FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

اونچی نیچی زمین

 

ڈرامہ

 

رئیس فروغؔ

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

پی ڈی ایف فائل

ٹیکسٹ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

(موسیقی)

اکبر: زندہ گھوڑے کا اس طرح ہاتھوں پر اٹھا لینا جیسے چیمپئن ہیوی ویٹ کو۔

کلثوم: اے رہنے بھی دو

اکبر: اور کئی کئی کوس تک اس طرح چلا جاتا تھا رمضو استاد

کلثوم: آدمی نہ ہوا بن مانس ہوا

اکبر: تم کیا جانو وہ زندگی ہی اور ہے

کلثوم : ہو گی اور زندگی۔۔ مگر اب جو زندگی ہے اس کا کیا حال ہو گا

اکبر: کیا مطلب

کلثوم : تنخواہ کیوں نہیں لائے

اکبر: اسی لئے تو کہتا ہوں وہ زندگی ہی اور ہے وہاں تنخواہ ونخواہ کا جھگڑا نہیں ہوتا۔ فصل کٹی اپنی ضرورت کا اناج گھر میں بھر لیا باقی بیچ دیا۔ سبزیاں مفت کی، فروٹ فری کا، مرغیاں اپنی، انڈے اپنے، اپنی بھینس، اپنی گائے، اپنی بکری۔ چاہے خالص دودھ ہو چاہے مکھن نکالو، چاہے گھی بناؤ، اصلی گھی دانے دار اور خوشبو ایسی کہ طبیعت خوش ہو جائے۔

کلثوم : میں کہتی ہوں یہ خواب دیکھنا چھوڑ دو تم

اکبر: خواب۔۔۔ ہاں وہ سب کچھ اب تو خواب ہی معلوم ہوتا ہے۔ ایک طرف ہری بھری لہلہاتی کھیتیاں دوسری طرف بھوری پہاڑیاں۔۔ پہاڑیوں کے درمیان ککروندوں کی جھاڑیاں لال گلابی اودے نیلے پیلے ہر رنگ کے ککروندے۔ ککروندوں کی بھینی بھینی خوشبو۔ اونچی نیچی زمین، تیتر چھوٹی چھوٹی اڑانیں۔۔۔ ہم غلیلیں ہاتھوں میں لئے ان کے پیچھے دوسرے گاؤں تک نکل جاتے

تھے۔

کلثوم: یا الٰہی میں کیا کروں کس سے کہوں۔۔ سیانی بیٹی گھر میں بیٹھی ہے اس کے ہاتھ پیلے کرنے کیلئے پھوٹی کوڑی پاس نہیں اور آپ اپنے خیالی گاؤں کے سیر سپاٹے میں لگے ہوئے ہیں۔

اکبر: خیالی نہ کہو بیگم۔۔۔ ہمارا بچپن وہاں گزرا ہے۔۔ کیا دن ہوتے ہیں بچپن کے بھی

کلثوم : بس بس رہنے دیجئے۔ اب آپ بچپن کی کہانیاں سنانے لگیں گے کہ گاؤں کے بیچ جہاں چودھری کا گھر تھا اور گھر کی برابر اکھاڑا تھا۔

اکبر: اور تو کیا نہیں تھا۔۔۔ ہم صبح کو وہاں زور کیا کرتے تھے۔ سورج نکلنے سے پہلے ہی لنگوٹ کس کر پورے بدن پر تیل کی مالش کی پھر کچھ ڈنڈ نکالے، کچھ بیٹھکیں نکالیں۔۔ جب جوڑ جوڑ کھل گیا اور نس نس تازہ ہو گئی تو اکھاڑے میں اترے۔ اکھاڑے کی مٹی میں بھی کیا تاثیر ہے کہ مٹی کے جسم کو لوہا اور خاک کے بدن کو آگ بنا دیتی ہے۔

کلثوم : اب یہ کیمیا گری کرتے رہو گے یا پیٹ کی آگ کا بھی کچھ خیال آئے گا۔

اکبر: پیٹ کی آگ! اوہ نہیں ابھی تو ہمیں بھوک نہیں

کلثوم: میں تنخواہ کو پوچھ رہی ہوں

اکبر: ہاں ہاں وہ بھی کل مل جائے گی۔ آج بینک ہالی ڈے ہے نا!

کلثوم : بینک کی چھٹی کل بھی تھی اور آج بھی ہے

اکبر: کل بھی تھی تو آج نہیں ہو سکتی۔۔۔ ہم سمجھے آج ہے کل نہیں تھی۔

کلثوم : اونٹ رے اونٹ تیری کونسی کل سیدھی

اکبر: ابھی کہاوتیں رہنے دیجئے۔ آج سے کل نزدیک ہے کل بینک سے چیک کیش کرا کے پائی پائی آپ کو لادیں گے پھر آپ جانیں اور آپ کا کام، ہم سے کوئی مطلب نہیں

کلثوم : یہ کہہ کے آپ خوب الگ ہو جاتے ہیں۔ آخر ان کی فیس کتابیں پھر کپڑے لتے کا خیال بھی رکھنا پڑتا ہے ادھر سے مہمان داری، کبھی کوئی آگیا کبھی کوئی۔۔۔ پھر رشتہ داروں سے بھی ملنا ملانا ہوتا ہے۔ اب کسی کے بچے کی سالگرہ ہے تو تحفہ چاہئیے کہیں شادی ہے تو منہ دکھائی دو۔ کبھی کبھار کوئی قرض ادھار مانگ بیٹھے تو اس کا دل بھی رکھنا پڑتا ہے۔ ہزار بکھیڑے اور میرا اکیلا دم۔ آپ تو کسی بات سے کچھ مطلب ہی نہیں رکھتے۔ دنیا کہاں سے کہاں نکل گئی اور ہم آج بھی وہیں ہیں جہاں بیس سال پہلے تھے۔

اکبر: بیس سال نہیں اکیس سال۔ اس لئے کہ آفتاب بیس سال کا ہو چکا ہے اور وہ ہماری شادی کے ایک سال بعد پیدا ہوا تھا۔ اکیس سال چٹکی بجاتے گزر گئے۔ بالکل کل کی بات معلوم ہوتی ہے۔

کلثوم: اس دن سے جو اپنے گاؤں کی باتیں شروع کی ہیں تو وہ دن اور آج کا دن۔۔۔ یہ کتھا ختم ہونے میں نہیں آتی۔

اکبر: ہم اپنے قول پر قائم ہیں۔ اور آپ اپنی بات سے پھر گئی ہیں یاد کرو۔ ہم نے کہا تھا ہماری زندگی کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ اپنی بانجھ زمینوں کی گود پھر سے ہری کریں گے۔ انہیں نئی زندگی دیں گے۔ زمینوں کی نئی زندگی ہماری نئی زندگی ہو گی۔ اور تم نے کہا تھا جو تمھاری خوشی وہ ہماری خوشی۔ اب تم آنکھیں اسی طرح آنکھیں جھپکا کر یہ بات کیوں نہیں کہتیں۔ کیوں نہیں کہتیں۔ بولو۔ کہو جو تمھاری خوشی ہے وہ ہماری خوشی۔

کلثوم: ہر بات کی ایک حد ہوتی ہے۔ جب مجھے دنیا کا تجربہ نہیں تھا۔ ذمہ داریاں نہیں تھیں اس وقت میں بھی یہ سمجھی تھی کہ ہم جیسا چاہیں گے زندگی کو بنا سکتے ہیں۔ مگر اب معلوم ہوا کہ زندگی جب چاہتی ہے ہمیں بنا دیتی ہے۔

اکبر: یہ عورتوں کے خیالات ہیں۔ میں مرد ہوں۔ میں حالات کے پنجے میں پنجہ ڈال سکتا ہوں۔ ہمارا استاد لوہے کی سلاخ کو دہرا کر دیتا تھا۔

کلثوم: یہ قصہ بھی میں بہت دفعہ سن چکی ہوں۔ سنتے سنتے دل بھر گیا۔ اب آپ یادوں کو بھول جائیے اور ہاں سنتے ہو۔

اکبر: کوئی نئی بات

کلثوم: حجن بھی ایک بہت اچھا پیغام لائی ہیں اپنی نوشابہ کے لئے۔ لڑکا انجینئر ہے، گھر میں ایک بوڑھی ماں کے سوا کوئی نہیں ہے

اکبر: تو پھر

کلثوم: انہیں جلدی بہت ہے بس چاہتے ہیں کہ چٹ منگنی اور پٹ بیاہ

اکبر: مگر وہ ظالم تہہ، وہ جو ہماری زمینوں پر چڑھی ہوئی ہے۔ جب تک وہ نہ اتر جائے، ہم کیا کر سکتے ہیں، ان سے کہہ دو تھوڑا انتظار کریں پھر سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ اب وہ دن دور نہیں جب ہماری زمینوں پر بھی گنے کی بالیاں لہکیں گی۔ پھر گاؤں کے جوان ہمارا ہاتھ بٹانے کو آئیں گے۔ چاندنی رات چمکتی درانتیاں فصل کی کٹائی ہو گی۔ لڑکیاں گائیں گی، ڈھول بجائیں گی، جشن ہو گا اور پھر ایک دن ہم ہوا کے رخ پر کھڑے ہوں گے۔ دانے قدموں میں گر رہے ہوں گے۔ بھوسا اڑ اڑ کر دور اکھٹا ہورہا ہو گا۔ پھر خریدار آئیں گے ہم اس بھاؤ لیں گے نہیں، میں اس بھاؤ نہیں دوں گا سودا ہو گا۔ سودے پر تکرار ہو گی۔

کلثوم: اے سوت نہ کپاس آپس میں کولہو سے لٹھم لٹھا

اکبر: لٹھ چلانا بھی ایک ہنر ہے۔ آفتاب کی ماں، نبیرا بدلنا آئے تو ایک آدمی سینکڑوں کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ ہمارا استاد بنوٹ کا بھی استاد تھا۔ اور کوئی ایسا ویسا استاد نہیں تھا، دور دور سے لوگ اس کی بنوٹ دیکھنے آتے تھے، زمین پر کبوتر چھوڑ دو تو کیا مجال کہ اس کی بنوٹ توڑ کر اڑ جائیں۔

آفتاب: (داخل ہوتا ہے) امی جان۔۔ امی جان

کلثوم: اے لڑکے اسے کیا کہتے ہیں، یہ کیوں لائے ہو

(کبوتروں کی غٹر غوں)

آفتاب: یہ دیکھئے کیسی اچھی جوڑی ہے۔ ایک دم سفید بالکل سفید کوئی داغ نہ دھبہ۔ بڑی مشکل سے ملے ہیں۔

کلثوم: مگر بیٹے تجھے یہ شوق کب سے ہوا؟

آفتاب: بڑی خوشامد کی حامد کی اس نے دئیے ہیں۔ کہتا تھا اس نسل کے کبوتر صرف ہمارے ہاں ہیں۔ اور یہ ہم کسی کو نہیں دیتے ہیں، دیکھئے نہ کیسی معصوم سی صورتیں ہیں۔

شوکیس میں رکھ دو تو ڈیکوریشن پیس معلوم ہو، ہے کہ نہیں امی جان۔

کلثوم : مگر میں کہتی ہوں تجھے یہ سوجھی کیا۔ ادھر سے آئیں گے غٹر غوں غٹر غوں اُدھر سے آئیں گے غٹر غوں غٹر غوں۔۔۔ کس نے یہ لت تیرے پیچھے لگا دی۔

اکبر: اسے لت نہیں کہتے بیگم۔ یہ شوق ہے۔ نفیس مزاج لوگوں کا شوق

آفتاب: امی جان ہم بھی دنیا میں ہیں۔ اور کبوتر بھی۔ آگے اپنی اپنی پسند کوئی بچوں کو اپنائے، اور کوئی کبوتروں کو۔

اکبر: بھئی آفتاب کی ماں تم برا مانو یا بھلا۔۔ یہ آفتاب کا پہلا کام ہے، جس سے ہمیں دلی خوشی ہوئی ہے۔ دراصل یہ شوق بیٹے کو ورثہ میں ملا ہے۔ لڑکپن میں ہماری چھتری کے کبوتر گاؤں گاؤں مشہور تھے۔ جب ہمارے کبوتروں کی کوئی ٹکڑی سائیں سائیں کرتی گزرتی تو سب کی آنکھیں آسمان کی طرف اٹھ جاتی تھیں۔ راہ چلتے لوگ انھیں دیکھنے لگتے تھے۔ کیسے کیسے کبوتر۔ آنگن میں آئیں تو معلوم ہو کہ تازہ تازہ برف کے گالے بکھرے پڑے ہیں۔ ششکاری دے کر اڑا دو۔۔۔ تو بادلوں کے پار جائیں۔ جاندار ایسے کہ تین تین دن تک اوپر ہی چکر کاٹتے رہیں۔ زمین پر پاؤں رکھنے کا نام نہ لیں کل سرے کل دمے لقا شیرازی

کلثوم: بس بس رہنے دیجئے۔ اپنے کل سرے اور کل دموں کی قسمیں، میں کہتی ہوں یہ کبوتر جو تولے آیا ہے کیا انھیں تکیے کے نیچے رکھ کر سوئے گا۔ اے ہے یہ رہیں گے کہاں۔

آفتاب: ان کے لئے کابک بھی لایا ہوں۔ ادھر آنگن میں رکھی ہے

(بلی کی میاؤں میاؤں)

اکبر: بل بل بلی

کلثوم: ہش ہش ارے کبوتر

نوشابہ: (تیزی سے آتے ہوئے) کدھر گئی میری مانو

کلثوم : تمھاری مانو

نوشابہ : ابھی تو لائی ہوں ذکیہ کے گھر سے۔ میرے پیروں میں لوٹنے لگی تھی۔ جتنی دیر میں وہاں رہی اس نے میرے پاس سے ہٹنے کا نام نہیں لیا۔ پھر میں نے کہا اے دو میں اپنے ساتھ لے جاؤں گی۔ کیسی پیاری ہے۔

آفتاب : نکالو اسے یہاں سے۔ بلی نہیں رہ سکتی اس گھر میں

نوشابہ : کیوں نہیں رہ سکتی

آفتاب : انہیں دیکھو

نوشابہ : کبوتر۔۔۔ ہائے اللہ کیسے اچھے۔۔ کہاں سے لائے، کب لائے، کتنے میں لائے

آفتاب : پسند ہیں تمھیں

نوشابہ : ہاں ہاں کیوں نہیں

آفتاب: تو اس بلی کو گیٹ آؤٹ کرو

نوشابہ : واہ یہ کیا کوئی بات ہوئی

اکبر : یعنی ایک ہی چھت کے نیچے بلی بھی رہے اور کبوتر بھی وہیں یہ کس طرح ممکن ہے

آفتاب : اس لئے بلی کو نکال دو گھر سے

نوشابہ : آپ اپنے کبوتروں کو اڑا دیجئے۔ مانو تو یہیں رہے گی

کلثوم : یہ لو بیٹھے بٹھائے ایک نیا جھگڑا

نوشابہ: میں رہوں گی تو مانو بلی بھی گھر میں رہے گی

آفتاب: یہ میرے کبوتروں کو کھا جائے گی

نوشابہ : وہ بھوکی نہیں ہے تمھارے کبوتروں کی

آفتاب: گھر میں کبوتر رہیں گے

نوشابہ : نہیں بلی

آفتاب : نہیں کبوتر

نوشابہ : بلی، بلی

آفتاب : کبوتر کبوتر

کلثوم: (ہنستے ہوئے) آپ کہہ رہے تھے جس گھر میں کبوتر ہوں وہاں لڑائی جھگڑا نہیں ہوتا۔ اور یہاں کبوتروں ہی پر جھگڑا ہو گیا

اکبر: یہ جھگڑا کبوتروں کی وجہ سے نہیں بلی کی وجہ سے ہوا ہے

(چینج اوور میوزک)

(دفتر کا سین)

طفیل : کیا سوچ رہے ہو اکبر صاحب

اکبر : کچھ نہیں

طفیل : کوئی بات تو ضرور ہے

اکبر: نہیں طفیل بابو کوئی خاص بات نہیں

طفیل : بات کیوں نہیں بڑے بابو۔۔۔ بہت بڑی بات ہے۔

اکبر: کیا بات بہت بڑی ہے

طفیل : یہی کہ ا س سال آپ کو انکریمنٹ نہیں ملا

اکبر : اتنی سی بات، ہم سمجھتے تھے نہ جانے کیا کہنے والے ہو

طفیل : باس کہہ رہے تھے انھوں نے کئی بار آپ کو سمجھایا بھی۔۔۔ مگر آپ کام میں دلچسپی نہیں لیتے۔ جیسے وہ خود بڑی دلچسپی لیتے ہیں

اکبر: وہ ٹھیک ہی کہتے ہیں

طفیل ؛ اجی ہاں ٹھیک کیسے۔۔۔ آپ اتنے پرانے آدمی ہیں ان کا کیا ہے آج اس دفتر میں کل کسی اور دفتر میں۔۔۔ ذرا دیر کو دفتر آئیں گے کسی کو ڈانٹ دیا کسی کو ویری گڈ کہہ دیا۔ آدھا وقت فون کرتے رہیں گے۔ معلوم نہیں کس کس کو۔۔۔ میں تو جانوں۔

اکبر: وہ کچھ بھی کرتے ہوں۔ مگر ہمارے بارے میں ان کا کہنا بالکل درست ہے۔ واقعی یہ دفتر کا کام ہمیں پسند نہیں ہمیں کوئی دلچسپی نہیں اس سے۔

طفیل : دلچسپی کیوں نہیں بھلا۔ اتنے زمانے سے۔ میرا مطلب ہے دیکھئے نا اس میز کے ساتھ اسی کرسی پر بیٹھے بیٹھے آپ کے بال سفید ہوئے ہیں۔

اکبر: ہاں سفید بال۔۔۔ جب پہلے دن اس کرسی پر بیٹھے تھے ہم تو ہمارے سر کے سارے بال کالے تھے۔ کالے اور گھنے۔ چندیا صاف نہیں تھی۔ چہرے پر جو جھریاں تم دیکھتے ہو یہ بھی نہیں تھیں۔ ہماری آنکھوں کو چشمے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ اور اور سیڑھیاں چڑھنے سے ہمارا سانس بھی نہیں چڑھ جاتا تھا۔ جیسا کہ اب ہوتا ہے۔

طفیل : مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ آپ کام میں دلچسپی نہیں لیتے۔ مجھے دیکھئے آپ سے دس سال چھوٹا ہوں مگر دس سال بڑا معلوم ہوتا ہوں۔

اکبر: تم اگر شہر کے بجائے گاؤں میں رہتے۔ اپنی کھیتی باڑی کرتے تو اتنی جلد تمھاری صحت نہ گر جاتی۔

طفیل : بڑے بابو میں کیا جانوں کھیتی باڑی کو۔۔ میرے تو باپ دادا کبھی گاؤں میں نہیں رہے۔

اکبر: ہم کھیتی باڑی کو جانتے ہیں۔ ہمارے باپ دادا گاؤں میں رہے ہیں۔ ہماری زندگی کا ابتدائی زمانہ گاؤں میں گزرا اور اگر ہماری زمین بنجر نہ ہو گئی ہوتیں تو۔۔۔ تو کیا اچھی زندگی ہوتی ہماری۔

طفیل : یہ آج ہی معلوم ہوا کہ آپ کا لڑکپن گاؤں میں گزرا ہے

اکبر: اسی لئے یہ شہری زندگی ہمیں پسند نہیں۔ مگر کیا کریں مجبوری ہے۔

طفیل : ہاں مجبوری۔۔ بڑی بُری چیز ہے۔ جسے مجبوری کہتے ہیں، اگر بال بچوں کی مجبوری نہ ہوتی تو میں۔۔۔ اتنی جلدی بوڑھا نہ ہو جاتا۔

اکبر: روزانہ یہی میز، یہ کرسی۔۔۔۔ سر پر کسی پرانے گدھ کی طرح چکر کاٹتا ہوا یہ پنکھا۔۔۔ یہ دروازہ یہ کھڑکیاں۔۔۔ روزانہ یہی سب کچھ یکسانیت۔۔۔ بوریت۔۔

طفیل : جی ہاں یہ تو ہے

اکبر: ہم اِس ماحول کے لئے پیدا نہیں ہوئے۔ میری آنکھیں ڈھونڈتی ہیں لہلہاتی ہوئی فصلوں کو۔۔ ہرے بھرے باغوں کو۔۔۔ میرے کان ترستے ہیں ان گھنٹیوں کو جو مویشیوں کے گلے میں بندھی ہوئی ہیں اور یہاں یہ گھنٹی ہے۔

(گھنٹی بجاتا ہے جس کی آواز کرخت ہے)

سنا تم نے یہاں یہ گھنٹی ہے اتنی کرخت۔۔ نا خوشگوار آواز۔۔ اور یہ فائلوں کا ڈھیر دیکھ رہے ہو تم ہماری میز پر۔۔۔ مجھے صرف اناج کا ڈھیر اچھا لگتا ہے وہ اناج جسے ہم نے خود اپنے بازوؤں کی محنت سے اُگایا ہو۔ جس کے لئے تپتی دوپہریں ہم پر گزری ہوں۔۔ جس کے لئے ہم نے برفیلی ہوائیں جھیلی ہوں۔

طفیل : بڑی عجیب باتیں ہیں آپ کی۔۔ وہ دراصل

اکبر: یہ ٹائپ رائٹر کی کھٹ کھٹ جو برابر کے کمرے سے آتی ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے دماغ پر ہتھوڑے چل رہے ہوں۔ کبھی کبھی تو جی چاہتا ہے یہ پیپر ویٹ اٹھا کے اپنے سر پر دے ماروں۔

طفیل: (گھبرا کر) کیا کر رہے ہو بڑے بابو۔۔۔ توبہ میں نے سمجھا تھا کہ۔۔۔

اکبر: سچ مچ تو سر نہیں پھاڑ رہے تھے ہم اپنا۔۔ آپ خواہ مخواہ ڈر گئے۔۔۔

طفیل: آپ نے پیپر ویٹ اٹھایا تو کچھ اسی انداز میں تھا کہ ہاتھ آپ کے سر کی خیر نہیں یا میرے سر کی

اکبر: اب سمجھے تم۔۔۔۔ باس جب یہ کہتے ہیں کہ ہم کام میں دلچسپی نہیں لیتے تو یہ ٹھیک ہے۔۔۔ بالکل ٹھیک ہے، قطعی ٹھیک ہے۔

طفیل: تو پھر آپ نوکری چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔

اکبر: کیا کہا۔۔۔ اور یہ کہتے ہوئے تمھاری آنکھوں میں چمک کیوں آئی۔

طفیل : جی وہ بڑے بابو آپ تو جانتے ہی ہیں کہ۔۔۔ میرا مطلب

اکبر: ہم کچھ سمجھے نہیں۔۔۔ صاف صاف کہو

طفیل : آپ کا دل یہاں کے کام میں نہیں لگتا۔ آپ کھیتوں کو، باغوں کو مویشیوں کو اناج کے ڈھیر کو کھلی فضا کو تازہ ہوا کو پسند کرتے ہیں۔

اکبر: تو پھر

طفیل : تو پھر یہ کہ آپ اگر نوکری چھوڑ دیں تو۔۔۔ تو مجھے

اکبر: تمھیں ترقی کا چانس مل جائے گا۔۔ یہی کہنا چاہتے ہو۔

طفیل : دراصل چھوٹے چھوٹے بچے ہیں بڑے بابو۔۔۔ ان کی گزر بسر کے لئے

اکبر: دیکھو مسٹر طفیل ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ تم ہمارے خلاف ہمیشہ باس کے کان بھرتے رہتے ہو۔ اور آج کی گفتگو بھی تم کسی نہ کسی بہانے سے انہیں سناؤ گے۔ مگر ہم اس کی پرواہ نہیں کرتے۔ مجھے تم سے ہمدردی ہے۔ میں نوکری چھوڑ دوں گا اور اپنی جگہ کیلئے تمھاری سفارش بھی کروں گا۔ مگر ابھی تمھیں تھوڑا وقت لگے گا۔ جب ہم اپنی زمینوں کو زندہ کر لیں گے جب سیم اور تھور کی تہہ ان پر سے اتر جائے گی تو یہ ممکن ہو سکے گا اور مجھے یقین ہے وہ دن جلدی آ جائے گا۔

طفیل : تھینک یو بڑے بابو۔ بڑی بڑی مہربانی

(میوزک)

اکرم : آداب عرض ہے

آفتاب : آداب عرض ہے

اکرم : کیا مسٹر اکبر کا یہی مکان ہے

آفتاب: جی ہاں فرمائیے

اکرم: یہ میرا کارڈ ہے

آفتاب : آپ۔۔ اکرم علی۔۔ نمائندہ فرینڈز اینڈ کو۔۔ یعنی

اکرم: بیٹھ سکتا ہوں

آفتاب: ہاں ہاں۔۔ اوہ تشریف رکھئے۔

اکرم : آپ مسٹر اکبر کے۔۔

آفتاب : میں ان کا بیٹا ہوں۔ آفتاب۔۔ آفتاب اکبر

اکرم : بڑی خوشی ہوئی آپ سے مل کر

آفتاب : میں آپ کے آنے کا مقصد پوچھ سکتا ہوں۔۔ سگریٹ

اکرم : تھینک یو (سگریٹ جلاتا ہے، کھانستا ہے) میرے آنے کا مقصد۔۔ میں یہ یقین دلانے آیا ہوں کہ ہماری فرم ایک مانی ہوئی فرم ہے اور اس علاقے کے جتنے جاگیردار اور لینڈ لارڈز ہیں وہ ہمیں سے رابطہ کرتے ہیں۔

آفتاب : لینڈ لارڈز جاگیردار؟

اکرم : ہم کم سے کم کمیشن چارج کرتے ہیں اور مال کی گارنٹی دیتے ہیں۔

آفتاب : اچھا

اکرم: فرینڈز اینڈ کو جس کا میں نمائندہ ہوں۔۔ یہ کسی چھوٹے موٹے کیسوں کی ایجنسی نہیں لیتے۔ امریکہ، کینیڈا جرمنی جاپان ہر ملک میں ہمارا نام جانا پہچانا جاتا ہے۔

آفتاب : (مزاحیہ انداز میں) یہ تو بڑی اچھی بات ہے

اکرم : اس کا سبب یہ ہے کہ ہمارے رولز بہت سخت ہیں۔ کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے کسی کسٹمر کو کبھی شکایت کا موقع ملے۔ معمولی سی شکایت بھی ہم دنیا نہیں چاہتے۔

آفتاب : ایسے لوگ اس زمانے میں کہاں ملتے ہیں

اکرم : ذرہ نوازی ہے آپ کی۔

آفتاب : دیکھئے۔ سگریٹ کی راکھ آپ کی پینٹ پر۔۔ داغ نہ پڑ جائے

اکرم : او ہ۔۔ شکریہ شکریہ۔۔ بہت بہت شکریہ

آفتاب : چائے پئیں گے آپ

اکرم : جی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔ میں چاہتا تھا کہ معاملے کی بات ہو جائے

آفتاب : کیا حرج ہے

اکرم : آپ اکبر صاحب کے بیٹے ہیں۔۔

آفتاب : جی ہاں ان کی طرف سے بات کرنے کا مجھے پورا اختیار ہے

اکرم : تو۔۔ آپ۔۔ یہ دیکھئے۔۔ ملاحظہ فرمائیے

آفتاب : یہ کیٹلاگ

اکرم : جی ہاں۔۔۔ جیسا کہ آپ یقیناً جانتے ہوں گے مسٹر

آفتاب : آفتاب

اکرم : یس مسٹر آفتاب۔ جیسا کہ آپ یقیناً جانتے ہوں گے کہ ایک مدت سے ہمارے ساتھ مسٹر اکبر کی کارسپانڈنٹس چل رہی ہے اور دوسری بات یہ کہ یہ ایک بڑا سودا ہے اس لئے میں حاضر ہوا ہوں کہ ملاقات ہمیشہ خط و کتابت سے بہتر ثابت ہوتی ہے۔

آفتاب : یہ بات تو ہے

اکرم : خط و کتابت میں وقت بھی زیادہ صرف ہوتا ہے اور ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھنے میں بھی دقت ہوتی ہے۔

آفتاب : آپ کافی تجربہ کار معلوم ہوتے ہیں

اکرم : نوازش کرم۔۔۔ تو میں یہ عرض کر رہا تھا کہ بڑا سودا ہے۔ چار ٹریکٹرز کا

آفتاب : (حیرت سے) چار ٹریکٹرز

(مختصر وقفہ)

اکرم : کیوں مسٹر آفتاب۔۔ آپ خاموش ہو گئے۔

آفتاب : (سنبھل کر) کوئی خاص وجہ نہیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ چار ٹریکٹرز شاید کم ہی رہیں۔

اکرم : تعداد اور زیادہ ہو تو اس کیلئے بھی ہماری خدمات حاضر ہیں۔ فی الحال بات چار ہی کی چل رہی ہے۔

آفتاب : چلئے چار ہی سہی

اکرم : ہم سے یہ سودا کر کے آپ فائدہ میں رہیں گے۔ اور ہم تو یہ کہتے ہیں کہ آپ دوسروں سے بھی ریٹ منگا کر دیکھ لیں۔ آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا کہ میں اپنی بات میں کہاں تو درست ہوں کیونکہ ہمارا اصول ہے کم منافع زیادہ سیل

آفتاب : یہ اصول ہونا بھی چاہئیے۔ منافع کم لیا جائے تو سیل خود بخود بڑھ جاتی ہے

اکرم : تو پھر کانٹریکٹ سائین ہو جانا چاہئیے اس سودے میں ہر طرح آپ کا فائدہ ہے

آفتاب : ہم نے کچھ اور فرموں سے بھی ریٹ منگوائے ہیں ان سے بھی ہماری خط و کتابت چل رہی ہے۔

اکرم : اوہ اچھا۔۔ آئی سی

آفتاب : ہم ابھی آپ کو فائنل جواب نہیں دے سکتے۔ آپ کو کچھ انتظار کرنا ہو گا مسٹر اکرم۔

اکرم: ہم ضرور انتظار کریں گے۔ اور مجھے امید ہے کہ آخر کار سودا آپ ہمیں سے کریں گے۔ کیونکہ ہم سے زیادہ آسان شرائط پر یہاں کوئی ایجنسی کام نہیں کر رہی ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ آپ اچھی طرح اپنا اطمینان کر لیں۔ کسٹمر کو مطمئن کرنا ہم اپنا پہلا فرض سمجھتے ہیں۔ کیا میں اکبر صاحب کا انتظار کر لوں۔

آفتاب : جی کوئی ضرورت نہیں۔۔ میرا جواب ان ہی کا جواب ہے۔

اکرم : اچھا خدا حافظ

آفتاب : خدا حافظ

(میوزک)

(چینج اوور)

(گھر کا سین)

حمید: اوہ آفتاب

آفتاب : آداب انکل

حمید: جیتے رہو۔ کوئی نئی بات۔ خیریت یعنی گھر پر سب ٹھیک ہیں

آفتاب: مجھے آپ سے کچھ بات کرنی تھی جب آپ کے پاس وقت ہو

حمید: بیٹھو بیٹھو۔۔ زیادہ ہوتا ہے تو گھر پر لے آتے ہیں۔ ہم دفتر یعنی آفس کا کام

آفتاب: آپ بہت مصروف ہیں

حمید: کچھ زیادہ نہیں۔۔۔ ہاں تو کیا قصہ ہے یعنی پرابلم کیا ہے

آفتاب : انکل مجھے کیا کرنا چاہئیے

حمید: ہوں کیا کرنا چاہئیے۔ یعنی کیا کام کرنا چاہئیے۔

آفتاب : میں کام کی تلاش میں ہوں

حمید: تمھارے نتیجے یعنی رزلٹ کا کیا رہا

آفتاب : جی وہ۔۔ اس سال میں نے۔۔ اس سال امتحان نہیں دیا

حمید: تیاری نہیں تھی۔

آفتاب : دراصل انکل گھر کے حالات۔۔ خرچ بڑھتا جارہا ہے اور ابو کی آمدنی وہی ہے

حمید: اور کوئی وجہ یعنی ریزن

آفتاب : میں چاہتا ہوں کہ ابو کا جو خواب ہے اس کو بھی پورا کروں۔ کسی نہ کسی طرح

حمید: خواب یعنی پرابلم تمھارے ابو کا۔۔۔ وہی زمینوں کی نئی زندگی

آفتاب: اب ان کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ خیال کو حقیقت سمجھنے لگے ہیں۔ انتہا یہ کہ انہوں نے ایک کمپنی سے چار ٹریکٹر خریدنے کی خط و کتابت کر لی۔ ان کا نمائندہ گھر پر آیا تھا۔

حمید: نمائندہ یعنی

آفتاب: جی ہاں۔۔ اسے تو خالو جان میں نے کسی نہ کسی طرح ٹال دیا مگر اسی وقت دل میں عہد کر لیا کہ جب تک ابو کی زمینیں درست نہیں ہو جائیں گی چین سے نہیں بیٹھوں گا۔ مجھے کام چاہئیے کیسی بھی محنت ہو کر لوں گا۔

حمید: کہنا آسان یعنی کرنا مشکل یعنی

آفتاب : میں انکل زندگی میں آگے اور آگے میرا مطلب ہے اونچا اور اونچا

حمید : (ہنس کر) آگے اور آگے اور آگے۔۔ اونچا اور اونچا۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے جو عزیزم یعنی مائی ڈئیر آفتاب

آفتاب : جی انکل

حمید: ہم نے اگر ترقی کی تو خود کو اس کا اہل بھی بنایا۔ اپنے کاموں میں دلچسپی لی۔ یہ نہیں کہ دفتر یعنی آفس گئے اور جیسے تیسے وقت یعنی ٹائم پورا کیا اور چل نکلے نہیں نہیں۔۔۔ تو۔۔ تو جب ملازمت کرتے ہیں تو کام بھی کرتے ہیں۔ پوری توجہ اور دلچسپی سے۔ تمام دوسرے کاموں سے زیادہ اس لئے کہ وہ روزی ہے اس سے روزی ملتی ہے۔ روزی جو زندہ رہنے کے لئے ضروری ہے۔ دراصل زندہ رہنا ہی انسان کے لئے سب سے بڑا کام ہے۔ سب سے مقدس فرض ہے۔

آفتاب : جی انکل

حمید: جس محکمے میں جس مل میں کارخانہ میں فیکٹری میں کام کرتے ہو اس کی ایک ایک چیز کو دیکھو ایک ایک کام کو دیکھو۔ پورے نظام پوری مشینری کو دیکھو کہ یہ سب کچھ کس رخ ہوتا ہے اور اس کا کیا مقصد ہے دیکھو سوچو اور سمجھو۔

آفتاب : میرا ارادہ یہ۔۔ ہے کہ

حمید: ہمیں بات پوری کرنے دو۔ اپنا ارادہ یعنی بعد میں بتانا ہم اگر تم سے کہیں کہ دوسری منزل یعنی سیکنڈ فلور پر جاؤ تو کیسے جاؤ گے۔

آفتاب: جی انکل زینے سے

حمید : ایک ایک سیڑھی چڑھ کر۔۔ یہی نوکری میں یعنی سروس میں کرنا ہوتا ہے مگر تم چاہتے ہو کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ پیسہ (اچانک) سیلز مین رکھوا دوں کسی دکان پر۔

آفتاب: جی وہ

حمید: جی وہ کیا۔۔ یعنی کاؤنٹر پر کھڑا ہونا بُرا لگتا ہے۔ لکھنے پڑھنے کا کام چاہئیے مگر یاد رکھو دنیا صرف قلم روشنائی اور کاغذ سے نہیں بنی ہے۔ اگر زندگی کو سمجھنا چاہتے ہو تو تمھیں یہ جاننا پڑے گا کہ دنیا کاہے سے بنی ہے۔ تمھیں کسی فیکٹری میں ہونا چاہئیے۔ کچے مال کی خوشبو پہچانو۔ سردی میں ٹھٹھرے ہوئے بارش میں بھیگے ہوئے گرمی میں پگھلتے ہوئے محنت کرو تمھارا لباس میلا ہونا چاہئیے۔ محنت کش کا لباس مگر تم تو ٹھہرے سفید پوش۔ داغ دھبے والے لباس کی ملازمت کیا جانو۔

آفتاب : میں سب کچھ کرنے کو تیار ہوں سب کچھ برداشت کروں گا کام کروں گا محنت کروں گا تاکہ ابو کا خواب۔۔۔ ابو کا خواب پورا کر سکوں

رضیہ : (آتے ہوئے) ہیلو ڈیڈی۔۔ اوہ آفتاب ہاؤ ڈو یو ڈو

آفتاب: تھینک یو رضیہ۔۔ میں ٹھیک ہوں

حمید: بیٹی ان کے لئے کچھ چائے وغیرہ

رضیہ : شاپنگ کرنے گئی تھی۔ چائے میں نے بھی نہیں پی ہے تو آفتاب میرے ساتھ آؤ

آفتاب: جی وہ

حمید: تمھارا اپنا گھر ہے

رضیہ : اور ڈیڈی آپ

حمید: ہمارے لئے یہیں بھجوا دینا۔ ابھی کئی فائل دیکھنے ہیں

رضیہ : آؤ آفتاب

(قدموں کی آواز)

رضیہ : آج کتنے زمانے کے بعد تمھیں دیکھا ہے تم تو بھول ہی گئے ہم لوگوں کو

آفتاب : اپنے عزیزوں کو کون بھولتا ہے۔ مگر بس یہ ہے کہ آنا ہوا نہیں

رضیہ : لو اس صوفے پر بیٹھو۔۔ ہاں اب کہو کیا ہم لوگ تمھیں یاد نہیں آتے

آفتاب: امی نے کئی دفعہ تمھارا ذکر کیا

رضیہ : امی کو نہیں میں تمھیں پوچھ رہی ہوں تم کہاں رہتے ہو کس دنیا میں رہتے ہو

آفتاب : کیا مطلب کس دنیا میں، بس اسی دنیا میں یہی جو دنیا ہے

رضیہ : کم سے کم ایک سینچری۔ سو سال پہلے پیدا ہونا چاہئیے تھا تمھیں۔ تمھارا تھکا تھکا سا یہ انداز۔ آج کی تیز رفتار زندگی کا ساتھ نہیں دیتا۔ یہ جیٹ اور راکٹ کا زمانہ ہے اور تم۔۔ تم دقیانوسی شہزادیوں کی طرح پالکی میں بیٹھ کر زندگی کے دیوان عام سے گزرنا چاہتے ہو۔

آفتاب: نہیں یہ بات تو نہیں۔۔۔ ابھی انکل سے میں نے وعدہ کیا ہے کہ محنت کروں گا۔

رضیہ : (ہنستی ہے) محنت کرو گے۔۔ اچھا تو پہلا کام یہ ہے کہ کافی بنا کر خود بھی پیو اور مجھے بھی پلاؤ۔

آفتاب : مگر

رضیہ : تو۔۔ تو۔۔ آج میں تمھارے ہاتھ کی کافی پیوں گی۔ لڑکے اچھی کافی بناتے ہیں۔ اشرف تو ایسی کافی بناتا ہے، جی چاہتا ہے پیتے چلے جاؤ۔۔۔ میں جانتی ہوں تم بھی لاجواب کافی بناؤ گے۔ یہ جو تمھاری انگلیاں ہیں لامبی لامبی۔ ایسی انگلیاں بینجو بنانے، ٹائپ کرنے اور کافی بنانے میں لاجواب ہوتی ہیں۔

آفتاب : (ہنستا ہے) یہ مجھے آج ہی معلوم ہوا۔ ابھی بناتا ہوں۔

رضیہ : شاباش۔۔ سوچتی ہوں زمین کے گرد چکر لگاؤں موٹر بوٹ میں۔ یہ میرا پروگرام ہے، کیوں کیسا آئیڈیا ہے۔

آفتاب: (تھوڑے فاصلے پر) زمین کے چاروں طرف پہلا چکر لگانے کی کوشش میجی لین نے کی تھی۔

رضیہ : بالکل ٹھیک اس کے نام پر ایک چکر ہم بھی لگائیں گے۔

آفتاب : (ہنستا ہے) یا افریقہ کی کسی دور دراز وادی میں بحری قزاق کے دفن کئے ہوئے خزانے کی تلاش پرانے نقشوں کی مدد سے

رضیہ : جھوٹی سچی کہانیوں والی باتیں۔۔ خزانے کی تلاش نہیں، زمین کے گرد چکر ٹھیک ہے۔ مگر اس کے لئے مجھے کم سے کم ایک ساتھی کی ضرورت ہے تم چلو گے۔

آفتاب : سوچوں گا

رضیہ : اس میں سوچنے والی کیا بات ہے۔ پرانے لوگ سوچا کرتے تھے۔ سوچتے سوچتے ہی زندگی کا ڈراپ سین ہو جاتا تھا۔ اب سوچنے کا نہیں کر گزرنے کا زمانہ ہے۔ انسان کو ہونے کی ضرورت ہے ایکٹیو اسمارٹ

آفتاب : مجھے کنفیوز مت کرو

رضیہ : کنفیوژن کہیں تمھارے اندر ہے۔ میں نے تو سیدھی سادی بات کہی ہے میرے ساتھ دنیا کی سیر سے واپس آؤ گے تو۔۔۔ ہیرو بن جاؤ گے۔

آفتاب: شکریہ

رضیہ : اوہ ہو یہ تو میں بھول ہی گئی تھی۔۔۔ کہاں گیا میرا بریف کیس۔۔ ہاں یہ رہا۔۔۔ آں۔۔ یہ دیکھو

آفتاب : رکارڈ

رضیہ : بالکل نیا ہے۔۔ دھوم مچی ہوئی ہے شہر میں اس کی۔ ریکارڈ پلئیر پر لگاؤ۔ ہاتھوں ہاتھ بک گیا، ڈھونڈنے سے نہیں ملتا بازار میں

(مغربی موسیقی کا ریکارڈ)

ایسی میوزک کہ سننے والے کا بدن خود بخود تھرکنے لگے۔ پاگل ہو رہے ہیں لوگ اس ریکارڈ کے لئے۔ بالکل میڈ۔۔ تمھارا پاؤں بھی ہلا۔۔ شرط لگاتی ہوں ابھی اٹھ کر ناچنے لگو گے۔ کیا سوچنے لگے ناچو آفتاب۔۔۔ کم آن آفتاب

(میوزک)

(چینج اوور)

کلثوم : بال بال بچا ہے آج کبوتر نہیں تو بلی کھا ہی گئی تھی اسے

آفتاب : اوہو

کلثوم : اس وقت سے سہما بیٹھا ہے اپنے کابک میں

آفتاب: اچھا

کلثوم : ذرا آنکھ بچی اور بیچارے پر ایسی جھپٹی کہ سب دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے۔

آفتاب : بلی جو ٹھیری

کلثوم : وہ تو کچھ اس نے ہمت کی جو پھڑپھڑا کر اس کے پنجوں سے نکل گیا۔

آفتاب : ایسے وقت ہمت آہی جاتی ہے۔

کلثوم : نہیں تو جان سے گیا تھا

آفتاب : قسمت اچھی تھی جو بچ گیا

کلثوم : اور کیا ورنہ بلی کا حملہ خالی نہیں جاتا ہے

آفتاب: بیچارہ کبوتر

کلثوم: معمولی سا زخم آیا تھا۔ میں نے ہلدی چونا لگا دیا ہے

آفتاب: کبوتروں کا مقدر ہی زخم کھانا ہے

کلثوم : اے کیا کتابوں کی سی باتیں کرنے لگا تو

آفتاب : کتابوں کی نہیں امی جان۔۔۔ زندگی کی باتیں کر رہا ہوں اس دنیا میں جو کبوتر بن کے جینا چاہتے ہیں انھیں زخم کھانے کے لئے بھی تیار رہنا چاہئیے۔

کلثوم : کھڑے کھڑے میں نے اسے گھر سے نکلوا دیا

آفتاب : گھر سے نکلوا دیا۔ یہ آپ نے اچھا نہیں کیا، باہر تو کتے بھی ہوتے ہیں۔

کلثوم : اونہہ تم نے بلی کی فکر کی۔ ارے بیٹے اس کے لئے گھر بہت اور گھروں میں کبوتر بہت

آفتاب : آج میں انکل کے ہاں گیا تھا

کلثوم : خیریت سے ہیں

آفتاب : جی خیریت سے ہیں

کلثوم : اور رضیہ

آفتاب : وہ بھی خیریت سے ہیں بالکل خیریت سے

کلثوم : آج کیسے تمھارا جی چاہ گیا وہاں جانے کو

آفتاب : نوکری کے لئے کہا تھا میں نے ان سے

کلثوم : نوکری کس کے لئے

آفتاب : اپنے لئے

کلثوم : تم نوکری کرو گے۔۔ پڑھو گے نہیں۔ یہ بیٹھے بٹھائے آخر کیوں

آفتاب : انکل نے فیکٹری میں مجھے جگہ دلوا دی ہے ایسی جگہ کہ جتنی محنت کرو اتنی ترقی

کلثوم : اچھا

آفتاب : میں آپ کا بیٹا ہوں امی

کلثوم : ہاں میرے لال

آفتاب : دعا کیجئے کہ خدا مجھے محنت کی توفیق دے

کلثوم : یا الٰہی تو ہی بے سہاروں کا سہارا ہے۔ میرے بچے میں ہمت پیدا کر کہ اسے کامیابیاں عطا ہوں

آفتاب : میری اچھی سی امی

کلثوم : میرا بچہ

آفتاب : میں نے نوکری اس لئے کی ہے امی کہ خوب بہت سا روپیہ کماؤں گا جب میرے پاس بہت سا روپیہ ہو جائے گا تو پتہ ہے کیا کروں گا۔

کلثوم : سہرا باندھو گے

آفتاب : اوں ہوں

کلثوم : تو پھر

آفتاب: آپ بتائیے

کلثوم : اے چل بھی۔۔ کیوں پہیلیاں بھجواتا ہے

آفتاب : بتا دوں

کلثوم : ہوں

آفتاب : وہ روپیہ میں ابو کی زمینوں پر خرچ کروں گا۔

کلثوم : زمینوں پر؟

آفتاب : جی۔۔۔ ابو جو کہا کرتے ہیں نا کہ زمینوں کو نئی زندگی، تو میں ان کی زمینوں کو نئی زندگی دے کر ہی دم لوں گا۔

کلثوم : مگر

آفتاب: اور ان کے لئے ٹریکٹر بھی خریدوں گا۔ لہلہاتی ہوئی کھیتیوں کا جو خواب ابو دیکھتے ہیں وہ پورا ہو کر رہے گا۔ یہ میرا عہد ہے۔

کلثوم : مگر سیانی بیٹی جو گھر میں بیٹھی ہے مجھے تو اس کی فکر ہے

آفتاب: نوشابہ کے بیاہ کا ابھی خیال نہ کیجئے

کلثوم : کیسے نہ کروں۔۔۔۔ یہ تو خوب تم نے کہا آفتاب شاباش ہے۔ بھائیوں کو ایسا ہی ہونا چاہئیے۔

آفتاب : میری پوری بات تو سن لیجئے

کلثوم : کیا بات سن لوں نوکر ہوتے ہی طوطے کی طرح آنکھیں بدلنے لگا۔

آفتاب : آپ تو اتنی جلدی سے ناراض ہو جاتی ہیں

کلثوم : ناراض نہ ہوں تو کیا خوش ہوں ایسی باتوں پر

آفتاب : مجھے کہنے تو دیجئے

کلثوم : اچھا کیا کہہ رہا ہے

آفتاب : ہم ابھی نوشابہ کی شادی نہیں کریں گے ان لوگوں سے کہلوا دیجئے ہمارے ہاں دیر ہے

کلثوم : پھر

آفتاب : پھر یہ کہ میں اسے پڑھاؤں گا۔ آجکل شادی سے پہلے لڑکیوں کو اس قابل کر دینا چاہئیے کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکیں۔ کیا معلوم کل کیا حالات ہوں۔ اگر ڈگری پاس ہو تو بیٹی بھی گھر کے لئے ایک سہارا بن سکتی ہے۔

نوشابہ : (آتی ہے) میں نے اسے دانہ بھی کھلایا اور پانی بھی پلایا، اب ٹھیک ہے۔

(اچانک) ارے تم آ گئے آفتاب وہ بلی جو ہے نے۔۔۔ وہ دیکھنے میں تو ایسی معلوم نہیں ہوتی تھی۔۔۔ مگر

آفتاب : میں نے پہلے دن ہی منع کیا تھا مگر تم اڑ گئیں کہ بلی تو گھر میں رہے گی۔ اب دیکھ لیا بڑوں کا کہنا نہ ماننے کا نتیجہ

نوشابہ : تم بڑے ہو

آفتاب : ہوں ایک سال اور کچھ مہینے۔۔ ہے کہ نہیں امی جان

کلثوم : ایک سال پانچ مہینے

نوشابہ : سال ڈیڑھ سال بڑا ہونے کو بڑا ہونا نہیں کہتے۔

آفتاب: تم میرا نام نہ لیا کرو۔ بھائی جان کہا کرو

نوشابہ : خوشامد سے کہتے تو مان بھی جاتی۔ اب تو ہر گز نہیں کہوں گی

کلثوم : توبہ ہے تم دونوں نے لڑنا شروع کردیا۔ میری جان بڑی مصیبت میں ہے کس کی سنوں کس کی نہ سنوں

آفتاب : آپ انصاف کی بات کہئیے کیا میں بڑا نہیں ہوں

نوشابہ : جب دیکھو اپنی بڑائی لے کے بیٹھ جاتے ہیں نوشابہ چائے بناؤ ہم بڑے ہیں وہ کرو ہم برے ہیں۔ آپ تو ڈیڑھ سال بڑے ہیں کوئی دس سال بڑا بھائی بھی ہوتا تو میں اس کی اتنی خدمت نہ کرتی۔

آفتاب : اچھا تو یہ بات ہے

نوشابہ : ہاں یہ بات ہے

آفتاب : امی جان سن رہی ہیں آپ

کلثوم: مجھے اپنے جھگڑے میں نہ گھسیٹو

آفتاب : یہ جب مجھے بڑا نہیں مانتیں تو امی جان وہ اسکیم بھی کٹ

کلثوم: تم جانو اور یہ جانے۔ میں کیا جانوں۔۔۔ نا بابا میں نہیں بولتی

نوشابہ : اسکیم؟

آفتاب : ہاں اسکیم تھی تمھارے لئے۔ مگر اب تو وہ کٹ ہو گئی

نوشابہ : نہیں تمھیں بتانا پڑے گا۔ کیا اسکیم ہے

آفتاب: ہے نہیں تھی جناب

نوشابہ : بتائیے نا اللہ بتائیے

آفتاب : بھائی جان کہو

نوشابہ : پہلے بتائیے

کلثوم : اونہہ خواہ مخواہ بات بڑھائے جا رہا ہے کہتا نہیں کہ نوکری مل گئی ہے

نوشابہ : نوکری

کلثوم : اب یہ تجھے کالج میں داخلہ دلائے گا۔ کہتا ہے میری بہن کے پاس ڈگری ضرور ہونی چاہئیے

نوشابہ : ہائے اللہ۔۔۔ میرے اچھے بھائی جان

(سب ہنستے ہیں)

(میوزک)

( چینج اوور)

(گاؤں کا سین)

اکبر: تم نے کچھ گھوم پھر کر بھی دیکھا گاؤں کو۔

آفتاب : ہاں ابو۔۔۔ میں یہاں کے لوگوں سے بھی ملا بہت اچھے لوگ ہیں

اکبر: اس لئے تمھیں یہاں لایا ہوں کہ اپنی آنکھوں سے دیکھو۔ وہ کیسی زندگی ہے جس کے لئے ہم تڑپتے ہیں۔ گاؤں میں رہ کر انسان فطرت کے کتنا قریب ہوتا ہے، اس کا اندازہ شہر میں رہ کر نہیں لگایا جا سکتا۔

آفتاب: شہر کی بات شہر کے ساتھ، گاؤں کی بات گاؤں کے ساتھ ہے ابو۔ یہ بھی اچھا وہ بھی اچھا

اکبر: اس کا مطلب یہ ہے کہ تم نے گاؤں کو دیکھا ہی نہیں۔ دوپہر کو تمھیں کھیتوں کی سیر کراؤں گا۔ اس کے بعد اپنی زمینوں پر چلیں گے۔ زیادہ دور نہیں ہیں۔ ایک طرف لہلہاتی ہوئی کھیتیاں دوسری طرف خاک اڑاتی ہوئی ہماری زمینیں۔

(کوے کی آواز)

کوے کی آواز سن رہے ہو۔ شہر کے کوے ایسی کائیں کائیں کیا جانیں۔ یہ آواز ہی اور ہے کائیں کائیں مگر سریلی

آفتاب : (ہنس کر) آپ بھی کمال کرتے ہیں ابو۔ اب شہر کے کوؤں اور گاؤں کے کوؤں کی آواز میں بھی فرق ہو گیا۔

اکبر : یہ فرق آواز کا نہیں ماحول کا فرق ہے ہر چیز کا ایک اپنا ماحول ہوتا ہے کوئی چیز اپنے آس پاس کی چیزوں سے ہم آہنگ ہو کر بھی اپنا روپ نکھارتی ہے۔ کتنے پودے کتنے ہی پیڑ۔۔ جو ایک خاص زمین پر ہی پھولتے پھلتے ہیں۔ دوسری آب و ہوا میں مرجھا جاتے ہیں۔ ہمیں بھی بہت دنوں تک اپنی زمین اور اپنی آب و ہوا سے دور رہنا پڑا مگر ہم سخت جان تھے صرف افسردہ ہوئے مرجھائے نہیں مرے نہیں۔

آفتاب : ابو

اکبر : تم نہیں جانتے۔ کوئی نہیں جانتا کوئی بھی تو نہیں جانتا کہ بیس بائیس سال ہم نے کس تکلیف کس کرب میں گزارے ہیں۔ ہر دن نے ہمیں زخم دئیے ہیں ہر رات نے ہمیں آنسو دئیے ہیں ہم پیدا ہوئے تھے گاؤں میں رہنے کیلئے۔۔۔ فطرت سے قریب رہنے کے لئے اور ہمیں رہنا پڑا شہر میں مشینوں کے درمیان۔

آفتاب : ہاں میں جانتا ہوں ابو

اکبر: مگر لاحول ولا ہم بھی کیا تذکرہ لے بیٹھے۔ ارے بیٹے یہ ایک دن جو یہاں رہنے کو مل گیا ہے تو اس سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہئیے۔ آج کا ایک ایک لمحہ ایک ایک پل قیمتی ہے۔ خوشی کی گھڑیاں۔۔۔ مسرت کے لمحے جی چاہتا ہے ایک ایک درخت سے گلے ملوں۔۔۔ ہوا کے ساتھ اڑوں پانی کے ساتھ پھسلتا جاؤں۔ کھیلو کودو ہنسو گنگناؤ۔

(ہنستا ہے جاتے ہوئے)

میں ذرا چوہدری کی طرف جا رہا ہوں۔ اکھاڑے میں پٹھوں کو زور کرتے ہوئے بھی دیکھوں گا۔ تمھارا جی چاہے تو کہیں گھوم پھر آنا۔ مگر زیادہ دور نہ جانا کبھی راستہ بھول جاؤ۔ پھر اپنی زمینوں پر چلیں گے۔ ہاں ہماری زمینیں۔۔۔ (جاتا ہے)

آفتاب : (خود سے) ابھی وہ مجھے بچہ سمجھتے ہیں۔ کہتے ہیں کبھی رستہ بھول جاؤں مگر میں۔۔۔ مجھے کہیں جانا ہی کب ہے۔ میں نے کچھ ایسا غلط بھی تو نہیں کہا ابو سے کہ شہر کی اپنی خوبیاں ہیں اور گاؤں کی اپنی خوبیاں ہیں۔ مگر ابو کی خواہش، ابو کی تمنا۔ زمینوں کی نئی زندگی۔ میں ان کا یہ خواب ضرور پورا کروں گا۔ مگر پیسہ بہت پیسہ چاہئیے۔ فیکٹری میں کام کرتا ہوں۔ پوری محنت پوری جانفشانی سے۔ جیسا انکل نے سمجھایا تھا ویسا ہی۔ لیکن کیا اپنی محنت سے میں اتنی دولت کما سکوں گا اور وہ رضیہ۔۔۔ عجیب سی لڑکی۔۔۔ اتنی آزاد۔۔۔ اتنی فارورڈ

نوری: (داخل ہوتی ہے) لالی، لالی، لالی آئی ہے ادھر

آفتاب: لالی۔۔ کون لالی۔۔ آں

نوری: تم لالی کو نہیں جانتے

آفتاب : نہیں

نوری: پھر کسے جانتے ہو

آفتاب : (گھبراتا ہے) کسے۔۔۔ پھر کسے جانتا ہوں

نوری: ہاں ہاں جب لالی کو نہیں جانتے تو پھر کسی کو نہیں جانتے

(ہنستی ہے)

آفتاب : میں آج ہی یہاں آیا ہوں اس لئے

نوری: مجھے پہلے ہی پتہ ہے صبے آئے ہو تم اکبر چاچا کے ساتھ۔ تم ان کے بیٹے ہو۔ تمھارا نام آفتاب ہے۔ آفتاب سورج کو کہتے ہیں۔ مجھے تو سب پتہ ہے۔ پر تمھیں یہ بھی پتہ نہیں کہ لالی کون ہے۔ اسے تو گاؤں کی گلہری تک جانتی ہے۔

(ہنستی ہے)

آفتاب : گلہری جانتی ہو گی اسے۔۔۔ میں گلہری نہیں ہوں

نوری: میں کب کہتی ہوں گلہری ہو۔ تم تو بابو ہو

آفتاب : بابو کیا ایسے ہوتے ہیں

نوری: اور نہیں تو کیا۔۔۔ اس چشمے میں سے کیا کالا نظر آتا ہے

آفتاب: نہیں۔۔ ہرا

نوری: ہرا ہرا تو ساون کے اندھے کو نظر آتا ہے

(ہنستی ہے)

ذرا مجھے دکھانا۔۔ یہ چشمہ

آفتاب : کیا۔۔۔ یہ چشمہ

نوری: کھا نہیں جاؤں گی تمھارے چشمے کو۔ بس یہ ہے کہ مجھے شوق ہے شوق۔ بہت دنوں سے ایسے چشمے کا۔۔۔ ہائے اللہ تم سچ بول رہے تھے۔ اس میں سے تو ہرا دکھائی دیتا ہے۔ آہا۔۔۔ دھوپ بھی ہری ہو گئی۔

(ہنستی ہے)

آفتاب: کیا نام ہے تمھارا

نوری: میں نوری ہوں۔۔ چوہدری کی بیٹی۔۔ سمجھے چوہدری کی بیٹی نوری

آفتاب : نوری۔۔۔

نوری: ہوں۔۔۔ لو اپنا چشمہ

آفتاب: تجھے پسند ہے؟

نوری: نہیں۔۔۔ میں تو مذاق کر رہی تھی۔۔۔ چشمہ وہ لگائے جس کی آنکھوں میں کوئی عیب ہو۔

آفتاب : تیری آنکھوں میں کوئی عیب نہیں ہے؟

نوری: نہیں

آفتاب ؛ دیکھوں۔۔۔ ذرا دیکھ میری طرف۔۔۔ میری آنکھوں میں ہاں ہاں

نوری: لو دیکھو

(مختصر وقفہ)

آفتاب : (جذباتی) نوری

نوری: ہوں

آفتاب: نوری

نوری : ہوں

آفتاب : یہ آنکھیں نہیں ہیں دو جھیلیں ہیں گہری اور بہت ہی گہری

نوری: تمھاری آنکھیں تو لیٹ (لائٹ) (ہنستی ہے)

آفتاب : ارے ارے کہاں چلی۔۔۔ یوں ایکدم

نوری: (تھوڑے فاصلے پر) لالی کو ڈھونڈنے

آفتاب: لالی؟

نوری: ابھی نہیں پہنچانے۔۔۔ صبح جب تم اکبر چاچا کے ساتھ آ رہے تھے

آفتاب : ہوں

نوری: تو وہاں کچے راستے کے بائیں طرف لمبی لمبی گھاس ہے

آفتاب: ہے

نوری: گھاس میں نیم کا اتنا بڑا پیڑ ہے

آفتاب: نیم کا پیڑ ہے

نوری: بس تو صبح اس نیم کے پاس کھڑی تھی لالی اور میں اس کے پاس بیٹھی تھی۔ تم نے مجھے بالکل نہیں دیکھا۔ بس لالی کو دیکھتے ہوئے چلے گئے۔

آفتاب : صبح نیم کے پاس لالی۔۔ میں نے دیکھا تھا اسے۔۔ بھلا کیسے کپڑے تھے اس کے؟

نوری : کپڑے

(ہنستی ہے)

آفتاب: کیوں۔۔ اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے؟

نوری: کپڑوں کو جو پوچھا

(ہنستی ہے)

پہچان بتاؤں اس کی

آفتاب: بتاؤ

نوری: سفید پٹی چڑھی ہوئی تھی اس کے دونوں۔۔۔ سینگوں پر۔۔

آفتاب : سینگوں پر؟

نوری: ہوں

آفتاب : وہ بکری۔۔۔ لال بکری جو نیم کے پاس کھڑی تھی

(بکری کی آواز)

یہ لو وہ یہیں آ گئی

نوری: لالی تو آ گئی۔۔۔ جب میں اسے نہیں ڈھونڈتی تو یہ مجھے ڈھونڈ لیتی ہے

(دونوں ہنستے ہیں اور بکری بولتی ہے)

(میوزک)

(چینج اوور)

(فیکٹری) محنت کشوں کے نغمے کی ایک جھلک

(مشینوں کا شور)

آفتاب : آداب انکل

حمید : انکل نہیں۔۔ جنرل منیجر

آفتاب : اوہ سوری۔۔۔ یس سر

حمید : ہم فیکٹری کا معائنہ کرنے۔۔ یعنی surprise visit

آفتاب: یس سر

حمید : کام ٹھیک چل رہا ہے؟

آفتاب : جی ہاں

حمید : کسی کو کوئی شکایت؟

آفتاب : جی بالکل نہیں

حمید : بونس تمام کارکنوں کو یعنی ورکرز کو مل گیا

آفتاب : جی ہاں

حمید : تمھارے لئے ایک خوشخبری یعنی good news

آفتاب : جی؟

حمید : کمپنی کے ڈائریکٹر تمھارے کام سے بہت خوش ہیں۔

آفتاب : یس سر

حمید : انھوں نے تمھیں ترقی دی ہے۔ کاغذات آ گئے ہیں سو روپے ترقی

آفتاب: very kind of you sir

حمید: اور کچھ بھی تمہارے لئے سوچا جا رہا ہے یعنی under consideration

آفتاب: میں معلوم کر سکتا ہوں کہ وہ کیا ہے؟

حمید : ابھی نہیں۔۔۔ وقت آنے پر خود معلوم ہو جائے گا۔۔ او کے

آفتاب : او کے سر

(میوزک)

(چینج اوور)

(سمندر کی لہریں)

نوری : ہائے میں مر گئی۔۔ یہ ہے

آفتاب : ہوں

نوری: اسے سمندر کہتے ہیں

آفتاب: دیکھ لے

نوری : پانی ہی پانی

آفتاب : یہ گاؤں کی کی پتلی سی بل کھاتی ہوئی ندی نہیں ہے۔ سمندر ہے سمندر

نوری : نام تو پہلے بھی سنا تھا۔۔ پر آنکھوں سے آج دیکھا

افوہ۔۔۔ ایک بات پوچھوں

آفتاب : ہوں

نوری : یہ جگہ جہاں ہم کھڑے ہیں نا

آفتاب : ہوں ہوں

نوری : یہ زمین کا آخری سرا ہے۔۔۔ ہے نا

آفتاب : زمین کا آخری سرا

نوری : ہوں

آفتاب : زمین گول ہے۔۔ اس کا شروع اور آخر کچھ نہیں

نوری : اچھا ہوتا میں لالی کو بھی ساتھ لے آتی۔۔۔ وہ سمندر بھی دیکھ لیتی

آفتاب : تو کیوں نہیں لائی

نوری: بابا نے منع کر دیا۔۔ بولے شہر والے ہنسیں گے۔۔ اوئی کتنی بڑی لہر تھی

آفتاب : تیرے پاؤں چومنے آئی تھی

نوری : میرے پاؤں۔۔۔ کیوں کیا بات ہے میرے پاؤں میں

آفتاب : تیرے پاؤں۔۔ یہ دو کبوتر ہیں دو سفید کبوتر

نوری: ارے بھاگو ایک اور لہر آ رہی ہے (دونوں تھوڑا بھاگتے ہیں)

آفتاب: بس اب ٹھیک ہے

نوری : کتنی بڑی لہریں ہیں

آفتاب : کچھ لہریں ان سے بھی بڑی ہیں ان کا تجھے پتہ نہیں

نوری : دکھاؤ۔۔۔ اور بڑی لہریں کہاں ہیں۔۔۔ کدھر ہیں

آفتاب : آں۔۔۔ وہ دراصل وہ تو ابھی دیکھ نہیں سکتی

نوری: کیوں نہیں دیکھ سکتی

آفتاب : وہ لہریں سمندر کی گہرائی میں ہیں۔ سطح پر نہیں ہوتیں

نوری: تھوڑی سی سیپیاں جمع کر لوں۔۔ گاؤں واپس جا کے بانٹوں گی سب کو

ارے بھاگو۔۔۔ اوئی

آفتاب : میرا ہاتھ نہ چھوڑنا

نوری اوئی

آفتاب : گھبراؤ نہیں

(مختصر وقفہ)

نوری: (ہنستی ہے) یہ لہروں کی دادی تھی۔ اللہ میرے کپڑے بھیگ گئے

رضیہ : (دور سے) ہیلو۔۔۔ آؤ آفتاب

آفتاب: (دور سے) ہیلو

نوری : یہ ہیلو کیا ہوتا ہے

آفتاب : آں۔۔۔ کچھ نہیں

نوری: یہ کون ہے

آفتاب : آں۔۔ کوئی نہیں

رضیہ : (قریب آ کر) ہیلو آفتاب۔۔۔ خوب ملے تم آج سمندر کے کنارے کہاں؟

آفتاب : بس یونہی چلا آیا تھا

رضیہ : ڈیڈی تمھاری بہت تعریف کرتے ہیں۔ کہتے ہیں بڑے ہارڈ ورکنگ ہو تم۔

آفتاب : اچھا اب میں چلوں۔۔ وہ دراصل

رضیہ : ہمیں دیکھا اور چلے

آفتاب: وہ در اصل۔۔۔

رضیہ : اتنا خوبصورت سمندر اور تم ونڈر فل

نوری: یہ ونڈر فل کیا ہوتا ہے

رضیہ : آئیں۔۔۔ کیا یہ دیہاتن۔۔ تمھارے ساتھ ہے آفتاب؟

نوری: منہ سنبھال کے بات کرو میم صاحب

آفتاب : اوہ۔۔ یہ نوری ہے۔۔۔ نوری گاؤں سے آئی ہے، ہمارے گاؤں سے

رضیہ : اسی لئے اَن کلچرڈ ہے

نوری : یہ کیا ہوتا ہے

رضیہ : uneducated بھی ہے

آفتاب : یہ نوری ہے

نوری : یہ کیا گٹ پٹ گٹ پٹ کر رہی ہے

رضیہ : اے لڑکی اپنے ہوش میں رہو

نوری: ارے جا بہت گٹ پٹ کرنے والی لڑکیاں دیکھی ہیں میں نے

رضیہ : تم سن رہے ہو آفتاب۔۔۔

آفتاب : میں اس لئے جاتا ہوں۔۔۔ چلو نوری

نوری: نہیں چلتی۔۔۔ میں کوئی ڈرتی ہوں اس سے۔۔ بڑی آئی کہیں سے طرم باز خان

رضیہ : تم میری insult کرا رہے ہو

آفتاب : نوری

نوری : پتہ نہیں کیا ہوا ہے انسلٹ انسلٹ

رضیہ : ایڈیٹ

نوری: میں تیری انگریجی کے رعب میں نہیں آؤں گی

آفتاب : یو ڈونٹ مائنڈ رضیہ

نوری : اے لو۔۔۔ اب تم نے بھی گٹ پٹ شروع کر دی

رضیہ : میں کہتی ہوں اپنے ہوش میں رہو

نوری : تم بھی ہوش میں رہو

رضیہ : تمھیں بات کرنے کی تمیز نہیں ہے

نوری : تمھیں بڑی تمیز ہے۔۔۔ چلی آ رہی ہے مردوں کے کپڑے پہن کے

رضیہ: مردوں کے کپڑے

نوری : دور سے دیکھ کے میں سمجھی تھی کہ کوئی چھوکرا ہے

رضیہ : کیا کہا چھوکرا

نوری : چھوکروں کے سے کپڑے۔۔۔ چھوکروں کے سے بال۔۔ وہ تو میں آواز سے پہچانی کہ عورت ذات ہے

رضیہ : its too much آفتاب

نوری : پھر انگریجی کی ٹانگ توڑنے لگی

رضیہ : میں تیری ٹانگ توڑ دوں گی

آفتاب : رضیہ

نوری : ٹانگیں توڑ دے گی۔۔ اری جا ایک ہاتھ کی تو ہے نہیں۔۔ ایک پھونک ماردوں تو سمندر میں جا کے گرے

آفتاب : نوری

رضیہ : میں تجھے ایسا سبق دوں گی کہ زندگی بھر یاد رکھے گی

آفتاب : ارے ارے

نوری : ہڈی پسلی ایک کر دوں تو میرا نام نہیں

رضیہ : آفتاب

آفتاب : نوری

رضیہ : ہائے میرے بال

آفتاب : چھوڑ دو نوری

نوری : تم مت بولو۔۔ نہیں چھوڑوں گی۔۔ اسے گٹ پٹ کا مزہ چکھاؤں گی اچھی طرح سے

رضیہ : مدد آفتاب مدد

نوری: ابھی تو بڑی شیرنی بن رہی تھی اب کیوں بکری کی طرح ممیا رہی ہے

آفتاب : نوری

رضیہ : آفتاب

(میوزک)

(چینج اوور)

اکبر: (خود کلامی) آج یہ کیسے خیالات میرے دل میں آرہے ہیں ہم اور چوری۔۔ نہیں ہرگز نہیں۔۔ مگر موقعہ ہاتھ سے نکل گیا تو زندگی بھر پچھتانا پڑے گا۔۔۔ مگر ہمارے ہاتھ ہاں ہمارے ہاتھ۔۔۔ ان نوٹوں کے؟ کیسے بڑھ سکتے ہیں۔ اک ذرا ہمت کی ضرورت ہے اگر ہم خود تھوڑی سی ہمت کریں تو۔۔۔۔ بیس سال سے جو خواب دیکھتے آئے ہیں وہ حقیقت بن سکتا ہے۔۔۔ یہ دفتر کا اگر میں جیبوں میں بھر کے چل دوں تو اس وقت کوئی دیکھنے والا نہیں ہے۔۔۔ کوئی دیکھنے والا نہیں۔۔۔ روپیہ نہیں تھا اسی لئے تو ہم اپنی زمینوں کو نئی زندگی نہ دے سکے۔۔ مگر یہ ضمیر کی آواز۔۔۔ کوئی اندر سے کہتا ہے نہیں نہیں مگر اندر والے کی بات کیوں مانوں۔۔ یہ سنہری موقعہ ہے۔۔ ایسا موقعہ پھر ہاتھ نہیں آئے گا۔۔ اور مجھ سے یہ نہیں ہو سکتا۔۔ آہ کیسی الجھن ہے۔۔ اف پسینہ۔۔ تو کیا ہم بزدل ہیں۔۔۔ مگر کسی نے دیکھ لیا تو کیا ہو گا۔۔۔ ہاں نہیں۔۔ ہاں نہیں۔۔ یہ کیسی جنگ ہو رہی ہے میرے اندر۔۔ اب دیر کی تو ہمیشہ کے لئے اندھیرا ہے زندگی میں۔۔۔ نہیں میں چراؤں گا۔۔۔ میں یہ روپیہ چوری کروں گا۔۔۔ (گھبرا کر) کون طفیل تم۔۔۔۔

طفیل : ہاں بڑے بابو میں

اکبر: تم۔۔ تم۔۔ یعنی تم

طفیل: دروازے کے پیچھے سے آپ کی باتیں سن رہا تھا

اکبر: سن رہے تھے۔ سب باتیں سن رہے تھے۔ سب باتیں جو ہم اپنے آپ سے کر رہے تھے

طفیل : جی ہاں

اکبر: کسی سے کہنا نہیں

طفیل : (ہنستا ہے) کہنا نہیں۔۔۔ اتنی بڑی بات اور کسی سے نہ کہوں

اکبر: مگر مگر طفیل

طفیل : طفیل نہیں۔۔۔ مسٹر طفیل

اکبر : مسٹر طفیل

طفیل : اب آپ کو معلوم ہو گا کہ مسٹر طفیل کیا چیز ہے

اکبر : مگر تم تو۔۔ تم تو بڑے سیدھے سادے بڑے فرمانبردار ہو

طفیل : (ہنستا ہے) فرمانبردار۔۔۔۔ ابھی کچھ دیر میں دیکھنا کیسی فرمانبرداری کرتا ہوں

اکبر : مجھے معاف کر دو۔۔ میری عزت

طفیل : آپ کی عزت۔۔ آپ کی عزت کی خاطر اپنے چانس کو چھوڑ دوں۔ جس وقت یہ خبر یہ اتنی بڑی خبر بوس کو پہنچاؤں گا تو۔۔ فوراً فوراً اسپیشل انکریمنٹ

(ٹیلی فون کی گھنٹی)

اکبر: ہیلو ہیلو میں اکبر بول رہا ہوں

آفتاب : ابو

اکبر: آفتاب

آفتاب : آپ نوکری سے استعفیٰ دے دیجئے

اکبر: ایں

آفتاب : مجھے کمپنی کی طرف سے انکل نے لون دلوا دیا ہے

اکبر: لون

آفتاب : جی ہاں۔۔۔ زمینوں کے لئے۔۔ زمینوں کی نئی زندگی کے لئے

اکبر : کیا واقعی؟

آفتاب : ابھی resignation لکھ کر دے دیجئے۔ میں چیک لے کر بینک جا رہا ہوں

(ریسیور رکھنے کی آواز)

اکرم : (داخل ہوتا ہے) آداب عرض

اکبر : آپ

اکرم : مجھے پہچانا نہیں آپ نے۔۔۔ یہ میرا کارڈ ہے

اکبر: اکرم طور نمائندہ فرینڈز اینڈ کو

اکرم : آپ کے ساتھ چار ٹریکٹروں کے لئے کراسپانڈینس ہو رہی تھی نا

اکبر: مگر یہ اچانک اس وقت

اکرم : آپ کے صاحبزادے کو روپیہ مل گیا ہے اس لئے پہلی فرصت میں

اکبر: روپیہ مل گیا ہے آفتاب کو۔۔۔ مگر آپ کو کیا معلوم۔۔۔ اور اس قدر جلد

یعنی ابھی ابھی تو اس کا فون۔۔۔ کیوں طفیل

طفیل : ہاں بڑے بابو ابھی ابھی آپ کے صاحبزادے صاحب نے فون پر اطلاع دی تھی

اکرم : ایک سچے ایجنٹ کی یہ تو خوبی ہے کہ کسٹمر کی ایک ایک بات کی خبر رکھے۔ بلکہ خود کسٹمر کو خبر نہ ہو۔۔ ایجنٹ کو خبر ہو۔۔۔ جب ہے بات

طفیل : بڑے ہی کمال کے ایجنٹ ہیں آپ

اکرم: تو آج کنٹریکٹ سائن ہو جانا چاہئیے

اکبر : ضرور ضرور۔ ہم آپ ہی کی معرفت کنٹریکٹ خریدیں گے

(ہنسی)

طفیل : بڑے بابو آپ کی زمینوں پر پہلی فصل آئے تو ہمارے پھل بھیجنے کا بھی خیال رکھئے گا۔

اکبر : ضرور۔۔ ضرور۔۔۔ چھ مہینے کا اناج تمھارے گھر میں بھروا دیں گے۔

طفیل : بڑی بڑی مہربانی بڑے بابو

اکبر: چھ مہینے چھ سنہری مہینے۔۔ سنہری بالیاں گندم کی۔۔ زمین زمیندار کی نئی زندگی۔۔ اپنی زمین۔۔ اپنی فصلیں۔۔ اپنے کھیت گاؤں۔۔ میرے خوابوں کی بستی۔۔۔ جہاں سادگی ہے۔۔ معصومیت ہے۔۔ محبت ہے۔۔۔ گھنے درختوں کی چھاؤں۔۔۔ اب کیا نہیں ہو گا میرے لئے۔۔۔ سب ہی کچھ تو ہو گا۔۔۔ جو زمین سے پیار کرتے ہیں آسمان ان سے پیار کرتا ہے۔۔ دھرتی جو ماں کی مامتا ہمیں دیتی ہے۔۔ اب میں دور چلا جاؤں گا۔۔ اس زندگی سے دور جو مجھے پسند نہیں۔

وہاں گھنے درخت ہیں، مویشیوں کے گلے ہیں، بانسری ہے، پنگھٹ ہے، پنگھٹ پر لہراتے ہوئے آنچل ہیں۔۔۔

(گنگناتا ہے)

٭٭٭

ماخذ:

https://raisfroughe.wordpress.com/ / تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

پی ڈی ایف فائل

ٹیکسٹ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل