FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

انمول بات

 

 

                   محمد علی

 

 

 

 

 

 

انتساب

 

ماں جی اور بھائی حیدر علی کے نام

 

 

 

 

انمول بات

 

رات کی تاریکی ہر سو چھائی ہوئی تھی۔ رات کی تاریکی میں الوؤں کی آواز ایک عجیب سی گونج پیدا کر رہی تھی۔ چاند بھی پورے آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ اسکول جو مال روڈ کے قریب تھا اس کے ہاسٹل کے ایک کمرے کی لائٹ روشن تھی۔ اس کمرے میں پانچ چھ لڑکے دائرہ بنا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ آج رات وہ اپنے حق کے لیے کانفرنس میں شریک ہوئے تھے۔ گول میز کانفرنس کی صدارت کر رہے تھے رضوان۔

ساتھیو! کل سے ہمارے ٹیسٹ شروع ہو رہے ہیں لیکن ہم نے چھٹیوں میں مکھیاں مارنے کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہیں کیا۔ تو اب یہ ٹیسٹ کس طرح پاس کر سکتے ہیں۔ اس کے بارے میں آپ اپنے مشورہ اور تجاویز سے ضرور آگاہ کریں۔ رضوان نے صدارت کے فرائض سرانجام دیتے ہوئے پوچھا۔

’’چل حکیم صاحب پہلے اپنے مفید مشورے سے مستفید کرو۔‘‘

وسیم نے منور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

منور ایک دبلا پتلا لڑکا تھا۔ سب کلاس والے اور استاد اسے پیار سے حکیم صاحب کہہ کر پکارتے تھے۔ کیونکہ اس نے تھوڑی بہت حکمت بھی حکیم لقمان سے سیکھی ہوئی تھی۔

’’بوٹی دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک جڑی بوٹی اور دوسری کراماتی بوٹی جسے عرف عام میں نقل کہتے ہیں۔‘‘

جڑی بوٹی سے ہم فصلوں کو شاداب کرتے ہیں انھیں پیس کر دوائیوں میں استعمال کرتے ہیں۔ ان دوائیوں کے استعمال سے ہمارا جسم بیماریوں کے خلاف مدافعت کرتا ہے۔

کراماتی بوٹی: یہ ایسی بوٹی ہے جسے ہم خود بناتے ہیں۔ اگر ہم پر پرچوں کی مصبیت آ جائے تو ہم خاص خاص سوالوں کو لکھ کر اپنے پاس رکھ لیتے ہیں جس سے ہمارے ذہن سے پرچے کا بوجھ اتر جاتا ہے۔

اچھا ! وسیم صاحب کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟ صدر مجلس نے وسیم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے۔

’’نقل اسلام میں حرام نہیں۔‘‘ وسیم کے انکشاف سے سب کی نگاہیں وسیم پر ٹھہر گئیں۔ سارے اس کو سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے۔

’’آپ کو یہ کب معلوم ہوا کہ نقل اسلام میں حرام نہیں؟‘‘ رضوان  نے طنزاً کہا۔

’’میں نے ایک کتاب میں پڑھا تھا۔‘‘ وسیم نے سہمے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔

’’ایسی کونسی کتاب؟‘‘ منور نے کھا جانے والی نظروں سے پوچھا۔

’’مجھے اس بات کا بخوبی علم تھا۔ تم سب میری بات کی نفی کرو گے۔ اس لیے وہ کتاب میں اپنے ساتھ لایا ہوں۔ تاکہ اپنی سچائی ثابت کر سکوں۔‘‘وسیم نے کتاب دکھاتے ہوئے جواب دیا۔

رضوان نے کتاب پکڑی۔ مطلوبہ صفحہ کا مطالعہ کیا جس میں واضح حروف میں یہ لکھا ہوا تھا کہ ’’اسلام میں نقل حرام نہیں۔‘‘ یہ پڑھ کر رضوان کے چہرہ پر ایک شیطانی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔ منور اور باقی ساتھیوں نے بھی کتاب کو بغور پڑھا۔ سب کے دلوں میں لڈو پھوٹنے لگے۔

ٹھک۔۔۔ٹھک۔۔۔ٹھک۔۔۔

کمرے کا دروازہ کھلا۔ باہر سے ایک دیو قامت آدمی جس کے پیلے دانت مسکرانے سے صاف دکھائی دے رہے تھے کمرے کے اندر داخل ہوا۔

’’کیوں بھئی! آپ کی گول میز کانفرنس اختتام پذیر ہوئی کہ نہیں۔‘‘ وارڈن نے سوالیہ  لہجہ میں پوچھا۔

’’سر ختم ہو گئی‘‘ سب نے یک زبان ہو کر جواب دیا۔

’’ اچھا لائٹ آف کرو اور اپنے اپنے کمرے میں جاؤ۔‘‘ وارڈن نے پیار بھرے لہجے میں کہا۔

٭٭٭

 

’’آج سے تمھارے امتحانات شروع ہو رہے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ تم سب تیاری کر کے آئے ہو گے۔ اگر کسی لڑکے کے پاس کوئی نقل کا پرچہ ہے تو وہ شرافت سے باہر نکال دے۔ میں اسے کچھ نہیں کہوں گا لیکن اگر میرے چیک کرنے کے بعد کچھ نکلا تو پھر مجھ سے برا کوئی نہ ہو گا۔‘‘ سر ریاض نے کہا۔

ریاض سر ایک بہت ہی شفیق اور محبت کرنے والے استاد تھے۔ ہمیشہ بچوں کو پیار سے سمجھاتے تھے۔ کبھی ایک دفعہ بھی مولا بخش کا سہارا نہیں لیا۔ اگر کوئی بچہ نقل کرتے ہوئے پکڑا جاتا تو اس بچے کو پیار سے سمجھاتے۔

’’سر ایک سوال پوچھوں؟‘‘ رضوان نے سوالیہ لہجے میں پوچھا۔

’’ہاں بھئی ضرور پوچھو۔‘‘ سر ریاض نے پیارے بھرے لہجے میں جواب دیا۔

’’سر میں کل ایک کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا لیکن ایک جگہ پر مجھے اچانک جھٹکا سا لگا۔۔۔‘‘

’’بھئی کون سا جھٹکا لگ گیا۔ اتنی سی عمر میں ہمیں نہیں بتاؤ گے۔‘‘ سر ریاض نے ہنستے ہوئے بات کاٹی۔

سر کتاب میں واضح لفظوں میں لکھا ہوا تھا کہ اسلام میں نقل حرام نہیں ہے لیکن میں نے ہمیشہ یہی سنا ہے کہ نقل نہیں کرنی چاہیے۔ کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے؟‘‘ رضوان نے سوال داغ دیا۔

’’اسلام میں نقل کرنا حرام نہیں ہے۔ یہ بات بالکل ٹھیک ہے۔ اس کی مختلف وجوہات ہیں۔ تم بچے نقل کو غلط کاموں میں استعمال کرتے ہو۔ چلو اس سوال کا جواب میں تمھیں اسی کتاب سے دے دیتا ہوں جس سے تم نے پڑھا ہے۔‘‘ سر ریاض نے تحمل مزاجی سے جواب دیا۔

رضوان نے وسیم سے مذکورہ کتاب منگوائی۔

’’اچھا اب وہ والا صفحہ شروع سے لے کر آخر تک پڑھو۔‘‘ سرریاض نے اطمینان سے کہا۔

’’موضوع اسلام میں نقل حرام نہیں ہے۔‘‘

اسلام میں نقل کرنا حرام اس لیے نہیں ہے کہ کیونکہ ہم ہر اچھے کام کو نقل کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے کہ بے شک حضور اکرمﷺ کی حیات مبارکہ تمھارے لیے بہترین نمونہ ہے۔‘‘

جو شخص حضور اکرمﷺ کی پیروی کرے گا  آپﷺ کی سنت نقل کرے گا وہ شخص کامیاب ہو گا۔

ابھی رضوان  نے چند سطریں ہی پڑھی تھیں کہ اسے سب کچھ پتا چل گیا۔

’’رضوان تم نے پڑھنا کیوں چھوڑ دیا۔ آگے پڑھو۔ سر ریاض نے سوالیہ لہجے میں پوچھا۔

سر مجھے اس سوال کا جواب ان چند سطروں میں مل گیا ہے اور مجھے یقین ہے کہ میرے باقی دوستوں کو بھی جواب کا علم ہو گیا ہو گا۔‘‘ رضوان نے کتاب بند کرتے ہوئے کہا۔

’’رضوان اس جواب سے ہمیں بھی مستفید کرو۔‘‘ سرریاض نے رضوان کا چہرہ پڑھتے ہوئے خوشی سے کہا۔

’’سر ہم نقل اپنے فائدے کے لیے کرتے ہیں لیکن اس سے ہمیں وقتی فائدہ میسر آتا ہے۔ ہمیں اس کام کی نقل کرنی نہیں چاہیے۔ لہٰذا آج سے میں عہد کرتا ہوں کہ میں نقل اس کام کی کروں گا جس سے ہمارا دل و دماغ پرسکون رہے۔‘‘ رضوان نے سنجیدگی سے جواب دیا۔

’’اچھا یہ تو تھا رضوان کا جواب اب میں تم سب سے پوچھتا ہوں کہ ہم سب کو کس کام کی نقل کرنے میں جلدی کرنی چاہیے۔‘‘ سرریاض نے خوشی کے جذبات پر قابو پاتے ہوئے کہا۔

’’سر ہمیں حضور اکرمﷺ کی سنت کی نقل میں جلدی کرنی چاہیے۔‘‘ سب طالب علموں نے یک زبان ہو کر جواب دیا۔

’’شاباش! مجھے آپ لوگوں سے اسی جواب کی توقع تھی۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

         ہماری سکول بس

 

آج ایف۔ جی ۔ماڈل سکول آئی ۔ٹین ۔ ٹو اسلام آباد میںسہ ماہی امتحان شروع ہو رہے تھے۔ اسمبلی ہال میں تمام طلبہ جمع تھے۔ پہلا پرچہ اُردو کا تھا۔ تمام طالب علم خوب محنت کر کے آئے ہوئے تھے۔ اسمبلی کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے ہوا۔ اس کے بعد ایک بچے نے نعت شریف پڑھی۔

اسمبلی کے ختم ہوتے ہی تمام طلبہ لائینوں میں اپنی اپنی جماعتوں کی طرف روانہ ہو گئے۔ کمرہ جماعت میں سیٹوں پر اُن کے رول نمبر لکھے ہوئے تھے جن پر انھوں نے بیٹھنا تھا۔ تمام طلبہ اپنی مقررہ کردہ سیٹوں پر بیٹھ گئے۔ اب صرف پرچے کا انتظار باقی تھا۔ اس دوران کچھ طلبہ جوابی کاپی پر حاشیہ لگانے میں مصروف تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد پرچے سب طلبہ میں تقسیم ہو گئے تھے۔

’’یار پرچہ بڑا آسان آیا ہے۔ شکر ہے خدا کا اُس نے لاج رکھ لی۔‘‘ تمام طلبہ میں چہ مگوئیاں ہو رہیں تھیں۔

 

اُن میں سے ایک طالب علم ایسابھی تھا جس کے دماغ میں کچھ اور ہی خیالات گردش کر رہے تھے۔ اس کا نام ریحان تھا۔ سکول میںسب سے دبلا پتلا طالب علم ہونے کا ریکارڈ اُس نے قائم کیا تھا ۔ اُس کے اس پرچے کے بار ے میں عجیب قسم کے خیالات تھے۔ جو کہ تقریباً سچ ہی تھے۔

’’پرچہ تو آتا ہی آسان ہے۔ اگر کچھ نہیں آتا ہو پھر پرچہ بہت مشکل ہوتا ہے۔‘‘ریحان نے خود کلامی کی۔

ریحان نے پرچے پر نگاہ ڈالی۔ سب سے پہلا سوال یہ تھا۔

’’ہماری سکول بس‘‘پر 200سے 250 الفاظ میں مضمون لکھیں۔

’’ارے یار مارے گئے۔ میں تو میر اسکول مضمون یاد کر کے آیا تھا۔‘‘ ریحان نے غم زدہ لہجہ میں خود کلامی کی۔

’’ میرا سکول مضمون یاد کیا ہے۔ کوئی بات نہیں۔ اپنی طرف سے سکول بس کا مضمون بنا لیتا ہوں۔ چلو اس طرح ہی مضمون لکھ لیتا ہوں۔‘‘ ریحان نے خود کو تسلی دیتے ہوئے کہا

’’ہماری سکول بس‘‘ریحان نے کالے مارکر سے خوبصورتی کے ساتھ مضمون کا نام لکھا۔ بسمہ اﷲ الرحیم الرحمن پڑھ کر مضمون لکھنا شروع کیا۔

میرے سکول کا نام ایف ۔ جی ۔ ماڈل سکول

آئی ۔ٹین ۔ٹو اسلام آباد ہے۔ سکول بسیس تو بہت سی ہوں گی۔ لیکن ہماری سکول بس جیسی کوئی بس نہیں ہو گی۔ وہ بہت خوبصورت اور دلکش ،دلفریب بس ہے۔ اُس میں دو دروازے، پچاس سیٹیں، ایک کولر پانی کا اور پچیس کے قریب کھڑکیاں ہیں۔۔۔۔۔

ریحان نے چند سطور ہی لکھیں تو اُسے سر نور محمد کی بات یاد آئی جو اُنھوں نے مضمون لکھنے کے بارے میں بتائی تھی کہ مضمون میں چھوٹے چھوٹے اور سادہ فقرے استعمال کرنے چاہیے۔ اپنے مضمون میں کوئی غلط بات بالکل نہیں لکھنی چاہیے۔ ہمیشہ درست بات کو تحریر کرنا چاہیے۔

ریحان نے مضمون جہاں سے چھوڑا تھا وہاں سے آگے لکھنا شروع کیا۔

ہماری سکول بس جب اسٹارٹ ہو جائے۔ یہ سمجھ لینا چاہیے کہ آج پھر آفت کسی کے گلے میں پڑے گی۔ اﷲ تعالی ہمیں اپنی پناہ میں رکھے۔(آمین)۔

کبھی خدانخواستہ بس میںسوار ہو گئے کہ گھر جلدی پہنچ جائیں گئے ۔لیکن بس کی مثال ایسی ہے کہ ایک پیدل آدمی بھی اس سے آگے نکل جائے۔ قدم قدم پر ایسے ڈولتی ہے کہ جیسے ہوا میں کٹی ہوئی پتنگ ہو۔ جب غصے اس کے انجن میں پٹرول بن کر اُتر آئے’’سمجھو‘‘  باہر والوں کی خیر نہیں ہے۔۔۔۔۔

ریحان نے قلم کو سر میں کھجایا اور خود کلامی کرتے ہوئے کہا ’’یار سر نے یہ بھی کہا تھا کہ موقع کی مناسبت کے مطابق اشعار کا استعمال بھی کرنا چاہیے۔‘‘

ریحان میں شاعر بننے کے تمام لوازمات کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے۔کہیں جگہوں پر دوستوں نے اُس کے شعر سن کر خوب داد بھی دی تھی۔

ریحان نے سوچتے ہوئے کہا ’’جب مضمون میں خود لکھ رہا ہوں تو اشعار بھی میرے پسند کے ہوں گے۔ ‘‘یہ کہہ کر ریحان نے جہاں سے مضمون چھوڑا تھا وہاں سے دوبارہ لکھنے لگا۔

بقلم شاعرہ:

قدم قدم پر یہ ڈولے

کبھی دھکے، کبھی ہچکولے

اندھا دھند جو بھاگتی جائے

تو چھوڑے دھوئیں کے مرغولے

چلتا نہیں ہے اس پر بس

یہ ہے ہماری سکول بس

ریحان نے ایک شعر لکھنے کی بجائے پورا قطعہ لکھ دیا یہ سوچ کر کے اس سے مضمون کی خوبصورتی میں اضافہ ہو گا۔

سکول بس کی سیٹیں بہت خوبصورت اور انوکھی ہیں۔ انوکھی بات یہ ہے کہ جب سیٹ پر کوئی بیٹھے ، سیٹ اُس کا بوجھ برداشت نہیں کر سکے گی خود با خود نیچے چلی جائے گی۔ جو سیٹ پر بیٹھنا ہوتا ہے ایسا لگتا ہے وہ آرام کر رہا ہے۔ سکول بس میں ایک بھی ہینڈل سلامت نہیں ہے جس کی مدد سے بس میں چڑھا جائے، سب اﷲ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے ہیں۔

ہمارے سکول بس کی مثال ایسی ہے کہ:پکڑیں کھڑکی تو ہاتھ دروازہ آئے۔

ہمارے سکول بس میں بھی اﷲ کے فضل و کرم سے گئیر ہیں۔ جب ڈرائیور انکل کو زیادہ غصہ آتا ہے۔ تب وہ گئیر لگاتے ہیں۔ گئیر لگانے سے ایسا لگتا ہے جیسے کسی معصوم کی ہڈیاں توڑنے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہو۔ گئیر لگانے کے بعد جو اس بے چاری بے جان بس پر ظلم ہوتا ہے،وہ اس کی برداشت سے باہر ہے۔ بس میں طلبہ ایک دوسرے کے اُوپر گرتے ہیں۔جو طلبہ کھڑے ہوتے ہیں وہ بیٹھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بس کی بیٹری سے ہائے ہائے کی آوازیں بلند ہونے لگتی ہیں۔ بیڑی اپنے آپ کو سنے لگتی ہے ۔ ریڈی ایڑ کا پیاس کے مارے بُرا حال ہوتا ہے۔ریڈی ایڑ صدائیں لگا رہا ہوتا ہے۔پانی۔۔۔۔۔پانی۔۔۔۔۔پانی۔۔۔۔۔

بریکوں سے بھی زور زور کی چیخوں کی آوازیں نکلتی ہیں۔ بریکیں کہتی ہے کہ مجھ ناکارہ چیز سے بھی محنت و مشقت لیتے ہو۔ خدا تم کو پوچھے گا۔

ایکسیلیٹر پاؤں سے چھوٹتا جاتا تھا۔ ٹائر بے چارے اپنے اُوپر ہونے والے ظلم و ستم کو سہار رہے تھے۔ بڑی لائٹوں کی آنکھوں میں سے آنسوؤں کا سیلاب رواں دواں تھا۔ چھوٹی لائٹیں اپنے اوپر ہونے والے مظالم کو برداشت کر رہیں تھیں اور پوچھ رہی تھی کہ ’’آخر کس جرم کی پائی ہے سزا‘‘

بس کے اندر بیٹھے طلبہ اپنی زندگی کی دعائیں مانگ رہے تھے ۔ اﷲ تعالیٰ اس سکول بس کو اپنی حفظ و امان میں رکھے ۔ (آمین)۔

’’کیوں کہ یہ ہے ہماری سکول بس‘‘

ریحان نے مضمون کا اختتام کرتے ہوئے خوش گوار موڈ میں ایک نظر گھڑی کو دیکھا جو ساڑھے دس بجا رہی تھی۔ ڈیڑھ گھنٹے میں اُسے باقی پرچہ بھی حل کرنا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

نیت

 

’’جہاں ریت ہی ریت ہو۔ اُس جگہ کو کیا کہتے ہیں؟‘‘ رومان نے معصومیت سے پوچھا

’’رومان بیٹی! اُس جگہ کو ریگستان یا صحرا کہتے ہیں۔‘‘ دادی امی نے پیار کرتے ہوئے جواب دیا

’’کیا ریگستان میں پانی ہوتا ہے؟‘‘ رومان نے پانی کو کلاس پکڑتے ہوئے کہا

’’پانی تو ہوتا ہے لیکن وافر مقدار میں نہیں ہوتا ۔ ریگستان میں پانی کو قدرت کا انمول عطیہ کہتے ہیں۔‘‘ دادی امی نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا

’’وہاں کے لوگ زندہ کیسے رہتے ہیں؟‘‘ رومان نے تعجب سے پوچھا

’’وہاں کے لوگ پانی کو ضائع نہیں کرتے ہیں۔ قطرہ قطرہ پانی کو گرنے نہیں دیتے ہیں۔اُسے احتیاط سے رکھتے ہیں۔‘‘دادی امی نے جواب دیا

’’دادی امی یہ سب کچھ چھوڑ دیں۔ یہ بتائیں آج کون سی کہانی سنا رہی ہیں۔‘‘رومان نے دونوں ہاتھوں سے اپنے آپ کو دادی کی گرفت سے آزاد کرتے ہوئے کہا

’’رومان بیٹی! آج تم نے ریگستان اور پانی کا پوچھا ہے ۔اس لیے تمھیں اسی کے متعلق کہانی سنوؤں گئی۔‘‘دادی امی جواباً کہا

’’دادی امی !یہ بہت اچھی بات ہو گئی۔اس میں اور لطف آئے گا۔‘‘ رومان نے دلچسپی لیتے ہوئے کہا

دادی امی نے کہانی شروع کی۔

برسوں پرانی بات ہے کہ دو قبیلوں کا ایک میٹھے پانی کا کنواں پر جھگڑا ہو گیا۔ ایک قبیلہ کا نام حجاز تھا اور دوسرے قبیلہ کا نام قاسم تھا۔قاسم ایک لالچی اور مغرور سردار تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ کنواں کا پانی صرف اور صرف میرے قبیلے والے ہی استعمال کر سکیں۔ اگر کوئی دوسرا استعمال کرے تو اُسے اس کی قیمت ادا کرنی پڑے ۔ کیونکہ ریگستان میں ایک ہی میٹھا کنواں تھا۔ اس سے صاف و شفاف پانی نکلتا تھا۔ اس پانی کے بدلے میں وہ قبیلے والوں سے بھاری مقدار میں رقم وصول کرے گا۔ اس طرح اُسے بہت فائدہ حاصل ہو گا۔ جبکہ حجاز قبیلے والے یہ چاہتے تھے کہ میٹھے کنواں پر دونوں قبیلوں کا حق یکساں ہو۔دونوں قبیلے والے اس سے فائدہ اُٹھا سکیں۔ قبیلہ حجاز نے اپنا ایک قاصد قبیلہ قاسم کی طرف روانہ کیا۔قاصد نے قاسم کو قبیلے والوں کی رائے سے آگاہ کیا۔ لیکن قاسم پر دولت کا بھوت سوار تھا۔ اس لیے قاسم نے قاصد کو قتل کر دیا۔ قاصد کے قتل کی اطلاع جب قبیلہ حجاز کو ہوئی انہوں نے ایک فوج تیار کروائی اور کنواں پر قبضہ کرنے کے لیے روانہ ہو گئے۔جب قاسم کو خبر ہوئی کہ حجاز قبیلہ کنواں پر قبضہ کرنے کے لیے چلا گیا ہے۔قاسم نے فوراً اپنی فوج کو اکٹھا کر کے کنواں کی جانب کو چ کیا۔۔۔۔۔

’’دادی امی کیا ایک کنواں کی خاطر یہ دونوں قبیلے جنگ کریں گے۔‘‘رومان نے حیرت سے کہا

’’رومان بیٹی! قاسم کی آنکھوں پر دولت کی پٹی بندھی ہوئی تھی۔ اُسے دولت کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔اس کی نیت میں ہی کھوٹ تھا۔‘‘دادی امی نے جواباً کہا

دادی امی نے کہانی جہاں سے چھوڑی تھی،وہاں سے شروع کی۔

دونوں قبیلے والوں نے کنواں کے پاس پہنچ کر پڑاؤ ڈال دیا۔ کنواں کے ساتھ ایک بزرگ نماز پڑھ رہے تھے۔بزرگ جب نماز سے فارغ ہو گئے۔ انہوں نے دونوں قبائل کی طرف دیکھا۔ قاسم اور حجاز دونوں بزرگ کے پاس آئے۔

’’اے نیک دل بزرگ آپ کو ن ہیں ۔‘‘ قاسم نے ادب سے پوچھا

بزرگ نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔

’’نیک دل بزرگ آپ جو کوئی بھی ہیں۔ یہاں سے چلے جائیں۔ ہمیں آج ہی اس کنواں کو فیصلہ کرنا ہے۔‘‘حجاز نے تلخ انداز میں کہا

’’سالوں سے یہ کنواں خشک تھا۔آج خدا نے اسے میٹھے پانی سے جاری کیا ہے۔اسطرح خدا کی ناشکری نہ کرو۔ کنواں کے پانی کی کوئی راہ نکل لو۔‘‘بزرگ نے کنواں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا

’’مشورہ یہ تھا کہ اس کنواں سے دونوں فائدہ اُٹھائیں گے لیکن یہ مانتا ہی نہیں؟‘‘ حجاز نے اپنے قبیلے کی راہ سے آگاہ کیا۔

’’یقیناً! اس کی نیت میں ضرور فتور ہو گا۔‘‘بزرگ نے اطمینان سے کہا

’’بزرگ میں آپ کی بہت عزت کرتا ہوں۔ اس لیے مجھے مجبور نہ کریں کہ آپ کی بے ادبی کر جاؤں۔‘‘ قاسم نے غصہ سے کہا

’’اس خون خرابے سے تم کو کچھ نہیں ملے گا۔تم اس فیصلہ سے ضرور پچھتاؤ گے۔ تمھاری آنکھوں میں دولت اور حسد کی پٹی بندھی ہوئی ہیں۔‘‘

بزرگ نے سنجیدگی سے کہا۔

دونوں قبیلوں کے درمیان جنگ ہوئی۔کنواں کے ارد گرد ہی لاشوں کے انبار جمع ہونے لگے۔آخر میں حجاز قبیلے کی شکت ہوئی۔قاسم نے کنواں پر قبضہ کر لیا۔ سب سے پہلے کنواں میں سے ایک مشکیزہ نکلا اور اپنے گھر والوں کے لیے بھیج دیا۔ قبیلے والوں نے بھی کنواں میں سے پانی پینے کی درخواست کی۔ قاسم نے اجازت دے دی اور اپنے لیے بھی ایک پیالہ منگوا لیا۔ کا فی دیر ہو گئی۔ قاسم کو پیاس کی شدت تنگ  کرنے لگی۔تب وہ اپنے خیمے کے باہر آیا۔ کیا دیکھتا ہے کہ سارے لوگ گر ے ہوئے پڑے تھے۔صرف ایک آدمی ابھی لا کھڑا رہا تھا۔قاسم نے فوراً جا کر سہارا دیا۔

’’یہ سب کیا ہو گیا۔‘‘ قاسم نے حیرانگی سے پوچھا

’’سردار کنواں کا پانی زہریلا ہو گیا ہے۔‘‘ اُس آدمی نے یہ کہتے ہی دم توڑ دیا۔

قاسم ابھی خود کو سنبھال بھی نہ سکا تھا کہ ایک قاصد قبیلے کی طرف سے آتا دکھائی دیا۔قاسم قاصد کو دیکھتے ہی اس کی طرف لپکا۔

’’سردار‘‘ قاصد نے غمزدہ لہجہ میں کہا

’’میری بیوی توسلامت ہے۔‘‘ قاسم نے حوصلہ کرتے ہوئے پوچھا

’’غضب ہو گیا۔ سردار! آپ کی بیوی وہ پانی پیتے ہی ہلاک ہو گئی۔‘‘قاصد نے روتے ہوئے بتایا۔

یہ سننا تھا کہ قاسم زمین پر گرا اور بے ہوش ہو گیا۔ جب ہوش آیا تو خود کو قبیلے میں پایا۔قاسم نے سب سے پہلے یہ کام کیا کہ گاؤں میں منادی کرا دی کہ کنواں اب زہریلا ہو گیا ہے۔قاسم ہر وقت اﷲ تعالی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا رہتا تھا۔ قاسم نے سچے دل سے توبہ کر لی تھی کہ نہ وہ مخلوق خدا کا نا حق خون بہائے گا اور نہ ہی انہیں قتل کرے گا۔ مخلوق خدا کی خدمت میں اپنا سب کچھ لوٹا دے گا۔رات کو قاسم کے خواب میں وہی بزرگ آئے۔

’’اے نیک دل بزرگ آپ ہی بتاؤ،کنواں کا پانی زہریلا کیسے ہو گیا۔‘‘ قاسم نے روتے ہوئے کہا

’’قاسم! تم نے ناحق اﷲ کے بندوں کو قتل کیا۔ صرف اپنے مفاد کے لیے کنواں پر قبضہ کیا۔ اس لیے اﷲ تعالیٰ نے تمھیں سز ا دی ہے۔ اب تم حجاز قبیلے کے پاس جاؤ اور ان سے اپنے کیے کی معافی طلب کرو۔ انہوں نے معاف کر دیا ’’سمجھو‘‘ تمھیں خدا نے معاف کر دیا۔اﷲ تعالیٰ  بہت غفور و رحیم ہے۔ وہ اپنے بندے کو کبھی تکلیف میں دیکھ سکتا ہے۔‘‘ بزرگ نے تحمل مزاجی سے جواباً کہا

قاسم صبح سویرے ہی قبیلہ حجاز کے پاس پہنچ گیا۔ ان سے اپنے کئے کی معافی طلب کی اور کنواں کے پانی کا استعمال کرنے کے لیے کہہ دیا۔

’’معاف ہم اُسی صورت میں کریں گے۔جب کنواں کا پانی پہلے تم پی کر دکھاؤ گے۔‘‘حجاز نے شرط رکھتے ہوئے کہا

’’آؤ چلو! کنواں کے پاس چلتے ہیں۔‘‘قاسم نے خوشی سے کہا

قاسم نے جب کنواں کا پانی پیا تو وہ ایک دم صاف و شفاف اور میٹھا تھا۔ اُس نے دوسرا پیالہ حجاز کی طرف بڑھا دیا۔

قاسم نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا’’ یا خدا تیرا لاکھ لاکھ دفعہ شکر ہے جو کنویں کے زہریلا پانی کو میٹھا کر دیا۔میں تیرا بے حد شکر گزار ہوں۔

’’رومان بیٹی! یہ کہانی بھی ختم ہو گئی۔اب تمھاری باری ہے۔‘‘  دادی امی نے مسکراتے ہوئے کہا

’’دادی امی! ہمیں غرور کبھی نہیں کرنا چاہیے۔ اﷲ تعالیٰ کا ہر حال میں شکر ادا کرنا چاہیے۔اپنی نیت کو صاف رکھنا چاہیے۔کیونکہ اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہوتا ہے۔‘‘ رومان نے خوشی سے اُچھلتے ہوئے کہا

’’شاباش!!! ‘‘دادی امی نے داد دیتے ہوئے کہا

٭٭٭

 

 

 

 

مار نہیں پیار

 

علی رضا کا دل زور زور سے دھک دھک کر رہا تھا۔ ایسا کام پوری زندگی میں نہیں کیا تھا۔آج صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو یہ قدم اُٹھانا پڑا۔علی رضا نے فتح یاب نگاہوں سے اپنے کام کو اختتام پذیر کیا۔

’’ٹرررن۔۔۔۔۔ٹرررن۔۔۔۔۔ٹرررن‘‘ پریڈ ختم ہونے کی گھنٹی بجی۔

’’حیدر آئندہ کے بعد کوئی کام مت دینا۔میری تو جان نکل جانے والی تھی۔‘‘ علی رضا کانپتے ہوئے بولا

’’یار مجھے پتہ تھا تو یہ کام ضرور کر لے گا۔ اس لیے تجھے دیا تھا۔‘‘ حیدر ہنسی میں بات ٹالتے ہوئے بولا

’’حیدر سر کیا سوچیں گئے میری اس شرارت سے ان کو بہت دکھ ہو گا۔‘‘علی رضا نے شرمندہ ہوتے ہوئے بولا

’’میرے خیال سے سر تمھیں سکول سے خارج کر دیں گے۔‘‘نعمان جو ان دونوں کی باتیں سن رہا تھا گفتگو میں حصہ ڈالتے ہوئے بولا

’’نعمان تم ہمیشہ سیدھے سادے لڑکوں کو ڈرتے رہتے ہو۔تمھارا کام ہی یہی ہے۔‘‘حیدر نے نعمان کو ڈانٹتے ہوئے بولا

’’میرا دل گھبرا رہا ہے۔نعمان کیا تم سچ کہہ رہے ہو؟‘‘ علی رضا نے سوالیہ لہجہ میں پوچھا

’’8B ایک لڑکا تھاقاسم اُس نے شرارت کی تھی۔ سر نے اُسے سکول سے خارج کر دیا۔‘‘ نعمان نے ثبوت کے ساتھ جواب دیا

’’یار تم اس کی باتوں پر دھیان نہ دو۔ یہ بکواس کر رہا ہے ۔ تم پر کسی کا شک نہیں جائے گا۔‘‘ حیدر نے دلاسہ دیتے ہوئے کہا

’’حیدر تیری اس شرارت سے میں مارا جاؤں گا۔‘‘ علی رضا نے غم زدہ لہجہ میں بولا

حیدر ذہن اور  محنتی لڑکا تھا۔بس اس میں ایک خامی تھی کہ وہ غیر نصابی سرگرمیوں میں زیادہ حصہ لیتا تھا۔ گزشتہ ایک ہفتہ سے وہ پی ٹی میں الجھا ہوا تھا۔ اس وجہ سے وہ حاضری بھی نہیں دے سکاتھا۔حیدر نے علی رضا کو مجبور کر کہ حاضری رجسٹر پر اپنی حاضری لگوا لی تھی۔اب ان کو یہ ڈر تھا کہ سر کو پتہ نہ چل جائے۔

سکول سے چھٹی کے بعد حیدر اور علی رضا کے ذہن میں یہی بھوت سوار تھا کہ حاضری رجسٹر دیکھنے کے بعد سر کیا کاروائی کرتے ہیں۔ حیدر کو رہ رہ کر اپنی شرارت پر افسوس ہو رہا تھا۔حیدر نے اپنے معصوم سے دوست سے ایسا کام سرانجام کروایا ہے۔اس سے علی رضا کا مستقبل تباہ ہوسکتا تھا۔’’اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا ں ۔۔۔۔۔‘‘ والا محاورہ اُس پر پورا آ رہا تھا۔

’’اچھا حیدر میرا گھر آ گیا ہے۔‘‘ علی رضا نے حیدر کا نادم چہرا پڑھتے ہوئے بولا

’’یار میں نے۔۔۔۔۔۔‘‘ حیدر نے فقرہ ادھورا چھوڑ دیا

’’حیدر تم اپنی شرارت پر نادم ہو۔مجھے اور  کیا چاہیے۔اب سر پر ہے وہ کیا کرتے ہیں۔‘‘علی رضا نے حیدر کا جھکا ہوا سر اُوپر کرتے ہوئے کہا

٭٭

 

سر نے حاضری رجسٹر اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے کمرے جماعت میں داخل ہوئے۔تمام طالب علموں نے کھڑے ہو کر سلام کیا۔ سر کے بیٹھ جانے کے بعد تمام طالب علم اپنی اپنی سیٹوں پر بیٹھ گئے۔ کمرہ جماعت میں نعمان،حیدر اور علی رضا کا چہرہ دیکھنے کے قابل تھا۔ تینوں شدت سے انتظار تھا کہ سر کیا سزا تجویز کرتے ہیں۔سر نے حاضری رجسٹر کھولا اور حاضری لینے لگے۔ اچانک ان کے چہرے کے تاثرات تبدیل ہو گئے۔

’’علی رضا کھڑے ہو جاؤ۔‘‘ سر نے بھاری آواز میں کہا

علی رضا نے جب اپنا نام سنا تو حالت پتلی، منہ رونے والا اور ہاتھوں میں پسینے آ گیا۔ ڈرتے ڈرتے کھڑا ہوا۔

’’کیا بات ہے ۔تمھارے بھی پر نکل آئے ہیں۔تم بھی شرارت کرنے لگے ہو۔‘‘ سرنے طنز کرتے ہوئے کہا

’’سر غلطی ہو گئی آئندہ نہیں کروں گا۔‘‘علی رضا ہکلاتے ہوئے بولا

’’بھئی یہ شرارت تمھاری نہیں لگتی۔اس کے پیچھے کسی اور کا ہاتھ بھی ہے۔‘‘ سر نے حیدر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا

’’جی سر۔ یہ شرارت میری ہے۔‘‘ حیدر اپنی جگہ سے اُٹھتے ہوئے بولا

سر یہ اچھی طرح جانتے تھے کہ حیدر اور علی رضا محنتی اور ذہن طالب علم ہیں۔یہ شرارت ان سے نادانی میں ہوئی ہے۔وہ دونوں شرارت پر نادم بھی ہیں ۔

سرنے مسکراتے ہوئے کہا  ’’اگر حاضری لگانی تھی مجھے بتا دیتے ،میں لگا دیتا۔آپ نے تو اتوار کی حاضری بھی نہیں چھوڑی ۔اس وجہ سے تم دونوں پکڑے گئے ہو۔‘‘

’’سر ہمیں معاف کر دیں۔ ہم اپنی شرارت پر بہت شرمندہ ہیں۔‘‘حیدر اور علی رضا یک زبان ہو کر بولے۔

’’ٹھیک ہے۔ آئندہ ایسی شرارت نہیں ہونی چاہیے۔‘‘سر نے پیارے بھرے انداز میں کہا

ایک منٹ تک کمرہ جماعت میں خاموشی چھائی رہی۔نعمان نے خاموشی کے سکوت کو توڑتے ہوئے سر سے پوچھا’’ سر! مجھے لگتا تھا کہ آپ دونوں کو مار مار کر سکول سے خارج کر دیں گے۔لیکن آپ نے ایسے نہیں کیا۔‘‘

’’نعمان!مار سے بچے ڈھیٹ ہو جاتے ہیں۔پیار سے بچے سدھر جاتے ہیں۔اس لیے تو سکول کے باہر لگا ہوتا ہے ’’مار نہیں پیار‘‘  ‘‘ سر نے مسکراتے ہوئے جواب دیا

٭٭٭

 

 

 

 

موت کا تعاقب

 

’’ایلس مجھے تمھارا ساتھ چاہیے۔ آپس کی رنجشوں کو بھُلا کر ہمیں مہم پر جانا ہو گا۔‘‘کیپٹن مارشل نے کہا

’’یس سر!‘‘ ایلس نے جواباً کہا

’’چلو، اپنی بلیٹن سے کہو تیا ر ہو جائے۔ہمیں دو گھنٹے کے بعد روانہ ہونا ہے۔‘‘کیپٹن مارشل نے احکام جاری کرتے ہوئے کہا

ایلس کے ساتھ کھڑے چیف لاسن نے حیرت سے دیکھتے ہوئے پوچھا’’ایلس! یہ کیا ہو رہا ہے۔ابھی کل ہی تو ہم بحری بیڑے سے واپس آئے ہیں۔ میری تو چھٹی بھی منظور ہو گئی تھی۔‘‘

’’پریشان نہ ہو۔میں ابھی معلومات حاصل کر کے آتا ہوں۔‘‘ ایلس نے جواب دیا اور ایڈمرل کے دفتر کی طرف روانہ ہو گیا۔چند منٹ کے بعد وہ ایڈمرل کے کمرے کے سامنے کھڑا تھا۔وہ دستک دے کر اندر چلا گیا۔

’’آؤ۔۔۔۔آؤ۔۔۔۔ایلس،مجھے تمھارا ہی انتظار تھا۔‘‘ ایڈمرل جوزف نے ایلس کو دروازے سے اندر داخل ہوتے ہوئے دیکھ کر کہا

ایڈمرل جوزف نے اب کیپٹن رسل کی طرف آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ اشارے کیے ۔کیپٹن رسل کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی وہ اسے پکڑ کر چارٹ پر بنے ہوئے نقشے سے کچھ ہدایات دے رہے تھے۔انہوں نے مہم پر جانے کے لیے مکمل تفصیلات سے آگاہی دی۔

’’کوئی بات پوچھنی ہے تو بتائیں؟‘‘ ایڈمرل جوزف نے تفصیلات بتانے کے بعد کہا

’’سر!میرے سیلر(سپاہی)کو بندوق چلانے کی تربیت نہیں ہے۔‘‘ایلس نے سوچ کر کہا

’’میجر پال اس مہم میں آپ کے ساتھ جائیں گے اور سپاہیوں کو تربیت دیں گے۔‘‘ ایڈمرل جوزف نے ایک شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا

اس کے بعد تھوڑی دیر تک کمرے میں مکمل خاموشی چھائی رہی۔ اس خاموشی کے سکوت کو دروازہ کھولنے کی آواز نے توڑا۔ جہاں سے کیپٹن مارشل اندر داخل ہو رہے تھے۔

’’سر! ہمیں ایک ایسا سپاہی بھی چاہیے جو دشمنوں کی زبان سمجھ سکتا ہو۔‘‘ کیپٹن مارشل نے سانس بحال کرتے ہوئے کہا

’’سر! میرے پاس ایسا سپاہی موجود ہے۔‘‘ایلس نے کیپٹن مارشل کے سوال کا جواب دیا

’’ٹھیک ہے پھر مہم پر جانے کی تیاری کریں۔‘‘ایڈمرل جوزف نے آخری کلمات کہے

ایلس اور کیپٹن مارشل کمرے سے باہر آ گئے۔وہاں پر دشمنوں کی طرز کی آبدوز کھڑی تھی۔ جس پر دشمنوں کا پرچم لگا ہوا تھا۔ سار ا سامان تقریباً آبدوز میں پہنچ گیا تھا۔ ضروری جانچ پڑتال کے بعد ایلس اور کیپٹن مارشل آبدوز میں چلے گئے۔اب آبدوز آہستہ آہستہ چلنے شروع ہو گئی تھی۔آبدوز کے اندر کیپٹن مارشل نے سپاہیوں کا جائزہ لیتے ہوئے بات کا آغاز کیا۔’’ہم ایک بہت اہم خفیہ مہم پر جا رہے ہیں۔ دشمنوں کی آبدوز کسی وجہ سے چل نہیں رہی۔انہوں نے مدد کے لیے ریڈیو سے پیغام بھیجا جو ہمیں بھی معلوم ہو گیا۔اس لیے اُن کی مدد آنے سے پہلے ہمیں آبدوز پر سے خفیہ راز حاصل کرنے ہیں۔ اس مہم میں میجر پال بندوق چلانے کی تربیت دیں گے۔‘‘

میجر پال نے بھی مہم کی اہمیت و افادیت کے بارے میں آگاہی دی۔ اس کے بعد ایلس کھڑا ہوا اور کہنے لگا’’اس مہم میں کیپٹن مارشل ہمارے کپتان اور میں کمانڈنگ آفیسر ہوں۔‘‘

اس میٹنگ کے بعد تمام سپاہی اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے۔ کچھ سپاہی آرام کی خاطر اپنے بستروں پر لیٹ گئے۔ آبدوز تیز رفتار سے اپنی منزل کی طرف گامزن تھی۔ وہاں میجر پال سپاہیوں کو تربیت دے رہے تھے۔چند دنوں میں وہ اپنی منزل کے بالکل قریب پہنچ گئے تھے۔باہر موسم بہت خراب تھا،بجلی کے چمکنے اور بادلوں کے کڑکڑاہٹ کے ساتھ زور و شور سے بارش ہو رہی تھی۔ ایک سپاہی نے جو عرشے پر موجود تھااُس نے اطلاع دی کہ پانچ سو میڑ کی دوری سے کوئی ہمیں اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘‘کیپٹن مارشل نے ایلس ،میجر پال اور سپاہیوں کو دیکھ کر کہا’’ ہماری منزل آ گئی ہے۔سب جلدی سے تیار کرو۔‘‘ کیپٹن مارشل کے احکامات ملنے کی دیر تھی کہ سب تیاری کرنے لگے۔میجر پال کی ہدایت کے مطابق سب نے دشمنوں کا لباس پہنا ہوا تھا جس سے ایسا لگے کہ ہم مدد کرنے والے ہیں۔کیپٹن مارشل اور چند سپاہی جہاز میں رہے اور میجر پال اور ایلس باقی سپاہیوں کے ساتھ لائف بوٹ کے ذریعے دشمنوں کی آبدوز کی طرف روانہ ہو گئے۔

’’جب میں کہوں ،تب ہی فائر کرنا۔‘‘ میجر پال نے ضروری ہدایات دی

لائف بوٹ اب آبدوز کے قریب سے قریب تک پہنچ رہی تھی۔دشمنوں کے آبدوز کا کپتان بار بار اُونچی آواز میں کچھ پوچھ رہا تھا۔ ایلس نے جیف کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا جو اُن کی زبان سمجھ سکتا تھا ’’و ہ کیا کہہ رہے ہیں۔‘‘ جیف نے جواباً کہا’’ کیا تم مدد کرنے کے لیے آئے ہو۔‘‘

دشمنوں کے کپتان کی آواز زور زور سے آ رہی تھی۔ایلس بار بار میجر کی طرف دیکھ رہ تھا جو احکامات جاری کریں۔جب لائف بوٹ آبدوز کے قریب پہنچ گئی تو جیف نے بھی اس کا اونچی آواز میں جواب دیا۔ساروں نے دشمنوں کا لباس پہنا ہوا تھا۔ اس لیے دشمن کپتان کو کوئی شک و شبہ نہیں ہوا۔لائف بوٹ اب آبدوز کے ساتھ لگ گئی تھی۔ سیڑھیوں کی مدد سے وہ اوپر چڑھنے لگے۔ اچانک آخری سپاہی کے ہاتھ سے مشین گن دشمن کے کپتان کو نظر آ گئی۔ اُس نے تمام عملہ کو آگاہ کر دیا۔ اس کے بعد گولیوں کی بوچھاڑ شروع ہو گئی۔اس کے برعکس میجر ،ایلس اور سپاہیوں نے بھر پور کوشش کی اور آبدوز پر قابو پا لیا اور دشمنوں کے سپاہیوں کو قیدی بنا لیا۔

میجر پال لائف بوٹ کے ذریعے اپنی آبدوز پر آئے اور قیدیوں کو نمبر لگانے میں مصروف ہو گئے۔دوسری آبدوز پر اب صرف ایلس اور چند سپاہی رہ گئے تھے۔ان ہی سپاہی میں ایک کا نام چیف لاسن تھا جو ہر کامیاب مہم کے بعد تصاویر بنوا کر اپنے پاس محفوظ کر لیتا تھا۔اس مقصد کے لیے اُس نے اپنا کیمرہ ہر مہم میں اپنے ساتھ رکھتا تھا۔

’’ایلس سر! آپ کی جیت کی خوشی میں ایک فوٹو ہو جائے۔‘‘چیف لاسن نے کیمرے کو سیٹ کرتے ہوئے کہا

ایلس نے تھوڑا سا پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔ اُس کے چہرے پر جیت کی خوشی صاف دکھائی دے رہی تھی۔چیف لاسن نے ابھی تصویر لی ہی تھی کہ ایک زور دار دھماکہ ہوا اور اُن کی آبدوز آگ اُگلنے لگی۔ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ سپاہی اپنے آپ پر قابو نہ پاسکے۔ اور اُڑ اُڑ کر سمندر میں گرنے لگے۔ اس اچانک حملے نے ایلس کے دماغ کو ماؤف کر دیا تھا۔

’’تمام اس آبدوز میں اندر چلے جائیں۔‘‘ایلس نے کو خود کو سنبھالتے ہوئے کہا

چیف لاسن نے دور سے ایک آبدوز کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھ کر کہا’’سر!مدد گار آبدوز آ گئی ہے۔‘‘

ایلس اور باقی سپاہی جو بچ گئے تھے وہ آبدوز کے اندر چلے اور ایلس نے سب سے پہلے یہ حکم دیا کہ آبدوز میں کیا خراسبی یہ معلوم کرو۔اس کام کے لیے ایڈی ان کے کام آ گیا تھا جو انجن کا کام جانتا تھا۔

’’سر! اس آبدوز کا پیچھے کا انجن خراب ہے اور آگے کے انجن میں معمولی خرابی ہے ۔وہ جلدی ٹھیک کر دوں گا۔‘‘ ایڈی نے آبدوز کی صورت حال بتاتے ہوئے کہا

’’جیف تم ایڈی کے ساتھ جاؤ اور انجن سٹارٹ کرنے میں مدد کرو۔ ہمیں جلدی سے جلدی سمندر کے اندر جانا ہے۔‘‘ ایلس نے دوربین سے مد د گار آبدوز کو دیکھتے ہوئے کہا

معمولی خرابی کو دور کرنے کے بعد ایڈی نے جیف کی مدد سے انجن سٹارٹ کر دیا تھا۔آبدوز اب سمندر کے اندر جا رہی تھی۔

’’۱۰ میٹر نیچے۔۔۔۔۔۔۔۔۲۰ میٹر نیچے۔۔۔۔۔۔۔۔۳۰ میٹر نیچے۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ چیف لاسن کی آواز وقفے وقفے سے آ رہی تھی۔

’’ سر! میں دوسری آبدوز کی آواز بہت صاف سُن سکتا ہوں۔‘‘ایک سپاہی ولسن نے کہا

’’ایڈی!ہمارے پاس کتنے تارپیڈو ہیں۔‘‘ ایلس نے ایڈی سے رابطہ قائم کرتے ہوئے کہا

’’پانچ ہیں سر!‘‘ ایڈی کا جواب آیا

’’تارپیڈو کو تیار کرو،کسی بھی وقت ضرورت پیش آسکتی ہے۔ ‘‘ایلس نے ضروری ہدایت دیں۔

’’سر! انھوں نے تار پیڈو فائر کر دیا ہے۔‘‘ ولسن نے پریشانی سے کہا

’’آبدوز کو دائیں طرف موڑ لو۔‘‘ اس احکام کو جاری کرنے کے بعد ایلس نے ایڈی سے رابطہ کیا اور تارپیڈو کو فائر کرنے کے لیے کہا

آبدوز بہت آہستہ آہستہ کر کے اپنی سمت تبدیل کر رہی تھی۔ اسی دوران ایڈی نے چار تار پیڈو آگے پیچھے فائر کر دیے تھے۔ایلس اور باقی سپاہیوں کے چہرے پر ایک رنگ آ رہا تھا اور دوسرا رنگ جار ہا تھا۔ سخت سردی کے موسم میں بھی پسینہ سے وہ شربور تھے۔ تارپیڈو کی شکل میں موت آہستہ آہستہ اُن کی طرف بڑھ رہی تھی۔

’’خدا ہماری مد د فرما‘‘ ایلس نے یہ کہا اور آنکھیں بند کر لیں

’’سر!تار پیڈو ہمارے نیچے سے گزار گئے ہیں۔میں اُن کی آواز سن سکتا ہوں۔‘‘ولسن نے موجوں کی آواز سنتے ہوئے کہا

اس کے تھوڑی دیر بعد ہی ایک زور دار دھماکہ ہوا اور مددگار آبدوز تباہ ہو گئی۔

’’اب کیا حکم ہے سر!‘‘چیف لاسن نے ایلس سے پوچھا

’’ہمیں اُوپر لے چلو، کوئی زندہ ہو تو اُسے بچا لیں گے۔‘‘ایلس نے پسینہ صاف کر تے ہوئے کہا

آبدوز کو سطع سمند ر پر لے جایا گیا۔ایلس اور باقی سپاہیوں نے سرچ لائٹ کی مدد سے دیکھنا شروع کر دیا۔ جہاں تک نظر جا رہی تھی لاشیں ہی لاشیں نظر آ رہی تھیں۔اچانک ایلس کی سرچ لائٹ کیپٹن مارشل پر پڑی جن کی کچھ سانسیں چل رہی تھی۔ ایلس نے رسی اُن کی طرف پھینکی۔’’ ایلس اب تم کپتان ہو اور مہم کی کامیابی تمھارے سر پر ہے ۔‘‘کیپٹن مارشل نے آخری کلمات کہے اور مر گئے۔

ایلس باقی سپاہیوں کے ساتھ آبدوز میں چلا گیا۔آبدوز آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔سب کے چہر ے غم زدہ تھے۔اب وہ کیسے واپس جائیں گے۔ان ہی خیالات کا اظہار ولسن نے کر دیا’’ سر! ہم واپس کیسے جائیں گے۔‘‘

’’ہم انگلینڈ سے ہو کر واپس جائیں گے۔‘‘ ایلس نے جواب دیا

’’سر! وہاں تو جنگ ہو رہی ہے۔ ہم دشمنوں سے بچ کر کیسے جا سکتے ہیں۔‘‘ اس دفعہ ایڈی نے سوال کیا۔

’’میں نہیں جانتا۔‘‘ ایلس نے مایوسی سے جواب دیا

’’سر! ہم ریڈیو کے ذریعے پیغام بھیج کر مدد مانگ سکتے ہیں۔‘‘جیف نے اپنا خیال ظاہر کیا

’’جیسی غلطی انھوں نے کی ویسی ہم بھی کر دیں۔یہ ناممکن ہے۔‘‘ایلس نے دو ٹوک جواب دیا

’’ہم اپنے آپ کو یونہی مرنے کے لیے پیش کر دیں۔ یہ نہیں ہو سکتا ۔‘‘ولسن نے جذباتی ہوتے ہوئے کہا

’’ایسا نہیں ہو گا۔‘‘

’’کیپٹن مارشل ہوتے تو وہ یہی فیصلہ کرتے کہ پیغام بھیجا جائے۔‘‘ ایڈی نے اس بار کہا

’’کیپٹن مارشل مر گئے ہیں۔ اب ایلس تمھارا کپتان ہے ۔ان کا حکم ماننا تم پر لازم ہے۔‘‘چیف لاسن جو خاموش بیٹھا تھا غصے سے بولا

ایلس ایک کمرے میں چلا گیا اور آنکھیں بند کر کے آرام کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ اُس کی زندگی میں یہ پہلی بار ہوا تھا۔ اب اس معاملے کو وہ کس طرح حل کرے یہ سوچ رہا تھا۔دروازے پر دستک ہوئی اور چیف لاسن اندر داخل ہوا۔ ایلس نے چیف لاسن کو دیکھتے ہوئے کہا ’’بولو، کیا کہنا چاہتے ہو۔‘‘

’’سر! اگر آپ بُرا نہ مانے تو ایک بات کہوں۔‘‘چیف لاسن نے اجازت طلب کرتے ہوئے کہا

ٹھیک ہے ۔کہو کیا کہنا چاہتے ہو۔‘‘ایلس نے چیف لاسن کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا

’’سر! میری ایک عمر گزاری ہے سمندر ی سفر کرتے ہوئے۔آپ ابھی کم عمر ہیں اور اتنا تجربہ بھی نہیں رکھتے کہ سپاہیوں کو ان مشکل حالات میں کیسے قابو کر کے احکامات کو پورا کروایا جائے۔ایک کمانڈنگ آفیسرلیڈر ہوتا ہے۔اگر وہ مایوسی کی باتیں کرنے لگے تو سپاہی تو پہلے ہی دل چھوڑ بیٹھتے ہیں۔’’میں نہیں جانتا‘‘ اس فقرے نے سپاہیوں کے دل چیر دیے ہیں۔ اس لیے آپ ہمیشہ مثبت اور تعمیری سوچ رکھیں۔‘‘

ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ جیف نے آ کر بتایا کہ دشمنوں کا ایک طیارہ آبدوز کے گرد منڈلا رہا ہے۔ایلس نے دوربین پکڑی اور عرشے پر آ گیا۔ جیف نے مشین گن سنبھال لی۔ ایلس دور بین سے طیارے کو دیکھنے لگا۔’’یہ دشمنوں کا طیارہ ہے۔اُسے دیکھ کر اپنا ہاتھ ہلا آؤ۔‘‘ایلس نے حکم دیا

ایلس ، جیف اور ولسن نے ٹوپی کو ہاتھ میں پکڑا اور ہاتھ ہلانے لگے۔طیارہ ایک زناٹے کے ساتھ اُن کے اوپر سے گزار گیا۔

’’سر! طیارہ واپس آ رہا ہے۔جیف مشین گن کا رخ اُس کی طرف کر لو۔‘‘ ولسن نے پریشانی سے کہا

’’تمھیں جو حکم دیا ہے اُسے پورا کرو۔‘‘ایلس نے غصے سے کہا

’’جیف دیکھ کیا رہے وہ طیارے ہماری طرف آ رہا ہے،فائر کرو۔‘‘ ولسن نے جذباتی انداز میں کہا

’’جیف تم اس کی باتوں پر توجہ نہ دو۔‘‘ایلس نے ولسن کو گھورتے ہوئے کہا

جیف کی حالت اُس وقت ایسی تھی کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔پسینہ سے بُرا حال ہو گیا تھا۔طیارہ ایک زناٹے کے ساتھ آیا اور اُن کے سر کے اُوپر سے گزر گیا۔

’’میں نے کہا تھا کہ وہ صرف ماحول چیک کرنے آیا ہے۔‘‘ایلس نے گرجتے ہوئے ولسن سے کہا

’’سر! وہ دیکھیں سامنے دشمنوں کا بحری جہاز نظر آ رہا ہے۔‘‘جیف نے ایلس کی توجہ جہاز کی طرف کروائی

’’بہت بُرا ہوا،ولسن تم جا کر  ایڈی اور جیف لاسن سے کہو کہ ہمیں سمندر میں لے جاؤ۔ایلس نے ہدایت دی

بحری جہاز سے لائف بوٹ میں سپاہی ان کی طرف آ رہے تھے۔اب حکمت عملی کرنے کا وقت آ گیا تھا۔ ایلس کی آزمائش اس کے سامنے کھڑی تھی۔ ایلس نے سوچا کہ اگر ہم ان کا ریڈیو سٹم تباہ کر دیں تو وہ ریڈیو سے پیغام نہیں بھیج سکیں گے اور ہم آسانی سے سمندر کے اندر چلے جائیں گے۔

’’سر! ایڈی کہہ رہا ہے کہ انجن میں معمولی خرابی ہے جس کی وجہ سے ہم ابھی سمندر میں نہیں جا سکتے ہیں۔‘‘

’’اُسے کہو ،ایک منٹ میں انجن ٹھیک کرے۔ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔‘‘ایلس نے گرج کر کہا

لائف بوٹ کے سپاہی اب قریب پہنچ چکے تھے۔’’جیف ان کو کہو کہ واپس چلے جائیں۔ ورنہ ہم اُن پر فائر کر دیں گے۔‘‘ایلس نے ہدایت دی

جیف نے اُن کی زبان میں اُنہیں سمجھایا۔لائف بوٹ نے واپسی کا رخ کر لیا۔ ایلس نے جیف کو دوربین کے ذریعے ریڈیو سٹم دکھایا۔’’ اس سٹم کو ایک ہی گولے سے تباہ کرنا ہے۔‘‘ ایلس نے جیف کو کہا

جیف اپنی پوزیشن پر بیٹھ گیا اور دوربین کے ذریعے پوزیشن کو سیٹ کر کے فائر کر دیا۔ اﷲ کی کرنی ایسی ہوئی کہ گولے نے ایک ہی وار سے ریڈیو سٹم تباہ برباد ہو گیا۔

’’جیف !بہت ہی اچھا نشانہ لگایا ہے۔‘‘ایلس نے داد دیتے ہوئے کہا

’’سر! انجن تیار ہے۔‘‘ولسن نے اُونچی آواز میں کہا

’’ہمیں سمندر میں لے چلو۔‘‘ایلس نے جواباً کہا

بحری جہاز میں ہائی الرٹ کا آلارم زور و شور سے بجنے لگا گیا تھ۔بحری جہاز سے آبدوز پر گولے باری شروع ہو گئی تھی۔ ایک گولہ آبدوز کے بالکل قریب آ کر گرا تھا۔ جس سے زور دار دھماکہ ہوا اور سب لڑکھڑا کر ایک دوسرے پر گر پڑے تھے۔بحری جہاز سے مسلسل گولیوں کی بوچھاڑ بھی جاری تھی۔

’’ایڈی! انجن کی رفتار تیز کر دو۔ہمیں جلدی سمندر میں جانا ہو گا۔‘‘ایلس نے ایڈی سے رابطہ قائم کرتے ہوئے کہا

’’۲۵ میڑ نیچے۔۔۔۔۔۵۰ میڑ نیچے۔۔۔۔۔۔۔۷۵ میڑ نیچے۔۔۔۔۔۔۔۔۱۰۰ میڑ نیچے۔۔۔۔۔۔‘‘ وقفے وقفے سے چیف لاسن کی آواز آ رہی تھی۔

آبدوز کے شیشے سے وہ باآسانی دیکھ سکتے تھے کہ وہ بحری جہاز کے نیچے سے گزر رہے رہے ہیں اس کے علاوہ گولہ باری اُسی طرح جاری تھی۔بحری جہاز کے نیچے سے آبدوز نکل گئی تھی۔ موت کی اس گھڑی کو بھی وہ آسانی سے پار کر گئے تھے۔ایلس اب آگے کا لائحہ عمل پر جانچ پڑتال کر رہا تھا۔وہ سوچ کر رہا تھا کہ کیسے اپنی جان اس بحری جہاز سے بچائی جائے۔

’’سر! انھوں نے اپنے بحری جہاز کی رفتار تیز کر دی ہے۔ اور وہ کچھ دیر میں ہمارے اوپر ہوں گے۔ولسن نے اطلاع دی

’’آپ کی حالت کبھی پہلے ایسی ہوئی ہے چیف!‘‘ جیف نے ماحول کی سختی کو کم کرتے ہوئے پوچھا

’’ہاں! ایک بار ایسا ہوا تھا کہ ہم ۱۷۰ میٹر کی گہرائی میں تھے۔ دشمن بم پر بم گرا رہا تھا۔ایک بم ہماری آبدوز پر بہت قریب لگا،اس کے نتیجے میں ہمارے کپتان کے ہاتھ پاؤں ٹوٹ گئے۔لیکن کمال ہمت سے ہم واپس آ گئے تھے۔‘‘

’’سر ! پانی میں مجھے آہٹ محسوس ہو رہی ہے۔‘‘ولسن نے یہ بات کہی تھی کہ ایک زور دار دھماکہ ہوا اور آبدوز کی لائٹیں بند ہو گئیں۔دوسرے دھماکہ کے ساتھ آبدوز کے پائپ سے پانی نکلنے لگا۔

’’سر! انہوں نے بم پھینکنے شروع کر دیے ہیں۔‘‘ چیف لاسن نے آگاہ کیا۔

ہر دو تین سکینڈ کے بعد دھماکہ ہوتا اور آبدوز بُری طرح ہلنے لگتی تھی۔بحری جہاز کسی طرح بھی اپن مقصد سے پیچھے نہیں ہٹ رہا تھا۔آبدوز کے اندر ایلس اورسپاہیوں کے ماتھے اور چہرے سے خون نکل رہا تھا۔اتنے زور سے گرتے تھے کہ توازن برقرار نہیں رہتا تھا۔ایلس نے سوچا کہ مرنا اس طرح بھی ہے اور اُس طرح بھی ہے۔کیوں نہ لڑ کر مرا جائے۔ اس بات کو عملی جامہ پہناتے ہوئے وہ چیف لاسن کی طرف متوجہ ہوا۔

’’چیف! ہمیں ۲۰۰ میڑ نیچے لے جاؤ۔ہمیں بموں سے بچنا ہے۔‘‘ ایلس نے کہا

’’۲۰۰ میٹر نیچے لے چلو۔‘‘ چیف لاسن نے ہدایت دی

ایلس اور اُن کے سپاہیوں نے پہلی بار اتنی گہرائی میں جانے کا فیصلہ کیا تھا۔کیونکہ آبدوز اتنی گہرائی میں اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکتی اور ٹوٹنے کا ڈر رہتا ہے۔آبدوز اب ۲۰۰ میڑ کی گہرائی میں تھی۔یہاں پر بھی بموں کی آواز آ رہی تھی۔لیکن آبدوز پر اثر نہیں ہو رہا تھا۔ایلس نے سوچا کہ اگر ہم اپنی رفتار کم کر دیں،اس کے ساتھ تیل اور لائف جیکٹ ڈھیر ساری سمندر میں پھینک دیں تو وہ دھوکے میں آ جائیں گے۔اس طرح بحری جہاز کچھ دیر کے لیے رک جائے گا۔ اس دوران ہم تارپیڈو سے حملہ کر دیں گے۔

اس خیال کو تکمیل دینے کے لیے ایلس نے ریڈی سے رابطہ کیا اور اپنے خیال کو ظاہر کیا۔’’سر! ترکیب تو اچھی ہے۔لیکن بم لگانے کی وجہ سے تار پیڈو کے پائپ میں سوراخ ہو گیا ہے۔ مرمت میں تھوڑا وقت لگے گا۔‘‘ایڈی نے اپنے خیال بیان کیا۔’’جلدی سے ٹھیک کر لو۔‘‘ ایلس نے جواباً کہا

ایلس دوربین سے بحری جہاز کا معائنہ کرنے لگا کہ اچانک ایک پائپ سے پیچ نکل کر باہر زور سے گرا۔اس کے ساتھ یک بعد دیگر پائپ میں سے پیچ نکلنے لگے اور پانی پوری طاقت سے اندر آنے لگا۔ پانی کا پریشر اتنا تیز تھا کہ ان سے کھڑا نہیں ہو پا رہا تھا۔ایلس کو اور تو کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ کروں تو اُس نے آبدوز اُوپر لے جانے کا حکم دے دیا۔

’’ سر! آبدوز قابو میں نہیں آ رہی ہے۔وہ مسلسل گہرائی میں جا رہی ہے۔‘‘چیف لاسن نے چیختے ہوئے کہا

’’چیف!کوشش جاری رکھو۔‘‘ ایلس نے حوصلہ دیتے ہوئے کہا

آبدوز آہستہ آہستہ کر کے گہرائی میں جا رہی تھی۔بلب،میٹرز کے شیشے تک ٹوٹ چکے تھے۔ موت اب اُن کے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑی تھی۔ آبدوز اس وقت ۳۰۰ میڑ کی گہرائی میں جاچکی تھی۔ چیف لاسن ابھی بھی کوشش کر رہا تھا۔اُس نے اپنی زندگی کا تجربہ اور جوش و جذبہ اکھٹا کر کے مشین کو اُوپر لے جانے کی کوشش کی جس میں بالآخر وہ کامیاب ہو گیا۔آبدوز اب آہستہ آہستہ اُوپر آ رہی تھی۔

ایلس نے ایڈی سے رابط قائم کرتے ہوئے دھیمی آواز میں کہا ’’ایڈی ۔۔۔۔کیا تم زندہ ہو۔۔۔۔آواز دو۔۔۔۔۔‘‘ دوسری طرف سے کچھ دیر کے بعد ایڈی بولا ’’جی سر!‘‘

’’تارپیڈو تیار ہوا کے نہیں‘‘ ایلس نے پوچھا

’’نہیں سر! مجھے لگتا ہے یہ کام مجھ سے نہیں ہو گا۔‘‘ایڈی نے مایوسی سے جواب دیا

’’ایڈی! تم یہ کام کر سکتے ہو۔کوشش کرو۔‘‘ ایلس نے حوصلہ دیتے ہوئے کہا

’’میں کوشش کر تا ہوں۔‘‘ ایڈی نے جواباً کہا

’’چیف! ہم ابھی اوپر نہیں جا سکتے۔ ابھی تار پیڈو تیار نہیں ہے۔‘‘ ایلس نے کہا

’’سر! اب کچھ نہیں ہوسکتا۔مشین خراب ہو چکی ہے۔‘‘چیف لاسن نے جواباً کہا

’’سر !بحری جہاز رُک گیا ہے۔ لگتا ہے وہ ہماری چال میں پھنس گئے ہیں۔‘‘ولسن نے آگاہ کیا

’’ہم پانچ منٹ میں سطح سمندر پر ہوں گے۔‘‘چیف لاسن نے کہا

ایلس نے ایک پھر ایڈی سے رابطہ کیا ’’تارپیڈو تیار ہوا کے نہیں‘‘

’’سر !بس تھوڑی دیر اور چاہیے۔ پریشر جہاں سے ضائع ہو رہا ہے وہ بہت تنگ جگہ ہے میرا وہاں تک ہاتھ نہیں پہنچ رہا ہے‘‘ ایڈی نے صورت حال بتائی

’’ایڈی!ہم تھوڑی دیر میں سطح سمندر پر ہوں گے۔ دشمن کا جہاز ہمارے سامنے ہو گا۔اس لیے میرے بھائی کوشش کرو۔‘‘ایلس نے کہا

’’جیف تم ایڈی کی مدد کرو۔‘‘ایلس نے جیف کو متوجہ کرتے ہوئے کہا

جیف بھاگ کر ایڈی کے پاس پہنچ گیا۔واقعی وہ جس پائپ کو بند کرنے کی کوشش کر رہا تھا وہاں تک اُس کا ہاتھ نہیں پہنچ رہا تھا۔دوسری طرف آبدوز اب سطح سمندر پر نمودار ہو رہی تھی۔بحری جہاز کے عملے نے اس بات کو نوٹ کر لیا تھا۔ وہ دوبارہ سے گولہ باری کرنے لگے تھے۔اب آخری امید ایڈی ہی بچا تھا۔جیف نے ایڈی کو پیچھے کیا اور خود لیٹ کر ہاتھ لمبا کر کے پائپ کو بند کرنے کی کوشش کرنے لگا کیونکہ اُس کا ہاتھ چھوٹا تھا اس لیے تنگ جگہ سے آسانی سے پار چلا گیا۔ایلس نے ایک بار پھر ایڈی سے رابطہ کیا’’ ایڈی ! جلدی سے تارپیڈو فائر کرو۔ ورنہ ہم مارے جائیں گے۔‘‘

ایلس کا یہ حکم ملتے ہی تارپیڈو فائر ہو گیا۔ بحری جہاز کے عملے کو بھی اس بات کا علم ہو گیا تھا کہ تار پیڈو فائر ہوا ہے۔ چند سکینڈ کے بعد ایک زور دار دھماکہ ہوا اور بحری جہاز تباہ و برباد ہو گیا۔ اس پر ایلس اور سپاہیوں نے خوشی منائی تھی۔چیف لاسن نے فخر سے کھڑے ہوتے ہوئے کہا’’سر! آئندہ کبھی آپ کو ہماری ضرورت پڑے تو ہم تیار ملیں گے۔اب اس آبدوز کو چھوڑنے کی اجازت دیں۔‘‘

’’ٹھیک ہے۔‘‘ ایلس نے ہاں میں سر ہلا دیا۔

لائف بوٹ کے ذریعے وہ سمندر میں اُتار گئے اور واپسی کے لیے روانہ ہو گئے۔اس مہم پر اُنہوں نے کئی بات موت کو اپنے سامنے دیکھا تھا۔لیکن ہمت نہیں ہاری اور کامیاب ہو کر لوٹے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

 

مینڈک کا آپریشن۔۔۔۔۔۔!

 

بائیو لوجی کے پریڈ میں آج لیبارٹری میں مینڈک کا آپریشن کرنے کا پریکٹکل تھا۔ اس لیے تمام طالب علم قطار  بنا کر لیبارٹری روم کی طرف جا رہے تھے۔جہاں پر سر اُن کا پہلے سے منظر تھے۔ تمام طالب علموں کے آ جانے کے بعد لیبارٹری روم کا معاون اپنے کام میں مشغول ہو گیا۔ اُس نے باری باری تمام طالب علموں کے سامنے ایک ایک عدد مینڈک رکھ دیا۔اس کے ساتھ آلات جراحی(ڈائی سیکشن بکس) بھی تھا۔

’’آپ کے سامنے ایک عدد مینڈک ہے۔جس کا آج ہم نے آپریشن کرنا ہے۔‘‘سر کے یہ جملے کئی طالب علموں کے چہروں پر رونق لے آئے تھے اور چند ایسے بھی تھے جن کے چہروں پر پریشانی صاف دکھائی دے رہی تھی۔وہ سوچ رہے تھے کہ ہم نے کبھی مچھر نہیں مارا یہ مینڈک کی چیرپھاڑکیسے کریں گے۔ان ہی سوچوں کے ساتھ سر نے عملی تجربہ کرنا شروع کر دیا۔’’سب سے پہلے آپ مینڈک کے منہ سے نیچے ایک کٹ پیٹ تک لے کر جائیں گے۔ اُس کے بعد مختلف عضو کا معائنہ کرنا شروع کریں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘سر ایک ایک عضو کے بارے میں بتاتے

جا رہے تھے۔اُنہوں نے اس عملی کام کو پورا کرنے کے لیے فزکس کا پریڈ بھی لے لیا تھا۔ بالآخر وہ آپریشن کو ختم کرنے کے بعد ایک کامیاب نگاہ اپنے طالب علموں پر ڈال رہے تھے جو عملی کام میں ابھی بھی مصروف تھے۔

’’اُمید ہے آپ کو مینڈک کی چیر پھاڑ سمجھ میں آ گئی ہو گئی۔‘‘سر نے سارے طالب علموں کو متوجہ کرتے ہوئے پوچھا

’’جی سر!‘‘تمام طالب علموں نے ایک زبان میں جوا ب دیا۔

٭٭

 

سرمد بیٹا! آج کیا پڑھایا گیا ہے؟ ‘‘ سرمد کی امی نے پوچھا

’’امی جی!آج کچھ پڑھایا نہیں بلکہ آپریشن کرنا سکھایا گیا ہے۔‘‘ سرمد کو معلوم تھا کہ اُس کی اس کی امی یہ سوال ضرور پوچھیں گئیں،کیونکہ ہر دن امی اُس سے کچھ پوچھیں نہ پوچھیں یہ ضرور پوچھتی تھی۔اس لیے وہ ہمیشہ تیار رہتا تھا۔ سرمد کی امی دیہات کی سیدھی سادی سی خاتون تھی۔جو صرف گھریلو کاموں اور بچوں کی تربیت میں مصروف عمل رہتی تھی۔

’’کس کا آپریشن کر کے آئے ہو؟‘‘ امی نے پریشانی سے دیکھتے ہوئے پوچھا

’’بس امی! ایک مینڈک میرے پاس آیا تھا۔اُس نے مجھ سے درخواست کی کہ میرے گردے میں پتھری ہو گئی ہے میرا آپریشن کر دو۔اس لیے مجھے اُس معصوم پر ترس آ گیا اور آپریشن کر دیا۔‘‘ سرمد نے بھلا کی معصومیت چہرے پر لاتے ہوئے جواب دیا۔

’’چل شریر کہیں کا،اپنی ماںسے مذاق کرتا ہے۔‘‘ امی نے پیار کرتے ہوئے کہا

’’امی !ان باتوں میں مجھے یاد ہی نہیں رہا ہے کہ آج میرا فٹ بال کا میچ ہے۔میں جا رہا ہوں۔‘‘سرمد نے سامنے کیلنڈر پر نظر ڈالی جس پر لال گول نشان بنا ہوا تھا،جو میچ کھیلنے کا دن تھا۔

٭٭

 

’’یار میرے پاؤں میں بہت  درد ہو رہا ہے۔ذرا آہستہ آہستہ چلتے ہیں۔‘‘سرمد نے اپنے دوست سے کہا

’’یار میں نے بھی یہ بات نوٹ کی تھی کہ تم اپنے پاؤں سے ٹھیک طرح سے ہٹ نہیں لگا پا رہے تھے۔‘‘دوست نے بھی اپنے خیال بیان کیا

’’چلو!وہ سامنے تو اب میرا گھر ہے ۔ گھر جا کر پاؤں کو دیکھتا ہوں کہ آخر کیا ہوا ہے۔‘‘

سرمد کے دوست نے اُسے گھر چھوڑا اور اپنے گھر کی جانب روانہ ہو گیا تھا۔ جو دو گلیاں چھوڑ کر تھا۔

٭٭

 

’’ارے۔۔۔۔۔۔۔یہ کیا ہو ا ہے؟میرا انگوٹھے کا ناخن پھول کر کُپا ہو گیا ہے؟‘‘ سرمد نے اپنے پاؤں کو دیکھا اور خود کلامی کی اس دوران میں امی نے کمرے کا دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوئی۔

’’سرمد بیٹا! آج سکول نہیں جانا کیا؟‘‘

’’امی ! یہ دیکھیں میرا پاؤں!‘‘ سرمد نے پاؤں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا

’’یہ کیا ہوا ہے؟‘‘ امی نے پاؤں کی سوجن دیکھتے ہوئے پوچھا

’’مجھے کیا پتہ امی ! کل رات سے ناخن میں شدید درد ہو رہی تھی۔صبح اُٹھ کر دیکھا تو یہ صور ت حال بنی ہوئی تھی۔‘‘سر مد نے جواب دیا

’’مجھے لگتا ہے کہ ناخن کی جڑ ٹوٹ گئی ہے۔اس وجہ سے ناخن میں پیپ بھر گئی ہے۔‘‘امی نے پاؤں کے انگوٹھے کا معائنہ کرتے ہوئے کہا

’’اب میں کیا کروں؟‘‘سرمد نے پریشانی سے پوچھا

’’تم ڈاکٹر کے پاس جاؤ۔وہ ناخن کو دیکھ کر ہی علاج کریں گے۔ ویسے مجھے لگتا ہے کہ تمھارے ناخن کا آپریشن ہو گا۔‘‘ امی نے آخری جملہ سرمد کو چھیڑنے کے لیے بول دیا ۔

’’نہیں امی!اﷲ کے لیے ایسا نہ کہیں،میں اپنے ناخن کا آپریشن نہیں کرواؤں گا۔‘‘ سرمد نے ڈرتے ہوئے کہا

’’یہ تو بیٹا ڈاکٹر تم سے بہتر جانتے ہیں۔چلو ناشتہ کر لو پھر ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں۔‘‘امی نے پیار سے سر کے بالوں کو سہلاتے ہوئے کہا

سرمد مرے مرے قدموں کے ساتھ تیا ر ہوا اور بجھے ہوئے دل سے ناشتہ کیا۔ اُس کے ذہن میں یہی سوال گردش کر رہا تھا کہ میں آپریشن نہیں کرواؤں گا۔امی بھی گھر کے ضروری کاموں سے فارغ ہو کر سرمد کے پاس آ گئی۔

’’چلو،ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔‘‘امی نے محبت بھرے انداز میں کہا

’’چلیں! جسے آپ کی مرضی ہو۔‘‘ سرمدنے جواب دیا

ڈاکٹر راشد محمود ان کے فیملی ڈاکٹر تھے۔جب بھی گھر میں کوئی بیمار ہوتا۔امی اُسے ڈاکٹر راشد محمود کے کلینک پر لے جاتیں تھیں۔اﷲ تعالی نے اُن کے ہاتھوں میں شفا رکھی ہوئی تھی۔وہ بچوں کی بیماری کے ماہر ڈاکٹر تھے۔اس کے علاوہ وہ ایک سرجن بھی تھے۔شام کے وقت وہ

ہسپتال میں ہوتے تھے اور صبح اپنا کلینک چلاتے تھے۔سرمد نے ٹوکن نمبر لیا اور امی کے ساتھ بینچ پر بیٹھ گیا۔کچھ دیر بعد ہی اُن کا نمبر آ گیا۔

’’سرمد بیٹا! کیا ہوا ہے؟‘‘ڈاکٹر راشد نے مشفقانہ لہجے میں پوچھا

’’میرے پاؤں کا ناخن خراب ہو گیا ہے،چلنے میں بہت دشواری ہوتی ہے۔‘‘ سرمد نے وضاحت سے تکلیف بتائی۔

ڈاکٹر راشد نے ناخن کا بغور معائنہ کیا اور کاغذ پر کچھ لکھنے لگے۔ڈاکٹر راشد نے امی کو متوجہ کرتے ہوئے کہا’’ سرمد کے ناخن میں انفکیشن ہو گیا ہے۔ چند دنوں تک پٹی ہو گی جس سے زخم خشک ہو جائے گا۔اس کے بعد ایک چھوٹا سا آپریشن ہو گا۔اس سے ناخن کو کاٹ کر باہ نکال لیا جائے گا۔‘‘

امی نے غور سے ڈاکٹر راشد کی بات سنی اور کہنے لگیں’’ کوئی بات نہیں ہے۔سرمد خود آپ سے پٹی کرواتا رہے گا۔ کب آپریشن کروانا ہے ،مجھے بتا دیں۔‘‘

ڈاکٹر راشد نے ایک بار پھر معائنہ کرتے ہوئے کہا ’’انشاء اﷲ اس کا آپریشن تین دن کے بعد ہو جائے گا۔ ابھی آپ اس کی پٹی کروا لیں۔‘‘

٭٭

 

آج تیسرا اور آخری دن تھا۔جب سرمد نے اپنی پٹی کروانی تھی۔کل اُس کے پاؤں کے ناخن کا آپریشن تھا۔ سرمد کو رہ رہ کر مینڈک کا آپریشن یا د آ رہا تھا۔جو اُس نے بڑے ذوق و شوق کے ساتھ کیا تھا۔سرمد نے بڑے بے رحمانہ طریقے سے آپریشن کیا تھا۔اُس کی وجہ سے سرمد کے دل میں ڈر بیٹھ گیا تھا کہ شاید ڈاکٹر راشد میرے ناخن کے ساتھ ایسے کچھ نہ کر دیں۔اس بات کا اندازہ سرمد کی امی نے بھی لگا لیا تھا۔

٭٭

 

سرمد کلینک میں لگے ہوئے بستر پر لیٹا ہوا تھا۔اب انتظار صرف ڈاکٹر راشد کا تھا جو مریضوں کو دیکھ رہے تھے۔ایک ایک پل سرمد پر صدیوں جیسا گزار رہا تھا ۔آدھ گھنٹے کے بعد ڈاکٹر راشدسرمد کے پاس آئے۔پہلے ناخن کا اچھا طرح معائنہ کیا۔ایک نظر سرمد کو دیکھا جو بہت ڈرا ہوا تھا۔

’’ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے،تمھارے پاؤں کو سُن کیا جائے گا۔اس سے تمھیں کوئی درد نہیں ہو گا۔‘‘ ڈاکٹر راشد نے حوصلہ دیتے ہوئے کہا

’’سچی بات ہے! کوئی درد نہیں ہو گا۔‘‘ سرمد نے ڈرتے ڈرتے ہوئے پوچھا

’’جی بالکل! آپریشن میں آپ مجھ سے بات بھی کرسکتے ہیں۔اس سے آپ کا دھیان زخم کی بجائے مجھ پر ہو جائے گا۔‘‘ ڈاکٹر راشد نے انگوٹھے کو ربڑ کی باریک نالی سے زور سے باندھ دیا تاکہ خون بندھ ہو جائے۔اس کے بعد زخم میں سُن کرنے والا ٹیکہ لگایا۔اس دوران سرمد کو بہت تکلیف ہوئی جس کا اظہار اُس نے ایک زور دار چیخ سے کیا۔

’’بس شاباش ہو گیا ہے،تم یہ بتاؤ کس کلاس میں پڑھتے ہو؟‘‘ ڈاکٹر راشد نے سرمد کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے پوچھا

’’میٹرک!‘‘ سرمد نے کراہتے ہوئے جواب دیا۔

’’مینڈک کا چیر پھاڑ کر لیا ہے۔‘‘ ڈاکٹر راشد نے پوچھا

’’جی!!!‘‘سرمد نے اکڑتے ہوئے کہا

’’چلو !اپنے آپ کو ڈھیلا چھوڑ دو۔ادھر دیکھو کوئی درد محسوس ہو رہا ہے۔‘‘ ڈاکٹر راشد نے اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے پوچھا

’’درد تو نہیں!بس کوئی پن لگنے کا احساس ہو رہا ہے۔‘‘ سرمد نے آنکھیں کھول کر ڈاکٹر راشد کی طرف دیکھا جو کسی چیز سے زخم کاٹ رہے تھے۔سرمد کے ذہن میں اچانک ایک سوال آیا کہ یہ جس آلات سے زخم کاٹ رہے ہیں ضرور کسی انگریز کی ایجاد ہو گی اور اپنا یہ خیال ڈاکٹر راشد پر ظاہر کر دیا۔’’یہ چیر پھاڑ کے آلات کس کی ایجاد ہیں،میرے خیال میں ضرور کسی انگریز کی ایجاد ہو گے۔‘‘

’’تمھیں یہ جان کر حیرت ہو گی کہ یہ آلات کسی انگریز نے نہیں بلکہ ایک مسلمان سائنس دان نے ایجاد کیے تھے۔اُس کا نام یوحنا بن ماسویہ تھا۔‘‘

’’دنیا کا پہلا سرجن کون ہے؟جس نے جسم کو چیر پھاڑ کر معلوم کیا کہ اندرونی اعضا کتنے اور کیسے ہیں؟‘‘ سرمد اپنے تکلیف بھو ل کر اپنی معلومات میں اضافہ کرنے کے لیے سوال پوچھنے لگا۔

’’دنیا کا پہلا سرجن بھی یوحنا بن ماسوریہ تھا۔یہ عباسی خلیفہ کا شاہی طیب تھا۔عباسی خلیفہ نے کچھ بن مانس دیے اور حکم دیا کہ ان کے جسم کو چیر کر معلوم کرو کہ اندرونی اعضا کتنے اور کیسے ہیں۔یوحنا بن ماسوریہ نے شاہی حکم کے مطابق بن مانس کا جسم چیر کر اس کے اندرونی اعضا ء کی نوعیت اور مقدار معلوم کی۔چیر پھاڑ کو انگریزی میں ڈائی سیکشن کہتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر راشد نے وضاحت کے ساتھ جواب دیا اور آہستہ آہستہ کر کے خراب ناخن کو کاٹنے لگے۔

’’ آخر بن مانس کیوں دیے۔یہ بات سمجھ میں نہیں آئی۔‘‘ سرمد نے دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا

’’بن مانس کی بناوٹ انسانوں سے ملتی جلتی ہے شاید اس لیے دیے ہوں گے۔ ویسے ایک بات یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ہندی میں بن کا مطلب جنگل اورمانس کا مطلب آدمی کو لیا جاتا ہے ۔اس طرح بن مانس کا پورا مطلب ہوا جنگل کا آدمی۔‘‘ ڈاکٹر راشد روئی سے خون صاف کرنے لگے۔ اُنہوں نے بھی ناخن کی چیر پھاڑ کو ختم کر دیا تھا۔اب اُن کا کمپاؤنڈر سرمد کے پاس بیٹھا پٹی کر رہا تھا۔

’’ڈاکٹر صاحب! آپ کا بہت بہت شکریہ،ایک تو میرا ڈر ختم ہو گیا اور دوسرا مجھے اتنی اچھی معلومات بھی فراہم ہو گئیں۔‘‘سرمد نے مسکراتے ہوئے کہا

’’ارے بیٹا!یہ تو میرا کام ہے۔‘‘ ڈاکٹر راشد نے پیار بھرے انداز میں کہا

٭٭٭

 

 

 

 

 

صفائی مشن

 

 

’’رحم بادشاہِ گندگی… رحم کیجئے…آپ کے در پر یہ جراثیم گُنو رحم کی بھیک مانگتا ہے۔‘‘  گُنو نے سر جھکا کر التجا کی

’’کیا ہوا  گُنو تم تو میرے فوج کے سپہ سالار تھے ،آخر اتنے ڈرے ہوئے کیوں ہو؟‘‘ بادشاہ گندگی ڈونہ نے افسردہ لہجہ میں کہا

’’بادشاہ جس مشن پر آپ نے مجھے بھیجا تھا۔۔۔۔۔میں وہ مشن پورا نہیں کرسکا۔‘‘ گنو نے ادب سے کہا

’’کیا؟؟؟‘‘ٖڈونہ نے حیرت سے پوچھا

’’جی نجمہ نے اب صحت و صفائی کے اُصولوں پر عمل کرنا شروع کر دیا ہے۔اور پاکستان ٹاؤن اب پاک صاف پاکستان ٹاؤں بن گیا ہے۔‘‘  گُنو نے مودبانہ لہجہ میں جواب دیا اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے مر گیا۔

٭٭

 

بادشاہِ گندگی ڈونہ کا دربار لگا ہوا تھا۔آج وہ ایک خاص مشن پر اپنے خاص آدمی کو بھیج رہا تھا۔ ٖڈونہ کے دربار میں ایک بڑا سا  ٹی -وی لگا ہوا تھا۔اس

سے وہ اپنے جراثیموں پر نظر رکھتا تھا۔

’’بادشاہ گندگی ہم نے کس علاقے میں اپنا مشن پورا کرنا ہے۔‘‘ گُنو نے سوالیہ لہجہ میں پوچھا

’’پاکستان ٹاؤن میں مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے۔‘‘ ٖڈونہ نے منحوس ہنسی ہنستے ہوئے جواب دیا

ٖڈونہ نے ایک بٹن دبایا جس سے ٹی – وی پر ایک فلم چلنے لگی۔اس میں پاکستان ٹاؤن دکھایا گیا تھا۔ پاکستان ٹاؤن کے ہر گھر کے باہر ڈھیروں ڈھیر کوڑا کرکٹ پڑا ہوا تھا۔ گندہ اور غلیظ پانی جگہ جگہ پر کھڑا ہوا تھا۔ گندے اور غلیظ پانی پر مچھر بے شمار نظر آ رہا تھے۔

’’یہ جگہ میرے لیے جنت ہے۔‘‘ کوڑی رانی نے خوشی سے اُچھلتے ہوئے کہا

’’وہ دیکھو ایک بچہ ہاتھ دھوئے بغیر کھانا کھا رہا ہے۔‘‘ ڈونہ نے لپ اسٹک لگاتے ہوئے کہا

’’اس گندگی کا اصل جوہڑ یہ گھر ہے۔اس میں نجمہ لڑکی ہمارا شکار ہے۔‘‘ٖڈونہ نے عجیب و غریب شکل بناتے ہوئے کہا

’’وہ دیکھو،اُس گھر سے نجمہ باہر آئی ہے۔ کتنی خوبصورت ہے بالکل میرے جیسی۔‘‘کوڑی رانی نے مسکراتے ہوئے کہا

’’پاکستان ٹاؤن کو کیچڑا ٹاؤن میں تبدیل کر دو اور حملہ کرو۔‘‘ٖڈونہ نے گرجتے ہوئے کہا

٭٭

 

’’ہائے اﷲ… کتنا ٹھنڈا پانی آ رہا ہے۔‘‘نجمہ نے پانی کو ہاتھ لگاتے ہوئے خود کلامی کی

نجمہ سمجھدار بچی تھی۔مناسب قد و قامت کی مالک تھی۔چہرے پر ہلکے ہلکے سے کٹ پڑے ہوئے تھے۔ دانتوں پر  پیلاہٹ بھی صاف نمایاں تھی۔ ہاتھوں کے ناخن بہت بڑے تھے۔ نہانے سے اُس کی جان جاتی تھی۔یہ بات نجمہ کو بار بار امی بتاتی کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ لیکن وہ نجمہ ہی کیا جو بات مان جائے۔

’’نجمہ بیٹی! آ کر سیب کھالو۔‘‘ امی نے باورچی خانے سے آواز دی

’’ابھی آئی امی ۔‘‘ نجمہ نے جواباً کہا اور منہ میں کُلی کرنے لگی۔

’’نجمہ بیٹی! منہ ہاتھ صابن سے دھونا۔‘‘ امی نے اونچی آواز سے کہا

’’جی امی! کیا کہا آپ نے؟‘‘ نجمہ نے باورچی خانے کا دروازہ کھول کر سوالیہ انداز میں کہا

’’لو تم آ بھی گئی۔منہ ہاتھ آج پھر صابن سے نہیں دھویا۔‘‘امی نے افسردہ لہجہ میں کہا

’’امی پانی بہت ٹھنڈا آ رہا تھا۔اور مجھے ٹھنڈ بھی لگا رہی تھی۔‘‘ نجمہ نے معصوم سا چہرہ بناتے ہوئے کہا

’’یہ لو سیب کھالو۔سیب دھو کر کھانا۔‘‘امی نے سیب پکڑتے ہوئے کہا

نجمہ نے سیب پکڑا اور اپنے کپڑوں سے صاف کرنے لگی۔کپڑے تو پہلے ہی دھول مٹی سے آٹے ہوئے تھے۔اس سیب پر بھی گندگی لگ گئی۔اس سے ڈونہ کا سپہ سالار  گُنو بھی سیب کے ساتھ لگا گیا۔یہاں نجمہ نے سیب کھایا وہاں گُنو نے چھلانگ مار دی اور سیدھا منہ میں چلا گیا۔ گُنو اب اپنے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے تیاری کرنے لگا۔

’’ارے نجمہ میں نے کہا تھا کہ سیب دھو کر کھانا۔تم بڑی ڈھیٹ ہو اپنی صحت کی کوئی فکر ہی نہیں ہے۔‘‘ امی نے ڈانٹتے ہوئے سیب پکڑا اور دھو کرواپس نجمہ کودے دیا۔

’’نجمہ کی ماں تمھیں کچھ خبر ہے کہ کل فوزیہ آ رہی ہے۔‘‘ ابو نے یاد دلاتے ہوئے کہا

’’کون فوزیہ ابو؟‘‘ نجمہ نے سوالیہ لہجہ میں پوچھا

’’تمھاری دُور کی خالہ کی بیٹی ہے۔‘‘ابو نے پیار کرتے ہوئے جواب دیا

’’یہاں کیا کرنے آ رہی ہے۔‘‘ نجمہ نے تعجب سے پوچھا

’’اپنی چھٹیاں گزارنے آ رہی ہے۔‘‘ امی نے گوبھی کاٹتے ہوئے جواب دیا

گُنو نجمہ کے پیٹ میں عیش و عشرت کی زندگی گزار رہا تھا۔ کسی چیز کی کوئی کمی نہ تھی۔کھانا پینا سب کچھ وافر مقدار میں موجود تھا۔ گُنو کھا کھا کر موٹا تازہ ہو گیا تھا۔ گُنو آہستہ آہستہ کر کے اپنے مشن کو پایہ تکمیل کی طرف لے جا رہا تھا۔  گُنو یہ سوچ کر حیران و پریشان تھا کہ اتنے آسان کام کے لیے مجھے منتخب کیا گیا۔یہ کام تو میرا نوکر بھی کرسکتا تھا۔

’’فوزیہ بیٹی روکو۔ میں نیچے آ کر دروازہ کھولتی ہوں۔‘‘امی نے بالکونی سے دیکھتے ہوئے کہا

فوزیہ دروازے کے پاس آ کر رُک گئی۔ارد گرد کے ماحول پر جائزہ لینے لگی۔کوڑا کرکٹ اور پانی ہر جگہ نمایاں نظر آ رہا تھا۔

’’آ جاؤ بیٹی۔‘‘امی نے فوزیہ کے کاندھے پر ہا تھ رکھتے ہوئے کہا

’’آنٹی اس بیماریوں کے جوہڑ میں آپ کیوں رہ رہی ہیں۔‘‘فوزیہ نے حیرت سے پوچھا

’’بس بیٹی کیا بتاؤں۔کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ ان باتوں پر دھیان دے سکے۔‘‘امی نے ٹکا سا جواب دیا

’’آنٹی نجمہ کہاں ہے۔‘‘ فوزیہ نے کمرے کا معائنہ لیتے ہوئے کہا

’’نجمہ…نجمہ بیٹی‘‘ امی نے اونچی آواز سے کہا

’’جی امی آئی!!!!!‘‘نجمہ نے جواب دیا

’’فوزیہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘امی نے پوچھا

’’کچھ نہیں آنٹی ڈاکٹر بن گئی ہوں۔‘‘فوزیہ نے جواب دیا

فوزیہ نے ایک ماہ قبل ہی ڈاکٹر کی ڈگری حاصل کی تھی۔فوزیہ کو ایک کام دیا گیا تھا۔کام کا موضوع ’’صحت و صفائی‘‘ تھا۔ فوزیہ کو یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ اس کا کام یہاں ہی پورا ہو جائے گا۔ یہاں وہ سب لوازمات تھے جو کام لائے جا سکتے تھے۔فوزیہ ’’صحت و صفائی‘‘ پر ایک رپورٹ بھی لکھ رہی تھی۔ اس لیے وہ شہر شہر میں جا کر اس بات کا جائزہ لے رہی تھی۔ آخر میں صرف یہی جگہ رہ گئی تھی۔اب وہ آرام وسکون سے اپنے کام کو انجام دے سکتی تھی۔

’’کیسی ہیں فوزیہ آپی؟‘‘ نجمہ نے گرم جوشی سے پوچھا

’’میں تو ٹھیک ہوں۔لیکن تم نے اپنی کیا حالت بنا رکھی ہے۔‘‘ فوزیہ نے جواباً کہا

’’کیا فوزیہ آپی،یہ تو آجکل کا فیشن ہے۔‘‘نجمہ نے افسردہ لہجہ میں کہا

’’میں تمھارے کپڑوں کی نہیں بلکہ تمھاری صحت کے بارے میں پوچھ رہی ہوں۔‘‘ فوزیہ نے پیار کرتے ہوئے کہا

’’بس باجی یہ حال ایک ماہ سے جاری ہے۔آپ ہی دیکھ کر بتائیں؟‘‘ نجمہ نے بازو پکڑتے ہوئے کہا

فوزیہ نے نجمہ کا مکمل معائنہ کیا۔جسے جسے فوزیہ دیکھ رہی تھی ویسے ویسے پریشانی بڑھتی جا رہی تھی۔

’’کیا ہوا فوزیہ بیٹی! بڑی پریشان ہو گئی ہو۔‘‘ امی نے فوزیہ کا چہرہ پڑھتے ہوئے کہا

’’نجمہ کے پیٹ میں کیڑے پڑے ہوئے ہیں۔دانتوں میں پائیوریا بیماری ہو گئی ہے ۔ اگر یہی حال رہا تو بہت جلد یہ بستر سے لگ جائے گی۔‘‘فوزیہ نے افسردہ لہجہ میں کہا

’’میں نے اسے کتنی بار کہا ہے کہ ہاتھ منہ دھو کر کھانا کھایا کرو۔‘‘امی نے غم زدہ لہجہ میں کہا

’’ان ناخنوں میں جو میل پھنسی ہوئی ہے۔وہ کھانے کے ساتھ پیٹ میں

جاتی رہی ہے،جس سے کیڑے پیدا ہوئے ہیں۔‘‘ فوزیہ نے نجمہ کے ہاتھوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا

’’فوزیہ آپی آئندہ سے خیال رکھوں گی۔‘‘نجمہ نے شرمندگی سے کہا

’’انکل اور آنٹی آپ کے ذمہ بھی ایک کام لگا رہی ہوں۔‘‘ فوزیہ نے رخ ان کی طرف کرتے ہوئے کہا

’’کونسا کام بیٹی؟‘‘ انکل نے مسکراتے ہوئے پوچھا

’’انکل آپ نے یہ کرنا ہے کہ محلے میں جو غلیظ پانی جگہ جگہ کھڑا ہوا ہے۔ وہاں مٹی ڈالنی ہے۔باہر ہر گھر کے سامنے جو کوڑا کرکٹ جمع ہے،اُسے اکھٹا کر کے ایک جگہ کرنا ہے۔‘‘ فوزیہ نے سوچ کر جواب دیا

’’میرا کیا کام ہو گا فوزیہ بیٹی؟‘‘ امی نے اطمینان بھرے لہجہ میں کہا

’’آنٹی آپ کا کام یہ ہے کہ آپ نے گھر گھر جا کر صحت و صفائی کے اُصولوں کو روشناس کرانا ہے۔‘‘ فوزیہ نے جوا ب دیا

’’فوزیہ آپی مجھے بھی کوئی کام دے دیں؟‘‘ نجمہ نے خوشی سے اُچھلتے ہوئے کہا

’’تمھارا صرف یہ کام ہے کہ ہر روز دو بار دانتوں میں برش کرنا ہے۔اپنے کپڑے اورجسم کو پاک صاف رکھنا ہے۔‘‘فوزیہ نے نجمہ کے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا

یہ سب باتیں  گُنو سن رہا تھا۔  گُنو کو اپنی موت صاف واضح نظر آنے لگی تھی۔ گُنو نے اپنے دوست جراثیموں کو اکھٹا کیا اور ایک اجلاس بلایا۔سب جراثیم اس بات پر متفق تھے کہ اب نجمہ کو بیمار کرنے کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔ایک با ر نجمہ بیمار ہو گئی پھر ہم پوری طاقت سے اُس پر حملہ کریں گے۔اس طرح گندگی مشن کی تکمیل پوری ہو جائے گی۔ گُنو نے سب سے پہلا وار کیا جو کار آمد ثابت ہوا۔

’’آہ…میرا  پیٹ…امی ابو مجھے پیٹ میں سخت درد ہو رہی ہے۔‘‘نجمہ نے درد سے کراہتے ہوئے کہا

’’ہائے میری بچی!!!‘‘امی نے پریشانی سے کہا

’’لگتا ہے جراثیموں نے حملہ کر دیا ہے۔انکل میں کچھ دوائیں لکھ کر دیتی ہوں،وہ جا کر لے آئیں۔انشاء اﷲ نجمہ صبح تک ٹھیک ہو جائے گی۔‘‘فوزیہ نے پیٹ کو ہاتھوں سے چیک کرتے ہوئے کہا

’’ٹھیک ہے بیٹی!میں لے آتا ہوں۔‘‘ابو نے جلدی سے پرچی پکڑتے ہوئے کہا

گُنو اب پیچھے رہنا والا نہیں تھا۔وہ اور جراثیم ساتھ وار پر وار کر رہے تھے۔

نجمہ سے پیٹ کا درد برداشت نہیں ہو رہا تھا۔نجمہ زور زور سے چیخ رہی تھی ’’ہائے میرا پیٹ…ہائے میرا پیٹ‘‘ نجمہ کی یہ حالت دیکھ کر امی بھی رونے لگی۔

’’نجمہ بیٹی تمھیں کتنی بار سمجھا یا کہ ہر چیز صاف کر کے کھاتے ہیں۔یہ مصبیت تم نے خود پال رکھی تھی۔‘‘امی نے روتے روتے کہا

’’امی جی…ہائے میرا پیٹ…‘‘

’’نجمہ دوائی کھا کہ ٹھیک ہو جائے گی۔آپ فکر نہ کریں۔‘‘فوزیہ نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔

پانچ منٹ کے بعد ابو دوائیاں لے کر آ گئے۔نجمہ کو دوائی دی ۔دوائی کھانے سے نجمہ کو کچھ افاقہ ہوا۔ابو نجمہ کو اُٹھا کر بستر پر لے گئے۔بستر پر لیٹے ہی نجمہ کو نیند نے اپنی آغوش میں لے لیا۔

دوائی کھانے کی وجہ سے  گُنو کے ہزاروں جراثیم بھائی ختم ہو گئے تھے۔  گُنو کھا کھا کر بہت موٹا ہو گیا تھا۔ اس کے برعکس دوائی نے بہت گہرا اثر ڈالا تھا۔ گُنو کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی تھی۔ آنکھوں سے صاف دکھائی دینا بند ہو گیا تھا۔جیسے جیسے رات ختم ہو رہی تھی گُنو کی طبعیت بھی خراب سے خراب تر ہو رہی تھی۔ صبح کا سورج نجمہ کے لیے نئی امید کی کرن لے کر اُبھارا تھا۔ نجمہ اُٹھی تو اپنے آپ کو تر و تازہ محسوس کر رہی تھی۔نجمہ باتھ روم گئی۔پانی اب بھی ٹھنڈا تھا۔لیکن نجمہ کا حوصلہ بلند تھا۔ نجمہ نے منہ ہاتھ دھویا ۔بالٹی میں امی نے گرم پانی ڈال رکھا تھا۔نجمہ نے صابن سے اچھی طرح اپنے جسم کو جراثیم سے پاک کیا۔صاف ستھرا لباس پہن کر وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔

گُنو اب اپنی زندگی کے آخری مرحلے میں پہنچ چکا تھا۔ گُنو کے ذہن میں ترکیب آئی۔اس سے وہ اپنی زندگی بچا سکتا تھا۔ گُنو نجمہ کے ناک میں حرکت کرنے لگا جس سے نجمہ کو چھینک آئی۔چھینک کے ساتھ ہی گُنو ٹوٹی ٹانگ لیے باہر گر گیا۔ گُنو شکر ادا کرنے لگا کہ جان بچ گئی۔

پاکستا ن ٹاؤن میں ایک ہلچل مچ گئی تھی۔ امی ،ابو،فوزیہ نے صحت و صفائی کی تحریک شروع کر دی۔ابو نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر غلیظ پانی کی نکاسی کو بند کرنے کی روک تھام شروع کر دی۔کوڑا کرکٹ کو ایک جگہ اکٹھا کیا گیا۔ فوزیہ اور امی گھر گھر جا کر صحت و صفائی کے اُصولوں سے آگاہی دیتیں۔ قطرہ قطرہ کر کے دریا بنتا ہے،اُسی طرح گھر سے گھر جب صاف ہوا تو پاکستان ٹاؤن کی خوبصورتی دوبارہ لوٹ آئی۔

٭٭٭

 

 

 

 

پُر عزم

 

 

’’ڈاکٹر صاحب! میرے بچے کو کیا ہو گیا ہے؟ وہ ٹھیک تو ہو جائے گا ،کوئی پریشانی والی بات ہے تو بتا دیں۔ آپ کی یہ خاموشی مجھے چین سے بیٹھنے نہیں دیتی ہے۔‘‘ حمید صاحب نے ایک ہی سانس میں کئی سوال کر ڈالے

’’حمید صاحب! کوئی فکر کی بات نہیں ہے۔ میں یہ ٹیسٹ لکھ کر دے رہا ہوں، آپ اس کے رزلٹ آنے تک انتظار کریں ۔ اﷲ تعالیٰ بہتر ہی کرے گا۔ ‘‘ڈاکٹر صاحب نے تسلی دیتے ہوئے کہا

’’کیسے فکر نہ کروں۔ ایک مہینے سے آپ کبھی یہ ٹیسٹ اور کبھی وہ ٹیسٹ کر رہے ہیں۔اب میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔مہر بانی فرما کر مجھے اصل حقیقت سے آگاہ کر دیں۔ میں دل پر پتھر رکھ کر سُن لوؤں گا۔‘‘حمید صاحب نے رُو دینے والے انداز میں بات کی۔

’’حمید صاحب ! آپ یونہی پریشان ہو رہے ہیں۔ ابھی تک ایسی کوئی بات ظاہر نہیں ہوئی ہے۔ آپ اپنا دل بڑا رکھیں۔ ان شاء اﷲ اس بیماری کا بھی علم ہو جائے گا۔ ‘‘ڈاکٹر صاحب نے حمید صاحب کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر سمجھتے ہوئے کہا

٭٭

 

’’آخر کس کی نظر لگ گئی میرے بیٹے کو؟‘‘ نفیسہ بیگم نے افسردہ لہجہ میں کہا

’’پتہ نہیں ،ڈاکٹر صاحب بیماری کے بارے میں کچھ بتا بھی نہیں رہے ہیں۔ ملک کے سب سے مشہور ڈاکٹر ہیں۔اُنہوں نے بے شمار مریضوں کا کامیاب علاج کیے ہیں۔‘‘حمید صاحب نے بھی اپنی پریشانی کا اظہار کیا۔

’’صفدر کے دوست بھی پوچھ رہے تھے۔ایک مہینے ہو گیا ،وہ کھیلنے کے لیے نہیں آیا۔ پہلے تو وہ ہمیں کھیلنے کے لیے کہتا تھا۔ ‘‘نفیسہ بیگم نے صفدر کے دوستوں کے بارے میں بتایا

’’ابھی صفدر کہاں ہے؟‘‘ ابو نے آنکھوں سے عینک صاف کرنے کے لیے اُتاری۔

’’ اپنے کمرے میں ہو گا۔ اپنے کمرے سے باہر آتا ہی نہیں ہے۔ میں نے کتنی بار کہا ہے کہ تازہ ہوا میں جاؤ۔ اس سے تمھاری صحت بھی بہتر ہو جائے گی۔ بس میری باتیں سنتا رہتا ہے۔ اُس کا رد عمل کچھ بھی نہیں ہوتا۔‘‘ نفیسہ بیگم غمگین ہو گئیں۔

’’میں ابھی جا کر بات کرتا ہوں۔‘‘ حمید صاحب نے صوفے سے اُٹھتے ہوئے کہا

حمید صاحب کا رخ اب صفدر کے کمرے کی طرف تھا۔ سیڑھیوں سے اُوپر چڑھتے ہوئے ساتھ صفدر کا کمرہ تھا۔ حمید صاحب نے صفدر کے کمرے کا دروازہ کھولا اور اندر چلے گئے۔

’’کیسی طبعیت ہے میرے بیٹے کی؟‘‘ حمید صاحب نے پیار بھرے انداز میں کہا

’’ابو میں ٹھیک ہوں۔‘‘ صفدر نے جواباً کہا

’’ مجھے تو ٹھیک نہیں لگتے ہو۔ ایک مہینے سے دیکھ رہا ہوں کہ آپ نہ باہر کھیلنے جاتے ہو اور نہ ہی ٹھیک طرح سے کچھ کھا پی رہے ہو۔ آخر مسئلہ کیا ہے؟ ‘‘حمید صاحب نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا

’’کچھ نہیں ابو!بس دل نہیں کر رہا ہے۔ویسے ٹیسٹ کی رپورٹ آ گئی ہیں۔‘‘ صفدر نے جواب دے کر پوچھا

’’جی بیٹا! مزید ٹیسٹ بھی لکھ کر دیے ہیں۔‘‘حمید صاحب نے جواب دیا

’’ابو! میں نے آپ کو پہلے ہی کہا ہے کہ مجھے کوئی بیماری نہیں ہے۔ آپ بلاوجہ ہی پریشان ہو رہے ہیں۔‘‘ صفدر نے اپنے خیال سے آگاہ کیا

’’اچھا بھئی ٹھیک ہے۔ اس دفعہ تمھاری بات مان لیتے ہیں۔ ‘‘حمید صاحب نے ہاں میں سر ہلاتے ہوئے کہا

٭٭

 

’’ڈاکٹر صاحب یوں اچانک آپ نے مجھے کلینک کیوں بُلا لیا۔‘‘ حمید صاحب نے پریشانی میں پوچھا

’’آپ آرام سے کرسی پر بیٹھ جائیں اور اطمینان سے میری پوری بات سنیں۔‘‘ڈاکٹر صاحب نے تسلی دیتے ہوئے کہا

حمید صاحب کر سی پر بیٹھ گئے۔ اس دوران ڈاکٹر صاحب کو فون آ گیا۔ حمید صاحب کے لیے انتظار کا ایک ایک منٹ سال کے برابر گزار رہا تھا۔پانچ منٹ کی گفتگو کے بعد فون بند ہو گیا۔ڈاکٹر صاحب نے مسکراتے ہوئے حمید صاحب کو دیکھا اور اپنی بات شروع کی۔

’’حمید صاحب! چند دن قبل میں اپنے دوست عمران سے ملنے گیا۔ وہ ایک سائیکالوجسٹ ڈاکٹر ہیں۔ بچوں کی نفسیات کا ماہر ہیں۔ اُس کے ساتھ میں نے آپ کے بیٹے کا کیس ڈسکس کیا۔ٹیسٹ کی رپورٹ اور اپنی رائے سے بھی آگاہ کیا۔ان سب باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اُس نے کیس کا مطالعہ کیا۔ آخر کار وہ اُس بیماری پر پہنچ گیا۔ اب بس وہ یہ چاہتا ہے کہ آپ کا بیٹا ،اُس سے ملے۔‘‘ڈاکٹر صاحب نے وضاحت سے ساری بات بتائی۔

’’اچھا ٹھیک ہے۔ویسے صفدر کو بیماری کیا ہے؟‘‘ حمید صاحب نے پوچھا

’’حمید صاحب ! آپ کے بیٹے کو کوئی بیماری نہیں ہے۔ بس اُس کے دماغ میں کسی بات کو لے کر جنگ چل رہی ہے۔ جو اُسے دن بدن پریشان اور کمزور کرتی جا رہی ہے۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے بیماری کی تشخص کی۔

’’او۔۔۔۔۔۔۔۔ہو۔۔۔۔۔۔آج صفدر بیٹا باہر کیسے آ گئے؟‘‘ ابو نے گھر میں داخل ہونے کے بعد جب صحن میں صفدر کو بیٹھا دیکھا تو کہا

’’یہ خود کہاں آیا ہے۔میں اسے لے کر آئی ہوں۔‘‘نفیسہ بیگم نے جواب دیا

حمید صاحب کرسی پر بیٹھ گئے۔ میز پر پانی کی بوتل اور گلاس پڑے ہوئے تھے۔

حمید صاحب نے پانی سے اپنی پیاس بجھائی اور صفدر کی طرف متوجہ ہوئے۔

’’صفدر بیٹا!میرے ایک دوست ہیں عمران صاحب، وہ رات کو کھانے پر بُلا رہے ہیں۔کیا آپ ہمارے ساتھ چلیں گئے۔ اس طرح سیر و تفریح بھی ہو جائے گی۔‘‘حمید صاحب نے پیار کرتے ہوئے کہا

صفدر نے تھوڑی دیر سوچا۔اس کے بعد ہاں میں جواب دے دیا۔

٭٭

 

’’صفدر بیٹا! میرا بیٹا اندر کمرے میں ہے۔آپ اُس کے ساتھ جا کر گپ شپ کرو۔‘‘ ڈاکٹر عمران نے مسکراتے ہوئے کہا

صفدر صوفے سے اُٹھا اور نوکر کی رہنمائی میں وہ ڈاکٹر عمران کے بیٹے کے پاس چلا گیا۔

’’ڈاکٹر صاحب!’’آخر ہمارے بیٹے کون سی بیماری ہے؟‘‘ حمید صاحب نے ایک سیکنڈ ضائع کیے بغیر پوچھا

’’وہ ذہنی تناؤ کا شکار ہے۔‘‘ ڈاکٹر عمران نے جواب دیا

’’ہمیں کیسے پتہ چلے گا آخر اُسے کون سی بات پریشان کر رہی ہے۔‘‘اس بار نفیسہ بیگم نے پوچھا

’’میں صفدر کو ہیٹپائزم کر کے ساری بات معلوم کر لوؤں گا۔پھر آپ کا کام ہے اس تناؤ کو کیسے ختم کرنا ہے۔‘‘ڈاکٹر عمران نے جواب دیا

آدھ گھنٹے کے بعد ڈاکٹر عمران نے صفدر کو لانے کے لیے نوکر بھیجا۔نوکر جا کر صفدر کو لے آیا۔

’’صفدر بیٹا! کبھی آپ نے پنڈولم کی حرکت کو گننا ہے۔‘‘ ڈاکٹر عمران نے پوچھا

’’نہیں انکل۔‘‘ صفدر نے نفی میں جواب دیا

’’چلو!آج آپ گن کر بتائیں کہ ایک منٹ میں پنڈولم کتنی بار حرکت کرتا ہے۔شرط یہ ہے کہ آپ نے آنکھیں نہیں جھپکانی ہیں۔ٹھیک ہے!‘‘ ڈاکٹر عمران نے پیار کرتے ہوئے کہا

صفدر گھڑی کے پنڈولم کو دیکھنے لگا۔ اس کے ساتھ ہی ڈاکٹر عمران نے بھی اپنا کام شروع کر دیا۔ تھوڑی دیر بعد صفدر نیند کی حالت میں تھا۔

’’تمھارا نام کیا ہے؟‘‘ ڈاکٹر عمران نے سوالات کا آغاز کیا

’’صفدر رضا‘‘ صفدر نے جواب دیا

’’تم کون سے سکول میں پڑھتے ہو؟‘‘

’’ایف ۔جی۔ماڈل سکول فار بوائز۔اسلام آباد‘‘

ڈاکٹر عمران نے ان سوالات سے صفدر کو تیار کر رہے تھے ،تاکہ بعد میں کسی پریشانی کا منہ نہ دیکھنا پڑے۔ ڈاکٹر عمران آہستہ آہستہ اپنا دائرہ اُس سوال کی طرف موڑ رہے تھے،جس نے صفدر کو پریشان کر کے رکھا ہوا تھا۔ڈاکٹر عمران نے سکول، اساتذہ،دوست اور حتی کہ ان کے رشتوں داروں کے متعلق کہیں سوالات پوچھے۔لیکن جواب میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔اس کے برعکس ڈاکٹر عمران اُس سوال کے تعاقب میں تھے۔وہ یہ سوچ سوچ کر پریشان ہو رہے تھے کہ آخر کون سا سوال ہے اس عمر میں صفدر کو لاحق ہو گیا ہے۔

’’حمید صاحب ،یہ بتائیں کہ صفدر کی سالگرہ کس مہینے آتی ہے۔‘‘

ڈاکٹر عمران ایک بے تُکا سوال نے پوچھا

’’اگست میں آتی ہے۔ لیکن ڈاکٹر صاحب اس سوال کا مطلب میں سمجھ نہیں پایا۔‘‘ حمید صاحب نے جواباً پوچھا

ڈاکٹر عمران نے بغیر جواب دیے صفدر سے پوچھا ’’آپ کو کون سا مہینہ پسند ہے؟‘‘

’’اگست کا‘‘

’’اگست میں کیا ہوا تھا؟‘‘

’’میری اور پاکستان کی سالگرہ ہے۔‘‘

’’ کیا تم پاکستان سے محبت کرتے ہو؟‘‘

اس سوال کو سننے کے بعد صفدر کے چہرے پر بے چینی صاف نمایاں نظر

آ رہی تھی۔اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر عمران سمجھ گئے کہ سوال یا پاکستان کے متعلق ہے یا اُس کی سالگرہ کے متعلق ہے۔ اس لیے ڈاکٹر عمران نے پہلے پاکستان والے سوال میں اضافے کر کے پوچھا’’ کیا تم اور تمھارے والدین پاکستان سے محبت کرتے ہیں؟‘‘ ڈاکٹر عمران نے اندھیرے میں ایک تیر چھوڑا

’’میں کرتا ہوں اور میرے امی ابو نہیں کرتے ہیں۔‘‘صفدر کا یہ جواب حمید صاحب اور نفیسہ بیگم پر بجلی بن کر گرا تھا۔ وہ دونوں حیران و پریشان کھڑے صفدر کو دیکھ رہے تھے۔

ڈاکٹر عمران نے صفدر سے توجہ ہٹاتے ہوئے حمید صاحب کو دیکھا۔حمید صاحب کے چہرے پر ایک رنگ آ رہا تھا اور دوسرا رنگ جا رہا تھا۔

’’حمید صاحب! کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ صفدر نے یہ سب کیسے سوچ لیا؟‘‘ڈاکٹر عمران نے پوچھا

’’ڈاکٹر صاحب !آپ تو جانتے ہی ہیں ہمارے ملک کے حالات کیسے ہیں؟بجلی اور گیس کا بحران ہے؟آئے دن قتل و غارت گیری کی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔ شاید کسی دن پاکستان کے متعلق ایسی باتیں ہو گئیں ہوں جو صفدر کو ناگوار گزاری ہیں۔‘‘حمید صاحب نے جواب دیا

’’حمید صاحب! بچے کا دماغ خالی کتاب کی مانند ہوتا ہے۔وہ اپنے اردگرد کے ماحول سے ہی سیکھتا ہے۔سب سے زیادہ سیکھنے کا عمل اُس کے گھر میں ہوتا ہے۔ا س لیے اب اس کا بہتر حل یہ ہے کہ آپ ایسی باتوں سے اجتناب کریں۔‘‘ ڈاکٹر عمران نے سمجھاتے ہوئے کہا

ڈاکٹر عمران اور حمید صاحب اب دوبارہ صفدر کی طرف متوجہ ہوئے۔صفدر کے چہرے سے پریشانی کے آثار ابھی تک جھلک رہے تھے۔

ڈاکٹر عمران نے صفدر کی کیفیت دیکھی اور پوچھا ’’کیوں؟ اس کی وجہ تو ہو گئی؟‘‘

’’ابو ہمیشہ یہ سوچتے ہیں کہ پاکستان نے ہمیں کیا دیا ہے۔جو ہم پاکستان کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالیں۔‘‘

’’صفدر بیٹا! میں اپنی سوچ بدل لوؤں گا۔ تم ایک بار صحت مند ہو جاؤ۔ہم مل کر پاکستان کی تعمیر میں حصہ ڈالیں گئے۔‘‘اب کی بار یہ آواز حمید صاحب کی تھی جو اپنی غلط سوچ کر شرمندہ ہو رہے تھے۔‘‘

’’صفدر بیٹا! میں،تم اور تمھارے امی ابو مل کر یہ عہد کرتے ہیں کہ خود بھی پاکستان کی تعمیر کریں گے اور دوسروں کو بھی اس نیک کام میں شامل کریں گے۔‘‘ ڈاکٹر عمران نے پُر عزم لہجہ میں کہا

٭٭٭

 

 

 

 

چند سیکنڈ

 

’’آخری لیپ میں سب سے پہلے عارف تھوڑا سا پیچھے ہیں عمران اور تیسرے نمبر پر ہیں سعد۔‘‘ کمنٹیٹر نے کمینٹری کرتے ہوئے کہا

لوگوں کے ہجوم سے آوازیں آ رہی تھیں۔ ایک طرف سے عارف۔۔۔۔۔۔ عارف کی اور  دوسری طرف سے عمران ۔۔۔۔۔۔عمران

’’عارف ابھی تک ریس جیت رہا ہے۔ عمران اُس سے چند سکینڈ کے فاصلے پر ہے۔ناظرین و حاضرین ابھی کچھ دیر میں پتہ چل جائے گا کہ عارف اور عمران میں کون جیتے گا۔ عمران اب عارف سے آگے نکل گیا ہے۔چند سکینڈ کے فاصلے پر ہار جیت کا فیصلہ ہو جائے گا۔اچانک یہ کیا ہوا عارف تو عمران کے برابر آ گیا اور چند سکینڈ میں عارف، عمران سے آگے نکل کر ریس کو جیت گیا۔‘‘ کمنٹیٹر نے کمینٹری کرتے ہوئے ریس جیتنے والے کا نام لیا۔

عارف۔۔۔۔۔۔عارف ! ہجوم میں سے بلند آواز میں آوازیں آ رہی تھیں۔

’’ہر سال کی طرح اس سال بھی اس ریس کا فاتح عارف ہی ٹھہرا۔ ہم اپنی پوری ٹیم کی طرف سے عارف کو مبارک باد دیتے ہیں۔ ‘‘میزبان تقسیم انعامات نے عارف کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا

’’عارف جیسا کھلاڑی دنیا میں کم ہی پیدا ہوتا ہے۔‘‘ مہمان خصوصی نے ٹرافی عارف کو پکڑاتے ہوئے کہا

ہر طرف عارف کی واہ واہ کار ہو رہی تھی۔ عارف جیسے امیر لڑکے کا بس ایک ہی شوق تھا جسے وہ با خوبی سر انجام دیتا تھا۔شکل و صورت سے ایک معصوم سا لڑکا نظر آتا تھا لیکن صورت حال اس سے برعکس تھی۔وہ اپنے دوستوں سے گپ شپ کر رہا تھا کہ عمران بھی مبارک باد دینے کے لیے پہنچ گیا۔

’’عارف تمہیں بہت مبارک ہو کہ تم ریس جیت گئے۔‘‘عمران نے خوش اخلاقی سے کہا

’’ایک بات بتاؤں عمران تم مجھ سے کبھی بھی جیت نہیں سکتے ۔‘‘عارف نے غرور تکبر سے کہا

’’اچھا یار یہ تو اگلی بار دیکھا جائے گا۔‘‘ عمران نے پر عزم لہجے میں کہا

’’یہ تو ہر بار کہتے ہو۔‘‘ عارف نے طنز کرتے ہوئے کہا

یہ سب گفتگو عمران کو چھوٹا بھائی یاسر بھی سن رہا تھا۔عارف کی باتوں سے اُسے شدید قسم کی کوفت ہو   رہی تھی۔جب یاسر سے رہا نہ گیا تو عمران بھائی کو وہاں سے لے گیا۔چلتے چلتے یاسر نے عمران بھائی کے چہرے کو دیکھتے ہوئے سوالیہ لہجہ میں پوچھا’’ عمران بھائی ! آخر آپ آخری چند سکینڈ میں ریس کیوں ہار جاتے ہو؟‘‘

’’یاسر،عارف کے پاس مہنگی قسم کی سائیکل ہے جس پر زیادہ محنت کی ضرورت نہیں پڑتی ۔اس سے وہ جیت جاتا ہے۔‘‘عمران نے یاسر سے پریشان زدہ چہرہ دیکھتے ہوئے وجہ بتائی

’’عمران بھائی ،ہم کیوں نہ وہ والی سائیکل لے لیں؟‘‘ یاسر نے معصومیت سے پوچھا

’’یاسر تم تو جانتے ہو کہ ہم لوگوں کو  دو  وقت کی روٹی بھی مشکل سے نصیب ہوتی ہو۔ہم وہ سائیکل کیسے لے سکتے ہیں۔‘‘ عمران نے یاسر کو پیار کرتے ہوئے مجبوری بتائی۔

’’عمران بھائی، ابو جان پیسے جمع کر رہے ہیں نا‘‘ یاسر نے حوصلہ دلاتے ہوئے کہا

’’یاسر میرے بھائی دنیا اُمید پر قائم ہے۔‘‘عمران نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا

یاسر اور عمران کو باتوں باتوں میں ارد گرد کی کوئی خبر نہیں رہی تھی۔وہ اپنے دھُن میں گھر کی طرف بڑھ رہے تھے۔ان کے ساتھ ساتھ ایک آدمی اور چلنے لگا۔جو قد و قامت سے لمبا چوڑا آدمی نظر آ رہا تھا۔منہ پر سنت رسولﷺ تھی اور چہرے پر مسکراہٹ کے پھول برس رہے تھے۔ا س آدمی کے ہاتھ میں ایک رسید تھی جسے دیکھ کر وہ بہت خوش نظر آ رہا تھا۔اس رسید کو پاکر جسے کو سارا جہان مل گیا ہو۔اب اُس نے عمران اور یاسر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’ بہت خوب،مجھے خوشی ہوئی کہ تم نا اُمید نہیں ہوئے ہو۔‘‘

’’ابو ،آپ کب سے ہماری ساتھ شریک ہو گئے۔ہمیں تو پتہ ہی نہیں چلا۔‘‘ یاسر نے حیرت سے پوچھا

’’بھئی تم دونوں باتوں میں اتنے مصروف تھے کہ ارد گرد کا کوئی خیال نہیں تھا۔‘‘ ابو نے جواب دیا

یاسر اور عمران نے محسوس کر لیا کہ ابو بات کرتے ہوئے بہت خوش نظر آ رہے ہیں۔

’’ابو ،کیا با ت ہے آپ بہت خوش نظر آ رہے ہیں۔‘‘ عمران نے مسکراتے ہوئے کہا

’’تمھاری مہنگی والی سائیکل کا انتظام ہو گیا ہے۔‘‘ ابو نے ٹھہر ٹھہر کر جواباً کہا

’’سچ ابو ۔اب انشاء اﷲ میں ضرور جیت جاؤں گا۔‘‘ عمران نے پُر عزم لہجہ میں کہا

٭٭

 

’’یاسر۔۔۔۔۔۔یاسر بیٹا! عمران کہاں ہے۔‘‘ابو نے پریشانی سے پوچھا

’’ابو۔۔۔۔۔ عمران بھائی آپریشن تھیٹر میں ہیں۔‘‘ یاسر نے روتے ہوئے جواب دیا

آپریشن تھپیڑ کا دروازہ کھولا اور ڈاکٹر باہر نکلا۔

’’اب وہ خطرے سے باہر ہے۔ بس اُس کے سر اور ٹانگوں پر گہری چوٹیں آئیں ہیں۔‘‘ ڈاکٹر نے عمران کی صورت حال بتائی

’’ڈاکٹر صاحب ٹھیک ہونے میں کتنا وقت لگے گا؟‘‘ ابو نے پریشانی کے جذبات کو چھپتے ہوئے پوچھا

’’دو تین ماہ میں ٹھیک ہو جائے گا۔ فیچر کی وجہ سے ایک ماہ تک چل نہیں سکتا۔‘‘ ڈاکٹر نے جوا ب دیا اور چلا گیا۔

’’ یاسر بیٹا،جب میں نئی سائیکل لے کر گھر پہنچا تو گھر پر کوئی نہیں تھا۔ تمھارے دوست سے معلوم ہوا کہ عمران کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔ میں بھاگا بھاگا ہسپتال پہنچا۔یہ سب کیسے ہوا؟‘‘ ابو جان نے اپنا احوال بتایا

’’عمران بھائی سائیکل پر جا رہے تھے۔ کسی نے پیچھے سے گاڑی ماری ۔عمران بھائی قلابازیاں کھاتے ہوئے دور جا گرے۔ چند لوگوں نے عمران بھائی کو اُٹھایا اور ہسپتال لے آئے۔ عمران بھائی کی جیب کی تلاشی لینے کے بعد ہمارے گھر کا فون نمبر نکلا۔ ہسپتال والوں نے فوراً فون کر کے اطلاع دی۔میں فوراً ہسپتال پہنچ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد آپ بھی آ گئے۔‘‘ یاسر نے تفصیل سے سارا واقعہ بیان کیا ۔

ابو رونے لگے۔ ان کی آس اور امیدوں پر پتہ نہیں کون پانی پھیر گیا تھا۔ اب ان کی حسرت ہی رہ جائے گی کہ کبھی میرا بیٹا بھی ریس جیت سکے گا۔ابو کو اس طرح روتے ہوئے یاسر بھی بے قابو ہو گیا۔ابو نے اپنے آنسو کو صاف کرتے ہوئے یاسر کو چپ کرایا اور کہا ’’یاسر بیٹا،اﷲ جو کرتا ہے اچھا ہی کرتا ہے۔‘‘چند گھنٹوں کے بعد عمران کو ہوش آ گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے باہر آ کر کر کہا ’’اب آپ عمران سے ملاقات کرسکتے ہیں۔‘‘ یاسر اور ابو کمرے کے اندر چلے گئے۔ عمران نے جب ابو اور یاسر کو دیکھا تو رونے شروع ہو گیا۔

’’عمران بیٹا،کیا ہو گیا جو ہم اس دفعہ ریس میں حاصل نہیں لے سکے۔ہم اگلے دفعہ کوشش کریں گے۔رونا بند کرو۔اس سے تمھاری طبیعت خراب ہو جائے گی۔‘‘ ابو نے تسلی دیتے ہوئے کہا

’’ابو۔۔۔۔ا۔۔۔۔ب۔۔۔۔ل۔۔۔و‘‘ عمران کے منہ سے الفاظ نہیں نکل رہے تھے۔

’’ عمران بھائی،رونا آپ کی صحت کے لیے مضر ہے۔ اس لیے چپ ہو جائیں۔‘‘ یاسر نے پیار کرتے ہوئے کہا

’’ابو اور یاسر مجھے معاف کر دیں ۔میں آپ کی خواہش اس سال پوری نہیں کرسکوں گا۔‘‘ عمران نے آنسو کو پونچھتے ہوئے کہا

’’عمران بھائی،آپ اس لیے پریشان ہیں کہ ریس میں شرکت نہیں کرسکیں گے۔‘‘ یاسر نے مسکراتے ہوئے کہا

’’ہاں میرے بھائی!!!‘‘ عمران نے جواباً کہا

’’ٹھیک ہے۔اس ریس میں میں حصہ لوؤں گا۔اور انشاء اﷲ جیت کر آؤں گا۔‘‘ یاسر نے پر عزم لہجہ میں کہا

’’ مجھے تم سے یہی امید تھی۔‘‘ ابو نے داد دیتے ہوئے کہا

ایک ماہ کے بعد عمران کو ہسپتال سے برخواست کر دیا گیا۔ عمران گھر آ گیا، یاسر کو اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ریس کی تیاری کرتے ہوئے دیکھتا رہتا تھا۔ عمران نے حسرت بھری آنکھوں سے اپنی ٹانگوں کو دیکھا کرتا اور دل ہی دل میں رونے لگتا تھا۔عمران کو پوری امید تھیں کہ یاسر ریس ضرور جیت سکے گا۔آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک ماہ کا عرصہ ایسے گزرا جیسے وقت کو پرَ لگا گئے ہوں۔

’’عمران بھائی۔۔۔۔۔عمران بھائی ریس کے لیے میری تیاری مکمل ہو گئی ‘‘ یاسر نے اپنا سانس بحال کرتے ہوئے کہا

’’شاباش یاسر میرے بھائی۔‘‘عمران نے یاسر کے کندھے پر داد دیتے ہوئے کہا

’’عمران بھائی ریس میں جاؤں گا اور جیت کے واپس آؤں گا۔‘‘

یاسر نے پختہ عزم سے کہا

’’ یہ کیا باتیں ہو رہی ہیں دونوں بھائیوں کے درمیان۔‘‘ ابو جان نے پیچھے سے پوچھا

’’کچھ نہیں بس ریس کی باتیں ہو رہی تھیں۔‘‘ عمران نے ہنستے ہوئے کہا

’’یاسر ، ریس تو کل ہے نا‘‘ ابو نے سوالیہ لہجہ میں پوچھا

’’جی ابو جان‘‘ یاسر نے ہاں میں سر ہلا دیا

٭٭

 

ناظرین و حاضرین سائیکلوں کی ریس کا مقابلہ ایک دفعہ پھر شروع ہو گیا ہے۔ اس ریس میں مختلف شہروں سے سائیکل سوار نے شرکت کی۔اس ریس میں ارد گرد ہجوم سے نظر آ رہا ہے کہ یہ ریس بہت دل چسپ ہونے والی ہے۔ میرے ذہن میں ایک سوال گردش کر رہا ہے کہ اب بھی یہ ریس عارف ہی جیتے گا یا پھر اُس کو کوئی شکت دے سکے گا۔‘‘ کمنٹیٹر نے  کمینٹری کرتے ہوئے کہا

’’تمھارا بھائی تو مجھ سے جیت نہ سکا تو تم پھر کس کھیت کی مولی ہو۔‘‘ عارف نے طنزیہ لہجہ میں کہا

’’عارف غرور کا سر ہمیشہ نیچا ہوتا ہے۔ہار جیت کا فیصلہ تو یہ مقابلہ کرے گا۔‘‘ یاسر نے اطمینان سے کہا

’’ٹھاہ!!!!!‘‘ پستول کی آواز سے مقابلہ شروع ہو گیا۔

سائیکلوں کے ارد گرد لوگوں کا پرکشش ہجوم تھا ۔ یاسر مسلسل ہمت کر کے سعد کے برابر آ گیا۔ سعد نے اپنی سائیکل یاسر کی سائیکل سے ٹھکرائی ۔ اس سے یاسر توازن برقرار نہیں رکھ سگا اور گر گیا۔ یاسر نے ہمت کی اور چلا کر کامران کے برابر آ گیا۔ اس سے پہلے کامران کوئی شرارت کرنے کی کوشش کرتا۔ یاسر ، سعد اور کامران کے درمیان میں آ گیا۔ اس سے کامران کی سائیکل توازن میں نہ رہ سکی اور وہ گر گیا۔یاسر اب عارف کے برابر آ گیا تھا۔اچانک کوئی چیز یاسرکے آنکھوں میں چلی گئی۔اس سے وہ سائیکل ٹھیک طریقے سے چل نہ سکا اور سب سے پیچھے رہ گیا۔

’’ناظرین و حاضرین آخری لیپ شروع ہونے لگا ہے۔ آپ کو ریس کی صورت حال سے آگاہ کرتا چلوؤں کہ پہلے نمبر عارف دوسرے پر سعد،تیسرے پر سلیمان، چوتھے نمبر پر نعمان ، پانچواں نمبر کامران اور چھٹے نمبر پر یاسر ہے۔‘‘کمنٹیٹر نے ریس کی صورت حال بتائی

لوگوں کی ہجوم سے صرف ایک ہی آواز آ رہی تھی۔عارف۔۔۔۔۔عارف

یاسر آہستہ آہستہ نعمان اور سلیمان کو پیچھے چھوڑتا ہوا سعد کے برابر آ گیا۔ یاسر یکے بعد دیگر دو اکھٹے کھلاڑیوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے عارف کے بالکل ساتھ آ گیا۔ریس کی اختتامی لائن سامنے نظر آ رہی تھی۔ یاسر اب عارف سے تھوڑا سا آگے نکل آیا تھا۔عارف بھی کہاں پیچھے رہنے والا تھا وہ پھر یاسر کے برابر آ گیا۔یاسر نے ہمت نہیں ہاری اور بھرپور طریقے سے سائیکل چلاتے ہوئے اختتامی لائن تک پہنچ گیا اور چند ہی سکینڈ میں عارف سے آگے نکل گیا اور ریس جیت گیا۔

’’ناظرین و حاضرین یہ حیرت کی بات ہے۔پہلے محسوس ہو رہا تھا کہ اس مرتبہ بھی جیت عارف کی ہو گی ۔تب یاسر دھواں کی طرح آیا اور  ریس جیت گیا۔ہم سب کی طرف سے یاسر کو بہت مبارک باد قبول ہو۔ جنہوں نے پانچ سالوں سے جیتنے والے کھلاڑی کو آج ہرا دیا۔‘‘کمنٹیٹر نے پر جوش لہجہ میں کہا

تقریب وتقسیم انعامات کا سلسلہ شروع ہوا۔ میزبان نے دوسری اور تیسری پوزیشن لینے والے کھلاڑیوں کو بلایا۔مہمان خصوصی نے شیلڈ دی۔ یاسر کو اسٹیج پر بلایا اور ٹرافی دی گئی۔

’’جی یاسر! آپ نے پہلی بار ریس میں حصہ لیا اور جیت گئے۔‘‘

میزبان نے خوشی سے پوچھا

’’یہ ریس ہی میرے لیے سب کچھ تھی۔ اس ریس سے میرے ابو اور بھائی کی بہت سی امیدیں وابستہ تھی۔‘‘ یاسر نے مسکراتے ہوئے جواب دیا

’’ریس میں جیت اور ہار کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گے؟‘‘

میزبان نے مائیک پکڑتے ہوئے کہا

’’میں صرف اتنا کہوں گا کہ اگر کوئی جیت جائے تو اُسے غرور نہیں کرنا چاہیے۔اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ غرور و تکبر اﷲ تعالیٰ کو بالکل پسند نہیں ہے۔ اگر ریس میں ہار جاؤ، اپنے آپ پر پختہ یقین رکھو کہ تم اگلی دفعہ جیت جاؤ گے۔‘‘ یاسر نے آخری کلمات کہے اور اسٹیج سے نیچے اُتر آیا۔

’’یاسر۔۔۔۔۔ تم نے آخر چند سکینڈ میں ریس جیت لی۔‘‘ عمران نے ہنستے ہوئے کہا

٭٭٭

 

 

 

 

 

ذرا سیالکوٹ تک۔۔۔۔

 

 

 

کتنی حیرت کی بات ہے یار کہ۔۔۔۔۔‘‘ ارسلان نے فقرہ ادھورا چھوڑتے ہوئے اپنے ہونٹوں کو چبانے لگا۔

’’یار تجھے تو معلوم ہی ہے کہ بیس سال سے ہم اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں۔ ‘‘حیدر نے تحمل مزاجی سے کہا اور ہوم ورک کرنے میں مصروف ہو گیا۔

’’پھر بھی یار! اچھا یہ بتاؤ چھٹیوں میں گاؤں جاتے ہو۔کبھی اس بارے میں خیال نہیں آیا۔‘‘ارسلان نے ایک دفعہ پھر حیرت کا اظہار کیا۔

’’یار سکول کی مصروفیات اتنی ہیں کہ کبھی موقع ہی نہیں ملا۔‘‘ حیدر نے بہانہ بناتے ہوئے اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔

’’ویسے یار ایک خوشی کی بات معلوم ہوئی ہے کہ۔۔۔۔۔‘‘

’’سکول میں اکٹھی تین چار چھٹیاں آ رہی ہیں۔‘‘ حیدر نے ارسلان کی بات کاٹتے ہوئے بولا۔

’’اس بارے میں تمھارا کیا خیال ہے۔اس طرح تفریح کی تفریح ہو جائے گی اور معلومات بھی حاصل ہو جائیں گی۔‘‘ارسلان نے حیدر کی طرف متلاشی نگاہوں سے دیکھا اور پوچھا

’’ٹھیک ہے یار!اگر تیری اسی میں خوشی ہے تو چلتے ہیں۔‘‘حیدر نے ہاں میں جواب دیا

ارسلان اور حیدر ایف جی ماڈل سکول آئی ٹین ٹو اسلام آباد میں زیر تعلیم تھے۔پڑوسی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ا چھے دوست بھی تھے۔ بس کسی بات پر اگر تُو تُو مَیںمَیں ہو جاتی تو والدین کو بڑی فکر پڑ جاتی تھی۔آج جب استاد صاحب نے علامہ اقبال کا سبق پڑھایا تو دونوں دوستوں میں ایک اشتیاق پیدا ہو گیا۔ یہ ان کو پتہ تھا کہ علامہ اقبال سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تھے۔ اس لیے ارسلان ،حیدر سے اِسی بارے میں پوچھ رہا تھا۔ اتفاق یہ ہوا کہ 21اور 22اپریل کو ہفتہ اور اتوار آ رہے تھے اور جمعہ والے دن اُن کا سپورٹس کا دن تھا۔ جس کی وجہ سے ان کو تین چھٹیاں اکٹھی آ رہی تھیں۔ ایسے وقت میں سیالکوٹ کی سیر اور علامہ اقبال کا گھر دیکھنا ہی اولین ترجیح تھا۔

20اپریل کو ارسلان اور حیدر نے اپنے اپنے والدین سے اجازت لی اور سفر کے لیے روانہ ہو گئے۔ ارسلان اور حیدر کا گھر نیول اینکرج میں تھا۔جو کہ نئی کالونی آباد ہوئی تھی۔اس لیے یہاں ٹرانسپورٹ کا نظام بالکل نہیں تھا۔ارسلان اور حیدر،حیدر کے بھائی حسن کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر فیض آباد تک آئے۔ حسن بھائی اُنہیں چھوڑ کر اپنے دفتر چلے گئے۔سیالکوٹ کی گاڑی میں بیٹھے جسے اﷲ اﷲ کر کے چار گھنٹے میں ہمیں اپنی منزل تک پہنچا دیا۔

’’ہاں جی استاد جی کتنا کرایہ ہے۔‘‘ ارسلان نے آگے بڑھ کر ایک رکشے والے سے پوچھا

’’کتھے جانا اے(کہاں جانا ہے)‘‘رکشے والے نے چھالیہ کی یلغار سڑک پر کرتے ہوئے جواباً پوچھا

’’تحصیل بازار جانا ہے۔‘‘حیدر نے جواب میں کہا

’’بھاؤ جی80 روپے لوؤں گا۔ آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ پٹرول نے بھی اپنی سنچری مکمل کر لی ہے اور ٹنڈولکر نے بھی اس لیے ہم نے مہنگائی کے ہاتھوں سے پریشان ہو کر،یہ کرایہ بتایا ہے۔‘‘رکشہ والے نے مصنوعی مسکراہٹ چہرے پر لاتے ہوئے پورا کا پورا خبرنامہ ارسلان اور حیدر کو سُنا دیا۔اس خبرنامہ سے ارسلان اور حیدر پریشان ہو کر سواری والے رکشہ کی طرف چلے گئے جو منزل کے قریب لے جائے گا۔

’’شہر جانا اے۔۔۔۔شہر‘‘ کی آوازیں بلند ہو رہی تھی جس کی کا مطلب یہ تھا کہ یہ ہی سواری والا رکشہ ہے۔رکشہ خالی تھی جس میں ارسلان اور حیدر دونوں بیٹھ گئے۔سواریاں مکمل ہونے کے بعد رکشہ اپنی منزل کی جانب روانہ ہو گیا۔ارسلان ارد گرد کی عمارتوں کو بہت غور سے دیکھ رہا تھا۔

’’یار یہ رکشہ ہمیں ڈرموں والے چوک پر اُتار دے گا،آگے ہمیں پیدل ہی جانا ہو گا۔‘‘ حیدر نے ارسلان کے کان میں کہا

تھوڑی دیر بعد رکشہ والے نے ڈرموں والے چوک پر رکشہ روک دیا۔ رکشہ میں صرف آخر میں بھی ارسلان اور حیدر ہی رہ گئے تھے۔ رکشہ جہاں روکا وہاں ایک جوس والی بڑی سی دکان تھی جسے دیکھ کر ارسلان کی پیاس جاگ اُٹھی ۔ دکان سے جوس پی کر ارسلان اور حیدر اپنے کی طرف روانہ ہو گئے۔ ڈرموں والے چوک سے سامنے والی گلی میں ناک کی سیدھ میں جانے سے تحصیل بازار کی رونقیں نظر آنے شروع ہو گئیں۔ تحصیل بازار میں داخل ہوتے ہی ساتھ دو بڑی جوسوں کی دکانیں تھیں جو حیدر کے ماموں کے گھر آ جانے کی نشانی تھی۔دکانوں کے ساتھ ایک گلی میں حیدر کے ماموں کا گھر تھا۔حیدر نے گھر پر پہنچ کر دستک دی۔ کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد ماموں کا بیٹا عمران باہر نکلا۔ عمران نے گرم جوشی سے ارسلان اور حیدر کو گلے لگایا۔

’’کیوں بھئی! آج تم سکول نہیں گے؟‘‘ حیدر نے ہنستے ہوئے کہا

’’بس بھائی جان !آج چھٹی کر لی ہے۔ ہفتہ کے دن سکول جانے کا دل ہی نہیں چاہتا ہے۔‘‘عمران نے وضاحت سے جواب دیا۔

ممانی جان ارسلان اور حیدر کے لیے شربت لے آئیں۔ شربت پینے کے ساتھ ساتھ گھر کا بغور معائنہ کر رہے تھے۔

’’ممانی جان! گھر بہت بہترین بنا لیا ہے۔‘‘حیدر نے مسکراتے ہوئے کہا

’’ہاں حیدر بیٹا! چودہ سال تک مصبیت برداشت کی۔ اب اﷲ کا شکر ہے کہ گھر اچھا بن گیا ہے۔‘‘ ممانی جان نے جواباً کہا

’’حیدر بھائی یہ آپ کے ساتھ یہ کون ہیں۔‘‘عمران نے ارسلان کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا

’’او۔۔۔معاف کرنا۔اس کے بارے میں بتانا بھول گیا۔یہ میرا دوست ارسلان ہے ۔ اس کو علامہ اقبال کا گھر دیکھنا تھا۔ اس لیے میں اپنے ساتھ لایا ہوں۔‘‘ حیدر نے اپنے دوست کا اور آنے کا مقصد بتایا۔

’’علامہ اقبال کا گھر مجھے بھی دیکھنا ہے۔‘‘ عمران نے ہامی بھرتے ہوئے کہا

’’ویسے ماموں کہیں نظر نہیں آ رہے ہیں؟‘‘ حیدر نے سوالیہ انداز میں پوچھتے ہوئے کہا

’’وہ فیکٹری گئے ہیں۔‘‘ ممانی جان نے جواب میں کہا

ارسلان اور حیدر نے تھوڑی دیر آرام کیا اور گھومنے کے لیے عمران کو ساتھ لے لیا۔ سیالکوٹ میں دیکھنے کی کم ہی جگہیں تھیں۔ سب سے پہلے عمران اُن کو امام صاحب لے گیا۔جہاں بہت سے اولیا ء اﷲ مدفن ہیں۔ عورتوں، بچوں کا کافی ہجوم تھا۔ وہاں سے تھوڑی دیر روکے ،دعا پڑھی اور امام صاحب کے مختلف کمروں کا جائزہ لیا۔اس کے بعد باری آئی قلعہ دیکھنے کی۔

’’یار یہ قلعہ کوئی بادشاہی قلعہ ہے کیا؟‘‘ارسلان نے اشتیاق سے پوچھا

’’نہیں یار! ویسے ہی قلعہ بنا ہوا تھا۔اب اُس کی بس ایک دیوار ہی سلامت بچی ہے۔جس کے ارد گرد مختلف ہوٹلز اور دکانیں کھل گئی ہیں۔‘‘ عمران نے وضاحت کرتے ہوئے کہا

’’اگر وقت ہو تو مرے کالج بھی چلیں گے،دیکھتے ہیں علامہ اقبال کیسے کالج میں پڑھتے تھے۔مرے کالج کیسا نظر آتا ہے۔‘‘حیدر نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا

’’ضرور چلیں گئے۔‘‘عمران نے تحمل مزاجی سے جواب دیا

مرے کالج کی قدیم عمارت بھی حکومت کی عدم توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا۔ اس لیے افسردہ چہرہ لے کر واپس گھر آ گئے۔گھر پر ماموں ارسلان ،حیدر اور عمران کا پہلے سے انتظار کر رہے تھے۔

’’تمھاری ممانی جان بتا رہیں تھیں کہ بچوں نے علامہ اقبال کا گھر دیکھنا ہے۔‘‘ ماموں جان نے چائے کی چُسکی لیتے ہوئے پوچھا

’’جی!ہمارا یہاں آنا کا مقصد بھی یہی تھا۔‘‘حیدر نے جواب دیا

’’آج تو یہ ممکن نہیں ہوسکتا ہے۔کل ویسے بھی علامہ اقبال کی برسی ہے اور علامہ اقبال کے گھر کو خوب صورت بنایا ہو گا۔جسے دیکھنے میں بھی لطف آئے گا۔‘‘ ماموں جان نے گھڑی پر وقت دیکھتے ہوئے کہا

’’ٹھیک ہے ماموں جان۔‘‘ اس بار ارسلان نے جواب دیا

ارسلان ، حیدر اور عمران اپنی باتوں میں مصروف ہو گئے۔ وقت کا پتہ ہی نہیں چلا اور رات کے ساہ سائے گھر کے آنگن میں چھانے لگے۔ عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد وہ سب کھانا کھانے میں مصروف ہو گئے۔

’’تم دونوں تھک گئے ہو گئے۔ اس لیے اب آرام کر لو۔‘‘ ماموں جان نے پیار بھرے انداز میں کہا

تھکاوٹ تو ویسے بھی ارسلان اور حیدر کو بہت تھی۔ا س لیے جیسے ہی وہ بستر پر لیٹے نیند کی وادی میں چلے گئے۔

٭٭

 

’’جلدی کرو عمران،ورنہ ہم تمھیں چھوڑ کر چلے جائیں گئے۔ ‘‘ ماموں جان نے بلند آواز میں کہا

’’بس ایک منٹ ابو،دروازے کی چابی نہیں مل رہی ہے۔وہی ڈھونڈ رہا ہوں۔‘‘عمران نے پریشانی سے اپنا مسئلہ بتایا

آوہو۔۔۔چابی میرے پاس ہے۔اب آ جاؤ۔‘‘اس دفعہ ممانی جان نے کہا

اﷲ اﷲ کر کے علامہ اقبال کے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ دو تین گلیاں چھوڑ کر علامہ اقبال کا گھر آ گیا

علامہ اقبال کے گھر کے باہر ایک بورڈ لگا ہوا تھا جس پر کنندہ تھا ’’اقبال ہاؤس‘‘

’’بچوں یہ ہے ہمارے علامہ اقبال کا گھر ،جہاں وہ پیدا ہوئے تھے۔‘‘ ماموں جان نے پیار بھرے انداز سے گھر کو دیکھتے ہوئے کہا

سارے گھر کے اندر چلے گئے۔جہاں پر دو آدمی ایک طرف کو بیٹھے ہوئے تھے اور میز پر ایک رجسٹر پڑا ہوا تھا جس پر لکھا ہوا تھا ’’تاثرات والا رجسٹر‘‘۔حیدر ، اسلارن اور عمران بائیں طرف کے کمرے میں چلے گئے۔کمرے کے اُوپر لکھا تھا  ’’علامہ اقبال کی پیدائش گاہ‘‘۔

’’عمران یہ دیکھو، اس پنگھوڑے میں علامہ اقبال بچپن میں جولا لیتے تھے۔‘‘حیدر نے عمران کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا

لکڑی کا پنگوڑا بہت خوبصورت بنا ہوا تھا۔پنگوڑے کے سامنے ایک زنگ آلود صندوق رکھا ہوا تھا۔

’’یار اس صندوق میں علامہ اقبال اپنے کپڑے رکھتے ہوں گئے۔‘‘ ارسلان نے انکشاف کیا۔

عمران جو دیواروں پر لگی تصاویر و اسناد دیکھ رہا تھا  بالآخر بول پڑا ’’یار جوانی میں علامہ اقبال کتنے پُر کشش اور خوبصورت تھے اور تحریک پاکستان کے سپاہیوں کے ساتھ اُن کی تصاویر کتنی اچھی آئی ہوئی تھیں۔‘‘

اُس کمرے کو دیکھنے کے بعد وہ دوسرے کمرے کی طرف بڑھے۔ کمرے پر لکھا تھا ’’علامہ اقبال کی زیر استعمال چیزیں‘‘ ۔ارسلان سب سے پہلے وہ

رولنگ چیئر ڈھونڈنے لگا،جس پر بیٹھ کر علامہ اقبال سوچ کے ساغر میں ڈوب جاتے تھے۔ بڑی کوشش کے بعد بھی کہیں دکھائی نہ دی۔ تھک ہار کر ارسلان بول پڑا’’ حیدر اور عمران کام کی چیز ہے ہی نہیں۔ اب کیا فائدہ۔۔۔۔‘‘ ارسلان کی ناسمجھ آنے والی گفتگو سے تھوڑے سے پریشان ہو گئے کہ آخر ارسلان کو ہوا کیا ہے؟کیوں یہ بہکی بہکی باتیں کر رہا ہے؟

’’کیا ہوا ہے؟کیوں ایسی باتیں کر رہے ہو؟‘‘حیدر نے پوچھ ہی لیا

’’حیدر میری خواہش تھی کہ علامہ اقبال کی رولنگ چیئر پر بیٹھ کر  علامہ اقبال والا اسٹائل بناتا۔‘‘ ارسلان نے معصومانہ انداز میں اپنا مسئلہ بتایا۔

باہر والے دروازے کے سامنے ہی سیٹرھیاں بنی ہوئی تھیں۔ارسلان،حیدر اور عمران سیٹرھیوں سے اُوپر والی منزل پر چلے گئے۔ایک کمرے پر لکھا ہوا تھا ’’علامہ اقبال کی آرام گاہ‘‘۔اُس میں داخل ہو گئے۔ علامہ اقبال کے آرام گاہ میں ایک طرف ایک پلنگ رکھا ہوا تھا۔ جسے دیکھ کر ارسلان نے حیرت سے کہا’’ اتنے سال ہو گئے یہ پلنگ ابھی بھی نیا کا نیا ہی لگ رہا ہے۔‘‘

’’چھت کا پنکھا دیکھو، ایسا لٹکا ہوا ہے کہ کبھی بھی زمین پر آسکتا ہے۔ ‘‘ عمران نے بھی اپنی رائے دی۔

ڈرائنگ روم میں ایک بڑی گول میز اور کرسیاں رکھی ہوئی تھیں۔کمرے کے ساتھ ایک بالکونی بھی تھی۔ ارسلان نے بالکونی کا دروازہ کھولا اور شہر کا نظارہ کرنے لگا۔

’’ارسلان یہ وہی عظیم بالکونی ہے۔ جہاں پر کھڑے ہو کر قائد اعظم نے خطاب کیا تھا۔‘‘حیدر نے معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا

’’ارے۔۔۔۔۔ یہ دیکھو،ایک خفیہ راستہ بنا ہوا ہے۔‘‘عمران نے اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا

’’ پرانے وقتوں میں گھروں میں ایک خفیہ راستہ ضرور بنایا جاتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مشکل وقت میں وہاں سے آسانی سے نکلا جا سکے۔‘‘ ارسلان نے ذہن پر زور دیتے ہوئے کہا

’’علامہ اقبال کی مطبوعات ‘‘والے دروازے پر ایک بڑا سا تالا ہمارا منہ چڑا رہا تھا۔ تقریباً دو تین گھنٹے میں علامہ اقبال کا پورے گھر گھوم چکے تھے۔ ارسلان ، حیدر اور عمران نے تاثرات والے رجسٹر میں اپنا نام ، پتہ اور تاثرات لکھے۔

’’کیوں کیسا لگا علامہ اقبال کا گھر‘‘ ماموں جان نے پوچھا

’’بہت بہت اچھا لگا۔‘‘ حیدر اور ارسلان نے خوشی کے جذبات کو قابو میں کرتے ہوئے جواب دیا

’’بیٹا!تمھاری وجہ سے پہلی مرتبہ میں نے بھی گھر دیکھ لیا۔ ورنہ میرے پاس وقت ہی نہیں ہوتا ۔‘‘ ممانی جان نے پیار کرتے ہوئے کہا

علامہ اقبال کے گھر سے تقریباً دس منٹ میں اپنے گھر  پہنچ گئے۔ سب کے چہرے خوشی سے کھلے ہوئے تھے۔اگلے دن ارسلان اور حیدر واپس اپنے گھر روانہ ہو گئے۔

٭٭٭

مصنف کے تشکر کے ساتھ کہ انہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید