FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فل اسٹاپ

اور دوسری کہانیاں

 

               شکیل احمد صدیقی

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

فل اسٹاپ

 

 

               فائزہ طارق

 

بیٹا! آپ نے پھر مضمون لکھتے ہوئے فل اسٹاپ نہیں لگائے۔ ہر لائن ختم کرنے کے بعد فل اسٹاپ لگاتے ہیں نہیں تو آدھا نمبر کٹ جاتا ہے۔ زینب نے بڑے پیار سے بیٹے حنظلہ کو سمجھایا۔ ساتھ ساتھ ہنڈیا بھوننے کا کام بھی جاری رہا۔ حنظلہ کے چھوٹے چھوٹے سوال بھی جاری تھے۔

"امی جی! ایک نقطہ ہی تو ہے اگر میں نا لگاؤں؟”

زینب بڑی ملائمت سے اس بتانے لگی کہ ہر زبان کے کچھ اصول ہوتے ہیں اور ان کے مطابق ہی چلنا پڑتا ہے۔ "چلیں ٹھیک ہے میں ادھر بیٹھ کر کام مکمل کرتا ہوں” حنظلہ کا ہوم ورک ہوتا رہا اور زینب کے ہاتھ تیزی سے گھر کے کام نمٹاتے رہے۔ ساتھ ساتھ وہ اپنے بیٹے پر ممتا بھری نظر بھی ڈالتی رہی۔ آخر حنظلہ نے ایک نعرہ لگایا کہ مضمون مکمل ہو گیا ہے، گویا ہوم ورک سے چھٹی مل۔ پھر وہ کہنے لگا:

"امی جی! پندرہ فل اسٹاپ لگائے ہیں۔ اب خوش”

اس معصومانہ بات پر زینب بے ساختہ ہنس پڑی۔ مگر اچانک ہی ایک خیال نے اس مسترب کر دیا۔ کھانے کے بعد تھوڑی دیر سونے کی نیت سے لیٹی تو پھر اس سوچ نے اعصاب کو تھکا ڈالا۔

"میں نے اپنی خواہشوں کے آگے فل اسٹاپ کیوں نہ لگایا؟ زندگی گزارنے کے اصول جو رب نے متعیّن کیے ہیں میں ان سے انحراف کیوں کر بیٹھی۔ میں تو خواہش اور ضرورت کے فرق کو اچھی طرح جانتی تھی۔ مادی خواہشیں مجھ پر اتنی حاوی ہو گئیں کہ میں اپنے بچپن کے دوست اپنے غمگسار اپنے اللہ کو بھول بیٹھی۔ میں تو سارا دن اپنے خوبصورت گھر، اس کی چیزوں کی صفائی ستھرائی میں ہی لگی رہتی ہوں۔ اور ہاں اب تو فخریہ مسکراہٹ بھی اکثر چپکے سے میرے لبوں پر آ جاتی ہے۔ جسے روکنے کی کوشش بھی میں نہیں کرتی اور ۔۔۔ اور اب تو کسی کام کو کرتے ہوئے اللہ کی رضا کی نیت بھی نہیں ہوتی۔”

آنسوؤں سے زینب کا دم گھٹنے لگا مگر ضمیر کا احتجاج جاری تھا۔ دو سال غفلت کی زنگی گزارنے کے بعد آج احتساب کی عدالت لگی تھی جس نے مجرم بھی وہی تھے اور منصف بھی وہی۔ وہ رو رو کر اعترافِ جرم کر رہی تھی اور اللہ سب سن رہا تھا، دیکھ رہا تھا۔

"میں نے طلحہ کو کمانے کی مشین بنا ڈالا۔ پہلی جاب کی تنخواہ ہی ماشاءاللہ اتنی آتی تھی کہ شام کی جب کی ضرورت ہی نا تھی مگر میں نے ہی اسے دوسری جاب کرنے پر مجبور کیا۔ دو سال پہلے کتنی سکون آور ہماری شامیں ہوتی تھیں۔ ہم تینوں مل کر بیٹھتے پسند کی چیزیں بنائی جاتیں۔ پندرہ منٹ کے لیے درسِ قرآن بھی ہوتا۔ جس میں ننھا حنظلہ بھی سامع ہوتا۔ فجر سے لازم طور پر آدھا گھنٹہ پہلے اٹھ کر تلاوت کیا کرتے تھے۔ قرابت داری کی نیت کر کے ہم کبھی کبھار رشتے داروں کے گھر بھی چلے جاتے یا فون پر رابطہ ضرور رکھتے۔ یوں رشتے داروں کے احوال کا پتہ چلتا رہتا اور مالی مدد کی توفیق بھی ہو جاتی۔ پھر طلحہ کو لکھنے کی عادت تھی۔ چھوٹے چھوٹے موضوع کو کہانیاں بنا کر یا کالم کی شکل دے کر اخباروں میں ارسال کرنا یہ طلحہ کا شوق تھا۔ مغرب کے بعد طلحہ کو طویل نوافل کی عادت تھی۔ مگر پھر طلحہ کے یہ سلسلے بھی موقوف ہوئے اب وہ رات کو دیر سے گھر آتے ہیں۔ ہم ایک ڈیڑھ بجے سوتے ہیں اور سات بجے اٹھتے ہیں اور وہ بھی اس لیے کہ بچے کو سکول بھیجنا ہے۔ ہائے میں کتنے خسارے کا سودا کر بیٹھی؟”

کوڑے زینب پر برس رہے تھے اور آنسوؤں نے زینبے کی آنکھوں کا راستہ دیکھ لیا تھا۔

"میں کیسے فرمانبرداری کی راہ سے ہٹ گئی۔ اپنے اللہ سے واجبی سا تعلق رکھ کر میں خوش رہی تو کیسے؟ اللہ سے دوری کے بعد میں سانس بھی لیتی رہی۔ جیتی بھی رہی۔ میں جو سوچا کرتی تھی کہ پتہ نہیں کہ لوگ اللہ کو بھلا کر کیسے جی لیتے ہیں؟ ان مادی چیزوں کے سحر نے خود مجھے میرے رب سے دور کر دیا۔ بالکل غیر محسوس طریقے سے ان چیزوں کی محبت نے میرے دل کو اسیر کر لیا۔ پھر ہولے ہولے میں مناجات سے محروم ہوئی۔ ذکرِ اللہ سے محروم ہوئی اور پھر اللہ سے میرا تعلق واجبی رہ گیا۔ مگر اللہ مجھے نوازتا رہا۔ میری کج ادائی کے باوجود وہ مجھے بھولا نہیں مگر ۔۔۔ مگر وہ دل سے تو چلا گیا”

بے بسی سے زینب پھوٹ پھوٹ کر روتی رہی۔ دو نفل توبہ کے پڑھ کر دعا کے لیے ہاتھ جو پھیلائے تو آنسوؤں سے گلا رندھ گیا۔ توبہ استغفار کرتے ہوئے ہچکیوں سے لفظ بار بار ٹوٹے مگر آمین کہتے ہوئے جب زینب اُٹھی تو بہت آسودہ تھی۔ اس کے دل کے اندر چھائے سکون نے اسے بتا دیا تھا کہ اس نے اپنے رب کو منا لیا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

کرو مہربانی تم

 

               رومیصاء حسن – پشاور

 

 

ایک عورت کی چیخ نے مجھے چونکا دیا۔ ساحلِ سمندر کی تیز و تند ہوائیں میرے کمزور بدن کو چیرتی ہوئی گزر رہی تھیں جس سے میرے کپڑے اور بے ترتیب بال مسلسل ہوا میں لہرا رہے تھے، میں شائد آج راستہ بھٹک کر یا اس بے رحم زمانے کے ظلم سے تنگ آ کر یہاں آ نکلا تھا۔ میرا دل اس زمانے کی سختی اور بے وفائی سے سخت بےزار اور مایوس تھا، جس میں غریبوں اور بےروزگاروں کا کوئی حصہ نہیں اور جہاں پر انہیں جینے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ دو سال کی مسلسل بے روزگاری نے مجھ جیسے ہنس مکھ انسان کو کیا سے کیا بنا دیا تھا۔

اس مہنگائی کے دور میں جہاں پورے دن میں ایک روٹی کھانی نصیب نہیں ہوتی، اس سے تو مرجانا بہتر ہے۔ کم از کم اس جان لیوا فاقوں سے تو نجات مل جائے گی۔ بے روز گار جوانوں کی لائن سے ایک نوخیز کلی بغیر کھلے مرجھا جائے گی۔ میں بہت کچھ سوچتے ہوئے اس ساحل کی طرف آیا تھا اور سمندر کے کنارے کھڑا تھا۔ میرے دل کو ایک عجیب سی بےچینی تھی۔ پتہ نہیں اس بےچین قلب کا اطمینان کب اور کہاں رخصت ہو چکا تھا، جہاں اب صرف اداسی اور مایوسی نے ڈیرے جمائے ہوئے تھے۔

میں نے ایک نظر ساحل پر دوڑائی۔ اکثر لوگ اپنی فیملیوں کے ساتھ اپنی مصروف زندگیوں سے وقت نکال کر یہاں پکنک منانے آئے تھے۔ کہیں کہیں نوجوانوں کی ٹولیاں مٹر گشت کر رہی تھیں اور دنیا کے غموں کو بھلا کر زندگی کے مزے لوٹ رہی تھیں، تو کچھ لوگ ہوا خوری کے لیے ساحل پر آئے تھے۔ جگہ جگہ بچے دنیا کے غموں اور مصیبتوں سے انجان اپنے کھیلوں اور ریت کے گھروندے بنانے میں مصروف تھے۔ میری طرح بے دل اور بےچین تو کم از کم کوئی بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔

سمندر میں پانی اپنے معمول کے مطابق نظر آ رہا تھا، آسمان پر بادل بھی چھائے ہوئے تھے۔ ان کی آنکھ مچولی جاری تھی کہ آہستہ آہستہ بادل گہرے ہونے لگے جس سے ہوا ٹھنڈی ہونے لگی۔ موسم بہت خوشگوار ہو گیا اور ساحل پر لوگوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہونے لگا۔ ہوا کی تیزی کی وجہ سے سمندر کی سطح پر لہریں اُٹھنے لگی تھیں۔ میں کنارے پر کھڑا اس منظر میں کھویا ہوا تھا کہ اچانک دائیں طرف سے ایک چیخ سنائی دی۔ میں نے لپک کر وہاں دیکھا، تو ایک درمیانی عمر کی عورت کو چیختے چلاتے ہوئے بالکل کنارے پر کھڑے ہوئے پایا اور پانی میں تھوڑے سے فاصلے پر ایک ہاتھ اُٹھائے چیختا ہوا بچہ نظر آیا۔ جسے سمندر میں تیزی سے بڑھتی ہوئی لہریں اپنی طرف کھینچ رہی تھیں۔ کچھ لوگ متوجہ ہو چکے تھے جبکہ اکثریت انجان تھی۔ میں نے کچھ سوچے سمجھے بغیر پانی میں چھلانگ لگا دی۔ رونگٹے کھڑے کرنے والے ٹھنڈے پانی نے میرا استقبال کیا۔ ایک لمحے کے لیے مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے میرا بدن جم گیا ہو مگر میں نے ہمت نا ہاری اور ہاتھوں پیروں کو حرکت دینے لگا اور تیزی سے اس بچے کی طرف بڑھنے لگا جس کا صرف سر اور اس سے اوپر اٹھتے ہوئے ہاتھ نظر آ رہے تھے پیچھے سے اس کی ماں کی چیخ و پکار اب تھوڑی مدھم سنائی دے رہی تھی۔ میں تیزی سے اس بچے کی طرف بڑھنے لگا اور ہاتھوں کے ذریعے پانی کو پیچھے دھکیلنے لگا۔ مجھے کافی مشکل پیش آ رہی تھی، کیوں کہ کافی عرصے سے تیرنے کا تجربہ نہیں تھا، اوپر سے پانی کی لہریں بڑھ بڑھ کر میرا راستہ روک رہی تھیں۔ میں کوشش کرتے کرتے آخر کار اس ڈوبتے بچے تک پہنچ گیا، جو ہاتھ پیر مار رہا تھا۔ لپک کر اسے ہاتھ سے پکڑ کر میں نے مڑ کر جو دیکھا تو سٹی گم ہو گئی، کیونکہ میں ساحل سے کافی دور تھا، خیر اللہ کا نام لے کر میں واپس مڑا۔

واپسی میں ایک اور بوجھ بھی میرے اوپر آ چکا تھا، لیکن یہ شاید اللہ کے نام کی برکت تھی، میرے کاندھوں اور رانوں میں ایک نئی طاقت پیدا ہو گئی تھی۔ میرا جسم تیزی سے کنارے کی طرف بڑھنے لگا۔ تھوڑا نزدیک ہونے پر مجھے ایک پریشان حال ماں دوپٹے کو سختی سے ہاتھوں میں لیے اپنے دل کے قریب ہاتھوں کو پکڑے ہوئے نظر آئی۔ لڑکے کے ہاتھ پر میری گرفت ڈھیلی ہونے لگی، لیکن پوری ہمت جمع کرتے ہوئے میں زور لگانے لگا۔ جیسے ہی میں ساحل کے انتہائی قریب پہنچا تو لڑکے کا ہاتھ میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا لیکن خوش قسمتی سے ساحل کے قریب ہونے کی وجہ سے اس کی ماں نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔

میری آنکھوں کے سامنے ساحل کی دھندلاتی تصویر چھانے لگی ۔۔۔۔ ساحل پر موجود لوگوں کو اپنی طرف متوجہ پایا ۔۔۔۔ متاثرہ بچہ اپنی ماں کا ہاتھ تھامے سہما کھڑا تھا اور اس کی ماں اپنے رب کے حضور میرے لیے دامن پھیلائے کھڑی تھی ۔۔۔ میرے ہاتھ ڈھیلے پڑ گئے، تھکن کی وجہ سے میرے کندھے مجھے گرتے ہوئے محسوس ہونے لگے ۔۔۔ میرا دم گھٹنے لگا ۔۔۔ اور جسم ڈھیلا پڑنے لگا ۔۔۔ مجھے میری زنگی کا آخری نظارہ بڑا بھایا ۔۔۔ کسی کی مدد کرنے میں مجھے دل کا اطمینان نصیب ہوا ۔۔۔ ایک انجانی خوشی محسوس ہونے لگی ۔۔۔ بے شک اللہ کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے۔ میں یہاں بے مقصد آ گیا تھا مگر یہاں تو اللہ کو مجھ سے ایک عظیم کام لینا تھا ۔۔۔ ایک انسانی جان بچانے میں مجھے خوشی اور فرحت محسوس ہو رہی تھی ۔۔۔ یہ تو شاید روزگار ملنے پر بھی نہ ملتی ۔۔۔ آہستہ آہستہ میرا ذہن تاریکیوں میں ڈوبنے لگا ۔۔۔

میری آنکھ کھلی تو خود کو ایک بستر پر پایا ۔۔۔ پاس ہی بیٹھے ایک با رعب مگر شفیق صورت آدمی نے میرا حال دریافت کیا ۔۔۔ میں ذہن پر زور دینے لگا ۔۔۔ یہ چہرہ کچھ جانا پہچانا لگا ۔۔۔ ارے ہاں یہ تو سمندر کے بالکل کنارے پر کھڑے تھے ۔۔۔ شاید پاس ہی سیکورٹی گارڈ بھی تھا ۔۔۔ میرا حال دریافت کرنے کے بعد انہوں نے مجھ سے کام وغیرہ کے بارے میں پوچھا۔ میں نے نفی میں سر ہلا دیا ۔۔۔ انہوں نے کہا "نوجوان میری فیکٹری میں ایک خالی جگہ ہے ۔۔۔ اس پتے پر کل آ جانا”۔ انہوں نے ایک کارڈ میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ "ڈاکٹر کے کہنے کے مطابق تم شام تک چلنے پھرنے کے قابل ہو جاؤ گے” پھر مسکراتے ہوئے مجھ سے ہاتھ ملا کر دروازے کی طرف مڑ گئے اور اللہ کی طرف سے فوری طور پر اس دنیا میں اس نیکی کے بدلے ملنے والے انعام سے میری آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ گئیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

پیاری سی دُنیا

 

               ام سعد – راولپنڈی

 

ڈھا ۔۔۔۔ ڈھا ڈھا ۔۔۔ ڈھز ۔۔۔ بڑی آنکھ سے نکلتی سرخ روشنی سے انسان بے بس ہو کر گر گئے ۔۔۔ منا ڈرا سہما دیکھ رہا تھا ۔۔۔ روز کی طرح کارٹون لگا کر مما مصروف تھیں ۔۔۔ "یہ کھا لو نا” اُسے ڈانٹ پڑی ۔۔۔ مما گندی ۔۔۔ پھر کارٹون میں شیر اور شیرنی گانا گانے لگے ۔۔۔ آلو کا خشک چپس گلے میں پھنس رہا تھا مگر اس کی آواز اچھی تھی ۔۔۔ کڑ ۔۔۔ کڑ کڑ ۔۔۔ اس نے چپس چورا کر دیے۔ "اُف! سارا قالین گندا کر دیا” نرم گال پر تھپڑ مارا ۔۔۔ ٹی وی دیکھتے ہوئے وہ بھوکا ہی سو گیا تھا ۔۔۔ ماموں آئے تو کرسمس کہانی چل رہی تھی ۔۔۔ "بچے ان فلموں سے جانے کیا سیکھتے ہیں؟” وہ سر جھٹکتے ہوئے ٹی وی بند کر رہے تھے جب منا ڈر گیا، شاید خواب میں بھی ڈراؤنے کارٹون تھے ۔۔۔

ماموں کی بات پر منے کے ابو ہنسنے لگے "ارے ہم منا کیسے بن سکتے ہیں؟”

ماموں بولے: "منے والی کام کر کے۔”

آپا نے منہ بنایا "لو بھلا ۔۔۔ منے کو کام ہی کیا ہے ۔۔۔ سارا دن کارٹون دیکھنا۔”

"ہم بھی کارٹون دیکھیں گے۔ پتا تو چلے منا کیا دیکھتا ہے، کیا اثر لیتا ہے؟” ماموں ذرا رک کر بولے” بچے وہی کچھ سیکھتے ہیں، جو وہ دیکھتے ہیں۔ مجھے وہ حدیثِ پاک یاد آ رہی ہے کہ اللہ نے سب انسانوں کو اسلام کی فطرت پر پیدا کیا ہے، لیکن ماحول کے اثر سے وہ یہودی اور عیسائی بن جاتے ہیں۔

وہ کارٹون دیکھ رہے تھے ۔۔۔ کبھی انسان، کبھی بلا بن جانے والی مخلوق، مار دھاڑ، انسانی کمزوری، دیوتاؤں کی طاقت، جادو، شیطانی شکلیں، دجالی اشارے، ناچ گانے، نامناسب لباس، بے حیائی کی باتیں ۔۔۔ کون سی گندی چیز بچوں کے چینل پر نہیں تھی ۔۔۔ سب چپ تھے، آخر آپا بے چینی سے بولیں: "حد ہو گئی” مجھے تو شرم آ رہی ہے یہ دیکھ کر ۔۔۔ ماموں اداسی سے کہنے لگے۔ "یہ سب دیکھ کر بچوں کی شرم و حیا اُڑتی جا رہی ہے ۔۔۔ حیا کے بغیر ایمان نہیں اور کارٹون بچوں کا ایمان خراب کر رہے ہیں”۔

ابو بھی چپ نہ رہ سکے، "سارا دن ٹی وی لگا کر بچے کو چھوڑنا تو شیطان کو کھلی چھٹی دینا ہے کہ لے جیسے تیرا دِل کرے تو اس بچے کو برباد کر۔”

ماموں کہنے لگے آپ ٹھیک کہتے ہیں، یہ ہماری اپنی کوتاہی ہے ورنہ اللہ پاک کہتے ہیں کہ "شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے” موت پر اللہ کا اختیار ہے، اس لیے شیطان ہمیں مار نہیں سکتا مگر کوشش کرتا ہے کہ انسانی زندگی برباد ہو۔ کارٹون لڑائی، جنگ اور غصے کا جذبہ پیدا کرتے ہیں تا کہ برداشت ختم ہو جائے اور انسان، انسان کو مار ڈالے۔ میں نے پڑھا تھا کہ کارٹون خاص تکنیک سے بنائے جاتے ہیں تا کہ بچے جلدی بڑے ہو جائیں۔

آپا فوراً بولیں "یہ تو اچھا ہے نہ”۔

"میری بھولی آپا! انسان، جانور، پودے یہ جراثیم سب کی زندگی کا لائف سائیکل (Life Cycle) ہوتا ہے۔ مثلاً پیدا ہونا، بڑھنا وغیرہ۔ اگر یہ سائیکل تیز کر دیا جائے تو؟”

"بھئی ظاہر ہے لائف سائیکل تیزی سے ختم ہو گا تو مخلوق جلدی مرے گی۔” منے کے ابو بولے "جی بھائی جان! جب بچپن ختم ہو تو انسانی عمر بھی کم ہو گی۔”

"اوہ! یہ تو انسانوں کے خلاف شیطانی سازش ہے” آپا نے پریشانی سے کہا تو ماموں مسکرائے۔ وہ بات سمجھانے میں کامیاب ہو گئے تھے، لیکن آپا بہت سنجیدہ تھیں۔

"ہم اپنے منے کو پیارا سا بچپن دیں گے جیسا ہمارا تھا ۔۔۔ قدرتی ماحول، سادہ کھانا، اللہ رسول کا ذکر اور کتنی بہت سی اچھی باتیں۔”

تینوں بچپن یاد کرنے لگے ۔۔۔ ابو نے بتایا کہ ایک دفع میں نے کلو آلو مٹی میں ڈال دیے تھے ۔۔۔ "پھر تو پٹائی ہوئی ہو گی”

ارے کہاں، اماں بولیں "کھیتی باڑی پیغمبروں نے بھی کی تھی، پھر آلو نکالے کہ آج بیٹے کے کھیت کے آلو پکائیں گے۔ اُن کی یہی محبت ہے، اسی لیے تو ان کے پاؤں دبائے بغیر چین نہیں آتا”

"آپا یاد ہے کہ ہم نے چاول پکائے تھے، مٹھی بھر نمک اور گڑ ڈال کر۔” ماموں کی بات سن کر سب ہنس پڑے۔

"پھر تو ڈانٹ پڑی ہو گی؟”

"نہیں تو، امی نے بتایا کہ رزق خراب نہیں کرتے اور پاس بٹھا کر پکانا سکھایا۔ ڈانٹ اور مار تو جھوٹ بولنے، گالی دینے یا چوری کرنے پر پڑتی تھی۔” یہ کہتے ہوئے انہیں منے کو بے بات ڈانٹنے پر دکھ ہوا تھا۔

"بابا جان یسین شریف پڑھتے تھے اور میں ان کی گود میں سر رکھ کر سنتا تھا تو مجھے بھی سورت یاد ہو گئی تھی۔ ان کی ہر بات میں نیکی کا درس تھا۔”

"کتنی محبت دی ہمیں ماں باپ نے”

"اسی لیے تو ہم بھی ان سے پیار کرتے ہیں”

"ہمارا منا بھی ہم سے بہت محبت کرے گا، ہم اس کی اچھی تربیت کریں گے انشاءاللہ”

"بیٹے! بسم اللہ کر کے کھاؤ” مما نے مزے دار چوری کھلائی تو منا سوچنے لگا، اللہ جی اچھے، مما  اچھی۔

میرا بیٹا اللہ کی نعمت ہے۔ اللہ زندگی دے، ایمان سلامت رکھے، مما نے دعا دی۔

آج منا جب سو کر اٹھا تو دنیا ہی بدل گئی تھی ۔۔۔

گندے کارٹون "گم” ہو گئے تھے ۔۔۔ ابا چوزے لے آئے تھے اور منا ہنستا کھلکھلاتا صحن میں پھدکتے ننھے منے چوزوں کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔

پھول، تتلیاں، درختوں پر چہکتی چڑیاں، ہوا اور بادل ۔۔۔ اللہ نے انسان کے لیے بڑی پیاری سی دنیا بنائی ہے۔ منا اس پیاری سی دنیا کا حصہ بن کر بہت خوش تھا ۔۔۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جیسی کرنی ویسی بھرنی

 

               زہرہ امین – راولپنڈی

 

 

نعمان کے الفاظ سن کر صائمہ پر سکتہ طاری ہو گیا اور اسے وہ وقت یاد آنے لگا جب وہ بھی نعمان جتنی تھی اور اسی طرح اپنے والدین کو تنگ کیا تھا۔ آج بیس سال کے بعد وقت نے پلٹا کھایا اور آج اپنے والدین کی جگہ وہ خود ہے اور اس کی جگہ نعمان نے لے لی ہے۔

نعمان اس کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس لیے لاڈلا بھی بہت تھا۔ اس بے جا لاڈ پیار نے اس ضدی اور خود سر کر دیا تھا۔ صائمہ اپنی ممتا کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس کی ہر فرمائش پوری کرتی تھی۔ اس کے نتیجے میں بعض اوقات اسے خود پورا مہینہ انتہائی تنگدستی میں گزارنا پڑتا تھا۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کا بیٹا احساسِ کمتری کا شکار ہو اور اپنے آپ کو رشتہ داروں اور دوستوں کے مقابلے میں کمتر سمجھے۔ اس لیے وہ اس کی ہر ضرورت بن کہے پوری کرتی تھی۔

صائمہ نے گھر کی مرمت کروانے کے لیے کمیٹی ڈالی تھی لیکن جیسے ہی نکلی تو نعمان اس کے سر ہو گیا کہ اس کے سارے دوستوں کے پاس موٹر سائیکل ہے اور اس کے پاس نہیں ہے۔ صائمہ نے بہت سمجھایا کہ گھر کی حالت بہت خراب ہو چکی ہے، جگہ جگہ سے پلستر اکھڑ چکا ہے، فرش ٹوٹ چکا ہے، ہر چیز قابلِ مرمت ہے۔ اڑھائی مرلے کا یہ گھر دیکھنے ہی میں انتہائی خستہ حال لگتا تھا اور اپنے مکینوں کی مفلسی کا منہ بولتا ثبوت تھا لیکن نعمان نے صائمہ کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ بلآخر صائمہ نے اس کی خواہش کے آگے گھٹنے ٹیک دیے اور اسے کمیٹی کے تیس ہزار روپے دے دیے جو کہ اس نے ہر مہینے بہت مشکل سے ادا کی تھی۔

گھر میں سیکنڈ ہینڈ موٹر سائیکل آ گیا۔ اب بس نعمان تھا اور اس کا موٹر سائیکل۔ دن رات موٹر سائیکل پر گھومتا رہتا تھا۔ اپنے بوڑھے باپ اور بوڑھی ماں کا اسے کوئی خیال نہیں تھا۔ باپ ایک دفتر میں کلرک تھا۔ اس کی تنخواہ ہی سے گھر کی گاڑی چلتی تھی۔ نعمان نے بہت مشکل سے بی اے کیا تھا اور اب افسر کی نوکری ڈھنڈ رہا تھا، کہتا تھا کسی دفتر میں افسر بن جاؤں تو ٹھیک ہے ورنہ میں نوکری نہیں کرتا۔

۔۔۔ آج نعمان گھر آیا تو اس نے صائمہ سے کہا:

ماں میرے اوپر بہت قرض چڑھ چکا ہے۔ میرے دوست بہت امیر ہیں اس لیے قرض لے لے کر ان کے سامنے اپنی کم حیثیتی چھپاتا رہا ہوں اور کھلا خرچ کرتا رہا ہوں۔ میرا قرض پانچ لاکھ سے بھی تجاوز کر گیا ہے۔ اب یہ چھوٹا سا مکان بیچ کر ہی قرض اتارا جا سکتا ہے۔ ورنہ کوئی صورت نہیں ہے۔ کہ مکان پانچ لاکھ تکا کا بک جائے گا۔ پراپرٹی ڈیلر سے میں بات کر چکا ہوں۔ ہم کرائے کے مکان میں شفٹ ہو جائیں گے۔

صائمہ بے ہوش ہوتے ہوتے بچی کیوں کہ اس نے اپنا سارا زیور بیچ کر یہ مکان خریدا تھا ورنہ عارف تو اسے بیاہ کر کرائے کے گھر میں لے کر گئے تھے۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی تھی۔ جب اس کا رشتہ عارف سے ہوا تو وہ بہت روئی کہ ہم غریب ہیں اور آگے جس گھر میں جاؤں گی وہ بھی غریب ہیں۔ پھر سب کے سمجھانے پر وہ خاموش ہو گئی لیکن اس نے یہ شرط لگائی کہ مجھے اعلی قسم کا جہیز چاہیے۔ جب اس نے جہیز کی لسٹ دی تو والدین ہکا بکا رہ گئے۔ انہوں نے کہا بھی کہ ہم اپنی بساط بھر دیں گے لیکن جس طرح کا تم چاہتی ہو وہ ہمارے لیے ممکن نہیں۔ یہ سن کر اس نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ اگر میری شرط پوری نہ ہوئی تو میں شادی نہیں کروں گی۔

بالاآخر اس کے والدین نے اپنا گھر بیچ کر اس کی شرط پوری کی اور خود کرائے کے گھر میں چلے گئے۔ انہوں نے اس کی ضد پوری کرتے ہوئے بہت شاندار طریقے سے اس کی شادی کی اور جہیز میں وہ سب کچھ دیا جو اس نے چاہا تھا۔

مگر آج بیس سال بعد ۔۔۔ اس کے ساتھ بھی وہی ہو رہا تھا جو اس نے اپنے والدین کے ساتھ کیا تھا۔

وہ خاموشی سے سامان باندھنے لگ گئی۔ کیوں کہ جانتی تھی کہ یہ مکافاتِ عمل ہے۔۔۔۔ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔

٭٭٭

 

 

 

 

انوکھی تبدیلی

 

               محمود الحسن – چودہوان شریف

 

 

میں بال بنوانے جا رہا تھا۔ راستے میں ہمایوں مل گیا۔ ہمایوں میرا کلاس فیلو تھا، لیکن گھریلو مجبوریوں نے اُسے پرائمری سے آگے پڑھنے نہیں دیا تھا اور آج کل وہ بکریاں چرا رہا تھا۔

میں نے مصافحے کے لئے ہاتھ آگے بڑھائے تو یوں لگا جیسے ہمایوں انتظار میں ہی تھا۔ آؤ دوست کیسے ہیں احوال۔ بڑی دیر سے دکھائی دیے ہو اور سنا ہے آج کل سیکنڈ ائیر کی تیاری ہو رہی ہے۔ ہمایوں تو گلے لگتے ہی جیسے چھوٹ پڑا ہو۔ ادھر میرا حال کچھ غیر ہو رہا تھا۔ ہمایوں کے ساتھ لگتے اور اس خیال سے تو جیسے میرے پسینے ہی چھوٹ پڑے تھے کہ اگر کالج کے کسی دوست نے یوں کسی چرواہے کے ساتھ کھلم کھلا باتیں کرتے دیکھ لیا تو، تو میرے خیال میں میں دوستوں کی نظروں میں گر سا جاتا، کیونکہ میرے سارے دوست تقریباً ‘روشن خیال’ گھرانوں کے چشم و چراغ تھے ناں۔ بہر حال میں ہمایوں کی ہر بات کا جواب ہاں، ہوں، نہیں اور سر ہلا کر دینے میں عافیت سمجھ رہا تھا، نائی کی دکان تو نظر آ گئی مگر ہمایوں کی باتیں ختم نہیں ہوئی تھیں۔

میں بال بنواتے ہوئے یہ سوچ رہا تھا کہ یہ ہمایوں بھی کتنا بے وقوف ہے۔ میں تو صرف بیس روپے ہی لے کر نکلا ہوں گھر سے۔۔۔۔ اور اب یہ بھی میرے ہی پیسوں سے بال بنوانے کے چکر میں ہے شاید۔۔۔۔ جاہل کہیں کا۔۔۔۔۔ جائے بکریاں چرائے۔۔۔۔ میں دل ہی دل میں خوب کوس رہا تھا ہمایوں کو کہ اچانک نائی کی آواز نے اپنی طرف متوجہ کیا۔

"ایک تجربے کی بات ہے”، "کیسی بات” میرے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ "یہ کراچی کے حالات، دِن دہاڑے قتل و غارت، لوڈ شیڈنگ کا عذاب، اوپر سے روز روز کے زلزلے اور سیلاب، لوگ بھوکوں مر رہے ہیں، نہ پہننے کو کپڑا ہے اور نہ سر چھپانے کو سر میسر ہے، عوام زندگی سے بیزار”۔

"لیکن اس میں تجربے والی کون سی بات ہے؟” میں نائی کی بات کاٹتے ہوئے پوچھ بیٹھا۔

"ان حالات سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا موجود نہیں”

"کیا” ہمایوں نے تقریباً چلاتے ہوئے کہا

"ہاں دیکھو، اگر خدا موجود ہوتا تو اپنے بندوں کا بے جا خون ہوتے نہ دیکھتا، نہ بھکاری ہوتے نہ ہی لوگ بھوکے مرتے”

"چھوڑوں ان فضول باتوں کو”، میں نائی کو پیسے پکڑاتے ہوئے بولا، کیونکہ بال تو کب کے بن چکے تھے

"لیکن رقم تو تیرا بھائی دے چکا ہے”، نائی نے ہمایوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، میں نے ہمایوں کی طرف دیکھا تو وہ اثبات میں سر ہلا رہا تھا۔ اب مجھے نہایت شرمندگی ہو رہے تھی۔ ہمایوں کے بارے میں بد گمانی سے۔

"تمہیں بال نہیں کٹوانے کیا”۔ دکان سے باہر نکلتے ہوئے میں نے پوچھا، نہیں وہ تو ویسے ہی میں تمہارے ساتھ آ گیا تھا۔

"ادھر آؤ ذرا”۔ وہ حلیے سے کوئی نشئی لگ رہا تھا جسے ہمایوں نے آواز دی تھی۔ بکھرے ہوئے بال، لمبی لمبی مونچھیں،

وہ شخص جیسے ہی قریب آیا تو ہمایوں اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے دوبارہ نائی کی دکان میں داخل ہو گیا۔

"ایک تجربے کی بات ہے” ہمایوں نے نائی کو مخاطب کیا۔ "وہ کیا” نائی حیرت سے آنکھیں مٹکاتے ہوئے بولا۔

"میں نہیں سمجھتا کہ اس علاقے میں نائی موجود ہے”۔ ہمایوں نے سنجیدہ لہجے میں بات کی۔ "وہ کیوں” نائی بولا

"اگر اس علاقے میں نائی ہوتا تو یہ اتنی گندی حالت، بکھرے بالوں اور بد نما مونچھوں کے ساتھ آوارہ نا گھومتا”۔ ہمایوں نے نشئی کے بالوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

"نہیں بیٹا یہ ہمارے پاس آیا ہی نہیں، ورنہ یہ تمہیں اچھے خاصے حلیے میں نظر آتا”۔ نائی کندھے اچکاتے ہوئے بولا۔

"تو جی! یہ بھوکے بھی اللہ کے پاس گئے ہی نہیں ۔۔۔۔ بھکاریوں نے بھی کبھی اللہ کے سامنے جھولی پھیلائی ہی نہیں ۔۔۔۔ عوام بھی تو مسجد کی راہ بھول چکے ہیں ۔۔۔۔ ہاں! آج بھی ملک امن کا گہوارہ بن سکتا ہے ۔۔۔۔ اگر ۔۔۔۔ اگر در در دستک دینے اور بندوں کے سامنے جھکنے کے بجائے صرف اللہ کے سامنے ہی جھکا جائے ۔۔۔۔ ہاں جی صرف اللہ کے سامنے ۔۔۔۔”

ہمایوں مسلسل بولے جا رہا تھا ۔۔۔ اور میں حیرت کا بت بنا پھٹی نگاہوں سے ہمایوں کے اظہارِ خیال پر تعجب کرتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ ایک چرواہا بھی اس طرح بول سکتا ہے کیا؟

واپس جاتے ہوئے مجھے اپنے اندر ایک حیرت انگیز تبدیلی کا احساس ہوا وہ اس طرح کے راستے میں مجھے اپنے چند کالج کے دوست ملے۔ ان سے ملتے وقت مجھے ذرا برابر بھی شرمندگی محسوس نہیں ہوئی، حالانکہ اس وقت بھی ہمایوں کا ہاتھ بدستور میرے کاندھے پر تھا، البتہ ہمایوں کی وجہ سے میں اپنے دوستوں سے ضرور کنی کترا رہا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

نیکی کا سفر

 

 

 

 

"ناصر برگر جلدی سے ختم کرو، سر معین کلاس کی طرف جا رہے ہیں۔” عدیل کی آواز پر ناصر جلدی جلدی برگر منہ میں ٹھونسنے لگا۔” یہ سر معین بھی نا! "قریب کھڑا حمزہ دہی بھلوں کے دو تین چمچ اکٹھے منہ میں ٹھونستے ہوئے بولا۔”

"پتا نہیں رات کو سکول آنے کی خوشی میں سوتے بھی ہیں یا نہیں۔” ناصر نے پانی کا گلاس پی کر عدیل کے ساتھ کلاس کی طرف دوڑ لگائی۔ پیچھے پیچھے حمزہ اور سرمد بھی ہانپتے کانپتے آنے لگے۔ "میں تو سر کے پاس شام کو پڑھنے بھی جاتا ہوں” سرمد دوڑتے ہوئے بولا: "یقین مانو! اپنی طرف سے جتنی جلدی چلا جاؤں، سر ہمیشہ پہلے سے بیٹھے ہوتے ہیں، تیار۔ پتا نہیں گھر کا کوئی کام کرتے ہی نہیں ہیں۔” وہ جلدی سے کلاس میں داخل ہوئے، سر معین ہمیشہ کی طرح پورے وقت پر کلاس میں موجود تھے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ دسویں جماعت کے استاد صاحب پچھلی قطار میں اونگھتے حامد کو زور و شور سے ہلا کر کہتے، "معین صاحب کلاس کی طرف جا رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے۔ پیریڈ کا وقت ہو گیا ہے۔ جاؤ جا کر گھنٹی بجاؤ” اکثر پہلے سے موجود استاد صاحب جماعت میں ہوتے اور سر معین اپنے وقت پر کلاس تک پہنچ جاتے۔ باہر کھڑے ہو کر انتظار کرتے مگر وقت سے ادھر ادھر نہ ہوتے۔

وہ کلاس کے لڑکوں کو ہمیشہ سمجھاتے، بچو جب تک تم اپنے کام کو اہمیت نہ دو گے۔ وہ تمہیں نفع نہیں پہنچا سکے گا۔ بہت سے ایسے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ ملیں گے، یا دنیا میں بہت کام کرنے والی لوگ، مگر ان کے علم ان کے ہنر نے ان گا گھر روشن کیا۔ دل روشن نہیں کیا۔ بچے ان کی بات کان لگا کر سنتے، کوئی اس اہمیت دیتا کوئی اسے بے فکری سے اڑا دیتا۔

سکول کی خوش قسمتی کہ وہ اس سکول کے پرنسپل بنا دیئے گئے۔ ان کا زمانہ سکول کا سنہری دور تھا۔ ہر کسی میں کام کرنے کا ایک شوق، ایک جذبہ نظر آتا۔ اس وقت استاد نت نئے کپڑے پہن کر صاف کھانے پینے، وقت گزارنے یا حاضری لگانے سکول نہیں آتے تھے۔ ایک تڑپ تھی، مسلم امہ کے بچوں کی تربیت کی تڑپ جو پرنسپل صاحب سے لے کر تمام اساتذہ، طلباء اور ملازمین تک میں سرایت کر گئی تھی۔ کچھ بہتر کرنے کا جذبہ۔ جسے صرف نکمے اور سست قسم کے لوگ ہی نا پسند کرتے ہیں۔

آج پچیس سال بعد اسی سکول کے سٹاف روم میں اساتذہ بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ "سب ٹھیک چل رہا ہے، پر وہ بات نہیں ہے جو معین صاحب کے دور میں تھی۔ تب ہر شخص میں کچھ اچھا کرنے کا جنون تھا۔” سر عبدالباسط جن کے بال سفید ہو چکے تھے۔ چائے کی چسکی لیتے ہوئے بولے۔ "صحیح کہتے ہیں آپ، یہ کسی کا خلوص ہوتا ہے جو ہمیشہ محسوس ہوتا ہے۔ جس کا لوگ ذکر کرتے ہیں جو اس قابل ہوتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔” پچیس سال پہلے کے طالب علم ناصر صاحب کرسی سے اٹھ کر جاتے ہوئے بولے:

قریب ایک گاؤں میں درختوں سے گھرے، چار کمروں کے سکول میں پانچویں کلاس کا طالب علم اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا:

"جلدی کھان ختم کرو، سر عدیل کلاس کی طرف جا رہے ہیں۔ کیوں کہ وہ کہتے ہیں۔ "جس علم سے تم اپنی دنیا روشن کرو، اگر وہ تمہاری آخرت روشن نہ کرے تو تمہاری بدقسمتی ہے۔” یہ وہ تڑپ تھی جو سر معین سے سفر کرتی ہوئی عدیل تک آئی اور اسی طرح سفر کرتی رہے گی۔ وہ تڑپ جو کوہ صفا پر کھڑے اس عظیم الشان انسان (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی پکار میں تھی۔ جو بلال کی اذان میں تھی۔ جو اول العزم مجاہدین کے سینوں میں تھی۔ نیکی کا سفر جاری رہے گا۔ اس دنیا میں بھی اور دوسری دنیا میں بھی۔ دنیا اچھے انسانوں سے کبھی خالی نہیں ہوئی۔

"اور در حقیقت باقی رہنے والی نیکیاں بہتر ہیں تیرے رب کے ہاں۔ ثواب کے اعتبار سے اور بہتر ہیں جن سے امید وابستہ کی جاتی ہے۔”

٭٭٭

 

 

 

اسی جگہ پر – چک نمبر 35

 

 

               انعم خالد – چک نمبر 35

 

اونٹوں کی لمبی قطاریں، ان کے گلے پر بندھیں گھنٹیوں کے ٹن ٹن، دور تک پھیلی ہوئی چراگاہیں، ٹھنڈی ہوا کے جھونکے، یہ سب کچھ بہت بھلا معلوم ہو رہا تھا اور میں ٹرین کی کھڑکی سے یہ سب نظارے دیکھ کر لطف اندوز ہو رہا تھا۔ میں نوکری کے سلسلے میں اپنے خاندان سے دور لاہور میں مقیم تھا۔ جب گھر والوں کی یاد ستاتی تو اپنے گاؤں کی طرف بھاگتا۔ اب بھی چھٹیاں لے کر اپنے گھر جا رہا تھا۔ دل چاہ رہا تھا کہ فوراً اڑ کر چلا جاؤں۔ جہاں اپنی اماں کے ہاتھ کے مزیدار کھانے کھاؤں۔ اپنے کھیتوں میں گھوموں۔ اپنے بچپن کے دوستوں کے ساتھ خوب مزے کروں۔ ابھی انہی خیالات میں ڈوبا ہو تھا کہ اچانک ٹرین کی سپیڈ کم ہو گئی اور وہ تھوڑی دور آگے جا کر رک گئی۔ پوچھنے پر معلوم ہو کہ انجن میں خرابی پیدا ہو گئی ہے جو کہ گھنٹے بھر میں ٹھیک ہو گی، چنانچہ میں بھی دوسرے مسافروں کی طرح تازہ دم ہونے کے لیے باہر نکلا۔ ٹرین کسی گاؤں کے پاس رکی تھی۔ میں تھوڑا آگے بڑھا تو ایک بورڈ پر چک نمبر 35 لکھا نظر آیا۔ مجھے بھوک محسوس ہو رہی تھی۔ آس پاس دیکھا مگر کھانے پینے کی کوئی دکان نظر نہ آئی۔ پاس سے گزرتے ایک لڑکے سے پوچھا۔ اس نے سیدھے جانے کا اشارہ کیا۔ ابھی میرے پاس کافی وقت تھا۔ سو ٹہلتے ٹہلتے آگے بڑھتا رہا۔ کچھ دور ہی آگے گیا تھا کہ ایک بوڑھا آدمی دوڑتا ہوا میرے پاس آیا اور آصف آصف کہتے ہوئے مجھ سے لپٹ گیا۔

"تو آ گیا نا۔ بالے دیکھ نا میرا پتر واپس آ گیا ہے” میں بوکھلا گیا۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ وہ آدمی بدستور مجھے آصف پتر کہے جا رہا تھا۔ میں نے اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کی، لیکن اس شخص کی بڑھاپے میں بھی گرفت بہت مضبوط تھی۔ اتنے میں ایک اور آدمی دوڑتا ہوا آیا۔ "چاچا گھر چل” اس آدمی نے مجھے چھڑاتے ہوئے کہا۔ "نا بالے میں آصف کو گھر لے کر جاؤں گا۔ تو بھی کہہ نا اسے کہ گھر چل۔ جا بالے پورے پنڈ کو بتا کہ میرا پتر آ گیا ہے”

"چاچا یہ تیرا پتر نہیں ہے، کوئی اور ہے۔”

اب وہ شخص جسے بوڑھا آدمی بالا کہہ رہا تھا۔ چلا کر بولا: "تیرا آصف نہیں آئے گا، کتنی بار کہوں۔ چل چھوڑ اسے” بوڑھے کی گرفت ڈھیلی ہو گئی۔ "اچھا یہ آصف نہیں ہے۔” وہ کھوئے ہوئے انداز میں بولا۔

"اچھا پتر مجھے معاف کر دے۔ میں نے تجھے تنگ کیا۔” وہ بوجھل بوجھل قدم اٹھاتا ہوا چلا گیا۔”معاف کرنا بابو جی! بیچارہ حالات کا ستایا ہوا ہے۔” اس شخص نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔

"نہیں کوئی بات نہیں” دراصل اس کا بیٹا آصف شہر میں رہتا ہے۔ اس شخص کا نام اکبر ہے۔

پورا پنڈ اسے چاچا کہہ کر پکارتا ہے۔ آصف اس کا اکلوتا بیٹا ہے۔ چاچے کو اپنے پتر کو پڑھانے کا بہت شوق تھا۔ اسی لیے اس نے آصف کو شہر پڑھنے کے لیے بھیجا۔ اسے شہر کی ہوا راس آ گئی۔ پڑھ لکھ کر نوکری کر لی اور اپنا گھر بھی وہیں بسالیا۔ پہلے پہل تو وہ گاؤں آ جاتا تھا۔ مگر شہر اور اپنے بیوی بچوں میں ایسا کھویا کہ اپنے باپ کو بالکل بھول گیا۔ اسے یہاں آئے کئی سال ہو گئے ہیں۔ چاچا اسی کے انتظار میں روز اسٹیشن کے پاس جا کر بیٹھ جاتا ہے اور جو کوئی بھی وہاں سے نیچے اترتا ہے۔ اسے اپنا بیٹا سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔ اتنا کہہ کر وہ خاموش ہو گیا۔ "اچھا آپ کے پاس آصف کا اتا پتا ہے” میں نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا۔ "ہاں اس کا ایک پرانا خط میرے پاس ہے۔ میں لاتا ہوں۔ شاید اس پر لکھا ہو”، کچھ دیر بعد وہ واپس آیا۔ میں نے خط کے لفافے کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔ پتا لکھا ہوا تھا: "تو یہ صاحب لاہور میں رہتے ہیں۔ اچھا اب میں چلتا ہوں مگر بہت جلد واپس آؤں گا، وہ بھی آصف کے ساتھ۔” اللہ آپ کو کامیابی عطا فرمائے۔ اس نے دعا دی اور میں اجازت لے کر چلا گیا۔ میری چھٹیاں ختم ہو گئیں اور میں واپس لاہور پہنچا۔ دفتر میں ضروری کام نپٹانے کے دو دن بعد میں آصف کے گھر کے باہر پہنچا۔ دو دن میں نے اس کے گھر کی نگرانی اور اہم معلومات جمع کرنے میں صرف کیے۔ وہ پینتیس سال کا مضبوط جسم والا انسان تھا۔ اس کے تین بچے تھے، دو بیٹیاں اور ایک بیٹا۔ ان سب میں چھوٹا بیٹا تقریباً چھ سال کا لگتا تھا۔ تینوں بچے سکول جاتے تھے۔ آصف کی بیوی ایک گھریلو خاتون تھی، کیوں کہ دو دن کے دوران میں نے اسے گھر سے بلا ضرورت نکلتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ ان سب کی نقل و حمل کا مزید جائزہ لیتے ہوئے میں نے ایک منصوبہ تشکیل دیا۔ روز شام کو اس کے بچے قریبی پارک میں کھیلنے جاتے تھے۔ وہ بہت بڑا پارک تھا۔ جس میں کالونی کے بچے، بڑے ، بوڑھے اور نوجوان آیا کرتے تھے۔ اس کے گیٹ تھے۔ دو گیٹوں پر سیکورٹی گارڈ ہمہ وقت مامور رہتے تھے مگر تیسرا گیٹ ایک کچی آبادی کی جانب کھلتا تھا۔ وہ بظاہر تو بند تھا مگر بستی کے بچوں نے اسے نیچے سے توڑا ہو تھا۔ جس سے وہ بچے بھی آسانی سے یہاں کھیلنے آ جاتے تھے۔ میں مقررہ دن اس پارک میں پہنچا۔ آصف کے بچے دوسرے بچوں کے ساتھ میرے سامنے کھیل رہے تھے۔ میں موقعے کی تلاش میں تھا اور اللہ سے اپنی کامیابی کی دعا مانگ رہا تھا۔ بچے فٹ بال کھیل رہے تھے۔ ایک بچے نے زور سے کک ماری اور فٹ بال دور جا گرا۔ سب بچے اسے پکڑنے کے لیے بھاگے۔ آصف کا بیٹا سب سے چھوٹا تھا۔ وہ زیادہ دور نہ بھاگ سکا اور قریبی بینچ پر بیٹھ گیا ۔ میں فوراً اس کی جانب بڑھا اور اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔ وہ بے حد معصوم اور گول مٹول بچہ تھا۔ "چاکلیٹ کھاؤ گے؟ اس نے میری جانب دیکھا مگر خاموش رہا۔” کھالو شرماؤ نہیں "اس نے فوراً چاکلیٹ لے لی اور خوشی سے کھانے لگا۔” اور کھاؤ گے؟ ” اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ "میرے ساتھ چلو میں تمہیں اور بھی بہت سی چیزیں کھلاؤں گا اور کھلونے بھی دوں گا۔” پہلے تو وہ جھجکا پھر تیار ہو گیا۔ میں نے باہر جانے کے لیے تیسرا گیٹ استعمال کیا۔ یہ اطمینان کر لینے کے بعد کہ کوئی مجھے دیکھ تو نہیں رہا، میں اسے اپنے فلیٹ میں لے آیا۔ اسے کھانا کھلانے کے بعد میں نے اسے سلا دیا۔ اپنا کمرہ لاک  کرنے کے بعد میں آصف کے گھر کا سماں دیکھنے چلا گیا۔ اس کے گھر کے باہر لوگوں کا رش تھا۔ میں بھی اس رش میں شامل ہو گیا۔”ہائے میرا بیٹا کہاں چلا گیا” آصف روتے ہوئے بولا۔ حوصلہ رکھیے آصف صاحب، یوں رونے سے کیا ہو گا؟ "ایک آدمی نے کہا”۔

میری مانیے تو پولیس کو اطلاع دیں۔ "دوسرے آدمی نے مشورہ دیا۔”

میرا دل زور سے دھڑکا۔ "نہیں میں نے کچھ لوگوں کو ڈھونڈنے کے لیے بھیجا ہے۔ اگر مل گیا تو ٹھیک ہے ورنہ پولیس کو اطلاع دیں گے۔ میں فوراً وہاں سے نکلا اور اپنے فلیٹ میں پہنچا۔ دروازہ کھول کر اندر گیا۔ بچہ ابھی تک سو رہا تھا۔ میں نے جلدی سے آصف کے گھر کا نمبر ملایا۔

"ہیلو” وہ روندھی ہوئی آواز میں بولا۔

"گھبراؤ نہیں ، تمہارا بیٹا راستہ بھول کر ادھر آ گیا ہے۔ وہ میرے گھر میں ہے۔ میرا پتہ لکھ لو اور بچہ یہاں آ کر لے جاؤ۔” یہ کہہ کر اسے میں نے اپنا پتہ لکھوایا اور فون بند کر دیا۔

جلد ہی آصف پہنچ گیا۔ میں نے اسے ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔

"آپ کا بچہ کتنے سال کا ہے” میں نے اس سے پوچھا۔

"چھ سال کا”

"ایک چھ سال کے بچے کے لیے اتنی تڑپ اور کبھی اس کے بارے میں سوچا ہے جس نے تمہیں پچیس سال تک پالا پوسا، لیکن جب تمہاری باری آئی تو تم چلے گئے۔ کبھی خیال کیا ہے، اس شخص کا جو بالکل تمہاری طرح بلکہ تم سے زیادہ تڑپا ہے۔”

"میں کچھ سمجھا نہیں، تم کس کی بات کر رہے ہو؟” اس نے پریشانی سے پوچھا۔”میں چک نمبر 35 کے علی اکبر کی بات کر رہا ہوں۔ جسے تم چھوڑ کر یوں چلے آئے۔ کبھی خیال بھی کیا اس بوڑھے شخص کا کہ وہ زندہ ہے یا مرگیا۔” پھر میں اندر سے اس کے بیٹے کو لے آیا۔

"یہ لو اپنا بیٹا، میں تمہیں احساس دلانا چاہتا تھا کہ جس طرح تم تڑپ رہے ہو، کوئی اور بھی ہے جو تمہارے لیے تڑپ رہا ہے اور آج تمہارا اسی جگہ پر انتظار کر رہا ہے۔”

جہاں سے تم اسے چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ اس سے پہلے کہ تمہارا یہ بیٹا بھی تمہیں بے آسرا چھوڑ دے اور تم بھی ہر آنے والے کے پیچھے اسے اپنا بیٹا سمجھ کر بھاگو، اس کے پاس چلے جاؤ۔ وہ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔

"رو مت، ابھی بھی وقت ہے۔ میں نے اسے حوصلہ دیا۔ ” اگلے دن میں اور آصف اپنے خاندان کے ہمراہ چک نمبر 35 پر پہنچے۔ آصف کا باپ وہیں بینچ پر سر جھکائے بیٹھا تھا۔

"ابا جی” اس نے ہولے سے پکارا۔ بوڑھے آدمی نے سر اٹھا کر دیکھا۔ وہ فوراً کھڑا ہو گیا۔ دونوں باپ بیٹے گلے لگ کر رونے لگے۔ آصف نے آگے بڑھ کر میرا شکریہ ادا کیا۔ "ایسا کر کے مجھے شرمندہ نہ کرو۔ میں نے کچھ بھی نہیں کیا۔ تم راستہ بھٹک گئے تھے۔ میں نے صرف راستہ دکھایا ہے۔ منزل اللہ نے دکھا دی۔ جانتے ہو آصف یہ ماں باپ ہماری دوزخ بھی ہیں اور جنت بھی۔ تم نے دوزخ ٹھکرا کر جنت چن لی۔ تمہیں تمہاری جنت مبارک ہو۔ "بالا بھی وہاں موجود تھا۔ اب کی بار میں نے کہا” جا بالے پورے پنڈ کو بتا دے کہ آصف واپس آ گیا ہے۔ "اس نے آنکھوں سے نمی صاف کی اور چلا گیا۔”

٭٭٭

 

 

 

 

جن کا تحفہ

 

 

               محمد طارق سمرا – خانیوال

 

 

شاہانہ اپنے بڑے بھائی عارف کا ہاتھ پکڑے ساحل سمندر کی ریت پر چہل قدمی کر رہی تھی۔ اچانک اس کے پاؤں سے کسی چیز کو ٹھوکر لگی۔ اس نے جھک کر دیکھا، وہ ایک گہرے سیاہ رنگ کے شیشے کی بوتل تھی جس کا منہ لکڑی کے ڈھکن کے ساتھ مضبوطی سے بند تھا۔ شاہانہ نے پورا زور لگا کر ڈھکن بوتل کے منہ سے علیحدہ کر دیا۔ ڈھکن الگ ہوتے ہی بوتل کے منہ سے دھواں نکلنے لگا۔ شاہانہ نے گھبرا کر بوتل دور پھینک دی۔ بوتل میں سے دھواں مسلسل نکل رہا تھا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے بوتل نے ایک پہلوان نما مخلوق کی شکل اختیار کر لی۔ کالا سیاہ رنگ، بڑے بڑے نوکیلے دانت، چہرے پر بڑی بڑی مونچھیں اور تربوز جیسے بڑے سے سر پر چھوٹے چھوٹے کان، جن میں بڑی بڑی بالیاں پہنی ہوئی تھیں۔ جسم کا اوپری دھڑ تو دیو ہیکل تھا جب کہ نچلا دھڑ نا ہونے کے برابر تھا۔

شاہانہ ڈر کر سہم گئی اور اپنے بھائی کا ہاتھ اور مضبوطی سے تھام لیا۔ اس کا بھائی بھی قدرے سہما ہوا تھا، مگر اس وقت دونوں کا ڈر دور ہو گیا جب اس عجیب و غریب مخلوق نے دونوں ہاتھ باندھ کر گونج دار آواز میں پوچھا:

"کیا حکم ہے میرے آقا؟”

"اوہ ۔۔۔۔ تو تم جن ہو ۔۔۔ وہی الہ دین کا چراغ والے جن ۔۔۔” شاہانہ کی جان میں جان آئی تو وہ قدرے اطمینان سے بولی۔

"نہیں میرے آقا ۔۔۔ میں اس جن کے ماموں کے ماموں کا چچا ہوں ۔۔۔ "بوتل سے نکلنے والے جن نے مودبانہ انداز میں وضاحت کی۔”

تو کیا تمہارا سارا خاندان ٹین ڈبوں اور بوتلوں میں رہتا ہے ۔۔۔ تم لوگ رہنے کے لیے کوئی ڈھنگ کی جگہ کیوں نہیں لے لیتے ۔۔۔ تم تو جن لوگ ہو، تمہیں کیا مشکل ہے۔ چاہو تو اسلام آباد کے بلیو ایریا میں بنگلہ بھی لے سکتے ہو اور چاہو تو پرائم منسٹر ہاؤس اور پریذیڈینسی جیسی کوئی عمارت بھی لے سکتے ہو ۔۔۔ "شاہانہ جن کے مودبانہ انداز سے خوب چہکنے لگی”۔

میرے آقا میں جن ہوں کوئی وزیر شزیر نہیں ہوں جو اسلام آباد کے پلاٹ ہتھیا لوں، اور رہی بات پریذیڈنٹ ہاؤس جیسے محلات کی تو وہاں تو پہلے ہی مجھ سے بھی بڑے جن رہتے ہیں، جو اربوں کے قرضے یوں ہڑپ کر جاتے ہیں کہ دنیا بھر کے احتساب بیورو بھی ان کا سراغ نہیں لگا سکتے۔ "جن بھی کسی تھیٹر کا کامیڈین لگتا تھا”۔

"تو پھر بوتل میں کیوں گھسے پڑے تھے؟” عارف بھائی نے پوچھا۔

"میرے آقا! بات دراصل یہ ہے کہ چند سال پہلے میں نوکری کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا تھا اور بھوک بھی بہت زور کی لگی ہوئی تھی، لیکن جیب میں پھوٹی کوڑی بھی نہیں تھی کہ بازار سے کچھ کے کر کھا لیتا۔ دوسرے جنات کی طرح چوری کی مجھے عادت نہیں۔ چلتے چلتے یہاں ساحل پر پہنچا تو یہ بوتل مجھے نظر آئی۔ اس میں تھوڑا سا جوس بچا ہوا تھا اور جوس بھی آم کا۔ اسے دیکھ کر میرے منہ میں پانی آ گیا اور میری رال ٹپکنے لگی۔ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور فوراً دھواں بن کر اس بوتل میں گھس گیا اور لگا غٹا غٹ جوس پینے اور پھر مجھے پتا ہی نہیں چلا۔ کب کس نا ہنجار نے بوتل کا ڈھکنا بند کر دیا اور یوں میں اس میں قید ہو کر رہ گیا۔ "بوتل کے جن نے مزے لے لے کر اپنی داستان اسیری سنائی اور آخری جملے پر باقاعدہ پھوٹ پھوٹ کر رونے بھی لگا”۔

"تم نے بسم اللہ نہیں پڑھی ہو گی نا! جوس پینے سے پہلے، اسی لیے قید ہو گئے۔” عارف بھائی ناصحانہ انداز میں مداخلت کرتے ہوئے کہا تو جن نے ندامت سے سر جھکا لیا۔ گویا اپنی غلطی کا اعتراف کر رہا ہو۔ چند لمحوں کے توقف کے بعد بولا۔

"میرے آقا! آپ نے مجھے قید سے رہائی دلائی ہے اور سابقہ جنات کے دستور کے مطابق میں آپ کا غلام ہوں، مجھے حکم دیں کہ میں آپ کے لیے کیا کر سکتا ہوں؟”

"جاؤ! جا کر کوئی ڈھنگ کے کپڑے پہنو۔ بوتل سے تو نکل نہیں سکے۔ ہماری کیا خاک خدمت کرو گے؟” شاہانہ نے منہ بنایا۔

"کھی ۔۔۔ کھی ۔۔۔ کھی ۔۔۔؟” بوتل کے جن سے کوئی جواب نا بن سکا تو دانت نکال کر ڈھٹائی سے ہنسنے لگا۔

"تمہارے سینگ کہاں گئے؟” شاہانہ نے اچانک پوچھ لیا۔

"وہ میں نے کٹوا دیے ہیں” جن نے دنیا جہان کی سنجیدگی چہرے پر لاتے ہوئے کہا۔

"کیوں ۔۔۔ ں ں ں ۔۔۔؟” مارے حیرت کے شاہانہ کا کیوں کافی لمبا ہو گیا۔

"ٹوپی نہیں پہنی جاتی تھی نا اس لیے ۔۔۔۔ "جن نے معصومیت سے جواب دیا” تو دونوں بہن بھائی کھلکھلا کر ہنس پڑے۔

ہنسی رکی تو عارف بھائی بولے، دیکھو جن ہمیں تمہاری خدمت کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم اپنا کام خود کرنے کے عادی ہیں۔ ہمیں دولت وغیرہ بھی نہیں چاہیے کہ جو دولت بغیر محنت کے حاصل ہوتی ہے، اس میں برکت نہیں ہوتی۔ یہی ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات ہیں۔ اس لیے ہم تمہیں آزاد کرتے ہیں۔ جاؤ اور جا کر اپنے والدین کی خدمت کرو۔ عارف بھائی نے جن کو آزادی خوشخبری سنائی تو شاہانہ کو کچھ بے چینی ہوئی جسے عارف بھائی نے بھی محسوس کیا اور دوبارہ گویا ہوئے: "غلاموں کو آزاد کرنا اور کروانا صحابہ کرام کی محبوب سنت تھی اور پھر آج سے چودہ سو سال پہلے خلیفہ ثانی امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے اعلان فرما دیا تھا کہ ہر ماں نے اپنے بچے کو آزاد جنا ہے، اس لیے آج کے بعد کوئی کسی کا غلام نہیں۔ خواہ وہ جن ہو یا انسان اور شاہانہ ہمیں اپنے اسلاف کے احکامات پر عمل کرنا چاہیے۔ اسی میں ہماری بھلائی ہے۔ "عارف بھائی نے شاہانہ کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا تو بات شاہانہ کی سمجھ میں آ گئی”۔

"ٹھیک ہے جن میاں ۔۔۔ اب تم آزاد ہو ۔۔۔ جاؤ اور مزے کرو، لیکن اپنے خرچ پر ۔۔۔ اور ہاں آزادی کی قدر کرنا ۔۔۔ تمہیں تو مفت میں مل گئی، لیکن اکثر یہ بڑی قربانیوں کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ "شاہانہ نے کہا اور بھائی کا ہاتھ پکڑ کے کھینچتے ہوئے بولی”: چلو بھائی ہم چلیں ۔۔۔ اچھا بھئی جن میاں ۔۔۔ اللہ حافظ ۔۔۔ عارف بھائی بھی منہ موڑ کر چل پڑے۔

"بھائی اور کچھ نہیں تو ایک روبوٹ ہی منگوا لینا تھا ۔۔۔ سنا ہے جاپانی سائنس دانوں نے ایک بڑا زبردست روبوٹ تیار کیا ہے جو بالکل انسانوں کی طرح کام کرتا ہے ۔۔۔”

"نہیں منا! جو مزہ ہاتھ سے کام کرنے میں ہے، وہ روبوٹ سے کرانے میں نہیں۔ ہاں! آؤ بس اب چلیں”۔

دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے قدم اٹھانے لگے۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.shakeel.pk/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید