیت جرمانے  کا حکم دیں تو منظور کر لیں گے  اور اگر قصاص بدلے  کو فرمائیں تو نہیں  مانیں گے ۔ لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے  کہ وہ ایک زنا کار کو لے  کر آئے  تھے ۔ ان کی کتاب توراۃ میں دراصل حکم تو یہ تھا کہ شادی شدہ زانی کو سنگسار کیا جائے ۔ لیکن انہوں نے  اسے  بدل ڈالا تھا اور سو کوڑے  مار کر، منہ کالا کر کے ، الٹا گدھا سوار کر کے  رسوائی کر کے  چھوڑ دیتے  تھے ۔ جب ہجرت کے  بعد ان میں سے  کوئی زنا کاری کے  جرم میں پکڑا گیا تو یہ کہنے  لگے  آؤ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  پاس چلیں اور آپ سے  اس کے  بارے  میں سوال کریں، اگر آپ بھی وہی فرمائیں جو ہم کرتے  ہیں  تو اسے  قبول کریں گے  اور اللہ کے  ہاں بھی یہ ہماری سند ہو جائے  گی اور اگر رجم کو فرمائیں گے  تو نہیں  مانیں گے ۔ چنانچہ یہ آئے  اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  ذکر کیا کہ ہمارے  ایک مرد عورت نے  بدکاری کی ہے ، ان کے  بارے  میں آپ کیا ارشاد فرماتے  ہیں ؟ آپ نے  فرمایا تمہارے  ہاں توراۃ میں کیا حکم ہے ؟ انہوں نے  کہا ہم تو اسے  رسوا کرتے  ہیں  اور کوڑے  مار کر چھوڑ دیتے  ہیں ۔ یہ سن کر حضرت عبد اللہ بن سلام نے  فرمایا، جھوٹ کہتے  ہیں ، تورات میں سنگسار کا حکم ہے ۔ لاؤ تورات پیش کرو، انہوں نے  تورات کھولی لیکن آیت رجم پر ہاتھ رکھ کر آگے  پیچھے  کی سب عبارت پڑھ سنائی۔ حضرت عبد اللہ سمجھ گئے  اور آپ نے  فرمایا اپنے  ہاتھ کو تو ہٹا، ہاتھ ہٹایا تو سنگسار کرنے  کی آیت موجود تھی، اب تو انہیں  بھی اقرار کرنا پڑا۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  حکم سے  زانیوں کو سنگسار کر دیا گیا، حضرت عبد اللہ فرماتے  ہیں  "میں نے  دیکھا کہ وہ زانی اس عورت کو پتھروں سے  بچانے  کیلۓ اس کے  آڑے  آ جاتا تھا” (بخاری مسلم) اور سند سے  مروی ہے  کہ یہودیوں نے  کہا "ہم تو اسے  کالا منہ کر کے  کچھ مار پیٹ کر چھوڑ دیتے  ہیں "۔ اور آیت کے  ظاہر ہونے  کے  بعد انہوں نے  کہا، ہے  تو یہی حکم لیکن ہم نے  تو اسے  چھپایا تھا، جو پڑھ رہا تھا اسی نے  رجم کی آیت پر اپنا ہاتھ رکھ دیا تھا، جب اس کا ہاتھ اٹھوایا تو آیت پر اچٹتی ہوئی نظر پڑ گئی۔ ان دونوں کے  رجم کرنے  والوں میں حضرت عبد اللہ بن عمر بھی موجود تھے ، ایک اور روایت میں ہے  کہ ان لوگوں نے  اپنے  آدمی بھیج کر آپ کو بلوایا تھا، اپنے  مدرسے  میں گدی پر آپ کو بٹھایا تھا اور جو اب تورات آپ کے  سامنے  پڑھ رہا تھا، وہ ان کا بہت بڑا عالم تھا۔ ایک روایت میں ہے  کہ آپ نے  ان سے  قسم دے  کر پوچھا تھا کہ تم تورات میں شادی شدہ زانی کی کیا سزا پاتے  ہو؟ تو انہوں نے  یہی جواب دیا تھا لیکن ایک نوجوان کچھ نہ بولا، خاموش ہی کھڑا رہا، آپ نے  اس کی طرف دیکھ کر خاص اسے  دوبارہ قسم دی اور جواب مانگا، اس نے  کہا جب آپ ایسی قسمیں دے  رہے  ہیں  تو میں جھوٹ نہ بولوں گا، واقعی تورات میں ان لوگوں کی سزا سنگساری ہے ۔ آپ نے  فرمایا اچھا پھر یہ بھی سچ سچ بتاؤ کہ پہلے  پہل اس رجم کو تم نے  کیوں اور کس پر سے  اڑایا؟ اس نے  کہا حضرت ہمارے  کسی بادشاہ کے  رشتے  دار، بڑے  آدمی نے  زنا کاری کی۔ اس کی عظمت اور بادشاہ کی ہیبت کے  مارے  اسے  رجم کرو ورنہ اسے  بھڑ چھوڑو۔ آخر ہم نے  مل ملا کر یہ طے  کیا کہ بجائے  رجم کے  اس قسم کی کوئی سزا مقرر کر دی جائے ۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  توراۃ کے  حکم کو جاری کیا اور اسی بارے  میں آیت انا انزلنا الخ، اتری۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بھی ان احکام کے  کاری کرنے  والوں میں سے  ہیں  (احمد ابو داؤد) مسند احمد میں ہے  کہ ایک شخص کو یہودی کالا منہ کئے  لے  جا رہے  تھے  اور اسے  کوڑے  بھی مار رکھے  تھے ، تو آپ نے  بلا کر ان سے  ماجرا پوچھا انہوں نے  کہا کہ اس نے  زنا کیا ہے ۔ آپ نے  فرمایا کہ کیا زانی کی یہی سزا تمہارے  ہاں ہے ؟ کہا ہاں ۔ آپ نے  ان کے  ایک عالم کو بلا کر اسے  سخت قسم دے  کر پوچھا تو اس نے  کہا کہ اگر آپ ایسی قسم نہ دیتے  تو میں ہرگز نہ بتاتا، بات یہ ہے  کہ ہمارے  ہاں دراصل زنا کاری کی سزا سنگساری ہے  لیکن چونکہ امیر امراء اور شرفاء لوگوں میں یہ بدکاری بڑھ گئی تھی اور انہیں  اس قسم کی کی سزا دینی ہم نے  مناسب نہ جانی، اس لئے  انہیں  تو چھوڑ دیتے  تھے  اور اللہ کا حکم مارا نہ جائے  اس لئے  غریب غرباء، کم حیثیت لوگوں کو رجم کرا دیتے  تھے  پھر ہم نے  رائے  زنی کی کہ آؤ کوئی ایسی سزا تجویز کرو کہ شریف و غیر شریف، امیر غریب پر سب پر یکساں جاری ہو سکے  چنانچہ ہمارا سب کا اس بات پر اتفاق ہوا کہ منہ کالے  کر دیں اور کوڑے  لگائیں ۔ یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  حکم دیا کہ ان دونوں کو سنگسار کرو چنانچہ انہیں  رجم کر دیا گیا اور آپ نے  فرمایا اے  اللہ میں پہلا وہ شخص ہوں جس نے  تیرے  ایک مردہ حکم کو زندہ کیا۔ اس پر آیت باایھا الرسول لا یحزنک سے  ہم الکافرون تک نازل ہوئی۔ انہی یہودیوں کے  بارے  میں ۔ اور آیت میں ہے  کہ اللہ کے  نازل کردہ حکم کے  مطابق فیصلہ نہ کرنے  والے  ظالم ہیں  اور آیت میں ہے  (فاسق ہیں  (مسلم وغیرہ اور روایت میں ہے  "واقعہ زنا فدک میں ہوا تھا اور وہاں کے  یہودیوں نے  مدینے  شریف کے  یہودیوں کو لکھ کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  پچھوایا تھا جو عالم ان کا آیا اس کا نام ابن صوریا تھا، یہ آنکھ کا بھینگا تھا، اور اس کے  ساتھ دوسرا عالم بھی تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  جب انہیں  قسم دی تو دونوں نے  قول دیا تھا، آپ نے  انہیں  کہا تھا، تمہیں  اس اللہ کی قسم جس نے  بنو اسرائیل کیلئے  پانی میں راہ کر دی تھی اور ابر کا سایہ ان پر کیا تھا اور فرعونیوں سے  بچا لیا تھا اور من و سلویٰ اتارا تھا۔ اس قسم سے  وہ چونک گئے  اور آپس میں کہنے  لگے  بڑی زبردست قسم ہے ، اس موقع پر جھوٹ بولنا ٹھیک نہیں  تو کہا حضور صلی اللہ علیہ و سلم تورات میں یہ ہے  کہ بری نظر سے  دیکھنا بھی مثل زنا کے  ہے  اور گلے  لگانا بھی اور بوسہ لینا بھی، پھر اگر چار گواہ اس بات کے  ہوں کہ انہوں نے  وخول خروج دیکھا ہے  جیسا کہ سلائی سرمہ دانی میں جاتی آتی ہے  تو رجم واجب ہو جاتا ہے ۔ آپ نے  فرمایا یہی مسئلہ ہے  پھر حکم دیا اور انہیں  رجم کرا دیا گیا”۔ اس پر آیت فان جاء وک الخ، اتری (ابو داؤد وغیرہ) ایک روایت میں جو دو عالم سامنے  لائے  گئے  تھے ، یہ دونوں صوریا کے  لڑکے  تھے ۔ تر حد کا سبب اس روایت میں یہودیوں کی طرف سے  یہ بیان ہوا ہے  کہ جب ہم میں سلطنت نہ رہی تو ہم نے  اپنے  آدمیوں کی جان لینی مناسب نہ سمجھی پھر آپ نے  گواہوں کو بلوا کر گواہی لی جنہوں نے  بیان دیا کہ ہم نے  اپنی آنکھوں سے  انہیں  اس برائی میں دیکھا ہے ، جس طرح سرمہ دانی میں سلائی ہوتی ہے ۔ دراصل توراۃ وغیرہ کا منگوانا ان کے  عالموں کو بلوانا، یہ سب انہیں  الزام دینے  کیلئے  نہ تھا، نہ اس لئے  تھا کہ وہ اسی کے  ماننے  کے  مکلف ہیں ، نہیں  بلکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان واجب العمل ہے ، اس سے  مقصد ایک تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی سچائی کا اظہار تھا کہ اللہ کی وحی سے  آپ نے  یہ معلوم کر لیا کہ ان کی تورات میں بھی حکم رجم موجود ہے  اور یہی نکلا، دوسرے  ان کی رسوائی کہ انہیں  پہلے  کے  انکار کے  بعد اقرار کرنا پڑا اور دنیا پر ظاہر ہو گیا کہ یہ لوگ فرمان الٰہی کو چھپا لینے  والے  اور اپنی رائے  قیاس پر عمل کرنے  والے  ہیں  اور اس لئے  بھی کہ یہ لوگ سچے  دل سے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  پاس اس لئے  نہیں  آئے  تھے  کہ آپ کی فرماں برداری کریں بلکہ محض اس لئے  آئے  تھے  کہ اگر آپ کو بھی اپنے  اجماع کے  موافق پائیں گے  تو اتحاد کر لیں گے  ورنہ ہرگز قبول نہ کریں گے ، اسی لئے  فرمان ہے  کہ "جنہیں  اللہ گمراہ کر دے  تو ان کو کسی قسم سے  راہ راست آنے  کا اختیار نہیں  ہے  ان کے  گندے  دلوں کو پاک کرنے  کا اللہ کا ارادہ نہیں ، یہ دنیا میں ذلیل و خواہ ہوں گے  اور آخرت میں داخل نار ہوں گے ۔ یہ باطل کو کان لگا کر مزے  لے  کر سننے  والے  ہیں  اور رشوت جیسی حرام چیز کو دن دہاڑے  کھانے  والے  ہیں ، بھلا ان کے  نجس دل کیسے  پاک ہوں گے ؟ اور ان کی دعائیں اللہ کیسے  سنے  گا؟ اگر یہ تیرے  پاس آئیں تو تجھے  اختیار ہے  کہ ان کے  فیصلے  کر یا نہ کر اگر تو ان سے  منہ پھیر، لے  جب بھی یہ تیرا کچھ نہیں  بگاڑ سکتے  کیونکہ ان کا قصد اتباع حق نہیں  بلکہ اپنی خواہشوں کی پیروی ہے "۔ بعض بزرگ کہتے  ہیں  یہ آیت منسوخ ہے  اس آیت سے  وان احکم بینھم بما انزل اللہ پھر فرمایا "اگر تو ان میں فیصلے  کرے  تو عدل و انصاف کے  ساتھ کر، گو یہ خود ظالم ہیں  اور عدل سے  ہٹے  ہوئے  ہیں  اور مان لو کہ اللہ تعالیٰ عادل لوگوں سے  محبت رکھتا ہے ۔ پھر انی کی خباثت بد باطنی اور سرکشی بیان ہو رہی ہے  کہ "ایک طرف تو اس کتاب اللہ کو چھوڑ رکھا ہے ، جس کی تابعداری اور حقانیت کے  خود قائل ہیں ، دوسری طرف اس جانب جھک رہے  ہیں ، جسے  نہیں  مانتے  اور جسے  جھوٹ مشہور کر رکھا ہے ، پھر اس میں بھی نیت بد ہے  کہ اگر وہاں سے  ہماری خواہش ہے  مطابق حکم ملے  گا تو لے  لیں گے ، ورنہ چھوڑ چھاڑ دیں گے "۔ یہ فرمایا کہ یہ کیسے  تیری فرماں برداری کریں گے ؟ انہوں نے  تو تورات کو بھی چھوڑ رکھا ہے ، جس میں اللہ کے  احکامات ہونے  کا اقرار نہیں  بھی ہے  لیکن پھر بھی بے  ایمانی کر کے  اس سے  پھر جاتے  ہیں ۔ پھر اس تورات کی مدحت و تعریف بیان فرمائی جو اس نے  اپنے  برگزیدہ رسول حضرت موسیٰ بن عمران پر نازل فرمائی تھی کہ اس میں ہدایت و نورانیت تھی۔ انبیاء جو اللہ کے  زیر فرمان تھے ، اسی پر فیصلے  کرتے  رہے ، یہودیوں میں اسی کے  احکام جاری کرتے  رہے ، تبدیلی اور تحریف سے  بچے  رہے ، ربانی یعنی عابد، علماء اور احبار یعنی ذی علم لوگ بھی اسی روش پر رہے ۔ کیونکہ انہیں  یہ پاک کتاب سونپی گئی تھی اور اس کے  اظہار کا اور اس پر عمل کرنے  کا انہیں  حکم دیا گیا تھا اور وہ اس پر گواہ و شاہد تھے ۔ اب تمہیں  چاہئے  کہ بجز اللہ کے  کسی اور سے  نہ ڈرو۔ ہاں قدم قدم اور لمحہ لمحہ پر خوف رکھو اور میری آیتوں کو تھوڑے  تھوڑے  مول فروخت نہ کیا کرو۔ جان لو کہ اللہ کی وحی کا حکم جو نہ مانے  وہ کافر ہے ۔ اس میں دو قول ہیں  جو ابھی بیان ہوں گے  انشاء اللہ۔ ان آیتوں کا ایک شان نزول بھی سن لیجئے ۔ ابن عباس سے  مروی ہے  کہ ایسے  لوگوں کو اس آیت میں تو کافر کہا دوسری میں ظالم تیسری میں فاسق۔ بات یہ ہے  کہ یہودیوں کے  دو گروہ تھے ، ایک غالب تھا، دوسرا مغلوب۔ ان کی آپس میں اس بات پر صلح ہوئی تھی کہ غالب، ذی عزت فرقے  کا کوئی شخص اگر مغلوب ذلیل فرقے  کے  کسی شخص کو قتل کر ڈالے  تو پچاس وسق دیت دے  اور ذلیل لوگوں میں سے  کوئی عزیز کو قتل کر دے  تو ایک سو دسق دیت دے ۔ یہی رواج ان میں چلا آ رہا تھا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم مدینے  میں آئے ، اس کے  بعد ایک واقعہ ایسا ہوا کہ ان نیچے  والے  یہودیوں میں سے  کسی نے  کسی اونچے  یہودی کو مار ڈالا۔ یہاں سے  آدمی گیا کہ لاؤ سو دسق دلاؤ دلواؤ، وہاں سے  جواب ملا کہ یہ صریح ناانصافی ہے  کہ ہم دونوں ایک ہی قبیلے  کے ، ایک ہی دین کے ، ایک ہی نسب کے ، ایک ہی شہر کے  پھر ہماری دیت کم اور تمہاری زیادہ؟ ہم چونکہ اب تک تمہارے  دبے  ہوئے  تھے ، اس ناانصافی کو بادل ناخواستہ برداشت کرتے  رہے  لیکن اب جب کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم جیسے  عادل بادشاہ یہاں آ گئے  ہیں  ہم تمہیں  اتنی ہی دیت دیں گے  جتنی تم ہمیں دو۔ اس بات پر ادھر ادھر سے  آستینیں چڑھ گئیں، پھر آپس میں یہ بات طے  ہوئی کہ اچھا اس جھگڑے  کا فیصلہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کریں گے ۔ لیکن اونچی قوم کے  لوگوں نے  آپس میں جب مشورہ کیا تو ان کے  سمجھداروں نے  کہا دیکھو اس سے  ہاتھ دھو رکھو کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کوئی ناانصافی پہ مبنی حکم کریں ۔ یہ تو صریح زیادتی ہے  کہ ہم آدھی دیں اور پوری لیں اور فی الواقع ان لوگوں نے  دب کر اسے  منظور کیا تھا جو تم نے  آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم اور ثالث مقرر کیا ہے  تو یقیناً تمہارا یہ حق مارا جائے  گا کسی نے  رائے  دی کہ اچھا یوں کرو، کسی کو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  پاس چپکے  سے  بھیج دو، وہ معلوم کر آئے  کہ آپ فیصلہ کیا کریں گے ؟ اگر ہماری حمایت میں ہوا تب تو بہت اچھا چلو اور ان سے  حق حاصل کر آؤ اور اگر خلاف ہوا تو پھر الگ تھلگ ہی اچھے  ہیں ۔ چنانچہ مدینہ کے  چند منافقوں کو انہوں نے  جاسوس بنا کر حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے  پاس بھیجا۔ اس سے  پہلے  کہ وہ یہاں پہنچیں اللہ تعالیٰ نے  یہ آیتیں اتار کر اپنے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو ان دونوں فرقوں کے  بد ارادوں سے  مطلوع فرما دیا (ابو داؤد) ایک روایت میں ہے  کہ یہ دونوں قبیلے  بنو نضیر اور بنو قریظہ تھے ۔ بنو نضیر کی پوری دیت تھی اور بنو قریظہ کی آدھی۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  دونوں کی دیت یکساں دینے  کا فیصلہ صادر فرمایا۔ ایک روایت ہے  کہ قرظی اگر کسی نضری کو قتل کر ڈالے  تو اس سے  قصاص لیتے  تھے  لیکن اس کے  خلاف میں قصاص تھا ہی نہیں  سو دسق دیت تھی۔ یہ بہت ممکن ہے  کہ ادھر یہ واقعہ ہوا، ادھر زنا کا قصہ واقع ہوا، جس کا تفصیلی بیان گزر چکا ہے  ان دونوں پر یہ آیتیں نازل ہوئیں واللہ اعلم۔ ہاں ایک بات اور ہے  جس سے  اس دوسری شان نزول کی تقویت ہوتی ہے  وہ یہ کہ اس کے  بعد ہی فرمایا ہے  وکتبنا علیھم فیھا الخ، یعنی ہم نے  یہودیوں پر تورات میں یہ حکم فرض کر دیا تھا کہ جان کے  عوض جان، آنکھ کے  عوض آنکھ۔ واللہ اعلم۔ پھر انہیں  کافی کہا گیا جو اللہ کی شریعت اور اس کی اتاری ہوئی وحی کے  مطابق فیصلے  اور حکم نہ کریں گو یہ آیت شان نزول کے  اعتبار سے  بقول مفسرین اہل کتاب کے  بارے  میں ہے  لیکن حکم کے  اعتبار سے  ہر شخص کو شامل ہے ۔ بنو اسرائیل کے  بارے  میں اتری اور اس امت کا بھی یہی حکم ہے ۔ ابن مسعود فرماتے  ہیں  کہ رشوت حرام ہے  اور رشوت ستانی کے  بعد کسی شرعی مسئلہ کے  خلاف فتویٰ دینا کفر ہے ۔ سدی فرماتے  ہیں  جس نے  وحی الٰہی کے  خلاف عمداً فتویٰ دیا جاننے  کے  باوجود اس کے  خلاف کیا وہ کافر ہے ۔ ابن عباس فرماتے  ہیں  جس نے  اللہ کے  فرمان سے  انکار کیا، اس کا یہ حکم ہے  اور جس نے  انکار تو نہ کیا لیکن اس کے  مطابق نہ کہا وہ ظالم اور فاسق ہے ۔ خواہ اہل کتاب ہو خواہ کوئی اور شعبی فرماتے  ہیں  "مسلمانوں میں جس نے  کتاب کے  خلاف فتویٰ دیا وہ کافر ہے  اور یہودیوں میں دیا ہو تو ظالم ہے  اور نصرانیوں میں دیا ہو تو فاسق ہے "۔ ابن عباس فرماتے  ہیں  "اس کا کفر اس آیت کے  ساتھ ہے "۔ طاؤس فرماتے  ہیں  "اس کا کفر اس کے  کفر جیسا نہیں  جو سرے  سے  اللہ کے  رسول قرآن اور فرشتوں کا منکر ہو”۔ عطا فرماتے  ہیں  "کتم (چھپانا) کفر سے  کم ہے  اسی طرح ظلم و فسق کے  بھی ادنیٰ اعلیٰ درجے  ہیں ۔ اس کفر سے  وہ ملت اسلام سے  پھر جانے  والا جاتا ہے "۔ ابن عباس فرماتے  ہیں  "اس سے  مراد وہ کفر نہیں  جس کی طرف تم جا رہے  ہو”۔

۴۵

قتل کے  بدلے  تقاضائے  عدل ہے

یہودیوں کو اور سرزنش کی جا رہی ہے  کہ ان کی کتاب میں صاف لفظوں میں جو حکم تھا یہ کھلم کھلا اس کا بھی خلاف کر رہے  ہیں  اور سرکشی اور بے  پرواہی سے  اسے  بھی چھوڑ رہے  ہیں ۔ نضری یہودیوں کو تو قرظی یہودیوں کے  بدلے  قتل کرتے  ہیں  لیکن قریظہ کے  یہود کو بنو نضیر کے  یہود کے  عوض قتل نہیں  کرتے  بلکہ دیت لے  کر چھوڑ دیتے  ہیں ۔ اسی طرح انہوں نے  شادی شدہ زانی کی سنگساری کے  حکم کو بدل دیا ہے  اور صرف کالا منہ کر کے  رسوا کر کے  مار پیٹ کر چھوڑ دیتے  ہیں ۔ اسی لئے  وہاں تو انہیں  کافر کہا یہاں انصاف نہ کرنے  کی وجہ سے  انہیں  ظالم کہا۔ ایک حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا والعین پڑھنا بھی مروی ہے  (ابو داؤد وغیرہ) علماء کرام کا قول ہے  کہ اگلی شریعت چاہے  ہمارے  سامنے  بطور تقرر بیان کی جائے  اور منسوخ نہ ہو تو وہ ہمارے  لئے  بھی شریعت ہے ۔ جیسے  یہ احکام سب کے  سب ہماری شریعت میں بھی اسی طرح ہیں ۔ امام نووی فرماتے  ہیں  اس مسئلے  میں تین مسلک ہیں  ایک تو وہی جو بیان ہوا، ایک اس کے  بالکل برعکس ایک یہ کہ صرف ابراہیمی شریعت جاری اور باقی ہے  اور کوئی نہیں ۔ اس آیت کے  عموم سے  یہ بھی استدلال کیا گیا ہے  کہ مرد عورت کے  بدلے  بھی قتل کیا جائے  گا کیونکہ یہاں لفظ نفس ہے  جو مرد عورت دونوں کو شامل ہے ۔ چنانچہ حدیث شریف میں بھی ہے  کہ مرد عورت کے  خون کے  بدلے  قتل کیا جائے  گا اور حدیث میں ہے  کہ مسلمانوں کے  خون آپس میں مساوی ہیں ۔ بعض بزرگوں سے  مروی ہے  کہ "مرد جب کسی عورت کو قتل کر دے  تو اسے  اس کے  بدلے  قتل نہ کیا جائے  گا بلکہ صرف دیت لی جائے  گی” لیکن یہ قول جمہور کے  خلاف ہے ۔ امام ابو حنیفہ تو فرماتے  ہیں  کہ "ذی کافر کے  قتل کے  بدلے  بھی مسلمان قتل کر دیا جائے  گا اور غلام کے  قتل کے  بدلے  آزاد بھی قتل کر دیا جائے  گا۔ لیکن یہ مذہب جمہور کے  خلاف ہے ۔ بخاری مسلم میں ہے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  ہیں  "مسلمان کافر کے  بدلے  قتل کیا نہ کیا جائے  گا اور سلف کے  بہت سے  آثار اس بارے  میں موجود ہیں  کہ وہ غلام کا قصاص آزاد سے  نہیں  لیتے  تھے  اور آزاد غلام کے  بدلے  قتل نہ کیا جائے  گا۔ حدیثیں بھی اس بارے  میں مروی ہیں  لیکن صحت کو نہیں  پہنچیں ۔ امام شافعی تو فرماتے  ہیں  اس مسئلہ میں امام ابو حنیفہ کے  خلاف اجماع ہے  لیکن ان باتوں سے  اس قول کا بطلان لازم نہیں  آتا تاوقتیکہ آیت کے  عموم کو خاص کرنے  والی کوئی زبردست صاف ثابت دلیل نہ ہو۔ بخاری و مسلم میں ہے  کہ "حضرت انس بن نضر کی پھوپھی ربیع نے  ایک لونڈی کے  دانت توڑ دیئے ، اب لوگوں نے  اس سے  معافی چاہی لیکن وہ نہ مانی، حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  پاس معاملہ آیا آپ نے  بدلہ لینے  کا حکم دے  دیا، اس پر حضرت انس بن نضر نے  فرمایا کیا اس عورت کے  سامنے  کے  دانت توڑ دیئے  جائیں گے ؟ آپ نے  فرمایا ہاں اے  انس اللہ کی کتاب میں قصاص کا حکم موجود ہے ۔ یہ سن کر فرمایا نہیں  نہیں  یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قسم ہے  اس اللہ کی جس نے  آپ کو حق کے  ساتھ بھیجا ہے ، اس کے  دانت ہرگز نہ توڑے  جائیں گے ، چنانچہ ہوا بھی یہی کہ لوگ راضی رضامند ہو گئے  اور قصاص چھوڑ دیا بلکہ معاف کر دیا۔ اس وقت آپ نے  فرمایا بعض بندگان رب ایسے  بھی ہیں  کہ اگر وہ اللہ پر کوئی قسم کھا لیں تو اللہ تعالیٰ اسے  پوری ہی کر دے "۔ دوسری روایت میں ہے  کہ "پہلے  انہوں نے  نہ تو معافی دی نہ دیت لینی منظور کی۔ "نسائی وغیرہ میں ہے ، ایک غریب جماعت کے  غلام نے  کسی مالدار جماعت کے  غلام کے  کان کاٹ دیئے ، ان لوگوں نے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  آ کر عرض کیا کہ ہم لوگ فقیر مسکین ہیں ، مال ہمارے  پاس نہیں  تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  ان پر کوئی جرمانہ نہ رکھا۔ ہو سکتا ہے  کہ یہ غلام بالغ نہ ہو اور ہو سکتا ہے  کہ آپ نے  دیت اپنے  پاس سے  دے  دی ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے  کہ ان سے  سفارش کر کے  معاف کرا لیا ہو۔ ابن عباس فرماتے  ہیں  کہ جان جان کے  بدلے  ماری جائے  گی، آنکھ پھوڑ دینے  والے  کی آنکھ پھوڑ دی جائے  گی، ناک کاٹنے  والے  کا ناک کاٹ دیا جائے  گا، دانت توڑنے  والے  کا دانت توڑ دیا جائے  گا اور زخم کا بھی بدلہ لیا جائے  گا۔ اس میں آزاد مسلمان سب کے  سب برابر ہیں ۔ مرد عورت ایک ہی حکم میں ۔ جبکہ یہ کام قصداً کئے  گئے  ہوں ۔ اس میں غلام بھی آپس میں برابر ہیں ، ان کے  مرد بھی اور عورتیں بھی۔ قاعدہ اعضا کا کٹنا تو جوڑ سے  ہوتا ہے  اس میں تو قصاص واجب ہے ۔ جیسے  ہاتھ، پیر، قدم، ہتھیلی وغیرہ۔ لیکن جو زخم جوڑ پر نہ ہوں بلکہ ہڈی پر آئے  ہوں، ان کی بابت حضرت امام مالک فرماتے  ہیں  کہ "ان میں بھی قصاص ہے  مگر ران میں اور اس جیسے  اعضا میں اس لئے  کہ وہ خوف و خطر کی جگہ ہے "۔ ان کے  برخلاف ابو حنیفہ اور ان کے  دونوں ساتھیوں کا مذہب ہے  کہ کسی ہڈی میں قصاص نہیں ، بجز دانت کے  اور امام شافعی کے  نزدیک مطلق کسی ہڈی کا قصاص نہیں ۔ یہی مروی ہے  حضرت عمر بن خطاب اور حضرت ابن عباس سے  بھی اور یہی کہتے  ہیں  عطا، شبعی، حسن بصری، زہری، ابراہیم، تخعی اور عمر بن عبد العزیز بھی اور اسی کی طرف گئے  ہیں  سفیان ثوری اور لیث بن سعد بھی۔ امام احمد سے  بھی یہی قول زیادہ مشہور ہے ۔ امام ابو حنیفہ کی دلیل وہی حضرت انس والی روایت ہے  جس میں ربیع سے  دانت کا قصاص دلوانے  کا حکم حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمودہ ہے ۔ لیکن دراصل اس روایت سے  یہ مذہب ثابت نہیں  ہوتا۔ کیونکہ اس میں یہ لفظ ہیں  کہ اس کے  سامنے  کے  دانت اس نے  توڑ دیئے  تھے  اور ہو سکتا ہے  کہ بغیر ٹوٹنے  کے  جھڑ گئے  ہوں ۔ اس حالت میں قصاص اجماع سے  واجب ہے ۔ ان کی دلیل کا پورا حصہ وہ ہے  جو ابن ماجہ میں ہے  کہ "ایک شخص نے  دوسرے  کے  بازو کو کہنی سے  نیچے  نیچے  ایک تلوار مار دی، جس سے  اس کی کلائی کٹ گئی، حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے  پاس مقدمہ آیا، آپ نے  حکم دیا کہ دیت ادا کرو اس نے  کہا میں قصاص چاہتا ہوں، آپ نے  فرمایا اسی کو لے  لے  اللہ تجھے  اسی میں برکت دے  گا اور آپ نے  قصاص کو نہیں  فرمایا”۔ لیکن یہ حدیث بالکل ضعیف اور گری ہوئی ہے ، اس کے  ایک راوی ہشم بن عکلی اعرابی ضعیف ہیں ، ان کی حدیث سے  حجت نہیں  پکڑی جاتی، دوسرے  راوی غران بن جاریہ اعرابی بھی ضعیف ہیں ۔ پھر وہ کہتے  ہیں  کہ زخموں کا قصاص ان کے  درست ہو جانے  اور بھر جانے  سے  پہلے  لینا جائز نہیں  اور اگر پہلے  لے  لیا گیا پھر زخم بڑھ گیا تو کوئی بدلہ دلوایا نہ جائے  گا۔ اس کی دلیل مسند احمد کی یہ حدیث ہے  کہ ایک شخص نے  دوسرے  کے  گھٹنے  میں چوٹ مار دی، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے  پاس آیا اور کہا مجھے  بدلہ دلوایئے ، آپ نے  دلوا دیا، اس کے  بعد وہ پھر آیا اور کہنے  لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں تو لنگڑا ہو گیا، آپ نے  فرمایا میں نے  تجھے  منع کیا تھا لیکن تو نہ مانا، اب تیرے  اس لنگڑے  پن کا بدلہ کچھ نہیں ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  زخموں کے  بھر جانے  سے  پہلے  بدلہ لینے  کو منع فرما دیا۔ مسئلہ٭٭ اگر کسی نے  دوسرے  کو زخمی کیا اور بدلہ اس سے  لے  لیا گیا، اس میں یہ مر گیا تو اس پر کچھ نہیں ۔ مالک، شافعی، احمد اور جمہوری صحابہ و تابعین کا یہی قول ہے ۔ ابو حنیفہ کا قول ہے  کہ اس پر دیت واجب ہے ، اسی کے  مال میں سے ۔ بعض اور بزرگ فرماتے  ہیں  "اس کے  ماں باپ کی طرف کے  رشتہ داروں کے  مال پر وہ دیت واجب ہے "۔ بعض اور حضرات کہتے  ہیں  "بقدر اس کے  بدلے  کے  تو ساقط ہے  باقی اسی کے  مال میں سے  واجب ہے "۔ پھر فرماتا ہے  "جو شخص قصاص سے  درگزر کرے  اور بطور صدقے  کے  اپنے  بدلے  کو معاف کر دے  تو زخمی کرنے  والے  کا کفارہ ہو گیا اور جو زخمی ہوا ہے ، اسے  ثواب ہو گا جو اللہ تعالیٰ کے  ذمے  ہے "۔ بعض نے  یہ بھی کہا ہے  کہ "وہ زخمی کیلئے  کفارہ ہے  یعنی اس کے  گناہ اسی زخم کی مقدار سے  اللہ تعالیٰ کے  ذمے  ہے "۔ بعض نے  یہ بھی کہا ہے  کہ "وہ زخمی کیلئے  کفارہ ہے  یعنی اس کے  گناہ اسی زخم کی مقدار سے  اللہ تعالیٰ بخش دیتا ہے "۔ ایک مرفوع حدیث میں یہ آیا ہے  کہ "اگر چوتھائی دیت کے  برابر کی چیز ہے  اور اس نے  درگزر کر لیا تو اس کے  چوتھائی گناہ معاف ہو جاتے  ہیں ۔ ثلث ہے  تو تہائی گناہ، آدھی ہے  تو آدھے  گناہ اور پوری ہے  تو پورے  گناہ”۔ ایک قریشی نے  ایک انصاری کو زور سے  دھکا دے  دیا جس سے  اس کے  آگے  کے  دانت ٹوٹ گئے ۔ حضرت معاویہ کے  پاس مقدمہ گیا اور جب وہ بہت سر ہو گیا تو آپ نے  فرمایا، اچھا جا تجھے  اختیار ہے ۔ حضرتٍ ابو درداء وہیں  تھے  فرمانے  لگے  میں نے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے  سنا ہے  کہ "جس مسلمان کے  جسم میں کوئی ایذا پہنچائی جائے  اور وہ صبر کر لے ، بدلہ نہ لے  تو اللہ اس کے  درجے  بڑھاتا ہے  اور اس کی خطائیں معاف فرماتا ہے ، اس انصاری نے  یہ سن کر کہا، کیا سچ مچ آپ نے  خود ہی اسے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی زبانی سنا ہے ؟ آپ نے  فرمایا ہاں میرے  ان کانوں نے  سنا ہے  اور میرے  دل نے  یاد کیا ہے ، اس نے  کہا پھر گواہ رہو کہ میں نے  اپنے  مجرم کو معاف کر دیا۔ حضرت معاویہ یہ سن کر بہت خوش ہوئے  اور اسے  انعام دیا” (ابن جریر) ترمذی میں بھی یہ روایت ہے  لیکن امام ترمذی کہتے  ہیں  یہ حدیث غریب ہے ۔ ابو سفر راوی کا ٍابو درداء سے  سننا ثابت نہیں  اور روایت میں ہے  کہ تین گنی دیت وہ دینا چاہتا تھا لیکن یہ راضی نہیں  ہوا تھا، اس حدیث کے  الفاظ یہ ہیں  کہ "جو شخص خون یا اس سے  کم کو معاف کر دے ، وہ اس کی پیدائش سے  لے  کر موت تک کا کفارہ ہے "۔ مسند میں ہے  کہ "جس کے  جسم میں کوئی زخم لگے  اور وہ معاف کر دے  تو اللہ تعالیٰ اس کے  اتنے  ہی گناہ معاف فرما دیتا ہے "۔ مسند میں یہ بھی حدیث ہے  "اللہ کے  حکم کے  مطابق حکم نہ کرنے  والے  ظالم ہیں "۔ پہلے  گزر چکا ہے  کہ کفر کفر سے  کم ہے ، ظلم میں بھی تفاوت ہے  اور فسق بھی درجے  ہیں ۔

۴۶

باطل کے  غلام لوگ٭٭

انبیاء بنی اسرائیل کے  پیچھے  ہم عیسیٰ نبی کو لائے  جو توراۃ پر ایمان رکھتے  تھے ، اس کے  احکام کے  مطابق لوگوں میں فیصلے  کرتے  تھے ، ہم نے  انہیں  بھی اپنی کتاب انجیل دی، جس میں حق کی ہدایت تھی اور شبہات اور مشکلات کی توضیح تھی اور پہلی الہامی کتابوں کی تصدیق تھی، ہاں چند مسائل جن میں یہودی اختلاف کرتے  تھے ، ان کے  صاف فیصلے  اس میں موجود تھے ۔ جیسے  قرآن میں اور جگہ ہے  کہ "حضرت عیسیٰ نے  فرمایا، میں تمہارے  لئے  بعض وہ چیزیں حلال کروں گا جو تم پر حرام کر دی گئی ہیں "۔ اسی لئے  علماء کا مشہور مقولہ ہے  کہ انجیل نے  تورات کے  بعض احکام منسوخ کر دیئے  ہیں ۔ انجیل سے  پارسا لوگوں کی رہنمائی اور وعظ و پند ہوتی تھی کہ وہ نیکی کی طرف رغبت کریں اور برائی سے  بچیں ۔ اھل الانجیل بھی پڑھا گیا ہے  اس صورت میں والیحکم میں لام کے  معنی میں ہو گا۔ مطلب یہ ہو گا کہ ہم نے  حضرت عیسیٰ کو انجیل اس لئے  دی تھی کہ وہ اپنے  زمانے  کے  اپنے  ماننے  والوں کو اسی کے  مطابق چلائیں اور اس لام کو امر کا لام سمجھا جائے  اور مشہور قراۃ ولیحکم پڑھی جائے  تو معنی یہ ہوں گے  کہ انہیں  چاہئے  کہ انجیل کے  کل احکام پر ایمان لائیں اور اسی کے  مطابق فیصلہ کریں ۔ جیسے  اور آیت میں ہے  قل یا اھل الکتاب لستم علی شئی الخ، یعنی اے  اہل کتاب جب تک تم تورات و انجیل پر اور جو کچھ اللہ کی طرف سے  اترا ہے ، اگر اس پر قائم ہو تو تم کسی چیز پر نہیں  ہوا۔ اور آیت میں ہے  الذین یتبعون الرسول النبی الخ، جو لوگ اس رسول نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تابعداری کرتے  ہیں ، جس کی صفت اپنے  ہاں توراۃ میں لکھی ہوئی پاتے  ہیں  وہ لوگ جو کتاب اللہ اور اپنے  نبی کے  فرمان کے  مطابق حکم نہ کریں وہ اللہ کی اطاعت سے  خارج، حق کے  تارک اور باطل کے  عامل ہیں ، یہ آیت نصرانیوں کے  حق میں ہے ۔ روش آیت سے  بھی یہ ظاہر ہے  اور پہلے  بیان بھی گزر چکا ہے ۔

۴۸

قرآن ایک مستقل شریعت ہے

تورات و انجیل کی ثنا و صفت اور تعریف و مدحت کے  بعد اب قرآن عظیم کی بزرگی بیان ہو رہی ہے  کہ "ہم نے  اسے  حق و صداقت کے  ساتھ نازل فرمایا ہے  یہ بالیقین اللہ واحد کی طرف سے  ہے  اور اس کا کلام ہے ۔ یہ تمام پہلی الٰہی کتابوں کو سچا مانتا ہے  اور ان کتابوں میں بھی اس کی صفت و ثنا موجود ہے  اور یہ بھی بیان ان میں ہے  کہ یہ پاک اور آخری کتاب آخری اور افضل رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر اترے  گی، پس ہر دانا شخص اس پر یقین رکھتا ہے  اور اسے  مانتا ہے ۔ جیسے  فرمان ہے  ان الذین اوتو العلم من قبلہ الخ، جنہیں  اس سے  پہلے  علم دیا گیا تھا، جب ان کے  سامنے  اس کی تلاوت کی جاتی ہے  تو وہ ٹھوڑیوں کے  بل سجدے  میں گر پڑتے  ہیں  اور زبانی اقرار کرتے  ہیں  کہ ہمارے  رب کا وعدہ سچا ہے  اور وہ سچا ثابت ہو چکا، اس نے  اگلے  رسولوں کی زبانی جو خبر دی تھی وہ پوری ہوئی اور آخری رسول رسولوں کے  سرتاج رسول آ ہی گئے  اور یہ کتاب ان پہلی کتابوں کی امین ہے ۔ یعنی اس میں جو کچھ ہے ، وہی پہلی کتابوں میں بھی تھا، اب اس کے  خلاف کوئی کہے  کہ فلاں پہلی کتاب میں یوں ہے  تو یہ غلط ہے ۔ یہ ان کی سچی گواہ اور انہیں  گھیر لینے  والی اور سمیٹ لینے  والی ہے ۔ جو جو اچھائیاں پہلے  کی تمام کتابوں میں جمع تھیں، وہ سب اس آخری کتاب میں یکجا موجود ہیں ، اسی لئے  یہ سب پر حاکم اور سب پر مقدم ہے  اور اس کی حفاظت کا کفیل خود اللہ تعالیٰ ہے ۔ جیسے  فرمایا انا نحن نزلنا الذکر وانا الہ لحافظون بعض نے  کہا ہے  کہ مراد اس سے  یہ ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم اس کتاب پر امین ہیں ۔ واقع میں تو یہ قول بہت صحیح ہے  لیکن اس آیت کی تفسیریہ کرنی ٹھیک نہیں  بلکہ عربی زبان کے  اعتبار سے  بھی یہ غور طلب امر ہے ۔ صحیح تفسیر پہلی ہی ہے ۔ امام ابن جریر نے  بھی حضرت مجاہد سے  اس قول کو نقل کر کے  فرمایا ہے  ” یہ بہت دور کی بات ہے  بلکہ ٹھیک نہیں  ہے  اس لئے  مھیمن کا عطف مصدق پر ہے ، پس یہ بھی اسی چیز کی صفت ہے  جس کی صفت مصدق کا لفظ تھا”۔ اگر حضرت مجاہد کے  معنی صحیح مان لئے  جائیں تو عبارت بغیر عطف کے  ہونی چاہئے  تھی خواجہ عرب ہوں، خواہ عجم ہوں، خواہ لکھے  پڑھے  ہوں، خواہ ان پڑھ ہوں ۔ اللہ کی طرف سے  نازل کردہ سے  مراد وحی اللہ ہے  خواہ وہ اس کتاب کی صورت میں ہو، خواہ جو پہلے  احکام اللہ نے  مقرر کر رکھے  ہوں ۔ ابن عباس فرماتے  ہیں  اس آیت سے  پہلے  تو آپ کو آزادی دی گئی تھی، اگر چاہیں  ان میں فیصلے  کریں چاہیں  کریں، لیکن اس آیت نے  حکم دیا کہ وحی الٰہی کے  ساتھ ان میں فیصلے  کرنے  ضروری ہیں ، ان بدنصیب جاہلوں نے  اپنی طرف سے  جو احکام گھڑ لئے  ہیں  اور ان کی وجہ سے  کتاب اللہ کو پس پشت ڈال دیا ہے ، خبردار اے  نبی صلی اللہ علیہ و سلم تو ان کی چاہتوں کے  پیچھے  لگ کر حق کو نہ چھوڑ بیٹھنا۔ ان میں سے  ہر ایک کیلئے  ہم نے  راستہ اور طریقہ بنا دیا ہے ۔ کسی چیز کی طرف ابتداء کرنے  کو شرعۃ کہتے  ہیں ، منہاج لغت میں کہتے  ہیں  واضح اور آسان راستے  کو۔ پس ان دونوں لفظوں کی یہی تفسیر زیادہ مناسب ہے ۔ پہلی تمام شریعتیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے  تھیں، وہ سب توحید پر متفق تھیں، البتہ چھوٹے  موٹے  احکام میں قدرے  ہیر پھیر تھا۔ جیسے  حدیث شریف میں ہے  "ہم سب انبیاء علاتی بھائی ہیں ، ہم سب کا دین ایک ہی ہے ، ہر نبی توحید کے  ساتھ بھیجا جاتا رہا اور ہر آسمانی کتاب میں توحید کا بیان اس کا ثبوت اور اسی کی طرف دعوت دی جاتی رہی”۔ جیسے  قرآن فرماتا ہے  کہ "تجھ سے  پہلے  جتنے  بھی رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہم نے  بھیجے ، ان سب کی طرف یہی وحی کی کہ میرے  سوا کوئی معبود حقیقی نہیں ، تم سب صرف میری ہی عبادت کرتے  رہو”۔ اور آیت میں ولقدبعثنا الخ، ہم نے  ہر امت کو بزبان رسول کہلوا دیا کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے  سوال دوسروں کی عبادت سے  بچو۔ احکام کا اختلاف ضرور، کوئی چیز کسی زمانے  میں حرام تھی پھر حلال ہو گئی یا اس کے  برعکس۔ یا کسی حکم میں تخفیف تھی اب تاکید ہو گئی یا اس کے  خلاف اور یہ بھی حکمت اور مصلحت اور حجت ربانی کے  ساتھ مثلاً توراۃ ایک شریعت ہے ، انجیل ایک شریعت ہے ، قرآن ایک مستقل شریعت ہے  تاکہ ہر زمانے  کے  فرمانبرداروں اور نافرمانوں کا امتحان ہو جایا کرے ۔ البتہ توحید سب زمانوں میں یکساں رہی اور معنی اس جملہ کے  یہ ہیں  کہ اے  امت محمد صلی اللہ علیہ و سلم ! تم میں سے  ہر شخص کیلئے  ہم نے  اپنی اس کتاب قرآن کریم کو شریعت اور طریقہ بنایا ہے ، تم سب کو اس کی اقتدار اور تابعداری کرنی چاہئے ۔ اس صورت میں جلعنا کے  بعد ضمیرہ کی محذوف ماننی پڑے  گی۔ پس بہترین مقاصد حاصل کرنے  کا ذریعہ اور طریقہ صرف قرآن کریم ہی ہے  لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے  اور اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے  کہ اس کے  بعد ہی فرمان ہوا ہے  کہ اگر اللہ چاہتا تو سب کو ایک ہی امت کر دیتا۔ پس معلوم ہوا کہ اگلا خطاب صرف اس امت سے  ہی نہیں  بلکہ سب امتوں سے  ہے  اور اس میں اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی اور کامل قدرت کا بیان ہے  کہ اگر وہ چاہتا تو سب لوگوں کو ایک ہی شریعت اور دین پر کر دیتا کوئی تبدیلی کسی وقت نہ ہوتی۔ لیکن رب کی حکمت کاملہ کا تقاضا یہ ہوا کہ علیحدہ علیحدہ شریعتیں مقرر کرے ، ایک کے  بعد دوسرا نبی بھیجے  اور بعض احکام اگلے  نبی کے  پچھلے  نبی سے  بدلوا دے ، یہاں تک کہ اگلے  دین حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت سے  منسوخ ہو گئے  اور آپ تمام روئے  زمین کی طرف بھیجے  گئے  اور خاتم الانبیاء بنا کر بھیجے  گئے ۔ یہ مختلف شریعتیں صرف تمہاری آزمائش کیلئے  ہوئیں تاکہ تابعداروں کو جزا اور نافرمانوں کو سزا ملے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے  کہ وہ تمہیں  آزمائے ، اس چیز میں جو تمہیں  اس نے  دی ہے  یعنی کتاب۔ پس تمہیں  خیرات اور نیکیوں کی طرف سبقت اور دوڑ کرنی چاہئے ۔ اللہ کی اطاعت، اس کی شریعت کی فرمانبرداری کی طرف آگے  بڑھنا چاہئے  اور اس آخری شریعت، آخری کتاب اور آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کی بہ دل و جاں فرماں برداری کرنی چاہئے ۔ لوگو! تم سب کا مرجع و ماویٰ اور لوٹنا پھرنا اللہ ہی کی طرف ہے ، وہاں وہ تمہیں  تمہارے  اختلاف کی اصلیت بتا دے  گا۔ سچوں کو ان کی سچائی کا اچھا بھل دے  گا اور بروں کو ان کی کج بحثی، سرکشی اور خواہش نفس کی پیروی کی سزا دے  گا۔ جو حق کو ماننا تو ایک طرف بلکہ حق سے  چڑتے  ہیں  اور مقابلہ کرتے  ہیں ۔ ضحاک کہتے  ہیں  مراد امت محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہے ، مگر اول ہی اولیٰ ہے ۔ پھر پہلی بات کی اور تاکید ہو رہی ہے  اور اس کے  خلاف سے  روکا جاتا ہے  اور فرمایا جاتا ہے  کہ "دیکھو کہیں  اس خائن، مکار، کذاب، کفار یہود کی باتوں میں آ کر اللہ کے  کسی حکم سے  ادھر ادھر نہ ہو جانا۔ اگر وہ تیرے  احکام سے  رو گردانی کریں اور شریعت کے  خلاف کریں تو تو سمجھ لے  کر ان کی سیاہ کاریوں کی وجہ سے  اللہ کا کوئی عذاب ان پر آنے  والا ہے ۔ اسی لئے  توفیق خیر ان سے  چھین لی گئی ہے ۔ اکثر لوگ فاسق ہیں  یعنی اطاعت حق سے  خارج۔ اللہ کے  دین کے  مخالف، ہدایت سے  دور ہیں ۔ ” جیسے  فرمایا وما اکثر الناس ولو حرصت بمومنین یعنی گو تو حرص کر کے  چاہے  لیکن اکثر لوگ مومن نہیں  ہیں  ۔ اور فرمایا و ان تطع اکثر من فی الارض یضلوک عن سبیل اللہ اگر تو زمین والوں کی اکثریت کی مانے  گا تو وہ تجھے  بھی راہ حق سے  بہکا دیں گے ۔ یہودیوں کے  چند بڑے  بڑے  رئیسوں اور عالموں نے  آپس میں ایک میٹنگ کر کے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ آپ جانتے  ہیں  اگر ہم آپ کو مان لیں تو تمام یہود آپ کی نبوت کا اقرار کر لیں گے  اور ہم آپ کو ماننے  کیلئے  تیار ہیں ، آپ صرف اتنا کیجئے  کہ ہم میں اور ہماری قوم میں ایک جھگڑا ہے ، اس کا فیصلہ ہمارے  مطابق کر دیجئے ، آپ نے  انکار کر دیا اور اسی پر یہ آیتیں اتریں ۔ اس کے  بعد جناب باری تعالیٰ ان لوگوں کا ذکر کر رہا ہے  جو اللہ کے  حکم سے  ہٹ جائیں، جس میں تمام بھلائیاں موجود اور تمام برائیاں دور ہیں ۔ ایسے  پاک حکم سے  ہٹ کر رائے  قیاس کی طرف، خواہش نفسانی کی طرف اور ان احکام کی طرف جھکے  جو لوگوں نے  از خود اپنی طرف سے  بغیر دلیل شرعی کے  گھڑ لئے  ہیں  جیسے  کہ اہل جاہلیت اپنی جہالت و ضلالت اور اپنی رائے  اور اپنی مرضی کے  مطابق حکم احکام جاری کر لیا کرتے  تھے  اور جیسے  کہ تاتاری ملکی معاملات میں چنگیز خان کے  احکام کی پیروی کرتے  تھے  جو الیاسق نے  گھڑ دیئے  تھے ۔ وہ بہت سے  احکام کے  مجموعے  اور دفاتر تھے  جو مختلف شریعتوں اور ندہبوں سے  چھانٹے  گئے  تھے ۔ یہودیت، نصرانیت، اسلامیت وغیرہ سب کے  احکام کا وہ مجموعہ تھا اور پھر اس میں بہت سے  احکام وہ بھی تھے ، جو صرف اپنی عقلی اور مصلحت وقت کے  پیش نظر ایجاد کئے  گئے  تھے ، جن میں اپنی خواہش کی ملاوٹ بھی تھی۔ پس وہی مجموعے  ان کی اولاد میں قابل عمل ٹھہر گئے  اور اسی کو کتاب و سنت پر فوقیت اور تقدیم دے  لی۔ درحقیقت ایسا کرنے  والے  کافر ہیں  اور ان سے  جہاد واجب ہے  یہاں تک کہ وہ لوٹ کر اللہ اور اس کے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے  حکم کی طرف آ جائیں اور کسی چھوٹے  یا بڑے  اہم یا غیر اہم معاملہ میں سوائے  کتاب و سنت کے  کوئی حکم کسی کا نہ لیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے  کہ یہ جاہلیت کے  احکام کا ارادہ کرتے  ہیں  اور حکم رب سے  سرک رہے  ہیں ؟ یقین والوں کیلئے  اللہ سے  بہتر حکمراں اور کار فرما کون ہو گا؟ اللہ سے  زیادہ عدل و انصاف والے  احکام کس کے  ہوں گے ؟ ایماندار اور یقین کامل والے  بخوبی جانتے  اور مانتے  ہیں  کہ اس احکم الحاکمین اور الرحم الراحمین سے  زیادہ اچھے ، صاف، سہل اور عمدہ احکام و قواعد مسائل و ضوابط کسی کے  بھی نہیں  ہو سکتے ۔ وہ اپنی مخلوق پر اس سے  بھی زیادہ مہربان ہے  جتنی ماں اپنی اولاد پر ہوتی ہے ، وہ پورے  اور پختہ علم والا کامل اور عظیم الشان قدرت والا اور عدل و انصاف والا ہے ۔ حضرت حسن فرماتے  ہیں  "اللہ کے  فیصلے  کے  بغیر جو فتویٰ دے  اس کا فتویٰ جاہلیت کا حکم ہے "۔ ایک شخص نے  حضرت طاؤس سے  پوچھا کیا میں اپنی اولاد میں سے  ایک کو زیادہ اور ایک کو کم دے  سکتا ہوں ؟ تو آپ نے  یہی آیت پڑھی۔ طبرانی میں ہے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  ہیں  سب سے  بڑا اللہ کا دشمن وہ ہے  جو اسلام میں جاہلیت کا طریقہ اور حیلہ تلاش کرے  اور بے  وجہ کسی کی گردن مارنے  کے  درپے  ہو جائے ۔ یہ حدیث بخاری میں بھی قدرے  الفاظ کی زیادتی کے  ساتھ ہے ۔

۵۱

دشمن اسلام سے  دوستی منع ہے

دشمنان اسلام یہود و نصاریٰ سے  دوستیاں کرنے  کی اللہ تبارک و تعالیٰ ممانعت فرما رہا ہے  اور فرماتا ہے  کہ "وہ تمہارے  دوست ہرگز نہیں  ہو سکتے  کیونکہ تمہارے  دین سے  انہیں  بغض و عداوت ہے ۔ ہاں اپنے  والوں سے  ان کی دوستیاں اور محبتیں ہیں ۔ میرے  نزدیک تو جو بھی ان سے  دلی محبت رکھے  وہ ان ہی میں سے  ہے "۔ حضرت عمر نے  حضرت ابو موسیٰ کو اس بات پر پوری تنبیہ کی اور یہ آیت پڑھ سنائی۔ حضرت عبد اللہ بن عتبہ نے  فرمایا لوگو! تمہیں  اس سے  بچنا چاہئے  کہ تمہیں  خود تو معلوم نہ ہو اور تم اللہ کے  نزدیک یہود و نصرانی بن جاؤ، ہم سمجھ گئے  کہ آپ کی مراد اسی آیت کے  مضمون سے  ہے ۔ ابن عباس سے  عرب نضرانیوں کے  ذبیحہ کا مسئلہ پوچھا گیا تو آپ نے  یہی آیت تلاوت کی۔ جس کے  دل میں کھوٹ ہے  وہ تو لپک لپک کر پوشیدہ طور پر ان سے  سازباز اور محبت و مودت کرتے  ہیں  اور بہانہ یہ بناتے  ہیں  کہ ہمیں خطرہ ہے  اگر مسلمانوں پر یہ لوگ غالب آ گئے  تو پھر ہماری تباہی کر دیں گے ، اس لئے  ہم ان سے  بھی میل ملاپ رکھتے  ہیں ، ہم کیوں کسی سے  بگاڑیں ؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے  ممکن ہے  اللہ مسلمانوں کو صاف طور پر غالب کر دے ، مکہ بھی ان کے  ہاتھوں فتح ہو جائے ، فیصلے  اور حکم ان ہی کے  چلنے  لگیں، حکومت ان کے  قدموں میں سر ڈال دے ۔ یا اللہ تعالیٰ اور کوئی چیز اپنے  پاس سے  لائے  یعنی یہود نصاریٰ کو مغلوب کر کے  انہیں  ذلیل کر کے  ان سے  جزیہ لینے  کا حکم مسلمانوں کو دے  دے  پھر تو یہ منافقین جو آج لپک لپک کر ان سے  گہری دوستی کرتے  پھرتے  ہیں ، بڑے  بھنانے  لگیں گے  اور اپنی اس چالاکی پر خون کے  آنسو بہانے  لگیں گے ۔ ان کے  پردے  کھل جائیں گے  اور یہ جیسے  اندر تھے  ویسے  ہی باہر سے  نظر آئیں گے ۔ اس وقت مسلمان ان کی مکاریوں پر تعجب کریں گے  اور کہیں  گے  اے  لو یہی وہ لوگ ہیں ، جو بڑی بڑی قسمیں کھا کھا کر ہمیں یقین دلاتے  تھے  کہ یہ ہمارے  ساتھی ہیں ۔ انہوں نے  جو پایا تھا وہ کھو دیا تھا اور برباد ہو گئے ۔ ویقول تو جمہور کی قرات ہے ۔ ایک قرات بغیر واؤ کے  بھی ہے  اہل مدینہ کی یہی قرات ہے ۔ یقول تو مبتدا اور دوسری قرات اس کی یقول ہے  تو یہ فعسی پر عطف ہو گا گویا وان یقول ہے ۔ ان آیتوں کا شان نزول یہ ہے  کہ جنگ احد کے  بعد ایک شخص نے  کہا کہ میں اس یہودی سے  دوستی کرتا ہوں تاکہ موقع پر مجھے  نفع پہنچے ، دوسرے  نے  کہا، میں فلاں نصرانی کے  پاس جاتا ہوں، اس سے  دوستی کر کے  اس کی مدد کروں گا۔ اس پر یہ آیتیں اتریں ۔ عکرمہ فرماتے  ہیں  "لبابہ بن عبد المنذر کے  بارے  میں یہ آیتیں اتریں جبکہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  انہیں  بنو قریظہ کی طرف بھیجا تو انہوں نے  آپ سے  پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے  ساتھ کیا سلوک کریں گے ؟ تو آپ نے  اپنے  گلے  کی طرف اشارہ کیا یعنی تم سب کو قتل کرا دیں گے "۔ ایک روایت میں ہے  کہ یہ آیتیں عبد اللہ بن ابی بن سلول کے  بارے  میں اتری ہیں ۔ حضرت عبادہ بن صامت نے  حضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے  کہا کہ بہت سے  یہودیوں سے  میری دوستی ہے  مگر میں ان سب کی دوستیاں توڑتا ہوں، مجھے  اللہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی دوستی کافی ہے ۔ اس پر اس منافق نے  کہا میں دور اندیش ہوں، دور کی سوچنے  کا عادی ہوں، مجھ سے  یہ نہ ہو سکے  گا، نہ جانے  کس وقت کیا موقعہ پڑ جائے ؟ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا اے  عبد اللہ تو عبادہ کے  مقابلے  میں بہت ہی گھاٹے  میں رہا، اس پر یہ آیتیں اتریں ۔ ایک روایت میں ہے  کہ "جب بدر میں مشرکین کو شکست ہوئی تو بعض مسلمانوں نے  اپنے  ملنے  والے  یہودیوں سے  کہا کہ یہی تمہاری حالت ہو، اس سے  پہلے  ہی تم اس دین برحق کو قبول کر لو انہوں نے  جواب دیا کہ چند قریشیوں پر جو لڑائی کے  فنون سے  بے  بہرہ ہیں ، فتح مندی حاصل کر کے  کہیں  تم مغرور نہ ہو جانا، ہم سے  اگر پالا پڑا تو ہم تو تمہیں  بتا دیں گے  کہ لڑائی اسے  کہتے  ہیں ۔ اس پر حضرت عبادہ اور عبد اللہ بن ابی کا وہ مکالمہ ہوا جو اوپر بیان ہو چکا ہے ۔ جب یہودیوں کے  اس قبیلہ سے  مسلمانوں کی جنگ ہوئی اور بفضل رب یہ غالب آ گئے  تو اب عبد اللہ بن ابی آپ سے  کہنے  لگا، حضور صلی اللہ علیہ و سلم میرے  دوستوں کے  معاملے  میں مجھ پر احسان کیجئے ، یہ لوگ خزرج کے  ساتھی تھے ، حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  اسے  کوئی جواب نہ دیا، اس نے  پھر کہا، آپ نے  منہ موڑ لیا، یہ آپ کے  دامن سے  چپک گیا، آپ نے  غصہ سے  فرمایا کہ چھوڑ دے ، اس نے  کہا نہیں  یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! میں نہ چھوڑوں گا، یہاں تک کہ آپ ان کے  بارے  میں احسان کریں، ان کی بڑی پوری جماعت ہے  اور آج تک یہ لوگ میرے  طرفدار رہے  اور ایک ہی دن میں یہ سب فنا کے  گھاٹ اتر جائیں گے ۔ مجھ تو آنے  والی مصیبتوں کا کھٹکا ہے ۔ آخر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا، جا وہ سب تیرے  لئے  ہیں "۔ ایک روایت میں ہے  کہ "جب بنو قینقاع کے  یہودیوں نے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  جنگ کی اور اللہ نے  انہیں  نیچا دکھایا تو عبد اللہ بن ابی ان کی حمایت حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  سامنے  کرنے  لگا اور حضرت عبادہ بن صامت نے  باوجود یکہ یہ بھی ان کے  حلیف تھے  لیکن انہوں نے  ان سے  صاف برأت ظاہر کی”۔ اس پر یہ آیتیں ہم الغالبون تک اتریں ۔ مسند احمد میں ہے  کہ "اس منافق عبد اللہ بن ابی کی عیادت کیلئے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لے  گئے  تو آپ نے  فرمایا، میں نے  تو تجھے  بارہا ان یہودیوں کی محبت سے  روکا تو اس نے  کہا سعد بن زرارہ تو ان سے  دشمنی رکھتا تھا وہ بھی مر گیا”۔

۵۴

قوت اسلام اور مرتدین

اللہ رب العزت جو قادر و غالب ہے  خبر دیتا ہے  کہ اگر کوئی اس پاک دین سے  مرتد ہو جائے  تو وہ اسلام کی قوت گھٹا نہیں  دے  گا، اللہ تعالیٰ ایسے  لوگوں کے  بدلے  ان لوگوں کو اس سچے  دین کی خدمت پر مامور کرے  گا، جو ان سے  ہر حیثیت میں اچھے  ہوں گے ۔ جیسے  اور آیت میں ہے  وان تتلوا اور آیت میں ہے  ان یشا یذھبکم ایھا الناس ویات باخرین اور جگہ فرمایا ویات بخلق جدید الخ، مطلب ان سب آیتوں کا وہی ہے  جو بیان ہوا۔ ارتداد کہتے  ہیں ، حق کو چھوڑ کر باطل کی طرف پھر جانے  کو۔ محمد بن کعب فرماتے  ہیں  یہ آیت سرداران قریش کے  بارے  میں اتری ہے ۔ حسن بصری فرماتے  ہیں  "خلافت صدیق میں جو لوگ اسلام سے  پھر گئے  تھے ، ان کا حکم اس آیت میں ہے ۔ جس قوم کو ان کے  بدلے  لانے  کا وعدے  دے  رہا ہے  وہ اہل قادسیہ ہیں  یا قوم سبا ہے ۔ یا اہل یمن ہیں  جو کندہ اور سکون بیلہ کے  ہیں "۔ ایک بہت ہی غریب مرفوع حدیث میں بھی یہ پچھلی بات بیان ہوئی ہے ۔ ایک روایت میں ہے  کہ آپ نے  حضرت ابو موسیٰ اشعری کی طرف اشارہ کر کے  فرمایا وہ اس کی قوم ہے ۔ اب ان کامل ایمان والوں کی صفت بیان ہو رہی ہے  کہ "یہ اپنے  دوستوں یعنی مسلمانوں کے  سامنے  تو بچھ جانے  والے ، جھک جانے  والے  ہوتے  ہیں  اور کفار کے  مقابلہ میں تن جانے  والے ، ان پر بھاری پڑنے  والے  اور ان پر تیز ہونے  والے  ہوتے  ہیں "۔ جیسے  فرمایا اشداء علی الکفار رحماء بینھم حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی صفتوں میں ہے  کہ آپ خندہ مزاج بھی تھے  اور قتال بھی یعنی دوستوں کے  سامنے  ہنس مکھ خندہ رو اور دشمنان دین کے  مقابلہ میں سخت اور جنگجو، سچے  مسلمان راہ حق کے  جہاد سے  نہ منہ موڑتے  ہیں ، نہ پیٹھ دکھاتے  ہیں ، نہ تھکتے  ہیں ، نہ بزدلی اور آرام طلبی کرتے  ہیں ، نہ کسی کی مروت میں آتے  ہیں ، نہ کسی کی ملامت کا خوف کرتے  ہیں ، وہ برابر اطاعت الٰہی میں اس کے  دشمنوں سے  جنگ کرنے  میں بھلائی کا حکم نے  میں اور برائیوں سے  روکنے  میں مشغول رہتے  ہیں ۔ حضرت ابوذر فرماتے  ہیں  "مجھے  میرے  خلیل صلی اللہ علیہ و سلم نے  سات باتوں کا حکم دیا ہے ۔ مسکینوں سے  محبت رکھنے ، ان کے  ساتھ بیٹھنے  اٹھنے  اور دنیوی امور میں اپنے  سے  کم درجے  کے  لوگوں کو دیکھنے  اور اپنے  سے  بڑھے  ہوؤں کو نہ دیکھنے ، صلہ رحمی کرتے  رہنے ، گو دوسرے  نہ کرتے  ہوں اور کسی سے  کچھ بھی نہ مانگنے ، حق بیان کرنے  کا گو وہ سب کو کڑوی لگے  اور دین کے  معاملات میں کسی ملامت کرنے  والے  کی ملامت سے  نہ ڈرنے  کا اور بہ کثرت لاحول ولا قوۃ الا باللہ پڑھنے  کا، کیونکہ یہ کلمہ عرش کے  نیچے  کا خزانہ ہے "۔ (مسند احمد) ایک روایت میں ہے  "میں نے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  پانچ مرتبہ بیعت کی ہے  اور سات باتوں کی آپ نے  مجھے  یاد دہانی کی ہے  اور سات مرتبہ اپنے  اوپر اللہ کو گواہ کرتا ہوں کہ میں اللہ کے  دین کے  بارے  میں کسی بد گو کی بد گوئی کی مطلق پرواہ نہیں  کرتا۔ مجھے  بلا کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا کیا مجھ سے  جنت کے  بدلے  میں بیعت کرے  گا؟ میں نے  منظور کر کے  ہاتھ بڑھایا تو آپ نے  شرط کی کہ کسی سے  کچھ بھی نہ مانگنا۔ میں نے  کہا بہت اچھا، فرمایا اگرچہ کوڑا بھی ہو۔ یعنی اگر وہ گڑ پڑے  تو خود سواری سے  اتر کر لے  لینا” (مسند احمد) حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  ہیں  "لوگوں کی ہیبت میں آ کر حق گوئی سے  نہ رکنا، یاد رکھو نہ تو کوئی موت کو قریب کر سکتا ہے ، نہ رزق کو دور کر سکتا ہے "۔ ملاحظہ ہو امام احمد کی مسند۔ "فرماتے  ہیں  خلاف شرع امر دیکھ کر، سن کر اپنے  تئیں کمزور جان کر، خاموش نہ ہو جانا۔ ورنہ اللہ کے  ہاں اس کی باز پرس ہو گی، اس وقت انسان جواب دے  گا کہ میں لوگوں کے  ڈر سے  چپکا ہو گیا تو جناب باری تعالیٰ فرمائے  گا، میں اس کا زیادہ حقدار تھا کہ تو مجھ سے  ڈرتا”۔ (مسند احمد) فرماتے  ہیں  اللہ تعالیٰ اپنے  بندے  سے  قیامت کے  دن ایک سوال یہ بھی کرے  گا کہ تو نے  لوگوں کو خلاف شرع کام کرتے  دیکھ کر اس سے  روکا کیوں نہیں ؟ پھر اللہ تعالیٰ خود ہی اسے  جواب سمجھائے  گا اور یہ کہہ گا پروردگار میں نے  تجھ پر بھروسہ کیا اور لوگوں سے  ڈرا (ابن ماجہ) ایک اور صحیح حدیث میں ہے  "مومن کو نہ چاہئے  کہ اپنے  تئیں ذلت میں ڈالے  صحابہ نے  پوچھا، یہ کس طرح؟ فرمایا ان بلاؤں کو اپنے  اوپر لے  لے ، جن کی برداشت کی طاقت نہ ہو۔ پھر فرمایا اللہ کا فضل ہے  جے  چاہے  دے ۔ یعنی کمال ایمان کی یہ صفتیں خاص اللہ کا عطیہ ہیں ، اسی کی طرف سے  ان کی توفیق ہوتی ہے ، اس کا فضل بہت ہی وسیع ہے  اور وہ کامل علم والا ہے ، خوب جانتا ہے  کہ اس بہت بڑی نعمت کا مستحق کون ہے ؟ پھر ارشاد ہوتا ہے  کہ تمہارے  دوست کفار نہیں  بلکہ حقیقتاً تمہیں  اللہ سے  اس کے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور مومنوں سے  دوستیاں رکھنی چاہئیں ۔ مومن بھی وہ جن میں یہ صفتیں ہوں کہ وہ نماز کے  پورے  پابند ہوں، جو اسلام کا اعلیٰ اور بہترین رکن ہے  اور صرف اللہ کا حق ہے  اور زکوٰۃ ادا کرتے  ہیں  جو اللہ کے  ضعیف مسکین بندوں کا حق ہے ” اور آخری جملہ جو ہے  اس کی نسبت بعض لوگوں کو وہم سا ہو گیا ہے  کہ یہ بوتون الزکوٰۃ سے  حال واقع یعنی رکوع کی حالت میں زکوٰۃ ادا کرتے  ہیں ۔ یہ بالکل غلط ہے ۔ اگر اسے  مان لیا جائے  تو یہ تو نمایاں طور پر ثابت ہو جائے  گا کہ رکوع کی حالت میں زکوٰۃ دینا افضل ہے  حالانکہ کوئی عالم اس کا قائل ہی نہیں ، ان وہمیوں نے  یہاں ایک واقعہ بیان کیا ہے  کہ حضرت علی بن ابی طالب نماز کے  رکوع میں تھے  جو ایک سائل آ گیا تو آپ نے  اپنی انگوٹھی اتار کر اسے  دے  دی، والذین امنوا سے  مراد بقول عتبہ جملہ مسلمان اور حضرت علی ہیں ۔ اس پر یہ آیت اتری ہے ۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی انگوٹھی کا قصہ ہے  اور بعض دیگر مفسرین نے  بھی یہ تفسیر کی ہے  لیکن سند ایک کی بھی صحیح نہیں ، رجال ایک کے  بھی ثقہ اور ثابت نہیں ، پس یہ واقعہ بالکل غیر ثابت شدہ ہے  اور صحیح نہیں ۔ ٹھیک رہی ہے  جو ہم پہلے  بیان کر چکے  ہیں  کہ یہ سب آیتیں حضرت عبادہ بن صامت کے  بارے  میں نازل ہوئی ہیں  جبکہ انہوں نے  کھلے  لفظوں میں یہود کی دوستی توڑی اور اللہ اور اس کے  رسول اور با ایمان لوگوں کی دوستی رکھے  وہ اللہ کے  لشکر میں داخل ہے  اور یہی اللہ کا لشکر غالب ہے ۔ جیسے  فرمان باری ہے  کتب اللہ لا غلبن انا ورملی الخ، یعنی اللہ تعالیٰ یہ دیکھ چکا ہے  کہ میں اور میرے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہی غالب رہیں  گے  اللہ پر اور آخرت پر ایمان رکھنے  والوں کو تو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے  دشمنوں سے  دوستی رکھنے  والا کبھی پسند نہ آئے  گا چاہے  وہ باپ بیٹے  بھائی اور کنبے  قبیلے  کے  لوگوں میں سے  ہی کیوں نہ ہو، یہی ہیں  جن کے  دلوں میں اللہ نے  ایمان لکھ دیا ہے  اور اپنی روح سے  ان کی تائید کی ہے ، انہیں  اللہ تعالیٰ ان جنتوں میں لے  جائے  گا، جن کے  نیچے  نہریں بہ رہی ہیں ، جہاں وہ ہمیشہ رہیں  گے ، رب ان سے  راضی ہے ، یہ اللہ سے  خوش ہیں ، یہی اللہ کے  لشکر ہیں  اور اللہ ہی کا لشکر فلاح پانے  والا ہے ۔ پس جو اللہ اور اس کے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور مومنوں کی دوستیوں پر راضی اور رضامند ہو جائے ، وہ دنیا میں فاتح ہے  اور آخرت میں فلاح پان والا ہے ۔ اسی لئے  اس آیت کو بھی اس جملے  پر ختم کیا۔

۵۷

اذان اور دشمنان دین

اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو غیر مسلموں کی محبت سے  نفرت دلاتا ہے  اور فرماتا ہے  کہ "کیا تم ان سے  دوستیاں کرو گے  جو تمہارے  طاہر و مطہر دین کی ہنسی اڑاتے  ہیں  اور اسے  ایک بازیچہ اطفال بنائے  ہوئے  ہیں "۔ من بیان جنس کیلئے  جیسے  من الاوثان میں ۔ بعض نے  والکفار پڑھا ہے  اور عطف ڈالا ہے  اور بعض نے  والکفار پڑھا ہے  اور لاتتخذوا کا نیا معمول بنایا ہے  تو تقدیر عبارت والا الکفار اولیاء ہو گی، کفار سے  مراد مشرکین ہیں ، ابن مسعود کی قرات میں و من الذین اشرکوا ہے ۔ اللہ سے  ڈرو اور ان سے  دوستیاں نہ کرو اگر تم سچے  مومن ہو۔ یہ تو تمہارے  دین کے ، اللہ کی شریعت کے  دشمن ہیں ۔ جیسے  فرمایا لایتخذ المومنون الخ، مومن مومنوں کو چھوڑ کر کفار سے  دوستیاں نہ کریں اور جو ایسا کرے  وہ اللہ کے  ہاں کسی بھلائی میں نہیں  ہاں ان سے  بچاؤ مقصود ہو تو اور بات ہے ، اللہ تعالیٰ تمہیں  اپنی ذات سے  ڈرا رہا ہے  اور اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے ۔ اسی طرح یہ کفار اہل کتاب اور مشرک اس وقت بھی مذاق اڑاتے  ہیں  جب تم نمازوں کیلئے  لوگوں کو پکارتے  ہو حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کی سب سے  پیاری عبادت ہے ، لیکن یہ بیوقوف اتنا بھی نہیں  جانتے ، اس لئے  کہ یہ متبع شیطان ہیں ، اس کی یہ حالت ہے  کہ اذان سنتے  ہی بدبو چھوڑ کر دم دبائے  بھاگتا ہے  اور وہاں جا کر ٹھہرتا ہے ، جہاں اذان کی آواز نہ سن پائے ۔ اس کے  بعد آ جاتا ہے  پھر تکبیر سن کر بھاگ کھڑا ہوتا ہے  اور اس کے  ختم ہوتے  ہی آ کر اپنے  بہکاوے  میں لگ جاتا ہے ، انسان کو ادھر ادھر کی بھولی بسری باتیں یاد دلاتا ہے  یہاں تک کہ اسے  یہ بھی خبر نہیں  رہتی کہ نماز کی کتنی رکعت پڑھیں ؟ جب ایسا ہو تو وہ سجدہ سہو کر لے ۔ (متفق علیہ) امام زہری فرماتے  ہیں  "اذان کا ذکر قرآن کریم میں بھی ہے  پھر یہی آیت تلاوت کی”۔ ایک نصرانی مدینے  میں تھا، اذان میں جب اشہد ان محمد رسول اللہ سنتا تو کہتا کذاب جل جائے ۔ ایک مرتبہ رات کو اس کی خادمہ گھر میں آگ لائی، کوئی پتنگا اڑا جس سے  گھر میں آگ لگ گئی، وہ شخص اس کا گھر بار سب جل کر ختم ہو گیا۔ فتح مکہ والے  سال حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  حضرت بلال کو کعبے  میں اذان کہنے  کا حکم دیا، قریب ہی ابو سفیان بن حرب، عتاب بن اسید، حارث بن ہشام بیٹھے  ہوئے  تھے ، عتاب نے  تو اذان سن کر کہا میرے  باپ پر تو اللہ کا فضل ہوا کہ وہ اس غصہ دلانے  والی آواز کے  سننے  سے  پہلے  ہی دنیا سے  چل بسا۔ حارث کہنے  لگا اگر میں اسے  سچا جانتا تو مان ہی نہ لیتا۔ ابو سفیان نے  کہا بھئی میں تو کچھ بھی زبان سے  نہیں  نکلتا، ڈر ہے  کہ کہیں  یہ کنکریاں اسے  خبر نہ کر دیں انہوں نے  باتیں ختم کی ہی تھیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم آ گئے  اور فرمانے  لگے  اس وقت تم نے  یہ یہ باتیں کیں ہیں ، یہ سنتے  ہی عتاب اور حارث تو بول پڑے  کہ ہماری گواہی ہے  کہ آپ اللہ کے  سچے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہیں ، یہاں تو کوئی چوتھا تھا ہی نہیں ، ورنہ گمان کر سکتے  تھے  کہ اس نے  جا کر آپ سے  کہہ دیا ہو گا (سیرۃ محمد بن اسحاق) حضرت عبد اللہ بن جیر جب شام کے  سفر کو جانے  لگے  تو حضرت محذورہ سے  جن کی گود میں انہوں نے  ایام یتیمی بسر کئے  تھے ، کہا آپ کی اذان کے  بارے  میں مجھ سے  وہاں کے  لوگ ضرور سوال کریں گے  تو آپ اپنے  واقعات تو مجھے  بتا دیجئے ۔ فرمایا ہاں سنو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حنین سے  واپس آ رہے  تھے ، راستے  میں ہم لوگ ایک جگہ رکے ، تو نماز کے  وقت حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  موذن نے  اذان کہی، ہم نے  اس کا مذاق اڑانا شروع کیا، کہیں  آپ کے  کان میں بھی آوازیں پڑ گئیں ۔ سپاہی آیا اور ہمیں آپ کے  پاس لے  گیا۔ آپ نے  دریافت فرمایا کہ تم سب میں زیادہ اونچی آواز کس کی تھی؟ سب نے  میری طرف اشارہ کیا تو آپ نے  اور سب کو چھوڑ دیا اور مجھے  روک لیا اور فرمایا "اٹھو اذان کہو” واللہ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات سے  اور آپ کی فرماں برداری سے  زیادہ بری چیز میرے  نزدیک کوئی نہ تھی لیکن بے  بس تھا، کھڑا ہو گیا، اب خود آپ نے  مجھے  اذان سکھائی اور جو سکھاتے  رہے ، میں کہتا رہا، پھر اذان پوری بیان کی، جب میں اذان سے  فارغ ہوا تو آپ نے  مجھے  ایک تھیلی دے ، جس میں چاندی تھی، پھر اپنا دست مبارک میرے  سر پر رکھا اور پیٹھ تک لائے ، پھر فرمایا اللہ تجھ میں اور تجھ پر اپنی برکت نازل کرے ۔ اب تو اللہ کی قسم میرے  دل سے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی عداوت بالکل جاتی رہی، ایسی محبت حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی دل میں پیدا ہو گئی، میں نے  آرزو کی کہ مکے  کا موذن حضور صلی اللہ علیہ و سلم مجھ کو بنا دیں ۔ آپ نے  میری یہ درخواست منظور فرما لی اور میں مکے  میں چلا گیا اور وہاں کے  گورنر حضرت عتاب بن اسید سے  مل کر اذان پر مامور ہو گیا۔ حضرت ابو مخدورہ کا نام سمرہ بن مغیرہ بن لوذان تھا، حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  چار موذنوں میں سے  ایک آپ تھے  اور لمبی مدت تک آپ اہل مکہ کے  موذن رہے ۔ رضی اللہ عنہ وارضاہ۔

۵۹

بد ترین گروہ اور اس کا انجام

حکم ہوتا ہے  کہ جو اہل کتاب تمہارے  دین پر مذاق اڑاتے  ہیں ، ان سے  کہو کہ تم نے  جو دشمنی ہم سے  کر رکھی ہے ، اس کی کوئی وجہ اس کے  سوا نہیں  کہ ہم اللہ پر اور اس کی تمام کتابوں پر ایمان رکھتے  ہیں ۔ پس دراصل نہ تو یہ کوئی وجہ بغض ہے ، نہ سبب مذمت بہ استثنا منقطع ہے ۔ اور آیت میں ہے  و مانقمو امنھم الخ، یعنی فقط اس وجہ سے  انہوں نے  ان سے  دشمنی کی تھی کہ وہ اللہ عزیز و حمید کو مانتے  تھے ۔ اور جیسے  اور آیت میں ۔ ۔ یعنی انہوں نے  صرف اس کا انتقام لیا ہے  کہ انہیں  اللہ نے  اپنے  فضل سے  اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے  مال دے  کر غنی کر دیا ہے ۔ بخاری مسلم کی حدیث میں ہے  "ابن جمیل اسی کا بدلہ لیتا ہے  کہ وہ فقیر تھا تو اللہ نے  اسے  غنی کر دیا اور یہ کہ تم میں سے  اکثر صراط مستقیم سے  الگ اور خارج ہو چکے  ہیں ۔ تم جو ہماری نسبت گمان رکھتے  ہو آؤ میں تمہیں  بتاؤں کہ اللہ کے  ہاں سے  بدلہ پانے  میں کو بدتر ہے ؟ اور وہ تم ہو کہ کیونکہ یہ خصلتیں تم میں ہی پائی جاتی ہیں ۔ یعنی جسے  اللہ نے  لعنت کی ہو، اپنی رحمت سے  دور پھینک دیا ہو، اس پر غضبناک ہوا ہو، ایسا جس کے  بعد رضامند نہیں  ہو گا اور جن میں سے  بعض کی صورتیں بگاڑ دی ہوں، بندر اور سور بنا دیئے  ہوں "۔ اس کا پورا بیان سورہ بقرہ میں گزر چکا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  سوال ہوا کہ یہ بندر و سور وہی ہیں ؟ تو آپ نے  فرمایا، جس قوم پر اللہ کا ایسا عذاب نازل ہوتا ہے ، ان کی نسل ہی نہیں  ہوتی، ان سے  پہلے  بھی سور اور بندر تھے ۔ روایت مختلف الفاظ میں صحیح مسلم اور نسائی میں بھی ہے ۔ مسند میں ہے  کہ "جنوں کی ایک قوم سانپ بنا دی گئی تھی۔ جیسے  کہ بندر اور سور بنا دیئے  گئے "۔ یہ حدیث بہت ہی غریب ہے ۔ انہی میں سے  بعض کو غیر اللہ کے  پرستار بنا دیئے ۔ ایک قرات میں اضافت کے  ساتھ طاغوت کی زیر سے  بھی ہے ۔ یعنی انہیں  بتوں کا غلام بنا دیا۔ حضرت برید اسلمی اسے  عابد الطاغوت پڑھتے  تھے ۔ حضرت ابو جعفر قاری سے  وعبد الطاغوت بھی منقول ہے  جو بعید از معنی ہو جاتا ہے  لیکن فی الواقع ایسا نہیں  ہوتا مطلب یہ ہے  کہ تم ہی وہ ہو، جنہوں نے  طاغوت کی عبادت کی۔ الغرض اہل کتاب کو الزام دیا جاتا ہے  کہ ہم پر تو عیب گیری کرتے  ہو، حالانکہ ہم موحد ہیں ، صرف ایک اللہ برحق کے  ماننے  والے  ہیں  اور تم تو وہ ہو کہ مذکورہ سب برائیاں تم میں پائی گئیں ۔ اسی لئے  خاتم پر فرمایا کہ یہی لوگ باعتبار قدر و منزلت کے  بہت برے  ہیں  اور باعتبار گمراہی کے  انتہائی غلط راہ پر پڑے  ہوئے  ہیں ۔ اس افعل التفصیل میں دوسری جانب کچھ مشارکت نہیں  اور یہاں تو سرے  سے  ہے  ہی نہیں ۔ جیسے  اس آیت میں اصحاب الجنۃ یومئذ مستقرا واحسن مقیلا پھر منافقوں کی ایک اور بدخصلت بیان کی جا رہی ہے  کہ "ظاہر میں تو وہ مومنوں کے  سامنے  ایمان کا اظہار کرتے  ہیں  اور ان کے  باطن کفر سے  بھرے  پڑے  ہیں ۔ یہ تیرے  کفر کی حالت میں پاس آتے  ہیں  اور اسی حالت میں تیرے  پاس سے  جاتے  ہیں  تو تیری باتیں، تیری نصیحتیں ان پر کچھ اثر نہیں  کرتیں ۔ بھلا یہ پردہ داری انہیں  کیا کام آئے  گی، جس سے  ان کا معاملہ ہے ، وہ تو عالم الغیب ہے ، دلوں کے  بھید اس پر روشن ہیں ۔ وہاں جا کر پورا پورا بدلہ بھگتنا پڑے  گا۔ تو دیکھ رہا ہے  کہ یہ لوگ گناہوں پر، حرام پر اور باطل کے  ساتھ لوگوں کے  مال پر کس طرح چڑھ دوڑتے  ہیں ؟ ان کے  اعمال نہایت ہی خراب ہو چکے  ہیں ۔ ان کے  اولیاء اللہ یعنی عابد و عالم اور ان کے  علماء انہیں  ان باتوں سے  کیوں نہیں  روکتے ؟ دراصل ان کے  علماء اور پیروں کے  اعمال بدترین ہو گئے  ہیں "۔ ابن عباس فرماتے  ہیں  کہ "علماء اور فقراء کی ڈانٹ کیلئے  اس سے  زیادہ سخت آیت کوئی نہیں "۔ حضرت ضحاک سے  بھی اسی طرح منقول ہے ۔ حضرت علی نے  ایک خطبے  میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے  بعد فرمایا "لوگو تم سے  اگلے  لوگ اسی بناء پر ہلاک کر دیئے  گئے  کہ وہ برائیاں کرتے  تھے  تو ان کے  عالم اور اللہ والے  خاموش رہتے  تھے ، جب یہ عادت ان میں پختہ ہو گئی تو اللہ نے  انہیں  قسم قسم کی سزائیں دیں ۔ پس تمہیں  چاہئے  کہ بھلائی کا حکم کرو، برائی سے  روکو، اس سے  پہلے  کہ تم پر بھی وہی عذاب آ جائیں جو تم سے  پہلے  والوں پر آئے ، یقین رکھو کہ اچھائی کا حکم برائی سے  ممانعت نہ تو تمہارے  روزی گھٹائے  گا، نہ تمہارے  موت قریب کر دے  گا”۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے  کہ "جس قوم میں کوئی اللہ کی نافرمانی کرے  اور وہ لوگ باوجود روکنے  کی قدرت اور غلبے  کے  اسے  نہ مٹائیں تو اللہ تعالیٰ سب پر اپنا عذاب نازل فرمائے  گا” (مسند احمد) ابو داؤد میں ہے  کہ "یہ عذاب ان کی موت سے  پہلے  ہی آئے  گا”۔ ابن ماجہ میں بھی یہ روایت ہے ۔

۶۴

بخل سے  بچو اور فضول خرچی سے  ہاتھ روکو

اللہ ملعون یہودیوں کا ایک خبیث قول بیان فرما رہا ہے  کہ یہ اللہ کو بخیل کہتے  تھے ، یہی لوگ اللہ کو فقیر بھی کہتے  ہیں ۔ اللہ کی ذات ان کے  اس ناپاک مقولے  سے  بہت بلند و بالا ہے ۔ پس اللہ کے  ہاتھ بندھے  ہوئے  ہیں ، مطلب ان کا یہ نہ تھا کہ ہاتھ جکڑ دیئے  گئے  ہیں  بلکہ مراد اس سے  بخل تھا۔ یہی محاورہ قرآن میں اور جگہ بھی ہے  فرماتا ہے ۔ یعنی اپنے  ہاتھ اپنی گردن سے  باندھ بھی نہ لے  اور نہ حد سے  زیادہ پھیلا دے  کہ پھر تھکان اور ندامت کے  ساتھ بیٹھ رہنا پڑے ، پس بخل سے  اور اسراف سے  اللہ نے  اس آیت میں روکا۔ پس ملعون یہودیوں کی بھی ہاتھ باندھا ہوا ہونے  سے  یہی مراد تھی۔ فخاص نامی یہودی نے  یہ کہا تھا اور اسی ملعون کا وہ دوسرا قول بھی تھا کہ اللہ فقیر ہے  اور ہم غنی ہیں ۔ جس پر حضرت صدیق اکبر نے  اسے  پیٹا تھا۔ ایک روایت میں ہے  کہ شماس بن قیس نے  یہی کہا تھا جس پر یہ آیت اتری۔ اور ارشاد ہوا کہ بخیل اور کنجوس ذلیل اور بزدل یہ لوگ خود ہیں ۔ چنانچہ اور آیت میں ہے  کہ اگر یہ بادشاہ بن جائیں تو کسی کو کچھ بھی نہ دیں ۔ بلکہ یہ تو اوروں کی نعمتیں دیکھ کر جلتے  ہیں ۔ یہ ذلیل تر لوگ ہیں ۔ بلکہ اللہ کے  ہاتھ کھلے  ہیں  وہ سب کچھ خرچ کرتا رہتا ہے  اس کا فضل وسیع ہے ، اس کی بخشش عام ہے ، ہر چیز کے  خزانے  اس کے  ہاتھوں میں ہیں ۔ ہر نعمت اس کی طرف سے  ہے ۔ ساری مخلوق دن رات ہر وقت ہر جگہ اسی کی محتاج ہے ۔ فرماتا ہے  ۔ "تم نے  جو مانگا، اللہ نے  دیا، اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو شمار بھی نہیں  کر سکتے ، یقیناً انسان بڑا ہی ظالم بے  حد ناشکرا ہے "۔ مسند میں حدیث ہے  کہ "اللہ تعالیٰ کا داہنا ہاتھ اوپر ہے ، دن رات کا خرچ اس کے  خزانے کو گھٹاتا نہیں ، شروع سے  لے  کر آج تک جو کچھ بھی اس نے  اپنی مخلوق کو عطا فرمایا، اس نے  اس کے  خزانے  میں کوئی کمی نہیں  کی۔ اس کا عرش پہلے  پانی پر تھا، اسی کے  ہاتھ میں فیض ہی فیض ہے ، وہی بلند اور پست کرتا ہے ۔ اس کا فرمان ہے  کہ لوگو تم میری راہ میں خرچ کرو گے  تم تو دیئے  جاؤں گے "۔ بخاری مسلم میں بھی یہ حدیث ہے ۔ پھر فرمایا "اے  نبی صلی اللہ علیہ و سلم ! جس قدر اللہ کی نعمتیں تم پر زیادہ ہوں گی، اتنا ہی ان شیاطین کا کفر حسد اور جلا پا بڑھے  گا۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح مومنوں کا ایمان اور ان کی تسلیم و اطاعت بڑھتی ہے ۔ جیسے  اور آیت میں ہے ۔ ۔ ایمان والوں کیلئے  تو یہ ہدایت و شفا ہے  اور بے  ایمان اس سے  اندھے  بہرے  ہوتے  ہیں ۔ یہی ہیں  جو دروازے  سے  پکارے  جاتے  ہیں ۔ اور آیت میں ہے  وننزل من القرآن ہم نے  وہ قرآن اتارا ہے  جو مومنوں کیلئے  شفا اور رحمت ہے  اور ظالموں کا تو نقصان ہی بڑھتا رہتا ہے ۔ پھر ارشاد ہوا کہ ان کے  دلوں میں سے  خود آپس کا بغض و بیر بھی قیامت تک نہیں  مٹے  گا، ایک دوسرے  کا آپس میں ہی خون پینے  والے  لوگ ہیں ۔ ناممکن ہے  کہ یہ حق پر جم جائیں، یہ اپنے  ہی دین میں فرقہ فرقہ ہو رہے  ہیں ، ان کے  جھگڑے  اور عداوتیں آپس میں جاری ہیں  اور جاری رہیں  گی۔ یہ لوگ بسا اوقات لڑائی کے  سامان کرتے  ہیں ، تیرے  خلاف چاروں طرف ایک آگ بھڑکانا چاہتے  ہیں  لیکن ہر مرتبہ منہ کی کھاتے  ہیں ، ان کا مکر و فریب انہی پر لوٹ جاتا ہے ، یہ مفسد لوگ ہیں  اور اللہ کے  دشمن ہیں ، کسی مفسد کو اللہ اپنا دوست نہیں  بناتا۔ اگر یہ با ایمان اور پرہیزگار بن جائیں تو ہم ان سے  تمام ڈر دور کر دیں اور اصل مقصد حیات سے  انہیں  ملا دیں ۔ اگر یہ تورات و انجیل اور اس قرآن کو مان لیں کیونکہ توراۃ و انجیل کا ماننا، قرآن کے  ماننے  کو لازم کر دے  گا، ان کتابوں کی صحیح تعلیم یہی ہے  کہ یہ قرآن سچا ہے  اس کی اور نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ و سلم کی تصدیق پہلے  کی کتابوں میں موجود ہے  تو اگر یہ اپنی ان کتابوں کو بغیر تحریف و تبدیل اور تاویل و تفسیر کے  مانیں تو وہ انہیں  اسی اسلام کی ہدایت دیں گی، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بتاتے  ہیں ۔ اس صورت میں اللہ انہیں  دنیا کے  کئی فائدے  دے  گا، آسمان سے  پانی برسائے  گا، زمین سے  پیداوار اگائے  گا، نیچے  اوپر کی یعنی زمین و آسمان کی برکتیں انہیں  مل جائیں گی۔ ” جیسے  اور آیت میں ہے  والوان اھل القری امنوا واتقوا یعنی اگر بستیوں والے  ایمان لاتے  ہیں  اور پرہیز گاری کرتے  تو ہم ان پر آسمان و زمین سے  برکتیں نازل فرماتے ۔ اور آیت میں ۔ لوگوں کی برائیوں کی وجہ سے  خشکی اور تری میں فساد ظاہر ہو گیا ہے ، اور یہ بھی معنی ہو سکتے  ہیں  کہ بغیر مشقت و مشکل کے  ہم انہیں  بکثرت بابرکت روزیاں دیتے  ہیں ، بعض نے  اس جملہ کا مطلب یہ بھی بیان کیا ہے  کہ یہ لوگ ایسا کرتے  تو بھلائیوں سے  مستفید ہو جاتے ۔ لیکن یہ قول اقوال سلف کے  خلاف ہے ۔ اب ابی حاتم نے  اس جگہ ایک اثر وارد کیا ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا قریب ہے  کہ علم اٹھا لیا جائے ۔ یہ سن کر حضرت زیاد بن لبید نے  عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یہ کیسے  ہو سکتا ہے  کہ علم اٹھ جائے ، ہم نے  قرآن سیکھا، اپنی اولادوں کو سکھایا۔ آپ نے  فرمایا افسوس میں تو تمام مدینے  والوں سے  زیادہ تم کو سمجھدار جانتا تھا لیکن کیا تو نہیں  دیکھتا کہ یہود و نصاریٰ کے  ہاتھوں میں بھی تورات و انجیل ہے ۔ لیکن کس کام کی؟ جبکہ انہوں نے  اللہ کے  احکام چھوڑ دیئے  پھر آپ نے  یہی آیت تلاوت فرمائی”۔ یہ حدیث مسند میں بھی ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  کسی چیز کا بیان فرمایا کہ یہ بات علم کے  جاتے  رہنے  کے  وقت ہو گی، اس پر حضرت ابن لبید نے  کہا علم کیسے  جاتا رہے  گا؟ ہم قرآن پڑھے  ہوئے  ہیں  اپنے  بچوں کو پڑھا رہے  ہیں ، وہ اپنی اولادوں کو پڑھائیں گے ، یہی سلسلہ قیامت تک جاری رہے  گا، اس پر آپ نے  یہ فرمایا جو اوپر بیان ہوا۔ پھر فرمایا ان میں ایک جماعت میانہ رو بھی ہے  مگر اکثر بداعمال ہے ۔ جیسے  فرمان و من قوم موسیٰ امۃ یھدون بالحق وبہ یعللون موسیٰ کی قوم میں سے  ایک گروہ حق کی ہدایت کرنے  والا اور اسی کے  ساتھ عدل انصاف کرنے  والا بھی تھا۔ اور قوم عیسیٰ کے  بارے  میں فرمان ہے  ۔ ان میں سے  با ایمان لوگوں کو ہم نے  ان کے  ثواب عنایت فرمائے ، یہ نکتہ خیال میں رہے  کہ ان کا بہترین درجہ بیچ کا درجہ بیان فرمایا اور اس امت کا یہ درجہ دوسرا درجہ ہے ، جس پر ایک تیسرا اونچا درجہ بھی ہے ۔ جیسے  فرمایا ۔ ۔ یعنی پھر ہم نے  کتاب کا وارث اپنے  چیدہ بندوں کو بنایا، ان میں سے  بعض تو اپنے  نفسوں پر ظلم کرنے  والے  ہیں ، بعض میانہ رو ہیں  اور بعض اللہ کے  حکم سے  نیکیوں میں آگے  بڑھنے  والے  ہیں ، یہی بہت بڑا فضل ہے ۔ تینوں قسمیں اس امت کی داخل جنت ہونے  والی ہیں ۔ ابن مردویہ میں ہے  کہ صحابہ کے  سامنے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا "موسیٰ کی امت کے  اکہتر گروہ ہو گئے ، جن میں سے  ایک تو جنتی ہے ، باقی ستر دوزخی۔ میری یہ امت دونوں سے  بڑھ جائے  گی۔ ان کا بھی ایک گروہ تو جنت میں جائے  گا، باقی بہتر گروہ جہنم میں جائیں گے ، لوگوں نے  پوچھا، وہ کون ہیں ؟ فرمایا جماعتیں "۔ یعقوب بن یزید کہتے  ہیں  جب حضرت علی بن ابو طالب یہ حدیث بیان کرتے  تو قرآن کی آیت ۔ ۔ بھی پڑھتے  اور فرماتے  ہیں  اس سے  مراد امت محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہے ۔ لیکن یہ حدیث ان لفظوں اور اس سند سے  بے  حد غریب ہے  اور ستر سے  اوپر اوپر فرقوں کی حدیث بہت سی سندوں سے  مروی ہے ، جسے  ہم نے  اور جگہ بیان کر دیا ہے  فالحمد للہ

۶۷

نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے  اللہ تعالیٰ کے  کسی حکم کو چھپایا نہیں

اپنے  نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو رسول کے  پیارے  خطاب سے  آواز دے  کر اللہ تعالیٰ حکم دیا ہے  کہ اللہ تعالیٰ کے  کل احکام لوگوں کو پہنچا دو۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  بھی ایسا ہی کیا۔ صحیح بخاری میں ہے  "حضرت عائشہ فرماتی ہیں  جو تجھ سے  کہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  اللہ تعالیٰ کے  نازل کردہ کسی حکم کو چھپا لیا تو جان لو کہ وہ جھوٹا ہے ، اللہ نے  اپنے  نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ حکم دیا ہے  پھر اس آیت کی تلاوت آپ نے  کی”۔

یہ حدیث یہاں مختصر ہے  اور جگہ پر مطول بھی ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے  "اگر حضور صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے  کسی فرمان کو چھپانے  والے  ہوتے  تو اس آیت کو چھپا لیتے ۔ ۔ یعنی تو اپنے  دل میں وہ چھپاتا تھا جسے  اللہ ظاہر کرنے  والا تھا اور لوگوں سے  جھینپ رہا تھا حالانکہ اللہ زیادہ حقدار ہے  کہ تو اس سے  ڈرے "۔ ابن عباس سے  کسی نے  کہا کہ لوگوں میں یہ چرچا ہو رہا ہے  کہ تمہیں  کچھ باتیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  ایسی بتائی ہیں  جو اور لوگوں سے  چھپائی جاتی تھیں تو آپ نے  یہی آیت پڑھی اور فرمایا قسم اللہ کی ہمیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  کسی ایسی مخصوص چیز کا وارث نہیں  بنایا (ابن ابی حاتم) صحیح بخاری شریف میں ہے  کہ "حضرت علی سے  ایک شخص نے  پوچھا کیا تمہارے  پاس قرآن کے  علاوہ کچھ اور وحی بھی ہے ؟ آپ نے  فرمایا اس اللہ کی قسم جس نے  دانے  کو اگایا ہے  اور جانوروں کو پیدا کیا ہے  کہ کچ نہیں  بجز اس فہم و روایت کے  جو اللہ کسی شخص کو دے  اور جو کچھ اس صحیفے  میں ہے ، اس نے  پوچھا صحیفے  میں کیا ہے ؟ فرمایا دیت کے  مسائل ہیں ، قیدیوں کو چھوڑ دینے  کے  احکام ہیں  اور یہ ہے  کہ مسلمان کافر کے  بدلے  قصاصاً قتل نہ کیا جائے "۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت زہری کا فرمان ہے  کہ اللہ کی طرف سے  رسالت ہے  اور پیغمبر کے  ذمے  تبلیغ ہے  اور ہمارے  ذمہ قبول کرنا اور تابع فرمان ہونا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  اللہ کی سب باتیں پہنچا دیں، اس کی گواہ آپ کی تمام امت ہے  کہ فی الواقع آپ نے  امانت کی پوری ادائیگی کی اور سب سے  بڑی مجلس جو تھی، اس میں سب نے  اس کا اقرار کیا یعنی حجۃ الوداع خطبے  میں، جس وقت آپ کے  سامنے  چالیس ہزار صحابہ کا گروہ عظیم تھا”۔ صحیح مسلم میں ہے  کہ "آپ نے  اس خطبے  میں لوگوں سے  فرمایا تم میرے  بارے  میں اللہ کے  ہاں پوچھے  جاؤ گے  تو بتاؤ کیا جواب دو گے ؟ سب نے  کہا ہماری گواہی ہے  کہ آپ نے  تبلیغ کر دی اور حق رسالت ادا کر دیا اور ہماری پوری خیر خواہی کی، آپ نے  سر آسمان کی طرف اٹھا کر فرمایا اے  اللہ! کیا میں نے  تیرے  تمام احکامات کو پہنچا دیا، اے  اللہ! کیا میں نے  پہنچا دیا؟ ” مسند احمد میں یہ بھی ہے  کہ آپ نے  اس خطبے  میں پوچھا کہ لوگو یہ کونسا دن ہے ؟ سب نے  کہا حرمت والا، پوچھا یہ کونسا شہر ہے ، جواب دیا، حرمت والا۔ فرمایا یہ کونسا مہینہ ہے ؟ جواب ملا، حرمت والا، فرمایا پس تمہارے  مال اور خون و آبرو آپس میں ایک دوسرے  پر ایسی ہی حرمت والے  ہیں  جیسے  اس دن کی اس شہر میں اور اس مہینے  میں حرمت ہے ۔ پھر بار بار اسی کو دوہرایا۔ پھر اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر فرمایا اے  اللہ! کیا میں نے  پہنچا دیا”۔ ابن عباس فرماتے  ہیں  اللہ کی قسم یہ آپ کے  رب کی طرف آپ کی وصیت تھی۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا دیکھو ہر حاضر شخص غیر حاضر کو یہ بات پہنچا دے ۔ دیکھو میرے  فرمان میرے  بندوں تک نہ پہنچائے  تو تو نے  حق رسالت ادا نہیں  کیا، پھر اس کی جو سزا ہے  وہ ظاہر ہے ، اگر ایک آیت بھی چھپا لی تو حق رسالت ادا نہ ہوا۔ حضرت مجاہد فرماتے  ہیں  جب یہ حکم نازل ہوا کہ جو کچھ اترا ہے  سب پہنچا دو تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا اللہ میں اکیلا ہوں اور یہ سب مل کر مجھ پر چڑھ دوڑتے  ہیں ، میں کس طرح کروں تو دوسرا جملہ اترا کہ اگر تو نے  نہ کیا تو تو نے  رسالت کا حق ادا نہیں  کیا۔ پھر فرمایا تجھے  لوگوں سے  بچا لینا میرے  ذمہ ہے ۔ تیرا حافظ و ناصر میں ہوں، بے  خطر رہئے  وہ کوئی تیرا کچھ نہیں  بگاڑ سکتے ، اس آیت سے  پہلے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم چوکنے  رہتے  تھے ، لوگ نگہبانی پر مقرر رہتے  تھے ۔ چنانچہ حضرت عائشہ فرماتے  ہیں  کہ ایک رات کو حضور بیدار تھے  انہیں  نیند نہیں  آ رہی تھی میں نے  کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! آج کیا بات ہے ؟ فرمایا کاش کہ میرا کوئی نیک بخت صحابی آج پہرہ دیتا، یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ میرے  کانوں میں ہتھیار کی آواز آئی آپ نے  فرمایا کون ہے ؟ جواب ملا کہ میں سعد بن مالک ہوں، فرمایا کیسے  آئے ؟ جواب دیا اس لئے  کہ رات بھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی چوکیداری کروں ۔ اس کے  بعد حضور صلی اللہ علیہ و سلم با آرام سو گئے ، یہاں تک کہ خراٹوں کی آواز آنے  لگی (بخاری و مسلم) ایک روایت میں ہے  کہ یہ واقعہ سنہ ٢ھ کا ہے ۔ اس آیت کے  نازل ہوتے  ہی آپ نے  خیمے  سے  سر نکال کر چوکیداروں سے  فرمایا، "جاؤ اب میں اللہ کی پناہ میں آ گیا، تمہاری چوکیداری کی ضرورت نہیں  رہی”۔ ایک روایت میں ہے  کہ ابو طالب آپ کے  ساتھ ساتھ کسی نہ کسی آدمی کو رکھتے ، جب یہ آیت اتری تو آپ نے  فرمایا بس چچا! اب میرے  ساتھ کسی کے  بھیجنے  کی ضرورت نہیں ، میں اللہ کے  بچاؤ میں آ گیا ہوں ۔ لیکن یہ روایت غریب اور منکر ہے  یہ واقعہ ہو تو مکہ کا ہو اور یہ آیت تو مدنی ہے ، مدینہ کی بھی آخری مدت کی آیت ہے ، اس میں شک نہیں  کہ مکے  میں بھی اللہ کی حفاظت اپنے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے  ساتھ رہی باوجود دشمن جاں ہونے  کے  اور ہر ہر اسباب اور سامان سے  لیس ہونے  کے  سردار ان مکہ اور اہل مکہ آپ کا بال تک بیکا نہ کر سکے ، ابتدا رسالت کے  زمانہ میں اپنے  چچا ابو طالب کی وجہ سے  جو کہ قریشیوں کے  سردار اور بارسوخ شخص تھے ، آپ کی حفاظت ہوتی رہی، ان کے  دل میں اللہ نے  آپ کی محبت اور عزت ڈال دی، یہ محبت اور عزت ڈال دی، یہ محبت طبعی تھی شرعی نہ تھی۔ اگر شرعی ہوتی تو قریش حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  ساتھ ہی ان کی بھی جان کے  خواہاں ہو جاتے ۔ ان کے  انتقال کے  بعد اللہ تعالیٰ نے  انصار کے  دلوں میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی شرعی محبت پیدا کر دی اور آپ انہی کے  ہاں چلے  گئے ۔ اب تو مشرکین بھی اور یہود بھی مل ملا کر نکل کھڑے  ہوئے ، بڑے  بڑے  سازو سامان لشکر لے  کر چڑھ دوڑے ، لیکن بار بار کی ناکامیوں نے  ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ اسی طرح خفیہ سازشیں بھی جتنی کیں، قدرت نے  وہ بھی انہی پر الٹ دیں ۔ ادھر وہ جادو کرتے  ہیں ، ادھر سورہ معوذتین نازل ہوتی ہے  اور ان کا جادو اتر جاتا ہے ۔ ادھر ہزاروں جتن کر کے  بکری کے  شانے  میں زہر ملا کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کر کے  آپ کے  سامنے  رکھتے  ہیں ، ادھر اللہ تعالیٰ اپنے  نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کی دھوکہ دہی سے  آگاہ فرما دیتا ہے  اور یہ ہاتھ کاٹتے  رہ جاتے  ہیں  اور بھی ایسے  واقعات آپ کی زندگی میں بہت سارے  نظر آتے  ہیں ۔ ابن جریر میں ہے  کہ "ایک سفر میں آپ ایک درخت تلے ، جو صحابہ اپنی عادت کے  مطابق ہر منزل میں تلاش کر کے  آپ کیلئے  چھوڑ دیتے  تھے ، دوپہر کے  وقت قیولہ کر رہے  تھے  تو ایک اعرابی اچانک آ نکلا، آپ کی تلوار جو اسی درخت میں لٹک رہی تھی، اتار لی اور میان سے  باہر نکال لی اور ڈانٹ کر آپ سے  کہنے  لگا، اب بتا کون ہے  جو تجھے  بچا لے ؟ آپ نے  فرمایا اللہ مجھے  بچائے  گا، اسی وقت اس اعرابی کا ہاتھ کانپنے  لگتا ہے  اور تلوار اس کے  ہاتھ سے  گر جاتی ہے  اور وہ درخت سے  ٹکراتا ہے ، جسے  سے  اس کا دماغ پاش پاش ہو جاتا ہے  اور اللہ تعالیٰ یہ آیت اتارتا ہے "۔ ابن ابی حاتم میں ہے  کہ جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  بنو نجار سے  غزوہ کیا” ذات الرقاع کھجور کے  باغ میں آپ ایک کنوئیں میں پیر لٹکائے  بیٹھے  تھے ، جو بنو نجار کے  ایک شخص وارث نامی نے  کہا دیکھو میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو قتل کرتا ہوں ۔ لوگوں نے  کہا کیسے ؟ کہا میں کسی حیلے  سے  آپ کی تلوار لے  لوں گا اور پھر ایک ہی وار کر کے  پار کر دوں گا۔ یہ آپ کے  پاس آیا اور ادھر ادھر کی باتیں بنا کر آپ سے  تلوار دیکھنے  کو مانگی، آپ نے  اسے  دے  دی لیکن تلوار کے  ہاتھ میں آتے  ہی اس پر اس بلا کا لرزہ چڑھا کہ آخر تلوار سنبھل نہ سکی اور ہاتھ سے  گر پڑی تو آپ نے  فرمایا تیرے  اور تیرے  بد ارادے  کے  درمیان اللہ حائل ہو گیا اور یہ آیت اتری۔ حویرث بن حارث کا بھی ایسا قصہ مشہور ہے ۔ ابن مردویہ میں ہے  کہ "صحابہ کی عادت تھی کہ سفر میں جس جگہ ٹھہرتے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کیلئے  گھنا سایہ دار بڑا درخت چھوڑ دیتے  کہ آپ اسی کیلئے  تلے  آرام فرمائیں، ایک دن آپ اسی طرح ایسے  درخت تلے  سو گئے  اور آپ کی تلوار اس درخت میں لٹک رہی تھی، ایک شخص آ گیا اور تلوار ہاتھ میں لے  کر کہنے  لگا، اب بتا کہ میرے  ہاتھ سے  تجھے  کون بچائے  گا؟ آپ نے  فرمایا اللہ بچائے  گا، تلوار رکھ دے  اور وہ اس قدر ہیبت میں آ گیا کہ تعمیل حکم کرنا ہی پڑی اور تلوار آپ کے  سامنے  ڈال دی۔ ” اور اللہ نے  یہ آیت اتاری کہ اللہ یعصمک من الناس مسند میں ہے  کہ "حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  ایک موٹے  آدمی کے  پیٹ کی طرف اشارہ کر کے  فرمایا اگر یہ اس کے  سوا میں ہوتا تو تیرے  لئے  بہتر تھا۔ ایک شخص کو صحابہ پکڑ کر آپ کے  پاس لائے  اور کہا یہ آپ کے  قتل کا ارادہ کر رہا تھا، وہ کانپنے  لگا، آپ نے  فرمایا گھبرا نہیں  چاہے  تو ارادہ کرے  لیکن اللہ اسے  پورا نہیں  ہونے  دے  گا”۔ پھر فرماتا ہے  تیرے  ذمہ صرف تبلیغ ہے ، ہدایت اللہ کے  ہاتھ ہے ، وہ کافروں کو ہدایت نہیں  دے  گا۔ تو پہنچا دے ، حساب کا لینے  والا اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔

۶۸

آخری رسول پر ایمان اولین شرط ہے

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے  کہ یہود و نصاریٰ کسی دین پر نہیں ، جب تک کہ اپنی کتابوں پر اور اللہ کی اس کتاب پر ایمان لائیں لیکن ان کی حالت تو یہ ہے  کہ جیسے  جیسے  قرآن اترتا ہے  یہ لوگ سرکشی اور کفر میں بڑھتے  جاتے  ہیں ۔ پس اے  نبی صلی اللہ علیہ و سلم تو ان کافروں کیلئے  حسرت و افسوس کر کے  کیوں اپنی جان کو روگ لگاتا ہے ۔ ضابی، نصرانیوں اور مجوسیوں کی بے  دین جماعت کو کہتے  ہیں  اور صرف مجوسیوں کو بھی علاوہ ازیں ایک اور گروہ تھا، یہود اور نصاریٰ دونوں مثل مجوسیوں کے  تھے ۔ قتادہ کہتے  ہیں  یہ زبور پڑھتے  تھے  غیر قبلہ کی طرف نمازیں پڑھتے  تھے  اور فرشتوں کو پوجتے  تھے ۔ وہب فرماتے  ہیں  اللہ کو پہچانتے  تھے ، اپنی شریعت کے  حامل تھے ، ان میں کفر کی ایجاد نہیں  ہوئی تھی، یہ عراق کے  متصل آباد تھے ، یلوثا کہے  جاتے  تھے ، نبیوں کو مانتے  تھے ، ہر سال میں تیس روزے  رکھتے  تھے  اور یمن کی طرف منہ کر کے  دن بھر میں پانچ نمازیں بھی پڑھتے  تھے  اس کے  سوا اور قول بھی ہیں  چونکہ پہلے  دو جملوں کے  بعد انکا ذکر آیا تھا، اس لئے  رفع کے  ساتھ عطف ڈالا۔ ان تمام لوگوں سے  جناب باری فرماتا ہے  کہ "امن و امان والے  بے  ڈر اور بے  خوف وہ ہیں  جو اللہ پر اور قیامت پر سچا ایمان رکھیں اور نیک اعمال کریں اور یہ ناممکن ہے ، جب تک اس آخری رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان نہ ہو جو کہ تمام جن و انس کی طرف اللہ کے  رسول بنا کر بھیجے  گئے  ہیں ۔ پس آپ پر ایمان لانے  والے  آنے  والی زندگی کے  خطرات سے  بے  خوف ہیں  اور یہاں چھوڑ کر جانے  والی چیزوں کو انہیں  کوئی تمنا اور حسرت نہیں "۔ سورہ بقرہ کی تفسیر میں اس جملے  کے  مفصل معنی بیان کر دیئے  گئے  ہیں ۔

۷۰

سیاہ عمل یہود اور نصاریٰ

اللہ تعالیٰ نے  یہود و نصاریٰ سے  وعدے  لئے  تھے  کہ وہ اللہ کے  احکام کے  عامل اور وحی کے  پابند رہیں  گے ۔ لیکن انہوں نے  وہ میثاق توڑ دیا۔ اپنی رائے  اور خواہش کے  پیچھے  لگ گئے  کتاب اللہ کی جو بات ان کی منشا اور رائے  کے  مطابق تھی مان لی جس میں اختلاف نظر آیا ترک کر دی، نہ صرف اتنا ہی کیا بلکہ رسولوں کے  مخالف ہو کر بہت سے  رسولوں کو جھوٹا بتایا اور بہتیروں کو قتل بھی کر دیا کیونکہ ان کے  لائے  ہوئے  احکام ان کی رائے  اور قیاس کے  خلاف تھے  اتنے  بڑے  گناہ کے  بعد بھی بے  فکر ہو کر بیٹھے  رہے  اور سمجھ لیا کہ ہمیں کوئی سزا نہ ہو گی لیکن انہیں  زبردست روحانی سزا دی گئی یعنی وہ حق سے  دور پھینک دیئے  گئے  اور اس سے  اندھے  اور بہرے  بنا دیئے  گئے  نہ حق کو سنیں اور نہ ہدایت کو دیکھ سکیں لیکن پھر بھی اللہ نے  ان پر مہربانی کی افسوس اس کے  بعد بھی ان میں سے  اکثر حق سے  نابینا اور حق کے  سننے  سے  محروم ہی ہو گئے  اللہ ان کے  اعمال سے  باخبر ہے  وہ جانتا ہے  کہ کون کس چیز کا مستحق ہے ۔

۷۲

خود ساختہ معبود بنانا ناقابل معافی جرم ہے

نصرانیوں کے  فرقوں کی یعنی ملکیہ، یعقوبیہ، نسطوریہ کی کفر کی حالت بیان کی جا رہی ہے  کہ یہ مسیح ہی کو اللہ کہتے  ہیں  اور مانتے  ہیں ۔ اللہ ان کے  قول سے  پاک، منزہ اور مبرا ہے  مسیح تو اللہ کے  غلام تھے  سب سے  پہلا کلمہ ان کا دنیا میں قدم رکھتے  ہی گہوارے  میں ہی یہ تھا کہ انی عبد اللہ میں اللہ کا غلام ہوں ۔ انہوں نے  یہ نہیں  کہا تھا کہ میں اللہ ہوں یا اللہ کا بیٹا ہوں بلکہ اپنی غلامی کا اقرار کیا تھا اور ساتھ ہی فرمایا تھا کہ میرا اور تم سب کا رب اللہ ہی ہے  اسی کی عبادت کرتے  رہو سیدھی اور صحیح راہ یہی ہے  اور یہی بات اپنی جوانی کے  بعد کی عمر میں بھی کہی کہ اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے  ساتھ دوسرے  کی عبادت کرنے  والے  یہ جنت حرام ہے  اور اس کیلئے  جہنم واجب ہے ۔ جیسے  قرآن کی اور آیت میں ہے  اللہ تعالیٰ شرک کو معاف نہیں  فرماتا۔ جہنمی جب جنتیوں سے  کھانا پانی مانگیں گے  تو اہل جنت کا یہی جواب ہو گا کہ یہ دونوں چیزیں کفار پر حرام ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے  بذریعہ منادی کے  مسلمانوں میں آواز لگوائی تھی کہ جنت میں فقط ایمان و اسلام والے  ہی جائیں گے ۔ سورہ نساء کی آیت ان اللہ لایغفر الخ، کی تفسیر میں وہ حدیث بھی بیان کر دی گئی ہے  جس میں ہے  کہ گناہ کے  تین دیوان ہیں  جس میں سے  ایک وہ ہے  جسے  اللہ نے  کبھی نہیں  بخشا اور وہ اللہ کے  ساتھ شرک کا ہے ۔ حضرت مسیح نے  بھی اپنی قوم میں یہی وعظ بیان کیا اور فرما دیا کہ ایسے  ناانصاف مشرکین کا کوئی مددگار بھی کھڑا نہ ہو گا۔ اب ان کا کفر بیان ہو رہا ہے  کہ جو اللہ کو تین میں سے  ایک مانتے  تھے  یہودی حضرت عزیز کو اور نصرانی حضرت عیسیٰ کو اللہ کا بیٹا کہتے  تھے  اور اللہ تین میں کا ایک مانتے  تھے  پھر ان تینوں کے  مقرر کرنے  میں بھی بہت بڑا اختلاف تھا اور ہر فرقہ دوسرے  کو کافر کہتا تھا اور حق تو یہ ہے  کہ سبھی سب کافر تھے  حضرت عیسیٰ سے  فرمائے  گا کیا تم نے  لوگوں سے  کہوا تھا کہ مجھے  اور میری والدہ کو بھی اللہ مانو، وہ اس سے  صاف انکار کریں گے  اور اپنی لاعلمی اور بے  گناہی ظاہر کریں گے ۔ زیادہ ظاہر قول بھی یہی ہے  واللہ اعلم۔ دراصل لائق عبادت سوائے  اس ذات واحد کے  اور کوئی نہیں  تمام کائنات اور کل موجودات کا معبود برحق وہی ہے ۔ اگر یہ اپنے  اس کافرانہ نظریہ سے  باز نہ آئے  تو یقیناً یہ المناک عذابوں کا شکار ہوں گے ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے  کرم وجود کو، بخشش و انعام اور لطف و رحمت کو بیان فرما رہا ہے  اور باوجود ان کے  اس قدر سخت جرم، اتنی اشد بے  حیائی اور کذب و افترا کے  انہیں  اپنی رحمت کی دعوت دیتا ہے  اور فرماتا ہے  کہ اب بھی میری طرف جھک جاؤ ابھی سب معاف فرما دوں گا اور دامن رحمت تلے  لے  لوں گا۔ حضرت مسیح اللہ کے  بندے  اور رسول ہی تھے ۔ ان جیسے  رسول ان سے  پہلے  بھی ہوئے  ہیں  جیسے  فرمایا ان ھو الاعبد الخ، وہ ہمارے  ایک غلام ہی تھے  ہاں ہم نے  ان پر رحمت نازل فرمائی تھی اور بنی اسرائیل کیلئے  قدرت کی ایک نشانی بنائی۔ والدہ عیسیٰ مومنہ اور سچ کہنے  والی تھیں اس لئے  معلوم ہوا کہ نبیہ نہ تھیں کیونکہ یہ مقام وصف ہے  تو بہترین وصف جو آپ کا تھا وہ بیان کر دیا اگر نبوت والی ہوتیں تو اس موقعہ پر اس کا بیان نہایت ضروری تھا۔ ابن حرم وغیرہ کا خیال ہے  کہ ام اسحاق اور ام موسیٰ اور ام عیسیٰ نبیہ تھیں اور دلیل یہ دیتے  ہیں  کہ فرشتوں نے  حضرت سارہ اور حضرت مریم سے  خطاب اور کلام کیا اور والدہ موسیٰ کی نسبت فرمان ہے  واواحینا الی ام موسیٰ الخ، ہم نے  موسیٰ کی والدہ کی طرف وحی کی کہ تو انہیں  دودھ پلا۔ لیکن جمہور کا مذہب اس کے  خلاف ہے  وہ کہتے  ہیں  کہ نبوت مردوں میں ہی رہی۔ جیسے  قرآن کا فرمان ہے  وما ارسلنا قبلک الا رجالا الخ، تجھ سے  پہلے  ہم نے  بستی والوں میں سے  مردوں ہی کی طرف رسالت انعام فرمائی ہے  شیخ ابو الحسن اشعری نے  تو اس پر اجماع نقل کیا ہے ۔ پھر فرماتا ہے  کہ ماں بیٹا تو دونوں کھانے  پینے  کے  محتاج تھے  اور ظاہر ہے  کہ جو اندر جائے  گا وہ باہر بھی آئے  گا پس ثابت ہوا کہ وہ بھی مثل اوروں کے  بندے  ہی تھے  اللہ کی صفات ان میں نہ تھیں دیکھ تو ہم کس طرح کھول کھول کر ان کے  سامنے  اپنی حجتیں پیش کر رہے  ہیں ؟ پھر یہ بھی دیکھ کہ باوجود اس کے  یہ کس طرح ادھر ادھر بھٹکتے  اور بھاگتے  پھرتے  ہیں ؟ کسے  گمراہ مذہب قبول کر رہے  ہیں ؟ اور کیسے  ردی اور بے  دلیل اقوال کو گرہ میں باندھے  ہوئے  ہیں ؟

۷۶

معبود ان باطل کی جو اللہ کے  سوا ہیں  عبادت کرنے  سے  ممانعت کی جاتی ہے  کہ ان تمام لوگوں سے  کہہ تو دو کہ جو تم سے  ضرر کو دفع کرنے  کی اور نفع کے  پہنچانے  کی کچھ بھی طاقت نہیں  رکھتے ، آخر تم کیوں انہیں  پوجے  چلے  جا رہے  ہو؟ تمام باتوں کے  سننے  والے  تمام چیزوں سے  باخبر اللہ سے  ہٹ کر بے  سمع و بصر، بے  ضرر و بے  نفع و بے  قدر اور بے  قدرت چیزوں کے  پیچھے  پڑ جانا یہ کون سی عقلمندی ہے ؟ اے  اہل کتاب اتباع حق کی حدود سے  آگے  نہ بڑھو، جس کی توقیر کرنے  کا جتنا حکم ہو اتنی ہی اس کی توقیر کرو۔ انسانوں کو جنہیں  اللہ نے  نبوت دی ہے  نبوت کے  درجے  سے  معبود تک نہ پہنچاؤ۔ جیسے  کہ تم جناب مسیح کے  بارے  میں غلطی کر رہے  ہو اور اس کی اور کوئی وجہ نہیں  بجز اس کے  کہ تم اپنے  پیروں مرشدوں استادوں اور اماموں کے  پیچھے  لگ گئے  ہو وہ تو خود ہی گمراہ ہیں  بلکہ گمراہ کن ہیں ۔ استقامت اور عدل کے  راستے  کو چھوڑے  ہوئے  انہیں  زمانہ گزر گیا۔ ضلالت اور بدعتوں میں مبتلا ہوئے  عرصہ ہو گیا۔ ابن ابی حاتم میں ہے  کہ ایک شخص ان میں بڑا پابند دین حق تھا ایک زمانہ کے  بعد شیطان نے  اسے  بہکا دیا کہ جو اگلے  کر گئے  وہی تم بھی کر رہے  ہو اس میں کیا رکھا ہے ؟ اس کی وجہ سے  نہ تو لوگوں میں تمہاری قدر ہو گی نہ شہرت تمہیں  چاہئے  کہ کوئی نئی بات ایجاد کرو اسے  لوگوں میں پھیلاؤ پھر دیکھو کہ کیسی شہرت ہوتی ہے ؟ اور کس طرح جگہ بہ جگہ تمہارا ذکر ہونے  لگتا ہے  چنانچہ اس نے  ایسا ہی کیا اس کی بدعتیں لوگوں میں پھیل گئیں اور زمانہ اس کی تقلید کرنے  لگا۔ اب تو اسے  بڑی ندامت ہوئی سلطنت و ملک چھوڑ دیا اور تنہائی میں اللہ کی عبادتوں میں مشغول ہو گیا لیکن اللہ کی طرف سے  اسے  جواب ملا کر میری خطا ہی صرف کی ہوتی تو میں معاف کر دیتا لیکن تو نے  عام لوگوں کو بگاڑ دیا اور انہیں  گمراہ کر کے  غلط راہ پر لگا دیا۔ جس راہ پر چلتے  چلتے  وہ مر گئے  ان کا بوجھ تجھ پر سے  کیسے  ٹلے  گا؟ میں تو تیری توبہ قبول نہیں  فرماؤں گا پس ایسوں ہی کے  بارے  میں یہ آیت اتری ہے ۔

۷۸

امر معروف سے  گریز کا انجام

ارشاد ہے  کہ بنو اسرائیل کے  کافر پرانے  ملعون ہیں ، حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ کی زبانی انہی کے  زمانہ میں ملعون قرار پا چکے  ہیں ۔ کیونکہ وہ اللہ کے  نافرمان تھے  اور مخلوق پر ظالم تھے ، توراۃ، انجیل، زبور اور قرآن سب کتابیں ان پر لعنت برساتی آئیں ۔ یہ اپنے  زمانہ میں بھی ایک دوسرے  کو برے  کاموں دیکھتے  تھے  لیکن چپ چاپ بیٹھے  رہتے  تھے ، حرام کاریاں اور گناہ کھلے  عام ہوتے  تھے  اور کوئی کسی کو روکتا نہ تھا۔ یہ تھا ان کا بدترین فعل۔ مسند احمد میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہے  کہ "بنو اسرائیل میں پہلے  پہل جب گناہوں کا سلسلہ چلا تو ان کے  علماء نے  انہیں  روکا۔ لیکن جب دیکھا کہ باز نہیں  آتے  تو انہوں نے  انہیں  الگ نہیں  کیا بلکہ انہی کے  ساتھ اٹھتے  بیٹھتے  کھاتے  پیتے  رہے ، جس کی وجہ سے  دونوں گروہوں کے  دلوں میں آپس میں ٹکرا دیا اللہ تعالیٰ نے  ایک دوسرے  کے  دل بھڑا دیئے  اور حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ کی زبانی ان پر اپنی لعنت نازل فرمائی۔ کیونکہ وہ نافرمان اور ظالم تھے ۔ اس کے  بیان کے  وقت حضور صلی اللہ علیہ و سلم ٹیک لگائے  ہوئے  تھے  لیکن اب ٹھیک ہو کر بیٹھ گئے  اور فرمایا نہیں  نہیں  اللہ کی قسم تم پر ضروری ہے  کہ لوگوں کو خلاف شرع باتوں سے  روکو اور انہیں  شریعت کی پابندی پر لاؤ۔ "، ابو داؤد کی حدیث میں ہے  کہ "سب سے  پہلے  برائی بنی اسرائیل میں داخل ہوئی تھی کہ ایک شخص دوسرے  کو خلاف شرع کوئی کام کرتے  دیکھتا تو اسے  روکتا، اسے  کہتا کہ اللہ سے  ڈر اور اس برے  کام کو چھوڑ دے ۔ یہ حرام ہے ۔ لیکن دوسرے  روز جب وہ نہ چھوڑتا تو یہ اس سے  کنارہ کشی نہ کرتا بلکہ اس کا ہم نو آلہ پیالہ رہتا اور میل جول باقی رکھتا، اس وجہ سے  سب میں ہی سنگدلی آ گئی۔ پھر آپ نے  اس پوری آیت کی تلاوت کر کے  فرمایا واللہ تم پر فرض ہے  کہ بھلی باتوں کا ہر ایک کو حکم کرو، برائیوں سے  روکو، ظالم کو اس کے  ظلم سے  باز رکھو اور اسے  تنگ کرو کہ حق پر آ جائے ۔ ” ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث موجود ہے ۔ ابو داؤد وغیرہ میں اسی حدیث کے  آخر میں یہ بھی ہے  کہ اگر تم ایسا نہ کرو گے  تو اللہ تمہارے  دلوں کو بھی آپس میں ایک دوسرے  کے  ساتھ ٹکرا دے  گا اور تم پر اپنی پھٹکار نازل فرمائے  گا جیسی ان پر نازل فرمائی۔ اس بارے  میں اور بہت سی حدیثیں ہیں  کچھ سن بھی لیجئے  حضرت جابر والی حدیث تو آیت لولا ینھاھم الربانیون الخ، کی تفسیر میں گزر چکی اور یا ایھا الذین امنوا علیکم انفسکم کی تفسیر میں حضرت ابوبکر اور حضرت ابو ثعلبہ کی حدیثیں آئیں گی، انشاء اللہ تعالیٰ۔ مسند اور ترمذی ہے  کہ "یا تو تم بھلائی کا حکم اور برائی سے  منع کرتے  رہو گے  یا اللہ تم پر اپنی طرف سے  کوئی عذاب بھیج دے  گا پھر تم اس سے  دعائیں بھی کرو گے  لیکن وہ قبول نہیں  فرمائے  گا۔ ” ابن ماجہ میں ہے  "اچھائی کا حکم اور برائی سے  ممانعت کرو اس سے  پہلے  کہ تمہاری دعائیں قبول ہونے  سے  روک دی جائیں ۔ ” صحیح حدیث میں ہے  "تم میں سے  جو شخص خلاف شرع کام دیکھے ، اس پر فرض ہے  کہ اسے  اپنے  ہاتھ سے  مٹائے  اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے ، اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو دل سے  اور بہت ہی ضعیف ایمان والا ہے ” (مسلم) مسند احمد میں ہے  "اللہ تعالیٰ خاص لوگوں کے  گناہوں کی وجہ سے  عام لوگوں کو عذاب نہیں  کرتام لیکن اس وقت کہ برائیاں ان میں پھیل جائیں اور وہ باوجود قدرت کے  انکار نہ کریں، اس وقت عام خاص سب کو اللہ تعالیٰ عذاب میں گھیر لیتا ہے ۔ ” ابو داؤد میں ہے  کہ جس جگہ اللہ کی نافرمانی ہونی شروع ہو وہاں جو بھی ہو، ان خلاف شرع امور سے  ناراض ہو (ایک اور روایت میں ہے  ان کا انکار کرتا ہو) وہ مثل اس کے  ہے  جو وہاں حاضر ہی نہ ہو اور جو ان خطاؤں سے  راضی ہو گو وہاں موجود نہ ہو وہ ایسا ہے  گویا ان میں حاضر ہے ۔ ابو داؤد میں ہے  لوگوں کے  عذر جب تک ختم نہ ہو جائیں وہ ہلاک نہ ہوں گے ۔ ابن ماجہ میں ہے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  اپنے  خطبے  میں فرمایا خبردار کسی شخص کو لوگوں کی ہیبت حق بات کہنے  سے  روک نہ دے ۔ اس حدیث کو بیان فرما کر حضرت ابو سعید خدری رو پڑے  اور فرمانے  لگے  افسوس ہم نے  ایسے  موقعوں پر لوگوں کی ہیبت مان لی۔ ابو داؤد، ترمذی اور ابن ماجہ میں ہے  افضل جہاد کلمہ حق ظالم بادشاہ کے  سامنے  کہہ دینا ہے  ابن ماجہ میں ہے  کہ جمرۂ اولیٰ کے  پاس حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  سامنے  ایک شخص آیا اور آپ سے  سوال کیا کہ سب سے  افضل جہاد کون سا ہے ؟ آپ خاموش رہے ۔ پھر آپ جمرۂ ثانیہ پر آئے  تو اس نے  پھر وہی سوال کیا مگر آپ خاموش ہو رہے  جب جمرۂ عقبہ پر کنکر مار چکے  اور سواری پر سوار ہونے  کے  ارادے  سے  رکلب میں پاؤں رکھے  تو دریافت فرمایا کہ وہ پوچھنے  والا کہاں ہے ؟ اس نے  کہا حضور صلی اللہ علیہ و سلم میں حاضر ہوں فرمایا حق بات ظالم بادشاہ کے  سامنے  کہہ دینا۔ ابن ماجہ میں ہے  کہ تم میں سے  کسی شخص کو اپنی بے  عزتی نہ کرنی چاہئے  لوگوں نے  پوچھا؟ حضور صلی اللہ علیہ و سلم یہ کیسے ؟ فرمایا خلاف شرع کوئی امر دیکھے  اور کچھ نہ کہے  قیامت کے  دن اس سے  باز پرس ہو گی کہ فلاں موقعے  پر تو کیوں خاموش رہا؟ یہ جواب دے  گا کہ لوگوں کے  ڈر کی وجہ سے  تو اللہ تعالیٰ فرمائے  گا میں سب سے  زیادہ حقدار تھا کہ تو مجھ سے  خوف کھائے ۔ ایک روایت میں ہے  کہ جب اسے  اللہ تلقین حجت کرے  گا تو یہ کے  گا کہ تجھ سے  تو میں نے  امید رکھی اور لوگوں سے  خوف کھا گیا۔ مسند احمد میں ہے  کہ مسلمانوں کو اپنے  تئیں ذلیل نہ کرنا چاہئے ۔ لوگوں نے  پوچھا کیسے ؟ فرمایا ان بلاؤں کو سر پر لینا جن کی برداشت کی طاقت نہ ہو۔ ابن ماجہ میں ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  سوال کیا گیا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کب چھوڑی جائے ؟ فرمایا اس وقت جب تم میں بھی وہی خرابی ہو جائے  جو تم سے  اگلوں میں ظاہر ہوئی تھی ہم نے  پوچھا وہ کیا چیز ہے ؟ فرمایا کمینے  آدمیوں میں سلطنت کا چلا جانا۔ بڑے  آدمیوں میں بدکاری کا آ جانا۔ رذیلوں میں علم کا آ جانا۔ حضرت زید کہتے  ہیں  رذیلوں میں علم آ جانے  سے  مراد فاسقوں میں علم کا آ جانا ہے ۔ اس حدیث کی شاہد حدیثیں ابو ثعلبہ کی روایت سے  آیت لایضرکم کی تفسیر میں آئیں گی انشاء اللہ تعالیٰ۔ پھر فرماتا ہے  کہ اکثر منافقوں کو تو دیکھے  گا کہ وہ کافروں سے  دوستیاں گانٹھتے  ہیں  ان کے  اس فعل کی وجہ سے  یعنی مسلمانوں سے  دوستیاں چھوڑ کر کافروں سے  دوستیاں کرنے  کی وجہ سے  انہوں نے  اپنے  لئے  برا ذخیرہ جمع کر رکھا ہے ۔ اس کی پاداش میں ان کے  دلوں میں نفاق پیدا ہو گیا ہے ۔ اور اسی بناء پر اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا ہے  اور قیامت کے  دن کیلئے  دائمی عذاب بھی ان کیلئے  آگے  آ رہے  ہیں ۔ ابن ابی حاتم میں ہے  اسے  مسلمانو، زنا کاری سے  بچو، اس سے ۔ چھ برائیاں آتی ہیں ، تین دنیا میں اور تین آخرت میں ۔ اس سے  عزت و وقار، رونق و تازگی جاتی رہتی ہے ۔ اس سے  فقرو فاقہ آ جاتا ہے ۔ اس سے  عمر گھٹتی ہے  اور قیامت کے  دن تین برائیاں یہ ہیں  اللہ کا غضب، حساب کی سختی اور برائی، اور جہنم کا خلود۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  اسی آخری جملے  کی تلاوت فرمائی۔ یہ حدیث ضعیف ہے  واللہ اعلم۔ پھر فرماتا ہے  اگر یہ لوگ اللہ پر اس کے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر اور قرآن پر پورا ایمان رکھتے  تو ہرگز کافروں سے  دوستیاں نہ کرتے  اور چھپ چھپا کر ان سے  میل ملاپ جاری نہ رکھتے ۔ نہ سچے  مسلمانوں سے  دشمنیاں رکھتے ۔ دراصل بات یہ ہے  کہ ان میں سے  اکثر لوگ فاسق ہیں  یعنی اللہ اور اس کے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت سے  خارج ہو کے  ہیں  اس کی وحی اور اس کے  پاک کلام کی آیتوں کے  مخالف بن بیٹھے  ہیں ۔

۸۲

یہودیوں کا تاریخی کردار

یہ آیت اور اس کے  بعد کی چار آیتیں نجاشی اور ان کے  ساتھیوں کے  بارے  میں اتری ہیں ۔ جب ان کے  سامنے  حبشہ کے  ملک میں حضرت جعفر بن ابو طالب نے  قرآن کریم پڑھا تو ان کی آنکھوں سے  آنسو جاری ہو گئے  اور ان کی داڑھیاں تر ہو گئیں ۔ یہ خیال رہے  کہ یہ آیتیں مدینے  میں اتری ہیں  اور حضرت جعفر کا یہ واقعہ ہجرت سے  پہلے  کا ہے ۔ یہ بھی مروی ہے  کہ یہ آیتیں اس وفد کے  بارے  میں نازل ہوئی ہیں  جسے  نجاشی نے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں بھیجا تھا کہ وہ آپ سے  ملیں، حاضر خدمت ہو کر آپ کے  حالات و صفات دیکھیں اور آپ کا کلام سنیں ۔ جب یہ آئے  آپ سے  ملے  اور آپ کی زبان مبارک سے  قرآن کریم سنا تو ان کے  دل نرم ہو گئے  بہت روئے  دھوئے  اور اسلام قبول کیا اور واپس جا کر نجاشی سے  سب حال کہا نجاشی اپنی سلطنت چھوڑ کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف ہجرت کر کے  آنے  لگے  لیکن راستے  میں ہی انتقال ہو گیا۔ یہاں بھی یہ خیال رہے  کہ یہ بیان صرف سدی کا ہے  اور صحیح روایات سے  یہ ثابت ہے  کہ وہ حبشہ میں ہی سلطنت کرتے  ہوئے  فوت ہوئے  ان کے  انتقال والے  دن ہی حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  صحابہ کو ان کے  انتقال کی خبر دی اور ان کی نماز جنازہ غائبانہ ادا کی۔ بعض تو کہتے  ہیں  اس وفد میں سات تو علماء تھے  اور پانچ زاہد تھے  یا پانچ علماء اور سات زاہد تھے ۔ بعض کہتے  ہیں  یہ کل پچاس آدمی تھے  اور کہا گیا ہے  کہ ساٹھ سے  کچھ اوپر تھے  ایک قول یہ بھی ہے  کہ یہ ستر تھے ۔ فاللہ اعلم۔ حضرت عطا فرماتے  ہیں  جن کے  اوصاف آیت میں بیان کئے  گئے  ہیں  یہ اہل حبشہ ہیں ۔ مسلمان مہاجرین حبشہ جب ان کے  پاس پہنچے  تو یہ سب مسلمان ہو گئے  تھے ۔ حضرت قتادہ فرماتے  ہیں  پہلے  یہ دین عیسوی پر قائم تھے  لیکن جب انہوں نے  مسلمانوں کو دیکھا اور قرآن کریم کو سنا تو فوراً سب مسلمان ہو گئے ۔ امام ابن جریر کا فیصلہ ان سب اقوال کو ٹھیک کر دیتا ہے  اور فرماتے  ہیں  کہ یہ آیتیں ان لوگوں کے  بارے  میں ہیں  جن میں یہ اوصاف ہوں خواہ وہ حبشہ کے  ہوں یا کہیں  کے ۔ یہودیوں کو مسلمانوں سے  جو سخت دشمنی ہے  اس کی وجہ یہ ہے  کہ ان میں سرکشی اور انکار کا مادہ زیادہ ہے  اور جان بوجھ کر کفر کرتے  ہیں  اور ضد سے  ناحق پر اڑتے  ہیں ، حق کے  مقابلہ میں بگڑ بیٹھتے  ہیں  حق والوں پر حقارت کی نظریں ڈالتے  ہیں  ان سے  بغض و بیر رکھتے  ہیں ۔ علم سے  کورے  ہیں  علماء کی تعداد ان میں بہت ہی کم ہے  اور علم اور ذی علم لوگوں کی کوئی وقعت ان کے  دل میں نہیں  یہی تھے  جنہوں نے  بہت سے  انبیاء کو قتل کیا خود پیغمبر الزمان احمد مجتبیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کے  قتل کا ارادہ بھی کیا اور ایک دفعہ نہیں  بلکہ بار بار۔ آپ کو زہر دیا، آپ پر جادو کیا اور اپنے  جیسے  بدباطن لوگوں کو اپنے  ساتھ ملا کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر حملے  کئے  لیکن اللہ نے  ہر مرتبہ انہیں  نامراد اور ناکام کیا۔ ابن مردویہ میں ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  ہیں  جب کبھی کوئی یہودی کسی مسلمانوں کو تنہائی میں پاتا ہے  اس کے  دل میں اس کے  قتل کا قصد پیدا ہوتا ہے  ایک دوسری سند سے  بھی یہ حدیث مروی ہے  لیکن ہے  بہت ہی غریب ہاں مسلمانوں سے  دوستی میں زیادہ قریب وہ لوگ ہیں  جو اپنے  تئیں نصاریٰ کہتے  ہیں  حضرت مسیح کے  تابعدار ہیں  انجیل کے  اصلی اور صحیح طریقے  پر قائم ہیں  ان میں ایک حد تک فی الجملہ مسلمانوں اور اسلام کی محبت ہے  یہ اس لئے  کہ ان میں نرم دلی ہے  جیسے  ارشاد باری وجعلنا فی قلوب الذین اتبعوہ رافۃ و رحمۃ الخ، یعنی حضرت عیسیٰ کے  تابعداروں کے  دلوں میں ہم نے  نرمی اور رحم ڈال دیا ہے ۔ ان کی کتاب میں حکم ہے  کہ جو تیرے  داہنے  کلے  پر تھپڑ مارے  تو اس کے  سامنے  بیاں کلہ بھی پیش کر دے ۔ ان کی شریعت میں لڑائی ہے  ہی نہیں ۔ یہاں ان کی اس دوستی کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ ان میں خطیب اور واعظ ہیں  قسسین اور قس کی قسیسین ہے  قسوس بھی اس کی جمع آتی ہے  رھبان جمع ہے  راہب کی، راہب کہتے  ہیں  عابد کو۔ یہ لفظ مشتق ہے  رہب سے  اور رہبت کے  معنی ہیں  خوف اور ڈر کے ۔ جیسے  راکب کی جمع رکبان ہے  اور فرسان ہے  امام ابن جریر فرماتے  ہیں  کبھی رہبان واحد کیلئے  بھی آتا ہے  اور اس کی جمع رہابین آتی ہے  جیسے  قربان اور قرابین اور جوازن اور جوازین اور کبھی اس کی جمع رہابنہ بھی آتی ہے ۔ عرب کے  اشعار میں بھی لفظ رہبان واحد کیلئے  آیا۔ حضرت سلمان سے  ایک شخص قسیسین و رھبانا پڑھ کر اس کے  معنی دریافت کرتا ہے  تو آپ فرماتے  ہیں  قسیسین کو خانقا ہوں اور غیر آباد جگہوں میں چھوڑ مجھے  تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  صدیقین و رھبانا پڑھایا (بزار اور ابن مردویہ) الغرض ان کے  تین اوصاف یہاں بیان ہوئے  ہیں  ان میں عالموں کا ہونا۔ ان میں عابدوں کا ہونا۔ ان میں تواضع فروتنی اور عاجزی کا ہونا۔

۸۳

ایمان والو کی پہچان

اوپر بیان گزر چکا ہے  کہ عیسائیوں میں سے  جو نیک دل لوگ اس پاک مذہب اسلام کو قبول کئے  ہوئے  ہیں  ان میں جو اچھے  اوصاف ہیں  مثلاً عبادت، علم، تواضع، انکساری وغیرہ، ساتھ ہی ان میں رحمدلی وغیرہ بھی ہے  حق کی قبولیت بھی ہے  اللہ کے  احکامات کی اطلاعت بھی ہے  ادب اور لحاظ سے  کلام اللہ سنتے  ہیں، اس سے  اثر لیتے  ہیں  اور نرم دلی سے  رو دیتے  ہیں  کیونکہ وہ حق کے  جاننے  والے  ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کے  بشارت سے  پہلے  ہی آگاہ ہو چکے  ہیں  ۔ اس لئے  قرآن سنتے  ہی دل موم ہو جاتے  ہیں  ۔ ایک طرف آنکھیں آنسو بہانے  لگتی ہیں  دوری جانب زبان سے  حق کو تسلیم کرتے  ہیں  ۔ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے  ہیں  یہ آیتیں حضرت نجاشی اور ان کے  ساتھیوں کے  بارے  میں نازل ہوئی ہیں  ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا بیان ہے  کہ کچھ لوگ حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے  ساتھ جشہ سے  آئے  تھے  حضور کی زبان مبارک سے  قرآن کریم سن کر ایمان لائے  اور بے  تحاشہ رونے  لگے  ۔ آپ نے  ان سے  دریاف فرمایا کہ کہیں  اپنے  وطن پہنچ کر اس سے  پھر تو نہیں  جاؤ گے ؟ انہوں ں ے  کہا ناممکن ہے  اسی کا بیان ان آیتوں میں ہے  ۔ حضرت ابن عباس فرماتے  ہیں  شاہدوں سے  مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کی تبلیغ کی شہادت ہے  پھر اس قسم کے  نصرانیوں کا ایک اور وصف بیان ہو رہا ہے  ان ہی کا دوسرا وصف اس آیت میں ہے  آیت (وان من اہل الکتاب لمن یومن باللہ و ما انزل الیکم و ما انزل الیھم خاشعین للہ) الخ، یعنی اہل کتاب میں ایسے  لوگ بھی ہیں  جو اللہ پر اور اس قرآن پر اور جوان پر نازل کیا گیا ہے  سب پر ایمان رکھتے  ہیں  اور پھر اللہ سے  ڈرنے  والے  بھی ہیں  ۔ ان ہی کے  بارے  میں فرمان ربانی آیت (الذین اتیناھم الکتاب من قبلہ ہم بہ یومنون سے  لا نتبغی الجاھلین) تک ہے  ۔ کہ یہ لوگ اس کتاب کو اور اس کتاب کو سچ جانتے  ہیں  اور دونوں پر ایمان رکھتے  ہیں  ۔ پس یہاں بھی فرمایا کہ وہ کہتے  ہیں  کہ جب ہمیں صالحین میں ملنا ہے  تو اللہ پر اور اس کی اس آخری کتاب پر ہم ایمان کیوں نہ لائیں ؟ ان کے  اس ایمان و تصدیق اور قبولیت حق کا بدلہ اللہ نے  انہیں  یہ دیا کہ وہ ہمیشہ رہنے  والے  ترو تازہ باغات و چشموں والی جنتوں میں جائیں گے  ۔ محسن، نیکو کار، مطیع حق، تابع فرمان الٰہی لوگوں کی جزا یہی ہے، وہ کہیں  کے  بھی ہوں کوئی بھی ہوں ۔ جو ان کے  خلاف ہیں  انجام کے  لحاظ سے  بھی ان کے  برعکس ہیں، کفرو تکذب اور مخالفت یہاں ان کا شیوہ ہے  اور وہاں جہنم ان کا ٹھکانا ہے  ۔

۸۷

رہبانیت (خانقاہ نشینی) اسلام میں ممنوع ہے

 ابن ابی حاتم میں ہے  کہ چند صحابہ نے  آپس میں کہا کہ ہم خصی ہو جائیں، دنیوی لذتوں کو ترک کر دیں، بستی چھوڑ کر جنگلوں میں جا کر تارک دنیا لوگوں کی طرح زندگی یاد الٰہی میں بسر کریں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کی یہ باتیں معلوم ہو گئیں، آپ نے  انہیں  یاد فرمایا اور ان سے  پوچھا، انہوں نے  اقرار کیا، اس پر آپ نے  فرمایا تم دیکھ نہیں  رہے ؟ کہ میں نفلی روزے  رکھتا ہوں اور نہیں  بھی رکھتا ۔ رات کو نفلی نماز پڑھتا بھی ہوں اور سوتا بھی ہوں ۔ میں نے  نکاح بھی کر رکھے  ہیں  ۔ سنو جو میرے  طریقے  پر ہو وہ تو میرا ہے  اور جو میری سنتوں کو نہ لے  وہ میرا نہیں  ۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے  کہ "لوگوں نے  امہات المومنین سے  حضور کے  اعمال کی نسبت سوال کیا پھر بعض نے  کہا کہ ہم گوشت نہیں  کھائیں گے  بعض نے  کہا ہم نکاح نہیں  کریں گے  بعض نے  کہا ہم بستر پر سوئیں گے  ہی نہیں ، جب یہ واقعہ حضور کے  گوش گزار ہوا تو آپ نے  فرمایا ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے  کہ ان میں سے  بعض یوں کہتے  ہیں  حالانکہ میں روزہ رکھتا ہوں اور نہیں  بھی رکھتا، سوتا بھی ہوں اور تہجد بھی پڑھتا ہوں، گوشت بھی کھاتا ہوں اور نکاح بھی کئے  ہوئے  ہوں جو میری سنت سے  منہ موڑے  وہ میرا نہیں  ۔ ترمذی وغیرہ میں ہے  کہ کسی شخص نے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ گوشت کھانے  سے  میری قوت باہ بڑھ جاتی ہے  اس لئے  میں نے  اپنے  اوپر گوشت کو حرام کر لیا ہے  اس پر یہ آیت اتری۔ امام ترمذی اسے  حسن غریب بتاتے  ہیں  اور سند سے  بھی یہ روایت مرسلاً مروی ہے  اور موقوفا بھی واللہ اعلم ۔ بخاری و مسلم میں ہے  حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں  ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ماتحتی میں جہاد کرتے  تھے  اور ہمارے  ساتھ ہماری بیویاں نہیں  ہوتی تھیں تو ہم نے  کہا اچھا ہو گا اگر ہم خصی ہو جائیں لیکن اللہ کے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے  ہمیں اس سے  روکا اور مدت معینہ تک کیلئے  کپڑے  کے  بدلے  پر نکاح کرنے  کی رخصت ہمیں عطا فرمائی پھر حضرت عبد اللہ نے  یہی آیت پڑھی ۔ یہ یاد رہے  کہ یہ نکاح کا واقعہ متعہ کی حرمت سے  پہلے  کا ہے  واللہ اعلم۔ ۔ معقل بن مقرن نے  حضرت عبد اللہ بن مسعود کو کہا کہ میں نے  تو اپنا بستر اپنے  اوپر حرام کر لیا ہے  تو آپ نے  یہی آیت تلاوت فرمائی ۔ حضرت ابن مسعود کے  سامنے  کھانا لایا جاتا ہے  تو ایک شخص اس مجمع سے  الگ ہو جاتا ہے  آپ اسے  بلاتے  ہیں  کہ آؤ ہمارے  ساتھ کھا لو وہ کہتا ہے  میں نے  تو اس چیز کا کھانا اپنے  اوپر حرام کر رکھا ہے  ۔ آپ فرماتے  ہیں  آؤ کھا لو اپنی قسم کا کفارہ دے  دینا، پھر آپ نے  اسی آیت کی تلاوت فرمائی (مستدرک حاکم) ابن ابی حاتم میں ہے  کہ حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے  گھر کوئی مہمان آئے  آپ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  پاس سے  رات کو جب واپس گھر پہنچے  تو معلوم ہوا کہ گھر والوں نے  آپ کے  انتظار میں اب تک مہمان کو بھی کھانا نہیں  کھلایا ۔ آپ کو بہت غصہ آیا اور فرمایا تم نے  میری وجہ سے  مہمان کو بھوکا رکھا، یہ کھانا مجھ پر حرام ہے  ۔ بیوی صاحبہ بھی ناراض ہو کر یہی کہہ بیٹھیں مہمان نے  دیکھ کر اپنے  اوپر بھی حرام کر لیا اب تو حضرت عبد اللہ بہت گھبرائے  کھانے  کی طرف ہاتھ بڑھایا اور سب سے  کہا چلو بسم اللہ کرو کھا پی لیا پھر جب حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے  سارا واقعہ کہہ سنایا پس یہ آیت اتری، لیکن اثر منقطع ہے، صحیح بخاری شریف میں اس جیسا ایک قصہ حضرت ابوبکر صدیق کا اپنے  مہمانوں کے  ساتھ کا ہے  اس سے  امام شافعی وغیرہ علماء کا وہ قوم ثابت ہوتا ہے  کہ جو شخص علاوہ عورتوں کے  کسی اور کھانے  پینے  کی چیز کو اپنے  اوپر حرام کر لے  تو وہ اس پر حرام نہیں  ہو جاتی اور نہ اس پر اس میں کوئی کفارہ ہے ، دلیل یہ آیت اور دوسری وہ حدیث ہے  جو اوپر گزر چکی کہ جس شخص نے  اپنے  اوپر گوشت حرام کر لیا تھا اسے  حضور نے  کسی کفارے  کا حکم نہیں  فرمایا ۔ لیکن امام احمد اور ان کے  ہم خیال جماعت علماء کا خیال ہے  کہ جو شخص کھانے  پہننے  وغیرہ کی کسی چیز کو اپنے  اوپر حرام کر لے  تو اس پر قسم کا کفارہ ہے  ۔ جیسے  اس شخص پر جو کسی چیز کے  ترک پر قسم کھا لے  ۔ حضرت ابن عباس کا فتویٰ یہی ہے  اور اس کی دلیل یہ آیت (یا یھا النبی لم تحرم) الخ، بھی ہے  اور اس آیت کے  بعد ہی کفارہ قسم کا ذکر بھی اسی امر کا مقتضی ہے  کہ یہ حرمت قائم مقام قسم کے  ہے  واللہ اعلم ۔ حضرت مجاہد فرماتے  ہیں  بعض حضرات نے  ترک دنیا کا، خصی ہو جانے  کا اور ٹاٹ پہننے  کا عزم مصمم کر لیا اس پر یہ آیتیں اتریں ۔ ایک روایت میں ہے  کہ حضرت عثمان بن مظعون، حضرت علی بن ابی طالب، حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت مقداد بن اسود، حضرت سالم مولی، حضرت ابی حذیفہ وغیرہ ترک دنیا کا ارادہ کر کے  گھروں میں بیٹھ رہے  باہر آنا جانا ترک کر دیا عورتوں سے  علیحدگی اختیار کر لی ٹاٹ پہننے  لگے  اچھا کھانا اور اچھا پہننا حرام کر لیا اور نبی اسرائیل کے  عابدوں کی وضع کر لی بلکہ ارادہ کر لیا کہ خصی ہو جائیں تاکہ یہ طاقت ہی سلب ہو جائے  اور یہ بھی نیت کر لی کہ تمام راتیں عبادت میں اور تمام دن روزے  میں گزاریں گے  اس پر یہ آیت اتری یعنی یہ خلاف سنت ہے  ۔ پس حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  انہیں  بلا کر فرمایا کہ تمہاری جانوں کا تم پر حق ہے، تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے  ۔ نفل روزے  رکھو اور کبھی کبھی چھوڑ بھی دو ۔ نفل نماز رات کو پڑھو اور کچھ دیر سو بھی جاؤ جو ہماری سنت کو چھوڑ دے  وہ ہم میں سے  نہیں  اس پر ان بزرگوں نے  فرمایا یا اللہ ہم نے  سنا اور جو فرمان ہوا اس پر ہماری گردنیں خم ہیں  ۔ یہ واقعہ بہت سے  تابعین سے  مرسل سندوں سے  مروی ہے  ۔ اس کی شاہد وہ مرفوع حدیث بھی ہے  جو اوپر بیان ہو چکی ۔ فالحمد اللہ ۔ ابن جریر میں ہے  کہ ایک دن رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے  صحابہ کے  سامنے  وعظ کیا اور اس میں خوف اور ڈر کا ہی بیان تھا اسے  سن کر دس صحابیوں نے  جن میں حضرت علی، حضرت عثمان بن مظعون وغیرہ تھے  آپس میں کہا کہ ہمیں تو کوئی بڑے  بڑے  طریقے  عبادت کے  اختیار کرنا چاہئیں نصرانیوں کو دیکھو کہ انہوں نے  اپنے  نفس پر بہت سی چیزیں حرام کر رکھی ہیں  اس پر کسی نے  گوشت اور چربی وغیرہ کھانا اپنے  اوپر حرام کیا، کسی نے  دن کو کھانا بھی حرام کر لیا، کسی نے  رات کی نیند اپنے  اوپر حرام کر لی، کسی نے  عورتوں سے  مباشرت حرام کر لی ۔ حضرت عثمان بن مظعون نے  اپنی بیوی سے  میل جول اسی بنا پر ترک کر دیا ۔ میاں بیوی اپنے  صحیح تعلقات سے  الگ رہنے  لگے  ایک دن یہ بیوی صاحبہ حضرت خولہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کے  پاس آئیں وہاں حضور کی ازواج مطہرات بھی تھیں انہیں  پراگندہ حالت میں دیکھ کر سب نے  پوچھا کہ تم نے  اپنا یہ حلیہ کیا بنا رکھا ہے ؟ نہ کنگھی نہ چوٹی کی خبر ہے  نہ لباس ٹھیک ٹھاک ہے  نہ صفائی اور خوبصورتی کا خیال ہے ؟ کیا بات ہے ؟ حضرت خولہ رضی اللہ عنہا نے  فرمایا مجھے  اب اس بناؤ سنگار کی ضرورت ہی کیا رہی ؟ اتنی مدت ہوئی جو میرے  میاں مجھ سے  ملے  ہی نہیں  نہ کبھی انہوں نے  میرا کپڑا ہٹایا، یہ سن کر اور بیویاں ہنسنے  لگیں اتنے  میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے  اور دریاف فرمایا کہ یہ ہنسی کیسی ہے ؟ حضرت عائشہ نے  سارا واقعہ بیان فرمایا آپ نے  اسی وقت آدمی بھیج کر حضرت عثمان کو بلوایا اور فرمایا یہ کیا قصہ ہے ؟ حضرت عثمان نے  کل واقعہ بیان کر کے  کہا کہ میں نے  اسے  اس لئے  چھوڑ رکھا ہے  کہ اللہ کی عبادت دلچسپی اور فارغ البالی سے  کر سکوں بلکہ میرا ارادہ ہے  کہ میں خصی ہو جاؤں تاکہ عورتوں کے  قابل ہی نہ رہوں ۔ آپ نے  فرمایا میں تجھے  قسم دیتا ہوں جا اپنی بیوی سے  میل کر لے  اور اس سے  بات چیت کر ۔ جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت تو میں روزے  سے  ہوں فرمایا جاؤ روزہ توڑ ڈالو چنانچہ انہوں نے  حکم برداری کی، روزہ توڑ دیا اور بیوی سے  بھی ملے  ۔ اب پھر جو حضرت خولاء آئیں تو وہ اچھی ہئیت میں تھیں ۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ نے  ہنس کر پوچھا کہو اب کیا حال ہے  جواب دیا کہ اب حضرت عثمان نے  اپنا عہد توڑ دیا ہے  اور کل وہ مجھ سے  ملے  بھی ۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  لوگوں میں فرمایا لوگو یہ تمہارا کیا حال ہے  کہ کوئی بیویاں حرام کر رہا ہے، کوئی کھانا، کوئی سونا۔ تم نہیں  دیکھتے  کہ میں سوتا بھی ہوں اور قیام بھی کرتا ہوں، افطار بھی کرتا ہوں اور روزے  سے  بھی رہتا ہوں ۔ عورتوں سے  ملتا بھی ہوں نکاح بھی کر رکھے  ہیں ۔ سنو جو مجھ سے  بے  رغبتی کرے  وہ مجھ سے  نہیں  ہے ، اس پر یہ آیت اتری ۔ حد سے  نہ گزرو سے  مطلب یہ ہے  کہ عثمان کو خصی نہیں  ہونا چاہیے ۔ یہ حد سے  گزر جانا ہے  اور ان بزرگوں کو اپنی قسموں کا کفارہ ادا کرنے  کا حکم ہوا اور فرمایا آیت (لا یواخذ کم اللہ) الخ، پس لا تعتدوا سے  مراد یا تو یہ ہے  کہ اللہ نے  جن چیزوں کو تمہارے  لئے  مباح کیا ہے  تم انہیں  اپنے  اوپر حرام کر کے  تنگی نہ کرو اور یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے  کہ حلال بقدر کفایت لے  لو اور اس حد سے  آگے  نہ نکل جاؤ ۔ جیسے  فرمایا کھاؤ پیو لیکن حد سے  نہ بڑھو ۔ ایک اور آیت میں ہے  ایمانداروں کا ایک وصف یہ بھی ہے  کہ وہ خرچ کرنے  میں اسراف اور بخیلی کے  درمیان درمیان رہتے  ہیں  ۔ پس افراط و تفریط اللہ کے  نزدیک بری بات ہے  اور درمیانی روش رب کو پسند ہے  ۔ اسی لئے  یہاں بھی فرمایا حد سے  گزر جانے  والوں کو اللہ نا پسند فرماتا ہے  ۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ جو حلال و طیب چیزیں تمہیں  دے  رکھی ہیں  انہیں  کھاؤ پیو اور اپنے  تمام امور میں اللہ سے  ڈرتے  رہو اس کی اطاعت اور طلب رضا مندی میں رہا کرو ۔ اس کی نافرمانی اور اس کی حرام کردہ چیزوں سے  الگ رہو ۔ اسی اللہ پر تم یقین رکھتے  ہو، اسی پر تمہارا ایمان ہے  پس ہر امر میں اس کا لحاظ رکھو۔

۸۹

غیر ارادی قسمیں اور کفارہ

 لغو قسمیں کیا ہوتی ہیں ؟ ان کے  کیا احکام ہیں ؟ یہ سب سورۃ بقرہ کی تفسیر میں بالتفصیل بیان کر چکے  ہیں  اس لئے  یہاں ان کے  دوہرانے  کی ضرورت نہیں  فالحمد اللہ ۔ مقصد یہ ہے  کہ روانی کلام میں انسان کے  منہ سے  بغیر قصد کے  جو قسمیں عادۃ نکل جائیں وہ لغو قسمیں ہیں  ۔ امام شافعی کا یہی مذہب ہے ، مذاق میں قسم کھا بیٹھنا، اللہ کی نافرمانی کے  کرنے  پر قسم کھا بیٹھنا، زیادتی گمان کی بنا پر قسم کھا بیٹھنا بھی اس کی تفسیر میں کہا گیا ہے  ۔ غصے  اور عضب میں، نسیان اور بھول چوک سے  کھانے  پینے  پہننے  اوڑھنے  کی چیزوں میں قسم کھا بیٹھنا مراد ہے ، اس قوم کی دلیل میں آیت (لا تحرموا طیبات) الخ، کو پیش کیا جاتا ہے ، بالکل صحیح بات یہ ہے  کہ لغو قسموں سے  مراد بغیر قصد کی قسمیں ہیں  اور اس کی دلیل (ولکن یواخذ کم بما عقدتم الایمان ہے  یعنی جو قسمیں بالقصد اور بالعزم ہوں ان پر گرفٹ ہے  اور ان پر کفارہ ہے  ۔ کفارہ دس مسکینوں کا کھانا جو محتاج فقیر ہوں جن کے  پاس بقدر کفایت کے  نہ ہو اوسط درجے  کا کھانا جو عموماً گھر میں کھایا جاتا ہو وہی انہیں  کھلا دینا ۔ مثلاً دودھ روٹی، گھی روٹی، زیتون کا تیل روٹی، یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے  کہ بعض لوگوں کی خوراک بہت اعلی ہوتی ہے  بعض لوگ بہت ہی ہلکی غذا کھاتے  ہیں  تو نہ وہ ہو نہ یہ ہو، تکلف بھی نہ ہو اور بجل بھی نہ ہو، سختی اور فراخی کے  درمیان ہو، مثلاً گوشت روٹی ہے، سرکہ اور روٹی ہے ، روٹی اور کھجوریں ہیں  ۔ جیسی جس کی درمیانی حثییت، اسی طرح قلت اور کثرت کے  درمیان ہو ۔ حضرت علی سے  منقول ہے  کہ صبح شام کا کھانا، حسن اور محمد بن خفیہ کا قول ہے  کہ دس مسکینوں کو ایک ساتھ بٹھا کر روٹی گوشت کھلا دینا کافی ہے  یا اپنی حیثیت کے  مطابق روٹی کسی اور چیز سے  کھلا دینا، بعض نے  کہا ہے  ہر مسکین کو آدھا صاع گہیوں کھجوریں وغیرہ دے  دینا، امام ابو حنیفہ کا قول ہے  کہ گہیوں تو آدھا صاع کافی ہے  اور اس کے  علاوہ ہر چیز کا پورا صاع دے  دے  ۔ ابن مردویہ کی روایت میں ہے  کہ حضور صی اللہ علیہ و سلم  نے  ایک صاع کھجوروں کا کفارے  میں ایک ایک شخص کو دیا ہے  اور لوگوں کو بھی یہی حکم فرمایا ہے  لیکن جس کی اتنی حثییت نہ ہو وہ آدھا صاع گہیوں کا دے  دے، یہ حدیث ابن ماجہ میں بھی ہے  لیکن اس کا ایک راوی بالکل ضعیف ہے  جس کے  ضعف پر محدثین کا اتفاق ہے  ۔ در قطنی نے  اسے  متروک کہا ہے  اس کا نام عمر بن عبد اللہ ہے ، ابن عباس کا قول ہے  کہ ہر مسکین کو ایک مد گہیوں مع سالن کے  دے  دے، امام شافعی بھی یہی فرماتے  ہیں  لیکن سالن کا ذکر نہیں  ہے  اور دلیل ان کی وہ حدیث ہے  جس میں ہے  کہ رمضان شریف کے  دن میں اپنی بیوی سے  جماع کرنے  والے  کو ایک کمتل (خاص پیمانہ) میں سے  ساٹھ مسکینوں کو کھلا نے  کا حکم حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  دیا تھا اس میں پندرہ صاع آتے  ہیں  تو ہر مسکین کے  لئے  ایک مد ہوا ۔ ابن مدویہ کی ایک اور حدیث میں ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  قسم کے  کفارے  میں گہیوں کا ایک مد مقرر کیا ہے  لیکن اس کی اسناد بھی ضعیف ہیں  کیونکہ نضیر بن زرارہ کوفی کے  بارے  میں امام ابو حاتم رازی کا قول ہے  کہ وہ مجہول ہے  گو اس سے  بہت سے  لوگوں نے  روایت کی ہے  اور امام ابن حبان نے  اسے  ثقہ کہا ہے  واللہ اعلم، پھر ان کے  استاد عمری بھی ضعیف ہیں ، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے  کہ گہیوں کا ایک مد اور باقی اناج کے  دو مد دے  ۔ واللہ اعلم (یہ یاد رہے  کہ صاع انگریزی اسی روپے  بھر کے  سیر کے  حساب سے  تقریباً پونے  تین سیر کا ہوتا ہے  اور ایک صاع کے  چار مد ہو تے  ہیں  واللہ اعلم، مترجم) یا ان دس کو کپڑا پہنانا، امام شافعی کا قول ہے  کہ ہر ایک کو خواہ کچھ ہی کپڑا دے  دے  جس پر کپڑے  کا اطلاق ہوتا ہو کافی ہے ، مثلاً کرتہ ہے، پاجامہ ہے، تہمد ہے، پگڑی ہے  یا سر پر لپیٹنے  کا رومال ہے  ۔ پھر امام صاحب کے  شاگردوں میں سے  بعض تو کہتے  ہیں  ٹوپی بھی کافی ہے  ۔ بعض کہتے  ہیں  یہ نا کافی ہے ، کافی کہنے  والے  یہ دلیل دیتے  ہیں  کہ حضرت عمران بن حصین سے  جب اس کے  بارے  میں سوال ہوتا ہے  تو آپ فرماتے  ہیں  اگر کوئی وفد کسی امیر کے  پاس آئے  اور وہ انہیں  ٹوپیاں دے  تو عرب تو یہی کہیں  گے  کہ قد کسوا انہیں  کپڑے  پہنائے  گئے  ۔ لیکن اس کی اسناد بھی ضعیف ہیں  کیونکہ محمد بن زبیر ضعیف ہیں  واللہ اعلم ۔ موزے  پہنانے  کے  بارے  میں بھی اختلاف ہے  ۔ صحیح یہ ہے  کہ جائز نہیں  ۔ امام مالک اور امام احمد فرماتے  ہیں  کہ کم سے  کم اتنا اور ایسا کپڑا ہو کہ اس میں نماز جائز ہو جائے  مرد کو دیا ہے  تو اس کی اور عورت کو دیا ہے  تو اس کی ۔ واللہ اعلم ۔ ابن عباس فرماتے  ہیں  عباہو یا شملہ ہو ۔ مجاہد فرماتے  ہیں  ۔ ادنیٰ درجہ یہ ہے  کہ ایک کپڑا ہو اور اس سے  زیادہ جو ہو ۔ غرض کفارہ قسم میں ہر چیز سوائے  جانگئے  کے  جائز ہے  ۔ بہت سے  مفسرین فرماتے  ہیں  ایک ایک کپڑا ایک ایک مسکین کو دے  دے  ۔ ابراہیم نخعی کا قول ہے  ایسا کپڑا جو پورا کار آمد ہو مثلاً لحاف چادر وغیرہ نہ کہ کرتہ دوپٹہ وغیرہ ابن سیرن اور حسن دو دو کپڑے  کہتے  ہیں ، سعید بن مسیب کہتے  ہیں  عمامہ جسے  سر پر باندھے  اور عبا جسے  بدن پر پہنے  ۔ حضرت ابو موسیٰ قسم کھاتے  ہیں  پھر اسے  توڑتے  ہیں  تو دو کپڑے  بحرین کے  دے  دیتے  ہیں  ۔ ابن مردویہ کی ایک مرفوع حدیث میں ہے  کہ ہر مسکین کیلئے  ایک عبا، یہ حدیث عریب ہے ، یا ایک غلام کا آزاد کرنا، امام ابو حنیفہ تو فرماتے  ہیں  کہ یہ مطلق ہے  کافر ہو یا مسلمان، امام شافعی اور دوسرے  بزرگان دین فرماتے  ہیں  اس کا مومن ہونا ضروری ہے  کیونکہ قتل کے  کفارے  میں غلام کی آزادی کا حکم ہے  اور وہ مقید ہے  کہ وہ مسلمان ہونا چاہے، دونوں کفاروں کا سبب چاہے  جدا گانہ ہے  لیکن وجہ ایک ہی ہے  اور اس کی دلیل وہ حدیث بھی ہے  جو مسلم وغیرہ میں ہے  کہ حضرت معاویہ بں حکم اسلمی کے  ذمے  ایک گردن آزاد کرنا تھی وہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے  اور اپنے  ساتھ ایک لونڈی لئے  ہوئے  آئے  ۔ حضور نے  اس سیاہ فام لونڈی سے  دریافت فرمایا کہ اللہ کہاں ہے ؟ اس نے  کہا آسمان میں پوچھا ہم کون ہیں ؟ جواب دیا کہ آپ رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہیں  آپ نے  فرمایا اسے  آزاد کرو یہ ایماندار عورت ہے  ۔ پس ان تینوں کاموں میں سے  جو بھی کر لے  وہ قسم کا کفارہ ہو جائے  گا اور کافی ہو گا اس پر سب کا اجماع ہے  ۔ قرآن کریم نے  ان چیزوں کا بیان سب سے  زیادہ آسان چیز سے  شروع کیا ہے  اور بتدریج اوپر کو پہنچایا ہے  ۔ پس سب سے  سہل کھانا کھلانا ہے  ۔ پھر اس سے  قدرے  بھاری کپڑا پہنانا ہے  اور اس سے  بھی زیادہ بھاری غلام کو آزاد کرنا ہے  ۔ پس اس میں ادنی سے  اعلی بہتر ہے  ۔ اب اگر کسی شخص کو ان تینون میں سے  ایک کی بھی قدرت نہ ہو تو وہ تین دن کے  روزے  رکھ لے  ۔ سعید بن جبیر اور حسن بصری سے  مروی ہے  کہ جس کے  پاس تین درہم ہوں وہ تو کھانا کھلا دے  ورنہ روزے  رکھ لے  اور بعض متاخرین سے  منقول ہے  کہ یہ اس کے  لئے  ہے  جس کے  پاس ضروریات سے  فاضل چیز نہ ہو معاش وغیرہ پونجی کے  بعد جو فالتو ہو اس سے  کفارہ ادا کرے ، امام ابن جرید فرماتے  ہیں  جس کے  پاس اس دن کے  اپنے  اور اپنے  بال بچوں کے  کھانے  سے  کچھ بچے  اس میں سے  کفارہ ادا کرے ، قسم کے  توڑنے  کے  کفارے  کے  روزے  پے  در پے  رکھنے  واجب ہیں  یا مستحب ہیں  اس میں دو قول ہیں  ایک یہ کہ واجب نہیں، امام شافعی نے  باب الایمان میں اسے  صاف لفظوں میں کہا ہے  امام مالک کا قول بھی یہی ہے  کیونکہ قرآن کریم میں روزوں کا حکم مطلق ہے  تو خواہ پے  در پے  ہوں خواہ الگ الگ ہوں تو سب پر یہ صادق آتا ہے  جیسے  کہ رمضان کے  روزوں کی قضا کے  بارے  میں آیت (فعدۃ من ایام اخر) فرمایا گیا ہے  وہاں بھی پے  در پے  کی یا علیحدہ علیحدہ کی قید نہیں  اور حضرت امام شافعی نے  کتاب الام میں ایک جگہ صراحت سے  کہا ہے  کہ قسم کے  کفارے  کے  روزے  پے  در پے  رکھنے  چاہیئں یہی قول خفیہ اور حنابلہ کا ہے  ۔ اس لئے  کہ حضرت ابی بن کعب وغیرہ سے  مروی ہے  کہ ان کی قرات آیت (فصیام ثلثۃ ایام متتابعات) ہے  ابن مسعود سے  بھی یہی قرات مروی ہے ، اس صورت میں اگرچہ اس کا متواتر قرات ہونا ثابت نہ ہو ۔ تاہم خبر واحد یا تفسیر صحابہ سے  کم درجے  کی تو یہ قرات نہیں  پس حکماً "یہ بھی مرفوع ہے  ۔ ابن مردویہ کی ایک بہت ہی غریب حدیث میں ہے  کہ حضرت حذیفہ نے  پوچھا یا رسول اللہ ہمیں اختیار ہے  آپ نے  فرمایا ہاں، تو اختیار پر ہے  خواہ گردن آزاد کر خواہ کپڑا پہنا دے  خواہ کھانا کھلا دے  اور جو نہ پائے  وہ پے  در پے  تین روزے  رکھ لے  ۔ پھر فرماتا ہے  کہ تم جب قسم کھا کر توڑ دو تو یہ کفارہ ہے  لیکن تمہیں  اپنی قسموں کی حفاظت کرنی چاہیے  انہیں  بغیر کفارے  کے  نہ چھوڑنا چاہیے  اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے  سامنے  اپنی آیتیں واضح طور پر بیان فرما رہا ہے  تاکہ تم شکر گزاری کرو ۔

۹۰

پانسہ بازی، جوا اور شراب

 ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ بعض چیزوں سے  روکتا ہے  ۔ شراب کی ممانعت فرمائی، پھر جوئے  کی روک کی ۔ امیر المونین حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ سے  مروی ہے  کہ شطرنج بھی جوئے  میں داخل ہے  (ابن ابی حاتم) عطا مجاہد اور طاؤس سے  یا ان میں سے  دو سے  مروی ہے  کہ جوئے  کی ہر چیز میسر میں داخل ہے  گو بچوں کے  کھیل کے  طور پر ہو ۔ جاہلیت کے  زمانے  میں جوئے  کا بھی عام رواج تھا جسے  اسلام نے  غارت کیا ۔ ان کا ایک جوا یہ بھی تھا کہ گوشت کو بکری کے  بدلے  بیجتے  تھے، پانسے  پھینک کر مال یا پھل لینا بھی جوا ہے  ۔ حضرت قاسم بن محمد فرماتے  ہیں  کہ جو چیز ذکر اللہ اور نماز سے  غافل کر دے  وہ جوا ہے ، ابن ابی حاتم کی ایک مرفوع غریب حدیث میں ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا ان پانسوں سے  بچو جن سے  لوگ کھیلا کرتے  تھے، یہ بھی جوا ہے  صحیح مسلم شریف میں ہے  پانسوں سے  کھیلنے  والا گویا اپنے  ہاتھوں کو سور کے  خون اور گوشت میں آلودہ کرنے  والا ہے  ۔ سنن میں ہے  کہ وہ اللہ اور رسول کا نافرمان ہے  ۔ حضرت ابو موسیٰ کا قول بھی اسی طرح مروی ہے  ۔ واللہ اعلم، مسند میں ہے  پانسوں سے  کھیل کر نماز پڑھنے  والے  کی مثال ایسی ہے  جیسے  کوئی شخص قے  اور گندگی سے  اور سور کے  خون سے  وضو کر کے  نماز ادا کرے  ۔ حضرت عبد اللہ فرماتے  ہیں  میرے  نزدیک شطرنج اس سے  بھی بری ہے  ۔ حضرت علی سے  شطرنج کا جوئے  میں سے  ہونا پہلے  بیان ہو چکا ہے  ۔ امام مالک امام ابو حنیفہ امام احمد تو کھلم کھلا اسے  حرام بتاتے  ہیں  اور امام شافعی بھی اسے  مکروہ بتاتے  ہیں  ۔ انصاب ان پتھروں کو کہتے  ہیں  جن پر مشرکین اپنے  جانور چڑھایا کرتے  تھے  اور انہیں  وہیں  ذبح کرتے  تھے  ازلام ان تیروں کو کہتے  ہیں  جن میں وہ فال لیا کرتے  تھے  ۔ ان سب چیزوں کی نسبت فرمایا کہ یہ اللہ کی ناراضگی کے  اور شیطانی کام ہیں  ۔ یہ گناہ کے  اور برائی کے  کام ہیں  تم ان شیطانی کاموں سے  بچو انہیں  چھوڑ دو تاکہ تم نجات پاؤ ۔ اس فقرے  میں مسلمانوں کو ان کاموں سے  روکنے  کی ترغیب ہے  ۔ پھر رغبت آمیز دھمکی کے  ساتھ مسلمانوں کو ان چیزوں سے  روکا گیا ہے  ۔

حرمت شراب کی مزید وضاحت

 اب ہم یہاں پر حرمت شراب کی مزید احادیث وارد کرتے  ہیں  ۔ مسند احمد میں ہے  حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں  شراب تین مرتبہ حرام ہوئی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم جب مدینے  شریف میں آئے  تو لوگ جواری شرابی تھے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  اس بارے  میں سوال ہوا اور آیت (یسئلونک عن الخمیر و المیسر) الخ، نازل ہوئی ۔ اس پر لوگوں نے  کہا یہ دونوں چیزیں ہم پر حرام نہیں  کی گئیں بلکہ یہ فرمایا گیا ہے  کہ ان میں بہت بڑا گناہ ہے  اور لوگوں کیلئے  کچھ فوائد بھی ہیں ۔ چنانچہ شراب پیتے  رہے  ۔ ایک دن ایک صحابی اپنے  ساتھیوں کو مغرب کی نماز پڑھانے  کیلئے  کھرے  ہوئے  تو قرات خط ملط ہو گئی اس پر آیت (یا ایھا الذین امنوا لا تقربوا الصلوٰۃ و انتم سکاری) الخ، نازل ہوئی۔ یہ بہ نسبت پہلی آیت کے  زیادہ سخت تھی اب لوگوں نے  نمازوں کے  وقت شراب چھوڑ دی لیکن عادت برابر جاری رہی اس پر اس سے  بھی زیادہ سخت اور صریح آیت (انما الخمر والمیسر) الخ، نازل ہوئی اسے  سن کر سارے  صحابہ بول اٹھے  انتھینا ربنا اے  اللہ ہم اب باز رہے ، ہم رک گئے، پھر لوگوں نے  ان لوگوں کے  بارے  میں دریافت فرمایا جو شراب اور جوئے  کی حرمت کے  نازل ہونے  سے  پیشتر اللہ کی راہ میں شہید کئے  گئے  تھے  اس کے  جواب میں اس کے  بعد کی آیت (لیس علی الذین) الخ، نازل ہوئی اور آپ نے  فرمایا اگر ان کی زندگی میں یہ حکم اترا ہوتا تو وہ بھی تمہاری طرح اسے  مان لیتے، مسند احمد میں ہے  حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے  تحریم شراب کے  نازل ہونے  پر فرمایا یا اللہ ہمارے  سامنے  اور کھول کر بیان فرما پس سورہ بقرہ کی آیت (فیھما اثم کبیر) نازل ہوئی ۔ حضرت عمر فاروق کو بلوایا گیا اور ان کے  سامنے  اس کی تلاوت کی گئی پھر بھی آپ نے  فرمایا اے  اللہ تو ہمیں اور واضح لفظوں میں فرما! پس سورہ نساء کی آیت (وانتم سکاری) نازل ہوئی اور مؤذن جب حی علی الصلوٰۃ کہتا تو ساتھ ہی کہ دیتا کہ نشہ باز ہرگز ہرگز نماز کے  قریب بھی نہ آئیں ۔ حضرت عمر کو بلوایا گیا اور یہ آیت بھی انہیں  سنائی گئی لیکن پھر بھی آپ نے  یہی فرمایا کہ اے  اللہ اس بارے  میں صفائی سے  بیان فرما ۔ پس سورہ مائدہ کی آیت اتری آپ کو بلوایا گیا اور یہ آیت سنائی گئی جب آیت (فھل انتم منتھون) تک سنا تو فرمانے  لگے  انتھینا انتھینا ہم رک گئے  ہم رک گۓ ۔ بخاری و مسلم میں ہے  کہ حضرت فاروق اعظم نے  منبر نبوی پر خطبہ دیتے  ہوئے  فرمایا کہ شراب کی حرمت جب نازل ہوئی اس وقت شراب پانچ چیزوں کی بنائی جاتی تھی، انگور، شہد، کجھور، گہیوں اور جو ۔ ہر وہ چیز جو عقل پر غالب آ جائے  خمر ہے  ۔ یعنی شراب کے  حکم میں ہے  اور حرام ہے  صحیح بخاری میں حضرت ابن عمر سے  مروی ہے  کہ شراب کی حرمت کی آیت کے  نزول کے  موقع پر مدینے  شریف میں پانچ قسم کی شرابیں تھیں ان میں انگور کی شراب نہ تھی، ابوداؤد طیالسی میں ہے  ابن عمر فرماتے  ہیں  شراب کے  بارے  میں تین آیتیں اتریں ۔ اول تو آیت (یسلونک عن الخمر) والی آیت اتری تو کہا گیا کہ شراب حرام ہو گئی اس پر بعض صحابہ نے  فرمایا رسول اللہ ہمیں اس سے  نفع اٹھانے  دیجئے  جیسے  کہ اللہ تعالیٰ نے  فرمایا، آپ خاموش ہو گئے  پھر آیت (وانتم سکاری) والی آیت اتری اور کہا گیا کہ شراب حرام ہو گئی ۔ لیکن صحابہ نے  فرمایا دیا رسول اللہ ہم بوقت نماز نہ پئیں گے  ۔ آپ پھر چپ رہے  پھر یہ دونوں آیتیں اتری اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرما دیا کہ اب شراب حرام ہو گئی ۔ مسلم وغیرہ میں ہے  کہ حضور کا ایک دوست تھا قبیلہ ثقیف میں سے  یا قبیلہ دوس میں سے  ۔ فتح مکہ والے  دن وہ آپ سے  ملا اور ایک مشک شراب کی آپ کو تحفتاً دینے  لگا آپ نے  فرمایا کیا تمہیں  معلوم نہیں  کہ اللہ تعالیٰ نے  اسے  حرام کر دیا ہے  ۔ اب اس شخص نے  اپنے  غلام سے  کہا کہ جا اسے  بیچ ڈال، آپ نے  فرمایا کیا کہا؟ اس نے  جواب دیا کہ بیچنے  کو کہہ رہا ہوں آپ نے  فرمایا جس اللہ نے  اس کا پینا حرام کیا ہے  اسی نے  اس کا بیچنا بھی حرام کیا ہے ۔ اس نے  اسی وقت کہا جاؤ اسے  لے  جاؤ اور بطحا کے  میدان میں بہا آؤ ۔ ابو یعلی موصلی میں ہے  کہ حضرت تمیم دارمی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو تحفہ دینے  کیلئے  ایک مشک شراب کی لائے، آپ اسے  دیکھ کر ہنس دیئے  اور فرمایا یہ تو تمہارے  جانے  کے  بعد حرام ہو گئی ہے  کہا خیر یا رسول اللہ میں اسے  واپس لے  جاتا ہوں اور بیچ کر قیمت وصول کر لوں گا، یہ سن کر آپ نے  فرمایا یہودیوں پر اللہ کی لنعٹ ہوئی کہ ان پر جب گائے  بکری کی چربی حرام ہوئی تو انہوں نے  اسے  پگھلا کر بیچنا شروع کیا، اللہ تعالیٰ نے  شراب کو اور اس کی قیمت کو حرام کر دیا ہے  مسند احمد میں بھی یہ روایت ہے  کہ اس میں ہے  کہ ہر سال حضرت دارمی ایک مشک ہدیہ کرتے  تھے، اس کے  آخر میں حضور کا دو مرتبہ یہ فرمانا ہے  کہ شراب بھی حرام اور اس کی قیمت بھی حرام، ایک حدیث مسند احمد میں اور ہے  اس میں ہے  کہ حضرت کیسان رضی اللہ تعلی عنہ شراب کے  تاجر تھے  جس سال شراب حرام ہوئی اس سال یہ شام کے  ملک سے  بہت سی شراب تجارت کیلئے  لائے  تھے  حضور سے  ذکر کیا آپ نے  فرمایا اب تو حرام ہو گئی پوچھا پھر میں اسے  بیچ ڈالوں ؟ آپ نے  فرمایا یہ بھی حرام ہے  اور اس کی قیمت بھی حرام ہے  ۔ چنانچہ حضرت کیسان نے  وہ ساری شراب بہا دی، مسند احمد میں ہے  حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں ، میں حضرت ابو عبیدہ بن جراح حضرت ابی بن کعب، حضرت سہل بن بیضاء اور صحابہ کرام کی ایک جماعت کو شراب پلا رہا تھا دور چل رہا تھا سب لذت اندوز ہو رہے  تھے  قریب تھا کہ نشے  کا پارہ بڑھ جائے، اتنے  میں کسی صحابی نے  آ کر خبر دی کہ کیا تمہیں  علم نہیں  شراب تو حرام ہو گئی ؟ انہں نے  کہا بس کرو جو باقی بچی ہے  اسے  لنڈھا دو اللہ کی قسم اس کے  بعد ایک قطرہ بھی ان میں سے  کسی کے  حلق میں نہیں  گیا ۔ یہ شراب کھجو کی تھی اور عامتاً اسی کی شراب بنا کرتی تھی، یہ روایت بخاری مسلم میں بھی ہے  اور روایت میں ہے  کہ شراب خوری کی یہ مجلس حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے  مکان پر تھی، نا گاہ منادی کی آواز پڑی مجھ سے  کہا گیا باہر جاؤ دیکھو کیا منادی ہو رہی ہے ؟ میں نے  جا کر سنا منادی ندا دے  رہا ہے  کہ شراب تم پر حرام کی گئی ہے ، میں نے  آ کر خبر دی تو حضرت ابو طلحہ نے  فرمایا اٹھو جتنی شراب ہے  سب بہادو میں نے  بہادی اور میں نے  دیکھا کہ مدینے  کے  گلی کوچوں میں شراب بہہ رہی ہے ، بعض اصحاب نے  کہا ان کا کیا حال ہو گا جن کے  پیٹ میں شراب تھی اور وہ قتل کر دیئے  گئے  ؟ اس پر اس کے  بعد کی آیت (لیس علی الذین) الخ، نازل ہوئی یعنی ان پر کوئی حرج نہیں ، ابن جریر کی روایت میں اس مجلس والوں کے  ناموں میں حضرت ابو دجانہ اور حضرت معاذ بن جبل کا نام بھی ہے  اور یہ بھی ہے  کہ ندا سنتے  ہی ہمنے  شراب بہا دی، مٹکے  اور پیپے  توڑ ڈالے  ۔ کسی نے  وضو کر لیا، کسی نے  غسل کر لیا اور حضرت ام سلیم کے  ہاں سے  خوشبو منگوا کر لگائی اور مسجد پہنچے  تو دیکھا حضور صلی اللہ علیہ و سلم یہ آیت پڑھ رہے  تھے ، ایک شخص نے  سوال کیا کہ حضور اس سے  پہلے  جو لوگ فوت ہو گئے  ہیں  ان کا کیا حکم ہے  ؟ پس اس کے  بعد آیت اتری، کسی نے  حضرت قتادہ سے  پوچھا کہ آپ نے  یہ حدیث خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے  سنی ہے ؟ فرمایا ہاں ہم جھوٹ نہیں  بولتے  بلکہ ہم تو جانتے  بھی نہیں  کہ جھوٹ کسے  کہتے  ہیں ؟ مسند احمد میں ہے  حضور فرماتے  ہیں  اللہ تبارک و تعالیٰ نے  شراب اور پانسے  اور بربط کا باجا حرام کر دیا ہے ، شراب سے  بچو غبیرا نام کی شراب عام ہے  مسند احمد میں ہے  حضرت عبد اللہ بن عمرو فرماتے  ہیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا جو شخص مجھسے  وہ بات منسوب کے  جو میں نے  نہ کہی ہو وہ اپنی جگہ جہنم میں بنا لے ۔ میں نے  آپ سے  سنا ہے  کہ شراب جوا پانسے  اور غبیرا سب حرام ہیں  اور ہر نشے  والی چیز حرام ہے ، مسند احمد میں ہے  شراب کے  بارے  میں دس لعنتیں ہیں  خود شراب پر، اس کے  پینے  والے  پر، اس کے  پلانے  والے  پر، اس کے  بیچنے  والے  پر، اس کے  خریدنے  والے  پر اس کے  نچوڑنے  والے  پر، اس کے  بنانے  والے  پر، اس کے  اٹھانے  والے  پر اور اس پر بھی جس کے  پاس یہ اٹھا کر لے  جایا جائے  اور اس کی قیمت کھانے  والے  پر (ابو داؤد، ابن ماجہ) مسند میں ہے  ابن عمر فرماتے  ہیں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم باڑے  کی طرف نکلے  میں آپ کے  ساتھ تھا ۔ آپ کے  دائیں جانب چل رہا تھا جو حضرت ابوبکر صدیق آئے  میں ہٹ گیا اور آپ کے  داہنے  حضرت صدیق چلنے  لگے  تھوڑی دیر میں حضرت عمر آ گئے  میں ہٹ گیا آپ حضور کے  بائیں طرف ہو گئے  جب آپ باڑے  میں پہنچے  تو دیکھا کہ وہاں پر چند مشکیں شراب کی رکھی ہوئی ہیں  آپ نے  مجھے  بلایا اور فرمایا چھری لاؤ جب میں لایا تو آپ نے  حکم دیا کہ یہ مشکیں کاٹ دی جائیں پھر فرمایا شراب پر، اس کے  پینے  والے  پر، پلانے  والے  پر، بیچنے  والے  پر، خریدار پر، اٹھانے  والے  پر، اٹھوانے  والے  پر، بنانے  والے  پر، بنوانے  والے  پر، قیمت لیین والے  پر سب پر لعنت ہے ، مسند احمد کی اور روایت میں ہے کہ حضور نے یہ مشکیں کٹوا دیں پھر مجھے اور میرے ساتھیوں کو چھری دے کر فرمایا جاؤ جتنی مشکیں شراب کی جہاں پاؤ سب کاٹ کر بہا دو، پس ہم گئے اور سارے بازار میں ایک ممشک بھی نہ چھوڑی ۔ بہقی کی حدیث میں ہے کہ ایک شخص شراب بیجتے تھے اور بہت خیرات کیا کرتے تھے حضرت ابن عباس سے شراب فروشی کا مسئلہ پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا یہ حرام ہے اور اس کی قیمت بھی حرام ہے، اے امت محمد اگر تمہاری کتبا کے بعد کوئی کتاب اترنے والی ہوتی اور اگر تمہارے نبی کے بعد کوئی نبی اور آنے والا ہوتا، جس طرح اگلوں کی رسوائیاں اور ان کی برائیاں تمہاری کتاب میں اتریں تمہاری خرابیاں ان پر نازل ہوتیں لیکن تمہارے افعال کا اظہار قیامت کے دن پر وخر رکھا گیا ہے اور یہ بہت بھاری اور بڑا ہے، پھر حضرت عبد اللہ بن عمر سے یہ سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا سنو میں حضور کے ساتھ مسجد میں تھا ۔ آپ گوٹھ لگائے ہوئے بیٹدھے تھے فرمانے لگے جس کے پاس جتنی شراب ہو وہ ہمارے پاس لائے ۔ لوگوں نے لانی شروع کی، جس کے پاس جتنی تھی حاضر کی ۔ آپ نے فرمایا جاؤ اسے بقیع کے میدان میں فلاں فلاں جگہ رکھو ۔ جب سب جمع ہو جائے مجھے خبر کو، جب جمع ہو گئی اور آپ سے کہا گیا تو آپ اٹھے میں آپ کے داہنے جانب تھا آپ مجھ پر ٹیک لگائے چل رہے تھے حضرت ابوبکر صدیق جب آئے تو آپ نے مجھے ہٹا دیا اپنے بائیں کر دیا اور میری جگہ حضرت ابوبکر نے لے لی، پھر حضرت عمر سے ملاقت ہوئی تو آپ نے مجھے اور پیچھے ہٹا دیا اور جناب فاروق کو اپنے بائیں لے لیا اور وہاں پہنچے لوگوں سے فرمایا جانتے ہو یہ کیا ہے ؟ سب نے کہا ہاں جانتے ہیں  یہ شراب ہے، فرمایا سنو اس پر اس کے بنانے والے پر، بنوانے والے پر، پینے والے پر، پلانے والے پر، اٹھانے والے پر، اٹھوانے والے پر، بیچنے والے پر، خریدنے والے پر، قیمت لینے والے پر اللہ کی پھٹکار ہے ۔ پھر چھری منگوائی اور مٹکو کو رہنے دیجئے اور کام آئیں گی فرمایا ٹھیک ہے لیکن میں تو اب ان سب کو توڑ کر ہی رہوں گا یہ غضب و غضہ اللہ کیلئے ہے کیونکہ ان تمام چیزوں سے رب اراض ہے ۔ حضرت عمر نے فرمایا حضور آپ خود کیوں تکلیف کرتے ہیں  ہم حاضر ہیں  فرمایا نہیں  میں اپنے ہاتھ سے انہیں  نیست و نابود کروں گا ۔ بیہقی کی حدیث میں ہے کہ شراب کے بارے میں چار آیتیں اتری ہیں  ۔ پھر حدیث بیان فرما کر کہا کہ ایک انصاری نے دعوت کی ہم دعوت میں جمع ہوئے خوب شرابیں پیں ۔ نشے میں جھومتے ہوئے اپنے نام و نسب پر فخر کرنے لگے، ہم افضل ہیں ۔ قریشی نے کہا ہم افضل ہیں  ۔ ایک انصاری نے اونٹ کو جبڑا لے کر حضرت سعد کو مارا اور ہاتھا پائی ہونے لگی پھر شراب کی حرمت کی آیت اتری ۔ یہ شراب پی کر بدمست ہو گئے اور آپس میں لاف زنی ہونے لگی جب نشے اترے تو دیکھتے ہیں  اس کی ناک پر زخم ہے اس کے چہرے پر زخم ہے اس کی داڑھی نچی ہوئی ہے اور اسے چوٹ لگی ہوئی ہے، کہنے لگے مجھے فلاں نے مارا میری بے حرمتی فلاں نے کی اگر اس کا دل میری طرف سے صاف ہوتا تو میرے ساتھ یہ حرکت نہ کرتا دلوں میں نفرت اور دشمنی بڑھنے لگی پس یہ آیت اتر ۔ اس پر بعض لوگوں نے کہا جب یہ گندگی ہے تو فلاں فلاں صحابہ تو اسے پیتے ہوئے ہی رحلت کر گئے ہیں  ان کا کیا حال ہو گا ؟ ان میں سے بعض احد کے میدان میں شہید ہوئے ہیں  اس کے جواب میں اگلی آیت اتری ۔ ابن جریر میں ہے حضرت ابو بیردہ کے والد کہتے ہیں  کہ ہم چار شخص ریت کے ایک ٹیلے پر بیٹھے شراب پی رہے تھے دور چل رہا تھا جام گردش میں تھاناگہاں میں کھڑا ہوا اور حضور کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ سلام کیا وہیں  حرمت شراب کی یہ آیت نازل ہوئی ۔ میں پچھلے پیروں اپنی اسی مجلس میں آیا اور اپنے ساتھوں کو یہ آیت پڑھ کر سنائی، بعض وہ بھی تھے، جن کے منہ سے جام لگا ہوا تھا لیکن واللہ انہوں نے اسی وقت اسے الگ کر دیا اور جتنا پیا تھا اسے قے کر کے نکال دیا اور کہنے لگے یا اللہ ہم رک گئے ہم باز آ گئے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ جنگ احد کی صۃہ ۃعض لوگوں نے شرابیں پی تھیں اور میدان میں اسی روز اللہ کی راہ میں شہید کر دیئے گئے اس وقت تک شراب حرام نہیں  ہوئی تھی ۔ بزار میں یہ ذاتی بھی ہے کہ اسی پر بعض یہودیوں نے اعتراض کیا اور جواب میں آیت یس علی الذین امنوا الخ، نازل ہوئی، ابو یعلی موصلی میں ہے کہ ایک شخص خیبر سے شراب لا کر مدینے میں فروخت کیا کرتا تھا ایک دن وہ لا رہا تھا ایک صحابی راستے میں ہی اسے مل گئے اور فرمایا شراب تو اب حرام ہو گئی وہ واپس مڑ گیا اور ایک ٹیلے تلے اسے کپڑے سے ڈھانپ کر آ گیا اور حضور سے کہنے لگا کیا یہ سچ ہے کہ شراب حرام ہو گئی؟ آپ نے فرمایا ہاں سچ ہے کہا پھر مجھے اجازت دیجئے کہ جس سے لی ہے اسے واپس کردوں ۔ فرمایا اس کا لوٹانا بھی جائز نہیں ، کہا پھر اجازت دیجئے کہ میں اسے اسیے شخص کو تحفہ دوں جو اس کا معاوضہ مجھے دے آپ نے فرمایا یہ بھی ٹیک نہیں  کہ حضور اس میں یتیموں کا مال بھی لگا ہوا ہے فرمایا دیکھو جب ہمارے پاس بحرین کا مال آئے گا اس سے ہم تہمارے یتیموں کی مدد کریں گے پھر مدینہ میں منا دی ہو گئی ایک شخص نے کہا حضور شراب کے برتنوں سے نفع حاصل کرنے کی اجازت دیجئے آپ نے فرمایا جاؤ مشکوں کو کھول ڈالو اور شراب بہا دو اس قدر شراب بہی کہ میدان بھر گئے ۔ یہ حدیث غریب ہے، مسند احمد میں ہے کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کیا کہ میرے ہاں جو یتیم بچے پل رہے ہیں  ان کے ورثے میں انہیں  شراب ملی ہے آپ نے فرمایا جاؤ اس یبہا دو عرض کیا اگر اجازت ہو تو اس کا سرکہ بنالوں فرمایا نہیں  ۔ یہ حدیث مسلم ابو داؤد اور ترمذی میں بھی ہے ۔ ابن ابی حاتم میں صحیح سند سے مروی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو نے فرمایا جیسے یہ آیت قرآن میں ہے تورات میں بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حق کو نازل فرمایا تاکہ اس کی وجہ سے باطل کو دور کر دے اور اس سے کھیل تماشے باجے گاجے بربط دف طنبورہ راگ راگنیاں فنا کر دے ۔ شرابی کیلئے شراب نقصان دہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی عزت کی قسم کھائی ہے کہ جو اسے حرمت کے بعد پئے گا اسے میں قیامت کے دن پیاسا رکھوں گا اور حرمت کے بعد جوا سے چھوڑے گا میں اسے جنت کے پاکیزہ چشمے سے پلاؤں گا ۔ حدیث شریف میں ہے جس شخص نے نشہ کی وجہ سے ایک وقت کی نماز چھوڑی وہ ایسا ہے جیسے کی سے روئے زمین کی سلطنت جھن گئی اور جس شخص نے چار بار کی نماز نشے میں چھوڑ دی اللہ تعالیٰ اسے طینۃ الخیال پلائے گا ۔ پوچھا گیا کہ یہ کیا ہے ؟ فرمایا جہنمیوں کا لہو پیپ پسینہ پیشاب وغیرہ (مسند احمد) ابوداؤد میں ہے کہ ہر عقل کو ڈھانپنے والی چیز خمر ہے اور ہر نشہ والی چیز حرام ہے اور جو شخص نشے والی چیز پئے گا اس کی چالیس دن کی نمازیں نا قبول ہیں  ۔ اگر وہ توبہ کرے گا تو توبہ قبول ہو گی اگر اس نے چوتھی مرتبہ شراب پی تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور طینۃ الخیال پلائے گا پوچھا گیا وہ کیا ہے ؟ فرمایا جہنمیوں کا نچوڑ اور ان کی پیپ اور جو شخص اسے کسی بچہ کو پلائے گا جو حلالا حرام کی تمیز نہ رکھتا ہو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ اسے بھی جہنمیوں کا پیپ پلائے ۔ بخاری مسلم وغیرہ میں ہے دنیا میں جو شراب پیئے گا اور توبہ نہ کرے گا وہ جنت کی شراب سے محروم رہے گا ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں  ہر نشے والی چیز خمرہے اور ہر نشے والی چیز حرام ہے اور جس شخص نے شراب کی عادت ڈالی اور بے توبہ مر گیا وہ جنت کی شراب سے محروم رہے گا ۔ نسائی وغیرہ میں ہے تین شخصوں کی طرف اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نظر حمت سے نہ دیکھے گا، ماں باپ کا نافرمان، شراب کی عادت والا اور اللہ کی راہ میں دے کر احسان جتلانے والا، مسند احمد میں ہے کہ دے کر احسان جتانے والا، ماں باپ کا نافرمان اور شرابی جنت میں نہیں  جائے گا ۔ مسند احمد میں اس کے ساتھ ہی ہے کہ زنا کی اولاد بھی، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعلای عنہ فرماتے ہیں  شراب سے پرہیز کرو وہ تمام برائیوں کی جر ہے ۔ سنو اگلے لوگوں میں ایک والی اللہ تھا جو بڑا عبادت گزر تھا اور تارک دنیا تھا ۔ بستی سے الگ تھلگ ایک عبادت خانے میں شب و روز عبادت الٰہی میں مشغول رہا کرتا تھا، ایک بدکار عورت اس کے پیچھے لگ گئی، اس نے اپنی لونڈی کو بھیج کر اسے اپنے ہاں ایک شہادت کے بہانے بلوایا، یہ چلے گئے لونڈی اپنے گھر میں انہیں  لے گئی جس دروازے کے اندر یہ پہنچ جاتے پیچھے سے لونڈی اسے بند کرتی جاتی ۔ آخری کمرے میں جن گئے تو دیکھا کہ ایک بہت ہی خوبصورت عورت بھیٹیھ ہے، اس کے پاس ایک بچہ ہے اور ایک جام شراب لبالب بھرا رکھا ہے ۔ اس عورت نے اس سے کہا سنئے جناب میں نے آپ کو درحقیقت کسی گواہی کیلئے نہیں  بلوایا فی الواقع اس لۓ بلوایا ہے کہ یا تو آپ میرے ساتھ بدکاری کریں یا اس بچے کو قتل کر دیں یا شراب کو پی لیں درویش نے سوچ کر تینوں کاموں میں ہلکا کام شراب کا پینا جان کر جام کو منہ سے لگا لیا، سارا پی گیا ۔ کہنے لگا اور لاؤ اور لاؤ، خوب پیا، جب نشے میں مدہوش ہو گیا تو اس عورت کے ساتھ زنا بھی کر بیٹھا اور اس لڑکے کو بھی قتل کر دیا ۔ پس اے لوگو! تم شراب سے بچو سمجھ لو کہ شراب اور ایمان جمع نہیں  ہو تے ایک کا آنا دوسرے کا جانا ہے (بیہقی) امام ابوبکر بن ابی الدنیا رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ذم المسکر میں بھی اے وارد کیا ہے اور اس میں مرفوع ہے لیکن زیادہ صحیح اس کا موقوف ہونا ہے واللہ اعلم، اس کی شاہد بخاری و مسلم کی مرفوع حدیث بھی ہے جس میں ہے کہ زائی زنا کے وقت، چور چوری کے وقت، شرابی شراب خوری کے وقت مومن نہیں  رہتا ۔ مسند احمد میں ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں  جب شراب حرام ہوئی تو صحابہ نے سوال کیا کہ اس کی حرمت سے پہلے جو لوگ انتقال کر چکے ہیں  ان کا کیا حکم ہے ؟ اس پر یہ آیت لیس علی الزین الخ، نازل ہوئی یعنی ان پر اس میں کوئی حرج نہیں  اور جب بیت المقدس کا قبلہ بدلا اور بیت اللہ شریف قبلہ ہوا اس وقت بھی صحابہ نے پہلے قبلہ کی طرف نمازیں پرھتے ہوئے انتقال کر جانے والوں کی نسبت دریافت کیا تو آیت ماکان اللہ لیضیع ایمانکم الخ، نازل ہوئی یعنی ان کی نمازیں ضائع نہ ہوں گی۔ مسند احمد میں ہے جو شخص شراب پئے چالیس دن تک اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اس پر رہتی ہے اگر وہ اسی حالت میں مگر گیا تو کافر مرے گا ہاں اگر اس نے توبہ کی تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمائے گا اور اگر اس نے پھر بھی شراب پی تو اللہ تعالیٰ دوزخیوں کا فضلہ پلائے گا اور روایت میں ہے کہ جب یہ حکم اترا کہ ایمانداروں پر حرمت سے پہلے پی ہوئی کا کوئی گناہ نہیں  تو حضور نے فرمایا مجھ سے کہا گیا ہے کہ تو انہی میں سے ہے ۔ مسند احمد میں ہے پانسوں کے کھیل سے بچو یہ عجمیوں کا جوا ہے ۔

۹۴

حرام میں شکار کے مسائل کی تفصیلات

حضرت ابن عباس فرماتے ہیں  چھوٹے چھوٹے شکار اور کمزور شکار اور ان کے بچے جنہیں  انسان اپنے ہاتھ سے پکڑ لے اور اپنے نیزے کی نوک پر رکھ لے اس سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی آزمائش کرے گا ۔ یعنی انہیں  منع فرمایا ہے کہ تم باوجود اس کے بھی ان کا شکار حالت احرام میں نہ کرو خواہ چھوٹے ہوں خواہ بڑے خواہ آسانی سے شکار ہو سکتا ہو خواہ سختی سے ۔ چنانچہ عمرہ حدیبیہ کے موقعہ پر یہی ہوا کہ قسم قسم کے شکار اس قدر بکثرت آ پڑے کہ صحابہ کے خیموں میں گھسنے لگے ادھر اللہ کی طرف سے ممانعت ہو گئی تاکہ پوری آزمائش ہو جائے ادھر شکار گویا ہنڈیا میں ہے ادھر ممانعت ہے ہتھیار تو کہاں یونہی اگر چاہیں  تو ہاتھ سے پکڑ سکتے یہیں  اور پوشیدہ طور سے شکار قبضہ میں کر سکتے ہیں  ۔ یہ صرف اس لئے تھا کہ فرمانبردار اور نافرامن کا امتحان ہو جائے پوشیدگی میں بھی اللہ کا ڈر رکھنے والے غیروں سے ممتاز ہو جائی، چنانچہ فرمان ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ سے غائبانہ ڈرتے رہتے ہیں  ان کے لئے بڑی بھاری مغفرت اور بہت بڑا اجر ہے ۔ اب جو خص اس حکم کے آنے کیبعد بھی حالت احرام میں شکار کھیلے گا شریعت کی مخالفت کرے گا، پھر فرمایا ایماندار و حالت احرام میں شکار نہ کھیلو ۔ یہ حکم اپنے معنی کی حیثیت سے تو حلال جانوروں اور ان سے جو چیزیں حاصل ہوتی ہیں  کیلئے ہے، لیکن جو خشکی کے حرام جانور ہیں  ان کا شکار کھیلنا امام شافعی کے نزدیک تو جائز ہے اور جمہور کے نزدیک حرما ہے، ہاں اس عام حکم سے صرف وہ چیزیں مخصوص ہیں  جن کا ذکر بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا پانچ جانور فاسق ہیں  وہ حرام میں قتل کر دیئے جائیں اور غیر حرم میں بھی، کوا چیل بچھو چوہا اور کانٹے والا کالا کتا اور روایت کے الفاظ یوں ہیں  کہ ان پانچ جانوروں کے قتل میں احرام والے پر بھی کوئی گناہ نہیں  ۔ اس روایت کو سن کر حضرت ایوب اپنے استاد حضرت نافع سے پوچھتے ہیں  کہ سانپ کا کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ اس میں شامل ہے یہ بھی قتل کر دیا جائے اس میں کسی کو اختلاف نہیں  بعض علماء نے جیسے امام احمد امام مالک وغیرہ نے کتے کے حکم پر درندوں کو بھی رکھا ہے جیسے بھیڑیا شیروغیرہ ۔ اس لئے کہ یہ کتے سے بہت زیادہ ضرر والے ہیں  ۔ حضرت زید بن اسلم اور حضرت سفیان بن عینیہ فرماتے ہیں  کہ ہر حملہ کرنے والے درندے کا حکم ہے دیکھئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عتبہ بن ابولہب کے حق میں جب دعا کی تو فرمایا اے اللہ اس پر شام میں اپنا کوئی کتا مقرر کر دے، پاس جب وہ زرقا میں پہنچا وہاں اسے بھیڑئیے نے پھاڑ ڈالا ۔ ہاں اگر محرم نے حالت احرام میں کوے کویا لومڑی وغیرہ کو مار ڈالا تو اس یبدلہ دینا پڑے گا ۔ اسی طرح ان پانچون قسم کے جانوروں کے بچے اور حملہ کرنے والے درندوں کے بچے بھی اس حکم سے مستثنیٰ ہیں  ۔ امام شافعی فرماتے ہیں  ہر وہ جانور جو کھایا نہیں  جاتا اس کے قتل میں اور اس کے بچوں کے قتل میں محرم پر کوئی حرج نہیں  ۔ وجہ یہ ہے کہ ان کا گوشت کھای انہیں  جاتا ۔ امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں  کالا کتا حملہ کرنے والا اور بھیڑیا تو محرم قتل کر سکتا ہے اس لئے کہ بھیڑیا بھی جنگلی کتا ہے ان کے سوا جس جانور کا شکار کھیلے گا فدیہ دنیا پڑے گا ۔ ہاں اگر کوئی شیر وغیرہ جنگی درندہ اس پر حملہ کرے اور یہ اسے مار ڈالے تو اس صورت میں فدیہ نہیں  ۔ آپ کے شاگرد زفر کہتے ہیں  یہ حملہ کرنے کی صورت میں بھی اگر مار ڈالے گا تو فدیہ دینا پڑے گا۔ بعض احادیث میں غراب ابقع کا لفظ آیا ہے یہ وہ کوا ہے جس کے پیٹ اور پیٹھ پر سفیدی ہوتی ہے ۔ مطلق سیاہ اور بالکل سفید کوے کو غراب ابقع نہیں  کہتے لیکن جمہور کا مذہب یہ ہے کہ ہر قسم کے کوے کا یہی حکم ہے کیونکہ بخاری و مسلم کی حدیث میں مطلق کوے کا ذکر ہے ۔ امام ملک فرماتے ہیں  کوے کو بھی اس حال میں مار سکتا ہے کہ وہ اس پر حملہ کرے یا اسے ایذادے مجاہد وغیرہ کا قول ہے کہ اس حالت میں بھی مار نہ ڈالے بلکہ اسے پتھر وغیرہ پھینک کر ہٹا دے ۔ حضرت علی سے بھی یہ مروی ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال ہوا کہ مہرم کس کس جانور کو قتل کر دے ؟ تو آپ نے فرمایا سانپ، بچھو اور چوہا اور کوے کو کنکرمارے اسے مار نہ ڈالے اور کالا کتا اور چیل اور حملہ کرنے والا درندہ ۔ (ابو داؤد وغیرہ) پھر فرماتا ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر حالت احرام میں شکار کرے اس پر فدیہ ہے ۔ حضرت طاؤس کا فرمان ہے کہ خطا سے قتل کرنے والے پر کچھ نہیں  ۔ لیکن یہ مذہب غریب ہے اور آیت کے ظاہری الفاظ سے یہی مشتق ہے ۔ مجاہدین جیبر سے مروی ہے کہ مراد وہ شخص ہے جو شکار تو قصداً کرتا ہے لیکن اپنی حالت احرام کی یاد اسے نہیں  رہی ۔ لیکن جو شخص باوجود احرام کی یاد کے عمداً شکار کرے وہ تو کفارے کی حد سے نکل گیا اس کا احرام باطل ہو گیا ۔ یہ قول بھی غریب ہے ۔ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ قصداً شکار کرنے والا اور بھول کر کرنے والا دونوں کفارے میں برابر ہیں  امام زہیری فرماتے ہیں  قرآن سے تو قصد اً شکار کھیلین والے پر کفارہ ثابت ہوا اور حدیث نے یہی حکم بھولنے والے کا بھی بیان فرمایا ۔ مطلب اس قول کا یہ ہے کہ قصداً شکار کھیلنے والے پر کفارہ قرآن کریم سے ثابت ہے اور اس کا گنہگار ہونا بھی ۔ کیونکہ اس کے بعد لیذوق و بال امرہ فرمایا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے اصحاب سے خطا میں بھی یہی حکم ثابت ہے اور اس لۓ بھی کہ شکار کو قتل کرنا اس کا تلف کرنا ہے اور ہر تلف کرنے کا بدلہ ضروری ہے خواہ وہ بالقصد ہو یا انجان پنے سے ہو۔ ہاں قصداً کرنے والا گنہگار بھی ہے اور بلا قصد جس سے سرزد ہو جائے وہ قابل ملامت نہیں  ۔ پھر فرمایا اس کا بدلہ یہ ہے کہ اسی کے مثل چوپایہ جانور راہ للہ قربان کرے ۔ ابن مسعود کی قرات میں فجزاوہ ہے ان دونوں قراتوں میں مالک شافعی احمد اور جمہور کی دلی ہے کہ جب شکار چوپالیوں کی مانند ہو تو وہی اس کے بدلے میں دینا ہو گا ۔ امام ابو حنفیہ اس کے خلاف کہتے ہیں  کہ خواہ شکار کے کسی جانور کی مثل ہو یا نہ ہو دونوں صورتوں میں قیمت دینی پڑے گی ہاں اس محرم شکاری کو اختیار ہے کہ خواہ اس قیمت کو صدقہ کر دے خواہ اس سے قربانی کا کوئی جانور خریدلے ۔ لیکن یہ یاد رہے کہ امام صاحب کے اس قول سے صحابہ رضی اللہ عنہم کا فیصلہ ہمارے لئے زیادہ قابل عمل ہے انہوں ے شتر مڑع کے شکار کے بدلے اونٹ مقرر کیا ہے اور جنگلی گائے کے بدلے پالتو گائے مقرر فرمائی ہے اور ہرن کے بدلے بکری۔ یہ فیصلے ان بزرگ صحابیوں کے سندوں سمیت احکامکی کتابوں میں موجود ہیں  جہاں شکار جیسا اور کوئی پالتو چوپایہ نہ ہو اس میں ابن عباس رضی اللہ تعلای عنہم کا فیصلہ قیمت کا ہے جو مکہ شریف پہنچائی جائے (بیہقی) پھر فرمایا کہ اس کا فیصلہ دو عادل مسلمان کر دیں کہ کیا قیمت ہے یا کونسا جانور بدلے میں دیا جائے ۔ فقہانے اس بارے میں اختلاف کیا کہ فیصلہ کرنے والے دو میں ایک خود قاتل ہو سکتا ہے یا نہیں ؟ تو امام مالک وغیرہ نے تو انکار کیا ہے کیونکہ اسی کا معاملہ ہو اور وہی حکم کرنے والا ہو اور امام شافعی امام احمد وغیرہ نے آیت کے عموم کو سامنے رکھ کر فرمایا ہے کہ یہ بھی ہو سکتا ہے ۔ پہلے مذہب کی دلیل تو یہ ہے کہ خود حاکم اپنے اوپر اپنا ہی حکم کر کے اسی حکم میں اپنا منصف آپ نہیں  بن سکتا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک اعرابی حضرات ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور کہا میں نے ایک شکار کو احرام کی حالت میں قتل کر دیا ہے اب آپ فرمائیے کہ اس میں مجھ پر بدلہ کیا ہے ؟ آپ نے حضرت ابی بن کعب کی طرف دیکھ کر ان سے دریافت فرمایا کہ آپ فرمائیے کیا حکم ہے ؟ اس پر اعرابی نے کہا سبحان اللہ میں آپ سے دریافت کرنے آیا ہوں آپ خلیفہ رسول ہیں  اور آپ کسی سے دریافت فرما رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا اس میں تیرا کیا بگڑا؟ یہ تو اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ دو عادل جو فیصلہ کر دیں اس لئے میں نے اپنے ساتھی سے دریافت کیا ۔ جب ہم دونوں کسی بات پر اتفاق کر لیں گے تو تجھ سے کہہ دیں گے ۔ اس کی سند تو بہت مضبوط ہے لیکن اس میں میمون اور صدیق کے درمیان انقطاع ہے ۔ یہاں یہی چاہیے تھا حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب دیکھا کہ ارابی جاہل ہے اور جہل کی دو اتعلیم ہے تو آپ نے اسے نرمی اور محبت سے سمجھا دیا اور جبکہ اعتراض کرنے والا خود مدعی علم ہو پھر وہاں یہ صورت نہیں  رہتی ۔ چنانچہ ابن جرید میں ہے حضرت قبیصہ بن جابر کہتے ہیں  ہم حج کیلئے چلے ہماری عادت تھی کہ صبح کی نماز پڑھتے ہی ہم سواریوں سے اتر پڑتے اور انہیں  چلاتے ہوئے باتیں کرتے ہوئے پیدل چل پڑتے ۔ ایک دن اسی طرح جا رہے تھے کہ ایک ہرن ہماری نگاہ میں پڑا ہم میں سے ایک شخص نے اسے پتھر مارا جو اسے پوری طرح لگا اور وہ مر کر گر گیا وہ شخص اسے مردہ چھوڑ کر اپنی سواری پر سوار ہو گیا ۔ ہمیں یہ کام بڑا برامعلوم ہوا اور ہم نے اسے بہت کچھ کہا سنا مکہ شریف پہنچ کر میں اسے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعلای عنہ کے پاس لے گیا اس نے سارا واقعہ خود بیان کیا اس وقت جناب فاروق کے پہلو میں ایک صاحب کھڑے تھے جن کا چہرہ چاندی کی طرح جگمگا رہا تھا یہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ تھے آپ نے ان کی طرف متوجہ ہو کر کچھ باتیں کیں پھر میرے ساتھ سے فرمایا کہ تو نے اسے جان بوجھ کر مار ڈالا یا بھول چوک سے اس نے کہا میں نے پتھر اسی پر پھینکا اور قصداً پھینکا لیکن اسے مار ڈالنے کی مریی نیت نہ تھی ۔ آپ نے فرمایا پھر تو خطا اور عمد کے درمیان درمیان ہے ۔ جا تو ایک بکری ذبح کر دے اس کا گوشت صدقہ کر دے اور اس کی کھال اپنے کام میں لا ۔ یہ سن کر ہم وہاں سے چلے آئے میں نے اپنے ساتھی سے کہا دیکھ تو نے بڑا قصور کیا ہے اللہ جل شانہ کی نشانیوں کی تجھے عظمت کرنی چاہیے اور ایک بات یہ بھی ہے کہ خود امیر لامونین کو تو یہ مسئلہ معلوم نہ تھا انہوں نے اپنے ساتھی سے دریافت کی امیرے خٌا سے تو اپنی اونٹنی اللہ کے نام سے قربان کر دے شاید اس سے تیر اجرم معاف ہو جائے ۔ افسوس کہ اس وقت مجھے یہ آیت یاد ہی نہ رہی کہ حضرت عمر نے تو اس حکم پر عمل کیا ہے کہ دو عادل شخص باہم اتفاق سے جو فیصلہ کریں ۔ حضرت عمر کو بھی مریا یہ فتوی دینا معلوم ہو گیا اچانک آپ کوڑہ لئے ہوئے آ گئے اول تو میرے ساتھی پر کوڑا اٹھا کر فرمایا تونے ایک تو جرم میں قتل کیا دوسرے حکم کی تعمیل میں بیوقوفی کر رہا ہے ۔ اب میری طرف متوجہ ہوئے میں نے کہا امیر المومنین اگر آپ نے مجھے تکلیف پہنچائی تو میں آپ کو آج کی تکلیف ہرگز معاف نہیں  کروں گا ۔ آپ نرم پڑ گئے اور مجھ سے فرمانے لگے اے قبصیہ میرے خیال سے تو تو جوانی کی عمر والا کشادہ سینے والا اور چلتی زبان والا ہے ۔ یاد رکھ نوجوانوں میں اگر نو خصلتیں اچھی ہوں اور ایک بری ہو تو وہ ایک بری خصلت نو بھلی خصلتوں کو مات کر دیتی ہے ۔ سن جوانی کی لغزشوں سے بچارہ ۔ ابن جریر میں ہے کہ حضرت جریر بن عبد اللہ بجلی رضی اللہ عنہ نے احرام کی حالت میں ایک ہرن کا شکار کر لیا پھر حضرت عمر کے پاس گئے آپ نے فرمایا جاؤ اپنے دو رشتے داروں کو لے آؤ وہی فیصلہ کریں گے میں جا کر حضرت عبدالرحمن کو اور حضرت سعد کو بلا لایا ۔ دونوں نے فیصلہ کیا کہ میں ایک موٹا تازہ بکرا فدیہ دوں ۔ حضرت طارق فرماتے ہیں  ایک شخص نے ایک ہرن کو تیر مارا وہ مر گیا حضرت عمر سے اس نے مسئلہ پوچھا تو آپ نے خود اس کو بھی مشورے میں شریک کر لیا دونوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ گھر کی پالتو بکری راہ للہ قربان کرو اس میں یہ دلدیل ہے کہ خود قاتل بھی دو حکم کرنے والوں میں ایک بن سکتا ہے ۔ جیسے کہ امام شافعی اور ماام احمد کا مزہب ہے ۔ پھر آیا ہر معاملہ میں اب بھی موجودہ لوگوں میں سے دو حکم فیصلہ کریں گے یا صحابہ کے فیصلے کافی ہیں  ؟ اس میں بھی اختلاف ہے امام مالک اور امام بو حنیفہ فرماتے ہیں  ہر فیصلہ اس وقت کے موجود دو عقلمند لوگوں سے کرایا جائے گو اس میں پہلے کا کوئی فیصلہ ہو یا نہ ہو۔ پھر فرماتا ہے یہ فدیئے کی قربانی حرم میں پہنچے یعنی وہیں  ذبح ہو اور وہیں  اس کا گوشت مسکینوں میں تقسیم ہو اس پر سب کا اتفاق ہے پھر فرمایا کفارہ ہے مسکینوں کا کھانا کھلانا یا اس کے برابر کے روزے، یعنی جب محرم اپنے قتل کئے ہوئے شکار کے مانند کوئی جانور نہ پائے یا خود شکار ایسا ہوا ہی نہیں  جس کے مثل کوئی جانور پالتو ہو یہاں پر لفظ او اختیار کے ثابت کنے کیلئے ہے یعنی بدلے کے جانور میں کھانا کھالانے میں اور روزے رکھنے میں اختیار ہے جیسے کہ امام مالک امام بو حنیفہ امام ابو یوسف امام محمد بن حسن اور امام شافعی کے دو قولوں میں سے ایک قول اور ماما احمد کامشہور قول ہے اور آیت کے ظاہر الفاظ بھی یہی ہیں ، دوسرا قول یہ ہے کہ یہ ترتیب وار ہیں ، یعنی پہلے تو بدلہ پس مالک ابو حنیفہ ان کے ساتھی، حماد اور ابراہیم کا تو قول ہے کہ خود شکار کی قیمت لگائی جائے گی اور امام شافعی فرماتے ہیں  شکار کے برابر کے جانور کی قیمت لگائی جائے گی اگر وہ موجود ہو پھر اس کا اناج خریدا جائے گا اور اس میں سے ایک ایک مد ایک ایک مسکین کو دیا جائے گا مالک اور فقہاء حجاز کا قول بھی یہی ہے، امام ابو حنیفہ اور ان کے ساتھی کہتے ہیں  ہر مسکین کو دو مد دیئے جائیں گے مجاہد کا قول یہی ہے، امام احمد فرماتے ہیں  گہیو ہوں تو ایک مد اور اس کے سوا کچھ ہو تو دو مد، پس اگر نہ پائے یا اختیار اس آیت سے ثابت ہو جائے تو ہر مسکین کے کھانے کے عوض ایک روزہ رکھ لے، بعض کہتے ہیں  جتنا اناج ہو اس کے ہر ایک صاع کے بدلے ایک روزہ رکھے جسے کہ اس شخص کے لئے یہ حکم ہے جو خوشبو وغیرہ لگائے، شارع علیہ السلام نے حضرت کعب بن عجرہ کو حکم دیا تھا کہ وہ ایک فرق کو چھ شخصوں کے درمیان تقسیم کر دیں یا تین دن کے روزے رکھیں، فرق تین صاع کا ہوتا ہے اب کھانا پہنچانے کی جگہ میں بھی اختلاف ہے، امام شافعی کا فرمان ہے کہ اس کی جگہ حرم ہے، عطاء کا قول بھی یہی ہے، مجاہد فرماتے ہیں  جہاں شکار کیا ہے وہیں  کھلوا دے، یا اس سے بہت زیادہ کی قریب کی جگہ میں، امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں  خواہ حرم میں خواہ غیر حرم میں اختیار ہے ۔ سلف کے اس آیت کے متعلق اقوال ملاحظہ ہوں، ابن ابی حاتم میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ جب محرم شکار کھیل لے اس پر اس کے بدلے کے چوپائے کا فیصلہ کیا جائے گا اگر نہ ملے تو دیکھا جائے گا کہ وہ کس قیمت کا ہے، پھر اس نقدی کے اناج کا اندازہ کیا جائے گا پھر جتنا اناج ہو گا اسی کے ناپ سے ہر نصف صاع کے بدلے ایک روزہ رکھنا ہو گا پھر جب طعام پایا جائے گا جزا پالی گئی اور روایت میں ہے جب محرم نے ہرن کو مار ڈالا تو اس پر ایک بکری ہے جو مکے میں ذبح کی جائے گی اگر نہ پائے تو چھ مسکین کا کھانا ہے اگر نہ پائے تو تین روزے ہیں  اگر کسی نے اونٹ کو قتل کیا تو اس کے زمہ ایک گائے ہے اگر نہ پائے تو بیس مسکینوں کا کھانا دینا اگر یہ بھی نہ پائے تو بیس روزے، اگر شتر مرغ یا گور خرو غیرہ مارا ہے تو اس پر ایک اونٹنی ہے اگر نہ ملے تو تیس مسکینوں کا کھانا دینا اگر یہ بھی نہ پائے تو تین روزے ہیں  ۔ اگر کسی نے اونٹ کو قتل کیا تو اس کے ذمہ ایک گائے ہے اگر نہ پائے تو بیس مسکینوں کا کھانا دینا اگر یہ بھی نہ پائے تو بیس روزے، اگر شتر مرغ یا گور کرو عیرہ مارا ہے تو اس پر ایک اونٹنی ہے اگر نہ ملے تو تیس مسکینون کا کھانا ہے اگر نہ پائے تو تیس دن کے روزے، ابن جریر کی اسی روایت میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ طعام ایک ایک مد ہو جو ان کا پیٹ بھر دے، دوسرے بہت سے تابعین نے بھی طعام کی مقدار بتلائی ہے ۔ سدی فرماے ہیں  یہ سب چیزیں ترتیب وار ہیں  اور بزرگ فرماتے ہیں  کہ تینوں باتوں میں اختیار ہے، امام ابن جریر کا مکتار قول بھی یہی ہے پھر فرمان ہے کہ یہ کفارہ ہم نے اس لئے واجب کیا ہے کہ وہ اپنے کرتوت کی سزا کو پہنچ جائے، زمانہ جاہلیت میں جو کچھ کسی نے خطا کی ہے وہ اسلام کی اچھائی کی وجہ سے معاف ہے، اب اسلام میں ان احکام کی موجودگی میں بھی پھر سے اگر کوئی شخص یہ گناہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس سے انتقام لے گا۔ گو اس میں حد نہیں  امام وقت اس پر کوئی سزا نہیں  دے سکتا یہ گناہ اللہ اور بندے کے درمیان ہے ہاں اسے فدیہ ضرور دینا پڑے گا یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ فدیہ ہی انتقام ہے ۔ یہ یاد رہے کہ جب کبھی محرم حالت احرام میں شکار کو مارے گا اس پر بدلہ واجب ہو گا خواہ کئی دفعہ اس سے یہ حرکت ہو جائے اور خواہ عمداً ہو خواہ خطا ہو ایک دفعہ شکار کے بعد اگر دوبارہ شکار کیا تو اس سے کہ دیا جائے کہ اللہ تجھ سے بدلہ لے، ابن عباس سے ایک روایت یہ بھی مروی ہے کہ پہلیع دفعہ کے شکار پر فدیہ کا حکم ہو گا دوبارہ کے سکار پر خو د اللہ اس سے انتقام لے گا اس پر فیصلہ فدیہ کا نہ ہو گا لیکن امام ابن جرید کا مختار مذہب پہلا قول ہی ہے، امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں  ایک شخص نے محرم ہو کر شکار کیا اس پر فدائے کا فیصلہ کیا گیا اس نے پھر شکار کیا تو آسمان سے آگ آ گئی اور اسے جلا کر بھسم کر دیا یہی معنی ہیں  اللہ کے فرمان فینتقم الللہ منہ کے ۔ اللہ اپنی سلطنت میں غالب ہے اسے کوئی مغلوب نہیں  کر سکتا کوئی اسے انتقام سے روک نہیں  سکتا اس کا عذاب جس پر آ جائے کوئی نہیں  جو اسے ٹال دے، مخلوق سب اسی کی پیدا کی ہوئی ہے حکم اس کا سب پر نافذ ہے عزت اور غلبہ اسی کیلئے ہے، وہ اپنے نافرمانوں سے زبر دست انتقام لیتا ہے ۔

۹۶

عام اور شکار میں فرق اور حلال کی مزید تشریحات

دریائی شکار سے مراد تازہ پکڑے ہوئے جانور اور طعام سے مراد ہے ان کا جو گوشت سکھا کر نمکین بطور توشے کے ساتھ رکھا جاتا ہے، یہ بھی مروی ہے کہ پانی میں سے جو زندہ پکڑا جائے وہ صید یعنی شکار ہے اور جو مردہ ہو کر باہر نکل آئے وہ طعام یعنی کھانا ہے حضرت ابوبکر صدیق حضرت زید بن ثابت حضرت عبد اللہ بن عمرو حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہم اجمعین، حضرت عکرمہ، حضرت ابو سلمہ، حضرت ابراہیم نخعی، حضرت حسن بصری رحمیم اللہ سے بھی یہی مردی ہے، خلیفہ بلا فصل رضٌ اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ پانی میں جتنے بھی جانور ہیں  وہ سب طعام ہیں  ۔ (ابن ابی حاتم وغیرہ) آپ نے ایک خطبے میں اس آیت کے اگلے حصے کی تلاوت کر کے فرمایا کہ جو چیز سمندر پھینک دے وہ طعام ہے (ابن جریر) ابن عباس سے بھی یہی منقول ہے ایک روایت میں ہے کہ جو مرداہ جانور پانی نکال دے ۔ سعید بن مسیب سے اس کی تفسیر میں مروی ہے کہ جس زندہ آبی جانور کو پانی کنارے پر ڈال دے یا پانی اس سے ہٹ جائے یا وہ باہر مردہ ملے (ابن ابی حاتم) ابن جریر میں ہے کہ حضرت عبالرحمن بن ابوہیرہ نے ایک مرتبہ حضرت ابن عمر سے سوال کیا کہ سمندر نے بہت سی مردہ مچھلیاں کنارے پر پھینک دی ہیں  تو آپ کیا فرماتے ہیں ؟ ہم انہیں  کھا سکتے ہیں  یا نہیں ؟ ابن عمر نے جواب دیا نہیں  نہ کھاؤ، جب واپس آئے تو حضرت عباللہ رضی اللہ عالی عنہ نے قرآن کریم کھول کر تلاوت کی اور سورہ مائدہ کی اس آیت پر نظر پڑی تو ایک آدمی کو دوڑایا اور کہا جاؤ کہہ دو  کہ وہ اسے کھا لیں یہی بحری طعام ہے، امام ابن جریر کے نزدیک بھی قول مختار یہی ہے کہ مراد طعام سے وہ آبی جانور ہیں  جو پانی میں ہی مر جائیں، فرماتے ہیں  اس بارے میں ایک روایت مروی ہے گو بعض نے اسے موقوف روایت کہا ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے آپ نے احل لکم صید البحرا و طعامہ متاعا لکم پڑھ کر فرمایا اس کا طعام وہ ہے جسے وہ پھینک دے اور وہ مرا ہوا ہو ۔ بعض لوگں نے اسے بقول ابی ہریرہ موقوف روایت کیا ہے، پھر فرماتا ہے یہ منفعت ہے تمہارے لئے اور راہ رو مسافروں کے لئے، یعنی جو سمندر کے کنارے رہتے ہوں اور جو وہاں وارد ہوئے ہوں، پس کنارے رہنے والے تو تازہ شکار خود کھیلتے ہیں  پانی جسے دھکے دے کر باہر پھینک دے اور مر جائے اسے کھا لیتے ہیں  اور نمکین ہو کر دوردراز والوں کو سوکھا ہو اپہنچتا ہے ۔ الغرض جمہور علماء کرام نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ پانی کا جانور خواہ مردہ ہی ہو حلال ہے اس کی دلیل علاوہ اس آیت کے امام مالک کی روایت کردہ وہ حدیث بھی ہے کہ حضور نے سمندر کے کنارے پر ایک چھوٹا سا لشکر بھیجا جس کا سردار حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مقرر کیا، یہ لوگ کوئی تین سو تھے حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں  میں بھی ان میں سے تھا ہم ابھی راستے میں ہی تھے جو ہمارے توشے تھے ختم ہو گئے، امیر لشکر کو جب یہ علم ہوا تو حکم دیا کہ جو کچھ جس کسی کے پاس ہو میرے پاس لاؤ چنانچہ سب جمع کر لیا اب حصہ رسدی کے طور پر ایک مقررہ مقدار ہر ایک کو بانٹ دیتے تھے یہاں تک کہ آخر میں ہمیں ہر دن ایک ایک کھجور ملنے لگی آخر میں یہ بھی ختم ہو گئی۔ اب سمندر کے کنارے پہنچ گئے دیکھتے ہیں  کہ کنارے پر پہہنچ گئے دیکھتے ہیں  کہ کنارے پر ایک بڑی مچھلی ایک ٹیلے کی طرح پڑی ہوئی ہے، سارے لشکر نے اٹھارہ راتوں تک اسے کھایا، وہ اتنی بڑی تھی کہ اس کی دو پسلیاں کھڑی کی گئیں تو اس کے نیچے سے ایک شتر سوار نکل گیا اور اس کا سر اس پسلی کی ہڈی تک نہ پہنچا، یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے ایک اور روایت میں ہے کہ اس کا نام عنبر تھا ایک روایت میں ہے کہ یہ مردہ ملی تھی اور صحابہ نے آپس میں کہا تھا کہ ہم رسول اللہ کے بھیجے ہوئے ہیں  اور اس وقت سخت دقت اور تکلیف میں ہیں  اسے کھا لو ہم تین سو آدمی ایک مہیں ے تک وہیں  رہے اور اسی کو کھاتے رہے یہاں تک کہ ہم موٹے تازے اور تیار ہو گئے اس کی آنکھ کے سوراخ میں سے ہم چربی ہاتھوں میں بھر بھر کر نکالتے تھے تیرہ شخص اس کی آنکھ کی گہرائی میں بیٹھ گئے تھے، اس کی پسلی کی ہڈی کے درمیان سے سانڈنی سوار گزر جاتا تھا، ہم نے اس کے گوشت اور چربی سے مٹکے بھر لئے جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس واپس پہنچے اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا یہ اللہ کی طرف سے روزی تھی جو اللہ جل مجدہ نے تمہیں  دی کیا اس کا گوشت اب بھی تمہارے پاس ہے ؟ اگر ہو تو ہمیں بھی کھلاؤ، ہمارے پاس تو تھا ہی ہم نے حضور کی خدمت میں پیش کیا اور خود آپ نے بھی کھایا، مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ اس واقعہ میں خود پیغمبر اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی موجود تھھے اس وجہ سے بعض محدثین کہتے ہیں  کہ ممکن ہے یہ دو واقع ہوں اور بعض کہتے ہیں  واقعہ تو ایک ہی ہے، شڑوع میں اللہ کے نبی بھی ان کے ساتھ تھے بعد میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ہم سمندر کے سفر کو جاتے ہیں  ہمارے ساتھ پانی بہت کم ہوتا ہے اگر اسی سے وضو کرتے ہیں  تو پیاسے رہ جائیں تو کیا ہمیں سمندر کے پانی سے وضو کر لینے کی اجازت ہے ؟ حضور نے فرمایا سمندر کا پانی پاک ہے اور اس کا مردہ حلال ہے، امام شافعی امام احمد اور سنن اربعہ والوں نے اسے روایت کیا ہے امام بخاری امام ترمذی امام ابن خزیمہ امام ابن حبان وغیرہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے صحابہ کی ایک جماعت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے اسی کے مثل روایت کیا ہے، ابو داؤد ترمذی ابن ماجہ اور مسند احمد میں ہے حضرت ابو ہیریرہ فرماتے ہیں  ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ حج یا عمرے میں تھے اتفاق سے ٹڈیوں کا دل کا دل آ پہنچ اہم نے انہیں  مارنا اور پکڑنا شروع کیا لیکن پھر خیال آیا کہ ہم تو احرام کی حالت میں ہیں  انہیں  کیا کریں گے ؟ چنانچہ ہم نے جا کر حضور علیہ السلام سے مسئلہ پوچھا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ دریائی جانورون کے شکار میں کوئی حرج نہیں ، اس کا ایک راوی ابو المہزم ضعیف ہے، واللہ اعلم ابن ماجہ میں ہے کہ جب ٹڈیاں نکل آتیں اور نقصان پہنچاتیں تو رسول کریم علیہ افضل الصلوٰۃ و التسلیم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے کہ اے اللہ ان سب کو خاہ چھوٹی ہوں خواہ بڑی ہلاک کر ان کے انڈے تباہ کر ان کا سلسلہ کاٹ دے اور ہماری معاش سے ان کے منہ بند کر دیے یا اللہ ہمیں روزیاں دے یقیناً تو دعاؤں کا سننے والا ہے، حضرت خالد نے کہا یا رسول اللہ آپ ان کے سلسلہ کے کٹ جانے کی دعا کرتے ہیں  حالانکہ وہ بھی ایک قسم کا مخلوق ہے آپ نے فرمایا ان کی پیدائش کی اصل مچھلی سے ہے، حضرت زیاد کا قول ہے کہ جس نے انہیں  مچھلی سے ظاہر ہوتے دیکھا تھا خود اسی نے مجھ سے بیان کیا ہے، ابن عباس سے مروی ہے کہ انہوں نے حرم میں ٹڈی کے شکار بھی منع کیا ہے جن فقہا کرام کا یہ مذہب ہے کہ سمندر میں جو کچھ ہے سب حلال ہے ان کا استد لالا اسی آیت سے ہے وہ کسی آبی جانور کو حرام نہیں  کہتے حضرت ابوبکر صدیق کا وہ قول بیان ہو چکا ہے کہ طعام سے مراد پانی میں رہنے والی ہر ایک چیز ہے، بعض حضرات نے صرف میں ڈک کو اس حکم سے الگ کر لیا ہے اور میں ڈک کے سوا پانی کے تمام جانوروں کو وہ مباح کہت یہیں  کیونکہ مسند وغیرہ کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے میں ڈک کے مارنے سے منع فرمایا ہے اور فرمایا ہے کہ اس کی آواز اللہ کی تسبیح ہے، بعض اور کہتے ہیں  سمندر کے شکار سے مچھلی کھائی جائے گی اور میں ڈک نہیں  کھا یا جائے گا اور باقی کی چیزوں میں اختلاف ہے کچھ تو کہتے ہیں  کہ باقی سب حلال ہے اور کچھ کہتے ہیں  باقی سب نہ کھایا جائے، ایک جماعت کا خیال ہے کہ خشکی کے جو جانور حلال ہیں  ان جیسے جو جانور پانی کے حوں وہ بھی حلالا ہیں  اور خشکی کے جو جانور حرام ہیں  ان کی مشابہت کے جو جانور تری کے ہوں وہ بھی حرام، یہ سب وجوہ مذہب شافعی میں ہیں  حنفی مذہب یہ ہے کہ سمندر میں مر جائے اس کا کھانا حلال نہیں  جیسے کہ خشکی میں از خود مرے ہوئے جانور کا کھانا حلالا نہیں  کیونکہ قرآن نے اپنی موت آپ مرے ہوئے جانور کو حرمت علیکم المیتۃ میں حرام کر ذیا ہے اور یہ عام ہے، ابن مردویہ میں حدیث ہے کہ جو تم شکار کر لو اور وہ زندگہ ہو پھر مر جائے تو اسے کھالو اور جسے پانی آپ ہی پھینک دے اور وہ مرا ہوا الٹا پڑا ہوا ہوا سے نہ کھاؤ، لیکن یہ حدیث مسند کی رو سے منکر ہے صحیح نہیں ، مالکیوں شافعیوں اور حنبلیوں کی دلدیل ایک تو ہی عنبر والی حدیث ہے جو پہلے گزر چکی دوسری دلی وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ سمندر کا پانی پاک اور اس کا مردہ حلال کئے گئے ہیں  دو مردے مچھلی اور ٹڈی اور دو خون کلیجی اور تلی، یہ حدیث مسند احمد ابن ماجہ دار قطنی اور بیہقی میں بھی ہے اور اس کے سواہد بھی ہیں  اور یہی روایت موقوفاً بھی مروی ہے، واللہ اعلم، پھر فرماتا ہے کہ تم پر احرام کی حالت میں شکار کھیلنا حرام ہے، پس اگر کسی احرام والے نے شکار کر لیا اور اگر قصداً کیا ہے تو اسے کفارہ بھی دینا پڑے گا اور گنہگار بھی ہو گا اور اگر خطا اور غلطی سے شکار کر لیا ہے تو اسے کفارہ دینا پڑے گا اور اس کا کھانا اس پر حرام ہے خواہ وہ احرام والے ہوں یا نہ ہوں ۔ عطا قاسم سالم ابو یوسف محمد بن حسن وغیرہ بھی یہی کہتے ہیں، پھر اگر اسے کھا لیا تو عطا وغیرہ کا قول ہے کہ اس پر دو کفارے لازم ہیں  لیکن امام مالک وغیرہ فرماتے ہیں  کہ کھانے میں کوئی کفارہ نہیں ، جمہور بھی امام صاحب کے ساتھ ہیں ، ابو عمر نے اس کی توجیہ یہ بیان کی ہے کہ جس طرح زانی کے کئی زنا پر حد ایک ہی ہوتی ہے، حضرت ابو حنیفہ کا قول ہے کہ شکار کر کے کھانے والے کو اس کی قیمت بھی دینی پڑے گی، ابو ثور کہتے ہیں  کہ محرم نے جب کوئی شکار مارا تو اس پر جزا ہے، ہاں اس شکار کا کھانا اس کیلئے حلال ہے لیکن میں اسے اچھا نہیں  سمجھتا، کیونکہ فرمان رسول ہے کہ خشکی کے شکار کو کھانا تمہارے لئے حلال ہے جب تک کہ تم آپ شکار نہ کرو اور جب تک کہ خاص تمہارے لئے شکار نہ کیا جائے، اس حدیث کا تفصیلی بیان آگے آ رہا ہے، ان کا یہ قول غریب ہے، ہاں شکاری کے سوا اور لوگ بھی اسے کھا سکتے ہیں  یا نہیں ؟ اس میں اختلاف ہے، بعض تو منع کرتے ہیں  جیسے پہلے گزر چکا اور بعض جائز بتاتے ہیں  ان کی دلدیل وہی حدیث ہے جو اوپر ابو ثور کے قول کے بیان میں گزری، واللہ اعلم، اگر کسی ایسے شخص نے شکار کیا جو احرام باندھے ہوئے نہیں  پھر اس نے کسی احرام والے کو وہ جانور ہدیئے میں دیا تو بعض تو کہتے ہیں  کہ یہ مطلقاً حلالا ہے خواہ اسی کی نیت سے شکار کیا ہو خواہ اس کے لئے شکار نہ کیا ہو، حضرت عمر حضرت ابوہریرہ حضرت زبیر حضرت کعب احبار حضرت مجاہد، حضرت عطا، حضرت سعید بن جیر اور کو فیوں کا یہی خیال ہے، چنانچہ حضرت ابوہریرہ سے یہ مسئلہ پوچھا گیا کہ غیر محرم کے شکار کو محرم کھا سکتا ہے ؟ تو آپ نے جواز کا فتوی دیا، جب حضرت عمر کو یہ خبر ملی تو آپ نے فرمایا گر تو اس کے خلاف فتوی دیتا تو میں نیری سزا کرتا کچھ لوگ کہتے ہیں  کہ اس صورت میں بھی محرم کو اس کا کھانا درست نہیں ، ان کی دلیل اس آیت کے کا عموم ہے حضرت ابن عباس اور ابن عمر سے بھی یہی مروی ہے اور بھی صحابہ تابعین اور ائمہ دین اس طرف گئے ہیں ۔ تیسری جماعت نے اس کی تفصیل کی ہے وہ کہتے ہیں  کہ اگر کسی غیر محرم نے کسی محرم کے ارادے سے شکار کیا ہے تو اس مہرم کو اس کا کھانا جائز ہنہیں ، ورنہ جائز ہے ان کی دلیل حضرت صعب بن جثامہ کی حدیث ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ابوا کے میدان میں یا ودان کے میدان میں ایک گور خر شکار کردہ بطور ہدئیے کے دیا تو آپ نے اسے واپس کر دیا جس سے صحابی رنجیدہ ہوئے، آثار رنج ان کے چہرے پر دیکھ کر رحمۃ للعالمیں نے فرمایا اور کچھ خیال نہ کرو ہم نے بوجہ احرام میں ہونے کے ہی اسے واپس کیا ہے، یہ حدیث بخاری و مسلم میں موجودہ ہے، تو یہ لوٹانا آپ کا اسی وجہ سے تھا کہ آپ نے سمجھ لیا تھا کہ اس نے یہ شکار خاص میرے لئے ہی کیا ہے اور جب شکار محرم کیلئے ہی نہ ہو تو پھر اسے قبول کرنے اور کھانے میں کوئی حرج نہیں  کیونکہ حضرت ابو قتادہ کی حدیث میں ہے کہ انہوں نے بھی جبکہ وہ احرام کی حالت میں نہ تھے ایک گورخر شکار کیا صحابہ جو احرام میں تھے انہوں نے اس کے کھانے میں توقف کیا اور حضور سے یہ مسئلہ پوچھا تو آپ نے فرمایا کیا تم میں سے کسی نے اسے اشارہ کیا تھا؟ یا اسے کوئی مدد دی تھی ؟ سب نے انکار کیا تو آپ نے فرمایا پھر کھا لو اور خود آپ نے بھی کھایا یہ واقعہ بھی بخاری و مسلم میں موجود ہے، مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جنگلی شکار کا کھانا تمہارے لئے حلال ہے اس حالت میں بھی کہ تم احرام میں ہو جب تک کہ خود تم نے شکار نہ کیا ہو اور جب تک کہ خود تمہارے لئے شکار نہ کیا گیا ہو، ابو داؤد ترمذی نسائی میں بھی یہ حدیث موجود ہے، امام ترمذی نے فرمایا ہے کہ اس کے راوی مطلب کا جابر سے سننا ثابت نہیں ، ربیعہ فرماتے ہی کہ عرج میں جناب خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے، آپ احرام کی حالت میں تھے جاڑوں کے دن تھے ایک چادر سے آپ منہ ڈھکے ہوئے تھے کہ آپ کے سامنے شکار کا گوشت پیش کیا گیا تو آپ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا تم کھا لو انہوں نے کہا اور آپ کیوں نہیں  کھاتے ؟ فرمایا مجھ میں تم میں فرق ہے یہ شکار میرے ہی لئے کیا گیا ہے اس لئے میں نہیں  کھاؤں گا تمہارے لئے نہیں  گیا اس لئے تم کھا سکتے ہو ۔

۱۰۰

رزق حلال کم ہو تو برکت حرام زیادہ بھی ہو تو بے برکت اور کثرت سوالات

مقصد یہ ہے کہ حلال گو تھوڑا ہو وہ بہتر ہے حرام سے گو بہت سارا ہو جیسے وارد ہے کہ جو کم ہو اور کفایت کرے وہ بہتر ہے اس سے جو زیادہ ہو اور عافل کر دے، ابن حاطب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں عرض کی کہ یا رسول اللہ دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے مال عطا فرمائے آپ نے فرمایا کم مال جس کا شکریہ تو ادا کرے یہ بہتر ہے اس زیادہ سے جس کی تو طاقت نہ رکھے، اے عقلمند لوگو اللہ سے ڈرو حرام سے بچو حلال پر اکتفا کرو قناعت کیا کرو تاکہ دین و دنیا میں کامیاب ہو جاؤ، پھر اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو ادب سکھاتا ہے کہ بے فائدہ سوالات مت کیا کرو، کرید میں نہ پرو، ایس نہ ہو کہ پھر ان کا جواب اور ان امور کا اظہار تم پر شاق گزرے، صحیح حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مجھے کوئی کسی کی برائی کی بات نہ پہنچائے، میں چاہتا ہوں کہ تمہاری طرف اس حالت میں آؤں کی میرے دل میں کسی کی طرف سے کوئی برائی نہ ہو، صحیح بخاری شریف میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں خطبہ سنایا، ایسا بے مثل کہ ہم نے کبھی ایسا خطبہ نہ سنا تھا اسی میں فرمایا کہ اگر تم وہ جانتے جو میں جانتا ہوں تو تم بہت کم ہنستے اور بہت زیادہ روتے، یہ سن کر اصحاب رسول منہ ڈھانپ کر رونے لگے اسی اثنا میں ایک شخص آپ سے پوچھ بیٹھا کہ میرا باپ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا فلاں، اس پر یہ آیت اتری بخاری مسلم کی اور حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ لوگوں نے حضور سے بہ کثرت سوالات شروع کر دیئے چنانچہ آپ منبر پر آ گئے اور فرمایا آؤ اب جس کسی کو جو کچھ پوچھنا ہو پوچھ لو جو پوچھو گے جواب پاؤ گے، صحابہ کانپ اٹھے کہ ایسا نہ ہو اس کے پیچھے کوئی اہم امر ظاہر ہو جتنے بھی تھے سب اپنے اپنے جہرے کپڑوں سے ڈھانپ کر رونے لگے، ایک شخص تھے جن سے مذاق کیا جاتا تھا اور جنہیں  لوگ ان کے بباپ کے سوا دو سرے کی طرف نسبت کر کے بلاتے تھے اس نے کہا حضور میرا باپ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا خزافہ، پھر حضرت عمر کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ ہم اللہ کے رب ہونے پر اسلام کے دین ہونے پر اور آپ کے سوال ہونے پر راضی ہو گئے ہم تمام فتنوں سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں، آپ نے فرمایا آج کی طرح میں نے بھلائی برائی کبھی نہیں  دیکھی جنت دوزخ میرے سامنے اس دیوار کے پیچھے بوطر نقشے کے پیش کر دی گئی تھی اور روایت میں ہے یہ سوال کرنے والے حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ تھے ۔ ان سے ان کی والدہ نے کہا تجھ سے بڑھ کر ماں باپ کا نافرمان میں نے نہیں  دیکھا ۔ تجھے کیا کۃر تھی جاہلیت میں کس چیز کا پرہیز تھا ۔ فرض کرو اگر میں بھی کسی معصیت میں اس وقت آلودہ ہو گئی ہوتی تو آج اللہ کے رسول کی زبانی میری رسوائی ہوتی اور سب کے سامنے بے آبروئی ہوتی، آپ نے فرمایا سنو اماں اگر رسول اللہ کی زبانی مجھے معلوم ہوتا کہ فلاں حبشی غلام کا میں بیٹا ہوں تو واللہ میں اسی سے مل جاتا، ابن جریر میں ہے کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سخت غصلے کی حالت میں آئے منبر پر جڑھ گئے آپ کا چہرہ مبارک اس وقت سرخ ہو رہا تھا شخص نے کھڑے ہو کر پوچھا میں کہاں جاؤں گا؟ آپ نے فرمایا جہنم میں دوسرے نے پوچھا میرا باپ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا حذافہ، حضرت عمر نے کھڑے ہو کر فرمایا ہم اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے نبی ہونے پر، قرآن کے امام ہونے پر راضی ہیں  یا رسول اللہ جاہلیت اور شرک میں ہم ابھی ابھی آپ کی طرف آئے ہیں، اللہ ہی جانتا ہے کہ میرے آباؤ اجداد کون ہیں ؟ اس سے آپ کا غصہ کم ہوا اور یہ آیت اتری، ایک مرسل حدیث میں ہے کہ اس دن حضور نے منبر پر بیٹھ کر فرمایا جو چاہو پوچھو، جو پوچھو گے، بتاؤں گا، یہ شخص جس نے اپنے باپ کا نام پوچھا تھا یہ قریش کے قبیلے بنو سہم میں سے تھا، اس روایت میں یہ بھی ہے کہ جناب عمر نے حضور کے قدم چوم کر یہ عرض کیا تھا اور یہ بھی فرمایا تھا کہ آپ ہم سے درگزر فرمائیے اللہ تعالیٰ آپ سے درگزر فرمائے، اسی دن حضور نے یہ قاعدہ مقرر فرمایا تھا کہ اولاد اسے ملے گی جس کی بیوی یا لونڈی ہو اور زانی کو پتھر ملیں گے، بخاری شریف میں ہے کہ بعض لوگ از روئے مذاق حضور سے اپنے باپ کا نام اور اپنی گم شدہ اونٹینیوں کی جگہ وغیرہ دریافت کرتے تھے جس پر یہ آیت اتری، سمدن احمد میں ہے کہ جب آیت واللہ علی الناس حن البیت من اسطاع الیہ سبیلا نازل ہوئی یعنی صاحب مقدور لوگوں پر حج بیت اللہ فرض ہے تو لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ کیا ہر سال حج فرض ہے ؟ آپ خاموش ہو رہے انہوں نے پھر دوبارہ یہی سوال کیا آپ نے پھر سکوت فرمایا انہوں نے تیسری دفعہ پھر یہی پوچھا آپ نے فرمایا ہر سال نہیں  اور اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال واجب ہو جاتا اور تم ادانہ کر سکتے، پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری، یہ نحدیث ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی ہے، امام ترمذی فرماتے ہیں  یہ روایت اس سند سے غریب ہے اور میں نے امام بخاری سے سنا ہے کہ اس کے راوی ابو الخجزی نے حضرت علی سے ملاقات نہیں  کی، ابن جریر کی اس روایت میں یہ بھی ہے کہ میری ہاں کے بعد اگر تم اسے چھوڑ دیتے تو یقینات کافر ہو جاتے، ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ پوچھنے والے محصن اسدی تھے، دوسری روایت میں ان کا نام عکاشہ بن محضن مروی ہے، یہی زیادہ ٹھیک ہے اور روایت میں ہے کہ سائل ایک اعرابی تھے اس میں یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا تم سے اگلے لوگ ائمہ حرج کے ایسے ہی سوالوں کی وجہ سے ہلاک ہوئے واللہ تمہاری حالت تو یہ ہے کہ اگر میں ساری زمین تمہارے لئے حلال کر دوں اور صرف ایک موزے کے برابر کی جگہ حرام کر دوں تو تم اسی حرمت والی زمین پر گرو گے، اس کی سند بھی ضعیف ہے، ظاہر آیت کے الفاظ کا مطلب تو صاف ہے یعنی ان باتوں کا پوچھنا منع ہے جن کا ظاہر ہونا برا ہو، پس اولی یہ ہے کہ ایسے سوالات ترک کر دیئے جائیں اور ان سے اعراض کر لیا جائے، مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ حضور نے اپنے صحابہ سے فرما دیا دیکھو مجھے کسی کی کوئی برائی نہ پہنچائے میں چاہتا ہوں کہ تمہارے پاس صاف سینہ لے کر آؤں، پھر فرماتا ہے کہ جن چیزوں کے سوال سے تمہیں  روکا جا رہا ہے اگر تم نے ان کی بابت پوچھ گچھ کی اور تم دیکھ رہے ہو کہ وحی نازل ہو رہی ہے تو تمہارے سوالات کا جواب آ جائے گا اور جس چیز کا ظاہر ہونا تمہیں  برا معلوم ہوتا تھا وہ ظاہر ہو جائے گی، اس سے پہلے کے ایسے سوالات سے تو اللہ تعالیٰ نے درگزر فرما لیا ۔ اللہ ہے ہی بخشش والا اور حلم و بردباری والا۔ مطلب یہ ہے کہ سوالات ترک کردو ایسا نہ ہو کہ تمہارے سوال کی وجہ سے کوئی آسانی سختی میں بدل جائے ۔ حدیث شریف میں ہے مسلمانوں میں سب سے بڑا گنہگار وہ ہے جس نے کسی چیز کی نسبت دریافت کیا جو حرام نہ تھی پھر اس کے سوال کی وجہ سے وہ حرام ہو گئی، یہ بات اور ہے کہ قرآن شریف میں کوئی حکم آئے اس میں اجمال ہو اس کی تفصیل دریافت کی جائے، اللہ تعالیٰ نے جس چیز کا ذکر اپنی پاک کتاب میں نہیں  کیا اس سے خود اس نے درگزر فرما لیا ہے، پس تمہیں  بھی اس سے خاموشی اختیار کرنی چاہیے جیسے کہ خود اللہ تعالیٰ نے کی ہے، صحیح حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں  جب تک میں تمہیں  چھوڑے رکھوں تم بھی مجھے چھوڑ رکھو، یاد رکھو کہ تم سے اگلے لوگوں کی حالت کی وجہ صرف کثرت سوال اور انبیاء پر اختلاف ہی ہوئی ہے اور حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ نے فرائض مقرر کر دیئے ہیں  انہیں  ضائع نہ کرو حدیں باندھ دی ہیں  انہیں  نہ توڑو، جو چیزیں حرام کر دی ہیں  ان کی حرمت کو سنبھالو جن چیزوں سے خاموشی کی ہے صرف تم پر رحم کھا کر نہ کہ بھول کر تم بھی اس کو پوچھ گچھ نہ کرو، پھر فرماتا ہے ایسے ہی مسائل تم سے اگلے لوگوں نے بھی دریافت کئے انہیں  بتائے گئے پھر وہ ان پر ایمان نہ لائے بلکہ ان کے باعث کافر بن گئے ان پر وہ باتیں بیان کی گئیں ان سے انہوں نے فائدہ نہ اٹھایا کیونکہ ان کے سوال ہی سرکشی پر تھے نہ کہ سمجھنے اور ماننے کیلئے، ابن عباس سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں میں اعلان کیا پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کر دیا ہے، بنو اسد قبیلے کا ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا یا رسول اللہ کیا ہر سال ؟ آپ سخت غضبناک ہوئے اور فرمایا قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال فرض ہو جاتا اور اگر ایسا ہوتا تو اس پر عمل تمہاری طاقت سے باہر تھا اور جب عمل نہ کرتے تو کافر ہو جاتے پس جب تک میں نہ کہوں تم بھی نہ پوچھو میں خود جب تمہیں  کسی بات کا حکم دوں تو اسے بجا لاؤ اور جب میں تمہیں  کسی چیز سے روکوں تو رک جاؤ، پاس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور صحابہ کو ممانعت کر دی کہ کہیں  وہ بھی نصرانیوں کی طرح آسمانی دستر خوان طلب نہ کریں جس کے طلب کرنے کے بعد اور آنے کے بعد پھر وہ کافر ہو گئے پس منع کر دیا اور صاف فرما دیا کہ ایسی باتیں نہ پوچھو کہ اگر قرآن میں ان کی بابت سخت احکام نازل ہوں تو تمہیں  برے لگیں بلکہ تم منتظر رہو قرآن اتر رہا ہے جو پوچھنا چاہتے ہو سب کا بیان اس میں پاؤ گے ۔ بہ روایت مجاہد حضرت ابن عباس سے اس آیت کی تفسیر میں یہ بھی مروی ہے کہ مراد اس سے وہ جانور ہیں  جن کا ذکر اس آیت کے بعد ہی ہے، عکرمہ فرماتے ہیں  مراد معجزات کی طلبی ہے جیسے کہ قریشیوں نے کہا تھا کہ عرب میں نہریں جاری ہو جائیں اور صفا پہاڑ سونے کا ہو جائے وغیرہ اور جیسے یہود نے کہا تھا کہ خود ان پر آسمان سے کتاب اترے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وا ما منعنا ان نرسل بالا یات الخ، یعنی معجزوں کے ظاہر کین سے مانع تو کچھ بھی نہیں  مگر یہ کہ اگلے لوگوں نے بھی اسے جھٹلایا ہم نے ثمود کو اونٹنی کا نشان دیا تھا جس پر انہوں نے ظلم کیا ہم تو نشانات صرف دھمکانے کیلئے بھیجتے ہیں  اور آیت میں ہے واقسمو اباللہ جھد ایما نھم لئن جاءتھم ایۃ لیومنن بھا الخ، بڑی زور دار قسمیں کھاتے ہیں  کہ اگر کوئی معجزہ آ گیا تو ضرور ایمان لائیں گے تو جواب دے کہ یہ تو اللہ کے قبضے کی چیز ہے ہو سکتا ہے کہ معجزہ دیکھ کر بھی ایمان نہ لائیں ہم ان کے دلوں کو اور آنکھوں کو الٹ دیں گے جیسے کہ پہلی دفعہ قرآن پر ایمان نہیں  لائے تھے اور ہم انہیں  ان کی سرکشی کی حالت میں ہی پڑے رہنے دیں گے بھٹکتے پھریں اگر ہم ان پر آسمان سے فرشتے بھی اتارتے اور مردے بھی ان سے باتیں کرنے لگتے اور تمام چیزیں یہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے تب بھی تو اللہ کی چاہت کے بغیر انہیں  ایمان نصیب نہ ہوتا ۔ ان میں سے اکثر ہیں  ہی بے علم ۔

۱۰۳

بتوں کے نام کٹے ہوئے جانوروں کے نام؟

صحیح بخاری شریف میں حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ بحیرہ اس جانور کو کہتے ہیں  جس کے بطن کا دودھ وہ لوگ اپنے بتوں کے نام کر دیتے تھے اسے کوئی دو ہتا نہ تھا سائبہ ان جانوروں کو کہتے تھے جنہیں  وہ اپنے معوبد باطل کے نام پر چھوڑ دیتے تھے سواری اور بوجھ سے آزاد کر دیتے تھے، حضرت ابوہریرہ راوی ہیں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں نے عمرو بن عامر خزاعی کو دیکھا کہ وہ جہنم میں اپنی آنتیں گھسیٹ رہا ہے اس نے سب سے پہلے یہ رسم ایجاد کی تھی ۔ وصیلہ وہ اونٹنی ہے جس کے پلوٹھے دو بچے اوپر تلے کے مادہ ہوں ان دونوں کے درمیان کوئی نر اونٹ پیدا نہ ہوا ہوا سے بھی وہ اپنے بتوں کے نام وقف کر دیتے تھے ۔ حام اس نر اونٹ کا نام تھا جس کی نسل سے کئی بچے ہو گئے ہوں پھر اس یبھی اپنے بزرگوں کے نام پر چھوڑ دیتے تھے اور کسی کام میں نہ لیتے تھے، ایک حدیث میں ہے کہ میں نے جہنم کو دیکھا اس کا ایک حصہ دوسرے کو گویا کھائے جا رہا تھا اس میں میں نے عمرو کو دیکھا کہ اپنی آنتیں گھسیٹا پھرتا ہے اسی نے سائبہ کا رواج سب سے پہلے نکالا تھا ایک حدیث میں ہے حضور نے عمورو کا یہ ذکر حضرت اکتم بن جون رضی اللہ تعلای عنہ سے کر کے فرمایا وہ صورت شکل میں بالکل تیرے جسیا ہے اس پر حضرت اکتم نے فرمایا یا رسول اللہ کہیں  یہ مشابہت مجھے نقصان نہ پہنچائے ؟ آپ نے فرمایا نہیں  بے فکر رہو وہ کافر تھا تم مسلمان ہو ۔ اسی نے حضرت ابراہیم کے دین کو سب سے پہلے بد لا اسی نے بحیرہ، سائبہ اور حام کی رسم نکالی، اسی نے بت پرستی دین ابراہیمی میں ایجاد کی، ایک روایت میں ہے یہ بنو کعب میں سے ہے، جہنم میں اس کے جلنے کی بد بو سے دوسرے جہنمیوں کو بھی تکلیف پہنچتی ہے، بحیرہ کی رسم کو ایجاد کرنے والا بن مد لج کا ایک شخص تھا اس کی دو انٹنیاں تھیں جن کے کام کاٹ دیئے اور عودھ حرام کر دیا پھر کچھ عرصہ کے بعد پینا شروع کر دیا، میں نے اسے بھی دوزخ میں دیکھا دونوں اونٹنیاں اسے کاٹ رہی تھیں اور روند رہی تھیں یاد رہے کہ یہ عمر ولحی بن قمعہ کا لڑکا ہے جو خزاعہ کے سرداروں میں سے ایک تھا قبیلہ جرہم کے بعد بیت اللہ شریف کی تو لیت انہی کے پاس تھی یہی شخص عرب میں بت لایا اور سفلے لوگوں میں ان کی عبادت جاری کی اور بہت سی بد عتیں ایجاد کیں جن میں سے چوپایوں کو الگ الگ طریقے سے بتوں کے نام کرنے کی رسم بھی تھی ۔ جس کی طرف اشارہ آیت وجعلو اللہ مما ذرا من الحرث والا نعام نصیبا میں ہے ۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ اونٹنی کے جب پانچ بچے ہوتے تو پانچواں اگر نر ہوتا تو اسے ذبح کر ڈالتے اور اس کا گوشت صرف مرد کھاتے عورتوں پر حرام جانتے اور اگر مادہ ہوتی تو اس کے کان کاٹ کر اس کا نام بحیرہ رکھتے ۔ سائبہ کی تفسیر میں مجاہد سے اسی کے قریب قریب بکریوں میں مروی ہے ۔ محمد بن اسحاق کا قول ہے کہ جس اونٹنی کے پے درپے دس اونٹنیاں پیدا ہوتیں اسے چھوڑ دیتے نہ سواری لیتے نہ بال کاٹتے نہ دودھ دوہتے اور اسی کا نام سائبہ ہے ۔ صرف مہمان کے لئے تو دودھ نکال لیتے ورنہ اس کا دودھ یونہی رکا رہتا، ابو روق کہتے ہیں  یہ نذر کا جانور ہوتا تھا جب کسی کی کوئی حاجت پوری ہو جاتی تو وہ اپنے بت اور بزرگ کے نام کوئی جانور آزاد کر دیتا پھر اس کی نسل بھی آزاد سمبھی جاتی، سدی کہتے ہیں  اگر کوئی شخص اس جانور کی بے حرمتی کرتا تو اسے یہ لوگ سزا دیتے، ابن عباس سے مروی ہے کہ وصیلہ اس جانور کو کہتے ہیں  کہ مثلاً ایک بکری کا ساتواں بچہ ہے اب اگر وہ نر ہے اور ہے مرداہ تو اسے مرد عورت کھاتے اور اگر وہ مادہ ہے تو اسے زندہ باقی رہنے دیتے اور اگر نرما وہ دونوں ایک ساتھ ہوئے ہیں  تو اس نر کو بھی زندگہ رکھتے اور کہتے کہ اس کے ساتھ اس کی بہن ہے اس نے اسے ہم پر حرام کر دیا ۔ حضرت سعید بن مسیب کہتے ہیں  کہ جس اونٹنی کے مادہ پیدا ہو پھر دوسرا بچہ بھی مادہ ہو تو اسے وصیلہ کہتے تھے، محمد بن اسحاق فرماتے ہیں  جو بکری پانچ دفعہ دو دو مادہ بکریاں بچے دے اس کا نام وصیلہ تھا پھر اسے چھوڑ دیا جاتا تھا اس کے بعد اس کا جو بچہ ہوتا اسے ذبح کر کے صرف مرد کھا لیتے اور اگر مردہ پیدا ہوتا تو مرد عورت سب کا حصہ سمجھا جاتا، ابن عباس فرماتے ہیں  حام اس نر اونٹ کو کہتے ہیں  جس کی نسل سے دس بچے پیدا ہو جائیں یہ بھی مردوی ہے کہ جس کے بچے سے کوئی بچہ ہو جائے اسے وہ آزاد کر دیتے نہ اس پر سواری لیتے نہ اس پر بوجھ لادتے، نہ اس کے بال کام میں لیتے نہ کسی کھیتی یا چارے یا حوض سے اسے روکتے، اور اقوال بھی ہیں، حضرت مالک بن نفلہ فرماتے ہیں  میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی کدمت میں حاضر ہوا اس وقت میں پھٹے پرانے میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے تھا آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا تیرے پاس کچھ مال بھی ہے ؟ میں نے کہا ہاں، فرمایا کس قسم کا کہا ہر قسم کا اونٹ بکریاں گھوڑے غلام وغیرہ آپ نے فرمایا پھر تو اللہ نے تجھے بہت کچھ دے رکھا ہے سن اونٹ کے جب بچہ ہوتا ہے تو صحیح سالم کان والا ہی ہوتا ہے ؟ میں نے کہا ہاں آپ نے فرمایا پھر تو استرالے کر ان کے کان کاٹ دیتا ہے اور ان کا نام بحیرہ رکھ دیتا ہے ؟ اور بعض کے کان چیر کر انہیں  حرام سمجھنے لگتا ہے ؟ میں نے کہا جی ہاں ۔ فرمایا خبردار ایسا نہ کرنا اللہ نے تجھے جتنے جانور دے رکھے ہیں  سب حلال ہیں  ۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی، بحیرہ وہ ہے جس کے کان کاٹ دیئے جاتے تھے پھر گھر والوں میں سے کوئی بھی اس سے کسی قسم کا فائدہ نہیں  اٹھا سکتا تھا ہاں جب وہ مر جاتا تو سب بیٹھ کر اس کا گوشت کھا جاتے، سائبہ اس جانور کو کہتے ہیں  جسے اپنے معبودوں کے پاس لے جا کر ان کے نام کا کر دیتے تھے ۔ وصیلہ اس بکری کو کہتے تھے جس کے ہاں ساتویں دفعہ بچہ ہو اس کے کان اور سینگ کاٹ کر آزاد کر دیتے، اس روایت کے مطابق تو حدیث ہی میں ان جانورون کی تفصیل ملی جلی ہے ایک روایت میں یہ بقول حضرت عوف بن مالک مروی ہے اور یہی زیادہ ٹھیک ہے پھر فرمان قرآن ہے کہ یہ نام اور چیزیں اللہ کی مقرر کردہ نہیں  نہ اس کی شریعت میں داخل ہیں  نہ ذریعہ ثواب ہیں  یہ لوگ اللہ کی پاک صاف شریعت کی طرف دعوت دیئے جاتے ہیں  تو اپنے باب دادوں کے طریقوں کو اس کے مقابلے میں پیش کرتے ہیں  حالانکہ ان کے بڑے محض نا واقف اور بے راہ تھے ان کی تابعداری تو وہ کرے گا جوان سے بھی زیادہ بہکا ہوا اور بے عقل ہو ۔

۱۰۵

اپنی اصلاح آپ کرو

اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ خود اپنی اصلاح کریں اور اپنی طاقت کے مطابق نیکیوں میں مشغول رہیں ، جب وہ خو دٹھیک ٹھاک ہو جائیں گے تو برے لوگوں کا ان پر کوئی بوجھ نہیں  پڑے گا خواہ وہ رشتے دار اور قریبی ہوں خواہ اجنبی اور دور کے ہوں ۔ حضرت ابن عباس اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں  مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عامل ہو جائے برائیوں سے بچ جائے تو اس پر گنہگار لوگوں کے گناہ کا کوئی بوجھ بارنہیں ۔ مقاتال سے مروی ہے کہ ہر عامل کو اس کے عمل کا بدلہ ملتا ہے بروں کو سزا اچھوں کو جزا، اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ اچھی بات کا حکم اور بری باتوں سے منع بھی نہ کرے، کیونکہ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے خطبے میں فرمایا لوگو تم اس آیت کو پڑھتے ہو اور اس کا مطلب غلط لیتے ہو سنو! میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے کہ لوگ جب بری باتوں کو دیکھتے ہوئے انہیں  نہیں  روکیں گے تو بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی عام عذاب آ جائے، امیر المومنین کا یہ فرمان بھی ہے کہ جھوٹ سے بچو جھوٹ ایمان کی ضد (سنین اربعہ) حضرت ابو ثتلبہ خشنی سے اس آیت کی بابت سوال ہوا تو آپ نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس بارے میں سوال کیا تھا تو آپ نے فرمایا نہیں  بلکہ تم بھلائی کا حکم اور برائی سے ممانعت کرتے رہو یہاں تک کہ بخیلی کی پیروی اور خواہش نفس کی اتباع اور دنیا کی پسندیدگی اور ہر شخص کا اپنی رائے پر پھولنا عام نہ ہو جائے اس وقت تم صرف اپنی اصلاح میں مشغول ہو جاؤ اور عام لوگوں کو چھوڑ دو، یاد رکھو تمہارے پیچھے صبر کے دن آ رہے ہیں  اس وقت دین اسلام پر جما رہنے والا ایسا ہو گا جیسے کوئی انگارے کو مٹھی میں لئے ہوئے ہو اس وقت عمل کرنے والے کو مثل پچاس شخصوں کے عمل کا اجر ملے گا جو بھی اچھے اعمال کرے گا ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ مثل پچاس شخصوں کے ان ممیں سے یا ہم میں سے ؟ آپ نے فرمایا نہیں  بلہ تم میں سے (ترمذی) حضرت ابن مسعود سے بھی جب اس آیت کا مطلب دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا یہ وہ وقت نہیں  آج تو تمہاری باتیں مان لی جاتی ہیں  لیکن ہاں ایک زمانہ ایسا بھی آنے والا ہے کہ نیک باتیں کہنے اور بھلائی کا حکم کرنے والوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کی جائے گی اور اس کی بات قبول نہ کی جائے گی اس وقت تم صرف اپنے نفس کی اصلاح میں لگ جانا، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجلس میں کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے دو شخصوں میں کچھ جھگڑا ہو گیا اور وہ آمنے سامنے کھڑے ہو گئے تو ایک نے کہا میں اٹھتا ہوں اور انہیں  نیکی کا حکم کرتا ہوں اور برائی سے روکتا ہوں تو دوسرے نے کہا مجھے کیا پڑی؟ تو اپنی اصلاح میں لگا رہ، پھر یہی آیت تلاوت کی اسے سن کر حضرت عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا چپ رہ اس آیت کے عمل کا یہ وقت نہیں  قرآن میں کئی طرح کی آیتیں ہیں  بعض تو وہ ہیں  جن کے مضامین گزر چکے بعض وہ ہیں  جن کے واقعات آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں ہو گئے، بعض کے واقعت حضور کے بعد ہوئے بعض قیامت کے دن ہوں گے مثلاً جنت دوزخ وغیرہ، سنو جب تک تمہارے دل نہ پھٹیں تمہارا مقصود ایک ہی ہو تم میں پھوٹ نہ پڑی ہو تم میں لڑائی دنگے شروع نہ ہوئے ہوں تم اچھی باتوں کی ہدایت کرتے رہو اور بری باتوں سے روکتے رہو ۔ ہاں جب دلوں میں جدائی ہو جائے ۔ آپ میں اختلاف پڑجائیں لڑائیاں شروع ہو جائیں اس وقت صرف اپنے تیئس پابند شریعت رکھنا کافی ہے اور وہی وقت ہے اس آیت کے عمل کا (ابن جریر) حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا گیا کہ ان دنوں تو آپ اگر اپنی زبان روک لیں تو اچھا ہو آپ کو کیا پڑی کوئی کچھ ہی کرے آپ نہ کسی کو روکیں نہ کچھ کہیں  دیکھئے قرآن میں بھی تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم اپنے تیئس سنبھالو گمراہوں کی گمراہی کا وبال تم پر نہیں  جبکہ تم خود راہ راست پر ہو ۔ تو حضرت ابن عمر نے کہا یہ حکم میرے اور میرے ساتھیوں کیلئے نہیں  اس لئے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا ہے خبردار ہر موجود شخص غیر موجود لوگوں کو پہنچا دے ۔ پس ہم موجود تھے اور تم غیر موجود تھے ۔ یہ آیت تو ان لوگوں کے حق میں ہے جو بعد میں آئیں گے وہ لوگوں کو نیک باتیں کہیں  گے لیکن ان کی بات قبول نہ کی جائے گی (ابن جریر) حضرت ابن عمر کی مجلس میں ایک صاحب آئے بڑے غصیل اور تیز زبان، کہنے لگے سنیئے جناب چھ شخص ہٌن سب قرآن پڑھے ہوئے جاننے بوجھنے والے مجہتد سمجھار لیکن ہر ایک دوسرے کو مشرک بتلاتا ہے، اس نے کہا میں تم سے نہیں  پوچھتا میں تو حضرت ابن عمر سے سوال کرتا ہوں اور پھر وہی بات دوہرا دی تو حضرت عبد اللہ نے فرمایا شاید تو یہ چاہتا ہے کہ میں تجھے یہ کہہدوں کہ جا انہی قتل کر ڈال نہیں  میں کہتا ہوں جا انہیں  نصیحت کر انہیں  برائی سے روک نہ مانیں تو اپنی راہ لگ، پھر آپ نے یہی آیت تلاوت کی، خلیفہ ثالث حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں حضرت ابن مازن مدینے میں آتے ہیں  یہاں مسلمانوں کا ایک مجمع جمع تھا جس میں سے ایک شخص نے اسی آیت کی تلاوت کی تو اکثر لوگوں نے کہا اس کے عمل کا وقت ابھی تک نہیں  آیا ۔ حضرت جیر بن نفیر کہتے ہیں  میں ایک مجلس میں تھا جس میں بہت سے صحابہ کرام موجود تھے یہی ذکر ہو رہا تھا کہ اچھی باتوں کا حکم کرنا چاہیے اور بری باتوں سے روکنا چاہیے میں اس مجلس میں سب سے چھوٹی عمر کا تھا لیکن جرات کر کے یہ آیت پڑھ دی اور کہا کہ پھر اس کا کیا مطلب ہو گا؟ تو سب نے ایک زبان ہو کر مجھے جواب دیا کہ اس کا صحیح مطلب تمہیں  معلوم نہیں  اور جو مطلب تم لے رہے ہو بالکل غلط ہے مجھے بڑا افسوس ہوا، پھر وہ اپنی باتوں میں مشغول ہو گئے جب اٹھنے کا وقت آیا تو مجھ سے فرمایا تم ابھی بچے ہو بے ٤وقعہ آیت پڑھ دیتے ہو اصلی مطلب تک نہیں  پہنچتے بہت ممکن ہے کہ تم اس آیت کے زمانے کو پالو یہ حکم اس وقت ہے جب بخیلی کا دور دورہ ہو خواہش پر ستی عام ہو ہر شخص اپنی سمجھ پر نازاں ہو اس وقت انسان خود نیکیوں اور بھلائیوں میں مشغول رہے گمراہوں کی گمراہی اسے کوئی نقصان نہیں  پہنچائے گی ۔ حضرت حسن نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا اس پر بھی اللہ کا شکر ہے اگلے اور پچھلے مومنوں کے ساتھ منافق ضرور رہے جو ان کے اعمال سے بیزار ہی رہے، حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں  جب تم نے اچھی بات کی نصیحت کر دی اور بری بات سے روک دیا پھر بھی کسی نے برائیاں کیں نیکیاں چھوڑیں تو تمہیں  کوئی نقصان نہیں  ۔ حضرت حذیفہ بھی یہی فرمائے ہیں  حضرت کعب فرماتے ہیں  اس کا وقت وہ ہے جب مسجد دمشق کا کلیساڈھا دیا جائے اور تعصب بڑھ جائے ۔

۱۰۶

معتبر گواہی کی شرائط

بعض لوگوں نے اس آیت کو عزیز حکم کو منسوخ کہا ہے لیکن اکثر حضرات اس کے خاف ہیں  اثنان خبر ہے، اس کی تقدیر شھداۃ اثنین ہے مضاف کو حذف کر کے مضاف الیہ اس کے قائم مقام کر دیا گیا ہے یا دلالت کلام کی بنا پر فعل محذوف کر دیا گیا ہے یعنی ان یشھد اثنان، ذواعدل صفت ہے، منکم سے مراد مسلمانوں میں سے ہونا یا وصیت کرنے والے کے اہل میں سے ہونا ہے، من غیر کم سے مراد اہل کتاب ہیں، یہ بھی کہا گیا ہے کہ منکم سے مراد قبیلہ میں اور من غیر کم سے مراد اس کے قبیلے کے سوا، شرطیں دو ہیں  ایک مسافر کے سفر میں ہونے کی صورت میں موت کے وقت وصیت کے لیے غیر مسلم کی گواہی چل سکتی ہے، حضرت شریح سے یہی مروی ہے، امام احمد بھی یہی فرماتے ہیں  اور تینوں امام خلاف ہیں ، امام ابو حنیفہ ذمی کافروں کی گواہی آپس میں ایک دوسرے پر جائز مانتے ہیں، زہری کا قول ہے کہ سنت جاری ہو چکی ہے کہ کافر کی شہادت جائز نہیں  نہ سفر میں نہ حضر میں ۔ ابن زید کہتے ہیں  کہ یہ آیت اس شخص کے بارے میں اتری ہے جس کی موت کے وقت اس کے پاس کوئی مسلمان نہ تھا یہ ابتدائے اسلام کا وقت تھا جبکہ زمین کافرون سے بھری تھی اور وصیت سے ورثہ بٹتا تھا، ورثے کے احکام نازل نہیں  ہوئے تھے، پھر وصیت منسوخ ہو گئی ورثے کے احکام اترے اور لوگوں نے ان پر عمل درآمد شروع کر دیا، پھر یہ بھی کہ ان دونوں غیر مسلموں کی وصی بنایا جائے گا یا گواہ؟ حضرت ابن مسعود کا قول ہے کہ یہ حکم اس شخص کے بارے میں ہے جو سفر میں ہو اور وہیں  اجل آ جائے اور مال اس کے پاس ہو پس اگر دو مسلمان اسے مل جائیں تو انہیں  اپنا مال سونپ دے اور دو گواہ مسلمان مقرر کر لے، اس قول کے مطابق تو یہ دونوں وصی ہوئے، دوسرا قول یہ ہے کہ یہ دونوں گواہ ہوں گے، آیت کے الفاظ کا ظاہر مطلب بھی یہی معلوم ہوتا ہے، ہاں جس صورت میں ان کے ساتھ اور گواہ نہ ہوں تو یہی وصی ہوں گے اور یہی گواہ بھی ہوں گے امام ابن جریر نے ایک مشکل اس میں یہ بیان کی ہے کہ شریعت کے کسی حکم میں گواہ پر قسم نہیں  ۔ لیکن ہم کہتے ہیں  یہ ایک حکم ہے جو مستقل طور پر بالکل علیہدہ صورت میں ہے اور احکام کا قیاس اس پر جاری نہیں  ہے، یہ ایک خاص شہادت خاص موقعہ کی ہے اس میں اور بھی بہت سی ایسی باتیں جو دوسرے احکام میں نہیں  ۔ پس شک کے قرینے کے وقت اس آیت کے حکم کے مطابق ان گواہوں پر قسم لازم آتی ہے، نماز کے بعد ٹھہرالو سے مطلب نماز عصر کے بعد ہے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ نماز سے مراد مسلمانوں کی نماز ہے ۔ تیسرا قول یہ ہے کہ ان کے مذہب کی نماز، مقصود یہ ہے کہ انہیں  نماز کے بعد لوگوں کی موجودگی میں کھڑا کیا جائے اور اگر خیانت کا شک ہو تو ان سے قسم اٹھوائی جائے وہ کہیں  کہ اللہ کی قسم ہم اپنی قسموں کو کسی قیمت بیچنا نہیں  چاہتے ۔ دنیوی مفاد کی بنا پر جھوٹی قسم نہیں  کھاتے چاہے ہماری قسم سے کسی ہمارے قریبی رشتہ دار کو نقصان پہنچ جائے تو پہنچ جائے لیکن ہم جھوٹی قسم نہیں  کھائیں گے اور نہ ہم سچی گواہی چھپائیں گے، اس گواہی کی نسبت اللہ کی طرف اس کی عزت و عظمت کے اظہار کیلئے ہے بعض نے اسے قسم کی بنا پر مجرور پڑھا ہے لیکن مشہور قرات پہلی ہی ہے وہ ساتھ ہی یہ بھی کہیں  کہ اگر ہم شہادت کو بدلیں یا الٹ پلٹ کریں یا کجھ حصہ چھپالی تو ہم بھی گنہگار، پھر اگر یہ مشہور ہو یا ظاہر ہو جائے یا اطلاع مل جائے کہ ان دونوں نے مرنے والے کے مال میں سے کچھ چرالیا یا کسی قسم کی خیانت کی ۔ اولیان کی دوسری قرات اولان بھی ہے مطلب یہ ہے کہ جب کسی خبر صحیح سے پتہ چلے کہ ان دونوں نے کوئی خیانت کی ہے تو میت کے وارثوں میں سے جو میت کے زیادہ نزدیک ہوں وہ دو شخص کھڑے ہوں اور حلیفہ بیان دیں کہ ہماری شہادت ہے کہ انہوں نے چرایا اور یہی زیادہ حق زیادہ صحیح اور پوری سچی بات ہے، ہم ان پر جھوٹ نہیں  باندھتے اگر ہم ایسا کریں تو ہم ظالم، یہ مسئلہ اور قسامت کا مسئلہ اس بارے ممیں بہت ملتا جلتا ہے، اس میں بھی مقتول کے اولیاء قسمیں کھاتے ہیں، تمیم داری سے منقول ہے کہ اور لوگ اس سے بری ہیں  صرف میں اور عدی بن بداء اس سے متعلق ہیں، یہ دونوں نصرانی تھے اسلام سے پہلے ملک شام میں بغرض تجارت آتے جاتے تھے بن سہم کے مولی بدیل بن ابو مریم بھی مال تجارت لے کر شام کے ملک سے ہوتے ھے ان کے ساتھ ایک چاندی کا جام تھا، جسے وہ خاص بادشاہ کے ہاتھ فروخت کرنے کیلئے لے جا رہے تھے ۔ قتفاقاً وہ بیمار ہو گئے ان دونوں کو وصیت کی اور مال سونپ دیا کہ یہ میرے وارثوں کو دے دینا اس کے مرنے کے بعد ان دونوں نے وہ جام تو مال سے الگ کر دیا اور ایک ہزار درہم میں بیچ کر آدھوں آدھ بانٹ لئے باقی مال واپس لا کر بدیل کے رشتہ داروں کو دے دیا، انہوں ے پوچھا کہ چاندی کا جام کیا ہواً دونوں نے جواب دیا ہمیں کیا خبر؟ ہمیں تو جو دیا تھا وہ ہم نے تمہیں  دے دیا ۔ حضرت تمیم داری رضی اللہ تعلای عنہ فرماتے ہیں  جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مدینے میں آئے اور اسلام نے مجھے پر اثر کیا، میں مسلمان ہو گیا تو میرے دل میں خیال آیا کہ یہ انسانی حق مجھ پر رہ جائے گا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں میں پکڑا جاؤں گا تو میں بدیل کے وارثان کے پاس آیا اور اس سے کہا پانچ سو درہم جو تو نے لے لئے ہیں  وہ بھی واپس کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا کہ اس سے قسم لی جائے اس پر یہ آیت اتری اور عمرو بن عاص نے اور ان میں سے ایک اور شخص نے قسم کھائی عدی بن بداء کو پانچ سو درہم دینے پڑے (ترمذی) ایک روایت میں ہے کہ عدی جھوٹی قسم بھی کھا گیا تھا اور روایت میں ہے کہ اس وقت ارض شام کے اس حصے میں کوئی مسلمان نہ تھا، یہ جام چاندی کا تھا اور سونے سے منڈھا ہوا تھا اور مکے میں سے جام خریدا گیا تھا جہاں سے ملا تھا انہوں نے بتایا تھا کہ ہم نے اسے تمیم اور عدی سے خریدا ہے، اب یت کے دو وارث کھڑے ہوئے اور قسم کھائی، اسی کا ذکر اس آیت میں ہے ایک روایت میں ہے کہ قسم عصر کی نماز کے بعد کوئی تھی ابن جریر میں ہے کہ ایک مسلمان کی وفات کا موقعہ سفر میں آیا، جہان کوئی مسلمان اسے نہ ملا تو اس نے اپنی وصیت پر دو اہل کتاب گواہ رکھے، ان دونوں نے کوفے میں آ کر حضرت ابو موسیٰ اشعری کے سامنے شہادت دی وصیت بیان کی اور ترکہ پیش کیا حضرت ابو موسیٰ اشعری نے فرمایا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد یہ واقعہ پہلا ہے پس عصر کی نماز کے بعد ان سے قسم لی کہ نہ انہوں نے خیانت کی ہے، نہ جھوٹ بولا ہے، نہ بدلا ہے، نہ چھپایا ہے، نہ الٹ پلٹ کیا ہے بلکہ سج وصیت اور پورا ترکہ انہوں نے پیش کر دیا ہے آپ نے ان کی شہادت کو مان لیا، حضرت ابو موسیٰ کے فرمان کا مطلب یہی ہے کہ ایسا واقعہ حضور کے سمانے میں تمیم اور عدی کا ہوا تھا اور اب یہ دوسرا اس قسم کا واقع ہے، حضرت تمیم بن داری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اسلام سنہ ۹ہجری کا ہے اور یہ آخری زمانہ یہ ۔ سدی فرماتے ہیں  لازم ہے کہ موت کے وقت وصیت کرے اور دو گواہ کے اگر سفر میں ہے اور مسلمان نہیں  ملتے تو خیر غیر مسلم ہی سہی ۔ انہیں  وصیت کرے اپنا مال سونپ دے، اگر میت کے وارثوں کا اطمیں ان ہو جائے تو خیر آئی گئی بات ہوئی ورنہ سلطان اسلام کے سامنے وہ مقدمہ پیش کر دیا جائے، اوپر جو واقعہ بیان ہوا اس میں یہ بھی ہے کہ جب حضرت ابو موسیٰ نے ان سے عصر کے بعد قسم لینی چاہی تو آپ سے کہا گیا کہ انہیں  عصر کے بعد کی کیا پرواہ؟ ان سے ان کی نماز کے وقت قسم لی جائے اور ان سے کہا جائے کہ اگر تم نے کچھ چھپا یا یا خیانت کی تو ہم تمہیں  تمہاری قوم میں رسوا کر دیں گے اور تمہاری گواہی کبھی بھی قبول نہ کی جائے گی اور تمہیں  سنگین سزا دی جائے گی، بہت ممکن ہے کہ اس طرح ان کی زبان سے حق بات معلوم ہو جائے پھر بھی اگر شک شبہ رہ جائے اور کسی اور طریق سے ان کی خیانت معلوم ہو جائے تو مرحوم کے دو مسلمان وارث قسمیں کھائیں کہ ان کافروں کی شہادت غلط ہے تو ان کی شہادت غلط مان لی جائے گی اور ان سے ثبوت لے کر فیصلہ کر دیا جائے گا پھر بیان ہوتا ہے کہ اس صورت میں فائدہ یہ ہے کہ شہادت ٹھیک ٹھیک آ جائے گی ایک تو اللہ کی قسم کا لحاظظ ہو گا دوسرے لوگوں میں رسوا ہونے کا ڈر رہے گا، لوگو! اللہ تعالیٰ سے اپنے سب کاموں میں ڈرتے رہو اس کی باتیں سنتے رہو اور مانتے چلے جاؤ، جو لوگ اس کے فرمان سے ہٹ جائیں اور اس کے احکام کے خلاف چلیں وہ راہ راست نہیں  پاتے ۔

۱۰۹

روز قیامت انبیاء سے سوال

اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے کہ رسولوں سے قیامت کے دن سوال ہو گا کہ تمہاری امتوں نے تمہیں  مانا یا نہیں ؟ جیسے اور آیت میں ہے فلنسئلن الذین ارسل الیھم ولنسئلن المرسلین یعنی رسولوں سے بھی اور ان کی امتوں سے بھی یہ ضرور دریافت فرمائیں گے اور جگہ ارشاد ہے فوربک لنسئلنھم اجمعین الخ، تیرے رب کی قسم ہم سب سے ان کے اعمال کا سوال ضرور ضرور کریں گے، رسولوں کا یہ جواب کہ ہمیں مطلق علم نہیں  اس دن کی ہول و دہشت کی وجہ سے ہو گا، گھبراہٹ کی وجہ سے کچھ جواب بن نہ پڑے گا، یہ وہ وقت ہو گا کہ عقل جاتی رہے گی پھر دوسری منزل میں ہر نبی اپنی اپنی امت پر گواہی دے گا ۔ ایک مطلب اس آیت کا یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ سوال کی غرض یہ ہے کہ تاہری امتوں نے تماہرے بعد کیا کیا عمل کئے اور کیا کیا نئی باتیں نکالیں ؟ تو وہ ان سے اپنی لاعلمی ظاہر کریں گے، یہ معنی بھی درست ہو سکتے ہیں  کہ ہمٌن کوئی ایسا علم نہیں  جو اے جناب باری تیرے علم میں نہ ہو، حقیقتاً یہ قول بہت ہی درست ہے کہ اللہ کے علم کے مقابلے میں بندے محض بے علم ہیں  تقاضائے ادب اور طرقیہ گفتگو یہی مناسب مقام ہے، گو انبیاء جانتے تھے کہ کس کس نے ہماری نبوت کو ہمارے زمانے میں تسلیم کیا لیکن چونکہ وہ ظاہر کے دیکھنے والے تھے اور رب عالم باطن بین ہے اس لئے ان کا یہی جواب بالکل درست ہے کہ ہمیں حقیقی علم مطلقاً نہیں  تیرے علم کی نسبت تو ہمارا علم محض لا علمی ہے حقیقی عالم تو صرف ایک تو ہی ہے ۔

۱۱۰

جناب مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام پر جو احسانات تھے انکا اور آپکے معجزوں کا بیان ہو رہا ہے کہ بغری باپ کے صرف ماں سے آپکو پیدا کیا اور اپنی کمال قدرت کا نشان آپ کو بنایا، پھر آپلی والدہ پر احسان کیا کہ انکی برات اسی بچے کے منہ سے کرائی اور جا برائی کی نسبت انکی طرف بیہودہ لوگ کر رہے تھے اللہ نے آج کے پیدا شدہ بچے کی زبان سے ان کی پاک دامنی کی شہادت اپنی قدرت سے دلوائی، جبرائیل علیہ السلام کو اپنے نبی کی تائید پر مقرر کر دیا، بچپن میں اور بڑی عمر میں انہیں  اپنی دورت دینے ولاا بنایا گیا، گہوارے میں ہی بولنے کی طاقت عطا فرمائی، اپنی والدہ محترمہ کی برات ظاہر کر کے اللہ کی عبودیت کا اقرر کیا اور اپنی رسالت کی طرف لوگوں کو بلایا، مراد کلام کرنے سے اللہ کی طرف بلانا ہے ورنہ بڑی عمر میں کلام کرنا کوئی خاص بات یا تعجب کی چیز نہیں  ۔ لکھنا اور سمجھنا آپ کو سکھایا ۔ تورات جو کلیم اللہ پر اتری تھی اور انجیل جو آپ پر نازل ہوئی دونوں کا علم آپ کو سکھایا ۔ آپ مٹی سے پرند کی صورت بناتے پھر اس میں دم کر دیتے تو وہ اللہ کے حکم سے چڑیا بن کر اڑ جاتا، اندھوں اور کوڑھیوں کے بھلا چنگا کرنے کی پوری تفسیر سورہ آل عمران میں گزر چکی ہے، مردوں کی آپ بلاتے تو وہ بحکم الہی زندہ ہو کر اپنی قبروں سے اٹھ کر آ جاتے، ابو ہذیل فرماتے ہیں  جب حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کسی مردے کے زندہ کرنے کا ارادہ کرتے تو دو رکعت نامز ادا کرتے پہلی میں سورہ تبارک اور دوسری میں سورہ الم تنزیل السجدہ پڑھتے پھر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا پڑھتے اور اسکے سات نام اور لیتے یا حی یا قیوم، یا اللہ، یا رحمن،، یا رحیم، یا ذوالاجلا و الا کرام، یا نور السموات والارض ثما بینھما ورب العرش العظیم، یہ اثر بڑا زبردست اور عظمت والا ہے اور میرے اس احسان کو بھی یاد کرو کہ جب تم دلائل و براہیں  لے کر اپنی امت کے پاس آئے اور ان میں سے جو کافر تھے انہوں نے اسے جادو بتایا اور درپے آزار ہوئے تو انکے شر سے میں نے تمہیں  بچا لیا، انہوں نے قتل کرنا چاہا، سولی دینا چاہی، لیکن میں ہمیشہ تیرا کفیل و حفیظ رہا اس سے ثبات ہوتا ہے کہ یہ احسان آپکے آسمان پر چڑھا لینے کے بعد کے ہیں  یا یہ کہ یہ خطاب آپ سے بروز قیامت ہو گا اور ماضی کے صیغہ سے اسکا بیان اس کے پختہ اور یقینی ہونے کے سبب ہے ۔ یہ غیبی اسرار میں سے ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی کو مطلع فرما دیا، پھر اپنا ایک اور احسان بتایا کہ میں نے تیرے مددگار اور ساتھی بنا دیئے، ہواریوں کے دل میں الہام اور القا کیا ۔ یہاں بھی لفظ وحی کا اطلاق ویسا ہی ہے جیسا ام موسیٰ کے بارے میں ہے اور شہد کی مکھی کے بارے میں ہے ۔ انہوں نے الہام رب پر عملکیا، یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ میں نے تیری زبانی ان تک اپنی وحی پہنچائی اور انہیں  قبولیت کی توفیق دی، تو انہوں نے مان لیا اور کہہ دیا کہ ہم تو مسلمین یعنی تابع فرمان اور فرماں بردار ہیں  ۔

۱۱۲

بی اسرائیل کی نا شکری اور عذاب الٰہی

یہ مائدہ کا واقعہ ہے اور اسی کی وجہ سے اس سورت کا نام سورہ مائدہ ہے یہ بھی جناب مسیح علیہ السلام کی نبوت کی ایک زبر دست دلیل اور آپ کا ایک اعلی معجزہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا سے آسمانی دستر خوان اتارا اور آپ کی سچائی ظاہر کی ۔ بعض ائمہ نے فرمایا ہے کہ اس کا ذکر موجودہ انجیل میں نہیں  عیسائیوں نے اسے مسلمانوں سے لیا ہے، واللہ اعلم، حضرت عیسیٰ کے ماننے والے آپ سے تمنا کرتے ہیں  کہ اگر ہو سکے تو اللہ تعالیٰ سے ایک خوان کھانے سے بھرا ہوا طلب کیجئے ایک قرات میں ھل یستطیع ربک یعنی کیا آپ سے یہ ہو سکتا ہے ؟ کہ آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں ؟ مائدہ کہتے ہیں  اس دستر خوان کو جس پر کھانا رکھا ہوا ہو، بعض لوگوں کا بیان ہے کہ انہوں نے بوجہ فقر و فاقہ، تنگی اور حاجت کے یہ سوال کیا تھا، جناب مسیہ علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ اللہ پر بھروسہ رکھو اور رزق کی تلاش کرو، ایسے انوکھے سوالات نہ کرو، کہیں  ایسا نہ ہو کہ یہ فتنہ ہو جائے اور تمہارے ایمان ڈگمگا جائیں ۔ انہں نے جواب دیا کہ اے اللہ کے رسول ہم تو کھانے پینے سے تنگ ہو رہے ہیں  محتاج ہو گئے ہیں  اس سے ہمارے دل مطمئن ہو جائیں گے کیونکہ ہم اپنی آنکھوں سے اپنی روزیاں آسمان سے اترتی خود دیکھ لیں گے، اسی طرح آپ پر جو ایمان ہے وہ بھی بڑھ جائے گا، آپ کی رسالت کو یوں تو ہم مانتے ہی ہیں  لیکن یہ دیکھ کر ہمارا یقین اور بڑھ جائے گا اور اس پر خود ہم گواہ بن جائیں گے، اللہ کی قدرت اور آپ کے معجزہ کی یہ ایک روشن دلیل ہو گی جس کی شہادت ہم خود دیں گے اور یہ آپ کی نبوت کی کافی دلیل ہو گی، اب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی، عید ہونے سے مراد تو عید کا دن یا نماز گذارنے کا دن ہونا ہے یا اپنے بعد والوں کے لئے یادگار کا دن ہونا ہے یا اپنی اور اپنے بعد کی نسلوں کیلئے نصیحت و عبرت ہونا ہے یا اگلوں پچھلوں کے لئے کافی وانی ہونا ہے، حضرت عیسیٰ فرماتے ہیں  یا اللہ یہ تیری قدرت کی یک نشانی ہو گی اور میری سچائی کی بھی کہ تو نے میری دعا قبول فرمالی، پس لوگوں تک ان باتوں کو جو تیرے نام سے ہیں  انہیں  پہنچاؤں گا یقین کر لیا کریں گے، یا اللہ تو ہمیں یہ روزی بغیر مشقت و تکلیف کے محض اپنے فضل و کرم سے عطا فمرا تو تو بہترین رازق ہے، اللہ تعالیٰ نے دعا کی قبولیت کا وعدہ فرما لیا اور ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ اس کے اترنے کے بعد تم میں سے جو کوئی بھی جھٹلائے گا اور کفر کرے گا تو میں اسے وہ عذاب دوں گا جو تمہارے زمانے میں کسی اور کو نہ دیا ہو، جیسے آل فرعون کو قیامت کے دن کہا جائے گا کہ تم سخت تر عذاب دوں گا جو تمہارے زمانے میں کسی اور کو نہ دیا ہو جیسے آل فرعون کو قیامت کے دن کہا جائے گا کہ تم سخت تر عذاب دوں گا جو تمہارے زمانے میں کسی اور کو نہ دیا ہو، جیسے آل فرعون کو قیامت کے دن کہا جائے گا کہ تم سخت تر عذاب میں داخل ہو جاؤ، اور جیسے منافقوں کے لئے جہنم کا سب سے نیچے کا طبقہ ہے، حضرت عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ قیامت کے دن بدترین عذاب تین قسم کے لوگوں کو ہو گا، منافقوں کو اور مائدہ آسمانی کے بعدانکار کرنے والوں کو اور فرعونیوں کو، اب ان روایات کو سنیئے جو اس بارے میں سلف سے مروی ہے، ابن عباس فرماتے ہیں  حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے نبی اسرائیل سے فرمایا کہ تم اللہ کے لئے ایک مہینے کے روزے رکھو پھر رب سے دعا کرو وہ قبول فرمائے گا انہوں نے تیس روزے پورے کر کے کہا اے بھلائیوں کے بتانے والے ہم اگر کسی کا کام ایک ماہ کامل کرتے تو وہ بعد فراغت ضرور ہماری دعوت کرتا تو آپ بھی اللہ سے بھرے ہوئے خوان کے آسمان سے اترنے کی دعا کیجئے حضرت عیسیٰ نے پہلے تو انہیں  سمجھایا لیکن ان کی نیک نیتی کے اظہار پر اللہ تعالیٰ سے دعا کی، اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی ساتھ ہی دھمکا بھی دیا پھر فرشتوں کے ہاتھوں آسمان سے خوان نعمت اتارا، جس پر سات مچھلیاں تھیں سات روٹیاں تھیں، جہاں یہ تھے وہیں  وہ ان کے کھانے کو رکھ گئے سب بیٹھ گئے اور شکم سیر ہو کر اتھے، ابن ابی حاتم کی ایک مر فوع حدیث میں ہے کہ اس مائدہ آسمانی میں گوشت روٹی اترا تھا حکم تھا کہ خیانت نہ کریں کل کے لئے نہ لے جائیں لیکن انہوں نے حکم کی خلاف ورزی کی، لے بھی گئے اور چرا بھی لیا، جس کی سزا میں وہ بندر بن گئے حضرت عمار فرماتے ہیں  اس میں جنت کے میوے تھے، آپ فرماتے ہیں  اگر وہ لوگ خیانت اور ذخیرہ نہ کرتے تو وہ خوان یوں ہی رہتا لیکن شام ہونے سے پہلے ہی انہوں نے چوریاں شروع کر دیں، پھر سخت عذاب کئے گئے، اے عرب بھائیو! یاد کرو تم اونٹوں اور بکریوں کی دمیں مروڑ تے تھے، اللہ نے تم پر احسان کیا خود تم ہی میں سے رسول کو بھیجا جن سے تم واقف تھے جن کے حسب و نسب سے تم آگاہ تھے، اس رسول علیہ سلام نے تمہیں  بتا دیا کہ عجمیوں کے ملک تمہارے ہاتھوں فتح ہوں گے لیکن خبردار تم سونے چاندی کے خزانوں کے درپے نہ ہو جانا لیکن واللہ دن رات وہی ہیں  اور تم وہ نہ رہے، تم نے خزانے جمع کرنے شروع کر دیئے، مجھے تو خوف ہے کہ کہیں  تم پر بھی اللہ کا عذاب برس نہ پرے، اسحق بن عبد اللہ فرماتے ہیں  جن لوگوں نے مائدہ آسمانی میں سے چرایا ان کا خیال ہیہ تھا کہ کہیں  ایسا نہ ہو کہ یہ ختم ہو جائے اور کل کے لئے ہمارے پاس کچھ نہ رہے، مجادہ سے مروی ہے کہجب وہ اتر تے ان پر مائدہ اترتا عطیہ فرماتے ہیں  گو وہ تھی تو مچھلی لیکن اس میں ذائقہ ہر چیز کا تھا، وہب بن منبہ فرماتے ہیں  ہر دن اس مائدہ پر آسمان سے میوے اتر تے تھے قسم قسم کی روزیاں کھاتے تھے، چار ہزار آدمی ایک وقت اس پر بیٹھ جاتے پھر اللہ کی طرف سے غذا تبدیل ہو جاتی یہ بھی فرماتے ہیں  کہ اس پر روٹیاں جو کہ تھیں، سعید بن جیبر فرماتے ہیں  اس پر سوائے گوشت کے تمام چیزیں تھیں ۔ عکرمہ فرماتے ہیں  اس پر چاول کی روٹی تھی، حضرت وہب فرماتے ہیں  کہ ان کے اس سوال پر حضرت عیسیٰ بہت رنجیدہ ہوئے تھے اور فرمایا تھا کہ زمین کے رزق پر قناعت کرو اور آسمانی دستر خوان نہ مانگو اگر وہ اترا تو چونکہ زبردست نشان ہو گا اگر ناقدری کی تو بری طرح پکڑے جاؤ گے ۔ ثمودیوں کی ہلاکت کا باعث بھی یہی ہوا کہ انہوں نے اپنے نبی سے نشان طلب کیا تھا لیکن حواریوں نے حضرت عیسیٰ کی ایک نہ مانی اور اصرار کیا کہ نہیں  آپ ضرور دعا کیجئے اب جناب عیسیٰ اٹھے، صوف کا جبہ اتار دیا، سیاہ بالوں کا لبادہ پہن لیا اور چادر بھی بالوں کی اوڑھ لی، وضو کر کے غسل کر کے، مسجد میں جا کر نماز پڑھ کر قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر کھڑے ہو گئے، دونوں پیر ملائے، ایک پنڈلی دوسری پنڈالی سے لگا لی، انگلیاں بھی ملا لیں، اپنے سینے پر اپنا داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا، نگاہیں  زین میں گاڑلیں سر جھکا دیا اور نہایت خشوع و خضوع سے عاجزانہ طور پر گریہ وزاری شروع کر دی، آنسو رخسارون سے بہ کرداڑھی کو تر کر کے زمین پر ٹپکنے لگے یہاں تک کہ زمین بھی تر ہو گئی، اب دعا کی جس کا بیان اس آیت میں ہے، اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبول فرمایا اور ایک سرخ رنگ کا خوان دو بادلوں کے درمیان آسمان سے اترا، جسے اتر تے ہوئے سب نے دیکھا، سب تو خوشیاں ما رہے تھے لیکن روح اللہ کانپ رہے تھے، رنگ اڑ گیا تھا اور زار و قطار رو رہے تھے کہ اللہ ہی خیر کر ے، ذرا بے ادبی ہوئی تو مارے گئے زبان مبارک سے یہ دعا نکل رہی تھی کہ یا اللہ اسے تو رحمت کا سبب بنا عذاب کا سب نہ بنا، یا اللہ بہت سی عجیب و غریب چیزیں میں نے تجھ سے طلب کیں اور تو نے عطا فرمائیں، باری تعالیٰ تو ان نعمتوں کے شکر کی ہمیں تو فیق عطا فرما، اے پروردگار تو اپنی اس نعمت کو ہامرے لئے سبب غضب نہ بنا، الٰہی تو اسے سلامتی اور عافیت کر، اسے فتنہ اور عذاب نہ کر، یہاں تک کہ وہ خوان زمین تک پہنچ گیا اور حضرت عیسیٰ حواری اور عیسائیوں کے سامنے رکھ دیا گیا، اس میں سے ایسی پاکیزہ خوشبوئیں آ رہی تھیں کہ کسی دماغ میں ایسی خوشبو اس سے پہلے کبھی نہیں  آئی تھی، حضرت عیسیٰ اور آپ کے اصحاب اسے دیکھ کر سجدے میں گر پڑے یہودی بھی یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے اور جل بھن رہے تھے، حضرت عیسیٰ اور آپ کے ساتھی اس دسترخوان کے اردگرد بیٹھ گئے دیکھا کہ اس پر ایک رومال ڈھکا ہوا ہے، مسیح علیہ السلام نے فرمایا کون نیک بخٹ جرات و ہمت کر کے اسے کھولتا ہے ؟ حواریوں نے کہ اے کلمۃ اللہ آپ سے زیادہ حقدار اس کا کون ہے ؟ یہ سن کر حضرت عیسیٰ کھڑے ہوئے، نئے سرے سے وضو کیا، مسجد میں جا کر کئی رکعت نماز ادا کی دیر تک روتے رہے پھر دعا کی کہ یا اللہ اس کے کھولنے کی اجازت مرحمت ہو اور اسے برکت و رزق بن دیا جائے، پھر واپس آئے اور بسم اللہ خیر الرازقین کہہ کر رومال اٹھایا، تو سب نے دیکھا کہ ایک بہت بڑی لمبی چوڑی اور موٹی بھنی ہوئی مچھلی ہے، جس کے اوپر چھلکا نہیں  اور جس میں کانٹے نہیں ، گھی اس میں سے بہ رہا ہے اسی میں ہر قسم کی سبزیاں بھی ہیں ، سوائے گندنا اور مولی کے اس کے سر کے پاس سرکہ رکھا ہوا ہے اور دم کے پاس نمک ہے، سبزیوں کے پاس پانچ روٹیاں ہیں، ایک پر زیتون کا تیل ہے دوسری پر کھجوریں ہیں  اور ایک پر پانچ انار ہیں ، شمعون نے جو حواریوں کے سردار تھے کہا کہ اے روح اللہ یہ دنیا کا کھانا ہے یا جنت کا؟ آپ نے فرمایا ابھی تک تمہارے سوال ختم نہیں  ہوئے ؟ ابھی تک کریدنا باقی ہی ہے ؟ واللہ مجھے تو ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں  اس پر تمہیں  کوئی عذاب نہ ہو، حضرت شمعون نے کہا اسرائیل کے معوبد برحق کی قسم میں کسی سرکشی کی بنا پر نہیں  پوچھ رہا، اے سچی ماں کے اچھے بیٹے ! یقین ما نئے کہ میری نیت بد نہیں، آپ نے فرمایا نہ یہ طعام دنیا ہے نہ طعام جنت بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص حکم سے اسے آسمان و زمین کے درمیان اسی طرح کا پیدا کر دیا ہے اور تمہارے پاس بھیج دیا ہے، اب اللہ کا نام لے کر کھاؤ اور کھا کر اس کا شکر ادا کرو شکر گزاروں کو وہ زیادہ دیتا ہے اور وہ ابتداء پیدا کرنے وال اقادر اور قدر دان ہے، شمعون نے کہا اے نبی اللہ ہم چاہتے ہیں  کہ اس نشان قدرت میں ہی اور نشان قدرت دیکھیں ۔ آپ نے فرمایا سبحان اللہ گویا ابھی تم نے کوئی نشان قدرت دیکھا ہی نہیں  ؟ اچھا لو دیکھو یہ کہہ کر آپ نے اس مچھلی سے فرمایا اے مچھلی اللہ کے حکم سے جیسی تو زندہ تھی، زندہ ہو جا، اسی وقت اللہ کی قدرت سے وہ زندہ ہو گئی اور ہل جل کر چلنے پھرنے لگی، آنکھیں چمکنے لگیں، دیدے کھل گئے اور شیر کی طرح منہ پھاڑ نے لگی اور اس کے جسم پر کھپرے بھی آ گئے، یہ دیکھتے ہی تمام حاضرین ڈر گئے اور ادھر ادھر ہٹنے اور دبکنے لگے، آپ نے فرمایا دیکھو تو خود ہی نشان طلب کرتے ہو خود ہی اسے دیکھ کر گھبراتے ہو واللہ مجھے ڈر لگتا ہے کہ یہ مائدہ آسمانی تمہارے لئے غضب اللہ کا نمونہ نہ بن جائے، اسے مچھلی تو بحکم الٰہی جیسی تھی، ویسی ہی ہو جا، چنانچہ اسی وقت وہ ویسی ہی ہو گئی، اب سب نے کہا کہ اے نبی اللہ آپ اسے کھانا شروع کیجئے اگر آپ کو کوئی برائی نہ پہنچے تو ہم بھی کھا لیں گے، آپ نے فرمایا معاذ اللہ وہی پہلے کھائے جس نے مانگی ہے، اب تو سب کے دلوں میں دہشت بیٹھ گئی کہ کہیں  اس کے کھانے سے کسی وبال میں نہ پڑجائیں، حضرت عیسیٰ السلام نے یہ دیکھ کر فقیروں کو مسکینوں کو اور بیماروں کو بلا لیا اور حکم یا کہ تم کھانا شروع کر دو یہ تمہارے رب کی دی ہوئی روزی ہے جو تماہرے نبی کی دعا سے اتری ہے، اللہ کا شکر کر کے کھاؤ ہیں  مبارک ہو اس کی پکڑ اوروں پر ہو گی تم بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کرو اور الحمد اللہ پر ختم کرو، پس تیرہ سو آدمیوں نے بیٹھ کر پیٹ بھر کر کھانا کھایا لیکن وہ کھانا مطلقاً کم نہیں  ہوا تھا پھر سب نے دیکھا وہ دستر خوان آسمان پر چڑھ گیا وہ کل فقیر غنی ہو گئے وہ تمام بیمار تندرست ہو گئے اور ہمیشہ تک امیری اور صحت والے رہے، حواری اور صحابی سب کے سب بڑے ہی نادم ہوئے اور مرتے دم تک حسرت و افسوس کرتے رہے، آپ فرماتے ہیں  اس کے بعد جب یہ دستر خوان اترتا تو نبی اسرائیل ادھر ادھر سے دوڑے بھاگے آتے کیا چھوٹا، کیا بڑا، کیا امیر، فقیر تندرست کیا مریض ایک بھیڑ لگ جاتی ایک دوسرے پر گرتے پڑتے آتے، یہ دیکھ کر باری مقرر ہو گئی ایک دن اترتا ایک دن نہ اترتا، چالیس دن تک یہی کیفیت رہی کہ دن چڑھے اترتا اور ان کے سونے کے وقت چڑھ جاتا جس کا سایہ سب دیکھتے رہتے ۔ اس کے بعد فرمان ہوا کہ اب اس میں صرف یتیم فقیر اور بیمار لوگ ہی کھائیں، مالداروں نے اس سے بہت برا مانا اور لگے باتیں بنانے، خود بھی شک میں پڑ گئے اور لوگوں کے دلوں میں بھی طرح طرح کے وسوسے ڈالنے لگے یہاں تک حضرت عیسیٰ کے پاس آ کر کہنے لگے کہ آپ سچ سچ بتائیے کہ کیا واقعی یہ آسمان سے ہی اترتا ہے ؟ سنئے ہم میں سے بہت سے لوگ اس میں متردد ہیں  ۔ جناب مسیح علیہ السلا سخت ناراض ہوئے اور فرمانے لگے قسم ہے مسیح کے رب کی اب تمہاری ہلاکت کا وقت آ گیا، تم نے خود طلب کیا، تمہارے نبی کی دعا اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی آسمانی دستر خوان تم پر اترا، تم نے آنکھوں سے اسے اترتے دیکھا، رب کی رحمت و روزی اور برکت تم پر نازل ہوئی، بڑی عبرت و نصیحت کی نشانی تم نے دیکھ لی آہ اب تک تمہارے دلوں کی کمزوری نہ گئی اور تمہاری زبانیں نہ رکیں، مجھے توڈر ہے کہ اگر رب نے تم پر رحم نہ کیا تو عنقریب تم بدترین عذابوں کے شکار ہو جاؤ گے، اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل فرمائی کہ جس طرح میں نے پہلے ہی فرما دیا تھا کہ میں ان لوگوں کو وہ عبرتناک سزائیں دوں گا جو کسی کو نہ دی ہوں ۔ دن غروب ہوا اور یہ بے ادب، گستاخ، جھٹلانے والے اور بڑھ بڑھ کر باتیں بنانے والے اپنے اپنے بستروں پر جا لیٹے نہایت امن و امان سے ہمیشہ کی طرح اپنے بال بچوں کے ساتھ میٹھی نیند میں تھے کہ پچھلی رات عذاب الٰہی آ گیا اور جتنے بھی یہ لوگ تھے سب کے سب سور بنا دیئے گئے جو صبح کے وقت پا خانوں کی پلیدی کھا رہے تھے، یہ اثر بہت غریب ہے، ابن ابی حاتم میں قصہ ٹکڑے ٹکڑے کر کے منقول ہے لیکن میں نے اسے پورا بیان کر دیا ہے تاکہ سمجھ آ جائے ۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اغلم ۔ بہر صورت ان تمام آثار سے صاف ظاہر ہے کہ جناب مسیح علیہ السلام کے زمانے میں بنو اسرائیل کی طلب پر آپ کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے آسمان سے یہ دستر خوان نازل فرمایا ۔ یہی قرآن عظیم کے الفاظ سے ظاہر ہے ۔ بعض کا یہ بھی قول ہے کہ یہ مائدہ اترا ہی نہ تھا یہ صرف بطور مثال کے بیان فرمادیا ہے ۔ چنانچہ حضرت مجاہد سے منقول ہے کہ جب عذاب کی دھمکی سنی تو خاموش ہو گئے اور مطالبہ سے دستبردار ہو گئے ۔ حسن کا قول بھی یہی ہے اس قول کی تائید اس سے بھی ہو سکتی ہے کہ نصرانیوں کی کتب میں اس کا ذکر نہیں  ۔ اتنے بڑے اہم واقع کا ان کی کتابوں میں مطلق نہ پایا جانا حضرت حسن اور حضرت مجاہد کے اس قول کو قوی بناتا ہے اور اس کی سند بھی ان دونوں بزرگوں تک صحت کے ساتھ پہنچتی ہے واللہ اعلم۔ لیکن جمہور کا مذہب یہی ہے کہ مائدہ نازل ہوا تھا امام ابن جریر کا مختار مذہب بھی یہی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں  کہ فرمان ربی انی منزلھا علیکم میں وعدہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے وعدے سچے ہوتے ہیں  صحیح اور حقیقی علم تو اللہ ہی کو ہے لیکن زیادہ ٹھیک قول یہی ہے جیسے کہ سلف کے آثار و اقوال سے ظاہر ہے ۔ تاریخ میں بھی اتنا تو ہے کہ نبی امیہ کے نائب موسیٰ بن نصیر نے مغربی شہروں کی فتح کے موقعہ پر وہیں  یہ مائدہ پایا تھا اور اسے امیر المومنین ولید بن عبد الملک کی خدمت میں جو بانی جامع دمشق ہیں  بھیجا تھا لیکن ابھی قاصد راستے ہی میں تھے کہ خلیفۃ المسلمیں کا انتقال ہو گیا ۔ آپ کے بعد آپ کے بھائی سلیمان بن عبدالملک خلیفہ ہوئے اور ان کی خدمت میں اسے پیش کیا گیا یہ ہر قسم کے جڑاؤ اور جواہر سے مرصع تھا جسے دیکھ کر بادشاہ اور درباری سب دنگ رہ گئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ مائدہ حضرت سلیمان بن داؤد علیہ السلام کا تھا واللہ اعلم، مسند احمد میں ہے کہ قریشیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ صفا پہاڑ کو ہمارے لئے سونے کا بنا دے تو ہم آپ پر ایمان لائیں گے، آپ نے فرمایا بالکل سچا وعدہ ہے، انہوں نے کہا نہایت پختہ اور بالکل سچا ۔ آپ نے دعا کی اسی وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا اللہ تعالیٰ آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر آپ چاہیں  تو میں کوہ صفا کو سونے کا بنا دیت اہوں لیکن اگر پھر ان لوگوں نے کفر کیا تو میں انہیں  وہ عذاب دوں گا جو کسی کو نہ دیا ہو اس پر بھی اگر آپ کا ارادہ ہو تو میں ان کے لئے توبہ اور رحمت کا دروازہ کھول دوں ۔ آپ نے فرمایا یا اللہ معاف فرما، توبہ اور رحمت کا دروازہ ہی کھول دے، یہ حدیث ابن مردویہ اور مستدرک حاکم میں بھی ہے ۔

۱۱۶

روز قیامت نصاریٰ کی شرمندگی

جن لوگوں نے مسیح پرستی یا مریم پرستی کی تھی، ان کی موجودگی میں قیامت کے دن اللہ تبارک و تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے سوال کرے گا کہ کیا تم ان لوگوں سے اپنی اور اپنی والدہ کی پوجا پاٹ کرنے کو کہہ آئے تھے ؟ اس سوال سے مردود نصرانیوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرنا اور ان پر غصے ہونا ہے تاکہ وہ تمام لوگوں کے سامنے شرمندہ اور ذلیل و خوار ہوں ۔ حضرت قتادہ وغیرہ کا یہی قول ہے اور اس پر وہ آیت ھذا یوم ینفع الصادقین الخ، سے استدلال کر تے ہیں  ۔ سدی فرماتے ہیں  یہ خطاب اور جواب دنیا ہی کافی ہے، امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ اس قول کو ٹھیک بتا کر فرماتے ہیں  کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو آسمان دنیا پر چڑھا لیا تھا، اس کی دلیل ایک تو یہ ہے کہ کلام لفظ ماضی کے ساتھ ہے، دوسری دلیل آیت ان تعذبھم ہے لیکن یہ دونوں دلیلیں ٹھیک نہیں ، پہلی دلیل کا جواب تو یہ ہے کہ بہت سے امور جو قیامت کے دن ہونے وال ہیں  ان کا ذکر قرآن کریم میں لفط ماضی کے ساتھ موجود ہے، اس سے مقصود صرف اسی قدر ہے کہ وقوع اور ثبوت بخوبی ثابت ہو جائے، دوسری دلیل کا جواب یہ ہے کہ اس سے مقصود جناب مسیح علیہ السلام کا یہ ہے کہ ان سے اپنی برات ظاہر کر دیں اور ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیں، اسے شرط کے ساتھ معلق رکھنے سے اس کا وقوع لازم نہیں  جیسے کہ اسی جگہ اور آیتوں میں ہے، زیادہ ظاہر وہی تفسیر ہے جو حضرت قتادہ وغیرہ سے مروی ہے اور جو اوپر گزر چکی ہے یعنی یہ کہ یہ گفتگو اور یہ سوال جواب قیامت کے دن ہوں گے تاکہ سب کے سامنے نصرانیوں کی ذلت اور ان پر ڈانٹ ڈپت ہو چنانچہ ایک مر فوع غریب و عزیز حدیث میں بھی مروی ہے، جسے حافظ ابن عسا کر رحمۃ اللہ علیہ ابو عبد اللہ مولی عمر بن عبدالعزیز کے حالات میں لائے ہیں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قیامت کے دن انبیاء اپنی اپنی امتوں سمیت اللہ کے سامنے بلوائے جائیں گے پھر حضرت عیسیٰ بلوائے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ اپنے احسان انہیں  جتائے گا جن کا وہ اقرار کریں گے فرمائے گا کہ اے عیسیٰ جو احسان میں نے تجھ پر اور تیری والدہ پر کئے، انہیں  یاد کر، پھر فرمائے گا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کو چھوڑ کر مجھے اور میری والدہ کو الہ سمجھنا، آپ اس کا بالکل انکار کریں گے، پھر نصرانیوں کو بلا کر ان سے دریافت فرمائے گا تو وہ کہیں  گے، ہاں انہوں ں ے ہی ہمیں اس راہ پر ڈالا تھا اور ہمیں یہی حکم دیا تھا، اسی حضرت عیسیٰ کے سارے بدن کے بال کھڑے ہو جائیں گے، جنہیں  لے کر فرشتے اللہ کے سامنے جھکا دیں گے بہ مقدار ایک ہزار سال کے یہاں تک کہ عیسائیوں پر حجت قائم ہو جائے گی، اب ان کے سامنے صلیب کھڑی کی جائے گی اور انہیں  دھکے دے کر جہنم میں پہنچا دیا جائے گا، جناب عیسیٰ کے جواب کو دیکھئے کہ کس قدر باادب اور کامل ہے ؟ دراصل یہ بھی اللہ کی ایک نعمت ہے، آپ کو اسی وقت یہ جواب سکھایا جائے گا جیسے کہ ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے کہ آپ فرمائیں گے کہ باری تعالیٰ نے مجھے ایسی بات کہنے کا حق تھا نہ میں نے کہا، تجھ سے نہ میری کوئی بات پوشیدہ ہے نہ میرا کوئی ارادہ چھپا ہوا ہے، دلی راز تجھ پر ظاہر ہیں، ہاں تیرے بھید کسی نے نہیں  پائے تمام ڈھکی چھپی باتیں تجھ پر کھلی ہوئی ہیں  غیبوں کا جاننے والا تو ہی ہے، جس تبلیغ پر میں مامور اور مقرر تھا میں نے تو وہی تبیلغ کی تھی جو کچھ مجھ سے اے جناب باری تو نے ارشاد فرمایا تھا وہی بلا کم و کاست میں نے ان سے کہہ دیا تھا ۔ جا کا ما حصل یہ ہے کہ صرف ایک اللہ ہی کی عبادت کرو، وہی میرا رب ہے اور وہی تم سب کا پالنہار ہے، جب میں ان میں موجود تھا ان کے اعمال دیھکتا بھالتا تھا لیکن جب تو نے مجھے بلا لیا پھر تو تو ہی دیکھتا بھالتا رہا اور تو تو ہر چیز پر شاہد ہے، ابوداؤد طیالسی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ایک وعظ میں فرمایا اے لوگو تم سب اللہ عز و جل کے سامنے ننگے پیر، ننگے بدن، بے ختنہ جمع ہونے والے ہو، جیسے کہ ہم نے شروع پیدائش کی تھی ویسے ہی دوبارہ لو ٹائیں گے، سب سے پہلا خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کپڑے پہنائے جائیں گے سنو کچھ لوگ میری امت کے ایسے لاۓ جائیں گے جنہیں  بائیں جانب گھسیٹ لیا جائے گا تو میں کہوں گا یہ تو میرے ہیں ، کہا جائے گا، آپ کو نہیں  معلوم کہ آپ کے بعد انہوں نے کیا کیا گل کھلائے تھے، تو میں وہی کہوں گا جو اللہ کے صالح بندے کا قول ہے کہ جب تک میں ان میں رہا، ان کے اعمال پر شاہد تھا، پس فرمایا جائے گا کہ آپ کے بعد یہ تو دین سے مرتدہی ہوتے رہے ۔ اس کے بعد کی آیت کا مضمون اللہ تعالیٰ کی چاہت اور اسکی مرضی کی طرف کاموں کو لوٹانا ہے، وہ جو کچھ چاہے کرتا ہے اس سے کوئی کسی قسم کا سوال نہیں  کر سکتا اور وہ ہر ایک سے باز پرس کرتا ہے، ساتھ ہی اس مقولے میں جناب مسیح کی بیزاری ہے، ان نصرانیوں سے جو اللہ پر اور اس کے رسول پر بہتان باندھتے تھے اور اللہ کا شریک ٹھہراے تھے اور اس کی اولاد اور بیوی بتاتے تھے، اللہ تعالیٰ ان کی ان تہمتوں سے پاک ہے اور وہ بلند و برتر ہے ۔ اس عظیم الشان آیت کی عظمت کا اظہار اس حدیث سے ہوتا ہے، جس میں ہے کہ پوری ایک رات اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم اسی ایک آیت کی تلاوت فرماتے رہے، چنانچہ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک رات نماز پڑھی اور صبح تک ایک ہی آیت کی تلاوت فرماتے رہے، اسی کو رکوع میں اور اسی کو سجدے میں پڑھتے رہے، وہ آیت یہی ہے صبح کو حضرت ابو زر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا یا رسول اللہ آج کی رات تو آپ نے اسی ایک آیت میں گذاری رکوع میں بھی اس کی تلاوت رہی اور سجدے میں بھی، آپ نے فرمایا میں نے اللہ تعالیٰ سے اپنی امت کی شفات کیلئے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبول فرما لیا، پس میری یہ شفاعت ہر موحد شخص کیلئے ہو گی، انشاء اللہ تعالیٰ، مسند احمد کی اور حدیث میں ہے حضرت جرہ بنت دجاجہ عمرے کے ارادے سے جاتی ہیں  جب بذہ میں پہنچتنی ہیں  تو حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیث سنتی ہیں  کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عشاء کی نماز پڑھائی، فرضوں کے بعد دیکھا کہ صحابہ نماز میں مشغول ہیں  تو آپ اپنے خیمے کی طرف تشریف لے گئے، جب جگہ خالی ہو گئی اور صحابہ چلے گئے تو آپ واپس تشریف لائے اور نماز میں کھڑے ہو گئے میں بھی آ گیا اور آپ کے پیچھے کھڑا ہو گیا تو آپ نے اپنی دائیں طرف کھڑا ہونے کا مجھے اشارہ کیا، میں دائیں جانب آ گیا، پھر حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور وہ آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے تو آپ نے اپنی بائیں طرف کھڑے ہونے کا اشارہ کیا چنانچہ وہ آ کر بائیں جانب کھڑے ہو گئے، اب ہم تینوں نے اپنی اپنی نماز شروع کی الگ الگ تلاوت قرآن اپنی نماز میں کر رہے تھے اور حضور علیہ السلام کی زبان مبارک پر ایک ہی آیت تھی، بار بار اسی کو پڑھ رہے تھے، جب صبح ہوئی تو میں نے حضرت ابن مسعود سے کہا کہ ذرا حضور سے دریافت تو کرو کہ رات کو ایک ہی آیت کے پڑھنے کی کیا وجہ تھی؟ انہوں نے کہا اگر حضور خود کچھ فرمائیں تو اور بات ہے ورنہ میں تو کچھ بھی نہ پوچھو گا، اب میں نے خود ہی جرات کر کے آپ سے دریافت کیا کہ حضور پر میرے ماں باپ فدا ہوں، سارا قرآن تو آپ پر اترا ہے اور آپ کے سینے میں ہے پھر آپ نے ایک ہی آیت میں ساری رات کیسے گزار دی ؟ اگر کوئی اور ایسا کرتا تو ہمیں تو بہت برا معلوم ہوتا، آپ نے فرمایا اپنی امت کے لئے دعا کر رہا تھا، میں نے پوچھا پھر کیا جواب ملا؟ آپ نے فرمایا اتنا اچھا، ایسا پیارا، اس قدر آسانی والا کہ اگر عام لوگ سن لیں تو ڈر ہے کہ کہیں  نماز بھی نہ چھوڑ بیٹھیں، میں نے کہا مجھے اجازت ہے کہ میں لوگوں میں یہ خوش خبری پہنچا دوں ؟ آپ نے اجازت دی، میں ابھی کچھ ہی دور گیا ہوں گا کہ حضرت عمر نے کہا یا رسول اللہ اگر یہ خبر آپ نے عام طور پر کرا دی تو ڈر ہے کہ کہیں  لوگ عبادت سے بے پرواہ نہ ہو جائیں تو آپ نے آواز دی کہ لوٹ آئے اور وہ آیت ان تعذبھم الخ، تھی ابن ابی حاتم میں ہے حضور نے حضرت عیسیٰ کے اس قول کی تلاوت کی پھر ہاتھ اٹھا کر فرمایا اے میرے رب میری امت اور آپ رونے لگے، اللہ تعالیٰ نے جبرائیل کو حکم دیا کہ جا کر پوچھو کہ کیوں رو رہے ہیں ؟ حالانکہ اللہ کو سب کچھ معلوم ہے، حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا اپنی امت کے لئے ! اللہ تعالیٰ نے فرمایا جاؤ کہہ دو  کہ ہم آپ کو آپ کی امت کے بارے میں خوش کر دیں گے اور آپ بالکل رنجیدہ نہ ہوں گے، مسند احمد میں ہے حضرت حذیفہ فرماتے ہیں  ایک روز رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے پا آئے ہی نہیں  یہاں تک کہ ہم نے خیال کیا کہ آج آپ آئیں گے ہی نہیں، پھر آپ تسریف لائے اور آتے ہی سجدے میں گر پڑے اتنی دیر لگ گئی کہ ہمیں خوف ہوا کہ کہیں  آپ کی روح پر واز نہ کر گئی ہو؟ تھوڑی دیر میں آپ نے سر اٹھایا اور فرمانے لگے مجھ سے میرے رب عزوجل نے میری امت کے بارے میں دریافت فرمایا کہ میں ان کے ساتھ کیا کروں ؟ میں نے عرض کیا کہ باری تعالیٰ وہ تری مخلوق ہے وہ سب تیرے بندے اور تیرے غلام مہیں  تجھے اختیار ہے، پھر مجھ سے دوبارہ میرے اللہ نے دریافت فرمایا میں نے پھر بھی یہی جواب دیا تو مجھ سے اللہ عزوجل نے فرمایا اے نبی میں آپ کو آپ کی امت کے بارے میں کبھی شرمندہ نہ کروں گا، سنو مجھے میرے رب نے خوشخبری دی ہے کہ سب سے پہلے میری امت میں سے میرے ساتھ ستر ہزار شخص جنت میں جائیں گے، ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار اور ہوں گے، ان سب پر حساب کتاب مطلقاً نہیں ، پھر میری طرف پیغام بھیجا کہ میرے حبیب مجھ سے دعا کرو میں قبول فرماؤں گا مجھ سے مانگو میں دوں گا میں نے اس قاصد سے کہا کہ جو میں مانگوں مجھے ملے گا؟ اس نے جواب دیا کہ ہاں اسی لئے تو مجھے اللہ نے بھیجا ہے، چنانچہ میرے رب نے بہت کچھ عطا فرمایا، میں یہ سب کچھ فخر کے طور پر نہیں  کہہ رہا، مجھے میرے رب نے بالکل بخش دیا، اگلے پچھلے سب گناہ معاف فرما دیئے حالانکہ زندہ سلامت چل پھر رہا ہوں، مجھے میرے رب نے یہ بھی عطا فرمایا کہ میری تمام امت قحط سالی کی وجہ سے بھوک کے مارے ہلاک نہ ہو گی اور نہ سب کے سب مغلوب ہو جائیں گے، مجھے میرے رب نے حوص کوثر دیا ہے، وہ جنت کی ایک نہر ہے جو میرے حوض میں بہ رہی ہے، مجھے اس نے عزت، مدد اور رعب دیا ہے جو امتیوں کے آگے آگے مہیں ہ بھر کی راہ پر چلتا ہے، تمام نبیوں میں سب سے پہلے میں جنت ہی میں جاؤں گا، میرے اور میری امت کے لئے غنیمت کا مال حلال طیب کر دیا گیا وہ سختیاں جو پہلوں پر تھیں ہم پر سے ہٹا دی گئیں اور ہمارے دین میں کسی طرح کی کوئی تنگی نہیں  رکھی گئی ۔

۱۱۹

موحدین کے لیے خوش خبریاں

حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کو ان کی بات کا جو جواب قیامت کے دن ملے گا اس کا بیان ہو رہا ہے کہ آج کے دن موحدوں کو توحید نفع دے گی، وہ ہمیشگی والی جنت میں جائیں گے، وہ اللہ سے خوش ہوں گے اور اللہ ان سے خوش ہو گا، فی الواقع رب کی رضامندی زبر دست چیز ہے، ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ ان پر تجلی فرمائے گا اور ان سے کہے گا تم جو چاہو مجھ سے مانگو میں دوں گا، وہ اللہ تعالیٰ سے اس کی خوشنودی طلب کریں گے، اللہ تعالیٰ سب کے سامنے اپنی رضامندی کا اظہار کرے گا، پھر فرماتا ہے یہ ایسی بے مثل کامیابی ہے جس سے بڑھ کر اور کوئی کامیابی نہیں  ہو سکتی، جیسے اور جگہ ہے اسی کیلئے عمل کرنے والوں کو عمل کی کوشش کرنی چاہیے اور آیت میں ہے رغبت کرنے والے اس کی رغبت کر لیں، پھر فرماتا ہے سب کا خالق، سب کا مالک، سب پر قادر، سب کا متصرف اللہ تعالیٰ ہی ہے، ہر چیز اسی کی ملکیت میں اسی کے قبضے میں اسی کی چاہت میں ہے، اس جیسا کوئی نہیں ، نہ کوئی اس کا وزیر و مشیر ہے، نہ کوئی نظیر و عدیل ہے نہ اس کی ماں ہے، نہ باپ، نہ اولاد نہ بیوی۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں  نہ کوئی اس کے سوا رب ہے، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں  ۔ سب سے آخری سورت یہی سورہ مائدہ اتری ہے ۔

 (الحمد اللہ سورہ مائدہ کی تفسیر ختم ہوئی)

***

پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید