فہرست مضامین
پراسرار حویلی
اور دوسری کہانیاں
ترتیب: شکیل احمد صدیقی
دادا، ابو اور فہد
فہد فہد ارے فہد۔۔۔۔۔
ثناء نے زور زور سے پکارا۔
آپی میں نے کتنی بار کہا ہے میرا نام فہد نہیں ہے۔ میں نے اپنا نام تبدیل کر کے صارب رکھ لیا ہے۔ برائے مہربانی آئندہ سے مجھے صارب کے نام سے پکارا کریں، فہد نے تھوڑا غصے میں کہا۔ ہاں بتائیے کیا کام ہے؟
ثناء: مما کہہ رہی ہیں یشفین کو اسکول سے لے کر آئیں؟
فہد: ہاں جاتا ہوں۔
ثناء کچن میں چلی گئی۔
مسٹر اور مسزخالد کے تین بچے تھے۔ ثناء ایف اے کی ایک ہونہار طالبہ تھی۔ فہد بھی ہشتم جماعت کا لائق اسٹوڈنٹ تھا اور یشفین چہارم جماعت میں پڑھتی تھی۔ دو تین دنوں سے فہد پر ایک بھوت سوار تھا۔ وہ کہتا تھا میں نے اپنا نام فہد سے تبدیل کر کے صارب رکھ لیا ہے۔
جب فہد یشفین کو لے کر آیا تو دادی نے کہا۔فہد میرے بیٹے تم آگئے۔
فہد نے کہا: اوہو دادی میرا نام صارب ہے۔ دادی محلے کے بچوں کو قرآن شریف پڑھاتی تھیں۔
دادی نے کہا: کیوں؟ فہد نام تو اچھا ہے۔
فہد: اچھا تو ہے دادی لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔
دادی : کتنا پیارا نام ہے ” فہد ” تمہارا نام تمہارے دادا نے رکھا تھا۔
فہد: دادی وہ سب تو ٹھیک ہے لیکن صارب نام بھی اچھا ہے اس کا مطلب ہے عمدہ۔
دادی: میں نے کیا کہا ہے نام تو سارے اچھے ہوتے ہیں لیکن مجھے فہد نام زیادہ اچھا لگتا ہے۔ اتنے میں مسٹر خالد یعنی فہد کے بابا آ گئے۔
فہد: بابا آپ ہی دادی کو سمجھائیں۔
مسٹر خالد: کیا ہوا؟
یوں فہد نے ساری بات بابا کو بتا دی۔
بابا: فہد بیٹا! دادی درست تو کہہ رہی ہیں۔ فہد ایک اچھا نام ہے۔ ہر نام کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ پھر یہ نام تمھارے دادا ابو نے رکھا تھا۔ بڑے قسمت والے ہوتے ہیں وہ بچے ، جن کے دادا ان کے نام رکھتے ہیں۔ اب دیکھو ثناء اور یشفین بھی اپنے نام سے خوش ہیں نا۔۔۔۔
فہد: اگر میں اپنا نام تبدیل کر لوں تو کیا دادا ابو مجھ سے ناراض ہو جائیں گے؟
مسٹر خالد: آپ اُن کے لاڈلے پوتے ہیں۔ یہ بات آپ اُن ہی سے پوچھ لیں۔فہد کے ابو نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ اب فہد بے چینی سے دادا ابو کے گھر واپس آنے کا انتظار کرنے لگا۔۔۔۔۔ اور جیسے ہی وہ آئے تو فہد فوراً پانی کا گلاس ہاتھ میں تھامے ان کے کمرے میں پہنچ گیا۔
دادا ابو: جیتے رہو۔۔۔۔۔۔ کیا بات ہے، آج کچھ اداس نظر آ رہا ہے ہمارا پیارا پوتا؟
فہد: جی دادا بو۔۔۔۔۔ میں اپنا نام تبدیل کرنا چاہتا ہوں لیکن آپ مجھ سے ناراض تو نہیں ہوں گے نا؟
دادا ابو: نہیں ۔۔۔۔۔ میں آپ سے بالکل ناراض نہیں ہوں گا۔۔۔۔۔ مگر یہ تو بتائیے کہ آپ اپنا نام کیوں تبدیل کرنا چاہتے ہیں؟
فہد: دادا ابو ۔۔۔۔۔ دراصل کلاس میں کچھ لڑکے میرے نام کا مذاق اڑاتے ہیں۔۔۔۔۔۔ اور مجھے چڑاتے بھی ہیں، اس لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اب میں اپنا نام ہی تبدیل کر لوں گا۔
دادا ابو: لیکن بیٹا ۔۔۔۔۔ اگر چند شرارتی لڑکے آپ کی اچھی عادتوں اور کسی نیکی کا مذاق اڑائیں گے تو آپ اپنی اچھی عادتیں تو ترک نہیں کر سکتے نا؟ اسی طرح کسی کو یہ حق نہیں کہ دوسروں کا نام بگاڑیں یا اس کا مذاق اڑائیں۔۔۔۔۔۔ آپ کو پتہ ہے فہد نام کے معنیٰ کیا ہیں؟ اس کا مطلب ہے "چیتا” ۔۔۔۔ مجھے امید ہے آپ اپنے نام کی طرح چیتے جیسے بہادر بنیں گے۔۔۔۔۔ ہے نا؟
فہد: جی دادا ابو ! آپ نے آج میری آنکھیں کھول دیں۔ سچ ہے ہر نام کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ میں کو شش کروں گا کہ میں چیتے جیسا بہادر بنوں ۔ اب مجھے صبح کا انتظار ہے جب میں اپنے دوستوں کو اپنا نیا نام بتاؤں گا۔
دادا ابو: نیا نام۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا مطلب؟
فہد: یہی کہ صارب تبدیل کر کے میں نے اپنا نام فہد رکھ لیا ہے۔
یہ سن کر سب ہنسنے لگے۔ سچ ہے ہر نام کی اپنی اہمیت ہوتی ہے، ہمیں یہ حق نہیں ملتا کہ ہم کسی کا نام بگاڑیں یا کسی نام کی اہمیت کو تسلیم نہ کریں۔
٭٭٭
مار نہیں پیار
آج دعا جب اسکول سے واپس آئی تو بے حد پریشان نظر آ رہی تھی۔ مما کے بار بار پو چھنے پر آخر اس نے بتا دیا کہ آج میں جب سکول گئی تو بہت خوش تھی۔ میں اور ثناء (اس کی کلاس فیلو)تفریح تک خوش رہیں پھر تفریح کے بعد میڈم نے آ کر دھماکہ کیا کہ کل سے آپ کے سالانہ امتحان شروع ہوں گے اور مما آپ یہ تو سنیں کہ پہلا پیپر ریاضی کا ہے؟
یہ تو مما، خوب جانتی تھیں کہ ان کی لاڈلی ریاضی میں زیرو ہے۔ پھر بھی انہوں نے تسلی دی کہ نہیں دعا اگر تم محنت کرو گی تو ریاضی کا پیپر تمہیں آ بھی جائے گا اور مما نے دعا کی خوب تیاری کروائی۔ اداس دل کے ساتھ دعا صبح اسکول گئی، کیونکہ اسے امید تھی کہ پیپر مشکل ہو گا اور اسے نہیں آئے گا۔ وہ کلاس میں بیٹھی پیپر کی تیاری کر رہی تھی کہ میڈم کلاس میں آئیں اور کہا۔ "ڈئیر چلڈرن آپ کے لئے ایک بری خبر ہے وہ یہ کہ آپ کے پیپرز کینسل کر دیئے گئے ہیں اور پیپرز ایک ماہ بعد ہوں گے۔” ویسے تو دعا لائق بچی تھی لیکن اسے ریاضی نہ آتی تھی یہ خبر بقول دعا خوشخبری سن کر وہ خوشی سے پاگل ہو رہی تھی۔ جب دعا چھٹی کے بعد گھر پہنچی تو اس نے مما کو یہ خوشخبری سنائی۔ مما نے جب یہ بات سنی تو کہا چلو ٹھیک ہے اس مہینہ میں، میں تمہارے لئے کسی ٹیوٹر کا انتظام کر لوں گی، پھر دعا اسکول گئی تو ایک اور خوشخبری سننے کو ملی کہ میتھ کی ٹیچر ریحانہ اسکول چھوڑ گئی ہیں اور ان کی جگہ کوئی اور ٹیچر آئیں گی اور پیپر مزید دو ماہ کے لئے کینسل کر دیئے گئے ۔یوں دعا میتھ سے بچ گئی اور اس نے پکا ارادہ کر لیا کہ وہ اپنی میتھ کہ طرف دھیان دے گی پھر ان کی نئی ٹیچر رابعہ اسکول میں پڑھانے آئیں، انہوں نے بچوں کو پیار سے پڑھایا۔ جب کہ ٹیچر ریحانہ تھوڑی بہت مار پیٹ کرتی تھیں۔
ٹیچر رابعہ کے پڑھانے کا خاطر خواہ اثر ہوا اور سب سے بڑھ کر دعا پر۔ اب دعا کو میتھ آ جاتی تھی، جس سے وہ اس کی مما بہت خوش ہوئیں۔ پیپرز ہونے والے تھے اور آج ہفتہ تھا پیر کو دعا کا ریاضی کا پہلا پیپر تھا۔ اس بار حالانکہ اسے میتھ آتی تھی، پھر بھی اس نے منہ بنایا ہوا تھا جب ٹیچر رابعہ کو اس کی اداسی کا پتہ چلا تو وہ اس کے پاس گئیں اور پوچھا ہماری دعا شہزادی کو کیا ہوا ہے؟ دعا نے کہا ٹیچر کل میتھ کا پیپر ہے تو مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں پیپر مشکل نہ ہو؟ ٹیچر رابعہ نے دعا کو سمجھا یا کہ آپ کے پاس ریاضی کے دو ٹیچرز ہیں ، ایک میں اور ایک آپ کے ٹیوٹر اور آپ کی مما بھی آپ کی مدد کرتی ہیں۔ اگر آپ کو کوئی سوال یا بات سمجھ نہ آئے تو آپ میرے پاس آئیں ، میں آپ کو وہ سوال سمجھاؤں گی، نہ کہ ماروں یا ڈانٹوں گی، آپ یہ سمجھئے کہ میری ڈکشنری میں ” مارنا” نام کا کوئی لفظ نہیں ہے بلکہ میں ہمیشہ یہ کہتی ہوں کہ ” مار نہیں پیار” آپ اپنے اوپر بھروسا کریں کہ ہاں ہمیں یہ کام آ جائے گا، ہم بھی کسی سے کم نہیں۔ پھر دعا نے اتوار کے دن ٹیچر رابعہ سے پیپر کی تیاری کروائی ، اپنی مما اور ٹیوٹر سے بھی مدد لی۔ آج دعا کا پیپر تھا، وہ پر امید تھی کہ اسے پیپر آ جائے گا۔ جب پیپر اس کے ہاتھ میں آیا تو وہ بہت خوش ہوئی کیونکہ سوال آسان تھے اور سونے پہ سہاگہ سارے سوال اسے آتے تھے، یوں اس نے سب سے پہلے پیپر کیا۔ سارے پیپر ہو گئے اور نتیجہ یہ نکلا کہ دعا فرسٹ آئی تھی اور اس کی دوست ثناء سیکنڈ آئی ، جبکہ پہلے وہ دونوں تھرڈ آتی تھیں ، وہ بھی میتھ کی وجہ سے۔ دعا اپنے پاپا کے ساتھ مٹھائی لینے گئی کیونکہ اس نے ٹیچر رابعہ کو مٹھائی کھلانی تھی۔
٭٭٭
کبھی ہم خوبصورت تھے
"ٹھہرو ! ستارہ پری ! اتنی جلدی کسی چیز کے بارے میں رائے قائم نہیں کرتے! جلد بازی انسانی فطرت ہے۔ کسی پری کی نہیں۔ انسان فطرتاً جلد باز، جھگڑالو اور ناشکرا ہے مگر ٹھہرو تمہیں یہ اس طرح سمجھ میں نہیں آئے گا۔”
نیلم پری نے آگے بڑھ کر دوسرے آئینہ پہ ہاتھ پھیرا تو وہ بھی روشن ہر گیا۔اب منظر بدل گیا تھا۔
جہاں پہلے آئینہ میں سکون نظر آ رہا تھا۔ دوسرے آئینہ میں اتنا ہی شور اور ہنگامہ تھا۔ ” یہ کیا؟ کیا یہ بھی انسانوں کی طرح کی مخلوق ہے۔” ستارہ پری نے حیران ہو کرسوال کیا۔
نیلم پری دھیرے سے ہنس دی۔” تم بہت سادہ اور معصوم ہو۔ اچھا پہلے تم یہ بتاؤ کہ دونوں میںسے کس دنیا میں جانا پسند کرو گی۔”
"پہلی والی دنیا میں!” ستارہ پری نے جلدی سے کہا۔
” کیوں دوسری والی دنیا میں کیا مسئلہ ہے۔” نیلم پری نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
” نہیں ! مجھے تو اتنا شور اور ہنگامہ دیکھ کر ہی ڈر لگ رہا ہے۔ یہ لوگ ایک دوسرے کو مار رہے ہیں، تکلیف پہنچا رہے ہیں۔ مجھے نہیں جانا یہاں۔” ستارہ پری نے ڈرتے ہوئے کہا تو گل پری نے بھی اس کی تائید کی۔
” یہ دونوں دنیائیں ایک ہی ہیں، اور یہ دونوں انسان ہی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ پہلے کا دور ہے اور یہ شور ہنگامہ آج کا انسانی دور ہے۔ ” نیلم پری نے اطمینان سے کہا تو ستارہ پری اور گل پری کے منہ حیرت سے کھل گئے۔ ” حیران مت ہو! یہی سچ ہے!”
” مگر کس طرح۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تو زمین وآسمان کا فرق ہے ان میں۔” گل پری نے حیران ہو کر پوچھا۔
” ہاں! یہ بات پہلے میری بھی سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ جن” انسانوں” کی بہادری ، جرات ، ایمانداری اور سچائی ہم کو حیران کر دیتی تھی۔ آج وہ اس طرح کیوں ہو گئے ہیں؟”
” پہلے ہم اکثر زمین پر جاتے تھے۔ ہمیں زمینی ماحول بہت اچھا لگتا تھا۔ رشتوں میں خلوص تھا، اتفاق تھا، آپس میں پیار تھا۔ اپنے اقدار کی قدر تھی۔ اپنی روایات کا پاس تھا۔ برائی اس وقت بھی تھی مگر تب اچھائی کی روشنی ہر طرف تھی۔ مگر آج تم لوگوں نے دیکھا ہی ہے کہ انسان کتنی تیزی سے پستی کی طرف جا رہا ہے۔ انسان، اپنے ” مقام ” سے نیچے بہت نیچے جارہا ہے۔ ” انسان” جو اشرف المخلوقات ہے وہ اپنی پہچان بھول کر، صرف اپنے ” نفس” کی پیروی کر رہا ہے۔ آج زمین میں قتل و غارت عام ہے۔منافقت ، ریاکاری، بے حسی ، لا تعلقی کا دور دورہ ہے، رشتوں کو رشتوں کی پہچان نہیں رہی۔ خون کے رشتے ہی ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ عجیب نفسانفسی کا عالم ہے کہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ ” انسان” کس طرف جا رہا ہے۔ نیلم پری نے افسردگی سے کہا۔
” کیا سارے انسان اتنے برے ہیں؟” ستارہ پری نے ڈرتے ہوئے سوال کیا۔
” اگر سارے انسان اتنے برے بن جاتے تو دنیا ختم نہ ہو جاتی؟ دیکھو جہاں برائی ہے، وہاں اچھائی بھی ہوتی ہے۔ فیری مدر نے زمین کے حالات دیکھ کر تو سب پریوں کو ” انسان” سے فاصلہ رکھنے کا حکم دیا تھا تا کہ اُن سے ہمیں کوئی نقصان نہ پہنچ سکے۔”
نیلم پری نے وضاحت سے بتایا۔” انسان کو سمجھنا کافی مشکل ہے یا یوں کہہ لو کہ انسان بذات خود ” مشکل پسند ” ہے، وہ مشکلات کو خود دعوت دیتا ہے۔ اس کے مزاج میں سر کشی ہے۔ اسی خود پسندی اور سر کشی کی وجہ سے وہ خود اپنا ہی دشمن بن بیٹھا ہے ۔”
نیلم پری نے گہری سانس بھر کر دونوں کو دیکھا ، جن کے چہرے پر خوف کے ساتھ ساتھ دکھ کی بھی پرچھائیاں تھیں۔
” خیر ! اب تم لوگ ڈرو مت، جب تک تم اپنی حدود کے اندر رہو گی، کوئی چیز تم لوگوں کو نقصان نہیں پہنچائے گی۔ ستارہ پری کو بہت تجسس تھا۔ اب تجسس ضد میں ڈھلتا جا رہا تھا۔ میں چاہتی تھی کہ تمہیں ہر چیز کا اندازہ ہو تا کہ تم دوبارہ زمین پہ جا کر انسانوں سے ملنے کی تمنا نہ کرو۔ اب تم لوگ جاؤ۔”
نیلم پری نے سنجیدگی سے کہا۔
” میں آپ سے معذرت چاہتی ہوں، اگر میری اس ضد سے آپ کو تکلیف پہنچی ہو۔” ستارہ پری نے نادم لہجے میں کہا۔ ” نہیں ! مجھے خوشی ہے کہ تم نے جاننے کی جستجو کی، جو کہ ہم پریوں کی فطرت میں نہیں ہے۔ ہم صرف ” حکم” مانتے ہیں مگر خیر! تم لوگ بہت معصوم ہو۔ جاؤ شاباش ! جا کر اپنے فرائض انجام دو۔”
نیلم پری نے مسکراتے ہوئے کہا۔
ستارہ پری اور کل پری ہنستی مسکراتی ہوئی چلی گئیں۔ ان لوگوں نے آج وہ کچھ دیکھ اور جان لیا تھا جو کہ ان کی عمر کی کسی پری کو نہیں پتا تھا۔ وہ دونوں بہت پر جوش تھیں، اپنی سب دوستوں کو انسانوں کے قصے سنانے کے لیے۔
سفید محل میں اپنے ” آئینہ خانہ "میں نیلم پری گہری سوچ میں گم تھی۔ اس کی نظر منظر بدلتے آئینوں پر تھی۔
"آج کا انسان کتنا بدل گیا ہے، کاش اسے معلوم ہوتا کہ اس نے اپنا کتنا نقصان کر لیا ہے۔ ہم پریاں بھی ان کی مدد کرنے سے قاصر ہیں۔ کاش ” انسان” کو اندازہ ہو تا کہ اپنی بے حسی کی وجہ سے اس نے اپنے سچے دوستوں کو کھو دیا ہے۔”
نیلم پری نے گہری آہ بھری اور آئینہ پہ ہاتھ پھیرا تو وہ پھر سے سادہ ہو گیا۔ نیلم پری اپنے کمرے کی طرف چل پڑی۔ اندر آئینہ خانہ میں خاموشی تھی، سکون تھا۔
ستارہ پری اور گل پری ہنستے ، مسکراتے ہوئے رنگ اور خوشبو بکھیر رہی تھیں۔ ان کی زندگی اتنی ہی پرسکون اور خوشیوں سے بھر پور تھی۔ کاش کہ ہم انسانوں کی بھی زندگی ایسی ہی ہوتی۔ رنگوں اور خوشیوں میں بسی! بھر پور زندگی!!!!
٭٭٭
درزی اور سپاہی
ایک درزی اپنی چالاکی اور ہوشیاری میں مشہور تھا۔ کچھ لوگ ایک جگہ پر بیٹھے اس درزی کی چالاکی کے قصے ایک دوسرے کو بڑھا چڑھا کر سنا رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ وہ درزی تو بڑے کمال کا آدمی ہے۔ ہم نے اس قدر عیار اور چالاک درزی نہیں دیکھا ، کوئی کتنا ہی ہوشیار کیوں نہ ہو اور درزی کے سامنے بیٹھ کر اپنا کپڑا کٹوائے پھر بھی اپنی چالاکی سے کام لے کر تھوڑا بہت کپڑا چوری کر ہی لیتا ہے اور کسی کو پتہ ہی نہیں چلتا۔
ہر کوئی ا اپنے تجربے کے مطابق درزی کی چالاکی کے قصے سنا رہا تھا۔ انہی لوگوں میں ایک سپاہی بھی بیٹھا ہوا تھا جو اپنے آپ کو عقلمند سمجھتا تھا۔ وہ درزی کی چالاکی کی باتوں کو سن کر چڑتے ہوئے بولا۔ ” لو بھئی میں اس بات پر شرط لگاتا ہوں کہ کل میں کوٹ کا کپڑا اس کے پاس لے جاؤ ں گا اور اپنے سامنے کٹواؤں گا اور اس سے کہوں گا کہ میرا کوٹ سی دے، میں دیکھوں گا کہ وہ کس طرح میرے کپڑے سے کپڑا چراتا ہے، اگر اس نے مجھے اس معاملے میں دھوکا دیا اور اپنا ہنر دکھا دیا اور واقعی میرے کپڑے میں سے تھوڑا سا کپڑا چوری کر لیا تو میں تم لوگوں کو منہ مانگا انعام دوں گا۔”
چنانچہ سپاہی خود ہی اس طرح کی شرط لگا کر اگلے دن کوٹ کا کپڑا لے کر درزی کی دکان پر پہنچا اور کہنے لگا۔ ” یہ میرا کوٹ کا کپڑا ہے، اس کا کوٹ تیار کرنا ہے مگر بات یہ ہے کہ کپڑے کی کٹائی اسی وقت میرے سامنے کرو کیونکہ میں نے تمہاری چالاکی اور ہوشیاری کی بڑی کہانیاں سنی ہیں لیکن میں بھی کچھ کم نہیں ہوں۔ تمہارے دھوکے میں آنے والا نہیں ہوں، میں دیکھتا ہوں کہ تم کتنے ہوشیار اور چالاک ہو۔”
درزی نے سر اٹھا کر سپاہی کی طرف دیکھا اور دل میں ہنسا بھی، کہنے لگا۔ "حضور! تشریف رکھیں، میں تو بڑا ایماندار آدمی ہوں۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے دل میں میرے بارے میں کسی نے غلط فہمی پیدا کر دی ہے، میری تو یہی کام کرتے ہوئے ساری عمر گزر گئی ہے لیکن حرام ہے کہ جو آج تک کسی کا ایک گرہ کپڑا چوری کیا ہو۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ معاملہ فہم سپاہی ہیں، ہر بات کی تہہ کو سمجھتے ہیں یقینی بات ہے کہ عقلمندی میں آپ سے بڑھ کر کون ہو سکتا ہے، آپ کے سامنے بھلا کس کی مجال ہے کہ جو چالاکی و عیاری دکھانے کی جرأ ت کرے۔”
سپاہی درزی کی بات سن کر پھولے نہ سمایا اور دل میں بڑا خوش ہوا درزی مجھ سے مات کھا گیا ہے۔
سپاہی نے اپنا کپڑا درزی کی طرف بڑھا دیا۔ درزی نے قینچی سے کپڑے کو کاٹنا شروع کیا۔ اب سپاہی چاکس ہو کر بیٹھ گیا اور اس نے نظریں قینچی اور درزی کے ہاتھوں پر گاڑ دیں۔ درزی جہاں چالاکی و عیاری میں ماہر تھا۔ وہاں وہ لطیفہ گوئی اور مسخرہ پن میں بھی اپنا جواب نہ رکھتا تھا۔ بے شمار لطیفے اس کو زبانی یاد تھے۔ اس نے جب سپاہی کو اس قدر چوکنا ہو کر بیٹھے دیکھا تو کپڑا کاٹتے کاٹتے اچانک ایسا زبردست لطیفہ سنایا کہ جسے سن کر سپاہی ہنستے ہنستے دہرا ہو گیا۔ اسی ہنسی کے عالم میں اس کا سر کافی آگے کی طرف جھک گیا۔ درزی اسی موقع کی تلاش میں تھا، اس نے جلدی سے تھوڑا سا کپڑا کاٹ کر چھپا لیا۔ اب سپاہی کی ہنسی رکی اور وہ دوبارہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا، اسے لطیفہ سن کر مزا آیا اور کہنے لگا۔
"یار ماسٹر! لطیفہ تو تم نے بڑا زبردست سنایا، ایک اور سناؤ۔” درزی کب انتظار کرنے والا تھا، اس نے جھٹ سے ایک اور لطیفہ داغ دیا۔ یہ پہلے سے بھی زیادہ ہنسانے والا تھا، اب تو سپاہی کا ہنسی کے مارے برا حال ہو گیا اور ہنستے ہنستے اس کا سر زمین کے ساتھ جا لگا۔ درزی نے پھر اس موقع کو غنیمت جانا اور تھوڑا سا مزید کپڑا چوری کر لیا۔ سپاہی کو پھر بھی پتہ نہ چلا۔
ہنستے ہنستے جب اس کی حالت ذراسی سنبھلی تو سر اٹھاتے ہوئے بولا۔ "یار ماسٹر! ایک لطیفہ اور سنا دو۔ "درزی نے مسکراتے ہوئے کہا۔”سپاہی جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لطیفہ تو ضرور ایک سنا دوں گا مگر پھر تمہارا کوٹ زیادہ ہی تنگ ہو جائے گا۔”
٭٭٭
احساس
شاہینہ دس سال کی ایک ذہین لڑکی تھی۔ سونے پہ سہاگہ وہ خوبصورت بھی تھی۔ اس کا ایک بھائی تھا جس کا نام ذیشان تھا اور وہ سات سال کا تھا۔ وہ امیر والدین کی اولاد تھے۔ دونوں بہن بھائی نہایت لائق تھے۔ ہر سال فرسٹ آنے والے بچوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔
ہر سال ان کے پاپا مسٹر بلال ان سے کہتے تھے کہ اگر اس بار تم دونوں فرسٹ آئے تو کچھ نہ کچھ گفٹ دوں گا۔ اپنے پاپا سے گفٹ حاصل کرنے کے لیے وہ بہت زیادہ محنت کرتے اور لازماً فرسٹ آتے تھے۔ اس بار پیپرز شروع ہونے میں ایک ہفتہ باقی تھا تو وہ دونوں بہت شدت سے اس بات کا انتظار کر رہے تھے جو ان کے پاپا نے انہیں بتانی تھی۔ خدا خدا کر کے انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور ایک رات پاپا نے ذیشان اور شاہینہ کو اپنے کمرے میں بلایا اور ان سے کہا۔ آپ کے پیپرز شروع ہونے والے ہیں، اگر ہر بار کی طرح آپ دونوں فرسٹ آئے تو میں آپ کو لاہور گھمانے لے چلوں گا۔ ویسے تو وہ دونوں کئی بار لاہور گئے تھے اور ہر بار خوب سیرو تفریح کی تھی۔ اس لیے لاہور کا نام سن کر وہ بہت خوش ہوئے کیونکہ ایک بار پھر وہ خوب تفریح کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے خوب محنت کی آخر ان کے پیپرز ہو گئے۔ اب رزلٹ کا شدت سے انتظار تھا، آخر کار رزلٹ بھی آ گیا جو ان کے حق میں تھا یعنی دونوں ایک دفعہ پھر فرسٹ آئے تھے۔ ان دونوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ کیونکہ انہوں نے اب لاہور جانا تھا۔ گھر پہنچ کر جب یہ خبر اپنے پاپا اور مما کوسنائی تو وہ بھی بہت خوش ہوئے ، اور پاپا نے ان سے کہا کل ہم لاہور چلیں گے، اس لیے پیکنگ کر لینا۔ دونوں بچے خوش خوش اپنے کمرے کی طرف چل دیئے ۔ پیکنگ مکمل ہو چکی تھی، وہ لاہور کے لیے روانہ ہو گئے۔ دو، تین دن وہ سارا لاہور گھومے۔ مما نے نوٹ کیا کہ شاہینہ کسی بات پر اداس ہے۔ مما کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ مما کل داتا دربار گئے تھے، وہاں میں نے ایک اپاہج کو دیکھا تھا۔ جس کے نہ تو پاؤں تھے اور نہ ہی ہاتھ، اس لیے مجھے اس پر بہت ترس آیا، میں اس کے لیے کچھ کرنا چاہتی ہوں۔ اُس کی مما اپنی بیٹی کی باتیں سن کر بہت خوش ہوئیں اور اُس سے کہا۔ ہم کل اس کی مدد کریں گے۔ یہ باتیں اُن کے پاپا بھی سن رہے تھے۔ اگلے دن وہ سب دوبارہ داتا دربار گئے اور اس اپاہج عورت کے ساتھ ساتھ سب کی مدد کی۔ اس کے پاپا اپنی بیٹی کی سوچ سے بہت خوش بھی تھے اور حیران بھی۔
اسی طرح ہمیں بھی ہمیشہ دوسروں کی مدد کرنی چاہیے ۔ ہمیں اپنے اندر یہ "احساس ” پیدا کر لینا چاہیے، اسی طرح ہمیں دلی خوشی حاصل ہو گی۔
٭٭٭
حسین شہزادی
پرانے وقتوں کی بات ہے کہ ملک یمن پر ایک نیک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ وہ اپنی رعایا کے ساتھ بہت نیک سلوک کرتا تھا، اس کی چار بیٹیاں تھیں، جن میں سے ایک شہزادی بہت حسین تھی، جس کی خوبصورتی پر باقی شہزادیاں نفرت کرتی تھیں۔ اس شہزادی کا نام شہزادی سوہانہ تھا۔ ایک دفعہ ان کا باپ کسی کام کی غرض سے بیرون ملک گیا، اس نے اپنی ساری بیٹیوں سے ان کی خواہشات پوچھیں۔ ان تین بہنوں نے قیمتی زیورات لانے کو کہا جب بادشاہ نے چوتھی بیٹی سے پوچھا کہ اگر تمہیں کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے بتا دو ؟
شہزادی سوہانہ نے کہا مجھے ایک گلاب کا پھول چاہئے ان کا باپ کوئی نہ کوئی بات بھول جاتا تھا اس لئے صرف شہزادی سوہانہ کے لئے پھول لے آیا، باقی چیزیں وہ بھول چکا تھا۔ جب وہ گھر آیا تو شہزادیاں دروازے پر کھڑی اپنے باپ کا انتظار کر رہی تھیں، جب ان کا باپ آیا تو صرف ایک پھول کے علاوہ اس کے پاس کوئی چیز نہ تھی۔ شہزادیوں نے اپنے باپ کو برا بھلا کہہ کر باپ کی نافرمانی کی۔ شہزادی سوہانہ کمرے میں جا کر رونے لگی۔ اس کا باپ کمرے میں آیا اس کا پھول اسے دے دیا۔ بادشاہ نے کہا۔ دنیا میں سب سے زیادہ قیمتی چیز والدین کی خدمت ہے۔ چنانچہ جب بادشاہ دوسری مرتبہ بیرون ملک گیا تو سب نے اپنی اپنی چیزیں لانے کے لئے کہا مگر شہزادی سوہانہ اس پر خاموش رہی، اس نے سوچا کہ اس بار کوئی ایسی بات نہ ہو کہ جس سے میرے باپ کا دل دکھے تو بادشاہ نے اپنی بیٹیوں کے لئے زیورات لئے۔ راستے میں ایک جنگل تھا، بادشاہ اس جنگل میں سے گزر رہا تھا تو اس نے درخت پر بیٹھے ایک چمگادڑ کو دیکھا۔ وہ چمگادڑ اصل میں ایک خوفناک جن تھا۔ اس نے بادشاہ کو قید کر لیا۔ ایک شہزادہ یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا، اس نے اپنی تیز دھار تلوار نکالی اور چمگادڑ کی گردن پر دے ماری، چمگادڑ اسی وقت مر گیا۔ شہزادہ ، بادشاہ کو محل لے گیا اور ان کی بیٹیوں کو سارا ماجرہ سنا دیا۔ شہزادیاں اپنے باپ کے پاس آئیں اور اپنے باپ سے نافرمانی پر معافی مانگی۔ بادشاہ نے اس وقت اپنی ساری بیٹیوں میں سے سوہانہ پر فخر محسوس کیا اور اپنی ساری بیٹیوں کو گلے لگا لیا، سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔
دیکھا بچو۔۔۔۔۔۔! مل جل کر رہنے سے برکت ہوتی ہے ہمیں بھی چاہئے کہ شہزادی سوہانہ کی طرح اپنے والدین کی خدمت کریں اور ایسی بات زبان پر نہ لائیں جس سے والدین کا دل دکھے۔
٭٭٭
کسان اور پری
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی گاؤں میں ایک کسان رہتا تھا، وہ بہت مہربان تھا۔ ایک دن وہ اپنے کھیتوں میں کام کرنے جا رہا تھا۔ کھیتوں کے راستے میں ایک کنواں پڑتا تھا، وہ بہت پرانا کنواں تھا۔ ایک دن اس نے کنویں سے کسی کی آواز سنی، کوئی مدد کے لئے پکار رہا تھا۔ یہ آواز کسی عورت کی تھی۔ یہ کنواں ایک جادوگر کے قبضے میں تھا۔ کسان نے سوچا کہ شاید جادوگر عورت کا روپ بدل کر مجھے پھنسانے کی کو شش کر رہا ہے۔
جب یہ آواز مسلسل تین دن تک آتی رہی تو کسان نے ایک دن کنویں میں جھانک کر دیکھا تو یہ ایک خوبصورت پری تھی جو زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی۔ اس پری نے کسان سے کہا کہ تم میری مدد کرو اور جب تک میںان زنجیروں میں جکڑی رہوں گی تب تک میرا کوئی جادو نہیں چل سکتا۔ کسان اسی وقت گھر سے رسی لے آیا اور پری کو کنویں سے نکا لا۔ جب پری کنویں سے نکلی تو اس نے اپنی جادو کی چھڑی سے کنویں کو آگ لگا دی اور کنویں کے ساتھ جادوگر بھی مر گیا۔ پری نے کسان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ جب کبھی میری مدد کی ضرورت پڑے تو مجھے بلا لینا۔ پری نے کسان کو ایک انگوٹھی دی اور کہا کہ جب تم مجھے بلانا چاہو تو یہ انگوٹھی اپنے ہاتھ میں پہن لینا، میں فوراً وہاں آ جاؤں گی،اس کے بعد پری وہاں سے چلی گئی اور کسان اپنے گھر چلا گیا۔ ایک دن کسان کے کھیتوں میں ایک خوفناک بھیڑیا آ گیا، وہ کسان کو کھانے کے لئے اس کے پاس آنے لگا، کسان بہت گھبرایا ہوا تھا، اچانک اسے پری کی بات یاد آ گئی اور اس نے وہی انگوٹھی نکالی اور اسے اپنے ہاتھ میں پہن لیا، پری وہاں آگئی اور اپنی جادو کی چھڑی سے اس بھیڑئیے کو مار دیا، اس طرح کسان کی جان بچ گئی۔ کسان نے پری کا شکر یہ ادا کیا۔ پری وہاں سے چلی گئی۔
پیارے بچو۔۔۔۔۔۔۔۔۔! ہمیں بھی ایسے ہی ہر کسی کی بہادری اور دلیری کے ساتھ مدد کرنی چاہئیے۔
٭٭٭
ایماندار لڑکا
آفتاب ایک بہت ہی ایماندار لڑکا تھا۔ روز کی طرح آج بھی وہ اسکول جا رہا تھا کہ اسے راستے میں ایک خوبصورت لال رنگ کی تھیلی ملی۔ اس نے سوچا کہ تھیلی اٹھاؤں ، پھر اس نے سوچا کہ کسی نے دیکھ لیا تو وہ مجھ پر چوری کا الزام لگا دے گا پھر اسے خیال آیا کہ یہ تھیلی اٹھا لو ں، جس کی ہو گی پھراسے ضرور واپس کر دوں گا۔ اس نے ادھر اُدھر دیکھا کوئی نہیں تھا، اس نے تھیلی اٹھا لی اور جب اسے کھول کر دیکھا تو اس میںدس روپے تھے۔ اس نے سوچا ابھی یہ اپنے پاس رکھ لیتا ہوں، اسکول کے لئے دیر ہو رہی ہے، جب چھٹی کے وقت آؤں گا تو جس کی ہو گی ، اسے دے دوں گا، چنانچہ وہ اسکول چلا گیا۔ وہ اسکول میں سارا دن سوچتا رہا کہ آخر یہ تھیلی کس کی ہو گی اور ہیں بھی اس میں دس روپے ۔۔۔! چنانچہ کچھ ہی دیر میں اسکول کی گھنٹی بج گئی۔ وہ فوراًاسکول کے گیٹ سے باہر نکلا اور تھیلی کے اصلی مالک کو ڈھونڈنے لگا۔
وہ اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک گیا تو ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا۔ اسی درخت کے نیچے ایک بچہ رو رہا تھا۔ آفتاب نے اس بچے سے رونے کی وجہ پوچھی تو اس بچے نے کہا کہ میری امی نے صبح مجھے دس روپے ایک تھیلی میں دئیے اور کہا کہ دودھ لے آؤ، میں جب دودھ لینے گیا تو وہ مجھ سے کھو گئے ، میں صبح سے وہ پیسے ڈھونڈ رہا ہوں مگر وہ پیسے نہیں ملے، اب میں امی کے پاس دودھ کیسے لے کر جاؤں گا، پھر وہ لڑکا اور زیادہ رونے لگا۔ آفتاب سمجھ گیا کہ یہ تھیلی اسی بچے کی ہے۔ وہ دل ہی دل میں خوش ہوا کہ چلو تھیلی کا اصلی مالک تو مل گیا۔ آفتاب نے وہ تھیلی بچے کے ہاتھ میں تھما دی اور کہا کہ لو اپنے پیسے اور دودھ لے کر سیدھے گھر جانا ۔ اس بچے نے جب اپنے پیسوں کی تھیلی کو دیکھا تو اس کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں ۔ اس نے آفتاب کا شکر یہ ادا کیا اور دودھ لے کر اپنے گھر چلا گیا اور آفتاب جب دیر سے گھر پہنچا تو اس کی امی نے دیر سے آنے کی وجہ پوچھی تو آفتاب نے ساری بات اپنی امی کو بتائی اور اس کی امی نے اسے شاباش دی اور نصیحت کی کہ ہمیشہ ایمانداری سے کام کرنا۔ اس نے اپنی امی سے وعدہ کیا کہ وہ ہر کسی سے ایمانداری کرے گا۔
پیارے دوستو! آپ بھی آفتاب کی طرح ایماندار بنیں ، ہمارے ملک کو آفتاب جیسے ایماندار بچوں کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔
٭٭٭
انوکھا انعام
کسی گاؤں میں ایک غریب کسان رہتا تھا۔کسان سارا دن اپنے کھیت میں محنت کرتا۔ کسان کے پڑوس میں ایک سنار کا گھر تھا۔ یہ سنار امیر ہونے کے ساتھ ساتھ بے حد لالچی بھی تھا۔ ایک مرتبہ کسان نے اپنے کھیت میں کدوؤں کی فصل اگائی ۔ فصل بہت اچھی ہوئی اور کھیت بڑے بڑے کدوؤں سے بھر گیا۔ ایک کدو تو اتنا بڑا ہو گیا کہ اس جیسا کدو پہلے کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ کسان بہت خوش ہوا اور اس نے سوچا کہ کیوں نہ یہ غیر معمولی کدو بادشاہ سلامت کو پیش کر دوں۔ وہ اسے ایک گاڑی میں رکھ کر بادشاہ کے دربار میں لے گیا اور بادشاہ سے عرض کیا۔
‘حضور! میرے خیال میں یہ دنیا کا سب سے بڑا کدو ہے۔ اسے آپ کی نذر کرنا چاہتا ہوں۔’
بادشاہ اس نایاب کدو کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور وزیر کو حکم دیا کہ اس کدو کے برابر جواہرات تول کرکسان کو دے دیئے جائیں ۔ کسان نے ہیرے جواہرات بیچ کر نیا مکان اور سازو سامان خرید لیا۔
سنار کو جب کسان کے دولتمند ہونے کا راز معلوم ہوا تو وہ حسد کی آگ میں جلنے لگا۔ آخر اسے ایک ترکیب سوجھی ، اس نے سوچا کہ اگر میں اپنے بنائے ہوئے خاص زیور بادشاہ کی خدمت میں پیش کروں گا تو بادشاہ مجھے بہت دولت دے گا۔اس نے اپنے بنائے ہوئے خاص زیور پوٹلی میں باندھے ۔ پوٹلی لے کر بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا۔ ‘بادشاہ سلامت ! میں یہ خاص زیور آپ کے حضور میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔’
بادشاہ نے اس کا تحفہ قبول کرتے ہوئے سوچا کہ اس کے بدلے میں اسے کیا انعام دیا جائے؟ اچانک اس کی نظر غیر معمولی کدو پر پڑی ۔ بادشاہ نے اسے کدو دیتے ہوئے کہا۔ ‘ میرے دربار کی سب سے نایاب چیز یہ کدو ہے جو ایک کسان لایا تھا میں تمہیں یہ ہی کدو عطا کرتا ہوں۔’
سنار یہ سن کر بہت سٹپٹایا ، اس نے لرزتی ہوئی آواز میں بادشاہ کا شکر یہ ادا کیا اور گھر کی طرف چل دیا۔ اس کے ذہن میں یہ جملہ گونج رہا تھا۔ ‘لالچ بری بلا ہے۔’
٭٭٭
مٹھو چاچا کی میٹھی جیت
ایک گاؤں میں ایک آدمی رہتا تھا۔ اُس کا نام حیدر تھا۔ حیدر بہت غریب تھا۔ مگر اس کی ایمانداری کے چرچے پورے گاؤں میں تھے۔ دراصل وہ ایک حلوائی تھا۔ وہ ایسے ‘ میٹھے پکوان’ بناتا تھا کہ جو ایک بار کھاتا بار بار آتا تھا ۔ میٹھی چیزیں بنانے کی وجہ سے اسے لوگ مٹھو چاچا کہتے تھے۔ وہ ایک رحم دل آدمی بھی تھا ۔اس کے سارے گھر کا خرچہ اسی دکان سے نکلتا تھا۔ اس کی دکان کے قریب اس کے بھائی کی بھی دکان تھی۔ وہ مٹھو چاچا سے بہت نفرت کرتا تھا۔ مٹھو چاچا کی ایمانداری کے چرچے پورے گاؤں میں پھیل گئے تھے۔ گاؤں کا سر دار اسے آزمانا چاہتا تھا، اس لیے اس نے اپنے سپاہیوں سے کہا کہ جاؤاس کی دکان کے آگے ایک برتن میں لڈو رکھ آؤ۔
جب وہ برتن رکھ دو تو مٹھو چاچا کا دروازہ کھٹکھٹانا اور پھر ایک جگہ چھپ جانا۔مٹھو چاچا کی ایمانداری کا پتہ چل جائے گا۔ سپاہیوں نے ایسا ہی کیا۔ مٹھو چاچا نے دروازہ کھولا تو باہر ایک بڑے سے برتن میں لڈو دیکھے اور لوگوں سے دریافت کیا مگر معلوم نہیں ہوا کہ یہ لڈو کس کے ہیں۔۔۔؟ کوئی نہ آیا کیوں کہ لڈو تو کسی کے نہ تھے۔ جب اس کے بھائی کریمو نے دیکھا تو اس کے دل میں لالچ آ گیا، اس نے چپکے سے لڈو چرا لیے۔ سپاہیوں نے اسے چوری کرتے ہوئے دیکھ لیا اور اسے گرفتار کر کے لے گئے اور سردار کے سامنے پیش کیا۔ سردار نے مٹھو چاچا کو ایمانداری پر داد دی اور کر یمو کو سر زنش کر کے جانے دیا۔ ایک دفعہ اسی گاؤں میں کھانا پکانے کا مقابلہ ہوا۔ جس میں لوگوں کو اچھے اچھے پکوان بنانے تھے۔ مقابلے میں مٹھو چاچا نے بھی حصہ لیا۔اسے خود پر اعتماد تھا۔ گاؤں میں مقابلے کے لیے زور شور سے تیاریاں کی گئیں۔
آخر کاروہ دن آ گیا جس کا سب کو بے صبری سے انتظار تھا۔ تمام حلوائی میدان میں داخل ہوئے۔ سردار کو یقین تھا کہ اس بار بھی مٹھو چاچا سب کے دلوں کو جیت لے گا۔ تمام حلوائیوں نے کڑھائی اٹھائی اور جلتے ہوئے چولہے پررکھ دی اور اپنے من پسند پکوان بنانے میں مصروف ہو گئے۔
مٹھو چاچانے بھی سب سے پہلے جلیبیاں بنائیں ۔ اس کے بعد مٹھو چاچا نے ہر وہ پکوان تیار کیے جو گاؤں والوں کے پسندیدہ تھے۔ سب کی زبان پر صرف چاچا کا نام تھا۔یہ دیکھ کر اس کا بھائی حسد کرنے لگا۔ اس نے سوچا کہ اس کے میٹھے پکوان کو نمکین پکوان بنا دیا جائے۔ مٹھو چاچا پانی لینے کے لیے کچھ دیر کو باہر گیا تو اس کے بھائی کو موقع مل گیا۔ موقع ملتے ہی اس نے اپنا کام شروع کر دیا ۔ جیسے ہی وہ کڑھائی میں نمک ڈالنے لگا، سردار نے اسے دیکھ لیا اور میدان سے باہر نکال دیا۔ تھوڑی دیر میں مٹھو چاچاواپس آ گیا۔ تھوڑی ہی دیر میں سب حلوائیوں نے پکوان تیار کر لیے۔
سردار نے جب مٹھو چاچا کے بنائے ہوئے کھانے کو چکھا تو وہ بے اختیار کہہ اٹھا ۔ ‘ واہ مٹھو چاچا واہ۔۔۔۔۔۔! ‘ اس طرح سے مٹھو چاچا جیت گئے اور کریمو کو اس کی نفرت کا صلہ مل گیا۔
دیکھا بچو! کس طرح سے مٹھو چاچا کی ایمانداری نے انہیں میٹھی جیت دلائی۔ہمارے ملک میں بھی ایسے لوگوں کی بے حد ضرورت ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ نیکی اور ایمانداری کا صلہ ضرور ملتا ہے۔
٭٭٭
پراسرار حویلی
چار دوست ایک گاوں میں رہتے تھے۔ ان کے نام فیروز، علی، ہاشم اور خرم تھے۔ یہ چاروں دوست گاوں کے سب سے اچھے بچوں میں شمار کیے جاتے تھے اور ان کی دوستی بھی مثالی تھی۔ گاوں چھوٹا تھا اور آبادی بھی کم تھی۔ چاروں گاوں کے ایک ہی سکول میں پڑھتے تھے جو گاوں کا واحد سکول تھا اور ان چاروں کا گھر ایک دوسرے کے قریب ہی تھا۔ گاوں میں ایک پراسرار حویلی تھی جو کہ "خوفناک حویلی” کے نام سے جانی جاتی تھی۔ گاوں کے بزرگوں کا کہنا تھا کہ یہاں حویلی میں ایک راجہ رہا کرتا تھا۔ کسی نے اس کو مار دیا اور اس کا خاندان اور خزانہ غائب ہو گیا۔
جب بھی وہ چاروں یہ کہانیاں سنتے، ان کا دل چاہتا کہ وہ حویلی کہ جانچیں، لیکن جب انہوں نے اپنے والدین کہ اپنی اس خواہش کے بارے میں بتایا ہو انہوں نے منع کر دیا۔ ایک دن جب وہ چاروں سکول سے واپس آرہے تھے تو علی جو سب سے ہوشیار تھا، کہنے لگا کہ آج ہم اس حویلی میں جائیں گے۔ جب وہ وہاں پہنچے تو انہیں خوف محسوس ہوا۔ خرم جو سب سے بزدل تھا، واپس جانا چاہتا تھا لیکن ہاشم نے کہا۔ اب جبکہ ہم یہاں آ ہی گئے ہیں تو ہمیں پتہ لگا کر ہی جانا چاہیے۔ سب راضی ہو گئے اور اندر داخل ہونے کی کوشش کرنے لگے۔ وہاں کوئی دروازہ نہیں تھا صرف ایک بڑی دیوار تھی ان چاروں نے دیوار پھلانگی تو ہر طرف سوکھے پتوں کو دیکھا۔ وہاں بہت زیادہ کمرے تھے وہ ایک کمرے میں داخل ہوئے۔ یہ ایک بہت بڑا کمرہ تھا اور یہاں بہت سارے پرانے برتن پڑے تھے۔ وہ باہر آئے اور راہداری سے گزر ہی رہے تھے کہ فیروز جو سب سے آگے تھا گر پڑا۔ سب نے اس کو مل کر اٹھایا اور اٹھنے میں اس کی مدد کی۔ جب اس جگہ پر غور کیا گیا تو سب نے دیکھا کہ وہاں پر ایک سوراخ تھا جو کہ دھیمی روشنی ہونے کی وجہ سے نظر نہیں آ سکا تھا۔ جب ہاشم نے اپنا ہاتھ فیروز کی طرف بڑھایا تو اس کا ہاتھ کسی چیز سے چھوا۔ وہ ایک چھٹا صندوق تھا۔ چاروں نے اسے غور سے دیکھا۔ فیروز اسے کھولنا چاہتا تھا لیکن خرم نے خوفزدہ ہو کہا کہ صندوق کھولنے سے انہیں کوئی نقصان ضرور ہو گا، لیکن علی صندوق کھولنے کے لیے اسرار کرنے لگا۔ ہاشم نے صندوق کھولا تو اندر سے ایک کاغذ برآمد ہوا، وہ حیران رہ گئے۔ فیروز نے کہا: اس میں کچھ لکھا ہے۔ علی نے دلچسپی سے کہا کہ شاید یہ ایک خزانے کا نقشہ ہے جو راجہ چھوڑ گیا ہے۔
"وہ خزانہ، چلو اسے کھولو” ہاشم نے کہا۔ اب چاروں پر جوش ہو گئے تھے۔ علی نے کچھ نشان اس پر بنے دیکھے۔ سب نے اسے دیکھا تو کاغذ پر شیشم کا درخت اور مربع کی شکل والا پتھر بنا تھا۔ اس کے ساتھ تیر کا نشان تھا۔ انہوں نے حویلی کے درخت کو ڈھونڈنا شروع کیا۔ انہوں نے حویلی کے ارد گرد دیکھا مگر انہیں وہ نہ مل سکا۔ انہوں نے دوبارہ کاغذ کو دیکھا۔ فیروز نے کہا، دیکھو یہ جنوب کی سمت ہے۔ ایک منٹ کی دیر کیے بغیر وہ جنوب کی سمت گئے، کچھ فاصلے پر انہوں نے درخت کو دیکھا وہ درخت کے پاس بھاگے تو انہوں نے مربع کی شکل والے پتھر کے ساتھ تیر دیکھا۔ انہوں نے پتھر اٹھایا تو اس کے نیچے ایک سوراخ سیڑھیوں کے ساتھ تھا۔ وہ چاروں نیچے اترے تو یہ ایک سرنگ تھی جہاں زیورات اور قیمتی پتھر موجود تھے۔ وہاں چند لاشیں بھی موجود تھیں جو اب ایک ڈھانچہ بن گئی تھیں۔ وہاں ایک بڑا کاغذ پڑا تھا۔ جس میں لکھا تھا کہ یہ راجہ کا خاندان ہے۔ اس نے میرے بیٹے کو مارا تھا تو میں نے بدلہ لیا اور جادوگر ہامل کی مدد سے اس کے سارے خاندان کو مار دیا۔ مجھے خزانہ نہیں چاہیے۔ جو کوئی بھی یہاں آئے گا وہ ہی اس کا حقدار ہو گا۔ یہ راز کھلنے کے لیے پندرہ سو سال لگیں گے۔ وہ چاروں خزانہ پا کر بہت خوش ہوئے۔ وہ واپس گاوں گئے اور وہاں کے لوگوں کو لے کر حویلی آئے۔
گاوں کے لوگ یہ سب دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور سب نے مل کر فیصلہ کیا کے اس خزانے کو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ اس موقع پر علی، فیروز، ہاشم اور خرم کی خوشی دیدنی تھی۔ آخر انہی کی وجہ سے تو حویلی کا راز فاش ہوا تھا۔
٭٭٭
٭٭٭
ماخذ:
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید