FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

کامیاب مدرس کی خصوصیات

 

 

                نا معلوم

 

 

آج کل دینی مدارس و جامعات کے طلبہ و طالبات ہوں یا اسکول و کالج و یونیورسٹیز کے اسٹوڈنٹ سب ہی کے بارے میں یہ شکایت زبان زد خاص و عام ہے کہ ان میں مطلوبہ استعداد و قابلیت پیدا نہیں ہو رہی، ماضی کی طرح رہے، علوم کے ماہرین دن کو چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے، قحط الرجال کا دور ہے، طلبہ تحصیل علم میں محنت نہیں کرتے، دلچسپی نہیں لیتے، روز بروز انحطاط بڑھ رہا ہے، نہ صرف یہ کہ طلبہ میں احساسِ زیں نہیں ہے۔ بلکہ ان میں اکثر کا کوئی مقصد ہی نہیں ہوتا … وغیرہ وغیرہ۔

اس علمی انحطاط اور صلاحیتوں کے ضیاع کا سارا ملبہ طلبہ و طالبات ہی پر گرایا جاتا ہے۔ اساتذہ، انتظامیہ اور والدین کی جانب سے طعن و تشنیع کا ہدف بھی صرف اور صرف یہی مخلوق بنتی ہے۔۔

ہم ایک حد تک ان باتوں کی سچائی تسلیم کرتے ہیں کہ طلبہ میں ماضی کی طرح علم کی محبت و حرص، بلند ہمتی اور مستعدی، تحصیل علم کے لیے اخلاص و قربانی، اساتذہ کی تعظیم اور تعلق، تحصیل علم کے لیے سفر، ماہرین فنون کی تلاش اور ان سے استفادے کا شوق، مقصد اور ہدف پر نظر ان سب کا فقدان دیکھنے میں آرہا ہے۔ اس صورت حال میں طلبہ کے غیر ذمہ دارانہ رویے کو مکمل طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، لیکن اس حقیقت کا ایک دوسرا رخ بھی ہے، جس پر غور کرنے کے لیے میں قارئین کو دعوت فکر دے رہا ہوں۔ وہ یہ کہ کیا ہم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ یہ کمزور طلبہ (جو بعد میں کمزور اساتذہ بنتے ہیں ) کہاں سے پیدا ہو رہے ہیں ؟ ان کو پڑھانے والے اساتذہ کون ہیں ؟ کن صفات کے حامل ہیں ؟ کیا وہ تدریس کا حق پوری طرح ادا کرتے ہیں ؟ کیا وہ علمی امانت کو طلبہ میں منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ؟ کیا وہ ہر لحاظ سے کامل و مکمل ہیں ؟ وہ محترم ضرور ہیں لیکن! کمزوریوں سے مبرأ اور تنقید سے بالاتر نہیں ، اسی لیے میں یہ سوال کر رہا ہوں کہ کیا طلبہ کی ان کمزوریوں کی ضمیر ان حضرات کی طرف نہیں لوٹتی؟ کیا یہ طبقہ طلبہ کی کمزوریوں کی ذمہ داری سے بالکل مبرّا ہے؟

حالانکہ یہ اصول مسلم اور مشاہد ہے کہ استاذ قابل ہو تو شاگرد بھی قابل، استاذ کمزور تو شاگرد بھی نالائق، اور دنیا میں یہ بات بھی مجرّب و مشاہد ہے کہ جب بھی کوئی انسان، کسی عبقری اور قابل و ماہر شخصیت سے متاثر ہوتا ہے۔ تو اُس سے یہ نہیں پوچھا کرتا کہ جناب بتائیے : آپ نے کون سی کتاب پڑھی ہے؟ لیکن یہ سوال اس سے ضرور کرتا ہے کہ آپ کا استاذ کون ہے؟ اس طرح سوال کرنے کی وجہ یہ ہے کہ انسان کے اندر کمال استاذہی سے پیدا ہوتا ہے، محض کتاب سے نہیں ، لہٰذا طلبہ کی علمی و عملی کمزوریوں اور انحطاط کا ذمہ دار خود انہیں کو ٹھہرانا اور معلمین کو اس سے مکمل طور پر بری الذمہ قرار دینا کسی طرح قرین انصاف نہیں ، اگر ہم طلبہ سے یہ گلہ کرتے ہیں کہ ان میں ماضی کے طلبہ جیسے اوصاف نہیں تو یہ کہنا بھی حق بجانب ہوگا کہ اس دور کے اکثر اساتذہ بھی دور سابق کے اساتذہ کے اوصاف سے تہی دست ہیں !

یہ حقیقت ہے کہ معلّم انبیاء علیہم السلام کا نائب و وارث ہے۔اساتذہ کرام پہلے اس امر کا احساس کریں اور پختہ عقیدہ رکھیں کہ تعلیم ایک ربّانی عمل ہے۔ حق تعالیٰ نے سیدنا آدم علیہ السلام کو أسماء کی تعلیم دی اور قلم کے ذریعہ سے انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔ اساتذہ اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ درس و تدریس بڑا مقدس مشغلہ ہے کیونکہ یہ تمام انبیاء علیہم السلام کا مشغلہ رہا ہے۔ رسول اﷲ ﷺ کو معلم بنا کر بھیجا گیا۔ علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں۔ تعلیم بہترین مورثین کی اعلیٰ میراث ہے۔ مدرس و معلم معمولی انسان نہیں ، ان کو چاہیے کہ کبھی بھی اپنے آپ کو حقیر نہ سمجھیں چند ہزار روپے کا ملازم و نوکر نہ سمجھیں۔ جب معلم اپنے اس عظیم منصب کا احساس کرے گا تو اپنے اعمال و اخلاق بھی اس جیسے اپنائے گا، اور اس کے اندر فکری بلندی پیدا ہوگی۔ سچا جذبہ پیدا ہوگا، محض تنخواہ و ملازمت اس کا ہدف و ترجیح نہ ہوگی۔

علمی قابلیت و صلاحیت کو بڑھاتے رہنا اساتذہ کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ جو کتاب و فن آپ کو پڑھانے کے لیے سپرد کی جائے، اس سے متعلقہ مطلوبہ تمام معلومات طلبہ کو فراہم کیجیے۔ یہ تب ہو سکتا ہے کہ پہلے آپ خود اس سے مالا مال ہوں۔ اگر آپ خود محروم ہیں تو طلبہ کو کیا دیں گے؟ کیونکہ بدیہی بات ہے کہ انسان کے پاس جو چیز موجود نہ ہو وہ دوسرے کو نہیں دے سکتا۔ (فاقد الشیء لا یعطیہ )

علماء و طلبہ میں تخصّصات کا رجحان و اہمیت اسی نکتے سے پیدا ہوا۔ کیونکہ کسی فن میں تخصص کرنے سے انسان اس فن کی جملہ معلومات کا حامل بن جاتا ہے۔ اس فن کے نشیب و فراز سے خوب واقف ہو جاتا ہے۔ اس سے وہ فن قابو میں آجاتا ہے۔ پھر وہ ماہر فن جس اسلوب و پیرائے میں چاہے اپنا فن پڑھا، سمجھا سکتا ہے۔علم کے حریص طلبہ کو ایسی شخصیات کی تلاش رہتی ہے اور وہ اسی کا رخ کرتے ہیں۔(علّمہ شدید القویٰ )

تدریس کے لیے مفوضہ فن میں قابلیت اور معتدبہ معلومات کے ساتھ ساتھ مدرس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ مباحث کا مربوط انداز میں تجزیہ یعنی ہر بحث کو دوسرے سے جدا ممتاز کر کے پڑھائے، سبق میں موجود مضامین کا ابلاغ منظم اور مرتب طریقے سے ہو اگر مضامین اور معلومات بکھری ہوئی ہوں تو انہیں ضبط کرنا بلکہ سمجھنا ہی طلبہ کے لئے دشوار ہو جائے گا۔ خلط مبحث اور موضوع سے ہٹ کر بات کرنا، بات کو الجھا دیتا ہے جس سے سبق سمجھ میں نہیں آتا۔

طرز تدریس یہ ہونی چاہیئے۔

۱- کتاب کی مشکل مباحث کو سادے الفا ظ میں اور اختصار کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کریں۔

۲- تعبیر کے لئے عمدہ دل نشین کریں اور واضح طریقہ اختیار کریں۔

۳- کتا ب کے حل کرنے میں قطعاً تسامح سے کام نہ لیا جائے۔

۴- حل کتاب کے بعد فن کی مہمات پر طلبہ کو متوجہ کیا جائے۔

۵- جس مشکل کی شرح کسی نے عمدہ کی ہے اس کا حوالہ دیا جائے اور طلبہ کو ان مآخذ سے روشناس کرایا جائے تا کہ مستعد و ذہین طلبہ اپنی معلومات کو آگے بڑھا سکیں۔

۶- فضول و بیکار مباحث میں طویل طویل تقریر کر کے طلبہ سے دادِ تحقیق حا صل کرنا یہ تدریس کا سب سے بڑا فتنہ ہے۔اس کو ختم کرنا چاہیے۔ علا مہ ابن خلدون رحمہ اللہ فرما تے ہیں :معلم کو چاہیئے کہ طلبہ کو بعد کی با تیں پہلے نہ پڑھائیں اس طر ح کر نے والے طُرق تدریس سے نا واقف ہیں۔

 

                معلّم کا ہدف متعین اور واضح ہو

 

عمل خواہ کوئی بھی ہو اس میں تعین اہداف کو بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے، پڑھاتے وقت مدرس کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کا ہدف متعین اور انتہائی واضح ہو، ہدف واضح نہ ہونے کی صورت میں سبق یا اپنی بات سمجھانا ناممکن ہے، مدرس کی سرگرمیوں کی سمت ایک ہو۔ وہ بکھری ہوئی نہ ہوں ، اور ہدف تک کامیابی سے پہنچنے کے لیے طالب علم میں جذبہ پیدا کرتے ہوں۔ کامیابی و ناکامی کا معیار مقرر ہو۔

                پڑھا نے سے قبل اپنے شا گردوں کی صلاحیتوں کا معیار اور ان کی فکری خصائص کو پہچا۔ نیں

 

معلّم جب پہلی مرتبہ درس گاہ میں داخل ہوتا ہے تو ایک نئی مجہول دنیا سے اس کا واسطہ پڑتا ہے، اگر اساتذہ پڑھانے سے قبل اپنے طلبہ کی عمری، فکری اور دیگر صلاحیتوں کا جائزہ لے لیں اور انکی نفسیا ت معلوم کریں۔ تو بڑی حد تک تعلیمی مشکلات پر قابو پا سکتے ہیں۔

معلّم کو چاہیئے کہ وہ پڑھا نے سے قبل درسگاہ میں موجود مجہول دنیا کو معروف بنائے ۔ ہر طالب علم سے ان کا مختصر تعارف پوچھے ان سے عبا رت پڑھوائے اس طرز عمل سے معلم اور طلبہ کے درمیان سے اجنبیت کی وحشت ختم ہو جائے گی ۔ خاص کر نئے داخل ہونے والے کو مانوس کیا جائے کیونکہ ہر نیا آنے والا انسا ن دہشت اور خوف میں مبتلا ہو تا ہے ۔ اس کو بار بار بنظر استعجا ب بھی نہ دیکھا جائے اس سے وہ شرمندگی محسوس کرتا ہے۔

                اسبا ق اچھی طرح تیار کیجئے

 

سبق پڑھانے کی اچھی طرح تیاری ہی وہ عمل ہے جس کے ذریعہ مدرس مطلوب ہدف تک رسائی حاصل کرتا ہے، باالفاظ دیگر کامیاب مدرس بنتا ہے اور جس طرح چاہے سبق سمجھا سکتا ہے۔

اپنی کسی بھی ذمہ داری کیلئے پوری تیا ری نہ کرنا اس ذمہ داری سے نفاق کے مترادف ہو تا ہے ۔ قرآن کریم میں سورۃ تو بہ میں اللہ جلّ شانہ منافقین کی جملہ خصا ئل میں سے یہ خصلت بھی ذکر فرماتے ہیں {ولوأرادوا الخروج لأعدو الہ عدّۃ} اگر یہ منافقین جہا د میں نکلنے کا سچا ارادہ رکھتے تو اس کی تیا ری بھی کرتے۔

معلّم کا درس کے لئے صحیح تیا ری نہ کرنا تدریسی عمل کے ساتھ نفاق ہے جس کا نقصان طلبہ سے زیادہ خود معلّم کو ہوتا ہے ۔

                معلّم دو قسم کی تیا ری کریں

 

۱-پہلی تیا ری خود سمجھنے کے لئے اور اپنی معلو ما کو بڑھا نے کے لئے۔

۲- دوسری تیا ری سبق کو مربوط بنانے اور سہل ، موثر انداز میں طلبہ کے سامنے پیش کرنے کے لئے۔

یقول المتنبی:

ولم أر فی عیو ب الناس عیباً

کنقص القا درین علی التمام

میں نے لو گوں کے عیوب میں سے اس سے بڑا کوئی عیب نہیں دیکھا ، کہ ایک کام کو اچھی طرح مکمل کرنے پر قدرت رکھنے کے با وجود اسے ناقص و نا تمام چھوڑ جا تے ہیں۔متنبی اس شعر سے فکری بلندی کی دعوت دیتے ہیں کہ علم و فضل میں بلکہ ہر کام میں کمال ،اونچا مقام ہدف بنا یا جائے۔اور اس میں اپنے زمانے کے کم ہمت لوگوں کو دیکھنے کے بجائے ماضی کے بلند ہمت اور پر عزم عبقری شخصیات کی طرف دیکھیں۔

 

                تدریس کے لئے منا سب اور مفید طریقے اختیار کریں۔

 

تدریس کے مختلف طریقے ہیں ، ان میں سے ایک ہی طریقہ ہر حالت اور ہر ماحول کے لیے مناسب نہیں ہوتا، بلکہ آپ مختلف اوقات اور احوال کے مطابق مفید سے مفید تر طریقہ اختیار کرسکتے ہیں۔ مروجہ طرق میں سے کوئی طریقہ حتمی اور مخصوص نہیں ہے کہ جس پر اصرار کیا جائے، اصل مقصود طالب علم کو سمجھانا اوراسے فائدہ پہنچانا ہے۔ اس کے لئے کوئی بھی طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے طالب علم کے لئے سب سے مفید طریقہ وہ ہو تا ہے جس طریقہ سے وہ سبق سمجھ سکے اور استاذ کے لئے بھی بہتر طریقہ وہی ہے جس سے وہ آسانی کے ساتھ اپنا سبق سمجھا سکیں۔

معلم کو بھی چاہیے کہ طالب علم کو سمجھا نے کے لئے اسھل اور احسن طریقہ اختیار کرے۔

                عام طرز سے ہٹ کر اپنی تدریس میں جدّت پیدا کریں

 

تدریس کے لیے آپ کا ہمیشہ ایک ہی طریقہ اور اسلوب اپنانا ایسی چیز ہے جو طلبہ کو سُستی اور پریشانی میں مبتلا کر دیتی ہے اس لیے آپ ہر سبق پڑھانے کے لیے نیا اسلوب و طریقہ اختیار کریں۔

ایک خاص انداز سے معلم کا سبق شروع کرنا اور ختم کرنا طلبہ میں اکتاہٹ و ملال پیدا کرتا ہے۔ استاذ کو چاہیے کہ وہ شوق دلانے والے انداز سے سبق کی ابتدا کریں۔ہمیشہ معمول کے یہ الفاظ ’’ہاں بھائی! کتاب کا فلاں صفحہ کھولو۔۔‘‘ کہنے کے بجائے، سبق کبھی قصے سے شروع کریں ، کبھی سوال پوچھنے سے ابتدا کریں اور کبھی وسائل تعلیم میں سے کوئی وسیلہ استعمال کرنے سے ابتداء کریں … تاکہ طلبہ نشاط میں رہیں ،وہ آپ کے آنے کا خوشی سے انتظار کریں ، انسان کی فطرت ہے کہ وہ ہر نئی چیز میں لذت محسوس کرتا ہے۔ ’’کلّ جدیدٍ لذیذٌ‘‘ کی کہاوت تو مشہور ہے۔

                اپنے درس کو نافع بنائیے

 

جب آپ دیکھیں کہ طلبہ پریشانی کا شکار ہیں تو سبق کے لیے بنایا ہوا تیار منصوبہ ترک کر دیں ، کیونکہ اصل ہدف تکمیل درس نہیں ، بلکہ اصل ہدف طلبہ کو فائدہ پہنچانا ہے، اسی لیے ہنگامی طور پر آپ کوئی اور اسلوب اختیار کر لیں۔ مثلاً کوئی قصہ شروع کر دیا، کیونکہ قلوب اس کی طرف زیادہ مائل ہوتے ہیں۔ یا جائز مزاح،یا لطائف و ظرائف شروع کر دیں تاکہ ملال ختم ہو کر نشاط پیدا ہو جائے، کیونکہ جیسے ابدان تھکتے ہیں اسی طرح قلوب بھی اُکتا جا تے ہیں :

طلبہ میں نشاط پیدا کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ان سے بھی کام لیا جائے، یہ نہیں کہ استاذ ہی پڑھے یا پڑھائے اور طلبہ صرف دیکھتے ہی رہیں۔ آج کل یہی ہو رہا ہے کہ استاذ سب کچھ خود ہی کرتا ہے، اور طالب علم صرف دیکھتے ہی رہتے ہیں۔ بلکہ بعض تو ذہنی اعتبار سے غائب ہو جا تے ہیں ،عالم تصورات میں مختلف خیالات میں گم ہوتے ہیں۔

 

                طلبہ میں پڑھنے کا جذبہ بیدار کریں

 

آپ بے ذوق طلبہ میں علم کا جذبہ پیدا کر سکتے ہیں۔ یقین جانیے کہ یہ کوئی محال امر نہیں ہے۔ اس کے کئی طریقے ہیں :

1- ایک یہ کہ ایسے طلبہ کو بڑے اور اونچے اہداف و مقاصد کے ساتھ جوڑ دیں۔

2- ان کی حوصلہ افزائی کریں۔

3- انہیں ہمّت دلائیں۔

4- اہداف کی تحدید و تعیین کریں۔

5- محنت کرنے والوں کی ستائش کریں۔

6- ان میں خوداعتمادی پیدا کریں۔

7- اسلاف کی علمی و عبقری شخصیات کے واقعات سنائیں۔

8-  ان کو علم کا چسکہ لگا دیں ،اسلاف رحمھم اللہ کا طرز یہی تھا ،وہ زیادہ پڑھانے کی بجائے علم کی بیماری لگا تے تھے،راستہ بتا تے تھے۔

معلم کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ طلبہ کو اپنی علمی کمزوریاں دور کرنے اور اپنے زمانے کے تقا ضوں کو سا منے رکھ کر مکمل طور پر علمی و روحانی ہتھیا رسے مسلح ہونے کی تا کید کریں۔

بسا اوقات معلم میں خود کوئی علمی کو تا ہی پا ئی جا تی ہے ، جسے وہ چھپاتا ہے ، اور کا مصداق بن کر اس موضوع پر طلبہ سے بات ہی نہیں کر تا ، بلکہ طلباء کو ان نقائص میں بھی اپنے نقش قدم پر چلا نا چاہتا ہے ، انصاف یہ ہے کہ معلم صاف الفا ظ میں طلبہ سے کہہ دے کہ میرے اندر یہ کمی رہ گئی ہے۔آپ لوگوں میں یہ نہیں ہونی چاہیے۔ سقراط نے کیا ہی خوب فر ما یا ہے:

لا تکرھوا أولا دکم علٰی اٰثا رکم

فا نھم مخلوقون لزمان غیر زما نکم

اپنی( صلبی و روحانی) اولا د کو ہر چیز میں سو فیصد اپنے نقش قدم پر چلنے کیلئے مت مجبور کرو ، اس لئے کہ یہ لوگ ایسے زمانے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں جس کے تقاضے تمہارے زمانے کے تقا ضوں سے مختلف ہیں۔اس طرح کرنے سے گو یا کہ آپ ان کو پیچھے کی طرف دھکیل رہے ہیں اور زمانہ ان سے آگے بڑھ رہا ہے خاص طور پر درج ذیل کمزوریاں جو عام مشاہدے میں آرہی ہیں ،ان کے از ا لے کی خاص تا کید کریں۔

1 – طلبہ کو تا کید کریں کہ وہ عربی لہجہ میں تجوید کے سا تھ درست قرآن پڑھنا سیکھ لیں ، ایسا نہ ہو کہ کل یہ فارغ ہو کر شیخ الاسلام والمسلمین کہلا ئیں ۔ وعظ ،تدریس،و افتاء جیسے عظیم مناصب پر فائز ہو جائیں ، لیکن جب قرآن پڑھیں تو اسے لحن جلی ، و خفی کے ارتکاب سے قرآن کہنا ہی مشکل ہو جائے!

2 – عربی تحریر و تقریر میں قدرت و ملکہ پیدا کریں ، عالم دین کو عربی نہ آنا بڑی عیب کی بات ہے۔

3 – اردو تقریر و تحریر میں بھی کما ل پیدا کرلیں ، ہمارے ملک پاکستان کی قو می زبان ہو نے کی وجہ سے تبلیغ دین کا ذریعہ ہے۔

4 – بقدر ضرورت تھوڑی بہت انگریزی لکھنا ، پڑھنا بھی ضرور سیکھیں۔

5 – خوشخطی املا و ترقیم کو اصولوں کے سا تھ سیکھیں۔

6 – مضر اثرات سے بچتے ہوئے کمپیوٹر کا صحیح استعما ل بھی سیکھیں ، تا کہ بوقت ضرورت مکتبات وموسوعات عربیہ اور جدید علوم سے اپنی معلومات آگے بڑھا سکیں۔

7 – طُرق دعوت و ارشاد سے واقفیت حا صل کریں تا کہ یہ تقریراً و تحریراً مؤثر انداز میں اسلام کی ترجمانی کا فریضہ انجام دے سکیں۔

8 – تاریخ وسیرت کے مطالعہ کی بھی تا کید کریں ، تا کہ قدیم وجدیدسے با خبر ہو کر امت مسلمہ کی صحیح رہنما ئی کا فریضہ انجام دے سکیں۔

9 – ان کو اعتدال اور وسطیت اپنا نے کی تعلیم دیں ،جو دین اسلام کی امتیازی خصوصیت ہے {وکذالک جعلنا کم أمۃ وسطاً} غلو سے بچنے کی تا کید کریں جو یہود و نصاریٰ کا وصف خاص اور ان کی گمراہی کا اصل سبب ہے {یا أھل الکتا ب لا تغلوا فی دینکم} امت میں موجود تمام دینی و عملی فتنے اہل علم کے غلو سے پیدا ہوئے ہیں اسلام کے تمام احکا مات (اعتقادات ،عبا دات ،معاملات، اخلاقیات وغیرہ) میں وسطیت مو جود ہیں امت وسط میں ہر وہ شخص داخل ہو گا جس میں نہ نصاریٰ کی طرح افراط اور نہ یہود کی طرح تفریط ہو۔

10-   ارباب مدارس وتدریس دونوں کو چاہیے کہ اپنے صلبی وارثوں کی طرح ان روحانی ورثاء (طلبہ) کی علمی ترقی کی بھی فکر کریں۔ تلک عشرۃکاملۃ

 

                آپ سبق کے لئے ایک منصوبہ بنا ئیں ، اس پر عمل در آمد کریں اور اس منصوبہ بندی میں ایک حد تک طلبہ کو بھی شریک کریں

 

منصوبہ بندی ہر کام میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے، لیکن کوئی منصوبہ اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کو باریک بینی سے نافذ نہ کیا جائے۔ اس منصوبہ میں طلبہ کو ضرور شریک کریں۔

اس سے شرعی مشاورتی نظام اور اظہار رائے کی تربیت ہوگی، اور طلبہ مقصودو مطلوب عمل میں دلچسپی بھی لیں گے کہ استشار کے عمل میں ان کو اہمیت دی جا رہی ہے۔

رسول اﷲﷺ کو حق تعالیٰ نے یہی حکم دیا: {وشاور ھم فی الأمر}(ان سے مشاورت کیا کریں )

مو منوں کی صفت میں ارشا د فرما یا :

{وأمرھم شوریٰ بینھم }(اور ان کا معاملہ آپس میں مشاورت سے طے ہوتا ہے)

قرآن کریم میں ایک سورۃ کا نام بھی سورۃ الشوریٰ ہے

 

                معلم محض پڑھا نے والا نہیں ، مربی بھی ہے

 

استاذ کی صرف یہ ذمہ داری نہیں کہ وہ طلبہ کے ذہنوں کو کتابی معلومات سے بھر دے بلکہ آپ معلم ہو نے کے سا تھ ساتھ مربی بھی ہیں ، آپ کو چاہیے کہ آپ طالب علم کو فنی معلومات بہم پہنچانے کے ساتھ ساتھ اس کی عقلی، روحانی، جسمانی اور اصلاحی پہلوؤں پر بھی نظر رکھیں اور اس کی شخصیت سازی کریں ، شریعت کا پابند بنا دیں ، ان کی کمزوریوں کی نشاندہی کریں اور اس کے اصلا ح کے طریقے بھی بتائیں۔

{وَلٰكِنْ كُوْنُوْا رَبّٰـنِیّٖنَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْكِتٰبَ وَبِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ   ؀}

بلکہ وہ تو کہے گا کہ تم سب رب کے ہو جاؤ ، تمہارے کتاب سکھانے کے باعث اور تمہارے کتاب پڑھنے کے سبب۔(اٰل عمران۷۹)

طلبہ کی صلا حیتوں کو پہچان کر اس کی استخرا جی صلاحیت بڑھا نے کی کو شش کریں ،صرف روٹین کے اسبا ق پر منجمد نہ رکھیں :

جیسے کہ ابھی ہم نے عرض کیا کہ استاذ مربی بھی ہے۔ لہٰذا وہ ہر پہلو پر نظر رکھے گا، آپ اس پہلو پر بھی نظر رکھیں کہ طلبہ میں بڑی بڑی صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں ، اور ان میں بہت سے شیر خفتہ ہوتے ہیں ، ان صلاحیتوں کو باہر لا کر نقص کو دور کریں ، ان میں نکّھار پیدا کریں اور ان کو اپنی صلا حیتیں اہم کا موں میں استعما ل کرنے کے طریقے بتا ئیں۔

{ وَسَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْهُ }

اور آسمان و زمین کی ہر ہر چیز کو بھی اس نے اپنی طرف سے تمہارے لئے تابع کر دیا ہے۔(الجاثیہ۱۳)

{كُلًّا نُّمِدُّ هٰٓؤُلَاءِ وَهٰٓؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّكَ وَمَا كَانَ عَطَاءُ رَبِّكَ مَحْظُوْرًا   ؀}

ہر ایک کو ہم بہم پہنچائے جاتے ہیں انہیں بھی اور انہیں بھی تیرے پروردگار کے انعامات میں سے۔ تیرے پروردگار کی بخشش رکی ہوئی نہیں ہے۔(بنی اسرائیل۲۰)

 

                امتحانات بھی بڑی اچھی شکل میں با ضا بطہ ، منصفانہ ہو نے چا ہئیں

 

تحریری امتحان تو کسی حد تک باضابطہ ہی ہوتا ہے، البتہ اگر امتحان تقریری (شفوی) ہو تو ممتحن کو چاہیے کہ امتحان آسان سوالوں سے شروع کرے تاکہ طالب علم کے دل سے امتحان کا اور ممتحن کا رعب و خوف ختم ہو جائے۔اور وہ آسانی سے اپنے ما فی الضمیر کا اظہار کر سکے۔

تقریری امتحان میں طالب علم سے علیک سلیک کے بعد طالب علم سے نرمی کا برتاؤ کریں ، امتحان کی ابتدا ء آسان سوا لوں سے کریں اور کچھ تشجیعی اور حوصلہ افزاء کلمات بھی استعمال کریں ، خاص طور پراس وقت اس کا اہتمام کریں جب اس پر امتحان کا خوف طاری ہو۔

تقریری امتحان میں ایک طالب علم کا امتحان اس کے دوسرے ساتھیوں کے سامنے نہ لیں ، اگر وہ مزاجاً شرمانے والا ہو تو اس سے اور بھی زیادہ اجتناب کرنا چاہیے۔

تقریری امتحان کے دوران طالب علم کو ڈانٹنے ۔ مارنے اور اسے مرعوب و خوف زدہ کرنے سے بالکل اجتناب کریں ۔ خوشگوار ما حول میں آزادانہ انداز سے انصاف کے ساتھ امتحان لیں۔ پہلے سے کبھی بھی دل میں یہ طے نہ کریں کہ بس مجھے تو ان سب کو فیل ہی کرنا ہے،کیونکہ اس قسم کی نیت اور ارادہ کے ہوتے ہوئے انصاف پر عمل نہیں ہو سکتا۔ (انما الأ عما ل با لنیات یعنی اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے)

{واللّٰہ خبیر بما تعملون }

اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔

 

                آسانی برتیں ، سختی نہ کریں

 

فن تدریس سے نا آشنا معلم کا یہ خیال ہوتا ہے کہ اس کی تعلیمی کامیابی صرف اور صرف طلبہ پر سختی کرنے میں ہی مضمر ہے، چنانچہ وہ پڑھانے میں بھی سختی برتتا ہے، طلبہ کو طاقت سے بڑھ کر کام دیتا ہے۔ امتحان بھی سخت لیتا ہے، دھمکیاںں بھی دیتا ہے، اور اسے کمال سمجھتا ہے، حالانکہ کامیاب مدرس وہ ہوتا ہے جو اپنے طلبہ کا ہاتھ پکڑ کر اور ان کو بتدریج علمی مراحل سے گزارے۔ آسانی کی طرف میلان انسانی فطرت و طبیعت ہے۔

غور فرمائیں ! حق تعالیٰ نے روزہ رکھنے کا حکم فرمایا، روزہ میں کچھ مشقت تھی تو حق تعالیٰ نے اسے نفوس پر آسان بنانے کے لیے فرمایا: {أیا ماً معدودات} یہ شمار کے چند دن ہی تو ہیں۔

قرآن کریم میں حق تعالیٰ جہاں بھی کوئی مشکل حکم فرماتے ہیں تو وہاں تخفیفات اور آسانیاں بھی بیان کرتے ہیں۔ ترغیب اور فوائد بیان کرتے ہیں ۔ حالانکہ اﷲ تعالیٰ کو آسانیاں بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں وہ حا کم وخالق ہیں ، بندوں کو اس نے پیدا ہی اسی لیے کیا ہے۔

یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ

اللہ تعالی کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے سختی وہ نہیں چاہتا۔(البقرہ۱۸۵)

{ما جعل علیکم فی الدین من حرج }

دین میں تم پر کوئی بوجھ نہیں رکھا گیا۔

(وقا لﷺ : اللّٰھم من ولی أمر أمتی شیئا ً فشقّ علیھم فاشقق علیہ ومن ولِی من أمر أمتی فرفق بھم فارفق بہٖ)

اے اللہ! جو میری امت پر حاکم بن کر سختی سے کام لے تو تو بھی اس پر سخت ہو جا اور اگر کوئی حاکم بننے کے بعد نرمی برتے تو تو بھی اس کے ساتھ نرمی برتنا۔

(یسّرو ا، ولا تعسّروا )

آسانیاں پیدا کرو مشکلات کا باعث نہ بنو۔

 

                پڑھا تے وقت ایک عا لم مدرس کی کیا شان ہونی چا ہیے ؟

 

مو لا نا أبو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ (پرا نے چراغ ) میں ماضی قریب کی ایک عظیم شخصیت مو لا نا احسن گیلانی رحمہ اللہ کے با رے میں لکھتے ہیں :

اس دورا ن قیام میں جو علمی مذاکرے ہو تے ان کی تو اس وقت کچھ زیادہ سمجھ نہ تھی اور نہ وہ محفوظ ہیں۔بس اتنا یاد ہے کہ ان کی با توں سے یہ احسا س نہیں ہونے پا تا تھا کہ کوئی شخص علم کے فلک چہا رم سے اہل زمین کو خطا ب کر رہا ہے ، یا کوئی عالم نشست گا ہ کو درس گا ہ تصور کر کے سا معین کو درس دے رہا ہے۔ان سے مل کر ہم کو وہ دوری اور پستی نہ محسوس ہو تی جو مبتدی طالب علموں کو بڑے علما ء واساتذہ سے مل کر محسوس ہوا کرتی ہے۔دیکھنے میں یہ بات معمو لی ہے مگر بڑی غیر معمولی ہے، جس طرح بعض نو دولت حکام کو یہ مرض لا حق ہو جاتا ہے کہ وہ ہر جگہ یہاں تک کہ اپنے گھر میں اور اپنے بے تکلف احباب کے حلقہ میں بھی اپنے کو حاکم سمجھتے رہتے ہیں ، اسی طرح بعض علما ء اور ادباء اس کمزور ی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ وہ ہر وقت اپنے کو معلم و مصلح یا ادیب و نقاد سمجھنے لگتے ہیں ، اور درسگاہ اور مسند درس کا تصور ان سے کبھی جدا نہیں ہو تا۔ مو لا نا کی مجلس میں بڑا انبسا ط تھا اور علمی ودرسی اصطلاح میں تنزل بھی تھا، لطائف بھی تھے ، واقعات بھی تھے ،اور چیدہ منتخب اشعار بھی اور وہ بھی ترنم کے سا تھ ، دل نوازی اور شفقت بھی تھی ، اور علمی و تحقیقی شا ن بھی ،اور یہ سب اسی لطافت روح اور سبک جانی کا نتیجہ تھا ،جو ان کو عطا ہو ئی تھی اور اس بات کا ثبوت کہ علم ان کا ایسا جزو بدن ہو گیا تھا کہ ان کو اس کا احساس باقی نہیں رہا تھا اس لئے اس کے موقع بے موقع اظہار کی ضرورت نہ تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے مولا نا کو اس لطافت سے خوب نوازا تھا اور اسی وجہ سے وہ اپنے حلقہ احباب میں بڑے محبوب اور اپنے حلقہ تلامذہ ومستفیدین میں بڑے مقبول تھے اور جوان کی صحبت میں ایک مرتبہ بیٹھ جاتا وہ یہ کہتا ہو اٹھتا : ’’بہت لگتا ہے جی صحبت میں ان کی ‘‘

 

                طلبہ کے انفرادی فرق کی بھی رعایت کیجیے

 

یہ بات مسلمات میں سے ہے کہ سب طلبہ ایک جیسے نہیں ہوتے، بعض ذہین، قابل اور ممتاز ہوتے ہیں۔ جن کے لیے مزید علمی رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بعض طلبہ پڑھنے میں کمزور ہوتے ہیں ، ان کو پڑھانے میں نرمی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بعض طلبہ شرمیلے مزاج کے ہوتے ہیں ، ان کے لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ دیگر ساتھیوں کے سامنے ان کی بے عزتی نہ کی جائے، جس کی وجہ سے وہ پڑھائی چھوڑ دیں۔

ان مختلف اقسام کے طلبہ کو ایک لکڑی سے ہانکنا کوئی دانش مندی نہیں ، ہر طالب علم سے اس کے حال، مزاج و قابلیت کی رعایت رکھ کر برتاؤ کیا جائے، مزاج شناسی، مردم شناسی اور موقع شناسی دعوت و تعلیم کے بنیا دی اصولوں میں سے ہیں۔

اللہ تعا لیٰ نے تمام مخلوق کو ایک جیسا نہیں بنایا۔

وَمِنْ اٰیٰتِهٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافُ اَلْسِنَتِكُمْ وَاَلْوَانِكُمْ

اس (کی قدرت) کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا اختلاف (بھی) ہے۔(الروم ۲۲)

{وَفَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٍ } (یوسف ۷۶)

ہر ذی علم پر فوقیت رکھنے والا دوسرا ذی علم موجود ہے

{تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ }(البقرہ ۲۵۳)

یہ رسول ہیں جن میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔

{وَفِی الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ}

اور زمین میں مختلف ٹکڑے ایک دوسرے سے لگتے لگاتے ہیں۔(الرعد۴)

وقالﷺ : ’’ أنزلوا النا س منا زلھم۔ ۔

’’لوگوں کو ان کے مقام و مرتبہ کے مطابق عزت دو۔‘‘

 

                طلبہ کے ساتھ برتا ؤ میں عدل و انصاف سے کام لیں

 

معلمین کی اکثریت (غیر شعوری طور پر) کلاس میں چند ممتاز اور قابل طلبہ کی طرف زیادہ توجہ دیتی ہے، اکثر کمزور طلبہ کو خاطر میں نہیں لاتے،قا بل ومستعد طلبہ کی طرف معلم کا میلان ایک فطری بات بھی ہے لیکن اس طرز عمل سے کمزور طلبہ یہ خیال کرتے ہیں کہ استاذ ان قابل طلبہ ہی کو پڑھاتا ہے،ہماری کوئی حیثیت ہی نہیں ، اس طرز عمل سے یہ طلبہ استاذ سے بدگمانی اور خود احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں ، لہٰذا بلا تفریق امیر و غریب قابل، ناقابل سب پریکساں توجہ دیں۔

جرم کرنے پر سب کو یکساں سر زنش کریں اور پڑھا تے وقت سب کو یکساں مخاطب بنائیں۔

اعدلو اھو أقرب للتقویٰ

عدل کیا کرو یہ تقوی کے بہت قریب تر ہے۔‘‘

 

کامیاب مدرس کی خصوصیات

 

                آپ کا تقرّر پڑھا نے ہی کے لئے ہوا ہے، سزا دینے کے لیے نہیں

 

ہمیشہ اس بات کا دھیان رکھیں کہ آپ مدرسے / جامعہ میں پڑھانے کے لیے تشریف لائے ہیں۔ اس لیے نہیں آئے کہ نہ پڑھنے والوں کو سزا دیں۔ یہ بات بھی یاد رکھیں کہ طالب علم کی ہر کمزوری کی ضمیر صرف اس کی طرف نہیں لوٹتی، اس کے دیگر اسباب بھی ہوسکتے ہیں ، لہذا نرمی اختیار کریں۔

آپ خود بھی طالب علم رہ چکے ہیں ، آپ کے ذہن میں آپ کے سخت استاذ کی کیا تصویر ہے؟ آپ کو اس استاذ سے زمانہ طالب علمی میں کتنی ذہنی و جسمانی اذیتیں پہنچتی رہیں اور آپ برداشت کرتے رہے۔ یہ طالب علم آپ کے متعلق بھی یہی سوچے گا، اس کے ذہن میں بھی آپ کی یہی خوفناک تصویر ہوگی،کتنے ہی ایسے طلبہ ہیں کہ بعض اساتذہ کی سختی اور نامناسب رویہ کی وجہ سے مدرسے کو خیر باد کہہ کر علم سے محروم ہو چکے ہیں۔

{کذا لک کنتم من قبل فمنّ اللّٰہ علیکم }

تم اس سے پہلے ایسے ہی تھے پس اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان کیا۔

عن عا ئشۃ رضی اللّٰہ عنھا ،قا لت: ما ضرب رسول اللّٰہﷺ شیئا ً قط بیدہ، ولا أمرأۃ ولا خا دماً

رسول معظمﷺ نے کسی بھی خادم یا عورت پر کبھی بھی ہاتھ نہیں اٹھایا۔

 

                طلبہ سے نیک شگن رکھیں اُن سے پُر امید رہیں

 

اساتذہ کی نگاہ بڑی مؤثر ہوتی ہے۔ وہ جس نظر سے اور جس گمان سے طلبہ کو دیکھے گا، طلبہ ویسے ہی بنیں گے۔ آپ طلبہ کو اس نظر سے دیکھیں کہ یہ بڑے ذہین، لائق و فائق اور با ادب ہیں۔ مستقبل میں دین کے خدام اور ہماری نجات کا سبب بنیں گے۔ ان شاء اﷲ وہ ایسے ہی ہو جائیں گے۔ بعض معلمین طلبہ کو بری طرح کوستے ہیں۔ انہیں طعنے دیتے ہیں ’’تم نالائق ہو! جاہل ہو، سست ہو‘‘۔ ان باتوں کو وہ ایک کمال سمجھتا ہے،حا لانکہ اس کا طلبہ پر برا اثر پڑتا ہے۔

بچے کی نظر میں دو شخصیتیں بڑی عظیم ہو تی ہیں ( اگرچہ فی الواقع وہ عظیم نہ ہو) ایک اس کا والد ،دوسرا اس کا استاذ۔ اگر بچے کو کوئی ما رتا ہے تو وہ جواب میں کسی طاقتور حاکم کا نام لے کر دھمکی نہیں دیتا ،بلکہ وہ یوں کہتا ہے: ’’ میں اپنے ابّو کو بتا ؤں گا، میں اپنے استاذ کو بتا ؤں گا ‘‘۔ جو طلبہ امتحان میں اول آتے ہیں اس کی وجہ یہ ہو تی ہے کہ استاذ ان کو اپنے قریب رکھتا ہے، تعریفی کلما ت کہہ کر اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

ٹھیک اسی طرح استاذ کے طعن و تشنیع ،مذمت و ملامت کا بھی برا اثر ہو تا ہے ، حالانکہ استاذ کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا ہے۔

 

                اپنی علمی ترقی کی بھی فکر کریں

 

صرف منہجی دروس سے رسمی فراغت اوررسمی تدریس پر اکتفا نہ کریں۔ بہت سے معلمین کا یہ خیال ہوتا ہے کہ ان کا رسمی طور سے فارغ ہونا اور پیشہ ورانہ انداز میں تدریس کرنا ان کے لیے کافی ہے۔ حالانکہ ابھی تو اس کی ذاتی علمی ترقی کا دور شروع ہوا ہے۔ پہلے ایک خاص نظم کا پابند تھا۔ اب صحیح معنوں میں طالب علم بنا ہے۔ انسان جتنا کم علم ہوتا ہے وہ اتنا ہی اپنے آپ کو بڑا عالم سمجھتا ہے۔ لہٰذا مطالعہ کتب اور شیوخِ علم سے ہمیشہ استفادہ کرتے رہنا چاہیے۔جو شخص اپنے بارے میں یہ خیال کرے کہ اب وہ سیکھنے سے مستغنی ہو چکا ہے ایسے شخص کو اپنی ذات پر رونا چاہیے۔

آج بہت سے جدید فضلاء کرام رسمی فراغت کے بعد اپنی ایک مخصوص و مزعوم شان بنا لیتے ہیں اور بز عم خویش اپنے آپ کو مزید تعلیم حاصل کرنے سے مستغنی سمجھ کر ہمیشہ کے لئے مبتلائے جہل رہتے ہیں۔سیدنا سعیدبن جبیر رحمہ اللہ فرما تے ہیں :

(لا یزال الرجل عا لماًما دام متعلّماً)

جب تک آدمی سیکھنے میں لگا رہتا ہے وہ عالم ہے۔

سیدنا عبد اللہ بن عبا س رضی اللہ عنہما فرما تے ہیں :

(وذلّلتُ طالباًفعزّزتُ مطلوبًا)

میں نے طلب علم میں اپنے آپ کو ذلیل کیا تو اب میں مرجع بن کر عزت بنا رہا ہوں۔

علماء نے فرما یا : (من استویٰ یوماہ فھو مبغون) وہ شخص خسارے میں ہے جس کے دو (2 ) دن معلومات میں برابر ہوں ، یعنی جو کچھ کل نہیں جانتا تھا۔ آج بھی ویسا ہی ہے۔

اس با رے میں علا مہ ابن الجوزی رحمہ اللہ کتنی بڑی ہمت اور کتنی عظیم فکری بلندی کی دعوت دیتے ہیں اور پست ہمتی اور مرعوبیت کے بت کیسے پا ش پاش کر جاتے ہیں ، فرماتے ہیں :

من أعمل فکرہ الصا فی دلّہ علی طلب أشرف المقامات ونھا ہ عن الرضی با لنقص فی کل حال فینبغی للعا قل أن ینتھی الی غایۃ ما یمکنہ فلو کان یتصور للآدمی صعود السموات لرأیت من أقبح النقا ئص رضاہ با لأرض۔۔۔۔ ولو أمکنک عبور کل أحد من العلما ء والزھاد فافعل فانھم کانوا رجالا وأنت رجل۔

’’ جو شخص فکر سلیم کو استعمال کرتا ہے تو یہ فکر اسے عظیم مقامات کے حصول پر اکساتی ہے اور اسے تھوڑی معلومات پر اکتفاء کرنے سے منع کرتی ہے عقل مند آدمی کو حسب امکان بلند مراتب حاصل کرنے کے لیے انتھک محنت کی ضرورت ہے اگر انسان آسمان کی بلندیوں کو چھونے کی استطاعت رکھنے کے باوجود زمین کی پستیوں میں رہنے پر اکتفاء کرتا ہے تو اس سے بڑھ کر کوئی بےوقوف نہیں ہے ، اگر آپ دنیا جہاں کے علماء و زہاد سے آگے بڑھنے کی ہمت رکھتے ہیں تو پھر دیر کس بات کی کمر باندھئے وہ بھی آدمی ہے اور آپ بھی آدمی ہی ہیں۔‘‘

علا مہ عینی رحمہ اللہ عمدۃ القا ری میں لکھتے ہیں :

وللعلم آفات : أعظمھا الاستنکاف ، وثمرتہ الجھل والذلۃ فی الدنیا والاخرۃ وسئل أبوحنیفۃ بم حصّلت العلم العظیم ؟ فقال: ما بخلت با لا فادۃ ، ولا استنکفت عن الاستفادۃ

علم کی آفات ہیں جن میں سے سب سے بڑی آفت تکبر ہے اس کا نتیجہ جہالت اور دنیا وآخرت کی ذلت میں ظاہر ہوتا ہے جب امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے ان کے عظیم علم کی بابت پوچھا گیا تو آپ نے جواباً ارشاد فرمایا: میں نے کبھی بھی نفع پہنچانے میں بخل سے کام نہیں لیا اور نہ ہی کبھی استفادہ سے تکبر کی وجہ سے پیچھے رہا۔‘‘

 

                اپنے اندر بلند ہمتی ، ۱مانت داری پیدا کریں

 

آپ جدّو جہد جاری رکھیں اور اس حوالے سے طلبہ کے لیے قابل اتباع نمونہ بنیں ! آپ طلبہ سے بہترین اخلاق اور اچھی صفات کی جتنی بھی باتیں کریں ۔ انہیں وعظ و نصیحت کریں ، جب تک طلبہ یہ چیزیں آپ کے عمل میں نہیں دیکھیں گے، ان پر وعظ کا کوئی اثر نہ ہوگا۔ فعل، قول سے زیادہ مؤثر ہوتا ہے۔ قول و فعل میں مطابقت ہونی چاہیے۔ ماضی کے نیک اساتذہ کی نیکی اسی وجہ سے طلبہ میں خودبخود منتقل ہو جاتی تھی۔

اس کو قدوۃ حسنہ ، أسوۃ حسنہ کہا جا تا ہے۔

{یا أیھا الذین أمنوا لم تقولون ما لا تفعلون} کبر مقتا عنداللّٰہ أن تقولوا ما لا تفعلون}

اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں۔(الصف3)

أتا مرون الناس بالبر وتنسون أنفسکم}

تم دوسروں کو تو نیکی کا راستہ اختیار کرنے کے لیے کہتے ہو ، مگر اپنے آپ کو بھول جاتے ہو ؟ (البقرہ44)

 

                تدریس کے ما بین السطورسے بھی آگا ہ رہیں

 

یہ مسلّمات میں سے ہے کہ تربیت محض طلبہ کے ذہنوں میں معلومات بھرنے کا نام نہیں ہے، بلکہ تربیت ان کی صحیح رہنمائی، اخلاق، عادات و اطوار کی تہذیب اور مطلوبہ مہارتوں کو پیدا کرنے کا نام ہے، طلبہ سبق کے علاوہ معلم کی شخصیت، سیرت، اخلاق، برتاؤ اور اس کے افکار اور معلومات فراہم کرنے کے انداز سے غیر شعوری طور پربھی بہت کچھ حاصل کر لیتے ہیں جو ان کے لئے سبق سے زیادہ اہم اور نفع بخش ہوتا ہے۔

یہ چیزیں کبھی طلبہ میں کچھ صفات پیدا کرنے کا باعث ہوتی ہیں اور کبھی ان سے بری عادات چھڑانے کا سبب بھی بنتی ہیں۔ مثلاً طلبہ۔ محنتی، بہترین اخلاق کے حامل، احساس ذمہ داری رکھنے والے استاذ سے (خواہ وہ کوئی بھی فن پڑھاتا ہو) علم کی محبت، مدرسے کی محبت اور لوگوں سے حسن معاملہ، عمل صالح، سیکھ لیتے ہیں ، معلم کو اس کا پتہ بھی نہیں ہوتا۔

اگر معاملہ برعکس ہو تو طلبہ کے اندر معلّم کی تمام بری صفات بھی منتقل ہو جاتی ہیں۔ کبھی طالب علم استاذکے علم کی بجائے ان کی شخصیت سے زیادہ متاثر ہو جاتا ہے (خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے)۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے درس میں حدیث لکھنے والے طلبہ چار پا نچ سو ہو تے تھے جبکہ ان کی سیرت و اخلاق اور زہد و اخلاص سیکھنے والوں کی تعداد ہز اروں میں ہو تی تھی۔

 

                لا أعلم کہنے میں کبھی بھی عار محسوس نہ کریں

 

بعض معلمین کی عادت ہوتی ہے کہ جب ان سے کسی ایسی چیز کے متعلق سوال کیا جائے جو ان کے علم میں نہ ہو، تو وہ ’’لا أعلم‘‘ (لا أدری)کہنے میں حرج محسوس کرتے ہیں ، اوراس کو اپنے منصب کے خلاف سمجھتے ہیں جبکہ اس میں کوئی عار محسوس نہیں کرنی چاہیے۔

ایک تو اس لیے کہ ہم پر علم اور طلبہ کی صلاحیتوں اور ان کے عقل و شعور کا احترام واجب ہے۔ اگر ایک چیز ہمارے علم میں نہ ہو تو ہمیں جواب دینے میں تکلف برتنے اور ٹالنے کے بجائے کھلے دل سے لاعلمی کا اعتراف کرنا چاہیے۔

دوسرا یہ کہ معلم پر واجب ہے کہ وہ اپنے اور طلبہ کے ذہن میں یہ بات اچھی طرح بٹھالیں کہ معلم اور طالب دونوں سے نہ یہ مطلوب ہے اور نہ ہی یہ ان کے بس میں ہے کہ وہ سب کچھ جانتے ہوں۔

بلکہ ایک مدرس کے لیے یہ جاننا لازمی ہے کہ وہ اپنے عمل کی حدود اور اقدار کو پہچان لے اور جس شے سے ناواقف ہے اس میں نہ بولے۔

لا أعلم کہنے سے معلم کی شان کم نہیں ہوتی۔یہ جا ہلا نہ خیال ہے بلکہ طلبہ کی نگاہوں میں اس کی قدر و منزلت اور بڑھ جاتی ہے کیونکہ یہ اس کی تقویٰ ،طہارت قلب، کمال معرفت اور حسن نیت کی دلیل ہے ،جو شخص ہر بات کا جواب دے فقہاء نے اسے مجنون قرار دیا ہے۔بسا اوقات انسان حاضرین کی نگاہوں میں گرنے کے خوف سے لا علمی کا اظہار نہ کر کے غلط جواب دیتا ہے چنانچہ اس کی یہ غلطی لوگوں میں مشہور ہو جا تی ہے،۔ جس کی وجہ سے وہ لوگوں کی نگاہوں میں گر ہی جا تا ہے۔ جس چیز سے بچنے کے لئے لاعلمی کا اظہار نہیں کیا، اسی میں مبتلاء ہو گیا۔

اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا {أنبؤنی بأ سما ء ھٰؤلاء}

مجھے ان چیزوں کے نام بتلا ؤ۔ فرشتوں نے ان الفاظ میں اپنے لا علمی کا اظہار کیا:

{سبحٰنک لا علم لنا الّا ما علّمتنا }

اُنہوں نے عرض کیا ’’ نقص سے پاک تو آپ ہی کی ذات ہے ہم تو بس اُتنا ہی علم رکھتے ہیں ، جتنا آپ نے ہم کو دے دیا ہے۔ (البقرہ36)

ہم تو صرف وہی جانتے ہیں جو آپ نے ہمیں سکھا یا

سیدنا عبداللہ بن عبا س رضی اللہ عنہما فرما تے ہیں :

{اذا أخطأ العالم لا أدری أصیبت مقاتلتہ}

جب عالم لا أدری نہ کہنے کی غلطی کرتا ہے تو وہ ہلاک ہو جاتا ہے۔

قرآن کریم میں سیدنا موسیٰ اور خضر علیہما السلام کے واقعہ سے اللہ تعا لیٰ نے علما ء کو یہی ادب سکھا یا ہے۔ جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا گیا:

’’کیا روئے زمین پر آپ سے بڑھ کر کوئی عالم ہے؟’’ تو انہوں نے جواب میں واللہ أعلم نہیں کہا تھا۔

معلم کو چاہیے کہ وہ اس با رے میں قرآن ۔ وسنت فرشتوں اور اسلاف کی تابعداری کریں ، مصنوعی شان کی بقاء کے لئے اس کو نہ چھوڑیں۔ آج اس انصاف کی بڑی کمی مشاہدے میں آرہی ہے۔

{قل ما أسئلکم علیہ من أجر وما أنا من المتکلفین }

 

                تعلیمی وسائل و آلات کو مؤثر انداز میں استعما ل کریں

 

رسول اﷲﷺ نے جب صحابہ کرام کو اﷲ تعالیٰ کا ارشاد:

{ وأن ھذا صراطی مستقیماً فاتبعوہ۔ ولاتتبعوا السّبل فتفرّق بکم عن سبیلہ}

’’یہ میرا راستہ جو کہ سیدھا ہے اسی کی اتباع کرو اور دیگر مختلف راستوں پر نہ چلو‘‘ (سورۃ الانعام: ۱۵۳)

سمجھانے کا ارادہ کیا تو آپ نے ایک سیدھی لمبی لکیر کھینچی! آپ نے صحابہ کرام کو سمجھایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ ’’یہ اﷲ کا راستہ ہے، صراط مستقیم ہے۔ اس کے دائیں اور بائیں جانب میں بہت سی چھوٹی چھوٹی لکیریں کھینچی، فرمایا یہ سبل ہیں (یعنی کفر و شرک اور بدعت کے بہت سے مختلف راستے ہیں ) اس سے معلم کو یہ تعلیم ملتی ہے کہ وہ طلبہ کو مشکل مبا حث اور سبق کو آسانی سے ذہن نشین کرا نے کے لئے بورڈ پر اس کے نقشے ،جدا ول بنائیں مشکل سبق کو مختصر اور آسا ن انداز میں اس طرح پڑھا ئیں کہ طلبہ کو اس کا ثقل محسوس نہ ہو۔

تعلیمی آلات کو بروئے کار لانے سے کئی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔نظری بدیہی بن جاتا ہے، معقول محسوس بن جاتا ہے، معلم تشریح و تقریر کی دماغ سوزی سے بچ جاتا ہے، معلومات ذہن میں راسخ ہو جاتی ہیں ، طلبہ کو درس کی طرف متوجہ کر دیتا ہے، بات کی وضاحت محض بولنے، تقریر کرنے کی نسبت اچھی طرح ہو جاتی ہے … لہٰذا معلم اسے فضول سمجھ کر نظر انداز نہ کریں۔

 

                بورڈ (تختہ سیا ہ یا سفید) آپ کا دا ئمی معاون ہے، اسے نظر انداز نہ کریں

 

بورڈ کا استعمال قدیم وسائل تعلیم میں سے اور تفہیم کا ایک مؤثر ذریعہ ہے جس کے استعمال سے معلّم کو کوئی زحمت نہیں ہوتی اور کوئی معلم اس سے مستغنی بھی نہیں ہوسکتا، البتہ اس کا صحیح استعمال جاننا لازمی ہے۔اگر معلّم ابتدا ئی درجوں کے طلبہ کے لئے سبق کا اجما لی خلا صہ اور اس کا نقشہ بورڈ پر لکھے اور پھر اس کی تشریح کر کے سمجھانے کی کوش4ش کریں تو یہ طریقہ بہت مفید ثا بت ہوتا ہے۔ اسی طرح استاذ درس گاہ میں داخل ہوتے ہی پہلے بورڈ پر اپنے فن کا نام لکھے اور اس کے نیچے جو کچھ پڑھا نا ہے وہ مو ضوع لکھیں پھر اس کو مثا لوں سے سمجھا کر کتا ب سے منطبق کردے،بورڈ استعمال کرنے سے معلومات ذہن میں راسخ ہو جاتی ہیں ، طلبہ درس کی طرف متوجہ رہتے ہیں بات کی وضا حت محض بو لنے تقریر کرنے کی نسبت اچھی طرح ہو جا تی ہے لہٰذا معلم اسے فضول سمجھ کر نظر انداز نہ کرے۔

 

                غصے سے اجتنا ب کریں

 

درسگاہ میں معلم کا اپنے شاگردوں پر غصے ہونا ان عوا مل میں سے ہے جو اس کے اعصاب کو مفلوج کرکے درسگاہ پر سے اس کا کنٹرول ختم کردیتا ہے اور درسگاہ، تعلیم گاہ ہو نے کے بجائے خوف و ہراس کی آماجگاہ بن جاتی ہے، بلکہ بسا اوقات معلم غصے میں آکر ایسے کاموں کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے جس کے نتائج انتہائی ناخوشگوار بلکہ بسا اوقات بھیانک ہوتے ہیں … غصہ کرنا معلم کی شکست کی علامت ہوتی ہے یا احساس کمتری کی … ’’ أوّل الغضب جنون و آخرہ ندامۃ‘‘۔ غصے کی ابتدا پاگل پنی اور اس کی انتہا پشیمانی پر ہو تی ہے ، طالب علم کے کسی نا مناسب عمل پرغصہ آناایک فطری بات ہے البتہ اس کا اظہار اور اس کے مقتضیٰ پر عمل کرنا کسی مسئلے کا حل نہیں ، اس سے صرف دلی حرارت کی تسکین ہو جاتی ہے۔

ایسی حالت میں معلّم

اَعُوْ ذُ بِا للہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ

پڑھے اور قرآن کریم کی ان آیتوں میں غور وفکر کریں۔

{وَالْکَا ظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّا سِ}(ال عمران ۱۳۴)

غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے۔

{ وَ اِذَا مَا غَضِبُوْا ھُمْ یَغْفِرُوْنَ}(الشوریٰ ۳۷)

اور غصے کے وقت (بھی) معاف کر دیتے ہیں۔

{وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ ۠ فَاعْفُ عَنْھُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَھُمْ وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ }

اور اگر آپ بدزبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے سو آپ ان سے درگزر کریں ،ان کے لئے استغفار کریں اور کام کا مشورہ ان سے کیا کریں۔(اٰل عمران ۱۵۹)

رسو ل اللہﷺ نے اپنے ایک صحا بی کو(جس نے آپﷺ سے مختصر نصیحت کی درخواست کی)ا ن الفاظ میں وصیت فرما ئی:

(لا تغضب، لا تغضب، لا تغضب )

غصہ مت کریں ، غصہ مت کریں ، غصہ مت کریں۔

درسگا ہ میں مشکلا ت پیدا کر نے والےطلبہ کے ساتھ بھی اچھا معا ملہ کریں :

ہمیں مثالی بننے کی ضرورت نہیں ، مصلح بننے کی ضرورت ہے، بگڑے ہوئے طلبہ کی اصلاح کرنی چاہیے۔

ہر درسگاہ میں دو تین طلبہ ایسے ہوتے ہیں جو معلم کے لیے درد سر ہوتے ہیں ، لیکن یہ لاعلاج بھی نہیں ہوتے۔

معلم اس کا علاج ذیل طریق سے کر سکتا ہے۔

٭ درسگاہ میں نشاط و چستی کا ماحول پیدا کیا جائے، تنگی و ملال نہ آنے دیا جائے۔

٭آپ ایسے طلبہ کی بیماری کا اصل سبب معلوم کریں کبھی اس کا سبب شرارتی طالب علم کے قریب بیٹھنا ہوتا ہے، تو اس کی جگہ تبدیل کریں۔ اپنے قریب بٹھالیں ۔ اگرسبب عدم دلچسپی ہے تو اس میں احساس پیدا کردیں۔ پٹائی کا راستہ اختیار نہ کریں اس سے آپ کے دل و جذبات کی تسکین تو ہوسکتی ہے لیکن طالب علم کی اصلاح نہیں ہوسکتی۔

بعض مدا رس وجا معات میں معمولی نوعیت کی شرا رت پر بھی طلبہ کو خا رج کردیا جا تا ہے، حا لانکہ اخراج تو آخری حل ہے اس پر اس وقت عمل کیا جائے کہ جب اصلا ح کے دوسرے تمام طریقے نا کام ہو جائیں۔

{وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِـیُهْلِكَ الْقُرٰی بِظُلْمٍ وَّاَهْلُهَا مُصْلِحُوْنَ   ؁} (ھود ۱۱۷)

آپ کا رب ایسا نہیں کہ کسی بستی کو ظلم سے ہلاک کر دے اور وہاں کے لوگ نیکوکار ہوں۔

 

                طلبہ کو علم حا صل کرنا سکھا ئیں

 

اکثر اوقات معلمین اور طلبہ کے والدین، انتظامیہ والے یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ طلبہ تکرار و مطالعہ نہیں کرتے ، یہ ایک واضح حقیقت ہے اس پر سب کا اتفاق ہے، حتیٰ کہ بسااوقات محنتی طلبہ بھی اپنی پوری قوت و صلاحیت صرف نہیں کرتے ،اس کے مختلف اسباب ہوتے ہیں ، البتہ یہاں ایک سبب ایسا بھی ہے جس کی طرف عام طور سے توجہ نہیں دی جاتی، وہ یہ کہ اکثر طلبہ یہ جانتے ہی نہیں کہ وہ کیسے علم حاصل کریں ؟ کیسے تکرار و مطالعہ کریں ؟ بجائے اس کے کہ ہم ایسے طلبہ کو ان کے قابل اور ممتاز ساتھیوں کے مرہون منت رکھیں ان کو خود طرق استفادہ، تکرار و مطالعہ اور کتاب حل کرنے کا طریقہ سمجھائیں۔

اس سے وہ خود کفیل ہو جائیں گے اور علمی ترقی کرتے رہیں گے، اس میں صرف یہ کافی نہیں ہے کہ ہم طلبہ کو ترغیب دیں ، اور ان کے سامنے اسباق اور تکرار و مطالعہ کی اہمیت بیان کریں ، بلکہ عملی طور سے ان سے مشق کرائیں ، ان کے سامنے خود کرکے بتادیں ، کہ وہ لفظ کا حل کیسے نکالیں حاصل و مطلب کیسے نکالیں ؟

بنیادی نکات کا کیسے استخراج کریں … قوامیس و کتب لغت ومعاجم کو کیسے استعمال کریں ؟ مطلوبہ معنی کیسے معلوم کریں ؟ وغیرہ وغیرہ…!

{وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ عَظِیْمًا }(النساء113)

اور آپ کو وہ کچھ سکھلا دیا جو آپ نہیں جانتے تھے،اور آپ کو وہ کچھ سکھلا دیا جو آپ نہیں جانتے تھے، یہ آپ پر اللہ کا بہت ہی بڑا فضل ہے

{وَیُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ   }

اور وہ کچھ بھی سکھلاتا ہے جو تم پہلے نہ جانتے تھے۔

{فَفَهَّمْنٰهَا سُلَیْمٰنَ }(الانبیاء79)

اس وقت ہم نے سلیمان کو صحیح فیصلہ سمجھا دیا

 

                معلوما ت کے مصادر ومرا جع کی نشا ندہی کرکے اس کی طرف طلبہ کو رجوع کر نا سکھائیں

 

بعض اہم امور جن کا حفظ طالب علم کے لیے ضروری ہوتا ہے کو چھوڑ کر دیگر معلومات کے لیے طالب علم کو اہم مراجع و کتب کی طرف رجوع کرنے کی عادت ڈلوائیں ، اور ہر موضوع پر اہم مراجع اور أمہات کی نشاندھی کریں ، تاکہ بوقت ضرورت وہ ان سے استفادہ کرکے اپنی معلوما ت مزیدبڑھا سکیں۔

الدّال علی الخیر کفاعلہ

نیکی کے بارے میں راہنمائی کرنے والے کو بھی اتنا اجر ملتا ہے، جتنا کہ نیکی کا کام کرنے والے کو ملتا ہے۔

پوری کتاب حفظ کرانے کا امتحان میں کام آنے کے سوا کوئی فائدہ نہیں ، ہر چیز زبانی یاد کرنے اور دہرانے کی نہیں ہوتی، ممارست کا فی ہوتی ہے۔

امام بخاری رحمہ اللہ سے کمزور حا فظے کا علاج دریا فت کیاگیا۔

جواب میں فرما یا : ’’ادمان النظر فی الکتب‘‘ اس کا علاج کتب بینی اور مما رست ہے۔ بعض معلمین طلبہ کو خواہ مخواہ کتاب حفظ کرانے کی تکلیف میں مبتلا رکھتے ہیں۔

 

                طلبہ کو غور وفکر کرنا سکھا ئیں

 

طلبہ سے چند مشکل مقامات خود اپنی نگرانی میں حل کرائیں ، ان کو طریقہ بتادیں ، فکر دیں تاکہ اس طرز پر وہ خود حل کر سکیں۔ فکری تربیت بڑی اہم چیز ہے۔ یہ ایک مفصل مستقل موضوع ہے، یہاں صرف اتنی بات کہہ دینا کافی ہے کہ فکری بلندی ہونے سے یہ طالب علم کل عالم بن کر دین اسلام کی عظیم خدمات انجام دے سکتا ہے، انسا ن میں سوچنے کی بڑی صلا حیت ودیعت کی گئی ہے۔

بعض درسی کتا بوں کے پڑھنے اور قیل وقال کے منطقی طرز تدریس کی وجہ سے اکثرطلبہ کا ذہن معترض، مزاج جدلی اور سوچ منفی ہو جاتی ہے ، جس کی وجہ سے وہ تعمیری کام کی بجائے دوسروں کے کام پر اعتراض اور اس میں خا میاں تلاش کرتے رہتے ہیں اور تنقید برائے تنقید ان کا شیوہ بن جا تا ہے۔

معلم کو چا ہیے کہ وہ طلبہ کو مثبت اور تعمیری سوچ کا حا مل بنا ئیں اور ان کو اصلاح وتعمیر میں اپنا ذہن استعمال کرنے پر آما دہ کریں اس کا نتیجہ بہت ہی اچھا نکلے گا۔

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

اعداء اسلام اہل مغرب نے اسی سوچ کو اپنا کر دنیا وی ترقی حاصل کی ہے۔

اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ   ۝}(الرعد3)

سوچنے سمجھے والے لوگوں کے لئے ان باتوں میں بہت سی نشانیاں موجود ہیں۔

اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ ؁الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِھِمْ وَیَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا   ۚ

آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں ، اور رات اور دن کے باری باری آنے جانے میں اہل عقل کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔جو اٹھتے،بیٹھتے اور لیٹتے، ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں سوچ بچار کرتے (اور پکار اٹھتے) ہیں۔ اے ہمارے پروردگار! تو نے یہ سب کچھ بے مقصد پیدا نہیں کیا۔(آل عمران190تا191)

 

                طلبہ کو اپنے علوم وفنون میں آسانی اورجِدّت پیدا کرنے کا اسلوب سکھا ئیں

 

اذا     المرء     کانت     لہ     فکرۃ

ففی     کل     شیئٍ     لہ     عبرۃ

’’ جب انسان غور و فکر کی عادت اپنالے تو ہر چیز میں اس کے لئے سامان عبرت موجود ہے۔ ‘‘

آج دنیا نے ہر چیز میں ترقی کی ہے، ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے علوم و فنون کو سہل الحصول بنائیں اور اس کے پڑھانے کے طریقوں میں زمانے کے مناسب کچھ آسانی اور جدت پیدا کریں۔ کم سے کم وقت میں بڑے اہداف کا حصول ممکن بنائیں۔

كُلًّا نُّمِدُّ هٰٓؤُلَا ءِ وَهٰٓؤُلَا ءِ مِنْ عَطَا ءِ رَبِّكَ ۭ وَمَا كَانَ عَطَا ءُ رَبِّكَ مَحْظُوْرًا   ؀(بنی اسرائیل20)

ہم ہر طرح کے لوگوں کی مدد کرتے ہیں خواہ یہ ہوں یا وہ ہوں اور یہ بات آپ کے پروردگار کا عطیہ ہے اور آپ کے پروردگار کا یہ عطیہ (کسی پر) بند نہیں۔

یاد رہے کہ اسلاف امت نے بعد وا لوں کے لئے کرنے کے بہت سے کام چھوڑے ہیں۔

 

                سب طلبہ سے اچھا معا ملہ وتعلق رکھیں ، اُن پر اعتماد کر کے ان میں خود اعتما دی پیدا کریں

 

متفرق کاموں اور مشاغل کے ہجوم میں ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ طلبہ بھی آخرانسان ہی تو ہیں ان کے احساسات و جذبات ہیں ، جسم و عقل ہیں ، یہ کوئی الیکٹرونک مشینیں نہیں ہیں کہ ہروقت ہماری مرضی کے مطابق چلتی رہیں ، حرکت کرتی رہیں۔

اس لیے ان کے ساتھ بڑے احترام و محبت و اعتماد کا معاملہ کریں ، ان کو یہ باور کرائیں آپ ان کو معاشرے کا اہم عنصر سمجھتے ہیں اور ان سے بڑی توقعات رکھتے ہیں۔ اس کا نتیجہ بہر حال اچھا ہی نکلے گا، اعتماد و حوصلہ افزائی، رجال سازی کا بڑا اہم ذریعہ ہے۔ دنیا میں جتنے بھی بڑے علماء گزرے ہیں ، یہ ابتداچھوٹے بچے اور طلبہ تھے، ان کے بڑوں نے ان پر اعتماد کرکے ہی ان کو بڑا بنا دیا تھا۔

{ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ   ؀}(الحجر88)

اور ایمان لانے والوں سے تواضع سے پیش آئیے۔

یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ حَسْبُكَ اللّٰهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ؀

اے نبی ! آپ کے لئے اور ان مومنوں کے لئے جو آپ کے حکم پر چلتے ہیں اللہ ہی کافی ہے۔(الانفال64)

طلبہ سے دورا ن سبق یہ کبھی نہ پو چھیں آپ سمجھ گئے ؟ با ت سمجھ میں آئی ؟

اکثر معلمین پڑھاتے وقت طلبہ سے یہ سوال کرتے ہیں ’’بات سمجھ میں آئی؟ ’’کیا آپ سمجھ گئے؟اور پھرطلبہ کے مثبت جواب پر اعتماد کر لیتے ہیں ،حالانکہ اس سوال کا کوئی فائدہ نہیں ، کیونکہ (جی ہاں ) اور نَعَمْ کے ساتھ یہ جواب اکثر ممتاز، سمجھ دار طلبہ کی طرف سے ہوتا ہے، ناسمجھ اور کمزور طلبہ بھی حیا کی وجہ سے اور اپنے کو دوسرے طلبہ کے برابر بنانے کے لیے ’’جی ہاں ‘‘ ہی کہہ دیتے ہیں۔

بسا اوقات طالب علم یہ گمان کر بیٹھتا ہے کہ وہ سمجھ گیا ہے حالانکہ وہ سمجھا نہیں ہوتا، لہٰذا اس سوال کا کوئی فائدہ نہیں ، بلکہ معلم کا طلبہ سے یہ سوال کرنا اس کو خوش فہمی اور دھوکے میں مبتلا کردیتاہے۔

قرآن وسنت اور سلف امت سے بھی یہ منقول نہیں ہے۔

ہر علم کا ایک غا یہ اور ثمرہ ہو تا ہے، معلم اس غا یہ اور ثمرہ پر نظر رکھیں ، محض کتاب سمجھا نے اوریاد کرانے پر اکتفا نہ کریں

یہ ایک بدیہی بات ہے کہ ہر علم و فن کا ایک ثمرہ اور غایہ ہوتا ہے اگر ایک شخص فن کی کئی کتابیں پڑھ لے اور اس کے دقائق اور غوامض کو معلوم کرلے لیکن اس کو ثمرہ اور غایہ حاصل نہیں تو محض ان کتابوں کے پڑھنے پڑھانے سے اُسے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگامثلاً صرف پڑھنے کا غایہ صیغوں کی پہچان، ابواب اور ان کے خواص، اصل واحد کی گردان کی قدرت تاکہ اس سے مختلف معانی حاصل ہو جائیں وغیرہ… علم نحو کا غایہ اور مقصد ترکیب عربی کا جا ننا ، عربی عبا رت صحیح لکھنا، بولنا، لفظی غلطی سے بچنا ہے۔ اگر ایک طالب علم نحو صرف کی ساری کتابیں پڑھ لے لیکن نہ وہ صیغہ پہچانے اور نہ ہی صحیح عبارت پڑھ سکے، تو اس کو غایہ ومقصد حاصل نہیں ہوا۔ اسی طرح، علم فرائض کا بھی ایک غایہ ومقصدہے وہ یہ کہ طالب علم میں اتنا ملکہ پیدا ہو جائے کہ جس سے وہ ورثے کے درمیان شریعت کے مطابق مال و جائیداد کی تقسیم کر سکے۔ اگر ایک طالب علم نے پوری سراجی پڑھ لی، حل عبارت کر لی، قیل و قال میں ماہر بھی ہو گیا لیکن وہ عملی طور پر میراث کا کوئی مسئلہ حل نہیں کرسکتا تو محض اس کتاب کے پڑھنے سے اسے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

آج کل ہمارے مدارس و جامعات میں اکثر یہی ہو رہا ہے کہ اساتذہ فن میں مطلوبہ مہارت پیدا کرنے کے بجائے نفس کتاب پڑھانے اور طلبہ کو حفظ کرانے پر زور دیتے ہیں ، طالب علم حل عبارت میں الجھ کر زیر تحصیل فن سے محروم رہ جاتا ہے، فن کی کئی کتابیں پڑھ لینے کے باوجو دوہ اس علم کی روح سے تہی دست رہتا ہے۔ مدرس کو چاہیے کہ پہلے اپنے الفاظ میں طالب علم کو مسئلہ اور مقصود سمجھائے، بعد میں کتاب کی عبارت سے تطبیق کرے۔ کتاب علم سکھانے کا ایک ذریعہ ہے نہ کہ مقصود۔

معلّم کو چا ہیے کہ وہ پڑھا تے وقت فن کے ثمرہ اور مقصود پر نظر رکھیں ، اسی کو ہدف بتائیں ، محض مشکل عبا رتوں سے کشتی لڑنے پراکتفا نہ کریں۔

الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا

غوا ص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے

 

                اپنی کوشش جا ری رکھیں

 

عبقریت اور کمال کے دس حصوں میں سے، نو حصے انسان کی ذاتی کوشش سے ملتے ہیں۔ اگر ایک شخص بیٹھ کر صرف یہ سوچتا رہے کہ اس کو اپنی کامیابی کے لیے کیا کرنا چاہیے، اورصرف اس سوچ پر اکتفا کرکے کوئی عملی اقدام نہ کرے، تو وہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اس کے مقابلے میں جو شخص اﷲ پر توکل کرکے ایک چھوٹا سا قدم ہی اٹھالے تو کامیابی اس کی قدم چومتی ہے کیونکہ اس نے راستے پر چلنا تو شروع کردیا اور کامیابی کا طویل سفر ایک ہی قدم اٹھانے سے تو شروع ہو تا ہے۔

وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَـنَهْدِیَنَّهُمْ سُـبُلَنَا

اور جو لوگ ہماری راہ میں جہاد کرتے ہیں ہم یقینا انہیں اپنی راہیں دکھا دیتے ہیں۔(العنکبوت:69)

نفسیات کے ما ہرین نے اندازہ لگا یا ہے کہ انسان پیدائشی طور پر جن صلاحیتوں کا ما لک ہے عام طور پر وہ اس کا دس فیصد حصہ استعما ل کرتا ہے۔

اس تحقیق کا ذکر کرتے ہوئے ہارڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ولیم جیمس نے کہا:

جو کچھ ہمیں بننا چا ہیے وہ کچھ ہم بننے کے لئے تیار نہیں۔ ہم کو دوسروں سے شکا یت ہے کہ وہ ہم کو ہما را حصہ نہیں دیتے مگر سب سے پہلے ہم کو خود اپنے آپ سے شکا یت ہونی چا ہیے کہ قدرت نے پیدائشی طور پر ہمارے لئے دنیا میں جو ترقیاں اور کامیا بیاں مقدر کی تھیں ہم اس کے مقابلے میں ایک بہت کم تر زندگی پر قانع ہو کر رہ گئے ہیں۔

وقا ل یحی بن أ بی کثیر :

( لا ینا ل العلم برا حۃ الجسم )

علم راحتِ بدنی سے حاصل نہیں ہوسکتا۔

یا خادم الجسم كم تسعى لخدمته

أتطلب الربح مما فیه خسران

أقبل على النفس فاستكمل فضائلها

فأنت بالنفس لا بالجسم إنسان

اے جسم کے خادم! تو امید کی خدمت گزاری میں کہاں تک کوشاں رہے گا؟ کیا تو اس سے نفع کی امید لگائے ہوئے ہے جس میں خسارہ ہی خسارہ ہے؟ذرا تو روح کی بھی فکر کر اور اس کے اعلیٰ درجات کو حا صل کر لے،کیونکہ تو روح کے ساتھ انسان ہے جسم کے ساتھ نہیں۔

قال الأمام الشا فعی رحمہ اللّٰہ:

أخی لن تنا ل العلم الا بستۃ

سأ نبئک عن تفصیلھا ببیان

ذکا ئٌ وحرصٌ واجتھا د وبلغۃ

وصحبۃ أستاذ وطول زمان

اے میرے بھائی! آپ علم کو 6 چیزوں کے بغیر حاصل نہیں کرسکتا۔ عقل و فہم، ذوق و شوق، محنت، بلاغت، صحبت استاد اور طویل وقت۔

 

                طلبہ کو عام علوم میں اسا سیات کو حا صل کرنے اور کسی خاص علم میں متخصّص اور ماہر بننے کی ترغیب دیں

 

یہ بہت مشکل یا شاذو نادر ہوتا ہے کہ انسان ہر علم و فن میں مہارت تامہ اور مرتبہ امامت حاصل کرلے، عام طور پر طلبہ کی کامیابی اس بات میں ہوتی ہے کہ وہ متداول علوم و فنون میں بنیادی چیزیں اور ان کی اساسیات سے واقف ہو جائیں یا کوئی ایک بنیادی کتاب پڑھ لیں اور کسی خاص فن کو جس کی طرف ان کا طبعی رجحان و لگاؤ ہو اس میں کمال پیدا کریں اس میں متخصص اور ماہربن جائیں۔ ایسا ممکن بھی ہے اور ماضی میں ایسا ہوتابھی رہا ہے۔

اس لیے ہمارے اسلاف کا یہ مقولہ مشہور ہے۔

(’’خذ من کل شیئٍ شیأً، و خذ من شی ء ٍکلّ شیئٍ لأن العلم غزیرٌ والعمر قصیر‘‘)

ہر علم سے کچھ حصہ (بنیادی چیزیں ) حاصل کرو، اور ایک علم کو مکمل حاصل کرو، کیونکہ علم زیادہ ہے اور عمر کم۔

اس لیے اساتذہ طلبہ کو یہ ترغیب دیں کہ وہ کسی بھی علم و فن میں ایسی مہارت تامہ حاصل کرکے اس میں مرجع بن جائیں۔

(ما لا یدرک جلّہ لا یترک کلّہ)

جو چیز مکمل حاصل نہ ہو تو اسے مکمل چھوڑا بھی نہیں جاتا۔

(من طلب الکلّ فا ت الکلّ)

اور جو سب کے حصول میں لگتا ہے تو اس سے سب فوت ہو جاتا ہے۔

امام شا فعی رحمہ اللہ ہر علم کی الگ الگ خصو صیت بیان کر تے ہوئے فر ما تے ہیں :

امام النحو سیبویہ رحمہ اللہ پہلے علم حدیث کے حصول میں لگ گئے تھے، لیکن اس میں کا میاب نہ ہوسکے، اس کو چھوڑ کر علم النحو پڑھنا شروع کیا تو اس میں امام بن گئے۔

 

                طلبہ کو ہر فن ، ما ہر فن سےپڑھنے کی تر غیب دیں

 

ماہرین تعلیم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ انصاف یہ ہے کہ ہرفن، ماہر فن ہی سے حاصل کیا جائے۔ جیسے کہ ہم نے عرض کیا کہ اسلاف کسی ایک علم میں مہارت تامہ حاصل کرتے تھے، اسی فن میں لکھتے اور اسی کو پڑھاتے تھے، طلبہ وہ فن اسی ماہر سے حاصل کرتے تھے، یہ بڑا کامیاب طریقہ تھا، کیونکہ ماہرفن زیر تدریس کتاب کا محتاج نہیں ہوتا ، وہ کسی بھی پیرائے میں اپنافن سمجھا سکتا ہے۔ بلکہ بسااوقات مقدمات بیان کرنے سے بھی طالب علم سمجھ جاتا ہے۔ ایسے لوگ آباء الفن کہلاتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں أبناء الفن ہوتے ہیں جو زیر درس کتاب سے ذرہ برابر نہیں ہٹ سکتے، اس لئے اُن سے کافی عرصہ اور کافی کتابیں پڑھنے کے باوجود بھی طلبہ میں مطلوبہ استعداد پیدا نہیں ہوتی۔ جبکہ آباء الفن سے طالب علم میں مطلوبہ استعداد چند گھنٹے پڑھنے سے بھی پیدا ہو جاتی ہے۔

ما ہرین کی صحبت اختیا رکرنے سے معلو ما ت کے ساتھ ذوق اور ذہنی رجحان بھی پیدا ہوتا ہے۔

محدث کبیر عبداللہ بن مبا رک رحمہ اللہ فر ماتے ہیں :

لو لا أنّ اللہ أعا ننی بأبی حنیفۃ وسفیان الثّوری لکنت کسائر الناس

اگر اللہ تعالیٰ امام ابو حنیفہ اور سفیان ثوری رحمہما اللہ کے ذریعے میری مدد نہیں کرتا تو میں بھی عام انسانوں کی طرح کا انسان ہوتا۔

نو بل انعام کا حصول سا ئنس کی دنیا میں اعلیٰ ترین کا رکردگی کا ایک مسلمہ معیار سمجھا جا تا ہے ،یہ انعام کسی کو کیسے حاصل ہو تا ہے۔ کیمسٹری کے نو بل انعام یافتہ ایچ -اے-کائبز (H.A.KYEBS )نے اس کا مطا لعہ کیا ہے ، ان کا کہنا ہے کہ اعلیٰ سا ئنسدان بننے کے لئے اعلیٰ سازوسامان لیبا رٹریوں اور جدید ترین لیٹر یچر مشتمل لا ئبریریوں سے بھی کہیں زیادہ ضروری با ت یہ ہے کہ کچھ مدت کے لئے کسی بڑی سائنسی شخصیت کی صحبت ورفا قت میسر آجائے۔

اگر مجھے اپنی جوانی کے ابتدائی چار سال میں آٹو وارگ (Otto Waruyg) جیسے سا ئنسدا ن کی رفا قت میسر نہ آتی تو مجھ میں سائنس کا صحیح ذوق پیدا ہو نا محا ل تھا ‘‘ (کورس الفا ظ سکھا تا ہے آدمی، آدمی بنا تا ہے)

امام شا فعی رحمہ اللہ فرما تے ہیں :

من تفقّہ من بطون الکتب ضیّع الأحکام

جو صرف کتابوں کے ذریعے علم حاصل کرتا ہے وہ احکام سے محروم ہوجاتا ہے۔

اپنے شا گردوں کو عربی زبا ن وادب میں مہا رت کی طرف متوجہ کریں

عربی زبان تمام اسلامی علوم و فنون کا سرچشمہ ہے، قرآن و حدیث کے ساتھ ساتھ دیگر علوم اسلامیہ کے بیش بہا خزانے عربی میں موجود ہیں تو طالب علم کو عربی زبان سے روشناس کرانا گویا کہ علوم کی چابی اس کے ہاتھ میں دینا ہے اس کی اہمیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ محدث جلیل عبداﷲ بن مبارک رحمہ اﷲ نے فرمایا: ’’میں نے علم حدیث کی تحصیل میں چالیس ہزار دینار خرچ کئے، اور ادب عربی کی تحصیل میں ساٹھ ہزار دینار خرچ کیے‘‘پھر فرمایا ’’کاش کہ میں نے جو رقم علم حدیث پر خرچ کی اسے بھی ادب عربی پر صرف کرتا‘‘ لوگوں نے پوچھا ’’یہ کیوں ؟‘‘ فرمایا’’اس لیے کہ ادب میں غلطی انسان کو کفر تک پہنچا دیتی ہے‘‘۔

آج کل طلبہ کی کمزوری کا ایک سبب یہ بھی ہے وہ لغت استعمال نہیں کرتے اور نہ ہی استعمال کا طریقہ جانتے ہیں اورنہ ہی اساتذہ اس کی ترغیب دیتے ہیں۔

قوامیس اور معاجم کا وجود اور اس کا استعمال طالب علم کے لیے ازحد لازمی ہے۔

آج کل جیبی سائز کی کتب لغت آسانی سے مل جاتی ہیں ، ہر طالب علم خریدنے کی استطاعت بھی رکھتا ہے، اساتذہ اپنی نگرانی میں اس کا استعمال، مطلوب معنیٰ کا استخراج سکھائیں۔ اس سے طالب علم خود کفیل ہو جائے گا۔

اکثر طلبہ اور معلّمین کا خیا ل یہ ہے کہ عربی زبا ن میں مہارت کے لئے نحو وصرف میں مہا رت لا زمی ہے ۔ اس کے بغیر عربی زبان نہ بولی جا سکتی ہے اور نہ لکھی جا سکتی ہے، چنانچہ طلبہ کی کثیر تعدادنحو میں مہا رت پیدا ہو نے تک عربی کے انتظار میں رہتے ہیں ، عر بی بولنے اورلکھنے کی جرأت نہیں کرتے، حا لانکہ یہ خیا ل ونظریہ درست نہیں ہے۔علم نحو عر بی میں فصا حت پیدا کرنے کے لئے پڑھا جا تا ہے نہ کہ اسے سیکھنے کے لئے، کیونکہ علم نحو کی غرض نحوی کتا بوں میں یوں تحریرہے :

صیا نۃ الذھن عن الخطا ء اللفظی فی کلام العرب

علم صرف کی غرض کچھ اس طرح بیا ن کی جا تی

صیا نۃ الذھن عن الخطا ء فی الصیغۃ

تو معلوم ہو ا کہ کلام عرب کا وجود اور اس کا استعما ل پہلے ہے۔اس میں فصیح بننے کے لئے نحو وصرف پڑھ کر غلطیوں سے بچا جا تا ہے۔

الخصا ئص میں ابن جنی رحمہ اللہ علم النحو کا تعارف اس طرح کراتے ہیں :

النحو ھوانتحا ء سمت الکلام العرب فی تصریفہ من اعراب وغیرہ کا التثنیۃ والجمع، وا لتحقیر، والتکسیر، والاضا فۃ، والنسب، والترکیب وغیر ذٰلک لیلحق من لیس من أھل اللغۃ العربیۃ بأھلھا فی الفصاحۃ، فینطق بھا وان لم یکن منھم وان شذ بعضھم عنہا رُدّ بہٖ الیھا‘‘

اس عبا رت سے بھی معلوم ہو تا ہے کہ علم نحو اس لئے پڑھا جا تا ہے کہ غیرعرب کو عربوں کے ساتھ فصا حت میں شریک کیاجائے، غیر عربی بھی عربوں جیسا فصیح کلام کرے ، یہ مقصد نہیں ہے کہ عربی سیکھے ۔ لہٰذا درجہ اولیٰ میں علم صرف کا کچھ حصہ پڑھانے کے بعد طلبہ کو لغت کا استعما ل سکھائیں۔ کیونکہ صرف پڑھنے کے بعد طالب علم لغت سے فا ئدہ اٹھا سکتا ہے، اور عربی زبان میں شروع ہی سے تکلم کیا جائے۔ اس کا ماحول بنائیں ، استاذ سے اردو سنتے سنتے اردو، نہ جاننے والا طالب علم بغیر قواعد کے اردو سیکھ لیتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح اگر یہی استاذ عربی میں پڑھائے تو طالب علم عربی سنتے سنتے بغیر قواعد کے عربی بھی سیکھ سکتا ہے۔ اب کئی مقا ما ت پر ایسا ہو بھی رہا ہے۔ اس کا میاب طرز کو نظر انداز کرنے کا جو نتیجہ ہے وہ ظا ہرہے کہ کافیہ اور شرح ملا جامی پڑھ کر ایک طالب علم۔ نحوی قیل وقال میں ما ہر ہو کر بال کی کھال تو اتار سکتا ہے، فلسفے بتا سکتا ہے۔ لیکن تین چار سطر کی صحیح عر بی عبا رت پڑھ، لکھ نہیں سکتا۔ محنت زیا دہ ہو رہی ہے مطلوبہ استعداد پیدا نہیں ہو تی۔ ’’النحو فی الکلام کالملح فی الطعام ‘‘ طعام میں نمک ہمیشہ کم مقدار میں ہو تا ہے۔ اگر کھا نے میں نمک زیادہ ہو جائے، تو اس کا کھا نا مشکل ہو جا تا ہے ۔ بلکہ ترک کردیا جا تاہے اگر ایک شخص طعام کو نظر انداز کرکے صرف نمک کھانے پر اکتفا کرے تووہ احمق ہی کہلائے گا ۔ ٹھیک اسی طرح جو شخص تحریراً وتقریراً کلام عرب کا استعما ل نظر انداز کرکے صرف نحو کے پڑھنے پڑھا نے پر قانع رہے تو اس کا فیصلہ آپ ہی کریں کہ اسے کیا نام دیا جائے ؟

علاّمہ ابن خلدون رحمہ اللہ نے بھی اپنے مقدّمے میں علوم آلیہ میں تعمّق اور توسّع کو بے فا ئدہ قرار دیا ہے اور مشورہ دیا ہے کہ آلے کو آلہ ہی رہنے دیا جائے، اسے مقصد کا درجہ نہ دیا جائے۔

علامہ بنوری رحمہ اللہ فرما تے ہیں :

’’بے شک اب وقت کے تقا ضوں کے پیش نظر اس اسلوب کو بدلنے اور عربی زبا ن کی تعلیم کو مقا صد میں شامل کرکے پہلے درجہ میں رکھنے کی ضرورت ہے ‘‘

مزیدلکھتے ہیں :

’’لسانیات ہی کے طرز تعلیم پر عر بی ادب کی تعلیم وتربیت ہونی ضروری ہے ۔ جدید أدبی اسلوب جس میں فرا نسیسی ادب کے اسلوب سے استفا دہ کیا گیا ہے ۔ اس میں غضب کی جاذبیت ہے۔ جا حظ، ابن المقفع اور عہد ما مون کے ادبی اسلوب کا ذخیرہ امت کے سامنے موجود ہے بلکہ احادیث نبویہ کا اسلوب بیان اور فصحا ء صحابہ کا طرز بیان، خطبا ء عرب کا قدیمی اسلوب بہت ہی متقارب ہے۔‘‘

 

                تعلیم دینے سے معلم کےمقا صد کیا ہو نے چا ہئیں ؟

 

طلبہ کی تعلیم و تربیت سے معلم کا مقصد، حصول رضائے الٰہی، احیاء شریعت اسلامی اور علم کی نشر و اشاعت ہو۔ کیوں کہ اس امت کی دائمی خیر و برکت علماء کے وجود اور ان کی کثرت میں مضمر ہے۔ نیز طلبہ معلم کے لیے صدقہ جاریہ اور اس کے علم کے پھیلانے کا بڑا اہم ذریعہ ہیں اور اس سے بڑھ کر معلم کے لیے بڑے اعزاز کی بات یہ ہے کہ وہ مبلغین وحی میں شامل ہو کر دین کے اہم امور میں سند بن جاتا ہے جس کے لیے بڑے بڑے بادشاہوں نے بھی آرزوئیں کی ہیں۔ درس وتد ریس کو ئی پیشہ نہیں ، بلکہ ایک ذ مہ دا ری ہے۔ حضرت بنو ری رحمہ اللہ فر ما تے ہیں : ’’العلما ء ورثۃ الأ نبیائ‘‘ حدیث کے پیش نظر علما ء امت کا کام وہی ہے جو انبیاء کا کام ہے

اگر انہی علوم انبیا ء کو حصول دنیا اور جلب خواہشا ت و اغراض نفسانی کا وسیلہ بنا لیا جائے ، تو صرف یہ کہ پو را دین ، دنیا بن جا تا ہے بلکہ خا لق کا ئنا ت کی اما نت میں خیا نت اور بہت بڑا جرم ہو جا تا ہے اس لئے کہ اگر دنیا کا حصول دنیا کے وسا ئل کے ذریعہ ہو تو عین مصلحت اور عقل کا تقا ضا ہے ، اس میں کو ئی قبا حت نہیں ، لیکن اگر دین کو صرف حصول دنیا کا وسیلہ بنا لیا جائے تو یہ (وضع الشی ء فی غیر محلہ) چیز کا بے محل استعمال ہے اور بہت بڑا ظلم اور انتہائی قبیح جرم ہے(الوسائل لھا أحکام المقاصد)

 

                بعض علوم سے طلبہ کو متنفر نہ کریں

 

بعض مدرسین کی عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنے فن کے علاوہ جسے وہ پڑھا تا ہو دیگر فنون سے جو دوسرے اساتذہ پڑھاتے ہیں طلبہ کو متنفر کرتے ہیں۔ بلکہ بعض تو اپنی ذات کے علاوہ دیگر مدرسین سے بھی طلبہ کو متنفر کرکے ان کی خیر سے طلبہ کو محروم کردیتے ہیں۔ یہ دونوں باتیں خطرناک ہیں۔

أدب و لغت پڑھا نے والے استاذ کو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ جی! فقہ میں کیا رکھا ہے؟ اس میں تو صرف طہارت وغیرہ کے مسائل ہیں اور بس… نحو بڑھا نے والے بلاغت سے متنفر نہ کریں۔ بلاغت والے تفسیر سے متنفر نہ کریں۔

وقس علیٰ ذٰلک

دنیا میں صرف آپ ہی افق عا لم پر چمکنے وا لا روشن ستا رہ نہیں ، وحدہ لاشریک صرف خدا کی ذات ہے۔

 

                طا لب علم کو تدبّر قرآن کی ترغیب دیں

 

اس بات سے کسی انکار کی گنجائش نہیں کہ تمام علوم و فنون کا سرچشمہ اور مأخذ قرآن کریم ہے۔ علوم آلیہ سب قرآن فہمی ہی کے لیے پڑھائے جاتے ہیں اور یہ سب علوم، نحو، صرف، لغت، بلاغت وغیرہ خدام القرآن ہیں ، لیکن افسوس کہ بہت سے مدارس میں خدام ہی کی خدمت پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ انہی کو ترجیح دی جا تی ہے۔ ان کے پڑھانے کے لئے اچھے اور ماہر اسا تذہ کی خدما ت حا صل کی جا تی جب کہ اس کے مقابلے میں اس عظیم مخدوم کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اس طرح کا اہتمام اللہ کی اس عظیم کتاب کے لئے نہیں ہوتا۔ جب پوری زندگی وسائل کے سیکھنے میں لگادی گئی، تو مقاصد کا حصول کب ہوگا؟ قرآن کریم اور حدیث میں مہارت حاصل کرنے کا نمبر کب آئے گا؟

لہٰذا اساتذہ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ طلبہ کو یہ مقصد یاد دلائیں اور ان کو قرآن کریم میں پڑھے ہوئے علوم کی روشنی میں غور و فکر کرنے پر آمادہ کریں۔حق تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے۔

كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَیْكَ مُبٰرَكٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰتِهٖ وَلِیَتَذَكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ   ؀ ص 29

جو کتاب ہم نے آپ کی طرف نازل کی ہے بڑی برکت والی ہے تاکہ لوگ اس کی آیات میں غوروفکر کریں اور اہل عقل و دانش اس سے سبق حاصل کریں۔

اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا     ؀

کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا ان لوگوں کے دلوں پرقفل چڑھے ہوئے ہیں۔(محمد24)

اس طرز عمل سے طالب علم کی خوابیدہ صلاحیتیں جاگ اٹھیں گی اور اس میں تازگی پیدا ہوگی۔ طالب علم کو اس کی عادت ڈالیں کہ وہ ہر مسئلے اور ہر فن، ہر قاعدے، اوراس کی تغلیط یا تصویب اورہر مشکل کا حل سب سے پہلے قرآن کریم میں تلاش کرے۔ استدلال کرنے کے لیے سب سے پہلے اس کا ذہن قرآن کریم کی طرف جائے۔

ایک فرانسیسی مستشرق ڈاکٹر موریس قرآن کریم کے متعلق لکھتے ہیں :

إنہ ندوۃ علمیّۃ للعلماء ومعجم لغۃ للغویین، ومعلِّم نجولمن أراد تقویم لسانہ، ودائرۃ معارف للشرائع والقوانین، وکل کتاب سماوی جآء قبلہ لایساوی أدنیٰ سورۃ من سُورہٖ فی حسن المعانی وانسجام الألفاظ، ومن أجل ذالک نری رجال الطبقۃ الراقیّۃ فی الأمّۃ الإسلامیۃ یزدا دون تمسکاً بھٰذا الکتاب واقتباساً لأٰیاتہ، یزینّون کلامہم۔ ویبنون علیھا أراء ھم، کلما ازدادوا رِفعۃ القدر ونباھۃ فی الفکر

’’قرآن کریم علماء کے لیے ایک علمی مجلس، لغویین کے لیے لغت کی ڈکشنری اور عربی میں اپنی زبان کی درستگی چاہنے والے کے لیے معلم نحو، شرائع اور قوانین کے لیے دائرۃ المعارف (انسائیکلو پیڈیا) ہے۔ اس سے پہلی جتنی بھی آسمانی کتابیں آئیں ان میں سے کوئی کتاب بھی فصاحت، بلاغت، حسن ترتیب میں اس کی ادنیٰ سورت کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کا ترقی یافتہ طبقہ اس کتاب سے زیادہ استدلال کرتا ہے۔ اہل علم اس کی آیتوں کے اقتباسات سے اپنے کلام کو مزین کرتے ہیں اور فکری ارتقاء کے حامل مسلمان اسی پر اپنی آرا کی بنیاد رکھتے ہیں۔

الفضل ماشہدت بہ الأعداء

غور فرمایئے کہ یہ مستشرق قرآن کریم سے زیادہ استدلال کرنے والے مسلمانوں کو ترقی یافتہ قرار دے رہا ہے اور جو اس طرح نہیں کرتے، اس کی نظر میں وہ غیر ترقی یافتہ ہیں۔

وَلٰكِنْ كُوْنُوْا رَبّٰـنِیّٖنَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْكِتٰبَ وَبِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ  ؀

بلکہ (وہ تو یہ کہے گا کہ) تم اللہ والے بن جاؤ کیونکہ جو کتاب تم لوگوں کو سکھلاتے ہو اور خود بھی پڑھتے ہو (اس کی تعلیم کا یہی تقاضا ہے)

وَكَیْفَ تَكْفُرُوْنَ وَاَنْتُمْ تُتْلٰى عَلَیْكُمْ اٰیٰتُ اللّٰهِ وَفِیْكُمْ رَسُوْلُهٗ ۭ وَمَنْ یَّعْتَصِمْ بِاللّٰهِ فَقَدْ ھُدِیَ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَـقِیْمٍ   ؁

اور تم کفر کر بھی کیسے سکتے ہو جبکہ تم پر اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں اور اللہ کا رسول تمہارے درمیان موجود ہے۔ اور جو شخص اللہ کا دامن مضبوطی سے تھام لے گا وہ ضرور راہ راست تک پہنچ جائے گا۔(اٰل عمران101)

 

                طلبہ کو اکا بر اور ہم عصر علماء حق کے علمی وفروعی اختلا فات میں نہ الجھا ئیں

 

تاریخ اسلامی اس بات پر شاہد ہے کہ ہمیشہ سے ہم عصر علماء حق میں رائے، ذوق، یا دلیل کا اختلاف رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔

وَلَوْ شَا ءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَ ؀ اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَ ۭ وَلِذٰلِكَ خَلَقَهُمْ ۭ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَاَمْلَــــَٔنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ

اور اگر آپ کا پروردگار چاہتا تو سب لوگوں کو ایک ہی امت بنائے رکھتا مگر وہ اختلاف ہی کرتے رہیں گے۔بجز ان لوگوں کے جن پر آپ کا پروردگار رحم کردے۔ اللہ نے تو انہیں پیدا ہی اسی لیے کیا ہے (کہ وہ اختلاف کرتے رہیں ) اور آپ کے پروردگار کی یہ بات پوری ہوگئی کہ:میں دوزخ کو جنوں اور انسانوں سب سے بھر دوں گا۔(ہود118-119)

وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْكَ الذِّكْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ ؀

اور آپ کی طرف یہ ذکر (قرآن) اس لئے نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو واضح طور پر بتا دیں کہ ان کی طرف کیا چیز نازل کی گئی ہے۔ اس لئے کہ وہ اس میں غوروفکر کریں۔(النحل44)

تاہم اس اختلاف کے کچھ حدود و آداب ہیں جس سے طالب علم ابھی ناواقف ہے۔ مدرس کبھی ایک فریق کی رائے، ذوق یا قوت دلیل سے یا کسی عبقری شخصیت سے کچھ زیادہ ہی متاثر ہوتا ہے تو وہ اپنے اس تأثر کو طلبہ پر بھی (جن کا علم ابھی پختہ نہیں ہوتا) مسلط کرنا چاہتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ طلبہ فریق ثانی سے بدظن ہو جاتے ہیں اور ہمیشہ کے لیئے ان کی خیر اور استفا دے سے محروم ہو جاتے ہیں ، بلکہ بسا اوقات تو تعصب میں آکر گستاخی اور توہین پر بھی آمادہ ہو جاتے ہیں ، کیونکہ وہ ابھی اس علمی اختلاف کی نوعیت سمجھنے سے قاصر اور علمی شخصیات کی عظمت سے ناواقف ہوتے ہیں جس کی بنا پروہ اس اختلاف کو کفر واسلام کا معرکہ سمجھ لیتے ہیں لہٰذا مدرس کو چاہیے کہ وہ اکابر کے اختلاف کو درس گاہوں میں نہ چھیڑیں اور طلبہ کو بھی اس میں الجھانے سے گریز کریں۔

وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْهَبَ رِیْحُكُمْ

آپس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ بزدل ہوجاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔(الانفال46)

مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ فرما تے ہیں :

یہاں یہ عرض کرنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ ہم دین کی خدمت کرنے والے چند ایسی الجھنوں میں پھنسے ہوئے ہیں جو ہما رے دینی مسا عی کے ثمرآور ہو نے میں ما نع ہیں ، بلکہ بے دینی کے اس سیلاب کو ہما رے ان مشاغل سے مدد بہم پہنچ رہی ہیں۔

موانعات کے اس سلسلہ کی پہلی کڑی یہ ہے کہ دین کے نام پر کام کرنے والے بہت سے اہل علم خود فروعی مسائل پر منا ظروں ، مباحثوں اور اس کے نتیجے میں جنگ وجدال کے اندر ایسے گرفتار ہیں کہ اولاً تو یہ جھگڑے انہیں یہ سوچنے کی فرصت ہی نہیں دیتے کہ اسلام اور قرآن ان کو کس محاذ پر اپنی طاقت صرف کرنے کے لئے پکا ررہا ہے اور وہ کہاں اپنی توا نائی ضا ئع کررہے ہیں ؟

ثا نیاً : الحاد ، وبے دینی اور تجدد پسندی اور بد اعما لی وبد اخلا قی کا جو طوفان پو رے عالم اسلام کو اپنے لپیٹ میں لیے ہوئے ہے ،یہ تگ ودو جو باہمی منا قشا ت کی صورت میں کررہے ہیں اس طوفان سے صرف نظر کا سبب بن رہی ہے اور ہم اس کی ہلا کت وبربا دی کے صحیح شعور سے ہی محروم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔‘‘

سور ۃ البقرۃ میں حق تعا لیٰ سبحا نہ ،یہو د ونصاریٰ پر رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

وَقَالَتِ الْیَهُوْدُ لَیْسَتِ النَّصٰرٰى عَلٰی شَیْءٍ ۠ وَّقَالَتِ النَّصٰرٰى لَیْسَتِ الْیَهُوْدُ عَلٰی شَیْءٍ

یہود یہ کہتے ہیں کہ عیسائیوں کے پاس کچھ نہیں اور عیسائی یہ کہتے ہیں کہ یہودیوں کے پاس کچھ نہیں۔

ان کا ایک دوسرے کے بارے میں لیس علیٰ شیء کہنا غلط ہے ، اس لئے کہ { وھم یتلون الکتاب} دونوں کے پاس کتا ب (تورا ت ، وانجیل) مو جود ہیں اور یہ اسے پڑھتے ہیں ہر ایک کی کتاب میں دو سری کی تصدیق وتائید مو جود ہے ،اس کے باوجود ایک کا دوسرے کے با رے میں {لیس علی شیئ} کہنا خود اپنی کتا ب سے انحراف ہے۔ علا مہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی کتا ب (اقتضا ء الصراط المستقیم) میں اس وصف میں شریک امت محمدیہ میں یہود ونصاریٰ کے نمونے بتا تے ہوئے فر ما تے ہیں :

فأ خبر أن کل وا حدۃ من الأ متین تجحد کل ما علیہ الأخریٰ وأنت تجد کثیراً من المتفقھۃ ،اذ رأی المتصو فۃ والمتعبدۃ لا یرا ھم شیئا ،ولا یعدھم الا جہّا لا وضلا لا ولا یعتقد فی طریقھم من العلم والھدی شیئا وتری کثیرا من المتصو فۃ والمتفقرۃ لا یری الشریعۃ والعلم شیئا ،بل یری أن المتمسک بھما منقطع عن اللّٰہ وأنہ لیس عند أھلھا شیء مما ینفع عندا للہ

مخا لف کی صحیح دلیل کے باوجود محض عنا د کی وجہ سے اسے سو فیصد غلط قرار دینا بڑی خطرناک بات ہے۔

 

                طا لب علم کو حقیر نہ سمجھیں

 

سید المعلّمین رسول اللہﷺ کو حکم خداوندی ہے:

واخفض جناحک للمؤمنین

مسلمانوں پر شفقت رکھیے!

جب یہ حکم عام مؤمنوں کے بارے میں ہے تو طلبہ جن کو معلم کی شرفِ صحبت اور محبت بھی حاصل ہے وہ بطریقِ اولیٰ اس اعزاز و تکریم کے مستحق ہیں۔ سیدنا عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما فرماتے ہیں : ’’میرے ہاں سب سے معزز شخص وہ ہے جو لوگوں کی گردنیں عبور کرکے (یعنی سفر کرکے) مجھ تک پہنچتا ہے۔ مجھے یہ بھی گوارا نہیں کہ اس پر ایک مکھی بھی بیٹھ جائے‘‘۔

لہٰذا معلّم کو چاہیے کہ طالب علم کے ساتھ اپنے پیارے اور لاڈلے بچے جیسا برتاؤ کرے، اگر اس سے کوئی بے ادبی یا غلطی سرزد ہو جائے تو اس پر صبر کرے، تھوڑی بہت غلطی سے تو کوئی انسان بھی پاک نہیں ہوتا۔

{خلق الانسان ضعیفا }

انسان کو ناتواں پیدا کیا گیا ہے

(کل ابن آدم خطا ئ)

ہر ابن آدم غلطی کرسکتا ہے

{ یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓى اَنْ یَّكُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْهُمْ }

اے ایمان والو! (تمہارا) کوئی گروہ دوسرے گروہ کا مذاق نہ اڑائے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ مذاق اڑانے والوں سے بہتر ہوں۔

 

                علم کی تعظیم کیجئے

 

معلّم کو چا ہیے کہ اچھا لباس زیب تن کرے اور خوشبو استعمال کرکے درس دے، اس میں علم اور شریعت کی تعظیم ہے۔

امام مالک رحمہ اﷲ جب طلبہ کو حدیث پڑھانے کا ارادہ فرماتے تو پہلے غسل فرماتے، بہترین لباس زیب تن فرماتے، خوشبو لگاتے، عمامہ پہنتے اور پھر مسند تدریس پر جلوہ افروزہوتے اور فرماتے مجھے یہ بہت پسند ہے کہ میں احادیث رسول اﷲﷺ کی اس طرح تعظیم کروں۔

بعض مدرسین میلے کپڑوں میں درس دیتے ہیں اور اسے توا ضع سمجھتے ہیں ، اس قسم کے متواضعین کی اصلا ح کے لئے یہ آیات کافی ہیں :

قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَةَ اللهِ الَّتِیْٓ اَخْرَجَ لِعِبَادِهٖ وَالطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ

آپ ان سے پوچھئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے جو زینت اور کھانے کی پاکیزہ چیزیں پیدا کی ہیں انہیں کس نے حرام کردیا؟

یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِكُمْ وَرِیْشًا

اے بنی آدم! ہم نے تم پر لباس نازل کیا جو تمہاری شرمگاہوں کو ڈھانپتا ہے اور زینت بھی ہے۔

معلم پڑھا نے سے قبل اس دعا کا اہتمام کریں

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ أَعُوْ ذُبِکَ مِنْ أَنْ أَضِلَّ اَوْ أُضَلَّ اَوَْأَزِلَّ اَوْ أُزَلَّ اَوْ أَظْلَمَ اَوْ أُظْلَمَ اَوْ أَجْھَلَ اَوْ یُجْھَلَ عَلَیَّ، عَزَّ جَارُکَ وَجَلَّ ثَنَائُکَ وَلَا إِلٰہَ غَیْرُکَ، بَسْمِ اللہِ وَبِاللہِ حَسْبِیَ اللہ ُ، تَوَکَّلْتُ عَلَی اللہِ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمَ، اَللّٰھُمَّ اثْبُتْ جِنَانِیْ، وَأَدْرِ الْحَقَّ عَلٰی لِسَانِیْ۔

اس دعا کے اہتمام سے رجوع الی اﷲ پیدا ہو گا اور اﷲ تعالیٰ کی خصوصی مدد شامل حال ہوگی۔

اس کے سا تھ یہ دعائیں بھی مانگیں :

{ربّ زدنی علماً} ربّ اشرح لی صدری oویسّرلی أمریo واحلل عقدۃ ً من لسانیo یفقھوا قولیo} سبحٰنک لا علم لنا الّا ما علّمتنا ط انّک أنت العلیم الحکیمo)

 

                طا لب علم کو انصا ف پسند ، متّبع حق، محقّق بنا ئیں ، متعصب اور منجمد نہ بنا ئیں

 

اسلام عدل و انصاف کا مذہب ہے، جو اپنے ماننے والوں کو ہمیشہ ہر وقت اور ہر حالت میں دوست و دشمن سب کے لئے انصاف اور حق گوئی کا حکم دیتا ہے۔ عدل و انصاف کی راہ میں جتنی رکاوٹیں پیش آ سکتی تھیں ، کسی سے محبت و قرابت، دوستی یا کسی سے عداوت و دشمنی وغیرہ ان سب رکاوٹوں کو ایک ایک کرکے کتاب اللہ نے دور فرمایا۔

اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں :

؎یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُهَدَا ءَ لِلّٰهِ وَلَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ ۚ اِنْ یَّكُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰهُ اَوْلٰى بِهِمَا   ۣ فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوٰٓى اَنْ تَعْدِلُوْا ۚ وَاِنْ تَلْوٗٓا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا النساء 135)

اے ایمان والو! اللہ کی خاطر انصاف پر قائم رہتے ہوئے گواہی دیا کرو خواہ وہ گواہی تمہارے اپنے یا تمہارے والدین یا قریبی رشتہ داروں کے خلاف ہی پڑے۔ اگر کوئی فریق دولت مند ہے یا فقیر ہے، بہرصورت اللہ ہی ان دونوں کا تم سے زیادہ خیر خواہ ہے۔ لہذا اپنی خواہش نفس کے پیچھے پڑ کر عدل کی بات کو چھوڑو نہیں۔ اور اگر گول مول سی بات کرو یا سچی بات کہنے سے کترا جاؤ تو (جان لو کہ) جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے واقف ہے۔

اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں :

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰهِ شُهَدَا ءَ بِالْقِسْطِ ۡ وَلَا یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا ۭاِعْدِلُوْا   ۣ هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى ۡ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ

’’اے ایمان والو! اﷲ کے واسطے انصاف کی گواہی دینے کیلئے کھڑے ہو جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہرگز نہ چھوڑو، انصاف کرو، یہی بات تقویٰ کے زیادہ نزدیک ہے، اور اﷲ سے ڈرتے رہو جو کچھ تم کرتے ہو بے شک اﷲ اس سے خبردار ہے‘‘۔ (سورٰ المائدۃ آیت: 8)

امام رازی ؒ اپنی تفسیر (تفسیر کبیر) میں اس آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں :

’’وفیہ تنبیہ عظیم علیٰ وجوب العدل مع الکفار الذین ھم أعداء ﷲ تعالیٰ فما الظن بوجوبہ مع المؤمنین الذین ھم أولیاء ہ وأحبّائہ؟‘‘

’’اس میں اللہ تعا لیٰ کی طرف سے وجوب عدل پر بہت بڑی تنبیہ ہے ان کفار کے ساتھ بھی جو اﷲ کے دشمن ہیں تو کیا خیال ہے مومنوں کے ساتھ، جو اﷲ کے دوست اور محبوب ہیں ، عدل واجب نہ ہوگا؟‘‘

آج بعض اہل علم اور دینی جماعتوں اور دینی درسگاہوں میں ان قرآنی اصولوں کو نظر انداز کیا جارہا ہے،اس کے نظر انداز کرنے کی وجہ سے تنگ نظری اور تعصب بہت زیادہ پایا جا رہا ہے۔ ہر شخص نے یہ طے کیا ہے کہ ( أنا مع فلان) اس وجہ سے وہ اپنے مخالف کی کسی خوبی کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے اور نہ ہی دلیل کو خاطر میں لاتے ہیں۔

حالانکہ یہود جوکہ اَمکر الأمم اور اﷲ تعالیٰ کے دشمن ہیں ان کے بارے میں اسلام کا عدل و انصاف دیکھیں۔ سورۃ اٰل عمران میں اﷲ تعالیٰ جب ان کے قبائح و خبائث ذکر فرماتے ہیں تو ان کی جملہ خباثتوں میں سے ان کی ایک خباثت، خیانت بھی ذکر کرتے ہیں ، لیکن وہاں امانت دار یہودیوں کو بھی نظر انداز نہیں فرماتے بلکہ ان کی امانت و دیانت کا ذکر بھی بڑے شاندار انداز سے فرماتے ہیں۔

چنانچہ ارشاد ہے:

وَمِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ مَنْ اِنْ تَاْمَنْهُ بِقِنْطَارٍ یُّؤَدِّهٖٓ اِلَیْكَ ۚ وَمِنْھُمْ مَّنْ اِنْ تَاْمَنْهُ بِدِیْنَارٍ لَّا یُؤَدِّهٖٓ اِلَیْكَ اِلَّا مَا دُمْتَ عَلَیْهِ قَا ىِٕمًا

’’اور اہل کتاب میں بعض ایسے ہیں کہ اگر آپ ان کے پاس ایک ڈھیر مال کا امانت رکھیں وہ آپ کو ادا کردیں گے اور ان میں سے وہ ہیں کہ اگر آپ ان کے پاس ایک اشرفی امانت رکھے تو بھی آپ کو واپس نہیں کریں گے۔ ہاں جب تک کہ آپ اس کے سرپر کھڑے رہیں۔‘‘ (آل عمران آیت: ۷۵)

مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اﷲ اپنی تفسیر معارف القرآن میں اس آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں :

’’اس بیان سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام تعصب اور تنگ نظری سے کام نہیں لیتا، بلکہ وہ کھلے دل سے اپنے مخالف کے ہنر کی بھی اس کے مرتبہ کے مطابق داد دیتا ہے۔‘‘

رسول اﷲﷺ کی دعاؤں میں اس جملے کی بھی کوئی اہمیت ہے ’’وکلمۃ الحق فی الرضیٰ والغضب‘‘ اے اﷲ مجھے رضا و غضب دونوں حالتوں میں حق کہنے کی توفیق عطافرما۔

لہٰذا اہل علم، و معلّمین کو چاہیے کہ وہ اسلام کایہ خصوصی امتیاز طلبہ کو سکھائیں اور خود بھی اس پر عمل کرکے طلبہ کے لیے عملی نمونہ بنیں۔

اور ( أنا مع فلان ) کے بجائے (أنا مع الحق والدّلیل ) کا درس دیں۔

حضرت بنوری رحمہ اللہ فر ما تے ہیں :

’’ اپنی پا رٹی کی ہر بات خوا ہ وہ کیسی ہی غلط ہو ، اس کی حما یت وتا ئید کی جاتی اور مخا لف کی ہر بات پر تنقید کرنا سب سے اہم فرض سمجھا جاتا ہے۔ مدّعی اسلام جما عتوں کے اخبار ورسا ئل تصویریں ، کارٹون ،سینما کے اشتہار، سود اور قمار کے اشتہار اور گندے مضا مین شا ئع کرتے ہیں۔مگر چو نکہ اپنی جماعت کے حا می ہیں ،اس لئے جا ہلی تعصّب کی بنا ء پر ان سب کو بنظر استحسا ن دیکھا جاتا ہے ، الغرض جو اپنا حا می ہو وہ تمام بد کردا ریوں کے با وجود پکا مسلما ن ہے اور جو اپنا مخالف ہو اس کی نماز روزہ کا بھی مذاق اڑا یا جا تا ہے، تعصب اور تحقیق دو نوں جمع نہیں ہو سکتے‘‘۔ سبق کے اختتام پر یہ پڑھیں

سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ اَشْھَدُ أنْ لَّآ إِلٰہَ اِلَّا أَنْتَ أَسْتَغْفِرُکَ وَأَتُوْبُ إِلَیْک

اس سے مجلس کا کفارہ ہو جائے گا۔

 

                طہا رت قلب کا اہتمام کریں

 

علم ایک نور ہے جسے حق تعالیٰ انسان کے دل میں ڈالتے ہیں ، اس کے لیے طہارت باطن لازمی، ورنہ علم کا نور قلب میں داخل نہ ہوگا اور نہ ہی علم کے ثمرات اور برکات ظاہر ہوں گے۔

یہ صلاۃ السر ہے، چنانچہ اپنے قلب کو تمام صفات ذمیمہ، بغض و عداوت، حسد، کینہ، بد اخلاقی، ریاکاری، مداہنت، مخلوق پرستی، مفادات پرستی، حب مال، حب جاہ،تکبر و تعصب لغیر اﷲ،تزیّن للناس، ہٹ دھرمی، غلطی پر اصرار سے اور ہر قسم کے برے ارادے سے اپنے قلب کو پاک رکھیں ! صحابہ کرام رضی اﷲ عنہ اجمعین کی امتیازی صفات میں سے ایک صفت ’’أبرّھم قلوباً‘‘ دل کی نیکی تھی۔ حدیث میں ارشاد ہے، رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا:

بے شک جسم میں ایک گوشت کا لوتھڑا ہے اگر وہ درست ہو جائے تو پورا جسم درست ہوگا، اگر وہ بگڑ جائے تو پورا جسم فاسد ہو جاتا ہے۔ خبردار وہ دل ہے۔

طہارت باطن سے علم کے دقائق و غوامض، اسرار و حقائق کھلتے ہیں۔

(لا تدخل الملا ئکۃ بیتاً فیہ کلب‘ُ أو تصاویر)

جس گھر میں کتا یا تصاویر ہوں وہاں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے۔

تو جس دل میں شہوات اور شبہات کے کتے مو جود ہوں وہاں سکینہ اور علم کا نورکیسے داخل ہو سکتا ہے۔ {واتقوا اللّٰہ ویعلمکم اللّٰہ } تقویٰ اختیار کرو ،اللہ تعالیٰ علم دے گا۔

(ذا ق طعم الایمان من رضی با للہ ربّاً وبا الا سلام دیناً وبمحمّدٍ رسو لاً )

جو شخص اللہ تعالیٰ کو رب، اسلام کو دین اور محمد کو رسول ماننے پر راضی ہوجاتا ہے وہ ایمان کا ذائقہ چکھ لیتا ہے۔

معلّم خود بھی اس کا اہتمام کرے اور طلبہ کو بھی اس کی تاکید کرے۔

شکو ت الٰی وکیعٍ سوء حفظی

فأرشدنی الٰی ترک المعاصی

وذٰلک أن حفظ العلم فضلٌ

وفضل اللّٰہ لا یؤ تی لعا صی

ترجمہ:

میں نے امام وکیع کے پاس اپنے کمزور حافظے کی شکایت کی تو انہوں نے مجھے گناہوں کو ترک کرنے کا مشورہ دیا کیونکہ علم یاد کرنا فضل و رحمت ہے اور اللہ تعالیٰ کا فضل کسی گناہ گار کو نہیں ملتا۔

٭٭٭

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید