FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

تلخیص علوم القرآن

مفتی محمد تقی عثمانی

یہ متن در اصل اپنے والد مفتی محمد شفیع کی معروف تفسیر معارف القرآن کے مقدمے کے طور پر لکھا گیا تھا لیکن جب اتنا بسیط ہو گیا تو یہ ایک الگ کتاب ’علوم القرآن‘ کے طور پر شائع کی گئی اور اسی کی تلخیص ’معارف القرآن‘ میں بطور مقدمہ شائع ہوئی ہے ۔

اردو لائبریری اس مقدمے کو ایک برقی کتاب کے طور پر پیش کرتے ہوئے مسرت کا اظہار کرتی ہے ۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اَلْحَمْدُ لِلہِ وَکَفٰی سِلامٌ عَلیٰٓ عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اسْطَفی

وحی اور اُس کی حقیقت

 قرآن کریم چونکہ سرور کائنات حضرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی کے ذریعہ نازل کیا گیا ہے اس لیے سب سے پہلے وحی کے بارے میں چند ضروری باتیں سمجھ لینی چاہئیں ،

وحی کی ضُرورت :۔ ہر مسلمان جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نہ انسان کو اس دنیا میں آزمائش کے لیے بھیجا ہے ، اور اس کے ذمہ کچھ فرائض عائد کر کے پوری کائنات کو اس کی خدمت میں لگا دیا ہے ، لہٰذا دنیا میں آنے کے بعد انسان کے لیے دو کام ناگزیر ہیں ، ایک یہ کہ وہ اس کائنات سے اور اس میں پیدا کی ہوئی اشیاء سے ٹھیک ٹھیک کام لے ، اور دوسرے یہ کہ اس کائنات کو استعمال کرتے ہوۓ اللہ تعالیٰ کے احکام کو مد نظر  رکھے ، اور کوئی ایسی حرکت نہ کرے جو اللہ تبارک و  تعالیٰ کی مرضی کے خلاف ہو۔

ان دونوں کاموں کے لیے انسان کو ’’علم‘‘ کی ضرورت ہی اس لیے کہ جب تک اُسے یہ معلوم نہ ہو کہ اس کائنات کی حقیقت کیا ہے ؟ اس کی کونسی چیز کے کیا خواص ہیں ؟ ان سے کس طرح فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے ؟ اس وقت تک وہ دُنیا کی کوئی بھی چیز اپنے فائدے کے لیے استعمال نہیں کر سکتا، نیز جب تک اسے یہ معلوم نہ لو کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کیا ہے ؟ وہ کون سے کاموں کو پسند اور کن کو ناپسند فرماتا ہے ؟ اس وقت تک اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنا ممکن نہیں ،

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ تین چیزیں ایسی پید اکی ہیں جن کے ذریعہ اسے مذکورہ باتوں کا علم حاصل ہوتا رہے ، ایک انسان کے حواس، یعنی آنکھ ، کان ، مُنہ اور ہاتھ پاؤں ، دوسرے عقل اور تیسرے وحی، چنانچہ انسان ک بہت سی باتیں اپنے حواس کے ذریعہ معلوم ہو جاتی ہیں ، بہت سی عقل کے ذریعہ اور جو باتیں ان دونوں ذرائع سے معلوم نہیں ہو سکتیں اُن کا علم وحی کے ذریعے عطا کیا جاتا ہے ،

علم کے ان تینوں ذرائع میں ترتیب کچھ ایسی ہے کہ ہر ایک کی ایک خاص حد اور مخصوص دائرہ کار ہے ، جس کے آگے وہ کام نہیں دیتا ، چنانچہ جو چیزیں انسان کو اپنے حواس سے معلوم ہو جاتی ہیں اُن کا اعلم نِری عقل سے نہیں ہو سکتا، مثلاً ایک دیوار کو آنکھ سے دیکھ کر آپ کو یہ علم ہو جاتا ہے کہ اس کا رنگ سفید ہ، لیکن اگر آپ اپنی آنکھوں کو بند کر کے صرف عقل کی مدد سے اس دیوار کا رنگ معلوم کرنا چاہیں تو یہ نا ممکن ہے ، اسی طرح جن چیزوں کا علم عقل کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے وہ صرف حواس سے معلوم نہیں ہو سکتیں ، مثلاً آپ صرف آنکھوں سے دیکھ کر یا ہاتھوں سے  چُھو کر یہ پتہ نہیں لگا سکتے کہ اس دیوار کو کسی انسان نے بنایا ہے ، بلیہ اس نتیجے تک پہنچنے کے لیے عقل کی ضرورت ہے ،

غرض جہاں تک حواسِ خمسہ کام دیتے ہیں وہاں تک عقل کوئی رہنمائی نہیں کرتی ، اور جہاں حواس خمسہ جواب دیدیتے ہیں وہیں سے عقل کا کام شروع  ہوتا ہے ، لیکن اس عقل کی رہنمائی بھی غیر محدود نہیں ہے ، یہ بھی ایک حد پر جا کر رُک جاتی ہے ، اور بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کا علم نہ حواس کے ذریعہ حاصل ہو سکتا ہے اور نہ عقل کے ذریعہ ، مثلاً اسی دیعار کے بارے میں یہ معلوم کرنا کہ اس کو کسی طرح استعمال کرنے سے اللہ تعالیٰ راضی اور کس طرح استعمال کرنے سے ناراض ہو گا، یہ نہ حواس کے ذریعہ ممکن ہے نہ عقل کے ذریعہ ، اس قسم کے سوالات کا جواب انسان کو دینے کے لیے جو ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے اسی کا نام وحی ہے ، اور اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے کسی کو منتخب فرما کر اسے اپنا پیغمبر قرار دیدیتا ہے اور اس پر اپنا کلام نازل فرماتا ہے ، اسی کلام کو ’’وحی‘‘ کہا جاتا ہے ۔

اس سے واضح ہو گیا کہ وحی انسان کے لیے وہ اعلیٰ ترین ذریعہ علم ہے جو اسے اس کی زندگی سے متعلق اُن سوالات کا جواب مہیا کرتا ہے جو عقل اور حواس کے ذریعہ حل نہیں ہو سکتے ، لیکن ان کا علم حاصل کرنا اس کے لیے ضروری ہے ، اس سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ صرف عقل اور مشاہدہ انسان کی رہنمائی کے لیے کافی نہیں بلکہ اس کی ہدایت کے لیے وحی الٰہی ایک نا گزیر ضرورت ہے ، اور چونکہ بنیادی طور پر وحی کی ضرورت پیش ہی اُس جگہ آتی ہے جہاں عقل کام نہیں دیتی، اس لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ وحی ی ہر بات کا ادراک عقل سے ہو ہی جاۓ، بلکہ جس طرح کسی چیز کا رنگ معلوم کرنا عقل کا کام نہیں بلکہ حواس کا کام ہے ، اسی طرح بہت سے دینی عقائد کا علم عطا کرنا بھی عقل کے بجاۓ وحی کا منصب ہے ، اور ان کے ادراک کے لیے نِری عقل پر بھروسہ کرنا درست نہیں ،

جو شخص (معاذ اللہ) خدا کے وجود ہی کا قائل نہ ہو اس سے تو وحی کے مسئلہ پر بات کرنا بالکل بے سود ہے ، لیکن جو شخص اللہ تعالیٰ کے وجود اس کی قدرت کاملہ پر ایمان رکھتا ہے اس کے لیے وحی کی عقلی ضرورت، اس کے امکان اور حقیقی وجود کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں ، اگر آپ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ یہ کائنات ایک قادر مطلق نے پیدا کی ہے ، وہی اس کے مربوط اور مستحکم نظام کو اپنی حکمت بالغہ سے چلا رہا ہے ، اور اسی نے انسان کو کسی خاص مقصد کے تحت یہاں بھیجا ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس نے انسان کو پیدا کرنے کے بعد اُسے بالکل اندھیرے میں چھوڑ دیا ہو، اور اُسے یہ تک نہ بنایا ہو کہ وہ کیوں اس دنیا میں آیا ہے ؟ یہاں اس کے ذمہ کیا فرائض ہیں ؟ اس کی منزل مقصود کیا ہے ؟ اور وہ کس طرح اپنے مقصد زندگی کو حاصل کر سکتا ہے ؟ کیا کوئی شخص جس کے ہوش و حواس سلامت ہوں ایسا کر سکتا ہے کہ اپنے کسی نوکر کو ایک خاص مقصد کے تحت کسی سفر پر بھیجدے ، اور اُسے نہ چلتے وقت سفر کا مقصد بتاۓ ، اور نہ بعد میں کسی پیغام کے ذریعہ اس پر یہ واضح کرے کہ اسے کس کام کے لیے بھیجا گیا ہے ؟ اور سفر کے دوران اس کی ڈیوٹی کیا ہو گی ؟ جب ایک معمولی عقل کا انسان بھی ایسی حرکت نہیں کر سکتا تو آخر اس خداوندِ قدوس کے بارے میں یہ تصور کیا جا سکتا ہے جس کی حکمت بالغہ سے کائنات کا یہ سارا نظام چل رہا ہے ؟ یہ آخر کیسے ممکن ہے کہ جس ذات نے چاند ، سورج ،آسمان ، زمین ، ستاروں اور سیاروں کا ایسا محیر العقول نظام پیدا کی ہو وہ اپنے بندوں تک پیغام رسانی کا کوئی ایسا انتظام بھی نہ کر سکے جس کے ذریعہ انسانوں کو ان کے مقصدِ زندگی سے متعلق ہدایات دی جا سکیں ؟ اگر اللہ تعالٰی کی حکمت بالغہ پر ایمان ہے  تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اس نے اپنے بندوں کو اندھیرے میں نہیں چھوڑا، بلکہ ان کی رہنمائی کے لیے کوئی باقاعدہ نظام ضرور بنایا ہے ، بس رہنمائی کے اسی باقاعدہ نظام کا نام وحی و رسالت ہے ،

اس سے صاف واضح ہو جاتا ہے کہ ’’وحی‘‘ محض ایک دینی اعتقاد ہی نہیں بلکہ ایک عقلی ضرورت ہے ، جس کا انکار در حقیقت اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ کا انکار ہے ۔

حضورؐ پر نزولِ وحی کے طریقے :۔ وحی و رسالت کا یہ مقدس سلسلہ سرکار دو عالم محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم پر ختم ہو گیا ۔ اب کسی انسان پر نہ وحی نازل ہو گی اور نہ اس کی ضرورت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر مختلف طریقوں سے وحی نازل ہوتی تھی ، صحیح بخاریؒ کی ایک حدیث میں حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت حارث بن ہشامؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ آپ پر وحی کس طرح آتی ہے ؟ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ کبھی تو مجھے گھنٹی کی سی آواز سُنائی دیتی ہے ، اور وحی کی یہ صورت میرے لیے سب سے زیادہ سخت ہوتی ہے ، پھر جب یہ سلسلہ ختم ہوتا ہے تو جو کچھ اس آواز نے کہا ہوتا ہے ، مجھے یاد ہو چکا ہوتا ہے ، اور کبھی فرشتہ میرے سامنے ایک مرد کی صورت میں آ جاتا ہے ، (صحیح بخاریؒ١۲/٢۱)

اس حدیث میں آپؐ نے ’’وحی‘‘ کی آواز کو گھنٹیوں کی آواز سے جو تشبیہ دی ہے شیخ محی الدین ابن عربیؒ نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ایک تو وحی کی آواز گھنٹی کی طرح مسلسل ہوتی ہے اور بیچ میں ٹوٹتی نہیں دوسرے گھنٹی جب مسلسل بجتی ہے تو عموماً سننے والے کو اس کی آواز کی سمت متعین کرنا مشکل ہوتا ہے ، کیونکہ اس کی آواز ہر جہت سے آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ، اور کلام اِلٰہی کی بھی یہ خصوصیت ہے کہ اس کی کوئی ایک سمت نہیں ہوتی ، بلکہ ہر جہت سے آواز سُنائی دیتی ہے ، اس کیفیت کا صحیح ادراک تو بغیر مشاہدہ کے ممکن نہیں ، لیکن اس بات کو عام ذہنوں سے قریب کرنے کے لیے آپؐ نے اسے گھنٹیوں کی آواز سے تشبیہہ دے دی ہے (فیض الباری، ۱/ ۱۹ و ۲۰)

جب اس طریقے سے آپؐ پر وحی نازل ہوتی تو آپؐ پر  بہت زیادہ بوجھ پڑتا تھا، حضرت عائشہؓ اسی حدیث کے آخر میں فرماتی ہیں کہ میں نے سخت جاڑوں کے دن میں آپؐ پر وحی نازل ہوتے ہوۓ دیکھی ہے ، ایسی سردی میں بھی جب وحی کا سلسلہ ختم ہوتا تو آپؐ کی مبارک پیشانی پسینہ سے شرابور ہو چکی ہوتی تھی، ایک اور روایت میں حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں ، کہ جب آپؐ پر وحی نازل ہوتی تو آپؐ کا سانس رُکنے لگتا چہرہ انور متغیر ہو کر کھجور کی شاخ کی طرح زرد پڑ جاتا، سامنے کے دانت سردی سے کپکپانے لگتے ، اور آپؐ کو اتنا پسینہ آتا کہ اس کے قطرے موتیوں کی طرح ڈھلکنے لگتے تھے (الاتقان ۱١/٤۴۶٦)

وحی کی اس کیفیت میں بعض اوقات اتنی شدت پیدا ہو جاتی کہ آپؐ جس جانور پر اُس وقت سوار ہوتے وہ آپؐ کے بوجھ سے دب کر بیٹھ جاتا ، اور ایک مرتبہ آپؐ نے اپنا سر اقدس حضرت زیدؓ بن ثابت کے زانو پر رکھا ہوا تھا، کہ اسی حالت میں وحی نازل ہونی شروع ہو گئی ، اس سے حضرت زیدؓ کی ران پر اتنا بوجھ پڑا کہ وہ ٹوٹنے لگی(زادا المعاد ۱/۱۸ و ۱۹١١)

بعض اوقات اس وحی کی ہلکی ہلکی آواز دوسروں کو بھی محسوس ہوتی تھی، حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ جب آپؐ پر وحی نازل ہوتی تو آپؐ کے چہرہ انور کے قریب شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ جیسی آواز سُنائی دیتی تھی(تبویب مسند احمدؒ کتاب السیرۃ النبویۃ ۲۰٢٠/۲۱۲٢١٢)

وحی کی تیسری صورت یہ تھی کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کسی انسان کی شکل اختیار کیے بغیر اپنی اصلی صورت میں دکھائی دیتے تھے ، لیکن ایسا آپؐ کی تمام عمر میں صرف تین مرتبہ ہوا ہے ، ایک مرتبہ اس وقت جب آپ نے خود حضرت جبرئیل علیہ السالم کو ان کی اصل شکل میں دیکھنے کی خواہش ظاہر فرمائی تھی، دوسری مرتبہ معراج میں اور تیسری بار نبوت کے بالکل ابتدائی زمانے میں مکہ مکرمہ کے مقام اجیاد پر ، پہلے دو واقعات تو صحیح سَند سے ثابت ہیں ،البتہ یہ آخری واقعہ سنداً کمزور ہونے کی وجہ سے مشکوک ہے (فتح الباری ١١٩،۱/۱۸ و ۱۹١١٨)

چوتھی صورت براہ راست اور بلا واسطہ اللہ تبارک و تعالیٰ سے ہمکلامی کی ہے ، یہ شرف آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو بیداری کی حالت میں صرف ایک بار، یعنی معراج کے وقت حاصل ہوا ہے ، البتہ ایک مرتبہ خواب میں بھی آپؐ اللہ ت عالیٰ سے ہمکلام ہوۓ ہیں (اتقان، ١۱/۴۶٤٦)

وحی کی پانچویں صورت یہ تھی کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کسی بھی صورت میں سامنے آۓ بغیر آپؐ کے قلبِ مبارک میں کوئی بات اِلقاء فرما دیتے تھے ، اسے اصطلاح میں ’’ نفث فی الرّوع‘‘ کہتے ہیں (ایضاً)

 

تاریخ نزولِ قرآن

قرآن کریم دراصل کلام الٰہی ہے ، اس لیے ازل سے لوح محفوظ میں موجود ہے ، قرآن کریم کا ارشاد ہے بَلْ ھُوَقُرْاٰنٌ مَّجِیْدٌ فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ (بلکہ یہ قرآن مجید ہے ، لوح محفوظ میں )۔

پھر لوحِ محفوظ سے اس کا نزول دو مرتبہ ہوا ہے ، ایک مرتبہ یہ پورے کا پورا آسمان دنیا کے بیتِ عزّت میں نازل کر دیا گیا تھا، بیت عزّت (جسے البیت المعمور بھی کہتے ہیں ) کعبۃ اللہ کے محاذات میں آسمان پر فرشتوں کی عبادت گاہ ہے ، یہ نزول لیلۃ  القدر میں ہوا تھا ، پھر دوسری مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر تھوڑا تھوڑا کر کے حسبِ ضرورت نازل کیا جاتا رہا ، یہاں تک کہ تیتیس سال میں اس کی تکمیل ہوئی ، نزول قرآن کی یہ دو صورتیں خود قرآن کریم کے انداز بیان سے بھی واضح ہیں ، اس کے علاوہ نسائیؒ بیہقیؒ اور حاکمؒ وغیرہ نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے متعدد روایتیں نقل کی ہیں جن کا خلاصہ یہی ہے کہ قرآن کریم کا پہلا نزول یکبارگی آسمان دنیا پر ہوا اور دوسرا نزول بتدریج آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر (اتقان، ۱١/۳۱٤١)

قرآن کریم کو پہلی مرتبہ آسمان دنیا پر نازل کرنے کی حکمت امام ابو شامہؒ نے یہ بیان کی ہے کہ اس سے قرآن کریم کی فرعتِ شان کو ظاہر کرنا مقصود تھا، اور ملائکہ کو یہ بات بتانی تھی کہ یہ اللہ کی آخری کتاب ہے جو اہل زمین کی ہدایت کے لیے اُتاری جانے والی ہے ،

شیخ زر قانیؒ نے یہ نکتہ بھی بیان کیا ہے کہ اس طرح دو مرتبہ اُتارنے سے یہ بھی جَتانا مقصود تھا کہ یہ کتاب ہر شک و شبہ سے بالاتر ہے ، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے قلب مبارک کے علاوہ یہ دو جگہ اور بھی محفوظ ہے ، ایک لوحِ محفوظ میں اور دوسرے بیت عزّت میں (مناہل العرفان،١۱/٣٩۳۹) واللہ اعلم۔

اس پر تقریباً اتفاق ہے کہ قرآن کریم کا دوسرا تدریجی نزول جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے قلب مبارک پر ہوا، اس کا آغاز اس وقت ہوا جب آپؐ کی عمر چالیس(٤٠) سال تھی، اس نزول کی ابتداء بھی صحیح قول کے مطابق لیلۃ القدر میں ہوئی ہے ، اور یہی وہ تاریخ تھی جس میں چند سال بعد غزوۂ بدر پیش آیا، لیکن یہ رات رمضان کی کونسی تاریخ میں تھی ؟ اس بارے میں کوئی یقینی بات نہیں کہی جا سکتی ، بعض روایات سے رمضان کی سترھویں ، بعض سے انیسویں اور بعض سے ستائسویں شب معلوم ہوتی ہے (تفسیر ابن جریرؒ، ۱۰ ١٠/۷٧)

سب سے پہلے نازل ہونے والی آیت :۔ صحیح قول یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر قرآن کریم کی سب سے پہلی جو آیتیں اُتریں وہ سورہ علق کی ابتدائی آیات ہیں ، صحیح بخاری میں حضرت عائشہؓ اس کا واقعہ یہ بیان فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر نزول وحی کی ابتداء تو سچے خوابوں سے ہوئی تھی، اس کے بعد آپؐ کو خلوت میں عبادت کرنے کا شوق پیدا ہوا، اور اس دوران آپؐ غار حراء میں کئی کئی راتیں گزارتے ، اور عبادت میں مشغول رہتے تھے ، یہاں تک کہ ایک دن اسی غار میں آپؐ کے پاس اللہ تعالیٰ کی جانب سے فرشتہ آیا اور اس نے سب سے پہلی بات یہ کہ  اِقْرَأ (یعنی پڑھو) حضورؐ نے فرمایا کہ ’’ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ‘‘ اس کے بعد خود حضورؐ نے واقعہ بیان کیا کہ میرے اس جواب پر فرشتے نے مجھے پکڑا اور مجھے اس زور سے بھینچا کہ مجھ پر مشقت کی انتہا ہو گئی ، پھر اس نے مجھے چھوڑ کر کہا کہ اِقْرأ، میں نے جواب دیا کہ ’’ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ‘‘ اس پر اُس نے مجھے تیسری مرتبہ پکڑا اور بھینچ کر چھوڑ دیا، پھر کہا :۔

’’اِقْرَأ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ o خَلَقَ الْاِنْسَانَ مَنْ عَلَقَ o اِقْرَأ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ ….الخ،  (۹۶: ۱ تا ۵)

’’پڑھو اپنے اس پروردگار کے نام سے جس نے پیدا کیا، جس نے انسان کو منجمد خون سے پیدا کیا، پڑھو ، اور تمہارا پروردگار سب سے زیادہ کریم ہے ۔‘‘ الخ

یہ آپ پر نازل ہونے والی پہلی آیات تھیں ، اس کے بعد تین سال تک وحی کا سلسلہ بند رہا ، اسی زمانہ کو ’’فَتْرَتِ وَحِی ‘‘ کا زمانہ کہتے ہیں ، پھر تین سال کے بعد وہی فرشتہ جو غار حراء میں آیا تھا، آپؐ کو آسمان و زمین کے درمیان دکھائی دیا، اور اس نے سورۂ مدّثّر کی آیات آپؐ کو سُنائیں ، اس کے بعد وحی کا سلسلہ جاری ہو گیا،

مکّی اور مدَنی آیات :۔ آپ نے قرآن کریم کی صورتوں کے عنوان میں دیکھا ہو گا کہ کسی سورۃ کے ساتھ مکّی اور کسی کے ساتھ مدنی لِکھا ہوتا ہے ، اس کا صحیح مفہوم سمجھ لینا ضروری ہے مفسرین کی اصطلاح میں ’’مکی آیت ‘‘ کا مطلب وہ آیت ہے جو آپؐ کے بغرضِ ہجرت مدینہ طیبہ پہنچنے سے پہلے پہلے نازل ہوئی ، اور ’’مدنی آیت‘‘ کا مفہوم یہ ہے کہ وہ آپؐ کے مدینہ پہنچنے کے بعد نازل ہوئی، بعض لوگ مکی کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ یہ شہر مکہ میں نازل ہوئی ، اور مدنی کا یہ کہ وہ شہر مدینہ میں اُتری ، لیکن یہ مطلب درست نہیں ،اس لیے کہ کئی آیتیں ایسی ہیں جو شہر مکہ میں نازل نہیں ہوئیں لیکن چونکہ ہجرت سے پہلے نازل ہو چکی تھیں اس لیے انہیں مکی کہا جاتا ہے ، چنانچہ جو آیات منٰی، عرفات یا سفرِ معراج کے دوران نازل ہوئی وہ بھی مکی کہلاتی ہیں ، یہاں تک کہ جو آیتیں سفرِ ہجرت کے دوران مدینہ کے راستہ میں نازل نہیں ہوئیں ، مگر وہ مدنی ہیں ، چنانچہ ہجرت کے بعد آپؐ کو بہت سے سفر پیش آۓ جن میں آپؐ مدینہ طیبہ سے سیکڑوں میل دور بھی تشریف لے گۓ، ان تمام مقامات پر نازل ہونے والی آیتیں مدنی ہی کہلاتی ہیں ، یہاں تک کہ اُن آیتوں کو بھی مدنی کہا جاتا ہے جو فتح مکہ یا غزوۂ حدیبیہ کے موقع پر خاص شہر مکہ یا اس کے مضافات میں نازل ہوئیں ، چنانچہ آیت قرآنی : اِنَّ اللہَ یَأ مُرُ کُمْ اَنْ تُؤْدُّوا الْاَمَانَاتِ اِلیٰٓ اَھْلِھَا مدنی ہے ، حالانکہ وہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی (البرہان، ١۱ /٨٨۱۸۸  اور مناہل العرفان، ١۱ /٨٨۱۸۸١٨٨)

پھر بعض سورتیں تو ایسی ہیں کہ وہ پوری کی پوری مکی یا پوری کی پوری مدنی ہیں ، مثلاً سورہ مدثر پوری مکی ہے ، اور سورہ آلِ عمران پوری مدنی، لیکن بعض مرتبہ ایسا بھی ہوا ہے کہ پوری سورت مکی ہے ، لیکن اس میں ایک یا چند آیات مدنی بھی آ گئی ہیں ، اور بعض مرتبہ اس کے برعکس بھی ہوا ہے ، مثلاً سورہ اعراف مکی ہے ، لیکن اس میں  : وَ اسْاَلْھُمْ عَنِالْقَرْیَۃِ الَّتِیْ کَانَتْ حَاضِرَۃَ الْبَحْرِ سے لے کر وَاِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ‏‏بَنِٓی اٰدَمَ  الخ  (۷:۱۶۳) تک کی آیات مدنی ہیں ، اسی طرح سورہ حج مدنی ہے لیکن اس میں چار آیتیں یعنی : وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَلَا نَبِیِّ اِلَّا اِذَ ا تَمَنّٰی سے لے کر عَذَابَ یَوْمٍ عَقِیْمٍ تک مکی ہیں  (۲۲:۵۲۔۵۵)۔

اس سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ کسی سورت کا مکہ یا مدنی ہونا عموماً اس کی اکثر آیتوں کے اعتبار سے ہوتا ہے ، اور اکثر ایسا ہوتا تھا کہ جس سورت کی ابتدائی آیات ہجرت سے پہلے نازل ہو گئیں اُسے مکی قرار دیدیا گیا ، اگر چہ بعد میں اس کی بعض آیتیں ہجرت کے بعد نازل ہوئیں ہوں ، (مناہل العرفان، ۱ /۱۹۲)

مکہ و مدنی آیتوں کی خصوصیات :۔ علماء تفسیر نے مکی اور مدنی سورتوں کا استقراء کر کے ان کی بعض ایسی خصوصیات بین فرمائی ہیں جن سے پہلی نظر میں یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ سورت مکی ہے یا مدنی؟ ان میں سے بعض خصوصیات قاعدہ کلیہ کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ اور بعض اکثری ہیں ، قواعد کلیہ یہ ہیں :۔

۱١۔ ہر وہ سورت جس میں لفظ کَلَّا (ہر گز نہیں ) آیا ہے ، وہ مکی ہے ، یہ لفظ پندرہ سورتوں میں ٣٣ مرتبہ استعمال ہوا ہے ، اور یہ ساری آیتیں قرآن کریم کے آخری نصف حصہ میں ہیں ۔

۲٢ ۔ ہر وہ سورت جس میں (حنفی مسلک کے مطابق) کوئی سجدے کی آیت آتی ہے ، مکی ہے ۔

۳٣ ۔ سورہ بقرہ کے سوا ہر وہ سورت جس میں آدمؑ و ابلیس کا واقعہ مذکور ہے وہ مکی ہے ۔ (یہ قاعدہ اتقان وغیرہ سے ماخوذ ہے اور یہ اس قول کے مطابق تو درست ہےجس کی رو سے سورۂ حج مکی ہے، لیکن اگر اسے مدنی قرار دیا جاۓ جیسا کہ بعض صحابہؓ و تابعین سے مروی ہے تو سورۂ حج اس قاعدے سے مستثنیٰ ہو گی۔ محمد تقی عثمانی)

۴٤۔ ہر سورت جس میں جہاد کی اجازت یا اس کے احکام مذکور ہیں ، مدنی ہے ۔

۵٥ ۔ ہر وہ آیت جس میں منافقوں کا ذکر آیا ہے ، مدنی ہے ،۔

اور مندرجہ ذیل خصوصیات عمومی اور اکثری ہیں ، یعنی کبھی کبھی ان کی خلاف بھی ہو جاتا ہے لیکن اکثر و بیشتر ایسا ہی ہوتا ہے ۔

۱١ ۔ مکی سورتوں میں عموماً ’’ یٓاایُّھَا النَّاسُ ‘‘ (اے لوگو)  کے الفاظ سے خطاب کیا گیا ہے ، اور مدنی سورتوں میں یَآاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ا (اے ایمان والو) کے الفاظ سے۔

۲٢ ۔ مکی آیتیں اور سورتیں عموماً چھوٹی چھوٹی اور مختصر ہیں ، اور مدنی آیات و سُور طویل اور مفصل ہیں۔

۳٣ ۔ مکی سورتیں زیادہ تر توحید، رسالت اور آخرت کے اثبات ، حشر و نشر کی منظر کشی ، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو صبر و تسلّی کی تلقین اور پچھلی امتوں کے واقعات پر مشتمل ہیں ، اور ان میں احکام و قوانین کم بین ہوۓ ہیں ، اس کے برعکس مدنی سورتوں میں خاندانی اور تمدنی قوانین، جہاد و قتال کے احکام اور حدود و فرائض بیان کیے گۓ ہیں ،

۴۔ مکی سورتوں میں زیادہ تر مقابلہ بت پرستوں سے ہے

۵٤ ۔ مکی سورتوں کا اُسلوب بیان زیادہ پر شکوہ ہے ، اس میں استعارات و تشبیہات اور تمثیلیں زیادہ سادہ ہے ،

مکی اور مدنی سورتوں کے انداز و اسلوب میں یہ رق دراصل حالات، ماحول اور مخاطبوں کے اختلاف کی وجہ سے پیدا ہوا ہے مکی زندگی میں مسلمانوں کا واسطہ چونکہ زیادہ تر عرب کے بُت پرستوں سے تھا، اور کوئی اسلامی ریاست وجود میں نہیں آئی تھی، اس لیے اس دور میں زیادہ زور عقائد کی درستی، اخلاق کی اصلاح، بُت پرستوں کی مدلل تردید اور قرآن کریم کی شانِ اعجاز کے اظہار پر دیا گیا، اس کے بر خلاف مدینہ طیبہ میں ایک اسلامی ریاست وجود میں آ چکی تھی، لوگ جُوق در جُوق اسلام کے ساۓ تلے آ  رہے تھے ، علمی سطح پر بُت پرستی کا ابطال ہو چکا تھا اور تمام تر نظریاتی مقابلہ اہل کتاب سے تھا، اس لیے یہاں احکام و قوانین اور حدود و فرائض کی تعلیم اور اہل کتاب کی تردید پر زیادہ توجہ دی گئی ، اور اسی کے مناسب اسلوب بیان اختیار کیا گیا ۔

قرآن کریم کا تدریجی نزول :۔ پیچھے آ چکا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر قرآن کریم دفعۃً اور یکبارگی نازل نہیں ہوا، بلکہ تھوڑا تھوڑا کر کے تقریباً تیئیس سال میں اُتارا گیا ہے ، بعض اوقات جبرئیل علیہ السلام ایک چھوٹی سی آیت بلکہ آیت کا کوئی ایک جُز لے بھی تشریف لے آتے ، اور بعض مرتبہ کئی کئی آیتیں بیک وقت نازل ہو جاتیں ، قرآن کریم کا سب سے چھوٹا حصہ جو مستقلاً نازل ہوا وہ غَیْرُ اُولِی الضَّرَر، (نساء: ٩٤) ہے جو ایک  طویل آیت کا ٹکڑا ہے دوسری طرف پوری سورہ انعام ایک ہی مرتبہ ہوئی ہے (ابن کثیر ٢/١٢٢)

قرآن کریم کو یکبار گی نازل کرنے کے بجاۓ تھوڑا تھوڑا کرے کیوں نازل کیا گیا ؟ یہ سوال خود خود مشرکین عرب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے کیا تھا، باری تعالیٰ نے اس سوال کا جواب خود ان الفاظ میں دیا ہے :۔

وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ ا لَو لَا نُزِّ لَ عَلَیْہِ الْقُراٰنُ جُمْلَۃً وَّحِدَۃً ، کَذٰلِکَ لِنُثَبِّتَ بِہٰ فُؤَا دَکَ وَرَتَّلْنَا ہُ تَرْتِیْلا ہ وَلَا یَأتُوْنَکَ بِمَثَلٍ اِلًّاجِئْنَا بِا لْحَقِّ وَاَحْسَنَ تَفْسِیْراً (الفرقان : ٣٢ ، ٣٣)

’’اور کافروں نے کہا کہ آپ پر قرآن ایک ہی دفعہ کیوں نہیں نازل کیا گیا ؟ اسی طرح )ہم نے قرآن کو تدریجاً اتارا ہے ) تاکہ ہم آپؐ کے دل کو مطمئن کر دیں ، اور ہم نے اس کو رفتہ رفتہ پڑھا ہے ، اور وہ کوئی بات آپ کے پاس نہیں لائیں گے ، مگر ہم آپ کے پاس حق لائیں گے ، اور (اس کی ) عمدہ تفسیر پیش کریں گے ‘‘

امام رازیؒ نے اس آیت کی تفسیر میں قرآن کریم کے تدریجی نزول کی جو حکمتیں بیان فرمائیں ہیں یہاں ان کا خلاصہ سمجھ لینا کافی ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ :۔

١۔ اگر پورا قرآن ایک دفعہ نازل ہو جاتا تو تمام احکام کی پابندی فوراً لازم ہو جاتی ،اور یہ اس حکیمانہ تدریج کے خلاف ہوتا جو شریعت محمدی میں ملحوظ رہی ہے ۔

٣ ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنی قوم کی طرف سے ہر روز نئی اذیتیں برداشت کرنی پڑتی تھیں ، جبرئیل علیہ السلام کا بار بار قرآن کریم لے کر آنا ان اذیتوں کے مقابلے کو آسان بنا دیتا تھا، اور آپؐ کی تقویت قلب کا سبب بنتا تھا ۔

٤ ۔ قرآن کریم کا ایک بڑا حصہ لوگوں کے سوالات کے جواب اور مختلف واقعات سے متعلق ہے اس لیے ان آیتوں کا نزول اسی وقت مناسب تھا جس وقت وہ سوالات کیے گۓ، یا وہ واقعات پیش آۓ، اس سے مسلمانوں کی بصیرت بھی بڑھتی تھی ، اور قرآن کریم کی غیبی خبریں بیان کرنے سے ے اس کی حقانیت اور زیادہ آشکار ہو جاتی تھی، (تفسیر کبیر ٦/٣٣٦)

شانِ نزول :۔ قرآن کریم کی آیتیں دو قسم کی ہیں ،ایک تو وہ آیتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے از خود نازل فرمائیں ، کوئی خاص واقعہ یا کسی کا کوئی سول وغیرہ اُن کے نزول کا سبب نہیں بنا، دوسری آیات ایسی ہیں کہ جن کا نزول کسی خاص واقعہ کی وجہ سے یا کسی سوال کے جواب میں ہوا، جسے ان آیتوں کا پس منظر کہنا چاہیے ، یہ پس منظر مفسّرین کی اصطلاح میں ’’ سبب نزول‘‘ یا ’’ شانِ نزول ‘‘ کہلاتا ہے ، مثلاً سورہ بقرہ کی آیت ہے :۔

لَتَنْکِحُو ا الْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُؤْمِنَ وَلَا مَۃٌ مُّؤ مِنُۃٌ خَیْرٌ مِنْ مُشْرِکَۃٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَتَکُمْ

مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک وہ ایمان نہ لے آئین، اور بِلا شبہ ایک مؤمن کنیز ایک مشرکہ سے بہتر ہے خواہ مشرکہ تمہیں پسند ہو۔‘‘

یہ آیت ایک خاص واقعہ میں نازل ہوئی تھی، زمانہ جاہلیت میں حضرت مرثد بن ابی ثمد غنویؓ کے عناق نامی ایک عورت سے تعلقات ، اسلام لانے کے بعد یہ مدینہ طیبہ چلے آۓ ، اور وہ عورت مکہ مکرمہ میں رہ گئی، ایک مرتبہ حضرت مرثدؓ کِسی کام سے مکہ مکرمہ تشریف لے گۓ تو عناق نے انہیں گناہ کی دعوت دی ، حضرت مرثدؓ نے صاف انکار کر کے فرمایا کہ اسلام میرے اور تمہارے درمیان حائل ہو چکا ہے ، لیکن اگر تم چاہو تو میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے اجازت چاہی اور اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اس نے مشرک عورتوں سے نکاح کی ممانعت کر دی ، (اسباب الزول للواحدیؒ ، ص ٣٨)

یہ واقعہ مذکورہ بالا آیت کا ’’ شانِ نزول ’‘ یا سببِ نزول‘‘، قرآن کریم کی تفسیر میں ’’ شان نزول‘‘ نہایت اہمیت کا حاصل ہے ، بہت سی آیتوں کا مفہوم اس وقت تک صحیح طور سے سمجھ میں نہیں آ سکتا جب تک اُن کا شان نزول معلوم نہ ہو۔

 

قرآن کریم کے سات حروف اور قرأ تِیں

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی تلاوت میں آسانی پیدا کرنے کے لیے امت محمدؐیہ  کو ایک سہولت یہ عطا فرمائی ہے کہ اس کے الفاظ کو مختلف طریقوں سے پڑہنے کی اجازت دی ہے ، کیونکہ بعض اوقات کسی شخص سے کوئی لفظ ایک طریقہ سے نہیں پڑھا جاتا تو اسے دوسرے طریقہ سے پڑھ سکتا ہے ، صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ایک مرتبہ بنو غِفار کے تالاب کے پاس تشریف فرما تھے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام آ گۓ ، اور انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو حکم دیا ہے کہ آپؐ اپنی امت کو حکم دیں کہ وہ قرآن کو ایک ہی حرف پر پڑھے ، آپؐ نے فرمایا کہ میں اللہ سے اس کی معافی اور مغفرت طلب کرتا ہوں ، میری اُمّت قرآن کریم کو دو حرفوں پر پڑھے ، آپؐ نے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ سے معافی اور مغفرت مانگتا ہوں میری امّت میں اس کی بھی طاقت نہیں ہے ، پھر وہ تیسری بار آۓ اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو حکم دیا ہے کہ آپؐ کی امّت قرآن کریم کو تین حرفوں پر پڑھے ، آپؐ نے پھر فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ سے معافی اور مغفرت چاہتا ہوں ، میری اُمت میں اس کی بھی طاقت نہیں ہے ، پھر وہ چوتھی بار آۓ اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپؐ کی اُمت قرآن کو سات(٧) حروف پر پڑھے ، پس وہ ان میں سے جس حرف پر پڑھیں گے اُن کی قرأت درست ہو گی، (بحوالہ مناہل العرفان ١/ ١٣٣)

چنانچہ ایک اور حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے :۔

اِنَّ ھٰذَ ا الْقُراٰنَ اُنْزِلَ عَلٰی سَبْعَۃِ اَحْرُفٍ فَاقْرَءُوْ ا مَاتَیَسَّرَمِنْہُ، (صحیح بخاریؒ مع القسطلانیؒ ، ٧/٤٥٣)

’’یہ قرآن سات (٧) حروف پر نازل کیا گیا ہے ، پس ان میں سے جو تمہارے لیے آسان ہو اس طریقہ سے پڑھ لو‘‘۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد میں سات(٧) حروف سے کیا مراد ہے ؟ اس بارے میں اہل علم کے مختلف اقوال ہیں (ان اقوال کی تفصیل اور اس مسئلہ کی مبسوط تحقیق کے لیے ملاحظہ فرمائیے ’’علوم قرآن‘‘ احقر کی مفصل کتاب ۔١٢) ، لیکن محقق علماء کے نزدیک اس میں راجح مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کی جو قراْتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی ہیں ، اُن میں باہمی فرق و اختلاف کُل سات(٧) نوعیتوں پر مشتمل ہے ، اور وہ سات نوعیتیں یہ ہیں :۔

(1)                       اسماء کا اختلاف: جس میں اِفراد، تثنیہ ، جمع اور تذکیر و تانیث دونوں کا اختلاف داخل ہے ، مثلاً ایک قرأت میں تَمَّت میں تَمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ ہے اور دوسری قرأت میں تَمَّتْ کَلِمَاتُ رَبِّکَ،

(2)                       افعال کا اختلاف: کہ کسی قرأت کہ کسی قرأت میں صیغہ ماضی ہے ، کسی میں مضارع اور کسی میں امر مثلاً ایک قرأت میں رَبَّنَا بَاعِدْ بَیْنَ اَسْفَارِنَا ہے اور دوسری میں رَبُّنَا بَعَّدَ بَیْنَ اَسْفَارِنا،

(3)                       وجوہ اعراب کا اختلاف: جو میں اعراب یا زیر زبر پیش کا فرق پایا جاتا ہے ، مثلاً لَا یُضَارَّ کَاتِبٌ کی جگہ لَا یَضَارُّ کَاتِبٌ اور ذُولْعَرْشِ الْمَجِیْدُ کی جگہ ذُو الْعَرْشِ الْمَجِیْدِ

(4)                       الفاظ کی کمی بیشی کا اختلاف ؛ کہ ایک قرأت میں کوئی لفظ کم اور دوسری میں زیادہ ہو مثلاً ایک قرأت میں تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ اور دوسری میں تَجْریْ تَحْتَھَالْاَنْھٰرُ،

(5)                       تقدیم و تاخیر کا اختلاف ؛ کہ ایک قراء میں کوئی لفظ مقدم ہے اور دوسری میں مؤخر ہے ، مثلاً وَجَآ ءَتْ سَکْرَۃُ الْمُوْتِ بَالْحَقِّ اور وَجَأت سَکْرَۃُ  الْحَقِّ بِالْمَوْتِ ،

(6)                       بدلیت کا اختلاف ؛ کہ ایک قرأت میں ایک لفظ ہے اور دوسری قرات میں اس کی جگہ کوئی دوسرا لفظ مثلاً نُنْشِذُھَا اور نَنْشُرُ ھَا ، نیز فَتَبَیَّنُوْ ا اور فَتَثَبَّتُوْ ا ، اور طَلْحٍ اور طَلْعٍ ،

(7)                       لہجوں کا اختلاف : جس میں تفخیم، ترقیق ، امالہ ، مد ، قصر ، ہمز، اظہار اور ادغام وغیرہ کے اختلافات داخل ہیں ، یعنی اس میں لفظ تو نہیں بدلتا ، لیکن اس کے پڑہنے کا طریقہ بدل جاتا ہے ، مثلاً مُوْسٰی کو ایک قرأت میں مُوْسَیْ کی طرح پڑھا جاتا ہے ،

بہرحال! اختلافِ قرأت کی ان سات نوعیتوں کے تحت بہت سی قرأتیں نازل ہوئی تھیں اور ان کے باہمی فرق سے معنی فرق سے معنی میں کوئی قابل ذکر فرق نہیں ہوتا تھا۔ صرف تلاوت کی سہولت کے لیے ان کی اجازت دی گئی تھی ،

شروع میں چونکہ لوگ قرآن کریم کے اسلوب کے پوری طرح عدی نہیں تھے ، اس لیے اُن سات اقسام کے دائرے میں بہت سی قرأتوں کی اجازت دے دی گئی تھی، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا معمول تھا کہ ہر سال رمضان میں جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کریم کا دور کیا کرتے تھے ، جس سال آپؐ کی وفات ہوئی اس سال آپؐ نے دو مرتبہ دور فرمایا، اس دَور کو ’’ عرصۃ اخیرہ‘‘ کہتے ہیں ، اس موقع پر بہت سی قرأتیں منسوخ کر دی گئیں ، اور صرف وہ قرأتیں باقی رکھی گئیں جو آج تک تواتر کے ساتھ محفوظ چلی آتی ہیں ۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تلاوتِ قرآن کے معاملہ میں غلط فہمیاں رفع کرنے کے لیے اپنے عہد خلافت میں قرآن کریم کے سات نسخے تیار کراۓ ، اور ان سات نسخوں میں تمام قرأتوں کو اس طرح سے جمع فرمایا، کہ قرآن کریم کی آیتوں پر نقطے اور زیر زبر پیش نہیں ڈالے ، تاکہ ان ہی مذکورہ قرأتوں میں سے جس قرأت کے مطابق چاہیں پڑھ سکیں ، اس طرح اکثر قرأتیں اس رسم الخط میں سما گئیں ، اور جو قرأتیں رسم الخط میں نہ سما سکیں اُن کو محفوظ رکھنے کا طریقہ آپ نے یہ اختیار فرمایا کہ ایک نسخہ آ نے ایک قرأت کے مطابق لکھا اور دوسرا دو سری قرأت کے مطابق، امت نے ان نسخوں میں جمع شدہ قرأتوں کو یاد رکھنے کا اس قدر اہتمام کیا کہ علم قرأت ایک مستقل علم بن گیا، اور سینکڑوں علمأ، قراء اور حفاظ نے اس کی حفاظت میں اپنی عمریں خرچ کر دیں ،

دراصل ہوا یہ تھا کہ جس وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم کے سات نسخے مختلف خطوں میں بھیجے تو ان کے ساتھ ایسے قاریوں کو بھی بھیجا تھا جو اُن کی تلاوت سکھا سکیں ، چنانچہ یہ قاری حضرات جب مختلف علاقوں میں پہنچے تو انہوں نے اپنی اپنی قرأتوں کے مطابق لوگوں کو قرآن کی تعلیم دی ، اور یہ مختلف قرأتیں لوگوں میں پھیل گئیں ، اس موقع پر بعض حضرات نے ان مختلف قرأتوں کو یاد کرنے اور دوسروں کو سکھانے ہی کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دیں ، اور اس طرح ’’علم قرأت‘‘ کی بنیاد پڑ گئی، اور ہر خطے کے لوگ اس علم میں کمال حاصل کرنے کے لے ائمۂ قرأت سے رجوع کرنے لگے ، کسی نے صرف ایک قرأت یاد کی، کسی نے دو، کسی نے تین، کسی نے سات اور کسی نے اس سے بھی زیادہ ، اس سلسلے میں ایک اصولی ضابطہ پوری امت میں مسلم تھا، اور ہر جگہ اسی کے مطابق عمل ہوتا تھا، اور وہ یہ کہ صرف وہ ’’قرأت‘‘ قرآن ہونے کی حیثیت سے قبول کی جاۓ گی جس میں تین شرائط پائی جاتی ہوں :۔

(1)           مصاحفِ عثمانی کے رسم الخط میں اس کی گنجائش ہو،

(2)           عربی زبان کے قواعد کے مطابق ہو،

(3)           وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہو، اور ائمہ قرأت میں مشہور ہو،

جس قرأت میں ان میں سے کوئی ایک شرط بھی مفقود ہوا سے قرآن کا جزء نہیں سمجھا جا سکتا، اس طرح متواتر قرأتوں کی ایک بڑی تعداد نسلاً بعد نسل نقل ہوتی رہی، اور سہولت کے لیے ایسا بھی ہوا کہ ایک امام نے ایک یا چند قرأتوں کو اختیار کر کے ان ہی کی تعلیم دینی شروع کر دی، اور وہ قرأت اُس امام کے نام سے مشہور ہو گئی، پھر علماء نے ان قرأتوں کو اختیار کر کے ان ہی کی تعلیم دینی شروع کر دی ، اور وہ قرأت اُس امام کے نام سے مشہور ہو گئی ، پھر علماْ نے ان قرأتوں کو جمع کرنے کے لیے کتابیں لکھنی شروع کیں ، چنانچہ سب سے پہلے امام ابو عبید قاسم بن سلامؒ ، امام ابو حاتم سجتانیؒ ، قاضی اسمٰعیلؒ اور امام ابو جعفر طبریؒ (متوفی ٣٢٤ھ ) نے ایک کتاب لکھی جس میں بیس سے زیادہ قرأتیں جمع کی گئی تھیں ، اُن کی یہ تصنیف اس قدر مقبول ہوئی کہ یہ سات قراء کی قرأتیں دوسرے قراء کے مقابلہ میں  بہت زیادہ مشہور ہو گئیں ، بلکہ بعض لوگ یہ سمجھنے لگے کہ صحیح اور متواتر قرأتیں صرف یہی ہیں ، حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ علامہ ابن مجاہدؒ نے محض اتفاقاً ان سات قرأتوں کو جمع کر دیا تھا، ان کا منشاء یہ ہر گز نہیں تھا کہ ان کے سوا دوسری قرأتیں غلط یا ناقابل قبول ہیں ، علّامہ ابن مجاہدؒ کے اس عمل سے دوسری غلط فہمی یہ بھی پیدا لوئی کہ بعض لوگ ’’سبعۃ احرف‘‘ کا مطلب یہ سمجھنے لگے کہ ان سے یہی سات قرأتیں مراد ہیں جنہیں ابن مجاہدؒ نے جمع کیا ہے ، حالانکہ پیچھے بتایا جا چکا ہے کہ یہ سات قرأتیں صحیح قرأتوں کا محض ایک حصہ ہیں ، ورنہ ہر وہ قرأت جو مذکورہ بالا تین شرائط پر پوری اُترتی ہو، صحیح قابل قبول اور ان سات قابل قبول اور ان سات حروف میں داخل ہے جن پر قرآن کریم نازل ہوا،

سات قراء :۔بہر حال ! علامہ ابن مجاہدؒ کے اس عمل سے جو سات قاری سب سے زیادہ مشہور ہوۓ وہ یہ ہیں :۔

١۔ عبداللہ بن کثیر الداریؒ (متوفی ١٢٠ ھ ) آپ نے صحابہؓ میں سے حضرت انس بن مالکؓ ، عبداللہ بن زبیرؓ اور ابو ایون انصاری ؓ کی زیارت کی تھی، اور آ پ کی قرأت مکہ مکرمہ میں زیادہ مشہور ہوئی ، اور آپ کی قرأت کے راویوں میں بزّیؒ اور تنبلؒ زیادہ مشہور ہیں ،

٢۔ نافع بن عبدالرحمٰن بن ابی نعیمؒ(متوفی ١٦٩ ھ ) آپ نے ستر(٧٠) ایسے تابعین سے استفادہ کیا تھا جو براہ راست حضرت اُبی بن کعبؓ ، عبداللہ بن عباسؓ اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم کے شاگرد تھے ، آپ کی قرأت مدینہ طیبہ میں زیادہ مشہور ہوئی اور آپ کے راویوں میں ابو موسٰی قالونؒ (متوفی ٢٢٠ ھ ) اور ابو سعید درشؒ (متوی ١٩٧ھ) زیادہ مشہور ہیں ،

٣۔ عبداللہ الحِصبیؒ، جو ابن عامرؒ کے نام سے معروف ہیں (متوفی ١١٨ھ) آپ نے صحابہؓ میں سے حضرت نعمان بن بشیرؓ اور حضرت واثلہ بن اسقعؓ کی زیارت کی تھی، اور قرأت کا فن حضرت مغیرہ بن شہاب مخزومیؒ سے حاصل کیا تھا جو حضرت عثمانؓ کے شاگرد تھے ، آپ کی قرأت کا زیادہ رواج شامؔ میں رہا، اور آپ کی قرأت کے راویوں میں ہشامؒ اور زکوانؒ زیادہ مشہور ہیں ،

٤ ۔ ابو عمر دزبّان بن العلاء(متوفی١٥٤ ھ ) آپ نے حضرت مجاہدؒ اور سعید بن جبیرؒ کے واسطہ سے حضرت ابن عباسؓ اور اُبی بن کعبؓ سے روایت کی ہے ، اور آپ کی قرأت بصرہ میں کافی مشہور ہوئی، آپ کی قرأت کے راویوں میں ابو عمر الدوریؒ (متوی ٢٤٦ ھ ) اور ابو شعیب سوسیؒ (متوفی ٢٦١ ھ ) زیادہ مشہور ہیں ۔

٥۔ حمزۃ بن حبیب الزیات مولیٰ عکرمہ بن ربیع الیتمیؒ (متوفی ١٨٨ ھ) آپ سلیمان اعمشؒ کے شاگرد ہیں وہ یحیٰ بن و ثابؒ کے ، وہ زرّین جُبیشؒ کے اور انہوں نے حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ اور عبداللہ بن مسعودؓ سے استفادہ کیا تھا ، آپ کے راویوں میں خلف بن ہشام (متوفی ١٨٨ھ) اور خلّاد بن خالدؒ (متوفی ٢٢٠ ھ) زیادہ مشہور ہیں ،

٦ ۔ عاصم بن ابی النجود الاسدیؒ (متوفی ١٢٧ ھ) آپ زرّ بن حُبیشؒ کے واسطہ سے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور ابو عبدالرحمٰن سُلمیؒ کے واسطہ سے حضرت علیؓ کے شاگرد ہیں ، آپ کی قرأت کے راویوں میں شعبہ بن عیّاشؒ (متوفی ١٩٣ ھ) اور حص بن سلیمانؒ (متوفی ١٨٠ھ) زیادہ مشہور ہیں آج کل عموماً تلاوت ان ہی حفص بن سلیمانؒ کی روایت کے مطابق ہوتی ہے ،

٧ ۔ ابو الحسن علی بن حمزۃ الکسائی النّحویؒ (متوفی ١٨٩ ھ) ان راویوں میں ابو الحارث مروزیؒ (متوفی ٢٤٠ھ) اور ابو عمر الدّوریؒ (جو ابو عمروؒ کے راوی بھی ہیں ) زیادہ مشہور ہیں ، مؤخر الذکر تینوں حضرات کی قرأتیں زیادہ تر کوفہ میں رائج ہوئیں ،

لیکن جیسا کہ پیچھے عرض کیا جا چکا ہے ان سات کے علاوہ اور بھی کئی قرأتیں متواتر اور صحیح ہیں ، چنانچہ بعد میں جب یہ غلط فہمی پیدا ہونے لگی کہ صحیح قرأتیں اِن سات ہی میں منحصر ہیں تو متعدّد علماء (مثلاً علّامہ شذائیؒ اور ابو بکر بن مہرانؒ ) نے سات کے بجاۓ دس قرأتیں ایک کتاب میں جمع فرمائیں ، چنانچہ ’’قر آت عشرہ‘‘ کی اصطلاح مشہور ہو گئی ، ان دس قرأتوں میں مندرجہ بالا سات قرّاء کے علاوہ ان تین حضرات کی قرأتیں بھی شامل کی گئیں :۔

١۔ یعقوب بن اسحٰق حضرمیؒ (متوفی ٢٠٥ ھ) آپ کی قرأت زیادہ تر بصرہ میں مشہور ہوئی ،

٢ ۔ خلف بن ہشامؒ (متوفی ٢٠٥ ھ) جو حمزہؒ کی قرأت کے بھی راوی ہیں ، آپ کی قرأت کوفہ میں زیادہ رائج تھی ۔

٣ ۔ ابو جعفر یزید بن القعقاعؒ (متوفی ١٣٠ ھ) جن کی قرأت مدینہ طیبہ میں زیادہ رائج ہوئی ،

اس کے علاوہ بعض حضرات نے چودہ(١٤) قاریوں کی قرأتیں جمع کیں اور مذکورہ دس حضرات پر مندرجہ ذیل قراء کی قرأتوں کا اضافہ کیا :۔

(1)                       حسن بصریؒ (متوفی ١١٠ ھ) جن کی قرأت کا مرکز بصرہ تھا،

(2)                       محمد بن عبدالرحمٰن ابن محیضؒ (متوفی ١٢٣ ھ) جن کا مرکز مکہ مکرمہ میں تھا ،

(3)                       یحیٰ بن مبارک یزیدیؒ (متوفی ٢٠٢ ھ) جو بصرہ کے باشندے تھے ،

(4)                       ابو الفرج شنبوذیؒ (متوفی ٣٨٨ ھ ) جو بغداد کے باشندے تھے ،

بعض حضرات نے چودہ (١٤) قاریوں میں حضرت شنبوذیؒ کے بجاۓ حضرت سلیمان اعمشؒ کا نام شمار کیا ہے ، ان میں سے پہلی دس(١٠)قرأتیں صحیح قول کے مطابق متواتر ہیں ، اور ان کے علاوہ شاذہیں (مناہل العرفان بحوالۂ منجد المقرئین لا بن الجزریؒ)۔

 

تاریخ حفاظتِ قرآن

عہد رسالتؐ میں حفاظت قرآن: قرآن کریم چونکہ ایک ہی دفعہ پورا کا پورا نازل نہیں ہوا، بلکہ اس کی مختلف آیات ضرورت اور حالات کی مناسبت سے نازل کی جاتی رہی ہیں ، اس لیے عہد رسالتؐ میں یہ ممکن نہیں تھا کہ شروع ہی سے اُسے کتابی شکل میں لکھ کر محفوظ کر لیا جاۓ چنانچہ ابتداۓ اسلام میں قرآن کریم کی حفاظت کے لیے سب سے زیادہ زور حافظہ پر دیا گیا ، شروع شروع میں جب وحی نازل ہوتی تو آپؐ اُس کے الفاظ کو اُسی وقت دُہرانے لگتے تھے ، تاکہ وہ اچھی طرح یاد ہو جائیں ، اس پر سورۂ قیامہؔ کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو ہدایت فرمائی کہ قرآن کریم کو یاد رکھنے کے لیے آپؐ کو عین نزول وحی کے وقت جلدی جلدی الفاظ دُہرانے کی ضرورت نہیں ، اللہ تعالیٰ خود آپؐ میں ایسا حافظہ پیدا فرما دے گا کہ ایک مرتبہ نزول وحی کے بعد آپؐ اُسے بھُول نہیں سکیں گے ، چنانچہ یہی ہوا کہ اِدھر آپ پر آیات قرآنی نازل ہوتیں اور اُدھر وہ آپؐ کو یاد ہو جاتیں ، اس طرح سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا سینۂ مبارک قرآن کریم کا سب سے زیادہ محفوظ گنجینہ تھا، جس میں کسی ادنیٰ غلطی یا ترمیم و تغیر کا امکان نہیں تھا، پھر آپ مزید احتیاط کے طور پر ہر سال رمضان کے مہینے میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ دَور کیا، (صحیح بخاری مع فتح الباری ، س ٣٦ ج۔۹)

پھر آپؐ صحابہ کرامؓ کو قرآن کریم کے معانی کی تعلیم ہی نہیں دیتے تھے ، بلکہ انہیں اس کے الفاظ بھی یاد کراتے تھے ، اور خود صحابہ کرامؓ کو قرآن کریم سیکھنے اور اسے یاد رکھنے کا اتنا شوق تھا کہ ہر شخص اس معاملہ میں دوسرے سے آگے بڑھنے کی فکر میں رہتا تھا، بعض عورتوں نے اپنے شوہروں سے سواۓ اس کے کوئی مہر طلب نہیں کیا کہ وہ انہیں قرآن کریم کی تعلیم دیں گے ، سیکڑوں صحابہؓ نے اپنے آپ کو ہر غم ماسوا سے آزاد کر کے اپنی زندگی اسی کام کے لیے وقف کر دی تھی، وہ قرآن کریم کو نہ صرف یاد کرتے بلکہ راتوں کو نماز میں اسے دُہراتے رہتے تھے ، حضرت عُبادہ بن صامتؓ فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص ہجرت کر کے مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ آتا تو آپؐ اُسے ہم انصاریوں میں سے کسی کے حوالے فرما دیتے ، تاکہ وہ اسے قرآن سکھاۓ ، اور مسجد نبویؐ میں قرآن سیکھنے سکھانے والوں کی آوازوں کا اتنا شور ہونے لگا کہ رسول اللہ ؑلی علیہ و سلم کو یہ تاکید فرمانی پڑی کہ اپنی آوازیں پست کرو ، تاکہ کوئی مغالطہ پیش  نہ آۓ (مناہل العرفان ١/٢٣٤)

چنانچہ ٹھوڑی ہی مدت میں صحابہ کرامؓ کی ایک ایسی بڑی جماعت تیار ہو گئی جسے قرآن کریم از بر حفظ تھا، اس جماعت میں خلفاۓ راشدین کے علاوہ حضرت طلحہؓ، حضرت سعدؓ، حضرت ابن مسعودؓ، حضرت حذیفہ بن یمانؓ، حضرت سالمؓ مولیٰ ابی حذیہؓ، حضرت ابو ہریرہؓ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ ، حضرت عبداللہ بن عباسؓ ، حضرت عمرو بن عاصؓ ، حضرت عبداللہ بن عمروؓ ، حضرت معاویہؓ، حضرت عبداللہ بن زبیرؓ، حضرت عبداللہ بن السائبؓ ، حضرت عائشہؓ، حضرت حفصہؓ، حضرت اُم سلمہؓ وغیرہ بطور خاص قابل ذکر ہیں (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ’’علوم قرآن‘‘ احقر کی مفصل کتاب )

غرض ابتداۓ اسلام میں زیادہ زور حفظِ قرآن پر دیا گیا ، اور اس وقت کے حالات میں یہی طریقہ زیادہ محفوظ اور قابل اعتماد تھا، اس لیے کہ اس زمانے میں لکھنے پڑہنے والوں کی تعداد بہت کم تھی، کتابوں کو شائع کرنے کے لیے پریس وغیرہ کے ذرائع موجود نہ تھے ، اس لیے اگر صرف کہنے پر اعتماد کیا جاتا تو نہ قرآن کریم کی وسیع پیمانے پر اشاعت ہو سکتی ، اور نہ اُس کی قابل اعتماد حفاظت ، اس کے نجاۓ اللہ تعالیٰ نے اہل عرب کو حافظے کی ایسی قوت عطا  فرما دی تھی کہ ایک ایک شخص ہزاروں اشعار کا حافظ ہوتا تھا، اور معمولی معمولی دیہاتیوں کو اپنے اور اپنے خاندان ہی کے نہیں اُن کے گھوڑوں تک کے نسب نامے یاد ہوتے تھے ، اس لیے قرآن کریم کی حفاظت میں اسی قوت حافظہ سے کام لیا گیا، اور اسی کے ذریعہ قرآن کریم کی آیات اور سورتیں عرب ے گوشے گوشے میں پہنچ گئیں ،

کتابت وحی :۔ قرآن کریم کو حفظ کرانے کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے قرآن کریم کو لکھوانے کا بھی خاص اہتمام فرمایا، حضرت زید بن ثابتؓ فرماتے ہیں کہ میں آپؐ کے  لیے وحی کی کتابت کرتا تھا ، جب آپؐ پر وحی نازل ہوتی تو آپؐ کو سخت گرمی لگتی، اور آپؐ کے جسم اطہر پر پسینہ کے قطرے موتیوں کی طرح ڈھلکنے لگتے تھے ، پھر جب آپؐ سے یہ کیفیت ختم ہو جاتی تو میں مونڈھے کی کوئی ہڈی یا (کسی اور چیز کا ) ٹکڑا لے کر خدمت میں حاضر ہوتا، آپؐ لکھواتے رہتے ، اور میں لکھتا جاتا، یہاں تک کہ جب میں لکھ کر فارغ ہوتا تو قرآن کو نقل کرنے کے بوجھ سے مجھے یوں محسوس ہوتا جیسے میری ٹانگ ٹوٹنے والی ہے ، اور میں کبھی چل نہیں سکوں گا، بہر حال ؛ جب میں فارغ ہوتا تو آپؐ فرماتے ’’پڑھو‘‘ میں پڑھ کر سناتا، اگر اس میں کوئی فروگذاشت ہوتی تو آپؐ اس کی اصلاح فرما دیتے اور پھر اسے لوگوں کے سامنے لے آتے (مجمع الزوائد١/١٥٦ بحوالہ طبرانی )

حضرت زید بن ثابتؓ کے علاوہ اور بھی بہت سے صحابہؓ کتابت وحی کے فرائض انجام دیتے تھے ، جن میں خلفاۓ راشدینؓ، حضرت ابی بن کعبؓ ، حضرت زبیر بن عوامؓ ، حضرت معاویہؓ ، حضرت مغیرہ بن شعبہؓ، حضرت خالد بن الولیدؓ، حضرت ثابت بن قیسؓ، حضرت ابان بن سعیدؓ وغیرہ بطور خاص قابلِ ذکر ہیں (تفصیل کے لیے دیکھۓ فتح الباری ٩/ ١٨ اور زاد المعاد ١/٣٠)

حضرت عثمانؓ فرماتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا معمول یہ تھا کہ جب قرآن کریم کا کوئی حصہ نازل ہوتا تو آپ کاتبِ وحی کو یہ ہدایت بھی فرما دیتے تھے کہ اسے فلاں سورت میں فلاں فلاں آیات کے بعد لکھا جاۓ (فتح الباری ٩/ ١٨) اُس زمانے میں چونکہ عرب میں کاغذ کمیاب تھا، اس لیے یہ قرآنی آیات زیادہ تر پتھر کی سلوں ، چمڑے کے پارچوں ، کھجور کی شاخوں ، بانس کے ٹکڑوں ، درخت کے پتوں اور جانوروں کی ہڈیوں پر لکھی جاتی تھیں ، البتہ کبھی کبھی کاغذ کے ٹکڑے بھی استعمال کیے گۓ ہیں (ایض ٩/١١)

اس طرح عہد رسالتؐ میں قرآن کریم کا ایک نسخہ تو وہ تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی نگرانی میں لکھوایا تھا، اگر چہ وہ مرتب کتاب کی شکل میں نہیں تھا، بلکہ متفرق پارچوں کی شکل میں تھا، اس کے ساتھ ہی بعض صحابہ کرام بھی اپنی یاد داشت کے لیے آیات قرآنی اپنے پاس لکھ لیتے تھے ، اور یہ سلسلہ اسلام کے ابتدائی عہد سے جاری تھا، چنانچہ حضرت عمرؓ کے اسلام کے لانے سے پہلے ہی اُن کی بہن اور بہنوئی نے ایک صحیفہ میں آیات قرآنی لکھی ہوئی تھیں (سیرت ابن ہشام)

حضرت ابو بکرؓ کے عہد میں جمع قرآن:۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں قرآن کریم کے جتنے نسخے لکھے گۓ تھے اُن کی کیفیت یہ تھی کہ یا تو وہ متفرق اشیاء پر لکھے ہوۓ تھے کوئی آیت چمڑے پر ، کوئی درخت کے پٹے پر ، کوئی ہڈی پر، یا وہ مکمل نسخے نہیں تھے ، کسی صحابی کے پاس ایک سورت لکھی ہوئی تھی، کسی کے پاس دس پانچ سورتیں اور کسی کے پاس صرف چند آیات ، اور بعض صحابہؓ کے پاس آیات کے ساتھ تفسیری جملے بھی لکھے ہوۓ تھے ،

اس بناء پر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں یہ ضروری سمجھا کہ قرآن کریم کے ان منتشر حصوں کو یک جا کر کے محفوظ کر دیا جاۓ، انہوں نے یہ کارنامہ جن محرکات کے تحت اور جس طرح انجام دیا اس کی تفصیل حضرت زید بن ثابتؓ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ جنگ یمامہ کے فوراً بعد حضرت ابو بکرؓ نے مجھ سے فرمایا کہ ’’عمرؓ نے ابھی آ کر مجھ سے یہ بات کہی ہے کہ جنگِ یمامہ میں قرآن کریم کے حفاظ کی ایک بڑی جماعت شہید ہو گئی ، اور اگر مختلف مقامات پر قرآن کریم کے حافظ اسی طرح شہید ہوتے رہے تو مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں قرآن کریم کا ایک بڑا حصہ ناپید نہ ہو جاۓ ، لہٰذا میری راۓ یہ ہے کہ آپ اپنے حکم سے قرآن کریم کو جمع کروانے کا کام شروع کر دیں ‘‘ میں نے عمرؓ سے کہا کہ جو کام آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے نہیں کیا وہ ہم کیسے کریں ،

عمر نے جواب دیا کہ خدا کی قسم ! یہ کام بہتر ہی بہتر ہے ، اس کے بعد عمرؓ مجھ سے بار بار یہی کہتے رہے یہاں تک کہ مجھے بھی اس پر شرح صدر ہو گیا اور اب میری راۓ بھی دہی ہے جو عمرؓ کی ہے ، اس کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے مجھ سے فرمایا کہ ’’ تم نوجوان اور سمجھدار آدمی ہو ، ہمیں تمہارے بارے میں کوئی بد گمانی نہیں ہے ، تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے کتابت وحی کا کام بھی کرتے رہے ہو لہٰذا تم قرآن کریم کی آیتوں کو تلاش کر کے انہیں جمع کرو‘‘۔

حضرت زید بن ثابتؓ فرماتے ہیں کہ ’’خدا کی قسم! اگر یہ حضرات مجھے کوئی پہاڑ ڈھونے کا حکم دیتے تو مجھ پر اس کا اتنا بوجھ نہ ہوتا جتنا جمع قرآن کے کام کا ہوا ، میں نے اُن سے کہا کہ آپ وہ کا کیسے کر رہے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نہیں کیا‘‘ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ خدا کی قسم ! یہ کام بہتر ہی بہتر ہے ، اس کے بعد حضرت ابوبکرؓ مجھ سے بار بار یہی کہتے رہے ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرا سینہ اسی راۓ کے لیے کھول دیا، جو حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کی راۓ تھی، چنانچہ میں نے قرآنی آیات کو تلاش کرنا شروع کیا، اور کھجور کی شاخوں ، پٹھی کی تختیوں اور لوگوں کے سینوں سے قرآن کریم کو جمع کیا (صحیح بخاریؒ ، کتاب فضائل القرآن)

اس موقع پر جمع قرآن کے سلسلے میں حضرت زید بن ثابتؓ کے طرق کار کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے جیسا کہ پیچھے ذکر آ چکا ہے ، وہ خود حافظ قرآن تھے ، لہٰذا وہ اپنی یاد داشت سے پورا قرآن لکھ سکتے تھے ، اُن کے علاوہ بھی سینکڑوں حفّاظ اُس وقت موجود تھے ، ان کی ایک جماعت بنا کر بھی قرآن کریم لکھا جا سکتا تھا ،

نیز قرآن کریم کے جو نسخے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں لکھ لیے گۓ تھے حضرت زیدؓ ان سے بھی قرآن کریم نقل فرما سکتے تھے ، لیکن انہوں نے احتیاط کے پیش نظر صرف کسی ایک طریقہ پر بس نہیں کیا، بلکہ ان تمام ذرائع سے بیک وقت کام لے کر اس وقت تک کوئی آیت اپنے صحیفوں میں درج نہیں کہ جب تک اس کے متواتر ہونے کی تحریری اور زبانی شہادتیں نہیں مل گئیں ، اس کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے قرآن کریم کی جو آیات اپنی نگرانی میں لکھوائی تھیں وہ مختلف صحابہؓ کے پاس محفوظ تھیں حضرت زیدؓ نے انہیں یک جا فرمایا تاکہ نیا نسخہ ان سے ہی نقل کیا جاۓ، چنانچہ یہ اعلان عام کر دیا گیا کہ جس شخص کے پاس قرآن کریم کی جتنی آیات لکھی ہوئی موجود ہوں وہ حضرت زیدؓ کے پاس لے آۓ ، اور جب کوئی شخص اُن کے پاس قرآن کریم کی کوئی لکھی ہوئی آیت لے کر آتا تو وہ مندرجہ ذیل چار طریقوں سے اس کی تصدیق کرتے تھے ،

(1)           سب سے پہلے اپنی یاد داشت سے اس کی توثیق کرتے ،

(2)           پھر حضرت عمرؓ بھی حافظِ قرآن تھے ، اور روایات سے ثابت ہے کہ حضرت ابو بکرؓ نے اُن کو بھی اس کام میں حضرت زیدؓ کے ساتھ لگا دیا تھا اور جب کوئی شخص کوئی آیت لے کر آتا تھا تو حضرت زیدؓ اور حضرت عمرؓ دونوں مشترک طور پر اسے وصول کرتے تھے (فتح الباری ٩/١١ بحوالہ ابن ابی داؤد )۔

(3)           کوئی لکھی ہوئی آیت اُس وقت تک قبول نہیں کی جاتی تھی جب تک دو اہلِ اعتبار گواہوں نے اس بات کی گواہی نہ دے دی ہو کہ یہ آیت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے لکھی گئی تھی، (اتقان١/١٠)

(4)           اس کے بعد ان لکھی ہوئی آیتوں کا مجموعوں کے ساتھ مقابلہ کیا جاتا تھا جو مختلف صحابہؓ نے تیار کر رکھے تھے (البرہان فی علوم القرآن للزرکشیؒ ١/٢٣٨)

حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جمع قرآن کا یہ طریق کار ذہن میں رہے تو حضرت زید بن ثابتؓ کے اس ارشاد کا مطلب اچھی طرح سمھ میں آ سکتا ہے سُورہ برأۃ کی آخری آیات لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ الخ  مجھے صرف حضرت ابو خزیمہؓ کے پاس ملیں ، ان کے سوا کسی اور کے پاس نہیں ملیں ‘‘ اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ یہ آیتیں  سواۓ حضرت ابو خزیمہؓ کے کسی اور کو یاد نہیں تھیں ، یا کسی اور کے پاس لکھی ہوئی نہ تھیں ، اور اُن کے سوا کسی کو ان کا جُز قرآن ہونا معلوم نہ تھا ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی لکھوائی ہوئی متفرق آیتیں لے لے کر آ رہے تھے اُن میں سے یہ آیتیں سوا سے حضرت ابو خزیمہؓ کے کسی کے پاس نہیں ملیں ، ورنہ جہاں تک ان آیات کے جزوِ قرآن ہونے کا تعلق ہے یہ بات تو اتر کے ساتھ سب کو معلوم تھی، کیونکہ سینکڑوں صحابہؓ کو یاد بھی تھی، اور جن حضرات کے پاس آیات قرآنی کے مکمل مجموعے تھے اُن کے پاس لکھی ہوئی بھی تھیں ، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی نگرانی میں الگ لکھی ہوئی صرف حضرت ابو خزیمہؓ کے پاس ملیں ، کسی اور کے پاس نہیں (البرہان ١/٢٣٤،٢٣٥ )

بہر کیف ! حضرت زید بن ثابتؓ نے اس زبردست احتیاط کے ساتھ آیات قرآنی کو جمع کر کے انہیں کاغذ کے صحیفوں پر مرتّب شکل میں تحریر فرمایا (اتقان ١/٦٠) لیکن ہر سورت علیٰحدہ صحیفے میں لکھی گئی ، اس لیے یہ نسخہ بہت سے صحیفوں پر مشتمل تھا ، اصطلاح میں اس نسخہ کو ’’اُمّ‘‘ کہا جاتا ہے ، اور اس کی خصوصیات یہ تھیں :۔

(1)                       اس نسخہ میں آیاتِ قرآنی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی بتائی ہوئی ترتیب کے مطابق مرتّب تھیں ، لیکن سورتیں مرتّب نہیں تھیں ، بلکہ ہر سورت الگ الگ لکھی ہوئی تھی (اتقان، حوالہ بالا)

(2)                       اس نسخہ میں قرآن کے ساتوں حروف(جن کی تدریج پیچھے آ چکی ہے )جمع تھے (مناہل العرفان ١/٢٤٦، و تاریخ القرآن للکر دیؒ ، ص ٢٨) ۔

(3)                       اس میں وہ تمام آیتیں جمع کی گئی تھیں جن کی تلاوت منسوخ نہیں ہوئی تھی،

(4)                       اس نسخہ کو لکھوانے کا مقصد یہ تھا کہ ایک مرتّب نسخہ تمام اُمّت کی اجماعی تصدیق کے ساتھ تیار ہو جاۓ ، تاکہ ضرورت پڑنے پر اس کی طرف رجوع کیا جا سکے ،

حضرت ابو بکرؓ کے لکھواۓ ہوۓ یہ صحیفے آپؐ کی حیات میں آپ کے پاس رہے ، پھر حضرت عمرؓ کے پاس رہے ، حضرت عمرؓ کی شہادت کے بعد انہیں امّ المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس منتقل کر دیا گیا ، پھر حضرت حفصہؓ کی وفات کے بعد مروان بن الحکم نے اسے اس خیال سے نذر آتش کر دیا کہ اس وقت حضرت عثمانؓ کے تیار کراۓ ہوۓ مصاحف تیار ہو چکے تھے ، اور اس بات پر امّت کا اجماع منعقد ہو چکا تھا کہ رسم الخط اور سورتوں کی ترتیب کے لحاظ سے ان مصاحف کی پیروی لازم ہے ، مروان بن الحکم نے سوچا کہ اب کوئی ایسا نسخہ باقی نہ رہنا چاہیے جو اس رسم الخط اور ترتیب کے خلاف ہو، (فتح الباری ٩/١٦)

حضرت عثمانؓ کے عہد میں جمع قرآن :۔ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو اسلام عرب سے نکل کر رومؔ اور ایرانؔ کے دور دراز علاقوں تک پہنچ چکا تھا، ہر نۓ علاقے کے لوگ جب مسلمان ہوتے تو وہ ان مجاہد ین اسلام یا اُن تاجروں سے قرآن کریم سیکھتے جن کی بدولت انہیں اسلام کی نعمت حاصل ہوئی تھی  ، اُدھر آپ پیچھے پڑھ چکے ہیں کہ قرآن کریم سات حروف پر نازل ہوا تھا، اور مختلف صحابہ کرامؓ نے اُسے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے مختلف قرأتوں کے مطابق سیکھا تھا ، اس لیے ہر صحابی نے اپنے شاگردوں کو اسی قرأت کے مطابق قرآن پڑھایا ، جس کے مطابق خود انہوں نے حضورؓ سے پڑھا تھا ، اس طرح قرأتوں کا یہ اختلاف دو دراز ممالک تک پہنچ گیا، جب تک لوگ اس حقیقت سے واقف تھے کہ قرآن کریم سات حروف پر نازل ہوا ہے ، اُس وقت تک اس اختلاف سے کوئی خرابی پیدا نہیں ہوئی، لیکن جب یہ اختلاف دور دراز ممالک میں پہنچا اور یہ بات اُن میں پوری طرح مشہور نہ ہو سکی کہ قرآن کریم سات حروف پر نازل ہوا ہے ، تو اس وقت لوگوں میں جھگڑے پیش آنے لگے بعض لوگ اپنی قرأت کو صحیح اور دوسرے کی قرأت کو غلط قرار دینے لگے ، ان جھگڑوں سے ایک طرف تو یہ خطرہ تھا کہ لوگ قرآن کریم کی متواتر قرأتوں کو غلط قرار دینے کی سنگین غلطی میں مبتلا ہوں گے ، دوسرے سواۓ حضرت زیدؓ کے لکھے ہوۓ ایک نسخہ کے جو مدینہ طیبہ میں موجود تھا ، پورے عالم اسلام میں کوئی ایسا معیاری نسخہ موجود نہ تھا جو پوری امت کے لیے حجت بن سکے ، کیونکہ دوسرے نسخے انفرادی طور پر لکھے ہوۓ تھے ، اور ان میں ساتوں حروف کو جمع کرنے کا کوئی اہتمام نہیں تھا، اس لیے ان جھگڑوں کے تصفیہ کی قابل اعتماد صورت یہی تھی کہ ایسے نسخے پورے عالم اسلام میں پھیلا دیۓ جائیں ، جن میں ساتوں حروف جمع ہوں اور انہیں دیکھ کر یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ کونسی قرأت صحیح اور کون سی غلط ہے ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں یہی عظیم الشان کارنامہ انجام دیا،

اس کارنامے کی تفصیل روایات حدیث سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ حضرت حذیفہ بن یمانؓ آرمینیا اور آذر بیجان کے محاذ پر جہاد میں مشغول تھے ، وہاں انہوں نے دیکھا کہ لوگوں میں قرآن کریم کی قرأتوں کے برے میں اختلاف ہو رہا ہے ، چنانچہ مدینہ طیبہ واپس آتے ہی وہ سیدھے حضرت عثمانؓ کے پاس پہنچے ، اور جا کر عرض کیا کہ امیر المؤمنین ! قبل اس کے کہ یہ اُمت اللہ کی کتاب کے برے میں یہود و نصاریٰ کی طرح اختلافات کی شکار ہو، آپ اس کا علاج کیجۓ، حضرت عثمانؓ نے پوچھا بات کیا ہے ؟ حضرت حذیفہؓ نے جواب میں کہا کہ میں آرمینیا کے محاذ پر جہاد میں شامل تھا وہاں میں نے دیکھا کہ شام کے لوگ اُبی بن کعبؓ کی قرأت پڑھتے ہیں ، جو اہل عراق نے نہیں سنی ہوتی، اور اہل عراق عبداللہ بن مسعودؓ کی قرأت پڑہتے ہیں جو اہل شام نے نہیں سنی ہوتی، اس کے نتیجہ میں ایک دوسرے کو کافر قرار دے رہے ہیں ،

حضرت عثمانؓ خود ہی اس خطرے کا احساس پہلے ہی کر چکے تھے ، انہیں یہ اطلاع ملی تھی کہ خود مدینہ طیبہ میں ایسے واقعات پیش آۓ ہیں کہ قرآن کریم کے ایک معلم نے اپنے شاگردوں کو ایک قرأت کے مطابق قرآن پڑھایا، اور دوسرے معلم نے دوسری قرأت کے مطابق ، اس طرح مختلف اساتذہ کے شاگرد جب باہم ملتے تو ان میں اختلاف ہوتا، اور بعض مرتبہ یہ اختلاف اساتذہ تک پہنچ جاتا، اور وہ بھی ایک دوسرے کی قرأت کو غلط قرار دیتے ، جب حضرت حذیفہ بن یمانؓ نے بھی اس خطرے کی طرف توجہ دلائی تو حضرت عثمانؓ نے جلیل القدر صحابہ کو جمع کر کے ان سے مشورہ کیا اور فرمایا کہ :۔ ’’ مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ بعض لوگ ایک دوسرے سے اس قسم کی باتیں کہتے ہیں کہ میری قرأت تمہاری قرأت سے بہتر ہے ، اور یہ بات کفر کی حد تک پہنچ سکتی ہے ، لہٰذا آپ اُن لوگوں کی اس بارے میں کیا راۓ ہے ‘‘۔ صحابہؓ نے خود حضرت عثمانؓ سے پوچھا کہ ’’ آپ نے کیا سوچا ہے ؟‘‘ حضرت عثمانؓ نے فرمایا کہ ’’ میری راۓ یہ ہے کہ ہم تمام لوگوں کو ایک مُصحف پر جمع کر دیں تاکہ کوئی اختلاف اور افتراق پیش نہ آۓ ‘‘ صحابہؓ نے لوگوں کو جمع کر کے ایک خطبہ دیا، اور اس میں فرمایا کہ تم لوگ مدینہ طیبہ میں میرے قریب ہوتے ہوۓ قرآن کریم کی قرأتوں کے بارے میں ایک دوسرے کی تکذیب اور ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہو، اس سے ظاہر ہے کہ جو لوگ مجھ سے دُور ہیں وہ تو اور بھی زیادہ تکذیب اور اختلاف کرتے ہوں گے ، لہٰذا تمام لوگ مل کر قرآن کا ایسا نسخہ تیار کریں جو سب کے لیے واجب الاقتداء ہو ،

اس غرض کے لیے حضرت عثمانؓ نے حضرت حفصہؓ کے پاس پیغام بھیجا کہ آپ کے پاس (حضرت ابوبکرؓ کے تیار کراۓ ہوۓ )جو صحیفے موجود ہیں وہ ہمارے پاس بھیج دیجیے ، ہم اُن کو مصاحف میں نقل کر کے آپ کو واپس کر دیں گے ، حضرت حفصہؓ نے وہ صحیفے حضرت عثمانؓ کے پاس بھیج دیۓ ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے چار صحابہؓ کی ایک جماعت بنائی، جو حضرت زید بن ثابتؓ ، حضرت عبداللہبن زبیرؓ ، حضرت سعید بن العاصؓ کی ایک جماعت بنائی، جو حضرت زید بن ثابتؓ، حضرت عبداللہ بن زبیرؓ ، حضرت سعید بن العاصؓ اور حضرت عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشامؓ پر مشتمل تھی، اس جماعت کو اس کام پر مامور کیا گیا کہ وہ حضرت ابو بکرؓ کے صحیفوں سے نل کر کے کئی ایسے مصاحف تیار کرے جن میں سورتیں بھی مرتب ہوں ، ان چار صحابہؓ میں سے حضرت زیدؓ انصاری تھے ، اور باقی تینوں حضرات قریشی ، اس لیے حضرت عثمانؓ نے ان سے فرمایا کہ ’’ جب تمہارا اور زیدؓ کا قرآن کے کسی حصہ میں اختلاف ہو (یعنی اس میں اختلاف ہو کہ کون سا لفظ کس طرح لکھا جاۓ ؟) تو اسے قریش کی زبان کے مطابق لکھنا ، اس لیے کہ قرآن کریم ان ہی کی زبان میں نازل ہوا ہے ،‘‘

بنیادی طور پر تویہ کام مذکورہ چار حضرات ہی کے سپرد کیا گیا تھا ، لیکن پھر دوسرے صحابہؓ کو بھی ان کی مدد کے لیے ساتھ لگا دیا گیا (یہ پوری تفصیل اور اس سلسلے کی تمام روایات فتح الباری ص ١٣ تا ١٥ج٩ سے ماخوذ ہیں ،)ان حضرات نے کتابتِ قرآن کے سلسلے میں مندرجہ ذیل کام انجام دیۓ :۔

(1)       حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں جو نسخہ تیار ہوا تھا اس میں سُورتیں مرتب نہیں تھیں ، بلکہ ہر سورت الگ الگ لکھی ہوئی تھی، ان حضرات نے تمام سورتوں کو ترتیب کے ساتھ ایک ہی مصحف میں لکھا (مستدرک ٢/٢٢٩)

(2)       قرآن کریم کی آیات اس طرح لکھیں کہ ان کے رسم الخط میں تمام متواتر قرأتیں سما جائیں ، اسی لیے اُن پر نہ نقطے لگاۓ گۓ اور نہ حرکات (زیر زبر پیش) تاکہ اسے تمام متواتر قرأتوں کے مطابق پڑھا جاسکے ، مثلاً سرھا  لکھا تاکہ اسے نَنْشُرُھَا اور نُنْشِزُھَا دونوں طرح پڑھا جا سکے کیونکہ یہ دونوں قرأتیں درست ہیں (مناھل العرفان ١/٢٥٣ و ٢٥٤)

(3)       اب تک قرآن کریم کا مکمل معیاری نسخہ جو پوری امت کی اجتماعی تصدیق سے تیار کیا گیا ہو صرف ایک تھا، ان حضرات نے اس نۓ مرتب مصحف کی ایک سے زائد نقلیں تیار کیں ، عام طور سے مشہور یہ ہے کہ حضرت عثمانؓ نے پانچ مصاحف تیار کراۓ تھے ، لیکن ابو حاتم سجستانیؒ کا ارشاد ہے کہ کُل سات نسخے تیار کۓ گۓ تھے ، جن میں سے ایک مکہ مکرمہ ، ایک شام ، ایک یمن ، ایک بحرین، ایک بصرہ اور ایک کوفہؔ بھیج دیا گیا ، اور ایک مدینہ طیبہ میں محفوظ رکھا گیا (فتح الباری٩/١٧)

(4)       مذکورہ بالا کام کرنے کے لیے ان حضرات نے بنیادی طور پر تو ان ہی صحیفوں کو سامنے رکھا جو حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں لکھے گۓ تھے ، لیکن اس کے ساتھ ہی مزید احتیاط کے لیے وہی طریق کار اختیار کیا جو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اختیار کیا گیا تھا، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ لعیہ و سلم کے زمانہ کی جو متفرق تحریریں مختلف صحابہؓ کے پاس محفوظ تھیں انہیں دوبارہ طلب کیا گیا اور ان کے ساتھ از سر نو مقابلہ کر کے یہ نسخے تیار کۓ گۓ، اس مرتبہ سورہ احزابؔ کی ایک آیت : مِنَالْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْامَاعَا ھَدُو ا اللہَ عَلَیْہِ  علٰحدہ لکھی ہوئی صرف حضرت خزیمہ بن ثابت انصاریؓ کے پاس ملی ، پیچھے ہم لکھ چکے ہیں کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ آیت کسی اور شخص کو یاد نہیں تھی، کیونکہ حضرت زیدؓ خود فرماتے ہیں کہ : ’’مصحف لکھتے وقت سورۃ احزاب کی وہ آیت نہ ملی جو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو پڑھتے ہوۓ سُنا کرتا تھا‘‘۔ اس سے صاف واضح ہے کہ یہ آیت ہجرت زیدؓ اور دوسرے صحابہؓ کو اچھی طرح یاد تھی ، اسی طرح اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ یہ آیت کہیں اور لکھی ہوئی نہ تھی، کیونکہ حضرت ابو بکرؓ کے زمانے میں جو صحیفے لکھے گۓ ظاہر ہے کہ یہ آیت اُن میں موجود تھی، نیز دوسرے صحابہؓ کے پاس قرآن کریم کے جو انفرادی طور  پر لکھے ہوۓ نسخے موجود تھے ان میں یہ آیت بھی شامل تھی، لیکن چونکہ حضرت ابوبکرؓ کے زمانے کی طرح اس مرتبہ بھی اُن تمام متفرق تحریروں کو جمع کیا گیا تھا جو صحابہ کرامؓ کے پاس لکھی ہوئی تھیں اس لیے حضرت زیدؓ وغیرہ نے کوئی آیت ان مصاحف میں اُس وقت تک نہیں لکھی جب تک اُن تحریروں میں بھی وہ نہ مِل گئی ، اس طرح دوسری آیتیں تو متعدد صحابہؓ کے پاس علیٰحدہ لکھی ہوئی بھی ملیں ، لیکن سورہ احزاب کی یہ آیت سواۓ حضرت خُذیمہؓ کے کسی اور کے پاس الگ لکھی ہوئی دستیاب نہیں ہوئی،

(5)       قرآن کریم کے یہ متعدد معیاری نسخے تیار فرمانے کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے وہ تمام انفرادی نسخے نذر آتش فرما دیۓ جو مختلف صحابہؓ کے پاس موجود تھے تاکہ رسم الخط ، مسلمہ قرأتوں کے اجتماع اور سورتوں کی ترتیب کے اعتبار سے تمام مصاحف یکساں ہو جائیں ، اور ان میں کوئی اختلاف باقی نہ رہے ،

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اس کارنامے کو پوری امت نے بہ نظر استحسان دیکھا، اور تمام صحابہؓ نے اس کام میں اُن کی تائید اور حمایت فرمائی ، صرف حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو اس معاملہ میں کچھ رنجش رہی جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں (اس کی تفصیل کے لیے احقر کی مفصل کتاب ’’علوم قرآن’’ ملاحظہ فرمائیے ) حضرت علیؓ فرماتے ہیں :۔

’’عثمانؓ کے بارے میں کوئی بات اُن کی بھلائی کے سِوا نہ کہو، کیونکہ اللہ کی قسم! انہوں نے مصاحف کے معاملہ میں جو کام کیا وہ ہم سب کی موجودگی میں مشورے سے کیا (فتح الباری ٩/١٥)

تلاوت میں آسانی پیدا کرنے کے اقدامات :۔ حضرت عثمانؓ کے مذکورہ بالا کارنامے کے بعد اُمّت کا اس پر اجماع ہو گیا کہ قرآن کریم کو رسم عثمانی کے خلاف کسی اور طریقے سے لکھنا جائز نہیں چنانچہ اس کی بعد تمام مصاحف اِسی طریقے کے مطابق لکھے گۓ، اور صحابہؓ  و تابعینؒ نے مصاحف عثمانی کی نقول تیار کر کر کے قرآن کریم کی وسیع پیمانے  پر اشاعت کی ۔

لیکن ابھی تک قرآن کریم کے نسخے چونکہ نقطوں اور زیر ، زبر ، پیش سے خالی تھے ، اس لیے اہلِ عجم کو ان کی تلاوت میں دشواری ہوتی تھی، چنانچہ جب اِسلام عجمی ممالک میں اور زیادہ پھیلا تو اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ اس میں نقطوں اور حرکات کا اضافہ کیا جاۓ، تاکہ تمام لوگ آسانی سے اس کی تلاوت کر سکیں ، اس مقصد کے لیے مختلف اقدامات کۓ گۓ ، جن کی مختصر تاریخ درج ذیل ہے :

نقطے اہل عرب میں ابتداء حروف پر نقطے لگانے کا رواج نہیں تھا۔ اور پڑہنے والے اس طرز کے اتنے عادی تھے کہ انہیں بغیر نقطوں کی تحریر پڑھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی تھی، اور سیاق و سباق کی مدد سے مشتبہ حروف میں امتیاز بھی بہ آسانی ہو جاتا تھا، خاص طور سے قرآن کریم کے معاملے میں کسی اشتباہ کا امکان اس لیے نہیں تھا کہ اس کی حفاظت کا مدار کتابت پر نہیں ، بلکہ حافظوں پر تھا، اور حضرت عثمانؓ نے جو نسخے عالِم اسلام کے مختلف حصّوں میں بھیجے تھے ان کے ساتھ قاری بھی بھیجے  گۓ تھے جو اسے پڑہنا سکھا سکیں ۔

اس میں روایات مختلف ہیں ، کہ قرآن کریم کے نسخے پر سب سے پہلے نے نقطے ڈالے ؟بعض روایتیں یہ کہتی ہیں کہ یہ کارنامہ سب سے پہلے حضرت ابو الاسود و َلیؒ نے انجام دیا (البرہان ١/٢٥٠) بعض کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ کام حضرت علیؓ کی تلقین کے تحت کیا (صبح الاعشی ٣/١٥٥) اور بعض نے کہا  ہے کہ کوفہ کے گورنر زیاد بن اسفیان نے ان سے یہ کام کرایا اور ایک روایت یہ بھی ہے کہ کارنامہ حجاج بن یوسف نے حسن بصریؒ یحیٰ بن یعمر اور نصرین عاصم الیثیؒ کے ذریعہ انجام دیا (تفسیر القرطبیؒ ١/٦٣)۔

حرکات لفظوں کی طرح شروع میں قرآن کریم پر حرکات (زیر ،زَبر،پیش) بھی تھیں ، اور اس میں بھی روایات کا بڑا اختلاف ہے کہ سب سے پہلے کِس نے حرکات لگائیں ؟ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ یہ کام سب سے پہلے ابوالاسود و وَلیؒ نے انجام دیا، بعض کہتے ہیں کہ یہ کام حجاج بن یوف نے یحیٰ بن یعمرؒ نے نصر بن عاصم لیثیؒ سے کرایا۔ (قرطبی١/٦٣) ۔

اس سلسلے میں تمام روایات کو پیش نظر رکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حرکات سب سے پہلے ابوالاسود و لیؒ نے وضع کیں ، لیکن یہ حرکات اُس طرح کی نہ تھیں جیسی آج کل رائج ہیں بلکہ زبر کے لیے حرف کے اوپر ایک نقطہ(۔۔۰۔۔) زیر کے لیے حرف کے نیچے ایک نقطہ اور پیش کے لیے ضرف کے سامنے ایک نقطہ اور تنوین کے لیے دو نقطے (اوپر یا نیچے یا کھڑے دو نقطے ) مقرر کئے گئے ۔ بعد میں  خلیل بن احمدؒ نے ہمزہ اور تشدید کی علامتیں  وضع کیں (صبح الاعشی ٣/١٦٠و ١٦١) اس کے بعد حجّاج بن یوسف نے یحیٰ بن یعمرؒ ، نصربن عاصم لیثیؒ اور حسن بصریؒ رحمہم اللہ سے بیک وقت قرآن کریم پر نقطے اور حرکات دونوں لگانے کی فرمائش کی، اس موقع پر حرکات کا ظہار کے لیے نقطوں کے بجاۓ زیر ، زبر، پیش کی موجودہ صورتیں مقرر کی گئیں ، تاکہ حروف کے ذاتی نقطوں سے اُن کا التباس پیش نہ آۓ ، واللہ سبحانہٗ اعلم ۔

احزاب یا منزلیں صحابہؒ اور تابعینؒ  کا معمول تھا کہ وہ ہر ہفتے ایک قرآن ختم کر لیتے تھے ، اس مقصد کے لیے انہوں نے روزانہ تلاوت کی ایک مقدار مقرر کی ہوئی تھی جسے ’’حِزب‘‘ یا ’’منزل‘‘ کہا جاتا ہے ، اس طرح پورے قرآن کو کُل سات احزاب پر تقسیم کیا گیا تھا (البرہن ١/٢٥٠)

اجزاء یا  پارے آج کل قرآن کریم تیس (٣٠) اجزاء پر منقسم ہے ، جنہیں تیس پارے  کہا جاتا ہے ، یہ پروں کی تقسیم معنی کے اعتبار سے نہیں ، بلکہ بچوں کو پڑھانے کے لیے آسانی کے خیال سے تیز مساوی حصّوں پر تقسیم کر دیا گیا ہے ، چناچہچ بعض اوقات بالکل ادھوری بات پر پارہ ختم ہو جاتا ہے ، یقین کے ساتھ یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ تیس پاروں کی تقسیم کس نے کی ہے ؟ بعض حضرات کا خیال ہے کہ حضرت عثمانؓ نے مصاحف نقل کراتے وقت انہیں تیس مختلف صحیفوں میں لکھوایا تھا، لہٰذا یہ تقسیم آپ ہی کے زمانہ کی ہے ،لیکن متقدمین کی کتابوں میں اس کی کوئی دلیل احقر کو نہیں مل سکی ، البتہ علامہ بدر الدین زر کشیؒ نے لکھا ہے کہ قرآن کے تیس پارے مشہور چلے آتے ہیں اور مدارس کے قرآنی نسخوں میں ان کا رواج ہے (البرہان ١/ ٢٥٠ و مناہل العرفان ١۔٤٠٢) بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ تقسیم عہدِ صحابہؓ کے بعد تعلیم کی سہولت کے لیے کی گئی ہے ، واللہ اعلم۔

اخماس اور اعشار :۔ قرون اُولیٰ کے قرآنی نسخوں میں ایک اور علامت کا رواج تھا، اور وہ یہ کہ ہر پانچ آیتوں کے بعد (حاشیہ پر) لفظ ’’خمس‘‘ یا ’’خ‘‘ اور ہر دس آیتوں کے بعد لفظ ’’عشر‘‘ یا ’’ع‘‘ لکھ دیتے تھے ، پہلی قسم کی علامتوں کو ’’اخماس‘‘ اور دوسری قم کی علامتوں کو ’’اعشار‘‘ کہا جاتا  تھا(مناھل العرفان ١/٣٠٤) علماء متقدمین میں یہ اختلاف بھی رہا ہے کہ بعض حضرات ان علامتوں کو جائز اور بعض مکروہ سمجھتے تھے ، یقینی طور سے یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ یہ علامتیں سب یہ پہلے کس نے لگائیں ؟ ایک قول یہ ہے کہ اس کا موجد حجاج بن یوسف تھا،اور دوسرا قول یہ ہے کہ سب سے پہلے عباسی خلیف مامون نے اس کا حکم دیا تھا (ابرہان١/٢٥١) لیکن یہ دونوں اقوال اس لیے درست معلوم نہیں ہوتے کہ خود صحابہؓ کے زمانے میں ’’ اعشار‘‘ کا تصوّر ملتا ہے ، چنانچہ حضرت مسروقؒ فرماتے ہیں  کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ مصحف میں ’’ اعشار‘‘ کا نشان ڈالنے کو مکروہ سمجھتے تھے  (مصنف ابن ابی شیبہؒ ٢/٤٩٧)۔

رکوع:۔ ’’اخماس‘‘ ور اعشار‘‘ کی علامتیں تو بعد میں متروک ہو گئیں ،لیکن ایک ور علامت جو آج تک رائج چلی آتی ہے ، رکوع کی علامت ہے ، اور اس کی تعیین قرآن کریم کے مضامین کے لحاظ سے کی گئی ہے ، یعنی جہاں ایک  سلسلہ کلام ختم ہوا وہاں رکوع کی علامت (حاشیہ پر حرف ’’ع‘‘) بنادی گئی، احقر کو جستجو کے باوجود مستند طور پر یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ رکوع کی ابتداء کس نے اور کس دور میں کی؟ البتہ یہ بات تقریباً یقینی ہے کہ اس علامت کا مقصد آیات کی ایسی متوسط مقدار کی تعیین ہے جو ایک رکعت میں پڑھی جا سکے ،اور اس کو ’’رکوع‘‘ اسی لیے کہتے ہیں کہ نماز میں اس جگہ پہنچ کر رکوع کیا جاۓ ، پورے قرآن میں ٥٤٠ رکوع(فتاوٰی عالمگیر یہ میں مشائخ بخارٰی کے حوالے سے رکوعات کی تعداد ٥٤٠ ہی بین کی گئی ہے ،لیکن جب ہم نے قرآن کریم کے مروجہ نسخوں میں خود گنتی کی تو رکوعات کی تعداد ٥٥٨ پائی۔ اور بعض اصحاب نے ہمیں خط میں لکھا کہ ان کی گنتی کے مطابق رکوعات کی ل تعداد ٥٦٧ ہے ، کہ رکوع کی علامت لگانے میں بھی مختلف نسخوں میں کچھ اختلاف رہا ہو، واللہ اعلم: از:۔ناشر ھ۱۴۱۲/۶۱/۱۲) ہیں ، اس طرح اگر تراویح کی ہر رکعت میں ایک رکوع پڑھا جاۓ،تو ستائیسویں شب میں قرآنکریم ختم ہو سکتا ہے (فتاویٰ عالمگیریہ فصل التراویح ١/٩٤)

رموز اوقاف :۔ تلاوت اوسر تجوید کی سہولت کے لیے ایک اور مفید کام یہ کیا گیا کہ مختلف قرآنی جملوں پر ایسے اشارے لکھ دیۓ گۓ جن سے یہ معلمو ہو سکے کہ اس جگہ وقف کرنا (سانس لینا) کیسا ہے ؟ ان اشارات کو ’’ رموزِ اوقاف‘‘ کہتے ہیں ، اور ان کا مقصد یہ ہے کہ ایک غیر عربی داں انسان بھی جب تلاوت کرے تو صحیح مقام پر وقف کر سکے ، اور غلط جگہ سانس توڑنے سے معنی میں کوئی تبدیلی پیدا نہ ہو، اس میں سے اکثر رموز سب سے پہلے علامہ ابو عبد اللہ محمد بن طیفور سجاوندی رحمۃ اللہ علیہ نے وضع فرماۓ (النشری القر آت العشر ١/٢٢٥) ان رموز کی تفصیل یہ ہے ،

ط :۔ یہ ’’ وقفِ مطلق’’ کا مخفف ہے ، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں بات پوری ہوگئی ہے اس لیے یہاں وقف کرنا بہتر ہے

ج :۔ یہ ’’ وقفِ جائز ‘‘ کا مخفف ہے ، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں وقف کرنا جائز ہے ۔

ز    :۔ یہ ’’وقف مجوّز ‘‘ کا مخفف ہے ، جس ما مطلب یہ ہے کہ وقف کرنا درست تو ہے ، لیکن بہتر یہ ہے کہ قف نہ کیا جاۓ۔

ص :۔ یہ ’’وقف مرخّص ‘‘ کا مخفف ہے ، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اس جگہ بات تو پوری  نہیں ہوئی، لیکن جملہ چونکہ طویل ہو گیا ہے ، اس لیے سانس لینے کے لیے دوسرے مقامات کے بجاۓ یہاں وقف کرنا چاہۓ (المخ الفکریّہ، ص ٦٣)

م  :۔ یہ ’’ وقفِ لازم‘‘ کا مخفف ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہاں وقف نہ کیا جاۓ تو آیت کے معنی میں فحش غلطی کا امکان ہے ، لہذا یہاں وقف کرنا زیادہ بہتر ہے ، بعض حضرات اسے وقفِ واجب بھی کہتے ہیں ، لیکن اس سے مراد فقہی واجب نہیں جس کے ترک سے گناہ ہو، بلکہ مقصد صرف یہ ہے کہ تمام اوقات میں اس جگہ وقف کرنا سب سے زیادہ بہتر ہے (انّشر  ١/٢٣١)

لا  :۔ یہ ’’لاتَقِفْ‘‘ کا مخفِّفْ ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’ یہاں اس کا منشاء یہ نہیں کہ یہاں وقف کرنا ناجائز ہے ، بلکہ اس میں بہت سے مقامات ایسے ہیں جہاں وقف کرنے میں کوئی حرج نہیں ، اور اس کے بعد والے لفظ سے ابتداء کرنا بھی جائز ہے ، لہذا اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ اگر یہاں وقف کیا جاۓ تو بہتری یہ ہے کہ اسے دو بارہ لَوٹا کر پڑھا  جاۓ، اگلے لفظ سے ابتداء کرنا مستحسن نہیں (النشر، ص ٢٣٣ج ١) (o گول دائرہ یہ علامتِ آیت ہے ۔ ناشر)

ان رموز کے بارے میں تو یقینی طور پر ثابت ہے کہ یہ علامہ سجاوندیؒ کے وضع کۓ ہوۓ ہیں ان کے علاوہ بھی بعض رموز قرآن کریم کے نسخوں میں موجود ہیں ، مثلاً :۔

مع  : یہ ’’ معانقہ‘‘ کا مخفف ہے ، یہ علامت اس جگہ لکھی جاتی ہے ، جہاں ایک ہی آیت کی دو تفسیریں ممکن ہیں ، ایک تفسیر کے مطابق وقف ایک جگہ ہوگا، اور دوسری تفسیر کے مطابق دوسری جگہ، لہذا ان میں سے کسی ایک جگہ وقف کیا جا سکتا ہے ، لیکن ایک جگہ وقف کرنے کے بعد دوسری جگہ وقف کرنا درست نہیں ، مثلاً  ذٰلِکَ مَفَلُھُمْ فِی التَّوْرٰ ۃِ ۰۰ وَمَثِلُھُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ ۰۰ کَزَرْعٍ اَخُرَجَ شَطْأَہٗ  :الخ اس میں اگر التّوْر ٰۃ پر وقف درست نہیں ، اور اگر اَلْاِنْجِیْل پر وقف کرنا ہے تو اَلتَّوْرٰۃ پر وقف درست نہیں ، ہاں دونوں جگہ وقفت نہ کریں تو درست ہے ، اس کا ایک نام ’’ مقابلہ‘‘ بھی ہے ، اور اس کی سب سے پہلے نشان دہی امام ابولفضل رازیؒ نے فرماؑی ہے ( النُشر ، ص ٢٣٧ ج ١ والاتقان ص ٨٨ ج ١ )

سکتہ  :۔ یہ ’’ سکتہ‘‘ کی علامت ہے ، اور اس کا مقصد یہ ہے کہ اس جگہ رُکنا چاہۓ، لیکن سانس نہ ٹوٹنے پاۓ، یہ عموماً اس جگہ لایا جاتا ہے جہاں ملا کر پڑھنے سے معنی میں غلط فہمی کا اندیشہ ہو۔

 وقفہ   :۔ اس جگہ ’’سکتہ ‘‘ سے قدرے زیادہ دیر تک رُکنا چاہۓ، لیکن سانس یہاں بھی نہ ٹوٹے ۔

ق       :۔  یہ ’’ قِیْلَ عَلَیْہٖ الْوَقْفُ ‘‘ کا مخفُف ہے ،مطلب یہ ہے کہ بعض حضرات کے نزدیک یہاں وقف ہے ور بعض کے نزدیک نہیں ہے ۔

قف    :۔ یہ لفظ ’’ قِفْ‘‘ ہے جس کے معنی ہیں ’’ ٹھہر جاؤ‘‘ ۔ اور یہ اس جگہ لایا جاتا ہے جہاں پڑہنے والے کو یہ خیال ہو سکتا ہو کہ یہاں وقف درست نہیں ۔

صلے  :۔ یہ ’’ اَلْوَصْلُ اَوْلیٰ ‘‘ کا مخفّف ہے جس کے معنی ہیں کہ ’’ ملا کر پڑھنا بہتر ہے ‘‘۔

صل    :۔ یہ ’’قَدْ یَوْصَلُ‘‘ کا مخفّف ہے ، یعنی یہاں بعض لوگ ٹھہرتے ہیں اور بعض ملا کر پڑھنے کو پسند کرتے ہیں ۔

وقف النّبی صلّی اللہ علیہ و سلم : یہ اُن مقامات پر لکھا جاتا ہے جہاں کِسی روایت کی رُو سے یہ ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے تلاوت کرتے ہوۓ س جگہ وقف فرمایا تھا۔

قرآن کریم کی طباعت :۔ جب تک پریس ایجاد نہیں ہوا تھا قرآن کریم کے تمام نسخے قلم سے لکھے جاتے تھے ، اور ہر دَور میں ایسے کاتبوں کی ایک بڑی جماعت موجود رہی ہے جس کا کتابت قرآن کے سوا کوئی مشغلہ نہیں تھا، قرآن کریم کے حروف کو بہتر سے بہتر انداز میں لکھنے کے لیے مسلمانوں نے جو محنتیں کیں اور جس طرح اس عظیم کتاب کے ساتھ اپنے والہانہ شغف کا اظہار کیا، اس کی ایک بڑی مفصّل اور دلچسپ تاریخ ہے جس کے لیے مستقِل تصنیف چاہۓ، یہاں اس کی تفصیل کا  موقع نہیں ۔

پھر جب پریس ایجاد ہوا تو سب سے پہلے ہیمبرگ کے مقام پر ١١١٣ ء میں قرآن کریم طبع ہوا جس کا ایک نسخہ اب تک دارالکتب المصریہّ میں موجود ہے ، اس کے بعد بتعدد مستشرقین نے قرآن کریم کے نسخے طبع کراۓ، لیکن اسلامی دنیا میں ان کو قبولیت حاصل نہ ہو سکی ، اس کے بعد مسلمانوں میں سب سے پہلے مولاۓ عثمان نے روس کے شہر سینٹ پیٹرس برگ  میں ١٧٨٧ ء میں قرآن کریم کا ایک نسخہ طبع کرایا، اسی طرح قازان میں بھی ایک نسخہ چھاپا گیا ، ١٨٢٨ ء میں ایران کے شہر تہران میں قرآن کریم کو پتھر پر طبع کیا گیا ، پھر اس کے مطبوعہ نسخے دنیا بھر میں عام ہوگۓ۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تاریخ القرآن للکر دیؒ ص ١٨٦، اور علوم القرآن ، ڈاکٹر صبحی صالح اردو ترجمہ از غلام احمد حریری ١٤٢ )۔

 

علم تفسیر

اب کچھ  ضروری معلومات علمِ تفسیر کے سلسلے میں پیش خدمت ہیں ، عربی زبان میں ’’ تفسیر‘‘ کے لفظی معنی ہیں ’’ کھولنا‘‘ اور اصطلاح میں علم تفسیر اس علم کو کہتے ہیں اس علم کو کہتے ہیں جس میں قرآن کریم کے معانی بیان کئے جائیں ، اور اس کے احکام اور حکمتوں کو کھول کر واضح کیا جاۓ (البرہان) قرآن کریم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے خطاب کرتے ہوۓ ارشاد ہے :۔

وَاَ نْزَ لْنَآ اِلَیْکَ  الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْo (٤٤:١٦)۔

’’ اور ہم نے قرآن آپؐ پر اُتارا تاکہ آپؐ لوگوں کے سامنے وہ  باتیں وضاحت سے بیان فرما دیں جو اُن کی طرف اُتاری گئیں ہیں ‘‘۔

نیز قرآن کریم کا ارشاد ہے :۔

لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمُ رَسُوْلاً مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیَزَ کِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَo ۚ (١٦٤:٣)

بِلا شبہ  اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا جب کہ اُن کے درمیان ان ہی میں سے ایک رسولؐ بھیجا ، جو اُن کے سامنے اللہ کی آیات کی تلاوت کرے ، اور انہیں پاک صاف کرے ، اور انہیں اللہ کی کتاب اور دانائی کی باتوں کی تعلیم دے ‘‘۔

چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم صحابۂ کرامؓ کو صرف قرآن کریم کے الفاظ ہی نہیں سکھاتے تھے ، بلکہ اس کی پوری تفسیر بیان  فرمایا کرتے تھے ، یہی وجہ ہے کہ صحابۂ کرامؓ کو ایک ایک سورت پڑھنے میں بعض اوقات کئی کئی سال لگ جاتے تھے ، جس کی تفصیل انشاء اللہ آۓ گی۔

جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم دنیا میں تشریف فرما تھے  اُس وقت تک کسی  آیت کی تفسیر معلوم  کرنا کچھ مشکل نہیں تھا، صحابۂ کرامؓ کو جہاں کوئی دشواری پیش آتی وہ آپؐ سے رجوع  کرتے اور انہیں تسلی بخش جواب مِل جاتا، لیکن آپؐ کے بعد اس بات کی ضرورت تھی کہ تفسیر قرآن کو ایک مستقِل علم کی صورت میں محفوظ کیا جاتا،  کہ اُمّت کے لیے قرآن کریم کے الفا ظ کے ساتھ ساتھ اس کے صحیح معنی بھی محفوظ ہو جائیں ، اور ملحد و گمراہ لوگوں کے لیے اس کی معنوی تحریف کی گنجائش باقی نہ رہے ، چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی توفیق سے اس امّت نے یہ کارنامہ اس حُسن و خوبی سے انجام دیا کہ آج ہم یہ بات بلا خوفِ تردید کہہ سکتے ہیں کہ اللہ کی اس آخری کتاب کے صرف الفاظ ہی محفوظ نہیں ہیں بلکہ اس کی وہ صحیح تفسیر و تشریح بھی محفوظ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور آپؐ کے  جاں نثار صحابہؓ کے ذریعہ ہم تک پہنچی ہے ۔

تفسیر قرآن کے مآخذ:۔ علمِ تفسیر کو اس اُمّت نے کس کس طرح محفوظ کیا؟ اس راہ میں انہوں نے کیسی کیسی مشقتیں اُٹھائیں ؟ اور یہ جدّو جہد کتنے مراحل سے گزری ؟ اس کی ایک طویل اور دلچسپ تاریخ ہے جس کا یہاں موقع نہیں ،(اس کے لیے علوم القرآن پر احقر کی مفصّل کتاب ملاحظہ فرماییۓ) لیکن یہاں مختصراً یہ بتانا ہے کہ تفسیر قرآن کے مآخذ کیا کیا ہیں ؟ اور عِلم تفسیر پر جو بے شمار کتابیں ہر زبان میں ملتی ہیں انہوں نے قرآن کریم کی تشریح میں کِن سر چشموں سے استفادہ کیا ہے ، یہ سر چشمے کُل چھ(٦) ہیں ۔

ا۔ قرآن کریم

علم تفسیر کا پہلا مآخذ خود قرآن کریم ہے ، چنانچہ ایسا بہ کثرت ہوتا ہے کہ کسی آیت میں کوئی بات مجمل اور تشریح  طلب ہوتی ہے تو خود قرآن کریم ہی کی کوئی دوسری آیت اس کے مفہوم کو واضح کر دیتی ہے ، مثلاً سورۂ فاتحہ کی دُعاء میں یہ جملہ موجود ہے کہ ’’ صِراطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہمْ o ‘‘ یعنی ’’ ہمیں اُن لوگوں کے راستہ کی ہدایت کیجۓ جن پر آپ کا انعام ہوا‘‘ اب یہاں یہ بات واضح نہیں ہے کہ وہ لوگ کون ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا ، لیکن ایک دوسری آیت میں ان کو واضح طور سے متعیّن کر دیا گیا ہے ، چنانچہ ارشاد ہے :

فَاُ و لٰٓئِکَ مَعَ ا لَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ  وَالصِّدِّ یْقِیْنَ وَ الشُّھَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَ  ۚ o

’’ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے انعام فرمایا ، یعنی انبیاء صدّیقین، شہداء اور صالح لوگ‘‘۔

چنانچہ مفسرین کرامؒ جب کِسی آیت کی تفسیر کرتے ہیں تو سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ اس آیت کی تفسیر خود قرآن کریم ہی میں کسی اور جگہ موجود یا نہیں ؟ اگر موجود ہوتی ہے تو سب سے پہلے اسی کو اختیار فرماتے ہیں ۔

٢ ۔ حدیث

’’حدیث‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اقوال و افعال کو کہتے ہیں ، اور جیسا کہ پیچھے بیان کیا جا چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ساتھ آپؐ کو مبعوث ہی اس لیے فرمایا تھا کہ آپؐ لوگوں کے سامنے قرآن کریم کی صحیح تشریح کھول کھول کر بیان فرمادیں ، چنانچہ آپؐ نے اپنے قول اور عمل دونوں سے یہ فریضہ بحُسن و خوبی انجام دیا، اور در حقیقت آپؐ کی پوری مبارک زندگی قرآن ہی کی عملی  تفسیر ہے ۔ اس لیے  مفسرین کرامؒ نے قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ زور حدیث  پر دیا ہے ، اور احادیث کی روشنی میں کتاب اللہ  کے معنی متعین  کۓ ہیں ، البتہ چونکہ حدیث میں صحیح، ضعیف اور موضوع ہر طرح کی روایات موجود ہیں ، اس لیے محقق ، مفسّرین اس وقت تک کسی روایت کو قابِل اعتماد نہیں سمجھتے جب تک وہ تجقید روایات کے اصولوں پر پوری نہ اُترتی ہو، لہذا جو روایت جہاں نظر آ جاۓ اُسے دیکھ کر قرآن کریم کی کوئی تفسیر متعین کر لینا درست نہیں ، کیونکہ وہ روایت ضعیف اور دوسری مضبوط روایتوں کے خلاف بھی ہو سکتی ہے ، درحقیقت یہ معاملہ بڑا نازک ہی اور اس میں قدم رکھنا ان ہی لوگوں کا کام ہے جنہوں نے اپنی عمریں ا ن علوم کو حاصل کرنے میں خرچ کی ہیں۔

٣ ۔ صحابہؓ کے اقوال

صحابہ کرامؓ نے قرآن کریم کی تعلیم براہ راست آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے حاصل کی تھی، اس کے علاوہ نزول وحی کے وقت وہ بہ نفس نفیس موجود تھے ، اور انہوں نے نزولِ قرآن کے پورے ماحول اور پس منظر کا بذاتِ خود مشاہدہ کیا تھا ، اس لیے فطری طور پر قرآن کریم کی تفسیر میں ان حضرات کے اقوال جتنے مستند اور قابِل اعتماد ہو سکتے ہیں ، بعد کے لوگوں کو وہ مقام حاصل نہیں ہو سکتا، لہذا جن آیتوں کی تفسیر قرآن یا حدیث سے معلوم نہیں ہوتی ان میں سب سے زیادہ اہمیت صحابہ کرامؓ کے اقوال کو حاصل ہے ، چنانچہ اگر کسی آیت کی تفسیر پر صحابہؓ کا اتفاق ہو تو مفسرینکرام اسی کو اختیار کرتے ہیں اور اس کے خلاف کوئی اور تفسیر بیان کرنا جائز نہیں ، ہاں !  اگر کسی آیت کی تفسیر میں صحابہ کرامؓ کے اقوال مختلف ہوں تو بعد کے مفسرین دوسرے دلائل کی روشنی میں یہ دیکھتے ہیں کہ کون سی تفسیر کو ترجیح دی جاۓ ؟ اس معاملہ میں اہم اصول اور قواعد اصول فقہ ، اصولِ حدیث اور اصول تفسیر میں مدوّن ہیں ، ان کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں ۔

٤۔ تابعینؓ کے اقوال

صحابہؓ کے بعد تابعینؒ کا نمبر آتا ہے ، یہ وہ حضرات ہیں جنہوں نے قرآن کریم کی تفسیر  صحابہ کرامؓ سے سیکھی ہے ، اس لیے اُن کے اقوال بھی علم تفسیر میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں ، اگرچہ اس معاملہ میں علماء کا اختلاف ہے کہ تابعینؒ کے اقوال تفسیر میں حجت ہیں یا نہیں ؟ ( الاتقان ٢/١٧٩) لیکن ان کی اہمیت سے انکار نہیں  کیا جا سکتا ہے ۔

٥ ۔  لُغتِ عرب

قرآن کریم چونکہ عربی زبان میں نازل ہوا ہے ، اس لیے تفسیر قرآن کے لیے اس زبان پر مکمل عبور حاصل کرنا ضروری ہے ، قرآن کریم کی بہت سی آیات ایسی ہیں کہ ان کے پس منظر میں چونکہ کوئی  شانِ نزول یا کوئی اور فقہی یا کلامی مسئلہ نہیں ہوتا، اس لیے اُن کی تفسیر میں آنحضرت  صلی اللہ علیہ و سلم یا صحابہؓ و تابعینؒ کے اقوال منقول نہیں ہوتے ، چنانچہ اُن کی تفسیر کا ذریعہ صف لُغت عرب ہوتی ہے اور لغت ہی کی بنیاد پر اس کی تشریح کی جاتی ہے ، اس کے علاوہ اگر کسی آیت  کی تفسیر میں کوئی اختلاف ہو تو مختلف آراء میں محاکمہ کے لیے بھی علم لغت سے کام لیا جاتا ہے ۔

٦۔ تدبّر اور استنباط

تفسیر کا آخری مأخذ ’’ تدبّر اور اتنباط‘‘ ہے ، قرآن کریم کے نکات و اسرار ایک ایسا بحر نا پیدا کنار ہے ، جس کی کوئی حدّو نہایت نہیں ، چنانچہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے اسلامی علوم میں بصیرت عطا فرمائی ہو وہ جتنا جتنا اس میں غور و فکر کرتا ہے اُتنے ہی نۓ  نۓ اسرار و نکات سامنے آتے ہیں ، چنانچہ مفسرین کرامؒ اپنے اپنے تدبّر کے نتائج بھی اپنی تفسیروں میں بیان فرماتے ہیں ، لیکن یہ اسرار و نکات اسی وقت قابل قبول ہوتے ہیں جب کہ وہ مذکورہ بالا پانچ مآخذ سے متصادم نہیں ہوں ، لہذا اگر کوئی شخص قرآن کی تفسیر میں کوئی ایسا نکتہ یا اجتہاد بیان کرے جو قرآن و سنت ، اجماع، لغت یا صحابہؓ کے اقوال کے خلاف ہو یا کسی دوسرے شرعی اصول سے ٹکراتا ہو تو اس کا کوئی اعتبار نہیں بعض صوفیاءؒ نے تفسیر میں اس قسم کے اسرار و نکات بیان کرنے شروع کئے تھے ،لیکن اُمّت کے محقق علماء نے انہیں قابِل اعتبار نہیں سمجھا، کیونکہ قرآن و سنت اور شریعت کے بنیادی اصولوں کے خلاف کسی کی شخصی راۓ ظاہر ہے کہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی (اتقان ٢/١٨٤)

اسرائیلیات کا حکم  :۔  ’’ اسرائیلات‘‘ اُن روایتوں کو کہتے ہیں جو اہل کتاب یعنی یہودیوں  اور عیسائیوں سے ہم تک پہنچی ہیں ، پہلے زمانے کے مفسرینؒ کی عادت تھی کہ وہ کسی آیت کے ذیل میں ہر قسم کی وہ روایات لکھ دیتے تھے جو انہیں سند کے ساتھ پہنچتی تھیں ، ان میں بہت سی روایتیں اسرائیلیات بھی ہوتی تھیں ، اس لیے اُن کی حقیقت سے واقف ہونا بھی ضروری ہے ، ان کی حقیقت یہ ہے کہ بعض صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ پہلے اہل کتاب کے مذہب سے تعلق رکھتے تھے ، بعد میں جب وہ مشرف بہ اسلام ہوۓ اور قرآن کریم کی تعلیم حاصل کی تو انہیں قرآن کریم میں پچھلی اُمّتوں کے بہت سے وہ واقعات نظر آۓ جو انہوں نے اپنے سابقہ مذہب کی کتابوں  میں بھی پڑھے تھے ، چنانچہ وہ قرآن واقعات کے سلسلے میں وہ تفصیلات مسلمانوں کے سامنے بیان کرتے تھے  جو انہوں نے اپنے پُرانے مذہب کی کتابوں میں دیکھی تھیں ، یہی تفصیلات اسرائیلیات کے نام سے تفسیر کی کتابوں میں داخل ہو گئی ہیں ، حافظ ابن کثیرؒ نے جو بڑے محقق مفسرین میں سے ہیں ، انہوں نے لکھا ہے کہ اسرائیلیات کی تین قومیں ہیں :

١۔ وہ روایات جن کی سچائی قرآن و سنت کے دوسرے دلائل سے ثابت ہے ، مثلاً فرعون کا غرق ہونا اور حضرت موسٰی علیہ السلام کا کوہ طور پر تشریف لے جانا وغیرہ ۔

٢۔ وہ روایات جن کا جھوٹ ہونا قرآن و سنت کے دوسرے دلائل سے ثابت ہے ، مثلاً  اسرائیلی  روایات میں یہ مذکور ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام اپنی  آخری عمر میں ( معاذ اللہ)  مرتد ہو گۓ تھے ، اس کی تردید قرآن  کریم سے ثابت ہے کہ : وَمَا کَفَرَ وُلَیْمٰنُ وَلٰکِنَّ الشَّیٰطِیْنَ کَفَرُوْا ؕ  (١٠٢:٢) ،( اور سلیمانؑ کافر نہیں ہوۓ ، بلکہ شیاطین نے کفر کیا) اسی طرح مثلاً اسرائیلی روایات میں مذکور ہے کہ ( معاذ اللہ) حضرت داؤد علیہ السلام نے اپنے سپہ سالار اورؔیا کی بیوی سے زنا کیا ، یا اُسے مختلف تدبیروں سے مروا کر اس کی بیوی سے نکاح کر لیا، یہ بھی کھُلا جھوٹ ہے اور اس قسم کی روایتوں کو غلط سمجھنا لازم ہے ۔

٣۔ وہ روایات جن کے بارے میں قرآن و سنت اور دوسرے شرعی دلائل خاموش ہیں ، جیسے کہ تورات کے احکام وغیرہ ، ایسی روایات کے بارے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیم یہ ہے کہ ان کے بارے میں سکوت ایسی روایات کو نقل کرنا جائز بھی ہے یا نہیں ؟ حافظ ابن کثیرؒ نے قول فیصل یہ بیان کیا ہے کہ انہیں نقل کرنا جائز تو ہے لیکن اس ے کوئی فائدہ نہیں ، کیونکہ شرعی اعتبار سے وہ حجت نہیں ہے (مقدمہ تفسیر ابن کثیر)

 

تفسیر قرآن کے بارے میں ایک شدید غلط فہمی

مذکورہ بالا تفصیل سے یہ بات واضح ہو گئی ہوگی کہ قرآن کریم کی تفسیر ایک انتہائی نازک اور مشکل کام ہے ، جس کے لیے صرف عربی زبان جان لینا کافی  نہیں ، بلکہ تمام متعلّقہ علوم میں مہارت ضروری ہے ، چنانچہ علماء نے لکھا ہے کہ مفسر قرآن کے لیے ضروری ہے کہ وہ عربی زبان کے نحو و صرف اور بلاغت و  ادب کے علاوہ علم حدیث ، اصول فقہ و تفسیر اور عقائد و کلام کا وسیع و عمیق علم رکھتا ہو، کیونکہ جب تک ان علوم سے مناسبت نہ ہو، انسان قرآن کریم کی تفسیر میں کسی صحیح نتیجے تک نہیں پہنچ سکتا ۔

افسوس ہے کہ کچھ عرصہ سے مسلمانوں میں یہ خطرناک و با چل پڑی ہے کہ بہت سے لوگوں نے صرف عربی  پڑھ لینے کو تفسیر قرآن کے لیے کافی سمجھ رکھا ہے ، چنانچہ جو شخص بھی معمولی عربی زبان پڑھ لیتا ہے ، وہ قرآن کریم کی تفسیر میں راۓ زنی شروع کر دیتا ہے ، بلکہ بعض اوقات ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ عربی زبان کی نہایت معمولی شُدھ بُدھ رکھنے والے لوگ جنہیں عربی پر بھی مکمل عبور نہیں ہوتا، نہ صرف من مانے طریقے پر قرآن کی تفسیر شروع کر دیتے ہیں بلکہ پُرانے مفسرین کی غلطیاں نکالنے کے در پے ہو جاتے ہیں ، یہاں تک کہ بعض ستم ظریف تو صرف ترجمے کا مطالعہ کر کے اپنے آپ کو قرآن کا عالم سمجھنے  لگتے ہیں اور بڑے بڑے مفسرین پر تنقید کرنے سے نہیں چُوکتے ۔

خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہۓ کہ یہ انتہائی خطرناک طرز عمل ہے جو دین کے معاملہ میں نہایت مہلک گمراہی کی طرف لے جاتا ہے ، دنیوی علوم  و فنون کے بارے میں ہر شخص اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ اگر کوئی شخص محض انگریزی زبان  سیکھ کر میڈیکل سائنس کی کتابوں کا مطالعہ کر لے تو دنیا کا کوئی صاحب عقل اُسے ڈاکٹر تسلیم نہیں کر سکتا ، اور نہ اپنی جان اس کے حوالے کر سکتا ہے ، جب تک کہ اس نے کسی میڈیکل کالج میں باقاعدہ تعلیم و تربیت حاصل نہ کی ہو، اس لیے کہ ڈاکٹر بننے  کے لیے صرف انگریزی سیکھ لینا کافی نہیں ، بلکہ باقاعدہ ڈاکٹری کی تعلیم و تربیت حاصل کرنا ضروری ہے ، اسی طرح کوئی انگریزی داں انجینئر  تسلیم نہیں کر سکتا ، اس لیے کہ یہ کام صرف انگریزی زبان سیکھنے سے نہیں آ سکتا ، بلکہ اس کے لیے ماہر اساتذہ کے زیر تربیت رہ کر ان سے باقاعدہ اس فن کو سیکھنا ضروری ہے ، جب ڈاکٹر اور انجنیئر بننے کے لیے یہکڑی شرائط ضروری ہیں تو آخر قرآن و حدیث کے معاملہ میں صرف عربی زبان سیکھ لینا کیسے کافی ہو سکتا ہے ، زندگی کے ہر شعبہ میں ہر شخص اس اصول کو جانتا  اور اس پر عمل کرتا ہے کہ ہر علم و فن کے سیکھنے کا ایک خاص طریقہ اور اس کی مخصوص شرائط ہوتی ہیں ، جنہیں پورا  کئے بغیر اس علم و فن میں اس کی راۓ معتبر نہیں سمجھی جاتی ، تو آخر قرآن و سنت اتنے لا وارث کیسے ہو سکتے ہیں کہ ان کی تشریح و تفسیر کے لیے کسی علم و فن کے حاصل کرنے کی ضرورت نہ ہو ، اور اس کے معاملہ میں جو شخص چاہے راۓ زنی شروع کر دے ؟

بعض لوگ کہتے ہیں کہ قرآن کریم نے خود ارشاد فرمایا ہے کہ :۔

وَلَقَدْ یَسَّرْنَا لقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ  (١٧١:٥٤ )

’’ اور بلاشبہ ہم نے قرآن کریم کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان کر دیا ہے ‘‘۔

اور جب قرآن کریم ایک آسان کتاب ہے تو اس کی تشریح کے لیے کسی لمبے چوڑے علم و فن کی ضرورت نہیں ،لیکن یہ استدلال ایک شدید مغالطہ ہے جو خود کم فہمی اور سطحیّت پر مبنی ہے ، واقعہ یہ ہے کہ قرآن کریم کی آیات دو قسم کی ہیں ، ایک تو وہ آیتیں ہیں جن میں عام نصیحت کی باتیں ، سبق آموز واقعات اور عبرت و موعظت کے مضامین بیان کۓ گۓ ہیں ، مثلاً دنیا کی ناپائداری، جنت و دوزخ کے حالات ، خوفِ خدا اور فکرِ آخرت پیدا کرنے والی باتیں ، اور زندگی کے دوسرے سیدھے سادے  حقائق ، اس قسم کی آیتیں بلا شبہ آسان ہیں ، اور جو شخص بھی عربی زبان سے واقف ہو وہ انہیں سمجھ کر نصیحت حاصل کر سکتا ہے ، مذکورہ بالا آیت میں اسی قسم کی تعلیمات کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ ان کو ہم نے آسان  کر دیا ہے ، چنانچہ خود اس آیت میں لفظ لِلذِّکْرِ (نصیحت کے واسطے ) اس پر دلالت کر رہا ہے ۔

اس کے  برخلاف دوسری قسم کی آیتیں وہ ہیں جو احکام و قوانین، عقائد اور علمی مضامین پر مشتمل ہیں ، اس قسم کی آیتوں کا کماحقہ، سمجھنا اور ان سے احکام و مسائل مستنبط کرنا ہر شخص کا کام نہیں جب تک اسلامی علوم میں بصیرت اور پختگی حاصل ہ ہو، یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ کی مادری زبان اگر چہ عربی تھی، اور عربی سمجھنے کے لیے انہیں کہیں تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت نہیں تھی، لیکن وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرنے میں طویل مدتیں  صرف کرتے تھے ، علّامہ سیوطیؒ نے امام ابو عبدالرحمٰن سلمیؒ سے نقل کیا ہے کہ جن حضرات صحابہؓ نے سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے قرآن کریم کی باقاعدہ تعلیم  حاصل کی ہے ، مثلاً حضرت عثمان بن عفّانؓ اور عبداللہ بن مسعودؓ وغیرہ انہیں نے ہمیں بتایا کہ جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے قرآن کریم کی دس آیتیں سکھتے تو اس وقت تک آگے نہیں بڑھتے تھے جب تک ان آیتوں کے متعلق تمام علمی اور عملی باتوں کا احاطہ نہ کر لیں ، وہ فرماتے تھے کہ :۔

فتعلّمنا القراٰن  والعلم والعمل جمیعاً

’’ہم نے قرآن اور علم و عمل ساتھ ساتھ سیکھا ہے ‘‘ (اتقان ٢/١٧٢)

چنانچہ مؤطاً امام مالکؒ میں روایت ہے کہ حضرت  عبداللہ بن عمرؓ نے صرف سورہ بقرہ یاد کرنے میں پورے آٹھ سال صرف کئے ، مسند احمدؒ میں حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ ہم میں سے جو شخص سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران پڑھ لیتا ہماری نگاہوں میں اُس کا مرتبہ بہت بلند ہو جاتا تھا (اتقان ٢/١٧٢ نوع ٧٧)

غور کرنے کی بات یہ ہے کہ یہ حضرات صحابہؓ جن کی مادری عربی تھی ، جو عربی کے شعر و ادب میں مہارت تامّہ رکھتے تھے ، اور جن کو لمبے لمبے قصیدے معمولی توجہ سے از بر ہو جایا کرتے تھے ، انہیں قرآن  کریم کو یاد کرنے اور اس کے معانی سمجھنے کے لیے اتنی طویل مدّت کی کیا ضرورت تھی کہ آٹھ آٹھ سال صرف ایک سورت پڑہنے میں خرچ ہو جائیں ؟ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ قرآن کریم اور اس کے علوم کو سیکھنے کے لیے صرف عربی زبان کی مہارت کافی نہیں تھی، بلکہ اس کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم  کی صحبت اور تعلیم سے فائدہ اٹھانا ضروری تھا، اب ظاہر ہے کہ جب صحابہ کرامؓ کو عربی زبان کی  مہارت اور نزول وحی  کا براہ راست مشاہدہ کرنے کے باوجود ’’ عالِم قرآن‘‘ بننے کے لیے باقاعدہ حضورؐ سے تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت تھی تو نزول قرآن کے سینکڑوں سال بعد عربی کی معمولی  شُد بُد پیدا کر کے یا صرف ترجمے دیکھ کر مفسِّر قرآن  بننے کا دعویٰ کِتنی بڑی جسارت اور علم و دین کے ساتھ کیسا افسوسناک مذاق ہے ؟ ایسے لوگوں کو جو اس جسارت کا ارتکاب کرتے ہیں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ :۔

من قال فی القراٰن بغیر علم فلیتبوّأ مقعدہ فی النّار

’’ جو شخص قرآن کے معاملہ میں علم کے بغیر کوئی بات کہے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنّم میں بنا لے ‘‘ (ابو داؤدؒ، از اتقان ٢/١٧٩)

اور :۔ من تکلّم فی القراٰن برأیہ فأ صاب فقد أ خطأ

’’ جو شخص قرآن کے معاملے میں (محض) اپنی راۓ سے گفتگو کرے اور اس میں کوئی صحیح بات بھی کہدے تب بھی  اس نے غلطی کی‘‘(ابوداؤد نسائیؒ ، از اتقان ٢/١٧٩)

 

مشہور تفسیریں

عہد رسالتؐ کے بعد سے قرآن  کریم کی بے شمار تفسیریں لکھی گئی ہیں ، بلکہ دنیا کی کسی کتاب کی بھی اتنی خدمت نہیں کی گئی، جتنی قرآن کریم کی کی گئی ہے ، ان سب تفاسیر کا تعارف کسی مفصّل کتاب میں بھی ممکن نہیں ، چہ جائیکہ اس مختصر مقدمہ میں اس کا ارادہ کیا جاۓ، لیکن یہاں ہم اُن اہم تفسیروں کا مختصر تعارف کرانا چاہتے ہیں جو معارف القرآن کا خاص مأخذ رہی ہیں ، اور جن کو حوالہ معارف القرآن میں  بار بار آیا ہے ، اگر چہ معارف القرآن  کی تصنیف کے دوران بہت سی تفاسیر اور سینکڑوں کتابیں پیش نظر رہی ہیں ، لیکن یہاں صرف اُن تفاسیر کا تذکرہ مقصود ہے جن کے حوالے بکثرت آئیں گے ۔

تفسیر ابن جریر :۔ اس تفسیر کا اصل نام ’’ جامع البَیان ‘‘ہے ، اور یہ علامہ ابو جعفر محمد بن جریر طبریؒ (متوفی ٣١٠ ھ) کی تالیف ہے ، علامہ بطریؒ اونچے درجے کے مفسر، محدّث اور مؤرخ ہیں ، منقول ہے کہ وہ چالیس (٤٠) سال تک مسلسل لکھنے میں مشغول رہے ، اور ہر روز چالیس (٤٠)ورق لکھنے کا معمول تھا (البدایہ والنہایہ ، ص ١٤٥ ج ١١) بعض حضرات نے ان پر شیعہ ہونے کا الزام عائد کیا ہے ، لیکن محققین نے اس الزام کی تردید کیہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ وہ اہل سنت کے جلیل القدر عالم ہیں ، بلکہ ان کا شمار ائمہ مجتہدین میں ہوتا ہے ۔

ان کی تفسیر تیس (٣٠) جلدوں میں ہے ، اور بعد کی تفاسیر کے لیے بنیادی مآخذ کی حیثیت رکھتی ہے ، وہ آیات کی تفسیر میں علماء کے مختلف اقوال نقل کرتے ہیں ، اور پھر جو قول اُن کے نزدیک راجح ہوتا ہے اسے دلائل کے ذریعہ ثابت کرتے ہی، البتہ ان کی تفسیر میں صحیح و سقیم ہر طرح کی روایات جمع ہو گئی ہیں ، اس لیے اُن کی بیان کی ہوئی ہر روایت پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا، در اصل اس تفسیر  سے ان کا مقصد یہ تھا کہ تفسیر قرآن کے بارے میں جس قدر روایات انہیں دستیاب ہو سکیں اُن سب کو جمع کر دیا جاۓ، تاکہ اس جمع شدہ مواد سے کام لیا جا سکے ، البتہ انہوں نے ہر روایت کے ساتھ اس کی سند بھی ذکر کی ہے ، تاکہ جو شخص چاہے راویوں کی تحقیق کر کے روایت کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کر سکے ۔

تفسیر ابن کثیر:۔  یہ حافظ عماد الدین ابو الفداء اسماعیل بن کثیر ومشقی شافعی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ٧٧٤ھ) کی تصنیف ہے ، جو آٹھویں صدی کے ممتاز اور محقق علماء میں سے ہیں ، اُن کی تفسیر چار جلدوں میں شائع ہو چکی ہے ، اس میں زیادہ زور تفسیری روایات پر دیا گیا ہے ، اور خاص بات یہ ہے کہ مصنفؒ روایتوں پر محدّثانہ تنقید بھی کرتے ہیں ، اور اس لحاظ سے یہ کتاب تمام کتبِ تفسیر  میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہے ۔

تفسیر القرطبی :۔  اس کا پورا نام ’’ الجامع الاحکام القرآن ‘‘ ہے ، اندلس کے مشہور اور محقق عالم علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد بن ابی بکر بن فرح القرطبیؒ (متوفی ٦٧١ھ) کی تصنیف ہے ، جو فقہ میں امام مالکؒ کے مسلک کے پَیرو تھے ، اور عبادت و زھد کے اعتبار سے شہرۂ آفاق تھے ، اصل میں اس کتاب کا بنیادی موضوع تو قرآن کریم سے فقہی احکام و مسائل کا استنباط تھا لیکن اس ضمن میں انہوں نے آیتوں کی تشریح، مشکل الفاظ کی تحقیق، اعراب و بلاغت اور متعلقہ روایات کو بھی تفسیر میں خوب جمع کیا ہے ، یہ کتاب بارہ جلدوں میں ہے ، اور بار بار شائع ہو چکی ہے ۔

تفسیر کبیر :۔  امام فخر الدین رازیؒ (متوفی ٦٠٦ ھ ) کی تصنیف ہے ، اور اس کا اصلی نام ’’ مفاتیح الغیب‘‘ ہے ، لیکن ’’تفسیر کبیر ‘‘ کے نام سے مشہور ہے ، امام رازیؒ  متکلمینِ اسلام کے امام ہیں ، اس لیے ان کی تفسیر میں عقلی اور کلامی مباحث اور باطل فرقوں کی تردید پر بہت زور دیا گیا ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ حلِ قرآن کے لحاظ سے بھی  یہ تفسیر اپنی نظیر آپ ہے ، اور اس میں جس دلنشین انداز میں قرآن کریم کے معانیکی توضیح اور آیاتِ قرآنی کے باہمی ربط کی تشریح کی گئی ہے ، وہ بڑا قابِل قدر ہے ، اغلب یہ ہے کہ امام رازیؒ نے سورہ فتح تک کی تفسیر خود لکھی ہے ، اس کے بعد وہ اسے پورا  ہکر سکے ،چنانچہ سورہ فتح سے آخر تک کا حصّہ قاضی شہاب الدین بن خلیل الخولی الدمشقیؒ (متوفی ٦٣٩ ھ) یا شیخ نجم الدین احمد بن محمد القمولیؒ (متوفی ٧٧٧ ھ ) نے مکمل فرمایا (کشف الظنون ٢/٤٧٧)

امام رازیؒ نے اپنے زمانے کی ضرورت کے مطابق چونکہ کلامی  بحث اور باطل فرقوں کی تردید پر خاص زور دیا ہے ، اور اس ضمن میں ان کی بحثیں بہت سے مقامات پر انتہائی طویل ہو گئی ہیں ، اس لیے بعض حضرات نے اُن کی تفسیر پر یہ تبصرہ کیا ہے کہ : فِیْہِ کُلُّ شَیْ ءٍ اِلُّا التَّفْسِیْر ( اس کتب میں تفسیر کے سوا سب کچھ ہے ) لیکن یہ تبصرہ تفسیر کبیر پر بڑا ظلم ہے ، اور حقیقت وہی ہے جو اوپر بیان ہوئی، کہ حلِّ قرآن کے لحاظ سے بھی اس تفسیر کا پایہ بہت بلند ہے ، البتہ چند ایک مقامات پر انہوں نے جمہورِ امّت کی راہ سے ہٹ کر آیاتِ قرآنی کی تفسیر کی ہے ، لیکن ایسے مقامات آٹھ ضخیم جِلدوں  کی اس کتاب میں خال خال ہیں ۔

تفسیر البحر المحیط:۔ یہ علامہ ابو حیّان غر ناطی اندلسیؒ (متوفی ٧٥٤ ھ) کی تصنیف ہے ، جو اسلامی علوم کے علاوہ علمِ نحود بلاغت میں خصوصی مہارت رکھتے تھے ، چنانچہ ان کی تفسیر میں نحو و بلاغت کا رنگ نمایاں ہے ، وہ ہر آیت کے الفاظ کی تحقیق، ترکیبوں کے اختلاف اور بلاغت کے نکات بیان کرنے پر خاص زور دیتے ہیں ۔

احکام القرآن للجصّاصؒ :۔ یہ  امام ابوبکر جصّاص رازیؒ (متوفی ٣٧٠ھ) کی تصنیف ہے ، جو فقہاۓ حنفیہ میں ایک ممتاز مقام کے حامل ہیں ، ان کی اس کتاب کا موضوع قرآن کریم  سے فقہی احکام و مسائل کا استنباط ہے ، اور انہوں نے مسلسل آیتوں کی تفسیر کے بجاۓ صرف اُن آیتوں کی فقہی تفصیلات بیان فرمائی ہیں جو فقہی  احکام پر مشتِمل ہیں ،اس موضوع پر اور بھی متعدّد کتابیں لکھی گئی ہیں ، لیکن اس کتاب کو ان سب میں ایک نمایاں اور ممتاز مقام حاصل ہے ۔

تفسیر الدّر المنثور  :۔ یہ علّامہ جلال الدین سیوطیؒ (متوفی ٩١٠ ھ) کی تصنیف ہے ، اور اس کا پورا نام ’’الدر المنثور فی التفسیر بالماثور‘‘ ہے ، اس میں علّامہ سیوطیؒ نے ان تمام روایات کو یکجا کرنے کی کوشش کی ہے جو قرآن کریم کی تفسیر سے متعلق ان کو ملی ہیں ، ان سے پہلے بہت سے محدّثین مثلآ حافظ ابن جریرؒ امام بغویؒ، ابن مردویہؒ، ابن حبانؒ اور ابن ماجہؒ وغیرہ اپنے اپنے طور پر یہ کام کر چکے تھے ، علّامہ سیوطیؒ نے ان سب کی  بیان کردہ روایات کو اس کتاب میں جمع کر دیا ہے ،البتہ انہوں نے روایات کے ساتھ ان کی پوری سند ذکر کرنے کے بجاۓ صرف اس مصنف کا نام ذکر کرنے پر اکتفاء کیا ہے جس نے اس روایت کو اپنی سند سے بیان کیا ہے ، تاکہ بوقتِ ضرورت اس کی مراجعت کر کے سند کی تحقیق کی جاسکے ، چونکہ ان کا مقصد روایات کے ذخیرہ کو یک جا کرنا تھا ، اس لیے اس کتاب میں بھی صحیح و سقیم ہر طرح کی روایتیں جمع ہو گئی ہیں ، اور مسند کی تحقیق کئے بغیر ان کی بیان کی ہوئی ہر روایت کو قابل اعتماد نہیں سمجھا جا سکتا ، علامہ سیوطیؒ بعض مرتبہ ہر روایات کے ساتھ یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ اس کی سند کس درجہ کی ہے ، لیکن چونکہ تنقیدِ حدیث کے معاملہ میں وہ خاصے متساہل مشہور ہیں ، اس لیے اس پربھی کما حقّہٗ  اعتماد کرنا مشکل ہے ۔

تفسیر مظہری :۔ یہ علامہ قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتیؒ (متوفی ١٢٢٥ ھ ) کی تصنیف ہے ، اور انہوں نے اپنے شیخ طریقت مرزا مظہر جانِ جاناں دھلوی رحمۃ اللہ علیہ کے نام پر اس تفسیر کا نام ’’ تفسیر مظہری ‘‘ رکھا ہے ، ان کی یہ تفسیر بہت سادہ اور واضح ہے ، اور اختصار کے ساتھ آیات قرآنی کی تشریح معلوم کرنے کے لیے نہایت مفید، انہوں نے الفاظ قرآنی کی تشریح کے ساتھ متعلقہ روایات کو بھی کافی تفصیل سے ذکر کیا ہے ، اور دوسری تفسیروں کے مقابلے میں زیادہ چھان پھٹک کر روایات لینے کی کوشش کی ہے ۔

روح المعانی :۔ اس کا پورا نام’’ روح المعانی فی تفس٨یر القرآن العظیم والسبع المثانی‘‘ ہے ، اور یہ بغداد کے آخری دور کے مشہور دور کے مشہور عالم علّامہ محمود آلوسی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ١٢٧٠ ھ ) کی تصنیف ہے ، اور تیس جلدوں پر مشتمل ہے ، انہوں نے اپنی اس تفسیر کو بڑی حد تک جامع بنانے کی کوشش کی ہے لغت ، بحو، ادب اور بلاغت کے علاوہ نقہ، عائد ، کلام ،فلسفہ اور ہیئت ، تصوّف اور متعلقہ رویات پر بھی مبسوط بحثیں کی ہیں ، اور کوشش یہ کی ہے کہ آیت سے متعلق کوئی علمی گوشہ تشنہ نہ رہے ، روایات حدیث کے معاملے میں بھی اس کے مصنف دوسرے مفسرین کے مقابلے میں محتاط رہے ہیں ، اس لحاظ سے یہ بڑی جامع تفسیر ہے ، اور اب تفسیر قرآن کے سلسلے میں کوئی بھی کام اس کی مدد سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔

تمہید

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اَلْحَمْدُلِلہِ عَدَدَ خَلْقِہٖ وَزِنَۃَعَرْشِہٖ وَمِدَادَکَلِمَاتِہٖ وَرِضٰی نَفْسِہٖ وَالصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰیٰ سَفْوَۃِ رُوُلِہٖ وَخَیْرِ خَلْقِہٖ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍوَّاٰلِہٖ وَسَحْبِہٖ وَسَحْبِہٖ وَجَمِیْعِ الْاَ نْبِیَآءِ وَالْمُرْسَلِیْنَ o

امّابعد

دنیا کی سب سے بڑی نعمت قرآن ہے :۔   قرآن کریم اس جہان میں وہ نعمت بے بہا ہے کہ سارا جہان آسمان و زمین اور ان میں پیدا ہونے سالی مخلوقات اس کا بدل نہیں بن سکتی ۔

انسان کی سب سے بڑی سعادت اور خود نصیبی اپنی مقدور بھر قرآن کریم میں اشتفال اور اس کو حاصل کرنا ہے ، اور سب سے بڑی شقاوت و بد نصیبی اس سے اعراض ور اُسے چھوڑنا ہے ، اس لیے ہر مسلمان کو اس کی فکر تو فرض عین اور ضروری ہے کہ قرآن کریم کو صِحتِ لفظی کے ساتھ پڑہنے اور اولاد کو پڑھانے کی کوشش کرے ، اور پھر جس قدر ممکن ہو اس کے معانی اور احکام کو سمجھنے اور اُ ن پر عمل کرنے کی فکر میں لگا رہے ، اور اس کو اپنی پوری عمر کا وظیفہ بناۓ، اور اپنے حوصلے اور ہمّت کے مطابق اس کا جو حصّہ بھی نصیب ہو جاۓ اُس کو اس جہان کی سب سے بڑی نعمت سمجھے ۔

۝۝۝۝۝۝۝۝۝۝۝۝۝۝۝۝۝۝۝

مختصر سرگذشت مصنِّف

ناکارۂ خلائق بندہ محمد شفیع ابن مولانا محمد یٰسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس نعمت کا شکر ادا ہیں کر سکتا کہ حق تعالیٰ نے  اس کا مولد و وطن مرکز علوم اسلامیہ دیوبند کو بنا دیا ، اور ایسے والد محترم کو آغوش میں پرورش کا موقع عطا فرمایا جو حافظِ قرآن اور عالم دین ہونے کے ساتھ دارالعلوم دیوبند کے ہم عمر تھے ، دارالعلوم دیوبند کے بانیان علماۓ ربّانی  کی صحبتوں سے فیضیاب ہونے  کے مواقع اُن کو ہمیشہ میسر رہے ، اُن کا وجود اُن بزرگوں کا زندہ تذکرہ تھا، اور اُن کی زندگی بچپن سے وفات تک دارالعلوم دیوبند ہی میں پوری ہوئی ، وہیں تعلیم حاصل کی ، وہیں مدرّس ہو کر ساری عمر تعلیم کی خدمت گذاری کی۔

احقر کی ابتداء تعلیمِ قرآن والد محترم کی تجویز سے دارالعلوم کے اساتذۂ قرآن حافظ عبدالعظیم صاحب اور حافظ نامدار خان صاحب رحمۃ اللہ علیہما کے پاس ہوئی، اور پھر خود والد محترم کی خدمت میں رہ کر اردُو ، فارسی، حساب، ریاضی اور ابتدائی عربی کی تعلیم حٓسل کی، پھر 1331 ھ میں دارالعلوم کے درجہ عربی میں باقاعدہ داخلہ لے کر 1335 ھ تک درس نظامی کا نصاب اُن ماہر فن اساتذہ کی خدمت میں رہ کر پورا کیا جن کی نظیر آج دنیا کے کسی گوشے میں ملنا مشکل ہے ، بچپن سے متوسّط تعلیمِ عربی تک شیخ العرب و العجم سیدی حضرت مولانا محمود الحسن صاحب شیخ الہند قدس سرہ کی خدمت میں حاضری دی، کبھی کبھی درسِ بخاری کی غیر رسمی حاضری نصیب رہی، مالٹہ جیل سے واپس تشریف لانے کے بعد ان ہی کے دستِ حق پرست پر بیعتِ طریقت نصیب ہوئی ، اور علوم عربیہ کی باقاعدہ تعلیم حضرات ذیل سے حاصِل کی، حافظ حدیث جامع العلوم حضرت علامہ مولانا محمد انور شاہ صاحب کشمیری ، عرف باللہ حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمٰن صاحب ، عالِم ربّانی حضرت مولانا سید اصغر حسین صاحب، شیخ الاسلام حجرت مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی، شیخ الادب و الفقہ حضرت مولانا محمد ارزاز علی صاحب رحمۃ اللہ علیہم اجمعین، اور ماہر علوم معقول و منقول حضرت علامہ محمد ابراہیم صاحب و حضرت مولانا محمد رسول خان صاحب افسوس ہے کہ ان سطور کی تحریر کے وقت آخرالذکر دو بزرگوں کے سوا سب اس دارِ فانی سے رحلت فرما چکے ہیں ، حق تعالیٰ ان دونوں بزرگوں کا سایہ تادیر( 23/شعبان 1392 ھ کو جب کہ معارف القرآن پر نظر ثانی کا کام شروع ہوا تو یہ دونوں بزرگ بھی رخصت فرما چکے ہیں ، حق تعالیٰ ان کو جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائیں ، اور درجات عالیہ نصیب فرمائیں ، 12 منہ) بعافیت قائم رکھیں ، اور اہل علم کو ان سے فیض یاب ہونے کا زیادہ سے زیادہ موقع عطا فرمائیں ۔

اساتذہ اور اکابرِ دارالعلوم کی نظرِ شفقت و عنایت اوّل ہی سے اس ناکارہ پر مبذول تھی، 1336 ھ میں احقر نے فنون کی بقیہ چند کتابیں قاضی اور میرزاہد اور امور عامہ وغیرہ پڑہنا شروع کیا تھا کہ اسی سال میں اکابر دارالعلوم نے احقر کو کچھ سبق پڑھانے کے لیے دے دیۓ ، اس طرح 1336 ھ میری تعلیم و تعلّم کا مشترک سال تھا، 1337 ھ سے باقاعدہ دارالعلوم میں تدریس کی خدمت پر لگا دیا گیا، بارہ سال مسلسل مختلف علوم و فنون کی متوسط اور اعلیٰ کتابوں کے درس کی خدمت انجام دی ، 1349ھ میں مجھے  صدر مفتی کی حیثیت سے دارالعلوم کا منصبِ فتویٰ سپرد کیا گیا، اس کے ساتھ کچھ کتابیں حدیث و تفسیر کی بھی زیرِ درس رہیں ، اور بالآخر 1362 ھ میں تحریم پاکستان کی جدوجہد اور کچھ دوسرے اسباب کی وجہ سے دارالعلوم دیوبند سے مستعفی ہو گیا۔

دارالعلوم کی چھبیس (26) سالا خدمتِ درس و فتویٰ کے ساتھ خاص خاص موضوعات پر تصنیف کا بھی سلسلہ جاری رہا، ان تمام مشاغل اور بزرگانِ دارالعلوم  کی محبت سے اپنے حوصلے کے مطابق قرآن حدیث سے کچھ مناسبت ہو گئی تھی، حضرت مجدّ ولملۃ حکیم الامّت سیّدی حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہٗ کی خدمت میں حاضری کا شرف تو طالب علمی کے زمانے میں بھی ہوتا رہتا تھا، مگر 1346 ھ سے تجدید بیعت کے ساتھ مسلسل حاضر باشی کا شرف حاصل ہوا جو تقریباً بیس (20) سال حضرت اقدس کی وفات رجب 1362 ھ تک جاری رہا، حضرت قدس سرہٗ کو حق تعالیٰ نے جملہ علوم و فنون کی کامل مہارت عطا فرمائی تھی ، اور اُن میں سے خصوصاً تفسیر اور تصوّف آپ کے مخصوص فن تھی ان دونوں علوم میں آپ کی تصانیف بیان القرآن، التکشّف اور التشرّف و دیگر رسائل تصوّف اس پر کافی شاہد ہیں ، حضرت قدس سرہٗ نے اپنی آخری عمر میں یہ ضرورت محسوس فرمائی کہ احکام القرآن پر کوئی ایسی کتاب لکھی جاۓ جس میں عصرِ حاضر کے مسائل کو بھی جس قدر قرآن کریم سے ثابت ہوتے ہیں واضح کیا جاۓ ، اس کام کو جلد پورا کرانے کے خیال سے چند اصحاب میں تقسیم فرمایا، اس کا ایک حصہ احقر کے بھی سپرد ہوا ، جس کا کچھ حصّہ تو حضرت قدس سرہٗ کی حیات ہی میں آپ کی زیر نگرانی لکھا گیا، باقی حضرت کی وفات کے بعد بعونہٖ تعالیٰ پورا ہو گیا، اور دو جلدوں میں شائع بھی ہو چکا یہ مجموعہ عربی زبان میں ہے ۔

 اس سلسلے نے حضرتؒ کی برکت سے بحمد للہ قرآن کریم کے ساتھ ایک خصوصی تعلق اور طلب پیدا کر دی ، اس کے بعد قضاء و قدر سے زدگی میں ایک نۓ انقلاب کا دروازہ کُھلا ، 1365 ھ یعنی 1946 ء میں پاکستان کی تحریک قوی ہو کر پورے ملک میں پھیلی، حضرت قدس سرہٗ کے سابقہ ایماء اور موجودہ اکابر کے ارشاد پر اس تحریک میں حصّہ لیا ، اور دو سال کے شب و روز اس جدوجہد میں صرف کئے ، مدراس سے پشاور تک ور مغرب میں کراچی تک پورے ملک کے دورے کیے ، یہی تحریک پاکستان اور اس کی جدو جہد بالآخر دارالعلوم دیوبند سے استعفاء دینے پر منتہی ہوئی، اور آخر کار اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی یہ دیرینہ تمنا پوری فرما دی ، کہ ہندوستان تقسیم ہو کر مسلمانوں کے لیے خالص اسلام کے نام پر دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت پاکستان کے نام سے وجود میں آ گئی ۔

اسلامی سلطنت اسلامی نظام ، اسلامی قانون کی قدیم تمنا ئیں اب امید کی صورت میں تبدیل ہونے لگیں ، اور اس کے ساتھ وطنِ مالوف کو ترک کرنے اور پاکستان کو وطن بنانے کی کشمکش دل میں موجزن ہوئی، وطن اصلی دیوبند کے علومِ اسلامیہ کا مرکز اور منتخب علماء امّت کا مرجع ہونے پر نظر جاتی تو اعدی شیرازیؒ کا یہ شعر یاد آتا  ؃

توّاۓ مردانِ ایں پاک بوم

بر انگیختم خاطر اس شام و روم

لیکن جب ملک کے سیاسی حالات اور ہندوستان میں مسلمانوں اور ان کے اداروں کے مستقبل پر نظر جاتی تو کوئی روشن پہلو سامنے نہ آتا، اس کے خلاف پاکستان میں ہر طرح کی صلاح و فلاح کی امید بظاہر اسباب نظر آتی تھی، اِدھر یہ کشمکش جاری تھی اور دوسری طرف پورے ملک میں بد امنی اور قتل و غارت گری کے قیامت خیز  ہنگامے کھڑے ہو گۓ، ہندوستان  میں مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا گیا، لاکھوں انسانوں کو بجبر پاکستان کی طرف دھکیل دیا گیا ، اور پھر جانے والوں کو عافیت کے ساتھ جانے کا موقع بھی نہ دیا گیا، جا بجا قتل عام ، خوں ریزی ، لوٹ مار اور اغواء کے روح فرسا نظارے تھے ، کسی کا صحیح سالم پاکستان پہنچ جانا ایک اعجوبہ یا کرامت سمجھا جاتا تھا ، آٹھ ماہ کے بعد یہ ہنگامے کچھ فرو ہوۓ تو میرے استاذ محترم اور پھوپھی زاد بھائی شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ اور چند عمائد کراچی نے یہ ارادہ کیا کہ پاکستان کے لیے اسلامی دستور کا ایک خاکہ مرتّب کر کے حکومت کے سامنے رکھا جاۓ، تاکہ جس مقصد کے لیے پاکستان بنا ہے وہ جلد سے جلد بروۓ کار آ سکے ، اس تجویز کے لیے منجملہ چند علماء کے احقر کو بھی ہندوستان سے کراچی آنے کی دعوت دی گئی ۔

20/جمدی الثانیہ 1327 ھ  یکم مئی 1948 ء میری عمر میں عظیم انقلاب کا دن تھا، جس میں وطنِ مالوف مرکزِ علوم دیوبند کو خیر باد کہہ کر صرف چھوٹے بچّوں اور ان کی والدہ کو ساتھ لے کر پاکستان کا رُخ کیا، والدہ محترمہ اور اکثر اولاد اور سب عزیزوں اور گھر بار کو چھوڑ نے کا دل گداز منظر اور جس طرف جارہا ہوں وہاں ایک غریب الوطن کی حیثیت سے وقت گزارنے کی مشکلات کے ساتھ ایک نئی اسلامی حکومت کا وجود اور اس میں دینی رجحانات کے بر رُوۓ کار آنے کی خوش کن امیدوں  کے ملے جُلے تصوّرات میں غلطان و پیچاں ۔

دہلی اور چند مقامات پر اُترتے ہوۓ 26/جمادی الثانیہ 1367 ھ 6/مئی 1948 ء کو اللہ تعالیٰ نے حدود پاکستان میں پہنچا دیا اور کراچی غیر اختیاری طور پر اپنا وطن بن گیا، یہاں آۓ ہوۓ اس وقت پندرہ سال پورے ہو کر تین ماہ زیادہ ہو رہے ہیں ، اس پندرہ سال میں کیا کِیا اور کیا دیکھا ، اس کی سر گذشت بہت طویل ہے ، یہ مقام اُس کے لکھنے کا نہیں ، جن مقاصد کے لیے پاکستان محبوب و مطلوب تھا اور اس کے لیے سب کچھ قربان کیا تھا ، حکومتوں کے انقلابات نے ان کی حیثیت ایک لذیذ خواب سے زیادہ باقی نہ چھوڑی  ؎

بلبل ہمہ تن خوں شد و گُل شد ہمہ تن چاک

اے واۓ بہارے اگر این ست بہارے

حکومت کے راستے سے کسی دینی انقلاب اور نمایاں اصلاح کی امیدیں خواب و خیال ہوتی جاتی ہیں ، تاہم عام مسلمانوں میں دینی بیداری اور امورِ دین کا احساس بحمد اللہ ابھی تک سرمایہ زندگی بنا ہوا ہے ، ان میں اہل صلاح و تقویٰ کی بحمد للہ خاصی تعداد موجود ہے ، اسی احساس نے یہاں دینی خدمتوں کی راہیں کھولی ہوئی ہیں ۔

حکومت کے پیمانے پر اصلاحی کوششوں کے علاوہ عوامی طرز سے اصلاحی جدوجہد اور اس کے لیے کچھ اداروں کا قیام جو شروع سے پیش نظر تھا اُس کی ابتداء 1370 ھ، 1950 ء میں اس طرح ہوئی کہ آرام باغ کراچی کے متصل مسجد باب السلام میں روزانہ بعد صبح درسِ قرآن شروع ہوا اور ہر طرف سے آنے والے سوالات کے جواب میں جو فتاویٰ مسلسل لکھے جاتے اور بغیر نقل کے روانہ کر دیۓ جاتے تھے ، اب اس کا انتظام اسی مسجد میں ایک دارا؛افتاء کے قیام کی صورت میں عمل میں آیا، یہ درس قرآن اُمید سے زیادہ مفید و مؤثر ثابت ہوا، سننے والوں کی زندگی میں انقلاب کے آثار دیکھے گۓ، احقر ناکارہ کو زندگی کا ایک اچھا مشغلہ مل گیا، بعد نماز فجر روزانہ ایک گھنٹہ کے عمل سے سات(7) سال میں بحمد اللہ یہ درسِ قرآن مکمل ہو گیا۔

یہاں تک کی تمہید ماہ صفر 1383 ھ میں اُس وقت لکھی گئی تھی جب کہ تفسیر معارف القرآن کو کتابی صورت میں لانے کا ارادہ ہوا تھا، پھر 1388 ھ تک سلسلہ ملتوی رہا، 88 ھ سے اس پر کام شروع ہوا جو 1392 ھ تک پانچ سال میں بحمد اللہ مکمل ہوگیا، اس تمہید کا آگے آنے والا حصّہ تکمیلِ تفسیر کے بعد 1392 ھ میں لکھا گیا۔

 

تفسیر ’’ معارفُ القرآن‘‘ کی تصنیف قدرتی اسباب سے

احقر ناکارہ گناہ گار بے علم و بے عمل کی یہ جرأت کبھی بھی نہ ہوتی کہ قرآن کریم کی تفسیر لکھنے کا ارادہ کرتا مگر نیرنگ تقدیر سے اس کے اسباب اس طرح شروع ہوۓ کہ ریڈیو پاکستان سے روزانہ نشر ہونے والے درس قرآن کے متعلق مجھ سے فرمائش کی گئی جس کو چند اعذار کی بناء پر میں قبول نہ کر سکا پھر انہوں نے ایک دوسری تجویز پیش کی کہ روزانہ درس کے سلسلہ سے الگ ایک ہفتہ واری درس بنام معاف القرآن جاری کیا جاۓ ، جس میں پورے قرآن کی تفسیر پیش نظر نہ ہو بلکہ عام مسلمانوں کی موجودہ ضرورت کے پیش نظر خاص خاص آیات انتخاب کر کے اّن کی تفسیر اور متعلقہ احکام بیان ہوا کریں ، احقر نے اس کو اس شرط کے ساتھ منظور کر لیا کہ درس کا کوئی معاوضہ نہ لوں گا اور کسی ایسی پابندی کو بھی قبول نہ کروں گا جو میرے نزدیک درسِ قرآن کے مناسب نہ ہو ، یہ شرط منظور کر لی گئی۔

بنام خدا تعالیٰ یہ درس بنام معارف القرآن 3 / شوال 1373 ھ 2/ جولائی 1954 ء میں ریڈیو پاکستان کی اپنی نئی پالیسی کے تحت اس درس کو ختم کر دیا گیا، یہ درس معاف القرآن تیرہویں پارے اور سورہ ابراہیم پر ختم ہو گیا،جس میں ان تیرہ پاروں کی مکمل تفسیر نہیں بلکہ منتخب آیات کی تفسیر تھی ، احقر نے ایسی درمیانی آیات کو اس میں شامل نہیں کیا تھا جو خالص علمی مضامین پر مشتمل تھی اور ریڈیائی تقریر کے ذریعہ عوام کے ذہن نشین کرنا اس کا مشکل تھا، یا وہ آیات جو مکرر سکرر آئی ہیں ۔

جس وقت یہ کام شروع کر رہا تھا اس کا کوئی دور دور خیال نہ تھا کہ یہ کسی وقت کتابی صورت میں ایک مستقل تفسیر کے انداز پر شائع ہوگی، مگر ہوا یہ کہ جب یہ درس نشر ہونا شروع ہوا تو پاکستان کے سب علاقوں سے اور ان سے زیادہ غیر ممالک افریقہ یورپ وغیرہ میں بسنے والے مسلمانوں کی طرف سے بے شمار خطوط ریڈیو پاکستان کو اور خود احقر کو وصول ہوۓ جن سے معلوم ہوا کہ بہت سے دیندار اور نو تعلیم یافتہ مسلمان اس درس سے بہت شغف رکھتے ہیں ، افریقہ میں چوں کہ یہ درس آخر شب یا بالکل صبح صادق کے وقت پہنچتا تھا وہاں کے لوگوں نے اس کو ٹیپ ریکارڈ کے ذریعہ محفوظ کر کے بعد میں سب کو بار بار سنانے کا اہتمام کیا، اور جگہ جگہ سے اس کا تقاضا ہوا کہ اس درس کو کتابی صورت میں شائع کیا جاۓ، عام مسلمانوں کے اس اشتیاق نے اس ناکارہ کی ہمّت بڑھا دی اور امراض و ضعف کے باوجود گیارہ سال تک یہ سلسلہ بڑی پابندی سے جاری رکھا 1383 ھ ور 1964 ء میں جن درس کا سلسلہ بند ہوا تو بہت سے حضرات کی طرف سے یہ تقاضا ہوا کہ جتنا ہو چکا ہے اس کو کتابی صورت میں شائع کیا جاۓ، اور درمیان میں جو آیات چھوڑی گئی ہیں ان کی بھی تکمیل کر دی جاۓ، بنامِ خدا یہ ارادہ کر لیا کہ موجودہ نظر ثانی اور درمیان سے باقی ماندہ آیات کی تکمیل کا کام شروع کیا جاۓ، چنانچہ 16/صفر 1383 ھ میں سورہ فاتحہ کی تفسیر پر نظر ثانی مکمل ہو گئی ، اور سورہ بقرہ پر کام شروع کیا ، اس میں احکام کی آیات مشکلہ بہت ہیں جو ریڈیو پر نشری تقریر میں ہیں آئی تھیں ، یہ کام بہت محنت اور فرصت کا متقاضی تھا، ہجوم مشاغل اور امراض نے فرصت نہ دی اور تقریباً یہ کام ذہول میں پڑ گیا۔

بہ نیرنگ تقدیر ایک شدید و طویل  بیماری تکمیل تفسیر کا سبب بن گئی :۔  1388 ھ کے شعبان میں احقر کے اسفل بدن میں کچھ پھوڑے کی شکل نمودار ہوئی ، اور رفتہ رفتہ بڑھتی گئی ، آخر رمضان میں اس نے کھڑے ہونے سے معذور  کر دیا ، آخری آٹھ روزے بھی قضا ہوۓ، گھر میں بیٹھ کر نماز ہونے لگی، اس کے ساتھ پاؤں میں نِقْرس کا پُرانا درد شروع ہوا، اس کا جو علاج پہلے کار گر ہو جاتا تھا وہ بھی کامیاب نہ ہوا اور دونوں پاؤں سے معذور ہو گیا ، تقریباً دس(10) مہینے اسی طرح معذوری و بیماری کے ساتھ موت و حیات کی کشمکش میں گزرے ، جب چلنے پھرنے اور ہر کام سے معذوری و بیماری کے ساتھ موت و حیات کی کشمکش میں گزرے ، جب چلنے پھرنے اور ہر کام سے معذور ہو گیا، زندگی کی امید بھی مضمحل ہو گئی تو اب اس پر افسوس ہوا کہ یہ تفسیری اوراق جس قدر ہو چکے تھے اُن پر نظر ثانی اور تکمیل بھی ہو سکی ، اب یہ اوراق یونہی ضائع ہو جائیں گے ، حق تعالیٰ نے قلب میں ہمت عطا فرمائی، اور شوال 1388 ھ کے آخر میں بستر علالت پر ہی اللہ تعالیٰ نے اس کام کو شروع کر دیا، اور 25/ ذیقعدہ 1388 ھ کو سورہ بقرہ کی تکمیل ہو کر کتابت و طباعت کے لیے دے دی ، اس کے بعد سے عین بیماری اور معذوری کی حالت میں یہ کام تدریجی رفتار سے چلتا رہا، اللہ تعالیٰ نے اس کی برکت سے دس(10) ماہ کے بعد معذوری بھی رفع فرما دی تو رجب 1389 ھ سے کام کسی قدر تیز ہوا ،مگر اسی کے ساتھ ملک میں جدید انتخابات نے سایسی ہنگاموں کا ایک طوفان کھڑا کر دیا ، میں اگرچہ عرصۂ دراز سے سیاست سے بالکل یکسُ ہو چکا تھا، مگر ان انتخابات نے پاکِستان میں خالص اسلامی حکومت کے بجاۓ کمیونزم اور سوشل ازم پھیل جانے کے خطرات قوی کر دیۓ ، اور سوشل ازم کو عین اسلام باور کرانے کے لیے جدّو جہد اور جلسے و جلوس عام ہو گۓ، اس مسئلے کی نزاکت نے پھر اس پر آمادہ کر دیا کہ کم از کم اسلام اور سوشل ازم میں فرق اور سوشلزم کے خطرناک نتائج سے قوم کا آگاہ کرنے کی حد تک اس سیاسی میدان میں حصّہ لیا جاۓ، اس کے لیے تحریری مقالے بھی لکنے پڑے ، اور مشرقی و مغربی پاکستان کے اہم مواقع میں جلسوں میں شرکت بھی کرنا پڑی، مسئلہ کی وضاحت تو مقدور بھر پوری ہو گئی، مگر سیاست کے میدان میں مسائل اور حقائق سے زیادہ زور و زر کام کرتے ہیں انتخابات کا نتیجہ بالکل خلاف اور بر عکس نکلا ، اس کے اثر سے پاکستان پر جو زوال آنا تھا وہ آ گیا، وَلِلہِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ؍ بَعْدُ ۔

انتخابات کے بعد احقر نے پھر سیاست سے مستعفی ہو کر اپنا یہ کام شروع کیا ، اور الحمد للہ علیٰ کرمہٖ کہ رجب 1390 ھ تک تیرہ (13) پاروں کی معارف القرآن پر نظر ثانی اور درمیانی متروکہ آیات کی تفسیر بھی مکمل ہو گئی، اور سورہ ابراہیم سے سورہ نحل تک دو پاروں کی مزید تفسیر بھی لکھی گئی، اب قرآن مجید نصف کے قریب ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے ہمّت عطا فرمائی ، اور باقی ماندہ قرآن کی تفسیر لکھنا شروع کیا ، اس کا اس وقت کوئی تصور نہیں تھا کہ پچھتر سال کی عمر اور سقوطِ قویٰ ، اس کے ساتھ مختلف قسم کے امراض کے تسلسل میں یہ تفسیر پوری ہو سکے گی، مگر یہ سمجھ کر کہ قرآن کو ختم کرنا مقصود نہیں قرآن میں اپنی عمر کو ختم کرنا ہے ، اللہ کے نام پر یہ سلسلہ شروع کر دیا، شعبان 1390 ھ سے سورہ بنی اسرائیل کی تفسیر شروع ہوئی ، اور 23/ صفر 1391 ھ کو قرآن کی چوتھی منزل سورہ فرقان پارہ9 19 تک مکمل ہو گئی ۔

آگے قرآن کی تین منزلیں یعنی تقریباً ایک تہائی قرآن کریم باقی تھا ، عمر کے ضعف اور مختلف قسم کے امراض کی بنا پر یہ خیال آیا کہ اس سب کی تکمیل تو شاید مجھ سے نہ ہو سکے ، مگر درمیانی پانچویں اور چھٹی منزل کی تفسیر احقر نے احکام القرآن میں بزبان عربی لکھ دی ہے  جو شائع بھی ہو چکی ہے ، اگر میں اس کو نہ لکھ سکا تو میرے بعد بھی کوئی اللہ کا بندہ اسی احکام القرآن کی تفسیر کو اردو میں منتقل کر کے یہ حصّہ پورا کر دے گا، اور اس می وصیت بھی چند حضرات کو کر دی ، اور درمیان کی یہ دو منزلیں چھوڑ کر آخری ساتویں منزل سورہ ’’ق‘‘ سے لکھنا شروع کر دیا ، حق تعالیٰ کی مدد نے دستگیری فرمائی اور 12 / ربیع الاوّل 1391 ھ سے شروع ہو کر 1391 ھ تک یہ آخری منزل پوری ہو گئی، صرف معوّذتین یعنی آخر کی دو سورتیں چھوڑ دی گئیں ۔

اب درمیانی دو منزلیں سورہ شعرا سے سورہ حجرات تک باقی تھیں اللہ کے نام پر ان کو بھی شروع کر دیا ، ان میں سورہ ’’ص‘‘، ’’صافات‘‘، ’’زخرف‘‘ تو بر خوردار عزیزی مولوی محمدتقی سلمہ سے لکھوائی اور خود اس پر نظر ثانی کر کے مکمل کیا، باقی سورتیں خود لکھنا شروع کیں ، اور قرآن مجید کا تقریباً ڈیڑھ پارہ باقی رہ گیا تھا کہ 24/ ربع الثانی 1392 ھ 8/ جون 1972 ء کو اچانک مجھے قلب کا ایک شدید مرض پیش آیا ، کہ موت کا نقشہ آنکھو ں میں پھر گیا ، دیکھنے والے تھوڑی دیر کا مہمان سمجھتے تھے ، کراچی میں امراض قلب کے ہسپتال میں غیر شعوری طور پر پہنچا دیا گیا، تین روز کے بعد ڈاکٹروں نے کچھ اطمینان کا اظہار کیا ، جب کچھ ہوش و حواس درست ہوۓ تو باقی ماندہ تفسیر کا خیال ایک حسرت بن کر رہ گیا ، برخوردار عزیزی مولوی محمد تقی سلمہٗ کو وصیت کر دی کہ بقیہ کی تکمیل وہ کر دیں ، اس طرح قلب کا کچھ بوجھ ہلکا کیا، اللہ تعالیٰ کا ہزاراں ہزار شکر کہ اس نے اس مرض سے صحت بھی عطا فرمائی، اور تین مہینے کے بعد اتنی طاقت تھی کہ کچھ لکھنے پڑھنے کی ہمت ہونے لگی، مگر تھوڑی دیر کام کرنے سے دماغ ، دل و نگاہ سب تھک جاتے تھے ، محض حق تعالیٰ کا فضل و کرم ہی تھا کہ اس نے اسی حالت میں یہ بقیہ تفسیر 21/ شعبان 1392 ھ روز شنبہ کو مکمل کرا دی اور حُسن اتفاق سے یہی روز 1314 ھ میں میر ولادت کا دن تھا، اس روز میری عمر کی ستہتر (77) منزلیں پوری ہو کر اٹھترواں سال شروع ہوا۔

اس تفسیر کا آغاز 1388 ھ کی شدید بیماری میں ہوا اور خاتمہ پانچ سال کے بعد 1392 ھ کی شدید بیماری کے متصل بعد ہوا، یہ پانچ سال آخر عمر کے طبعی ضعف ، مختلف قسم کے امراض کے تسلسل افکار کے ہکون اور ملک میں انقلابی ہنگاموں کے سال تھے ، ان ہی میں حق تعالیٰ نے اس تفسیر کے تقریباً سات ہزار(یہ بھی اس حال میں کہ دارالعلوم کی انتظامی ذمّہ داریوں اور فتوے کی  مستقل خدمات کے علاوہ دوسرے اہم موضوعات پر دس مختصر اور مفصل کتابیں اور بھی لکھی گئیں جو شائع ہو چکی ہیں ، 1۔ احکام الحج ، جو مختصر اور سلیس ہونے کے ساتھ تمام ضروری احکام کو جامع بھی ہے ، 2۔ الیواقیت فی احکام المواقیت (مواقیتِ حج اور جدّہ سے احرام تک کی تحقیق )، 3۔ منہج الخیر فی الحج عن الغیر (یعنی حجِ بدل کے احکام) ، 4۔ مقامِ صحابہؓ (مشاجرات صاحابہ اور عدالتِ صحابہ کی مکمّل بحث اور سلفِ صالحین کا طرز ِعمل ، 5۔ اسلامی ذبیحہ (ذبیحہ کے شرعی احکام مفصّل (یہود و نصاریٰ کے ذبیحہ کی بحث، تحریفات کی تردید ) ، 6۔  اعضاۓ انسانی کی پیوند کاری ، 7۔ بیمہ زندگی ،8۔ پراویڈنٹ فنڈ ، 9۔ اسلام اور سوشلزم ، 10۔ اسلامی نظام میں اقتصادی اصلاحات ، فللہ الحمد والمنہ 12 منہ) 7000 صفحات اس ناکارہ کے قلم سے لکھوادیۓ ، اور یہ بات آنکھوں سے کھلا دی کہ ؎

انّ المقاد یراذا سَاعدت       ۝     الحقت العاجز بالقادر

’’یعنی جب تقدیر الٓہی مدد کرتی ہے تو عاجز کو قادر کے سَاتھ ملا دیتی ہے ‘‘ ۔

علم و عمل پہلے ہی براۓ نام تھا ، اس ضعف و پیری اور امراض و مشاغل و ذو اہل نے وہ رہا سہا بھی رخصت کر دیا، ان حالات میں کسی تصنیف خصوصاً قرآن کریم کی تفسیر کا ارادہ کرنا بھی ایک بڑی جسارت تھی، اطمینان اس پر تھا کہ اس میں میری اپنی کوئی چیز نہیں ، اکابر علماء اور سلف صالحین کی تفسیر کو آسان زبان میں اہل عصر کی طبائع کے قریب بنانا میری ساری محنت کا حاصل تھا، میں نے آخری عمر کے پانچ سال کی یہ محنت شاقہ اس تمنا میں صرف کی کہ عصر جدید کے مسلمان جو عموماً علمی اصطلاحات اور علمی زبان سے بے گانہ ہو چکے ہیں اکابر کی تفسیر کو ان کے لیے اقرب الی الفہم کر دوں تو شاید اس زمانے کے مسلمانوں کو اس سے نفع پہنچے اور میرے لیے زادِ آخرت بن جاۓ، علماء محققین اپنی علمی تحقیقات کے کمالات دکھلاتے ہیں اس ناکارہ نے اپنی بے علمی کو اس پردہ میں چھپایا ہے ، اللہ تعالیٰ مجھ سے اپنی ستّاری کا معاملہ فرما دیں ، اور اس ناچیز کی خدمت کو قبول فرما دیں ، جس میں علمی کمال کا تو کوئی دخل نہیں ، البتہ اپنے آپ کو تھکایا ضرور ہے ، اور یہ تھکانا بھی اللہ ہی کی توفیق سے تھا ، ورنہ ایک قدم چلنے کی بھی کیا مجال تھی، کاش ! اللہ تعالیٰ میرے اس تھکنے پر نظر فرمائیں اور میری تقصیرات کو جو اس کی کتاب کریم کے حقوق ادا کرنے میں ہوئی ہیں معاف فرما کر اس کو شرفِ قبولیت عطا فرما دیں  ؎

نہ بحرف سَاختہ سَر خوشم    ۞     نہ بہ نقش بستہ مشوشم

نفسے بیَاد تو مے زنم            ۞       چہ عبارت وچہ معانیم

تصنیف کتاب کی یہ لمبی کہانی احقر کے لیے تو ایک یاد داشت اور شکر گزاری کے لیے ایک تذکرہ ہے مگر عام لوگوں کے ذوق کی چیز نہیں ، اس کے باوجود اس لیے لکھا کہ لوگوں کو میری اس جسارت کا عذر معلوم ہو جاۓ۔

جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں کہ تفسیر قرآن پر مستقِل تصنیف کے لیے جرأت کرنے کا میرے لیے دور دور بھی کوئی احتمال نہ تھا ، مگر غیر ارادی طور پر اس کے اسباب ہوتے چلے گۓ، البتہ زمانہ دراز سے ایک تمنّا دل میں تھی کہ حکیم الامّت مجدّو الملت سیّدی حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی  قدّس سرّہ کی تفسیر بیان القرآن جو ایک بے نظیر، مختصر مگر جامع تفسیر اور سلف صالحین کی تفسیروں کا لُبِّ لُباب ہے ، لیکن وہ علمی زبان اور علمی اصطلاحات میں لکھی گئی ہے آجکل کے عوام اس سے استفادہ کرنے سے قاصر ہو گۓ ہیں اس کے مضامین کو سہل زبان میں پیش کر دیا جاۓ، مگر یہ کام بھی کافی محنت اور فرصت چاہتا تھا، پاکستان میں آنے سے پہلے کچھ شروع بھی کیا پھر رہ گیا تھا ، معارف القرآن کی اس تحریر نے بحمد اللہ وہ آرزو بھی پوری کر دی، کیونکہ اس تفسیر کی بنیاد احقر نے بیان القرآن ہی کو بایا جس کی تفصیل آگے آتی ہے ۔

معارفُ القرآن کی خصوصیّات و التزامات

1 ۔ تفسیر قرآن جو عربی کے علاوہ کسی اور زبان میں ہو اس میں سب سے اہم اور احتیاط کی چیز قرآن کا ترجمہ ہے ، کیونکہ وہ اللہ کے کلام کی حکایت ہے ، اس میں ادنیٰ سی کمی بیشی بھی اپنی طرف سے روا نہیں ، اس لیے میں نے خود کوئی ترجمہ لکھنے کی ہمّت نہیں کی، اور اس کی ضرورت بھی نہیں تھی، کیونکہ اکابر علماء یہ کام بڑی احتیاط کے ساتھ انجام دے چکے ہیں ، اردو زبان میں اس خدمت کو سب سے پہلے حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے دو فرزند ارجمند حضرت شاہ رفیع الدینؒ اور حضرت شاہ عبدالقادرؒ نے اپنے اپنے طرز میں انجام دیا ، اوّل الذکر ترجمہ میں بالکل تحت اللفظ ترجمہ کو اختیار کیا گیا ہے ، اردُو محاورہ کی بھی زیادہ رعایت نہیں رکھی گئی، اور بڑے کمال کے ساتھ قرآن کے الفاظ کو اردو میں منتقل فرمایا ہے ، اور دوسرے ترجمہ میں تحت اللّفظ کے ساتھ اردو محاورہ کی رعایت بھی ہے ، جس کو حضرت شاہ عبدالقادرؒ نے چالیس(40) سال مسجد میں معتکف رہ کر پورا کیا ہے ، یہاں تک کہ آپ کا جنازہ مسجد سے ہی نکلا ہے ، دارالعلوم دیوبند کے پہلے صدر مدرس حضرت مولانا محمد یعقوب صاحبؒ کا فرمانا ہے کہ بلا شبہ یہ ترجمہ الہامی ہے ، انسان کے بس کی بات نہیں کہ ایسا ترجمہ کر سکے ، شیخ العرب و العجم سیّدی حضرت مولانا محمود الحسن صاحبؒ نے اپنے وقت میں جب یہ دیکھا کہ اب بہت سے محاورات بدل جانے کی وجہ سے بعض مقامات میں  ترمیم کی ضرورت ہے تو انہوں نے اسی ترجمہ کی یہ خدمت انجام دی، جو ترجمہ شیخ الہندؒ کے نام سے معروف و مشہور ہوا، احقر نے قرآن کریم کے زیر متن اسی ترجمہ کو بعینہٖ لیا ہے ۔

2۔ سیّدی حضرت حکیم الامّت تھانوی قدس سرّہٗ نے اصل تفسیر بیان القرآن کو اس انداز میں لکھا ہے کہ متنِ قرآن کے ترجمہ کے ساتھ ساتھ ہی اس کی تفسیر و توضیح قوسین کے درمیان فرمائی ہے ، ترجمہ کو اس کے اوپر خط دے کر اور تفسیر کو بین القوسین  لِکھ کر ممتاز کر دیا ہے ، اس طرح خط کشیدہ الفاظ میں قرآن ہے ، اور بین القوسین اس کی تفسیر ہے ، بہت سے لوگوں نے اسی خط کشیدہ ترجمہ کو الگ کر کے قرآن مجید کے زیر متن ترجمہ حکیم الامّتؒ کے نام سے خود حضرتؒ کے زمانے میں شائع بھی کر دیا تھا۔

مجھے چونکہ بیان القرآن کی تسہیل کا کام پہلے سے پیش نظر تھا اس وقت احقر نے حضرتؒ کی اس تفسیر کو بنام ’’خلاصۂ تفسیر‘‘ شروع میں بعینہٖ صرف ایک تصّرف کے ساتھ نقل کر دیا ہے ، وہ یہ کہ اس تفسیر میں جس جگہ خاص اصطلاحی اور مشکِل الفاظ آۓ تھے وہاں ان کو آسان لفظوں میں منتقِل کر دیا ، اور اس کا نام خلاصۂ تفسیر رکھنا اس لیے موزوں ہوا کہ خود حضرتؒ نے خطبہ بیان القرآن میں اس کے متعلق فرمایا ہے کہ اس کو تفسیر مختصر یا ترجمہ مطوّل کہا جا سکتا ہے ۔

اور اگر کوئی مضمون ہی خالِص علمی اور مشکل تھا تو اس کو یہاں سے الگ کر کے معارف و مسائل میں اپنی آسان عبارت میں لکھ دیا، تاکہ مشغول آدمی اگر زیادہ نہ دیکھ سکے تو اس خلاصۂ تفسیر سے ہی کم از کم مفہومِ قرآنی کو پورا سمجھ لے ، ان دونوں چیزوں کا التزام جلد اوّل کی طبع اوّل میں پارہ ’’ الٓمّٓ‘‘کے رُبع اوّل آیت نمبر 44 معارف جلد اوّل صفحہ 152 تک نہیں ہو سکا تھا، اب طبع ثانی میں اس حصّہ کو بھی مکمل کر کے پوری تفسیرکے مطابق کر دیا گیا ہے ، البتہ ایک التزام جو جلد ثانی سے شروع ہو ا کہ متنِ قرآن کے نیچے ترجمہ شیخ الہندؒ  لِکھا جاۓ یہ پہلی طباعت کی پوری جلد اوّل میں نہیں تھا، طبع ثانی میں اس کو بھی تحت المتن  لِکھ کر سب کے مطابق کر دیا گیا، یہ دونوں کام تو اکابر علماء کے تھے ۔

3۔ تیسرا کام جو احقر کی طرف منسوب ہے وہ ’’ معارف و مسائل ‘‘ کا عنوان ہے ، اس میں بھی غور کیا جاۓ تو احقر کی صرف اردو عبارت ہی ہے ، مضامین سب علماء سلف کی تفسیر سے لیۓ ہوۓ ہیں جن کے حوالے ہر جگہ لِکھ دیۓ ہیں ، اس میں احقر نے چند چیزوں کا التزام کیا ہے :

(الف) علماء کے لیے تفسیر قرآن میں سب سے پہلا اور اہم کام لغات کی تحقیق ، نحوی ترکیب ، فنِ بلاغت کے نکات اور اختلافِ قرإت کی بحثیں ہیں جو بلا شبہ اہل علم کے لیے فہم قرآن میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں اسی کے ذریعہ قرآن کے صحیح مفہوم کو پایا جا سکتا ہے لیکن عوام تو عوام ہیں آجکل کے بہت سے اہل علم بھی ان تفصیلات میں اُلجھن محسوس کرتے ہیں ، بالخصوص عوام کے لیے تو یہ بحثیں ان کی فہم سے بالا اور اصل مقصد میں مخل بنتی ہیں ، وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ قرآن کو سمجھ کر پڑھنا مشکل کام ہے ، حالانکہ قرآن کریم کا جو اصل مقصد ہے کہ انسان کا تعلّق اپنے رب کے ساتھ قوی ہو اور اس کے نتیجے میں مادّی تعلقات اعتدال پر آ جائیں کہ وہ دین کی راہ میں رکاوٹ نہ بیں ، دنیا سے زیادہ آخرت کی فکر پیدا ہو، اور انسان اپنے ہر قول و فعل پریہ سوچنے کا عادی ہو جاۓ کہ اس میں کوئی چیز اللہ اور اس کے رسولؑ کی مرضی کے خلاف تو نہیں ، اس چیز کو قرآن نے اتنا آسان کر دیا ہے کہ معمولی لکھا پڑھا آدمی خود دیکھ کر اور بالکل اَن پڑھ جاہل سُن کر بھی یہ فائدہ حاصل کر سکتا ہے ، قرآن کریم نے خود اس کا اعلان فرما دیا ہے : وَلَقَدْ یَسَّرْنَا لْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ  ؕ  (17:54) تفسیر ’’معارف القرآن ‘‘ میں عوام کی سہولت کے پیش نظر اُن علمی اور اصطلاحی بحثوں کی تفصیل نہیں لِکھی گئی، بلکہ ائمہ تفسیر کے اقوال میں جس کو جمہور نے راجح قرار دیا ہے اس کے مطابق تفسیر لے لی گئی اور کہیں کہیں بضرورت  یہ بحث  بھی لی گئی ہے تو وہاں بھی اس کا لحاظ رکھا گیا کہ خالص علمی اصطلاحات اور غیر معروف اور مشکل الفاظ نہ آئیں ، اور اسی لیے ایسی مباحثِ علمیہ کو بھی چھوڑ دیا گیا ہے جو عوام کے لیے غیر ضروری اور ان کی سطح سے بلند ہیں ۔

(ب) مستند و معتبر تفاسیر سے ایسے مضامین کو اہمیت کے ساتھ نقل کیا گیا ہے جو انسان کے دل میں قرآن کی عظمت اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی عظمت و محبت کو بڑھائیں ، اور قرآن پر عمل اور اپنے اعمال کی اصلاح کی طرف مائل کریں ۔

(ج) اس پر تو مؤمن کا ایمان ہے کہ قرآن کریم قیامت تک آنے والی نسلوں کی ہدایت کے لیے نازل ہوا ہے ، اور قیامت تک پیدا ہونے والے تمام مسائل کا حل اس میں موجود ہے ، بشرطیکہ قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بیان و تشریح کی روشنی میں دیکھا اور پڑھا جاۓ، اور اس میں پورے تدبرّ سے کام لیا جاۓ، اسی لیے ہر زمانہ کے علماء تفسیر نے اپنی اپنی تفسیروں میں اُن جدید مسائل اور مباحث پر زیادہ زور دیا ہے جو اُن کے زمانہ میں پیدا ہوۓ ، یا ملحدین اہل باطل کی طرف سے شکوک و شبہات کی صورت میں پیدا کر دیۓ گۓ، اسی قرونِ متوسطہ کی تفسیریں معزَّلہ، جہمیہ، صفوانیہ وغیرہ فرقوں کی تردید اور ان کے شبہات کے ازالہ سے پُر نظر آتی ہیں ، احقر ناکارہ نے بھی اسی اصول کے تحت ایسے ہی مسائل اور مباحث کو اہمیت دی ہے جو یا تو اس زمانے کے مشینی دور نے نۓ نۓ پیدا کر دیۓ ، اور یا اس زمانہ کے ملحدین اور یہودی اور نصرانی مستشرقین نے مسلمانوں کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لیے کھڑے کر دیۓ ، جدید مسائل کے حل کے لیے مقدور بھر  اس کی کوشش کی ہے کہ قرآن و سنت یا فقہاء امّت کے اقوال میں اس کا کوئی ثبوت ملے یا کم از کم اس کی کوئی نظیر ملے ، اور الحمدللہ اس میں کامیابی ہوئی ، ایسے مسائل میں دوسرے علماۓ عصر سے مشورہ لینے کا بھی التزام کیا گیا ہے اور ملحدانہ شکوک و شبہات کے ازالہ میں بھی مقدور بھر اس کی کوشش رہی ہے کہ جواب اطمینان بخش ہو، اور اس جواب وہی کے لیے اسلامی مسائل میں ادنیٰ ترمیم کو گوارا نہیں کیا جیسا کہ دورِ حاضر کے بعض مصنفین نے اس جواب دہی میں خود اسلامی مسائل میں تاویلیں کر کے ترمیم کر ڈالنے کا طریقہ اختیار کیا ہے ، یہ سب کچھ اپنی معلومات اور اپنی کوشش کی حد تک ہے ، جس میں بہت سی خطاؤں اور لغزشوں کا احتمال ہے ، اللہ تعالیٰ معاف فرمائیں ، اور ان کی اصلاح کا راستہ نکال دیں ۔

مذکور الصدر التزامات نے تفسیر معارف القرآن کو مندرجہ ذیل چیزوں کا جامع بنا دیا ہے :۔

1۔ قرآن مجید کے دو مستند ترجمے ایک حضرت شیخ الہندؒ کا جو دراصل شاہ عبدالقادر صاحبؒ کا ترجمہ ہے دوسرا حضرت احکیم الامّت تھانویؒ کا ترجمہ ۔

2۔ خلاصہ تفسیر، جو درحقیقت بیان القرآن کا خلاصہ مع تسہیل ہے جس کو علیٰحدہ بھی قرآن مجید کے حاشیہ پر طبع کر لیا جاۓ تو تھوڑی فرصت والوں کے لیے فہیم قرآن کا مستند اور بہترین ذریعہ ہے ، اس نے ایک اور ضرورت کو پورا کر دیا جس کی طرف مجھے اخی فی اللہ مولانا بدر عالم صاحب مہاجرؒ مدینہ منورہ نے علامہ فرید وجدیؒ کی ایک مختصر تفسیر حاشیہ قرآن پر دکھلا کر توجّہ دلائی تھی کہ کاش اردو میں بھی کوئی ایسی تفسیر ہوتی جو اس کی طرح مختصر اور آسان ہو، اللہ تعالیٰ نے اس سے یہ آرزو بھی پوری فرما دی ، یہ دونوں چیزیں تو اکابرِ علما کی مستند اور معروف ہیں ۔

3۔ تیسری چیز معارف و مسائل ہیں جو میری طرف منسوب ہیں ، اور میری محنت کا محوَز ہیں ، الحمد للہ کہ اس میں بھی میرا اپنا کچھ نہیں ، سب اسلافِ اُمّت ہی سے لیا ہوا ہے ، آج کل کے اہلِ علم و اہل قلم اکثر اس فکر میں رہتے ہیں کہ اپنی کوئی تحقیق اور اپنی طرف سے کوئی نئی چیز پیش کریں ، اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں کہ اس سب کام میں میرا اپنا کچھ نہیں۔

ایں ہمہ گفتیم ولیک اندر پسیچ ۔۔  بے عنایاتِ خدا ہیچم و ہیچ

واللہ سبحانہ اعلم و ایاہ  اسأ ل الصواب السّداد فی المبدء والمعاد و بہ استعینمن زلۃ القدم فیما عملت و مالا اعلم ایاہ اسأل ان یحجلہٗ خالصاً لوجہہ الکریم وان یتقبلہ منِّی کما تقبلمن صالحی عبادہ و ان بنفعنی بہ یوم لا ینفع مال و لابنون و لہ الحمد اوّلاً و آخراً و ظاہراً و باطناً و صلیٰ اللہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ و صفوۃ رسلہ خاتم انبیائہ و علیٰ آلہ و اصحابہ اجمعین و بارک و سلم تسلیماً کثیراً۔

بندہ ضعیف و ناکارہ محمد شفیع  خادم دارالعلوم کراچی

25/ شعبان 1392 ھ

***

ٹائپنگ: مخدوم محی الدین (سپریم کمپیوٹرس)

تدوین ور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید