خوشی کی پری
نصرت شاہین
تارا چارپائی پر لیٹی آسمان کی طرف تکے جا رہی تھی۔ جگ مگ کرتے ستارے آنکھ مچولی کھیل رہے تھے۔ تارا کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی تھی۔ آج اس کی تائی ماں نے پلیٹ ٹوٹ جانے پر اسے روئی کی طرح دھنک کر رکھ دیا تھا۔
تارا نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: "کاش! میں پری ہوتی! نیلے آسمان پر اڑتی اور زمین پر لوگوں کے دکھ بانٹتی۔”
اچانک تارا کے نزدیک ایک روشنی نمودار ہوئی۔ اس کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ جب تارا نے غور سے روشنی کی طرف دیکھا تو وہاں اسے ایک پری کھڑی نظر آئی۔ اس کے لباس سے رنگ برنگی شعاعیں پھوٹ رہی تھیں۔ پری کے سر پر ہیروں کا تاج تھا۔ وہ جگ مگ جگ مگ کر رہا تھا۔ پری نے تارا کی طرف دیکھا اور اپنا نرم و نازک ہاتھ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا: "ادھر آؤ تارا!”
تارا ڈرتی ڈرتی چارپائی سے اٹھ کر پری کے قریب آ کھڑی ہوئی۔
پری بولی: ” میں پریوں کی ملکہ ہوں۔ آج ادھر سے گزر رہی تھی کہ تمھیں روتے ہوئے دیکھ کر رک گئی۔ بتاؤ، تم کیوں رو رہی ہو؟”
تارا نے کہا: "اچھی پری! کیا تم مجھے اپنی جیسی پری بنا سکتی ہو؟”
پری مسکرائی اور بولی: "ہاں کیوں نہیں، لیکن وعدہ کرو کہ تمہاری ان پیاری آنکھوں میں پھر کبھی آنسو نہیں آئیں گے اور تمہاری مسکراہٹ دکھی انسانوں کے دکھ درد ختم کرے گی۔”
تارا نے وعدہ کر لیا۔ پریوں کی ملکہ بولی: "میں تمھیں خوشی کی پری بناتی ہوں۔” اس نے اپنی چھڑی گھمائی۔ تارا کے پرانے لباس کی جگہ نیا لباس آ گیا۔ اپنے پر اور خوب صورت لباس دیکھ کر تارا خوشی سے اچھل پڑی۔ اس کے علاوہ تارا کے سر پر نیلے رنگ کا تاج بھی آ گیا تھا، جس میں نیلم جڑے ہوئے تھے۔ ان میں سے نیلی شعاعیں نکل رہی تھیں۔ تارا نے اپنے ہاتھ میں پکڑی چھڑی اوپر کی، اس کے ساتھ ہی وہ اڑنے لگی۔ تارا یعنی خوشی کی پری کی نظر اب ایک عمارت کی طرف تھی۔ جہاں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ جب وہ عمارت کے قریب پہنچی تو دیکھا کہ ایک فلیٹ میں آگ لگی ہوئی ہے۔ لوگ آگ بجھانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ فلیٹ کی مالکن کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔ وہ رو رو کر لوگوں سے کہہ رہی تھی: "میرے بچے کو بچا لو، وہ فلیٹ میں رہ گیا ہے۔”
لیکن آگ کی وجہ سے کوئی بھی فلیٹ کے اندر داخل ہونے کو تیار نہ تھا، بلکہ لوگوں نے بچے کی ماں کو بھی اندر جانے سے روک رکھا تھا۔ خوشی کی پری (تارا) تیزی سے فلیٹ میں داخل ہو گئی۔ اس نے فلیٹ کے کمرے سے بلکتے بچے کو اٹھایا اور جلدی سے باہر آنے لگی۔ اس وقت بڑھتی ہوئی آگ نے اس کے لہراتے لمبے بالوں کو پکر لیا۔ تارا پر تو بس ایک ہی دھن سوار تھی کہ کسی طرح بچے کو زندہ باہر لے جائے۔ وہ باہر تو نکل آئی، لیکن اتنی دیر میں اس کے آدھے بال جل چکے تھے۔ خوشی کی پری نے بچے کو اس کی ماں کے حوالے کیا۔ ماں خوش ہو کر اپنے بچے کو پیار کرنے لگی۔ خوشی کی پری وہاں سے رخصت ہو گئی۔ اب ستارے آہستہ آہستہ غائب ہو رہے تھے اور صبح کا اجالا پھیل رہا تھا۔ خوشی کی پری نے اپنے پر اتار کر چھپا دیے اور عام لڑکی کے بھیس میں بازار میں گھومنے لگی۔
ایک جگہ اسے بہت بوڑھا شخص نظر آیا۔ اس کے ہاتھوں پر بڑے بڑے زخم تھے ۔ وہ بیمار تھا اور بھیک مانگ رہا تھا۔ خوشی کی پری کو اس پر بہت ترس آیا۔ اس نے اپنی چھڑی گھمائی۔ اس کے ہاتھ میں بہت سے روپے آ گئے۔ خوشی کی پری نے وہ روپے بوڑھے کی کشکول میں ڈال دیے اور اس سے بولی: "بابا! شام کو میں تمھیں تمھارے گھر چھوڑ آؤں گی۔”
بوڑھے نے اسے ڈھیروں دعائیں دیں۔ خوشی کی پری آگے روانہ ہو گئی۔ سارا دن بازار میں گھومتی رہی۔ دوپہر کو اس نے گھنٹی کی آواز سنی۔ اسکول کے بچوں کو چھٹی ہو گئی تھی۔ خوشی کی پری نے ننھے منے بچوں کو سڑک پار کروائی۔
اس طرح چھوٹے موٹے کام کرتے ہوئے شام ہو گئی۔ اب پری کو بوڑھے فقیر کا خیال آیا، جس سے اس نے وعدہ کیا تھا کہ شام کو اس کے گھر چھوڑ دے گی۔ وہ جلدی سے بوڑھے کے پاس آئی اور بولی: "بابا! چلیے میں آپ کو آپ کے گھر چھوڑ آؤں۔”
بوڑھا اسے دعائیں دینے لگا۔ خوشی کی پری بوڑھے کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے لگی۔ تھوڑی دیر میں بوڑھے کا گھر آ گیا۔ اس نے خوشی کی پری کا شکریہ ادا کیا اور بڑے آرام سے گھر میں داخل ہو گیا۔ تارا کو حیرت ہوئی کہ یہ بوڑھا تو آسانی سے چل نہیں سکتا تھا، مگر اس وقت اتنے آرام سے گھر میں داخل ہو گیا۔
خوشی کی پری سچائی جاننا چاہتی تھی، لیکن اتنی دیر میں بوڑھے نے گھر کا دروازہ بند کر لیا۔ خوشی کی پری نے چھڑی گھمائی۔ اس کے پر نمودار ہو گئے۔ وہ اڑ کر بوڑھے کے گھر میں داخل ہو گئی اور ایک طرف کھڑی ہو کر بوڑھے کی کارستانیاں دیکھنے لگی۔ بوڑھے نے سب سے پہلے اپنے ہاتھ دھوئے۔ یہ دیکھ کر تارا کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ بوڑھے کے زخم بالکل صاف ہو گئے۔ اب وہ اصل بات سمجھ گئی کہ بوڑھے نے اپنے ہاتھوں پر جعلی زخم بنا رکھے تھے۔ پھر اس نے اپنے چہرے سے داڑھی مونچھیں ہٹائیں اور سر سے وگ اتاری۔ اب اس بوڑھے کی جگہ ایک خوب صورت نوجوان کھڑا تھا۔ خوشی کی پری کو اس نوجوان پر بہت غصہ آیا۔ وہ ایک دم پھٹ پڑی: "تمھیں شرم نہیں آتی، اچھے خاصے ہٹے کٹے ہو کر بھیک مانگتے ہو۔”
جعلی فقیر خوشی کی پری کی آواز سن کر گھبرا گیا۔ وہ حیران و پریشان خوشی کی پری کی طرف دیکھ رہا تھا، جس کی شکل اس لڑکی جیسی تھی، جو اسے دروازے تک چھوڑنے آئی تھی۔ خوشی کی پری نے جو اسے یوں حیران ہوتے دیکھا تو بولی: "میں وہی لڑکی ہوں، جو تمھیں یہاں تک چھوڑنے آئی تھی۔ میرا نام خوشی کی پری ہے۔ مجھے بتاؤ تم فقیر کیوں بنتے ہو؟”
نوجوان کو جیسے ہوش آ گیا وہ بولا: "میرا نام سلمان ہے۔ میں نے کافی تعلیم حاصل کی ہے، ہمیشہ اچھے نمبروں سے پاس ہوا ہوں۔ میری ماں نے دن رات محنت کر کے مجھے پڑھایا تھا، جب میں نے تعلیم مکمل کی تو مجھے نوکری نہیں ملی، در بدر کی ٹھوکریں کھاتا رہا۔ ایک دن میری ماں سخت بیمار ہو گئی، اس کی دوا لینے کے لیے میرے پاس ایک پیسہ بھی نہیں تھا۔ میں نے مجبور ہو کر لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلا دیا۔ کچھ پیسے ملے، جن سے میں نے ماں کی دوا خریدی، لیکن میری ماں نہ بچ سکی۔ میں اس بھری دنیا میں تنہا رہ گیا۔ سوچا کہ نوکری نہیں ملتی نہ ملے، بھیک مانگ کر ہی اپنا پیٹ بھر لینا چاہیے۔ بس اس دن سے میں نے بھیک مانگنا شروع کر دی۔”
خوشی کی پری نے پوچھا: "کیا بھیک مانگ کر تمھیں خوشی ہوتی ہے؟”
سلمان نے کہا: "نہیں، لیکن کیا کروں بھوکا بھی نہیں رہ سکتا۔”
"ایسی ذلت کی کمائی سے تو بہتر ہے کہ انسان بھوکا مر جائے۔ کیا ہوا اگر نوکری نہیں ملتی، تم محنت مزدوری بھی تو کر سکتے ہو! آؤ میرے ساتھ، میں تمھیں محنتی لوگ دکھاتی ہوں۔”
خوشی کی پری نے اپنی چھڑی کا دوسرا سرا نوجوان سلمان کو پکڑا دیا۔ اب وہ دونوں آسمان پر اڑ رہے تھے۔ خوشی کی پری ایک احاطے میں اتری۔ یہ نابیناؤں کا ادارہ تھا۔ یہاں نابینا لوگ بیٹھے کرسیاں بن رہے تھے۔ خوشی کی پری وہاں سے اڑی اور دوسری جگہ گئی۔ وہاں ٹانگوں سے معذور ایک بوڑھا بچوں کو پڑھا رہا تھا۔ ایک جگہ ہاتھوں سے محروم شخص اپنے پیروں کے انگوٹھوں سے قلم پکڑ کر خطاطی کر رہا تھا۔ خوشی کی پری نے ایسے اور بہت سے لوگ دکھائے جو معذور ہونے کے باوجود محنت کر کے روزی کما رہے تھے۔ خوشی کی پری نے سلمان سے کہا: "یہ لوگ کسی پر بوجھ نہیں بنے ہیں، بلکہ خود محنت کر کے روزی کما رہے ہیں۔ تم تو ماشاءاللہ ٹھیک ٹھاک ہو، پھر تم محنت مزدوری کیوں نہیں کرتے؟”
سلمان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے کہا "اچھی پری مجھے معاف کر دو۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ محنت مزدوری سے روزی کماؤں گا۔”
خوشی کی پری مسکرا دی اور بولی: "ہمارے ملک کے تم جیسے پڑھے لکھے بےکار نوجوان اگر محنت مزدوری کو عیب نہ سمجھیں تو ہمارا ملک ضرور ترقی کرے گا۔”
کچھ دن بعد خوشی کی پری آسمان ہر اڑتی پھر رہی تھی کہ اس کی نظر سلمان پر پڑی جو کھیتوں میں ہل چلا رہا تھا۔ اس کی پیشانی سے بہتا پسینہ مٹی میں مل کر اسے سونا بنا رہا تھا۔ خوشی کی پری کو بڑی مسرت ہوئی، خوشی کی پری اور اس کی سہیلیاں ہنستی مسکراتی سمندر کی طرف جا رہی تھیں۔ سمندر کے پاس غم کا دیو سر جھکائے بیٹھا تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔
خوشی کی پری اور اس کی سہیلیوں کی ہنسنے کی آوازیں سن کر غم کے دیو نے اپنا سر اٹھایا۔ خوشی کی پری نے اس سے پوچھا: "اے غم کے دیو! تو کیوں رو رہا ہے؟”
غم کا دیو بولا: "میں اس دنیا کو دیکھ کر روتا ہوں۔ غریب بچے جنہیں پڑھنے کا شوق ہے، وہ دن بھر محنت مزدوری کر کے بھی رات کو پڑھتے ہیں۔ دوسری طرف جن کے پاس ساری سہولتیں موجود ہیں، وہ پڑھائی سے جی چراتے ہیں۔ انصاف کا یہ حال ہے کہ بے قصور پکڑے جاتے ہیں اور قصور وار چھوٹ جاتے ہیں۔ مال و دولت کی وجہ سے بھائی بھائی کا خون کر رہا ہے۔۔ خوشی کی پری غم کے دیو کی باتیں سن کر مسکرائی اور بولی: "دیکھو! تمھارے آنسوؤں سے سمندر کا پانی نمکین ہو گیا ہے۔ پہلے اپنا منہ ہاتھ دھو لو۔”
غم کے دیو نے سمندر میں غوطہ لگایا اور دوسرے ہی لمحے باہر نکل آیا۔ خوشی کی پری بولی: "بھائی غم کے دیو! وعدہ کرو کہ آئندہ آنسو نہیں بہاؤ گے۔” غم کے دیو نے وعدہ کر لیا۔
پھر خوشی کی پری بولی: "خالی آنسو بہانے سے بگڑے کام نہیں سنورتے۔ اٹھو، لوگوں کی مدد کرو، مگر مسکراتے ہوئے۔ اگر تم مصیبت زدہ لوگوں کے ساتھ رونے بیٹھ گئے تو انھیں حوصلہ کون دے گا؟”
غم کے دیو نے وعدہ کیا کہ آئندہ ہنسی خوشی لوگوں کی مدد کرے گا۔ خوشی کی پری اب ہنستی مسکراتی گھر واپس آ رہی تھی کہ اچانک اسے کسی نے جھنجھوڑ دیا۔ تارا نے ایک دم آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ اس کے سرہانے اس کی تائی اماں کھڑی تھیں۔
"تو کیا یہ سارا خواب تھا۔” لیکن اس خواب نے تارا کے اندر ایک نیا حوصلہ پیدا کر دیا۔ وہ ہر کام خوشی خوشی کرتی۔ وہ ہمیشہ دوسروں کی مدد کرتی۔ ایک دن یہی تارا رفتہ رفتہ ایک بڑی پروفیسر بن گئی، لیکن یہ خواب آج بھی نہیں بھولی جس نے تارا میں محنت، سچائی، خدمت اور مسکراتی زندگی کا حوصلہ بیدار کیا تھا۔
٭٭٭
OOO
ٹائپنگ: مقدس حیات
پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید