FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فقر و غنا

 

 

                   ڈاکٹر سلیم خان

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 ليس الْغِنَى عن كَثْرَةِ الْعَرَضِ وَلَكِنَّ الْغِنَى غِنَى النَّفْسِ

دولتمندی و تونگری کا تعلق مال  اسباب کی کثرت سے نہیں بلکہ دولتمندی تو دل کی دولتمندی  ہے (بخاری و مسلم)

 

 

 

 

 

انتساب

 

گھر سنسار میں

فقر و غنا  کی شاہراہ پر

صبر و شکر کے ساتھ رواں دواں

بھائی سجادخان ،نسیم بانو

آسیہ ،عالیہ،زینب  اور رضوان

کے نام

 

 

 

 

 خانہ داری سے سوداگری

 

ہندوستان کے مختلف شہروں سے ہوتے ہوے جب رادھا اور کرشنن دہلی پہنچے تو وہاں ائیر پورٹ پر اُن کا استقبال رادھا کے بھائی سالومن اور اس کی بیوی ریتا نے کیا۔ سالومن کی گاڑی پر ترنگا لگا ہوا تھا جو اُس کے اعلیٰ سرکاری افسر ہونے کا اعلان کر رہا تھا۔ ریتا دِلّی کے مشہور طابع و ناشر سیگوکو پبلشر کے مالک سنیل گڈوانی کی بیٹی تھی۔ سنیل گڈوانی درسی کتابوں کا بہت بڑا پبلشر تھا۔ اُس کے تعلقات ہمیشہ ہی وزارت تعلیم سے خوشگوار رہے ، لیکن سالومن کا جب انڈر سکریٹری کے طور پر تقرر ہوا تو اُس کا آنا جانا گڈوانی کے گھر تک ہو گیا جو بالآخر ریتا اور سالومن کی شادی پر منتج ہوا۔

سنیل گڈوانی کی کتابیں نہ صرف ہندوستان بھر میں بکتی تھیں بلکہ ساری دُنیا کے انڈین اسکولس میں یہ کتابیں برآمد کی جاتی تھیں۔ یوروپ اور امریکہ وغیرہ میں بسنے والے ہندوستانیوں کو اس بات میں دلچسپی نہیں ہے کہ ان کے بچے ہندوستانی نصاب کے مطابق تعلیم حاصل کریں ، اِس لئے کہ اُن میں سے کوئی بھی اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کی خاطر ہندوستان بھیجنے کی خواہش نہ رکھتا تھا۔ لیکن خلیجی ممالک کا حال دُوسرا تھا۔

خلیجی ممالک میں غیرملکیوں کے لئے تو کجا وطنی حضرات کے لئے بھی اعلیٰ تعلیم کا انتظام بہت کم ہے۔ اس لئے کہ مقامی عوام کو لکھنے پڑھنے میں دلچسپی کم ہے۔ جن کو ہے ، وہ اپنے بچوں کو یوروپ اور امریکہ روانہ کر دیتے ہیں۔ دیگر ممالک کے لوگوں کے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لئے اپنے ملک واپس آنا پڑتا تھا۔ ایشیائی ممالک کے لوگوں کی آمدنی اُنہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ ا پنے بچوں کو یوروپ اور امریکہ روانہ کریں۔ اس لئے خلیج کے ہر ملک میں ہندوستانی، پاکستانی بلکہ فلپینی اسکولوں کا جال بچھا ہوا ہے جہاں اپنے اپنے ملک کا نصاب پڑھایا جاتا ہے۔

خلیج میں اس لحاظ سے نصابی کتابوں کا ایک بہت بڑا بازار پیدا ہو گیا ہے۔ ان کتابوں کی قیمت ہندوستان و پاکستان کے مقابلے پانچ سے دس گنا زیادہ وصول کی جاتی ہے۔  ایک تعلیمی مافیا وجود میں آ گیا ہے  جو سفارتخانے کے تحت چلنے والے نیم سرکاری اسکولوں کے علاوہ نجی تعلیم گاہوں کا کاروبار چلاتا ہے۔ طلبا سے اچھی خاصی رقم فیس کے طور پر وصول کرتا  ہے اوردیسی پبلشرس سے کتابیں درآمد کر کے اُنہیں من مانی قیمت پر فروخت کرتا ہے۔ ان نئے گاہکوں کو مطمئن کرنے کے لئے سنیل گڈوانی اپنا ایک دفتر خلیج کے کسی ملک میں قائم کرنا چاہتا تھا۔

سالومن نے اپنے خسر کو مشورہ دیا کہ وہ اس کام کے لئے کرشنن کی خدمات حاصل کرے۔ حالانکہ اُسے تجارت کا تجربہ نہیں ہے ، لیکن اِس کاروبار کا بازار محدود ہے۔ اِس کا گاہک متعین ہے ، اس میں مسابقت کا کوئی خاص عمل دخل نہیں۔ اِس لئے کسی خاص مہارت یا تجربہ کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک اہم کام اسکول کے انتظامیہ سے رابطہ میں رہنے کا ہے۔ اُن کی ضرورتوں کو معلوم کر کے وقت پر اُسے پورا کرنے کا ہے۔ نیز حمل نقل اور کسٹم وغیرہ کے انتظام و انصرام کا ہے۔ کرشنن چونکہ عرصۂ دراز سے ابو ظبی میں مقیم ہے ، وہ اس کام کو اچھی طرح کر سکتا ہے۔سالومن کی بہن رادھا چونکہ بینک میں ملازم ہے ، اِس لئے وہ بہی کھاتہ و دیگر تجارتی اُمور میں اُس کی مدد کر سکتی ہے۔

سنیل ذرا شکّی مزاج کا آدمی تھا، جلدی کسی پر اعتماد نہیں کرتا تھا۔ لیکن معاملہ چونکہ رشتہ داری کا تھا اور سالومن پر اُسے پورا بھروسہ تھا اس لئے اس کی تجویز گڈوانی کی سمجھ میں آ گئی۔ اس طرح بغیر کسی خاص محنت و طلب کے کرشنن کا تقرر ریجنل مینجر کے طور پر ہو گیا۔ رادھا اس پیش رفت سے بہت خوشی ہوئی۔ اِس لئے کہ وہ جانتی تھی کہ کرشنن لائبریرین نہیں ہے اور اس کی چوکیداری کبھی نہ کبھی اُس کے گھر والوں کی پریشانی کا سبب  بن سکتی ہے ، کسی جھوٹ کو طویل عرصہ نبھایا نہیں جا سکتا۔

خلیج میں کام کرنے کے لئے قانونی طور پر ایک نئی کمپنی کے قیام کا فیصلہ کیا گیا۔ لیکن یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ بینک میں رادھا کی کئی گاہکوں سے اچھی واقفیت تھی، جن میں کچھ عربی تھے اور کچھ ہندوستانی۔ اُن کی مدد سے یہ کام آسانی سے ہو سکتا تھا۔ کرشنن کے لئے ہنی مون کا یہ آخری مرحلہ شہد سے زیادہ میٹھا اور چاند سے زیادہ روشن ثابت ہوا تھا۔ ہنی مون دبے پاؤں نہ جانے کب اور کیسے منی مون بن گیا تھا، یہ کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔

معاشرت کی پگڈنڈی سے معیشت کی شاہراہ تک کا یہ سفر نہایت خوشگوار تھا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا گویا مسافر نہیں بلکہ راستے چل رہے ہیں اور منزل کو قریب سے قریب تر کرتے جا رہے ہیں۔ ایک ایسی منزل، کہ جس کا خود مسافروں کو بھی نہ کوئی شعور تھا اور نہ ادراک، ایک ایسی منزل جس کی مسافروں کو نہ کوئی خواہش تھی اور نہ انہوں نے اس کے لئے کوئی شعوری کوشش کی تھی۔ ہر لحظہ نزدیک سے نزدیک تر ہوتی جا رہی تھی۔ یہ سب کیسے ہو رہا تھا؟ کون یہ سب کر رہا تھا؟ اُس کارساز کی ذات و صفات  سے بھی یہ مسافر ناواقف تھے۔ لیکن وہ داتا اپنی نعمتوں سے بندوں کو نوازتا جاتا تھا۔ اس بات سے بے نیاز کہ اُس کے بندے اُس کا شکر بجا لاتے ہیں یا کفر کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ اسی کا نام دُنیا ہے اور اِسی لئے شاید اسے مایا جال بھی کہا جاتا ہے کہ یہاں انسان جو کچھ طلب کرتا ہے اور اس کے لئے تگ و دو بھی کرتا ہے ، اکثر وہ اُسے نہیں حاصل کر پاتا۔ جبکہ ایسی اشیاء جن کی اُس کے دل میں نہ کوئی خواہش ہوتی اور نہ طلب، بلاسعی و محنت اُس کی جھولی میں آ گرتی ہیں۔

بھائی بہن اور ان کے ازواج تفریح کی غرض سے دہلی کے بعد آگرہ گئے۔ فتحپور سیکری، کلو منالی اور شملہ وغیرہ  گویا سیر و سیاحت کا بھرپور لطف اُٹھایا۔ واپسی سے دو دِن قبل سالومن نے ایک خاص دعوت کا اہتمام کیا۔ جس میں صرف چار لوگ مدعو تھے۔ رادھا، ریتا، کرشنن اور سالومن۔ اس دعوت میں سالومن نے کرشنن کے سامنے اپنے مستقبل کا تجارتی منصوبہ رکھا تاکہ وہ اس کے حصول کی خاطر خلیج میں رہ کر جدوجہد کرے۔

سالومن نے اُسے بتلایا کہ وہ سرکاری نوکری سے اُوب چکا ہے اور اپنا ذاتی کاروبار کرنا چاہتا ہے ، لیکن فی الحال وہ اپنی ملازمت چھوڑنے کے موقف میں نہیں ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کاروبار کے ابتدائی مرحلے میں ، جبکہ آمدنی نہیں بلکہ صرف خرچ ہوتا ہے ، اس کی سرکاری ملازمت جاری رہے اور وہ جزوقتی طور پر کاروبار میں اپنا وقت صرف کرے۔ نیز اس عرصہ میں اپنے رسوخ کا استعمال کر کے زیادہ سے زیادہ روابط قائم کرے۔ وہ آگے چل کر اپنی ذاتی پبلشنگ کمپنی قائم کرنا چاہتا ہے۔ لیکن فی الحال جب تک کہ وہ سرکاری ملازم ہے ، اِس کمپنی میں سالومن کا نام نہیں بس کام ہو گا۔

کمپنی کا نام ریتا نے آر۔ آر۔ انٹرنیشنل تجویز کیا ہے۔ مطلب صاف تھا سالومن کی سرکاری نوکری جاری رہے اور کرشنن ریتا کے باپ کی کمپنی کا ریجنل منیجر بنا رہے۔ مگر رادھا اور ریتا کے نام پر اُن دونوں کے شوہر نامدار اس نئی کمپنی کو فروغ دیں۔ اس نئی کمپنی کے لئے کرشنن کا سیگو پبلشنگ کمپنی والا دفتر استعمال ہو تاکہ دفتری اخراجات بھی سنیل گڈوانی کے کھاتے میں چلے جائیں۔ اِس طرح کرشنن پر دوہری ذمہ داری آن پڑی۔ ایک تو سیگو پبلشنگ کا ریجنل مینجر اور دوسرے آر۔آر۔ انٹرنیشنل کا منیجنگ ڈائرکٹر۔

سالومن نے اُنہیں بتایا کہ یہ اُس کا دیرینہ خواب ہے۔ بچپن میں جب وہ اپنے والد کے ساتھ دُبئی میں لگنے والے کتابوں کی نمائش میں جاتا تھا تو اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی تھی کہ اس کا بھی ایک ایسا ادارہ ہو، وہ بھی کتابیں شائع کرے ، اس کے بھی بڑے بڑے مصنّفین سے ذاتی مراسم ہوں اور اُن کے ساتھ اُس کی بھی شہرت زبان زدِ عام ہو جائے۔ لیکن چونکہ ہمارے خاندان میں کسی نے کاروبار نہیں کیا، میں نے بھی موروثی روایات کو قائم رکھتے ہوئے ملازمت کر لی۔

سالومن اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہہ رہا تھا یہ حسنِ اتفاق ہے کہ  مجھے انسانی وسائل کے محکمہ میں انڈر سکریٹری بنا دیا گیا اور وزارت تعلیم سے وابستہ کر دیا گیا۔ میرا بچپن کا خواب پھر سے زندہ ہو گیا۔ لیکن سرکاری ملازمت کی عیش و عشرت میرے پیروں کی زنجیر بن گئی۔ مجھے جب رادھا کی شادی کا علم ہوا اور کرشنن کے بارے میں پتہ چلا تو میں نے سوچا، کیوں نہ ان نئے مواقع کو آزمایا جائے۔

ریتا اور میں ہر روز اس موضوع پر تبادلۂ خیال کرتے تھے۔ ریتا کے گھر کا ماحول کاروباری ہے ، اس نے مجھے اس سلسلے بہت ساری اہم باتیں بتلائیں۔ مجھے حوصلہ دیا اور پھر ہم گفتگو سے آگے بڑھ کر منصوبہ بندی کے مرحلے میں داخل ہو گئے۔ آپ لوگ جب اپنا ہنی مون منا رہے تھے ، تو ہم لوگ اپنی کمپنی کا منصوبہ بنا رہے تھے اور اب یہ صورتحال ہے کہ یہ منصوبہ اپنے آخری مراحل میں ہے۔ اس کے مطابق دس ماہ بعد ہونے والی کتابوں کی عالمی نمائش تک ہماری کمپنی قائم ہو جائے گی اور اس نمائش میں ہم حصہ لیں گے۔ اپنے اسٹال  ہم پرہندوستان اور دیگر ممالک کے ان ناشرین کی کتابیں رکھیں گے ، جو اس میں شامل نہیں ہو سکتے ،  نیز ہماری اپنی کمپنی کی اوّلین اشاعت کا  رسم اجراء بھی  اس موقع پر ہو گا۔

کرشنن اور رادھا نے ایک دُوسرے کی طرف دیکھا اور مسکرائے۔ رادھا بولی۔ ’’سالومن میں تو تمہیں نہایت احمق سمجھتی تھی، لیکن اب شاید مجھے اپنی رائے بدلنی پڑے گی۔‘‘

رادھا کی بات سن کر محفل زعفران زار ہو گئی۔ سب لوگ ہنس دئیے۔ بوجھل ماحول میں تھوڑی سی تبدیلی ہوئی، لیکن کرشنن نے سوال کیا۔ ’’سالومن! میرے ذہن میں کچھ سوالات ہیں۔ سب سے پہلا یہ کہ آپ دبئی انٹرنیشنل بک فیئر کو اس قدر اہمیت کیوں دے رہے ہیں ، جبکہ ہندوستان کی آبادی، یہاں کا اُبھرتا ہوا بازار اور یہاں پڑھنے لکھنے والوں کی تعداد سب کچھ دبئی سے زیادہ ہے ؟‘‘

سالومن بولا۔ ’’مجھے خوشی ہوئی کہ تم نے میری بات کو غور سے سنا۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں تم یہ نہ کہہ دو کہ مجھے ا س بکھیڑے میں نہیں پڑنا۔آپ لوگ میرے مستقبل کو بلی چڑھا کر اپنی دُکان چمکانا چاہتے ہیں وغیرہ۔ ہاں دبئی کو فی الحال ساری دُنیا میں مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ پہلے ترقی صرف یوروپ اور امریکہ میں ہوتی تھی اور لندن کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ لیکن گزشتہ چند سالوں میں ترقی کی شرح مشرقی ممالک میں کافی بڑھی ہے ، جس میں چین، ہندوستان، ایران، ملیشیا، کوریا اور جاپان جیسے ممالک شامل ہیں۔دبئی میں مال بنتا نہیں مگر بکتا ضرور ہے۔مشرقی دنیا کے لوگ اپنا مال یوروپ اور امریکہ  کو فروخت کرنے کی خاطر لندن نہیں جاتے ، دبئی آتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ دبئی کاروبار کی سہولیات اور مراعات لندن، ممبئی اور دہلی سے بہتر ہے۔ اس لئے ہر کوئی وہاں آنا چاہتا ہے۔ آر۔آر۔ انٹرنیشنل ہماری تو کمپنی ہی بین الاقوامی بازار کے پیش نظر قائم کی گئی ہے۔‘‘

رادھا بولی۔ ’’بہت خوب! اگر حکومت کے لوگ تمہاری تقریر سنتے تو تمہیں وزارت تجارت میں سکریٹری بنا دیتے۔‘‘

ریتا کو رادھا کی بات اچھی نہیں لگی، وہ بولی۔ ’’رادھا آپ بار بار اِن کی بات کو مذاق میں اُڑانے کی کوشش کرتی ہیں۔‘‘

سالومن بولا۔ ’’ریتا تم ان کی بات کا بُرا مت مانو۔ یہ ایسی ہی ہیں۔ باتوں کے درمیان ماحول کو خوشگوار رکھنے کے لئے یہ اس طرح کے چٹکلے چھوڑتی رہتی ہیں۔ لیکن جب کام کا وقت آتا ہے تو وہ بدل جاتی ہیں۔ جب تم اِنہیں کام کرتے دیکھو گی تو تمہیں حیرت ہو گی۔‘‘

’’بس بس۔۔ زیادہ تعریف کی ضرورت نہیں۔‘‘ رادھا نے سالومن کو ڈانٹ کر کہا۔ دراصل یہ ڈانٹ سالومن کے توسط سے ریتا کو پلائی گئی تھی۔‘‘

سالومن بولا۔ ’’دیکھا تم نے۔۔ یہ کس قدر سنجیدہ ہو گئی ہیں۔‘‘

ریتا ڈر گئی، وہ بولی۔ ’’میں معذرت چاہتی ہوں۔ میں نے جلدی میں ردّ عمل کا اظہار کیا۔ مجھے اُن کی شخصیت کو سمجھنے میں کچھ وقت لگے گا۔‘‘

کرشنن بولا۔ ’’حقیقت تو یہ ہے کہ میں بھی اِن کو سمجھ نہیں سکا ہوں۔ جبکہ ہم گزشتہ تین مہینوں سے دن رات ساتھ ساتھ ہیں۔ خیر۔۔ سالومن آپ کہہ رہے تھے کہ دس ماہ بعد آر۔آر۔ انٹر نیشنل کی کتاب کا اجراء ہو گا تو کتاب کا انتخاب آپ نے کر لیا ہے یا وہ ہونا باقی ہے ؟‘‘

ریتا بولی۔ ’’کتاب ہم نے منتخب کر لی ہے۔ وہ دراصل ایک سابق سیاستدان کی سوانح حیات ہے جس کا مزاج سیاسی نہیں تھا، لیکن حالات کا بہاؤ اُنہیں سیاست میں لے آیا۔ یہ نہایت عمدہ کتاب اس لحاظ سے بھی ہے کہ اس میں حقیقت کو فسانے کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔‘‘

رادھا نے پوچھا۔ ’’کتاب کا نام کیا ہے ؟ اور کیا میں اس کا مسودہ دیکھ سکتی ہوں؟‘‘

سالومن بولا۔ ’’جی ہاں۔ آپ اس کمپنی کی مالکن ہیں۔ آپ کو دکھلائے بغیر ہم کسی کتاب کو کیوں کر شائع کرسکتے ہیں؟ کتاب کا آخری باب لکھا جا رہا ہے۔ لیکن جو کچھ لکھا جا چکا ہے ، وہ اس فائل میں موجود ہے۔ آپ اسے دیکھ سکتی ہیں۔‘‘

رادھا نے فائل کو کھولا۔ اُس کے پہلے صفحہ پر لکھا ہوا تھا ’ترشول‘ اور نیچے درج تھا گنگادین۔ رادھا نے کہا۔ ’’بہت خوب! اَب کھانے کے بارے میں کیا خیال ہے ؟‘‘

’’کھانا آ رہا ہے۔۔‘‘ سالومن بولا۔ ’’جلدی کس بات کی ہے ؟‘‘

’’دراصل مجھے اِس کتاب کو پڑھنے کی جلدی ہے۔ تم کھانا لانے کے لئے کہو تاکہ ہم جلدی سے فارغ ہو جائیں۔‘‘

ریتا نے جب رادھا کا اشتیاق دیکھا تو وہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔

سالومن بولا۔ ’’ٹھیک ہے۔‘‘ اس نے بیرے کو اشارہ کیا اور ریتا سے بولا۔ ’’اب اِس کتاب کو ختم کئے بغیر یہ محترمہ سو نہیں سکتیں۔‘‘

کرشنن بولا۔ ’’یہ میرے لئے بُری خبر ہے۔‘‘ سب لوگ ہنس پڑے اور کھانے میں مصروف ہو گئے۔

 

 

 

ترشول کی رونمائی

 

ترشول ابھی طباعت کے مراحل سے گزر رہی تھی، مگر ادبی اور سیاسی حلقوں میں اِس کتاب پر بحث و مباحثہ شروع ہو چکا تھا۔ اِس بیچسالومن اور گنگا دین کے سامنے ایک اہم سوال یہ تھا کہ آخر اس کتاب کا رسم اجراء کس کے ہاتھوں ہو؟ وہ لوگ نہ تو یہ چاہتے تھے کہ اِس پر کسی ایک مکتبِ فکر کی چھاپ لگے اور نہ ہی یہ چاہتے تھے کہ کسی غیرسیاسی شخص کا اس کام کے لئے انتخاب کیا جائے۔ سیاست کے گدلے پانی میں صاف و شفاف شخصیت اور وہ بھی غیرجانبدار۔۔ یہ ایک ناممکن سی گتھی تھی۔ لیکن رادھا نے اس مسئلہ کو سلجھا دیا۔ اس نے کہا۔

’’کیوں نہ آپ لوگ افتتاح کے لئے صدر جمہوریہ کو دعوت دیتے۔ ان کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہے ، وہ مذہبی طور پر مسلمان ہیں اور ان کو کرسیِ صدارت پر بٹھانے کا کارِ خیر بھارتیہ جنتا پارٹی نے کیا ہے۔ اُن کا ذاتی  پس منظر سیاسی نہیں بلکہ سائنسی ہے۔ اس لئے ان پر کسی کی ایک جماعت کی چھاپ  بھی نہیں ہے۔ اس کے باوجود وہ ملک کے سب سے بڑے سیاسی عہدے پر براجمان بھی ہیں۔‘‘

کرشنن کو اچانک سمجھ میں آ گیا کہ کتابیں پڑھنے والوں اور کتب خانوں میں کتابوں کو ترتیب دینے والوں ، بلکہ چھاپنے یا بیچنے والوں میں کیا فرق ہے۔ گدھے کی پیٹھ پر کتابوں کا انبار ہوتا ہے لیکن اس کے دل و دماغ علم سے بے بہرہ ہوتے ہیں۔ کرشنن یہ سب سوچتے وقت آئینے کے سامنے اپنے بال سنوار رہا تھا کہ اچانک اسے آئینہ میں اپنی گردن پر ایک گدھے کا سر نظر آیا۔ رادھا اس کے پیچھے کھڑی مسکرا رہی تھی۔ اُسے لگا کہ شاید رادھا نے بھی آئینے میں اس مضحکہ خیز منظر کو دیکھ لیا ہے۔ کرشنن نے پلٹ کر پوچھا۔ ’’رادھا، کیا تم میرے چہرے کی بناوٹ پر ہنس رہی ہو؟

رادھا بولی ’’چہرہ نہیں۔۔ سر۔‘‘

’’سر؟ کیا ہو گیا میرے سر کو۔ تمہیں کیا لگتا ہے اس میں بھوسا بھرا ہوا ہے ؟‘‘

’’اندر نہیں۔۔ اوپر۔‘‘

’’اوپر کیا ہے ؟‘‘

’’کچھ بھی نہیں۔‘‘

’’کچھ بھی نہیں ۔۔؟ میں سمجھا نہیں؟‘‘

’’تم۔۔ تم بالکل بدھو ہو کرشنن۔‘‘

’’رادھا صاف صاف کہو، مجھ سے پہیلیاں نہ بجھواؤ۔‘‘

’’اچھا۔۔ ایک بات کا وعدہ کرو۔ آپ بُرا تو نہیں مانیں گے ؟‘‘

’’نہیں مانوں گا۔ لیکن اگر بتاؤ گی نہیں تو ضرور بُرا مانوں گا۔‘‘

’’ٹھیک ہے کرشنن۔ جب ہم ملے تھے تو تمہارے سر پر کس قدر گھنے بال تھے ، اُلجھے اُلجھے ، بکھرے بکھرے ، میں اُنہیں سنوارنے کی کوشش کرتی تو تم منع کر دیتے۔ میں تم سے خود ٹھیک کرنے کے لئے کہتی تو تم ٹال دیتے۔۔ تمہیں یاد ہے ؟‘‘

’’ہاں ہاں مجھے سب یاد ہے ، آگے بولو۔‘‘

’’جی ہاں۔۔ یہی تو میں کہہ رہی تھی کہ اس  مختصر سے عرصہ میں دیکھو تمہارے سر کو کیا ہو گیا۔ اسّی فیصد بال غائب ہو گئے اور صرف بیس فیصد رہ گئے۔ لیکن میں دیکھ رہی ہوں کہ تم پچھلے دس منٹ سے اِنہیں سنوارنے میں لگے ہوئے ہو کرشنن۔۔ دس منٹ سے !‘‘

کرشنن اپنے آپ پر جھینپ گیا اور بولا۔ ’’دس نہیں۔۔ تم مبالغہ سے کام لے رہی ہو۔‘‘

’’چلو پانچ سہی۔‘‘

کرشنن اپنے آپ کو سنبھال چکا تھا، وہ بولا۔ ’’دیکھو رادھا! انسان نعمتوں کی قدردانی یا تو اُس وقت کرتا ہے جب وہ اُسے حاصل نہیں ہوتیں یا جب کہ وہ اس سے چھننے لگتی ہیں۔‘‘

کرشنن کے جواب پر رادھا حیرت زدہ رہ گئی، وہ بولی۔ ’’سمجھ گئی! اِس کا مطلب یہ ہی کہ اب تمہارے نزدیک میری کوئی اہمیت باقی نہیں رہی۔ اگر ایسی بات ہے تو لو، میں چلی۔‘‘

’’رادھا۔۔ تم میری زندگی ہو۔ تمہیں اپنی قدر و قیمت بڑھانے کے لئے مجھ سے دُور جانا ضروری نہیں ہے۔ اس لئے کہ اگر تم چلی جاؤ گی تو میرا وجود پر سوالیہ نشان لگ جائے گا۔ پھر اس کے بعد تمہاری قدر کرنے والا کون ہو گا؟‘‘

رادھا پھر چونک پڑی۔ ’’کیا مطلب؟‘‘

’’میرا مطلب ہے کہ پھر اس کے بعد تمہاری قدر کرنے والا تمہارا کرشنن زندہ نہیں رہے گا۔ اور لوگ یقینا ہوں گے تمہارے قدردان۔‘‘

’’یہ کیا کہہ رہے ہو کرشنن؟‘‘ رادھا نے مصنوعی ناراضگی کے ساتھ کہا۔ ’’تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا؟ مجھے تو ایسا لگ رہا ہے کہ جو کچھ تمہاری کھوپڑی کے اُوپر ہو رہا ہے ، اندر اس سے بھی زیادہ تیزی سے یہ عمل ہو رہا ہے۔‘‘

’’اچھا، تو تمہارا خیال ہے کہ اندر ابھی صرف بیس فیصد باقی بچا ہے ؟‘‘

کرشنن کے اس سوال پر رادھا زِچ ہو گئی، وہ بولی۔ ’’اب بس بھی کرو یہ لایعنی بحث۔‘‘

’’اچھا۔۔ لیکن شروعات تو آپ ہی نے کی تھی محترمہ!‘‘

’’ہاں میں نے کی تھی، مجھ سے غلطی ہو گئی۔ میں نے تو ایک معمولی سی بات کہی، آپ نے اس بات کا بتنگڑ بنا دیا۔‘‘

’’وہ بات ہی کچھ ایسی تھی کہ بتنگڑ بن گئی۔‘‘

’’بن نہیں گئی۔۔ بنا دی گئی۔‘‘

’’اچھا بابا۔۔ غلطی ہو گئی۔‘‘ کرشنن بولا۔ ’’میں معافی چاہتا ہوں۔‘‘

’’اُس کی ضرورت نہیں۔ ناشتہ سرد ہو رہا ہے ، اِس لیے چلو جلدی کرو۔‘‘

دروازے پر کھڑا رادھا کا بھائی سالومن اِس گفتگو کے آخری حصہ کو سن رہا تھا۔ اُسے ایسا لگ رہا تھا گویا وہ اپنی ماں کیتھرین اور والد گوپال کی نوک جھونک سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ کس قدر مماثلت تھی اُن چاروں میں؟‘‘

ناشتے کے دوران کرشنن نے رادھا کی تجویز پر اُس کے بھائی سے بات کی تو وہ باغ باغ ہو گیا۔ اس نے کہا۔ ’’واقعی کرشنن! میں تمہارے دماغ کی داد دیتا ہوں۔‘‘

رادھا نے سنا تو اُس کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی۔ رادھا نے خود اپنی پیٹھ تھپتھپائی۔

سالومن بولا۔ ’’کرشنن آر۔آر۔ انٹرنیشنل واقعی ایک نہایت خوش قسمت طباعتی ادارہ ہے ، جسے اپنی اوّلین اشاعت کے لیے اتنی زبردست کتاب مل گئی، جو ابھی سے موضوع بحث بنی ہوئی ہے ، نیز اگر صدر جمہوریہ اس کی رونمائی کے لیے تیار ہو جاتے ہیں ، تب تو سونے پر سہاگہ والی بات ہو جائے گی۔‘‘

’’لیکن ایک بات ہے۔‘‘

’’وہ کیا؟‘‘

’’اُس صورت میں سرکاری پروٹوکول کے لحاظ سے یہ پروگرام راج بھون میں ہو گا، دبئی کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں نہیں۔‘‘

اب رادھا کی باری تھی، وہ بولی۔ ’’تب تو اور اچھا ہے۔ انتظام و انصرام کا خرچ بھی بچ جائے گا۔‘‘

سالومن بولا۔ ’’ایک بات بتاؤں رادھا۔۔ تمہاری بینک کی ملازمت نے تمہیں نہایت بخیل بنا دیا ہے۔ ہمیشہ روپیہ بچانے کے بارے میں سوچتی رہتی ہو اور بچا بچا کر خوش ہوتی ہو۔‘‘

رادھا بولی۔ ’’ایک ہی بات ہے۔ میں روپیہ بچا کر خوش ہوتی ہوں اور یہ خرچ کر کے خوش ہوتے ہیں۔ آمد و خرچ کا حساب برابر ہو جاتا ہے۔‘‘

سالومن نے کہا۔ ’’بہن! واقعی تم دونوں لوگ دونوں صورتوں میں خوش رہتے ہو۔ کرشنن کی خوشی میں تم خوش رہتی ہو اور تمہاری خوشی میں وہ شامل ہو جاتا ہے۔ ہم تو بس تم لوگوں کو خوش دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے رہتے ہیں۔‘‘

کرشنن بولا۔ ’’یار۔۔ یہ تو حلوائی کی دُکان پر فاتحہ والی بات ہے۔ بغیر خرچ کے خوشی۔۔ تم دونوں بھائی بہن ایک جیسے کنجوس ہو۔‘‘

سالومن بولا۔ ’’نہیں یار۔۔ بات یہ نہیں ہے۔ میں اس بات سے ناراض رہتا ہوں کہ میری بیوی فضول خرچی کرتی ہے اور وہ اس بات سے ناراض رہتی ہے کہ میں اُسے دل کھول کر خر چ نہیں کرنے دیتا۔‘‘

رادھا بولی۔ ’’پھر حساب کتاب برابر  ہو جاتا ہے۔ بیلنس شیٹ میں ڈیبٹ کریڈٹ کا حساب بالآخر صفر ہونا ضروری ہے۔‘‘

’’لیکن جو حزن و ملال حاشیہ میں باقی رہ جاتا ہے ، اس کا کیا؟‘‘

’’مجھے افسوس ہے۔‘ ‘ کرشنن بولا۔ ’’اتنا کچھ کمانے اور خرچ کرنے کے باوجود تم خوشی و مسرت سے محروم ہو۔‘‘

سالومن نے ٹھنڈی آہ بھرکر کہا۔ ’’ہاں یار! یہ تو ہماری زندگی ہے۔ خیر، میں آج ہی صدر جمہوریہ کے تھرڈ سکریٹری کو خط لکھتا ہوں۔ تین مہینہ بعد ہوسکتا ہے وہ خط فرسٹ سکریٹری کے پاس پہنچ جائے اور پھر ہم لوگوں کو ملاقات کے لیے بلایا جائے۔۔ اور سنو، تم ہی کو جانا ہو گا، میں تو سرکاری ملازم ہوں۔حکومتی حدود قیود کے مطابق نہ کاروبار کر سکتا ہوں اور نہ اُس کے لئے کسی سے ملاقات کر سکتا ہوں۔‘‘

رادھا بولی۔ ’’بھائی! یہ تقریب ضرور ہونی چاہئے۔ اس لئے کہ جس دہلی میں اس کا انعقاد ہو گا، اُسی شہر میں اس کہانی کے زندہ و پائندہ کردار موجود ہوں گے اور ایسا تو شا ذ و نادر ہی ہوتا ہو گا۔‘‘

سا لومن اس تجویز پر کرسی سے اچھل پڑا، وہ بولا۔ ’’رادھا یہ ہوئی نا بات عقل والی! مجھے  خوشی ہوئی کہ تمہاری لائبریری کی بے شمار کتابوں سے تم نے کم از کم ایک نادر خیال تو  اخذ کیا۔ خیر۔۔ چلو میں چلتا ہوں ، خدا حافظ! مجھے تاخیر ہو رہی ہے۔‘‘

سالو من کے نکل جانے کے بعد کرشنن بولا۔ ’’دیکھو تمہارا احمق بھائی تمہارے اس زبردست  خیال کو لائبریری کی کتابوں سے منسوب کر رہا تھا۔‘‘

رادھا  نے تائید کی اور بولی۔ ’’واقعی احمق ہے۔ لیکن پھر بھی یہ کتابیں میری زندگی میں بیش  بہا اہمیت کی حامل ہیں۔ اس لئے کہ اِن کتابوں نے مجھے خواب و خیال سے نکال  کر حقیقت کی دُنیا میں لانے والا کرشنن دیا۔ رادھا کی آنکھوں میں ستارے جگمگانے  لگے۔

 

 

 

 

 حقیقتِ منتظر لباسِ مجاز

 

دہلی ایئرپورٹ  پر رادھا کو الوداع کہنے کے لئے اُس کا بھائی اور بھابھی دونوں آئے تھے۔ اُن لوگوں نے نو بیاہتا جوڑے کو بے شمار نیک خواہشات اور دُعاؤں سے نوازا اور واپس ہو گئے۔ رادھا اور کرشنن نے اپنا سامان جمع کروایا، بورڈنگ کارڈ لیا اور لابی میں آ کر بیٹھ گئے۔ کرشنن نے کہا۔ ’’جہاز کی پرواز میں ڈھائی گھنٹہ کا وقت ہے۔ میں سامنے سے کافی لاتا ہوں۔‘‘

رادھا نے مسکرا کر تجویز کو قبول کر لیا۔ کرشنن کو دونوں ہاتھوں میں کافی کے کپ لے کر آتے ہوئے جب رادھا نے دیکھا تو اُسے کرشنن پر پیار آ گیا۔ کس قدر خیال رکھتا ہے یہ شخص، ہر چیز کا خیال۔۔ کافی زمین پر نہ گرے۔۔ کپ خراب نہ ہو۔۔ کافی ٹھنڈی نہ ہو۔۔ اور پینے والی خوش ہو جائے۔ یہ ملے جلے جذبات بیک وقت کرشنن کے قدموں کی سرعت بھی  پیدا کرتے تھے اور اُنہیں دھیما بھی کر دیتے تھے۔ رادھا کا جی چاہا کہ دوڑ کر کرشنن  کے ہاتھوں سے کپ لے لے اور اس کی پریشانی میں شریک ہو کر اُسے کم کر دے۔ لیکن آنکھوں نے پیروں میں بیڑیاں ڈال دیں۔ وہ کرشنن کو اِسی طرح جلدی، دھیمے ، لیکن سنبھل سنبھل کر چلتا دیکھتے رہنا چاہتی تھی۔

رادھا کافی دُور سے کافی کی بھینی بھینی خوشبو سونگھ رہی تھی۔ کافی کا گرم نشہ اُس کی رگوں میں سرائیت کر رہا تھا۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے ؟ کیوں ہو رہا ہے ؟ کیسے ہو رہا ہے ؟ اِن سوالات میں فی الحال اُسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ بس کرشنن کے بارے میں سوچ رہی تھی۔۔ کرشنن۔۔ اُس کا اپنا کرشنن۔۔ اپنی رادھا کا کرشنن۔۔ اِس لطیف احساس میں کس قدر اپنائیت تھی۔ اپنائیت کے اس جذبے نے ساری کائنات کو پر لطف بنا دیا تھا۔ میرا بھی کوئی اپنا ہے ! حالانکہ اس سے نہ میرا خون کا کوئی رشتہ ہے اور نہ اُس کا مجھ سے کوئی مفاد وابستہ ہے۔۔ پھر بھی یہ میرا اپنا ہے۔۔ سب اپنوں سے زیادہ اپنا۔

دو ماہ کی اس مختصر سی زندگی کے آگے تیس سال کی طویل زندگی کس قدر بے معنیٰ ہو گئی تھی۔ اسے ایسا لگ رہا تھا کہ گویا زندگی سے اُس کی ملاقات بس دو ماہ پرانی ہے۔ اس کے پہلے کا عرصۂ حیات اک لایعنی اور بے مقصد سفر تھا۔۔ تنہائی کا سفر۔۔ جس کی کوئی منزل نہ تھی۔

اگر سفر کی منزل خود مسافر کی ذات ہو جائے تو ایسا سفر بے معنی ہو جاتا ہے ، اور ایسا ہی کچھ معاملہ اُس کے ساتھ تھا۔ وہ سوتی جاگتی تھی، کھاتی پیتی تھی، دوڑتی بھاگتی تھی، روتی ہنستی تھی، لیکن سب کچھ اپنے لئے ، صرف اور صرف اپنے لئے۔ وہ اپنے وجود کے حصار میں قید تھی۔ اس نے اپنی ذات سے باہر جھانک کر نہیں دیکھا تھا۔ وہ اپنی جگہ پر کھڑے کھڑے اپنے محور کے گرد گردش کر رہی تھی، اس لئے حرکت کے باوجود ساکت تھی۔ لیکن اب معاملہ بدل گیا تھا۔

زمین سورج کے اطراف گردش کرتی  ہے مگر اپنے محور کی گردش ترک نہیں کرتی، اُسی طرح رادھا اپنے آپ کے علاوہ کرشنن کے گرد گردش کرنے لگی تھی۔۔ اپنے محور کے گرد ہونے والی گردش۔۔ رات اور دن کو تو جنم دیتے ہیں لیکن اس میں زبردست یکسانیت ہوتی ہے۔ وہی دن اور وہی رات۔ نہ راتیں لمبی ہوتی ہیں اور نہ دن مختصر، نہ ہوائیں چلتی ہیں نہ بادل گرجتے ہیں اور نہ بارش ہوتی ہے۔ موسم نہیں بدلتا۔ لیکن سورج کے اطراف ہونے والی گردش سے زندگی کے رنگ بدلتے ہیں ، موسم کی نیرنگیاں معمولی رات و دن کو غیر معمولی لیل و نہار میں بدل دیتے ہیں۔

خوشی اور غم کا کھٹّا میٹھا احساس زندگی کے لمحات کو خوش ذائقہ بنا دیتا ہے۔ پھر انسان کھاتا پیتا تو ہے لیکن صرف پیٹ بھرنے کے لئے نہیں ، جاگتا سوتا تو  ہے صرف تازگی حاصل کرنے کے نہیں ، بھاگتا دوڑتا تو ہے لیکن صرف تھکنے اور بیٹھنے  کے لئے نہیں ، وہ ہنستا کھیلتا ہے ، روتا دھوتا ہے ، مانتا مناتا ہے ، زندگی جیتا ہے لیکن اس کے لئے انسان کو اپنے علاوہ ایک اور وجود کی ضرورت پڑتی ہے۔

زندگی کے سفر میں دوسرا وجود سواری بھی ہو سکتی ہے جو مسافر کو منزل تک پہنچنے میں مدد کرے اور منزل بھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ رادھا اور کرشنن ایک دو سرے کے لئے سواری ہی تھے تاکہ ایک دوسرے کو اپنی منزلِ مقصود تک پہنچانے  میں مددگار و معاون ثابت ہوسکیں۔ لیکن ابھی اُنہیں منزل کی معرفت حاصل نہیں  ہوئی تھی۔ وہ ایک دوسرے کو منزل خیال کرتے تھے۔ اس لئے کہ ابھی تک اُن کی  ذات کے درمیان کے فاصلے پوری طرح ختم نہیں ہوئے تھے۔ وہ دونوں ایک دوسر ے کو اپنے سے جداگانہ وجود سمجھتے تھے اور ایک دوجے کو حاصل کر لینا چاہتے تھے۔

لیکن جب یہ فاصلے صفر ہو جائیں گے۔۔ جب دونوں ایک جان دو قالب ہو جائیں گے۔۔ تو ایک ایسا مقام آئے گا جہاں ان دونوں کو ایک دوسرے کو خوش کرنے کے لئے کوئی کوشش و محنت نہیں کرنی پڑے گی۔ جب وہ اپنے آپ ایک دوسرے کی خوشی سے خوش ہونے لگیں گے ، تب جا کر اُنہیں احساس ہو گا کہ اُن دونوں کا جداگانہ وجود محض ایک فریب سے زیادہ کچھ اور نہیں ہے ، اور اگر وہ دونوں ایک ہی ہیں تو وہ ایک دوسرے کی منزل نہیں ہو سکتے۔ پھر اُنہیں اپنے سے باہر، اپنے مقصود کی تلاش کرنی پڑے گی۔ دونوں کو ایک دوسرے کی مدد سے اُس منزل کی جانب رَخت سفر باندھنا پڑے گا۔ لیکن ایسا کب ہو گا؟ کوئی نہیں جانتا۔ وہ دونوں بھی نہیں جانتے۔ بلکہ ہو گا بھی یا نہیں؟ یہ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ ہو سکتا ہے کہ اُس حقیقی سفر کی ابتداء سے قبل ہی یہ مجازی سفر ختم ہو جائے ؟

یہ ایک حسن اتفاق ہے کہ حقیقی سفر کی ابتداء کا موقع مجازی سفر کے دوران ہی رونما ہوتا ہے۔ حقیقی سفر آگے جاری تو رہتا ہے لیکن اُس وقت تک جاری نہیں ہوسکتا جب تک کہ مسافر مجازی سفر میں داخل نہ ہو اور جب مجازی سفر اپنے اختتام کو پہنچتا ہے تو اس کے ساتھ ہی وہ موقع بھی دم توڑ دیتا ہے۔ زندگی اسی حقیقت اور مجاز کا حسین امتزاج ہے۔

ویسے حق کی معرفت مجازی وجود کی محتاج ضرور ہے لیکن مجاز کو حق خیال کرنا حق کی حقیقت سے گریز ہے۔ یہ ایک نہایت حسین سا نازک پردہ ہے جسے اُٹھانے میں حضرت انسان کو صدیوں کی مدت درکار ہوتی ہے اور پھر بھی اکثر لوگ نہ اُس چلمن کو اُٹھاتے ہیں اور نہ اُس کے پرے دیکھ پاتے ہیں۔ اس پردے کے آگے  دیکھنا کوئی بہت مشکل یا دقت طلب کام نہیں ہے لیکن وہ اس جانب متوجہ ہی نہیں ہوتے۔جو خوش نصیب نفوس اُس پردے کو چاک کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ، وہ عرفان الٰہی کی عظیم ترین نعمت سے بہرہ مند ہو جاتے ہیں۔

ہوائی جہاز نے جب دہلی سے ابوظبی کی جانب اُڑان بھری تو کرشنن کی سوچ ماضی کی جانب مڑ گئی۔ اُسے یقین تھا کہ رادھا کے ساتھ شروع ہونے والی نئی زندگی پُرانی ڈگر سے ہٹ کر ہو گی۔ لیکن وہ اس قدر مختلف ہو گی، یہ اس کے وہم گمان میں بھی نہیں تھا۔ حالات بدلیں گے ، یہ خواہش اُس کے اندر ضرور تھی، لیکن وہ اس قدر تیزی سے بدلیں گے اِس کی توقع اُس کو ہرگز نہیں تھی۔

کرشنن نے برسوں اپنے حالات کو بدلنے کے لئے خوب تگ و دو کی تھی اور مایوس ہو چلا تھا۔ وہ دربان کی اپنی نوکری پر راضی ہو گیا تھا۔ اُس نے کچھ کرنا تو درکنار، سوچنا تک چھوڑ دیا تھا۔ اُس نے سمجھ لیا تھا کہ اب زندگی کے باقی دن دروازے کھولنے اور بند کرنے میں صرف ہو جائیں گے۔ آنے جانے کا موقع نہیں آئے گا۔ لیکن گزشتہ دو ماہ میں کچھ سوچے بغیر کچھ کئے بغیر کیا سے کیا ہو گیا تھا؟ ازدواجی زندگی کے آسمان سے اچانک ایک نئی معاشی زندگی اس کے دامن میں آن گری تھی۔

کرشنن  اپنا روشن مستقبل اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ اس کے سامنے مستقبل کا واضح نقشہ تھا۔ اُس کے ہاتھوں میں ایک تیار شدہ منصوبہ تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اِس نقشے کو بنانے والا کون ہے ؟ یقیناً وہ اس کی اپنی ذات نہیں ہے اور نہ رادھا ہے ، اور نہ کوئی اور شخص۔ پھر یہ سب کیسے ہو گیا؟ وہ سب اُسے اُس دروازے سے مل گیا جو اُس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا اور وہ اس خزانے سے استفادہ کر رہا تھا جس میں کوئی کمی نہ تھی۔ وہاں سب کچھ بے حدود وحساب تھا۔ کرشنن نے رادھا سے پوچھا۔ ’’رادھا۔۔ ہم کہاں جا رہے ہیں؟‘‘

رادھا بولی۔ ’’کرشنن، آپ نے یہ سوال بہت جلدی کر لیا۔ ابھی چند منٹوں میں ہم ابوظبی ایئرپورٹ پر اُترنے والے ہیں۔‘‘

’’رادھا مذاق نہ کرو۔ میں اس بات سے واقف ہوں۔ میرا سوال یہ ہے کہ ہم ابوظبی میں کہاں جائیں گے ؟ البرٹ کے ولا ٹی۔ ٹی۔ ٹاور یا تمہارے نئے الراحہ اپارٹمنٹ میں؟‘‘

رادھا بولی۔ ’’الراحہ کا مکان تیار ہونے میں ابھی کم از کم چھ ماہ کا وقفہ لگے گا۔ اِس درمیان میں نے ایک فلیٹ میں مشترکہ طور پر رہنے کا بندوبست کر لیا ہے۔ لیکن ہم اُس فلیٹ میں ضروری انتظامات کے بعد ایک ہفتہ بعد منتقل ہو جائیں گے۔ تب تک اگر آپ مناسب سمجھیں تو ٹی۔ٹی۔ ٹاور؟‘‘

کرشنن بولا۔ ’’رادھا تمہاری منصوبہ بندی اس قدر مناسب ہوتی ہے کہ اُس پر کچھ کہنا بلکہ سوچنا بھی بے کار ہی ہے۔ لیکن وہ کون صاحب ہیں جن کے مشترکہ فلیٹ پر ہم منتقل ہوں گے ؟‘‘

’ ’وہ دراصل میرے ساتھ دفتر میں کام کرنے والی شہناز کے والدین ہیں۔ شہناز کے  والد یہاں وزارت تعلیم میں گزشتہ پچیس سال سے ملازم ہیں۔ بال بچوں کی شادی ہو گئی ہے ، میرے والدین کی طرح اکیلے رہتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ خالی کمرہ کسی کو کرائے پر دے دیں۔ شہناز نے اِس بارے میں مجھ سے بات کی۔ میں نے حامی بھر دی۔ فی الحال وہیں چلے چلتے ہیں ، جب اپنا مکان تیار ہو جائے گا تو اُن کو مع السلامہ کہہ دیں گے۔ کیا خیال ہے ؟‘‘

’’درست خیال ہے محترمہ رادھا۔ آپ کا خیال بے حد درست ہے۔‘‘ کرشنن نے جمائی لیتے ہوئے کہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

شہناز اپنی والدہ کے ایماء پر والد میاں طاہر شریف کو سمجھا رہی تھی۔ ’’ابا۔۔ کتنا بڑا گھر ہے آپ سمجھتے کیوں نہیں؟‘‘

طاہر میاں بولے۔ ’’بیٹی مجھے پتہ ہے گھر کتنا بڑا ہے۔ اس لئے کہ گزشتہ پچیس سالوں سے میں اِس میں رہ رہا ہوں۔ اُس وقت سے جب تم پیدا بھی نہیں ہوئی تھیں۔‘‘

’’ٹھیک ہے ابا جی، تب پھر ایک کمرہ کرائے پر دینے میں آپ کو اعتراض کیوں ہے ؟‘‘

’’اعتراض اِس لئے ہے کہ اچانک ابھی یہ ضرورت کیوں محسوس کی جا رہی ہے ؟‘‘میاں صاحب بولے۔ ’’یہ مکان اچانک تو بڑا نہیں ہو گیا۔ یہ تو ہمیشہ سے اُتنا ہی بڑا تھا۔ تمہاری امی اپنی ساری سہیلیوں کو ہر کمرے میں لے جا کر اُس کی خوبیاں بیان کرتی تھیں۔ حیدرآباد میں اُن کی سسرال سے لے کر کراچی میں اُن کے میکے تک اِس کے چرچے ہوتے تھے۔ یہ اچانک نیا خیال آخر کیوں آ گیا؟‘‘

’’آپ تو جانتے بوجھتے بھولے بنتے ہیں اباجی۔ حالات بدل گئے ہیں ، آپ اُس سے واقف ہیں۔‘‘

’’ہاں بیٹی، مجھے حالات کی تبدیلی کا علم ہے ، پہلے میں وزارت میں ملازم تھا۔ اب کمپنی میں منتقل کر دیا گیا ہوں اور ایسا ہونے پر میری تنخواہ میں اضافہ ہو گیا ہے۔ میری آمدنی بڑھ گئی ہے الحمد للہ!‘‘

شہناز کی امی گلنار بیچ میں بول پڑیں۔ ’’بات وہ نہیں ہے جو آپ کہہ رہے ہیں۔ آپ جانتے بوجھتے بات کو گھما رہے ہیں۔‘‘

میاں صاحب کو ہنسی آ گئی، وہ بولے۔ ’’بیگم باتیں اور بھی ہیں ، میں جانتا ہوں۔ مثلاً ہمارے اخراجات کم ہو گئے ہیں۔ پہلے بچوں کی تعلیم پر خرچ ہوتا تھا، آپ اُن کی شادیوں کے لئے روپئے جمع کرتی تھیں ، اَب اُس کی بھی ضرورت نہیں رہی الحمد للہ ہماری دونوں بیٹیاں اپنے اپنے سسر ال میں ہیں اور بیٹا امریکہ میں کما رہا ہے۔ اب خرچ کا بوجھ بھی کم ہو گیا ہے۔‘‘

شہناز بولی۔ ’’اباجی۔۔ یہ تمام باتیں جو آپ کہہ رہے ہیں صد فیصد صحیح ہیں۔ پہلے گھر بھرا بھرا سا لگتا تھا، ہم سب لوگ موجود تھے ، لیکن اب ہمارے جانے سے گھر خالی خالی ہو گیا ہے۔ اِسی لئے تو یہ تجویز پیش کی جا رہی ہے۔‘‘

’’بیٹی تمہاری شادی چار سال پہلے ہوئی۔ شہباز کو امریکہ  گئے سات سال کا عرصہ ہو گیا اور تمہاری بہن مہناز کی شادی کو نو سال کا وقفہ ہو گیا۔ گھر تو پچھلے دس سالوں سے خالی ہوتا جا رہا ہے اور چار سال سے تو بالکل اِسی طرح  ہے۔ پھر اچانک کون سی مشکل آ پہنچی؟‘‘

’’ابا جی! لیکن آپ کا تبادلہ چار سال پہلے تو نہیں ہوا تھا! وہ تو ابھی گزشتہ ماہ ہوا ہے۔ پہلے تو ہماری مجبوری تھی کہ ہم اس گھر کے کسی حصے کو کرائے پر نہیں دے سکتے تھے۔ حکومت کی جانب سے پابندی تھی، جو اَب ختم ہو گئی ہے۔‘‘

میاں صاحب نے مسکرا کر کہا۔ ’’بیٹی اچھے اور بڑے گھر میں ر ہنا مجبوری ہوتی ہے یا اپنے گھر کے کسی حصہ میں کوئی اور کرایہ دار کو بلا لینا مجبوری ہوتی ہے۔ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی؟‘‘

گلناز بول پڑی۔ ’’بیٹی۔۔ تم انہیں نہیں سمجھا سکتیں۔ کوئی اِنہیں نہیں   سمجھا سکتا، میں بھی نہیں۔ اس لئے کہ یہ ہم تمام لوگوں کو بے وقوف اور اپنے آپ کو دنیا کا سب سے عقلمند آدمی سمجھتے ہیں۔‘‘

’’اوہو! بگڑتی کیوں ہو؟‘‘ میاں صاحب بولے۔ ’’میں ساری دُنیا کو بے وقوف سمجھ سکتا ہوں ، حالانکہ میں سمجھتا نہیں۔ لیکن آپ کے بارے میں ایسا کرنے کی جسارت کیوں کر کرسکتا ہوں؟‘‘

’’یہ میں نہیں جانتی کہ تم ایسا کیوں کرتے ہیں۔ لیکن یہ جانتی ہوں کہ آپ ایسا کرتے ضرور ہیں اور پھر آپ کئی فیصلے بلاوجہ بھی تو کرتے ہو، جیسے اپنا کمرہ کرایہ پر نہ دینے کا فیصلہ؟‘‘

میاں صاحب بولے۔ ’’بیگم میں تمہیں بے وقوف سمجھنے کی جرأت نہیں کرتا لیکن تم ایسی باتیں کر کے کم از کم شہناز بیٹی کو یہ باور نہ کرا دینا کہ تم وہی ہو جو میں نہیں سمجھتا۔ اگر کوئی شخص کسی کام کو کرے تو اُسے اُس کی معقول وجہ بتلانی پڑتی ہے۔ مثلاً تم ماں بیٹی چاہتی ہو کہ ایک کمرہ کرائے پر دیا جائے تو تم لوگوں کو اس کی وجہ بتلانی ہو گی چونکہ میں سرے سے اس کا قائل ہی نہیں ہوں۔ اس لئے یہ میری ذمہ داری نہیں ہے کہ میں اُس کے حق میں دلیل پیش کروں۔‘‘

گلناز کا پارہ چڑھ گیا، وہ بولیں۔ ’’آپ نے بلاوجہ وزارت تعلیم میں اپنی زندگی خراب کی۔ آپ کو وکیل ہونا چاہئے تھا۔ مجھے یقین ہے کہ جس مقدمے کی آپ پیروی کرتے ، جج آپ کے دلائل سن کر بے ہوش ہو جاتا اور آپ کا مخالف وکیل خودکشی کر لیتا‘‘۔

میاں صاحب  بولے۔ ’’بیگم آپ کی بات دلچسپ ضرور ہے ، لیکن بدقسمتی سے یہ محض ایک قیاس آرائی  یا الزام ہے آپ کے پاس کوئی معقول دلیل نہیں ہے۔

’’میں جانتی ہوں۔‘‘ گلنار بولی۔ ’’آپ نے ٹھان لی ہے کہ میری کوئی بات نہیں سنیں گے۔ میں بھی بے وقوف ہوں جو اپنا اور اپنی بیٹی کا وقت برباد کر رہی ہوں۔ گزشتہ بتیس سالوں میں آپ نے میری کوئی ایک بات مانی ہے جو یہ مانیں گے ؟ آپ مرد ہیں ، اس گھر کے قوام ہیں۔ آپ کا کام اپنی مرضی چلانا ہے ، ہم عورتوں کو آپ لوگ پیر کی جو تی سے زیادہ اہمیت کا حامل کب سمجھتے ہیں؟‘‘

میاں صاحب کے لئے یہ تقریر کوئی نئی نہیں تھی۔ گلناز بیگم جب بھی لاجواب ہو جاتیں ، یہ تقریر اپنے آپ نشر ہو جاتی۔ اُنہیں اس کے لئے کوئی تیاری نہیں کرنی پڑتی تھی اور میاں صاحب بھی اس کے اس قدر عادی ہو گئے تھے کہ اُن پر اُس کا کوئی اثر نہ ہوتا تھا۔ وہ بولے۔

’’بیگم۔۔ وہ تو اچھا ہوا کہ آپ نے میدانِ سیاست میں قدم نہیں رکھا، ورنہ کیا مجال تھی کہ کوئی پاکستان میں مارشل لاء نافذ کرتا۔ وہاں بھی ہمارے ملک ہندوستان کے گاندھی خاندان کی طرح موروثی حکومت قائم ہو جاتی اور آپ کے بعد شہناز بیگم اور ان کے بعد آپ کے داماد تبریز خان اور ان کے بعد اُن کے بیٹے محبوب خان وغیرہ وغیرہ۔‘‘

شہناز، جو اَب تک اپنے ماں باپ کو نوک جھونک سے لطف اندوز ہو رہی تھی، والد صاحب سے مخاطب ہو کر بولی۔ ’’اچھا تو کیا میں اپنی سہیلی رادھا کو منع کر دوں؟ اُس سے کہہ دوں کہ وہ کوئی اور گھر تلاش کر لے۔ ہمارے گھر میں اس کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔‘‘

میاں صاحب کے بجائے گلناز نے جواب دیا۔ ’’ہاں بیٹی! کہہ دو۔ اِن کو کب کسی کی مجبوری کا احساس ہے ؟ یہ کب کسی کی پریشانی کو سمجھتے ہیں۔ ارے جو شخص اپنی بیوی کا اور بچی کا درد محسوس نہیں کر سکتا، وہ دُوسروں کا بھلا کیا خیال کر سکتا ہے ؟‘‘

میاں صاحب بولے۔ ’’ایسی بات نہیں ہے بیٹی۔ ا گر تمہاری سہیلی واقعی مجبور ہے تو وہ ہمارے گھر میں مہمان کی حیثیت سے رہ سکتی ہے ، لیکن کرایہ دار کی حیثیت سے نہیں۔‘‘

’’اب  دیکھو اِنہیں۔۔ اُسے رکھنے پر اعتراض نہیں ہے ، کرایہ دار کی حیثیت سے رکھنے پر ا عتراض ہے۔ آپ ذرا یہ بتلائیں کہ آخر کسی کے رہنے میں اور کرایہ دار کی حیثیت  سے رہنے سے کیا فرق ہے ؟‘‘ گلناز نے پوچھا۔‘‘

میاں صاحب بولے۔ ’’مجبوری کا فرق ہے۔ کرایہ دار کی حیثیت سے رکھنا ہماری مجبوری ہے اور مہمان کی حیثیت سے رہنا اُس کی مجبوری۔ کچھ بات سمجھ میں آئی؟‘‘

’’یہ تو الفاظ کا کھیل ہے۔‘‘ گلناز بولی۔’’محض لفاظی اور اس کے سوا کچھ نہیں۔‘‘

’’جی نہیں بیگم! یہ لفاظی نہیں ، حقیقت ہے۔ جو شخص مجبور ہوتا ہے ، وہ اپنی مجبوری سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تمہاری سہیلی اگر مجبور ہے اور ہمارے یہاں مہمان کی حیثیت سے رہے گی تو جلد جلد از جلد دُوسرا مکان حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔ بصورت دیگر وہ ایسا نہیں کرے گی بلکہ اطمینان کے ساتھ اپنا گھر سمجھ کر رہے گی۔‘‘

’’تو اس پر آپ کو کیا اعتراض ہے ؟‘‘ گلناز بولی۔ ’’کوئی بیچارہ اگر اپنا گھر سمجھ کر رہے تو آپ کا کیا نقصان ہے ؟‘‘

’’نقصان تو کوئی نہیں۔ دراصل میں اس کی بیچارگی کو اپنے اوپر مسلط نہیں کرنا چاہتا۔۔ بس اتنی سی بات ہے۔‘‘

’’اچھا۔۔ تو آپ کے دفتر کے اِتنے سارے لوگوں نے اپنے گھروں میں دُوسرے کرایہ دار رکھ لئے ہیں تو کیا وہ سب احمق ہیں؟ اُن کی ناک کٹ گئی ہے ؟‘‘

’’نہیں بیگم! میں اُنہیں نہ تو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہوں اور نہ اُن کا تمسخر اُڑاتا ہوں۔ میں تو صرف یہ سمجھتا ہوں کہ وہ مجبور ہیں اور انہوں نے اپنی مجبوری میں کسی اور مجبور کو شریک کر کے دونوں کی مجبوری دُور کر دی ہے۔ اُن کا ایسا کرنا بالکل بجا ہے ، لیکن چونکہ میری کوئی مجبوری نہیں ، اِس لئے مجھے ایسا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘

’’ابا جی۔۔ آپ کی بات درست ہے۔‘‘ شہناز بولی۔ ’’لیکن آپ مجھے بتلائیں کہ عقلی طور پر کسی کے ایک کمرے میں رہنے سے ہمیں کیا فرق پڑتا ہے ؟‘‘

’’بیٹی گھر دراصل ایک ننھی سی ریاست ہوتی ہے۔ اُس کی وسعت سے کوئی فرق نہیں  پڑتا، لیکن اُس میں شراکت سے بہت بڑا فرق پڑتا ہے۔ اِنسان بڑے گھر کے بجائے چھوٹے گھر میں رہے ، یہ بہتر ہے۔ بجائے اس کے کہ اپنے بڑے گھر میں کسی ا ور کو شریک کرے۔ ایسا میں سوچتا ہوں۔ میرا گھر میرا گھر ہو۔ میرے گھر میں میں رہو ں اور صرف میں ہی رہوں۔‘‘

مہناز بولی۔ ’’بیٹی، اِن سے بحث نہ کر و، ورنہ یہ ہم کو بھی اپنے گھر سے نکال دیں گے۔‘‘

’’بیگم  تم مجھ سے جدا کب ہو؟ اور یہ بچے۔۔ یہ تو ہمارا حصہ ہیں۔ میں سے مراد میری اپنی  ذات نہیں ہے ، بلکہ میں تمہارے اور ان کے بغیر ادھورا ہوں ، نامکمل ہوں۔ جب میں  یہ کہتا ہوں کہ میں رہوں گا تو اس میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ میں آپ سب کے  ساتھ رہوں۔۔ گا صرف آپ لوگوں کے ساتھ!‘‘

شہناز بولی۔  ’’تو کیا اس پوری عمارت میں صرف آپ کو رہنا چاہیے ؟ دوسرے پڑوسیوں کو اپنے مکانات خالی کر دینا چاہئیں۔‘‘

’’نہیں بیٹی! تم کیوں اپنی امی کی طرح بولنے لگیں؟ تم تو پڑھی لکھی ہو ماشاء اللہ۔‘‘

گلناز نے کینہ توز  نظروں سے دیکھا، لیکن میاں صاحب نے اپنی بات جاری رکھی۔ ’’میں چاہتا ہوں کہ  میں اپنے گھر میں رہوں ، پڑوسی اپنے گھر میں رہیں۔ نہ میں پڑوسیوں کے گھر میں ا ور نہ پڑوسی میرے گھر میں رہیں۔‘‘

گلناز بولی۔ ’’جی ہاں ! آپ کی بیٹی پڑھی لکھی ہے ، آپ پڑھے لکھے ہیں ، میں ہی نری جاہل ہوں جو آپ کے ساتھ ایک تہائی صدی سے نباہ کر رہی ہوں۔ اگر کوئی پڑھی لکھی ہوتی تو دال آٹے کا بھاؤ معلوم ہو جاتا۔‘‘

’’نہیں بیگم۔۔ میں تو یوں ہی مذاق کر رہا تھا۔‘‘

شہناز بولی۔ ’’اباجی۔۔ لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ آپ رادھا کو اپنا پڑوسی سمجھ لیں۔ یہ سوچیں کہ رادھا آپ کے پڑوس کے گھر میں رہتی ہے۔ آپ کے دو گھر ہیں ، جن میں ایک کو آپ نے کرایہ پر دیا ہوا ہے۔‘‘

گلناز اپنی بیٹی کی اس دلیل خوش ہو گئی۔ اُسے لگا، واقعی پڑھا لکھا ہونا کام کی چیز ہے۔

میاں صاحب بولے۔ ’’بیٹی تمہارا یہ کہنا کہ یہ سمجھ لوں ، یہ سوچوں ، خود اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ حقیقت نہیں ہے۔ لیکن اگر میں اسے حقیقت کے طور پر تسلیم کر لوں اور اس طرح سوچنے لگوں تو مجھے یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ تمہاری امی پڑوس کے باورچی خانے میں کھانا بناتی ہے یا پڑوسی ہمارے باورچی خانے کو کھانا بنانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ کیا خیال ہے تمہارا اس بارے میں؟‘‘

مہناز بولی۔ ’’بیٹی، اِن کو چھوڑو۔ یہ ماننے والے نہیں ہیں ، میں انہیں جانتی ہوں۔‘‘

شہناز بولی۔ ’’لیکن ابا جی۔۔ پاکستان میں لوگ کیا چھوٹے چھوٹے مکانات میں نہیں رہتے ؟ کیا سب کے پاس ایسے بڑے بڑے فلیٹ ہیں؟‘‘

’’جی ہاں بیٹی! میں بھی تو یہی کہہ رہا ہوں جو تم کہہ رہی ہو کہ وہاں لوگ چھوٹے فلیٹ میں تو رہتے ہیں ، لیکن دوسرے کے فلیٹ میں نہیں رہتے اور نہ دوسروں کو اپنے فلیٹ میں رکھتے ہیں۔ اِس لئے اگر تمہاری امی یہ سمجھتی ہیں کہ یہ مکان بہت بڑا ہے ، ہمیں اس کی فی الحال ضرورت نہیں ہے ، ہمیں کسی چھوٹے فلیٹ میں منتقل ہو جانا چاہئے تاکہ کرایہ بچ سکے ، میں تو اِس کے لئے  تیار ہوں۔ بلکہ میں تو کارنیش کے اس شاندار فلیٹ کو خالی کر کے مصفح جیسی غریب بستی  میں ایک فلیٹ لے کر رہنے کے لئے بھی تیار ہوں ، تاکہ اُن کی کفایت شعاری  کو چار چاند لگ جائیں۔‘‘

گلنا ز کا غصہ آسمان چھونے لگا وہ بولیں۔ ’’مصفح کیوں؟ اس کے آگے شہامہ ہے ، جہاں  مکانوں کا کرایہ اس سے بھی کم ہے۔ بلکہ اس کے علاوہ بھی چھوٹے موٹے گاؤں جیسے بنی یاس وغیرہ جہاں مکان بے حد سستے ہیں ، ان میں سستا سا ایک جھونپڑا لے لو اور ڈال دو مجھے لق و دق صحرا میں ! اس سے آپ کا اپنا من ٹھنڈا ہو جائے گا۔ تیس سال کی غریب الوطنی کا اگر یہی صلہ آپ دینا چاہتے ہیں تو یہ ہی سہی۔ ہم کون ہوتے ہیں بولنے والے ؟ آپ قوام جو ہیں۔ آقا ہیں آپ، مالک ہیں ، سرتاج ہیں۔

میاں صاحب بولے۔ ’’اب بس بھی کرو بیگم۔۔ میں کب چاہتا ہوں کہ اس سمندر کے کنارے کا مکان چھوڑ کر کہیں اور جاؤں۔ یہ میری تجویز نہیں ہے بلکہ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ آپ بلا شرکت غیرے اس پورے مکان کی ملکہ بنی رہیں۔ اس پوری ریاست پر صرف اور صرف آپ کی حکمرانی ہو۔ اس کا ہر ذرّہ آپ کا تابع اور فرمانبردار ہو، بشمول اِس بندۂ احقر کے۔۔ جیساکہ پچھلے تیس سال سے ہے۔ میں آپ کے حدود اربع میں کوئی بھی کمی نہیں چاہتا۔ میں آپ کی سرحدوں کو سمیٹنا نہیں چاہتا جہاں پناہ گلناز بیگم۔‘‘

گلناز ہنسنے لگی۔ اس کا غصہ کم ہو گیا، لیکن شہناز کا مسئلہ سنگین ہو گیا۔ اُس نے اپنی ماں کے کہنے پر رادھا سے وعدہ کر دیا تھا۔ رادھا ہوائی جہاز میں تھی اور کسی بھی وقت پہنچنے والی تھی۔ اب رادھا کو بالکل منع کر دینا وعدہ خلافی کے مترادف تھا۔ وہ    بولی۔’’ابا جی۔۔ آپ کی سب باتیں صحیح ہیں ، لیکن اب میں رادھا سے کیا کہوں؟ وہ کسی بھی وقت ابوظبی پہنچنے والی ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہ آتے ہی فون کرے گی۔ اَب میں اُسے منع کر دوں؟ یہ تو ذرا مشکل کام ہے۔‘‘

میاں صاحب بولے۔ ’’بیٹی اس میں کیا مشکل ہے ؟ میں نے کب کہا تم سے منع کرنے کے لئے ؟‘‘

مہناز بیچ میں ہی بول پڑی۔ ’’کیا؟‘‘

’’ارے دھیرج رکھو، صبر کرو۔ بات تو پوری ہونے دو۔ ہاں تو بیٹی، تم اپنی سہیلی سے کہو کہ وہ ہمارے گھر میں رہے۔ بے شک مہمان کی طرح، ہفتے دو ہفتے میں وہ اپنا مکان تلاش کر لے اور وہاں منتقل ہو جائے۔ ہم اُس کا استقبال تو کریں گے لیکن اسے جانے کے لئے نہیں کہیں گے۔‘‘

شہناز بولی۔ ’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن کرایہ؟‘‘

’’کرایہ؟ کیسا کرایہ؟ مہمان سے کوئی کرایہ لیتا ہے ؟ کیسی باتیں کرتی ہو بیٹی؟ میں تو تمہیں پڑھی لکھی سمجھتا تھا۔‘‘

گلناز بولی۔ ’’ہاں ! اتنی ذرا سی بات تمہاری سمجھ میں نہیں آتی بیٹی۔۔ رادھا کو آنے دو۔ ہمارے گھر میں ہمارا دل کچھ دن کے لئے بہل جائے گا، وہ میری بیٹی جیسی ہے۔‘‘

شہناز کو اپنی ماں کی بات سمجھ میں نہیں آ رہی تھی، جس کے کہنے پر اُس نے رادھا سے بات کی تھی اور جو اَب اُسے بڑی آسانی سے منع کر رہی تھیں۔ وہ بولی۔ ’’ٹھیک ہے اباجی، میں آپ کے لئے چائے بنا کر لاتی ہوں پانچ بجنے والے ہیں۔‘‘

میاں صاحب نے گھڑی پر نظر ڈالی اور کہا۔ ’’دیکھا شہناز پرائے گھر چلی گئی لیکن اپنے گھر کا ٹائم ٹیبل نہیں بھولی۔‘‘

’’کیسی بات کرتے ہیں ابا جی آپ! کیا ایسا بھی ممکن ہے ؟‘‘

’’ہاں بیٹی! تمہیں تو ابھی صرف پانچ سال ہوئے ہیں ، تمہاری امی کو بتیس سال ہو گئے انہیں اب بھی۔۔‘‘

شہناز اُٹھ کر باورچی خانے کی جانب جانے لگی تو اسے پیچھے سے آواز آئی۔ ’’آپ  بچوں کے سامنے کیسی باتیں کرتے ہیں؟ اچھا، لیکن آپ کتنے اچھے ہیں؟

شہناز سوچ رہی تھی، یہ لوگ کتنے اچھے ہیں؟ کیسا سدا بہار ہے اِن کا ساتھ؟ ایسا رشتہ  جو پرانا ہی نہیں ہوتا، ہمیشہ تر و تازہ رہتا ہے۔ اس نے جب سے ہوش سنبھالا تھا ، تب سے اُنہیں اسی طرح پایا۔ اب اپنا گھر بسا لیا ہے ، تب بھی یہ ایسے ہی ہیں اور  شاید جب وہ ان کی عمر کو پہنچ جائے۔ تب بھی یہ ایسے ہی رہیں گے۔ اس کے دِل سے  دُعا نکلی۔

’’اے خدائے برحق! اُنہیں ہمیشہ ایسا ہی رکھ ! خدائے ذوالجلال، اُن کا سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر رکھ، ایک بیٹی کے دل سے نکلنے والی سچی اور پاکیزہ دُعا ساتویں آسمان پر دستک دے رہی تھی۔‘‘

 

 

 

 

صدر دفتر

 

ابوظبی واپس آنے کے ایک ہفتہ بعد کرشنن نے سالومن سے پوچھا۔ ’’بھائی صدر صاحب کے دفتر سے کوئی جواب ملا یا نہیں؟‘‘

سالومن بولا۔ ’’کیسی باتیں کرتے ہو کرشنن؟ صدر صاحب کوئی معمولی آدمی تھوڑی نا ہیں ! اِتنے بڑے ملک کے سربراہ ہیں ، اَبھی تو صرف ایک ہفتہ ہوا ہے۔‘‘

’’جی ہاں ! میں جانتا ہوں۔ لیکن ویسے بھی ہمارے ملک میں صدر محترم کے ذمہ کوئی کام ہوتا نہیں ہے ؟‘‘

’’کیا مطلب؟ پارلیمنٹ اور تینوں افواج کی کمان اُن ہی کے تو ہاتھ میں ہوتی ہے۔‘‘

’’جی ہاں ، جانتا ہوں۔ نام کی حد تک یہ ہوتا ہے۔ ورنہ ایک عام شہری فوجی کمانداروں کی بھلا کیا رہنمائی کر سکتا ہے۔‘‘

’’مسئلہ عملی رہنمائی کا نہیں۔ اہم فیصلو ں کا ہے جن کے بغیر کمانڈروں کی ساری کی ساری فنی مہارت بیکار ثابت ہوتی  ہے۔ وہ کوئی اقدام صدر کی اجازت کے بغیر نہیں کر سکتے۔‘‘

’’لیکن یہ فیصلے بھی صدر محترم اپنے طور پر کب کرتے ہیں؟ وہ تو وزیر اعظم اور ایوان اِقتدار کا اختیار  ہے ، جہاں ایک سے بڑھ کر ایک گھاگ سیاستدان بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ بھلا کسی شریف سائنسداں کو کب خاطر میں لائیں گے ؟‘‘

سالومن بولا۔ ’’وہ بھی ٹھیک ہے ، لیکن پھر بھی آخری مہر تو اُنہیں کی لگتی ہے۔‘‘

’’ویسے وہ مہر لگانے پر مجبور بھی تو ہیں۔ اگر نہ لگائیں کیا ہو؟‘‘

’’تو اُنہیں مہر بند کر دیا جائے ؟ سالومن کاروباری لہجہ میں بولا۔ ’’یار ہم لوگ بہت دُور نکل گئے۔ اِن لایعنی باتوں سے ہمیں کیا سروکار؟ ہمیں تو اپنی کتاب کے اجرا ءسے مطلب ہے ، میرا خیال ہے ابھی تک ہمارا خط تیسرے سکریٹری کی میز سے آگے نہ بڑھا ہو گا۔‘‘

کرشنن نے کہا۔ ’’اور ہاں یہ میں بھول ہی گیا تھا کہ ویسے تو کوئی کام نہیں ہوتا، اِس کے باوجود زبردست دفتر، بے شمار ملازم، تین تین آئی۔ اے۔ ایس درجے کے سکریٹری۔‘‘ کرشنن کے اندر چھپا ٹریڈ یونین لیڈر پھر نمودار ہو گیا۔

سالومن نے بیزاری سے کہا۔ ’’ارے ہاں تو تمہارا مطلب یہ ہے کہ وہ خود ہی اپنے سکریٹری کا کام کریں یا کسی نوسکھیے کو اُن کا سکریٹری بنا دیا جائے ؟ یہ تم کیا کہہ رہے ہو کرشنن؟‘‘

’’نہیں ! میں نہیں کہہ رہا۔ لیکن تین آدمیوں کے لئے کام بھی تو ہونا چاہئے ؟‘‘

’’سوال کام ہونے یا نہیں ہونے کا نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ نائب صدر کے تین سکریٹری ہیں ، وزیر اعظم کے بھی تین سکریٹری ہیں ، اسپیکر اور دوسرے وزراء کے دو دو سکریٹری ہیں۔ ایسے میں صدر کے اگر تین سکریٹری نہ ہوں تو اُن کی توہین نہیں ہو گی؟‘‘

’’ٹھیک ہے ، مان لی میں نے تمہاری بات۔ اُن کے تین سکریٹری ہونے چاہئیں ،  لیکن اُن کو آئی۔ایس کا قابل ترین فرد ہونا چاہئے اور پھر اُن حضرات کو کام بھی تو کرنا چاہئے۔ ایک خط کا جواب دینے میں ایک مہینہ! یہ کیا مذاق ہے ؟‘‘

’’ یار کرشنن۔۔ سرکاری دفاتر کے آداب تم کیا جانو۔۔! یہ تو ہم ہی جانتے ہیں۔ اگر ا ن لوگوں نے دوسرے ہی دن جواب دے دیا تو تم جیسے لوگ کہیں گے ، ’’بغیر کسی کا م کے فالتو بیٹھے  ہیں صدر صاحب اور ان کے سکریٹری، اُتاؤلے ہو رہے ہیں ہماری تقریب میں آنے کے لئے۔‘‘ بھئی اپنی اہمیت کا احساس کروانے کے لیے کچھ تو انتظار کروانا ہی پڑتا ہے۔‘‘

’’اچھا۔۔ تو یہ ہے اندر کی بات؟ کرشنن نے حیرت سے کہا۔ ’’تب تو یار اِن سکریٹریز کے عیش ہیں۔ ہر کوئی چاہتا ہو گا صدر جمہوریہ کے دفتر میں اپنا تبادلہ کروا لے۔‘‘

’’نہیں کرشنن! ایسی بات نہیں ہے۔ بلکہ جو وہاں ہیں وہ چاہتے ہیں دوسری وزارتوں میں واپس آ جائیں۔‘‘

’’کیا کام کرنے کا اتنا شوق ہے کہ اوپر سے نیچے کے دفتر آنا چاہتے ہیں یا نیچے تنخواہ اونچی ہے ؟ کیا بات ہے ؟‘‘

’’نہیں ، تنخواہ تو اُوپر نیچے سب یکساں ہے۔‘‘

’’سمجھ گیا۔۔ اوور ٹائم ملتا ہو گا۔‘‘ کرشنن چہک کر بولا۔

سالومن نے کہا۔ ’’یار اوور ٹائم تو اردلی اور کلرک کو ملتا ہے ، افسران کو نہیں ملتا۔‘‘

’’پھر یہ لوگ کیوں نیچے آنا چاہتے ہیں؟‘‘

’’ارے یار، تم بھی بالکل بے وقوف ہو۔ اوپر کی آمدنی جو اوپر صدر جمہوریہ کے دفتر میں نہیں ہوتی۔ میرا مطلب ہے وہاں میز کے نیچے سے کچھ نہیں ملتا۔ اسی لیے وہاں کوئی خو ش نہیں ہوتا۔ سرکاری حلقوں میں مثل مشہور ہے۔۔ اونچی دُکان پھیکے پکوان۔ پکوان  میں مرچ مصالحہ کے لیے تنخواہ کافی نہیں پڑتی۔ کیا سمجھے ؟‘‘

’’اچھا سالومن۔۔ تو تم بھی؟‘‘

’’یار دیکھو۔۔  گڑ کھاؤ اور گلگلوں سے پرہیز کرو! یہ کیسے ممکن ہے ؟ ہم اپنے وزراء کو گلگلے کھلاتے ہیں تو تھوڑی  بہت مٹھاس اپنے لیے بھی رکھ لیتے ہیں۔‘‘

’’کیا اُن وزراء کی بدعنوانی میں شریک  ہونا لازمی ہے ؟‘‘

’اگر نوکری کرنی ہے تو ضروری ہی سمجھو۔  پانی میں رہنا اور مگرمچھ سے بیر رکھنا کیونکر ممکن ہے ؟‘‘

’’اور اگر کوئی انکار کر دے ؟‘‘

’’تو اس کا تبادلہ صدر جمہوریہ کے دفتر میں کر دیا جاتا ہے۔ سزا کے طور پر!‘‘

’’خیر۔۔ مجھے تو صدر جمہوریہ کی رضامندی ستا رہی ہے۔‘‘

’’فکر نہ کرو اور دیکھو، کتاب کا مسودہ روانہ کر دو، سکریٹری صاحب اسے دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘

سکریٹری صاحب نے کتاب کا مسودہ دیکھا اور جو پڑھنا شروع کیا تو پھر درمیان میں بند نہ کر سکے۔ تمام کام بند، کھانا پینا اور پڑھتے چلے جانا، ترشول کتاب ہی کچھ ایسی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

دو ماہ کے طول طویل انتظار کے بعد صدر جمہوریہ کے دفتر سے خط موصول ہوا، جس میں کرشنن کو ملاقات کے لئے طلب کیا گیا تھا۔ کرشنن نے سوچا، ’’زہے نصیب! صدر صاحب بذاتِ خود ملنا چاہتے ہیں۔ اس سے بڑی سعادت کیا ہو گی؟‘‘ اُس نے رادھا سے کہا۔ ’’چلو تم بھی ساتھ چلو۔‘‘

رادھا بولی۔ ’’چھوڑو کرشنن! اُن سے کیا ملنا؟ ان کی اہلیہ یا کوئی رشتہ دار تو گھر پر ہے ہی نہیں۔ میں کس سے بات کروں گی؟ آپ اکیلے چلے جائیں۔‘‘

کرشنن کو رادھا کے روکھے جواب سے مایوسی ہوئی۔ لیکن چونکہ دلیل معقول تھی، اِس نے سر خم تسلیم کر لیا اور بولا۔ ’’جیسی سرکار کی مرضی۔ ہم تو سرکار دربار کے تابع و فرمانبردار ہیں۔‘‘

کرشنن کو دہلی پہنچنے پر پتہ چلا کہ صدر جمہوریہ توسوپر سونک جہاز میں سیر کرنے کی خاطر پونا گئے ہوئے ہیں۔ اِس اطلاع نے اُسے مایوس کر دیا۔

سکینڈ سکریٹری نے معذرت کے ساتھ وجہ بتلائی اور کہا۔ ’’صدر جمہوریہ کا یہ سفر کافی اہمیت کا حامل ہے۔ اس عمر میں سوپر سونک کی سواری سے کئی لوگوں نے اُنہیں منع کیا، لیکن اُن کا اصرار باقی رہا تو پھر اُن کے ساتھ ہوا باز کون ہو،       اِس کے انتخاب کا سلسلہ شروع ہوا۔ ائیر فورس کے بیسیوں اُمیدواروں میں سے چند کا انتخاب ہم لوگوں نے کیا، پھر فائل اُن کے حوالے کی  گئی اور بالآخر انہوں نے آخری اُمیدوار کو منتخب کیا۔ یہ کافی دقت طلب کام تھا جس سے ہم لوگوں نے گزشتہ ہفتہ فراغت حاصل کی۔‘‘

کرشنن کو سمجھ میں آ گیا کہ کام کا بتنگڑ کیسے بنایا جاتا ہے ؟  لیکن اُس نے اپنے آپ پر قابو رکھا اور کہا۔ ’’جی ہاں جناب، میں سمجھتا ہوں۔ میں نے صدر جمہوریہ کا یادگار بیان بھی آج کے اخبار میں پڑھا ہے۔ پریس کانفرنس میں  یہ پوچھے جانے پر کہ آپ کو آواز کی رفتار سے تیز رفتار سواری میں ڈر نہیں لگتا؟ اس کے جواب میں عبدالسلام نے کہا کہ لوگ رفتار سے نہیں ، موت سے ڈرتے ہیں۔ چونکہ میں موت سے نہیں ڈرتا، اِس لئے مجھے رفتار کا ڈر نہیں لگتا۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ موت سوپر سونک سے زیادہ تیزی سے آتی ہے اور روح قبض کر کے لے جاتی ہے۔‘‘

سیکنڈ سکریٹری نے حیرت سے یہ بات سنی اور کہا۔ ’’اچھا، ایسا کہا  صدر صاحب نے ؟ بڑی زبردست بات کہی ہے جناب! کیا بات ہے !!‘‘

کرشنن کو بھی تعجب ہوا، وہ بولا۔ ’’کیوں جناب! آ پ نے یہ خبر نہیں پڑھی؟ یہ تو تمام ہی اخباروں میں شاہ سرخی ہے۔‘‘

سکریٹری صاحب بولے۔ ’’جی ہاں ، ہو گی۔ لیکن صدر صاحب کے بیانات کو ترتیب کے ساتھ رکھنا، یہ تھرڈ سکریٹری کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے ضرور اسے نوٹ کر لیا ہو گا۔‘‘

کرشنن بولا۔ ’’جناب! یہ معاملہ ذمہ داری کا نہیں ، اخبار پڑھنے کا ہے۔‘‘

’’جی۔۔ آپ صحیح کہہ رہے ہیں۔ ہمارے پاس کام کا انبار اس قدر زیادہ ہے کہ مطالعہ تک کا وقت نہیں ملتا۔ جب میں تھرڈ سکریٹری تھا تو دِن بھر یہی ایک کام رہتا تھا۔ لیکن جب سے ترقی ہوئی ہے۔۔‘‘

کرشنن کو ہنسی آ گئی، لیکن پھر بھی اُس نے اپنے آپ پر قابو رکھا اور کہا۔ ’’جی ہاں جناب میں سمجھتا ہوں۔‘‘

سکریٹری صاحب بولے۔ ’’آپ صرف بولتے ہیں ، سمجھتے نہیں ، ورنہ گزشتہ آدھے گھنٹے سے اپنا اور میرا وقت فضول باتوں میں برباد نہ کر رہے ہوتے۔ اگر آپ کو اعتراض نہ ہو تو کچھ کام کی بات بھی ہو جائے ؟‘‘

کرشنن شرمندہ ہو گیا اور بو لا۔ ’’ضرور جناب ضرور۔۔ میں معذرت چاہتا ہوں۔‘‘

’’ خیر کوئی بات نہیں۔‘‘ یہ کہہ کر سکریٹری صاحب نے اپنے ذاتی سکریٹری کو بلایا تا کہ اُن کی گفتگو نوٹ کر سکے اور اس کے بعد شروع ہوا انٹرویو کا لامتناہی سلسلہ۔۔ وہ کون ہے ؟ کہاں کا رہنے والا؟ کیا کرتا ہے ؟ کیا کرتا تھا؟ کتاب کس کی ہے ؟ مصنف  کا تعلق کہاں سے ہے ؟ کس سے ہے ؟ کس سے نہیں ہے ؟ کہانی کا موضوع کیا ہے ؟۔۔ وغیرہ وغیرہ! بے شمار لایعنی سوالات کئے جاتے رہے جن کا تقریبِ اجراء سے  براہِ راست یا بلاواسطہ کوئی تعلق نہیں تھا۔ بالآخر تین گھنٹوں کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوا  تو سکریٹری صاحب نے چائے منگوائی، شاہی رعب داب کے ساتھ سونے کی کیتلی اور چاندی کی ٹرے لئے ایک لمبا تڑنگا شخص ٹرالی دھکیلتا ہوا حاضر ہوا، ساتھ میں  پندرہ بیس طرح کے  بسکٹ اور نمکین وغیرہ ایک شاہی میز پر سجا دیئے گئے اور پھر شاہانہ ٹھاٹ کے ساتھ کرشنن کو وہاں آنے کی دعوت دی گئی۔

خوبصورت خادمائیں پلیٹ میں بسکٹ اور نمکین پروسنے لگیں ، چائے کو کپ میں انڈ یلنے لگیں۔ سب کچھ شاندار تھا۔۔ نہایت شاندار۔۔ بس چائے جو تھی وہ نہ تو گرم تھی اور نہ اس میں کوئی ذائقہ تھا۔ کرشنن نے  سوچا، چھوڑو کیا فرق پڑتا ہے۔ گرم اور ذائقہ دار چائے نصف درہم مل جاتی ہے۔ یہ ٹھاٹ باٹ کہاں میسر آتی ہے ؟

چائے سے فارغ ہونے کے بعد سکریٹری صاحب نے کہا۔ ’’ہماری آج کی گفتگو کو مرتب کر کے اوّل سکریٹری صاحب کی خدمت میں پیش کیا جائے گا۔ وہ اُس پر غور فرمائیں گے اور ہو سکتا ہے مزید کچھ وضاحتیں طلب فرمائیں ، اور اُس کے بعد اگر مطمئن ہوں گے تو آپ کی فائل صدر جمہوریہ کی خدمت میں پیش کی جائے گی۔ وہ اُس کا مطالعہ فرمائیں گے اور اگر مناسب سمجھیں گے تو اپنی رضامندی عنایت فرما دیں گے۔‘‘

کرشنن نے پوچھا۔ ’’اِن سب کاموں میں کتنا وقت لگے گا؟‘‘

سکریٹری صاحب اس سوال پر ناراض ہو گئے ، وہ بولے۔ ’’آپ لوگ تو ہتھیلی پر سرسوں جمانا چاہتے ہیں۔ دیکھئے ، یہ سب شاہی کام ہیں۔ اِس میں وقت تو لگے گا ہی۔ یاد رہے ، آپ صدرِ جمہوریہ کو اپنی تقریب میں آنے کی دعوت دے رہے ہیں ، کسی ایرے غیرے کو نہیں؟‘‘

کرشنن نے کہا۔ ’’جی ہاں جناب! میں آپ سے صد فیصد اِتفاق کرتا ہوں۔ میں تو صرف اندازے کے لئے پوچھ رہا تھا۔ خیر۔۔ ویسے مجھے بھی کوئی جلدی نہیں ہے۔ میں انتظار کروں گا۔‘‘ دونوں نے مصافحہ کیا اور ایک مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ ایک دوسرے کو الوداع کہا۔

کرشنن کو اپنے آپ پر حیرت ہو رہی تھی۔ کس صفائی کے ساتھ اُس نے سفید جھوٹ کہا تھا کہ اُسے کوئی جلدی نہیں ہے۔ حالانکہ اِس جھوٹ کی کوئی ضرورت بھی نہیں تھی، پھر بھی برجستہ ادا ہو گیا۔ شاید ماحول کا اثر تھا جس نے ایک مشکل کام کو آسان بنا دیا تھا۔ راشٹرپتی بھون سے واپس آتے ہوئے کرشنن کو اس بات کا اندازہ ہو گیا تھا کہ یہاں کام بہت ہوتا ہے۔ لوگ بہت مصروف ہیں اور وقت بہت لگتا ہے۔ گاڑی میں سالومن بیٹھا مغربی موسیقی سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ کرشنن کو دیکھتے ہی اُس نے ریڈیو بند کیا اور پوچھا۔ ’’بھئی بڑا وقت لگا دیا تم نے ؟ بڑی طویل بات چیت ہوئی؟‘‘

’’جی ہاں سالومن۔ دبئی سے دہلی کا سفر آسان ہے ، لیکن راشٹرپتی بھون کی پارکنگ سے سکریٹری صاحب کے دفتر کا فاصلہ طویل اور مشکل۔‘‘

’’کیوں؟ کوئی گڑبڑ تو نہیں ہوئی؟‘‘

’’نہیں ، ایسی کوئی بات نہیں۔‘‘

’’پھر تمہارا منہ کیوں لٹکا ہوا ہے ؟‘‘

’’بس یونہی سمجھ لو شکل ہی ویسی ہے۔‘‘

’’شکل ہی ایسی ہے ؟ لیکن ابھی جب تم گئے تھے تب تو ایسی نہیں تھی؟‘‘

’’اچھا! تو پھر کیسی تھی؟‘‘ کرشنن نے مسکرا کر پوچھا۔

سالومن بولا۔ ’’ایسی تھی بالکل ایسی۔ یار کرشنن، میں نے تمہیں ہمیشہ ہی ہنستا مسکراتا دیکھا ہے اور میں تمہیں ویسا ہی دیکھنا چاہتا ہوں۔ صدر صاحب کتاب کا اجراء کریں یا نہ کریں ، مجھے یقین ہے کہ یہ کتاب تہلکہ مچا دے گی۔ مانو یا نہ مانو کرشنن۔۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد بڑے بڑے مصنّفین چاہیں گے کہ اُن کی کتاب آر۔آر۔ انٹرنیشنل شائع کرے۔‘‘

کرشنن بولا۔ ’’سالومن! صحیح بات تو یہ ہے کہ اس ادارے میں صرف ہمارا نام ہے۔ کام تو سب تمہارا ہے۔ ہمارا تو بس چہرہ ہے ، دماغ تو صرف اور صرف تمہارا ہی ہے۔‘‘

’’نہیں یار! صدر جمہوریہ کے ذریعہ رسم اجراء کا ماسٹر اسٹروک تو میرا نہیں ہے۔ یہ تو تمہارا آئیڈیا ہے۔‘‘

کرشنن نے چاہا کہ بول دے کہ یہ بھی میرا کب ہے ، یہ تو تمہاری بہن رادھا کی تجویز ہے۔ لیکن پھر خاموش رہا۔ نہ جانے کیوں کار میں لگے شیشے میں پھر ایک بار وہ ٹائی والا گدھا نظر آ گیا جو راشٹرپتی بھون سے سالومن کے گھر کی جانب رواں دواں تھا۔ اُس نے اپنی آنکھیں ، کان اور زبان، سب بند کر دئیے اور ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر دی، گویا سالومن کی تحسین پر اُس کا شکریہ ادا کر رہا ہو۔

اس کے بعد کرشنن بولا۔ ’’یار، یہ بڑا لمبا کام لگتا ہے۔ کیا اس کے لئے کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوسکتا؟‘‘

’’جی ہاں ! میں نے اُس کا بھی پتہ لگانے کی کوشش کی۔ مسئلہ یہ ہے کہ صدر صاحب کا سگا سمبندھی تو کوئی ہے نہیں ، جس سے سفارش کروائی جا سکے۔ ہاں۔۔ ایک نوکر ہے رامو۔۔ جو بڑے عرصے سے اُن کے ساتھ ہے۔ حیدرآباد میں جب وہ اِسرو میں تھے ، وہ اُن کے ساتھ تھا۔ اس کے بعد جب وہ تمل ناڈو میں وائس چانسلر ہو کر گئے تو اس وقت بھی ساتھ تھا، بلکہ یوں سمجھ لو کہ عبدالسلام جہاں جہاں بھی گئے ، وہ ساتھ ساتھ رہا۔ سنا ہے صدر صاحب اس کی بات نہیں ٹالتے۔‘‘

کرشنن نے کہا۔ ’’یار یہ رامو نوکر ہے یا شوہر ہے ؟‘‘

سالومن بولا۔ ’’ایک ہی بات ہے۔ شوہر بھی تو نوکر ہی ہوتا ہے۔ خیر۔۔ لیکن اس رامو سے دوستی کرنا ایک مشکل کام ہے۔‘‘

کرشنن بولا۔ ’’ہاں۔۔ تم جیسے اعلیٰ افسر کے لئے تو یقیناً ایک مشکل کام ہے کہ وہ ایک معمولی آدمی سے دوستی کرے۔ تم ایسا کرو کہ اس کے لئے اپنے راجو سے کہو۔ وہ بڑی آسانی سے اِس کام کو کر دے گا۔‘‘

سالومن کو ایسا محسوس ہوا جیسے کرشنن اس کی توہین کر رہا ہو۔ گویا جو کام وہ نہیں کر سکتا، اُس کا نوکر راجو کر سکتا ہے۔ چہرے کے تاثرات سے کرشنن نے اندازہ لگایا کہ سالومن کو اس کی بات ناگوار گزری ہے۔

وہ بولا۔ ’’یار بُرا نہ مانو۔ جس طرح بے  شمار کام ایسے ہیں جو تم آسانی سے کر سکتے ہو، راجو نہیں کر سکتا، اُسی طرح کچھ کام ا یسے بھی ہیں جنھیں راجو کر سکتا ہے ، تم نہیں کر سکتے۔ اس میں ناراض ہونے کی کیا بات  ہے ؟‘‘

بات سالومن کی سمجھ میں آ گئی، وہ بولا۔ ’’ہا ں دوست! میں جانتا ہوں۔ یہاں پر ہر کوئی ایک دوسرے پر انحصار کرتا ہے۔ چھوٹا بڑ ے پر اور بڑا چھوٹے پر۔‘‘

کرشنن بولا۔ ’’میں نے کہیں پڑھا ہے کہ اِس  دُنیا میں نہ کوئی چھوٹا ہے اور نہ کوئی بڑا۔ سب برابر ہیں ، بالکل کنگھی کے دانتوں کی طرح۔۔ برابر برابر۔‘‘

سالومن بولا۔ ’’تمہاری بات صحیح ہے ، لیکن وہ ضرور بڑا ہے جس پر سب نام نہاد چھوٹے بڑے انحصار کرتے ہیں اور وہ کسی پر انحصار نہیں کرتا۔‘‘

کرشنن نے تائید کی اور کہا۔ ’’تم نے سچ کہا۔ وہ بڑا ہے اور وہی  سب سے بڑا ہے۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

کرشنن دوبارہ ابوظبی آ کر اور اپنے کام میں مصروف ہو چکا تھا کہ ایک دن جوزف کا فون آیا۔ اس نے بتلایا کہ ترکیب کامیاب ہوئی۔ راجو نے رامو سے بات کر لی اور رامو صدر صاحب سے بات کرنے کے لئے تیار ہو گیا۔ لیکن اس کی ایک شرط ہے۔

’’وہ کیا ہے ؟‘‘

’’راجو کا کہنا ہے کہ وہ کتاب کو پڑھے  بغیر صدر صاحب سے بات نہیں کر سکتا۔ تو کیا یہ مناسب ہے کہ ہم اسے کتاب کا مسودہ پڑھنے کے لئے دیں؟‘‘

کرشنن کو حیرت ہوئی۔ سیکنڈ سکریٹری نے جن کی میز پر اس کی درخواست پڑی گرد چاٹ رہی ہے ، کبھی مسودہ دیکھنے کی خواہش نہیں کی، بس اِدھر اُدھر کے بیجا سوالات کرتے رہے ،جبکہ رامو کو دیکھو۔۔ وہ سیدھا مطلب کی بات پر آ گیا۔ جس کتاب کے اجراء کی اُسے سفارش کرنی ہے ، اُس کے بارے میں معلومات حاصل کرنا ایک نہایت فطری ضرورت ہے۔ لیکن افسوس کہ دفتری روایت میں کولہو کے بیل کی مانند جتے ہوئے اعلیٰ افسران کو اس ضرورت کا احساس نہیں ہوا۔

کرشنن بولا۔ ’’مجھے تو رامو کی بات معقول معلوم ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں مسودہ اس کے حوالے کر دینا چاہئے۔‘‘

’’لیکن اگر اُس نے خیانت کی اس کو کسی مسابق طابع کے حوالے کر دیا تو کتاب ہمارے چھاپنے سے  پہلے ہی بازار میں آ جائے گی۔‘‘

کرشنن بولا۔ ’’نہیں دو ست، اِس طرح کے بد دیانت آدمی کو کوئی اتنا طویل عرصہ اپنا ذاتی ملازم نہیں رکھ سکتا۔ میرا دل گواہی دیتا ہے کہ یہ خطرہ اُن سکریٹری حضرات سے تو ہے جن کی زبان پر بدعنوانی کا خون لگا ہوا ہے ، لیکن رامو سے نہیں۔ تم اُسے مسودہ دے دو۔‘‘

سالومن کو لگا، کرشنن اسے گالی دے رہا ہے۔ اُس نے کہا ’’ٹھیک ہے ‘‘ اور فون بند کر دیا۔

 

 

 

 

نہلے پر دہلا

 

 

سوپر سونک فلائٹ پر جانے سے پہلے مہمانانِ خصوصی ایک قطار میں کھڑے تھے۔ وِنگ کمانڈر انل شریواستو اور صدر جمہوریہ باری باری ہر ایک  سے مل رہے تھے۔ قطار میں کھڑے ہوئے ریٹائرڈ جنرل کمل شریواستو کے سامنے جب یہ دونوں پہنچے تو انل نے کہا۔ ’’سر۔۔ یہ ہیں میرے پتاجی!‘‘

اِس سے پہلے کہ وہ نام بتاتا، صدر صاحب نے کہا۔ ’’ریٹائرڈ کرنل کمل شری واستو ہیں۔‘‘

باپ بیٹے دونوں حیرت سے اُنہیں دیکھ رہے تھے۔ انل نے کہا۔ ’’سر۔۔ آپ انہیں جانتے ہیں؟‘‘

’’جی ہاں بیٹے۔۔ یہ میرے پُرانے کرم فرما ہیں۔ میری اِن سے  ملاقات بھی ہو چکی ہے۔‘‘

کمل نے کہا۔ ’’ملاقات؟‘‘

’’جی ہاں۔۔  ائیر فورس میں بھرتی کے وقت۔‘‘

’’اچھا۔۔ اچھا۔۔ !‘‘

دونوں آگے بڑھ گئے۔

انل اور صدر جمہوریہ سوپر سونک میں بیٹھ کر فضاؤں کی سیر کر رہے تھے اور کمل ماضی میں کھویا ہوا تھا۔ وہ نوجوان جو غریب مگر نہایت محنتی، ذہین اور دلیر بھی تھا، جو کسی زمانے میں ایئر فورس میں بھرتی کے لئے آیا تھا، جس نے لکھائی کے امتحان کو امتیازی نمبروں سے پاس کیا تھا، زبانی انٹرویو میں جس کے جوابات کو سن کر سارا پینل حیرت زدہ ہو گیا تھا۔۔ اب اس کا آخری مرحلہ باقی تھا۔۔ عملاً جہاز اُڑانے کا مرحلہ۔۔ اُس رات کمل شری واستو کی نیند حرام ہو گئی تھی۔ وہ کسی قیمت پر ایک مسلمان کو فورس میں بھرتی کرنا نہیں چاہتے تھے۔ ان کے تحت الشعور میں یہ بات پیوست تھی کہ ان لوگوں نے ہمارے ملک کو دو حصوں میں بانٹ دیا ہے۔ یہ کبھی بھی وطن کے وفادار نہیں ہو سکتے۔ یہ آستین کے سانپ ہیں۔ دُشمن سے مقابلے کے وقت یہ ہمارا نہیں بلکہ دُشمن ہی کا ساتھ دیں گے اور اگر مقابلہ پاکستان سے ہو تو اُن کو ہمارے سارے خفیہ راز پہنچا دیں گے۔۔ ہمارا بیڑہ غرق کر دیں گے۔ لیکن اُسے روکنے کا کوئی طریقہ موجود نہ تھا۔ یہ نوجوان غیر معمولی صلاحیتوں کا حامل تھا، کاش کوئی اسے تحریری امتحان میں فیل کر چکا ہوتا کہ یہ نوبت ہی نہ آتی۔ صبح ہوتے ہوتے اُنہیں ایک ترکیب سوجھی۔ پو پھٹنے سے قبل وہ جہاز نمبر۔۱۰۱ میں گئے ، انجن کو کھولا اور اس میں ایک خرابی پیدا کر دی۔

صبح دس بجے ٹیسٹ کا آغاز ہوا۔ کرنل صاحب صف بستہ اُمیدواروں کو مختلف جہازوں کی جانب روانہ کرتے رہے۔ لیکن جب وہ مخصوص نوجوان کی باری آئی تو انہوں نے اپنے ساتھی کے ہاتھ میں فہرست تھمائی اور کہا۔

’’تم باقی لوگوں کو دیکھو۔ میں ۱۰۱؍ میں جا رہا ہوں۔‘‘ جہاز میں پہنچنے کے بعد کمل شریواستو نے پوچھا۔ ’’کیوں جوان سب ٹھیک تو ہے ؟‘‘

نوجوان نے کہا۔ ’’جی جناب۔‘‘

’’ٹھیک ہے آل دی بیسٹ۔‘‘

وہ سمجھ گیا کہ اُسے اپنا جوہر دِکھلا نے کی دعوت دی جا رہی ہے۔ وہ اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ اُس کے بغل میں کمل صاحب بیٹھے گئے۔ اس نے ایک ماہر ہوا باز کی طرح سارے کنٹرول جانچے ، پٹہ باندھا، کمل کی جانب دیکھا اور آنکھوں کا اشارہ ملتے ہی اسٹارٹ کا بٹن دبا دیا۔ جہاز نے ایک غراہٹ کی آواز نکالی اور پھر انجن بند ہو گیا۔‘‘

’’یہ کیا۔۔؟ تم انجن اسٹارٹ کرنا تک نہیں جانتے ؟‘‘

’’میں جانتا ہوں۔ یہ انجن کی خرابی ہے۔‘‘

’’انجن کی خرابی؟ کیا بکواس کرتے ہو۔ ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا۔‘‘

’’جی نہیں جناب! یقیناً۔۔ یہ آنگن ٹیڑھا ہے۔‘‘

’’یہی آنگن ٹیڑھا کیوں ہے ؟ یہ جو دوسرے جہاز اُڑ رہے ہیں ، اُن میں کوئی خرابی کیوں نہیں ہے ؟‘‘

خرابی کیوں ہے ؟ اور کیوں نہیں ہے ؟ اِس کا جواب میں نہیں ، ایئرفورس کا مرمتی عملہ جانتا ہے۔ میں تو یہ جانتا ہوں کہ اس جہاز میں خرابی ہے۔‘‘

’’دیکھو جوان! مجھے افسوس ہے کہ تم نہ صرف جہاز چلانا نہیں جانتے بلکہ اپنے سینئر سے بات کرنے کا سلیقہ بھی نہیں جانتے۔‘‘

’’میں دونوں باتیں جانتا ہوں۔ آپ بلاوجہ مجھ سے ناراض ہو رہے ہیں۔ آپ مجھے موقع دیں تو چند منٹوں میں اِسے درست کر کے اُڑا سکتا ہوں۔‘‘

’’چھوٹا منہ بڑی بات، جو انسان جہاز اسٹارٹ کرنا تک نہیں جانتا ہو، وہ اس کو مرمت کرنے کی بات کر رہا ہے۔‘‘

’’میں محض دعویٰ نہیں کر رہا بلکہ عملاً مرمت کر کے دکھا سکتا ہوں۔ آپ مجھے موقع دیں۔‘‘

’’مجھ پر حکم نہ چلاؤ۔۔ میں جانتا ہوں کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ مجھے تمہارے مشورے کی ضرو رت نہیں ہے۔‘‘

’’یہ نا انصافی ہے۔‘‘

’’میں تمہارا کورٹ مارشل کر دوں گا۔‘‘

’’کورٹ ما رشل تو اُس کا ہوتا ہے جو فوج میں بھرتی ہو چکا ہو۔ آپ پہلے مجھے ایئر فورس میں بھرتی کریں ، پھر کورٹ مارشل کریں۔ آپ کی مرضی!‘‘

’’زبان چلاتا ہے بدتمیز!‘‘ کمل شریواستونے غصہ کی اداکاری کرتے ہوئے کہا اور جہاز سے اُتر کر دفتر کی جانب چل دیئے۔ نوجوان اپنی جگہ بیٹھا حیرت سے اُنہیں دیکھتا رہا۔ انہوں نے دفتر میں جانے کے بعد چلّا کر کہا۔ ’’اس نوجوان کو جہاز سے اُتار دو اور دھکے مارکر باہر نکال دو۔ بدتمیز! اُسے جہاز چلانا نہیں آتا۔ اس نے جہاز میں خرابی پیدا کر دی اور میرا دماغ بھی خراب کر دیا۔ مجھے پتہ تھا یہ مسلمان ایسے ہی ہوتے ہیں۔۔ اپنی غلطی کا الزام دوسروں کے سر تھوپتے ہیں ۔۔‘‘

ایئرفورس کا ایک سپاہی آہستگی کے ساتھ جہاز کے جانب چل پڑا۔ جہاز کے پاس پہنچ کر اُس نے عبدالسلام سے کہا۔ ’’صاحب بلا رہے ہیں ‘‘ اور اس کو ساتھ لے کر سیدھا صدر دروازے کے پاس پہنچا اور آگے کا راستہ دکھلا کر کہا۔ ’’اب تم جا سکتے ہو۔۔ اور دیکھو۔۔ دوبارہ اِدھر کا رُخ نہ کرنا۔‘‘

عبدالسلام کے قدم دھیرے دھیرے ہیلی پیڈ سے دُور جا رہے تھے۔ وہ اپنے پیچھے قہقہوں کا شور سن رہا تھا۔۔ سالا مسلمان کا بچہ۔۔ ایئرفورس میں بھرتی ہونے کے لئے آیا تھا۔ جانتا نہیں یہ ہندوستان ہے ہندوستان، ہندواستھان۔‘‘

عبدالسلام گھر آیا تو اسرو سے آئی ہوئی انٹرویو کی دعوت اُس کا انتظار کر رہی تھی۔ اُس نے ایئرفورس کا خیال اپنے دل سے نکال دیا۔ اُس حادثے کو ایک بھیانک خواب کی طرح بھلا دیا اور نئے انٹرویو کی تیاری کرنے لگا۔ اُس نے اپنے آپ کو سمجھایاــ۔۔ ’’اللہ کے گھر دیر ہے ، اندھیر نہیں ہے۔ ‘‘ عبدالسلام کے خواب و خیال میں بھی اُس وقت یہ بات نہیں تھی کہ وہ کبھی اس ملک ہندوستان کے اوّلین  شہری کی حیثیت سے تینوں افواج کی سربراہی پر معمور ہو گا اور ملک کے تیز ترین  جہاز کو اُڑائے گا۔ وہ اس واقعہ کو پوری طرح بھلا چکا تھا۔

پائلٹ کے انتخاب  میں جب عبدالسلام کی نظر انل کی تصویر پر پڑی تو وہ اچانک چونک پڑے۔ ناک نقشہ بالکل کمل شریواستو کا ایسا لگتا تھا گویا کسی نے کمل شریواستو کی پرانی تصویر چپکا دی ہے۔ اُمیدوار کے والد کا نام دیکھا تو ریٹایئرڈ کرنل کمل شریواستو۔ ’’اوہو۔۔ بڑی ترقی کی! کرنل کے عہدے پر ریٹائر ہوئے۔‘‘ انہوں نے اپنے فرسٹ سکریٹری کو کہا کہ یہی نوجوان میرے ساتھ سوپر سونک کی سواری پر ہو گا۔اُنہیں یقین تھا کہ اگر حیات رہے تو کمل سے پھر ایک بار ملاقات ہو گی۔۔ اور ملاقات ہوئی۔

کمل کے سامنے ماضی کا وہ بھیانک  منظر آ گیا۔ اُسے اپنا وہ جملہ یاد آ گیا۔ ’’کورٹ مارشل کر دوں گا۔‘‘ وہ اپنی حرکت پر شرمندہ تھا۔ لیکن یہ ایک ایسی غلطی تھی جس کا کفارہ بھی ممکن نہ تھا۔ وہ انل کے واپس آنے سے پہلے نکل جانا چاہتا تھا۔ لیکن پھر سوچا کہ اگر وہ انل کو مبارکباد دئے بغیر واپس چلا گیا تو انل نہ صرف ناراض ہو گا بلکہ وجہ دریافت کرے گا اور وجہ اس سے بتائی نہ جائے گی۔ اِس غلطی کو صیغۂ راز میں رکھنے کا واحد طریقہ یہی تھی کہ خاموشی اختیار کر لی جائے۔ صدر جمہوریہ سے بے حیائی بلکہ ڈھٹائی سے مل لیا جائے۔

انل اور صدر واپس آئے تو ہر کوئی اُنہیں مبارکباد دے رہا تھا۔ سب سے آخر میں کھڑے تھے ریٹائرڈ کرنل کمل شریواستو۔ انل نے ہاتھ ملانے کے بجائے اُن کے پیروں کو چھوا۔ انہوں نے بیٹے کو سینے سے لگایا، مبارکباد دی اور پھر صدر صاحب کی جانب متوجہ ہوئے۔ ایک کی آنکھ میں چمک اور دُوسرے آنکھ میں شرمندگی تھی۔ صدر صاحب نے ہاتھ بڑھایا تو کمل بولے۔

’’جناب۔۔ عزت  افزائی کا شکریہ! آپ نے میرے بیٹے کو اِس سفرکے لئے منتخب کر کے ہماری عزت افزائی کی ہے۔‘‘

’’جی نہیں۔۔ ایسی کوئی بات نہیں۔ انل ایک ہونہار نوجوان ہے۔‘‘ صدر محترم کمل کا ہاتھ تھامے آگے بڑھے اور ایک  طرف آ گئے۔ اب وہ دونوں تنہا تھے۔

کمل نے کہا۔ ’’جناب! میں بے حد شرمندہ ہوں۔‘‘

عبدالسلام نے جواب دیا۔ ’’لیکن میں تو آپ کا مشکور ہوں۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’اِس لئے کہ اگر اُس روز آپ نے مجھے منتخب کر لیا ہوتا تو میں زیادہ سے زیادہ ریٹائرڈ کرنل کا تمغہ لگائے مبارکباد دینے والوں کی قطار میں کھڑا ہوتا اور ممکن ہے یہ سعادت بھی مجھے نصیب نہ ہوتی۔ تم نے میرے لئے ایک راستہ بند کر کے دوسرا راستہ کھول دیا جو زیادہ روشن اور کشادہ تھا۔ میں اُس کے لئے مشکور و ممنون ہوں۔‘‘

کرنل کمل شریواستو نے اپنے آپ کو ہزاروں من شرمندگی کے نیچے دبا ہوا محسوس کیا۔ ان کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا تھا۔ اِس سے پہلے کہ وہ غش کھا کر گرتے ، صدر صاحب نے انہیں ایک خالی کرسی پر بٹھایا اور کہا۔ ’’کرنل صاحب! اپنے آپ کو سنبھالیں۔ تقریب کے آغاز کا اعلان ہو رہا تھا۔ صدر جمہوریہ اسٹیج کی جانب قدم بڑھا رہے تھے اور کمل شریواستو آہستہ آہستہ دروازے کی جانب بڑھ رہا تھا۔ اُس کے کانوں میں قہقہے گونج رہے تھے۔ ’’میں تمہارا مشکور ہوں۔۔ ممنون ہوں۔۔ مشکور ہوں۔۔ میں تمہارا۔۔ میں تمہارا۔۔!‘‘

صدر محترم اپنے مشاہدات جس وقت بیان کر رہے تھے تو ایسا ہرگز نہیں لگ رہا تھا کہ کوئی ستّر سال کا معمر شخص اپنے تجربات بیان کر رہا ہے۔ بلکہ یوں لگ رہا تھا گویا ایک سترہ سالہ پُر جوش نوجوان اپنی آپ بیتی سنا رہا ہے۔

تقریر کے بعد پھر سوالات کا سلسلہ شروع ہوا۔ ایک صاحب نے سوال کیا، ’’آپ سے پہلے تقریباً درجن بھر صدور کرسیِ صدارت پر رونق افروز ہو چکے ہیں ، لیکن کسی کو فوجی جہازوں پر اُڑان بھرنے  کا خیال نہیں آیا؟ اس کی کیا وجہ ہے ؟‘‘

صدرِ محترم مسکرائے ، انہوں نے کہا۔ ’’کسی اور کو کوئی خیال کیوں آیا یا کیوں نہیں آیا، اس سوال کا جواب تو وہی دے سکتا ہے ، میں نہیں دے سکتا۔ ہاں مجھے یہ خیال کیوں آیا، اگر یہ جاننے میں آپ کو دلچسپی ہو تو شاید میں کچھ کہہ سکوں۔‘‘

اِس جواب سے ساری محفل زعفران زار ہو گئی۔ اُس صحافی نے کہا۔ ’’جی ہاں جناب۔۔ میں یہی جاننا چاہتا تھا۔‘‘

’’بہت خوب! دراصل یہ میری  پہلی محبت ہے۔ آپ یہ سمجھ لیں کہ میں صدر یا سائنسدان نہیں بلکہ فوجی یا پائلٹ بننا چاہتا تھا۔ لیکن وہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔ اِس لئے کہ مجھے صدر بننا تھا۔ لیکن کچھ خو اب ایسے ہوتے ہیں جو آسانی سے پیچھا نہیں چھوڑتے۔ مجھے خوشی ہے کہ مجھے اپنی آخری پرواز سے قبل اس پرواز کا موقع مل گیا۔ ورنہ ملک الموت کو گزارش کرنی پڑتی کہ میری روح کو جہاز میں لے کر اُڑے اور چند لمحوں کے لئے سہی، اسٹیرنگ مجھے تھما دے۔ پھر ایک بار سارے لوگ ہنس پڑے۔‘‘

ایک اور صحافی کھڑا ہوا، اُس نے کہا۔ ’’گستاخی معاف جناب۔۔ اگر جان کی امان پاؤں تو ایک ذاتی نوعیت کا سوال کروں۔‘‘

’’جی ہاں ضرور کرو۔ عوامی زندگی میں  آنے کے بعد کچھ بھی ذاتی نہیں رہتا، سب کچھ کھلی کتاب بن جاتا ہے ، اور پھر تم جو  چاہو سوال کر سکتے ہو۔ تمہیں اِس کی آزادی ہے۔ لیکن جواب دینا نہ دینا یہ میرا اختیارِ عمل ہے۔ ٹھیک ہے ؟‘‘

وہ بولا۔ ’’جی جناب، آپ کا شکریہ۔ ا بھی ابھی آپ نے کہا جہاز اُڑانا میری پہلی محبت ہے۔ کیا آپ بھی ’’محبت‘‘ نامی کسی  شے سے واقف ہیں؟ اِس لئے کہ ہم نے سنا تھا۔۔‘‘

صدر محترم نے اُس کا جملہ کاٹ دیا۔ ’’میں جانتا ہوں آپ نے کیا کچھ سنا ہو گا؟ لیکن میں آپ کو بتا دوں کہ اس دُنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں ہے جو جذبہ محبت سے خالی ہو۔ محبت ہر دل میں پائی جاتی ہے۔ وہ خون کے ساتھ انسان کی رگوں میں دوڑتی ہے۔ وہ خوشبو کی طرح ہر ایک نفس کی سانسوں میں رچی بسی ہوتی ہے۔ وہ آنکھوں کا نور ہے ، دل سرور ہے۔ اُس کے بغیر انسانی وجود ایک بے معنیٰ حادثہ ہے۔‘‘

’’بہت خوب! آپ تو شاعری بھی کرتے ہیں۔‘‘ایک اور صحافی بولا۔ ’’جناب آپ کا اگلا پروگرام کیا ہے ؟‘‘

’’میرا اگلا پروگرام یہاں سے سیدھے دہلی جانے کا ہے ، جہاں ناسا کا ایک وفد آیا ہوا ہے۔ اُس سے مجھے ملاقات کرنی ہے۔‘‘

 

 

 

 

لوگ کیا کہیں گے

 

 

ناسا کے وفد کی قیادت ڈاکٹر نلنی جیونت کر رہی جو ہ دہلی میں ٹیلی ویژن پر صدر محترم کا براہِ راست نشر ہونے والا انٹرویو ملاحظہ فرما رہی تھیں۔ جب عبدالسلام کی زبان سے ’’فرسٹ لو‘‘ لفظ نکلا تو وہ گھبرا گئیں۔ اُنہیں محسوس ہوا کہ مبادا اُن کا ذکر نہ ہو جائے ، اور جب دوبارہ محبتوں کا ذکر ہوا تو پھر اُن کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ وہ یادیں جوان ہو گئیں جنھیں جوانی کی چتا پر راکھ کر کے نلنی نے سمجھ لیا تھا کہ اب یہ قصہ تمام ہو چکا ہے۔ لیکن اخبار نویسوں کے ساتھ صدر محترم کی اس گفتگو کو دیکھنے اور سننے کے بعد پھر ایک بار اچانک جذبۂ محبت اُن رگوں میں دوڑنے لگا، اُن کی سانسوں میں مہکنے لگا، اُن کی آنکھوں کا نوُر اور دِل کا سرور بن گیا۔ مس نلنی جیونت کو اپنا وجود با معنیٰ لگنے لگا۔ مزید کچھ اور دِن زندہ رہنے کی رمق دل کے نہاں خانے میں انگڑائیاں لینے لگی۔

برسوں  بعد غیر محسوس طریقے پر نلنی جیونت کے دِل میں زندہ رہنے کی خواہش نے جنم  لیا تھا۔ اپنی زندگی۔۔ اپنے لئے۔۔ اپنی مرضی سے۔۔ کسی اپنے کے ساتھ۔۔ نلنی نے چار سیکنڈ میں اس برق رفتاری کے ساتھ چالیس سال کا طویل سفر طے کر لیا کہ اُس کے آگے سوپر سونک کی رفتار بھی ہیچ تھی۔ حیدرآباد میں اسرو کا مرکز۔۔ کالج کا خاتمہ۔۔ ریسرچ کا پہلا دِن۔۔ وہ یاد گار دِن جبکہ اُس نے خود عبدالسلام سے عبدالسلام کو دریافت کیا تھا۔۔ کیسی منفرد اور حسین تھی وہ دریافت۔۔ نلنی ٹی۔وی کے مانیٹر پر آنکھیں موندے اپنے ماضی کا ایک ایک منظر دیکھ رہی تھی۔

ویران و سنسان اِسرو کی عمارت میں سامنے سے آتے ہوئے ایک منحنی سے نوجوان کو اپنی جانب آتے ہوئے دیکھ کر نلنی نے پوچھا۔ ’’معاف کیجئے ! کیا آپ ڈاکٹر عبدالسلام کے کمرے تک  میری رہنمائی کر سکتے ہیں؟‘‘

نووارد نے مسکرا کر جواب دیا۔ ’’کیوں نہیں؟ آپ میرے ساتھ چلیں۔ میں آپ کو اُن کے پاس پہنچا دیتا ہوں۔‘‘

نلنی بولی۔ ’’جی نہیں۔ آپ کیوں زحمت کرتے ہیں؟ آپ مجھے راستہ بتلا دیں ، میں چلی جاؤں گی۔ آپ اپنے کام سے جائیں۔‘‘

’’یہ نہیں ہو سکتا۔ میں آپ کو اُن سے ملائے بغیر نہیں جا سکتا۔‘‘

’’آپ بلاوجہ تکلّف فرما رہے ہیں۔ میں پڑھی لکھی خاتون ہوں ، میں اپنا راستہ تلاش کر لوں گی۔‘‘

’’جی۔۔ میں جانتا ہوں نلنی جیونت، آپ نے سارے آندھرا پردیش میں ٹاپ کیا ہے اور مقابلے کے امتحان میں بھی آپ کا نام سرفہرست ہے۔‘‘ اُس نو وارد کی باتیں سن کر نلنی چونک پڑی۔ اُسے یہ سب کیسے پتہ ہے ؟ کون ہے یہ شخص جو اُس کی اِن تفصیلات سے واقف ہے ؟

نلنی بولی۔ ’’جی ہاں ، شکریہ! لیکن آپ بلاوجہ تکلیف فرما رہے ہیں۔ میں بہت دُور سے یہاں آ گئی ہوں تو اُن کے دفتر تک تو پہنچ ہی جاؤں گی۔ آپ اپنے کام سے جا سکتے ہیں ، اپنے آپ کو زحمت نہ دیں۔‘‘

’’جی نہیں ! آپ اُس کی فکر نہ کریں۔ میں نہ تو تکلّف کر رہا ہوں اور نہ اپنے آپ کو کوئی زحمت دے رہا ہوں ، بلکہ دراصل مجھے بھی وہیں جانا ہے۔‘‘

نلنی کو اپنی غلطی کا احساس ہوا، اُس نے کہا۔ ’’جی، معاف کیجئے۔ میں سمجھ رہی تھی کہ آپ میری خاطر۔۔‘‘

’’جی نہیں ، ایسی کوئی بات نہیں۔‘‘ اب وہ دونوں آہستہ آہستہ مختلف عمارتوں سے گزرتے ہوئے ’م‘ بلاک میں پہنچ گئے۔ نوجوان نے اپنے جیب میں ہاتھ ڈال کر چابیوں کا گچھا نکالا اور ایک دفتر کا دروازہ کھولا۔ اندر داخل ہونے کے بعد اُس نے کہا۔ ’’دراصل دفتر کا وقت نو بجے سے ہے۔ لوگ عام طور سے دس بجے کے بعد آتے ہیں۔ یہ سرکاری ادارہ جو ہے۔ لیکن آپ چونکہ نئی ہیں اور یہاں کے آداب و اطوار سے واقف نہیں ہیں ، اِس لئے پونے نو بجے آ گئیں۔ خیر۔۔ آپ یہاں تشریف رکھیں۔‘‘

’’جی۔۔ جی میں نو بجے کے بعد آ جاؤں گی۔ آپ مجھے بتلا دیں کہ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کا کمرہ کون سا ہے ؟‘‘

’’کمرہ تو یہی ہے ، جس میں داخل ہونے سے آپ ہچکچا رہی ہیں۔‘‘

’’اچھا اچھا۔۔ تو ٹھیک ہے۔ یہاں تو کوئی بھی نہیں ہے۔ شاید وہ بھی دس بجے کے بعد ہی آئیں گے ، تو میں ایسا کرتی ہوں کہ دس بجے یہیں آ کر اُن سے ملاقات کر لوں گی۔‘‘

’’جی نہیں ! اُن سے ملاقات کے لئے آپ کو دس بجے تک انتظار کرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ تو نو سے پہلے ہی آ جاتے ہیں ، اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ گھر ہی نہ گئے ہوں۔‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘ نلنی نے حیرت سے پوچھا۔

’’جی ہاں ! عجیب خبطی قسم کا آدمی ہے۔ کبھی کبھی رات بھر یہیں کام کرتا رہتا ہے ، گھر  ہی نہیں جاتا۔

’’ اچھا! تو آپ کا مطلب ہے کہ ابھی جلد ہی آ جائیں گے۔‘‘

’’ جی نہیں۔۔ میرا مطلب ہے کہ وہ آ چکا ہے۔‘‘

’’ لیکن یہاں تو کوئی بھی موجود نہیں ہے۔‘‘

’’ا چھا! اگر ایسا ہے تو آپ کس سے بات کر رہی ہیں؟اپنے آپ سے ؟‘‘

’’جی!  اپنے آپ سے نہیں ، آپ سے ؟‘‘

’’تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کے علاوہ بھی یہاں کوئی موجود ہے اور وہ میں ہوں۔‘‘

’’میں سمجھی نہیں !‘‘

’’آپ اطمینان سے تشریف رکھیں۔ تھوڑی دیر میں آپ کو سب کچھ سمجھ میں آ جائے گا۔‘‘

نلنی بیٹھ گئی اور سوچنے لگی، عجیب پاگل شخص ہے پہلے ہی لمحہ سے پہیلی بن گیا۔

’’کچھ سمجھ میں آیا؟‘‘

’’جی!!‘‘ نلنی چونک پڑی۔

وہ بولا۔ ’’میں بتاؤں کہ تم کیا سوچ رہی ہو؟

نلنی نے غصہ سے کڑک کر کہا۔ ’’بتاؤ۔‘‘

وہ بولا۔ ’’یہی کہ عجیب پاگل شخص؟‘‘

’’اوہو۔۔! آپ تو ٹیلی پیتھی جانتے ہیں۔ آپ نے میرا دماغ پڑھ لیا۔‘‘

’’جی نہیں ! میں ٹیلی پیتھی نہیں جانتا۔ میں نے تو بس یہ سوچا کہ اگر میں آپ کی جگہ ہوتا تو کیا سوچ رہا ہوتا۔ یہی کہ عجیب پاگل آدمی ہے۔ تو مجھے گمان ہوا کہ ممکن ہے آپ بھی یہی سوچ رہی ہوں؟‘‘

’’آپ نے صحیح سوچا۔ اب بتائیں کہ مجھے مزید کتنا انتظار کرنا پڑے گا؟‘‘

’’مزید ایک لمحہ کا بھی نہیں۔‘‘

نلنی بولی۔ ’’اچھا، تو وہ آ گئے۔‘‘ اور پیچھے مڑ کر دیکھا تو ساری راہ داری سنسان پڑی ہوئی تھی۔ ’’آپ مذاق بہت اچھا کر لیتے ہیں۔‘‘ وہ ہنس پڑی

’’میں مذاق نہیں کرتا۔‘‘

نلنی کا ما تھا ٹھنکا۔ اُس نے سوچا، کہیں یہی پاگل توعبدالسلام نہیں ہے۔۔؟ نہیں نہیں ، یہ نہیں ہوسکتا۔ وہ تو اسرو کے سب سے معروف سائنسدان ہیں۔ اُن کے تو موٹا سا چشمہ ہو گا، سر گنجا ہو گا، پیٹ باہر سینہ اندر، یہ لمبے لمبے بالوں والا نوجوان، جس نے راجیش کھنہ کی طرح اپنے کانوں کو بال سے ڈھانک رکھا ہے۔ یہ عبدالسلام کا شاگرد تو ہو سکتا ہے ، خود عبدالسلام نہیں ہو سکتا، اور پھر سائنسدان تو ویسے ہی خشک مزاج ہوتے ہیں ، یہ تو نہایت بذلہ سنج شخصیت کا حامل آدمی ہے۔ یہ عبدالسلام کیسے ہوسکتا ہے ؟ بلکہ عبدالسلام جیسا سائنسداں ایسے مسخرے کو اپنی  شاگردی میں بھی نہیں لے سکتا۔

نلنی کو لگا کہ شاید یہ شخص اپنی چکنی چپڑی باتوں میں لپیٹ کر اُس سے وقت گزاری کے لئے اپنے کمرے میں لے آیا ہے۔ وہ اپنی جگہ سے اُٹھی اور پیر پٹخاتی دروازے کی جانب چل پڑی، ساری راہ داری میں اُلّو بول رہے تھے۔ ابھی تو صاف صفائی کرنے والے ملازم ہی تھے جو اپنے ہاتھ پیر سیدھے کر رہے تھے۔ نلنی تیزی کے ساتھ چلتی ہوئی دروازے تک آئی، یہ سوچتی ہوئی کہ صبح صبح کس جاہل سے واسطہ پڑ گیا۔ اسرو کے صدر دروازے پر چوکیدار بیٹھا اونگھ رہا تھا۔ نلنی کو اچانک اپنا جملہ یاد آیا۔۔ ’’میں پڑھی لکھی خاتون ہوں؟‘‘ اس کے باوجود اس نے ان پڑھ لوگوں کی طرح چوکیدار سے پوچھنے کی بجائے راستہ چلتے آدمی سے پوچھ لیا۔ وہ چوکیدار کے کمرے کے قریب آئی اور دروازے پر دستک دی تو اس نے جمائی لیتے ہوئے سر اُٹھا کر دیکھا اور بولا۔ ’’کیا ہے ؟‘‘

نلنی بولی۔ ’’آپ دن چڑھے سو رہے ہیں؟‘‘

’’یہ پوچھنے والی آپ کون ہوتی ہیں کہ میں کب کیا کر رہا ہوں؟ یہ تو اسرو کے ڈائریکٹر بھی ہم سے پوچھ نہیں سکتے ، ہم لوگ مرکزی حفاظتی شعبہ سی۔ آئی۔ ایس۔ ایف۔ کے ملازم ہیں اور ہمارے کمانڈر کے علاوہ کوئی بھی ہم سے یہ سوال نہیں کرسکتا۔‘‘

’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن آپ ڈیوٹی پر ہیں؟‘‘

’’جی ہاں۔۔ جی ہاں ! آپ ہمیں ہماری ڈیوٹی نہ سکھائیں۔ رات بھر جاگ کر اگر چوکیداری کریں تو خود ہی دال آٹے کا بھاؤ پتہ چل جائے گا۔‘‘

نلنی کو ہنسی آ گئی۔ جو صبح نو بجے سو رہا ہے ، وہ رات بھر کیا جاگتا ہو گا؟ وہ بولی۔ ’’معاف کیجئے ، میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ یہ دفتر کب کھلتا ہے ؟‘‘

’’جی۔۔! ویسے تو دفتر کے اوقات نو بجے سے ہیں۔‘‘

’’لیکن ابھی تو ساڑھے نو بجنے والے ہیں؟‘‘

’’تو ہم کیا کریں؟ کیا لوگوں کو زبردستی گھر سے پکڑ پکڑ کر یہاں لائیں؟ یہ ہماری ڈیوٹی نہیں ہے۔‘‘

’’جی، میں جانتی ہوں۔ لیکن یہ لوگ بھلا آتے کب ہیں؟‘‘

’’جب اُن کی مرضی ہوتی ہے ، آ جاتے ہیں۔ جب مرضی ہوتی ہے ، چلے جاتے ہیں۔‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

مطلب یہ ہے کہ ہم ایک آزاد ملک کے آزاد شہری ہیں اور پھر سرکاری ملازم بھی، ایسے میں اگر ہم اپنی مرضی سے آ جا بھی نہ سکیں تو آزادی و جمہوریت کا فائدہ ہی کیا ہے ؟‘‘

نلنی چوکیدار کو حیرت سے دیکھ رہی تھی۔ کتنی محنتوں سے اس نے مسابقتی امتحانات کی تیاری کی تھی ملک کے سب سے بڑے تحقیقاتی ادارے میں کام کرنے کے اس نے کیسے حسین خواب دیکھے تھے لیکن وہ سب ایک ایک کر کے چکنا چور ہوتے جا رہے تھے۔ صبح صبح ایک مسخرہ دھوکے سے اپنے کمرے میں لے گیا اور یہ دوسرا چوکیدار اسے آزادی کا  فلسفہ سمجھا رہا ہے۔

چوکیدار بولا۔ ’’آ پ کون ہیں؟ آپ کو کس سے ملنا ہے یہ بتائیں ، فضول کی باتوں میں میرا اور اپنا وقت برباد نہ کریں۔‘‘

نلنی کو ایسا  لگا جیسے اُس نے ایک طمانچہ اُس کے چہرے پر جڑ دیا، وہ بولی۔ ’’تجربہ گاہ میں ڈاکٹر عبدالسلام سے ملنا ہے۔‘‘

’’ہاں تو ایسا کہئے۔ دیکھئے آگے ’م‘ بلا ک ہے۔ اُس میں ان کا دفتر ہے۔ ویسے تو وہ نو بجے سے قبل آ جاتے ہیں ، آج بھی آ گئے ہوں گے۔ میں نے اُنہیں نہیں دیکھا۔‘‘

نلنی بولی۔ ’’آپ کیسے دیکھ سکتے ہیں بھلا؟ دیکھنے کے لئے آنکھیں کھلی رکھنی پڑتی ہیں۔‘‘

’’جی نہیں۔۔ لوگ آنکھیں کھول کر بھی سوتے ہیں۔ آپ بہت بولتی ہیں۔ جایئے نو دو گیارہ میں وہ مل جائیں گے۔‘‘

’’کیا۔۔ نو دو گیارہ؟‘‘

’’جی ہاں۔۔ نو ہزار دو سو گیارہ۔۔م بلا ک ، عمارت نمبر۔ نو، دوسرا منزلہ، کمرہ نمبر۔۱۱، سمجھیں یا نہیں سمجھیں؟‘‘

’’جی شکریہ!‘‘ یہ کہہ کر نلنی م بلاک  میں عمارت نمبر۔۹ کی تلاش میں چل پڑی اور پھر وہیں پہنچ گئی جہاں اُس کی ملاقات ایک مجنون  سے ہوئی تھی، جو اُسے پہلے منزلہ پر لے گیا تھا۔ چوکیدار نے بتلایا دوسرا منزلہ؟ لیکن یہ عمارت دو منزلہ ہے ہی نہیں تو اِس میں دوسرا منزلہ کہاں سے آئے گا؟ نلنی نے سوچا شاید اُس نے پہلے منزلہ کو دوسرا کہا ہو؟ خیر، وہ زینہ سے اُوپر چڑھ گئی تو اُسے خیال ہوا کہ صبح بھی وہ دائیں مڑی تھی اور نمبر گیارہ۔۔ یہ کیا۔۔ یہ تو وہی کمرہ ہے۔ وہ اندر داخل ہوئی تو وہی شخص ایک موٹی سی بھدّی کتاب میں دھنسا ہوا تھا۔ نلنی نے دروازے پر دستک دی تو اُس نے اوپر دیکھا۔

’’اوہو۔۔ تو آپ پھر آ گئیں۔‘‘

’’جی ہاں ! مجھے ڈاکٹر عبدالسلام صاحب سے ملنا ہے ، اِس لئے دوبارہ آنا پڑا۔‘‘

’’وہ تو مجھے پتہ ہے ، لیکن یہ پتہ نہیں کہ آپ واپس کیوں گئی تھیں؟‘‘

’’جی۔۔ جی۔۔ معاف کیجئے کہیں آپ ہی تو ڈاکٹر عبدالسلام نہیں ہیں؟‘‘

’’بالکل ہوں ، وہ میں ہی ہوں جسے لوگ ڈی۔ اے۔ کے۔ یعنی ڈاک کہہ کر پُکارتے ہیں۔‘‘

’’جی دراصل میں سوچ رہی تھی۔۔‘‘

عبدالسلام نے اُس کی بات کاٹ دی۔ ’’ایک بھدّا سا گنجا شخص، موٹا چشمہ لگائے آپ کا منتظر ہو گا۔‘‘

’’جی ہاں۔۔ آپ تو ٹیلی پیتھی کے ماہر ہیں۔‘‘

’’جی نہیں۔‘‘

اِس بار نلنی نے جملہ کاٹ دیا۔ ’’آپ نے سوچا کہ اگر میری جگہ آپ ہوتے۔۔‘‘ جملہ ادھورا رہ گیا اور دونوں کھلکھلا کر ہنسنے لگے۔‘‘

نلنی کا مزاج بالکل عبدالسلام کی طرح تھا۔ہ نہایت ذہین، بے حد محنتی، کام میں سنجیدہ اور بات چیت میں باغ و بہار، دونوں اپنے خاندان سے دُور ہاسٹل میں رہتے تھے ، کھانا بن کر مل جاتا تھا، کپڑے دھل کر آ جاتے تھے ، اُن دونوں کا نہ کوئی دوست تھا اور نہ معشوق، کام کا شوق اور ایک دوسرے سے دوستی، دیکھتے دیکھتے نلنی اور عبدالسلام ایک جان دو قالب بن گئے۔‘‘

’’ایک روز نلنی نے پوچھا۔ ’’سر ایک بات پوچھوں؟‘‘

عبدالسلام بولے۔ ’’ایک نہیں ، دو باتیں پوچھو۔‘‘

’’دو کیوں؟‘‘

’’اِس لئے کہ تیسری نہ پوچھنا۔‘‘

’’اوہو! اچھا میں یہ پوچھ رہی تھی کہ آپ نے ابھی تک شادی کیوں نہیں کی؟‘‘

نلنی کے اس سوال پر عبدالسلام چونک پڑے۔ انہوں نے کہا۔ ’’نہیں کی! بس یوں  ہی نہیں کی۔ ایسے بے شمار کام ہیں جو میں نے نہیں کئے۔ اُن میں ایک یہ بھی ہے۔ کسی کام کو کرنے کے لئے وجہ جواز کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن اگر کوئی کام کیا ہی نہ گیا ہو تو اس کی وجہ؟ چہ معنی دارد!! بس یونہی سمجھ لو۔ عبدالسلام نے اپنی عادت کے خلاف اس سوال کا طویل جواب دیا۔‘‘

’’تو کیا۔۔ مطلب لوگ بلا ضرورت شادی کرتے ہیں؟‘‘

’’میں نے یہ کب کہا کہ لوگ بلا ضرورت شادی کرتے ہیں؟ ضرورت محسوس ہوتی ہے تبھی تو شادی کرتے ہیں۔‘‘

’’تو کیا آپ نے یہ ضرورت محسوس نہیں کی؟‘‘

’’دیکھو نلنی۔۔ انسان محسوس تو بہت کچھ کرتا ہے لیکن سب کچھ کرتا نہیں ہے۔ کچھ کر پاتا ہے ، کچھ نہیں کر پاتا۔‘‘

’’تو گویا آپ نہیں کر پائے ، اِس لئے نہیں کی؟‘‘

’’یہی سمجھ لو۔‘‘ عبدالسلام نے گفتگو ختم کرتے ہوئے کہا۔

’’لیکن آپ تو پڑھے لکھے ہیں ، برسرروزگار ہیں ، معروف و مشہور ہیں ، آپ نے اسرو میں وہ کارنامے کر ڈالے جو اِس سے پہلے کسی نے نہیں کئے ، اس کے باوجود آپ ایک ایسا کام نہ کر پائے جو ہر خاص و عام کر گزرتا ہے۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی؟‘‘

’’ہر بات کو سمجھنا ضروری نہیں ہے۔‘‘ عبدالسلام نے بات کو کاٹتے ہوئے کہا۔

’’نہیں۔۔ یہ ضروری ہے ؟‘‘ نلنی نے زور دے کر کہا۔

’’تو یوں سمجھ لو کہ پہلے میں نے نہیں سوچا، اب لوگ نہیں سوچتے۔‘‘

’’اور اگر اب کوئی سوچے تو آپ کیا سوچیں گے ؟‘‘

عبدالسلام اس سوال پر چونک پڑے۔ ’’کوئی سوچے ؟ کیا بکتی ہو نلنی؟ تمہارا  دماغ خراب ہے۔ میں تمہارا گائیڈ ہوں ، تمہارا اُستاد۔۔ تم یہاں ڈاکٹریٹ کرنے کے لئے آئی ہو۔‘‘

’’جی ہاں ! میں جانتی ہوں اور میں نے اپنی تحقیق تقریباً ختم کر لی ہے۔ مقالہ ٹائپ ہو رہا ہے اور جلد ہی یونیورسٹی میں جمع ہو جائے گا۔‘‘

’’تو پھر یہی کرو، اِسی کی جانب توجہ دو۔‘‘

’’اچھا۔۔ تو کیا لوگ ریسرچ کے دوران شادی نہیں کرتے ؟‘‘

’’کرتے ہیں ! کیوں نہیں کرتے ؟ لیکن اپنے گائیڈ سے نہیں ہم عصر طلباء کے ساتھ کرتے ہیں۔‘‘

’’لیکن کیا یہ ضروری ہے ؟‘‘

’’ضروری تو نہیں ہے ؟‘‘

’’پھر آپ کو کیا اعتراض ہے ؟‘‘

’’کچھ نہیں !! بس یہی کہ لوگ کیا کہیں گے ؟‘‘

’’لوگ! یہ لوگ ہمارے درمیان میں کہاں سے آ گئے۔ شادی آپ کو مجھ سے کرنی ہے اور مجھ کو آپ سے ، لوگوں کا ہم سے کیا لینا دینا؟‘‘

’’ارے بے وقوف لڑکی۔۔ شادی کوئی چوری چھپے کرنے کی چیز تھوڑے ہی ہے ، یہ تو علی الاعلان کی جاتی ہے اور اعلان لوگوں کے درمیان میں ہوتا ہے۔‘‘

’’ٹھیک ہے۔۔ تو ہم اعلان کر دیں گے۔‘‘

’’یہی تو میں کہہ رہا تھا کہ جب لوگوں کو پتہ چلے گا۔۔ تو لوگ کیا کہیں گے ؟‘‘

’’مجھے اس سے کوئی غرض نہیں۔‘‘

’’دیکھو نلنی! تم ایک نہایت اہم موضوع پر اپنی تحقیقاتی مقالہ لکھ رہی ہو۔ ابھی تک ہم اپنے اسلحے کی فراہمی کے لئے سوویت یونین پر انحصار کرتے رہے ہیں۔ لیکن وہ تیزی کے ساتھ زوال پذیر ہے۔ اب ہمیں جلد از جلد خود کفیل ہونا ہے ، ورنہ اشتراکیت کے ساتھ ہمارا سورج بھی ڈوب جائے گا۔ یہ اگنی میزائل آج نہیں تو کل حقیقت بنے گا، تم اپنی تو جہات پوری طرح اس کی جانب مرکوز رکھو۔ آج نہیں تو کل یہ ہمارا اپنا میزائل ہو گا، اس لئے جاؤ اپنے ذہن کو منتشر کرنے کے بجائے اپنے کام پر توجہ دو۔ تمہیں زندگی میں بہت آگے بڑھنا ہے ، بہت کچھ کرنا ہے نلنی۔۔ بہت کچھ۔‘‘

اپنے گائیڈ کی زوردار تقریر سننے کے بعد نلنی نے شادی کے خیال کو وقتی طور پر مؤخر کر دیا اور پھر اگنی میزائل کے کام میں منہمک ہو گئی۔ دیکھتے دیکھتے اس نے اپنا مقالہ مکمل کر لیا۔ نلنی کو نہ صرف ڈاکٹریٹ کی ڈگری مل گئی بلکہ اپنے مقالہ پر یونیورسٹی کی جانب سے طلائی تمغہ اور حکومت کی جانب سے بہترین اُبھرتی ہوئی سائنسداں کا اعزاز بھی حاصل ہو گیا، اخبارات و رسائل میں اس کے چرچے ہونے لگے ، مختلف اداروں سے نلنی کو ملازمت کی پیشکش  آنے لگی جن میں سے ایک امریکی ادارہ ناسا بھی تھا۔‘‘

اِسی دوران ایک شام نلنی اپنے گائیڈ عبدالسلام سے ملاقات کی خاطر آئی اور دُعا سلام کے بعد اُس نے کہا۔ ’’ڈاکٹر صاحب میں اب آپ کی طالب علم نہیں ہوں۔‘‘

عبدالسلام اس جملے پر چونک پڑے ، لیکن مسکرا کر کہا۔ ’’جی ہاں نلنی! میں جانتا ہوں اب تم ملک کی مشہور و معروف سائنسدان بن گئی ہو۔ ہر کوئی تمہیں جانتا ہے۔ مجھے کون جانتا ہے ؟ حقیقت تو یہ ہے کہ اُستاد گڑ کا گڑ رہ گیا اور شاگردہ شکر ہو گئی، لیکن یقین مانو، مجھے اس بات پر خوشی ہے کہ میں کبھی تمہارا اُستاد تھا۔

’’جی ہاں ! میں بھی یہی کہہ رہی تھی۔۔‘‘ نلنی بولی۔ ’’کہ آپ میرے اُستاد تھے ابھی نہیں ہیں۔‘‘

’’ہاں نلنی۔۔ میں جانتا ہوں اور اعتراف بھی کر رہا  ہوں۔ لیکن تم بار بار اس بات کو کیوں دوہرا رہی ہو؟‘‘

’’اس احسان فراموشی کی بھی ایک وجہ ہے۔‘‘

’’کیا؟‘‘

’’آپ تو جانتے ہی ہیں کہ میں کوئی کام بلاوجہ نہیں کرتی اور میں احسان فراموش بھی نہیں ہوں۔‘‘

’’جی۔ میں دونوں باتیں جانتا ہوں۔‘‘

’’تب تو آپ کو یہ بھی جان لینا چاہیے کہ میرے اصرار کی وجہ کیا ہے ؟‘‘

’’میں سمجھا نہیں؟‘‘

’’میں سمجھاتی ہوں۔ تحقیق کے دوران میں نے آپ کے سامنے شادی کی تجویز رکھی تھی۔ اُس وقت آپ نے یہ کہا تھا کہ میں ریسرچ کرنے کے لئے آئی ہوں اور آپ میرے استاد ہیں۔ اس لئے اگر ہماری شادی ہوتی ہے تو لوگ کیا کہیں گے ؟ کہا تھا نا آپ نے ؟‘‘

’’جی ہاں۔۔ کہا تھا۔‘‘

’’تو جنابِ عالی! اب وہ ریسرچ بھی ختم ہو گئی ہے۔ اب آپ کے اور میرے درمیان وہ رشتہ بھی منقطع ہو چکا ہے جو آپ کے خیال کے مطابق ہمارے راستے کی رُکاوٹ تھا۔‘‘

عبدالسلام نلنی کی دلیل پر لاجواب ہو گئے۔ اُنہوں نے اپنے آپ کو سنبھالا اور کہا۔ ’’ہاں نلنی۔۔ تمہاری بات صد فیصد درست ہے۔ لیکن اِن سب کے باوجود ہماری عمر کا فرق تو برقرار ہے۔ تم بائیس سال کی نوجوان ہو اور میں بیالیس کا بوڑھا۔ آخر ہمارا یہ جوڑ کس طرح ہو گا؟ ذرا سوچو تو۔۔ لوگ کیا کہیں گے ؟ تمہارے ماں باپ کو کیسا لگے گا؟ کاش کے ہماری ملاقات پندرہ بیس سال قبل ہوئی ہوتی؟ کاش کہ اُس وقت یہ تجویز تمہاری جانب سے آئی ہوتی؟ یقین جانو، میں ایک لمحہ بھی توقف نہیں کرتا۔ میں اسے اپنے لئے سب سے بڑ ی سعادت سمجھتا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اب وقت گزر چکا ہے۔ ہمالیہ پربت برف   سے ڈھکا ہوا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ اگنی بھی اُس میں دب کر سرد ہو جائے۔ نلنی۔۔  میں تم پر ظلم نہیں کرنا چاہتا۔‘‘

’’میرے اوپر ظلم کیا ہے اور میرے ساتھ عدل کیا ہے ؟ اِس کا فیصلہ کرنے کی میں مجاز ہوں یا نہیں؟‘‘ نلنی نے میزائل کی طرح سوال کیا؟‘‘

’’یقیناً تم اِس کی مجاز ہو۔ لیکن پھر تمہارے رشتہ دار ہیں ، ماں باپ ہیں ، اُن کا بھی تو تمہیں خیال کرنا پڑے گا۔ وہ کیا سوچیں گے ؟‘‘

’’وہ۔۔! وہ کچھ نہیں سوچیں گے۔‘‘

’’تمہیں کیسے پتہ؟‘‘

’’مجھے پتہ ہے۔ کل میری والدہ مجھ سے فون پر شادی سے متعلق گفتگو کر رہی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے دُور کا رشتہ دار یہیں حیدرآباد میں کلکٹر ہے اور اُس کے والدین نے میرے لئے رشتہ بھیجا ہے۔‘‘

’’اوہو! یہ تو بڑی اچھی خبر ہے۔ ایسے میں تم اسرو میں مزید تحقیقات بھی جاری رکھ سکتی ہو۔‘‘

’’جی ہاں۔۔ لیکن میں نے صاف انکار کر دیا۔‘‘

’’اچھا! تو اُنہیں بُرا نہیں لگا؟ تمہاری والدہ کا ردّ عمل کیا تھا؟‘‘

’’وہ سمجھ گئیں کہ میں نے کسی اور سے شادی کرنے کا من بنا لیا ہے۔ اس لئے انہوں نے پوچھا کہ بیٹی ٹھیک ہے ، ویسے اگر تمہاری نظر میں کوئی ہو تو بلا تکلّف بتا دو، ہم وہیں تمہارا رشتہ کر دیں گے ، ہمیں تمہاری عقل و فہم پر مکمل اعتماد ہے۔‘‘

’’اچھا۔ تو پھر جواب میں تم نے کیا کہا؟‘‘ عبدالسلام کی بے چینی میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔

نلنی بولی۔ ’’میں تو چاہتی تھی کہ فوراً آپ کا نام بتلا دوں لیکن پھر سوچا پہلے آپ سے پوچھ لوں ، کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے والدین آپ کے سامنے تجویز رکھیں اور آپ مسترد کر دیں۔ اُن کی بات کٹ جائے اور اُنہیں  مغموم ہونا پڑے۔‘‘

عبدالسلام نے کہا۔ ’’نلنی تم واقعی بہت سمجھدار ہو،  مجھ سے بھی زیادہ۔ تم نے مجھے ایک بڑی آزمائش سے بچا لیا۔ اگر وہ مجھ سے پوچھتے تو میں ہاں بھی نہیں کہہ پاتا اور نا بھی نہیں کر پاتا۔‘‘

’’کیوں؟ آخر کیوں؟ ‘‘

’’اِس لئے کہ آخر لوگ کیا کہیں گے ؟‘‘

نلنی بولی۔ ’’اگر آپ کے لئے لوگ مجھ سے زیادہ اہم ہیں تو میں کیا کر سکتی ہوں؟‘‘

عبدالسلام نلنی کے لب و لہجہ سے گھبرا گیا۔ بلا کا یاس تھا اُس میں ، اُس نے کہا۔ ’’نلنی مجھے افسوس ہے۔۔‘‘

لیکن اِس جملے کو سننے سے پہلے نلنی کمرہ نمبر نو دو گیارہ سے نو دو گیارہ ہو چکی تھی۔ نلنی اس واقعہ کے بعد اس قدر بد دل ہوئی کہ اُس نے ہندوستان چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ نلنی نے ناسا کی آفر قبول کر لی اور ہمیشہ کے لئے ملک چھوڑ کر چلی گئی۔

 

 

 

 

خزاں نا آشنا

 

نلنی نے ناسا میں جانے کے بعد عبدالسلام کو بھلا کر اپنے کام سے شادی رچا لی۔ دن رات اپنے آپ کو کام میں کھپائے رکھتی۔ کام وہ نشہ تھا جس میں  اس نے اپنے آپ کو غرق کر دیا تھا۔  ناسا کے لوگ اس کی ذہانت اور محنت، دونوں سے بے حد متاثر ہوئے تھے۔ نلنی تیزی کے ساتھ ترقی کے مدارج طے کرتی چلی جا رہی تھی۔ عرصۂ دراز کے بعد اِسرو کا ایک وفد عبدالسلام کی قیادت میں امریکہ روانہ ہوا۔ مختلف اداروں کا دورہ کرتے ہوئے جب وہ لوگ ناسا پہنچے تو نلنی جیونت نے اُن کا استقبال کیا، دس سال کی کڑی محنت نے نلنی کو خلائی شعبہ کا سربراہ بنا دیا تھا اور اِن دس سالوں کے اندر اُس کی عمر میں تقریباً تیس سال کا اضافہ ہو گیا تھا۔ اب تو وہ پچاس سالہ معمر خاتون لگنے لگی تھی۔ دیکھنے میں عبدالسلام سے بھی زیادہ ضعیف و لاغر۔

ناسا میں اِس دوران جدید خلائی تحقیقات کے موضوع پر بین الا قوامی کانفرنس کا بھی اہتمام تھا۔ ساری دُنیا کے نامور سائنسداں وہاں موجود تھے۔  دن بھر مختلف موضوعات پر گرما گرم مباحث ہوتے اور شام کے ہوتے ہی ماحول بدل جاتا۔ مغرب کے بعد ان لوگوں کے پاس سستانے کے لئے شراب اور شباب کے علاوہ کوئی اور متبادل نہ ہوتا تھا، اس لئے ہر شام کوئی نہ کوئی زبردست قسم کی پارٹی ہوتی، ناچ رنگ اور شراب کباب کا اہتمام ہوتا، لوگ بھول جاتے کہ وہ کون ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں؟ یہاں آنے کا مقصد کیا ہے ؟ بلکہ کوئی مقصد ہے بھی یا نہیں؟ اور لوٹ کر پھر کہاں جانا ہے ؟ اپنی زندگی سے متعلق ان بنیادی حقائق سے بے بہرہ یہ نام نہاد محقق اپنی زبانِ حال سے یہی کہہ رہے ہوتے کہ ’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست۔‘‘ اِن تقریبات میں کئی مرتبہ عبدالسلام اور نلنی ایک دوسرے سے ٹکرائے لیکن بات کرنے کا موقع آخری دن ملا۔

نلنی نے پوچھا۔ ’’آپ کیا سوچتے ہیں ، اب تو ہمارے درمیان عمر کا فاصلہ کم ہو چکا ہے اور میں آپ کے تحت کام کرنے والی ریسرچ اسکالر بھی نہیں ہوں۔‘‘

عبدالسلام کچھ دیر خلاؤں میں دیکھتے رہے اور پھر بولے۔ ’’نلنی! فی الحال میں ملک کے ایک نہایت ہی نازک اور خفیہ پروجیکٹ پر کام کر رہا ہوں اور اس درمیان میں ڈسٹرب ہونا نہیں چاہتا۔ میں سوچتا ہوں کہ کاش میں نے دس سال قبل تمہاری تجویز کو مان لیا ہوتا تو اب یہ آزمائش نہ آتی۔‘‘

’’کس آزمائش کی بات آپ کر رہے ہیں؟ میں کچھ سمجھی نہیں؟‘‘

’’قومی سلامتی سے متعلق اس خفیہ پروجیکٹ پر کام کے دوران اگر میں نے ایک غیر ملکی خاتون سے شادی کر لی تو لوگ کیا کہیں گے ؟‘‘

’’میں غیرملکی ہوں؟‘‘

’’ہاں نلنی! بدقسمتی سے تم فی الحال نہ صرف امریکی شہری ہو بلکہ ناسا کی ملازم بھی ہو۔‘‘

’’اگر ایسی بات ہے تو میں اس ملازمت کو چھوڑ کر بھارت لوٹ آؤں گی۔‘‘

’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے خفیہ اداروں کو شک ہو جائے  گا۔ اِس معاملے میں جو راز داری برتی جا رہی ہے ، میں اُسے بیان نہیں کر سکتا۔ سی۔  بی۔ آئی۔ والے اِس حوالے سے بے شمار شکوک و شبہات کا شکار ہو جائیں گے اور اصل کام تو کنارے رہ جائے گا، جانچ پڑتال کا ایک نیا دفتر کھل جائے گا۔‘‘

’’ڈاکٹر صاحب!‘‘ نلنی مسکرا کر بولی۔ ’’اس پراجیکٹ اور راز داری کو ایک طرف رکھیں اور اپنے دل سے پوچھ کر میرے سوال کا جواب دیں۔‘‘

عبدالسلام نے کہا۔ ’’انسان ایک خاص عمر تک دل کی بات مانتا ہے اور پھر دماغ کی، میں سمجھتا ہوں وطن کے حوالے جو میری ذمہ داری ہے ، اُس کا تقاضہ ہے کہ میں اِس نازک گھڑی میں ہر ایسی حرکت سے احتراز کروں جو میرے کام میں رُکاوٹ بن جائے۔ ورنہ۔۔ ورنہ لوگ کیا کہیں گے ؟‘‘

نلنی نے کہا۔ ’’لوگ جو کہیں گے ، سو کہیں گے۔ لیکن میں سمجھ گئی کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔‘‘ نلنی اُٹھ کر چلی گئی۔ پوکھرن دھماکوں کے شور میں اُس کی آواز دب گئی۔ عبدالسلام جوہری دھماکے کرتے رہے اور نلنی خلائی میزائل فضا میں چھوڑتی رہی۔ گردش لیل و نہار اُن دونوں کو دن بہ دن بوڑھا کرتا رہا۔

ہوٹل کے کمرے میں بیٹھی نلنی ٹیلی ویژن  کے پردے  پر اپنے ماضی کی فلم دیکھ رہی تھی۔ اب تو عمر کا فرق ختم ہو گیا ہے۔۔ ۵۰ اور ۷۰ سال کا فرق کون سا بڑا فرق ہے ؟ اور استاد اور شاگرد کا رشتہ نیز قومی و بین الاقوامی ذمہ داریاں۔۔ سب کچھ وقت کی چکی میں پس کر بھوسا بن چکی تھیں۔ لیکن ایک خواہش۔۔ ایک ارمان۔۔ جو اَب بھی ویسے ہی جوان تھا جیسا کہ آج سے تیس سال قبل تھا۔ روز و شب کی گردش سے بے نیاز ایک پھول جو خزاں نا آشنا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

صدارتی محل۔۔ جسے راشٹرپتی بھون بھی کہا جاتا ہے۔۔  ناسا کے وفد کی آمد کا منتظر تھا۔ شاندار عشائیہ کی تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں۔ ملک کے سبھی مشہور و معروف سیاستدان اور سائنسدان تشریف لا رہے تھے۔ یہ حسنِ اتفاق تھا کہ اِس مرتبہ سیاست کے سب سے اونچے مرتبے پر ایک سائنسداں براجمان تھا۔ ایسے میں رامو  نلنی سے ٹکرا گیا۔ نلنی نے اُسے نام لے کر پکارا۔ ’’رامو سنو۔۔ کیسے ہو تم؟‘‘

رامو دم بخود رہ گیا۔ نلنی جیونت اس کے سامنے کھڑی تھی۔ وہی آواز، وہی انداز،وہی مٹھاس،  وہی اپنائیت، وہی رعب۔۔ کچھ بھی تو نہ بدلا تھا۔

رامو نے کہا۔ ’’نلنی ہم تو ویسے ہی ہیں ، جیسے تھے اور وہیں ہیں جہاں تھے۔ اپنی سناؤ۔‘‘

نلنی بولی۔ ’’رامو میں کہاں ہوں ، میں نہیں جانتی؟ کیسی ہوں ، یہ بھی نہیں جانتی؟ بلکہ میں کیوں ہوں؟ اِس کا بھی مجھے علم نہیں؟ کچھ نہیں جانتی میں کچھ بھی نہیں جانتی؟‘‘

رامو بولا۔ ’’نہیں نلنی، ایسی بات نہیں۔ تم تو سب جانتی ہو۔ وہ تو ڈاکٹر صاحب ہیں جو نہیں جانتے ، بلکہ یہ بھی صحیح نہیں ہے۔ جانتے تو وہ سب کچھ ہیں لیکن نہیں مانتے۔‘‘

’’کیوں رامو؟ کیوں نہیں مانتے ؟‘‘

’’محض اِس لئے کہ لوگ کیا کہیں گے ؟‘‘

’’رامو۔۔ تم سب جانتے ہو۔‘‘

’’شاید۔۔ لیکن میرے جاننے یا نہ جاننے سے کیا ہوتا ہے ؟‘‘ رامو آگے بڑھ گیا اور نلنی پیچھے ہٹ گئی۔

اُس رات جب سارے مہمان روانہ ہو گئے تو بس ایک مہمان باقی رہ گیا۔۔ مس نلنی جیونت!

قصر صدارت کا مغل گارڈن اپنے اندر کھلنے والے گلابوں کے باعث ساری دُنیا میں مشہور تھا۔ موسمِ بہار کے دوران اُسے مختصر عرصے کے لئے عوام کی خاطر بھی کھول دیا جاتا تھا تاکہ وہ بھی آ کر دیکھ سکیں کہ قوم کا سربراہ کس ٹھاٹ باٹ کی زندگی گزار رہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ عوام کے سامنے سربراہِ مملکت کی بہار ہی لائی جاتی تھی۔ اپنی زندگی کے خزاں رسیدہ پتوں کو اسے خود اپنے ہاتھوں سے چننا پڑتا تھا۔ مس نلنی جیو نت اِسی مغل گارڈن میں گلاب کے پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو سے لپٹی عبدالسلام کا انتظار کر رہی تھی۔

سارا عالم پُر بہار تھا۔ مغل گارڈن کے گلاب حیران تھے کہ انہوں نے ایسی بسنت کی رات اس سے پہلے کبھی کبھی بھی نہیں دیکھی تھی۔ جیسے جیسے رات بھیگتی جاتی تھی، شبنم کی نمی کلیوں کو پھول بناتی چلی جاتی تھی، اور ہوا نئی کلی کی خوشبو سے فضا کو معطر کر تی جاتی تھی۔ چہار عالم میں خوشیوں کے تازیانے بج رہے تھے۔ شہنائی کی ہلکی سی دھن نلنی کے کانوں میں گونج رہی تھی۔ یہ ایسے لمحات تھے جن میں وہ نہ ناسا کے وفد کی سربراہ تھی اور نہ عبدالسلام سربراہ مملکت۔ وہ دونوں صرف اور صرف سلام اور نلنی  تھے۔۔ بس!‘‘

نلنی نے کہا۔ ’’دیکھو یہ آخری مرتبہ میں آپ سے پوچھ رہی ہوں۔ یہ میری آخری خواہش ہے۔ اس کے بعد یہ موقع پھر کبھی نہیں آئے گا۔ میری مانگ ہمیشہ ہمیش کے لئے سونی رہ جائے گی۔‘‘

عبدالسلام نے کہا۔ ’’نلنی، یوں نہ کہو۔ تم تو بہت بہادر لڑکی ہو۔ اپنا دِل چھوٹا نہ کرو۔‘‘

’’میں لڑکی ہوں؟ میرا دل چھوٹا ہے ؟ یہ آپ کہہ رہے ہیں؟‘‘

’’ہاں نلنی۔۔ ویسے تو یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ تم دُنیا کی نظر میں صفِ اوّل کی سائنسداں ہو۔ ناسا کی سربراہی کسی ایرے غیرے کا مقدر نہیں ہوتی۔ لیکن میرے لئے اب بھی وہی بھولی بھالی نلنی ہو جو کالج سے فارغ ہو کر اسرو آئی تھی۔‘‘

’’اور وہ دل والی بات؟‘‘

’’دراصل آج سے پہلے میں نے ہمیشہ تمہیں حوصلہ مند پایا۔ تم میری طرح بزدل اور مایوس کبھی نہیں تھیں ، اور بزدل تو اب بھی نہیں ہو۔ لیکن لگتا ہے کہ میری قنوطیت تمہاری ذات  پر بھی اثر انداز ہونے لگی ہے۔‘‘

’’ڈاکٹر صاحب ! یہ قنوطیت نہیں حقیقت ہے۔ آج میں خلاؤں سے آگے اپنا مستقبل دیکھ رہی ہوں۔‘‘

’’اچھا! آج تو تم  بہت آگے نکل گئیں نلنی۔ ان حدود کو عبور کرنے کی جرأت تو نیوٹن اور آئنسٹائن نے بھی نہیں کی تھی۔ اس بلندی پر سائنسدانوں کے پر جل جاتے ہیں۔‘‘

’’ڈاکٹر صاحب۔۔ میں فی الحال نہ کوئی سائنسدان ہوں اور نہ محقق۔ میں نلنی ہوں نلنی۔ میں ایک انسان ہوں۔۔ نہ پری نہ فرشتہ۔۔ مجھے اپنے پروں کے جلنے کا نہ خوف ہے اور نہ پرواہ۔‘‘ نلنی کے لب و لہجے میں بلا کی ترشی تھی۔

عبدالسلام نلنی کے یقین و اعتماد سے گھبرا گئے اور اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے بولے۔ ’’دیکھو نلنی۔۔ فی الحال میں صدر مملکت ہوں۔ ہندوستان نامی اُبھرتی ہوئی سپر پاور کا اوّلین شہری۔ ساری دنیا کی نگاہیں ہماری جانب مرکوز ہیں۔ لوگ ہمیں رشک و حسد سے دیکھتے ہیں۔ ایسے میں اگر میں چھینکتا بھی ہوں تو اخبار میں چھپ جاتا ہے ، ٹیلی ویژن پر میری صحت موضوعِ گفتگو بن جاتی ہے۔ میرے متعلق عالمی ذرائع ابلاغ کو کیا بتلایا جائے اور اُس سے کیا چھپایا جائے ، یہ طے کرنے کے لئے ایک سرکاری شعبہ کام کرتا ہے جو براہِ راست وزیرِ اعظم کی زیرِ نگرانی ہے۔‘‘

’’یہ سب تفصیلات آپ مجھے کیوں بتلا رہے ہیں؟ مجھے اِس پر نہ کوئی اعتراض ہے اور نہ اِن میں کوئی دلچسپی ہے۔‘‘

’’کیسی بچوں جیسی باتیں کرتی ہو نلنی؟ تم اب بھی بالکل ویسی ہی ہو جیسی تیس سال قبل تھیں۔‘‘ عبدالسلام نے مسکرا کر کہا۔

نلنی بولی۔ ’’میں کیسی ہوں یہ میں نہیں جانتی؟ اور میں کیسی تھی، یہ بھی ایک بے معنیٰ بحث ہے۔ لیکن میں یہ سمجھتی ہوں کہ میرا آپ کی عوامی زندگی سے نہ کوئی واسطہ پہلے تھا اور نہ اب ہے۔ میں تو آپ کی نجی زندگی کے بارے بات کر رہی ہوں۔‘‘ نلنی کا پارہ چڑھنے لگا تھا۔

عبدالسلام نے اپنے آپ کو سنبھالا اور بولے۔ ’’نلنی یہ نہ بھولو کہ یہ سب باتیں جو میں بتلا رہا تھا، میر ے اپنے بارے میں ہیں ، اور اگر تمہیں مجھ میں دلچسپی ہے تو تمہارا اپنے آپ ان سب  باتوں سے واسطہ پڑ جاتا ہے۔‘‘

’’لیکن میں یہ کہہ چکی ہو ں کہ میرا اِن پر نہ کوئی اعتراض ہے اور نہ اِن سے کوئی سروکار ہے۔ ان سب سے آپ جیسے چاہیں ، نمٹیں۔ میں ذرّہ برابر مداخلت نہیں کروں گی۔‘‘

’’مجھے پتہ ہے تم ایسا کوئی کام نہیں کروگی جو مجھے ناگوار ہو۔ لیکن سنو، میری یہ مجبوریاں عارضی نوعیت کی ہیں۔ میری میقاتِ صدارت کو صرف ایک سال کا عرصہ باقی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ دوبارہ اس ذمہ داری پر مجھے فائز نہیں کیا جائے گا، اور اگر ایسا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو میں صاف انکار کر دوں گا۔ اور اس بیچ تم بھی خاموشی سے استعفیٰ دے کر آ جانا۔ اُس وقت ہمارا ہر اقدام صرف اور صرف ہمارا ذاتی فیصلہ ہو گا۔ سرکار دربار سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو گا۔ جہاں اتنے سال صبر کیا، کچھ دن اور رُک جاؤ۔۔ ورنہ۔۔‘‘

’’ورنہ کیا۔۔؟ ورنہ وہی نا کہ لوگ کیا کہیں گے ؟ آپ رُک کیوں گئے صدر مملکت ڈاکٹر عبدالسلام۔۔ آپ کیوں نہیں بولتے ؟‘‘

عبدالسلام نے کہا۔ ’’نلنی جواب تو تم خود جانتی تو ہو! تب پھر میں کیا بولوں؟ جواب کی نہ حاجت ہے اور نہ ضرورت۔‘‘

نلنی بولی۔ ’’مجھے یقین ہے کہ ایک سال بعد یا دس سال بعد بلکہ سو سال بعد بھی اگر ہم لوگ اس موضوع پر گفتگو کریں گے تو مجھے یہی جواب ملے گا۔ لیکن ایسا موقع پھر کبھی نہیں آئے گا ڈاکٹر صاحب۔۔۔۔ میری بات مانیں ، میرا دل کہہ رہا ہے کہ اب یہ آخری موقع ہے۔‘‘

’’نلنی دل چھوٹا نہ کرو۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہو گا۔ ابھی تک جو نہیں ہوا تو آگے بھی نہیں ہو گا۔‘‘

’’یہی تو میں بھی کہہ رہی ہوں کہ ابھی تک جو نہیں ہوا۔ وہ آگے کیسے ہو گا؟ میرا دل نہ جانے کیوں بار بار کہہ رہا ہے۔۔ نلنی ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔‘‘

’’نلنی کیسی باتیں کرتی ہو! جب ہم نے تیس سال انتظار کر لیا تو مزید ایک سال اس میں کیا مشکل ہے ؟‘‘

’’آپ کے لئے تو کوئی مشکل نہ پہلے تھی اور نہ ابھی ہے۔ لیکن میرے لئے۔۔۔۔‘‘ الفاظ نے نلنی کا ساتھ چھوڑ دیا۔

’’میں سمجھتا ہوں۔ میں تمہارے احساسات و جذبات کی قدر کرتا ہوں نلنی۔ لیکن یہ میری مجبوری ہے۔‘‘

’’جناب صدر کی مجبوری؟ دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا اوّلین شہری، صدر مملکت بھی مجبور ہے۔ یہ میں کیسے مان لوں؟

تمہارے ماننے یا نہ ماننے سے حقیقت تو نہیں بدل جاتی؟ اور سچ تو یہی ہے نلنی کہ صدرِ مملکت مجبور ہے۔۔ کس قدر مجبور۔۔ بلکہ ایک عام آدمی سے بھی زیادہ مجبور ہے یہ خاص آدمی۔ بقول شاعر۔۔

مجبور ہیں ہم، مجبور ہو تم، مجبور یہ دنیا ساری ہے

اس دور میں جینے کی قیمت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘

نلنی نے عبدالسلام کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور بولی۔ ’’آج کی رات میں دار و رسن کا ذکر سننا نہیں چاہتی۔ اس لئے کہ یہ وصال کی شب ہے۔ جشن و مسرت کی رات، جو پھر کبھی لوٹ کر نہیں آئے گی۔ خدا حافظ۔‘‘

’’خدا حافظ۔۔ شب بخیر!‘‘

وہ دونوں اپنی اپنی جگہ ساکت کھڑے تھے۔ خاموشی کی دبیز چادر نے سارے عالم کو ڈھانپ دیا تھا، جسے رامو نے آ کر فاش کر دیا اور بولا۔ ’’رات کافی ہو چکی، چلو نلنی ورنہ۔۔‘‘

نلنی مسکرا کر بولی۔ ’’لوگ کیا کہیں گے ؟‘‘

رامو نلنی کو اس کے لئے مختص کردہ آرام گاہ تک لے گیا۔ اور خدا حافظ کہہ کر خود اپنی کٹیا کی جانب روانہ ہو گیا۔ وہ خواب میں چل رہا تھا۔

عبدالسلام رات بھر لان میں بیٹھے نلنی کی باتوں پر غور کرتے رہے۔ یہاں تک کہ رامو نے آ کر خبر دی کہ میم صاحب سو رہی ہیں ، گہری نیند میں سو رہی ہیں ، جاگ نہیں رہی ہیں۔

’’تو میں کیا کروں؟ سونے دو انہیں۔‘‘

’’نہیں صاحب! یہ نیند نہیں کوئی اور شہ ہے۔ وہ ہر روز علی الصبح چار بجے اُٹھ جانے کے عادی ہیں۔ میں جانتا ہوں سورج کے نکلنے اور ڈوبنے کا وقت بدلتا رہتا ہے ، لیکن نلنی کی بیداری کا وقت نہیں بدلتا۔ آپ چلئے ، دیکھئے ، جگائیے انہیں۔ کچھ کیجئے صاحب کچھ کیجئے۔‘‘

عبدالسلام کے قدم اپنی جگہ سے اُٹھے۔ وہ کسی روبوٹ کی طرح نلنی کے کمرے کی جانب بڑھ رہے تھے۔۔ احساسات و جذبات سے عاری روبوٹ۔

 

 

 

 

شب  وصال

 

نلنی کا کمرہ کھلا تھا۔ وہ اپنے بستر پر اطمینان سے لیٹی ہوئی تھی۔ اس کا مسکراتا ہوا پرسکون چہرہ دیکھ کر کوئی نہ کہہ سکتا تھا کہ اس کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر چکی ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ ابھی اُٹھے گی اور بولنے لگے گی۔۔ حسب معمول چہکنے لگے گی۔۔ اُٹھ کر یکلخت چل پڑے گی۔۔ اِدھر اُدھر پھدکنے لگے گی۔ لیکن اکثر جو لگتا ہے وہ ہوتا نہیں ہے اور جو ہوتا ہے وہ لگتا نہیں ہے۔ رامو پھر ایک بار ہلکے ہلکے قدموں کے ساتھ عبدالسلام کے پاس آیا اور بولا۔

’’یہ کیا ہو گیا میم صاحب کو؟ یہ اُٹھتی کیوں نہیں؟ ان کے جاگنے کا وقت ہو گیا ہے۔ وہ تو وقت کی اس قدر پابند ہیں کہ گھڑی سے دھوکہ ہو سکتا ہے لیکن اُن سے نہیں !‘‘

عبدالسلام نلنی کو ایک ٹک دیکھ رہا تھا کہ رامو چیخ کر بولا۔ ’’یہ خاموش کیوں ہیں ۔۔؟ یہ بولتی کیوں نہیں ۔۔۔۔؟‘‘

’’شور نہ کرو رامو۔۔ آہستہ بولو۔‘‘ عبدالسلام نے کہا۔ ’’میڈم سو رہی ہیں۔ یہ بہت ہی گہری نیند میں سو رہی ہیں۔ طویل عرصہ تلک بے آب گیا صحرا میں دوڑتے دوڑتے تھک گئی تھیں ، اس لئے گہری نیند لگ گئی ہے۔ لیکن تم جانتے ہو کہ اب کی بار یہ اُٹھیں گی تو پھر کبھی نہیں تھکیں گی۔‘‘

رامو نے پوچھا۔ ’’کیا مطلب؟ یہ زندگی کی شاہراہ پر پھر کبھی نہیں دوڑیں گی؟ کیا ان کا سفر تمام ہو گیا؟‘‘

’’ایسی بات نہیں رامو۔۔ یہ سفر ناتمام ہے۔ جیسے انسان ایک دن تھکتا ہے تو سو جاتا ہے ، تاکہ اگلے دن کے لئے تازہ دم ہو جائے۔ یہی کیفیت ہے اس زندگی کی۔۔ طویل دوڑ دھوپ سے جب کوئی تھک ہار کر بیٹھ جاتا ہے تو نیند کی بڑی بہن یعنی موت اس کو اپنی آغوشِ رحمت میں لے لیتی ہے۔‘‘

’’موت! موت بھی کوئی رحمت ہے ؟ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں صاحب؟‘‘

’’دیکھو رامو۔۔ موت کو ہم رحمت سمجھیں یا زحمت۔۔ یہ ہمارے اپنے اختیار میں ہے۔ لیکن ایسا سمجھنے سے موت کی حقیقت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اس سے کسی کو مفر نہیں ہے۔ ہر کسی کو ایک وقتِ مقرر پر اُسے گلے سے لگانا ہی پڑتا ہے۔ اب یہ اس کی مرضی کہ وہ اس سے مسکراتے ہوئے مصافحہ کرے یا روتے ہوئے اس کے پنجے میں جکڑ لیا جائے۔‘‘

’’کیسی باتیں کرتے ہیں صاحب؟ اس دُنیا میں کون ایسا ہے جو اپنی موت سے مسکرا کر ملنا چاہتا ہے ؟‘‘

’’کون؟ یہ تمہارے سامنے لیٹی ہوئی نلنی تمہیں نظر نہیں آتی؟ کیا تم اس کے چہرے پر پھیلی ہوئی ہنسی کو نہیں دیکھ سکتے ؟‘‘

رامو بولا۔ ’’نہیں ! میں اندھا ہو چکا ہوں۔ میری آنکھیں بے نور ہو چکی ہیں۔ مجھے کچھ بھی نظر نہیں آتا، نہ خوشی دکھائی دیتی ہے اور نہ غم۔ نہیں میں نے غلط کہا۔ مجھے تو سارا جہا ن غمگیں نظر آتا ہے۔ افسردہ اور سوگوار سارا سنسار۔۔۔۔‘‘ رامو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔

’’اپنے آپ کو سنبھالو رامو۔ موت دراصل دُنیا کی فانی زندگی کا انجام ضرور ہے ، لیکن ابدی حیات کا ایک مرحلہ بس ہے۔ جس طرح اِس دُنیا کی محدود زندگی کو موت فنا کر دیتی ہے ، اُسی طرح  موت کو بھی ایک دن فنا کے گھاٹ اُترنا ہے۔ اس فانی دُنیا کی ہر چیز کے ساتھ بشمول زندگی اور موت کے فنا کا عیب لگا ہوا ہے۔ لیکن اس زندگی کے بعد جو ابدی و سرمدی حیات ہے ، اس میں زندگی کو نہیں بلکہ موت کو موت سے دوچار ہونا پڑے گا۔ جب فنا کو فنا کر دیا جائے گا تو ہر شہ کو جاودانی حاصل ہو جائے گی۔‘‘

رامو بولا۔ ’’صاحب۔۔ میں آپ کا فلسفہ نہیں سمجھ سکتا۔ مجھے نہ زندگی چاہئے اور نہ موت چاہئے۔ میں تو صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اگر نلنی کو جانا ہی تھا تو آئی ہی کیوں تھی؟ اور جب آ ہی گئی تھیں تو پھر چلی کیوں گئی؟ اور آج کے دن! آج ہی کے دن اس نے جانے فیصلہ کیوں کیا؟ آج تو اس کے ارادے کچھ اور تھے۔ اس نے اپنا ارادہ بتلاتے ہوئے کل مجھ سے کہا تھا، رامو ایک تیس سال پرانا خواب شرمندہ تعبیر ہونے جا رہا ہے۔ کل میری زندگی کا اہم ترین دن ہے۔ تم دعا کرو کہ کوئی گڑبڑ نہ ہو جائے۔ لیکن وہ کل؟ وہ کل کہاں چلا گیا؟ آج کے بعد کل آتا ہے ، لیکن یہ کیا ہو گیا کہ آج کے بعد آج آ گیا۔ حالانکہ میں نے دُعا کی تھی، دل سے دُعا کی تھی کہ وہ کل ضرور آئے۔ مجھے کل چاہئے۔ وہ کل۔۔ جس کا انتظار نلنی نے تیس سالوں تک کیا تھا۔ وہ کل۔۔ جس کے آج کو آج یقیناً آنا تھا۔ وہ کل۔۔ وہ کل۔۔‘‘ رامو پھر سے رونے لگا۔

عبدالسلام بولے۔ ’’رامو۔۔ تم کس کل، آج اور کل کی باتیں کر رہے ہو۔ اِس دُنیا میں کچھ بھی تو یقینی نہیں ہے۔ آج اور کل سب کچھ امکانی ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ کل کا  آج کیسے گزرے گا اور آج کا کل کیسا ہو گا؟ نلنی نے نہ تو آنے کا ارادہ کیا تھا اور نہ جا نے کا فیصلہ کیا۔ انسان اپنی زندگی کے یہ اہم ترین فیصلے بھی خود نہیں کرتا۔ یہ فیصلہ چونکہ  نلنی نے نہیں کیا، اس لئے ہمیں اس سے شکایت نہیں ہونی چاہئے اور جس ذاتِ بر حق نے کیا ہے ، اس کا ہر فیصلہ برحق ہے۔ کسی کام کے لئے سب سے بہتر وقت کون  سا ہے ، یہ اس بہتر کوئی نہیں جانتا۔‘‘

رامو بو لا۔ ’’صاحب میں شکایت نہیں کر رہا۔ میں کون ہوتا ہوں شکایت کرنے والا، جب  نلنی کو کوئی شکایت نہیں۔ وہ مسکرا رہی ہیں۔ آپ کو شکایت نہیں ہے تو مجھے شکایت کا کیا حق پہنچتا ہے۔ مجھے بھی شکایت نہیں ہے۔ لیکن میں غمگین ضرور ہوں۔۔ اس فیصلہ سے میں غمگیں ہوں صاحب۔۔ میں بہت غمگین ہوں۔‘‘

میں تمہارے غم میں شریک ہوں۔ ہمارے لئے اس غم میں اجر و ثواب ہے رامو۔۔ اجر و ثواب!‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

نلنی کی موت کی خبر اس کے بوڑھے ماں باپ پر بجلی بن کر گری۔ وہ وجے واڑہ سے دہلی نلنی سے ملاقات کے لئے آنا چاہتے تھے ، لیکن نلنی نے ان سے کہا آپ لوگ مجھے اس قدر شرمندہ نہ کریں ، میں اپنے سرکاری کاموں سے فارغ ہو کر بذاتِ خود آپ سب سے ملنے آؤں گی۔ نلنی نے یہ بھی کہا تھا کہ اس بار وہ اپنے ساتھ اُن کے لئے ایک خوشخبری بھی لائے گی؟ ضعیف والدین کے لئے کنواری بیٹی کی جانب سے صرف ایک ہی خبر ایسی ہوتی ہے جسے وہ خوشخبری شمار کرتے ہیں ، اُنہیں یقین تھا کہ خبر وہی ہو گی، لیکن پھر بھی انہوں تفصیلات جاننے کی کوشش نہیں کی۔ سوچا، جہاں اتنے سال صبر کر لیا، تو کچھ دن اور سہی۔ لیکن سارے خواب اچانک چکنا چور ہو گئے۔ نلنی اپنے خوابوں اور خبروں کے ساتھ نہ جانے کہاں چلی گئی؟ وہ اپنے ضعیف والدین سے کیا گیا آخری وعدہ وفا نہ کر سکی تھی۔

برسوں بعد لوٹ کر آنے وا لی بیٹی کے لئے اُس کے ماں باپ نے مختلف منصوبے بنا رکھے تھے۔ انہوں نے  سوچ رکھا تھا کہ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ تروپتی کی یاترا پر جائیں گے اور اگر خوشخبری وہ  نہ ہوئی جس کی وہ دل ہی دل میں تمنا کر رہے تھے ، تو اُس کی شادی کے لئے منت ما نگیں گے۔ اس عمر میں بھی وہ مایوس نہیں ہوئے تھے ، پُر اُمید تھے کہ اُن کی بیٹی کا گھر  ایک نہ ایک دن ضرور بسے گا۔ لیکن نلنی ان سب کی تمام اُمیدوں پر پانی پھیر کر د اغ مفارقت دے گئی تھی۔ نلنی کی ماں نے فیصلہ کیا کہ وہ زندہ نہ سہی تو کم از کم نلنی کی  میت کے ساتھ تروپتی جائے گی اور اس کا انتم سنسکار وہیں کروائے گی۔ نلنی کے والد نے سمجھایا۔

’’تو پاگل ہو گئی ہے ! دہلی سے نلنی کی لاش کا یہاں لانا کوئی آسان کام ہے ؟ پھر یہاں سے تروپتی گو کہ قریب ہے ، پھر بھی ہم دونوں کے علاوہ اور کون ہے ہمارا قریبی رشتہ دار۔۔ جو اس کام میں ہماری مدد کر سکے ؟ عمر کے اس حصہ میں ہم یہ سب انتظامات نہیں کر سکیں گے۔ اس لئے ایسا کرتے ہیں کہ ہم دہلی چلے چلتے ہیں۔ وہاں نلنی کا آخری دیدار کر لیں گے اور وہیں اُس کی آخری رسومات میں شریک ہو جائیں گے۔‘‘

نلنی کی ماں کے لئے یہ تجویز قابل قبول نہیں تھی، وہ بولی۔ ’’آپ کیسی باتیں کرتے ہیں؟ نلنی کا جسدِ خاکی دہلی سے یہاں نہیں آسکتا۔۔؟ لوگ  تو میت امریکہ سے یہاں منگوا لیتے ہیں۔ اگر قدرت اُسے زندہ و تابندہ امریکہ سے دہلی لے آئی تو دہلی سے تروپتی کون سی مشکل ہے ؟ اور تم نہیں جانتے ، نلنی کس کی مہمان ہے ؟ کیا ملک کا صدر اتنا معمولی سا کام نہیں کروا سکتا۔ یقیناً کروا سکتا ہے۔‘‘

بالآخر نلنی کے والد نے اپنی بیوی کے آگے ہتھیار ڈال دیئے اور ڈاکٹر عبدالسلام کو فون پر اپنی آخری بلکہ پہلی اور آخری خواہش بتلا دی۔ عبدالسلام کے نزدیک یہ ایک غیر عقلی مطالبہ تھا لیکن اس کے باوجود وہ بوڑھے ماں باپ کی تالیفِ قلب کے لئے خاموش رہے اور انہیں یقین دلایا کہ وہ اس کام کو بحسن و خوبی انجام پذیر کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھیں گے۔

نلنی ناسا کے ایک اہم شعبہ کی سربراہ تھی۔ اُس کی موت سیاسی حلقو ں میں تشویش کا سبب بن گئی، ذرائع ابلاغ نے اسے لے کر ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا۔  طرح طرح کے اندیشوں اور شکوک و شبہات کا بازار گرم ہو گیا۔ ٹی۔وی چینل والے  نلنی کی موت کا فائدہ اُٹھا کر اپنے چینل کے ناظرین کی تعداد میں اضافہ کرنے میں لگ  گئے۔ ان میں سے کسی کو نلنی کی موت پر نہ کوئی افسوس تھا اور نہ اس کے عزیز و  اقارب سے کوئی ہمدردی۔ کچھ دیسی چینل والوں کے نمائندے وجے واڑہ میں نلنی کے والدین تک جا پہنچے ، جن کا واحد مطالبہ تھا کہ نلنی کا انتم سنسکار تروپتی میں ہونا چاہئے۔ انہوں نے برملا اس بات کا بھی اظہار کر دیا تھا کہ راشٹرپتی نے لاش تروپتی پہنچانے کے لئے اپنے رسوخ استعمال کرنے کا یقین دلایا ہے۔ نلنی کی لاش سرکاری سرد خانے میں پڑی برف بن چکی تھی، لیکن باہر ذرائع ابلاغ میں اب نت نئی قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہو گیا تھا۔ کئی چینل والے صدر محترم سے استفسار کرنا چاہتے تھے ، لیکن وہ خود ملاقات سے احتراز فرما رہے تھے۔

اس سے پہلے کے حکومت ہند اس معاملے میں اپنا سرکاری موقف واضح کرتی، امریکی خفیہ ایجنسی سی۔ آئی۔ اے۔ حرکت میں آ گئی اور اس نے حکومت ہند سے مطالبہ کیا کہ وہ فوراً سے پیشتر نلنی کی لاش کو امریکہ بھجوانے کا انتظام کرے ، تاکہ وہاں لاش کا پوسٹ مارٹم کر کے اس کی موت کی وجہ دریافت کی جا سکے۔ زر خرید صحافیوں نے امریکی موقف کی حمایت میں تجزیاتی مضامین لکھنے شروع کر دئیے اور نلنی کی موت کے پسِ پشت اسلامی دہشت گردی کا امکان ظاہر کرنے لگے۔

صدر دفتر سے اس بات کی تصدیق کی جاچکی تھی کہ نلنی کی موت حرکتِ قلب بند ہونے کے باعث ہوئی ہے۔ ملک کے ماہرین قلب نے پریس کانفرنس میں اس حقیقت کا اعلان کر دیا تھا، لیکن امریکی انتظامیہ کے لئے یہ بات قابل تسلیم نہیں تھی۔ ان کو اپنے علاوہ کسی پر اعتبار نہیں تھا۔ یہ اور بات ہے کہ ساری دنیا کا امریکی انتظامیہ کے اوپر سے اعتبار اُٹھ چکا تھا، بلکہ وہ خود اپنے آپ پر سے بھی کم ہی اعتماد کرتے تھے ، چونکہ کسی چوٹی کی امریکی دفاعی سائنسدان کے دیارِ غیر میں داغِ  مفارقت کا واقعہ پہلی مرتبہ پیش آیا۔ اس لئے امریکی محکمۂ دفاع نے اس مسئلے کو بڑی  سنجیدگی سے لیا تھا۔

حقیقت تو یہ تھی کہ نلنی کی موت خود اس کے اپنے مادرِ وطن میں ہوئی تھی، لیکن امریکی اس بات کو سمجھنے سے قاصر تھے۔ وہ حکومت ہند پر مسلسل دباؤ بڑھا رہے تھے تاکہ جلد از جلد نلنی کی لاش کو واشنگٹن روانہ کروایا جا سکے۔ اس دوران صدارتی محل سے یہ اعلامیہ جاری ہو گیا کہ صدر محترم بذاتِ خود یہ چاہتے ہیں کہ نلنی کے والدین کے جذبات کا احترام کیا جائے اور لاش کو وجے واڑہ روانہ کیا جائے۔

صدرِ محترم کے مذکورہ بیان سے ان کے اور وزیر اعظم کے درمیان اختلاف  رونما ہو گیا۔ وزیر اعظم اس بات پر سخت ناراض تھے کہ اس قدر اہم فیصلہ کرنے سے قبل اُن سے توثیق کیوں نہیں کرائی گئی اور اسے نشر بھی  کر دیا گیا۔ وہ چاہتے تھے کہ صدر محترم کی جانب سے اس کی تردید ہو اور ایک لاش کو لے کر امریکہ سے تعلقات خراب نہ کئے جائیں۔ لیکن صدر محترم کے لئے یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں تھا جس کے لئے وزیر اعظم سے اجازت حاصل کی جاتی۔ وہ نلنی کے اپنے ملک میں والدین کی مرضی کے مطابق انتم سنسکار کو امریکہ سے مبینہ تعلقات سے زیادہ اہم خیال کرتے تھے۔ اس لئے وہ اپنے فیصلہ پر ڈٹے رہے۔

امریکہ کی دلیل یہ تھی کہ نلنی نے امریکی شہریت اختیار کر لی ہے ، اس لئے اس پر ہندوستانی حکومت کا اختیار ختم ہو گیا ہے۔ اب امریکی حکومت کو مکمل اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے شہری اور اپنے ملازم کے ساتھ جو چاہے سلوک کرے۔۔ اس سے علی الرغم کہ وہ زندہ ہے یا مردہ۔ لیکن صدر محترم کے لئے یہ دلیل قابل قبول نہیں تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ شہریت کے بدل جانے سے انسانی رشتے تبدیل نہیں ہو جاتے۔ نلنی ہر صورت میں اپنے ماں باپ کی بیٹی ہے۔ ہندوستانی یا امریکی شہریت والدین اور اولاد کے درمیان رشتہ پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ نلنی کی آخری رسومات کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق صرف اور صرف اس کے وارثین کو ہے ، نہ کہ حکومت کو! اور نلنی کے وارث فی الحال اس کے بوڑھے ماں باپ ہیں۔

 

 

 

 

موت کی سیاست

 

 

کبیر داس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُن کی لاش پھولوں میں تبدیل ہو گئی تھی جنھیں دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ لیکن نلنی کی لاش چار سمتوں میں تقسیم ہو گئی تھی۔ اس کے مشرق اور جنوب میں صدر جمہوریہ اور نلنی کے والدین تھے اور مغرب اور شمال میں حکومت امریکہ اور حکومت ہند۔ نلنی جس کی زندگی  نہایت پُرسکون تھی، اپنی موت کے ذریعہ ایک عظیم خلفشار پیدا کر گئی تھی۔ لیکن اسے اس کا شعور نہ تھا۔ ان تمام ہنگاموں سے بے نیاز نلنی سردخانہ میں پرسکون گہری نیند سو رہی تھی۔ سیاسی سطح پر اس معاملے کو سلجھانے کے لئے پہلے تو سکریٹریز کی مدد لی گئی، جو وزیر اعظم اور صدر کی ترجمانی کرتے تھے۔ لیکن جب معاملہ اُن کے درمیان طے نہ ہو سکا تو وزیر اعظم نے بہ نفسِ نفیس صدرِ محترم سے ملاقات کرنے کا ارادہ فرمایا۔

یہ ایک خفیہ ملاقات تھی، عبدالسلام کی صدارتی میقات کے چار سالوں میں کئی نازک مواقع آئے ، لیکن کبھی بھی اس طرح کی نشست کا اہتمام نہیں ہوا۔ اس نشست میں وزیر اعظم کے ساتھ وزیر دفاع، وزیر خارجہ اور ان میں سے ہر ایک کا ایک سکریٹری موجود تھا۔ ان تینوں میں سے  ایک دراصل سی۔ آئی۔ اے۔ کا ایجنٹ بھی تھا۔ صدر محترم نے اپنے کسی معاون کو نشست میں شریک کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ ایک رامو تھا جو اُن کی خدمت پر مامور ہمہ تن گوش تھا۔ رامو کے جسم میں گویا نلنی کی ماں کی آتما سرائیت کر گئی تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ نلنی کی میت ہر صورت تروپتی جائے۔ اسے خوف تھا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو نلنی کے والدہ کی حرکت قلب بند ہو جائے گی اور اس کی موت کا الزام ان لوگوں کے سر ہو گا جن لوگوں نے نلنی کی لاش کو امریکہ روانہ کر دیا۔

وزیر اعظم نے گفتگو کا آغاز اظہار افسوس سے کیا۔ انہوں نے عبدالسلام اور نلنی کے درمیان دیرینہ تعلقات کا اعتراف کیا اور کہا کہ عبدالسلام کو ہونے والے صدمہ میں وہ خود بھی برابر کے شریک ہیں۔ لیکن اس کے باوجود جو ہونا تھا، سو ہو چکا۔ نلنی اس دنیا سے جا چکی۔ حکومت امریکہ اس بات پر بضد ہے کہ نلنی کا پوسٹ مارٹم پنٹاگون کے ہسپتال میں ہونا ضروری ہے۔ اس لئے اس معاملہ کو طول نہ دیا جائے۔

’’کیا انہیں ہم پر اور ہمارے ڈاکٹروں پر اعتبار نہیں ہے ؟‘‘ صدر صاحب نے سوال کیا۔

’’یقیناً ہے۔۔ لیکن یہ امریکی پروٹوکول کا معاملہ ہے۔‘‘

’’کیا پروٹوکول کی خاطر ماں باپ کے احساسات و جذبات کو سولی پر لٹکایا جا سکتا ہے ؟‘‘

’’لیکن اصول و ضوابط کا پاس و لحاظ بھی تو ضروری ہے۔‘‘

’’کیا انسانی ہمدردی اور رواداری سے ان اصول و ضوابط کو دُشمنی ہے ؟‘‘

صدر محترم وزیر اعظم کے ہر جواب پر نیا سوال کر دیتے تھے۔ بالآخر وزیر اعظم نے بیزار ہو کر سوال کر دیا کہ کیا ہم ایک لاش کو لے کر اس نازک موقع پر جب کہ جوہری توانائی کا بل پاس ہونے والا ہے ، امریکہ کو ناراض کرسکتے ہیں؟‘‘

صدر محترم نے جواب دیا۔ ’’میرے نزدیک فی الحال نلنی کے ماں باپ کی ناراضگی زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ اس لئے کہ وہ حق پر ہیں۔‘‘

’’مسئلہ حق اور ناحق کا نہیں ہے ، بلکہ اُس حق کی قیمت کا ہے جسے پوری قوم چکائے گی۔‘‘

’’مسئلہ قیمت چکانے کا نہیں ، وصول کرنے کا ہے۔ کیا ہمیں ایک لاش کی آخری رسومات کو اپنے طریقہ سے ادا کرنے کا بھی اختیار نہیں ہے ؟ کیا ہمیں اس کے لئے بھی امریکی انتظامیہ سے اجازت لینی ہو گی؟‘‘

وزیر اعظم اس ردّ عمل پر چونک پڑے اور بولے۔ ’’آپ کی ہر بات بجا، لیکن کیا اس حقیقت کا اِنکار ممکن ہے کہ نلنی نے امریکی شہریت اختیار کر لی تھی؟ کیا وہ اُن کے ملک میں  ملازمت نہیں کرتی تھی؟‘‘

’’جی ہاں ، آپ نے صحیح فرمایا۔ لیکن یہ سب اُس وقت کی بات ہے جب وہ زندہ تھی۔ اب وہ زندہ نہیں ہے۔ اب وہ ایک لاش ہے اور اُس لاش کے وارث امریکی نہیں بلکہ اس کے ماں باپ ہیں جو ہندوستانی ہیں۔۔ اور اُن کے اِس حق سے اُنہیں کوئی محروم نہیں کرسکتا۔‘‘

وزیر اعظم نے دباؤ کا جو طریقہ اختیار کیا تھا، وہ بے اثر ہو گیا۔ اب وہ مصالحت پر اُتر آئے۔ انہوں نے کہا۔ ’’ہمیں اس مسئلہ کا کوئی ایسا حل نکالنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ جو تمام فریقین کے لیے قابلِ قبول ہو اور اس معاملے میں آپ کا تعاون بے حد اہمیت کا حامل ہے۔‘‘

صدر محترم نے تائید کی اور بولے۔ ’’یہ معقول بات ہے ، لیکن یہ حل عدل و انصاف پر مبنی ہونا چاہیے۔‘‘

وزیر اعظم نے اتفاق کرتے ہوئے تجویز پیش کی۔ ’’کیوں نہ نلنی کے والدین  کو لاش کے ساتھ امریکہ روانہ کرٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍدیا جائے ، تاکہ وہ انتم سنسکار میں شریک ہو سکیں اور اُن کے آمد و رفت کا انتظام حکومت کی جانب سے کروا دیا جائے ؟‘‘

صدر مسکرائے وہ بولے۔ ’’آپ کی تجویز سن کر مجھے ایک اور حل سجھائی دیا۔ کیوں نہ ان ڈاکٹروں کو، جو پنٹاگون میں پوسٹ مارٹم کرنے والے ہیں ، ہندوستان بلا لیا جائے اور وہ یہاں دوبارہ پوسٹ مارٹم کر کے اپنی رپورٹ اپنے ساتھ لے جائیں اور بذاتِ خود اس کو پنٹاگون کے دفتر میں پیش کر دیں؟‘‘

وزیر دفاع کا سکریٹری، جو وزیر اعظم کے بغل میں بیٹھا ساری گفتگو سن رہا تھا، بولا۔ ’’جناب۔۔ بات یہ ہے کہ امریکی حکومت نے اِسے انا کا مسئلہ بنا لیا ہے۔ وہ لوگ اس تجویز پر راضی نہیں ہوں گے۔‘‘

’’اگر ایسا ہے تو اپنی بلا سے ضد پر اَڑے رہیں۔ میں بھی کوئی مصالحت نہیں کروں گا۔‘‘ صدر محترم نے صاف جواب دے دیا۔

میٹنگ میں موت کی خاموشی چھا گئی۔ اس خاموشی کو وزیر اعظم نے توڑا۔ وہ بولے۔ ’’جناب صدر! آپ نے شاید جذبات میں فیصلہ کر لیا ہے اور آپ اپنے اصرار کے نتائج پر توجہ نہیں فرما رہے ہیں۔‘‘ اس جملے کے پیچھے ایک دھمکی پنہاں تھی۔

’’جی نہیں ، ایسا نہیں ہے۔‘‘ صدر نے رامو کو آواز دی اور اُس سے کہا۔ ’’رامو، میز پر پڑا لفافہ لا کر اِن کو دے دو۔‘‘

رامو اپنے ہاتھ میں ایک سرخ لفافہ لے کر آگے بڑھا۔۔ وہ لفافہ جس سے نلنی کا تازہ تازہ خون ٹپک رہا تھا۔ رامو نے لفافہ وزیر اعظم کو پکڑا دیا اور دروازے میں جا کر بت بن گیا۔

وزیر اعظم نے حیرت سے لفافہ ہاتھ میں لے کر کہا۔ ’’یہ کیا ہے۔۔؟ استعفیٰ۔۔!!‘‘

’’آپ نے ایک لاش کی خاطر اتنا بڑا فیصلہ کر لیا؟ کیا آپ نے سوچا کہ جب یہ خبر نشر ہو گی تو لوگ کیا کہیں گے ؟‘‘

عبدالسلام نے جواب دیا۔ ’’جناب والا! مجھ کو اس سے غرض نہیں کہ لوگ کیا کہیں گے ؟ میں تو یہ جانتا ہوں کہ میں کیا کہہ رہا ہوں اور میں اسی کے لئے ذمہ دار ہوں۔ آپ یقین جانیں ، میں علی الاعلان صرف وہی سب کہوں گا، جو میں نے آپ کے سامنے کہا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ اور نہیں کہوں گا۔‘‘

رامو دروازے پر کھڑا کھڑا سوچ رہا تھا۔۔ ’’کاش یہ خیال صدر محترم کو تیس سال قبل آیا ہوتا۔ کاش اُس وقت انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہوتا، جب نلنی نے پہلی مرتبہ اُن کے سامنے شادی کی تجویز رکھی تھی۔ لیکن نہیں ، اگر اس وقت یہ ہو گیا ہوتا تو نلنی ناسا کی سربراہ نہ ہوتی۔ اس طرح اس کی حادثاتی موت واقع نہ ہوتی۔ یہ صورتحال رونما نہ ہوتی اور ڈاکٹر عبدالسلام کو صدر کی حیثیت سے استعفیٰ دینے کی نوبت نہ آتی۔ اس فیصلہ کو چونکہ آج اور اسی وقت، اس طرح ہونا تھا، تو یہ پہلے کیسے ہو جاتا؟‘‘

نشست برخواست ہو رہی تھی۔ صدر محترم مسکرا رہے تھے اور دیگر تمام شرکاء کے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔ میٹنگ سے باہر نکلتے ہوئے وزیر دفاع کے سکریٹری نے وزیر اعظم کے کان میں کہا۔ ’’اس پیچیدہ صورتحال سے نکلنے کا بہترین راستہ یہی ہے کہ اس استعفیٰ کو جلا دیا جائے اور یہ خبر اُڑا دی جائے کہ صدر محترم کا بھی حرکتِ قلب بند ہو جانے کے باعث انتقال ہو گیا ہے۔اسی کے ساتھ ایک ہفتہ کے قومی سوگ کا اعلان کر دیا جائے۔ لوگ اپنے آپ نلنی کو بھول جائیں گے اور اس کے ماں باپ بھی صدر محترم کی آخری رسومات میں شریک ہو کر اپنے آپ کو مطمئن کر لیں گے۔‘‘

تمام حضرات ایک قافلے کی شکل میں نکلے۔ وزیر اعظم کے  گھر پہنچنے کے بعد انہوں  نے تینوں سکریٹری حضرات کو کچھ کھا پی لینے کا مشورہ دیا۔ یہ واضح اشارہ اس بات کا تھا کہ اب جو خصوصی نشست  ہونے جا رہی اس میں اُنہیں شرکت کی اجازت نہیں ہے۔ خیر، تینوں حضرات دیوان خانے سے لگے مہمان خانے میں جا پہنچے جہاں نوکر چا کر اُن کی خدمت میں لگ گئے۔ تینوں  نے اپنی اپنی پسند کی شراب منگوائی اور گپ شپ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ وزیر اعظم  کے سکریٹری بھٹاچاریہ نے کہا۔ ’’یار مشرا  جی، آپ نے تو چٹکیوں میں مسئلہ حل کر دیا۔‘‘

مشرا جی وزیر دفاع کے سیکریٹری تھے۔ مشرا جی نے کہا۔ ’’شکریہ ، شکریہ۔‘‘

بھٹاچاریہ بولے۔ ’’ہم ایسا کیوں نہ کریں کہ صدر محترم کی ایک  جعلی وصیت شائع کروا دیں ، جس میں اس بات کا اظہار کیا گیا ہو کہ وہ چاہتے  ہیں کہ اُن کی تدفین تروپتی میں ہو۔ اس سے کہانی میں زبردست موڑ آ جائے گا۔‘‘

’’جی ہاں بھٹاچاریہ۔۔ اِس سے ذرائع ابلاغ کے وارے نیارے ہو جائیں گے۔ وہ اس خبر کو مختلف رنگوں میں اُچھالیں گے اور ہندتوا وادی لوگ بھی خوش ہو جائیں گے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایک ایسے شخص کو صدر بنایا جس نے تمام عمر نہ صرف ہندوؤں کی طرح زندگی بسر کی بلکہ مرتے ہوئے بھی ہندو دھرم سے عقیدت کا اظہار کر گیا۔‘‘ مشرا جی خوش ہو کر اپنے مشورے کو دھار دینے لگے۔

بھٹاچاریہ نے تائید کی اور بولا۔ ’’جی ہاں ، اس ترکیب  کے شش جہت فائدے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس سے اصل تنازعہ عوام کی نظروں سے اوجھل ہو جائے گا اور نلنی کے والدین کو دہلی آنے کی زحمت بھی نہیں اُٹھانی پڑے گی۔‘‘

دونوں لوگ زور زور سے ہنسنے لگے۔ لیکن وزیر خارجہ کا سکریٹری وینکٹ سوامی گم سم بیٹھا تھا۔ مشرا جی کو اس کی اُداسی اچھی نہیں لگی۔ انہوں نے کہا۔ ’’ابے او سوامی کے بچے۔۔ تجھے کیا ہو گیا؟ توُ تو اَبھی سے صدر صاحب کی موت کا سوگ منانے لگا ہے یا نلنی سے تجھے بھی کوئی۔۔۔۔‘‘

سوامی نے بھڑک کر کہا۔ ’’بکواس بند کرو۔۔! تم دونوں کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ تم یہ نہیں جانتے کہ تروپتی میں صرف ہندو دفنائے جا سکتے ہیں۔ غیر ہندو کو اس کی اجازت نہیں ہے۔‘‘

بھٹاچاریہ نے کہا۔ ’’کیا؟‘‘

و یسے بھی صدر محترم ہم جیسوں سے اچھے ہندو ہیں۔۔ بے وقوف، اور پھر سربراہِ  مملکت بھی تو ہیں۔‘‘

’’وہ جو بھی ہیں ، مسلمان ہیں اور مسلمان کو اس مقدس سرزمیں پر دفنایا نہیں جا سکتا۔  چاہے صدر مملکت ہی کیوں نہ ہو۔ یہ دھرم کی آستھا کا سوال ہے۔‘‘

مشر اجی بولے۔ ’’لیکن کیا تروپتی میں مسلمان نہیں رہتے ؟‘‘

’’رہتے  ہیں۔‘‘ وینکٹ سوامی نے جواب دیا۔

’’اچھا۔۔  تو کیا وہ نہیں مرتے ؟‘‘

’’کیسی باتیں کرتے ہو مشرا جی؟ اگر جیون ہے تو ساتھ میں مرتیو بھی ہے ہی۔‘‘

’’تو کیا وہاں مرنے والے مسلمانوں کی تدفین نہیں کی جاتی؟ اُنہیں جلا کر اُن کی راکھ ہوا میں اُڑا دی جاتی ہے ؟‘‘

’’دیکھئے مشرا جی۔۔ بات دراصل یہ ہے کہ تروپتی شہر کے حدود سے باہر ایک مسلم قبرستان ہے جہاں مسلمان اپنے مرنے والوں کی لاشوں کو لے جا کر دفن کر دیتے ہیں۔‘‘

بھٹاچاریہ نے کہا۔ ’’لیکن ہمارے وشو ہندو  پریشد والوں کو جب ذرائع ابلاغ سے پتہ چلے گا کہ ایک مسلمان کو تروپتی میں دفنایا جا رہا ہے تو وہ ہنگامہ کھڑا کر دیں گے اور اس معاملے کو سیاسی رنگ دے دیں گے۔‘‘

مشرا جی بولے۔ ’’تب تو اور بھی مزہ آ جائے گا۔ سیکولر لوگ یہ کہنا شروع کر دیں گے کہ ہمارے لئے نہ صرف تروپتی بلکہ سارا بھارت پوِتر (مقدس) ہے۔‘‘

بھٹاچاریہ بولا۔ ’’اگر ایسا ہوا تو غضب ہو جائے گا۔ وی۔ایچ۔پی والے اپنی دیش بھکتی کے جوش میں یہ مطالبہ کرنے لگیں گے کہ اس پوتر دھرتی پر کسی مسلمان کو نہ دفنایا جائے اور  لاشوں کو پاکستان یا بنگلہ دیش روانہ کر دیا جائے ؟‘‘

سوامی بولا۔ ’’دیکھو، اس مسئلہ کو بہت زیادہ اُلجھانا ٹھیک نہیں۔ ویسے ہی ملک کی فرقہ وارانہ صورتحال ٹھیک نہیں ہے۔‘‘

مشرا جی بولے۔ ’’فرقہ وارانہ کیا؟ کوئی بھی صورتحال ٹھیک نہیں ہے۔ لیکن فرقہ واریت کا عفریت دوسرے عیوب پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ اگر وی۔ایچ۔پی والے ہنگامہ کرتے ہیں تو ہم اُسے ہوا دیں گے اور ہندوؤں کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے صدر محترم کو اجمیر شریف میں دفنا دیں گے۔ اس سے ہندو رائے دہندگان کے ساتھ مسلمان عوام بھی خوش ہو جائیں گے۔‘‘

سوامی نے کہا۔ ’’یار سچ بات تو یہ ہے کہ مجھے تم لوگوں کے مذاق سے گھن آتی  ہے۔‘‘

دونوں نے زوردار قہقہہ لگایا۔ ساقی، مشرا اور بھٹاچاریہ کے خالی جام بھر رہا تھا اور مشر ا کہہ رہا تھا۔ ’’کافی پینے والے بھلا کیا جانیں کہ مذاق کیا ہوتا ہے ؟‘‘

 

 

 

 

 تقدیر کا فسانہ

 

سوژان ایک پڑھی لکھی  خاتون تھی اور برسوں تک اس نے ملازمت کی تھی۔ وہ بڑی حد تک دفتری زندگی کی عادی ہو گئی تھی، اس لئے دن بھر خاتونِ خانہ بنے رہنا اس کے لئے مشکل ہو رہا تھا۔ وہ اپنے لئے کوئی مصروفیت بھی چاہتی تھی۔ لیکن ایسی نہیں کہ جس سے البرٹ کے ساتھ گزرنے والے اوقات میں کمی بیشی ہو۔ اس لئے کہ وہ البرٹ اور اس کے قرب کو دُنیا کی ہر چیز سے زیادہ قیمتی سمجھتی تھی۔ اس دوران ایک دن البرٹ اور سوژان دبئی مال کے اندر کافی پی رہے تھے کہ البرٹ کو جیکب نظر آ گیا۔

جیکب سے البرٹ کی ملاقات کئی سال قبل ڈربن میں ہوئی تھی۔البرٹ اس وقت وہاں کے بیلجیم سفارت خانے میں جونیئر آفیسر کی حیثیت سے کام کرتا تھا اور جیکب کاٹو اور جوڑو نامی کمپنی میں چیف ایڈیٹر کی حیثیت سے ملازمت کرتا تھا۔ ڈربن قیام کے دوران وہ ایک دوسرے کے اچھے خاصے دوست ہو گئے۔ لیکن جب  البرٹ کا تبادلہ  ابوظبی میں ہوا تو ان کا رابطہ منقطع ہو گیا۔ ایک طویل عرصے کے بعد ایک دوسرے سے مل کر دونوں دوست بہت خوش ہوئے۔ جنوبی افریقہ کی قدیم یادیں تازہ کی گئیں۔ جیکب نے سوچا کہ سوژان البرٹ کی سکریٹری ہے ، اس لئے سوال کر دیا۔ ’’بھئی تمہاری سکریٹری تو بڑی حسین و جمیل ہے !‘‘

سوژان کو اس سوال پر بہت غصہ آیا جسے البرٹ بھانپ گیا۔ وہ بولا۔ ’’معاف کرنا سوژان۔۔ یہ اس کی نہیں ، میری غلطی ہے۔ مجھے چاہئے تھا کہ میں اس سے تمہارا تعارف کرواتا۔ خیر۔۔ میں معذرت چاہتا ہوں۔‘‘

جیکب سمجھ گیا۔ اس سے کوئی بڑی غلطی سرزد ہو گئی ہے۔ وہ بولا۔ ’’معاف کرنا، میں نے جلد بازی کی۔ میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں اور خاص طور پر معزز خاتون محترمہ۔۔‘‘

’’ارے بھائی اس قدر تکلف کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ میر ی  اہلیہ سوژان ہے۔  میں اسے سمجھا منالوں گا۔‘‘

’’بہت خوب۔ یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ بھابی آپ سے مل کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ یقین جانئے ، البرٹ سے زیادہ خوشی آپ سے مل کر ہوئی ہے۔‘‘

سوژان کو یہ بات دلچسپ معلوم ہوئی۔ اُس نے سوال کیا۔ ’’وہ کیوں؟ ویسے ہماری ملاقات ہوئی ہی کب ہے جو آپ کو اس قدر خوشی ہوئی؟‘‘

’’اوہو! میں سمجھ گیا کہ آپ سے البرٹ نے شادی کیوں کی۔ آپ نہایت خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت ذہین بھی ہیں۔‘‘

سوژان اپنی تعریف سے خوش ہو رہی تھی۔ وہ اپنی ناراضگی بھول گئی تھی۔

البرٹ نے مداخلت کرتے ہوئے پوچھا۔ ’’لیکن تجھے ان کی ذہانت کا اندازہ کیسے ہو گیا؟ ابھی تک تو مجھے بھی۔۔‘‘

’’بولو۔۔ آگے بولو۔۔ رُک کیوں گئے ؟ خیر، میں بتلاتی ہوں۔ آپ کیا کہتے کہتے رک گئے۔ اس میں شک ہے۔۔‘‘ سوژان بولی۔ ’’میرا مطلب ہے آپ کہنا چاہتے تھے کہ مجھے بھی اس میں شک ہے۔‘‘

جیکب بولا۔ ’’دیکھا تم نے ، یہ دوسرا ثبوت بھی سامنے آ گیا۔ ایک تو انہیں نہایت پر مغز سوال کیا اور دوسرے تمہارا ذہن پڑھ کر اَدھورے جملے کو پورا کر دیا۔ بھئی مان گئے اُستاد۔۔ ہم تو تمہارے انتخاب کو مان گئے۔‘‘

اَب تو سوژان خوشی سے پھول کر کپاّ ہو گئی تھی۔ آج تک کسی نے اس کی اس قدر کھل کر تعریف نہیں کی تھی۔

البرٹ بولا۔ ’’اب بس بھی کرو یار۔۔ بیجا تعریف سے لوگوں کا دماغ خراب ہو جاتا ہے۔‘‘

البرٹ کے اس جملے میں کہیں نہ کہیں جذبۂ حسد کارفرما تھا۔ لیکن جیکب پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا، وہ بولا۔ ’’جی ہاں میرے دوست! تمہاری بات بالکل بجا ہے۔ اگر بیجا تعریف کی جائے تو اس کا اُلٹا اثر ہوتا ہے۔ لیکن اگر بجا تعریف و توصیف نہ کی جائے تو وہ بھی نقصان دہ ہے۔ خیر۔۔ یہ جیسی بھی ہیں ، ہماری بھابی ہیں۔ ہم ان کا احترام کرتے ہیں۔ مگر یہ تو بتاؤ کہ یہ آخر کرتی کیا ہیں؟

’’کرتی کیا ہیں؟ میں تمہارا سوال نہیں سمجھا!‘‘

سوژان بولی۔ ’’میں بتلاتی ہوں۔ ایک نیک اور وفا شعار بیوی کی طرح میں ان کی خدمت کرتی ہوں اور۔۔ بہت کچھ آپ سمجھ گئے ہوں گے۔ میرا مطلب ہے خاتونِ خانہ کے لئے گھر میں بہت سارے کام ہوتے ہیں۔‘‘

’’جی ہاں ! سمجھ گیا!!‘‘ جیکب نے تائید کی۔ ’’مثلاً کھانا بنانا، کپڑے دھونا، بچوں کو تیار کر کے اسکول بھیجنا،۔۔ وغیرہ وغیرہ۔‘‘

البرٹ بولا۔ ’’اب اپنی یہ بکواس بند کرو۔ ہماری شادی کو کل تین مہینے ہوئے ہیں اور جن اُمورِ خانہ داری کا تم نے ذِکر کیا ہے ، اُس کے لئے گھر میں نوکر چا کر موجود ہیں۔‘‘

’’اوہو۔۔ معاف کرنا، میں تو بھول ہی گیا تھا کہ تم سفیر ہو۔ حکومت کے خزانے پر عیش کر رہے ہو۔ خیر، اگر ایسا ہے تو یہ دن بھر بور ہو جاتی ہوں گی؟‘‘

سوژان بولی۔ ’’جی ہاں آپ کا اندازہ کسی قدر صحیح ہے۔‘‘

’’اگر ایسا ہے تو آپ کوئی کام کیوں نہیں کر لیتیں؟ آمدنی کے لئے نہ سہی تو وقت گزاری ہی کے لئے سہی۔‘‘

’’جی ہاں ، لیکن میں کوئی ایسی مصروفیت اختیار نہیں کرنا چاہتی جس سے ہماری ازدواجی زندگی متاثر ہو۔ مجھے  ہمارے مشترکہ اوقات میں کوئی خلل اندازی گوارہ نہیں ہے۔‘‘

البرٹ کو سوژان کی صاف گوئی پسند آئی، لیکن وہ خاموش رہا۔ جیکب بولا۔ ’’جی ہاں ، میں بھی کب چاہتا ہوں کہ میرے دوست کی خدمت میں کمی واقع ہو! لیکن آپ اپنے فاضل اوقات کے بارے میں سوچیں اور اگر میرے لائق کوئی کام ہو تو بتلائیں۔‘‘

البرٹ بولا۔ ’’بھئی انہوں نے اپنے کالج کے زمانے میں فلم ایڈٹنگ کی تعلیم حاصل کی ہے۔ لیکن یہاں آنے کے بعد وہ کام نہیں کر سکیں ، اس لئے کہ اس ملک میں عمارتوں کی تعمیر کے سوا ہوتا ہی کیا ہے ؟‘‘

’’کون کہتا ہے کہ یہاں صرف عمارتیں تعمیر ہوتی ہیں؟ بھئی میں تو کہتا ہوں دُنیا کا کون سا اچھا یا بُرا کام ہے جو یہاں نہیں ہوتا۔ دُنیا بھر کے چینل یہاں میڈیا سٹی میں موجود ہیں اور ایڈٹنگ کا کام تو ہر چینل کے اسٹوڈیو میں ہوتا ہے۔‘‘

سوژان یہ سن کر خوش ہو گئی۔ امارات میں جیکب پہلا انسان تھا جو اس کے اپنے میدان کے بارے میں مثبت اور ٹھوس بات کر رہا تھا، وہ بولی۔ ’’یہ سب تو ٹھیک ہے ، لیکن مجھ جیسی نا تجربہ کار کو اپنے یہاں کون ملازمت پر رکھے گا، اور پھر وہ بھی میری اپنی شرائط پر؟ جز وقتی ملازمت کہاں ملے گی بھلا؟‘‘

’’سوژان یہ سمجھ لو کہ کنواں خود پیاسے کے پاس از خود چلا آیا ہے۔‘‘ جیکب نے ہنس کر جیب سے اپنا بزنس کارڈ نکال کر سوژان کو دیا اور کہا کہ آپ کو جب سے  کام شروع کرنا ہے آپ آسکتی ہیں۔

البرٹ نے بات آگے بڑھائی۔ ’’ بھئی ہمیں بھی  ملازمت نہ سہی تو کم از کم ایک عدد  کارڈ ہی دے دو۔‘‘

جیکب بولا۔ ’’معاف کرنا، مجھے یہ کارڈ تمہیں پہلے دینا چاہئے تھا۔ اس لئے کہ اگر تم نے اجازت نہیں دی تو۔۔‘‘

’’بھئی چھوڑو ان تکلفات کو۔۔‘‘ البرٹ بولا اور کارڈ کو پڑھنے لگا، جس پر لکھا تھا، ’جیکب۔۔ منیجنگ ڈائریکٹر، ایم۔ پلس چینل، دبئی۔‘

اِس ملاقات کے بعد سوژان دن کے اوقات میں ایم۔پلس کے دفتر جانے لگی، تاکہ ایڈیٹنگ کے اپنے پرانے خواب کو شرمندۂ تعبیر کر سکے۔

فرصت کے دنوں میں البرٹ بھی سوژان کے ساتھ ہو لیتا۔ وہ لوگ ساتھ ساتھ دبئی جاتے۔ سوژان اپنا کام کرتی، البرٹ اپنے دوست سے ملاقات کرتا۔ وہ لوگ ساتھ مل کر کھانا وانا کھاتے۔ ایک طرح کی پکنک ہو جاتی۔ اسی دوران ایک مرتبہ البرٹ نے ہفتہ کے خاتمے پر جیکب کو ابوظبی آنے کی دعوت دی۔ جمعرات کی شام جب جیکب اس کی کوٹھی پر پہنچا تو اس کے ساتھ ثنا پروین بھی تھی۔ ثنا کو دیکھ کر سوژان خوش ہو گئی۔

ثنا پروین سے سوژان کی ملاقات کبھی کبھار ایم۔پلس کے دفتر میں ہوتی تھی۔ وہ انتظامی شعبہ میں کام کرتی تھی اور کافی کم گو قسم کی خاتون تھی۔ جیکب کے ساتھ وہ اس طرح دعوت میں شریک ہو گی، اس کی توقع سوژان کو نہیں تھی۔ لیکن فی الحال ثنا اس کے سامنے تھی۔ ہندوستان کے ریاستِ حیدرآبادسے تعلق رکھنے والی ثنا پروین  روایتی شان و شوکت کی حامل تھی،اس کی شخصیت میں مغرب و مشرق کا حسین ترین امتزاج پایا جاتا تھا۔ سوژان اور البرٹ کے باہر آتے ہی ثنا عقب میں بیٹھ گئی اور البرٹ جیکب کے برابر میں براجمان ہو گیا۔ یہ چاروں اب ہوٹل میریڈین کی جانب رواں دواں تھے۔

ابوظبی مال سے متصل میریڈین کا شمار شہر کے سب اچھے ہوٹلوں میں ہوتا تھا۔ اس پر سوائے خلیج پیلس کے ، جو سات ستارہ ہوٹل ہے ، کسی کو فوقیت حاصل نہیں تھی۔ لیکن خلیج محل کے ماحول پر چونکہ  سیاحت کا غلبہ  ہو گیا تھا۔ اس لئے پرسکون شام گزارنے کے لئے امیر کبیر لوگ باگ میریڈین کو ترجیح دیتے تھے۔ دائرہ نما عمارت کے بطن میں بنے ہوئے لان سے کئی مطعم متصل تھے۔ رابرٹ نے ایک اطالوی ہوٹل میں میز مختص کر رکھی تھی۔ یوروپ کا سب سے اچھا کھانا کون بناتا ہے ؟ اِس بات پر تو اختلاف ہو سکتا ہے ، لیکن سب سے مہنگا کھانے بیچنے والے یقیناً اطالوی تھے اور یہی وجہ تھی کہ اکثر لوگ اطالوی کھانے کو سب سے اعلیٰ و ارفع گردانتے تھے۔

البرٹ اور جیکب تو سیدھے اپنی مخصوص میز پر آ بیٹھے اور سرخ شراب سے لطف اندوز ہونے لگے۔ ثنا اور سوژان نے ابوظبی مال کا رُخ کیا، اس لئے کہ ان کو پینے پلانے کے بجائے خرید و فروخت میں دلچسپی تھی۔ ان دونوں گروہوں نے تفریح کی خاطر مختلف راستے اختیار کئے تھے وہ لوگ تقسیم کار کے قائل تھے۔ جیکب اور البرٹ کا کام خوب دولت کمانا تھا، نیز سوژان اور ثنا کا فرضِ منصبی اُسے ٹھکانے لگانا تھا۔ ابو ظبی مال کے خودکار زینے پر دونوں خواتین بے حس و حرکت کھڑی تھیں ، اس کے باوجود بلندیوں کا سفر اپنے آپ طے ہو رہا تھا۔

 

 

 

 

تقدیر کا فسانہ

 

ثنا نے سوژان سے پوچھا۔ ’’سوژان تمہیں ، جیکب کے ساتھ مجھے دیکھ کر حیرت تو نہیں ہوئی؟‘‘

سوژان نے کہا۔ ’’ویسے کوئی خاص نہیں ، پھر بھی تھوڑی بہت ضرور ہوئی ہے۔ اس لئے کہ اس سے پہلے میں نے آپ دونوں کو ایک ساتھ کبھی نہیں دیکھا۔‘‘

’’ہاں سوژان، تم سچ کہتی ہو۔‘‘

’’ایم۔پلس کی تقریبات میں بھی شاید تم کبھی شریک نہیں ہوئیں۔‘‘

’’ہاں ، مجھے اس طرح کی تقریبات سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔ ویسے ایم۔پلس کی سالگرہ والی خصوصی تقریب میں شرکت سے میں نے خاص طور پر گریز کیا تھا۔‘‘

سوژان کی دلچسپی بڑھنے لگی، اس نے پوچھا۔ ’’کیا میں اس کی وجہ جان سکتی ہوں؟‘‘ سوژان نے پوچھا۔

’’دراصل تم تو جانتی ہی ہو کہ وہاں جولیا بھی موجود تھی۔ اس لئے میں نے احتراز کیا۔‘‘

’’جی، سمجھتی ہوں۔ لیکن وہاں اور بھی بہت سارے لوگ موجود تھے۔‘‘

’’احتیاط کے طور پر سمجھ لو۔ لیکن اب کوئی مسئلہ نہیں ہے ، اس لئے کہ آج صبح ہم نے باقاعدہ نکاح کر لیا ہے۔‘‘

’’اوہو۔۔ یہ بڑی خوشی کی بات ہے۔ تم لوگوں نے اس کا ارادہ کب کیا تھا؟‘‘

’’یہ تقریباً سال بھر پُرانی بات ہے ، جب میں نے ایم۔پلس میں ملازمت اختیار کی تھی۔ لیکن دو رُکاوٹیں تھیں۔۔ ایک میری جانب سے دوسری اُن کی طرف سے۔‘‘

’’تم کو اس پر کیا اعتراض تھا؟‘‘

’’میں تو صرف یہ چاہتی تھی جیکب اسلام قبول کر لے۔‘‘

’’اور جیکب کو کیا پریشانی تھی؟‘‘

’’جیکب کو اندیشہ تھا کہ اگر جولیا لوٹ آئے تو کیا ہو گا؟‘‘

’’جیکب کو اسلام قبول کرنے میں کوئی دِقت نہیں تھی؟‘‘

’’جیکب کے نزدیک مذہب کو کوئی خاص اہمیت نہیں ہے ، لیکن جولیا کے بارے میں وہ خاصہ سنجیدہ تھا۔‘‘

’’اچھا۔۔ پھر اس کا ذہن کیسے تبدیل ہوا؟‘‘

’’ہوا یہ کہ جس روز جولیا  ایم پلس کی سالانہ تقریب سے واپس گئی، دوسرے ہی دن جیکب نے مجھے اپنے کمرے میں بلایا اور کہا کہ وہ اسلام قبول کرنے کے لئے تیار ہے۔ اور اب شادی میں تاخیر کرنا نہیں چاہتا۔ پھر کیا تھا، آج اُس نے اسلام قبول کیا اور مجھ سے نکاح کر لیا اور ہم لوگ شادی کا جشن منانے کے لئے ابوظبی پہنچ گئے۔‘‘

’’اچھا۔۔ تو کیا البرٹ کو یہ پتہ تھا؟‘‘

’’شاید نہیں۔ جیکب کہہ رہا تھا کہ یہ حسنِ اتفاق ہے۔‘‘

یہ ایک سال سے رُکا ہوا مسئلہ اچانک ایک ہفتے کے اندر کیوں کر حل ہو گیا؟‘‘ سوژان نے پوچھا۔

’’ویسے تو میں نہیں جانتی لیکن شاید جیکب۔۔ میرا مطلب ہے یعقوب، جو اس کا نیا نام ہے۔۔ کو کسی طرح یقین ہو گیا کہ جولیا اب دبئی میں قیام کی خاطر کبھی  نہیں آئے گی۔‘‘

سوژان نے کہا۔ ’’ویسے یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ جیکب ڈربن چلا جائے۔‘‘

’’جی نہیں ، یہ نہیں ہو سکتا۔ اس لئے کہ میں وہاں نہیں جاؤں گی۔‘‘ ثنا نے بڑے اعتماد سے کہا۔ سوژان کو ثنا کی خود اعتمادی سے خوف محسوس ہوا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ جو شخص جولیا کو چھوڑ سکتا ہے ،  وہ ثنا کو کیو ں کر نہیں چھوڑ سکتا؟ سوژان نے بلا واسطہ سوال کیا۔ ’’ثنا۔۔ کیا تمہیں جیکب پر اس قدربھروسہ ہے کہ وہ تمہیں ۔۔‘‘ سوژان رُک گئی۔

ثنا نے کہا۔ ’’سوژان بولو۔۔ رُک کیوں گئیں؟‘‘

سوژان بولی۔ ’’کچھ نہیں۔‘‘

ثنا بولی۔ ’’میں سمجھ گئی تم کیا پوچھنا چاہتی ہو؟ وہ مجھے اسی طرح نہیں چھوڑ ے گا جس طرح اس نے جولیا کو چھوڑ دیا ہے۔‘‘

’’جی۔۔ جی میں یہی پوچھنا چاہتی تھی۔ حالانکہ میں جانتی ہوں کہ وہ کبھی نہیں چھوڑ ے گا۔‘‘

ثنا بولی۔ ’’دراصل بات یہ ہے کہ جیکب اُن مردوں میں سے نہیں ہے جو اپنی شریک حیات سے علیحدگی اختیار کر لیں ، اور یہ بات بھی صحیح نہیں کہ اس نے جولیا کو چھوڑا ہے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ جولیا اُسے چھوڑ کر چلی گئی اور میں جیکب سے دُور کبھی نہیں جاؤں گی۔ اس لئے کہ مجھے یقین ہے کہ وہ بھی مجھ سے دُوری نہیں اختیار کرے گا۔‘‘

سوژان کو احساس ہوا کہ بات کسی اور ڈگر پر چلی گئی۔ کم از کم آج کے دن ان موضوعات پر اسے گفتگو نہیں کرنی چاہئے۔ وہ بولی۔ ’’ثنا۔۔ معاف کرنا، میں جدائی کے قصے لے بیٹھی۔ دراصل مجھے تو تم سے تمہارے ملاپ کی بات پوچھنی چاہئے تھی۔ آج تمہاری شبِ وصال ہے اور میں فراق کے اندیشوں میں اُلجھ گئی۔ میں اس کے لئے معافی چاہتی ہوں۔‘‘

ثنا بولی۔ ’’نہیں سوژان، اس میں معذرت کی کیا بات ہے ؟ وصال اور فراق دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ وصال کے بطن سے فراق جنم لیتا ہے اور فراق کی موت ہی وصال کو جاودانی عطا کرتی ہے۔ گو کہ یہ دونوں ایک ساتھ نہیں ہوتے ، لیکن ان کا ذکر ساتھ ساتھ ہوتا ہے۔

’’اوہو۔۔ تم تو اچھی خاصی فلسفی ہو؟‘‘

’’یہ فلسفۂ حیات میں نے جیکب کی زندگی سے سیکھا ہے۔‘‘

’’لیکن میں تمہاری اپنی زندگی کے بارے میں جاننا چاہتی ہوں۔‘‘

’’میری زندگی؟‘‘ ثنا نے پوچھا۔

’’جی ہاں ! تمہاری اپنی زندگی ثنا۔‘‘

’’میری زندگی ان خودکار زینوں کی طرح ہے کہ جن میں سے  ایک اوپر کو جاتا ہے تو دوسرا نیچے کی جانب محوِ سفر  ہوتا ہے۔ میں تو بس بے حس و حرکت اُس پر کھڑی رہتی ہوں ، اُس کی سمت سے راضی رہتی ہوں۔ اگر وہ نشیب کی جانب رواں دواں ہو تو بے چین نہیں ہوتی، اِس خیال سے کہ اُن کا رُخ بدلنا میرے اختیار میں نہیں۔۔ اور جب وہ فراز کی جانب چل پڑے تو پھولی نہیں سماتی، اس خیال سے کہ کسی بھی وقت اُس کا رُخ بدل سکتا ہے۔‘‘

وہ دونوں خریداری سے فارغ ہو کر واپس لوٹ رہی تھیں۔ ’اِل پلازو‘ نامی ریسٹورینٹ کے دروازے پر کھڑے ہو کر جب اُن دونوں نے چاروں جانب نظر دوڑائی تو دُور سوئمنگ پوُل کے کنارے پر جیکب اور البرٹ بیٹھے ہوئے دکھائی دئیے۔ خاتون ویٹر ان کی میز سے سرخ شراب کی بوتل اُٹھا رہی تھی۔

ثنا نے کہا۔ ’’جلدی چلو، اس سے پہلے کے ہماری سوتن دوسری بوتل میز پر آ کر براجمان ہو جائے ، ہمارا وہاں پہنچنا ضروری ہے۔‘‘ سوژان نے تائید کی، ثنا بولی۔ ’’جیکب نے جولیا سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ مذہب کو خیرباد کہہ دیا، لیکن یہ کمبخت شراب نہ جانے اس سے کب نجات ملے گی؟‘‘

وہ دونوں میز پر پہنچ چکی تھیں۔ البرٹ نے خوش آمدید کہا اور بولا۔ ’’بڑی تاخیر کی آپ لوگوں نے ہم لوگ تو ایک اور بوتل منگوانے جا رہے تھے۔‘‘

’’جی نہیں ! اب اس کی ضرورت نہیں۔‘‘ سوژان نے لپک کر کہا۔

’’جو حکم!‘‘ البرٹ بولا۔

جیکب نے کہا۔ ’’دراصل یہ ہماری مجبوری ہے۔۔ جب شباب ساتھ چھوڑ جائے تو شراب کا سہارا لینا ہی پڑتا ہے۔‘‘

ثنا بولی۔ ’’ایسی بات نہیں۔ چونکہ آپ لوگ ہمارے ہوتے ہوئے ہماری اس سوتن سے دل بہلاتے ہیں ، ہمیں ساتھ چھوڑنا ہی پڑتا ہے۔‘‘ چاروں لوگ ہنس پڑے اور ویٹر سے کہا کہ اب کھانا لائے۔

ان لوگوں نے ایک ایسا کھانا منگوایا تھا جس میں تقریباً دس بارہ پکوان ہوتے ہیں اور ایک وقت میں ایک پروسا جاتا ہے۔ ابتداء چھوٹے چھوٹے فنجان میں شوربہ سے ہوتی ہے۔۔ اور یہ شوربہ گرم ہونے کے بجائے سرد۔۔ بالکل ریفریجریٹر سے نکال کر لایا جاتا ہے۔ ثنا کے لئے یہ پہلا تجربہ تھا۔ وہ اپنی حیرت دبا نہ سکی۔ سوژان بولی۔ ’’ابتدائے عشق ہے۔۔ آگے آگے دیکھئے۔‘‘ ثنا نے مسکرا کر شوربہ پینا شروع کر دیا۔

سوژان اور ثنا نے دیکھا کہ جیکب اور رابرٹ پھر ایک بار اپنی گفتگو میں منہمک ہو گئے۔ جیکب بولتا جاتا تھا اور رابرٹ پوچھتا جاتا تھا۔ گفتگو چونکہ پہلے سے جاری تھی، اس لیے اس کا سر پیر اُن دونوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ بالآخر سوژان اور ثنا نے بھی اپنی متوازی محفل سجانے کا فیصلہ کیا۔ سوژان بولی۔ ’’ثنا، تمہاری زندگی کا فلسفہ میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ کیا انسان واقعی تقدیر کے آگے مجبورِ محض ہے ؟ میں تو دیکھتی ہوں کہ ہم لوگ اپنی مرضی سے بہت کچھ کرتے ہیں اور بہت سارے کاموں سے رُکتے بھی ہیں۔‘‘

ثنا بولی۔ ’’سوژان تمہاری بات کس قدر صحیح ہے ، تقدیر ہمیں جس قدر گنجائش دیتی ہے ، اُس قدر آزادی کا استعمال ہم کر سکتے ہیں۔ مثلاً آپ کسی ہوائی جہاز میں سفر کر رہے ہیں تو آپ کو آزادی ہے کرسی کا پٹہ باندھیں یا کھولیں۔ اوپر کی لگی روشنی چلائیں یا بند کریں۔ اپنی کرسی سے اُٹھ کر تھوڑا بہت چلیں پھریں ، لیکن چلنے پھرنے کے  حدود ہیں ایک کونے سے دوسرا کونہ اور اس وقت جب کھانے کی ٹرالی راستہ میں نہ ہو۔

ہم ان حدود اربع کو پار نہیں کرسکتے۔ دروازہ کھول کر باہر قدم نہیں رکھ سکتے۔ یہ ہماری مجبوری ہے۔ مسافر جہاز کی رفتار کم یا زیادہ نہیں کر سکتے ، اُس کی اُونچائی کو بڑھا گھٹا نہیں سکتے۔ اُس کا سمت سفر بھی تبدیل نہیں کر سکتے ، اور جب پائلٹ کسی بتی کو بند کر دے تو ہم اس روشنی کو بھی نہیں چلا سکتے۔جسے بند کر دیا گیا ہے۔ ہماری آزادی اس کی مرہونِ منت ہے۔‘‘

’’لیکن پائلٹ کو تو مکمل طور اختیار حاصل ہے ، وہ تو کسی کا محتاج نہیں ہے۔‘‘

’’ جی ہاں ! میں یہی کہہ رہی تھی کہ ہم مسافر ہیں ، پائلٹ نہیں۔ اِس دُنیا کا پائلٹ کوئی اور ہے جس نے ہمیں جبر و قدر کے درمیان معلق کر رکھا ہے۔ وہ جس قدر آزادی ہمیں دیتا ہے ، ہمیں ملتی ہے ا ور جب  چھین لیتا ہے ، سلب ہو جاتی ہے۔ وہ آقا ہے ، ہم بندے ہیں۔ وہ قادرِ مطلق ہے ، وہ ہماری تقدیر متعین کرتا ہے اور ہم اس پر راضی ہونے کے لیے مجبور ہیں۔

اُس نے ہمیں اس بات کی آزادی ضرور دی کہ ہم دورانِ سفر سوئیں یا جاگیں ، پڑھیں یا موسیقی سنیں ، کھائیں پئیں یا بھوکے رہیں۔ لیکن ان آزادیوں کے اپنے حدود ہیں۔ مثلاً جیکب اور جولیا کو ایک عرصہ تک جولیا کے والد نے ایک دوسرے سے دُور رکھا۔ اب وہ موجود نہیں ہے ، پھر بھی وہ دونوں ایک دوسرے سے دُور ہیں۔ بظاہر کوئی سبب نہیں ہے ، کوئی مجبوری نہیں ہے۔ جیکب بے حد خوشحال ہے ، جولیا اس کے پاس عیش کر سکتی ہے ، لیکن کاروبار کی محبت دوری کا سبب بن گئی۔

جیکب لذیذ کھانوں کا بے حد شوقین ہے۔ اُسے تلے ہوئے چربی دار اور میٹھے پکوان بے حد پسند ہیں۔ ایک زمانہ تھا اس کی غربت اسے اجازت نہیں دیتی تھی کہ وہ اپنے شوق پورے کرسکے۔ آج غربت کی جگہ خوشحالی نے لے لی، لیکن صحت دیوار بن کر کھڑی ہو گئی۔ اس کا عارضۂ قلب اور ذیابیطس اسے اپنی مرغوب غذا سے لطف اندوز ہونے نہیں دیتا۔ تقدیر میں لکھی محرومی کو مقدر بنانے کی خاطر ایک مجبوری کی جگہ دوسری مجبوری لے لیتی ہے۔ مجبوری بھیس بدلتی رہتی ہے ، لیکن محرومی نہیں بدلتی۔‘‘

ثنا کی باتیں سوژان کی سمجھ میں تو آتی تھیں ، لیکن اس یقین و اطمینان ناپید تھا۔ سوژان نے پوچھا۔ ’’تمہارے اس تقدیر کے فلسفہ میں کیا صرف محرومیاں ہی محرومیاں ہیں؟ کامیابی و کامرانی کا کوئی گزر نہیں؟‘‘

’’کیوں نہیں؟ تم بھول گئیں ، میں نے کہا تھا کہ زمانہ کبھی نشیب کی جانب تو کبھی فراز کی جانب رواں دواں ہوتا ہے۔ لیکن انسان ان ہی چیزوں کی قدر کرتا جن سے محروم رہ جاتا ہے یا  جنہیں حاصل کر کے گنوا دیتا ہے۔ وہ ان چیزوں کا ماتم کرتا رہتا ہے جنھیں حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ جب اسے کوئی شے مل جاتی ہے تو اس کی کوئی قدر و قیمت اس کے نزدیک باقی نہیں رہتی بلکہ وہ اس کی ناقدری کرنے لگتا ہے۔ اپنے خالق و مالک کا شکر تک ادا نہیں کرتا۔ حالانکہ یہ ایک عیاں حقیقت ہے کہ جو کچھ انسان کو حاصل ہوتا ہے اس کی مقدار حاصل نہ ہونے والے اشیاء سے کم نہیں ہوتی، بلکہ بہت زیادہ ہوتی ہے۔

انسان کو جو کچھ حاصل ہوتا ہے ، اس کا بڑا حصہ وہ استعمال کرتا ہے۔ چھوٹے سے حصہ سے محروم ہونا پڑتا ہے۔ لیکن وہ اپنی محرومی کے غم میں محصول کے مسرت سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ سوژان بولی لیکن ہر کوئی تو ایسا نہیں کرتا۔

ثنا نے تائید کی اور کہا تمہاری بات درست ہے سوژان۔ اس کی سب سے بڑی مثال تو جیکب ہے۔  اسے آم بہت پسند تھے اور اب بھی پسند ہیں ، لیکن کھا نہیں سکتا۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ وہ اس کے لئے زہر ہے۔ اب وہ یہ کرتا ہے کہ  بازار جاتا ہے ، اچھے اچھے آم خریدتا ہے ، انہیں اپنے گھر لا کر اپنے دوستوں کی دعوت کرتا ہے ، خود اپنے ہاتھ سے اس کی قاشیں بنا بنا کر انہیں کھلاتا ہے اور انہیں کھاتا ہوا دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ اگر میں کھا نہیں سکتا تو کیا ہوا، کھلا تو سکتا ہوں۔ وہ اپنی خوشی کو بالواسطہ نہیں ، بلاواسطہ حاصل کر لیتا ہے۔ حالانکہ اکثر و بیشتر افراد محرومی کے میں  غم میں گھٹتے رہتے ہیں۔ اپنی تقدیر کو کوستے رہتے ہیں۔ لیکن سمجھدار تو وہی ہے جو اس کے ساتھ جینے کا فن سیکھ لے۔  کسی نے کیا کوب کہا ہے وقت زخموں پر مرہم نہیں رکھتا بلکہ ان کے ساتھ زندگی گزارنے کا فن سکھلا دیتا ہے۔

 

 

ثنا پروین

 

 

’’ثنا تمہارے اعصاب پر فی الحال جیکب کا مکمل قبضہ ہے۔ تمہاری ہر مثال جیکب سے شروع ہو کر اُسی پر ختم ہو جاتی ہے۔ میں تمہارے بارے میں جاننا چاہتی ہوں اور تم جیکب کے بارے میں بتانے لگتی ہو۔‘‘ سوژان نے کہا۔ ’’اب چھوڑو یہ تقدیر کے جھمیلے اور کچھ اپنے بارے میں بتاؤ۔۔۔۔ یہ بتاؤ کہ تقدیر کا وہ کیسا انوکھا کھیل ہے جس نے حیدرآباد کی ثنا پروین کو انگلستان کے جیکب۔۔ میرا مطلب ہے یعقوب کے دل کی ملکہ بنا دیا۔‘‘

ثنا مسکرائی اور بولی۔ ’’تم بہت ضدی لڑکی ہو۔ تم نہیں مانو گی۔‘‘

سوژان نے مسکرا کر تائید کی۔ ثنا بولی۔ ’’دیکھو سوژان۔۔ میرا تعلق حیدرآباد شہر سے نہیں بلکہ اس سے تقریباً سو کلومیٹر دُور واقع نلگنڈہ سے ہے۔‘‘

’’نلگنڈہ؟‘‘ سوژان نے اپنے انداز میں اسے دوہرایا۔

ثنا بولی۔ ’’ہاں ! یہ تاریخی شہر ہے۔۔ بلکہ تھا۔۔ اب ایک گاؤں ہے۔ سمجھ لو بڑا سا گاؤں۔۔ اس میں ایک قلعہ ہے جو بتدریج کھنڈر بنتا جا رہا ہے ، جس کے ایک حصے میں نظام شاہی اسکول واقع ہے جس میں میرے والد صدر مدرس ہوا کرتے تھے ، اور اُسی کے چند کمروں کو ہماری اور دوسرے اساتذہ و عملہ کی رہائش کے لیے مختص کیا گیا تھا۔ میں وہیں پیدا ہوئی اور میرا بچپن اسی احاطہ میں گزرا۔‘‘

’’کھنڈر نما قلعہ میں آپ رہتی تھیں؟‘‘

’’جی ہاں سوژان۔۔ لیکن گاؤں کے سب سے بڑا اسکول ہونے کے باعث وہ آباد ہو چکا تھا۔ اس کی دیواریں قدیم لیکن مضبوط تھیں ، قلعہ کی دیوار کے اندر ایک بڑا میدان تھا جس میں بچے دن کے وقت کھیلتے تھے اور شام کے وقت اسکول کا عملہ اس میں چہل قدمی کرتا تھا۔ خوش گپیاں ہوتیں ، اس میدان میں بڑے بڑے ادبی اور سیاسی جلسوں کا انعقاد ہوتا۔ اس دوران گویا کہ سارا شہر اس میدان کی جانب اُمڈ پڑتا۔‘‘

’’لیکن آپ لوگوں کو اس کھنڈر میں رہنے سے کوفت نہ ہوتی ہو گی؟‘‘

’’نہیں۔۔ ہم اپنے گھروں کا تقابل جب گاؤں کے دوسرے گھروں سے کرتے تو ہمیں اطمینان محسوس ہوتا تھا۔ گاؤں کی بڑی آبادی غریب تھی، وہ جھگیوں میں رہتی تھی، مکانات نہایت خستہ حال تھے ، گرمی اور بارش کے عذاب سے غیر محفوظ تنگ و تاریک گلیاں ، گندے راستے ، بھیڑ بھڑ شور شرابہ! اس گہماگہمی سے الگ تھلگ ہمارا یہ علاقہ اور ہمارے مکانات قدیم ہونے کے باوجود بہتر تھے۔‘‘

’’کیا اس گاؤں میں صرف غریب لوگ رہتے تھے ؟‘‘

’’جی نہیں ، متمول افراد بھی تھے لیکن اُن کی تعداد بہت کم تھی۔ گاؤں میں کوئی صنعت و حرفت نہیں تھی۔ گاؤں کے لوگ معمولی تاجر یا سرکاری ملازم تھے۔ نلگنڈہ کے آس پاس سیمنٹ کے بڑے بڑے کارخانے تھے۔ گاؤں کے پڑھے لکھے نوجوانوں کی بڑی تعداد ان کارخانوں کی رہائشی کالونیوں میں منتقل ہو چکی تھی۔ کچھ لوگ حیدرآباد، دہلی اور بیرون ملک ملازمت کے سلسلے میں ہجرت کر چکے تھے۔ اب نلگنڈہ میں لالہ و گل کم ہی تھے۔ زیادہ تر خس و خاشاک ہی تھی۔ میرے والد صاحب میر لیاقت علی  خاں کا بڑا احترام تھا، جو وراثت میں مجھے بھی مل گیا تھا۔

ہمارے گاؤں میں افسری بیگم نام کی ایک بیوہ خاتون تھیں جنہوں نے بڑی محنت و مشقت سے اپنے بیٹے مرزا اختر بیگ کی پرورش و نگہداشت کی تھی۔ اختر میرے والد کے چہیتے طلباء میں سے ایک تھا۔ اسکول کی تعلیم کے بعد اختر کو اپنی گھریلو ذمہ داریوں کا احساس ہوا تو اس نے کالج جانے کے بجائے ملازمت کا فیصلہ کیا اور گاڑی چلانا سیکھنے لگا۔ بہت جلد وہ لائسنس لینے میں کامیاب ہو گیا۔ اب اس نے ملازمت کے لیے جگہ جگہ درخواستیں روانہ کیں اور میرے والد کی سفارش سے ریاستی حکومت کے مواصلاتی ادارے آندھرا پردیش اسٹیٹ ٹرانسپورٹ میں اسے ڈرائیور کی نوکری مل گئی۔

افسری بیگم میرے والد کا شکریہ ادا کرنے کے لیے آئیں تو میرے والد صاحب نے انہیں اپنے بیٹے کے ہاتھ پیلے کرنے کا مشورہ دے ڈالا۔ وہ بولے۔ ’’افسری اپنے بیٹے کی خاطر تم نے بڑا عرصہ تنہائی کی نذر کر دیا! اب ایسا کرو کہ اس کو بیاہ دو اور اپنی بہو کو گھر لے آؤ۔ اختر کا دل بہل جائے گا تمہارا گھر بس جائے گا۔‘‘ افسری بولیں۔ ’’جی ہاں علی صاحب! میں بھی یہی چاہتی ہوں۔ لیکن دل ڈرتا ہے ، کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھے بہو تو نہ ملے ، ہاں مجھ سے بیٹا چھن جائے۔‘‘

میرے والد ہنسے اور بولے۔ ’’افسری، اس کا امکان تو ہے لیکن یہ خطرہ آج یا کل لینا ہی ہو گا اور مجھے اختر پر مکمل اعتماد ہے۔ وہ اپنی ماں کا احسان فراموش بیٹا نہیں ہو سکتا۔‘‘ افسری بولی۔ ’’آپ بجا فرماتے ہیں۔ میں خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہوں۔ لیکن ذرا سی احتیاط کے ساتھ، اس لیے کہ اگر کچھ ایسا ویسا ہو جائے تو مجھ سے زیادہ اختر کے لیے سوہان جان ہو جائے گا۔ وہ مجھ سے بہت محبت کرتا ہے ‘‘

میں کونے میں بیٹھی اپنے والد اور افسری بیگم کی باتیں سن رہی تھی۔ میرے والد نے کہا۔ ’’دیکھو افسری! اگر کوئی لڑکی تمہاری نظر میں ہو تو مجھے بتاؤ، میں تمہاری طرف سے بات آگے بڑھاؤں گا۔ اختر صرف میرا طالب علم نہیں ہے بلکہ میرے لئے وہ بیٹے کی طرح ہے۔‘‘

افسری بیگم نے زمین میں گڑی نظروں کو اُٹھایا اور مجھ میں پیوست کر دیا۔ میں نے اُن نظروں کی چبھن کو محسوس کر لیا۔ میں وہاں سے اُٹھ گئی اور اندر اپنی امی کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔ میرا دل نہ جانے کیوں زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ میری امی نے پوچھا۔ ’’ثنا! یہ تجھے کیا ہو گیا؟ تیری طبیعت تو ٹھیک ہے ؟‘‘

میں بولی۔ ’’ہاں امی، ٹھیک ہے۔ کچھ بھی تو نہیں ہوا۔‘‘

میری زبان لڑکھڑا رہی تھی، حلق سوکھ رہا تھا۔ امی بولیں۔ ’’ تیرا چہرہ جھوٹ بولتا ہے ، یا تیری زبان، یا تیرا گلا۔۔  کیا یہ سب مجھے دھوکہ دے رہے ہیں۔‘‘

اس بیچ میرے والد صاحب کی آواز آئی، وہ میری امی کو بلا رہے تھے۔ ’’میں ابھی آئی۔‘‘ یہ کہہ کر میری امی دیوان خانے کی جانب دوڑ پڑیں جہاں افسری بیگم بیٹھی ہوئی تھیں۔ میرے قدم بھی آہستہ آہستہ دیوان خانے کی جانب چل پڑے۔ لیکن دروازے سے پہلے رُک گئے۔ میرے کان دیوار بن گئے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔ میں اپنے والدین اور افسری بیگم کی گفتگو کا ایک ایک لفظ سن رہی تھی۔ جب میرے والد صاحب نے امی سے کہا۔ ’’تم ثنا کی رائے معلوم کرو۔۔ اور افسری، آپ بھی ایک بار اختر سے پوچھ لو۔‘‘افسری بولیں۔ ’’اختر میری بات کبھی نہ ٹھکرائے گا۔‘‘

’’جی ہاں ! اگر یہ صحیح ہے ، تب بھی پوچھنے میں کیا حرج ہے ؟‘ افسری بیگم باہر اور میری امی اندر کے دروازے کی جانب چل پڑیں۔ باہر سے کوئی اجنبی میرے وجود کے اندر سما چکا تھا۔ میں دوڑ کر آئی اور پھر اُسی جگہ اُسی طرح بیٹھ گئی جہاں میری امی مجھے چھوڑ کر گئی تھیں۔ میں اس طرح بیٹھی تھی گویا وہاں سے ہٹی ہی نہ تھی۔ فرق یہ تھا کہ نہ  میرے دل کی دھڑکن تیز تھی اور نہ گلا سوکھا ہوا تھا۔ میری امی میرے پاس بیٹھ کر مجھے وہی سب کچھ بتا رہی تھی جو میں خود اپنے کانوں سے سن چکی تھی۔ بالآخر مجھ سے پوچھا۔ ’’بیٹی ثنا۔۔ تمہارا اس رشتہ کے بارے میں کیا خیال ہے ؟‘‘

’’میرا۔۔ آپ یہ مجھ سے کیوں پوچھ رہی ہیں؟‘‘

امی نے کہا۔ ’’تم سے نہیں تو اور کس سے پوچھوں؟ اختر سے تو اس کی امی پوچھیں گی۔ میں تو تم ہی سے پوچھ سکتی ہوں بیٹی؟‘‘

’’نہیں ، میں کچھ نہیں جانتی۔ مجھ سے یہ سب نہ پوچھیں۔‘‘ یہ کہہ کر میں خاموش ہو گئی۔ میرا جی چاہ رہا تھا کہ میں چیخ چیخ کر کہوں خوشا نصیب یہ رشتہ مجھے منظور ہے میرے لیے اختر سے اچھا جوڑ ساری کائنات میں کوئی نہیں لیکن میری زبان گنگ ہوچکی تھی۔

امی نے کہا۔ ’’دیکھو بیٹی ہمارے یہاں خاموشی کو ہاں سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے اگر میں غلط سمجھ رہی ہوں تو تم میری غلط فہمی دُور کر دو، اب بھی موقع ہے۔‘‘ میں پھر بھی خاموش رہی۔ امی نے میری پیشانی کو چوما، بلائیں لیں اور باہر دیوان خانے کی جانب چل پڑیں۔ اب کی بار میں وہیں بیٹھی رہی تھی۔۔ میرا تجسس ختم ہو چکا تھا۔۔ میں جانتی تھی کہ امی کیا کہیں گی اور والد صاحب کا ردِّ عمل کیا ہو گا۔ میرے کانوں میں شہنائیاں گونج رہی تھیں اور میں ان سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔

ایک نہایت سادہ، مگر پُر وقار تقریب میں میرا نکاح اختر سے کر دیا گیا۔ نہ ڈھول تاشے تھے نہ گاجا باجا تھا۔ لیکن شہر اور آس پاس کی کوئی معزز شخصیت ایسی نہیں تھی جو اس محفل میں موجود نہیں تھی۔ میرے نکاح کا خطبہ ہماری مسجد کے امام صاحب نے دیا جنہوں نے مجھے قرآن پڑھایا تھا۔ ان کی کیفیت ایسی تھی گویا ان کی اپنی بیٹی وداع ہو رہی ہے۔ وہ کبھی مجھے نصیحتیں کرتے تو کبھی اختر کو، کبھی افسری بیگم کو مخاطب کرتے ، کبھی میرے والدین کو! اپنے خطبے کے اختتام پر انہوں نے ایسی پُرسوز دُعا کی کہ ساری محفل آبدیدہ ہو گئی۔ یہ آنسو خوشی کے تھے اور غم کے بھی۔۔ ملے جلے جذبات کے حامل آنسو ستاروں کی مانند میرے اور اختر کی آنکھوں میں چمک رہے تھے۔ ستارے آسمان سے زمین پر اُتر آئے تھے ، آنکھوں سے دلوں میں اُتر گئے تھے۔ اپنے وجود کو ایک دوسرے میں فنا کر کے وہ بقاء کے بلند ترین فلک پر فائز ہو گئے تھے۔

ثنا اور اختر اب دو مختلف وجود نہیں بلکہ ایک جان دو قالب تھے۔ افسری بیگم نے ماں کا پیار دیا اور اختر نے مجھے صفدر عطا کر دیا۔ صفدر۔۔ جس پر میں ماں کی محبت اور افسری بیگم دادی کی ممتا نچھاور کر رہی تھیں۔ چار افراد کا ننھاسا خاندان تین نسلوں پر محیط تھا۔ اس کے ایک سرے پر افسری بیگم تھیں اور دوسرے پر مرزا صفدر علی بیگ۔۔ درمیان میں کھڑے تھے ثنا اور اختر۔۔ اُن کی حیثیت گویا ماضی اور مستقبل کے درمیان ایک کڑی کی سی تھی۔ وہ دونوں زمانۂ حال تھے۔ وہ اپنے ماضی اور مستقبل دونوں سے وابستہ تھے۔ تمام تروابستگی کے باوجود ان کا اپنا علیحدہ وجود تھا، ان کا اپنا تشخص تھا۔ یہ اور بات ہے کہ وہ دونوں ایک دوسرے سے علیحدہ نہ تھے۔ ایک عجیب و غریب رشتہ۔۔ ایک ایسا بندھن جو دِکھائی تو نہ دیتا، لیکن  کبھی سانسوں کی طرح تو کبھی دھڑکن کی طرح محسوس ہوتا تھا۔ یہ بندھن زندگی کی علامت تھا۔ یہ رشتہ انسانی ارتقاء کا شاخسانہ تھا۔

اس ننھے سے گھر سنسار میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا، سوائے اختر کی ملازمت کے۔ اُسے اپنی سرکاری بس لے کر نلگنڈہ سے حیدرآباد ہوتے ہوئے وجے واڑہ تک جانا پڑتا تھا۔ دونوں شہر تقریباً یکساں فاصلے پر تھے ، لیکن اُسے کبھی کبھار وہاں سے کسی اور شہر روانہ کر دیا جاتا۔ مثلاً وشاکھاپٹنم  یا نظام آباد وغیرہ۔ پھر وہاں سے واپسی میں دوبارہ حیدرآباد یا وجے واڑہ آؤ اور پھر نلگنڈہ۔  اس طرح جانے کے تین چار دن بعد ہی واپس آنے کا موقع ملتا اور دو دن کی چھٹی گزار کر پھر اس طویل سفر پر روانہ ہو جانا پڑتا۔ کبھی کبھی یہ طوالت ہفتہ دس دن پر بھی محیط ہو جاتی۔

وصال و فراق کی اس ادلا بدلی نے انہیں بد دِل کر دیا تھا۔ثنا اور اختر کے لیے یہ جدائی وبالِ جان بن گئی تھی۔ ثنا اور افسری کے درمیان یہ وقت گزاری کا اہم موضوع ہوا کرتا تھا، لیکن دوسری ملازمت کا ملنا کافی مشکل تھا۔ اس لیے بغیر کسی نتیجہ پر پہنچے گفتگو ختم ہو جاتی۔ ایک دن اسی طرح گفتگو کے دوران افسری نے پوچھا کہ اختر کے ساتھ جو دوسرا عملہ ان سرکاری بسوں کو چلاتا ہے وہ کیا کرتا ہے ؟

ثنا بولی۔ ’’میں نے یہ سوال اختر سے کیا تھا۔ انہوں نے بتلایا کہ اس کے اکثر ساتھی وجے واڑہ یا حیدرآباد میں رہتے ہیں۔ اس طرح ہر روز علی الصبح اگر وہ روانہ ہوتے ہیں تو رات گئے لوٹ آتے ہیں یا اگر دوپہر بعد روانگی ہو تو دوسرے دن لازمی واپسی ہو جاتی ہے۔‘‘

افسری نے کہا۔ ’’یہ تو بڑا آسان نسخہ ہے۔ تو اختر نے اس پر غور کیوں نہیں کیا؟‘‘ ثنا بولی۔ ’’اختر کا خیال ہے کہ آپ کبھی بھی اپنا آبائی وطن چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوں گی اور وہ آپ کو تنہا چھوڑ کر نہیں جا سکتا۔‘‘

افسری عجیب و غریب شش و پنج میں مبتلا ہو گئی۔ اختر کی بات صحیح بھی تھی اور غلط بھی تھی۔ اختر کی رائے کہ وہ شہر نہیں جائے گی، صد فیصد صحیح تھی۔ لیکن محض اس کی وجہ سے وہ ثنا سے دور رہے ، یہ بات مناسب نہ تھی۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اختر کو مشورہ دے گی بلکہ مجبور کرے گی کہ شہر منتقل ہو جائے اور اپنے بیوی بچوں کے ساتھ وہاں رہے۔ افسری کی اپنی ذات کے لیے یہ فیصلہ شاق ضرور تھا، لیکن اس نے ساری عمر اپنی ذات پر اختر کو ترجیح دی تھی۔ اختر کی خوشی کی خاطر اس نے اچھے اچھے رشتوں کو ٹھوکر مار دی تھی۔

افسری نے ہمیشہ ہی اختر کو خوشیوں سے مالامال کیا تھا۔ اختر کی اہلیہ ثنا اور ان کے بیٹے کو غمگین کرنا افسری کو گوارا نہ تھا۔ وہ اتنے سارے لوگوں کے غموں کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتی تھی۔ اس نے اختر کو بلا کر سمجھایا۔ اختر نے امی سے ساتھ چلنے کی شرط رکھی۔ افسری بولی۔ ’’بیٹے اس عمر میں تو مجھے اپنی مٹی سے کیوں دُور لے جانا چاہتا ہے ؟ اب اس مٹی کے مٹی سے ملنے کا وقت قریب آلگا ہے۔ اگر تو کہے گا تو میں چلے چلوں گی، لیکن تو جانتا ہے کہ میں خوش نہ رہ سکوں گی۔‘‘

اختر بولا۔ ’’اگر ایسی بات ہے تو میں بھی یہیں رہوں گا۔‘‘

’’اگر تو ایسا کرے گا، تب بھی میں خوش نہ رہوں گی۔‘‘

’’اچھا تو مجھے اپنے سے دُور بھیج کر ہی آپ خوش ہوں گی؟‘‘ اختر نے زِچ ہو کر کہا۔

افسری بولی۔ ’’نہیں بیٹے ! تم سے دُور ہو کر میں کیوں کر خوش ہو سکتی ہوں؟ دراصل اِس وقت میرے سامنے تینوں متبادل ناخوشی کے ہیں ، اور مجھے اِن میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہے۔ پہلا متبادل وہ ہے جس میں ہم سب ناخوش ہیں ، یعنی ہم سب کا یہاں رہنا۔ دُوسرے دونوں متبادل میں تمہاری خوشی اور میری ناخوشی ہے۔ اب اس میں سے جس میں کم غم ہے میں اُس کا انتخاب کرتی ہوں اور وہ یہ ہے کہ مجھے یہیں چھوڑکر تم ثنا اور صفدر کے ساتھ شہر چلے جاؤ۔ درمیان میں جب جی چاہے ، آ جانا۔ ویسے بھی تم سرکاری بس چلاتے ہو۔ جب ادھر کی ڈیوٹی ملے ، دونوں کو ساتھ لے آنا۔ میں صفدر سے مل لوں گی، ثنا اپنے والدین سے۔‘‘

اختر کو بالآخر امی کے اصرار پر ہتھیار ڈالنے پڑے اور وہ ثنا اور صفدر کے ساتھ حیدرآباد منتقل ہو گیا۔ شروع کے ایام میں اس کا نلگنڈہ کافی آنا جانا تھا۔ ہر بار بیوی بچے کو ساتھ لاتا، لیکن بتدریج ثنا اور صفدر کا ساتھ آنا کم ہو گیا اور پھر اختر بھی کبھی کبھار ہی اپنی امی افسری بیگم سے ملنے آنے لگا۔ اپنے ماضی سے اس کا رشتہ کمزور سے کمزور تر ہوتا جا رہا تھا۔ اس کی نگاہیں اپنے حال تک محدود اور اپنے مستقبل کی جانب مرکوز ہو گئی تھیں۔ یہ سب کب ہوا؟ کیسے ہوا؟ اِن سوالات سے وہ یکسر بے خبر تھا۔ شہر کی گہماگہمی میں اس طرح کے لایعنی سوالات پر غور کرنے کی فرصت کسے تھی؟

زندگی کا قافلہ دُنیا کے خمدار اور اوبڑ کھابڑ راستے پر سرکاری بس میں ایک ایسی منزل کی جانب رواں دواں تھا، جس کا نہ تو مسافروں۔۔ یعنی ثنا اور افسری۔۔ کو علم تھا اور نہ بس کا چلانے والا اختر ہی اس سے واقف تھا۔ اندھیرا خراماں خراماں اپنے مسافروں کے ساتھ محو سفر تھا۔ زندگی کا پہیہ لگاتار گھوم رہا تھا۔

 

 

 

شہر کا زہر

 

 

 

شہر میں اختر کے نہ دوست تھے اور نہ اسے ایسے شوق تھے جو گھر سے باہر اسے مصروف رکھتے۔ اس لئے اس کی زندگی گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر کے حصار میں محصور ہو گئی۔ وہ جب گھر سے باہر بھی ہوتا تو گھر ہی میں ہوتا۔ کبھی ثنا کے بارے میں سوچ رہا ہوتا تو کبھی صفدر کے خیالات میں گم ہوتا۔ ’’میری بیوی میرا بچہ اور کبھی کبھار میری ماں ۔۔‘‘ یہ اس کی بس کے اسٹاپ تھے۔ ثنا کے آرام کا اسے بڑا خیال تھا۔ ہر ماہ دو ماہ میں وہ ثنا کی سہولت کی کوئی نہ کوئی مشین لے آتا۔

مکسر کے آنے سے مصالحہ پیسنے کی محنت سے نجات حاصل ہو گئی تو واشنگ مشین نے کپڑے دھلنے کی محنت سے چھٹکارا دلا دیا۔ گھر میں جھاڑو مارنے کے لیے وہ ویکیوم کلینر لے آیا، جس کی مدد سے کھڑے کھڑے سارا گھر دھول مٹی سے پاک ہو جاتا۔ استری کی مشین ایسی کہ پانی کا فوارہ اس کے اندر سے حسبِ ضرورت نکل آتا تھا۔ اس کے علاوہ ٹیلی ویژن، جس میں انگلی کے اشارے سے نہ صرف چینل بدلتے تھے بلکہ بند کرنے اور کھولنے کا بھی اہتمام تھا۔ کھانا گرم کرنے کے لئے چولہا جلانے کی زحمت بھی نہیں رہی بس مائکرو اوون میں رکھو اور کھانا بغیر جلے گرم ہو جاتا۔

تین سال کے قلیل عرصہ میں اختر نے وہ سارے لوازمات مہیا کر دیئے تھے جواس کے ہم پیشہ ملازمین کے گھروں میں تیس سال کی ملازمت کے بعد بھی موجود نہ ہوتے تھے۔ دراصل اختر کی توجہات نہایت ہی محدود تھیں۔ روپئے بچانا اور اس گھریلو استعمال کی اشیاء فراہم کرنا یہی اس کا محبوب مشغلہ تھا۔ ہر مرتبہ جب وہ کوئی ایسی چیز لے کر آتا تو ثنا بظاہر ناراضگی جتاتی، لیکن دل ہی دل میں خوش ہوتی۔ اُسے ناز تھا کہ اس قدر محبت اور خدمت کرنے والا خاوند اُس کے حصہ میں آیا ہے۔ ایک دن اختر نے ثنا سے کہا۔ ’’تم ایک کام کیوں نہیں کرتیں؟‘‘

’’کون سا کام؟‘‘ ثنا نے پوچھا۔ ’’اب تو گھرے سارے کام مشینیں کرتی ہیں۔ اب میرے کرنے کے لئے کیا کام رہ گیا ہے  بھلا؟‘‘

’’نہیں ثنا! یہ بات نہیں۔ تمہارے پاس اگر وقت ہے۔۔ جیساکہ تم نے ابھی بتلایا۔۔ تو کیوں نہ کمپیوٹر کا بنیادی کورس ہی کر لو؟‘‘

’’اُس سے کیا ہو گا؟ ہمارے پاس کمپیوٹر تو ہے نہیں۔‘‘ ثنا بولی۔

اختر نے جواب دیا۔ ’’اگر نہیں ہے تو آ جائے گا۔ ہمارے پاس ثنا بھی تو نہیں تھی، آ گئی۔ صفدر ہمارے پاس نہیں تھا، وہ بھی آ گیا۔۔ تو کمپیوٹر کی کیا بساط؟ وہ بھی آ جائے گا۔‘‘

’’اوہ۔۔ اچھا! تو اب کمپیوٹر کی تیاری چل رہی ہے۔ میں سمجھ گئی۔ اختر ایک بات بتاؤ، آپ ہر چیز میرے ہی لیے کیوں لاتے ہیں؟ خود اپنے لیے ایک اسکوٹر یا موٹر سائیکل کیوں نہیں خرید لیتے۔ دفتر جانے میں آپ کوکس قدر دِقت ہوتی ہے ؟‘‘

’’ہم تو مواصلاتی ادارے کے ملازمین ہیں۔ بس میں آگے سے سوار ہو جاتے ہیں اور کرایہ بھی نہیں ادا کرتے۔ جہاں چاہتے ہیں ، چلے جاتے ہیں۔‘‘

’’ہاں ! جانتی ہوں۔ لیکن بس اسٹاپ تو جانا پڑتا ہے اور پھر اگر بس رُکے گی تبھی تو کوئی سوار ہو گا، آگے سے یا پیچھے سے۔‘‘

’’اب دیکھو ثنا، تھوڑا بہت چلنا پھرنا تو صحت کے لیے مفید ہے۔ ویسے بھی ہمارا کام دن بھر بیٹھے بیٹھے بس چلانے کا ہے۔ اور جہاں تک بس کے رُکنے کا سوال ہے ، ہمارے خاص اشارے سے بس اسٹاپ سے ذرا آگے دھیمی ہو جاتی ہے۔ میں دوسرے ملازمین کے لیے دھیمی کرتا ہوں اور وہ میرے لیے۔۔ یہ ہمارا باہمی تعاون کا معاملہ ہے۔‘‘

ثنا بولی۔ ’’اچھا چھوڑو موٹر سائیکل۔۔ آپ اتنی بڑی بس چلاتے ہیں۔ آپ کو بھلا ننھی سے موٹر سائیکل پر کیا مزہ آئے گا؟‘‘

’’ہاں۔۔ یہ ہوئی نہ سمجھداری کی بات۔‘‘ اختر نے چہک کر کہا۔ ’’تم عقلمند تو ہو مگر۔۔‘‘

’’مگر کیا؟ بولو۔۔ بولو!‘‘ ثنا نے بگڑ کر پوچھا۔

’’مگر یہی کہ تمہاری ٹیوب لائٹ تھوڑی سی دیر میں جلتی ہے۔‘‘

دونوں ہنسنے لگے ، پھر ثنا بولی۔ ’’دیکھو اختر! تمہارے کپڑے بہت پرانے اور بوسیدہ ہو گئے ہیں۔ میں نے سوچا ہے کہ اس مرتبہ تمہارے لیے اچھا سا سوٹ سلوائیں گے۔‘‘

’’سوٹ؟‘‘ اختر نے حیرت سے کہا۔ ’’پہلی بات تو یہ غلط ہے کہ میرے کپڑے پرانے ہو گئے ہیں۔ سال میں دو جوڑے تو ہمیں سرکار کی جانب سے ملتے ہیں اور وہ کپڑا بھی ایسا مضبوط کہ چار سال تک بوسیدہ نہیں ہوتا۔‘‘

ثنا بولی۔ ’’میں یونیفارم کی بات نہیں کر رہی۔‘‘

’’ارے بھئی۔۔ زیادہ تر وقت یونیفارم ہی تو زیب تن رہتا ہے۔ جسے تم بڑی محنت سے دھو دھو کر۔۔‘‘

’’میں نہیں ، تمہاری مشین۔‘‘

’’ہاں وہی۔۔ لیکن اس میں کپڑے صابن اور نہ جانے کیا کیا ڈالنے کا کام تو آپ ہی کرتی ہیں۔ پھر اس میں نکال کر پھیلانے کا، سکھانے کا، اُسے استری کرنے کا، کتنے سارے کام آپ کرتی ہیں ! مشین تو صرف دھوتی ہے۔‘‘

’’صرف دھوتی نہیں ، نچوڑتی بھی ہے۔۔‘‘ ثنا بولی۔ ’’۔۔اور استری کا کام بھی آپ کی مشین ہی کرتی ہے۔‘‘

’’جی، لیکن وہ خود کار تو ہے نہیں۔ کسی نہ کسی کو اسے ہاتھ میں لے کر کپڑوں پر پھیرنا پڑتا ہے۔‘‘

’’جی ہاں جی ہاں۔۔ سمجھ گئی۔ آپ کے بس میں ہو تو آپ خودکار استری بھی لے آئیں۔‘‘

’’ویسے ہندی زبان کی خودکار استری ہمارے پاس موجود ہے۔‘‘

’’کون ہے ؟ کون ہے وہ منہ جلی؟‘‘ ثنا نے پوچھا۔

’’منہ جلی نہیں ، ماہتاب و آفتاب۔ جس نے ہمارے گھر سنسار کو روشن کر رکھا ہے اور فی الحال جس کے میٹھے بول میرے کانوں میں رس گھول رہے ہیں ‘‘

ثنا شرما گئی اور بولی۔ ’’آپ بہت چالاک ہیں۔ بات کو گاڑی کی طرح گھما کر کہیں سے کہیں لے جاتے ہیں۔ میں کہہ رہی تھی اب کی بار آپ کے لیے سوٹ لینا ہے۔‘‘

’’لیکن اس سوٹ کو پہنیں گے کب؟ گھر میں تو سوٹ بوٹ پہن کر گزارا ممکن نہیں۔‘‘

’’آپ سے کون کہہ رہا ہے گھر میں سوٹ بوٹ پہنیں؟ کبھی کبھار کسی خاص تقریب میں جانا ہو۔۔‘‘

’’اوہو! سمجھ گیا۔ ایک خاص تقریب کے لیے جو سوٹ سلوایا تھا، اسے تو دوسری مرتبہ پہننا نصیب نہیں ہوا۔ اب آپ دوسرا سوٹ سلوانا چاہتی ہیں۔‘‘

ثنا زِچ ہو گئی، بولی۔ ’’اچھا! تو آپ دوسری خاص تقریب کے منتظر ہیں۔‘‘

’’جی نہیں محترمہ! مجھے نہ تو خاص تقریب چاہیے اور نہ ہی خاص لباس۔ میں تو اپنے حال میں خوش ہوں۔ آپ ہی خاص تقریب کے لیے خاص لباس پر مضر ہیں۔ اس لیے اب یہ چکر چھوڑیں۔ ہمارے محلہ میں ایک نیا کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ کھلا ہے ، جس نے ابتدائی مرحلے میں نصف فیس کی رعایت رکھی ہے اور پہلے مہینے میں داخلہ لینے والی خواتین کو صد فیصد رعایت ہے۔‘‘

’’اچھا! کیا یہ کوئی خیراتی ادارہ ہے ؟‘‘

’’جی نہیں۔۔ خالص تجارتی ادارہ ہے ، اور گاہکوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے یہ تجارتی حکمتِ عملی ہے۔ ہر نئے ادارے کے سلسلے میں لوگوں کے ذہن میں شکوک و شبہات ہوتے ہیں۔ کم دام کی کشش اِن اندیشوں پر غالب آ جاتی ہے۔‘‘

’’اور یہ خواتین کے لیے مفت کیوں؟‘‘ ثنا نے پوچھا۔

’ ’شاید وہ اس لیے کہ ویسے ہی خواتین تعلیم یافتہ کم ہیں۔ جو ہیں بھی، تو وہ اپنی گھر گرہستی میں اس قدر مصروف کہ انہیں کمپیوٹر وغیرہ میں دلچسپی نہیں ہے ، جسے ہے بھی تو اس کی ساس اور نند حوصلہ افزائی نہیں کرتیں اور اگر ایسی رُکاوٹ نہ بھی ہو تب بھی ان کی دقیانوسیت ان کے پیروں کی بیڑی بن جاتی ہے۔ اس لیے شاید اُنہیں اُمید ہی نہ ہو کہ خواتین اس زبردست رعایت کے باوجود بھی داخلہ لیں گی۔‘‘

’’اچھا۔۔!‘‘ ثنا نے استفہامیہ انداز میں کہا۔ ’’۔۔اور اگر مفت خور خواتین نے ہلّہ بول دیا تو؟‘‘

’’تب تو اس کا کاروبار چل نکلے گا۔ ان کے نقش قدم پر بہت سارے من چلے یوں ہی داخلہ لے لیں گے۔‘‘

ثنا بولی۔ ’’اختر! صحیح بات تو یہ ہے کہ آپ کو کوئی اوور ٹیک نہیں کر سکتا۔ آپ کی ڈرائیونگ بے مثال ہے۔‘‘

’’شکریہ! زہے نصیب!!‘‘ اختر بولا۔ ’’رعایت کی مدت دو چار دنوں میں ختم ہونے والی ہے ، اِس لیے تاخیر مناسب نہیں۔‘‘

’’ہاں بابا ہاں۔۔ آج ہی میں جا کر داخلہ لے لوں گی۔۔ بس!‘‘

اختر نے پھر کہا۔ ’’شکریہ۔‘‘

ثنا جب کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ میں پہنچی تو وہاں اس کی ملاقات نصرت جہاں سے ہوئی، جسے کاؤنسلر کہا جاتا تھا۔ نصرت کا کام تھا بہلا پھسلا کر وہاں آنے والے زائرین کو انسٹی ٹیوٹ کا گاہک بنانا۔ نہایت خوش لباس اور میک اپ کے ساتھ وہ اس طرح سے بیٹھتی تھی گویا کسی فلم کے سیٹ پر شوٹنگ کے لیے بیٹھی ہوئی ہو۔ اس کی ادائیں ، اس کا اندازِ تکلم، سب کچھ بالکل تربیت یافتہ روبٹ کی طرح تھا۔ لب و لہجہ اور لباس بالکل انگریزوں جیسا۔ بات چیت کے دوران ثنا کو پتہ چلا کہ نصرت جہاں کو اس کی خاص تربیت  حاصل کر رکھی ہے۔ اس کا ہر جملہ رٹا ہوا تھا، ہر ادا مصنوعی تھی۔

نصرت نے ثنا کا استقبال کیا اور اُسے بتلایا کہ اگلے دو دنوں تک موجودہ اسکیم کے تحت یہاں داخل ہونے والی خواتین کے لیے کوئی کورس فیس نہیں ہے۔ لیکن اسے انسٹی ٹیوٹ کا پراسپیکٹس جس میں فارم ہے ، خریدنا ہو گا، اُس کی قیمت تین سو روپئے ہے۔ اسی کے ساتھ داخلہ فیس، جو کورس فیس سے علیٰحدہ ہے ، وہ بھی ادا کرنی ہو گی جو پانچ سو روپئے ہے۔ ایک ٹریننگ سی۔ڈی خریدنی ہو گی جس کی قیمت بازار میں پانچ سو روپئے ہے ، لیکن انسٹی ٹیوٹ کے طلباء کو دو سو روپئے میں مہیا کی جاتی ہے۔ اسی کے ساتھ امتحان کی فیس داخلہ کے وقت جمع کی جاتی ہے جو چار سو روپئے ہے۔ اس طرح جملہ پندرہ سو روپئے اسے داخلہ کے وقت ادا کرنے ہوں گے۔

ثنا کے پاس تو ڈیڑھ سو روپئے بھی نہیں تھے ! وہ تو یہ سوچ کر آئی تھی کہ مفت میں کمپیوٹر سیکھے گی۔ لیکن اب یہ پندرہ سو روپئے کا جرمانہ کہاں سے ادا کرے ؟ ثنا سوچنے لگی تو نصرت بولی۔ ’’میں سمجھ گئی آپ کیا سوچ رہی ہیں؟ اگر آپ پوری فیس ایک وقت میں ادا نہیں کر سکتیں تب بھی کوئی بات نہیں۔ ہم اپنے طلباء کا خاص خیال کرتے  ہیں۔ آپ اس فیس کو تین قسطوں میں ادا کر سکتی ہیں۔ داخلے کے وقت پانچ سو روپئے ، امتحان سے قبل پانچ سو روپئے اور نتیجے سے قبل پانچ سو روپئے۔‘‘

نصر ت تجویز پر تجویز پیش کئے چلی جاتی تھی۔ اس سے پہلے کے ثنا کچھ ذہن بناتی اور کسی فیصلے پر پہنچتی، نصرت ایک نئی پیشکش میں اُسے اُلجھا دیتی۔ ثنا کے لیے پھر بھی مسئلہ تھا۔ اس کے پرس میں فی الحال پانچ سو روپئے بھی نہیں تھے۔ وہ پھر خلاء میں دیکھنے لگی۔ اس پر نصرت بولی۔ ’’دیکھئے بہن! آج کل کریڈٹ کارڈ کا زمانہ ہے۔ اس لیے لوگ نقد لے کر نہیں چلتے ، اس کا مجھے اندازہ ہے۔ ہم جلد ہی اپنے ادارے میں اے۔ٹی۔ایم کی مشین لگوانے والے ہیں۔ لیکن اس وقت تک ہم آپ کو یہ سہولت دیتے ہیں کہ آپ اپنی نشست مختص کروا دیں ، اور باقی رقم آئندہ ہفتہ کورس کی شروعات سے پہلے ادا کر دیں۔ اس لیے کہ کل اور پرسوں ہمارے یہاں آخرِ ہفتہ کی چھٹی ہوتی ہے۔ پرسوں سے یہ رعایتی اسکیم ختم ہو جائے گی اور پھر آپ کو پوری فیس ادا کر کے داخلہ لینا ہو گا۔ اس لیے آپ دو سو روپئے ادا کر کے اپنا نام لکھوا دیں تاکہ رعایت سے مستفید ہوسکیں۔‘‘

ثنا نے کہا۔ ’’شکریہ بہن، لیکن میرے پاس تو صرف ڈیڑھ سو روپئے ہیں۔ میں شام کو دو سو روپئے لے کر آتی ہوں۔‘‘

’’اوہو۔۔ تو کیا آپ نے ہمیں اِس قدر کٹھور اور سنگدل سمجھ رکھا ہے ؟ ارے شرافت ابھی تک ختم نہیں ہوئی ہے۔ آپ ایسا کریں۔۔ ڈیڑھ سو روپئے ادا کر دیں۔ میں آپ کو دو سو روپئے کی رسید دے دیتی ہوں۔ اس لیے کہ دو سو سے کم کی رسید نہیں بنتی۔ آئندہ ہفتہ جب آپ تین سو ادا کرنے کے لئے آئیں تو باقی ماندہ پچاس ملا کر ساڑھے تین سو ادا کر دینا۔‘‘

ثنا پر احسانات اس قدر تیزی سے برس رہے تھے کہ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ اس نے بٹوہ کھول کر اُس میں سے ڈیڑھ سو روپئے نکالے اور نصرت کی  جانب بڑھا دیے۔ نصرت نے جھٹ رسید بک کھول کر اس پر ثنا اختر لکھا اور دو سو  روپئے پیشگی کی رسید دے دی، نیچے کونے میں ۵۰؍ روپئے باقی بھی لکھ دیئے۔ میز  کی دراز کھولی اور اس میں سے ایک لفافہ نکالا جس پر خوبصورت سا لیبل لگا ہوا تھا۔ اس لیبل پر نہایت خوش خط انداز میں نصرت نے ثنا اختر لکھا اور کہا۔

’’یہ ہمارا پراسپیکٹس ہے۔ اس میں فی الحال کورس کی سی۔ڈی نہیں ہے۔ وہ آپ کو داخلے کے وقت۔۔ جب آپ پانچ سو روپئے ادا کر دیں گی۔۔ مل جائے گی۔ اس میں ایک شناختی کارڈ ہے ، جس پر آپ اپنی اچھی سی تصویر لگا کر لائیں تاکہ ہم اس پر اپنی مہر لگا کر آپ کو باقاعدہ اپنے معزز طلباء میں شامل کر لیں۔ محترمہ ثنا اختر، آپ کا ہمارے اس ادارے میں خیر مقدم ہے۔ آپ کو اس عظیم درسگاہ کا طالب علم ہونا بہت بہت مبارک ہو۔‘‘

یہ کہہ کر نصرت جہاں اپنی کرسی پر کھڑی ہو گئی۔ ثنا اختر کو بھی سمجھ میں آ گیا کہ اب اس کے نکل جانے کا وقت آ گیا ہے۔ اِس کے بعد نصرت نے میز پر سے اپنا تجارتی کارڈ ثنا کے ہاتھوں میں رکھا اور کہا۔ ’’اس پر میرے نمبر درج ہیں۔ میں صبح آٹھ بجے سے رات آٹھ بجے تک دفتر میں ہوتی ہوں۔ آپ کے ذہن میں اگر کسی قسم کا کوئی سوال ہو تو بلا جھجھک مجھ سے رابطہ قائم کریں۔ مجھے آپ کی خدمت کرنے میں مسرت ہو گی۔‘‘

ثنا کو محسوس ہوا، جیسے کوئی بے جان گڑیا بول رہی ہے اور اچانک اس کی کوک ختم ہو گئی۔ وہ اپنی جگہ بیٹھ گئی اور ثنا بے جان قدموں سے دروازے کی طرف چل پڑی۔ جیسے جیسے ثنا اپنے گھر سے قریب پہنچ رہی تھی، اس کے حواس مجتمع ہو رہے تھے۔ بالآخر وہ نصرت جہاں کے طلسم سے بالکل باہر آ گئی اور اس نے سوچنا شروع کیا کہ آخر ہوا کیا؟ وہ مفت میں داخلے کے لیے گئی تھی اور ڈیڑھ سو روپئے ادا کرنے کے باوجود ساڑھے تیرہ سو کا قرض اپنے سر پر لے کر واپس آ رہی ہے۔ یہ سب اس قدر جلدی جلدی ہو گیا کہ اس کی سمجھ میں کچھ بھی نہ آیا۔ دراصل اس کی عقل ماؤف ہو گئی تھی۔ اسے چاہئے تھا کہ فیصلہ کرنے میں اس قدر عجلت نہ کرتی بلکہ ان اقدامات  سے قبل اختر سے مشورہ کرتی۔ پھر اُسے اختر پر غصہ آنے لگا۔ آخر اختر نے اسے اکیلے کیوں بھیجا؟ اگر اخترساتھ ہوتا تو شاید وہ اس طرح نصرت کے جال میں نہ پھنستی۔ لیکن اگر اختر پھنس جاتا تو؟ اس سوال سے ثنا ڈر گئی۔ اچھا ہی ہوا جو اختر ساتھ نہ تھا۔ لیکن اگر اختر ناراض ہو جائے تو؟ اس سوال نے ثنا کو غمگیں کر دیا۔ لیکن قدرت کا عظیم جیتا جاگتا کھلونا صفدر جب اس کی گود میں آیا تو  وہ سارے  رنج و الم بھول گئی۔

 

 

 

کمپیوٹر کا مایا جال

 

 

اختر جب شام میں واپس آیا تو اس نے سب سے پہلے سوال کیا۔ ’’کیوں ثنا! تم نے داخلہ لیا یا نہیں؟‘‘

ثنا نے اپنی داستان سنائی تو اختر سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور پھر بولا۔ ’’اچھا یہ بتاؤ کہ یہ کورس کب شروع ہو رہا ہے ؟‘‘

’’آئندہ ہفتے !‘‘ ثنا نے جواب دیا۔

’’ہفتہ تو سات دن کا ہوتا ہے۔ کیا آپ ہر روز جائیں گی اور شروع نہ ہو تو واپس آ جائیں گی؟‘‘

’’نہیں ! میں پیر کو جا کر پوچھوں گی۔‘‘

’’آج کیوں نہیں پوچھا؟‘‘

’’جی ہاں یہ ہو سکتا تھا، لیکن میں نے سوچا کہ ابھی ساڑھے تین سو باقی ہیں ، اِس لیے کیسے پوچھوں؟‘‘

’’لیکن کم از کم یہ تو پوچھ لیا ہوتا کہ کلاس کے اوقات کیا ہیں؟ کورس کی مدت کیا ہے ؟ سرٹیفکیٹ کون دے گا؟ وغیرہ وغیرہ۔

’’دیکھئے۔۔ وہ نصرت جہاں جو ہے نا۔۔ آپ اُسے نہیں جانتے۔ وہ کچھ پوچھنے ہی نہیں دیتی۔‘‘

’’اگر ایسا ہے تو وہاں پڑھائی کیا ہو گی؟ اگر تم اپنی مشکلات پوچھ نہ سکوگی تو سیکھوگی کیسے ؟ کیا وہ منہ پر ہاتھ رکھ دیتی ہے ؟‘‘

’’جی نہیں ! ایسی بات نہیں۔ وہ ایسا کچھ بھی نہیں کرتی بلکہ وہ خود بولے چلی جاتی ہے۔ وہ کچھ سوچنے کا موقع ہی نہیں دیتی۔ اب انسان سوچ ہی نہ سکے تو پوچھے کیسے ؟ آپ ہی بتائیں؟‘‘ ثنا نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔

’’اچھا۔۔ ایسی بات ہے تو میں پوچھتا ہوں۔‘‘

’’جی ہاں ! بلکہ مجھے آپ کو اپنے ساتھ لے کر جانا چاہئے تھا۔‘‘

’’خیر، جو ہوا سو ہوا۔ میں ابھی فون کر کے پوچھتا ہوں۔ کیا اُس نے اپنا فون نمبر دیا ہے۔‘‘

’’جی ہاں جی ہاں۔ اس نے اپنا کارڈ دیا اور کہا کہ صبح آٹھ سے رات آٹھ بجے تک میں جب چاہوں ، اُس سے رابطہ قائم کر سکتی ہو۔‘‘

’’اچھا تو لگاؤ فون اور پوچھو اُس سے یہ تمام تفصیلات۔‘‘ اختر نے تحکمانہ انداز میں کہا۔

ثنا بولی۔ ’’دیکھئے ، میں فون ملاتی ہوں ، آپ بات کیجئے۔‘‘

’’کیوں ۔۔؟ تمہیں ڈر لگتا ہے ؟‘‘

’’جی نہیں۔۔ ایسی بات نہیں۔۔ پھر میں کچھ بھول جاؤں گی تو آپ بگڑیں گے۔ یہ لیجئے ، فون کی گھنٹی بج رہی ہے۔‘‘ ثنا نے فون اختر کے ہاتھوں میں تھما دیا۔

اختر کو سامنے سے آواز آئی۔ ’’ہیلو۔۔ یو آر ویلکم ٹو آئی ٹی ٹی آئی۔ آپ کون صاحب  بول رہے ہیں؟‘‘

’’جی میں پرویز بول رہا ہوں۔ آپ کیا کرتے ہیں؟‘‘ اختر نے کڑک کر کہا۔

’’جی میں یہاں خدمت کرتا ہوں ، صاف صفائی کرتا ہوں ، چائے بناتا ہوں ، سامان لاتا ہوں ۔۔، وغیرہ وغیرہ۔‘‘

’’ اچھا، تو یہ کہو نا کہ پیون ہوں۔‘‘

’’ جی ہاں ، جی ہاں صاحب۔۔ آپ نے صحیح کہا۔ لیکن کہنے میں شرم آتی ہے۔ ویسے میرے اپائنمنٹ لیٹر پر آفس بوائے لکھا ہوا ہے اور میڈم آفس ایڈمنسٹر کے طور پر میرا تعارف کرواتی ہیں۔‘‘

آفس ایڈمنسٹر صاف صفائی کرتا ہے ؟ چائے بناتا ہے ؟‘‘ اختر نے تعجب سے پوچھا۔

’’جی ہاں ، جی ہاں سر۔ میڈم کہتی ہیں کہ ہر کام اہم ہے۔ کوئی کام ہلکا نہیں ہوتا۔ اور پھر ہمارا نیا دفتر ہے۔ عملہ کم ہے ، اس لیے سب کام سبھی کو کرنے پڑتے ہیں۔‘‘

’’اچھا تو کیا تمہاری میڈم بھی صاف صفائی کرتی ہیں؟‘‘

’’جی ہاں سر! اپنی میز اپنی کرسی وہی صاف کرتی ہیں۔‘‘

’’اور چائے بھی بناتی ہیں؟‘‘

’’جی ہاں ، جی ہاں سر۔ وہ مجھے اپنے لیے چائے بنانے کے لئے کبھی نہیں کہتیں ، خود ہی بناتی ہیں۔ لیکن جب مہمان آتے ہیں نا۔۔‘‘

’’دفتر میں مہمان؟‘‘ اختر نے پوچھا۔

’’جی جی سر! آپ تو الفاظ پکڑ لیتے ہیں۔ میرا مطلب ہے گاہک۔۔ میڈم اُنہیں مہمان کہتی ہیں۔۔ تو اُن کے لئے چائے میں بناتا ہوں۔‘‘

’’اچھا اب یہ بکواس بند کرو اور نصرت جہاں سے فون ملاؤ۔‘‘

’’ٹھیک ہے سر۔ ویسے میں بکواس کب کر رہا تھا۔ آپ ہی کرید کرید کر پوچھ رہے تھے۔ یہ لیجئے سر، میڈم سے بات کیجئے۔‘‘

نصرت جہاں نے پرویز کی حالت سے اندازہ لگا لیا کہ کوئی صاحب بڑے غصہ میں ہیں۔ اُس نے بڑے پُر وقار انداز میں مسکرا کر کہا۔ ’’ہیلو! آئی۔ ٹی۔ ٹی۔ آئی۔ میں آپ کا خیر مقدم ہے۔ فرمائیے کون صاحب بول رہے ہیں؟‘‘

اختر آواز سن کر نرم پڑ گیا اور بولا۔ ’’جی مجھے نصرت جہاں صاحبہ سے بات کرنی ہے۔‘‘

’’جی میں نصرت جہاں بول رہی ہوں۔ ہمارا پرویز کبھی بھی کسی غلط شخص کو فون نہیں دیتا۔ آپ نے ابھی تک نہیں بتایا کہ آپ کون صاحب بول رہے ہیں۔‘‘

اختر کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا، وہ بولا۔ ’’جی میں مرزا اختر بیگ بول رہا ہوں۔‘‘

’’اوہو ثنا اختر کے خاوند محترم فرمائیں ، میں آپ کی کیا خدمت کر سکتی ہوں؟ آپ باقی ماندہ فیس بھرنے کے لیے کب آ رہے ہیں؟ ثنا نے تو یہ بتایا ہی نہیں اور اپنا داخلہ لے کر چلی گئیں۔‘‘ نصرت نے اُلٹا الزام ثنا کے سر منڈھ دیا۔

اختر بھی مدافعانہ حالت میں آ گیا۔ ’’جی جی، وہ تو ہم آئندہ ہفتہ بھر دیں گے۔ لیکن آپ نے اسے کورس کی تفصیل سے آگاہ نہیں کیا۔ اس کی مدت وغیرہ وغیرہ۔‘‘ اختر نے گھگیا کر کہا۔

’’اوہو، تو یہ بات ہے۔ میں نہیں جانتی کہ ثنا نے آپ کو وہ لفافہ دیا یا نہیں جس میں ہمارا پراسپیکٹس ہے۔ دراصل اس میں یہ تمام تفصیلات درج ہیں۔ حالانکہ اس کی قیمت پانچ سو روپئے ہے ، پھر بھی میں نے ثنا کو وہ دے دیا تاکہ وہ اسے پڑھے اور ان تمام معلومات کو حاصل کرے۔ لیکن افسوس کہ ملت پڑھنا لکھنا چھوڑ کر لڑنے بھڑنے میں لگی ہوئی ہے۔‘‘ نصرت نے اختر پر چوٹ کی۔

اختر بولا۔ ’’معاف کیجئے ، پراسپیکٹس اس نے مجھے دکھلایا لیکن یہ بنیادی باتیں تو زبانی بتلائی جاتی ہیں۔‘‘ اختر کافی دب چکا تھا۔

’’جی ہاں ، آپ بجا فرماتے ہیں۔ ہم لوگ یہاں بیٹھے ہی اس لیے ہیں کہ بتلائیں۔ لیکن کوئی پوچھے تو سہی! ثنا نے پوچھنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ اس لیے میں نے سوچا، تعلیم یافتہ خاتون ہیں ، پڑھ کر خود ہی معلوم کر لیں گی۔‘‘

اختر کو ایسا محسوس ہوا جیسے کہہ رہی ہو کہ وہ جاہل اور ان پڑھ ہے۔ اختر بولا۔ ’’ٹھیک ہے ، میں اس کو پڑھتا ہوں اور پھر اگر کوئی وضاحت طلب کرنی ہوئی تو پوچھتا ہوں ، شکریہ۔‘‘

’’بہت بہت شکریہ!‘ ‘ نصرت نے مسکراتے ہوئے کہا اور فون رکھ دیا۔ اختر نے غصہ سے لفافہ چاک کیا ا ور اس میں موجود پراسپیکٹس کو پڑھنے لگا۔ وہ دراصل کمپیوٹر کی اہمیت پر لکھا ہوا ایک مضمون تھا۔ اس میں اس ادارے کے بارے میں بہت ہی کم معلومات تھی۔ ابتدائی کورس کے بارے میں یہ تو لکھا تھا کہ اس کی مدت کل ایک ماہ ہو گی۔ ’’ایک ماہ اور پندرہ سو روپئے۔۔؟‘‘ اختر پر یہ خبر بجلی کی طرح گری، لیکن اس میں کتنے گھنٹے پڑھا ئی ہو گی اور کیا پڑھایا جائے گا، اِس بارے میں کوئی تفصیلات نہیں تھیں۔ سرٹیفکیٹ کے  بارے میں بھی کوئی وضاحت نہیں تھی۔ اختر کو بہت غصہ آیا، ’’یہ کیا پاگل پن ہے ؟‘ ‘ اُس نے دوبارہ فون ملایا۔ سامنے سے پھر پرویز کی آواز آئی، اختر نے کڑک کر کہا۔  ’’کون۔۔؟ پرویز!‘‘

’’جی ہاں سر فرمائیے۔ آپ کی کیا خد مت کی جائے ؟‘‘

’’مجھے نصرت جہاں سے بات کرنی ہے۔ فوراً فون ملاؤ۔‘‘

’’جی جی وہ ابھی فون پر نہیں آسکتیں۔ نہیں آسکتیں۔‘‘

’’کیوں نہیں آسکتیں؟‘‘

’’جی دراصل بات یہ ہے کہ وہ فی الحال کلاس میں ہیں ، پڑھا رہی ہیں۔‘‘

’’اچھا۔۔! وہ ٹیچر ہے یا کاؤنسلر؟‘‘

’’وہ اپنے دفتر میں کاؤنسلر ہیں اور کلاس میں ٹیچر۔‘‘

’’اچھا؟ تو وہ پڑھاتی بھی ہیں؟‘‘

’’جی ہاں سر۔۔ وہ اور بھی بہت سارے کام کرتی ہیں۔ میڈم بہت کام کرتی ہیں۔ ابھی ہمارا ادارہ نیا نیا ہے نا، اس لیے سب کو۔۔‘‘

اختر نے بات کاٹ دی۔ ’’میں جانتا ہوں ، سب کو سب کام کرنا پڑتا ہے۔‘‘

’’جی ہاں سر۔ آپ بہت ذہین آدمی ہیں۔ بہت جلدی بات سمجھ جاتے ہیں۔‘‘

’’ٹھیک ہے ، ٹھیک ہے۔ اچھا ایسا کرو کہ جب وہ کلاس سے فارغ ہو کر دفتر میں آئے تو مجھے فون کرواؤ۔‘‘

’’جی سر! کوشش کروں گا‘‘

’’کیا مطلب کوشش کروں گا؟‘‘

’’سر بات یہ ہے کہ اگر بھول گیا تو آپ خود فون کر لینا۔‘‘

’’بھول جاؤ گے ؟ کیا مطلب؟‘‘

وہ سر نیا نیا ادارہ ہے بہت کام رہتا ہے سب کو سب۔۔‘‘

’’ہاں سمجھ گیا۔‘‘ یہ کہہ کر اختر نے فون پٹخ دیا۔ اس کا غصہ آسمان کو چھو رہا تھا۔ ’’یہ کیا مذاق ہے ؟ انسٹی ٹیوٹ ہے یا چائے خانہ؟‘‘ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اُس نے پھر فون لگایا، سامنے سے پھر پرویز کی آواز آئی۔

وہ بولا۔ ’’پرویز ایسا کرو، تم اپنے ناظم سے بات کراؤ۔‘‘

’’ناظم۔۔؟ ناظم نام کے کوئی صاحب ہمارے یہاں نہیں پائے جاتے۔‘‘

’’میرا مطلب تمہارے منیجر سے بات کرواؤ، میں اُن سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔‘‘

’’جی سر، میں آپ کو ابھی بتلایا تو تھا کہ وہ کلاس میں ہے۔ جب باہر آئیں گی تب آپ فون کریں تو آپ نے فوراً ہی فون کر دیا۔‘‘

’’میں نصرت سے نہیں ، منیجر سے بات کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

’’تب تو آپ بات نہیں کرسکتے سر۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’اِس لیے کہ نصرت میڈم ہی تو منیجر ہیں۔‘‘

’’کیا؟‘‘ اختر نے چیخ کر کہا۔

’’جی ہاں سر! میں نے آپ کو بتایا تھا نہ کہ وہ اور بھی بہت کچھ کرتی ہیں اور پھر ہمارا نیا نیا۔۔‘‘

اختر نے فو ن پٹخ دیا۔ ثنا یہ سب دیکھ دیکھ کر محظوظ ہو رہی تھی۔ وہ اختر کے قریب آئی اور بولی  ’’دیکھئے ، اتنا پیچ و تاب کھانے سے اچھا ہے کہ ہم ڈیڑھ سو روپیوں کو بھول جائیں۔ سمجھ لیں کہ صفدر کا صدقہ گیا۔‘‘

’’بھول جائیں؟ کیا مطلب بھول جائیں؟ تم جیسے شکست خوردہ لوگوں کے باعث ہی پورا معاشرہ بدعنوان لوگوں کے قبضے میں چلا گیا ہے۔ میں ان لوگوں کو نہیں چھوڑوں گا۔ میں سرکاری ملازم ہوں ، یہاں کے کاؤنسلر فتح علی خان تک میری رسائی ہے۔ میں اِن کی دھوکہ دہی بے نقاب کر دوں گا۔ اُن کو سڑک پر لے آؤں گا۔ یہ لوگ عوام کو دھوکہ دیتے ہیں ، اُن کا استحصال کرتے ہیں۔‘‘ اختر کو اپنے یونین لیڈر کے جتنے جملے یاد تھے ، وہ سب اس نے دہرا دیئے۔ اُن کا یونین لیڈر بھی فتح علی خان ہی تھا۔ یہ سب اس کے پسندیدہ جملے تھے جنہیں وہ اپنی ہر تقریر میں سنا کر تالیاں بجواتا تھا۔

لیکن ثنا پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا، وہ بولی۔ ’’دیکھو جی، ہمارے پاس یہ سب کرنے کے لیے نہ وقت ہے اور نہ سرمایہ، اس لیے بلاوجہ پریشان ہونے سے اچھا ہے کہ اسے بھول جائیں۔‘‘

’’تم چپ کرو ثنا۔ دُنیا کے معاملہ میں مجھے نصیحت نہ کرو۔ تم اپنے آپ کو گھر تک محدود رکھو، یہی تمہارے لیے بہتر ہے۔‘‘

’’جی ہاں میرے سرتاج! میں یہی کہہ رہی تھی کہ میں ایک سیدھی سادی خاتونِ خانہ ہوں۔ آپ مجھے کمپیوٹر کے چکر میں کیوں ڈال رہے ہیں؟ لیکن آپ نے خود ہی اصرار کیا۔ ’بغیر فیس‘ کے لالچ میں پھنس گئے۔‘‘

اختر اُٹھ کر دوسرے کمرے میں چلا گیا اور سر پکڑ کر لیٹ گیا۔ ساری دُنیا اس کی دشمن ہو گئی تھی۔ پہلے نصرت، پھر پرویز اور اب ثنا۔۔ ہر کوئی اُسی کو موردِ الزام ٹھہرا رہا تھا۔ گویا اس نے کمپیوٹر کی تعلیم کا فیصلہ کر کے کوئی گناہِ کبیرہ کر دیا ہو۔ ثنا صفدر کو کھلانے پلانے میں مصروف ہو گئی۔ اختر ٹیلی ویژن دیکھنے لگا۔

تھوڑی دیر بعد فون کی گھنٹی بجی۔ اُدھر پرویز تھا، وہ بولا۔ ’’جی جناب اختر صاحب۔۔ آداب تسلیم! محترمہ نصرت جہاں صاحبہ آپ سے بات کرنا چاہتی ہیں۔‘‘

اختر نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے فون ملاؤ۔‘‘

نصرت نے پوچھا۔ ’’جی جناب اختر صاحب فرمائیے۔ لگتا ہے آپ نے بڑی جلدی ہمارا پراسپیکٹس میرا مطلب ہے تفصیلِ نصاب پڑھ لیا۔‘‘

اختر نے بیزاری سے کہا۔ ’’جی ہاں لیکن مجھے اس میں اپنے سوالات کا کوئی جواب نہیں ملا۔‘‘

’’اچھا! مثلاً آپ کے کون سے سوالات؟‘‘ نصرت نے متانت سے پوچھا۔

’’کہیں بھی اس کی وضاحت نہیں ہے کہ کلاس ہفتے میں کتنے دن ہو گی؟‘‘

’’اوہو۔۔ اچھا۔ بات دراصل یہ ہے کہ یہ تو طلباء پر منحصر ہے۔ کچھ لوگ صرف چھٹی کے دن پڑھنا چاہتے ہیں اور کچھ ہفتہ میں تین دن۔ کچھ لوگ سارا ہفتہ۔ ہم نے طلباء کی سہولت کے لحاظ سے مختلف بیچ بنا رکھے ہیں اور جس کی جو سہولت اس کے مطابق بیچ میں اُسے داخل کر دیا جاتا ہے۔ جب ثنا فیس بھرنے آئے گی، اُس وقت ان کی سہولت کے لحاظ سے اُن کا بیچ بھی متعین ہو جائے گا۔ اب انہوں نے اپنے فارغ اوقات بتلائے ہی نہیں تو ہم کیا کریں؟‘‘

’’ٹھیک ہے ، لیکن بنیادی کورس کی مدت کیا ہو گی؟‘‘ یہ سوال اختر نے جانتے بوجھتے پوچھا تھا۔

’’یہ بھی اس پر منحصر ہے کہ طالب علم ہفتے میں کتنا وقت دیتا ہے۔ اب ظاہر ہے ، ہر روز پڑھنے والے کے لیے تو و ہ مدت نہیں ہو سکتی جو ہفتے میں ایک دن پڑھنے والے کے لیے ہو؟

تو کیا ہفتے والے لوگو ں کو سات گنا زیادہ مدت سے گزرنا پڑتا ہے ؟‘‘ اختر نے ایک غیر ضروری سوال کر د یا۔

نصرت نے کہا۔ ’’جی نہیں صاحب! ہفتے میں ویسے تو سات دن ہوتے ہیں ، لیکن کام کے دن صرف پانچ ہوتے ہیں اور ہم ہفتہ وار طلباء کو اس ایک دن میں ڈھائی گنا زیادہ وقت دیتے ہیں۔ اس طرح دو گنا مدت میں وہ اپنا کورس مکمل کر لیتے ہیں۔ تو کیا آپ بھی ثنا کے ساتھ ہفتہ وار کورس میں داخلہ لینا چاہتے ہیں؟ یہ دراصل ایسے لوگوں کے لیے مرتب کیا گیا ہے جو برسرِ ملازمت ہیں۔‘‘

اختر گھبرا گیا، وہ بولا۔ ’’جی نہیں ایسی بات نہیں۔ فی الحال تو میرا کوئی ارادہ نہیں ہے۔‘‘

’’کیوں؟‘‘ نصرت بولی۔ ’’آپ نے ہمارا تفصیلِ نصاب نہیں پڑھا۔ جلد ہی وہ زمانہ آنے والا ہے جب کمپیوٹر سے نابلد انسان کو ان پڑھ اور جاہل سمجھا جائے گا۔ اگر آپ کمپیوٹر پر کام کرنا نہیں جانتے تو آپ کی بڑی بڑی  ڈگریاں بیکار ہو جائیں گی۔ قلم اور کاغذ کا استعمال ختم ہو جائے گا، سب کچھ کمپیوٹر میں ہو گا۔‘‘

’’اچھا۔۔‘‘ اختر نے کہا۔ ’’۔۔تو پھر آپ نوٹ نہیں لیں گی اور رسید نہیں دیں گی؟‘‘ اختر نے طنزیہ انداز میں کہا

نصرت بولی۔ ’’جی ہاں جناب۔ آپ نے بجا فرمایا۔ آپ کے کریڈٹ کارڈ کے ذریعہ رقم ہمارے بنک میں جمع ہو جائے گی اور رسید آپ کو ای۔میل پر سافٹ کاپی روانہ کر دی جائے گی۔ ویسے میں آپ سے یہ پوچھنا بھول گئی کہ آپ کے پاس کمپیوٹر تو ہو گا ہی۔ آپ کا ای۔میل پتہ کیا ہے ؟‘‘

اختر اس اچانک حملہ کے لیے تیار نہ تھا، وہ بولا۔ ’’کمپیوٹر ہونے نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے ؟ کیا آپ کے ادارے میں داخلہ کے  لیے یہ شرط ہے ؟‘‘

’’جی نہیں ، ایسی بات نہیں۔ لیکن اگر انسان کچھ  سیکھے اور اس کا استعمال نہ کرے تو بھول جاتا ہے۔ اگر کسی کے پاس کمپیوٹر نہ ہو تو ا س بات کا قوی امکان ہوتا ہے کہ اس کی تختی پھر صاف ہو جائے۔ جیسے آدمی گاڑ ی چلانا سیکھے اور گاڑی نہ چلائے تو بھول جاتا ہے۔‘‘

اختر کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس عورت کو یہ کیسے پتہ چل گیا کہ وہ بس چلاتا ہے اور اس کے پاس فی الحال کمپیوٹر نہیں ہے۔ وہ بولا۔ ’’محترمہ! بات دراصل یہ ہے کہ آپ ہمیشہ بات کو اِدھر اُدھر گھما دیتی ہیں۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کے یہاں کئے جانے والے کورس کا سرٹیفکیٹ کس کی جانب سے جاری ہو گا۔‘‘

نصرت بولی۔ ’’یہ تو بڑا عجیب سا سوال ہے۔ امتحان ہم لیں گے تو سرٹیفکیٹ بھی ہم ہی دیں گے۔ کیمبرج والے تو نہیں دیں گے۔‘‘

’’لیکن آپ کے ادارے کو کون جانتا ہے ؟‘‘

’’نہیں جانتا تو جان جائے گا۔ کسی زمانے میں کیمبرج کو بھی کوئی نہیں جانتا تھا۔ آہستہ آہستہ لوگ جان گئے۔‘‘

’’لیکن اس وقت جو لوگ آپ کے یہاں تعلیم حاصل کریں گے وہ تو بلی کا بکرا بنیں گے۔‘‘

’’جی نہیں جناب! آج کل علم کی قدردانی ہوتی ہے ، نام کی نہیں۔ اگر آپ کے پاس کوئی ڈگری ہے لیکن کام نہیں آتا تو آپ کو کوئی ملازمت پر نہیں رکھے گا، اور اگر ڈگری نہ بھی ہو اور آپ کام جانتے ہیں تو ملازمت مل جائے گی۔‘‘

’’اگر ایسی بات ہے تو کوئی آپ کے ادارے میں داخلہ ہی کیوں لے ؟‘‘ اختر نے اُلٹا سوال کیا۔

نصرت بولی۔ ’’آپ نے میری بات غور سے نہیں سنی۔ میں نے کہا علم کی قدردانی ہے۔ جسے علم حاصل کرنا ہو وہ ہمارے پاس آئے اور اپنی قدر بڑھائے۔‘‘

اختر لاجواب ہو گیا، وہ بولا۔ ’’آپ کی ساری باتیں درست ہیں ، مگر آپ، لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ آپ نے اشتہار دیا کہ پہلے مہینہ خواتین سے کوئی فیس نہیں لی جائے گی اور اب آپ پندرہ سو روپئے مانگ رہی ہیں۔‘‘

’’دیکھئے جناب! آپ نے ہمارے اشتہار کو غور سے نہیں پڑھا، اس میں ہمارا قصور نہیں۔ ہم نے صاف لکھا کورس فیس نہیں لی جائے اور ہم کورس فیس نہیں لے رہے ہیں۔ داخلہ فیس، کورس سی۔ڈی اور امتحان کی فیس کے بارے میں ہم نے کبھی نہیں کہا کہ وہ مفت ہے۔ اب ایک چیز کے مفت ہونے کا یہ مطلب تو نہیں کہ ہر چیز مفت ہو۔‘‘

اختر کو نصرت نے چاروں خانے چت کر دیا تھا۔ لیکن اختر ماننے والا کب تھا، وہ بولا۔ ’’دیکھیں الفاظ کے مایاجال میں آپ مجھے پھنسانے کی کوشش نہ کریں۔ میں اِن داؤں پیچ کو خوب جانتا ہوں؟ آپ کو ہمارے ڈیڑھ سو روپئے واپس کرنے ہوں گے ،  ہمیں آپ کے یہاں کورس نہیں کرنا۔‘‘

نصر ت بولی۔ ’’میں تو آپ کو پڑھا لکھا آدمی سمجھتی تھی۔ آپ نے رسید پر جلی الفاظ میں لکھا ہوا نہیں پڑھا کہ فیس کی واپسی ممکن نہیں اور پھر پہلی قسط دو سو روپئے ہے۔ میں  نے ڈیڑھ سو کے عوض ثنا کے لیے نشست مختص کر دی۔ پچاس روپئے آپ پر ویسے ہی  قرض ہے۔ پانچ سو روپیوں کا پراسپیکٹس آپ استعمال کر چکے ہیں اور پھر ہم ہی پر بگڑ رہے ہیں۔ یہ تو خوب سینہ زوری ہے جناب!‘‘ نصرت نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔

اختر بو لا۔ ’’دیکھئے ، آپ مجھے نہیں جانتیں۔ میں سرکاری ملازم ہوں۔ فتح علی خان کاؤنسلر کی  یونین کا سرگرم کارکن ہوں۔ میں آپ کی اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا۔‘‘

نصرت جہاں بولی۔ ’’یہ دھمکی آپ اپنے پاس رکھیں۔ دراصل آپ مجھے نہیں جانتے۔  میں فتح علی خان کاؤنسلر کی دست راست ہوں۔ آپ اس کے دفتر میں جا کر کسی  سے پوچھیں ، لوگ مجھے نصرت فتح علی خان کے نام سے جانتے ہیں اور کانپتے ہیں۔ فتح علی خان دراصل اِس انسٹی ٹیوٹ میں شراکت دار ہیں۔ اب آپ یہ بتائیں کہ وہ اپنی یونین کے ایک کارکن کا ساتھ دیں گے یا اپنے پارٹنرس کی حمایت کریں گے ؟‘‘

نصرت فتح علی خان سنتے ہی اختر کو پسینہ چھوٹ گیا۔ اس نے فتح علی خان کے دفتر میں پارٹی کی مالیاتی سکریٹری نصرت فتح علی خان کا نام سنا تھا، جس سے لوگ بہت ڈرتے تھے۔ اس کو کبھی نصرت سے ملنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ لیکن اس کے بارے میں اس نے بہت کچھ سن رکھا تھا۔ تعارف کے بعد اختر کا لب و لہجہ بدل گیا،  وہ بولا۔ ’’معاف کرنا محترمہ! میں نہیں جانتا تھا، اس لیے معذرت چاہتا ہوں۔‘‘

نصرت بولی۔ ’’کوئی بات نہیں۔ ہمیں اپنی یونین کے ایسے کارکن بہت  پسند ہیں جو بیباک اور دلیر ہوتے ہیں۔ میں فتح علی خان سے آپ کی سفارش کروں  گی۔ اب جبکہ آپ نے خان صاحب سے اپنا تعلق بتلا دیا ہے تو ہم ثنا کو مزید رعایت دیتے ہیں۔ اسے باقی ماندہ پچاس روپئے ادا کرنے کی ضرورت نہیں اور اس کی کل فیس پندرہ سو کے بجائے صرف ایک ہزار ہو گی۔‘‘

اختر نے گھگیا کر کہا۔ ’’شکریہ میڈم شکریہ۔‘‘

’ ’نہیں ، شکریہ کی کوئی بات نہیں۔ دراصل ہم نے یہ ادارہ ہی ملت کی فلاح و بہبود کے لیے کھول رکھا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ملت کے نوجوان اور خواتین کمپیوٹر خواندگی حا صل کریں اور اپنی صلاحیتوں کا بہتر استعمال کر کے اپنا مستقبل روشن بنائیں۔ خا ں صاحب نے تو اپنی زندگی اس مقصد کے لیے وقف کر دی ہے۔ آپ تو یونین کے آدمی ہیں ، آپ جانتے ہی ہوں گے۔ ویسے اگر آپ کو کمپیوٹر خریدنے کی خاطر کسی مدد کی ضرورت ہو تو ہمیں بتلائیں۔ ہمارے پاس اس کے لیے خصوصی فنڈ ہے۔ آسان قسطو ں پر ہم کمپیوٹر مہیا کر دیتے ہیں۔ ویسے چونکہ آپ ہمارے اپنے آدمی ہیں ، اس  لئے کسی ضمانت کی بھی ضرورت نہیں ہے۔‘‘

اب اختر پر احسانات کی بارش ہو رہی تھی اور وہ اس میں سر سے پاؤں تک بھیگا جا رہا تھا۔ ’’شکریہ شکریہ‘‘ کے علاوہ کوئی اور لفظ اسے نہیں سوجھ رہا تھا۔ ثنا یہ دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔ جب اختر نے فون رکھا تو وہ بولی۔ ’’اچھا تو نصرت جہاں کا جادو ہمارے سرتاج پر بھی چڑھ گیا اور وہ بھی صرف فون پر۔‘‘

اختر بولا۔ ’’ثنا تم نے بتلایا نہیں نصرت ہمارے کاؤنسلر کی دست راست ہے جو ساری یونین کے سربراہ بھی ہیں۔ بڑے عظیم آدمی ہیں خان صاحب۔‘‘

ثنا نے پوچھا۔ ’’میں کسی خان صاحب کو نہیں جانتی۔ میں تو نصرت کے بارے میں کہہ رہی تھی۔‘‘

’’ہاں وہی۔۔ عظیم آدمی کا دست راست بھی عظیم ہی ہو گا، یہ تو ظاہر سی بات ہے۔‘‘

’ ’جی ہاں !‘‘ ثنا بولی۔ ’’جس طرح عظیم انسان مرزا اختر علی بیگ کی زوجہ محترمہ ثنا ا ختر بھی عظیم ہیں۔

اختر  بولا۔ ’’جی ہاں جی ہاں ، بات دراصل یہ ہے کہ تم میری نصف بہتر ہو اور میں نصف بد تر۔ اس لحاظ سے عظمت میں تم مجھ سے بڑھ کر ہو۔‘‘

’’زہے  نصیب زہے نصیب! اب یہ بتلائیں جناب کہ مجھے کرنا کیا ہے ؟‘‘

’’کچھ نہیں ، پیر کے دن تم جاؤ اور مزید تین سو روپئے ادا کر دو پچاس روپئے انہوں نے  چھوڑ دیئے۔ فیس میں مزید تیس فی صد کی رعایت کر دی۔ اب امتحان سے قبل مزید پانچ سو روپئے تمہیں ادا کرنے ہوں گے اور پھر ہماری ثنا کمپیوٹر کی ماہر بن جائیں گی۔‘‘

’’شکریہ شکریہ! لیکن تین سو روپئے آئیں  گے کہاں سے ؟‘‘

’’تم اُس کی فکر مت کرو، یہ میرا کام  ہے۔ میں اتوار کی شام تک اس کا انتظام کر دوں گا ان شاء اللہ۔‘‘

ثنا بولی ’’ان شا ء اللہ‘‘ اور سوچنے لگی۔۔ عجیب آدمی ہے اختر، ابھی تو ڈیڑھ سو روپئے وصول کرنے پر تلا ہوا تھا اور ابھی ایک ہزار روپئے ادا کرنے پر تیار ہو گیا؟ کون جانے کون ہے یہ فتح علی خان جو نصرت فتح علی خان کے تال پر رقص کرتا ہے ؟ اور جس کے سر پر بیٹھ کر نصرت ساری یونین کو نچاتی ہے۔ یہ سب باتیں ثنا کی سمجھ سے پرے تھیں۔ وہ تو یہ جانتی تھی کہ اسے ٹھگ کر ڈیڑھ سو روپئے اینٹھ لیے گئے ہیں۔ اب مزید دھوکہ دہی سے اپنے آپ کو بچانے کی خاطر ان ڈیڑھ سو روپیوں کو بھول جانے میں عافیت ہے۔

 

 

 

 

 نصرت فتح علی خان

 

 

دو دنوں کے اندر اختر نے نہ جانے کہاں سے تین سو روپیوں کا جگاڑ کر لیا اور ثنا با دِلِ ناخواستہ اُس رقم کو لے کر آئی۔ ٹی۔ ٹی۔ آئی۔ کے دفتر میں پہنچ گئی۔ اُسے توقع تھی کہ نصرت اس پر اختر کا غصہ اُتارے گی، لیکن ایسا نہ ہوا۔ نصرت نے ثنا سے روپئے لیے اور اُسے تین سو کی رسید دے دی۔ ثنا سے پرانی رسید لے کر اُس پر پچاس روپئے باقی کو کاٹ کر قریب ہی دستخط کر دیئے اور پوچھا۔ ’’ٹھیک ہے ؟‘‘

ثنا بولی۔ ’’جی ہاں !‘‘ اس کے بعد ثنا خود ہی معذرت خواہانہ انداز میں بولی۔ ’’معاف کیجئے ہمارے وہ ذرا گرم دماغ کے ہیں۔‘‘

’’اوہو! کوئی بات نہیں۔ وہ ہماری یونین کے آدمی ہیں۔ ہمیں اپنی یونین میں ایسے ہی لوگوں کی ضرورت ہے ٹھنڈے دماغ کے لوگوں کے ذریعہ یونین نہیں چل سکتی۔‘‘

ثنا کی سمجھ میں یہ اُلٹی منطق نہیں آئی، اس نے پوچھا۔ ’’جی؟‘‘

نصرت بولی۔ ’’دیکھو ثنا۔۔ سوچنے سمجھنے کا کام ہمارے رہنماؤں کا ہے۔ وہ ٹھنڈے دماغ سے سوچتے ہیں اور گرم لہجہ میں تقریر کرتے ہیں۔ باقی لوگ گرم دماغ سے سوچتے ہیں اور نرم لہجہ میں گفتگو کرتے ہیں۔ اسی طرح نظام چل رہا ہے۔ جس دن عام لوگ ٹھنڈے دماغ سے سوچنے لگیں گے ، گرم لہجہ کی تقاریر اُن کی سمجھ میں نہیں آئیں گی اور وہ خود گرم لہجہ میں گفتگو کرنے لگیں گے۔ اس طرح کی گرما گرمی میں یونین ٹوٹ کے بکھر جائے گی۔ مزدوروں کا عظیم اتحاد انتشار میں بدل جائے گا۔‘‘

یہ دلیل بھی ثنا کی سمجھ میں نہیں آئی، وہ بولی۔ ’’بہن میں سمجھی نہیں۔‘‘

’’تم نہیں سمجھو گی۔ مختصر یہ کہ ہم نہیں چاہتے کہ ہماری یونین کے کارکنان ٹھنڈے دماغ سے سوچیں۔ اس کام کے لیے وہ اپنے رہنماؤں پر انحصار اور اعتماد کریں۔ سمجھیں !‘‘

’’جی ہاں ، سمجھ گئی۔‘‘ ثنا بولی۔ ’’ہم لوگ گھر میں بھی تو یہی کرتے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے ہیں کہ ہمارا خاوند ٹھنڈے دماغ سے سوچے ، بلکہ اس کام کے لیے وہ ہمارا محتاج و مرہونِ منت ہو۔‘‘

نصرت کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ بولی۔ ’’ثنا تم جیسی نظر آتی ہو ویسی نہیں ہو۔ تم نے تو بڑی ذہانت کی بات کہی ہے۔‘‘

’’اچھا تو کیا میں چہرے سے بے وقوف نظر آتی ہوں۔‘‘

’’جی نہیں ! لیکن سیدھی سادی اور معصوم۔۔ بالکل فرشتہ صفت۔‘‘ نصرت بولی۔

ثنا اپنی تعریف سن کر پسیج گئی اور بولی۔ ’’کیا سیدھے سادھے لوگ بے وقوف ہوتے ہیں۔‘‘

نصرت بولی۔ ’’نہیں ! دراصل وہ لوگ بے وقوف ہوتے ہیں جو انہیں بے وقوف سمجھتے ہیں۔‘‘

ثنا بولی۔ ’’سمجھ گئی۔‘‘

نصر ت بولی۔ ’’سمجھدار ہو۔‘‘

ثنا  نے جواب دیا۔ ’’سیدھی سادی۔۔‘‘ اور دونوں ہنس پڑیں۔

پہلی  ہی ملاقات نے نصرت اور ثنا کو ایک دوسرے کا دوست بنا دیا۔ وہ دیر تک اِدھر اُدھر کی  باتیں کرتی رہیں۔ انہوں نے ایک دوسرے کے گھر کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔ پسند و ناپسند پر تبادلۂ خیال ہوا، کون سا کھانا پسند ہے ؟ کون سے کپڑے ؟ کون سی خوشبو؟ کون سا میک اپ؟ گویا بے شمار موضوعات پر وہ آپس میں بات چیت کرتی رہیں۔ نصرت نے بتلایا کہ وہ ایئر انڈیا میں ہوسٹس کا کام کرتی تھی اور یونین کی سرگرم کارکن بھی تھی۔ دہلی میں یونین کے اجلاس میں اس کی ملاقات فتح علی خان صاحب سے ہو گئی۔ انہوں نے اس سے کہا کہ وہ ایئر انڈیا کی ملازمت چھوڑ دے اور یہاں حیدرآباد میں یونین کی مالیاتی مشیر بن جائے۔ اس طرح وہ دہلی سے حیدرآباد آ گئی۔

’’لیکن ایئر ہوسٹس کی تو بڑی تنخواہ ہوتی ہے اور بڑے ٹھاٹ باٹ۔۔ کیا وہ تمام چیزیں تمہیں یہاں میسّر ہیں۔‘‘

نصرت بولی۔ ’’جی ہاں میری آمدنی میں اضافہ ہوا ہے۔ میرے عیش میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی اور میری حیثیت پہلے سے کہیں زیادہ بہتر ہوئی ہے۔ حیدرآباد روڈ ٹرانسپورٹ یونین، ٹیکسی رکشا یونین، ایئر انڈیا یونین کی آندھرا شاخ۔۔ اِن سب کے سربراہ فتح علی خان صاحب ہیں اور میں اُن کی دستِ راست ہوں۔‘‘

نصرت فتح علی خان۔‘‘ ثنا نے جملہ پورا کیا۔

نصرت مسکرائی۔ ’’جی ہاں۔ ویسے میرا نام نصرت جہاں ہے۔ جس طرح تمہارا نام ہے ثنا پروین، نا کہ ثنا اختر۔‘‘

’’اوہو۔۔ یہ آپ کو کیسے پتہ چل گیا؟ سچ تو یہ ہے کہ اپنا یہ سابقہ نام میں خود بھی بھول چکی ہوں۔‘‘

’’لیکن تمہارے سرٹیفکیٹس پر یہی لکھا ہے اور آئی۔ ٹی۔ ٹی۔ آئی۔ کی سند پر بھی یہی لکھا ہوا ہو گا۔ اس لیے کہ تمہارا اصلی نام یہی ہے۔‘‘

’’لیکن نکاح؟‘‘

’’جی ہاں ثنا۔۔ تمہارے نکاح نامہ پر بھی تمہارا نام ثنا پروین لکھا ہوا ہو گا، نہ کہ ثنا اختر۔ لگتا ہے تم نے اپنا نکاح نامہ کبھی غور سے نہیں دیکھا!‘‘

’’ہاں نصرت۔۔ تم صحیح کہتی ہو۔‘‘

’’دراصل میں نے بھی اپنے نکاح نامہ کو پہلی مرتبہ طلاق سے قبل ہی دیکھا تھا۔ یہ عجیب بات ہے۔ جب وہ دستاویز زندہ و تابندہ ہوتی ہے ، اُسے کوئی نہیں دیکھتا اور جب وہ سکرات کے عالم میں پہنچ جاتی ہے ، اُسے سب دیکھتے ہیں۔۔ شوہر، بیوی، قاضی، گواہ اور وکیل۔۔ سب کے سب۔‘‘

ثنا بولی۔ ’’نصرت آپ بہت ذہین خاتون ہیں۔ بڑی حکمت کی باتوں کو نہایت آسان کر کے بیان فرماتی ہیں۔‘‘

’’ہو سکتا ہے تمہاری بات صحیح ہو۔ لیکن میں سیدھی سادی نہیں ہوں۔‘‘ پھر ایک بار دونوں سہیلیاں ہنس پڑیں۔

واپس چلنے سے پہلے ثنا نے پوچھا۔ ’’نصرت اب آپ ان سوالات کا جواب دے دیں کہ جو اختر مجھ سے پوچھنے والے ہیں۔ مثلاً مجھے کتنا وقت یہاں گزارنا ہو گا؟‘‘

’’جس قدر سہولت ہو۔‘‘ نصرت نے جواب دیا۔

’’اور کورس کب ختم ہو گا؟‘‘

’’جب تم کمپیوٹر کا استعمال سیکھ جاؤ گی۔‘‘

’’اور امتحان کب ہو گا؟‘‘

’’جب تم کہو گی کہ تیار ہو۔‘‘

’’اور سرٹیفکیٹ کب ملے گا۔‘‘

’’وہ۔۔ وہ چاہو تو ابھی اپنے ساتھ لے جاؤ۔‘‘ نصرت کا قہقہہ بلند ہوا۔ ’’لیکن اختر کو نہ بتانا، ورنہ وہ اِس کی قدر نہ کریں گے۔‘‘

ثنا بو لی۔ ’’سمجھ گئی۔‘‘

’’کیا سمجھیں؟‘‘

’’اختر  سے کیا کہنا ہے ، سمجھ گئی۔‘‘

’’ہاں یہ تم سے بہتر اور کون سمجھ سکتا ہے۔ لیکن دیکھو، کوئی ایسی بات نہ کہہ دینا کہ وہ فون اُٹھا کر مجھ پر برس پڑیں۔‘‘

’’نہیں ، ایسا نہیں ہو گا۔ لیکن اگر ہوا بھی تو تم کہاں اپنی ناک پر مکھی بیٹھنے دیتی ہو؟‘‘

’’صحیح کہا تم نے ثنا، اور کیوں دیں بھلا؟‘‘ نصرت بولی۔

’’بہت صحیح! میرا خیال ہے آج کا سبق یہاں ختم کرتے ہیں۔ کل میں ان شاء اللہ دس بجے تک گھر کے کام سے فارغ ہو کر آ جاؤں گی۔‘‘

’’ٹھیک ہے۔ بہت خوب۔ لیکن کل تمہیں کچھ سیکھنا بھی ہو گا۔ ویسے حقیقت تو یہ ہے کہ کمپیوٹر استعمال کرتے کرتے انسان خود ہی سب کچھ سیکھ جاتا ہے۔ جیسے بچہ چلتے چلتے ، گرتے پڑتے ، دوڑنا بھاگنا سیکھ جاتا ہے۔ یہ تو لوگ بلاوجہ کے کورسس اور سرٹیفکیٹ کے چکر میں پڑے رہتے ہیں۔ مجھے دیکھو، میں کمپیوٹر سکھاتی ہوں۔ میں نے کمپیوٹر کسی سے نہیں سیکھا۔ دفتر میں ، گھر میں ، استعمال کرتے کرتے سب سیکھ گئی۔ جب گاڑی پھنستی تھی تو پہلے خود اپنی عقل چلاتی تھی۔ جب مسئلہ حل نہیں ہوتا تو کسی سے پوچھ لیتی۔تھی اس طرح دھیرے دھیرے سب کچھ آ گیا۔‘‘

’’لیکن میرا نہ دفتر ہے اور نہ گھر پر کمپیوٹر ہے۔‘‘

’’ایسی بات ہے تو سمجھ لو کہ یہ تمہارا دفتر ہے اور تمہارے گھر پر ایک کمپیوٹر شام میں پرویز جاتا ہوا چھوڑ جائے گا۔‘‘

’’ارے کیا غضب کرتی ہو نصرت۔۔ ہمارے پاس باقی ماندہ پانچ سو فیس ادا کرنے کے لیے نہیں ہیں ، کمپیوٹر کی قیمت کہاں سے لائیں گے ؟‘‘

’’تمہیں کس نے کہا کہ کمپیوٹر کی قیمت ادا کرو؟ یہ سمجھ لو کہ جو کمپیوٹر یہاں دفتر میں بغیر استعمال کے پڑا ہوا ہے ، وہ تمہارے گھر پر  مستعار ہے۔ جب یہاں ضرورت ہو گی، پرویز واپس لے آئے گا۔‘‘

ثنا بولی۔ ’’نصرت تم واقعی اسم  با مسمیٰ ہو۔‘‘

’’اور تم بھی قابل تعریف ثنا۔‘‘

بات سے بات نکل رہی تھی اور سلسلہ تھا کہ تھمتا ہی نہ تھا۔ لیکن بہرحال ثنا نے اسے منقطع کیا اور خدا حافظ کہہ کر گھر کی  جانب چل پڑی۔

شام میں ثنا اختر کو نصرت کی ملاقات کے بارے میں بتلا رہی تھی کہ دروازے پر دستک سنائی دی۔ اختر نے دروازہ کھولا تو ایک نووارد کو دیکھا جو کمپیوٹر کا ڈبہ اُٹھائے کھڑا تھا۔ اس سے پہلے اختر کچھ پوچھتا، وہ بولا۔ ’’جناب میرا نام پرویز ہے۔ مجھے میڈم نے بھیجا ہے اس کمپیوٹر کے ساتھ۔‘‘

’’کون میڈم؟‘‘

’’میڈم نصرت جہاں صاحبہ۔‘‘

’’اوہو!‘‘اختر بولا۔ ’’اب یاد آیا۔۔ آئی۔ ٹی۔ ٹی۔ آئی۔‘‘

’’جی ہاں جناب، آپ نے صحیح پہچانا۔‘‘

’’ٹھیک ہے۔ اسے اندر ایک کنارے رکھ دو۔‘‘

’’جی جناب۔ اِسے شروع کر کے رکھنا ہو گا یا آپ خود یہ کر لیں گے ؟‘‘

’’جی نہیں۔۔ ہم اِس بارے ہم کچھ نہیں جانتے۔ تم کل انجینئر کو بھیج دینا۔‘‘

’’سر! کل بھی مجھے ہی آنا پڑے گا۔ ویسے کوئی حرج نہیں ، کل آ جاؤں گا۔ لیکن اگر آپ مناسب سمجھیں تو ابھی چلا دوں؟‘‘

’’اِسے تم لگاؤ گے اور چلا کر دِکھاؤ گے۔‘‘

’’جی ہاں جناب! آپ تو جانتے ہیں ، ہمارا نیا نیا ادارہ ہے۔ سب کو سب کام کرنے پڑتے ہیں اور میڈم تو کہتی ہیں ۔۔‘‘

اختر نے اس کا جملہ کاٹ دیا۔ اِتنی مرتبہ وہ اس بات کو سن چکا تھا کہ اسے ازبر ہو گیا تھا، وہ بولا۔ ’’جی ہاں ، میں جانتا ہوں۔ کسی کام کو حقیر نہ جانو، ہر کام اہم ہوتا ہے۔‘‘

’’جی اختر صاحب، آپ بجا فرماتے ہیں۔‘‘

’’تمہیں کیسے پتہ؟‘‘

’’دراصل بات یہ ہے کہ میڈم بھی یہی فرماتی ہیں اور میڈم صحیح فرماتی ہیں۔‘‘

’’لیکن اس کام کو حقیر کس نے کہہ دیا۔‘‘

’ ’کسی نے نہیں کہا۔ لیکن دُوسرے کاموں کو اکثر لوگ گرا ہوا کہتے ہیں۔ حالانکہ۔۔ ‘‘

اختر  بیزار ہو گیا۔ ’’ہاں ہاں میں جانتا ہوں میڈم کیا کہتی ہیں۔‘‘

پرویز  بولا۔ ’’جی ہاں جناب! آپ بھی میڈم کی طرح سب جانتے ہیں۔۔ بالکل صحیح صحیح۔‘‘

اختر کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ شخص واقعی دل سے نصرت کی تعریف کرتا ہے یا محض اداکاری کرتا ہے۔ خیر، دلوں کے حال جاننے والا وہ کون ہوتا ہے ! یہ کہہ کر اس نے اپنے آپ کو پھسلایا۔۔ ’’اور پھر اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ یہ اُس کا اور نصرت کا آپسی کا معاملہ ہے۔ اسے کیا غرض!‘‘ خیر اس نے پرویز سے کہا۔ ’’دیکھو پرویز! ہم لوگ جگہ وغیرہ کا تعین بعد میں کریں گے۔ تم ایسا کرو کہ کل اِسی وقت آ کر اِس کو شروع کر دینا، اگر زحمت نہ ہو۔‘‘

’’جناب آپ مجھے شرمندہ کرتے ہیں۔ مجھے کیوں کر زحمت ہو سکتی ہے ؟ اور ثنا باجی تو میڈم کی خاص سہیلی ہیں۔ ہمیں تو اُن کا خاص خیال رکھنا ہو گا۔‘‘

اختر کی سمجھ میں کچھ نہ آیا، اس نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے۔ کل اِسی وقت۔‘‘

’’شکریہ جناب۔‘‘ یہ کہہ کر پرویز چلا گیا۔

اختر کو ثنا کی یہ بات ناگوار گزری۔ اُس نے کمپیوٹر خریدنے کا فیصلہ اس سے مشورہ کئے بغیر کر لیا۔ یہ بھی نہ سوچا کہ اس کی قسطیں کیسے ادا ہوں گی؟ ثنا نے وضاحت کر دی کہ یہ فیصلہ اُس کا اپنا نہیں ، نصرت کا ہے اور فی الحال انہیں کوئی قسط ادا نہیں کرنی ہے۔ جب دفتر میں ضرورت ہو گی اور وہ واپس لے جانے لگیں گے ، اُس وقت دیکھی جائے گی۔

اختر کو اطمینان ہوا، وہ بولا۔ ’’پرویز کہہ رہا تھا کہ تم نصرت کی خاص سہیلی ہو۔‘‘

’’اوہو۔۔ آپ پرویز کی باتوں کو سنجیدگی سے نہ لیں۔ وہ تو دن بھر کچھ نہ کچھ  بولتا ہی رہتا ہے۔‘‘

’’لیکن وہ کہہ رہا تھا کہ وہ کمپیوٹر کی ترتیب کر سکتا ہے۔‘‘

’ ’ہاں یہ صحیح ہے۔ وہ دراصل کمپیوٹر انجینئر ہے۔ بے روزگاری کے باعث آفس ایڈمنیسٹریٹر کے طور پر نصرت نے اسے ملازمت پر رکھ لیا، اور اُس سے آفس بوائے کا کام لے ر ہی ہے۔ نصرت نے اسے کہہ رکھا ہے کہ آگے چل کر وہ اسے آئی۔ ٹی۔ ٹی۔ آئی۔ کا پارٹنر بنا دے گی۔ پرویز بے چارہ اِسی لالچ میں سب کام خوشی خوشی کرتا ہے۔ اُسے لگتا ہے کہ وہ اپنی مستقبل کی کمپنی کو مضبوط کر رہا ہے۔‘‘

’’بہت خوب۔۔ تمہاری سہیلی تو بڑی چالاک عورت ہے۔‘‘

ثنا بولی۔ ’’دیکھیں آپ میرے سامنے غیر عورتوں کی تعریف نہ کیا کریں۔‘‘

اختر نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے بھئی غلطی ہو گی۔ عالم پناہ سے معذرت چاہتا ہوں۔‘‘

ثنا مسکرا کر بولی۔ ’’ہم نے معاف کیا اور دونوں ہنسنے لگے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اختر کے پڑوس میں نواب زادہ نصراللہ کا گھر تھا۔ بہت بڑا خاندان۔۔ ماں باپ اور چار بیٹے ، اُن کی بیویاں ، اُن کے بچے ، تقریباً پچیس تیس افراد اس گھر میں رہتے تھے ، اور پھر اس پر مہمان۔ بچوں میں کئی ایسے تھے جو صفدر کے ہم عمر تھے۔ اس لیے صفدر اُٹھتے ہی وہاں بھاگتا۔ ان کے بیچ کھیلتا، کھاتا پیتا اور سو جاتا۔ پہلے تو ثنا اس کو منع کرتی تھی، لیکن جب سے اس نے آئی۔ ٹی۔ ٹی۔ آئی۔ جانا شروع کیا تھا، نصرت اور ثنا میں خوب چھننے لگی تھی۔ اب اس نے صفدر کو پڑوس میں جانے سے منع کرنا چھوڑ دیا تھا۔ وہ صبح صبح صفدر کو نہلاتی، دھلاتی، ناشتہ کراتی، اُس کے بعد صفدر خود ہی پڑوس میں بھاگ جاتا۔ جاتے جاتے وہ نواب زادہ کی چھوٹی بہو چراغ فاطمہ سے بتا کر چلی جاتی کہ وہ باہر جا رہی ہے۔ دوپہر کو جب لوٹ کر آتی تو صفدر کو وہاں کھیلتا ہوا پاتی۔ اسے اپنے پاس بلا کر کھلاتی پلاتی۔ وہ پھر واپس وہیں بھاگ جاتا۔ ثنا اس کے بعد اپنے گھر کے کمپیوٹر پر مصروف ہو جاتی۔

نواب زادہ کے گھر میں دینی ماحول تھا۔ لوگ بڑے ادب و تہذیب سے ایک دوسرے کے ساتھ پیش آتے ، نہایت عمدہ زبان میں گفتگو کرتے ، اس لیے ثنا کو اطمینان تھا کہ صفدر وہاں اچھے اخلاق سے آراستہ ہو گا۔ ثنا نے اپنے کمپیوٹر میں انٹرنیٹ لگوا لیا تھا اور اس کی مدد سے وہ گھر بیٹھے دُنیا کی سیر کرتی تھی۔ دن بہ دن وہ انٹرنیٹ کی عادی ہوتی جا رہی تھی۔ ای۔میل، چیٹنگ اور طرح طرح کے شوق وہ پالنے لگی تھی۔ نصرت کی دوستی اسے گلیمر کی دُنیا میں لے گئی تھی۔ نصرت اسے اپنے ساتھ مختلف تقریبات میں لے جاتی۔ کبھی یونین کی کسی میٹنگ میں تو کبھی کسی فیشن شو میں۔ کبھی کسی موسیقی کی شام میں تو کبھی کسی پارٹی میں۔

اختر کو ثنا کا یہ آنا جانا ناگوار تو تھا، لیکن پھر بھی وہ اسے برداشت کر رہا تھا۔ اسے احساس تھا کہ ثنا اچھی اور پڑھی لکھی خاتون ہے ، وہ بے پناہ صلاحیتوں کی حامل ہے۔ لیکن اختر نے اسے اپنے گھر کی چہار دیواری میں بند کر رکھا ہے۔ اس لیے اگر وہ باہر کی دُنیا میں کچھ گھوم ٹہل لیتی ہے اور اس کے باعث اس کی جیب پر بار نہیں پڑتا تو کیا حرج ہے ؟ کئی مرتبہ شام میں جب اختر کام سے واپس آتا تو ثنا کو ندارد پاتا۔ اختر صفدر کو بلا کر اس کے ساتھ اپنا وقت گزارا کرتا۔ اسے باغ کی سیرپر لے جاتا یا کوئی بچوں کی فلم آتی تو وہ دکھا لاتا۔ حالانکہ صفدر کو یہ سب کم ہی سمجھ میں آتا تھا، لیکن اپنے بابا کے ساتھ باغ کی یا نہر کی سیر اسے بہت پسند آتی تھی۔ وہ پڑوس کے کسی بچہ کو  اپنے ساتھ لے جاتا تاکہ ان کی احسانات کا تھوڑا بہت کفارہ ادا ہو جائے۔

اختر کے گھر میں بتدریج تبدیلیاں آ رہی تھیں ، لیکن یہ سب کچھ اس قدر آہستگی سے ہو رہا تھا کہ روزانہ کی بنیاد پر اسے محسوس کرنا مشکل تھا۔ لیکن جب اختر چھ ماہ قبل کے حالات پر غور کرتا تو اسے خاصہ بدلاؤ دکھائی دیتا۔اسے محسوس ہوتا کہ وہ دن بہ دن بے بس اور مجبور ہوتا جا رہا ہے۔ اسے کبھی کبھی لگتا کہ کچھ نہ کچھ غلط ہو رہا ہے ، لیکن وہ نہیں جان پارہا تھا کہ یہ غلط کیا ہے ؟ اور اس غلطی کی اصلاح کیوں کر ممکن ہے ؟ اس لیے اس نے سوچنا چھوڑ دیا تھا۔ حالات کے ساتھ مصالحت کر لی تھی۔

ایک دن ثنا نے اختر سے کہا کہ نصرت اپنے ادارہ میں ایک نیا شعبہ تشکیل دینے جا رہی ہے جس میں نوجوانوں کو کال سینٹر پر کام کرنے کی تربیت دی جائے گی۔ وہ چاہتی ہے اس کے انتظام و انصرام کا کام میں کروں۔

’’تم؟‘‘ اختر نے تعجب سے پوچھا۔ ’’تمہیں کال سینٹر پر کام کرنے کا کون سا تجربہ ہے ؟‘‘

ثنا بولی۔ ’’آپ صحیح کہتے ہیں۔ لیکن نصرت کا کہنا ہے کہ وہ تجربہ حاصل کرنے کی غرض سے مجھے ایک کال سینٹر میں ملازمت دلوائے گی، ساتھ ہی خصوصی پیشہ ورانہ تربیتی پروگراموں سے بھی گزارے گی۔ یہ سارا کام تین مہینہ میں مکمل ہو جائے گا۔ اس وقت تک اس نئے شعبہ سے متعلق دیگر تیاریاں بھی ہو جائیں گی اور پھر میں اس کا انتظام سنبھال لوں گی۔‘‘

اختر نے کہا۔ ’’ثنا تم مجھے اطلاع دے رہی ہو یا مجھ سے اجازت لے رہی ہو؟‘‘

ثنا خاموش ہو گئی۔

اختر نے پھر پوچھا۔ ’’ثنا میرے سوال کا جواب دو تو اچھا ہے۔‘‘

ثنا بولی۔ ’’ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ میں آپ سے پہلے اجازت لیتی لیکن میں نے نصرت سے وعدہ کر دیا ہے ، اس لیے آپ سمجھ لیں کہ میں اطلاع دے رہی ہوں۔ ویسے اگر آپ منع کر دیں تو اب بھی میں اُسے نا کہہ سکتی ہوں۔‘‘

اختر بولا۔ ’’شکریہ! میں تمہاری سچائی کی قدر کرتا ہوں ثنا۔ مجھے تمہاری یہ عادت بہت پسند ہے کہ کسی کی رضا یا ناراضگی تم سے جھوٹ نہیں  بُلواتی۔ ویسے میں تمہیں منع نہیں کروں گا۔۔ لیکن صفدر؟‘‘

’’میں نے صفدر کے بارے میں سوچا ہے کہ ہم ایک آیا رکھ لیں گے جو دِن بھر اُس کے ساتھ رہے گی۔ ویسے جب اضافی آمدنی ہو گی تو اس میں سے ایک حصہ اُس پر خرچ ہو جائے گا۔‘‘

اختر کو محسوس ہوا کہ ثنا نے بڑے غور و خوض کے بعد یہ فیصلے کئے ہیں۔ اس لیے کہ ہر سوال کا مدلل جواب اُس کی نوکِ زبان پر تھا۔

اختر نے کہا۔ ’’لیکن اس ملازمہ کا انتخاب خوب دیکھ سمجھ کر کرنا ہو گا۔ ہمارا ایک بیٹا ہے۔ کہیں وہ بگڑ گیا تو سب بگڑ جائے گا۔‘‘

’’جی ہاں۔۔ میں نے سوچا ہے۔ اس کے لیے ہم نلگنڈہ سے کسی غریب خاتون کو یہاں  بلا لیں گے۔ وہ یہیں ہمارے پاس رہے گی اور صفدر کا خیال رکھے گی۔‘‘

اختر نے سر ہلا کر تائید کی اور سوچ میں گم ہو گیا۔ وہ سوچنے لگا۔۔ ’نلگنڈہ سے حیدرآباد تک کی یہ میراتھون دوڑ بالآخر کہاں ختم ہو گی۔‘

 

 

 

ہوا محل

 

نصرت اور ثنا اپنے مستقبل کے پراجیکٹ کی منصوبہ بندی کر رہی تھیں کہ  نصرت کو ایئر انڈیا ایئرہوسٹس ایسوسی ایشن کی جانب سے منعقد ہونے والے فیشن شو کی دعوت ملی۔ اس مرتبہ اتفاق سے تقریب کا انعقاد سکندرآباد کے پانچ ستارہ ہوٹل میں کیا گیا تھا۔

نصرت نے ثنا سے پوچھا۔ ’’کیا خیال ہے ؟‘‘

ثنا بولی۔ ’’یہ تو رات گئے چلنے والی تقریب ہے۔ مجھے ڈر ہے اختر ناراض نہ ہوں۔‘‘

’’ایسی بات ہے تو میں مع اہل عیال دعوت نامہ منگوا لیتی ہوں تاکہ تم اختر اور صفدر کے ساتھ شرکت کرسکو۔‘‘

ثنا بولی۔ ’’میں اُن سے پوچھوں گی۔‘‘

’’اس میں پوچھنے کی کیا بات ہے۔ تم انہیں بتلاؤ کہ فتح علی خان صاحب کی طرف سے دعوت ہے۔ وہ خود دوڑا چلا آئے گا اور یہ صحیح بھی ہے۔ اس دعوت کی منتظمین میں سرفہرست انہیں کا نام ہے۔‘‘

’’یہ ترکیب خوب ہے۔‘‘ ثنا بولی۔ ’’وہ خان صاحب کے بڑے عقیدتمند ہیں۔‘‘

ثنا نے جب اختر کو فیشن شو کے بارے میں بتلایا تو وہ بولا۔ ’’سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے تو اس طرح کے شو پسند نہیں۔ جہاں جسم کی نمائش کا بازار لگتا ہے اور اس میں ننگ دھڑنگ عورتوں کا بلیوں کی طرح چلنا۔۔ مجھے اُن پر رحم بھی آتا ہے اور غصہ بھی۔‘‘

ثنا بولی۔ ’’دراصل آپ اپنی نظر سے اُن کو دیکھتے ہیں۔ حالانکہ آپ کو چاہیئے کہ آپ خود اُن کی نظر سے انہیں دیکھیں۔ مجھے یقین ہے کہ ایسا کرنے سے آپ کا غم و غصہ، فرحت و مسرت میں بدل جائے گا۔‘‘

اختر کو محسوس ہوا کہ اس کے اور ثنا کے نقطۂ نظر میں بڑا فرق واقع ہو چکا ہے۔ لیکن جب ثنا نے بتلایا کہ فتح علی خان صاحب اس پروگرام کے منتظمین میں پیش پیش ہیں اور یہ دعوت خاص اُن کی طرف سے ہے تو اختر سوچنے پر مجبور ہو گیا۔

اختر نے اپنے آپ سے سوال کیا کہ آخر یہ دعوت کس کی طرف سے ہے ؟ خاں صاحب کی طرف سے یا نصرت کی طرف سے ؟ پھر اُسے ایک اور خیال آیا کہ آخر یہ دعوت کس کے لئے ہے ؟ اختر کے لئے ہے یا ثنا کے لئے ؟

اختر نے اپنے سوالات ثنا کے سامنے دوہرا دیئے تو ثنا بولی۔ ’’نصرت اور فتح علی خان جدا جدا کب ہیں ۔۔؟ اور ہم دونوں ، ہم دونوں بھی تو ایک ہی ہیں۔ اس لیے کیا فرق پڑتا ہے۔‘‘ ثنا نے ایک ایسا گول مول جواب دیا تھا جس کا کوئی سرا ہاتھ نہ آتا تھا، جہاں سے پکڑو، پھسل جاتا تھا۔‘‘

اختر نے پوچھا۔ ’’اور صفدر؟‘‘

’’صفدر کے بارے میں جیسا آپ مناسب سمجھیں۔ اگر چاہیں تو اُسے ساتھ لے چلیں۔ اگر چاہیں تو اسے گھر پر ملازمہ کے پاس چھوڑ جائیں۔ یہ پروگرام دو ہفتہ بعد ہے تب تک وہ آ جائیں گی۔ ویسے اگر بیچ میں صفدر واپس آنے کے لیے مچل جائے تو مشکل ہو گی۔۔ بچہ جو ہے۔‘‘ گویا ثنا نے بلاواسطہ صفدر کے لیے منع کر دیا۔

اختر اس کا اشارہ سمجھ گیا۔ فیشن شو سے ایک روز قبل نصرت اور ثنا ساتھ میں بازار گئے۔ انہوں نے نہ صرف اپنے لیے بلکہ اختر کے لیے بھی کپڑے خریدے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ثنا اپنے خاوند اختر کے لیے نصرت کی پسند کے کپڑے خرید رہی تھی۔ ایک زمانہ وہ تھا جب اختر اپنی پسند سے ثنا کے لیے کپڑے لاتا تھا۔ پھر یہ ہوا کہ دونوں اپنی اپنی پسند سے اپنے لیے کپڑے لانے لگے اور اب ثنا کی بلکہ نصرت کی پسند۔ یہ عظیم انقلاب اِس آہستگی سے برپا ہو گیا کہ اس کا اندازہ کسی کو نہ ہو سکا۔

ثنا پچھلے کئی گھنٹوں سے اختر کے لئے کوٹ خریدنے میں مصروف تھی۔ وہ اب تک نہ جانے کتنی دُکانوں کی خاک چھان چکی تھی، کتنے ملبوسات کو اُلٹ پلٹ کر دیکھا تھا، یہاں تک کہ نصرت بھی بیزار ہو گئی تھی۔ اس نے جھنجھلا کر کہا تھا۔ ’’ثنا، تم شوہر کا لباس خرید رہی ہو یا لباس کا شوہر؟ آج کل لوگ اپنے خاوند کے انتخاب میں بھی اِس قدر وقت نہیں لگاتے۔‘‘

ثنا نے جواب دیا۔ ’’مجھے لوگوں سے کیا مطلب؟ لوگ جو چاہیں کریں۔ میں تو وہی کروں گی جو میں چاہوں گی۔۔ اور پھر شوہر اور بیوی ایک دوسرے کا لباس ہی تو ہیں۔ ایک دوسرے کی حفاظت کرتے ہیں ، ایک دوسرے کو خوشنما بناتے ہیں۔‘‘

نصرت نے کہا۔ ’’اچھا تو گویا تم اپنی خوشنمائی کا سامان کر رہی ہو۔‘‘

ثنا نے مسکرا کر جواب دیا۔ ’’یہی سمجھ لو۔‘‘

اختر کے لیے کوٹ پتلون خریدنے کے بعد ثنا نے اپنے لیے مہین جالی دار تنگ لباس خریدا۔ اس لباس کو عجیب انداز سے سلا گیا تھا۔ جسم کے جن حصوں پر اسے تنگ ہونا چاہئے تھا، وہاں وہ کھلا ہوا تھا اور جہاں اسے ڈھیلا ہونا چاہئے تھا وہاں پر وہ تنگ تھا۔ اس کو جانچنے کے لیے کپڑے تبدیل کرنے والے کمرے میں ثنا اور نصرت دونوں داخل ہو گئے۔ یہ شیشوں کا کمرہ تھا، اس میں ساری دیواریں شیشوں کی تھیں۔ ہر شیشے میں کئی عکس، عکس در عکس کا ایک لامتناہی سلسلہ تھا جو تا حد نظر پھیلتا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ نگاہیں تھک کر لوٹ آتی تھیں لیکن عکسوں کی تعداد کا احاطہ نہ کر پاتی تھیں۔

ثنا نے نیا لباس زیب تن کر آئینہ میں اپنے آپ کو دیکھا۔ کبھی دائیں ، کبھی بائیں ، کبھی آگے ، کبھی پیچھے ، کبھی اوپر، کبھی نیچے۔۔ وہ حیران تھی کہ کسے دیکھ رہی ہے ! کیا یہ وہی ثنا ہے۔۔ ثنا پروین۔۔ نلگنڈہ اسلامیہ اسکول کے استاد میر صاحب کی بیٹی؟ نہیں ! یہ ثنا اختر ہے۔۔ ثنا اختر۔ شہر حیدرآباد میں رہنے والی ثنا اختر۔۔ نصرت فتح علی خان کی سہیلی۔۔ جیسے ہی اسے نصرت کا خیال آیا، اس نے اپنی نظریں اپنی ذات اور اپنے وجود سے ہٹائیں اور نصرت کو دیکھا۔ نصرت اس کے پاس ہونے کے باوجود اس سے کس قدر دُور تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس لباس کو پہن کرثنا اس قدر دُور نکل گئی تھی کہ اب اس کے پاس دُور دُور تک کوئی نہیں تھا۔ بس وہ تھی اور وہی وہ تھی۔ ثنا نے حیرت زدہ نصرت کو دیکھا اور پوچھا۔ ’’نصرت۔۔ کیا سوچ رہی ہو؟‘‘

نصرت بولی۔ ’’کچھ نہیں۔ میں سوچ رہی ہوں کہ کل جب اختر تمہیں اس لباس میں دیکھے گا تو کیا سوچے گا؟‘‘

’’اختر۔۔ کون اختر؟‘‘ اچانک ثنا کے ہونٹوں سے یہ الفاظ گرے۔

نصرت بولی۔ ’’ثنا تم مذاق تو نہیں کر رہیں؟ کیا مجھے بتانا پڑے گا کہ اختر کون ہے ؟‘‘

ثنا کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا، وہ بولی۔ ’’نصرت کیسی باتیں کرتی ہو؟‘‘

نصرت بولی۔ ’’نہیں ! شاید مجھے اختر کو بتانا پڑے گا کہ یہ ثنا کوئی اور ہے۔‘‘

’’جی نہیں نصر ت صاحبہ! آپ اس کی زحمت نہ کریں۔ بس مجھے یہ بتائیں کہ میں کیسی لگتی ہوں؟‘‘

’’مجھے تو تم ہمیشہ ہی اچھی لگتی ہو اور اچھی لگو گی۔ لیکن میں یہی سوچ رہی تھی کہ تم اِس لباس میں اختر کو کیسی لگو گی؟‘‘

’’اوہو نصرت۔۔ آج تمہیں کیا ہو گیا ہے ؟ تم مجھے چھوڑ کر اختر کے پیچھے پڑ گئیں۔‘‘

’’دراصل اُس کی وجہ ہے آج کی پوری شام۔۔ گزشتہ تین گھنٹے تم نے اس کے لیے کوٹ پسند کرنے میں لگائے۔ اس لیے مجھے اس کے بارے میں کچھ سوچنا ہی پڑے گا۔‘‘

’’چھوڑو نصرت! اَختر نے تو منع کر دیا تھا اور شاید ناراض بھی ہو کہ میں نے اس کے لیے اس قدر مہنگا سوٹ کیوں خریدا۔ لیکن اسے نہیں پتہ کہ کل اسے کس تقریب میں شرکت کرنی ہے ؟ کن لوگوں سے ملنا ہے ؟ وہ بے چارہ کچھ بھی نہیں جانتا؟ لیکن میں تو جانتی ہوں۔ اسے میرے ساتھ کہاں جانا ہے ! اس لیے مجھے اپنا۔۔ میرا مطلب ہے اپنے ساتھ چلنے والے اختر کا خیال تو کرنا ہی پڑے گا۔‘‘

نصرت نے پوچھا۔ ’’اچھا۔۔ تو گویا لباس تم نے اختر کے لیے نہیں اپنے لیے خریدا ہے۔‘‘ باتوں باتوں میں ثنا نے دوبارہ کپڑے تبدیل کر لیے تھے اور دوکاندار نیا جوڑا تہہ کر رہا تھا۔

ثنا نے اختر کے کپڑوں کی جانب اشارہ کر کے پوچھا۔ ’’میرے لیے ؟ تم کیا سمجھتی ہو  نصرت کیا میں  یہ کوٹ پتلون پہن کر گھوموں گی۔‘‘

’’کیوں نہیں ! اختر اگر یہ فراک پہننے پر راضی ہو جائے ، جو ابھی ابھی تم نے خریدا ہے ، تو تمہیں کوٹ پتلون پہننے میں کیا حرج ہو گا؟‘‘

ثنا نے زوردار قہقہہ لگایا اور بولی۔ ’’نصرت تمہاری ظرافت واقعی نہایت اعلیٰ اور ارفع ہے۔ اسی سے تم نے فتح علی خان کو فتح کر لیا۔‘‘

نصرت کے گالوں پر سرخی آ گئی، وہ بولی۔ ’’ثنا میں سوچ رہی ہوں کہ اس نئے لباس میں تم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کتنی دُور چل سکوگے ؟‘‘

’’نصرت تمہیں کیا ہو گیا ہے۔ آج تم میرے ازدواجی زندگی کے بارے میں مجھ سے بھی زیادہ سنجیدہ ہو گئی ہو۔ میں نے تمہیں بتلایا تھا نا۔۔ زَن و شو بذاتِ خود ایک دوسرے کا لباس ہیں۔ وہ ایک دوسرے کی خوشنمائی کا سبب ہوتے ہیں۔‘‘

’’جی ہاں ! لیکن اس لباس کو جب تم زیب تن کر لو گی تو شاید اختر کے لیے بھی تمہاری حفاظت کرنا مشکل ہو جائے گا۔‘‘

ثنا بولی۔ ’’نصرت بات دراصل یہ ہے کہ تم اختر کو نہیں جانتیں۔ وہ برسوں سے بس چلا رہا ہے۔ آج تک اس کی بس کسی حادثے کا شکار نہیں ہوئی۔ اُس نے نہ کسی اور بس کو قریب آنے دیا اور نہ خود کسی اور گاڑی کے قریب گیا۔ وہ ہمیشہ فاصلہ رکھ کر گاڑی چلاتا ہے۔ وہ اپنا اور اپنے مسافروں کا تحفظ کرنا خوب جانتا ہے۔ کئی مرتبہ بہترین ڈرائیور کے تمغے سے نوازا جاچکا ہے۔‘‘

’’تمہارے سارے دلائل سے میں اتفاق کرتی ہوں ثنا۔ لیکن اختر زمین پر چلتا ہے اور تم اُسے آسمان کی سیر کرانے جا رہی ہو۔ زمین پر چلنے اور آسمان پر اُڑنے میں بڑا فرق ہے ثنا اختر۔۔ بڑا فرق۔‘‘

’’تمہاری بات بجا ہے نصرت، لیکن مجھے یقین ہے کہ اختر خلاؤں میں بھی مجھے تحفظ فراہم کر سکے گا اور اگر وہ ایسا نہ بھی کر سکا تو میں اپنے تحفظ کے لیے خود کفیل ہوں۔ میں خود اپنی حفاظت کرسکتی ہوں۔‘‘

ثنا کی خوداعتمادی نے نصرت کو چونکا دیا، وہ بولی۔ ’’جی ہاں ثنا۔۔ ہوسکتا ہے تمہاری بات صحیح ہو۔ لیکن میں تمہیں آگاہ کر دوں کہ یہ کام خاصہ مشکل ہے۔ یہ تجربے کی بات ہے۔ اس لیے کہ میں آسمان سے دوبارہ لوٹ کر زمین پر آئی ہوں۔‘‘

ثنا بولی۔ ’’میں تمہارے تجربات کی قدر کرتی ہوں نصرت۔ لیکن سب کے  تجربات یکساں نہیں ہوتے ، یہ بھی ایک حقیقت ہے۔‘‘

’’جی ہاں ! میں خدا سے دعا کروں گی ثنا کہ وہ تمہیں اُن تجربات سے نہ گزارے جن سے میرا سابقہ پیش آیا۔‘‘

گاڑی ثنا کے گھر کے قریب نہ جانے کب سے کھڑی تھی، لیکن پرویز خود بھی اُن دونوں کی گفتگو سے لطف اندوز ہو رہا تھا اس لیے خاموش تھا۔ جب دونوں خاموش ہو گئیں تو پرویز بولا۔ ’’ثنا صاحبہ کا گھر سامنے ہے۔ اب اور کہاں چلنا ہے ؟‘‘

نصرت نے تڑک کر کہا۔ ’’احمقانہ سوال کرنے کی تمہاری عادت نہیں جاتی۔ وہی سوال کرتے رہتے ہو جن کے جواب جانتے ہو۔ ثنا کو چھوڑنے کے بعد مجھے اپنے گھر جانا ہے۔‘‘

’’جی ہاں محترمہ۔۔ اور پھر آپ کو چھوڑنے کے بعد مجھے اپنے گھر جانا ہے۔ لیکن آپ دونوں ایک دوسرے کو چھوڑیں تب نا بات آگے بڑھے۔‘‘

’’ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔‘‘ نصرت نے کہا۔ ’’خاموشی سے اپنا کام کرو۔۔  باتیں کم کام زیادہ۔۔ کیا سمجھے۔‘‘

ثنا اپنا سامان سمیٹ کر گھر کی جانب چل پڑی۔ گھر قبرستان بنا ہوا تھا۔ اختر سے لے کر صفدر تک سبھی سوئے پڑے تھے۔ ثنا بھی خوابوں کی آغوش میں پہنچ گئی۔ ان خوابوں کی جو نیند اُڑا دیتے ہیں۔

 

 

دُ وسرے دن فیشن شو میں جانے سے قبل جب اختر نے اپنے نئے کپڑے دیکھے توا سے تعجب ہوا۔ یہ کافی قیمتی لباس تھا۔ اس نے تشویش کا اظہار کیا تو ثنا بولی۔ ’’یہ میری  نئی ملازمت کی پہلی تنخواہ کا تحفہ ہے۔‘‘

’’ملا زمت۔۔ کون سی ملازمت؟‘‘

’’میں  نے آپ کو بتایا تو تھا۔۔ آئی۔ ٹی۔ ٹی۔ آئی۔ کا نیا شعبہ۔‘‘

’’ہ۔۔  ہا۔۔ ہاں لیکن وہ تو تین ماہ بعد شروع ہونا تھا۔‘‘

’’جی لیکن اس کی تیاری ابھی سے شروع ہو گئی ہے۔ اس لیے تنخواہ بھی شروع ہو گئی۔‘‘

’’اوہ اچھا۔‘‘ اختر بولا۔ ’’ہاں تو بھئی بہت بہت مبارک ہو آپ کو نئی ملازمت اور بہترین تحفہ کے لیے بہت بہت شکریہ۔‘‘

’’آپ طنز کر رہے ہیں یا تکلف فرما رہے ہیں؟‘‘ ثنا نے پوچھا۔

اختر بولا۔ ’’طنز؟ میں ایسی جرأت کیوں کر سکتا ہوں؟‘‘

ثنا بولی۔ ’’یہ یقیناً طنز ہے۔ کہیں آپ میرے اس تحفہ سے ناراض تو نہیں؟ میں نے آپ سے نہیں پوچھا۔ اس لئے کہ میں آپ کو تحیر زدہ کرنا چاہتی تھی۔‘‘

ثنا نے پہلی مرتبہ اختر سے جھوٹ کہا تھا۔ یہ ان کی ازدواجی زندگی کا پہلا جھوٹ تھا۔ نہ تو یہ اُس کی تنخواہ کا پہلا تحفہ تھا اور نہ ہی اِس میں کوئی استعجاب تھا۔ دراصل ثنا کو محسوس ہوا تھا کہ اگر اختر اپنے پاس موجود لباس میں اِس تقریب میں شرکت کرے گا تو بس ڈرائیور ہی لگے گا۔ اس لیے اُس نے اختر کی خاطر نہیں ، اپنی خاطر یہ لباس خریدا تھا۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کا شوہر بس کا ڈرائیور لگے۔ بلکہ وہ چاہتی تھی کہ اختر ہوائی جہاز کا پائلٹ لگے۔ ثنا نے اپنے کپڑے اختر کو نہیں دِکھلائے اور جب تقریب کے لیے نکلنے لگی تو وہ نئے کپڑے اپنے ساتھ رکھ لیے۔

دفتر سے گاڑی آئی تھی۔ وہ دونوں اس میں سوار ہو کر نکلے تو گاڑی شہر کے ایک مشہور بیوٹی پارلر پر رُکی۔ اختر اور ثنا اپنے نئے لباس کے ساتھ وہاں اُترے۔ اس پارلر میں شاندار انتظار گاہ بھی تھی، جس میں بہت سارے مرد و خواتین انتظار کر رہے تھے۔ بڑے سے ہال میں مختلف سمتوں میں مختلف ٹیلی ویژن سیٹ لگے ہوئے تھے۔ کسی پر ہندی فلم تو کسی پر تیلگو یا انگریزی فلم چل رہی۔۔ کسی پر گانے تو کسی پر خبریں اور کھیل۔۔ ایک عجیب ہنگامہ برپا تھا۔

ثنا نے اختر سے کہا۔ ’’آپ بیٹھیں ، میں ابھی آئی۔‘‘

اختر کو اپنے نئے لباس میں جو اُلجھن ہو رہی تھی سو ہو رہی تھی، اب یہ نیا ماحول بھی اُس کے لیے مصیبت بن گیا تھا۔ خیر اُس نے اپنے پینے کے لیے پیپسی منگائی اور اپنا خشک گلا تر کرنے لگا۔ اُسے امید تھی کہ شاید پیپسی کی ٹھنڈک اُس کے دماغ کو کسی قدر ٹھنڈا کر دے۔ کچھ دیر بعد جب ثنا نیا لباس زیب تن کئے ہوئے میک اَپ کے ساتھ آئی تو اختر کے لیے اُسے پہچاننا مشکل ہو گیا۔وہ سوچ رہا تھا کہ کیا یہ وہی نلگنڈہ کی سیدھی سادی، شرمیلی، معصوم، فرشتہ صفت ثنا اختر ہے ؟ کھلا کھلا جالی دار لباس۔۔ خود اختر کو شرم آ رہی تھی۔ لیکن ثنا اس سے بالکل بے پرواہ تھی۔ اختر کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ثنا فیشن شو دیکھنے جا رہی ہے یا اُس میں شریک ہونے جا رہی ہے ؟ وہ حیران پریشان یہ سب دیکھ رہا تھا کہ ثنا نے مسکرا کر کہا۔ ’’کیوں۔۔ میں کیسی لگتی ہوں؟‘‘

اختر جانتا تھا کہ اس کا جواب ثنا کو ناگوار گزرے گا اور آج کے فیشن شو کو خراب کر دے گا۔ وہ بولا۔ ’’آئینہ سے پوچھو۔‘‘

ثنا نے کہا۔ ’’آئینہ بے زبان ہے۔‘‘

اختر نے کہا۔ ’’جی۔۔ ثنا آئینہ بے زبان ضرور ہے لیکن سچ بولتا ہے۔‘‘

’’اور وہ جو زبان رکھتے ہیں ۔۔؟‘‘

اختر خاموش ہو گیا۔

ثنا نے جملہ پورا کیا۔ ’’۔۔سچ نہیں بولتے۔ لیکن آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔‘‘

اختر نے پھر اپنی پرانی بات دوہرائی۔ حال میں موجود سارے لوگ ثنا کی جانب متوجہ تھے۔ اختر بولا۔ ’’ثنا یہ کمرہ چہار جانب سے بلکہ اوپر اس کی چھت بھی آئینوں سے آراستہ ہے۔ اور یہ آئینے ہر زاویہ سے تمہیں دیکھ رہے ہیں۔ تم جس زاویہ سے اپنے آپ کو دیکھنا چاہتی ہو اس زاویہ سے دیکھ سکتی ہو۔‘‘

ثنا بولی۔ ’’اختر آج میں اپنے آپ کو دیکھنا نہیں چاہتی بلکہ چاہتی ہوں کہ۔۔‘‘ ثنا کی زبان گنگ ہو گئی۔

اختر نے پوچھا۔ ’’آج تم کیا چاہتی ہو؟ بولو۔۔ رُک کیوں گئیں؟‘‘

’’میں چاہتی ہوں کہ آج آپ مجھے دیکھیں۔‘‘ یہ ثنا کا ایک اور جھوٹ تھا۔

اختر بولا۔ ’’ثنا اگر تم واقعی یہ چاہتی ہو کہ میں تمہیں دیکھوں تو تم مجھے فیشن شو میں لے کر کیوں جا رہی ہو۔ وہاں کون کسے دیکھنے کے لیے جاتا ہے ؟ چلو، گھر چلیں۔ وہاں میں تمہیں اور صرف تمہیں دیکھوں گا اور میرے علاوہ کوئی اور تمہیں نہیں دیکھے گا۔‘‘ اختر نے دبی زبان سے اپنے دِل کی بات کہہ دی۔

ثنا کی سمجھ میں وہ بات آ گئی، لیکن وہ بالکل انجان بن گئی اور بولی۔ ’’واپس گھر۔۔؟ آپ مذاق تو نہیں کر رہے ؟ تقریب کے بعد یا پہلے ؟‘‘

اختر کو فرار کا راستہ خود ثنا نے سجھا دیا، وہ بولا۔ ’’بے شک تقریب کے بعد۔‘‘

’’جی، میں جانتی تھی۔‘‘ یہ ثنا کا تیسرا جھوٹ تھا۔ وہ جس تیزی سے جھوٹ پر جھوٹ بولے جا رہی تھی، اِس پر خود اُسے حیرت تھی۔ وہ سمجھ رہی تھی کہ اس کا ہر جھوٹ اختر سے پوشیدہ ہے۔ لیکن یہ اس کی غلط فہمی تھی۔ اختر کے لیے جھوٹ اور سچ کے درمیان تمیز کرنے کی خاطر ثنا کے تاثرات کافی تھے جو بے ساختہ اس کے کذب کی چغلی کر دیا کرتے تھے۔

خیر۔۔ وہ دونوں باہر آئے ، گاڑی اُن کی منتظر تھی۔ پرویز نے حیرت سے ثنا کو دیکھا۔ پہلے اُسے اختر کو دیکھ کر تعجب ہوا تھا اور اب ثنا نے اس کو حیرت زدہ کر دیا تھا۔ ایک عرصہ سے وہ نصرت کے ساتھ کام کر رہا تھا لیکن نصرت اسے کبھی اس طرح کے لباس میں اس طرح کے میک اپ کے ساتھ نہیں نظر آئی تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ آج ثنا باجی کو یہ کیا ہو گیا ہے ؟ اور اختر۔۔ اُسے کیا ہو گیا ہے ؟ وہ اُسے کچھ کہتا کیوں نہیں؟ وہ خاموش کیوں ہے ؟

 

 

 

شو بزنس کی چکا چوند

 

 

پرویز نے گاڑی ’ہالی ڈے اِن ہوٹل‘ کے پورٹیکو میں کھڑی کر دی۔ اختر اور ثنا دو جانب سے اُترے۔ ہر کوئی ثنا کی جانب متوجہ تھا، اُس کا خیر مقدم کر رہا تھا۔ اختر کو پوچھنے والا کوئی نہ تھا، حالانکہ اس نے بھی آج نہایت قیمتی لباس زیب تن کیا ہوا تھا۔ یہاں تک کہ فتح علی خان صاحب نے بھی جب ثنا کو دیکھا تو اپنا ہاتھ اُٹھا دیا۔ دونوں کے درمیان آداب تسلیم کا تبادلہ ہوا۔ وہ فتح علی خان، جن کے جلسوں میں برسوں سے اختر زندہ باد، مردہ باد کے نعرے لگاتا تھا۔۔ پولس کی لاٹھیاں کھاتا تھا۔۔ اس فتح علی خان نے اسے پہچانا تک نہیں۔ اس لمحہ پرویز  نے اپنی قسمت پر لعنت بھیجی۔ اُس روز وہ جس قدر رُسوائی کا شکار ہوا، پہلے کبھی بھی نہ ہوا تھا۔۔ اور تو اور ثنا بھی اس تقریب میں اس بات کو بھول گئی کہ وہ اختر کے ساتھ آئی ہے۔ ایک کے بعد ایک نئے مہمان سے ملتی ہوئی وہ جانے کہاں نکل گئی۔ جب شو کے آغاز کا اعلان ہوا تو اختر بوجھل قدموں سے تقریب گاہ میں داخل ہوا اور ایک کونے میں جا کر بیٹھ گیا۔۔ ہزاروں کی بھیڑ میں یکہ و تنہا۔

تنہائی کی اس گہری کھائی کے اندر سے اچانک ایک جانی پہچانی آواز آئی۔ ’’اختر صاحب!‘‘مڑ کر دیکھا تو اُس کے بغل والی نشست پر ایک پُر وقار خاتون براجمان تھی جس کا چہرہ تو اجنبی تھا لیکن آواز میں مانوسیت تھی۔ اختر آواز کی جانب مڑا تو وہ بولی۔ ’’آپ نے مجھے نہیں پہچانا؟‘‘

’’جی۔۔؟ جی نہیں؟‘‘ اختر ہکلایا۔

’’پہچانیں گے بھی کیسے ؟ ہماری ملاقات جو کبھی نہیں ہوئی۔ لیکن اِس کے باوجود ہم ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔‘‘

اختر بولا۔ ’’جی ہاں ، جی ہاں۔ آپ کی آواز مجھے مانوس جان پڑتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود معاف فرمائیں۔‘‘

’’میں جانتی ہوں۔ اس شور شرابے میں ساری جانی پہچانی آوازیں اجنبی ہو چکی ہیں اور سارے چہرے بیگانے !!‘‘

اختر کو لگا کہ یہ عورت قیافہ شناس ہے۔ یہ اس کے ذہن کو پڑھ رہی ہے۔ وہ بولا۔ ’’جی ہاں۔ اگر آپ اسی طرح بولتی رہیں تو ممکن ہے کہ میں آپ کو پہچان لوں۔‘‘

’’جی نہیں۔ میں آپ کو پہیلیاں کیوں بجھواؤں۔ میرا نام نصرت ہے۔‘‘

’’اوہ! نصرت فتح علی خان۔‘‘

’’جی نہیں ! یہ میرا نام نہیں۔۔ بدنامی ہے۔ میرا نام نصرت جہاں ہے۔‘‘

’’جی ہاں۔۔ معاف کیجئے ! وہ کیا ہے کہ بے ساختہ میرے منہ سے نکل گیا۔ یونین میں دراصل سب لوگ۔۔‘‘

جی۔۔! میں جانتی ہوں کہ ساری یونین مجھے اِسی نام سے جانتی ہے۔ ویسے مجھے اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں نے اِن سب باتوں پر توجہ دینا چھوڑ رکھا ہے۔‘‘

’’جی۔ آپ عظیم خاتون ہیں ، بڑے بڑے مسائل پر توجہ دیتی ہیں ، چھوٹی موٹی باتوں سے درگزر فرماتی ہیں۔۔ میں جانتا ہوں۔‘‘

’’نہیں ! ایسی بات نہیں ہے اختر صاحب!! جن باتوں کے لیے ہم خود ذمہ دار نہ ہوں اور جن پر ہم اثر انداز ہونے کی قدرت نہ رکھتے ہوں ، اُن سے پریشان ہونا بے معنیٰ ہے۔‘‘

اختر کو ایک اور جھٹکا لگا۔ ’’جی ہاں ! آپ ٹھیک کہتی ہیں۔ ثنا آپ کی بڑی تعریف کرتی ہے۔‘‘

’’جی ہاں ۔۔! وہ میری اچھی سہیلی جو ہے۔۔ سیدھی سادی، بھولی بھالی۔ وہ بے چاری اس دُنیا کے نشیب و فراز سے ابھی واقف نہیں ہے۔‘‘

’’کیا اب بھی آپ کا یہی خیال ہے ؟‘‘

’’جی ہاں اختر صاحب! لباس کا ذہنی پختگی سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ ظاہر کی تبدیلی نہایت آسان ہے لیکن سوجھ بوجھ کے آنے میں وقت لگتا ہے۔‘‘

’’یہ تو تجربہ اور مشاہدہ کی بات ہے۔‘‘ اختر نے تائید کی۔

’’اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ ثنا کا مشاہدہ اور تجربہ۔۔ دونوں بے حد محدود ہیں۔‘‘

’’آپ صحیح کہتی ہیں۔‘‘ اختر نے تصدیق کی۔

’’اختر صاحب! آپ جس کیفیت سے گزر رہے ہیں ، اس کا مجھے احساس ہے۔ لیکن ثنا آج بہت خوش ہے۔ آج اُس کے قدم زمین پر نہیں ، آسمان پر ہیں۔ آپ کی زبان سے ادا ہونے والا ایک لفظ۔۔ بلکہ آپ کی نگاہ کا ایک ترکش اُسے آسمان سے پاتال میں لے جانے کے لیے کافی ہے۔ میری گزارش آپ سے یہی ہے کہ آپ اُس کا خیال رکھیں۔ میری اچھی سہیلی ثنا آج بہت خوش ہے۔ آپ اس کی خوشی کا لحاظ فرمائیں ، یہ میری آپ سے التجا ہے۔‘‘

اختر بولا۔ ’’جی ضرور۔۔ ضرور! میں سمجھتا ہوں۔‘‘

’’اچھا، سمع خراشی کے لیے معذرت کے ساتھ اجازت چاہتی ہوں۔ کچھ انتظامی اُمور میرے ذمہ ہیں ، ورنہ آپ سے اور بات کرتی۔‘‘

’’شکریہ، آپ کا بہت بہت شکریہ!!‘‘

نصرت جہاں اُٹھ کر چلی گئی اور ایک جملہ اختر کی گرہ سے باندھ گئی۔۔ ’’وہ باتیں جس کے لیے ہم ذمہ دار نہ ہوں اور جن پر ہم اثر انداز نہ ہو سکتے ہوں ، اُن پر کڑھنا بے معنیٰ ہے۔‘‘ نصرت کو اپنی سہیلی ثنا کی خوشی کا کس قدر خیال ہے ؟ اختر کو محسوس ہوا، گویا نصرت کو ثنا کی خوشی کا خیال اختر سے بھی زیادہ ہے۔

فیشن شو سے قبل موسیقی کا پروگرام شروع ہو گیا۔ مغربی پاپ میوزک کی دھنوں پر سارا ہال گونجنے لگا۔ روشنیوں کا رقص شباب پر تھا کہ اچانک اسٹیج آسمان بن گیا۔ اس پر مختلف کہکشائیں رقص کناں تھیں۔ راستے اِدھر اُدھر سے گزر رہے تھے۔ جہاں راستہ بڑھتا، وہیں سے کوئی حسینہ نمودار ہو جاتی ہے۔ لوگ حیرت و استعجاب سے اُسے دیکھتے۔ ثنا کو ہر حسینہ کے اندر ایک ثنا پروین نظر آتی، اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ بھی اسٹیج پر جا پہنچے اور ہال کے اندھیروں سے نکل جائے۔روشن  اسٹیج کی کشش نے ثنا کو دیوانہ بنا دیا تھا۔ لیکن اس کے پیروں میں ادب و لحاظ کی زنجیریں پڑی ہوئی تھیں۔ اُس نے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو قابو میں رکھا۔

اختر اپنی نشست پر بیٹھا سوچ رہا تھا کہ یونین کے رہنما کا اس تقریب سے کیا تعلق ہے ؟ کیا ہر ماہ جو پانچ، دس روپیہ چندہ ہر مزدور دیتا ہے ، وہ اِن کاموں پر خرچ ہوتا ہے ؟  اختر کی نگاہ میں فتح علی خان صاحب  پہلی شکست سے دوچار ہوئے تھے۔ اُن کی ساری شخصیت مشکوک ہو کر رہ گئی تھی۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ سڑکوں پر گلا پھاڑ پھاڑ کر سرمایہ داروں کو گالیاں دینے والا فتح علی خان اِس طرح کی کسی محفل میں شریک بھی ہوسکتا ہے۔۔ کجا کہ اس کا منتظم ہو۔ لیکن سڑکوں پر نعرہ لگانے والے مزدور اپنے رہنما کی زندگی کے ان پہلوؤں سے کب واقف تھے ؟ وہ تو اتفاق سے ثنا کے طفیل اس کو خان صاحب کا یہ چہرہ بھی نظر آ گیا تھا، ورنہ اگر کوئی یہ بات کہتا بھی تو یونین کے حلقہ میں اُسے حریف جماعت کا ایجنٹ قرار دے کر راندہ درگاہ ٹھہرا دیا جاتا۔ خیر، ہر کوئی اس تقریب کو مختلف نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔

نصرت جہاں کے لیے یہ تقریب روابط کی وسعت کا ذریعہ تھی، تو خان صاحب اس کے ذریعہ اپنی عزت و توقیر میں اضافہ کے خواہشمند تھے اور ان سب سے دُور ثنا پروین پریوں کے دیس میں کھوئی ہوئی تھی۔ تقریب کے خاتمے پر کھانا کھاتے وقت پرویز اختر کے پاس آ گیا۔ دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ اپنی تنہائی کا مداوا کیا۔ اس کے بعد وہ لوگ آہستہ آہستہ گاڑی کے پاس آ گئے۔ تقریباً آدھے گھنٹے بعد ثنا بھی لوگوں سے ملتی ملاتی، اُن سے اپنے حسن و جمال کا خراجِ تحسین وصول کرتی ہوئی گاڑی کے پاس آ گئی۔ وہاں پہنچ کر نہایت مصنوعی انداز میں تاخیر کے لیے معذرت طلب کی اور پرویز گھر کی جانب چل پڑا۔ گھر کے پاس پہنچنے کے بعد ثنا نے بٹوے سے پچاس کا نوٹ نکالا اور پرویز کے ہاتھ پر رکھا تو اُسے وہ دن یاد آ گیا جب ثنا پچاس روپئے اُدھار رکھ کر گئی تھی۔۔ دو سو کی رسید اور ڈیڑھ سو روپئے کی ادائیگی۔۔ پرویز نے ثنا اور اختر کا شکریہ ادا کیا۔ اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ اختر کا شکریہ کیوں ادا کر رہا ہے ؟ شاید از راہ تکلف!

اختر نے دروازہ کھولا تو صفدر دوڑا دوڑا آیا اور اختر کے پیروں سے لپٹ گیا۔ ’’ابو ابو! امی کہاں ہیں؟‘‘

ثنا اختر کے بغل میں کھڑی تھی اور صفدر یہ سوال کر رہا تھا۔ ’’ابو۔۔ امی کہاں ہیں۔۔ امی؟ میں نے خواب دیکھا کہ امی کو کوئی جِن اُٹھا کر لے گیا۔‘‘

اختر کو ہنسی آ گئی، وہ بولا۔ ’’بیٹا کیسی باتیں کر رہے ہو؟ یہ کیا۔۔ تمہاری امی تو میری ساتھ کھڑی ہیں۔‘‘

’’یہ۔۔ یہ میری امی ہیں؟ یہ میری ممی کیسے ہو سکتی ہیں؟ یہ میری ممی نہیں ہو سکتیں۔‘‘

’’بیٹے غور سے دیکھو۔ یہی تو ہے تمہاری پیاری ممی۔‘‘

’’ہاں ہاں۔۔ یہ میری امی ہیں ! میری امی!!‘‘ وہ اختر کی گود سے ثنا کی جانب جھول گیا۔‘‘

’’میری ممی۔۔ میری ممی!!‘‘ وہ ثنا سے لپٹ کر رونے لگا۔

’’میرے بیٹے۔۔ صفدر۔۔ یہ تمہیں کیا ہو گیا؟‘‘

’’کچھ نہیں ممی، کچھ نہیں۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک بھوت آپ کو اُٹھا کر کہیں لیے جا رہا ہے۔۔ کسی جنگل میں۔۔ بھیانک جنگل میں۔۔ شیر، چیتوں ، گیدڑ اور ہاتھیوں کے درمیان۔۔ ممی وہ بھوت آپ کو لیے جا رہا تھا۔‘‘

ثنا بولی۔ ’’بیٹے خواب تو پھر خواب ہوتے ہیں ، اُن کا حقیقت سے کیا تعلق؟ یہ دیکھو تمہاری ممی تمہارے سامنے ہے۔ تم اُس کی گود میں ہو۔ میرا بیٹا۔۔ بیٹا صفدر۔۔ جنگل جانور سب بکواس ہے۔ اُن کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ وہ سب خواب و خیال کی باتیں ہیں۔‘‘

اختر کا دل گواہی دے رہا تھا۔ صفدر کا خواب سچا ہے۔ بچے سچے ہوتے ہیں ، وہ سچ بولتے ہیں۔ سوتے جاگتے سچ ہی سچ۔۔ ان کا مشاہدہ بھی سچا اور ان کے خواب بھی سچے۔۔ صد فیصد سچ۔۔  لیکن نصرت کی نصیحت کے پیش نظر اس نے اپنی زبان پر قفل لگا دیا۔

ثنا ملازمہ کو ڈانٹ رہی تھی۔ ’’خالہ اماں۔۔ آپ سے کتنی بار کہا ہے ، بچوں کو بھوت پریت کی کہانیاں نہ سنایا کریں۔‘‘

ملازمہ بولی۔ ’’دلہن بچوں کی کہانیوں میں جن بھوت اور پریوں کے علاوہ ہوتا ہی کیا ہے ؟ ایک شہزادے کے علاوہ سب کچھ مصنوعی ہوتا ہے۔‘‘

اختر کو پہلے ایسا محسوس ہوا کہ خالہ اماں اُس کے بارے میں کہہ رہی ہے۔ اُس کے علاوہ سب کچھ مصنوعی ہے۔ لیکن صفدر؟  اس کا خیال بدل گیا۔ خالہ اماں صفدر کے بارے میں کہہ رہی ہیں کہ وہ ہے شہزادہ۔۔ وہی ایک حقیقت ہے اور اس کے علاوہ باقی سب ایک خیال! بس خیال خام ہے۔

 

 

 

 

تکمیلِ خواب

 

 

ثنا اختر دُوسرے دن جب نصرت سے ملنے گئی تو اُس کا ارادہ بدل چکا تھا۔ اُسے آج ایک مشکل کام کرنا تھا۔ لیکن اس نے اپنا من بنا لیا تھا کہ چاہے نتائج جو بھی نکلیں ، وہ اپنے خواب کو شرمندۂ تعبیر کر کے رہے گی۔ اس خواب کو جو اُس نے گزشتہ دن فیشن شو کے درمیان کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھا۔۔ وہ خواب جو رات نیند میں شرمندۂ تعبیر ہو گیا تھا۔ وہ رات بھر ہواؤں میں پریوں کی طرح محوِ پرواز تھی۔ وہ نہ جانتی تھی کہ آنکھوں کے بند ہوتے ہی کہاں سے دو پر آ کر اس کے شانوں پر لگ گئے اور پھر ہوا کا ایک جھونکا نہ جانے کہاں سے آیا جو اُسے لے اُڑا۔

اس جھونکے کو ثنا نہیں دیکھ پائی تھی لیکن صفدر  نے دیکھ لیا تھا۔ صفدر بھی نہ جانتا تھا کہ آخر وہ کیا ہے ؟ معصوم بچہ کے لیے ہر انجان شہ شیطان ہوتی ہے ، ہر وہ چیز جو اسے نقصان پہنچائے اُسے بھوت پریت لگتی ہے۔ جو اُسے عطا کرے وہ فرشتہ۔ اس ہوا کے تیز جھونکے نے صفدر سے اس کی ماں کو چھین لیا تھا۔ اس لیے وہ بھوت بھوت کا شور مچا رہا تھا۔ لیکن وہی ہوا کا جھونکا ثنا کے خوابوں کی تعبیر بن گیا تھا، اس لیے وہ اس کو فرشتہ نما لگتا تھا۔

ثنا خواب میں افلاک کی سیر کرنے کے بعد جب صبح زمین پر آئی تو اختر کام پر جا چکا تھا۔ اپنے روزانہ کے ٹرانسپورٹ یونیفارم میں ملبوس اختر وہاں سے غائب تھا اور پائلٹ والا لباس، جسے اس نے کل شام پارٹی کے لیے زیب تن کیا تھا، ثنا کے سامنے ہینگر پر مسکرا رہا تھا۔ ثنا بھی اُسے دیکھ کر مسکرانے لگی۔ اختر اس لباس میں کس قدر خوبرو معلوم ہو رہا تھا۔ اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اختر کی شخصیت اس قدر رعب دار اور پُر کشش ہے۔ کل کسی کو اندازہ ہی نہ ہوا کہ وہ ایک معمولی بس ڈرائیور ہے۔ وہ سوچنے لگی۔۔ اس لباس نے اختر کو کیا سے کیا بنا دیا، زمین سے آسمان تک پہنچا دیا۔۔ اسے اپنے حسن انتخاب پر ناز ہو رہا تھا۔ انتخاب۔۔ لباس کا انتخاب۔۔ جو اس نے خود کیا تھا۔ جہاں تک اختر کا سوال ہے ، نہ تو اس نے اختر کا انتخاب کیا تھا اور نہ اختر نے اس کا۔

اختر کی امی کو ثنا پسند آ گئی اور ثنا کے والد کو اختر اچھا لگا۔ اس طرح وہ دونوں ایک دوسرے کے ہو گئے۔ لیکن ہینگر پر لگے اس کوٹ پتلون کا معاملہ بالکل مختلف تھا۔ یہ اس کا اپنا حسنِ انتخاب تھا۔ ثنا اپنے بارے میں سارے فیصلے اب خود کرنے لگی تھی۔ وہ اس معاملے میں پوری طرح خود کفیل ہو گئی تھی اور ایسا کرتے وقت وہ صرف اور صرف اپنے بارے میں سوچتی تھی۔ اپنے علاوہ کسی کے بارے میں بھی نہیں۔ نہ اختر کے اور نہ صفدر کے بارے میں ، وہ تھی اور اس کے خواب تھے۔ اس کے علاوہ باقی تمام اشیا بے وقعت ہو کر رہ گئی تھیں۔

ہواؤوں میں پرواز کا خواب بھی عجیب و غریب تھا۔ اس کو شرمندۂ تعبیر کرنے والی وہی ہستی تھی جو اس کی راہ میں سب سے بڑی رُکاوٹ تھی۔ ثنا جانتی تھی کہ نصرت کی مدد کے بغیر وہ ائیر ہوسٹیس نہیں بن سکتی اور اسے یہ بھی پتہ تھا کہ اس کا یہ فیصلہ نصرت کے کاروباری منصوبے کے خلاف ہے۔ اس کے باوجود اس نے نصرت سے بات کرنے کی ٹھان لی۔ اس لیے کہ ان مراحل سے گزرے بغیر منزلِ مقصود کا حصول ممکن نہیں تھا۔ وہ جانتی تھی نصرت دفتر میں کس وقت آتی ہے ، اس کے کون سے اوقات نہایت مصروفیت کے ہوتے ہیں اور پھر کب وہ تھک کر کچھ ہلکے پھلکے لمحات گزارتی ہے ، تاکہ دوبارہ تر و تازہ ہو کر کام میں جٹ جائے۔

نصرت مشین کی طرح کام کرتی تھی۔۔ گھڑی کی طرح۔۔ سورج کب نکلتا ہے اور کب غروب ہو جاتا ہے ! گھڑی کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ چاند کے آنے جانے کے اوقات کیا ہیں؟ رات کب طویل ہوتی ہے اور دن کب مختصر ہو جاتا ہے ؟ گھڑی ان تبدیلیوں سے بے نیاز اپنی لگی بندھی رفتار سے چلتی رہتی ہے۔ موسم بدلتے رہتے ہیں۔ گرمی، سردی یا بہار و خزاں۔۔ گھڑی کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کا کام ہے ایک دن اور رات کے عرصہ میں اپنے محور کے گرد دو طواف مکمل کر لینا۔ جس طرح اس کا محور مقرر ہے ، طواف کی تعداد طے ہے ، اُسی طرح رفتار کار بھی۔

نصرت جہاں کا معاملہ بھی اسی طرح کا تھا۔ اس طرزِ زندگی نے نصرت کی سوچ کو بھی متاثر کیا تھا۔ وہ اکثر و بیشتر جذبات سے عاری ہو کر نہایت عقلی اور سپاٹ انداز میں سوچتی اور صدیوں کے فیصلے لمحوں میں کر لیتی۔ اس لیے کہ جذبات و احساسات ہی فیصلوں کے پیر کی بیڑیاں ہوتے ہیں۔ جو اُن سے آزاد ہو وہ لپک کر فیصلہ کرتا ہے اور دوڑکر اُن پر عمل درآمد بھی شروع کر دیتا ہے۔ فیصلہ کرنے سے قبل وہ جب کسی سے کچھ سن رہی ہوتی تو سوچ رہی ہوتی کہ مخاطب کیا سوچ کر کہہ رہا ہے ؟ لیکن کسی نتیجہ پر پہنچنے کے بعد جب کوئی فیصلہ صادر کرتی تو ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں سوچتی کہ لوگ کیا سوچیں گے ؟ وہ جانتی تھی کہ سارے لوگ کسی بھی فیصلے سے کبھی کبھی پوری طرح مطمئن نہیں ہوں گے۔ اس لیے کسی ایسے کام میں اپنا وقت نہیں ضائع کرنا چاہئے جس میں کامیابی کے امکانات مفقود ہوں۔

ثنا کا معاملہ اس سے مختلف تھا۔ اس نے بہت سوچ سمجھ کر صحیح وقت کا انتخاب کیا اور نصرت کے کمرے پہنچ گئی۔ نصرت چاہتی تھی کہ کوئی اس سے بات چیت کرنے کے لیے آئے۔ صبح سے کام کرتے کرتے وہ بوجھل سی ہو گئی تھی۔ ثنا نے بات گزشتہ کل سے شروع کی اور بہت جلد آج میں آ گئی۔ اس لیے کہ اسے آئندہ کل کا فیصلہ کرنا تھا، وہ بولی۔ ’’نصرت۔۔ میں جانتی ہوں کہ تم میری بہت اچھی دوست ہو۔ تمہارے مجھ پر بے شمار احسانات ہیں ، مگر میں ایک ایسی بات کہنے جا رہی ہوں جس سے شاید تمہاری دل آزاری ہو۔‘‘

نصرت دل ہی دل میں ثنا کی چرب زبانی پر مسکرائی اور بولی۔ ’’ثنا تم نے ابھی تک مجھے نہیں جانا۔ دل کا آزار تو انہیں ہوتا ہے جن کے پاس دل ہو۔ نابینا کو بینائی کے کھو جانے کا خدشہ نہیں ہوتا۔ کیا سمجھیں؟‘‘

’’سمجھ گئی، سمجھ گئی۔‘‘ ثنا بولی۔ ’’مجھے تم سے یہی اُمید تھی۔‘‘

’’یہ تو ابتدائی کلمات ہیں جو تم نے ابتداء میں ادا کر دیئے۔۔ خیر۔۔ آخر میں اسے پھر دوہرا دینا۔ درمیان میں اپنی بات تو کہو۔‘‘

’’بات یہ ہے کہ میں تمہارے نئے منصوبہ پر کام نہیں کر سکتی۔‘‘

’’کیا؟‘‘ نصرت نے چونک کر کہا۔ ’’اختر نے منع تو نہیں کر دیا؟ اُسے میرے پاس بھیجو، میں اُسے سمجھا دوں گی۔ میں اسے بتلاؤں گی کہ کل اس نے جو سوٹ زیب تن کیا تھا وہ اس نئے پروجیکٹ کی تنخواہ میں سے تھا۔

’’اختر۔۔ نہیں ! وہ کیونکر منع کر سکتے ہیں؟ انہیں تو نہ یہ پتہ ہے کہ میں کیا کرنے والی تھی اور نہ ہی یہ پتہ ہے کہ میں کیا کرنے والی ہوں۔ ان کا اس سے کیا مطلب؟‘‘

’’اچھا خیر۔۔ اگر میرا مطلب ہے تو مجھے یہ بتا دو کہ تم کیا کرنے والی ہو؟ اس لیے کہ مجھے یہ تو پتہ ہے کہ تم کیا کرنے والی تھیں۔‘‘

’’جی ہاں جی ہاں۔ آپ کو تو سب پتہ ہے۔‘‘ ثنا بولی۔

’’اور مجھے یہ بھی پتہ چل گیا ہے کہ تم نے  اپنا ارادہ بدل دیا ہے۔‘‘

’’جی ہاں۔ آپ بجا فرماتی ہیں۔ دراصل میں۔۔ میں ائیر ہوسٹس بننا چاہتی ہوں۔ ہواؤں میں پرواز کرنا چاہتی ہوں۔‘‘

نصرت پر ثنا کا جملہ بم کی طرح گرا اور اس کے ساتھ منصوبے کا جہاز بھی زمین پر گر کر پاش پاش ہو گیا۔ خیر، نصرت نے اپنے آپ کو سنبھالا اور بولی۔ ’’یہ تو بڑی اچھی بات ہے کہ تم ائیر ہوسٹس بننا چاہتی ہو۔ لیکن میں تمہیں بتا دوں کہ ہوا میں ہوسٹس نہیں ، ہوائی جہاز اُڑتا ہے۔ وہ اس میں اس طرح چلتی ہے جیسے تم زمین پر چلتی ہو۔ میرا مطلب ہے ائیر ہوسٹس ہوا میں ہونے کے باوجود زمین پر ہوتی ہے۔‘‘

’’ہاں ہاں ! وہ تو ٹھیک ہے ، لیکن وہ زمین تو فضا میں ہوتی ہے۔‘‘

’’تمہاری یہ بات صحیح ہے ثنا۔ لیکن شاید تمہیں علمِ فلکیات کا بنیادی سبق یاد ہو کہ زمین بھی فضا میں اسی طرح تیر رہی ہے جیسے ہوائی جہاز تیرتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ جہاز چھوٹا ہوتا ہے اور سیارے بڑے ہوتے ہیں۔‘‘

’’جی ہاں ۔۔‘‘ ثنا بولی۔ ’’۔۔اور فرق یہ بھی ہے کہ جہاز میں ائیر ہوسٹس ہوتی ہے ، زمین پر نہیں ہوتی۔‘‘

نصرت بولی۔ ’’جی ہاں ! ایک فرق اور بھی ہے۔ ہوائی جہاز ایندھن سے چلتا ہے اور جب ایندھن ختم ہو جائے تو زمین پر آ جاتا ہے۔ زمین بغیر ایندھن کے نہ جانے کب سے محوِ سفر ہے۔‘‘

ثنا بولی۔ ’’آپ نے بجا فرمایا۔ لیکن ایندھن بھرنے کے بعد ہوائی جہاز دوبارہ محوِ پرواز ہو جاتا ہے۔ زمین پر تو وہ بس مختصر سی مدّت کے لیے آتا ہے۔ زمین اس کا مسکن تو نہیں۔ وہ زمین پر مسافر کی طرح آتا ہے ، اپنے سفر کی تیاری کرتا ہے اور پھر اپنے سفر پر چل پڑتا ہے۔‘‘

نصرت بولی۔ ’’ثنا تم نے واقعی بڑا اُونچا خواب دیکھا ہے۔ لیکن یاد رکھو، ہواؤں اور فضاؤں میں پرواز کرنے کی خاطر جس ایندھن کی ضرورت ہوتی ہے ، وہ زمین کے بطن سے پیدا ہوتا ہے۔ زمین اس کی ماں ہے۔ اسی لیے بچہ کو بار بار اپنی ماں کے پاس آنا پڑتا ہے اور جب وہ اُڑتے اُڑتے تھک جائے گا تو اسی ماں کی آغوش میں تھک کر اسے سونا بھی  پڑتا ہے۔ روح کے لامتناہی سفر کا درمیانی مرحلہ جس میں انسان مٹی کا لباس اوڑھ لیتا ہے ، اس مرحلے کی ابتداء اور انتہا دونوں اسی خاک سے ہوتی ہے جو اس کے لیے مقدر کر دیا جاتا ہے۔‘‘

ثنا بولی۔ ’’نصرت کبھی کبھی آپ بہت اُونچی اُڑان بھرنے لگتی ہیں۔ آپ کے فلسفہ سے تک میں رسائی نہیں کر پاتی، اس لیے معذرت چاہتی ہوں۔ خیر، میں نے جو تجویز آپ کے سامنے رکھی ہے ، اس بارے میں آپ کی رائے کیا ہے ؟

نصرت بولی۔ ’’ویسے میں ایک بات جانتی ہوں ثنا کہ میری رائے اب تم پر اثر انداز نہیں ہوسکتی۔ میں تمہارے اندر ارادے کی وہ قوت دیکھ رہی ہوں جو پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر سکتی ہے۔ خیر، میری نیک خواہشات تمہارے ساتھ ہیں۔ میں تمہاری کامیابی کے لیے دُعا کروں گی۔‘‘

’’دُعا۔۔؟ صرف دُعا؟‘‘ ثنا نے کہا۔ ’’مجھے دُعا سے زیادہ دوا کی ضرورت ہے نصرت۔ میں تمہارے پاس دُعا کی خاطر نہیں دوا کی خاطر آئی ہوں۔ دُعا دینے والے تو بے شمار لوگ ہیں لیکن وہ۔۔‘‘ ثنا نے کہا۔

’’اچھا۔۔ اگر ایسا ہے تو بتاؤ کہ اُن بے شمار لوگوں میں سے کیا کسی کو تم نے اپنا مسئلہ بتلایا؟‘‘

’’جی نہیں۔‘‘ ثنا بولی۔

’’تو کیا تم سمجھتی ہو کہ اس معاملہ میں دُعا بالکل بے سود ہے ؟‘‘

’’نہیں۔ ایسا بھی نہیں۔‘‘

’’پھر کیا بات ہے ؟‘‘

’’بات۔۔ بات دراصل یہ ہے کہ میں سمجھتی ہوں پہلے دوا ہونی چاہیے ، پھر دُعا ہونی چاہیے۔‘‘ ثنا نے بات بنائی۔

’’اچھا! مطلب اگر دوا نہ ہو تو دُعا بھی نہ ہونی چاہیے۔‘‘

’’جی نہیں ! میرا مطلب ہے اگر دوا نہ ہو تبھی دُعا ہونی چاہیے۔‘‘

’’یعنی اگر دوا ہو تو دُعا کی ضرورت نہیں۔‘‘

’’نہیں نصرت۔۔ آپ تو مجھے گھما رہی ہیں۔ دُعا اور دوا دونوں کو ساتھ ساتھ ہونا چاہیے۔‘‘

’’بہت خوب!‘‘

’’تو اب مجھے بتلائیے کہ ائیر ہوسٹس بننے کے لیے مجھے کیا کچھ کرنا ہو گا؟‘‘

نصرت بولی۔ ’’تمہیں ویسے تو بہت کچھ کرنا ہو گا۔ اب تم بتاؤ کہ سب کام ایک ساتھ بتلا دوں کہ ایک ایک کر کے بتاؤں !‘‘

’’آپ ایسا کریں ، ایک ایک کر کے بتائیں۔‘‘

’’مطلب جب تم ایک مرحلے سے گزر جاؤ تو دوسرا بتلاؤں۔ ٹھیک ہے ؟‘‘

’’جی ہاں ! بالکل ٹھیک ہے۔‘‘

’’تو دیکھو! سب سے پہلے تمہیں ثنا اختر سے ثنا پروین بننا ہو گا۔‘‘

’’ثنا پروین۔۔ ثنا پروین تو میں ہوں ہی۔۔ اس میں بننے کی کیا بات ہے۔‘‘

’’جی نہیں ! ثنا سرکاری رجسٹر میں تم فی الحال ثنا اختر ہو، نہ کہ ثنا پروین۔ بس یوں سمجھ لو کہ نصرت جہاں ائیر ہوسٹس تھی۔ لیکن نصرت فتح علی خان ائیر ہوسٹس نہیں بن سکتی۔ باوجود اس کے کہ وہ ائیر لائنس ایمپلائز یونین کی سکریٹری ہے اور فتح علی خان صاحب اس کے صدر ہیں۔‘‘

’’اوہ۔‘‘ ثنا سوچنے لگی۔

’’کیوں ثنا۔۔ سوچ میں پڑ گئیں۔‘‘ زمین کے بندھن انسان کو ہواؤں میں پرواز نہیں کرنے دیتے۔ انسان اِن زنجیروں کے توڑے بغیر ہوا میں نہیں اُڑ سکتا۔ کیا سمجھیں؟‘‘

ثنا بولی۔ ’’انسان نہیں۔۔ عورت! آپ کی یونین اس ظلم و نا انصافی کے خلاف آواز کیوں نہیں اُٹھاتی؟‘‘

’’ثنا تم یونین لیڈر بننا چاہتی ہو یا ایئر ہوسٹس؟‘‘

’’جی! غلطی ہو گئی، میں یوں ہی بہک گئی تھی۔ مجھے یونین لیڈر نہیں بننا، مجھے تو ائیر ہوسٹس بننا ہے۔‘‘

’’اچھا۔۔ تو پھر تم ثنا اختر سے ثنا پروین بننے کے لیے تیار ہو؟‘‘

ثنا بولی۔ ’’مجھے ایئر ہوسٹس بننا ہے اور میں اس راہ کی ہر رُکاوٹ کو عبور کرنے کے لیے تیار ہوں۔ لیکن کیا مجھے واقعی اختر اور صفدر سے کنارہ کشی اختیار کرنی ہو گی؟‘‘ ثنا بولی۔

’’نہیں۔ اُس کی ضرورت نہیں۔ صرف اس رشتہ کی پردہ پوشی کرنی ہو گی۔ یہ کہنا ہو گا کہ تم غیر شادی شدہ ہو۔‘‘

’’لیکن اگر کسی نے میرے خلاف شکایت کر دی تو؟‘‘

’’کوئی نہیں کرے گا۔ اس لیے کہ تمہارے ساتھ کام کرنے والی اکثر عورتیں تمہاری طرح ہیں۔ جب تک تم کسی کے خلاف شکایت نہ کرو، کوئی تمہارے خلاف نہیں بولے گا۔ یہ ایک غیر تحریر شدہ معاہدہ ہے ، جس کی سب پاسداری کرتے ہیں۔‘‘

’’اوہ۔۔ وہ تو اچھا ہے۔ لیکن اگر کسی نے مجھے اختر کے ساتھ دیکھ لیا تو؟‘‘

’’تو تم کہہ سکتی ہو کہ وہ تمہارا منگیتر ہے۔ تمہاری اس سے شادی ابھی نہیں ہوئی ہے۔‘‘

’’لیکن میں تو اُسی کے گھر میں رہتی بھی ہوں؟‘‘

’’تو کیا ہوا۔ تم اپنے منگیتر کے گھر میں رہ سکتی ہو۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔‘‘

’’اور۔۔ اور صفدر؟‘‘

’’صفدر کے بارے میں بھی کہہ سکتی ہو کہ یہ اختر کا بیٹا ہے۔‘‘

’’لیکن اگر اس نے مجھے ممی کہہ دیا تو؟‘‘

’’تو کہہ دینا کہ شادی سے قبل ہی اُس کی پیدائش ہو گئی ہے۔‘‘

’’کیا۔۔؟‘‘

’’جی ہاں ! تم جس معاشرے میں جا رہی ہوں ، وہاں کسی خاتون کا اپنے منگیتر کے ساتھ رہنا یا اس کے بچہ کی ماں بن جانا کوئی معیوب بات نہیں ہے۔‘‘

’’اور اس کے ساتھ شادی کر لینا معیوب بات ہے ؟‘‘ ثنا نے حیرت سے پوچھا۔

’’ہاں ثنا۔ وہاں کی اقدار ایسی ہی ہیں۔‘‘

’’لیکن کیوں؟‘‘

’’شاید اس لیے کہ عورت اگر کسی کی بیوی ہے تو اس کے دیگر مردوں سے تعلقات ناجائز ہو جاتے ہیں ، لیکن اگر منگیتر ہے تو جائز ہیں۔‘‘

’’جائز ہیں؟‘‘ ثنا نے پوچھا۔

’’ہاں میری اچھی سی معصوم بہن! وہ عجیب و غریب دُنیا ہے جہاں تم جانا چاہتی ہو۔ یہاں جو شہ پسندیدہ ہے ، وہ وہاں ناجائز ہے اور وہاں جو مقبول و معروف ہے ، وہ ہمارے پاس ناقابل قبول۔۔ اب بتاؤ تمہیں کیا پسند ہے ؟‘‘

’’مجھے۔۔! مجھے تو فی الحال وہ سب پسند نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی مجھے ایئر ہوسٹس بننا ہے اور اس کے لیے میں سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہوں۔ اختر کی بیوی سے اس کی منگیتر بننے کے لیے بھی راضی ہوں۔‘‘

نصرت نے رشک آمیز تیز نگاہوں سے ثنا کے عزم کو دیکھا اور سوچا۔۔ ’ثنا کو اپنے ارادوں کی تکمیل سے اب کوئی نہیں روک سکتا۔ اس لیے اس کے تعاون میں ہی عافیت ہے۔ کم از کم احسان ہی ہو جائے گا۔‘ گویا احسان کی روش نصرت کی مجبوری تھی نہ کہ خواہش۔ نصرت نے با دلِ ناخواستہ ثنا کو ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی کی اور پھر ایک بار ثنا ہواؤں میں محوِ پرواز ہو گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اختر یہ سب دیکھ کر حیران و ششدر تھا۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ سب کچھ ہوائی جہاز کی رفتار سے ہو رہا تھا جو ’’فلائی بائی وائر‘‘ یعنی کمپیوٹر کی مدد سے ، بغیر پائلٹ کی مدد سے اُڑتے تھے۔ پائلٹ اُن پر نگرانی تو کرتا تھا لیکن اُس کی حیثیت ایک تماشائی کی سی ہوتی تھی۔ اس کے اختیارات اگر مفقود نہ سہی مگر محدود تو ہوتے تھے۔ سب کچھ کنٹرول روم میں بیٹھے ہوئے لوگوں کی مرضی سے ہوتا تھا۔ اُسے محض اِس لیے جہاز میں کوٹ پتلون پہنا کر بیٹھا دیا جاتا تھا تاکہ مسافروں کو اطمینان رہے کہ جہاز کو کوئی چلا رہا ہے۔ ویسے ناگہانی صورتحال میں اسے اس بات کا موقع ہاتھ آتا تھا کہ وہ اپنی مہارت کو بروئے کار لائے اور اپنے کرتب دکھلائے۔

اختر کی حالت بالکل ویسی ہی تھی۔ اس سفر میں نہ وہ گئیر بدلتا تھا، نہ رفتار بڑھاتا تھا اور نہ بریک لگاتا تھا۔ یہاں تک کہ آس پاس اور پیچھے کا آئینہ بھی اُسے نہ دیکھنا پڑتا تھا۔ اسٹیرنگ کو مضبوطی سے پکڑکر بیٹھنا اس کے لیے ضروری نہ تھا۔ بیچ بیچ میں کچھ اعلانات کر دینا، باہر نکل کر مسافروں پر مسکراہٹ بکھیر دینا، یہ اس کا کام تھا۔ اختر گھر میں یہی کچھ کر رہا تھا۔ اس نے اپنی توجہات کا مرکز اپنے بیٹے صفدر کو بنا لیا تھا۔ دن بھر گاڑی چلاتا اور شام کو آ کر اس کے ساتھ مصروف ہو جاتا۔

ثنا کے ذریعہ ہونے والی غیر معمولی آمدنی کے باعث اب اُسے بس چلانے کی چنداں ضرورت باقی نہیں رہی تھی۔ وہ گھر میں بیٹھ کر صفدر کی پرورش اور تربیت کے لیے اپنے آپ کو وقف کر سکتا تھا، جس طرح پہلے ثنا نے اپنے آپ کو فارغ کر رکھا تھا۔ ایسے میں اگر ثنا اور اختر اپنا اپنا کردار بدل دیتے تو وہ صفدر کے حق میں اچھا ہوتا۔ لیکن یہ صورتحال دونوں کے لیے پسندیدہ نہیں تھی۔ اختر کی خود داری اس بات کو گوارہ نہ کرتی تھی کہ بیوی کی کمائی پر منحصر ہو جائے ، اور ثنا بھی نہیں چاہتی تھی کہ لوگ اس کے شوہر کو ’’ہاؤس ہسبنڈ‘‘ یعنی ’’گھریلو خاوند‘‘ کی حیثیت سے جانیں۔ یہ اس کے اپنے لیے توہین کا باعث تھا۔ اس خود داری اور توہین کی چکّی میں بے چارہ صفدر پس رہا تھا۔

خالہ ماں اسے خوش رکھنے کی جی توڑ کوشش کرتیں ، لیکن لٹی ہوئی ممتا اور پٹی ہوئی پدرانہ شفقت کا بدل اُن کے پاس نہ تھا۔ خیر، جیسے جیسے ہوائی جہاز آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگا۔ زمین سے اس کا رشتہ کٹنے لگا۔ زمین والے اسے حسرت سے دیکھتے ، اس کے شور سے بچنے کے لیے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیتے۔ لیکن آسمان والوں کی نگاہیں اوپر ہی اوپر تھیں۔ وہ اس سے بے خبر تھے کہ نیچے والوں پر کیا بیت رہی ہے۔ بہرحال، فاصلے تھے کہ بڑھتے ہی جاتے تھے۔ طویل سے طویل تر ہونے والی ان دُوریوں کا احاطہ کرنے سے اختر کی عقل عاجز تھی اور ثنا کا دل بے نیاز۔

 

 

 

 

ممتاز محل

 

 

ہواؤں کے دوش علی یاور جنگ ثنا کا مونس و غم خوار تھا۔ یاور سے ثنا کی ملاقات نصرت نے کروائی تھی تاکہ ثنا کے لیے آسانیاں فراہم ہوسکیں۔ یاور نہایت امیر کبیر اور بارسوُخ آدمی تھا۔ ہوائی جہاز اُڑانا اُس کی ضرورت نہیں بلکہ شوق تھا۔ اس لیے اسے ملازمت کے چلے جانے کا رتی بھر خوف نہ تھا۔ اُس کی اِس بے خوفی سے اُس کے افسران تک خوفزدہ رہتے تھے۔ یاور جنگ کی دوستی نے فتح علی خان کو یونین کا لیڈر بنا دیا تھا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ فتح علی خان کی لیڈری یاور جنگ کی دولت میں مزید اضافہ کا سبب بنی تھی۔ گویا دونوں ایک دوسرے کے معاون و مددگار تھے ، ایک دوسرے کی ترقی کا وسیلہ تھے۔

یہ حسن اتفاق تھا کہ اکثر جس جہاز میں ثنا خدمت گزار ہوتی، اس جہاز کو چلانے کی ذمہ داری یاور پر ہوتی۔ ایسا دُوسروں کے ساتھ تو نہ ہوتا تھا لیکن ثنا کے ساتھ ضرور ہو جاتا۔ آگے چل کر ثنا کو پتہ چلا کہ یہ اتفاق سے نہیں ، منصوبہ بند طریقہ پر ہو رہا ہے۔ یاور کی حیثیت پائلٹ کے علاوہ یونین لیڈر کی بھی تھی۔ اس کا دائرۂ کار فتح علی خان کی طرح حیدرآباد تک محدود نہیں تھا، بلکہ وہ قومی سطح کا رہنما تھا۔ شہری ہوا بازی کے مرکزی وزیر تک اس کی رسائی تھی۔ اس لیے وہ جہاں بھی جاتا، اس کے لیے یونین کی جانب سے خاص گاڑی کا انتظام ہوتا تھا۔ وہ عام پائلٹس کی طرح بس میں نہ جاتا تھا۔ اب یہی مراعات ثنا کو بھی حاصل ہو گئی تھیں۔

یاور جب ساتھ ہوتا تو وہ ثنا کو اپنی گاڑی میں ہوٹل تک یا گھر تک لے جاتا اور جب وہ کسی وجہ سے ساتھ نہ بھی ہوتا تب بھی ایک شاندار لیمو زین ثنا کا انتظار کر رہی ہوتی۔ ثنا تو بھول ہی گئی تھی کہ ایئر انڈیا کی بس کیسی ہوتی ہے جو ائیرہوسٹس کو ائیر پورٹ سے ہوٹل لے جاتی ہے ؟

ثنا کے ساتھ کام کرنے والی دُوسری خواتین حسد سے یہ کہتیں کہ خاوند تو سرکاری بس چلاتا ہے اور بیوی کو دیکھو، لیموزین میں گھومتی ہے۔ کوئی کہتا، ارے وہ تو پرانا شوہر ہے۔ ابھی مستقبل میں جو ہونے والا ہے وہ تو نہ جانے کتنی گاڑیوں کا مالک ہے۔ ایسے میں اگر ثنا یونین کی لیموزین میں گھومتی ہے تو اس میں کون سی بڑی بات ہے۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ثنا کی اُڑان کے آگے اس کے ہمسفر بے بس تھے۔

یاور جنگ اپنے رسوخ کا استعمال کچھ اس طرح سے کرتا تھا کہ سال میں دوچار مرتبہ جب اسے چھٹی منانی ہوتی، تبھی وہ یوروپ یا مشرق بعید کی فلائٹ لیتا۔ ورنہ حیدرآباد دبئی اس کا پسندیدہ روٹ تھا۔ تین گھنٹہ جانا اور تین گھنٹہ آنا اسی کے ساتھ ڈیوٹی ختم۔ ویسے وہ کبھی کبھار وہاں رُک جاتا۔ اس لیے کہ دبئی میں یاور کا اپنا لمبا چوڑا کاروبار تھا۔ اس کی بڑی وسیع جائداد حیدرآباد کے علاوہ دبئی میں بھی تھی۔

یاور اپنے والد کی طرح نہ صرف دل پھینک طبیعت کا مالک تھا، بلکہ شاطر سرمایہ دار بھی تھا۔ اس کے والد نے نظام عثمان علی خاں کے دربار میں کام کرتے ہوئے نواب صاحب کا ایسا اعتماد حاصل کیا کہ  ان  کے رشتہ کی بہن سے نکاح کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس طرح سقوط حیدرآباد کے باوجود وہ اپنی بیوی کے ذریعہ حاصل ہونے والی دھن دولت کے سہارے عیش کرتے رہے۔ اسی اثناء میں انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی دبئی کے حکمراں مکتوم خاندان کے چشم و چراغ سے کر دی۔ اس طرح اب وہ دبئی کے حکمرانوں سے متعلق ہو گئے۔

یاور جنگ کے اپنے بہنوئی سے نہایت قریبی تعلقات تھے ، اِس لئے اُسے امارات کی شہریت بھی حاصل ہو گئی تھی۔ یہاں اس نے بڑے بڑے تعمیراتی پراجیکٹ میں سرمایہ کاری کر رکھی تھی۔ ہندوستان کے بڑے بڑے سرمایہ دار، جو دبئی کی بین الاقوامی حیثیت کے پیش نظر وہاں قدم جمانا چاہتے تھے ، یاور جنگ کے پارٹنرس تھے۔ اس دوران کئی یوروپین کمپنیوں کا بھی وہ کفیل ہو گیا تھا۔ لیکن مزاجاً اس کے لیے کسی دفتر سے منسلک ہو کر کام کرنا مشکل تھا۔

یاور جنگ  نے اپنے کاروبار کو چلانے کی خاطر بہترین صلاحیت کے حامل مینیجرس کو متعین کر رکھا تھا۔ وہ خوب ٹھونک بجا کر ان کو منتخب کرتا۔ صلاحیت کے ساتھ ساتھ ایمانداری کو ملحوظ رکھتا، بہترین تنخواہ اور سہولیات کے ساتھ انہیں بے پناہ اختیارات دیتا، اُن پر پورا بھروسہ اور اعتماد کرتا، ان کے ساتھ نہایت حسنِ سلوک کا مظاہرہ کرتا، ان کے ذاتی مسائل میں دلچسپی لیتا اور امداد و تعاون کے معاملے اصول و ضابطے کو پسِ پشت ڈال کر فراخ دِلی سے پیش آتا۔

اس لیے اس کے ملازم بھی بندہ بے دام کی طرح یاور پر اپنی جان چھڑکتے اور خدمت میں ایک  دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے۔ نتیجہ یہ تھا کہ یاور جنگ کا کاروبار دن دوگنی ترقی کرتا جا رہا تھا۔  ہر تین ماہ میں جب کارپوریٹ میٹنگ ہوتی اور تمام جنرل منیجرس کو ایک جگہ جمع کیا جاتا، تو ہر ایک اپنے آپ کو سب سے بہتر ثابت کرنے کی فکر میں لگ جاتا۔ کبھی کبھار اس میٹنگ میں امراء بھی شریک ہوتے جس سے یاور اور تمام منیجرس کی عزت افزائی ہوتی۔

دُبئی میں جہاں دُوسری ائیر ہوسٹس کسی نہ کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں آرام کرتیں ، ثنا یاور کی محل نما حویلی میں آرام فرماتی۔ دن ہفتوں اور ہفتہ مہینوں میں بدلتے رہے۔ آخر ایک دن یاور نے دبئی کے ساحل پر واقع حیات ریجنسی ہوٹل میں ثنا کے سامنے شادی کی تجویز رکھی۔ یاور کا خیال تھا کہ اس دوران ثنا یاور سے مکمل طور پر مرعوب ہو چکی ہو گی اور وہ پکے ہوئے پھل کی طرح اس کی گود میں آگرے گی۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔

ثنا نے اختر کے ساتھ اپنے نکاح کا مسئلہ اُٹھایا تو یاور نے اسے سمجھایا۔۔ ’طلاق اور خلع‘ یہ دو حل موجود ہیں۔ ثنا نے صفدر کے متعلق اپنی فکر مندی کا اظہار کیا تو یاور نے بتلایا۔ ’’ویسے بھی آج کل صفدر کے لیے اس کے پاس وقت کم ہی ہوتا ہے۔ اس کا زیادہ تر خیال خالہ ماں اور اختر رکھتے ہیں۔ لیکن خالہ ماں کے اخراجات تو اختر برداشت نہ کر پائے گا۔‘‘ ثنا کے یہ کہنے پر یاور بولا کہ وہ اس کا اہتمام کر دے گا۔ لیکن اختر کس حیثیت سے اسے قبول کرے گا، اس کا جواب یاور کے پاس یہ تھا کہ وہ صفدر کو اختر سے جدا کر دے گا اور علیحدہ مکان میں خالہ ماں کے ساتھ رکھوا دے گا۔

یاور کمپیوٹر کی طرح ہر مسئلہ کا حل نہایت مشینی انداز میں سجھا رہا تھا۔ انسانی جذبات و احساسات کا کوئی پاس و لحاظ دُور دُور تک نہ تھا۔ اس نے یکلخت صفدر کو نہ صرف باپ بلکہ ماں سے بھی دُور کرنے کا ارادہ ظاہر کر دیا تھا۔ صفدر کو یتیم کی حیثیت سے خالہ ماں کی گود میں چند سکوں کے ساتھ ڈال دیا تھا۔ اس کے نزدیک انسان کی ضرورت صرف شکم سیری تھا۔ اس کی ہوس پرستی نے اسے اندھا کر دیا تھا۔ لیکن ثنا کے سوالات کی فہرست تھی کہ ختم ہونے کا نام نہ لیتی تھی۔ ثنا بولی۔ ’’یہ سب تو ٹھیک ہے لیکن سنا ہے آپ کی بھی ایک زوجہ ہیں۔۔ محترمہ ممتاز محل۔‘‘

ثنا کے اس سوال پر یاور چونک پڑا۔ اُس نے ناراضگی سے تائید کی۔ ’’جی ہاں ہے ، اُس سے تمہیں کیا؟‘‘

’’اگر آپ کو اختر سے غرض ہے تو مجھے بھی ممتاز سے ہونی چاہئے۔ آخر ہم دونوں رشتۂ ازدواج سے جڑنے جا رہے ہیں۔‘‘

ثنا کے اس سوال پر کمپیوٹر نے کام کرنا بند کر دیا۔ دراصل پہلے کئے گئے تمام سوالات پر یاور نے غور کر رکھا تھا، اس لیے وہ تیار شدہ جوابات دیئے چلا جاتا تھا۔ لیکن یہ سوال اس کی توقع کے خلاف تھا۔ اس لیے اسے جواب نہ سوجھا۔ اس کے علاوہ دسروں کی زندگی سے کھیلنا جس قدر آسان تھا، خود اپنے ساتھ یہ خاصہ مشکل کام ہو جاتا ہے۔ اس نے اپنے آپ کو سنبھالا اور پلٹ وار کیا، جواب دینے کے بجائے سوال کر دیا۔ ’’تمہارا کیا مطلب ہے ثنا۔۔ میں ممتاز کو طلاق دے کر چار ماہ عدت کے گزاروں اور پھر تم سے نکاح کروں؟‘‘

ثنا بھی اس سوال سے چونک پڑی اور اپنا اگلا سوال بھول گئی، وہ بولی۔ ’’نہیں نہیں ، اس کی کیا ضرورت! آپ مرد ہیں آپ عدت کیوں کر گزاریں۔ آج طلاق کل نکاح۔‘‘

اب اونٹ آچکا تھا پہاڑ کے نیچے۔ یاور بولا۔ ’’اگر میں مرد ہوں ، اس لیے مجھ پر عدت لازم نہیں ہے تو پھر طلاق کی بھی کیا ضرورت ہے ؟ میں ممتاز کے ہوتے ہوئے تم سے نکاح کر سکتا ہوں۔‘‘

’’لیکن میں نہیں کر سکتی۔‘‘ ثنا نے صاف جواب دے دیا، وہ بولی۔ ’’میں کسی کو اپنے ساتھ شریک نہیں کر سکتی۔ اگر آپ ممتاز کو نہیں چھوڑ سکتے تو مجھے بھول جائیے۔ آپ ممتاز کے ساتھ خوش رہیں ، میں اختر کے ساتھ رہ لوں گی۔‘‘ یہ کہتے ہوئے ثنا کی آنکھوں میں آنسو چمکنے لگے۔

یاور اس صورت حال کے لیے ہرگز تیار نہ تھا۔ اُس نے اپنے وکیل کے ذریعہ خلع کے کاغذات تک تیار کروا لیے تھے۔ اس کا ارادہ تھا کہ اس روز وہ ان پر ثنا کے دستخط کروا کر اختر کو روانہ کر دے گا۔ آئندہ چار ماہ میں نکاح کی تیاریاں ہوں گی اور پھر چٹ منگنی پٹ شادی۔ لیکن یاور کا اندازہ غلط نکلا۔ ثنا نے ممتاز کو درمیان میں لا کر جہاز کو ایمرجینسی لینڈنگ کے لیے مجبور کر دیا تھا۔ دونوں خاموش ہو گئے اور مستقبل کے بارے میں سوچنے لگے۔ ویسے ثنا کے آنسوؤں نے پہلی مرتبہ یاور کا سینہ چاک کر دیا تھا۔ یاور نہیں جانتا تھا کہ  وہ ثنا کے دل میں اُتر چکا ہے۔ ثنا کے بارے میں یاور کے تمام اندازے غلط نکلے تھے۔ یہ پاگل لڑکی تھی اور اس کے پاگل پن نے یاور جیسے دل پھینک انسان کو بھی مجنوں بنا دیا تھا۔

یاور نے ثنا سے کہا۔ ’’ثنا، کافی وقت ہو چکا ہے۔ چلو چلتے ہیں۔ اس مسئلہ پر پھر کبھی گفتگو ہو گی۔ یہ اس قدر آسان نہیں ہے۔‘‘

ثنا سوچ رہی تھی۔۔ اختر سے تعلقات کو توڑ دینا اگر آسان ہے تو ممتاز سے کیوں نہیں؟ کیا ممتاز محل یاور کے لیے اس سے زیادہ اہم ہے۔ اس کے دل نے کہا ’نہیں ‘، لیکن اختر؟ وہ یقیناً ثنا کے لیے یاور سے کم اہم ہو چکا تھا۔ اہمیت کی کمی اور زیادتی، دونوں کے لیے یکساں اثر رکھتی ہے۔ اس رات یاور اور ثنا اپنے اپنے کمروں میں رات بھر کروٹ بدلتے رہے۔ دونوں کی آنکھوں سے نیند ندارد تھی اور عجیب و غریب بات یہ تھی کہ جس ممتاز محل نے ان کی نیند اُڑا دی تھی، وہ حیدرآباد کی اپنی حویلی میں گھوڑے بیچ کر سورہی تھی۔ اسے یقین تھا کہ اس کا گھوڑا اپنے کھونٹے سے دُور تو جا سکتا ہے لیکن گلے میں پڑی رسی کو توڑ نہیں سکتا۔ اس لیے کہ وہ اسے اپنے گلے کا پھندا نہیں بلکہ ہار سمجھتا ہے۔

یاور اور ثنا کے تعلقات میں ممتاز کا بال پڑ گیا تھا۔ لیکن دونوں نے اسے ظاہر نہ ہونے دیا۔ اوروں کے سامنے ایک دوسرے کے ساتھ پہلے ہی کی طرح پیش آتے رہے۔ ان کی انا انہیں جگ ہنسائی کا سامان بننے سے روک رہی تھی۔ یاور کے دل میں ثنا نے گہری سیندھ لگائی تھی۔ لیکن وہ اسے مزید وقت دینا چاہتا تھا۔ اسے یقین تھا کہ وقت کے ساتھ ثنا کے اندر کا الہڑ پن ختم ہو جائے گا اور وہ نہ صرف حقیقت پسند بلکہ ممتاز پسند بن جائے گی۔

اسی دوران ثنا کو وزیر اعلیٰ کے لڑکے کی شادی کا دعوت نامہ موصول ہوا۔ ویسے تو یہ بڑے عزت و شرف کی بات تھی کہ لاکھوں ووٹ حاصل کر کے کامیاب ہونے والے اور کروڑوں کی آبادی والی ریاست کے وزیر اعلیٰ کے لڑکے کی شادی میں چند سو افراد کو دعوت دی گئی تھی، جس میں ثنا کو اہل خاندان کے ساتھ بلایا گیا تھا۔ لیکن اختر کو یہ بات ہتک معلوم ہوئی۔ اس دعوت نامہ نے ثنا کو خاندان کا قوام بنا دیا تھا۔ اختر اپنی کم آمدنی کے باوجود اپنی اس حیثیت کے ساتھ کسی قسم کی مصالحت کے لیے تیار نہ تھا۔ اس نے ثنا سے طبیعت کی ناسازی کا بہانہ کر کے منع کر دیا۔

اختر کو پتہ تھا کہ ثنا رُکنے والی نہیں ہے۔ وہ تو اس تقریب میں ضرور جائے گی۔ بیماری تو کیا، اگر وہ عالم سکرات میں ہو تب بھی ثنا نہیں رُکے گی۔ واپس آنے کے بعد ہی وہ اس کے تکفین و تدفین کے انتظامات کرے گی۔ لیکن بہرحال اس تقریب میں بار بار ’’یہ ثنا کے شوہر ہیں ‘‘ والے تعارف سے اس کی جان چھوٹ گئی، وہ اسی سے خوش تھا۔

حیدرآبادسے لے کر دہلی تک کے نامی گرامی ہستیاں اس زبردست تقریب میں شریک تھیں اور مہمانوں میں نہ صرف سیاستداں بلکہ سرکاری افسران، سرمایہ دار،صنعت کار، فلمی اداکار، شعرا، ادباء اور نہ جانے کون کو ن نامور ہستیاں  شامل تھا۔ گویا عام لوگوں کے علاوہ جن کے ووٹوں سے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تھے۔۔ ہر کوئی اس تقریب میں موجود تھا۔ شہر کے شاندار ہوٹل کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔ حفاظت کے سخت انتظامات تھے۔ دہشت گردوں کے بہانے عوام کو دُور  ڈھکیل دیا گیا تھا۔ حفاظتی اہلکار سنگینیں لیے کھڑے تھے لیکن پھر بھی بے وقوف عوام تھے کہ اپنے چہیتے اداکاروں اور رہنماؤں کی ایک جھلک پانے کے لیے ایک دوسرے پر گرے پڑتے تھے۔‘‘

ثنا پروین اس تقریب میں پری جمال بنی ہوئی تھی کہ اچانک لوگوں نے دیکھا، وزیر اعلیٰ دروازے کی جانب تیز قدموں سے چلے جا رہے ہیں۔ سبھی نگاہیں ان کا تعاقب کر رہی تھیں۔ ثنا نے دیکھا، ایک بڑی لمبی کار میں سے ایک نہایت پُر وقار خاتون اُتریں۔ وزیر اعلیٰ نے ہاتھ جوڑ کر اس کا اِستقبال کیا۔ اس نے مسکرا کر جواب دیا اور دونوں لال قالین پر اسٹیج کی جانب بڑھنے لگے ، جہاں دولہا اور دولہن بیٹھے ہوئے تھے۔ ثنا نے اپنے پاس کھڑی ہوئی نصرت سے پوچھا۔ ’’یہ کون ہے ؟‘‘

’’اوہ! تم نہیں جانتیں؟ یہی تو ہیں بیگم ممتاز محل۔۔ نواب وجاہت علی خان صاحب کی دُختر نیک اختر۔‘‘

’’اچھا تو یاور۔۔‘‘ ثنا رُک گئی۔

نصرت نے جملہ پورا کیا۔ ’’جی ہاں جی ہاں۔۔ تمہارے یاور جنگ کی زوجہ محترمہ یہی ہیں۔‘‘

’’میرے !میرے کون ہوتے ہیں یاور جنگ؟‘‘ ثنا نے تنک کر سوال کیا۔

’’ارے تمہارے ہم شغل۔ تم دونوں ائیر انڈیا میں ملازم ہو۔ وہ پائلٹ اور تم ہوسٹس۔ اسی حوالے سے میں نے کہا تھا۔ اگر گستاخی ہوئی ہو تو معافی چاہتی ہوں۔‘‘ نصرت مسکراتے ہوئے بولی۔

ثنا جھینپ گئی۔ ’’نصرت بات بنانے میں تمہارا جواب نہیں۔‘‘

نصرت نے فوراً جواب دیا۔ ’’اور بات بگاڑنے میں؟‘‘وہ خاموش ہو گئی۔

اس محفل میں یاور کے شریک نہ ہونے کی وجہ اس کی کاروباری مصروفیت بتلائی گئی تھی۔ لیکن ممتاز محل کا استقبال دیکھنے کے بعد ثنا سمجھ گئی، اختر اور یاور ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔ فرق صرف یہ ہے ایک کی کشتی زمین پر دوڑتی ہے اور دوسری ہوا میں تیرتی ہے۔ دونوں دریا سے دُور پیاسی تڑپتی ہیں۔  تقریب معمول پر آ چکی تھی۔ موسیقی، رقص و سرود، کھانا پینا اور پینا پینا۔۔ سب کچھ چل رہا تھا۔ سوئمنگ پول کے کنارے اپنی مخصوص نشست پر براجمان ممتاز نے نصرت سے پوچھا۔ ’’نصرت اس تقریب میں ثنا آئی ہے ؟‘‘

نصرت نے کہا۔ ’’جی ہاں۔‘‘

’’کیا اس کے ساتھ اختر بھی ہے ؟‘‘

’’جی نہیں۔‘‘ نصرت بولی۔ ’’وہ شاید یاور کے ساتھ ہے۔‘‘ دونوں سہیلیاں معنی خیز انداز میں مسکرائیں۔

’’خیر ایسا کرو۔۔ ثنا کو یہاں میرے پاس بلا لاؤ۔‘‘

’’ٹھیک ہے۔‘‘ کہہ کر جیسے ہی نصرت اُٹھی، سامنے سے فتح علی خان کو ثنا کے ساتھ کھڑا پایا وہ بولے۔ ’’ثنا حاضر ہے۔‘‘

نصرت نے کہا۔ ’’آپ تو چراغ کا جن ہو گئے۔‘‘

فتح علی خان بولے۔ ’’چراغ کا نہیں ۔۔‘‘

ممتاز نے کہا۔ ’’نصرت کا جن۔‘‘ سب لوگ ہنس پڑے۔

فتح علی خان نے نصرت سے کہا۔ ’’اب تم یہاں سے چلو، انہیں راز و نیاز کی باتوں کے لیے تنہائی درکار ہے۔‘‘

ثنا نے ادب سے تسلیمات عرض کیں۔ ممتاز اپنی جگہ سے اُٹھیں اور اُسے پیار سے کسی بچے کی طرح سینے سے لگایا اور دونوں آمنے سامنے بیٹھ گئیں۔‘‘

ثنا بولی۔ ’’میں نے آپ کے بارے میں بہت کچھ سنا تھا۔‘‘

ممتاز نے پوچھا۔ ’’اچھا۔۔ تو کیسا پایا؟‘‘

’’جی۔۔ جیسا سنا تھا، اُس سے بھی اعلیٰ و ارفع۔‘‘

’’شکریہ!‘‘ ممتاز نے پر وقار انداز میں جواب دیا۔ ’’میں نے بھی تمہارے بارے میں کچھ کچھ سنا تھا۔ لیکن آج تم سے ملنے کے بعد پتہ چلا کہ تمہارے بارے میں لوگوں کی رائے غلط ہے۔‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘ ثنا نے حیرت سے پوچھا۔

’’دراصل تم اُن کے بیان سے کہیں بالاتر ہو ثنا۔۔ تم بالکل جنّت کی حُور کے مانند حسین و جمیل ہو۔‘‘

ثنا اپنی تعریف سن کر دیوانی ہو گئی۔ اس کی نظروں میں ممتاز کا احترام اور بڑھ گیا۔ اس نے پوچھا۔ ’’آپ نے میرے بارے میں کس سے سنا۔ نصرت سے ؟ وہ میری سہیلی ہے ، اس نے یقیناً میری بے جا تعریف کی ہو گی۔‘‘

’’نہیں ! میں نے تمہارے بارے میں نصرت سے نہیں ، یاور سے سنا ہے۔‘‘

’’یاور سے۔۔؟‘‘

’’جی ہاں ، یاور سے۔ کیوں ، تمہیں حیرت کیوں ہے ؟‘‘

’’اس لیے کہ یاور نے مجھ سے کبھی بھی آپ کا ذکر نہیں کیا۔‘‘

’’مجھے یقین ہے ! یاور نہایت پیشہ ور تاجر ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کب اور کون سی بات، کس سے اور کس قدر کرنی چاہئے۔ وہ غیر ضروری باتیں بلاوجہ کہہ کر کے اپنا وقت اور توانائی ضائع نہیں کرتا۔‘‘

آپ بجا فرماتی ہیں۔ لیکن پھر انہوں نے آپ سے میرا ذکر کیوں کیا؟‘‘

’’یہ اس کی مجبوری ہے۔‘‘

’’مجبوری۔۔؟ کیسی مجبوری؟‘‘

دراصل میں نے نکاح سے پہلے یاور سے ایک نکاح نامے پر دستخط کروا لئے تھے ، جس کی رو سے وہ میری اجازت کے بغیر کسی سے نکاح نہیں کر سکتا۔‘‘

’’کیا؟‘‘

’’جی ہاں۔‘‘

’’لیکن آپ نے ایسا کیوں کیا؟‘‘

’’وہ دراصل بات یہ ہے کہ میرے ساتھ دھوکہ ہوا۔ اس کے بعد میں سنبھل گئی۔ میں نے اپنے ماں باپ کی مرضی کے خلاف ایک کرکٹ کھلاڑی سے شادی کر لی جو نہایت غریب تھا۔ لیکن اس کی مقبولیت نے اسے بہت بڑا ماڈل بنا دیا۔ اسے اشتہارات کے ذریعہ کروڑوں روپئے ملنے لگے۔ لوگ کہتے ہیں کہ وہ جواریوں سے بھی رقم لیتا تھا، لیکن میں نہیں مانتی۔ خیر جب دولت آ گئی تو اس نے ایک فلمی اداکارہ سے تعلقات استوار کر لیے اور اس فحاشہ نے اسے مجبور کیا کہ وہ مجھے طلاق دے تاکہ اس سے نکاح کر سکے۔ اُس نے ایسا ہی کیا۔‘‘

ثنا کو لگا، جیسے ممتاز محل اسے گالی دے رہی ہیں۔ لیکن وہ اس کڑوے گھونٹ کو خاموشی سے نگل گئی اور پوچھا۔ ’’پھر؟‘‘

’’پھر کیا۔ میرے والدین نے پھر میرا نکاح یاور سے کر دیا لیکن اس مرتبہ انہوں نے نکاح نامہ میں شرط ڈلوا دی۔‘‘

’’لیکن اجازت کی کیا ضرورت؟ آپ پابندی بھی تو لگا سکتی تھیں۔‘‘

’’شریعت میں جس چیز کی اجازت ہے ، اس پر پابندی لگانے والی میں کون ہوتی ہوں؟‘‘

’’اچھا۔۔ تو کیا نکاح کو مشروط کرنے کی اجازت ہے ؟‘‘

’’شرائط کو قبول کرنے یا رد کرنے کی آزادی دونوں فریقین کو معاہدہ کے وقت ہوتی ہے۔ وہ شرائط میں ترمیم بھی کرسکتے ہیں۔ بصورت دیگر معاہدہ کرنے سے انکار کر سکتے ہیں۔ اس میں کوئی قباحت تو ہے نہیں۔‘‘

’’لیکن یہ اجازت کی شرط دراصل بلاواسطہ پابندی ہی تو ہے۔‘‘

’’جی نہیں۔۔ یہ شرط ہے ، پابندی نہیں۔‘‘

’’اچھا۔۔ تو کیا آپ یاور کو اجازت دے سکتی ہیں؟‘‘

’’کیوں نہیں۔ لیکن میں یہ اجازت سوچ سمجھ کر دوں گی۔ اور اسی لیے میں تم سے ملاقات کرنا چاہتی تھی۔‘‘

’’سو تو ہو گئی۔ اب کیا ارادہ ہے ؟‘‘ ثنا نے پوچھا۔

ممتاز بولی۔ ’’ہاں ، میں یاور کو تم سے نکاح کی اجازت دے دوں گی۔‘‘

’’آپ مذاق کر رہی ہیں۔‘‘ ثنا نے کہا۔

’’نہیں ثنا۔۔ ہم مذاق سے بھی ایسی بات نہیں کہتے۔ ہم جو کہہ دیتے ہیں ، اسے پھر واپس نہیں لیتے۔ ہمارا نام ممتاز محل بنت وجاہت علی خان ہے۔‘‘ ممتاز نے اپنے رعب دار لہجہ میں کہا۔

ثنا گھبرا گئی، وہ بولی۔ ’’گستاخی کے لیے معافی چاہتی ہوں۔

’’کوئی بات نہیں۔‘‘

’’لیکن میں نے بھی نادانی میں یاور کے آگے ایک شرط رکھ دی تھی۔‘‘

’’میں اُس سے بھی واقف ہوں۔‘‘

’’اُس کے باوجود آپ نے اجازت دے دی؟‘‘

’’ہاں ! اس لیے کہ مجھے اس کی پرواہ نہیں۔ میں جانتی ہوں یاور کبھی بھی تمہاری شرط منظور نہیں کر سکتا۔‘‘

ممتاز محل کے لہجہ میں پہاڑوں کی استقامت تھی۔ ثنا کو ڈر لگ رہا تھا۔ اُسے لگ رہا تھا، گویا ممتاز کہہ رہی ہیں  ’’وہ تمہیں تو چھوڑ سکتا ہے ، مجھے نہیں چھوڑ سکتا ‘‘

ثنا نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ ’’اگر آپ بُرا نہ مانیں تو میں ایک سوال کی جرأت کر سکتی ہوں !‘‘ ’’پوچھو پوچھو!‘‘ ’’آپ میرے سر پر ہاتھ رکھ بتائیں کہ آخر آپ نے یہ اجازت کیوں دی؟‘‘ ممتاز محل کو ثنا کے بچپنے پر ہنسی آ گئی، وہ بولی۔ ’’ثنا تم کتنی بھولی ہو۔ تمہارے سوال کا ایک جواب تو یہ ہے کہ میں نے تمہارے بھولے پن اور معصومیت کے باعث یہ اجازت دی ہے۔‘‘

ثنا خوش ہو گئی اور جھٹ سے بولی۔ ’’اور دوسرا جواب؟‘‘

ممتاز بولی۔ ’’دوسرا جواب۔۔! دوسرا جواب بتانا ضروری ہے ؟‘‘

ثنا بولی۔ ’’اگر گستاخی نہ ہو تو ہاں سمجھ لیں۔‘‘

ممتاز نے کہا۔ ’’دراصل یاور کی۔۔ یا اپنی خوشی کی خاطر۔‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

’’یاور تمہارے بغیر خوش نہیں رہ سکتا اور اگر وہ اُداس ہو تو میں خوش نہیں رہ سکتی۔‘‘ ممتاز کا جواب جلیبی کی طرح میٹھا مگر پیچ دار تھا۔

ممتاز بولیں۔ ’’دیکھو ثنا! نادانی اور اڑیل پن ہر انسان کے اپنے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ ایک بڑی بہن کی حیثیت سے میں تمہیں یہی نصیحت کرتی ہوں۔ اب میں چل رہی ہوں ، میں کسی تقریب میں اِس قدر زیادہ قیام نہیں کرتی۔ آج چونکہ تم سے ضروری بات کرنی تھی، اس لیے بیٹھی رہی۔‘‘

ممتاز محل جیسے ہی اپنی نشست سے اُٹھیں ، فتح علی خان نے وزیر اعلیٰ کو آگاہ کیا۔ وہ دوڑے دوڑے ممتاز کے پاس آئے اور اُن کے ساتھ ساتھ دروازے تک اُنہیں چھوڑنے کے لیے گئے۔ ثنا کو محسوس ہوا، وہ اختر کے ساتھ سرکاری بس میں سفر کر رہی ہے اور ممتاز یاور کے ہمراہ ہواؤں کے دوش پر برسرِ پرواز ہے اور ان دونوں کے درمیان فاصلے طویل سے طویل تر ہوتے جا رہے ہیں۔

 

 

 

نئی منزلیں نئے ہم سفر

 

 

ممتاز محل سے ملاقات نے ثنا کی سوچ میں عظیم انقلاب برپا کر دیا تھا۔ اس نے یاور سے نکاح کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس کی خاطر اختر سے خلع حاصل کیا اور صفدر کو بھی اپنے پاس لے آئی۔ اختر ثنا کے ان فیصلوں سے بالکل دیوانہ سا ہو گیا تھا۔ اس نے پوری طرح سپر ڈال دی۔۔ وہ ٹوٹ چکا تھا۔ اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ وہ ثنا کے معاملے میں شکست سے دوچار ہوا تھا، اس لئے مایوس ہو گیا تھا، اپنی ناکام زندگی کی گاڑی کو ڈھکیل رہا تھا۔ وہ اپنے گھر کی چہار دیواری میں محصور موت کا انتظار کر رہا تھا۔

اس کا معمول تھا، صبح بس چلانے جائے ، شام واپس آ کر اپنی تنہائیوں میں گم ہو جائے۔ اس نے لوگوں سے ملنا جلنا چھوڑ دیا تھا۔ گاؤں سے اور اپنی امی، دونوں سے اس کا رابطہ ٹوٹ چکا تھا۔ اُس کی ماں نے اپنے بیٹے اور پوتے کے انتظار میں اپنی بینائی گنوا دی تھی۔ ہر ماہ ڈاکیہ اس کی تاریک دُنیا میں روپیوں کی سوغات پہنچا جاتا جو اختر پابندی سے روانہ کرتا تھا۔ لیکن ماں کی ممتا اُن روپیوں کی نہیں ، اپنے بیٹے کی دید کی محتاج تھی۔ وہ اسے دیکھنا چاہتی تھی، اُس سے بات کرنا چاہتی تھی۔ لیکن اختر گونگا اور بہرہ۔۔ بے روح و بے حس زندگی گزار رہا تھا۔ اس کا سب کچھ ثنا اپنے ساتھ لے گئی تھی۔ حالانکہ وہ خالی ہاتھ گئی تھی، اس کا سارا سامان گھر میں موجود تھا، لیکن وہ نہ تھی تو کچھ نہ تھا۔ شکست خوردہ اختر اپنی ماں اور گاؤں والوں کو اپنا چہرہ دکھانے کا حوصلہ اپنے اندر نہ پاتا تھا۔

ثنا کو اختر نامی کسی وجود کا خیال ہی نہیں تھا۔ وہ اختر کی جانب سے بالکل بے حس ہو چکی تھی۔ اس نے عدّت کی خاطر ایئر انڈیا سے چار ماہ کی چھٹی لے لی تھی اور وہ اپنی چھٹیاں دبئی میں گزار رہی تھی۔۔ ملازمت کی گہماگہمی سے الگ تھلگ۔ جب اس نے اپنی زندگی کا جائزہ لیا تو اسے احساس ہوا کہ آخر وہ کر کیا رہی ہے ؟ اس نے اپنے آپ کو کس مقام سے گرا کر کہاں پہنچا دیا؟ اس کی حیثیت ہی کیا ہے ؟ محض ایک ویٹریس یعنی خادمہ، فرق صرف یہ ہے کہ وہ عام خادماؤں سے اچھا لباس پہنتی ہے اور وہ بھی اس لیے کہ مخدوم امیر کبیر ہیں ! بلکہ اس کا حال عام خادماؤں سے بھی گیا گزرا ہے جو اسے لباس تک کے انتخاب کی آزادی حاصل نہیں۔

ائیر لائنز کا جو یونیفارم ہے ، وہ اسے پہننا پڑتا ہے۔ جب کمپنی اس کا رنگ تبدیل کرتی ہے وہ بدل جاتا ہے۔ جب انداز بدلتی ہے تو اس میں تبدیلی آ جاتی ہے۔ پہلے ایئر انڈیا والے ساڑی پہناتے تھے ، سو وہ پہننی پڑتی تھی۔ لیکن اسے بھی ناف سے اوپر پہننے کی اجازت نہیں تھی۔ پھر ان لوگوں نے اسے اسکرٹ میں تبدیل کر دیا اور اب وہ منی اسکرٹ بن گیا۔ لیکن تمام بے بس ایئر ہوسٹس اسے پہننے پر مجبور ہیں۔ اور پھر کہاں تو وہ محض اختر اور صفدر کی خدمت کرتی تھی۔۔ دو لوگوں کا کھانا بنانا اور کھلانا! یہاں تو چار سو لوگوں پر آٹھ ہوسٹس یعنی ہر ایک کو کم از کم پچاس مسافروں کو کھلانا اور نہ صرف کھلانا بلکہ شراب تک پلانا، نہ سونے کا وقت نہ جاگنے کا وقت۔ ہوائی جہاز میں سونے کا وقفہ ملتا تو اس میں بھی آرام نہیں ہوتا۔

اوّل درجہ کے مسافر تو پیر پسارکر سو جاتے تھے ، لیکن ہوائی جہاز کے عملہ کو وہ سہولت حاصل نہیں تھی۔ نیز آخر میں ہاتھ جوڑ کر دروازے پر کھڑے ہو جانا، ہر ایک کو با دلِ ناخواستہ نمسکار کرنا۔۔ کس قدر ذلت آمیز پیشہ اس نے بلا ضرورت اختیار کر لیا تھا۔ اسے اپنے آپ سے نفرت ہونے لگی اور اس نے ملازمت سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کر لیا۔ جب یہ بات ثنا نے یاور کو بتلائی تو وہ باغ باغ ہو گیا۔ اس لیے کہ یاور کو معشوقہ کا ائیر ہوسٹس ہونا تو گوارہ تھا، لیکن بیوی کا نہیں۔ وہ سوچ ہی رہا تھا کہ ثنا کو اس نمائش کی مصنوعی دُنیا سے نکلنے کے لیے کیسے آمادہ کرے گا؟ لیکن قدرت کا کرنا یوں ہوا کہ ثنا نے خود ہی یہ فیصلہ کر لیا۔

چار ماہ کا عرصہ دیکھتے دیکھتے گزر گیا۔ پانچویں مہینے کے پہلے دن یاور نے ثنا سے دبئی میں نکاح کیا۔ اس دوران خاص ثنا کی خاطر یاور نے ایک مکان خریدا تھا، جس کی ہر شہ ثنا کی پسند کے مطابق تھی۔ در و دیوار، زیبائش و آرائش۔۔ ہر ہر چیز۔ دبئی کے نہایت قیمتی علاقے میں آسمان سے باتیں کرنے والی عمارت میں سب سے اونچے منزلہ پر یہ فلیٹ واقع تھا، جس کا نصف حصہ کھلے آسمان کے نیچے تھا۔ جب ثنا اپنے مکان سے باہر چھت پر آتی تو اس کی نگاہ میں ساری کائنات سما جاتی۔ اُسے محسوس ہوتا گویا وہ ان سب کی مالکہ ہے۔۔ ملکۂ کائنات ثنا یاور جنگ!

ملازمت کے بعد ثنا نے چھ مہینے گھر میں گزارے تو بور ہونے لگی۔ ویسے اس گھر میں کام ہی کیا تھا۔ انگلی کے اشارے پر سارے کام ہو جاتے تھے۔ ہر کام کے لیے مشین تھی اور ان خودکار مشینوں کے بٹن دبانے کے لیے نوکر چا کر۔ ٹیلی ویژن کے پروگراموں کی یکسانیت سے ثنا اُوب چکی تھی۔ اس نے اس بیچ عربی زبان بھی سیکھ لی تھی اور وہ اب اہل زبان کی طرح عربی بولنے لگی تھی۔ یاور جب اسے عربوں کی دعوت میں لے جاتا اور عربی لباس پہن کر وہ عربوں سے ہم کلام ہوتی تو کسی کو یقین نہ آتا کہ وہ ہندی خاتون ہے۔ ثنا کی ذہانت کا لوہا ہر کوئی مانتا تھا۔ ہر کوئی اس کی تعریف کے پل باندھتا اور کئی لوگ اسے احساس بھی دلاتے کہ وہ گھر میں بیٹھے بیٹھے اپنی صلاحیتیں کیوں ضائع کر رہی ہے ؟ ثنا نے ایک روز اپنی زندگی کے اس خالی پن کا ذکر یاور سے کیا تو وہ بولا۔

’’تم کیا چاہتی ہو؟ دفتری یا تجارتی سرگرمیوں میں تمہیں دلچسپی ہے ؟‘‘

ثنا نے آہستہ سے ’’ہاں ‘‘ کہاں۔

یاور بولا۔ ’’ٹھیک ہے ، ہم شیخ زائد روڈ پر ایک نیا ٹاور تعمیر کرنے جا رہے ہیں۔ اس پروجیکٹ کے لیے ایک نئی کمپنی قائم کی جا رہی ہے۔ میں ایسا کرتا ہوں کہ تمہیں اس کا منیجنگ ڈائریکٹر بنا دیتا ہوں۔‘‘

’’اِتنی بڑی ذمہ داری۔۔!! نہ بابا نہ، یہ مجھ سے نہ ہو گا۔‘‘

یاور نے اُسے سمجھایا۔ ’’دیکھو ثنا۔۔ تم یاور جنگ کی زوجہ ہو جو کئی کمپنیوں کا منیجنگ ڈائرکٹر ہے۔ اس نئی کمپنی کا بھی ہو جاتا۔ اب میں نہیں تو تم سہی۔ ویسے بھی میں کیا کرتا ہوں ! کام تو اور لوگ کرتے ہیں سو وہ کریں گے۔۔ بس کچھ نگرانی اور دستخط۔۔ ہاں وہ سوچ سمجھ کر کرنا۔‘‘ یاور نے مسکرا کر کہا۔

ثنا بولی۔ ’’آپ کے کہنے پر میں نے نہ جانے کتنے کورے کاغذات پر دستخط کر دیئے ہیں ، اب کچھ اور سہی۔‘‘

’’دیکھو ثنا۔ ذاتی زندگی میں تو یہ چلتا ہے۔ لیکن تجارتی معاملہ میں یہ ہرگز نہ کرنا۔ ویسے میں اپنے نہایت قابل اعتبار لوگوں کو اس کمپنی میں رکھوں گا۔ اس کے باوجود یہ دُنیا ہے۔ اس میں کسی پر کبھی بھی اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ کیا سمجھیں؟‘‘ یاور بولا۔

’’کیا مطلب؟‘‘ ثنا نے جھٹ سوال کیا۔ ’’مجھ پر بھی نہیں؟ میں بھی تو دُنیا میں رہتی ہوں۔‘‘

’’تم۔۔! تمہاری بات اور ہے۔‘‘

’’یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے۔ آپ مجھے صاف صاف بتلائیں کہ آپ مجھ پر اعتبار کر سکتے ہیں یا نہیں؟‘‘

یاور خاموش تھا۔ ثنا نے پوچھا۔ ’’یاور میں آپ کی خاموشی کا کیا مطلب سمجھوں۔۔ ہاں یا نا؟

یاور بولا۔ ’’ویسے تو خاموشی ہاں ہوتی ہے لیکن پھر تمہاری مرضی۔‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

’’یہی کہ تمہاری مرضی میں میری مرضی۔‘‘ یاور نے بات گول کر دی۔

ثنا کی خاطر قائم ہونے والی نئی کمپنی کا نام ہی ثنا کنسٹرکشن رکھا گیا۔ جس عمارت کی تعمیر کا منصوبہ تیار کیا گیا اس کا نام تھا ثنا ٹاور۔ صرف ثنا ٹاور۔۔ نہ اختر، نہ صفدر، نہ یاور، صرف اور صرف ثنا ٹاور۔ ثنا نے کاروبار میں دلچسپی لینی شروع کی اور بہت جلد اپنی مہارت کا سکہ جما لیا۔ ابتدا میں جب بورڈ آف ڈائرکٹرس کی میٹنگ ہوتی تو اس میں یاور شریک ہوتا تھا۔ اب یاور نے اس میں شرکت کرنا بھی ترک کر دیا تھا۔ وہ خود بھی ثنا کی صلاحیتوں کا قائل ہو گیا تھا۔ ویسے ثنا ہر اہم فیصلہ سے پہلے یاور سے مشورہ ضرور کرتی۔ اس لحاظ سے یاور روز بروز ہونے والی سرگرمیوں سے واقف بھی رہتا تھا۔

ثنا ٹاور پروجیکٹ بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا۔ اس کا تصوراتی نقشہ مشہور عراقی آرکٹیکٹ ژاہا حدید نے تیار کیا تھا جو اپنی انفرادیت میں یکتا تھی۔ تعمیرات کی دُنیا کا بچہ بچہ اس کی صلاحیتوں کا قائل تھا۔ ژاہا حدید نے مختلف نشستوں کے دوران ثنا سے اس کی اپنی کہانی بھی سن لی تھی اور آخری نقشہ جب بن کر تیار ہوا تو وہ کچھ اس طرح تھا گویا کوئی پری جمال انگڑائی لے کر کھڑی ہو گئی ہے۔ جب یہ ڈیزائن انٹرنیٹ پر آیا تو دیکھتے دیکھتے موضوع بحث بن گیا۔

ژاہا حدید کے اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے دُنیا کی بڑی بڑی تعمیراتی کمپنیوں سے رابطہ قائم کیا گیا اور سوم کنسلٹ نامی امریکی کمپنی کو یہ کام سونپا گیا جو دبئی میں برج کی  تعمیر کر رہی تھی۔ اس پیچیدہ اور منفرد ڈیزائن سبب  اہلیانِ دبئی والوں کو یقین تھا کہ ثنا ٹاور کی تعمیر کے بعد انہیں دُنیا کی سب سے اونچی عمارت کے علاوہ دنیا کی سب سے خوبصورت عمارت کو تعمیر کرنے کا شرف بھی حاصل ہو جائے گا۔ دبئی کے فرمانروا خاندان کو بھی اس عمارت کی تعمیر میں خاصی دلچسپی تھی۔

ثنا دیکھتے دیکھتے تعمیراتی دُنیا کا ایک جانا پہچانا نام بن گئی تھی۔ اخبارات میں اور ٹیلی ویژن پر اس کے انٹرویو نشر ہوتے تھے ، تصویریں شائع ہوتی تھیں۔ مختلف مراحل سے گزر کر بالآخر عمارت کے سنگ بنیاد کا موقع آیا۔ ایک نہایت پُرتکلّف تقریب میں اس کی بنیاد کا پتھر سربراہ مملکت کے ہاتھوں رکھا گیا۔ پام جمیرہ میں شاندار دعوت کا اہتمام ہوا جس میں تعمیراتی دُنیا کا ہر معروف شخص موجود تھا اور ہر ایک کی زبان پر صرف دو نام تھے۔۔ ژاہا حدید اور ثنا یاور۔

تجارتی مصروفیات میں اضافہ کے باعث ثنا نے صفدر کو برطانیہ کے کیمبرج اسکول میں داخل کروا دیا تھا۔ صفدر نے اپنی ننھی سی عمر میں نلگنڈہ سے کیمبرج تک کا سفر کر لیا تھا۔ ثنا ٹاور کی دیواروں کے ساتھ ساتھ ثنا یاور کے اعتماد میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ اب وہ بہت سارے فیصلے آزادانہ طور پر کرنے لگی تھی۔ یاور جنگ کو اطمینان تھا اور مسرت بھی تھی کہ ثنا کی شکل میں سے ایک بہترین معاون مل گیا ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ رفتہ رفتہ ثنا کے حسن و جمال میں یاور کی دلچسپیاں کم ہونے لگی تھیں۔

اس کا مزاج سراب کے پیچھے دوڑنے کا تھا۔۔ جو چیز اس کے قبضۂ قدرت سے باہر ہوتی، وہ اسے اپنا ہدف بناتا۔ اس کے حصول کی تدابیر کرتا، منصوبہ بناتا، یکے بعد دیگرے ان میں کامیابی حاصل کرتا اور جوش و ولولہ کے ساتھ اپنی منزلِ مقصود کی جانب رواں دواں رہتا۔ لیکن جب وہ کسی منزل کو پا لیتا تو اچانک اس کی دلچسپی رو بہ زوال ہو جاتی۔ گویا اس کی زندگی میں نقطۂ عروج اور نقطہ زوال ایک لمحہ کے لیے ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوتے اور پھر جیسے ہی زوال کا سفر شروع ہوتا، وہ اپنا رُخ تبدیل کر دیتا۔ وہ ایک نئی منزل کا تعین کر لیتا اور پھر اس کی جانب رواں دواں ہو جاتا۔ پیچھے مڑ کر دیکھنا اس کی فطرت میں شامل نہ تھا۔ وہ صرف آگے ہی آگے بڑھنے کا قائل تھا اور حقیقت یہی تھی کہ اب ثنا اس کے آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ جانے والوں میں شامل ہو گئی تھی۔ اب اس کا سکونِ قلب کہیں اور منتقل ہو گیا تھا۔ اس مکافات عمل سے ممتاز محل مستثنیٰ تھی۔ اس لیے کہ وہ اس کے آگے کبھی بھی نہ تھی، اِس لیے پیچھے بھی نہ ہوتی تھی۔ وہ اس کے شانہ بہ شانہ بدستور چلتی رہتی تھی۔

ثنا اپنی کاروباری مصروفیات میں اس قدر غرق ہوئی کہ وہ یاور کے رویہ میں ہونے والی تبدیلی کو محسوس نہ کر سکی۔ ثنا کو آئے دن کسی نہ کسی میٹنگ میں شریک ہونا پڑتا تھا۔ یاور نے اپنے ایک قدیم اور نہایت ذہین ملازم متوسوامی کو ثنا کا سکریٹری بنا دیا تھا۔ اس کی حیثیت یوں تو کارپوریٹ سکریٹری کی تھی، لیکن اس کام ثنا کا ہاتھ بٹانا تھا۔ متوسوامی زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا، لیکن امارات میں اس نے کافی وقت گزارا تھا۔ وہ تمل، ملیالم، ہندی، اردو اور عربی۔۔ تمام زبانیں فرفر بولتا تھا، چھوٹے بڑے تمام کام خوشی خوشی کرتا تھا، یادداشت بلا کی تھی۔ ایک مرتبہ کسی سے مل لیتا تو اسے ہمیشہ یاد رکھتا۔ اسے بے شمار نمبر زبانی یاد تھے۔ کمپیوٹر پر اس کی انگلی روبوٹ کی طرح چلتی تھی اور اس کی سب سے بڑی خوبی وفاداری تھی۔ دراصل وہ ثنا کا سکریٹری ہونے کے ساتھ ساتھ یاور کا جاسوس بھی تھا۔ دفتر کی ہر چھوٹی بڑی خبر یاور تک پہنچانا اس کی اوّلین ذمہ داری تھی اور اس فرض منصبی کو وہ بڑی خوبی سے نبھاتا تھا۔ اسی لیے اس کی تنخواہ بڑے بڑے منیجر سے زیادہ تھی۔

ٹاور کے ڈیزائن کے سلسلے میں کچھ مشکلات کھڑی ہوئیں تو سوم کنسلٹ نے ایک میٹنگ کا اہتمام اپنے لندن کے دفتر میں کیا۔ اس میں شریک ہونے کے لیے نہ صرف ژاہا حدید اور معاونین بلکہ دیگر کنٹراکٹر اور سب کنٹراکٹرس کے اعلیٰ افسران بھی شریک ہوئے۔ متوسوامی اس میٹنگ میں ثنا کے ساتھ شریک تھا۔ ثنا کنسٹرکشن کے دیگر منیجرس بھی موجود تھے۔ مین کنٹراکٹر حیدر کنسلٹ والے عمارت کے نقشہ میں کچھ تبدیلی چاہتے تھے اور ژاہا حدید کو وہ منظور نہ تھا۔ بہرحال بڑی ردّ و کر کے بعد مصالحت کی راہ تلاش کی گئی۔ مختلف لوگوں کی جانب سے پیش کئے جانے والے بے شمار مشوروں پر غور و فکر سے ایک لائحۂ عمل تیار کیا گیا جو حیدر کنسلٹ اور ژاہا حدید دونوں کے لیے قابل قبول ٹھہرا۔ یہ تھکا دینے والی مشق تقریباً ایک ہفتے جاری رہی۔

اس بیچ ثنا اور ژاہا بہت اچھی دوست بن گئیں۔ نشست کے خاتمہ پر ثنا نے ژاہا کو دبئی چلنے کی دعوت دی۔ ژاہا کے پاس وقت کم تھا، لیکن وہ بھی دو تین دن کی چھٹی منانا چاہتی تھی۔ اس لیے ایک اور مصالحت کی راہ نکالی گئی اور ثنا نے ژاہا کے ساتھ سوئزر لینڈ میں تین روز چھٹی منانے کا فیصلہ کیا۔ ژاہا نے اپنے فیصلہ سے حیدر کنسلٹ کے دفتر کو آگاہ کیا اور ان لوگوں نے ٹکٹوں اور ہوٹل کا بندوبست کر دیا۔ یہ سب دو گھنٹہ کے اندر ہو گیا۔ متوسوامی کو اس کی خبر تک نہ ہوئی۔ ژاہا اور ثنا نے ہوٹل کی لابی میں بیٹھے بیٹھے یہ سب کر لیا۔ فلائیٹ تین گھنٹہ بعد تھی، اس لیے ثنا نے متو کو بلا کر اسے اپنے پروگرام کی تبدیلی سے آگاہ کیا اور فوراً تیار ہونے کا حکم دیا۔

ثنا کا نیا پروگرام سن کر متو کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی۔ اس کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا، وہ بولا۔ ’’میڈم اتنی جلدی وہاں انتظام کس طرح ہوں گے ؟ آج کل چھٹیوں کا زمانہ ہے ، آپ وہاں جا کر پریشان ہو جائیں گی۔ کسی اور مقام کا قصد کریں۔‘‘

ثنا نے بتلایا۔ ’’سارا انتظام حیدر والے کر رہے ہیں ، تم اس کی فکر نہ کرو۔‘‘

متو تائید کر کے اپنے کمرے میں گیا اور یاور سے رابطہ قائم کرنے لگا۔ وہ جانتا تھا کہ اس وقت یاور بھی سوئزر لینڈ میں ہے اور اُسے ثنا کے پروگرام کے سلسلہ میں آگاہ کرنا نہایت ضروری تھا۔ لیکن یاور نے اپنا موبائل بند کر رکھا تھا۔ متو نے ہوٹل میں فون کیا تو پتہ چلا کہ کمرہ بند ہے۔ اس نے پیغام رکھا کہ یاور کو آتے ہی اس رابطہ قائم کرنے کے لئے کہا جائے۔ اس کے بعد متو نے یاور کے دوسرے جاننے والوں سے رابطہ قائم کیا، لیکن یاور سے رابطہ نہ ہو سکا۔ بالآخر اس نے  ثنا سے معذرت طلب کر لی۔ ’’آپ چھٹی منانے جا رہی ہیں ، اس لیے مجھے اجازت دیجئے۔ میں دبئی جا کر کچھ اور کام کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

ثنا نے اُسے اجازت دے دی۔ وہ کمرے میں آ کر پھر یاور کو فون ملانے لگا۔ اس بیچ اس نے یاور کو ای۔میل کیا۔۔ لیکن جواب ندارد! متو کو اپنے آپ پر غصہ آ رہا تھا۔ اگر وہ اس وقت ثنا کے ساتھ نہیں جاتا ہے تو یاور کے ساتھ ساتھ ثنا سے بھی اس کا رابطہ ٹوٹ جائے گا اور اس طرح وہ یاور کو ثنا کی نقل و حرکت سے آگاہ نہیں کر پائے گا۔ یہ سوچ کر اس نے اپنا فیصلہ بدلا اور ثنا کے ساتھ سوئزر لینڈ جانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے پھر ثنا سے کہا۔

’’دبئی میں فی الحال کوئی خاص کام نہیں ہے ، اس لیے میں نے ارادہ بدل دیا ہے۔‘‘ لیکن اس بیچ حیدر کنسلٹ والے اس کا ٹکٹ منسوخ کر چکے تھے۔ پھر بھی وہ ایئرپورٹ تک آیا، لیکن اس کی دوڑ دھوپ کسی کام نہ آئی۔ اسے ناکام و نامراد ہوائی اڈے سے واپس لندن ہوٹل میں لوٹنا پڑا اور ثنا ژاہا کے ساتھ ویانا کے لیے پرواز کر گئی۔

متو سوامی نے ثنا سے گزارش کی تھی کہ وہ ویانا پہنچتے ہی اس کو اپنے محل وقوع سے آگاہ کرے ، تاکہ وقت ضرورت رابطہ ممکن ہو سکے۔ لیکن ثنا ان چھٹیوں میں صرف سیر و تفریح کرنا چاہتی تھی۔ ہفتہ بھر کی تھکن سے نجات حاصل کرنے کے لیے یہ ضروری تھا۔ ویانا پہنچنے کے بعد بھی ثنا نے اپنا فون نہیں کھولا۔ وہ لوگ ہوائی اڈے سے ہولی ڈے اِن پہنچے اور اپنے اپنے کمروں میں آرام کرنے کے لیے چلے گئے۔ اس وقت دوپہر کے تین بج رہے تھے اور شام چھ بجے اُنہیں کھانے کے لیے ملنا تھا۔ کھانے کے دوران ژاہا اور ثنا بڑی دیر تک ایک دوسرے کو اپنی زندگی کے حالات بتلاتے رہے۔ عراق اور ہندوستان کے حالات پر گفتگو ہوتی رہی، امریکہ اور دبئی بھی اُن کی گفتگو کا حصہ بنا۔ گویا دُنیا جہاں کے مسائل پر اُن دونوں نے گفتگو کی اور پھر وہ لوگ لفٹ کی جانب روانہ ہوئے۔

وِیانا  کا ہالی ڈے اِن دُنیا کے خوبصورت ترین ہوٹلوں میں سے ایک تھا۔ اس کی لابی میں روشنیوں کا اہتمام بالکل تاروں کی طرح تھا۔ انسان کو محسوس ہوتا گویا وہ آسمان میں تاروں کے درمیان چل رہیں ہیں۔ ہر طرف شیشے ہی شیشے ، صاف شفاف آسمان۔ لفٹ تو گویا اُڑن کھٹولا تھی۔۔ شیشہ کی اُڑن طشتری۔۔ جس میں سے لابی کے مناظر نہایت خوشنما معلوم ہوتے تھے۔ ژاہا نے لفٹ میں ساٹھویں منزل کا بٹن دبایا۔ ثنا نیچے لوگوں کی چہل پہل دیکھ رہی تھی کہ اچانک اسے کاؤنٹر پر یاور نظر آ گیا۔ اس کے آس پاس بہت سارے لوگ تھے جو اپنے کام نمٹا رہے تھے۔

’’یاور؟ یہاں یاور؟؟‘‘ ثنا کی باچھیں کھل گئیں۔ یہ کس قدر حسین اتفاق ہے کہ وہ یاور کو بتائے بغیر یہاں چلی آئی اور وقت کا دھارا یاور کو یہاں بہا لایا۔ کسی نے سچ کہا ہے ، جس طرح دانے دانے پر لکھا ہوتا ہے کھانے والے کا نام اسی طرح لمحہ لمحہ پر لکھا ہوتا ہے ملنے والے کا نام۔ ثنا زور زور سے بڑبڑانے لگی۔ ’’یاور، میرا یاور۔‘‘ اس نے ژاہا سے کہا۔ ’’ژاہا وہ دیکھو! یاور کاؤنٹر پر کھڑا ہے۔ یہ کس قدر حسین اتفاق ہے۔‘‘

ژاہا بولی۔ ’’کیا واقعی تم نے اسے بتایا تھا۔‘‘

ثنا بولی۔ ’’نہیں۔‘‘

’’پھر شاید متو سوامی نے بتلایا ہو۔‘‘

’’لیکن وہ اتنی جلدی اپنا سارا کام کاج چھوڑ کر یہاں کیسے چلا آیا؟‘‘ ثنا نے اپنے آپ سے پوچھا

ژاہا بولی۔ ’’عاشق ایسے ہی ہوتے ہیں پگلی۔ تمہاری محبت اسے یہاں کھینچ لائی ہے۔‘‘ لفٹ ساٹھویں منزل پر رک چکی تھی۔

ثنا بولی۔ ’’چلو نیچے چلتے ہیں۔‘‘

ژاہا نے کہا۔ ’’ثنا، اب میرا کیا کام؟ تمہارا ہمدم آ گیا میں تم دونوں کے درمیان حائل ہونا نہیں چاہتی۔ جاؤ اپنے محبوب کے پاس، اُس کے ساتھ اپنی زندگی کے لمحات کو خوشگوار بناؤ۔ میں چلتی ہوں ، خدا حافظ! اب تم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ تعطیلات گزارو۔ وہ بے چارہ نہ جانے کہاں سے دوڑتا بھاگتا یہاں آ پہنچا ہے۔ میں ایسا کرتی ہوں ، کل واپس چلی جاؤں گی۔ یہاں کی فضاؤں نے تین دن کی تازگی ایک دن میں عطا کر دی ہے۔ خدا حافظ!!‘

’’خدا حافظ۔‘‘

ثنا دوبارہ لفٹ میں داخل ہوئی اور اس نے لابی کا بٹن دبا دیا۔ لفٹ آسمان کی بلندیوں سے زمین کی جانب مائل بہ پرواز تھی۔ ثنا کی نظریں کاؤنٹر پر یاور کو تلاش کر رہی تھیں ، لیکن وہ نظر نہ آتا تھا۔ ثنا نے یاور کے بارے میں دریافت کیا۔‘‘

’’کون؟ علی یاور جنگ؟‘‘

’’جی ہاں !‘‘

’’وہ اپنے کمرے میں نہیں ہیں۔ وہ مسز یاور کے ساتھ ابھی چند لمحہ پہلے ہی باہر گئے ہیں۔‘‘

’’ مسز یاور‘‘ کا نام سن کر ثنا چونک پڑی۔ ’’کون؟ ممتاز یاور؟ کیا وہ بھی یہاں موجود ہیں؟‘‘

’’نہیں۔۔ ممتاز یاور نہیں بلکہ لولین یاور۔‘‘

’’لولین یاور؟ یہ کون ہے۔‘‘

’’یہ یاور جنگ کی زوجہ محترمہ ہیں۔ یہ دونوں گزشتہ ایک ہفتہ سے ہمارے ہنی مون سویٹ میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ کیا آپ علی یاور جنگ کو جانتی ہیں؟‘‘

’’وہاٹ نانسنس؟ یہ کیا بکواس ہے ؟‘‘

’’محترمہ آپ کو میرے سوال سے تکلیف ہوئی ہو تو میں معافی چاہتی ہوں۔ فرمائیے میں آپ کے لیے کیا کر سکتی ہوں؟‘‘

’’آپ۔۔ آپ میرا چیک آوٹ کر دیجئے۔۔ نہیں ! آئی ایم ساری، چیک آؤٹ نہ کریں۔ آپ میرا ایک پیغام یاور کو دے دیں۔ میرا نام ثنا ہے۔ میں کمرہ نمبر ۶۰۰۱ میں اُن کے فون کا انتظار کر رہی ہوں۔ وہ آتے ہی مجھے فون کریں۔‘‘

کاؤنٹر پر بیٹھی کلرک ثنا کا پیغام پرچی پر لکھنے لگی۔ ثنا نے اس کے ہاتھ سے پرچی جھٹک لی اور بولی۔ ’’مجھے دو، میں پیغام لکھوں گی۔‘‘

کلرک حیران پریشان ثنا کو دیکھتی رہی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ وہ سوچ رہی تھی کچھ نہ کچھ گڑبڑ ضرور ہے۔ ثنا نے لکھا۔ ’’بے وفا دھوکہ باز یاور۔۔ میں ثنا ہوں ، ثنا پروین۔۔ میں نے تمہاری چوری پکڑ لی ہے۔ تم رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہو۔ واپس آتے ہی مجھ سے ۶۰۰۱ میں رابطہ کرو، ورنہ۔۔۔۔ ثنا۔‘‘

پیغام اردو میں لکھا تھا، اس لیے کلرک کی سمجھ میں نہ آیا۔ اس نے مسکرا کر ثنا سے کہا۔ ’’بے فکر رہئے ، اُن کے واپس آتے ہی انہیں پیغام مل جائے گا۔‘‘

ثنا غصہ سے پھنکارتی ہوئی پلٹی اور لفٹ کی جانب چل پڑی۔ ’’لولین یاور۔۔‘‘ وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑا رہی تھی۔ ’’میں ان دونوں کو دیکھ لوں گی۔ بے وفا بدمعاش!‘‘ ثنا نے کمرے میں آ کر ٹی۔وی کا بٹن دبایا اور دیر تک ریموٹ سے کھیلتی رہی۔ ہر چینل پر ایک لمحہ کے لیے رکتی اور پھر اُسے بدل دیتی۔ یہ سلسلہ نہ جانے کتنی بار ہوا۔ نہ جانے کتنی مرتبہ اس نے سارے چینلس کی جھلک دیکھی، لیکن کسی پر نہ رُکی۔ اسے کسی پل چین نہیں آ رہا تھا۔ وہ غصہ سے پاگل ہو رہی تھی۔

کاؤنٹر کلرک کو یاور کی واپسی کا انتظار تھا۔ وہ اس پیغام کو دیکھتے ہوئے یاور کے تاثرات دیکھنا چاہتی تھی۔ اس کے اندر ایک تجسس پیدا ہو گیا تھا۔ تقریباً دو گھنٹہ بعد یاور لولین کے ساتھ واپس آیا۔ کلرک نے اس کے ہاتھ میں پیغام تھما دیا۔ لولین نے بھی اسے دیکھا، لیکن چونکہ اردو میں لکھا تھا، اس لیے وہ بھی سمجھ نہ سکی، بس اتنا کہا۔ ’’ڈارلنگ۔۔ یہ تمہارا کاروبار ہمیں چین نہیں لینے دے گا۔ میں نے فون بند کر دیا تو چٹھی آنے لگی۔‘‘

یاور نے کندھا جھٹک کر نہایت اطمینان سے کہا۔ ’’چھوڑو میری جان! یہ سب تو چلتا رہتا ہے۔‘‘

اس کے بعد وہ دونوں لفٹ کی جانب بڑھے۔ ہالی ڈے اِن ہنی مون سویٹ اکہترویں منزل پر واقع تھا۔ یاور پریشان تھا کہ آخر یہ مصیبت یہاں رنگ میں بھنگ ڈالنے کیسے پہنچ گئی؟ یہ راز آخر وقت سے پہلے فاش کیسے ہو گیا؟ متو سوامی نے اُسے خبر کیوں نہیں دی؟ ان سب سوالات کے ساتھ یاور نے لولین کو کمرے میں چھوڑا اور ضروری کام کے لیے چند منٹوں کی اجازت لے کر نیچے آ گیا۔ پہلے متو سوامی سے رابطہ قائم کیا تو اس نے بتایا کہ وہ صبح سے نہ جانے کتنی مرتبہ فون کر چکا ہے ، ثنا نے اچانک ژاہا کے ساتھ پروگرام بنایا اور نکل کھڑی ہوئی۔

’’اوہو! تو یہ اتفاق ہے ، کس قدر قبیح اتفاق ہے یہ۔‘‘ یاور نے سوچا۔ اس کے بعد اس نے کار منگوائی اور پھر کاؤنٹر پر بیٹھی خاتون سے کہا کہ میں باہر کار نمبر ۲۰۳ میں بیٹھا ہوں آپ ثنا پروین سے کہیں کہ وہ آ کر کار میں مجھ سے ملاقات کرے۔ فون کی گھنٹی کے بجتے ہی ثنا نے اسے لپک لیا۔ اس بیچ نہ جانے کتنی مرتبہ وہ یاور پر برسنے کی مشق کر چکی تھی۔ لیکن سامنے سے خاتون کی آواز سن کر وہ رُک گئی۔ کاؤنٹر کلرک نے اسے پیغام سنا دیا۔ اس نے جھینپ کر پوچھا۔ ’’یاور کہاں ہے اسے فون دو۔‘‘

کلرک نے کہا۔ ’’میڈم میں نے آپ کو بتلایا، وہ باہر پورچ میں گاڑی نمبر ۲۰۳ میں آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘

’’ٹھیک ہے ، میں آتی ہوں۔‘‘

۲۰۳ نمبر کی لیموزین دراصل ایک چلتا پھرتا کمرہ تھی، جس میں کرسی، ٹیبل، بستر، ریفریجیریٹر اور آرام کا تمام انتظام تھا۔ ثنا جیسے ہی قریب آئی، یاور نے دروازہ کھولا، مسکرا کر استقبال کیا۔ ثنا اندر داخل ہو گئی۔ دروازہ بند ہو گیا۔ گاڑی چل پڑی۔ ثنا نے اپنے مشقی جملہ دوہرانا شروع کر دیئے۔ وہ یاور کو جی بھرکر کوستی رہی، بُرا بھلا کہتی رہی، لیکن یاور پر ان سب کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ ثنا کے سارے آنسو چکنے گھڑے پر بہہ گئے۔ ثنا تھک گئی، گاڑی رُک گئی، یہ ویانا کا حیات ریجنسی ہوٹل تھا۔ بالکل ہو بہو دبئی کے حیات کی کاربن کاپی۔ ایسا لگتا تھا جیسے کوئی جن اُسے دبئی سے اُٹھا کر یہاں لے آیا۔ وہ دونوں لابی سے گزرتے ہوئے وسیع و عریض کافی ہاؤس میں جا بیٹھے جو کھلے آسمان کے نیچے تھا۔ یاور نے ابھی تک ثنا کی کسی بات کا کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ ثنا بولی۔ ’’تمہاری زبان گنگ کیوں ہے ؟ تم بولتے کیوں نہیں؟ میرے سوالات کا تمہارے پاس کوئی جواب ہے یا نہیں؟‘‘

یاور بولا۔ ’’ثنا حقیقت تو یہ ہے کہ تم نے ابھی تک کوئی سنجیدہ سوال کیا ہی نہیں۔ تم نے تو صرف مجھے بُرا بھلا کہا ہے اور اس کا جواب دینے کی میں ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ اگر تم واقعی کچھ پوچھنا چاہتی ہو تو پوچھو، میں اُس کا جواب دوں گا۔‘‘

’’اچھا۔۔ تو یہ بتاؤ کہ کلموہی لولین کون ہے ؟‘‘

’’لولین میری بیوی ہے۔ میں اپنے بارے میں بُرا بھلا سن لیتا ہوں ، لیکن اپنی بیوی کے بارے میں نہیں سن سکتا۔‘‘

’’میں بھی تو آپ کی بیوی ہوں۔‘‘

’’جی ہاں ! میں تمہارے بارے میں بھی کوئی بُری بات نہ ممتاز محل کی زبان سے سن سکتا ہوں اور نہ لولین کی زبان سے۔‘‘

’’لیکن تم نے لولین سے نکاح کیوں کیا؟‘‘

’’یہ میری ضرورت ہے اور میرا حق ہے۔‘‘

’’اچھا۔۔ حق ہے ! اور تم نے مجھ سے چھپایا کیوں؟‘‘

’’میں نے چھپایا، یہ غلط ہے۔ بلکہ صحیح یہ ہے کہ میں نے بتایا نہیں۔‘‘

’’اچھا تو بتایا کیوں نہیں؟‘‘

’’اس لیے کہ میں نے ضروری نہیں سمجھا۔ میں اپنی ہر بات تم کو نہیں بتا سکتا۔ جس طرح تم اپنی ہر بات مجھے نہیں بتا سکتیں۔ تم نے وِیانا آنے کا فیصلہ کیا۔۔ مجھ سے پوچھا یا بتایا نہیں۔۔ اسی طرح۔‘‘

’’لیکن وِیانا آنے میں اور شادی رچانے میں بڑا فرق ہے ؟‘‘

’’جی ہاں ، میں جانتا ہوں۔ شادی کے بعد بہت ساری ذمہ داریاں آ جاتی ہیں اور میں اُسے بحسن و خوبی ادا کرتا ہوں۔‘‘

’’اچھا تو یہ حسن و خوبی ہے کہ تم نے میرے ہوتے ہوئے لولین سے نکاح کر لیا۔‘‘

’’جی ہاں ، میں نے ممتاز محل کے ہوتے ہوئے تم سے بھی تو شادی کی تھی۔‘‘

’’میں جانتی ہوں ، لیکن اس کے لیے ممتاز محل سے اجازت لی تھی۔‘‘

’’اَب بھی لی ہے۔۔ ممتاز کی اجازت ہی سے یہ نکاح بھی ہوا ہے۔‘‘

’’لیکن مجھ سے اجازت کیوں نہیں لی؟‘‘

’’اس لیے کہ تم نے اپنے نکاح نامہ میں ایسی کوئی شرط نہیں رکھی۔‘‘

’’لیکن میری شرط کو آپ نے قبول کب کیا؟ میری تو شرط یہ تھی کہ آپ ممتاز محل کو طلاق دے دیں۔‘‘

’’یہ بات صحیح ہے۔ ابتدا میں یہ تمہاری شرط ضرور تھی، جس سے تم نے ممتاز محل کے کہنے پر رجوع کر لیا تھا۔‘‘

’’یہی میری غلطی تھی۔‘‘

’’میں نہیں سمجھتا۔‘‘

’’میں سمجھتی ہوں۔‘‘

’’تو ٹھیک ہے۔ ‘‘

’’کیا ٹھیک ہے ؟‘‘

’’اگر تم غلطی سمجھتی ہو تو میں کیا کرسکتا ہوں؟‘‘

’’تم۔۔ تم کیا لولین کو چھوڑ سکتے ہو؟‘‘

’’دیکھو ثنا۔۔ تم نے پھر اپنی پرانی شرط دوہرا دی۔ تم جانتی ہو کہ میں اس طرح کی شرائط قبول نہیں کرتا۔‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

’’مطلب یہ کہ میں کسی کے کہنے پر کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں کرتا۔ اگر ممتاز یا لولین مجھ سے یہ کہے کہ میں ثنا کو چھوڑ دوں تو میں ان کی بات نہیں مانوں گا۔‘‘

’’اوہو۔۔ بڑے آئے انصاف پسند! میں جانتی ہوں تم جیسے لوگوں کو۔ تم نے میرا اچھا خاصا خاندان تباہ و برباد کر دیا۔ مجھ کو اپنے اختر اور صفدر سے جدا کر دیا اور اب خود لولین کو ساتھ لے کر مجھ سے جدا ہو گئے۔‘‘

’’دیکھو ثنا! یہ الزامات بے جا ہیں۔ تم اپنے فیصلے میرے سر تھوپ رہی ہو۔ نہ تو میں نے تمہیں اختر سے اور نہ صفدر سے جدا کیا۔۔ یہ تمہارا اپنا فیصلہ تھا اور نہ میں لولین کو ساتھ لے کر تم سے جدا ہو رہا ہوں۔۔ یہ تمہاری غلط فہمی ہے۔ میں جس طرح تمہارے ساتھ تھا، اُسی طرح تمہارے ساتھ ہوں۔‘‘

’’لیکن اب میں آپ کے ساتھ نہیں ہوں۔ میں اب آپ کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ آپ مجھے طلاق دے دیں ورنہ میں خلع لے لوں گی۔‘‘

اِس دھمکی کا ذرّہ برابر اثر یاور پر نہیں ہوا، وہ بولا۔ ’’دیکھو ثنا! اس طرح کے اہم فیصلے غصے میں نہیں کیا کرتے۔ میرا مشورہ ہے کہ تم ٹھنڈے دماغ سے غور کرو۔ ہو سکے تو کسی سے مشورہ کرو اور پھر جو مرضی ہو، فیصلہ کرو۔ تمہارا ہر فیصلہ میرے لیے قابل قبول ہو گا۔‘‘

ثنا یاور کے اس جواب سے ٹوٹ گئی۔ اس کا آخری تیر بھی بے نشان ہو گیا۔ وہ رونے لگی، دیر تک روتی رہی اور پھر پوچھا۔ ’’مشورہ کروں۔۔ کس سے مشورہ کروں؟ کون ہے دُنیا میں میرا؟ کوئی بھی تو نہیں ! آپ سے رشتہ جوڑ کر میں نے سارے رشتے توڑ لیے اور اب آپ نے بھی رشتہ توڑ لیا۔‘‘

’’نہیں ثنا! میں نے رشتہ نہیں توڑا۔ میں رشتہ جوڑنے کی بات کر رہا ہوں۔ توڑ پھوڑ کی باتیں تو تم کہہ رہی ہو۔ ویسے اگر مشورہ کرنا ہی ہے تو ممتاز محل سے مشورہ کر لو۔‘‘

’’ممتاز محل۔۔؟ وہ تمہاری سازش میں شریک ہے۔ اُسی کے مشورہ سے میں تمہارے نکاح میں آ گئی تھی اور اُسی نے لولین سے نکاح کی اجازت دے دی۔ ممتاز بھی آپ ہی کی طرح دھوکہ باز ہے۔۔ دغاباز ہے۔ میں اس سے بات نہ کروں گی۔‘‘

’’ٹھیک ہے۔‘‘ یاور بولا۔ ’’ممتاز سے بات نہ کرنا ہو تو نہ کرو، جس سے چاہو کرو۔ ژاہا حدید سے مشورہ کر لو، نصرت ہے ، اس سے بات چیت کر لو۔ ویسے میں تمہارے جاننے والوں کو کم ہی جانتا ہوں۔‘‘

’’آپ نہ صرف میرے جاننے والوں کو نہیں جانتے بلکہ مجھے بھی نہیں جانتے۔ میرا نام ثنا پروین ہے۔‘‘

’’ہاں۔۔ تمہاری یہ بات بھی صحیح ہو سکتی ہے۔ لیکن میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا اور میں دھمکیوں سے نہیں آتا۔‘‘

یاور نے پہلی مرتبہ ثنا کے زخموں پر رکھے ہوئے مرہم میں تھوڑا سا نمک ملا دیا تھا۔

ثنا اپنی جگہ سے اُٹھی اور لیموزین کی جانب چل پڑی۔ یاور بھی اس کے پیچھے گاڑی تک آیا۔ دونوں دوبارہ ہالی ڈے ان میں پہنچ گئے۔ سارے راستے کسی نے ایک دوسرے سے بات نہیں کی۔ لفٹ میں بھی یہ دونوں اجنبی کی طرح کھڑے رہے۔ پہلے ثنا اُتری، پھر یاور اُترا اور ختم کہانی ہو گئی۔

 

 

 

 

بے بسی سے بس کی جانب

 

 

ثنا نے نیچے ٹراول ڈیسک سے رابطہ قائم کیا اور دبئی جانے والے جہاز کے بارے میں معلومات حاصل کی۔ اتفاق سے دو گھنٹے بعد ایک ائیر انڈیا فلائٹ تھی جو دبئی سے ہوتی ہوئی حیدرآباد جا رہی تھی۔ ثنا نے اُس میں اپنی نشست محفوظ کی اور ائیر پورٹ کے لیے روانہ ہو گئی۔ ہوائی اڈے پہنچ کر اس نے دبئی کے بجائے حیدرآباد کا ٹکٹ خریدا۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ کیا کر رہی تھی۔ ہوائی جہاز کے انتظار میں اس نے کیمبرج اسکول سے رابطہ قائم کیا اور ہوسٹل کے وارڈن سے درخواست کی کہ اوّلین طیارے سے صفدر کو حیدرآباد روانہ کر دے اور صفدر کے سفر کی تفصیلات سے اُسے فون پر مطلع کرے۔

ایک طویل عرصے کے بعد ثنا ائیر انڈیا سے سفر کر رہی تھی۔ بلکہ ملازمت ترک کرنے کے بعد وہ کبھی بھی ائیر انڈیا میں نہیں آئی تھی۔ ویانا سے دبئی کی اُڑان چھ گھنٹوں کی تھی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ کسی پرانے ساتھی سے جہاز میں ملاقات ہو جائے۔ وہ اپنے ماضی سے فرار حاصل کرنا چاہتی تھی۔ اِسی لیے اوّل درجے کی نشست میں بیٹھتے ہی اُس نے کرسی کو لمبا کیا اور کمبل اوڑھ کر سو گئی۔۔ اور پھر اسے پتہ نہ چلا کہ کب جہاز دُبئی اُترا، کب وہاں سے پھر اُڑا اور کب ہندوستان کے حدود میں داخل ہو گیا۔ جس وقت اس کی آنکھ کھلی تو جہاز حیدرآباد کے ہوائی اڈے پر اترنے کی تیاری کر رہا تھا۔

وہ اُٹھ کر حمام میں گئی اور منہ دھوکر واپس آ گئی۔ گہری نیند نے اس کی جسمانی تھکن کو دُور کر دیا تھا لیکن ذہن پر دباؤ ہنوز باقی تھا۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ کہاں جائے ؟ اُس کا اپنا شہر اُس کے لیے اجنبی ہو گیا تھا۔ نصرت نہیں ! ممتاز ہرگز نہیں !! اختر ناممکن!!! جائے تو کہاں جائے ؟ وہ حیدرآباد کے ہالی ڈے اِن میں پہنچ گئی۔ اُسی ہالی ڈے اِن میں جہاں پہلی مرتبہ وہ ائیر انڈیا کے فیشن شو میں شریک ہوئی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اس کی زندگی کے کانٹے مخالف سمت میں گھومنے لگے ہیں۔

ہوٹل میں آنے کے بعد اُس نے پھر کیمبرج اسکول لندن سے رابطہ قائم کیا تو پتہ چلا کہ صفدر کو روانہ کر دیا گیا اور وہ برٹش ائیرویز کے جہاز سے چھ گھنٹہ بعد حیدرآباد پہنچ رہا ہے۔ چھ گھنٹے بعد اس کا بیٹا اس کے پاس آنے والا تھا، جس کی شکل دیکھے ہوئے اُسے چھ ماہ کا عرصہ گزر چکا تھا۔ وہ لندن گئی اس کے باوجود اسے کیمبرج جانے کی فرصت نہ ملی۔ وہ اپنے آپ کے بارے میں سوچنے لگی، وہ کس قدر سنگدل ہو چکی تھی۔

ثنا نے یاور سے رشتہ توڑنے کا ارادہ کر لیا تھا۔ اُسے خلع کے کاغذات تیار کروانے تھے اور اس کے لیے واحد سہارہ نصرت تھی۔ ثنا نے نصرت کو فون کیا۔ نصرت کی بات یاور سے ہو چکی تھی۔ وہ ثنا کے فون کا بے صبری سے انتظار کر رہی تھی۔ فون پر اس نے فوراً کمرہ نمبر لیا اور ہوٹل کی جانب چل پڑی۔ ثنا جانتی تھی کہ نصرت کو آنے میں کم از کم ایک گھنٹے کا وقت لگے گا، اس نے بے ساختہ ٹیلی ویژن کا بٹن دبا دیا اور چینلس کو اُلٹنے پلٹنے لگی۔ خبروں کے ہر چینل پر ایران میں آنے والے زبردست زلزلے کی خبر تھی۔ تباہ کاریوں کی تفصیلات مہیا کرنے میں ہر چینل ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانا چاہتا تھا۔

اس نے لپک کر اخبار اُٹھایا۔ اس میں زلزلہ کی شاہ سرخی تھی اور درمیان میں ایک خبر یہ بھی تھی کہ اس زلزلے کے جھٹکے دبئی میں بھی محسوس کئے گئے۔ دبئی کا نام پڑھتے ہی اس کی دلچسپی بڑھ گئی۔ اُس نے الجزیرہ انگریزی چینل لگایا تو اس میں دبئی کی تفصیلات بھی تھیں۔ دبئی میں محسوس ہونے والا جھٹکا شدّت کے اعتبار سے ہلکا تھا، لیکن اس نے تعمیراتی پروجیکٹس پر خاصہ اثر ڈالا تھا۔ وہ عمارتیں جن کی تعمیر ممتاز محل کی طرح مکمل ہو چکی تھی، پوری طرح محفوظ تھیں۔ لولین کی مانند ابتدائی مراحل کے پراجیکٹس پر بھی کوئی خاص اثر نہیں ہوا تھا، لیکن جو درمیان کے مرحلے میں تھیں ، وہ بُری طرح تہس نہس ہو گئی تھیں۔

الجزیرہ والے ایسی ہی  عمارتیں دِکھلا رہے تھے۔ کیمرہ جمیرہ سے شیخ زائد روڈ کی جانب بڑھ رہا تھا۔۔ ٹوٹنے والی عمارتوں میں لام تارہ ٹاور، مرینا ۱۰۳ اور پرنسس ٹاور بھی شامل تھیں۔ کیمرہ آہستہ آہستہ ثنا ٹاور کی جانب بڑھ رہا تھا، وہ بھی اپنی تعمیر کے درمیانی مراحل میں تھا، بالآخر ثنا نے ٹی۔وی پر ثنا ٹاور کی مخدوش عمارت کو بھی دیکھ لیا۔ وہ جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ گئی تھی۔ اس بے ہنگم سے ڈھیر کو دیکھ کر ثنا کو یقین نہیں ہو رہا تھا کہ یہ وہی ٹاور ہے ، جسے چھوڑ کر وہ لندن گئی تھی۔۔ جس کی خاطر وہ لوگ ایک ہفتہ بحث و مباحثہ میں مصروف رہے۔ ثنا ٹاور مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا تھا۔ لیکن عجیب و غریب بات یہ تھی کہ ثنا کو اس کا ذرہ برابر افسوس نہ تھا۔ اُس نے ٹی وی سے نظروں کو ہٹائے بغیر کہا۔۔ ’’الحمد اللہ۔‘‘ یہ اُس کے دل کی آواز تھی، اِسی لمحہ دروازے کی گھنٹی بجی۔

نصرت کمرے میں داخل ہوئی۔ ثنا نے پھر ایک بار کہا۔۔ ’’الحمد للہ!‘‘ کیمرہ اب بھی ثنا ٹاور پر ٹکا ہوا تھا۔ سلام کلام کے بعد نصرت نے کہا۔ ’’ثنا میری یاور سے بات ہو چکی ہے۔ اگر تم مناسب سمجھو تو ہم لوگ ممتاز محل سے مل لیتے ہیں۔‘‘

ثنا نے کہا۔ ’’نصرت سنو۔۔ اگر تم میری سہیلی ہو اور میری مدد کرنا چاہتی ہو تو برائے کرم مجھے کوئی صلاح و مشورہ نہ دو۔ میں نے اپنا لائحہ عمل طے کر لیا ہے اور میں اس میں ذرّہ برابر تبدیلی نہیں کروں گی۔ اگر تمہارا مشورہ اس کے مطابق ہو گا تو اُسے میں ویسے ہی قبول کر لوں گی اور اگر اس کے خلاف ہو گا تو میں کسی صورت منظور نہ کروں گی۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ ممتاز کو زحمت دینا بے سود ہے۔‘‘ ثنا کے لہجہ میں پہاڑ جیسی استقامت تھی۔

نصرت گھبرا گئی، وہ بولی۔ ’’ثنا اتنا کچھ ہو گیا، لیکن تم۔۔ تم نہیں بدلیں ! تم تو وہی ثنا ہو۔۔ ثنا پروین۔‘‘

ثنا نے مسکرا کر شکریہ ادا کیا اور بولی۔ ’’دیکھو نصرت! ابھی چار گھنٹے بعد صفدر کا جہاز آنے والا ہے۔ اِس دوران کسی وکیل کو بلا دو جو میرے خلع کے کاغذات تیار کر دے۔ میں اس کام سے چار گھنٹے کے اندر نمٹ لینا چاہتی ہوں۔‘‘

نصرت نے کچھ کہنے کا ارادہ کیا لیکن ثنا کا چہرہ دیکھ کر خاموش ہو گئی۔ اس نے فون پر شہر کے مشہور وکیل شکیل احمدسے رابطہ کر کے اسے ہالی ڈے ان آنے کیلئے کہا۔ شکیل احمد اپنے نائب کے ساتھ آدھے گھنٹے بعد ہالی ڈے اِن پہنچ گئے۔ چاروں کی ملاقات نیچے کافی ہاؤس میں ہوئی۔ ثنا نے اپنی اور یاور کی تفصیلات وکیل صاحب کو دیں ، اپنی نکاح کی فوٹو کاپی، جو اس کے لیپ ٹاپ کمپیوٹر میں تھی، اُس کا پرنٹ وکیل صاحب کے حوالے کیا۔ شکیل کے نائب کا کمپیوٹر نہ جانے کتنے خلع کے کاغذات سے بھرا پڑا تھا۔ اس نے ایک پرانے خلع نامہ میں نام تاریخ پتہ وغیرہ تبدیل کرنا شروع کیا۔

شکیل ایک قاضی صاحب کو اپنے ساتھ لایا تھا جو لابی میں بیٹھے ہوئے تھے۔ کاغذات دس منٹ میں تیار ہو گئے۔ شکیل کا نائب اپنے کمپیوٹر کے ساتھ بزنس سینٹر میں گیا اور خلع کے کاغذات لے کر مع قاضی صاحب کے حاضر ہو گیا۔ ثنا نے کاغذات پر اُچٹتی ہوئی نگاہ ڈالی اور دستخط کرنے سے پہلے ہاتھ سے ایک جملہ لکھا۔۔ ’’میں راضی خوشی ثنا کنسٹرکشن سے متعلق اپنے تمام حقوق سے علی یاور جنگ کے حق میں دستبردار ہوتی ہوں۔‘‘ اور پھر دستخط کر دیئے۔ نصرت اور شکیل کے لیے یہ زلزلہ سے بڑا جھٹکا تھا۔

قاضی صاحب نے کاغذات لیے۔ نصرت نے فون پر یاور سے رابطہ قائم کیا۔ قاضی صاحب نے اُنہیں بتایا کہ اُن کی زوجہ ثنا پروین اُن سے خلع چاہتی ہے۔ یاور نے فون پر اپنی رضامندی کا اظہار کیا اور ای۔میل پر اس کی کاپی روانہ کرنے کی درخواست کی تاکہ وہ اس پر دستخط کر کے دوبارہ بھیج سکے۔ شکیل صاحب کا نائب دو بارہ بزنس سینٹر کی جانب چل پڑا۔ جتنی دیر میں وہ ای۔میل کر کے آیا، چائے آ چکی تھی۔

چائے کی آخری چسکیاں لیتے لیتے نصرت کے فون کی گھنٹی بجی اور یاور نے کہا۔ ’’میں کاغذات پر دستخط کر کے واپس میل کر چکا ہوں۔ ویسے ثنا سے کہو اس کے پاس جو کچھ ہے ، اس کا ہے۔ میں اپنے تمام حقوق سے بہ رضا و رغبت دستبردار ہوتا ہوں۔ ہم اب شوہر بیوی نہ صحیح اچھے دوست ہیں۔ نصرت کے فون کا اسپیکر چل رہا تھا، سبھی نے یاور کی آواز سنی۔  ثنا نے کہا۔ ’’شکریہ۔‘‘

فون بند ہو گیا۔ قاضی صاحب بولے۔ ’’میری عمر نکاح و طلاق کی نذر ہو گئی۔ میں نے آج تک اس اطمینان سے کسی نکاح کو بھی ہوتے نہیں دیکھا، جس طرح سے یہ خلع کا معاملہ ہوا ہے۔‘‘

نصرت نے فیس ادا کرنے کے لیے پرس اُٹھایا تو ثنا نے منع کر دیا تھا۔ اس نے اپنے بٹوے سے وکیل صاحب کو اُن کی فیس اور قاضی صاحب کو اُن کا نذرانہ ادا کیا۔ سو روپئے کا ایک نوٹ ثنا نے وکیل صاحب کے نوجوان نائب کو تھمایا اور سب کو شکریہ ادا کر کے روانہ کر دیا۔

نصرت نے کہا۔ ’’بولو ثنا۔۔ تمہاری یہ سہیلی اب کیا خدمت کر سکتی ہے ؟ اب ارادے کیا ہیں؟‘‘

ثنا بولی۔ ’’میں ائیر انڈیا کی فلائیٹ سے حیدرآباد تک آ گئی ہوں۔ اب یہاں سے نلگنڈہ جانا ہے۔‘‘

’’نلگنڈہ؟‘‘ نصرت نے چونک کر کہا۔

’’ہاں نصرت۔۔ یہ میرے سفر کی انتہائی منزل ہے ، جہاں پہنچ کر میں اپنی نئی زندگی کا آغاز کروں گی۔‘‘

’’نلگنڈہ میں کہاں جاؤ گی؟‘‘

’’میں اختر کے گھر جاؤں گی۔ وہاں اپنی عدّت کے دن گزاروں گی اور پھر اختر کے ساتھ حیدرآباد لوٹ آؤں گی۔‘‘

نصرت کے لیے ثنا کی باتیں عجیب و غریب ضرور تھیں لیکن وہ جانتی تھی کہ ثنا بھی عجیب و غریب خاتون ہے۔ اس لیے اسے ذرّہ برابر حیرت نہ تھی۔

ثنا نے بات آگے بڑھائی۔ ’’لیکن اس سے پہلے ایئرپورٹ جاؤں گی، وہاں سے بس اسٹاپ اور پھر اُسی سرکاری بس سے جس سے نلگنڈہ سے حیدرآباد آئی تھی حیدرآباد سے نلگنڈہ کا سفر ہو گا۔‘‘

نصرت بولی۔ ’’کیا؟‘‘

ثنا بولی۔ ’’ہاں۔‘‘

’’تو کیا میں تمہیں ایئرپورٹ لے چلوں؟‘‘

’’اگر ممکن ہو۔‘‘

’’اور پھر بس اسٹاپ چھوڑ دوں۔‘‘

’’ذرہ نوازی!‘‘

’’ویسے میں تمہیں نلگنڈہ تک کار سے بھجوا سکتی ہوں۔‘‘

’’نہیں ، شکریہ۔‘‘

نصرت سمجھ گئی، وہ حدود تجاوز کر رہی ہے۔ نصرت نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے۔‘‘

ایئرپورٹ پہنچنے کے بعد صفدر کے انتظار کے دوران نصرت بولی۔ ’’ثنا۔۔ میں نہیں جانتی تھی کہ ہم دوبارہ اس طرح ملیں گے یا نہیں ، اور میں یہ بھی نہیں جانتی کہ ہم پھر کبھی مل سکیں گے بھی نہیں۔ اس لیے میں چاہتی ہوں کہ پرانی سہیلیوں کی طرح ایک مرتبہ مل کر چائے پئیں۔‘‘

نصرت کی آنکھوں کی التجا نے ثنا کی پلکوں کو بھگو دیا، وہ بولی۔ ’’کیوں نہیں نصرت! تم میری بڑی بہن ہو، مجھے حکم دے سکتی ہو اور میں اس سے روگردانی کی جرأت نہیں کر سکتی آج میں ۔۔۔۔‘‘

نصرت نے جملہ کاٹ دیا اور بولی۔ ’’آج کون کیا ہے ، وہ خود نہیں جانتا؟ کل وہ کیا ہو گا، یہ بھی نہیں جانتا! بلکہ کل کیا تھا، اس کے بارے میں بھی جو کچھ جانتا ہے وہ بھی مبنی بر حقیقت نہیں ہے۔ ناقص معلومات کی بنیاد پر کھڑا کیا گیا ایک قیاس ہے۔ اس لیے اس بات کو چھوڑو۔ وہ دیکھو، سامنے اسٹار بک کافی ہاؤس ہے ، اُس میں کافی پیتے ہیں۔

کافی ہاؤس کی فضائیں کافی کی بھینی بھینی خوشبو سے معطر تھیں۔ یہاں پر عالم یہ ہے کہ ’’لاتے ہیں نشہ اوّل دیتے ہیں شراب آخر‘‘۔۔ کافی کے دوران پھر ایک بار دونوں سکھیاں ماضی کے دھندلکوں میں کھو گئیں اور نہ جانے کیسے نصرت کی زبان پھسل گئی، وہ بولی۔ ’’ثنا تم بڑے بڑے فیصلے بڑی آسانی سے کر لیتی ہو۔ لوگ جن گتھیوں کو سلجھانے میں صدیاں لگا دیتے ہیں ، تم منٹوں میں اُن سے نبٹ لیتی ہو۔ مثلاً نلگنڈہ واپسی کا فیصلہ؟‘‘

ثنا بولی۔ ’’نصرت، شاید تم صحیح کہتی ہو۔ میں سو چتی ضرور ہوں لیکن شاید صحیح رُخ پر۔۔ اِسی لیے جلد نتائج پر پہنچ جاتی ہوں۔ لوگ  غلط رُخ پر سوچتے رہتے ہیں۔ اس لیے کوئی فیصلہ نہیں کر پاتے۔‘‘

’’ہاں ثنا۔۔ لیکن ایک بات اور ہے۔ تم صرف ایک رُخ پر سوچتی ہو اور نتائج سے بے پرواہ ہو کر فیصلہ کر لیتی ہو۔ لوگ بے شمار سمتوں میں سوچتے ہیں اور پھر یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ چلے کہاں سے تھے ؟ اور اُنہیں جانا کہاں ہے ؟‘‘

’’جی ہاں نصرت۔۔ تمہاری یہ بات بھی صحیح ہے۔ زندگی میں یک رُخا پن نقصان دہ ہوتا ہے۔ لیکن گومگو کے کرب پر میں اس خسارے کو ترجیح دیتی ہوں۔‘‘

’’میں سمجھتی ہوں ثنا۔۔ لیکن یاور سے اختر۔۔ کیا یہ سفر کافی طویل نہیں ہے۔‘‘

’’نصرت آج کل فاصلے کی پیمائش وقت کی کسوٹی پر ہوتی ہے ، اور میرے لیے اختر سے یاور تک کا سفر زیادہ طویل تھا واپسی کا نہایت مختصر۔‘‘

’’لیکن یاور ایسا بُرا آدمی بھی تو نہیں؟‘‘ نصرت بولی۔

ثنا نے کہا۔ ’’دراصل میرا فیصلہ یاور کے رویہ کی بناء پر نہیں ، میری اپنی ذات پر غور و فکر کا نتیجہ ہے۔‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

’’میں گزشتہ کئی سالوں سے صرف یاور کے بارے میں سوچتی رہی۔ اس کی خاطر میں نے اپنا گھر سنسار، اپنا خاوند، اپنی اولاد، اپنا ملک، اپنا پیشہ، بلکہ اپنی پسند اور اپنی ناپسند۔۔ سب کچھ بدل دی۔ لیکن اس کو بدل نہ سکی۔ میں اُسے نہ ممتاز سے جدا کر سکی اور نہ لولین کے پاس جانے سے روک سکی۔ اس شکستِ ذات نے مجھ پر یہ حقیقت آشکارا کر دی کہ انسان جو بھی کر لے ، کسی انسان کو راضی یا مطمئن نہیں کر سکتا۔۔ اور اگر وہ ایسا نہیں کر سکتا تو ایسا کرنے کی کوشش کیوں کرتا ہے ؟ کیوں اپنے آپ سے برسرِ پیکار رہتا ہے ؟ کیوں اپنی عزتِ نفس کو کچلتا جاتا ہے ؟ کیوں اپنی پسند و ناپسند کو قربان کرتا جاتا ہے ؟ کیوں۔۔ آخر کیوں؟

میں نے ’ثنا ٹاور‘ کی خاطر یاور سے نکاح نہیں کیا تھا۔ لیکن شاید یاور اس غلط فہمی کا شکار ہو گیا کہ اس ٹاور کی بلندی مجھے اس سے قریب رکھنے کے لیے کافی ہے۔ نہیں نصرت۔۔ یہ اُس کی غلط فہمی تھی۔ وہ مجھے ثنا ٹاور کی دیواروں میں چن کر اپنی ناموری کا تاج محل تعمیر کرنا چاہتا تھا اور میں زندہ درگور ہونے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ میں قبر میں زندگی نہیں گزار سکتی تھی۔ اس لیے میں جا رہی ہوں۔ نلگنڈہ کی کھلی ہواؤں میں۔۔ فضاؤں میں۔۔ جہاں میرا بچپن ہے۔۔ میرا گھر ہے۔۔ میرا آنگن ہے۔۔ میرے والدین، میرے رشتہ دار ہیں اور میرا۔۔‘‘ ثنا کی زبان پر تالہ پڑ گیا۔

نصرت بولی۔ ’’بولو ثنا بولو۔۔ اور میرا اختر ہے۔‘‘

’’نصرت! انسان چاہتا بہت کچھ ہے لیکن وہ سب ہو جائے ، یہ ضروری تو نہیں۔ میں چاہتی تو ہوں کہنا، لیکن جانتی نہیں۔ اس لیے کہ فیصلے کا اختیار اب میرے ہاتھ میں نہیں۔ جب میرے بس میں تھا تو میں نے اس کا استعمال کیا، لیکن گیند اِس بار اختر کے پالے میں ہے۔ اب اس کی مرضی۔۔ چاہے تو گول کر دے چاہے اُسے میدان سے باہر اچھال دے۔‘‘

نصرت بولی۔ ’’نہیں ثنا نہیں۔۔ اختر کو میں تم سے زیادہ نہیں جانتی۔ لیکن جتنا کچھ بھی جانتی ہوں ، اُس کی بناء پر کہہ سکتی ہوں کہ اختر ایسا ناسمجھ کھلاڑی بھی نہیں کہ گیند کو میدان کے باہر اُچھال دے۔‘‘

’’تم صحیح کہتی ہو نصرت۔ اختر ویسا ہی تھا جیسا کہ تم نے بیان کیا۔ لیکن اس درمیان کے وقفے میں اس کی بس نہ جانے کن نشیب و فراز سے گزری اور ان کے کیا اثرات مرتب ہوئے۔‘‘

’’دیکھو ثنا۔۔ سونا ایک ایسی دھات ہے کہ تپش جس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی، بلکہ اس کی چمک میں اضافہ کا سبب بنتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اختر کھرا سونا ہے۔ اِن آزمائشوں نے اُس کی چمک دمک میں بے شمار اضافہ کر دیا ہو گا۔‘‘

ثنا بولی۔ ’’خدا کرے ایسا ہی ہو اور اگر نہ بھی ہوا تو میں صبر کر لوں گی۔ اس لیے کہ یہ سب میرے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔‘‘

لندن کا جہاز اتر چکا تھا۔ صفدر دوڑا دوڑا اپنی امی کی جانب چلا آ رہا تھا۔  دونوں سہیلیاں واپس آ کر گاڑی میں بیٹھ گئیں۔ پچھلی نشست پر صفدر بھی بیٹھ گیا اور کار بس اڈّے کی جانب روانہ ہو گئی۔ قلی نے سامان اُٹھاتے ہوئے پوچھا ’’کہاں؟‘‘

ثنا بولی۔ ’’نلگنڈہ۔‘‘

وہ تیرہ نمبر پلیٹ فارم کی جانب چل پڑا۔ دو سہیلیاں ایک دوسرے سے گلے ملیں اور نصرت واپس لوٹ گئی۔

 

 

 

 

قلب آباد۔ جہاں برباد

 

اَس دوران صوبائی نقلیاتی ادارے نے کافی ترقی کر لی تھی۔ ٹکٹ کمپیوٹر پر ملنے لگا تھا۔ نئی، اُونچی اور آرام دہ بسوں کا انتظام کر دیا گیا تھا، جنہیں دیکھ کر ایسا گمان ہوتا تھا گویا کوئی ہوائی جہاز چلا آ رہا ہے۔ بسوں کی مختلف قسمیں تھیں۔ عام بس سے لے کر ڈیلکس اور ڈیلکس اے۔سی تک، سبھی موجود تھیں۔ بیشتر انتظامی امور نجی کمپنیوں کے حوالے کر دئیے گئے تھے۔ جو یونین لیڈر اس نج کاری کی مخالفت کر رہے تھے ، اُنہیں کو نئی ٹرانسپورٹ کمپنیوں کے ٹھیکے دے کر خاموش کر دیا گیا تھا۔ دراصل انہیں یہ تو گوارہ نہ تھا کہ اُن کی یونین کے ملازمین کسی سرمایہ دار کی غلامی کریں لیکن اپنے مزدوروں کو خود اپنی غلامی میں رکھنے پر کسے اعتراض ہو سکتا تھا؟

حقیقت یہی تھی کہ دیگر سرمایہ دار مالکین کی بنسبت یہ یونین لیڈر اپنے ادارے میں کام کرنے والوں کا استحصال زیادہ کرتے تھے ، اُن کے خون میں اپنے جھنڈے کو نچوڑ کر سرخ کرتے اور اپنی گاڑی پر لگی سرخ بتی کو چمکاتے تھے۔ وزارت اور تجارت کے درمیان قائم ہونے والا یہ ناجائز رشتہ مزدوروں کے لیے عذاب جان بن گیا تھا۔ مزدور بے چارے اپنے رہنماؤں کے تابوت اپنے کندھوں پر لیے قبرستان کی جانب نہ جانے کب سے سرگرم نعرہ بازی تھے۔ قبرستان گو کہ سامنے نظر آتا تھا لیکن اس کا فاصلہ کم نہ ہوتا تھا۔ پیروں کے چھالے اِس قدر پُرانے ہو گئے تھے کہ اب وہی موزے تھے اور وہی جوتے۔ جوتوں کو راستے نے نہ جانے کب ہضم کر لیا تھا۔

ان مستضعفین کی حالت عجیب و غریب تھی۔ وہ جن تابوتوں کو کندھے پر اُٹھائے چل رہے تھے ، اُن میں سے لاشیں غائب ہو چکی تھیں۔ وہ جن لاشوں کو قبرستان پہنچانا چاہتے تھے ، وہ ایوانِ اقتدار میں عیش کر رہی تھیں۔ لیکن ان کے پیروں کی طرح ان کے کندھے بھی شل ہو چکے تھے۔ ان کی آنکھوں کی روشنی سلب کر لی گئی تھی۔ کانوں میں سرخ انقلاب کے نعرے گونجتے رہتے تھے جو کسی مشین سے نشر ہوتے تھے۔ زبانیں بغیر سوچے سمجھے اُنہیں دوہراتی رہتی تھیں۔ رام نام ستیہ ہے۔ پیروں کا کام چلنا تھا۔ اس لئے وہ چلتے رہتے۔ صدیوں کے سفر کی منزل کب آئے گی! اس کا نہ کسی کو اندازہ تھا اور نہ اُمید۔ اس کے باوجود نا امیدی اور شکست خوردگی کا یہ سفر نئی چمچماتی ہوئی اُونچی خوبصورت ائیر کنڈیشنڈ بسوں کے شانہ بشانہ جاری و ساری تھا۔

قلی نے ثنا کے حلیہ سے اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ سپر ڈیلکس کی سواری ہے۔ اس نے ڈیلکس بسوں کی خاص آرام گاہ میں اُن کا سامان رکھا اور ٹکٹ کے پیسے لے کر روانہ ہو گیا۔ جیسی بس ویسی آرام گاہ۔ عام ٹوٹی پھوٹی بسوں کے مسافر باہر دھوپ میں ٹوٹی پھوٹی بنچوں پر کچھ بیٹھے اور کچھ کھڑے ہوئے تھے۔ دراصل بس میں بھی اُن کو اِسی حالت سے گزرنا تھا۔ فرق صرف یہ ہو سکتا تھا کہ جو باہر بیٹھے ہوئے ہیں وہ اندر کھڑے ہوئے ہوں اور جو باہر کھڑے ہوئے ہیں ان کو اندر بیٹھنے کی جگہ مل جائے لیکن ایسا ہونا ضروری نہیں تھا۔ یہ سب تقدیر کے فیصلے تھے۔

ثنا شیشہ کے اندر سے یہ مناظر دیکھ رہی تھی۔ اسے یاد تھا کس طرح اسکول کے زمانے میں اس نے نلگنڈہ سے حیدرآباد کا سفر کیا تھا۔ اس کے والد صدر مدرس تھے۔ اس کے باوجود ان کو کن مشقتوں سے گزرنا پڑا تھا۔ زمانہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا، لیکن پریشانیاں اب بھی اُسی طرح موجود تھیں ، بلکہ شاید اُن کی شدت میں اضافہ ہو گیا تھا۔ ہاں ، ایک تبدیلی ضرور واقع ہوئی۔ کچھ لوگوں کو استثناء حاصل ہو گیا تھا۔ ان لوگوں کو جن کے پاس قوت خرید تھی، اور اتفاق سے اس وقت ثنا پروین ان میں سے ایک تھی۔ صفدر بھی حیرت سے لوگوں کو بسوں کے پیچھے دوڑتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ چڑھنے والوں کا اُترنے والوں کو اترنے نہ دینا۔۔ کھڑکیوں سے رومال پھینک کر اپنے لیے جگہ مختص کرنا۔۔ مسافروں کی آپسی لڑائی اور پھر کنڈکٹر سے اُن کا جھگڑا۔۔! اک حشربپا تھا گویا۔

اِس بیچ قلی ڈیڑھ ٹکٹ لے آیا۔ ثنا نے اس کے ہاتھوں میں پچاس روپئے رکھ دیئے۔ قلی کا وجود مسکرا اُٹھا۔ پچاس روپئے ! اُسے دس روپیوں سے زیادہ کی امید نہیں تھی اور یہ پچاس روپئے گمرو کے لیے تھے۔ ثنا کے لئے یہ رقم پانچ درہم سے کم تھی۔ قلی نے ڈرتے ڈرتے سلام کیا کہ کہیں وہ باقی روپئے واپس نہ مانگ لے۔ ثنا نے شکریہ ادا کیا تو وہ پاگل ہو گیا۔ اس نے جھک کر پھر سلام کیا اور ’’شکریہ شکریہ‘‘ کہتا ہوا نہ جانے کتنی دُور تک گیا کہ اس کا گھر سامنے آ گیا۔

بیوی نے جب اُسے دیکھا کہ آدھے دن بعد ہی واپس لوٹ آیا تو گھبرا گئی، پوچھا۔ ’’خیرت تو ہے ؟ طبیعت تو ٹھیک ہے ؟‘‘  گمرو بیمار بھی ہو جاتا تو شام سے پہلے گھر نہ آتا۔ اس لیے کہ بیوی بچوں کی بھوک کا منظر بیماری سے زیادہ کربناک جو ہوتا تھا۔

گمرو نے کہا۔ ’’ہاں۔‘‘

وہ بولی۔ ’’پھر؟‘‘

گمرو نے پچاس کا نوٹ اس کی جانب بڑھا دیا

وہ بولی۔ ’’اچھا۔۔ تو آج پھر تم نے جوا کھیلا۔ میں نے تمہیں کتنی مرتبہ منع کیا کہ یہ حرام کی کمائی مجھے نہیں چاہئے۔‘‘

وہ بولا۔ ’’بے وقوف عورت! میں نے جوا نہیں کھیلا۔ آج ایک سمجھدار سواری مل گئی تھی۔ میں نے اُس کا سامان بس میں رکھا تو اس نے پچاس روپئے کا نوٹ دے دیا۔ کچھ واپس مانگنے کے بجائے شکریہ ادا کر کے چلی گئی۔‘‘

’’اچھا۔۔ تو وہ پچاس روپیہ دینے والی عورت عقلمند ہے اور میں تم پر جان نچھاور کرنے والی بے وقوف؟‘‘

دونوں ہنسنے لگے۔ گمرو کی بیوی گمری نے فوراً پچاس روپیہ اس کے ہاتھ سے جھپٹ لیا اور سوچنے لگی۔۔ اچھا ہی ہوا یہ بے وقوف راستہ میں شراب خانہ میں نہیں رُک گیا، ورنہ نشہ میں دھت جھومتی ہوئی لاش ہی گھر آتی۔

آرام گاہ کے اندر ایک سریلا اعلان ہوا۔۔ ’’نلگنڈہ جانے والی سپر ڈیلکس بس پلیٹ فارم نمبر تیرہ پر تیار ہے ، مسافر بس کی جانب روانہ ہوں۔‘‘ چند منٹوں کے اندر سارے مسافر آ گئے۔ اس بس کو حیدرآباد سے براہ راست نلگنڈہ ہوتے ہوئے وجے واڑہ جانا تھا۔ بس کی روانگی سے قبل ایک کنڈکٹر بس میں داخل ہوا اور اس نے مسافروں کی ٹکٹوں کو جانچا اور اُتر کر واپس چلا گیا۔

ثنا حیرت سے اِن تبدیلیوں کو دیکھ رہی تھی۔ اُس کی نظریں کنڈکٹر کا پیچھا کر رہی تھیں کہ سامنے سے اختر آتا ہوا دکھائی دیا۔ اختر۔۔ وہی اختر۔۔ بالکل ویسا ہی اختر۔۔ جیساکہ اس نے اسے چھوڑا تھا۔ اختر دوسرے ڈرائیورس کے ساتھ آ رہا تھا۔ مختلف ڈرائیورس مختلف بسوں کی جانب جا رہے تھے۔ ثنا دیکھ رہی تھی کہ اختر کہاں جا رہا ہے۔ لیکن اختر کا رُخ اِسی بس کی جانب تھا جس میں ثنا براجمان تھی۔ وہ بس کے قریب آیا، ڈرائیور کے لئے مختص دروازے کو کھولا اور لپک کر اپنے مخصوص انداز میں اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ اُس کے ہونٹ ہل رہے تھے۔ ثنا سمجھ گئی کہ دُعا پڑھ رہا ہے۔ اختر کا معمول تھا، اس کے ہاتھ جیسے ہی اسٹیرنگ سے ٹکراتے ، زبان گنگنانے لگتی۔ سبحان الذی۔۔ ثنا کو خوشی ہوئی۔ اختر نہیں بدلا تھا۔

ایک جھٹکے کے ساتھ بس چل پڑی۔ صفدر کھڑکی کے باہر مناظر کو تیزی سے پیچھے کی جانب دوڑتا ہوا دیکھ رہا تھا۔ بس دوڑ رہی تھی، مناظر ٹھہرے ہوئے تھے ، لیکن چونکہ صفدر دوڑنے والی سواری میں ٹھہرا ہوا تھا اس لیے اسے محسوس ہو رہا تھا کہ گویا پیڑ، پہاڑ، دریا، ندی، نالے ، کھیت سب کچھ دوڑ رہے ہیں۔ ثنا کا ذہن بھی ماضی کے نشیب و فراز میں سرگرمِ سفر تھا۔ ثنا اور صفدر ایک دوسرے سے کس قدر قریب تھے اور کس قدر دُور دُور تھے۔ ایک کی نظر باہر کے مناظر پر تھی اور دوسرے کے داخل میں۔ ایک زندگی کو اُوپر سے دیکھ رہا تھا اور دوسرا اس کے اندر جھانک رہا تھا۔

ثنا اور اختر کے درمیان کا فاصلہ پل جھپکتے  غائب ہو گیا تھا۔ وہ دونوں آس پاس تھے اور صفدر۔۔ صفدر ابھی عالم وجود میں نہیں آیا تھا۔ کیسی تھی وہ تنہائی اور کیسا تھا وہ ساتھ؟ وہ دونوں ایک ساتھ بھی تھے اور تنہا تنہا بھی۔ بالکل اسی طرح جس طرح آج ان کا یہ سفر تھا۔ ثنا، اختر کے ساتھ بس میں سوار تھی لیکن پھر بھی تنہا تھی۔۔ اور اختر۔۔ وہ تو نہ جانے کب سے تنہائیوں کے سمندر میں غوطہ زن تھا۔ تنہائیوں کا یہ سفر ایک انجان منزل کی جانب رواں دواں تھا۔۔ وہ منزل جس کے علم سے ہر مسافر محروم تھا۔

تقریباً دو گھنٹے بعد بس ایک سیاحتی گیسٹ ہاؤس کے احاطہ میں رُک گئی۔ بس کے اندر اختر کی بھرائی ہوئی آواز گونجی۔ ’’دوستو! یہ نلگنڈہ نہیں ہے ، بلکہ قلب آباد کی سیاحتی آرام گاہ ہے۔ یہاں بس بیس منٹ کے لیے رُکے گی۔ آپ لوگ اپنی ضروریات سے فارغ ہو جائیں اور کھا پی کر اپنی نشستوں پر واپس آ جائیں۔ تاخیر سے آنے والوں کی خدمت میں پیشگی معذرت عرض ہے۔ بس ٹھیک بیس منٹ بعد روانہ ہو جائے گی انشا اللہ۔‘‘

ثنا مسکرائی، اس لئے کہ یہ ظرافت اختر ہی کا حصہ تھی۔

قلب آباد کا سیاحتی مرکز ایک قدیم قلعہ نما عمارت تھی، لیکن وزارت سیاحت نے اِسے نئے انداز میں سجایا تھا۔ آنگن کو باغیچہ بنا دیا گیا تھا۔ اس میں بچوں کے لئے جھولے نصب کر دیے گئے تھے۔ اندر مختلف قسم کی طعام گاہیں تھیں۔ دہلی دربار اور تاج مینار ہوٹل کے علاوہ چائنا ٹاون اور میک ڈونالڈ بھی موجود تھے۔ اس کے علاوہ روپئے نکالنے کے لئے اے۔ ٹی۔ ایم۔ مشین، ٹیلیفون بوتھ اور انٹرنیٹ کیفے کا بھی اہتمام تھا۔

سابق وزیر اعلیٰ نے اپنی ریاست کو ملک کی سیلیکون ویلی بنانے کی غرض سے جو بے شمار نمائشی اقدامات کئے تھے ، یہ سیاحتی مرکز اس کا ایک حصہ تھا۔ عالمی بنک کے عہدیداران کو ایسے مقامات کی سیر کروا کر ورغلایا جاتا تھا۔ صحافی حضرات کو بھی یہاں ٹھہرا کر تحفہ تحائف سے نوازا جاتا تھا تاکہ وہ اپنے زورِ قلم سے حقِ نمک ادا کریں۔ صفدر بس سے اُترتے ہی دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے کے لئے جھولوں کی جانب دوڑ پڑا۔ بچہ آخر بچہ ہی ہوتا ہے۔۔ چاہے اس کا تعلق نلگنڈہ سے ہو یا دبئی سے۔۔ وہ حیدرآباد کا رہنے والا ہو یا کیمبرج سے آیا ہو۔۔ اس تفریق و امتیاز کا اثر بچپن پر کم ہی پڑتا تھا۔

ثنا نے دیکھا کہ اختر حمامات کی جانب جا رہا ہے۔ اُس نے اندازہ لگا لیا کہ وہ واپس کس طرف سے آئے گا۔ وہ تاج مینار کے باہر لگی ایک کرسی پر بیٹھ گئی اور صفدر کو دیکھنے لگی۔ حالانکہ اس کی نگاہیں آج کسی اور کی منتظر تھیں۔ اختر نے دُور سے ثنا کو دیکھا تو ٹھٹک گیا۔ اس کے قدموں کی لغزش نے ثنا کو اس کے دل کی کیفیت بتلا دی۔ وہ آہستہ آہستہ قدم بڑھاتا ہوا اس کی جانب آیا۔

دونوں خاموش تھے۔ خاموشیاں بول رہی تھیں۔ اختر بغیر اجازت ثنا کی میز پر بیٹھ گیا۔ دو روحیں دیر تک ایک دوسرے کو دیکھتی رہیں۔ الفاظ بے معنی ہو چکے تھے۔ ثنا کی قینچی کی طرح چلنے والی زبان گنگ ہو چکی تھی۔ اختر کی تیز نگاہیں زمین میں دھنس گئی تھیں۔ بالآخر اختر کے ہونٹ ہلے۔۔ اس نے کہا۔ ’’ثنا، مجھے پتہ تھا تم لوٹ آؤ گی۔۔ تم ضرور واپس آؤ گی۔۔ مجھے پتہ تھا ثنا۔۔ تم ضرور آؤ گی۔‘‘

ثنا کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ وہ رو رہی تھی، بس روئے جا رہی تھی۔۔ اپنے آنسوؤں سے اپنے داغدار دامن کو دھو رہی تھی۔ اس کے کانوں میں نقرئی گھنٹیاں بج رہی تھیں ، لیکن زبان خاموش تھی۔ اختر آنکھوں کی زبان سمجھ رہا تھا۔ اب وہ بھی خاموش ہو گیا تھا۔ سامنے سے صفدر دوڑتا ہوا آیا۔ اختر نے آہستہ سے کہا۔ ’’صفدر۔۔ میرا صفدر۔۔ میری آنکھوں کی ٹھنڈک۔‘‘

ثنا نے نظروں سے تائید کی۔

صفدر جب قریب آیا تو اختر نے اُسے پاس بلایا۔ ’’بیٹے صفدر اِدھر آؤ۔‘‘

صفدر بے اعتنائی کے ساتھ ثنا کی جانب پلٹا اور پوچھا۔ ’’کون ہیں؟‘‘

ثنا بولی۔ ’’یہ۔۔ یہ تمہارے بابا ہیں۔‘‘

’’یہ میرے بابا؟ یہ۔۔ یہ میرے بابا نہیں ہو سکتے۔‘‘ صفدر نے پٹ پٹ کہا۔

ثنا کا پارہ چڑھ گیا۔ اُس نے ایک زوردار طمانچہ صفدر کے منہ پر جڑ دیا۔ ’’بدتمیز!‘‘

اور اس کے ساتھ ہی ایک دھڑام کی آواز کے ساتھ قلب آباد کا یہ سیاحتی مرکز گونج اُٹھا۔ لوگ چاروں طرف سے دوڑے۔ ’’ارے اِسے کیا ہو گیا؟‘‘

’’یہ تو ڈرائیور ہے۔ لگتا ہے مرگی کا دورہ پڑا ہے ؟‘‘

’’نہیں نہیں۔۔ یہ تو مرگیا ہے۔ اِس کی آنکھیں دیکھو، پتھرا گئی ہیں ، اور نبض بھی نہیں چل رہی۔ اس کے دل کی دھڑکن بند ہو گئی۔‘‘

’’ارے یہ کیا ہو گیا۔۔؟ اِس ڈرائیور کو اِسی وقت مرنا تھا! اب آگے کا سفر کیسے ہو گا؟‘‘

طرح طرح کے جملے ثنا کی سماع خراشی کر رہے تھے۔ وہ اختر کو ہلا جلا کر زندہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ لیکن اختر بہت دُور جا چکا تھا۔ ثنا نے ایک طمانچہ مارکر اُسے قتل کر دیا تھا۔ صفدر حیرت کی تصویر بنا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ وہ اپنا طمانچہ بھول چکا تھا۔ اُس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آخر یہ سب کیا ہو رہا ہے ؟ اور کیوں ہو رہا ہے ؟ دراصل وہاں موجود سیکڑوں مسافروں کی بھی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کیا ہوا ہے اور کیسے ہوا ہے ؟ ثنا کی سمجھ میں یہ تو آ رہا تھا کہ کیا ہوا، لیکن کیوں ہوا؟ یہ اُس کی سمجھ سے بھی بالاتر تھا؟ جلد ہی قریب کے شہر سے ڈاکٹر، ایمبولنس اور دوسرا ڈرائیور آ گیا۔ تمام مسافر دوبارہ اپنی پُرانی بس میں جا کر بیٹھ گئے جسے اب نیا ڈرائیور چلا رہا تھا۔ لیکن ثنا نے اپنا سفر منقطع کر دیا تھا۔ وہ اختر کے ساتھ نلگنڈہ جانا چاہتی تھی۔ صفدر بھی اُس کے ساتھ تھا۔ اس کا ماضی موت کی آغوش میں تھا اور مستقبل زندگی کی سڑک پر رواں دواں تھا۔ ثنا حال کے دوراہے پر تنہا کھڑی تھی۔

صوبائی نقلیاتی ادارے نے اپنے ایک افسر کو اختر کی دیکھ ریکھ پر معمور کر دیا۔ اُس افسر نے سب سے پہلے اختر کے لواحقین کے بارے میں معلومات حاصل کی تو پتہ چلا کہ نلگنڈہ میں اس کی ایک بوڑھی ماں ہے۔ یہ مناسب نہیں سمجھا گیا کہ اس کی ماں کو براہِ راست موت کی اطلاع دی جائے۔ اس لیے فون پر صرف اس قدر خبر دی گئی کہ اختر کسی حادثے کا شکار ہو گیا ہے اور وہ لوگ اسے گھر لا رہے ہیں۔ اپنے بیٹے کے انتظار میں بے نور آنکھوں کو جب پتہ چلا کہ اختر عرصۂ دراز کے بعد واپس آ رہا ہے تو اُن میں زندگی آ گئی۔ یکایک تاریکی کا خاتمہ ہو گیا۔ چاروں طرف روشنی پھیل گئی۔ ’’میرا اختر واپس آ رہا ہے۔۔ مجھے پتہ تھا اختر لوٹ آئے گا۔۔ اختر ضرور واپس آئے گا۔‘‘ بے ترتیب گھر اپنے مہمان کی تیاری میں لگ گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ بدل گیا۔

اختر کی امی افسری بیگم ہر آہٹ پر چونک پڑتی تھیں۔ انہوں نے سارے محلے کو خبر کر دی تھی کہ اختر واپس آ رہا ہے۔ سارا محلہ گویا اختر کا منتظر تھا کہ اچانک سیاہ رنگ گاڑی اختر کے گھر کے سامنے رُکی۔ اختر کی امی دوڑی دوڑی باہر آئیں۔ اُن کی آنکھیں سفید و سیاہ کا فرق سمجھنے سے قاصر تھیں۔ گاڑی سے پہلے صفدر باہر آیا۔ بڑھیا نے سوچا، یہ کون ہے ؟ پیچھے سے ثنا اُتری تو وہ سمجھ گئیں کہ یہ صفدر ہے۔۔ اختر کا بچپن۔ وہ اپنے پوتے سے لپٹ گئیں اور پھر ثنا کو سینے سے لگا لیا۔ اس لمحہ ثنا پھٹ پڑی۔ اب پہلی مرتبہ وہ دہاڑیں مار مارکر رو رہی تھی۔

بڑھیا کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ اختر گاڑی سے باہر کیوں نہیں آتا؟ اور ثنا کیوں روئے جاتی ہے ؟ چند لمحات کے اندر اُس کی سمجھ میں سب کچھ آ گیا۔ گاڑی کا رنگ اختر کی موت کا اعلان کر رہا تھا۔ وہ اپنی بہو کو دلاسہ دے رہی تھیں۔ لوگ اختر کی لاش گاڑی سے باہر نکال رہے تھے۔ ماں بدبدا رہی تھیں۔۔ ’’میرا اختر لوٹ آیا۔۔ مجھے پتہ تھا وہ ضرور آئے گا۔۔ وہ ضرور ضرور آئے گا، مجھے پتہ تھا۔‘‘

اختر لوٹے گا، اس کا یقین ممتا کو ضرور تھا۔ لیکن اس طرح بے حس و حرکت۔۔! اِس کا گمان بھی اُسے نہ گزرا تھا۔ جو ماں اپنی اولاد کو زندگی بخشتی ہے ، وہ اُس کی موت کا تصور تک نہیں کر سکتی۔ لیکن آج ایک تصور حقیقت بن کر کھڑا تھا۔ بیٹے کی واپسی کی خوشی کو اس کی موت کے صدمہ نے اپنے پنجوں میں جکڑ لیا تھا۔ جو آنکھیں اپنے بیٹے کے انتظار میں اندھی ہو چکی تھیں ، وہ اس کی لاش پر آنسو بہا رہی تھیں۔

قبر کی مٹی دلوں کے زخموں پر مرہم بن گئی تھی۔ زندگی دھیرے دھیرے معمول پر آ رہی تھی۔ ثنا کے پاس موجود رقم آہستہ آہستہ ختم ہوتی جا رہی تھی کہ اچانک ڈاکیہ منی آرڈر لے کر آیا۔ ڈاکیہ کا معمول تھا کہ وہ ہر ماہ پہلے ہفتہ میں آتا اور افسری بیگم کو اپنے بیٹے کے ذریعہ بھیجی ہوئی رقم دے جاتا۔ اس مرتبہ جب وہ آیا تو اس نے ثنا کا نام پکارا۔ ساس اور بہو دونوں ساتھ ساتھ دروازے پر آئیں۔ اب اختر ہی نہیں تھا تو ڈاکیہ کا کیا کام؟

ڈاکیہ نے کہا۔ ’’ثنا اختر آپ کا نام ہے ؟‘‘

ثنا بولی۔ ’’جی ہاں۔‘‘

وہ بولا۔ ’’یہ اختر کی پنشن ہے ، جو ریاستی حکومت کی جانب سے آئی ہے۔ آپ یہاں دستخط کر دیں اور رقم گن لیں۔‘‘

ثنا نے اپنی ساس کی جانب دیکھا، وہ بولی۔ ’’بیٹی دستخط کرو۔ یہ تمہارے شوہر کی وراثت ہے جو تمہیں منتقل ہوئی ہے۔‘‘

ثنا کا دل کہہ رہا تھا کہ وہ اختر کی وارث کیوں کر ہو گئی؟ اس نے خلع لے لیا تھا؟ دوبارہ نکاح سے قبل اختر دُنیا سے کوچ کر گیا۔

ثنا کی ساس نے کہا۔ ’’بیٹی میں تمہارے جذبات سمجھتی ہوں۔ لیکن اب یہی ہمارے گزارے کا سامان ہے۔ یہ بے چارہ کب تک کھڑا رہے گا؟ چلو جلدی سے دستخط کرو۔‘‘

ثنا نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے دستخط کیے۔

ڈاکیہ بولا۔ ’’نام اور تاریخ بھی لکھیں۔‘‘

ثنا نے لکھا ’’ثنا پروین‘‘، پھر کچھ سوچ کر آگے لکھا۔۔ ’’اختر‘‘۔۔ اور درمیان سے پروین کو کاٹ دیا۔

ثنا عدت کے دن گزار رہی تھی۔ یہ دراصل یاور سے خلع کی عدت تھی۔ لیکن دنیا والے یہ سمجھ رہے تھے گویا وہ اختر کی موت والی عدت کا سوگ منا رہی ہے۔ بہرحال عدت کے چار ماہ بھی گزر گئے۔ اس بیچ اسکول کے منتظمین نے فیصلہ کیا کہ سابق پرنسپل صاحب کی خدمات کے عوض ثنا کو استاذ کی خالی جگہ پر ملازم رکھ لیا جائے۔ لیکن موجودہ پرنسپل کا منصوبہ کچھ اور ہی تھا۔ وہ اپنے کسی رشتہ دارسے اس اسامی کو پُر کرنا چاہتے تھے۔ لیکن انتظامیہ کی بات کو ٹھکرا نہ سکے۔

ثنا اسکول آنے جانے لگی۔ صفدر کا داخلہ گاؤں کے اسی اسکول میں ہو گیا جس میں اختر اور ثنا نے تعلیم حاصل کی تھی۔ لیکن پرنسپل صاحب نے سیاست کے جال پھیلانے شروع کئے اور ثنا کو طرح طرح سے پریشان کرنے لگے۔ ثنا کو یہ سب سمجھنے میں دیر نہیں لگی۔ لیکن فی الحال وہ کسی مزاحمت کے موڈ میں نہیں تھی۔ اس بیچ دبئی سے اس کی ایک سہیلی شیلا نے اسے اپنے بیٹے کی شادی میں بلایا۔ شیلا ایک بڑے کاروباری گھرانے المایا کی بہو تھی۔ اُس نے ویزا کے ساتھ ساتھ ٹکٹ وغیرہ کا بھی بندوبست کر دیا تھا۔ ثنا دبئی آئی تو اسے پاکستانی اسکول میں ٹیچر کی نوکری مل گئی۔ اب ثنا نے اپنی ساس سے دبئی چلنے کے لیے کہا۔ لیکن اس کی ساس بولی۔’’میں اِس عمر میں اپنی مٹی سے دُور نہیں جا سکتی۔ اس لیے کہ اب میرا وقت قریب ہے۔‘‘

خیر، ثنا نے پنشن کے حقوق اپنی ساس کے حق میں منتقل کئے اور خود صفدر کے ساتھ دبئی آ گئی۔ یہاں پر بھی اسی طرح کی سیاست سے سابقہ پیش آیا۔ اسکول کی پرنسپل عجیب و غریب طبیعت کی حامل تھی۔ اس کی ناز برداری ثنا کے بس کا روگ نہیں تھا۔ اس لیے ثنا نے اخبار کے ذریعہ نوکری کی تلاش شروع کر دی۔ اسے جلد ہی ایم۔پلس چینل میں ملازمت بھی مل گئی اور بالآخر وہ ثنا پروین سے ثنا یعقوب بن گئی۔

سوژان نے پوچھا۔ ’’ثنا۔۔ تمہارا فلسفۂ حیات بڑا انوکھا اور دلچسپ ہے۔ اس لئے میں تم سے ایک سوال پوچھنا چاہتی ہوں؟‘‘

’’بھئی میں نے تو تمہیں اپنے بارے میں سب کچھ بتلا دیا۔ اب میرے پاس اور کیا رکھا ہے بتلانے کے لئے ؟‘‘

’’تمہاری بات درست ہے ثنا۔ میں تم سے جولیا کے بارے میں پوچھنا چاہتی ہوں۔‘‘

’’جولیا؟  اس کے بارے میں  میری معلومات بے حد محدود ہے۔ اس کے لئے بہتر ہے تم خود جولیا یا یعقوب سے رابطہ کرو۔‘‘

’’نہیں ثنا۔۔ مجھے کچھ اور پوچھنا ہے۔ میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ تمہارے اس تقدیر کے کھیل میں تم جولیا کو کس طرح سے دیکھتی ہو؟‘‘

’’میں ۔۔؟ جولیا کو۔۔؟؟‘‘ ثنا نے کچھ دیر سوچا اور بولی۔ ’’میں اسے اپنا معاون خیال کرتی ہوں۔‘‘

’’جولیا سے تو تمہاری کبھی ملاقات تک نہیں ہوئی، اس نے بھلا تمہاری کون سی مدد کی؟‘‘

’’بالواسطہ تو نہیں کی بلاواسطہ ضرور کی ہے ؟‘‘

’’لیکن جولیا تو تمہیں اپنا دشمن سمجھتی ہو گی۔ وہ بلاواسطہ بھی تمہاری مدد کیوں کرے گی؟‘‘

’’پھر وہی پہلے والی بات۔ انسان صرف وہی نہیں کرتا جو کچھ کہ وہ چاہتا ہے۔ بلکہ اکثر وہ کچھ کرتا رہتا ہے جو وہ نہیں چاہتا۔ وہ جس کا فائدہ کرنا چاہتا ہے ، کئی مرتبہ اُس سے اپنے آپ کو معذور پاتا ہے اور جس کا نقصان کرنا چاہتا ہے ، اُس کا بھلا کر جاتا ہے۔‘‘

سوژان کی سمجھ میں بات نہیں آئی، وہ بولی۔ ’’ہو سکتا ہے۔۔! لیکن میں تو جولیا کے بارے میں پوچھ رہی تھی۔‘‘

’’ہاں ! جولیا کے رویہ نے جیکب کے لئے مجھ سے نکاح کرنے کا فیصلہ آسان کر دیا۔ اگر وہ دبئی منتقل ہونے کے لئے تیار ہو جاتی تو شاید جیکب کو میری ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی۔ اپنے کاروبار کی خاطر اس کے ڈربن میں رہنے پر اصرار نے جیکب کے لئے نکاح ثانی کی سہولت پیدا کی اور میرا بھلا ہو گیا۔‘‘

’’اب اگر اُسے پتہ چل گیا تو کیا ہو گا؟‘‘

’’ہو گا تو وہی جو منظورِ خدا ہو گا۔‘‘ ثنا مسکرا کر بولی۔

سوژان نے کہا۔ ’’وہ تو مجھے پتہ ہے لیکن میں تمہارے خدا سے پوچھ نہیں سکتی۔ اس لئے تم سے معلوم کرنے کی کوشش کر رہی ہوں کہ تم کیا سوچتی ہو؟‘‘

’’میں سوچتی ہوں کہ جولیا ابتدا میں ناراض ہو گی۔ اس لئے کہ فاصلوں کے باوجود آج بھی جیکب اور جولیا کے درمیان محبت کا رشتہ قائم ہے۔ لیکن جس طرح یعقوب کی مجبوری ثنا ہے ، اسی طرح جولیا کا کاروبار اس کی مجبوری ہے۔‘‘

’’میں جولیا کے ردّ عمل کے بارے میں پوچھ رہی تھی؟‘‘ سوژان اپنے سوال پر واپس آئی۔

’’میں نے وہی کہا۔ پہلے تو جولیا ناراضگی کا اظہار کرے گی۔ لیکن چونکہ وہ ایک جہاندیدہ معمر خاتون ہے ، اس لئے اپنے جیکب کی خاطر حالات سے مصالحت کر لے گی۔ بلکہ مجھے یقین ہے کہ وہ بھی یعقوب کی مانند جولیا سے جمیلہ بن جائے گی۔‘‘

سوژان کو ثنا کے اعتماد سے ڈر لگنے لگا تھا۔ اس نے اپنے آپ سے کہا۔۔ جولیا کا کیا ہو گا! یہ تو میں نہیں جانتی، لیکن اگر ثنا کے ساتھ اس کا رابطہ قائم رہا تو وہ خود اپنے بارے میں یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتی کہ اس کا کیا ہو گا؟  مبادا وہ بھی سوژان سے عفنان میں تبدیل ہو جائے ؟؟

 

 

 

 

زندگی کا سفر

 

 

 

دُبئی میں منعقد ہونے والی کتب کی بین الاقوامی نمائش نے کرشنن کی زندگی میں عظیم انقلاب برپا کر دیا تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ اس نمائش میں وہ پہلی مرتبہ شریک ہو رہا تھا۔ کتابوں سے اپنی دیرینہ وابستگی کے سبب وہ اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ اس سالانہ تقریب میں حاضر ہو چکا تھا۔ لیکن اُس وقت کرشنن کی حیثیت جداگانہ تھی۔ ایک عام مندوب کی حیثیت سے وہ مختلف ناشرین کے بوتھ پر جاتا، کتابوں کو دیر تک اُلٹتا پلٹتا، اُن کا تعارف پڑھتا اور حسرت سے دوبارہ اُنہیں اپنی جگہ پر رکھ دیتا۔ سیکڑوں کتابیں ایسی ہوتی تھیں جن کو وہ پڑھنا چاہتا تھا لیکن پڑھنے کے لئے خریدنا ضروری ہوتا اور خریدنے کے لئے درہم و دینار کی ضرورت ہوتی تھی جو اُس کے پاس نہ ہوتے تھے۔ یہ کتابوں کی عالمی منڈی اُن لوگوں کے لئے نہیں سجائی جاتی جنھیں پڑھنے کا شوق ہو! بلکہ اُن لوگوں کی خاطر یہ بازار سجایا جاتا ہے جن کے اندر قوتِ خرید ہو۔

بہت سارے لوگ ان قیمتی کتابوں کو اپنے گھر میں نمائش کی خاطر خریدتے تھے۔ ان کے پاس نہ تو کتابیں پڑھنے کا وقت ہوتا اور نہ ذوق۔ لیکن یہ دونوں چیزیں کتابوں کو خریدنے کے لئے ہرگز ضروری نہیں تھیں ۔بس کتاب خریدنے کی سکت ہو یہ کافی ہے۔کوئی بکرا خرید کر اسے  پالے پوسے اور قربانی کرے  یا یوں ہی جنگل میں چھوڑ دے ! اس سے بکرے کے بیوپاری کو کیا غرض؟ اُسے دام مل گیا، اُس کا کام ہو گیا۔ دوسروں کو مرعوب کرنے کی خاطر، انہیں یہ باور کرانے کے لئے کہ میرا ذوق اعلیٰ  و ارفع ہے ، کتابوں کی موجودگی کافی ہے ! اُن مطالعہ لازمی نہیں ہے۔ اس رنگ برنگی دنیا میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو کسی کتاب کو پڑھے بغیر اس کے محاسن پر گھنٹوں گفتگو کر سکتے  لیکن یہ بیچارے ان کے سامنے اپنی بے سر پیر کی نہیں ہانک سکتے جنھوں نے کتاب کا مطالعہ کیا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قبیل کے لوگ فی زمانہ کم ہی پائے جاتے ہیں۔

اِس بار کی نمائش میں کرشنن کا شاندار تھری پیس سوٹ اور گلے میں آر۔آر۔ انٹرنیشنل کا شناختی کارڈ ہر اسٹال پر موجود لوگوں کوچونکا دیتا تھا۔ نمائش کی اِفتتاحی تقریب میں ترشول کے مصنف اور کتاب کے حوالے سے تذکرے نے آر۔آر۔ انٹرنیشنل کو مشہور کر دیا تھا۔ حال یہ تھا کہ وہ اگر کسی اسٹال پر کوئی کتاب یوں ہی اُٹھاتا، تب بھی اس کے حریف ناشرین اسے کتاب ہدیہ دے دیتے اور انکار کرنا اِس کے لئے مشکل ہو جاتا۔ ویسے اپنی پسند کی ہر کتاب خریدنے کی اجازت اسے سنجے گڈوانی کے جائیگوپبلشرز کی جانب سے تھی، جس کا وہ ریجنل منیجر تھا۔ اُسے کتابیں خریدنے کے لئے اپنی جیب سے خرچ کرنے کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ ایسے میں اس نے اپنے نوکروں کے تووسط سے کئی کتابیں خرید لی تھیں اور بے شمار تحائف بھی جمع ہو گئے تھے۔ لیکن اُسے یقین تھا کہ اس نئی  مصروف زندگی میں ان کتابوں سے استفادہ کا وقت کم ہی ملے گا۔ گزشتہ آٹھ ماہ کا عرصہ بے حد مشغولیت کی نذر ہو گیا تھا اور آثار ایسے تھے کہ آئندہ مصروفیت میں اضافہ ہی ہو گا۔

کرشنن کبھی کبھی سوچتا تھا کہ کاش یہ کتابیں اُس زمانے میں ملتیں جب اسے دن بھر میں تین چار بار دروازہ کھولنے اور بند کرنے کے علاوہ کوئی اور کام نہ ہوتا تھا۔ وقت گزاری اس کے لئے بڑا مسئلہ ہوتا تھا۔لیکن اِس وقت اُس کا وقت بے قیمت تھا۔ وہ اسے ضائع کرتا تھا بلکہ ضائع کرنے کے لئے مجبور تھا۔ اس لئے کہ وقت کے استعمال کی قیمت چکانے کی خاطر بھی اس کے جیب میں رقم نہ ہوتی تھی۔ انسان کے ساتھ یہی ہوتا ہے کہ جب اس کے پاس چنے ہوتے ہیں دانت نہیں ہوتے اور جب دانت نکل آتے ہیں تو چنے نہ جانے کہاں غائب ہو جاتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں اس کی بھوک باقی رہتی ہے۔ چنوں کی موجودگی اس کی بھوک کو گھٹانے کی بجائے بڑھا دیتی ہے اور اس طرح بڑھاتی جاتی ہے کہ قبر کی مٹی ہی اس بھوک کا مداوا کر سکے۔

خلیج کا علاقہ دراصل ایک بہت بڑا قبرستان ہے جس میں ہزاروں لاشیں منوں ٹن مٹی میں دبی سانسیں لیتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ اُن پر مزید مٹی کا بوجھ لاد دیا جائے۔ وہ زمین میں سرنگ لگا کر نیچے ہی نیچے اُترتی چلی جاتی ہیں تاکہ اس میں دفن خزانوں کو تیل کی شکل میں باہر نکال سکیں۔ لیکن یہ تیل اُن کی پیاس نہیں بجھاتا بلکہ اور بڑھا دیتا ہے۔ وہ گلے گلے تک اِس تیل میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ بس ناک کو اُوپر نکال کر کسی طرح سانس لے رہے ہیں تاکہ زندہ رہ سکیں۔ اس کے باوجود وہ اس تیل کے اندھے اور گہرے کنویں سے باہر آنا نہیں چاہتے۔ نہ جانے کیا بات ہے اس کالے سونے میں کہ اس کی چمک دمک سے آنکھیں سیراب ہی نہیں ہوتیں۔ انسان اسی میں غوطے لگاتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ ڈوب کر مر جاتا ہے اور پھر اس کے تیل سے کنویں کی پیاس بجھ جاتی ہے۔۔ اس میں چند قطرات کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تیل کے کنویں کبھی نہیں سوکھتے کہ اس میں انسانوں کا تیل نکل کر ملتا جاتا ہے۔

کرشنن ہر رو ز کئی لوگوں سے ملتا، اُنہیں اپنا تجارتی کارڈ دیتا اور ان سے کارڈ لے کر رکھ لیتا۔ نہ جانے کب کس کی ضرورت پیش آ جائے ؟ کب کس سے کام پڑ جائے۔ یہ بھی ایک نئی بیماری تھی، قونصل خانے کی ملازمت کے دوران جب اس کی ملاقات کسی سے ہوتی تو اس کے ذہن میں یہ دو سوال کبھی بھی نہ آتے تھے۔ اس لئے کہ وہ اپنی ملازمت  پر قانع تھا۔ نہ اس کو کسی کی ضرورت اور کسی کو اس سے کام؟ پہلے تو وہ لوگوں سے یو ں ہی بلا مطلب مل لیا کرتا تھا۔ لیکن آجکل وہ جس سے بھی ملتا، اس کے بارے میں سوچتا کہ یہ شخص کس طرح میرے کاروبار میں مفید ہو سکتا تھا۔ کرشنن کا نقطۂ نظر بدلتا جا رہا تھا۔ وہ افراد کی اہمیت کو ان کی تجارتی افادیت کی بنیاد پر طے کرنے لگا تھا۔

کرشنن لوگوں کے ساتھ ساتھ خود اپنے بارے میں بھی سنجیدہ ہو چکا تھا۔ دراصل وہ اپنے بارے میں آج کل کچھ زیادہ ہی سوچنے لگا۔ لیکن اس تمام سوچ بچار کے باوجود وہ اپنے آپ سے اُسی قدر بے بہرہ تھا جیساکہ اس زمانے میں تھا جبکہ وہ بالکل بے فکر تھا۔ اس لئے کہ غلط سمت میں طے ہونے والے فاصلے انسان کو منزل کے قریب نہیں کرتے ، باوجود اس کے کہ سفر جاری رہتا ہے۔ لیکن منزل سے دُوری برقرار رہتی ہے ، بلکہ اگر سمت متضاد ہو تو منزل سے فاصلے میں اضافہ بھی ہو جاتا ہے۔ اس لئے سفر میں رفتار اور سمت سفر دونوں کی یکساں اہمیت ہوتی ہے۔ نیز، اس سفر کی ایک اور اہم خصوصیت یہ ہے کہ جس طرح سمت کا نرا شعور انسان کو اپنی منزل سے ہمکنار نہیں کرتا، اُسی طرح بغیر شعور کے ہونے والا سفر بھی انسان کے منزل سے دُور ہی رکھتا ہے۔ کرشنن کو ٹھہری ہوئی زندگی میں ہلچل ضرور ہوئی تھی، راستہ اس کے قدموں کے نیچے بڑی تیزی سے دوڑ نے لگا تھا۔ لیکن اس کا رُخ کس سمت تھا؟ وہ نہیں جانتا تھا۔

کرشنن سوچتا تھا کہ اس بگ ٹٹ دوڑ میں راستہ منتخب کرنے کا اختیار اُسے نہیں ہے۔ اس لئے اسے راستہ کی سمت کا خیال اپنے دل سے نکال دینا چاہئے۔ لیکن یہ اس کی عظیم غلط فہمی تھی۔ راستے کی سمت اس کے چہر ے کے مخالف جانب اپنے آپ ہو جاتی تھی۔ لیکن اپنے چہرے کی سمت بدلنے کا اُسے مکمل اختیار تھا۔ وہ اگر اپنے چہرے کو مغرب کے بجائے مشرق کی جانب کر لے تو راستہ بھی مشرق کے بجائے مغرب کی جانب دوڑنے لگتا تھا۔ آزادی و اختیار کی نعمت سے نامانوس کرشنن کبھی کسی سمت چہرہ کرتا کبھی کسی سمت، بلا شعور وہ اپنا رُخ بدلتا اور راستہ بھی  اپنا رُخ بدل دیتا۔ لیکن ان بے مقصد تبدیلیوں سے اُسے کوئی فائدہ نہیں ہو رہا تھا۔

انسان کی منزل راستے پر نصب ہے ، راستے کی رفتار قضا وہ قدر نے طے کر رکھی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس رفتار کو انسان بدل نہیں سکتا، اُسے بدلنے کی خاطر وہ اپنا سارا زور صرف کر دیتا ہے۔ اِس کے برعکس رُخ متعین کرنے کی جو آزادی اُسے حاصل ہے ، وہ اُسے استعمال ہی نہیں کرتا۔ انسان کا بنیادی کام تو صرف اپنے رُخ کو منزل کی جانب کرنا ہے اور ثابت قدمی کے ساتھ اس راہ پر جمے رہنا ہے۔ منزل خود آگے بڑھ کر اس کے قدم چوم لیتی ہے۔ لیکن اس شخص کی بدقسمتی کا کیا ٹھکانہ جو منزل کی جانب پیٹھ پھیر کر کھڑا ہو جائے۔ ایسے شخص پر قدرت کو رحم نہیں آتا! اس کو راستہ اپنی منزل سے بہت دُور لے جا کر پھینک دیتا ہے اور اکثر لوگوں کے ساتھ یہی ہوتا ہے۔ وہ اس کے لئے راستہ کو موردِ الزام ٹھہرا تے ہیں۔ مگر اپنے انجام کے لئے وہ خود صد فیصد ذمہ دار ہوتے ہیں۔ نہ کہ راستہ یا منزل! چونکہ مسافر اپنی منزل منتخب کرنے کے لئے مکمل طور پر آزاد ہے ، وہ اپنے انجام کا ذمہ دار بھی ہے۔

نمائش کے دوران کرشنن کی ملاقات سنیل گڈوانی کے ایک دیرینہ دوست سنجے جوشی سے ہو گئی جو اَب امریکہ میں ایک بڑی کتابوں کی کمپنی کا مالک بن گیا تھا اور دبئی میں بھی اپنی شاخ قائم کرنا چاہتا تھا۔ کرشنن نے اِس بات کا ذکر سنیل سے کیا تو وہ بہت خوش ہوا اور کرشنن سے کہا کہ وہ فوراً سنیل کی تفصیلات، فون نمبر وغیرہ اُسے  بھیجے ، تاکہ اس سے رابطہ کیا جا سکے۔ دراصل سنیل امریکہ میں اپنا کاروبار پھیلانے  کا خواہشمند تھا۔ کرشنن کے پاس کارڈز کی جو گڈی تھی، اس میں سنجے کا کارڈ تلاش کرنا  ایک مشکل کام تھا۔ لیکن وہ سنیل کے مزاج سے اچھی طرح واقف تھا۔ اُس کے ذ ہن میں کوئی چیز گھس گئی تو گھس گئی۔ اگر دوسری صبح تک اس نے فون نمبر اور دیگر تفصیلات نہیں پہنچائیں تو اُسے کوئی نہ کوئی جھوٹا بہانہ بنانا پڑے گا۔ اس سے بہتر یہی  ہے کہ وہ یاددہانی سے پہلے ہی اس کہانی کو ختم کر دے۔

اتفاق سے کرشنن  نے ایک ایک کارڈ تلاش کر ڈالا۔ لیکن سنجے کے کارڈ کو نہ ملنا تھا، سو نہیں ملا۔ یہاں تک کہ اس نے میز کی دراز کو باہر نکال کر اُلٹ دیا۔ ایسا کرنے پر بھی کارڈ تو نہیں لیکن اس کی پرانی ٹیلیفون ڈائری۔۔ جو کسی کونے میں دبی ہوئی تھی، باہر نکل آئی۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب وہ نیا نیا ابوظبی آیا تھا اور ابھی موبائل کا چلن بہت زیادہ عام نہیں ہوا تھا۔ لوگ حروف تہجی کے لحاظ سے فون نمبر اپنی ڈائری میں لکھا کرتے تھے۔ وہ بھی کیا زمانہ تھا! کرشنن کو ہنسی آ گئی۔  اس نے بڑے پیار سے ڈائری کو اُٹھایا اور اُسے اُلٹنے پلٹنے لگا۔ گویا ان لمحات کو اُلٹ پلٹ رہا ہو جنھیں اس نے زندگی کی شاہراہ پر بہت پیچھے چھوڑ دیا تھا۔

اس قدیم ڈائری میں پہلے صفحہ پر دو نام اور نمبر لکھے تھے۔ سب سے اُوپر اس کا اپنا نام اور اس کے نیچے محمد کویا کا نام۔ محمد کویا۔۔ اس کا یارِ غار۔۔ جس سے اس کی ملاقات کالی کٹ سے آنے والے ٹرین میں ہو گئی تھی۔ ممبئی آتے آتے دو راتوں اور ایک دن کے سفر نے انہیں اچھا دوست بنا دیا تھا اور ایسا ہونا ایک فطری امر تھا۔ دونوں ہم زبان تھے ، ہم عمر تھے۔ دونوں بے روزگار تھے اور ملازمت کی تلاش میں سیاحتی (وزٹ) ویزا پر ابوظبی جا رہے تھے۔ یہ حسنِ اتفاق تھا کہ نیتراوتی ایکسپریس میں دونوں کی برتھ آمنے سامنے تھیں۔

اُس زمانے میں کیرالا کے اندر کوئی بین الاقوامی ہوائی اڈہ نہیں پایا جاتا تھا۔ سارے ملیالی ٹرینوں یا بسوں کے ذریعہ پہلے ممبئی آتے۔۔ گویا چھتیس سے چالیس گھنٹوں کا طویل سفر ممبئی پہونچنے کے لئے کرتے تھے اور پھر ایک چھلانگ لگا کر تین گھنٹوں میں خلیج کے ممالک میں پہنچ جاتے تھے۔ اسی لئے ان کو خلیج کے ممالک کا فاصلہ بہت کم محسوس ہوتا تھا۔ کئی مرتبہ ممبئی میں وکٹوریہ ٹرمینس سے سہارا ایئرپورٹ تک پہنچنے کے لئے دو ڈھائی گھنٹے لگ جاتے تھے اور سہارا سے دبئی کا فاصلہ بھی تقریباً اِتنی ہی مدّت میں طے ہو جاتا تھا۔ فاصلے کا فرق ضرور تھا لیکن رفتار کے فرق نے اُسے نگل لیا تھا۔

راستہ بھر یہ دونوں مستقبل کے سپنے سجاتے رہے۔ کہاں جائیں گے ؟ اور ملازمت کے بعد کن مراحل سے گزرنا پڑے گا؟ یہی دونوں کی گفتگو کا واحد موضوع تھا۔ جو مشورے لوگوں نے انہیں دیئے تھے ، وہ دونوں ایک دوسرے کو ان میں شریک کرتے جاتے تھے۔ اس طرح وقت بھی گزر رہا تھا اور مستقبل کی منصوبہ بندی بھی ہو رہی تھی۔ ابوظبی میں دونوں کے دُور کے رشتہ دار پہلے ہی سے مقیم تھے۔ اُن لوگوں کو اپنے رشتہ داروں کے گھر پر رہ کر ملازمت تلاش کرنی تھی، ابوظبی آنے تک وہ اس فیصلے پر پہنچ چکے تھے کہ انہیں ایک دوسرے کے ساتھ رہنا چاہئے۔

محمد کویا ایک نجی مدرسہ میں عربی زبان کا مدرّس تھا اور کرشنن کالج میں لائبریرین۔ دونوں کو پتہ تھا کہ ایک تو کیرالا میں ملازمت آسانی سے ملتی نہیں ہے ، اور دوسرے اس کے لئے لاکھوں روپئے پیشگی رشوت کے طور پر دینی پڑتی ہے۔ اس لئے ان لوگوں نے رشوت دینے کے بجائے اپنی جمع پونجی کو وِزٹ ویزا خریدنے میں صرف کر دیا تھا۔ دونوں نے ویزے اور ٹکٹ وغیرہ پر خطیر رقم خرچ کی تھی اور دس ہزار روپئے نقد اپنے ساتھ لے کر چلے تھے ، تاکہ ملازمت کے ملنے تک کام چلایا جا سکے۔ ان لوگوں کے باہمی مشورے سے یہ بھی طے کیا کہ دونوں ایک دوسرے کی رہائش کو دیکھیں گے اور فیصلہ کریں گے کہ کہاں ٹھہرا جائے۔ محمد کویا کے رشتہ دار دُکانوں اور ہوٹلوں میں کام کرتے تھے۔

کرشنن کا چچازاد بھائی سو کمار یہاں تیل کمپنی اڈنوک میں ملازمت کرتا تھا۔ ابھی اس کا خاندان ابوظبی سے آیا نہ تھا، اس لئے اِن دونوں نے وہیں رہنے کا فیصلہ کر لیا۔ آپس میں یہ بات طے ہو گئی ہے کہ جب تک ملازمت نہیں ملتی، اُس وقت تک کرایہ ادا نہیں کیا جائے گا اور جیسے ہی وہ برسرِ روزگار ہو جائیں گے ، اُن میں سے ہر ایک چھ سو درہم ماہانہ کرایہ ادا کرنے لگے گا اور ابتدائی دنوں کا قرض بھی چکا دے گا۔ گھر کشادہ تھا اور شرائط معقول، اس لئے دونوں دوست سو کمار کے مکان میں ایک ساتھ رہنے لگے اور ملازمت کی تلاش میں جٹ گئے۔

 

 

 

 

تلاشِ معاش

 

 

 

محمد کویا ایک نہایت قابل ٹیچر تھا لیکن اس کے سامنے دِقت یہ تھی کہ اُس کے پاس شعبۂ تعلیم کی سند بی۔ایڈ نہیں تھی اور حکومت امارات کے نئے قوانین کے تحت بغیر بی۔ایڈ کے ٹیچر کا ویزا اسٹامپ ہی نہ ہوتا تھا۔ اس لئے استاذ کی ملازمت ناممکن تھی۔ کرشنن کے لئے مشکل یہ تھی کہ یہاں بازار اور دفاتر تو بے شمار تھے ، لیکن کتب خانے نہیں کے برابر تھے ، اور جو تھے بھی اُنہیں سرکار چلاتی تھی۔ عوام کو مطالعہ میں دلچسپی نہیں تھی، اِس لئے اکثر لائبریریوں میں ویرانی سی چھائی رہتی تھی۔ چونکہ لوگوں کا آنا جانا بہت کم تھا، اس لئے ملازمین بیٹھے مکھی مارتے رہتے تھے۔ اِسی صورتحال کے پیشِ نظر غالباً حکومت نے ان عہدوں کو مواطن کے لئے مخصوص کر دیا تھا۔ اپنے کام کو متاثر کئے بغیر مقامی باشندوں کو ملازمت میں رکھنے کی حکمتِ عملی کا یہ ایک حصہ تھا۔

بہت جلد دونوں دوست اس نتیجہ پر پہنچ گئے کہ ہندوستان والا پیشہ انہیں ہندوستان ہی میں میسر آئے گا اور اس وقت ہندوستان واپس جانے کے موڈ میں وہ دونوں نہیں تھے۔ اس لئے اُن لوگوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے پیشہ پر اصرار نہیں کریں گے۔ وقتی طور پر جو بھی ملازمت مل جائے ، اُسے قبول کر لیں گے۔ پھر آگے دیکھی جائے گی۔ ملازمت کی تلاش کے لئے وہ پہلے اپنے شناساؤں سے ملاقات کرتے اور پھر اُن کے توسط سے اُن کے جان پہچان والوں تک پہنچ جاتے۔

اُن دونوں کا معمول یہ تھا کہ دونوں صبح صبح اخبارات میں ملازمت کا صفحہ دیکھتے اور ایک ساتھ ملازمت تلاش کرنے کے لئے نکل جاتے اور شام میں ساتھ ساتھ ناکام و نامراد لوٹ آتے۔ وِزٹ ویزا کی مدت دو ماہ کی تھی۔ جیسے جیسے اُس کے خاتمے کی تاریخ قریب آتی جاتی، اُن دونوں کی لاحق فکر میں اضافہ ہوتا جاتا۔ ساتواں ہفتہ آتے آتے جیب خرچ کی رقم بھی ختم ہونے لگی تھی۔ یہاں ابوظبی میں کھانے پینے کے علاوہ مختلف ملازمتوں کے لحاظ سے نیا نیا سی۔وی۔ بنانا پڑتا تھا۔ اس کے علاوہ آمدورفت پر کافی خرچ ہوتا تھا۔ اس روز انہیں سیون اسٹار نامی ایک ہوٹل میں انٹرویو کے لئے جانا تھا۔ یہ ایک چھوٹا سا ریسٹورنٹ تھا جس میں کل سات میزیں اور اُن کے اطراف تقریباً تیس ٹوٹی پھوٹی کرسیاں تھیں۔ جنھیں قریب قریب بے ترتیبی کے ساتھ بچھا دیا گیا تھا۔ اسی لئے غالباً اس کا نام سیون اسٹار تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس کے اندر اسٹار تو کیا، لالٹین بھی صحیح سلامت حالت میں نہیں تھی۔ انٹرویو کے دوران اُنہیں پتہ چلا کہ اسامی صرف ایک ہے۔ گویا ایک انار اور دو بیمار والی کیفیت۔ نیز اس بات کا بھی قوی امکان تھا کہ یہ انار اس بار بھی کسی تیسرے کی بھوک مٹائے۔

انٹرویو کے لئے پہلے کرشنن کی باری آئی اور اس سے پوچھا گیا کہ کیا اُسے ہوٹل میں کام کرنے کا تجربہ ہے ؟ کرشنن نے صاف بتلا دیا کہ نہیں ، وہ تو لائبریرین تھا، اُسے لائبریری چلانے کا تجربہ ضرور ہے۔ کرشنن کو اپنی صاف گوئی کی قرارِ واقعی سزا ملی اور اس کی درخواست کو نا تجربہ کاری کے الاؤ میں جھونک دیا گیا۔ اس لئے کہ مالکِ مطعم کے مطابق کتابیں پڑھانے اور کھانا کھلانے میں بڑا فرق ہے۔ کرشنن کے بعد جب وہی سوال محمد کویا سے کیا گیا تو وہ بولا۔

’’جی ہاں ! بے شک مجھے ہوٹل میں کھانے کا بڑا وسیع تجربہ ہے۔ میں اسکول کے بعد کالج کی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے کالی کٹ آ گیا تھا اور پھر اس کے بعد چینائی چلا گیا۔ اِس دوران میرا گزارا ہوٹل پر ہی ہوتا رہا تھا۔‘‘

’’ہوٹل میں کھانے اور کھلانے میں فرق ہے۔‘‘ مالک بولا۔

محمد کویا نے جواب دیا۔ ’’اس میں کوئی بنیادی فرق تو ہے نہیں؟ اور جناب اس سے کیا فرق ہے ؟ جیسے مجھ کو کھانا کھلایا جاتا رہا ہے ، ویسا ہی بلکہ اس سے زیادہ اچھی طرح میں کھلاؤں گا اور میرے غیر تجربہ کار ہونے کے کئی فائدے آپ ہی کو ہوں گے۔‘‘

مالک کو اِس دلیل پر ہنسی آ گئی۔ اُس نے پوچھا۔ ’’مجھے فائدہ؟ وہ کیسے ؟‘‘

’’میں چونکہ اِس میدان میں نیا نیا ہوں ، خوب جوش و خروش کے ساتھ محنت اور لگن سے کام کروں گا۔ کسی ضروری بلکہ غیر ضروری کام سے بھی اِنکار نہیں کروں گا اور آپ کو کبھی مجھ سے یہ احمقانہ حجت سننے کو نہ ملے گی کہ پہلے جہاں میں کام کرتا تھا وہاں یہ کام ایسے ہوتا تھا،چونکہ میں نے کہیں کام ہی نہیں کیا۔ اس لئے حوالہ دینے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔‘‘ محمد کویا  پٹر پٹر بول رہا تھا، اپنی نا تجربہ کاری کی پردہ پوشی اور خوداعتمادی کا ا ظہار کرنے کے لئے اس کے پاس یہی ایک چارۂ کار تھا۔

ہوٹل کے مالک نے پوچھا۔ ’’تم ہوٹل کے سب کام کرو گے ؟ کیا تم جانتے یہاں کیا کیا کام ہوتا ہے ؟‘‘

محمد کویا کے لئے یہ مشکل سوال تھا، لیکن اس نے سوچا ٹھیک ہے جو کچھ گھر پر کھانے بنانے اور کھانے کے لئے ہوتا ہے ، وہی سب بتا دیا جائے۔ وہ بولا۔ ’’جی ہاں جناب! جانتا ہوں۔ پہلے تو کھانا بنانے کا سامان خریدا جاتا ہے۔ پھر جب وہ آ جائے تو اس کو جانچا اور پرکھا جاتا ہے ، اس کے بعد اسے صاف کیا جاتا ہے ، کاٹا جاتا ہے ، پکایا جاتا ہے ، نکالا جاتا ہے ، گاہکوں سے اُن کا آرڈر لے کر ادب کے ساتھ اُن کے سامنے پروس دیا جاتا ہے ، مفت میں اُنہیں پانی اور سلاد دے کر خوش کیا جاتا ہے اور بالآخر ان سے پیسے لئے جاتے ہیں۔ پلیٹوں کو اُٹھایا جاتا ہے ، میز کو صاف کیا جاتا ہے ، برتنوں کو دھویا جاتا ہے اور پھر ہوٹل کو صاف ستھرا کر کے اگلے دن کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔‘‘

ہوٹل کا مالک محمد کویا کے جواب سے خوش ہوا۔ حالانکہ یہ جواب صرف اور صرف عام معلومات (کامن سینس) پر مبنی تھا۔ وہ بولا۔ ’’تم نام تو سب کاموں کے جانتے ہو لیکن کون کون سے کام کرسکتے ہو؟‘‘

محمد کویا نے بغیر کسی تاخیر کے کہا۔ ’’کھانا بنانے کے علاوہ آپ جو کام بتلائیں گے ، میں بجلی کی سرعت سے کر دوں گا۔‘‘ اس جواب نے محمد کویا کی نوکری پکی کر دی۔

ہوٹل کے مالک نے پوچھا۔ ’’اچھا یہ بتلاؤ کہ تم کون سا کام سب سے زیادہ حسن و خوبی سے کرسکتے ہو؟‘‘

محمد کویا ایک لمحہ کے لئے رُکا، پھر بولا۔ ’’جناب اس کا فیصلہ آپ کریں۔‘‘

’’اگر میں تمہیں برتن دھونے کے کام پر بٹھا دوں تو؟‘‘

کویا بولا۔ ’’زہے نصیب۔‘‘

ہوٹل کا مالک خوش ہو گیا، وہ بولا۔ ’’دیکھو اگلے ہفتے سے ہمارا ایک ویٹر سلیم کارکنو چار ماہ کی چھٹی پر جانے والا ہے۔ تم اُسی وقت آ جانا۔‘‘

محمد کویا بولا۔ ’’اگلے ہفتہ سے کیوں؟ کل سے کیوں نہیں؟‘‘

ہوٹل کے مالک نے کہا۔ ’’میں ایک کام کے لئے دو لوگوں کو تنخواہ نہیں دے سکتا۔‘‘

محمد کویا بولا۔ ’’آپ مجھے نوکری پر کل سے رکھ لیجئے اور تنخواہ ایک ہفتہ کے بعد سے دیجئے۔ ویسے بھی میں گھر پر بیٹھے بیٹھے اُکتا گیا ہوں۔ یہاں آؤں گا تو وقت بھی گزرے گا اور آپ کے۔۔ میرا مطلب ہے ہمارے ہوٹل کے طور طریقوں سے بھی واقفیت ہو جائے گی۔۔ میرا مطلب ہے ٹریننگ ہو جائے گی۔‘‘

محمد کویا اس پیش کش پر ہوٹل کا مالک پگھل گیا۔ اُسے محمد کویا کی تربیت کے بجائے اپنے ہوٹل والی بات بہت پسند آئی۔ اس نے دل ہی دل میں فیصلہ کر لیا کہ اگر وہ کل سے آتا ہے تو اس کی تنخواہ کل سے جاری ہو جائے گی۔ کسی غریب سے محنت کروانے کے بعد اُسے معاوضے سے محروم رکھنا حرام ہے ، بلکہ گناہِ عظیم ہے۔ انٹرویو طویل سے طویل تر ہوتا جا رہا تھا۔ کرشنن باہر بیٹھے بیٹھے بور ہو گیا تو اُٹھ کر گھر چلا آیا، تاکہ آرام کر سکے۔ لیکن گھر آنے کے بعد بھی نیند آنکھوں سے ندارد تھی۔ وہ محمد کویا کے بارے میں جاننے کے لئے بے چین تھا۔ ویسے بھی آج کا انٹرویو طویل ترین انٹرویو تھا۔ اُسے یقین ہو چلا تھا کہ محمد کویا کو ملازمت مل ہی گئی۔ وہ بے چینی سے محمد کویا کا منتظر تھا۔ مگر اس کا ماموں زاد بھائی آ دھمکا۔ خیریت و عافیت کے بعد سوکمار نے پوچھا۔ ’’کرشنن تمہاری ملازمت کا کیا حال ہے ؟‘‘

’’ابھی تک کامیابی نہیں ہوئی۔ لیکن اُمید ہے جلد ہی ہو جائے گی۔‘‘

’’لیکن تمہارے ویزا کی مدّت؟ سو کمار نے پوچھا۔

کرشنن نے بتلایا۔ ’’وہ تو آئندہ ہفتے ختم ہو جائے گا اور اس کی تجدید کرانی ہو گی۔‘‘

’’لیکن اس کے لئے تو اچھی خاصی فیس درکار ہے۔ تقریباً ایک ہزار درہم؟‘‘

’’جی ہاں ! میں جانتا ہوں۔‘‘ کرشنن بولا۔

’’تو پھر کیا تم نے اُس رقم کا انتظام کر لیا ہے ؟‘‘

’’جی نہیں۔‘‘ کرشنن کا جواب تھا۔

’’تب کیا کرو گے ؟‘‘

کرشنن بولا۔ ’’اس اجنبی شہر میں میرے صرف دو جاننے والے ہیں۔ ایک تم اور دوسرا محمد کویا۔ محمد تو میری ہی طرح بے روزگار ہے ، ایسے میں تمہارے علاوہ میرا کون ہے ؟‘‘

سوکمار نے کہا۔ ’’دیکھو کرشنن! ایک ہزار درہم کی رقم کوئی معمولی رقم نہیں ہوتی اور ویسے بھی اس کی کوئی گارنٹی نہیں کہ اس ایک مہینے میں تمہیں ملازمت مل جائے۔ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ ایک ہزار درہم بھی خرچ ہو جائیں اور اس کے باوجود تمہیں واپس جانا پڑے۔‘‘

کرشنن کا دل بیٹھ گیا، وہ بولا۔ ’’جی ہاں یہ بھی ہوسکتا ہے۔‘‘

سوکمار بولا۔ ’’اگر ایسا ہو گیا تو پھر تم یہ ایک ہزار درہم کہاں سے ادا کرو گے ؟‘‘

کرشنن کے پاس اِس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ خاموش رہا تو سوکمار بولا۔ ’’دیکھو کرشنن! ایک بھائی کی حیثیت سے میں جو کچھ تمہارے ساتھ کر سکتا تھا، کر چکا۔ میں نے ابتدائی طور پر تمہیں رہنے کی جگہ اور دیگر سہولیات فراہم کیں ، اس لئے کہ تم نئے تھے۔ اب خاصے پُرانے ہو گئے ہو۔ اس لئے اب میرا خیال ہے کہ تمہیں آگے کے انتظامات خود کرنے چاہئیں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ صرف مجھ پر ہی انحصار کرنا تمہارے کام میں نہیں آئے گا۔‘‘

کرشنن کی کشتی منجدھار میں ڈوب رہی تھی۔ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا کہ اس نازک وقت میں اس کا ناخدا خود لائف بوٹ میں بیٹھ کر فرار ہو رہا ہے۔ اب وہ ہے اور اس کی کشتی ہے اور سمندر کی لہریں ہیں جو تاحد نظر پھیلی ہوئی ہیں۔ کالے ناگ جیسی اُونچی اُونچی دیو ہیکل لہریں اُسے نگلنے کی خاطر منہ کھولے اُس کی جانب بڑھ رہی ہیں۔ کرشنن منہ لٹکا کر بیٹھ گیا اور سوکمار منہ اُٹھا کر چلا گیا۔

کرشنن اسی اُدھیڑبن میں بیٹھا تھا کہ اُسے زور سے آواز آئی۔

’’السلام علیکم!‘‘

یہ محمد کویا تھا۔ اُس کا طریقہ یہ تھا کہ جب بھی گھر میں داخل ہوتا بآواز بلند سلام کرتا۔ اگر گھر میں کوئی نہ بھی ہوتا تو تب بھی سلامتی کے کلمات اُس کی زبان سے بے ساختہ ادا ہو جاتے۔ آج اس کی آواز میں جوش کچھ زیادہ ہی تھا۔ کرشنن سمجھ گیا لیکن سوکمار کی گفتگو کا اثر اُس پر اِس قدر زیادہ تھا کہ وہ گرم جوشی سے جواب نہ دے سکا۔ محمد کویا اندر آیا اور بولا۔

’’کرشنن۔۔ آج تمہاری دعوت ہے۔۔ الا ابراہیمی ہوٹل میں۔ تمہیں یاد ہے ہم لوگوں نے آپس میں طے کیا تھا کہ جسے پہلے ملازمت ملے گی وہ الابراہیمی میں کھانا کھلائے گا؟ تو چل آج میں تجھے کھانا کھلاؤں گا۔ مجھے سیون اسٹار ہوٹل میں نوکری مل گئی ہے۔‘‘

سیون اسٹار ہوٹل کرشنن نے دیکھا ہوا تھا، اِس لئے اُسے کوئی تعجب نہیں ہوا۔ صرف افسوس اِس بات کا تھا کہ تجربہ سے محروم تو دونوں تھے ، پھر ایسا کیوں کر ہو گیا کہ ایک کامیاب اور دوسرا ناکام؟ کرشنن نے آگے بڑھ کر اُس سے مصافحہ کیا اور اُسے مبارکباد دی اور پھر اُسی کرسی پر بیٹھ گیا جس پر پہلے سے بیٹھا ہوا تھا۔ لیکن اس بار اُس کے سامنے والی کرسی پر سوکمار کے بجائے محمد کویا بیٹھا ہوا تھا۔ کرشنن پھر اپنے خیالوں میں کھو گیا۔۔ بے سروسامان ہندوستان جانے کا تصوّر کس قدر خوفناک تھا؟ مسئلہ صرف روپیوں کا نہیں تھا، لیکن روپیوں سے بڑھ کر تھی ناکامی۔۔ انسان ناکام ہو کر بھی ناکام کہلانا نہیں چاہتا۔ وہ اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنا چاہتا ہے ، لیکن ایسے میں واپس جا کر یہ کام کس قدر مشکل تھا۔ وہ اِسی سوچ میں ڈوبا ہوا تھا کہ محمد نے کہا۔ ’’کیوں کرشنن۔۔ کیا سوچ رہے ہو؟‘‘

کرشنن بولا۔ ’’کچھ بھی نہیں دوست! میں سوچ رہا ہوں کہ ایئرلائنز کے دفتر میں جا کر ایک ہفتے کے بعد کی ٹکٹ کنفرم کروا لوں۔‘‘

’’کیوں؟ خیریت تو ہے ؟‘‘

’’ہاں

’’ہاں۔۔ فی الحال تو خیریت ہے۔ لیکن اگر ویزا کے خاتمے پر ہوائی جہاز میں نشست نہ مل سکی تو گھر کے بجائے جیل جانا پڑے گا۔ ویسے بھی آج کل بچوں کے امتحانات ختم ہو رہے ہیں۔ تمام فلائٹ فل چل رہی ہیں۔‘‘

محمد کا دماغ کرشنن کی بات سُن کر سُن ہو گیا۔۔ ناکام و نامراد واپس جانا! اُس نے سوچا۔۔ اگر اُسے آج نوکری نہ ملی ہوتی تو اُس کی بھی وہی کیفیت ہوتی۔ وہ بولا۔ ’’کرشنن لیکن ابھی تو تمہیں نوکری نہیں ملی؟ تم کیسے جا سکتے ہو؟‘‘

’’ہر دو صورت میں واپس جانا ہوتا ہے۔ چاہے بے روزگار ہو یا برسررِوزگار۔‘‘

’’لیکن واپس جا کر تم کیا کرو گے ؟‘‘

’’وہی کروں گا جو آنے سے پہلے کرتا تھا۔‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

’’ملازمت تلاش کروں گا اور پھر یہاں بھی تو یہی کر رہا ہوں۔ اس لئے یہ سمجھ لو کہ وہی کروں گا جو یہاں کرتا ہوں۔‘‘

کرشنن نہا یت معروضی دلائل پیش کر رہا تھا، جن کو تسلیم کئے بغیر محمد کویا کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ لیکن اس کے باوجود اس کا دل کہہ رہا تھا کہ یہ سب غلط ہے۔ محمد کویا کا دل کرشنن کی عقل سے مطابقت نہیں کر پا رہا تھا۔

وہ بولا۔ ’’دیکھو کرشنن! گھر تو ہم سب کو جانا ہے اور ہم سب جائیں گے ان شاء اللہ۔۔ لیکن جلدی کس بات کی ہے ؟ تھوڑا اور رُک جاؤ۔ مجھے یقین ہے تمہیں جلدی ہی نوکری مل جائے گی۔ میرا دِل کہتا ہے کہ تم مدیر۔۔ میرا مطلب ہے منیجر بنو گے۔ تم پڑھے لکھے آدمی ہو، تمہاری قدردانی یہیں ہو گی۔ اُس ملک میں نہیں جہاں سے ہم آئے ہیں۔ میری مانو تم ابھی نہیں جاؤ۔‘‘

’’میرے دوست محمد۔۔ میں تمہارے جذبات کی قدر کرتا ہوں۔ لیکن دُنیا جذبات سے نہیں ، قانون و ضابطہ سے چلتی ہے۔ ویسے میں اگر تمہاری بات مان بھی لوں تب بھی یہاں کا قانون مجھے رُکنے کی اجازت نہیں دے گا اور اگر میں اس کی نہیں مانوں گا تو وہ مجھے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دے گا۔‘‘

’’جیل۔۔ جیل؟ یہ کیا تم نے جیل کی رٹ لگا رکھی ہے ؟ سلاخوں کے پیچھے جائیں تمہارے دُشمن!‘‘

’’کیا مطلب؟ تم سوکمار کو جیل بھیجنا چاہتے ہو؟‘‘ کرشنن نے نہایت معصومی سے پوچھا۔

محمد کو ہنسی آ گئی، وہ بولا۔ ’’کرشنن تم کتنا حسین مذاق کر لیتے ہو۔ سوکمار ہمارا دُشمن تھوڑے ہی ہے ! وہ تو ہمارا محسن ہے۔ اس نے ایک ایسی سر زمین پر۔۔ جہاں سخت دھوپ ہوتی ہے ، گرم ہوائیں چلتی ہیں۔۔ ہمیں ائیر کنڈیشن کے نیچے سر چھپانے کی جگہ دی ہے۔ وہ تو ہمارا دوست ہے کرشنن۔‘‘

’’جی ہاں ! وہ ہمارا دوست ہے۔‘‘ کرشنن نے تائید کی۔ ’’لیکن اس دوستی کی مدّتِ کار بھی ویزا کے ساتھ ختم ہونے والی ہے۔‘‘

محمد کویا اب ویزا کے معاملہ میں سنجیدہ ہو گیا، وہ بولا۔ ’’یار میں نے سنا ہے ویزا کی مدّت میں توسیع بھی ہوتی ہے !‘‘

’’تم نے صحیح سنا ہے دوست۔ اِس مایا نگری میں سب کچھ ہوتا ہے ، لیکن اُس کے لئے مال چاہئے۔ ویزا کی توسیع کروانا ہو تو اس کی فیس ہے ، نیا ویزا بنانا ہو تو اُس کی بھی فیس ہے۔ بغیر توسیع کئے رہنا ہے تو اس کا جرمانہ ہے ، جو ہر ہفتے دس گناہ بڑھ جاتا ہے۔ اگر کسی کے پاس مال و دولت کے خزانے ہیں تو اس کے لئے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جس کے پاس روپیہ پیسہ  ہو، وہ اپنا دیس چھوڑ کر اِس صحرا میں آئے ہی کیوں؟ یہاں تو وہی آتا ہے و بے سروسامان ہوتا ہے۔‘‘ کرشنن نے ایک مختصر سی تقریر کر دی۔

محمد بولا۔ ’’ہاں کرشنن۔۔ تم سچ کہتے ہو۔ یہاں آتا تو وہ ضرور ہے جس کے پاس پیسے نہیں ہوتے ، لیکن جو یہاں سے جاتا ہے ، اُس کے ساتھ یہ بات نہیں ہوتی۔ اُس کے پاس روپیہ پیسہ مال و دولت سب ہوتا ہے۔ لوگ یہاں سے جانے والوں کو دیکھتے ہیں ، پھر یہاں آنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اِس اُمید میں کہ وہ بھی کبھی اِسی طرح خوش حال ہو کرواپس جائیں گے۔‘‘

کرشنن نے کہا۔ ’’ہاں۔۔ اِسی اُمید میں میں بھی یہاں آیا تھا۔ لیکن اب اُمید کا وہ چراغ ٹمٹمانے لگا ہے۔ اُمید ہے ایک ہفتہ بعد وہ چراغ بجھ جائے گا۔ یہاں آنے والا ہر شخص کامیاب و کامران ہو کر واپس نہیں جاتا بلکہ کئی لوگ اپنا سب کچھ گنوا کر بھی یہاں سے لوٹتے ہیں۔‘‘

محمد بولا۔ ’’تمہاری بات صحیح ہے۔ لیکن تم بہت دُور نکل گئے ہو، فی الحال ایسا کرتے ہیں کہ تمہارے ویزا کی توسیع کا جگاڑ کرتے ہیں۔ سوکمار کی تنخواہ چالیس ہزار درہم ماہانہ ہے۔ اس سے ایک ہزار درہم قرض لے لیتے ہیں۔ جب تمہیں ملازمت مل جائے تو لوٹا دینا۔‘‘

کرشنن نے کہا۔ ’’میں تو یہ بات نہیں کر سکتا۔‘‘

’’میں سمجھتا ہوں۔‘‘ محمد نے جواب دیا۔ ’’تم نہ سہی۔۔ میں بات کر لوں گا۔ اِن دو مہینوں میں میں بھی اس کا دوست ہو گیا ہوں۔ انسان اپنے لئے بات کرے ، یہ مشکل ہوتا ہے۔ کسی اور کے لئے یہ کام قدرے آسان ہوتا ہے۔‘‘

’’نہیں محمد تم بھی بات نہیں کرو گے۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

بس یونہی۔‘‘

’’نہیں۔۔ میں بات کروں گا۔‘‘ محمد نے اصرار کیا۔

کرشنن بولا۔ ’’دیکھو محمد۔۔ جب کوئی فقیر کسی محلے میں نیا نیا بھیک مانگنے کے لئے آتا ہے تو ہر دروازے کے آگے آواز لگاتا ہے۔ لیکن جب پُرانا ہو جاتا ہے تو اس کی کیفیت بدل جاتی ہے۔ کسی دروازے کے آگے آواز لگا کر وہ رُکا رہتا ہے۔ اس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ اس دروازے سے وہ کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹا اور کسی کے آگے آواز لگا کر دیکھتا ہے۔ اگر آہٹ سنائی دیتی ہے تو رُک جاتا ہے ، ورنہ بنا رُکے چل پڑتا ہے۔ اس لئے کہ یہ دروازہ کبھی کھلتا ہے کبھی نہیں کھلتا، اور کسی دروازے پر آواز لگانے کی زحمت ہی نہیں کرتا۔ اس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ اِس در میں موجود لوگوں کے دلوں پر قفل پڑے ہوئے ہیں ، جو کبھی کھلنے والے نہیں ہیں۔ میرا خیال ہے تمہیں اس اشارے سے بات سمجھ لینی چاہئے۔ میں ایک ہفتہ تک پہلے والے دروازے پر آواز لگاؤں گا۔ اگر کھل جائے تب بھی بھلا اور نہ کھلے تب بھی بھلا۔‘‘

محمد سمجھ گیا۔ کرشنن کا اشارہ آسمانی دروازے کی طرف تھا۔ محمد خاموش ہو گیا۔ اُس کے دل پر کوئی دستک دے رہا تھا۔ وہ کان لگا کر آہٹ کو سننے کی کوشش کر رہا تھا۔ بار بار اپنی جیب میں ہاتھ ڈالتا اور بھر اُس خالی ہاتھ کو باہر نکال لیتا۔

الابراہیمی ہوٹل میں دعوت تو ہوئی، لیکن پھیکی پھیکی۔ کسی چیز میں ذائقہ ہی نہیں تھا۔ بالآخر میٹھا منگایا گیا اور وہ بھی پھیکا نکلا۔ اس دعوت سے صرف پیٹ بھرا تھا، جو بغیر دعوت کے بھی بھر جاتا تھا، مگر دل نہیں بھرا۔ واپسی میں محمد نے پوچھا۔ ’’کرشنن کل تمہارا کیا پروگرام ہے ؟‘‘

کرشنن بولا۔ ’’کل مجھے بیلجیم کے قونصل خانے میں جانا ہے ، وہاں دربان کی جگہ خالی ہے۔‘‘

’’ٹھیک ہے۔‘‘ محمد بولا۔ ’’تم ایسا کرنا کہ کل ٹراول ایجنسی میں نہیں جانا، پھر آگے دیکھیں گے۔‘‘

’’ٹھیک ہے دوست۔۔ جیسی تمہاری مرضی۔‘‘

محمد کویا کے قلب و ذہن میں ایک نیا ہنگامہ برپا ہو گیا تھا۔

 

 

 

لوٹ پیچھے کی طرف

 

 

محمد رات بھر کروٹیں بدلتا رہا۔ کرشنن کا اس طرح واپس جانا اس کے گلے سے نہیں اُتر رہا تھا۔ اس نے سوکمار کے بارے میں سوچنا بند کر دیا تھا۔ وہ تو بس یہ سوچ رہا تھا کہ وہ خود کیا کر سکتا ہے۔ کئی منصوبے کھلونوں کی طرح اُس کے دماغ میں نمودار ہوتے اور پھر اپنے آپ ٹوٹ کر بکھر جاتے۔ رات کے آخری پہر وہ اپنے بستر سے اُٹھا، وضو کیا، تہجد کی نماز ادا کی اور ہاتھ اُٹھا دیے۔ آج وہ اپنے لئے نہیں ، کرشنن کے لئے دُعاگو تھا۔ کرشنن کا درد وہ سمجھ سکتا تھا، اِس لئے کہ وہ اس سے گزر چکا تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ دُنیا میں کوئی اس کرب میں مبتلا ہو۔ وہ بہت دیر بعد جانماز سے اُٹھا اور مسجد کی جانب چل پڑا۔ مسجد میں پہنچ کر اس نے پہلے تحیۃ المسجد کی نماز ادا کی۔ اُس کے بعد سنت ادا کی اور قرآن مجید لے کر بیٹھ گیا۔ اپنی بے سکونی سے نجات حاصل کرنے کا اس کے پاس کوئی اور نسخہ  موجود نہیں تھا۔

نمازِ فجر ادا کرنے کے بعد وہ کمرے پر آیا۔ کرشنن سو رہا تھا۔ سوکمار اُٹھ کر حمام کی جانب جا رہا تھا۔ محمد جا کر اپنے بستر پر دراز ہو گیا اور اس کی آنکھ لگ گئی۔ ایک گھنٹے کے بعد اُسے کرشنن نے جگایا جو انٹرویو کے لئے تیار ہو کر کھڑا تھا۔ سفید شرٹ، کالی پتلون، بھوری ٹائی، بالوں میں تیل، جوتوں پر پالش، ہاتھ میں فولڈر۔۔ گویا کسی منیجر کے عہدے پر انٹرویو دینے جا رہا ہو۔ ہر روز اس کا یہی معمول تھا۔

کرشنن نے کہا۔ ’’محمد اُٹھو، آج تمہاری نوکری کا پہلا دن ہے۔ پہلے دن تاخیر سے پہنچنا ٹھیک نہیں ہے۔۔ اور دیکھو۔۔ میں نے چائے تمہارے سرہانے رکھ دی ہے۔‘‘

محمد بولا۔ ’’تمہارا انٹر ویو کس وقت ہے ؟‘‘

کرشنن نے جواب دیا۔ ’’۱۰؍ بجے۔‘‘

’’اَبھی آٹھ بجے ہیں۔ تم تو ابھی سے تیار ہو گئے ؟‘‘

کرشنن بولا۔ ’’ہاں۔ میں جانتا ہوں۔ راستے میں ناشتہ کرنا ہے۔ صبح کے وقت ہوٹل کی بھیڑ کی وجہ سے تاخیر بھی ہو جاتی ہے۔ پھر ہوٹل کے باہر جو اخبار لگے رہتے ہیں ، اُنہیں پڑھنے میں بھی وقت لگتا ہے۔ کبھی کبھار کوئی شخص اخبار کو اُٹھا کر ایسا چپک جاتا ہے گویا سو گیا ہو۔ اس کی بھی گنجائش رکھنی پڑتی ہے۔۔ اور تم تو جانتے ہی ہو، انٹرویو میں جانے سے پہلے اخبار دیکھ لینا کس قدر ضروری ہے۔ نہ جانے کیا بات پوچھ لی جائے ؟‘‘

محمد بولا۔ ’’ہاں ہاں میں جانتا ہوں۔ تم ایسا کرو۔۔ دس منٹ رُکو اور ٹی۔وی پر خبریں دیکھو۔ میں ابھی نہا کر آتا ہوں۔ پھر ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔‘‘

محمد نہاتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ یہ کرشنن تو اس طرح کی تیاری سے جا رہا ہے گویا قونصل جنرل کی اسامی کا اُمیدوار ہے۔ اس کی چال ڈھال دیکھ کر انٹرویو لینے والا اسے اپنی نوکری کے لئے خطرے کی گھنٹی سمجھے گا۔ اس حلیے میں تو وہ کبھی دربان کی نوکری حاصل نہیں کر سکتا۔ واپس آ کر کپڑے بدلتے ہوئے محمد بولا۔ ’’کرشنن۔۔ تم نے کل کے انٹرویو میں بھی یہی ٹائی لگا رکھی تھی؟‘‘

کرشنن بولا۔ ’’میں تو ہر روز یہی ٹائی لگا کر جاتا ہوں۔ اس لئے کہ میرے پاس صرف یہی ایک ٹائی ہے۔‘‘

’’تو ایسا کرو کہ آج ٹائی مت لگاؤ۔‘‘

’’کیوں؟ ارے بیلجیم کے قونصل خانے میں انٹرویو ہے ، تم نہیں جانتے ؟ ہو سکتا ہے انٹرویو لینے والا یوروپین ہو؟‘‘

’’میں جانتا ہوں۔‘‘ محمد بولا۔ ’’میرا خیال ہے یہ ٹائی تمہارے لئے منحوس ثابت ہو رہی ہے۔ اِسی کی وجہ سے تمہیں ناکامیاں ہو رہی ہیں۔ اس لئے تم آج اِسے لگا کر مت جاؤ۔‘‘

کرشنن تذبذب کا شکار ہو گیا۔ محمد نے اس کے دل میں شک ڈال دیا تھا، وہ بولا۔ ’’لیکن ٹائی!‘‘

’’ہاں ہاں ٹائی۔‘‘ محمد بولا۔ ’’میں جانتا ہوں۔ انگریزی میں ٹائی کے معنیٰ کیا ہوتے ہیں؟ کیا تم جانتے ہو؟‘‘

’’ہاں میں جانتا ہوں۔۔ باندھنا۔‘‘

’’جی ہاں۔۔ یہی تو میں کہہ رہا ہوں۔ دیکھو یہ ٹائی نہیں پٹہ ہے جسے ہم اپنے گلے میں باندھتے ہیں اور اپنے مالک کے آگے سرجھکا کر کھڑے ہو جاتے ہیں تاکہ وہ اسے پکڑ کر  جہاں بھی جی چاہے ہمیں لے جائے اور اگر ہم احتجاج کریں تو وہ اسے تنگ کر دے تاکہ ہمارا دم گھٹنے لگے اور ہم ہاتھ جوڑ کر اس کے آگے دم ہلانے لگیں کیا سمجھے ؟‘‘

کرشنن بولا۔ ’’سمجھ گیا۔۔ سب سمجھ گیا۔۔ اور مزید کچھ سمجھنا نہیں چاہتا، اس لئے ٹائی اُتار دیتا ہوں۔‘‘

کرشنن ٹائی اُتار کر لٹکا رہا تھا تو محمد بولا۔ ’’کرشنن تم انٹرویو میں تو کامیاب ہو جاؤ گے لیکن واپس آتے ہوئے معاملہ خراب ہو سکتا ہے۔‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

’’تمہارے سفید شرٹ کی پشت کی جانب داغ لگا ہوا ہے۔‘‘

کرشنن بولا۔ ’’کیا بات کرتے ہو؟‘‘

’’ہاں ! آئینہ میں دیکھ لو۔‘‘

کرشنن آئینہ کی طرف پشت کر کے کھڑا ہو گیا اور گردن موڑ کر دیکھنے لگا۔ اُسے تو کوئی داغ نظر نہیں آ رہا تھا۔ محمد پھر بولا۔ ’’وہ کیا ہے۔۔؟ وہ بیچ میں۔ وہاں معمولی سا کچھ دکھلائی دیتا تھا۔

کرشنن نے اعتراض کیا۔ ’’یار اِتنی باریکی سے کون دیکھتا ہے ؟‘‘

ہر کوئی دیکھتا ہے۔۔ سفید شرٹ کو تو ہر کوئی دیکھتا ہے بس رنگ کامسئلہ ہے کہ وہ ہر عیب کو عیاں کر دیتا ہے۔‘‘

’’تو کیا کروں؟‘‘

’’نیلی شرٹ پہن لو۔‘‘

’’نیلی شرٹ۔۔! وہ کوئی انٹرویو میں پہن کر جانے کی چیز ہے ؟‘‘

’’ہاں۔۔ داغدار سفید شرٹ سے بے داغ نیلا شرٹ اچھا ہے۔‘‘

’’لیکن اس کی تو استری بھی ٹوٹی ہوئی ہے۔ کل شام کو دعوت میں تمہارے ساتھ پہن کر گیا تھا۔‘‘

’’ہاں وہی تو۔۔ ہوٹل میں کئی لوگ تمہارے اس شرٹ کو دیکھ رہے تھے۔‘‘ محمد بولا۔

’’لیکن دوست! اب میں انٹرویو میں جا رہا ہوں ، دعوت میں نہیں۔‘‘

’’ارے یار۔۔ تم نہیں سمجھتے۔ انٹرویو ہو یا دعوت۔۔ دونوں جگہ انسانوں سے پالا پڑتا ہے اور ان کی پسند ہر جگہ یکساں ہوتی ہے۔ جو گھر پر گوشت پسند کرتا ہے ، وہ ہوٹل میں سبزی نہیں کھاتا۔ کیا سمجھے ؟‘‘

کرشنن محمد کی دلیل سے متاثر ہو رہا تھا۔ اُس نے کہا۔ ’’محمد کیا تم سنجیدگی سے یہ کہہ رہے ہو کہ میں شرٹ بدل دوں۔‘‘

’’ہاں میرے دوست کرشنن۔۔ میں نہایت سنجیدگی سے حکم دے رہا ہوں۔‘‘

کرشنن کو ہنسی آئی۔ اُس نے سفید شرٹ پر لگے چھوٹے سے دھبے کو کافی بڑا کر دیا تھا۔ اب یہ دونوں دوست بنگالی ہوٹل کی جانب نکل پڑے جہاں ناشتہ سستا اور چائے اچھی ملتی تھی۔ کرشنن کو بغیر استری کے نیلا شرٹ کچھ عجیب سا لگ رہا تھا، لیکن  ناشتے کے دوران محمد نے اس کے شرٹ کی اس قدر تعریف کی کہ اس کا اعتماد بحال ہو گیا۔ ناشتے کے بعد دونوں اپنے راستوں پر نکل پڑے۔ محمد کو خوشی تھی کہ اس نے کرشنن کو منیجر سے چوکیدار کے حلیہ میں منتقل کر دیا تھا۔ اُسے یقین ہو چلا تھا کہ کرشنن کو یہ ملازمت مل جائے گی۔

سیون اسٹار ہوٹل پہنچنے کے بعد اس نے بآواز بلند سلام کیا۔ سب سے خیریت پوچھی اور تمام میزوں پر ایک اُچٹتی ہوئی نگاہ ڈالی۔ اُسے ایک گاہک کی آنکھوں میں پیاس نظر آئی۔ وہ فوراً لپکا، اپنے دونوں ہاتھوں میں پانی کے دو جگ اُٹھائے اور اُس میز پر پہنچ گیا۔ ’’صاحب یہ گرم پانی ہے اور یہ ٹھنڈا۔‘‘

مالابار میں ٹھنڈے پانی کے علاوہ گرم پانی بھی پیا جاتا تھا اور اس کا علم محمد کویا سے زیادہ کس کو ہو سکتا تھا۔ ہوٹل کا مالک عبدل سوچ ہی رہا تھا کہ محمد کو کیا کام دے کہ محمد کام میں لگ گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ ایک میز صاف کر رہا تھا، پھر عبدل نے دیکھا کہ وہ لوگوں سے آرڈر لے رہا ہے ، گاہکوں کی فرمائش پوری کر رہا ہے۔ کچھ دیر بعد جب بازار سے مال فراہم کرنے والی گاڑی آئی تو عبدل نے دیکھا کہ محمد گاڑی سے اُترنے والے مال کو باورچی خانے میں ایک طرف سلیقے سے لگا رہا ہے۔ یہ سب کام محمد از خود کر رہا تھا۔ وہ کسی کے بتلانے کا انتظار نہ کرتا تھا۔ کام کو دیکھتا اور لپک لیتا۔ ہوٹل کا مالک عبدل، محمد سے بہت خوش ہوا۔ رات گئے تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔

جب گاہک ختم کے قریب ہو گئے تو عبدل گلے سے اُتر کر ایک میز پر آ کر بیٹھ گیا اور محمد سے بولا۔ ’’میرے لئے چائے لاؤ۔‘‘

محمد جانے لگا تو وہ بولا۔ ’’اپنے لئے بھی چائے لانا۔‘‘

اُس نے مسکرا کر تائید کی اور اپنے دونوں ہاتھوں میں دو گلاس چائے لے کر حاضر ہو گیا۔ ایک میں سلیمانی اور دوسرے میں دُودھ والی۔ اُس نے سلیمانی چائے عبدل کی جانب بڑھائی تو عبدل نے پوچھا۔ ’’تمہیں کس نے بتلایا کہ میں سلیمانی چائے پیتا ہوں؟‘‘

محمد بولا۔ ’’جناب معلومات کا ذریعہ جہاں کان ہیں ، وہاں آنکھیں بھی ہیں اور آنکھیں کان سے زیادہ اعتماد کے قابل ہیں۔‘‘

عبدل کو اپنے سوال کی غلطی کا احساس ہو گیا۔ وہ بولا۔ ’’محمد تم باتیں بہت اچھی کرتے ہو۔۔ اور جانتے ہو۔۔ تمہاری باتوں ہی کی وجہ سے میں نے تمہیں نوکری پر رکھا ہے۔ ورنہ میں کبھی کسی غیر تجربہ کار آدمی کو اپنے یہاں ملازم نہیں رکھتا۔‘‘

’’کیوں؟ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟‘‘

’’بھئی سیدھی بات ہے۔۔ یہ کوئی تربیت گاہ تو ہے نہیں ، کاروبار کی جگہ ہے اور میں اس کاروبار کے بارے میں بہت سنجیدہ ہوں۔‘‘

’’جی ہاں جناب! مجھے دِن بھر میں اِس کا اندازہ ہو گیا۔ لیکن آپ نے جو فیصلہ کیا، اس پر آپ کو افسوس تو نہیں ہے ؟‘‘

’’بالکل نہیں محمد۔۔ حالانکہ صبح میرے دل میں ایک خلش ضرور تھی جو تم نے دُور کر دی۔‘‘ اس کے بعد عبدل، محمد سے اس کی ذاتی زندگی، گھر اور گاؤں کے بارے میں پوچھنے لگا۔ دونوں کا تعلق ملاپورم سے تھا، اس لئے بہت جلد وہ ایک دوسرے سے مانوس ہو گئے۔ اُن کے درمیان کئی مشترک شناسہ نکل آئے۔ چائے ختم ہونے کے بعد دونوں ساتھ ساتھ باہر آئے۔

عبدل نے پوچھا۔ ’’محمد تم اس سرزمین پر نووارد ہو، اگر کوئی ضرورت ہو تو غیر نہ سمجھنا۔۔ مجھے ضرور بتانا۔‘‘

محمد نے کہا۔ ’’شکریہ! میں اگلے ہفتے سے یہاں ہوٹل کے اوپری کمرے میں رہنے کے لئے آ جاؤں گا۔ لیکن اس سے پہلے مجھے گزشتہ ماہ کا کرایہ ادا کرنا ہو گا۔ اگر آپ اس کا انتظام کر سکیں تو بڑی مہربانی، ضمانت کے طور پر میرا پاسپورٹ آپ اپنے پاس رکھیں اور پہلی تنخواہ میں سے پوری رقم آپ کاٹ لیجئے گا۔‘‘

عبدل بولا۔ ’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن تمہارا کرایہ ہے کتنا؟‘‘

محمد بولا۔ ’’ایک ہزار درہم۔‘‘

’’ٹھیک ہے۔‘‘ عبدل نے اس سے کہا۔ ’’کل یہ رقم پیشگی دے دوں گا، بعد میں اس کا حساب ہو جائے گا۔‘‘

محمد کویا خوش ہو گیا۔ کرشنن کے ویزا کی توسیع کا مسئلہ حل ہو گیا تھا۔ یہ سب اِتنی جلدی ہو جائے گا، اس کی توقع نہیں تھی۔

محمد کمرے پر پہنچا تو کرشنن سونے کی تیاری کر رہا تھا۔ اُس نے پوچھا۔ ’’کیوں کرشنن۔۔ انٹرویو کیسا رہا؟‘‘

کرشنن بولا۔ ’’آج انٹرویو بہت اچھا رہا۔‘‘

’’کیوں؟ اس کی وجہ؟‘‘

کرشنن نے کہا۔ ’’ہر انٹرویو میں پہلا ہی سوال میرا حوصلہ پست کر دیا کرتا تھا۔‘‘

’’وہ کیا؟‘‘

سوال یہ ہوتا تھا کہ کیا تم نے یہ کام پہلے کبھی کیا ہے ؟ اور میرا جواب ہوتا کہ نہیں۔ اکثر ایسا بھی ہوتا کہ اس سوال کے ساتھ انٹرویو ختم سا ہو جاتا۔ کچھ رسمی باتیں ہوتیں اور پھر ملیں گے کے بے جان الفاظ کانوں میں گونجتے اور اس کے بعد پھر کبھی نہ ملنے کے لئے ہم لوگ جدا ہو جاتے۔‘‘

’’اچھا! تو آج کیا ہوا؟‘‘

’’آج یہ سوال ہی نہیں ہوا۔‘‘

’’پھر۔۔؟ اور کیا ہوا؟‘‘

’’آج ان لوگوں نے مجھ سے نہ تو تجربہ کے بارے میں پوچھا اور نہ تعلیم کے بارے میں۔۔ شاید اُن لوگوں نے مجھے انپڑھ جاہل سمجھ لیا تھا۔‘‘

’’اچھا!!‘‘ محمد نے کہا۔ ’’کہیں تم نے اُن کی غلط فہمی دُور کرنے کی کوشش تو نہیں کی؟‘‘

’’نہیں ! میں نے اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں کہا۔ جو کچھ وہ پوچھتے رہے ، میں بتلاتا رہا اور اُن کی ہر بات پر سرتسلیم خم کرتا رہا۔۔ یہاں تک کہ انٹرویو ختم ہو گیا۔ آج پہلی مرتبہ ڈگریوں کا یہ فولڈر جیسا گیا تھا، ویسے ہی بند کا بند واپس آ گیا۔‘‘

محمد سمجھ گیا کہ آج اُس کی تقدیر کا در کھل گیا ہے۔ اُسے چوکیدار کی نوکری مل گئی ہے اور اب نہ جانے کب تک یہ دروازے کھولتا اور بند کرتا رہے گا۔ محمد نے پوچھا۔ ’’تو تمہیں کیا توقع ہے ؟‘‘

کرشنن بولا۔ ’’یار۔۔ اُمید تو ہے لیکن کچھ کہا نہیں جا سکتا؟‘‘

محمد بولا۔ ’’لیکن اگر یہ ملازمت نہ بھی ملے تو فکر کی کوئی بات نہیں۔‘‘

’’کیا مطلب؟ تم نے سوکمار سے بات تو نہیں کی؟‘‘ کرشنن نے چمک کر پوچھا۔

’’نہیں ! جب تم نے منع کر دیا تو کر دیا۔ دراصل میں نے ہوٹل کے مالک سے بات کی اور وہ مجھے کل کرایہ ادا کرنے کی خاطر پیشگی رقم فراہم کر دے گا۔‘‘

’’کون سا کرایہ؟ میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا؟ کرشنن نے پوچھا۔

محمد بولا۔ ’’کوئی کرایہ ورایہ نہیں۔۔ یار ہمیں درہم چاہئیں۔۔ ویزے کی توسیع کے لئے !! اب یہ چاہے کسی نام سے ملیں ، میں ویزا کی خاطر تو لے نہیں سکتا تھا، اس لئے کرائے کے نام پر مانگ لئے اور ہوٹل کا مالک تیار ہو گیا، کل جب رقم ملے گی تو تم ٹراول ایجنسی کے بجائے جوازات جا کر اپنے ویزے کی توسیع کروا لینا۔‘‘

’’لیکن رقم کی واپسی؟ کرشنن نے پوچھا۔

’’اُس کی فکر نہ کرو۔ ہم لوگ یہاں کمانے اور خرچ کرنے کے لئے آئے ہیں ، سو کرتے رہیں گے۔ آدمی آخر کماتا کس لئے ہے ؟ خرچ کرنے کے لئے !‘‘

کرشنن کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آ رہا تھا۔ ایک طرف سوکمار تھا، جس کی تنخواہ چالیس ہزار درہم تھی اور دوسرا محمد تھا جس کو بارہ سو درہم ایک ماہ بعد سے ملنے والے تھے۔ وہ سوچ رہا تھا کہ غریب کون ہے اور امیر کون؟ مسکین کون ہے اور غنی کون؟ کرشنن کے پاس محمد کے لئے الفاظ نہیں تھے۔ اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے ، ہونٹوں کا کام آنکھوں نے کیا۔ الفاظ کے بجائے آنسو چھلکے۔ دونوں دوست ایک دوسرے سے لپٹ گئے اور دیر تک لپٹے رہے۔ دونوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ایک دوسرے سے جدا ہوئے اور اپنے اپنے بستر میں منہ ڈھانپ کر سو گئے۔

جب کرشنن نے سوکمار سے جوازات کے دفتر کا پتہ پوچھا اور توسیع کا طریقہ کار، تو سوکمار کو تعجب ہوا۔ وہ بولا۔ ’’فیس کا انتظام ہو گیا؟‘‘

کرشنن نے اُسے بتلایا کہ محمد کو ملازمت مل گئی ہے اور اس نے قرض لے کر اس کا انتظام کر دیا ہے۔ سوکمار اس خبر سے خوش ہو گیا۔ اِس لئے کہ اگر کرشنن واپس چلا جاتا تو دوسرے رشتہ دار اُسے بخیل کہہ کر پکارتے۔ اب وہ اس الزام سے بچ گیا تھا۔ سوکمار نے کرشنن کو نہ صرف پتہ بتلایا بلکہ مشورہ بھی دیا کہ وہ اس کام میں جلدی نہ کرے۔ اگر اُس نے اپنی درخواست دفتر میں فیس کے ساتھ آخری دن بھی جمع کرا دی تب بھی جرمانہ سے بچ جائے گا۔ پھر یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ آئندہ تین چار دن میں اُسے کوئی ملازمت مل جائے اور اس بلاوجہ کے خرچ کی نوبت ہی نہ آئے۔ سوکمار کا مشورہ معقول تھا۔ کرشنن نے ویزا کی توسیع  کا فیصلہ آخری تاریخ تک موقوف کر دیا۔

سوکمار کا مشورہ نہایت مفید ثابت ہوا۔ توسیع سے قبل کرشنن کو قونصل جنرل کے گھر پر دربان کی نوکری مل گئی اور وہ وہاں منتقل ہو گیا۔ محمد اپنے ہوٹل کے اوپر رہائشی کمرے میں بنے گھونسلے میں چلا گیا۔ اس طرح دو پنچھی مختلف سمتوں میں اُڑ گئے اور تیسرا سوکمار۔۔ جس کے پیروں میں بیڑیاں پڑی ہوئی تھیں۔۔ وہیں پڑا رہ گیا۔

کرشنن اور محمد کی دوستی عرصۂ دراز تک قائم رہی۔ کبھی کبھار وہ محمد سے ملنے ہوٹل جاتا تو کبھی کبھار محمد اس سے ملاقات کی خاطر رابرٹ کی کوٹھی میں آ جاتا۔ دونوں دوست نکڑ پر موجود ایک ملیالی ہوٹل میں کبھی سموسہ کھاتے تو کبھی اپمہ کا مزہ اُٹھاتے ، چائے پیتے اور رُخصت ہو جاتے۔ اس ہوٹل کا مالک بھی کرشنن کا شناسائی تھا۔ وہ جانتا تھا کہ محمد اس کا گہرا دوست ہے اور یہ لوگ دیر تک بیٹھے باتیں کرتے رہتے تھے۔ اس کے باوجود وہ نہ ناراض ہوتا اور نہ خلل اندازی کرتا۔

کرشنن ڈائری کو ہاتھوں میں لے کر ماضی کی سیر کر رہا تھا۔ اچانک اُسے احساس ہوا کہ گزشتہ ڈیڑھ سال میں اُس کی ایک بھی ملاقات محمد سے نہیں ہوئی، اس نے محمد کو اپنی شادی میں بھی نہیں بلایا۔ گویا وہ اپنے قدیم دوست کو بھول گیا ہے ، اس کے دل میں احساس جرم پیدا ہوا، اس نے فوراً محمد کو فون لگایا، سامنے سے آواز آئی۔ ’’کون؟‘‘

’’کرشنن۔‘‘

’’میں کسی کرشنن کو نہیں جانتا۔‘‘

’’کیا؟‘‘ کرشنن نے حیرت سے پوچھا۔

اور پھر سامنے سے ایک زوردار قہقہہ بلند ہوا۔ ’’بولو بولو کرشنن۔۔ میں جانتا ہوں ، تم مجھے بھول گئے ہو، لیکن میں تمہیں نہیں بھولا۔‘‘

کرشنن نے کہا۔ ’’جی ہاں ، اِسی لئے تم نے اتنے دنوں میں کبھی فون تک نہیں کیا؟‘‘

’’میں نے فون نہیں کیا؟ میں تو تمہارے قونصل خانے کے گھر پر ہمیشہ فون کرتا رہا۔ گزشتہ سال وہ لوگ بتلاتے رہے کہ تم چھٹی کے دن گھر پر نہیں رہتے۔ میں نے سوچا کہ آمدنی میں اضافہ کی غرض سے کوئی جزوقتی ملازمت تلاش کر لی ہو گی، پھر پتہ چلا کہ تم لمبی چھٹی پر ہندوستان چلے گئے ہو اور اس کے بعد پتہ چلا کہ تم نے وہ ملازمت چھوڑ دی۔ اب اِس کے بعد میں کیا کرتا؟ میں نے تمہیں فون کرنا چھوڑ دیا۔‘‘

’’تم نے ٹھیک کیا۔ اس لئے کہ تم اور کر بھی کیا سکتے تھے ؟‘‘

محمد بولا۔ ’’یار میں نہیں جانتا کہ میں نے ٹھیک کیا یا غلط؟ لیکن سچ بات یہ ہے کہ میں تمہیں ہمیشہ یاد کرتا رہا۔‘‘

’’نہیں دوست۔۔ تم سب ٹھیک ٹھیک جانتے ہو۔ میں ہی نہیں جانتا کہ میں نے ایسا کیوں کیا؟ خیر۔۔ یہ بتاؤ کہ تم کیسے ہو؟‘‘

’’میں بالکل ویسا ہی ہوں جیساکہ پہلے تھا۔‘‘

’’خدا تمہیں ہمیشہ ہی اِسی طرح خوش و خرم رکھے۔ اچھا یہ بتلاؤ کہ کیا تم نے بھابھی کو یہاں بلوا لیا؟‘‘

محمد کے لئے کرشنن کا یہ سوال کچھ اٹ پٹا سا تھا، وہ بولا۔ ’’کرشنن تمہارا دماغ تو درست ہے ؟ لوگ کہتے ہیں کہ عرب امارات میں ٹیکس نہیں لگتا۔۔ لیکن وہ نہیں جانتے کہ یہاں کا سب سے بڑا ٹیکس اپنے اہل خانہ سے دُوری ہے۔ اپنے بیوی بچوں سے دوری کی قیمت پر ہم یہاں رہتے ہیں۔‘‘

’’تمہاری بات دُرست ہے۔‘‘ کرشنن بولا۔ ’’میں نے تو یوں ہی پوچھ لیا تھا۔‘‘

’’کوئی بات نہیں۔ بہکی بہکی باتیں کرنا تمہاری پرانی عادت ہے۔ میں ، ہمارا مالک اور دوسرے دو نوکر ہوٹل کے اوپر والے کمرے میں رہتے ہیں۔ ابھی تک تو ہمارا خیال کر کے ہمارے مالک نے بھی بیوی بچوں کو یہاں نہیں بلایا۔ اس لئے کہ اگر وہ آ جائیں گے تو ہم کہاں جائیں گے ؟ ایسے میں ہمارا بچوں کو بلانے کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے۔‘‘

کرشنن بولا۔ ’’ہاں یار۔۔ عجب مجبوریاں ہیں کہ ہم بچوں کے ساتھ بھی نہیں رہ سکتے اور اُن سے دُور بھی نہیں رہ سکتے۔‘‘

رادھا، جو سامنے بیٹھی کرشنن کی گفتگو سن رہی تھی، اُس کے اس ناصحانہ جملے پر ہنس پڑی۔ کرشنن نے محمد سے پوچھا۔ ’’تو تم وہیں ہو سیون اسٹار ہوٹل میں ۔۔؟‘‘

محمد نے کہاں ’’ہاں میں تو وہیں ہوں اور تم؟‘‘

اس سوال پر کرشنن ٹھٹک گیا۔ اس لئے کہ محمد وہیں کا وہیں تھا اور وہ کہاں سے نکل گیا تھا۔ اُس نے سوچا، اگر وہ محمد کو ساری حقیقت بتا دے تو شاید اُس کے اندر محرومی کا احساس پیدا ہو۔۔ جس طرح محمد کو ملازمت مل جانے کے بعد کرشنن محرومی کا شکار ہوا تھا اور اس نے ٹراول ایجنسی میں جا کر واپسی کی سیٹ بک کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

محمد نے پھر پوچھا۔ ’’یار تم ہو کہاں بتاؤ گے بھی۔۔‘‘

کرشنن بولا۔ ’’میں بھی وہیں ہوں۔‘‘

’’کیا؟ وہ لوگ تو بول رہے تھے تم نے ملازمت چھوڑ دی ہے۔‘‘

’’ہاں ہاں ! وہ لوگ صحیح کہہ رہے تھے۔ اس علاقے میں بیلجیم قونصل جنرل کی کوٹھی کے علاوہ اور بھی تو کوٹھیاں ہیں۔ میں وہیں آس پاس ہوں۔‘‘

’’ٹھیک ہے۔۔ تو کہاں ملتے ہیں؟‘‘

’’ہم ایسا کرتے ہیں ، اُسی مطعم حذیمہ میں ملتے ہیں ، جہاں ہمیشہ ملتے تھے۔‘‘

’’ٹھیک ہے۔‘‘

کرشنن نے کہا۔ ’’شام ۷؍ بجے ٹھیک ہے۔‘‘

’’ٹھیک ہے۔‘‘ فون بند ہو گیا۔

رادھا نے پوچھا۔ ’’تو جناب۔۔ یہ کس سے بال بچوں کی باتیں ہو رہی تھیں۔ ہمیں بھی تو پتہ چلے ؟‘‘

کرشنن ہنسا اور بولا۔ ’’عورت آخر عورت ہوتی ہے۔۔ رادھا ہو یا میرا۔۔ اُس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘

’’جی ہاں۔۔ اور کرشن آخر کرشن ہوتا ہے ! ست یگ ہو یا کل یگ۔ اُس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اِسی لئے ہم عورتوں کو چوکنّا رہنا پڑتا ہے۔‘‘

’’رادھا ایک بات بولوں۔ آج کل تم نہ صرف کہانی لکھتی ہو بلکہ بولتی بھی کہانیوں کی زبان اور لہجہ میں ہو۔‘‘

’’زہے نصیب!‘‘ رادھا نے مسکرا کر کہا۔ ’’یقیناً۔۔ کیا آپ یہ بات بتانا پسند فرمائیں گے کہ کس سے باتیں ہو رہی تھیں۔‘‘

’’ضرور ضرور رادھا۔۔ یہ میرا دوست ہے۔۔ سچا دوست۔۔ محمد! جسے میں گزشتہ کئی ماہ سے بھول گیا تھا۔ آج پرانی ڈائری پر اس کا نام دیکھا تو یاد آ گیا۔ آج مجھے اس سے ملنے جانا ہے۔ شام سات بجے۔‘‘

’’تو کیا آپ ہمیں اپنے عزیز دوست سے نہیں ملائیں گے ؟‘‘

’’ملاؤں گا، ضرور ملاؤں گا۔ لیکن آج نہیں ، پھر کبھی۔‘‘

رادھا نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے ، کوئی بات نہیں۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

شام ساڑھے ۶؍ بجے کرشنن دفتر سے گھر آیا۔ چائے پی کر اُسے محمد سے ملنے کے لئے نکلنا تھا۔ منہ ہاتھ دھوکر بال بناتے ہوئے اُس نے آئینہ میں دیکھا تو اُسے انٹرویو کے دن کا منظر یاد آ گیا۔ وہی سفید بے داغ شرٹ، کالی پتلون، بھوری ٹائی۔۔ سب کچھ وہی۔ کرشنن کا ہاتھ آہستہ سے ٹائی کی جانب بڑھا۔ اُس نے ٹائی کھول کر لٹکا دی۔ اُس کے بعد اس نے سفید شرٹ اتار دی اور نیلی قمیص پر نظر ڈالی جس کی استری ٹوٹی ہوئی تھی۔ اس نے اسے باہر نکال لیا۔ شرٹ پہننے کے بعد اُس نے شرٹ کو باہر ہی رکھا اور جوتوں کے بجائے چپل پہن کر نکل پڑا۔ رادھا کے لیے یہ سب کچھ عجیب سا تھا۔ لیکن وہ خاموش رہی، کچھ نہ بولی۔

سات بجنے میں پانچ منٹ باقی تھے کہ کرشنن مطعم خذیمہ پہنچ گیا۔ وہ باہر کھڑا کھڑا محمد کا انتظار کر رہا تھا کہ سامنے سے غضنفر گاڑی دوڑاتا ہوا گزر گیا۔ غضنفر نے اس کی جانب نہیں دیکھا، لیکن کرشنن نے اُسے اچھی طرح دیکھ لیا تھا۔ غضنفر نے گاڑی گیرج میں کھڑی کی اور آ کر چارپائی پر بیٹھ گیا۔ اس کے سامنے رضوان الحق بھی آ کر بیٹھ گیا۔ پانچ منٹ میں چمیلی دو چائے کی پیالیاں لے کر نمودار ہو گئی۔ البرٹ کے وِلا کا یہ عقبی حصہ، جہاں بالکل گاؤں کا سا ماحول تھا۔ اس میں کبھی تین لوگ رہتے تھے۔ اب بھی تین ہی لوگ رہتے ہیں۔ فرق صرف اتنا تھا کہ کرشنن کی جگہ چمیلی نے لے لی ہے۔

چائے کی چسکی لیتے ہوئے رضوان نے کہا۔ ’’یار غضنفر! اِس چمیلی کا دماغ بھی خراب ہو رہا ہے۔‘‘

غضنفر بولا۔ ’’کیوں مذاق کرتے ہو؟ خراب ہونے کے لئے اس کا ہونا ضروری ہے۔‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘ چمیلی کی آواز آئی۔ ’’بھائی صاحب میں سن رہی ہوں۔‘‘

’’جی ہاں بھابھی۔۔ میں تو یوں ہی کہہ رہا تھا مذاق میں۔‘‘

’’میں سب سمجھتی ہوں۔‘‘

رضوان الحق بولا۔ ’’یار غضنفر! ایک بات بتاؤ۔ میں چمیلی سے اس لئے ڈرتا ہوں کہ وہ میری بیوی ہے۔ تم کس لئے ڈرتے ہو؟‘‘

غضنفر بولا۔ ’’یار ہم لوگ اپنی بیوی سے نہیں ڈرتے ، ہم پٹھان لوگ ہیں؟‘‘

چمیلی کی پھر آواز آئی۔ ’’کیا؟‘‘

غضنفر بولا۔ ’’ڈرتے ہیں ڈرتے ہیں ! لیکن اِتنا نہیں ڈرتے جتنا رضوان بھائی ڈرتے ہیں۔‘‘

چمیلی کو ہنسی آئی، وہ بولی۔ ’’بھائی صاحب ڈر تو ڈر ہوتا ہے۔ اس میں کم اور زیادہ کا کیا سوال۔ انسان یا تو ڈرتا ہے یا نہیں ڈرتا۔۔ اور جب ڈرتا ہے تو بس ڈرتا ہے۔۔ اور اگر نہیں ڈرتا تو نہیں ڈرتا۔ اس حقیقت کا اعتراف کرنے میں خوف کیسا؟‘‘

غضنفر بولا۔ ’’جی ہاں ، آپ ٹھیک کہتی ہیں۔۔ بالکل ٹھیک۔۔‘‘ اور اس کے بعد رضوان سے مخاطب ہو کر پوچھا۔ ’’ہاں تو تم کیا کہہ رہے تھے ؟‘‘

’’جی میں یہ کہہ رہا تھا کہ ابھی پانچ منٹ قبل جب چمیلی سبزی خرید کر واپس آئی تو کہنے لگی کہ اس نے کرشنن کو گلی کے نکڑ پر کھڑا دیکھا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کرشنن یہاں آئے اور ہم سے نہ ملے ؟ کیا آج کل وہ اتنا بڑا آدمی ہو گیا ہے کہ ہم سے ملنا  اپنی توہین سمجھتا ہے ؟‘‘

’’مجھے تو لگتا ہے اسے کوئی غلط فہمی ہو گئی۔‘‘

’’لیکن مجھے ایسا نہیں لگتا۔‘‘

’’اچھا تم کیا سوچتے ہو؟‘‘

’’میرا خیال ہے کہ چمیلی بھابی صحیح ہیں۔‘‘

’’کیا؟‘‘ رضوان نے پوچھا۔

’’میں نے بھی جب گاڑی کو نکڑ سے موڑا تو مجھے لگا کہ وہاں کرشنن کھڑا ہے ، لیکن پھر میں نے سوچا کہ یہ میری نظر کا دھوکہ ہے۔‘‘

’’کیوں۔۔ تمہیں ایسا کیوں لگا؟‘‘ رضوان نے پوچھا۔

’’اِس لئے کہ کرشنن بڑا صاحب بن گیا ہے۔ وہ ہمیشہ سوٹ بوٹ میں رہتا ہے۔ لیکن وہاں جو کرشنن جیسا آدمی کھڑا تھا، وہ میلا نیلا شرٹ اور چپل پہنے ہوئے تھا۔‘‘

’’جی ہاں بھائی صاحب۔‘‘ چمیلی بولی۔ ’’میں نے بھی کرشنن کو اِسی حالت میں دیکھا۔۔ وہی نیلی شرٹ اور ہوائی چپل۔۔ بالکل اُسی طرح جس طرح وہ یہاں رہتے تھے۔‘‘

’’اِس کا مطلب ہے کہ ہمارا خیال غلط ہے۔ کرشنن بدلا نہیں ہے۔ وہ ہم سے ملنے کو اپنی توہین نہیں سمجھے گا۔ کیوں نہ ہم اُسے بلا کر لاتے ہیں۔‘‘ رضوان بولا۔

غضنفر نے کہا۔ ’’نہیں ! اُس کی ضرورت نہیں۔ اُس کو یہ گھر معلوم ہے۔ وہ اگر اتنے قریب آ کر بھی ہم سے ملنا نہیں چاہتا تو ہم کو بھی اس سے ملنے کی ضرورت نہیں۔‘‘

رضوان بولا۔ ’’ہاں غضنفر۔۔ تم ٹھیک کہتے ہو۔‘‘

چمیلی رضوان سے کہہ رہی تھی کہ کرشنن کو بلا کر لائے لیکن اس کے منصوبے پر غضنفر نے پانی پھیر دیا تھا۔ مگر اس کا دل نہیں مانا۔ وہ سوژان کے پاس پہنچ گئی۔ البرٹ کہیں باہر گیا ہوا تھا۔ سوژان اکیلی ٹیلی ویژن دیکھ رہی تھی۔ اس نے کرشنن کا ماجرا سوژان کو کہہ سنایا۔ سوژان کو یقین نہیں آ رہا تھا۔ کرشنن بھلا ایسا حلیہ بنا کر اس محلے میں کیوں آئے گا؟ اور پھر یہاں اتنے قریب آنے بعد ان کے گھر کیوں نہیں آئے گا؟ یہ دونوں باتیں اُس کی سمجھ میں آنے والی نہیں تھیں۔ وہ دونوں عورتیں دیر تک اس کی وجوہات پر گفتگو کرتی رہیں ، مختلف قسم کی اٹکل لگاتی رہیں۔ سب کی خواہش تھی کہ کرشنن ان سے ملنے آئے ، لیکن کسی میں بلانے کا حوصلہ نہیں تھا۔ عورتوں کی حیا اور مردوں کی انا اُن کے پیروں کی زنجیر بن گئی تھی۔ چاروں لوگوں کے درمیان موضوعِ بحث کرشنن تھا اور پرانی یادیں تھیں۔ گفتگو ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ دروازے کی گھنٹی نے آواز لگائی۔ ایک جانی پہچانی آہٹ کی جانب چاروں لوگ ایک ساتھ لپکے ، سامنے دربان کے لباس میں کرشنن کھڑا مسکرا رہا تھا۔

٭٭٭

مصنف کے تشکر کے ساتھ کہ انہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید