FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

کچھ گیت

رئیس فروغؔ

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

پی ڈی ایف فائل

ٹیکسٹ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

مکمل کتاب پڑھیں…..

میری ہمجولیاں

گلوکار: ریشماں

میری ہمجولیاں

کچھ یہاں

کچھ وہاں

نام لے کر ترا

مسکرائیں گنگنائیں

دل جلائیں مرا

ہائے جاؤں کہاں

ساون

ساون آئے تو

کیوں نہ کھوئے کھوئے

دل میں امنگ ہو

برکھا

برکھا چھائے تو

کیوں نہ سوئی سوئی

آنکھوں میں بھی رنگ ہو

چل ہٹ

اب ہم سے نہ چھپا

سچ سچ بتا

وہ کون ہے

وہ کون ہے

کلیاں

کلیاں مسکائیں تو

کیوں نہ کلیوں کی مجھ میں جھلک ہو

جوہی

جوہی جھومے تو

کیوں نہ مجھ میں بھی جوہی کی مہک ہو

چل ہٹ

اب ہم سے نہ چھپا

سچ سچ بتا

وہ کون ہے

وہ کون ہے

میری ہمجولیاں

کچھ یہاں

کچھ وہاں

نام لے کر ترا

مسکرائیں گنگنائیں

دل جلائیں مرا

ہائے جاؤں کہاں

٭٭٭

دل کے سب راستے

گلوکار: عالمگیر

پروگرام: جھرنے۔ پاکستان ٹیلی ویژن

دل کے سب راستے

تیرے ہی واسطے

جب نظر سے ملی

تیری پہلی نظر

ہم ترے ہو گئے

جانے کیا سوچ کر

دل بنا رہ گزر

تو کسی بات پر

مسکرائے تو آ

تو کسی موج میں

گنگنائے تو آ

گیت گائے تو آ

لمحہ بھر کے لئے

تو جو مہمان ہو

عمر بھر کے لئے

کوئی پیمان ہو

جان پہچان ہو

دل کے سب راستے

تیرے ہی واسطے

٭٭٭

اک پھول مسکرایا

گلوکار: عالمگیر

پروگرام: جھرنے، پاکستان ٹیلی ویژن

اک پھول مسکرایا بہکی ہواؤں میں

دیکھا حسین چہرہ زلفوں کی چھاؤں میں

جانے مجھے پھر کیا ہو گیا

جانے مجھے پھر کیا ہو گیا

یوں ہی وہ آ  گئی تھی

یوں ہی چلی گئی

بے رنگ زندگی تھی

وہ رنگ بھر گئی

جانے مجھے پھر کیا ہو گیا

جانے مجھے پھر کیا ہو گیا

دنیا میں غم نہیں ہیں

میں سوچنے لگا

دنیا بہت حسین ہے

میں سوچنے لگا

جانے مجھے پھر کیا ہو گیا

جانے مجھے پھر کیا ہو گیا

٭٭٭

 دل دیوانہ مرا

گلوکار: محمد علی شہکی

دل دیوانہ مرا

ایک نظر میں

بنا پروانہ ترا

ایک نظر میں

یوں ترا پیار ملا

جیسے سنسار ملا

سارا سنسار ملا

ایک نظر میں

مجھے تجھ سے ہی ملیں بہاریں

میری آنکھیں بھی تجھے پکاریں

تو ملا

مل گئی زندگی

زندگی نیندوں میں بھی جاگی رہے

زندگی بھر تو میرا ساتھی رہے

میرے خوابوں کی نئی کہانی

تیرے وعدوں سے ہوئی سہانی

روشنی

روشنی

روشنی جیسی میرے سینے میں ہے

اک نیا ڈھنگ میرے جینے میں ہے

٭٭٭

کوئی دن ایسا بھی تو آئے

گلوکار: محمد علی شہکی

کوئی دن ایسا بھی تو آئے

میری آنکھوں میں سوئی کہانی

تری آنکھوں میں یوں بس جائے

جیسے ندیا میں لہریں دیوانی

تری باتیں سنوں

سنتا رہوں جب تک جیوں

اپنی باتیں کہوں

کہتا رہوں جب تک جیوں

تیری میری ایسی باتیں

چندا تاروں جیسی باتیں

پل مہکتے ہوئے آتے رہیں تیرے لئے

سُر بہکتے ہوئے سجاتے رہیں میرے لئے

میرا تیرا ایسا رشتہ

بادل پانی جیسا رشتہ

چلیں ہم تو  چلے ہمارے سنگ چلے دنیا نئی

رکیں ہم تو رکے ہمارے سنگ رکے دنیا نئی

برکھا اپنی بادل اپنا

رم جھم رم جھم ساون اپنا

کوئی دن ایسا بھی تو آئے

میری آنکھوں میں سوئی کہانی

تری آنکھوں میں یوں بس جائے

جیسے ندیا میں لہریں دیوانی

٭٭٭

آتے رہیں گے جاتے رہیں گے الوداع

گلوکار: محمد علی شہکی

آتے رہیں گے

جاتے رہیں گے

الوداع

راہِ وفا کے ہمسفر

الوداع

جب بھی کسی نے مجھ سے کہا

یہ تیرے ملن میں کچھ بھی نہیں

میں نے کہا یہ سارے جہاں میں

میرے لیے تُو سب سے حسیں

کتنے حسیں تھے جن کے لیے

میری محبت روتی رہی روتی رہی

سب مجھے چاہیں میں تجھے چاہوں

تو ہی میری ہے تو ہی میری

نئے سفر کی نئی کہانی

اپنے لئے ہم نے لکھی

میں نے کہا تو ، تو  نے سنی تھی

تو نے کہی میں نے سنی

٭٭٭

میں زندگی کے کھیل میں

گلوکار: احمد رشدی

میں زندگی کے کھیل میں کھویا ہوا کردار ہوں

آج اس نگر کل اُس نگر چلتی ہوا کا پیار ہوں

میری کوئی صورت نہیں

چہروں کے جنگل میں رہوں

ٹوٹی پتنگوں کی طرح

نیندوں کے بادل میں رہوں

خوابوں کا میں شاہکار ہوں

تم سانولی سی شام ہو

اس کے سوا کچھ بھی نہیں

اک خوبصورت نام ہو

اس کے سوا کچھ بھی نہیں

ناموں سے میں بیزار ہوں

دور اک دیا جلتا ہوا

بس یہ ہے سرمایہ مرا

توڑے نہ یہ ظالم ہوا

امید سے رشتہ مرا

ایسے میں کیا بیدار ہوں

میں زندگی کے کھیل میں کھویا ہوا کردار ہوں

آج اس نگر کل اُس نگر چلتی ہوا کا پیار ہوں

٭٭٭

چلی میں تو سجنوا کے ساتھ رے

چلی میں تو سجنوا کے ساتھ رے

لے کے ہاتھوں میں خوشیوں کا ہاتھ رے

منہ بناتی نہیں آہ بھرتی نہیں

اپنی قسمت کا شکوہ میں کرتی نہیں

اب میں پردیس جانے سے ڈرتی نہیں

یہ پرانے زمانے کی بات رے

کبھی روٹی کچن میں پکاتی تھی میں

کبھی کمروں میں جھاڑو لگاتی تھی میں

گیلے کپڑوں کو چھت پہ سکھاتی تھی میں

ملی دھندوں سے گھر کے نجات رے

مفت کاہے تھکاؤں کہاروں کو میں

کاہے تکلیف دوں رشتے داروں کو میں

کاہے پیدل چلاؤں بے چاروں کو میں

چلی کاروں میں اپنی بارات رے

٭٭٭

صبح ملے نہ شام

گلوکار: مہناز

صبح ملے نہ شام

کیا ہے تیرا نام

خوابوں میں تو آتا کیوں ہے

آتا ہے تو جاتا کیوں ہے

مانا حسیں ہے

سنتا نہیں ہے

موسم کا پیغام

تجھ کو اپنا دھیان بہت ہے

حسن پہ اپنے مان بہت ہے

دن رات سوچوں

کچھ بھی نہ سمجھوں

کیا ہو گا انجام

دور سے آئے پیار کی خوشبو

بکھرا دے اقرار کی خوشبو

کیوں آئے تجھ پر

آئے گا مجھ پر

چاہت کا الزام

صبح ملے نہ شام

کیا ہے تیرا نام

٭٭٭

آنچل سے ملے بادل ساتھی

گلوکار :  مہناز

آنچل سے ملے بادل ساتھی

موسم تو کرے پاگل ساتھی

سپنوں کی نئی خوشبو میں بسی

چاہت کے نئے رنگوں میں رچی

ارمانوں کی امیدوں کی

کلیاں ہیں بہت کومل ساتھی

تو ساتھ نہیں ایسے میں ساجن

چمکے نہ  کہیں وعدے کی کرن

انجانا بھی ان دیکھا بھی

جیون ہے گھنا جنگل ساتھی

خط کوئی تیرا آیا جو نہیں

آنکھوں نے تجھے دیکھا جو نہیں

دکھ سہتی ہوں چپ رہتی ہوں

پنچھی کی طرح گھائل ساتھی

آنچل سے ملے بادل ساتھی

موسم تو کرے پاگل ساتھی ٭٭٭

شاہیں صِفت یہ تیرے جواں

پاکستان فضائیہ کا پہلا قومی نغمہ

(۱۹۶۵ء)

شاہیں صِفت یہ تیرے جواں

اے فضائے پاک

ان غازیوں پہ سایہ فگن

ہے خدائے پاک

سینوں میں صبر و ضبط و سکون و رضا کا نور

چہروں پہ لطف و مہر و خلوص و وفا کا نور

پیشانیوں پہ جذبہ بے انتہا کا نور

شاہیں صفت یہ تیرے جواں

اے فضائے پاک

ملّت کو کر دیا ہے سرافراز مرحبا

یہ حوصلہ یہ عزم یہ اعجاز مرحبا

شاہیں بچوں کی جرات پرواز مرحبا

کوئے بتاں میں گونج رہی ہے صدائے پاک

شاہیں صفت یہ تیرے جوں

اے فضائے پاک

اپنے فضائیے کا ہے جاہ و جلال کیا

گزرے اِدھر سے سایۂ باطل سوال کیا

پر بھی جو مار جائے کسی کی مجال کیا

ہے پاک اور پاک رہے گی ہوائے پاک

شاہیں صفت یہ تیرے جواں

اے فضائے پاک

امید کے نقوش نمایاں بنے ہوئے

فتح و ظفر کے مہر درخشاں بنے ہوئے

دن رات سرکشاں ہیں نگہباں بنے ہوئے

طیّارہ ہائے پاک سرِ قصّہ ہائے پاک

شاہیں صفت یہ تیرے جواں

اے فضائے پاک

٭٭٭

مرثیہ

وصفِ حسین ؓ ابنِ علیؓ کیا کرے کوئی

جب تک لبِ رسولؐ نہ پیدا کرے کوئی

اس پر سلام جس کے عمل نے بتا دیا

کس طرح باغبانیِ صحرا کرے کوئی

تھے جتنے واجبات ادا کر گئے حسینؓ

اب قسمتِ حرم کا نہ سودا کرے کوئی

تقریر کی وہ شان کہ سنتے ہی جائیے

رن میں وہ آن بان کہ دیکھا کرے کوئی

لائے جہاں رسول ؐ کا ثانی تو کیا فروغ

حسنینؓ کا جواب ہی پیدا کرے کوئی

٭٭٭

لفظ اور مفہوم کا ملاپ

مرثیہ

بے شمار آوازوں کی ایک آواز

لمحہ بہ لمحہ ساعت بہ ساعت

بلندی پھیلاؤ اور گہرائی کی حدیں عبور کرتی ہوئی آواز

اس روز لفظ اور مفہوم کا ملاپ ہوا تھا

جب بڑے عجیب فیصلے ہوئے

وہ جو روئے زمین پر سب سے محترم تھا

وہ جو کلام کا سورج تھا

اور اس کا اپنا ایک نظام تھا

اس نے لفظوں کو مفہوم کی روشنی عطا کی

جب علی اکبر کے سینے پر زخم لگا

تو جمالیاتی الفاظ بامعنی ہو گئے

جب عباس کے بازو پر وار ہوا

تو وفا کا شجرہ ء الفاظ معتبر ہو گیا

قاسم کے لہو سے ایثار

اصغر کے خوں سے معصومیت کے مردہ الفاظ کے پیکروں میں زندگی کی حرارت آئی

ہاں وہ لفظوں کو مفہوم دینے کا دن تھا

خیمہ کی طرف دیکھو

یہاں وہ ہیں جن کے قدم عالمِ قدس کی بلندیوں پر پڑے ہیں

یہاں وہ ہیں جن کا تبسم فرشتوں کے پردہ پر پھیلتا ہے

یہاں ایک بہن ہے

جو ایک دربار میں بولے گی

اور اس کی آواز میں وقت بولے گا

وقت جو آتا ہے گزر جاتا ہے

کسی کا انتظار نہیں کرتا

دنیا میں ہونے والے تمام واقعات

وقت ہی کے کسی موڑ پر نمودار ہوتے ہیں

اور وقت ہی کی کسی لہر کے ساتھ

نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں

وقت ہی سب کو پرکھنے والا ہے

مگر آج وقت ہی آزمائش میں مبتلا ہے

وہ دیکھو وہ اب تنہا رہ گئے ہیں جو دراصل تنہا نہیں ہیں

ان کے ساتھ گزرے زمانوں کے تمام اکابر ہیں

شجاعت پیشہ ، ایثار پیشہ ، وفا شیوہ

نیکی کرنے والے انصاف کرنے والے

رہنما، مفکر

گزرے زمانوں کے تمام اکابر

اور وہ بھی جو ابھی مستقبل کے پردے میں ہیں

سب ان کے ساتھ ہیں

اور ہاں وہ بھی ان کے ساتھ ہیں

جنھوں نے کہا تھا

انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب

اور وہ بھی جو کبھی کنزِ مخفی تھا

سب ان کے ساتھ ہیں

اس لئے کہ آج بڑے عجیب فیصلے ہو رہے ہیں

آج کئی طوفان اس کے صبر و استقلال سے ٹکرائے ہیں

آج اس نے کئی روشن ستاروں کو زمین پر گرتے دیکھا ہے

وہ پوری کہکشاؤں کا غم برداشت کر چکا ہے

اور اب !

اب آخری فیصلہ

اپنی پیشکش

وہ بہن سے کہتا ہے

خدا حافظ

گھرانے کو علیل بیٹے کے سپرد کرتا ہے

اور اسے محافظِ حقیقی کو سونپتا ہے

اے خدا اس دن کیا ہوا تھا

کیا شب و روز کے سلسلے میں ایسا کوئی اور دن ہے

ایک آفتاب ہے

جو اپنی تمام روشنی سمیٹے

اس مرکز پر آتا ہے

جہاں بگولے جمع ہیں

بے شمار بگولے

صف بہ صف گروہ در گروہ

جو دیکھتے ہیں مگر نہیں دیکھتے

جو سنتے ہیں مگر نہیں سنتے

جنہوں نے خسارے کا سودا کیا ہے

آفتابِ عالم تاب ان سے کلام کرتا ہے

وہ کلام جو سچ ہے جو بہت بڑا سچ ہے

اور یوں اتمام حجت ہوتا ہے

اور پھر وہ سانحہ ظہور پذیر ہوتا ہے

جو کاش نہ ہوتا

پھر ایک دنیا تمام ہوتی ہے

کہ نئی دنیا نیا عہد نمودار ہو

لفظوں کو اپنا کھویا ہوا مفہوم مل جائے

٭٭٭

ماخذ:

https://raisfroughe.wordpress.com/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

پی ڈی ایف فائل

ٹیکسٹ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل