FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

صحاح ستہ۔۔ تعارف و خصوصیات

 

 

               مولانا اشرف عباس قاسمی

استاذ دارالعلوم دیوبند

 

 

 

 

 

خدائی تعلیم و ہدایت کا جو قیمتی سرمایہ خاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دنیا کو ملا، اس کے دو حصے ہیں: ایک کتاب اللہ جو لفظاً و معنیاً کلام اللہ ہے، دوسرے آپ کے وہ ارشادات اور آپ کی وہ تمام قولی و عملی ہدایات و تعلیمات، جو آپ نے اللہ کے نبی ورسول، اس کی کتاب کے معلم و شارح اور اس کی مرضی کے نمائندے ہونے کی حیثیت سے امت کے سامنے پیش کی ہیں، جن کو صحابۂ کرامؓ نے بلا کم وکاست بعد والوں کو پہنچایا اور بعد والوں نے اس کو پورے سلسلۂ روایت کے ساتھ کتابوں میں محفوظ کر دیا۔ آپ کی تعلیمات  وہدایات اور فرمودات و ارشادات کے اس حصے کا عنوان حدیث اور سنت ہے۔

قرآن کریم کے بعد شریعت کا سب سے بڑا اور اہم ماخذ حدیث پاک ہے۔ حدیث کو اسلام میں ہمیشہ اساسی اور بنیادی حیثیت حاصل رہی ہے اور ہر زمانے میں علماء کی ایک بڑی تعداد نے اس کی چھان پھٹک، ترتیب و تہذیب اور نشر و اشاعت میں خصوصیت سے حصہ لیا، کیوں کہ قرآن کریم کی تفہیم و تفصیل حدیث پاک ہی کے ذریعہ ہوتی ہے۔ عقائد کی گرہیں بھی اسی سے کھولی جاتی ہیں، فقہ کی سند بھی اسی سے لی جاتی ہے۔ بہ قول علامہ سید سلیمان ندویؒ "اسلامی علوم میں قرآن کریم دل کی حیثیت رکھتا ہے تو حدیث پاک شہِ رگ کی۔ یہ شہ رگ اسلامی علوم کے تمام اعضاء و جوارح تک خون پہنچا کر ہر آن ان کے لیے تازہ زندگی کا سامان پہنچاتی رہتی ہے۔ ” (مقدمہ تدوین حدیث)

خلاصہ یہ کہ حدیث کے بغیر اسلام کا کوئی موضوع مکمل نہیں ہوسکتا، اس لیے محدثین نے حد درجہ حفاظت حدیث کا اہتمام کیا اوراس کے لیے نہایت قیمتی اصول وضع کیے اور اپنی پوری محنت، قابلیت اور اخلاص و عقیدت کے ساتھ اس کی ایسی خدمت کی کہ دنیا کی کوئی قوم اپنی قدیم روایات واسناد اور مذہبی سرمایہ کی حفاظت کی مثال نہیں پیش کرسکتی۔

ابو محمد ابن حزمؒ فرماتے ہیں: "رسولِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم تک اتصالِ سند کے ساتھ ثقات کا ثقات سے نقل، ایسی خصوصیت ہے جس سے اللہ پاک نے صرف اہل اسلام کو سرفراز فرمایا ہے، دیگر اقوام و ملل اس سے تہی دست ہیں۔ ” (الفصل فی الملل والاہواء والنحل ۲/۸۲)

حافظ ابو علی جیانیؒ فرماتے ہیں: تین چیزیں ایسی ہیں جو اللہ پاک نے خصوصیت کے ساتھ اس امت کو عطا کی ہیں۔ اس سے پہلے کسی کو یہ نہیں دی گئی ہیں: (۱) اِسناد (۲) اَنساب (۳) اِعراب” (منہج النقد ص۳۶)

محدثین کی گراں قدر کوششوں اور حدیث کی حفاظت و اشاعت کی خاطر اپنے آپ کو گھلا دینے کا نتیجہ ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و فرمودات کے قابلِ قدر مجموعے اپنی اصل اور حقیقی شکل میں امت کے ہاتھ میں موجود ہیں۔

فنی طور پر حفاظتِ حدیث کا آغاز عہدِ صحابہ میں ہی ہو گیا تھا، چنانچہ صحابۂ کرامؓ روایت حدیث میں کئی قوانین اور اصول کا لحاظ رکھتے تھے، چنانچہ حضرت ابوبکر صدیقؓ اور عامۃ الصحابہ تقلیلِ روایت پر ہی کاربند تھے، جدہ کی میراث کے سلسلے میں حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نے جب رسولِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم سے چھٹا حصہ دینے کو نقل کیاتو حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: ہَلْ مَعَکَ أحَدٌ”؟ جس پر محمد بن مسلمہ نے کھڑے ہو کر حضرت مغیرہؓ کی تائید فرمائی (بخاری، باب قصہ فاطمہ بنت قیس) اس سے عہدِ صحابہ میں روایت کے سلسلے میں احتیاط کا پتہ چلتا ہے، بلکہ حافظ دہبیؒ نے تو بعض کبارِ صحابہؓ کے بارے میں شواہد کے ساتھ یہ بات نقل کی ہے، چناں چہ ذہبیؒ حضرت ابوبکرؓ کے ترجمے میں کہتے ہیں:

"وکان أول من احتاط فی قبول الأخبار” حضرت عمر بن الخطابؓ کے بارے میں فرماتے ہیں: "وہو الذی سن للمحدثین التثبت فی النقل وربما کان یتوقف فی خبر الواحد اذا ارتاب” اور حضرت علیؓ کے سلسلے میں رقم طراز ہیں: "کان اماما عالما متحریا فی الأخذ بحیث أنہ یستحلف من یحدثہ بالحدیث”

(تذکرۃ الحفاظ ص۱۰)

دورِ صحابہؓ کے بعد قرن ثانی کے آغاز میں احادیث کو باضابطہ مدون کرنے کی سرکاری اور غیرسرکاری کوششیں ہوئیں۔ جرح و تعدیل اور نقد رِجال کے قوانین پر احادیث کو پرکھا جانے لگا۔ تیسری صدی تدوینِ حدیث کا سنہرا دور ہے، جس میں امیرالمومنین فی الحدیث امام محمد بن اسماعیل بخاریؒ نے صحیح احادیث کا عظیم مجموعہ مرتب کیا اور باقی اصحابِ ستہ نے بھی اسی نہج پر کتابیں مرتب کیں۔ ان کے علاوہ بھی مختلف معاجم، مسانید، سنن اور مستخرجات و مؤلفات وجود میں آئیں، لیکن ان تمام کتب روایت میں شہرت و قبولیت کے اعتبار سے جو مقام و مرتبہ اصولِ ستہ کے حصے میں آ یا وہ اور کتابوں کو نصیب نہ ہوسکا، ان ہی اصولِ ستہ کو علماء ہند کی اصطلاح میں "صحاح ستہ” سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ (وَلاَ مُشَاحَۃَ فِی الْاِصْطِلَاحِ)

آئندہ صفحات میں مختلف جہتوں سے اصولِ ستہ پر روشنی ڈالتے ہوئے خصوصیت کے ساتھ مشترکہ خصوصیات کو واضح کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

 

صحاحِ ستہ کی تحقیق

 

"صحاح” صحیح کی جمع ہے۔ بر وزن فعیل سقیم کی ضد ہے۔ اجسام یعنی محسوسات میں بھی اس کا استعمال ہوتا ہے اور معنویات میں بھی۔ اگر محسوسات میں استعمال ہو تو لغۃً اس کا معنی ہو گا "الشیء السلیم من الأمراض والعیوب” یعنی وہ چیز جو امراض و عیوب سے صحیح سالم ہو، اس سے معلوم ہوا کہ واضعِ لغت نے اس لفظ کو سلامت من العیوب ہی کے لیے وضع کیا ہے، لہٰذا یہی اس کا معنی حقیقی ہے اور معنویات میں یہ جس معنی کے لیے مستعمل ہے، وہ اس کا معنی مجازی ہے۔ مثلاً قول و حدیث کی صفت صحیح آتی ہے تواس وقت ترجمہ ہو گا "مَا اعتُمد علیہ” یعنی قول صحیح وہ ہے جس پر اعتماد کیا جائے۔ (تیسیر مصطلح الحدیث ص۴۴) اور اصطلاح میں صحیح خبر واحد کی ایک قسم ہے۔

 

صحاحِ ستہ کا مصداق

 

صحاحِ ستہ سے مراد حدیث پاک کی چھ مشہور و معروف کتابیں ہیں: (۱) صحیح بخاری (۲) صحیح مسلم (۳) سنن نسائی (۴) سنن ابی داؤد (۵) جامع ترمذی (۶) سنن ابن ماجہ۔ ان چھ کتابوں کو "اصولِ ستہ، صحاحِ ستہ، کتبِ ستہ اور امہاتِ ست” بھی کہتے ہیں (مسک الختام ۱/۱۷)

 

صحاح ستہ کا مطلب اور غلط فہمی کا ازالہ

 

صحاح ستہ کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ان چھ کتابوں میں جتنی روایات ہیں، سب صحیح ہیں اور نہ یہ نظریہ درست ہے کہ صرف ان ہی کتبِ ستہ کی روایات صحیح ہیں۔ باقی کتب حدیث کی روایات درجۂ صحت تک نہیں پہنچتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کتابوں کی روایات زیادہ تر صحیح ہیں، اس لیے انھیں تغلیباً صحاح ستہ کہا جاتا ہے۔ شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ فرماتے ہیں:

"کتب ستہ کہ مشہور اند دراسلام گفتہ اند صحیح بخاری وصحیح مسلم وجامع ترمذی وسنن ابی داؤد وسنن نسائی وسنن ابن ماجہ است۔ ودریں کتب آنچہ اقسامِ حدیث است از صحاح وحِسان وضِعاف ہمہ موجود است، وتسمیہ آں بصحاح بطریقِ تغلیب است” (اشعۃ اللمعات)

"چھ کتابیں جو کہ اسلام میں مشہور ہیں، محدثین کے مطابق وہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ ہیں۔ ان کتابوں میں حدیث کی جتنی قسمیں ہیں صحیح، حسن اور ضعیف، سب موجود ہیں اور ان کو صحاح کہنا تغلیب کے طور پر ہے۔ ”

 

حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں:

"صحاحِ ستہ” کے نام سے بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان میں ہر حدیث صحیح ہے، اور بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے علاوہ کوئی حدیث صحیح نہیں، لیکن یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ نہ صحاح ستہ کی ہر حدیث صحیح ہے اور نہ اُن سے باہر کی ہر حدیث ضعیف ہے، بلکہ صحاح ستہ کی اصطلاح کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص ان چھ کتابوں کو پڑھ لے اس کے سامنے اصولِ دین سے متعلق صحیح روایات کا ایک بڑا ذخیرہ آ جاتا ہے، جو دین کے معاملات میں کافی ہے۔ (درسِ ترمذی، مقدمہ ۱/۱۲۶)

 

اصحاب صحاح ستہ

 

نمبر شمار  اسماء گرامی سن ولادت سن وفات
۱ محمد بن اسماعیل بخاریؒ ۱۹۴ھ ۲۵۶ھ
۲ مسلم بن حجاج نیشاپوریؒ ۲۰۴ھ ۲۶۱ھ
۳ ابوداؤد سلیمان بن اشعثؒ ۲۰۲ھ ۲۷۵ھ
۴ ابوعیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذیؒ ۲۰۹ھ ۲۷۹ھ
۵ ابوعبداللہ احمد بن شعیب نسائیؒ ۲۱۴ھ ۳۰۰ھ
۶ محمد بن یزید بن عبداللہ ابن ماجہؒ ۲۰۷ھ ۲۷۳ھ

 

"صحاحِ ستہ” کی اصطلاح، عہد بہ عہد

 

محدثین کے یہاں صحاحِ ستہ کی اصطلاح کو بہ تدریج فروغ ملا ہے، چنانچہ حافظ سعید بن سکن (م ۳۵۳ھ) چار کتبِ حدیث کو ہی اسلام کی بنیاد خیال کرتے تھے، چنانچہ ایک موقع پر انھوں نے فرمایا تھا: "ہٰذہ قواعد الاسلام، کتاب مسلم و کتاب البخاری و کتاب ابی داؤد و کتاب النسائی” (شروط الائمہ الستہ ص۱۶، امام ابن ماجہ اور علم حدیث ص۲۳۳)

"یہ اسلام کی بنیادیں ہیں، امام مسلم کی کتاب، امام بخاری کی کتاب، ابوداؤد کی کتاب اور نسائی کی کتاب”

اسی طرح حافظ ابو عبداللہ بن مندہ نے بھی مخرجین صحاح میں انہی ائمۂ اربعہ کے ذکر پر اکتفا کیا تھا، گویا وہ بھی صحاحِ اربعہ کے قائل نظر آتے ہیں۔

بعد میں حافظ احمد بن محمد ابوالطاہر السِّلَفی (م ۵۷۶ھ) نے جامع ترمذی کو بھی مذکورہ بالا چاروں کتابوں کے ساتھ شمار کر کے تصریح کی کہ ان پانچوں کتابوں کی صحت پر علماء شرق و غرب کا اتفاق ہے۔

ان کے بعد بہت سے علماء  و حفاظ حدیث بالخصوص حافظ ابن الصلاح اور امام نووی بھی انہی پانچ کتابوں کے کتبِ اصول میں ہونے کے قائل رہے اور اسی پس منظر میں امام ابوبکر حازمیؒ نے "شروط الائمہ الخمسۃ” تالیف فرمائی۔

لیکن بعض حضرات نے ابن ماجہ کی جودتِ ترتیب، فقہی اعتبار سے کثیر النفع اور دیگر کتب کے مقابلے میں زائد روایات پر مشتمل ہونے کی وجہ سے سنن ابن ماجہ کو بھی کتبِ اصول میں شمار کر کے چھ کتابوں کو امہاتِ کتب قرار دیا۔ اور اس وقت بھی کتبِ ستہ یا صحاحِ ستہ کی مصداق یہی چھ کتابیں ہیں۔

علامہ ابوالفضل مقدسی پہلے محدث ہیں جنھوں نے ابن ماجہ کو سابقہ کتب خمسہ کے ساتھ لاحق کیا، چنانچہ علامہ محمد بن جعفرالکتانی (م۱۳۴۵ھ) لکھتے ہیں:

"و أول من أضافہ الی الخمسۃ مکملا بہ الستۃ ابوالفضل محمد بن طاہر بن علی المقدسی فی أطراف الکتب الستۃ لہ، وکذا فی شروط الائمۃ الستۃ لہ، ثم الحافظ عبدالغنی بن عبدالواحد بن علی بن سرود المقدسی فی الکمال فی أسماء الرجال فتبعہما علی ذلک أصحاب الأطراف والرجال والناس” (الرسالۃ المستطرفۃ ص۱۲، دارالبشائر الاسلامیۃ)

پہلے شخص جنھوں نے ابن ماجہ کو پانچ کے ساتھ ملا کر چھ کا عدد پورا کیا، وہ ابوالفضل محمد بن طاہر بن علی المقدسی ہیں، انھوں نے اپنی کتاب "اطراف الکتب الستہ” اور” شروط الائمہ الستۃ” میں ایسا کیا۔ پھر حافظ عبدالغنی بن عبد الواحد بن علی بن سرور المقدسی نے اپنی کتاب "الکمال فی اسماء الرجال” میں ایسا کیا۔ پھر کتب اطراف و رجال کے مصنّفین اور دیگر حضرات اس سلسلے میں ان دونوں حضرات کے نقش قدم پر چل پڑے”۔

 

سادسِ ستہ کی تعیین میں اختلاف

 

جب کہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ حافظ ابوالفضل مقدسی (م۵۰۷ھ) پہلے شخص ہیں جنھوں نے کتبِ خمسہ کے پہلو بہ پہلو سنن ابن ماجہ کو جگہ دی۔ اسی عہد میں مقدسی کے معاصر محدث رزین بن معاویہ عبدری مالکی (م۵۲۵ھ) نے اپنی کتاب "التجرید للصحاح والسنن” میں کتب خمسہ کے ساتھ سنن ابن ماجہ کے بجائے موطا امام مالک کی حدیثوں کو درج کیا ہے۔ اس بنا پر بعد کے علماء میں اختلاف ہوا کہ صحاحِ ستہ کی چھٹی کتاب موطا کو قرار دیا جائے یا اس کی جگہ سنن ابن ماجہ کو رکھا جائے؟

محدث مبارک بن محمد المعروف بابن الاثیر الجزری (م۶۰۶ھ) نے اپنی مشہور و مقبول عام کتاب "جامع الاصول” میں محدث رزین ہی کی رائے کو راجح خیال کیا ہے، اسی لیے اس کتاب میں ابن ماجہ کے حوالے سے کوئی روایت درج نہیں ہے۔ اسی طرح حافظ ابو جعفر بن زبیر غرناطی کی تصریح ہے۔

"أولی ما أرشد الیہ ما اتفق المسلمون علی اعتمادہ وذلک الکتب الخمسۃ والموطا الذی تقدمہا وضعا ولم یتأخر عنہا رتبۃ” (تدریب الراوی ص۵۶)

"جو کچھ بتایا گیا ہے ان سب میں اولیٰ وہ کتابیں ہیں جن کے اعتماد پر مسلمانوں کا اتفاق ہے اور یہ وہی کتبِ خمسہ ہیں اور موطا ہے جو تصنیف میں ان سے مقدم ہے اور رتبہ میں کم نہیں ہے”

اور علامہ محدث عبدالغنی نابلسی حنفی (م ۱۱۴۳ھ) اپنی مشہور کتاب "ذخائر المواریث فی الدلالۃ علی مواضع الحدیث” کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:

"وقد اختلف فی السادس فعند المشارقۃ ہو کتاب السنن لابی عبد اللّٰہ محمد بن ماجہ القزوینی وعند المغاربۃ کتاب الموطا للامام مالک بن أنس الأصبحی”

"چھٹی کتاب کے بارے میں اختلاف ہے۔ اہل مشرق کے نزدیک وہ ابو عبداللہ محمد بن ماجہ قزوینی کی کتاب السنن ہے اور اہل مغرب کے نزدیک امام مالک بن انس اصبحی کی کتاب موطا”

لیکن عام متاخرین کا فیصلہ ابن ماجہ ہی کے حق میں ہے۔ محدث ابوالحسن سندھی لکھتے ہیں:

"غالب المتأخرین علی أنہ سادس الستۃ” اکثر متاخرین اس بات کے قائل ہیں کہ کتب ستہ میں چھٹی کتاب ابن ماجہ ہی ہے” (امام ابن ماجہ اور علم حدیث ص۲۳۳-۲۳۴)

غرضیکہ کتبِ ستہ میں چھٹی کتاب ابنِ ماجہ ہے یا موطا مالک یا مسند دارمی؟ اس حوالے سے ابتدائی مصنّفین میں خاص اختلاف رہا اور مجموعی اعتبار سے تین اقوال ملتے ہیں:

۱- مشارقہ اور اکثر علماء اس بات کے قائل ہیں کہ سادسِ ستہ سنن ابن ماجہ ہی ہے۔

۲- رزین بن معاویہ عبدری، ابن اثیر جزری اور مغاربہ کی رائے یہ ہے کہ کتبِ ستہ میں چھٹی کتاب موطا امام مالک ہے۔

۳- حافظ ابن الصلاح، امام نووی، صلاح الدین علائی اور ابن حجر عسقلانی وغیرہ کی رائے میں سادسِ ستہ، مسند دارمی کو قرار دینا اولیٰ ہے۔

علامہ کتانیؒ فرماتے ہیں:

ومنہم من جعل السادس الموطا کرزین بن معاویۃ العبدری فی التجرید، وأثیر الدین ابی السعادات المبارک بن محمد المعروف بابن الأثیر الجزری الشافعی فی جامع الأصول، وقال قوم من الحفاظ، منہم ابن الصلاح والنووی وصلاح الدین العلائی والحافظ ابن حجر: لو جعل مسند الدارمی سادسا لکان أولیٰ، (الرسالۃ المستطرفۃ ص۱۳)

"بعض حضرات نے چھٹی کتاب موطا کو قرار دیا ہے، جیسے رزین بن معاویہ عبدری نے التجرید میں اور اثیرالدین ابوالسعادات ابن الاثیر الجزری الشافعی نے جامع الاصول میں اورحفاظ کی ایک جماعت جس میں ابن الصلاح، نووی، صلاح الدین علائی اور حافظ ابن حجر شامل ہیں، کا خیال یہ ہے کہ اگر مسند دارمی کو چھٹی کتاب قرار دیا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔ ”

علامہ کتانیؒ نے مزید ایک قول نقل کیاہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض حضرات صحاحِ ستہ ہی نہیں، بلکہ صحاحِ سبعہ کے کتبِ اصول ہونے کے قائل ہیں۔ یعنی (۱) صحیح بخاری (۲) صحیح مسلم (۳) سنن نسائی (۴) سنن ابی داؤد (۵) جامع ترمذی (۶) ابن ماجہ (۷) موطا امام مالک، بعض حضرات نے اس فہرست میں موطا کی جگہ سنن دارمی کو رکھا ہے۔ کتانی کہتے ہیں:

"ومنہم من جعل الأصول سبعۃ، فعدّ منہا زیادۃ علی الخمسۃ کلا من الموطا وابن ماجہ، ومنہم من اسقط الموطا وجعل بدلہ سنن الدارمی” (الرسالۃ ص۱۳)

"بعض حضرات نے سات کتابوں کو اصول قرار دیا ہے۔ ان سات کتابوں میں کتبِ خمسہ کے علاوہ ابن ماجہ اور موطا دونوں کو شمار کیا ہے۔ اور بعض نے موطا کو ساقط کرکے اس کی جگہ مسند دارمی کو رکھا ہے۔ ”

غرضیکہ شروع میں ایک عرصے تک اس طرح کا جزوی اختلاف رہا، لیکن بالآخر صحاحِ ستہ کی اصطلاح رائج ہوئی اور سادسِ ستہ کا سہرا "سنن ابن ماجہ” ہی کے سر بندھا۔

 

اغراضِ مؤلفین صحاح ستہ

 

صحاح ستہ کے مؤلفین کی اغراض تالیف مختلف رہی ہیں:

امام بخاریؒ کی غرض تالیفِ احکام اور استنباطِ مسائل ہے، بعض مرتبہ استنباط اس قدر دقیق ہوتا ہے کہ وایت اور ترجمۃ الباب میں مطابقت کے لیے دقتِ نظری سے کام لینا پڑتا ہے۔ امام بخاریؒ بسا اوقات پوری حدیث ایک جگہ نہیں نقل کرتے، بلکہ مختلف مواقع پر اس کے وہی ٹکڑے ذکر کرتے ہیں جس سے وہاں حکم مستنبط ہو رہا ہے۔ امام بخاریؒ کے تراجم آپ کی دقت نظر اور تفقہ کی ترجمانی کرتے ہیں، اس لیے مشہور ہے: فقہ البخاری فی تراجمہ خاتم المحدثین علامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ آپ کے قائم کردہ تراجم کے سلسلے میں کہتے ہیں:

"سبّاق الغایات وصاحب الاٰیات فی التراجم لم یسبق بہ أحد من المتقدمین ولم یستطع أن یحاکیہ من المتأخرین فکان ہو فاتح لذلک الباب وصار ہو الخاتم” (مقدمہ فیض الباری ۱/۳۵)

ترجمہ: اہداف تک سب سے پہلے پہنچنے والے اور تراجم قائم کرنے میں عجیب کمالات کے مالک ہیں، نہ تو متقدمین میں سے کوئی اُن پر سبقت کرسکا اور نہ متاخرین میں سے کوئی آپ کا نہج اختیار کرسکا، گویا آپ ہی اس دروازے کو وا کرنے والے اور خود ہی اس سلسلے کو ختم کر دینے والے ہیں۔

فائدہ: "فقہ البخاری فی تراجمہ ” (امام بخاریؒ کی فقہ ان کے تراجم میں ہے) کے دو مطلب ذکر کیے گئے ہیں: ایک مطلب یہ ہے کہ امام بخاریؒ کا مسلک اور فقہی رجحان ان کے تراجم سے آشکارا ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ امام بخاریؒ کی دقتِ نظری اور ذکاوت ان تراجم سے واضح ہوتی ہے۔ یعنی فقہ یا تو اپنے معروف معنی میں ہے یا ذکاوت اور دقتِ نظری کے معنی میں ہے، چنانچہ مولانا محمد یوسف بنوریؒ فرماتے ہیں:

"فقہ البخاری فی تراجمہ، ولہذا القول عند شیخنا محملان، الأول أن المسائل التی اختارہا من حیث الفقہ تظہر من تراجمہ، والثانی أن تفقہہ وذکاء ہ ودقۃ فکرہ یظہر فی تراجمہ” (معارف السنن۱/۲۳)

امام مسلمؒ کا وظیفہ صحیح احادیث کا جمع کرنا ہے، چنانچہ وہ ایک موضوع کی حدیث کو اس کے تمام صحیح طرق کے ساتھ ایک جگہ مرتب شکل میں جمع کر دیتے ہیں، استنباط سے ان کی کوئی غرض متعلق نہیں، یہی وجہ ہے کہ اپنی کتاب کے تراجم ابواب بھی انھوں نے خود قائم نہیں کیے، بلکہ بعد کے لوگوں نے حواشی میں بڑھائے ہیں۔ ہمارے موجودہ ہندوستانی نسخے میں قائم کردہ عنوانات امام نوویؒ ہیں۔

امام نسائیؒ کا مقصد زیادہ تر عللِ اسانید بیان کرنا ہے، چنانچہ وہ احادیث کی عللِ خفیّہ پر "ہٰذا خطأ” کہہ کر متنبہ کرتے ہیں۔ پھر وہ حدیث لاتے ہیں جو ان کے نزدیک صحیح ہو، اس کے ساتھ استنباطِ احکام پر بھی ان کی نظر ہوتی ہے۔

امام ابو داؤدؒ کا وظیفہ مستدلاتِ ائمہ بتلانا ہے، اس لیے وہ ان احادیث کو تمام طرق کے ساتھ یکجا ذکر کر دیتے ہیں، جن سے کسی فقیہ نے کسی بھی فقہی مسئلہ پر استدلال کیا ہو، اس لیے وہ امام مسلمؒ کی طرح صحیح احادیث کی پابندی نہیں کرسکے، البتہ "قال أبو داؤد” کے عنوان سے وہ ضعیف اور مضطرب احادیث پر کلام کرنے کے بھی عادی ہیں۔

امام ترمذیؒ کا مقصد اختلافِ ائمہ کو بتلانا ہے، اس لیے وہ ہر فقیہ کے مستدل کو جداگانہ باب میں ذکر کر کے ان کا اختلاف نقل کرتے ہیں۔ ہر باب میں عموماً صرف ایک حدیث لاتے ہیں اور باقی احادیث کی طرف وفی الباب عن فلان وفلان کہہ کر اشارہ کر دیتے ہیں۔

امام ابن ماجہؒ کا طریقہ امام ابو داؤدؒ کے مشابہ ہے۔ فرق یہ ہے کہ اس میں صحیح اور سقیم ہر طرح کی احادیث آ گئی ہیں۔ (دیکھیے: مقدمہ درس ترمذی ۱/۱۲۷)

شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"ہر حدیث پڑھنے والے کو سب سے پہلے اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ یہ معلوم کرے کہ اس حدیث کے متعلق ائمہ کیا کہتے ہیں اور ان کا مذہب کیا ہے؟ یہ بات ترمذی سے معلوم ہو گی۔ اس کے بعد جب مذہب معلوم ہو گیا تو اب ضرورت ہے کہ اس کی دلیل معلوم ہو، وہ وظیفہ ابوداؤد کا ہے۔ اس کے بعد اس کی ضرورت ہوتی ہے کہ یہ مسئلہ کیسے مستنبط ہوا؟ یہ وظیفہ بخاریؒ کا ہے کہ وہ استنباطِ مسائل کا طریقہ دکھلاتے ہیں اور بتلاتے ہیں۔ اس کے بعد جب احادیث سے مسائل مستنبط ہو گئے اور دلائل سامنے آ گئے تو ان دلائل کی تقویت کے لیے اسی مضمون کی دوسری حدیث کی بھی ضرورت ہوتی ہے، یہ کمی امام مسلمؒ پوری کرتے ہیں، اب آدمی مولوی ہو جاتا ہے۔ اب اس کے بعد اس کو محقق بننے کی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ یہ معلوم کرے کہ یہ حدیث جو مستدل بن رہی ہے، اس کے اندر کوئی علت تو نہیں، اس کا تعلق نسائی سے ہے۔ اس کے بعد آدمی کو ایک مستقل بصیرت حاصل ہو جاتی ہے، اب اس کو چاہیے کہ وہ احادیث پر غور کرے اور خود دیکھے کہ اس حدیث کے اندر کوئی علت تو نہیں، کیوں کہ نسائی شریف کے اندر تو خود امام نسائیؒ ساتھ دے رہے تھے اور بتلاتے جاتے تھے کہ اس حدیث میں یہ علت ہے، لیکن اب ضرورت اس بات کی ہے کہ بغیر کسی کے مطلع کیے ہوئے خود احادیث کو پرکھے اور علل کو تلاش کرے، اس کے اندر معین ابن ماجہ ہے، کیوں کہ اس میں احادیث گڈمڈ ہیں اور کسی کے متعلق یہ نہیں بتلایا گیا ہے کہ اس حدیث کا درجہ کیا ہے، انہی اغراض کے پیش نظر ہمارے اکابر نے مذکورہ بالا ترتیب قائم فرمائی تھی” (سراج القاری، ج۱، مقدمہ الکتاب، ص:۵۳)

 

شرائط مؤلفین صحاح ستہ

 

صحاح ستہ کے مؤلفین نے کہیں یہ وضاحت نہیں کی ہے کہ ان کے پیشِ نظر کیا شرائط ہیں، بعد کے محدثین نے ان کی مُصنَّفات اور ذکر کردہ روایات کو دیکھ کر شرائط کا استنباط کیا ہے۔ علامہ زاہد کوثریؒ فرماتے ہیں:

ہماری معلومات کے مطابق شرائطِ ائمہ پر سب سے پہلے قلم اٹھانے والے حافظ ابوعبداللہ محمد بن اسحاق بن مندہ (م ۳۹۵ھ) ہیں، جنھوں نے ایک جزء تالیف کیا اور اس کا نام رکھا "شروط الأئمۃ فی القراء ۃ والسماع والمناولۃ والاجازۃ” (تعلیق شروط الائمۃ الخمسۃ مطبوع مع سنن ابن ماجہ ص ۷۳)

البتہ اس موضوع پر حافظ ابوبکر محمد بن موسیٰ الحازمی (م ۵۸۴ھ) کی "شروط الأئمۃ الخمسۃ” اور حافظ ابوالفضل ابن طاہر مقدسی کی "شروط الأئمۃ الستۃ” کلیدی حیثیت رکھتی ہیں، ان میں بھی اول الذکر کو کئی اعتبار سے ثانی الذکر پر فوقیت حاصل ہے۔

مؤلفین اصولِ ستہ کی شرائط کو سمجھنے سے پہلے رواۃ کے طبقاتِ خامسہ سے واقفیت ضروری ہے، چنانچہ علامہ حازمیؒ فرماتے ہیں: اوصاف کے لحاظ سے رواۃ پانچ طرح کے ہیں:

(۱) کثیر الضبط والاتقان وکثیر الملازمۃ للشیوخ: جس کا حافظہ اور اتقان بڑا قوی ہو اور مشائخ کی مصاحبتِ طویلہ اسے نصیب ہو، جیسے یونس بن یزید ایلی، اور زہری کے شاگرد مالک ابن عیینہ اور ابن ابی حمزہ۔

(۲) کثیر الضبط والاتقان وقلیل الملاززۃ: ضبط اور اتقان تو مضبوط ہوں، لیکن شیخ کی زیادہ مصاحبت نصیب نہ ہوئی ہو۔ جیسے امام ابوعبدالرحمن اوزاعی فقیہ شام، لیث بن سعد اور ابن ابی ذئب۔

(۳) قلیل الضبط کثیر الملازمۃ: مشائخ سے طویل مصاحبت رہی ہو، لیکن حافظہ قوی نہ ہو، جیسے جعفر بن برقان، اسحاق بن یحییٰ اور سفیان بن حسین۔

(۴) قلیل الضبط قلیل الملازمۃ: یعنی حافظہ بھی کمزور اور مشائخ سے زیادہ ربط بھی نہ ہو، جیسے ربیعہ بن صلاح اور مثنیٰ بن الصباح۔

(۵) قلیل الضبط وقلیل الملازمۃ ہونے کے ساتھ مطعون بھی ہو، یعنی اس پر وجوہ طعن میں سے کوئی طعن ہو، جیسے عبدالقدوس شامی۔

امام بخاریؒ رُواۃ کے طبقاتِ خمسہ میں سے صرف پہلے طبقہ یعنی قوی الضبط کثیر الملازمۃ سے روایت لیتے ہیں اور کبھی تائیداً دوسرے طبقہ سے بھی لے لیتے ہیں۔ امام مسلمؒ پہلے دو طبقوں کو بلا تکلف لاتے ہیں اور تیسرے طبقے کو بھی تائید کے لیے لے آتے ہیں۔ باقی یعنی چوتھے اور پانچویں درجے کے راوی کو ترک کر دیتے ہیں۔ امام ابوداؤد ابتدائی چاروں طبقات رواۃ کی روایت لیتے ہیں اور طبقۂ خامسہ سے روایت کی تخریج نہیں کرتے ہیں۔ امام نسائیؒ اول، ثانی اور ثالت کی روایات لیتے ہیں، جب کہ امام ترمذیؒ اور ابن ماجہؒ پانچوں قسم کے رواۃ کی روایات ذکر کرتے ہیں، لہٰذا بخاری کا مرتبہ اول، مسلم کا مرتبہ ثانی، نسائی کا ثالث، ابوداؤد کا رابع، ترمذی کا خامس اور ابن ماجہ کا سادس قرار پائے گا۔ ”

حافظ ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں: ان البخاری یخرج فی المتابعات من الثانیۃ، فقلیلاً جدًا من الثالثۃ تعلیقًا او ترجمۃ أیضاً، ومسلم یخرج من الثانیۃ فی الأصول ومن الثالثۃ فی المتابعات، وأصحاب السنن یخرجون من الثالثۃ أیضاً فی الأصول، – انتہی ملخصا- (ہدی الساری ۱۲، ۱۳، دارالحدیث القاہرۃ)

ترجمہ: امام بخاریؒ متابعات میں طبقۂ ثانیہ سے روایت لاتے ہیں، اور تعلیق یا ترجمہ کے طور پر شاذ و نادر طبقہ ثالثہ سے بھی اخذِ روایت کرتے ہیں۔ امام مسلمؒ اصول میں طبقۂ ثانیہ اور متابعات میں ثالثہ سے اخذ روایت کرتے ہیں، جب کہ اصحابِ سنن اصول میں بھی طبقۂ ثالثہ سے روایت کی تخریج کرتے ہیں۔

ان اربابِ صحاح کی اختیار کردہ مذکورہ بالا شرطوں کے علاوہ جو عمومی شرطیں ہیں، وہ سب کے یہاں متفق ہیں۔ مثلاً اسلام، عقل، صدق، عدمِ تدلیس اور عدالت وغیرہ۔

علامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ نے شرائط پر گفتگو کرتے ہوئے ایک اہم نکتے کی طرف بھی اشارہ کیا ہے، وہ فرماتے ہیں:

"والمراد بہذہ الشروط أنہم لا ینزلون فی روایۃ الأحادیث عنہا، فیروون ما ہو أعلی مما شرطوا، وکثیرا مّا یقال باعتبار کثرۃ الملازمۃ وقلتہا، ان فلاناً قوی فی فلان، وان فلاناً ضعیف فی حق فلان وان کان ہو ثقۃ فی نفسہ، ویرجع ذلک الی أسباب، فظہر أن الضعف قسمان: ضعف فی نفسہ وضعف فی غیرہ” (معارف السنن ۱/۲۰)

ترجمہ: شرائط سے مراد یہ ہے کہ اربابِ صحاح، احادیث کی روایت میں ان سے نیچے نہیں اترتے، اور اپنی شرط سے اعلیٰ سے اخذِ روایت کرتے ہیں۔ بہت سی مرتبہ کثرتِ ملازمت اور قلت ملازمت کو بنیاد بنا کر کہہ دیا جاتا ہے کہ فلاں، فلاں کے سلسلے میں قوی ہے اور فلاں فلاں کے سلسلے میں ضعیف ہے۔ اگرچہ وہ فی نفسہ ثقہ ہو اور اس کے کئی اسباب ہوتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ ضعف دو طرح کا ہوتا ہے: ایک وہ ضعف جو خود راوی کی ذات میں ہوتا ہے اور ایک وہ ضعف جو غیر کی وجہ سے ہوتا ہے۔

 

صحاح ستہ کی درجہ وار ترتیب

 

صحت کے اعتبار سے پہلے نمبر پر صحیح بخاری ہے۔ اس کے بعد صحیح مسلم کا درجہ ہے۔ جمہور اسی کے قائل ہیں۔ ابو علی حسین بن علی نیشاپوری (م۳۴۹ھ) کے قول "ما تحت أدیم السماء أصح من کتاب مسلم” (روئے زمین پر مسلم کی کتاب سے زیادہ صحیح کوئی کتاب نہیں ہے) کی توجیہ یہ کی گئی ہے کہ یہ صحیح مسلم کی اصحیت کو مستلزم نہیں، کیوں کہ اس میں مسلم کے مقابلے میں زیادتیِ صحت کی نفی کی گئی ہے، تو ہوسکتا ہے کہ ان کے نزدیک دونوں کتابیں صحت میں مساوی درجہ رکھتی ہوں۔ (نزہۃ النظر، ص۷۰، دارالکتاب)

جہاں تک تعلق ہے امام شافعیؒ کے اس قول کا "لا أعلم بعد کتاب اللّٰہ عز و جل أصحّ من موطأ مالک” تو یہ صحیحین کے وجود میں آنے سے پہلے کا ہے، جیساکہ حافظ عراقی نے شرح الفیہ میں ذکر کیا ہے۔

اسی طرح بعض مغاربہ مثلاً ابن حزم (م۴۶۵ھ) سے صحیح بخاری پر صحیح مسلم کی افضلیت کا جو قول نقل کیا گیا ہے، یا مسلم بن قاسم قرطبی کی طرف جو یہ قول منسوب ہے "لم یضع أحد مثل صحیح مسلم” (تدریب ۱/۹۵)

ان سب کا تعلق حسنِ ترتیب سے ہے، کیوں کہ امام مسلمؒ کی ترتیب بہ نسبت امام بخاریؒ کی ترتیب کے، زیادہ عمدہ ہے، وہ ایک مضمون کی تمام احادیث کو جملہ طرق کے ساتھ ایک ہی جگہ ذکر کر دیتے ہیں۔ غرضیکہ کسی سے صراحت کے ساتھ یہ منقول نہیں کہ وہ صحت کے اعتبار سے بخاری پر مسلم کی تفضیل کے قائل ہوں، اور بالفرض اگر ان حضرات کا مقصد اصحیت کے اعتبار سے مسلم کی ترجیح ہو تو حافظ ابن حجر عسقلانیؒ کے بہ قول خود شاہد وجود اور حقیقت حال سے ان کی تردید ہو جاتی ہے، کیوں کہ صحت کا مدار تین امور پر ہے: (۱) اتصال سند (۲) ثقاہت رواۃ (۳) شذوذ و علت سے حفاظت۔ اور مذکورہ بالا تینوں امور کے لحاظ سے صحیح بخاری کو صحیح مسلم پر نمایاں فوقیت حاصل ہے۔ (نزہۃ النظر ۷۱-۷۴)

جہاں تک اتصال سند کا تعلق ہے، تو اس اعتبار سے بخاری اس معنی کر راجح ہے کہ امام بخاریؒ کے نزدیک صحت کے لیے محض معاصرت اور امکانِ ملاقات کافی نہیں ہے، بلکہ راوی کی مروی عنہ سے ملاقات – خواہ ایک بار سہی – کا ثبوت ضروری ہے، جبکہ امام مسلمؒ امکان ملاقات اور معاصرت کو کافی سمجھتے ہوئے غیرمدلس کے عنعنہ کو اتصال پر محمول کرتے ہیں، اگرچہ راوی اور مروی عنہ کے درمیان حقیقتاً ملاقات ثابت نہ ہو۔

رواۃ کی ثقاہت اور ضبط و عدالت کے لحاظ سے بھی صحیح بخاری راجح ہے، چنانچہ بخاری کے متکلم فیہ رواۃ کی تعداد، صحیح مسلم کے متکلم فیہ رواۃ کی تعداد سے کافی کم ہے۔ تنہا بخاری کے رجال ۴۳۵ ہیں، جن میں متکلم فیہ رجال تقریباً اسّی ہیں۔ اور جن رواۃ سے تنہا امام مسلمؒ نے روایت لی ہے، ان کی تعداد چھ سو بیس (۶۲۰) ہے۔ جن میں متکلم فیہ رُواۃ کی تعداد ایک سو ساٹھ (۱۶۰) ہے۔ (فتح المغیث ۱/۶۳)

اسی طرح شروطِ ائمہ کے ذیل میں یہ بات گزر چکی ہے کہ امام بخاریؒ رواۃ کے طبقۂ اولیٰ سے روایت لیتے ہیں، جبکہ امام مسلمؒ بلا تکلف طبقۂ ثانیہ کی بھی روایت لیتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر ثالثہ سے بھی دریغ نہیں کرتے۔

تیسری صفت یعنی شذوذ  و علت سے محفوظ ہونے کے اعتبار سے بھی بخاری کو فوقیت حاصل ہے، کیوں کہ بخاری ومسلم کی جن احادیث پر تنقید کی گئی ہے وہ کل دو سو دس (۲۱۰) احادیث ہیں، جن میں سے صرف بخاری کی اسّی سے بھی کم ہیں (تدریب الراوی ۱/۹۳)

اور بتیس (۳۲) احادیث میں بخاری ومسلم دونوں شریک ہیں۔ باقی جتنی احادیث ہیں وہ تنہا مسلم میں ہیں (اِمعان النظر:۵۷)

خلاصہ یہ کہ جمہور علماء ومحدثین کے نزدیک اصحیت کے اعتبار سے پہلا مقام صحیح بخاری کا ہے، اس کے بعد صحیح مسلم کا درجہ ہے، البتہ یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ ابن ملقنؒ کے بہ قول بعض حضرات متاخرین دونوں میں برابری کے قائل ہیں۔ وہ ایک کی دوسرے پر فوقیت تسلیم نہیں کرتے، اس طرح صحیحین کے سلسلے میں یہ تیسرا قول قرار پائے گا۔

"قال ابن المقلن: رأیت بعض المتأخرین قال: ان الکتابین سواء، فہذا قول ثالث․ وحکاہ الطوفی فی شرح الأربعین، ومال الیہ القرطبی” (تدریب الراوی۱/۹۶)

صحیح مسلم کے بعد مرتبۂ ثالثہ میں سنن ابو داؤد ہے، چوتھا مرتبہ سنن نسائی کا ہے، لیکن علماء کی ایک جماعت نے ان شرائط کو دیکھتے ہوئے جن کا امام نسائی نے التزام کیا ہے۔ نسائی کو ابوداؤد پر فوقیت دی ہے۔ ان چاروں کے بعد جامع ترمذی کا نمبر ہے، اس لیے کہ اس کے اندر ضعیف احادیث بھی ہیں۔ بعض حضرات ترمذی کو مسلم کے بعد تیسرے نمبر پر رکھتے ہیں اور وہ یہ کہتے ہیں کہ اگرچہ ترمذی میں ضعیف احادیث ہیں، لیکن وہ احادیث کے ضعف پر تنبیہ بھی کر دیتے ہیں، ان سب کے بعد ابن ماجہ ہے، کیوں کہ اس میں صحت کا وہ اہتمام نہیں جو ائمہ خمسہ کے یہاں ہے۔

 

مذاہب ائمۂ ستہ

 

امام بخاریؒ کا مذہب فقہی:

 

امام بخاریؒ کے مسلک کے سلسلے میں پانچ اقوال ہیں:

(۱) اکثر حضرات کا خیال ہے کہ امام بخاریؒ مجتہد مطلق ہیں۔ امام بخاریؒ کے قائم کردہ تراجم و ابواب سے بھی یہی مترشح ہے کہ وہ کسی خاص فقہی مسلک کے پابند نہیں تھے۔

(۲) تاج الدین سبکیؒ نے "الطبقات الشافعیہ” میں، نواب صدیق حسن خاں قنوجی نے "ابجدالعلوم” (۳/۱۲۷) میں اور کئی شافعی محدثین نے امام بخاریؒ کو مسلکاً شافعی قرار دیا ہے۔

لیکن اس رائے پر علامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ نے سخت نقد کیا ہے۔ (دیکھیے فیض الباری ۱/۵۳، معارف السنن ۱/۲۱)

(۳) شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ فرماتے ہیں کہ امام بخاری مجتہد منتسب الی الامام الشافعی ہیں، یعنی وہ امام شافعیؒ کے مقلد نہیں، بلکہ مجتہد ہیں، البتہ ان کا اجتہاد امام شافعیؒ کے اجتہاد کے موافق ہوا کرتا ہے۔ (الانصاف فی بیان سبب الاختلاف، ص۸۶)

(۴) علامہ قسطلانیؒ کے بہ قول امام بخاریؒ  ظاہرِ حدیث کے مقلد ہیں۔

(۵) حافظ ابن قیم اور ان ابی یعلیٰ کی رائے میں امام بخاری حنبلی ہیں۔ (الامام ابن ماجہ و کتابہ السنن ۱۲۶)

 

امام مسلمؒ کا مذہب فقہی:

 

امام مسلمؒ کے بارے میں بھی مختلف اقوال ہیں:

ایک جماعت کا خیال ہے کہ امام مسلمؒ شافعی ہیں (دیکھیے: کشف الظنون ۱/۵۵۵)

حافظ ابن قیم اور ابن ابی یعلی حنبلی کے بہ قول امام مسلم حنبلی ہیں۔

مولانا عبدالرشید نعمانیؒ نے بعض شواہد کی روشنی میں امام مسلم کو مالکی مانا ہے (الامام ابن ماجہ:۱۲۴)

علامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ فرماتے ہیں: "وأما مسلم فلا أعلم مذہبہ بالتحقیق” (العرف الشذی ۱/۳۳، بیروت) "یقینی طور پر مجھے امام مسلم کے مسلک کا علم نہیں۔ ”

اس کی وجہ بہ ظاہر یہی ہے کہ امام مسلمؒ نے اپنی صحیح میں ابواب قائم نہیں کیے، جس سے کہ ان کے رجحانات کا پتہ چلتا۔

 

امام ابو داؤدؒ کا مذہب فقہی:

 

علامہ ابن تیمیہ نے ابوداؤد کو مجتہد مطلق قرار دیا ہے (مجموع الفتاویٰ:۲۰/۴۰)

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی رائے میں ابوداؤد، مجتہد منتسب الی أحمد واسحاق بن راہویہ، اور تاج الدین سبکیؒ کے مطابق وہ شافعی المسلک ہیں، لیکن اکثر حضرات کی رائے یہ ہے کہ ابوداؤد حنبلی ہیں۔ علامہ کشمیریؒ اور شیخ محمد زکریا کاندھلویؒ کی بھی یہی رائے ہے، چنانچہ حضرت شیخ فرماتے ہیں:

والذی تحقق لی أن ابا داؤد حنبلی بلاریب، لا ینکر ذٰلک من أمعن النظر فی سننہ․ (مقدمہ لامع الدراری ۱/۹۱)

"میری تحقیق کے مطابق امام ابوداؤد بلاشبہ حنبلی ہیں اور جو بھی ان کی سنن پر گہری نگاہ ڈالے گا وہ اس کا انکار نہ کرسکے گا۔ ”

 

امام ترمذیؒ کا مذہب فقہی:

 

(۱) شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے بہ قول، امام ترمذی مجتہد منتسب الی احمد واسحاق ہیں۔

(۲) علامہ محمد انورشاہ کشمیریؒ نے واضح طور پر انھیں شافعی قرار دیا ہے، چنانچہ وہ فرماتے ہیں: "وأما الترمذی فہو شافعی المذہب لم یخالفہ صراحۃً الا فی مسئلۃ الابراد” (فیض الباری ۱/۵۳) "امام ترمذی، مسلکاً شافعی ہیں۔ انھوں نے صرف ابراد بالظہر کے مسئلے میں امام شافعیؒ کی صراحتاً مخالفت کی ہے۔ ”

 

امام نسائیؒ کا مذہب فقہی:

 

شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ نے امام ابوعبدالرحمن نسائی کو شافعی قرار دیا ہے۔ (بستان المحدثین اردو، ص۱۸۹)

نواب صدیق حسن خاں بھوپالی بھی اسی کے قائل ہیں (الحطۃ فی ذکر الصحاح الستۃ ص۲۵۴)

علامہ کشمیریؒ فرماتے ہیں: اگرچہ مشہور یہ ہے کہ وہ شافعی ہیں، لیکن حق بات یہ ہے کہ وہ حنبلی ہیں۔ "وأما ابوداؤد والنسائی فالمشہور أنہما شافعیان ولکن الحق أنہما حنبلیان” (العرف الشذی ۱/۳۳)

 

امام ابن ماجہؒ کا مذہب فقہی:

 

(۱) شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے بہ قول ابن ماجہ مجتہد منتسب الی احمد واسحاق ہیں (الانصاف ص۸۶)

(۲) علامہ انور شاہ کشمیریؒ فرماتے ہیں: "وأما ابن ماجہ فلعلہ شافعی” (العرف الشذی ۱/۳۳)

 

اختلافِ اقوال کا سبب:

 

اربابِ صحاح کے فقہی مسالک میں اختلافِ اقوال کی وجہ یہ ہے کہ ان کی اپنی تحریروں میں کہیں یہ صراحت نہیں ہے کہ وہ کسی امام کے مقلد ہیں یا مجتہد مطلق، البتہ ذکر مسائل اور استنباطِ احکام میں ان حضرات کے رجحانات اور قائم کردہ ابواب کو دیکھ کر مختلف حضرات نے مختلف آراء قائم کی ہیں۔ اور چوں کہ ارباب صحاح امت کی انتہائی مقتدر اور اصحابِ فضل و کمال شخصیات ہیں، اس لیے مختلف مسالک کے متبعین نے انھیں اپنے مسلک کا حامی بتانے کی کوشش کی اور ایک ایک شخصیت کا بیک وقت کئی ائمہ کی طرف انتساب نقل کر دیا گیا، چنانچہ تاج سبکیؒ نے امام بخاریؒ کو "طبقات الشافعیہ” میں شافعی قرار دیا۔ ابوداؤد اور نسائی کے سلسلے میں بھی یہی موقف اختیار کرتے ہوئے انھیں بھی شوافع کی فہرست میں شامل کر لیا، جب کہ حافظ ابن قیم نے "اعلام الموقعین” میں بخاری، مسلم اور ابوداؤد کو حنبلی قرار دیا ہے۔ ابن ابی یعلیؒ نے بھی ان تینوں حضرات کو "طبقات الحنابلہ” میں اہمیت کے ساتھ جگہ دی ہے۔ اس طرح ہمیں ان حضرات کے سلسلے میں عجیب کشاکشی نظر آتی ہے۔

مولانا عبدالرشید نعمانیؒ اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"وہذا کلہ عندی تخرّص وتکلم من غیر برہان، فلو کان أحد من ہٰؤلاء شافعیا أو حنبلیا لا طبق العلماء علٰی نقلہ، ولَمَا اختلفوا ہذا الاختلاف، کما قد أطبقوا علی کون الطحاوی حنفیًّا، والبیہقی شافعیًّا، وعیاضٍ مالکیًّا، وابن الجوزی حنبلیاً، سوی الامام ابی داود فانہ قد تفقہ علی الامام أحمد، ومسائلہ عن أحمد بن حنبل معروفۃ مطبوعۃ، وذکرہ الشیرازی فی "طبقات الفقہاء” من أصحابہ، ولوکان فی الأئمۃ الستۃ المذکورین أحدٌ شافعیًا لَصاحَ بہ الحافظان: الذہبی وابن حجر” (الامام ابن ماجہ وکتابہ السنن ص ۱۲۶)

"میرے نزدیک یہ سب محض اٹکل اور بے دلیل باتیں ہیں، اگر ان ارباب صحاح میں ایک بھی شافعی یا حنبلی ہوتے، تو علماء اس کی نقل پر متفق ہوتے اور اس طرح کا اختلاف بالکل نہیں ہوتا، چنانچہ علماء طحاوی کے حنفی، بیہقی کے شافعی، عیاض کے مالکی اور ابن الجوزی کے حنبلی ہونے پر متفق ہیں، البتہ امام ابوداؤد کا معاملہ قدرے مختلف ہے، جنھوں نے امام احمدؒ سے فقہ حاصل کی اور امام احمد سے ابوداؤد نے جو مسائل نقل کیے ہیں، وہ مشہور اور مطبوع ہیں۔ شیرازیؒ نے بھی اپنے اصحاب کے "طبقاتِ فقہاء” میں ان کا تذکرہ کیا ہے۔

اگر ان مذکورہ ر ائمہ ستہ میں ایک بھی شافعی ہوتے تو حافظ ذہبی اور حافظ ابن حجر، اس کا خوب زور و شور سے تذکرہ ضرور کرتے۔ ”

 

صحاحِ ستہ کے تراجم

 

تراجم، ترجمہ کی جمع ہے، جس کا معنی ہے: مراد واضح کرنا۔ ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل کرنا۔ کتبِ حدیث میں ترجمہ بولا جائے تو اس سے "عنوان” مراد ہوتا ہے۔ اس کو ترجمہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ اپنے ما بعد آنے والے مضامین کی وضاحت کرتا ہے۔

علماء نے تراجم کے اعتبار سے بھی صحاح ستہ میں درجات قائم کیے ہیں کہ کس کتاب کے تراجم سب سے زیادہ دقیق و مشکل اور کس کے آسان ہیں، چنانچہ سب سے دقیق تراجم امام بخاریؒ کے قائم کردہ ہیں۔ دوسرے نمبر پر سنن نسائی، تیسرے نمبر پر سنن ابی داؤد اور چوتھے نمبر پر سنن ابن ماجہ کے تراجم ہیں، اور اخیر میں جامع ترمذی کے تراجم ہیں، اسی وجہ سے ترمذی کے تراجم کو اسہل التراجم کہا گیا ہے۔ علامہ انور شاہ کشمیریؒ فرماتے ہیں:

"البخاری ہو سباق الغایات فی وضع التراجم بحیث ربما تنقطع دون فہمہا مطامع الأفکار، ثم یتلوہ فی التراجم ابو عبد الرحمٰن النسائی، وربما أریٰ فی مواضع أن تراجمہا تتوافق کلمۃ کلمۃ، وأظن أن النسائی تلقاہا من شیخہ البخاری، حیث أن التوارد یستبعد فی مثال ہٰذا، ولا سیما اذا کان البخاری من شیوخہ، ثم یتلوہ تراجم ابی داؤد، وتراجم ابی داؤد أعلیٰ من تراجم الترمذی، نعم ان أسہل التراجم وأقربہا الی الفہم تراجم الترمذی، وأما الامام مسلم فلم یضع ہو نفسہ التراجم، والتراجم الموجودۃ فی کتابہ من وضع شارحہ الامام النووی وکم بین تراجمہ وبین تراجم البخاری من فرق بعید” (معارف السنن ۱/۲۳)

ترجمہ: امام بخاریؒ تراجم قائم کرنے میں اس طرح انتہا تک سبقت کرنے والے ہیں کہ بسا اوقات ان کے فہم تک افکار و خیالات کی رسائی نہیں ہو پاتی ہے۔۔ تراجم قائم کرنے میں بخاری کے بعد دوسرا درجہ ابوعبدالرحمن نسائی کا ہے۔ بہت سے مقامات پر میں دیکھتا ہوں کہ نسائی کے تراجم، حرفاً حرفاً بخاری کے تراجم کے موافق ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اسے امام نسائیؒ نے اپنے شیخ امام بخاری سے (بہ راہ راست) اخذ کیا ہے، کیوں کہ اس طرح کی چیزوں میں توارد قلوب مستبعد ہے، خاص کر اس وقت جب کہ بخاری کا شیخِ نسائی ہونا متحقق ہے۔ اس کے بعد ابوداؤد کے تراجم کا درجہ ہے۔ اور ابوداؤد کے تراجم کا مقام و مرتبہ ترمذی کے تراجم سے بڑھا ہوا ہے، البتہ یہ ضرور ہے کہ سب سے آسان اور جلد سمجھ میں آنے والے، ترمذی کے تراجم ہیں، جہاں تک تعلق ہے امام مسلم کا، تو انھوں نے تراجم خود قائم نہیں کیے ہیں۔ ان کی کتاب میں موجود تراجم، شارح مسلم، امام نوویؒ کے قائم کردہ ہیں اور نووی وبخاری کے تراجم میں بہت واضح فرق ہے۔

خلاصہ یہ کہ بخاری ونسائی کے تراجم سب سے زیادہ دقیق اور مشکل ہیں، ابو داؤد و ابن ماجہ کے تراجم متوسط حیثیت کے حامل ہیں۔ اور ترمذی شریف اسہل التراجم ہے۔ رہی بات مسلم شریف کی تواس میں خود مصنف نے تراجم قائم نہیں فرمائے ہیں۔ اگرچہ انھوں نے اپنی کتاب کو حسنِ ترتیب کے ساتھ ابواب کا لحاظ کرتے ہوئے مرتب فرمایا ہے۔ ہمارے دیار میں مسلم شریف کا جو نسخہ رائج ہے، اس پر امام نوویؒ کے قائم کردہ تراجم ہیں، لیکن انھوں نے شافعی المسلک ہونے کی وجہ سے بہت سے مواقع پر مسلک کے موافق ترجمہ قائم کر دیا ہے، لہٰذا شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ نے مسلم شریف کی مبسوط اور عالمانہ شرح فتح الملہم لکھنی شروع کی تو انھوں نے اپنی طرف سے تراجم قائم کرنے کا بھی اہتمام کیا۔

 

صحاحِ ستہ کے مجموعے

 

اصول ستہ کی اہمیت وافادیت کے پیش نظر بعض مطابع نے ایک ساتھ چھ کی چھ کتابوں کے مجموعے شائع کرنے میں دلچسپی دکھائی ہے۔ اس وقت اس طرح کے دو مجموعے معروف و متداول ہیں:

۱- "الکتب الستۃ” کے نام سے دارالسلام ریاض نے ایک ہی جلد میں انتہائی اعلیٰ اور معیاری کاغذ پر اٹلی سے چھپوا کر شائع کیا ہے۔ مملکت سعودی عرب کے موجودہ وزیر شؤون اسلامیہ شیخ صالح بن عبدالعزیز آل الشیخ کی زیر نگرانی اس مجموعے میں صحت اور ترقیم کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ کلاں سائز کے ۲۷۵۴ صفحات میں مکمل چھ کی چھ کتابوں کو واضح خط کے ساتھ سمودیا گیا ہے۔ اس مجموعے کی مدد سے بیک وقت صحاح ستہ سے استفادے میں کافی آسانی ہو گئی ہے۔

قابلِ ذکر ہے کہ چند ماہ قبل فروری ۲۰۱۴/ میں جب وزیر موصوف نے ایک بڑے وفد کے ہمراہ دارالعلوم دیوبند کا دورہ کیا، تو اپنے اعزاز میں منعقد استقبالیہ تقریب میں انھوں نے بڑے اہتمام سے اپنی زیر نگرانی تیار کتب ستہ کا یہی مجموعہ حضرت مہتمم صاحب دارالعلوم دیوبند کی خدمت عالی میں پیش کیا تھا۔

۲- "الکتب الستۃ” دو جلدوں میں یہ بھی صحاح ستہ کا قابلِ قدر مجموعہ ہے، جس کے صفحات کی مجموعی تعداد ۴۱۵۴ ہے۔ پہلی جلد میں کتبِ اربعہ ہیں جب کہ دوسری جلد میں نسائی، ابن ماجہ اور فہارس ہیں۔ خوبصورت گیٹ اپ کے ساتھ شیخ رائد بن صبری بن ابی علقہ کے اعتناء سے مکتبہ الرشد نے اس کو شائع کیا ہے۔

 

صحاح ستہ کی علمی خدمت

 

صحاح ستہ کو امت میں جو وقار و اعتبار حاصل ہوا، اس کے سبب ہر زمانے میں اہل علم کی ایک جماعت نے مختلف پہلوؤں سے ان کی خدمت کی ہے۔ الگ الگ ان کتابوں کی خدمت کا اجمالی نقشہ آگے آئے گا۔ اس وقت ہم صرف ان چند مؤلفات کا تذکرہ کریں گے جو خصوصیت کے ساتھ کتب ستہ کے اردگرد گھومتی ہیں اور ایسی کئی کتابیں ہیں، ہم سرِدست صرف پانچ کا ان کی متنوع خصوصیات کے سبب تذکرہ کر رہے ہیں۔

۱- "الکاشف فی معرفۃ من لہ روایۃ فی الکتب الستۃ” یہ حافظ شمس الدین محمد بن احمد الذہبی (م۷۴۸ھ)  کی مشہور تالیف ہے، جس میں انھوں نے جامعیت اور اختصار کے ساتھ کتب ستہ کے رجال پر کلام کیا ہے۔ اس پر ابراہیم بن محمد سبط العجمی (م ۸۴۱ھ) کا محققانہ حاشیہ بھی ہے۔ شیخ محمد عوامہ اور احمد محمد نمر الخطیب کی تصحیح و مراجعت سے یہ کتاب مؤسسۃ علوم القرآن جدہ سے شائع ہو چکی ہے۔

۲- "الأنوار اللمعۃ فی الجمع بین مفردات الصحاح الستۃ” یہ حافظ حدیث ابن الصلاح ابو عمرو عثمان بن عبدالرحمن الموصلی الشہرزوری (م ۶۴۳ھ) کی مایہ ناز تصنیف ہے، جس میں انھوں نے کتب ستہ کے علاوہ سنن دارمی کی مفرد روایات کو جمع کر دیا ہے۔ مصنف نے سب سے پہلے صرف صحیح مسلم کی احادیث کے متون کو اسانید و تکرار کے حذف کے ساتھ جمع کیا تھا۔ اس کے بعد ان روایات کو جمع کیا جن میں امام بخاریؒ امام مسلمؒ سے منفرد ہیں۔ اسی طرح باقی کتابوں کی صرف وہ روایات لی ہیں جو دوسری کتابوں میں نہیں ہیں۔ یہ عظیم مجموعہ سید کسروی حسن کی تحقیق سے مکتبہ عباس احمد الباز مکۃ المکرمۃ نے چار جلدوں میں شائع کر دیا ہے۔

۳- "الحطۃ فی ذکر الصحاح الستۃ” اس کتاب میں نواب صدیق حسن خاں قنوجی (م۱۳۰۷ھ) نے کتب ستہ کے انفرادی تعارف اور خصوصیات کو جمع کر دیا ہے۔ مقصد کے آغاز سے قبل تمہیدی طور پر علمِ حدیث کی بعض عمومی بحثیں بھی ہیں، البتہ کئی مقامات پر مصنف کا قلم لغزش کھا گیا ہے، چنانچہ حضرت مولانا عبدالحئی فرنگی محلیؒ نے اس کتاب میں در آنے والے اوہام پر کلام کیا ہے۔ علامہ کتانیؒ فرماتے ہیں: "ان فی الحطۃ أوہامًا” (فہرس الفہار ۱/۳۶۳) علی حسن الحلبی کی تحقیق و تعلیق سے کتاب کا نیا ایڈیشن بیروت اور عمان سے شائع ہو چکا ہے۔

۴- "فی رحاب السنۃ الکتب الصحاح الستۃ” یہ فضیلۃ الشیخ محمد محمد ابوشہنہ کی تصنیف ہے، جس میں انھوں نے کتب ستہ میں سے ہر ایک کا الگ الگ مفصل تعارف اور اس کی خصوصیات کا تذکرہ کیا ہے۔ شروع میں سنت کی قدر و منزلت کے حوالے سے فاضلانہ مقدمہ بھی ہے ۱۸۷ صفحات پر مشتمل یہ اہم کتاب جامع ازہر کے مجمع البحوث الاسلامیۃ کے زیر اہتمام شائع ہوئی ہے۔

۵- "موسوعۃ رجال الکتب التسعۃ” یہ دکتور عبدالغفار سلیمان البنداری اور سید کسروی حسن کی مشترکہ تصنیف ہے، جیساکہ نام سے ظاہر ہے کہ اس میں کتبِ تسعہ کے رجال کا استقصاء کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ خصوصیت کے ساتھ مسند ابی حنیفہ اور مسند الشافعی کے رجال کو بھی جمع کر دیا گیا ہے۔ دارالکتب العلمیہ بیروت نے یہ موسوعہ شائع کیا ہے۔

 

صحاح ستہ کے اطراف

 

محدثین کی زبان میں مسانید اور اطراف دونوں میں مرکزی توجہ روایت کنندہ صحابی پر ہوتی ہے یعنی ہر صحابی کی مرویات کو بلا لحاظ مضمون یکجا کیا جاتا ہے، مگر دونوں میں فرق یہ ہے کہ مسانید میں پوری حدیث بیان کرتے ہیں، مگر اطراف میں صرف حدیث کا کوئی مشہور حصہ بیان کر کے شیخین اور سنن کے تمام مشترک اور مخصوص طرق کا ذکر کرتے ہیں۔ بالفاظ دیگر حدیث کے شروع سرے کو اتنا بیان کر کے کہ جس سے باقی حدیث کی یاد دہانی ہو جائے اس کی تمام اسانید کو بالاستیعاب بیان کیا جاتا ہے یا ان کتابوں کا پتہ دے دیا جاتا ہے کہ جن میں یہ حدیث مروی ہے، اس موضوع پر بہت سے حفاظ حدیث نے داد تحقیق دی ہے، ان میں سب سے پہلے جن بزرگ نے صحیحین پر اطراف لکھے ہیں، وہ حافظ ابو مسعود دمشقی ۴۰۱ھ ہیں۔ ان کے بعد حافظ ابو محمد خلف بن محمد ۴۰۱ھ، حافظ ابو نعیم اصفہانی اور حافظ ابن حجرؒ نے بھی یہ علمی خدمت انجام دی ہے۔

صحیحین کے علاوہ کتبِ خمسہ کے اطراف حافظ احمد بن ثابت ازدی نے بھی لکھے، اور کتب ستہ کے اطراف لکھنے والے یہ بزرگ ہیں: حافظ ابوالفضل محمد بن طاہر مقدسی ۵۰۷ھ، حافظ ابوالحجاج جمال الدین المزی ۶۴۲ھ، حافظ شمس الدین ابوالمحاسن محمد بن علی الحسینی الدمشقی، حافظ ابوالقاسم بن عساکر، حافظ سراج الدین ابو حفص عمر بن نورالدین علی بن احمد الانصاری المعروف بابن الملقن، اس کے علاوہ بھی اور بہت سی کتابوں کے اطراف لکھے گئے ہیں، حافظ ابن طاہر نے امام اعظم کی احادیث پر اطراف لکھے ہیں، جس کا نام "اطراف احادیث ابی حنیفہ” ہے۔ (امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ اور علم الحدیث، مولانا محمد علی کاندھلویؒ، ص۴۹۸)

 

مصنّفین صحاح ستہ کی نسبی اور وطنی نسبت

 

اس میں کوئی شک نہیں کہ صحاح ستہ کے مصنّفین سب کے سب وطنی اعتبار سے عجم سے تعلق رکھتے ہیں، چنانچہ امام بخاریؒ کا وطن بخارا ہے، امام مسلمؒ کا وطن نیشاپور بھی اسی کے قریب واقع ہے۔ امام ترمذیؒ، ترمذ سے تعلق رکھتے ہیں جو دریائے جیحوں کے ساحل پر واقع ہے اور روس میں شامل رہا ہے۔ امام ابوداؤد سجستان کے ہیں، جو سیستان کا معرب ہے ایک قول کے مطابق سندھ و ہرات کے درمیان ایک خطہ کا نام ہے جو قندھار سے متصل ہے۔ ابن خلکان کے بہ قول بصرہ کے قریب ایک قریہ ہے، مگر قول اول ہی صحیح ہے۔ اس وقت یہ خطہ ایران کا ایک حصہ ہے۔ امام نسائی کا وطن "نساء” ہے۔ جو شہر مرو کے قریب خراسان کا ایک شہر ہے۔ امام ابن ماجہ قزوین سے تعلق رکھتے ہیں، جو عراق عجم کا مشہور شہر ہے۔ اور ایران کے صوبے آذربائجان میں واقع ہے۔

البتہ وطن کے اعتبار سے عجمی ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سب کے سب فارسی النسل تھے، بلکہ ان میں سے صرف امام بخاریؒ اور ابن ماجہؒ فارسی النسل ہیں۔ باقی سارے حضرات عربی النسل ہیں۔ مولانا عبدالرشید نعمانیؒ فرماتے ہیں:

"تعجب ہے کہ شاہ ولی اللہ صاحب اور نواب صدیق حسن خاں نے مصنّفین "صحاح ستہ” کو اہل فارس میں شمارر کیا ہے، حالاں کہ تاریخ سے بہ جز امام بخاری یا امام ابن ماجہ کے اور کسی کا فارسی النسل ہونا ثابت نہیں، امام مسلم کے متعلق خود علامہ نوویؒ کی تصریح موجود ہے۔ "القشیری نسباً نیسابوری وطنا، عربی صلبیۃ” اور امام ابو داؤد ازدی ہیں، امام ترمذی سُلمی” (امام ابن ماجہ اور علم حدیث، ص۸)

 

ائمہ ستہ کی عالی سندیں

 

امام بخاریؒ کی عالی سند

 

امام بخاریؒ کی عالی سند ثلاثیات ہے۔ یعنی امام بخاریؒ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان صرف تین واسطے ہیں۔ صحیح بخاری میں کل بائیس ثلاثیات ہیں، جو تین صحابہ حضرت سلمہ بن اکوع، حضرت انس بن مالک اور حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں۔ ان ثلاثیات میں امام بخاریؒ کے پانچ اساتذہ ہیں، مکی بن ابراہیم، ابو عاصم النبیل، محمد بن عبداللہ الانصاری، خلاد بن یحییٰ اور عصام بن خالد۔

ان بائیس میں سے گیارہ روایات تنہا کلی بن ابراہیم کی ہیں، جو امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردوں میں ہیں۔

 

امام ترمذیؒ کی عالی سند

 

امام ترمذیؒ کی عالی سند ثلاثی ہے اور پوری ترمذی میں ایک ہی ثلاثی روایت ہے، جس میں امام ترمذیؒ کے استاذ اسماعیل بن موسیٰ الکوفی ہیں۔ ان کے شیخ عمر بن شاکر ہیں اور وہ صحابیِ رسول حضرت انسؓ بن مالک سے روایت کرتے ہیں۔ (دیکھئے: ترمذی، حدیث:۲۲۶۰)

 

امام ابن ماجہؒ کی عالی سند

 

امام ابن ماجہ کی عالی سند ثلاثی ہے، ابن ماجہ میں پانچ ثلاثیات ہیں اور پانچوں ایک ہی سند عن جبارۃ بن مغلس عن کثیر بن سلیم عن أنس بن مالک مروی ہیں۔ (روایات کے لیے دیکھیے: کتاب الاطعمۃ میں باب الوضوء عند الطعام، باب الشواء اور باب الضیافۃ، نیز کتاب الطب میں باب الحجامۃ اور کتاب الزہد میں باب صفۃ امۃ محمد صلی اللہ علیہ وسلم)

 

امام مسلمؒ کی عالی سند

 

امام مسلمؒ کی عالی سند رباعی ہے۔ مسلم شریف میں ایک بھی ثلاثی روایت نہیں ہے۔ تاہم بہ کثرت ایسی روایات ہیں جن میں امام مسلمؒ اور رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان صرف چار وسائط ہیں۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بعض روایات ایسی بھی ہیں جن میں امام مسلمؒ کے یہاں وسائط کم ہیں اور امام بخاریؒ کے یہاں زیادہ ہیں۔ مثلاً امام مسلمؒ کے یہاں اگر وہ روایت رباعی ہے تو امام بخاریؒ کے یہاں وہ روایت خماسی ہے۔ اگر امام مسلمؒ کے یہاں خماسی ہے تو امام بخاریؒ کے یہاں روایت سداسی ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے اپنی کتاب "عوالی مسلم” ایسی کل چالیس روایات جمع کر دی ہیں۔ یہ گویا امام مسلمؒ کے لیے ایک گونہ فضیلت کی چیز ہے۔ (دیکھیے: مباحث فی الحدیث وعلومہ ص ۲۸۴-۲۸۵)

 

امام نسائی اور ابوداؤد کی عالی سندیں

 

امام نسائیؒ کی سب سے عالی سند رباعی ہے۔ اسی طرح امام ابو داؤدؒ کی بھی عالی سند رباعی ہے۔ سنن داؤد میں کل ۲۶۷ رباعی روایات ہیں۔ اور ایک بھی ثلاثی روایت نہیں ہے۔

مولانا عبدالرشید نعمانیؒ، مصنّفین صحاح ستہ کی اسانیدِ عالیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"مصنّفین صحاحِ ستہ میں سے امام بخاری، امام ابن ماجہ، امام ابوداؤد اور امام ترمذی نے بھی بعض تبع تابعین کو دیکھا اور ان سے حدیثیں روایت کی ہیں۔ اس بنا پر اس علو اسناد میں وہ بھی امام شافعی اور امام احمد کے ساتھ شریک ہیں، حالاں کہ امام شافعیؒ کی وفات کے وقت امام بخاریؒ دس برس کے تھے۔ اور امام ابوداؤد کل دو سال کے اور امام ابن ماجہ تو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے، چنانچہ ان حضرات کی تصانیف میں ثلاثیات حسب ذیل ہیں:

(۱) صحیح بخاری -۲۲ (۲) سنن ابن ماجہ- ۵ (۳) سنن ابی داؤد-۱ (۴) جامع ترمذی -۱

امام مسلم اور امام نسائی کو کسی تبع تابعی سے کوئی روایت نہ مل سکی، اس لیے ان دونوں حضرات کی سب سے عالی روایات رباعیات ہیں، جن کو ان کے اساتذہ نے تبع تابعین سے اور انھوں نے تابعین سے اور انھوں نے صحابہ سے سنا ہے۔ سنن ابن ماجہ میں بھی رباعیات بکثرت موجود ہیں اور اس اعتبار سے امام ابن ماجہ کو دیگر ارباب صحاح ستہ پر ایک گونہ فضیلت حاصل ہے کہ امام بخاری کے بعد ان کی ثلاثیات کی تعداد سب سے زیادہ ہے، حالاں کہ وہ عمر میں امام مسلم سے پانچ سال اور امام ابو داؤد سے سات سال چھوٹے ہیں۔ ” (امام ابن ماجہ اور علم حدیث ص۱۱۹)

تنبیہ: اوپر ذکر کردہ تفصیلات سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ صحاح ستہ میں سے فقط صحیح بخاریؒ، سنن ابن ماجہ اور جامع ترمذی میں ثلاثی روایات ہیں۔ ان کے علاوہ صحیح مسلم، سنن نسائی اور سنن ابی داؤد میں ایک بھی ثلاثی روایت نہیں ہے، لہٰذا مولانا نعمانیؒ کا ابوداؤد شریف میں بھی ایک ثلاثی روایت ہونے کا قول محلِ نظر ہے۔ غالباً اس اشتباہ کی وجہ یہ ہے کہ دراصل بہت پہلے حافظ شمس الدین سخاویؒ باب فی الحوض کی ایک روایت کو ثلاثی کہہ چکے ہیں۔ (فتح المغیث ۳/۳۵۷) لیکن درحقیقت وہ بھی رباعی ہی ہے۔ زیادہ سے زیادہ اس کو رباعی فی حکم الثلاثی کہہ سکتے ہیں، اس لیے کہ دو راوی ابو طالوت اور ان کے شیخ جو یہاں مجہول ہیں، ایک ہی طبقہ (تابعی) سے تعلق رکھتے ہیں۔

 

مصنّفین کتب ستہ کی نازل سندیں

 

امام بخاریؒ کی سب سے نازل سند تُساعی ہے۔ یعنی وہ روایت جس میں امام بخاریؒ اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان نو واسطے ہیں۔ اور اسی تساعی روایت بخاری میں صرف ایک ہے۔ (دیکھیے: کتاب الفتن، باب یاجوج ماجوج، حدیث نمبر:۱۰۵۶)

امام مسلمؒ کی بھی سند نازل تُساعی ہے۔ (دیکھیے: حدیث نمبر:۵۰ اور حدیث نمبر:۲۴۹۰)

امام ابو داؤدؒ کی نازل سند عُشاری ہے اور ایسی ایک ہی روایت سنن ابی داؤد میں ہے۔ (دیکھیے: حدیث نمبر:۳۲۹۲)

امام نسائیؒ کی بھی سند نازل عُشاری ہے، چنانچہ "باب الفضل فی قراء ۃ قل ہو اللہ احد” کے تحت روایت نقل کرکے امام نسائیؒ فرماتے ہیں: "ما أعرفُ اسنادًا أطولَ مِنْ ہذا”․

امام ترمذیؒ کی بھی سب سے نازل سند عُشاری ہے، چنانچہ امام ترمذیؒ نے بھی ایک حدیث میں وہی سند ذکر کی ہے، جس کا تذکرہ نسائی کے حوالے سے اوپر کیا گیا۔

امام ابن ماجہؒ کی سند نازل تساعی ہے اور اس سند سے باب فی الایمان میں روایت نقل کرنے کے بعد ابن ماجہؒ فرماتے ہیں: "قال ابو الصلت: لو قُرِیٴَ ہٰذا الاسنادُ علی مجنون لبرأ” (اس سند کو اگر کسی مجنون پر پڑھ دیا جائے تو اس کا پاگل پن جاتا رہے) (تفصیلات کے لیے: مباحث فی الحدیث و علومہ، از حضرت مولانا مفتی عبداللہ صاحب مظاہری)

٭٭٭

مآخذ:

http://www.darululoom-deoband.com/urdu/magazine/new/tmp/06-Siha%20Sitta%20Taaruf_MDU_03_March_14.htm

http://www.darululoom-deoband.com/urdu/magazine/new/tmp/07-Sihah%20Sitta_MDU_04_April_14.htm

http://www.darululoom-deoband.com/urdu/magazine/new/tmp/07-Siha%20Sitta%20Taaruf_MDU_8-9_Aug%20&%20Sept_14.htm

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید