FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

نئے کپڑے

 

 

 

                   محمد فہیم عالم

 

 

 

 

انتساب

 

بھائی عبد المبین مئیو

اور

بھائی محمد ندیم مئیو

کے نام۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

 

 

نئے کپڑے

 

’’امی جان!آپ نئے کپڑے بنا کر دیں گی نا اور نئے جوتے بھی۔۔۔؟ پچھلی عید پر آپ نے وعدہ کیا تھا، اِس مرتبہ کوئی بہانہ نہیں چلے گا۔ میں ضرور نئے کپڑے پہنوں گا۔‘‘

’’ہاں۔۔۔!ہاں۔۔۔ میرے بچے! کیوں نہیں ؟ میں اپنے بیٹے کو نئے کپڑے اور جوتے ضرور لا کر دوں گی‘‘۔روبینہ بی بی اپنے بیٹے عمّار کو چُمکارتے ہوئے بولی۔

امی جان کے یہ الفاظ سُن کر عمّار کے چہرے پر خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ وہ تیر کی طرح اپنے دوستوں کو یہ بتانے کے لئے گھر سے نکلا کہ اُن کی طرح وہ بھی اِس مرتبہ عید پر نئے کپڑے اور جوتے پہنے گا۔

روبینہ بی بی نے کہہ تو دیا تھا لیکن اُسے خود اپنے لہجے میں صداقت محسوس نہیں ہو رہی تھی،اُسے اپنے اکلوتے بیٹے عمّار کے لئے نئے کپڑے اور جوتے خریدنا، اِس بار بھی مشکل نظر آ رہا تھا۔

وہ ہمیشہ بیگم صاحبہ کے بچوں کی اُترن ہی اپنے بیٹے کو پہنا دیتی، لیکن اِس دفعہ تو عمّار نے صاف کہہ دیا تھا کہ وہ نئے کپڑے اور جو تے پہن کر ہی عید کی نماز پڑھنے جائے گا۔ روبینہ بی بی اُسے کیسے سمجھاتی کہ مہنگائی کے اِس دور میں پیٹ کا جہنم بھرنا ہی بڑا مشکل ہے ، چہ جائے کہ نئے کپڑوں کا خواب دیکھنا۔ اگر وہ اپنی مختصر سی آمدنی سے، اکلوتے بیٹے کی خواہش پوری کر دیتی تو گھر میں فاقے شروع ہو جاتے۔

’’کاش ! عمّار کے ابو زندہ ہوتے!‘‘ روبینہ بی بی کے دل میں ایک ہوک سی اُٹھی۔

مّار کے ابو زندہ تھے تو وہ کتنے جوش و خروش سے عید منایا کرتے تھے۔ وہ ایک نجی ادار ے میں کلرک تھے ،لیکن روبینہ بی بی کی میانہ روی اور کفایت شعاری سے ان کی مختصر تنخواہ میں بھی اچھی گزربسرہو جاتی تھی۔ ایک دن عمّار کے والد شہر میں ہونے والے دھماکے کی نذر ہو گئے۔ زبانی تسلّی کے چند الفاظ بول کر کچھ دنوں کے بعد رشتے دار بھی اپنے اپنے گھروں کوہو لیے اور عمّار کی پرورش کا تمام تر بوجھ روبینہ بی بی کے ناتواں کندھوں پر آ پڑا۔ چند دن تواس کی کفایت شعاری سے بچائے ہوئے پیسے کام آتے رہے لیکن آخر کب تک۔۔۔؟  پھر اس نے ایک کوٹھی میں کام کرنا شروع کر دیا۔ کوٹھی کی مالکن ایک سخت مزاج اور اَکھڑ قسم کی عورت تھی۔ بات بات پر ڈانٹنا اُس کی گھُٹّی میں شامل تھا۔ تنخواہ بہت تھوڑی تھی، وہ بھی کئی باتیں سُنا کر دیتی تھی۔روبینہ بی بی مجبور تھی ،اس لئے خاموشی  سے سر جھُکائے سنتی رہتی۔

عید قریب آ رہی تھی اور روبینہ بی بی کی پریشانی دو چند ہو رہی تھی۔ بیگم صاحبہ سے پیشے مانگتے ہوئے اچھے ڈر لگتا تھا۔

رمضان کا تیسراعشرہ شروع ہو چکا تھا۔اُدھر عمّار کا مطالبہ بھی دن بہ دن زور پکڑتا جا رہا تھا۔ روبینہ بی بی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کرے تو کیا کرے؟

آج چاند رات تھی۔بازاروں میں اچھا خاصا رش تھا۔تِل دھرنے کی بھی جگہ نہ تھی۔دکان داروں نے اپنی دکانوں کو بہت خوبصورتی سے سجایا ہوا تھا۔ رات کا نصف حصہ گزر چکا تھا،  لیکن بازاروں میں گاہکوں کی آمدبدستور جاری تھی۔

روبینہ بی بی کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔ننھا عمّار رو دھو کر سوچُکا تھا اور یہ کہہ کرسویا تھا کہ اِس مرتبہ بھی اُس کے لئے نئے کپڑے نہیں بنے، اِس لئے وہ کل عید کی نماز پڑھنے نہیں جائے گا۔وہ گہری سوچوں میں گُم تھی۔اُسے بے اختیار ایک واقعہ یاد آ رہا تھا۔ اس نے یہ واقعہ اپنی والدہ سے بچپن میں سُنا تھا۔

ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ معمول کے مطابق عوام کی خبر گیری کے لئے مدینے کی گلیوں میں گشت فرما رہے تھے۔ ایک گھر سے بچوں کے رونے کی آواز سُنائی دی۔معلوم کرنے پر پتا چلا کہ بچے بھوک کی وجہ سے رو رہے ہیں۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوراً واپس ہوئے اور بیت المال سے کھانے کا سامان اپنی کمر پر اُٹھا لائے۔ غلام ساتھ تھا۔اُس نے عرض کیا :

’’امیر المومنین! یہ بوجھ میں اُٹھا لیتا ہوں ‘‘۔

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:

’’کیا قیامت کے دن بھی میرا بوجھ تم اُٹھاؤ گے۔۔۔؟‘‘

لہٰذا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود ہی سامان اُٹھا کر اُس گھر میں لے آئے۔ اپنے ہاتھوں سے کھانا پکا کر،ان بچوں کو کھلایا۔بچے کھانا کھانے کے بعد خوش ہو کر کھیلنے لگے ، یہ دیکھ کر آپ نے سکون کا سانس لیا۔‘‘

روبینہ بی بی کو بچپن میں سُنا ہوا، یہ واقعہ آج بڑی شدّت سے یاد آ رہا تھا۔ اُس کی آنکھوں میں یکایک آنسو آ گئے۔

’’کاش!ہمارے حکمران بھی ایسے ہو جائیں۔غریبوں کی خدمت کرنے والے، مسکینوں کی خبرگیری کرنے والے۔کاش! کوئی تو ہو، جس کے دل میں خوفِ خدا ہو، جو غریبوں کے روتے ہوئے بچوں کے آنسو پونچھ سکے۔‘‘وہ بے خودی میں بڑبڑائے جا رہی تھی۔

٭۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔٭

 

’’لو بھئی حماد ! تمہاری عید کی شاپنگ تو ہو گئی مکمل۔۔۔تین جوڑے کپڑوں کے اور تین ہی جوتوں کے۔نئی خوبصورت سُنہری گھڑی اور چشمہ تو تم پہلے ہی خرید چکے ہو۔ اگر کچھ اور لینا ہے تو بتا دو،ابھی تو ہم بازار ہی میں ہیں ‘‘۔ سیٹھ عثمان پاریکھ ہاتھ میں پکڑے ہوئے شاپنگ بیگز گاڑی کی پچھلی سیٹ پر رکھتے ہوئے بولے۔

’’نہیں ، پاپا بس! اب مجھے کچھ اور نہیں لینا، یہی کافی ہیں ،بلکہ کافی سے بھی کچھ زیادہ ہی ہیں۔اِس مرتبہ بھی سب دوستوں میں میری ہی چیزیں سب سے زیادہ ہیں۔ پاپا! میرے دوست عمار کے پاس تو کچھ بھی نہیں ہو گا۔۔۔نئے کپڑے اور جوتے بھی نہیں …وہ مجھے بتا رہا تھا کہ اُس کی ممّی کے پاس پیسے نہیں ہیں اور اُس کے پاپا تو پہلے ہی اللہ میاں کے پاس جا چکے ہیں ‘‘۔حماد بولتا چلا گیا۔

’’اچھا۔۔۔!‘‘سیٹھ عثمان پاریکھ گاڑی اِسٹارٹ کرتے ہوئے بولے۔

’’ویسے ہمارے پیارے بیٹے کا یہ دوست عمّار ہے کون۔۔۔؟‘‘

’’ ہمارے گھر کام والی آتی ہے نا، اُس کا بیٹا ہے۔‘‘

’’میں نے اِسے کتنی مرتبہ سمجھایا ہے کہ صرف اپنے اسٹیٹس کے لڑکوں کوہی دوست بنایا کرو۔ان چھوٹے موٹے لوگوں کو منہ مت لگایا کرو۔ان کو تھوڑی سی کوئی چیز دو تو یہ سر پر چڑھ جاتے ہیں ،لیکن یہ میری سُنتا ہی کہاں ہے!‘‘پچھلی سیٹ پر بیٹھی اُن کی بیگم خالدہ بُراسامنہ بنا کر بولیں۔

’’حماد بیٹا! بُری بات۔۔۔مما کی بات مانا کرو۔۔۔چلو بھئی !اب اُترو گھر آ گیا ہے۔‘‘

گاڑی ایک محل نما عظیم الشان بنگلے کے سامنے رُک گئی۔

’’مالک !آپ کے لئے یہ پارسل آیا ہے‘‘۔وہ گھرکے اندرونی حصے کی طرف بڑھنے ہی لگے تھے کہ اُن کا ملازم ایک کافی بڑا پارسل لے کر آ گیا۔

’’میراپارسل۔۔۔؟کون دے کر گیا۔۔۔؟‘‘

اُنھوں نے حیرت سے پارسل کی طرف دیکھا۔

’’آپ کے دوست! عبدالرؤف گیلانی کا ملازم دے کر گیا ہے‘‘۔

’’اوہ۔۔۔!ہاں۔۔۔!یاد آیا۔۔۔۔۔آج چاند رات ہے اور ہر سال چاند رات کو میرا دوست مجھے تحفہ دینا نہیں بھولتا۔یہ ضرور پینٹنگ ہو گی۔ایسا کرو، اِسے کھول کر میرے کمرے میں لگا دو۔‘‘اُنھوں نے ملازم کو ہدایت کی اور آگے بڑھ گئے۔کچھ دیر بعد وہ اپنے کمرے میں آئے تو ملازم وہ پینٹنگ اُن کے کمرے میں لگا چُکا تھا۔ وہ واقعی پینٹنگ تھی۔ بہت ہی خوب صورت اور دلکش سُنہری رنگ کے فریم نے پینٹنگ کو چار چاند لگا دیے تھے۔اُس پر بہت ہی خوب صورت انداز میں کچھ لکھا ہوا تھا۔

سیٹھ عثمان پاریکھ نے جونہی عبارت کو پڑھا۔وہ چونک اُٹھے۔اُن کے ذہن میں ایک جھماکا سا ہوا۔

’’میرے دوست عمار کے پاس تو کچھ بھی نہیں ہو گا۔۔۔نئے کپڑے اور جوتے بھی نہیں …وہ مجھے بتا رہا تھا کہ اُس کی ممّی کے پاس پیسے نہیں ہیں اور اُس کے پاپا تو پہلے ہی اللہ میاں کے پاس جا چکے ہیں۔‘‘

حماد کے الفاظ اُن کے ذہن میں گونج رہے تھے۔اچانک اُنہوں نے ایک فیصلہ کیا۔

’’اب کہاں چل دئیے؟‘‘بیگم خالدہ اُن کو گاڑی کی چابی ہاتھ میں پکڑے ، باہر جاتا دیکھ کر حیرت سے بولیں۔

’’بیگم!میں ذرا ایک کام سے بازار جا رہا ہوں۔‘‘

’’لیکن ابھی تو ہم بازار سے آئے ہیں !اچانک آپ کو بازار میں کیا کام پڑ گیا….؟‘‘

’’بس !ہے ایک کام۔۔۔وہ میں کرنا بھول گیا تھا۔‘‘اِتنا کہہ کر وہ آگے بڑھ گئے۔کچھ ہی دیر بعد وہ اپنی گاڑی میں بازار کی طرف جا رہے تھے۔ اُن کو ڈر تھا، کہیں بازار بند ہی نہ ہو جائے کیوں کہ رات کافی ہو چکی تھی۔

٭۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

دروازے پر ہونے والی دستک نے اُسے چونکا دیا۔

’’کون ہے۔۔۔؟‘‘روبینہ بی بی نے دروازے پر آتے ہوئے پوچھا۔اُسے حیرت ہو رہی تھی کہ اتنی رات گئے کون ہو سکتا ہے۔ باہر سے جواب نہ ملا تو اُس کی حیرت بڑھ گئی۔ اُسے خوف محسوس ہوا ،پھر ہمت کر کے اس نے دروازہ کھول دیا۔

گلی میں کوئی نہ تھا …سوائے سناٹے کے۔ اچانک اُس کی نظر دروازے کے باہر پڑے، بڑے سے شاپنگ بیگ پر پڑی۔ اُس نے حیرت بھری نظروں سے بیگ کی طرف دیکھا۔اُس کی نظریں کاغذ کے پُرزے پر چپک کر رہ گئیں جو بیگ کے اُوپر چسپاں تھا۔اُس نے جھُک کر اُسے پڑھا۔ اُس پر لکھا تھا:

’’محترمہ! یہ میری طرف سے آپ اور آپ کے بیٹے عمّار کے لئے عید کا تحفہ ہے۔اُمید ہے کہ قبول فرما لیں گی۔‘‘

نیچے کسی کا نام نہیں لکھا تھا۔

اُس نے بے یقینی کے عالم میں ادھر ادھر دیکھا۔ پھر اس نے جھک کر بیگ اُٹھا لیا۔ دروازہ بند کر کے اُسے کھولا۔اُس میں عمّار اور اُس کے لئے نئے کپڑے اور  جوتے تھے۔

بے اِختیار اُس کی آنکھوں میں شکر کے آنسو تیر گئے اور اُس کا دل پُکار اُٹھا :

’’یہ دُنیا ابھی اللہ کے نیک بندوں سے خالی نہیں ہوئی۔اب بھی کچھ لوگ ہیں جودوسروں کو تکلیف میں دیکھ کر تڑپ اُٹھتے ہیں۔ شاید۔۔۔ شا ید ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے اِس دُنیا کا نظام قائم ہے۔‘‘

وہ اپنے ربّ کے حضور سجدۂ شکر ادا کرنے کے بعد عمار کی چارپائی کی طرف بڑھ گئی…وہ جلد از جلد اپنے بیٹے کو خوش خبری دینا چاہتی تھی کہ وہ بھی دوسرے بچوں کی طرح نئے کپڑے اور جوتے پہن کر عید پڑھنے جائے گا….

٭٭

 

سیٹھ عثمان پاریکھ کو گھر واپس آتے آتے کافی دیر ہو گئی تھی۔بیگم اور اُن کا بیٹا حماد بھی سو چکے تھے۔وہ بھی اپنے کمرے میں سونے کے لئے گئے۔ جیسے ہی اُن کی نظر اُس پینٹنگ پر پڑی تو اُن کے چہرے پر ایک گہری مُسکراہٹ پھیل گئی۔پینٹنگ پر لکھی عبارت پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہی تھی۔یہ عبارت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک ارشاد تھا:

’’جو شخص کسی یتیم کے ساتھ بھلائی کرے گا، میں اور وہ جنت میں اکٹھے (پاس پاس )ہوں گے۔‘‘

حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا قُرب اور وہ بھی جنت میں۔۔۔اِس خوب صورت تصور کے اِحساس سے، سیٹھ عثمان پاریکھ کے چہرے پر پھیلی مُسکراہٹ اور بھی گہری ہو گئی۔

٭٭٭

[الادب المفرد ، باب فضل من یعول یتیما من ابویہ:133]

٭٭٭

 

 

 

 

یہ کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔؟

 

’’میں توہر روز ادا  کرتا ہوں اور ایک بار نہیں … دن میں کئی مرتبہ ادا کرتا ہوں ، ایک بار تو میں نے سومرتبہ ادا کیا تھا۔‘‘

’’کیاکہاسومرتبہ!!۔۔۔‘‘عائش حیرت سے چلا اُٹھا۔

’’بھلا یہ۔۔۔۔۔یہ۔۔۔۔۔کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘

’’ہو سکتانہیں میرے دوست!ایساہوتا ہے ‘‘۔عُکاشہ مسکراتے ہوئے بولا۔

عائش، عُکاشہ کاپڑوسی ہی نہیں ، بہترین دوست بھی تھا۔اُن کی دوستی مثالی تھی۔ وہ ایک اسکول میں نہیں پڑھتے تھے،لیکن اسکول کا کام دونوں عُکاشہ کے گھر میں کرتے تھے۔

معمول کے مطابق آج عائش اپنا اسکول بیگ کندھے پر لٹکائے آیاتواُس کا چہرہ مارے جوش و مسرّت  کے سُرخ ہو رہا تھا۔وہ آتے ہی بولا:

’’عُکاشہ! میں حج پرجا رہا ہوں ‘‘۔

’’کیا کہا۔۔۔!تم حج پرجا رہے ہو۔۔۔لیکن تم تو ابھی چھوٹے ہو؟‘‘ عُکاشہ نے حیرت سے اُسے دیکھا۔

’’ چھوٹا ہوں ،اِسی لئے تو جا  رہا ہوں۔اصل میں حج پر تو میرے ابوجی اور امی جا ن جا رہے ہیں ،لیکن میں نے بھی ساتھ جانے کی ضد کر دی،کیوں کہ حج کے لئے ہوائی جہاز پر جاتے ہیں اور تمہیں تو معلوم ہے، مجھے ہوائی جہاز پر بیٹھنے کا کتنا شوق ہے۔بس! میں نے بھی جانے کی ضد کر دی۔ تم یہ مت سمجھناکہ میں نے صرف جہاز پر بیٹھنے کے لیے یہ ضد کی ہے۔نہیں بھئی! یہ ضد تو میں نے حج کا ثواب حاصل کرنے کے لئے کی ہے، کیوں کہ حج کا ثواب بھی تو بہت زیادہ ہے۔میری امی جان بتا رہی تھیں ،حج کرنے پر اللہ میاں ڈھیرسارا ثواب عطا فرماتے ہیں اور ۔۔۔اور ۔۔۔‘‘عائش سوچنے کے سے انداز میں بولا۔

’’اور ۔۔۔ہاں !حج کرنے والے کی اللہ میاں تمام دُعائیں قبول فرماتے ہیں اور خوش ہو جاتے ہیں اور عُکاشہ میرے دوست!سب سے بڑی بات تو یہ ہے، میں اللہ میاں کے کالے کالے، پیارے سے گھر کو دیکھوں گا۔میری امی جان بتا رہی تھیں ،

’جہاں اللہ میاں کا گھر ہے وہاں ہر وقت اللہ میاں کے نور اور رحمتوں کی بارش ہوتی رہتی ہے۔‘

اور اِس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ میں اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ مبارک پر بھی حاضری دوں گا اور وہاں بیٹھ کر ڈھیرسارادرُود و سلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھیجوں گا۔

میری امی جان نے بتایا تھا:

’ جو کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ مبارک پرجا کر درود وسلام پیش کرتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوداُس کے سلام کا جواب دیتے ہیں۔ ‘

آہا۔۔۔!عُکاشہ میرے دوست!وہ۔۔۔وہ کیا ہی منظر ہو گا جب میں۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ مبارک پرسلام پیش کر رہا ہوں گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود جواب دے رہے ہوں گے!‘‘عائش جذبات کی رو میں بہتا چلا گیا۔آخری الفاظ ادا کرتے ہوئے اُس کی آواز میں لرزش تھی۔

عُکاشہ نے چونک کراُسے دیکھا۔۔۔پھراُس کی آنکھوں میں آنسوبھر آئے تھے۔

’’ہاں بھئی! حج پر جانا واقعی ! بہت بڑی خوش قسمتی کی بات ہے۔۔۔اللہ تعالیٰ قسمت والوں کوہی اپنے دربار میں بُلاتے ہیں۔وہاں کی فضائیں ہی الگ ہیں۔وہ مقامات تو گویا دُنیا میں ہی جنت ہیں بلکہ جنت سے بھی کہیں زیادہ افضل۔اللہ تعالیٰ ہرمسلمان کو اُن مقامات کی زیارت کروائے!لیکن بھئی! میں تو روزانہ حج ادا کرتا ہوں اور ایک بار ہی نہیں بلکہ دن میں کئی مرتبہ ادا کرتا ہوں۔ایک دن تو میں نے سومرتبہ ادا کیا تھا‘‘۔

’’یہ۔۔۔یہ۔۔۔کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘ اُس کی بات سُن کر عائش چلا اُٹھا تھا۔

’’نہیں بھئی! میں نہیں مانتا۔ ایک دن میں سوحج تو کیا تم ایک حج بھی بلکہ آدھا حج بھی ادا نہیں کرسکتے۔آدھا حج توخیرویسے بھی ہوتا ہی نہیں۔ مطلب یہ کہ تم روزانہ ایک حج کسی صورت بھی ادا نہیں کر سکتے،کیوں کہ اللہ کا پیارا گھر۔۔۔بیت اللہ توسعودی عرب میں ہے اور سعودی عرب یہاں سے بہت دور ہے۔میری امی جان بتا رہی تھیں ، حج کے چند مخصوص دن ہوتے ہیں جن میں حج ادا کیا جاتا ہے۔‘‘ وہ مسکرایا۔

’’فرض کریں ، حج روزانہ ہوتا تو بھی یہ نا ممکن ہے کہ تم روز حج کرتے اور ایک دن میں کئی بار تو حج ہو ہی نہیں سکتا میرے دوست، ہاں اگر تم کوئی جن ون ہوتے تو ….‘‘

’’نہیں بھائی میں کوئی جِن نہیں ہوں … ایک جیتا جاگتا انسان ہوں ‘‘۔  عُکاشہ بولا۔

’’تو کیا جِن جیتے جاگتے نہیں ہوتے!‘‘عائش نے حیرت سے پوچھا۔

’’مجھے نہیں پتا !کیوں کہ میں جِن نہیں ہوں۔سنو،میں جس حج کا کہہ رہا ہوں ، اُس کے لئے مجھے کہیں جانے کی ضرورت نہیں پڑتی،بلکہ وہ حج میں اپنے گھر ہی میں ادا کرتا ہوں اور اُس کے لئے کوئی خاص دن یا وقت مقرر نہیں ہے۔ وہ سال کے کسی بھی حصے میں اور کسی بھی وقت ادا کیاجاسکتا ہے۔ مزے کی بات یہ کہ جو حج تم کرنے جا رہے ہو،اُس کا قبول ہونا یقینی نہیں ہے۔ہو سکتا ہے، اللہ تعالیٰ قبول نہ کریں ، جب کہ میرے حج کے قبول ہونے میں ذرہ برابر شک نہیں ہوتا‘‘۔ عُکاشہ کہتا چلا گیا۔

’’ضرور تمہارا دماغ چل گیا ہے،جوتم ایسی بہکی بہکی باتیں کر رہے ہو‘‘۔عائش بُراسا منہ بنا کر بولا۔

’’نہیں بھئی !میرا دماغ نہیں چلا۔یہ واقعی حقیقت ہے۔ابھی میں تمہیں ایک بات بتاؤں گا، تم میرا یقین کر لو گے۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا مبارک ارشاد ہے :

’جو شخص اپنے والدین کا چہرہ محبت کی نظرسے دیکھے تواُسے حجِ مقبول کا ثواب ملتا ہے۔‘

’’کیا!!!عائش چلا اُٹھا اور تیزی سے اُٹھ کھڑا ہوا۔

’’ارے۔۔۔ بھئی !کہاں چل دئیے۔۔۔؟‘‘

’’میں بھی تمہاری طرح حج مقبول کرنے جا رہا ہوں ‘‘۔ عائش نے کہا اور تیزی سے دروازے کی طرف بڑھا…. عُکاشہ کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔

٭  [اخرجہ الرافعی۳ ؍۴۲۳]

٭٭٭

 

 

 

 

 

خاص بات

 

’’سر!آپ کے دوست حماد قریشی آئے ہیں۔‘‘

’’کیا۔۔۔!‘‘ ملازم کا یہ جملہ سُن کر عثمان سبحانی اپنی کرسی سے اُچھل ہی تو پڑے اور ملازم کو پرے دھکیلتے ہوئے دروازے کی طرف لپکے۔ ویٹنگ روم (انتظار گاہ) میں اُن کے دوست حماد قریشی بیٹھے ہوئے تھے۔

’’آہا۔۔۔!حماد میرے دوست! ‘‘ اُن کو دیکھتے ہی عثمان سبحانی اپنے بازوؤں کو پھیلائے اُن کی طرف لپکے۔ دوست کو گلے سے لگا کر دونوں بازوؤں میں جکڑ لیا  اور محبت میں اتنی زورسے دبایا کہ حماد قریشی کو اپنی پسلیاں ایک دوسرے میں گھُستی محسوس ہوئیں۔ وہ ٹھہرے ایک دھان پان سے آدمی جب کہ عثمان سبحانی ماشاء اللہ خوب موٹے تازے اور ہٹے کٹے تھے۔ جب خوب دبا کر عثمان سبحانی نے اُنہیں چھوڑا تو حماد قریشی یوں ہانپ رہے تھے جیسے میلوں پیدل چل کر آئے ہوں۔

’’جاؤ!میں تم سے نہیں بولتا۔۔۔میں تم سے ناراض ہوں ‘‘۔عثمان سبحانی منہ پھُلا کر بولے۔

’’ کک۔۔۔کیوں بھئی! مجھ سے ایسی کیا غلطی ہو گئی ہے ؟‘‘ حماد قریشی گھبرا کر بولے۔

’’غلطی کے بچے !میں نے تمہیں کتنی مرتبہ کہا ہے، بغیر پوچھے بے دھڑ ک  اندر آ جایا کرو ،لیکن تم ہو کہ مانتے ہی نہیں ‘‘۔وہ اُنہیں گھورتے ہوئے بولے۔

’’نہیں بھئی ! بغیر اجازت اندر آنے کو میں مناسب نہیں سمجھتا، کیوں کہ اب ہر وقت تو بندہ فارغ نہیں ہوتا نا!ہو سکتا ہے تم کسی اہم میٹنگ میں مصروف ہو ،کوئی اہم کال سن رہے ہو،یا اپنا کوئی ایمرجنسی کام کر رہے ہو۔ اب اگر میں بغیر اجازت اندرگھس آؤں تو تمہیں اپنا کام بیچ میں چھوڑنا پڑے گا اور یہ کوئی اچھی بات تو نہیں ہے نا!۔۔۔ بس یہی سوچ کر میں اندر آنے سے پہلے اجازت لیتا ہوں ‘‘۔ حماد قریشی بولے۔

’’لیکن میرے دوست!یہ سب کچھ سوچنے سے پہلے تم یہ کیوں نہیں سوچ لیتے کہ تمہارے لئے تومیں دنیا بھرکی مصروفیات چھوڑ سکتا ہوں ‘‘۔عثمان سبحانی محبت بھرے لہجے میں بولے اور حماد قریشی کا ہاتھ تھامے اُنہیں اپنے دفتر میں لے آئے۔باتیں شروع ہوئیں تو وہ اپنے ماضی میں کھو کر رہ گئے۔۔۔۔۔بچپن اور اسکول کے زمانے کی یادیں تازہ کرنے لگے۔ وہ بچپن کے دوست تھے۔دانت کٹی روٹی رکھتے تھے۔ اُن کی دوستی کی تو اسکول بھر میں مثالیں دی جاتی تھیں۔ دونوں اکھٹے ہی اسکول آتے جاتے، مسجد کے قاری صاحب کے پاس قرآن شریف پڑھنے بھی وہ دونوں ساتھ ہی جاتے۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد عثمان سبحانی نے تو اپنے والد کا کاروبار سنبھال لیا، جب کہ حماد قریشی ایک سرکاری محکمے میں ملازم ہو گئے۔اُن کی باتیں جاری تھیں کہ ملازم چائے اور دوسرے لوازمات اُن کے سامنے رکھ گیا،لیکن وہ تو اپنی باتوں میں اس قدر کھوئے ہوئے تھے کہ انہوں نے چائے کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔

’’اوہو۔۔۔! میں بھی کتنا پاگل ہوں ،تمہیں چائے کا بھی نہ کہا،باتیں تو ہوتی رہیں گی،پہلے یہ چائے پی لیتے ہیں ‘‘۔اچانک عثمان سبحانی بولے۔

پھر وہ چائے اور دوسرے لوازمات سے انصاف کرنے لگے۔ چائے کے بعد حماد قریشی کے انکار کے باوجود عثمان سبحانی نے کھانا منگوا لیا،یوں تقریباً دو گھنٹے بعد حماد قریشی رُخصت ہوئے۔

’’صاب جی!ہم آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتے ہیں ‘‘۔ حماد قریشی جیسے ہی آفس کے دروازے پر کھڑے چوکیدار گل نواز خان کے قریب سے گزرنے لگے تو گل نواز خان بول اُٹھا۔

’’جی پوچھئے خان بابا!آپ کیا پوچھنا چاہتے ہیں ؟‘‘حماد قریشی نے مسکراتے ہوئے گل نواز خان کی طرف دیکھا۔عثمان سبحانی سے ملنے وہ کئی مرتبہ اُن کے سامنے آ چکے تھے ، اس لئے وہ گل نواز خان کو جانتے تھے۔

’’صاب جی ! ہمارے سبحانی صاب آپ سے اتنا محبت کیوں کرتے ہیں ؟ ہمارے صاب کے اور بھی بہت سے دوست ہیں ، وہ آپ سے بھی بڑی بڑی گاڑیوں میں آتے ہیں۔ سبحانی صاب کسی سے بھی اتنی محبت سے نہیں ملتے۔جتنی محبت سے وہ آپ سے ملتے ہیں۔ جتنا وقت وہ آپ کو دیتے ہیں ، اتنا وقت وہ کسی کو بھی نہیں دیتے بلکہ بعض دوستوں سے تو وہ مصروفیت کا کہہ کر معذرت کر لیتے ہیں ، لیکن جب آپ آتے ہیں تو سبحانی صاب اپنی تمام مصروفیات چھوڑ کر آپ سے ملتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو وہ آپ کی آمد پر اپنی اہم ترین میٹنگ کو بھی منسوخ کر دیتے ہیں۔آخر آپ میں ایسی کیا خاص بات ہے؟‘‘ گل نواز خان  بولتا چلا گیا۔

’’نہیں خان بابا !مجھ میں توایسی کوئی خاص بات نہیں ہے۔عثمان سبحانی مجھ سے محبت کرتے ہیں ،یہ اُن کی مہربانی ہے‘‘۔

’’صاب جی! پھر بھی کوئی نہ کوئی بات تو ہو گی۔‘‘

’’اور تو کوئی نہیں خان بابا! بس یہ ہے کہ دوستوں کے بارے میں میرا ایک اُصول ہے۔ میں ہمیشہ اپنے اس اُصول پر کاربند رہتا ہوں ‘‘۔ حماد قریشی سانس لینے کے لئے رُکے ہی تھے کہ گل نواز خان بول اُٹھا :

’’اور صاب جی وہ اصول کیا ہے؟‘‘

’’خان بابا!وہ اُصول دراصل ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک مبارک ارشاد ہے :

’وقفے وقفے سے ملا کرواس سے محبت بڑھتی ہے۔‘

میں اس مبارک ارشاد پر عمل کرتے ہوئے اپنے دوستوں سے وقفے سے ملتا ہوں۔ میرا مطلب ہے، میں روز ہی نہیں چلا آتا بلکہ کافی دنوں کے بعد آتا ہوں۔ یوں میرے دوستوں کے دلوں میں میری محبت دن بدن بڑھتی ہی رہتی ہے۔‘‘ حماد قریشی کے لبوں پر مسکراہٹ تھی۔

’’اوہ۔۔۔۔۔!صاب جی پھر تو آج سے ہم بھی اس اُصول کو اپنائیں گے‘‘۔گل نواز خان جلدی سے بولا۔

’’ہاں۔۔۔ہاں۔۔۔!کیوں نہیں ‘‘۔ حماد قریشی مسکرا کر بولے اور اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گئے۔

٭٭٭

٭  المعجم الکبیرللطبرانی۴؍۲۶

 

 

 

 

 

چھپ نہیں  سکتے

 

گڈو میاں دبے پاؤں چلتے ہوئے، اسٹورروم کے دروازے تک پہنچے اور چور نظروں سے دائیں بائیں دیکھنے لگے کہ کہیں انہیں کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔ جب اُنہیں کوئی نظر نہ آیا تو انہوں نے سکون کاسانس لیا۔ انہیں کوئی نظر آتا بھی کیسے۔۔۔دوپہر کا وقت تھا اور گرمیوں کے دن۔۔۔گرمی کے دنوں میں سے بھی اتوار۔۔۔امی جان اپنے کمرے میں محوِاستراحت تھیں۔جب کہ ابا جان ہمیشہ کی طرح اخبار اور سنڈے میگزین میں ، بقول امی جان کے گھوڑے گدھے بلکہ پورا اصطبل ہی بیچ کر مگن تھے۔آپی جان نے بھی ابا جان کی سی طبیعت پائی تھی۔ وہ بھی اپنے کمرے میں بیٹھیں ایک موٹے سے ناول میں سردئیے ہوئے تھیں۔رہے بھائی جان تو ان کو اپنے کمپیوٹرسے ہی فرصت نہیں ملتی تھی۔بس ایک دادی جان تھیں جو اپنے کمرے میں بیٹھیں قرآن مجید پڑھ کر ماہِ مبارک کی برکتیں سمیٹ رہی تھیں۔

اسٹورمیں داخل ہو کر گڈو میاں نے کمرے میں اِدھر اُدھر نظر دوڑائی۔ گھر کا یہ کمرہ کباڑ خانے کے طورپراستعمال ہوتا تھا۔جب بھی گھر میں کوئی چیز خراب ہو جاتی تواسے اس کمرے میں رکھ دیا جاتا تھا۔

خود گڈو میاں کی بہت سی چیزیں اس کمرے میں موجود تھیں۔ان کی ٹوٹی ہوئی سائیکل جوچاچوارسلان نے اُنہیں نرسری کلاس میں اول آنے پر گفٹ کی تھی۔ گڈو میاں نے اس سائیکل کوسیڑھیوں پر چلانے کی کوشش کی تھی، نتیجے کے طور پر سائیکل کے پچھلے دو پہیے اور اُن کے اگلے دو دانت اللہ کو پیارے ہو گئے تھے۔ان کا ریموٹ کنٹرول ہیلی کاپٹر،پجارو، ہنڈا اور بہت سی گاڑیاں یہاں موجود تھیں۔اس کمرے کو ہمیشہ تالا لگا رہتا تھا۔چابی دادی جان کے کمرے میں ، اُن کے سرہانے دیوار پر لگی کھونٹی پر ٹنکی رہتی تھی۔

آج گڈو میاں دادی جان کو تلاوت میں مگن پا کر اسٹورکی چابی کھونٹی سے اُڑا لائے تھے۔کمرے میں موجود ہر شے گردسے اَٹی ہوئی تھی۔ وہ کوئی ایسی جگہ تلاش کر رہے تھے جہاں بیٹھ کروہ اپنا ’’وہ کام‘‘ سرانجام دے سکیں جس کے لئے انہیں اسٹورروم سے بہتر کوئی جگہ نظر نہیں آئی تھی۔ وہ کام تھا،ہاتھ میں پکڑے ہوئے موٹے تازے ،رس بھرے آم کو کھانا اور یخ ٹھنڈے جوس سے پیاس بجھانا۔رہی بات یہ کہ آم کھانے کے لئے گڈو میاں کواسٹورہی کیوں اچھا لگا تھا؟ تو بھئی !سمجھا کریں نا۔۔۔ وہ سب کے سامنے تو آم نہیں کھاسکتے تھے نا۔۔۔!کیوں کہ آج ان کا روزہ تھا اور وہ بھی پہلا۔

کل جیسے ہی رمضان المبارک کا چاند نظر آیا،گڈو میاں نے فوراً اعلان کر دیا  تھا کہ اب چوں کہ وہ بڑے ہو گئے ہیں ،اس لئے کل سے وہ بھی روزہ رکھیں گے۔

’’کیا!!۔۔۔‘‘امی جان اُن کا یہ اعلان سن کر چلا اُٹھی تھیں۔

’’نن۔۔۔نہیں۔۔۔گڈو میری جان !بلا کی پڑتی ہوئی اس گرمی میں ، بھلا تم کس طرح بھوک اور پیاس برداشت کرسکوگے؟‘‘

’’ہونہہ!یہ منہ اور مسورکی دال۔‘‘یہ آپی جان کا تبصرہ تھا۔

’’کیوں۔۔۔کیا ہم روزہ نہیں رکھ سکتے؟‘‘گڈو میاں براسامنہ بنا کر بولے۔ ان کا منہ تو پہلے ہی سے گول مٹول تھا،اب جو انہوں نے منہ بنایا تو ان کا منہ اور بھی گول ہو گیا۔بالکل گول گپے کی طرح …ان کا منہ دیکھ کر آپی جان کی ہنسی چھوٹ گئی۔

’’دیکھیں دادی جان!یہ۔۔۔یہ۔۔۔ہمارا مذاق اُڑا رہی ہے‘‘۔انہوں نے مدد کے لئے دادی جان کو پکارا اور باقاعدہ رونا شروع کر دیا۔

’’ہائیں۔۔۔!کیا کہا؟میرے بیٹے کا مذاق اُڑایا جا رہا ہے اور وہ بھی میرے ہوتے ہوئے۔ ٹھہرو!میں آ رہی ہوں۔دادی جان اپنا تاریخی ڈنڈا سنبھالتے ہوئے اپنے کمرے سے برآمد ہوئیں۔

’ کس نے تمہارا مذاق اُڑایا ہے ؟‘‘انہوں نے گڈو میاں سے پوچھا۔وہ آنکھیں مل مل کرآنسونکالنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔دادی جان کے پوچھنے پر انہوں نے آنکھیں کھول کر اپنی ننھی منی سی انگلی سے آپی کی طرف اشارہ کر دیا لیکن یہ کیا؟۔۔۔آپی جان تو کب کی وہاں سے رفو چکر ہو چکی تھیں۔

سب گھر والوں کے سمجھانے بجھانے کے باوجود گڈو میاں اپنی روزہ رکھنے والی ضد پر اَڑے رہے۔ آخرسب کو ان کے سامنے ہتھیار ڈالنے ہی پڑے۔

صبح سحری کھانے کے بعد گڈو میاں کو روزہ رکھنے کی دُعا پڑھاتے ہوئے ابا جان نے انہیں کہا تھا:

’’ اب تم شام تک کچھ بھی نہیں کھاؤ پیو گے اور اگر تم نے کچھ بھی کھایا تو اللہ تعالیٰ تم سے ناراض ہو جائیں گے۔اگر اللہ میاں تم سے سخت ناراض ہو گئے تو کیا ہو گا؟یہ تم جانتے ہی ہو۔مزے مزے کے پھل، چاکلیٹ، دودھ،جوس کچھ بھی نہیں ملے گا۔کیوں کہ یہ سب چیزیں اللہ میاں کے پاس ہوتی ہیں اور اللہ میاں یہ سب چیزیں اچھے بچوں کوہی دیتے ہیں۔روزہ توڑ کر تم اچھے بچے تو نہیں رہ جاؤ گے،بلکہ تم گڈو میاں کے بجائے گندے میاں بن جاؤ گے۔‘‘

’’ٹھیک ہے۔۔۔ابا جان !میں افطاری تک کچھ بھی نہیں کھاؤں گا۔آپ کہیں گے تو افطاری کے بعد بھی نہیں ‘‘۔گڈو میاں پُر عزم لہجے میں بولے۔

’’نہیں خیر،افطاری کے وقت افطاری کرنا ضروری ہے۔افطاری کا وقت  ہو جانے کے بعد روزہ افطار نہ کرنا تو اچھی بات نہیں ہے‘‘۔ ابا جان بولے۔

گڈو میاں نے ابا جان سے سارادن کچھ نہ کھانے پینے کا وعدہ تو کر لیا تھا اور دوپہر تک اسے نبھا بھی دیا تھا ، لیکن جب مارے پیاس کے اُن کا کا حلق سوکھنے لگا تو ان سے برداشت نہ ہو سکا۔وہ سب سے نظریں بچا کر باورچی خانے  میں آئے۔فریج میں آم رکھے ہوئے تھے۔بڑے بڑے۔۔۔موٹے موٹے۔۔۔ رس بھرے۔۔ ۔اُن کے منہ میں پانی بھر آیا اور آموں کے ساتھ رکھے جوس کے ڈبے کو دیکھ کر تو انہیں کچھ بھی یاد نہ رہا تھا۔ابا جان سے کیا ہوا وعدہ اور نہ ہی ’’گڈو میاں سے گندے میاں ‘‘  بن جانے کا خوف۔انہوں نے فریج سے آم نکالا اور اپنی جیب میں ٹھونسنے لگے۔اب اتنا بڑا اور موٹا تازہ آم ان کی جیب میں بھلا کہاں آتا؟کافی کوشش کے بعد بھی جب آم ان کی جیب میں نہ آسکاتو انہوں نے ہاتھ ہی میں پکڑ لیا۔انہوں نے آم ہاتھ میں لے کر فوراً کمر کے پیچھے کر لیا تھا،تاکہ کوئی دیکھ نہ لے۔دوسرے ہاتھ میں جوس کا ڈبہ پکڑ کر اور دونوں ہاتھوں کو کمر کے پیچھے کیے ہوئے ،وہ باورچی خانے سے نکلے۔

اب انہیں تلاش تھی کسی ایسی جگہ کی جہاں انہیں کوئی نہ دیکھ سکے۔ ابا جان اور اللہ میاں تو خاص طور پر نہ دیکھ سکیں۔ابا جان اس لئے کہ وہ اُن سے کیا ہوا وعدہ توڑ رہے تھے۔اللہ میاں سے اس لئے کہ اگر انہوں نے اسے روزہ توڑتے دیکھ لیا تو وہ ناراض ہو جائیں گے۔ پھر انہیں مزے مزے کے پھل اور چاکلیٹ نہیں ملیں گی۔ وہ سب کی نظر بچا کر اپنے کمرے میں چلے آئے … انہوں نے جلدی سے دروازہ بند کیا اور مزے سے جوس کا ڈبہ کھولنے ہی لگے تھے کہ اچانک اُن کی نظر کھڑکی سے نظر آتے ہوئے آسمان پر پڑی۔

’’اُف خدا۔۔۔!اللہ میاں تواسے دیکھ رہے تھے‘‘۔وہ گھبرا گئے۔

کھڑکی کا پردہ امی جان نے آج ہی دھونے کے لئے اُتارا تھا۔ورنہ پردہ گرا کر گڈو میاں اللہ تعالیٰ سے چھپنے کی کوشش کر لیتے۔ لہٰذا وہ جوس اور آم کمر کے پیچھے چھپائے کمرے سے نکل آئے۔

لان ،اسٹڈی روم،ڈائننگ روم، کوئی بھی جگہ انہیں ایسی نظر نہیں آئی جہاں اسے اللہ میاں نہ دیکھ رہے ہوں۔ کیوں کہ ان کمروں میں کھڑکیاں تھیں۔ابھی وہ پریشان کھڑے سوچ ہی رہے تھے کہ اچانک انہیں اسٹورروم کا خیال آیا اور اپنے خیال کو عملی جامہ پہناتے ہوئے وہ اب سٹور روم میں موجودتھے۔

گڈو میاں کواسٹوررو م کے ایک کونے میں پڑے واکر کے سوا کوئی اور جگہ اپنے بیٹھنے کے لئے مناسب نظر نہ آئی لیکن یہ کیا۔۔۔وہ جیسے ہی واکر  پر بیٹھنے لگے لڑکھڑا کر گرے،کیوں کہ واکر کی چار ٹانگوں میں سے دو ٹانگیں ٹوٹی ہوئی تھیں۔جبھی تو وہ اسٹورروم کی زینت بنا ہوا تھا۔گرنے کی وجہ سے آم اور جوس کے ڈبے کی طرح وہ بھی گرد میں لت پت ہو گئے تھے۔ اُن کا  دل چاہ رہا تھا کہ ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی وہ گرنے پر زور سے چلائیں اور چلانے کے لئے اُنہوں نے منہ کھول بھی لیا تھا۔

’ اس طرح تو میری چوری پکڑی جائے گی‘‘۔

یہ خیال آتے ہی گڈو میاں نے سختی سے منہ بند کر لیا۔آم اور جوس کو پرے پھینک کر کپڑوں کو جھاڑتے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوئے۔اُن کے ہاتھ تو پہلے سے گرد آلود تھے۔لہٰذا جھاڑنے سے کپڑے اور گندے ہو گئے۔ وہ کمرے سے جانے کاسوچ ہی رہے تھی کہ اچانک ان کی نظراسٹورمیں پڑی ہوئی ایک چیز پر پڑی۔ وہ چونک اُٹھے۔مارے حیرت کے اُن کی آنکھیں پھیل گئیں۔بے اختیار اُن کے منہ سے نکلا:

’’اف خدا!یہ۔۔۔یہ۔۔میں کیا کر رہا تھا‘‘۔

’’بھوت۔۔۔بھوت۔۔۔!!‘‘ابھی گڈو میاں سرپکڑکربیٹھے سوچ ہی رہے تھے کہ اچانک انہیں زورسے چلانے کی آوازسنائی دی۔آواز آپی جان کی تھی۔وہ سمجھے، شاید بھوت یہیں کہیں ہے۔لہٰذا وہ بھی بھوت بھوت چلاتے ہوئے اسٹورسے بھاگ کھڑے ہوئے۔

اب آپی جان ’’بھوت بھوت‘‘ پکارتی ہوئی دوڑتی چلی جا رہی تھیں اور گڈو میاں اُن کے پیچھے یہی پکارتے ہوئے دوڑ رہے تھے۔ان دونوں کی چیخ وپکارسن کر سب گھر والے ان کی طرف لپکے۔آپی جان نے دادی جان کے کمرے میں پہنچ کر دم لیا۔

’’ارے۔۔۔۔۔کیا ہو گیا؟ کیوں چلا رہی ہو۔۔۔۔۔کہاں ہے بھوت؟‘‘دادی جان حیرت سے بولیں۔

’’وہ۔۔۔وہ۔۔۔ اسٹورمیں۔۔۔یہ آ گیا بھوت‘‘۔آپی جان کمرے میں داخل ہوتے ہوئے گڈو میاں کو دیکھتے ہوئے بولیں۔

’’دماغ تو نہیں چل گیا تھا تمہارا۔۔۔!یہ تمہیں بھوت نظر آ رہا ہے؟یہ تو گڈو میاں ہے‘‘۔

’’کیا۔۔۔!!‘‘آپی جان نے دادی جان کے کہنے پر،غورسے دیکھا۔وہ واقعی گڈو میاں تھے۔جسے یوں اسٹورمیں گرد آلود چہرے کے ساتھ بیٹھے دیکھ کروہ بھوت سمجھ بیٹھی تھیں۔

’’یہ تم نے کیا حالت بنا رکھی ہے؟‘‘دادی جان مٹی میں لت پت گڈو میاں کو حیرت سے دیکھتے ہوئے بولیں۔

’’وہ۔۔۔وہ۔۔۔دادی جان!میں اسٹورروم میں گر گیا تھا‘‘۔

’’اسٹورروم میں گر گیا تھا۔۔لیکن کیسے؟اور تم اسٹورمیں کیا کرنے گئے تھے؟‘‘

’’اسٹورمیں میری گیند چلی۔۔۔نن۔۔۔نہیں یہ تو جھوٹ ہو گا اور آپ نے کہا تھا ، جھوٹ بولنا بہت بری بات ہے۔۔۔لہٰذا دادی جان میں سچ سچ بتاؤں گا۔ میں اسٹورمیں آم کھانے اور جوس پینے گیا تھا‘‘۔

’’کیا۔۔۔!!‘‘ابا جان چلا اُٹھے۔ آپی جان کی چیخ وپکارسن کروہ بھی اپنے کمرے سے نکل آئے تھے۔

’’گڈو میاں !تم نے۔۔۔تم نے۔۔۔روزہ توڑ دیا؟‘‘

’’نہیں ابا جان!میں آم کھانے اسٹورمیں گیا ضرور تھا لیکن میں نے کھایا نہیں ، کیوں کہ۔۔۔کیوں کہ‘‘۔

اور پھر گڈو میاں نے ساری بات بتا دی۔

’’گڈو میاں !آخر وہ کیا چیز تھی،جو تمہیں اسٹورمیں نظر آئی تھی؟‘‘ بھائی جان نے بے چینی سے پوچھا۔

’’وہ چیز بتانے سے نہیں ، دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔بھائی جان!آپ بس میرے ساتھ آئیں ،میں آپ کو وہ چیز دکھاتا ہوں ‘‘۔گڈو میاں بولے۔سب گھر والے ان کے ساتھ ہو لئے۔اسٹورمیں پہنچ کر گڈو میاں ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے:

’’وہ…وہ چیز‘‘۔ وہ انگلی سے ایک طرف اشارہ کر رہے تھے۔

سب نے چونک کر اُن کی انگلی کی کی سمت میں نظریں دوڑائیں۔اس چیز کو دیکھ کروہ سب چونک اٹھے۔ان کی نظریں اس چیزسے چپک کر رہ گئیں۔

وہ ایک بہت ہی بڑی سینری تھی۔جس پر شیشے کا فریم چڑھا ہوا تھا۔پچھلے دنوں گڈو میاں کی گیند لگنے سے فریم کا شیشہ ٹوٹ گیا تھا،اس لئے اسے اسٹورمیں رکھوا دیا گیا تھا۔سینری پر بہت ہی خوب صورت خط میں لفظِ ’’اللہ‘‘ لکھا ہوا تھا۔لفظِ ’’اللہ‘‘ کے نیچے ایک جملہ لکھا ہوا تھا:

’’اللہ دیکھ رہا ہے‘‘  اور اس جملے کے نیچے درج تھا:

حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

’’اللہ سے ڈرو تم جہاں کہیں بھی ہو‘‘۔

جامع الترمذی،ابواب البروالصلۃ،باب ماجاء فی معاشرۃ الناس،رقم:۱۹۸۷

سب گھر والوں نے سناگڈومیاں کہہ رہے تھے:

’’بس ابا جان! یہ سینری دیکھ کر مجھے معلوم ہو گیا کہ میں کہیں بھی اللہ تعالیٰ سے نہیں چھپ سکتا۔ مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ، ہر وقت مجھے دیکھ رہے ہیں۔اب اللہ تعالیٰ کے سامنے تومیں روزہ نہیں توڑسکتا تھا نا۔۔۔!کیوں کہ آپ ہی نے تو بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ روزہ توڑنے والے سے سخت ناراض ہو جاتے ہیں۔میرا دماغ تو نہیں چل گیا جو اتنے پیارے اللہ کو ناراض کروں … وہ مجھے آم، سیب،چاکلیٹ کھلاتے ہیں ‘‘۔

گڈو میاں معصومانہ لہجے میں کہتے چلے گئے۔ گھر والوں کو ان پر بے حد پیار آ رہا تھا۔۔۔بے حد پیار۔

کچھ ہی دیر بعد گڈو میاں بُرے بُرے سے، منہ بناتے ہوئے اپنے سرخ ہوتے ہوئے گالوں کو سہلارہے تھے کیوں کہ گھر والوں نے اپنے پیار کا اظہار جو کیا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

پسندیدہ گھر

 

’’ارے۔۔۔یہ کیا۔۔۔؟وسیم عالم !تم نے کچھ کہا ہی نہیں ،ہمارے اس نئے بنگلے کے بارے میں۔۔تم تو جب سے آئے ہو،بُت بنے کھڑے ہو۔اب بولنے میں بھلا ایسی بھی کیاکنجوسی!بتاؤ!کیسالگاتمہیں ہمارا یہ گھر؟‘‘ سیٹھ وقاص ایوب کے اچانک مخاطب کرنے پر ہال میں موجودسب لوگ وسیم عالم کی طرف متوجہ ہو گئے۔

’’آپ کا یہ گھر ماشاء اللہ بہت ہی پیارا اور خوب صورت ہے،بلکہ لفظِ’’ خوب صورت‘‘ بھی اس کی خوب صورتی کو بیان کرنے سے قاصر ہے۔ آپ کا یہ شان دار محل نما بنگلہ کسی بھی بڑے اور امیر آدمی کو ایک سردآہ بھرنے پرمجبورکرسکتا ہے، کاش ! یہ گھر میرا ہوتا۔امیر آدمی میں نے اس لئے کہا کہ غریب اور متوسط طبقے کا آدمی تو ایساگھربنانے کاسوچ بھی نہیں سکتا، آپ کا یہ بنگلہ اس ملک کاشان دار اور مہنگا ترین بنگلہ ہے، لیکن۔۔۔‘‘وسیم عالم نے اپنا جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔

’’لیکن کیا۔۔۔؟‘‘وسیم عالم کے یہ تعریفی جملے سن کر نہ چاہتے ہوئے بھی سیٹھ وقاص ایوب کی گردن غرورسے تن سی گئی اور انہوں نے فخرسے اپنے چمکتے دمکتے بنگلے پر نظر دوڑائی۔

کئی کنالوں پر پھیلا ہوا یہ عظیم الشان بنگلہ انہوں نے بڑے ہی ذوق و شوق  سے بنوایا تھا۔اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجودسیٹھ وقاص ایوب نے بنگلے کی تعمیر کی خود باقاعدہ نگرانی کی تھی۔بنگلے کی تعمیر پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے تھے۔

سیٹھ وقاص ایوب شہر ہی کے نہیں بلکہ ملک کے سب سے امیر ترین آدمی تھے۔ ان کی گارمنٹس کی فیکٹریوں کی پوری ایک چین تھی۔ملک کے ہر بڑے شہر میں ان کی فیکٹری تھی۔

اس بنگلے کا نقشہ ملکی اور غیرملکی انجینئروں کی پوری ایک ٹیم نے کئی ہفتوں کی سوچ بچار کے بعد بنایا تھا،کیوں کہ ان کی خواہش تھی کہ ان کے جیسابنگلہ پورے ملک میں نہ ہو اور اس کے لئے بقول سیٹھ صاحب کے، میں شاہ جہان کی طرح نقشہ بنانے والے انجینئروں کے ہاتھ تو نہیں کٹواسکتا،ہاں ، میں نے ان کی پوری ٹیم سے تحریری معاہدہ کر لیا ہے کہ وہ اس جیسانقشہ کسی اور کو نہیں بنا کر دیں گے۔اگر انہوں نے معاہدے کی خلاف ورزی کی تو میں ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا حق رکھوں گا۔

نقشہ بنوانے کے بعداس میں رنگ بھرنے کے لئے اسٹیٹ بلڈرز کی ایک مشہور و معروف انٹرنیشنل کمپنی کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔جب بنگلے نے تیار ہو کر در و دیوار کی صورت اختیار کی تواس کی آرائش بھی ایک مشہور و معروف غیرملکی کمپنی سے کروائی گئی تھی۔پورے بنگلے میں بیش قیمت ایرانی قالین بچھایا گیا تھا۔بنگلے کے اندر ہی ایک بڑا تالاب بنایا گیا تھا،اس میں رنگ برنگی خوب صورت مچھلیاں چھوڑی گئی تھیں۔تیراکی سے لطف اندوز ہونے کے لئے سوئمنگ پول علیحدہ تھا۔بنگلے کے دائیں جانب پھولوں اور پھل دار درختوں کا ایک بہت بڑا باغ تھا۔غرض سیٹھ وقاص  نے دنیا کے عیش و آرام اور راحت وسکون کو اپنے بنگلے میں سمادیا تھا۔

بنگلے کے مکمل طور پر تیار ہونے کے بعدسیٹھ وقاص نے اپنے تمام دوستوں کو ایک زبردست پُرتکلف پارٹی دی تھی۔انہوں نے پارٹی میں شریک اپنے تمام دوستوں کو بنگلے کی سیر کروائی۔ بنگلہ بے حدپسندکیا گیا تھا۔ سب بنگلے کی تعریف میں آسمان و زمین کے قلابے ملا رہے تھے۔

سیٹھ وقاص اپنے دوست وسیم عالم کو دیکھ کر چونک اُٹھے تھے۔کیوں کہ وسیم عالم نے بنگلے کے بارے میں ابھی تک ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا۔انہیں حیرت کا جھٹکا لگا۔ بھلاوسیم عالم۔۔۔!کس طرح خاموش رہ سکتے ہیں ؟ وہ تو خاصے با ذوق آدمی ہیں۔ایسی چیزوں کا ذوق رکھتے ہیں۔ان کی خاموشی محسوس کر کے، وہ بول اُٹھے تھے:

’’ارے۔۔۔!یہ کیاوسیم عالم!تم نے تو کچھ کہا ہی نہیں ،ہمارے اس نئے بنگلے کے بارے میں ‘‘۔

’’ میں آپ کے بنگلے کواپناپسندیدہ بنگلہ نہیں کہہ سکتا‘‘۔

’’کیا۔۔۔!!‘‘ان کے جملے میں ، جانے کیا بات تھی کہ ہال میں موجودسب ہی لوگ چلا اُٹھے۔

’’مم۔۔۔مطلب۔۔۔۔یہ بنگلہ آپ کوپسندنہیں آیا؟‘‘سیٹھ وقاص نے پھٹی پھٹی نگاہوں سے ان کی طرف دیکھا۔

’’جی ہاں !آپ یہی سمجھ لیں ، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ بنگلہ پیارا نہیں ہے۔ میں عرض کر چکا ہوں ، یہ بنگلہ بہت ہی پیارا ہے ،لیکن پھر بھی میں اسے اپنا پسندیدہ گھر نہیں کہہ سکتا ہوں ‘‘۔وسیم عالم بولے۔

’’لیکن کیوں۔۔۔؟‘‘ حیرت میں ڈوبی سیٹھ وقاص ایوب کی یہ’ لیکن کیوں ‘ بہت طویل تھی۔

’’اس لئے کہ مجھے دراصل اس کے مقابلے میں ایک اور گھر پسند ہے۔ اتنا پسند کہ اس کے سامنے مجھے اپنا گھر بھی کچھ اچھا نہیں لگتا،حالاں کہ وہ اس گھرسے سہولیات اور آسائش کے لحاظ سے بہتر اور پیارا ہے لیکن پھر بھی پتا نہیں کیوں ، مجھے اس گھرکے سامنے اپنا گھر اور دوسرے تمام گھر پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔۔۔!‘‘وسیم عالم عجیب سے لہجے میں بولے۔ ان کی بات سن کر باقی لوگوں کے ساتھ ساتھ سیٹھ وقاص ایوب خاموش رہ گئے، پھر ان کی حیرت زدہ آواز گونجی:

’’اور ۔۔۔اور ۔۔۔۔وہ گھر کون ساہے؟‘‘

’’وہ۔۔۔۔وہ۔۔۔گھر۔۔۔آپ کے باورچی اشرف بابا کا گھر ہے‘‘۔

’’کیا۔۔۔!!دماغ تو نہیں چل گیا آپ کا۔۔۔‘‘

سب لوگ حیرت سے انہیں دیکھ رہے تھے۔انہیں وسیم عالم اس وقت کسی اور ہی دنیا کی مخلوق لگ رہے تھے۔

’’یہ کیا بات ہوئی…کہاں میرے بھائی کا یہ عظیم الشان محل اور کہاں اشرف بابا کا دو تین مرلوں پر مشتمل جھونپڑی نما گھر۔‘‘ سیٹھ وقاص ایوب کے چھوٹے بھائی محسن ایوب نے چلا کر کہا۔ اس کے چہرے پر نا گواری کے گہرے اثرات تھے۔وہ وسیم عالم کو گھور رہے تھے۔ وہاں موجود سبھی لوگ برے برے منہ بنا رہے تھے، جیسے کڑوی گولیاں نگل بیٹھے ہوں۔

’’شش۔۔۔شاید۔۔۔میرا دماغ چل گیا ہے!لل۔۔۔لیکن میں کیا کروں ، اشرف بابا کے گھرکے سامنے مجھے کوئی گھر اچھا ہی نہیں لگتا ہے۔کیوں کہ اس کے گھر میں اس کے مرحوم بھائی کا یتیم بیٹا رہتا ہے۔وہ اپنے یتیم بھتیجے کو اپنے بیٹے سے بھی زیادہ چاہتے ہیں ،اس کا خیال رکھتے ہیں۔ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک ارشاد ہے:

’تمہارے گھروں میں اللہ تعالیٰ کوسب سے زیادہ پسندگھر،وہ گھر ہے جس میں ایسایتیم رہتا ہو جس کا خیال رکھا جاتا ہو۔‘ ٭  [رواہ البیہقی فی شعب الایمان۔رقم:۱۱۰۳۷]

مطلب یہ کہ ان کا گھر اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ ہے۔۔۔۔ تو پھر بھلا مجھے پسندکیوں نہ ہو گا۔۔۔؟میں بھی آج کل کسی یتیم بچے کی تلا ش میں ہوں تاکہ اسے اپنے گھر میں رکھ کر اپنے گھر کو بھی پسندیدہ بناسکوں۔اگر آپ میں سے کوئی کسی یتیم کو جانتا ہو تو پلیز!مجھے بتا دے۔‘‘

وسیم عالم  خاموش ہو گئے اور سوالیہ نظروں سے ہال میں موجود  لوگوں کی طرف دیکھنے لگے۔ ان کے الفاظ سن کرسب کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔ سیٹھ وقاص ایوب پر تو سکتہ طاری ہو گیا تھا۔کچھ دیر بعد اچانک وہ اپنی جگہ سے اٹھے اور دروازے کی طرف دوڑ لگا دی۔

’’بھائی جان!آپ کہاں چل دیئے؟‘‘محسن ایوب نے پیچھے سے آواز دی۔

’’میں۔۔۔۔اپنے گھر کو اللہ کے نزدیک پسندیدہ گھر بنانے کے لئے اپنی فیکٹری کے ایک ملازم کے گھر،اس کے یتیم بچوں کو لینے جا  رہا ہوں۔وہ ملازم ابھی چند دن پہلے ہی فوت ہوا ہے۔‘‘ انہوں نے پلٹ کر کہا اور بیرونی دروازے کی طرف بھاگتے چلے گئے…

’’کیا….!!! سب چلا اُٹھے۔‘‘

وسیم عالم کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔

٭٭٭

 

 

 

 

جن کاسانپ

 

منے میاں کی چیخ سن کر،سب گھر والے اس کے گرد جمع ہو گئے۔اس  کے چہرے پر خوف کی پرچھائیاں تھیں۔

’’کیا ہوا منے میاں۔۔۔۔؟‘‘

’’وہ۔۔۔وہ۔۔دادا جان!سانپ۔۔۔!‘‘

’’کیا۔۔۔!!‘‘دادا جان چلا اُٹھے۔

’’میں تمہیں سانپ نظر آتا ہوں ؟‘‘

’’نن۔۔۔نہیں دادا جان!مم۔۔۔میرا۔۔۔یہ مطلب نہیں تھا۔‘‘منے میاں گھبرا کر بولے۔

’’تو پھر کیا مطلب تھا تمہارا۔۔۔؟‘‘انہوں نے آنکھیں نکالیں۔

’’کم از کم وہ مطلب تو ہر گز نہیں تھا،جو آپ سمجھے ہیں۔بھلا!میں آپ کوسانپ کس طرح کہہ سکتا ہوں ؟آپ تو ہمارے دادا جان ہیں۔۔۔اور وہ بھی بہت ہی پیارے اور اکلوتے۔ویسے تو سبھی کے دادا جان اکلوتے ہوتے ہیں ، لیکن پیارے تو کوئی کوئی ہوتے ہیں۔‘‘منے میاں مسکرا  کر بولے۔

’’لیکن منے میاں !دادا جان نے تمہیں اپنی تعریف کرنے کو نہیں کہا بلکہ سانپ کا مطلب پوچھا ہے‘‘۔بھائی  جان براسامنہ بنا کر بولے۔

’’ہائیں۔۔۔بھائی جان!آپ نے کیا کہا،سانپ کا مطلب۔۔۔؟سانپ کا مطلب توسانپ ہی ہوتا ہے‘‘۔ منے میاں حیرت سے بولے۔

’’دادا جان نے سانپ کا مطلب نہیں ، بلکہ تمہارے سانپ کہنے کا مطلب  پوچھا ہے ‘‘۔بھائی جان غرائے۔

’’تویوں کہیے نا!میں نے دراصل سانپ اس لئے کہا تھا کہ اسٹورمیں سانپ ہے‘‘۔

’’اسٹورمیں سانپ۔۔۔؟‘‘سب گھر والوں کے منہ سے نکلا۔

’’یہ اسٹورمیں سانپ کہاں سے آ گیا۔۔۔؟‘‘دادا جان بولے۔

’’مم۔۔۔مجھے کیا پتا ؟یہ۔۔۔۔یہ تو آپ سانپ سے پوچھیں !‘‘

’’وہ تو خیر ہم ضرور پوچھیں گے۔۔۔ہائیں کیا کہا۔۔۔؟ابا جان کہتے کہتے رک گئے۔

’’دماغ تو نہیں چل گیا تمہارا۔۔۔بھلا۔۔۔!ہم سانپ سے کس طرح پوچھ سکتے ہیں ؟ اور تم اسٹورمیں لینے کیا گئے تھے؟‘‘ابا جان منے میاں کو گھورتے ہوئے بولے۔

’’وہ میری گینداسٹورمیں چلی گئی تھی۔‘‘منے میاں سہمے سہمے لہجے میں بولے۔

’’اچھا۔۔۔تو دانش بیٹا!تم میرا یہ ڈنڈا لے جاؤ اور سانپ کو مار آؤ‘‘۔

’’مم۔۔۔میں۔۔۔!‘‘بھائی جان یہ سن کر بوکھلا اٹھے۔

’’جی ہاں۔۔۔!اب دادا جان آپ کے فرشتوں سے تو کہنے سے رہے ‘‘۔آپی جان نے کہا۔ وہ کافی دیر سے خاموش تھیں۔

’’ لو،بی مینڈکی کو بھی ہوا زکام ‘‘۔بھائی جان نے دل ہی دل میں سوچا۔

’’لیکن دادا جان!میں نے تو آج تک سانپ تو کیا،سانپ کا بچہ بھی نہیں مارا ہے۔‘‘بھائی جان نے مسمسی شکل بنائی۔

’’برخوردار۔۔۔!سانپ کو مارنے کے لئے سانپ کے بچے کو مارنا ضروری نہیں ہوتا‘‘۔دادا جان بھلا ان کے بہانے کو کہاں ماننے والے تھے۔

’’لیکن دادا جان! ہر کام کے لئے تجربہ بھی تو ہونا چاہئے، نا تجربہ کاری سے کام سدھرنے کی بجائے، بگڑتا ہی ہے‘‘۔بھائی جان بچنے کی مکمل کوشش کر رہے تھے۔

’’ہاں بھئی۔۔!واقعی یہ بات تو تم نے ٹھیک کہی۔ چلو عرفان !تم سانپ کو مارنے جاؤ اور ہاں۔۔۔! سانپ کو مارتے ہوئے ایک بات کا ضرور خیال رکھنا‘‘۔ دادا جان نے عرفان چاچوسے کہا۔

’’صرف ایک بات کا کہاں ؟ابا جان !سانپ کو مارتے ہوئے تو بہت سی باتوں کا خیال رکھنا پڑے گا‘‘۔ عرفان چاچومسکراتے ہوئے بولے۔

’’لیکن اس وقت میں صرف ایک بات کی بات کر رہا ہوں۔اور وہ یہ ہے کہ تم سانپ کو مارنے سے پہلے اسے تین مرتبہ یہ کہہ دینا۔۔۔۔۔

’’اگر تم جن ہو تو چلے جاؤ!‘‘

’’کیا۔۔۔!!‘‘سب گھر والے چلا اُٹھے۔دادا جان نے بات ہی ایسی کہی تھی ، وہ چلاتے نہ تو اور کیا کرتے۔

’’تت۔۔۔تو۔۔۔کیا۔۔وہ سانپ۔۔۔۔جج۔۔۔جن بھی ہو سکتا ہے ؟‘‘جن کا سن کر مارے خوف کے منے میاں سے بولا بھی نہیں جا رہا تھا۔

’’جی ہاں !کیوں کہ گھروں میں رہنے والے جنات زیادہ تر سانپ کی شکل میں رہتے ہیں۔

ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک ارشاد ہے:

’’جب تم گھر میں سانپ دیکھو تو پہلے اسے تین مرتبہ خبردار کرو،اسے کہو:

’اگر تم جن ہو تو چلے جاؤ!اگر پھر بھی نہ جائے توپھراسے قتل کر دو۔‘‘

سب گھر والے حیرت سے دادا جان کی طرف دیکھ رہے تھے۔۔۔کیوں کہ ان کے لئے یہ بالکل نئی بات تھی۔

’’یعنی جن کاسانپ۔۔۔‘‘منے میاں کے منہ سے نکلا۔

’’وہ جن کاسانپ نہیں ہے۔۔۔بلکہ وہ سانپ تو خود ہی جن ہوتا ہے ‘‘۔

’’ارے۔۔۔۔!یہ کیا۔۔۔عرفان۔۔۔!تم ابھی تک گئے نہیں ؟‘‘دادا جان چونک کر عرفان چاچو کی طرف متوجہ ہوئے۔

’’جج۔۔۔۔جا رہا ہوں ابا جان۔۔۔!لیکن۔۔۔خدا نہ کرے، اگر وہ واقعی جن ہوا تو۔۔۔۔؟‘‘جن کے خوف سے ہی عرفان چاچو کا پتا پانی ہو رہا تھا۔

’’تو کیا ہوا۔۔۔تمہاری بات سن کر بھاگ جائے گا۔اب جلدی  سے جاؤ۔۔۔ اور ہاں ! اسے خبردار ضرور کر دینا‘‘۔ دادا جان بولے۔

’’ٹھیک ہے۔۔۔! دادا جان !میں اس بات کا ضرور خیال رکھوں گا۔‘‘

عرفان چاچو نے دادا جان کا تاریخی ڈنڈا لیا اور ڈرے ڈرے سے انداز میں چلتے ہوئے اسٹورکی طرف بڑھے۔دادا جان اپنے اس ڈنڈے کے بارے میں کہا کرتے تھے :

’’ تقسیم ہندوستان کے وقت اس ڈنڈے کے سوامیں کچھ بھی بچا کر نہیں لایا۔‘‘

اس تاریخی ڈنڈے کے ساتھ ان کی بڑی یادیں وابستہ تھیں۔اس ڈنڈے ہی سے انہوں نے پاکستان آتے ہوئے اپنی اور اپنے خاندان والوں کی لوٹ مار کرنے والے وحشی ہندو بلوائیوں سے حفاظت کی تھی۔

کچھ ہی دیر بعد عرفان چاچو کی اسٹورسے واپسی ہوئی۔

’’بھئی!سانپ تو واقعی اسٹورمیں موجود ہے۔اس کو مارنا ذرا مشکل ہے۔‘‘ ان کے چہرے پر فکر کے آثار تھے۔

’’کیا مطلب؟‘‘

’’مطلب یہ کہ سانپ کاسرکسی چیز کے نیچے دبا ہوا ہے۔اگرسانپ کو ماریں بھی تواسے نہیں لگے گی اور سچ بات تو یہ ہے کہ سانپ کو مارنے کا تجربہ مجھے بھی نہیں ہے‘‘۔عرفان چاچو کہتے چلے گئے۔

’’ہوں۔۔۔۔!لگتا ہے، یہ فریضہ مجھے ہی سرانجام دینا پڑے گا‘‘۔ دادا جا ن کچھ سوچتے ہوئے بولے۔

’’ہاں۔۔۔واقعی دادا جان!آپ کوسانپ مارنے کا تجربہ بھی ہے۔ آپ نے ہمیں اپنے اس تاریخی ڈنڈے سے ایک اژدہانماسانپ کو مارنے کا واقعہ بھی تو سنایا تھا۔‘‘منے میاں فوراً بول پڑے۔انہیں وہ بھولابسرا واقعہ یاد آ گیا تھا۔

’’ہاں۔۔۔ہاں۔۔۔!ہم نے اپنے بھلے وقتوں میں بڑے بڑے سانپوں کو مارا ہے۔لاؤ بھئی!عرفان ڈنڈا ہمیں دو۔اس سانپ کی ایسی کی تیسی‘‘۔

’’دادا جان! کیا آپ اپنے بھلے وقتوں میں سپیرے تھے؟‘‘منے میاں حیرت سے بولے۔

’’ارے نہیں بھئی!وہ سانپ توہم نے شکار کے طور پر مارے تھے‘‘۔

’’سانپ کا شکار۔۔۔!‘‘منے میاں نے حیرت سے زیرِ لب دھرایا۔ اس سے پہلے کہ منے میاں کچھ اور کہتے، دادا جان ڈنڈا لے کر آگے بڑھے اور احتیاط سے چلتے ہوئے اسٹورروم میں داخل ہو گئے۔

’’بھئی!سانپ پہ چوٹ مارنا واقعی مشکل ہے،لیکن ہمارا تجربہ آخر کس دن کام آئے گا؟‘‘ یہ کہہ کروہ آگے بڑھے اور سانپ کوسرسے ذرا نیچے سے ڈنڈے کے ساتھ دبوچ لیا۔

’’لو بھئی!ہم نے سانپ کو دبوچ لیا ہے۔اب تم بلا خوف و خطر اندر آسکتے ہو اور آ کر دیکھو، ہم اس ناہنجار سانپ کوکیسے تگنی کا ناچ نچاتے ہیں ‘‘۔ دادا جان کی چہکتی ہوئی آواز ابھری۔

سب گھر والے ڈرے ڈرے سے انداز میں ، اسٹورکے اندر داخل  ہوئے۔ انہوں نے دیکھا،دادا جان نے ایک سیاہ رنگ کے سانپ کو دبوچ رکھا تھا۔

’’ارے۔۔۔یہ کیا۔۔۔دادا جان !یہ تو ذرا بھی نہیں ہل رہا؟جب کہ اس حالت میں توسانپ بل کھایا کرتے ہیں ‘‘۔آپی جان کے لہجے میں حیرت تھی۔

’’بے چارے سانپ کی کیا مجال جو ہل جائے۔دادا جان کو دیکھ کر تو اس کے بل کس نکل گئے ہیں ‘‘۔بھائی جان بولے۔

’’ویسے بھی یہ سانپ ذرا شریف شریف سالگتا ہے ‘‘۔منے میاں بولے۔

’’نہیں بھئی!سانپ شریف وریف نہیں ہوتا‘‘۔

’’ارے۔۔۔!کہیں یہ ہماری دہشت سے مر تو نہیں گیا؟‘‘دادا جان جیسے ہی اسے دیکھنے کے لئے نیچے جھکے، ٹھٹک کر رہ گئے۔نقلی سانپ کی پلاسٹک ڈمی ان سب کا منہ چڑا رہی تھی۔جوشایدکسی دن منے میاں کھیلتے ہوئے اسٹورہی میں بھول گئے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

 

میں نے کہا تھا نا۔۔۔!!

 

’’جوجو!اب ہمیں چلنا چاہئے ،رات کا اندھیرا پھیلنے لگا ہے ‘‘۔چن من نے تیسری مرتبہ جوجو کو پکارا تھا۔ اس مرتبہ اس کی آواز میں جھنجھلاہٹ شامل تھی۔

’’او۔۔۔ہو۔۔۔چن من! تم تو خوامخواہ پریشان ہو رہی ہو!۔۔۔ابھی سے رات کا اندھیرا کہاں ؟دیکھ نہیں ر ہی ابھی توسورج میاں مسکرامسکرا کر اپنی کرنیں بکھیر رہے ہیں ‘‘۔جوجو ایک اور دانے کو اپنے پنجوں میں دبوچتے ہوئے بولا۔

’’لیکن سورج میاں کی یہ مسکراہٹ تھکاوٹ بھری ہے۔سارادن چل چل کرسورج میاں تھک چکے ہیں اور تھک ہارکربس گرنے ہی والے ہیں۔ ہمارا گھر یہاں سے اتنا نزدیک بھی نہیں ہے۔ہمیں گھر جاتے جاتے رات ہوہی جائے گی‘‘۔چن من بولتی چلی گئی۔

’’اُف خدا۔۔۔!چن من! تم کتنا بولتی ہو،تمہاری زبان ہے یا قینچی؟ چلو۔۔۔! چلتے ہیں ‘‘۔جوجو نے اس کی طرف دیکھا۔وہ ابھی اڑنے کے لئے پر تول ہی رہا تھا کہ چن من اس کا انتظار کئے بغیر اڑ گئی۔صاف مطلب تھا کہ وہ جوجوسے ناراض ہو گئی ہے۔

’’ارے باپ رے۔۔۔چن من۔۔۔!تم تو ناراض ہی ہو گئی ،میں تو مذاق کر رہا تھا۔تمہاری آواز تو بہت پیاری ہے۔کوئل کی آواز بھی تمہاری آواز کے سامنے پانی بھرتی نظر آتی ہے‘‘۔جوجو چن من کے ساتھ اڑتے ہوئے بولا۔ لیکن چن من نے اپنا پھولا ہوا منہ دوسری طرف پھیر لیا۔

’’پیاری چن من!اب مان بھی جاؤ۔۔۔نا۔۔۔دیکھو!میں اپنے کانوں کو پکڑ کر توبہ کرتا ہوں ، آئندہ ایسا مذاق نہیں کروں گا۔ ارے۔۔۔!لیکن اگر میں اپنے کانوں کو پکڑوں گاتوسارے دانے گر جائیں گے۔ چلو۔۔۔چن من۔۔۔! تم ایسے ہی مان جاؤ‘‘۔جوجو کے اس بے تکے جملے پر بے اختیار چن من کی ہنسی چھوٹ گئی۔

’’جوجو۔۔۔!ایک بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ تم یہ دانے گھرکیوں لے جا رہے ہو؟آج دن بھر الحمدللہ!ہمیں کھانے کو خوب دانے ملے ہیں۔ اس لئے ہمارے پیٹ بھی بھرے ہوئے ہیں۔ ہمارے بچے بھی نہیں ہیں۔پھر بھلا ہمیں گھر دانے لے جانے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘چن من نے جوجو کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔

’’چن من۔۔۔! میرے ذہن میں ایک خیال آیا ہے۔۔۔وہ یہ کہ ابھی تو ہمیں صحرا میں کھانے پینے کی چیزیں دانے وغیرہ مل جاتے ہیں اور ہم خوب پیٹ بھر کر کھاتے ہیں ،لیکن سردیوں میں ہمیں صحرا میں کوئی چیز نہیں ملتی،بلکہ کئی کئی دن تک تو ہمیں فاقے سے بھی رہنا پڑتا ہے۔میں نے سوچا،کیوں نہ ہم اپنے گھونسلے میں دانوں کو ذخیرہ کر لیں تاکہ سردیوں میں ہمیں دشواری نہ ہو۔ اور ہم مزے سے دھوپ سینکتے ہوئے دانے کھا کر اپنے رب کی حمد اور شکرانے کے نغمے گایا کریں گے‘‘۔اتنا کہہ کر جو جو خاموش ہو گیا۔

’’واہ بھئی واہ۔۔۔!بہت خوب۔۔۔جوجو!میں تو تمہیں ’’ایویں ‘‘ سمجھتی تھی، لیکن تم تو بڑے تیز نکلے۔کل سے ہم دونوں دانے لایا کریں گے‘‘۔چن من مسکراتے ہوئے بولی۔

’’یہ ہوئی نا بات۔۔۔! اگر تم بھی میراساتھ دو گی پھر تو کچھ ہی دنوں میں ہمارا گھونسلہ بھر جائے گا‘‘۔ جوجو خوش ہو کر بولا۔

رات کے سائے دھیرے دھیرے پھیل رہے تھے۔ گھر پہنچتے پہنچتے کافی اندھیرا چھا چکا تھا۔

’’خیر تو ہے بچو۔۔۔!آج کچھ زیادہ ہی دیرسے آئے ہو؟‘‘ بوڑھا برگد کا درخت، ان کو آتے دیکھ کر بولا۔

’’یہ تو آپ جوجوسے ہی پوچھیں۔میں تواسے کہہ رہی تھی کہ جوجو! جلدی چلو!رات ہو رہی ہے ،لیکن اس پیٹو کا پیٹ ہی نہیں بھرتا‘‘۔چن من نے بوڑھے برگدسے کہا۔

’’برگد بابا!یہ تو مجھ سے بس ایسے ہی جلتی رہتی ہے۔بھئی۔۔۔!جان ہے تو جہان ہے۔پیٹ بھر کر کھائیں گے نہیں تو پھر بھلا اونچا اونچاکیسے اڑیں گے۔۔؟ اچھا برگد بابا! شب بخیر‘‘۔جوجو جلدی سے بولا۔اسے ڈر تھا کہ کہیں یہ بحث طویل نہ ہو جائے۔

’’جیتے رہو بچو۔۔۔خوش رہو۔۔۔۔!‘‘ بوڑھا برگد دعائیں دیتا ہوا بولا۔ جوجو اور چن من نے اپنے گھونسلے کا رخ کیا۔

٭٭

 

جنگل کے وسط میں واقع برسوں پرانے برگد کے اس بوڑھے درخت پر ان کاگھونسلہ تھا۔اس بھری دنیا میں ان کا ایک دوسرے کے سواکوئی نہ تھا۔

گھونسلے میں بس وہ دونوں ہی رہتے تھے۔یہ بات نہیں تھی کہ وہ ہمیشہ ہی سے اکیلے تھے۔۔۔ وہ اپنے اپنے ابو اور امی جان کے ساتھ رہتے تھے۔ جوجو کے ابو اور چن من کے ابو ایک دوسرے کے بہترین دوست تھے۔دونوں دوست صبح سویرے مل کر دانے چگنے کے لئے جاتے اور شام کو اپنے بچوں جوجو اور چن من کے لئے بھی لاتے۔ جوجو کی طرح چن من بھی اکلوتی اولاد تھی۔ابھی ان کے پر نہیں نکلے تھے اس لئے وہ اڑ نہیں سکتے تھے۔وہ دن بھر اپنے گھونسلے میں کھیلتے رہتے تھے۔ زندگی بہت ہی پرسکون گزر رہی تھی کہ اچانک وہ حادثہ ہو گیاجس نے ان کی بہارجیسی زندگی کو خزاں میں تبدیل کر دیا۔

دونوں کے امی ابو صبح گھرسے دانہ لینے گئے تھے۔پھر لوٹ کر نہیں آئے۔ شام کو ان کے پڑوس میں رہنے والے ہریل طوطے انکل مٹھو میاں گھبرائے ہوئے آئے۔ اس نے بتایا کہ ان کے امی ابو کو ایک شکاری نے پکڑ لیا ہے۔صرف پکڑا ہی نہیں بلکہ ذبح کر دیا ہے۔ان دونوں پریہ خبر پہاڑ بن کر  ٹوٹی تھی۔اس دنیا میں وہ تنہا رہ گئے تھے۔

بوڑھے برگد نے اپنے رہنے والے سب پرندوں کو حکم دیا تھا کہ تمام پرندے روزانہ شام کو ان دو یتیم کبوتر کے بچوں جوجو اور چن من کے لئے دانہ لایا کریں ،یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا۔ جب تک دونوں خود اڑ نہیں پاتے۔بوڑھے برگد کے اس حکم کو سب نے بخوشی قبول کر لیا تھا۔ان کے کھانے کا تو انتظام ہو گیا تھا۔ لیکن ان کی دل جوئی کرنے والا کوئی نہ تھا۔جوجو بڑا تھا،حالات کو سمجھتا تھا۔لیکن چن من ابھی اتنی سمجھ دار نہ تھی۔اس لئے وہ ہر وقت اپنی امی جان اور ابو جان کو یاد کر کے روتی رہتی تھی۔ جوجواسے دلاسہ دیتا۔اس کا دل بہلاتا۔ وقت گذرتا گیا اور وہ بڑے ہو گئے۔جب وہ اڑنے کے قابل ہوئے تو جوجو نے سب پرندوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہیں کہہ دیا کہ آج کے بعد ہم اپنے دانے خود لایا کریں گے۔اس دن وہ دونوں بہت خوش ہوئے تھے جس دن وہ پہلی مرتبہ اپنے گھونسلے سے نکل کر کھلی فضاؤں میں اڑے تھے۔پھر وہ خود دانہ چگنے کے لئے جانے لگے۔چوں کہ بوڑھا برگد اور اس پر رہنے والے تمام پرندے ان کے محسن تھے۔اس لئے وہ دونوں سب کی عزت کرتے تھے۔سب سے محبت سے پیش آتے،دوسروں کے کام آتے۔ اس لئے سب ہی انہیں پسندکرتے تھے۔دونوں شوخ اور چنچل طبیعتوں کے مالک تھے،ان کی آپس میں پیار بھری نوک جھوک چلتی رہتی تھی۔

جوجو کی دانے ذخیرہ کرنے والی ترکیب چن من کو بے حدپسندآئی تھی۔ اس لئے وہ بھی جوجو کے ساتھ پورے جوش و خروش کے ساتھ دانے جمع کرنے میں لگ گئی تھی۔سردیاں آنے سے پہلے پہلے وہ اپنے گھونسلے میں دانوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ جمع کر چکے تھے۔

٭٭

 

’’جوجو۔۔۔!تمہیں جنگل کے بادشاہ سلامت نے یاد فرمایا ہے‘‘۔ایک دن وہ دانہ چگ کرواپس اپنے گھونسلے میں آئے ہی تھے کہ بادشاہ سلامت کا کارندۂ خاص اُلو میاں پیغامِ خاص لے کر آ گیا۔جوجو صبح سے شام تک اڑنے کی وجہ سے کافی تھک چکا تھا،لیکن بادشاہ سلامت کا حکم تھا،اس لئے وہ ساتھ ہولیا۔ کافی دیربعداس کی شاہی دربارسے واپسی ہوئی۔

’’کیوں جوجو کیا ہوا۔۔۔!کیا کہا بادشاہ سلامت نے؟‘‘ چن من نے پوچھا۔

’’بادشاہ سلامت کا جو ایلچی کبوتر ہے نا۔۔۔گوگو۔۔۔!وہ آج کل بیمار ہے۔ بادشاہ سلامت کو ایک اہم اور ایمرجنسی پیغام افریقہ کے جنگل کے بادشاہ کو بھیجنا ہے۔بادشاہ سلامت نے مجھے پیغام لے جانے کو کہا ہے‘‘۔ جوجو بولا۔

’’لیکن افریقہ تو بہت دور ہے؟‘‘چن من پریشان ہو کر بولی۔

’’ہاں۔۔۔!مجھے واپس آنے میں کافی دن لگ جائیں گے۔خیر!اب کیا ہو سکتا ہے؟ بادشاہ سلامت کا حکم ہے، جانا تو پڑے گا‘‘۔جوجو بولا۔

’’لیکن جوجو۔۔۔!میں بھلا۔۔۔!تمہارے بغیرکس طرح رہ پاؤں گی؟‘‘

’’اوہو۔۔۔! چن من! تم توایسے ہی پریشان ہو رہی ہو۔صرف چند ہی دن کی تو  بات ہے۔اچھا۔۔اب سوجاؤ! میں ان شاء اللہ کل صبح روانہ ہو جاؤں گا،اور ہاں ! جو دانے ہم نے سردیوں کے لئے جمع کئے ہوئے ہیں تم ان کو مت کھانا،بلکہ اپنے کھانے کے لئے صحراسے دانے لے آنا۔جب میں آ جاؤں گا تو ہم ان دانوں کومل کر کھائیں گے‘‘۔جوجو بولتا چلا گیا۔

’’ٹھیک ہے !میں ان دانوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھوں گی‘‘۔چن من بولی۔

’’نہیں۔۔۔!خیر آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی تمہیں اجازت ہے، کیوں کہ اگر تم دانوں کی طرف دیکھو گی ہی نہیں تو  پھر بھلا ان کی حفاظت کس طرح کرو گی؟‘‘جوجومسکراتے ہوئے بولا۔اس کی یہ بات سن کر چن من کے چہرے پر بھی مسکراہٹ پھیل گئی۔اس رات خوب زور کی بارش ہوئی، جوجو اور چن من صبح سویرے بیدار ہوئے تو ہر طرف جل تھل کاسماں تھا۔جوجو صبح سویرے ہی بادشاہ کا پیغام لے کر افریقہ کے جنگل کی طرف روانہ ہو گیا۔

٭٭

 

جوجوکوواپس آتے آتے ایک ہفتہ لگ گیا۔وہ واپس آیا تو مارے تھکاوٹ کے اس کا برا حال تھا۔چن من اس کی آمد پر خوشی سے پھولے نہ سمارہی تھی۔ اس نے جوجو کو دانے اور پانی لا کر دیا۔ جوجو دانوں کی طرف اپنی چونچ بڑھانے ہی لگا تھا کہ اچانک اسے اپنے جمع کئے ہوئے دانے یاد آ گئے۔اس نے دانوں کی طرف نظر دوڑائی۔ وہ چونک اٹھا۔

’’چن من۔۔۔!‘‘وہ زورسے چلایا۔

’’ہاں۔۔۔جوجو!۔۔۔کیا ہوا؟‘‘اس کے اس طرح پکارنے پر چن من نے چونک کراس کی طرف دیکھا۔

’’یہ تم نے کیا کیا!میں نے تم سے کہا تھا کہ تم ان دانوں میں سے نہیں کھاؤ گی۔لیکن۔۔۔لیکن۔۔۔تم نے توسارے دانے کھا لئے۔افسوس!چن من!  مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی‘‘۔جوجو کے لہجے میں زمانے بھرکا افسوس تھا۔

’’کیا!!‘‘چن من یہ سن کر چلا اٹھی۔

’’یہ۔۔۔یہ۔۔۔تم کیا کہہ رہے ہو جوجو!میں نے تو ان دانوں میں سے ایک دانہ بھی نہیں کھایا‘‘۔

’’دفع ہو جاؤ!میری نظروں سے۔۔۔جھوٹی۔۔۔!یہ دیکھو! جاتے ہوئے میں نے یہ نشان لگا دیا تھا۔اب اس نشان سے دانے کم ہیں ‘‘۔جوجو ایک نشان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔اسے چن من کے جھوٹ بولنے پرسخت غصہ آ گیا تھا۔

’’لیکن۔۔۔جج۔۔۔جو۔۔۔!‘‘۔چن من نے کہنا چاہا۔

’’بس۔۔۔بس۔۔۔!اب اور جھوٹ مت بولو اور اپنی یہ منحوس سی شکل لے کر دفع ہو جاؤ!میرے سامنے سے‘‘۔جوجو کی یہ بات سن کر بے بسی سے چن من کی آنکھوں میں آنسوآ گئے۔وہ سرجھکا کر گھونسلے سے نکل گئی اور برگد کے درخت کی ایک شاخ پرجا کر بیٹھ گئی۔ بوڑھابرگداس وقت سورہا تھا۔وہ ان کی لڑائی سے بے خبر تھا۔ سردیاں شروع ہو چکی تھیں۔سرِ شام ہی سے منڈلاتے ہوئے بادلوں نے خنکی میں کافی اضافہ کر دیا تھا۔ اچانک خوب گرج چمک کے ساتھ بارش بھی شروع ہو گئی۔سردہوا کے یخ بستہ جھونکے چن من کا خون منجمد کئے دے رہے تھے۔جوجو کے رویے اور الفاظ سے اس کا دل ٹوٹ چکا تھا۔اب اس کا دل واپس گھونسلے میں جانے کو بھی نہیں کر رہا تھا۔اِدھرسردی دھیرے دھیرے اسے اپنے رگ و پے میں سرایت ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔اس کے حواس جواب دینے لگے اور پھر اچانک اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور وہ چکرا کر برگد کے درخت سے نیچے گر گئی۔جب کہ جوجواس سے بے خبرگھونسلے میں سورہا تھا۔ وہ لمباسفر کرنے کی وجہ سے کافی تھک چکا تھا۔صبح اس کی آنکھ تب کھلی جب بوڑھے برگد نے اپنی شاخوں کے ذریعے اسے جھنجوڑا۔

’’کیوں کیا ہوا برگد بابا؟‘‘جوجو اپنی گول گول آنکھیں ملتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔

’’غضب ہو گیا جوجو!!۔۔۔غضب ہو گیا۔۔۔تمہاری چن من تمہیں چھوڑ کر چلی گئی !‘‘ برگدبابازورزورسے بولے۔

’’چن من چلی گئی۔۔۔!لیکن کہاں۔۔۔؟‘‘

’’وہاں !۔۔۔جہاں سے آج تک کوئی واپس نہیں آیا۔۔۔وہ دیکھو!‘‘۔ جوجو نے نیچے دیکھا تو دھک سے رہ گیا۔ اسے اپنے پیروں تلے سے شاخ کھسکتی ہوئی محسوس ہوئی۔نیچے چن من گہری نیندسوئی ہوئی تھی۔ہمیشہ ہمیشہ کی نیند۔

’’پتہ نہیں۔۔۔! کیسے گھونسلے سے گر گئی؟رات ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ میں بھی کچھ زیادہ ہی گہری نیندسوگیا۔ہائے۔۔۔!کتنی پیاری تھی، بھولی بھالی ،من موہنی سی!‘‘برگد بابا کہہ رہے تھے۔

اب جوجوبرگدکوکیسے بتاتا کہ اتنی سخت سردی میں چن من کوگھونسلے سے اس نے خود نکالا تھا۔اور وہ بھی تھوڑے سے دانوں کی خاطر۔ دانوں کا خیال آتے ہی اس نے درد بھری نظروں سے دانوں کی طرف دیکھاتواسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا اور وہ چلا اٹھا:

’’نہیں۔۔۔نہیں۔۔۔!‘‘

بارش کی وجہ سے دانے پھول کر،پھراس کے لگائے  نشان تک آ گئے تھے اسے ساری بات سمجھ آ گئی تھی۔جس دن وہ بادشاہ سلامت کا پیغام لے کر گیا تھا،اس رات بھی بارش ہوئی تھی۔ اس نے چن من کی طرف دیکھا۔اس کے چہرے پر ایک معصومیت سی تھی۔اس کی معصوم آنکھیں پکار پکار کر کہہ رہی تھیں :

’’دیکھا جوجو!میں نے کہا تھا، میں نے دانے نہیں کھائے! اور بھلا تمہارے بغیر میں دانے کس طرح کھاسکتی تھی۔۔۔؟لیکن۔۔۔لیکن تم نے تو میری بات پر یقین ہی نہیں کیا تھا۔اب خود دیکھ لو۔۔۔!تم نے گیلے اور پھولے ہوئے دانوں پر نشان لگایا تھا۔ تمہارے جانے کے بعد وہ دانے سوکھ کر تمہارے لگائے ہوئے نشان سے کم ہو گئے تھے اور تمہیں لگا کہ میں نے دانے کھا لئے ہیں ، کیوں کہ تمہیں مجھ پر اعتماد جو نہیں تھا۔ جوجو! تم اپنے جنگل کے پبلک ہائی اسکول کے پرنسپل میاں مٹھو کی وہ بات کیسے بھول گئے۔۔۔! جو انہوں نے اسلامیات کاسبق پڑھاتے کہی تھی کہ:

’پیارے بچو!ہمارے پیارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا مبارک فرمان ہے:

’بدگمانی سے بچو!اس لئے کہ بدگمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے‘٭

جو جو! افسوس… تم نے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو بھلا دیا… بھلا دیا۔‘‘

اس کی آنکھوں کی پکارسن کر مارے ندامت اور پچھتاوے کے جوجو کا سر جھک گیا۔

٭٭٭

٭[صحیح البخاری،کتاب النکاح،باب لایخطب علی خطبۃ اخیہ حتی ینکح اویدع۔رقم:۵۱۴۳]

 

 

 

 

 

میٹھا زہر

 

قیصر شریف کی نظر جیسے ہی ٹی وی لاونج میں پڑی، وہ چونک اُٹھے۔ اُن کے کمرے کی طرف بڑھتے ہوئے قدم رُک گئے۔انہوں نے اپنی آنکھوں کو دو تین بار مسلا اور پھر پورے کمرے میں نظر دوڑائی لیکن کمرے کا منظر جوں کا توں تھا۔ ان کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔

’’بیگم …! بیگم…! یہ مانی میاں کہاں ہیں ؟‘‘ وہ زور سے بیگم کو پکارتے ہوئے باورچی خانے کی طرف بڑھے۔

’’لو بھلا !یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ آپ کو سامنے دیوار پر لگی گھڑی نظر نہیں آ رہی کیا؟‘‘ ان کی بیگم بشریٰ بُرا سا منھ بنا کر بولیں۔

’’ہائیں …! تو کیا مانی میاں اس گھڑی میں ہیں۔ نہیں بھئی! اب ہمارے مانی میاں اتنے بھی چھوٹے نہیں ہیں کہ اس گھڑی میں سما سکیں۔‘‘قیصر شریف نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولے۔

’’میاں …! آپ بھی نا!بس بال کی کھال اُتارنے لگ جاتے ہیں۔ میرے کہنے کا مطلب تو یہ تھا کہ سات بج گئے ہیں اور سات بجنے کے بعد مانی میاں ٹی وی لاؤنج کے علاوہ بھلا اور کہاں ہو سکتے ہیں ؟‘‘بشریٰ بیگم بولیں۔

’’یہی تو ستم ہے۔‘‘

’’اچھا …میاں ! اب آپ کو ہمارے بیٹے کا کارٹون دیکھنا بھی ستم لگنے لگا۔‘‘بیگم بُرا منھ مناتے ہوئے بولیں۔

’’نہیں۔۔۔نہیں بیگم ! بھلا مانی میاں کا بھی کوئی کام ہمیں برا لگتا ہے؟وہ ’’ستم ہے‘‘ تو ہم نے اس لیے کہا تھا کہ مانی میاں کے پسندیدہ کارٹون تو کب کے شروع ہو چکے ہیں لیکن ٹی وی لاؤنج میں مانی میاں کا دور دور تک پتا نہیں۔‘‘

’’کیا۔۔۔!!‘‘  بشریٰ بیگم بری طرح چلا اٹھیں۔

’’لیکن۔۔۔یہ ۔۔۔یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ بینٹن کارٹون شروع ہو چکے ہوں اور مانی میاں ٹی وی کے سامنے موجود نہ ہوں۔‘‘

’’اگر مانی میاں ٹی وی لاؤنج میں موجود نہیں تو پھر کہاں ہیں ؟‘‘

’’پتا نہیں۔ آؤ!ان کو تلاش کرتے ہیں۔‘‘ قیصر شریف بولے اور پھر انہوں نے مانی میاں کو تلاش کرنا شروع کر دیا۔

مانی میاں ان کے ہاں بڑی منتوں مرادوں کے بعد پیدا ہوئے تھے۔ وہ تھے بھی بہت پیارے، چھوٹے سے ،گول مٹول، گورے چٹے اور بے حد خوب صورت ،جو بھی دیکھتا، بے اختیار پیار کرنے پر مجبور ہو جاتا۔  قیصر شریف اور بشریٰ بیگم کی جان تو مانی میاں میں بستی تھی اور اُن کی جان بینٹن میں۔ ان کو بینٹن دیکھنے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔وہ بینٹن کے دیوانے تھے۔

’’مانی میاں ! آپ کو سب سے زیادہ کون اچھا لگتا ہے؟‘‘

’’بینٹن۔۔۔۔۔ ‘‘

’’مانی میاں ! آپ کون سے جوتے لیں گے ؟‘‘

’’بینٹن والے۔‘‘

’’مانی میاں ! عید آ رہی ہے، آپ کون سے رنگ کا چشمہ لیں گے ؟‘‘

’’چشمہ نہیں پاپا جانی! میں تو ماسک لوں گا۔ بینٹن والا ماسک۔‘‘

’’مانی میاں ! آپ کیسی شرٹ لیں گے۔‘‘

’’جیسی بینٹن پہنتا ہے۔‘‘

’’نہیں بیٹا! عید پر تو بینٹن والی شرٹ نہیں پہنتے‘‘۔

’’ پھر وہ شرٹ دلوا دیں جس پر بینٹن کی تصویر ہو‘‘۔

’’مانی میاں ! آہستہ چلو، گر جاؤ گے، چوٹ لگ جائے گی‘‘۔‘

’’تو کیا ہوا امی جان! اگر میں گر جاؤں گا تو بینٹن مجھے بچا لے گا‘‘۔

نام تو ان کا عمران تھا، لیکن سب محبت اور لاڈ سے ان کو مانی میاں کہہ کر پکارتے تھے۔ قیصر شریف اور بشریٰ بیگم تو بس انہیں دیکھ دیکھ کر جیتے تھے۔ اسی لیے تو ان کے یوں اچانک غائب ہو جانے پر دونوں پریشان ہو گئے تھے۔مانی میاں کا معمول تھا، جیسے ہی سات بجتے، وہ بینٹن کا روپ دھار ے ٹی وی لاؤنج میں آن وارد ہوتے۔ بس پھر کسی کی کیا مجال جو ٹی وی لاؤنج کا رخ بھی کر جائے۔ آٹھ بجے تک وہاں صرف مانی میاں کا قبضہ ہوتا، وہ بینٹن کی مکمل وردی پہنے دنیا و مافیہا سے بے گانہ ہو کر اپنے محبوب کارٹون دیکھتے۔

چند دن سے تو وہ ٹی وی لاؤنج کا دروازہ بھی بند کرنے لگ گئے تھے۔ وہ تو ایک دن بشریٰ بیگم نے چھپ کر دیکھا تو راز کھلا کہ صاحب زادے کے سر پر آج کل بینٹن بننے کا بھوت سوار ہو گیا ہے اور روزانہ دروازہ بند کر کے اسکرین پر نظر آنے والی بینٹن کی ایک ایک حرکت کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بات بشریٰ بیگم نے قیصر شریف کو بتائی۔ دوسر ے دن ان دونوں نے مل کر دیکھا تو مانی میاں کی معصومانہ حرکتیں دیکھ کر وہ بے حد محظوظ ہوئے۔ قیصر شریف تو ہنس ہنس کر لوٹ پو ٹ ہو گئے تھے۔ اب ان کے وہی پیارے سے ،معصوم سے،بھولے سے مانی میاں غائب تھے۔ ان دونوں نے پورا گھر چھان مارا لیکن مانی میاں تو گھر سے ایسے غائب تھے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ ان کی تو جان پر بن گئی۔

’’اف خدا۔۔۔!اب۔۔۔۔اب کیا ہو گا؟‘‘ مانی میاں کے گم ہو جانے کے خیال سے ہی بشریٰ بیگم کا دل بیٹھنے لگا۔

’’کچھ نہیں ہو گا بیگم ! تم پریشان مت ہو۔ ارے۔۔۔!ہم نے چھت پر تو دیکھا ہی نہیں۔ چلو آؤ۔۔۔۔! چھت پر دیکھتے ہیں۔ ‘‘ قیصر شریف بولے۔ جیسے ہی وہ دونوں چھت پر پہنچے، ٹھٹک کر رہ گئے۔ ان کے دھڑکن بھولے ہوئے دل پھرسے دھڑک اُٹھے۔ان کا چھوٹا سا بینٹن دونوں ہاتھ کولہوں پر رکھے ان کے سامنے کھڑا تھا۔

’’مانی میری جان! تم یہاں چھت پر کیا کر رہے ہو؟‘‘ بشریٰ بیگم تیزی سے اس کی طرف لپکیں اور اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔

’’امی جان! میں سوچ رہا تھا، روزانہ میں بینٹن کو ہواؤں میں اڑتے ہوئے دیکھتا ہوں ،کیوں نہ آج میں بھی ہوا میں اڑوں !‘‘

مانی میاں معصومانہ لہجے میں بولے۔

’’او ہو…واہ بھئی واہ !بہت خوب! تو اب ہمارا بیٹا بھی ہوا میں اڑے گا۔‘‘ قیصر شریف فدا ہوتے ہوئے بولے۔

’’جی ہاں ابا جان! پھر میں بھی  بینٹن کی طرح مصیبت میں پھنسے لوگوں کی مدد کیا کروں گا‘‘۔ مانی میاں پُر عزم لہجے میں بولے۔

’’اچھا۔۔۔!میرے ننھے بینٹن ! پہلے تو تم ہماری مصیبت حل کرو اور نیچے آ جاؤ‘‘

مانی میاں ٹی وی لاؤنج میں پہنچے تو ٹی وی اسکرین پر ایک بہت ہی خطرناک سین چل رہا تھا۔ایک چھوٹا سا بچہ ایک بہت بڑے پلازے کی چھت سے نیچے گر رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ زمین پر گرتا، اچانک فضا میں بینٹن ہوا میں اڑتا ہوا نمودار ہوا اور اس نے اس گرتے ہوئے بچے کو تقریباً کیچ کر لیا اور اس کی روتی ہوئی ماں کے حوالے کر دیا۔

’’شکریہ بینٹن!‘‘ اس کی ماں نے مشکور نظروں سے بیٹ مین کی طرف دیکھا۔ یہ منظر مانی میاں  کے ذہن کے ننھے سے کمپیوٹر میں محفوظ ہو گیا تھا کبھی نہ مٹنے کے لیے۔

٭٭

 

مانی میاں  دوڑتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے اور تیزی سے اپنے کمرے میں گھس گئے۔

’’ارے مانی میاں !کیا ہوا؟‘‘ بشریٰ بیگم ارے ار ے ہی کہتی رہ گئیں۔ کچھ ہی دیر بعد مانی میاں  بینٹن بنے کمرے سے نمودار ہوئے۔

’’ارے بھئی! کچھ بتاؤ تو سہی کیا ہوا؟ یہ تم ابھی سے بینٹن بنے کہاں چل دئیے؟ ابھی تو بینٹن لگنے میں پورے دو گھنٹے باقی ہیں۔‘‘ بشریٰ بیگم گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے بولیں۔

’’امی جان! وہ ساتھ والے لیاقت انکل ہیں نا! ان کے گودام میں آگ لگ گئی ہے۔ میں وہ بجھانے جا رہا ہوں۔‘‘مانی میاں نے جلدی سے جواب دیا اور تیزی سے دروازے کی طرف بڑھے۔

’’لیکن!  بیٹا! آگ تو فائر بریگیڈ والے بجھائیں گے۔ یہ تو ان کا کام ہے۔ تم کس طرح بجھاؤ گے؟‘‘ بشریٰ بیگم نے جلدی سے ان کو پکڑ لیا۔

’’اوہو! امی جان! فائر بریگیڈ والے تو بہت دیر لگا دیں گے، جب کہ میں  بینٹن کی طرح فوراََ منتر پڑھ کر آگ بجھا دوں گا۔ پلیز امی جان! ایک طر ف ہٹ جائیں اور مجھے جانے دیں ‘‘۔ مانی میاں خود کو ان سے چھڑاتے بولے۔

’’ارے۔۔۔یہ کیا بیگم! یہ میں کیا سن رہا ہوں ؟ ہمارا بیٹا کہیں جا رہا ہے اور تم اسے جانے سے روک رہی ہو!‘‘ قیصر شریف اندر داخل ہوتے ہوئے بولے۔ انہوں نے شاید مانی میاں کا آخری جملہ ہی سنا تھا۔

’’لیکن پہلے اس سے یہ بھی تو پوچھ لیں کہ یہ کہاں جا رہا ہے؟‘‘  بشریٰ بیگم بولیں۔

’’کیوں بھئی مانی میاں ! کہاں جا رہے ہو؟‘‘

مانی میاں نے اپنی بات دہرائی تو قیصر شریف کو ایک زبردست جھٹکا لگا۔ مانی میاں کے سر پر بینٹن بننے کا بھوت اس حد تک سوار ہے، یہ تو انہوں نے سوچا ہی نہ تھا۔

’’لیکن بیٹا! آگ تو فائر بریگیڈ والوں نے بجھا دی ہے۔ میں تمہاری پسندیدہ اسٹرابری آئس کریم لایا ہوں۔ آؤ !مل کر وہ کھاتے ہیں ‘‘۔

قیصر شریف نے مانی میاں کو تو ٹال دیا تھا لیکن وہ خود کسی گہری سوچ میں گم تھے۔

٭٭

 

کلاس سے باہر نکل کرجیسے ہی انہوں نے جیب سے موبائل نکالا۔ اسکرین پر مس کالز کی تعداد دیکھ کر وہ چونک اٹھے۔ گھر سے بیس مس کالیں آئی ہوئی تھیں۔

’’خدا خیر ہی کرے!‘‘ انہوں نے دعا مانگی اور بیک کال کرنے لگے لیکن کسی نے کال ریسیو نہ کی۔ انہوں نے لگاتار دو تین مرتبہ کال کی لیکن کسی نے فون نہ اٹھایا۔ اب تو وہ اور بھی گھبرا گئے اور اپنی گاڑی میں بیٹھ کر گھر کی طرف روانہ ہوئے۔

ان کا اپنا ایک اسکول تھا۔’’ مانی ماڈل ہائی اسکول‘‘ کا شمار شہر کے بہترین اسکولوں میں ہوتا تھا۔ اسکول ٹائم تو دو بجے تک تھا، پھر چار بجے اکیڈمی ٹائم شروع ہو جاتا۔ اسکول میں پڑھنے والے اکثر بچے ٹیوشن بھی اسکول ہی میں پڑھتے تھے۔ نویں اور دسویں کلاس کو حساب اور انگلش قیصر شریف خود پڑھاتے تھے۔ ان کا اصول تھا ، جب وہ پڑھانے کے لیے کلاس میں آتے تو موبائل کو آف کر کے آتے یا کم از کم سائلنٹ ضرور کر دیتے۔ وہ کلاس کے دوران فون نہیں سنتے تھے۔

اپنے گھر کے سامنے لگے لوگوں کے رش کو دیکھ کر ان کا دل بیٹھنے لگا۔ وہ گاڑی سے اتر کر تیزی سے دروازے کی طرف بڑھے۔ سب لوگ ان کی طرف متوجہ ہو گئے۔

’’کیا ہوا لیاقت بھائی؟‘‘ انہوں نے دھڑکتے دل کے ساتھ اپنے پڑوسی سے پوچھا۔

’’وہ مانی چھت سے گر گیا۔‘‘

’’کیا۔۔۔۔! !! ‘‘ وہ چلا اٹھے۔

’’کب اور کیسے۔۔۔ اسے کوئی چوٹ تو نہیں آئی؟‘‘ انہوں نے چلاتے ہوئے پوچھا۔

’’ابھی کچھ دیر پہلے۔۔۔اور اس کے سر میں گہری چوٹیں آئی ہیں۔ اسے جنرل اسپتال لے کر گئے ہیں۔ بھابی اور محلے کے ڈاکٹر طارق صاحب ساتھ گئے ہیں۔ آپ کو بھی کال کی تھی لیکن آپ شاید کلاس میں ہونے کی وجہ سے نہیں اٹھا سکے۔‘‘ لیاقت  بھائی بولے۔

وہ تقریباً دوڑتے ہوئے گاڑی کی طرف بڑھے اور آندھی طوفان کی طرح اسپتال کی طرف روانہ ہوئے۔ آج زندگی میں پہلی مرتبہ انہیں اپنے موبائل سائلنٹ کر کے کلاس میں جانے والے اصول پر افسوس ہو رہا تھا۔ اسپتال پہنچ کر وہ گاڑی پارک کر کے جلدی سے ایمرجنسی وارڈ کی طرف لپکے۔ ایک کمرے کے باہر بشریٰ بیگم اور ڈاکٹر طارق صاحب کھڑے نظر آئے۔

’’ڈاکٹر صاحب ! …کہاں ہے میرا بیٹا؟‘‘

’’وہ اس روم میں ہے۔ آپ صبر سے کام لیں۔ ڈاکٹروں کی پوری ایک ٹیم آپ کے بچے کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے‘‘۔ڈاکٹر طارق صاحب انہیں تسلی دیتے ہوئے بولے۔

’’بیگم۔۔۔!بیگم۔۔۔!کیسے ہوا یہ سب کچھ۔۔۔ تمہارے ہوتے ہوئے مانی چھت سے کیسے گر گیا؟‘‘وہ اپنی بیگم پربرس پڑے۔

’’قیصر بھائی!خود پر قابو رکھیں ‘‘۔ڈاکٹر طارق صاحب اُن کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے بولے۔

’’میں کچن میں کھانا بنا رہی تھی۔مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب مانی میاں بینٹن کی وردی پہنے چھت پر چلے گئے؟وہ توساتھ والے بھائی کے بیٹے عبداللہ نے آ کر بتایا کہ آنٹی مانی میاں نے چھت سے چھلانگ لگا دی ہے ! میں دوڑی تو۔۔۔ہمارا منا خون میں لت پت تھا‘‘۔اس سے آگے اس کی آواز رندھ گئی تھی۔اتنے میں آپریشن روم کا دروازہ کھلا۔اور ایک ڈاکٹر باہر نکلا۔

’’سوری!ڈاکٹر طارق!ہم آپ کے مریض کو نہیں پچاسکے‘‘۔

’’کیا۔۔۔!!‘‘قیصر شریف کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی تھی۔

’’سرکے نازک حصے پر شدید چوٹیں آئی تھیں۔خون بھی کافی بہہ گیا تھا۔ اگرکسی طرح بچہ بچ بھی جاتا تو پھر بھی وہ ساری زندگی معذور رہ کر گزارتا، کیوں کہ اس کے دونوں پاؤں اور ایک ہاتھ ٹوٹ گیا تھا۔ڈاکٹر نہ جانے کیا کیا کہہ رہا تھا! لیکن قیصر شریف پر ایک سکتے کی سی کیفیت طاری ہو گئی تھی، جب کہ اُن کی بیگم تو یہ خبرسن کرتڑسے گریں اور بے ہوش ہو گئیں تھیں۔

٭٭

 

انہوں نے ہال میں موجود لوگوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالی۔ سب کی نظریں ان پر لگی ہوئی تھیں۔ ہال میں موجود لوگ مانی ماڈل ہائی اسکول میں پڑھنے والے بچوں کے والدین تھے۔ ان کو بہت شارٹ نوٹس پر اسکول بلایا گیا تھا۔ کچھ ٹی وی چینلز کے نمائندے بھی تھے۔ انہیں قیصر شریف نے خصوصی طور پر مدعو کیا تھا۔

مانی میاں کی وفات کے پورے ایک ہفتے بعد آج وہ اسکول آئے تھے۔یہ حادثہ اُن کے لئے بہت بڑا دھچکا تھا۔وہ ٹوٹ کر رہ گئے تھے۔ اُن کی بیگم تین دن قومے میں رہ کراس دنیاسے رُخصت ہو گئی تھیں۔شاید اُن میں اتنا حوصلہ ہی نہ تھا کہ وہ آنکھیں کھول کر اپنے مانی میاں کا آخری دیدار کرسکتیں اور وہ ان کے بغیر جی بھی کیسے سکتی تھیں۔

’’خواتین و حضرات! ذرا ایک نظر ادھر دیکھئے!……‘‘ وہ دیوار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے۔ ہال کی دیوار پر ایک بڑی سی ڈیجیٹل اسکرین نمودار ہو چکی تھی۔

انہوں نے سامنے میز پر رکھے کی بورڈ کے چند بٹن دبائے تو اسکرین پر ایک بہت ہی خوب صورت دو سالہ بچے کی تصویر نمودار ہوئی۔ پھر اسی بچے کی ایک اور تصویر نمودار ہوئی۔ اس میں بچہ ایک واٹر گن پکڑے کسی چیز کو نشانہ بنا رہا تھا۔ پھر تو تصویروں کی ایک لائن ہی لگ گئی۔ ساری تصویریں ایک ہی بچے کی تھیں۔ کسی میں وہ بچہ مسکرا رہا ہوتا تھا تو کسی میں کوئی معصومانہ شرارت کر رہا تھا۔ پھر زیادہ تصویریں بینٹن کی وردی پہنے ہوئے کی نظر آنے لگیں۔ سب بہت اشتیاق سے تصویریں دیکھ رہے تھے۔ پھر اچانک تصویریں ختم ہو گئیں۔ اسکرین بھی دیوار پر سے غائب ہو گئی۔

’’یہ میرے بیٹے مانی میاں کی تصویریں ہیں جواب اس دنیا میں نہیں ہیں ‘‘

’’کیا ۔۔۔۔!!!‘‘ہال میں موجود تقریباًسبھی لوگ چلا اٹھے۔

’’جی ہاں ، ابھی د و دن پہلے بینٹن کی طرح ہوا میں اڑنے کی کوشش کرتے ہوئے چھت سے گر گیا تھا۔چھت کی بلندی بہت زیادہ تھی۔اس لئے شدید چوٹیں آئیں اور وہ زخموں کی تاب نہ لا کر ہمیں چھوڑ کر چلا گیا‘‘۔ ان کو اپنی آواز کہیں دور سے آتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔

’’بہت پیارا تھا میرا بیٹا،تصویروں سے آپ کو معلوم ہو گیا ہو گا۔جتنا پیارا تھا اتنا ہی شریر بھی ، لیکن اس کی شرارتیں بھی اسی کی طرح معصومانہ تھیں۔ میں لان میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا ہوتا تو اچانک پیچھے سے آ کر میری آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیتا اور پھر شوخ سے لہجے میں پوچھتا:

’ پاپا۔۔۔!پاپا! بتائیے آپ کے پیچھے کون ہے۔۔۔؟‘ قیصر شریف کی آواز آنسوؤں تلے دب کر رہ گئی تھی۔ ہال میں موجود تقریباً ہر ایک آنکھ اشکبار تھی۔

’ شرارتی بچے زیادہ ذہین ہوتے ہیں۔ یہ مقولہ اس پر فٹ آتا تھا۔ ہر مرتبہ کلاس میں اول آتا۔ بہت سی پوئمز یاد تھیں اسے۔ اکثر میرے پاس آ کر کہتا:

’پاپا۔۔۔!پاپا۔۔۔! آپ کو پوئم سناؤں۔۔۔؟‘اور پھر میرا جواب سنے بغیر شروع ہو جاتا۔

شوق اس کا ایک ہی تھا۔۔۔۔۔بینٹن کارٹون دیکھنا۔ بہت پسند کرتا تھا وہ بینٹن کو۔ وہ خود بھی بینٹن بننا چاہتا تھا۔پھر ایک دن بینٹن بننے کے چکر میں چھت سے کود گیا اور ۔۔۔اور ۔۔۔ہمیں چھوڑ کر چلا گیا۔میں نے۔۔۔میں نے۔۔۔ خود مارا ہے اپنے بیٹے کو ، اگر میں اس کواسی دن روک لیتاجس دن پہلی مرتبہ میں نے اسے بینٹن کی طرح اڑنے کی کوشش کرتے دیکھا تھا تو۔۔۔وہ بچ جاتا۔ہاں۔۔۔!میں اپنے مانی میاں کا قاتل ہوں۔میں نے خود اپنے ہاتھوں اپنے بیٹے کو موت کے منہ میں دھکیلا ہے۔ہاں۔۔۔۔! میں اپنے مانی میاں کا قاتل ہوں ‘‘۔

وہ زور زورسے چلا کر بولے اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ان کے پاس کھڑے ملازم نے منرل وا ٹرکی بوتل سے پانی نکال کران کو پیش کیا۔

’’معذرت۔۔۔!میں خود پر کنٹرول نہیں کر پایا تھا۔‘‘ پانی پی کر وہ کچھ پرسکون سے ہو گئے تھے۔

’’دیکھیں۔۔۔! بچے کا ذہن صاف تختی کی مانند ہوتا ہے۔ اس پر جو چیز بھی لکھی جائے، وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نقش ہو جاتی ہے۔ عمر کا وہ حصہ جس میں آدمی سب سے زیادہ سیکھتا ہے، وہ بچپن ہی ہے۔ بچے بچپن میں جو کچھ دیکھتے ہیں ، سنتے ہیں ، وہی بڑے ہو کر کرتے ہیں۔ وہ جو مثل مشہور ہے نا۔۔۔!

’بچپن کی عادت پچپن تک رہتی ہے‘‘۔۔۔ بالکل درست ہے۔ ‘

ہمارے پیارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا مبارک ارشاد ہے :

’’ہر بچہ فطرتِ اسلام پر پیدا ہوتا ہے،اُس کے ماں باپ اُسے عیسائی یا یہودی بناتے ہیں ‘‘۔٭

٭[صحیح البخاری،کتاب الجنائز،باب ماقیل فی اولادالمشرکین۔رقم:۱۳۸۵]

یہ ہم پر ہے کہ ہم اپنے بچوں کوکیساماحول فراہم کرتے ہیں ،اپنے بچے کو ایک پکاسچامسلمان بنانا ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہے،کیوں کہ اس کچی عمر میں جو کچھ ہمارا بچہ دیکھے اور سنے گا،وہی بڑا ہو کر کرے گا۔ ہم اپنے بچوں کو کیا دکھا اور سنا رہے ہیں ؟

ہم اپنے بچوں کو۔۔۔سپرمین، اسپائیڈر مین، چھوٹا بھیم اور بینٹن دکھاتے ہیں۔۔۔پھر امید رکھتے ہیں کہ ہمارے بچو میں سے بھی کوئی ٹیپو سلطان رحمہ اللہ ، محمد بن قاسم رحمہ اللہ، صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ ،سلطان محمود غزنوی، ڈاکٹر عبدالقدیر خان۔۔۔بنے گا۔ یہ ہماری خام خیالی ہے اور کچھ نہیں۔  بچوں کو تفریح سے منع کرنا سراسر زیادتی ہے۔ لیکن! یہ کہاں کی عقل مندی ہے کہ تفریح کے نام پر بچے کو کمپیوٹر، انٹرنیٹ کے حوالے کر دیا جائے۔‘‘ قیصر شریف سانس لینے کے لیے رکے۔ سب لوگ ہمہ تن گوش تھے۔

’’آپ میں سے کسی نے کبھی کارٹون دیکھے ہیں ؟ نہیں دیکھے ہوں گے۔ کتنی عجیب بات ہے جو چیز ہمارے بچے دن رات دیکھتے ہیں ، ہمیں اس کے بارے میں سوائے اس کے کوئی اور بات معلوم نہیں کہ وہ کارٹون ہیں !

کیا آپ کو معلوم ہے کہ کارٹون کے نام پر میڈیا ہماری نسل میں عریانی و فحاشی کا کیسا زہر بھر رہا ہے؟ نہیں نا! مجھے بھی معلوم نہیں تھا ،لیکن میں نے مانی میا ں کے مرنے کے بعد بینٹن کو دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ میں نے اپنے مانی میاں کو کس عفریت کے حوالے کیا ہوا تھا۔ بعض مناظر دیکھ کر تو میں کانپ کر رہ گیا، جن مناظر کو دیکھ کر میں مارے شرم کے پانی پانی ہو گیا،وہ مانی میاں دیکھتا رہا۔جادوئی اور طلسماتی دنیائیں دکھا دکھا کر ہمارے بچوں کی صلاحیتوں پر زنگ لگایا جا رہا ہے۔ کارٹونوں کی طرح اصل زندگی میں بھی ہر کام بغیر کوئی محنت کیے، پلک جھپکنے میں کرنا چاہتے ہیں ،جیسے میرا مانی میاں ہوا میں اڑنا چاہتا تھا۔

میری ایک گزارش ہے آپ سے، التجا ہے۔۔۔‘‘ اتنا کہہ کر قیصر شریف نے اپنے دونوں ہاتھ جوڑے اور انتہائی التجائیہ لہجے میں بولے:

’’خدارا۔۔۔ اپنے بچوں کو سپرمین، اسپائیڈر مین، بینٹن اور چھوٹے بھیم کے چنگل سے چھڑا لیجئے! ورنہ۔۔۔ ورنہ۔۔۔ کہیں یہ ناسور آپ کے بچوں کو بھی نہ نگل جائے!میں نے تو مانی میاں کو کھو دیا ہے۔کہیں آپ بھی اپنے بچوں کو نہ کھودیں !‘‘ اتنا کہہ کر قیصر شریف پھوٹ پھو ٹ کر رونے لگے۔ سب لوگ دم بخود رہ گئے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

ضمیر کا بوجھ

 

اپنے دوست خالد کے گھر کو دیکھ کرمدثرحسن کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔

مارے حیرت کے اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔خالدکاگھرایساہو گا،یہ بات تواُس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔

’’بھئی!کہاں کھو گئے؟‘‘خالد کی آواز نے اسے چونکنے پر مجبور کر دیا۔

’’کک۔۔۔کہیں۔۔۔نہیں۔‘‘اس کے منہ سے بمشکل نکلا۔

’’اچھا تو آپ یہاں ٹھہریں ،میں ڈائینگ روم کا دروازہ کھولتا ہوں ‘‘۔ خالد بولا اور گھرکے اندر داخل ہو گیا۔

’’ ڈرائینگ روم۔۔۔۔۔!‘‘مدثرحسن زیرِ لب بڑبڑایا۔

’’کیا اس کے گھر میں ڈرائینگ روم بھی ہو سکتا ہے؟‘‘

اس نے متلاشی نظروں سے گھرکی طرف دیکھا۔گھرکی حالت کافی خستہ تھی۔ دروازے کی جگہ ٹاٹ کا کپڑا لٹک رہا تھا۔جگہ بھی شاید چند مرلے تھی۔

’’مدثر!آ  جاؤ‘‘ خالد کی آواز نے اسے خیالات کی دنیاسے باہر نکالا تو وہ خالد کے ساتھ اس کے ڈرائینگ روم میں داخل ہوا۔ڈرائینگ روم کیا تھا بس ایک چھوٹاساکمرہ تھا۔جس میں ایک پرانی مگر صاف ستھری چٹائی بچھی ہوئی تھی۔ دیواروں کاپلسترجگہ جگہ سے اکھڑ اہوا تھا۔مدثرحسن کے ذہن میں اپنے گھر کا ڈرائینگ روم گھوم گیا۔۔۔انتہائی مہنگے فرنیچرسے سجاہوا،جس میں بیش قیمت ماربل کے اوپر قیمتی قالین بچھا ہوا تھا۔دیواروں پر بہت ہی خوب صورت پینٹ ہوا تھا۔اور ایک یہ اس کے دوست خالد کا ڈرائینگ روم تھا کہ فرنیچر نام کی کوئی چیز بھی نہ تھی۔یہ توبس سادہ سا ایک کمرہ تھا،اس میں پرانی سی لیکن صاف ستھری دری بچھی ہوئی تھی۔

خالدسے اس کی دوستی چند دن پہلے ہی نیشنل لائبریری میں ہوئی تھی۔وہ نیشنل لائبریری کا باقاعدہ رکن تھا۔چند دن پہلے وہ ایک کتاب لینے لائبریری گیا تواس کی مطلوبہ کتاب اس سے پہلے ہی خالد لے رہا تھا۔

’’اوہ۔۔۔انکل !یہ کتاب تو مجھے لینی تھی!‘‘وہ لائبریری انچارج سے بولا۔

’’لیکن بیٹا!آپ سے پہلے کتاب یہ لے چکے ہیں ‘‘۔

’’نہیں انکل!آپ ایسا کریں ، یہ کتاب ان کودے دیں ،میں بعد میں لے جاؤں گا‘‘۔خالد بولا۔بس خالد کی یہی ادا اُسے بھا گئی تھی اور یوں وہ دوست بن گئے۔

ماہِ رمضان شروع ہو چکا تھا۔اچانک ایک دن خالد نے مدثرحسن سے کہا :

’’مدثر میرے دوست!آج افطاری تم میرے ہاں کرو گے۔میری طرف سے تمہیں افطاری کی دعوت ہے‘‘۔

لائبریری سے واپسی پروہ خالد کے ساتھ ہی اس کے گھر چلا آیا۔اس کے تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ خالدکاگھرایساہو گا۔افطاری کا وقت ہوا ہی چاہتا تھا۔ خالد نے گھرسے لا کر ایک سادہ دسترخوان زمین پر بچھایا۔ پھر چند کھجوریں اور پانی کا جگ اس پرلا کر رکھ دیا۔

’’آؤ مدثر!دعا مانگیں۔میری امی جان کہتی ہیں کہ افطاری کے وقت دعائیں قبول ہوتی ہیں ‘‘۔اس نے بھی خالد کے ساتھ دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دئیے ،لیکن اس کے ذہن میں عجیب سی ہلچل مچی ہوئی تھی۔

’’کیا صرف کھجور اور پانی کے ساتھ افطاری کریں گے؟‘‘

اس کے گھر میں افطاری کے لئے ڈھیرساری چیزیں تیار کی جاتی تھیں … پکوڑے ، سموسے، کچوری،دہی بھلے، فروٹ چاٹ ،پھل ،شربت۔۔۔ اس کی امی جان بہت مزے مزے کی چیزیں بناتی تھیں۔کھجور اور پانی سے افطاری کے بعد وہ خالد کے ساتھ مسجدمیں نماز پڑھنے چلا گیا۔نماز کے بعد کھانا کھایا گیا۔کھانا بھی سادہ سا تھا۔      ’’مدثر میرے دوست!‘‘کھانے کے بعد خالد بولا:

’’میں ایک وضاحت کرنا چاہتا ہوں ‘‘۔

’’وضاحت!‘‘مدثرحسن نے چونک کر خالد کو دیکھا۔

’’کس بات کی وضاحت؟‘‘

’’اس بات کی وضاحت کہ میں نے آپ کی دعوت کیوں کی۔۔۔؟ باوجوداس کے کہ مجھے معلوم ہے، آپ کا تعلق ماشاء اللہ امیر گھرانے سے ہے۔ آپ اپنے گھر میں امیرانہ ٹھاٹھ باٹھ سے رہتے ہیں۔میری حقیرسی دعوت آپ کے سامنے کیا معنیٰ رکھتی ہے؟میرے پاس تو آپ کے بٹھانے کے لائق جگہ بھی نہیں تھی،لیکن یہ سب جانتے ہوئے بھی، میں نے آپ کو افطاری کی دعوت دی۔۔۔اور ۔۔۔اور ایسا کرنے پر مجھے ایک بات نے مجبور کیا، ہاں۔۔۔! مدثر میرے دوست!صرف ایک بات نے‘‘۔

’’کس بات نے؟‘‘مدثرحسن کھوئے کھوئے لہجے میں بولا۔

’’ہمارے پیارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اس مبارک ارشاد نے کہ

’جو شخص ایک روزہ دار کا روزہ افطار کرائے گاتواس کا یہ عمل اس کے گناہوں کی بخشش کاسبب بنے گا اور اس روزہ افطار کروا نے والے کو روزہ کے برابر ثواب ملے گا اور روزہ دار کے ثواب میں کچھ کمی نہ کی جائے گی‘۔

مدثرحسن میرے دوست، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مبارک ارشاد سن کر میں تڑپ اُٹھا اور ثواب حاصل کرنے کے لئے آپ کو افطاری کی دعوت دے ڈالی۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک ارشاد ہے :

’یہ ثواب اللہ تعالیٰ اس شخص کو بھی عنایت فرما دیتے ہیں جوکسی روزے دار کو ایک کھجور کھلا دے یا ایک گھونٹ لسی یا پانی پلا دے‘‘۔

خالد کہتا چلا گیا۔ مدثرحسن کاسرندامت سے جھک گیا،کیوں کہ یہ حدیث تواس نے بھی سن رکھی تھی، لیکن آج تک آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اس مبارک فرمان پر عمل کرنے کے بارے میں کبھی نہ سوچا تھا،حالاں کہ وہ تو خالد سے بہتر انداز میں اپنے دوستوں کی افطاری کرواسکتا تھا۔وہ خود کو اپنے ضمیر کے بوجھ تلے دبتاہوامحسوس کر رہا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

وقت کا جواب

 

’’او۔۔۔ہو۔۔۔بابا جانی !۔۔۔آپ ابھی تک جاگ رہے ہیں ؟کتنی مرتبہ کہا ہے کہ آپ یوں میرے انتظار میں مت جاگا کریں۔اب میں بچہ تو نہیں ہوں جو کہیں گم ہو جاؤں گا!بلکہ اب تومیں خود کئی بچوں کا باپ بن چکا ہوں ، بابا جانی !میں ایک بہت بڑی فیکٹری کا مالک ہوں۔فیکٹری میٹنگز اور دوستوں کی  پارٹیوں میں دیر سویر تو ہو ہی جاتی ہے۔اس لئے آپ میرا انتظار مت کیا کریں اور سوجایا کریں۔ویسے بھی اس عمر میں آپ کے لئے یوں اتنی رات گئے تک جاگتے رہنا ٹھیک نہیں ہے‘‘۔

اُلجھن،ناپسندیدگی،جھنجھلاہٹ،غصہ ایساکچھ بھی تو نہیں تھا میرے بیٹے کے لہجے میں۔۔۔بلکہ اس کا لہجہ تو ایک پیار بھری خفگی لئے ہوئے تھا،لیکن پھر بھی اس کے یہ الفاظ سن کر مجھے ایک جھٹکاسالگاکیوں کہ مجھے اپنے سوال کا جواب مل گیا تھا۔

بیٹے نے محبت سے میراسراپنی گود میں رکھا اور آہستہ آہستہ دبا نے لگا۔کچھ دیر بعد میں نے اپنے آنکھیں موندھ لیں۔بیٹاسمجھاکہ میں سوگیاہوں۔وہ آہستہ آہستہ میری چارپائی پرسے اُٹھا۔میری پیشانی پر محبت سے بوسہ دیا اور اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔ میں نے اس لئے آنکھیں موندھ لی تھیں تاکہ میرا بیٹا جا کرسوجائے،کیوں کہ مجھے معلوم تھا،جب تک میں سونہ جاتا،اس وقت تک فرماں بردار بیٹا، میرا سر دباتا رہتا۔ مجھے اپنے بیٹے پر فخر تھا۔  بیٹا تو چلا گیا لیکن نیند میری آنکھوں سے دور تھی، اس لیے کہ مجھے اپنے اُس سوال کا جواب مل گیا تھا جو برسوں سے میرے ذہن میں کلبلا رہا تھا۔میں نے اس سوال کے جواب کے لئے بہت غور کیا، گھنٹوں سوچ کے سمندرمیں غوطہ زن رہا مگر مجھے جواب نہ مل سکا تھا،لیکن آج وقت نے مجھے میرے سوال کا جواب دے دیا تھا۔کسی نے سچ کہا ہے :

’’ہم بہت جلد باز ہیں۔اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے ہرسوال ، ہر بات کا جواب فوری چاہتے ہیں ، حالاں کہ بہت سے سوالات ایسے ہوتے ہیں جن کا جواب صرف اور صرف وقت کے پاس ہوتا ہے‘‘۔

میرے سوال کا جواب بھی وقت کے پاس تھا جب کہ میں اس کے لیے اِدھر اُدھر ٹامک ٹوئیاں مار رہا تھا۔یہ سوال میرے ذہن میں اپنے ابا جان کو دیکھ کر آیا تھا۔

میرے ابا جان ایک سیدھے سادھے سے دیہاتی آدمی تھے۔ میرا بچپن بھی ابا جان کے ساتھ شہر کے مضافات میں واقع ایک گاؤں میں گزرا تھا۔میں اپنے ابا جان کی اکلوتی اولاد تھا۔اس لئے میرا بچپن بڑا شاہانہ ساگزرا تھا۔ میں بہت چھوٹا تھا کہ میری ماں جی مجھے اور ابا جان کواس دنیا میں تنہا چھوڑ کر چلی گئی تھیں۔

گاؤں میں ہماری تھوڑی سی زمین تھی۔ابا جان روزانہ صبح سویرے کسّی کندھے پر رکھے کھیتوں میں چلے جاتے ،دن بھر کام کرتے اور شام کو تھکے ہارے گھر واپس آتے۔ہم نے گھر میں کچھ بھینسیں اور بکریاں پال رکھی تھیں۔کھیتوں سے واپس آ کر ابا جان ان کی دیکھ بھا ل کرتے۔میں رات کو صحن میں لگے بلب کی زرد روشنی میں اسکول کا کام کیا کرتا تھا۔ کام سے فارغ ہوتا تو چپکے سے ابا جان کی چارپائی پر بیٹھ کر آہستہ آہستہ ان کے پاؤں دبانے لگ جاتا تھا۔کسانوں ، دہقانوں کی نیندویسے بھی بہت گہری اور پرسکون ہوتی ہے۔ابا جان بے خبر سوئے رہتے۔میں گھنٹوں ان کے پاؤں دباتا رہتا اور محبت سے ان کے چہر ے کو تکتا رہتا۔مجھے اپنے ابا جان سے بے حد محبت تھی۔ماں جی کی وفات کے بعد میرے لئے ماں بھی وہی تھے اور باپ بھی۔ بعض اوقات یوں ہوتا کہ مجھے پاؤں دباتے ابھی کچھ ہی دیر گزرتی کہ ابا جان اپنے پاؤں سمیٹ لیتے اور کہتے :

’’نہیں !کاشف پُتّرتواسکول کا کام کرتے ہوئے تھک گیا ہو گا۔۔۔اب تو سوجا! سویرے تو نے اسکول بھی جانا ہے‘‘۔

’’کوئی بات نہیں ابا جان!میں تھوڑی دیر میں سوجاؤں گا‘‘۔میرے اس جملے میں محبت بھری التجا ہوتی وہ دوبارہ پاؤں پھیلا دیتے اور میں ان کے پاؤں دبانے لگتا،کچھ ہی دیر بعد نیند کی دیوی پھر ان کو اپنی آغوش میں لے لیتی۔ نیندسے آنکھیں تو میری بھی بند ہو رہی ہوتی تھیں لیکن میں پھر بھی ان کے پاؤ ں دباتا رہتا کیوں کہ مجھے معلوم تھا کہ دن بھر اکیلے کام کرنے کی وجہ سے وہ کافی تھک جاتے تھے۔ابا جان نے مجھے کبھی کوئی کام نہیں کرنے دیا تھا۔اکثر ان کی زبان پربس ایک ہی جملہ ہوتا:

’’نہ پتر!تو کام نہ کیا کر،تواسکول پڑھتا ہے۔۔۔اپنی توجہ بس پڑھائی پر لگا‘‘۔

ہمارے گاؤں کا اسکول صرف مڈل تک تھا۔مزید پڑھنے کے لئے شہر جانا پڑتا تھا۔مڈل پاس کرنے کے بعد میرا مزید پڑھنے کا ارادہ بالکل بھی نہیں تھا،کیوں کہ اپنے گھرکے حالات مجھے معلوم تھے۔دال روٹی بڑی مشکل سے پوری ہو رہی تھی،لیکن ایک دن ابا جان کھیتوں سے جلدی واپس آ گئے اور میرے ہاتھ میں روپے تھماتے ہوئے بولے:

’’یہ لے پتر!یہ پیسے کرمو دکان دار کو دے آ!وہ تیرے لئے شہرسے وردی اور کتابیں لے آئے گا۔داخلہ فیس کا انتظام بھی میں کل تک کر دوں گا‘‘۔

ابا جان !میں مزید پڑھ کر کیا کروں گا؟میں یہاں رہ کرکام میں آپ کا ہاتھ بٹایا کروں گا؟‘‘میں نے ڈرتے ڈرتے کہا۔

’’تو نہیں سمجھ سکتاپتر!‘‘انہوں نے پگڑی اتار کر کھچڑی بالوں میں انگلیاں  پھیرتے ہوئے کہا:

’’انسان کے کچھ خواب ہوتے ہیں۔میری خواہش ہے کہ تو پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنے۔تیرا شہر میں بڑا سا بنگلہ ہو،تیری بیوی کوئی پڑھی لکھی میم سی عورت ہو۔فصل کے آنے پر میں تمہارے لئے کبھی پیاز اور کبھی لہسن کی بوری یا گنوں کی گٹھڑی لے کر آیا کروں گا اور باغیچے میں کھیلتے ہوئے گول مٹول پوتے پوتیاں شور مچایا کریں گے:

’’داداجی آ گئے۔۔۔!داداجی آ گئے۔۔۔!‘‘پھر وہ دوڑ کر میری ٹانگوں سے لپٹ جایا کریں گے‘‘۔ابا جان کے چہرے پر اس پرمسرت آگیں تصور سے سرخی سی آ گئی۔ان کی آنکھیں دور خلا میں نہ جانے کیا دیکھ رہی تھیں ؟

’’ابا جان۔۔۔!اگر میں بڑا اور امیر آدمی بن گیا اور شہر میں ایک بڑا بنگلہ بھی ہوا تو تب آپ بھی تو میرے ساتھ شہر میں رہا کریں گے۔ پھر بھلا!آپ کس طرح لہسن ،پیاز کی بوریاں یا گنوں کا گٹھڑ لے کر آیا کریں گے؟‘‘میں نے دھیمی سی آواز میں کہا۔

’’نہیں۔۔۔پتر!‘‘ابا جان نے سرکھجاتے ہوئے کہا۔

’’میں توسیدھاسادھاسادیہاتی آدمی ہوں۔میں بھلا!بنگلے میں رہتا کہا ں اچھا لگوں گا؟میں تو یہیں اپنے گاؤں میں رہا کروں گا۔یہاں کے کھیت کھلیانوں کو مجھ سے اور مجھے ان سے بڑی محبت ہے پتر!ہاں۔۔۔!مہینے دو مہینے بعد جب ملنے آؤں تو اپنے دوستوں سے یہ مت کہا کرنا کہ یہ بڈھا ہمارا نوکر ہے۔جیساکہ کئی پڑھے لکھے اور دولت مند بیٹے اپنے دیہاتی والدین کے بارے میں ایسا کہنے لگتے ہیں۔ کاشف پتر!تم مجھے ابا ہی کہنا! اکیلے میں بھی اور سب کے سامنے بھی تاکہ میں بھی جی بھرکے اس خوشی کو محسوس کرسکوں کہ میں ایک لائق ، مشہور اور سعادت مند بیٹے کا باپ ہوں ‘‘۔

میں ایک ٹک ابا جان کی طرف دیکھتا رہا۔اب میرا قد ان سے اونچا ہو چکا تھا  لیکن اس وقت وہ مجھے بہت بلند و قامت لگ رہے تھے،بہت ہی اونچے۔وہ بہت کم باتیں کرتے تھے۔لیکن جو بھی کہتے تھے، دل میں کھب کر رہ جاتا تھا۔میرا جی چاہا کہ اٹھ کران کے سینے سے چمٹ جاؤں اور کسی ننھے بچے کی طرح زورزورسے رونے لگوں ، لیکن ایک عجیب سی جھجک مانع تھی۔

ابا جان کی خواہش پر میں نے شہر میں داخلہ لے لیا۔جس دن میرا میٹر ک کا رزلٹ آنا تھا،اس دن ابا جان مجھ سے زیادہ بے تاب تھے۔اس زمانے میں رزلٹ اخبارات میں آیا کرتا تھا۔ہمارے پورے گاؤں میں اخبار صرف ماجو کے چائے خانے پر آتا تھا۔

ابا جان ایک ہاتھ سے پگڑی اور دوسرے سے دھوتی سنبھالے، مجھ سے آگے آگے ماجو کے چائے خانے کی طرف دوڑ رہے تھے۔مجھے ان کا انداز آج تک نہیں بھولا۔ماں باپ کے سوا کون کسی کی کامیابی و ناکامی کے بارے میں جاننے کے لئے اتنا مشتاق و مضطرب ہو سکتا ہے ؟

ماجو کے چائے خانے پرمیراکلاس فیلو شیدا اخبار پر جھکا ہوا تھا۔وہ بھی رزلٹ ہی دیکھ رہا تھا۔

’’رزلٹ کیسارہا؟‘‘میں نے سوال کیا۔

’’میں تھرڈ ڈویژن اور تم فسٹ ڈویژن میں پاس ہو گئے ہو‘‘۔ شیدا بولا۔

’’اللہ !تیرا شکر ہے‘‘۔ابا جان نے دونوں ہاتھ اٹھا کر کہا۔

’’تو نے آج ہمیں یہ عزت اور کامیابی بخشی،تیرا بڑا کرم ہے کہ ہمارے خاندان میں بھی کوئی لڑکا میٹرک پاس ہوا‘‘۔

انہوں نے کئی مرتبہ میری پیشانی کو چوما۔ان کی آنکھوں سے تشکر کے آنسو چھلک کر اُن کی داڑھی میں جذب ہو رہے تھے۔پھر انہوں نے قمیص کی جیبیں ٹٹولیں ، ان میں سے ایک ایک روپے کے دو نوٹ اور چند آنے برآمد ہوئے۔اس وقت ا ن کی جیب میں بس یہی کچھ موجود تھا۔وہ مجھے دیتے ہوئے بولے:

’’سراج حلوائی کے پاس سے کچھ لڈو لے کر اپنے دوستوں کا منہ میٹھا کرا دینا ! میں کھیتوں میں جا رہا ہوں۔آج بڑی دیر ہو گئی ہے مجھے‘‘۔

میٹرک کے بعد میں نے کالج میں داخلہ لے لیا۔اباجی کی دعائیں اور میری شب و روز کی محنت رنگ لائی اور میں پڑھ لکھ کر ایک بڑا سرکاری افسر بن گیا۔محکمہ کی طرف سے مجھے رہنے کے لئے ایک بڑاسرکاری بنگلہ بھی ملا تھا۔ابا جان گاؤں میں رہنے کے خواہش مند تھے لیکن میں اُنہیں شہر لے آیا۔

جس دن میں ابا جان کو گاؤں سے شہر لے کر آیا تھا،اس دن میں نے اپنے گھر میں دوستوں کی پارٹی کی تھی اور سب سے ابا جان کا تعارف کروایا تھا۔ اس دن ابا جان بے حد خوش تھے۔مارے خوشی کے اُن کی آنکھوں میں آنسوؤں کے موتی جھلملا اُٹھے تھے۔پھر میری شادی ہو گئی۔میری بیوی بھی میری طرح ابا جان کی خدمت میں کوئی کسراُٹھانہ رکھتی تھی۔میری ہر ممکن کوشش یہ ہوتی کہ وہ مجھ سے خوش رہیں۔راضی رہیں۔میں ان کی رضا میں رب کی رضا کوت لاش کرتا تھا۔

ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک ارشاد ہے :

’’ اللہ تعالیٰ کی رضامندی والدین کی رضامندی میں ہے ‘‘۔٭

[جامع الترمذی،البروالصلۃ ،باب الفضل فی رضا الوالدین،الرقم:۱۸۹۹]

شہر میں آ کر میرے بہت سے دوست بن گئے تھے۔ ویسے بھی میں ایک سرکاری آفیسرتھا۔بہت سے لوگوں کے کام میرے بغیر نہیں ہوتے تھے۔ اکثرایساہوتاکہ کسی دوست کے ہاں پارٹی پر جانا ہوتا مجھے رات کوواپس آتے ہوئے دیر ہو جاتی۔اباجی میرے  انتظار میں جاگتے رہتے۔بس اسی دوران میرے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ۔۔۔

’’ ابا جان میرے انتظار میں کیوں جاگتے ہیں۔۔۔؟‘‘

میں نے اس سوال کے جواب پر بہت غور کیا لیکن مجھے جواب نہیں ملا اور ملتا بھی کیسے؟اس کا جواب تو وقت کے پاس تھا اور آج وقت نے مجھے میرے سوال کا جواب دے دیا تھا۔آج جب میں خود اپنے جو ان بیٹے کا باپ بنا تو مجھے معلوم ہو گیا کہ ایک باپ اپنے بیٹے کے انتظار میں کیوں جاگتا ہے۔۔۔؟جب تک بیٹا گھرواپس نہیں آ جاتا،اس وقت تک اس کی آنکھوں سے نیندکوسوں دُور کیوں رہتی ہے۔۔۔؟وہ بے چینی سے کروٹیں کیوں بدلتا رہتا ہے۔۔۔کیوں بدلتا رہتا ہے ,,,؟

٭٭٭

 

 

 

اب نہیں کروں گا!!

 

’’ماما!۔۔۔۔۔ماما۔۔۔۔۔! سعدی کو کچھ ہو گا تو نہیں نا۔۔۔؟ ابا جان کہہ رہے تھے ’سعدی قومے میں ہے اور ۔۔۔۔۔قومہ موت کے برابر ہوتا ہے ،ماما! ہماری سعدی بچ جائے گی نا۔۔۔۔۔؟ بھلا یوں مجھے چھوڑ کر سعدی کیسے جا سکتی ہے؟ ماما۔۔۔۔! آپ۔۔۔۔۔ آپ خاموش کیوں ہیں ؟ آپ کہیے نا! ہماری سعدی کو کچھ نہیں ہو گا۔۔۔ہماری سعدی کو کچھ ہو سکتا ہی نہیں ‘‘۔

ایمرجنسی وارڈ کے سامنے بینچ کے پاس ماما کے سامنے ایڑیوں کے بل بیٹھا وہ یاس و اُمید کی تصویر بنا، اُن کو سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ اُس کی آوا ز میں لرزش تھی۔ اُس کی جھیل سی آنکھیں کب کی خشک ہو چکی تھیں۔

’’ہاں۔۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔۔!سکندر ! ان شاء اللہ کچھ بھی نہیں ہو گا ہماری سعدی کو۔۔۔تم دعا کرو!‘‘

’’اللہ۔۔۔۔۔!‘‘ اُس نے عجیب سی آواز میں کہا۔ آج صبح سے وہ اللہ کو  بھلائے بیٹھا تھا۔  اس لیے کہ اُس نے ایک نماز بھی نہیں پڑھی تھی۔

’’ہاں۔۔۔! واقعی۔۔۔اللہ بچا سکتے ہیں میری سعدی کو۔۔۔میں۔۔۔ میں اپنی سعدی کے لیے دعا کروں گا۔۔۔۔ اس وقت دعا ہی کام آسکتی ہے ‘‘۔وہ نیند کی سی کیفیت میں ماما کے قدموں سے اُٹھا اور اسپتال کی عمارت سے باہر نکل گیا۔

عمارت کے چارو ں طرف موجود خالی جگہ کو ایک پارک کی سی شکل دی گئی تھی۔ کیاریوں اور گملوں میں سجے رنگ برنگے پھول اپنی بہار دکھا رہے تھے،بہار کی آمد آمد تھی۔ درختوں نے سبزے کی چادر اوڑھ رکھی تھی۔ اسپتال کی عمارت پارک کے بالکل درمیان میں تھی۔ دن بھر کا تھکا ماندہ سورج نڈھال  ہو کر اُفق کے اُس پار گرنے ہی والا تھا۔ فلک کے کناروں پر پھیلی شفق کی سرخی بہت ہی دل کش اور مسحور کن نظارہ پیش کر رہی تھی، لیکن اس وقت اُسے سعدی کے علاوہ کسی چیز کا ہوش نہیں تھا۔

پارک کے ایک کونے میں اسپتال کی چھوٹی سی مسجد تھی۔ وضو کر کے وہ مسجد کے ہال میں داخل ہوا۔ وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ عصر کا وقت ختم ہونے میں چند منٹ باقی تھے۔ اُس نے نماز پڑھی۔ دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے تو ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے۔ اُس کی آنکھوں کا سوکھا چشمہ اُبل پڑا۔

’’اللہ۔۔۔!مم۔۔۔میری۔۔۔سعدی کو بچا لیجیے۔۔۔۔۔پلیز! آپ تو جانتے ہیں نا کہ میں۔۔۔میں۔۔۔سعدی کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ پلیز! اللہ میاں۔۔۔! میری سعدی کو بچا لیجیے۔‘‘

میری اسلامیات والی ٹیچر کہتی ہیں کہ اللہ میاں فرماتے ہیں :

’’جب میرا بندہ مجھے پکارتا ہے تو میں اُس کے قریب ہوتا ہیں۔‘‘ اس وقت میں آپ کو پکار رہا ہوں ، آپ۔۔۔آپ۔۔۔میری بات سن رہے ہیں نا؟ ‘‘

اُس کا جسم ہولے ہولے لرز رہا تھا۔ روتے روتے اُس کی آواز رندھ گئی تھی۔

’’اللہ میاں ! میں پرومس کرتا ہوں ،اب کبھی اپنی سعدی کو تنگ نہیں کروں گا۔۔ پکّا پرومس۔ پلیز! میری سعدی کو بچا لیجیے۔ آپ کو تو پتا ہے نا! میں کبھی کسی کو تنگ نہیں کرتا۔ سعدی سے بھی میں نے بس مذاق کیا تھا،اب۔۔۔ اب میں کبھی مذاق بھی نہیں کروں گا۔ روز اسکول جاؤں گا۔ مدرسے سے بھی کبھی ناغہ نہیں کروں گا۔ ممّی ، پاپا جو کہیں گے ، وہی کروں گا۔ پلیز۔۔۔! میری سعدی کو بچا لیجیے!‘‘ بہتے ہوئے آنسوؤں سے اُس کا دعا کے لیے اُٹھا ہوا ہاتھ تر ہو چکا تھا۔

’’اللہ اکبر۔۔۔۔۔اللہ اکبر۔‘‘ مؤذن مغرب کی نماز کے لیے پکار رہا تھا۔  اُس نے چونک کر اپنے ہاتھ چہرے پر پھیرے اور مغرب کے لیے پہلی صف میں بیٹھ گیا۔

٭٭

 

’’دیکھو! سعدی ! میں تمہارے لیے کیا لایا ہوں ؟ ‘ ‘ اُس نے گھر میں داخل ہوتے ہی زور سے سعدی کو پکارا۔ اپنے دونوں ہاتھ اُس نے کمر کی طرف کیے ہوئے تھے۔

’’ذرا ہمیں بھی تو دکھاؤ ! کیا لائے ہو تم سعدی کے لیے؟‘‘ ڈاکٹر خالد مسعود نے اخبار سے نظریں اُٹھا کر اپنے اکلوتے بیٹے سکندر کی طرف دیکھا۔

’’اوں۔۔۔ہنہ۔۔۔وہ تو میں سعدی ہی کو دکھاؤں گا۔‘‘ وہ زور سے گردن ہلا تے ہوئے بولا۔

’’سعدی۔۔۔! سعدی۔۔۔! کہاں ہو تم۔۔۔؟‘‘ وہ پکارتا ہوا سعدی کو تلاش کرنے لگا۔ سعدی اس وقت کمرے میں بیٹھی اپنا ہوم ورک کر رہی تھی۔

’’لو۔۔۔! تم یہاں ہو، میں تمھیں پورے گھر میں تلاش کر رہا ہوں۔‘‘

’’لیکن۔۔۔۔۔! تمہارے ہاتھ میں تو کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘ سعدی بُرا سا منھ بنا کر بولی۔

’’لو بھئی ! تم نے میرے ہاتھوں کو دیکھا ہی کہاں ہے جو تمھیں کچھ نظر آئے۔‘‘ جواباً اُس نے بھی منھ بنایا۔

’’تو پھر دکھاؤ نا!‘‘ سعدی نے پُر تجّس نظروں سے اُس کی طرف دیکھا۔

’’یہ دیکھو! ‘‘ یہ کہہ کر اُس نے اپنا ہاتھ سامنے کر دیا، اُس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا ڈبّہ تھا، جس کو بہت ہی خوب صورت انداز میں پیک کیا گیا تھا۔

’’اس میں کیا ہے۔۔۔۔۔؟‘‘ سعدی کی بے چینی عروج پر تھی۔

’’لو بھلا!یہ بھی میں ہی بتاؤں۔۔۔۔۔؟‘‘ وہ بُرا مان گیا۔

’’یہ لو خود دیکھ لو۔۔۔۔۔! سعدی اُس کے ہاتھ سے گفٹ لے کر کھولنے لگی۔

’’ارے۔۔۔! لیکن۔۔۔! یہ گفٹ ہے کس خوشی میں۔۔۔؟‘‘ اچانک اُسے خیال آیا۔ وہ گفٹ کھولتے کھولتے رُک گئی۔

’’بھلا!گفٹ کے لیے کسی خوشی کا ہونا ضروری ہے۔۔۔؟گفٹ تو خود ایک عدد خوشی ہوتا ہے۔‘‘ وہ مسکراتے ہوئے بولا۔اُس کی بات سن کر سعدی نے اثبات میں گردن ہلائی۔ گفٹ پیپر اُتارا تو ایک چھوٹا سا ڈبّہ اُس کے سامنے تھا۔ اُس نے جیسے ہی ڈبّہ کھولا ، ڈبّے میں سے یک دم ایک بڑا سا سیاہ رنگ کا سانپ نکلا۔ سانپ نے اپنا پھن پھیلایا ہوا تھا۔ سانپ کو اتنے قریب دیکھ کر سعدی کے اوسان خطا ہو گئے۔ اُس کے منھ سے مارے خوف کے ایک فلک شگاف چیخ نکلی۔ ڈبّہ اُس کے ہاتھوں سے چھوٹ گیا تھا۔

’’ہاہا۔۔۔۔۔!ہاہا۔۔۔۔۔!‘‘ میں نے تمہیں فول بنا لیا۔آج یکم اپر یل ہے۔ ہاہا!‘‘ سعدی کے اس طرح ڈر جانے پر وہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہا تھا۔

’’ہاہا۔۔۔۔۔! ہاہا۔۔۔۔۔!‘‘ ڈر گئی نا!بڑی عقل مند بنی پھرتی تھی۔‘‘ اچانک اُس کی نظر سعدی پر پڑی تو اُس کے قہقہوں کا گلا گھٹ کر رہ گیا۔ سعدی چکرا کر گر گئی تھی۔ اُس کا سر ساتھ رکھے میز کے پائے سے ٹکرایا تھا… سر سے خون نکل رہا تھا۔

’’سعدی۔۔۔۔۔!!‘‘ وہ چلّا کر سعدی کی طرف بڑھا۔ سعدی بے ہوش ہو چکی تھی۔ اُس کی چیخ کی آواز پورے گھر میں گونجی تھی۔چیخ سن کر ڈاکٹر خالد مسعود اور اُن کی بیگم دوڑتی ہوئی آئیں۔

’’کیا ہوا؟ سعدی میری جان!‘‘ بیگم خون بہتا دیکھ کر گھبرا گئیں۔

’’پپ۔۔۔۔۔پتا نہیں ماما۔۔۔۔۔!میں تو اسے گفٹ دے رہا تھا۔۔۔یہ گر کر بے ہوش ہو گئی۔‘‘ وہ ڈر ے ڈرے انداز میں بولا۔

’’اُف خدا! اس کا تو بہت خون بہہ رہا ہے۔ ‘‘ ڈاکٹر خالد مسعود گھبرا کر بولے۔

’’سکندر ! جاؤ میرے کمرے سے فرسٹ ایڈ بکس لے آؤ!‘‘

وہ شاک کی سی کیفیت میں تھا، یک دم چونک کر کھڑا ہوا اور دوڑ کر فرسٹ ایڈ بکس لے آیا۔ ڈاکٹر خالد مسعود جلدی سے سعدی کے سر پر پٹّی کرنے لگے۔ پٹّی کرنے کے بعد انہوں نے سعدی کی نبض چیک کی۔

’’اوہ۔۔۔! اس کی نبض تو بہت تیز چل رہی ہے۔ کہیں۔۔۔کہیں۔۔۔ اسے ہارٹ اٹیک۔۔۔!‘‘ یہ خیال آتے ہی وہ کانپ کر رہ گئے۔

’’بیگم۔۔۔!تم اسے لے کر آؤ! میں گاڑی نکالتا ہوں۔ ہمیں سعدی کو اسپتال لے جانا پڑے گا۔‘‘ وہ چلّا کر بولے۔

کچھ دیر بعد وہ سعدی کو لیے اسپتال کی طرف اُڑے جا رہے تھے۔ سعدی کو ماما نے اپنی گود میں لٹایا ہوا تھا۔ وہ بس روئے جا رہی تھیں ،جب کہ سکندر ابھی تک تر نگاہوں سے سعدی کو تک رہا تھا۔ اسپتال پہنچ کر فوراََ سعدی کو ایمر جنسی وارڈ میں داخل کر دیا گیا۔ڈاکٹر خالد مسعود بھی دوسرے ڈاکٹر کے ساتھ وارڈ میں چلے گئے،جب کہ ماما اور سکندرباہر رکھے  بینچ پر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعد ڈاکٹر خالد مسعود صاحب باہر نکلے۔

’’سعدی کو ہوش نہیں آ رہا ہے۔ خطرہ ہے، کہیں وہ قو مے میں ہی نہ چلی جائے! اور قومہ آدھی موت ہوتی ہے۔ ‘‘وہ آخری الفاظ پر زور دیتے ہوئے بولے۔ اُن کا چہرہ سپاٹ اور لہجہ سرد تھا۔ سکندر سہم کر رہ گیا۔اس نے ندامت سے سر جھکا لیا۔ ڈاکٹر خالد مسعود دو بار ہ اندر جا چکے تھے۔

سکندر ابھی تک خواب کی سی کیفیت میں ، خالی خالی نظروں سے چھت کو گھور رہا تھا۔پھر جیسے نیند سے بیدار ہوا ہو:

’’ماما۔۔۔! ماما۔۔۔! سعدی کو کچھ ہو گا تو نہیں۔۔۔ ماما۔۔۔۔! ہماری سعدی بچ تو جائے گی نا۔۔۔؟‘‘

٭۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔٭

’’سکندر کہاں ہے۔۔۔۔۔؟‘‘ ڈاکٹر خالد مسعود نے ایمر جنسی وارڈ سے باہر نکلتے ہوئے پوچھا۔

’’وہ نماز پڑھنے گیا ہوا ہے، ابھی آتا ہی ہو گا۔ ‘‘ ماما نے جواب دیا۔

’’تم جلدی سے اندر آؤ۔۔۔!فوراََ۔۔۔ اس سے پہلے کہ سکندر آ جائے‘‘  ڈاکٹر خالد محمود بولے۔

’’کیا مطلب۔۔۔۔۔؟ انہوں نے حیرت سے اُن کی طرف دیکھا۔

’’اندر تو آؤ۔۔۔۔۔!‘‘ اُن کی مسکراہٹ انہیں الجھن میں ڈالے جا رہی تھی۔ وہ حیران حیران اندر داخل ہوئیں۔

’’یہ دیکھو۔۔۔۔۔!‘‘

ماما نے اندر کی طرف نظر دوڑائی تو چونک اُٹھیں۔ مارے حیرت کے ان کی آنکھیں پھیل گئیں۔ اندر کا منظر ہی ایسا تھا… ڈاکٹر خالد مسعود کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ناچ رہی تھی۔

٭٭

 

وہ مغرب کی نماز پڑھ کر آیا تو بنچ پر ماما نہیں تھیں۔ وہ خاموشی سے آ کر بنچ پر بیٹھ گیا۔ نماز پڑھ کر اُس کے بے چین و بے قرار دل کو ذرا قرار سا آ گیا تھا۔ یہ اسپتال اُس کے پاپا کا تھا۔ڈاکٹر خالد مسعود کا شمار شہر کے بہترین اور مہنگے ڈاکٹروں میں ہوتا تھا۔ سکندر سے اُن کو بہت محبت تھی۔لیکن انہوں نے یہ اسپتال اپنی پیاری بیٹی سعدی کے نام پر بنایا تھا۔  وہ سعدی سے بہت پیار کرتے تھے۔ وہ اُن کی جان تھی۔

اُن کے دو ہی بچّے تھے۔ سکندر اور سعدی۔ دونوں بچے بھی یک جان دو قا لب  تھے۔ اُن کی شرارتوں اور پیار بھری نوک جھونک کے دم سے ہی اُن کے گھر کی رونق تھی۔

’’اگر۔۔۔اگر۔۔۔سعدی کو کچھ ہو گیا تو ماما اور پاپا تو مجھے کبھی معاف نہیں کریں گے اور میں خو دکو بھی۔‘‘ یہ خیال آتے ہی اُس کی آنکھوں سے ایک بار پھر آنسوں ٹپ ٹپ کرنے لگے ….اتنے میں ایمرجنسی وارڈ کا دروازہ کھلا۔اُس نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا۔

٭۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔٭

’’جی ہاں۔۔۔! بیگم! الحمد للہ ، ہماری سعدی بالکل ٹھیک ہے۔ بس سر پر ذرا چوٹ آئی ہے۔ شکر ہے! چوٹ زیادہ گہری نہیں ،ورنہ سر پر چوٹ آنے سے یادداشت یا بینائی چلے جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ بعض اوقات آدمی قومے میں چلا جاتا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہماری سعدی کو کچھ نہیں ہوا!یہ تو اسپتال آنے کے چند منٹ بعد ہی ہوش میں آ گئی تھی۔ ڈاکٹر خالد مسعود نے مسکراتے ہوئے سعدی کو دیکھا۔ ماما نے اس کا سر اپنی گود میں رکھ لیا تھا۔

’’تو پھر آپ نے ہمیں بتایا کیوں نہیں ؟وہ بے چارہ سکندر خوامخواہ پریشان ہو رہا تھا۔‘‘

’’خوامخواہ نہیں بیگم۔۔۔۔۔! اُس کی یہ پریشانی اُس کے لیے فائدہ مند ہے۔ سعدی کی یہ حالت اُسی کی وجہ سے ہوئی۔‘‘ ڈاکٹر خالد مسعود بولے۔

’’کیا مطلب۔۔۔۔۔؟ میں سمجھی نہیں۔‘‘ ماما نے حیرت سے اُن کی طرف دیکھا۔

’’آج یکم اپریل ہے۔ سکندر نے سعدی کو فول بنانے کے لیے اُسے گفٹ کے ڈبّے میں پلاسٹک کا سانپ چھپا کر دیا تھا۔ سانپ دیکھ کر  سعدی بے ہوش ہو گئی تھی، کیوں سعدی۔۔۔۔۔؟‘‘ ڈاکٹر خالد مسعود نے سوالیہ نظروں سے اُس کی طرف دیکھا۔

’’جی ہاں پاپا! کیوں کہ وہ سانپ بالکل اصلی لگ رہا تھا۔ اصلی سانپ کی طرح اُس کی زبان بھی باہر نکلی ہوئی تھی۔ اُف خدا! اُسے دیکھ کر تو پاپا! میری جان ہی نکل گئی تھی۔‘‘ سعدی خوف سے جھرجھری لیتے ہوئے بولی۔

’’اب اگر میں ویسے ہی سکندر کو کہتا کہ اپریل فول منانا اچھی بات نہیں ، کیوں کہ یہ گناہ ہے، بلکہ کئی گناہوں کا مجموعہ ہے تو میری بات کا اثر نہ ہوتا،اب اُسے شاک لگا ہے۔ یہ شاک اور پریشانی اُسے آئندہ فول ڈے منانے سے روک دے گی۔ میں اُسے لے کر آتا ہوں۔‘‘

ڈاکٹر خالد مسعود باہر آئے تو سکندر باہر بنچ پر بیٹھا ہوا تھا۔ دروازہ کھلنے کی آواز سن کر اُس نے چونک کر اُن کی طرف دیکھا۔

’’پاپا۔۔۔۔۔! پاپا۔۔۔۔۔! سعدی کو ہوش آ گیا؟‘‘ وہ تیزی سے اُن کی طرف لپکا۔

’’ہاں۔۔۔۔۔آؤ !میرے ساتھ۔‘‘وہ بے تابی سے اندر داخل ہوا۔ سعدی امی جان کی گود میں سر رکھے بیٹھی ہوئی تھی۔

’’سعدی۔۔۔۔۔!‘‘ وہ خوشی سے چلّا اُٹھا۔

’’آئی ایم رئیلی ساری سعدی! میں تو بس اپریل فول منانے کے لیے وہ گفٹ لایا تھا ،مجھے کیا پتا تھا کہ تم اتنی ڈر جاؤ گی۔ مجھ سے غلطی ہو گئی۔ سعدی پلیز!مجھے معاف کر دو،مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئی سعدی!۔۔۔مسجدمیں مولانا صاحب درس دیتے ہوئے فرما رہے تھے:

ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک ارشاد ہے:

’ کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ دوسرے مسلمان کو ڈرائے ‘٭

مم۔۔۔مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مبارک ارشاد کا بالکل پتا نہیں تھا سعدی! ورنہ۔۔۔ ورنہ۔۔۔ میں کبھی بھی تمہیں نہ ڈراتا‘‘۔سعدی کا ہاتھ تھام کر  وہ بیڈ کے ساتھ رکھے بنچ پر بیٹھ گیا۔ اُس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔۔۔ ندامت اور شرمندگی کے آنسو۔

’’اوہ۔۔۔۔ہنہ! میں یوں تمہیں معاف نہیں کروں گی۔ پہلے تم مجھ سے ایک پرومس کر و۔‘‘ سعدی سر ہلاتے ہوئے بولی۔

’’کیا۔۔۔۔۔؟‘‘

’’یہ کہ آیندہ تم کبھی کسی کو فول نہیں بناؤ گے اور کبھی یوں روؤ گے بھی نہیں ، کیوں کہ تم روتے ہوئے بالکل بھی اچھے نہیں لگتے ‘‘۔ اُس نے چونک کر سعدی کی طرف دیکھا۔ اُس کی آنکھوں میں آنسو جھلملا رہے تھے۔

’’ٹھٹھ۔۔۔ٹھیک ہے!پکّا پرومس۔۔۔۔۔! میں آیندہ کبھی کسی کو فو ل نہیں بناؤں گا۔۔۔اور ۔۔۔روؤں گا بھی نہیں۔ اب تو مجھے معاف کر دیا نا۔۔۔؟‘

اُس نے اشک بہاتی نظروں سے سعدی کی طرف دیکھا۔ سعدی نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ڈاکٹر خالد مسعود اور اُن کی بیگم مسکراتے ہوئے اپنے دونوں بچوں کو دیکھ رہے تھے۔ اُن کی محبت کی شدت… اُن کی آنکھوں میں بھی آنسو لے آئی تھی۔۔۔خوشی اور شاد مانی کے آنسو۔

٭٭٭

مصنف کے تشکر کے ساتھ کہ انہوں  نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید