FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

ہر جگہ آسمان

 

راجیش جوشی

 

ہندی سے ترجمہ : اجمل کمال، اعجاز عبید

 

 

 

 

 

راجیش جوشی      –     ایک تعارف

 

راجیش جوشی معاصر ہندی ادب میں ایک اہم شاعر، نثرنگار اور مترجم کے طور پر معروف ہیں۔ وہ  ۱۹۴۶ میں نرسنگڑھ، مدھیہ پردیش، میں پیدا ہوے۔ تعلیم بھوپال میں پائی اور وہیں رہتے ہیں۔ "آج کی کتابیں” کے زیرِ اہتمام ۱۹۸۵ میں شائع ہونے والے ایک انتخاب "بارہ ہندوستانی شاعر” میں راجیش جوشی کے پہلے مجموعے "ایک دن بولیں گے پیڑ” سے کچھ منتخب نظمیں شامل کی گئی تھیں۔ زیرِ نظر نظمیں۔  ’مٹی کا چہرہ‘  اور ’شہد جب پکے گا‘ ان کے دوسرے مجموعے "مٹی کا چہرہ” سے منتخب کی گئی ہیں۔ راجیش جوشی کہانیاں بھی لکھتے ہیں۔ ان کی کہانیوں کا ایک مجموعہ "سوموار اور دوسری کہانیاں” کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے۔ وہ بھوپال سے ایک ادبی رسالہ "اس لیے” بھی شائع کر چکے ہیں۔

اجمل کمال

کچھ مزید نظموں کا ترجمہ اعجاز عبید نے کیا ہے، جو ہندی میں مختلف جگہ دستیاب تھیں۔ وہ بھی پیش ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

مٹی کا چہرہ

 

ایک پاردرشی* باز جھپٹتا ہے

اور ایک چھوٹے میمنے کی طرح

دَم چھوڑ بھاگتا ہے

چاند

 

آرٹ گیلری میں لگی

کے جی سُبرامنیم کی نمائش میں

لوگ کھڑے ہیں

چمکدار دیوار پر ٹنگے

ایک مٹی کے چہرے کے سامنے

 

ایک مٹی کا چہرہ

 

جگہ جگہ سے تڑخ گئی ہے اس کی مٹی

چہرے پر پڑتی تیز روشنی بھی

کھدیڑ نہیں پاتی

دراروں میں گھُسا اندھیرا

 

ایک مٹی کا چہرہ

 

کپال پر چڑھی تیوریاں

منھ سے باہر جھانکتے

بڑے بڑے مٹی کے دانت

بڑی بڑی جیبوں والے مٹی کے کوٹ پر

لٹک رہے ہیں مٹی کے تمغے

 

وہ مٹی کا چہرہ

ہمارے وقت پر

جیسے کوئی رواں تبصرہ

 

وہ مٹی کا چہرہ

 

صدیوں پہلے دفنایا جا چکا

کوئی تانا شاہ

اپنی ٹانگیں اور جوتے قبر میں بھول کر

ہڑبڑی میں جیسے آ گیا ہو

آدھا باہر

٭٭٭

 

* شفاف

 

 

 

 

شہد جب پکے گا

 

 

لمبی انگلیوں والی دھوپ ہے تمھارا پیار

تم چھٹّی لے لو کچھ دن

اور دھوپ سے بولو

عوض میں آفس ہو آئے

ٹائپ رائٹر پر بیٹھ جائے کچھ دن

 

کمرے میں چہکتی چڑیا ہے تمھارا پیار

تم چھٹّی لے لو کچھ دن

اور چڑیا سے بولو

عوض میں آفس چلی جائے

رجسٹر میں درج کر آئے

چٹّھی پتری

 

سنگترے کا پیڑ ہے تمھارا پیار

بولو اُس سے کچھ دن

کر آئے میرے عوض میں

میرے آفس کا کام

ابھی تو دُور ہے سنگتروں کا موسم

 

کئی دن ہیں ابھی پگار ملنے میں

اور ٹھیک ٹھاک کرنا ہے سارا گھر

جُٹانا ہیں کام کی کتنی ساری

چھوٹی موٹی چیزیں

ایک پگار میں تھوڑے ہی جُٹ جائے گا

سارا سامان

 

شہد کا چھتّا ہے تمھارا پیار

ہلکی ہلکی آنچ کے دھوئیں میں

جسے پکائیں گے ہم

تم چھٹّی لے لو کچھ دن

اور ساتھ ساتھ بازار کر لو

مدھو مکھیوں سے بولو

نپٹا لیں گی گھر کا کام کاج

 

بزاز تو کیا دے گا اُدھار!

پر ہو سکتا ہے ایک کام

اَپن کپاس کے پیڑ کو ہی پَٹا لیں

اُس کی دھونس ڈپٹ سے چل جائے گا کام

سیدھے مِل سے ہی مل جائے گا کپڑا

 

اَپن سِلائیں گے ایک ایک نیا جوڑا

اور نئے جوڑے پہن کر اِترائیں گے

کون روز روز آتا ہے

یہ دن!

 

درزی تو پَٹے گا کیا!

اُدھار کرے جِس تِس سے

تو چل گیا دھندا

چل گیا گھر!

سُوئی سے کریں گے بات چیت

اور تاگے کو بتا دیں گے جیب

 

سیمل کا ایک پیڑ ہے میرا دوست

ابھی نہیں آیا تو کب آئے گا کام؟

بولیں گے اُس سے

بھر دے ایک تکیہ

ایک گدّا، ایک رضائی

 

ابھی دور ہے وہ دن

جب ضرورت ہو گی ہمیں

الگ الگ رضائی کی

جب پرتھوی ہو جائے گا تمھارا پیٹ

جب آکاش کے کان میں پھسپھسائے گی پرتھوی

جب ورکش سے آنکھ چُرا، چُراؤ گی تم

مٹّی

 

جب پہاڑوں کی آڑ سے

ایک ٹکڑا آکاش چُرا لاؤ گی

تم

ابھی دن ہیں، ابھی تارے گننا ہیں کئی سارے

اَننت تک پھیلی، بادلوں کو چھُوتی

ہری ہری گھاس ہے تمھارا پیار

تم چھٹّی لے لو کچھ دن

اور چلو گھاس میں لُک چھپ جائیں

اَپن

 

وہ تین

 

پہلا بجلی کا سامان بنانے کے کارخانے میں

رات کی پالی میں کام کرتا تھا

 

رات کو اچھی طرح تہہ کر کے لپیٹ کر

بند کر کے چاند تاروں کو پیٹی میں

وہ علی الصباح لوٹتا اور

کمرے میں آ کر سو جاتا

 

سونے سے پہلے وہ

دوسرے کو جگا دیتا

 

دوسرا اسٹوو پر چائے کا پانی چڑھا کر

آکاش کے دروازے کھٹکھٹاتا

کہ دھوپ

دھرتی، پیڑوں اور گھروں تک آ جائے

چڑییں جاگیں اور چیزیں تھوڑی گرما جائیں

 

پھر اپنی سائیکل اٹھا کر وہ نکل جاتا

کہ صبح سب جگہ پہنچی یا نہیں

 

اَوسارے سے ہو کر دھوپ

جب لوگوں کی آنکھوں تک پہنچتی

وہ سارے اخبار لگا چکا ہوتا

جب وہ اپنے حصّے کا اخبار لیے لوٹتا

تیسرا جاگ چکا ہوتا

 

وہ تین تھے

بھائی نہیں دوست

جو شہر کے ایک چھوٹے سے کمرے میں اَٹ گئے تھے

لیکن وہ تینوں کنوارے تھے

اور ان کے سپنے اس کمرے میں

اَٹ نہیں پاتے تھے

کمرہ چھوٹا تھا

اور شہر بہت بڑا تھا

اس لیے کمرہ جُٹانے کی جگہ

اُن کی جیبوں میں نہیں تھی

 

تیسرا دن بھر سڑکیں ناپتا

نوکری کی عرضیاں لکھتا

آفسوں کے چکّر لگاتا

 

دِکھتا ایک دم پھکّڑ

پر اندر ہی اندر

اُداس رہتا

 

پہلا اکثر لوٹتے ہوے

ایک ستارہ چُرا لاتا

اور بچی ہوئی دو بِیڑیوں کے ساتھ

کھونٹی پر ٹنگی تیسرے کی قمیص کی

جیب میں رکھ دیتا چپ چاپ

 

دوسرا اخبار سے نوکری کے

اشتہار کاٹ کر کترنیں

اور تھوڑی سی دھوپ

اور چالُو چائے جتنے پیسے

تیسرے کی پینٹ کی جیب میں

کھسکا دیتا

 

تیسرا جانتا تھا پر چپ رہتا تھا

وہ چاہتا تھا ایک چھوٹی سی نوکری

ایک چھوٹی سی نوکری

جس میں بچا رہے دوسروں کے لیے

اپنا پن

وہ تینوں

رات کا کھانا ایک ساتھ

ایک چھوٹے سے ڈھابے میں کھاتے تھے

 

دادا خیریت

 

دادا خیریت

دادا خیریت

 

آواز کستا ہے

جب کوئی دادا خیریت

درجن بھر گالیاں بکتے ہیں

دادا خیریت

زیادہ ہی تنگ کرے کوئی

تو جھنجھلا کر پتھر لے کر

دوڑتے ہیں

دادا خیریت

 

عید کے عید کوئی دے دیتا ہے انھیں

اُترن کی شیروانی دھُلوا کر

کوئی سِلوا دیتا ہے سستے لٹّھے کا

کھُسنا

کوئی دے دیتا ہے پُرانی دھُرانی

علی گڑھی ٹوپی

اُسی کو سال بھر

بِنا بدلے

پہنتے رہتے ہیں

دادا خیریت

 

پان کی پیکوں سے بھر چکی ہے

پچھلی عید کی پہنی شیروانی

جگہ جگہ سے پھٹ چکا ہے

گندا کھُسنا

چیکٹ ہو چکی ہے ٹوپی

اس کے بعد بھی کوئی کہے

دادا خیریت

تو کیوں نہ گالیاں بکیں

دادا خیریت!

 

دادا خیریت کا بھی کوئی

اَور نام رہا ہو گا پہلے

پہلے جب کوئی پوچھتا ہو گا

دادا خیریت؟

تو جواب میں وہ بھی کہتے ہوں گے

خیریت میاں خیریت

خدا کی مہربانی ہے

الله کا فضل ہے

خیریت جیسا لفظ سنتے ہی بھڑک جاتے ہیں

اب دادا خیریت

ایک چِڑھاؤنی بن گئی ہے اُن کی

دادا خیریت

 

جب گزرتے ہیں بوڑھے دادا خیریت

جمعراتی دروازے کے نیچے سے

سر جھکا کر گزرتے ہیں

ڈر لگا رہتا ہے ہمیشہ

کہ ٹکرا نہ جائے دروازہ  اُن کے سر سے

دروازہ جب کہ اونچا

تگنا یا چوگنا اُن کے قد سے

 

کیسا غرور اپنے قد کا دادا خیریت کو

کہ ختم ہو چکی نوابی ریاست کا

بچا ہوا یہ آخری دروازہ

چھوٹا پڑتا ہے انھیں

تن کر نکلنے کے لیے آج بھی

 

دیکھو دیکھو نواب بھوپال

قدسیہ بیگم، شاہ جہاں بیگم، بیگم سلطان جہاں،

دیکھو کتنے اوچھے تمھارے وِشال دروازے

کتنے بونے تمھارے بڑے بڑے محل

ایک اَدھ پگلے بوڑھے کے آگے

ختم ہو چکی نوابی، ختم ہو چکی ریاست

ختم ہو چکے نواب کی دیانت داری کے قصّے

پانچ دروازوں میں بند شہر پھیل گیا

اتنا باہر

کہ شہر کے بیچوں بیچ

آ گئے پانچوں دروازے

 

ایک کے بعد ایک توڑے گئے چار دروازے

بچا رہ گیا صرف ایک دروازہ

جمعراتی دروازہ

جس کے نیچے سے اب گزرتے ہیں

دادا خیریت

تو موکھوں سے سر نکال کر

غٹرغوں کرتے چلّاتے ہیں کبوتر

دادا خیریت

دادا خیریت

 

آس پاس اکٹّھے ہو جاتے ہیں

محلّے کے لڑکے

جن کے پاس نہ کھیلنے کا وقت

نہ کھیلنے کو ہاکی فٹ بال

دیکھتے ہی دوڑ پڑتے ہیں لڑکے

پیچھے پیچھے چلّاتے ہوے

دادا خیریت

دادا خیریت

اِدھر اُدھر دوڑتے دوڑتے

ہانپ جاتے ہیں دادا خیریت

گالیاں بکتے بکتے

رُندھ جاتا ہے گلا

اُڑنے لگتا ہے تھُوک منھ سے

 

پھوکٹ کا تماشا

منورنجن سب کا

دروازے کے باہر

چوُنے رام رج گیرُو کی دکان لگانے والیاں

بسوڑھوں مالیوں مونگ پھلی کے ٹھیلے والوں

ہوٹل کے چائے لگانے والے لڑکوں

کے لیے

بِنا دام کا

من بہلاؤ

 

جب زیادہ تنگ کرتے ہیں لڑکے

جب زیادہ تنگ آ جاتے ہیں

دادا خیریت

تو آگے بڑھ کر کوئی نہ کوئی

بھگا دیتا ہے لڑکوں کو

تھما دیتا ہے کوئی ٹھیلے والا

مٹّھی بھر مونگ پھلیاں

یا ایرانی ہوٹل سے کوئی منگا دیتا ہے

ایک چالُو چائے

دادا خیریت کے لیے

 

کہاں بچی ہے خیریت

کس کی بچی ہے خیریت

چلن نہ ہو کہنے کا

تو کون کہہ سکتا ہے

اِس زمانے میں

خیریت میاں خیریت

کم سے کم چِڑھانے کے بہانے

کہہ لیتے ہیں لوگ خیریت

 

چِڑھانے سے باز نہیں آتے لوگ

گالی دینے سے باز نہیں آتے

دادا خیریت

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایک شاعر کہتا ہے

 

ناممکن ہے یہ بتلانا کہ ایک شاعر

شاعری کے اندر کتنا اور کتنا رہتا ہے

 

ایک شاعر ہے

جس کا چہرہ – مہرہ، ڈھال – چال اور باتوں کا ڈھب بھی

اس کی شاعری سے اتنا زیادہ ملتا  جلتا سا ہے

کہ لگتا ہے کہ جیسے ابھی  ابھی دروازہ کھول کر

اپنی شاعری سے باہر نکلا ہے

 

ایک شاعر جو اکثر مجھ سے کہتا ہے

کہ سوتے وقت اس کے پاؤں اکثر چادر

اور جملے سے باہر نکل آتے ہیں

صبح – صبح جب پاؤں پر مچھروں کے کاٹنے کی شکایت کرتا ہے

دقت یہ ہے کہ پاؤں اگر چادر میں سکوڑ کر سوئے

تو اس کی تلوے گرم ہو جاتی ہیں

اسے ہمیشہ ڈر لگا رہتا ہے کہ خواب میں اچانک

اگر اسے کہیں جانا پڑا

تو بدحواسی میں وہ چادر میں الجھ کر گر جائے گا

 

محاورے اسی طرح کی صلاحیت کا مکمل استعمال کرنے سے

آدمی کو روکتے ہیں

اور مچھروں کی طرف سے شاعروں کے کام میں پیدا کی گئی

اڑچنوں کے بارے میں

ابھی تک تنقید میں غور نہیں کیا گیا

لے دے کر اب شاعروں سے ہی کچھ امید بچی ہے

کہ وہ نظم کی کئی انجانی خوبیوں

اور پریشانیوں کے بارے میں بھی سوچیں

جن پر تنقید کے سانچے کے اندر

سوچنا ممنوع ہے

ایک شاعر جو اکثر ناراض رہتا ہے

بار  بار یہ ہی کہتا ہے

بچو، بچو، بچو

ایسے کلاس روم کے اغل  بغل سے بھی مت گزرو

جہاں ہندی کا استاد شاعری پڑھا رہا ہو

اور شاعری کے بارے میں راجندر یادو کی بات تو

بالکل مت سنو.

٭٭٭

 

 

 

 

 

ٹیکنالوجی کی مایا

 

اچانک ہی بجلی گل ہو گئی

اور بند ہو گیا مائک

اوہ اس مقرر کی آواز کا جادو

جو اتنی دیر سے اپنی گرفت میں باندھے ہوئے تھا مجھے

کتنی کمزور اور سست تھی وہ آواز

اچانک اسی وقت میں نے جانا

اس کی آواز کی حکومت ختم ہوئی

تو ادھڑنے لگی اب تک اس کے بولے گئے کی پرتیں

٭٭٭

 

 

 

ہر جگہ آسمان

 

بولے اور سنے جا رہے کے درمیان

جو دوری ہے

وہ ایک آسمان ہے

میں كھونٹی سے اتار کر ایک قمیض پہنتا ہوں

اور ایک آسمان کے اندر گھس جاتا ہوں

میں جوتے میں اپنا پاؤں ڈال سکتا ہوں

اور ایک آسمان موزے کی طرح چڑھ جاتا ہے

میرے پاؤں پر

نیل كٹر سے اپنے ناخن کاٹتا ہوں

تو آسمان کا ایک ٹکڑا کٹ جاتا ہے

ایک نا قابل تقسیم خلا ہے آسمان

جو نہ کہیں سے شروع ہوتی ہے

نہ کہیں ختم

میں دروازہ کھول کر گھستا ہوں،

اپنے ہی گھر میں

اور ایک آسمان میں داخل ہوتا ہوں

سیڑھیاں چڑھتا ہوں

اور آسمان میں دھنستا چلا جاتا ہوں

٭٭٭

 

 

آسمان ہر جگہ ایک گھس پیٹھیا ہے

 

چاند کی عادتیں

چاند سے میری دوستی ہر گز ہرگز نہ ہوئی ہوتی

اگر رات جاگنے اور سڑکوں پر فالتو بھٹکنے کی

عادت نہ لگ گئی ہوتی مجھے اسکول کے ہی دنوں میں

 

اس کی کئی عادتیں تو

تقریباً مجھ سے ملتی  جلتی سی ہیں

مثلاً وہ بھی اپنی کلاس کا ایک بیک بینچر طالب علم ہے

استاد کا چہرہ بلیک بورڈ کی طرف گھما نہیں

کہ دبے پاؤں نکل بھاگے باہر …

اور پھر وہی مٹرگشتی ساری رات

سارے آسمان میں۔

٭٭٭

 

 

 

بچے کام پر جا رہے ہیں

 

کہرے سے ڈھكی سڑک پر بچے کام پر جا رہے ہیں

صبح صبح

 

بچے کام پر جا رہے ہیں

ہمارے وقت کی سب سے بھیانک لائن ہے یہ

خوفناک ہے اسے تفصیل کے طرح لکھا جانا

لکھا جانا چاہئے اسے سوال کی طرح

 

کام پر کیوں جا رہے ہیں بچے؟

کیا خلا میں گر گئی ہیں ساری گیندیں

کیا دیمكوں نے کھا لیا ہے

ساری رنگ برنگی کتابوں کو

کیا کالے پہاڑ کے نیچے دب گئے ہیں سارے کھلونے

کیا کسی زلزلے میں ڈھه گئی ہیں

سارے مدارس کی عمارتیں

کیا سارے میدان، سارے باغ اور گھروں کے آنگن

ختم ہو گئے ہیں اچانک

تو پھر بچا ہی کیا ہے اس دنیا میں؟

 

کتنا خوفناک ہوتا اگر ایسا ہوتا

بھیانک ہے لیکن اس سے بھی مزید یہ

کہ ہیں ساری چیزیں حسب معمول

 

پر دنیا کی ہزاروں سڑکوں سے گزرتے ہوئے

بچے، بہت چھوٹے چھوٹے بچے

کام پر جا رہے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

زمین کا چکر

 

یہ زمین صبح کے اجالے پر ٹکی ہے

اور رات کے اندھیرے پر

 

یہ چڑیوں کے چهچهانے کی نوک پر ٹکی ہے

اور تاروں کی جھلمل لوٹی پر

تتلیاں اسے چھوکر گھماتی رہتی ہیں

ایک چاک کی طرح

 

بچپن سے سنتا آیا ہوں

ان قصہ بازوں کی کہانیوں کو۔۔  جو کہتے تھے

کہ زمین ایک كچھوے کی پیٹھ پر رکھی ہے

کہ بیلوں کے سینگوں  پر یا شیش ناگ کی تھوتھنی پر،

رکھی ہے یہ زمین

ایسی تمام کہانیاں اور گیت مجھے پسند ہیں

جو زمین کو پیار کرنے سے پیدا ہوئے ہیں!

 

میں ایک آوارہ کی طرح گھومتا رہا

مسلسل چکر کھاتی اس زمین کے

پہاڑوں، جنگلوں اور میدانوں میں

میرے اندر اور باہر گزرتا رہا

زمین کا گھومنا

میرے چہرے پر تحریر کرتے ہوئے

عمر کی ایک ایک لکیر

٭٭٭

ماخذ:

 

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید